سیّد ابوالاعلیٰ مودودی


عام انسان اور رسول میں فرق

سوال: ایمان بالغیب کے حوالے سے عام انسان اور رسول میں کیا فرق ہے؟

جواب: ایمان بالغیب کے لحاظ سے عام انسان اور رسول میں یہ فرق ہے کہ عام انسانوں کو اللہ تعالیٰ وہ علم نہیں دیتا جو رسول کو دیتا ہے۔ اس وجہ سے عام انسانوں سے یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ رسول پر ایمان لائیں، اور جو علم رسول انھیں دیتا ہے اسے تسلیم کریں، اور اس کی پیروی کریں۔ ایمان بالغیب عام انسانوں کے لیے اور رسولوں کے لیے علم بالشہادۃ ہوتا ہے۔(آئین، ۲۱؍اپریل ۱۹۷۶ء)

                          


                       

والدہ کی خدمت اور شادی

سوال: بوڑھی والدہ کی خدمت کے خیال سے اگر شادی نہ کی جائے تو شریعہ کا کیا حکم ہے؟

جواب: شادی کرنا فرض تو نہیں ہے، ہاں سنت ہے، اور ایک بڑی اہم سنت ہے۔ اگر شادی نہ کی جائے تو اس سے انفرادی اور اجتماعی زندگی کے کئی دائروں میں خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ والدہ ضعیف ہیں تو ان کی خدمت کرنا آپ کا فرض ہے۔ لیکن محض اس بنیاد پر شادی نہ کرنا درست نہیں ہے، بلکہ شادی کرنے کے بعد آپ اپنی والدہ کی خدمت اور زیادہ بہتر طریقے سے انجام دے سکتے ہیں۔

سوال: ایک ملازم روزہ رکھتا ہے، مگر اس کا مسلمان مالک بلاعُذر شرعی روزہ نہیں رکھتا۔ کیا ملازم کا اپنے مالک کے لیے کھانا پکانا اور کھلانا درست ہے؟

جواب: ملازم اس صورت میں گنہگار نہیں ہوگا۔ روزہ ترک کرنے اور ملازم سے کھانا پکوانے کا گناہ مالک کے ذمے ہے۔افسوس کہ ایسے مسلمان آقائوں اور مشرکین و کفّار آقائوں کے درمیان کوئی زیادہ فاصلہ نہیں رہا۔ البتہ ملازم ایسے آقا کو توجہ ضرور دلائے کہ وہ روزہ رکھے۔

روزہ اور نماز

سوال: بعض لوگ روزہ تو رکھتے ہیں، لیکن نماز نہیں پڑھتے۔ کیا ایسی صورت میں روزے کا اجر انھیں مل جائے گا؟

جواب: میرے علم میں ایسے آدمی کے روزے کا کوئی اجر نہیں ہے، جو نماز ترک کردے اور روزے رکھے۔


’انذار اور ’خشیت‘

سوال: ’انذار‘ اور’خشیت‘ میں کیا فرق ہے؟

جواب: ’انذار‘ کے معنی ہیں ڈرانا اور ’خشیت‘ کے معنی ڈرنا۔ لیکن ڈرانا، دہشت زدہ کرنے کے لیے نہیں بلکہ تنبیہ [وارننگ] کے لیے ہے۔ ’خشیت الٰہی‘ کا یہی مطلب ہے کہ خدا کی عظمت و جلال سے متاثر اور مرعوب ہوکر اس کی رضا طلب کی جائے۔

سوال : برادری کے نام پر ووٹ طلب کرنا اسلامی نقطۂ نظر سے کیسا ہے؟قطع نظر اس کے کہ اُمیدوار بھلا ہو یا بُرا؟

جواب:اسلامی نقطۂ نگاہ سے اگر برادری کے نام پر ووٹ دینا یا لینا جائز ہوتا تو ظاہر بات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قریش کے جو لوگ اسلام کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رہے تھے، وہ آپؐ کے رشتے دار ہی تو تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُن سے برادری کے نام پر تعاون کی اپیل کرسکتے تھے۔ لیکن ووٹ لینے کا کیا سوال، آپؐ نے ان کے خلاف تلوارکھینچنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔

جماعت اسلامی سے قطع نظر، ووٹ دینے والے کا کام یہ ہے کہ وہ دیکھے کہ جسے وہ ووٹ دے رہا ہے وہ اسلام کے اصولوں کا پابند بھی ہے یا نہیں؟ اور وہ کامیاب ہونے کے بعد خدا کے دین کی خدمت کرےگا یا اپنے نفس کی خدمت میں لگ جائے گا؟ کیا اس کی ظاہری زندگی اس کے دعوئوں کی شہادت دے رہی ہے؟ جو آدمی اس کا اہل نظر آئے، ووٹ دینے والے کو چاہیے کہ وہ اس کے حق میں اپنا ووٹ استعمال کرے، اور جو آدمی اس کا اہل نہ ہو تو خواہ وہ ووٹر کا سگا بھائی ہی کیوں نہ ہو، اسلام اس کے حق میں رائے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

اسلام، دوستی اور برادری کی بنیاد پر کوئی فیصلہ نہیں کرتا بلکہ حق اور باطل کی بنیاد پر دوٹوک فیصلہ دیتا ہے۔(سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ہفت روزہ ایشیا، لاہور، ۵؍اکتوبر ۱۹۷۰ء)

پورا معاشرہ توحید کی بنیاد پر قائم ہوجائے اور اس میں اخلاق، تمدن، تہذیب، تعلیم، مذہب، قانون، رسم و رواج، سیاست، معیشت، غرض ہرشعبۂ زندگی کے لیے وہ اصول اعتقاداً مان لیے جائیں اور عملاً رائج ہوجائیں، جو خداوند ِ عالم نے اپنی کتاب اور رسولؐ کے ذریعے سے دیئے ہیں۔ خدا کا دین جس کو گناہ کہتاہے، قانون اسی کو جرم قراردے،حکومت کی انتظامی مشین اسی کو مٹانے کی کوشش کرے، تعلیم وتربیت اسی سے بچنے کے لیے ذہن اور کردار تیارکرے، منبرومحراب سے اسی کے خلاف آواز بلند ہو، معاشرہ اسی کو معیوب ٹھیرائے اور معیشت کے ہرکاروبار میں وہ ممنوع ہوجائے۔ اسی طرح خدا کا دین جس چیز کو بھلائی اور نیکی قرار دے، قانون اس کی حمایت کرے، انتظام کی طاقتیں اسے پروان چڑھانے میں لگ جائیں، تعلیم و تربیت کا پورا نظام ذہنوں میں اس کو بٹھانے اور سیرتوں میں اسے رچا دینے کی کوشش کرے، منبرومحراب اسی کی تلقین کریں، معاشرہ اسی کی تعریف کرے اور اپنے عملی رسم و رواج اُس پر قائم کردے، اور کاروبارِ معیشت بھی اسی کے مطابق چلے۔ یہ وہ صورت ہے جس میں انسان کو کامل داخلی و خارجی اطمینان میسر آجاتا ہے اورمادّی و روحانی ترقی کے تمام دروازے اس کے لیے کھل جاتے ہیں، کیونکہ اس میں بندگی ٔربّ اور بندگی ٔ غیر کے تقاضوں کا تصادم قریب قریب ختم ہوجاتا ہے۔

اسلام کی دعوت اگرچہ ہرہر فردکو یہی ہے کہ بہرحال وہ توحیدہی کو اپنا دین بنالے اور تمام خطرات و مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے اللہ کی بندگی کرے۔ لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اسلام کا آخری مقصود یہی صورت پیدا کرنا ہے، اور تمام انبیا علیہم السلام کی کوششوں کا مدّعا یہی رہا ہے کہ ایک اُمت ِ مسلمہ وجود میں آئے، جو کفر اور کفّار کے غلبے سے آزاد ہوکر ’من حیث الجماعت‘ اللہ کے دین کی پیروی کرے۔ کوئی شخص جب تک قرآن و سنت سے ناواقف اور عقل سے بے بہرہ نہ ہو، یہ نہیں کہہ سکتا کہ انبیاعلیہم السلام کی سعی و جہد کا مقصود صرف انفرادی ایمان و طاعت ہے، اور اجتماعی زندگی میں دین حق کو نافذ و قائم کرنا سرے سے ان کا مقصود ہی نہیں رہا ہے۔(’تفہیم القرآن ‘، سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۶۱، عدد۴، جنوری ۱۹۶۴ء، ص ۲۴-۲۵)

اللہ کے لیے دین کو خالص کرکے اُس کی بندگی کرنی چاہیے کیونکہ خالص اور بے آمیز اطاعت و بندگی، اللہ کا حق ہے۔ دوسرے الفاظ میں، بندگی کا مستحق کوئی دوسرا ہے ہی نہیں کہ اللہ کے ساتھ اُس کی بھی پرستش اور اُس کے احکام و قوانین کی بھی اطاعت کی جائے۔ اگر کوئی شخص اللہ کے سوا کسی اور کی خالص اور بے آمیز بندگی کرتا ہے تو غلط کرتا ہے اور اسی طرح اگر وہ اللہ کی بندگی کے ساتھ بندگیٔ غیر کی آمیزش کرتا ہے تو یہ بھی حق کے سراسر خلاف ہے......

دُنیا بھر کے مشرکین یہی کہتے ہیں کہ ہم دوسری ہستیوں کی عبادت اُن کو خالق سمجھتے ہوئے نہیں کرتے۔ خالق تو ہم اللہ ہی کو مانتے ہیں اور اصل معبود اسی کو سمجھتے ہیں، لیکن اس کی بارگاہ بہت اُونچی ہے جس تک ہماری رسائی بھلا کہاں ہوسکتی ہے۔ اس لیے ہم ان بزرگ ہستیوں کو ذریعہ بناتے ہیں تاکہ یہ ہماری دُعائیں اور التجائیں اللہ تک پہنچا دیں۔

اتفاق و اتحاد صرف توحید ہی میں ممکن ہے۔ شرک میں کوئی اتفاق نہیں ہوسکتا۔ دُنیا کے مشرکین کبھی اس پر متفق نہیں ہوئے ہیں کہ اللہ کے ہاں رسائی کا ذریعہ آخر کون سی ہستیاں ہیں؟ کسی کے نزدیک کچھ دیوتا اور دیویاں اس کا ذریعہ ہیں اور ان کے درمیان بھی سب دیوتائوں اور دیویوں پر اتفاق نہیں ہے۔ کسی کے نزدیک چاند، سورج، مریخ، مشتری اس کا ذریعہ ہیں اور وہ بھی آپس میں اس پر متفق نہیں کہ ان میں سے کس کا کیا مرتبہ ہے اور کون اللہ تک پہنچنے کا ذریعہ ہے؟ کسی کے نزدیک وفات یافتہ بزرگ ہستیاں اس کا ذریعہ ہیں اور ان کے درمیان بھی بے شمار اختلافات ہیں۔ کوئی کسی بزرگ کو مان رہا ہے اور کوئی کسی اور کو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اِن مختلف ہستیوں کے بارے میں یہ گمان نہ تو کسی علم پر مبنی ہے اور نہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کبھی کوئی ایسی فہرست آئی ہے کہ ’فلاں فلاں اشخاص ہمارے مقربِ خاص ہیں، لہٰذا ہم تک رسائی حاصل کرنے کے لیے تم ان کو ذریعہ بنائو‘۔ یہ تو ایک ایسا عقیدہ ہے، جو محض وہم اور اندھی عقیدت اور اسلاف کی بے سوچے سمجھے تقلید سے لوگوں میں پھیل گیا ہے۔ اس لیے لامحالہ اس میں اختلاف تو ہونا ہی ہے۔(’تفہیم القرآن ‘، سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۶۱، عدد۳، دسمبر ۱۹۶۳ء)

اسلام خالص توحیدی مذہب ہے، جو اللہ کے سوا سرے سے کسی کو معبود ہی نہیں مانتا اور نہ اس بات کا قائل ہے کہ اللہ نے کسی کے اندر حلول کیا ہے، یا وہ کسی مادّی مخلوق کی شکل میں اپنے آپ کو ظاہر کرتا ہے۔ خانۂ کعبہ کو اگر غیرمسلموں نے نہیں دیکھا ہے تو اس کی تصویریں تو بہرحال انھوں نے دیکھی ہی ہیں۔ کیا وہ راست بازی کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا بُت ہے جس کی ہم پرستش کر رہے ہیں؟ کیا کوئی شخص بہ درستیٔ ہوش و حواس یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ چوکور عمارت اللہ ربّ العالمین کی شکل پر بنائی گئی ہے؟ رہا حجر اَسود کا بوسہ، تو اُسے بُت پرستی کے قبیل کی کوئی چیز سمجھنا تو اور بھی زیادہ نادانی کی بات ہے۔ حجراسود ایک چھوٹا سا پتھر ہے، جو خانۂ کعبہ کی چاردیواری کے ایک کونے میں لگا ہوا ہے۔ مسلمان اُس کی طرف رُخ کرکے سجدہ نہیں کرتے، بلکہ خانۂ کعبہ کا طواف اس مقام سے شروع کرکے اسی مقام پر ختم کرتے ہیں، اور ہر طواف پر اسے بوسہ دے کر، یا اس کی طرف اشارہ کرکے شروع کرتے ہیں۔ اس کا آخر بُت پرستی سے کیا تعلق ہے؟

اب رہی یہ بات کہ دُنیا بھر کے مسلمان خانۂ کعبہ ہی کی طرف رُخ کرکے کیوں نماز پڑھتے ہیں؟ تو اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ یہ مرکزیت اور تنظیم کی خاطر ہے۔ اگر تمام دُنیا کے مسلمانوں کے لیے ایک مرکز اور ایک رُخ متعین نہ کردیا گیا ہوتا تو ہر نماز کے وقت عجیب افراتفری برپا ہوتی۔ انفرادی نمازیں ادا کرتے وقت ایک مسلمان کا منہ مغرب کی طرف ہوتا تو دوسرے کا مشرق کی طرف، تیسرے کا شمال کی طرف اور چوتھے کا جنوب کی طرف۔ اور جب مسلمان نمازِ باجماعت کے لیے کھڑے ہوتے تو ہرمسجد میں ہرنماز سے پہلے اس بات پر ایک کانفرنس ہوتی کہ آج کس طرف رُخ کرکے نماز پڑھی جائے۔ یہی نہیں بلکہ ہرمسجد کی تعمیر کے وقت ہرمحلّے میں یہ جھگڑا برپا ہوتا کہ مسجد کا رُخ کس طرف ہو؟ اللہ تعالیٰ نے ان سارے امکانات کو ایک قبلہ مقرر کرکے ہمیشہ کے لیے ختم کردیا۔ اور قبلہ اُسی جگہ کو بنایا جسے فطرتاً مرکزیت حاصل ہونی چاہیے تھی، اور خدائے واحد کی پرستش کے لیے دُنیا میں سب سے پہلا معبد وہیں بنایا گیا تھا۔(’رسائل و مسائل‘، سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۶۱، عدد۲، نومبر ۱۹۶۳ء، ص ۶۱-۶۲)

مکّی دور کے آغاز سے ہجرت تک کی تاریخ پر ایک مجموعی نظر ڈال کر [دیکھیں تو اس قافلۂ حق] کاابتدائی، یا صحیح تر الفاظ میں بنیادی، سرمایہ صرف محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات، آپؐ کی شخصیت اور آپؐ کی نبوت سے پہلے کی چہل سالہ زندگی تھی۔

حضورؐ کی عالی نسبی

ذاتی حیثیت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرب کے ایک شریف ترین خاندان سے تعلق رکھتے تھے، جس کے حسب و نسب کو تمام اہلِ عرب جانتے تھے۔ عرب کے بہ کثرت قبائل، جن کو اپنے نسب پر فخر تھا، اس بات سے واقف تھے کہ پدری اور مادری سلسلوں میں کہیں نہ کہیں جاکر اُن کا نسب آپؐ کے نسب سے مل جاتا ہے۔ اس لیے آپؐ کی حیثیت یہ نہ تھی کہ کوئی مجہول النسب، غیرمعروف، گمنام، یا کم اصل آدمی یکایک لوگوں کے سامنے ایک بہت بڑے دعوے کے ساتھ آکھڑا ہوا ہو، جسے دیکھتے ہی کہنے والے کہہ دیں کہ اس حیثیت کے آدمی پر تو یہ دعویٰ کسی طرح نہیں سجتا۔

پورے عرب میں کوئی شخص آپؐ کی شرافت ِنسبی پر شمّہ برابر بھی حرف گیری نہ کرسکتا تھا۔ خود شہر مکہ میں جتنے خانوادے اپنی عزت کے غرور میں ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے تھے، ان سب سے آپؐ کی اور آپؐ کے خاندان کی رشتہ داریاں تھیں۔ اُن میں سے بھی کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ آپؐ اپنے حسب و نسب اور معاشرتی مرتبے میں اُس سے کسی طرح کم تر ہیں۔ قریش جس کے ایک فرد آپؐ تھے، عرب میں سرداری کا مقام رکھتا تھا، اس کا اولادِ اسماعیلؑ سے ہونا ہر شک و شبہے سے بالاتر تھا۔ ملک کے اندر اور ملک سے باہر دور دور تک اس کے تجارتی روابط پھیلے ہوئے تھے۔ خانہ کعبہ کی تولیت اور حج کی کشش کے باعث عرب کے دور دراز گوشوں تک کے لوگوں کو بہر حال اُس سے سابقہ پیش آتا تھا۔

اِن وجوہ سے اِس قبیلے کو عرب میں وہ بلند مرتبہ حاصل تھا جو کسی دوسرے قبیلے کو حاصل نہ تھا۔ پس مکہ جیسے مرکزی مقام پر، قریش جیسے ایک قبیلے میں پید اہونا، عرب کے ماحول میں اس تحریک کے رہنما کے لیے مثالی موقع و محل تھا۔

آپؐ کا بنی اسماعیل میں سے ہونا

اسماعیلی خاندان کی بزرگی و شرافت اور عزت و منزلت کے ساتھ یہ بات بھی خاص اہمیت رکھتی تھی کہ ڈھائی ہزار سال کی پوری تاریخ میں حضرت اسماعیلؑ کے بعد اس خاندان کے کسی فرد نے کبھی نبوت کا دعویٰ نہیں کیا تھا۔ اِسی بات کی نشان دہی بنی عامر بن صعصعہ کے ایک جہاں دیدہ شیخ نے اُس وقت کی تھی، جب اس کے قبیلے کے لوگوں نے حج سے واپس آکر رسولؐ اللہ سے اپنی ملاقات اور گفتگو کا ذکر اُس سے کیا تھا۔ انھوں نے جب اُس کو بتایا کہ قریش کے ایک صاحب ہمیں ملے تھے، جنھوں نے نبی کی حیثیت سے اپنا تعارف کرایا اور ہم سے یہ چاہا کہ ہم انھیں اپنے ساتھ اپنے علاقے میں لے چلیں اور اللہ کا پیغام پہنچانے میں ان کی مدد کریں، مگر ہم نے ان کی بات قبول نہ کی، تو اُس مردِ کہن سال نے اپنا سر پیٹ لیا اور کہا ’’اُس وقت تمھاری عقل کہاں چرنے چلی گئی تھی؟ خدا کی قسم! آج تک کسی اسماعیلی نے ایسی بات، جھوٹ گھڑ کر کبھی نہیں کہی ہے‘‘۔ یہ آں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے اولادِ اسماعیلؑ میں سے ہونے کا ایک اور فائدہ تھا۔ تاریخ یہ شہادت دے رہی تھی کہ آپؐ کا دعوائے نبوت برحق ہے، کیوں کہ اس خاندان کا کوئی شخص کبھی نبوت کا جھوٹا دعویٰ لے کر نہیں اٹھا تھا۔

آپؐ کی شخصیت

جہاں تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کا تعلق تھا، آپؐ کی شکل و صورت اور وضع و ہیئت اور نشست و برخاست اور رفتار و گفتار اور شائستہ اطوار کو دیکھ کر بچپن ہی سے عرب کے قیافہ شناس یہ کہہ رہے تھے کہ یہ کوئی غیر معمولی ہستی ہے، جو عبد المطلب کے خاندان میں پیدا ہوئی ہے۔ آپؐ کی والدۂ ماجدہ، آپؐ کے جدِّامجد، آپؐ کے چچا، آپؐ کی رضاعی والدہ، سب کے تاثرات تاریخ میں محفوظ ہیں۔ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ کم سنی ہی میں جو لوگ آپ کو قریب سے دیکھ رہے تھے، وہ آپؐ کے اندر ایک نمایاں عظمت محسوس کر رہے تھے۔ ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ ایک بالکل اجنبی آدمی بیک نظر آپؐ کو دیکھ کر پکار اٹھتا کہ ’خدا کی قسم! یہ کسی جھوٹے انسان کا چہرہ نہیں ہے‘۔

جب آپؐ جوانی کی عمر کوپہنچے تو آپؐ کی شان ہی کچھ ایسی تھی کہ آپؐ کے اہلِ وطن اور اہلِ قبیلہ آپؐ کی شخصیت سے مرعوب ہوتے چلے گئے۔ لوگ خود بہ خود آپؐ کا احترام کرتے تھے، کیوں کہ وہ اپنے معاشرے کی عام سطح سے آپؐ کو بہت بلند پاتے تھے۔ آپؐ کی وجاہت، آپؐ کا وقار، آپؐ کی سنجیدگی، آپؐ کی نفاست و پاکیزگی، آپؐ کی عالی ظرفی، آپؐ کی کریم النفسی اور آپؐ کی بے داغ سیرت ایسی نمایاں تھی کہ جن لوگوں کو بھی آپؐ سے سابقہ پیش آیا تھا،وہ آپؐ کی تکریم و عزت کیے بغیر نہ رہ سکتے تھے۔ یہ رُعب اُس وقت بھی کار فرما رہا جب اسلام کی دعوت پیش کرنے کی وجہ سے قریش کے لوگ آپؐ کی جان کے دشمن ہوگئے تھے۔ دشمنی کے جوش میں پاگل ہوکر وہ بسا اوقات آپؐ کے ساتھ بڑی بڑی بے ہودگیاں کر بیٹھتے تھے۔ لیکن جس درجے کی دشمنی اُن کے سینوں میں آگ کی طرح بھڑک رہی تھی، اور جس دشمنی کی بنا پر وہ اپنے بیٹوں اور بھائیوں اور قریب ترین رشتہ داروں تک کو اذیت ناک مظالم سے معاف نہیں کر رہے تھے، اس کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کوئی خاص رُعب تھا ،جوآپؐ کے مقابلے میں آکر انھیں بے بس کر دیتا تھا۔

 آپؐ نے دعوتِ عام شروع کرنے کے بعد سخت سے سخت حالات میں بھی کھلم کھلا اپنی تبلیغ جاری رکھی۔ شعبِ ابی طالب میں محصور ہوجانے کے باوجود آپؐ برابر اس حصار سے نکل کر دعوت کا کام انجام دیتے رہے۔ مکہ کے آخری تین سال، جو انتہائی سخت تھے، ان میں بھی آپؐ صرف مکے میں آنے والوں ہی سے نہیں، عُکاظ، اور مَجنَّہ اور ذی المجاز، اور منیٰ کے اجتماعات میں قبائل اور ان کے سرداروں سے بھی علانیہ ملاقاتیں کرکے اسلام کی دعوت پیش کرتے رہے۔ لامحالہ یہ ماننا پڑے گا کہ آپؐ کی شخصیت میں کوئی ایسی زبردست طاقت تھی، جس کی وجہ سے کوئی آپؐ کو فرائضِ رسالت انجام دینے سے باز نہ رکھ سکا۔

نبوت سے پہلے کی زندگی

اب دیکھئے کہ نبوت سے پہلے چالیس سال تک آپؐ کی جو زندگی مکے میں گزری تھی، اُس کے اثرات کیا تھے؟

یہ زندگی صرف بے داغ ہی نہ تھی بلند ترین سیرت و کردار کا ایک نمونہ تھی۔ جس معاشرے میں آپؐ بچپن سے ادھیڑ عمر تک رہے بسے تھے، جس کے لوگوں کو ہر پہلو سے آپؐ کے ساتھ رشتہ داری، ہمسایگی، میل جول، دوستی، لین دین، غرض طرح طرح کے معاملات میں شب و روز سابقہ پیش آتا رہا تھا، ان میں سے کوئی ایسا نہ تھا جو آپؐ کی سچائی، آپؐ کی دیانت، آپؐ کی شرافت، آپؐ کی اخلاقی پاکیزگی، آپؐ کے حسن سلوک، آپؐ کی رحم دلی اور آپؐ کی ہمدردی و فیاضی کا معترف نہ ہو۔ آپؐ مجسم خیر تھے، کسی کو آپؐ سے شرکا تجربہ تو درکنار، اُس کا اندیشہ تک کبھی نہ ہوا تھا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر لوگوں کو اتنا اعتماد تھا کہ وہ آپؐ کو ’’امین‘‘ کہتے تھے، اور یہ اعتماد اُس وقت بھی قائم رہا جب اسلام کی دعوت پیش کرنے کی وجہ سے لوگ آپؐ کے دشمن ہوگئے تھے۔ اِس حالت میں بھی دوست دشمن، سب اپنی امانتیں آپؐ کے پاس رکھواتے رہے۔ کسی کو آپؐ سے خیانت کا خطرہ نہ تھا، اور آپؐ نے قتل گاہ سے نکلتے وقت بھی ان کی رکھوائی ہوئی امانتیں واپس کرنے کا اہتمام فرما کر اپنا کامل و اکمل امین ہونا قطعی طور پر ثابت کردیا۔

آپؐ کی صداقت اُس معاشرے میں اِس درجہ مسلّم تھی کہ جب آپؐ نے اسلام کی دعوت شروع کی اور قریش کے لوگوں نے اُس کو پورے زور شور کے ساتھ جھٹلایا، اُس وقت بھی مخالفین آپؐ کو جھوٹا کہنے کی ہمت نہ کرسکے، بلکہ اُس دعوت ہی کو جھوٹ کہتے رہے جو آپؐ نے پیش فرمائی تھی۔ بدترین عداوت کے دور میں بھی کوئی آپؐ کی سیرت و کردار پر کسی ادنیٰ درجے میں بھی حرف زنی نہ کرسکا۔ آپؐ سے قریب ترین تعلق جن لوگوں کا تھا، جن سے کوئی عیب نہ چھپ سکتا تھا اگر معاذ اللہ وہاں کوئی عیب ہوتا، وہی سب سے بڑھ کر آپؐ کے گرویدہ اور آپؐ کے فضائلِ اخلاق سے متاثر تھے۔

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے شادی کے لیے قریش کے بڑے بڑے سرداروں کی درخواستیں رَدّکردیں، اور خود خواہش کرکے آپؐ سے اِسی بنا پر شادی کی کہ وہ آپؐ کی اخلاقی خوبیوں پر فدا ہوگئی تھیں۔ پندرہ برس کی ازدواجی زندگی اس بات کے لیے بالکل کافی ہوتی ہے کہ بیوی اپنے شوہر کے عیب و صواب سے خوب واقف ہوجائے، خصوصاً جب کہ وہ شوہر سے عمر میں بڑی بھی ہو، عاقل و فرزانہ بھی ہو، اور شوہر اُسی کے مال سے کاروبارِ تجارت بھی کر رہا ہو۔ لیکن  رسولؐ اللہ کے معاملے میں حضرت خدیجہ ؓ کے اِس طویل اور انتہائی قریبی مشاہدے اور تجربے کا نتیجہ جو کچھ نکلا وہ یہ تھا کہ انھوں نے آپؐ کو محض ایک بلند پایہ انسان ہی نہیں، بلکہ اتنا عالی مرتبہ انسان پایا کہ اُنھیں آپؐ کو رسولِ ربّ العالمین مان لینے اور آپؐ پر ایمان لے آنے میں ایک لمحہ بھر بھی تامُّل نہ ہوا۔ حالاں کہ ایک بناؤٹی آدمی کی دنیا دار بیوی اس کے مکر اور اس مکر کے فوائد میں چاہے کتنا ہی حصہ لیتی رہے،مگر وہ دل سے نہ کبھی ان کی معتقد ہوسکتی ہے اور نہ اس پر ایمان لاسکتی ہے۔

حضرت زیدؓ بن حارثہ کا تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غلامی کی حالت میں شروع ہوا تھا۔ آقا اور غلام کے درمیان خوش گوار رابطہ بھی ایک نادر الوقوع چیز ہے، کجا کہ غلام کو آقا سے محبت ہو، کیوں کہ وہ بالکل بے بس ہوتا ہے، اور آقا اُس سے ہر طرح خدمت لینے کا حق دار ہوتا ہے، خواہ وہ خدمت اُس کے لیے کتنی ہی شاق اور اس کی طبیعت پر کتنی ہی گراں ہو۔ اس کے علاوہ غلام کو آقا کی زندگی کے اچھے اور بُرے سب پہلو دیکھنے کا موقع ملتا ہے، اور ایک بے اختیار خادم کی حیثیت سے اس کے سامنے اپنے مختارِ مطلق آقا کی زندگی کے بُرے پہلو زیادہ آتے ہیں۔ لیکن حضورصلی اللہ علیہ وسلم ایسے آقا تھے کہ غلام آپؐ کا گرویدہ ہوتا چلا گیا، حتیّٰ کہ جب اس کے باپ اور چچا اسے غلامی سے چھڑانے کے لیے آئے، تو اس نے آزاد ہوکر اپنے باپ کے ہاں جانے کی بہ نسبت حضورؐ کی غلامی میں رہنے کو ترجیح دی۔

 ۱۵ سال آپؐ کی خدمت میں رہ کر یہ غلام، جسے آپؐ نے آزاد کرکے بیٹا بنا لیا تھا،آپؐ کے اخلاقِ کریمانہ سے اتنا متأثر ہوا کہ جب اُسے آپؐ کے منصبِ نبوت پر سرفراز ہونے کا علم ہوا تو اُس نے بھی حضرت خدیجہؓ کی طرح آپؐ پر ایمان لانے میں ایک لمحہ بھر بھی توقف نہ کیا۔ وہ کوئی ناسمجھ بچہ نہ تھا بلکہ ۳۰ برس کا جوان تھا، اور ایسا ذکی و دانش مند تھا کہ ۸ ھ میں وہ اس فوج کا کمانڈر بنا کر بھیجا گیا، جس میں حضرت جعفرؓ بن ابی طالب اور حضرت خالدؓ بن ولید جیسے لوگ اُس کے ماتحت تھے۔ اس لیے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ کوئی کم عقل خادم تھا، جسے نبوت و رسالت کی اہمیت معلوم نہ تھی اور محض اپنے مخدوم کی شخصیت سے مرعوب ہوکر وہ بے سمجھے بوجھے ایمان لے آیا تھا۔ بلکہ در حقیقت اُس نے اپنے پندرہ سال کے طویل تجربے میں آپؐ کو اِتنا عالی مرتبہ انسان پایا تھا کہ اسے آپؐ کے رسولِ خدا ہونے میں ذرہ برابر شک لاحق نہ ہوا۔ حضورؐ کی اِسی اخلاقی فضیلت کو چند سال پہلے وہ اپنے باپ کے ساتھ نہ جانے کی وجہ بتا چکا تھا۔

ایسا ہی معاملہ حضرت ابوبکر صدیق ؓکا تھا جو بیس سال سے آپؐ کے ہم نشین ہی نہیں بلکہ گہرے دوست تھے۔ حضرت علیؓ ابن ابی طالب کا تھا، جنھوں نے آپؐ کے گھر ہی میں پرورش پائی تھی۔ وَرقہ بن نوفل کا تھا جو بچپن سے حضورؐ کی زندگی دیکھتے چلے آرہے تھے اور حضرت خدیجہؓ کے قریبی رشتہ دار ہونے کی وجہ سے جنھیں آپؐ کو اور زیادہ جاننے اور سمجھنے کا موقع ملا تھا۔ حضرت عثمانؓ آپؐ کی پھوپھی کے نواسے تھے۔ حضرت زبیرؓ آپؐ کے پھوپھی زاد بھائی اور حضرت خدیجہؓ کے بھتیجے تھے۔ حضرت ابوسلمہؓ آپؐ کے دودھ شریک بھائی بھی تھے اور پھوپھی زاد بھائی بھی۔ حضرت جعفرؓ بن ابی طالب، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سگے چچا زاد بھائی تھے۔ حضرت عبد الرحمٰنؓ بن عوف اور حضرت سعدؓ بن ابی وقاص آپؐ کی والدۂ ماجدہ کے رشتے دار تھے۔ ان میں سے کوئی بھی ایسا نہ تھا، جو آپؐ کی سیرت و کردار کے ہر پہلو کو قریب سے نہ دیکھ چکا ہو، اور یہی لوگ آپؐ کی نبوت کو سب سے پہلے تسلیم کرنے والوں میں سے تھے۔

نبوت کے بعد آپؐ کے اوصافِ عالیہ کا ظہور

کسی تحریک کا آغاز ہی اگر ایسی عظیم و جلیل ہستی کی رہنمائی میں ہوتو یہ بجائے خود بہت بڑا سرمایہ ہے۔ لیکن شروع ہونے کے وقت سے ۱۳ سال تک اِس ابتدائی سرمایے میں جو مزید اضافے ہوئے، وہ اتنے قیمتی تھے کہ انسانی تاریخ اُن کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ سب سے پہلے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُن اوصاف کو دیکھیے، جو اِس دور میں نمایاں ہوکر سامنے آئے اور سب سے بڑھ کر اِس دعوت کو فروغ دینے کے موجب بنے۔

  • آپؐ کا مالی ایثار:آپؐ کا اوّلین وصف وہ ایثار تھا، جو آپؐ نے اِس کارِ عظیم کے لیے کیا۔ آغازِ نبوت کے وقت آپؐ ایک نہایت کامیاب اور خوش حال تاجر تھے۔ ایک طرف حضرت خدیجہؓ کا مال تھا جو قریش کے دوسرے تاجروں کے مجموعی مال سے کم نہ تھا۔ دوسری طرف آپؐ کی ذہانت و فراست اور حسنِ تدبیر اور راست بازی کی ساکھ تھی، جس کا مقابلہ کوئی دوسرا نہ کرسکتا تھا۔ یہ دونوں چیزیں جس کاروبار میں یک جا جمع ہوگئی ہوں، اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ کیسی زبردست ترقی کر رہا ہوگا۔ لیکن نبوت سے پہلے اس مال کو حضورؐ اور آپؐ کی شریکِ حیاتؓ نے محض اپنے عیش و آرام کے لیے مخصوص نہیں کر رکھا تھا، بلکہ نہایت دریا دلی کے ساتھ آپؐ اسے حاجت مندوں کی مدد، بے کسوں کی دست گیری اور مسافروں کی مہمان نوازی پر خرچ کرتے رہے تھے اور ہر کارِ خیر میں آپؐ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ اِس لیے آغازِ نبوت میں کوئی بہت بڑا اندوختہ آپؐ کے پاس نہ تھا۔

پھر جب فرائض نبوت کا بار آپؐ پر ڈالا گیا تو رفتہ رفتہ آپؐ نے اپنا سب کچھ اللہ کی راہ میں لگا دیا، اور آپؐ کے لیے یہ ممکن نہ رہا کہ تبلیغِ دین کے ساتھ اپنی تجارت بھی چلا سکیں۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ جب آپؐ طائف تشریف لے گئے تو آپؐ کو پیدل ہی جانا پڑا، کوئی سواری آپؐ کومیسر نہ تھی۔ ہجرت کی تو اس کے سارے مصارف حضرت ابوبکرؓ نے برداشت کیے، حتیّٰ کہ اہل و عیال کو مدینے بلانے کے لیے بھی آپؐ کو ۵۰۰ درہم جنابِ ابوبکر صدیقؓ سے لینے پڑے۔ آپؐ کا دست مبارک درہم و دینار سے بالکل خالی تھا۔

ظاہر ہے کہ جب ایک دعوت کا پیش کرنے والا خود اُس دعوت کے کام پر اپنے ذاتی مفاد کو اس طرح قر بان کر رہا ہو، تو ہر دیکھنے والا اس بات کا قائل ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے مقصد میں بالکل مخلص اور بے غرض ہے، حتیّٰ کہ دشمن اور مخالف تک زبانوں سے خواہ کچھ ہی کہتے رہیں، اپنے دلوں میں یہ مان جاتے ہیں کہ اِس دعوت کے ساتھ اُس کا کوئی ذاتی مفاد وابستہ نہیں ہے۔ اور جو لوگ اس کی دعوت کو قبول کرکے اس کے ساتھ آتے ہیں، ان کے لیے ان کے رہنما کی مثال ایسی سبق آموز ہوتی ہے کہ وہ بھی حق کو محض حق ہونے کی بناپر مانتے ہیں، کسی ذاتی غرض کا لوث ان کے ایمان کے ساتھ لگا ہوا نہیں ہوتا، اور ایثار و قربانی میں بھی وہ اپنے ہادی و رہبر کی پیروی کرتے ہیں۔

  • آپؐ کا زبردست عزم:دوسری چیز آپؐ کے عزم کی پختگی تھی، جسے مشکلات ومصائب اور مخالفتوں کا کوئی بڑے سے بڑا طوفان بھی شکست نہ دے سکا، جسے نہ کوئی خوف اپنی جگہ سے ہٹاسکا، نہ کوئی لالچ پھسلا کر راہِ حق سے منحرف کرسکا، اور نہ کسی قسم کے سخت سے سخت حالات مایوسی و دل شکستگی میں تبدیل کرسکے۔ وہ آپؐ کی پہاڑ جیسی استقامت ہی تھی جس سے ٹکرا کر ساری مخالف طاقتیں آخرکار اس بات سے مایوس ہوگئیں کہ اپنے کسی حربے، کسی مظاہرۂ قوت، کسی ظلم و ستم، کسی تحریص و ترغیب، کسی افترا پردازی اور الزام تراشی کی مہم، اورکسی بُرے سے بُرے ہتھکنڈے سے وہ آپؐ کو اس کام سے باز رکھ سکیں گے، جسے لے کر آپ اُٹھے ہیں۔ دیکھنے والے آپؐ کی اس اُولوالعزمی کو سال ہا سال تک بالکل بے لچک پاکر یہ اثرلیے بغیر نہیں رہ سکتے تھے کہ جب تک کسی شخص کو اپنے حق پر ہونے کا کامل یقین نہ ہو، اورجب تک کوئی شخص ذاتی اغراض کی کھوٹ سے بالکل پاک نہ ہو، وہ اپنے عزم میں اتنا مضبوط نہیں ہوسکتا۔ اِسی چیز نے آپؐ کے ساتھیوں میں بھی ایمان کی مضبوطی اور راہِ حق میں استقامت پیداکی، او راسی نے تمام غیر جانب دارلوگوں کو بھی قائل کر دیا کہ آپؐ جو دعوت پیش کررہے ہیں، وہ خالص حق پرستی پرمبنی ہے۔
  • آپؐ کی بـے نظیر شجاعت:تیسری چیزآپؐ کی بے خوفی اور شجاعت و بہادری تھی کہ جو کسی بڑی سے بڑی طاقت سے دب جانا اور کسی بڑے سے بڑے خطرے سے ڈر جانا، جانتی ہی نہ تھی۔ کفارِ قریش کا ایک بپھرا ہوا مجمع آپؐ کو حرم میں تنہا گھیر لیتا ہے اور آپؐ سے کہتا ہے کہ ’تم وہ ہو جو یہ کہتے ہو، اور تم وہ ہو جو یہ کہتے ہو‘۔ ان ساری باتوں کے جواب میں آپؐ بے جھجک فرماتے چلے جاتے ہیں کہ ’ہاں، میں یہ کہتا ہوں اور میں یہ بھی کہتا ہوں‘۔ جان کے دشمن لوگوں میں اپنے آپ کو گھرا ہوا پاکر آپؐ پر ذرا سی گھبراہٹ تک طاری نہیں ہوتی۔

غارِ ثور کے عین دہانے پر دشمن پہنچ جاتے ہیں، اور آپؐ پورے اطمینان کے ساتھ اُس وقت نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ عرض کرتے ہیں کہ یہ ظالم اپنے قدموں کی طرف نگاہ ڈالیں تو ہمیں دیکھ لیں گے۔ آپؐ بڑے ٹھنڈے دل سے، کسی ادنیٰ درجے کی پریشان خاطری کے بغیر فرماتے ہیں کہ ’’ابوبکر! تمھارا اُن دو آدمیوں کے متعلق کیا خیال ہے، جن میں تیسرا اللہ ہو؟ گھبراؤ نہیں، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘ دشمنوں نے آپؐ کے سرِ مبارک کے لیے انعام مقرر کر رکھا ہے۔ ہر طرف انعام کے لالچ میں آپؐ کی تلاش کے لیے لوگ دوڑے پھر رہے ہیں اور آپؐ اطمینان کے ساتھ قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے سفر کرتے چلے جا رہے ہیں۔ کسی طرف مڑکر بھی یہ نہیں دیکھتے کہ کہیں کوئی تعاقب میں تو نہیں چلا آرہا ہے۔

ایسے بہادر رہنما کے ساتھ بہادر لوگ ہی آتے ہیں، اور اس کی بہادری دیکھ دیکھ کر ان کی بہادری میں اور زیادہ اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ دشمن بھی خواہ دشمنی میں کتنا ہی اندھا ہوچکا ہو، اُس کے اِس وصف کی قدر کیے بغیر نہیں رہتا۔ اس [دشمن]کی ہمت بیٹھ جاتی ہے، جب اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا سابقہ ایک ایسے شخص سے ہے، جو ڈر نام کی کسی چیز کو جانتا ہی نہیں___ کسی تحریک کے لیے، اور خصوصاً اسلامی تحریک کے لیے اس کے رہنما کا نڈر اور بے خوف اور شجاع ہونا ایک بڑا اہم وصف ہے۔ رہنما کی بزدلی، بلکہ اس کی شجاعت میں ذرا سی کمزوری بھی آزمائش کے مواقع پر پوری تحریک کو لے بیٹھتی ہے۔

  • آپؐ کی عالی ظرفی:چوتھا اہم ترین وصف آپؐ کاصبر وتحمل، ضبطِ نفس اور بلند حوصلہ تھا۔ آپؐ مخالفین کی کسی رکیک سے رکیک حرکت پر بھی کبھی غصے میں آپے سے باہر نہ ہوئے۔ کسی گالی کا جواب آپؐ نے گالی سے نہ دیا۔ کسی بد زبانی اورکسی بےہودہ الزام کے جواب میں آپؐ کی زبانِ مبارک سے ایک لفظ بھی شائستگی سے گرا ہوا نہ نکلا۔ دشمنوں نے بارہا ایسی حرکتیں کیں، جو سخت دل آزار، سخت توہین آمیز اور سخت اشتعال انگیز تھیں، مگر آپؐ بڑی عالی ظرفی کے ساتھ ہر بات کوپی گئے، اور ان کی برائی کا جواب برائی کے بجائے بھلائی ہی سے دیتے رہے۔ مکہ معظمہ کے طویل دورِ مصائب میں کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی جس میں تہذیب و شرافت کا دامن آپؐ کے ہاتھ سے چھوٹ گیاہو۔

یہ وہ چیزتھی جو گرد وپیش کے معاشرے میں آپؐ کا اخلاقی وقار بڑھاتی چلی گئی اور آپؐ کے مخالفوں کو ہر اُس شخص کی نظر سے گراتی چلی گئی، جس کے اندر ذرہ برابر بھی اخلاق و شرافت کا کوئی جوہر موجود تھا۔ طائف سے زیادہ سخت وقت آپؐ پر کبھی نہ گزرا تھا۔ مگر اُس وقت بھی آپؐ کے دل اور زبان سے دعا ہی نکلی اور آپؐ اس پر راضی نہ ہوئے کہ اس ظلم کے بدلے میں ظالموں پر خدا کا عذاب نازل ہو۔ میدانِ جنگ سے پہلے اخلاق کے میدان میں آپؐ اپنے مخالفوں کو شکست دے چکے تھے، اور اس شکست پر آخری مہر اُس وقت لگ گئی جب قتل گاہ سے نکلتے وقت بھی آپؐ نے اہلِ مکہ کی امانتیں اُن کو واپس دینے کی فکر فرمائی۔ کوئی بالکل ہی مردہ ضمیر ہوگا جو اس کردار کو دیکھ کر اپنے دل میں مان نہ گیا ہو کہ جاہلیت کے حامی اُس شخص سے لڑ رہے ہیں، جو ان کی قوم ہی کا نہیں، ساری دنیا کا شریف ترین انسان ہے۔

اسلامی تحریک میں شامل ہونے والوں کی اخلاقی تربیت کے لیے بھی ہزار وعظوں سے بڑھ کر اپنے ہادی و رہبر کی یہ عملی مثال مؤثر تھی۔ اسی کا یہ اثر تھا کہ جس نے بھی آپؐ کی پیروی اختیار کی وہ اخلاق کے اعتبار سے اپنے معاشرے میں اتنا بلند ہوگیا کہ ہر دیکھنے والا علانیہ بُت پرست اور خُدا پرست کے فرق کو دیکھ سکتا تھا۔

  • آپؐ کے قول اور عمل میں کامل مطابقت:پانچواں ، اور سب سے زیادہ اہم وصف یہ تھا کہ آپؐ کے قول اور عمل میں برائے نام بھی کوئی تضاد نہ تھا۔ جو کچھ آپؐ کہتے تھے وہی کرتے بھی تھے۔ جن چیزوں کو آپؐ نے برا کہا اور لوگوں کو اُن سے منع کیا، اُن کا ادنیٰ شائبہ تک آپؐ کی سیرت و کردار میں نہ پایا جاتا تھا۔

مکے کے لوگ آپؐ کی گھر سے باہر کی زندگی ہی کو نہیں، گھر کے اندر کی زندگی کو بھی دیکھ سکتے تھے، کیوں کہ ان میں کتنے ہی لوگ آپؐ کے والد ماجد، یا آپؐ کی والدۂ ماجدہ، یا آپؐ کی اہلیہ محترمہ کے رشتے دار تھے۔ لیکن کوئی یہ نہ کہہ سکا کہ آپؐ دوسروں کو جن برائیوں سے روکتے ہیں وہ، یا ان میں سے کوئی ایک کم سے کم درجے کی برائی بھی آپؐ کی اپنی زندگی میں پائی جاتی ہے۔ اسی طرح جن نیکیوں اور بھلائیوں کی طرف آپؐ لوگوں کو دعوت دیتے تھے، سب سے بڑھ کر آپؐ خود اُن پر عمل پیرا تھے۔ آپؐ کی زندگی اُن کا مجسّم عملی نمونہ تھی۔ کوئی اس امر کی کبھی نشان دہی نہ کرسکا کہ آپؐ سے اُن بھلائیوں پر عمل کرنے میں کوئی ادنیٰ درجے کی بھی کوتاہی ظاہر ہوئی ہے۔

کسی تحریک کی کامیابی کے لیے عموماً اور اسلامی تحریک کے لیے تو خصوصاً، یہ بہترین ضمانت ہے کہ اس کا رہنما قول و عمل کے تضاد سے بالکل پاک ہو، اور اس کی تعلیم محض زبانی جمع خرچ نہ ہو بلکہ اس کی اپنی عملی زندگی اس تعلیم کی جیتی جاگتی تصویر ہو۔ اِس کا گہرا اثر لازماً ان لوگوں پر بھی پڑتا ہے، جو ایسے رہنما کی پیروی اختیار کرتے ہیں، اور وہ لوگ بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے، جوغیر متعصب نگاہ سے جستجوئے حق کی خاطر اسے دیکھتے ہیں، حتّیٰ کہ متعصب مخالفین میں سے بھی ایک بڑی تعداد بالآخر اس سے مسخر ہو کر رہتی ہے۔

  • آپؐ کا تمام تعصبات سے پاک ہونا:چھٹا وصف جو اپنی اہمیت میں کسی دوسرے وصف سے کم نہیں، یہ تھا کہ آپؐ ہر تعصب سے پاک تھے۔ قبیلے، قوم، وطن، زبان، رنگ، نسل، غرض کسی چیز کا تعصب بھی آپؐ کے اندر نہ تھا۔ نہ آپؐ امیری و غریبی کے لحاظ سے انسان اور انسان کے درمیان فرق کرتے تھے، اور نہ معاشرتی مرتبے کی اونچ نیچ آپؐ کے لیے کوئی معنی رکھتی تھی۔ آپؐ انسان کو صرف انسان ہونے کی حیثیت سے دیکھتے تھے، اور انسانوں میں سے جو بھی حق کو قبول کرلیتا، اسے آپؐ کی جماعت میں بالکل برابر کا درجہ حاصل ہوتا تھا، خواہ وہ قریشی ہو یا غیرقریشی، خواہ وہ عرب ہو یا حبشی یا رومی، خواہ وہ کالا ہو یا گورا، خواہ وہ غریب ہو یا امیر، خواہ وہ جاہلیت کے معاشرتی نظام کی رو سے ’’شریف‘‘ ہو یا ’’کمین‘‘۔

 یہی وہ چیز تھی جس نے اسلامی تحریک کے یومِ آغاز ہی سے اس کے ایک عالم گیر تحریک ہونے کی بنا ڈال دی تھی، اُمتِ مسلمہ کو ایک بین الاقوامی اُمت کی حیثیت بخش دی تھی، اسلام قبول کرنے والوں کے اندر سے اسلام و کفر کے سوا ہر دوسری بنیاد پر انسان اور انسان کے درمیان امتیاز کا احساس مٹا دیا تھا اور ان کی جماعت میں غلام اور آزاد، غریب اور امیر، برتر اور کم تر، عرب اور غیر عرب، سب بالکل مساوی حیثیت سے شریک تھے، اور شریک ہوسکتے تھے جب کہ وہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آئے ہوں۔ عرب کے قلیل التعداد متکبروں کو چھوڑ کر باقی عام آبادی کے لیے یہ چیز اپنے اندر ایک فطری کشش رکھتی تھی، جو بالآخر کارگر ثابت ہوکر رہی۔

یہ تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ اوصاف جو ۱۳ برس کے مکی دور میں ظاہر ہوئے اور  جن کی زبردست قوتِ تاثیر سے دشمنوں کی ساری کوششوں کے علی الرغم اسلامی تحریک آگے ہی آگے بڑھتی گئی۔ مزید اوصافِ عالیہ ابھی آپؐ کے اندر مخفی تھے اور اپنے ظہور کے لیے دوسرے حالات کے متقاضی تھے جو آگے چل کر اسلامی تحریک کو مدینے میں میسر آئے۔

قرآن کی قوتِ تسخیر

اِس تحریک کا دوسرا عظیم ترین سرمایہ قرآن مجیدتھا، جس کا دو تہائی سے کچھ کم حصہ مکّہ معظمہ میں نازل ہوا۔ عرب کے لوگ فصاحت و بلاغت اور زورِ بیان کے عاشق تھے۔ یہی عشق انھیں عُکاظ جیسے میلوں میں شعرا اور فصحا کا کلام سننے کے لیے کھینچ لے جاتا تھا۔ مگر قرآن سن کر ان کی نگاہ میں بڑے سے بڑے زبان آوروں کی کوئی وقعت باقی نہ رہی۔ شاعر و خطیب اس کے آگے گنگ ہوگئے۔ ادب کے لحاظ سے اس کی زبان اتنی بلند تھی کہ کوئی اس سے بلند تر تو درکنار، اس کے برابر بھی اونچے ادب کا تصور نہ کرسکتا تھا۔ اس کا بیان ایسا وجد آور تھا کہ لوگ ا س کو سن کر سردھننے لگتے تھے، مخالفین اسے سحر (جادو) کہتے تھے، اور غیر متعصب لوگ پکار اٹھتے تھے کہ یہ بشر کا کلام نہیں ہوسکتا۔

اس کی شدت تاثیر کا حال یہ تھا کہ حضرت عمرؓ جیسے سخت دشمنِ اسلام کا دل اس نے پگھلا دیا اور انھیں رسول اکرمؐ کے قدموں میں لا ڈالا۔ قریش کے ایک نامور سردار جُبیرؓ بن مُطعم جنگِ بدر کے بعد اسیروں کی رہائی پر بات چیت کرنے کے لیے مدینے گئے۔ وہاں نبیؐ مغرب کی نماز پڑھا رہے تھے اور اس میں سورۂ طور زیر ِتلاوت تھی۔ بخاری و مسلم میں ان کا اپنا قول منقول ہوا ہے کہ ’’آیات (۳۵ تا ۳۹ )جب حضورؐ پڑھ رہے تھے تو میرا دل سینے سے اڑا جاتا تھا‘‘۔ بعد میں   ان کے مسلمان ہونے کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اس روز یہ آیات سن کر اسلام ان کے دل میں جڑ پکڑ چکا تھا۔ اِسی لیے دشمن کوشش کرتے تھے کہ لوگ اسے نہ سنیں، مگر خود اُن سے رہا نہ جاتا تھا اور چھپ چھپ کر اسے سنتے تھے۔

اِس انتہائی مؤثر کلام کے ذریعے سے شرک اور جاہلیت کے ایک ایک پہلو پر ایسی مدلل تنقید کی گئی کہ کسی معقول آدمی کے لیے یہ ممکن نہ رہا کہ اُن عقائد اور رسوم اور اخلاقی برائیوں کے حق میں ایک لفظ بھی کہہ سکتا، جن پر قریش اور عرب کے مذہب اور تمدن کی بنا قائم تھی۔ پھر اِسی کلام کے ذریعے سے کمال درجہ دل نشین پیرائے میں اسلام کے عقائد، اس کے اصولِ تہذیب و تمدّن اور اس کی اخلاقی تعلیمات کو پیش کیا گیا، جن کی تردید میں کسی بڑے سے بڑے مخالف کے لیے بھی زبان کھولنے کی گنجائش باقی نہ رہی۔ اس کے بعد کفّار مجبور ہوگئے کہ اسلام کو زک دینے کے لیے مارپیٹ، ظلم و ستم، گالی گلوچ، کذب و افترا اور شور و شغب کے ہتھیاروں سے کام لیں۔ مگر یہ بجائے خود اُن کی طرف سے دلیل و حجت اور اخلاق و شرافت کے میدان میں اپنی شکست کا عملی اعتراف تھا۔

ہر وہ شخص جس میں ذرا بھی معقولیت کا شائبہ پایا جاتا تھا، اس معرکے کے دونوں فریقوں کو دیکھ کر یہ محسوس کرتا چلا گیا کہ منکرین و مخالفین کے پاس قرآن کے دلائل اور اس کی پاکیزہ تعلیم کا کوئی جواب اوچھے ہتھکنڈوں اور انسانیت سے گری ہوئی چالوں کے سوا نہیں ہے۔ یہ کھلا کھلا معرکہ صرف مکے ہی میں لوگوں کے سامنے برپا نہ تھا، بلکہ تمام عرب کی نگاہیں بھی اس کو دیکھ رہی تھیں۔ مکے میں تو خیر شب و روز ہی عوام و خواص سب کسی نہ کسی طرح قرآن بھی سن رہے تھے، اور ان کارروائیوں کو بھی دیکھ رہے تھے جو سردارانِ قریش اور ان کے زیرِ اثر اوباش لوگ قرآن کے جواب میں کر رہے تھے۔ لیکن دس برس تک ہر سال رسولؐ اللہ عُکاظ سے منیٰ تک کے اجتماعات میں تشریف لے جاکر، عرب کے ہر حصے سے آئے ہوئے لوگوں کو قرآن سناتے رہے، اور ابو جہل اور ابولہب جیسے لوگ برسرِ عام آپؐ کو پتھر مار کر آپؐ پر خاک دھول اڑا کر اُن کو یہ بتاتے رہے کہ اس کلام کا جواب اُن کے پاس کیا ہے۔

اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مکے میں بھی ساری رکاوٹوں کے باوجود اسلام پھیلتا چلا گیا، اور سرزمینِ عرب میں بھی کوئی قبیلہ ایسا نہ رہا، جس میں کچھ نہ کچھ لوگ اسلام سے متاثر نہ ہوگئے ہوں۔ مکّی دور میں صورتِ حال یہ تھی کہ علانیہ اسلام قبول کرلینے والے لوگ تو کم تھے، مگر اُن سے بیسیوں گُنے زیادہ ایسے اشخاص معاشرے میں موجود تھے، جن کے دلوں میں قرآن کی تعلیم، اور رسول اکرمؐ کی عظمت و تکریم، اور آپؐ کے مظلوم ساتھیوں کے لیے ہمدردی، اور قریش کے سراسر بے جا ظلم و ستم کے لیے نفرت جاگزیں نہ ہوگئی ہو۔ اِس دور کا یہ کام بھی پوری طرح بار آور ہونے کے لیے ایک مدینے کا طالب تھا، جو ٹھیک اپنے وقت پر اُس کے لیے آغوش کھول کر سامنے آگیا۔

حضورؐپر ایمان لانے والوں کے اوصاف

تیسرا بڑا سرمایہ ایمان لانے والے مسلمانوں کا وہ چیدہ گروہ تھا، جو اِس تحریک کو ۱۳ سال کے دوران میںمیسر آیا۔ یہ وہ صاف دماغ اور سلجھے ہوئے ذہن کے لوگ تھے، جنھوں نے شرک و جاہلیت کے اُس تاریک ماحول میں پرورش پانے کے باوجود قرآن مجید کی تعلیمات سن کر اپنے دینِ آبائی کا غلط اور دینِ اسلام کا برحق ہونا تسلیم کرلیا اور کوئی تعصب انھیں ایمان لانے سے نہ روک سکا۔

اُن کو معلوم تھا کہ اپنے خاندان، اپنے قبیلے اور اپنے شہر کے عام لوگوں کی رائے کے خلاف اسلام قبول کرنے اور محمدؐ کی پیروی اختیار کرنے کے کیا معنی ہیں۔ ایمان لانے والوں پر جو عذاب توڑے جا رہے تھے وہ سب ان کی آنکھوں کے سامنے تھے۔ مگر وہ اِس دل گردے کے لوگ تھے کہ کوئی خوف انھیں باطل کو رد اور حق کو قبول کرنے سے نہ روک سکا۔ اُنھوں نے ہر طرح کے ظلم صرف اس لیے سہے کہ جس چیز کو وہ باطل سمجھ چکے تھے، اس کی پیروی کرنا انھیں کسی حال میںگوارا نہ تھا، اور جس چیز کا حق ہونا انھیں معلوم ہوچکا تھا، اُسے چھوڑنے کے لیے وہ تیار نہ تھے۔

انھیں بُری طرح مارا پیٹا گیا۔ اُنھیں الٹا لٹکایا گیا۔ انھیں بھوک پیاس کی مار دی گئی۔ انھیں باندھ کر قید تنہائی میں ڈال دیا گیا۔ اُن کو آگ کے انگاروں پر لٹایا گیا۔ ان کے بڑے بڑے باعزت لوگوں کو برسرِ عام ذلیل کیا گیا۔ مگر یہ سب کچھ انھوں نے محض حق کی خاطر برداشت کرلیا اور ان میں سے کسی ایک مرد یا عورت کو بھی ایمان سے کفر کی طرف نہ پھیرا جاسکا۔ انھوں نے اپنا ایمان بچانے کے لیے دو دفعہ حبش کی طرف اور آخر میں مدینے کی طرف ہجرت کی۔ گھر بار، مال اسباب، عزیز رشتہ دار، سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر خدا کی راہ میں نکل کھڑے ہوئے۔ ان میں سے بکثرت ایسے تھے، جو تن کے کپڑوں کے سوا کچھ نہ لے جاسکے۔ ان کے اس طرزِ عمل نے ثابت کردیا کہ اسلامی تحریک کو وہ انتہائی مخلص و جاں نثار فدائی مل گئے ہیں، جو اگرچہ مٹھی بھر ہیں، مگر ایسے بہادر ہیں کہ اپنے دین کے لیے ہر قربانی دے سکتے ہیں، ہر مصیبت جھیل سکتے ہیں، ہرتکلیف و اذیت برداشت کرسکتے ہیں، اور ہر بڑی سے بڑی طاقت سے ٹکرا سکتے ہیں۔

اِن خوبیوں کے ساتھ ایسا عظیم اخلاقی انقلاب قرآن کی تعلیم اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت سے ان کی زندگی میں رونما ہوگیا کہ اپنی راست بازی و دیانت، اپنی پرہیزگاری و طہارت، اپنی خداترسی و خدا پرستی، اپنی عفت و پاک دامنی، اپنی شرافت و شائستگی، اور اپنی مضبوط اور قابلِ اعتماد سیرت کے اعتبار سے صرف عرب ہی میں نہیں، دنیابھر میں ان کا جواب نہ پایا جاتا تھا۔ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس معاشرے میں ایک منارۂ نور کی طرح نمایاں تھے، اسی طرح آپؐ کے ساتھیوں کی زندگی کا اخلاقی انقلاب بھی اِس قدر ظاہر و باہر تھا کہ دیکھنے والی آنکھ کفار کی اخلاقی حالت اور اُن کی اخلاقی حالت کا فرق علانیہ دیکھ سکتی تھی۔ تعصب اور عناد کی بناپر مخالفین زبان سے اس کا انکار کرسکتے تھے، مگر ان کے دل جانتے تھے کہ قدیم جاہلیت کیا سیرت و کردار پیدا کرتی تھی، اور یہ نیا دین کس سیرت و کردار کے انسان پیدا کر رہا ہے۔

انصارِ مدینہ کے اوصاف

چوتھا عظیم اور بیش قیمت سرمایہ جو مکّی دور کے آخری تین سالوں میں اسلامی تحریک کو ملا، وہ مدینے کے انصار کا خلوصِ ایمانی تھا۔ ان لوگوں کو نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت و تربیت میسر آئی تھی، نہ آپؐ کی اور آپؐ کے صحابہؓ کی پاکیزہ زندگیوں کو دیکھنے کا موقع ملا تھا، نہ قرآن پاک کا اُتنا علم حاصل ہوا تھا جو مکے کے اہلِ ایمان کو حاصل تھا، لیکن یہ ایسے سلیم الطبع اور صحیح الدماغ لوگ تھے، جو حق کی ایک جھلک دیکھتے ہی اس پر فدا ہوگئے۔ صدیوں کی رَچی بسی مشرکانہ جاہلیت کو انھوںنے اسلام کی صراطِ مستقیم کا نشان پاتے ہی اپنے دل ودماغ سے گرد کی طرح جھٹک کرنکال پھینکا۔ وہ پکے پھلوں کی طرح اسلام کی جھولی میں یوں جھڑتے چلے گئے کہ ۱۳ سال کے اندر مکّے میں جتنے لوگ ایمان لائے تھے، تین سال میں ان سے بہت زیادہ مردوں اور عورتوں اور جوانوں اور بوڑھوں نے مدینے میں ایمان قبول کرلیا۔

انھوں نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ وہ ایسے خلوص کے ساتھ ایمان لائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپؐ کے ساتھی تمام اہلِ ایمان کو انھوں نے اپنے ہاں ہجرت کر آنے کی دعوت دے دی، حالاں کہ یہ دعوت دیتے وقت وہ خوب جانتے تھے کہ اس کے نتیجے میں انھیں تمام عرب کی دشمنی مول لینی ہوگی، جیسا کہ آخری بیعتِ عقبہ کے موقعے پر اُن کی تقریروں سے صاف ظاہر ہوتا ہے۔ اور بات صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ انھوں نے حضورؐ اور آپ کے مکّی صحابہؓ کے لیے اپنے شہر کو دار الہجرت کے طور پر پیش کردیا، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر انھوں نے پوری خوش دلی اور رضامندی سے آپؐ کو اپنا حاکم و فرماں روا تسلیم کیا، آپؐ کی وفا دار رعیت اور جاں نثار فوج بن گئے، آپؐ کے ساتھ ہجرت کرکے آنے والے مسلمانوں کو اپنے شہر میں اپنے ساتھ برابر کے حقوق دیے اور اپنے گھر، اپنے مال اور اپنی جائیدادوں تک کو ان کے لیے پیش کردیا۔

اسی چیز نے تاریخ کا رخ بدل ڈالا۔ اسلام کو ایک دعوت اور تحریک کے مقام سے اٹھا کر ایک معاشرے اور ریاست کی حیثیت دے دی، اور رسولؐ اللہ کو یہ موقع بہم پہنچا دیا کہ آپؐ ایک آزاد و خود مختار دارالاسلام میں اسلام کے ایک ایک پہلو کو عملی جامہ پہنا کر ساری دنیا کے سامنے یہ نمونہ پیش کردیں کہ اللہ وحدہٗ لاشریک کابھیجا ہوا یہ دین، کیسے افراد تیار کرتا ہے؟ کیسا معاشرہ بناتا ہے؟ کس قسم کی تہذیب اور کس قسم کا تمدن پیدا کرتا ہے؟ کیسی اخلاقی روح پورے معاشرے میں جاری و ساری کردیتا ہے؟ معیشت، معاشرت، تعلیم، سیاست، قانون اور عدالت کا کیسا نظام قائم کرتا ہے؟ جنگ میں اس کی تہذیب کیا ہے؟ فتح پاکر وہ مفتوحین کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے؟ معاہدے کرکے وہ ان کی کیسی پابندی کرتا ہے، اور بین الاقوامی تعلقات میں اس کا رویہ کیا ہے؟

[  سیرتِ سرورِ عالمؐ، دوم، ادارہ ترجمان القرآن، لاہور/ ماہ نامہ ترجمان القرآن، جون ۱۹۷۷ء]

ہر عبادت کا ایک ’ظاہر‘ ہوتا ہے اور ایک ’باطن‘۔

ظاہر سے مراد وہ عملی شکل ہے، جو کسی عبادت کو ادا کرنے کے لیے مقرر کی گئی ہے، اور باطن سے مراد وہ معنی ہیں، جو اس عملی شکل میں مضمر ہوتے ہیں اور جن کے اظہار کی خاطر عمل کی وہ خاص شکل مقرر کی جاتی ہے۔

مثال کے طور پر نماز کا ظاہر یہ ہے کہ آدمی قبلہ رُخ کھڑا ہو، رکوع کرے، سجدہ کرے، بیٹھے اور اِن ظاہری افعال سے نماز کی جو شکل قائم کی جاتی ہے، اُس سے مقصود دراصل اس معنی کا اظہار ہے کہ بندہ اپنے ربّ کے حضور بندگی کا اعتراف کرنے کے لیے حاضر ہوا ہے، اس کے مقابلے میں اپنی انانیت سے دست بردار ہورہا ہے، اس کی بڑائی اور اپنی عاجزی تسلیم کر رہا ہے، اور اس کے آگے اپنے وہ معروضات پیش کر رہا ہے، جو اس کی زبان سے ادا ہورہے ہیں۔

اب دیکھیے جو شخص نماز کی ظاہری شکل کو ٹھیک ٹھیک احکام و ہدایات کے مطابق قائم کردے، وہ بلاشبہہ ادائے نماز کی قانونی شرائط پوری کردیتا ہے۔ اس کے متعلق آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس نے نماز نہیں پڑھی، یا اس کے ذمے فرض باقی رہ گیا۔ لیکن آپ غور کریں گے تو خود محسوس کریں گے کہ نماز کا پورا پورا فائدہ وہی شخص اُٹھا سکتا ہے، جو نماز کے اعمال میں سے ہرعمل کرتے وقت اُس کی روح کو بھی نگاہ میں رکھے، اور نماز کے اذکار میں سے ہر ذکر کو زبان سے ادا کرتے ہوئے اس کے معنی کی طرف بھی متوجہ رہے۔(’خطباتِ حرم‘، سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۶۱، عدد۱، اکتوبر۱۹۶۳ء، ص ۳۴)

سوال : موجودہ قانون میں کورٹ میں اپیل کے بعد بھی اگر قاتل کو پھانسی کی سزا تجویز ہوجائے تو پھر صدر حکومت یا گورنر جنرل کے سامنے رحم کی اپیل ہوتی ہے، جس میں سزا کے تغیر کا امکان رہتا ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے یہ صورت کس حد تک جائز ہے؟

جواب :یہ بات اسلامی تصورِ عدل کے خلاف ہے کہ عدالتی فیصلے کے بعد کسی کو سزا کے معاف کرنے یا بدلنے کا اختیار حاصل ہو۔ عدالت اگر قانون کے مطابق فیصلہ کرنے میں غلطی کرے، تو امیر یا صدرِ حکومت کی مدد کے لیے پریوی کونسل کی طرز کی ایک آخری عدالت مرافعہ قائم کی جاسکتی ہے، جس کے مشورے سے وہ ان بے انصافیوں کا تدارک کرسکے، جو نیچے کی عدالتوں کے فیصلوں میں پائی جاتی ہوں۔ مگر مجرد ’رحم‘کی بناپر عدالت کے فیصلوں میں رد و بدل کرنا اسلامی نقطۂ نظر سے بالکل غلط ہے۔ یہ ان بادشاہوں کی نقالی ہے جو اپنے اندر کچھ شانِ خدائی رکھنے کے مدعی تھے یا دوسروں پر اس کا مظاہرہ کرنا چاہتے تھے۔(ترجمان القرآن، جون و جولائی ۱۹۵۲ء)

اسلامی نظام تعلیم

سوال :  پاکستان کے بقا و استحکام کے لیے اسلامی نظامِ تعلیم کی ضرورت و اہمیت کیا ہے؟

جواب : پاکستان کے بقا و استحکام کے لیے اسلامی نظامِ تعلیم کی ضرورت و اہمیت کا اندازہ اس حقیقت کو ذہن نشین کرلینے سے ہوسکتا ہے کہ ملک و قوم کی قیادت ہمیشہ تعلیم یافتہ طبقے ہی کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور اَن پڑھ یا نیم خواندہ طبقے اپنے قائدین ہی کے پیچھے چلتے ہیں۔ تعلیم یافتہ طبقے کے بنائو اور بگاڑ میں نظامِ تعلیم کو جو مقام حاصل ہے، وہ محتاجِ بیان نہیں ہے۔(ترجمان القرآن، جولائی ۱۹۷۷ء)

امام [ابوحنیفہؒ] کے نزدیک مسلم معاشرے اور اسلامی ریاست میں قضا [عدالت]کی آزادی کے ساتھ آزادیٔ اظہار رائے کی بھی بہت بڑی اہمیت تھی، جس کے لیے قرآن و سنت میں ’امربالمعروف ونہی عن المنکر‘ کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔

محض ’اظہارِ رائے‘ تو نہایت ناروا بھی ہوسکتا ہے، فتنہ انگیز بھی ہوسکتا ہے، اخلاق اور دیانت اور انسانیت کے خلاف بھی ہوسکتا ہے، جسے کوئی قانون برداشت نہیں کرسکتا۔ لیکن بُرائیوں سے روکنا اور بھلائی کے لیے کہنا، ایک صحیح اظہاررائے ہے اور اسلام یہ اصطلاح اختیار کرکے اظہارِرائے کی تمام صورتوں میں سے اسی کو مخصوص طور پر عوام کا نہ صرف حق قرار دیتا ہے بلکہ اسے ان کا فرض بھی ٹھیراتا ہے۔

امام ابوحنیفہؒ کو اس حق اور اس فرض کی اہمیت کا سخت احساس تھا کیونکہ ان کے زمانے کے سیاسی نظام میں مسلمانوں کا یہ حق سلب کرلیا گیا تھا اور اس کی فرضیت کے معاملے میں بھی لوگ مذبذب ہوگئے تھے۔ اُس زمانے میں ایک طرف مُرحِبَہ اپنے عقائد کی تبلیغ سے لوگوں کو گناہ پر جرأت دلا رہے تھے، دوسری طرف حَشْویہ اس بات کے قائل تھے کہ ’حکومت کے مقابلے میں امربالمعروف ونہی عن المنکر ایک فتنہ ہے‘، اور تیسری طرف بنی اُمیہ و بنی عباس کی حکومتیں طاقت سے، مسلمانوں کی اِس روح کو کچل رہی تھیں کہ وہ امراء کے فسق و فجور اور ظلم و جور کے خلاف آواز اُٹھائیں۔

اس لیے امام ابوحنیفہؒ نے اپنے قول اور عمل دونوں سے اس روح کو زندہ کرنے کی اور اس کے حدود واضح کرنے کی کوشش کی۔الجصاص کا بیان ہے کہ ابراہیم الصائغ(خراسان کے مشہور و بااثر فقیہ) کے سوال پر امامؒ نے فرمایا کہ ’امربالمعروف ونہی عن المنکر فرض ہے‘۔ اور عِکرمہ عن ابن عباس کی سند سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سنایا کہ ’’افضل الشہداء ایک تو حمزہؓ بن عبدالمطلب ہیں، دوسرے وہ شخص جو ظالم امام کے سامنے اُٹھ کر اسے نیک بات کہے اور بدی سے روکے اور اِس قصور میں مارا جائے‘‘۔ابراہیمؒ پر امامؒ کی اس تلقین کا اتنا زبردست اثر پڑا کہ وہ جب خراسان واپس گئے تو انھوں نے عباسی سلطنت کے بانی ابومسلم خراسانی (م:۱۳۶ھ/ ۷۵۴ء) کو اس کے ظلم و ستم اور ناحق کی خوں ریزی پر برملا ٹوکا اور باربار ٹوکا، یہاں تک کہ آخرکار اس نے انھیں قتل کردیا۔ (خلافت کے مسئلہ میں امام ابوحنیفہؒ کا مسلک، سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ، ترجمان القرآن، جلد۶۰، عدد۶، ستمبر ۱۹۶۳ء، ص ۲۳-۲۴)

سوال : آپ فرقہ پرستی کے مخالف ہیں مگر اس کی ابتدا تو ایک حدیث سے ہوتی ہے کہ ’’عنقریب میری اُمت ۷۲ فرقوں میں بٹ جائے گی جن میں سے صرف ایک ناجی ہوگا، جو میری اور میرے اصحاب کی پیروی کرے گا‘‘ (بلکہ شیعہ حضرات تو ’اصحاب‘ کی جگہ ’اہل بیت‘ کو لیتے ہیں)۔اب غور فرمایئے کہ جتنے فرقے موجود ہیں، سب اپنے آپ کو ناجی سمجھتے ہیں اوردوسروں کو گمراہ۔ پھر ان کو ایک پلیٹ فارم پر کیسے جمع کیا جاسکتا ہے؟ جب ایسا ممکن نہیں تو ظاہر ہے کہ یہ حدیث حاکمیت غیراللہ کی بقا کی گارنٹی ہے۔ بہت سے لوگ اسی وجہ سے فرقہ بندی کو مٹانے کے خلاف ہیں کہ اس سے حدیث نبویؐ کا ابطال ہوتا ہے۔

جواب :جس قسم کاسوال آپ نے کیا ہےاس پر اگر آپ خود اپنی جگہ غور کرلیتے تو آپ کو آسانی سے اس کا جواب مل سکتا تھا۔ احادیث میں مسلمانوں کے اندر بہت سے فتنے پیدا ہونے کی خبردی گئی ہے ، جس سے مقصود اہل ایمان کو فتنوں پر متنبہ کرنا اور ان سے بچنے کے لیے تاکید کرنا تھا، لیکن وہ شخص کس قدر گمراہ ہوگا جو صرف اس لیے فتنہ برپا کرنا یا فتنوں میں مبتلا رہنا ضروری سمجھے کہ احادیث میں جو خبر دی گئی ہے اس کا مصداق بننا ضروری ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے قرآن میں کہا گیا ہے کہ بہت سے انسان جہنمی ہیں، تو کیا اب کچھ لوگ جان بوجھ کر اپنے آپ کو جہنم کا مستحق بنائیں تاکہ یہ خبر ان کے حق میں سچی نکلے؟(ترجمان القرآن، مارچ ۱۹۴۶ء)

یہی شہر مکّہ ہے ، جس سے حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت الی اللہ کا آغاز فرمایا تھا، اور یہی صفا کی پہاڑی ہے جس پر کھڑے ہوکر حضورؐ نے سب سے پہلے قریش کے خاندانوں کو نام بہ نام پکار کر اللہ وحدہٗ لاشریک پر ایمان لانے کی تلقین فرمائی تھی۔اس شہر کے سرداروں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اِس دعوت کو دبادینے کے لیے اپنا سارا زور صرف کر دیا۔ یہ حرم کی زمین، یہ ابوقبیس کا پہاڑ،اور یہ مکہ کی گھاٹیاں، سب اس ظلم و ستم کے گواہ ہیں جو ۱۳سال تک حضورؐ اور آپؐ کے اصحابؓ پر توڑا گیا تھا۔ مگر آخرکار اُن سب لوگوں نے نیچا دیکھا، جنھوں نے دعوتِ محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کو نیچا دکھانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا تھا۔ دیکھ لیجیے، آج یہاں ابوجہل اور ابولہب کا نام لینے والا کوئی نہیں ہے، اور اس حرم کے میناروں سے پانچوں وقت اشھد انَّ محمدًا رسول اللہ کی آواز بلند ہورہی ہے....

یہی شہر مکّہ ہے، جس کے لوگوں سے حضوؐر نے اپنی دعوت کے ابتدائی زمانے میں فرمایا تھاکہ میں ایک ایسا کلمہ تمھارے سامنے پیش کر رہا ہوں، جسے اگر تم مان لو گے تو عرب اور عجم سب اس کی بدولت تمھارے تابع فرمان ہوجائیں گے، کَلِمَۃٌ وَاحِدَۃٌ تُعْطُوْنِیْہَا  تَـمْلِکُوْنَ بِھَا الْعَرَبُ وَتَدِیْنُ لَکُمْ بِھَا الْعَجَمُ۔قریش کے لوگ اس کے برعکس اپنی جگہ یہ سمجھ رہے تھے کہ اس کلمے کو ہم نے قبول کرلیا تو تمام عرب ہم پر ٹوٹ پڑے گا اور ہماری ریاست تو کیا، ہمارا وجود بھی یہاں باقی نہ رہ سکے گا۔ وہ کہتے تھے کہ اِنْ نَتَّبِعِ الْھُدٰی مَعَکَ نُتَخَطَّفُ مِنْ اَرْضِیْنَا ، ’اگر ہم تمھارے ساتھ اِس ہدایت کی پیروی اختیار کرلیں تو ہم اپنی جگہ سے اُچک لیے جائیں گے‘۔ لیکن اللہ کے رسولؐ کی زبانِ مبارک سے جو کچھ نکلا تھا وہ لفظ بلفظ پورا ہوکر رہا۔ قریش کے جن لوگوں نے حضوؐر کی یہ بات اپنے کانوں سے سنی تھی، انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ چند سال کے اندر عرب اور عجم سب خلافت ِ اسلامیہ کے تابع فرمان ہوگئے اور قریش ہی کے خلفاء اس عظیم الشان سلطنت کے فرماںروا ہوئے۔(’خطباتِ حرم‘ ، سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، ج۶۰، عدد۵، اگست ۱۹۶۳ء، ص۴۰-۴۲)