گیارہ مئی ۱۹۵۳ء، جب مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی کو مارشل لا عدالت نے سزائے موت سنائی، جو بعد میں عوامی اور عالمی دبائو کے سبب عمرقید بامشقت میں تبدیل ہوگئی۔ ۶۸برس بعد اس خبر سے منسلک جذبات، احساسات اور اُمور کو مولانا مودودی کے چند قریبی رفیقوں کی زبانی پیش کیا جارہا ہے۔ (س م خ)]
ہم لاہور جیل کے ’دیوانی گھروارڈ‘ کے صحن میں مولانا مودودی کی امامت میں نمازِ مغرب ادا کررہے تھے، جب پندرہ بیس افراد اور وارڈر صحن میں داخل ہوئے۔ نماز کے بعد ہم آنےوالوں کی طرف متوجہ ہوئے۔
ایک افسر ، جس کے ہاتھ میں فائل تھی، پوچھا: ’’ملک نصراللہ خان عزیز؟‘‘
ملک نصراللہ صاحب نے کہا: ’’مَیں ہوں‘‘۔
’’آپ کو روزنامہ تسنیم ۵مارچ ۱۹۵۳ء میں مولانا مودودی کا بیان چھاپنے کے جرم میں تین سال قید بامشقت کی سزا دی گئی ہے‘‘۔
پھر اسی افسر نے پوچھا : ’’سیّد نقی علی؟‘‘
نقی علی صاحب نے کہا: ’’مَیں ہوں‘‘۔
’’آپ کو مولانا مودودی کا پمفلٹ قادیانی مسئلہ چھاپنے کے جرم میں نو سال قید سخت کی سزا دی جاتی ہے‘‘۔
پھر وہ افسر مولانا مودودی کی طرف متوجہ ہوا:
آپ کو قادیانی مسئلہ لکھنے کے جرم میں موت کی سزا دی گئی ہے… آپ چاہیں تو سات دن کے اندر [پاکستان کی مسلح افواج کے]کمانڈر انچیف [جنرل محمد ایوب خان] سے رحم کی اپیل کرسکتے ہیں‘‘۔
مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی نے ایک لمحے کے توقف کے بغیر کہا:
’’مجھے کسی سے کوئی اپیل نہیں کرنی ہے‘‘۔
جیل کے ا فسروں نے ان تینوں حضرات سے کہا: ’’آپ لوگ جلدی تیار ہوجائیں۔ ملک نصراللہ خان اور سیّد نقی علی سزایافتہ قیدیوں کی بارک میں جائیںگے اور مولانا مودودی پھا نسی گھر میں‘‘۔
مولانامودودی صاحب نے جیل کے افسروں سے دریافت کیا: ’’کیا اپنا بستر اور کتب وغیرہ ساتھ لے لوں؟‘‘
انھوں نے جواب دیا کہ ’’بس ایک قرآنِ مجید چاہیں تو لے لیں اور کچھ نہ لیں۔ بستر، کپڑے آپ کو وہاں مل جائیں گے‘‘۔
چنانچہ مولانا نے چپل کے بجائے اپنا جوتا اور کپڑے کی ٹوپی کے بجائے اپنی قراقلی پہنی اور ہم لوگوں سے گلے مل کر اس طرح سے روانہ ہوگئے کہ گویا کوئی بات ہی نہیں۔ معمولاًایک احاطے سے دوسرے احاطے کی طرف جارہے ہیں۔
تھوڑی دیر بعد ایک وارڈر آیا اور وہ مولانا کی ٹوپی،قمیص، پاجامہ اور جوتا سب کپڑے واپس دے گیا۔ ہمارے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ ’’انھیں جیل کے قاعدے کے مطابق کھدر کا کُرتا اور آزاربند کے بغیر کھدر کاپاجامہ اور پھانسی گھر میں فرشی ٹاٹ کا بستر دے دیا گیا ہے۔ وہاں وہ اپنے کپڑے اور آزاربند والا پاجامہ رکھ بھی نہیں سکتے‘‘۔
سزائے موت کے اس انتہائی فیصلے سے پوری جیل پر ایک دہشت اور خاموشی طاری تھی اور اب رات کے سائے گہرے ہورہے تھے۔ دیوانی گھر وارڈ میں مولانا امین احسن اصلاحی، چودھری محمد اکبر اور مَیں، یعنی تین آدمی ہی رہ گئے تھے۔
مولانا مودودی صاحب کے ان پارچات کا آنا تھا کہ ان کو دیکھتے ہی مولانا امین احسن اصلاحی صاحب پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوگئی۔ وہ ان پارچات کو کبھی آنکھوں سے لگاتے اور کبھی سینے سے اور کبھی سر پر رکھتے۔ زاروقطار روتے ہوئے فرمایا: ’’مودودی کو مَیں بہت بڑا آدمی سمجھتا تھا، لیکن مجھے یہ اندازہ نہیں تھا کہ خدا کے ہاں اس کا اس قدر بلند مرتبہ ہے‘‘۔
ان کو دیکھ کر چودھری محمد اکبر صاحب بھی دھاڑیں مارمار کر رونے لگے، اور معاً مجھے بھی یہ احساس ہوا کہ پھانسی کے حکم کے کسی عدالت کے رُوبرو قابلِ اپیل نہ ہونے اور مولانا مودودی کی طرف سے رحم کی اپیل کی پیش کش کو صاف مسترد کردینے کے نتائج کیا ہوسکتے ہیں؟
یہ احساس ہوتے ہی مَیں بیرک سے نکل کر صحن کے ایک کونے میں چلا گیا اور پھر ہچکی بندھ گئی۔ رات کا بیش تر حصہ اسی حالت میں کٹ گیا۔
اگلے روز جیل کے وارڈروں کی زبانی مولانا مودودی کی رات بھر کی کیفیت یہ معلوم ہوئی کہ وہ پھانسی گھرگئے۔ پھا نسی کے مجرموں والے کپڑے انھوں نے زیب تن کیے۔ کوٹھڑی کے جنگلے سے باہر رکھی ہوئی پانی کی گھڑیا سے وضو کیا، عشاء کی نماز پڑھی اور زمین پر بچھے ہوئے دوفٹ چوڑے اور ساڑھے پانچ فٹ لمبے ٹاٹ کے بستر پر پڑ کر ایسے سوئے کہ رات بھر ان کے خراٹے سن سن کر پہرے دار حیرت میں ڈوبے رہے کہ ’’یااللہ، عجیب شخص ہے جو پھانسی کا حکم پاکر ایسا مدہوش ہوکے سویا ہے کہ گویا اس لمحے اس کے سارے فکر اور تردّد دُور ہوگئے ہیں‘‘۔
[سزائے موت سنائے جانے سے چار روز پہلے فوجی عدالت میں ۷مئی ۱۹۵۳ء کو اپنے بیان کے ابتدائی حصے میں مولانا مودودیؒ نے بتایا]:
۲۷اور ۲۸مارچ [۱۹۵۳ء] کی شب کو میرے مکان پر اچانک چھاپہ مارا گیا اور نہ صرف مجھے گرفتار کیا گیا بلکہ پولیس نے میرے مکان کی اور جماعت اسلامی کے مرکزی دفتر کی پوری تلاشی لینے کے بعد میرے ذاتی حسابات اور جماعت کے حسابات کےتمام رجسٹروں پر، اور میرےاور جماعت کے دوسرے کاغذات پر قبضہ کرلیا۔ نیز جماعت کے بیت المال کی پوری رقم بھی اپنی تحویل میںلے لی۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ شہرلاہور میں جماعت اسلامی کے بارہ ذمہ دار کارکنوںکو بھی اسی رات گرفتار کیا گیا۔
اس کے بعد ایک مہینہ چھے دن تک جماعت کے حسابات اور دوسرے ریکارڈ کو خوب اچھی طرح خوردبین لگالگا کر دیکھا گیا۔ مجھ پر اور جماعت کے دوسرے کارکنوں پر قلعہ لاہور میں لمبا چوڑا Interrogation ہوتا رہا۔ جس کے سوالات کا انداز صاف بتارہا تھا کہ تحقیقات اس بات کی کی جارہی ہیں کہ جماعت کے فنڈز کہاں سے فراہم ہوتے ہیں، اور بیرونی حکومتوں سے تو جماعت کا تعلق نہیں ہے؟ یہ سب کچھ ہوجانے کے بعد اب اس عدالت کے سامنے دومقدمے میرے خلاف پیش کیے گئے ہیں،[۱] جن میں سے ایک [پمفلٹ] قادیانی مسئلہ کی اشاعت کے متعلق اور دوسرا میرے ان بیانات کے متعلق ہے، جو آخر فروری اور ۷مارچ ۵۳ء کے درمیان مَیں نے پریس کو دیئے۔
اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ دراصل مقصد تو مجھ پر اور جماعت اسلامی پر کچھ دوسرے ہی سنگین الزامات لگانا تھا، مگر جب کوئی چیز ایسی ہاتھ نہ آئی ،جن پر گرفت کی جاسکتی تو اب مجبوراً یہ دو مقدمے بنا کر پیش کیےگئے ہیں۔ ورنہ ظاہرہے کہ اگر میرے ’گناہ‘ صرف وہی دو تھے جو پیش کیے جارہے ہیں، تو ان میں سے کسی کے لیے بھی جماعت کے حسابات اوردوسرے ریکارڈ پر اور جماعت کے بیت المال پر قبضہ کرنے کی کوئی حاجت نہیں تھی۔
جماعت اسلامی نے ابتدا سے آج تک اپنے سامنے ایک ہی نصب العین رکھا ہے، اور وہ یہ ہے کہ زندگی کے پورے نظام کو اس کے اخلاقی، معاشرتی، معاشی اور سیاسی پہلوئوں سمیت اسلام کے اصولوں پر قائم کیا جائے۔ اس نصب العین کے لیے اپنی جدوجہد میں آج تک جماعت اسلامی نے کبھی کوئی غیر آئینی اور فساد انگیز طریق کار اختیار نہیں کیا.....
رات ہی رات میں تقریباً ساری جیل میں یہ خبر پھیل گئی تھی، مگر ہم اس خبر سے بالکل بے خبررہے،یا بے خبر رکھے گئے۔
میں سوچ رہا تھا کہ ، آہ! کیا آخری گھڑی آگئی؟ کیا دین کے دیے اب یہاں گُل کر دیے جائیں گے؟ کیا واقعی ہمارے ملک میں دشمنانِ دین کی حقیر اقلیت کے نمایندے اتنی قوت رکھتے ہیں کہ مولانا مودودی کےگلے میں پھانسی کا پھندہ ڈال دیں؟
مگر معلوم نہیں کیسے،اگلے ہی لمحے دل میں نئے جذبے نے کروٹ لی، خیال آیا کہ یہ لوگ مولانا مودودی کو پھانسی دے بھی ڈالیں، تو کیا یہ مودودی کے پیغام اور فکر کو بھی پھانسی دے سکتے ہیں جو گھر گھر پہنچ چکا ہے، اور جس نے نوجوان نسل کو مغرب کی مرعوبیت سے نکال کر دین حنیف کے حلقۂ اثر میں لے لیا ہے۔ اب مودودی کا پیغام موجودہ دور کی تاریخ کی رگوں کے اندر اُتر چکا ہے۔ اس کے خیالات اس کے مخالفین تک کے ذہنوں میں بولتے ہیں۔ اس کی اصطلاحات، اس سے حسد کی آگ میں جلنے والوں تک کا جزوِ دماغ ہوچکی ہیں۔ اس کی آواز کی گونج اب دُور دُور تک سنائی دیتی ہے۔ جس تحریک کو اس نے اپنے پسینے سے پرورش دی ہے، اگر اس کی جڑوں کو اس کے خون کے قطروں سے سیراب کردو گے، تو وہ آناًفاناً ایک تناور درخت بن جائےگی۔ اس کی موت، اس کے پیغام کو زندہ تر کردےگی۔
یہ سوچتے سوچتے ہم ’دیوانی گھر‘ کے پاس آپہنچے۔ دروازہ کھٹکھٹایا۔ مولانا اصلاحی، چودھری محمداکبر، میاں طفیل محمد سبھی دروازے پرآگئے۔ تاثرات کا دوطرفہ یہ عالم تھا کہ نہ ہم بات میں پہل کرنا چاہتے تھے اور نہ وہ حضرات اس ذکر کو چھیڑناچاہتے تھے۔ ہماری نگاہوں ہی نگاہوں نے استفسار کیا اور ان کی نگاہوں ہی نگاہوں نے خبر کی تصدیق کردی۔
[۱۲مئی ۵۳ء کی صبح، امیر جماعت کراچی کی حیثیت سے بیان دیا]:
’’اگر اسلامی نظام کے نفاذ کا مطالبہ ’جرم‘ ہے ، تو حقیقت یہ ہے کہ پاکستان ’اسی جرم‘ کے ارتکاب کے لیے وجود میں لایا گیا ہے۔ ہم دو ٹوک الفاظ میں واضح کردینا چاہتے ہیں کہ نظامِ اسلامی کے قیام کی جدوجہد کو پُرمن اور آئینی حدود میں رہتے ہوئے ان شاء اللہ آخری سانس تک جاری رکھا جائےگا، چاہے اس راہ میں کسی قسم کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے‘‘۔
۱۲مئی کی صبح، اباجان نے جیل کی آہنی سلاخوں کے پیچھے سے میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا:
بیٹا، ذرا نہ گھبرانا۔ اگر میرے پروردگار نے مجھے اپنے پاس بلانا منظور کرلیا ہے، تو بندہ بخوشی اپنے ربّ سے جاملے گا۔ اور اگر اس کا ابھی حکم نہیں، تو پھر چاہے یہ اُلٹے لٹک جائیں، مجھ کو نہیں لٹکا سکتے۔
محترم شیخ سلطان احمد صاحب کے ہمراہ یہ ملاقات ہوئی تھی، ان سے مخاطب ہوکر اباجان نے کہا:’’بھائی، میرا مسلک آپ کو معلوم ہے۔ میرے نزدیک ان لوگوں سے، جو میرا اصل جرم خوب جانتے ہیں، معافی کا طلب گار بننے سےیہ زیادہ قابلِ برداشت ہے کہ آدمی پھانسی پر لٹک جائے‘‘۔
مزید فرمایا: ’’زندگی اور موت کے فیصلے زمین پر نہیں آسمان پر ہوتے ہیں۔ اگر وہاں میری موت کا فیصلہ ہوچکا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت مجھے موت سے نہیں بچاسکتی۔ اور اگروہاں فیصلہ نہیں ہوا تو دُنیا کی کوئی طاقت میرا بال بھی بیکا نہیں کرسکتی‘‘۔
میں اس زمانے میں بطور طالب علم ایم اے کی تیاری کے لیے، اسلامی جمعیت طلبہ سے، جس کی کراچی کی شاخ اور حلقہ سندھ کا مَیں ناظم تھا، ۲۴دن کی چھٹی لے کر پوری یکسوئی کے ساتھ پڑھنے میں لگا ہوا تھا کہ اسی دوران ۱۲مئی کی صبح روزنامہ Dawn گھر آیا، تو اس کے صفحۂ اوّل پر نمایاں سرخی تھی: Maududi to Die
میرے لیے سزا کی اطلاع کا ذریعہ اخبار کی یہی خبر تھی۔ جس وقت میں نے یہ خبر پڑھی تو پہلا تاثر یہ تھا کہ ’’یہ خبر غلط ہے، ایسا نہیں ہوسکتا‘‘۔ پھر خیال آیا: ’’یہ تم کیا کہتے ہو، جفاکار اقتدار نے منصوبے تو ہمیشہ ایسے ہی بنائے ہیں‘‘۔ پھر دل بیٹھنے لگا تو آنکھوں کی برکھا نے دل کا ساتھ دیا۔
کیفیت عجیب تھی، سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے؟___ اور عقل کہتی تھی کہ ’’ہاں، کیوں نہیں ہوسکتا۔ بارہا ایسا ہوا ہے اور اگر آج بھی یہی ہونے جارہا ہے، تو کون سی عجیب بات ہے‘‘۔ لیکن دل کہتا تھا کہ ’’نہیں، ایسا ہونہیں سکے گا، وہ ملک جو اسلام کے نام پر بناہے، کیسے ہوسکتا ہے کہ اس میں اسلام کے ایک خادم کو پھانسی دے دی جائے؟‘‘
انھی خیالات میں غلطاں و پیچاں تھا کہ والدہ محترمہ نے پکارا۔ میری آنکھوں میں تیرتے آنسو دیکھ کر وہ بہت زیادہ پریشان ہوگئیں۔ پوچھا: ’’کیا ہوا ہے؟‘‘ مجھے زبان سے الفاظ ادا کرنے کی ہمت نہ ہوئی تو میں نے لرزتے ہاتھ سے اخبار ان کے آگے کر دیا،اور انھوں نے پڑھ لیا۔
کتابیں بند کرکے میں نے کپڑے بدلے اور اجازت لے کر باہر نکلنے لگا تو والدہ سخت پریشانی کے عالم میں مجھ سے باربار پوچھ رہی تھیں: ’’کیا کرنا ہے؟‘‘ میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیںتھا، مگر تحت الشعور میں جگر مراد آبادی کے یہ اشعار تھے:
یہ سنتا ہوں کہ پیاسی ہے بہت خاکِ وطن ساقی
خدا حافظ چلا میں باندھ کر دارورسن ساقی
سلامت تُو ،ترا میخانہ ، تیری انجمن ساقی
مجھے کرنی ہے اب کچھ خدمت دار و رَسن ساقی
اسلامی جمعیت طلبہ کے دفتر ۲۳، اسٹریچن روڈ پر خرم، راجا، منظور، عمر، انور، مرغوب، محمد میاں دوسرے احباب سے ملاقات ہوئی۔ سب ایک جیسے ذہنی اور جذباتی سفر میں وہاں جمع ہوگئے تھے۔ چندمنٹ کی گفتگو کے بعد منصوبہ یہ بنا کہ عوام سے ہڑتال کی درخواست کی جائے اور ہم سب اس کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ لوگ بھی عجیب عالم میں تھے۔ یہ جذبات و احساسات میں یگانگت کا عالم تھا۔ ہمیں ہڑتال کے لیے کوئی خاص کوشش نہیں کرنا پڑی۔ ہم جہاں جاتے، لوگوں کو پہلے ہی سےآمادہ پاتے۔ پاکستان کے دارالحکومت کراچی میں مکمل ہڑتال ہوئی۔ یہ احتجاج کا پہلا بھرپور اظہار تھا۔ داعی تحریک اسلامی کے لیے اس سزا کے اعلان نے فکروعمل کی یکسوئی کا جوسوال پیش کیا تھا، ہم سب یکسوئی کے ساتھ اس کا جواب دینے کے لیے ہم قدم اور یک زبان تھے۔
ہم وطنوں کے جس سوال کا ہم سامنا کررہے تھے، وہ یہ تھا کہ ’’مولانا مودودی کے لیے یہ سزا کیوں؟ اور اگر اسلامی نظام کا مطالبہ ہی اس سزا کی بنیاد ہے تو پھر مولانا یہ سزا پانے والے پہلے فرد تو ہوسکتے ہیں آخری کیوں کر ہوں گے؟‘‘
میں ڈھاکا میں دفتر جماعت سے دو تین میل دُور مقیم تھا، اور جماعت اسلامی مشرقی پاکستان کا قیم تھا، جب کہ امیرچودھری علی احمد خان صاحب تھے، جو مارشل لا کےتحت مولانا محترم کی گرفتاری کی خبرسننے کےبعد مغربی پاکستان تشریف لےگئے تھے اور ابھی تک واپس نہیں آسکے تھے کہ ۱۲مئی کی صبح کو ہمیں یہ خبر ملی۔یہ خبر ہم میں سب سے پہلے مولانا عبدالرحمٰن صاحب نے ریڈیو پر سنی اور فوراً دفتر میں پہنچے۔ وہاں منیرالزمان صاحب یہ اطلاع ملتے ہی میری طرف روانہ ہوگئے۔
منیر الزماں صاحب کے اس وقت آنے پر مجھے کچھ اچنبھا سا محسوس ہوا۔ باہر نکلا تو انھوں نے کہا: ’’ریڈیو سے اعلان ہوا ہے کہ مولانا مودودی کو موت کی سزا کا حکم سنایا گیا ہے اور یہ فیصلہ فوجی عدالت نے…‘‘۔ منیرالزمان صاحب کچھ اور بھی کہہ رہے تھے، لیکن میرے لیے یہ خبر ’’مولانا مودودی کو موت کی سزا‘‘ پر آکر ختم ہوچکی تھی کہ یہ ایک مکمل خبر تھی۔ آگے میں کچھ نہ سننا چاہتا تھا اور نہ کچھ سنائی دیا۔ منیرالزمان صاحب میری طرف دیکھ رہے تھے۔ میں فوراً سنبھل گیا۔
اب ہم دفتر جماعت اسلامی کی طرف آرہے تھے۔ اس لمحے ایک دم بہت سے سوالات ذہن میں آگئے: کیا تحریک اسلامی اسی لیے اُٹھی تھی کہ یوں ختم کردی جائے؟ کیاداعی تحریک کی زندگی کا خاتمہ واقعی اس قدر قریب آگیا ہے؟ کیا یہ فیصلہ نافذ ہوکر رہے گا؟ یہ سوالات یکے بعد دیگرے تیزی سے یلغار کر رہے تھے۔ لیکن میرے اندر کی معلوم نہیں کون سی دُنیا سے، ہربار اور ہرسوال کا جواب ’نہیں‘ کی صورت میں پلٹ رہا تھا۔ دل و دماغ کا یہی جواب تھا کہ ’’ایسا نہیں ہوسکتا‘‘۔
اس روز مولانا ظفر احمدعثمانی صاحب اورمولانا مفتی دین محمد صاحب ڈھاکا میں موجود تھے۔ ہم ان کے پاس گئے۔ انھیں یہ اطلاع مل چکی تھی اور ان کے احساسات کا عالم بھی وہی تھا جو ہمارا تھا۔ مولانا ظفراحمد عثمانی صاحب کے الفاظ تھے: ’’یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم جیسے لوگ دُنیا میں رہیں اور سیّد کا گلا کاٹ دیا جائے۔ اگر ایسا ہونے جارہا ہے تو ہم اپنی گردنیں پیش کردیں گے‘‘۔
عشاء کے بعد مولانا مفتی دین محمد صاحب کی صدارت میں ڈھاکا شہر کی سب سے بڑی مسجد میں احتجاجی جلسۂ عام ہوا۔اس جلسے میں مولانا ظفراحمد عثمانی صاحب اور میری تقریر کے بعد سزائے موت کی تنسیخ کے لیے قرارداد منظور ہوئی اور اعلان ہوا کہ ’’۱۴مئی کو پلٹن میدان میں جلسہ ہوگا‘‘۔
چاٹگام، کھلنا، کشتیا، باری سال اور دوسرے مقامات پر بھی جماعت کے کارکنان احتجاج میں مصروف کار تھے۔ دن تاریکی میں داخل ہوچکا تھا مگر نگاہیں بدستور روشنی کی راہ ڈھونڈ رہی تھیں۔
مولانامودودی صاحب کو پھانسی کی سزا کی خبر ہمیں ملتان جیل میں ملی، اور چندسیکنڈ کے اندر پوری جیل میں پھیل گئی۔ خبر کانوں میں پہنچنےکے بعد پہلے دل پر اثرانداز ہوئی اور پھر دماغ پر۔ دل نے کہا: ’’اب جینابے کار ہے‘‘۔ دماغ نے سوچنے کی کوشش کی: ’’اب کیا ہونا چاہیے؟‘‘
پھر ایسامعلوم ہواجیسے جیل کی دیواریں بلندہونا شروع ہوگئی ہیں، اور میں بے بسی کے عالم میں ڈوب رہاہوں، اور یہ تاثر اتنا شدید تھا کہ بیان نہیں کرسکتا۔ اسی دوران گوجرانوالہ کے ایک قیدی محترم مولانا محمد اسماعیل صاحب آئے۔ میرے کندھے پر ہاتھ رکھا، ہمدردی بھری نگاہوں سے دیکھا، اور مجھے کچھ کہے بغیر وہیں کھڑے قیدیوں کی طرف متوجہ ہوکر کمال درجہ یقین سے مختصراً خطاب فرمایا:
جب اللہ تعالیٰ کسی شخص کے درجات کو بلند کرتاہے تو اس پر بظاہر آفتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ اس شخص کو بخیروخوبی آفتوں سے نکال لیتاہے اور ظالموں کا ظلم اس شخص کے درجات کی بلندی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ ہمیں خضوع و خشوع سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دُعا مانگنا چاہیے۔ سب دیکھیں گے کہ ظالموں کی رُسوائی کاانتظام ہوگا اورمولانا مودودی دین کی خدمت کے لیے بچ جائیں گے۔
ہم دُعا میں مشغول ہوگئے۔ ایسی کیفیت میں دُعا کہ ربّ العالمین کی بارگاہ میں حاضری کا احساس ہوا، اور پھر جیسے زخموں پر کوئی مرہم رکھ کر کہہ رہا ہو کہ ’’زندگی اور موت تواللہ تعالیٰ نے اپنے قبضے میں رکھی ہے، اگر یہ اختیار انسانوں کے پاس ہوتا تو دنیا میں انسان ہوتے ہی کہاں؟‘‘
کشتیا ٹائون میں ’پاکستان تمدن مجلس‘ کی سالانہ کانفرنس ہورہی تھی کہ یہ خبر وہاں پہنچی: ’’فوجی عدالت نے مولانا مودودی کو سزائے موت سنا دی ہے‘‘۔ میں اس سزا کے پس منظر اور سزا پانے والے کی شخصیت سے بھی لاعلم تھا اور اس سے بھی بے خبر تھا کہ جماعت اسلامی نام کی کوئی تحریک موجود ہے جو اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے کام کررہی ہے۔ صرف مکتبہ جماعت اسلامی کا نام سن رکھا تھا اور یہ سمجھتا تھا کہ یہ دین کی خدمت کرنے والا کوئی اشاعتی ادارہ ہے۔
جس وقت مولانا مودودی صاحب کے لیے سزائے موت کے فیصلے کی خبر ’پاکستان تمدن مجلس‘ کے اجلاس میں پہنچی، جس کا مَیں کا رکن تھا، تو مجلس کے بعض ارکان: جناب ابوالقاسم، مولانا سخاوت الانبیاء اور مولانا عبدالغفور صاحبان نے اپنی تقاریر میں اسلامی دستور کے لیے جماعت اسلامی کی مہم اور خدمات کا ذکر کیا۔ اس طرح مجھے جماعت اسلامی پاکستان، مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی اور ان کے مشن کے بارے میں چند سرسری سی معلومات حاصل ہوئیں۔
ان دنوں میں رنگ پور کالج میں پڑھا رہا تھا۔ چونکہ شروع سے دینی ذوق رکھتا تھا، اس لیے تبلیغی جماعت اور تمدن مجلس دونوں سے منسلک تھا۔ تبلیغی جماعت میں سیاسیات، معاشیات اور زندگی کے دوسرے شعبوں کا کوئی ذکر نہیں ہوتا تھا اور تمدن مجلس میں باقی سب موضوعات تھے، مگر نماز، روزے کی کمی تھی۔ میں ان دونوں سے وابستہ ہوکر اپنی پیاس بجھانے کی کوشش کررہا تھا۔ کسی بڑے تعارف کے بغیر ایک عام مصنف کے طور پرمولانا مودودی کے خطبے ’دینِ حق‘ کا بنگلہ ترجمہ پڑھ چکا تھا۔ سزائے موت کی خبر سننے کے اگلے چند ماہ کے دوران مولانا مودودی صاحب کی کچھ مزید کتابیں پڑھیں۔ چونکہ کالج کی میلادکمیٹی کا صدرتھا، اس لیے مَیں نے جلسوں میں مٹھائی کے بجائے اسلامی لٹریچر کی تقسیم کے سلسلے کا آغاز کیا۔
رنگ پور ہی میں ۱۹۵۴ء میں مولانا عبدالخالق صاحب سے جمعہ کے روز ایک مسجد میں ملاقات ہوئی۔ اعلان ہوا کہ جماعت اسلامی کی طرف سے مولانا عبدالخالق صاحب اورتبلیغی جماعت کی طرف سے غلام اعظم خطاب کریں گے۔ مولانا عبدالخالق صاحب نے اپنی تقریر میں کہا کہ ’’ہمیں اسلام کے لیے جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ آج اسلام کو جس کش مکش سے گزرنا پڑرہاہے، اس میں ہمیں اپنے بنیادی فرض کو سمجھنا چاہیے‘‘۔ میں نے اپنی تقریر میں کہا کہ ’’پہلے لوگوں کو صحیح کلمہ توپڑھنا بتایئے ،پھرانھیں اسلامی کتاب پڑھایئے‘‘۔
لیکن یہ بات یہاں ختم نہیں ہوگئی۔مولانا عبدالخالق صاحب نے رخصت ہونے سے پہلے مجھے دو سوالات پر غور کرنے کی دعوت دی:
پہلا سوال یہ تھا کہ ’’آپ بھی کلمۂ طیبہ اور کلمۂ شہادت کی تبلیغ کرتے ہیں ، ہم بھی کرتے ہیں۔ لیکن کوئی مصلح تودرکنار کوئی نبی بھی ایسا نہیں تھا کہ اس نے دین کی دعوت دی ہو اور وقت کےاقتدار نے اسے برداشت کرلیا ہو۔ مگر آپ جو دعوت دیتے ہیں کوئی اقتدار اور کوئی صاحب ِ اقتدار اس سے کبھی برافروختہ نہیں ہوا؟ ذرا سوچیے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟‘‘
ان کا دوسرا سوال یہ تھا کہ ’’آج بھی جب دین کی مؤثر دعوت دی جاتی ہے توہرقوت اسے کچلنے کے لیے آگے بڑھنے لگتی ہے۔ آپ تمام حقائق کا مطالعہ کرکے بتائیں کہ مولانا مودودی کے لیے پہلے سزائے موت اور پھر موت کی سزا عمرقید بامشقت میں بدلنے کا کیا جواز ہوسکتا ہے؟‘‘
مولانا عبدالخالق صاحب تو چلتے ہوئے سوال کرکے چلے گئے، لیکن میں بے چینی کے سمندر میں جاگرا۔ جوچیز مجھے بار بار بے چین کر رہی تھی، وہ یہ کہ اگر میں اب تک حق کی جدوجہد کے لیے وقف رہا ہوں توایسا کیوں ہے کہ سارے سفر میں ایک کانٹا بھی میرے پائوں میں نہیں چبھا؟ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ باطل نے مجھے ایک بے ضرر انسان سمجھ کر میرے کام سے یہ سمجھوتہ کرلیا ہے کہ ’’مجھے نہ چھیڑو، مجھے میری راہ پر چلنے دو، میں تم سے کوئی واسطہ نہیں رکھوں گا؟‘‘ لیکن بڑا سوال یہ ہے کہ جسے باطل بے ضرر سمجھ لے وہ حق کیوں کر ہوسکتا ہے؟ اگر میری موجودہ مصروفیات اور جدوجہد ہی حق کو سربلندکرنے کا ذریعہ ہوسکتی ہے تو باطل نے مجھے نظرانداز کیسے کر دیا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ ان سوالات اور پھر داخلی دُنیا میں جوابات نے میری نیند اچاٹ کر دی۔ بھوک پیاس کسی چیز کا خیال نہ رہا۔ پندرہ دن اسی حالت میں گزر گئے۔ میری بے اطمینانی اور پریشانی کی حالت دیکھ کر جب تین چار احباب نے مجھ سے گفتگو کی اور میں نے اپنے دل کا درد ان کے سامنے رکھا، تو وہ بھی اسی کیفیت میں مبتلا ہوگئے۔
اسی دوران ایک روز مولانا عبدالخالق صاحب کا مختصر سا خط آیا کہ ’’جماعت اسلامی کی دوروزہ کانفرنس گائے باندھا کے مقام پر منعقد ہورہی ہے، آپ اس میں شرکت کریں‘‘۔میں کانفرنس میں شریک ہوا۔کانفرنس ختم ہوئی تو اسی کمرے میں مختلف حضرات سے گفتگو شروع ہوئی۔ رات کے تین بج گئے تو باقی گفتگو کو نمازِفجر کےبعد تک ملتوی کرکے سونے کی تیاریاں کرنے لگے۔ دوسرے حضرات سوگئے، لیکن میری نیند ایک بار پھر اُچاٹ ہوچکی تھی۔
اسی کمرے میں جماعت اسلامی کے ایک معمر رکن شیخ امین الدین صاحب (بہار) بھی موجود تھے۔ وہ میری حالت کو دیکھ رہے تھے۔جب کروٹیں بدل بدل کر کسی طرح نیند نہ آئی تو مَیں اُٹھا اور تہجد پڑھنے لگا۔ دُعا کے وقت میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ میں باربار کہہ رہا تھا:
’’یااللہ! میری رہنمائی کر۔ یااللہ! میری رہنمائی کر‘‘۔
نمازِ فجر کے بعد جب ہم سب گفتگو کے لیے اکٹھے ہوئے تو شیخ امین الدین صاحب نے کوئی بات کیے بغیر میرے سامنے متفق کا فارم رکھ دیا۔ میں نے پڑھا اور بلاتامل فارم پُرکرکے دستخط کردیئے۔ یہ ۲۲؍اپریل ۱۹۵۴ء کا دن تھا۔ اس کے بعد سب کچھ بہت تیزی سے ہوتا چلا گیا۔ میں نے وہیں سے ’پاکستان تمدن مجلس‘ کو استعفیٰ بھیج دیا۔ پھر جماعت کے ایک پندرہ روز تربیتی پروگرام میں شرکت کی۔ متفق بننے کے ڈیڑھ ماہ کے دوران میں رکنیت کی درخواست تحریر کی۔
۱۹۵۴ء ہی میں میجر جنرل سکندر مرزا، مشرقی پاکستان کے گورنر [۲۹مئی - ۲۳؍اکتوبر] بن کر آئے۔ ان کی آمدسے پہلے تک وہاں جماعت اسلامی کے خلاف کوئی اقدام نہیں ہواتھا۔ مگر سکندرمرزا صاحب نے آتے ہی یہ کام شروع کر دیا اور نچلی سطح تک مختلف کمیٹیاں بن گئیں۔ جماعت کے خلاف شکنجہ کسنےکے جس کام کا آغاز مرزا صاحب نے شروع کیا تھا، ان کی گورنری ختم ہونے کے بعد بھی وہ کام ایک ’مقدس ذمہ داری‘ کے طور پر خفیہ پولیس اور انتظامیہ نے جاری رکھا۔
مجھے کالج کے پرنسپل اور سینیر اساتذہ کی کمیٹی نے طلب کرکے کہا کہ ’’کالج چھوڑدو یا پھر جماعت کا کام چھوڑدو‘‘۔میرا جواب بہت واضح نفی میں تھا۔ فروری ۱۹۵۵ء میں مجھے گرفتار کرلیا گیا۔ گرفتاری پر کالج میں ہنگامہ ہوگیا اورپھر ہڑتال۔ ۲۱طلبہ گرفتار کرلیے گئے۔ مجھے کالج سے الگ کر دیا گیا۔ ہنگامہ اور بڑھا تو کالج بند کر دیا گیا۔
جیل کے یہ دوماہ میرے لیے تربیت کا زمانہ ثابت ہوئے۔ اُدھر مولانا مودودی مغربی پاکستان کی کسی جیل میں عمر قید کاٹ رہے تھے، اِدھر مَیں مشرقی پاکستان کی ایک جیل میں اس مختصر مدت کی قید کا سامنا کر رہا تھا۔ ان لمحات نے مجھے مولانا مودودی کے بہت قریب کردیا تھا۔ اسی احساس کے تحت میں نے ان دنوں امیرجماعت اسلامی مشرقی پاکستان کو خط میں لکھا: ’’ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیل میں دیوارکے اِس طرف مَیں ہوں اور دوسری طرف مولانا مودودی ہیں‘‘۔
مَیں ابھی جیل ہی میں تھا کہ ایک روز سیّد اسعدگیلانی صاحب ملنے آئے اوربتایا: ’’آپ کو جماعت اسلامی کا رکن بنا لیا گیا ہے‘‘۔ اپریل ۱۹۵۵ء کے دوران جب جیل سے رہا ہوا، تو مجھے جماعت اسلامی راج شاہی ڈویژن کا قیم مقرر کردیا گیا۔ جون ۱۹۵۵ء میں، مَیں نے پہلی مرتبہ مولانا مودودی کو دیکھا۔ یقین نہیں آتا تھا کہ اتنا سادہ سا آدمی، اندر سے اتنا زبردست انسان بھی ہوسکتا ہے۔ یہ سادہ سا انسان وہی تو تھا، جس نے موت کے چہرے پر پوری بے خوفی کے ساتھ نگاہ ڈالی اور اس کی یہی بےخوفی ہم سب کا سرمایہ، سرمایۂ افتخار بن گئی۔
یہ ۱۵مئی ۱۹۵۳ء کی رات تھی۔ وزیراعظم پاکستان کا جہاز رات کو آٹھ بجے آنےوالا تھا، لیکن معلوم ہوا کہ وہ تاخیر سے آئے گا، یعنی رات بارہ بجے۔ کراچی کےعوام اپنی وارفتگی کے اظہار کے لیے ایئرپورٹ پر جمع تھے۔ ایک مطمئن اضطراب فضا میں لہریں پیدا کر رہا تھااور ایک بے چین طوفان سینوں میں مچل رہا تھا۔
اسٹارگیٹ سے ایئرپورٹ بلڈنگ تک سڑک کےدو طرفہ، تار کے ایک سوبائیس کھمبے تھے، جن میں ۶۶ فلڈ لائٹ پوسٹ تھے۔ ہرکھمبے پر بجلی کی لمبی لمبی فلورسنٹ ٹیوب لائٹ لگی ہوئی تھیں۔ انھی کھمبوں کے نیچے ۶۶طوفان پوشیدہ تھے۔ کسی کو خبر بھی نہ تھی کہ تھوڑی دیرمیں اس سڑک پر احتجاج کا ایک طوفان ٹھاٹھیں مارنے والا ہے: سنجیدہ، متین اور یادگار طوفان، زندہ، پُرجوش اور باعزم طوفان۔ کسی کو کیا خبر تھی کہ کھمبوں کے ان روشن سایوں میں متفرق مقامات پر جومعزز شہری بکھرے بکھرے سے بیٹھے مطالعہ یا گفتگو کر رہے ہیں، یہ کتنے بڑے انقلابی، سرفروش اور مجاہد ہیں؟
آئینی اور جمہوری جدوجہد کے اس احتجاج کا بھی ایک ناظم تھا، اور وہ اسٹارگیٹ اور ایئرپورٹ بلڈنگ کے درمیان دو چکّرلگا چکا تھا اور اب صرف وزیراعظم کا انتظار تھا۔ ایئرپورٹ کے احاطے میں پولیس گردش کر رہی تھی۔ گیلری میں آدمیوں کا اضافہ ہورہا تھا۔ لکڑی کے جنگلے کے ساتھ ساتھ انسانوں کی قطار لگ گئی تھی اور اب ساڑھے بارہ بج رہے تھے۔
ایئرپورٹ کے اندرونی احاطے میں تمام کارکنوں کو، جو بیس گروپوں پر مشتمل تھے، ناظم نے کہہ دیا کہ ’’آپ اپنے اپنے بینرز کھول سکتے ہیں‘‘۔اور پھر اچانک یہاں سے وہاں تک سفید بینر، سرخ حروف کے ساتھ ہوا میں لہرانے لگے:
’’مولانا مودودی کو رہا کرو‘‘۔
’’مولانا مودودی کو سزا ،جمہوریت کا خون ہے‘‘۔
تاہم، ابھی یہ نعرے سینوں میں گنگ تھے۔ ایئرپورٹ گیلری میں حاضرین نے ہڑبونگ کے بجائے اپنے آپ کو ایک غیرمحسوس نظم کےتحت محسوس کیا: ایک سنجیدہ احساس ماحول پر چھایا ہوا تھا۔گیلری کے ساتھ مختلف ٹریڈ یونینوں اور انجمنوں کے جھنڈے عوامی احتجاج کی تائید کررہے تھے اور لوگ اس گوشے کی طرف متوجہ تھے، جس طرف کھلی جگہ کو میزوں، کرسیوں سے آراستہ کیا گیا تھا اور جہاں استقبالیہ کمیٹی کے صدر،وزیراعظم کی خدمت میں سپاس نامہ پیش کرنے والے تھے۔
اور پھر مشرق سے ایک گونج سنائی دی ۔ سب نگاہیں اس طرف متوجہ تھیں۔ وہ آیا،وہ اُترا اور وہ شدید شور کے ساتھ رن وے کا چکر لگاکر دھاڑتا ہوا، گیلری کے عین سامنے نیم سرکاری استقبالیہ ہجوم کے قریب آکھڑا ہوا۔تو گویا گیلری میں ایک آگ سی لگ گئی۔ یہ آگ ان جذبات کے خرمن میں بھڑک اُٹھی تھی، جو دھیمی آنچ سے سلگ رہے تھے۔ جنھوں نے مولانا مودودی کی سزائے موت کی خبر سن رکھی تھی اور جسے اب چودہ سالہ قید میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔
___ کیا ان کا ’جرم‘ مسلمانوں کے ملک میں اسلامی دستور کا مطالبہ کرنا تھا۔
___ کیا ان کا جرم ’ڈائرکٹ ایکشن‘ کے ہنگاموں سے جماعت اسلامی کو علیحدہ رکھنا تھا؟
ان ’جرائم‘ کے سوا تو ان کا جرم آج تک سننے میں نہ آیا تھا۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ مقتدر قیادت کے نزدیک ان کا کون سا جرم زیادہ سنگین تھا۔ بہرحال، اس طیارے کی آمد پر ان جذبات میں آگ لگ گئی، جو پہلے سے محض سلگ رہے تھے۔
اس زخم سے کون نہیں کراہ رہا تھا؟ کیا پورے ملک میں صف ماتم و احتجاج نہیں بچھ گئی تھی؟ کیا یوں محسوس نہیں ہورہا تھا کہ ملت اسلامیہ کے قلب پر ایک زبردست چوٹ لگائی گئی ہے؟ کتنے لوگ تھے جو اس الم ناک خبرسننے کے بعد روتےرہےتھے اور کتنے تھے جنھوں نے اپنے جذبات کے سامنے ضبط کے ہمالے کھڑے کیے رکھے تھے۔
لیکن جب وہ طیارہ آیا جس میں وزیراعظم صاحب آئے تھے، تو پھر مظلوموں کے منہ سے وہ چیز بلندہوئی جو ڈائنامیٹ دھماکے سے زیادہ تیز اور شدید تھی۔ ایک رو آئی اور ضبط کے سارے پیمانے بہہ گئے۔ جہاز کے دروازے کھلنے ہی والے تھے۔ استقبالیہ کمیٹی کے ارکان اپنی ٹائیوں کو درست کر رہے تھے۔ بینڈ سلامی دینےکے لیے ہوشیار باش تھا۔ استقبالیہ کمیٹی کے صدرصاحب جیب میں آخری بار سپاس نامہ ٹٹول رہے تھے۔ طیارے کے دروازے ابھی کھلے نہ تھے کہ اچانک ہجوم کے اس حصے میں سے، جو اس کونے میں سمٹ آیا تھا، ایک آواز بلند ہوئی:
’’مولانا مودودی کورہا کرو‘‘۔
یہ ایک پُردرد صدا تھی اور ضبط کابند بھک سے اُڑگیا تھا۔ یہ نعرہ موسلادھار بارش کا پیش خیمہ اور طوفان کی آمد کا پتا تھا۔ گیلری سے نعرے بلند ہوئے:
’’جمہوریت کا خون ___ بند کرو‘‘
’’اس ملک کو ___ تباہ نہ کرو‘‘
’’مولانا مودودی کو ___ رہا کرو‘‘۔
اب ساری فضا ان نعروں کی دھمک سے لرز رہی تھی۔ دروازے کھلے اوروزیراعظم محمدعلی بوگرہ صاحب جہاز سے اُتر کر لائوڈاسپیکر کے قریب پہنچے۔ دوسری طرف نعروں کی یلغار مسلسل بڑھ رہی تھی۔ گیلری کے دوسرے سرے تک طلبہ چارچار کی قطار میں، کچھ کچھ فاصلے پر ہاتھوں میں بینرز لیے آگے بڑھ رہے تھے۔ ایک طالب علم قیادت کر رہا تھا:
یہ نعرہ تھا اس متحرک طوفان کے لبوں پر۔ ایک شان دار نظم و ضبط اور انتہائی وارفتگی کے ساتھ یہ دستہ اس گوشے کی طرف بڑھ رہا تھا، جہاں وزیراعظم کے استقبال کا سامان تھا۔ یہ دستہ آہستہ آہستہ بڑھتا ہوا گیلری کے اس کٹہرے سے جاملا، جہاں جناب وزیراعظم کے سامنے سپاس نامہ پڑھاجارہا تھا۔
طلبہ کے بعد ادیبوں کا ایک گروپ بڑی متانت، اور وقار سے نعرے لگاتا ہوا اس گوشے کی طرف بڑھتا ہوا نظر آیا۔ ان ادیبوں میں شاعر، طنزنگار، افسانہ نویس، دانش ور، مدیرانِ کرام اور نقادشامل تھے۔ یہ سبھی اہلِ قلم و حرف سمجھتے تھے کہ نئے ادب کا سوتا بند ہوا جارہا ہے، نئے تخیلات کو پھانسی دی جارہی ہے، نئی شاہراہِ زندگی پر بم باری کی جارہی ہے، اور وہ جو ایک حقیقی اشرف المخلوقاتی انقلاب کو نئے روپ میں لےکر اُبھر رہاتھا،اس کاراستہ روکا جارہا ہے۔ ادیب اپنے فن کےغدار ہوتے اگر آج احتجاج کے لیے جمع نہ ہوتے۔ ان کی تحریروں کی قوت اس نعرے میں سمٹ آئی تھی:
’’مولانا مودودی کی سزائے قید ___ جمہوریت کا خون ہے‘‘۔
یہ ادیب بالکل نہیں تسلیم کرتے کہ جمہوریت کا خون بہایا جائے۔ یہ ان کی اپنی زندگی کا معاملہ تھا، جس سے وہ ادب کے لطیف خیالات چنتے تھے۔ وہ بازارِادب کے سودےباز ادیب نہ تھے۔ وہ جو اپنی ادبی مجالس میں بلندآواز سے بات کرنے کو بھی خلافِ ادب سمجھتے تھے، یہاں پوری طاقت کے ساتھ صدائے احتجاج بلند کررہے تھے۔
پھر یہ رو پھیلتی اور بپھرتی چلی گئی۔سب لوگ بھول گئے کہ کیمرے کس مقصد کے لیے لائے گئے تھے۔ استقبالیہ کمیٹی بھول گئی کہ بینڈ کا کیا مصرف تھا؟ لائوڈاسپیکر کس مرض کی دوا تھا؟ پولیس بے دست و پا تھی، پھول، ہار اور طرے محروم زیب گلو تھے۔ وہاں توایک ہی پکارتھی: ’’مولانا مودودی کو رہا کرو‘‘۔ ہرطرف ایک ہی نعرہ، ایک ہی جنون اور ایک ہی آواز انسانی احتجاج کا پُرشوکت مظاہرہ۔
ان مظاہرین نے خود بخود دو گروپوں کی شکل اختیار کرکے اس نعرے کو کورس کی شکل دے دی تھی:
ایک گروپ کہہ رہا تھا : ’’مولانا مودودی کو…‘‘
دوسرے گروپ کی پکار تھی: ’’رہاکرو…‘‘۔
یہ نعرے نہ بے اثر تھے، اور نہ بے معنی تھے۔ لگانے والے بھی اس کے مفہوم سے پوری طرح آگاہ تھے اور سننےوالے بھی پوری طرح سمجھ رہے تھے کہ جو لوگ یہ نعرے لگا رہے ہیں، یہ کرائے کے دل، دماغ اور زبان نہیں رکھتے۔
پولیس نے لاٹھیوں کی مدد سے وزیراعظم کے لیے راستہ بنانا شروع کر دیا تاکہ ایئرپورٹ بلڈنگ سے گزر کر اپنی کار تک جاسکیں۔ یہ دیکھ کر مظاہرین نے بھی اِدھر کا رُخ کیا اوراس طرح وہ سارا مظاہرہ بلڈنگ میں منتقل ہوگیا۔ وہ مظاہرے کےانتہائی عروج کا وقت تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ پہاڑ کے دامن میں کسی عظیم چٹان کو اُڑایا جارہا تھا۔ یا شاید کسی سمندری جزیرے کے اندر اچانک آتش فشاں پھٹ پڑا ہے۔ بندبلڈنگ میں انسانوں کے ہجوم نے ایک مضطرب چیخ کی شکل اختیار کرلی تھی۔ گویا آوازوں کی اس اجتماعی قوت کے زور سے وہ عمارت بھک سے اُڑ جانے والی تھی۔
طلبہ نے کاروں کوگھیر لیا تھا۔ وہ مسلسل نعرہ زن تھے:
’’امریکی حاکمیت ___ مُردہ باد‘‘
’’مولانا مودودی کو ___ رہا کرو‘‘۔
اب نعرے بلا کی شدت اختیار کرکے سارے ماحول کو محیط کیے ہوئے تھے۔ یہ بہتا ہوا سیل رواں تھا اور ایک طوفان کا تندوتیز دھارا تھا، جو ایئرپورٹ بلڈنگ سے اسٹارگیٹ تک بہہ رہا تھا۔ مظاہرے کا ناظم چند منٹ قبل دوڑتا ہوا بلڈنگ کے اسٹارگیٹ تک گیا تھا اور اس نے اشارہ کر دیا تھا کہ ’’وہ وقت آگیا ہے جس کے تم منتظر تھے‘‘۔
اب سڑک کا چپہ چپہ سراپا احتجاج تھا۔ گاڑیوں کے اس کارواں کا استقبال ایک میل تک اس طرح ہوا کہ ہرچند قدم پر روشنی کے کھمبے کے پاس فلڈلائٹ کے عین نیچے ایک لہراتا اور پھڑپھڑاتا بینر یاد دلا رہا تھا کہ ’’مودودی محض ایک گوشت پوست کا انسان نہیں ہے۔ وہ اس ملک کے قلب کی دھڑکن ہے،وہ اس ملّت کا دھڑکتا ہوا دل ہے، وہ بہار کا پیغام برہے، وہ تمنائے دل ہے، وہ شمع آرزو ہے، وہ نشانِ منزل ہے، وہ آنےوالے انقلاب کا داعی اور رہنما ہے، وہ ایک نظریہ ہے، وہ ایک اصول ہے، وہ ایک تحریک ہے۔ تم اسے یوں ملت سے چھین نہیں سکتے، تم تاریخ کے سینے پر لکھی تحریر مٹا نہیں سکتے، تم پوری ملت کی آواز کو دبا نہیں سکتے، تمھاری جہل پر مبنی ساری گھن گرج کو ملّت کی یلغار اپنی گونج میں دبا سکتی ہے۔ تم پانی میںتیرنے والی بے جڑ کائی ہو، تم درخت کے ٹوٹے ہوئے پتّے ہو، تم لہروں میں اُٹھنے والے بلبلے ہو، تم ملّت کے شعور اور قلب سے بہت دُور ہو‘‘۔
پے بہ پے، لمحہ بہ لمحہ بڑھتا ہوا احتجاج کا سمندر ایئرپورٹ بلڈنگ سے اسٹارگیٹ تک لہریں اُٹھا رہا تھا۔لیکن وہ اس راستے سے نہ آیا جس راستے کو اس کا انتظار تھا، وہ عوامی احتجاج کی تاب نہ لاتے ہوئے کسی دوسرے ویران راستے سے نکل گیا تھا۔
_______________
حواشی
[۱] l ۳مئی ۵۳ء کو مولانا مودودی کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کا اعلان کیا گیا۔ l ۵مئی کو فوجی عدالت نے مارشل لا ریگولیشن نمبر۸ مع دفعہ ۱۵۳، الف تعزیرات کے تحت کارروائی کا آغاز کیا۔ l ۷مئی کو مولانا نے فوجی عدالت میں بیان دیا۔l ۹مئی کوگورنر جنرل نے مارشل لا کےفیصلوں اور اقدامات کے تحفظ [انڈیمنٹی]کا قانون جاری کیا اور ساتھ ہی مولانا مودودی کے مقدمے کی فوجی عدالتی سماعت ختم ہوگئی۔ l ۱۱مئی ۱۹۵۳ء کو مولانا مودودی کے لیے سزا کا اعلان کردیا گیا۔ lعدالت عظمیٰ کے ایک فیصلے کے مطابق ۲۸؍اپریل ۱۹۵۵ء کو رہائی عمل میں آئی۔ مرتب
دُنیا میں کسی فرد یا قوم کے لیے اس سے زیادہ آزمایش اور کون سی ہوسکتی ہے کہ اُس کے فکرونگاہ کے زاویوں کوہی بالکل اُلٹ کررکھ دیا جائے اور اس طرح ذم مدح میں، معائب محاسن میں اور مثالب مناقب میں اُس کے سامنے جلوہ گر ہونے لگیں۔ اور لطف کی بات یہ ہے کہ پھر یہ تبدیلی بھی متناسب اور متوازن نہیں ہوتی بلکہ انسان کے قلب و دماغ کے اندر ایک ایسا انتشار رُونما ہوتا ہے، جو اُس کی زندگی کے سارے شعبوں کومتزلزل کردیتاہے اور اس کی حیات مستعار کے پورے لمحات ایک قسم کے ذہنی اور اخلاقی بحران میں گزرتے ہیں۔ اس کی ذات سے انسانیت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا بلکہ اُس کی ساری صلاحیتیں اور قلب و دماغ کی پوری قوتیں تخریبی کارروائیوں میں صرف ہوتی رہتی ہیں۔
اس منتشر قلب و دماغ کے اندر چونکہ وہ اخلاقی جرأت ختم ہوجاتی ہے، جو کسی فرد یا قوم کو اعترافِ حقیقت پر اُبھارتی ہے۔ اس لیے وہ اپنی بداعمالیوں کو برحق ثابت کرنے کے لیے نوعِ انسانی کے اندر ایک مصنوعی برتری کی نمایش شروع کر دیتا ہے۔
اعترافِ گناہ درحقیقت ایک نہایت ہی اُونچا وصف ہے اور اس کی وہ شخص جرأت کرسکتا ہے، جو ذہنی اور قلبی اعتبار سے بالکل تندرست اور توانا ہو۔ ایک بیمار دل کے اندر اتنی طاقت ہی نہیں رہتی کہ وہ اتنا عظیم کام سرانجام دے سکے۔ اس لیے وہ لوگ جو ذہنی اور قلبی عارضوں کا شکار ہوتے ہیں، وہ حق و صداقت کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے استکبار کی راہ اختیار کرتے ہیں اور اپنے آپ کو کچھ مدت تک اس دھوکے میں مبتلا رکھنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں کہ وہ حق کی راہ پر گامزن ہیں۔ کسی میں یہ دم خم نہیں کہ وہ انھیں اُن کی کسی غلط حرکت پر ٹوک سکے۔ چونکہ حق کی منزل ایک کٹھن منزل ہے، اس لیے وہ ہمیشہ اس بات کے درپے رہتے ہیں کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں اُسے ہی لوگ حق سمجھ کر اُس کی بلاچون و چرا پیروی کرنے لگیں، تاکہ کچھ عرصے کے لیے اُن کے جذبۂ نخوت کی تسکین ہوتی رہے اور حقائق کی تلخیاں اُن کے قوت و طاقت کے نشے کو اُتار نہ دیں۔ (’اشارات‘ ،پروفیسر عبدالحمید صدیقی، ترجمان القرآن، جلد۵۶، عدد۲، مئی ۱۹۶۱ء، ص۱۰-۱۱)
سوال : میرے ایک عزیز جواَب لامذہب ہوچکے ہیں، عبادات، نماز، روزہ وغیرہ کو صرف بُرائی سے بچنے کے بہترین ذریعہ اور معاشرے کو صحیح ڈگر پر چلانے کا آلہ سمجھتے ہیں۔ وہ اپنے اس نظریے کی تبلیغ بھی کرتے ہیں۔ میں ان کے مقابلے میں اسلامی احکام و تعلیمات کے دفاع کی کوشش کرتا ہوں۔ میری راہ نمائی اور مدد کیجیے۔
جواب :عبادات کے بارے میں ان کے جو نظریات آپ نے بیان کیے ہیں وہ بھی سخت ژولیدہ فکری (confused thinking)بلکہ بے فکری کا نمونہ ہیں۔ شاید انھوں نے کبھی اس بات پر غور نہیں کیا کہ نماز، روزہ وغیرہ اعمال صرف اسی صورت میں بُرائی سے بچنے کابہترین ذریعہ اور معاشرے کو صحیح ڈگر پر چلانے کا آلہ ہوسکتے ہیں جب انھیں خلوص کے ساتھ کیا جائے ، اور خلوص کے ساتھ آدمی ان پر اسی صورت میں کاربند ہوسکتا ہے جب وہ ایمان داری سے یہ سمجھتا ہو کہ خدا ہے اور مَیں اس کا بندہ ہوں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واقعی اللہ کے رسولؐ تھے اور کوئی آخرت آنے والی ہے جس میں مجھے اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص ان سب باتوں کو خلافِ واقعہ سمجھتا ہو اور یہ خیال کرتا ہو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محض اصلاح کے لیے یہ ڈھونگ رچایا ہے، تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس صورت میں بھی یہ عبادت بُرائی سے بچنے کا ذریعہ اور معاشرے کو صحیح ڈگر پر چلانے کا آلہ بن سکے گی؟ ایک طرف ان عبادات کے یہ فوائد بیان کرنا اور دوسری طرف اُن فکری بنیادوں کو خود ڈھا دینا جن پر ان عبادات کے یہ فوائد منحصر ہیں، بالکل ایسا ہے جیسے آپ کسی کارتوس سے سارا گن پائوڈر نکال دیں اور پھر کہیں کہ یہ کارتوس شیر کے شکار میں بہت کارگر ہے۔ (ترجمان القرآن، جون ۱۹۶۲ء)
سوال : ہمیں یہ کیوں کر معلوم ہو کہ ہماری عبادت خامیوں سے پاک ہے یا نہیںاور اسے قبولیت کا درجہ حاصل ہورہا ہے یا نہیں؟… قرآن و حدیث کے بعض ارشادات جن کا مفہوم یہ ہے کہ بہت سے لوگوں کو روزے میں بھوک پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ بہت سے لوگ اپنی نمازوں سے رکوع و سجود کے علاوہ کچھ نہیں پاتے، یا یہ کہ جو کوئی اپنے عابد سمجھے جانے پر خوش ہو تو نہ صرف اس کی عبادت ضائع ہوگئی بلکہ وہ شرک ہوگی، اور اس طرح سے دیگر تنبیہات جن میں عبادت کے بے صلہ ہوجانے اور سزا دہی کی خبر دی گئی ہے، دل کو نااُمید و مایوس کرتی ہیں۔
اگر کوئی شخص اپنی عبادت کو معلوم شدہ نقائص سے پاک کرنے کی کوشش کرے اور اپنی دانست میں کربھی لے پھر بھی ممکن ہے کہ اس کی عبادت میں کوئی ایسا نقص رہ جائے جس کا اسے علم نہ ہوسکے اور یہی نقص اس کی عبادت کو لاحاصل بنادے.... اسلام کا مزاج اس قدر نازک ہے کہ بشریت کے تحت اس کے مقتضیات کو پورا کرنا ناممکن سا نظر آتا ہے۔
جواب : اسلام کا مزاج بلاشبہہ بہت نازک ہے، مگر اللہ تعالیٰ کسی انسان کو اس کی استطاعت سے زیادہ مکلف نہیں فرماتا۔ قرآن و حدیث میں جن چیزوں کے متعلق ذکر کیا گیا ہے کہ وہ عبادات کو باطل یا بے وزن کردینےوالی ہیں، ان کے ذکر سے دراصل عبادات کو مشکل بنانا مطلوب نہیں ہے بلکہ انسان کو ان خرابیوں پر متنبہ کرنا مقصود ہے تاکہ انسان اپنی عبادات کو اُن سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرے، اور عبادات میں وہ روح پیداکرنے کی طرف متوجہ ہو جو مقصود بالذات ہے۔ عبادات کی اصل روح تعلق باللہ، اخلاص للہ اور تقویٰ و احسان ہے۔ اس روح کو پیداکرنے کی کوشش کیجیے اور ریا سے، فسق سے، دانستہ نافرمانی سے بچیے۔ ان ساری چیزوں کا محاسبہ کرنے کے لیے آپ کا اپنا نفس موجود ہے۔وہ خود ہی آپ کو بتا سکے گا کہ آپ کی نماز میں، آپ کے روزے میں، آپ کی زکوٰۃ اور حج میں کس قدر اللہ کی رضاجوئی اور اس کی اطاعت کا جذبہ موجود ہے، اوران عبادتوں کو آپ نے فسق و معصیت اور ریا سے کس حد تک پاک رکھا ہے۔ یہ محاسبہ اگر آپ خود کرتے رہیں تو ان شاء اللہ آپ کی عبادتیں بتدریج خالص ہوتی جائیں گی اور جتنی جتنی وہ خالص ہوں گی، آپ کا نفس مطمئن ہوتا جائے گا۔ ابتداء ً جو نقائص محسوس ہوں، ان کا نتیجہ یہ نہ ہونا چاہیے کہ آپ مایوس ہوکر عبادت چھوڑ دیں، بلکہ یہ ہونا چاہیے کہ آپ اخلاص کی پیہم کوشش کرتے جائیں۔
خبردار رہیے کہ عبادت میں نقص کا احساس پیدا ہونے سے جو مایوسی کا جذبہ اُبھرتا ہے، اُسے دراصل شیطان اُبھارتا ہے اور اس لیے اُبھارتا ہے کہ آپ عبادت سے باز آجائیں۔ یہ شیطان کا وہ پوشیدہ حربہ ہے جس سے وہ طالبین خیر کو دھوکا دینے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن ان کوششوں کے باوجود یہ معلوم کرنا بہرحال کسی انسان کے امکان میں نہیں ہے کہ اس کی عبادات کو قبولیت کادرجہ حاصل ہو رہا ہے کہ نہیں۔ اس کو جاننا اور اس کا فیصلہ کرنا صرف اس ہستی کا کام ہے جس کی عبادت آپ کر رہے ہیں ، اور جو ہماری اور آپ کی عبادتوں کے قبول کرنے یا نہ کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ ہروقت اس کے غضب سے ڈرتے رہیے اور اس کے فضل کے اُمیدوار رہیے۔ مومن کا مقام بَیْنَ الْخَوْفِ وَالرَّجَاء (خوف اور اُمید کے درمیان)ہے۔ خوف اس کو مجبور کرتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ بہتر بندگی بجا لانے کی کوشش کرے، اور اُمید اس کی ڈھارس بندھاتی ہے کہ اس کا ربّ کسی کا اجر ضائع کرنے والا نہیں ہے۔ (ترجمان القرآن، جنوری، فروری ۱۹۵۱ء)
سوال : توجہ اور حضورِقلب کی کمی کیا نماز کوبے کار بنادیتی ہے؟ نماز کو اس خامی سے کیوں کر پاک کیا جائے؟ نماز میں عربی زبان سے ناواقف ہونے کی وجہ سے نہایت بے حضوریٔ قلب پیدا ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہیے۔ کیوں کہ ہم سوچتے ایک زبان میں ہیں اور نماز دوسری زبان میں پڑھتے ہیں۔ اگر آیات کے مطالب سمجھ بھی لیے جائیں تب بھی ذہن اپنی زبان میں سوچنے سے باز نہیں رہتا۔
جواب : توجہ اور حضورِ قلب کی کمی نماز میں نقص ضرور پیدا کرتی ہے۔ لیکن فرق ہے اس بے توجہی میں جو نادانستہ ہو اور اس میں جو دانستہ ہو۔ نادانستہ پر مؤاخذہ نہیں ہے بشرطیکہ انسان کو دورانِ نماز میں جب کبھی اپنی بے توجہی کا احساس ہوجائے، اسی وقت وہ خدا کی طرف متوجہ ہونے کی کوشش کرے، اور اس معاملے میں غفلت سے کام نہ لے۔ رہی دانستہ بے توجہی، بے دلی کے ساتھ نماز پڑھنا اور نماز میں قصداً دوسری باتیں سوچنا، بلاشبہہ یہ نماز کو بے کار کردینے والی چیز ہے۔
عربی زبان سے ناواقفیت کی بنا پر جو بے حضوری کی کیفیت پیدا ہوتی ہے، اس کی تلافی جس حد تک ممکن ہو، نماز کے اذکار کا مفہوم ذہن نشین کرنے سے کرلیجیے۔ اس کے بعد جو کمی رہ جائے، اس پر آپ عنداللہ ماخوذ نہیں ہیں، کیوں کہ آپ حکمِ خدا و رسولؐ کی تعمیل کر رہے ہیں۔ اس بے حضوری پر آپ سے اگر مؤاخذہ ہوسکتا تھا تو اس صورت میں جب کہ خدا و رسولؐ نے آپ کو اپنی زبان میں نماز پڑھنے کی اجازت دی ہوتی اور پھر آپ عربی میں نماز پڑھتے۔(ترجمان القرآن، جنوری، فروری ۱۹۵۱ء)
سوال : کیا ایک عورت روزہ کے دوران کھانا تیار کرتے وقت، کھانا چکھ سکتی ہے، جب کہ اس کا شوہر سخت مزاج بھی ہو اور کھانے کا ذائقہ صحیح نہ ہونے پر غصّہ بھی کرتا ہو؟ اسی طرح ایک ماں اپنے بچے کے لیے غذا تیار کرتے وقت کیا اسے چکھ سکتی ہے؟
جواب : ’کھانے‘ اور ’چکھنے‘ میں فرق ہوتا ہے۔ کسی چیز کا ذائقہ چکھنے کے لیے اس چیز کو بڑی مقدار میں کھانا، چبانا اور نگلنا ضروری نہیں ہے۔ اگر کوئی عورت چمچہ بھر غذا اپنے منہ میں ڈالتی ہے، اس کو چباتی ہے اور نگل لیتی ہے، تو یقینا اس نے اپنے روزے کو ضائع کر دیا۔ اب یہ حرکت خواہ اس نے اپنے شوہر کے غصے کی تلافی کی وجہ سے کی ہو یا کسی اور وجہ سے۔ اس صورتِ حال میں حکم یہی لاگو ہوگا کیونکہ اس نے غذا کو کھا لیا ہے، جو روزے کی حالت میں ممنوع ہے۔
کسی غذا کا ذائقہ چکھنے کے لیے اس کو نگلنا ضروری نہیں۔ ذائقہ چکھنے کا کام زبان کی نوک انجام دیتی ہے۔ اگر ایک عورت غذا کا بہت معمولی سا حصہ منہ میں لیتی ہے اور ذائقہ معلوم کرنے کے بعد غذا حلق تک پہنچنے سے پہلے اس کو تھوک دیتی ہے تو اس کا روزہ برقرار رہے گا۔ علما اس بات پر متفق ہیں کہ یہ اجازت صرف اس وقت ہے جب اس کی واقعی ضرورت ہو۔ کھانے کے ذائقے پر شوہر کے غصے کا اندیشہ ایسی ہی ایک صورت ہے۔
بچے کے لیے غذا تیار کرتے وقت اسے چکھنے کا مسئلہ کم شدید نوعیت کا ہے۔ بچے کی غذا کے گرم ہونے کا اندازہ ہاتھ سے لگایا جاسکتا ہے، جب کہ اس میں شکر یا نمک کی مقدار اس غذا کے پکانے کے نسخے سے درست رکھی جاسکتی ہے۔ تاہم، اگر اس صورتِ حال میں بھی غذا کا ذائقہ اُوپر بتائے ہوئے طریقےکے مطابق پرکھا جائے تو اس سے روزہ ساقط نہیں ہوگا۔(ڈاکٹر اُمِ کلثوم)
رؤیت ِ ہلال کے مسئلے کو حل کرنے کی موزوں ترین صورت یہی ہے کہ پورے شرعی قواعدو ضوابط اور تحقیق و تفتیش کے بعد ملک کے کسی ایک مرکزی مقام سے چاند نظر آنے یا نہ آنے کا اعلانِ عام ایسے اصحاب کے ذریعے سے کیا جائے، جن کے دین و تقویٰ پر عام مسلمانوں کو اعتماد ہو، اور جن کی آواز ملک بھر میں پہچانی جائے، اور اس اعلان کو پورے ملک کے لیے معتبر تسلیم کیا جاناچاہیے۔
بہرحال اس ملک کے باشندے دینی معاملات میں جو اعتماد علما پررکھتے ہیں، وہ کسی اور پر نہیں رکھتے۔ برسرِاقتدار لوگوں کو ’مُلّا‘ سے جو بھی نفرت ہے، ہواکرے۔ مگر دینی معاملات میں عام مسلمان بہرحال ’مُلّا‘ ہی پر بھروسا رکھتا ہے۔ یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ ریڈیو پرکوئی خبریں سناتے ہوئے چاند ہونے کی اطلاع دے، اور ان کے ارشاد پر ملک میں روزے رکھے اورتوڑے جائیں۔ (’رسائل و مسائل‘ ، ترجمان القرآن، جلد۵۶، عدد۶، اپریل ۱۹۶۱ء، ص۶۰-۶۱)
مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ سے ایک سوال جو باربار کیاجاتا رہا، وہ ہے ملکِ عزیز پاکستان کے مستقبل کا سوال۔الفاظ کے تھوڑ ے بہت فرق کے ساتھ یہ سوال عام جلسوں میں بھی ان کے سامنے پیش کیا گیا، پریس کانفرنسوں میں بھی اُٹھایا گیا، طلبہ نے بھی یہ بات پوچھی، اور کارکن بھی اسے لے کر ان کے پاس باربار آئے۔
یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم ترین گوشہ ہے کہ جب بھی یہ سوال اُٹھا، لوگ اس کا جواب حاصل کرنے کے لیے مولانامودودیؒ کے پاس ان کی رہایش گاہ ۵-اے ذیلدار پارک پر پہنچے اور زندگی کا پیغام اور زندگی کی اُمنگ لے کر واپس لَوٹے۔
مولاناؒ نے ایسے ہرموقعے پر ایک بات کہی:
’مستقبل کا سوال تو جدوجہد کا سوال ہے۔ یہ عزم اور عمل کا مسئلہ ہے، پیش گوئیوں کا نہیں‘۔
ایک اور موقعے پر مولانا محترمؒ نے فرمایا:
’مستقبل کے بارے میں صرف سوال نہ کیجیے۔ مستقبل کے بارے میں فیصلہ کیجیے۔ فیصلہ یہ کیجیے کہ بحیثیت مسلمان، آپ اس ملک کا کیا مستقبل چاہتے ہیں؟‘
اسی طرح ایک سوال کے جواب میں ایک اور مرحلے پریہ فرمایا:
’آج بھی اگر کسی ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیےکام کرنے کی سب سے زیادہ گنجایش ہے تو وہ ہمارا یہی ملک ہے۔ ہوسکتا ہے کہ جس دن کے لیے ہم کام کررہے ہیں وہ دن ہماری زندگی میں نہ آئے، لیکن وہ ان شاء اللہ اس ملک میں آئے گا ضرور‘۔
۱۹۷۱ء کے بعد تو یہ سوال اتنی مرتبہ پوچھا گیا کہ ایک موقعے پرمولانا محترم ؒ نے فرمایا:
’میں جہاں بھی گیا ہوں، لوگوں نے یہ سوال پوچھا ہے___ کسی ملک کے حکمرانوں کی اس سے زیادہ نالائقی کوئی اور ہو نہیں سکتی کہ ملک کے رہنے والوں کے ذہنوں میں ملک کے مستقبل سے متعلق ایسے سوالات پیدا ہونے لگیں‘۔
سقوطِ مشرقی پاکستان، ۱۶دسمبر۱۹۷۱ء سے ۲۰ برس پہلے۱۰نومبر ۱۹۵۱ء کو کراچی کی ککری گرائونڈ میں قوم سے خطاب کرتے ہوئے مولانا مودودیؒ نے فرمایا:
’ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے ملک میں علانیہ خدا کے احکام کی خلاف ورزی ہورہی ہے اورفرنگیت اورفسق وفجور کی رَو بڑھتی چلی جارہی ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسلام آج بھی بے بس ہے … یہ سب کچھ اُن مقاصد کے بالکل خلاف ہے، جن کا نام لے کر پاکستان مانگا گیا تھا، اور جن کے اظہارواعلان ہی کے طفیل، اللہ تعالیٰ نے یہ ملک ہمیں بخشا تھا۔ کہا یہ گیا تھا کہ ہمیں ایک خطۂ زمین اس لیے درکارہے کہ اس میں ہم مسلمان کی سی زندگی بسرکرسکیں، اور اسلام کی بنیادوں پر خود اپنے ایک تمدن اوراپنی ایک تہذیب کی عمارت اُٹھا سکیں۔ مگرجب خدا نے وہ خطّہ دےدیا، تو اب کیا یہ جارہا ہے کہ اسلام کے رہے سہے آثار بھی مٹائے جارہے ہیں، اور اُس تہذیب، اخلاق اور تمدن کی عمارت مکمل کی جارہی ہے، جس کی نیو یہاں انگریز رکھ گیا تھا۔
اس صورتِ حال کو ہم جس وجہ سے خطرہ نمبرایک سمجھتے ہیں، وہ یہ ہے کہ یہ صریح طورپر خدا کے غضب کو دعوت دینے کے ہم معنی ہے۔ ہم ہرگز یہ توقع نہیں کر سکتے کہ اپنے ربّ کی کھلی کھلی نافرمانیاں کرکے ہم اس کی رحمت اور نصرت کے مستحق بن سکیں گے۔
اس میں خطر ے کایہ پہلو بھی ہے کہ پاکستان کے عناصر ترکیبی میں نسل،زبان،جغرافیہ، کوئی چیز بھی مشترک نہیں ہے۔ صرف ایک دینِ اسلام ہے، جس نے ان عناصر کو جوڑکر ایک ملّت بنایاہے۔ دین کی جڑیں یہاں جتنی مضبوط ہوں گی، اتنا ہی پاکستان مضبوط ہوگا۔ اور وہ جتنی کمزور ہوں گی، اتنا ہی پاکستان کمزور ہوگا۔ اس میںخطرے کا پہلو یہ بھی ہے کہ یہ کیفیت ہمارے ہاں جتنی زیادہ بڑھے گی، ہماری قوم میں منافقت، اورعقیدہ و عمل کے تضاد کی بیماری بڑھتی چلی جائے گی‘۔
ایک موقعے پر جب یہ سوال ان کے سامنے آیا: ’’مولانا، وطنِ عزیز کے حالات دیکھ کر باربار یہ خیال آتا ہے کہ آخر اس ملک کا مستقبل کیا ہے؟ بعض اوقات تو شدت کے ساتھ مستقبل کے تاریک ہونے کا احساس ہونے لگتا ہے۔ کیا آپ اس سلسلے میں کچھ ارشاد فرمائیں گے؟‘‘
اس مرحلے پر مولانا مودودی نے صحت کی کمزوری کے باوجود سوال کا مفصل جواب دیتے ہوئے فرمایا:
’یہ احساس جو کچھ عرصے سے لوگوں میں پیدا ہوا ہے کہ اس ملک کا مستقبل کیا ہے؟ درحقیقت دیکھنے والوں کے سامنے یہ سوال پہلے دن سے موجود تھا۔ برسوں سے پاکستان کے مستقبل کو تاریک کرنے کا کام ہورہا ہے۔ آخرکار اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ بچہ بچہ تشویش میں مبتلا ہوگیا ہے۔ اس ملک کے ٹکڑے اُڑانے کا برسوں سے سامان کیاجارہا تھا، ا ور جب وہ [دسمبر ۱۹۷۱ء میں] دو ٹکڑے ہوگیا، تب لوگوں کو معلوم ہوا کہ قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔ حالانکہ دیکھنے والے دیکھ رہے تھے اور قدم قدم پر سمجھا رہےتھے کہ کون سا راستہ تباہی کا راستہ ہے اور کس راہ پر چل کر اس ملک کو ایک مثالی ملک بنایا جاسکتا ہے‘۔
ہلکے سے توقف کےساتھ سلسلۂ کلام کو جوڑتے ہوئے فرمایا:
’آج یہ سوال سب کی زبان پر ہے کہ اس ملک کا مستقبل کیا ہے؟‘___ میرا کام مستقبل کی پیش گوئیاں کرنا نہیں ہے۔ مجھے آپ سے صرف یہ کہنا ہے کہ اگر آپ کو اس ملک کا مستقبل عزیزہے تو پھراس بات پر ڈٹ جایئے کہ اس کے مستقبل کو تاریک نہیں ہونے دیں گے‘۔
’فی الحقیقت اس ملک کا مستقبل اس کے وجودمیں آنے کے بعد سے ایک ہی چیز پر منحصر تھا،اوروہ یہ کہ اللہ تعالیٰ سے جو وعدہ اس ملک کو حاصل کرتے ہوئے کیا گیا تھا، اس کو ایمان داری کے ساتھ پورا کیا جائے:
یہی وعدے تھے جن کی بناپراللہ تعالیٰ کی رحمت آپ کی طرف متوجہ ہوئی اورانھی وعدوں کی وجہ سے بالکل ایک معجزاتی کےطور پر پاکستان وجود میں آیا۔ ورنہ ۱۹۴۷ء کے آغاز تک بھی اس کی توقعات پیدا نہیں ہوسکی تھیں کہ پاکستان بن جائے گا۔ لیکن جب پاکستان بن گیا تو کوئی زیادہ عرصہ نہیں گزرنے پایا تھا کہ ان وعدوں کو فراموش کرنا شروع کر دیا گیا۔ وہ عہد جو خدا سے باندھا گیا تھا، اس کو توڑنے لگے اور یہ بات بالکل بھلا دی گئی کہ خداسے بدعہدی کرکے، خدا سے بے وفائی کرکے، اور خدا کی نافرمانی کرکے، مسلمان سربلند نہیں ہوسکتا۔ جب ایسی بدعہدی کرکے کوئی دوسرا اس کی سزا پائے بغیر نہیں رہاہے، تو آخر ہم بدعہدی کرکے کیسے سزا سے بچ سکتے تھے!‘
پھر کس قدرواضح اور سچی حقیقت کا یہ بیان تھا، جب مولانا محترمؒ نے فرمایا:
’اب اگر اس ملک کا مستقبل محفوظ ہوسکتا ہے تواچھی طرح جان لیجیے کہ اسی عہد کو پورا کرکے ہوسکتا ہے۔ یاد رکھیے، اس عہد کی خلاف ورزی جب تک ہوتی رہے گی، مستقبل تاریک ہوتا رہے گا اور جتنا زیادہ اس سے انحراف کیا جائے گا، اتنا ہی زیادہ یہ تاریک ہوتا چلا جائے گا‘۔
’پاکستان بناتے وقت آخر کس نے کہا تھا کہ ہمیں بلوچ، بنگالی یا پنجابی کی حیثیت سے آزادی مطلوب ہے؟ یا ہم پٹھان یا سندھی کی حیثیت سے آزاد ہونا چاہتے ہیں؟ یقینا کسی نے ایسی کوئی بات نہیں کہی تھی، اور ایسی کسی بات کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا تھا۔ سب مسلمان بن کر اُٹھے تھے۔ مسلمان بن کر اور ایک مسلم ملّت کی بنیاد پرانھوں نے اس مملکت کی بناڈالی۔ لیکن اس کے بعد کوششیں شروع ہوگئیں کہ مسلمان اسلام کے نام پر جمع نہ رہیں، بلکہ انھیں بنگالی، پنجابی،بلوچ، پٹھان اور سندھی کی بنیاد پر تقسیم کردیا جائے۔
’آج بچ جانے والے پاکستان میں چارقومیتوں کے نعرے بلند کیے جارہے ہیں۔ مثال کے طور پر صرف ایک صوبے ہی کو دیکھیے کہ ’صوبہ بلوچستان میں پٹھان بھی آباد ہیں، بلوچ بھی ہیں ،کرد بھی ہیں، بروہی اور سندھی بھی۔ اگر اسی طرح قومیت کے نعرے بلند ہوتے رہیں، تو اس ایک صوبہ بلوچستان ہی کے بھی چار پانچ بلوچستان بن جاتے ہیں۔ یہی معاملہ دوسرے صوبوں کا ہے۔
اسی لیے میں آپ سے کہتا ہوں کہ مستقبل کے متعلق کچھ پوچھنے کے بجائے آپ یہ فیصلہ کیجیے کہ جو تاریک مستقبل بنایا جارہا ہے، اسے ہرگز تاریک نہیں بننےدینا ہے۔ ہمیں اس ملک کا وہ مستقبل تعمیر کرنا ہے، جو ایک مسلمان قوم کا مستقبل ہونا چاہیے۔ ملک کے مستقبل کا سوال تو جدوجہد کا سوال ہے۔ یہ عزم اور عمل کا مسئلہ ہے، پیش گوئیوں کا نہیں‘۔
[قرآن کریم میں] ’نیکوکار‘ لوگوں کی تین صفات کا خاص طور پر ذکر کیا گیا، جس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ باقی ساری نیکیوں کا دارومدار انھی تین چیزوں پر ہے:
ان تین خصوصیات کی وجہ سے یہ ’نیکوکار‘ اس طرح کے نیکوکار نہیں رہتے جن سے اتفاقاً نیکی سرزد ہوجاتی ہے اور بدی بھی اسی شان سے سرزد ہوسکتی جس شان سے نیکی سرزد ہوتی ہے۔ اس کے برعکس یہ خصوصیات ان کے نفس میں ایک مستقل نظام فکرواخلاق پیدا کردیتی ہیں، جس کے باعث ان سے نیکی کا صدور باقاعدہ ایک ضابطے کے مطابق ہوتا ہے اور بدی اگر سرزد ہوتی بھی ہے تو محض ایک حادثے کے طور پر ہوتی ہے۔ کوئی گہرے محرکات ایسے نہیں ہوتے جو ان کے نظام فکرواخلاق سے اُبھرتے اور ان کو اپنے اقتضائے طبع سے بدی کی راہ پر لے جاتے ہوں۔(’تفہیم القرآن‘، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۵۵، عدد۶، مارچ ۱۹۶۱ء، ص۱۱)
اگر ایک ہی شے کو ایک شخص سیاہ کہے، دوسرا سپید، تیسرا زرد اور چوتھا سرخ تو ممکن نہیں ہے کہ یہ چاروں معاً سچے ہوں۔ اگر ایک ہی فعل کو ایک بُرا کہتا ہے اور دوسرا اچھا، ایک اس سے منع کرتا ہے اور دوسرا اس کا حکم دیتا ہے تو کسی طرح ممکن نہیں کہ دونوں کی رائے صحیح ہو، دونوں برحق ہوں اور دونوں امر و نہی کا کھلا ہوا اختلاف رکھنے کے باوجود اپنے حکم میں درست ہوں۔ جو شخص ایسے متضاد اقوال کی تصدیق کرتا ہے اور ایسے متضاد احکام کو برحق قرار دیتا ہے اس کا یہ فعل دو حال سے خالی نہیں ہوگا۔ یا تو وہ سب کو خوش کرنا چاہتا ہے، یا اس نے اس مسئلے پر سرے سے غور ہی نہیں کیا اور بے سوچے سمجھے رائے ظاہر کر دی۔ بہرحال دونوں صورتیں عقل اور صداقت کے خلاف ہیں اور کسی دانش مند اور حق پسند انسان کے لیے یہ زیبا نہیں کہ کسی وجہ سے بھی مختلف الخیال لوگوں کی تصدیق کرے۔
عموماً لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ دس مختلف خیالات رکھنے والے آدمیوں کے مختلف اور متضاد خیالات کو درست قرار دینا ’رواداری‘ ہے۔ حالانکہ یہ دراصل ’رواداری‘ نہیں، عین منافقت ہے۔ ’رواداری‘ کے معنی یہ ہیں کہ جن لوگوں کے عقائد یا اعمال ہمارے نزدیک غلط ہیں ان کو ہم برداشت کریں، ان کے جذبات کا لحاظ کرکے ان پر ایسی نکتہ چینی نہ کریں جو ان کو رنج پہنچانے والی ہو، اور انھیں ان کے اعتقاد سے پھیرنے یا ان کے عمل سے روکنے کے لیے زبردستی کا طریقہ اختیار نہ کریں۔ اس قسم کا تحمل اور اس طریقے سے لوگوں کو اعتقاد و عمل کی آزادی دینا نہ صرف ایک مستحسن فعل ہے، بلکہ مختلف الخیال جماعتوں میں امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ لیکن اگر ہم خود ایک عقیدہ رکھنے کے باوجود محض دوسرے لوگوں کو خوش کرنے کے لیے ان کے مختلف عقائد کی تصدیق کریں، اور خود ایک دستور العمل کے پیرو ہوتے ہوئے دوسرے مختلف دستوروں کا اتباع کرنے والوں سے کہیں کہ ’آپ سب حضرات برحق ہیں‘، تو اس منافقانہ اظہار رائے کو کسی طرح ’رواداری‘ سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ مصلحتاً سکوت اختیار کرنے اور عمداً جھوٹ بولنے میں آخر کچھ تو فرق ہونا چاہیے۔
صحیح رواداری وہ ہے جس کی تعلیم اسلام نے ہم کو دی ہے۔ ہم سے کہا گیا ہے کہ:
یہی وہ ’رواداری‘ ہے، جو ایک حق پرست، صداقت پسند اور سلیم الطبع انسان اختیار کرسکتا ہے۔ وہ جس مسلک کو صحیح سمجھتا ہے اس پر سختی کے ساتھ قائم رہے گا، اپنے عقیدے کا صاف صاف اظہار و اعلان کرے گا، دوسروں کو اس عقیدے کی طرف دعوت بھی دےگا، مگر کسی کی دل آزاری نہ کرے گا، کسی سے بدکلامی نہ کرے گا، کسی کے معتقدات پر حملہ نہ کرے گا، کسی کی عبادات اور اعمال میں مزاحمت نہ کرے گا، کسی کو زبردستی اپنے مسلک پر لانے کی کوشش نہ کرے گا۔ باقی رہا حق کو حق جانتے ہوئے حق نہ کہنا، یا باطل کو باطل سمجھتے ہوئے حق کہہ دینا، تو یہ ہرگز کسی سچے انسان کا فعل نہیں ہوسکتا۔ اور خصوصاً لوگوں کو خوش کرنے کے لیے ایسا کرنا تو نہایت مکروہ قسم کی خوشامد ہے۔ ایسی خوشامد نہ صرف اخلاقی حیثیت سے ذلیل ہے بلکہ اس مقصد میں بھی کامیاب نہیں ہوتی جس کے لیے انسان اپنے آپ کو اس پست منزل تک گراتا ہے۔ قرآن کا صاف اور سچا فیصلہ ہے کہ:
’جھوٹی رواداری‘ کا اظہار تو خیر سیاسی اغراض کے لیے کیا جاتا ہے اور اس دَور میں یہ ’جائز‘ ہے۔ کیونکہ مغربی ارباب ریاست کی کوششوں سے مدت ہوئی کہ اخلاق اور سیاست کے درمیان مفارقت کرا دی گئی ہے۔ لیکن افسوس کے قابل ان ’محققین‘ کا حال ہے، جو عقل کو سوچنے اور فکر کو حرکت کرنے کی زحمت دیئے بغیر اپنی مذہبی تحقیقات کا یہ عجیب نظریہ ظاہر فرمایا کرتے ہیں کہ ’’تمام مذاہب برحق ہیں‘‘۔ یہ جملہ اکثر ان لوگوں کی زبان سے سنا جاتا ہے جن کا دعویٰ ہے کہ ’ہم کوئی بات زبان سے نہیں نکالتے اور نہ تسلیم کرتے ہیں جب تک کہ اس کو میزانِ عقل میں تول نہ لیں‘۔ لیکن میزانِ عقل کا حال یہ ہے کہ وہ ان کی اس تحقیقِ انیق کو پرِ کاہ کے برابر بھی وزن دینے کے لیے آمادہ نہیں ہے۔ جن مختلف مذاہب کو معاً برحق ہونے کی سند عطا کی جاتی ہے، ان کے اصول میں سیاہ اور سفید کا کھلا ہوا فرق موجود ہے۔ ایک کہتا ہے کہ ’خدا ایک ہے‘۔ دوسرا کہتا ہے ’دو ہیں‘۔ تیسرا کہتا ہے ’تین ہیں‘۔ چوتھا کہتا ہے ’بہت سی قوتیں خدائی میں شریک ہیں‘۔ پانچویں کی تعلیم میں سرے سے خدا کا تصور ہی موجود نہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ پانچوں سچے ہوں؟
ایک انسان کو خدائی کے مقام میں لے جاتا ہے۔ دوسرا خدا کو کھینچ کر انسانوں کے بیچ میں اتار لاتا ہے۔ تیسرا انسان کو عبد اور خدا کو معبود قرار دیتا ہے۔ چوتھا عبد اور معبود دونوں کے تخیل سے خالی ہے۔ کیا صداقت میں ان چاروں کے لیے اجتماع کی گنجایش نکل سکتی ہے؟ ایک نجات کو صرف عمل پر موقوف رکھتا ہے۔ دوسرا نجات کے لیے صرف ایمان کو کافی سمجھتا ہے۔ تیسرا ایمان اور عمل دونوں کو نجات کے لیے شرط قرار دیتا ہے۔ کیا یہ تینوں بیک وقت صحیح ہوسکتے ہیں؟ ایک نجات کی راہ دنیا اور اس کی زندگی سے باہر نکالتا ہے۔ دوسرے کے نزدیک نجات کا راستہ دنیا اور اس کی زندگی کے اندر سے گزرتا ہے۔ کیا یہ دونوں راستے یکساں درست ہوسکتے ہیں؟ ایسے متضاد امور کو صداقت کی سند عطا کرنے والی شے کا نام اگر عقل ہے تو پھر جمع بین الاضداد کو محال قرار دینے والی شے کا نام کچھ اور ہونا چاہیے۔
مذاہب میں جو تصورات مشترک نظر آتے ہیں، افسوس ہے کہ سطحی نظر رکھنے والے ان کی حقیقت تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرتے اور محض سطح پر نگاہ ڈال کر چند غلط مقدمات کو غلط طریقے سے ترتیب دے کر غلط نتائج نکال لیتے ہیں۔ حالانکہ دراصل یہ اشتراک ایک اہم حقیقت کی طرف ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ وہ پتہ دیتا ہے کہ درحقیقت یہ تمام مذاہب ایک ہی اصل سے نکلے ہیں۔ ان تمام تصورات اور تعلیمات کا مبدأ ایک ہے۔ کوئی ایک ذریعۂ علم ہے جس نے انسان کو مختلف ممالک، مختلف اوقات اور مختلف زبانوں میں، ان مشترک صداقتوں سے روشناس کیا۔ کوئی ایک بصیرت ہے جو مشرق و مغرب کا بُعد رکھنے والے اور سیکڑوں ہزاروں برس کا فصل رکھنے والے لوگوں کو حاصل ہوئی، اور اس بصیرت سے وہ سب کے سب ایک ہی قسم کے نتائج تک پہنچے۔ لیکن مذاہب جب اپنی اصل اور اپنے مبدأ سے دُور ہوگئے تو ان میں کچھ خارجی تصورات اور اجنبی معتقدات و تعلیمات نے راہ پالی، اور چونکہ یہ بعد والی چیزیں اس مشترک مبدأ اور مشترک بصیرت سے ماخوذ نہ تھیں، بلکہ مختلف طبائع، مختلف رجحانات اور مختلف علمی و عقلی مراتب رکھنے والے انسانوں کی طبع زاد تھیں، اس لیے انھوں نے ان مشترک بنیادوں پر جو عمارتیں تعمیر کیں، وہ اپنے نقشوں اور اپنی وضع و ہیئت میں بالکل ایک دوسرے سے مختلف ہوگئیں۔
پس، حق اور صدق کا اگر حکم لگایا جاسکتا ہے تو اس اصل مشترک پر لگایا جا سکتا ہے جو تمام مذاہب میں پائی جاتی ہے نہ کہ ان مختلف تفصیلی صورتوں اور ہئیتوں پر، جن میں موجودہ مذاہب پائے جاتے ہیں۔ کیونکہ حق ایک جنس بسیط ہے، اس کے افراد میں اختلاف نہیں ہوسکتا۔ جس طرح ہم سیاہ اور سپید، سرخ اور سبز پر لفظ ’رنگ‘ کا اطلاق یکسانی کے ساتھ کرتے ہیں، اس طرح خدا ایک ہے اور خدا دو ہیں اور خدا کروڑوں ہیں کے مختلف احکام پر لفظ ’حق‘ کا اطلاق نہیں کرسکتے۔
یہ بات کہ تمام مذاہب کی اصل ایک ہے، اور ایک صداقت ہے جو مختلف قوموں پر مختلف زمانوں میں ظاہر کی گئی، قرآن مجید میں صراحت کے ساتھ بیان ہوئی ہے۔ اس کتاب میں بار بار کہا گیا ہے کہ ہر قوم میں خدا کے رسول اور پیغامبر آئے ہیں: وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا (النحل۱۶:۳۶)۔ وَ اِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیْھَا نَذِیْرٌ (فاطر۳۵:۲۴)۔یہ تمام انبیاء و رُسُل ایک سرچشمے سے صداقت کا پیغام حاصل کرتے تھے:جَآئُ وْ بِالْبَیِّنٰتِ وَ الزُّبُرِ وَ الْکِتٰبِ الْمُنِیْرِ (اٰل عمرٰن۳:۱۸۴)۔ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْكِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ (الحدید ۵۷:۲۵)۔ ان سب کا پیغام ایک ہی تھا، اور وہ یہ تھا: اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَـنِبُوا الطَّاغُوْتَ ج (النحل ۱۶:۳۶) ’’خدا کی بندگی کرو اور تمام باطل معبودوں کو چھوڑ دو‘‘۔سب پر خدا کی طرف سے ایک ہی وحی آئی تھی:
ان میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ جو کچھ ہم پیش کر رہے ہیں، وہ ہماری اپنی عقل و فکر کا نتیجہ ہے، بلکہ سب یہی کہتے رہے کہ یہ سب خدا کی طرف سے ہے:
پھر ان میں سے کسی نے یہ بھی نہیں کہا کہ تم ہماری بندگی کرو، بلکہ سب یہی کہتے رہے کہ خدا پرست بن جائو:
یہ تھی وہ مشترک تعلیم جو تمام قوموں کو ان کے مذہبی رہنمائوں نے دی تھی۔
قرآن مجید کا بیان ہے کہ اوّل اوّل تمام انسان ایک ہی امت تھے، یعنی ایک خالص انسانی فطری حالت (State of Nature)میں تھے اور ان کے پاس خدا کی طرف سے راہِ راست کا علم آیا ہوا تھا۔(۲) پھر ان میں اختلاف ہوا، اور اختلاف اس وجہ سے ہوا کہ ان میں سے بعض لوگوں نے اپنی حد ِجائز سے گزرنے، اپنے فطری مرتبے سے زیادہ بلند مرتبہ حاصل کرنے، اور اپنے فطری حقوق سے بڑھ کر حقوق قائم کرنے کی کوشش کی۔ تب اللہ تعالیٰ کی طرف سے انبیاء آنے شروع ہوئے تاکہ لوگوں کو حق کا صحیح علم دیں، اور ان کے درمیان اجتماعی عدل (Social Justice) قائم کریں۔ تمام انبیاء کا دنیا میں یہی مشن رہا ہے۔ جن لوگوں نے اس مشن کو قبول کیا اور نبی کے دیئے ہوئے علم کی ٹھیک ٹھیک پیروی کی، اور نبی کے بتائے ہوئے قانون کا اتباع کیا، صرف وہی حق پر ہیں اور باقی سب باطل پر ___وہ بھی باطل پر جنھوں نے نبی کے اتباع سے انکار کیا، اور وہ بھی باطل پر جنھوں نے نبی کی تعلیم کو اپنی خواہشات کے مطابق ڈھال لیا:
یہ ’قرآن کا نظریۂ تاریخ‘ یا ’اخلاقی تعبیر تاریخ‘ (Moral Interpretation of History) ہے، جو تمدنی اختلافات کے معمے کی طرح مذہبی اختلافات کے معمے کو بھی نہایت تشفی بخش طریقے سے حل کر دیتا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ دنیا کی تمام قوموں کے پاس خدا کے نبی اسی لیے آتے رہے کہ جس فطری مسلک حیات سے وہ اپنی ’بغاوت‘ کے سبب ہٹ گئی تھیں، اسی کی طرف پھر انھیں لے جائیں اور انھیں حق اور عدل کے طریقے پر قائم کر دیں۔ مگر وہی بغاوت کا جذبہ جو ان کی گمراہی کا اصل سبب تھا، انھیں بار بار ہٹا کر پھر ٹیڑھے راستوں کی طرف لے جاتا رہا۔ پس، جو تھوڑے بہت صحیح تصورات اور اخلاق کے برحق اصول دنیا کی مختلف قوموں میں پائے جاتے ہیں، وہ سب انبیا علیہم السلام کی تعلیمات کے وہ باقی ماندہ اثرات ہیں، جو اپنی ذاتی قوت کی وجہ سے قوموں کے اذہان اور ان کی زندگی میں جذب ہو کر رہ گئے۔
اس کے بعد قرآن جو دعویٰ پیش کرتا ہے، وہ یہ ہے کہ جس ’’اسلام‘‘ کی طرف وہ بلا رہا ہے وہ وہی ’اصل دین‘ ہے، جس کو ابتدا سے تمام قوموں میں تمام انبیا علیہم السلام پیش کرتے رہے ہیں۔ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کوئی نرالا پیغام لے کر نہیں آئے ہیں، جو پہلے کبھی پیش نہ کیا گیا ہو: قُلْ مَا کُنْتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ(احقاف۴۶:۹) ’’اے نبیؐ! ان سے کہہ دوکہ میں کوئی نرالا پیغامبر نہیں ہوں‘‘، بلکہ آپ کا پیغام وہی ہے جو ہر نبی نے ہر قوم تک ہر زمانے میں پہنچایا ہے: اِنَّـآ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ كَـمَآ اَوْحَيْنَآ اِلٰي نُوْحٍ وَّالنَّـبِيّٖنَ مِنْۢ بَعْدِہٖ ج (النساء۴:۱۶۳ ) ’’ہم نے تمھاری طرف وہی پیغام وحی کیا ہے جو نوحؑ اور ان کے بعد کے نبیوں ؑ پر وحی کیا تھا‘‘۔
اس پیغام سے عرب، مصر، ایران، ہندستان، چین، جاپان، امریکا، یورپ، افریقا، غرض کوئی سرزمین محروم نہیں رکھی گئی۔ سب جگہ اللہ کے رسولؑ، اللہ کی کتابیں لے کر آئے ہیں اور بہت ممکن ہے کہ بدھ، کرشن، رام، کنفیوشس، زردشت، مانی، سقراط، فیثاغورث وغیرہم انھی رسولوں میں سے ہوں۔ لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں اور ان دوسرے پیشوائوں میں فرق یہ ہے کہ ان کی اصل تعلیمات تولوگوں کے اختلافات میں گم ہوگئیں، مگر آنحضرتؐ نے جو کچھ پیش فرمایا وہ اصلی شکل میں محفوظ ہے۔
پس، حقیقت یہ ہے کہ ’اسلام‘ مذاہب میں سے ایک مذہب نہیں ہے بلکہ نوع انسانی کا اصل مذہب یہی ہے، اور باقی سب مذاہب اسی کی بگڑی ہوئی شکلیں ہیں۔ مذاہب میں جو کچھ ’حق‘ اور ’صدق‘ پایا جاتا ہے، وہ اسی اصل اسلام کا بچا کھچا اثر ہے جو سب کے ہاں آیا تھا اور اختلافات میں گم کر دیا گیا۔ جس مذہب میں اس باقی ماندہ حق کی مقدار جتنی زیادہ ہے، اس میں اتنا ہی زیادہ ’اسلام‘ موجود ہے۔ رہے وہ اختلافات جو اصل ’اسلام‘ کے خلاف ہیں، تو یہ سب یقیناً باطل ہیں اور ان پر ’حق‘ کا حکم لگانا صریح ظلم ہے۔
بجائے اس کے کہ ہم اس جھوٹی رواداری کا مظاہرہ کریں، ہمیں تو اپنے تمام انسانی بھائیوں سے یہ کہنا چاہیے کہ ’’دوستو، براہ کرم تعصب اور تنگ نظری کو چھوڑ دو اور حق و باطل کی آمیزشوں پر جمے رہنے کے بجائے اس چیز کو قبول کرو، جو خالص اور بے آمیز حق ہے۔ حق کسی نسل یا قوم یا ملک کی موروثی جائیداد نہیں ہے، بلکہ تمام انسانیت کی مشترک میراث ہے۔ یہ میراث خداوند عالم کی طرف سے سب ملکوں اور قوموں اور نسلوں کو بانٹی گئی تھی۔ دوسروں نے اسے اگر گم کردیا اور اس کے ساتھ مخلوقات پرستی کے، ظلم و ناانصافی کے اور بے جا امتیازات کے زہر ملا لیے تو یہ ایک بدقسمتی تھی۔ ہماری اور تمھاری سب کی بدقسمتی تھی۔ کوئی وجہ نہیں کہ تم اس بدقسمتی کے ساتھ خواہ مخواہ چمٹے رہو صرف اس وجہ سے کہ تمھارے آبا و اجداد اس غلطی کے مرتکب ہوگئے تھے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر اس میراث کو پاکر جوں کا توں پہنچا دیا اور اس کے اندر کسی مخلوق پرستی کا، کسی ظالمانہ اور غیر منصفانہ رسم و رواج کا اور کسی قسم کے بے جا امتیازات کا زہر شامل نہ ہوسکا، تو یہ ایک خوش قسمتی ہے، ہماری اور تمھاری اور سب نوع انسانی کی خوش قسمتی ہے۔ اس کا شکر ادا کرو اور اس سے فائدہ اٹھانے میں صرف اس لیے تامل نہ کرو کہ خدا کی یہ نعمت ایک عرب کے ذریعے سے تمھیں مل رہی ہے۔ حق تو اسی طرح کی عالمگیر نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے جس طرح ہوا، پانی اور روشنی اس کی عالم گیر نعمتیں ہیں۔ پھر اگر ہوا سے تم محض اس لیے ناک بند نہیں کرلیتے ہو کہ وہ مشرق سے آرہی ہے، پانی کو تم اپنے حلق سے اتارنے میں صرف اس بنا پر تامل نہیں کرتے ہو کہ اس کا چشمہ فلاں سرزمین میں واقع ہے، اور روشنی سے فائدہ اٹھانے میں تم کو صرف اس وجہ سے کوئی تامل نہیں ہوتا ہے کہ وہ فلاں شخص کے چراغ سے نکل رہی ہے، تو آخر کیا وجہ ہے کہ خالص حق کی جو نعمت تم کو محمدؐ عربی کے ذریعے سے مل رہی ہے اس کو لینے میں تم صرف اس لیے تامل کرو کہ اس کا پیش کرنے والا تمھاری سرزمین میں پیدا نہیں ہوا ہے‘۔[جون۱۹۳۴ء]
_______________
حواشی
(۱) ہروہ فعل جو حق کے خلاف ہو جھوٹ کی تعریف میں آجاتا ہے۔ ہر وہ جگہ جہاں مشرکانہ اعمال ہوتے ہوں یا جہاں مُلحد انہ خیالات ظاہر کیے جاتے ہوں، یا جہاں فحش اوربے حیائی کا ارتکاب ہوتا ہو، یا جہاں ظلم اورفسق کیا جاتا ہو، وہاںدراصل جھوٹ کا ارتکاب ہوتا ہے۔ جہاں کسی انسان یا دوسری مخلوق کو خدا بناکر انسان اس کے آگے بندگی کرتا ہو، وہاں بھی جھوٹ کے سواکچھ نہیں ہوتا۔ یہ جھوٹ کا وسیع مفہوم ہے اوراس جھوٹ کے گواہ نہ بننے سے مراد یہ ہے کہ مومن ایسے مقامات پر قصداً نہ جائے گا کہ ان افعال کو دیکھے اور ان کا شاہد بنے۔
(۲) یہ نکتہ ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ آج کل کے ’نظریۂ ارتقا‘ اورفلسفۂ تاریخ کے برعکس قرآنِ مجید کا بیان یہ ہے کہ زمین پر نوعِ انسانی کا آغاز جہالت کی تاریکی میں نہیں ہوا بلکہ خداداد علم کی روشنی میں ہوا تھا۔ خدا نے سب سے پہلے انسان، یعنی آدم علیہ السلام کو پیغمبر بنایا تھا اور ان کو الہام کےذریعے سے وہ علم دےدیا تھا جو زمین پر صحیح زندگی بسر کرنے کے لیے ضروری تھا۔
(۳) آیت میں قرآن نے لفظ ’بغی‘ استعمال کیا ہے، جس کے معنی اپنی جائز حدسے گزرنے اور زیادتی اورسرکشی کرنے کے ہیں۔ قرآنِ مجید تمام اعتقادی گمراہیوں اوراجتماعی ظلم (Social Injustice) کی بنااس کوقراردیتا ہےکہ بعض انسانوں میں اپنی حد سے بڑھنے کا جذبہ پیدا ہوجاتا ہے، مثلاً بعض انسان دوسرے انسانوں کے خدا بن بیٹھتے ہیں اور ان سے اپنی بندگی کراتے ہیں۔ بعض خودتو خدا بننے کی ہمت نہیں رکھتے مگر کسی بُت یا خیالی دیوتا یا کسی قبر کے پُجاری یا مجاور بن جاتے ہیں اور ان معبودوں کے واسطے سے لوگوں پر اپنا اقتدار جماتے ہیں۔ بعض مذہبی عہدہ دار بن کر لوگوں کی فلاح و نجات کے ٹھیکے دار بنتے ہیں اور اس طرح برہمنیت اور پاپائیت وجود میں آتی ہے۔ بعض اپنی بہتر مالی حالت سے ناجائز فائدہ اُٹھاکر معاشی لوٹ کی مختلف صورتیں اختیار کرتے ہیں ۔ غرض یہ کہ انسان کو فطری حالت سے نکال کر اعتقادی اور سماجی حیثیات سے اختلاف میں مبتلاکرنے والی چیز دراصل یہی ’بغی‘ ہے۔
(۴) ’ترازو‘ سے مراد وہ کمال درجے کا متوازن (Well Balanced) نظامِ اجتماعی ہے، جو شریعت ِ الٰہی کی صورت میں انبیاء علیہم السلام کے ذریعے سے بھیجا گیا تاکہ انسانوں کے درمیان عدل قائم کیا جائے۔
قرآن و حدیث سے عام قاعدہ یہ معلوم ہوتاہے کہ ہرشخص کا اپنا عمل ہی اس کے لیے مفید ہے۔ ایک شخص کا عمل دوسرے کے لیے آخرت میں مفید نہ ہوگا لیکن بعض احادیث سے یہ استثنائی صورت بھی معلوم ہوتی ہےکہ ایصالِ ثواب کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح کی جتنی احادیث بھی ہمیں ملی ہیں، ان سب میں کسی خالص بدنی عبادت کا ذکر نہیں ہے بلکہ ایسی عبادت کا ذکر ہے، جو یا تو صرف مالی عبادت ہے جیسے صدقہ،یا مالی و بدنی عبادت ملی جُلی ہے، جیسے حج۔اسی بنا پر فقہا [کا] ایک گروہ اسے مالی اوربدنی عبادات دونوں میں جاری کرتا ہے اوردوسرا گروہ اس کو ان عبادات کے لیےمخصوص کرتا ہے جو یا تو خالص مالی عبادات ہیں یا جن میں بدنی عبادت مالی عبادت کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔ میرے نزدیک یہ دوسرا مسلک اس لیے مرجح ہے کہ قاعدئہ کلیہ میں اگر کوئی استثناء کسی حکم سے نکلتا ہو تو اس استثناء کو اسی حد تک محدود رکھنا چاہیے جس حدتک وہ حکم سے نکلتا ہے۔ اسے عام کرنا میری رائے میں درست نہیں ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص پہلے گروہ کے مسلک پر عمل کرتا ہے تو اسے ملامت نہیں کی جاسکتی کیونکہ شریعت میں اس کی گنجایش بھی پائی جاتی ہے۔
ایصالِ ثواب کامیت کے لیے نافع ہونا یا نہ ہونا اللہ کی مرضی پر موقوف ہے، تو اس کا سبب دراصل یہ ہے کہ ایصالِ ثواب کی نوعیت محض ایک دُعا کی ہے، یعنی ہم اللہ سے یہ دُعا کرتے ہیں کہ یہ نیک عمل جو ہم نےتیری رضاکےلیے کیا ہے اس کا ثواب فلاں مرحوم کو دیا جائے۔ اس دُعا کی حیثیت ہماری دوسری دُعائوں سے مختلف نہیں ہے۔ اور ہماری سب دُعائیں اللہ کی مرضی پر موقوف ہیں۔ وہ مختار ہے کہ جس دُعا کو چاہے قبول فرمائے اورجسے چاہے قبول نہ فرمائے۔
ایصالِ ثواب ہر ایک کےلیے کیا جاسکتا ہے۔ خواہ متوفی سے کوئی قربت ہو یا نہ ہو، اورخواہ متوفی کا کوئی حصہ آدمی کی تربیت میں ہو یا نہ ہو۔ جس طرح دُعا ہر ایک شخص کے لیے کی جاسکتی ہے، اسی طرح ایصالِ ثواب بھی ہرایک کے لیے کیا جاسکتا ہے۔(’رسائل و مسائل‘، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۵۵، عدد۵، فروری ۱۹۶۱ء، ص۴۷-۴۸)
یقینا اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے: اور ہرگز ہلکا نہ پائیں تم کو وہ لوگ جو یقین نہیں لاتے۔۸۵
۸۵- یعنی دشمن تم کو ایسا کمزور نہ پائیں کہ ان کے شوروغوغا سے تم دب جاؤ، یا ان کی بہتان و افترا کی مہم سے تم مرعوب ہوجاؤ،یا ان کی پھبتیوں اور طعنوںاورتضحیک و استہزاء سے تم پست ہمت ہوجاؤ ، یا ان کی دھمکیوں اور طاقت کے مظاہروں اور ظلم و ستم سے تم ڈرجاؤ، یا ان کے دیے ہوئے لالچوں سے تم پھسل جاؤ، یا قومی مفاد کے نام پر جو اپیلیں وہ تم سے کررہے ہیں، ان کی بناپر تم ان کے ساتھ مصالحت کرلینے پر اُتر آؤ۔
اس کے بجائے وہ تم کو اپنے مقصد کے شعور میں اتنا ہوش مند، اور اپنے یقین و ایمان میں اتنا پختہ، اور اپنے عزم میں اتنا راسخ اور اپنے کیرکٹر میں اتنا مضبوط پائیں کہ نہ کسی خوف سے تمھیں ڈرایا جاسکے، نہ کسی قیمت پر تمھیں خریدا جاسکے، نہ کسی فریب سے تم کوپھسلایا جاسکے، نہ کوئی خطرہ یا نقصان یا تکلیف تمھیں اپنی راہ سے ہٹا سکے۔ اور نہ دین کے معاملے میں کسی لین دین کا سودا تم سے چکایا جاسکے۔
یہ سارا مضمون اللہ تعالیٰ کے کلامِ بلاغت نظام نے اس ذراسے فقرے میں سمیٹ دیا ہے کہ ’’یہ بے یقین لوگ تم کو ہلکا نہ پائیں‘‘۔ اب اس بات کا ثبوت تاریخ کی بے لاگ شہادت دیتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دُنیا پر ویسے ہی بھاری ثابت ہوئےجیسا اللہ، اپنے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھاری بھرکم دیکھنا چاہتا تھا۔آپؐ سے جس نے جس میدان میں بھی زور آزمائی کی، اس نے اسی میدان میں مات کھائی اور آخر اس شخصیت ِ عظمیٰ نے وہ انقلاب برپا ہی کرکے دکھادیا، جسے روکنے کے لیے عرب کے کفروشرک نے اپنی ساری طاقت صرف کر دی اور اپنے سارے حربے استعمال کرڈالے۔ (’تفہیم القرآن‘، سورئہ روم،سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۵۵، عدد۴، جنوری ۱۹۶۱ء، ص۲۸-۲۹)
’مطالبۂ پاکستان‘ کو یہود کے ’قومی وطن‘ سے تشبیہ دینا غلط ہے [۱۹۴۴ء]
سوال: مسلمان، آدم علیہ السلام کی خلافتِ ارضی کا وارث ہے۔ مسلمان کی زندگی کا مقصد صرف اللہ پاک کی رضا اور اس کے مقدس قانون پر چلنا اور دوسروں کو چلنے کی ترغیب دینا ہے۔ لیکن مسٹرمحمدعلی جناح اور مسلم لیگی بھائی پاکستان کا قیام چاہتے ہیں، ہندستان کی زمین کا ایک گوشہ، تاکہ ان کے خیال کے مطابق مسلمان چَین کی زندگی گزار سکیں۔
کیا خالص دینی نقطۂ نظر سے یہ مطالبہ قابلِ اعتراض نہیں ہے؟ یہودی قوم مقہور و مغضوب قوم ہے۔ اللہ پاک نے اس پر زمین تنگ کر دی ہے اور ہرچند کہ اس قوم میں دُنیا کے بڑے سے بڑے سرمایہ دار اور مختلف علوم کے ماہرین موجود ہیں، لیکن اُن کے قبضے میں ایک انچ زمین بھی نہیں ہے۔ آج وہ اپنا قومی وطن بنانے کے لیے کبھی انگریزوں سے بھیک مانگتے ہیں اور کبھی امریکاوالوں سے۔ میرے خیا ل میں مسلمان، یا بالفاظِ دیگر آل انڈیا مسلم لیگ بھی یہی کر رہی ہے۔ تو پھر کیا یہ ایک مقہور اور مغضوب قوم کی پیروی نہیں ہے؟
جواب: میرے نزدیک پاکستان کے مطالبے پر، یہودیوں کے قومی وطن کی تشبیہ چسپاں نہیں ہوتی:
فلسطین فی الواقع یہودیوں کا قومی وطن نہیں ہے، اُن کو وہاں سے نکلے ہوئے دوہزار برس گزرچکے ہیں۔ اُسے اگراُن کا قومی وطن کہا جاسکتا ہے، تو اُسی معنی میں جس معنی میں جرمنی کی آریہ نسل کے لوگ وسطِ ایشیا کواپنا قومی وطن کہہ سکتے ہیں۔ یہودیوں کی اصل پوزیشن یہ نہیں ہے کہ ایک ملک [فلسطین] واقعی اُن کا قومی وطن ہے اور وہ اسےتسلیم کرانا چاہتے ہیں، بلکہ ان کی اصلی پوزیشن یہ ہے کہ ایک ملک ان کا قومی وطن نہیں ہے، اور اُن کا مطالبہ یہ ہے کہ ’’ہم کو دنیا کے مختلف گوشوں سے سمیٹ کروہاں بسایا جائے اور اُسے بزور ہمارا قومی وطن بنا دیا جائے‘‘۔
بخلاف اس کے، مطالبۂ پاکستان کی بنیاد یہ ہے کہ ’’جس علاقے میں مسلمانوں کی اکثریت آباد ہے، وہ بالفعل مسلمانوں کا قومی وطن ہے‘‘، اور مسلمانوں کا مطالبہ صرف یہ ہے کہ ’’موجودہ جمہوری نظام میں ہندستان کےدوسرے حصوں کے ساتھ لگےرہنے سے، اُن کےقومی وطن کی سیاسی حیثیت کو جو نقصان پہنچتا ہے، اُس سے اس کو محفوظ رکھاجائے، اور متحدہ ہندستان کی ایک آزاد حکومت کے بجاے، ’ہندو ہندستان‘ اور’مسلم ہندستان‘ کی دو آزاد حکومتیں قائم ہوں۔ یعنی بالفاظِ دیگر وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ ’’ان کا قومی وطن جو بالفعل موجود ہے، اُس کو اپنی آزاد حکومت الگ قائم کرنے کا حق حاصل ہوجائے‘‘۔
یہ چیز بعینہٖ وہی ہے، جو آج دُنیا کی ہرقوم چاہتی ہے۔ اور اگرمسلمانوں کے مسلمان ہونے کی حیثیت کو نظرانداز کرکے انھیں صرف ایک قوم کی حیثیت سے دیکھا جائے، تو اُ ن کے اِس مطالبے کے حق بجانب ہونے میں کوئی کلام نہیں کیا جاسکتا۔ ہم اصولاً اس بات کے مخالف ہیں کہ دُنیا کی کوئی قوم کسی دوسری قوم پر سیاسی و معاشی حیثیت سے مسلط ہو۔ ہمارے نزدیک اصولاً یہ ہرقوم کا حق ہے کہ اس کی سیاسی و معاشی باگیں اس کے اپنے ہاتھوں میں ہوں۔ اس لیے ایک قوم ہونے کی حیثیت سے اگر مسلمان یہ مطالبہ کرتے ہیں تو جس طرح دوسری قوموں کے معاملے میں یہ مطالبہ صحیح ہے، اسی طرح ان کے معاملے میں بھی صحیح ہے۔ (ترجمان القرآن، جولائی- اکتوبر، ۱۹۴۴ء، ص۱۰۳-۱۰۴)
سوال: فلسطین کی سیاست میں امریکا اور برطانیہ کی خود غرضانہ دخل اندازی اور اسلام دشمنی کے نتائج واضح ہیں۔ جماعت اسلامی کی قضیۂ فلسطین کے سلسلے میں پالیسی کیا ہے؟
جواب: ہمارے نزدیک برطانیہ اور امریکا سخت ظلم کررہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ فلسطین کے معاملے میں انھوں نے بے انصافی کی حد کردی ہے۔ اہلِ فلسطین سے ہمدردی کرنا ہرانسان کا انسانی فرض ہے، اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارے لیے یہ فرض کئی گنا زیادہ سخت ہوجاتا ہے کہ ہم اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ ہمدردی کریں۔ پھر فلسطین کا مسئلہ اس لیے بھی اہم ہے کہ اگر خدانخواستہ وہاں یہودی ریاست بن گئی، تو اس سے مرکز اسلام ، یعنی حجاز کو بھی متعدد قسم کے خطرات لاحق ہوجائیں گے۔ اس معاملے میں دُنیا کے مسلمان مدافعت کے لیے جو کچھ بھی کریں، ہم ان کے ساتھ ہیں۔
ہمارے نزدیک اصل مسئلہ کفر و اسلام کی کش مکش کا ہے اور ہم اپناسارا وقت،ساری قوت اور ساری توجہ اسی مسئلے پر صرف کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ (ترجمان القرآن، ستمبر ۱۹۴۶ء، ص۲۵۱-۲۵۲)
[۳۰؍اگست ۱۹۶۷ء کو ایک خط کے جواب میں لکھا:]
کشمیر کے معاملے میں پاکستان کو جو تجربہ پچھلے [چندبرسوں] سے ہو رہا ہے اور عرب ممالک کو اسرائیلی جارحیت کے بعد جو تجربہ ہوا ہے، اس نے یہ بات بالکل واضح کردی کہ دُنیا میں آج بھی ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ کا قاعدہ ہی جاری ہے۔ آج بھی قوت ہی حق ہے، اور کسی قوم کے لیے اس کی اپنی طاقت کے سوا اس کے حقوق کی حفاظت کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے۔ پہلی جنگ ِ عظیم کے بعد دنیا کو ایک فریب ’مجلس اقوام‘ کے نام سے ایک انجمن بنا کردیا گیا، مگر بہت جلدی یہ بات کھل گئی کہ ’بہرتقسیم قبور انجمنے ساختہ اند‘۔ پھر دوسری جنگ عظیم کے بعددوسرا فریب ’اقوام متحدہ‘ کی تنظیم قائم کرکے دیا گیا، مگر آج کسی سے بھی یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ یہ تنظیم چند بڑی طاقتوں کے ہاتھ میں ایک کھلونا ہے، جسے وہ حق اور انصاف کے لیے نہیں بلکہ اپنی مصلحتوں کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ ظالم کا ہاتھ پکڑنا اور مظلوم کا حق دِلوانا تو درکنار، یہ تنظیم تو ظالم کو ظالم کہنے تک کے لیے تیار نہیں ہے۔ بلکہ اب تو کھلم کھلا مظلوم کو ’حقیقت پسندی‘ کا درس دیا جارہا ہے، جس کے معنی صاف صاف یہ ہیں کہ مظلوم اپنی کمزوری اور ظالم کی زورآوری کو ایک امرواقعہ کی حیثیت سے تسلیم کرے، اور ظالم نے طاقت کے بل بوتے پر اس کا جو حق مار کھایا ہے،اس پر صبرکرے۔
ان حالات میں یہ اُمید کرنا بالکل لاحاصل ہے کہ کشمیر میں ہندستان نے اور شرقِ اوسط میں اسرائیل نے جو غاصبانہ دست درازیاں کی ہیں، ان کا تدارک محض حق و انصاف کی بنیاد پر کوئی بین الاقوامی طاقت کرائے گی۔ یہاں اخلاق کا نہیں بلکہ جنگل کا قانون جاری ہے۔ ہمیں خدا پر بھروسا کرکے اپنی طاقت ہی سے غاصبوں کی ان زیادتیوں کا تدارک کرنا ہوگا، اور ان کا تدارک جب بھی ہوگا بزورِ شمشیر ہی ہوگا۔(مکاتیب ِ سیّدابوالاعلیٰ مودودی، اوّل ص ۲۰۹-۲۱۱)
[رومن کیتھولک مسیحی سربراہ پوپ پال ششم کے نام دسمبر ۱۹۶۷ء کے خط میں لکھا:]
مسیحی دُنیا کے متعلق مسلمانوں کا عام احساس یہ ہے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک شدید جذبۂ عناد رکھتی ہے، اور آئے دن ہمیں ایسے تجربات ہوتے رہتے ہیں، جو اس احساس کو تقویت پہنچاتے ہیں۔ اس کا تازہ ترین تجربہ وہ ہے جو [جون ۱۹۶۷ء] میں عرب اسرائیل جنگ کے موقعے پر ہوا۔ اس لڑائی میں اسرائیل کی فتح پر یورپ اور امریکا کے بیش تر ملکوں میں جس طرح خوشیاں منائی گئیں، انھوں نے تمام دنیا کے مسلمانوں کے دل میں زخم ڈال دیے ہیں۔ آپ شاید ہی کوئی مسلمان ایسا پائیں گے، جس نے عربوں کی شکست اور اسرائیل کی فتح پر مسیحی دُنیا کے اس علی الاعلان اظہارِ مسرت و شادمانی اور اسرائیل کی کھلی کھلی حمایت کو دیکھ کر یہ محسوس نہ کیا ہو کہ یہ اسلام اورمسلمانوں کے خلاف مسیحیوں کے گہرے جذبۂ عناد کا مظاہرہ تھا۔
فلسطین میں اسرائیل کی ریاست جس طرح بنی ہے ،بلکہ بنائی گئی ہے۔ اس کی تاریخ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ دوہزار برس سے فلسطین عرب آبادی کا وطن تھا۔ موجودہ [۲۰ویں] صدی کے آغاز میں وہاں یہودی ۸ فی صدی سے زیادہ نہ تھے۔ اس حالت میں برطانوی حکومت نے اس کو یہودیوں کا قومی وطن بنانے کا فیصلہ کیا اور ’مجلسِ اقوام‘ نے نہ صرف اِس فیصلے کی توثیق کی بلکہ برطانوی حکومت کو فلسطین کا مینڈیٹ دیتے ہوئے یہ ہدایت کی وہ یہودی ایجنسی کو باقاعدہ شریک ِ حکومت بنا کر اس تجویز کو عملی جامہ پہنائے۔ اس کے بعد دُنیا بھر کے یہودیوں کو لالاکر، ہرممکن تدبیر سے فلسطین میں بسانے کاسلسلہ شروع کر دیا گیا، یہاں تک کہ ۳۰سال کے اندر ان کی آبادی ۳۳فی صدی تک پہنچ گئی۔ یہ ایک صریح ظلم تھا، جس کے ذریعے سے ایک قوم کے وطن میں زبردستی ایک دوسری اجنبی قوم کا وطن بنایا گیا۔ پھر ایک دوسرا اس سے بھی زیادہ ظالمانہ قدم اُٹھایا گیا اور امریکا نے کھلے بندوں دباؤ ڈال کر اقوامِ متحدہ سے یہ فیصلہ کرایا کہ یہودیوں کے اس مصنوعی قومی وطن کو یہودی ریاست میں تبدیل کردیا جائے۔ اس فیصلے کی رُو سے ۳۳فی صدی یہودی آبادی کو فلسطین کا ۵۵ فی صدی، اورعربوں کی ۶۷ فی صدی آبادی کو ۴۵ فی صدی رقبہ الاٹ کیا گیا تھا۔ لیکن یہودیوں نے لڑ کرطاقت کے بل پر اس ملک کا ۷۷ فی صدی رقبہ حاصل کرلیا اور ماردھاڑ اور قتل و غارت کے ذریعے سے لاکھوں عربوں کو گھر سے بے گھر کر دیا۔ یہ ہے اسرائیل کی اصل حقیقت۔ کیا دُنیا کا کوئی انصاف پسند اور ایمان دار آدمی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ ایک جائز ریاست ہے جو فطری اور منصفانہ طریق سے بنی ہے؟
اس [اسرائیل]کا تو عین وجود ہی ایک بدترین جارحیت ہے۔ اور اس پر مزید ظلم یہ ہے کہ یہودی صرف اُن حدود کے اندر محدود رہنے پر بھی راضی نہیں ہیں، جو انھوں نے فلسطین میں زبردستی حاصل کی ہیں، بلکہ وہ سالہا سال سے علانیہ کہہ رہے ہیں کہ نیل سے فرات تک کا پورا علاقہ ان کا قومی وطن ہے۔ اس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ یہ قوم ہروقت یہ جارحانہ ارادہ رکھتی ہے کہ اس پورے علاقے پر جبراً قبضہ کرے اور اس کے اصل باشندوں کو زبردستی نکال کر، دُنیا بھر میں پھیلے ہوئے یہودیوں کو وہاں لاکر بسائے۔
اسی جارحانہ اسکیم کا ایک جز گذشتہ ماہِ جون [۱۹۶۷ء]کا وہ اچانک حملہ تھا، جس کے ذریعے سے اسرائیل نے۲۶ہزار مربع میل علاقے پر قبضہ کیا۔ اس پورے ظلم کی ذمہ دار مسیحی دُنیا ہے۔ اُس نے ایک قوم کے وطن میں ایک دوسری قوم کا وطن زبردستی بنوایا۔ اُس نے اس مصنوعی قومی وطن کو ایک ریاست میں تبدیل کرایا۔ اُس نے اِس جارح ریاست کو روپے اور ہتھیاروں سے مدددے کراتنا طاقت ور بنایا کہ وہ زبردستی اپنے توسیعی منصوبوں کو عمل میں لاسکے۔ اور اب اس ریاست کی تازہ فتوحات پر یہی مسیحی دُنیا جشنِ شادمانی منارہی ہے۔
کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس کے بعد نہ صرف عربوں میں، بلکہ تمام دنیا کے مسلمانوں میں مسیحیوں کی انصاف پسندی، اُن کی خیراندیشی اور مذہبی عناد و تعصب سے اُن کی بریت پر کوئی اعتماد باقی رہ گیا ہے؟ اور کیا آپ کا خیال ہے کہ دُنیا میں امن قائم کرنے کے یہی طریقے ہیں؟ یہ دراصل ہمارا نہیں بلکہ آپ کا کام ہے کہ مسیحی بھائیوں کو اِس رَوش پر شرم دلائیں اور ان کی روح کو اِس گندگی سے پاک کرنے کی کوشش کریں۔ (مکاتیب ِ سیّدابوالاعلیٰ مودودی، اوّل ص ۲۲۱-۲۲۳)
سوال: سورئہ بنی اسرائیل ، آیت ۱۰۴ کے متعلق اخبار صدق جدید (لکھنؤ) میں مولانا عبدالماجد دریابادی [۱۶مارچ ۱۸۹۲ء-۶جنوری ۱۹۷۷ء]نے یہ تشریح کی ہے کہ ’’اس میں وَعْدُ الْاٰخِرَۃِ سے یَوْمُ الْاٰخِرَۃِ نہیںہے بلکہ قیامت کے قریب ایک وقت موعود ہے اور جِئْنَا بِكُمْ لَفِيْفًا سے مراد بنی اسرائیل کے مختلف گروہوں کو ایک جگہ اکٹھا کر دینا ہے‘‘۔ پھر جناب دریابادی فرماتے ہیں کہ ’’مطلب واضح ہے، یعنی اسرائیلیوں کو بعد ِ واقعۂ فرعون کی خبر دےدی گئی تھی کہ اب تو تم آزاد ہو، دُنیا میں جہاں چاہو رہو بسو، البتہ جب زمانہ قربِ قیامت کا آجائے گا تو ہم تم کو مختلف سمتوں سے، مختلف ملکوں سے، مختلف زبانیں بولتے ہوئے، مختلف وضع و لباس اختیارکیے ہوئے ، سب کو ایک جگہ جمع کردیں گے اور وہ جگہ اور کون سی ہوسکتی ہے بجز ان کے قدیم وطن ملک فلسطین کے۔ آج جو ارضِ فلسطین میں یہود کا اجتماع ہر ہرملک سے ہورہا ہے، کیا یہ اسی غیبی پیش خبری کاظہور نہیں؟‘‘ مولانا دریابادی صاحب کی اس تشریح سے ڈر ہے کہ یہ فلسطین کے متعلق عام جذبۂ جہاد کو ٹھنڈا کردے گا۔
جواب:آیت ِ مذکورہ کی اس تشریح کو دیکھ کر تعجب ہوا۔ آیت کے الفاظ تو صرف یہ ہیں کہ:
وَّقُلْنَا مِنْۢ بَعْدِہٖ لِبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اسْكُنُوا الْاَرْضَ فَاِذَا جَاۗءَ وَعْدُ الْاٰخِرَۃِ جِئْنَا بِكُمْ لَفِيْفًا۱۰۴ۭ (بنی اسرائیل ۱۷:۱۰۴) اور اس کے بعد (یعنی فرعون کی غرقابی کے بعد) ہم نے بنی اسرائیل سے کہا کہ زمین میں رہو بسو، پھر جب آخرت کے وعدے کا وقت آئے گا تو ہم تم کو اکٹھا کر لائیں گے۔
ان الفاظ میں ’قربِ قیامت کے وقت ِ موعود‘ اور بنی اسرائیل کے وطنِ قدیم میں یہودیوں کے مختلف گروہوں کو ملک ملک سے لاکر جمع کردینے کا، مفہوم آخر کہاں سے نکل آیا؟ وَعْدُ الْاٰخِرَۃِ کاسیدھااور صاف مطلب آخرت کا وعدہ ہے، نہ کہ ’قیامت کے قریب زمانے کا کوئی وقت ِ موعود‘۔ اور سب کو اکٹھا کرکے لانے یاجمع کرلانے سے مراد قیامت کے روز جمع کرنا ہے۔ اس میں کوئی اشارہ تک اس بات کی طرف نہیں ہے کہ اسی دنیا میں بنی اسرائیل کو ایک جگہ جمع کیا جائے گا۔
اس پر مزید ستم یہ ہے کہ ’’ایک جگہ جمع کرنے‘‘ کے تصور کو آیت کے الفاظ میں داخل کرنے ہی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ [مولانا دریابادی صاحب نے] یہ بھی طے کردیا [ہے]کہ وہ جگہ ’اسرائیلیوں کے وطنِ قدیم‘ کے سوااور کوئی نہیں ہوسکتی۔ یہ تو بعینہٖ یہودیوں کے اس دعوے کی تائید ہے کہ ’دو ہزار برس تک فلسطین سے بے دخل رہنے کے باوجود اُس پران کا حق فائق ہے، کیونکہ وہ ان کا وطن قدیم ہے، اور اب دو ہزار برس سے یہ ملک جن لوگوں کا حقیقت میں وطن ہے، ان کے مقابلے میں برطانیہ اورروس اور امریکا نے نہیں، بلکہ خود اللہ تعالیٰ نے اس سرزمین پریہودیوں کے حقِ سکونت کو فائق قرار دے کر انھیں ہرملک سے وہاں جمع کروایا ہے‘۔ اس طرح تو ’اسرائیلی ریاست کا قیام اللہ تعالیٰ کے ایک وعدے کا نتیجہ قرار پاتا ہے، نہ کہ دنیا کی ظالم قوموں کی ایک سازش کا‘۔ حالانکہ آیت کے الفاظ میں اس مفہوم کے لیے قطعاًکوئی گنجایش نہیں ہے۔ (ترجمان القرآن، جون ۱۹۷۶ء، ص ۳۸-۳۹)
سوال: اسرائیلی وزیراعظم مناخم بیگن [۱۹۱۳ء-۱۹۹۲ء]نے اپنے دورئہ امریکا کے فوراً بعد حال ہی میں تین غیرقانونی یہودی بستیوں کو دریائے اُردن کے مغربی کنارے پرقانونی حیثیت دی ہے۔ مزیدبرآں اسرائیلی حکومت تین اورنئی بستیاں مغربی کنارے پربسارہی ہے۔ اس سلسلے میں آپ کا ردِعمل کیا ہے؟
جواب: امریکی حکومت اگر انصاف اوراخلاق کے تمام اصولوں کو نظرانداز کرکے یہودیوں کی بے جا حمایت اور امداد و اعانت کرنے پر تلی ہوئی نہ ہوتی، تو اسرائیل کبھی اتنا جری و بے باک نہ ہوسکتا تھا کہ پےدرپے ایک سے ایک بڑھ کر ڈاکازنی اورغصب و ظلم کے جرائم کاارتکاب کرتا چلاجاتا۔ اس لیےمَیں ’اصل مجرم امریکا کی بےضمیری‘ کو قرار دیتا ہوں، جسے ساری دنیا کے سامنے اس جرائم پیشہ ریاست کی پیٹھ ٹھونکتےہوئے ادنیٰ سی شرم تک محسوس نہیں ہوتی۔
امریکا، یہودیوں سے اس حد تک دبا ہوا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم کی آمدکے موقعے پر ان کے مذہبی پیشوا اور بااثر لیڈر، امریکی صدر پر ہجوم کرکے آتے ہیں۔ [اسرائیلی وزیراعظم]بیگن کی پذیرائی کے لیے اس پر دباؤ ڈالتے ہیں اور اس کو درپردہ ہی نہیں اشاروں کنایوں میں یہ احساس بھی دلا دیتے ہیں کہ ’جسے امریکا کا صدر بننا ہو، وہ یہودی ووٹوں کا محتاج ہے‘۔ اس پس منظر میں انسانی حقوق اور اخلاق و انصاف کے دعوے دار [امریکی صدر]جمی کارٹر صاحب، بیگن کے اس انتہائی بے شرمانہ بیان کو شیرمادر کی طرح نوش فرما لیتے ہیں کہ ’’دریائے اُردن کے مغربی جانب کا فلسطین، جو ۱۹۶۷ء کی جنگ میں عربوں سے چھینا گیا تھا، وہ [اسرائیل کے زیرتسلط کوئی]مقبوضہ (occupied) علاقہ نہیں ہے، بلکہ آزاد کرایا ہوا (lliberated ) علاقہ ہے اور یہ ہماری میراث ہے، جس کا وعدہ چارہزار برس پہلے بائبل میں ہم سے کیا گیا تھا، اس لیے ہم اسے نہیںچھوڑیں گے‘‘۔
یہ کھلی کھلی بے حیائی کی بات، امریکی حکام اور عوام سب کے سب سنتے ہیں اورکوئی پلٹ کر نہیں پوچھتا کہ بائبل کی چالیس صدی قدیم بات آج کسی ملک پر ایک قوم کے دعوے کی بنیاد کیسے بن سکتی ہے؟ اور ایسی دلیلوں سے اگر ایک قوم کے وطن پردوسری قوم کا قبضہ جائز مان لیا جائے،تو نہ معلوم اورکتنی قومیں اپنے وطن سے محروم کردی جائیں گی۔ (ترجمان القرآن، اکتوبر ۱۹۷۷ء، ص۴۱-۴۲)
سوال: مسجد اقصیٰ کی دیواروں کے نیچے اسرائیل کھدائی جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس سے مسجد کو سخت خطرہ لاحق ہے۔ اس بارے میں آپ اظہارِ خیال فرمائیں۔
جواب:مسجد اقصیٰ میں جو اکھیڑپچھاڑ یہودی کررہے ہیں ، اور جو کچھ وہ الخلیل میں مسجد ابراہیمی کے ساتھ کرچکے ہیں، اس کی کوئی روک تھام، بیانات اور قراردادوں اور اقوام متحدہ کےفیصلوں سے نہیں ہوسکتی۔ یہودی یہ سب کچھ طاقت کے بل پر کررہے ہیں اور وہ طاقت اس کو امریکا بہم پہنچا رہا ہے۔ جب تک ہم امریکا پر یہودیوں کے دباؤ سے بڑھ کر دباؤ ڈالنے کے قابل نہ ہوجائیں، اس ڈاکا زنی کا سلسلہ نہیں رُک سکتا۔ (ترجمان القرآن، اکتوبر ۱۹۷۷ء، ص ۴۲)
انسانی زندگی اور تاریخ آزمایشوں، مصیبتوں اور ناقابلِ تصور حوادث سے گندھی ہوئی ہے۔ اکثر اوقات یہ آزمایشیں انسانوں کے لیے ایک اچانک حادثہ قرار دی جاتی ہیں کہ ایسے بھیانک منظر کا قبل ازیں تصور بھی نہیں کیا جاتا۔ پھر لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ مصائب و مشکلات بعض اوقات سرزنش اور عذاب کی صورت میں سامنے آتی ہیں۔ مگر عذاب کی سی اُس صورتِ حال کو ظاہربین اور الٰہی ہدایت سے بے نیاز لوگ محض ’حادثہ‘ ہی قرار دیتے ہیں، حالانکہ یہ حادثے سے بہت بڑی افتاد اور ہلامارنے کا لامتناہی سلسلہ ہوتا ہے۔ اکثر مصائب تو خود انسانوں کے ہاتھوں پرورش پاتے اور پھر اسی انسان کو بلاخیزی سے کچل ڈالتے ہیں۔ ایسے مصائب و حوادث قدرتِ حق کی جانب سے، باغی و سرکش انسان کی بددماغی پر کھلی تنبیہہ ہوتے ہیں۔
بہرحال، گذشتہ ڈیڑھ دو ماہ کے دوران اس کرئہ ارضی پر ’’نوول کرونا وائرس‘ اس انداز سے رُونما ہوا، چاروں طرف پھیلا اور جان لیوا تباہی کا طوفان بن کر یوں مسلط ہوا ہے کہ دہشت، خوف، بے بسی اور بےچارگی نے ’انسان عظیم ہے‘ کے غبارے کو ٹکڑوں میں بکھیر کر رکھ دیا ہے۔اس چیز کو آزمایش کہیں یا عذاب قرار دیں؟ قدرتی طور پر یا خود انسان کے ہاتھوں پیدا کردہ آفات کو اللہ کا عذاب قرار دینے کا ہم کو حق نہیں ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ہم متعین طور پر فیصلہ نہیں دے سکتے کہ قوموں کی تباہی کے قانون کے رازدان اللہ کے پیغمبر علیہم السلام ہی تھے، لیکن چند در چند علامتوں سے نتائج ضرور اخذ کرسکتے ہیں۔
یہ امرِواقعہ ہے کہ گذشتہ ڈیڑھ سو برس کے دوران، ایک طرف انسان نے جہاں سائنس، میڈیکل، خلائی اسرار، فنون اور ضرب و حرب کے میدان میں ناقابلِ تصور ترقی کی۔ دوسری طرف ہزاروں برسوں پر پھیلے اخلاقیات و الٰہی ہدایات پر مبنی فکری و عملی اور تہذیبی و سماجی ڈھانچے کو برباد کرنے کا پاگل پن بھی اسی انسان کے دماغ میں جڑ پکڑنے لگا۔ اس فساد کے پھول، پھل لانے کے لیے خدا کی ہستی کا انکار ضروری قرار دیا گیا اور الٰہی ہدایت کو ایک واہمہ اور افسانہ قرار دینا عقل و دانش کی علامت سمجھا جانے لگا۔ فوجی، سیاسی، مادی، سائنسی اور مالی قوت کو حتمی سچائی قرار دے کر انسانیت کے چیتھڑے اڑانے کو ’طاقت کا قانون‘ قرار دیا گیا، جس کی بدنما مثال ’ویٹو کلب‘ اور عالمی مالیاتی و تجارتی کلب کے کرتا دھرتا ہیں۔ جو من مانے فیصلے کرکے کمزور ملکوں اورقوموں کو روند ڈالتے ہیں۔ جب جی چاہے کیمیائی، جوہری، جراثیمی ہتھیارو آلات بناکر فضائی آلودگی پھیلانے اور ماحولیاتی توازن بگاڑنے کی دھونس جماتے ہیں۔ اس طرح قوت اور اخلاقیات سے بغاوت پر مبنی ’جدیدجاہلیت‘ نے ’عصرجدید‘ کو تشکیل دیا ہے۔ اسی عصرِ جدید کے مظہر ۱۹۸ ممالک، آج ’کرونا وائرس‘ کے نہایت حقیروجود کے سامنے اپنی بے بسی اور درماندگی میں موت اور تباہی کے شکنجے کو اپنی طرف بڑھتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔
یہاں پر مولانا سیّدابوالاعلیٰ موددی رحمۃ اللہ علیہ (۱۹۰۳-۱۹۷۹ء) کی دو تحریروں کے کچھ حصے پیش کیے جارہے ہیں، جن کا موضوع براہِ راست موجودہ منظرنامہ تو نہیں ہے، لیکن اس طوفان و آزمایش یا تاریخ کے ناقابلِ تصور امتحان پر غور وفکر کا سامان ضرور موجود ہے: پہلا حصہ انھوں نے ستمبر۱۹۳۳ء میں تحریر فرمایا تھا اور دوسرا حصہ تفہیم القرآن کے لیے اگست ۱۹۶۱ء میں تحریر کیا تھا۔(ادارہ)
[۱]
قرآنِ مجید میں جگہ جگہ ان قوموں کا ذکر آیا ہے، جن پر گذشتہ زمانے میں اللہ کا عذاب نازل ہوا ہے۔ ہرقوم پر نزولِ عذاب کی صورت مختلف رہی ہے: عاد پر کسی طرح کا عذاب اُترا، ثمود پر کسی اور طرح کا، اہلِ مدین پر کسی دوسری صورت میں، آلِ فرعون پر ایک نئے انداز میں۔ مگر عذاب کی شکلیں اور صورتیں خواہ کتنی ہی مختلف ہوں، وہ قانون جس کے تحت یہ عذاب نازل ہوا کرتا ہے ایک ہی ہے اور ہرگز بدلنے والا نہیں:
سُـنَّۃَ اللہِ فِي الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ۰ۚ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللہِ تَبْدِيْلًا۶۲(احزاب ۳۳:۶۲) یہ اللہ کی سنت ہے جو ایسے لوگوں کے معاملے میں پہلے سے چلی آرہی ہے، اور تم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے۔
نزولِ عذاب کے اس قانون کی تمام دفعات پوری تشریح کے ساتھ قرآنِ مجید میں درج ہیں۔ اس کی پہلی دفعہ یہ ہے کہ جب کسی قوم کی خوش حالی بڑھ جاتی ہے، تو وہ غلط کاری اور گمراہی کی طرف مائل ہوجاتی ہے اور خود اس کی عملی قوتوں کا رُخ صلاح سے فساد کی طرف پھر جایا کرتا ہے:
وَاِذَآ اَرَدْنَآ اَنْ نُّہْلِكَ قَرْيَۃً اَمَرْنَا مُتْرَفِيْہَا فَفَسَقُوْا فِيْہَا فَحَـــقَّ عَلَيْہَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰہَا تَدْمِيْرًا۱۶ (بنی اسرائیل ۱۷:۱۶) اور جب ہم ارادہ کرتے ہیں کہ کسی بستی کو ہلاک کریں تو اس کے خوش حال لوگوں کو حکم دیتے ہیں اور وہ لوگ اس بستی میں نافرمانیاں کرنے لگتے ہیں۔ پھر وہ بستی عذاب کے حکم کی مستحق ہوجاتی ہے ۔ پھر ہم اس کو تباہ و برباد کرڈالتے ہیں۔
دوسرا قاعدئہ کلیہ یہ ہے کہ خدا کسی قوم پر ظلم نہیں کرتا۔ بدکار قوم خود ہی اپنے اُوپر ظلم کرتی ہے۔ خدا کسی قوم کو نعمت دے کر اس سے کبھی نہیں چھینتا۔ ظالم قوم خود اپنی نعمت کے درپئے استیصال ہوجاتی ہے اور اس کے مٹانے کی کوشش کرتی ہے:
ذٰلِكَ بِاَنَّ اللہَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِّعْمَۃً اَنْعَمَہَا عَلٰي قَوْمٍ حَتّٰي يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ۰ۙ (انفال ۸:۵۳) یہ اللہ کی اُس سنت کے مطابق ہے کہ وہ کسی نعمت کو جو اس نے کسی قوم کو عطا کی ہو، اُس وقت تک نہیں بدلتا، جب تک کہ وہ قوم خود اپنے طرزِعمل کو نہیں بدل دیتی۔
فَمَا كَانَ اللہُ لِيَظْلِمَہُمْ وَلٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَہُمْ يَظْلِمُوْنَ۷۰(التوبہ ۹:۷۰) پھر یہ اللہ کا کام نہ تھا کہ ان پر ظلم کرتا ، مگر وہ آپ ہی اپنے اُوپر ظلم کرنے والے تھے۔
پھر یہ بھی اسی قانون کی ایک دفعہ ہے کہ خدا ظلم (برنفسِ خود) پر مواخذہ کرنے میں جلدی نہیں کرتا بلکہ ڈھیل دیتا ہے اور تنبیہیں کرتا رہتا ہے کہ نصیحت حاصل کریں اور سنبھل جائیں:
وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللہُ النَّاسَ بِظُلْمِہِمْ مَّا تَرَكَ عَلَيْہَا مِنْ دَاۗبَّۃٍ وَّلٰكِنْ يُّؤَخِّرُہُمْ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى۰ۚ (النحل ۱۶:۶۱)اگر کہیں اللہ، لوگوں کو ان کی زیادتی پر فوراً ہی پکڑ لیا کرتا تو روے زمین پر کسی متنفّس کو نہ چھوڑتا۔ لیکن وہ سب کو ایک مقررہ وقت تک مہلت دیتا ہے۔
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلٰٓى اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَاَخَذْنٰہُمْ بِالْبَاْسَاۗءِ وَالضَّرَّاۗءِ لَعَلَّہُمْ يَتَضَرَّعُوْنَ۴۲ فَلَوْلَآ اِذْ جَاۗءَہُمْ بَاْسُـنَا تَضَرَّعُوْا وَلٰكِنْ قَسَتْ قُلُوْبُہُمْ وَزَيَّنَ لَہُمُ الشَّيْطٰنُ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۴۳ (انعام ۶:۴۲-۴۳) تم سے پہلے بہت سی قوموں کی طرف ہم نے رسول ؑبھیجے اور ان قوموں کو مصائب و آلام میں مبتلا کیا، تاکہ وہ عاجزی کے ساتھ ہمارے سامنے جھک جائیں۔ پس ، جب ہماری طرف سے ان پر سختی آئی تو کیوں نہ انھوں نے عاجزی اختیار کی؟ مگر ان کے دل تو سخت ہوگئے اور شیطان نے ان کو اطمینان دلایا کہ جو کچھ تم کر رہے ہو، خوب کر رہے ہو۔
اس ڈھیل کے زمانے میں اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ ظالم قوموں کو خوش حالی کے فتنے میں مبتلا کر دیا جاتا ہے۔ وہ اس سے دھوکا کھا جاتی ہیں اور واقعی یہ سمجھ بیٹھتی ہیں کہ ہم ضرور نیکوکار ہیں ورنہ ہم پر نعمتوں کی بارش کیوں ہوتی؟
اَيَحْسَبُوْنَ اَنَّمَا نُمِدُّہُمْ بِہٖ مِنْ مَّالٍ وَّبَنِيْنَ۵۵ۙ نُسَارِعُ لَہُمْ فِي الْخَــيْرٰتِ۰ۭ بَلْ لَّا يَشْعُرُوْنَ۵۶ (المومنون ۲۳:۵۵-۵۶)کیا یہ سمجھتے ہیں کہ ہم جو انھیں مال اولاد سے مدد دیے جارہے ہیں، تو گویا انھیں بھلائیاں (فائدے) دینے میں سرگرم ہیں؟ نہیں، اصل معاملے کا انھیں شعور نہیں ہے۔
آخرکار جب وہ قوم کسی طرح کی تنبیہہ سے بھی نہیں سنبھلتی اور ظلم کیے ہی جاتی ہے، تو خدا اس کے حق میں نزولِ عذاب کا فیصلہ کردیتا ہے، اور جب اس پر عذاب کا حکم ہوجاتا ہے تو کوئی قوت اس کو نہیں بچاسکتی:
وَتِلْكَ الْقُرٰٓى اَہْلَكْنٰہُمْ لَمَّا ظَلَمُوْا وَجَعَلْنَا لِمَہْلِكِہِمْ مَّوْعِدًا۵۹ (الکھف ۱۸:۵۹) یہ عذاب رسیدہ بستیاں تمھارے سامنے موجود ہیں، انھوں نے جب ظلم کیا تو ہم نے انھیں ہلاک کر دیا، اور ان میں سے ہر ایک کی ہلاکت کے لیے ہم نے وقت مقرر کر رکھا تھا۔
وَكَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ اِذَآ اَخَذَ الْقُرٰي وَہِىَ ظَالِمَۃٌ ۰ۭ اِنَّ اَخْذَہٗٓ اَلِيْمٌ شَدِيْدٌ۱۰۲ (ھود۱۱:۱۰۲)اورتیرا ربّ جب کسی ظالم بستی کو پکڑتا ہے تو پھر اس کی پکڑ ایسی ہی ہوا کرتی ہے۔ فی الواقع اس کی پکڑ بڑی سخت اور دردناک ہوتی ہے۔
وَاِذَآ اَرَادَ اللہُ بِقَوْمٍ سُوْۗءًا فَلَا مَرَدَّ لَہٗ ۰ۚ وَمَا لَہُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ مِنْ وَّالٍ۱۱ (الرعد ۱۳:۱۱) اور جب اللہ کسی قوم کی شامت لانے کا فیصلہ کرلے، تو پھر وہ کسی کے ٹالے نہیں ٹل سکتی، نہ اللہ کے مقابلے میں ایسی قوم کا کوئی حامی و مددگار ہوسکتا ہے۔
یہ عذابِ الٰہی کا اٹل قانون جس طرح پچھلی قوموں پر جاری ہوتا رہا ہے، اسی طرح آج بھی اس کا عمل جاری ہے۔ اور اگر بصیرت ہو تو آج آپ خود اپنی آنکھوں سے اس کے نفاذ کی کیفیت ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ مغرب کی وہ عظیم الشان قومیں جن کی دولت مندی و خوش حالی، طاقت و جبروت، شان و شوکت، عقل و ہنر کو دیکھ دیکھ کر نگاہیں خیرہ ہوئی جاتی ہیں، اور جن پر انعامات کی پیہم بارشوں کے مشاہدے سے یہ دھوکا ہوتا ہے، کہ شاید یہ خدا کے بڑے ہی مقبول اور چہیتے بندے اور خیروصلاح کے مجسّمے ہیں، ان کی اندرونی حالت پر ایک غائر نگاہ ڈالیے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ وہ اس عذابِ الٰہی کے قانون کی گرفت میں آچکی ہیں۔اور انھوں نے اپنے آپ کو خود اپنے انتخاب و اختیار سے اس دیوِ ظلم (ظلم بر نفسِ خود) کے چنگل میں پوری طرح پھنسا دیا ہے، جو تیزی کے ساتھ انھیں تباہی و ہلاکت کی طرف لیے چلا جارہا ہے۔
وہی صنعت و حرفت کی فراوانی، وہی تجارت کی گرم بازاری، وہی وباے سیاست کی کامیابی، وہی علومِ حکمیہ و فنونِ عقلیہ کی ترقی، وہی نظامِ معاشرت کی سربفلک بلندی، جس نے ان قوموں کو دنیا پر غالب کیا ، اور روے زمین پر ان کی دھاک بٹھائی ، آج ایک ایسا خطرناک جال بن کر ان کو لپٹ گئی ہے جس کے ہزاروں پھندے ہیں اور ہرپھندے میں ہزاروں مصیبتیں ہیں۔ وہ اپنی عقلی تدبیروں سے جس پھندے کو کاٹنے کی کوشش کرتے ہیں، اس کا ہرتار کٹ کر ایک نیا پھندا بن جاتا ہے، اور رہائی کی ہرتدبیر مزید گرفتاری کا سبب ہوجاتی ہے ع
از سر گرہ زند گرہِ ناکشودہ را
یہاں ان تمام معاشی اور سیاسی اور تمدنی مصائب کی تفصیل کا موقع نہیں ہے، جن میں مغربی قومیں اس وقت گرفتار ہیں۔ بیانِ مدّعا کے لیے اس تصویر کا ایک پہلو پیش کیا جاتا ہے، جس سے معلوم ہوجائے گا کہ یہ قومیں کس طرح اپنے اُوپر ظلم کررہی ہیں اور کس طرح اپنے ہاتھوں اپنی ہلاکت کا سامان مہیا کیے جارہی ہیں۔
اپنے معاشی، تمدنی اور سیاسی احوال کی خرابی کے اسباب تشخیص کرنے اور ان کا علاج تجویز کرنے میں اہلِ فرنگ سے عجیب عجیب غلطیاں ہورہی ہیں۔ منجملہ ان کے ایک غلطی یہ ہے کہ وہ اپنی مشکلات کا بڑا بلکہ اصل سبب آبادی کی کثرت کو سمجھنے لگے اور ان کو اس کا صحیح علاج یہ نظر آیا کہ افزایش نسل کو روکا جائے، معاشی مشکلات کے ساتھ ساتھ یہ خیال نہایت تیزی کے ساتھ مغربی ممالک میں پھیلنا شروع ہوا، اور دلوں میں کچھ اس طرح بیٹھا کہ لوگ اپنی نسل کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھنے لگے، یا بالفاظِ دیگر اپنی نسل کے سب سے بڑے دشمن بن گئے۔
چنانچہ، ضبط ِ ولادت کے نئے نئے طریقے جو پہلے کسی کے ذہن میں بھی نہ آتے تھے، عام طور پر رائج ہونے شروع ہوئے۔ اس تحریک کو ترقی دینے کے لیے نہایت وسیع پیمانے پر تبلیغ و اشاعت کی گئی۔ کتابیں، پمفلٹ، رسائل اور جرائد خاص اسی موضوع پر شائع ہونے لگے۔ انجمنیں اور جمعیتیں قائم ہوئیں۔ ہرعورت اور مرد کو اس کے متعلق معلومات بہم پہنچانے ، اور عملی آسانیاں فراہم کرنے کا انتظام کیا گیا۔ غرض یورپ اور امریکا کے عمرانی ’مصلحین‘ نے اپنی نسلوں کے خلاف ایک زبردست جنگ چھیڑ دی اور ’جوشِ اصلاح‘ میں ان کو یہ سوچنے کا ہوش بھی نہ آیا کہ آخر یہ جنگ کہاں جاکر رُکے گی۔
اہلِ فرنگ نے کیا اس کا اطمینان کرلیا ہے کہ کسی روز مغربی افریقہ کے مچھر، زردبخار کے جراثیم لیے ہوئے خود انھی کے ہوائی جہازوں پر بیٹھ کر یورپ نہ پہنچ جائیں گے؟ کیا انھوں نے اس کی کوئی ضمانت لے لی ہے کہ کبھی یورپ میں [یا دُنیا میں کہیں بھی] اچانک انفلوائنزا ، طاعون، ہیضہ اور ایسے ہی دوسرے وبائی امراض میں سے کوئی مرض نہ پھیل جائے گا؟ کیا وہ اس سے بے خوف ہوچکے ہیں کہ ایک دن یکایک فرنگی سیاست کے باروت خانوں میں سے کسی ایک میں ویسی ہی کوئی چنگاری نہ آپڑے گی، جیسی ۱۹۱۴ء میں سرائیوو میں گری تھی اور پھر فرنگی قومیں خود اپنے ہاتھوں سے وہ سب کچھ نہ کرگزریں گی جو کوئی وبا اور کوئی بیماری نہیں کرسکتی؟ اگر ان میں سے کوئی صورت بھی پیش آگئی اور دفعتاً یورپ کی آبادی سے چندکروڑ آدمی قتل یا ہلاک یا ناکارہ ہوگئے تو اس وقت یورپ کے باشندوں کو معلوم ہوگا کہ انھوں نے اپنے آپ کو خود کس طرح تباہ کیا:
اَفَاَمِنَ اَہْلُ الْقُرٰٓي اَنْ يَّاْتِـيَہُمْ بَاْسُـنَا بَيَاتًا وَّہُمْ نَاۗىِٕمُوْنَ۹۷ۭ اَوَاَمِنَ اَہْلُ الْقُرٰٓي اَنْ يَّاْتِـيَہُمْ بَاْسُـنَا ضُـحًى وَّہُمْ يَلْعَبُوْنَ۹۸ اَفَاَمِنُوْا مَكْرَ اللہِ ۰ۚ فَلَا يَاْمَنُ مَكْرَ اللہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْخٰسِرُوْنَ۹۹ (اعراف ۷:۹۷ تا۹۹)پھر کیا بستیوں کے لوگ اب اس سے بے خوف ہوگئے ہیں کہ ہماری گرفت کبھی اچانک ان پر رات کے وقت نہ آجائے گی، جب کہ وہ سوئے پڑے ہوں؟ یا انھیں اطمینان ہوگیا ہے کہ ہمارا مضبوط ہاتھ کبھی یکایک ان پر دن کے وقت نہ پڑے گا، جب کہ وہ کھیل رہے ہوں؟ کیا یہ لوگ اللہ کی چال سے بے خوف ہیں؟ حالانکہ اللہ کی چال سے وہی قوم بے خوف ہوتی ہے، جو تباہ ہونے والی ہوتی ہے۔
ایسی ہی ایک قوم اب سے تین ہزار برس پہلے عرب کے جنوبی ساحل پر آباد تھی جس کا ذکر قرآن مجید میں سبا کے نام سے کیا گیا ہے۔اس قوم کی گھنی آبادی کا سلسلہ سواحلِ بحرہند سے سواحلِ بحراحمر تک پھیلا ہوا تھا۔ ہندستان اور یورپ کے درمیان جتنی تجارت اس زمانے میں ہوتی تھی، وہ سب اسی قوم کے ہاتھوں میں تھی۔ اس کے تجارتی قافلے جنوبی ساحل سے مال لے کر چلتے تو مغربی ساحل تک مسلسل بستیوں اور باغوں کی چھاؤں میں چلے جاتے تھے:
وَجَعَلْنَا بَيْنَہُمْ وَبَيْنَ الْقُرَى الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْہَا قُرًى ظَاہِرَۃً وَّقَدَّرْنَا فِيْہَا السَّيْرَ ۰ۭ سِيْرُوْا فِيْہَا لَيَالِيَ وَاَيَّامًا اٰمِنِيْنَ۱۸ (السبا۳۴: ۱۸) اور ہم نے ان کے اور اُن بستیوں کے درمیان، جن کو ہم نے برکت عطا کی تھی، نمایاں بستیاں بسادی تھیں اور ان میں سفر کی مسافتیں ایک اندازے پر رکھ دی تھیں۔ چلو پھرو، ان راستوں میں رات دن پورے امن کے ساتھ۔
مگر انھوں نے اللہ کی اس نعمت کو مصیبت سمجھا اور چاہا کہ ان کی یہ گھنی، متصل، مسلسل بستیاں کم ہوجائیں اور ان کا باہمی فصل بڑھ جائے:
فَقَالُوْا رَبَّنَا بٰعِدْ بَيْنَ اَسْفَارِنَا وَظَلَمُوْٓا اَنْفُسَہُمْ (السبا۳۴: ۱۹) انھوں نے کہا: ’’اے ہمارے ربّ، ہمارے سفر کی مسافتیں لمبی کردے‘‘۔ انھوں نے اپنے اُوپر ظلم کیا۔
یہاں لفظ بٰعِدْ بَيْنَ اَسْفَارِنَا سے پتا چلتا ہے کہ تجارتی خوش حالی کی وجہ سے جب آبادی بڑھی اور بستیاں گنجان ہوگئیں تو وہاں بھی یہی سوال پیدا ہوا تھا، جو آج یورپ میں پیدا ہوا ہے۔ اور وَظَلَمُوْٓا اَنْفُسَہُمْ سے اشارہ ملتا ہے کہ شاید انھوں نے بھی مصنوعی تدبیروں سے آبادی گھٹانے کی کوشش کی ہوگی۔ پھر ان کا حشر کیا ہوا؟
فَجَعَلْنٰہُمْ اَحَادِيْثَ وَمَزَّقْنٰہُمْ كُلَّ مُمَــزَّقٍ ۰ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُوْرٍ۱۹ (السبا: ۱۹) [آخرکار ہم نے انھیں افسانہ بنا کر رکھ دیا اور انھیں بالکل ہی تتربتر کردیا۔ یقینا، اس میں نشانیاں ہیں ہر اُس شخص کے لیے ، جو بڑا صابروشاکر ہو۔]
[یعنی] خدا نے ان کو منتشر اور پارہ پارہ کرکے ایسا تباہ و برباد کیا کہ بس ان کا وجود افسانوں ہی میں رہ گیا۔ [۱۹۳۳ء]
[۲]
وَلَنُذِيْـقَنَّہُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰى دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَكْبَرِ لَعَلَّہُمْ يَرْجِعُوْنَ۲۱ (السجدہ ۳۲:۲۱) اُس ’عذابِ اکبر‘ سے پہلے ہم اسی دنیا میں (کسی نہ کسی چھوٹے) عذاب کا مزا انھیں چکھاتے رہیں گے کہ یہ (اپنی باغیانہ روش سے) باز آجائیں۔
’عذابِ اکبر‘ سے مراد آخرت کا عذاب ہے، جو کفروفسق کی پاداش میں دیا جائے گا۔ اس کے مقابلے میں ’عذاب ادنیٰ‘ کا لفظ استعمال کیا گیاہے، جس سے مراد وہ تکلیفیں ہیں، جو اِسی دنیا میں انسان کو پہنچتی ہیں، مثلاً افرد کی زندگی میں سخت بیماریاں، اپنے عزیز ترین لوگوں کی موت، المناک حادثے، نقصانات، ناکامیاں وغیرہ۔ اور اجتماعی زندگی میں طوفان،زلزلے، سیلاب، وبائیں، قحط، فسادات، لڑائیاں اور دوسری بہت سی بلائیں، جو ہزاروں، لاکھوں، کروڑوں انسانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔ ان آفات کے نازل کرنے کی مصلحت [قرآن کریم میں] یہ بیان کی گئی ہے کہ عذابِ اکبر میں مبتلا ہونے سے پہلے ہی لوگ ہوش میں آجائیں اور اُس طرزِفکروعمل کو چھوڑ دیں جس کی پاداش میں آخرکار وہ بڑا عذاب بھگتنا پڑے گا۔
دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو بالکل بخیریت ہی نہیں رکھا ہے کہ پورے آرام و سکون سے زندگی کی گاڑی چلتی رہے اور وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجائے کہ اُس سےبالاتر کوئی طاقت نہیں ہے جو اس کا کچھ بگاڑ سکتی ہو۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے ایسا انتظام کررکھا ہے کہ وقتاً فوقتاً افراد پر بھی اور قوموں اور ملکوں پر بھی ایسی آفات بھیجتا رہتا ہے، جو اسے اپنی بے بسی اور اپنے سے بالاتر ایک ہمہ گیر سلطنت کی فرماںروائی کا احساس دلاتی ہیں۔یہ آفات ایک ایک شخص کو، ایک ایک گروہ کو اور ایک ایک قوم کو یہ یاد دلاتی ہیں، کہ اُوپر تمھاری قسمتوں کو کوئی اور کنٹرول کر رہا ہے۔ سب کچھ تمھارے ہاتھ میں نہیں دے دیا گیا ہے۔ اصل طاقت اسی کارفرما اقتدار کے ہاتھ میں ہے۔ اُس کی طرف سے جب کوئی آفت تمھارے اُوپر آئے، تو نہ تمھاری کوئی تدبیر اسے دفع کرسکتی ہے، اور نہ کسی جِنّ یا روح، یا دیوی اور دیوتا، یا نبی اور ولی سے مدد مانگ کر تم اس کو روک سکتے ہو۔اس لحاظ سے یہ آفات محض آفات نہیں ہیں بلکہ خدا کی تنبیہات ہیں، جو انسان کو حقیقت سے آگاہ کرنے اور اس کی غلط فہمیاں رفع کرنے کے لیے بھیجی جاتی ہیں۔ ان سے سبق لے کر دنیا ہی میں آدمی اپنا عقیدہ اور عمل ٹھیک کرلے تو آخرت میں خدا کا بڑا عذاب دیکھنے کی نوبت ہی کیوں آئے۔
وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُكِّرَ بِاٰيٰتِ رَبِّہٖ ثُمَّ اَعْرَضَ عَنْہَا ط (السجدہ ۳۲:۲۲) اور اس سے بڑا ظالم کون ہوگا، جسے اس کے ربّ کی آیات کے ذریعے سے نصیحت کی جائے اور پھر وہ ان سے منہ پھیر لے۔
’ربّ کی آیات‘ ،یعنی اُس کی نشانیوں کے الفاظ بہت جامع ہیں، جن کے اندر تمام اقسام کی نشانیاں آجاتی ہیں۔ قرآنِ مجید کے جملہ بیانات کو نگاہ میں رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ نشانیاں حسب ذیل چھے قسموں پر مشتمل ہیں:
۱- وہ نشانیاں جو زمین سے لے کر آسمان تک ہرچیز میں اور کائنات کے مجموعی نظام میں پائی جاتی ہیں۔
۲- وہ نشانیاں جو انسان کی اپنی پیدایش اور اس کی ساخت اور اس کے وجود میں پائی جاتی ہیں۔
۳- وہ نشانیاں جو انسان کے وجدان میں، اس کے لاشعور اور تحت الشعور میں، اور اس کے اخلاقی تصورات میں پائی جاتی ہیں۔
۴- وہ نشانیاں جو انسانی تاریخ کے مسلسل تجربات میں پائی جاتی ہیں۔
۵- وہ نشانیاں جو انسان پر آفاتِ ارضی و سماوی کے نزول میں پائی جاتی ہیں۔
۶- اور ان سب کے بعد وہ آیات جو اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیا علیہم السلام کے ذریعے سے بھیجیں تاکہ معقول طریقے سے انسان کو انھی حقائق سے آگاہ کیا جائے، جن کی طرف اُوپر کی تمام نشانیاں اشارہ کر رہی ہیں۔
یہ ساری نشانیاں پوری ہم آہنگی، اور بلند آہنگی کے ساتھ انسان کو یہ بتارہی ہیں کہ تو بے خدا نہیں ہے، نہ بہت سے خداؤں کا بندہ ہے، بلکہ تیرا خدا صرف ایک ہی خدا ہے جس کی عبادت و اطاعت کے سوا تیرے لیے کوئی دوسرا راستہ صحیح نہیں ہے۔ تُو اس دنیا میں آزاد و خودمختار اور غیرذمہ دار بناکر نہیں چھوڑ دیا گیا ہے بلکہ تجھے اپنا کارنامۂ حیات ختم کرنے کے بعد اپنے خدا کے سامنے حاضر ہوکر جواب دہی کرنی ہے اور اپنے عمل کے لحاظ سے جزا اور سزا پانا ہے۔ پس، تیری اپنی خیر اسی میں ہے کہ تیرے خدا نے تیری رہنمائی کے لیے اپنے انبیا علیہم السلام اور اپنی کتابوں کے ذریعے سے جو ہدایت بھیجی ہے، اس کی پیروی کر اور خودمختاری کی روش سے باز آجا۔
اب یہ ظاہر ہے کہ جس انسان کو اتنے مختلف طریقوں سے سمجھایا گیا ہو، جس کی فہمایش کے لیے طرح طرح کی اتنی بے شمار نشانیاں فراہم کی گئی ہوں، اور جسے دیکھنے کے لیے آنکھیں، سننے کے لیے کان اور سوچنے کے لیے دل کی نعمتیں بھی دی گئی ہوں، وہ اگر ان ساری نشانیوں کی طرف سے آنکھیں بند کرلیتا ہے، سمجھانے والوں کی تذکیر و نصیحت کے لیے بھی اپنے کان بند کرلیتا ہے، اور اپنے دل و دماغ سے بھی اوندھے فلسفے ہی گھڑنے کا کام لیتا ہے، اس سے بڑا ظالم کوئی نہیں ہوسکتا۔ وہ پھر اسی کا مستحق ہے کہ دنیا میں اپنے امتحان کی مدت ختم کرنے کے بعد جب وہ اپنے خدا کے سامنے حاضر ہو تو بغاوت کی بھرپور سزا پائے۔[اگست ۱۹۶۱ء/تفہیم القرآن، ج۴، ص ۴۷-۴۸]
حکومت ِ پاکستان نے صوبہ پنجاب کے ان ہنگاموں اور واقعات کے اسباب معلوم کرنے کے لیے، جو ۶مارچ ۱۹۵۳ء میں لاہور میں مارشل لا لگانے کا باعث بنے تھے، جسٹس محمدمنیر کی صدارت میں ایک تحقیقاتی کمیٹی مقرر کی تھی۔ اس کمیٹی کی سماعتوں کے دوران میں جسٹس محمدمنیر باربار قائداعظمؒ کی اس تقریر سے جو ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کو انھوں نے مجلس دستور ساز میں کی تھی، یہ استدلال کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ ’’پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانا قائداعظم کے پیش نظر نہ تھا‘‘۔ اس پر مولانا مودودیؒ نے ۸نومبر۱۹۵۳ء کو جیل ہی سے ایک تفصیلی بیان کمیٹی کے نام بھیجا ، جس کا ایک حصہ یہاں پیش ہے۔ یادرہے کہ منیر انکوائری کمیٹی کی مرتبہ رپورٹ اپریل ۱۹۵۴ء میں شائع ہوئی تھی۔ اس کمیٹی کے تضادات اور بدنیتی پر مبنی نتائج کا تفصیلی جواب بھی مولانا مودودیؒ نے تحریر فرمایا تھا، جسے پروفیسر خورشیداحمد صاحب نے انگریزی میں An Analysis of Munir Report کے عنوان سے اور محترم نعیم صدیقی صاحب نے تحقیقاتی رپورٹ پر تبصرہ کے نام سے شائع کیا تھا۔ ادارہ
اصولی سوالات پر بحث کرنے سے پہلے مَیں اس غلط فہمی کو صاف کر دینا چاہتا ہوں جو قائداعظمؒ کی اُس تقریر سے پیدا ہوئی، جو انھوں نے ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان کی مجلس دستورساز میں کی تھی۔ اس تقریر سے تین نتیجے نکالے جاتے ہیں:
♦ اوّل یہ کہ قائداعظمؒ نے اس تقریر میں ایک ایسی ’پاکستانی قومیت‘ کی بنا ڈالنے کا اعلان کیا تھا، جو وطنیت پر مبنی ہو، اور جس میں پاکستان کے ہندو، مسلمان، عیسائی وغیرہ سب ایک قوم ہوں۔
♦ دوم یہ کہ مرحوم نے اس تقریر میں یہ فیصلہ کر دیا تھا کہ پاکستان کا دستور غیرمذہبی نوعیت کا، یعنی ’سیکولر‘ ہوگا۔
♦ سوم یہ کہ مرحوم کی اس تقریر کو کوئی ایسی آئینی حیثیت حاصل ہے، جس کی وجہ سے پاکستان کے باشندے، یا اس کے دستورساز اب اس کے کھینچے ہوئے خطوط سے ہٹ نہیں سکتے۔
میرے نزدیک یہ تینوں نکات جو اس تقریر سے بطورِ نتیجہ نکالے جاتے ہیں، صحیح نہیں ہیں اور اپنی اس راے کے لیے میرے دلائل حسب ذیل ہیں:
قائداعظمؒ کی اس تقریر کے الفاظ خواہ بظاہر پہلے اور دوسرے مفہوم کے حامل ہوں، مگر ہمارے لیے یہ باور کرنا بہت مشکل ہے کہ ان کا منشا بھی حقیقت میں وہی تھا، جو ان کے الفاظ سے مترشح ہوتا ہے۔ اس لیے کہ ان کے مرتبے کے انسان سے ہم یہ توقع نہیں کرسکتے کہ وہ پاکستان کے قیام سے پہلے دس سال تک جن اصولوں کو بنیاد بناکر لڑتے رہے تھے ، ان سے وہ پاکستان قائم ہوتے ہی یک لخت پلٹ گئے ہوں گے، اور انھی اصولوں کے قائل ہوگئے ہوں گے، جن کے خلاف انھوں نے اپنی ساری قوم کو ساتھ لے کر جنگ کی تھی۔ نیز ہم یہ گمان بھی نہیں کرسکتے کہ وہ قیامِ پاکستان کے پہلے ہی دن یکایک اپنے ان تمام وعدوں سے پھر گئے ہوں گے، جو انھوں نے بارہا، صاف اور صریح الفاظ میں اپنی قوم سے کیے تھے، اور جن کے اعتماد ہی پر قوم ان کو اپنا لیڈر مان کر اپنی جان و مال ان کے اشاروں پر قربان کرنے کے لیے آمادہ ہوئی تھی۔
پھر ہمارے لیے یہ ماننا بھی ممکن نہیں ہے کہ قائداعظمؒ ایسی متضاد باتیں کرسکتے تھے کہ ۱۱؍اگست کو ایک اعلان کریں اور پھر اس کے بعد بار بار اس کے بالکل خلاف باتوں کا مسلمان پبلک کو یقین دلاتے رہیں۔ اس لیے ہمارے نزدیک ان کی مذکورہ بالا تقریر کو ان کے اگلے اور پچھلے ارشادات کی روشنی میں سمجھنا زیادہ بہتر ہے، بہ نسبت اس کے کہ ہم اس کا کوئی ایسا مفہوم لیں، جو ان کی تمام باتوں کے خلاف پڑتا ہے، جو انھوں نے اس سے پہلے فرمائیں اور اس کے بعد بھی فرماتے رہے۔
سب کو معلوم ہے کہ قائداعظم کی [انڈین نیشنل]کانگریس سے لڑائی تھی ہی دو قومی نظریے کی بنیاد پر۔ ۱۰؍اگست ۱۹۴۷ء تک ان کا مستقل نظریہ یہ تھا کہ مسلمان ایک الگ قوم ہیں اور وہ غیرمسلموں کےساتھ مل کر ایک متحدہ وطنی قومیت نہیں بناسکتے۔ اس کے متعلق ان کی بہت سی تحریروں اور تقریروں میں سے صرف ایک تحریر کا اقتباس مَیں یہاں نقل کروں گا، جو ۱۵ستمبر۱۹۴۴ء کو گاندھی جی کے ساتھ اپنی خط کتابت کے سلسلے میں لکھی تھی: [قائداعظمؒ اور خان لیاقت علی خانؒ کی تحریروں اور تقریروں سے اقتباسات عدالت میں پیش کردہ بیان میں انگریزی میں تھے۔ یہاں اشاعت کی سہولت کے لیے ان کا ترجمہ کردیا گیا ہے۔]
ہم اس کے قائل ہیں اور ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ مسلمان اور ہندو دو بڑی قومیں ہیں، جو ’قوم‘ کی ہرتعریف اور معیار پر پورا اُترتی ہیں۔ ہم ۱۰کروڑ کی ایک قوم ہیں۔ مزید برآں ہم ایک ایسی قوم ہیں، جو ایک مخصوص اور ممتاز تہذیب و تمدن، زبان و ادب، آرٹ اور فن تعمیر ، احساس اقدار و تناسب، قانونی احکام و اخلاقی ضوابط، رسم و رواج وتقویم (کیلنڈر)، تاریخ اور روایات، رجحانات اور عزائم کی مالک ہے۔ خلاصہ بحث یہ ہے کہ زندگی اور اس کے متعلقات کے بارے میں ہمارا اپنا ایک امتیازی زاویۂ نگاہ ہے، اور بین الاقوامی قانون کی ہردفعہ کے لحاظ سے ہم ایک قوم ہیں۔(مسٹرجناح کی تقریریں اور تحریریں (بزبانِ انگریزی)، مرتبہ: جمیل الدین احمد، ص ۱۸۱)
اب کیا ہم یہ باور کرلیں کہ ۱۱؍اگست [۱۹۴۷ء] کو یک لخت وہ تمام خصوصیتیں مٹ گئیں، جو مسلمانوں کو غیرمسلموں سے جداکرکے ایک الگ قوم بناتی تھیں اور یکایک ایک ایسی نئی قومیت کے اسباب فراہم ہوگئے، جس میں مسلمانوں اور غیرمسلموں کا جذب ہونا ممکن ہوگیا؟ اگر ہم اس بات کو مان لیں تو قائداعظمؒ کو اس الزام سے نہیں بچایا جاسکتا کہ وہ ایک بااصول آدمی نہ تھے، بلکہ محض سیاسی مصلحتوں کی خاطر اصول بناتے اور بدلتے تھے۔ مرحوم کی وفات کے پانچ سال بعد ان کی روح کو ایسے الزامات کا تحفہ پیش کرنے کے لیے مَیں توکسی طرح تیار نہیں ہوسکتا۔
بے شمار شہادتیں اس امر کی موجود ہیں کہ پاکستان کے قیام سے پہلے بھی قائداعظمؒ مسلمانوں سے ایک اسلامی ریاست کا وعدہ کرتےرہے تھے اور اس کے بعد بھی وہ اس وعدے کو دُہراتے رہے۔ پہلے کے وعدوں میں سے صرف چند مثالیں ملاحظہ ہوں۔ ۲۱نومبر ۱۹۴۵ء کو فرنٹیرمسلم لیگ کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے انھوں نے فرمایا:
مسلمان، پاکستان کا مطالبہ کرتے ہیں، جہاں وہ خود اپنے ضابطۂ حیات، اپنے تہذیبی ارتقا، اپنی روایات اور اسلامی قانون کے مطابق حکمرانی کرسکیں (حوالہ مذکور، ص۴۳۷)۔
پھر اسی کانفرنس میں انھوں نے ۲۴نومبر کو تقریر کرتے ہوئے اس خیال کا اظہار فرمایا:
ہمارا دین، ہماری تہذیب ، ہمارے اسلامی تصورات ہی وہ اصل طاقت ہیں، جو ہمیں آزادی حاصل کرنے کے لیے متحرک کرتے ہیں(حوالہ مذکور،ص ۴۲۲)۔
پھر اسی زمانے میں اسلامیہ کالج پشاور کے طلبہ کو خطاب کرتے ہوئے انھوں نے یہ الفاظ ارشاد فرمائے:
لیگ، ہندستان کے ان حصوں میں آزاد ریاستوں کےقیام کی علَم بردار ہے، جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، تاکہ وہ وہاں اسلامی قانون کے مطابق حکومت کرسکیں (حوالہ مذکور، ص ۴۴۶)۔
پھر ۱۱؍اگست والی تقریر سے صرف ایک مہینہ ۱۲دن پہلے ۲۹ جون ۱۹۴۷ء کو قائداعظمؒ ایک بیان میں [انڈین نیشنل کانگریس کے اتحادیوں] خان عبدالغفار خان اور ڈاکٹر خان صاحب کے اس الزام کی تردید کرتے ہیں کہ: ’’پاکستان کی دستورساز اسمبلی، شریعت کے بنیادی اصولوں کو نظرانداز کردے گی ‘‘ اور بیان دیتے ہیں:
مگر خان برادران نے اپنے بیانات میں اور اخباری ملاقاتوں میں ایک اور زہرآلود شور برپا کیا ہے کہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی شریعت کے بنیادی اصولوں اور قرآنی قوانین سے انحراف کرے گی۔ یہ بات بھی قطعی طور پر غلط ہے (ڈان، دہلی،۳۰جون ۱۹۴۷ء)۔
دوسری طرف ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کے بعد جو ارشادات قائداعظمؒ کی زبان سے سنے گئے، اور ان کے معتمد ترین رفیقوں نے ان کی جو ترجمانی باربار خود ان کی زندگی میں کی ،اور جس کی کوئی تردید ان کی جانب سے نہ ہوئی، ان کے چند نمونے ملاحظہ ہوں:
پشاور، ۱۴جنوری : پاکستان کے وزیراعظم مسٹر لیاقت علی خانؒ نے اتحاد و یک جہتی کے لیے سرحد کے لوگوں سے اپیل کرتے ہوئے قائداعظمؒ کے ان اعلانات کا پھر اعادہ کیا کہ پاکستان ایک مکمل اسلامی ریاست ہوگا.... انھوں نے فرمایا کہ پاکستان ہماری ایک تجربہ گاہ ہوگا اور ہم دنیا کو دکھائیں گے کہ ۱۳سو برس پرانے اسلامی اصول ابھی تک کارآمد ہیں(روزنامہ پاکستان ٹائمز، لاہور،۱۵جنوری ۱۹۴۸ء)۔
اور پھر ۱۱؍اگست والی تقریر کے ساڑھے چار مہینے بعد قائداعظم محمدعلی جناح گورنر جنرل پاکستان نے ایک اعزازی دعوت میں، جو انھیں کراچی بار ایسوسی ایشن کی طرف سے دی گئی، تقریر کرتے ہوئے فرمایا:
میرے لیے وہ گروہ بالکل ناقابلِ فہم ہے جو خواہ مخواہ شرارت برپا کرنا چاہتا ہے اور یہ پروپیگنڈا کرر ہا ہے کہ پاکستان کا دستور شریعت کی بنیاد پر نہیں بنے گا (روزنامہ پاکستان ٹائمز، ۲۷جنوری ۱۹۴۸ء)۔
راولپنڈی، ۵؍اپریل: مسٹر لیاقت علی خان وزیراعظم پاکستان نے آج راولپنڈی میں اعلان کیا کہ ’’پاکستان کا آیندہ دستور قرآنِ مجید کے احکام پر مبنی ہوگا۔ انھوں نے فرمایا کہ قائداعظم اور ان کے رفقا کی یہ دیرینہ خواہش رہی ہے کہ پاکستان کی نشوونما ایک ایسی مضبوط اور مثالی اسلامی ریاست کی حیثیت سے ہو، جو اپنے باشندوں کو عدل و انصاف کی ضمانت دے سکے‘‘ (روزنامہ پاکستان ٹائمز، ۷؍اپریل ۱۹۴۸ء)۔
ان صاف اور صریح بیانات کی موجودگی میں ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ قائداعظمؒ کی ۱۱؍اگست والی تقریر کا ایک ایسا مفہوم نکالنا، جو ان کے تمام اگلے پچھلے ارشادات کے خلاف ہو، مرحوم کے ساتھ انصاف نہیں ہے۔
علاوہ بریں، اگر قائداعظمؒ کی اس تقریر کو اس کے ٹھیٹھ لفظی مفہوم میں بھی لے لیا جائے، تو ہمیں جذبات سے قطع نظر کرتے ہوئے یہ غور کرنا چاہیے کہ ان کے ان ملفوظات کی آئینی حیثیت کیا ہے؟ انھوں نے یہ تقریر خواہ صدرِ مجلس دستورساز کی حیثیت سے کی ہو یا گورنر جنرل کی حیثیت سے، بہرحال کسی حیثیت میں بھی وہ مجلس دستور ساز، ایک شاہانہ اختیارات رکھنے والے ادارے (Sovereign Body ) کو اس امر کا پابند نہیں کرسکتے تھے کہ وہ دستور انھی خطوط پر بنائے، جو وہ کھینچ دیں۔ رہی قوم، تو اس نے مرحوم کو اس لیے اپنا لیڈر مانا تھا کہ وہ اس کے قومی عزائم اور مقاصد پورے کرنے میں ان کی رہنمائی کریں۔