سیّد ابوالاعلیٰ مودودی


یہ بات ناقابلِ انکار ہے کہ ایک عورت کا شوہر اگر دوسری بیوی لے آئے تو اس عورت کو فطرتاً یہ ناگوار ہوتا ہے اور اس کے ماں باپ، بھائی بہن اور دوسرے رشتہ داروں کو بھی اس سے اذیت ہوتی ہے۔

شریعت نے ایک سے زیادہ نکاحوں کی اجازت اس مفروضے پر نہیں دی ہے کہ یہ چیز اس عورت کو اور اس کے رشتے داروں کو ناگوار نہیں ہوتی جس پر سوکن آئے، بلکہ اس امرِواقعہ کو جانتے ہوئے شریعت نے اسے اس لیے حلال کیا ہے کہ دوسری اہم تر اجتماعی اور معاشرتی مصلحتیں اس کو جائز کرنے کی متقاضی ہیں۔

شریعت یہ بھی جانتی ہے کہ سوکنیں بہرحال سہیلیاں اور شوہر شریک بہنیں بن کر نہیں رہ سکتیں۔ ان کے درمیان کچھ نہ کچھ کش مکش اور چپقلش ضرور ہوگی اور خانگی زندگی تلخیوں سے محفوظ نہ رہ سکے گی۔ لیکن یہ انفرادی قباحتیں اُس عظیم تر اجتماعی قباحت سے کم تر ہیں ، جو یک زوجی کوبطورِ قانون لازم کردینے سے پورے معاشرے میں پیدا ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے شریعت نے تعدّد اَزواج کو حلال قرار دیا ہے۔(’مسئلہ تعدّد اَزواج‘، سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، ج۶۰، عدد۴، جولائی ۱۹۶۳ء، ص۴۳)

امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم عام ہے، مگر اس پر عمل کرنے میں آدمی کو حکمت ملحوظ رکھنی چاہیے۔موقع و محل کو دیکھے بغیر ہرجگہ ایک ہی لگے بندھے طریقے سے اس کام کو کرنے سے بعض اوقات اُلٹا اثر ہوتا ہے۔ اس کا کوئی ایسا طریقہ بتادینا مشکل ہے، جس پر آپ آنکھیں بند کرکے عمل کرسکیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آپ خود آہستہ آہستہ اپنے تجربات سے سبق حاصل کریں اور رفتہ رفتہ اپنے اندر اتنی حکمت پیدا کریں کہ ہرموقع اور ہرآدمی اور ہرحالت کو سمجھ کر امربالمعروف یا نہی عن المنکر کی خدمت انجام دینے کا ایک مناسب طریقہ اختیار کرسکیں۔

اس کام میں اوّل اوّل آپ سے بھی غلطیاں ہوں گی، اور بعض مواقع پر غلطی آپ کی نہ ہوگی، مگر دوسرے شخص کی طرف سے جواب نامناسب ہوگا۔ لیکن یہی تجربات آپ کو صحیح طریقہ سکھاتے چلے جائیں گے بشرطیکہ آپ بددل ہوکر اس کام کو چھوڑ نہ دیں، اور ہرتجربے کے بعد غور کریں کہ اس میں اگر آپ سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو وہ کیا ہے اور دوسرے نے اگر ضد یا ہٹ دھرمی سے کام لیا ہے تو اسے راہِ راست پر لانے کا بہتر طریقہ اور کیا ہوسکتا ہے؟

یہ بھی خیال رکھیے کہ یہ کام بڑا صبر چاہتا ہے۔ جہاں آپ بُرائی دیکھیں اور محسوس ہو کہ اس وقت اس پر ٹوکنا مناسب نہیں ہے تو ٹال جایئے اور دوسرا کوئی مناسب موقع اس کے لیے تلاش کرتی رہیے۔ اس کے علاوہ ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ جس جگہ ایسی کوئی بُرائی ہو کہ اس کو ٹوکنا آپ کے لیے مشکل ہو تووہاں سے ہٹ جایئے اور اگر کوئی صحبت یا تقریب اس قسم کی ہو تو اس سے الگ رہیے۔ ایسے مواقع پر لوگ بالعموم خود آپ کی علیحدگی کی وجہ پوچھیں گے۔ اس وقت آپ کو یہ موقع مل جائے گا کہ بڑی نرمی کے ساتھ وجہ بیان کریں اور یہ کہہ دیں کہ ’آپ لوگوں کو روکنا تو میرے بس میں نہیں ہے، مگر احکامِ خدا و رسولؐ کی خلاف ورزی میں شریک ہونے کی جرأت بھی میرے اندر نہیں ہے‘۔(’رسائل و مسائل‘ ، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، ج ۶۰، عدد۳، جون ۱۹۶۳ء، ص۵۸)

رسولؐ اللہ کی رکعاتِ نماز کی تعداد

سوال : کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی روزانہ پانچ نمازیں بجا لاتے تھے اور اتنی ہی رکعتیں پڑھتے تھے جتنی ہم پڑھتے ہیں؟ اس سوال کی قدرے میں نے تحقیق کی لیکن کوئی مستند حوالہ فی الحال ایسا نہیں ملا کہ اس سوال کا جواب ہوتا۔ بخلاف اس کے بخاری شریف میں یہ حدیث نظر آئی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر اور عصر کی دو دو رکعتیں پڑھیں۔ اسی طرح مؤطا، کتاب الصلوٰۃ میں یہ لکھا دیکھا کہ رات دن کی نماز دو دو رکعت ہے۔ یہ دونوں حدیثیں دو دو رکعت نماز ثابت کرتی ہیں۔ ان خیالات و شکوک نے ذہن کو پراگندہ کررکھا ہے اور اکثر مجھے یقین سا ہونے لگتا ہے کہ ہماری موجودہ  نماز وہ نہیں جو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی ہوگی۔ خدارا میری اُلجھن کو دُور فرمایئے اور مجھے گمراہ ہونے سے بچایئے۔ مجھے نماز چھوٹ جانے کا خطرہ ہے۔

جواب :جن احادیث کا آپ نے حوالہ دیا ہے وہ ابتدائی دور کی ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری عمل، جب کہ نماز کے احکام بتدریج مکمل ہوچکے تھے، یہی تھا کہ آپؐ پانچوں وقت وہی رکعتیں پڑھتے تھے جو اب تمام مسلمانوں میں رائج ہیں۔ یہ چیز دوسری متعدد احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ حضرت عمرؓ کا جو قول آپ نے نقل کیا ہے وہ نوافل سے متعلق ہے۔ (فروری ۱۹۶۱ء)

صحابۂ کرامؓ اور تزکیۂ نفس

سوال : کیا صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی آج کل کے صوفیہ کی طرح تزکیۂ نفس کیا کرتے تھے اور انھیں عالم بالا کے مشاہدات ہوتے رہتے تھے؟

جواب :صحابۂ کرامؓ نے تو عالمِ بالا کے معاملے میں صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعتماد پر غیب کی ساری حقیقتوں کو مان لیا تھا، اس لیے مشاہدے کی نہ ان کو طلب تھی اور نہ اس کے لیے انھوں نے کوئی سعی کی۔ وہ بجائے اس کے کہ پردئہ غیب کے پیچھے جھانکنے کی کوشش کرتے، اپنی ساری قوتیں اس جدوجہد میں صرف کرتے تھے کہ پہلے اپنے آپ کو اور پھر ساری دُنیا کو خدائے واحد کا مطیع بنائیں اور دُنیا میں عملاً وہ نظامِ حق قائم کردیں، جو بُرائیوں کو دبانے اور بھلائیوں کو نشوونما دینے والا ہو۔( جولائی-اگست ۱۹۴۵ء)

تفسیرِقرآن کے اختلافات

سوال : قرآن پاک کی مختلف تفسیریں کیوں ہیں؟ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تفسیر بیان کی ہے، وہ ہوبہو کیوں نہ لکھ لی گئی؟ کیا ضرورت ہے کہ لوگ اپنے اپنے علم کے اعتبار سے مختلف تفسیریں بیان کریں اور باہمی اختلافات کا ہنگامہ برپا رہے؟

جواب :قرآن پاک کا جو فہم، دین کے حقائق اور اس کے احکام جاننے کے لیے ضروری تھا، اس کی حد تک تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ارشادات اور اپنے عمل سے اس کی تفسیر فرما گئے ہیں۔ لیکن ایک حصہ لوگوں کے غوروخوض اور فکروفہم کے لیے بھی چھوڑا گیا ہے تاکہ وہ خود بھی تدبر کریں۔ اس حصے میں اختلافات کا واقع ہونا ایک فطری امر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا منشا اگر یہ ہوتا کہ دُنیا میں سرے سے کوئی اختلاف ہو ہی نہیں تو وہ تمام انسانوں کو خودہی یکساں فہم عطا فرماتا، بلکہ عقل و فہم اور اختیار کی قوتیں عطا کرنے کی ضرورت نہ تھی، اور اس صورت میں آدمی کے لیے نہ کوشش کا کوئی میدان ہوتا، اور نہ ترقی و تنزل کا کوئی امکان۔(اگست۱۹۵۹ء)

سیکولرزم یا دہریت کا ترقی میں کردار

سوال : کیا انسان کو سیکولرزم یا دہریت روحانی ما دّی ترقی کی معراج نصیب کراسکتی ہے؟

جواب :سیکولرزم یا دہریت درحقیقت نہ کسی روحانی ترقی میں مددگار ہیں اور نہ مادی ترقی میں۔ معراج نصیب کرنے کا ذکر ہی کیا ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ زمانے کے اہل مغرب نے جو ترقی مادی حیثیت سے کی ہے ، وہ سیکولرزم یا مادہ پرستی یا دہریت کے ذریعے سے نہیں کی، بلکہ اس کے باوجود کی ہے۔ مختصراً میری اس رائے کی دلیل یہ ہے کہ انسان کوئی ترقی اس کے بغیر نہیں کرسکتا کہ وہ کسی بلند مقصد کے لیے اپنی جان و مال کی، اپنے اوقات اور محنتوں کی اور اپنے ذاتی مفاد کی قربانی دینے کے لیے تیار ہو۔ لیکن سیکولرزم اور دہریت ایسی کوئی بنیاد فراہم کرنے سے قاصر ہیں جس کی بناپر انسان یہ قربانی دینے کو تیار ہوسکے۔ اسی طرح کوئی انسانی ترقی اجتماعی کوشش کے بغیر نہیں ہوسکتی، اور اجتماعی کوشش لازماً انسانوں کے درمیان ایسی رفاقت چاہتی ہے، جس میں ایک دوسرے کے لیے محبت اور ایثار ہو۔ لیکن سیکولرزم اور دہریت میں محبت و ایثار کے لیے کوئی بنیاد نہیں ہے۔ اب یہ ساری چیزیں مغربی قوموں نے مسیحیت سے بغاوت کرنے کے باوجود ان مسیحی اخلاقیات ہی سے لی ہیں، جو ان کی سوسائٹی میں روایتاً باقی رہ گئی تھیں۔ ان چیزوں کو سیکولرزم یا دہریت کے حساب میں درج کرنا غلط ہے۔ سیکولرزم اور دہریت نے جو کام کیا ہے، وہ یہ کہ مغربی قوموں کو خدا اور آخرت سے بے فکر کرکے خالص مادہ پرستی کا عاشق اور مادی لذائذ و فوائد کا طالب بنادیا ہے۔ مگر ان قوموں نے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے جن اخلاقی اوصاف سے کام لیا ، وہ ان کو سیکولرزم یا دہریت سے نہیں ملے بلکہ اس مذہب ہی سے ملے جس سے وہ بغاوت پر آمادہ ہوگئے تھے۔ اس لیے یہ خیال کرنا سرے سے غلط ہے کہ سیکولرزم یا دہریت ترقی کی موجب ہیں۔ وہ تو اس کے برعکس انسان کے اندر خودغرضی، ایک دوسرے کے خلاف کش مکش اور جرائم پیشگی کے اوصاف پیدا کرتی ہیں،جو انسان کی ترقی میں مددگار نہیں بلکہ مانع ہیں۔ (اکتوبر ۱۹۶۱ء)

نماز کے آخر میں سلام کے مخاطب

سوال : نماز کے آخر میں جو سلام ہم پھیرتے ہیں، اس کا مقصداورمخاطب کون ہے؟

جواب :کسی عمل کو ختم کرنے کے لیے آخر اس کی کوئی صورت ہونی چاہیے۔ نماز ختم کرنے کی صورت یہ ہے کہ آپ جو قبلہ رو بیٹھ کر عبادت کر رہے تھے، اب دونوں طرف منہ پھیرکر اس عمل کو ختم کردیں۔ اب منہ پھیرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ آپ چپکے سے منہ پھیر دیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ آپ خدا سے تمام خلق کے لیے سلامتی کی دُعا کرتے ہوئے منہ پھیریں۔ آپ کو ان میں سے کون سی صورت پسند ہے؟(فروری ۱۹۶۱ء)

یہ انسانی تاریخ کا ایک حیرت انگیز واقعہ بلکہ معجزہ ہے کہ آٹھ برس کی مختصر سی مدت میں ایک قصبے کی چھوٹی سی ریاست، جو چند مربع میل اور چند ہزار انسانوں پر مشتمل تھی، پورے عرب پر چھا گئی۔ صرف آٹھ برس کے اندر۱۰، ۱۲ لاکھ مربع میل کا پورا ملک مسخر ہوگیا، اور مسخر بھی اس طرح ہواکہ لوگ محض ایک سیاسی نظام ہی کے تابع نہیں ہوگئےبلکہ ان کے نظریات تبدیل ہوگئے، ان کی قدریں بدل گئیں، ان کے اخلاق بدل گئے، ان کے معاشرتی طورطریقوں میں عظیم الشان اصولی تغیر رُونما ہوگیا۔ ان کی تہذیب اور ان کے تمدن کی روح اور شکل دونوں میں ایک ایسی انقلابی تبدیلی واقع ہوئی، جس نے عرب ہی کی نہیں بلکہ دُنیا کی تاریخ کا رُخ بدل ڈالا۔ ان کے افرادنے فرداً فرداً اور ان کی قوم نے بحیثیت مجموعی سوچنے کا ایک نیا انداز، برتائو کا ایک نیا طریقہ اور زندگی کا ایک نیا مقصد اختیار کرلیا، جس سے وہ اپنی صدہابرس کی تاریخ میں کبھی آشنا نہ ہوئے تھے۔

اگرچہ صدیوں کی طوائف الملوکی ختم کرکے اس ملک کوایک سیاسی نظام کے تحت لے آنا بھی کوئی چھوٹا کارنامہ نہ تھا، مگر اس سے ہزاروں درجہ زیادہ بڑا کارنامہ یہ فکری و اخلاقی اور تہذیبی و تمدنی انقلاب تھا۔

افسوس ہے کہ تاریخ نگاری کے ایک غلط طریقے نے اس عظیم تغیر کو محض غزوات کے نتیجے کی حیثیت سے پیش کر دیا ، اور فرنگی مستشرقین نے اس پر خوب ڈھول پیٹا کہ ’اسلام تلوار کے زور سے پھیلایا گیا ہے‘، حالانکہ وہ تمام لڑائیاں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوئیں، ان میں مجموعی طور پر دونوں طرف کے بمشکل ۱۴سو آدمی مارے گئے تھے۔ کسی کے پاس عقل ہو تو وہ خود غور کرے کہ اتنی کم خوںریزی کے ساتھ اتنا بڑا انقلاب کہیں تلوار کے بل پر بھی ہوسکتا ہے؟ (’اسلام عصرِحاضر میں‘ ، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، ج ۶۰، عدد۲، مئی ۱۹۶۳ء، ص۳۵

کسی فعل کو بدعت ِ مذمُومہ قرار دینے کے لیے صرف یہی بات کافی نہیں ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہ ہوا تھا۔ لغت کے اعتبار سے تو ضرور ہرنیا کام بدعت ہے۔ مگر شریعت کی اصطلاح میں جس بدعت کو ضلالت قرار دیا گیا ہے، اس سے مراد وہ نیا کام ہے جس کے لیے شرع میں کوئی دلیل نہ ہو، جو شریعت کے کسی قاعدے یا حکم سے متصادم ہو___  جس کا نکالنے والااسے خود اپنے اُوپر یا دوسروں پر اس اِدعا کے ساتھ لازم کرے کہ اس کا التزام نہ کرنا گناہ اور کرنا فرض ہے۔ یہ صورت اگر نہ ہو تو مجرد اس دلیل کی بنا پر کہ فلاں کام آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہیں ہوا، اسے ’بدعت‘ بمعنی ضلالت نہیں کہا جاسکتا۔

عہد ِ رسالتؐ اور عہد ِ شیخینؓ میں جمعہ کی صرف ایک اذان ہوتی تھی، حضرت عثمانؓ نے اپنے دور میں ایک اذان کا اور اضافہ کر دیا، لیکن اسے بدعت ِ ضلالت کسی نے بھی قرار نہیں دیا بلکہ تمام اُمت نے اس نئی بات کو قبول کرلیا۔ بخلاف اس کے انھی حضرتِ عثمانؓ نے منیٰ میں قصر کرنے کے بجائے پوری نماز پڑھی تو اس پر اعتراض کیا گیا۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ صلوٰۃ ضحی کے لیے خود بدعت اور اِحداث کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ اِنَّھَا لَمِنْ اَحْسَنِ مَا اَحْدَثُوْا  (یہ ان بہترین نئے کاموں میں سے ہے جو لوگوں نے نکال لیے ہیں)، بِدْعَۃٌ وَنِعْمَتِ الْبِدْعَۃُ (بدعت ہے اور اچھی بدعت ہے)، مَا اَحْدَثَ النَّاسُ شَیْئًا اَحَبَّ اِلَیَّ مِنْہَا (لوگوں نے کوئی ایسا نیا کام نہیں کیا ہے، جو مجھے اس سے زیادہ پسند ہو)۔ حضرت عمرؓ نے تراویح کے بارے میں وہ طریقہ جاری کیا، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ کے عہد میں نہ تھا۔ وہ خود اسے نیا کام کہتے ہیں، اور پھر فرماتے ہیں: نِعْمَتِ الْبِدْعَۃُ ھٰذِہٖ (یہ اچھا نیا کام ہے)۔ اس سے معلوم ہوا کہ مجرد نیا کام ہونے سے کوئی فعل بدعت ِ مذ مُومہ نہیں بن جاتا بلکہ اسے بدعت مذمُومہ بنانے کے لیے کچھ شرائط ہیں۔ (رسائل و مسائل، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، ج ۶۰، عدد۱، اپریل ۱۹۶۳ء، ص۵۸-۵۹)

عَنْ  اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ  قَالَ  قَالَ  رَسُوْلُ اللہِ  صَلَّی اللہُ  عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ صَامَ  رَمَضَانَ  اِیْمَانًا  وَّ اِحْتِسَابًا   غُفِرَ  لَہٗ  مَا تَقَدَّمَ  مِنْ ذَنْبِہٖ  وَمَنْ  قَامَ  رَمَضَانَ اِیْمَانًا  وَّاِحْتِسَابًا  غُفرَ  لَہٗ  مَا  تَقَدَّمَ  مِنْ  ذَنْبِہٖ(متفق علیہ) حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے ایمان اور احتساب کے ساتھ، تو اس کے وہ سب گناہ معاف کر دیئے جائیں گے جو اس سے پہلے سرزد ہوئے ہوں گے۔ اور جس شخص نے رمضان میں قیام کیا (یعنی راتوں کو کھڑے ہوکر عبادت کی) ایمان اور احتساب کے ساتھ، تو معاف کر دیئے جائیں گے اس کے وہ قصور جو اس نے پہلے کیے ہوں گے۔ اور جس شخص نے لیلۃ القدر میں قیام کیا، ایمان اور احتساب کے ساتھ تو معاف کر دیئے جائیں گے اس کے وہ سب گناہ جو اس نے پہلے کیے ہوں گے۔

’احتساب‘ اس چیز کا نام ہے کہ آدمی اپنے تمام نیک اعمال پر صرف اللہ تعالیٰ ہی کے اجر کا اُمیدوار ہو اور خالصتاً اسی کی رضاجوئی کے لیے کام کر ے۔

اس حدیث میں گناہوں سے معافی کی جو خوش خبری سنائی گئی ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی کرنے والے اور آخرت کی بازپُرس سے بے خوف ہیں ان کو اس بات کا لائسنس دیا جارہا ہے کہ میاں رمضان کے روزے رکھ لو، تراویح پڑھ لو اور لیلۃ القدر میں کھڑے ہوکر عبادت کرلو، تو پچھلا حساب صاف اور آگے پھر گیارہ مہینے تمھیں جو کچھ کرنا ہے کرتے رہنا۔ رشوتیں کھائو، لوگوں کے حق مارو، جو ظلم و ستم چاہو کرو، رمضان میں آگے پھر عبادت کے لیے کھڑے ہو جانا، روزے رکھ لینا اور نمازیں پڑھ لینا اور پھر پہلے کا کیا ہوا سب معاف ہوجائے گا۔

اس طرح کی احادیث کا مطالعہ کرتے ہوئے اس بات کو کبھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ ان کے مخاطب کون لوگ ہیں؟ ان کے مخاطب وہ صلحاء و ابرار ہیں جو اپنی زندگیاں ہروقت اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے مطابق بسر کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اُن سے اگر کوئی لغزش یا گناہ سرزد ہوجاتا تھا، تو ان کی نوعیت ایسی ہرگز نہیں ہوتی تھی کہ جیسے ایک آدمی پوری ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ گناہ کا ارتکاب کرے اور پھر اس پر ڈٹا رہے، بلکہ وہاں صورت اس سے یکسر مختلف تھی۔ ان راست باز لوگوں سے اگر کوئی قصور سرزد ہو بھی جاتا تھا تو وہ بشری کمزوری کی وجہ سے ہوتا تھا اور وہ ہروقت اس پر توبہ کے لیے مستعد رہتے تھے۔ بشری کمزوری سے اگر کسی سے کوئی قصور سرزد ہوجائے اور وہ اس کے بعد نیکی اختیار کرے اور اللہ تعالیٰ کے تقویٰ کو اپنا شعار بنائے رکھے تو وہ بجائے خود ایک توبہ ہے۔

’توبہ‘ کی ایک صورت تو یہ ہے کہ ایک آدمی سے کوئی گناہ سرزد ہوا اور اس نے اس سے توبہ کرلی تو یہ بات بھی گناہ کی معافی کا ایک ذریعہ ہے۔دوسری صورت یہ ہے کہ ایک آدمی سے قصور سرزد ہوا اور پھر وہ دوسرے کاموں میں ایسا مشغول ہوا کہ توبہ کرنا بھول گیا، تو اس کے بعد اس نے جو نماز پڑھی وہ نماز اس کے لیے پہلے کی لغزش کو اس کے حساب سے صاف کردے گی۔ اسی طرح اگر اس نے روزہ رکھا تو وہ بھی اس کے گناہ کو صاف کردے گا۔دراصل ’توبہ‘ اسی چیز کا نام تو ہے کہ ایک شخص ایک وقت میں ایک قصور کا مرتکب ہوا تھا، لیکن اس کے بعد وہ پھر اپنے ربّ کی طرف پلٹ آیا۔جیسے ایک نوکر اگراپنی کسی غلطی کی وجہ سے اپنے مالک کی اطاعت سے نکل جائے، لیکن پھر معافی مانگ لے اور خدمت پر حاضر ہوجائے، تو اس سے ایک دفعہ قصور سرزد ہوجانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مالک اُسے ہمیشہ کے لیے اپنی نوکری سے نکال دے گا، بلکہ جس وقت وہ آکر معافی مانگتا ہے اور پہلے کی طرح خدمت کرنے لگتا ہے، تو مالک اس سے درگزر کرے گا اور اس کی گذشتہ وفاداری کی وجہ سے اس پر پہلے کی طرح مہربان ہوجائے گا۔

ایسا ہی معاملہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کے ساتھ ہے۔ بندہ اگر بنیادی طور پر اللہ تعالیٰ کا وفادار ہے اور جان بوجھ کر اس کے مقابلے میں استکبار اور سرکشی کرنے والا نہیں ہے، تو اگر اس سے کسی وقت کوئی قصور سرزد ہوجاتا ہے اور اس قصور کے بعد وہ پھر خدا کے دربار میں نماز کے لیے حاضر ہوجاتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اُس کو اپنی مغفرت سے محروم نہیں رکھے گا۔ کیونکہ اس کا طرزِعمل یہ بتاتا ہے کہ وہ ٹھوکرتو کھا گیا تھا ، لیکن اپنے ربّ سے بھاگا نہیں تھا۔ اس کا باغی نہیں ہوگیا تھا۔ اسی بنا پر فرمایا گیا کہ اگر ایک شخص نے ایمان اور احتساب کے ساتھ روزے رکھے تو اس کے پچھلے گناہ معاف ہوگئے۔ رمضان میں راتوں کو کھڑے ہوکر عبادت کی تو وہ بھی پچھلے قصوروں کی معافی کا ذریعہ بن گئی۔ اسی طرح اگر وہ لیلۃ القدر میں عبادت کے لیے کھڑا ہوا تو اُس کا یہ عمل بھی اس کے پچھلے قصوروں کی معافی کا سبب بن گیا۔

روزے کی جزا

عَنْ  اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ  قَالَ  قَالَ  رَسُوْلُ اللہِ  صَلَّی اللہُ  عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کُلُّ عَمَلِ ابْنِ اٰدَمَ  یُضَاعَفُ  الْحَسَنَۃُ بِعَشْـرِ اَمْثَالِھَا  اِلٰی  سَبْعِ  مِائَۃِ  ضِعْفٍ قَالَ اللہُ تَعَالٰی  اِلَّا  الصَّوْمُ  فَاِنَّہٗ  لِیْ   وَاَنَا  اَجْزِیْ  بِہِ  ، یَدَعُ  شَھْوَتَہٗ وَطَعَامَہٗ  مِنْ  اَجْلِیْ  ،  لِلصَّائِمِ  فَرْحَتَانِ  فَرْحَۃٌ  عِنْدَ  فِطْرِہٖ  وَفَرْحَۃٌ  عِنْدَ   لِقَاءِ  رَبِّہٖ  ، وَلَخُلُوْفُ  فَمِ  الصَّائِمِ  اَطْیَبُ  عِنْدَ اللہِ  مِنْ رِیْحِ  الْمِسْکِ  وَالصِّیَامُ  جُنَّۃٌ  وَّ اِذَا کَانَ  یَوْمُ  صَوْمِ  اَحَدِکُمْ  فَلَا  یَرْفُثْ وَلَا یَصْخَبْ  فَاِنْ  سَآبَّہٗ   اَحَدٌ  اَوْ قَاتَلَہٗ  فَلْیَقُلْ   اِ نِّیْ امْرءٌ صَائِمٌ  (متفق علیہ) حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابن آدم کا ہرعمل اس کے لیے کئی گنا بڑھایا جاتا ہے یہاں تک کہ ایک نیکی دس گنی تک اور دس گنی سے سات سو گنی تک بڑھائی جاتی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزے کا معاملہ اس سے جدا ہے، کیونکہ وہ میرے لیے ہے اور مَیں ہی اس کی جزا دوں گا۔ روزہ دار اپنی شہواتِ نفس اور اپنے کھانے پینے کو میرے لیے چھوڑتا ہے۔ روزہ دار کے لیے دوفرحتیں ہیں: ایک فرحت افطار کے وقت کی اور دوسری فرحت اپنے ربّ سے ملاقات کے وقت کی___ اور روزے ڈھال ہیں، پس جب کوئی شخص تم میں سے روزے سے ہو تو اُسے چاہیے کہ نہ اُس میں بدکلامی کرے اور نہ دنگا فساد کرے۔ اگر کوئی شخص اس سے گالی گلوچ کرے یا لڑے تو وہ اس سے کہہ دے کہ بھائی مَیں روزے سے ہوں۔

یہ جو فرمایا کہ دوسری نیکیاں تو دس گنی سے لے کر سات سو گنی تک بڑھائی جاتی ہیں لیکن روزے کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ وہ میرے لیے ہے اور میں اُس کی جزا دوں گا، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دوسری نیکیاں اللہ کے لیے نہیں ہیں اور اللہ ان کی جزا نہیں دے گا بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق روزہ اس کے لیے خاص ہے اور وہ اس کی جتنی چاہے گا، جزا دے گا۔ جب یہ فرمایا کہ دوسری نیکیاں سات سو گنی تک بڑھائی جاتی ہیں اور اس کے مقابلے میں استثنیٰ کے ساتھ روزے کے متعلق فرمایا کہ مَیں ہی اس کی جزا دوں گا۔ تو اس سے مراد یہ ہے کہ روزے کے اجر کی کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ اور اللہ تعالیٰ جس قدر چاہے گا روزہ دار کو اس کا اجر دے گا۔

روزے کی غیرمعمولی فضیلت

بات دراصل یہ ہے کہ دوسری تمام نیکیاں آدمی کسی نہ کسی ظاہری فعل سے انجام دیتا ہے، مثلاً نماز ایک ظاہری فعل ہے۔ نماز پڑھنے والا نماز میں اُٹھتا اور بیٹھتا ہے، رکوع اور سجدہ کرتا ہے۔ اِس طرح حج اور زکوٰۃ کا معاملہ ہے۔ لیکن اس کے برعکس روزہ کسی ظاہری فعل سے ادا نہیں ہوتا، بلکہ یہ ایک ایسا مخفی فعل ہے، جو فقط آدمی اور اس کے خدا کے درمیان ہوتا ہے۔

اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ روزہ دراصل اللہ کے حکم کی تعمیل کی ایک منفی شکل ہے، مثلاً نہ کھانا نہ پینا اور اسی طرح جن دوسری چیزوں سے منع کیا گیا ہے ان سے باز رہنا۔اس منفی فعل کو یا تو آدمی خود جان سکتا ہے یا اُس کا ربّ، کسی تیسرے کو معلوم نہیں ہوسکتا ہے کہ یہ منفی فعل اس نے کیا ہے یا نہیں۔ مثلاً اگر ایک آدمی چھپ کر کھاپی لے تو کسی کو اس کا علم نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ وہ روزہ نہ رکھتے ہوئے بھی کہہ سکتا ہے کہ میں روزے سے ہوں اور کوئی شخص یقین کے ساتھ یہ نہیں جان سکتا کہ آیا وہ روزے سے ہے یا نہیں۔ اگر وہ روزے سے ہے تو اس بات کو صرف وہ جانتا ہے اور اگر روزے سے نہیں ہے تو اس کو بھی اس کے سوا کوئی نہیں جان سکتا۔

اسی وجہ سے روزے کا معاملہ صرف خدا اور اس کے بندے کے درمیان ہوتا ہے اور اسی بناپر اس میں ریا کا امکان نہیں ہوتا۔ ایک آدمی دُنیا کو دکھانے کے لیے بے شک یہ کہتا پھرے کہ میں روزے سے ہوں لیکن حقیقت ِ صوم کے اندر اس ریاکاری کی کوئی گنجایش نہیں کیونکہ وہ خدا کو دھوکا نہیں دے سکتا۔ اسی لیے فرمایا کہ روزہ خاص میرے ہی لیے ہے، وَاَنَا اَجْزِیْ بِہٖ، ’’مَیں ہی ان کی جزا دوں گا‘‘۔

مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ روزے کی بے حد و حساب جزا دے گا۔ جتنے گہرے اخلاص کے ساتھ آپ روزہ رکھیں گے، اللہ تعالیٰ کا جتنا تقویٰ اختیار کریں گے، روزے سے جتنے کچھ روحانی و دینی فوائد حاصل کریں گے اور پھر بعد کے دنوں میں بھی ان فوائدکو برقرار رکھنے کی کوشش کریں گے،  اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی جزا بڑھتی چلی جائے گی۔روزے کی اس غیرمعمولی فضیلت اور مقبولیت کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ روزہ دار اپنی شہواتِ نفس اور کھانے پینے کو صرف اللہ ہی کی خاطر چھوڑتا ہے، اس لیے وہ بھی اسے آخرت میں بے حدو حساب اجر سے نوازے گا۔

میں نے جس قدر بھی قرآن مجید کا مطالعہ کیا ہے اس کی بنا پر یہ سمجھتا ہوں کہ ہروہ شخص جو شرک کا ارتکاب کرے، یا جس کے عقیدہ و عمل میں شرک پایا جائے، اس کو نہ اصطلاحاً ’مشرک‘ کا خطاب دیا جاسکتا ہے اور نہ اس کے ساتھ مشرکین کا سا معاملہ کیا جاسکتا ہے۔ اس خطاب اور اس معاملے کے مستحق صرف وہ لوگ ہیں جن کے نزدیک شرک ہی اصل دین ہے، جو توحید کو بنیادی عقیدے کی حیثیت سے تسلیم نہیں کرتے ، اور وحی و نبوت اور کتاب اللہ کو سرے سے ماخذ ِ دین ہی ماننے سے انکار کرتے ہیں۔

میں یہ بات قطعی جائز نہیں سمجھتا کہ اُن لوگوں کو ’مشرک‘ کہا جائے اور مشرکین کا سا معاملہ اُن کے ساتھ کیا جائے جو کلمہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے قائل ہیں، قرآن کو کتاب اللہ اور سندوحجت مانتے ہیں، ضروریاتِ دین کا انکار نہیں کرتے، شرک کو اصل دین سمجھنا تو درکنار ، اپنی طرف شرک کی نسبت کو بھی بدترین گالی سمجھتے ہیں، اور تاویل کی غلطی کے باعث کسی مشرکانہ عقیدے اور عمل میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ وہ شرک کو شرک سمجھتے ہوئے اس کا ارتکاب نہیں کرتے بلکہ اس غلط فہمی میں پڑگئے ہیں کہ ان کے یہ عقائد و اعمال عقیدئہ توحید کے منافی نہیں ہیں۔

اس لیے ہمیں ان پر کوئی بُرا لقب چسپاں کرنے کے بجائے حکمت اور استدلال سے ان کی یہ غلط فہمی رفع کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ آپ خود سوچیں کہ جب آپ اس طرح کے کسی آدمی کے سامنے اس کے کسی عقیدے یا عمل کو توحید کے خلاف ثابت کرنے کے لیے قرآن و حدیث سے استدلال کرتے ہیں تو کیا آپ کے ذہن میں یہ نہیں ہوتا کہ وہ قرآن و حدیث کو سند و حجت مانتا ہے؟ کیا یہ استدلال آپ کسی ہندو یا سکھ یا عیسائی کے سامنے بھی پیش کرتے ہیں؟ پھر جب آپ اس سے کہتے ہیں کہ ’دیکھو، فلاں بات شرک ہے‘۔ اس سے اجتناب کرنا چاہیے، تو کیا آپ اُس وقت یہ نہیں سمجھ رہے ہوتے کہ یہ شرک کے گناہِ عظیم ہونے کا قائل ہے؟ اگر یہ بات نہ ہوتی تو آخر آپ اس کو شرک سے ڈرانے کا خیال ہی کیوں کرتے؟ (رسائل و مسائل، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، ج ۵۹، عدد۶، مارچ ۱۹۶۲ء، ص۵۷-۵۹)

اُردو زبان کے راستے میں اصل رکاوٹ صرف یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کا بالائی طبقہ چونکہ خود انگریزی ماحول میں پلا ہوا ہے، اور اُردو لکھنے بولنے پر قادر نہیں ہے، اس لیے وہ چاہتاہے کہ اس کے جیتے جی ساری قوم پر انگریزی زبان مسلط رہے۔ پھر یہ لوگ اپنی اولاد کی  بھی انگریزیت ہی کے ماحول میں پرورش کر رہے ہیں، اور اس بات کا انتظام کررہے ہیں کہ حکومت کی باگ ڈور آیندہ انھی کی نسل کے قبضے میں رہے۔

اس لیے ۱۹۷۲ء میں بھی اس امر کی کوئی اُمید نہیں کی جاسکتی کہ اُردو زبان کو یہاں کی سرکاری اور تعلیمی زبان بنانے کا فیصلہ ہوجائے گا۔ کمیشن کی تجویز صرف طفل تسلی کے لیے ہے، تاکہ وقت ٹالا جائے اور مطالبہ کرنے والوں کو فی الحال کم از کم دس سال کے لیے چپ کرا دیا جائے۔۱

ہماری مصیبتوں کا کوئی حل اس کے سوا نہیں ہے کہ ان دیسی انگریزوں سے کسی نہ کسی طرح پیچھا چھڑایا جائے۔ امرِواقعہ یہ ہے کہ انگریز خود تو چلا گیا ہے، مگر اس کا بھوت ہمیں چمٹ کر رہ گیا ہے۔(رسائل و مسائل، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، ج ۵۹، عدد۵، فروری ۱۹۶۳ء، ص۳۱۰)

_________________________

۱          جنوری ۱۹۶۳ء میں صدر ایوب خان کی حکومت کے وزیرقانون نے اعلان کیا تھا کہ ۱۹۷۲ء میں ایک کمیشن قائم کیا جائے گا، جو اس بات کا جائزہ لے گا کہ انگریزی کے بجائے کون سی زبان متبادل ہوگی؟ یہ سوال اور اشارہ اسی پس منظر میں ہے، اور یہ ۲۰۲۳ء ہے مگر اس باب میں حالت پہلے سے بھی زیادہ بدتر ہوچکی ہے۔ (ادارہ)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

قُلْ اِنَّمَآ اَدْعُوْا رَبِّیْ وَلَآ  اُشْـرِکُ بِہٖٓ اَحَدًاo (الجِنّ۷۲ :۲۰)
اے نبیؐ ، کہو کہ ’’میں تو اپنے رب کو پکارتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا‘‘۔

یہ سورئہ جِنّ کا دوسرا رکوع ہے۔ ا س سے پہلے کے سلسلۂ کلام کو نگاہ میں رکھیے۔ یہ سورہ غالباً ۱۰نبویؐ میں نازل ہوئی ہے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم طائف سے مکہ معظمہ کی طرف واپس آتے ہوئے ایک مقام پر ٹھیرے۔ اس جگہ جِنّوں نے رسولؐ اللہ کو نماز میں قرآنِ مجید کی تلاوت کرتے ہوئے سنا اور اس کے بعد واپس جاکر اپنی قوم کو یہ بات سنائی کہ ہم ایسا ایسا کلام سن کر  آئے ہیں اور ہم اس پر ایمان لے آئے ہیں۔ حضوؐر نے ان جِنّوں کو دیکھا نہیں تھا۔ آپؐ کو یہ معلوم نہیں تھا کہ جِنّ قرآن سن رہے ہیں۔ بعدمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے بتایا گیا کہ اس طرح سے جِنّوں نے آپؐ سے قرآنِ مجید سنا ہے اور پھر جاکر اپنی قوم کو یہ کچھ کہا ہے۔

اس میں چند باتیں بڑی اہم ہیں جن کو پیش نظر رکھنا چاہیے:

پہلی چیز یہ ہے کہ اس سورت سے صاف طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جِنّ انسانوں سے  الگ ایک خاص مخلوق ہیں، یعنی انسانوں میں سے نہیں ہیں، بلکہ ایک دوسری جنس کی مخلوق ہے جس کا انسان سے کسی نوعیت یا جنسیت کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

دوسری چیز جو اس سورت سے معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت انسانوں کے لیے ہے اسی طرح سے یہ جِنّوں کے لیے بھی ہے۔ یعنی جِنّوں میں سے انبیاؑ نہیں آتے ہیں بلکہ صرف انسانوں میں سے انبیاؑ آتے ہیں۔ ان کی دعوت کے مخاطب جِنّ بھی ہوتے ہیں اور جِنّوں کا کام بھی ان کی دعوت پر ایمان لانا ہوتا ہے۔

تیسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ جِنّوں میں کافر بھی ہیں اور مومن بھی۔ جِنّوں میں کچھ ایسے ہیں جو انبیاؑ کی دعوت ماننے والے نہیں ہیں بلکہ اسی ضد پر قائم ہیں جس پر ابلیس قائم تھا کہ ہم نے انسانی خلافت کو تسلیم نہیں کرنا۔ لیکن اِن میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو نہ صرف انسانی خلافت کو تسلیم کرتے ہیں بلکہ انسانوں میں سے جو نبی آتے ہیں ان کی دعوت پر ایمان بھی لاتے ہیں۔

اس کے ساتھ جو چوتھی بات معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ جِنّوں کے متعلق انسانوں کے ذہن میں جو تخیل تھا کہ یہ کوئی بڑی زبردست اور طاقت ور مخلوق ہے، خدائی مخلوق ہے بلکہ بعض مشرکین انھیں اللہ تعالیٰ کی اولاد بھی قرار دیتے تھے اور ان کا نسب اللہ تعالیٰ سے ملاتے تھے، اور ان کی پناہ مانگا کرتے تھے۔ اس وجہ سے بھی جِنّ اور زیادہ گمراہ ہوگئے۔ ایک تو وہ گمراہی تھی جو ابلیس کے وقت شروع ہوئی تھی، اور دوسری یہ گمراہی تھی جو بعد میں انسانوں کے اپنے فعل کی وجہ سے ان کے اندر پیدا ہوئی۔ انسانوں نے انھیں خدائی میں شریک قرار دیا اور بڑی زبردست اور طاقت ور مخلوق سمجھ کر ان کی پرستش کی، اور ان سے پناہ مانگنی شروع کی۔ جس نے انھیں مزید گمراہی میں ڈال دیا اور وہ خود اپنے آپ کو کوئی بڑی چیز سمجھنے لگے۔

اس کے ساتھ کفار ِ عرب کا ایک عقیدہ یہ بھی تھا کہ جِنّ غیب کا علم رکھتے ہیں اور غیب کی خبریں دینے والے ہیں۔ کاہنوں کے متعلق وہ سمجھتے تھے کہ جِنّوں سے ان کا تعلق ہے اور ان کے ذریعے وہ غیب کی خبریں حاصل کرتے ہیں۔

یہ چند چیزیں ہیں جو اس سورت کو پڑھتے ہوئے خود بخود آدمی کے سامنے آتی ہیں۔

جِنّوں کا قرآن سننا

اس سورت میں یہ بتایا گیا ہے کہ جِنّوں میں جس وجہ سے کھلبلی مچی اور ان کو یہ تلاش ہوئی کہ زمین پر کیا واقعہ ایسا پیش آیا ہے جس کی وجہ سے آسمان پر کڑے حفاظتی انتظامات کیے گئے ہیں۔ اس لیے کہ پہلے جب وہ آسمان کی طرف جاتے تھے اور کچھ جگہوں پر چھپ کر غیب کی خبریں معلوم کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ لیکن اب یہ ہے کہ ان میں سے جب کوئی جاتا ہے تو اس پر شہابوں کی بارش ہوتی ہے اور اس کو دُور سے بھگا دیا جاتا ہے۔ اس وجہ سے ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ زمین پر کوئی خاص واقعہ پیش آنے والا ہے یا آچکا ہے جس کی وجہ سے یہ زبردست پہرے کا انتظام ہے۔ ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ کیا زمین کی مخلوقات کے ساتھ اللہ تعالیٰ کسی بڑے عذاب کی تیاری کر رہا ہے، یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی بڑی رحمت آنے والی ہے  جس کی وجہ سے یہ انتظام ہے۔ اس وجہ سے وہ تلاش کرنے کے لیے نکلے کہ وہ سبب معلوم کریں اور ان میں سے ایک گروہ کو گزرتے ہوئے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرآن پڑھنے کی آواز کان میں پڑی تب وہ آئے اور انھوں نے کان لگا کر سنا کہ وہ کیا کلام ہے۔

اس کے بعد جب انھوں نے حضوؐر سے یہ کلامِ پاک سنا تو پھر وہ واپس اپنی قوم میںگئے اور انھوں نے جِنّوں کے سامنے بیان کیا کہ ہم ایسا اور ایسا کلام سن کر آئے ہیں ، اور ہم اس پر ایمان لے آئے ہیں اور ہم خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے۔ انھوں نے یہ بھی بیان کیا کہ اللہ کا بندہ جب یہ قرآن سنانے کے لیے کھڑا ہوا تو انسان اس کے دشمن ہوگئے اور اس کو ہلاک کرنے کے پیچھے پڑگئے۔ یہ ساری رپورٹ انھوں نے اپنی قوم کو جاکر سنائی۔

نبیؐ کے منصب کا تقاضا

اس قصے کے درمیان میں اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے:

قُلْ اِنَّمَآ اَدْعُوْا رَبِّیْ وَلَآ اُشْرِکُ بِہٖٓ اَحَدًاo (الجِنّ۷۲ :۲۰) اے نبیؐ ، لوگوں سے کہو، کہ ’’میں تو صرف رب کو پکارتا ہوں اور میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا‘‘۔

یہاں پکارنے سے مراد اپنے رب سے دعا مانگتا ہوں، اب رب ہی کو بحیثیت معبود کے پکارتا ہوں اور کسی کو اس کے ساتھ شریک نہیں کرتا۔

قُلْ اِنِّیْ  لَآ اَمْلِکُ لَکُمْ ضَرًّا وَّلَا رَشَدًا o (الجِنّ۷۲ :۲۱) اے نبیؐ، ان سے کہو کہ میں تمھیں نہ نقصان پہنچا سکتا ہوں اور نہ راہِ راست دکھا سکتا ہوں۔

مطلب یہ ہے کہ میرے اختیار میں کچھ نہیں ہے۔ نہ میرے اختیار میں یہ ہے کہ کسی کو  راہِ راست دکھا دوں اور کوئی گمراہ رہنا چاہے اور میں اس کو راہِ راست پر لے آئوں، اور نہ میرے اختیار میں یہ ہے کہ اگر کوئی میری دعوت کو نہیں مانتا تو میں اسے خود اپنے اختیار سے سزا دے سکوں۔ میرے یہ اختیارات نہیں ہیں۔

قُلْ اِنِّیْ لَنْ یُّجِیْرَنِیْ مِنَ اللّٰہِ اَحَدٌ ۝۰ۥۙ     وَّلَنْ اَجِدَ مِنْ دُوْنِہٖ مُلْتَحَدًا o اِلَّا بَلٰغًا مِّنَ اللّٰہِ وَرِسٰلـٰتِہٖ ط وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَاِنَّ لَہٗ نَارَ جَھَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْھَآ اَبَدًاo (الجِنّ۷۲ :۲۲-۲۳)  کہو، ’’مجھے اللہ کی گرفت سے کوئی نہیں بچاسکتا اور نہ میں اس کے دامن کے سوا کوئی جائے پناہ پاسکتا ہوں۔ میرا کام اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اللہ کی بات اور اس کے پیغامات پہنچا دوں۔ اب جو بھی اللہ اور اس کے رسولؐ کی بات نہ مانے گا اس کے لیے جہنم کی آگ ہے اور ایسے لوگ اس میں ہمیشہ رہیں گے‘‘۔

سوال یہ ہے کہ جِنّوں کے متعلق یہ بات بیان کرنے کا مدّعا کیا ہے؟

اس بات کو سمجھنے کے لیے پھر یہ بات ذہن میں لے آیئے کہ اہلِ عرب جِنّوں سے متعلق یہ تصور رکھتے تھے کہ یہ کوئی بڑی زبردست طاقت ور مخلوق ہے۔ یہ بڑے اختیارات رکھنے والی مخلوق ہے۔ اس کے پاس غیب کا علم ہے۔ یہاں تک کہ یہ ان سے پناہ بھی مانگتے تھے۔ سفر کرتے ہوئے جب کسی وادی میں وہ ٹھیرتے تھے تو کہتے تھے: اعوذ بربک ھذا الوادی، یعنی اس وادی کے مالک جِنّ کی میں پناہ مانگتا ہوں، اور پھر وہاں رات کو گزارتے تھے۔

اس طرح کی مخلوق کے متعلق جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے کفّار کو یہ بتایا گیا کہ جِنّ آئے اور انھوں نے آکر یہ کلام سنا اور پھر اس کے اُوپر ایمان لے آئے تو ان کے ہاں جِنّوں کے بارے میں پائے جانے والے تصورات کی بناپر ایک آدمی کے ذہن میں یہ خیال آسکتا تھا کہ ہمارے ہاں کے عاملین اور کاہن کسی ایک جِنّ کو قابو میں لاکر یہ کہتے ہیں کہ اگر مجھ سے کسی نے بات کی تو میں اس کا تخت اُلٹ دوں گا، اور میرے یہ اختیارات ہیں اور وہ غیب کی خبریں دینے لگتا ہے۔ یہ باتیں وہ صرف ایک جِنّ کو قابو کرنے کے بعد کرتا ہے اور یہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ قابو میں کرتا ہے یا نہیں کرتا۔ ان کے عاملین جو باتیں کہا کرتے تھے اور جو آج کل کے عاملین باتیں کہا کرتے ہیں، وہ یہی ہیں کہ اگر صرف ایک جِنّ قابو میں آگیا ہے تو اس کو بڑی زبردست طاقتیں حاصل ہوگئی ہیں۔

اب کجا کہ ایک جِنّ کے بجاے جِنّوں کا ایک گروہ ایمان لے آتا ہے اور جب لوگ یہ سنیں گے کہ جِنّوں کا ایک گروہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آیا ہے تو ان کےدلوں میں یہ خیال آئے گاکہ جِنّوں کا پورے کا پورا ایک گروہ ان کے قابو میں آگیا ہے۔ لہٰذا اب یہ دعوے کریں گے کہ میں جس کا چاہوں گا تختہ اُلٹ دوں گا، جس کو چاہوں گا اُلٹا لٹکا دوں گا، جس کو چاہوں گا  جِنّوں سے مروا دوں گا۔

اس تناظر میں یہاں یہ فرمایا جا رہا ہے کہ میں اپنے رب کے سوا کسی کو نہیں پکارتا۔ میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا۔ میرے اختیار میں کچھ نہیں ہے۔ نہ میں تمھیں نقصان پہنچا سکتا ہوں اور نہ تمھیں سیدھے راستے پر لاسکتا ہوں۔ یعنی جِنّوں کے قابو میں آنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں اس طرح کے اختیارات کا کوئی دعویٰ رکھتا ہوں یا کسی کو کوئی نقصان پہنچائوں گا بلکہ میں خود بھی خدا کے مقابلے میں کوئی پناہ گاہ نہیں پاتا۔ اگر اللہ تعالیٰ مجھے پکڑے تو میں کہیں بچ کر نہیں جاسکتا۔ میرا بھی ملجا و ماویٰ اللہ کے سوا کوئی نہیں ہے۔ اِلَّا بَلٰغًا مِّنَ اللّٰہِ وَرِسٰلـٰتِہٖ،کہ میرا اس کے سوا کوئی کام نہیں ہے کہ اللہ کی طرف سے میرے پاس جو پیغامات آتے ہیں وہ تمھیں پہنچا دوں۔ اس قسم کے اختیارات کا میرا کوئی دعویٰ نہیں ہے کہ جس کو چاہوں مار ڈالوں گا، جس کے گھر پر چاہوں گا پتھر برسوا دوں گا، اور جس کا چاہوں گا گھر جلوا دوں گا۔ اس طرح کے اختیارات کا میرا کوئی دعویٰ نہیں ہے۔ میں تو صرف پیغام پہنچانے میں کوتاہی کروں تو اللہ کی پکڑ سے مجھے بچانے والا کوئی نہیں ہے۔

وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَاِنَّ لَہٗ نَارَ جَھَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْھَآ اَبَدًاo (الجِنّ۷۲ :۲۳)  اب جو بھی اللہ اور اس کے رسولؐ کی بات نہ مانے گا اس کے لیے جہنم کی آگ ہے اور ایسے لوگ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

گویا اب جو کوئی اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کرے، یہ نہیں کہ جو محمدؐ بن عبداللہ کی نافرمانی کرے، یعنی اگر کوئی میری ذاتی حیثیت سے نافرمانی کرے تو میں اس کا کچھ نہیں بگاڑسکتا۔ لیکن جو کوئی اللہ کی اور اس کی طرف سے پیغام لانے والے کی نافرمانی کرے گا اور اس بات کو نہ مانے جو وہ پیش کر رہا ہے تو اس کے لیے نارِ جہنم ہے جس کے اندر وہ ہمیشہ رہے گا۔

حَتّٰیٓ  اِذَا رَاَوْا مَا یُوْعَدُوْنَ فَسَیَعْلَمُوْنَ مَنْ اَضْعَفُ نَاصِرًا وَّاَقَلُّ عَدَدًا o (الجِنّ۷۲ :۲۴)   (یہ لوگ اپنی اس روش سے باز نہ آئیں گے) یہاں تک کہ جب اس چیز کو دیکھ لیں گے جس کا ان سے وعدہ کیا جارہا ہے تو انھیں معلوم ہوجائے گا کہ کس کے مددگار کمزور ہیں اور کس کا جتھا تعداد میں کم ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو مٹھی بھر لوگ تھے، کوئی طاقت ان کے پاس نہ تھی، کوئی ذرائع نہ تھے، کوئی بڑا جتھا نہیں تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق وہ یہ سمجھتے تھے کہ یہ کمزور انسان ہیں، ان کے پاس کمزور آدمی ہیں، ایک چھوٹا سا قلیل سا جتھا ہے۔ یہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب وہ چیز دیکھ لو گے جس کی تمھیں خبر دی جارہی ہے، یعنی نارِجہنم، اس وقت ان کو پتا چل جائے گا کہ حقیقت میں کمزور کون ہے؟ کس کا جتھا تعداد میں کم ہے اور کمزور ہے؟ اس وقت انھیں خود معلوم ہوجائے گا۔

قُلْ اِنْ اَدْرِیْٓ اَقَرِیْبٌ مَّا تُوْعَدُوْنَ اَمْ یَجْعَلُ لَہٗ رَبِّیْٓ اَمَدًا o (الجِنّ۷۲ :۲۵)   اے نبیؐ ! ان سے کہو ’’میں نہیں جانتا کہ جس چیز کا وعدہ تم سے کیا جارہا ہے وہ قریب ہے یا میرا رب اس کے لیے کوئی لمبی مدت مقرر فرماتا ہے‘‘۔

یعنی اُوپر جو بیان کیا گیا کہ جو اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کریں گے ان کے لیے  نارِ جہنم ہے، تو لازماً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان لوگوں کی شامت کب آئے گی جو ماننے سے انکار کررہے ہیں؟ قرآنِ مجید میں یہ بار بار آتا ہے کہ کفارِ مکہ پوچھتے تھے کہ جناب آپ جو خبر ہمیں سنا رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں عذاب دے گا تو وہ کب آئے گا؟ اور وہ کون سا وقت ہے جو آنے والا ہے؟ اس پر فرمایا گیا کہ ان لوگوں کو بتا دو کہ مجھے کچھ معلوم نہیں ہے کہ وہ وقت کب آنے والا ہے؟ وہ کوئی لمبی مدت ہے یا قریب آلگا ہے، مجھے اس کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔ یہ بالکل اللہ کے اختیار میں ہے کہ کب وہ وقت لے آئے گا۔

علمِ غیب کی حقیقت

عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیْبِہٖٓ اَحَدًاo (الجِنّ۷۲ :۲۶)   وہ عالم الغیب ہے، اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا۔

کسی کے پاس کوئی ذریعۂ علم نہیں ہے کہ اللہ نے جس بات کو چھپا کر رکھا ہو، اسے کوئی دوسرا جان سکے۔ یہاں پھر دیکھیے کہ کفّارِ مکہ کا جِنّوں کے متعلق جو تخیل تھا کہ وہ غیب کا علم رکھتے ہیں اور جس کا اُن سے رابطہ قائم ہوجاتا ہے اور ان کو بھی ان کے ذریعے غیب کا علم حاصل ہوجاتا ہے۔ چنانچہ ان کے ہاں عاملین اور کاہنین غیب دانی کے دعوے کرتے تھے اور لوگ ان کے پاس جاجا کر پوچھتے تھے کہ ہماری فلاں چیز جو کھو گئی ہے وہ کہاں ہے؟ اور ہمارا جو مسافر گیا ہوا ہے وہ کب آئے گا؟ جو بیمار ہے وہ اچھا ہوگا یا نہیں ہوگا اور کب اچھا ہوگا؟ اس طرح کی معلومات ان سے حاصل کرتے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ ان کے پاس غیب کا علم ہے اور وہ جِنّوں کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔

یہاں ایک طرف یہ بتایا جارہا ہے کہ جِنّ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے اور دوسری طرف یہ بتایا جارہا ہے کہ غیب کا علم رسولؐ کو حاصل نہیں۔ یہ صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے۔ وہ جس کو جتنا چاہتا ہے دیتاہے لیکن جس چیز کو وہ چھپا کررکھے دنیا میں کسی کے پاس کوئی ذریعۂ معلومات نہیں ہے کہ وہ اسے جان سکے۔

اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ فَاِنَّہٗ يَسْلُكُ مِنْۢ بَيْنِ يَدَيْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖ رَصَدًا۝۲۷ۙ  لِّيَعْلَمَ اَنْ قَدْ اَبْلَغُوْا رِسٰلٰتِ رَبِّہِمْ وَاَحَاطَ بِمَا لَدَيْہِمْ وَاَحْصٰى كُلَّ شَيْءٍ عَدَدًا۝۲۸ۧ

(الجِنّ۷۲ :۲۷-۲۸)  سوائے اُس رسولؐ کے جسے اُس نے (غیب کا کوئی علم دینے کے لیے) پسند کرلیا ہو، تو اُس کے آگے اور پیچھے وہ محافظ لگا دیتا ہے تاکہ وہ جان لے کہ انھوں نے اپنے رب کے پیغامات پہنچا دیے، اور وہ ان کے پورے ماحول کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور ایک ایک چیز کو اس نے گن رکھا ہے۔

یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ خود اپنے غیب کا مالک ہے اور وہ کسی کو اپنے غیب پر مطلع نہیں کرتا مگر اس رسول کو جسے وہ چُن لیتا ہے۔ وہ جس کو منتخب کرلیتا ہے اسے وہ غیب کا علم دیتا ہے ۔ اس غرض کے لیے کہ وہ پیغامات جو اللہ تعالیٰ اسے دے رہا ہے وہ ان کو پہنچا سکے۔ بالفاظِ دیگر  رسول کو غیب کا وہ علم دیا جاتا ہے جو رسالت کے لیے درکار ہے۔ خدائی کے لیے جو غیب کا علم درکار ہے وہ رسول کی طرف منتقل نہیں کیا جاتا۔ رسول کا کام یہ نہیں ہے کہ سمندر میں کتنی مچھلیاں ہیں اور کہاں کہاں ہیں؟ اور کس کس کا رزق کس طرح پہنچانا ہے؟ رسول ان کا رازق نہیں ہے، رسول ان کا ربّ نہیں ہے۔ اسے یہ جاننے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ سمندر میں کتنی مچھلیاں ہیں، یا ہوا میں    کتنے پرندے ہیں اور کون کون کس کس مقام پر ہے اور کس کو کتنے رزق کی ضرورت ہے اور کس کو کتنا پہنچ رہا ہے اور کس کو نہیں پہنچ رہا؟ اس کا کام خدائی کرنا نہیں ہے۔ یہ علم خدائی کرنے کے لیے درکار ہے۔ اسے جو علمِ غیب دیا جاتا ہے وہ رسالت سے متعلق ہوتا ہے۔

رسالت کی حقیقتیں جو عام انسانوں سے پوشیدہ ہیں، وہ اس رسول کو بتائی جاتی ہیں۔ جب رسول کویہ علم دیا جاتا ہے اور رسالت پر مامور کیا جاتا ہے تو اس کو پوری طرح سے حراست میں لے لیا جاتا ہے۔ اسے وہ علم دے کر آزاد نہیں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ پوری طرح سے اس کی سخت نگہبانی اور نگرانی کی جاتی ہے۔ اس کے چاروں طرف پہرے لگا دیے جاتے ہیںتاکہ اس بات کی پوری طرح ضمانت حاصل رہے کہ رسول کو جو علم دیا گیا ہے اور رسول کی طرف جو پیغامات بھیجے گئے ہیں ان کے اندر کوئی ادنیٰ رد و بدل نہ ہونے پائے۔ رسول اس میں سے کسی چیز کو چھپا کر نہ رکھے، کسی چیز کو روک کر نہ رکھے۔ اس کے اندر کوئی تغیر و تبدل نہ کرے۔ جیسا پیغام اس کو پہنچایا گیا ٹھیک اسے ویسے ہی پہنچائے۔ اس بات کی ضمانت کے لیے اس کے چاروں طرف سخت پہرہ لگایا جاتا ہے۔ وَاَحَاطَ بِمَا لَدَيْہِمْ  ،’’اور اللہ تعالیٰ خود اس کے اُوپر محیط رہتاہے‘‘۔ ایک طرف فرشتے اس کی نگرانی کے لیے لگا دیے جاتے ہیں اور دوسری طرف خود اللہ تعالیٰ یہ دیکھتا رہتا ہے کہ وہ کیا کام کررہا ہے؟ اتنی سخت نگرانی کی جاتی ہے۔ وَاَحْصٰى كُلَّ شَيْءٍ عَدَدًا،ایک ایک چیز کو اللہ تعالیٰ گنتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جو قرآنِ مجید بھیجا گیا ہے اس کا ایک ایک لفظ اور ایک ایک فقرہ گنا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ دیکھتا رہتا ہے کہ اس کی گنتی کے مطابق اس نے اسے پہنچایا ہے یا نہیں۔

دوسرے الفاظ میں غیب کا علم حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ انسانوں کے پاس نہیں ہے۔ اگر کوئی ذریعہ اللہ تعالیٰ دیتا ہے تو وہ اپنے رسولوں کو دیتا ہے۔ رسولوں کو بھی رسالت کے فرائض انجام دینے کے لیے دیتا ہے اور اس کی بھی سخت نگرانی کی جاتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کسی کو یہ علم دے کر چھوڑ دیا جائے۔ اس کے بعد برابر یہ دیکھا جاتا رہتا ہے کہ وہ اس پیغام کو ٹھیک ٹھیک پہنچا دے۔ اس سے خود بخود یہ بات واضح ہوگئی کہ رسولوں کے ماسوا دوسرے لوگوں کا یہ دعویٰ کرنا کہ ہمارے پاس غیب کا فلاں فلاں علم ہے، یا دوسرے انسانوں کے متعلق لوگوں کا یہ تصور کہ ان کے پاس غیب کا فلاں فلاں علم ہے، بالکل غلط ہے۔ قرآن و حدیث واضح طور پر اس بات کو بتاتے ہیں کہ وہ حقائق جو انسان کی معلومات سے مخفی ہیں، اس کے حواس سے مخفی ہیں جن کو آدمی نہ دیکھ سکتا ہے،   نہ سن سکتا ہے۔ وہ حقائق سوائے اللہ تعالیٰ کے رسولوں ؑ کے اور کسی کو معلوم نہیں ہیں۔ کوئی شخص اگر یہ کہے کہ ہمیں کشف کے ذریعے معلوم ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد مُردے پر کیا گزرتی ہے؟ بالکل غلط کہتا ہے۔ یہ علم اگر حاصل ہوسکتا ہے تو صرف اللہ کے رسولؐ کے ذریعے سے ہوسکتا ہے۔یہ علم رسولوں کو رسالت کے فرائض ادا کرنے کے لیے دیا جاتا ہے۔ یہ تماشے دکھانے یا کرامتیں دکھانے کے لیے نہیں دیا جاتا۔ یہ اس لیے نہیں دیاجاتاکہ اس کے ذریعے پیری کی دکان چلائی جائے۔ یہ محض رسالت کے فرائض اداکرنے کے لیے دیا جاتا ہے، اور جسے دیا جاتا ہے، اس کی سخت نگہبانی اور نگرانی بھی کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ پوری طرح سے اس بات کا انتظام کرتا ہے کہ یہ علم محفوظ رہے اور صحیح طریقے سے اسے پہنچایا جائے۔اور کون سا انسان ایسا ہے جس کے پاس غیب کا علم ہو اور اس کی حفاظت کے لیے اس طرح سے فرشتے لگائے جائیں۔

جیساکہ قرآن مجید بیان کرتا ہے اور اسی سورہ میں بیان کیا گیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کو رسول مامور کرتا ہے اور اس کی طرف وحی آنے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو عالمِ بالا میں اس کے لیے حفاظت کے سخت انتظامات کیے جاتے ہیں کہ وہ علم جو وہاں سے بھیجا جارہا ہے اس کے اندر کوئی خلل اندازی نہ ہونے پائے۔ وہاں سے جب یہ علم رسول کی طرف منتقل ہوتا ہے اور اس کے بعد رسول کے گرد بھی چوکی پہرہ لگا دیا جاتا ہے کہ اس کے اندر ذرہ برابر بھی خلل اندازی نہ ہو۔ رسول بہرحال انسان ہوتا ہے۔ اس کے اندر خواہشات ہوتی ہیں۔ اس کے اندر جذبات ہوتے ہیں۔ اسے کسی سے محبت ہوتی ہے اور کسی پر اسے غصہ آتا ہے۔ مختلف صورتیں ہوتی ہیں جو بہرحال انسان کے ساتھ پیش آسکتی ہیں۔ لیکن جب رسول کو رسالت پر مامور کیا جاتا ہے اور وحی اس کی طرف بھیجی جاتی ہے تو یہ ممکن نہیں ہے کہ اگر رسول کو کسی پر غصہ آیا ہوا ہے اور اس پر وحی نازل ہوئی ہے تو اپنے غصے کے ساتھ وہ اس کے اندر ایک کلمہ بڑھا دے، یا اس میں اطاعت یا ناراضگی کا کوئی پہلو بڑھا دے۔

مثال کے طور پر آپ دیکھیے کہ حضرت عائشہؓ جو رسولؐ اللہ کی محبوب بیوی تھیں۔ ان پر جب تہمت لگائی گئی تو جس قدر شدید غصہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فطری طور پر آنا چاہیے تھا وہ انھیں آیا۔ اس کے بعد سورئہ نور کو دیکھیے جس میں تہمت کے اس واقعے پر تبصرہ کیا گیا ہے۔ اس کو آپ پڑھیں تو آپ کو یہ محسوس ہوگا کہ اس میں کہیں بھی اس غصے کے آثار نہیں ہیں جو ایک شوہر کے ہونے چاہییں۔

یہ کیا چیز ہے سخت نگرانی؟ وحی جب نازل ہوگئی اور وحی کے الفاظ آگئے تو اب رسولؐ کے اختیار میں نہیں ہے کہ اپنی محبت یا اپنے غصے یا کسی خواہش کی بناپر کسی لفظ میں رد و بدل کر دے۔ یہ اس کے لیے ممکن نہیں ہے۔ وہاں تو لفظ لفظ گنا ہوا ہے۔ اَحْصٰی کُلَّ شَیْ ئٍ یوں ہی نہیں فرمایا گیا کہ ایک ایک لفظ گنا ہوا ہے اور اس کی نگرانی کی جارہی ہے کہ جو کچھ تمھیں پہنچایا گیا ہے کہیں   اس میں کوئی رد و بدل تو نہیں کر رہے۔ اب خدا کے رسولؐ کے بعد اور کون سی ایسی ہستی ہے کہ جس کے اُوپر اگر الہامات نازل ہوں، جسے کشف ہوا ہو کہ اس کی اتنی نگرانی کی جائے کہ جب عالمِ بالا سے پیغا م دیا جا رہا ہو تو پوری حفاظت کے ساتھ پہرے لگا کر اسے پہنچایا جا رہا ہے اور پھر پہنچانے کے بعد اس کی سخت نگرانی کی جارہی ہے کہ جو علم دیا گیا آیا وہ جوں کا توں پہنچا دیا گیا ہے یا نہیں، اور لفظ لفظ گنا ہوا ہو اور جس طرح سے دیا گیا ہو اسی طرح سے اسے پہنچایا گیا ہو۔ لہٰذا علمِ غیب کے جتنے بھی دعوے ہیں سب فضول اور لغو ہیں۔ انبیا علیہم السلام کے سوا یہ علم نہ تو کسی کو حاصل ہوسکتا ہے اور نہ دیا گیا ہے۔ قرآنِ مجید کہتا ہے:

علمِ غیب مخفی رکھنے کی حکمت

فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیْبِہٖٓ اَحَدًا o اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ (الجِنّ۷۲ : ۲۶-۲۷)   وہ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا سوائے اس رسول کے جسے وہ علم دیتا ہے۔

معلوم ہوا کہ یہ سارے کے سارے دعوے غلط ہیں۔ صرف رسول کو اس کام کے لیے چُنا جاتا ہے، کسی اور کو اس کام کے لیے چُنا نہیں جاتا کہ وہ حقائق جو اللہ تعالیٰ نے مخفی رکھے ہیں ان کے متعلق انھیں علم ہو۔

مثال کے طور پر مرنے کے بعد کیا ہوگا؟

یہ وہ چیز ہے جو انسانوں کے علم سے مخفی رکھی گئی ہے۔ اس چیز کا علم صرف اللہ کے رسول کو دیا جاتا ہے۔ اس غرض کے لیے کہ انسانوں کو آخرت پر ایمان لانے کے لیے دعوت دی جاسکے۔ آخرت پر ایمان لانے کی دعوت دینے کے لیے جب رسول کو یہ علم دیا جاتا ہے تو رسول کو آنکھوں سے وہ جنّت بھی دکھا دی جاتی ہے جہاں انسانوں کو ایمان لانے اور عملِ صالح کرنے کے نتیجے میں داخل کیا جائے گا، اور اسی طرح وہ دوزخ بھی دکھا دی جاتی ہے جہاں ان کو جانا ہوگا اگر وہ انکار کریں اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کریں۔ ان کو یہ بھی دکھایا جاتا ہے کہ جو لوگ عذابِ قبر کا انکار کرتے ہیں انھیں عذاب قبر ہو رہا ہے۔ ان کو یہ بھی دکھایا جاتا ہے کہ وہ لوگ جو مومن صالح ہیں ان کو اللہ تعالیٰ کس آرام اور عیش میں رکھتا ہے۔ یہ سب علم انھیں دیا جاتا ہے اور یہ سارے مشاہدے انھیں کروائے جاتے ہیں کہ وہ لوگوں کے سامنے آخرت کے عقیدے کو محض اس طرح پیش نہ کریں کہ یہ ان کا فلسفہ ہے یا ان کا قیاس ہے کہ ایسا ہونا ہے بلکہ وہ اسے اپنی آنکھوں دیکھی حقیقت کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں۔

اس بات کو باقی انسانوں سے کیوں مخفی رکھا گیا ہے؟

اس لیے کہ اگر سارے انسان آنکھوں سے دیکھ لیں کہ مرنے کے بعد یہ ہوتا ہے تو پھر کون کافر رہ جائے گا۔ پھر تو آزمایش کا قصہ ختم ہوجائے گا۔ پھر تو امتحان کا سوال باقی نہیں رہتا۔ اگر ہرشخص اپنی آنکھوں سے یہ دیکھ لے کہ مرنے کے بعد یہ ہوتا ہے، یوں فرشتے آتے ہیں، اس طرح سے روح قبض کرکے لے گئے۔   قبر میں یوں گزر رہی ہے اور عالمِ آخرت میں یہ کچھ پیش آنا ہے۔ اگر یہ سب کچھ نبیؐ کے ماسوا بھی دوسرے انسانوں کو دکھا دیا جائے تواس کے معنی یہ ہیں کہ امتحان ان کا ختم ہوگیا۔ اس کے بعد پھر کسی امتحان کا کوئی سوال باقی نہیں رہتا۔ جس کا امتحان لیا جارہا ہو، اگر اس کے سامنے وہ سوالات ہی آجائیں، وہ پرچہ ہی آجائے اور اسے وہ حل کرکے ہی دے دیا جائے تو پھر اس امتحان کا کیا فائدہ؟پھر یہ علم کچھ انسانوں کو دے دینا اور کچھ کو نہ دینا، یہ تو بالکل ایسا ہے کہ کچھ آدمیوں کو پرچہ دکھا دیا جائے اور کچھ سے پرچہ چھپا کر ان کا امتحان لیا جائے۔ اس بے انصافی کی اللہ تعالیٰ سے کسی کو توقع نہیں رکھنی چاہیے۔

اللہ تعالیٰ رسول کو یہ علم اس لیے دیتا ہے کہ رسول کا کام شہادت دینا ہے۔ رسول کا کام آنکھوں دیکھی بات کو بیان کرنا ہے۔ اسے فلسفے کی حیثیت سے پیش نہیں کرنا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم اس رسول کو منتخب کرتے ہیں۔ اسے یہ علم براہِ راست دیتے ہیں اور پھر  خود اس کی نگرانی کرتے ہیں۔ اس لیے اس بات کا امکان نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو غیبی حقائق عام انسانوں کے حواس سے مخفی رکھے ہیں، وہ رسول کے علاوہ عام انسانوں کو معلوم ہوسکیں۔ (ریکارڈنگ: حفیظ الرحمٰن احسن، تدوین: ارشاد  الرحمٰن ، امجد عباسی)

بدیع الزماں سعید نورسی کے رسائل اور ان کی جماعت جو آن کی آن میں قوت پکڑگئی اور مختلف علاقوں میں پھیل گئی۔ مصطفےٰ کمال کے لیے ایک لادینی معاشرہ وجود میں لانے کے راستے میں پہلا روڑا ثابت ہوئی۔ چنانچہ مصطفےٰ کمال نے بدیع الزماں کو اسپارٹا کے ایک دُورافتادہ علاقہ ’بارلا‘ میں جلاوطن کردینے کے احکام صادر کر دیئے۔ وہاں موصوف کو شدید پہروں کے ساتھ یکہ و تنہا رکھا گیا۔ مگر بدیع الزماں کی پُرکشش شخصیت نے خود پہرہ داروں کے دلوں میں اُترنا شروع کردیا اور تھوڑا ہی عرصہ گزرا کہ پہرے داروں کا ایک گروہ آپ کی دعوت کا حامی اور آپ کے اسلامی نظریات کا علَم بردار ہوگیا۔ اس موقعے سے موصوف نے فائدہ اُٹھایا اور اپنے اُن رسائل کی تصحیح میں وقت گزارنے لگے، جو تلامذہ کی طرف سے اُن کے پاس پہنچتے رہتے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ آپ نے الحاد و لادینیت کے خلاف بھی بھرپور تنقیدیں تیار کیں۔

بدیع الزماں نے ’بارلا‘ کے قیدخانے میں آٹھ سال گزارے۔ جیل میں موصوف اپنا کھانا خود ہی تیار کرتے تھے، خود ہی اپنے کپڑے دھوتے تھے اور دوسرے تمام اُمورخود ہی سرانجام دیتے رہے۔ مصطفےٰ کمال نے صرف اسی پر اکتفا نہ کیا۔ چونکہ بدیع الزماں کے قلب ِ حق پرست سے اُٹھنے والی دینی شعاعیں برابر لوگوں کے اندر بکھر رہی تھیں اور ان کے رسائل کی اشاعت روز بروز بڑھتی جارہی تھی۔ اس لیے مصطفےٰ کمال نے بذریعۂ حکم بدیع الزماں کو اور ان کے ۱۲۰ طلبہ کو سخت پہروں کے ساتھ ’اسکی شہر‘ کی جیل میں منتقل کروا دیا۔ طویل تحقیقات کے بعد حکومت کو کوئی ایسا ثبوت نہ ملا جو موصوف پر عائد شدہ الزامات کو درست قرار دے سکے۔ اس کے باوجود عدالت نے موصوف کو گیارہ ماہ قید کی سزا دی۔ (’ترکی کے مردِ مجاہد بدیع الزماں کی شخصیت و دعوت، ترجمہ: مولانا خلیل احمد حامدی، ترجمان القرآن، ج۵۹، عدد۴،جنوری ۱۹۶۳ء،ص ۳۹-۴۰)

محترم حضرات! کلچر کے مسئلے پر علمی حیثیت سے بحث کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے ذہن اُلجھنوںسے محفوظ ہوں، اور ذہن میں غلط فہمیاں موجود نہ رہیں۔ اس قسم کے موضوع کو سمجھنے کے لیے صاف ذہن ضروری ہے۔ جہاں تک کلچر اور اسلامی کلچر کا تعلق ہے، یہ موضوع حقیقت میں ایک علمی موضوع ہے، لیکن نہ صرف اس موضوع کے متعلق، بلکہ اس قسم کے دوسرے موضوعات پر بھی بعض لوگوں کے ذہنوں میں اُلجھنیں موجود ہیں، مختصراً پہلے ان اُلجھنوں کو صاف کرنے کی کوشش کروں گا۔

  • ایک ضابطۂ اخلاق:ایک غلط فہمی عرصے سے مسلمانوں کے ذہن میں پرورش پارہی ہے کہ ’مسلمان‘ جو کچھ کرے، وہ ’اسلامی‘ ہے۔ پھر ایک ظلم یہ بھی ہے کہ مسلمان اکثر اپنے ہر اس فعل کو جو اس نے کسی بھی موقعے پر کیا، بے تکلفی سے ’اسلامی‘ قرار دینے کی غلطی کرتے ہیں۔

جہاں تک مسلمان ہونے کا تعلق ہے، خلفائے راشدینؓ ، عمر بن عبدالعزیز، خلفائے بنواُمیہ، تاناشاہ، واجد علی شاہ اور محمد شاہ رنگیلا یہ سب ہی مسلمان تھے، لیکن ان سب کے طرزِعمل کو یکساں طور پر ’اسلامی‘ سمجھنے کے معنی تو یہ ہوئے کہ اسلام سرے سے کسی اصول اور ضابطے کا قائل ہی نہیں ہے۔ اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ جو فعل ایک مسلمان سے سرزد ہو، وہی ’اسلامی‘ ہے، مثال کے طور پر یہ کہ اگر ایک مسلمان شراب خانہ قائم کرے تو کیا یہ اسلامی شراب خانہ ہوگا؟ اس لیے یہ غلط فہمی دُور ہونی چاہیے اور اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ اسلام ایک ضابطۂ اخلاق کا نام ہے۔ اس لیے جو کچھ اس کے مطابق کیا جائے گا، وہی اسلامی ہوگا اور اس کی حدود سے باہر رہ کر جو کچھ کیا جائے گا وہ غیراسلامی ہوگا۔

اس سلسلے میں دوسری غلط فہمی جسے دُور کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ بعض مسلمان ایک مدت سے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ جو چیز ان کے اندر کہیں سے آکر رواج پاجائے اور جسے وہ اپنے لیے دلچسپ، فائدہ بخش یا نفع بخش محسوس کریں، اسلام کا فرض ہے کہ وہ اسے ’اسلامی‘ تسلیم کرے اور اسے ’اسلامی‘ قرار دے کر اسے اس حیثیت میں پوری قوم پر مسلط کردیا جائے۔

ایسے لوگوں کی کوشش یہ ہے کہ اسلام نے جس چیز کو حلال قرار دیا ہے، وہ اسے اسلام ہی کا لبادہ اُوڑھ کر حرام قرار دیں اور جسے اسلام بُرا قرار دے، وہ اسے اسلام کی رُو سےجائز بلکہ لازمی قرار دے دیں۔ یہ چیز ہراعتبار سے غلط ہے۔ اس لیے سیدھی طرح یہ فیصلہ کیا جانا چاہیے کہ اگر  ہم خدا اور رسولؐ کی اطاعت نہیں کرنا چاہتے تو ایسی باتوں کو اسلام کے ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی سمجھ کر ہی کیا جائے اور اپنی غیراسلامی حرکات کو مباح جاننے کی عادت کو ترک کیا جائے۔

  • واضح نصب العین: اسلام پر یہ ایک بہت بُرا دور آیا ہے کہ اس سے نسبت رکھنے والوں میں سے ایک قابلِ لحاظ تعداد حرام کو حلال ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کوئی شرمندگی اور ندامت محسوس نہیں کرتی۔ اب سے کچھ عرصہ پہلے یہ بات تھی کہ مسلمان غیراسلامی حرکتوں کا ارتکاب کرتا تھا، مگر بے باکی سے اسے اسلامی بنانے کی سعی نہیں کرتا تھا۔ لیکن اب یہ شرمناک پہلو ہماری زندگی میں بہت نمایاں ہوگیا ہے۔

اس سلسلے میں تیسری چیز یہ ہے کہ ہم نے ترقی کا تصور مغربی افکار سے لیا ہے اور اپنے طور پر ’ترقی پسند اسلام‘ کو جنم دے رہے ہیں۔ مغرب سے اصلاح کا ایک اور تصور یہ بھی لیا گیا ہے کہ اہلِ مغرب نے جو کچھ اصول بنائے ہیں، وہ سب کے سب معیاری ہیں۔ اس غلط فہمی کو بھی رفع ہونا چاہیے۔

ترقی کے معاملے میں یہ ضروری ہے کہ ہمارا ایک واضح اور متعین نصب العین ہو، تاکہ ہم دیکھ سکیں کہ کیا واقعی ہم اس منزل کی طرف بڑھ رہے ہیں یا نہیں؟ اگر ہم اس منزل کی سمت بڑھ رہے ہیں تو یہ ہماری ترقی ہورہی ہوگی، ورنہ ہمارے قدم ترقی کے بجائے تنزلی کی طرف اُٹھ رہے ہوں گے۔ اگر ہماری منزل کراچی ہے اور ہم لاہور سے چل کر اوکاڑہ اور منٹگمری [موجودہ نام: ساہیوال] پہنچ رہے ہیں تو یہ ترقی ہوگی، لیکن اگر منزل کراچی ہو اور ہم لاہور سے سیالکوٹ کی طرف جارہے ہوں تو یہ ترقی نہیں ہے۔

  • منزل:اسلام کے نقطۂ نگاہ سے دیکھا جائے تو ترقی اسی صورت میں ہوگی، جب ہم اسلامی منزل کی طرف بڑھیں گے۔ اگر ہمارے قدم اسلامی منزل کی طرف نہیں اُٹھ رہے تو یہ اسلامی نقطۂ نگاہ سے ترقی نہیں ہوگی بلکہ یہ مغربی نقطۂ نظر کی ترقی کہلائے گی۔ اسی طرح اسلام کے جو احکام ہیں، ان کی پابندی کرتے ہوئے زندگی میں جو تغیر و تبدل واقع ہو، یہ اصلاح ہوگی، لیکن اگر اسلامی قدروں کی خلاف ورزی کرکے اور دوسری جگہ سے اسلامی اصولوں کے بالکل برعکس اصول اور اقدار لے کر کوئی کام کیا جائے تو اسے Reformation [اصلاح کار] قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اسلام اسے ہرگز اصلاح نہیں مانے گا۔

ان تمام باتوں کو نگاہ میں رکھ کر ہم کلچر کے مسئلے کو آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔

  • کلچر کا ماخذ:حنیف ندوی صاحب نے اپنی تقریر میں کہا ہے کہ ’کلچر ایک پیچیدہ مسئلہ ہے‘۔ آیئے، ہم اس لفظ کی جڑ بنیاد پر غور کریں۔ یہ انگریزی زبان میں دراصل مستعار ہے اور یہ لفظ: Cultivation اور To Cultivate سے نکلا ہے۔ پھر نام ہے اس چیز کا کہ زمین تیار ہو۔ اس کے اندر جھاڑ جھنکار کو قبول نہ کریں۔ اس خاص فصل کے لیے زمین کو تیار کریں جسے ہم اُگانا چاہتے ہیں۔ پھر اسی مقصد کے لیے محنت اور توجہ سے کام کریں۔

 جہاں تک انسانی تمدن کا تعلق ہے۔ انسانی زندگیوں میں جو خوبیاں پیدا کرنا اور پروان چڑھانا مطلوب ہیں، ضرورت ہے کہ انسانی ذہن اور زندگی کو ان خوبیوں کے لیے تیار کیا جائے،اور جو بُرائیاں ان کی ضدپڑتی ہیں انھیں دبایا جائے۔ یہ کلچر کا مستعار اور مجازی مفہوم ہے۔ اسی طرح سے ثقافت ہے اور اسی طرح سے تہذیب۔ آپ ان کی بنیاد پر غور کریں تو لامحالہ آپ کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ جب تک ہمارے سامنے خوبی کا کوئی معیار نہ ہو، اور کوئی فلسفۂ حیات، بنیادی نقطۂ نظر اور کوئی فکر سامنے نہ ہو ، جس پر بُرائی اور خوبی کا فیصلہ کیا جاسکے، اس وقت تک تہذیب اور ثقافت وجود میں نہیں آتی۔

 ہمیں یہ بات اچھی طرح معلوم ہونا چاہیے کہ ہم آدمی کو کیا بناناچاہتے ہیں؟ اسے کن بُرائیوں سے بچانے کے خواہاں ہیں؟ پہلے یہ فیصلہ کیجیے تب کلچر کا مفہوم سمجھ میں آئے گا۔ دُنیا میں انفرادی سطح پر کبھی انسان کا ایک کلچر نہیں رہا اور نہ اب ہے۔ ہر انسان کو اپنا کلچر بھلائی یا بُرائی کے ایک معیار کے ضابطے میں لانا ہوتا ہے۔

  • بنیادی اقدار: دُنیا کی مختلف تہذیبوں میں فرق کی وجہ یہ ہے کہ ان کی اقدار مختلف ہیں۔ ان میں بُرائی اور بھلائی کا تصور مختلف ہے۔ اسی لیے آج تک کوئی عالمگیر کلچر پیدا نہیں ہوسکا۔ تمام کلچر اور تمدن ان بنیادی اقدار سے پیدا ہوتے ہیں جو کسی تہذیب کے امتیازی خصائص ہیں۔

کلچر کا جائزہ لیتے ہوئے تین بنیادیں ہیں:

اوّل یہ کہ آپ کا تصورِ حیات کیا ہے اور آپ انسان کو زمین پر اور کائنات کے نقشے میں کیا مقام دیتے ہیں؟

دوم یہ کہ آپ کا مقصد ِ حیات کیا ہے؟ یہ سوال تصورِ حیات کے تابع ہے۔ یہ فیصلہ ہونا چاہیے کہ آپ کی جدوجہد، کوششوں اور محنتوں کا مقصود کیا ہے؟

سوم یہ کہ کن اصولوں اور ضابطوں کے مطابق آپ اپنی زندگی تعمیر کرنا چاہتے ہیں اور وہ کون سا اصول آپ کی زندگی میں کارفرما ہے جو بُرائی اور بھلائی کا فیصلہ کرتا ہے؟

یہ تین چیزیں مل کرانسانی تمدن کو معرضِ وجود میں لاتی ہیں اور تمدن کے گلِ سرسبزکا نام کلچر ہے۔

  • تمدن:اجتماعی زندگی میں اپنی ضروریات اور خواہشات کو کن ذرائع سے پورا کیا جائے؟ رہنا سہنا، مکان بنانا، مشینوں سے کام لینا، یونی ورسٹی، ٹرانسپورٹ غرضیکہ زندگی گزارنے کے جتنے ذرائع و وسائل آپ کے پاس ہیں، ان کے مجموعے کا نام تمدن ہے۔ اس میں روح کا کام تہذیب کرتی ہے۔ اس تمدن کی روحِ تہذیب ان چیزوں کا نام ،ہے جن پر ایک تمدن فخر کرتا ہے۔
  • تین تہذیبیں:آج دُنیا میں تین تہذیبیں موجود ہیں: ۱- مشرکانہ ۲- مادہ پرستانہ ۳-اسلامی۔
  • مشرکانہ تہذیب:جس میں بہت سے خدائوں اور دیوتائوں کو خوش اور راضی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس کا مقصد ان دیوتائوں کی خوشنودی سے آخرت (اگر ان کے ہاں آخرت کا کوئی تصور موجود ہے، تو اس) کی کامیابی ہے۔ مشرکانہ تہذیب کے دیوی دیوتا عیاش ہوتے ہیں، اس لیے ان کی تہذیب کے اندر ناچ، راگ رنگ اور لہوولعب کو امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ ان کے ہاں شاید ہی کوئی ایسا ناچ ہو جس کا تعلق کسی نہ کسی طرح دیوتا سے نہ ہو۔ ان کے ہاں مجرد آرٹ نہیں ہے۔
  • مادہ پرستانہ تہذیب:اس میں انسان کا مقصد مادی ترقی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ ان کا کوئی تصورِ حیات و آخرت نہیں۔ ان کی مثال اس اُونٹ کی سی ہے، جسے کسی کھیت میں رسّی کے بغیر چھوڑ دیا جائے اور وہ جدھر سبز گھاس دیکھے، اس طرف چلا جائے۔ ان کا کوئی خدا، کوئی قائد اور ضابطہ نہیں ہے۔ ان کا سب سے بڑا مقصد مادی مفادات و وسائل میں تیزرفتار ترقی کے لیے بھرپور سائنسی کوششیں اور مادی ترقی کے لیے بے مہار جدوجہد ہے۔ دن بھر اس کے لیے ہاتھ پائوں مارنے کے بعد، اس تہذیب کے لوگوں کو ایسی تفریحات چاہییں جن سے وہ لذت اور لطف اُٹھا سکیں۔
  • اسلامی تہذیب:تیسری تہذیب اسلامی تہذیب ہے۔ اس میں زندگی کا ایک واضح نصب العین ہے کہ ہم جس زمین پر خدا کے خلیفہ کی حیثیت سے مبعوث کیے گئے ہیں، اس زمین کا مالک ایک خدا ہے اور ہمارا مقصد اس خدا کی رضا و خوشنودی کا حصول ہے، تاکہ ہم خود کو اس کا ایمان دار، فرض شناس اور وفادار نائب ثابت کرسکیں۔ یہ کامیابی ہمارا مقصد ہے۔ ہمارے خدا نے اپنے آخری رسولؐ کے واسطے سے ہمیں واضح اصول دیے ہیں اور ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم ان اصولوں کے اندر رہ کر زندگی گزاریں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے: ’’مومن کی مثال اس گھوڑے کی طرح ہے جو کھونٹے اور رسّی سے بندھا ہوا ہو۔ وہ وہیں تک جاسکتا ہے، جہاں تک اسے رسّی لے جائے‘‘۔

اسلامی تہذیب کے اصول و ضوابط، مشرکانہ اور مادہ پرستانہ تہذیب سے بہت مختلف ہیں۔ مقصد کے فرق کے لحاظ سے وہ شخص بڑا ناکام ہے، جو دوسری تہذیب کی چیز لے کر یہاں آئے اور اسے ’اسلامی‘ قرار دے کر فخر کرے۔گناہ تو گناہ ہے ہی مگر گناہ کو ثواب ثابت کرنا تو بہت ہی بڑا گناہ ہے۔

  • اسلامی کلچر کا  مظہر:اسلامی کلچر کا مظہر دیکھنا ہو تو حج پر جاکر دیکھیے، جہاں مساوات اور اخوت نے رئیس، حکمران اور غریب کو یکساں مقام دیا ہے اور گدا و شاہ ایک ہی لباس میں نظر آئیں گے۔ طواف کے موقعے پر کسی رئیس کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے سے کمتر کو پیچھے ہٹاکر راستہ حاصل کرے۔ وہاں کوئی راستہ صاف کرنے والا اور ’ہٹ جائو پیچھے‘ کہنے والا نہیں ہے۔

اسلامی کلچر مسجدوں میں جاکر دیکھیے جہاں چپراسی، اعلیٰ حاکم سے اگلی صف میں کھڑے ہوکر نماز ادا کرتا ہے۔ مسلمانوں کے تہوار منانے کی بھی اپنی ایک شان ہے۔ عیدالفطر پر مسلمان سب سے پہلے فطرانہ کی رقم الگ کرتا ہے، تاکہ اس کے پڑوس میں کوئی شخص بھوکا نہ رہے۔ پھر رنگ کی پچکاریاں پھینکنے اور شراب پینے کے بجائے وہ اپنے پروردگار کے حضور سجدئہ شکر بجا لاتا ہے اور دن بھر اپنے بزرگوں اور بھائیوں سے مل کر محبت کے رشتے استوار کرتا ہے۔

اس کے برعکس دوسری ثقافتوں میں بعض چیزیں ایسی ہیں، جنھیں اسلام جائز قرار نہیں دیتا۔ اسلام یہ اجازت نہیں دیتا کہ کوئی عورت، مردوں کے سامنے رقص اور شرمناک حرکات کرے اور اپنے جسمانی اعضا کی نمایش کرے۔

چونکہ غنائیت کی طرف انسان کی فطری رغبت ہے، اس لیے اسلام نے ایک راستہ کھولا ہے اور یہ راستہ قراءت کی حوصلہ افزائی ہے۔ اسلام، انسان کے ذوق کی نفی نہیں کرتا۔ قراءت کے علاوہ گانے بجانے کی کوئی شکل مباح تو ثابت کی جاسکتی ہے مگر اسے اسلامی کلچر کا گُلِ سرسبد نہیں بنایا جاسکتا۔ اسلام نے کسی تان سین پر فخر نہیں کیا۔ اسے فخر و شرف ہے تو حضرت عمرفاروقؓ پر۔ مسلمانوں کے ہاں پائے جانے والے ذوقِ مصوری نے نقاشی، گلکاری اور خطاطی کی صورتیں اختیار کیں۔ مسلمانوں نے مجسمہ سازی کی بجائے سنگ تراشی کو رواج دیا۔ مسلمانوں نے بُت گری و بُت سازی کو کبھی جائز قرار نہیں دیا تھا۔ یہ اس صدی کی بدعت ہے کہ مجسمہ سازی کو مسلمانوں کے ہاں کلچر کا جزو بنایا جارہا ہے۔ مختصر یہ کہ اس سے آپ میرا مدعا اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ اسلامی تہذیب کے امتیازی خصائص اور ضابطوں کے اندر رہ کر جو کچھ کیا جائے گا، وہی اسلامی ہے۔ اس کے باہر جو کچھ ہوگا وہ ہرگز اسلامی نہیں۔

امانت رکھنے کے اصول

سوال : امانت رکھنے اور رکھوانے والے کو کیا کیا اصول ملحوظ رکھنے چاہییں؟

جواب :امانت اصل میں دو آدمیوں کے درمیان باہمی اعتماد کی بنا پر ہوتی ہے۔ جو شخص کسی کے پاس کوئی امانت رکھتا ہے، وہ گویا اس پر یہ اعتماد کرتا ہے کہ وہ اپنی حد ِ استطاعت تک پوری ایمان داری کے ساتھ اس کی حفاظت کرے گا۔ اور جو شخص اس امانت کو اپنی حفاظت میں لینا قبول کرتا ہے، وہ بھی امانت رکھنے والے پر یہ اعتماد کرتا ہے کہ وہ ایک جائز قسم کی امانت اس کےپاس رکھ رہا ہے، کوئی چوری کا مال یا خلافِ قانون چیز نہیں رکھ رہا ہے، نہ اس امانت کے ذریعے سے کسی قسم کا دھوکا یا فریب کرکے اسے نقصان پہنچانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ پس دونوں پر اس کے سوا کسی اور چیز کی پابندی لازم نہیں ہے کہ وہ اس اعتماد کا پورا پورا حق ادا کریں۔ (اپریل ۱۹۴۶ء)


قرضِ حسن کے آداب

سوال : قرضِ حسن دینے اور لینے میں کن اُمور کا لحاظ ضروری ہے؟

جواب : قرض دینے اور لینے میں اس بات کا لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ حتی الامکان فریقین کے درمیان شرائط ِقرض صاف صاف طے ہوں، مدت کا تعین ہوجائے، تحریر اور شہادت ہو۔ جوشخص قرض دے وہ اس قرض کے دبائو سےکسی قسم کا فائدہ اُٹھانے کی کوشش نہ کرے۔ مقروض کو احسان رکھ کر نہ ذلیل کرے اور نہ اذیت پہنچانے کی کوشش کرے۔ اور اگر مدت گزر جائے اور فی الواقع مقروض شخص قرضہ ادا کرنے کے قابل نہ ہو تو اس کو جہاں تک ممکن ہو مہلت دے اور اپنے قرض کی وصولی میں زیادہ سختی نہ کرے۔ دوسری طرف قرض لینے والے کو لازم ہے کہ جس وقت وہ قرض ادا کرنے کے قابل ہو اسی وقت ادا کردے اور جان بوجھ کر ادائے قرض میں تساہل یا ٹال مٹول نہ کرے۔ (اپریل ۱۹۴۶ء)


حرام کام کرنے والے کے ساتھ کاروبار

سوال : مشترک کاروبار جس میں صالحین و فاجرین ملے جلے ہوں، پھرفاجرمیں شراب نوشی ، سودی کاروبار وغیرہ شامل ہوں، اس میں شرکت کرنا کیسا ہے؟

جواب :تجارت اگر بجائے خود حلال نوعیت کی ہو اور جائز طریقوں سے کی جائے، تو  اس میں کسی پرہیزگار آدمی کی شرکت محض اس وجہ سے ناجائز نہیں ہوسکتی کہ دوسرے شُر کا اپنا مال حرام ذرائع سےکماکر لائے ہیں۔ آپ کا اپنا سرمایہ اگر حلال ہے، اور کاروبار حلال طریقوں سے کیا جارہا ہے، تو جو منافع آپ کو اپنے سرمایے پر ملے گا، وہ آپ کے لیے حلال ہوگا۔(فروری ۱۹۴۴ء)


کاسب ِ حرام کے ہاں ملازم رہنا

سوال : کاسب ِ حرام کے ہاں ملازم رہنا یا اس کے ہاں سے کھانا پینا جائز ہے یا نہیں؟

جواب : کاسب ِ حرام کی دو نوعیتیں ہیں: ایک تو وہ جس کا پیشہ فحشا کی تعریف میں آتا ہے، مثلاً زنان بازاری کا کسب۔ اس کے قریب جانا بھی جائز نہیں ، کجا کہ اس کے ہاں نوکر ہونا۔ دوسرا وہ کاسب ِ حرام ہے جس کا پیشہ حرام تو ہے ، مگر فحشا کی تعریف میں نہیں آتا، جیسے وکیل یا سودی ذرائع سے کمانے والا۔ اس کے کسی ایسے کام میں نوکری کرنا جس میں آدمی کو خود بھی حرام کام کرنے پڑتے ہوں، مثلاً سود خور کی سودی رقمیں فراہم کرنے کا کام یا وکیل کے محرّر کا کام، یہ حرام ہے۔ لیکن اس کے ہاں ایسے کام پر نوکری یا مزدوری کرنا جو بجائے خود حلال نوعیت کا ہو، مثلاً اس کی روٹی پکادینا یا اس کے ہاں سائیس یا ڈرائیور کا کام کرنا ہو، یا اس کا مکان بنانے کی مزدوری، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ رہا اس کے ہاں کھانا کھانا تو اس سے پرہیز ہی اولیٰ ہے۔(فروری ۱۹۴۴ء)