سوال : غیرمسلموں کے برتنوں میں کھانا اور پینا درست ہے یا نہیں؟
جواب :ان کے صاف دھلے ہوئے برتنوں میں آپ کھانا کھاسکتے ہیں، اگر آپ کو اطمینان ہو کہ وہ کسی حرام چیز سے ملوث نہیں ہیں۔ اطمینان نہ ہونے کی صورت میں بہتر یہ ہے کہ آپ دعوت وصول ہوتے ہی، اپنی اوّلین فرصت میں داعی کو اپنے اصول اور مسلک سے آگاہ فرما دیں، اور ان کو لکھ بھیجیں کہ آپ کے ساتھ دعوت میں ان اصولوں کو ملحوظ رکھا جائے۔(اپریل ۱۹۶۰ء)
سوال : غذائوں اور دوائوں کی حلت و حُرمت کے بارے میں شرعی احکام کیا ہیں؟
جواب :دوائوں اور غذائوں میں کیا چیزیں پاک ہیں اور کیا ناپاک؟ اس کو جاننے کے لیے آپ کو کچھ نہ کچھ حدیث اور فقہ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ جہاں تک احکامِ قرآنی کا تعلق ہے، اس سلسلے میں آپ کو تفہیم القرآن سے کافی مدد مل جائے گی۔ مگر پھر بھی حدیث اور فقہ کے مطالعے کی ضرورت باقی رہتی ہے ، تاکہ آپ اصولی احکام سے بھی واقف ہوجائیں اور جزوی مسائل سے بھی۔ افسوس ہے کہ ہمارے ہاں اب تک میڈیکل کالج کی تعلیم میں شرعی احکام کی تعلیم شامل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ہے۔ آخر ہم کیسے اُس چیز کی ضرورت محسوس کرلیں، جسے ہمارے ’استاد‘ (انگریز) نے غیر ضروری سمجھا تھا۔(جون ۱۹۵۳ء)
سوال : کسی مریض کی جان بچانے کے لیے اس کے جسم میں خون داخل کرنا بعض علما کے نزدیک ناجائز ہے۔ آپ کی رائے اس بارے میں کیا ہے؟
جواب :آدمی کی جان بچانے کے لیے اس کے جسم میں خون داخل کرنا میرے نزدیک تو جائز ہے۔ میں نہیں سمجھ سکا کہ اس کو حرام کہنے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ غالباً اسے خون پینے اور کھانے پر قیاس کرکے کسی صاحب نے حرام کہا ہوگا۔ لیکن میرے نزدیک ان دونوں چیزوں میں فرق ہے۔ غذا کے طور پر خون پینا اور کھانا بلاشبہہ حرام ہے، مگر جان بچانے کے لیے مریض یا زخمی آدمی کے جسم میں خون داخل کرنا اسی طرح جائز ہے، جس طرح حالت ِ اضطرار میں مُردار یا خنزیر کھانا۔(جون ۱۹۵۳ء)
سوال : ڈاکٹر کے لیے فیس کا تعین یا اس کا مطالبہ جائز ہے یا اسے مریض کی مرضی پر چھوڑ دینا چاہیے؟
جواب :ڈاکٹر کی فیس اُصولاً تو جائز ہے ، مگر ڈاکٹروں نے بالعموم فیس کے معاملے میں ایسے طریقے اختیار کرنے شروع کر دیے ہیں، جو گناہ اور ظلم، اور سخت قساوت کی حد تک پہنچ جاتے ہیں۔ اسی بنا پر ہماری یہ رائے ہے کہ تمام ڈاکٹروں کو حکومت کی طرف سے کافی وظیفے ملنے چاہییں، اور انھیں مریضوں کا مفت علاج کرنا چاہیے۔(جون ۱۹۵۳ء)
سوال : نفس (mind) دماغ (brain) اور جسم کے باہمی تعلق کی نوعیت کیا ہے؟ یہ تو ظاہر ہے کہ دماغ اور جسم مادے سے مرکب ہیں اور نفس یا ذہن ایک غیرمادی چیز ہے؟
جواب :’دماغ‘ ذہن کا محل اور اس کا وہ مادی آلہ ہے، جس کے ذریعے سے ’ذہن‘ اپنا کام کرتا ہے، اور ’جسم‘ وہ مشین ہے جو اُن احکام کی تعمیل کرتی ہے، جو دماغ کے ذریعے سے ذہن اس کو دیتا ہے۔ اس کو ایک بھدی (crude) مثال کے ذریعے سے یوں سمجھیے کہ انسان کی ذات گویا مجموعہ ہے ڈرائیور اور موٹرکار کا۔ ڈرائیور ’ذہن‘ ہے ۔ انجن اور اسٹیرنگ ویل میں لگے ہوئے آلات بحیثیت مجموعی ’دماغ‘ ہیں۔ وہ قوت و توانائی جو انجن کے اندر کام کرتی ہے، روح اور موٹرکار کی باڈی ’جسم‘ ہے۔ (مارچ ۱۹۶۷ء)
انتظامی اُمور اور مملکتی نظام(Civil Administration) میں فوج کا داخل ہونا، فوج کے لیے بھی اور ملک کے لیے بھی سخت تباہ کن ہے۔
فوج، بیرونی دشمنوں سے ملک کی حفاظت کرنے کے لیے منظم کی جاتی ہے، ملک پر حکومت کرنے کے لیے منظم نہیں کی جاتی۔
اس کو تربیت دشمنوں سے لڑنے کی دی جاتی ہے۔ اس تربیت سے پیدا ہونے والے اوصاف، خود اپنے ملک کے باشندوں سے معاملہ کرنے کے لیے موزوں نہیں ہوتے۔
علاوہ بریں ملکی معاملات کو جو لوگ بھی چلائیں، خواہ وہ سیاست کار ہوں یا ملکی نظم و نسق کے منتظم(Civil Administrators)، ان کے کام کی نوعیت ہی ایسی ہوتی ہے کہ ملک میں بہت سے لوگ ان سے خوش بھی ہوتے ہیں اور ناراض بھی۔
فوج کا اس میدان میں اُترنا لامحالہ فوج کو غیر ہردلعزیز بنانے کا موجب ہوتا ہے۔ حالانکہ فوج کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ سارے ملک کے باشندے اس کی پشت پر ہوں اور جنگ کے موقعے پر ملک کا ہرفرد اس کی مدد کرنے کے لیے تیار ہو۔
دُنیا میں زمانۂ حال کے فوجی انقلابات نے ملکی نظام میں فوج کی شمولیت کومفید ثابت نہیں کیا ہے، بلکہ درحقیقت تجربے نے اس کے بُرے نتائج ظاہر کر دیئے ہیں۔(’رسائل و مسائل‘، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ماہ نامہ ترجمان القرآن، جلد۵۷،عدد ۴، جنوری ۱۹۶۲ء، ص۵۰-۵۱)
اجتہاد کا دروازہ کھولنے سے کسی ایسے شخص کو انکار نہیں ہوسکتا، جو زمانے کے بدلتے ہوئے حالات میں ایک اسلامی نظام کو چلانے کے لیے اجتہاد کی اہمیت و ضرورت اچھی طرح سمجھتا ہو۔ لیکن اجتہاد کا دروازہ کھولنا جتنا ضروری ہے، اتنا ہی احتیاط کا متقاضی بھی ہے۔
اجتہاد کرنا ان لوگوں کا کام نہیں ہے، جو ترجموں کی مدد سے قرآن پڑھتے ہوں۔ حدیث کے پورے ذخیرے سے نہ صرف یہ کہ ناواقف ہوں، بلکہ اس کو دفترِ بے معنی سمجھ کر نظرانداز کردیتے ہوں۔ پچھلی تیرہ صدیوں میں فقہائے اسلام نے اسلامی قانون پر جتنا کام کیا ہے اس سے سرسری واقفیت بھی نہ رکھتے ہوں اور اس کو بھی فضول سمجھ کر پھینک دیں۔ پھر اس پر مزید یہ کہ مغربی نظریات واقدار کو لے کر ان کی روشنی میں قرآن کی تاویلیں کرنا شروع کر دیں۔ اس طرح کے لوگ اگر اجتہاد کریں گے، تو اسلام کو مسخ کرکے رکھ دیں گے اور مسلمان، جب تک اسلامی شعور کی رمق بھی ان کے اندر موجود ہے، ایسے لوگوں کے اجتہاد کو ہرگز ضمیر کے اطمینان کے ساتھ قبول نہ کریں گے۔
اس طرح کے اجتہاد سے جو قانون بھی بنایا جائے گا، وہ صرف ڈنڈے کے زور سے ہی قوم پر مسلط کیا جاسکے گا ،اور ڈنڈے کے ساتھ ہی وہ رخصت ہوجائے گا۔ قوم کا ضمیر اس کو اس طرح اُگل کر پھینک دے گا، جس طرح انسان کا معدہ نگلی ہوئی مکھی کو اُگل کر پھینک دیتا ہے۔
مسلمان اگر اطمینان کے ساتھ کسی اجتہاد کو قبول کرسکتے ہیں، تو وہ صرف ایسے لوگوں کا اجتہاد ہے، جن کے علمِ دین اور خدا ترسی اور احتیاط پر ان کو اطمینان اور بھروسا ہو، اور جن کے متعلق وہ یہ جانتے ہوں کہ یہ لوگ غیر اسلامی نظریات و تصورات کو اسلام میں نہیں ٹھونسیں گے۔
جو اجتہادی اصول آج سے ہزار سال پہلے بنائے گئے تھے وہ صرف اس لیے رَد کردینے کے قابل نہیں ہیں کہ وہ ہزار سال پرانے ہیں۔ معقولیت کے ساتھ جائزہ لے کر دیکھیے کہ وہ اصول تھے کیا اور اِس [زمانے] میں ان کے سوا اور کچھ اصول ہو بھی سکتے ہیں یا نہیں؟ (’رسائل و مسائل‘، ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۵۷،عدد ۳،دسمبر ۱۹۶۱ء، ص۵۷-۵۸)
یہ زمانے کے انقلابات ہیں۔ ایک وقت وہ تھا کہ یورپ کے عیسائی، اندلس (Spain) جاکر مسلمانوں سے انجیل کا سبق لیا کرتے تھے۔ اب معاملہ اُلٹا ہوگیا ہے کہ مسلمان یو رپ والوں سے پوچھتے ہیں کہ اسلام کیا ہے؟ اور اسلام کی تاریخ اور اس کی تہذیب کیا ہے؟ حتیٰ کہ عربی زبان بھی مغربی مستشرقین سے سیکھی جاتی ہے۔ مغربی ممالک سے استاد درآمد کرکے ان سے اسلامی تاریخ پڑھوائی جاتی ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کے متعلق جو کچھ وہ لکھتے ہیں، نہ صرف اسے پڑھا جاتا ہے بلکہ اس پر ایمان بھی لایا جاتا ہے۔
حالانکہ یہ لوگ خود اپنے مذہب اور اس کی تاریخ کے متعلق اپنے ہم مذہبوں کے سوا کسی کی رائے کو ذرّہ برابر بھی دخل دینے کی اجازت نہیں دیتے۔ یہودیوں نے اپنی انسائیکلوپیڈیا (Jewish Encyclopedia) شائع کی ہے۔ اس میں کوئی ایک مضمون (Article) بھی کسی مسلمان تو درکنار کسی عیسائی مصنف کا بھی نہیں ہے۔ بائیبل کا ترجمہ بھی یہودیوں نے اپنا کیا ہے۔ عیسائیوں کے ترجمے کو وہ ہاتھ نہیں لگاتے۔ اس کے برعکس یہودی مصنّفین، اسلام کے متعلق مضامین اور کتابیں لکھتے ہیں اور مسلمان ہاتھوں ہاتھ ان کو لیتے ہیں اور ان کا یہ حق مانتے ہیں کہ ’’ہمارے مذہب اور ہماری فقہ اور ہماری تہذیب اور ہمارے بزرگوں کی تاریخ کے متعلق وہ محققانہ کلام فرمائیں اور ہم یہ چیزیں ان سے سیکھیں‘‘۔
یہ صورتِ حال کسی صحیح اسلامی حکومت میں نہیں رہ سکتی اور نہ رہنی چاہیے۔اسلامی حکومت بھی ہو اور اسلام اور مسلمان یتیم بھی ہوں، یہ دونوں باتیں ایک دوسرے سے بالکل متضاد ہیں۔ یہ رویّہ مسلمانوں کی ’غیراسلامی حکومت‘ ہی کو مبارک رہے! (’رسائل و مسائل‘، ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۵۷،عدد ۲،نومبر ۱۹۶۱ء، ص۵۵-۵۶)
اس زمانے میں اسلامی نظام کو جو چیز نافذ ہونے سے روک رہی ہے اور جو رجحانات اور نظریات اس کے راستے میں سدِّراہ ہیں، ان کا اگر تجزیہ کرکے دیکھا جائے تو صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ انھیں مسلمان ملکوں پر مغربی قوموں کے طویل سیاسی غلبے نے پیدا کیا ہے۔
مغربی قومیں جب ہمارے ملکوں پر مسلّط ہوئیں تو انھوں نے ہمارے قانون کو ہٹا کر اپنا قانون ملک میں رائج کیا۔ ہمارے نظامِ تعلیم کو معطل کرکے اپنا نظامِ تعلیم رائج کیا۔ تمام چھوٹی بڑی ملازمتوں سے اُن سب لوگوں کو برطرف کیا جو ہمارے تعلیمی نظام کی پیداوار تھے اور ہرملازمت ان لوگوں کے لیے مخصوص کردی جو اُن کے قائم کردہ نظامِ تعلیم سے فارغ ہوکر نکلے تھے۔ معاشی زندگی میں بھی اپنے ادارے اور طور طریقے رائج کیے اور معیشت کا میدان بھی رفتہ رفتہ اُن لوگوں کے لیے مخصوص ہوگیا جنھوں نے مغربی تہذیب و تعلیم کو اختیار کیا تھا۔ اس طریقہ سے انھوں نے ہماری تہذیب اور ہمارے تمدن اور اس کے اصولوں اور نظریات سے انحراف کرنے والی ایک نسل خود ہمارے اندر پیدا کردی، جو اسلام اور اس کی تاریخ، اس کی تعلیمات اور اس کی روایات ہرچیز سے علمی طور پر بھی بیگانہ ہے اور اپنے رجحانات کے اعتبار سے بھی بیگانہ۔
یہی وہ چیز ہے جو دراصل ہمارے اسلام کی طرف پلٹنے میں مانع ہے۔جن لوگوں کو ساری تعلیم اور تربیت غیراسلامی طریقے پر دی گئی ہو وہ آخر اس کے سوا اور کہہ بھی کیا سکتے ہیں کہ اسلام قابلِ عمل نہیں ہے ۔ جس نظامِ زندگی کے لیے وہ تیار کیے گئے ہیں اسی کو وہ قابلِ عمل تصور کرسکتے ہیں۔ اب لامحالہ ہمارے لیے دو ہی راستے رہ جاتے ہیں: یا تو ہم من حیث القوم کافر ہوجانے پر تیار ہوجائیں اور خواہ مخواہ اسلام کا نام لے کر دُنیا کو دھوکا دینا چھوڑ دیں۔ یا پھر خلوص اور ایمان داری کے ساتھ (منافقانہ طریق سے نہیں) اپنے موجودہ نظامِ تعلیم کا جائزہ لیں اور اس کا پورے طریقہ سے تجزیہ کرکے دیکھیں کہ اس میں کیا کیا چیزیں ہم کو اسلام سے منحرف بنانے والی ہیں اور اس میں کیا تغیرات کیے جائیں جن سے ہم ایک اسلامی نظام کو چلانے کے لیے قابل لوگ تیار کرسکیں۔ (’رسائل و مسائل‘ ، ترجمان القرآن، جلد۵۷،عدد ۱،اکتوبر ۱۹۶۱ء، ص۵۰-۵۱)
مرتبہ : سلیم منصور خالد
علم کے حصول اور ہدایت کی نعمت پانے کے لیے سوال کو بہت بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒنے جب قافلۂ راہِ حق کو منظم کیا، تو پھر بھرپور ساتھ دینے والے اور قافلے کو دُور سے دیکھنے والے، دونوں، مولانا مودودی مرحوم و مغفور کے پاس اپنے سوال لے کر آئے۔
سوال پوچھا اسی سے جاتا ہے کہ جس پہ اعتبار ہو اور جس کی بات پر اعتماد ہو۔ جس کے علم اور جس کی دیانت پر دل کو اطمینان ہو۔ سو، کارکنان، کارزارِ زندگی میں دعوت و تنظیم کی مشکلات برداشت کرتے ہوئے، جب بھی کوئی اُلجھن یا خلش دل میں پاتے تو مولانا محترم کی مجالس میں پہنچ جاتے یا خط کی صورت میں ذہن کی مشکلات، دل کے وسوسے اور راہوں کے کانٹے مولانا کے سامنے بلاجھجک ڈھیر کر دیتے۔مولانا مودودی کمالِ شفقت، حددرجہ محبت اور نہایت توجہ سے سوالات سنتے، بلکہ سوالات پوچھنے کی حوصلہ افزائی کرتے اور پھر نہایت نرمی سے جواب عطا فرماتے۔ یہاں ان کی مجالس میں، کارکنوں کے سوالات، مولاناؒ کے جوابات اور کچھ تقریروں کے اقتباسات پیش کیے جارہے ہیں، جن میں رہنمائی کے نقوش روشن ہیں۔
دسمبر ۱۹۷۰ء میں پہلے عام انتخابات میں جماعت اسلامی پاکستان کے نامزد اُمیدواروں کو ناکافی ووٹ ملے۔ اس صورتِ حال نے کارکنوں کے ذہنوں میں چند در چند اُلجھنیں پیدا کیں۔ متعدد نشستوں میں کارکنوں کی جانب سے اُٹھائے جانے والے حسب ذیل سوالات کی روشنی میں دیکھا، سمجھا اور راہِ عمل کے لیے زادِ راہ بنایا جاسکتا ہے:
انتخابات میں کامیابی کے لیے ہم ناجائز تدابیر کبھی اختیار نہیں کریں گے، خواہ ایک صدی تک کامیابی نہ ہو۔ ہم صحیح مقصد کے لیے صحیح طریقے سے ہی کام کرنا چاہتے ہیں۔ اگر اس قوم کی قسمت میں ایک صحیح عادلانہ نظام کا قیام ہے تو اللہ تعالیٰ اسی طریقے سے ہمیں کامیابی عطا فرمائے گا۔ لیکن اگر خدانخواستہ اس کی قسمت میں دھوکے ہی کھانا لکھا ہے، تو ہم وہ لوگ نہیں بننا چاہتے، جو اس کو دھوکا دینے والے ہوں۔ ہم اس کو بچانے والے تو بننا چاہتے ہیں، لیکن اس کو ٹھوکریں کھلانے والے نہیں بن سکتے۔
اس لیے محض انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کی خاطر ہم جماعت اسلامی کی ایسی توسیع کرنے،اور اسے اس طرح کی عوامی جماعت بنانے کی کوشش نہیں کرسکتے، جو ہمارے کارکن کا معیارِ اخلاق گرا دے، اوروہ عوام کی اصلاح کرنے کے بجائے صرف کسی نہ کسی طرح انھیں بہا کر اپنے ساتھ لے آنے کے قابل بن جائے۔
جماعت اسلامی صرف انتخابی جماعت نہیں ہے، نہ اس کی حیثیت اُن سیاسی پارٹیوں کی سی ہے، جو محض انتخابات کے لیے کام کرتی ہیں۔ اسے ایک پورے معاشرے کو ہرپہلو سے تیار کرنا ہے، اور یہ کام ایسا ہے، جسے سال کے بارہ مہینوں کے ۳۶۵ دن ہمہ وقت جاری رہنا ہے۔اس کے لیے بلاشبہہ ہمیں زیادہ سے زیادہ کارکنوں کی ضرورت ہے۔ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کارکن اس کے لیے درکار ہیں۔ مگر لازماً، وہ ایسے ہی کارکن ہونے چاہییں جو مخلص ہوں، بے لوث ہوں، اخلاقی لحاظ سے کھرے ہوں اور سیرت و کردار کی اتنی مضبوطی رکھتے ہوں کہ سخت نامساعد ماحول میں بھی معاشرے کی اصلاح کے لیے مسلسل محنت کرتے چلے جائیں، خواہ دُور دُور تک انھیں کامیابی کے آثار نظر نہ آتے ہوں۔
جمہوریت کی بحالی ہو یا اسلامی نظام کا قیام، اس کے لیے ہم فساد کا راستہ کبھی اختیار نہیں کریں گے، کیونکہ وہ تباہی کا راستہ ہے، جس سے کچھ تعمیر نہیں ہوتی، تخریب ہوتی ہے۔ اس لیے فساد کا راستہ ہم اختیار نہیں کریں گے، بالکل آئینی اور قانونی طریقے سے، بالکل سلامت روی کے ساتھ اس ملک کے حالات کو درست کرنے کی جس حد تک کوشش کرسکتے ہیں، وہ کریں گے… جماعت اسلامی کے ساتھ تعلق رکھنے والے کسی شخص کو کسی سُستی اور تساہل و تغافل سے کام نہیں لینا چاہیے۔ سُستی سے کام لیا تو اللہ کے ہاں پکڑے جائیں گے۔ پوچھا جائے گا کہ کیا عہد کرکے شامل ہوئے تھے، اور تمھارے سامنے پوری اُمت برباد ہورہی تھی، تم نے کیا کیا؟
بہرحال، ہمیشہ ہنگامہ خیز پروگرام زیادہ عرصے تک نہیں چلا کرتے۔ جماعت کو جس بات کی تربیت دی جاتی رہی ہے، وہ یہ ہے کہ وہ تعمیری کام کرے اور صبر کے ساتھ کرے۔ جماعت اسلامی ہنگامے برپا کرنے کے لیے نہیں قائم کی گئی تھی۔ اگر ہنگامی زندگی کا آپ لوگوں کو کوئی چسکا پڑگیا ہو تو اس کو اب دُور کیجیے۔ صبر کے ساتھ اپنی قوم کی اور اپنے ملک کی اصلاح کرنے کی فکر کیجیے۔
ہم اسلامی نظریۂ حیات پر ایمان رکھنے والی جماعت ہیں۔ یہ ایک جہانی اور عالمی جماعت ہے، یہ تمام نوعِ انسانی کی جماعت ہے۔اس نظریے کے لیے ہم کوشش کریں گے اور آخر وقت تک کوشش کریں گے۔ ہم میں سے ہر ایک آدمی اس کے لیے خدا کے سامنے جواب دہ ہے۔ یہ مت دیکھیے کہ میرے ساتھی کتنا کچھ اور کیا کر رہے ہیں۔ ہرایک آدمی یہ دیکھے کہ میں کیا کر رہا ہوں؟ اور میرا کیا فریضہ ہے؟ اگر کوئی دوسرا اپنا فرض انجام نہ دے رہا ہو، تب بھی آپ کو اپنا فرض انجام دینا ہے۔ کوئی دوسرا کوشش نہیں کر رہا ہے تو آپ کو کرنا ہوگا۔ اگر سارے کے سارے بیٹھ جائیں تو آپ کے اندر یہ عزم ہونا چاہیے کہ میں اکیلا ساری دُنیا کی اصلاح کے لیے لڑوں گا۔
خدا کا شکر ہے کہ ہم متوسّط تعلیم یافتہ طبقے کے خیالات کو بدلنے میں بڑی حد تک کامیاب ہوچکے ہیں۔ اب ہمارے سامنے سب سے اہم مسئلہ عوام کے خیالات کی اصلاح ہے، جن کے اندر بڑے پیمانے پر جہالت پھیلی ہوئی ہے۔ اس مقصد کے لیے ہمیں اب پہلے سے زیادہ جان مار کے کوشش کرنا پڑے گی۔
جتنی ’عوامی‘ جماعت اسلامی ہے، اتنی ہی رہے گی، اس سے زیادہ ’عوامی‘ نہیں ہوسکتی۔ اگر آپ اسے عوامی جماعت اسلامی ہی بنانا چاہتے ہیں، تو پھر اسے جماعت اسلامی کا نام دینے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ بہتر ہے کہ اسے مسلم لیگ کا نام دے دیجیے۔ یہ جماعت اسلامی کے نظم کا ہی نتیجہ ہے کہ اصلاحِ احوال کا کام ایک مؤثر طریقے سے ہورہاہے۔ اگر یہ نہ ہوتا تو آپ اس جماعت میں بھی وہی بھانت بھانت کی بولیاںسنتے، جو دوسری جماعتوں میں آپ سنا کرتے ہیں، اور آپ کو ایک ہی جماعت کا نام لے کر لوگ طرح طرح کے راستے پر چلتے ہوئے نظر آتے۔ آخر آپ نے مسلم لیگ کا حشر دیکھ لیا۔ اس میں سے عوامی لیگ نکلی اور پھر کئی لیگیں بن گئیں۔ اسی کے اندر سے ری پبلکن پارٹی اور نہ جانے کون سی پارٹیاں نکلیں۔ یہ سب اس کے عوامی پن ہی کا نتیجہ ہے۔
ہم جماعت اسلامی کو ہرگز اس طرح کی عوامی جماعت نہیں بنائیں گے۔ جماعت اسلامی جس مقصد کے لیے کام کر رہی ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ صرف وہ لوگ اس کے اندر کام کریں، جو خوب سوچ سمجھ کر اسلام کو شعوری طور پر مانتے ہوں۔ اگر جماعت اسلامی کا دروازہ چوپٹ کھول دیا جائے گا تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہرشخص مسلمان کے نام سے اس کے اندر آکھڑا ہوگا اور وہی کچھ کرے گا، جو دوسرے مسلمان دُنیا میں کر رہے ہیں۔
ہم چاہتے ہیں کہ جو شخص جماعت اسلامی میں شامل ہو، وہ شعوری مسلمان ہو۔ سوچ سمجھ کر ایمان لایا ہو اور پھر اس کے بعد وہ کسی نظم کے تحت کام کرے۔ اس جماعت میں جس شخص کو بھی کام کرنا ہے اسے Personal Ambitions [ذاتی جاہ طلبی] کو دل سے نکال دینا چاہیے۔ آدمی کو اس کے لیے تیار ہونا چاہیے کہ وہ ذاتی مفاد اور اپنی شخصیت کا کبر، یہ ساری چیزیں قربان کردے، اور اپنے مقصد کے لیے ایک نظم کے تحت کام کرے۔ نظم کو خراب کرنے والی کسی قسم کی حرکت، درحقیقت اس جماعت کو خراب کرنے کا گناہ ہے۔ اگر نظم اور ضبط کے ساتھ ہم کام کریں گے، تو ان شاء اللہ، آخرکار حالات بدل جائیں گے، خواہ معاشرے میں کتنی ہی خرابیاں کیوں نہ پیدا ہوگئی ہوں۔[۲۳؍اگست ۱۹۷۲، لاہور]
یہ تعلیم نہ اللہ نے دی ہے، نہ اللہ کے رسولؐ نے دی ہے، اور قرآن و حدیث میں یہ بھی کہیں نہیں کہا گیا ہے کہ امام مہدی کی آمدسے پہلے اللہ کا دین کبھی قائم نہ ہوسکے گا، یا اُسے قائم کرنے کی کوشش کا فریضہ مسلمانوں کے ذمّہ سے ساقط رہے گا۔ یہ بات ایک بشارت تو ضرور ہوسکتی ہے کہ آیندہ کسی زمانے میں کوئی ایسی عظیم شخصیت اُٹھے گی، جو تمام عالم میں اسلام کا جھنڈا بلند کردے گی، مگر یہ شخصیت کوئی حکمِ امتناعی نہیں ہوسکتی کہ ہم دُنیا میں اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے کچھ نہ کریں۔
رہا یہ سوال کہ اقامت ِ دین فرض ہے یا نہیں؟ تو کوئی ایسا شخص جو قرآن و حدیث کو جانتا ہے، اِس بات سے ناواقف نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر سیّدنا محمدصلی اللہ علیہ وسلم تک جتنے انبیاء علیہم السلام بھی بھیجے ہیں، اپنا دین قائم کرنے ہی کے لیے بھیجے ہیں۔ کوئی ایک نبی بھی لوگوں کو یہ سکھانے کے لیے نہیں بھیجا کہ وہ غیراللہ کا دین قائم کرنے والوں کے ماتحت بن کررہے۔ سورئہ شوریٰ دیکھیے، اس میں آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم سمیت تمام انبیا ؑکا فرض یہ بیان کیا گیا ہے: اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْہِ۰ۭ [الشورٰی ۴۲: ۱۳]، ’’اس دین کو قائم کرو او اس میں متفرق نہ ہوجائو‘‘۔
اسی طرح سورئہ توبہ، سورئہ فتح اور سورئہ صف میں دیکھیے۔ تین مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد یہ بیان کیا گیا ہے کہ ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰي وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ۰ۙ [الفتح۴۸: ۲۸]’’وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا، تاکہ وہ پورے دین پر اُسے غالب کردے‘‘۔ اب کون یہ کہنے کی جسارت کرسکتا ہے کہ اُمت ِمسلمہ کا مقصدِ وجود نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کے مقصد ِ بعثت سے مختلف بھی کچھ ہوسکتا ہے! [۲۰مارچ ۱۹۷۵ء، لاہور]
اس میں شک نہیں کہ ہم جس ملک میں، جس قوم میں، جس زمانے میں، اور جن حالات میں کام کر رہے ہیں، ہمیں کوئی پروگرام بناتے ہوئے اُن سب کو ملحوظ رکھنا پڑے گا۔ لیکن ان تمام احوال میں ہماری اصولی دعوت لازماً ایک ہی رہے گی۔ ہمارا بنیادی مقصد بھی قطعاً ناقابلِ تغیر ہوگا ، اور اپنا عملی پروگرام بناتے ہوئے ہم ان چیزوں کو صرف اِس حیثیت سے ملحوظ رکھیں گے کہ اس ملک میں، اس زمانے کے حالات میں، ہم اپنی دعوت کو کس طریقے سے فروغ دیں، اور اپنے مقصد کے حصول کے لیے اس قوم کے اچھے رجحانات سے کس طرح فائدہ اُٹھائیں، اوراِس کے بُرے رجحانات کو کس طرح بدلیں کہ وہ ہمارے مقصد کی راہ میں کم از کم رکاوٹ تو نہ بن سکیں۔
اس نقطۂ نظر سے اِن چیزوں کو ملحوظ رکھنا تو عین تقاضائے حکمت ہے۔ لیکن اگر ہم زمان و مکان کے حالات اور لوگوں کے رجحانات کو دیکھ کر اپنی دعوت اور اپنے مقصد ہی پر نظرثانی کرنے بیٹھ جائیں، تو یہ سراسر گمراہی ہے جس کا خیال تک ہمارے ذہن میں نہ آنا چاہیے۔ طریقِ کار حالات کے لحاظ سے بدلا جاسکتا ہے۔حکمت ِعملی میں لوگوں کے اچھے یا بُرے رجحانات کے لحاظ سے تغیر کیا جاسکتا ہے۔ مگر اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام اور اس کی دعوت کے جو اصول مقرر کر دیے ہیں، ان میں ذرّہ برابر کوئی ردّ و بدل لوگوں کے رجحانات یا زمانے کے حالات کو دیکھ کر نہیں کیا جاسکتا۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جس چیز کو قائم کرنے کا حکم دیا ہے، ہمیں ہرحال میں اُسی کو قائم کرنے کی کوشش کرنی ہوگی۔یہ الگ بات ہے کہ ہم جس ملک میں کام کر رہے ہوں، اُس کے حالات کا لحاظ کرتے ہوئے ہم اس مقصد کے لیے سعی و جہد کے ایک طریقے کو موزوں پاکر اختیار کرلیں اور دوسرے طریقے کو ناموزوں سمجھ کر ترک کر دیں۔
اِسی طرح جن چیزوں کو اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مٹانا چاہتے ہیں، ان کو مٹانا ہی ہماری کوششوں کا ہمیشہ مقصود رہے گا۔ یہ اور بات ہے کہ ہم اپنی استطاعت اور ملک کے حالات، اور عوام کی مزاجی کیفیات کو دیکھ کر یہ طے کریں کہ کن چیزوں کو مٹانے کی کوشش مقدّم اور کن کے مٹانے کی کوشش مؤخر رکھنی جانی چاہیے۔ نیز یہ کہ اس غرض کے لیے ہم کون سی تدابیر اختیار کرسکتے ہیں اور کن تدابیر کا اختیار کرنا غیرممکن، غیرمفید، یا غیرمناسب ہے۔ [۲۰ مارچ ۱۹۷۵ء، لاہور]
اس وقت صورت یہ ہے کہ ملک کی دولت اور وسائل اور اقتدار جن لوگوں کے ہاتھ میں ہے، وہ پوری طرح بگاڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ اُنھوں نے ایسے حالات پیدا کر دیے ہیں کہ یہاں بھلائی نہ پھیلے اور بُرائی ہی پرورش پائے۔ اب ظاہر ہے کہ ہم، جن کے پاس نہ دولت ہے اور نہ وسائل و اختیارات، ان کو کیسے روک سکتے ہیں؟ جو ہمارے بس میں نہیں ہے، ہم پر اس کی جواب دہی بھی نہیں ہے۔ ہم جواب دہ اس بات کے ہیں کہ جو چیز ہمارے امکان میں تھی، اس کے انجام دینے میں ہم نے کہاں تک اس کا حق ادا کیا ہے یا اس میں کمی کی ہے؟ چنانچہ، آپ اپنی جدوجہد جاری رکھیں اور مسلسل اصلاحِ احوال اور اصلاحِ خلق کے لیے کام کرتے رہیں۔
یہ تو تھی اصولی بات! لیکن میں محسوس کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس سرزمین کے لیے اسلامی نظام کا گہوارہ بننا مقدر فرما دیا ہے۔ گذشتہ حالات کے مطالعے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہاں اسلامی نظام نافذ ہوکر رہے گا۔ ہندستان میں مسلمانوں کی ہرگز یہ طاقت نہیں تھی کہ وہ پاکستان بنا سکیں۔ حقیقت میں یہ اللہ تعالیٰ کا انعام اور معجزہ تھا کہ اس نے ہندستان کے ایک حصے کو پاکستان بنایا اور ایسی شکل میں بنایا، جو کسی اسکیم میں نہیں تھا۔ اسکیم تو یہ تھی کہ ملک تقسیم ہوگا اور ہندو اکثریت کے علاقے ہندستان میں اور مسلم اکثریت کے علاقے پاکستان میں شامل ہوں گے۔ نقلِ آبادی کسی کے تصور میں بھی نہیں تھا۔اگر ایسی شکل ہی قائم رہتی تو یہاں اسلامی نظام کا نام بھی نہیں لیا جاسکتا تھا، مگر یہ اللہ کی مشیت تھی کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو ہجرت کرنا پڑی اور اس طرح یہ علاقہ واضح مسلم اکثریت کا علاقہ بن گیا۔ گویا فسادات کے شر سے اللہ نے خیر کا یہ پہلو اسلامی نظام کے لیے مقدّرفرمایا اور اسلامی نظام کے امکانات واضح فرمائے۔
دوسرے یہ کہ آپ نے خود دیکھ لیا کہ یہاں جو بھی اسلامی نظام کی راہ میں مزاحم بنا ہے، وہ ذلیل و خوار ہوا ہے۔ نہ اس سے پہلے اسلامی نظام کے راستے میں رکاوٹ بننے والے زیادہ دیر تک ٹھیر سکے ہیں اور نہ ان شاء اللہ آیندہ ٹھیر سکیں گے۔ میرا دل اس پر پوری طرح مطمئن ہے اور میں یہ سوچ کر کبھی پریشان نہیں ہوتا کہ یہ لوگ جو اس قدر بگاڑ پیدا کر رہے ہیں تو شاید یہاں اسلامی نظام قائم نہ ہوسکے۔بہرحال، یہ صورتِ حال قوم کے لیے آزمایش کا درجہ رکھتی ہے خدا کرے کہ ہم اس آزمایش پر پورا اُتریں۔
پھر میرا مشاہدہ یہ ہے کہ جتنی کوششیں اس قوم کو بگاڑنے کے لیے ہورہی ہیں، ان کے تناسب سے لوگوں میں بُرائی نہیں پھیل رہی۔ اس قوم میں خیر اب بھی موجود ہے۔ اب جس حدتک خیر موجود ہے، آپ ا س سے استفادہ کریں اور اس کی حفاظت کریں۔ کیا آپ نہیں دیکھ رہے ہیں کہ آج بھی جب آپ لوگوں کو خدا کے دین کی طرف بلانے کے لیے کھڑے ہوتے ہیں، تو لوگ آپ کی بات سنتے ہیں۔ وہ آپ سے نفرت نہیں کرتے بلکہ غلط راستے پر چلنے والوں اور چلانے والوں کو ہی بُرا سمجھتے ہیں۔ اصل میں مسلمانوں کی قدریں نہیں بدلیں، ان کی عادتیں بگڑی ہوئی ہیں اور یہ مرض لاعلاج نہیں ہے۔[۲۷ جنوری، ۱۹۷۳ء، لاہور]
اس معاملے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے آپ جمہوری طریقوں کا مطلب واضح طور پر جان لیں۔ ’غیرجمہوری طریقوں‘ کے مقابلے میں جب ’جمہوری طریقوں‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے، تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ نظامِ زندگی میں جو تبدیلی بھی لانا، اور ایک نظام کی جگہ جو نظام بھی قائم کرنا مطلوب ہو، اسے زور زبردستی سے لوگوں پر مسلط نہ کیا جائے، بلکہ عامۃ الناس کو سمجھا کر اور اچھی طرح مطمئن کرکے اُنھیں ہم خیال بنایا جائے اور اُن کی تائیدسے اپنا مطلوبہ نظام قائم کیا جائے۔
اس کے لیے یہ لازم نہیں ہے کہ عوام کو اپنا ہم خیال بنالینے کے بعد غلط نظام کو صحیح نظام سے بدلنے کے لیے ہرحال میں صرف انتخابات ہی پر انحصار کرلیا جائے۔ انتخابات اگر ملک میں آزادانہ و منصفانہ ہوں اور ان کے ذریعے سے عام لوگوں کی رائے نظام کی تبدیلی کے لیے کافی ہو، تو اس سے بہتر کوئی بات نہیں ہے۔ لیکن جہاں انتخابات کے راستے سے تبدیلی کا آنا غیرممکن بنادیا گیا ہو، وہاں جباروں کو ہٹانے کے لیے رائے عامہ کا دبائو دوسرے طریقوں سے ڈالا جاسکتا ہے، اور ایسی حالت میں وہ طریقے پوری طرح کارگر بھی ہوسکتے ہیں، جب کہ ہرشعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی بھاری اکثریت اس بات پر تُل جائے کہ جباروں کا من مانا نظام ہرگز نہ چلنے دیا جائے گا اور اُس کی جگہ وہ نظام قائم کرکے چھوڑا جائے گا، جس کے صحیح و برحق ہونے پر لوگ مطمئن ہوچکے ہیں۔ نظامِ مطلوب کی مقبولیت جب اِس مرحلے تک پہنچ جائے تو اس کے بعد غیرمقبول نظام کو عوامی دبائو سے بدلنا قطعاً غیرجمہوری نہیں ہے، بلکہ ایسی حالت میں اُس نظام کا قائم رہنا سراسر غیر جمہوری ہے۔
اس تشریح کے بعد آپ کے لیے یہ سمجھنا مشکل نہ رہے گا کہ ہم اسلامی نظام برپا کرنے کے لیے جمہوری طریقوں پر اس قدر زور کیوں دیتے ہیں۔ کوئی دوسرا نظام مثلاً کمیونزم لوگوں پر زبردستی ٹھونساجاسکتا ہے، بلکہ اس کے قیام کا ذریعہ ہی جبر اور جباریت ہے، اور خود اس کے ائمہ علانیہ یہ کہتے ہیں کہ ’انقلاب بندوق کی گولی ہی سے آتا ہے‘۔ استعماری نظام اور سرمایہ داری نظام اورفسطائی نظام بھی رائے عام کی تائید کے محتاج نہیں ہیں، بلکہ رائے عام کو طاقت سے کچل دینا اور اس کا گلا گھونٹ دینا ہی ان کے قیام کا ذریعہ ہے۔
لیکن، اسلام اس قسم کا نظام نہیں ہے۔ وہ پہلے لوگوں کے دلوں میں ایمان پیدا کرنا ضروری سمجھتا ہے، کیونکہ ایمان کے بغیر لوگ خلوص کے ساتھ اُس کے بتائے ہوئے راستوں پر نہیں چل سکتے۔ پھر وہ اپنے اصولوں کا فہم اور اُن کے برحق ہونے پر اطمینان بھی عوام کے اندر ضروری حد تک، اور خواص (خصوصاً کارفرمائوں) میں کافی حد تک پیدا کرنا لازم سمجھتا ہے، کیونکہ اس کے بغیر اُس کے اصول و احکام کی صحیح تنفیذ ممکن نہیں ہے۔ اس کے ساتھ وہ عوام و خواص کی ذہنیت، اندازِ فکر اور سیرت و کردار میں بھی اپنے مزاج کے مطابق تبدیلی لانے کا تقاضا کرتا ہے، کیونکہ یہ نہ ہو تو اس کے پاکیزہ اور بلندپایہ اصول و احکام اپنی صحیح روح کے ساتھ نافذ نہیں ہوسکتے۔
یہ جتنی چیزیں میں نے بیان کی ہیں، اسلامی نظام کو برپا کرنے کے لیے سب کی سب ضروری ہیں، اور اِن میں سے کوئی چیز بھی جبراً لوگوں کے دل و دماغ میں نہیں ٹھونسی جاسکتی۔ بلکہ اِن میں سے ہر ایک کے لیے ناگزیر ہے کہ تبلیغ، تلقین اور تفہیم کے ذرائع اختیار کرکے لوگوں کے عقائد و افکار بدلے جائیں۔ ان کے سوچنے کے انداز بدلے جائیں، ان کی Values (قدریں) بدلی جائیں، ان کے اخلاق بدلے جائیں، اور ان کو اس حد تک اُبھار دیا جائے کہ وہ اپنے اُوپر جاہلیت کے کسی نظام کا تسلط برداشت کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔ یہی وہ چیز ہے جس کے متعلق ہم کہتے ہیں کہ ’جمہوری طریقوں کے سوا اُس کے حصول کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے‘ اور آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ اسلامی نظام کو عملاً برپا کردینے کے لیے کوئی اقدام اُس وقت تک نہیں کیا جاسکتا، جب تک اس مقصد کے لیے کام کرنے والوں کو اِس نوعیت کی عوامی تائید حاصل نہ ہوجائے۔
شاید آپ میری یہ باتیں سن کرسوچنے لگیں گے کہ ’اس لحاظ سے تو گویا ابھی ہم اپنی منزل کے قریب ہونا درکنار، اس کی راہ کے صرف ابتدائی مرحلوں میں ہیں‘۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ آپ افراط و تفریط سے بچتے ہوئے اپنے آج تک کے کام کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیں:
جمہوری طریقوں سے کام کرتے ہوئے آپ پچھلے برسوں میں تعلیم یافتہ طبقے کی بڑی اکثریت کو اپنا ہم خیال بنا چکے ہیں، اور یہ لوگ ہرشعبۂ زندگی میں موجود ہیں۔ نئی نسل، جو اَب تعلیم پاکر اُٹھ رہی ہے، اور جسے آگے چل کر ہرشعبۂ زندگی کو چلانا ہے، وہ بھی جاہلیت کے علَم برداروں کی ساری کوششوں کے باوجود زیادہ تر خیر کی دعوت قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔ اب آپ کے سامنے ایک کام تو یہ ہے کہ تعلیم یافتہ طبقے میں اپنے ہم خیالوں کی تعداد اِسی طرح بڑھاتے چلے جائیں۔ دوسرا کام یہ ہے کہ عوام کے اندر بھی نفوذ کرکے ان کو اسلامی نظام برپا کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ تیار کرنے کی کوشش کریں۔
پہلے کام کے لیے لٹریچر کا پھیلانا آج تک جتنا مفید ثابت ہوا ہے، اس سے بدرجہا زیادہ آیندہ مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ آپ اپنے ہم خیال اہلِ علم کے حلقے منظم کرکے، مختلف علوم کے ماہرین سے مسائلِ حیات پر تازہ ترین اور محققانہ لٹریچر تیار کرانے کا انتظام کیجیے۔ اور دوسرے کام کے لیے تبلیغ و تلقین کے دائرے وسیع کرنے کے ساتھ اصلاحِ خلق اور خدمت ِ خلق کی ہرممکن کوشش کیجیے۔ آپ صبر کے ساتھ لگاتار اس راہ میں جتنی محنت کرتے چلے جائیں گے، اتنی ہی آپ کی منزل قریب آتی چلی جائے گی۔
رہا یہ سوال کہ ’جب تمام جمہوری اداروں کی مٹی پلید کردی گئی ہے، شہری آزادیاں سلب کرلی گئی ہیں اور بنیادی حقوق کچل کر رکھ دیے گئے ہیں، تو جمہوری طریقوں سے کام کیسے کیاجاسکتا ہے؟‘
اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام کا کام کرنے کے لیے کھلی ہموار شاہراہ تو کبھی نہیں ملی ہے۔ یہ کام تو جب بھی ہوا، جبروظلم کے مقابلے میں ہرطرح کی کڑیاں [مصائب و مشکلات کے سلسلے] جھیل کر ہی ہوا، اور وہ لوگ کبھی یہ کام نہ کرسکے جو یہ سوچتے رہے کہ ’’جاہلیت کے علَم برداروں کی اجازت، یا ان کی عطا کردہ سہولت ملے تو وہ راہِ خدا میں پیش قدمی کریں‘‘۔ آپ جن برگزیدہ ہستیوں کے نقشِ پا کی پیروی کررہے ہیں، اُنھوں نے اُس ماحول میں یہ کام کیا تھا، جہاں جنگل کا قانون نافذ تھا اور کسی شہری آزادی یا بنیادی حق کا تصور تک موجود نہ تھا۔ اس وقت ایک طرف دل موہ لینے والے پاکیزہ اخلاق،دماغوں کو مسخر کرلینے والے معقول دلائل،اورانسانی فطرت کو اپیل کرنے والے اصول اپنا کام کر رہے تھے۔ اور دوسری طرف جاہلیت کے پاس اُن کے جواب میں پتھر تھے، گالیاں تھیں، جھوٹے بہتان تھے اور کلمۂ حق کہتے ہی انسانوں کی شکل میں درندے خدا کے بندے پر ٹوٹ پڑتے تھے۔ یہی چیزدرحقیقت اسلام کی فتح اور جاہلیت کی شکست کا ذریعہ بنی۔
جب ایک معقول اور دل لگتی بات کو عمدہ اخلاق کے افراد لے کر،عام لوگوں کے سامنے کھڑے ہوں، اور سخت سے سخت ظلم و ستم سہنے کے باوجود اپنی بات ہرحالت میں لوگوں کے سامنے پیش کرتے چلے جائیں، تو لازمی طور پر اس کے تین نتائج رُونما ہوتے ہیں:
ظلم و جَور کا ماحول جہاں بھی ہو، اس کے مقابلے میں حق پرستی کا علَم بلند کرنے اور بلند رکھنے سے یہ تینوں نتائج لازماً رُونما ہوں گے۔ اس لیے یہ تو حق کی کامیابی کا فطری راستہ ہے۔ آپ اسلامی نظام برپا کرنے کے لیے جمہوری اداروں کی مٹی پلید ہونے اور بنیادی حقوق کچل دیے جانے کا رونا خواہ مخواہ روتے ہیں۔[۲۰مارچ ۱۹۷۵ء، لاہور]
اُس وقت چونکہ ارکانِ جماعت نے امارت کا بار میرے اُوپر ہی رکھ دیا، اس لیے میں نے اُسے اُٹھا لیا۔ اب میری خرابی ٔ صحت نے مجھے اس قابل نہیں چھوڑا ہے کہ اِس ذمہ داری کا حق ادا کرسکوں، اس لیے میں نے ایمان داری کے ساتھ اپنے آپ کو اس سے سبک دوش کرا لیا ہے۔ اس کے بعد پھر وہی ذمہ داری میں اپنے سر کیسے لے لوں، جب کہ نظامِ جماعت کی رُو سے اب میں اس کا حامل نہیں رہا ہوں ؟ البتہ خادمِ جماعت ہونے کی حیثیت سے میرا جو فرض ہے، اُسے جب تک زندہ ہوں، ان شاء اللہ ادا کرتا رہوں گا۔[۲۰مارچ ۱۹۷۵ء، لاہور]
اس لیے آپ اس بات کی فکر نہ کریں کہ آپ جس نظام کے لیے جدجہد کر رہے ہیں، وہ یہاں کیسے آئے گا؟ آپ کا اصل کام یہ ہے کہ اپنا فرض نہایت خلوص اور جاں فشانی کے ساتھ ادا کرتے چلے جائیں۔ آپ کی واحد فکرمندی آپ کا وہ کام ہو، جسے آپ کو انجام دینا ہے۔ یہ کام آپ صرف اسی صورت میں انجام دے سکتے ہیں، جب کہ آپ کے اپنے اخلاق اس سانچے میں ڈھلے ہوئے ہوں، جو اس نظام کا تقاضا ہے۔
جب آپ اسلام کی طرف دعوت دینے کے لیے اُٹھیں گے تو لوگ دیکھیں گے کہ ہمیں یہ دعوت دینے والے خود کیسے ہیں؟ اگر آپ کے اخلاق اور سیرت و کردار میں کوئی خرابی ہوئی، یا اس کے اندر ایسے لوگ پائے گئے، جو مناصب کے خواہش مند اور ان کے لیے حریص ہوں، یا آپ کے اندر ایسے لوگ موجود ہوئے، جو کسی درجے میں بھی نظم کی خلاف ورزی کرنے والے ہوں، تو اس صورت میں آپ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔
اس لیے یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلیجیے کہ اسلامی انقلاب اور اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہدکرتے وقت آپ کو جن چیزوں کو خاص طور پر پیش نظر رکھنا ہوگا، وہ یہ ہیں کہ آپ کے اخلاق نہایت بلند ہوں، آپ کی زندگی پوری طرح اسلام کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہو، آپ کے اندر نظمِ جماعت کی اطاعت پائی جاتی ہو، اور اس کے ساتھ ساتھ آپ عوام الناس کے اندر پھیل کر، زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنا ہم خیال بنانے کے لیے ہرلحظہ کوشاں ہوں۔ چاہے یہ کام آپ کو برسوں بھی کرنا پڑے، لیکن آپ لگن کے ساتھ اسے کرتے چلے جانے کا مصمم ارادہ رکھتے ہوں، تو ان شاء اللہ کوئی طاقت اس ملک کو صحیح معنوں میں اسلامی ملک بننے سے نہیں روک سکے گی۔[۳۱مارچ، ۱۹۷۴ء، لاہور]
البتہ جو چیز مَیں ان کے لیے ضروری سمجھتا ہوں، وہ یہ ہے کہ ان کو خفیہ تحریکات اور مسلح انقلاب کی کوششوں سے قطعی باز رہنا چاہیے، اور ہر طرح کے خطرات و نقصانات برداشت کرکے بھی علانیہ، پُرامن اعلائے کلمۃ الحق کا راستہ ہی اختیار کرنا چاہیے۔ خواہ اس کے نتیجے میں ان کو قیدوبند سے دوچار ہونا پڑے یا پھانسی کے تختے پر چڑھ جانے کی نوبت آجائے۔ [نومبر ۱۹۶۸، لندن]
کسی خفیہ تحریک کے ذریعے کوئی صالح انقلاب نہیں آسکتا، کیونکہ اس تحریک میں جو خرابیاں پرورش پاتی ہیں، ان کا کسی کو پتا نہیں چلنے پاتا، اور جب وہ تحریک کامیاب ہوجاتی ہے، تو یہ خرابیاں ایکا ایکی اُبھر کر پورے ملک کے لیے آزمایش کا سبب بن جاتی ہیں۔ اسی خفیہ تحریک کا نتیجہ تھا کہ اسٹالن جیسا ظالم آدمی اشتراکی روس میں برسرِ اقتدار آگیا، اور روس کے عوام نے ایک زار [یعنی پرانے روسی بادشاہ]سے چھٹکارا حاصل کیا تو دوسرے سرخ زار نےان کی گردن دبوچ لی۔
خفیہ تحریک اس طریقے سے چلتی ہے کہ اگر کسی شخص کے بارے میں یہ شبہہ بھی ہوجائے کہ وہ پارٹی کا وفادار نہیں ہے تو اسے بلاتکلف قتل کردیا جاتا ہے ، اور یہ قتل و غارت گری اس تحریک کا عام مزاج بن جاتا ہے۔
بہرکیف، یہ ایک بلا ہے، جو ہمارے ملک میں پرورش پارہی ہے۔ اس کا علاج یہ نہیں ہے کہ ’ہم بھی ایک جوابی بلا بننے کی کوشش کریں‘۔ہمارا کام یہ ہے کہ کھلے بندوں لوگوں کو آنے والے خطرات سے آگاہ کریں۔ گائوں گائوں جاکر، ایک ایک کسان کو بتائیں کہ یہاں سوشلسٹ انقلاب آگیا تو ایک بیگھہ زمین بھی تمھارے پاس نہیں رہے گی۔میں سمجھتا ہوں کہ اگر کسان یہ بات سمجھ جائیں تو کوئی کمیونسٹ بھی ان کے گائوں میں داخل نہیں ہونے پائے گا، اور یہ لوگ کمیونسٹوں کی وہ خبر لیں گے کہ ان کے حواس درست ہوجائیں گے۔
جہاں تک ہتھیار بند ہونے کا تعلق ہے، اگر آپ کو لائسنس کا ہتھیار مل سکتا ہو تو ضرور رکھیے، نشانہ بازی کی مشق بھی کیجیے، لیکن غیرقانونی اسلحہ نہ رکھیے۔ مدافعت کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنا کوئی اخلاقی، شرعی یا قانونی جرم نہیں ہے، بلکہ اس کی اجازت ہے۔ لیکن خفیہ طریقے سے کوئی مسلح انقلاب برپا کرنا، اسلام کے مزاج کے بھی خلاف ہے، اور انجام کے لحاظ سے بھی خطرناک۔[۹نومبر ۱۹۶۹ء، لاہور]
جہاں تک توڑ پھوڑ کی کارروائیوں کا تعلق ہے، اس ملک میں ایک ایسا عنصر موجود ہے، جو ایسی کارروائیوں کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرکے اشتراکی آمریت قائم کرنا چاہتا ہے۔ تبدیلی کے لیے ان کا فلسفہ تو یہی ہے کہ ’بندوق کی نالی انقلاب کا سرچشمہ ہے‘۔ لیکن یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ توڑ پھوڑ اور تشدد کے ذریعے کوئی مستحکم اور پائے دار نظامِ حکومت قائم نہیں کیا جاسکتا۔ لاطینی امریکا اور افریقا کے اُن ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، جہاں اس قسم کی کارروائیوں کے بعد انقلاب لائے گئے، اور پھر وہاں انقلاب در انقلاب کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس لیے نہ ہم خود تشدد کا راستہ اختیار کریں گے، اور نہ دوسروں کو اختیار کرنے دیں گے۔
دوسری بات یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم اس ملک میں اصلاح کے لیے اُٹھے ہیں، اسے خراب کرنے کے لیے نہیں۔ اللہ کے فضل سے تحریک ِ اسلامی ایک منظم تحریک ہے، اور وہ صرف ایسے عناصر سے مل کر کام کرے گی، جو مفسد اور غارت گر نہیں ہیں۔ تحریک ِ اسلامی نہ تو کسی تخریب کار گروہ سے تعاون کرے گی، اور نہ اسے یہاں کام کرنے دے گی۔[نومبر ۱۹۶۸ء، لندن]
بہت بُرا کیا گیا کہ غیرآئینی طریقوں سے کام لیا گیا ہے، اور بہت بُرا کریں گے اگر ہم بھی ایسا ہی کریں گے۔ غیرآئینی طریقوں کو اختیار کرنے کی دو صورتیں ہوتی ہیں:
ایک ’علانیہ‘ اور دوسری ’خفیہ‘۔ آپ دیکھیں کہ دونوں صورتوں میں کیا نتائج سامنے آسکتے ہیں؟
علانیہ طور پر غیرآئینی طریقوں سے جو تغیر پیدا ہوگا، وہ زیادہ بُرا ہوگا۔ اس طرح کی کوششوں سے پوری قوم کو قانون شکنی کی تربیت ملتی ہے، اور پھر سو سال تک آپ اسے قانون کی اطاعت پر مجبور نہیں کرسکتے۔ ہندستان میں تحریک ِ آزادی کے دوران قانون شکنی کو ایک حربے کی حیثیت سے جو استعمال کیا گیا تھا، اس کے اثرات آپ دیکھ رہے ہیں۔ آج اتنے سال گزرنے کے بعد بھی لوگوں کو قانون کا پابند نہیں بنایا جاسکا۔
اگر خفیہ طریقے سے غیرآئینی ذرائع کو اختیار کیا جائے، تو نتائج اس سے بھی زیادہ خطرناک ہوں گے۔ خفیہ تنظیموں میں چند افراد مختارِ کُل بن جاتے ہیں اور پھر ساری تنظیم یا تحریک انھی کی مرضی پرچلتی ہے۔ ان سے اختلاف رکھنے والوں کو فوراً ختم کر دیا جاتا ہے۔ ان کی پالیسی سے اظہارِ بے اطمینانی سخت ناگوار اور ناپسندیدہ قرار دیا جاتا ہے۔ اب آپ خود سوچیں کہ یہی چند افراد جب برسرِاقتدار آئیں گے، تو کس قدر بدترین ڈکٹیٹر ثابت ہوں گے۔ اگر آپ ایک ڈکٹیٹر کو ہٹاکر دوسرے ڈکٹیٹر کو لے آئیں، تو خلقِ خدا کےلیے اس میں خیر کا پہلو کون سا ہے؟
میرا مشورہ ہمیشہ یہی رہا ہے کہ خواہ آپ کو بھوکا رہنا پڑے، گولیاں کھانی پڑیں، مگر صبر کے ساتھ،تحمل کے ساتھ، کھلم کھلا علانیہ طور پر اپنی اصلاحی تحریک کو قانون، ضابطے اور اخلاقی حدود کے اندر چلاتے رہیے۔ خود آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقِ کاربھی علانیہ اور کھلم کھلا تبلیغ کا طریقہ تھا۔ ہم نے ہمیشہ اسی طریقے کو اپنایا ہے۔ پہلے چند سال میں ہمارے اُوپر مسلسل غیرقانونی حملے ہوتے رہے ہیں، مگر ان کے جواب میں ہم نے کبھی کوئی غیرقانونی ذریعہ اختیار نہیں کیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ خود انھی کا منہ کالا ہوا کہ جنھوں نے غیرقانونی، غیراخلاقی اور غیرانسانی طریقے روا رکھے، مگر خدا کے فضل و کرم سے ہمارے اُوپر کوئی دھبّا ثابت نہ کرسکے۔ اِس چیز کا زبردست اخلاقی اثر مرتب ہوا۔ خود ان لوگوں کا ضمیر بھی اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ وہ غلط کام کر رہے ہیں۔
آپ سے میری درخواست یہ ہے کہ آپ اپنی اخلاقی ساکھ کو کبھی نقصان نہ پہنچنے دیں اور غیرآئینی طریقوں کے بارے میں سوچنے والوں کی قطعاً حوصلہ افزائی نہ کریں۔ حالات جیسے کچھ بھی ہیں، ہمیں ان حالات کو درست کرنا ہے۔ غلط طریقوں سے حالات درست نہیں ہوتے بلکہ اور بگڑ جاتے ہیں۔[۲۳؍اگست ۱۹۷۲ء، لاہور]
جماعت اسلامی کا یہ موقف کیوں ہے، اور اسے اپنے اس موقف پر کیوں اصرار ہے کہ وہ جمہوری ذرائع ہی سے اسلامی انقلاب برپا کرنا چاہتی ہے، اور وہ غیر جمہوری ذرائع کے استعمال کی کیوں مخالف ہے؟ اس کو مَیں چند الفاظ میں بیان کیے دیتا ہوں:
خدا کی قسم! اور مَیں قسم بہت کم کھایا کرتا ہوں کہ جماعت اسلامی نے یہ جو مسلک اختیار کیا ہے کہ وہ کسی قسم کے تشدد اور توڑ پھوڑ کے ذریعے سے، کسی قسم کی دہشت پسندانہ تحریک کے ذریعے سے، اور کسی قسم کی خفیہ تحریک یا سازشوں کے ذریعے سے ملک میں انقلاب برپا نہیں کرنا چاہتی، بلکہ خالصتاً جمہوری ذرائع سے انقلاب برپا کرنا چاہتی ہے، یہ مسلک قطعاً کسی خوف کی وجہ سے نہیں ہے۔ یہ ہرگز اس بناپر نہیں ہے کہ ہم کبھی کسی ابتلا کے وقت اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے یہ کَہْ سکیں کہ ’’ہم دہشت پسند نہیں ہیں، ہمارے اُوپر تشدد یا قانون شکنی کاالزام نہ لگایا جائے‘‘۔ یہ بات ہرگز نہیں ہے۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ ہمارے پیشِ نظر اسلامی انقلاب ہے، اور اسلامی انقلاب کسی خطۂ زمین میں اس وقت تک مضبوط جڑوں سے قائم نہیں ہوسکتا ، جب تک کہ وہاں کے رہنے والے لوگوں کے خیالات تبدیل نہ کر دیے جائیں۔ جب تک لوگوں کے افکار، اور ان کے اخلا ق و عادات میں تبدیلی نہ لائی جائے، اس وقت تک مضبوط بنیادوں پر کوئی انقلاب برپا نہیں ہوسکتا۔ اگر زبردستی، کسی قسم کے تشدد کے ذریعے سے، یا سازشوں اور خفیہ ہتھکنڈوں کے ذریعے سے کوئی انقلاب برپا کر بھی دیا جائے تو اس کو کبھی دوام اور ثبات نصیب نہیں ہوتا، اور بالآخر اسے کسی دوسرے انقلاب کے لیے جگہ خالی کرنا پڑتی ہے۔ پھر اسی طرح اگر دھوکے بازیوں اور جھوٹ اور افترا کی مہم کے ساتھ انتخابات جیت کر، یا کسی اور طریقے سے حکومت پر قبضہ کرکے کوئی سیاسی انقلاب برپا کر بھی دیا جائے، تو چاہے وہ کتنی دیر تک قائم رہے، لیکن جب وہ اُکھڑتا ہے تو اس طرح اکھڑتا ہے، جیسے اس کی کوئی جڑ ہی نہیں تھی۔ ہم اس طرح کے تجربے نہیں کرنا چاہتے۔
اسلامی تحریک کے کارکنوں کو میری آخری نصیحت یہ ہے کہ انھیں خفیہ تحریکیں چلانے اور اسلحے کے ذریعے انقلاب برپا کرنے کی کوشش نہ کرنی چاہیے۔ یہ بھی دراصل بے صبری اور جلدبازی ہی کی ایک صورت ہے، اور نتائج کے اعتبار سے دوسری صورتوں کی بہ نسبت زیادہ خراب ہے۔
ایک صحیح انقلاب ہمیشہ عوامی تحریک ہی کے ذریعے سے برپا ہوتا ہے۔ کھلے بندوں عام دعوت پھیلایئے۔ بڑے پیمانے پر اذہان اورافکار کی اصلاح کیجیے۔ لوگوں کے خیالات بدلیے۔ اخلاق کے ہتھیاروں سے دلوں کو مسخر کیجیے اور اس کوشش میں جو خطرات اور مصائب بھی پیش آئیں ،ان کا مردانہ وار مقابلہ کیجیے۔ اس طرح بتدریج جو انقلاب برپا ہوگا، وہ ایسا پائے دار اور مستحکم ہوگا، جسے مخالف طاقتوں کے ہوائی طوفان محو نہ کرسکیں گے۔ جلدبازی سے کام لے کر، مصنوعی طریقوں سے اگر کوئی انقلاب رُونما ہو بھی جائے تو جس راستے سے وہ آئے گا، اسی راستے سے وہ مٹایا بھی جاسکے گا۔
جب ہم نے اس تحریک کا آغاز کیا تھا، تو ہمیں اندازہ اس سے بہت زیادہ سخت رکاوٹوں کا تھا۔ ہمیں یہ اندازہ تھا کہ ہمارا زمین پر جینا اور سانس لینا مشکل کردیا جائے گا۔ اُس وقت ہم نے اس تحریک کو شروع کیا تھا اس ارادے کے ساتھ، اور اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ اس ارادے کو تقویت عطا کرے، کہ جان جس کی دی ہوئی ہے، اس کی راہ میں چلی جائے تو کوئی پروا نہیں۔ ہم اپنی جگہ اس سے بہت بدتر حالات کے لیے تیار ہوکر اُٹھے، اور اللہ کا شکر ہے کہ جن بدتر حالات کا ہم نے اندازہ کیا تھا، ابھی تک وہ پیش نہیں آئے۔
اس لیے میں آپ سے صرف ایک بات کہوں گا کہ آپ یہ تدبیریں سوچنے کی فکر چھوڑ دیں کہ ان سماجی حالات میں اور ان پابندیوں میں کیسے کام کیا جائے؟ یہ فکر چھوڑ کر اپنے اس عزم کو تازہ کریں کہ اگر پہاڑ بھی ہمارے راستے میں آئے تو ہم اس کے اندر بھی سرنگ کھودیں گے۔ اس عزم کے ساتھ آپ اپنا کام کریں کہ جو طاقت بھی راستے میں حائل ہو، اس کے ہوتے ہوئے ہم اپنا کام کرکے رہیں گے۔
ضرورت باہر کے حالات سازگار ہونے کی نہیں ہے، ضرورت اندر کے عزم اور ایمان اور ارادے کے پختہ ہونے کی ہے۔ اگر وہ پختہ ہو تو باہر کے حالات خواہ کیسے ہی ہوں، آخرکار ان کے اندر سے آپ اپنا راستہ نکال ہی لیں گے۔
یہ بات اس سے پہلے بارہا کَہْ چکا ہوں، اور اب پھر کہتا ہوں کہ اسلام کا کام کرنے والوں کے لیے یہ کوئی طریقہ نہیں ہے کہ وہ بلاسوچے سمجھے، اندھادھند کام کریں۔ ان کے لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ وہ حکمت کے ساتھ کام کریں، عقل سے کام لیں، اور عقل سے کام لے کر دیکھیں کہ جو رکاوٹیں ہیں وہ کس نوعیت کی ہیں؟ اس کے بعد یہ دیکھیں کہ ان رکاوٹوں کے اندر سے ہم اپنا راستہ کیسے نکال سکتے ہیں؟
اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہمارا جو کچھ بھی کام ہے، اس کا انحصار اس امر پر ہے کہ ہماری اپنی تنظیم مضبوط ہو۔ کیونکہ وہ مشینری، جس سے ہم نے کام لینا ہے، وہی اگر کمزور پڑگئی ہو، ڈھیلی ہوگئی ہو، اس کے کچھ پیچ نکل گئے ہوں یا کچھ پیچ ڈھیلے پڑگئے ہوں، تو ہم کام کس چیز سے لیں گے؟
جس قسم کے ہنگامی کام ہم کو کرنے پڑے، ان سے یہ بات صاف طور پر محسوس ہوتی ہے کہ جماعت اسلامی کی تنظیم اندر سے کمزور پڑگئی ہے۔ اس لیے دوسرے تمام کاموں سے پہلے آپ کو اپنی تنظیم مضبوط کرلینی چاہیے۔ اب تک جو مشکلات آپ کو پیش آچکی ہیں، اس سے کہیں زیادہ مشکلات آگے چل کر پیش آسکتی ہیں۔ اس لیے اب آپ کو یہ کوشش کرنی ہے کہ جماعت کی تنظیم زیادہ سے زیادہ مضبوط ہو، اور جو ڈھیل پیدا ہوگئی ہے، وہ رفع ہو۔ اس غرض کے لیے اگر آپ کو کچھ لوگوں کو نکال دینا پڑے تو کوئی پروا نہ کریں۔ سختی کے ساتھ نظم کی پابندی کرائیں۔ جو نظم کی پابندی نہ کرے اس کو نکال باہر کریں۔ آپ نظم کی پابندیوں پر پورا زور دیں۔ جو احکام دیے جائیں، جو ضوابط مقرر کیے جائیں، ان کی پابندی کروایئے۔ اجتماعات کے اندر لوگوں کو باقاعدگی سے آنا چاہیے۔ اگرکوئی رکن اجتماعات میں مسلسل حاضر نہیں ہوتا تو ہرایسے شخص کو بلاتامل خارج کردیں، اِلا یہ کہ وہ توبہ کرے اور آیندہ نظم کی پابندی کا وعدہ کرے۔
مولانا مودودیl نے بڑے واضح الفاظ میں ان ہدایات کو زور دے کر ذہن نشین کیا:
انکارِ سنت کا فتنہ اسلامی تاریخ میں سب سے پہلے دوسری صدی ہجری میں اُٹھا تھا اور اس کے اُٹھانے والے ’خوارج‘ اور ’معتزلہ‘ تھے:
’خوارج‘ کو اس کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ مسلم معاشرے میں جو انارکی وہ پھیلانا چاہتے تھے، اس کی راہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ سنت حائل تھی، جس نے اس معاشرے کو ایک نظم و ضبط پر قائم کیا تھا۔ اور اس کی راہ میں حضوؐر کے وہ ارشادات حائل تھے جن کی موجودگی میں’ خوارج‘ کے انتہاپسندانہ نظریات نہ چل سکتے تھے۔ اس بنا پر انھوں نے احادیث کی صحت میں شک اور سنت کے واجب الاتباع ہونے سے انکار کی دوگونہ پالیسی اختیار کی۔
’معتزلہ‘ کو اس کی ضرورت اس لیے لاحق ہوئی کہ عجمی اور یونانی فلسفوں سے پہلا سابقہ پیش آتے ہی اسلامی عقائد اور اصول و احکام کے بارے میں جو شکوک و شبہات ذہنوں میں پیدا ہونے لگے تھے، انھیں پوری طرح سمجھنے سے پہلے وہ کسی نہ کسی طرح انھیں حل کر دینا چاہتے تھے۔ خود ان فلسفوں میں ان کو وہ بصیرت حاصل نہ ہوئی تھی کہ ان کا تنقیدی جائزہ لے کر ان کی صحت و قوت جانچ سکتے۔ انھوں نے ہر اس بات کو جو فلسفے کے نام سے آئی، سراسر ’عقل‘ کا تقاضا سمجھا اور یہ چاہا کہ اسلام کے عقائد اور اصولوں کی ایسی تعبیر کی جائے، جس سے وہ ان نام نہاد ’عقلی تقاضوں کے مطابق‘ ہوجائیں۔ اس راہ میں پھر وہی حدیث و سنت مانع ہوئی۔ اس لیے انھوں نے بھی ’خوارج‘ کی طرح ’حدیث‘ کو مشکوک ٹھیرایا اور ’سنت‘ کو حجت ماننے سے انکار کیا۔
ان دونوں فتنوں کی غرض اور ان کی تکنیک مشترک تھی۔ ان کی غرض یہ تھی کہ قرآن کو اس کے لانے والے کی قولی و عملی تشریح و توضیح سے، اور اُس نظام فکروعمل سے جو خدا کے پیغمبرؐ نے اپنی رہنمائی میں قائم کر دیا تھا۔ الگ کرکے مجرد ایک کتاب کی حیثیت سے لے لیا جائے اور پھر اس کی من مانی تاویلات کرکے ایک دوسرا نظام بنا ڈالا جائے جس پر اسلام کا لیبل چسپاں ہو۔ (منصب رسالت نمبر، ترجمان القرآن، جلد۵۶،عدد ۶،ستمبر ۱۹۶۱ء، ص ۹-۱۰)
شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰى بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِہٖٓ اِبْرٰہِيْمَ وَمُوْسٰى وَعِيْسٰٓى اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْہِ۰ۭ كَبُرَ عَلَي الْمُشْـرِكِيْنَ مَا تَدْعُوْہُمْ اِلَيْہِ۰ۭ اَللہُ يَجْتَبِيْٓ اِلَيْہِ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَہْدِيْٓ اِلَيْہِ مَنْ يُّنِيْبُ۱۳ (الشوریٰ ۴۲:۱۳) اُس نے تمھارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوحؑ کو دیا تھا، اور جسے (اے محمدؐ) اب تمھاری طرف ہم نے وحی کے ذریعے سے بھیجا ہے، اور جس کی ہدایت ہم ابراہیم ؑ اور موسٰی اور عیسٰی ؑ کو دے چکےہیں، اس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہوجائو۔ یہی بات ان مشرکین کو سخت ناگوار ہوئی ہے جس کی طرف (اے محمدؐ) تم انھیں دعوت دے رہے ہو۔ اللہ جسے چاہتا ہے اپنا کرلیتا ہے، اور وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اُسی کو دکھاتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرے۔
یہ آیت چونکہ دین اور اس کے مقصود پر بڑی اہم روشنی ڈالتی ہے اس لیے ضروری ہے کہ اس پر پوری طرح غور کرکے اسے سمجھا جائے۔
فرمایا کہ شَرَعَ لَكُمْ ’’مقررکیا تمھارے لیے‘‘۔شرع کے لغوی معنی ’راستہ بنانے‘ کے ہیں اور اصطلاحاً اس سے مراد ’طریقہ اور ضابطہ اور قاعدہ مقرر کرنا‘ ہے۔ عربی زبان میں اسی اصطلاحی معنی کے لحاظ سے ’تشریع‘ کا لفظ قانون سازی (Legislation) کا، شرع اور شریعت کا لفظ قانون (Law) کا اور ’شارع‘ کا لفظ واضع قانون (Law-Giver )کا ہم معنی سمجھا جاتا ہے۔ یہ تشریعِ خداوندی دراصل فطری اور منطقی نتیجہ ہے، اُن اصولی حقائق کا، جو اُوپر آیت نمبر ۱، ۹ اور ۱۰ میں بیان ہوئے ہیں کہ اللہ ہی کائنات کی ہرچیز کا مالک ہے، اور وہی انسان کا حقیقی ولی ہے، اور انسانوں کے درمیان جس امر میں بھی اختلاف ہو، اُس کا فیصلہ کرنا اسی کا کام ہے ۔ اب چونکہ اصولاً اللہ ہی مالک اور ولی اور حاکم ہے، اس لیے لامحالہ وہی اس کا حق رکھتا ہے کہ انسان کے لیے قانون اور ضابطہ بنائے اور اسی کی یہ ذمہ داری ہے کہ انسانوں کو یہ قانون وضابطہ دے۔ چنانچہ اپنی اس ذمہ داری کو اس نے یوں ادا کردیا ہے۔
پھر فرمایا: مِّنَ الدِّيْنِ ،’’ازقسم دین‘‘۔ شاہ ولی اللہ صاحبؒ نے اس کا ترجمہ ’’از آئین‘‘ کیا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے جو تشریع فرمائی ہے اس کی نوعیت آئین کی ہے۔ لفظ ’’دین‘‘ کی جو تشریح ہم اس سے پہلے سورئہ زمر، حاشیہ نمبر۳ میں کرچکے ہیں، وہ اگر نگاہ میں رہے تو یہ سمجھنے میں کوئی اُلجھن پیش نہیں آسکتی کہ دین کے معنی ہی کسی کی سیادت و حاکمیت تسلیم کرکے اس کے احکام کی اطاعت کرنے کے ہیں۔ اور جب یہ لفظ طریقے کے معنی میں بولا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ طریقہ ہوتا ہے جسے آدمی واجب الاتباع اور جس کے مقرر کرنے والے کو مُطاع مانے۔ اس بنا پر اللہ کے مقرر کیے ہوئے اس طریقے کو دین کی نوعیت رکھنے والی تشریع کہنے کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس کی حیثیت محض سفارش (Recommendation) اور وعظ و نصیحت کی نہیں ہے ، بلکہ یہ بندوں کے لیے ان کے مالک کا واجب الاطاعت قانون ہے جس کی پیروی نہ کرنے کے معنی بغاوت کے ہیں اور جو شخص اس کی پیروی نہیں کرتا، وہ دراصل اللہ کی سیادت و حاکمیت اور اپنی بندگی کا انکار کرتا ہے۔
اس کے بعد ارشاد ہوا کہ دین کی نوعیت رکھنے والی یہ تشریع وہی ہے جس کی ہدایت نوح ، ابراہیم اور موسیٰ علیہم السلام کو دی گئی تھی اور اُسی کی ہدایت اب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی ہے۔ اس ارشاد سے کئی باتیں نکلتی ہیں: ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی اس تشریع کو براہِ راست ہرانسان کے پاس نہیں بھیجا ہے بلکہ وقتاً فوقتاً جب اس نے مناسب سمجھا ہے ایک شخص کو اپنا رسول مقرر کرکے یہ تشریع اس کے حوالے کی ہے۔ دوسرے یہ کہ یہ تشریع ابتدا سے یکساں رہی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کسی زمانے میں کسی قوم کے لیے کوئی دین مقرر کیا گیا ہو اور کسی دوسرے زمانے میں کسی اور قوم کے لیے اُس سے مختلف اور متضاد دین بھیج دیا گیا ہو۔ خدا کی طرف سے بہت سے دین نہیں آئے ہیں، بلکہ جب بھی آیا ہے یہی ایک دین آیا ہے۔ تیسرے یہ کہ اللہ کی سیادت و حاکمیت ماننے کے ساتھ اُن لوگوں کی رسالت کو ماننا جن کے ذریعے یہ تشریع بھیجی گئی ہے اور اُس وحی کو تسلیم کرنا جس میں یہ تشریع بیان کی گئی ہے، اِس دین کا لازمی جز ہے، اور عقل و منطق کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اس کو لازمی جُز ہونا چاہیے، کیونکہ آدمی اس تشریع کی اطاعت کر ہی نہیں سکتا جب تک وہ اس کے خدا کی طرف سے مستند (Authentic ) ہونے پر مطمئن نہ ہو۔
اس کے بعد فرمایا کہ ان سب انبیاءؑ کو دین کی نوعیت رکھنے والی یہ تشریع اس ہدایت اور تاکید کے ساتھ دی گئی تھی کہ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ ۔ اس فقرے کا ترجمہ شاہ ولی اللہ صاحبؒ نے ’’قائم کنید دین را‘‘ کیا ہے اور شاہ رفیع الدین صاحبؒ اور شاہ عبدالقادر صاحبؒ نے ’’قائم رکھو دین کو‘‘۔ یہ دونوں ترجمے درست ہیں۔ اقامت کے معنی قائم کرنے کے بھی ہیں اور قائم رکھنے کے بھی، اور انبیاء علیہم السلام ان دونوں ہی کاموں پر مامور تھے۔ ان کا پہلا فرض یہ تھا کہ جہاں یہ دین قائم نہیں ہے وہاں اسے قائم کریں۔ اور دوسرا فرض یہ تھا کہ جہاں یہ قائم ہوجائے یا پہلے سے قائم ہو، وہاں اسے قائم رکھیں۔ ظاہر بات ہے کہ قائم رکھنے کی نوبت آتی ہی اُس وقت ہے جب ایک چیز قائم ہوچکی ہو۔ ورنہ پہلے اسے قائم کرنا ہوگا، پھر یہ کوشش مسلسل جاری رکھنا پڑے گی کہ وہ قائم رہے۔
اب ہمارے سامنے دو سوالات آئے ہیں۔ ایک یہ کہ دین کو قائم کرنے سے مراد کیا ہے؟ دوسرے یہ کہ خود دین سے کیا مراد ہے جسے قائم کرنے اور پھر قائم رکھنے کا حکم دیا گیا ہے؟ ان دونوں باتوں کو بھی اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔
قائم کرنے کا لفظ جب کسی مادی یا جسمانی چیز کے لیے استعمال ہوتا ہے تو اس سے مراد بیٹھے کو اُٹھانا ہوتا ہے، مثلاً کسی انسان یا جانور کو اُٹھانا یا پڑی ہوئی چیز کو کھڑا کرنا ہوتا ہے، جیسے بانس یا ستون کو قائم کرنا یا کسی چیز کے بکھرے ہوئے اجزاء کو جمع کرکے اسے بلند کرنا ہوتا ہے، جیسے کسی خالی زمین میں عمارت قائم کرنا۔ لیکن جو چیزیں مادی نہیں بلکہ معنوی ہوتی ہیں اُن کے لیے جب قائم کرنے کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو اُس سے مراد اُس چیز کی محض تبلیغ کرنا نہیں بلکہ اس پر کماحقہٗ عمل درآمد کرنا، اسے رواج دینا اور اُسے عملاً نافذ کرنا ہوتا ہے۔ مثلاً جب ہم کہتے ہیں کہ فلاں شخص نے اپنی حکومت قائم کی تو اس کے معنی یہ نہیں ہوتے کہ اس نے اپنی حکومت کی طرف دعوت دی، بلکہ یہ ہوتے ہیں کہ اس نے ملک کے لوگوں کو اپنا مطیع کرلیا اور حکومت کے تمام شعبوں کی ایسی تنظیم کردی کہ ملک کا سارا انتظام اس کے احکام کے مطابق چلنے لگا۔ اسی طرح جب ہم کہتے ہیں کہ ملک میں عدالتیں قائم ہیں تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ انصاف کرنے کے لیے منصف مقرر ہیں اور وہ مقدمات کی سماعت کر رہے ہیں اور فیصلے دے رہے ہیں، نہ یہ کہ عدل و انصاف کی خوبیاں خوب خوب بیان کی جارہی ہیں اور لوگ ان کے قائل ہو رہے ہیں۔ اسی طرح جب قرآنِ مجید میں حکم دیا جاتا ہے کہ نماز قائم کرو تو اس سے مراد نماز کی دعوت وتبلیغ نہیں ہوتی، بلکہ یہ ہوتی ہے کہ نماز کو اس کی تمام شرائط کے ساتھ نہ صرف خود اداکرو، بلکہ ایسا انتظام کرو کہ وہ اہلِ ایمان میں باقاعدگی کے ساتھ رائج ہوجائے۔ مسجدیں ہوں۔ جمعہ و جماعت کا اہتمام ہو۔ وقت کی پابندی کے ساتھ اذانیں دی جائیں۔ امام اور خطیب مقرر ہوں اور لوگوں کو وقت پر مسجدوں میں آنے اور نماز ادا کرنے کی عادت پڑجائے۔
اس تشریح کے بعد یہ بات سمجھنے میں کوئی دقّت پیش نہیں آسکتی کہ انبیاء علیہم السلام کو جب اس دین کے قائم کرنے اور قائم رکھنے کا حکم دیا گیا تو اس سے مراد صرف اتنی بات نہ تھی کہ وہ خود اس دین پر عمل کریں، اور اتنی بات بھی نہ تھی کہ وہ دوسروں میں اس کی تبلیغ کریں تاکہ لوگ اس کا برحق ہونا تسلیم کرلیں، بلکہ یہ بھی تھی کہ جب لوگ اسے تسلیم کرلیں تو اس سے آگے قدم بڑھا کر پورے کا پورا دین اُن میں عملاً رائج اور نافذ کیا جائے تاکہ اس کے مطابق عمل درآمد ہونے لگے اور ہوتا رہے ۔ اس میں شک نہیں کہ دعوت و تبلیغ اس کام کا لازمی ابتدائی مرحلہ ہے جس کے بغیر دوسرا مرحلہ پیش نہیں آسکتا۔ لیکن ہر صاحب ِ عقل آدمی خود دیکھ سکتا ہے کہ اس حکم میں دعوت و تبلیغ کو مقصود کی حیثیت نہیں دی گئی ہے، بلکہ دین قائم کرنے اور قائم رکھنے کو مقصود قرار دیا گیا ہے۔ دعوت وتبلیغ اس مقصد کے حصول کا ذریعہ ضرور ہے، مگر بجائے خود مقصد نہیں ہے۔کجا کہ کوئی شخص اسے انبیاءؑ کے مشن کا مقصد وحید قرار دے بیٹھے۔
اب دوسرے سوال کو لیجیے۔ بعض لوگوں نے دیکھا کہ جس دین کو قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے وہ تمام انبیاء علیہم السلام کے درمیان مشترک ہے، اور شریعتیں ان سب کی مختلف رہی ہیں، جیساکہ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے: لِکُلِّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّمِنْھَاجًا۔ اس لیے انھوں نے یہ رائے قائم کرلی کہ لامحالہ اس دین سے مراد شرعی احکام و ضوابط نہیں ہیں، بلکہ صرف توحید و آخرت اور کتاب و نبوت کا ماننا اور اللہ تعالیٰ کی عبادت بجا لانا ہے، یا حد سے حد اس میں وہ موٹے موٹے اخلاقی اصول شامل ہیں جو سب شریعتوں میں مشترک رہے ہیں۔ لیکن یہ ایک بڑی سطحی رائے ہے جو محض سرسری نگاہ سے دین کی وحدت اور شرائع کے اختلاف کو دیکھ کر قائم کرلی گئی ہے، اور یہ ایسی خطرناک رائے ہے کہ اگر اس کی اصلاح نہ کردی جائے تو آگے بڑھ کر بات دین و شریعت کی اس تفریق تک جا پہنچے گی جس میں مبتلا ہوکر سینٹ پال نے دین بلاشریعت کا نظریہ پیش کیا اور سیّدنا مسیح علیہ السلام کی اُمت کو خراب کر دیا۔ اس لیے کہ جب شریعت دین سے الگ ایک چیز ہے، اور حکم صرف دین کو قائم کرنے کا ہے نہ کہ شریعت کو ، تو لامحالہ مسلمان بھی عیسائیوں کی طرح شریعت کو غیراہم اور اس کی اقامت کو غیرمقصود بالذات سمجھ کر نظرانداز کردیں گے اور صرف ایمانیات اور موٹے موٹے اخلاقی اصولوں کو لے کر بیٹھ جائیں گے۔ اس طرح کے قیاسات سے دین کا مفہوم متعین کرنے کے بجائے آخر کیوں نہ ہم خود اللہ کی کتاب سے پوچھ لیں کہ جس دین کو قائم کرنے کا حکم یہاں دیا گیا ہے، آیا اس سے مرا د صرف ایمانیات اور چند بڑے بڑے اخلاقی اصول ہی ہیں یا شرعی احکام بھی۔
دین کیا ہـے؟
قرآن مجید کا جب ہم تتبع کرتے ہیں تو اس میں جن چیزوں کو دین میں شمار کیا گیا ہے ان میں حسب ذیل چیزیں بھی ہمیں ملتی ہیں:
۱- وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِــيَعْبُدُوا اللہَ مُخْلِصِيْنَ لَہُ الدِّيْنَ۰ۥۙ حُنَفَاۗءَ وَيُقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ وَيُؤْتُوا الزَّكٰوۃَ وَذٰلِكَ دِيْنُ الْقَيِّمَۃِ۵(البینہ ۹۸:۵) اور ان کو حکم نہیں دیا گیا مگر اس بات کا کہ یکسو ہوکر اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کرتے ہوئے اس کی عبادت کریں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں اور یہی راست رو ملّت کا دین ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ نماز اور زکوٰۃ اس دین میں شامل ہیں، حالانکہ ان دونوں کے احکام مختلف شریعتوں میں مختلف رہے ہیں۔ کوئی شخص بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ تمام پچھلی شریعتوں میں نماز کی یہی شکل و ہیئت، یہی اس کے اجزا ، یہی اس کی رکعتیں، یہی اس کا قبلہ، یہی اُس کے اوقات، اور یہی اس کے دوسرے احکام رہے ہیں۔ اسی طرح زکوٰۃ کے متعلق بھی کوئی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ تمام شریعتوں میں یہی اس کا نصاب، یہی اس کی شرحیں، اور یہی اس کی تحصیل اور تقسیم کے احکام رہے ہیں۔لیکن اختلاف شرائع کے باوجود اللہ تعالیٰ ان دونوں چیزوں کو دین میں شمار کر رہا ہے۔
۲- حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَۃُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيْرِ وَمَآ اُہِلَّ لِغَيْرِ اللہِ بِہٖ …اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ …(المائدہ ۵:۳)’’تمھارے لیے حرام کیا گیا مُردار، خون اور سُور کا گوشت اور وہ جانور جو اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو، اور وہ جو گلاگھٹ کر، یا چوٹ کھاکر، یا بلندی سے گر کر، یا ٹکرکھا کر مرا ہو، یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو، سوائے اس کے جسے تم نے زندہ پاکر ذبح کرلیا، اور وہ جو کسی آستانے پر ذبح کیا گیا ہو۔ نیز یہ بھی تمھارے لیے حرام کیا گیا کہ تم پانسوں کے ذریعے سے اپنی قسمت معلوم کرو۔ یہ سب کام فسق ہیں۔ آج کافروں کو تمھارے دین کی طرف سے مایوسی ہوچکی ہے ، لہٰذا تم ان سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو۔ آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کردیا…‘‘۔
اس سے معلوم ہوا کہ یہ سب احکامِ شریعت بھی دین ہی ہیں۔
۳- قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا يُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللہُ وَرَسُوْلُہٗ وَلَا يَدِيْنُوْنَ دِيْنَ الْحَقِّ (التوبہ ۹:۲۹)’’جنگ کرو اُن لوگوں سے جو اللہ اور یومِ آخر پر ایمان نہیں لاتے اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسولؐ نے حرام کیا ہے اسے حرام نہیں کرتے اور دین حق کو اپنا دین نہیں بناتے‘‘۔
معلوم ہوا کہ اللہ اور آخرت پر ایمان لانے کے ساتھ حلال و حرام کے ان احکام کو ماننا اور اُن کی پابندی کرنا بھی دین ہے، جو اللہ اور اس کے رسولؐ نے دیئے ہیں۔
۴- اَلزَّانِيَۃُ وَالزَّانِيْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍ۰۠ وَّلَا تَاْخُذْكُمْ بِہِمَا رَاْفَۃٌ فِيْ دِيْنِ اللہِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ۰ۚ (النور ۲۴:۲) ’’زانیہ عورت اور مرد، دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملے میں تم کو دامن گیر نہ ہو اگر تم اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔ مَا كَانَ لِيَاْخُذَ اَخَاہُ فِيْ دِيْنِ الْمَلِكِ (یوسف۱۲:۷۶) ’’یوسفؑ اپنے بھائی کو بادشاہ کے دین میں پکڑ لینے کا مجاز نہ تھا‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ فوجداری قانون بھی دین ہے۔ اگر آدمی خدا کے فوجداری قانون پر چلے تو وہ خدا کے دین کا پیرو ہے اور اگر بادشاہ کے قانون پر چلے تو وہ بادشاہ کے دین کا پیرو۔
یہ چارتو وہ نمونے ہیں جن میں شریعت کے احکام کو بالفاظِ صریح دین سے تعبیر کیا گیا ہے۔ لیکن اس کے علاوہ اگر غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جن گناہوں پر اللہ تعالیٰ نے جہنّم کی دھمکی دی ہے (مثلاً زنا، سود خوری، قتلِ مومن، یتیم کا مال کھانا، باطل طریقوں سے لوگوں کے مال لینا، وغیرہ) اور جن جرائم کو خدا کے عذاب کا موجب قرار دیا ہے (مثلاً عملِ قومِ لوط اور لین دین میں قومِ شعیبؑ کا رویّہ) اُ ن کا سدِّباب لازماً دین ہی میں شمار ہونا چاہیے، اس لیے کہ دین اگر جہنّم اور عذابِ الٰہی سے بچانے کے لیے نہیں آیا ہے تو اور کس چیز کے لیے آیا ہے؟ اسی طرح وہ احکامِ شریعت بھی دین ہی کا حصہ ہونے چاہییں جن کی خلاف ورزی کو خُلود فی النار کا موجب قرار دیا گیا ہے، مثلاً میراث کے احکام، جن کو بیان کرنے کے بعد آخر میں ارشاد ہوا ہے کہ وَمَنْ يَّعْصِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَيَتَعَدَّ حُدُوْدَہٗ يُدْخِلْہُ نَارًا خَالِدًا فِيْھَا ۰۠ وَلَہٗ عَذَابٌ مُّہِيْنٌ۱۴ۧ (النساء۴: ۱۴) ’’جو اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی اور اللہ کے حدود سے تجاوز کرے گا، اللہ اُس کو دوزخ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے رُسوا کن عذاب ہے‘‘۔ اسی طرح جن چیزوں کی حُرمت اللہ تعالیٰ نے پوری شدت اور قطعیت کے ساتھ بیان کی ہے، مثلاً ماں بہن اور بیٹی کی حُرمت، شراب کی حُرمت، چوری کی حُرمت، جوئے کی حرمت، جھوٹی شہادت کی حُرمت، ان کی تحریم کو اگر اقامت ِ دین میں شامل نہ کیا جائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ غیرضروری احکام بھی دے دیئے ہیں جن کا اِجراء مقصود نہیں ہے۔ علیٰ ہذا القیاس جن کاموں کو اللہ تعالیٰ نے فرض قرار دیا ہے، مثلاً روزہ اور حج، اُن کی اقامت کو بھی محض اس بہانے اقامتِ دین سے خارج نہیں کیا جاسکتا کہ رمضان کے ۳۰ روزے تو پچھلی شریعتوں میں نہ تھے، اور کعبے کا حج تو صرف اُس شریعت میں تھا جو اولادِ ابراہیم ؑ کی اسماعیلی شاخ کو ملی تھی۔
دراصل ساری غلط فہمی صرف اس وجہ سے ہوئی ہے کہ آیت لِکُلِّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّمِنْھَاجًا (ہم نے تم میں سے ہراُمت کے لیے ایک شریعت اور ایک راہ مقرر کردی) کا اُلٹا مطلب لے کر اسے یہ معنی پہنا دیئے گئے ہیں کہ شریعت چونکہ ہراُمت کے لیے الگ تھی، اور حکم صرف اس دین کے قائم کرنے کا دیا گیا ہے جو تمام انبیاءؑ کے درمیان مشترک تھا، اس لیے اقامت ِ دین کے حکم میں اقامت ِ شریعت شامل نہیں ہے۔ حالانکہ درحقیقت اس آیت کا مطلب اس کے بالکل برعکس ہے۔
سورئہ مائدہ میں جس مقام پر یہ آیت آئی ہے اس کے پورے سیاق و سباق کو آیت ۴۱ سے آیت ۵۰ تک اگر کوئی شخص بغور پڑھے تو معلوم ہوگا کہ اس آیت کا صحیح مطلب یہ ہے کہ جس نبیؐ کی اُمت کو جو شریعت بھی اللہ تعالیٰ نے دی تھی، وہ اُس اُمت کے لیے دین تھی اور اُس کے دورِ نبوت میں اسی کی اقامت مطلوب تھی اور اب چونکہ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دورِ نبوت ہے اس لیے اُمت محمدیہؐ کو جو شریعت دی گئی ہے وہ اِس دور کے لیے دین ہے اور اس کا قائم کرنا ہی دین کا قائم کرنا ہے۔ رہا ان شریعتوں کا اختلاف تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خدا کی بھیجی ہوئی شریعتیں باہم متضاد تھیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی جزئیات میں حالات کے لحاظ سے کچھ فرق رہا ہے۔ مثال کے طور پر نماز اور روزے کو دیکھیے۔ نماز تمام شریعتوںمیں فرض رہی ہے، مگر قبلہ ساری شریعتوں کا ایک نہ تھا، اور اس کے اوقات اور رکعات اور اجزاء میں بھی فرق تھا۔ اسی طرح روزہ ہرشریعت میں فرض تھا مگر رمضان کے ۳۰ روزے دوسری شریعتوں میں نہ تھے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہیں ہے کہ مطلقاً نماز اور روزہ تو اقامت ِ دین میں شامل ہے، مگر ایک خاص طریقے سے نماز پڑھنا اور خاص زمانے میں روزہ رکھنا اقامت دین سے خارج ہے۔ بلکہ اس سے صحیح طور پر جو نتیجہ نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ ہرنبی کی اُمت کے لیے اُس وقت کی شریعت میں نماز اور روزے کے لیے جو قاعدے مقرر کیے گئے تھے، انھی کے مطابق اُس زمانے میں نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا دین قائم کرنا تھا، اور اب اقامت ِ دین یہ ہے کہ ان عبادتوں کے لیے شریعت محمدیہؐ میں جو طریقہ رکھا گیا ہے ان کے مطابق انھیں ادا کیا جائے۔ انھی دو مثالوں پر دوسرے تمام احکامِ شریعت کو بھی قیاس کرلیجیے۔
قرآنِ مجید کو جو شخص بھی آنکھیں کھول کر پڑھے گا اسے یہ بات صاف نظر آئے گی کہ یہ کتاب اپنے ماننے والوں کو کفراور کفّار کی رعیت فرض کرکے مغلوبانہ حیثیت میں مذہبی زندگی بسر کرنے کا پروگرام نہیں دے رہی ہے ، بلکہ یہ علانیہ اپنی حکومت قائم کرنا چاہتی ہے۔ اپنے پیروں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ دینِ حق کو فکری ، اخلاقی، تہذیبی اور قانونی و سیاسی حیثیت سے غالب کرنے کے لیے جان لڑا دیں اور ان کو انسانی زندگی کی اصلاح کا وہ پروگرام دیتی ہے جس کے بہت بڑے حصے پر صرف اسی صورت میں عمل کیا جاسکتا ہے جب حکومت کا اقتدار اہلِ ایمان کے ہاتھ میں ہو۔
یہ کتاب اپنے نازل کیے جانے کا مقصد یہ بیان کرتی ہے کہ اِنَّـآ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَآ اَرٰىكَ اللہُ۰ۭ(النساء۴: ۱۰۵) ’’اے نبیؐ ! ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ تم پر نازل کی ہے تاکہ تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو اُس روشنی میں جو اللہ نے تمھیں دکھائی ہے‘‘۔ اس کتاب میں زکوٰۃ کی تحصیل و تقسیم کے جو احکام دیئے گئے ہیں وہ صریحاً اپنے پیچھے ایک ایسی حکومت کا تصور رکھتے ہیں جو ایک مقرر قاعدے کے مطابق زکوٰۃ وصول کرکے مستحقین تک پہنچانے کا ذمہ لے (التوبہ ۹: ۶۰،۱۰۳)۔اس کتاب میں سود کو بند کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے اور سودخواری جاری رکھنے والوں کے خلاف جو اعلانِ جنگ کیا گیا ہے (البقرہ ۲:۲۷۵- ۲۷۹)، وہ اسی صورت میں رُوبہ عمل آسکتا ہے جب ملک کا سیاسی اور معاشی نظام پوری طرح اہلِ ایمان کے ہاتھ میں ہو۔ اس کتاب میں قاتل سے قصاص لینے کا حکم (البقرہ ۲:۱۷۸)، چوری پر ہاتھ کاٹنے کا حکم (المائدہ ۵:۳۸) زنا اور قذف پر حد جاری کرنے کا حکم (النور ۲۴: ۲-۴)، اس مفروضے پر نہیں دیا گیا ہے کہ ان احکام کے ماننے والے لوگوں کو کفّار کی پولیس اور عدالتوں کے ماتحت رہنا ہوگا۔ اس کتاب میں کفّار سے قتال کا حکم (البقرہ ۲: ۱۹۰-۲۱۶)یہ سمجھتے ہوئے نہیں دیا گیا ہے کہ اس دین کے پیرو کفر کی حکومت میں فوجی بھرتی کرکے اس حکم کی تعمیل کریں گے۔ اس کتاب میں اہلِ کتاب سے جزیہ لینے کا حکم (التوبہ ۹:۲۹)اس مفروصے پر نہیں دیا گیا ہے کہ مسلمان کافروں کی رعایا ہوتے ہوئے اُن سے جزیہ وصول کریں گے اور اُن کی حفاظت کا ذمّہ لیں گے۔ اور یہ معاملہ صرف مدنی سورتوں ہی تک محدود نہیں ہے۔ مکّی سورتوں میں بھی دیدئہ بینا کو علانیہ یہ نظر آسکتا ہے کہ ابتدا ہی سے جو نقشہ پیش نظر تھا وہ دین کے غلبہ و اقتدار کا تھا نہ کہ کفر کی حکومت کے تحت دین اور اہلِ دین کے ذمّی بن کر رہنے کا....
سب سے بڑھ کر جس چیزسے تعبیر کی یہ غلطی متصادم ہوتی ہے وہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ عظیم الشان کام ہے، جو حضوؐر نے ۲۳برس کے زمانہ رسالت میں انجام دیا۔ آخر کون نہیں جانتا کہ آپؐ نے تبلیغ اور تلوار دونوں سے پورے عرب کو مسخر کیا اور اُس میں ایک مکمل حکومت کا نظام ایک مفصل شریعت کے ساتھ قائم کر دیا جو اعتقادات اور عبادات سے لے کر شخصی کردار، اجتماعی اخلاق ، تہذیب و تمدن، معیشت و معاشرت، سیاست و عدالت اور صلح و جنگ تک زندگی کے تمام گوشوں پر حاوی تھی۔
اگر حضوؐر کے اس پورے کام کو ’اقامت دین‘ کے اس حکم کی تفسیر نہ مانا جائے جو اس آیت کے مطابق تمام انبیاء سمیت آپؐ کو دیا گیا تھا، تو پھر اس کے دو ہی معنی ہوسکتے ہیں۔
یا تو معاذ اللہ، حضوؐر پر یہ الزام عائد کیا جائے کہ آپؐ مامور تو صرف ایمانیات اور اخلاق کے موٹے موٹے اصولوں کی محض تبلیغ و دعوت پر ہوئے تھے، مگر آپؐ نے اس سے تجاوزکرکے بطور خود ایک حکومت قائم کر دی اور ایک مفصل قانون بناڈالا جو شرائع انبیاءؑ کی قدرِ مشترک سے مختلف بھی تھا اور زائد بھی۔
یا پھر اللہ تعالیٰ پر یہ الزام رکھا جائے کہ وہ سورئہ شوریٰ میں مذکورہ بالا اعلان کرچکنے کے بعد خود اپنی بات سے منحرف ہوگیا اور اس نے اپنے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ صرف وہ کام لیا جو اس سورۃ کی اعلان کردہ ’اقامت دین‘ سے بہت کچھ زائد اور مختلف تھا، بلکہ اس کام کی تکمیل پر اپنے پہلے اعلان کے خلاف یہ دوسرا اعلان بھی کر دیا کہ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ (آج میں نے تمھارے لیے تمھارا دین مکمل کیا)، اعاذنا اللہ من ذٰلک۔ان دوصورتوں کے سوا اگر کوئی تیسری صورت ایسی نکلتی ہو جس سے ’اقامت ِ دین‘ کی یہ تعبیر بھی قائم رہے اور اللہ یا اس کے رسولؐ پر کوئی الزام بھی عائد نہ ہوتا ہو تو ہم ضرور اسے معلوم کرنا چاہیں گے۔(تفہیم القرآن، چہارم، ص۴۸۶- ۴۹۲)
کسی مسئلے میں کسی شخص یا گروہ سے اختلاف کرنا یہ معنی نہیں رکھتا کہ آدمی اس شخص یا گروہ کا مخالف ہے، یا اس کا دشمن ہے، یا جملہ مسائل میں اسے غلط کار سمجھتا ہے۔ آخر آپ حضرات خود شوافع، حنابلہ اور مالکیہ کی بہت سی آرا سے اختلاف کرتے ہیں، اور بسااوقات بڑے زور شور سے ان کی آراء کے خلاف استدلال کرتے ہیں۔ کیا اس کے یہ معنی لینے میں کوئی شخص حق بجانب ہوگا کہ آپ ان ائمۂ ثلاثہ اور ان کے پیرو علما کے مخالف ہیں اور ان کو قاطبۃً خطاکار قرار دیتے ہیں اور ان کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئے ہیں؟
اس لیے میری گزارش یہ ہے کہ آپ اپنے اس طرزِ فکر پر نظرثانی فرمائیں اور اختلاف رائے کو مخالفت و عداوت اور عناد کے ساتھ خلط ملط نہ فرمائیں۔
میرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ اصلاحِ باطن اور تزکیۂ نفس کا جو طریقہ قرآن و سنت اور عملِ صحابہؓ سے ثابت ہے وہی کافی ہے اور اسی پر ہمیں اکتفا کرنا چاہیے۔ اس سے بہتر کوئی دوسرا طریقہ نہیں ہے اور اس میں کمی و بیشی کرنا نہ درست ہے، نہ مفید۔ اس سے ہٹ کر جو طریقے جس نے بھی ایجاد کیے ہیں، یا دوسرے ادیان و ملل کے متبعین سے اخذ کیے ہیں، ان سے اجتناب کرناچاہیے۔ اس رائے میں اگر کوئی غلطی ہے تو آپ اس پر مجھے دلائل کے ساتھ متنبہ فرمائیں۔ میں پھر اس پر غور کروں گا۔ لیکن میں اس الزام سے براءت ظاہر کرتا ہوں کہ اس اختلاف رائے کی وجہ سے میں صوفیا کا مخالف ہوں، یا تصوف کا دشمن ہوں، یا اہلِ تصوف کو بالکلیہ مطعون کرتا ہوں۔(رسائل و مسائل، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۵۶،عدد ۵،اگست ۱۹۶۱ء، ص ۴۷-۴۸)
[وَنَفَخَ فِيْہِ مِنْ رُّوْحِہٖ (السجدہ ۳۲:۹) اور اس کے اندر اپنی روح پھونک دی]
’روح‘ سےمراد محض وہ زندگی نہیں ہے، جس کی بدولت ایک ذی حیات جسم کی مشین متحرک ہوتی ہے، بلکہ اس سے مراد وہ خاص جوہر ہے، جو فکروشعور اور عقل و تمیز اور فیصلہ و اختیار کا حامل ہوتا ہے۔ جس کی بدولت انسان تمام دوسری مخلوقاتِ ارضی سے ممتاز ایک صاحب ِ شخصیت ہستی، صاحب ِ اَنا ہستی، اور حاملِ خلافت ہستی بنتا ہے۔
اِس ’روح‘ کو اللہ تعالیٰ نے ’اپنی روح‘ یا تو اس معنی میں فرمایا ہے کہ وہ اُسی کی مِلک ہے اور اس کی ذاتِ پاک کی طرف اس کا انتساب اُسی طرح کا ہے، جس طرح ایک چیز اپنے مالک کی طرف منسوب ہوکر اُس کی چیزکہلاتی ہے۔
یا پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے اندر علم، فکر، شعور، ارادہ، فیصلہ، اختیار اور ایسے ہی دوسرے جو اوصاف پیدا ہوئے ہیں، وہ سب اللہ تعالیٰ کی صفات کے پرتو ہیں۔ ان کا سرچشمہ مادّے کی کوئی ترکیب نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اللہ کے علم سے اس کو علم ملا ہے، اللہ کی حکمت سے اس کو دانائی ملی ہے، اللہ کے اختیار سے اس کو اختیار ملا ہے۔
یہ اوصاف کسی بے علم،بے دانش اور بے اختیار ماخذ سے انسان کے اندر نہیں آئے ہیں۔(تفہیم القرآن، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، جلد۵۶،عدد ۴،جولائی ۱۹۶۱ء، ص ۲۱-۲۲)
دنیاکی زندگی، سطح بیں انسانوں کو مختلف قسم کی غلط فہمیوں میں مبتلا کرتی ہے:
یہ اور ایسی ہی جتنی غلط فہمیاں بھی ہیں، ان سب کو اللہ تعالیٰ نے آیت [فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيٰوۃُ الدُّنْيَا’پس، یہ دنیا کی زندگی تمھیں دھوکے میں نہ ڈالے‘، سورئہ لقمان۳۱:۳۳] میں ’دُنیوی زندگی کے دھوکے‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔ (’تفہیم القرآن‘ ،سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۵۶، عدد۳، جون ۱۹۶۱ء، ص۱۲-۱۳)
انسان کے مذہبی تصورات میں عبادت کا تصور سب سے پہلا اور اہم تصور ہے، بلکہ زیادہ صحیح یہ ہے کہ مذہب کا بنیادی تصور عبادت ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک نوع انسانی کے جتنے مذاہب کا پتہ چلا ہے، عام اس سے کہ وہ انتہا درجے کی وحشی اقوام کے خرافات و اوہام ہوں، یا اعلیٰ درجے کی متمدن اقوام کے پاکیزہ معتقدات، ان میں سے ایک بھی عبادت کے تصور و تخیل سے خالی نہیں۔
علم الانسان اور آثار قدیمہ کی تلاش و جستجو کے سلسلے میں پرانی سے پرانی تہذیب کی حامل قوموں کے جو حالات معلوم ہوئے ہیں، وہ اس امر کی شہادت دیتے ہیں کہ گو وہ قومیں عقل و شعور کے بالکل ابتدائی درجے میں تھیں لیکن اس حالت میں بھی انھوں نے اپنی بساط بھر کسی نہ کسی کو ضرور معبود بنایا ہے، اور کوئی نہ کوئی طریق عبادت ضرور اختیار کیا ہے۔[۱] قدیم قوموں کو جانے دیجیے۔ آج بھی بہت سی انسانی جماعتیں زمین کے مختلف گوشوں میں موجود ہیں، جو عقلی و ذہنی اعتبار سے قدیم ترین قوموں کی سطح پر ہیں، یا یوں کہیے کہ نوع انسانی کے بالکل ابتدائی دَور کا نقشہ اپنی زندگی میں پیش کر رہی ہیں۔ ان میں مشکل ہی سے کوئی ایسی جماعت دیکھی گئی ہے، جو معبود اور عبادت کے تصور سے کلیتاً خالی ہو۔[۲] پس، یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ انسان قدیم ترین وحشت و بداوت سے لے کر جدید ترین تہذیب و حضارت تک جتنے مدارج سے گزرا ہے، ان میں سے ہر درجے میں عبادت کا تصور اس کے ساتھ ساتھ رہا ہے، گو اس کے مظاہر و اشکال میں بے شمار تغیرات و اختلافات رونما ہوئے ہیں۔
غور کرنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہے؟ کیا وجہ ہے کہ یہ خیال سارے بنی آدم پر حاوی ہے اور تمام زمانوں میں باوجود اختلاف احوال یکساں حاوی رہا ہے؟ کیا یہ بالارادہ اختیار کیا گیا ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو ساری نوع پر اس کا اس طرح حاوی ہونا غیر ممکن تھا۔ کیونکہ بالارادہ اختیار کی ہوئی چیزوں میں کبھی کامل اتفاق نہیں ہوسکتا۔ انسان کی اختیار کی ہوئی چیزوں میں سے ایک بھی ایسی نہ ملے گی، جس کے اندر ہر مرتبہ اور ہر دَور کی تمام انسانی جماعتیں یکساں مشترک ہوں، اور یہ کسی طرح متصور نہیں ہے کہ ہر زمانے کے تمام آدمیوں نے ایک عالم گیر کانفرنس کرکے باہم یہ ٹھیرالیا ہو کہ وہ کسی کی عبادت ضرور کریں گے، خواہ معبود مختلف اور طریقہ ہائے عبادت بے شمار ہوں۔
پھر جب یہ چیز اختیاری نہیں ہوسکتی تو لامحالہ ماننا پڑے گا کہ عبادت کا جذبہ انسان کے اندر ایک فطری جذبہ ہے۔[۳] جس طرح انسان کو بھوک فطری طور پر لگتی ہے اور اس کے فرو کرنے کے لیے وہ غذا تلاش کرتا ہے، جس طرح اسے سردی اور گرمی فطری طور پر محسوس ہوتی ہے اور اس سے بچنے کے لیے وہ سایہ اور لباس ڈھونڈتا ہے، جس طرح ادائے مافی الضمیر کی خواہش اس میں فطری طور پر پیدا ہوتی ہے، اور اسے پورا کرنے کے لیے وہ الفاظ و اشارات بہم پہنچاتا ہے، بالکل اسی طرح عبادت کا جذبہ بھی انسان میں فطرتاً پیدا ہوتا ہے اور اس کی تسکین کے لیے وہ کسی معبود کی تلاش کرتا اور اس کی بندگی کرتا ہے۔
مگر جیسا کہ ہم بھوک اور سردی و گرمی کے احساس، اور ادائے مافی الضمیر کی خواہش کے معاملے میں دیکھتے ہیں، فطرت کا اثر زیادہ تر اس مجرد داعیہ کی حد تک رہتا ہے جو انسان کو غذا، سایہ، لباس اور وسیلۂ اظہار مافی الضمیر کی تلاش پر مجبور کرتا اور جسم کے ان اعضاء کو جو ان کاموں سے متعلق ہیں، حرکت دینے پر ابھارتا ہے۔ اور اسی حد تک تمام انسانوں میں اشتراک بھی پایا جاتا ہے۔ اس کے آگے فطرت کا اثر کمزور اور خود انسان کا اپنا اختیار غالب ہو جاتا ہے اور یہیں سے وہ بے شمار اختلافات شروع ہوتے ہیں، جو غذا، مکان، لباس، زبان اور اشارات و علامات کی مختلف صورتوں اور ہئیتوں کے اعتبار سے ہر زمانے کی مختلف قوموں میں پائے گئے ہیں۔
قریب قریب یہی حال عبادت کے جذبے کا بھی ہے کہ وہ انسان کو بندگی و پرستش پر اُکسا کر چھوڑ دیتا ہے، اور اس کے بعد یہ انسان کے اپنے انتخاب پر ہے کہ اس جذبے کی تسکین کے لیے وہ کس کو معبود مانتا ہے اور اس کی عبادت کا کیا طریقہ اختیار کرتا ہے۔ اسی اختیار کی حد پر پہنچ کر معبودوں اور عبادت کے طریقوں میں وہ اختلاف شروع ہوتا ہے، جو انسان کی اختیار کی ہوئی تمام چیزوں میں نظر آتا ہے۔ اگرچہ اس معاملے میں بھی فطرت کی رہنمائی انسان کا ساتھ بالکل نہیں چھوڑ دیتی، جس طرح غذا اور لباس وغیرہ فطری مطلوبات کے انتخاب میں نہیں چھوڑتی ہے۔ لیکن یہ رہنمائی اتنی دھندلی اور خفی ہوتی ہے کہ اس کا ادراک کرنے کے لیے نہایت لطیف و نازک شعور کی ضرورت ہے، جو بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتا ہے۔
آئیے، اب ہم سراغ لگائیں کہ اس فطری داعیہ کا سر رشتہ کہاں سے ملتا ہے؟ اس کشش کا مرکز کہاں ہے جو انسان کو عبادت کے لیے کھینچتی ہے؟ کون سی قوتیں ہیں جو اسے معبود کی تلاش اور اس کی عبادت پر ابھارتی ہیں؟ اور وہ کیا رہنمائی ہے جو اس تلاش میں ہم کو خود فطرت سے حاصل ہوتی ہے؟
اس کے لیے ہم کو سب سے پہلے خود عبادت کی حقیقت پر غور کرنا چاہیے کہ اس کے بغیر ان سوالات کا حل مشکل ہے۔
عبادت کا تصور دراصل ایک جامع تصور ہے، جو دو ذیلی تصورات کے امتزاج سے مکمل ہوتا ہے: ایک بندگی، دوسرے پرستش۔ بندگی کے معنی ہیں کسی بالاتر قوت کی بڑائی تسلیم کرکے اس کی فرمانبرداری و اطاعت کرنا۔ اور پرستش کے معنی ہیں کسی بالاتر ہستی کو پاک، مقدس اور بزرگ سمجھ کر اس کے آگے سرنیاز جھکا دینا اور اسے پوجنا۔ ان میں سے پہلا تصور عبادت کا ابتدائی اور بنیادی تصور ہے، اور دوسرا تصور انتہائی اور تکمیلی۔ پہلا زمین کی حیثیت رکھتا ہے اور دوسرا عمارت کی۔ اس لیے ہمیں اپنی تحقیق کی ابتدا پہلے تصور سے کرنی چاہیے۔
بندگی یا فرماںبرداری و اطاعت ہمیشہ اس قوت کے مقابلے میں کی جاتی ہے، جو بندگی کرنے والے پر قہر و غلبہ اور قدرت و استیلاء رکھتی ہو، اور بندے یا مطیع میں اس کے حکم سے سرتابی کا یارا نہ ہو۔ اس کی محدود شکل تو وہ ہے، جو آقا اور نوکر کے درمیان ہم عموماً دیکھتے ہیں۔ لیکن اس سے زیادہ وسیع تصور کے لیے سب سے زیادہ واضح مثال وہ بندگی ہے، جو رعایا اپنی حکومت کی کرتی ہے۔ حکومت کوئی مادی شے نہیں ہے، نہ ایک محسوس و مشاہد چیز ہے۔ ایک نظام و ضابطے کی بندش ہے جس کا غلبہ و استیلاء لاکھوں کروڑوں آدمیوں پر حاوی ہوتا ہے۔ رعایا اس کے قانون پر طوعاً و کرہاً چلتی ہے۔ لوگ اپنے گھروں میں، کسان اپنے کھیتوں میں اور مسافر دُور دراز جنگلوں میں، جہاں بظاہر حکومت کا زور جتانے والی کوئی چیز موجود نہیں ہوتی، اس کے قوانین کی اطاعت کرتے ہیں۔ اس کے حدود و اختیار میں رہ کر جو شخص اس کے قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے وہ سزا پاتا ہے اور زیادہ شدید نافرمانی کی صورت میں اس کے تمام وہ حقوق سلب ہو جاتے ہیں، جو رعیت ہونے کی حیثیت سے اس کو حاصل تھے۔ اس لحاظ سے جس قدر لوگ کسی حکومت کے حدود میں رہتے ہیں اور اس کے قوانین کی پابندی کرتے ہیں، ان کے متعلق ہم کہا کرتے ہیں کہ ’وہ فلاں حکومت کی فرماںبرداری و اطاعت کر رہے ہیں‘۔ اگر ہم ان الفاظ کی جگہ مذہبی اصطلاح استعمال کریں تو کہہ سکتے ہیں کہ ’وہ اس کی بندگی و عبادت کر رہے ہیں‘۔
آپ دیکھیں گے کہ سارا عالم اور اس کا ایک ایک ذرّہ ایک زبردست نظام میں جکڑا ہوا ہے، اور ایک قانون ہے جس پر خاک کے ایک ذرے سے لے کر آفتاب عالمتاب تک ساری کائنات طوعاً و کرہاً عمل کر رہی ہے۔ کسی شے کی یہ مجال نہیں کہ اس قانون کے خلاف چل سکے۔ جو چیز اس سے ذرّہ برابر سرتابی کرتی ہے، وہ فساد اور فنا کی شکار ہو جاتی ہے۔ یہ زبردست قانون جو انسان، حیوان، درخت، پتھر، ہوا، پانی، اجسام ارضی اور اجرامِ فلکی سب پر یکساں حاوی ہے، ہماری زبان میں ’قانون فطرت‘ یا ’قانون قدرت‘ کہلاتا ہے۔
اس کے ماتحت جو کام جس چیز کے سپرد کر دیا گیا ہے، وہ اس کے کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ ہوائیں اس کے اشارے پر چلتی ہیں۔ بارش اس کے حکم سے ہوتی ہے۔ پانی اس کے فرمان سے بہتا ہے۔ سیارے اس کے ارشاد سے حرکت کرتے ہیں۔ غرض اس تمام کائنات میں جو کچھ ہو رہا ہے، اسی قانون کے ماتحت ہو رہا ہے اور ہر ذرہ اسی کام میں لگا ہوا ہے، جس پر اس قانون نے اسے لگا دیا ہے۔ جس چیز کو ہم زندگی، بقا اور کَون کہتے ہیں وہ دراصل نتیجہ ہے اس قانون کی اطاعت کا، اور جس کو ہم موت، فنا اور فساد کہتے ہیں، وہ درحقیقت نتیجہ ہے اس قانون کی خلاف ورزی کا۔ دوسرے الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہر شے جو زندہ اور باقی ہے، وہ اس قانون کی اطاعت کر رہی ہے اور کائنات عالم میں کوئی شے زندہ اور باقی نہیں رہ سکتی اگر اس کی اطاعت نہ کرے۔
لیکن جس طرح حکومت کی مثال میں ہم دیکھتے ہیں کہ قانون کی اطاعت دراصل قانون کی اطاعت نہیں بلکہ اس حکومت کی اطاعت ہے، جس نے اپنے قہر و غلبے سے اس قانون کو نافذ کیا ہے، اور حکومت کا نظم و ضبط قائم کرنے کے لیے لا محالہ ایک حاکم، ایک مرکزی فرماںروا، ایک مقتدرِ اعلیٰ ہستی کا وجود ضروری ہے، بالکل اسی طرح قانون فطرت کی اطاعت بھی دراصل اس غالب و قاہر حکومت کی اطاعت ہے، جو اس قانون کو بنانے اور زور و قوت سے اس کو چلانے والی ہے، اور یہ حکومت ایک فرمانروا کے دست قدرت میں ہے، جس کے بغیر اتنا بڑا عالمگیر نظام ایک لمحے کے لیے بھی نہیں چل سکتا۔
یہاں اگر ہم قانونی لفظ ’اطاعت‘ کو مذہبی اصطلاح ’عبادت‘ سے بدل دیں اور لفظ ’حاکم‘ کی جگہ ’اللہ‘ یا ’خدا‘ کا لفظ رکھ دیں، تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ ساری کائنات اور اس کی ہر ہر چیز اللہ کی عبادت کر رہی ہے، اور یہ ایسی عبادت ہے، جس پر ہر شے کے وجود و بقا کا انحصار ہے۔ کائنات کی کوئی شے اور مجموعی طور پر ساری کائنات، اللہ کی عبادت سے ایک لمحے کے لیے بھی غافل نہیں ہوسکتی، اور اگر غافل ہو جائے تو ایک لمحے کے لیے بھی باقی نہیں رہ سکتی۔
قرآن مجید میں اس ’بندگی‘ کو کہیں ’عبادت‘ سے تعبیر کیا گیا ہے، کہیں تسبیح و تقدیس سے، کہیں سجود سے، اور کہیں قنوت سے۔ چنانچہ جگہ جگہ اس مضمون کی آیات آتی ہیں:
یہ عبادت، یہ سجود، یہ تسبیح، یہ قنوت، تمام جان دار اور بے جان، ذی شعور اور بے شعور چیزوں پر یکساں حاوی ہے، اور انسان بھی اس پر اسی طرح مجبور ہے، جس طرح مٹی کا ایک ذرہ، پانی کا ایک قطرہ اور گھاس کا ایک تنکا۔ انسان خواہ خدا کا قائل ہو یا منکر، خدا کو سجدہ کرتا ہو یا پتھر کو، خدا کی پوجا کرتا ہو یا غیر خدا کی، جب وہ قانون فطرت پر چل رہا ہے اور اس قانون کے تحت ہی زندہ ہے تو لامحالہ وہ بغیر جانے بوجھے، بلا عمد و اختیار، طوعاً و کرہاً خدا ہی کی عبادت کر رہا ہے، اسی کے سامنے سربسجود ہے اور اسی کی تسبیح میں لگا ہوا ہے۔ اس کا چلنا پھرنا، سونا جاگنا، کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا، سب اسی کی عبادت ہے۔ چاہے وہ اپنے اختیار سے کسی اور کی پوجا کر رہا ہو اور اپنی زبان سے کسی اور کی بندگی و اطاعت کر رہا ہو، مگر اس کا رونگٹا رونگٹا اسی خدا کی عبادت میں مشغول ہے، جس نے اسے پیدا کیا ہے۔ اس کا خون اسی کی عبادت میں چکر لگا رہا ہے، اس کا قلب اسی کی عبادت میں متحرک ہے، اس کے اعضا اسی کی عبادت میں کام کر رہے ہیں، اور اس کی وہ زبان بھی، جس سے وہ خدا کو جھٹلاتا اور غیروں کی حمد و ثنا کرتا ہے دراصل اسی کی عبادت میں چل رہی ہے۔
اس عبادت کا صلہ یا اجر خدا کی طرف سے کیا ملتا ہے؟ فیضانِ وجود ، رزق اور قوت بقا۔ جتنی چیزیں خدا کے قانون پر چلتی ہیں اور اس کی بندگی کرتی ہیں، وہ زندہ اور باقی رہتی ہیں اور انھیں وہ وسیلۂ بقا عطا کیا جاتا ہے، جسے ہم اپنی زبان میں ’رزق‘ کہتے ہیں۔ اور جو چیزیں اس کے قانون سے انحراف کرتی ہیں ان پر فساد مسلط ہوجاتا ہے، ان کا رزق بند ہو جاتا ہے، اور وہ فیضانِ وجود سے محروم ہو جاتی ہیں۔ یہ معاملہ کائنات کی ہر چیز کے ساتھ ہو رہا ہے اور اس میں شجر و حجر، حیوان و انسان، کا فرو شاکر کے درمیان کوئی امتیاز نہیں:
اس سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ جس طرح انسان اس بندگی میں دوسری اشیا کے ساتھ مساوی ہے، اسی طرح اس بندگی کے اجر اور معاوضے میں بھی وہ ان کے ساتھ مساوی رکھا گیا ہے۔ انعام کی صورتوں کا فرق جو کچھ بھی ہے، دراصل استعداد اور حاجتوں کے فرق پر مبنی ہے۔ لیکن صورتوں سے قطع نظر کرکے اگر حقیقت کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح ایک درخت، ایک جانور، ایک چڑیا، ایک گھاس کی پتی کی احتیاج و استعداد کے مطابق اللہ اس کی دیکھ بھال، خبرگیری، امداد و اعانت، اور رزق رسانی کر رہا ہے، اسی طرح انسان کی احتیاج و استعداد کے مطابق اس پر بھی انعام فرماتا ہے۔
اس بارے میں انسان کو دوسری مخلوقات کے مقابلے میں اگر کوئی فضیلت ہے تو محض وہ صورتِ انعام کے اعتبار سے ہے نہ کہ حقیقت ِانعام کے اعتبار سے اور صورتِ انعام کا حال یہ ہے کہ وہ ہر شے کی طبیعت اور حاجت کے عین مناسب ہے۔ ایک چوہے پر جو انعام فرمایا گیا ہے، انعام کی وہی صورت اس کی فطرت اور ضرورت سے مناسبت رکھتی ہے۔ دوسری کوئی صورت جس کو ہم بہتر سمجھتے ہیں، اس کے لیے انعام نہیں سزا ہو جائے گی۔ ایک بڑے سے بڑا منعم انسان جو آرام اپنی پھولوں کی سیج پر محسوس کرتا ہے، وہی آرام ایک چھوٹی سے چھوٹی چڑیا اپنے گھاس پھونس کے گھونسلے میں محسوس کرتی ہے۔ پھولوں کی سیج، تنکوں کے گھونسلے پر لاکھ فخر کرے، مگر حقیقت میں گھونسلے والے کی استعداد کے مطابق اس کی احتیاج پوری کی گئی ہے۔ اس حیثیت سے دونوں پر خدا کا انعام یکساں ہے۔ پھر یہی معاملہ کافر و شاکر، مومن و مشرک کے ساتھ بھی یکساں ہے۔
جو لوگ خدا کے منکر ہیں اور اس کی پرستش نہیں کرتے، جو اس کے ساتھ اس کی مخلوق کو شریک کرتے ہیں، جو شجر و حجر کو اس کا مدمقابل ٹھیراتے ہیں، ان پر بھی رزق اور فیضانِ وجود اور حفاظت و خبر گیری کا انعام اسی طرح ہوتا ہے، جس طرح پکے موحدوں اور خدا پرستوں پر ہوتا ہے۔ بلکہ اگر قانون فطرت کی پیروی یا بالفاظ دیگر ’فطری عبادت‘ میں ایک کافر ایک مومن سے بڑھا ہوا ہے، تو اس کی عبادت کا صلہ بھی کافر کو مومن سے بہتر صورت میں عطا ہوتا ہے، خواہ وہ حقیقت کی نگاہ میں متاعِ غرور ہی کیوں نہ ہو۔
اب یہ سوال بآسانی حل ہو جاتا ہے کہ انسان میں عبادت کا جذبہ فطری طور پر کیوں پیدا ہوتا ہے اور وہ کیوں اپنے معبود کو تلاش کرتا ہے؟
جب ساری کائنات اور اس کی ہر چیز ایک غالب و قاہر فرماںروا کی بندگی کر رہی ہے، اور جب کہ خود انسان کا اپنا بھی ایک ایک رونگٹا اس کی عبادت میں لگاہوا ہے، وہ تمام عناصر جن سے انسان کا جسم مرکب ہے اس کے آگے سربسجود ہیں، انسانی جسم میں ان عناصر کی ترکیب اس کے فرمان سے ہوئی ہے، اور انسان کا وجود ہر آن اس کی بندگی ہی پر منحصر ہے، تو آپ سے آپ بندگی و عبودیت انسان کی سرشت میں داخل ہوگئی ہے۔ گو وہ اس صاحب ِحکومت کو نہیں دیکھتا جس کا وہ بندہ ہے، نہ دنیوی حکومتوں کی طرح اس خدائی حکومت کے عامل اور نمایندے اس کے سامنے آتے ہیں، مگر چونکہ وہ بندہ ہی پیدا ہوا ہے، اور بلا ارادہ ہر وقت بندگی کر رہا ہے اور اس کے مالک کی حکومت نے ہر طرف سے ___ اندر سے بھی اور باہر سے بھی___اس کو اور اس کے گرد و پیش کی تمام چیزوں کو جکڑ رکھا ہے، اس لیے فطری طور پر اس کے اندر نیاز مندی، نیایش و گرایش، پرستش و عبودیت کا ایک گہرا جذبہ پیدا ہوتا ہے، اور اس کا دل بے اختیار کسی معبود کو تلاش کرتا ہے کہ اس کی حمد و ثنا کرے، اس سے اپنی حاجتوں میں مدد مانگے، اور ہر آفت سے اس کے دامن میں پناہ ڈھونڈے۔
یہی سرشت ہے جس نے ابتدائے آفرینش سے انسان کو تلاشِ معبود پر مجبور کیا ہے۔ اسی تحریک پر اس نے ہمیشہ پرستش کی کوئی نہ کوئی شکل اختیار کی ہے اور یہی وہ عنصر ہے جس سے مذہب کی پیدایش ہوئی ہے۔
لیکن جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے، فطرت نے ہر معاملے میں انسان کے اندر ایک مجرد طلب، ایک سادہ خواہش، ایک خالص کشش پیدا کرکے اس کو چھوڑ دیا ہے کہ اپنے مطلوب کو خود تلاش کرے۔ گویا یوں سمجھیے کہ فطرت، انسان سے آنکھ مچولی کھیلتی ہے۔ ایک نامعلوم چیز کی طلب پر اس کو اُکساتی ہے اور پردے کے پیچھے چھپ جاتی ہے تاکہ وہ اپنی عقل پر زور دے کر اپنے حواس سے کام لے کر معلوم کرے کہ اس کے دل میں جس چیز کی لگن لگی ہوئی ہے، اس کی فطرت جو چیز مانگ رہی ہے، وہ کیا ہے اور کہاں ہے، اور کس طرح اس کو حاصل کیا جائے؟
یہی وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر انسان کو مشکلات پیش آئی ہیں اور اس نے اپنی عقلی استعداد، اپنی قوتِ فکروتمیز کی رسائی اور اپنے ذوق و وجدان کی صلاحیت کے مطابق اپنے لیے وہ مختلف راستے نکالے ہیں جو آج نوع انسانی کے تمدن و معاشرے کی گوناگونی میں ہم دیکھ رہے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ اس تلاش و جستجو اور اختیار و انتخاب میں فطرت نے کبھی اس کا ساتھ نہیں چھوڑا ہے۔ مگر جس طرح وہ ہر ہر قدم پر حیوانات کی رہنمائی کرتی ہے، اس طرح انسان کی رہنمائی نہیں کرتی۔ انسان کو وہ نہایت لطیف اشاروں میں ہدایت دیتی ہے، نہایت خفیف روشنی دکھاتی ہے جس کا ادراک معمولی عقل و بصیرت والے لوگ نہیں کرسکتے۔ اسی وجہ سے اکثر ایسا ہوا ہے کہ انسان کا اختیارِ تمیزی صحیح راستے کی تلاش میں ناکام ہوا ،اور ہوائے نفس اس کو غلط راستوں پر بھٹکا لے گئی۔
مثال کے طور پر غذا کی خواہش پیدا کرنے سے فطرت کا منشا تو یہ تھا کہ انسان ایسا مواد اپنے جسم کو مہیا کرے، جس سے وہ زندہ رہ سکے اور تحلیل شدہ اجزا کا بدل اس کو ملتا رہے۔ مگر بہت سے لوگ اس خوردن برائے زیستن کی حقیقت کو نہ سمجھے۔ تلاش غذا پر ابھارنے کے لیے جو ذائقہ کی چاشنی فطرت نے اس کے کام و دہن میں لگا دی تھی، اس کو وہ اصل مقصود سمجھ بیٹھے اور ہوائے نفس ان کو زیستن برائے خوردن کی غلط فہمی میں مبتلا کرکے فطرت کے اصل منشا سے دُور ہٹا لے گئی۔ اسی طرح لباس اور مکان کی طلب دراصل موسمی اثرات سے جسم کو محفوظ رکھنے کے لیے پیدا کی گئی تھی۔ مگر ہوائے نفس نے اس کو بھڑک اور تفاخر اور اظہارِ شان و ترفع کا ذریعہ بنا لیا، اور انسان فطرت کے منشا سے تجاوز کرکے انواع و اقسام کے نفیس لباس اور عالی شان محل بنانے لگا، جو آخر کار خود اسی کے لیے مضرت رساں ثابت ہوئے۔
یہی حال ان تمام داعیاتِ فطرت کا ہوا ہے، جنھوں نے انسان میں مختلف چیزوں کی طلب پیدا کی، اور انسان نے فطرت کے منشا کو نہ سمجھ کر، یا بسا اوقات سمجھنے کے باوجود نظر انداز کرکے، اپنے اختیار سے اس طلب کو پورا کرنے کے لیے وہ مختلف ڈھنگ اور طریقے نکال لیے، جوفطرت کے اصل مقصد سے زائد اور بہت سے معاملات میں اس کے خلاف تھے۔ پھر یہی چیزیں اگلوں سے پچھلوں تک تمدن و تہذیب، رسم و رواج اور آداب و اطوار بن کر پہنچیں، جن کی گرفت نے بعد کی انسانی نسلوں کو ایسا جکڑا کہ فطرت کی رہنمائی کو سمجھنا تو درکنار، ان کے لیے اپنے اختیارِ تمیزی کو استعمال کرنے کی آزادی بھی باقی نہ رہی، اور اسلاف کے طریقوں نے مقدس قوانین بن کر ان کو اندھی تقلید کے رستے پر ڈال دیا۔ حالانکہ فطرت جس طرح پہلے انسان کو لطیف اشارے اور خفیف ہدایتیں دے رہی تھی، اسی طرح آج بھی دے رہی ہے اور ہمیشہ دیتی رہے گی، جنھیں عقل سلیم تھوڑے یا بہت اجتہاد سے ہر وقت سمجھ سکتی ہے۔
تلاشِ معبود کی فطری خواہش کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ پیش آیا ہے۔
جب انسان نے عبادت کے جذبے سے بے چین ہو کر اپنے لیے کسی معبود کو ڈھونڈنا شروع کیا، تو فطرت اپنے اسی لطیف انداز میں اس کو معبودِ حقیقی کے اَتے پتے دینے لگی کہ ’تیرا معبود وہ ہے جس نے تجھے پیدا کیا ہے، جو تجھ سے بالاتر ہے، جس کی قوت کے سامنے تو عاجز ہے، جو ہرچیز پر غالب ہے، جو تجھے اور ہر جان دار کو روزی دیتا ہے، جو اپنے حُسن و جمال اور خوبی و رعنائی کی بنا پر ہر طرح تیری مدح و ستایش کا مستحق ہے، جس کا نور آفتاب و ماہتاب اور ستاروں کو روشنی دیتا ہے، جس کا جمال اپنے جلووں سے آب و گل کی مورتوں کو یہ جو بن اور یہ نکھار اور یہ دل فریب حُسن بخشتا ہے، جس کا جلال پانی کی موج، ہوا کے طوفان، زمین کی لرزش، پہاڑ کی سربلندی، شیر کی درندگی اور سانپ کی گزیدگی میں اپنی شوکت کا اظہار کرتا ہے، جس کی ربوبیت ماں کے سینے میں محبت و شفقت بن کر، گائے کے تھن میں دودھ بن کر، پتھر کے کلیجے میں پانی بن کر ظہور کرتی ہے‘۔
یہ لطیف اشارے ہر زمانے میں مختلف سمجھ بوجھ کے لوگوں کو دیئے گئے، اور ہر ایک نے اپنی بساط کے مطابق اتوں پتوں سے اس پہیلی کو بوجھنے کی کوشش کی۔ جب انسان اپنی ابتدائی فطری حالت (State of Nature) میں تھا تو وہ ان اشاروں کو صاف سمجھتا تھا اور اس ایک ہی معبود کے آگے جھکتا تھا، جس کی طرف یہ اشارے ہورہے تھے۔ مگر جب وہ اس حالت سے آگے بڑھا اور استدلالی فکر کی راہ پر چلنے لگا تو اس کی سرگردانیوں کا آغاز ہوگیا۔
کسی نے ان صفات کے معبود کو زمین پر تلاش کیا اور پہاڑوں، دریائوں، درختوں اور نفع و ضرر پہنچانے والے جانوروں پر فریفتہ ہوگیا، صنفی اعضا کو پوجنے لگا، آگ کے سامنے دھونی رما بیٹھا، ہوا کے آگے سر بسجود ہوا، دھرتی ماتا کو عقیدت کا خراج دینے لگا۔ غرض اس کی نظر آس پاس ہی کے مناظر میں الجھ کر رہ گئی۔
کسی کی نظر اس سے آگے بڑھی۔ وہ ارضی معبودوں سے مطمئن نہ ہوا۔ اس نے دیکھا کہ یہ سب چیزیں تو اسی کی طرح کسی اور کی بندگی میں مبتلا ہیں، خود اپنے وجود و بقا کے لیے بھی غیر کی محتاج ہیں، ان کے پاس کیا رکھا ہے جس کے لیے ہم استعانت کا ہاتھ بڑھائیں اور عقیدت کی پیشانی جھکائیں۔ آخر اس نے زمین کو چھوڑ کر آسمان پر اپنے معبود کو تلاش کیا۔ سورج کو دیکھا، چاند پر نظر ڈالی، اجرامِ فلکیہ کی چمک دمک دیکھی اور کہا کہ ’یہ ہیں عبادت کے لائق‘۔
مگر جو اس سے زیادہ باریک بین تھا اس کو آسمان والوں کا حال بھی زمین والوں سے کچھ زیادہ مختلف نظر نہ آیا۔ اس نے کہا یہ لاکھ بلند تر و برتر سہی، روشن اور روشن گر سہی۔ لیکن اپنے اختیار سے کیا کر سکتے ہیں؟ ایک مقرر قانون، ایک لگے بندھے نظام کے تحت گردش کیے جارہے ہیں۔ سورج کو بایں ہمہ عظمت و بزرگی آج تک یہ مجال نہ ہوئی کہ مشرق کے بجائے کسی روز مغرب سے نکل آتا یا اپنے مقام سے ایک ہی انچ سرک جاتا۔ چاند کبھی اس قابل نہ ہوا کہ جو دن اس کے ہلال بننے کا تھا، اس دن بدر بن کر نکلتا۔ اسی طرح کوئی اور سیارہ بھی اپنی مقرر گردش سے یک سرمُو تجاوز نہ کرسکا۔
اس بندگی، بے چارگی، کھلی ہوئی غلامی کو دیکھ کر اس جویائے معبود نے آسمان سے بھی منہ موڑ لیا، تمام مادی و جسمانی چیزوں کو ناقابل پرستش قرار دیا، اور اپنے معبود کی تلاش میں معانی مجردہ (Abstract Ideas)اور روحانیات کی طرف پیش قدمی کی۔ نور کا پروانہ بنا، دولت کی دیوی کا فریفتہ ہوا، محبت کے دیوتا پر ریجھا، حسن کی دیوی کا گرویدہ ہوا، قوت کے دیوتا کو سجدہ کیا، مدبرات عالم (World Forces )کے ہیکل تجویز کیے اور ان کی عبادت اختیار کی، ارواح اور عقول (logos) اور ملائکہ کو مسجود بنایا اور سمجھا کہ یہی عبادت کے لائق ہیں۔
اس طرح کائنات کی ہر وہ چیز جس کے اندر مختلف قابلیتوں کے لوگوں کو اپنی اپنی فکر کی رسائی اور نظر کی استعداد کے مطابق برتری، ربوبیت، نعمت بخشی، قدرتِ حُسن و جمال، قہر و جلال، اور خالقیت کی جھلک نظر آئی، اس کے آگے جھک گئے اور فطرت کے دیئے ہوئے سراغ پر جو شخص جتنی دُور جاسکا، گیا، اور ٹھیر گیا۔ مگر جو لوگ زیادہ صحیح وجدان، زیادہ لطیف ادراک اور زیادہ سلیم عقل رکھتے تھے، اور فطرت کے بتائے ہوئے نشانات پر ٹھیک ٹھیک سفر کر رہے تھے وہ ان اراضی و سماوی معبودوں اور روحانی و خیالی دیوتائوں میں سے ایک سے بھی مطمئن نہ ہوئے۔ بیچ کی منازل میں سے ایک پر بھی نہ ٹھیرے اور بڑھتے بڑھتے اس منزل پر پہنچ گئے، جہاں انھیں کائنات کی تمام مادی، روحانی، ذہنی، علوی اور سفلی قوتیں کسی اور کی گرفت میں جکڑی ہوئی، کسی اور کی بندگی میں مشغول، کسی اور کے آگے جھکی ہوئی، کسی اور کی تسبیح پڑھتی ہوئی نظر آگئیں۔ یہاں انھوں نے اپنے دل کے کانوں سے یہ آواز سنی:
لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ ۲۵ (انبیاء ۲۱:۲۵) میرے سوا کوئی معبود نہیں، پس تم میری ہی عبادت کرو۔
یہ اسی معبود کی آواز تھی جس کی تلاش میں وہ چلے تھے۔ طالب کو قریب پاکر مطلوب خود پکار اٹھا۔ اس نے آپ ہی آگے بڑھ کر اپنا پتہ بتا دیا۔ یہاں پہنچ کر سفر ختم ہوگیا، منزل مقصود مل گئی، اور ڈھونڈنے والے مطمئن ہوگئے۔[۴]
یہ حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس آخری ہدایت کو پانے کے بعد بھی کوئی مزید تلاش و جستجو کے لیے بے چین نہ ہوا۔ بے چینی، بے قراری، بے اطمینانی جو کچھ بھی تھی بیچ کی منزلوں میں تھی۔ آخری منزل پر پہنچ کر ہر دل نے گواہی دی کہ جس کو ڈھونڈ رہے تھے وہ یہی ہے۔ اب کسی تلاش و جستجو کی حاجت نہیں:
اَلَا بِذِكْرِ اللہِ تَطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ ۲۸ (الرعد ۱۳:۲۸) خبردار رہو! اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے۔
انسان اپنے معبود کی تلاش میں جب تک خدائے واحد تک نہ پہنچا، بے چین رہا، غیر مطمئن رہا، اس کے دل میں تلاش کی بے کلی اور جستجو کی کھٹک برابر چٹکیاں لیتی رہی، مگر جب خدائے واحد کو اس نے پالیا تو اس کا دل مطمئن ہوگیا۔ پھر کبھی اس نے تلاش معبود کی بے چینی محسوس نہ کی۔
اب سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ کیا وجہ ہے کہ تلاش معبود کا یہ سفر خدا کے سوا کسی غیر پر ختم نہیں ہوا اور خدا تک پہنچ کر ایسا ختم ہوا کہ پھر کسی اور کی جستجو دل میں پیدا ہی نہ ہوئی؟
غور کرنے سے اس کی ایک ہی وجہ سمجھ میں آتی ہے، اور وہ یہ ہے کہ انسان کو جو فطری جذبہ پرستش پر مجبور کرتا ہے، اس کا اصل مقصد خدائے واحد ہی کی پرستش ہے۔ جب تک وہ اپنے اس معبود حقیقی کو نہیں پہنچ جاتا، مطمئن نہیں ہوتا اور نہیں ہوسکتا۔ یہ دوسری بات ہے کہ عقل و فکر کی نارسائی، یا تعصب اور ہٹ دھرمی، یا آباو اجداد کی اندھی تقلید بعض افراد کو یہ بے اطمینانی محسوس نہ ہونے دے۔
جیسا کہ ہم اوپر کہہ چکے ہیں، انسان کے اندر پرستش کا فطری جذبہ پیدا ہی اس وجہ سے ہوتا ہے کہ اس کے گرد و پیش کائنات کا ذرہ ذرہ خدا کی بندگی میں مشغول ہے۔ ایسی حالت میں جب ایک ظلوم و جہول انسان خدا سے ناواقف ہو کر غیر خدا کی پرستش کے لیے جھکتا ہے، تو اس کے گرد و پیش کا کوئی عنصر، حتیٰ کہ خود اس کے اپنے جسم کا بھی کوئی جز اس کا ساتھ نہیں دیتا۔ وہ جن پائوں سے اپنے خود ساختہ معبود کی طرف بڑھتا ہے، وہ خدا کی عبادت میں چلتے ہیں۔ جن ہاتھوں سے اس کے آگے نذر پیش کرتا ہے، وہ خدا کی بندگی میں حرکت کرتے ہیں۔ جس پیشانی سے اس کو سجدہ کرتا ہے وہ خدا کے سجدے میں جھکی ہوئی ہوتی ہے۔ جس زبان سے اس کی بڑائی بیان کرتا ہے، وہ خدا کی تقدیس و تمجید میں مشغول ہوتی ہے۔
ایسی حالت میں اس کی یہ ساری پرستش، یہ تمام نیائش و گرائش ایک جھوٹ، ایک افترا، ایک بہتان، ایک صریح جعل ہوتی ہے، جس کے بطلان پر کائنات کا ہر ذرہ گواہی دیتا ہے، اور خود انسان کی فطرت اپنی لطیف وغیر محسوس آواز میں بار بار اسے تنبیہ کرتی ہے کہ یہ تو کس دھوکے میں پڑگیا ہے؟ کیا تجھے بندے کی بندگی، پرستار کی پرستش، فرماںبردار کی فرماںبرداری کرتے شرم نہیں آتی:
اُفٍّ لَّكُمْ وَلِمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ ط (انبیاء۲۱:۶۷) تُف ہے تم پر اور تمھارے ان معبودوں پر جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر پوجا کر رہے ہو۔
’پرستش‘ دراصل ’بندگی‘ کی فرع ہے اور اپنی عین فطرت کے اقتضا سے اپنی اصل کے ساتھ رہنا چاہتی ہے۔ جب انسان اپنے جہل اور بے خبری کی بنا پر ’فرع‘ کو ’اصل‘ سے جدا کرتا ہے ___ بندگی ایک کی کرتا ہے اور پرستش دوسرے کی ___ تو یہ تفریق سراسر فطرت کے خلاف واقع ہوتی ہے اور ایک نہایت خفی و غیر محسوس تحت الشعوری بے اطمینانی پیدا ہو جاتی ہے۔ بخلاف اس کے جب نادانی کا پردہ درمیان سے اٹھ جاتا ہے ___ انسان کو اس حقیقت کا علم ہو جاتا ہے کہ معبود وہی ہے جو مالک اور خالق اور پروردگار ہے تو بندگی اور پرستش دونوں یکجا ہو جاتی ہیں، فرع اصل سے مل جاتی ہے، بیٹی اپنی ماں کی آغوش میں پہنچ جاتی ہے، اور اس وصال سے وہ لطف، وہ مزا، وہ اطمینان قلب حاصل ہوتا ہے، جو ہجر و فراق کی حالت میں مفقود تھا۔
بندگی اور پرستش کی یہی مواصلت ہے، جس سے انسان کو دوسری مخلوقات پر شرف حاصل ہوتا ہے، اور وہ اس مرتبہ پر پہنچتا ہے، جسے خدا نے اپنی خلافت و نیابت قرار دیا ہے۔
عرض کر چکا ہوں کہ خدا کی بندگی تو انسان آپ سے آپ بلا عمد و اختیار، بغیر جانے بوجھے کر ہی رہا ہے، اور ٹھیک اسی طرح کر رہا ہے، جس طرح لایعقل حیوان، بے شعور درخت، بے جان پتھر کر رہے ہیں۔ اس حیثیت سے اس میں اور دوسری مخلوقات میں کوئی فرق نہیں۔ اور اس بندگی کا جو انعام ہے، یعنی فیضانِ وجود اور عطائے رزق، اس میں بھی وہ فی الحقیقت دوسری مخلوقات سے ممتاز نہیں ہے۔ فرق و امتیاز اور برتری و شرف جو کچھ ہے، اس امر میں ہے کہ دوسری موجودات کے برخلاف جو عقل و شعور، جو آزادیٔ ارادہ و اختیار، اور جو قوت علمیہ انسان کو دی گئی ہے اس سے کام لے کر وہ اُس کو پہچانے جس کا وہ بندہ ہے، اور بالاختیار بھی اسی کی عبادت اور پرستش کرے، جس کی وہ بلا اختیار بندگی کر رہا ہے۔ اگر اس نے ایسا نہ کیا اور اپنی عقل اور قوت علمیہ سے اپنے مالک کی معرفت حاصل نہ کی، اور اپنے اختیار کے حدود میں اس کو چھوڑ کر دوسروں کی عبادت اور پرستش شروع کر دی تو شرف کیسا، وہ تو جانوروں سے بھی بدتر ہوگیا:
لَہُمْ قُلُوْبٌ لَّا يَفْقَہُوْنَ بِہَا۰ۡوَلَہُمْ اَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُوْنَ بِہَا۰ۡوَلَہُمْ اٰذَانٌ لَّا يَسْمَعُوْنَ بِہَا۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْغٰفِلُوْنَ ۱۷۹ (اعراف ۷:۱۷۹) ان کے پاس دل و دماغ ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں۔ ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں۔ ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں۔ وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے، یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے گئے ہیں۔
بجائے خود عقل اور قوت علمیہ میں کوئی شرف اور برتری نہیں ہے۔ یہ تو محض حصول شرف کے لیے ایک آلہ ہے اور اس آلے نے انسان کو یہ استعداد بہم پہنچا دی ہے کہ اس سے ٹھیک ٹھیک کام لے کر وہ بندگیٔ اضطراری کے حیوانی مقام سے ترقی کرکے عبادتِ اختیاری کے انسانی مقام پر پہنچ سکے۔ لیکن اگر انسان نے اس آلے سے غلط کام لیا، اور اس کو چھوڑ کر جس کا وہ بندہ ہے ان کی عبادت اختیار کی جن کا فی الحقیقت وہ بندہ نہیں ہے،[۵] تو وہ حیوانی مقام سے بھی نیچے اتر گیا۔ حیوان گمراہ تو نہ تھا، یہ گمراہ ہوا۔ حیوان منکر تو نہ تھا، یہ منکر ہوا۔ حیوان کافر و مشرک تو نہ تھا، یہ کافر و مشرک ہوگیا۔ حیوان جس مقام پر پیدا کیا گیا تھا، اسی مقام پر وہ رہا۔ اور حیوان ہونے کی حیثیت سے یہ بھی اسی مقام پر ہے، مگر انسان ہونے کی حیثیت سے جو ترقی اس کو کرنی چاہیے تھی وہ اس نے نہ کی، بلکہ اُلٹا تنزل کی طرف چلا گیا۔
ترقی کے لیے اس کو جو عقل کا آلہ دیا گیا تھا اس کو اس نے انسانی ترقی کے لیے استعمال نہ کیا بلکہ حیوانیت میں ترقی کرنے کے لیے استعمال کیا۔ اس نے دُوربین بنائی کہ حیوان جتنی دُور کی چیز دیکھ سکتا ہے اس سے زیادہ دُور کی چیز یہ دیکھ سکے۔ اس نے ریڈیو ایجاد کیا کہ حیوان جتنی دُور کی آواز سن سکتا ہے اس سے زیادہ دُور کی آواز یہ سن سکے، اس نے ریل اور موٹر بنائی کہ حیوان جس قدر قطع مسافت کرسکتا ہے اس سے زیادہ یہ کرسکے۔ اس نے ہوائی جہاز بنائے کہ اڑنے میں پرندوں سے بازی لے جائے۔ اس نے بحری جہاز بنائے کہ تیرنے میں مچھلیوں کو مات کر دے۔ اس نے آلات حرب بنائے کہ لڑنے میں درندوں پر سبقت لے جائے۔ اس نے عیش و عشرت کے سامان فراہم کیے کہ جانوروں سے زیادہ پُرلطف زندگی بسر کرے۔ مگر کیا ان ترقیات کے باوجود یہ مقام حیوانی سے کچھ بھی بلند ہوا؟ عقل و علم کے ذریعے سے عالم مادی میں جتنے تصرفات یہ کر رہا ہے، وہ سب کے سب انھی قوانین فطرت کے ماتحت توہیں جن کے تحت عقل و علم کے بغیر حیوانات ایک محدود پیمانے پر ایسے ہی تصرفات کرتے ہیں۔ پس یہ تو وہی بندگیٔ اضطراری کا مقام ہوا جس میں حیوان ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ حیوان نے کمتر درجے کی بندگی کی، کم تر درجے کا رزق پایا۔ اس نے عقل و علم کی قوت سے اعلیٰ درجے کی بندگی کی، اعلیٰ درجے کے رزق کا مستحق ہوا۔ حیوان کو گھاس ملتی تھی۔ اس کو توس اور مکھن ملا۔ حیوان کو صوف اور اُون ملتا تھا۔ اس کو نفیس کپڑے ملے۔ حیوان کو گھونسلے میں جگہ دی جاتی تھی۔ اس کو بنگلوں اور کوٹھیوں میں ٹھیرایا گیا۔ حیوان کو پیدل دوڑنا پڑتا تھا اس کو موٹر دے دی گئی۔ یہ اس کی حیوانی بندگی اور اس کی اضطراری عبادت کا کافی انعام ہے۔ مگر دیکھنا یہ ہے کہ ترقی کا جو آلہ اس کو دیاگیا تھا اس سے اس نے ترقی کیا کی؟
ترقی کے معنی تو یہ تھے کہ حیوان ہونے کی حیثیت سے جس کو بے اختیار سجدہ کر رہا ہے، انسان ہونے کی حیثیت سے اختیاری سجدہ بھی اسی کو کرتا۔ حیوان ہونے کی حیثیت سے جس کے حکم تکوینی (Natural Law)کی اطاعت کر رہا ہے، انسان ہونے کی حیثیت سے اسی کے حکم شرعی (Moral Law) کی اطاعت بھی کرتا۔ اگر یہ ترقی اس نے کی تو بے شک یہ حیوانات اور تمام موجودات پر شرف لے گیا، اس نے بالفعل وہ خلافت حاصل کرلی جس کی قوت و استعداد اس کو دی گئی تھی۔ اس نے تمام موجودات سے بڑھ کر اپنے خالق کی بندگی و عبادت کی، اس لیے تمام موجودات عالم سے زیادہ اجر کا مستحق ہوگیا۔ لیکن اگر یہ ترقی اس نے نہ کی اور آلۂ ترقی کے غلط استعمال سے الٹا تنزل کی پستیوں میں اُتر گیا تو بلا شائبہ شک و ریب تمام اسافل سے اسفل اور تمام اراذل سے ارذل بن گیا ___ اس نے خود اپنی حماقت سے اپنے کو عذاب کا مستحق بنا لیا۔[۶]
لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْٓ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ۴ۡ ثُمَّ رَدَدْنٰہُ اَسْفَلَ سٰفِلِيْنَ۵ۙ اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَہُمْ اَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُوْنٍ۶ۭ (التین ۹۵:۴-۶) ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا، پھر اس کو تمام ادنیٰ درجہ والوں سے بھی ادنیٰ درجے میں پھیر دیا بجز ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور جنھوں نے نیک عمل کیے کہ ان کے لیے بے نہایت اجر ہے۔
یہ اجمال ان تفصیلات کی طرف اشارہ کر رہا ہے، جو اوپر بیان ہوئی ہیں۔ ’بہترین ساخت‘ سے مراد ترقی کی وہ قوت و استعداد ہے جو انسان کو زمین کی تمام مخلوقات سے بڑھ کر دی گئی ہے۔ مگر محض بہترین ساخت پر ہونا بالفعل ترقی نہیں ہے۔
ترقی کا انحصار اس پر ہے کہ انسان اس قوت و استعداد سے کام لے کر اپنے خالق کی معرفت حاصل کرے، جس کے انتہائی مرتبے کا نام ’ایمان‘ ہے، اور اس کے حکم شرعی کے تحت دنیا میں کام کرے جس کو ’عمل صالح‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ جس نے یہ نہ کیا وہ ادنیٰ درجے کی مخلوقات سے بھی فروتر درجے میں گر گیا۔ اور جس نے یہ ترقی کرلی وہ ’اجر غیرممنون‘ کا مستحق ہوگیا۔ یعنی ایسا اجر جو کبھی بند ہونے والا نہیں ہے، جو دنیا کی اس زندگی سے لے کر آخرت کی زندگی تک بلانہایت چلتا ہے۔ بندگیٔ اضطراری کے صلے میں جو اجر ملتا ہے، وہ تو منقطع ہو جاتا ہے۔ بس ایک اجل مقرر تک ہی زندگی عطا کی جاتی ہے اور ایک حدِ خاص تک ہی رزق دیا جاتا ہے۔ مگر عبادتِ اختیاری کے صلے میں وہ عیش نصیب ہوتا ہے جو خلل سے پاک ہے، وہ رزق میسر آتا ہے جس کے بند ہونے کا کوئی خوف نہیں۔
اب ہم اس مقام پر پہنچ گئے ہیں، جہاں عبادت کا صحیح اور مکمل مفہوم واضح طور پر ہمارے سامنے آجاتا ہے۔ اوپر جو کچھ کہا گیا ہے اس کے مطالعے سے معلوم ہو چکا ہے کہ عبادت کے اجزائے معنوی دو ہیں، جن کی ترکیب سے عبادت کا مفہوم مکمل ہوتا ہے۔ ایک، بندگی، یعنی قانون فطرت کی ٹھیک ٹھیک پیروی اور اس سے منحرف نہ ہونا۔ دوسرے، پرستش جو اپنی تکمیل کے لیے دوچیزوں کی محتاج ہے:
۱- اپنے حقیقی معبود، یعنی خدائے واحد کی ایسی معرفت جو بالکل خالص ہو، جس میں شرک کا شائبہ تک نہ ہو، جس میں کفر و انکار اور شک و ریب کی ذرّہ برابر آمیزش نہ ہو۔ جس میں خدا کے سوا کسی کا خوف نہ ہو، کسی کے انعام کی طمع نہ ہو، کسی پر اعتماد و توکّل نہ ہو، کسی کی طرف الہٰیت و ربوبیت کو منسوب نہ کیا جائے، کسی کو نافع و ضار نہ سمجھا جائے، کسی سے عبدیت کا تعلق وابستہ نہ کیا جائے۔ اسی کا نام ’ایمان‘ ہے۔
۲- اپنی زندگی کے اختیاری شعبے میں اس معبود کے حکم شرعی کی اسی طرح اطاعت کرنا، جس طرح اضطراری شعبے میں اس کے حکم تکوینی کی اطاعت کی جاتی ہے، تاکہ ساری زندگی ایک ہی فرماںروا، ایک ہی حکومت اور ایک ہی قانون کی تابع فرمان ہو کر ہم رنگ وہم آہنگ ہو جائے اور اس میں کسی حیثیت سے بھی دورنگی اور ناہمواری باقی نہ رہے۔ اسی کو ’عمل صالح‘ کہتے ہیں۔
غلط کہتا ہے جو کہتا ہے کہ یہ ’عبادت صرف تسبیح و مصلّٰی اور خانقاہ تک محدود ہے‘۔
مومن صالح صرف اسی وقت اللہ کا عبادت گزار نہیں ہوتا جب وہ دن میں پانچ وقت نماز پڑھتا ہے، اور بارہ مہینوں میں ایک مہینے کے روزے رکھتا ہے اور سال میں ایک وقت زکوٰۃ دیتا ہے اور عمر بھر میں ایک مرتبہ حج کرتا ہے، بلکہ درحقیقت اس کی ساری زندگی عبادت ہی عبادت ہے:
پس، حق یہ ہے کہ اللہ کے قانون کی پیروی اور اس کی شریعت کے اتباع میں انسان دین اور دنیا کا جو کام بھی کرتا ہے وہ سراسر عبادت ہے، حتیٰ کہ بازاروں میں اس کی خرید و فروخت اور اپنے اہل و عیال میں اس کی معاشرت اور اپنے خالص دنیوی اشغال میں اس کا انہماک بھی عبادت ہے۔
مگر یہ عبادت کا ادنیٰ مرتبہ ہے۔ اس عبادت کی مثال ایسی ہے، جیسے رعیت کے عام افراد اپنے بادشاہ کے قانون کی پیروی اور اس کے فرامین کی اطاعت کرتے ہیں۔
اس سے بڑا درجہ یہ ہے کہ انسان اپنے مالک کا نوکر بن جائے اور اس کے قوانین کی نہ صرف خود پیروی کرے بلکہ دوسروں پر بھی ان کو نافذ کرنے کی کوشش کرے۔ اس کے احکام پر نہ صرف خود عامل ہو بلکہ دنیا میں ان کے اِجرا کے لیے بھی جدوجہد کرے۔ اس کی حکومت میں نہ صرف خود امن اور وفاداری اور اطاعت کیشی کے ساتھ رہے بلکہ اپنے دل و دماغ اور دست و بازو کی قوتیں امن کے قیام میں، بگڑی ہوئی رعایا کی اصلاح میں اور باغی و سرکش بندوں کی سرکوبی میں بھی صرف کرے اور اس خدمت میں اپنا تن من دھن سب کچھ نثار کردے:
اسی نے تمھارا نام پہلے بھی مسلم رکھا تھا اور اس کتاب میں بھی، تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ ہو۔ پس نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور اللہ کے رستے پر جمے رہو۔
یہ ہے اس عبادت کی حقیقت جس کے متعلق لوگوں نے سمجھ رکھا ہے کہ وہ محض نماز، روزہ اور تسبیح و تہلیل کا نام ہے اور دنیا کے معاملات سے اس کو کچھ سروکار نہیں۔ حالانکہ دراصل صوم و صلوٰۃ اور حج و زکوٰۃ اور ذکر و تسبیح انسان کو اس بڑی عبادت کے لیے مستعد کرنے والی تمرینات (Training Courses)ہیں، جو انسان کی زندگی کو حیوانی زندگی کے ادنیٰ مقام سے اٹھا کر انسانی زندگی کے بلند ترین مقام پر لے جاتی ہیں۔ اس کو اضطرار و اختیار دونوں میں اپنے مالک کا مطیع و فرماںبردار بندہ بنا دیتی ہیں، اور اسے بادشاۂ حقیقی کی سلطنت کا ایسا ملازم بناتی ہیں کہ اس کی خدمت وہ اپنے جسم و جان کی ساری قوتوں کے ساتھ اپنی زندگی کے ہر لمحے میں کرتا ہے۔
جب انسان عبادت سے اس مرتبے پر پہنچ جاتا ہے تو اس کو وہ شرف حاصل ہوتا ہے، جس میں کائنات کی کوئی مخلوق اس کی ہمسری کا دعویٰ نہیں کرسکتی۔ ملائکہ تک اس کے مقام سے فروتر ہوتے ہیں۔ وہ دنیا میں بالفعل خدا کا خلیفہ ہوتا ہے۔ اس کو خدا کے سوا کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ذلت نہیں دی جاتی۔ اس کی گردن میں خدا کی غلامی کے سوا کسی کی غلامی کا طوق نہیں ہوتا۔ اس کے پائوں میں خدا کی زنجیر کے سوا کسی کی زنجیر نہیں ہوتی۔ اس کا سر خدا کے حکم کے سوا کسی کے حکم کے آگے نہیں جھکتا۔ وہ خدا کا غلام اور سب کا آقا ہوتا ہے۔ وہ خدا کا محکوم اور سب کا حاکم ہوتا ہے۔ اس کو خدا کی طرف سے اس کی زمین پر حکومت کا حق حاصل ہوجاتا ہے۔ وہ فرعون و نمرود کی طرح باغی اور غاصب نہیں ہوتا، بلکہ شاہی فرمان سے زمین پر خدا کا نائب ہوتا ہے اور حق کے ساتھ فرماں روائی کرتا ہے:
یہ تو دنیا کا انعام ہے۔ اور آخرت کا انعام کیا ہے؟ یہ کہ:
افسوس کہ عبادت کے اس صحیح اور حقیقی مفہوم کو مسلمان بھول گئے۔ انھوں نے چند مخصوص اعمال کا نام عبادت رکھ لیا اور سمجھے کہ بس انھی اعمال کو انجام دینا عبادت ہے اور انھی کو انجام دے کر عبادت کا حق ادا کیا جاسکتا ہے۔
اس عظیم الشان غلط فہمی نے عوام اور خواص دونوں کو دھوکے میں ڈال دیا۔ عوام نے اپنے اوقات میں سے چند لمحے خدا کی عبادت کے لیے مختص کرکے باقی تمام اوقات کو اس سے آزاد کرلیا۔ قانون الٰہی کی دفعات میں سے ایک ایک دفعہ کی خلاف ورزی کی، حدود اللہ میں سے ایک ایک حد کو توڑا، جھوٹ بولے، غیبت کی، بدعہدیاں کیں، حرام کے مال کھائے، حق داروں کے حق مارے، کمزوروں پر ظلم کیا، نفس کی بندگی میں دل، آنکھ، ہاتھ اور پائوں سب کو نافرمانی کے لیے وقف کر دیا، مگر پانچ وقت کی نماز پڑھ لی، زبان اور حلق کی حد تک قرآن کی تلاوت کرلی، سال میں مہینے بھر کے روزے رکھ لیے، اپنے مال میں سے کچھ خیرات کردی، ایک مرتبہ حج بھی کر آئے اور سمجھے کہ ہم خدا کے عبادت گزار بندے ہیں۔
خواص نے اس کے برعکس دوسرا راستہ اختیار کیا۔ وہ تسبیح و مصلّٰی لے کر حجروں میں بیٹھ گئے۔
خدا کے بندے گمراہی میں مبتلا ہیں، دنیا میں ظلم پھیل رہا ہے۔ حق کی روشنی پر باطل کی ظلمت چھائی جارہی ہے، خدا کی زمین پر ظالموں اور باغیوں کا قبضہ ہو رہا ہے، الٰہی قوانین کے بجائے شیطانی قوانین کی بندگی خدا کے بندوں سے کرائی جارہی ہے، مگر یہ ہیں کہ نفل پر نفل پڑھ رہے ہیں، تسبیح کے دانوں کو گردش دے رہے ہیں، ہو حق کے نعرے لگا رہے ہیں، قرآن پڑھتے ہیں مگر محض ثوابِ تلاوت کی خاطر، حدیث پڑھتے ہیں مگر صرف تبرکا ً، سیرت پاک اور اسوۂ صحابہ پر وعظ فرماتے ہیں، مگر قصہ گوئی کا لطف اٹھانے کے سوا کچھ مقصود نہیں، دعوت الی الخیر اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور جہاد فی سبیل اللہ کا سبق نہ ان کو قرآن میں ملتا ہے، نہ حدیث میں، نہ سیرت پاک میں، نہ اسوۂ صحابہ میں۔
کیا یہ عبادت ہے؟ کیا یہی عبادت ہے کہ بدی کا طوفان تمھارے سامنے اُٹھ رہا ہو اور تم آنکھیں بند کیے ہوئے مراقبے میں مشغول رہو؟
کیا عبادت اسی کو کہتے ہیں کہ گمراہی کا سیلاب تمھارے حجرے کی دیواروں سے ٹکرا رہا ہو اور تم دروازہ بند کرکے نفل پر نفل پڑھے جائو؟
کیا عبادت اسی کا نام ہے کہ کفار چار دانگ عالم میں شیطانی فتوحات کے ڈنکے بجاتے پھریں، دنیا میں انھی کا علم پھیلے، انھی کی حکومت کار فرما ہو، انھی کا قانون رواج پائے، انھی کی تلوار چلے، انھی کے آگے بندگان خدا کی گردنیں جھکیں اور تم خدا کی زمین اور خدا کی مخلوق کو ان کے لیے چھوڑ کر نمازیں پڑھنے، روزے رکھنے اور ذکر و شغل کرنے میں منہمک ہو جائو؟
اگر عبادت یہی ہے جو تم کررہے ہو، اور اللہ کی عبادت کا حق اسی طرح ادا ہوتا ہے تو پھر یہ کیا ہے کہ عبادت تو تم کرو اور زمین کی حکومت و فرماںروائی دوسروں کو ملے؟ کیا معاذ اللہ، خدا کا وہ وعدہ جھوٹا ہے جو اس نے قرآن میں تم سے کیا تھا کہ:
وَعَدَ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِي الْاَرْضِ كَـمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ ۰۠ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَہُمْ دِيْنَہُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَہُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّہُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِہِمْ اَمْنًا ۰ۭ يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَـيْــــًٔـا۰ۭ (النور ۲۴:۵۵) تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے نیک عمل کیے ان سے اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ ان کو یقیناً زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے کے لوگوں کو بنا چکا ہے اور ضرور ان کے دین کو جسے اس نے ان کے لیے پسند کیا ہے مضبوطی کے ساتھ قائم کرے گا۔ اور بالیقین ان کی حالت ِخوف کو امن سے بدل دے گا بس وہ میری عبادت کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔
اگر خدا اپنے وعدے میں سچا ہے، اور اگر یہ واقعہ ہے کہ تمھاری اس عبادت کے باوجود نہ تم کو زمین کی خلافت حاصل ہے، نہ تمھارے دین کو تمکن نصیب ہے، نہ تم کو خوف کے بدلے میں امن میسر آتا ہے، تو تم کو سمجھنا چاہیے کہ تم اور تمھاری ساری قوم عبادت گزار نہیں بلکہ تارکِ عبادت ہے اور اسی ترکِ عبادت کا وبال ہے، جس نے تم کو دنیا میں ذلیل کر رکھا ہے۔
(ماہ نامہ ترجمان القرآن ،حیدرآباد، دکن، جولائی ۱۹۳۵ء، ص ۱۳-۲۷، یکم اگست،ص ۱۱-۲۱)
_______________
حواشی
[۱] بلکہ علم الانسان کی تازہ ترین تحقیقات سے تو یہ عجیب حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ اوّلین انسانی تہذیب کی حامل قوموں میں خالص توحید کا عقیدہ پایا جاتا ہے اور وہ شرک کے اثرات سے بالکل پاک ہیں (ملاحظہ ہو، کتاب علم الاقوام، مصنّفہ ڈاکٹر بیرن عمر رالف ایہرن فیلس[ترجمہ: ڈاکٹر سیّدعابد حسین]، شائع کردہ انجمن ترقی اُردو، دہلی، ۱۹۴۱ء، دو حصے)۔ یہ قرآن کریم کے اس بیان کی پوری پوری تصدیق ہے کہ انسان کا اوّلین مذہب توحید ہے اور شرک بعد کی پیداوار ہے۔ ان تحقیقات نے انیسویں صدی کے فلسفۂ مذہب کا نظریہ اُلٹ دیا۔(مصنف)
[۲] ان معلومات کے لیے کتابِ مذکور [علم الاقوام]کا مطالعہ بہت مفید ہوگا۔
[۳] معترض کہہ سکتا ہے کہ ایسے افراد بکثرت پائے جاتے ہیں اور ایسی جماعتیں بھی موجود ہیں اور تقریباً ہرزمانے میں موجود رہی ہیں، جن کا کوئی مذہب نہیں اور جو عملاً و اعتقاداً کسی کی عبادت نہیں کرتیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح مخنثوں کی ایک کثیرتعداد کا موجود ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ جذبۂ شہوت ایک فطری جذبہ نہیں ہے اور جس طرح مجردوں اور راہبوں کے ایک بڑے گروہ کا وجود اس بات کی دلیل نہیں کہ اَزدواج کی خواہش ایک فطری خواہش نہیں ہے، اسی طرح ایسے افراد یا جماعتوں کا موجود ہونا بھی جن کے اندر مخصوص اسباب کے تحت عبادت کا فطری جذبہ مُردہ یا بے حس ہوچکا ہے، اس دعوے کی دلیل نہیں بن سکتا کہ انسان میں عبادت کا جذبہ ایک فطری جذبہ نہیں ہے۔
[۴] آج کل مذہب پر لکھنے والے مصنّفین کا رجحان زیادہ تر تاریخی ارتقاء کے نظریہ کی طرف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انسان نے ابتدا شرک کی ادنیٰ شکلوں سے کی تھی۔ جوں جوں شعور بڑھتا گیا، معبودوں کا معیار اُونچا ہوتا گیا اور ان کی تعداد گھٹتی چلی گئی، یہاں تک کہ ترقی کرکے انسان توحید تک پہنچا۔ لیکن تاریخ خود اس تاریخی نظریہ کا ابطال کرتی ہے۔ مسیح سے ڈھائی ہزار برس پہلے حضرت ابراہیم ؑ خالص توحید کے پرستار تھے اور مسیح سے دو ہزار برس بعد آج بھی نوعِ انسانی میں کروڑوں آدمی شرک کے پرستار موجود ہیں۔ کیا یہ تاریخی ارتقاء کا ثبوت ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ادنیٰ ترین شرک سے لے کر بلند ترین توحید تک عبادت اور عقیدت کی تمام اقسام ہرزمانے میں پائی گئی ہیں اور آج تک پائی جاتی ہیں۔ تفاوت دراصل مختلف انسانوں کے عقلی و ذہنی مدارج میں ہے، نہ کہ تاریخی ترتیب میں۔
[۵] ان معبودوں میں انسان کی اپنی ہوائے نفس بھی شامل ہے، جو شخص خدا کی بندگی نہیں کرتا، وہ یا تو بتوں اور مصنوعی معبودوں کی بندگی کرتا ہے، یا فرعون صفت انسانوں کی، یا پھر اپنی خواہشات کی۔
[۶] یہ بحث نہایت غوروتامّل کی مستحق ہے۔ اس مسئلے میں بعض لوگوں نے سخت ٹھوکر کھائی ہے۔ وہ خدا کے قانونِ طبیعی یا حکم تکوینی کی اطاعت ہی کو اصل عبادت سمجھتے ہیں اور ان کا خیال یہ ہے کہ جو شخص یا گروہ اس عبادت کا حق ادا کردے وہی عابد اور صالح اور ان تمام وعدوں کا مستحق ہے جو قرآن میں صالحین سے کیے گئے ہیں۔ حالانکہ انسان سے جو عبادت مطلوب ہے وہ محض حکم تکوینی کی اطاعت ہی نہیں بلکہ حکم شرعی کی اطاعت بھی ہے۔
[۷] یعنی اپنی زبان سے، اخلاق سے ، کردار سے ، اپنی زندگی کے پورے رویے سے اور پھر اپنی قربانیوں سے، محنتوں سے، کوششوں سے اور جفاکشیوں سے اسلام کی صداقت پر گواہی دو۔ ایک طرف ساری دُنیا کے سامنے اپنے قول وعمل سے اسلام کا مظاہرہ بھی کرو اور دوسری طرف اسلام کی راہ میں جانفشانی کرکے یہ بھی ثابت کردو کہ تم واقعی اس دین پر ایمان لائے ہو، اور تمھارے نزدیک یہ ایسی صداقت ہے جس پر تن من دھن سب کچھ نثار کیا جاسکتا ہے۔