سورئہ مدثر بھی سورئہ مزمل کی طرح ابتدائی دور کی سورۃ ہے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ سورئہ مزمل کے نزول کے بعد جتنی زیادہ سخت کش مکش تھی خود اس سے زیادہ سخت کش مکش سورئہ مدثر کے نزول کے وقت تھی۔ اگرچہ زمانے کا فرق کچھ زیادہ نہیں ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت جب شروع ہوئی ہے اور آپ نے لوگوں کو ہانکے پکارے دین کی طرف بلانا شروع کیا تو ہرروز بُغض و عداوت کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ اس کے بڑھنے ، ترقی کرنے اور شدت اختیار کرنے میں ہفتے بھی نہیں لگتے۔ ایک دن کچھ سختی ہے اور دوسرے دن کچھ اور۔ اسی زمانے میں سورئہ مزمل نازل ہوئی جس میں ایک طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تربیت کا کورس بتایا گیا کہ ان کی عداوت کا مقابلہ تم کس طرح سے کرو۔ اسی زمانے میں سورئہ مدثر بھی نازل ہوئی۔
احادیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ راستے سے گزر رہے تھے کہ یکایک آپؐ کی نگاہ کسی چیز کی آہٹ محسوس کر کے آسمان کی طرف اُٹھی۔ آپؐ فرماتے ہیں کہ وہی جو غارِ حرا میں میرے پاس آیا تھا وہی آسمان کے اُوپر چھایا ہوا نظر آیا (حضرت جبریل ؑ)۔ اس نظارے کو دیکھ کر مجھ پر اس قدر ہول طاری ہوا کہ میں سیدھا گھر گیا اور میں نے جاکر کہا: مجھے اُوڑھا دو، مجھے اُوڑھا دو۔ اس حالت میں، جب کہ آپ اُوڑھے لپٹے لیٹے ہوئے تھے تو سورئہ مدثر نازل ہوئی۔
اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ ابتدائی دور کی سورہ ہے۔ آگے چل کر آپؐ کا تحمل بہت بڑھ گیا تھا۔ وہ مناظر جن کو ابتدا میں دیکھ کر آپؐ پر ہول کی کیفیت طاری ہوگئی تھی، اب وہ کیفیت ختم ہوگئی تھی۔ ابتدائی دور میں بالکل نیا نیا تجربہ تھا اور وہ مناظر دیکھنے میں آرہے تھے جو کبھی چشمِ تصور میں بھی نہ دیکھے ہوں گے۔ اس وجہ سے اس زمانے میں آپ پر ہول کی کیفیت طاری ہوگئی۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
یٰٓاََیُّھَا الْمُدَّثِّرُ o قُمْ فَاَنْذِرْ o وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ o وَثِیَابَکَ فَطَہِّرْ o وَالرُّجْزَ فَاہْجُرْ o وَلاَ تَمْنُنْ تَسْتَکْثِرُ o وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ o (المدثر ۷۴:۱-۷) اے اُوڑھ لپیٹ کر لیٹنے والے، اُٹھو اور خبردار کرو اور اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کرو۔ اور اپنے کپڑے پاک رکھو۔ اور گندگی سے دُور رہو۔ اور احسان نہ کرو زیادہ حاصل کرنے کے لیے اور اپنے رب کی خاطر صبر کرو۔
دثار عربی زبان میں ان کپڑوں کو کہتے ہیں جو اُوپر سے اُوڑھے جائیں ، جیسے کوئی چادر، لحاف یا کمبل کو اُوڑھ لیا جائے۔اسی طرح شعار ان کپڑوں کو کہتے ہیں جو جسم سے لگے ہوتے ہیں، جیسے کُرتا پاجامہ آدمی پہنتا ہے۔ مدثر سے مراد یہ ہے کہ آپؐ لحاف یا کمبل اُوڑھے ہوئے تھے۔ اس لیے فرمایا گیا کہ اے اُوڑھے لپٹے شخص اُٹھو اور ڈرائو اور متنبہ کرو، یعنی تمھارا کام اب اُوڑھ لپٹ کر لیٹنا نہیں ہے بلکہ تمھارے اُوپر ایک بھاری ذمہ داری ڈال دی گئی ہے۔ تمھارا کام یہ ہے کہ تم اُٹھو اور خلقِ خدا کو اُس بُرے انجام سے خبردار کرو جس کا انھیں اللہ کی نافرمانی اختیار کرنے، اللہ کے مقابلے میں بغاوت کرنے، اور کفروشرک اختیار کرنے کے نتیجے میں سامنا کرنا ہوگا ،اور جو ان کی غفلت اور خدا سے بغاوت کے نتیجے میں ان پر آنے والا ہے۔ اس انجام سے لوگوں کو خبردار کرو۔ انذار کے قریب قریب وہی معنی ہیں جو انگریزی زبان میں warning کے ہیں، یعنی متنبہ کرنا۔
وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ o (۷۴:۳) اور اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کرو۔
یعنی دنیا میں جتنی ہستیوں کی بڑائی کے اعلانات ہو رہے ہیں، ان کے مقابلے میں لوگ اپنے رب کو بھول گئے ہیں۔ کوئی لات کی بڑائی کا اعلان کر رہا ہے، کوئی ہبل کی بڑائی کا اعلان کر رہا ہے، کوئی قیصر کی بڑائی کا اعلان کر رہا ہے اور کوئی کسریٰ کی بڑائی کا اعلان کر رہا ہے۔ ان ساری بڑائیوں کے مقابلے میں تم اپنے رب کی کبریائی کا اعلان کرو۔
دوسرے الفاظ میں تیرے رب کے سوا جن جن کی بڑائیاں بیان کی جارہی ہیں ان سب کی بڑائی کی نفی کرو۔ اور یہ بیان کرو کہ اصل بڑائی میرے رب کی ہے، خواہ ستاروں اور سیاروں کی بڑائی بیان کی جارہی ہو، یا جنوں اور شیاطین کی بڑائی بیان کی جارہی ہو، یا انسانوں کی بڑائی بیان کی جارہی ہو، اور انسانوں میں انبیا ؑ اور اولیا کی بڑائی بیان کی جارہی ہو یا کسی اور کی۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ اس بات کا اعلان کرو کہ کوئی بڑا نہیں ہے صرف ایک تیرا رب بڑا ہے۔
وَثِیَابَکَ فَطَہِّرْ o(۷۴:۴) اور اپنے کپڑے پاک رکھو۔
اس کا لفظی ترجمہ تو یہ ہے کہ اپنے کپڑے پاک رکھو لیکن ہم اُردو زبان میں بھی کہتے ہیں کہ فلاں شخص پاک دامن ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کے دامن پر کوئی گندگی لگی ہوئی نہیں ہے ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے اخلاق نہایت پاکیزہ ہیں۔ وَثِیَابَکَ فَطَہِّرْ میں دونوں مفہوم شامل ہیں، یعنی اپنے لباس کو بھی پاکیزہ رکھو، اور اپنے اخلاق اور اپنی زندگی کو بھی پاکیزہ رکھو۔ ایک بھی دھبہ تمھارے دامن پر نہیں ہونا چاہیے، بے داغ کردار ہو۔ اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن پر کوئی دھبہ نہیں تھا اور نبوت سے پہلے کی زندگی بھی پاک تھی لیکن ان الفاظ کے معنی یہ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور زیادہ پاکیزگی اختیار کرنی چاہیے۔ فرمایا جا رہا ہے کہ جتنے پاک دامن تم پہلے تھے اس سے زیادہ پاک دامن بن کر رہو، تاکہ کوئی شخص بھی اس بات کی نشان دہی نہ کرسکے کہ جو شخص اپنے آپ کو رسولؐ کی حیثیت سے پیش کر رہا ہے اس کی زندگی پر یہ چھینٹ لگی ہوئی ہے۔ کہیں کوئی انگلی رکھ کر یہ نہ کہہ سکے کہ اس میں یہ عیب ہے، یہ خرابی اور یہ کمزوری ہے۔ لہٰذا اپنے آپ کو ہرعیب اور ہرخرابی سے بالاتر کرلو۔
وَلاَ تَمْنُنْ تَسْتَکْثِرُ o (۷۴:۵) اور گندگی سے دُور رہو۔
اس کے بھی دو معنی ہیں، یعنی اخلاقی گندگی اور ظاہری گندگی۔ اپنے آپ کو ہرقسم کی نجاستوں سے پاک کرو اور اس اخلاقی گندگی سے پاک کرو جو تمھارے سارے معاشرے میں پھیلی ہوئی ہے۔
دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ پورا معاشرہ جو انتہائی گندا ہے، اس معاشرے کے اندر جو شخص اخلاقی اصلاح کرنے کے لیے اُٹھے، اس کا یہ کام ہے کہ وہ ان ساری گندگیوں سے اپنے آپ کو بالکل الگ رکھے جو اس معاشرے میں پائی جاتی ہیں۔ اگر وہ ان گندگیوں میں سے کسی میں خود مبتلا ہوگیا تو پھر اس کی کیا اصلاح کرسکے گا۔ اس کی اصلاح وہ اسی صورت میںکرسکتا ہے ، جب کہ وہ ان ساری گندگیوں سے خود بچا ہوا ہو۔ کوئی شخص یہ نہ کہہ سکے کہ جن بُرائیوں سے تم ہمیں روک رہے ہو، تم خود ان کا ارتکاب کرچکے ہو۔ اسی لیے فرمایا: وَالرُّجْزَ فَاہْجُرْ کہ ہرقسم کی گندگیوں سے الگ رہو، اپنا دامن ہرطرح کی گندگی سے بچائو۔
جو شخص خدا کے راستے کی طرف بلانے کے لیے اُٹھے، وہ اگرظاہری اعتبار سے گندگی میں مبتلا ہو تو یہ چیز بھی خلقِ خدا کو اس سے متنفر کرنے والی ہے۔ اس کااخلاقی اثر لوگوں پر قائم نہیں ہوتا جب وہ یہ دیکھتے ہیں یہ شخص ایسا گندا رہتا ہے۔ اس کے بیٹھنے کی جگہ، اس کے لیٹنے کی جگہ، اس کے رہنے کی جگہ اگر گندی ہو تو ہرشخص کے دل میںاس سے کراہت ہوگی، اور کوئی بھی یہ توقع نہیں کرے گا کہ جو آدمی اتنا گندا رہتا ہے اس سے خود دنیا کو اخلاقی و روحانی طہارت حاصل ہوسکتی ہے۔ اس لیے فرمایا گیا کہ ظاہری گندگی اور مادی گندگی سے بھی پوری طرح پرہیز کرو۔ دوسری طرف اسی فقرے میں اس بات کی طرف بھی اشارہ کردیا گیا ہے کہ تمھارے گردوپیش پورے معاشرے میں جو گندگیاں پھیلی ہوئی ہیں، اپنا دامن ان سے بچائو اور پوری طرح ان سے پرہیز کرو۔ ظاہر بات ہے جو آدمی اصلاحِ خلق اور معاشرے کو درست کرنے کے لیے اُٹھا ہو، اگر وہ خود بھی ان خرابیوں میں مبتلا ہو جن کے اندر وہ معاشرہ مبتلا ہو، تو وہ ان کی کیا اصلاح کرسکے گا۔ وہ اسی صورت میں ان کی اصلاح کرسکتا ہے جب کوئی بھی شخص اس کے بارے میں نشان دہی نہ کرسکے کہ وہ اُن اخلاقی خرابیوں میں مبتلا ہے جن کی اصلاح کے لیے وہ کوشش کر رہا ہے۔ یہاں دونوں قسم کی گندگیاں مراد ہیں کہ ان دونوں سے بچا جائے اور پرہیز کیا جائے۔
وَلاَ تَمْنُنْ تَسْتَکْثِرُ o (۷۴:۶) اور احسان نہ کرو زیادہ حاصل کرنے کے لیے۔
تَمْنُنْ تَسْتَکْثِر کے معنی ہیں بے حد خدمت کرنا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خلقِ خدا کو خبردار کرنے کی خدمت کرنے کے لیے جب تم کھڑے ہو تو تمھارے دل میں یہ خیال نہ رہے کہ تم خلقِ خدا کے اُوپر کوئی احسان کر رہے ہو،اور تمھارے پیش نظر یہ نہ رہے کہ تم احسان کر کے اپنی ذات کے لیے زیادہ فائدے اُٹھائو۔ یہ چیز تمھارے پیش نظر نہیں رہنی چاہیے۔ دوسرے الفاظ میں یہ خدمت بے غرضانہ انجام دو۔ کسی قسم کا ذاتی فائدہ، کسی قسم کی دنیوی اغراض تمھارے سامنے نہیں ہونی چاہییں، بلکہ یہ خیال بھی نہیں ہونا چاہیے کہ تم کسی پر کوئی احسان کر رہے ہو۔ یہ ایک فرض ہے جو تم پر خدا کی طرف سے عائد کیا گیا ہے۔ اس فرض کو ایک فرض سمجھتے ہوئے تم انجام دو۔ یہ سمجھتے ہوئے انجام نہ دو کہ تم کسی پر احسان کر رہے ہو جس کا تمھیں کوئی بدلہ ان لوگوں کی طرف سے ملنا چاہیے جن کی تم نے یہ خدمت انجام دی۔ یہ وہی بات ہے جو قرآنِ مجید میں جگہ جگہ فرمائی گئی ہے کہ نبی ؑ کا یہ کام ہے کہ وہ کسی سے کوئی اجر طلب نہ کرے۔اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ (یونس ۱۰:۷۲)،یعنی میرا اجر تو اللہ کے ذمّے ہے ۔
مراد یہ ہے کہ یہ کام بے غرض ہے۔ کوئی ذاتی غرض اپنی نہ رکھو کہ کوئی شخص یہ کہہ سکے کہ یہ دعوت کا کام اس لیے لے کر اُٹھے ہیں کہ اپنی جایداد بنانا چاہتے ہیں، یا یہ دعوت کا کام اس لیے لے کر اُٹھے ہیں کہ اپنی آیندہ نسلوں کو امیر بناکر چھوڑ جانا چاہتے ہیں۔ تمھاری کوئی غرض اس چیز کی نشان دہی نہ کرے۔ جتنی دیر تک تم تبلیغ کا یہ کام کر رہے ہو، اللہ کے راستے کی طرف بلارہے ہو، تو کسی کا احسان مت لو۔ اس کام کو بے غرض کرو۔
وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ o (۷۴:۷) اور اپنے رب کی خاطر صبر کرو۔
’’صبر کرو ‘‘ کا لفظ خود اس بات کی نشان دہی کر رہا ہے کہ یہ بات کن حالات میں فرمائی گئی ہے۔ حالات یہ تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے راستے کی طرف بلانے کے لیے جب اُٹھے تو پورا معاشرہ آپ کے مقابلے میں دشمنی پر اُتر آیا۔ ہر طرف آپؐ کے خلاف الزامات اور تہمتیں تھیں۔ ہر طرف آپؐ پر گالیوں کی یلغار اور ہر ایک مخالفت کے لیے تیار تھا۔ بہت ہی کم انسان ایسے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے کے لیے تیار ہوئے ورنہ سارا معاشرہ آپؐ کا مخالف تھا۔ اس حالت میں فرمایا گیا کہ وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ ’’اپنے رب کی خاطر صبر کرو‘‘ ، یعنی ان حالات کا مقابلہ کسی اور وجہ سے نہیں صرف اس لیے کرو کہ میرے رب نے یہ خدمت میرے سپرد کی ہے اور یہ کام بہرحال مجھے کرنا ہے، نتیجہ خواہ کچھ بھی نکلے۔ ہرقسم کے حالات کا مقابلہ کرو اور صبر کرو۔
صورتِ حال یہ تھی کہ جو اللہ کا بندہ لوگوں کی بھلائی کے لیے کام کر رہا تھا، لوگ اس کے جواب میں اس کو گالیاں دے رہے تھے۔ یہ اللہ کا بندہ لوگوں کو خدا کے عذاب سے بچانے کی کوشش کر رہا تھا اور لوگ اسے دنیا میں عذاب میں مبتلا کر رہے تھے۔ اسے ہر طرح کی تکلیفیں اور ہر طرح کی اذیتیں دے رہے تھے۔ اس حالت میں فرمایا گیا کہ اللہ کی خاطر صبر کرو۔ جو بھی مشکلات پیش آئیں، جو کچھ سختیاں تمھارے ساتھ ہوں، ان سب کے اُوپر صبر کرو اور ان کو برداشت کرو۔یہ سب کچھ کسی کی خاطر نہیں صرف اللہ کی خاطر برداشت کرو۔ یہ سمجھتے ہوئے برداشت کرو کہ یہ اللہ کی خاطر فرض ہے جو مجھے انجام دینا ہے۔ اس فرض کو انجام دینے میں جو مصیبت بھی میرے اُوپر آئے مجھے اسے اللہ کی خاطر برداشت کرنا ہے۔
اسی آیت سے ہی آگے کے مضمون سے مناسبت پیدا ہوتی ہے۔
فَاِِذَا نُقِرَ فِی النَّاقُوْرِ o فَذٰلِکَ یَوْمَئِذٍ یَّوْمٌ عَسِیْرٌ o عَلَی الْکٰفِرِیْنَ غَیْرُ یَسِیْرٍ o (۷۴: ۸-۱۰) جب صُور میں پھونک ماری جائے گی، وہ دن بڑا ہی سخت دن ہوگا، کافروں کے لیے ہلکا نہ ہوگا۔
یہاں فرمایا گیا ہے کہ جس روز ناقور میں پھونکا جائے گا۔ ناقورکا لفظ ’صُور‘ سے بناہے۔ نقر کہتے ہیں کسی چیز کو کھوکھلا کرکے اس کے اندر جگہ پیدا کرنا۔ ناقور اس چیز کو کہتے ہیں جس کو کھوکھلا کرکے اگر اس میں پھونکا جائے تو اس سے آواز نکلے۔ یہی معنی ’صور‘ کے بھی ہیں۔ جب صور پھونکا جائے گا تو وہ دن بڑا سخت ہوگا، اور کافروں کے لیے وہ دن کوئی آسان یا سہل دن نہیں ہوگا۔
اب یہ دیکھیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ فرمایا گیاکہ آپؐ کے خلاف جو کچھ کیا جا رہا ہے ، اس پر آپؐ صبر کریں، اس کے ساتھ یہ نہیں فرمایا گیا کہ اگر تم صبر کرو تو ہم ان پر دنیا میں عذاب لے آئیں گے اور ان کو دنیا میں سزا دیں گے۔ فرمایا گیا کہ جس روز صور پھونکا جائے گا وہ دن انکار کرنے والوں کے لیے بڑا سخت ہوگا۔
اس بات کی وضاحت پہلے بھی کی جاچکی ہے کہ اگرچہ انبیا ؑ کا انکار کرنے والوں اور ان کی تکذیب کرنے والوں اور ان کو ستانے والوں کے اُوپر دنیا میں بھی عذاب آتے رہے ہیں، اور خودکفارِ مکہ کو بھی قرآنِ مجید میں دھمکیاں دی گئی ہیں کہ تم اگر اس روش سے بازنہیں آئو گے تو وہ دن دیکھو گے جو عاد اور ثمود نے دیکھا ہے۔ لیکن اصل عذاب دنیا کا عذاب نہیں ہے بلکہ آخرت کا عذاب ہے جس سے کفار کو بھی ڈرایا جاتا ہے اور جس کے متعلق پہلے انبیا ؑ کو بھی اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی تسلی دی گئی ہے کہ جو لوگ تمھیں یہاں ستا رہے ہیں آخرکار ان کی شامت قیامت کے دن آئے گی۔
اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ اس دنیا میں ظلم و ستم کرتے ہیں ضروری نہیں ہے کہ ان میں سے ایک ایک شخص کے اُوپر اسی دنیا میں عذاب آجائے۔ فرض کیجیے کہ ایک خاص دن عذاب آنے والا ہے۔ اس دن سے ایک روز پہلے جو لوگ مرگئے ان کے اُوپر کون سا عذاب آیا۔ قومِ عاد پر عذاب آیا، قومِ ثمود پر عذاب آیا اور دوسری قوموں پر عذاب آیا اور ایک خاص تاریخ پر عذاب آیا۔ اس تاریخ پر یا اس عذاب کے نزول سے ایک گھنٹہ پہلے جو لوگ مرگئے ان پر تو کوئی عذاب نہیں آیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ظلم و ستم کرنے والوں کے لیے اصل عذاب دنیا کا عذاب نہیں ہوسکتا کیوںکہ ہر ظالم کی شامت اس دنیا میں نہیں آسکتی۔
یہ تو حقیقت میں ایک گرفتاری ہے۔ دنیا میں جو عذاب آتا ہے اس کی نوعیت ایسی ہے جیسے ایک آدمی بڑھکیں مارتا پھر رہا تھا تو وہ اس روز گرفتار کرلیا گیا۔ اب یہ کوئی سزا نہیں ہے بلکہ فقط گرفتاری ہے۔ اصل سزا تو اس وقت ملے گی جب وہ عدالت میںپیش کیا جائے گا، اور عدالت سے اس کو سزا سنائی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ یہاں صرف گرفتاری سے نہیں ڈرا رہا بلکہ یہ فرما رہا ہے کہ ان لوگوں کی شامت اس روز آئے گی جس روز صُور پھونکا جائے گا۔ وہ دن کافروں کے لیے بڑا سخت ہوگا۔
دوسری بات یہ ہے کہ ضروری نہیں ہے کہ نبیؐ کی زندگی میں نبیؐ کے سامنے ہی عذاب آجائے۔ حضرت عیسٰی ؑ کا یہودیوں نے انکار کیا اور ان کے مقابلے میں اس قدر سخت باغیانہ روش اختیار کی کہ آخرکار اپنی طرف سے انھیں سولی پر چڑھا دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اُٹھا لیا اور کوئی دوسرا شخص سولی پر چڑھا دیا گیا لیکن انھوں نے تو اپنی طرف سے حضر ت عیسٰی ؑہی کو سولی پرچڑھا دیا تھا۔ جس وقت وہ مقدمہ چلا رہے تھے اس وقت وہ عذاب نہیں آیا۔ جب وہ صلیب پر چڑھا رہے تھے اس وقت بھی وہ عذاب نہیں آیا۔ ۷۰ء میں جاکر رومیوں نے بیت المقدس فتح کیا اور ہیکل کو مسمار کردیا اور بنی اسرائیل کو دنیا بھر میں تتر بتر کر دیا۔ اس کے بعد مزید چندسال لگے اور ۱۳۵ء میں تمام بنی اسرائیل کو فلسطین سے نکال دیا گیا اور حکم دے دیا گیا کہ کوئی یہودی بیت المقدس کی حدود میں داخل نہیں ہوسکے گا۔
اس سے معلوم ہوا کہ نبی ؑ کی زندگی میں ہی کفار پر عذاب آنا ضروری نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ظالم لوگ نبی ؑکو پکڑلیں، گرفتار کرلیں، قتل کرڈالیں لیکن اس کے باوجود نبی ؑ کی زندگی میں عذاب نہیں آسکتا اگر اللہ تعالیٰ کا ارادہ نہ ہو۔ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی اور موقعے کے لیے عذاب کو اُٹھا رکھا ہو۔
اس وجہ سے نبی ؑ کو صبر کرنا چاہیے لیکن یہ سمجھتے ہوئے نہیں کہ شاید چند سال بعد عذاب میری زندگی میں ہی آجائے۔ نبی ؑ کو صبر کرنا چاہیے یہ سمجھتے ہوئے کہ اس دنیا میں کوئی شخص خواہ کچھ کرڈالے لیکن بہرحال آخرت میں اپنے اعمال کا نتیجہ دیکھ کر رہے گا۔ نبی ؑ کو چونکہ اس پر کامل یقین ہوتا ہے کہ آخرت ضرور آنی ہے، اس کے ہاں یہ فلسفہ نہیں ہے کہ اس نے کچھ مقدمات کے زور پر یہ نتیجہ نکالا ہو کہ آخرت آسکتی ہے، یا آخرت آنی چاہیے، بلکہ اسے علم ہے کہ آخرت آئے گی اور اسے اس بات پر پختہ یقین ہوتا ہے۔ اس لیے نبی ؑ کے لیے یہ مکمل وجۂ تسلی ہے کہ اس دنیا میں چاہے کوئی شخص اپنے اعمال کا بُرا نتیجہ نہ دیکھے لیکن آخرت میں لازماً دیکھے گا۔
اب اس کے بعد ایک خاص مخالف کا کیس (مقدمہ) لیا جا رہا ہے:
ذَرْنِیْ وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِیْدًا o وَجَعَلْتُ لَـہٗ مَالًا مَّمْدُوْدًا o وَبَنِیْنَ شُہُوْدًا o وَّمَہَّدْتُ لَہٗ تَمْہِیْدًا o ثُمَّ یَطْمَعُ اَنْ اَزِیْدَ o (۷۴: ۱۱-۱۵) چھوڑ دو مجھے اور اس شخص کو جسے مَیں نے اکیلا پیدا کیا، بہت سا مال اس کو دیا، اس کے ساتھ حاضر رہنے والے بیٹے دیے، اور اس کے لیے ریاست کی راہ بھی ہموار کی، پھر وہ طمع رکھتا ہے کہ مَیں اسے اور زیادہ دوں۔
یہ ایک خاص شخص کی طرف اشارہ ہے جو مکہ معظمہ کے بڑے سرداروں میں سے تھا، بلکہ کہاجاتا ہے کہ مکہ معظمہ میں سب سے بڑا ذی وجاہت سردار یہی تھا، یعنی حضرت خالد بن ولیدؓ کا باپ ولید بن مغیرہ۔ یہ بنی مخدوم کا سردار تھا اور بہت بڑا دولت مند تھا۔ بڑا ذی وجاہت آدمی تھا اور مکہ معظمہ میں اس کی عقل مندی اور دانش مندی کی شہرت تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو ایسے قابل اور اعلیٰ درجے کے بیٹے دیے تھے جن کا پورے معاشرے کے اندر اثر تھا۔ ان آیات میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ ولید بن مغیرہ چونکہ بڑا سمجھ ار آدمی تھا، اس وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت اور کلام، یہ دونوں چیزوں کو دیکھ کر دل میں سمجھ گیا تھا کہ یہ کلام انسانی نہیں ہوسکتا۔ وہ یہ سمجھتا تھا کہ یہ جو کہا جارہا ہے کہ یہ شاعری ہے، یہ کہانت ہے، یہ سب کی سب فضول بات ہے۔ یہ کلام نہ شاعری کی نوعیت کا ہے، نہ کہانت کی نوعیت کا۔ اس نے اس بات کو اپنے ایک جلسے میں کہا بھی تھا۔ تمھارا یہ کہنا کہ یہ شاعری ہے، غلط بات ہے۔ کیا ہم نے شعر سنے نہیں ہیں۔ اس کلام کا شاعری سے کیا تعلق۔ کیا ہم نے کاہنوں کی باتیں سنی نہیں ہیں۔ اس کلام کا کاہنوں کی باتوں سے کیا تعلق۔ پھر وہ آپؐ کو بچپن سے جانتا تھا۔ اسی شہر کا رہنے والا بھی تھا، اور خاندانی رشتہ داریاں بھی تھیں۔ اس لیے وہ آپؐ کی شخصیت سے بھی واقف تھا۔ اس کے دماغ میں کبھی یہ خیال نہیں آسکتا تھا کہ حضوؐر شاعری کر رہے ہیں، یا یہ بناوٹی آدمی ہیں (نعوذ باللہ)۔ اس لیے وہ دل میں قائل ہوگیا تھا لیکن اس کے سامنے مسئلہ یہ تھا کہ اگر میں اس شخص کو مان لیتا ہوں تو میری سرداری اور وجاہت ختم ہوجاتی ہے۔ قوم جو مجھے بڑا سمجھتی ہے اور میرے گرد جمع ہوگئی ہے، مجھ سے دُور ہوجائے گی اور میرا سارا اثرورسوخ ختم ہوجائے گا۔
ذَرْنِیْ وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِیْدًا o (۷۴:۱۱) چھوڑ دو مجھے اور اس شخص کو جسے مَیں نے اکیلا پیدا کیا۔
مراد یہ ہے کہ اس معاملے کو میرے حوالے کرو، مَیں اس سے نبٹوں گا۔ تمھیں اس کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اب مَیں اس شخص سے نبٹوں گا۔ اس معنی میں یہ قرآنِ مجید میں بھی آیا ہے اور اُردو زبان میں بھی کہتے ہیں کہ چھوڑ دو مجھے مَیں ذرا اس کی خبر لوں۔ اسی مفہوم میں اسے لیا گیا ہے کہ تمھیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اس کا معاملہ میرے سپرد کردو۔
ذَرْنِیْ وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِیْدًا o (۷۴:۱۱) چھوڑ دو مجھے اور اس شخص کو جسے مَیں نے اکیلا پیدا کیا۔
اس کے دو معنی ہیں۔ ایک معنی یہ ہے کہ اس شخص کو مَیں نے اکیلا پیدا کیا۔ جس وقت یہ اپنی ماں کے پیٹ سے نکلا تو کوئی فوج اور جتھہ لے کر نہیں آیا تھا۔ اس وقت اپنے ساتھ کوئی سازوسامان لے کر نہیں آیا تھا۔ کوئی محلات اور سواریاں لے کر نہیں آیا تھا، بلکہ اکیلا ہاتھ پائوں لیے پیدا ہوا تھا۔
اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ جس کو مَیں نے اکیلا پیدا کیا، اس کو پیدا کرنے میں کوئی لات یا ہبل شریک نہیں تھا۔ تنہا مَیں اس کو پیدا کرنے والا تھا۔ کسی اور کا اس کو پیدا کرنے میں ہاتھ نہیں تھا۔ یہ دونوں مفہوم ایک ہی فقرے کے ہیں۔
وَجَعَلْتُ لَـہٗ مَالًا مَّمْدُوْدًا (۷۴:۱۲) بہت سا مال اس کو دیا۔
مالِ ممدود سے مراد لمبا چوڑا مال ہے۔ یعنی ماں کے پیٹ سے یہ کچھ نہیں لے کرآیا تھا ۔ میں نے اس کو یہ سب کچھ اس دنیا میں دیا۔ میں ہی اس کو اکیلا پیدا کرنے والا تھا اور کوئی دوسرا اس میں شریک نہیں تھا۔ میں ہی اس کو مال دینے والا تھا اور کوئی دوسرا اس کو مال دینے میں شریک نہیں تھا۔
وَبَنِیْنَ شُہُوْدًا o (۷۴:۱۳) اس کے ساتھ حاضر رہنے والے بیٹے دیے۔
یعنی میں نے اس کو ایسے لڑکے دیے جو بڑی بڑی محفلوں میں اس کے ساتھ شریک ہونے والے ہیں، بڑے بڑے اور اہم مواقع پر شریک ہونے والے ہیں،اور جن کی سرداری اس دنیا میں مانی جاتی ہے۔
وَّمَہَّدْتُ لَہٗ تَمْہِیْدًا o (۷۴: ۱۴) اور اس کے لیے ریاست کی راہ ہموار کی۔
تمہید اُردو زبان میں، آگے کی تقریب کرنے اور میدان تیار کرنے کی خاطر جو ابتدائی کلمات بولے جاتے ہیں انھیں تمہید کہتے ہیں۔ عربی زبان میں تمہید کے معنی راستہ صاف کرنے کے اور راستہ تیار کرنے کے ہیں۔ یہاں یہ فرمایا گیا ہے کہ بڑائی، وجاہت اور ریاست کے مقام پر پہنچنے کے لیے مَیں نے اس کے لیے اسباب فراہم کیے، راستہ تیار کیا ، اور راہ ہموار کی ۔
ثُمَّ یَطْمَعُ اَنْ اَزِیْدَ o (۷۴: ۱۵) پھر وہ طمع رکھتا ہے کہ مَیں اسے اور زیادہ دوں۔
یہاں ’مزید دوں گا‘ اس معنی میں ہے کہ وہ یہ طمع رکھتا ہے کہ میں اس کا انجام بھی ٹھیک اور بخیر کروں گا۔یعنی یہ اُمید رکھتا ہے کہ دنیا تو مَیں نے اس کی ٹھیک بنائی ہے اب آخرت بھی ٹھیک کروں گا۔ ان لوگوں کے نزدیک آخرت یقینی نہیں تھی لیکن چونکہ خبریں سنتے تھے کہ آخرت بھی آنے والی ہے تو کہتے تھے کہ اگر آخرت بھی آئی، قیامت بھی برپا ہوئی اور کوئی دوسرا عالم ہوا تو وہاں بھی ہم اچھے ہی رہیں گے، کیوں کہ یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے ہمیں دولت دی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ یہ دولت کچھ دیکھ کر ہی دی ہے، اور کسی قابل سمجھا تھا تو دی ہے۔ اس لیے وہاں بھی ہم اچھے ہوں گے۔ ان کا یہ استدلال تھا۔ چونکہ اس زمانے میں مسلمان خستہ حال تھے اور جو خوش حال تھے ان کو بھی خستہ حال بنا کر رکھ دیا گیا تھا۔ اس لیے یہ ان سے کہتے تھے کہ میاں دیکھ لو کہ دنیا میں خدا کا محبوب کون ہے؟ خدا کے محبوب تو ہم ہیں، اس لیے کہ ہمیں راحتیں نصیب ہیں، دولت نصیب ہے،اعلیٰ درجے کے مکانات اور اعلیٰ درجے کی محفلیں نصیب ہیں۔ کیا خدا کے محبوب تم ہو کہ تمھیں کھانے کو نصیب نہیں ہو رہا اور پہننے کو کپڑے نصیب نہیں ہو رہے، اور رہنے کو گھر نصیب نہیں ہیں۔ یہ ان کا استدلال تھا اور اس وجہ سے وہ یہ سمجھتے تھے کہ چونکہ ہم خدا کے محبوب ہیں اور خدا کے محبوب ہونے کی علامت یہ ہے کہ ہمیں دنیا میں خوش حال بنایا گیا ہے، اس وجہ سے آخرت میں بھی ہم ہی بھلے رہیں گے، اور وہ لوگ جو دنیا میں خستہ حال ہیں وہ آخرت میں بھی خستہ حال ہوں گے۔
اسی لیے فرمایا گیا ہے کہ اب وہ طمع رکھتا ہے کہ میںاسے مزید دوں اور آخرت میں بھی اس کی ریاست قائم رہے۔ وہاں بھی اس کو مزید وجاہت اور ریاست نصیب ہو۔
کَلَّا ط اِِنَّہٗ کَانَ لِاٰیٰتِنَا عَنِیْدًا o (۷۴: ۱۶) ہرگز نہیں، وہ ہماری آیات کے مقابلے میں عناد رکھتا ہے۔
یعنی آخرت میں اس کے لیے کسی سرداری اور کسی ریاست اور کسی بڑائی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ آخرت میں کسی شخص کو کوئی بڑا مقام صرف اس لیے نہیں مل سکتا کہ دنیا میں اسے بڑا مقام حاصل تھا۔ آخرت میں بڑا مقام صرف اس بنیاد پر مل سکتا ہے کہ اللہ کی آیات کے ساتھ اس نے کیا رویہ اختیار کیا۔ چونکہ اس نے ہماری آیات کے مقابلے میں عناد (دشمنی) کا رویہ اختیار کیا ہے، اس وجہ سے کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ اسے وہاں مزید کوئی بڑائی ملے۔
سَاُرْہِقُہٗ صَعُوْدًا o (۷۴: ۱۷) میں تو اسے عنقریب ایک کٹھن چڑھائی چڑھوائوں گا۔
یعنی بجاے اس کے کہ یہ وہاں کوئی بڑی دولت حاصل کرے، کوئی بڑی وجاہت یا ریاست یا کوئی بڑائی اسے وہاں نصیب ہو، ہم تو اسے بڑی کٹھن گھاٹی چڑھائیں گے، بڑے سخت راستے سے یہ وہاں گزرے گا۔
اِِنَّہٗ فَکَّرَ وَقَدَّرَ o فَقُتِلَ کَیْفَ قَدَّرَ o ثُمَّ قُتِلَ کَیْفَ قَدَّرَ o ثُمَّ نَظَرَ o ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ o ثُمَّ اَدْبَرَ وَاسْتَکْبَرَ o فَقَالَ اِِنْ ہٰذَآ اِِلَّا سِحْرٌ یُّؤْثَرُ o اِِنْ ہٰذَآ اِِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ o (۷۴: ۱۸-۲۵) اس نے سوچا اور کچھ بات بنانے کی کوشش کی، تو خدا کی مار اس پر، کیسی بات بنانے کی کوشش کی۔ ہاں، خدا کی مار اس پر، کیسی بات بنانے کی کوشش کی۔ پھر (لوگوں کی طرف) دیکھا۔ پھر پیشانی سکیڑی اور منہ بنایا۔ پھر پلٹا اور تکبر میں پڑ گیا۔ آخرکار بولا کہ یہ کچھ نہیں ہے مگر ایک جادو جو پہلے سے چلا آرہا ہے۔ یہ تو ایک انسانی کلام ہے۔
یہاں اللہ کی آیات کے مقابلے میں اس نے جو عناد اختیار کیا تھا اس کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ وہ دل میں قائل ہوگیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معاذاللہ جھوٹے نہیں ہیں۔ دل میں جان گیا تھا کہ یہ انسانی کلام نہیں ہوسکتا۔ یہ کلام فی الواقع اس شان کا ہے کہ یہ خدا کے سوا کسی اور کا کلام نہیں ہوسکتا۔ مگر اب معاملہ تھا اپنی بڑائی اور ریاست اور وجاہت کا۔ اس کے سامنے معاملہ یہ تھا کہ اگر اس کو مان لیتا ہوں تو میری ساری بڑائی اور وجاہت جاتی رہتی ہے۔
اب اس کی کیفیت بیان کی گئی ہے کہ اس نے غور کیا۔ پھر اٹکل دوڑائی کہ کیا الزام چسپاں کروں؟ کس طرح سے اس کا انکار کروں؟ شاعری کہہ نہیں سکتا، کیوں کہ جانتا ہوں کہ یہ شاعری نہیں ہے۔ کہانت کہہ نہیں سکتا کیوں کہ جانتا ہوں کہ اگر کہانت کہوں گا چاہے لوگ اس پر اعتبار کرلیں لیکن جو سمجھ دار لوگ ہیں وہ کہیں گے کہ کیا نبی ؑ بھی اس طرح کی کہانت کہہ سکتا ہے۔ اس لیے کہ کہانت کا کلام کس کو معلوم نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں بھی نجومی اور فال گیر اِسی طرح کے لگے بندھے فقروں کے ترنم کے ساتھ آوازے لگاتے پھرتے ہیں۔ اسی طرح کے فقرے عرب میں بھی کاہن کہتے پھرتے تھے۔ لہٰذا اس نے سوچا کہ کون شخص مانے گا کہ یہ قرآن کاہنوں، فال گیروں اور نجومیوں کے فقروں جیسا کلام ہے۔ اس کے دماغ میں یہ خیال آتا تھا کہ اگر میں اس طرح کی کوئی بات کروں گا تو ظاہر بات ہے کہ لوگ کہیں گے کہ اتنا سمجھ دار آدمی بھی ایسی باتیں کر رہا ہے۔ اس لیے اب اٹکل دوڑا رہا ہے، سوچ رہا ہے کہ کیا الزام لگائوں؟
فرمایا گیا: قُتِلَ کَیْفَ قَدَّرَ، مارا گیا یہ کہ دیکھو اس نے کس طرح سے اٹکل دوڑائی۔ ثُمَّ نَظَرَ ، پھر اس نے سوچا، غور کیا کہ کیا الزام لگائوں۔ ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ ، پھر اس نے منہ بنایا، تیوری چڑھائی۔ جس طرح سے کوئی آدمی کسی ایسی بات کے بارے میں کوئی بات بنانا چاہ رہا ہو جس کے بارے میں اس کا دل خود کہہ رہا ہو کہ یہ غلط بات ہے، تو ظاہر ہے کہ کچھ نہ کچھ چہرہ بناتا ہے۔ کچھ غور کرتا ہے، کچھ سوچتا ہے کہ کیا بات بنائوں؟ آخرکار اس کی تیوریاں چڑھتی ہیں، منہ بنتا ہے۔ اس کیفیت کو بیان کیا گیا ہے کہ کس طرح ایک اندرونی کش مکش میں مبتلا ہے۔ بات سچی ہے اور اسے جھوٹی قرار دے رہا ہے۔ الزام تجویز کرنا چاہتا ہے لیکن کوئی چسپاں نہیں ہو رہا، کوئی ایسا الزام جو اس پر لگ سکے۔ اس لیے منہ بناتا ہے۔ آخرکار پلٹ گیا اور گھمنڈ میں مبتلا ہوگیا۔ بجاے اس کے کہ غوروخوض کرکے اور جب وہ منہ بنا رہا تھا اور تیوریاں چڑھا رہا تھا اس وقت اس کا دل اور اس کا ضمیر اس کو یہ کہتا کہ میاں کیوں حق بات کو جھٹلا رہے ہو، سیدھی طرح مان لو۔ اس کے بجاے وہ پلٹ گیا اور کس بنا پر پلٹ گیا؟ استکبار کی وجہ سے۔ گھمنڈ اور اپنی بڑائی کی بناپر پلٹ گیا اور کہنے لگا کہ یہ کچھ نہیں ہے مگر ایک جادو ہے۔
کیوں وہ جادو کہتا تھا؟ اور عرب کے لوگ قرآنِ مجید کے لیے بالعموم جادو کا لفظ استعمال کرتے تھے تو آخر کس بنا پر کرتے تھے؟
وہ کہتے تھے کہ اس کلام کے اندر ایسا جادو ہے کہ اس کو اگر کوئی آدمی سن لے تو اس کے بعد وہ اپنے بال بچے، خاندان برادری، رشتے دار، سب کچھ چھوڑ دیتا ہے۔ بیٹا باپ سے منحرف ہوجاتا ہے۔ بیوی شوہر سے منحرف ہوجاتی ہے۔ یہ جادو نہیں تو کیا ہے؟ اس مفہوم میں وہ لوگ اسے جادو کہتے تھے۔ ولید بن مغیرہ کو بھی یہ ہمت نہ پڑی کہ اس کو شاعری کہے۔ اس کو یہ ہمت نہ پڑی کہ اس کو کہانت کہے۔ اب اس نے سوچ بچار کے بعد کہا کہ یہ تو ایک جادو ہے۔
عرب کے سردار بالعموم لوگوں سے کہا کرتے تھے کہ میاںاس کے کلام کو نہ سننا۔ یہ بیٹے کو باپ سے لڑا دیتا ہے، بیوی کو شوہر سے لڑا دیتا ہے، بھائی کو بھائی سے لڑا دیتا ہے۔ یہاں تک کہ بہت سے لوگ ایسے تھے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے تھے کہ آپؐ قرآن پڑھ رہے ہیں تو کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے تھے یا روئی ٹھونس لیتے تھے کہ کانوں میں آواز نہ پڑے۔ اس بات سے ڈرتے تھے۔
اسی معنی میں اس نے یہ بات کہی کہ یہ ایک ایسا جادو ہے جو اُوپر سے نقل ہوتا چلا آرہا ہے۔ مطلب یہ کہ ایسے جادوگر پہلے بھی گزرچکے ہیں۔ اس کا اشارہ انبیا ؑ کی طرف تھا کہ پہلے بھی ایسے جادوگر گزرچکے ہیں۔ یہ بھی اسی طرح کا جادوگر ہے (نعوذباللہ)۔ دوسرے الفاظ میں اس نے اس طرح سے دھوکے بازی کی کہ جس بات کو وہ سمجھتا تھا کہ یہ خدا کا کلام ہے بجاے اس کے کہ یہ کہتا کہ یہ خدا کا کلام ہے، اور یہ وہ کلام ہے جو پہلے انبیا ؑ پر بھی آتا رہا ہے، اور یہ وہ کلام ہے جس کی تاثیر پہلے بھی یہ تھی اور اس وقت بھی یہ دیکھی جارہی ہے۔ یہ انسان کو اس کے آپے میں نہیں رہنے دیتا اور انسان اپنی غلط کاری سے باہرآکر ہر طرح کا خطرہ مول لینے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ یہ بات اس نے نہیں کہی۔ اس نے کہا کہ یہ جادو ہے۔ اس کی حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا کہ یہ جادو ہے اور یہ پہلے سے نقل ہوتا چلا آرہا ہے۔
اِِنْ ہٰذَآ اِِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ o(۷۴:۲۵) یہ تو ایک انسانی کلام ہے۔
اس نے کہا کہ یہ کچھ نہیں ہے بس ایک انسان کا کلام ہے۔ درآں حالیکہ وہ دل میں مان چکا تھا کہ یہ انسان کا کلام نہیں ہے لیکن صرف اپنی بڑائی قائم رکھنے کے لیے اس نے کہا کہ یہ انسان کا کلام ہے۔
سَاُصْلِیْہِ سَقَرَ o وَمَآ اَدْرٰکَ مَا سَقَرُ o لاَ تُبْقِیْ وَلاَ تَذَرُ o لَوَّاحَۃٌ لِّلْبَشَرِ o (۷۴: ۲۶-۲۹) عنقریب میں اسے دوزخ میں جھونک دوں گا اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ دوزخ؟ نہ باقی رکھے نہ چھوڑے۔ کھال جھلس دینے والی۔
اس طرح کے آدمی کا علاج اس دنیا میں نہیں ہوسکتا۔ اس دنیا میں اس کو خواہ کوئی عذاب دے دیا جائے وہ اس کی سزا نہیں ہوسکتی۔ اس کی سزا جہنم ہے اور وہ جہنم کیا ہے؟ اس جہنم کے بارے میں قرآنِ مجید میں جتنے عذاب بیان کیے گئے ہیں ان کے مقابلے میں یہ عذاب جو ایک فقرے میں بیان کیا گیا ہے سخت کڑا ہے، یعنی یہ کہ نہ باقی رکھے نہ چھوڑے۔
ایک دوسرے مقام پر فرمایا گیا ہے: لَایَمُوْتُ فِیْھَا وَلَا یَحْیٰی (الاعلٰی ۸۷:۱۳) ’’وہ نہ اس میں مرے گا نہ جیے گا‘‘۔ اس کے اندر آدمی کی حالت یہ ہوگی کہ نہ مرے گا اور نہ جیے گا۔ عذاب اتنا سخت ہوگا کہ باربار موت آئے گی لیکن وہاں چونکہ موت نہیں ہے اس وجہ سے موت نہیں آئے گی مگر جینے کی طرح جیے گا بھی نہیں۔ یہ جہنم کے عذاب کی سختی کی انتہا ہے کہ جو یہاں بیان کی گئی ہے۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے ہ وہ عذاب کے مستحقین میں سے کسی کو باقی نہ رہنے دے گی جو اُس کی گرفت میں آئے بغیر رہ جائے، اور جو بھی اس کی گرفت میں آئے گا اسے عذاب دیے بغیر نہ چھوڑے گی۔
لَوَّاحَۃٌ لِّلْبَشَرِ o(۷۴:۲۹) آدمی کی کھال کو چاٹ کھائے گی۔
’’یہ کہنے کے بعد کہ وہ جسم میں سے کچھ جلائے بغیر نہ چھوڑے گی، کھال جھلس دینے کا الگ ذکر کرنا بظاہر کچھ غیرضروری سا محسوس ہوتا ہے۔ لیکن عذاب کی اس شکل کو خاص طور پر الگ اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ آدمی کی شخصیت کو نمایاں کرنے والی چیز دراصل اس کے چہرے اور جسم کی کھال ہی ہوتی ہے جس کی بدنمائی اُسے سب سے زیادہ کَھلتی ہے۔ اندرونی اعضا میں خواہ اسے کتنی ہی تکلیف ہو، وہ اس پر اتنا زیادہ رنجیدہ نہیں ہوتا جتنا اس بات پر رنجیدہ ہوتا ہے کہ اس کا منہ بدنما ہوجائے، یااس کے جسم کے کھلے حصوں کی جِلد پر ایسے داغ پڑ جائیں جنھیں دیکھ کر ہرشخص اُس سے گھِن کھانے لگے۔ اسی لیے فرمایا گیا کہ یہ حسین چہرے اور بڑے بڑے شان دار جسم لیے ہوئے جو لوگ آج دنیا میں اپنی شخصیت پر پھولے پھر رہے ہیں، یہ اگر اللہ کی آیات کے ساتھ عناد کی وہ روش برتیں گے جو ولید بن مغیرہ برت رہا ہے تو ان کے منہ جھلس دیے جائیں گے اور ان کی کھال جلاکر کوئلے کی طرح سیاہ کردی جائے گی‘‘۔(تفہیم القرآن، جلد ششم، ص۱۴۸-۱۴۹)۔ (کیسٹ سے تدوین: امجد عباسی)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنیادی طور پرجو چیز پیش کی وہ یہ تھی کہ اقتدارِ اعلیٰ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کا نہیں ہے۔ زمین خدا کی ہے، ہوا اور پانی اور روشنی اور ہر وہ چیز جس پر ہم زندگی بسر کرتے ہیں، سب کچھ خدا کا ہے۔ یہ جسم جو ہمیں حاصل ہے اور اس کے اندر جو طاقتیںہیں اور اس کے جو اعضا ہیں، سب خدا کے بخشے ہوئے ہیں۔ ہمیں یہ حق پہنچتا ہی نہیں کہ ہم خوداقتدارِاعلیٰ کا دعویٰ کریں، یا کسی ایسے شخص یا گروہ، یا ادارے کا دعویٰ قبول کریں جو اقتدارِاعلیٰ کا مدعی ہو۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اوّلین بات جو انسان کے ذہن نشین کرانے کی کوشش فرمائی اور جس پر ایمان لانے کی لوگوں کو دعوت دی، وہ یہی تھی کہ ملک بھی اللہ تعالیٰ کا ہے، حکم بھی اللہ تعالیٰ کا ہے اوراس کے سوا کسی کو انسان کے لیے قانون بنانے کا حق نہیں ہے۔
دوسری بات جو اسی طرح بنیادی اہمیت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کو براہِ راست قانون نہیں دیتا، بلکہ اپنے رسولوں کے ذریعے سے دیتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کے منتخب کیے ہوئے حکمران نہیں تھے نہ خود بنے ہوئے حکمران تھے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس منصب پر مقرر فرمایا تھا کہ آپ لوگوں کو تعلیم بھی دیں، ان کی تربیت بھی کریں، ان کے ذہن وفکر اور اخلاق کو بھی ٹھیک کریں۔ ان کو اللہ تعالیٰ کے احکام بھی پہنچائیں اور جو لوگ ان احکام کو قبول کر کے ان کے برحق ہونے پر ایمان لائے ان کے ذریعے سے احکامِ الٰہی کو نافذ بھی فرمائیں۔
تیسری اہم چیز جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانوں کو بتائی اور اس پر ایمان لانے کی دعوت دی، وہ آخرت کا تصور ہے۔ اگر انسان اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ نہ سمجھے اور اس کو یہ یقین نہ ہو کہ ایک دن اسے مرکر اپنے خدا کے سامنے جانا ہے، اور اپنے تمام اعمال کا جواب دینا ہے، تووہ نہ اسلام کے راستے پر چل سکتا ہے، نہ حقیقت میں صحیح انسان بن سکتا ہے۔
ان عقائد کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے ۱۳ برس مکہ معظمہ میں دعوت و تبلیغ کے ذریعے سے لوگوں کے سامنے پیش کیا، اور جن لوگوں نے ان کو مان لیا، ان کو آپ نے ایک جماعت، ایک اُمت کی شکل میں منظم کیا۔
حضوؐر کے زمانۂ قیامِ مکہ کے آخری تین سال ایسے تھے جن میں مدینہ منورہ کے باشندوں کی ایک چھوٹی سی جماعت ایمان لے آئی اور اس نے آپ کو دعو ت دی کہ آپ ان کے شہر میں سب مسلمانوں کے ساتھ تشریف لے آئیں۔ حضرت عائشہ نے بہت صحیح بات فرمائی ہے کہ ’’مدینے کو قرآن نے فتح کیا ہے‘‘۔ یعنی کوئی تلوار نہیں تھی، کوئی جابرانہ طاقت نہیں تھی جس سے مدینے کے لوگ اسلام کے پیرو بنے ہوں، بلکہ قرآنِ مجید جب ان کو پہنچا، اور مکہ معظمہ میں قرآن کی جو سورتیں نازل ہوئی تھیں وہ ان کے علم میں آئیں، تو وہ نہ صرف یہ کہ سچے دل سے ایمان لے آئے، بلکہ انھوں نے اپنی چھوٹی سی بستی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے ساتھی اہلِ ایمان کو تشریف لے آنے کی دعوت دے دی۔ یہ دعوت اس بات کی نہ تھی کہ آپ اور مکہ کے مسلمان ان کے ہاں پناہ گزیں ہوں بلکہ اس بات کی دعوت تھی کہ حضوؐر ان کے معلّم، مربی اور فرماں روا ہوں، مہاجرین و انصار ایک اُمت ِ مسلمہ بن جائیں اور مدینے میں وہ نظامِ زندگی قائم ہو جس پر یہ اُمت ایمان لائی ہے۔ اس طرح جس روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچے، اسی روز اسلامی حکومت کی بنا پڑگئی۔
اس کے لیے امتناعِ شراب ہی کے معاملے کو بطورِ مثال لے لیجیے۔ جس وقت مدینے کی بستی میں یہ اعلان ہوا کہ شراب حرام کردی گئی ہے، اسی وقت شراب کے مٹکے توڑ دیے گئے،اور پینے والوں میں سے جس کا ہاتھ جہاں تھا وہیں رُک گیا۔ اس طرح کی پابندیِ قانون کی مثال پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔اس کے برعکس امریکا میں اربوں روپیہ اس کام پر صرف کیا گیا کہ لوگوں کو شراب کی بُرائی اور اس کے نقصانات کا قائل کیا جائے۔ بہت بڑے پیمانے پر اس کے خلاف پروپیگنڈاکیا گیا اور راے عامہ کی تائید سے امریکا کے دستور میں ترمیم کر کے امتناعِ شراب کا قانون پاس کیا گیا۔ لیکن جس روز یہ قانون پاس ہوا اس کے دوسرے ہی روز سے پورے ملک میں اس کی خلاف ورزی شروع ہوگئی۔ طرح طرح کی زہریلی شرابیں پی جانے لگیں، اور یہ وبا اس قدر خطرناک صورت اختیار کرگئی کہ آخرکار اس قانون کو منسوخ کرنا پڑا۔ اب ذرا مقابلہ کرکے دیکھ لیجیے۔ ایک جگہ بس ایک حکم سنا دیا جاتا ہے اور فوراً اس کی تعمیل کی جاتی ہے۔دوسری جگہ بڑی تیاری کے بعد لوگوں کی مرضی سے قانون بنایا جاتا ہے اور لوگ اس کو توڑ ڈالتے ہیں۔ یہ اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ ایک صالح نظامِ حکومت کی بنیاد ایمان اور اخلاق پر قائم ہوتی ہے ۔ جہاں یہ دونوں چیزیں موجود نہ ہوں وہاں آپ کاغذ پر خواہ کتنا ہی اچھا دستور اور قانون بنا لیجیے، زمین پر وہ کبھی نافذ نہیں ہوسکتا....
لیکن حضوؐ ر کا قاعدہ یہ تھا کہ جو حکم اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو ملتا تھا اس میں تو آپ لوگوں سے بے چون و چرا اطاعت کا مطالبہ کرتے تھے۔ اس میں کسی کے لیے کلام کرنے کی کوئی گنجایش نہ تھی، لیکن جس معاملے میں اُوپر سے کوئی حکم آیا ہوا نہ ہوتا تھا اس میں آپ صحابہؓ سے خود بھی مشورہ فرماتے تھے۔ صحابہؓ کو بھی یہ حق دیتے تھے کہ وہ آپؐ کی راے سے اختلاف کریں اور بارہا ایسا ہوا ہے کہ آپؐ نے اپنی راے چھوڑ کر ان کی راے قبول فرمائی ہے۔ مشہور واقعہ ہے کہ جنگ ِ بدر کے موقعے پر آپؐ نے ابتدا میں جس جگہ پڑائو کیا تھا اس کے متعلق ایک صحابی نے اُٹھ کر پوچھا کہ یہ جگہ آپؐ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اختیار فرمائی ہے یا یہ آپؐ کی اپنی راے ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ’’نہیں، میں نے خود یہ جگہ تجویز کی ہے‘‘۔ اس پر انھوں نے عرض کیا کہ ’’اس کے بجاے فلاں مقام جنگی حیثیت سے زیادہ موزوں ہے‘‘۔ اور آپؐ نے ان کی راے قبول فرما لی۔
اس سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو دو طرح کی تربیت دے رہے تھے۔ ایک اس بات کی تربیت کہ جب خدا کی طرف سے کوئی حکم آئے تو اس کی بے چون وچرا اطاعت کرو۔ دوسری تربیت اس بات کی کہ جس معاملے میں خدا کا حکم نہ ہو، اس میں اہل الراے سے مشورہ بھی کیا جائے، لوگوں کوبحث کا کھلاحق بھی دیا جائے، حضوؐر کی اپنی راے تک سے اختلاف کرتے ہوئے دوسری راے بھی پیش کی جاسکے اور مشورے کے بعد جو بات طے ہو اس پر عمل کیا جائے۔
ایک اور مثال ملاحظہ فرمایئے۔ جنگ ِ احزاب کے موقعے پر جب حالات بہت نازک ہوگئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارادہ فرمایا کہ دشمنوں کے چند قبائل، جن کی بڑی طاقت وہاں جمع تھی، ان کو مدینے کی پیداوار کا ایک حصہ پیش کرکے مخالفین کی جتھہ بندی سے انھیں الگ کردیا جائے۔ انصار کے سرداروں نے حضوؐر سے عرض کیا کہ ’’یہ معاملہ آپؐ اللہ تعالیٰ کے حکم سے طے فرما رہے ہیں یا یہ آپؐ کا اپنا خیال ہے؟‘‘ حضوؐر نے فرمایا: ’’یہ میرا اپنا خیال ہے، میں تمھیں اس خطرے سے نکالنا چاہتا ہوں جس میں تم پڑگئے ہو‘‘۔ انھوں نے کہا: یارسولؐ اللہ! جب ہم کافر تھے اس زمانے میں بھی یہ قبائل ہم سے ایک حبّہ تک نہ لے سکے تھے اور اب تو ہم مسلمان ہیں۔ اب ہم سے کوئی چیز کیسے لے سکتے ہیں‘‘۔ چنانچہ اسی وقت ان کے کہنے کے مطابق یہ معاملہ ختم کردیا گیا۔ اس مثال سے بھی آپ رسولؐ اللہ کے طرزِ حکومت کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ جن معاملات میں اللہ کا حکم ہوتا تھا وہاں کوئی جمہوریت نہ تھی اور جن معاملات میں اُوپر کا حکم نہ ہوتا تھا ان میں پوری جمہوریت تھی۔
بڑا مشہور واقعہ ہے کہ فتحِ مکہ سے پہلے ایک صحابی نے مشرکینِ مکہ کے نام ایک خط لکھ دیا جس میں ان کو مطلع کیا گیا تھا کہ تم پر حملہ ہونے والا ہے۔ وہ خط پکڑا گیا۔ اب یہ صریح جاسوسی کا معاملہ تھا۔ اِس زمانے کے لوگ کہیں گے کہ ایسا خطرناک معاملہ تو بند کمرے میں پیش ہونا چاہیے تھا ، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبویؐ میں اس کی کھلی سماعت فرمائی۔ دوسرا اہم قاعدہ آپ کی عدالت کا یہ تھا کہ کسی مقدمے کا فیصلہ فریقین کی بات سنے بغیر نہ کیا جائے اور کسی شخص کو صفائی کا پورا موقع دیے بغیر ایک لمحے کے لیے بھی اس کے کسی بنیادی حق سے محروم نہ کیا جائے۔ حضوؐر نے مدینہ کے باہر جو قاضی مقرر فرمائے تھے ان کو بھی آپؐ کی ہدایت یہ تھی کہ فریقین کی بات سنے بغیر کسی معاملے کا فیصلہ نہ کریں۔ عدالت کے کام میں سفارش کا دروازہ آپؐ نے بڑی سختی کے ساتھ بند کردیا تھا۔ فتح مکہ کے بعد قریش کے ایک معزز خاندان کی عورت نے چوری کا ارتکاب کیا۔ اس کے خاندان نے کوشش کی کہ اس کا ہاتھ نہ کاٹا جائے۔
حضرت اسامہؓ بن زیدؓ سے، جو حضوؐر کو نہایت عزیز تھے، سفارش کرائی گئی۔ حضوؐر نے فرمایا کہ ’’تم حدوداللہ کے معاملے میں سفارش کرتے ہو؟ تم سے پہلے جو قومیں گزر چکی ہیں وہ اسی لیے تباہ ہوئیں کہ ان کے عام آدمی جب کوئی جرم کرتے تھے تو ان کو قانون کے مطابق سزا دی جاتی تھی، اور بڑے لوگ جب وہی جرم کرتے تھے تو ان کے ساتھ رعایت برتی جاتی تھی۔ خدا کی قسم! اگر محمدؐ کی بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرتی تو مَیں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا‘‘۔ اس طرح آپؐ نے سفارش کا دروازہ ہی بند نہ کیا بلکہ یہ اصول بھی قائم فرما دیا کہ قانون کی نگاہ میں سب برابر ہیں۔ یہ اصول بھی آپؐ نے قائم فرما دیا کہ اگر کوئی شخص عدالت کو دھوکا دے کر اپنے حق میں غلط فیصلہ حاصل کرلے تو اس کا فائدہ وہ دنیا ہی میں اُٹھا سکے گا۔ آخرت میں خدا کی پکڑ سے کوئی چیز اسے نہ بچا سکے گی۔
قانون نافذ کرنے کے معاملے میں جو نظام آپؐ نے قائم فرمایا تھا اس کے بڑے بڑے اصول یہ تھے کہ لوگوں کو جہاں تک ممکن ہو سزا سے بچائو۔ قاضی کا کسی قصوروار کو چھوڑ دینے کی غلطی کرنا اس سے بہتر ہے کہ وہ بے قصور کو سزا دینے میں غلطی کرے۔ آپس کے جھگڑوں کا فیصلہ لوگ خود کرلیں، یاکسی کے قصور کو معاف کرنا ہو تو معاف کردیں، یا کسی کے جرم و گناہ پر پردہ ڈالنا ہو تو ڈال دیں۔ یہ سب کچھ عدالت میں معاملہ پہنچنے سے پہلے تک ہوسکتا ہے، لیکن جب عدالت تک معاملہ پہنچ جائے تو کوئی معافی اور پردہ پوشی نہیں ہوسکتی۔ اس کے بعد تو پھر عدالت ہی قانون کے مطابق فیصلہ کرے گی۔ عدالت کے فیصلے پر اثرانداز ہونے کی ہرکوشش کو آپ نے سختی کے ساتھ منع فرما دیا اور قاضی کو قرآن و سنت اور خود اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق بے لاگ فیصلہ دینے کے لیے آزاد قرار دیا۔ آپؐ نے لوگوں کو یہ بھی بتایا کہ علم کے بغیر فیصلہ کرنا، یا علم رکھتے ہوئے غلط فیصلہ کرنا سخت گناہ ہے۔ صحیح قاضی وہ ہے جو قانون کا علم رکھتا ہو اور اپنے علم کے مطابق بے رُو رعایت فیصلہ کرے۔
مدینے سے باہر جب اسلامی مملکت پھیلنی شروع ہوئی تو مختلف علاقوں میں گورنر مقرر کردیے گئے، وہی اپنے علاقے کے منتظم بھی تھے اور سپہ سالار بھی۔ اس زمانے میں کوئی مستقل فوج نہیں تھی۔ جس وقت بھی ضرورت ہوتی رضاکارانہ طور پر لوگ جہاد کے لیے آجاتے تھے۔ حضوؐر نے مختلف علاقوں میں قاضی بھی مقرر فرما دیے تھے جن کے عدالتی کام میں کوئی گورنر دخل نہ دے سکتا تھا۔ آپؐ نے ہر علاقے میں ایسے لوگ بھی مقرر کیے تھے جو باشندوں کو اسلام کی تعلیم دیں۔ تعلیم سے مراد یہ نہیں تھی کہ لوگوں کو لکھنا پڑھنا سکھائیں، بلکہ اس سے مراد یہ تھی کہ وہ عوام کو قرآن سنائیں، اس کے معانی و مطالب سمجھائیں، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ان کو آگاہ کریں۔ یہ کام زیادہ تر زبانی تلقین کے ذریعے سے کیا جاتا تھا اور معلمین لوگوں کی اخلاقی اور ذہنی تربیت اسی طریقے پر کرتے تھے، جس طریقے پر حضوؐر نے خود ان کی تربیت فرمائی تھی۔ مثال کے طور پر جب مکہ معظمہ فتح ہوا تو حضوؐر نے حضرت عتابؓ بن اسیّد کو گورنر اور حضرت معاذ بن جبل کو معلم مقرر فرمایا تھا۔
مَیں تحریک اسلامی کے مستقبل کے بارے میں بے حد پُرامید ہوں۔ حق و باطل کی جو قوتیں آج برسرِ پیکار ہیں، جب ہم ان کو دیکھتے ہیں اور ان کے حالات کا موازنہ کرتے ہیں، تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ حالات اسلام کی کامیابی اور سربلندی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ مَیں جن وجوہ کی بنا پر یہ بات کہتا ہوں، وہ یہ ہیں:
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْمِ
اِِنَّآ اَرْسَلْنَآ اِِلَیْکُمْ رَسُوْلًا لا شَاہِدًا عَلَیْکُمْ کَمَآ اَرْسَلْنَآ اِِلٰی فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا o فَعَصٰی فِرْعَوْنُ الرَّسُوْلَ فَاَخَذْنٰہُ اَخْذًا وَّبِیْلًاo (المزمل ۷۳:۱۵-۱۶) تم لوگوں کے پاس ہم نے اُسی طرح ایک رسول تم پر گواہ بناکر بھیجا ہے جس طرح ہم نے فرعون کی طرف ایک رسول بھیجا تھا۔ (پھردیکھ لو جب) فرعون نے اُس رسول کی بات نہ مانی تو ہم نے اس کو بڑی سختی کے ساتھ پکڑ لیا۔
یہ سورئہ مزمل کی آیات ہیں۔ سلسلۂ بیان کو ذہن میں تازہ کرلیں۔ سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کے لیے ہدایات دی گئی ہیں کیونکہ رسولؐ اللہ سے فرمایا گیا ہے کہ آپؐ پر ایک بڑا بھاری قول (کلام) نازل کیا گیا ہے۔ اس لیے اس قول کے بار کو سنبھالنے کے لیے اور اس کی بھاری ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لیے جس تربیت کی ضرورت تھی پہلے وہ بیان کی گئی ہے۔ آپؐ کو یہ ہدایت کی گئی کہ آپؐ تہجد کی نماز کے لیے راتوں کو کھڑے رہا کریں۔ آدھی رات یا اس سے کچھ کم یا اس سے کچھ زیادہ، اور اس کے اندر قرآن کو ترتیل کے ساتھ پڑھیں، یعنی آہستہ آہستہ اور سمجھ کر۔ اس کی وجہ یہ بیان کی گئی کہ اِِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْکَ قَوْلًا ثَقِیْلًا o (المزمل ۷۳:۵)، یعنی ہم نے آپؐ پر ایک بڑا بھاری قول نازل کیا ہے۔
کلامِ الٰہی ایک ایسی چیز ہے جس کے اُوپر یہ نازل ہو، اس کے اُوپر بھی نہایت بھاری ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے اور جن لوگوں تک وہ پہنچے ان پر بھی بھاری ذمہ داری عائدہوجاتی ہے۔ یہ کوئی ایسی ہلکی پھلکی چیز نہیں ہے کہ جیسے آپ نے ایک ناول پڑھا اور رکھ دیا۔ یہ ایسی چیز ہے جس پر یہ نازل ہوئی اس کا چین [اطمینان] سے، پائوں پھیلا کر سونا مشکل ہوگیا۔ جس پر یہ نازل ہوئی اس نے یہ سمجھا کہ اب اس پر کھربوں انسانوں بلکہ بے شمار انسانوں کی جو قیامت تک آنے والے ہیں، ان کی ہدایت و ضلالت (گمراہی) کی ذمہ داری میرے اُوپر آن پڑی ہے۔ اگر اس ہدایت کو ان تک پہنچانے میں میری طرف سے ذرہ برابر بھی کوتاہی ہوگئی، تو کل قیامت کے روز یہ حجت پیش کی جاسکتی ہے کہ جن صاحب پر یہ ہدایت نازل ہوئی تھی انھوں نے ہم تک اسے پہنچایا ہی نہیں۔ اسی طرح سے جن لوگوں کے پاس یہ ہدایت پہنچے ان پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے کہ خدا کا کلام تمھارے پاس آگیا تھا اور تمھیں بتا دیا گیا تھا کہ کس راستے میں انسان کی نجات ہے اور کس راستے میں انسان کی تباہی ہے، تم نے خود اس پر کہاں تک عمل کیا اور بندگانِ خدا کو کہاں تک اس سے آگاہ کیا؟ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قرآن یا تو تمھارے حق میں حجت ہے یا تمھارے خلاف حجت ہے‘‘۔
یہ قرآن آکر یونہی پڑا نہیں رہ جاتا۔ یہ یا تو اس شخص کے حق میں حجت ہوگی جس کے پاس یہ آیا۔ وہ خدا کے سامنے یہ حجت پیش کرسکتا ہے کہ مجھے آپ نے جو ہدایات دی تھیں ان پر مَیں نے خود بھی عمل کیا ہے اور اسے دوسروں تک بھی پہنچا دیا ہے۔ یہ حجت اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی نجات کے لیے کافی ہوگی اگر یہ صحیح ہے اور اسے پیش کیا جاسکے۔ اگر ایک آدمی اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ خدا کے سامنے کھڑے ہوکر یہ کہہ سکے کہ میں نے خود بھی اس ہدایت پر عمل کیا اور اسے دوسروں تک بھی پہنچایا، تو یہ اس کے خلاف حجت ہے کہ جب یہ ہدایت تمھارے پاس آئی تو تم نے اس کے ساتھ کیا کیا۔ اسی لیے یہ فرمایا کہ ایک بڑا بھاری قول ہم تمھارے اُوپر نازل کر رہے ہیں، اور اس کی تربیت کے لیے یہ ساری تیاری ہے۔
رات کو اُٹھ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کے بارے میں فرمایا کہ یہ آدمی کے قلب اور زبان کے درمیان موافقت پیدا کرتی ہے۔ یعنی جو کچھ آدمی زبان سے دعویٰ کر رہا ہے واقعی اس کے دل میں بھی یہی کچھ ہے۔جو آدمی رات کو عبادت کے لیے خاموشی سے اُٹھتا ہے اور اس کے متعلق کسی کو پتا بھی نہیں چلتا کہ یہ شخص رات کو اُٹھتا ہے اور خدا کی عبادت کر رہا ہے، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخلصانہ تعلق ہے۔ اس کے بغیر یہ کام ہوہی نہیں سکتا کہ اس کا خدا کے ساتھ مخلصانہ تعلق ہو اور اس دوران نمایش کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اس کے دل میں اخلاص ہوتا ہے اور اس عمل کی وجہ سے وہ برابر بڑھتا رہتا ہے اور پرورش پاتا رہتا ہے اور اس عمل کی وجہ سے وہ کبھی ٹھنڈا نہیں پڑنے پاتا۔ اسی وجہ سے آدمی کے دل و دماغ کے درمیان موافقت کے لیے اسے اخلاص کا بہترین نسخہ بتایا گیا ہے۔ یہ ایک آدمی کے قول کو بالکل راستی پر قائم رکھتا ہے۔ اس صورت میں آدمی جو کچھ بھی بولے گا وہ ایمان داری سے بولے گا اور اس کے دل میں بھی وہی بات ہوگی اور اس پر وہ مضبوطی سے قائم رہے گا۔
اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا گیا ہے کہ جو کام تمھارے سپرد کیا گیا ہے جس کی وجہ سے دنیا تمھاری دشمن ہورہی ہے اور ہوگی، اس کام میں تم اس کے بغیر ثابت قدم نہیں رہ سکتے کہ رب المشرقین و مغربین کو اپنا وکیل بنائو اور اپنا سارا معاملہ اس کے حوالے کر دو۔ وَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ (المزمل ۷۳:۱۰) اور جو باتیں یہ لوگ تمھارے خلاف بناتے ہیں اس پر صبرجمیل کرو۔ ان دو باتوں کی یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت کی گئی ہے۔ ایک یہ کہ اپنی طاقت پر، یا اپنے ساتھیوں کی طاقت پر، یا دنیا کی کسی طاقت پر بھروسا نہ کرو۔ صرف اللہ تعالیٰ پر بھروسا کرو اور اپنے معاملات اس کے حوالے کر دو۔ اس لیے کہ رب مشرق و مغرب تو وہی ہے۔ ساری کائنات کا مالک وہی ہے اور ساری طاقتوں کا مالک وہی ہے۔ دوسرے یہ کہ جو باتیں بھی وہ بنائیں ان پر صبر کرو اور صبر ہی نہیں بلکہ صبرجمیل کرو۔
صبرجمیل سے مراد یہ نہیں ہے کہ آدمی خون کا گھونٹ پی کر چپ ہو رہے، ورنہ اس کے دل میں یہ ہو کہ کسی طرح موقع ملے تو میں اس سے انتقام لوں۔ یہ مجبوری کی خاموشی ہے اورمجبوری کا تحمل ہے۔ صبرِ جمیل اس چیز کا نام ہے کہ ایک آدمی بالکل ٹھنڈے دل سے یہ راے قائم کرے کہ میں حق کے لیے جو کام کر رہا ہوں اگر یہ لوگوں کو ناگوار ہے تو ان کی اپنی نادانی کی وجہ سے ہے اور یہ ان کی جہالت ہے کہ جو چیز ان کے لیے آبِ شفا ہے وہ اس کو اپنے لیے زہر سمجھ رہے ہیں، اور اس کے پیش کرنے والے کو اپنا دشمن سمجھ رہے ہیں۔ یہ نادان اور بے وقوف لوگ ہیں۔ میرا کام ہے کہ ان کی اصلاح کے لیے کوشش کروں۔ اگر یہ نہیں مانیں گے تو اپنا بُرا کریں گے لیکن ان پر غصے کی کوئی وجہ نہیں ہونی چاہیے۔
اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص سخت پریشانی کی حالت سے دوچار ہو اور شدید بخار میں مبتلا ہو اور ہذیان کی کیفیت میں ڈاکٹر کو گالیاں دے رہا ہو۔ اس صورت حال میں وہ ڈاکٹر سخت بے وقوف ہوگا جو اُلٹا اس پر غصہ ہو بلکہ وہ یہ سوچے گا کہ یہ اس قدر بُری حالت کو پہنچ گیا ہے کہ اسے اپنے ذہن پر قابو نہیں رہا۔ اس صورت میں ڈاکٹر اس مریض کو برداشت کرے گا تو یہ صبرجمیل ہوگا۔ وہ اس کی اصلاح میں لگا رہے گا اور کوشش کرے گا کہ اس کی یہ حالت درست ہو۔ اس لیے یہاں دو باتیں فرمائی گئی ہیں، یعنی اللہ پر بھروسا کرو اور صبرجمیل کرو۔
اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ فرمایا گیا کہ جو لوگ تمھارے خلاف شرارتیں کررہے ہیں، اگر ان کو اس دنیا میں سزا نہ بھی ملی اور یہ شرارتیں کرتے رہے تو پھر ان کے لیے آخرت میں معافی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے مواقع پر عموماً آخرت کا ذکر کرتے ہیں۔ آخرت کا عذاب ایسا ہے کہ اس سے کوئی ظالم بچ نہیں سکتا، جب کہ دنیا کا عذاب ایسا نہیں کہ لازماً ہر ظالم پر نازل ہوجائے۔(تفصیل کے لیے دیکھیے: درسِ قرآن سورئہ مزمل: ۱-۱۴، عالمی ترجمان القرآن،اکتوبر ۲۰۰۵ء)
یہاں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کیا گیا ہے اور اس کے بعد کفارِ مکہ کو مخاطب کیا جا رہا ہے۔
اِِنَّآ اَرْسَلْنَآ اِِلَیْکُمْ رَسُوْلًا لا شَاہِدًا عَلَیْکُمْ کَمَآ اَرْسَلْنَآ اِِلٰی فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا o فَعَصٰی فِرْعَوْنُ الرَّسُوْلَ فَاَخَذْنٰـہُ اَخْذًا وَّبِیْلًاo (المزمل۷۳:۱۵-۱۶) تم لوگوں کے پاس ہم نے اُسی طرح ایک رسول تم پر گواہ بناکر بھیجا ہے جس طرح ہم نے فرعون کی طرف ایک رسول بھیجا تھا۔ (پھردیکھ لو جب) فرعون نے اُس رسول کی بات نہ مانی تو ہم نے اس کو بڑی سختی کے ساتھ پکڑ لیا۔
اس ترتیب میں خود ایک تنبیہہ موجود ہے ’جس طرح ہم نے فرعون کی طرف رسول ؑ بھیجا تھا‘___ اس کے معنی یہ ہیں کہ جو فرعون کا انجام ہوا تھا یہ انجام ان لوگوں کا ہوگا جو رسولؐ کی بات نہیں مانتے۔ آگے چل کر اس بات کو کھول بھی دیا گیا ہے۔
یہاں دیکھیے کہ کفارِ مکہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایات دینے کے بعد مخاطب کیا جارہا ہے اور یہ ہدایات قرآنِ مجید میں دی گئی ہیں تاکہ وہ بھی سن لیں کہ رسولؐ کو کیا ہدایات دی گئی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ رسولؐ کو خاموشی کے ساتھ ہدایات دی گئی ہوں اور دنیا کو پتا ہی نہ چلا ہو کہ رسولؐ کو کیا ہدایات دی گئی ہیں، بلکہ رسولؐ کو جو ہدایات دی گئی ہیں وہ بھی اسی کلام میں بیان کی گئی ہیں جس کو رسولؐ نے پڑھا ہوگا اور ساری دنیا کو سنایا ہوگا اور ساری دنیا بعد میں اس کو سنتی رہے گی۔
اس کا فائدہ یہ ہے کہ جو لوگ مخاطب ہوں، جو مان نہ رہے ہوں اور کفر کے رویے میں پڑے ہوئے ہوں، ان لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ رسولؐ کو کیا ہدایات دی گئی ہیں اور کس کام پر یہ رسول مامور ہے اور اس کو کس طرح کام کرنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔
جب یہ چیز لوگوں کے سامنے آجائے گی کہ اس رسولؐ کو یہ ہدایات دی گئی ہیں، یہ اخلاق سکھائے گئے ہیں، یہ اس کی تربیت کا انتظام کیا گیا ہے، تو اس کے بعد مخالفین میں سے جس کے اندر ذرّہ برابر بھی انسانیت ہوگی، ذرہ برابر بھی شرافت ہوگی، وہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہے گا۔ اس کے بجاے اگر یہ ہدایات دی گئی ہوتیں کہ جو تمھیں ایک بات کہے تم اسے دس سنائو، یا جو تمھیں ستائے تم اس کے خلاف ایک جماعت تیار کرو جو ان کی خبر لے، یا یہ کہ تم خفیہ طور پر اس طرح سے تیاریاں کرو کہ ایک روز اُن کا تختہ اُلٹ دو۔ اگر اس طرح کی ہدایات دی گئی ہوتیں تو ان کو سننے کے بعد مخالفین میں سے ایک ایک آدمی جس کے اندر مخالفت کا ذرا سا بھی جذبہ باقی ہوتا تو وہ مخالفت کے لیے اُٹھ کھڑا ہوتا۔
اس کے برعکس جب ان کو یہ سنایا گیا کہ میاں راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر خدا کی عبادت کرو تاکہ تمھارے دل و زبان میں پوری طرح سے موافقت پیدا ہو، تاکہ تمھارے دل میں اخلاص پیدا ہو، خدا کے بھروسے پر کام کرو، جو کچھ تمھارے پاس ہے اس پر بھروسا نہ کرو۔اس کے بعد جو مخالف تھے اگر وہ ایمان لانے کے لیے نہ بھی تیار ہوں لیکن جس کے اندر ذرا سی بھی شرافت ہوگی تو وہ کہے گا کہ اس طرح کے آدمی کو گالی دینے کے کیا معنی ہیں، اس طرح کے آدمی کو پتھر مارنے کی کیا ضرورت ہے۔ اگر نہیں ماننا تو نہ مانو لیکن آدمیوں کی طرح اس کا مقابلہ کرو۔ یہ ہدایات کھلم کھلا publically لوگوں کو سنا دی گئیں کہ رسولؐ کو ان ہدایات کے ساتھ کام پر مامور کیا گیا ہے۔
تیسری چیز یہ فرمائی گئی کہ ہم نے یہ رسول تمھاری طرف شَاہِدًا عَلَیْکُمْ (گواہ) بناکر بھیجا ہے، یعنی شَاہِدًا عَلَیْکُمْ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تم اپنے گھر میں چپکے سے جو کام کرتے ہو اس کو بھی یہ رسول دیکھ رہا ہے۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ تم صحرا میں اگر تنہا ڈاکا مار رہے ہو تو رسولؐ اس کو دیکھ رہا ہے اور گواہی دے رہا ہے۔
ایک یہ کہ یہ رسولؐ تمھارے سامنے حق کی گواہی دے رہا ہے جیسے آپ کہتے ہیں: اشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ کہ مَیں گواہی دیتا ہوں اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ اسی طرح رسولؐ کے ذمے پہلا کام یہ تھا کہ وہ لوگوں کے سامنے کھڑے ہوکر گواہی دے کہ حق کیا ہے؟ اس بات کو ملحوظ رکھیے کہ گواہی قیاس یا فلسفے کی بناپر نہیں ہوتی۔ کوئی آدمی اگر اپنا فلسفہ بنائے کہ حقیقت غالباً یہ ہوگی وہ اس پر گواہی نہیں دے سکتا کہ حقیقت یہ ہے۔ گواہی صرف وہی شخص دے سکتا ہے اور شہادت کا یہ اصول ہے کہ کوئی شخص عدالت میں جاکر یہ کہے کہ جناب میرا یہ خیال ہے کہ ایسا ہوا ہوگا تو عدالت اس کو تسلیم نہیں کرے گی۔ عدالت اس سے کہے گی کہ تمھاری آنکھوں دیکھی بات ہے تو بیان کرو، یا تم جانتے ہو تو بیان کرو۔ لیکن عدالت اس بات کو تسلیم نہیں کرے گی کہ میں نے سنا ہے۔ سنی سنائی بات کو عدالت نہیں مانتی اور عدالت اس بات کو بھی نہیں مانتی کہ میرا یہ قیاس ہے، یا میرا یہ گمان ہے کہ ایسا ہوا ہوگا۔ اس وجہ سے رسولؐ کو جو شہادت دینی ہے اس کی وجہ سے رسولؐ اس مقام پر کھڑا کیا گیا ہے کہ وہ آنکھوں دیکھی بات کی شہادت دے، حقیقت اس کو معلوم ہو۔ اس کو اللہ تعالیٰ نے حقیقت کا مشاہدہ کرایا ہے، اور وہ یہ علم رکھتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ کوئی دوسرا تو قیاس کرے گا کہ یہ یہ علامات ایسی ہیں اور یہ یہ دلائل ایسے ہیں جن کی بنا پر مَیں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اس کائنات کے کئی خدا نہیں ہوسکتے۔ صرف ایک خدا ہے۔ بہرحال یہ قیاس ہے۔ رسول اپنے علم کی بنا پر یہ شہادت دیتا ہے کہ خدا کے سوا کوئی خدا نہیں۔ وہ اپنے علم کی بنا پر شہادت دیتا ہے کہ فرشتے ہیں، آخرت ہے اور مرنے کے بعد خدا کو جواب دینا ہے، نیز جنت اور دوزخ ہوگی۔ ان ساری چیزوں کے بارے میں وہ اپنے علم کی بنا پر شہادت دیتا ہے۔ یہ پہلی چیز ہے۔
دوسری چیز جو شہادت کے لیے ضروری ہے اور رسول شہادت کے جس مقام پر کھڑے کیے گئے ہیں وہ یہ ہے کہ جس چیز کو وہ حق قرار دے رہے ہیں خود ان کی اپنی زندگی بھی ٹھیک ٹھیک اس حق کا مظاہرہ کرنے والی ہو۔ مثال کے طور پر دیکھیے کہ جب رسول کھڑے ہوکر یہ کہتا ہے کہ لوگو! تمھارے اُوپر نماز فرض ہے۔ اس کے بعد اگر رسول ایک وقت کی نماز بھی چھوڑ دے تو شہادت ختم ہوجائے گی۔ اس نے نماز کی فرضیت کی جو شہادت لوگوں کے سامنے کھڑے ہوکر دی ہے وہ اپنی اس شہادت کو جھٹلا دے گا اگر وہ ایک وقت بھی اس کے خلاف عمل کرے گا۔ ایسے ہی معاملہ تمام گناہوں کا ہے۔ جن جن گناہوں کے متعلق رسول نے یہ کہا ہے کہ یہ گناہ ہیں ان سے تم بچو۔ یہ چیز حرام ہے اس سے تم پرہیز کرو۔ اگر رسول کی زندگی میں نعوذباللہ کوئی ایک بُرائی بھی ان میں سے ہو تو اس کے بعد اس کی شہادت ختم ہوجاتی ہے بلکہ اس کی شہادت اُلٹی پڑجاتی ہے۔ لوگ اس کے سامنے کھڑے ہوکر یہ کہہ سکتے ہیں کہ جناب آپ نے توہم سے یہ کہا تھا کہ فلاں فعل بُرا ہے اور آپ اسے خود کر رہے ہیں۔ اس طرح یہ شہادت جھوٹی ہوجائے گی۔ اس کا یہ کہنا بھی اس کی برائی ہے اگر اس کا عمل اس کے خلاف ہوگا جس کی وہ شہادت دے رہا ہے۔
اس وجہ سے دوسری چیز جو رسول کے سپرد کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ وہ لوگوں کو اس پاکیزہ زندگی کا مشاہدہ کرا دے۔ لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ جس طرح کا انسان یہ قرآن بنانا چاہتا ہے اس طرح کا انسان بنانے کے لیے اس رسول کو مامور کیا گیا ہے کہ وہ کیسا انسان ہوتا ہے؟ اس کی زندگی کس قسم کی ہوتی ہے؟ اس کے اخلاق کیسے ہوتے ہیں؟ اس زندگی کے اندر فرائض کیا ہیں؟ اس کے اندر محرمات کیا ہیں؟ کون سی چیزیں ایسی ہیں جو انسان کی اخلاقی، روحانی اور مادی ترقی کے لیے درکار ہیں؟ کون سی چیزیں ایسی ہیں جو اس راستے میں مانع ہیں؟ یہ شہادت بھی رسول کو اپنی زندگی میں دینی ہوتی ہے۔
تیسری شہادت جس کے لیے رسول کو شاہد بنایا گیا ہے وہ یہ ہے کہ آخرت میں اللہ تعالیٰ کی عدالت میں کھڑے ہوکر رسول یہ گواہی دے گا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن تک مَیں نے آپ کا کلام پہنچادیا تھا۔ اگراس گواہی میں ذرہ برابر بھی کمی یا کوتاہی ہو یا ذرہ برابر بھی یہ غلط گواہی ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ خود رسول کے خلاف prosecute (مقدمہ)کیا جاتا ہے، اور وہ لوگ جن کے خلاف رسول کو گواہی دینے کے لیے کھڑا کیا جاتا ہے بچ نکلتے ہیں۔ کیونکہ ان کے پاس یہ حجت ہوتی ہے کہ حضور ہمیں تو متنبہ ہی نہیں کیا گیا تھا۔ اس لیے رسول کے شاہد ہونے کی تیسری حیثیت یہ ہے کہ وہ آخرت میں اللہ کی عدالت میں کھڑے ہوکر یہ گواہی دے گا کہ ان لوگوں تک میںنے اللہ کا کلام پہنچا دیا تھا اور ان لوگوں کو مَیں نے اسلام کی پوری پوری دعوت دے دی تھی۔ اس کے بعد پھر ان لوگوں کے خلاف مقدمہ قائم ہوگا۔ پھر ان سے بازپُرس ہوگی کہ جب یہ چیز تم تک پہنچ گئی تو اس کے بعد تم نے کیا کیا؟
رسولؐ کے شاہد ہونے کی یہ تین حیثیتیں ہیں۔ لوگ ان کے غلط معنی یہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کو اس لیے شاہد بنایا گیا ہے کہ وہ قیامت تک لوگوں کے اعمال کے اُوپر گواہی دے۔ اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ یہ دیکھتا رہے کہ کون اپنے حجرے میں کیا کر رہا ہے؟ کون رات کی تاریکی میں کیا کر رہا ہے؟ اور کون جنگل میں کیا کر رہا ہے؟ یہ بالکل لغو بات ہے۔ اللہ کے رسول پر اتنی بڑی ذمہ داری نہیں ڈالی گئی ہے کہ دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد بھی اور اپنے رب سے لَو لگانے کے بعدوہ ہر ایک کو بیٹھا ہوا دیکھتا رہے کہ کون کیا کیا کر رہا ہے؟ کوئی گناہ کر رہا ہے تو اسے بھی بیٹھا وہ دیکھتا رہے، کوئی شراب پی رہا ہے تو اس کو بھی دیکھتا رہے۔ رسول کے ذمے یہ کام نہیں کیا گیا۔ جو لوگ رسول کے متعلق یہ خیال کرتے ہیں وہ حقیقت میں یہ سمجھتے ہیں کہ رسول کو اللہ تعالیٰ کے حضور پہنچنے کے بعد بھی روحانی سکون میسر نہیں ہے۔ دنیا میں بھی جب تک تھے یہاں بھی گالیاں کھاتے رہے، پتھر کھاتے رہے اور مخالفین کی دشمنیاں بھگتتے رہے۔ اب ان کے سپرد یہ کام ہے کہ رات کی تاریکی میں زانیوں اور چوروں کو دیکھتے رہیں اور سرپر کھڑے ہوکر گواہی دیں۔ یہ بالکل لغو اور مہمل بات ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس طرح کا مطالبہ سواے اللہ تعالیٰ کے اور کسی سے نہیں ہوسکتا۔ اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ کسی انسان کو وہ بصارت نصیب ہوجائے جو اللہ تعالیٰ کے لیے مخصوص ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے کہ وہ ساری کائنات کو بیک وقت دیکھ رہا ہے۔ کبھی اس کی نگاہ کسی خاص چیز کو دیکھنے میں اتنی مشغول نہیں ہوتی کہ وہ کسی دوسری چیز کو نہ دیکھ سکے۔ کائنات میں جس وقت، جہاں جو کچھ بھی ہو رہا ہے سب کچھ اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے۔ یہ بصارت اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو حاصل نہیں ہے۔ اگر ایسا رسول کوئی ہو تو پھر اس میں اور اللہ تعالیٰ میں کوئی فرق نہ ہوگا۔ ایسا نبی اگر کوئی ہو تو اسے شہادت کے لیے سماعت کی بھی ضرورت ہوگی جو دنیا کی ہرآواز کو ہروقت سنتا رہے اور کبھی اس کے کان ایسے مشغول نہ ہوں کہ اگر وہ اس وقت کسی چیز کو سن رہا ہو تو کسی دوسری چیز کو نہ سن سکے۔ یہ چیز اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو نصیب نہیں۔ اگر یہ سماعت بھی مخلوق کے لیے ہو تو پھر خدا اور بندے کے درمیان فرق کیا باقی رہ گیا۔
بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ عطا ہے۔ وہ سماعت اور بصارت جو اللہ تعالیٰ کی ذاتی ہے وہ اس نے اپنے بندے کو بخش دی۔ وہ صاف صاف یہ کیوں نہیں کہتے کہ اللہ تعالیٰ نے خدائی اپنے بندے کو بخش دی۔ وہ خود خدا ہے اور یہ بخشے ہوئے خدا ہیں۔ اس طرح کی مہمل باتیں وہ دینی مبالغہ ہے جس کے اندر اہلِ کتاب مبتلا ہیں۔ جس طرح اہلِ کتاب نے حضرت عیسٰی ؑ کی عقیدت میں ان کو خدا اور خدا کا بیٹا اور تین خدائوں میں سے ایک قرار دیا، یہ سب مبالغے کا نتیجہ تھا اور عقیدت کی زیادتی تھی۔ ایسے ہی لوگوں کے درمیان یہ تصور بھی پیدا ہوگیا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیدت کے معنی ہی یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کو بالکل خدا بنا کر چھوڑ ڈالا ہے اور فرق صرف اتنا باقی رکھا ہے کہ وہ اصلی خدا ہے اور یہ عطائی خدا ہیں۔
اِِنَّآ اَرْسَلْنَآ اِِلَیْکُمْ رَسُوْلًا لا شَاہِدًا عَلَیْکُمْ کَمَآ اَرْسَلْنَآ اِِلٰی فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا o (المزمل ۷۳:۱۵) تم لوگوں کے پاس ہم نے اُسی طرح ایک رسول تم پر گواہ بناکر بھیجا ہے جس طرح ہم نے فرعون کی طرف ایک رسول بھیجا تھا۔
اس جگہ ایک اور نکتہ ذہن میں ملحوظ رکھیے۔ عام طور پر لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ حضرت موسٰی ؑ صرف بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے رہائی دلانے کے لیے اور مصر سے نکالنے کے لیے مامور کیے گئے تھے۔ یہ بات غلط ہے۔ ان کے مشن کا یہ بھی ایک حصہ تھا جس طرح قرآنِ مجید میں فرمایا گیا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ صرف اس کام کے لیے بھیجے گئے تھے اور اس قوم کو ہدایت دینے کا کام ان کے سپرد نہیں کیا گیا تھا۔
یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ اے اہلِ مکہ ! ہم نے تمھاری طرف ایک رسول بھیجا ہے جس طرح کہ فرعون کی طرف بھیجا گیا تھا۔ جس طرح موسٰی ؑ نے فرعون کو اسلام کی دعوت دی تھی، اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ مکہ کو دعوت دی۔
فَعَصٰی فِرْعَوْنُ الرَّسُوْلَ فَاَخَذْنٰہُ اَخْذًا وَّبِیْلًاo (المزمل ۷۳:۱۶) (پھر دیکھ لو جب) فرعون نے اُس رسول کی بات نہ مانی تو ہم نے اُس کو بڑی سختی کے ساتھ پکڑ لیا۔
یہ کفارِ مکہ کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ اگر تم اس رسولؐ کے مقابلے میں وہ روش اختیار کرو گے جو فرعون نے اختیار کی تھی تو پھر وہ نتیجہ دیکھو گے جو فرعون نے دیکھاتھا۔
فَکَیْفَ تَتَّقُوْنَ اِِنْ کَفَرْتُمْ یَوْمًا یَّجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِیْبَانِ o السَّمَآئُ مُنْفَطِرٌم بِہٖ ط کَانَ وَعْدُہ‘ مَفْعُوْلًا o (المزمل ۷۳:۱۷-۱۸)
اگر تم ماننے سے انکار کرو گے تو اُس دن کیسے بچ جائو گے جو بچوں کو بوڑھا کردے گا اور جس کی سختی سے آسمان پھٹا جا رہا ہوگا؟ اللہ کا وعدہ تو پورا ہوکر ہی رہنا ہے۔
یعنی اگر آج تم نے اس رسولؐ کا انکار کیا اور پھر دنیا میں پھلتے پھولتے بھی رہے اور تم پر آج کوئی عذاب نازل نہ بھی ہوا، تمھاری تجارتیں چلتی رہیں، تمھارے کاروبار خوب کامیاب رہے، تمھاری مشیخیت اور سرداری چلتی رہی، تمھاری اولادیں پھلتی پھولتی رہیں۔ اگر یہ ہوا بھی تب بھی اس بات کا امکان نہیں ہے کہ تم آخرت کے عذاب سے بچ سکو گے۔
پھر فرمایاگیا کہ اس روز کیسے بچو گے جس دن کی سختی بچوں کو بوڑھا کردے گی۔ یہ محاورے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس دن واقعی بچے بوڑھے ہوجائیں گے بلکہ جو بچے تھے ان سے بازپُرس ہونی ہے، جو بوڑھے یا جوان تھے ان سے بازپُرس ہونی ہے۔ یہ محاورہ ہے۔ اُردو زبان میں بھی ہم اس محاورے کو استعمال کرتے ہیں اور عربی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ کسی دن کی انتہائی سختی کو بیان کرنا ہو تو کہتے ہیں کہ بچوں کے بال سفید ہوگئے۔ اسی طرح سے بتایا گیا ہے کہ ایسا سخت دن ہوگا کہ جس میں تکلیف انسان کی برداشت سے باہر ہوگی۔ آسمان پھٹا پڑ رہا ہوگا۔ کَانَ وَعْدُہ‘ مَفْعُوْلًا ’’اللہ کا وعدہ تو پورا ہوکر ہی رہنا ہے‘‘۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ دن کبھی نہ آئے۔ اس دن کا آنا یقینی ہے۔ اس دن کی تم نے کیا تیاری کی ہے؟اگر اس رسول کا تم انکار کرتے ہو تو اس روز اللہ کے عذاب سے کس طرح بچ سکوگے؟
اِِنَّ ہٰذِہٖ تَذْکِرَۃٌ ج فَمَنْ شَآئَ اتَّخَذَ اِِلٰی رَبِّہٖ سَبِیْلًا o(المزمل ۷۳:۱۹) یہ ایک نصیحت ہے، اب جس کا جی چاہے اپنے رب کی طرف جانے کا راستہ اختیار کرلے۔
تذکرہ کے معنی یاد دہانی، نصیحت اور سبق دینا ہے۔ وہ سبق دینا ہے جس سبق کو انسان بھول گیا ہے۔ ایک سبق وہ ہے جو انسان کی فطرت میں اترا ہوا ہے، اور ایک سبق وہ ہے جس کی مزید تائید تمام انبیاے کرام ؑ کرتے آئے ہیں۔ اس وجہ سے دنیا میں مشکل ہی سے کوئی آدمی ایسا ہوگا جس کے کان میں یہ بات نہ پڑی ہوکہ خدا ہے۔ بلاشبہہ انکار کرنے والے انکار کریں لیکن یہ کہ خدا ہے___ یہ آواز ہر ایک کے کان میں پڑ رہی ہے۔ کئی مذاہب دنیا میں ایسے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ خدا ایک نہیں ہے۔ اس کے باوجود دُوردراز کے انسانوں تک بھی یہ بات پہنچ رہی ہے بجز اس کے جو یہ کہہ سکتا ہو کہ جنگل میں پڑا رہ گیا اور جانوروں میں پلا بڑھا۔ اس کا معاملہ الگ ہے ورنہ دُوردراز کے انسانوں کے کان میں بھی یہ آواز پہنچ رہی ہے۔
اسی طرح سے یہ بات کہ مرنے کے بعد اُٹھنا ہے اور جاکر جواب دہی کرنی ہے، اس کا تصور بھی تمام انسانوں کے درمیان پایا جاتا ہے۔ آدمی کے اندر بھی یہ احساس موجود ہے کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم دنیا میں جو چاہیں عمل کریں اور اس کے بعد ہماری بازپُرس نہ ہو۔ یہ احساس ہرانسان کی فطرت کے اندر بھی اُترا ہوا ہے،اور یہ بات کانوں میں ضرور پڑی ہے۔ اس لیے کہ انبیا ؑ نے صدیوں تک ہزارہا برس تک اس کا اتنا صور پھونکا ہے کہ کوئی آدمی ایسا نہیں ہوگا جس کے کان میں یہ بات نہ پڑی ہو۔ اسی وجہ سے انبیا ؑ کو یاد دہانی کروانے والے اور قرآنِ مجید کو ذکر کہا گیا، یعنی یاددہانی اور نصیحت۔ قرآنِ مجید کوئی نئی چیز آدمی کے دماغ میں نہیں اُتارتا۔ وہ چیز جو پہلے سے انسان کے دماغ میں موجود ہے اگروہ اسے بھول گیا ہو تو وہ اسے تازہ کرتا ہے۔
اسی لیے فرمایا گیا کہ رسولؐ نے حق کی گواہی دے دی ہے، تم تک حق پہنچادیا ہے۔ اگر رسولؐ کی بات نہ مانو گے اور فرعون کی طرح روش اختیار کرو گے تو خدا کی پکڑ سے نہ بچ سکو گے۔ نیز اس دن سے کیسے بچ سکو گے جو بچوں کو بوڑھا کردے گا اور جس کی سختی سے آسمان پھٹا جا رہا ہوگا۔ لہٰذا قرآن تو ایک نصیحت ہے، اب جس کا جی چاہے اپنے رب کی طرف جانے کا راستہ اختیار کرلے۔
اِِنَّ رَبَّکَ یَعْلَمُ اَنَّکَ تَقُوْمُ اَدْنٰی مِنْ ثُلُثَیِ الَّیْلِ وَنِصْفَہٗ وَثُلُثَہٗ وَطَآئِفَۃٌ مِّنَ الَّذِیْنَ مَعَکَ o (۷۳:۲۰) اے نبیؐ، تمھارا رب جانتا ہے کہ تم کبھی دوتہائی رات کے قریب کبھی آدھی رات اور کبھی ایک تہائی رات عبادت میں کھڑے رہتے ہو، اور تمھارے ساتھیوں میں سے بھی ایک گروہ یہ عمل کرتا ہے۔
یہ سورئہ مزمل کا دوسرا رکوع ہے۔ سورئہ مزمل کا پہلا رکوع مکہ مکرمہ کے ابتدائی دور میں نازل ہوا تھا۔ دوسرا رکوع مدینہ طیبہ میں نازل ہوا۔ بعض مفسرین نے یہ لکھا ہے کہ پہلے رکوع کے ڈیڑھ سال بعد یہ نازل ہوا ہے۔ لیکن یہ بات ٹھیک معلوم نہیں ہوتی ہے، اس لیے کہ آگے چل کر اس میں جہاد کا ذکر آتا ہے۔ یہ ذکر آتا ہے کہ تم میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو تجارت کے لیے سفر کرتے ہیں، اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں۔ اللہ کی راہ میں لڑنے کا سلسلہ مکہ مکرمہ میں نہیں مدینہ منورہ میں شروع ہوا تھا۔ اس لیے یہ خیال کرنا کہ یہ رکوع مکہ معظمہ میں ایک سال بعد نازل ہوا تھا صحیح نہیں ہے۔ اس حصے کو جو ایک طویل مدت کے بعد نازل ہوا ہے اس کو سورئہ مزمل میں اس وجہ سے شامل کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے ابتدائی دور میں رسولؐ اللہ کو اور آپؐ کے ذریعے آپؐ کے ساتھیوں کو تربیت کا ایک کورس کروایا گیا۔ یہ بتایا گیا تھا کہ جس کارِعظیم کا بار آپ پر ڈالا گیا ہے اس کارِعظیم کے لیے آپ اپنے آپ کو کس طرح تیار کریں اور اس وقت آپ کو کہا گیا کہ رات کو کھڑے رہا کرو۔ قُمِ الَّیْلَ اِِلَّا قَلِیْلًا o نِّصْفَہٗٓ اَوِ انْقُصْ مِنْہُ قَلِیْلًا o (۷۳:۲-۳) ’’رات کو آدھی رات سے کچھ کم یا آدھی رات سے کچھ زیادہ اللہ کی عبادت میں کھڑا رہا کرو‘‘۔یہ تربیت کا کورس اس زمانے میں تھا جب مکہ معظمہ میں ایک شدید کش مکش جاری تھی۔ دشمنی پورے زور کے ساتھ شروع ہوگئی تھی اور اہلِ ایمان اور اہلِ کفر کے درمیان ایک زبردست کش مکش تھی ۔ اس موقعے پر یہ ہدایت کی گئی کہ تم اپنے آپ کو اس کارِعظیم کے لیے کس طرح تیار کرو۔
اس کے بعد جو حصہ مدینہ طیبہ میں نازل ہوا اس میں اس کورس کے اندر کچھ تخفیف اور نرمی کی گئی ہے۔ اس وجہ سے اس حصے کو جو غزوئہ بدر کے کئی سال بعد نازل ہوا اسی سورہ میں شامل کیا گیا ہے۔ جو لوگ اس بات سے واقف نہیں ہیں کہ پہلا رکوع کئی سال پہلے نازل ہوا ہے اور دوسرا رکوع کئی سال بعد نازل ہوا ہے، ان کو یہ سمجھنے میں پریشانی پیش آتی ہے کہ سورت کے آغاز میں تہجد کے لیے کوئی حکم ہے اور سورت کے آخر میں کوئی اور حکم ہے۔ ایک ہی سورت میں یہ دو چیزیں کیسے ہیں؟
یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ تم راتوں کو، کبھی دو تہائی رات، کبھی ایک تہائی را ت اور کبھی آدھی رات اللہ کی عبادت کے لیے کھڑے رہتے ہو۔ اور یہی حالت بہت سے ان لوگوں کی ہے جو تمھارے ساتھ ایمان لائے ہیں،یعنی دوسرے اہلِ ایمان بھی اس طرح سے رات رات بھر کھڑے رہتے ہیں۔
وَاللّٰہُ یُقَدِّرُ الَّیْلَ وَالنَّھَارَ ط ( ۷۳:۲۰) اللہ ہی رات اور دن کے اوقات کا حساب رکھتا ہے۔
اللہ رات اور دن کا حساب لگاتا رہتا ہے۔ اس کو معلوم ہے کہ تم کتنی دیر کھڑے رہتے ہو۔ اللہ کو معلوم ہے کہ تم حساب نہیں لگا سکتے۔ اس لیے کہ اس زمانے میں گھڑیاں تو تھیں نہیں کہ گھنٹے بجتے اور آدمی آواز سنتا۔ راتوں کی تاریکیوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمان اُٹھتے تھے اور نماز کے دوران میں ان کی ساری توجہ کلامِ پاک کی طرف ہوتی تھی جس کو وہ نماز میں پڑھتے تھے۔ اس لیے اندازہ ہی نہ رہتا تھا کہ رات کو ہم کتنی دیر کھڑے رہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم حساب نہیں لگاسکتے لیکن ہم حساب لگاتے رہتے ہیں اور دیکھتے رہتے ہیں کہ عبادت میں تمھاری کتنی رات گزر گئی ہے۔
عَلِمَ اَنْ لَّنْ تُحْصُوْہُ فَتَابَ عَلَیْکُمْ (۷۳:۲۰) اسے معلوم ہے کہ تم لوگ اوقات کا ٹھیک شمار نہیں کرسکتے، لہٰذا اس نے تم پر مہربانی فرمائی۔
یہاں فَتَابَ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمھاری توبہ قبول کرلی ہے بلکہ یہاں اس کے معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ تم پر مہربان ہے۔ مراد یہ ہے کہ جس خلوص کے ساتھ تم اپنے رب کی عبادت کر رہے ہو اور جس طرح سے تم عبادت کے لیے راتوں کو کھڑے رہتے ہو، اس وجہ سے اللہ تم پر مہربان ہے۔ توبہ کے ایک معنی کسی طرف جھکنے کے بھی ہیں۔ اس لیے فَتَابَ عَلَیْکُمْ کامطلب یہ ہے کہ تمھاری طرف جھکا اور تمھاری طرف متوجہ ہوا، یعنی تم پر مہربان ہوا۔
فَاقْرَئُ وْا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ ط ( ۷۳:۲۰) اب جتنا قرآن آسانی سے پڑھ سکتے ہو پڑھ لیا کرو۔
لہٰذا جتنا قرآن آسانی سے پڑھ سکتے ہو، اتنا پڑھ لو۔ اب اتنی زیادہ دیر تک کھڑے رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ نماز میں طول زیاد تر قرآن کی طویل قراء ت کی وجہ سے ہوتا ہے، باقی جتنی تسبیحات اوردُعائیں وغیرہ ہیں وہ ساری مختصر اور ملی جلی ہوتی ہیں، اس لیے فرمایا کہ جتنا قرآن آسانی سے پڑھ سکتے ہو، اتنا پڑھو۔
عَلِمَ اَنْ سَیَکُوْنُ مِنْکُمْ مَّرْضٰی لا وَاٰخَرُوْنَ یَضْرِبُوْنَ فِی الْاَرْضِ یَبْتَغُونَ مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ وَاٰخَرُوْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ز فَاقْرَئُ وْا مَا تَیَسَّرَ مِنْہُ لا (۷۳:۲۰) اسے معلوم ہے کہ تم میں کچھ مریض ہوںگے، کچھ دوسرے لوگ اللہ کے فضل کی تلاش میں سفر کرتے ہیں، اور کچھ اور لوگ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں۔ پس جتنا قرآن بآسانی پڑھا جاسکے پڑھ لیا کرو۔
اُوپر فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ تم پر مہربان ہوا اور یہاں وجہ بیان کی گئی ہے کہ تم پر کیوں نرمی کی جارہی ہے؟ اس لیے نرمی کی جارہی ہے کہ کچھ لوگ بیمار ہیں۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جو تجارتی سفر کرنے والے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جن کو لڑائیوں کی مصروفیت پیش آرہی ہے۔ اس حالت میں حکم کی وہ شدت باقی نہیں رکھی گئی جو کہ پہلے تھی۔ اس حالت میں نرمی کردی گئی۔ واضح رہے کہ رات کو تہجدپڑھنے کو معاف نہیں کردیا گیا۔ یہ نہیں کہا گیا کہ رات کو تہجد پڑھنا بندکردو ۔ فرمایا گیا کہ تہجد کی لمبی لمبی نمازیں پڑھنے کی اب ضرورت نہیں ہے۔ جتنا قرآن آسانی سے پڑھ سکتے ہو وہ پڑھو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بسااوقات رات رات بھر کھڑے رہنے کی نوبت آجاتی تھی۔ لیکن آپؐ کا بالعموم معمول یہ تھا کہ رات کے آخری حصے میں آپؐ اُٹھتے تھے۔ تہجد کی نماز پڑھنے کے بعد ایسے وقت پر تہجد کی نماز ختم کرتے تھے جب صبح کی اذان ہونے والی ہوتی تھی۔ صبح کی اذان ہوتی تھی تو اس کے بعد آپؐ دو رکعت نفل پڑھ لیتے تھے اور پھر آپؐ فرض نماز کے وقت تک لیٹ جایا کرتے تھے تاکہ آپؐ پھر اُٹھ سکیں۔رات کے آخری حصے میں تہجد پڑھنے میں وہ تکلیف نہیں ہوتی تھی جتنی کہ پوری پوری رات یا آدھی رات تک تہجد پڑھنے میں ہوتی تھی۔
وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ (۷۳:۲۰)’’اور نماز قائم کرو‘‘۔یہاں نماز قائم کرنے سے مراد فرض نماز ہے۔ وہ نماز جو پانچ وقت فرض کی گئی ہے اس کو قائم کرو۔ نمازِ تہجد میں تمھارے لیے تخفیف کردی گئی ہے لیکن نماز کی اقامت میں کوئی کوتاہی نہ ہونے پائے۔ نماز باقاعدگی سے ادا کی جائے۔
وَاٰتُوا الزَّکَـٰوۃَ (۷۳:۲۰) ’’اور زکوٰۃ ادا کرو‘‘۔یہاں زکوٰۃ سے مراد وہ فرض زکوٰۃ ہے جو لازم کردی گئی ہے۔ مراد یہ ہے کہ جتنی زکوٰۃ فرض ہو لازماً نکالی جائے۔
وَاَقْرِضُوْا اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا ط (۷۳:۲۰) ’’اور اللہ کو اچھا قرض دو‘‘۔یہ وہ زکوٰۃ و صدقات ہیں جو نافلہ ہیں۔ وَاٰتُوا الزَّکَـٰوۃَ میں فرض زکوٰۃ ہے اور وَاَقْرِضُوْا اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا میں صدقات نافلہ (نفلی صدقات) ہیں۔ یعنی اللہ کی راہ میں زکوٰۃ سے زائد، زیاد ہ سے زیادہ آدمی جو کچھ خرچ کرے وہ صدقات نافلہ ہیں۔
وَمَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِکُمْ مِّنْ خَیْرٍ تَجِدُوْہُ عِنْدَ اللّٰہِ (۷۳:۲۰) جو کچھ بھلائی تم اپنے لیے آگے بھیجو گے اسے اللہ کے ہاں موجود پائوگے۔
یعنی اپنے مرنے سے پہلے اپنی عاقبت کے لیے جو کچھ بھلائی تم آگے بھیجو گے اس کو اللہ کے پاس موجود پائو گے۔ تمھاری کوئی نیکی ضائع نہیں ہوگی۔ ایک پائی بھی جو تم نے خدا کے ہاں خرچ کی ہے اللہ کے ہاں وہ موجود پائو گے۔ کوئی نیک کام جو تم نے یہاں کیا ہے وہ ضائع ہونے والا نہیں۔
آدمی جو نیک کام کرتا ہے اس کے متعلق قرآنِ مجید میں دوسری بات اکثر یہ فرمائی گئی ہے کہ تم اسے آگے بھیج رہے ہو۔ یہ بالکل ایسا ہے جیسے کوئی رئیس آدمی کہیں آگے سفر کرنے کے لیے جانا چاہتا ہے تو قبل اس کے کہ وہ اپنی منزل پر پہنچے وہ اپنا خیمہ و سامان اور عیش کے سارے سامان پہلے ہی بھیج دیتا ہے تاکہ جب وہ وہاں پہنچے تو سب کچھ پہلے ہی سے وہاں موجود ہو اور اس کے خیمے لگے ہوں۔ اس چیز سے تشبیہہ دی گئی ہے کہ دنیا میں آدمی جو کچھ بھی نیک کام کر رہا ہے وہ اپنی عاقبت کے لیے آگے روانہ کر رہا ہے۔ جب وہ وہاں پہنچے گا تو اسے موجود پائے گا۔
ھُوَ خَیْرًا وَّاَعْظَمَ اَجْرًا ط (۷۳:۲۰) وہی زیادہ بہترہے اور اس کا اجر بہت بڑا ہے۔
دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہوا گویا اسلام ایک آدمی کو جو اخلاقی تعلیم دیتا ہے وہ یہ ہے کہ اس دنیا میں آدمی کے پاس جو کچھ ہے وہ اس نے استعمال کرلیا تو وہ اس دنیا میں استعمال ہوگیا۔ یہاں اپنی ذات پر خرچ کرلیا یا دنیا کی خاطر جو کچھ خرچ کرلیا وہ یہاں ختم ہوگیا۔ اس سے کسی اجر کا سوال آگے نہیں ہوگا۔ جو کچھ آگے چل کر آدمی کے کام آنے والی چیز ہے وہ مال، وہ محنت اور وہ کوششیں ہیں جو دنیا کی زندگی میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے،اس کے دین کی سربلندی کے لیے اور خلق کی بھلائی کے لیے آدمی کرتا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو آگے جانے والی ہے اور آگے محفوظ رہنے والی ہے۔ اگر ایک آدمی نے اپنے عیش کے لیے بہت شان دار محل بنا لیا ہے جس وقت وہ مرے گا وہ محل یہاں چھوڑ جائے گا۔ وہ محل وہاں منتقل ہونے والا نہیں ہے۔ البتہ جو بھلائی انسان نے اس دنیا میں کی ہے، اللہ کی راہ میں جو نیک کام کیے ہیں، یہ سارے کام آگے منتقل ہونے والے ہیں۔ یہ ضائع ہونے والے نہیں ہیں۔ یہ محض ایسا نہیں ہے کہ موت کی ایک ہچکی کے ساتھ سب کچھ ختم ہوگیا اور آگے کچھ نہیں ہے، بلکہ وہ آگے محفوظ رہنے والے ہیں۔ اسی لیے فرمایا گیا کہ جو کچھ تم نے آگے بھیجا ہے وہی زیادہ بہتر ہے اور اس کا اجر زیادہ ہے۔ دنیا میں آدمی جو کچھ خرچ کرتا ہے، فرض کیجیے کہ اپنی نیک نامی کے لیے خرچ کرتا ہے، تو اس کو اس کا اجر مل گیا اور نیک نامی ہوگئی یا اس کی شہرت ہوگئی، تعریفیں ہوگئیں۔ یہ یہاں اس کا اجر ہوگیا۔ اب آگے اس کے کسی اجر کا کوئی سوال نہیں پیدا ہوتا۔اس کے مقابلے میں جس آدمی نے خدا کی راہ میں خرچ کیا ہے اس کے اجر کی کوئی انتہا نہیں، وہ کبھی ختم ہونے والا نہیں ہے۔ وہ ہمیشہ باقی رہنے والا اجر ہے اور ترقی کرنے والا ہے۔
یہ اس لیے ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ کرنے کے لیے ایک بکری ذبح کروائی او ر وہ تقسیم ہوگئی اور تھوڑا سا گوشت باقی بچ گیا۔ جب آپؐ گھر تشریف لائے تو آپؐ نے گھر والوں سے پوچھا کہ کیا بکری ساری تقسیم کردی گئی ہے ؟ گھر والوں نے عرض کیا کہ ساری تقسیم کردی گئی ہے لیکن کچھ تھوڑا سا گوشت بچا ہوا ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ جو کچھ تقسیم کردیا گیا ہے وہ بچا ہوا ہے، یہ بچا ہوا نہیں ہے۔ جو اللہ کی راہ میں تقسیم کردیا گیا وہ اصل میں بچا ہوا ہے۔
یہ اسلام کی قدریں ہیں۔ اس معاملے میں اسلام کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ وہ چیز جو اللہ کی راہ میں آدمی نے خرچ کی وہ ضائع نہیں ہوگی بلکہ وہ محفوظ رہے گی۔ جو وہ اپنی ذات پر خرچ کرتا رہا ہے، یا اپنی اغراض پر، یا مفادات اور خواہشات پر خرچ کرتا رہا ہے، البتہ وہ ضائع ہوں گی۔
وَّاسْتَغْفِرُوا اللّٰہَ ط اِِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ o (۷۳:۲۰) اللہ سے مغفرت مانگتے رہو، بے شک اللہ بڑا غفور و رحیم ہے۔
اب یہ دیکھیے کہ ان نیکیوں کا حکم دینے کے بعد فرمایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرلو۔ آدمی راتوں کو تہجد کی نماز بھی پڑھ رہا ہے، اللہ کی راہ میں جنگ بھی کر رہا ہے، اللہ کی راہ میں نمازیں بھی قائم کر رہا ہے، زکوٰۃ بھی دے رہا ہے اور قرضِ حسن بھی دے رہا ہے۔ یہ سب کچھ کرنے کے بعد فرمایا جاتا ہے کہ اللہ سے استغفار کرو، یعنی گناہ پر ہی اللہ سے استغفار نہ کرو بلکہ نیکیوں پر بھی استغفار کرو۔ یہ ہے اسلام کا نقطۂ نظر! یہ نہیں ہے کہ اس بھروسے پر اطمینان سے گناہ کرو کہ اللہ معاف کردے گا۔ گناہ کرو اور آکر توبہ اور استغفار کرلو۔ یہ اسلام کا نقطۂ نظر نہیں ہے۔ اللہ کی راہ میں نیکیاں کرو، جانیں لڑائو اور راتوں کو کھڑے رہو اور پھر استغفار کرو۔
استغفار کیا ہے؟ استغفار کے اصل معنی ہیں: چشم پوشی کی درخواست کرنا۔ مغفرت کہتے ہیں درگزر اور چشم پوشی کو کہ کسی سے کوئی قصور ہوگیا تو اسے معاف کر دیا۔ اس کے قصور کو نہ دیکھا اور ویسے ہی درگزر کردیا۔
چشم پوشی کی درخواست کرنا یہ ہے کہ ہم سے جو کچھ ہوسکا حضور وہ خدمت ہم نے انجام دے دی۔ اس میں جو کچھ کوتاہی ہے اس سے درگزر فرمایئے۔ایک مومن کا کام یہ نہیں ہے کہ نیکی کرنے کے بعد غرور اور فخر میں مبتلا ہو کہ میں اتنا بڑا نیک آدمی ہوں۔ تہجد کی نماز پڑھے اور غرور میں مبتلا ہوجائے۔ یہ اس بندے کا کام نہیں ہے جو راتوں کو تہجد کی نماز پڑھتا ہو۔ یہ مومن کا کام نہیں ہے۔ جس آدمی کے دل میں یہ کبر اور فخر پیدا ہوگیا تو اس نے اپنی تہجد کو ضائع کر دیا۔ جس آدمی کے دل میں نیکی کرنے کے بعد یہ خیال پیدا ہوا کہ میں تو بڑا نیک آدمی ہوں، حقیقت میں وہ بد آدمی ہے۔ وہ نیک آدمی نہیں ہے۔ اس نے اپنے اس غرور کی وجہ سے سب کچھ ضائع کر دیا۔
سچے مومن کی شان یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں اپنی جان لڑانے، مال خرچ کرنے اور محنتیں کرنے کے بعد پھر اللہ سے مغفرت کی دعا کرے کہ جو کچھ میرا فرض تھا میں وہ انجام نہیں دے سکا۔ جو مجھے کرنا چاہیے تھا وہ نہیں کرسکا۔ جو کچھ عمل میں نے کیا ہے اس میں بیسیوں کوتاہیاں اور بیسیوں قصور ہیں۔ اگر آپ درگزر نہ کریں گے تو یہ سب کچھ ضائع چلا جائے گا۔ آپ درگزر فرمائیں اور چشم پوشی فرمائیں تو تب یہ قبول ہوسکتا ہے ورنہ میں جو تحفہ لایا ہوں وہ اس قابل نہیں ہے کہ آپ کی بارگاہ میں قبول ہو۔ یہ ہے نیکیاں کرنے کے بعد استغفار کرنے کا مفہوم۔
استغفار ہی تمام نیکیوں کو حقیقت میں نیکی بناتا ہے۔ اگر نیکی کرنے کے بعد استغفارنہ ہو تو وہ حقیقت میں نیکی نہیں بنتی۔ نیکی اس وقت بنتی ہے جب آدمی خدمت بجا لانے کے بعد بجاے غرور کے انکسار میں مبتلا ہوتا ہے، اور زیادہ اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتا ہے، اور زیادہ اللہ تعالیٰ سے مغفرت اور تربیت کی درخواست کرتا ہے۔
اِِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (۷۳:۲۰) یقینا اللہ تعالیٰ درگزر فرمانے والا ہے اور رحم فرمانے والا ہے۔
یعنی جو لوگ بھی اللہ تعالیٰ کے آگے عاجزی سے جھکنے والے ہیں اللہ تعالیٰ بھی ان کے ساتھ درگزر اور چشم پوشی ہی کا معاملہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کے ساتھ معاملہ دو قسم کا ہے: ایک وہ بندے جو اللہ کے مقابلے میں گھمنڈ اور استکبار اختیار کرتے ہیں، ان کے ساتھ اللہ کا معاملہ بے حد سختی کا ہے۔ جو خدا کے مقابلے میں کبر اختیار کرے، اس کے مقابلے میں اپنی ناک کو بڑا سمجھے، اور اس کے مقابلے میں گھمنڈ برتے، اس کے ساتھ پھر اللہ کا معاملہ بڑا سخت ہے۔اس کے برعکس جو شخص عاجزی اختیار کرے اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ بے انتہا نرمی، رحمت اور مہربانی کا ہے۔ اسی لیے فرمایا کہ عاجزی اختیار کرو اور استغفار کرو تو اللہ تعالیٰ تمھارے ساتھ درگزر کرنے والا ہے۔ (کیسٹ سے تدوین: امجد عباسی)
نماز، روزہ اور یہ حج اور زکوٰۃ جنھیں اللہ تعالیٰ نے آپ پر فرض کیا ہے ، اور اسلام کا رُکن قرار دیا ہے یہ ساری چیزیں دوسرے مذہبوں کی عبادات کی طرح پوجاپاٹ اور نذرونیاز اور جاترا کی رسمیں نہیں ہیں کہ بس آپ ان کو ادا کردیں اور اللہ تعالیٰ آپ سے خوش ہوجائے، بلکہ دراصل یہ ایک بڑے مقصد کے لیے آپ کو تیار کرنے اور ایک بڑے کام کے لیے آپ کی تربیت کرنے کی خاطر فرض کی گئی ہیں…
مختصر الفاظ میں تو صرف اتنا کہہ دینا ہی کافی ہے کہ وہ مقصد انسان پر سے انسان کی حکومت مٹاکر خداے واحد کی حکومت قائم کرنا ہے اور اس مقصد کے لیے سردھڑ کی بازی لگا دینے اور جان توڑ کوشش کرنے کا نام جہاد ہے اور نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، سب کے سب اسی کام کی تیاری کے لیے ہیں۔ لیکن چونکہ آپ لوگ مدت ہاے دراز سے اس مقصد کو اور اس کام کو بھول چکے ہیں اور ساری عبادتیں آپ کے لیے محض تصوف بن کر رہ گئی ہیں، اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اس ذرا سے فقرے میں جو مطلب میں نے ادا کیا ہے اسے آپ ایک معمّے سے زیادہ کچھ نہ سمجھے ہوں گے۔ اب میں آپ کے سامنے اس مقصد کی تشریح [کرتا ہوں]۔
دنیا میں آپ جتنی خرابیاں دیکھتے ہیں اُن سب کی جڑ دراصل حکومت کی خرابی ہے۔ طاقت اور دولت حکومت کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ قانون حکومت بناتی ہے۔ انتظام کے سارے اختیارات حکومت کے قبضے میں ہوتے ہیں۔ پولیس اور فوج کا زور حکومت کے پاس ہوتا ہے۔ لہٰذا جو خرابی بھی لوگوں کی زندگی میں پھیلتی ہے وہ یا تو خود حکومت کی پھیلائی ہوئی ہوتی ہے یا اس کی مدد سے پھیلتی ہے۔ کیونکہ کسی چیز کو پھیلنے کے لیے جس طاقت کی ضرورت ہوتی ہے وہ حکومت ہی کے پاس ہے…
حکومت کی خرابی تمام خرابیوں کی جڑ ہے۔ لوگوں کے خیالات کا گمراہ ہونا، اخلاق کا بگڑنا، انسانی قوتوں اور قابلیتوں کا غلط راستوں میں صرف ہونا، کاروبار اور معاملات کی غلط صورتوں اور زندگی کے بُرے طور طریق کا رواج پانا، ظلم و ستم اور بدافعالیوں کا پھیلنا اور خلقِ خدا کا تباہ ہونا، یہ سب کچھ نتیجہ ہے اس ایک بات کا کہ اختیارات اور اقتدار کی کنجیاں غلط ہاتھوں میں ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب طاقت بگڑے ہوئے لوگوں کے ہاتھوں میں ہوگی اور جب خلقِ خدا کا رزق انھی کے تصرف میں ہوگا، تو وہ نہ صرف خود بگاڑ کو پھیلائیں گے، بلکہ بگاڑ کی ہر صورت ان کی مدد اور حمایت سے پھیلے گی اور جب تک اختیارات اُن کے قبضے میں رہیں گے، کسی چیز کی اصلاح نہ ہوسکے گی۔
یہ بات جب آپ کے ذہن نشین ہوگئی تو یہ سمجھنا آپ کے لیے آسان ہے کہ خلقِ خدا کی اصلاح کرنے اور لوگوں کو تباہی کے راستوں سے بچاکر فلاح اور سعادت کے راستے پر لانے کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ حکومت کے بگاڑ کو دُرست کیا جائے۔ معمولی عقل کا آدمی بھی اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ جہاں لوگوں کو زنا کی آزادی حاصل ہو، وہاں زنا کے خلاف خواہ کتنا ہی وعظ کیا جائے زنا کا بند ہونا محال ہے۔ لیکن اگر حکومت کے اختیارات پر قبضہ کر کے زبردستی زنا کو بند کر دیا جائے تو لوگ خودبخود حرام کے راستے کو چھوڑ کر حلال کا راستہ اختیار کرلیں گے۔ شراب، جوا، سُود، رشوت، فحش تماشے، بے حیائی کے لباس، بداخلاق بنانے والی تعلیم، اور ایسی ہی دوسری چیزیں اگر آپ وعظوں سے دُور کرنا چاہیں تو کامیابی ناممکن ہے، البتہ حکومت کے زور سے یہ سب بلائیں دُور کی جاسکتی ہیں۔ جو لوگ خلقِ خدا کو لوٹتے اور اخلاق کو تباہ کرتے ہیں اُن کو آپ محض پندونصیحت سے چاہیں کہ اپنے فائدوں سے ہاتھ دھو لیں تو یہ کسی طرح ممکن نہیں۔ ہاں، اقتدار ہاتھ میں لے کر آپ بزور اُن کی شرارتوں کا خاتمہ کردیں تو ان ساری خرابیوں کا انسداد ہوسکتا ہے۔ اگر آپ چاہیں کہ بندگانِ خدا کی محنت، دولت، ذہانت و قابلیت غلط راستوں میں ضائع ہونے سے بچے اور صحیح راستوں میں صرف ہو، اگر آپ چاہیں کہ ظلم مٹے اور انصاف ہو، اگر آپ چاہیں کہ زمین میں فساد نہ ہو،انسان انسان کا خون نہ چوسے نہ بہائے، دبے اور گرے ہوئے انسان اُٹھائے جائیں اور تمام انسانوں کو یکساں عزت، امن، خوش حالی اور ترقی کے مواقع حاصل ہوں، تو محض تبلیغ و تلقین کے زور سے یہ کام نہیں ہوسکتا، البتہ حکومت کا زور آپ کے پاس ہو تو یہ سب کچھ ہونا ممکن ہے۔
پس یہ بالکل ایک کھلی ہوئی بات ہے جس کو سمجھنے کے لیے کچھ بہت زیادہ غوروفکر کرنے کی بھی ضرورت نہیں کہ اصلاحِ خلق کی کوئی اسکیم بھی حکومت کے اختیارات پر قبضہ کیے بغیر نہیں چل سکتی۔ جو کوئی حقیقت میں خدا کی زمین سے فتنہ و فساد کو مٹانا چاہتا ہو اور واقعی یہ چاہتا ہو کہ خلقِ خدا کی اصلاح ہو تو اس کے لیے محض واعظ اور ناصح بن کر کام کرنا فضول ہے۔ اسے اُٹھنا چاہیے اور غلط اصول کی حکومت کا خاتمہ کر کے غلط کار لوگوں کے ہاتھ سے اقتدار چھین کر صحیح اصول اور صحیح طریقے کی حکومت قائم کرنی چاہیے.....
یہی وہ بنیادی اصلاح ہے جس کو اسلام جاری کرنا چاہتا ہے۔ جو لوگ خدا کو اپنا بادشاہ (محض خیالی نہیں بلکہ واقعی بادشاہ) تسلیم کرلیں اور اس قانون پر جو خدا نے اپنے نبیؐ کے ذریعے سے بھیجا ہے، ایمان لے آئیں، اُن سے اسلام یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اپنے بادشاہ کے ملک میں اُس کا قانون جاری کرنے کے لیے اُٹھیں۔ اس کی رعیت میں سے جو لوگ باغی ہوگئے ہیں اور خود مالک الملک بن بیٹھے ہیں، ان کا زور توڑ دیں اور اللہ کی رعیت کو دوسروں کی رعیت بننے سے بچائیں۔ اسلام کی نگاہ میں یہ بات ہرگز کافی نہیں ہے کہ تم نے خدا کو خدا اور اس کے قانون کو قانونِ برحق مان لیا۔ نہیں، اس کو ماننے کے ساتھ ہی آپ سے آپ یہ فرض تم پر عائد ہوجاتا ہے کہ جہاں بھی تم ہو، جس سرزمین میں تمھاری سکونت ہو، وہاں خلقِ خدا کی اصلاح کے لیے اُٹھو۔ حکومت کے غلط اصول کو صحیح اصول سے بدلنے کی کوشش کرو، ناخدا ترس اور شتر بے مہار قسم کے لوگوں سے قانون سازی اور فرماں روائی کا اقتدار چھین لو، اور بندگانِ خدا کی رہنمائی و سربراہ کاری اپنے ہاتھ میں لے کر خدا کے قانون کے مطابق، آخرت کی ذمہ داری و جواب دہی کا اور خدا کے عالم الغیب ہونے کا یقین رکھتے ہوئے، حکومت کے معاملات انجام دو۔ اسی کوشش اور اسی جدوجہد کا نام جہاد ہے۔
لیکن حکومت اور فرماں روائی جیسی بَدبلا ہے، ہرشخص اس کو جانتا ہے۔ اس کے حاصل ہونے کا خیال آتے ہی انسان کے اندر لالچ کے طوفان اُٹھنے لگتے ہیں۔ خواہشاتِ نفسانی یہ چاہتی ہیں کہ زمین کے خزانے اور خلقِ خدا کی گردنیں اپنے ہاتھ میں آئیں تو دل کھول کر خدائی کی جائے۔ حکومت کے اختیارات پر قبضہ کرلینا اتنا مشکل نہیں جتنا ان اختیارات کے ہاتھ میں آجانے کے بعد خدا بننے سے بچنا اور بندئہ خدا بن کر کام کرنا مشکل ہے۔ پھر بھلا فائدہ ہی کیا ہوا اگر فرعون کو ہٹا کر تم خود فرعون بن گئے؟ لہٰذا اس شدید آزمایش کے کام کی طرف بلانے سے پہلے اسلام تم کو اس کے لیے تیارکرنا ضروری سمجھتا ہے۔
تم کو حکومت کا دعویٰ لے کر اُٹھنے اور دنیا سے لڑنے کا حق اُس وقت تک ہرگز نہیں پہنچتا جب تک تمھارے دل سے خودغرضی اور نفسانیت نہ نکل جائے۔ جب تک تم میں اتنی پاک نفسی پیدا نہ ہوجائے کہ تمھاری لڑائی اپنی ذاتی یا قومی اغراض کے لیے نہ ہو بلکہ صرف اللہ کی رضا اور خلق اللہ کی اصلاح کے لیے ہو، اور جب تک تم میں یہ صلاحیت مستحکم نہ ہوجائے کہ حکومت پاکر تم اپنی خواہشات کی پیروی نہ کرو بلکہ خدا کے قانون کی پیروی پر ثابت قدم رہ سکو۔ محض یہ بات کہ تم کلمہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہوگئے ہو، تمھیں اس کا مستحق نہیں بنا دیتی کہ اسلام تمھیں خلقِ خدا پر ٹوٹ پڑنے کا حکم دے دے، اور پھر تم خدا اور رسولؐ کا نام لے لے کر وہی سب حرکتیں کرنے لگو جو خدا کے باغی اور ظالم لوگ کرتے ہیں۔ قبل اس کے کہ اتنی بڑی ذمہ داریوں کا بوجھ اُٹھانے کے لیے تم کو حکم دیا جائے، اسلام یہ ضروری سمجھتا ہے کہ تم میں وہ طاقت پیدا کی جائے جس سے تم اس بوجھ کو سہار سکو۔
یہ نماز اور روزہ اور یہ زکوٰۃ اور حج دراصل اسی تیاری اور تربیت کے لیے ہیں۔ جس طرح تمام دنیا کی سلطنتیں اپنی فوج، پولیس اور سول سروس کے لیے آدمیوں کو پہلے خاص قسم کی ٹریننگ دیتی ہیں پھر اُن سے کام لیتی ہیں، اُسی طرح اللہ کا دین (اسلام) بھی ان تمام آدمیوں کو، جو اس کی ملازمت میں بھرتی ہوں، پہلے خاص طریقے سے تربیت دیتا ہے، پھر اُن سے جہاد اور حکومت ِ الٰہی کی خدمت لینا چاہتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ دنیا کی سلطنتوں کو اپنے آدمیوں سے جو کام لینا ہوتا ہے اُس میں اخلاق اور نیک نفسی اور خدا ترسی کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس لیے وہ انھیں صرف کاررواں بنانے کی کوشش کرتی ہیں،خواہ وہ کیسے ہی زانی، شرابی، بے ایمان اور بدنفس ہوں۔ مگر دینِ الٰہی کو جو کام اپنے آدمیوں سے لینا ہے وہ چونکہ سارے کاسارا ہے ہی اخلاقی کام، اس لیے وہ انھیں کارِرواں بنانے سے زیادہ اہم اس بات کو سمجھتا ہے کہ انھیں خدا ترس اور نیک نفس بنائے۔
وہ ان میں اتنی طاقت پیدا کرنا چاہتا ہے کہ جب وہ زمین میں خدا کی خلافت قائم کرنے کا دعویٰ لے کر اُٹھیں تو اپنے دعوے کو سچا کرکے دکھا سکیں۔ وہ لڑیں تو اس لیے نہ لڑیں کہ انھیں خود اپنے واسطے مال ود ولت اور زمین درکار ہے، بلکہ ان کے عمل سے ثابت ہوجائے کہ ان کی لڑائی خالص خدا کی رضا کے لیے اور اس کے بندوں کی فلاح و بہبود کے لیے ہے۔ وہ فتح پائیں تو متکبر وسرکش نہ ہوں بلکہ ان کے سر خدا کے آگے جھکے ہوئے رہیں۔ وہ حاکم بنیں تو لوگوں کو اپنا غلام نہ بنائیں بلکہ خود بھی خدا کے غلام بن کر رہیں اور دوسروں کو بھی خدا کے سوا کسی کا غلام نہ رہنے دیں۔ وہ زمین کے خزانوں پر قابض ہوں تو اپنی یا اپنے خاندان والوں یا اپنی قوم کے لوگوں کی جیبیں نہ بھرنے لگیں، بلکہ خدا کے رزق کو اس کے بندوں پر انصاف کے ساتھ تقسیم کریں، اور ایک سچے امانت دار کی طرح یہ سمجھتے ہوئے کام کریں کہ کوئی آنکھ ہمیں ہر حال میں دیکھ رہی ہے اور اُوپر کوئی ہے جسے ہم کو ایک ایک پائی کا حساب دینا ہے۔
اس تربیت کے لیے ان عبادتوں کے سوا اور کوئی دوسرا طریقہ ممکن ہی نہیں ہے۔ اور جب اسلام اس طرح اپنے آدمیوں کو تیار کرلیتا ہے، تب وہ ان سے کہتا ہے کہ ہاں، اب تم روے زمین پر خدا کے سب سے زیادہ صالح بندے ہو، لہٰذا آگے بڑھو، لڑ کر خدا کے باغیوں کو حکومت سے بے دخل کردو اور خلافت کے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لو:
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ (اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰) دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ (خطبات، ص ۲۵۹-۲۶۷)
ان حقائق کے سامنے آجانے کے بعد نہ صرف مسجدِاقصیٰ، بلکہ مدینہ منورہ کو بھی آنے والے خطرات سے بچانے کی صرف ایک ہی صورت باقی رہ جاتی ہے، اور وہ یہ ہے کہ تمام دنیا کے مسلمانوں کی طاقت اس یہودی خطرے کا مقابلہ کرنے اور اسلام کے مقاماتِ مقدسہ کو مستقل طور پر محفوظ کردینے کے لیے مجتمع کی جائے۔ اب تک یہ غلطی کی گئی ہے کہ فلسطین کے مسئلے کو ایک عرب مسئلہ بنائے رکھا گیا۔ دنیا کے مسلمان ایک مدت سے کہتے رہے کہ یہ اسلام اور مسلمانوں کا مسئلہ ہے مگر بعض عرب لیڈروں کو اس پر اصرار رہا کہ نہیں، یہ محض ایک عرب مسئلہ ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ اب مسجداقصیٰ کے سانحے سے ان کی آنکھیں بھی کھل گئی ہیں اور ان کی سمجھ میں یہ بات آگئی ہے کہ صہیونیت کی عظیم بین الاقوامی سازش کا مقابلہ، جب کہ دنیا کی بڑی طاقتوں کی پوری تائید و حمایت بھی اس کو حاصل ہے، تنہا عربوں کے بس کا روگ نہیں ہے۔ دنیا میں اگر ایک کروڑ ۶۰لاکھ یہودی ایک طاقت ہیں تو ۷۰، ۷۵ کروڑ مسلمان بھی ایک طاقت ہیں، اور ان کی ۳۰-۳۲ حکومتیں اس وقت انڈونیشیا سے مراکو اور مغربی افریقہ تک موجود ہیں۔ ان سب کے سربراہ اگر سرجوڑ کر بیٹھیں، اور روے زمین کے ہرگوشے میں بسنے والے مسلمان ان کی پشت پر جان و مال کی بازی لگادینے کے لیے تیار ہوجائیں تو اس مسئلے کو حل کرلینا، ان شاء اللہ کچھ زیادہ مشکل نہ ہوگا۔
اس سلسلے میں جو عالمی کانفرنس بھی ہو اس کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اصل مسئلہ محض مسجد اقصیٰ کی حفاظت کا نہیں ہے۔ مسجداقصیٰ محفوظ نہیں ہوسکتی جب تک بیت المقدس یہودیوں کے قبضے میں ہے، اور خود بیت المقدس بھی محفوظ نہیں ہوسکتا جب تک فلسطین پر یہودی قابض ہیں۔ اس لیے اصل مسئلہ فلسطین کو یہودیوں کے غاصبانہ تسلط سے آزاد کرانے کا ہے۔ اور اس کا سیدھا اور صاف حل یہ ہے کہ اعلان بالفور سے پہلے جو یہودی فلسطین میں آباد تھے صرف وہی وہاں رہنے کا حق رکھتے ہیں، باقی جتنے یہودی ۱۹۱۷ء کے بعد سے اب تک وہاں باہر سے آئے اور لائے گئے ہیں انھیں واپس جانا چاہیے۔ ان لوگوں نے سازش اور جبروظلم کے ذریعے سے ایک دوسری قوم کے وطن کو زبردستی اپنا قومی وطن بنایا، پھر اسے قومی ریاست میں تبدیل کیا، اور اس کے بعد توسیع کے جارحانہ منصوبے بناکر آس پاس کے علاقوں پر قبضہ کرنے کا نہ صرف عملاً ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کردیا، بلکہ اپنی پارلیمنٹ کی پیشانی پر علانیہ یہ لکھ دیا کہ کس کس ملک کو وہ اپنی اس جارحیت کا نشانہ بنانا چاہتے ہیں۔ ایسی ایک کھلی کھلی جارح ریاست کا وجود بجاے خود ایک جرم اور بین الاقوامی امن کے لیے خطرہ ہے اور عالمِ اسلامی کے لیے اس سے بھی بڑھ کر وہ اس بنا پر خطرہ ہے کہ اس کے ان جارحانہ ارادوں کا ہدف مسلمانوں کے مقاماتِ مقدسہ ہیں۔ اب اس ریاست کا وجود برداشت نہیں کیا جاسکتا، اس کو ختم ہونا چاہیے۔ فلسطین کے اصل باشندوں کی ایک جمہوری ریاست بننی چاہیے جس میں ملک کے پُرانے یہودی باشندوں کو بھی عرب مسلمانوں اور عیسائیوں کی طرح شہری حقوق حاصل ہوں، اور باہر سے آئے ہوئے اُن غاصبوں کو نکل جانا چاہیے جو زبردستی اس ملک کو قومی وطن اور پھر قومی ریاست بنانے کے مرتکب ہوئے ہیں۔
اس کے سوا فلسطین کے مسئلے کا کوئی حل نہیں ہے۔ رہا امریکا، جو اپنا ضمیر یہودیوں کے ہاتھ رہن رکھ کر، اور تمام اخلاقی اصولوں کو بالاے طاق رکھ کر ان غاصبوں کی حمایت کر رہا ہے، تو اب وقت آگیا ہے کہ تمام دنیا کے مسلمان اس کوصاف صاف خبردار کردیں کہ اس کی یہ روش اگر اسی طرح جاری رہی تو روے زمین پر ایک مسلمان بھی وہ ایسا نہ پائے گا جس کے دل میں اُس کے لیے کوئی ادنیٰ درجے کا بھی جذبۂ خیرسگالی باقی رہ جائے۔ اب وہ خود فیصلہ کرلے کہ اسے یہودیوں کی حمایت میں کہاں تک جانا ہے۔ (سانحۂ مسجداقصٰی، ص ۱۸-۲۰، ناشر: ادارہ ترجمان القرآن، لاہور)
اس سلسلے میں تمام کارکنوں کو یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ جماعت ِ اسلامی کا اصل کام جس پر تمام دوسری سرگرمیوں کی بنا قائم ہوتی ہے، عوام الناس کو اطاعت ِ خدا اور رسولؐ کی طرف بلانا، آخرت کی بازپُرس کا احساس دلانا، خیروصلاح اور تقویٰ کی تلقین کرنا، اور اسلام کی حقیقت سمجھانا ہے۔ یہ کام لٹریچر، تقریر، تعلیم، زبانی گفتگو اور تمام ممکن ذرائع سے وسیع پیمانے پر ہونا چاہیے۔
اس میں مسجدوں کی تعمیر، ان کی مرمت، ان کے لیے فرش، پانی اور دوسری ضروریات اور آسایشوں کی فراہمی، نیز اذان، نماز باجماعت، امام، درس و تدریس اور خطبات ِ جمعہ وغیرہ جملہ امور کا اطمینان بخش انتظام شامل ہے۔ اگر لوگ مسجد کی اہمیت اور اس کے مقام کو سمجھنے لگیں تو بستی اور محلّے میں مسجد سے زیادہ دل کش جگہ اور کوئی نہ ہو۔
ظاہر ہے کہ دین کے علم کے بغیر آدمی دین کی راہ پر نہیں چل سکتا۔ اگر اتفاق سے چل رہا ہے تو اس کے ہر آن بھٹک جانے کا اندیشہ ہے۔ اگر لوگ نہ دین کو جانیں اور نہ اس پر چلیں تو اسلامی نظام کا خواب کبھی حقیقت کی شکل اختیار نہیں کرسکتا۔ اس لیے دین خود بھی سیکھیے اور دوسروں کو بھی سکھانے کا انتظام کیجیے۔ دوسروں تک اسے پہنچانے کے لیے گفتگوؤں، مذاکرات، تقاریر، خطبات،درس، اجتماعی مطالعہ، تعلیمِ بالغاں، دارالمطالعوں اور اسلامی لٹریچر کی عام اشاعت اور تقسیم کو ذریعہ بنایئے۔ یاد رکھیے کہ دین کا علم پھیلانا ان کاموں میں سے ہے جو صدقۂ جاریہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
غنڈا گردی کے مقابلے میں لوگوں کی جان و مال اور آبرو کی حفاظت کرنا، عام طور پر لوگوں کو ظلم و ستم سے بچانا، شہریوں کے اندر اخلاقی فرائض اور ذمہ داریوں کے احساس کو بیدار کر کے ان کی ادایگی پر ان کو آمادہ کرنا اور شہروں اور دیہات کی اخلاقی حالت کو درست کرنا۔ صدیوں کے انحطاط کے نتیجے میں ہمارے معاشرے میں اب بدی اور برائی منظم، بے باک، جری اور ایک دوسرے کی پشت پناہ بن چکی ہے، اور نیکی اور شرافت اب انتشار، پست ہمتی، بزدلی اور کمزوری کے ہم معنی ہو کر رہ گئی ہے۔ اس صورتِ حال کو پھر سے بدلنا ہے اور نیکی اور شرافت کو منظم، بے باک اور نڈر بنا کر اسے معاشرے کے ہر گوشے میں حکمراں طاقت کی حیثیت دینا ہے۔
[فواحش] کے خلاف عوامی ضمیر اور احساسِ شرافت کو بیدار کرنا۔ فواحش کے سلسلے میں کسی ایک ہی گوشے پر نظر محدود نہیں کر دینی چاہیے بلکہ اس کے تمام سرچشموں پر نگاہ رکھنی چاہیے، مثلاً قحبہ خانے، شراب خانے، سینما کی پبلسٹی، دکانوں پر عریاں تصاویر کے سائن بورڈ.... مخلوط تعلیم، اخبارات میں فحش اشتہارات اور فلمی مضامین، ریڈیو پر فحش گانوں کے پروگرام، [الیکٹرانک میڈیا پر فحش اور بے ہودہ پروگرام]، دکانوں اور مکانوں پر فحش گانوںکی ریکارڈنگ، قماربازی کے اڈے، رقص کی مجالس، فحش لٹریچراور عریاں تصاویر، جنسی رسائل، آرٹ اور کلچر کے نام سے بے حیائی پھیلانے والی سرگرمیاں، مینابازار، عورتوں میں روز افزوں بے پردگی کی وبا۔
رشوت و خیانت اور سفارش کی لعنت کے خلاف راے عام کو منظم کرنا اور سرکاری حکام اور ماتحت کارکنوں میں خداترسی، فرض شناسی اور آخرت کی جواب دہی کا احساس بیدار کرنے کی کوشش کرنا۔ اس غرض کے لیے.... عدالتوں، تھانوں اور دوسرے سرکاری دفاتر میں قرآن مجید اور حدیث شریف اور اسلامی لٹریچر میں سے مناسب ِ حال آیات ، احادیث اور عبارتیں کتبوں کی شکل میں آویزاں کی جائیں۔
اس کے لیے مختلف جماعتوں کے مذہبی پیشوائوں سے ملاقاتیں کرکے ان کو اس کے بُرے نتائج سے باخبر کیا جائے کہ یہ چیز کس طرح اس ملک سے اسلام کی جڑیں اُکھاڑ دینے والی ہے اور اسے کس طرح ملک کے ذہین طبقے کے اندر علما اور مذہب کے خلاف نفرت پھیلانے کے لیے مخالف ِ اسلام عناصر کی طرف سے استعمال کیا جا رہا ہے، نیز عام پبلک کو بھی مناسب مواقع پر اس کے نتائج سے باخبر کیا جائے اور ان سے اپیل کی جائے کہ وہ اس قسم کے فتنوں کی سرپرستی سے بالکل کنارہ کش رہیں۔
اگر لوگ صحت و صفائی کے سلسلے میں معمولی احتیاط بھی برتنا شروع کر دیں تو وہ بہت سی وبائوں اور بیماریوں سے اپنے آپ کو اور دوسرے شہریوں کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ بہت سی احتیاطیں اور تدابیر ایسی ہیں جن پر یا تو کچھ بھی خرچ نہیں ہوتا یا بہت معمولی خرچ ہوتا ہے۔ جماعت کے کارکنوں کو چاہیے کہ اس سلسلے میں بھی عوام کی اصلاح و تربیت کریں۔ اس بارے میں ضروری رہنمائی کے لیے وہ ناظم شعبۂ خدمت ِ خلق جماعت اسلامی پاکستان اور اپنے ضلع کے ہیلتھ افسر کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔
اس پروگرام کے مطابق کام کرتے ہوئے جماعت کے کارکنوں کو یہ بات نگاہ میں رکھنی چاہیے کہ ہمیں ہر گوشۂ زندگی میں اسلام کے مطابق پورے معاشرے کی اصلاح کرنی ہے اور اسی پروگرام کو بتدریج ہمہ گیر اصلاح کا پروگرام بنا دینا ہے۔ کارکنوں کو اس امر کی کوشش بھی کرنی چاہیے کہ وہ اصلاحِ معاشرہ کے اس کام میں اپنے اپنے علاقوں کے تمام اسلام پسند اور اصلاح پسند عناصر کا تعاون حاصل کریں اور جو کوئی جس حد تک بھی ساتھ دے سکتا ہو، اسے اس عام بھلائی کی خدمت میں شریک کریں۔ (تحریک اسلامی کا آیندہ لائحۂ عمل ، ص ۲۰-۲۴)
اسلامی زندگی کی عمارت کو قائم ہونے اور قائم رہنے کے لیے جن سہاروں کی ضرورت ہے، ان میں سب سے مقدم سہارا یہ ہے کہ مسلمانوں کے افراد میں فرداً فرداً اور ان کی جماعت میں بحیثیت مجموعی وہ اوصاف پیدا ہوں جو خدا کی بندگی کا حق ادا کرنے اور دنیا میں خلافت ِ الٰہی کا بار سنبھالنے کے لیے ضروری ہیں۔
وہ غیب پر سچا اور زندہ ایمان رکھنے والے ہوں۔ وہ اللہ کو اپنا واحد فرماں روا تسلیم کریں اور اس کے فرض شناس اور اطاعت کیش بندے ہوں۔ اسلام کا نظامِ فکرونظریۂ حیات ان کی رَگ رَگ میں ایسا پیوستہ ہوجائے کہ اسی کی بنیاد پر اُن میں ایک پختہ سیرت پیدا ہو، اور ان کا عملی کردار اسی کے مطابق ڈھل جائے۔ اپنی جسمانی اور نفسانی قوتوں پر وہ اتنے قابو یافتہ ہوں کہ اپنے ایمان واعتقاد کے مطابق ان سے کام لے سکیں۔ ان کے اندر منافقین کی جماعت اگر پیدا ہوگئی ہو یا باہر سے گھس آئی ہو تو وہ اہلِ ایمان سے الگ ہوجائے۔ ان کی جماعت کا نظام اسلام کے اجتماعی اصولوں پر قائم ہو، اور ایک مشین کی طرح پیہم متحرک رہے۔ ان میں اجتماعی ذہنیت کارفرما ہو۔ ان کے درمیان محبت ہو، ہمدردی ہو، تعاون ہو، مساوات ہو، وحدتِ روح اور وحدتِ عمل ہو۔ وہ قیادت اور اقتدار کے حدود کو جانتے اور سمجھتے ہوں اور پورے نظم و ضبط کے ساتھ کام کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ یہ تمام مقاصد چونکہ نماز کی اقامت سے حاصل ہوتے ہیں، لہٰذا اس کو دین اسلام کا ستون قرار دیا گیا۔ یہ ستون اگر منہدم ہوجائے تو مسلمانوں کی انفرادی سیرت اور اجتماعی ہیئت دونوں مسخ ہوکر رہ جائیں اور وہ اس مقصد ِعظیم کے لیے کام کرنے کے اہل ہی نہ رہیں جس کی خاطر جماعت وجود میں آئی ہے۔ اسی بنا پر فرمایا گیا کہ نماز عماد الدین ہے، یعنی دین کا سہارا ہے جس نے اس کو گرایا اس نے دین کو گرا دیا۔
ان مقاصد کی اہمیت اسلام میں اتنی زیادہ ہے کہ ان کو حاصل کرنے کے لیے صرف نماز کو کافی نہ سمجھا گیا بلکہ اس رکن کو مزید تقویت پہنچانے کے لیے ایک دوسرے رکن روزے کا بھی اضافہ کردیا گیا ہے۔ نماز کی طرح یہ روزہ بھی قدیم ترین زمانے سے اسلام کا رُکن رہا ہے۔ اگرچہ تفصیلی احکام کے لحاظ سے اس کی شکلیں مختلف رہی ہیں مگر جہان تک نفسِ روزے کا تعلق ہے وہ ہمیشہ الٰہی شریعتوں کا جزولاینفک ہی رہا۔ تمام انبیا علیہم السلام کے مذہب میں یہ فرض کی حیثیت سے شامل تھا۔ جیساکہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے:
کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ (البقرہ ۲:۱۸۳) تم پر روزے فرض کردیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیا کے پیرووں پر فرض کیے گئے تھے۔
اس سے یہ بات خودبخود مترشح ہوتی ہے کہ اسلام کی فطرت کے ساتھ اس طریقِ تربیت کو ضرور کوئی مناسبت ہے۔
زکوٰۃ اور حج کی طرح روزہ ایک مستقل جداگانہ نوعیت رکھنے والا رُکن نہیں ہے بلکہ دراصل اس کا مزاج قریب قریب وہی ہے جو رکنِ صلوٰۃ کا ہے اور اسے رکنِ صلوٰۃ کے مددگار اور معاون ہی کی حیثیت سے لگایا گیا ہے۔ اس کا کام انھی اثرات کو زیادہ تیز اور زیادہ مستحکم کرنا ہے جو نماز سے انسانی زندگی پر مترتب ہوتے ہیں۔ نماز روزمرہ کا معمولی نظامِ تربیت ہے جو روز پانچ وقت تھوڑی تھوڑی دیر کے لیے آدمی کو اپنے اثر میں لیتا ہے اور تعلیم و تربیت کی ہلکی ہلکی خوراکیں دے کر چھوڑ دیتا ہے، اور روزہ سال بھر میں ایک مہینے کا غیرمعمولی نظامِ تربیت (special training course) ہے جو آدمی کو تقریباً ۷۲۰ گھنٹے تک مسلسل اپنے مضبوط ڈسپلن کے شکنجے میں کَسے رکھتا ہے تاکہ روزانہ کی معمولی تربیت میں جو اثرات خفیف تھے وہ شدید ہوجائیں۔ یہ غیرمعمولی نظامِ تربیت کس طرح اپنا کام کرتا ہے، اور کس کس ڈھنگ سے نفسِ انسانی پر مطلوب اثر ڈالتا ہے ، اس کا تفصیلی جائزہ ہم ان صفحات میں لینا چاہتے ہیں۔
روزے کا قانون یہ ہے کہ آخر شب طلوعِ سحر کی پہلی علامات ظاہر ہوتے ہی آدمی پر یکایک کھانا پینا اور مباشرت کرنا حرام ہوجاتا ہے اور غروبِ آفتاب تک پورے دن حرام رہتا ہے۔ اس دوران میں پانی کا ایک قطرہ اور خوراک کا ایک ریزہ تک قصداً حلق سے اُتارنے کی اجازت نہیں ہوتی اور زوجین کے لیے ایک دوسرے سے قضاے شہوت کرنا بھی حرام ہوتا ہے۔ پھر شام کو ایک خاص وقت آتے ہی اچانک حُرمت کا بند ٹوٹ جاتا ہے۔ وہ سب چیزیں جو ایک لمحے پہلے تک حرام تھیں یکایک حلال ہوجاتی ہیں اور رات بھر حلال رہتی ہیں، یہاں تک کہ دوسرے روز کی مقررہ ساعت آتے ہی پھر حُرمت کا قفل لگ جاتا ہے۔ ماہِ رمضان کی پہلی تاریخ سے یہ عمل شروع ہوتا ہے اور ایک مہینے تک مسلسل اس کی تکرار جاری رہتی ہے۔ گویا پورے ۳۰دن آدمی ایک شدید ڈسپلن کے ماتحت رکھا جاتا ہے۔ مقرر وقت تک سحری کرے، مقرر وقت پر افطار کرے، جب تک اجازت ہے، اپنی خواہشاتِ نفس پوری کرتا رہے اور جب اجازت سلب کرلی جائے تو ہر اس چیز سے رُک جائے جس سے منع کیا گیا ہے۔
اس نظامِ تربیت پر غور کرنے سے جو بات سب سے پہلے نظر میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ اسلام اس طریقے سے انسان کے شعور میں اللہ کی حاکمیت کے اقرار و اعتراف کو مستحکم کرنا چاہتا ہے، اور اس شعور کو اتنا طاقت ور بنادینا چاہتا ہے کہ انسان اپنی آزادی اور خودمختاری کو اللہ کے آگے بالفعل تسلیم (surrender) کردے۔ یہ اعتراف و تسلیم ہی اسلام کی جاں ہے، اور اسی پر آدمی کے مسلم ہونے یا نہ ہونے کا مدار ہے۔
دین اسلام کا مطالبہ انسان سے صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ بس وہ خداوندعالم کے وجود کو مان لے، یا محض ایک مابعد الطبیعی نظریے کی حیثیت سے اس بات کا اعتراف کرلے کہ اس کائنات کے نظام کو بنانے اور چلانے والا صرف اللہ واحد قہار ہے، بلکہ اس کا اصل مقصد یہ ہے کہ آدمی اس امرواقعی کو ماننے کے ساتھ ہی اس کے منطقی اور فطری نتیجے کو بھی قبول کرے۔ یعنی جب وہ یہ مانتا ہے کہ اس کا اور تمام دنیا کا خالق، پروردگار، قیام بخش اور مدبر امر صرف اللہ تعالیٰ ہے، اور جب وہ تسلیم کرتا ہے کہ نہ تخلیق میں کوئی اللہ کا شریک ہے، نہ پرورش میں، نہ قیامِ بخشی میں اور نہ تدبیر امر میں، تو اس تسلیم و اعتراف کے ساتھ ہی اسے اللہ کی حاکمیت و فرماں روائی کے آگے سپرڈال دینی چاہیے۔ اپنی آزادی و خودمختاری کے غلط اِدعا سے خیال اور عمل دونوں میں دست بردار ہوجانا چاہیے، اور اللہ کے مقابلے میں وہی رویّہ اختیار کرلینا چاہیے جو ایک بندے کا اپنے مالک کے مقابلے میں ہونا لازم ہے۔
یہی چیز دراصل کفر اور اسلام کے درمیان فارق ہے۔ کفر کی حالت اس کے سوا کچھ نہیں کہ آدمی اپنے آپ کو اللہ کے مقابلے میں خودمختار اور غیرجواب دہ سمجھے اور یہی سمجھ کر اپنے لیے زندگی کا راستہ اختیار کرے، اور اسلام کی حالت اس کے سوا کسی اور چیز کا نام نہیں کہ انسان اپنے آپ کو اللہ کا بندہ اور اس کے سامنے جواب دہ سمجھے اور اسی احساسِ بندگی و ذمہ داری کے ساتھ دُنیا میں زندگی بسر کرے۔ پس حالت ِ کفر سے نکل کر حالت ِ اسلام میں آنے کے لیے جس طرح اللہ کی حاکمیت کا سچا اور قلبی اقرار ضروری ہے، اسی طرح اسلام میں رہنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ آدمی کے دل میں بندگی کا احساس و شعور ہردم تازہ، ہروقت زندہ اور ہر آن کارفرما رہے ۔ کیونکہ اس احساسِ شعور کے دل سے دُور ہوتے ہی خود مختاری و غیرذمہ داری کا رویّہ عود کرآتا ہے، اور کفر کی وہ حالت پیدا ہوجاتی ہے جس میں آدمی یہ سمجھتے ہوئے کام کرتا ہے کہ نہ اللہ اس کا حاکم ہے اور نہ اسے اللہ کو اپنے عمل کا حساب دینا ہے۔
جیساکہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے، نماز کا اوّلیں مقصد انسان کے اندر ’اسلام‘ کی اسی حالت کو پے درپے تازہ کرتے رہنا ہے ، اور یہی روزے کا مقصد بھی ہے، مگر فرق یہ ہے کہ نماز روزانہ تھوڑے تھوڑے وقفوں کے بعد تھوڑی تھوڑی دیر کے لیے اس کو تازہ کرتی ہے، اور رمضان کے روزے سال بھر میں ایک مرتبہ پورے ۷۲۰گھنٹوں تک پیہم اس حالت کو آدمی پر طاری رکھتے ہیں، تاکہ وہ پوری قوت کے ساتھ دل و دماغ میں بیٹھ جائے اور سال کے باقی ۱۱مہینوں تک اس کے اثرات قائم رہیں۔ اول تو روزے کے سخت ضابطے کو اپنے اُوپر نافذ کرنے کے لیے کوئی شخص اس وقت تک آمادہ ہی نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اللہ کو اپنا حاکم اعلیٰ نہ سمجھتا ہو اور اس کے مقابلے میں اپنی آزادی و خودمختاری سے دست بردار نہ ہوچکا ہو۔ پھر جب وہ دن کے وقت مسلسل ۱۲،۱۲؍۱۳،۱۳گھنٹے کھانے پینے اور مباشرت کرنے سے رُکا رہتا ہے، اور جب سحری کا وقت ختم ہوتے ہی نفس کے مطالبات سے یکایک ہاتھ کھینچ لیتا ہے، اور جب افطار کا وقت آتے ہی نفس کے مطلوبات کی طرف اس طرح لپکتا ہے کہ گویا فی الواقع اس کے ہاتھوں اور اس کے منہ اور حلق پر کسی اور کی حکومت ہے، جس کے بند کرنے سے وہ بند ہوتے اور جس کے کھولنے سے وہ کھلتے ہیں، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس دوران میں اللہ کی حاکمیت اور اپنی بندگی کا احساس اس پر ہروقت طاری ہے۔ اس پورے ایک مہینے کی طویل مدت میں یہ احساس اس شعور یا تحت الشعور سے ایک لمحے کے لیے بھی غائب نہیں ہوا۔ کیونکہ اگر غائب ہوجاتا تو ممکن ہی نہ تھا کہ وہ ضابطے کو توڑنے سے باز رہ جاتا۔
احساسِ بندگی کے ساتھ خود بخود جو چیز لازمی نتیجے کے طور پر پیدا ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو جس کا بندہ سمجھ رہا ہے اس کے حکم کی اطاعت کرے۔
ان دونوں چیزوں میں ایسا فطری اور منطقی تعلق ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا ہو ہی نہیں سکتے، نہ ان کے درمیان کبھی تناقض (inconsistency) کے لیے گنجایش نکل سکتی ہے۔ اس لیے کہ اطاعت دراصل نتیجہ ہی اعترافِ خداوندی کا ہے۔ آپ کسی کی اطاعت کر ہی نہیں سکتے جب تک کہ اس کی خداوندی نہ مان لیں، اور جب حقیقت میں کسی کی خداوندی آپ مان چکے ہیں، تو اس کی بندگی و اطاعت سے کسی طرح باز نہیں رہ سکتے۔ انسان نہ اتنا احمق ہے کہ خواہ مخواہ کسی کا حکم مانتا چلا جائے درآں حالے کہ اس کے حقِ حکمرانی کو تسلیم نہ کرتا ہو۔ اور نہ انسان میں اتنی جرأت موجود ہے کہ وہ فی الواقع اپنے قلب و روح میں جسے حاکمِ ذی اقتدار سمجھتا ہو، اور جسے نافع و ضار اور پروردگار مانتا ہو، اس کی اطاعت سے منہ موڑ جائے۔ بس درحقیقت خداوندی کے اعتراف اور بندگی و طاعت کے عمل میں لازم و ملزوم کا تعلق ہے، اور یہ عین عقل و منطق کا تقاضا ہے کہ ان دونوں کے درمیان ہر پہلو سے کامل توافق ہو۔
آقائی و خداوندی میں توحید لامحالہ بندگی و طاعت میں توحید پر منتج ہوگی، اور آقائی و خداوندی میں شرک کا نتیجہ لازماً بندگی و اطاعت میں شرک ہوگا۔ آپ ایک کو خدا سمجھیں گے تو ایک ہی کی بندگی بھی کریں گے۔ دس کی خداوندی تسلیم کریں گے تو بندگی و طاعت کا رُخ بھی ان دسوں کی طرح پھرے گا۔ یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ آپ خداوندی دس کی تسلیم کر رہے ہوں اور اطاعت ایک کی کریں۔
ذاتِ خداوندی کا تعین لامحالہ سمت ِ بندگی کے تعین پر منتج ہوگا۔ آپ جس کی خداوندی کا اعتراف کریں گے لازماً اطاعت بھی اسی کی کریں گے۔ یہ کسی طرح ممکن نہیں کہ خداوند ایک کومانیں اور اطاعت دوسرے کی کریں۔ تعارض کا امکان زبانی اعتراف اور واقعی بندگی میں تو ضرور ممکن ہے، مگر قلب و روح کے حقیقی احساس و شعور اور جوارح کے عمل میں ہرگز ممکن نہیں۔ کوئی عقل اس چیز کا تصور نہیں کرسکتی کہ آپ فی الحقیقت اپنے آپ کو جس کا بندہ سمجھ رہے ہیں اس کے بجاے آپ کی بندگی کا رُخ کسی ایسی ہستی کی طرف پھر سکتا ہے جس کا بندہ آپ فی الحقیقت اپنے آپ کو نہ سمجھتے ہوں۔ بخلاف اس کے عقل یہ فیصلہ کرتی ہے کہ جس طرف بھی آپ کی بندگی کا رُخ پھر رہا ہے اُسی کی خداوندی کا نقش دراصل آپ کے ذہن پر مرتسم ہے، خواہ زبان سے آپ اس کے سوا کسی اورکی خداوندی کا اظہار کررہے ہوں۔
خداوندی کے اعتراف اور بندگی کے احساس میں کمی بیشی لازماً اطاعت ِامر کی کمی بیشی پر منتج ہوگی۔ کسی کے خدا ہونے اور اپنے بندہ ہونے کا احساس آپ کے دل میں جتنا زیادہ شدید ہوگا اسی قدر زیادہ شدت کے ساتھ آپ اس کی اطاعت کریں گے، اور اس احساس میں جتنی کمزوری ہوگی اتنی اطاعت میں کمی واقع ہوجائے گی، حتیٰ کہ اگر یہ احساس بالکل نہ ہو تو اطاعت بھی بالکل نہ ہوگی۔
ان مقدمات کو ذہن نشین کرنے کے بعد یہ بات بالکل صاف، واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام کا مدّعا اللہ کی خداوندی کا اقرار کرانے اور اس کے سوا ہر ایک کی خداوندی کا انکار کرا دینے سے اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی بندگی و اطاعت نہ کرے۔ جب وہ اَلَا لِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ [آگاہ رہو اللہ ہی کے لیے ہے اطاعت ِ خالص۔الزمر۳۹:۳] کہتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اطاعت خالصاً و مخلصاً صرف اللہ کے لیے ہے، کسی دوسری مستقل بالذات اطاعت کی آمیزش کے ساتھ نہیں ہوسکتی۔ جب وہ کہتا ہے کہ:
وَمَآ اُمِرُوْٓا اِِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ (البینہ۹۸:۵) اور نہیں حکم دیے گئے سواے اس کے کہ اللہ کی بندگی کریں خالص کرتے ہوئے اس کے لیے دین۔
تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ صرف اللہ ہی کی بندگی کرنے پر انسان مامور ہے اور اس کی بندگی کرنے کی شرط یہ ہے کہ انسان اس کی اطاعت کے ساتھ کسی دوسرے کی اطاعت مخلوط نہ کرے۔ جب وہ کہتا ہے کہ:
قَاتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّ یَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ (الانفال ۸:۳۹) لڑتے رہو اُن سے یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین پورا کا پورا اللہ کے لیے ہوجائے۔
تو اس کا صاف اور صریح مطلب یہ ہوتا ہے کہ مسلمان کی اطاعت پوری کی پوری اللہ ہی کے لیے وقف ہے اور ہر اس طاقت سے مسلمان کی جنگ ہے جو اس اطاعت میں حصہ بٹانا چاہتی ہو۔ جس کا مطالبہ یہ ہو کہ مسلمان خداوندعالم کے ساتھ اس کی اطاعت بھی کرے، یا خداوندعالم کے بجاے صرف اسی کی اطاعت کرے۔ پھر جب وہ کہتا ہے کہ:
ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَـہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ ط (الفتح۴۸: ۲۸) وہی ہے جس نے بھیجا اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ تاکہ وہ غالب کردے اسے سارے دین پر۔
تو اس کا صاف اور صریح مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ کی اطاعت تمام اطاعتوں پر غالب ہو، اطاعت اور بندگی کا پورا نظام اپنے تمام شعبوں اور سارے پہلوئوں کے ساتھ اطاعت ِ الٰہی کے نیچے آجائے، جس کی فرماں برداری بھی ہو، خداوندعالم کی اجازت کے تحت ہو، اور جس فرماں برداری کے لیے وہاں سے حکم یا سند ِ جواز نہ ملے اس کا بند کاٹ ڈالا جائے، یہ اس دین حق اور اس ہدایت کا تقاضا ہے جو اللہ اپنے رسولؐ کے ذریعے سے بھیجتا ہے۔
اس تقاضے کے مطابق خواہ انسان کے ماں باپ ہوں، خواہ خاندان اور سوسائٹی ہو، خواہ قوم اور حکومت ہو، خواہ امیر یا لیڈر ہو، خواہ علما اور مشائخ ہوں، خواہ وہ شخص یا ادارہ ہو جس کی انسان ملازمت کرکے پیٹ پالتا ہے، اور خواہ انسان کا اپنا نفس اور اس کی خواہشات ہوں، کسی کی اطاعت بھی خداوندعالم کی اصلی اور بنیای اطاعت کی قید سے مستثنیٰ نہیں ہوسکتی۔ اصل مطاع اللہ تعالیٰ ہے۔ جو اس کی خداوندی کا اقرار کرچکا اور جس نے اس کے لیے اپنی زندگی کو خالص کرلیا، وہ جس کی اطاعت بھی کرے گا، اللہ ہی کی اطاعت کے تحت رہ کر کرے گا۔ جس حد تک جس کی بات ماننے کی وہاں سے اجازت ہوگی اسی حد تک مانے گا، اور جہاں اجازت کی حد ختم ہوجائے گی وہاں وہ ہرایک کا باغی اور صرف اللہ کا فرماں بردار نکلے گا۔
روزے کا مقصد آدمی کو اسی اطاعت کی تربیت دینا ہے۔ وہ مہینے بھر تک روزانہ کئی کئی گھنٹے آدمی کو اس حالت میں رکھتا ہے کہ اپنی بالکل ابتدائی (elementary) ضرورت پوری کرنے کے لیے بھی اس کو خداوندعالم کے اذن و اجازت کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔ غذا کا ایک لقمہ اور پانی کا ایک قطرہ تک وہ حلق سے گزار نہیں سکتا جب تک کہ وہاں سے اجازت نہ ملے۔ ایک ایک چیز کے استعمال کے لیے وہ شریعت ِ خداوندی کی طرف دیکھتا ہے۔ جو کچھ وہاں حلال ہے وہ اس کے لیے حلال ہے، خواہ تمام دنیا اُسے حرام کرنے پر متفق ہوجائے ، اور جو کچھ وہاں حرام ہے وہ اس کے لیے حرام ہے، خواہ ساری دنیا مل کر اُسے حلال کردے۔ اس حالت میں خداے واحد کے سوا کسی کا اذن اس کے لیے اذن نہیں، کسی کا حکم اس کے لیے حکم نہیں، اور کسی کی نہی اس کے لیے نہی نہیں۔ خود اپنے نفس کی خواہش سے لے کر دنیا کے ہرانسان اور ہر ادارے تک کوئی طاقت ایسی نہیں ہے جس کے حکم سے مسلمان رمضان میں روزہ چھوڑ سکتا ہو یا توڑسکتا ہو۔ اس معاملے میں نہ بیٹے پر باپ کی اطاعت ہے، نہ بیوی پر شوہر کی، نہ ملازم پر آقا کی، نہ رعیّت پر حکومت کی، نہ پیرو پر لیڈر یا امام کی۔ بالفاظِ دیگر اللہ کی بڑی اور اصلی اطاعت تمام اطاعتوں کو کھاجاتی ہے اور ۷۲۰گھنٹے کی طویل مشق و تمرین سے روزے دار کے دل پر کالنقش فی الحجر یہ سکّہ بیٹھ جاتا ہے کہ ایک ہی مالک کا وہ بندہ ہے ، ایک ہی قانون کا وہ پیرو ہے، اور ایک ہی اطاعت کا حلقہ اس کی گردن میں پڑا ہے۔
اس طرح یہ روزہ انسان کی فرماں برداریوں اور اطاعتوں کو ہر طرف سے سمیٹ کر ایک مرکزی اقتدار کی جانب پھیر دیتا ہے اور ۳۰ دن تک روزانہ ۱۲،۱۲؍ ۱۴،۱۴ گھنٹے تک اسی سمت میں جمائے رکھتا ہے، تاکہ اپنی بندگی کے مرجع اور اپنی اطاعت کے مرکز کو وہ اچھی طرح متحقق کرے اور رمضان کے بعد جب اس ڈسپلن کے بند کھول دیے جائیں تو اس کی اطاعتیں اور فرماں برداریاں بکھر کر مختلف مرجعوں کی طرف بھٹک نہ جائیں۔
اطاعت ِ امر کی اس تربیت کے لیے بظاہر انسان کی صرف دو خواہشوں (یعنی غذا لینے کی خواہش اور صنفی خواہش) کو چھانٹ لیا گیا ہے اور ڈسپلن کی ساری پابندیاں صرف انھی دو پر لگائی گئی ہیں۔ لیکن روزے کی اصل روح یہ ہے کہ آدمی پر اس حالت میں خدا کی خداوندی اور بندگی و غلامی کا احساس پوری طرح طاری ہوجائے اور وہ ایسا مطیع امر ہوکر یہ ساعتیں گزارے کہ ہراُس چیز سے رُکے جس سے خدا نے روکا ہے، اور ہراُس کام کی طرف دوڑے جس کا حکم خدا نے دیا ہے۔ روزے کی فرضیت کا اصل مقصد اسی کیفیت کو پیدا کرنا اور نشوونما دینا ہے نہ کہ محض کھانے پینے اور مباشرت سے روکنا۔ یہ کیفیت جتنی زیادہ ہو، روزہ اتنا ہی مکمل ہے، اور جتنی اس میں کمی ہو اتنا ہی وہ ناقص ہے۔ اگر کسی آدمی نے اس احمقانہ طریقے سے روزہ رکھا کہ جن جن چیزوں سے روزہ ٹوٹتا ہے ، ان سے تو پرہیز کرتا رہا اور باقی تمام ان افعال کا ارتکاب کیے چلاگیا جنھیں خدا نے حرام کیا ہے، تو اس کے روزے کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے ایک مُردہ لاش کہ اس میں اعضا تو سب کے سب موجود ہیں، جن سے صورتِ انسانی بنتی ہے مگر جان نہیں ہے جس کی وجہ سے انسان انسان ہے۔ جس طرح اس بے جان لاش کو کوئی شخص انسان نہیں کہہ سکتا اسی طرح اس بے روح روزے کو بھی کوئی روزہ نہیں کہہ سکتا۔ یہی بات ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی کہ:
من لم یدع قول الزور والعمل بہٖ فلیس للّٰہ حاجۃ فی ان یدع طعامہ وشرابہ (بخاری، کتاب الصوم) جس نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو خدا کو اس کی حاجت نہیں ہے کہ وہ اپنا کھانا اور پینا چھوڑ دے۔
جھوٹ بولنے کے ساتھ ’جھوٹ پر عمل کرنے‘کا جو ارشاد فرمایا گیا ہے یہ بڑا ہی معنی خیز ہے۔ دراصل یہ لفظ تمام نافرمانیوں کا جامع ہے۔ جو شخص خدا کو خدا کہتا ہے اورپھر اس کی نافرمانی کرتا ہے وہ حقیقت میں خود اپنے اقرار کی تکذیب کرتا ہے۔ روزے کا اصل مقصد تو عمل سے اقرار کی تصدیق ہی کرنا تھا، مگر جب وہ روزے کے دوران میں اس کی تکذیب کرتا رہا تو پھر روزے میں بھوک پیاس کے سوا اور کیا باقی رہ گیا؟ حالانکہ خدا کو اس کے خلوئے معدہ کی کوئی حاجت نہ تھی۔ اسی بات کو دوسرے انداز میں حضوؐر نے اس طرح بیان فرمایا ہے:
کم من صائم لیس لہ من صیامہ الا الظماؤکم من قائم لیس لہ من قیامہ الاسھر(سنن الدارمی) کتنے ہی روزے دار ایسے ہیں کہ روزے سے بھوک پیاس کے سوا ان کے پلے کچھ نہیں پڑتا، اور کتنے ہی راتوں کو کھڑے رہنے والے ایسے ہیں جنھیں اس قیام سے رت جگے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
یہی بات ہے جس کو قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے واضح تر الفاظ میں ظاہر فرما دیا کہ:
کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَo (البقرہ۲:۱۸۳) تم پر روزے فرض کیے گئے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے۔ توقع ہے کہ اس ذریعے سے تم تقویٰ کرنے لگو گے۔
یعنی روزے فرض کرنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ انسان میں تقویٰ کی صفت پیدا ہو۔ تقویٰ کے اصل معنی حذر اور خوف کے ہیں۔ اسلامی اصطلاح میں اس سے مراد خدا سے ڈرنا اور اس کی نافرمانی سے بچنا ہے۔ اس لفظ کی بہترین تفسیر جو میری نظر سے گزری ہے، وہ ہے جو حضرت ابی ابن کعبؓ نے بیان کی۔ حضرت عمرؓ نے ان سے پوچھا: تقویٰ کسے کہتے ہیں؟ انھوں نے عرض کیا: امیرالمومنینؓ! آپؓ کو کبھی کسی ایسے رستے سے گزرنے کا اتفاق ہوا ہے جس کے دونوں طرف خاردار جھاڑیاں ہوں اور راستہ تنگ ہو؟ حضرت عمرؓ نے فرمایا: بارہا۔ انھوں نے پوچھا: تو ایسے موقعے پر آپ کیا کرتے ہیں؟ حضرت عمرؓ نے فرمایا: میں دامن سمیٹ لیتا ہوں اور بچتا ہوا چلتا ہوں کہ دامن کانٹوں میں نہ اُلجھ جائے۔ حضرت ابی ؓ نے کہا: بس اسی کا نام تقویٰ ہے۔
زندگی کا یہ راستہ جس پر انسان سفر کر رہا ہے، دونوں طرف افراط و تفریط ، خواہشات اور میلاناتِ نفس، وساوس اور ترغیبات (temptations) ، گمراہیوں اور نافرمانیوں کی خاردار جھاڑیوں سے گھِرا ہوا ہے۔ اس راستے پر کانٹوں سے اپنا دامن بچاتے ہوئے چلنا اور اطاعت ِ حق کی راہ سے ہٹ کر بداندیشی و بدکرداری کی جھاڑیوں میں نہ اُلجھنا، یہی تقویٰ ہے، اور یہی تقویٰ پیدا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے روزے فرض کیے ہیں۔ یہ ایک مقوّی دوا ہے جس کے اندر خداترسی و راست رَوی کو قوت بخشنے کی خاصیت ہے، مگر فی الواقع اس سے یہ قوت حاصل کرنا انسان کی اپنی استعداد پر موقوف ہے۔ اگر آدمی روزے کے مقصد کو سمجھے ، اور جو قوت روزہ دیتا ہے اس کو لینے کے لیے تیار ہو، اور روزے کی مدد سے اپنے اندر خوفِ خدا اور اطاعت ِ امر کی صفت کو نشوونما دینے کی کوشش کرے، تو یہ چیز اس میں اتنا تقویٰ پیدا کرسکتی ہے کہ صرف رمضان ہی میں نہیں بلکہ اس کے بعد بھی سال کے باقی ۱۱مہینوں میں وہ زندگی کی سیدھی شاہراہ پر دونوں طرف کی خاردار جھاڑیوں سے دامن بچائے ہوئے چل سکتا ہے۔ اس صورت میں اس کے لیے روزے کے نتائج، ثواب اور منافع (اجر) کی کوئی حد نہیں۔ لیکن اگر وہ اصل مقصد سے غافل ہوکر محض روزہ نہ توڑنے ہی کو روزہ رکھنا سمجھے اور تقویٰ کی صفت حاصل کرنے کی طرف توجہ ہی نہ کرے، تو ظاہر ہے کہ وہ اپنے نامۂ اعمال میں بھوک پیاس اور رت جگے کے سوا اور کچھ نہیں پاسکتا۔ اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کل عمل ابن اٰدم یضاعف الحسنہ بعشر امثالھا الٰی سبع مائۃ ضعف قال اللّٰہ تعالٰی الا الصوم فانہ لی وانا اجزی بہ(متفق علیہ) آدمی کا ہر عمل خدا کے ہاں کچھ نہ کچھ بڑھتا ہے۔ ایک نیکی ۱۰ گنی سے ۷۰۰ گنی تک پھلتی پھولتی ہے۔ مگر اللہ فرماتا ہے کہ روزہ مستثنیٰ ہے، وہ میری مرضی پر موقوف ہے، جتنا چاہوں اس کا بدلہ دوں۔
یعنی روزے کے معاملے میں بالیدگی و افزونی کا امکان بے حد و حساب ہے۔ آدمی اُس سے تقویٰ حاصل کرنے کی جتنی کوشش کرے اتنا ہی وہ بڑھ سکتا ہے۔ صفر کے درجے سے لے کر اُوپر لاکھوں، کروڑوں، اربوں گنے تک وہ جاسکتا ہے بلکہ بلانہایت ترقی کرسکتا ہے۔ پس یہ معاملہ چونکہ آدمی کی اپنی استعداد اخذ وقبول پر منحصر ہے کہ روزے سے تقویٰ حاصل کرے یا نہ کرے، اور کرے تو کس حد تک کرے۔ اس وجہ سے آیت مذکورہ بالا میں یہ نہیں فرمایا کہ روزے رکھنے سے تم یقینا متقی ہوجائو گے، بلکہ لَعَلَّکُمْ ۱؎کا لفظ فرمایا جس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ توقع کی جاتی ہے، یا ممکن ہے کہ اس ذریعے سے تم تقویٰ کرنے لگو گے۔
یہ تقویٰ ہی دراصل اسلامی سیرت کی جان ہے۔ جس نوعیت کا کیرکٹر اسلام ہرمسلمان فرد میں پیدا کرنا چاہتا ہے اس کا اسلامی تصور اس تقویٰ کے لفظ میں پوشیدہ ہے۔ افسوس ہے کہ آج کل اس لفظ کا مفہوم بہت محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ایک خاص طرز کی شکل و وضع بنالینا، چند مشہور و نمایاں گناہوں سے بچنا اور بعض ایسے مکروہات سے پرہیز کرنا جنھوں نے عوام کی نگاہ میں بہت اہمیت اختیار کرلی ہے، بس اسی کا نام تقویٰ ہے۔ حالانکہ دراصل یہ ایک نہایت وسیع اصطلاح ہے جو انسانی زندگی کے تمام پہلوئوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتی ہے۔ قرآنِ مجید انسانی طرزِخیال و طرزِعمل کو اصولی حیثیت سے دو بڑی قسموں پر تقسیم کرتا ہے:
ان میں سے پہلی قسم کے طرزِخیال و طرزِعمل کا جامع نام قرآن نے فجور۱؎ رکھا ہے، اور دوسرے طرزِ خیال و عمل کو وہ تقویٰ ۲؎ کے نام سے یاد کرتا ہے۔ یہ دراصل زندگی کے دو مختلف راستے ہیں جو بالکل ایک دوسرے کی ضد واقع ہوئے ہیں اور اپنے نقطۂ آغاز سے لے کر نقطۂ انجام تک کہیں ایک دوسرے سے نہیں ملتے۔ فجور کے راستے کو اختیار کرکے آدمی کی پوری زندگی اپنے تمام اجزا اور تمام شعبوں کے ساتھ ایک خاص ڈھنگ پر لگ جاتی ہے جس میں تقویٰ کی ظاہری اشکال تو کہیں نظر آسکتی ہیں مگر تقویٰ کی اسپرٹ کا شائبہ تک نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ فجور کے تمام فکری اجزا ایک دوسرے کے ساتھ منطقی ربط رکھتے ہیں اور تقویٰ کے فکری اجزا میں سے کسی جُز کو بھی ان کے مربوط نظام میں راہ نہیں مل سکتی۔ برعکس اس کے تقویٰ کا راستہ اختیار کرکے انسان کی پوری زندگی کا ڈھنگ کچھ اور ہوتا ہے، وہ ایک دوسرے ہی طرز پر سوچتا ہے۔ دنیا کے ہرمعاملے اور ہرمسئلے کو ایک دوسری ہی نگاہ سے دیکھتا ہے، اور ہرموقع و محل پر ایک دوسرا ہی طرز اختیار کرتا ہے۔
ان دونوں راستوں کا فرق صرف انفرادی زندگی ہی سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ اجتماعی زندگی سے بھی اس کا اتنا ہی تعلق ہے۔ جو جماعت فاجر افراد پر مشتمل ہوگی یا جس میں فاجرین کی اکثریت ہوگی اور اہلِ فجور کے ہاتھ میں جس کی قیادت ہوگی، اس کا پورا تمدن فاجرانہ ہوگا۔ اس کی معاشرت میں، اس کے اخلاقیات میں، اس کے معاشیات میں، اس کے نظامِ تعلیم و تربیت میں، اس کی سیاست میں، اس کے بین الاقوامی رویے میں، غرض اس کی ہرچیز میں فجور کی روح کارفرما ہوگی۔ یہ بہت ممکن ہے کہ اس کے اکثر یا بعض افراد ذاتی خود غرضیوں اور منفعت پرستیوں سے بالاتر نظر آئیں، مگر زیادہ سے زیادہ جس بلندی پر وہ چڑھ سکتے ہیں وہ یہی ہے کہ وہ اپنے ذاتی مفاد کو اس قوم کے مفاد میں گم کردیں۔ جس کی ترقی سے ان کی اپنی ترقی اور جس کے تنزل سے ان کا اپنا تنزل وابستہ ہے۔ لہٰذا اگر کسی شخصی سیرت میں فجور کا رنگ کم بھی ہو تو اس سے کوئی فرق واقع نہ ہوگا۔ قومی رویہ بہرحال افادیت، ابن الوقتی، مصلحت پرستی اور مادہ پرستی ہی کے اصولوں پرچلے گا۔
اسی طرح تقویٰ بھی محض انفرادی چیز نہیں ہے۔ جب کوئی جماعت متقین پر مشتمل ہوتی ہے یا اس میں اہلِ تقویٰ کی کثرت ہوتی ہے، اور متقی ہی اس کے رہنما ہوتے ہیں، تو اس کے پورے اجتماعی رویے میں ہرحیثیت سے خدا ترسی کا رنگ ہوتا ہے۔ وہ وقتی اور ہنگامی مصلحتوں کے لحاظ سے اپنا طرزِعمل مقرر نہیں کرتی بلکہ ایک مستقل دستور کی پیروی کرتی ہے اور ایک اٹل نصب العین کے لیے اپنی تمام مساعی وقف کردیتی ہے، قطع نظر اس سے کہ دنیوی لحاظ سے قوم کو کیا فائدہ حاصل ہوتا ہے یا کیا نقصان پہنچتا ہے۔ وہ مادی فائدوں کے پیچھے نہیں دوڑتی بلکہ پایدار اخلاقی و روحانی منافع کو اپنا مطمح نظر بناتی ہے۔ وہ مواقع کے لحاظ سے اصول توڑتی اور بناتی نہیں ہے بلکہ ہرحال میں اصولِ حق کا اتباع کرتی ہے۔ کیونکہ اسے اس کی پروا نہیں ہوتی کہ اس کی مدِّمقابل قوموں کی طاقت کم ہے یا زیادہ، بلکہ اُوپر جو خدا موجود ہے و ہ اس سے ڈرتی ہے اور اس کے سامنے کھڑے ہوکر جواب دہی کرنے کا جو وقت بہرحال آنا ہے اس کی فکر اسے کھائے جاتی ہے۔
اسلام کے نزدیک دنیا میں فساد کی جڑ اور انسانیت کی تباہی و بربادی کا اصلی سبب ’فجور‘ ہے۔ وہ اس فجور کے سانپ کو ہلاک کردینا چاہتا ہے یا کم سے کم اس کے زہریلے دانت توڑ دینا چاہتا ہے، تاکہ اگر یہ سانپ جیتا رہے تب بھی انسانیت کو ڈسنے کی طاقت اس میں باقی نہ رہے۔ اس کام کے لیے وہ نوعِ انسانی میں سے ان لوگوں کو چُن چُن کر نکالنا اور اپنی پارٹی میں بھرتی کرنا چاہتا ہے جو متقیانہ رجحانِ طبع رکھتے ہوں۔ فجور کی جانب ذہنی رجحان (Bent of Mind) رکھنے والے لوگ اس کے کسی کام کے نہیں، خواہ وہ اتفاق سے مسلمانوں کے گھر میں پیدا کیے گئے ہوں اور مسلم قوم کے درد میں کتنے ہی تڑپتے ہوں۔
اسے دراصل ضرورت ان لوگوںکی ہے جن میں خود اپنی ذمہ داری کا احساس ہو، جو آپ اپنا حساب لینے والے ہوں، جو خود اپنے دل کی نیتوں اور ارادوں پر نظر رکھیں، جن کو قانون کی پابندی کے لیے کسی خارجی دبائو کی حاجت نہ ہو بلکہ خود اُن کے اپنے باطن میں ایک محاسب اور آمر بیٹھا ہو جو انھیں اندر سے قانون کا پابند بناتا ہو اور ایسی قانون شکنی پر بھی ٹوکتا ہو جس کا علم کسی پولیس، کسی عدالت اور کسی راے عام کو نہیں ہوسکتا۔ وہ ایسے افراد چاہتا ہے جنھیں یقین ہو کہ ایک آنکھ ہرحال میںا نھیں دیکھ رہی ہے، جنھیں خوف ہو کہ ایک عدالت کے سامنے بہرحال انھیں جانا ہے، جو دنیوی منافع کے بندے، ہنگامی مصالح کے غلام اور شخصی یا قومی اغراض کے پرستار نہ ہوں۔ جن کی نظر آخرت کے اصلی و حقیقی نتائج پر جمی ہوئی ہو، جن کو دنیا کے بڑے سے بڑے فائدے کا لالچ یا سخت سے سخت نقصان کا خوف بھی خداوندعالم کے دیے ہوئے نصب العین اور اس کے بتائے ہوئے اصولِ اخلاق سے نہ ہٹا سکتا ہو، جن کی تمام سعی و کوشش صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہو، جنھیں اس امر کا پختہ یقین ہو کہ پایانِ کار بندگیِ حق ہی کا نتیجہ بہتر اور بندگیِ باطل ہی کا انجام بُرا ہوگا، چاہے اس دنیا میں معاملہ برعکس ہو۔
پھر اس کو جن آدمیوں کی تلاش ہے وہ ایسے آدمی ہیں جن کے اندر اتنا صبر موجود ہو کہ ایک صحیح اور بلند نصب العین کے لیے برسوں بلکہ ساری عمر لگاتار سعیِ بے حاصل کرسکتے ہوں، جن میں اتنی ثابت قدمی ہو کہ غلط راستوں کی آسانیاں، فائدے اور لطف و لذت کوئی چیز بھی ان کو اپنی طرف نہ کھینچ سکتی ہو، جن میں اتنا تحمل ہو کہ حق کے راستے پر چلنے میں خواہ کس قدر ناکامیوں، مشکلات، خطرات، مصائب اور شدائد کا سامنا ہو، ان کا قدم نہ ڈگمگائے، جن میں اتنی یکسوئی ہو کہ ہرقسم کی عارضی اور ہنگامی مصلحتوں سے نگاہ پھیر کر اپنے نصب العین کی طرف بڑھے چلے جائیں، جن میں اتنا توکّل موجود ہو کہ حق پرستی و حق کوشی کے زیرطلب اور دُور رس نتائج کے لیے خداوندعالم پر بھروسا کرسکیں، خواہ دنیا کی زندگی میں اس کام کے نتائج سرے سے برآمد ہوتے نظر ہی نہ آئیں۔ ایسے ہی لوگوں کی سیرت پر اعتماد کیا جاسکتا ہے ، اور جو کام اسلام اپنی پارٹی سے لینا چاہتا ہے اس کے لیے ایسے ہی قابلِ اعتماد کارکنوں کی ضرورت ہے۔
تقویٰ کی اس صفت کا ہیولیٰ (ابتدائی جوہر) جن لوگوں میں موجود ہو ان کے اندر اس صفت کو نشوونما دینے اور اسے مستحکم کرنے کے لیے روزے سے زیادہ طاقت ور اور کوئی ذریعہ نہیں ہوسکتا۔ روزے کے ضابطے پر ایک نگاہ ڈالیے، آپ پر خود منکشف ہونے لگے گا کہ یہ چیز کس مکمل طریقے سے ان صفات کو بالیدگی اور پایداری بخشتی ہے۔ ایک شخص سے کہا جاتا ہے کہ روزہ خدا نے تم پر فرض کیا ہے۔ صبح سے شام تک کچھ نہ کھائوپیو۔ کوئی چیز حلق سے اُتارو گے تو تمھارا روزہ ٹوٹ جائے گا۔ لوگوں کے سامنے کھانے پینے سے اگر تم نے پرہیز کیا اور درپردہ کھاتے پیتے رہے، تو خواہ لوگوں کے نزدیک تمھارا شمار روزہ داروں میں ہو، مگر خدا کے نزدیک نہ ہوگا۔ تمھارا روزہ صحیح اس صورت میں ہوسکتا ہے کہ خدا کے لیے رکھو، ورنہ دوسری کسی غرض، مثلاً صحت کی درستی یا نیک نامی کے لیے رکھو گے تو خدا کی نگاہ میں اس کی کوئی قیمت نہیں۔ خدا کے لیے اپنا روزہ پورا کرو گے تو اس دنیا میں کوئی انعام نہ ملے گا اور توڑو گے یا نہ رکھو گے تو یہاں کوئی سزا نہ دی جائے گی۔ مرنے کے بعد جب خدا کے سامنے پیش ہو گے اسی وقت انعام بھی ملے گا اور اسی وقت سزا بھی دی جائے گی۔ یہ چند ہدایات دے کر آدمی کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ کوئی سپاہی، کوئی ہرکارہ، کوئی سی آئی ڈی کا آدمی اس پر مقرر نہیں کیا جاتا کہ ہروقت اس کی نگرانی کرے۔ زیادہ سے زیادہ راے عام اپنے دبائو سے اس کو اس حد تک مجبور کرسکتی ہے کہ دوسروں کے سامنے کچھ نہ کھائے پیے، مگر چوری چھپے کھانے پینے سے اس کو روکنے والا کوئی نہیں، اور اس بات کا حساب لینا تو کسی راے عام، یا کسی حکومت کے بس ہی میں نہیں کہ وہ رضاے الٰہی کی نیت سے روزہ رکھ رہا ہے یا کسی اور نیت سے۔
یہ کیفیات ہیں جو پہلے روزے کا ارادہ کرتے ہی انسان کے نفس میں اُبھرنی شروع ہوتی ہیں۔ جب وہ عملاً روزہ رکھتا ہے تو یہ بالفعل ایک طاقت بن جاتی ہیں۔ جب ۳۰دن تک مسلسل وہ اسی فعل کی تکرار کرتا ہے تو یہ طاقت راسخ ہوتی چلی جاتی ہے، اور بالغ ہونے کے بعد سے مرتے دم تک تمام عمر ایسے ہی ۳۰،۳۰ روزے ہرسال رکھنے سے وہ آدمی کی جبلّت میں پیوست ہوکر رہ جاتی ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے نہیں ہے کہ یہ صفات صرف روزے ہی رکھنے میں اور صرف رمضان ہی کے مہینے میں کام آئیں، بلکہ اس لیے ہے کہ انھی اجزا سے انسان کی سیرت کا خمیر بنے۔ وہ فجور سے یکسر خالی ہو اور اس کی ساری زندگی تقویٰ کے راستے پڑجائے۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس مقصد کے لیے روزے سے بہتر کوئی طریقِ تربیت ممکن ہے؟ کیا اس کے بجاے اسلامی طرز کی سیرت بنانے کے لیے کوئی دوسرا کورس تجویز کیا جاسکتا ہے؟(اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر، ص۶۴-۹۲)
پاکستان کی بقا و استحکام کے لیے نظریۂ پاکستان کی کیا اہمیت ہے؟ چراغِ راہ، نظریۂ پاکستان نمبر کے لیے مولانا مودودی کے مفصل انٹرویو سے چند اقتباس پیش ہیں جو آج بھی کھلی حقیقت ہیں۔(ادارہ)
یہ لازمی اور ابتدائی شرط پوری ہونے کے بعد جو اقدامات اس نظریے کو بروے کار لانے کے لیے درکار ہیں، وہ تین بڑے بڑے شعبوں پر مشتمل ہونے چاہییں، یا دوسرے الفاظ میں اس مقصد کے لیے بہ یک وقت تین سمتوں میں متوازن طریقے سے کوشش کی جانی چاہیے۔
مختصرطورپر بس یہ سمجھ لیجیے کہ ہماری پوری قومی زندگی پر اس نظریے کے یہ اثرات مرتب ہونے چاہییں کہ ہم من حیث القوم دنیا میں دین حق کے سچے نمایندے بن کر کھڑے ہوسکیں۔ آج تو یہ ہمارا محض دعویٰ ہی ہے کہ ہم ایک مسلمان قوم ہیں، ورنہ عملاً ہم اپنی زندگی کے ہرشعبے میں وہی سب کچھ کر رہے ہیں جو کوئی غیرمسلم قوم کرتی ہے، بلکہ ہماری کوشش یہ ہے کہ یورپ اور امریکا کے لوگ ہمیں بالکل اپنے ہی جیسا پائیں اور ہم کو اپنی نقل مطابق اصل دیکھ کر داد دیں۔ لیکن اسلامی نظامِ زندگی کو شعوری طور پر اختیار کرنے کا نتیجہ لازماً یہ ہونا چاہیے کہ ہمارے اخلاق اور معاشرت میں، تہذیب و تمدن میں، ادب اور فنون میں، معیشت اور مالی معاملات میں، قانون اور عدالت میں، سیاست اور بین الاقوامی رویے میں، غرض ہماری ہرچیز میں اسلام کا اثر اتنا نمایاں ہو کہ کتاب کو پڑھنے کے بجاے صرف ہمیں دیکھ کر ہی دنیا یہ جان لے کہ اسلام کیا ہے اور وہ انسان کو کیا کچھ بنانا چاہتا ہے۔(چراغِ راہ، نظریۂ پاکستان نمبر، دسمبر ۱۹۶۰ء)
اولین سوال یہ ہے کہ انسانی معاملات کو چلانے کے لیے اصولاً کون سا طریقہ صحیح ہے؟ آیا یہ کہ وہ معاملات جن لوگوں سے تعلق رکھتے ہیں ان کی مرضی سے سربراہِ کار مقرر کیے جائیں اوروہ ان کے مشورے اور رضامندی سے معاملات چلائیں اور جب تک ان کا اعتماد سربراہ کاروں کو حاصل رہے اسی وقت تک وہ سربراہ کار رہیں؟ یا یہ کہ کوئی شخص یا گروہ خود سربراہ کار بن بیٹھے اور اپنی مرضی سے معاملات چلائے اور اس کے تقرر اور علیحدگی اور کارپردازی میں سے کسی چیز میں بھی اُن لوگوں کی مرضی و راے کا کوئی دخل نہ ہو جن کے معاملات وہ چلا رہا ہو؟ اگر ان میں سے پہلی صورت ہی صحیح اور مبنی برانصاف ہے تو ہمارے لیے دوسری صورت کی طرف جانے کا راستہ پہلے ہی قدم پر بند ہو جانا چاہیے، اور ساری بحث اس پر ہونی چاہیے کہ پہلی صورت کو عمل میں لانے کا زیادہ سے زیادہ بہتر طریقہ کیا ہے۔
دوسری بات جو نگاہ میں رہنی چاہیے وہ یہ ہے کہ جمہوریت کے اصول کو عمل میں لانے کی جو بے شمار شکلیں مختلف زمانوں میں اختیار کی گئی ہیں یا تجویز کی گئی ہیں، ان کی تفصیلات سے قطع نظر کرکے اگر انھیں صرف اس لحاظ سے جانچا اور پرکھا جائے کہ جمہوریت کے اصول اور مقصد کو پورا کرنے میں وہ کہاں تک کامیاب ہوتی ہیں، تو کوتاہی کے بنیادی اسباب صرف تین ہی پائے جاتے ہیں۔
اول یہ کہ ’جمہور‘ کو مختارِ مطلق اور حاکمِ مطلق (sovereign) فرض کر لیا گیا اور اس بنا پر جمہوریت کو مطلق العنان بنانے کی کوشش کی گئی۔ حالانکہ جب بجاے خود انسان ہی اس کائنات میں مختار مطلق نہیںہے تو انسانوں پر مشتمل کوئی جمہور کیسے حاکمیت کا اہل ہوسکتا ہے۔ اسی بنا پر مطلق العنان جمہوریت قائم کرنے کی کوشش آخرکار جس چیز پر ختم ہوتی رہی ہے وہ جمہور پر چند آدمیوں کی عملی حاکمیت ہے۔ اسلام پہلے ہی قدم پر اس کا صحیح علاج کردیتا ہے۔ وہ جمہوریت کو ایک ایسے بنیادی قانون کا پابند بناتا ہے جو کائنات کے اصل حاکم (sovereign) نے مقرر کیا ہے۔ اس قانون کی پابندی جمہور اور اس کے سربراہ کاروں کو لازماً کرنی پڑتی ہے اور اس بنا پر وہ مطلق العنانی سرے سے پیدا ہی نہیں ہونے پاتی جو بالآخر جمہوریت کی ناکامی کا اصل سبب بنتی ہے۔
دوم یہ کہ کوئی جمہوریت اس وقت تک نہیں چل سکتی جب تک عوام میں اس کا بوجھ سہارنے کے لائق شعور اور مناسب اخلاق نہ ہوں۔ اسلام اسی لیے عام مسلمانوں کی فرداً فرداً تعلیم اور اخلاقی تربیت پر زور دیتا ہے۔ اس کا مطالبہ یہ ہے کہ ایک ایک فرد مسلمان میں ایمان اور احساسِ ذمہ داری اور اسلام کے بنیادی احکام کا اور ان کی پابندی کا ارادہ پیدا ہو۔ یہ چیز جتنی کم ہوگی جمہوریت کی کامیابی کے امکانات کم ہوں گے، اور یہ جتنی زیادہ ہوگی امکانات اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔
سوم یہ کہ جمہوریت کے کامیابی کے ساتھ چلنے کا انحصار ایک بیدار اور مضبوط راے عام پر ہے، اور اس طرح کی راے عام اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب معاشرہ اچھے افراد پر مشتمل ہو، ان افراد کو صالح بنیادوں پر ایک اجتماعی نظام میں منسلک کیا گیا ہو، اور اس اجتماعی نظام میں اتنی طاقت موجود ہو کہ برائی اور بُرے [لوگ] اس میں نہ پھل پھول سکیں اور نیکی اور نیک لوگ ہی اس میں اُبھر سکیں۔ اسلام نے اس کے لیے بھی ہم کو تمام ضروری ہدایات دے دی ہیں۔
اگر مندرجہ بالا تینوں اسباب فراہم ہوجائیں تو جمہوریت پر عمل درآمد کی مشینری خواہ کسی طرح کی بنائی جائے، وہ کامیابی کے ساتھ چل سکتی ہے۔ اور اس مشینری میں کسی جگہ کوئی قباحت محسوس ہو تو اس کی اصلاح کرکے بہتر مشینری بھی بنائی جاسکتی ہے۔ اس کے بعد اصلاح و ارتقا کے لیے صرف اتنی بات کافی ہے کہ جمہوریت کو تجربے کا موقع ملے۔ تجربات سے بتدریج ایک ناقص مشینری بہتر اور کامل تر بنتی چلی جائے گی۔ (رسائل و مسائل، چہارم، ص ۲۷۹-۲۸۳)
فی الواقع بکثرت لوگ اِس اُلجھن میں پڑ گئے ہیں، کہ آیا جمہوری طریقوں سے یہاں کوئی تبدیلی لائی جاسکتی ہے یا نہیں، اور ایک اچھی خاصی تعداد یہ سمجھنے لگی ہے کہ ایسے حالات میں غیرجمہوری طریقے اختیار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ یہ بجاے خود ہمارے حکمرانوں کی بہت بڑی نادانی ہے کہ انھوں نے لوگوں کو اِس طرح سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ لیکن ہم اس پوری صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے اور اُس کی پیداکردہ تمام صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے بھی اپنی اس راے پر قائم ہیں کہ اسلامی نظام، جسے برپا کرنے کے لیے ہم اُٹھے ہیں، جمہوری طریقوں کے سوا کسی دوسری صورت سے برپا نہیں ہو سکتا، اور اگر کسی دوسرے طریقے سے برپا کیا بھی جاسکے تو وہ دیرپا نہیں ہوسکتا۔
اس معاملے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے آپ جمہوری طریقوں کا مطلب واضح طور پر جان لیں۔ غیرجمہوری طریقوں کے مقابلے میں جب جمہوری طریقوں کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ نظامِ زندگی میں جو تبدیلی بھی لانا، اور ایک نظام کی جگہ جو نظام بھی قائم کرنا مطلوب ہو، اسے زور زبردستی سے لوگوں پر مسلط نہ کیا جائے، بلکہ عامۃ الناس کو سمجھا کر اور اچھی طرح مطمئن کر کے اُنھیں ہم خیال بنایا جائے اور اُن کی تائید سے اپنا مطلوبہ نظام قائم کیا جائے۔ اس کے لیے یہ لازم نہیں ہے کہ عوام کو اپنا ہم خیال بنا لینے کے بعد غلط نظام کو صحیح نظام سے بدلنے کے لیے ہر حال میں صرف انتخابات ہی پر اِنحصار کرلیا جائے۔ انتخابات اگر ملک میں آزادانہ و منصفانہ ہوں اور ان کے ذریعے سے عام لوگوں کی راے نظام کی تبدیلی کے لیے کافی ہو، تو اس سے بہتر کوئی بات نہیں۔ لیکن جہاں انتخابات کے راستے سے تبدیلی کا آنا غیرممکن بنا دیا گیا ہو، وہاں جبّاروں کو ہٹانے کے لیے راے عامہ کا دبائو دوسرے طریقوں سے ڈالا جاسکتا ہے، اور ایسی حالت میں وہ طریقے پوری طرح کارگر بھی ہوسکتے ہیں، جب کہ ہر شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی بھاری اکثریت اس بات پر تُل جائے کہ جبّاروں کا من مانا نظام ہرگز نہ چلنے دیا جائے گا اور اُس کی جگہ وہ نظام قائم کرکے چھوڑا جائے گا جس کے صحیح و برحق ہونے پر لوگ مطمئن ہوچکے ہیں۔ نظامِ مطلوب کی مقبولیت جب اِس مرحلے تک پہنچ جائے تو اس کے بعد غیر مقبول نظام کو عوامی دبائو سے بدلنا قطعاً غیر جمہوری نہیں ہے، بلکہ ایسی حالت میں اُس نظام کا قائم رہنا سراسر غیر جمہوری ہے۔
اس تشریح کے بعد یہ سمجھنا کچھ مشکل نہ رہے گا کہ ہم اسلامی نظام برپا کرنے کے لیے جمہوری طریقوں پر اس قدر زور کیوں دیتے ہیں۔ کوئی دوسرا نظام، مثلاً کمیونزم لوگوں پر زبردستی ٹھونسا جاسکتا ہے، بلکہ اس کے قیام کا ذریعہ ہی جبر اور جبّاریت ہے، اور خود اس کے اَئمہ علانیہ یہ کہتے ہیں کہ انقلاب بندوق کی گولی ہی سے آتا ہے۔ اِستعماری نظام اور سرمایہ داری نظام اور فسطائی نظام بھی راے عام کی تائید کے محتاج نہیں ہیں، بلکہ راے عام کو طاقت سے کچل دینا اور اس کا گلا گھونٹ دینا ہی ان کے قیام کا ذریعہ ہے۔
لیکن اسلام اس قسم کا نظام نہیں ہے۔ وہ پہلے لوگوں کے دلوں میں ایمان پیدا کرنا ضروری سمجھتا ہے، کیونکہ ایمان کے بغیر لوگ خلوص کے ساتھ اُس کے بتائے ہوئے راستوں پر نہیں چل سکتے۔ پھر وہ اپنے اُصولوں کا فہم اور اُن کے برحق ہونے پر اطمینان بھی عوام کے اندر ضروری حد تک، اور خواص (خصوصاً کارفرمائوں) میں کافی حد تک پیدا کرنا لازم سمجھتا ہے، کیونکہ اس کے بغیر اُس کے اصول و احکام کی صحیح تنفیذ ممکن نہیں ہے۔ اس کے ساتھ وہ عوام وخواص کی ذہنیت، اندازِفکر اور سیرت و کردار میں بھی اپنے مزاج کے مطابق تبدیلی لانے کا تقاضا کرتا ہے، کیونکہ یہ نہ ہو تو اس کے پاکیزہ اور بلندپایہ اصول و احکام اپنی صحیح روح کے ساتھ نافذنہیں ہوسکتے۔ یہ جتنی چیزیں میں نے بیان کی ہیں، اسلامی نظام کو برپا کرنے کے لیے سب کی سب ضروری ہیں، اور اِن میں سے کوئی چیز بھی جبراً لوگوں کے دل و دماغ میں نہیں ٹھونسی جاسکتی، بلکہ اِن میں سے ہر ایک کے لیے ناگزیر ہے کہ تبلیغ، تلقین اور تفہیم کے ذرائع اختیار کر کے لوگوں کے عقائد و افکار بدلے جائیں، ان کے سوچنے کے انداز بدلے جائیں، ان کی اَقدار (values) بدلی جائیں، ان کے اخلاق بدلے جائیں، اور ان کو اس حد تک اُبھار دیا جائے کہ وہ اپنے اُوپر جاہلیت کے کسی نظام کا تسلط برداشت کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔ یہی وہ چیز ہے جس کے متعلق ہم کہتے ہیں کہ جمہوری طریقوں کے سوا اُس کے حصول کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے اور آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ اسلامی نظام کو عملاً برپا کردینے کے لیے کوئی اقدام اُس وقت تک نہیں کیا جاسکتا جب تک اس مقصد کے لیے کام کرنے والوں کو اِس نوعیت کی عوامی تائید حاصل نہ ہوجائے۔
شاید آپ میری یہ باتیں سن کر سوچنے لگیں گے کہ اس لحاظ سے تو گویا ابھی ہم اپنی منزل کے قریب ہونا درکنار، اس کی راہ کے صرف ابتدائی مرحلوں میں ہیں، لیکن میں کہتا ہوں کہ آپ اَفراط و تفریط سے بچتے ہوئے اپنے آج تک کے کام کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیں۔ جمہوری طریقوں سے کام کرتے ہوئے آپ پچھلے [برسوں] میں تعلیم یافتہ طبقے کی بڑی اکثریت کو اپنا ہم خیال بنا چکے ہیں، اور یہ لوگ ہر شعبۂ زندگی میں موجود ہیں۔ نئی نسل، جو اَب تعلیم پاکر اُٹھ رہی ہے، اور جسے آگے چل کر ہر شعبۂ زندگی کو چلانا ہے، وہ بھی جاہلیت کے علَم برداروں کی ساری کوششوں کے باوجود زیادہ تر آپ کی ہم خیال ہے۔
اب آپ کے سامنے ایک کام تو یہ ہے کہ تعلیم یافتہ طبقے میں اپنے ہم خیالوںکی تعداد اِسی طرح بڑھاتے چلے جائیں، اور دوسراکام یہ ہے کہ عوام کے اندر بھی نفوذ کر کے ان کو اسلامی نظام برپا کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ تیار کرنے کی کوشش کریں۔ پہلے کام کے لیے لٹریچر کا پھیلانا آج تک جتنا مفید ثابت ہوا ہے اس سے بدرجہا زیادہ آیندہ مفید ثابت ہوسکتا ہے، اگر آپ اپنے ہم خیال اہلِ علم کے حلقے منظم کرکے مختلف علوم کے ماہرین سے مسائلِ حیات پر تازہ ترین اور محققانہ لٹریچر تیار کرانے کا انتظام کریں، اور دوسرے کام کے لیے تبلیغ و تلقین کے دائرے وسیع کرنے کے ساتھ اصلاحِ خلق اور خدمتِ خلق کی ہرممکن کوشش کریں۔ آپ صبر کے ساتھ لگاتار اس راہ میں جتنی محنت کرتے چلے جائیں گے اتنی ہی آپ کی منزل قریب آتی چلی جائے گی۔
رہا یہ سوال کہ جب تمام جمہوری اداروں کی مٹی پلید کر دی گئی ہے، شہری آزادیاں سلب کرلی گئی ہیں اور بنیادی حقوق کچل کر رکھ دیے گئے ہیں، تو جمہوری طریقوں سے کام کیسے کیا جاسکتاہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام کا کام کرنے کے لیے کھلی ہموار شاہراہ تو کبھی نہیں ملی ہے۔ یہ کام تو جب بھی ہوا، جبروظلم کے مقابلے میں ہر طرح کی کڑیاں [سختیاں] جھیل کر ہی ہوا، اور وہ لوگ کبھی یہ کام نہ کرسکے جو یہ سوچتے رہے کہ جاہلیت کے علَم برداروں کی اجازت، یا ان کی عطا کردہ سہولت ملے تو وہ راہِ خدا میں پیش قدمی کریں۔ آپ جن برگزیدہ ہستیوں کے نقشِ پاکی پیروی کررہے ہیں، اُنھوں نے اُس ماحول میں یہ کام کیا تھا جہاں جنگل کا قانون نافذ تھا اور کسی شہری آزادی یا بنیادی حق کا تصور تک موجود نہ تھا۔ اس وقت ایک طرف دل موہ لینے والے پاکیزہ اخلاق، دماغوں کو مسخر کرلینے والے معقول دلائل، اور انسانی فطرت کو اپیل کرنے والے اصول اپنا کام کررہے تھے، اور دوسری طرف جاہلیت کے پاس اُن کے جواب میں پتھر تھے، گالیاں تھیں، جھوٹے بہتان تھے اور کلمۂ حق کہتے ہی انسانوں کی شکل میں درندے خدا کے بندے پر ٹوٹ پڑتے تھے۔ یہی چیز درحقیقت اسلام کی فتح اور جاہلیت کی شکست کا ذریعہ بنی۔
جب ایک معقول اور دل لگتی بات کو عمدہ اخلاق کے لوگ لے کر کھڑے ہوں، اور سخت سے سخت ظلم وستم سہنے کے باوجود اپنی بات ہر حالت میں لوگوں کے سامنے پیش کرتے چلے جائیں، تو لازمی طور پر اس کے تین نتائج رونما ہوتے ہیں:
ظلم و جور کا ماحول جہاں بھی ہو اس کے مقابلے میں حق پرستی کا علَم بلند کرنے اور بلندرکھنے سے یہ تینوں نتائج لازماً رونما ہوں گے۔ اس لیے یہ تو حق کی کامیابی کا فطری راستہ ہے، آپ اسلامی نظام برپا کرنے کے لیے جمہوری اداروں کی مٹی پلید ہونے اور شہری آزادیاں سلب ہوجانے اور بنیادی حقوق کچل دیے جانے کا رونا خواہ مخواہ روتے ہیں۔ (تصریحات، ص ۳۰۳-۳۰۷)
[خیال رہے کہ] دنیا میں حق اور باطل کی کش مکش بجاے خود ایک امتحان ہے، اور اس امتحان کا آخری نتیجہ اِس دنیا میں نہیں بلکہ آخرت میں نکلنا ہے۔ اگر دنیا کے انسانوں کی عظیم اکثریت نے کسی قوم، یا ساری دنیا ہی نے حق کو نہ مانا اور باطل کو قبول کرلیا تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ حق ناکام اور باطل کامیاب ہوگیا، بلکہ اس کے معنی دراصل یہ ہیں کہ انسانوں کی عظیم اکثریت اپنے رب کے امتحان میں ناکام ہوگئی جس کا بدترین نتیجہ وہ آخرت میں دیکھے گی۔ بخلاف اس کے وہ اقلیت جو باطل کے مقابلے میں حق پر جمی رہی اور جس نے حق کو سربلند کرنے کے لیے جان و مال کی بازی لگا دی، اِس امتحان میں کامیاب ہوگئی اور آخرت میں وہ بھی اپنی اِس کامیابی کا بہترین نتیجہ دیکھ لے گی۔ یہی بات ہے جو نوعِ انسانی کو زمین پر اُتارتے وقت اللہ تعالیٰ نے صاف صاف بتادی تھی کہ فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ھُدًی فَمَنْ تَبِــعَ ھُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لاَ ھُمْ یَحْزَنُوْنَ o وَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَکَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَآ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ج ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ o (البقرہ ۲:۳۸-۳۹) ’’پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمھارے پاس پہنچے، تو جو لوگ میری اُس ہدایت کی پیروی کریں گے، اُن کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا، اور جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے، وہ آگ میں جانے والے ہیں، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے‘‘۔
اس حقیقت کو آپ جان لیں تو یہ بات بھی آپ کی سمجھ میں بخوبی آسکتی ہے کہ اہلِ حق کی اصل ذمہ داری یہ نہیں ہے کہ وہ باطل کو مٹا دیں اور حق کو اس کی جگہ قائم کر دیں، بلکہ ان کی اصل ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنی حد تک باطل کو مٹانے اور حق کو غالب و سربلند کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ صحیح اور مناسب و کارگر طریقوں سے کوشش کرنے میں کوتاہی نہ کریں۔ یہی کوشش خدا کی نگاہ میں ان کی کامیابی و ناکامی کا اصل معیار ہے۔ اس میں اگر ان کی طرف سے دانستہ کوئی کوتاہی نہ ہو تو خدا کے ہاں وہ کامیاب ہیں، خواہ دنیا میں باطل کا غلبہ ان کے ہٹائے نہ ہٹے اور شیطان کی پارٹی کا زور اُن کے توڑے نہ ٹوٹ سکے۔(رسائل و مسائل، پنجم، ص ۳۲۸)۔(انتخاب وترتیب: امجد عباسی)
آپ [صلی اللہ علیہ وسلم] کی سرگرمیاں کچھ عقیدوں کو محض نہاں خانۂ دماغ کی زینت بنادینے تک محدود نہ تھیں بلکہ اِن عقیدوں کو ایک ریاست کی بنیاد بنادکھانے کا مطالبہ بھی آپؐ سے تھا۔ آپؐ کا منصب نجی زندگی کے لیے چنداخلاقی نصیحتیں کرنے تک محدود نہیں تھا، بلکہ معاملہ ایک نظامِ سیاست وتمدن کو برپا کرنے کا درپیش تھا۔
مطلوب محض ایک دین کو مان لینا اور اس پر کاربند ہو جانا نہیں ہے، بلکہ تقاضا یہاں اَقِیْمُوْا الدِّیْنَکا ہے۔ مہم درپیش صرف خدا کی کتاب کو پڑھنے اور اس سے فائدہ اُٹھانے کی نہیں ہے، بلکہ ’اقامت ِکتاب‘ کی ہے۔ سوال حدود کو مان لینے اور ان کی پابندی اختیار کرلینے تک کا نہیں، بلکہ ’اقامت ِ حدود‘ کا ہے۔ رُسل و انبیا ؑکا فریضہ لوگوں کو تعلیمِ قسط دینے ہی کا نہیں، بلکہ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ (لوگ کاربند ہوجائیں نظامِ قسط پر) کی حالت پیدا کردینا ہے۔
پس رسولوں اور انبیا ؑ کے لیے لازم ہوجاتا ہے کہ وہ ایک اجتماعی قوت پیدا کر کے معاشرے کے نظام کی مکمل تبدیلی کے لیے ایک انقلابی تحریک چلائیں۔ خیالات کو خیالات سے، نظریات کو نظریات سے، مقاصد کو مقاصد سے ٹکرا دیں۔ حق اور باطل کے درمیان سوسائٹی نے جو سمجھوتے قائم کرائے ہوں اور غلط اور صحیح کے اجزا میں جو جوڑ لگا دیے ہوں، ان کو توڑ کر اضداد میں کھلا کھلا تصادم پیدا کردیں۔ خبیث اور طیّب چھٹ کر الگ ہوجائیں، کھوٹے اور کھرے میں علیحدگی ہوجائے، فساد اور صلاح میں منافات عملاً پیدا ہوجائے، یَضْرِبُ اللّٰہُ الْحَقَّ وَ الْبَاطِلَ (اللہ حق کو باطل سے ٹکرا دیتا ہے) کا سماں سامنے ہو، اور نتیجہ یہ نکلے کہ وَ اَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْاَرْض، یعنی وہی اصول و نظام زمین پر قائم رہ جائے جو انسانیت کے لیے موجب ِ فلاح ہو۔(’نظامِ اسلامی اور اطاعت رسولؐ ،، نعیم صدیقی، ترجمان القرآن،جلد۴۱، عدد۴-۵، ربیع الثانی ، جمادی الاول ۱۳۷۳ھ، جنوری، فروری ۱۹۵۴ء، ص۱۳۶)
پاکستان میں [جس انتشار اور صورتِ حال سے ہم دوچار ہیں] اس کا اگر تجزیہ کیا جائے تو صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کی اصل وجہ اتفاق کی بنیادیں تلاش کرنے میں ہماری ناکامی ہے۔ ہمیں اپنی مرضی سے اپنی زندگی کی تعمیر کرنے کا اختیار حاصل ہوئے [برسوں] گزر چکے ہیں، مگر جہاں ہم پہلے روز کھڑے تھے وہیں آج بھی کھڑے ہیں۔ بے اختیاری کے زمانے میں جو کچھ اور جیسے کچھ ہمارے حالات تھے، اختیار پاکر بھی ہم ان کو بدلنے اور بہتر بنانے کے لیے کوئی کامیاب اور قابلِ ذکر کوشش نہیں کرسکے ہیں.... آزادی کے لیے ہماری سعی و جہد تو اسی غرض کے لیے تھی کہ ہم غلامی کے دور کی حالت پر راضی نہ تھے اور اسے بدلنے اور بہتر بنانے کے لیے اپنی مرضی استعمال کرنا چاہتے تھے، مگر کوئی چیز ایسی ہے جس کی وجہ سے ہم آزاد ہوجانے کے بعد بھی اپنی مرضی مؤثر طریقے سے استعمال نہیں کرسکے ہیں۔
وہ چیز کیا ہے؟ اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ ہمارے ہاں [زمانۂ دراز] سے اختلافات کی فصلِ بہار آئی ہوئی ہے۔ فکرونظر کے اختلافات، اغراض اور خواہشات کے اختلافات، گروہوں اور ٹولیوں کے اختلافات [مسلکوں اور فرقوں کے اختلافات]، علاقوں اور صوبوں کے اختلافات نت نئی شان سے اُبھرتے رہے ہیں اور اُبھرتے چلے آرہے ہیں۔ جو کچھ ایک بنانا چاہتا ہے دوسرا اس میں مزاحم ہوتا ہے، اور دوسرا جو کچھ بنانا چاہتا ہے کوئی تیسرا اسے بگاڑنے کے لیے اُٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ کوئی کچھ بھی نہیں بنا سکتا۔ اس صورت حال نے ہرپہلو میں تعمیر روک رکھی ہے اور تخریب آپ سے آپ اپنا کام کر رہی ہے خواہ ہم میں سے کوئی بھی اس کا دل سے خواہاں نہ ہو۔
اگر ہم اپنے دشمن آپ نہیں ہوگئے ہیں تو ہمیں اختلاف اور مخالفت و مزاحمت کے اس اندھے جنون سے افاقہ پانے کی کوشش کرنی چاہیے ،اور اپنے ذہن کو اُن بنیادوں کی تلاش میں لگانا چاہیے جن پر سب، یا کم از کم اکثر باشندگانِ پاکستان متفق ہوسکیں، جن پر متفق ہوکر ہماری قوتیں اپنی تخریب کے بجاے اپنی تعمیر میں لگ سکیں۔
ایسی بنیادیں تلاش کرنا درحقیقت مشکل کام نہیں ہے۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہمارے ذہن وجوہِ نزاع کرید کرید کر نکالنے کے بجاے اساساتِ اتفاق ڈھونڈنے کی طرف متوجہ ہوجائیں۔ ذرا سا زاویۂ نظر بدل جائے تو ہم بآسانی دیکھ سکتے ہیں کہ یہ اساساتِ اتفاق ہمارے قریب ہی موجود ہیں۔ ہم انھیں اپنے مذہب میں پاسکتے ہیں، اپنی تہذیب اور روایات میں پاسکتے ہیں، دنیا کے تجربات میں پاسکتے ہیں، اور عقلِ عام کی صاف اور صریح رہنمائی میں پاسکتے ہیں۔
[ہم یہاں] چند اُن بنیادی اصولوں کی نشان دہی [کرتے ہیں] جن پر اتفاق ممکن ہے.....
۱- صداقت اور باھمی انصاف: اوّلین چیز جس پر ملک کے تمام مختلف الخیال گروہوں اور اشخاص کو اتفاق کرنا چاہیے وہ صداقت اور باہمی انصاف ہے۔ اختلاف اگر ایمان داری کے ساتھ ہو، دلائل کے ساتھ ہو، اور اسی حد تک رہے جس حد تک فی الواقع اختلاف ہے، تو اکثر حالات میں یہ مفید ثابت ہوتا ہے، کیونکہ اس طرح مختلف نقطۂ نظر اپنی صحیح صورت میں لوگوں کے سامنے آجاتے ہیں اور لوگ انھیں دیکھ کر خود راے قائم کرسکتے ہیں کہ وہ ان میں سے کس کو قبول کریں، تاہم اگر وہ مفید نہ ہو تو کم سے کم بات یہ ہے کہ مضر نہیں ہوسکتا۔ لیکن کسی معاشرے کے لیے اس سے بڑھ کر نقصان دہ کوئی چیز نہیں ہوسکتی کہ اُس میں جب بھی کسی کو کسی سے اختلاف ہو تو وہ ’’جنگ میں سب کچھ حلال ہے‘‘ کا ابلیسی اصول اختیار کر کے اُس پر ہر طرح کے جھوٹے الزامات لگائے، اُس کی طرف جان بوجھ کر غلط باتیں منسوب کرے، اُس کے نقطۂ نظر کو قصداً غلط صورت میں پیش کرے، سیاسی اختلاف ہو تو اسے غدار اور دشمنِ وطن ٹھیرائے، مذہبی اختلاف ہو تو اس کے پورے دین و ایمان کو متہم کرڈالے، اور ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے اس طرح پڑجائے کہ گویا اب مقصدِ زندگی بس اسی کو نیچا دکھانا رہ گیا ہے۔ اختلاف کا یہ طریقہ نہ صرف اخلاقی لحاظ سے معیوب اور دینی حیثیت سے گناہ ہے، بلکہ عملاً بھی اس سے بے شمار خرابیاں پیدا ہوتی ہیں..... بھلائی اسی میں ہے کہ ہمیں کسی سے خواہ کیسا ہی اختلاف ہو، ہم صداقت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور اس کے ساتھ ویسا ہی انصاف کریں جیسا ہم خود اپنے لیے چاہتے ہیں۔
۲- اختلافات میں رواداری : دوسری چیز جو اتنی ہی ضروری ہے، اختلافات میں رواداری ہے، [یعنی] ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کو سمجھنے کی کوشش، اور دوسروں کے حقِ راے کو تسلیم کرنا ہے۔ کسی کا اپنی راے کو حق سمجھنا اور عزیز رکھنا تو ایک فطری بات ہے، لیکن راے رکھنے کے جملہ حقوق اپنے ہی لیے محفوظ کرلینا انفرادیت کا وہ مبالغہ ہے جو اجتماعی زندگی میں کبھی نہیں نبھ سکتا۔ پھر اس پر مزید خرابی اس مفروضے سے پیدا ہوتی ہے کہ ’’ہماری راے سے مختلف کوئی راے ایمان داری کے ساتھ قائم نہیں کی جاسکتی، لہٰذا جو بھی کوئی دوسری راے رکھتا ہے وہ لازماً بے ایمان اور بدنیت ہے‘‘۔ یہ چیز معاشرے میں ایک عام بدگمانی کی فضا پیدا کردیتی ہے، اختلاف کو مخالفتوں میں تبدیل کردیتی ہے اور معاشرے کے مختلف عناصر کو، جنھیں بہرحال ایک ہی جگہ رہنا ہے، اس قابل نہیں رہنے دیتی کہ وہ ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کو سمجھ کر کسی مفاہمت و مصالحت پر پہنچ سکیں..... اس کا مداوا صرف اسی طرح ہوسکتا ہے کہ سب سے پہلے وہ لوگ جو اپنے اپنے حلقوں میں نفوذ و اثر رکھتے ہیں، اپنی ذہنیت تبدیل کریں اور خود اپنے طرزِعمل سے اپنے زیراثر لوگوں کو تحمل و برداشت اور وسعت ِ ظرف کا سبق دیں۔
۳- منفی کے بجاے مثبت طرزِعمل: تیسری چیز جسے تمام ان لوگوں کو ملحوظ رکھنا چاہیے جو اجتماعی زندگی کے کسی شعبے میں کام کرتے ہوں، یہ ہے کہ ہرشخص اپنی قوتیں دوسروں کی تردید میں صرف کرنے کے بجاے اپنی مثبت چیز پیش کرنے پر صرف کرے۔ اس میں شک نہیں کہ بسااوقات کسی چیز کے اثبات کے لیے اس کے غیر کی نفی ناگزیر ہوتی ہے، مگر اس نفی کو اسی حد تک رہنا چاہیے جس حد تک وہ ناگزیر ہو، اور اصل کام اثبات ہونا چاہیے نہ کہ نفی۔ افسوس ہے کہ یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ یہاں زیادہ تر زور اس بات پر صرف کیا جاتا ہے کہ دوسرے جو کچھ بھی کر رہے ہیں اس کی مذمت کی جائے اور اس کے متعلق لوگوں کی راے خراب کر دی جائے.....
اِس وقت ہماری قومی زندگی میں ایک بڑا خلا پایا جاتا ہے جو ایک قیادت پر سے عوام کا اعتماد اُٹھ جانے اور دوسری کسی قیادت پر نہ جمنے کا نتیجہ ہے۔ اس خلا کو اگر کوئی چیز بھرسکتی ہے تو وہ یہ ہے کہ مختلف جماعتیں اپنا جو کچھ اور جیسا کچھ بھی مثبت کام اور پروگرام رکھتی ہیں وہ لوگوں کے سامنے آئے اور لوگوں کو یہ سمجھنے کا موقع ملے کہ کون کیا کچھ بنا رہا ہے، کیا کچھ بنانا چاہتا ہے، اور کس کے ہاتھوں کیا کچھ بننے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ یہی چیز آخرکار ایک یا چند جماعتوں پر قوم کو مجتمع کرسکے گی اور اجتماعی طاقت سے کوئی تعمیری کام ممکن ہوگا۔ لیکن اگر صورت حال یہ رہے کہ ہرایک اپنا اعتماد قائم کرنے کے بجاے دوسروں کا اعتماد ختم کرنے میں لگا رہے تو نتیجہ اس کے سوا کچھ نہ ہوگا کہ کسی کا اعتماد بھی قائم نہ ہوسکے گا اور ساری قوم بِن سری ہوکر رہ جائے گی۔
۴- جبر و تشدّد کے بجاے دلائل: ایک اور بات جسے ایک قاعدۂ کلیہ کی حیثیت سے سب کو مان لینا چاہیے یہ ہے کہ اپنی مرضی دوسروں پر زبردستی مسلط کرنے کا کسی کو حق نہیں ہے۔ جو کوئی بھی اپنی بات دوسروں سے منوانا چاہتا ہو وہ جبر سے نہیں بلکہ دلائل سے منوائے، اور جو کوئی اپنی کسی تجویز کو اجتماعی پیمانے پر نافذ کرنا چاہتا ہو وہ بزور نافذ کرنے کے بجاے ترغیب و تلقین سے لوگوں کو راضی کرکے نافذ کرے۔ محض یہ بات کہ ایک شخص کسی چیز کو حق سمجھتا ہے یا ملک و ملّت کے لیے مفید خیال کرتا ہے، اس بات کے لیے کافی نہیں ہے کہ وہ اُٹھے اور زبردستی اس کو لوگوں پر مسلط کرنے کی کوشش شروع کردے۔ اس طریق کار کا لازمی نتیجہ کش مکش، مزاحمت اور بدمزگی ہے۔ ایسے طریقوں سے ایک چیز مسلط تو ہوسکتی ہے مگر کامیاب نہیں ہوسکتی، کیونکہ کامیابی کے لیے لوگوں کی قبولیت اور دلی رضامندی ضروری ہے۔ جن لوگوں کو کسی نوع کی طاقت حاصل ہوتی ہے، خواہ وہ حکومت کی طاقت ہو یا مال و دولت کی یا نفوذ و اثر کی، وہ بالعموم اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ انھیں اپنی بات منوانے اور اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے رضاے عام کے حصول کا لمبا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے، بس طاقت کا استعمال کافی ہے لیکن دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ ایسی ہی زبردستیوں نے بالآخر قوموں کا مزاج بگاڑ دیا ہے، ملکوں کے نظام تہ و بالا کر دیے ہیں، اور ان کو پُرامن ارتقا کے راستے سے ہٹاکر بے تکے تغیرات و انقلابات کے راستے پر ڈال دیا ہے.....
۵- انفرادی عصبیت کے بجاے ملّی مفاد : اس سلسلے کی آخری بات یہ ہے کہ ہمیں اپنی چھوٹی چھوٹی عصبیتوں کو ختم کر کے مجموعی طور پر پورے ملک اور ملّت کی بھلائی کے نقطۂ نظر سے سوچنے کا خوگر ہونا چاہیے۔ ایک مذہبی فرقے کے لوگوں کا اپنے ہم خیال لوگوں سے مانوس ہونا، یا ایک زبان بولنے والوں کا اپنے ہم زبانوں سے قریب تر ہونا، یا ایک علاقے کے لوگوں کا اپنے علاقے والوں سے دل چسپی رکھنا تو ایک فطری بات ہے۔ اس کی نہ کسی طرح مذمت کی جاسکتی ہے اور نہ اس کا مٹ جانا کسی درجے میں مطلوب ہے، مگر جب اسی طرح کے چھوٹے چھوٹے گروہ اپنی محدود دل چسپیوں کی بنا پر تعصب اختیار کرنا شروع کر دیتے ہیں اور اپنے گروہی مفاد یا مقاصد کے لیے معرکہ آرائی پر اُتر آتے ہیں تو یہ چیز ملک اور ملّت کے لیے سخت نقصان دہ بن جاتی ہے۔ اس کو اگر نہ روکا جائے تو ملک پارہ پارہ ہوجائے اور ملّت کا شیرازہ بکھر جائے جس کے بُرے نتائج سے خود یہ گروہ بھی نہیں بچ سکتے۔ لہٰذا ہم میں سے ہرشخص کو یہ اچھی طرح ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ جس فرقے، قبیلے، نسل، زبان یا صوبے سے بھی اس کا تعلق ہو، اُس کے ساتھ اُس کی دل چسپی اپنی فطری حد سے تجاوز نہ کرنے پائے۔ یہ دل چسپی جب بھی تعصب کی شکل اختیار کرے گی، تباہ کن ثابت ہوگی۔ ہرتعصب لازماً جواب میں ایک دوسرا تعصب پیدا کردیتا ہے، اور تعصب کے مقابلے میں تعصب کش مکش پیدا کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ پھر بھلا اُس قوم کی خیر کیسے ہوسکتی ہے جس کے اجزاے ترکیبی آپس ہی میں برسرِپیکار ہوں۔
ایسا ہی معاملہ سیاسی پارٹیوں کا بھی ہے۔ کسی ملک میں اس طرح کی پارٹیوں کا وجود اگر جائز ہے تو صرف اس بنا پر کہ ملک کی بھلائی کے لیے جو لوگ ایک خاص نظریہ اور لائحۂ عمل رکھتے ہوں انھیں منظم ہوکر اپنے طریقے پر کام کرنے کا حق ہے۔ لیکن یہ حق دو ضروری شرطوں کے ساتھ مشروط ہے۔ پہلی شرط یہ ہے کہ وہ فی الواقع نیک نیتی کے ساتھ ملک کی بھلائی ہی کے لیے خواہاں اور کوشاں ہوں، اور دوسری شرط یہ کہ ایک دوسرے کے ساتھ ان کی مسابقت یا مصالحت اصولی ہو اور معقول اور پاکیزہ طریقوں تک محدود رہے۔ ان میں سے جو شرط بھی مفقود ہوگی اُس کا فقدان پارٹیوں کے وجود کو ملک کے لیے مصیبت بنا دے گا۔ اگر ایک پارٹی اپنے مفاد اور اپنے چلانے والوں کے مفاد ہی کو اپنی سعی و جہد کا مرکز و محور بنابیٹھے اور اس فکر میں ملک کے مفاد کی پروا نہ کرے تو وہ سیاسی پارٹی نہیں بلکہ قزاقوں کی ٹولی ہے۔ اور اگر مختلف پارٹیاں مسابقت میں ہرطرح کے جائز و ناجائز ہتھکنڈے استعمال کرنے لگیں اور مصالحت کسی اصول پر کرنے کے بجاے اختیار و اقتدار کے بٹوارے کی خاطرکیا کریں تو ان کی جنگ بھی ملک کے لیے تباہ کن ہوگی اور صلح بھی۔
یہ پانچ اصول وہ ہیں جن کی پابندی اگر ملک کے تمام عناصر قبول نہ کرلیں تو یہاں سرے سے وہ فضا ہی پیدا نہیں ہوسکتی جس میں نظامِ زندگی کی بنیادوں پر اتفاق ممکن ہو، یا بالفرض اس طرح کا کوئی اتفاق مصنوعی طور پر واقع ہو بھی جائے توو ہ عملاً کوئی مفید نتیجہ پیدا کرسکے۔ (ترجمان القرآن ،جولائی ۱۹۵۵ء، ص ۲-۸)