سیّد ابوالاعلیٰ مودودی


درحقیقت یہ اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے کہ اس کی کتاب اس کے اپنے الفاظ میں ہمارے پاس موجود ہے۔ دنیا کی دوسری قوموں کے پاس بھی اللہ تعالیٰ کی کتابیں آئیں اور اللہ تعالیٰ کے رسول آئے۔ خود قرآن مجید فرماتا ہے کہ ہر قوم میں رسول آئے ہیں اور ہر قوم میں اللہ تعالیٰ نے اپنا پیغام بھیجا ہے۔ لیکن کوئی قوم اُس اصل پیغام کو جو اللہ تعالیٰ نے بھیجا تھا، اس کے اپنے الفاظ میں محفوظ نہیں رکھ سکی۔ صرف قرآن مجید ایک ایسی کتاب ہے کہ جس کے اندر انسانی کلام کے ایک لفظ کی آمیزش بھی نہیں ہو سکی اور خالص اللہ تعالیٰ کی زبان میں یہ کتاب موجود ہے۔  

اگر ایک آدمی عربی زبان وادب کا ذوق رکھتا ہو اور وہ قرآن کو پڑھے تو فی الواقع اس کی روح وجد میں آجاتی ہے، کیونکہ اس کے اندر اس بلا کی تاثیر ہے، اس قدر زبردست کشش ہے اور اس کے اندر اتنی پُرزور Spirit بھری ہوئی ہے کہ آدمی کے لیے بعض اوقات ضبط کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ یا تو وہ رو پڑے، یا پھر سر دُھنتا رہ جائے۔ 

اس کے علاوہ ایک دوسری عجیب و غریب چیزجو ہم دیکھتے ہیں وہ یہ ہے کہ دوسری کتابیں جو خدا کی کتابوں کی حیثیت سے پیش کی جاتی ہیں، ان میں پورا ایک مضمون کئی کئی صفحوں میں بیان کیا جاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا کلام ایسا شاہانہ کلام ہے کہ جب ہم اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ کے کلام میں دیکھتے ہیں تو وہ ایک دو فقروں کے اندر بیان کیا گیا ہے۔ وہ ایک دو فقرے بھی ان تمام عبارتوں کے مقابلے میں جو ہمیں دوسری کتابوں میں ملتی ہیں زیادہ بھاری، زیادہ بامعنی اور زیادہ مؤثر ہیں۔ 

اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ الٰہی کلام میں اور وہ انسانی کلام جو الٰہی کلام کی تفسیر وتاویل کرتا ہے یا ترجمانی کرتا ہے، اس میں کیا عظیم الشان فرق ہے۔ 

دوسری الٰہی کتابیں جن زبانوں میںآئی تھیں، اُن زبانوں میں وہ اب محفوظ نہیں ہیں۔ صرف ان کے ترجمے ہیں جیساکہ بروہی صاحب (اے کے بروہی) نے فرمایا اور بالکل صحیح فرمایا کہ خدا کے کلام کا ترجمہ ممکن ہی نہیں ہے۔ کوئی دوسری زبان ایسی نہیں ہوسکتی جس میں خدا کے کلام کا ترجمہ کیا جاسکے۔ 

اب جن قوموں کے پاس خدا کا کلام محفوظ نہیں ہے اور صرف ان کے ترجمے محفوظ ہیں، وہ ایک بہت بڑی نعمت سے محروم ہیں۔ اور جس قوم کے پاس خدا کا کلام موجود ہے ، اور اپنی اصلی شکل میں موجود ہے، اصل الفاظ میں موجود ہے اور اسی ترتیب کے ساتھ موجود ہے جس ترتیب کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیؐ کے ذریعے سے اس کو مرتب کروایا تھا، اس سے زیادہ بدقسمت پھر کوئی قوم نہیں ہے جو اُس کتاب سے فائدہ نہیں اُٹھاتی، خود اس کتاب سے کوئی سبق نہیں لیتی اور دنیا تک اس کتاب کے نور کو پہنچانے کی کوشش نہیں کرتی۔ جتنے بدقسمت وہ لوگ ہیں، جنھوں نے اصل کتابِ الٰہی کو کھو دیا اور صرف ترجمے ان کے پاس رہ گئے، اُس سے زیادہ بدقسمت وہ لوگ ہیں جن کے پاس اصل کتاب موجود ہے اور وہ اس سے استفادہ نہیں کرتے اور نہ دنیا تک اُس کے نور کو پہنچاتے ہیں۔  

محض عربی دان ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ کئی بلندپایہ عربی دان تو عیسائیوں میں بھی ملتے ہیں، بڑے بڑے معروف ادیب ہیں۔ خود مسلمانوں میں بھی بکثرت ایسے ادیب ہیں، جنھوں نے قرآن مجید آج تک نہیں پڑھا ہے حالانکہ انھیں عربی زبان بھی آتی ہے۔ پھر جن کی مادری زبان عربی ہے ، معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے بھی قرآن مجید نہیں پڑھا ہے۔ اس سے زیادہ بدقسمتی اور کیا ہو سکتی ہے! 

ہماری یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ خود اس کتاب کو سمجھیں ، اس کتاب کا اپنی زندگی پر پوری طرح اثر قبول کریں، اور اس کتاب کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالیں ۔ اس کی روح اور اس کی Siprit کو اپنے اندر جذب کریں اور اس کے بعد ساری دنیا تک اس کو پہنچائیں ۔ یہ ہماری ذمہ داری اور responsibility ہے۔  

جب ہم مغربی دنیا میں جاتے ہیں تو وہاں معلوم ہوتا ہے کہ لوگ صرف اس وجہ سے بہک رہے ہیں کہ ان کو حقیقی روشنی نہیں مل رہی۔ کوئی ہپّی (Hippy، ملنگ) بن رہا ہے ۔ کس وجہ سے؟ صرف اس لیے کہ جو اس کی زندگی ہے اس سے وہ مطمئن نہیں ہے۔ کوئی بودھ ازم کی طرف جا رہا ہے، کوئی ہندوازم کی طرف چلا جا رہا ہے، کوئی سکھ بن رہا ہے۔ اس طرح سے مختلف قسم کے عجیب وغریب تجربات لوگ کر رہے ہیں۔ صرف اس وجہ سے کہ اصل روشنی ان کے پاس نہیں پہنچی۔  

اگر آپ اپنے گردوپیش میں ایسے چند آدمی بھی پائیں کہ جو قرآن مجید کو کم از کم انگریزی زبان ہی میں، اس کی اصل روح کے مطابق لوگوں کے سامنے پیش کریں، اور اس زمانے کے آدمی کے سمجھنے کے قابل عبارت میں اس کو پیش کریں تو یہ ایک بہت بڑی خدمت ہو گی ، نہ صرف اپنی عاقبت سنوارنے کے لیے بلکہ دنیا کی رہنمائی کے لیے بھی۔  

آج انسان اس چیز کا طالب ہے جس کو وہ نہیں جانتا کہ وہ کس چیز کا طالب ہے ؟ وہ ایک پیاس محسوس کر رہا ہے، مگر اسے نہیں معلوم کہ اسے کس چیز کی پیاس ہے ؟ جب اُس کے پاس یہ چیز پہنچے گی اور اس زبان میں پہنچے گی کہ جس کو وہ سمجھتا ہو، تب اس کو معلوم ہو گا کہ ہاں، یہ وہ چیز تھی جس کا میں پیاسا تھااور اس سے وہ سیراب ہو گا۔  

متعدد آدمی ایسے میرے علم میں ہیں کہ جب ان کے سامنے اسلام کو اس کی اصلی روح میں پیش کیا گیا، اور ان کو بتایا گیا کہ قرآن مجید یہ ہے اور یہ اس کی تعلیم ہے، تو ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور وہ حیران ہو گئے کہ’’کیا فی الواقع ایسی چیز دنیا میں موجود ہے اور ہم اس سے ناواقف ہیں؟‘‘ اس وقت مجھے احساس ہوا کہ کتنی بڑی ذمہ داری ہمارے اوپر عائد ہوتی ہے کہ ہمارے پاس وہ شے موجود ہے مگر ہم نہ خود اس سے فائدہ اُٹھا رہے ہیں اورنہ دنیا کو اس کا فائدہ پہنچا رہے ہیں۔  

اس لیے میں ایسے تمام لوگوں کو انتہائی قابلِ قدر سمجھتا ہوں، جو موجودہ زمانے کی زبان میں لوگوں کو قرآن مجید کی تعلیمات سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور میں چاہتا ہوں کہ اس ملک میں جتنے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے یہ قابلیت عطا فرمائی ہے کہ وہ بیرونی زبانوں میں، انگریزی میں یا فرنچ میں، اور دوسری زبانوں میں قرآنِ مجید کی تعلیمات سمجھا سکتے ہیں، وہ اس خدمت کو ضرور انجام دیں۔ خود ہماری نئی نسلیں بھی بگڑ رہی ہیں اور دنیا کے لوگ بھی صرف اس وجہ سے گمراہ ہیں کہ ان کو حقیقی روشنی کی ہدایت نہیں مل رہی۔  

 ۲۳مئی ۱۹۷۵ء کو ہوٹل انٹرکانٹی نینٹل ،لاہور میں مختصر خطاب 

سوال : [آپ کی کتاب] خطبات میں عبادات کے مقاصد کے تذکرے پر یہ اعتراض اُٹھایا گیا ہے کہ آپ نے صرف ان کے دُنیوی فوائد کا تذکرہ کیا ہے۔ عبادات کے اُخروی فوائد کا یا تو ذکر ہی نہیں کیا، یا اگر کیا بھی ہے تو ثانوی درجے کی حیثیت سے۔ اس کے جواب میں ہم اپنے علم کے مطابق وضاحت کی کوشش کرتے رہے ہیں مگر معترضین ہمارے جواب سے مطمئن نہیں ہوتے۔ اس لیے خود آپ کی توضیح زیادہ مفید ہوگی بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کتابوں کی عبارتوں میں ضروری ترمیم کر دی جائے۔ آخر میں یہ خوش خبری بھی عرضِ خدمت ہے کہ اندھی مخالفت کا یہ طوفان جتنا جتنا زور پکڑ رہا ہے، ہماری دینی دعوت بھی اسی کے ساتھ روزبروز بڑھتی جارہی ہے۔ آپ ہمارے لیے خدا تعالیٰ سے دُعا فرمایئے۔ 

جواب : خطبات میں عبادات کے دُنیوی نہیں بلکہ اخلاقی فوائد کو میں نے زیادہ نمایاں کرکے پیش کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ میں اُخروی فوائد کا قائل نہیں ہوں یا انھیں کم اہمیت دیتا ہوں، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے لوگوں کی نگاہوں سے عبادات کے اخلاقی، اجتماعی اور تمدنی فوائد اوجھل ہوگئے ہیں، اور ان کے اوجھل ہوجانے کی وجہ سے لوگ ان عبادات سے غفلت برتنے لگے ہیں۔ اس لیے میں نے ان پہلوئوں کو زیادہ نمایاں کیا ہے۔ نمایاں وہی چیز کی جاتی ہے، جو مخفی ہو یا جس سے عموماً لوگ غافل ہوں،نہ کہ وہ چیز جس سے پہلے ہی لوگ واقف ہوں۔ 

آخر میں دُعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کی مدد فرمائے اور فتنہ پردازوں سے آپ کی حفاظت فرمائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایسے موقع پر دُعا فرمایا کرتے تھے:  

اَللّٰھُمَّ   اِنَّا  نَجْعَلُکَ  فِیْ  نُحُوْرِہِمْ وَنَعُوْذُبِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ (سنن ابی داؤد، کتاب تفریع، حدیث: ۱۵۳۷) [اے اللہ! ہم تجھے اُن (دشمنوں) کے مقابلے میں سامنے رکھتے ہیں اور اُن کے شرور سے تیری پناہ مانگتے ہیں۔] 

یہی دُعا مَیں بھی مانگتا ہوں۔ جو لوگ محض نفسانیت اور تعصب اور حسد کی بنا پر ہمارے خلاف طرح طرح کے فتنے اُٹھا رہے ہیں اور محض اپنے ذاتی کینے کی وجہ سے اُس خیر کا راستہ روکنا چاہتے ہیں جس کے لیے ہم کوشش کررہے ہیں، ان کے شر سے ہم خدا کی پناہ مانگتے ہیں ، اور خدا ہی سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ان سے نمٹ لے۔ 


کیا نماز میں درود پڑھنا شرک ہے؟ 

سوال : نماز میں سورئہ فاتحہ ، سورئہ اخلاص یا کوئی اور سورت جو ہم پڑھتے ہیں، ان میں صرف اللہ ہی کی حمدوثنا اور عظمت و بزرگی کا بیان ہے۔ اسی طرح رکوع و سجود میں اسی کی تسبیح و تہلیل بیان ہوتی ہے۔ لیکن جیسے ہی ہم تشہد کے لیے بیٹھتے ہیں تو حضور سرورِ کائنات حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر شروع ہوجاتا ہے، جیساکہ تشہد اور دونوں درود شریف وغیرہ۔ کیا اس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ کی عبادت میں شریک نہیں ہوجاتے؟ 

جواب : تشہد کی پوری عبارت پر آپ غور کریں۔ پہلے آپ اللہ تعالیٰ کے حضور اپنا سلام پیش کرتے ہیں، پھر رسولؐ کے لیے رحمت و برکت کی دُعا کرتے ہیں۔ پھر اپنے حق میں اور تمام نیک بندوں کے حق میں سلامتی کی دُعا کرتے ہیں۔ پھر اللہ کی وحدانیت اور حضرت محمدؐ کی رسالت کی شہادت دیتے ہیں۔ پھر رسولؐ اللہ پر درود بھیجتے ہیں، جو دراصل اللہ ہی سے اس امر کی دُعا ہے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی نوازشات کی بارش فرمائے۔ پھر اللہ سے اپنے حق میں اور اپنے والدین کے حق میں بخشش کی دُعا کرتے ہیں۔ ان سارے مضامین کو آپ خود دیکھیں، ان میں کیا چیز ہے جسے آپ ’شرک‘ کہہ سکتے ہیں؟ یہ توساری دُعائیں اللہ تعالیٰ ہی سے ہیں۔ کیا اللہ سے دُعا کرنا ’شرک‘ ہے؟ اور کیا اللہ کے رسولؐ کو رسول ماننا بھی ’شرک‘ ہے؟ (ترجمان القرآن، فروری۱۹۶۱ء( 

خلافت ِ راشدہ حقیقت میں محض ایک سیاسی حکومت نہ تھی، بلکہ نبوت کی مکمل نیابت تھی۔ یعنی اس کا کام صرف اتنا ہی نہ تھا کہ ملک کا نظم و نسق چلائے، امن قائم کرے اور سرحدوں کی حفاظت کرتی رہے، بلکہ وہ مسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں معلّم، مربی اور مرشد کے وہ تمام فرائض انجام دیتی تھی، جونبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حیاتِ طیبہ میں انجام دیا کرتے تھے، اور اس کی یہ ذمہ داری تھی کہ دارالاسلام میں دینِ حق کے پورے نظام کو اس کی اصلی شکل و روح کے ساتھ چلائے ، اور دُنیا میں مسلمانوں کی پو ری اجتماعی طاقت، اللہ کا کلمہ بلند کرنے کی خدمت پر لگادے۔ 

اس بناپر یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ وہ صرف ’خلافت ِ راشدہ‘ ہی نہ تھی بلکہ ’خلافت ِ مرشدہ‘ بھی تھی۔ ’خلافت علیٰ منہاج النبوۃ‘ کے الفاظ اس کی انھی دونوں خصوصیات کو ظاہر کرتے ہیں، اور دین کی سمجھ رکھنے والا کوئی شخص بھی اس بات سے ناواقف نہیں ہوسکتا کہ اسلام میں اصل مطلوب اِسی نوعیت کی ریاست ہے نہ کہ محض ایک سیاسی حکومت۔ 

(’خلافت راشدہ سے ملوکیت تک‘، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جون ۱۹۶۵ء، ص ۳۳) 

اقامت ِدین کے لیے جرأت ِعمل

سوال : اگر ہمارے پیش رو لغزشوں سے محفوظ نہیں رہ سکتے تو ہمارا دامن کیسے پاک رہ سکتا ہے اور اقامت ِدین کے لیے ہم میں جرأت عمل کیسے پیدا ہوسکتی ہے؟

جواب : انسان جب تک انسان ہے،اس کی سعی بشریت کے تقاضوں اور محدودیتوں سے پاک نہیں ہوسکتی۔ ہر شخص کو اپنی حد تک اپنا فرض بہتر سے بہتر طریقے سے انجام دینے کی کوشش کرنی چاہیے اور ساتھ ہی ساتھ اﷲ سے دُعا کرتے رہنا چاہیے کہ وہ ہمیں ارادی لغزشوں سے بچائے اور غیر ارادی لغزشوں کو معاف فرمائے۔


اسلامی تحریکوں کا اتحادکیوں نہیں؟

سوال : تمام عالم ِاسلام کی اسلامی تحریکوں کو متحد کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی جاتی؟

جواب : اس وقت بدقسمتی سے تمام مسلمان ملکوں میں قومیت پرستی کا دور دورہ ہے، جس کی وجہ سے یہ بات ممکن نہیں ہے۔ کم و بیش تمام مسلم ممالک کے سربراہ اپنے ملکوں میں تحریک ِاسلامی کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اس صورت میں وہ متحد ہو کر اسلامی تحریکوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے۔ لہٰذا، فی الوقت اتنا ہی کافی ہے کہ یہ تحریکیں صحیح خطوط پر چلتی رہیں اور ایک دوسرے سے صِرف واقفیت اور ہمدردی رکھیں۔

یہ بات قابلِ غور ہے کہ انبیا علیہم السلام کے مقابلے میں اُٹھ کر باپ دادا کی تقلید کا جھنڈا بلند کرنے والے ہر زمانے میں اپنی قوم کے کھاتے پیتے لوگ ہی کیوں رہے ہیں؟ آخر کیا وجہ ہے کہ وہی حق کی مخالفت میں پیش پیش اور قائم شدہ جاہلیت کو برقرار رکھنے کی کوشش میں سرگرم رہے، اور وہی عوام کو بہکا اور بھڑکا کر انبیا علیہم السلام کے خلاف فتنے اُٹھاتے رہے؟

اس کے بنیادی وجوہ دو تھے:

ایک یہ کہ کھاتے پیتے اور خوش حال طبقے اپنی دُنیا بنانے اور اُس سے لطف اندوز ہونے میں اِس قدر منہمک ہوتے ہیں کہ حق اور باطل کی، بزعمِ خویش ، دُور ازکار بحث میں سر کھپانے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اُن کی تن آسانی اور ذہنی کاہلی انھیں دین کے معاملے میں انتہائی بے فکر، اور اس کے ساتھ عملاً قدامت پسند (Conservative) بنادیتی ہے، تاکہ جو حالت پہلے سے قائم چلی آرہی ہے، وہی قطع نظر اس سے کہ وہ حق ہے یا باطل، جوں کی تُوں قائم رہے اور کسی نئے نظام کے متعلق سوچنے کی زحمت نہ اُٹھانی پڑے۔

دوسرے یہ کہ قائم شدہ نظام سے اُن کے مفاد پوری طرح وابستہ ہوچکے ہوتے ہیں اور انبیا علیہم السلام کے پیش کردہ نظام کو دیکھ کر پہلی ہی نظر میں وہ بھانپ جاتے ہیں کہ یہ آئے گا تو ان کی چودھراہٹ کی بساط بھی لپیٹ کر رکھ دی جائے گی اور ان کے لیے اکلِ حرام اور فعل حرام کی بھی کوئی آزادی باقی نہ رہے گی۔

(’تفہیم القرآن‘، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، مئی ۱۹۶۵ء، ص ۲۱)

ایک مسلمان کی حیثیت سے آپ دیکھیں تو اخلاق کی پستی کے ساتھ ہم سرے سے کسی اسلامی زندگی کا تصوّر ہی نہیں کرسکتے۔ مسلمان تو مسلمان بنایا ہی اس لیے گیا ہے کہ اس کی ذات سے دُنیا میں بھلائی قائم ہو اور بُرائی مٹے۔ بھلائی کو مٹانا اور بُرائی پھیلانا ، اور پھر اس کے ساتھ مسلمان بھی ہونا، یہ درحقیقت ایک کھلا ہوا تناقض ہے۔ایک شخص مسلمان ہو اور پھر بھی اُس کے شر سے دوسرے بندگانِ خدا محفوظ نہ ہوں۔ ایک شخص مسلمان ہو اور پھر بھی اُس پر کسی معاملے میں اعتماد نہ کیا جاسکے۔ ایک شخص مسلمان ہو اور پھر بھی وہ نیکی سے بھاگے اور بدی کی طرف لپکے، حرام کھائے اور حرام طریقوں سے اپنی خواہشات پوری کرے، تو آخر اس کے مسلمان ہونے کا فائدہ کیا ہے؟ کسی مسلم معاشرے کی اس سے بڑھ کر کوئی ذلّت نہیں ہوسکتی کہ وہ انصاف سے خالی اور ظلم سے لبریز ہوتا چلا جائے۔ اس میں روز بروز بھلائیاں دبتی اور بُرائیاں فروغ پاتی چلی جائیں، اور اس کے اندر دیانت و امانت اور شرافت کے لیے پھلنے پھولنے کے مواقع کم سے کم تر ہوتے چلے جائیں۔ یہ خدا کے غضب کو دعوت دینے والی حالت ہے۔ اگر کسی مسلم معاشرے کی یہ حالت ہوجائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ اسلام کی روح سے خالی ہوچکا ہے، صرف اسلام کا نام ہی اس میں باقی رہ گیا ہے، اور یہ نام بھی اب صرف اس لیے رہ گیا ہے کہ دُنیا کو اس دینِ حق سے دُور بھگاتا رہے۔

مسلمان اخلاقی زوال کی طرف جاتا ہی اس وقت ہے جب اسے خدا کی رضا اور آخرت کی فلاح مطلوب نہیں رہتی اور صرف دُنیا اس کی مطلوب بن کر ہ جاتی ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اخلاق کی پستی کے ساتھ کوئی قوم دُنیا کی کامیابی بھی حاصل نہیں کرسکتی۔ اس پستی کے ساتھ تو آخرت بھی ہاتھ سے جاتی ہے اور دُنیا بھی ہاتھ نہیں آتی۔(’تعمیر اخلاق کیوں اور کیسے ؟‘، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، اپریل ۱۹۶۵ء، ص ۲۸)

اللہ پر توکّل ، ایمان لانے کا لازمی تقاضا، اور آخرت کی کامیابی کے لیے ایک ضروری وصف ہے۔ توکّل کے معنی یہ ہے کہ:

  • اوّلًا، آدمی کو اللہ تعالیٰ کی رہنمائی پر کامل اعتماد ہو اور وہ یہ سمجھے کہ حقیقت کا جو علم، اخلاق کے جو اصول، حلال و حرام کے جو حدود، اور دُنیامیں زندگی بسر کرنے کے لیے جو قواعد و ضوابط اللہ نے دیئے ہیں وہی برحق ہیں اور انھی کی پیروی میں انسان کی خیر ہے۔
  • ثانیاً، آدمی کا بھروسا اپنی طاقت و قابلیت، اپنے ذرائع و وسائل، اپنی تدابیر، او ر اللہ کے سوا دوسروں کی امداد و عانت پر نہ ہو، بلکہ وہ پوری طرح یہ بات ذہن نشین رکھے کہ دُنیا اور آخرت کے ہرمعاملے میں اُس کی کامیابی کا اصل انحصار اللہ کی توفیق و تائید پر ہے، اور اللہ کی توفیق و تائید کا وہ اسی صورت میں مستحق ہوسکتا ہے، جب کہ وہ اُس کی رضا کو مقصود بنا کر، اُس کے مقرر کیے ہوئے حدود کی پابندی کرتے ہوئے کام کرے۔
  • ثالثا ً ، آدمی کو اُن وعدوں پر پورا بھروسا ہو، جو اللہ تعالیٰ نے ایمان و عمل صالح کا رویّہ اختیار کرنے والے اور باطل کے بجائے حق کے لیے کام کرنے والے بندوں سے کیے ہیں، اور انھی وعدوں پر اعتماد کرتے ہوئے وہ اُن تمام فوائد اور منافع اور لذائذ کو لات مار دے جو باطل کی راہ پر جانے کی صورت میں اسے حاصل ہوتے نظر آتے ہوں، اور اُن سارے نقصانات اور تکلیفوں اور محرومیوں کو انگیز کرجائے جو حق پر استقامت کی وجہ سے اُس کے نصیب میں آئیں۔

توکّل کے معنی کی اِس تشریح سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ایمان کے ساتھ اس کا کتنا گہرا تعلق ہے ، اور اُس کے بغیر جو ایمان محض خالی خولی اعتراف و اقرار کی حد تک ہو، اُس سے وہ شاندار نتائج کیوں نہیں حاصل ہوسکتے جن کا وعدہ ایمان لاکر توکّل کرنے والوں سے کیا گیا ہے؟ (سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۶۵،عدد۷، مارچ ۱۹۶۵ء، ص ۲۸)

  • قرآن کی دعوت اور اُس کے پیغام کا خلاصہ یہ ہے:’’اے انسانو! صرف اپنے اُس ربّ کی بندگی کرو جس نے تمھیں پیدا کیا ہے‘‘ (البقرہ۲:۲۱)

قرآن مزدوروں یا کاشت کاروں یا کارخانہ داروں کو نہیں پکارتا بلکہ انسانوں کو پکارتا ہے۔ اس کا خطاب انسان سے بحیثیت انسان ہے اور وہ صرف یہ کہتا ہے کہ اگر تم خدا کے سوا کسی کی بندگی، اطاعت، فرماں برداری کرتے ہو تو اسے چھوڑدو، اور اگر خود تمھارے اندر خدائی کا داعیہ ہے تو اُسے بھی چھوڑ دو کہ دوسروں سے اپنی بندگی کرانے اور دوسروں کا سر اپنے آگے جھکوانے کا حق بھی تم میں سے کسی کو حاصل نہیں ہے۔ تم سب کو ایک خدا کی بندگی قبول کرنی چاہیے اور اس بندگی میں سب کو ایک سطح پر آجانا چاہیے:

آئو ہم اور تم ایک ایسی بات پر جمع ہوجائیں جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں ہے۔ وہ یہ ہے کہ ہم خدا کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں اور خداوندی میں کسی کو خدا کا شریک بھی نہ ٹھیرائیں، اور ہم میں سے کوئی کسی کو خدا کے بجائے امرونہی کا مالک بھی نہ بنائے۔ (اٰل عمرٰن۳:۶۴)

یہ عالم گیر اور کُلی انقلاب کی دعوت ہے۔ قرآن نے پکار کر کہا ہے کہ  اِنِ الْحُکْمُ  اِلَّا لِلّٰہِ ط (الانعام ۶:۵۷) ’’حکومت سوائے خدا اور کسی کی نہیں ہے‘‘۔ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ بذاتِ خود انسانوں کا حکمران بن جائے اور اپنے اختیار سے جس چیز کا چاہے حکم دے اور جس چیز سے چاہے روک دے۔ کسی انسان کو بالذات امرونہی کا مالک سمجھنا دراصل خدائی میں اسے شریک کرنا ہے اور یہی بنائے فساد ہے۔ اللہ نے انسان کو جس صحیح فطرت پر پیدا کیا ہے اور زندگی بسر کرنے کا جوسیدھا راستہ بتایا ہے، اُس سے انسان کے ہٹنے کی وجہ صرف یہ ہے کہ لوگ خدا کو بھول جائیں اور نتیجتاً خود اپنی حقیقت کو بھی فراموش کردیں۔ اس کا نتیجہ لازمی طور پر یہی ہوتا ہے کہ ایک طرف بعض اشخاص یا خاندان یا طبقے خدائی کا کھلا یا چھپا داعیہ لے کر اُٹھتے ہیں اور اپنی طاقت سے ناجائز فائدہ اُٹھا کر لوگوں کو اپنا بندہ بنالیتے ہیں۔ دوسری طرف اس خدافراموشی اور خود فراموشی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کا ایک حصہ ان طاقتوروں کی خدائی مان لیتا ہے اور ان کے اس حق کو تسلیم کرلیتا ہے کہ یہ حکم کریں اور وہ اس حکم کے آگے سر جھکا دیں۔ یہی دُنیا میں ظلم و فساد اور ناجائز انتفاع کی بنیاد ہے۔ قرآن پہلی ضرب اسی پر لگاتا ہے۔ وہ ہانکے پکارے کہتا ہے:

  • ان لوگوں کا حکم ہرگز نہ مانو جو اپنی حد ِ جائز سے گزر گئے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے۔ (الشعراء ۲۶:۱۵۱-۱۵۲)
  • اُس شخص کی اطاعت ہرگز نہ کرنا جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے اور جو اپنی خواہشاتِ نفس کا بندہ بن گیا ہے اور جس کا کام افراط و تفریط پر مبنی ہے۔ (الکہف ۱۸:۲۸)
  • خدا کی لعنت ہو اُن ظالموں پر جو خدا کے بنائے ہوئے زندگی کے سیدھے راستے میں رکاوٹیں ڈالتے ہیں اور اس کو ٹیڑھاکرنا چاہتے ہیں۔ (ھود۱۱:۱۸-۱۹)

وہ لوگوں سے پوچھتا ہے: ءَ اَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ  اَمِ اللہُ  الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ۝۳۹ۭ (یوسف ۱۲: ۳۹)، یعنی یہ بہت سے چھوٹے بڑے خدا جن کی بندگی میں تم پسے جارہے ہو، اِن کی بندگی قبول ہے یا اُس خدائے واحد کی جو سب سے زبردست ہے؟ اگر اس خدائے واحد کی بندگی قبول نہ کرو گے تو ان چھوٹے اور جھوٹے خدائوں کی آقائی سے تمھیں کبھی نجات نہ مل سکے گی، یہ کسی نہ کسی طور سے تم پر تسلط پائیں گے اور فساد برپا کرکے رہیں گے:

  • یہ بادشاہ جب کسی بستی میں گھستے ہیں تو اُس کے نظامِ حیات کو تہ و بالا کرڈالتے ہیں اور اس کے عزّت والوں کو ذلیل کردیتے ہیں اور ان کا یہی وتیرہ ہے۔(النمل ۲۷:۳۴)
  • اورجب وہ اقتدار پا لیتا ہے تو زمین میں فساد پھیلاتا ہے، کھیتوں کو خراب اور فصلوں کو تباہ کرتا ہے ، اور اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔(البقرہ۲:۲۰۵)

اسلام کی دعوتِ توحید و خدا پرستی محض اس معنی میں ایک مذہبی عقیدے کی دعوت نہ تھی جس میں اور دوسرے مذہبی عقائد کی دعوت ہوا کرتی ہے، بلکہ حقیقت میں یہ ایک اجتماعی انقلاب کی دعوت تھی۔ اس کی ضرب بلاواسطہ ان طبقوں پر پڑتی تھی جنھوں نے مذہبی رنگ میں پروہت بن کر، یا سیاسی رنگ میں بادشاہ بن کر اور رئیس اور حکمران گروہ بن کر، یا معاشی رنگ میں مہاجن اور زمیندار اور اجارہ دار بن کر عامۃ الناس کو اپنا بندہ بنا لیا تھا۔ یہ کہیں علانیہ ارباب من دون اللہ بنے ہوئے تھے۔ دُنیا سے اپنے پیدائشی یا طبقاتی حقوق کی بنیاد پر اطاعت و بندگی کا مطالبہ کرتے تھے اور صاف کہتے تھے کہ مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَيْرِيْ۝۰ۚ (القصص ۲۸:۳۸) (میں تو اپنے سوا تمھارے کسی خدا کو نہیں جانتا)، اور اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى۝۲۴ۡۖ  (النازعات ۷۹:۲۴) (میں تمھارا سب  سے بڑا ربّ ہوں)، اور اَنَا  اُحْیِ  وَاُمِیْتُ  (البقرہ ۲:۲۵۸) (زندگی اور موت میرے اختیار میں ہے)، اور مَنْ اَشَدُّ  مِنَّا  قُوَّۃً  ط (حم السجدہ ۴۱:۱۵) (کون ہے ہم سے زیادہ زورآور؟)، اور کسی جگہ اُنھوں نے عامۃ الناس کی جہالت کو استعمال کرنے کے لیے بتوں اور ہیکلوں کی شکل میں مصنوعی خدا بنا رکھے تھے جن کی آڑ پکڑ کر یہ اپنے خداوندی حقوق بندگانِ خدا سے تسلیم کراتے تھے۔ پس کفروشرک اور بُت پرستی کے خلاف قرآن کی دعوت اور خدائے واحد کی بندگی و عبودیت کے لیے قرآن کی تبلیغ براہِ راست حکومت اور اس کو سہارا دینے والوں یا اُس کے سہارے چلنے والے طبقوں کی اغراض سے متصادم ہوتی تھی۔ اس وجہ سے جب کبھی کسی نبی ؑ نے  يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللہَ مَا لَكُمْ مِّنْ  اِلٰہٍ  غَيْرُہٗ۝۰ۭ (الاعراف۷:۵۹)کی صدا بلند کی ، کہ اے برادرانِ قوم، اللہ کی بندگی کرو، اُس کے سوا تمھارا کوئی خدا نہیں ہے، تو حکومت ِ وقت فوراً اس کے مقابلے میں آن کھڑی ہوئی اور تمام ناجائز انتفاع کرنے والے طبقے اس کی مخالفت پر کمربستہ ہوگئے کیونکہ یہ محض ایک مابعد الطبیعی قضیہ کا بیان نہ تھا بلکہ ایک اجتماعی انقلاب کا اعلان تھا۔

معقول حد کے اندر اپنی ضروریات پر خرچ کرنے کے بعد آدمی کے پاس اس کی حلال طریقوں سے کمائی ہوئی دولت کا جو حصہ بچے اسے خود اِن کاموں پر صرف کرنا چاہیے:

  • لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ (راہِ خدا میں) وہ کیا خرچ کریں؟ کہو جو کچھ تمھاری ضرورت سے زیادہ ہو۔ (البقرہ ۲:۲۱۹)
  • نیکی اس چیز کا نام نہیں ہے کہ تم نے مشرق یا مغرب کی طرف منہ کرلیا، بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی ایمان لائے اللہ پر اور یومِ آخر پر اور ملائکہ اور کتاب اور نبیوں پر، اور مال دے اللہ کی محبت میں اپنے رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں اور مدد مانگنے والوں کو اور خرچ کرے غلامی سے لوگوں کی گردنیں چھڑانے میں…(البقرہ ۲:۱۷۷)
  • تم نیکی کا مقام ہرگز نہ پاسکو گے جب تک کہ خرچ نہ کرو اپنے وہ مال جو تمھیں محبوب ہیں اور جو کچھ بھی تم خرچ کرو گے وہ اللہ کو معلوم ہوگا۔(اٰل عمرٰن ۳:۹۲)
  • اللہ کی بندگی کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور نیک سلوک کرو والدین کے ساتھ، رشتہ داروں کے ساتھ ، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ، رشتہ دار پڑوسی اور اجنبی پڑوسی اور ہم نشین دوست کے ساتھ، مسافر کے ساتھ اور اُن غلاموں کے ساتھ جو تمھارے قبضے میں ہوں۔ درحقیقت اللہ اِترانے والوں اور فخر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا، جو خود بخل کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی بخل کی تلقین کرتے ہیں، اور اُس فضل کو چھپاتے ہیں جو اللہ نے انھیں بخشا ہے۔ ایسے ناشکروں کے لیے ہم نے رُسوا کن عذاب مہیا کررکھا ہے۔ اور وہ جو اپنے مال کو دکھاوے کے لیے خرچ کرتے ہیں۔ (النساء ۴: ۳۶ تا ۳۸)
  • (راہِ خدا میں خرچ کے مستحق) وہ تنگ حال لوگ ہیں جو اللہ کی راہ میں ایسے گھِر گئے ہیں کہ زمین میں اپنی روزی کمانے کے لیے دوڑ دھوپ نہیں کرسکتے، ناواقف آدمی ان کی خودداری کی وجہ سے ان کو غنی سمجھتا ہے، مگر تم ان کے چہروں سے ان کو پہچان سکتے ہو، وہ پیچھے پڑ کر لوگوں سے نہیں مانگتے۔ جو کچھ مال تم ان پر خرچ کرو گے اللہ کو اس کا علم ہوگا۔(البقرہ ۲:۲۷۳)
  • (اور نیک لوگ) اللہ کی محبت میں کھانا کھلاتے ہیں، مسکین اور یتیم اور قیدی کو اور کہتے ہیں کہ ہم محض اللہ کی خوشنودی کے لیے تمھیں کھلاتے ہیں، تم سے کسی بدلے یا شکریے کے خواہش مند نہیں ہیں۔ (الدھر ۷۶:۸-۹)
  • (اور دوزخ کی آگ سے محفوظ) وہ لوگ ہیں جن کے مالوں میں ایک طے شدہ حصہ ہے، مدد مانگنے والے اور محروم کے لیے (یعنی انھوں نے اپنے مال میں ان کا باقاعدہ حصہ مقرر کر رکھا ہے)۔ (المعارج ۷۰:۲۴-۲۵)
  • اور تمھارے غلاموں میں سے جو (فدیہ دے کر آزادی حاصل کرنے کا) معاہدہ کرنا چاہیں ان سے معاہدہ کرلو اگر تم ان کے اندر کوئی بھلائی پاتے ہو اور (اس فدیہ کی ادائی کے لیے) ان کو اللہ کے اس مال میں سے دو جو اس نے تمھیں عطا کیا ہے۔ (النور۲۴:۳۳)

اس خرچ کو قرآن نہ صرف یہ کہ ایک بنیادی نیکی کہتا ہے بلکہ تاکیداًوہ یہ بھی بتاتا ہے کہ ایسا نہ کرنے میں معاشرے کی مجموعی ہلاکت ہے:

  • خرچ کرو اللہ کی راہ میں اور اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالو، اور احسان کرو ، اللہ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ (البقرہ ۲:۱۹۵)

(سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۶۲،عدد۶، فروری ۱۹۶۵ء، ص۳۹-۴۱)

سوال : نسل اور رنگ کا مسئلہ اسلام کس طرح حل کرتا ہے؟

جواب :نسل اور رنگ کے مسئلے کے پیدا ہونے کا اصل سبب یہ ہے کہ آدمی محض اپنی جہالت اور تنگ نظری کی بنا پر یہ سمجھتا ہے، کہ جو شخص کسی خاص نسل یا ملک یا قوم میں پیدا ہوگیا ہے، وہ کسی دوسرے شخص کے مقابلے میں زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔ حالانکہ جو کسی دوسری نسل یا قوم یا کسی دوسرے ملک میں پیدا ہوا ہے، اس کی پیدائش ایک اتفاقی امر ہے، یہ اس کے اپنے انتخاب کا نتیجہ نہیں ہے۔ اس لیے اسلام ایسے تمام تعصبات کو جاہلیت قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ تمام انسان ایک ماں اور ایک باپ سے پیدا ہوئے ہیں، اور انسان اور انسان کے درمیان فرق کی بنیاد اس کی پیدائش نہیں بلکہ اس کے اخلاق ہیں۔ اگر ایک انسان اعلیٰ درجے کے اخلاق رکھتا ہے، تو خواہ وہ کالا ہو یا گورا، خواہ وہ افریقا میں پیدا ہوا ہو یا امریکا میں، یا ایشیا میں، بہرحال وہ ایک قابلِ قدر انسان ہے۔ اور اگر ایک انسان اخلاق کے اعتبار سے ایک بُرا آدمی ہے، تو خواہ وہ کسی جگہ پیدا ہوا ہے اور اس کا رنگ خواہ کچھ ہی ہو اور اس کا تعلق خواہ کسی نسل سے ہو، وہ ایک بُرا انسان ہے۔

اسی بات کو ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ کالے کو گورے پر اور گورے کو کالے پر کوئی فضیلت نہیں ہے۔ عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں ہے، فضیلت اگر ہے تو وہ تقویٰ کی بنا پر ہے۔ جو شخص خدا کی صحیح صحیح بندگی کرتا ہے اور خدا کے قانون کی صحیح صحیح پیروی کرتا ہے، خواہ وہ گورا ہویا کالا، بہرحال وہ اس شخص سے افضل ہے جو خدا ترسی اور نیکی سے خالی ہو۔ اسلام نے اسی بنیاد پر تمام نسلی اور قومی امتیازات کو مٹایا ہے۔ وہ پوری نوعِ انسانی کو ایک قرار دیتا ہے اور انسان ہونے کی حیثیت سے سب کو برابر کے حقوق دیتا ہے۔

قرآن وہ پہلی کتاب ہے جس نے انسان کے بنیادی حقوق کو واضح طور پر بیان کیا ہے، اور اسلام وہ پہلا دین ہے جس نے تمام انسانوں کو جو کسی مملکت میں شامل ہوں، ایک جیسے بنیادی حقوق عطا کیے ہیں۔ فرق اگر ہے تو یہ ہے کہ اسلامی ریاست چونکہ ایک نظریے اور اصول (Ideology) پر قائم ہوتی ہے، اس لیے اس نظریے کو جو لوگ مانتے ہوں، اسلامی ریاست کو چلانے کا کام انھی کے سپرد کیا جاتا ہے۔ کیونکہ جو لوگ اسے مانتے اور سمجھتے ہیں وہی لوگ اس پر  عمل پیرا ہوسکتے ہیں۔ لیکن انسان ہونے کی حیثیت سے اسلام تمام ان لوگوں کو یکساں تمدنی حقوق عطا کرتا ہے، جو کسی اسلامی ریاست میں رہتے ہوں۔ اسی بنیاد پر اسلام نے ایک عالمگیر اُمت (World Community) بنائی ہے، جس میں ساری دُنیا کے انسان برابر کے حقوق کے ساتھ شامل ہوسکتے ہیں۔حج کے موقعے پر ہرشخص دیکھ سکتا ہے کہ ایشیا، افریقہ، امریکا، یورپ اور مختلف ملکوں کے لاکھوں مسلمان ایک جگہ جمع ہوتے ہیں اور ان کے درمیان کسی قسم کا امتیاز نہیں پایا جاتا۔ ان کو دیکھنے والا ایک ہی نظر میں یہ محسوس کرلیتا ہے کہ یہ سب ایک اُمت ہیں اور ان کے درمیان کوئی معاشرتی امتیاز نہیں ہے۔ اگر اس اصول کو تسلیم کرلیا جائے تو دُنیا میں رنگ و نسل کی تفریق کی بناپر آج جو ظلم و ستم ہورہا ہے اس کا یک لخت خاتمہ ہوسکتا ہے۔(لندن، ۱۹۶۸ء)

سوال: کیا تمام دُنیا ’ایک قومیت‘ کے تصور پر ایمان لاسکتی ہے؟

جواب: یہ صرف اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب دنیا اسلام کی صداقتوں کو قبول کرلے۔ ایک خدا، ایک کتاب اور ایک لیڈر (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کو تسلیم کرلے۔اس طرح خود بخود وہ عالمگیر قوت (Universal Nationality) وجود میں آجائے گی۔ تمام دُنیا کے لوگ اخوت کی ایک رسّی میں منسلک ہوجائیں گے۔ یہ سارے لڑائی جھگڑے خودبخود ختم ہوجائیں گے اور امن و آشتی کا اُجالا چاردانگ عالم کو منور کردے گا۔ (لاہور، ۱۹۷۱ء)

انسانی معیشت کے بارے میں اوّلین بنیادی حقیقت، جسے قرآنِ مجید باربار زور دے کر بیان کرتا ہے، یہ ہے کہ تمام وہ ذرائع و وسائل جن پر انسان کی معاش کا انحصار ہے، اللہ تعالیٰ کے پیدا کیے ہوئے ہیں۔ اسی نے ان کو اس طرح بنایا اور ایسے قوانینِ فطرت پر قائم کیا ہے کہ وہ انسانیت کے لیے نافع ہورہے ہیں اور اسی نے انسان کو ان سے انتفاع کا موقع دیا اور ان پر تصرف کا اختیار بخشا ہے:

  • وہی ہے جس نے تمھارے لیے زمین کو رام کردیا، پس چلو اُس (زمین) کی پہنائیوں میں اور کھائو اُس (خدا) کا رزق اور اُسی کی طرف تمھیں دوبارہ زندہ ہوکر واپس جانا ہے۔ (الملک ۶۷:۱۵)
  • اور وہی ہے جس نے زمین کو پھیلایا اور اس میں پہاڑ بنائے، دریا جاری کیے اور ہرطرح کے پھلوں کی دو دو قسمیں پیدا کیں۔ (الرعد۱۳:۳)
  • وہی ہے جس نے تمھارے لیے وہ سب کچھ پیدا کیا جو زمین میں ہے۔ (البقرہ ۲:۲۹)
  • اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور آسمان سے پانی برسایا، پھر اس کے ذریعے سے تمھارے رزق کے لیے پھل نکالے، اور تمھارے لیے کشتی کو مسخر کیا تاکہ وہ سمندر میں اس کے حکم سے چلے، اور تمھارے لیے دریائوں کو مسخر کیا اور سورج اور چاند کو تمھارے مفاد میں ایک دستور پر قائم کیا کہ پیہم گردش کررہے ہیں، اور دن اور رات کو تمھارے مفاد میں ایک قانون کا پابند کیا، اور وہ سب کچھ تمھیں دیا جو تم نے مانگا۔ اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو نہیں کرسکتے۔ (ابراہیم۱۴: ۳۲-۳۴)

ہم نے زمین میں تم کو اقتدار بخشا اور تمھارے لیے اس میں زندگی کے ذرائع فراہم کیے۔(الاعراف ۷:۱۰)

  • کیا تم نے غور نہیں کیا، یہ کھیتیاں جو تم بوتے ہو، انھیں تم اُگاتے ہو یا اُن کے اُگانے والے ہم ہیں؟

(سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۶۲،عدد۵، جنوری ۱۹۶۵ء، ص ۳۷-۳۸)

سب سے پہلے یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ’شریعت‘ سے مراد کیا ہے؟ بعد میں یہ عرض کروں گا کہ اس کے نفاذ کا کیا مطلب ہے، اور آخر میں یہ بتائوں گا کہ پاکستان میں اس کے نفاذ کے امکانات کیا ہیں اور کیا ضروری شرائط ہیں؟

شریعت کا مفہوم

’شریعت‘ سے مراد محض قانون نہیں ہے، جس کو عدالتوں کے ذریعے نافذ کیا جائے۔ ’شریعت‘ قانون کے ہم معنی نہیں۔ ’شریعت‘ سے مراد زندگی کا پورا نظام ہے، جو عقائد و ایمانیات سے شروع ہوتا ہے ، اور عبادات واخلاقیات پر منتج ہوتا ہے۔یہ زندگی کے ہر شعبے پر محیط ہے۔

شریعت کے تقاضے

  • پختہ ایمان: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو شریعت ہی کو نافذ کرنے کے لیے مبعوث فرمائے گئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرہ برس مکہ معظمہ میں، اس کے بعد مدینہ منورہ میں اپنی ساری طاقت صرف فرمائی کہ لوگوں کے ذہنوں اور دلوں میں ایمان کی طاقت بٹھا دیں۔ کیوں کہ یہ شریعت اس وقت تک نافذ ہی نہیں ہوسکتی، جب تک اس کے چلانے والوں میں ایمان موجود نہ ہو، اور جن پر وہ چلائی جائے ان کے اندر بھی ایمان نہ ہو۔ اگر ایمان موجود نہ ہو تو یہ ممکن نہیں ہے کہ شریعت کو نافذ کیا جاسکے، اور ممکن نہیں ہے کہ جس آبادی پر اس کو نافذ کیا جارہا ہے وہ اس کو برداشت کرلے۔

مثال کے طور پر آپ سے عرض کرتا ہوں کہ حدودِ شریعہ میں سے ایک شرعی حد یہ ہے کہ چور کا ہاتھ کاٹ دو۔ اس کے اُوپر عمل وہی لوگ کرسکتے ہیں، جن کے دلوں میں ایمان ہو۔ وہ سچّے دل سے یہ سمجھتے ہوں کہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ سچّے دل سے یہ مانتے ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُوپر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ وحی اور کلام نازل ہوا ہے۔ یہ اللہ کا حکم ہے، جو رسولؐ کی زبان سے جاری ہورہا ہے، اور سچّے دل سے یہ مانتے ہوں کہ اگر ہم نے اس کے نافذ کرنے میں ذرّہ برابر بھی کوتاہی کی تو آخرت میں ہمیں اللہ کے رُوبرو جواب دہ ہونا پڑے گا۔ اگر یہ چیزیں موجود نہیں ہیں تو حدودِ شرعیہ کا اجراہو نہیں سکتا، ممکن ہی نہیں۔

کوئی ایسا فرد جس کو قانون کی شکل میں حد ِ شرعی ملے، لیکن وہ اس پر ایمان نہ رکھتا ہو، تو وہ پہلی فرصت تلاش کرے گا جس میں اس قانون کو منسوخ کرے اور اپنے لیے نیا قانون بنائے۔ اسی طرح جن لوگوں پر یہ قانون نافذ کیا جاتا ہے، اگر ان کے اندر ایمان نہ ہو، وہ یہ نہ مانتے ہوں کہ قرآن برحق ہے اور اسلام کے قانون میں چور کی سزا ہاتھ کاٹنا ہی ہے۔ اگر وہ اس کے اُوپر یقین نہ رکھتے ہوں، تو ہوسکتا ہے کہ کسی غریب، چھوٹے اور بے اثر آدمی کے ہاتھ تو کاٹ دیئے جائیں، لیکن اگر کسی بااثر آدمی کا ہاتھ کاٹنے کی نوبت آجائے تو بغاوت برپا ہوجائے۔ وہ آبادی اس چیز کو برداشت ہی نہیں کرے گی کہ یہ قانون نافذ ہو ۔ اس لیے شریعت سب سے پہلے جس چیز کا تقاضا کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ اس کو نافذ کرنے والے اور جن لوگوں پر اس کا نفاذ کیا جائے ان کے اندر ایمان ہو، ان کے دلوں میں ایمان ہو۔

  • اسلامی اخلاق: اس کے بعد دوسری چیز کا شریعت یہ مطالبہ کرتی ہے کہ اسلام جو اخلاقیات دیتا ہے، بھلے اور بُرے کا جو امتیاز دیتا ہے، خیروشر کا جو فرق بتاتا ہے اور جو اقدار انسان کو دیتا ہے کہ یہ چیز قیمتی ہے اور یہ چیز بے قیمت ہے، اس کو ٹھیک ٹھیک مان کر سمجھ لیا جائے۔ اگر یہ چیز موجود نہ ہوگی تو مانتے ہوئے بھی وہ اس کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں گے، کیونکہ ان میں اخلاق موجود نہ ہوگا۔ اخلاقی حیثیت سے دیوالیہ لوگ، جن کے اخلاق کو گھن کھا چکا ہو، ان کے بس کا یہ کام نہیں ہے کہ شریعت کو نافذ کریں۔ اس لیے کہ شریعت اسلامیہ اخلاقیات بھی دیتی ہے، اور اخلاقیات کا نہایت وسیع تصوّر دیتی ہے، جو زندگی کے ہرمعاملے سے تعلق رکھتا ہے۔
  • شریعت کا پوری زندگی پر نفاذ : اس کے بعد تیسری چیز یہ ہے کہ شریعت کا نظام انسانی زندگی کے پورے دائرے پر پھیلتا ہے۔ وہ اس بات سے بھی بحث کرتا ہے کہ پانی میں پاک کیا ہے اور ناپاک کیا ہے؟ اس شے سے بھی بحث کرتا ہے کہ انسان نجس کس حالت میں ہوتا ہے اور کس حالت میں کس طرح وہ پاک ہوسکتا ہے؟ یعنی شریعت کوئی محدود سا قانونی تصور نہیں رکھتی۔

آپ دیکھیے کہ فقہ کی کتابیں بابِ عبادت سے شروع ہوتی ہیں۔ دُنیا کا کوئی قانون آپ کو ایسا نہیں ملے گا، جس کے اندر طہارت کے مسئلے سے بحث کی گئی ہو، بلکہ حقیقت میں دُنیا کی کسی زبان میں طہارت کا ہم معنی لفظ موجود نہیں۔ مغربی ممالک جانتے ہی نہیں کہ طہارت کس چیز کو کہتے ہیں؟ ان کی زبان میں اس کا ہم معنی لفظ موجود نہیں، لیکن اسلامی شریعت، طہارت سے بحث کرتی ہے جو کہ ایک فرد کا معاملہ ہے، اور پھر افراد کے اندر طہارت پیدا کرتی ہے۔ افراد کے اندر اسلامی اخلاق پیدا کرتی ہے۔ افراد کو اللہ تعالیٰ کی بندگی کے لیے آمادہ کرنا، ان کو بندگی کے طریقے سکھانا، یہ شریعت کا کام ہے۔ پھر افراد کو جوڑ کر ایک جماعت بنانا اور اس جماعت کے اندر اسلامی طریقے رائج کرنا۔ عبادات سے لے کر نکاح کے معاملات تک اور تجارت سے لے کر سیاست اور قانون و عدالت کے معاملات تک، جنگ سے لے کر صلح تک اور ملک کی مالیات سے لے کر ملک کی صنعت و حرفت تک، ہرچیز کے بارے میں قانون موجود ہے۔

اس چیز کو اگر نافذ کرنا ہے تو آدمی یہ سمجھ لے کہ انسانوں کی پوری زندگی کو بدل ڈالنا ہے۔ یہ نہیں ہے کہ صرف ایک پہلو سے ان کی زندگی کو بدلا جائے، بلکہ ان کی پوری زندگی کو ہرپہلو سے، افراد سے لے کر جماعت تک، پوری آبادی کو بدلنا ہے۔ ان کے اندر ایمان اُتارنا ہے۔ ان کے اندر اخلاقیات پیدا کرنی ہیں۔ ان کے اندر آمادگی پیدا کرنی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قانون کی پابندی کریں اور اس کے بعد تمام معاملات کو اس کے مطابق ڈھالنا ہے۔ مارکیٹ میں جو لین دین ہورہا ہے، اس کے اُوپر بھی شریعت کو نافذ کرنا ہے۔ بنکوں میں جو مالیاتی لین دین ہورہا ہے ، ان کو بھی شریعت کے مطابق بدلنا ہے۔ یہ انشورنس کمپنیاں جو چل رہی ہیں، ان کو بھی شریعت کے مطابق بدلنا ہے۔ حکومت جو ٹیکس لگاتی ہے اور ٹیکس لگا کر جس طرح خرچ کرتی ہے، ان دونوں چیزوں میں، پھر جو قرض دیتی ہے اور جو قرض لیتی ہے، اور قرض لے کر جس طرح خرچ کرتی ہے، ان سب پر بھی شریعت کے احکام کو نافذ کرنا ہے۔ عدالتوں میں بھی شریعت کے احکام کو نافذ کرنا ہے۔

حکومت کے انتظامی شعبوں کو بھی شریعت کے مطابق بدلنا ہے۔ مثال کے طور پر اگر پولیس کے محکمے میں کثیرتعداد بے ایمان ملازمین کی ہے تو اسلامی شریعت کا نفاذ نہیں ہوسکتا۔ وجہ یہ ہے کہ ایک بے ایمان پولیس کے ہاتھ میں اسلامی شریعت دے دی جائے تو وہ پوری آبادی کو نچوا دے گی۔ اس لیے پوری انتظامی پالیسی کو بدلنا ضروری ہے۔ رشوت خور لوگ اسلامی شریعت کو نافذ کرنے کے قابل نہیں ہیں۔

اس طرح سے شریعت کی اس حیثیت کو نگاہ میں رکھیے کہ یہ پوری زندگی کا قانون ہے، کسی ایک پہلو کا ضابطہ نہیں۔ یہ ایمان سے لے کر معاملات کے چھوٹے سے چھوٹے اجزا تک، حتیٰ کہ سڑکوں کی صفائی تک سے بھی بحث کرتی ہے۔ سڑک پر کوئی شخص کانٹے بچھاتا ہے، یا لوگوں کو تکلیف دینے والی چیز ڈالتا ہے، کوئی نجاست پھینکتا ہے تو وہ ایک گناہ کا ارتکاب کرتا ہے۔ ان سارے معاملات پر شریعت حاوی ہے اور رہنمائی دیتی ہے۔

شریعت کے زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہونے کے پہلو کو نگاہ میں رکھنے کے بعد اب دیکھیے کہ اس کے نفاذ کا کیا مطلب ہے؟

نفاذِ شریعت کا حقیقی تقاضا

اس کے نفاذ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ اپنے مدرسوں میں بیٹھ کر صرف شریعت کی کتابیں پڑھیں۔ اس کے نفاذ کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ آپ وعظوں میں، تقریروں میں اور اپنے خطبوں میں اس کو محض بیان کریں۔ اس کے نفاذ کا مطلب یہ ہے کہ احکامِ شریعت کو پوری طاقت، شعور، عقل اور عدل سے نافذ کیا جائے۔ جو کام صدرِ مملکت کا ہے وہ اپنے دائرے میں اسے نافذ کرے۔ جو وزیراعظم کے کرنے کا کام ہے وہ اپنے دائرے میں اسے نافذ کرے۔ جو گورنروں اور صوبے کے وزراء کا کام ہے، وہ اپنے دائرے میں اسے نافذ کریں۔ جو مالیات کے محکمے کا کام ہے، جو عدالت کے محکمہ کا کام ہے، جو اقتصادیات کے محکموں کا کام ہے، جو صحت و تندرستی کے محکموں کا کام ہے، وہ سارے کے سارے شریعت کے مطابق چلیں۔ یعنی صرف کوئی ایک چیز نہیں ہے جو درکار ہو، بلکہ پوری کی پوری حکومت کا نظام، پورے کا پورا تجارت و صنعت و حرفت و اقتصادیات کا نظام، پورے کا پورا عدالتی اور معاشرتی نظام، سب کچھ اس کے مطابق ہونا چاہیے۔ ہرچیز میں اس کو نافذ کرنا چاہیے۔ جو چیز محلّے کے لوگوں کے نافذ کرنے کی ہے، اسے وہ نافذ کریں۔ جو میونسپلٹیوں کے نافذ کرنے کی ہیں، انھیں وہ نافذ کریں۔ جو چیز لیجسلیٹو اسمبلی کے کرنے کی ہے، وہ اپنے دائرے میں اسے نافذ کرے۔ پوری کی پوری گورنمنٹ اس کے مطابق ہونی اور چلنی چاہیے۔ نہ یہ کہ کسی فرد کو ’شیخ الاسلام‘ بناکر بٹھا دیا جائے، یا وزارتِ مذہبی اُمور بنا دی جائے اور سمجھ لیا جائے کہ شریعت کا نفاذ ہوگیا۔یہ بات نہیں ہے، بلکہ پورے کے پورے نظامِ حکومت کو تبدیل کرنا اور اسلام کے مطابق چلانے کا نام ہے نفاذِ شریعت۔ یہ پہلو مختصراً عرض کررہا ہوں، ورنہ اس کی تفصیل زیادہ ہے۔

اب دیکھیے کہ پاکستان میں اس کا نفاذ کیسے ہوسکتا ہے؟

پاکستان میں نفاذِ شریعت کیوں نہیں ہوا؟

پاکستان میں اس کے نفاذ میں اختلاف کیوں پیدا ہوا؟ ویسے تو ہم ایک مسلمان قوم ہیں، اور پاکستان اسلام کا نام لے کر بنایا گیا تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا اور فطرتاً آدمی یہ سمجھتا ہے کہ یہ آپ سے آپ ہونا چاہیے تھا کہ جس روز پاکستان بنا تھا، شریعت ِاسلامی اسی روز نافذ ہوجاتی۔ لیکن ایسا کیوں نہیں ہوا؟ اس کی کچھ وجوہ ہیں:

کافرانہ حکومت کے اثرات

ایک وجہ یہ ہے کہ ایک مدتِ دراز تک یہاں کفر کی حکومت مسلط رہی ہے۔ اس نے تعلیم کا نظام ایسا بنایا کہ جس نے لوگوں کے ذہن بدل کر رکھ دیئے، سوچنے کے انداز بدل دیئے۔ اُس نظامِ حکومت نے اپنی تعلیم کے اثر سے لوگوں کو اس حد تک بہکایا کہ قلیل تعداد تعلیم یافتہ لوگوں کی ایسی رہ گئی، جو واقعی دل میں ایمان رکھتی ہو اور سچّے دل سے مانتی ہو کہ اللہ کے رسولؐ جو کچھ لائے وہ برحق ہے، ورنہ ایک کثیر تعداد ایسی تیار ہوگئی، جو اس بات کی قائل ہی نہیں تھی کہ وحی آسکتی ہے۔ جو اس بات کی قائل ہی نہیں رہی تھی کہ نبوت بھی کسی چیز کا نام ہے، جو سمجھتے تھے کہ نبوت اور وحی افسانے ہیں۔ ان کے نزدیک جو کچھ یورپ اور امریکا سے آتا ہے، بس وہی برحق ہے۔ اس کے بارے میں کوئی سوال کرنے کی حاجت نہیں، جیساکہ وہ آرہا ہے جوں کا توں مان لیں گے۔ اس میں کوئی چیز شک کی اور دریافت طلب بات نہیں ہے۔ مگر وہ کتاب جس کے متعلق کہا گیا ہے کہ لاریب فیہ، ان کے نزدیک اس میں ہرریب اور شک کی گنجایش ہے۔ تو یہ اُس تعلیم کے اثرات تھے۔

ان میں جن لوگوں نے اپنا ایمان کچھ بچایا، ان کی فکر اسلامی نہیں تھی اور سوچنے کا انداز اسلامی نہیں تھا۔ جنھوں نے سوچنے کا انداز اسلامی بنانے کی کوشش کی، ان کے پاس علم اسلامی نہیں تھا۔ وہ یہ بات جانتے ہی نہیں تھے کہ اسلام کیا ہے،اس کے احکام کیا ہیں اور کس قسم کا نظام وہ چاہتا ہے؟

جس وقت ہم نے یہ نام لینا شروع کیا کہ ’اسلامی نظامِ حکومت قائم ہونا چاہیے‘ تو لوگ پوچھتے تھے کہ ’اسلامی نظامِ حکومت سے کیا مراد ہے؟‘ عام لوگ ہی نہیں، بلکہ بعض دفعہ خود علما کے لیے بھی یہ سمجھنا مشکل ہوتا تھا۔ بعض لوگوں نے ہم سے یہاں تک کہا کہ ’یہ تم کس چیز کی باتیں کر رہے ہو۔ یہ اس زمانے میں چلنے والی چیز نہیں‘ اور میں نے ان سے یہ عرض کیا کہ ’حضور اگر یہ چلنے والی چیز نہیں تو اس پر ایمان کیوں رکھتے ہیں؟ پھر جو چلنے والی چیز ہے اس پر ایمان لایئے‘۔ بعض علما سے میری بات چیت ہوئی، جس میں انھوں نے مجھ سے یہ بات کہی اور میں نے ان سے یہی عرض کیا۔

ایک اچھا خاصا گروہ یہ سمجھتا تھا کہ اگر ’شیخ الاسلامی‘ قائم ہوجائے اور قضائے شرعی کا انتظام ہوجائے تو بس اسلام کا نفاذ ہوجائے گا، سمجھ لیجیے اسلامی نظام نافذ ہوگیا۔ جب ہمارے دینی مدارس کے فارغ التحصیل لوگوں کے یہ خیالات تھے، تو آپ اندازہ لگایئے کہ کالجوں اور یونی ورسٹیوں سے نکلنے والے لوگوں کا کیا حال ہوگا؟ ان کے اندر ایسے لوگ بھی موجود تھے، جو یہ کہتے تھے کہ اگر ہم اسلامی نظام یہاں نافذ کریں گے تو ہم دُنیا کو کیا منہ دکھائیں گے کہ یہ چودہ سو برس پہلے کا قانون یہاں نافذ کر رہے ہیں۔ یہ باتیں ہم نے خود سنی ہیں، جب ہم نے یہ سوال اُٹھایا کہ یہاں اسلامی نظام نافذ ہونا چاہیے۔ اس بات کا اس وجہ سے ذکر کر رہا ہوں کہ آپ کو وہ رکاوٹیں سمجھ میں آجائیں۔

اسلام ناآشنا قیادت

باوجود اس کے کہ یہ ایک مسلمان قوم تھی اور اس نے اسلام کا نام لے کر پاکستان قائم کیا تھا، لیکن وہ اسلام کا نظام نافذ نہیں کرسکی۔ کیوں نہیں کرسکی؟ اس کے جو کارفرما لوگ تھے، جن کے ہاتھ میں اقتدار اور نظام تھا، ان کی تعلیم و تربیت کسی اور طرز پر ہوئی تھی۔ وہ جانتے بھی نہ تھے کہ اسلام کیا ہے؟ ان کے سوچنے کا انداز بھی اسلامی نہ تھا اور ان کے اندر خواہش بھی اسلامی نظام کو نافذ کرنے کی نہیں تھی۔ نہ اس کو وہ جانتے تھے کہ اسلامی نظام کیا چیز ہے، نہ اس کو مانتے تھے کہ وہ برحق ہے اور نہ وہ یہ ارادہ رکھتے تھے کہ اس کو نافذ کرنا چاہیے۔ ظاہر بات ہے یہ پھر کیسے نافذ ہوسکتا تھا؟

جہاں تک عام آبادی کا تعلق تھا اور ہے، اس کے اندر اسلام کے ساتھ عقیدت موجود ہے۔ بلاشبہہ یہ بہت بڑا سرمایہ ہے۔ اس کے اندر ایمان بھی مجمل طور پر موجود ہے۔ چاہے وہ ایمان کی تفصیلات نہ جانتے ہوں، لیکن مجمل طور پر ایمان ان میں ہے۔ وہ خدا کو مانتے ہیں، رسولؐ کو مانتے ہیں بلکہ رسولؐ کے نام پر جان دینے کو تیار ہیں۔ قرآن کو برحق مانتے ہیں، اس کی تلاوت کرتے ہیں اور اس کا احترام کرتے ہیں۔ آخرت کے بھی منکر نہیں ہیں۔ یہ ساری چیزیں موجود ہیں لیکن کفّار کی ایک طویل مدت کی حکومت اور کافرانہ قوانین کے اجرا نے اور ان کے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کردینے نے، اس مدتِ دراز کے اندر لوگوں کے عادات و خصائل بدل ڈالے ہیں۔

مسلمان جانتا ہے کہ یہ گناہ ہے لیکن اس میں مبتلا ہوتا ہے۔ اس لیے کہ وہی چیز اس پر مسلط ہے۔ ہر طرف سے وہ اس پر محیط ہے، مثلاً سود کو کون مسلمان نہیں جانتا کہ سود حرام ہے، مگر جب سود ہی پر سارا نظام قائم ہوجائے، تجارت کا، صنعت و حرفت کا، مالیات کا، تو کون آدمی اس سے بچے؟ اس میں مبتلا ہوتے وقت مسلمان کو یہ فکر ہوتی ہے کہ کسی طرح اسے بھی حلال کر دیا جائے کیونکہ حرام کو حرام جانتے ہوئے اس کو کرنا بڑا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ یہ تو وہ کرنہیں سکتا کہ حرام سے اجتناب کرے، مگر چاہتا یہ ہے کہ کسی طرح حرام کو حلال کردیا جائے۔ اب تک میرے پاس ایسے لوگ آتے ہیں، جو اسی طرح کے سوالات کرتے ہیں اور میں ان سے کہتا ہوں کہ بھائی حرام کو حلال کرنے کے اختیارات مجھے حاصل نہیں۔  پھر کیسے آپ کے لیے حلال قرار دوں؟

اسلام ناآشنا قیادت نے قوم کو بدلنا چاہا

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک کافرانہ نظام کے تسلط کی بدولت لوگوں کے سوچنے کے انداز ہی نہیں بدلتے، عادات بھی بدل جاتی ہیں اور ان کے لیے ممکن نہیں رہتا کہ وہ نظام اسلامی کو برحق ماننے کے باوجود اس کے برعکس چیز سے پرہیز کریں۔ اب اس کے بعد جب ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ملک کی حکومت آئی جو نہ اسلام کو جانتے تھے، نہ اسلام کو نافذ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے، نہ اسلام کو نافذ کرنے کی قابلیت رکھتے تھے، تو ان کو یہ فکر لاحق ہوئی کہ اگر ہم اس بات کو پھیلنے دیں کہ ملک میں اسلامی شریعت کا نفاذ ہو اور عام لوگوں کے اندر اس بات کی طلب پیدا ہوجائے، تو پھر ہمارا چراغ کہاں جلے گا؟ لوگ ہماری طرف کیسے توجہ کریں گے؟ پھر لازماً اس کی تلاش ہوگی جو اسے نافذ کرسکے۔

اس لیے انھوں نے گذشتہ برس اس کام پر صرف کیے کہ قوم کے مزاج کو بدلا جائے۔ ان کے اخلاق کو بدلا جائے۔ ان کے اندر بُرائیوں کو زیادہ سے زیادہ پھیلایا جائے۔ اس کو زیادہ سے زیادہ اخلاق باختگی کا رسیا بنایا جائے۔ اس کے اندر جہاں تک ہوسکے شراب خوری پھیلائی جائے۔ اس کو زیادہ سے زیادہ سود میں مبتلا کیا جائے، اتنے سود میں جتنا انگریز کے زمانے میں بھی نہیں تھا۔ اس میں مخلوط تعلیم رائج کی جائے تاکہ عورتوں اور مردوں کے میل جول سے جو کچھ تہذیب و تمدن کا ستیاناس ہوتا ہے اور ہورہا ہے، وہ اور زیادہ ہو۔ غرض یہ کہ انھوں نے ہرممکن طریقے سے پوری قوم کو بگاڑ دینے کا پروگرام بنایا، جس پر برابر عمل ہوتا رہا ہے۔ اس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ نفاذِ شریعت کے لیے جس قسم کا ماحول چاہیے اس نوعیت کا ماحول بنانے کے بجائے، اس کے برعکس نوعیت کا ماحول بنایا گیا۔

نفاذِ شریعت کیسے ؟

اب جب ہم یہ سوچنے کے لیے بیٹھیں گے کہ ہم یہاں نفاذِ شریعت کیسے کریں؟ تو اس کے لیے سب سے پہلے لوگوں کے دلوں میں ایمان اُتارنا پڑے گا۔

  • دلوں میں ایمان کی آبیاری: ایمان کے بغیر وہ بنیاد قائم نہیں ہوسکتی جس پر نظامِ شریعت کا نفاذ ہوسکے۔ اس کے بغیر وہ عمارت ہی نہیں کھڑی ہوسکتی۔ اس لیے پہلے لوگوں کے دلوں میں ایمان اُتارنا پڑے گا۔ تمام شکوک و شبہات کے کانٹے جو ان کے اندر چبھے ہوئے ہیں وہ نکالنے پڑیں گے۔ ان کو مطمئن کرنا پڑے گا، پڑھے لکھوں کو بھی اور عوام کو بھی۔ جتنا کچھ عوام کے لیے درکار ہے، اتنا کچھ عوام کے لیے اور جتنا کچھ پڑھے لکھوں کے لیے درکار ہے، اتنا کچھ پڑھے لکھوں کے لیے کرنا پڑے گا۔
  • اصلاحِ اخلاق کی طرف توجہ:پھر آپ کو ان کے اخلاق کی طرف توجہ کرنی پڑے گی، کیونکہ ایک بداخلاق قوم کبھی اس قابل نہیں ہوتی کہ وہ اسلامی نظام نافذ کرسکے۔ اس لیے اخلاق کی بہتری کی فکر کرنی پڑے گی۔
  • اسلامی نظام کے لیے تڑپ : اس کے بعد آپ کو عام لوگوں کے اندر یہ تڑپ پیدا کرنی پڑے گی کہ وہ یہ سمجھیں کہ جب تک اسلام کا نظام جس پر ہم ایمان رکھتے ہیں، نافذ نہیں ہوتا، اس وقت تک ہمارے لیے کوئی زندگی نہیں۔ اس کے بغیر آپ اس کو نافذ نہیں کرسکتے۔ اگر لوگ قائل ہوں کہ فی الواقع اسلام کا نظام آنا چاہیے اور اس بات کے وہ خواہش مند بھی ہوں کہ یہ نافذ ہو، لیکن اس کے لیے کوئی تڑپ موجود نہ ہو، اس کے لیے کوئی لگن موجود نہ ہو اور یہ ارادہ موجود نہ ہو کہ دوسرے نظام کو ہم نہیں چلنے دیں گے اگر وہ ہمارے اُوپر نافذ ہوگا۔ اس وقت تک قوم اس کے لیے تیار نہیں ہوسکتی کہ ایک غلط اور غیر اسلامی نظام جو چل رہا ہے، وہ جگہ چھوڑنے کے لیے مجبور ہوجائے اور اس کی جگہ اسلامی نظام نافذ کیا جائے۔
  • نفاذِ شریعت کا کام پھولوں کی سیج نہیں:اسلامی نظام کے نفاذ کی کوشش اور اسلامی نظام کا نفاذ کھیل نہیں ہے۔ یہ زبان سے کہنے کے لیے بہت آسان کام ہے، لیکن یہ ایسا کام ہے کہ اس راہ میں ہرقدم انسان کے لیے مصیبتوں، اذیتوں، تکلیفوں اور نقصانات سے اَٹا پڑا ہے۔ آپ اندازہ کیجیے کہ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس نظام کو نافذ کرنے کے لیے آئے تھے تو جن لوگوں نے اس کو قبول کیا تھا ان پر کیا گزری تھی؟ اور جس شخص نے اسے پیش کیا تھا اس کے ساتھ کیا کچھ نہ ہوا؟اگر وہ اس بھٹی سے نہ گزرتے تو اسلامی نظام نافذ نہیں ہوسکتا تھا۔ اُس وقت بھی لوگ اس بھٹی سے گزرے تھے اور گزرنے کے بعد جن لوگوں نے قدم قدم پر چوٹیں کھائی تھیں اور قدم قدم پر تکلیفیں اُٹھائی تھیں۔ قدم قدم پر نقصانات اُٹھائے تھے، گھربار چھوڑے تھے، آگ کے انگاروں پر لٹائے گئے تھے۔ تپتی ہوئی ریت پر لٹا کر پتھر ان پر رکھ دیئے گئے تھے، اور اُلٹا لٹکا کر ان کو بوری میں لپیٹ کر آگ کی دھونی دی گئی تھی۔ جب تک ان سارے راستوں سے گزر نہ گئے، اُس وقت تک اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ میں اقتدار نہیں دیا۔

ان راستوں سے گزرنے کے بعد بھی بدر و اُحد کے دنوں کو یاد کیجیے اور حُنین کا معرکہ بھی یاد کرلیجیے۔ ایسے تمام حالات میں اپنے سے کئی کئی گنا زبردست طاقتوں کے مقابلے میں آدمی کھڑا ہو اور ہرمصیبت اور ہرمشکل و تکلیف کو یاد کرلے اور کوئی پروا نہ کرے کہ مقابلے میں کتنی بڑی طاقت ہے۔ کوئی پروا نہ کرے کہ کتنی زیادہ چوٹ مجھے لگتی ہے۔ کتنا میں قید کیا جاتا ہوں اور کتنی مجھے اذیت دی جاتی ہے، اور کیسے کیسے زبردست دشمنوں سے مجھے سابقہ پیش آرہا ہے۔ کس آگ کے گڑھے کی طرف لے جایا جارہا ہوں۔ اس سب کچھ کی پروا کیے بغیر جو لوگ آگے بڑھیں گے، وہ یہاں نظامِ شریعت نافذ کرسکتے ہیں اور باطل پر قابو پاسکتے ہیں۔

  • محنت کے اثرات ظاہر ہوکر رہیں گے: یہ چیز جب آپ کریں گے تو اس کے اثرات آہستہ آہستہ پھیلیں گے۔ اس کے اثرات کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں بھی جائیں گے، اور انھی درس گاہوں میں جو کافر بنانے والی ہیں، وہاں اسلامی ذہن کی نسل تیار ہوگی۔ انھی میں وہ نوجوان تیار ہوں گے جو اسلامی نظام چاہتے بھی ہوں گے اور وہ علم بھی حاصل کریں گے کہ اسلامی نظام کیسے نافذ ہو؟ اور اس کے لیے جب وہ منظم ہوکر کام کریں گے تو ان کے مقابلے پر ہرحربہ استعمال کیا جائے گا کہ یہ کسی طرح دب جائیں۔ ان کے اُوپر گولیوں کی بھی بوچھاڑ ہوگی۔ ان کے اُوپر لاٹھیوں کی بھی بوچھاڑ ہوگی۔ ان کو جیلوں میں بھی ٹھونسا جائے گا۔ ان کو اذیتیں بھی دی جائیں گی۔ مگر جب تک وہ اس بھٹی سے نہیں گزریں گے، وہ کھرا سونا نہیں بن سکتے جو اس بھٹی سے گزر کر بنتا ہے۔
  • ملازمین میں اسلامی ذہنیت کا فروغ: اسی طرح سرکاری ملازمین کے اندر بھی ان خیالات کو بڑے پیمانے پر پھیلنا چاہیے کہ وہ کسی ظالم کے آلۂ کار بننے کے لیے تیار نہ ہوں۔ ان کے ہاتھوں سے غلط کام نہ کروایا جاسکے۔ وہ اس بات کے لیے تیار ہوجائیں کہ نوکری چھوٹ جائے، وہ تیار ہوجائیں کہ ان کے بیوی بچّے فاقے کریں گے، لیکن اس کے لیے تیار نہ ہوں گے کہ غلط کام اپنے ہاتھوں سے کریں۔ یہ ذہنیت سرکاری ملازمین میں بھی پیدا ہونی ضروری ہے۔ جب حکومت محسوس کرے گی کہ اب ہمارا کام نہیں چل سکتا، جب تک ہم اسلامی شریعت کے نفاذ کے لیے تیار نہ ہوں ۔ اور اگر ہم تیار نہ ہوں تو پھر اُن لوگوں کے لیے جگہ خالی کردیں جو اس کو نافذ کرسکیں۔
  • رائـے عامہ کو اسلام کے حق  میں بدلنے کی ضرورت: اسی طرح جیسا جمہوری نظام یہاں چل رہا ہے اور انتخابات میں کوشش کی جاتی ہے کہ عوام کو جس طرح بھی ہوسکے دھوکا اور   فریب دے کر، طرح طرح کے وعدے کرکے ان کی تائید حاصل کرلی جائے اور دُنیا کو یہ دکھایا جائے کہ ہم عوام کی رائے سے آئے ہیں۔ آپ کو عوام کی رائے اس قدر بڑے پیمانے پر بدلنی پڑے گی کہ اس طرح کے لوگ عوام کا ووٹ حاصل نہ کرسکیں۔ عوام کے اندر یہ خیال پیدا ہوجائے کہ ہمارا جینا حرام ہے، اگر ہم یہاں اسلامی نظام نافذ نہ کریں۔ عوام یہ سوچ ہی نہ سکیں کہ ہم کسی ایسے شخص کو بھی ووٹ دے سکتے ہیں، جس کی اپنی زندگی میں اسلامی نظام کی کوئی جھلک دکھائی نہیں دیتی ہے اور جس کا عمل اسلامی نہیں ہے۔ جس کے متعلق ہم جانتے ہیں کہ وہ شاید باقی سب کچھ جانتا ہے مگر بہرحال اسلام نہیں جانتا ، تو ایسے کسی شخص کے لیے کوئی ووٹ نہ ہو۔ یہ حالت آپ کو پیدا کرنی ہوگی۔
  • عزم کے مقابلے میں دھاندلی کامیاب نہیں ہوسکتی: اگر منصفانہ انتخابات ہوں تو بہت اچھا ہے، کیونکہ ہم نہیں چاہتے کہ ٹیڑھی انگلیوں سے گھی نکالا جائے۔ اگر گھی ٹیڑھی انگلی کیے بغیر نکل سکتا ہے تو کوئی احمق ہی ہوگا، جو خواہ مخواہ انگلی ٹیڑھی کرے۔ لیکن اگر قوم کے اندر یہ عزم پیدا ہوجائے کہ ہمیں اس نظام کو یہاں نافذ کرنا ہے، تو پھر کوئی دھن، دھونس اور دھاندلی اس کا راستہ نہیں روک سکتی۔

آپ یہ بات ضرور یاد رکھیے کہ آپ کو جان مار کر ایک مدت دراز تک کام کرنا پڑے گا، یہاں تک کہ وہ مرحلہ آجائے، جس میں ذرا سی عقل رکھنے والے لوگ بھی اَزخود جگہ خالی کردیتے ہیں، اور خود ہٹ جاتے ہیں۔ وہ مرحلہ جب آجاتا ہے تو ان کو معلوم ہوجاتا ہے کہ اب ہمارا چراغ اس قوم میں نہیں جل سکتا، اس لیے بہتر ہے کہ وہ خود ہی پیچھے ہٹ جائیں۔ اس مرحلے پر پہنچ کر وہ اگر نہ ہٹیں تو ان کو ہٹانا کوئی مشکل کام نہیں رہ جاتا، بشرطیکہ قوم کے اندر پورا عزم پایا جائے۔

میں نے ایک عام تصوّر آپ کے سامنے رکھ دیا ہے کہ شریعت اسلامی کیا ہے؟ اور یہ بھی آپ کے سامنے واضح ہوگیا ہے کہ اس کے نفاذ کے کیا معنی ہیں؟ اور یہ بھی آپ کے سامنے آگیا ہے کہ اس کو نافذ کرنے کا راستہ کیا ہے؟ اب یہ ایک سوال باقی رہ جاتا ہے کہ کیا یہاں اس کا امکان ہے؟

پاکستان میں نفاذِ شریعت کے امکانات

 آپ سے عرض کرتا ہوں کہ امکان کے سوال کے دو جواب ہیں:

  • تدّبر و قربانی سے یہ کام ممکن ہـے: ایک جواب یہ ہے کہ انسان اگر پیہم اور مسلسل سعی کرے اور سوچ سمجھ کر سعی کرے ، بیوقوفوں کی طرح نہیں بلکہ سوچ کر عقل مندی کے ساتھ، تو وہ بڑے سے بڑے پہاڑوں کے اندر سرنگ کھود سکتا ہے۔ وہ سمندروں کے نیچے سے سرنگ بناسکتا ہے۔ سمندروں کے اندر سے تیل نکال سکتا ہے۔ وہ چاند کے اُوپر پہنچ سکتا ہے۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے ایسی عظیم طاقتیں دی ہیں۔ جب انسان یہ کچھ کرسکتا ہے تو پھر اگر وہ اللہ کا نظام نافذ کرنے کے لیے اُٹھ کھڑا ہو تو اس کو بھی نافذ کرسکتا ہے، لیکن اس کے لیے جان لڑانی ہے، محنت کرنی ہے، عقل مندی کے ساتھ کام کرنا ہے اور مسلسل جان کھپانی ہے۔

اس کام کو وہی لوگ کرسکتے ہیں جو یہ شرط نہ لگائیں کہ ہم اس کو اپنے سامنے نافذ ہوتا ہوا دیکھیں۔ اس لیے کہ نامعلوم کتنوں کو اس کے نفاذ کی کوشش میں پہلے ہی جان دینی پڑے۔ ذرا سوچیے، بدر میں جن لوگوں نے شہادت پائی اگر وہ جان نہ دیتے اور یہ کہتے کہ ’ہمیں تو اس وقت کے لیے زندہ رہنا ہے جب اس نظام کو نافذ ہوتا دیکھیں گے ، دُنیا پر غالب ہوتا دیکھیں گے‘، تو دُنیا پر اسلام غالب نہیں ہوسکتا تھا۔ مگر یہ غالب ہوا اس طرح کہ بکثرت لوگ اپنی جانیں قربان کرنے کے لیے تیار رہے۔ انھوں نے اس بات کی فکر نہیں کی کہ یہ نافذ ہوسکے گا یا نہیں۔ انھوں نے صرف یہ دیکھا کہ یہی ہمارا فرض ہے۔ ہمیں اللہ کی راہ میں جدوجہد کرنی ہے، جس کے نتیجے میں شہادت آتی ہے تو اس سے بڑی کوئی کامیابی نہیں۔ اس نظریئے کے ساتھ، اس سوچ کے ساتھ وہ آئے اور انھوں نے آکر کام کیا۔ ان کی قربانیوں کو اللہ تعالیٰ پہلے ہی قبول کرنے والا تھا، وہ قبول ہوگئیں۔ لیکن جو جان لڑانے والے تھے اور بچ رہے، اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ سے دین اس طرح سے غالب کیا کہ دُنیا کے بڑے حصے پر چھا گیا۔

  • اگر جدوجہد کے باوجود یہ نافذ نہیں ہوتا تو بدنصیبی ہے: اس امر کا بھی امکان ہے کہ آپ تمام عمر جدوجہد کریں اور پھر بھی یہ نظام نافذ نہ ہو۔ اس کی وجہ اس نظام کی کمزوری نہیں ہوگی۔ اگر آپ اس نظام کے لیے سعی کرنے کا حق ادا کریں تو یہ آپ کی کمزوری نہیں ہوگی، بلکہ یہ تو اُس قوم کی بدبختی ہوگی جو ایسے لوگوں کا ساتھ نہ دے۔ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو وہ چیز نہیں دیتا، جس کا وہ اپنے آپ کو اہل ثابت نہیں کرتی۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ یہ قوم اپنے آپ کو فساق و فجار کے لیے تیار کرے اور انھی کی قیادت و سیادت قبول اور برداشت کرنے پر راضی ہوجائے اور یہ چاہے کہ فساق و فجار ہی ان کے اُوپر معاملات چلانے والے ہوں، تواللہ تعالیٰ زبردستی ان کو صالح، متقی اور امانت دار قیادت نہیں دے گا۔ اگر یہ نہیں ہوتا تو وہ لوگ جنھوں نے ایسی قوموں میں کام کیا اور اپنی عمریں ان کے اندر کھپادیں اور ان کی قوم سیدھے راستے پر نہ آئی، تو وہ ناکام نہیں تھے بلکہ وہ قوم ناکام تھی۔

حضرت لوط علیہ السلام کے قصّے میں آتا ہے، جس وقت فرشتے قومِ لوطؑ پر عذاب دینے کے لیے بھیجے گئے تو انھوں نے کہا: فَمَا وَجَدْنَا فِيْہَا غَيْرَ بَيْتٍ مِّنَ الْمُسْلِمِيْنَ۝۳۶ۚ (الذاریات ۵۱:۳۶)، یعنی پوری قوم میں ایک مسلم گھر تھا اور کوئی نہیں۔اب اس کے بعد ہوتا کیا ہے؟ جو مسلم گھر تھا، اس کے لوگوں سے کہا گیا کہ نکل جائو اور حضرت لوطؑ سے کہا گیا کہ بیوی کو چھوڑ جائو، یہ عذاب میں پکڑی جائے گی، یعنی اس گھر میں بھی کافرہ موجود تھی اور وہ گھر پورے کا پورا مومن نہیں تھا۔ ان کو چھوڑ دیا گیا اور اس کے بعد جو عذاب لایا گیا وہ آپ جانتے ہیں کہ قرآن پاک میں واضح ہے۔ لہٰذا، اگر ایک قوم نہ چاہتی ہو کہ ان کے اُوپر اسلامی نظام نافذ ہو، ایک قوم اگر نہ چاہتی ہو کہ اس کے معاملات ایمان دار اور خداترس لوگ چلائیں، ایک قوم خود بددیانت اور بے ایمان لوگوں کو چاہتی ہو، تو اللہ تعالیٰ ان کو زبردستی نیک لوگ نہیں دیتا۔ان نیک لوگوں کا اجر اللہ کے پاس ہے، وہ ناکام نہیں ہیں۔ اگر ان کی بات نہ چلے تو وہ ناکام نہیں ہیں، ناکام تو وہ قوم ہے جس نے ان کا ساتھ نہ دیا۔

  • امکان کو نگاہ میں رکھ کر کام نہ کریں: اس پہلو کو نگاہ میں رکھ کر کام کیجیے اور یہ سمجھ کر نہ کیجیے کہ اس کا امکان ہو تو ہم کام کریں گے۔ یہ سوال جو لوگ کرتے ہیں کہ کامیابی کا کیا امکان ہے؟ تو ان سے مَیں پوچھتا ہوں کہ بھائی فرض کرو کہ اس کا امکان نہیں ہے، تو کیا آپ یہ رائے رکھتے ہیں کہ جس چیز کا امکان ہے اس کے لیے کام کریں؟ یہ تو پھر مومن کا کام نہیں ہے۔

مومن کا کام تو یہ ہے کہ اگر اس کے نافذ ہونے کا ایک فی صد امکان نہ ہو بلکہ ایک فی ہزار بھی امکان نہ ہو، تب بھی وہ اس کے لیے جان لڑائے۔ اس راستے میں کوشش کرتے ہوئے اُس کا جان دے دینا کامیابی ہے، اور کسی غلط راستے پر جاکر وزیراعظم اور صدراعظم بن جانا کامیابی نہیں، بلکہ کھلی ناکامی ہے۔

  • آپ کا فرض کیا ہـے؟:اس بات کو اچھی طرح سے سمجھ لیجیے کہ امکان کی شرط کے ساتھ آپ کو یہ کام نہیں کرنا بلکہ یہ سمجھتے ہوئے کرنا ہے کہ یہ ہمارے کرنے کا کام ہے اور اس کے سوا ہمارے کرنے کا کوئی کام نہیں۔ مثلاً اگر ایک آدمی کے سامنے یہ سوال آئے کہ پیشاب بھی پینے کی چیز ہے، تو جو آدمی طہارت کی ذرّہ برابر بھی حِس رکھتا ہو، تو وہ سوچ ہی نہیں سکتا کہ یہ بھی کوئی پینے کے قابل چیز ہے۔ وہ برابر اسی تلاش میں رہے گا کہ اسے پینے کے لیے صاف پانی ملے، لیکن کبھی اس کا ذہن اس طرف نہیں جائے گا کہ پیشاب بھی کوئی پینے کے قابل چیز ہے۔

بالکل اسی طرح وہ آدمی جو اسلام کا سچّے دل سے قائل ہے، وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ دوسرے وہ راستے جن میں آسانیاں ہیں، سہولتیں ہیں، عیش ہے، فائدے ہیں، ان کی طرف جائے کہ انھی کا امکان ہے اور اسلام کا کوئی امکان نہیں۔ ایک مسلمان کے سوچنے کے قابل بھی وہ چیز نہیں ہے۔ وہ اُس طرف کبھی حسرت بھری نگاہ بھی نہیں ڈالے گا۔ ان کے محلات اور ان کی کوٹھیوں پر اور ان چیزوں کے بارے میں وہ کبھی نہیں سوچے گا کہ کاش یہ دولت میرے پاس آئے! اس وجہ سے صرف وہی لوگ اس کام کو کرسکتے ہیں، جو کامیابی کے امکان کو چھوڑ کریہ دیکھیں کہ ہمارا فرض کیا ہے؟ اور اس فرض کو ادا کرنے کے لیے ہرتکلیف، ہرمصیبت اور ہرمشکل برداشت کرنے کے لیے تیار ہوں۔ یہی ان کے کرنے کا کام ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگ پیدا کر دیئے اور انھوں نے پوری ہمت کے ساتھ اس کے لیے کام کیا، تو میں یہ نہیں سمجھتا کہ کون سی طاقت یہاں ایسی ہے، جو انھیں آگے بڑھنے سے روک سکے۔ اللہ نے چاہا تو اس میں کامیابی ہی ہوگی۔

میں نے دوسرا پہلو آپ کے سامنے پیش کیا، وہ اس لیے کہ کامیابی کی شرط کے ساتھ آپ کام نہ کریں۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر اس ملک کے اندر ایک مٹھی بھر تعداد ایسے لوگوں کی موجود ہو، جو پوری تنظیم کے ساتھ، پورے ڈسپلن کے ساتھ، عقل و ہوش کے ساتھ اور دیوانگی کے ساتھ، کہ یہ دونوں چیزیں ساتھ چاہییں، یہ کام کریں، اس میں جان لڑائیں اور مسلسل جان لڑاتے چلے جائیں اور ہرتکلیف اور خطرے کو انگیز کرنے کے لیے تیار ہوں، تو وہ لوگ جو اس وقت ایک غیر اسلامی نظام کو چلا رہے ہیں، وہ ایسی طاقت نہیں رکھتے کہ ان کے سامنے ٹھیرسکیں۔

  • نظام باطل کھوکھلا ہوتا ہـے: واقعہ یہ ہے کہ آپ اس بات کو دیکھیے کہ جو لوگ اس نظام کو چلا رہے ہیں، ان کی حالت کیا ہے؟ ان میں سے کوئی دو آدمی ایک دوسرے سے مخلص نہیں ہیں۔ ان کی دوستیاں بے غرضی اور بے لوثی پر مبنی نہیں، قلبی محبت پر مبنی نہیں، بلکہ مفاد پر مبنی ہیں۔ جس کے ساتھ ہیں، اس کا ساتھ بھی دے رہے ہیں اور دل میں گالیاں بھی دے رہے ہیں، بلکہ جب وہ دیکھتے ہیں کہ بات نہیں پہنچے گی تو وہ اپنی نجی مجلسوں میں بھی کھلم کھلا کہتے ہیں۔

نظامِ باطل بظاہر بڑے زور کے ساتھ نافذ ہوتا ہے، لیکن اصل میں کھوکھلا ہوتا ہے۔ اس میں قائم رہنے کی طاقت نہیں ہوتی۔ جب تک اللہ تعالیٰ کی مشیت ہے کہ ایسے لوگوں کو موقع دیا جائے، تو انھیں موقع ملتا ہے۔ وہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم نے عقل مندی کرکے وہ تمام راستے بند کردیئے ہیں جن سے خطرہ آسکتا ہے، لیکن ایک راستہ اللہ تعالیٰ نے ایسا رکھ چھوڑا ہے جدھر سے اس کو خطرہ لانا ہوتا ہے، اس راستے کو وہ بند نہیں کرسکتے۔ اس طرح سے ایسے نظام جو قائم ہوتے ہیں، وہ بار بار جمتے اور اُکھڑتے ہیں۔ حالات اس انتظار میں ہیں کہ کوئی ایسا گروہ آئے، جو ایک مضبوط بنیاد پر ان کے لیے ایک نظامِ حق قائم کرے۔ جب تک ایسا گروہ سامنے نہیں آئے گا اور اس مرحلے تک نہیں پہنچ جائے گا کہ وہ نظامِ حق کو مضبوط بنیادوں پر قائم کرسکے، اس وقت تک یہاں کھوکھلے نظام ہی قائم ہوتے اور بدلتے رہیں گے۔ انھیں چلانے والے اشخاص بدلتے چلے جائیں گے اور وہ کھوکھلا نظام جوں کا توں رہے گا۔

  • حالات اہلِ حق کے منتظر ہیں!آپ دیکھیے یہاں جو نظام آزادی کے بعد سے چلا آرہا ہے، اس میں صرف اشخاص بدلتے گئے، مگر قسم ایک ہی رہی ہے، نظام کی نوعیت ایک ہی رہی ہے، اس کی فطرت ایک ہی رہی ہے۔ یہی صورتِ حال جاری رہے گی اس انتظار میں کہ کب وہ لوگ آتے ہیں؟ اگر وہ لوگ نہ آئے تو نہیں معلوم اس قوم کا کیا حشر ہوگا کہ یہ مسلسل منفی انقلابات کو برداشت بھی کرسکے گی یا نہیں۔ یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔

لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر اس قوم کو کوئی بھی چیز بچا سکتی ہے تو وہ یہی نظامِ حق ہے۔ وہ یہاں مضبوط بنیادوں پر قائم ہو، قبل اس کے کہ اللہ کا عذاب فیصلہ کردے کہ اس قوم کو زندہ نہیں رہنا چاہیے۔