پاکستان کے ساتھ بدقسمتی کا کھیل مسلسل کھیلا جارہا ہے، اور اس میں سفاکی کا پہلو یہ ہے کہ یہ کھیل کھیلنے والے اپنے مفاد کے اسیر بن کر اصول، اداروں اور قوم کا مذاق بناتے ہیں۔کبھی یہ کھیل سیاست دان کھیلتے ہیں، پھر چند مقتدر جرنیل اس کا کنٹرول سنبھالتے ہیں اور بیورو کریسی اپنی پیشہ ورانہ ’نیازمندی‘ میں اسے انتہا تک پہنچانے کے راستے سُجھاتی اور گُر سکھاتی ہے۔
پاکستان میں رائج جمہوریت کا تصور برطانوی پارلیمانی جمہوریت سے اخذ کیا گیا ہے۔ وہ برطانیہ ، کہ جس کی پارلیمنٹ کے بارے میں یہ کہا جاتا رہا ہے: ’’پارلیمنٹ کچھ بھی، یا سب کچھ کرسکتی ہے، سوائے اس کے کہ مرد کو عورت یا عورت کو مرد بناد ے، یا سوائے اس کے کہ جسے فطری طور پر کرنا ممکن نہ ہو‘‘۔ قانون سازی کے اس مادرپدر آزاد تصوّر کے، تلخ تجربوں سے سبق سیکھ کر یکم جنوری ۱۹۷۳ء کو مغربی دُنیا ایک قدم پیچھے ہٹنا شروع ہوئی، اور یہ تسلیم کیا کہ ’’بہرحال قانون سازی کی کچھ حدود ہیں، جنھیں عدالت ہی واضح کرسکتی ہے‘‘۔
اس مغربی تجربے سے بہت پہلے، پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے ۱۲مارچ ۱۹۴۹ء کو ’قرارداد مقاصد‘ منظور کرکے، پارلیمنٹ کی مطلق العنانیت کو یہ کہہ کر ایک حد میں رکھا کہ مقننہ، پارلیمنٹ اور حکومت کے پاس قانون سازی کے جو اختیارات ہیں، وہ ایک مقدس امانت ہیں، کوئی بے لگام اختیار نہیں، اور یہ اختیارات حدودِ الٰہی کے پابند ہیں۔ ’قرارداد مقاصد‘ ملک کے تمام دساتیر کا حصہ چلی آرہی ہے، لیکن افسوس کہ اس کی روح کو ہرحکومت نے کچلنے اور ہرپارلیمنٹ یا قومی اسمبلی نے نظرانداز کرنے کی پے درپے کوشش جاری رکھی ہے۔
حکومت اور پارلیمنٹ کے ایسے قانونی و دستوری تجاوزات کو نمایاں کرکے حد کا پابند بنانے کا واحد اداراتی ذریعہ عدالت ہی ہوسکتی ہے۔ جب کہ ہماری سیاسی اور فوجی حکومتوں نے اکثر عدالت کے اس اختیار کو نہ صرف چیلنج کیا، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر مداخلت کرنے اور اپنی مرضی کے افراد کے تقرر کے ذریعے عدل کی راہ میں کانٹے بچھائے جاتے رہے ہیں۔ ۲۱؍اکتوبر ۲۰۲۴ء کو دستور میں کی جانے والی ۲۶ویں ترمیم اسی منفی اور غیرعادلانہ سوچ کی ایک بدنُما مثال ہے۔ جبر، دھونس اور شاطرانہ ڈرامے کے ذریعے رُوبہ عمل آنے والی یہ ترمیم ایک رجعت پسندانہ قدم ہے اور کھلا فائول پلے۔ جس میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ دستوری عمل میں اور اعلیٰ عدالتی مناصب یعنی چیف جسٹسوں (سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں) کے تقرر کا معاملہ سیاسی اور انتظامی انگوٹھے تلے دبائے رکھا جائے۔
سیاسی مداخلت کی اسی روش کو ۴۹ برس تک برداشت کرنے کے بعد ۲۰مارچ ۱۹۹۶ء کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں بنچ نے فیصلہ دیتے ہوئے، حکومت کی آمریت اور قانون شکنی اور عدلیہ میں مداخلت کا دروازہ بند کیا اور طے کیا کہ آیندہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سینیارٹی کی بنیاد پر مقرر ہوں گے۔اس فیصلے پر تب وزیراعظم بے نظیر نے سخت ردعمل کا اظہار کیا۔ حکومتی کیمپ سے وابستہ صحافیوں نے انتہائی گھٹیا اور رکیک لب و لہجے کے علاوہ غیرمعیاری الفاظ میں سپریم کورٹ اور چیف جسٹس کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ اس زمانے کے اخبارات دیکھیں تو یہ جارحیت صاف طور پر نظر آتی ہے۔
وزیراعظم بے نظیر بے جا طور پر ایک ہیجانی ردعمل کا شکار ہوگئی تھیں۔ دراصل وہ یہ سمجھتی تھیں کہ اگر عدلیہ نے حکومت کے غیرمنصفانہ فیصلوں کو انصاف کی میزان پر جانچنا شروع کر دیا تو پھر حکومت کو اُوپر سے لے کر نیچے تک قانون کی پابندی پہ مجبور ہونا پڑے گا۔ اس لیے کبھی تو انھوں نے پہلے صدر فاروق لغاری صاحب سے فرمایا کہ ’’چیف جسٹس کو برطرف کرنے کے لیے کچھ کریں‘‘۔ پھر فرمایا کہ ’’۲۰مارچ کا فیصلہ آرڈی ننس کے ذریعے کالعدم قرار دے دیں‘‘۔ پھر یہ بھی فرمایا: ’’یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ حکومت پیپلزپارٹی کی ہو، مگر جج جماعت اسلامی لگائے؟‘‘
سپریم کورٹ کی بے بسی اپنی جگہ قابلِ رحم ہوتی ہے کیونکہ سوائے قلم کی طاقت کے، نہ اُس کے پاس فوج ہوتی ہے نہ پولیس، نہ دھونس جمانے کے لیے سوشل میڈیا، اور نہ وہ صحافی، جو قلم کی حُرمت کو بیچنے کے لیے ہردم تیار ہوتے ہیں۔ اس بے بسی کا مشاہدہ ۲۰۲۲ء میں اُس وقت باربار کیا گیا، جب پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلی کے الیکشن کرانے کے واضح دستوری حکم اور عدالتی فیصلے کو پامال کیا گیا، اور الیکشن کمیشن، فوج اور بیوروکریسی ماننے سے مسلسل انکار کرتے رہے۔
چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے فیصلے نے ۱۹۹۷ء سے ۲۰۲۳ء کے دوران چیف جسٹس کے تقرر کی بحث کا خاتمہ کر دیا تھا، کہ اس میں ’’میرا بندہ چیف بنے گا، اُس کا بندہ چیف نہیں بنے گا‘‘ اور یہ کہ وہ ’’بندہ ہمیں تنگ کرسکتا ہے، اس لیے اس کا راستہ روکنا ہمارا حق ہے‘‘۔ ۲۶ویں ترمیم ہونے کے دوسرے روز سے حکومت کے ذمہ داران نے تسلیم کیا ہے کہ ’’ہم نے یہ ترمیم جسٹس منصور علی شاہ کا راستہ روکنے کے لیے کی ہے‘‘۔ درحقیقت یہ ترمیم صرف ایک آدمی کا راستہ روکنے کی دھاندلی نہیں بلکہ اعلیٰ عدلیہ کے سینئر ججوں کو خوف اور دبائو کا شکار کرکے، اپنے من پسند ججوں کے تقرر کا اختیار لینے کا شیطانی کھیل بھی ہے۔ ۴۹برس کے دوران دھکے کھانے کے بعد عدالت اور قوم نے جو سُکھ کا سانس لیا تھا، اسے ’معزز‘ ارکان نے سیاہ دھبہ بنا کر دستور اور عدلیہ کے چہرے پر تھوپ دیا ہے۔
اس عرصے میں چند غیرمعمولی چیزیں مشاہدے میں آئی ہیں:
اس سب کے باوجود دہائی یہ دی گئی: ’’ہم نے دستور لکھنے کی عدالتی مداخلت کا خاتمہ کیا ہے‘‘۔ حالانکہ عدلیہ کی جانب سے اِکا دُکا ناپسندیدہ اقدامات اور فیصلوں کے باوجود، مجموعی طور پر قانون اور ضابطے کے تحت ہی عدالتی عمل چلتا رہا ہے۔
معاملہ درحقیقت یہ ہے کہ پارلیمنٹ مادر پدر آزاد ہے اور نہ ہوسکتی ہے، اسے دستور کو قتل کرنے کا کوئی حق اور اختیارنہیں۔ مثال کے طور پر بنیادی انسانی حقوق کو سلب کرنے کا کوئی پارلیمنٹ اختیار نہیں رکھتی اور اگر ایسا کرے گی تو عدالت ہی اسے چیک کرے گی۔ اس ایک مثال سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عدالت بہرحال بنیادی اخلاقی، تہذیبی اور آفاقی اصولوں کے تابع ہے۔
ذرا ۱۹۷۴ء کا انڈیا دیکھیے، وزیراعظم اندرا گاندھی نے دوتہائی اکثریت سے ترمیم کرکے کچھ بنیادی حقوق حذف کر دیئے، جس پر انڈین سپریم کورٹ نے وہ پوری دستوری ترمیم ہی کالعدم قرار دیتے ہوئے لکھا: ’’یہ حقوق، دستور کی بنیادیں ہیں، جن میں ترمیم نہیں کی جاسکتی‘‘۔
ممتاز برطانوی قانون دان سر ولیم ویڈ نے لکھا: ’’ایک قانون ایسا ضرور ہے، جو پارلیمنٹ سے بھی بالاتر ہے، اور اس قانون کی حفاظت عدالت ہی کے ذمے ہوتی ہے، جسے پارلیمنٹ کا کوئی قانون نہیں چھین سکتا‘‘ (کرنٹ لا جنرل، ۱۹۵۵ء، ص ۱۷۲، بحوالہ خرم مراد، پاکستان کے قومی مسائل، ص ۱۷۹)۔ اور جسٹس سرجان لاز کے بقول: ’’جمہوریت کی بقا کا تقاضا ہے کہ جو سیاسی جمہوری اختیارات استعمال کرتے ہیں، وہ اپنی حدود سے تجاوز نہ کریں… ہرآمرِ مطلق حکمران یہ کہتا ہے کہ میرا ہر لفظ قانون ہے، اور پھر اگر ایک منتخب ادارہ پارلیمنٹ بھی یہ دعویٰ کرنے لگے تو وہ کیوں آمرِمطلق نہیں کہلائے گی؟ اس لیے لازم ہے کہ دستور کی بنیادیں حکومت کی تحویل میں نہ ہوں، اور کوئی حکومت اپنی اکثریت سے ان کو تباہ نہ کرسکے، اور وہ عدالت کی تحویل میں ہوں۔ قانون کی حکمرانی کے لیے یہ ناگزیر ہے‘‘۔ (پبلک لا جنرل، ۱۹۹۵ء، ص۸۱-۸۵، بحوالہ ایضاً)
جب ہم ۲۶ویں ترمیم کو دیکھتے ہیں تو یہی نظر آتا ہے کہ اقتدار اور اختیار کی ہوس میں اندھے حکمران، عدل و انصاف کو بالکل اسی طرح اپنا تابع فرمان دیکھنا چاہتے ہیں، جس طرح عام ملازمینِ ریاست کے بارے میں وہ سوچتے ہیں۔ ولیم بلیک سٹون نے کمنٹریز آن لاز آف انگلینڈ (شکاگو یونی ورسٹی) میں برلیگ کا قول درج کیا ہے: ’’انگلستان کسی کے ہاتھوں برباد نہیں ہوسکتا، مگر پارلیمنٹ کے ذریعے‘‘۔ کیا واقعی ہماری پارلیمنٹ قوم، تہذیب اور عمرانی معاہدہ تباہ کرنے پر تُلی ہوئی ہے؟ حالانکہ خود اس اسمبلی کی انتخابی شفافیت حدد رجہ مشکوک ہے!
بنگلہ دیش میں ۵؍اگست کے ’طلبہ انقلاب‘ نے بنگلہ دیش پاکستان تعلقات کے معاملے کو دونوں ممالک کے درمیان بلندی پر پہنچا دیا ہے۔ یہ انقلاب اپنی نظریاتی، ملّی اور قومی بنیادوں پر بنگلہ دیش، پاکستان اور اُمت مسلمہ کے لیے ایک اہم پیش رفت ہے۔ صرف پندرہ روز کے اندر اندر پورے بنگلہ دیش کے طول و عرض میں زبردست بیداری اور مزاحمت کے بہائو کا مشاہدہ کیا جائے، تو یہ حقیقت بہت نمایاں ہوکر سامنے آتی ہے کہ یہ واقعہ خطے میں ہندوستانی بگٹٹ تسلط پسندی کو چیلنج کرنے کا عوامی اظہار ہے، جس کے پیچھے پڑھی لکھی نوجوان نسل پُرعزم کھڑی ہے۔
تاریخی اُمور کے ساتھ ساتھ یہاں پر چند اہم حالیہ واقعات و معاملات پیش ہیں:
ڈاکٹر شفیق الرحمان نے کہا: عوامی لیگ کی باقیات کی جانب سے واویلا ایک بے معنی اور فضول حرکت ہے۔ شیخ حسینہ نے ۱۵ برس کی فسطائی حکمرانی میں ملک، قوم، اداروں اور اپنی پارٹی عوامی لیگ کو برباد کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک سے فرار کے بعد ان کی پارٹی میں کوئی شخص ایسا نظر نہیں آتا جو پارٹی کو سنبھال سکے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عوامی لیگ سرے سے کوئی سیاسی پارٹی نہیں ہے بلکہ مفاد پرستوں کا ایک ٹولہ ہے، جس کا جمہوریت اور انسانی حقوق کے احترام سے کوئی دُور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ جماعت اسلامی کے سرکردہ اور بزرگ رہنمائوں کو جھوٹے مقدموں میں ملوث کرکے، انصاف کا خون کیا گیا، پھانسیاں دی گئیں، کئی رہنمائوں کو قید کے دوران موت کے منہ میں دھکیل دیا گیا، درجنوں کو لاپتا کردیا گیا اور ہزاروں کو قید رکھا گیا ہے۔ پھر غصے میں آکر جماعت پر کئی پابندیاں بھی عائد کردیں۔ بنگلہ دیش کے غیرت مند شہری، جماعت اسلامی کا احترام کرتے ہیں۔ ۱۵برس کے مسلسل جبر کے باوجود شیخ حسینہ حکومت، جماعت اسلامی کو تباہ نہیں کرسکی، جس پر ہم اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت پر اس مالک و خالق کے حضور سجدئہ شکر ادا کرتے ہیں۔(ایضاً)
ڈاکٹر شفیق الرحمان نے کہا: ’’عوامی لیگ کی انسانیت کش حکمرانی کے دوران اختلاف کرنے والے دانش وروں، وکیلوں اساتذہ اور صحافیوں کو غائب، قید اور قتل کرنے سے بھی اجتناب نہیں برتا گیا۔ افسوس کہ وکلا کے ایک طبقے نے عدل کے قتل میں قاتل حکومت کا مسلسل ساتھ دیا۔ حکومتی آلہ کاروں نے سارا پیسہ بیرونِ ملک اسمگل کیا اور اپنی بداعمالیوں کی سزا سے بچنے کے لیے لیگ کے لُوٹ مار کرنے والے ملک سے بھاگ گئے ہیں اور بھاگ رہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس تحریک کے دوران شہید ہونے والے تمام نوجوان اور شہری قوم کے ہیرو ہیں۔ انھیں قوم ہی کی نسبت سے یاد رکھنا، خدمات کا اعتراف کرنا اور ان کے پسماندگان کی مدد کرنا ہوگی‘‘۔(ایضاً)
۲۲ستمبر کو بنگلہ دیش کے مشہور انگریزی روزنامہ ڈیلی اسٹار ،ڈھاکا نے، جو ایک آزاد خیال، سیکولر اور جماعت اسلامی کا مخالف اخبار ہے، اس نے ووٹرز کے سروے پر مبنی دل چسپ اعداد و شمار شائع کیے ہیں، جن کے مطابق: ’’عام طور پر یہی سمجھا جارہا تھا کہ فسطائی عوامی لیگ حکومت کے خاتمے کے بعد بیگم خالدہ ضیاء کی زیرقیادت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) بھاری اکثریت سے حکومت سنبھال لے گی، مگر حقائق کے مطابق شاید کرسیاں بدل گئی ہیں۔ ۲۹؍اگست سے ۸ستمبر۲۰۲۴ء کے درمیان رائے عامہ کے جائزے سے ووٹروں کے رجحان کا اندازہ سامنے آیا ہے: ۴۶ء۴۴ فی صد حصہ ’فیلڈ سے ۵۱۱۵؍ افراد کے سائنٹفک (sample) سروے پر مبنی ہے۔ ۳۴ فی صد نے کہا کہ آیندہ ’’رائے دہی کے لیے ہم غیریقینی صورتِ حال کا شکار ہیں کہ کس کو ووٹ دیں؟‘‘ جب کہ ۱۰ فی صد نے کہا کہ ’’ہم طلبہ کی قیادت میں سیاسی پارٹی کو ووٹ دیں گے‘‘۔ مگر جب بنگلہ دیش کے تمام ۶۴ اضلاع میں ’آن لائن‘ ۳۵۸۱؍ افراد پر مشتمل سائنٹفک سیمپل سروے کیا گیا تو اُن میں سے ۳۵ فی صد نے کہا: ’’ہم طلبہ کی زیرقیادت پارٹی کو ووٹ دیں گے‘‘ اور ۱۱فی صد نے کہا: ’’ہم فیصلہ نہیں کرسکے کہ کسے ووٹ دیں گے؟‘‘ یاد رہے ابھی تک طلبہ کی زیر قیادت یا اس سوچ کی نمایندہ سیاسی جماعت وجود میں نہیں آئی۔ اس طرح ’فیلڈ سروے‘ کے ۴۴ فی صد اور ’آن لائن‘ کے ۴۶ فی صد ووٹر غیرفیصلہ کن پوزیشن میں ہیں، جب ان سے پوچھا گیا: ’’آپ غیرفیصلہ کن کیوں ہیں؟‘‘ توزیادہ تر نے کہا: ’’ہم ممکنہ اُمیدواروں سے ناواقف ہیں، اور محض پارٹی نشان کو ووٹ نہیں دینا چاہتے‘‘۔
اس سروے کا دل چسپ پہلو ۱۹۹۷ء سے ۲۰۱۲ءکے درمیان پیدا ہونے والی ’زیڈ پود‘ اور اُن سے قبل پیدا ہونے والی ’بزرگ نسل‘ کا طبعی رجحان ہے۔ ’آن لائن‘ سروے میں ’زیڈ پود‘ کے ۳۷ فی صد نے، اور ’بزرگ نسل‘ نے ۳۰ فی صد تعداد میں طلبہ کی سیاسی پارٹی کی حمایت کی۔ دوسری طرف ’آن لائن‘ سروے کے مطابق:۱۹۵۵ء سے ۱۹۶۴ء کے درمیان پیدا ہونے والوں نے ۱۷ فی صد ، ۱۹۸۱ء سے ۱۹۹۶ء کے درمیان پیدا ہونے والوں نے ۲۴ فی صد اور ’زیڈ پود‘کے ۲۷ فی صد ووٹروں نے کہا کہ ’’ہم جماعت اسلامی کو ووٹ دیں گے‘‘۔ ان نتائج کو دیکھ کر ہر کوئی حیران ہے کہ بالکل نوخیز ’زیڈ پود‘ میں جماعت اسلامی کی اتنی پذیرائی کیونکر سامنے آرہی ہے؟ خواتین آبادی کا ۵۱ فی صد ہیں، ان کی آراء دیکھیں تو ان کی بڑی تعداد تاحال ’غیرفیصلہ کن‘ ہے، یا پھر طلبہ کی طرف جھکائو رکھتی ہے۔ دوسرا یہ کہ خواتین میں جماعت کی مقبولیت کا گراف کم تر ہے۔ ’فیلڈ سروے‘ میں خالدہ ضیاء پارٹی کو ۲۱ فی صد ووٹ ملے، جب کہ جماعت اسلامی کو ۱۴ فی صد۔ مگر ’آن لائن‘ سروے کے مطابق خالدہ ضیاء پارٹی کو ۱۰ فی صد اور جماعت اسلامی کو ۲۵ فی صد ووٹ ملے۔ بی این پی ’فیلڈ سروے‘ میں تمام ڈویژنوں میں آگے ہے، لیکن ’آن لائن‘ سروے میں تمام ڈویژنوں میں جماعت اسلامی آگے ہے۔ دونوں سروے میں بی این پی کو ’زیڈ پود‘ کے برعکس ’بزرگ نسل‘ میں برتری حاصل ہے، مگر نئی نسل میں اس کی مقبولیت کم ہے۔ عوامی لیگ کی پوزیشن یہ ہے کہ ’فیلڈ سروے‘ میں عوامی لیگ کو صرف ۵ فی صد اور ’آن لائن‘ میں ۱۰ فی صد ووٹروں کی حمایت حاصل ہوسکی ہے۔ عوامی لیگی حلقے جماعت اسلامی کی مقبولیت پر سخت بوکھلاہٹ کا شکار ہیں۔
تاریخ کے اوراق دیکھیں تو خطۂ بنگال سے جڑے چار بڑے موڑ سامنے آتے ہیں، جن کا تعلق پاکستان سے ہے: lپہلا یہ کہ ۱۹۰۵ء میں تقسیم بنگال ہوئی۔ اسے مسلم اکثریتی علاقے کو مذہبی پہچان کی بنیاد پر الگ وجود تسلیم کیا گیا (تاہم، ۱۹۱۱ء کو یہ تقسیم ہندوئوں کے دبائو سے واپس ہوگئی، مگر اس نے تقسیم کا نظریہ پیش کر دیا)۔ l دوسرا یہ کہ دسمبر ۱۹۰۶ء کو ڈھاکہ میں کُل مسلم لیگ قائم ہوئی، جس نے تحریک پاکستان کی قیادت کی۔ lتیسرا یہ کہ ۲۳مارچ ۱۹۴۰ء کی ’قرارداد لاہور‘ کو پیش کرنے کا اعزاز بنگال ہی کے رہنما اے کے فضل الحق (م: ۱۹۶۲ء)کو حاصل ہوا، lاور چوتھا یہ کہ ۶ تا ۹؍اپریل ۱۹۴۶ء کو ہونے والے مسلم لیگ لیجس لیچرز کنونشن دہلی میں، جو قائداعظم کی صدارت میں منعقد ہوا، وہاں پر بنگال ہی سے تعلق رکھنے والے حسین شہید سہروردی (م:۱۹۶۳ء) نے قرارداد پیش کی، جسے متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا۔ اس میں لکھا ہے: ’قراردادِ لاہور‘ میں پاس کردہ لفظ ’states‘کو ’state‘ میں تبدیل کیا جاتا ہے۔
لفظ ’ریاستوں‘ کو ’ریاست‘ کر نا دُور اندیشی پر مبنی حکمت ِ کار تھی کیونکہ ہندوستان نے مسلم آبادی کے اس علاقے کو تین اطراف سے گھیر رکھا ہے۔ بالکل وہی صورتِ حال آج بھی برقرار ہے۔ انڈیا نے بنگلہ دیش میں ایک انتہائی بھارت نواز انتظامیہ قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی، لیکن حالیہ انقلاب سے بھارتی مذموم عزائم کو منہ کی کھانا پڑی ہے۔ بنگلہ دیش میں انقلابی قوتیں سفارتی حمایت کے لیے پاکستان کی طرف دیکھ رہی ہیں، اور پاکستان اس انقلاب کو محفوظ بنانے اور جنوبی ایشیا میں انڈیا کی بالادستی اور دھونس کو کم کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ پاکستان اس انقلاب کی حمایت کے لیے یہ اقدامات کر سکتا ہے:
۱- پاکستان ’اسلامی کانفرنس تنظیم‘ (OIC) اور دیگر بین الاقوامی حکومتی پلیٹ فارموں کے ذریعے انقلاب کی حمایت کے لیے سابق سفارت کاروں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دے۔
۲- یہ کمیٹی سارک (SAARC) کی تنظیم نو کے لیے بنگلہ دیش کی مدد کرے۔ یاد رہے کہ مالدیپ، نیپال اور سری لنکا،ہندوستان کے تسلط پسندانہ عزائم سے پریشان ہیں۔
۳- پاکستانی سیاست دانوں اور این جی اوز کو انقلاب کی حمایت کرنے پر اُبھارا جائے۔
۴- یہ کمیٹی بنگلہ دیشی صحافیوں اور میڈیا کے افراد سے باقاعدہ پیشہ ورانہ سطح پر معاونت لے، تاکہ پاکستانی عوام بنگلہ دیش میں تازہ ترین پیش رفت سے آگاہ ہوسکیں۔
۵- پاکستان، بنگلہ دیشی دانش وروں، صحافیوں، مصنّفوں، پروفیسروں اور اساتذہ اور طلبہ کو پاکستان آنے کی دعوت دے اور اسی مقصد کے لیے پاکستانی صحافیوں کو بنگلہ دیش بھیجے۔
۶- پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی و تحقیقی اداروں میں بنگلہ دیشی طلبہ اور تعلیمی عملے کے لیے اسی طرح کے تبادلے کے پروگرام تیار کیے جائیں۔
۷- پاکستانی تعلیمی اداروں کو بنگلہ دیشی طلبہ کے لیے اسکالرشپ پیش کرنے پر اُبھارا جائے۔
۸- سیاسی، معاشی، ثقافتی اور کھیلوں کے میدان میں وسعت لانے کے لیے ٹھوس بنیادوں پر معاہدے کیے اور عمل درآمد کی صورت بنانی چاہیے۔
۹- بنگلہ دیش چیمبرز آف کامرس اور ڈھاکہ و چٹاگانگ کے ایوان ہائے صنعت و تجارت کے قائدین کو پاکستان آنے اور باہم سرمایہ کاری کی سہولت دی جانی چاہیے۔
۱۰- کراچی یونی ورسٹی اور پنجاب یونی ورسٹی میں بنگلہ زبان و ادب کے شعبے کھولے جائیں۔
۱۱- دونوں ملکوں میں ویزا کی نرمی پیدا کی جائے اور اشیاء کی ترسیل اور وصولی کے تیزرفتار نظام کو عملی شکل دی جائے۔ (مجوزہ سفارتی کمیٹی مزید اقدامات تجویز کرسکتی ہے)۔
بنگلہ دیش کے عوام کی اس اُمنگ کے جواب میں ،جو بھارتی تسلط سے چھٹکارا پانے کے لیے وہ ظاہر کرچکے ہیں، مثبت جواب دینا چاہیے۔ ہمیں خوف کی فضا سے باہر آنا چاہیے اور تاریخ کے اس موقعے کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہیے۔بنگالی نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں نے سروں پر کفن باندھ کر اس انقلاب کے دوران ہندوستان کو بنگلہ دیش سے باہر نکالنے کے لیے ایک ہزار سے زیادہ جانوں کی قربانی دی ہے۔ ہمیں اس کا پاس و لحاظ رکھنا چاہیے۔
ہندوستانی میڈیا، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (RSS) اور خفیہ ایجنسیاں یہ موقف پھیلانے کی سرتوڑ کوشش کر رہی ہیں کہ ’’بنگلہ دیشی مسلمان انتہا پسندوں نے کچھ بین الاقوامی قوتو ںکے ساتھ مل کر ہندوستان کو بنگلہ دیش سے اُکھاڑ پھینکنے کی بڑی ’سازش‘ کی ہے‘‘۔ انھیں اس بات پر یقین ہی نہیں آرہا کہ غیرمعروف سے طالب علموں کی قیادت میں ایک ’مقامی کوٹہ تحریک‘ ایسا بلاخیز سیلاب بھی بن سکتی ہے، جو اُن کی گماشتہ ڈکٹیٹر اور اس کے حمایتی ہندوستان کو نشانہ بنا سکتی ہے۔ وہ اس بات کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کر رہے کہ ہندو نسل پرست بھارتی دھونس نے بنگلہ دیش کی نئی نسل میں مسلم قومیت کی شناخت اور دفاع کے جذبے کو پروان چڑھایا ہے۔
انڈیا کی رہنمائی اور قیادت میں حسینہ واجد حکومت نے پاکستان کے خلاف شدید نفرت کی فصل کاشت کرنے کی خاطر ایک باقاعدہ وزارت قائم کی، جس نے پندرہ برس تک تعلیم، میڈیا اور صحافت میں پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈے کی انتہائوں کو چھوا، لیکن وہ سب مذموم پروپیگنڈا دھرے کا دھرا رہ گیا۔ انقلاب کے بعد ۶ستمبر ۲۰۲۴ء کو قائداعظمؒ کی برسی کے موقعے پر ڈھاکہ نیشنل پریس کلب میں بھرپور پروگرام ہوا۔ طلبہ تحریک کے مرکزی رہنما ناہید الاسلام کے اس جملےنے تاریخ کے ۵۴برس پلٹا کر ۱۹۷۱ء سے پہلے کے مشرقی پاکستان سے جوڑ دیا کہ ’’اگر پاکستان نہ بنتا تو آج بنگلہ دیش بھی وجود میں نہ آتا‘‘۔یہ چیز ایک مقبول رہنما کی زبان سے عام لوگوں کو حقیقت کا فہم دینے میں مددگار بنی ہے۔
تاریخ کا یہ عجیب معاملہ ہے کہ ایک طرف تو بنگلہ دیش کی حکومتوں نے پاکستان کے بارے میں جھوٹے، خودساختہ بلکہ بیہودہ موقف کو نئی نسل کے ذہنوں میں اُنڈیلا، تو دوسری طرف پاکستان میں حکام نے مشرقی پاکستان اور بنگالیوں کے ساتھ اپنی چوبیس سالہ رفاقت کو فراموش کرنے، بنگال کے سرفروشوں کے ساتھ وابستگی کی پوری تاریخ کو مٹانے کی دانستہ اور جاہلانہ کوششیں کیں۔
۱۹۷۱ء میں تقسیمِ پاکستان کے المیے نے خود پاکستانی حکومتوں اور اداروں کے شعور کی دُنیا کو بُری طرح عدم توازن کی نذر کر دیا۔ تاہم، پاکستان کے جوہری پروگرام کی کامیابی نے پاکستان کو مستقبل میں ممکنہ جارحیت سے بچانے میں مدد دی ہے۔ بنگالی دانش ور، پاکستان کی تقلید اور پاکستان کے ساتھ تعاون کی ضرورت کے بارے میں بڑی اُمید کی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ ان حالات میں پاکستان کو اپنی ترجیحات کو مدنظر رکھتے ہوئے بھرپور طریقے سے قدم آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔
اس صورت حال کا نہایت خطرناک پہلو یہ ہے کہ انڈیا کی حکومت اور خفیہ ایجنسیاں بنگلہ دیش میں مسلسل بدامنی کو ہوا دے رہی ہیں۔ حالات و واقعات سے ظاہر ہے کہ خود ہندوئوں کی املاک پر متعدد حملوں اور عوامی لیگیوں کے چند مقامات پر ہجومی قتل کے پیچھے بھی انڈیا کی یہ حکمت عملی کارفرما ہے کہ اس طرح عبوری حکومت بدنام ہو اور عوامی لیگ ہمدردی حاصل کرسکے۔ ان چیزوں پر میڈیا کو بہت محتاط رویہ اپنانا چاہیے۔
۱۳ جولائی ۲۰۲۴ء سے شروع ہونے والی طلبہ تحریک کی لہر نے اتحاد، جرأت، عزم، قربانی اور ثابت قدمی سے بنگلہ نسل پرستی کے اُس بُت کو پاش پاش کردیا، جس کی تعمیر کے لیے جھوٹ، تشدد اور عالمی استعمار نے شکنجہ کَس رکھا تھا۔ اس تحریک کا ہراوّل دستہ طلبہ تھے، اور اُن میں طالبات سبقت لے گئیں۔ بہت سی طالبات پولیس کی گولیوں اور عوامی لیگی غنڈوں کے تشدد کے نتیجے میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔
یاد رہے ۱۹۷۲ء میں حسینہ واجد کے والد مجیب الرحمان نے بھی جماعت اسلامی پر پابندی عائد کی تھی، جو ۱۹۷۶ء تک برقرار رہی۔ اسی روایت پر عمل کرتے ہوئے عوامی لیگ نے ۲۰۱۳ء میں جماعت پر ہرقسم کے الیکشن میں حصہ لینے پر پابندی لگائی، اور اب بدحواس ہوکر یکم اگست کو بنگلہ دیشی ڈکٹیٹر نے جماعت اسلامی بنگلہ دیش، اور اسلامی جمعیت طلبہ [اسلامی چھاترو شبر] پر پابندی عائد کردی۔ اس سے قبل ۱۳جولائی سے جماعت اور جمعیت کے کارکنوں کو گھروں سے اُٹھانے، تشدد کا نشانہ بنانے، ’انسانی باڑوں‘میں پھینکنے، اور ان کے گھروں کو روندنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا تھا۔ ۱۴جولائی کی رات یعنی ۲۴گھنٹوں میں ان دو تنظیموں کے اٹھارہ سو کارکنوں کو آزاد زندگی سے محروم کردیا گیا تھا، اور اگلے صرف بیس روز کے دوران جماعت اور جمعیت کے دس ہزار سے زائد کارکنوں کو قید اور ۲لاکھ کو جعلی مقدمات میں نامزد کیا گیا۔ عوامی لیگی غنڈے اور پولیس اہل کار دندناتے ہوئے آتے اور گھر میں بچوں، عورتوں کو گالیاں بکتے ہوئے، ان کے جوانوں کو پکڑ کر لے جاتے۔
دوسری طرف ہاسٹلوں، کلاس روموں، کالجوں، اسکولوں اور یونی ورسٹیوں میں انقلابی شعلے جوالا بن چکے تھے۔ اُن میں بڑی تعداد ان نوخیز نوجوانوں کی تھی، جنھوں نے اکیسویں صدی میں آنکھ کھولی تھی، مگر چاروں طرف اندھیر نگری دیکھی تھی، جس کی چوپٹ رانی خون کی پیاسی اور کرپشن کی دیوی تھی، جس کی آنکھوں سے نفرت کے شعلے لپکتے تھے اور زبان سے نفرت کے کانٹے جھڑتے تھے۔ یہ وہ نوجوان تھے، جنھیں پرائمری کے قاعدے سے لے کر بی ایس تک صرف ایک بات پڑھائی، سنائی اور ذہن میں بٹھائی گئی تھی کہ ’’پاکستان دُنیا کا بدترین ملک ہے اور جماعت دُنیا کی ناپسندیدہ ترین پارٹی ہے‘‘۔ اس کے باوجود احتجاج کرتے ان نوجوانوں نے جماعت اسلامی کی رفاقت کو خوش آمدید کہا۔ ان لاکھوں طلبہ و طالبات کی بڑی تعداد پارٹی عصبیتوں سے بالاتر، اور اپنی قوم کے مستقبل کو محفوظ بنانے کی اُمنگ سے وابستہ تھی۔ بلاشبہہ ان احتجاجی انقلابیوں میں اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکن پوری قوت کے ساتھ شامل تھے،مگر نوجوانوں کا یہ اُبھار جمعیت کے پھیلائو سے کہیں زیادہ وسعت رکھتا تھا۔
جوان جذبوں کے سیلاب کی طرح اُمڈتی اور بپھری اس تحریک کی میدانِ عمل میں موجود قیادت کے کوئی گہرے تنظیمی آثار حکومت کو نظر نہیں آرہے تھے، اس لیے حسینہ حکومت نے اس پورے اُبھار کو جمعیت کی ذمہ داری قرار دے کر، منفی پروپیگنڈے کا ایک گھنائونا طوفان اُٹھادیا۔ ان کا خیال تھا کہ طوفان تھم جائے، تو چُن چُن کر جماعت کے حامیوں کو نشانہ بنانے کا جواز فراہم کیا جائے گا۔
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ انڈیا سے ’را‘ اور برہمنی نسل پرست ’راشٹریہ سویم سیوک سنگھ‘ (RSS) کی پشت پناہی میں چلنے والے سوشل میڈیا اکائونٹس اور ویڈیو چینلوں نے بھی اپنی توپوں کا رُخ جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کی طرف موڑ دیا کہ ’’یہ ایک جمہوری حکومت کو گرانا اور بنگلہ دیش کی قومی ترقی کو دفن کرنا چاہتے ہیں‘‘۔مگر زمینی حقائق بالکل مختلف تصویر پیش کررہے تھے۔ جن کے مطابق یہ تحریک ہر گھر کی تحریک تھی اور ہر پڑھے لکھے طلبہ و طالبات کی تحریک تھی، جنھوں نے آمریت، لاقانونیت اور بدعنوانی کے سوا کچھ اور اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتا دیکھا ہی نہیں تھا۔
ظلم بڑھتا گیا۔ روزانہ شہروں اورقصبوں میں مظاہرین کی لاشیں گرائی جاتی رہیں۔ حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق بیس روز میں اٹھارہ سو افراد کو قتل کردیا گیا، جب کہ مظاہرین اس سے کہیں زیادہ جانوں کے ضائع ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔ اس بات سے اندازہ لگایا جائے کہ ۴؍اگست کو صرف ایک روز میں ڈھاکہ کے ۱۳۴ طلبہ و طالبات کو پولیس، عوامی لیگیوں اور کچھ بنگلہ دیشی فوجیوں نے گولیوں سے اُڑا دیا۔ یہ خونیں رات ابھی ڈھلی نہیں تھی کہ پُرعزم طلبہ قیادت نے اعلان کردیا: ’’کچھ بھی ہو، ہم ۵؍اگست کو وزیراعظم ہائوس کی اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دیں گے‘‘۔
فجر کے بعد، کرفیو کو توڑتے ہوئے ہزاروں طلبہ و طالبات مارچ کرتے ہوئے اپنے ہدف کی طرف چل پڑے۔ بنگلہ دیشی نوجوان فوجی افسروں نے اپنی ہائی کمان کے سامنے مظاہرین طلبہ پر گولی چلانے سے معذوری کا اظہار کردیا اور پولیس میدان چھوڑ کر بھاگ گئی۔ نہتے طلبہ و طالبات اپنی جان کی حفاظت سے بے پروا، رکاوٹیں ہٹاتے ہوئے، منزل کی طرف گامزن تھے کہ بنگلہ دیشی فوج کے سربراہ جنرل وقارالزماں نے طوفان کا موڈ دیکھ لیا۔ دن کے ساڑھے بارہ بجے حسینہ واجد سے کہا: ’’ایک ڈیڑھ گھنٹے میں چیزیں سمیٹیں اور انڈیا چلی جائیں۔ ہیلی کاپٹر لے جانے کے لیے تیار ہے۔ اگر آپ نہ گئیں تو میں آپ کی اور اپنی جان کی ضمانت نہیں دے سکتا‘‘۔حسینہ واجد نے تکرار کی اور دھمکی کی زبان استعمال کی، مگر آرمی چیف نے رشتہ داری کا واسطہ دے کر کہا: ’’اس وقت میں آپ کے ساتھ اس سے بہتر احسان اور سلوک کا کوئی دوسرا رویہ اختیار نہیں کرسکتا‘‘۔ اور پھر وہ روتی پیٹتی اپنے اصلی وطن انڈیا چلی گئی___ پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔
تقریباً ایک گھنٹے کے بعد ہزاروں طلبہ نے وزیراعظم ہائوس میں داخل ہوکر اس کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ دوسری طرف شیخ مجیب الرحمٰن کے ’تاریخی‘ گھر ۳۲- دھان مندی [بنگ بندھو میموریل میوزیم] کو جلاکر راکھ کردیا۔ سڑکوں پر مجیب کے سارے دیوقامت مجسمے توڑ دیئے، دیواروں پر لگی مجیب اور اس کی بیٹی کی تصویریں نوچ ڈالیں اور عمارتوں پر چُنی باپ، بیٹی کی افتتاحی تختیاں اُکھاڑ کر کوڑے دانوں میں پھینک دیں۔
اسی طرح مارچ ۲۰۱۰ء میں انڈین حکومت کی خطیر رقم سے قائم ’اندرا گاندھی کلچرل سنٹر‘ (IGCC) ڈھاکہ کو بھی مظاہرین نے انڈیا کی مسلسل مداخلت اور عوامی لیگ کی سرپرستی کے خلاف نفرت کا اظہار کرتے ہوئے نذرِ آتش کردیا۔ اس سنٹر میں موسیقی، یوگا اور کتھک رقص کی تربیت دی جاتی تھی۔ ڈھاکہ میں یہی مشہور تھا کہ ’’یہ دراصل انڈین جاسوسوں اور ’را‘ کا مرکز ہے، جہاں بداخلاقی، بے دینی اور ملک دشمنی کی تعلیم دی جاتی ہے‘‘۔
حسینہ واجد کے جانے کے دوگھنٹے بعد فوجی سربراہ جنرل وقارالزمان نے عبوری حکومت کے لیے ایک فہرست سوشل میڈیا پر چلوائی۔ چند منٹ ہی گزرے تھے کہ اس فہرست کو طلبہ قیادت نے ہوا میں اُچھال دیا اور کہا: ’’حکومت وہی بنے گی، جو ہم کہیں گے۔ ہم فوجی حکومت اور فوجی مداخلت سے چلنے والی حکومت کو تسلیم نہیں کریں گے‘‘۔ ساتھ ہی نوبیل انعام یافتہ ڈاکٹر محمدیونس کا نام عبوری حکومت کے لیے تجویز کردیا۔اسی دوران، انڈیا کے استحصالی رویے اور فاشسٹ حکومت کی مسلسل پشت پناہی کے سبب عوام میں انڈیا کے خلاف نفرت کا لاوا اُبل رہا تھا، اور بعض جگہ لوگ مندروں کی طرف جانے لگے۔ ملک میں ہیجانی کیفیت عروج پر تھی، مگر اس کے باوجود جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ بنگلہ دیش کی قیادت نے کمال درجے تدبر کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے کارکنوں کو ہدایت کی کہ وہ ’’فوراً مندروں اور ہندو آبادیوں کی حفاظت کے لیے میدان میں آئیں، ساری رات پہرا دیں اور مظاہرین کو باز رکھنے کی بھرپور کوشش کریں‘‘۔ اس حکمت عملی کا خاطرخواہ فائدہ ہوا۔ مگر عوامی لیگ اور انڈین میڈیا اس حقیقت کو جان بوجھ کر نظرانداز کرکے جماعت، جمعیت کو پروپیگنڈے کا نشانہ بناتا چلا آرہا ہے۔
یہ ۵؍اگست ہی کی شام تھی کہ وہی جماعت اسلامی، جس پر حسینہ واجد نے بنگلہ دیشی فوجی سربراہ کی مشاورت سے پابندی عائد کی تھی، اسی جماعت کے سربراہ ڈاکٹر شفیق الرحمان صاحب کو یہی فوجی سربراہ فون کر رہے تھے کہ ’’ملک کے مستقبل کو بہتر بنانے اور امن و امان برقرار رکھنے کے لیے آپ مشورہ دیں‘‘۔ گویا کہ اب کی بار پابندی کا یہ دورانیہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے چار روز میں ریزہ ریزہ ہوکر رہ گیا۔ تاہم، ۲۸؍اگست تک جماعت اور جمعیت پر پابندی کے خاتمے کا باضابطہ اعلان ہوا۔
ڈاکٹر محمد یونس آئے، حکومت بنی، جماعت اسلامی نے کوئی وزارت نہیں لی اور حکومت کے قیام کی تائید کی۔ اس بات پر فوج کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے ایک عذاب سے جان چھڑانے کے لیے درست راستہ اختیار کیا ہے۔نئی نسل کی تحسین کہ اس نے ثابت قدمی سے قوم کو بدعنوان اور فاشسٹ ٹولے سے آزادی دلائی اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سجدئہ شکر بجا لائے کہ اُس نے خون کے دریا سے قوم کو پار نکالا ہے۔
نئی حکومت نے دو روز بعد، جماعت اسلامی کے ان تمام دفتروں کی سیلیں توڑ دینے کی ہدایت کی، جنھیں گیارہ برس پہلے حسینہ حکومت نے بند کر رکھا تھا۔ یہ خبر سن کر کارکن خوشی سے جہاں موجود تھے، وہیں اللہ کی بارگاہ میں سجدے میں گرگئے۔ پانچ روز گزرنے کے بعد عوامی لیگی کارکنوں اور نام نہاد ’انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل‘ میں جماعت اسلامی کے برگزیدہ رہنمائوں کو پھانسیاں سنانے والے ججوں پر مشتمل سپریم کورٹ کو طلبہ نے نشانے پر رکھا، تو ۱۰؍اگست کی دوپہر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سمیت چھ ججوں نے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا۔ یہ سب بدنام اور معروف بدعنوان لوگوں کا ٹولہ تھا۔
اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں کوئی بھی پارٹی یہ نہیں چاہتی کہ فوراً الیکشن ہوں، بلکہ عوامی لیگ نے جو تباہی مچا رکھی ہے، اسے درست کرکے چھ ماہ سے ایک سال کے اندر الیکشن پر اتفاق ہے۔ گندگی کا جو بازار گرم ہے، اس کی صرف ایک مثال دیکھیے:
’بنگلہ دیش اسلامی بنک‘جسے جماعت اسلامی کے رفقا نے ۱۹۸۰ء سے مسلسل بڑی محنت سے قائم کیا تھا، اور جس کی نیک نامی نے اسے بنگلہ دیش کا سب سے بڑا بنک بنا دیا تھا۔ عوامی لیگی حکومت نے جماعت اسلامی کے دوسرے تعلیمی اور ادویہ سازی کے اداروں پر قبضہ جمانے کے ساتھ اس بنک کو بھی قبضے میں لے لیا۔ جبری طور پر عملے اور بورڈ کے ممبروں سے دستخط کرائے، اس کی املاک اور جمع شدہ رقوم ہتھیالیں۔ ایک منظورِنظر ’عالم گروپ‘ کو اس کا انتظامی قبضہ دے دیا۔ ۱۹؍اگست کو عبوری حکومت نے حسینہ واجد کے مقرر کردہ اسلامی بنک کے بورڈ کو توڑدیا اور نیا عارضی بورڈ مقرر کیا۔ ۲۰؍اگست کو معلوم ہوا کہ بنک کے ۷۵ہزار کروڑ ٹکے [یعنی ۱۵۰کھرب پاکستانی روپے] قرضوں، بے نامی منصوبوں اور مختلف ناموں سے نکلوائے اور ہڑپ کر لیے گئے ہیں۔ اس ایک خبر سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مزید کتنے معاشی قتل ہوئے ہوں گے اور بدعنوانی کے کتنے ہمالہ تعمیر ہوئے ہوں گے۔ یہ ’’ایک سیکولر، ایک روشن خیال، ایک ترقی پسند، ایک عوام دوست‘‘ حکومت کی سیاہ کاری کی شرمناک تصویر ہے۔ صفحات کی قلت کے سبب ہم نے بہت سی دیگر معاشی غداریوں کی داستانیں یہاں نہیں چھیڑیں، جو ثبوتوں کے ساتھ بنگلہ دیش کے اخبارات میں روزانہ کی بنیاد پر قارئین کو لرزا دیتی ہیں۔
۱۹؍اگست کو بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے امیر ڈاکٹر شفیق الرحمان صاحب نے بنگلہ دیش ہندو کمیونٹی کے سربراہوں سے ملاقات کی اور ان کے مرکز ’کافرل مندر‘ کا دورہ کیا۔ وہاں پوجاکمیٹی اور مندرکمیٹی کے صدر بابو تاپیندرا نارائن کے مشاورتی اجلاس میں شرکت کی۔ ان کے ہمراہ ڈھاکہ جماعت کے امیر محمد سلیم الدین بھی تھے۔
ڈاکٹر شفیق الرحمٰن نے کہا: ’’بنگلہ دیش میں رہنے والے تمام لوگ برابر کے شہری ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اکثریت اور اقلیت کی بحث کو ختم کیا جائے۔ ہماری پہلی پہچان انسان ہونا ہے۔ ہماری دوسری پہچان ہمارا ملک بنگلہ دیش ہے، جہاں ہم پیدا ہوئے، اور ہماری تیسری پہچان ہماری مذہبی و فکری وابستگی ہے۔ اس ملک کے تمام شہری اپنے مذہب، کلچر اور حقوق کو آزادی سے بروئے کار لانے کا حق رکھتے اور ایک دوسرے کے احترام کی ذمہ داری اُٹھاتے ہیں۔ مَیں پُرامید ہوں کہ ہماری نئی نسل یہ ذمہ داری اُٹھائے گی اور اس ذمہ داری کو خوش اسلوبی سے نبھائے گی۔ اس طرح مستقبل کا بنگلہ دیش، پارٹی یا گروہی عصبیت پر نہیں بلکہ معیار، صلاحیت اور میرٹ پر کھڑا ہوگا، اور معیار پر ہی چلایا جائے گا۔ میں بنگلہ دیش کے تمام شہریوں، سماجی طبقوں اور مذہبی برادریوں سے دردمندانہ اپیل کرتا ہوں کہ ہم ایک دوسرے کو آدم علیہ السلام کی اولاد کی طرح دوستوں اور بھائیوں کی طرح قبول کریں، ایک دوسرے کی عزّت ، آبرو اور جان کا احترام کریں۔ تشدد، نفرت، جھوٹے پروپیگنڈے اور جبر کی جڑ کاٹ کر رکھ دیں۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ دین میں کوئی جبر نہیں ہے۔ اور اگر اس کے باوجود کوئی فرد ایسی کسی بدنمائی کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کے جرم کا تعلق اسلام اور اسلامی تہذیب سے نہیں ہے، بلکہ اُس فرد سے ہے اور وہ فرد اس کے لیے قانون، قوم اور اللہ کے سامنے جواب دہ ہے۔ اسلام، انسانی جان و مال اور عزّت و آبرو کے احترام کا درس دیتا ہے۔ اسلام انسانوں کو حیوانیت اور خود غرضی کے بجائے انسانیت اور ہمدردی کا پیغام دیتا ہے۔ یہی پیغام لے کر میں آپ کے پاس آیا ہوں‘‘۔ (روزنامہ سنگرام، ڈھاکہ، ۱۹؍اگست ۲۰۲۴ء)
یہ تو ہوا اس منظرنامے کا ایک پہلو۔
اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ بنگلہ دیش کا یہ انقلاب فی الحقیقت دو قومی نظریے کی ایک طاقت ور بازگشت ہے۔ وہی دو قومی نظریہ، جسے سرزمین بنگال کے مسلمانوں کی قیادتوں نے انیسویں صدی میں ’فرائضی تحریک‘ اور تیتومیر شہید کی صورت میں اُٹھایا، جس کی تصویرکشی ۱۹۰۵ء میں تقسیم بنگال نے کی اور جسے ۱۹۰۶ء میں کُل ہند مسلم لیگ کے قیام نے سیدھی شاہراہ پر ڈالا۔ ۱۹۴۷ء میں قیامِ پاکستان کے بعد مغربی پاکستان کے حکمرانوں کی حماقتوں اور مشرقی پاکستان سے بنگالی قوم پرست لیڈروں کے جھوٹے پروپیگنڈے نے نفرت کی آگ کا ایسا الائو بھڑکایا کہ دسمبر ۱۹۷۱ء میں پاکستان دوحصوں میں تقسیم ہوگیا۔ تب انڈین وزیراعظم اندرا گاندھی نے کہا تھا: ’’دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے‘‘۔ موجودہ انقلاب نے یہ پیغام دیا ہے کہ ’’دو قومی نظریہ زندہ ہے، توانا ہے اور اپنا دفاع کرنا جانتا ہے‘‘۔
دوسرا یہ کہ نئی نسل اور عام شہری جبر اور فسطائیت پر مبنی آمریت کو کسی صورت قبول نہیں کرتے۔ اس مقصد کے حصول اور آزادی کے لیے وہ اپنے معاشی مستقبل اور اپنی جان کی بازی تک لگادینے سے دریغ نہیں کرتے۔یہ درس ہے آئندہ حکمرانوں کے لیے بھی اور یہی درس ہے ہمسایہ ملک کے نسل پرست برہمنوں کے لیے بھی۔
تیسری چیز یہ ہے کہ اس زلزلہ فگن تحریک کے جھٹکے ابھی تک بنگلہ دیش کے مختلف حصوں میں مسلسل محسوس کیے جارہے ہیں، تاہم حالات گرفت میں ہیں۔ مثال کے طور پر۲۴؍اگست کو ’انصار فورس‘ نے ہنگامہ کھڑا کردیا۔ یہ حکومت کی مسلح ملیشیا ہے، جس میں بڑی تعداد ’طلب کرنے پر‘ ڈیوٹی پر آتی ہے‘۔ انھوں نے اپنی نوکریاں پکّی کرنے کے لیے مظاہرہ کیا، جسے روکنے کے لیے طلبہ نے کوشش کی تو تصادم ہوگیا۔ بعدازاں ۲۵؍اگست کو طلبہ اور فوج نے یہ مزاحمت ختم کردی۔ اسی طرح ڈھاکہ یونی ورسٹی کے وائس چانسلر اور اسی یونیورسٹی کے دس اہم تعلیمی اور انتظامی سربراہو ں نے اپنے کیے کرائے پر شرمندگی محسوس کرتے ہوئے استعفے دے دیے ہیں۔ مختلف انتظامی شعبہ جات کے بدعنوان منتظم افراد ملک سے بھاگنے کی کوشش میں گرفتار ہوچکے ہیں۔ گویا کہ حالات کے پُرسکون ہونے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے۔
چوتھی بات یہ ہے کہ عبوری حکومت کے مشیر اعلیٰ ڈاکٹر محمد یونس نے بجا طور پر نشان دہی کرتے ہوئے کہا ہے: ’’جب تک حسینہ واجد حکومت میں رہی، ہم ایک مقبوضہ ملک ہی رہے۔ ایک قابض قوت، ڈکٹیٹر اور بے رحم جرنیل کی طرح اس نے ہرچیز کو اپنے شکنجے میں کَس رکھا تھا۔ مگر آج بنگلہ دیش کا ہرشہری آزادی محسوس کر رہا ہے اور پوری قوم اس آزادی کے تحفظ کے لیے پُرعزم ہے‘‘۔
’’۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے بھارتی لوک سبھائی حملے کے نتیجے میں کیا مقبوضہ کشمیر پُرامن ہوگیا ہے؟‘‘ اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔
گذشتہ پانچ برسوں کے دوران جہاں ایک طرف نئی دہلی سرکار کے ظلم و تشدد نے مختلف نئے حربے اپنائے ہیں، وہیں عوامی سطح پر محکوم کشمیریوں نے بعض حوالوں سے مایوسی اور ردِعمل کا اظہار کرتے ہوئے جدوجہد کے لیے نئے راستے اپنائے ہیں۔ یہ زمانہ ظلم کی مختلف داستانوں کومجسم پیش کرتا ہے اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آرایس ایس) کی مسلم نسل کش حکمت عملی کا جواب دینے کے لیے اپنی کوششوں میں تبدیلی لایا ہے۔
اس دوران تحریک آزادیٔ کشمیر اپنے عظیم رہنما سیّدعلی گیلانی کی رہنمائی سے ستمبر۲۰۲۱ءکو محروم ہوگئی۔ وہ مسلسل بھارتی حکومت کی قید میں تھے۔ انتقال سے قبل انھیں علاج معالجے کی سہولت سے محروم رکھا گیا۔پھر ان کی میّت بھی بھارتی فورسز نے قبضے میں لے لی اور خاندان کو تجہیزو تدفین کرنے کی اجازت نہیں دی گئی کہ وہ اُن کی وصیت کے مطابق انھیں شہدا کے مرکزی قبرستان میں دفن کرتے۔ اہل کشمیر کے لیے گیلانی مرحوم ایک والد کی سی قدرومنزلت رکھتے تھے مگر لوگوں کو ان کے جنازے میں شریک نہیں ہونے دیا گیا۔
قابض حکومت کی جانب سے اخبارات سخت سنسرشپ اور پابندیوں میں جکڑے گئے۔ اسکولوں سے اُردو کی کمر توڑنے اور اسلامی تہذیب سے وابستہ اسباق کی بیخ کنی کے انتظامات کیے گئے، اور اسلامی اسکولوں کو قومیایا گیا۔ اچانک چھاپے مار کر لکھنے پڑھنے والے دانش وروں اور صحافیوں کی ایک تعداد کو مقدمات کے بغیر انڈیا کی دُور دراز جیلوں میں ٹھونسا یا غائب کردیا گیا۔ مقبوضہ کشمیر سے اُن طلبہ کے راستے میں شدید ترین رکاوٹیں کھڑی کی گئیں، جو اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرونِ ملک جانا چاہتے تھے اور ان کے داخلے بھی ہوچکے تھے۔ اس پالیسی کا شکار وہ طلبہ بھی ہوئے، جو بھارتی حکمرانوں کے کشمیر موقف کے حامی ہیں، لیکن ان کا مسلمان ہونا، ان کی راہ میں رکاوٹ بنادیا گیا۔
اقوام متحدہ کے مطابق مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر متنازعہ علاقے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں کے شہری کشمیر کے ایک دوسرے علاقے میں جانے کا حق رکھتے ہیں۔
۲۰۰۲ء میں جنرل پرویز مشرف کی جانب سے جموں و کشمیر میں یک طرفہ باڑ لگانے سے ایک تو یہاں کے لوگوں کا بنیادی شہری حق سلب ہوا، اور دوسری طرف جو طلبہ و طالبات تعلیم حاصل کرنے آزاد کشمیر آئے تھے، بھارتی حکومت نے ان کی ڈگریاں تسلیم کرنے سے انکار پر مبنی قانون نافذ کردیا۔
اس مدت میں تمام تر بلندبانگ دعوئوں کے باوجود بھارتی حکومت نے یورپی ممالک کے صحافیوں کو آزادی سے مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرنے کی اجازت نہیں دی، اور اگر ایک مرتبہ چند افراد کو جانے دیا بھی، تو ایک دو روز بعدہی انھیں کشمیر سے نکل جانے پر مجبور کر دیا گیا۔ پھر تجاوزات مٹانے کے نام پر خاص طور پر شہری علاقوں اور سری نگر شہر میں بڑے پیمانے پر بلڈوزر چلا کر سیکڑوں برسوں سے آباد کشمیریوں کے کاروبار تباہ اور گھربرباد کر دیئے گئے۔
۱۳جون کی شام نئی دہلی میں نریندرا مودی کی تیسری حلف برداری کی تقریب سے صرف ایک گھنٹہ پہلے ہندو یاتریوں سے بھری بس پر اچانک حملے کے نتیجے میں ۹؍افراد ہلاک ہوگئے۔ انھی دنوں انڈین سیکورٹی فورسز پر چار دن میں چار حملے ہوئے، جن میں کٹھوعہ کے مقام پر ہیرانگر میں دوحُریت پسندوں اور ایک بھارتی فوجی کی جان گئی۔جموں کا یہ علاقہ نسبتاً پُرامن تصور کیا جاتا رہا ہے۔ ذرا ماضی میں دیکھیں تو ۲۰۰۲ء میں جب جموں کے کالوچک علاقے میں فوجی کوارٹروں پر مسلح حملے میں درجنوں بھارتی فوجی اپنے اہل خانہ کے ساتھ ہلاک ہوئے تھے، تو نتیجے میں پاک بھارت سرحدوں پر جنگ جیسی صورتِ حال پیدا ہوگئی تھی۔
اسی دوران کشمیر میں حُریت پسندوں کے حملوں میں اضافہ بھی ہوا ہے۔ ڈی ڈبلیو ٹی وی (جرمنی)کے نمائندے صلاح الدین زین کے مطابق ۹جولائی کو ضلع کٹھوعہ میں مجاہدین نے بھارتی فوجی قافلے کو نشانہ بنایا، جس میں پانچ فوجی مارے گئے، ان میں ایک کمیشنڈ افسر بھی شامل تھا۔ یہ واقعہ کٹھوعہ سے تقریباً ۱۵۰کلومیٹر کے فاصلے پر مچیڈی، کنڈلی، ملہار کے پاس پیش آیا۔ فوجی ذرائع کے مطابق حُریت پسندوں نے ٹرک پر دستی بم (گرنیڈ)پھینکا اور پھر فائرنگ شروع کردی۔ سیکورٹی فورسز نے جوابی کارروائی کی، مگر اس دوران حُریت پسند جنگل کی جانب فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق فوجی قافلے پر دو سمتوں سے حملہ کیا گیا۔
ان مہینوں کے دوران جموں اور عام طور پر وادیٔ کشمیر کے علاقے میں حُریت پسندوں کا غلبہ رہا ہے۔ اس طرح خطۂ جموں میں بھارتی فوج پر حملوں میں خاصی تیزی آئی ہے، اور جولائی کے شروع تک یہ اپنی نوعیت کا پانچواں حملہ ہے، جس میں بھارتی فوج کو خاصا نقصان پہنچا ہے۔
جون کے مہینے میں حُریت پسندوں نے انڈین سیکورٹی فورسز کی ایک بس پر فائرنگ کردی، جس کے نتیجے میں وہ کھائی میں جاگری، اور نو افراد کی ہلاکت ہوئی۔ اس واقعے کے کچھ دن بعد مجاہدین نے ایک گائوں میں سیکورٹی فورسز سے مقابلہ کیا، جس میں سی آر پی ایف کا ایک فوجی مارا گیا اور دو مجاہدین نے جامِ شہادت نوش کیا۔ جون ہی میں ضلع ڈوڈہ (جموں) کے علاقے گندوہ میں مجاہدین اور بھارتی فورسز کے درمیان مقابلہ ہوا، اور تین مجاہدین شہید ہوئے۔
۹جولائی کو ’وائس آف امریکا‘ میں یوسف جمیل نے رپورٹ کیا ہے کہ ضلع کولگام کے مُدھرگام اور فرسل چھنی گام دیہات میں حُریت پسندوں اور بھارتی فوجیوں کے درمیان دو روز تک جھڑپیں جاری رہیں۔ ان جھڑپوں میں حزب المجاہدین سے تعلق رکھنے والے چھ حُریت پسند شہید ہوئے، جن میں: یاور بشیرڈار، ظہیراحمد ڈار، توحید راتھر، شکیل احمد درانی، عادل احمد اور فیصل احمد شامل ہیں، جب کہ دو فوجی مارے گئے۔ یہ سب مقامی کشمیر ی شہری تھے۔ بھارتی حکام کے مطابق: ’’وہ بھاری اسلحے سے لیس تھے‘‘ [جو ظاہر ہے کہ بھارتی فوجیوں ہی سے چھینا گیا تھا]۔ مقامی لوگوں کے مطابق ان تمام شہدا کا تعلق مقامی آبادی سے تھا اور یہ نوجوان مارچ ۲۰۲۱ء سے تادمِ آخر مجاہدین کی صفوں میں شامل رہے۔
انڈین حکومت دُنیا کے سامنے مسلسل یہ کہتی آرہی ہے کہ اگست ۲۰۱۹ء کے بعد اُس نے جموں و کشمیر میں حُریت پسندی کو کچل دیا ہے۔ مگر دوسری جانب کشمیری نوجوان تحریکِ جہاد کا حصہ بنتے اور اپنا ایک اَن مٹ نشان چھوڑ جاتے ہیں۔اسی دوران میں انڈین فوج نے ہیلی کاپٹروں کے ذریعے اسپیشل فورسز (پیراشوٹ رجمنٹ) کے کمانڈوز کو اس علاقے میں اُتارا اور تربیت یافتہ کھوجی کتوں کا بھی استعمال کیا ہے۔
’وائس آف امریکا‘ نے وادیٔ کشمیر کے جنوبی اضلاع میں جڑ پکڑنے والی تحریک جہاد پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا ہے کہ ۸جولائی ۲۰۱۶ء کو یہاں پر بُرہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد انڈین فوجیوں نے سرچ آپریشن کے دوران مقامی مسلم آبادی کے ساتھ جس نوعیت کا بہیمانہ سلوک کیا، اس نے لوگوں کو نہایت گہرے زخم دیئے ہیں اور توہین و تذلیل کے واقعات نے ان کے دلوں سے خوف نکال دیا ہے اور حقارت بھر دی ہے۔
۲۴جولائی کو کپواڑہ کے علاقے میں مجاہدین اور بھارتی فوجیوں میں تصادم ہوا، جس میں ایک فوجی مارا گیا اور ایک مجاہد شہید ہوا۔ بھارتی فوجی حکام یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ حالیہ چند مہینوں میں فوج کے خلاف جنگجو سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اس لیے نئی فوجی پوسٹیں اور نئے فوجی کیمپ قائم کیے جارہے ہیں۔
آج صورتِ حال یہ ہے کہ جموں و کشمیر کے مظلوم عوام کو ہراساں کرنے کے لیے بھارتی حکومت کے جاری کردہ کالے قوانین کا بے دریغ استعمال کیا جارہا ہے۔ فوج اور پولیس مل کر میڈیا پر پابندیاں عائد کیے ہوئے ہیں۔ انٹرنیٹ پر گہری نگرانی (سرویلنس) ہروقت جاری ہے۔ سیاسی قیادت کو جیلوں میں بند یا اپنی نگرانی میں جکڑ رکھا گیا ہے۔
۱۹جولائی کو کُل جماعتی حُریت کانفرنس کے ترجمان عبدالرشید منہاس نے ایک بیان میں یہ حقیقت آشکار کی ہے: بی جے پی کی حکومت جموں و کشمیر کے لوگوں کو ایک جگہ جمع ہونے اور اپنی بات کہنے کی اجازت نہیں دے رہی، بلکہ جموں و کشمیر کے مظلوم عوام کو ہراساں کرنے کے لیے طاقت اور انسانیت کش قوانین کا اندھادھند استعمال کر رہی ہے۔ اسی طرح راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی چھتری تلے ’ہندوتوا‘ تنظیموں کے خفیہ ایجنڈے نے ۱۰لاکھ بھارتی فوج کی مدد سے کشمیر کی معیشت کو شدید بدحالی کا شکار کر دیا ہے، ان کے قدرتی وسائل چھین لیے گئے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر محاصرے اور تلاشی کی کارروائیوں اور چھاپوں نے نفسیاتی دبائو زدہ درندہ صفت فوجیوں کے مظالم کا نشانہ بنارکھا ہے اور اندھا دھند گرفتاریوں نے خاندانوں کو تباہ کردیا ہے۔
دوسری طرف بھارتی شہریوں کو وادیٔ کشمیر میں زبردستی آباد کرنے اور مقامی لوگوں کی تجارت پر اجارہ داری مضبوط بنانے کے لیے مربوط پروگرام پر عمل کیا جارہا ہے۔ تیزرفتار مواصلاتی نظام کو مضبوط بنانے کے لیے شاہرائوں، پُلوں اور ریل گاڑی پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔ کلچرل حملے کو تیز کرنے کے لیے متعدد پروگراموں کو وسعت دی جارہی ہے۔
یہ صورتِ حال، پاکستان اور دُنیا کے دیگر ممالک میں تحریک آزادیٔ کشمیر کو قوت فراہم کرنے کا تقاضا کرتی ہے۔ مگر افسوس کہ چند ماہ پہلے یہاں آزاد کشمیر میں معمولی واقعات کو بدامنی کی راہ پر دھکیل دیا گیا، جس نے پاکستان کی ساکھ کو صدمہ پہنچایا۔ بلاشبہہ اُس میں حقائق سے بے خبر نوجوانوں کا حصہ ہے اور ساتھ دشمن نے بھی اس صورتِ حال کو استعمال کیا ہے۔ کشمیر کے نوجوانوں کے جائز تحفظات کا سنجیدگی سے جواب دینا چاہیے۔ لیکن ردعمل پیدا کرکے اُن میں غصہ پیدا کرنے سے اجتناب بھی برتنا چاہیے۔ آزاد کشمیر کا مواصلاتی نظام بڑے پیمانے پر ترقیاتی کاموں کا تقاضا کرتا ہے۔ اگر آزاد کشمیر میں اضطراب پیدا ہوگا تو اس کا منفی اثر مقبوضہ جموں وکشمیر کی تحریک پر پڑے گا۔ اس نزاکت کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے ذرائع ابلاغ میں سیاست دانوں اور انتظامیہ کو دُوراندیشی سے کام لینا چاہیے۔
بنگلہ دیش کے قیام اور پاکستان کی تقسیم میں بنیادی کردار ادا کرنے والے گروہ کا نام ’عوامی لیگ‘ ہے۔ قیام پاکستان کے پونے دو سال بعد۲۳؍جونٍ۱۹۴۹ء کو مشرقی پاکستان میں، مسلم لیگ کے لیڈر عبدالحمید بھاشانی اور شیخ مجیب وغیرہ نے علیحدہ پارٹی بنائی، جس کا نام ’آل پاکستان عوامی مسلم لیگ‘ رکھا۔ مگر بہت جلد، مشرقی پاکستان کی سات فی صد ہندو آبادی کو اپنی جانب مائل کرنے، یا پھر ہندو مقتدرہ کے زیر اثر پارٹی چلانے کے لیے ۱۹۵۳ء میں ’آل پاکستان‘ اور ’مسلم‘ کا لفظ اڑا کر اسے '’عوامی لیگ‘ بنا دیاگیا۔ اس پس منظر سے عوامی لیگ کی تشکیل میں مضمر ایک بنیاد واضح ہوتی ہے۔
عوامی لیگ نے اپنے قیام کے ساتھ ہی مغربی پاکستان کے خلاف مبالغہ آمیز پراپیگنڈے اور مسلم قومیت جو پاکستان کی بنیاد تھی، اس کی نفی پر زور دینا شروع کیا۔ اس مقصد کے لیے جھوٹ، اتہام ’غیربنگالی سے نفرت‘ اور تشدد کو اپنی پالیسی کا بنیادی پتھر قرار دیا (فاطمہ جناح کی حمایت کا ایک مرحلہ اور آخری مرحلے میں ۱۹۵۶ءکے دستور کی حمایت عوامی لیگ کے دو مثبت حوالے ہیں)۔
مارچ ۱۹۶۹ء میں جنرل یحییٰ خان کے ہاتھوں مارشل لا لگنے سے پہلے عوامی لیگ کا فسطائی رنگ، مشرقی پاکستان میں پوری طرح اپنا نقش جما چکا تھا۔ اس دوران ’اگر تلہ سازش کیس‘ جو براہِ راست بھارتی مداخلت اور بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے تعاون سے پاکستان توڑنے، مختلف تنصیبات پر قبضہ جمانے اور اہم حکومتی شخصیتوں کو قتل کر کے علیحدگی کے منصو بے کو عملی جامہ پہنانے پر مشتمل تھا۔ اس مقدمے کی سماعت کرنے والی عدالت پر عوامی لیگ اور اس کی طلبہ تنظیم ’چھاترو لیگ‘ (اسٹوڈنٹس لیگ) نے حملہ کر کے عدالتی مقام کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور ججوں نے بڑی مشکل سے جان بچائی۔ ایک مدت تک عوامی لیگ اور پاکستانی لیفٹ کی طرف سے اس سازش کے وجود کا انکار کیا جاتا رہا، لیکن ۲۲فروری ۲۰۱۱ء کو سازش کے ایک اہم کردار کیپٹن شوکت علی (ڈپٹی اسپیکر بنگلہ دیش پارلیمنٹ) نے اسمبلی کے فلور پر برملا اعتراف کیا کہ یہ منصوبہ سچ تھا، بلکہ ہم نے تو ۱۹۶۳ء ہی سے ’اگرتلہ‘ میں بھارت سے ساز باز شروع کر رکھی تھی۔ اگست ۱۹۶۹ء میں ڈھاکا یونی ورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ ڈھاکہ کے ناظم محمد عبدالمالک کو لوہے کے سریے مار مار کر شہید کر دیا گیا۔ ۱۹۷۰ء کے پورے سال میں کسی بھی مدمقابل پارٹی کو انتخابی مہم تک نہیں چلا نے دی گئی۔ انتخابی عملہ اپنی مرضی سے تعینات کرایا اور نتائج اپنی مرضی کے مطابق مرتب کیے، جنھیں عوامی لیگ کی ’زبردست جیت‘ قرار دیا جاتا ہے۔
۱۹۷۱ء شروع ہوا تو بھٹو، مجیب اور جنرل یحییٰ کے درمیان تناؤ کی فضا پیدا ہوئی۔ انجام کار یکم مارچ سے لے کر۲۵؍مارچ۱۹۷۱ء تک عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان کے طول و عرض میں غیربنگالیوں کا قتل عام کیا، لُوٹ مار کی، عورتوں کی عصمت دری کی اور محب وطن بنگالی پاکستانیوں کو چُن چن کر مارنا شروع کیا۔ جس پر مارچ، اپریل ۱۹۷۱ء میں دنیا بھر کے اخبارات نے رپورٹنگ کی اور حقائق کے شائع کیے۔ مگر حیرت کی بات ہے کہ نہ بنگلہ دیش میں، نہ انڈیا میں اور حد تو یہ ہے کہ خود پاکستان میں اس نسل کشی (Genocide) کا تذکرہ تک نہیں کیا جاتا اور تواریخ کی درسی کتب کو اس وحشیانہ جنون اور قاتلانہ شیطنت سے خالی رکھا گیا ہے۔ معلوم نہیں کون سا دستِ شرانگیز ہے، جس نے نصابوں اور اخباری صفحات کو ان دردناک تفصیلات سے دُور رکھا ہے۔
۱۶دسمبر۱۹۷۱ء کو انڈین فوج کے تعاون سے مشرقی پاکستان الگ کر کے بنگلہ دیش بنا لیا گیا۔ جس میں پاکستانی حاکم طبقوں کی غلط پالیسیوں کا ایک اہم حصہ تھا۔ لیکن مرکزی کردار بہرحال دشمن سے ساز باز کر نے والی عوامی لیگ ہی تھی۔ مراد یہ ہے کہ اپنے جائز حقوق کےلیے جدو جہد ایک جائز جمہوری عمل ہے، لیکن جھوٹ، نفرت، نسل کشی، فسطائیت اور دشمن سے ساز باز کو سیاسی جدوجہد نہیں کہا جاسکتا۔
مجیب نے اقتدار سنبھال کر ’مکتی باہنی‘ کے لوگوں کے لیے ملازمتیں محفوظ کرنے کی خاطر مخصوص کوٹا رکھا۔ ایسے مستحقین کا فیصلہ عوامی لیگ پارٹی ہی کرتی، نہ کہ کوئی غیر جانب دار اتھارٹی۔ مجیب نے ۱۹۷۲ء میں ڈھا کہ پہنچتے ہی پارٹی کا مسلح مافيا ’جاتیا راکھی باہنی‘ (JRB) کے نام سے قائم کیا، جو مجیب کی زندگی تک سیاسی مخالفین کے لیے تشدد اور دہشت کی علامت بنا رہا۔ (اس کے بارے میں معروف صحافی انتھونی مسکرہینس نے اپنی کتاب Bangladesh: A Legacy of Blood میں اسے ’’ہٹلر کی خاکی وردی والے غنڈوں کی طرح کا ایک ریاستی گینگ قرار دیا‘‘۔ہوڈر اینڈ سٹوگٹس، لندن، ۱۹۸۶ء، ص ۳۷)
اس نوعیت کے اقدامات سے لوگوں میں ردعمل پیدا ہونا شروع ہوا۔ آگے چلیں تو شیخ مجیب کے خون میں رچے فسطائی جذبے نے، ۲۴جنوری ۱۹۷۵ء د کو بنگلہ دیش میں ’بکسل‘(BKSAL) یعنی ’بنگلہ دیش کرشک سرامک عوامی لیگ‘ (بنگلہ دیش مزدورکسان عوامی لیگ) کی بنیاد رکھی، اور اس کے مقابلے میں ملک سے باقی تمام سیاسی پارٹیوں کو کالعدم قراردے دیا۔ پھر اسی سال ۱۵؍اگست کو بغاوت ہوئی، جس میں فوج کے نوجوان افسروں نے مجیب کے گھر پر حملہ کرکے اسے قتل کر دیا۔
۲۲جنوری ۲۰۰۶ء کو وزیراعظم خالدہ ضیاء (بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی: BNP )نے ملک میں عام الیکشن کرانے کا اعلان کیا، مگر شیخ مجیب کی بیٹی اور عوامی لیگی لیڈر حسینہ واجدنے ہنگامہ کھڑا کرکے ۱۱جنوری ۲۰۰۶ء کو انتخابی عمل پٹڑی سے اُتار دیا، یہی وہ موڑ ہے جہاں سے فساد کا آغاز ہوا۔ پھر اُس وقت بنگلہ دیش آرمی کے چیف جنرل معین الدین احمد کی سرپرستی میں ٹیکنوکریٹ کی ایسی حکومت بنی کہ اُس نے دسمبر ۲۰۰۸ء کے الیکشن میں عوامی لیگ کو کامیاب کرا دیا۔
جنوری ۲۰۰۹ء میں عوامی لیگ ایک خونیں رنگ و رُوپ کے ساتھ میدان میں اُتری، مگر جلد ہی ۲۵ اور ۲۶ فروری ۲۰۰۹ء کی رات ’بنگلہ دیش رائفلز‘ (BDR) کے جوانوں نے ہیڈکوارٹر پُل خانہ میں بغاوت کرکے بی ڈی آر کے ڈائریکٹر جنرل احمد سمیت ۵۷؍افسروں اور ۱۶ سویلین شہریوں کو قتل کردیا۔ یہاں پر ’مجیب اندرا گٹھ جوڑ‘ کی طرح ’حسینہ ، من موہن سنگھ گٹھ جوڑ‘ کا آغاز ہوا۔ پروفیسر ایویناش پلوال نے اپنی کتاب India`s Near East: A New History (۲۰۲۳ء) میں تفصیل بتائی ہے کہ حسینہ واجد نے پرنام مکھرجی کے ذریعے نئی دہلی حکومت کو پیغام بھیجا: ’جان بچائو‘ (SOS)۔ بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کی ہدایت پر انڈین آرمی پیراشوٹ رجمنٹ بٹالین کے میجر کمل دیپ سنگھ سندھو نے حکم ملنے پر ۲۶فروری کی شام تیاری شروع کی اور ڈھائی گھنٹے بعد ایک ہزار چھاتہ برداروں کے ساتھ ڈھاکہ اُترنے کے لیے تیار ہوگئے۔ بھارتی کمانڈوز نے ۲۷فروری کو بنگلہ دیش میں براہِ راست مداخلت شروع کی اور چار روز میں ناراض فوجیوں کو گولیوں سے بھون ڈالا۔ وہ دن اور آج کا دن، بنگلہ دیش آرمی اور اس کی مسلح معاون رجمنٹیں، انڈین فوج کی براہِ راست اور تابع مہمل اکائیاں ہیں، بلکہ حسینہ واجد نے یہ طے کرایا ہے کہ بنگلہ دیشی فوج کا سربراہ، انڈین فوج کے مشورے سے مقرر کیا جائے گا۔
حسینہ واجد نے ۲۰۰۹ء سے ۲۰۲۴ء کے دوران میں جو حکمرانی کی ہے، اس میں اپنے اقتدار کی مضبوطی، مدمقابل قوتوں سے انتقام، اپنی پارٹی مافیا کے استحکام اور انڈیا کے تابع نظامِ حکومت کو وسعت دینا شامل رہا ہے۔ اس دوران نام نہاد انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل (ICT) کے ذریعے جماعت اسلامی کے چوٹی کے رہنمائوں کو پھانسیاں دی گئی ہیں۔ جماعت اسلامی کو الیکشن لڑنے سے نااہل قرار دیا اور مولانا مودودی کی کتب کی اشاعت پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
اگرچہ ۲۰۱۸ء میں بھی کوٹہ سسٹم ، جو کہ عوامی لیگی کارکنوں کو نوازنے کا ایک شرمناک بہانہ تھا، اس کے خلاف مظاہرے ہوئے، مگر ان کو دبا دیا گیا۔ پھر عوامی لیگ نے اپنے فعال کارکنوں پر مشتمل ہائی کورٹ ججوں کے ذریعے کوٹہ سسٹم میں ۳۰ فی صد استحقاق کو محفوظ بنایا، تو نئی نسل میں بے چینی پھیلنا شروع ہوئی۔
یہ تقسیم اس طرح ہے کہ ۳۰ فی صد مکتی باہنی کے لوگوں کے پوتوں دوہتوں کا حق، ۱۰فی صد عورتوں کا، ۱۰ فی صد غیرترقی یافتہ علاقوں کا، ۵ فی صد قبائل کا اور ایک فی صد معذوروں کا حق ہے۔ اس طرح عوامی لیگ کے من پسندوں کو چھوڑ کر، پورے بنگلہ دیش کے نوجوانوں کے لیے ۴۴ فی صد حصہ رہ جاتا ہے، جو اپنی جگہ انتظامیہ کے رحم و کرم پر ہے، کہ وہ جسے چاہے رکھیں۔
جولائی ۲۰۲۴ء میں مضطرب طلبہ و طالبات نے ڈھاکہ یونی ورسٹی میں احتجاج کیا تو ۱۳جولائی کی سہ پہر حسینہ واجد نے طنز کرتے ہوئے کہا: ’’کوٹے کی مخالفت کرنے والے غدار ہیں، یہ پاکستان کے ایجنٹ ہیں، اور رضاکار ہیں‘‘۔ یاد رہے ۵۴ سالہ تاریخ میں بنگلہ دیش نے اپنے ہاں لفظ ’رضاکار‘ کو: تعلیم، صحافت، تاریخ اور سیاست کے میدان میں گالی بنادیا ہے۔ جیسے ہی حسینہ واجد نے یہ جملہ کہا تو طلبہ و طالبات نے اس ’گالی‘ کو اپنے لیے اعزاز سمجھ کر اپنا لیا اور ڈھاکا یونی ورسٹی کے درودیوار گونجنے لگے: ’تو کون، میں کون___ رضاکار، رضاکار۔ اس پر حکومت نے جھنجلاہٹ میں کہا: ’’یہ نعرے لگانے والے غدار ہیں، جماعت اسلامی کے ایجنٹ ہیں، ان کو سبق سکھانے کے لیے عوامی لیگ کے کارکن اور ہماری طلبہ تنظیم چھاترو لیگ ہی کافی ہے‘‘۔ یہ بیان وزیرقانون، وزیرداخلہ اور وزیر اطلاعات نے تکرار کے ساتھ دُہرایا۔ ساتھ ہی عوامی لیگی مسلح کارکنوں کو کھلی چھٹی دے دی کہ وہ طلبہ و طالبات پر حملے کریں، ان کے سامان کو لوٹیں، کمروں کو آگ لگائیں، ہڈیاں توڑیں یا قتل کریں۔ یوں صرف دو دن میں پورا بنگلہ دیش ایک دہکتا ہوا الائو بن گیا۔
اسلامی جمعیت طلبہ جو اس تحریک میں حصہ لینے والا ایک حامی اور مددگار کردار ہے، اس کے تین ہزار سے زائد کارکنوں کو صرف پہلے دو روز میں گرفتار کرلیا گیا۔ پولیس تماشائی بن کر عوامی لیگیوں کی سرپرستی کے لیے ساتھ ساتھ چلتی رہی، اور عوام میں غصہ بڑھتا گیا، طلبہ و طالبات کٹ کٹ کر سڑکوں پر گرتے رہے۔ پھر جب بہتے خون کا دریا بلند ہوا تو حسینہ واجد نے جمعہ ۱۹جولائی کی رات پورے بنگلہ دیش میں فوج طلب کرکے کرفیو نافذ کرنے کا اعلان کردیا، اخبارات کی اشاعت پر پابندیاں عائد کردیں، انٹرنیٹ کی سروس معطل اور سڑک پر آتے ہی مظاہرین کو گولی مار دینے کا حکم دے دیا۔ اس سب کے باوجود ہنگامے تھمنے میں نہیں آرہے۔
۲۴ جولائی کو طلبہ تحریک کے لیڈروں نے پریس کانفرنس سے خطاب کیا، جو وی پی این کے ذریعے دُنیا میں پھیل گیا: ’’حسینہ واجد نے چھاترو لیگ (اسٹوڈنٹس لیگ) کے نام سے دہشت گرد پیدا کیے ہیں۔ اس نے ووٹ کی عزّت پامال کی ہے۔ اس نے جمہوریت کو برباد کیا ہے۔اس نے عدالتی نظام کو کچل کر رکھ دیا ہے۔ اس نے پولیس میں عوامی لیگی غنڈوں کو بھرتی کرکے عوامی لیگ پارٹی کو ذاتی مافیا کا درجہ دے رکھا ہے۔ اس نے بنگلہ دیش رجمنٹ کے ذہین ترین افسروں کو گولیوں سے اُڑا دیا ہے۔ اس نے میرٹ کے نام پر پارٹی بدمعاشوں کو بھرتی کرنے کا ایک مربوط نظام قائم کیا ہے، جس کے جال کو توڑنا عام آدمی کے لیے ممکن نہیں رہا۔ اس نے ملک کا اقتداراعلیٰ، انڈین حکومت اور انڈین فوج کے ہاتھوں بیچ دیا ہے۔ ہم ایسی حکومت اور ایسی پارٹی کے اقتدار کو مسترد کرتے ہیں۔ ہماری معلومات کے مطابق ڈیڑھ ہزار سے زیادہ طلبہ و طالبات اور شہری شہید ہوچکے ہیں۔ ۲۵ہزار سے زیادہ مہلک زخموں سے چور موت و حیات کی کش مکش میں مبتلا ہیں۔ ۶۱ہزار سے زیادہ طلبہ و طالبات اور شہری گرفتار کرلیے گئے ہیں۔ ہم عالمی اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ نہتے بنگلہ دیشی طلبہ و طالبات کو بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں‘‘۔
’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ (AI)نے اپنے بیان میں کہا ہے: ’’ہم نے فوٹوگرافی، ویڈیو ریکارڈنگ کے ذریعے اور دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ یہ معلومات جمع کی ہیں کہ بنگلہ دیشی سیکورٹی فورسز نے طلبہ و طالبات مظاہرین کے خلاف غیرقانونی اور بدترین طاقت استعمال کی ہے۔ ان نہتوں پر براہِ راست گولیاں چلائی گئی ہیں۔ بند جگہوں میں مظاہرین کو دھکیل کر خطرناک اور جان لیوا آنسو گیس کا استعمال کیا گیا ہے، اس طرح دم گھٹنے سے بہت سے لوگوں کی ہلاکت ہوئی ہے۔ ’اے کے پٹرن اسالٹ رائفلز‘ جیسے مہلک آتشیں اسلحے کا بے لگام اور اندھا دھند استعمال کیا گیا ہے۔ ہم فوری طور پر غیرجانب دار انہ تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں اور ہلاک شدگان کی درست معلومات فراہم کرنے پر زو ر دیتے ہیں‘‘۔ ۲۳جولائی کو ’ہیومن رائٹس واچ‘ (HRW) نے الزام عائد کیا: ’’بنگلہ دیش کی جیلیں اور حوالات سیاسی قیدیوں سے بُری طرح ٹھونسی ہوئی ہیں‘‘۔
۲۵جولائی کو ایک اور بھیانک واقعہ یہ ہوا کہ طلبہ مظاہروں کو دبانے کے لیے حکومت نے بنگلہ دیش میں اقوام متحدہ کے نشان والی بکتربند گاڑیوں اور ہیلی کاپٹروں کو استعمال کیا ۔ جس پر مختلف ممالک کے سفیروں نے عوامی لیگی حکومت پر سخت سوالات کی بوچھاڑ کردی۔ معلوم ہونا چاہیے، اس وقت اقوام متحدہ کے ’امن مشن‘ پروگرام میں بنگلہ دیش آرمی، بنگلہ دیش پولیس، بنگلہ دیش بارڈر گارڈ (BBG) اور ’ریپڈ ایکشن بٹالین‘ (RAB) سستے کرائے کے فوجیوں کی مانند خدمات انجام دے رہے ہیں کہ ان کے پاس کرنے کا کوئی کام نہیں (کیونکہ ’دفاعی ذمہ داری‘ تو انڈین آرمی اپنے ہاتھوں میں لے چکی ہے، یا یہ ذمہ داری اسے دی جاچکی ہے)۔ اس لیے ان بنگلہ دیشی فورسز کا اقوام متحدہ کی گاڑیوں اور ہوائی مشینوں کے نشانات کے پردے میں طلبہ کے خلاف استعمال کرنا، دُنیا بھر میں زیربحث ہے۔
بظاہر امن کی فضا بحال ہوتی نظر نہیں آرہی۔ ان حالات میں انڈیا کی کوشش ہے کہ حسینہ واجد کی صورت میں بدنما حکومت سے جو کام لینا تھا وہ لے لیا اور اب اگر اس سے چھٹکارا پانا ضروری ہو تو اسے چلتا کیا جائے۔ جنرل معین الدین احمد کی طرح موجودہ بنگلہ دیش آرمی چیف جنرل وقارالزماں سے مدد لے کر عوام کی توجہ تقسیم کی جائے(یاد رہے جنرل وقار،حسینہ واجد کے قریبی عزیز اور بھروسے کے آدمی ہیں)۔ لیکن عوام نہ تو انڈیا کا نام سننا چاہتے ہیں اور نہ انڈیا سے منسلک کسی نسبت پہ اعتبار کرنے کو تیار ہیں۔ دوسری طرف انڈیا کے اخبارات اور آر ایس ایس کے سوشل میڈیا پر متحرک گروپ یہ کہہ رہے ہیں: ’’حسینہ واجد کی اقتدار سے بے دخلی، انڈین مفادات کی بربادی ہے۔ اگر یہ حکومت گئی تو جماعت اسلامی اسلامی نظام لانے کے لیے آگے بڑھے گی۔ پھر دوسری طرف خالدہ ضیاء کی بی این پی اور جماعت اسلامی نے پورے بنگلہ دیش میں مہم چلا رکھی ہے کہ مارکیٹ میں انڈیا کے ہرمال کا بائیکاٹ کیا جائے۔ اس لیے ضروری ہے کہ جماعت کے لوگوں کو دبایا،پکڑا یا مارا جائے‘‘___ دُنیا بھر کے امن پسند شہری ظلم کی اس یلغار پر نوحہ کناں ہیں۔
انڈین خفیہ ایجنسی ’را‘ کے زیرنگرانی چلنے والے نام نہاد ’بنگلہ دیش انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل‘ (ICT) اور پھر بنگلہ دیشی سپریم کورٹ نے بنگلہ دیش بننے کے چالیس برس بعد اچانک ایک عدالتی ڈراما شروع کیا۔ جس کے تحت وہاں کے معزز سیاسی و دینی رہنمائوں مطیع الرحمٰن نظامی[۱۱مئی ۲۰۱۶ء]، علی احسن مجاہد[۲۲ نومبر۲۰۱۵ء]، میرقاسم علی [۳ستمبر ۲۰۱۶ء]، قمر الزماں [۱۱؍اپریل ۲۰۱۵ء]، عبدالقادر مُلّا[۱۲دسمبر۲۰۱۳ء]،صلاح الدین قادری چودھری [۲۲نومبر ۲۰۱۵ء]کو پھانسی دے دی، جب کہ پروفیسر غلام اعظم (م: ۲۳؍اکتوبر ۲۰۱۴ء)، اے کے ایم یوسف (م: ۹فروری ۲۰۱۴ء)، مولانا عبدالسبحان (م:۱۴فروری ۲۰۲۰ء) ، دلاور حسین سعیدی (م:۱۴؍اگست ۲۰۲۳ء) کو قیدکے دوران موت کی وادی میں دھکیل دیا۔
دوسری طرف جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے متعدد رہنمائوں کو غیرحاضری میں پھانسی کی سزائیں سنادیں۔ پھر ایک بڑی تعداد اِن جعلی عدالتوں کی بے مغز اور بے ثبوت کارروائیوں کے بوجھ تلے آج تک جیلوں میں بند ہے۔ جماعت اسلامی بحیثیت سیاسی پارٹی، قومی یا بلدیاتی انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتی۔جماعت کو اجتماع کرنے کی آزادی نہیں ہے۔ اس کے رفاہی ادارے تباہ کردیئے گئے ہیں، یا ان پر عوامی لیگی حکومت نے قبضہ کر لیا ہے۔ مولانا مودودی کی کتب کو دو مرتبہ لائبریریوں سے نکال نکال کر جلایا یا ضائع کیا گیا ہے۔ حالیہ عرصے میں جماعت اور جمعیت کے کارکنوں کے قاتلوں کو کھلی چھٹی دی گئی ہے۔
اس تمام بے انصافی، ظلم اور انسانی حقوق کی پامالی پر برصغیر (بنگلہ دیش، انڈیا، پاکستان) میں انسانی حقوق کے علَم بردار خاموش اور قاتل حسینہ واجد کے طرف دار ہیں۔ مذکورہ بالا عدالتی ڈرامے میں، بنگلہ دیش کی انھی کنگرو عدالتوں نے چودھری معین الدین (فی الوقت بنگلہ نژاد برطانوی شہری) کو بھی غیرموجودگی میں سزائے موت سنائی تھی۔یاد رہے معین الدین زمانہ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ ڈھاکہ سے وابستہ تھے، لیکن انتخابات کے سال ۱۹۷۰ء اور فساد کے سال ۱۹۷۱ء میں وہ ایک ممتاز اور فعال صحافی کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے۔ سزائے موت سنانے کے بعد بنگلہ دیش حکومت نے ریڈ وارنٹ جاری کراتے ہوئے، معین الدین کی حوالگی کا مطالبہ کیا۔
۲۰۱۹ء میں برطانوی ہوم ڈیپارٹمنٹ نے اپنی رپورٹ میں انھیں ایک سزایافتہ اور جنگی مجرم کے طور پر درج کیا۔ جس پر معین الدین چودھری نے برطانوی سپریم کورٹ میں ’ہتک ِ عزّت‘ کا دعویٰ کیا۔ انھوں نے بنگلہ دیشی عدالتی کارروائی اور فیصلے کو جعلی، ظالمانہ، بے بنیاد اور توہین آمیز قرار دیتے ہوئے دادرسی کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا، جس پر جمعرات ۲۰جون ۲۰۲۴ء کو برطانوی سپریم کورٹ نے تاریخی فیصلہ دیتے ہوئے، معین چودھری کو بنگلہ دیشی عدالت کے نام نہاد فیصلے سے بری قرار دیا اور پُرزور لفظوں میں حسینہ واجد کی غلام ’عدالتوں‘ کی حیثیت کو بے نقاب کر دیا۔ یہاں پر اسی فیصلے کی روشنی میں چند حقائق پیش کیے جارہے ہیں۔
برطانوی سپریم کورٹ میں ممتاز مسلم کمیونٹی رہنما چودھری معین الدین کی جانب سے برطانوی ہوم سیکرٹری کے خلاف ہتک عزّت کا مقدمہ دائر کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کے صدر لارڈ ریڈ نے اس کی سماعت مکمل ہونے کے بعد متفقہ تاریخی فیصلے کا اعلان کیا۔ کیس کی سماعت یکم و ۲ نومبر ۲۰۲۳ء کو ہوئی، لارڈ ریڈ کی سربراہی میں سماعت کرنے والے بنچ میں جسٹس لارڈ سیلز، لارڈ ہیمبلن، لارڈبروز اور لارڈ رچرڈز شامل تھے۔
دسمبر ۲۰۱۹ء میں، چودھری معین الدین نے قانونی فرم ’کارٹرک‘ کے ذریعے ہوم آفس کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ شروع کیا۔ اس کی قانونی ٹیم میں سینئر وکیل ایڈم ٹیوڈر اور مشیر جیکب ڈین اور للی واکر پار شامل تھے۔ چودھری معین نے برطانوی ہوم آفس کے کمیشن برائے انسداد انتہا پسندی کی ۲۰۱۹ء کی رپورٹ کی مناسبت سے ہوم سیکرٹری کے خلاف:’’منافرت انگیز انتہا پسندی کو چیلنج ‘‘کے عنوان سے کارروائی شروع کرائی۔ دراصل ہوم آفس کی رپورٹ میں چودھری معین الدین پر ’انتہا پسندی‘ کا الزام لگاتے ہوئے بنگلہ دیش میں نام نہاد ’جنگی جرائم کی عدالت‘ کے متنازعہ فیصلے کا حوالہ دیاگیا تھا۔ ۱۹۷۱ء میں پاکستان کے خلاف جنگ کے دوران چودھری معین الدین نے اپنے پر لگنے والے تمام ’جنگی جرائم‘ کے تمام الزامات کی سختی سے تردید کی اور بنگلہ دیشی حکام کے الزامات کو مکمل طور پر بے بنیاد اور سیاسی محرک قرار دیا۔
برطانوی سپریم کورٹ نے فیصلے میں لکھا ہے: چودھری معین الدین ۱۹۴۸ء میں مشرقی بنگال میں پیدا ہوئے، جو اس وقت پاکستان کا حصہ تھا۔ بنگلہ دیش نے دسمبر ۱۹۷۱ء میں جنگ سے گزر کر پاکستان سے علیحدگی اختیار کی۔۱۹۷۳ء سے، چودھری معین الدین برطانیہ کے رہائشی ہیں اور ۱۹۸۴ء سے برطانوی شہری ہیں۔ برطانیہ میں اپنے قیام کے دوران، انھوں نے متعدد سماجی اور رفاہی اداروں میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اسی طرح کئی اعلیٰ سطحی شہری اور انسانی ہمدردی کے عہدوں پر فائز رہے ہیں، جن میں کونسل برائے مساجد برطانیہ اور آئرلینڈ کے سیکرٹری جنرل اور برطانوی وزارت صحت کے تحت ایک پراجیکٹ 'NHS میں مسلم اسپرچوئل کیئر پروویژن کے ڈائریکٹر شامل ہیں۔ وہ بین الاقوامی انسانی فلاحی تنظیم ’مسلم ایڈ یو کے‘ کے بانی ممبر اور چیئرمین تھے۔ انھوں نے ایک متنوع کثیر العقیدہ اتحاد کی سربراہی کی، جس میں عالمی مذہبی گروہ شامل ہیں، جن میں مسلم، عیسائی، یہودی، ہندو، بودھ مت اور دیگر مذہبی کمیونیٹیوں کے معزز لوگ شامل ہیں۔
فیصلے میں کہا گیا ہے: چودھری معین الدین نے بنگلہ دیش میں چلنے والے مقدمے تک، ۴۱سال کے دوران برطانیہ میں کھلے عام اور فعال زندگی گزاری۔ بنگلہ دیشی حکومت اس پورے عرصے میں ان کے ٹھکانے سے باخبر تھی۔ بنگلہ دیشی خصوصی عدالت کا یہ کہنا کہ ’’وہ یا تو 'مفرور تھے یا 'خود کو چھپا لیا تھا‘‘، واضح طور پر غلط مفروضہ ہے۔ فیصلے میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ چودھری معین الدین کو ۲۰۱۳ء میں بنگلہ دیش کے انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل (ICT) نے ۱۹۷۱ء کی جنگ کے دوران انسانیت کے خلاف مبینہ جرائم کے الزام میں ۴۰ سال بعد اچانک غیرحاضری میں سزائے موت سنائی تھی۔
اپنی کارروائی کے دوران قابلِ قبول عدالتی معیارات کو برقرار رکھنے میں ICT بُری طرح ناکام رہا۔ اس نے اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے ان گواہوں کی گواہی پیش کی، جو اس وقت نابالغ تھے۔ ان شواہد، اور میڈیا رپورٹس کی اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی عدالتی، قانونی اور انسانی حقوق کے اداروں کی طرف سے بڑے پیمانے پر تنقید اور مذمت کی گئی ہے۔ یورپی یونین، اور بہت سی غیر ملکی حکومتیں انھیں مسترد کرچکی ہیں۔
فیصلے میں یہ بھی بتایا گیا ہے:انٹرپول نے ابتدائی طور پر بنگلہ دیش کی حکومت کی درخواست پر چودھری معین الدین کے خلاف ’ریڈوارنٹ‘ جاری کیا تھا، لیکن بعد میں ICTکے قانونی طریق کار کی بے ضابطگیوں اور مضحکہ خیز حرکتوں کا حوالہ دیتے ہوئے اسے منسوخ کر دیا گیا، جو بین الاقوامی منصفانہ سماعت کے معیارات کی سنگین خلاف ورزی کرتے ہوئے سزائیں دے رہا ہے۔
فیصلے میں انٹرپول کمیشن کے حوالے سے ان بین الاقوامی اداروں کی ایک طویل فہرست بھی دی گئی ہے، جنھوں نے آئی سی ٹی کی کارروائیوں پر تنقید کی تھی جیسے: اقوام متحدہ(ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق، ججوں اور وکلا کی آزادی کے لیے خصوصی نمائندے، خصوصی نمائندہ ماورائے عدالت، سزائے موت اور تشدد پر خصوصی ورکنگ گروپ) مختلف غیر ملکی حکومتیں اور قومی ادارے (امریکا کے خصوصی سفیر برائے عالمی فوجداری انصاف)، ریاستہائے متحدہ کانگریس کے ٹام لینٹوس، انسانی حقوق کمیشن، یورپی یونین پارلیمنٹ، برطانیہ کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی مختلف تنظیمیں یعنی ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل، انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹ، انٹرنیشنل سینٹر فار ٹرانزیشنل جسٹس وغیرہ___ یہ سبھی ادارے بنگلہ دیشی ٹریبونل (ICT) کے طریق کار پر شدید تحفظات اور سخت تشویش کا اظہار اور گواہوں کے اغوا، دھمکیوں کے واقعات کی دستاویز پیش کرتے آئے ہیں۔ دفاعی وکیل، میڈیا سنسرشپ، حکومت کی طرف سے مجرم کو سزا دینے کا دباؤ، عدالتی افسران کی آزادی کا فقدان بھی شامل ہے۔ خود بنگلہ دیشی حکام کی فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر صاف طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ معین چودھری کے خلاف انٹرپول کے آئین یا انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کے مطابق آئی سی ٹی کی شفاف کارروائی نہیں کی گئی۔
برطانوی ہوم سیکرٹری نے معین الدین کے دعوے کو مسترد کرنے کے لیے عدالت میں درخواست دائر کی تھی اور کہا تھا کہ معین الدین کا ہتک عزت کا مقدمہ برطانوی ہائی کورٹ میں قابلِ سماعت نہیں ہے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ ۱۹۹۵ء میں چینل۴ کی دستاویزی فلم میں جنگی مجرم قرار دینے اور بنگلہ دیشی عدالت سے سزا کی بنیاد پر معین الدین کی ساکھ ختم ہوگئی ہے۔ عدالت نے ہوم آفس کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے لکھا کہ چینل ۴ کی دستاویزی فلم کے بعد سے، معین الدین نے ایچ ایم دی کوئین اور موجودہ بادشاہ اور اس وقت کے پرنس آف ویلز سے کئی مواقع پر ملاقات کی، بکنگھم پیلس میں کوئینز گارڈن پارٹیوں میں شرکت کی۔ سپریم کورٹ کے صدر لارڈ ریڈ نے کارروائی کی نگرانی کرتے ہوئے لکھا: ’’کسی بھی فرد کے لیے عدالتوں تک رسائی کا بنیادی شہری حق ہے۔ اس حق کو صدیوں سے عام قانون اور میگنا کارٹا کے ذریعے تسلیم کیا گیا ہے، اور یہ انسانی حقوق ایکٹ ۱۹۹۸ء کے تحت محفوظ ہے‘‘۔
برطانوی سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ایک تاریخی عدالتی فتح ہے۔ اگر بنگلہ دیش کا نام نہاد انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل (ICT) واقعی ’انٹرنیشنل‘ اور ایک عدل و انصاف کا فورم ہوتا تو دُنیا اس کے فیصلوں کو مانتی۔ اس نوعیت کا ڈراما تو اس سے قبل دوسری جنگ ِ عظیم کے بعد نیورمبرگ اور ٹوکیو ٹرائلز میں بھی نہیں کھیلا گیا تھا، مگر بنگلہ دیش میں یہ سنگین، صریح اور کھلی بے انصافی کی گئی۔ برطانوی ہوم سیکرٹری کو چودھری معین کی بلندپایہ قانونی ٹیم اور درخواست کے مندرجات کی سچائی اور بنگلہ دیشی عدالت کی بددیانتی کا پردہ چاک ہونے کی بنیاد پر شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے صدر جج لارڈر یڈ کی جانب سے برطانوی ہوم سیکرٹری کے استدلال کو ’بیہودہ‘ قرار دینا ایک اہم موڑ تھا۔ یاد رہے اس فیصلے کو لکھنے والے تمام افراد غیرپاکستانی اور غیرمسلم ہیں، کہ جن پر کسی حوالے سے پاکستانی یا اسلامی ہونے کے ’تعصب‘ کی پھبتی نہیں کَسی جاسکتی۔ انھوں نے فیصلہ خالص قانون اور عدل کی بنیاد پر دیا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ دُنیا بھر میں جن لوگوں پر، بے گناہ پھانسی پانے والے افراد کی مظلومیت کا کیس پیش کرنے کی ذمہ داری ہے، ان پر لازم ہے کہ وہ اخبارات، ذرائع ابلاغ، سوشل میڈیا، سیمی ناروں اور تحقیقی و تجزیاتی مقالات کی صورت میں مظلوم مقتولین کا کیس پیش کریں اور بنگلہ دیشی قاتل حکومت کو مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کریں۔
ہر مسلمان کا دل رنجیدہ ہے۔ ہر توحید پرست کا دل زخمی ہے۔ ہر بندۂ مومن کا دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ مگر یہ رنجید گی، یہ زخم اور آنسوؤں کی برکھا، کسی بندوق کی گولی، بم کے ٹکڑے یا تلوار کے وار کا نتیجہ نہیں ہے۔ یہ بے چارگی دراصل حرمین الشریفین سے نسبت رکھتی ہے۔
اگر کوئی عام تنازع نہ ہو توریاستوں کے درمیان سفارتی اور تجارتی تعلقات کے فروغ میں کسی کے لیے اعتراض کی کوئی بات نہیں ہوتی۔ لیکن ہر ملک محض تجارت کی منڈی اور سفارت کی مسند پر نہیں جھول رہا ہو تا، بلکہ ان مفادات کے ساتھ اپنی تاریخ و تہذیب کے کچھ سوالات بھی پیش نظر رکھتا ہے۔ سعودی عرب کی مادی ترقی پر سبھی مسلمان خوش ہیں، لیکن سعودی عرب محض دوسو ملکوں میں سے ایک ملک نہیں ہے۔ حرمین الشریفین کی مناسبت سے یہ ملک پہچان اور بڑے منفرد تقاضے رکھتا ہے، جس سے نہ وہ چھٹکارا پا سکتا ہے اور نہ مسلم دنیا کی توقعات کو وہاں کے حکمران روند سکتے ہیں۔
جیسا کہ اس تحریر کے شروع میں لکھا ہے کہ مسلمانوں کےدل خون کے آنسورو ر ہے ہیں تو اس تلخ نوائی کا حوالہ یہ ہے کہ بھارت میں ایک ایسی حکومت اپنے مسلم دشمنی پر مبنی ایجنڈے کو تیزی سے آگے بڑھا رہی ہے، جو: مسلمانوں کو قتل و غارت میں جھونکنے، مسجدوں کو شہید کرنے، ہجومی قتل عام کی سرپرستی کرنے، مسلمان عورتوں کی بے حرمتی کرنے کے واقعات کو بڑھاوا دینے اور بہت سے نوجوانوں کو مقدمات کے بغیر جیلوں میں پھینک دینے جیسی کارروائیوں میں مصروف ہے۔
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (RSS) کی سرپرستی میں قائم اس بدنام حکومت کی وزیر برائے اقلیتی اُمور، سمرتی ایرانی، جن کے ہمراہ خارجہ امور کے وزیر مملکت مرلی دھرن بھی تھے، انھوں نے مدینہ منورہ کا دورہ کیا ۔ سمرتی نے اُسی روز یعنی ۸جنوری کو اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر بڑی خوشی سے اپنی نوعدد تصویریں شائع کرتے ہوئے لکھا ’’آج میں مدینہ کے تاریخی سفر پر نکلی، جو اسلام کے متبرک ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ اس میں مسجد نبویؐ کے اطراف کی زیارت کرنے کے ساتھ ہی احد پہاڑ اور مسجد قبا کی بیرونی حدود شامل ہیں‘‘۔ انڈین سرکاری نشریاتی ادارے ’دوردرشن‘ نے اس دورے کو غیر معمولی اور تاریخی واقعہ قرار دیتے ہوئے کہا: ’’یہ پہلا موقع ہے کہ جب ایک غیر مسلم وفد کا استقبال مدینہ میں کیا گیا، جس سے انڈیا اور سعودی عرب کے غیرمعمولی رشتوں کی عکاسی ہوتی ہے‘‘۔
مراٹھی زبان میں ہندو نسل پرست اخبار سناتن پرابھات نے ۱۲ جنوری کی اشاعت میں فخریہ لہجے میں لکھا:’’بھارتی یونین وزیر سمرتی ایرانی نے مسلمانوں کے مقدس شہر مدینہ کا دورہ کیا،جہاں عورتیں سر ڈھانپ کر جاتی ہیں، وہاں سمرتی اپنی ساڑھی میں ملبوس گئی اور اپنے سر کو بالکل نہیں ڈھانپا۔ سعودی عرب نے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا، لیکن پاکستان والے اس بات پر ضرور پریشان ہیں۔‘‘ بی بی سی لندن نے اس استقبال کو ’’غیر معمولی تاریخی واقعہ‘‘ قرار دیا۔
بنگلہ دیشی تسلیمہ نسرین نے اپنے بیان میں لکھا، ’’میں سمرتی کو سلام پیش کرتی ہوں کہ اس نے سر نہیں ڈھانپا‘‘۔ جرمن ٹیلی ویژن کے مطابق:’’ایک بھارتی میڈیا پرسن نے لکھا ہے: آپ نے ایک کٹر مسلم ملک میں سر نہ ڈھانپ کر اپنی حقیقی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے‘‘ ۔
جواہر لال نہرو کے ہاتھوں ۱۹۳۷ء میں جاری کردہ اخبار قومی آواز (۱۴جنوری ۲۰۲۴ء) کے مطابق: ’’۲۰۲۱ ء میں ولی عہد نےمدینہ منورہ میں غیر مسلموں کے لیے داخلے سے متعلق بورڈ ہٹادیےتھے۔ ہمیں یہ نہیں معلوم کہ اس دورے کے پیچھے وزیر موصوفہ کی اپنی ذاتی خواہش تھی یا سعودی حکام کی جانب سے خود کو لبرل دکھانے کی ایک کوشش؟ بہر حال، اس واقعے سے اتنا اندازہ ہو گیا ہے کہ سعودی حکام آنے والے دنوں میں یہ عمل مکہ مکرمہ میں بھی دکھا سکتے ہیں۔ ویسے سمرتی ایرانی کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ انھوں نے کبھی بھی اسلام اور مسلمانوں سے دشمنی کو چھپانے کی کوشش نہیں کی، بلکہ جہاں اور جب جب موقع ملا ہے کھل کر اپنی ذہنیت کا مظاہرہ کیا‘‘۔ یہی اخبار مزید لکھتا ہے: ’’سمرتی کے دورے سے پہلے تک سعودی حکمرانوں نے بھی حرم مکہ کی طرح حرم مدینہ میں بھی غیر مسلموں، کے داخل ہونے پر پابندی عائد کر رکھی تھی، اور اس پالیسی کے تحت حدودِ حرم پر باضابطہ علانیہ بورڈ لگائے جاتے تھے، جس میں حرم مدینہ کے راستوں پر ’’صرف مسلمین‘‘ (Only Muslims)کے بورڈ لگا ئےجاتے تھے۔اب ۹۴ سال بعد اچانک مدینۃ الرسول میں غیرمسلموں کو عزت و احترام سے بلانا کیا ظاہر کرتا ہے؟‘‘
اسی طرح اُردو العربیہ ڈاٹ نیٹ (۴؍مئی۲۰۲۱ء) کا یہ شذرہ دیکھیے: ’’سعودی عرب کی حکومت نے مذہبی رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مدینہ منورہ میں داخلے کے راستوں پر غیرمسلموں، اور مسلمانوں کے لیے مختص راستوں کی راہ نمائی کے لیے لگائے گئے بورڈوں پر اصطلاحات تبدیل کرنا شروع کر دی ہیں۔ اس ضمن میں پہلی تبدیلی لفظ ’غیرمسلم‘ کے بجائے ’حدود حرم‘ کی شکل میں سامنے آئی ہے۔ ماضی میں یہ عبارت مدینہ منورہ کے تقدس کے پیش نظر اپنائی گئی تھی کہ ’حرمِ مکی‘ کی طرح ’حرمِ مدنی‘ میں بھی غیر مسلم داخل نہیں ہوسکتے تھے‘‘۔ بی بی سی (۹جنوری ۲۰۲۴ء) کےمطابق: ’’سعودی ’ای ویزہ‘ ویب سائٹ کے مطابق غیر مسلم افراد کو مدینہ کی سیر کی دعوت دی جاتی ہے، تاہم مسجد نبویؐ کے احاطے میں ان کا داخلہ ممنوع ہے‘‘۔
ان تفصیلات کا مقصد یہ ہے کہ چودہ سو سال سے اختیار اور نافذ کیے گئے فیصلے اور روایت کو ختم کرنے کا مقصد کیا ہے؟ کیا حرمِ مدنی کے حوالے سے حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ کے فیصلے کو تبدیل کرنا پیش نظر ہے؟ اور کیا اس کا سبب واقعی مغربی دنیا کے سامنے لبرل بننے کی خواہش ہے؟
تین احادیث نبویؐ الجامع الصحیح سے مطالعے کے لیے درج کی جاتی ہیں:
l…’’ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، ان سے ثابت بن یزید نے بیان کیا، ان سے ابوعبدالرحمٰن احول عاصم نے بیان کیا، اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مدینہ حرم ہے فلاں جگہ سے فلاں جگہ تک (یعنی جبل عیر سے ثور تک )۔ اس حد میں کوئی درخت نہ کاٹا جائے نہ کوئی بدعت کی جائے اور جس نے بھی یہاں کوئی بدعت نکالی اس پر اللہ تعالیٰ اور تمام ملائکہ اور انسانوں کی لعنت ہے‘‘۔ (صحیح بخاری، کتاب فضائل المدینہ،حدیث: ۱۸۶۷) [یعنی حرم مدینہ کا بھی وہی حکم ہے، جو مکہ کے حرم کا ہے۔ امام مالک اور امام شافعی اور احمد بن حنبل اور اہل حدیث کا یہی مذہب ہے]۔
l…’’ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے بھائی عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے سلیمان بن بلال نے، ان سے عبید اللہ نے، ان سے سعید مقبری نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مدینہ کے دونوں پتھریلے کناروں میں جو زمین ہے وہ میری زبان پر حرم ٹھہرائی گئی۔ حضرت ابوہریرہؓ نے بیان کیا کہ نبی کریمؐ بنوحارثہ کے پاس آئے اور فرمایا بنوحارثہ ! میرا خیال ہے کہ تم لوگ حرم سے باہر ہو گئے ہو، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مڑ کر دیکھا اور فرمایا کہ نہیں بلکہ تم لوگ حرم کے اندر ہی ہو۔(رقم: ۱۸۶۹)
l…ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالرحمان بن مہدی نے بیان کیا، ان سے سفیان ثوری نے، ان سے اعمش نے، ان سے ان کے والد یزید بن شریک نے اور ان سے علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میرے پاس کتاب اللہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس صحیفہ کے سوا جو نبی کریم ؐ کے حوالے سے ہے اور کوئی چیز (شرعی احکام سے متعلق ) لکھی ہوئی صورت میں نہیں ہے۔ آنحضرتؐ نے فرمایا: مدینہ عائر پہاڑی سے لے کر فلاں مقام تک حرم ہے، جس نے اس حد میں کوئی بدعت نکالی یا کسی بدعتی کو پناہ دی تو اس پر اللہ اور تمام ملائکہ اورانسانوں کی لعنت ہے…آپؐ نے فرمایا کہ تمام مسلمانوں میں سے کسی کا بھی عہد کافی ہے۔ اس لیے اگر کسی مسلمان کی (دی ہوئی امان میں دوسرے مسلمان نے ) بدعہدی کی تو اس پر اللہ تعالیٰ اور تمام ملائکہ اور انسانوں کی لعنت ہے۔ نہ اس کی کوئی فرض عبادت مقبول ہے، نہ نفل۔(رقم:۱۸۷۰)
ہمیں اس بات سے غرض نہیں کہ مملکت سعودی عرب مادی ترقی کے لیے کن راستوں کا انتخاب کرتی ہے (اگرچہ اسلامی شریعت اس معاملے میں بھی واضح احکامات بیان کرتی ہے)۔ تاہم، یہ ضرور عرض کیے دیتے ہیں کہ حرمین الشریفین کسی بادشاہ کی ملکیت نہیں ہیں اور نہ اسلامیانِ عالم اُن کی رعایا ہیں۔ اس لیے وہ تقریباً دو ارب مسلمانوں کے جذبات و احساسات کا احساس کریں اور چودہ سو برس کی تاریخ کا احترام کریں۔ مدینہ منورہ کو ٹورسٹ سنٹر بنانے سے اجتناب برتیں، اور ایسے راستے نکالنے کے لیے درباری علما کی فتویٰ نویسی پر اعتماد کرنے کے بجائے، اللہ اور اس کے رسولؐ سے اپنی محبت کو فروغ دیں، کہ جس پر وہ عشروں سے کاربند چلے آئے ہیں۔
اسی طرح اُن علما اور دانش وروں سے درخواست ہے کہ وہ وہاں کانفرنسوں میںجا کر محض میزبانی کا لطف نہ اٹھائیں بلکہ جس دین کی بنیاد پر وہ یہ اعزاز حاصل کرتے ہیں، اس کی تعلیمات کے مطابق حکمرانوں تک اپنے سچے اور حقیقی جذبات پہنچا کر، انھیں غلط فیصلوں سے منع کریں۔
یہ ۸ سے ۱۲مارچ ۱۹۵۴ء کے دوران پانچ روزہ ’کامیاب‘ جمہوریت کش مشقیں تھیں، جب عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان کے صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں ’جگتو فرنٹ‘ کے نام سے الیکشن لوٹنے کا کامیاب تجربہ کیا۔ اس معرکے میں نسل پرستی، جھوٹ، کانگریسی سرپرستی اور پولنگ اسٹیشن پر دھونس و دھاندلی کا مطلب عوامی لیگ کی کامیابی قرار پایا۔ ۷۰سال پر پھیلی تاریخ میں، عوامی لیگ کے فاسد خون میں یہی بیماری پلٹ پلٹ کر اُمڈتی ہے اور سیاسی درندگی کی ایک نئی منزل عبور کرلیتی ہے۔
پچھلے پندرہ برسوں کے دوران حسینہ واجد کی نام نہاد قیادت میں، بھارتی ایجنسی ’را‘ نے کامیابی سے بنگلہ دیش کی جمہوریت کا قلع قمع کرکے ایک گماشتہ ٹولہ مسلط کر رکھا ہے۔ جو قانون شکن ہے، قاتل ہے، فاشسٹ ہے اور جھوٹ کے انبار پر کھڑا ہے۔ بنگلہ دیش سے باہر، بھارتی پشت پناہی میں متحرک این جی اوز پاکستان میں یہ تاثر دیتی ہیں کہ ’’بنگلہ دیش معاشی جنّت بن چکا ہے‘‘۔ لیکن جب بنگلہ دیش میں دیکھتے ہیں تو ظلم، نفرت، قتل و غارت، بے روزگاری اور عدل کا خون بکھرا نظر آتا ہے۔
موجودہ حکمران عوامی لیگی ٹولے نے ۷جنوری ۲۰۲۴ء کو ملک میں ۱۲ویں پارلیمانی الیکشن کا اعلان کیا ہے، لیکن اس شکل میں کہ گذشتہ کئی برس سے بنگلہ دیش میں اپوزیشن کی دونوں بڑی پارٹیوں یعنی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) اورجماعت اسلامی کو مفلوج کرکے رکھا ہے، بلکہ اپنے طور پر انھیں کچل کر رکھ دیا گیا ہے۔
اس سب کے باوجود کہ بی این پی کی سربراہ بیگم خالدہ ضیاء مسلسل جیل میں قید ہیں اور انھیں علاج کے لیے بیرونِ ملک جانے تک کی اجازت نہیں۔ دوسری جانب جماعت اسلامی کی قیادت کو یا تو پھانسیوں پر لٹکا دیا گیا، یا بہت سے قائدین کو جیل کی کال کوٹھڑیوں میں موت کے منہ میں دھکیل دیا گیا ہے۔ جماعت کو بہ حیثیت سیاسی جماعت الیکشن میں حصہ لینے کے حق سے محروم کردیا گیا ہے۔ اس کے امیر ڈاکٹر شفیق الرحمٰن صاحب کو بغیر کسی مقدمے کے ایک سال سے زیادہ عرصہ گزرا، قید کر رکھا ہے۔ اسی طرح جماعت اسلامی کے رفاہی اور معاشی اداروں کو برباد کردیا ہے۔ لٹریچر کو کتب خانوں سے نکال باہر پھینکا ہے۔ عام عوامی لیگی غنڈوں کو بالکل آر ایس ایس اسٹائل میں جماعت کےکارکنوں، دفتروں اور گھروں پر حملے کرنے کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ یہ ہے وہ منظرنامہ، جس میں بنگلہ دیش کے الیکشن کا ڈھول پیٹا جارہا ہے۔
یہ ۱۰ جون ۲۰۲۳ء کی بات ہے، جب دس سال شدید پابندی کے بعد پہلی بار جماعت اسلامی کو ڈھاکہ کے ایک چھوٹے سے ہال میں جلسہ منعقد کرنے کی اجازت ملی۔ اس ہال میں مشکل سے تین سو افراد کی گنجایش تھی لیکن ڈھاکہ نے یہ منظر دیکھا کہ اس اجلاس میں شرکت کے لیے تقریباً ایک لاکھ پُرامن افراد، ڈھاکہ کی شاہراہوں پر کھڑے، جلسہ گاہ جانے یا جلسہ گاہ سے مقررین کی تقاریر سننے کے لیے اُمڈے چلے آرہے ہیں۔ اس منظر نے بنگلہ دیش میں عوامی لیگی، ہندو قوم پرست اور سوشلسٹ اخبارات کے صفحات پر کہرام برپا کردیا اور یہ مطالبہ کیا جانے لگا کہ ’’دس برس میں جماعت اسلامی کو اور اسلامی چھاترو شبر (اسلامی جمعیت طلبہ) ختم نہیں کیا جاسکا، اس لیے حکومت کو چاہیے کہ انھیں کچل دیا جائے‘‘۔ یہ بیانات اور تجزیے آج بھی پڑھے جاسکتے ہیں۔
بنگلہ دیش میں یہ نام نہاد الیکشن درحقیقت بھارتی ایجنسی ’را‘ کی ایک انتخابی دھوکا دہی کی مشق ہے۔ اسی لیے بی این پی نے مطالبہ کیا ہے کہ اگر حسینہ واجد نے وزارتِ عظمیٰ سے استعفا نہ دیا تو وہ الیکشن میں حصہ نہیں لے گی، جب کہ جماعت مطالبہ کر رہی ہے کہ:
۱- جماعت اسلامی پر الیکشن میں حصہ لینے کے لیے عائد پابندی ختم کی جائے۔
۲- حسینہ واجد حکومت ختم کرکے عبوری حکومت قائم کی جائے۔
۳- بی این پی سمیت تمام سیاسی قائدین اور پارٹیوں کو الیکشن میں حصہ لینے کا حق دیا جائے۔
۴- تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے۔
۵- عوامی لیگی مسلح غنڈوں کو لگام دی جائے۔
۶- قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سیاسی مخالفین کچلنے سے منع کیا جائے۔
جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے قائم مقام امیر پروفیسر مجیب الرحمان نے ۱۹نومبر ۲۰۲۳ء کے بنگلہ دیشی کنگرو سپریم کورٹ کے فیصلے پر گہرے صدمے کا اظہار کیا ہے۔ یاد رہے ڈھاکہ ہائی کورٹ نے یکہ طرفہ طور پر یکم اگست ۲۰۱۳ء کو جماعت اسلامی کی رجسٹریشن غیرقانونی قرار دی تھی۔ اس فیصلے کے خلاف جماعت نے سپریم کورٹ میں بروقت اپیل کی تھی، مگر دس سال تک اپیل کی کوئی سماعت نہ ہوئی۔ آخرکار جنوری ۲۰۲۳ء کو سپریم کورٹ نے جماعت کے وکلا سے کہا کہ ’’دوماہ کے اندر اندر دوبارہ جامع بیان داخل کریں‘‘۔ جماعت نے مقررہ تاریخ گزرنے سے پہلے درخواست جمع کرادی۔ مگر پانچ ماہ تک پھر کوئی سماعت نہ ہوئی اور اس عرصے میں ۱۰جون کو جماعت کے بندہال میں جلسے کا سن کر ہزاروں لوگوں کی آمد نے حکومت اور کنگرو کورٹ کی عقل کو بٹہ لگادیا۔ ۱۹نومبر ۲۰۲۳ء کو آخرکار سپریم کورٹ نے کیس سننے کے لیے مقرر کیا، مگر سماعت شروع ہوتے ہی کہہ دیا: ’’ہم جماعت کے وکیلوں کی سماعت نہیں کریں گے‘‘ اور درخواست مسترد کردی۔ یہ سب ڈراما پوری دُنیا کے سامنے کھیلا گیا ہے۔
یہ عدالتی ڈراما ابھی انجام کو پہنچا ہی تھا کہ جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر کے کارکنوں کی پکڑ دھکڑ اور کریک ڈائون کی سیاہ آندھی پورے بنگلہ دیش میں چلنا شروع ہوگئی۔ جس میں گذشتہ ایک ہفتے کے دوران جماعت اسلامی کے ۲ہزار ۹ سو ۳۷ کارکنوں کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ ان قیدیوں میں بزرگ، معذور اور خواتین بھی شامل ہیں۔ تین کارکنوں کو عوامی لیگی غنڈوں نے تیزدھار آلے سے حملہ کرکے شہید کردیا ہے۔ پانچ کارکنوں کو پولیس نے گولی مار کر زخمی کیا ہے۔ ۵۷۳کارکن شدید زخمی حالت میں نجی ہسپتالوں میں پڑے ہیں، کہ سرکاری ہسپتال جماعت کے کارکنوں کو طبّی امداد دینے سے انکاری ہیں۔ ابھی ہم کہہ نہیں سکتے کہ دسمبر کے مہینے میں حسینہ واجد نامی ’کالی ماتا‘ (خونی ماتا) جماعت کے کتنے کارکنوں اور انصاف کا خون پیئے گی!
بنگلہ دیش کے ممتاز عالم دین، کرشماتی شخصیت، شان دار خطیب، بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے نائب امیر، سابق ممبر بنگلہ دیش پارلیمنٹ اور مفسرقرآن علّامہ دلاور حسین سعیدی ۱۴؍اگست ۲۰۲۳ء کو جیل کی کال کوٹھڑی سے، دل کے دورے کے بعد تشویشناک حالت میں ہسپتال منتقل ہونے کے چند گھنٹوں بعد انتقال کرگئے، انا للّٰہ وانا الیہ رٰجعون!
جناب دلاور حسین سعیدی کی عمر ۸۴برس تھی۔ وہ ۲فروری ۱۹۴۰ء کو ضلع فیروز پور کے گائوں سید کھلی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد گرامی یوسف سعیدی ممتاز عالم دین تھے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم والد ماجد سے حاصل کی۔سرسینا عالیہ مدرسہ سے عالم اور ۱۹۶۲ء میں کھلنا کے عالیہ مدرسہ سے کامل کی سند لی۔ وہ قرآن، حدیث، فقہ، فلسفہ، معاشیات، خارجہ تعلقات، نفسیات اور ادبیات کا گہرا مطالعہ رکھتے تھے۔ اسی طرح بنگلہ کے علاوہ اُردو، عربی، فارسی اور انگریزی میں مطالعہ کی قابلیت رکھتے تھے۔ بنگالی، اُردو اور عربی میں بڑی روانی سے خطاب فرماتے تھے۔ آپ سولہ بلندپایہ کتب کے مصنف تھے۔ دلاور سعیدی بنگلہ دیش بننے کے گیارہ برس بعد ۱۹۸۲ء میں جماعت اسلامی کے رکن بنے، ۱۹۸۹ء میں جماعت کی مجلس شوریٰ کے رکن منتخب ہوئے اور تھوڑے عرصے بعد بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے نائب امیر مقرر ہوئے۔ وہ اس ذمہ داری پر آخری لمحے تک فائز رہے۔ ضلع فیروزپور، حلقہ نمبر ایک سے ۱۹۹۶ء اور پھر ۲۰۰۱ء میں بھاری اکثریت کے ساتھ ممبر پارلیمنٹ منتخب ہوئے۔یاد رہے کہ اس حلقے میں ہندو آبادی بنگلہ دیش کے کسی بھی حلقے سے زیادہ ہے۔
۱۹۶۷ء سے انھوں نے اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لیے وقف کردیا، اور آخری قید سے پہلے بنگلہ دیش کے علاوہ دنیا کے تقریباً ۵۰ممالک میں درس و تعلیم کے لیے سفر پر گئے۔ درس قرآن میں وہ قرآنی آیات کی تفسیر اس انداز سے کرتے کہ سامعین کو یوں لگتا جیسے ہرآیت، ایک ایک فرد کو پکار رہی ہے، جھنجھوڑ رہی ہے اور دین کے لیے کام پر اُبھار رہی ہے۔ اسی لیےبچّے، جوان، بزرگ، خواتین و حضرات لاکھوں کی تعداد میں ان کے دروس میں شرکت کرتے۔ انھیں جلسے کے انعقاد کے لیے کسی اشتہار یا اعلان کی ضرورت نہیں ہوتی تھی، بلکہ فیصلہ ہوتے ہی سینہ بہ سینہ یہ خبر پورے علاقے میں خوشبو کی طرح پھیل جاتی۔ انھوں نے جماعت اسلامی کو بنگلہ دیش کی عوامی جماعت بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔وہ علّامہ اقبال کے کلام کے حافظ تھے اور مولانا مودودی سے محبت رکھتے تھے۔
علّامہ دلاور حسین سعیدی کو بھارت کی پشت پناہی میں قائم عوامی لیگی حسینہ واجد حکومت نے جعلی، من گھڑت اور افسانوی الزامات کے تحت ۲۹جون ۲۰۱۰ء کو گرفتار کیا اور جیل میں لے جاتے ہوئے کہا: ’’جماعت کو چھوڑنے کا اعلان کردو تو مقدمہ واپس لے لیں گے‘‘۔ مگر انھوں نے اس پست درجے کی سودے بازی کا حصہ بننے سے انکار کردیا۔ عوامی لیگی حکومت کے قائم کردہ نام نہاد ’انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل‘ کے جج فضل کبیر نے اپنے دوساتھیوں کے ہمراہ سعیدی صاحب کے گواہوں کو سنے بغیر یک طرفہ طور پر ۲۸فروری ۲۰۱۳ء کو سوا بارہ بجے انھیں سزائے موت سنائی۔ اس اعلان پر سرکاری وکیل نے کہا: ’’سعیدی کے لیے موت کی سزا کا حکم نامہ سن کر بہت خوشی ہوئی ہے‘‘۔ اگلے ہی لمحے ڈھاکا میں کمیونسٹوں کے اخبار ڈیلی اسٹار کے انٹرنیٹ ایڈیشن نے سرخی جمائی: Sayeedy to be hanged، اور انڈین ٹیلی ویژن NDTV نے بار بار یہ خبر نشر کی: Senior Jamaat Leader Sayeedy gets Death Sentence.
نام نہاد جج نے جب سزائے موت کا فیصلہ سنایا، تب سعیدی صاحب نے جو ہاتھ میں قرآن تھامے ہوئے تھے، کٹہرے سے ٹریبونل کے جج کو مخاطب کرکے مضبوط لہجے میں کہا: ’’میں نے ان میں سے کوئی جرم نہیں کیا اور آپ نے یہ فیصلہ اپنے دل اور دماغ کی گہرائی اور انصاف کی زبان سے نہیں سنایا۔ میں اپنا معاملہ اللہ کی عدالت پہ چھوڑتا ہوں‘‘ اور کسی قسم کی گھبراہٹ کے بجائے باوقار انداز سے چلتے ہوئے قیدیوں کی ویگن میں قدم رکھا۔ سعیدی صاحب کے وکیل بیرسٹر عبدالرزاق نے صحافیوں سے کہا: ’’علّامہ سعیدی، عدل و انصاف کے قلم سے نہیں بلکہ بے انصافی، جھوٹ اور سفاکی کے خنجر سے، ایک گھنائونے سیاسی انتقام کا نشانہ بنائے گئے ہیں‘‘۔ سعودی اخبار نے لکھا: ’’سعیدی کی پھانسی کے فیصلے نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ ٹریبونل ایک کینگرو کورٹ ہے‘‘(سعودی گزٹ، ۷مارچ ۲۰۱۳ء)۔ ایک سال قبل ’امریکن سوسائٹی آف انٹرنیشنل لا‘ ۲۱جون ۲۰۱۱ء کی رپورٹ نے اس ٹریبونل کی قانونی حیثیت کو مضحکہ خیز قرار دے کر مسترد کردیا تھا۔اس فیصلے کی خبر سنتے ہی پورے بنگلہ دیش میں احتجاجی ہنگامےپھوٹ پڑے، جس میں ۱۵۰ سے زیادہ مظاہرین پولیس فائرنگ سے شہید ہوگئے۔ وکلا نے سپریم کورٹ میں اپیل کی، جس نے ۱۷ستمبر ۲۰۱۴ء کو سزائے موت کو تادمِ مرگ جیل میں قید کی صورت تبدیل کر دیا۔
جناب سعیدی کے مقدمے کا ایک شرمناک پہلو یہ ہے کہ ضلع فیروزپور میں ۱۹۷۱ء میں ایک ہندو کے قتل کا الزام بھی ان پر لگایا گیا۔ لیکن اس مقتول کے بھائی سکرنجن بالی نے سرکاری گواہ بن کر، سعیدی صاحب کے خلاف گواہی دینے کے بجائے، تمام زور زبردستی کے باوجود اُن کے حق میں گواہی دینے کا فیصلہ کیا اور کہا: ’’علّامہ سعیدی ہمارے محسن ہیں اور ہمیں ان سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ اُن پر میرے بھائی کے قتل کا الزام جھوٹا ہے، پچھلے چالیس برسوں میں ہم نے سعیدی صاحب پر یہ الزام لگانے کا کبھی سوچا تک نہیں‘‘۔ یہ گواہی دینے کے لیے سکرنجن ۵نومبر۲۰۱۲ء کو خصوصی ٹریبونل پہنچ گیا، جہاں گیٹ ہی سے نامعلوم افراد نے اسے اغوا کرلیا۔ اخبار New Age نے پانچ ماہ بعد اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا: ’’پولیس کی برانچ (Deductive Branch) نے سکرنجن کو اغوا کرلیا، اور پھر چھ ہفتے کی غیرقانونی حراست کے بعد دسمبر ۲۰۱۲ء میں اسے انڈین بارڈر سیکورٹی فورس (BSF) کے سپرد کردیا، جس نے ڈم ڈم جیل، کلکتہ میں اسے قید کردیا۔ مارچ ۲۰۱۳ء سے کسی طرح اس کے خاندان کو اس بات کا علم ہوا تو وہ انڈیا پہنچے، جنھیں ۸جون ۲۰۱۳ء کو سکرنجن بالی نے بتایا: ’’مجھے بنگلہ دیش کی نقاب پوش خفیہ پولیس نے اغوا کرکے ایک سیل میں پہنچایا اور کہا: ’’تم سعیدی کے حق میں کیوں گواہی دیتے ہو؟ اس نے تو پھانسی کی سزا پانی ہی ہے، مگر اس طرح تم بھی قتل کر دیئے جائو گے‘‘۔ بالی نے بتایا: ’’مجھے بنگلہ دیشی خفیہ پولیس اہل کاروں نے کہا: ’’تمھیں سعیدی کے بڑے بیٹے ’بلبل سعیدی نے ورغلایا ہے‘‘، حالانکہ وہ بےچارا مئی ۲۰۱۲ء ہی میں پولیس کے دعوے کے مطابق ہارٹ اٹیک سے فوت ہوگیا۔ اگرچہ مجھے ہارٹ اٹیک والے پولیس کے اس دعوے پر بھی شک ہے۔ میں نے کہا: ’’مجھے کسی نے نہیں ورغلایا، میں ایک بے گناہ فرد کے خلاف جھوٹی گواہی دینے کو جرم سمجھتے ہوئے ایسا کرنے سے انکار کر رہا ہوں‘‘۔
اس شرمناک مثال پر برطانیہ کے معتبر رسالے The Economist نے اپنی رپورٹ میں لکھا: ’’اسرائیل کی خفیہ پولیس نے ۱۹۶۱ء میں ارجنٹائن سے جرمن ایل ایچ مین کو اغوا کرکے اسرائیل پہنچایا، ۲۰ سال پرانے ہولوکاسٹ جنگی جرائم کا ذمہ دار قرار دے کر مقدمہ چلایا۔ بالکل اسی طرح بنگلہ دیش میں ’انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل‘ میں چالیس سال پرانے الزامات کے تحت وہ مقدمے چلائے جارہے ہیں، جو نہ کبھی درج ہوئے اور نہ کبھی اُن کا نشانہ بننے والوں کے خلاف آواز اُٹھائی گئی اور ا ب اچانک انھیں پکڑ کر مقدمے چلانے کا ڈراما کھیلا جارہا ہے‘‘۔ (۲۳مارچ ۲۰۱۳ء)
علامہ دلاور حسین سعیدی کی جانب سے قرآنی تعلیم کا پروگرام سالہا سال سے پورے بنگلہ دیش کے ہرضلعی صدرمقام میں پھیلا ہوا تھا۔ اس پھیلائو کی نسبت سے چند مثالیں ملاحظہ کیجیے: lراج شاہی کے گورنمنٹ مدرسہ گرائونڈ میں مسلسل ۳۵برس تک، ہرسال ۳ دن درس دیتے۔ lکھلنا کے سرکٹ ہائوس میدان میں ۳۸برس تک، ہرسال ۳ روز درسِ قرآن دیتے۔ lبوگرہ شہر کے مرکزی میدان میں ۲۵برس تک ۳ روز تک درسِ قرآن دیتے۔ lچٹاگانگ پریڈ گرائونڈمیں ۲۹سال تک ۵ دن باقاعدہ قرآن کا پیغام ہرخاص و عام تک پہنچاتے اور شرکا کی تعداد بلامبالغہ ۶،۷ لاکھ سے زیادہ سامعین پر مشتمل ہوتی۔ lسلہٹ، گورنمنٹ عالیہ مدرسہ گرائونڈ میں مسلسل ۳۳ برس تک ۳روز محفل قرآن کے پروگرام کرتے۔ lڈھاکہ پلٹن میدان اور کملاپور ریلوے میدان میں ۳۴برس تک ہرسال تین، تین روز درس قرآن پروگرام کرتے رہے، جن میں لاکھوں سامعین شرکت کرتے___ ہرجگہ خواتین کی شرکت کے لیے الگ سے انتظامات کیے جاتے جنھیں وہاں کے اہل خیر مل کر یقینی بناتے۔
ڈاکٹر محمد نورالامین (لندن) نے اپنی یادداشت میں لکھا: ’یہ ۱۹۷۹ء کی بات ہے کہ میں نواکھالی ڈسٹرکٹ اسکول گرائونڈ میں سنجیدگی یا اخلاص کے ساتھ نہیں بلکہ مذاق اور شغل کے جذبے کے تحت سعیدی صاحب کے درس میں شریک ہوا۔ وہاں چند منٹوں کا خطاب سننے،اور ہرجملے میں براہِ راست قرآن کریم کا مخاطب ہونے پر یہ سوچتا رہ گیا کہ مجھ سے قرآن مخاطب ہے یا یہ فاضل مقرر مجھے پکار رہے ہیں۔ میرا یہ ارادہ کہ چند منٹ تماشا دیکھ کر واپس چلا آئوں گا، ریت کی دیوار ثابت ہوا، اور مَیں وہیں دیر تک کھڑا خطاب سنتا رہا۔ علّامہ سعیدی کا اندازِ گفتگو، طرزِ استدلال، سنجیدگی، علمی گہرائی اور وسعت، دردمندی، اخلاص اور دل کی دُنیا کو جھنجھوڑتی باوقار آواز___ بتانہیں سکتا کہ ایک خطاب میں کتنے رنگ میرے دل و دماغ کی دُنیا کو ایک نئے پہلو سے متعارف کرانے کا ذریعہ بن گئے۔مولانا سعیدی نے ہماری روز مرہ کی زندگی کے بڑے بڑے مسائل کو اُٹھایا، قرآن و سنت کی روشنی میں ان کا فی زمانہ حل بتایا اور سامعین کو کام کا عملی منصوبہ تھمایا۔ان کی گفتگو میرے لیے اتنی دل پذیر اور روح پرور بن گئی کہ وہیں شامیانے کے نیچے بیٹھ گیا اور اختتام تک خطاب سنتا رہا۔ تب میرے لیے اس میں حیرت کا یہ زاویہ بھی تھا کہ قرآن، عربی، یادداشت اور موزوں الفاظ کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ وہ جدید سائنسی علوم کے سماجی پہلوئوں پر کامل گرفت کے ساتھ کلام کرنے کی صلاحیت سے سرفراز تھے‘‘۔
بنگلہ دیش میں کس قسم کی سفاک، فاشسٹ اور بھارت کی آلۂ کار پارٹی، عوامی لیگ گذشتہ پندرہ برسوں سے حکومت کر رہی ہے؟ اس کا اندازہ محض چند مثالوں سے لگایا جاسکتا ہے۔ یہ چند خبریں عوامی لیگ کے اُس مزاج کا اچھا تعارف کرا دیتی ہیں، جس مزاج کے ساتھ اُس نے ۱۹۶۹ء سے مشرقی پاکستان پر قبضہ جمایا، ۱۹۷۰ء میں تمام مدِمقابل متحدہ پاکستان کی حامی پارٹیوں کو تشدد کرکے میدان سے باہر نکال دیا، اور ۱۰دسمبر ۱۹۷۰ء کو پولنگ اسٹیشنوں پر قبضہ کرکے من مانا، سوفی صد نتیجہ حاصل کر لیا، جسے عقل کے اندھے دانش ور ’’شفاف ترین الیکشن اور بنگلہ دیش کے حق میں ریفرنڈم‘‘ قرار دیتے ہیں۔ جس مزاج کے ساتھ ۷۰سال پہلے عوامی لیگ کو بنایا، اُٹھایا اور غالب کرایا گیا تھا۔ اُس کی جانب سے آج بھی وہی فاسد خون بنگلہ دیش کی نئی نسل میں منتقل کیا جا رہا ہے:
علّامہ سعیدی کی زندگی ایک دینی اور قومی ہیرو کی سی زندگی کا عنوان ہے۔ جس میں عقیدت بھی ہے اور عظمت بھی۔ سچائی پر جم کرکھڑے ہونے کا پیغام بھی ہے اور حق کے لیے جان دینے کے اسوئہ حسینیؓ سے وابستگی کا روشن نقش بھی۔ انھوں نے دین سے محبت، قرآنی تعلیم و تدریس کے شوق اور سیاست میں خدمت کی شاہراہ پر چلتے ہوئے، خوشی خوشی اپنی قتل گاہ تک کا سفر طے کیا۔ علّامہ دلاور حسین سعیدی نے نہ صرف بنگلہ دیش بلکہ برصغیر جنوبی ایشیا کے تمام ممالک میں اسلامی تاریخ کے دبستانوں پر اَن مٹ اثرات چھوڑے ہیں، جن سے آیندہ نسلیں سبق اور عزم کی سوغات پاتی رہیں گی، گفتگو کرتی رہیں گی۔
سوائی مادھوپور، راجستھان ،انڈیا سے بلندپایہ شاعر جناب سرفراز بزمی نے اس موقعے پر کہا:
سفید ریش، جبینوں پہ ضوفگن سجدے
فرشتے دار پہ آتے ہیں مسکراتے ہوئے
رہ وفا کے شہیدو، سلام ہو تم پر
تمھی تو غیرتِ اُمت کی آن بان ہوئے
جھکے نہ نخوتِ شاہی کے آستانے پر
بلا سے راہِ وفا میں لہولہان ہوئے
خطۂ بنگال دعوتِ حق سے وابستہ یادوں، عزیمتوں اور قربانیوں کی سرزمین ہے۔ پہلے یہ مشرقی پاکستان تھا اور اب بنگلہ دیش کہلاتا ہے۔ وہاں تحریک اسلامی کے تابندہ نقوش کی ایک تاریخ ہے، جسے محفوظ کرنا ہم پر قرض ہے۔ آج بنگلہ دیش، تحریک اسلامی سے وابستگان کے لیے قید، تعزیر اور تختۂ دار سے منسوب ایک خطہ ہے، جہاں قدم قدم پر ظلم کی داستانیں بکھری پڑی ہیں۔ اسی سرزمین پر قیامِ پاکستان کے تین سال بعد تحریک اسلامی کے ایک نوعمر طالب علم محبوب الٰہی نے تعلیمی دُنیا میں دعوتِ دین سے منسوب کھجور کا پودا لگایا تھا۔ یہی محبوبِ الٰہی ۹۱برس کی عمر فانی گزار کر، یکم مئی ۲۰۲۳ء کو ربِّ جلیل و کریم کے حضور پیش ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ انھیں اپنے مقربین میں مقام عطا فرمائے، آمین۔
خواجہ صاحب کے آباواجداد کشمیر اور سہگل برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ تاہم، رہائشی تعلق پنجاب کے ضلع جہلم، پنڈ دادن خاں سے تھا۔ محبوب الٰہی جولائی ۱۹۳۲ء میں پیدا ہوئے ۔ بچپن کا ابتدائی حصہ اپنے والدین کے ساتھ پٹنہ ، گریڈی ( بہار) اور کلکتہ میں گزارا۔ شدید بیماری کے دوران کلکتہ میں والدین نے ان کی تعلیم کے لیے گھرپر ہی انھیں ایک اتالیق محمدرفیق شبلی کی نگرانی میں دے دیا۔ رفیق صاحب مولانا مودودی کی کتب کے شیدا تھے۔ انھوں نے اپنے طالب ِ علم محبوب الٰہی کو مولانا مودودی کی تحریریں پڑھنے کے لیے دیں اور اسلام سے عملی وابستگی کی شاہراہ پر گام زن کردیا۔ قیامِ پاکستان کے زمانے میں محبوب صاحب والدین کے ہمراہ آبائی وطن آگئے۔
آپ اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے بالکل ابتدائی زمانے کے رفقا میں سے تھے۔ ۱۹۵۰ء میں اپنے نانا محمد امین صاحب کے ہاں مشرقی پاکستان چلے گئے، جنھوں نے پٹ سن کی مصنوعات کے لیے ’امین جیوٹ مل‘ قائم کر رکھی تھی۔ محبوب صاحب نے خطبات، سلامتی کا راستہ اورشہادتِ حق سے دعوتِ حق کی جو روشنی حاصل کی تھی، اسے بانٹنے کے لیے انھوں نے ڈھاکا شہر کے علاوہ مشرقی پاکستان کے دوسرے شہروں چٹاگانگ،راج شاہی، کھلنا، میمن سنگھ سے چیدہ چیدہ طلبہ کو جمع کرکے اسلامی چھاترو شنگھو (اسلامی جمعیت طلبہ) قائم کی۔اسلامی جمعیت طلبہ مشرقی پاکستان کے ناظم کی حیثیت سے لاہور میں منعقدہ چوتھے سالانہ اجتماع ۲،۳،۴ نومبر ۱۹۵۱ء [دہلی مسلم ہوٹل، انارکلی، لاہور]میں شرکت کی ۔ پھر کچھ مدت میں باقاعدہ کوشش کرکے تنظیمی ذمہ داریاں مقامی بنگالی رفقا کے سپرد کیں۔ اپنے بعد سید محمد علی کو مشرقی پاکستان جمعیت کا ناظم مقرر کیا اور کچھ عرصہ بعد ڈھاکا جمعیت کا ناظم قربان علی صاحب کو بنایا ۔یہ خواجہ صاحب کی مردم شناسی کا ثمر تھا کہ اس زمانے میں سید محمد علی، عبدالجبار، شاہ عبدالحنان (بعد میں اسٹیٹ بنک کے ڈپٹی گورنر )،اور فیاض الدین جیسے مثالی کارکن نظم جمعیت میں آئے اور مستقبل میں تحریک اسلامی کو ایک دانش ور اور عملی قیادت فراہم کرنے کا ذریعہ بنے۔ اسی طرح خواجہ صاحب جمعیت کی دعوتی اور تنظیمی کاوشوں کو وسعت دینے اور جملہ مالی وسائل فراہم کرنے کے لیے صف اول میں کھڑے رہے ۔
۱۹۵۶ء میں، ڈھاکا یونی ورسٹی سے ایم اے اکنامکس کیا، اور اعلیٰ تعلیم کی غرض سے لندن اسکول آف اکنامکس سے گریجوایشن کی، اور لندن ہی سے چارٹرڈ اکاؤنٹینسی کا امتحان پاس کیا۔ خواجہ محبوب صاحب نے برطانیہ میں جماعت اسلامی کے پہلے نمایندہ فرد کی حیثیت سے کام کا آغاز کیا ۔ اسلامک کلچرل سنٹر، بیکرسٹریٹ میں درسِ قرآن کا حلقہ قائم کیا، اور مصر سے اخوان المسلمون کے وابستگان سے ربط و تعلق قائم کیا۔ یہ سلسلہ ’یوکے اسلامک مشن‘ سے بھی پہلے تحریک اسلامی کی کونپل ثابت ہوا۔ انھی کوششوں کے نتیجے میں آج لندن کی سب سے بڑی مسجد کا انتظام بنگالی رفقا بڑے مثالی طریق پر چلا رہے ہیں، جسے اِن نوجوانوں نے اپنی توجہ کا مرکز بنایا تھا۔ یہیں آج کل ’ریسرچ اینڈ آرکائیوز سنٹر‘ ممتاز محقق، جناب جمیل شریف کی زیر نگرانی کام کر رہا ہے ۔
اسی قیام کے دوران خواجہ صاحب نے ڈھاکا سے جمعیت کے ہونہار لیڈر قربان علی صاحب کو لندن بلاکر بیرسٹری کا امتحان دلانے میں فراخ دلانہ تعاون کیا۔ بیرسٹر قربان علی مرحوم بڑے جذبے سے اس واقعے پر شکر گزاری کا اظہار کیا کرتے تھے ۔ خواجہ صاحب قیامِ لندن کے دوران ہفت روزہ ایشیا لاہور (مدیر: نصراللہ خاں عزیز) میں باقاعدگی سے ’مکتوب لندن‘ لکھتے رہے، جو معلومات اور راست تجزیے کا مرقع ہوتا تھا۔ لکھنے کی صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے لندن کے مختلف اخبارات کو بعض اوقات مراسلے اور مختصر مضامین اپنے قلمی نام Saigal (سیگل) سے بھیجے، جو اشاعت پذیر ہوئے۔ پروفیسر احمد شاہ بخاری کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہوا کہ انھوں نے کیمبرج میں قیام کے دوران لندن کے اخبار کو مضمون بھیجا، جو نہ چھپا، لیکن پھر وہی مضمون چند روز بعد ’پطرس‘ کے نام سے بھیجا تو شائع ہوگیا۔(یہ ہے یورپ کا نام نہاد ’غیرمتعصب‘ پریس!)
خواجہ صاحب تعلیم مکمل کرکے دوبارہ مشرقی پاکستان ہی منتقل ہو گئے اور امین جیوٹ ملز کے شعبۂ حسابات سے منسلک ہوئے اور باقی وقت تحریکی مصروفیات کے لیے وقف کیا۔۱۹۶۵ء میں خواجہ محبوب الٰہی نے ڈھاکا میں جماعت اسلامی کے امیرخرم جاہ مراد اور اسلامک ریسرچ اکیڈمی کے سیکرٹری جنرل پروفیسر خورشید احمد کو تجویز پیش کی کہ اگر مولانا عبدالرحیم صاحب، امیرجماعت اسلامی مشرقی پاکستان کو تنظیمی ذمہ داریوں سے فراغت دلائی جائے اور وہ پورا وقت تفہیم القرآن کو بنگالی زبان میں ترجمہ کرنے کے لیے مختص کردیں، تو اس ضمن میں تمام مالی اخراجات کو وہ ذاتی طور پر ادا کریں گے،اور اس مد کے لیے پانچ سو روپے ماہانہ اعانت دیں گے (یاد رہے ، تب ایک سو بیس ، پچیس روپے تولہ سونا ہوا کرتا تھا)۔ پھر ۶۷- ۱۹۶۶ میں اس تجویز پر عمل شروع ہوا ،اور مولانا عبدالرحیم صاحب نے یہ کارنامہ بہت تیزی اور کمال درجے محنت سے مکمل کردیا۔
۱۹۷۱ء میں عوامی لیگ کی بغاوت کے دوران شرپسندوں نے امین جیوٹ مل لوٹ لی اور خواجہ صاحب بہت مشکل حالات میں واپس مغربی پاکستان آئے ۔یہاں فیملی کے صنعتی اور کاروباری اداروں میں بطور معاشی مشیر ذمہ داریاں ادا کرنے لگے۔ پھر ’نیلم گلاس‘ اور ’لائنر پاک جیلاٹین‘ (کالا شاہ کاکو) پراجیکٹ کو کامیابی سے چلایا ۔
آزاد جموں و کشمیر میں ۱۹۷۲ء کے دوران اسلامی جمعیت طلبہ کا قیام عمل میں آیا، جب کہ ۱۳جولائی ۱۹۷۴ء کو جماعت اسلامی نے مولانا عبدالباری کی قیادت میں یہاں کام کا آغاز کیا۔ قبل ازیں جماعت کے افراد زیادہ تر مسلم کانفرنس ہی کی تائید و حمایت کرتے تھے۔ یوں اس پارٹی سے وابستہ افراد کے بیٹے جمعیت کی طرف رجوع کرنے لگے۔ تاہم ۱۹۷۶ء میں ذوالفقارعلی بھٹو صاحب کے دورِ حکومت میں مسلم کانفرنس بے جا پریشانی کا شکار ہوگئی۔ اس کے قائدین اپنے بیٹوں پر ناروا دبائو ڈالتے ہوئے، بھرے جلسوں میں انھیں کھڑا کرکے ’’جمعیت میں شمولیت سے توبہ کرانے‘‘ لگے۔ یہ حالات دیکھ کر خواجہ محبوب الٰہی صاحب نے آزاد کشمیر جمعیت کے ناظم رائومحمداختر کو بلاکر کہا: ’’یہ تو بڑی ناپسندیدہ صورتِ حال ہے‘‘۔ رائو صاحب نے بتایا: ہمارا تو مسلم کانفرنس سے کوئی جھگڑا نہیں ہے، لیکن اس طرح دعوت کا کام اور کشمیرکاز ضرور متاثر ہوگا‘‘۔ خواجہ صاحب نے کہا: ’’ٹھیک ہے کوشش کرتا ہوں کہ معاملات سلجھ جائیں‘‘۔ اس ملاقات کے صرف دوروز بعد خواجہ صاحب نے کشمیر جمعیت کے ناظم کو پیغام بھیجا کہ ’’میں نے سردار عبدالقیوم خاں صاحب اور سردار سکندر حیات صاحب کو گھر کھانے پر دعوت دی ہے، آپ بھی آجائیں‘‘۔ آزاد کشمیر جمعیت کے ناظم اور جمعیت کے ناظم اعلیٰ اس دعوت میں شریک ہوئے۔ اس طرح بڑے خوش گوار ماحول میں خواجہ صاحب نے بے جا گریز اور تلخی کو ختم کرادیا، یوں دس بارہ برس تک فضا اطمینان بخش رہی۔
پاکستان بننے کے فوراً بعد جن پانچ چھے نوجوانوں کو مولانا مودودی نے شفقت سے نوازا، خواجہ صاحب ان خوش نصیبوں میں شامل تھے ، جب کہ دیگر نوجوانوں میں اسرار احمد،ظفر اسحاق انصاری ،خرم مراد، خورشید احمد اورحسین خان نمایاں تھے۔ انھوں نے اپنی والدہ اور مولانا مودودی کے ہمراہ حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی ، اور حج کے دوران ان کی خدمت گزاری کی ۔
خواجہ صاحب، جماعت کے رسائل و جرائد کی مالی اعانت بڑے تسلسل سے کرتے۔ تحریک کی مختلف ذیلی تنظیموں کی سرگرمیوں میں دلچسپی لیتے، مشورے دیتے، نئے منصوبوں کی افادیت پر گفتگو کرتے، حوصلہ بڑھاتے اور دل کھول کر مالی امداد کرتے تھے۔ جہاد افغانستان کے دوران صحت اور تعلیم کے منصوبوں میں خوب معاونت کی۔ درجنوں ذہین نوجوانوں کو میڈیکل، انجینئرنگ اور سائنس کی اعلیٰ تعلیم کے لیے مسلسل وظائف دیے۔ جہادکشمیر کے لیے مالی وسائل مختص کیے۔ حزب المجاہدین جموں و کشمیر کے سربراہ سیّد صلاح الدین نے بجا طور پرکہا: ’’خواجہ صاحب ایک خدا ترس اور جودوسخا کا پیکر تھے۔ خصوصاً بھارتی مظالم کے مارے ورثا، مہاجرین اور محبوسین کشمیر کے حوالے سے انتہائی متفکر رہتے تھے اور مالی اعانت کرنے میں پیش پیش ہوتے تھے‘‘۔ خواجہ صاحب کی اہلیہ سلمیٰ یاسمین نجمی صاحبہ نے پہلے خواتین کے ماہ نامہ بتول اور پھر عفت کو بڑی باقاعدگی اور بلند معیارپر شائع کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ خواجہ صاحب کو جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے ، آمین!
پاکستان میںوقتاً فوقتاً بہت سی عجیب چیزیں دیکھنے کو ملتی ہیں اور حیرت کے سمندروں میں ڈبو دیتی ہیں۔عقل، منطق، اخلاق اور شعور ماتم کرتے رہ جاتے ہیں۔ ایسا ہی معاملہ گذشتہ دنوں سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک فیصلے کی صورت میں دیکھنے میں آیا۔
’پیمرا‘ نے اے آروائی چینل کے حوالے سے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کی۔ مسئلہ یہ تھا کہ ۲۰۲۰ء میں مذکورہ چینل پر ایک ڈراما ’جلن‘ کے عنوان سے چل رہا تھا، جس میں ایک بہنوئی اپنی بیوی کی چھوٹی بہن سے عشق میں مبتلا دکھایا گیا تھا۔ پھر کہانی اور ڈرامے کے لوازمات پورا کرنے کے لیے اخلاق باختگی و بے حیائی کا پورا طرزِ بیان اپنے مناظر کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ ’پیمرا‘ کے چیئرمین نے عوامی حلقوں کے رَدعمل کے جواب میں اس ڈرامے پر پابندی لگادی۔ چینل نے سندھ ہائی کورٹ میںاستدعا کی کہ پابندی ہٹائی جائے۔ سندھ ہائی کورٹ نے فنی بنیادوں پر یہ کہہ کر پابندی ہٹادی کہ ’’پابندی عائد کرنے کے لیے سیکشن ۲۶ کے ضابطے پر عمل نہیں کیا گیا‘‘، جس پر ’پیمرا‘ نے چینل کے خلاف، سپریم کورٹ میں اپیل کردی، جہاں سے ڈھائی سال بعد ۱۲؍اپریل ۲۰۲۳ء کو دورکنی بنچ، مشتمل بر جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عائشہ ملک نے متفقہ طور پر ’پیمرا‘ کا موقف مسترد کردیا اور اے آر وائی چینل کے حق میں فیصلہ دے دیا۔
اس فیصلے میں تین نکات پر زور دیا گیا ہے:l’پیمرا‘ عوامی نمایندوں پر مشتمل ایک وفاقی اور صوبائی شکایات کے لیے کونسلیں بنائے۔ lشکایات کی کونسلیں کسی پروگرام پر پابندی کے لیے معیار مقرر کریں lفحاشی اور بیہودگی کی کیا تعریف ہے؟
بلاشبہہ کسی بھی ڈرامے پر پابندی کی مختلف وجوہ میں بنیادی پہلو اخلاقیات کی مناسبت سے سامنے آتا ہے ، جب کہ ایک مسلم معاشرے میں اخلاقیات کا قانون اور ضابطہ: قرآن، سنت، فقہ اور تاریخی نظائر کی بنیاد پر استوار ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ سے ایسی کوئی رہنمائی نہیں دی گئی کہ ان کی نسلوں میں دینی اُمور کے ماہرین کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔ عمومی حکم کی بنیاد پر یہی امکان ہے کہ معروف این جی اوز کے زیراثر اور دین بے زار لوگ ہی ایسی کونسلوں کے کرتا دھرتا بن کر فیصلے کریں گے، جیساکہ عام طور پر ہوتا آرہا ہے۔
اس فیصلے پر کلام کرتے ہوئے شریعت اور قانون کے پروفیسر محمد مشتاق صاحب کہتے ہیں: ’’اے آر وائی کا بنیادی اعتراض تو یہ تھا کہ ’پیمرا‘ نے پابندی لگانے کےلیے اس قانونی طریقِ کار پر عمل نہیں کیا، جو ’پیمرا‘ کے قانون میں طے کیا گیا ہے اور سپریم کورٹ نے اس اعتراض کو قبول کیا ہے کہ قانون میں وضع کردہ طریقِ کار کی پابندی ضروری ہے۔ تاہم، سپریم کورٹ کے فاضل ججوں نے اس سے آگے بڑھ کر ایسی بحث شروع کی ہے ،جس کی ضرورت نہیں تھی اور پھر اس بحث میں کئی بنیادی اور اہم اُمور کو نظر انداز کردیا ہے، جن پر بات کیے بغیر وہ بحث مکمل ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ مثلاً ان کا کہنا ہے کہ ’برداشت‘ ( Tolerance)سب سے اہم 'آئینی قدر ہے اور اس معیار پر فیصلے کرنے چاہئیں۔ لیکن فاضل ججوں نے یہ نہیں بتایا کہ ’برداشت‘ سے مراد کیا ہے اور برداشت کی وسعت اسلامی اصولوں سے طے کی جائے گی یا مغربی/سیکولر/لبرل مفروضات سے؟ یہ سب سے اہم سوال ہے اور، بدقسمتی سے، اس پر بہت ہی عمومی، ادھوری اور سطحی نوعیت کی گفتگو کی گئی ہے‘‘۔
یاد رہے، آج کی دُنیا میں ’Tolerance ‘(برداشت) کوئی مجرد لغوی لفظ نہیں ہے بلکہ لبرل ازم کی ایک سوچی سمجھی اور پورے پس منظر کو لیے سیاسی و تہذیبی اصطلاح ہے، جس کا مخصوص ہدف، مفہوم اور متعین ایجنڈا ہے۔
فیصلے کے پیراگراف ۲۴ میں فاضل ججوں نے تحریر فرمایا ہے: ’برداشت‘ ایک کثیرالجہتی تصور ہے، اور عام طور پر اس سے مراد افراد یا گروہوں کے درمیان رائے، عقائد، رسم و رواج اور طرزِعمل میں اختلاف کو قبول کرنا، اور ان کا احترام کرنے کی صلاحیت رکھنا اور ان سے راضی ہونا شامل ہے۔ اس میں نسل، مذہب، ثقافت، جنس(gender)، جنسی رجحان (sexual orientation)، سیاسی نظریہ اور انسانی تنوع (diversity)کے دیگر پہلوئوں میں فرق اور اختلاف شامل ہوسکتا ہے‘‘___ صاف نظر آتا ہے کہ فیصلے میں اس اصطلاح کو ’جنس اور جنسی رجحان‘ سے منسوب کرکے، اباحیت پسندی کے پورے فلسفے کو زیرغور لائے بغیر فیصلے میں لکھ دیا گیا ہے، اور جس کے مضمرات کا اندازہ نہیں لگایا گیا۔
پروفیسر محمد مشتاق صاحب کے مطابق: ’’دلچسپ بات یہ ہے کہ فاضل ججز نے یہ تو تسلیم کیا ہے کہ ’اظہارِ رائے کی آزادی‘ کے حق پر کئی حدود و قیود قانون کے تحت لگائی جاسکتی ہیں اور یہ کہ ان حدود میں وہ بھی ہیں جو 'اسلام کی عظمت کے مفاد میں لگائی جاسکتی ہیں( یہ ترکیب آئین کی اسی دفعہ میں مذکور ہے جس میں اظہار رائے کی آزادی کے حق کی ضمانت دی گئی ہے)۔ پھر کیا یہ حیران کن بات نہیں ہے کہ ۲۰صفحات پر مشتمل اس پورے فیصلے میں ایک بھی قرآنی آیت، حدیثِ نبویؐ یا اسلامی اصول کا ذکر تک نہیں کیا گیا!
اسی طرح فاضل ججز نے ’جنسی رجحان‘ کا بھی ذکر کیا ہے، حالانکہ ’جنسی رجحان‘ پر مقدمے کے فریقوں کی جانب سے بحث ہی نہیں کی گئی! کیا فاضل ججز نے یہ ترکیب استعمال کرنے سے قبل جنس اور صنف کے متعلق آئینی دفعات پر غور کرنا ضروری نہیں سمجھا، جہاں بظاہر جنس اور صنف میں کوئی فرق نہیں ہے اور جہاں ’جنس‘ ہو یا ’صنف‘، اس کی بس دو ہی قسمیں ذکر کی گئی ہیں؟ جو لوگ ’جنس ‘اور’ صنف‘ میں فرق کرتے ہیں یا دو سے زائد جنسوں یا صنفوں کے قائل ہیں، ان کے خلاف تشدد کا عدم جواز ایک الگ امر ہے، لیکن ان اُمور کو بحث میں لائے بغیر فاضل جج یہ ترکیب کیسے استعمال کرسکتے تھے؟ یقینا اپنے نظریاتی پس منظر کی وجہ سے فاضل ججز نے ایسا ضروری سمجھا ہوگا، لیکن آئین و قانون کی رُو سے ان کےلیے مناسب طریقہ یہی تھا کہ ایسے اُمور پر کوئی بات کہنے سے قبل پوری بحث تو ہونے دیتے اور پھر اس بحث کا تنقیدی تجزیہ کرکے اپنی رائے دیتے۔ ایسا کیے بغیر اپنی مرضی فیصلے میں شامل کرنا درست نہیں ہے۔
’’فیصلے کا یہ حصہ غیر ضروری اور غیر متعلق سہی، لیکن اب اسی حصے کو معاشرے کے بعض افراد سپریم کورٹ کے فیصلے کے طور پر پیش کرکے اپنے مقاصد کےلیے استعمال کریں گے اور کون اس بحث میں پڑے گا کہ آئینی و قانونی لحاظ سے اس حصے کی کوئی حیثیت نہیں ہے‘‘۔
چونکہ اس فیصلے میں کئی ایسے امور ہیں جو واضح طور پر درست نہیں ہیں، اس لیے اس کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر کی جانی چاہیے، جس میں درج ذیل اُمور پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے:
نظر ثانی کی درخواست مقدمے کا فریق ہی دائر کرسکتا ہے، لیکن اگر ’پیمرا‘ کو اس سے دلچسپی نہ ہو، تو پھر اس موضوع پر آئین کی دفعہ ۱۸۳ (۳) کے تحت باقاعدہ درخواست دائر کی جانی چاہیے۔ یہ ہے وہ بنیادی سوال جس پر اسلامی تشخص کے حوالے سے فکر مند تمام لوگوں کو غور و فکر اور بحث کی ضرورت ہے۔
مسلم دُنیا میں تصادم اور تنائو کی فضا ایک طویل تاریخ رکھتی ہے، لیکن گذشتہ پچاس برسوں میں اس تصادم کے ماحول میں جن دو ممالک کے درمیان کبھی کم اور کبھی زیادہ کشیدگی نے مسلم دُنیا کے حال اور مستقبل پر گہرے منفی اثرات ڈالے، یہ دو ممالک ہیں سعودی عرب اور ایران۔
اس فضا کو گہرائی اور وسعت دینے میں جہاں دونوں ممالک کی سیاسی قیادتوں کا کردار تھا، وہیں اسرائیل کے نام سے ایک آلہ کار امریکی اسرائیلی ریاست کا وجود اہم سنگ میل ہے کہ جسے طاقت اور قوت دے کر امریکی اور مغربی ممالک نے مسلم دُنیا کی کلائی مروڑنے کا کام لیا۔ اس دوران بے مقصد عراق ایران جنگ نے لاکھوں مسلمانوں کی جان لی، اور پھر قریب کے مسلم ممالک مختلف تصادموں اور المیوں کی آماج گاہ بنے رہے۔جس سے خاص طور پر پاکستان متاثر ہوا۔
اس ماحول میں ۱۱مارچ ۲۰۲۳ء کو دُنیا اُس وقت حیران اور امریکی حکومت ششدر رہ گئی، جب بیجنگ میں سعودی عرب اور ایران نے چینی حکومت کے سامنے یہ عہد کیا کہ یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کے اصول کا پاس و لحاظ رکھیں گے اور ایک دوسرے کی ریاستی خود مختاری کا احترام کریں گے،دوستانہ ہمسائیگی کے تعلقات قائم کریں گے، اور اختلافات بات چیت سے حل کریں گے۔ کھیلوں، سائنسی ترقی اور معیشت کے میدانوں میں تعاون بڑھائیں گے۔
یہ اعلان بیجنگ، ریاض اور تہران سے بہ یک وقت نشر کیا گیا، اور دونوں ممالک نے چینی حکومت کی ثالثی کی کوششوں کی تحسین کرتے ہوئے، تعاون کی اس فضا کو ترقی دینے اور مستحکم کرنے کی کوششوں کو جاری رکھنے کے عزم کا اعلان کیا۔
یاد رہے دسمبر۲۰۲۲ء میں چینی صدر شی چن پنگ نے سعودی عرب کا دورہ کیا اور پھر فروری ۲۰۲۳ء میں ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے بیجنگ کے دورے میں مستقبل کے تعلقات کی اس فضا کو بہتر بنانے میں پیش رفت کی۔ اگرچہ اس اعلان سے یہ ایک مبارک پیش رفت ہوچکی ہے، لیکن آثار بتاتے ہیں کہ امریکا اور اسرائیل اس کے نتیجے میں اپنے تزویراتی اہداف کو پہنچنے والے جھٹکے کو خوش دلی سے قبول نہیں کریں گے۔ اب یہ سعودی اور ایرانی قیادتوں کی بالغ نظری کا امتحان ہے کہ وہ پُرامن خطے کو وجود میں لانے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں اور سازشی عناصر کے جوڑ توڑ پر کڑی نگاہ رکھیں۔
۱۹۷۹ء میں انقلاب کے بعد ایران مغرب کی طرف سے مسلسل نشانے پر رہا۔ گذشتہ برسوں میں سعودی عرب اور اسرائیل کے باہم تعلقات میں پیش رفت نے ایران کے لیے خطرات کا گراف مزید بلند کردیا، جسے کم کرنے کے لیے ایرانی قیادت نے سوچ بچار کے عمل کو تیز تر کیا۔
ماضی قریب میں دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے، جب شمالی افریقا کے عربوں میں ۲۰۱۱ء کے دوران عوامی بیداری کی تحریک شروع ہوئی تو عرب حکمرانوں نے اس آزادی کے سیلاب کا رُخ موڑنے کے لیے فرقہ واریت کو پروان چڑھانے کا منفی کام کیا، جس کے نتیجے میں یہ عوامی اُبھار اُلجھ کر رہ گیا اور جس کو خاص طور پر شام میں تباہ کن عذاب دیکھنا پڑا۔ اس کے نتیجے میں خود فلسطینی تحریک مزاحمت کو انتہائی شدید نقصان پہنچا۔
دوسری طرف ۲۰۱۴ء میں یمن میں جو تضاد بھڑکا، اس نے شیعہ سُنّی مناقشے کا رُوپ دھار لیا، جس میں ایران نے براہِ راست پیش قدمی کرکے ۲۰۱۵ء میں سعودی عرب کی سلامتی کے لیے مسائل کھڑے کر دیئے۔ اسی تسلسل میں جنوری ۲۰۱۶ء کے دوران سعودی عرب نے ممتاز شیعہ عالم نمرباقر کو پھانسی دے دی اور حالات میں کشیدگی برق رفتاری سے بڑھ گئی۔ جس کے نتیجے میں سعودی عرب اسلحے کی خریداری کی ایک حددرجہ مہنگی اور ناقابلِ تصور دوڑ میں اُتر گیا۔ امریکی اسلحہ سازی کی صنعت کو ہوش ربا فائدہ ہوا اور سعودی معیشت پر ناقابلِ بیان بوجھ پڑگیا۔
یہ امر بھی ملحوظ رہنا چاہیے کہ سعودی عرب پر امریکا اور اسرائیل کا ناقابلِ تصور دبائو مختلف سمتوں سے بڑھ رہا تھا، جس کے رَدعمل کے طور پر سعودی عرب اور امریکا میں دُوری کا عمل شروع ہوگیا۔ اسی طرح امریکا، سعودی عرب پر دبائو ڈال رہا تھا کہ وہ تیل کی قیمتیں کم کرے، جسے سعودی عرب نے تسلیم کرنے سے انکار کیا، جس سے ان کے درمیان تنائو اور فاصلہ مزید بڑھ گیا۔اس فضا میں سعودی قیادت کوشش کر رہی تھی کہ امریکا کے اثرات سے آزادہوکرعلاقے میں کردار ادا کرے۔ سعودی عرب کی اس داخلی سوچ کا چین کو ادراک تھا اور اس نے اس پس منظر میں ایک انقلابی اور تعمیری کردار ادا کرکے سعودی عرب اور ایران کو اپنے تعلقات درست کرنے کی طرف متوجہ کیا۔ ان ممالک کی قیادتوں کو باور کرایا کہ تصادم کے بجائے اشتراک اور تعاون کے ذریعے علاقے کے مسائل کو حل کریں اور اپنے وسائل کو اپنے ممالک کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کریں۔ اس کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ میں امریکا کا اثرورسوخ کم ہوگا، اسرائیل کے عزائم اور منصوبوں پر ضرب پڑے گی اور علاقائی ممالک کو اپنا کردار ادا کرنے کا موقع میسر آئے گا۔
اس میں پاکستان کے لیے بھی نئے امکانات کا بڑا سامان ہے، بشرطیکہ ہم اپنی خارجہ پالیسی کو امریکا کے اثرات سے آزاد کروا کے، اپنے قومی مفادات اور مشرق وسطیٰ کی ترقی کے لیے استعمال کریں۔ تاہم، پیش نظر رہے کہ پاکستان کے لیے ایک پہلو خطرے کا بھی ہے ،جس کے بارے میں ضروری سوچ بچار کرنا اور ایران سے تعلقات میں جس کا خیال رکھنا ضروری ہے، اور وہ یہ کہ اس اُبھرتے ہوئے نظام میں وسط ایشیا کی ریاستوں اور خود افغانستان کا عرب دُنیا تک رسائی کے لیے پاکستان پر انحصار کم ہوجائے گا اور وہ ایران کے راستے براہِ راست رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ ہمیں اس سلسلے میں بہت سوچ سمجھ کر پالیسی بنانا ہوگی اور ایران سے خصوصیت سے معاملات طے کرنا ہوں گے۔
آج، جب کہ یہ منظر بدلا ہے تو اس کے تسلسل میں سعودی حکومت نے شام کے ساتھ معاملات کو معمول پر لانے کے لیے بڑا قدم اُٹھایا ہے۔ یہ چیز بھی امریکا اور اسرائیل کے لیے سفارتی پسپائی کا عنوان ہے۔
بہرحال، سعودی عرب اور ایران کے ان تعلقات کی بحالی کا مثبت اثر نہ صرف مسلم دُنیا بلکہ عالم انسانیت پر بھی پڑے گا۔ اسرائیلی ریاست کو قائم کرنے کے لیے برطانیہ، امریکا اور یورپ نے جس راستے کا انتخاب کیا تھا،اس کا بڑامقصد دُنیا کے اعصاب مرکز کو مسلسل اضطراب کا شکار کرکے وہاں کے قدرتی وسائل کا استحصال کرنا اور اسلحے کی مہنگی صنعت کے ذریعے یہاں کی دولت بٹورنا تھا۔ اس کے برعکس چین کی سفارت کاری میں صاف نظر آرہا ہے کہ اس کا مقصد اس علاقے کو دھونس پر مبنی امریکی اثرات سےبچاکر عمومی تجارتی مفادات کو فروغ دینا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک انسانیت کش جنگی صنعت کے مقابلے میں یہ تجارتی دھارے کا سفر ہے۔
مناسب ترین صورت یہ ہے کہ مستقبل میں ایسی تباہ کن صورتِ حال سے بچنے کے لیے سعودی عرب اور ایران آگے بڑھ کر پاکستان اور ترکیہ کے تعاون سے ’اسلامی تعاون تنظیم‘ (OIC) کو ایک نیا، فعال اور مؤثر بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
دوسرے یہ کہ تاریخ کے اوراق کو تو ہم تبدیل نہیں کرسکتے مگر عوامی اور سماجی سطح پر آپس کے تعلقات میں بہتری اور خوش گواری کے لیے، فرقہ وارانہ مغائرت سے بلند ہوکر حیات بخش راستے تلاش کریں اور ایک نئے عہد کا آغاز کریں۔
تیسرا یہ کہ سائنس، ٹکنالوجی، ابلاغیات اور انتظامیات کے میدانوں میں شان دار پیش رفت کا آغاز کریں۔
چوتھا یہ کہ چین کی قومی سلامتی کو برقرار رکھتے ہوئے، وہاں ایغور مسلمانوں کے تعلیمی، تہذیبی، معاشی اور اختیاراتی مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ اس طرح مسلم دُنیا میں اطمینان کی لہر پروان چڑھانے کی غرض سے دُور اندیشی پر مبنی اقدام کی طرف متوجہ کریں۔
پانچواں یہ کہ افغانستان میں امن، سکون، شہری زندگی کی بحالی اور جنگی اثرات سے نجات دلانے کے لیے یہ تینوں ممالک پاکستان سے مل کر کردار ادا کریں۔