مسلم دنیا یوں توبہت سے داخلی اور خارجی مسائل اور بحرانوں سے دوچارہے، لیکن ان میں سب سے زیادہ تکلیف دہ صورتِ حال وہ ہے، جس میں خود ہم وطن اور ہم نسل مسلمان ، اپنے ہی ہم وطنوں سے ظلم وتشددکارویہ اختیارکرتے ہیں، اور پھراس بہتے ہوئے خون اور تباہ کی جانے والی زندگیوں کواپنی قومی ترقی کا وسیلہ بتاتے ہیں۔ اس سفاکی اور شرمناکی کے لیے بے غیرتی اور غداری سے کم لفظ استعمال کرنا ممکن نہیں۔
عالم اسلام اور خصوصاً عالم عرب میں اسرائیل کے نام سے ایک ناجائز حکومت کے ہاتھوں امریکا ویورپ جو حیوانی کھیل کھیل رہے ہیں، اسی سے ملتاجلتاحیوانی اور غیرانسانی رویہ، ہندوقوم پرست ریاست ہندستان اپنائے ہوئے ہے۔ اس نے ایک جانب ۶۸برس سے کشمیرکے مسلمانوں کو محکوم بناکرظلم کے پہاڑتوڑے ہیں تودوسری جانب بنگلہ دیش کی مسلم ریاست کواپنی غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے کی کوشش کی ہے۔ اس سیاہ رات کے اندھیرے گہرے ہوتے جارہے ہیں۔ بنگلہ دیش کے محبِ وطن، اسلام دوست اور مسلم قوم پرست بنگلہ دیشی اپنے ملک میں ایک عذاب سے گزررہے ہیں، جس کا ماسٹرمائنڈ بھارت ہے اور اس کے ایجنڈے کو بنگلہ دیش میں نافذ کرنے کا ذریعہ عوامی لیگ اور اس کی مددگارتنظیمیں ہیں۔
عوامی لیگ نے دسمبر۲۰۰۸ء میں اقتدارحاصل کرنے کے بعد سے بنگلہ دیش کی قومی سلامتی کو بھارتی مفادات کے سامنے سرنڈرکرنے کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں، جن کی بنگلہ دیش کے دُوراندیش اور اپنی قومی آزادی واسلامی تہذیبی تشخص کو تحفظ دینے والے افراد اور تنظیموں نے کھل کر مخالفت کی۔ جواب میں بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے زیر اثربنگلہ دیش کی متعدداین جی اوزاور عوامی لیگی حکومت نے بڑے پیمانے پر ریاستی مشینری کو استعمال کرکے ان آوازوں کو کچلنے کا راستہ اختیار کیاہے۔
حکومت نے سب سے پہلے بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے خلاف عدالتی ڈرامے کا آغازکیا۔ اُس کے بزرگ رہنماؤں اور فعال کارکنوں کو گرفتارکرکے نام نہاد ’انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل‘ (ICT) قائم کرکے مقدمات چلانے شروع کیے۔ اس خصوصی عدالت پر بنگلہ دیش کے قانونی حلقوں، راست فکر دانش وروں اور صحافتی تنظیموں نے زبردست احتجاج کیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ (HRW) اور دیگربین الاقوامی تنظیموں نے اس انتقامی ڈرامے کو مستردکردیا۔ مگر عوامی لیگی حکومت نے پوری ڈھٹائی سے ، سزاے موت سنائے جانے والے فیصلوں کا نہ صرف اعلان کیا، بلکہ ۱۲دسمبر۲۰۱۳ء کو عبدالقادرمُلّا کو پھانسی دے بھی دی۔ اس عدالتی قتل عام پر دنیابھر نے برملا احتجاج کیا، لیکن یہ انتقامی عدالتی عمل رک نہیںسکا۔اس وقت بھی جماعت اسلامی اور بنگلہ دیشن نیشنلسٹ پارٹی (BNP)کے قائدین کو سزائیں سنائی جارہی ہیں، اور انھیں اپنے دفاع کے لیے آزادانہ طور پر بنیادی عدالتی سہولیات تک بھی میسر نہیں ہیں۔
یادرہے کہ اس نام نہاد عدالت (ICT) کے چیف جج مسٹرنظام کی شرمناک گفتگوکو ۲۰۱۲ء میں سکائپ سے ریکارڈکر کے اکانومسٹ لندن اوربنگلہ دیش کے اخبارات نے شائع کرکے بتایاکہ یہ عدالت حکومت کی ہدایات پر فیصلے کررہی ہے نہ کہ قانون اور عدل کے مسلّمہ اصولوں کے مطابق۔
اسی طرح بنگلہ دیش میں اظہارراے کے ذرائع پر بری طرح پابندیاں عائد ہیں، جس کی چندمثالیںدیکھ کراندازہ ہوسکتا ہے کہ وہاں جبروظلم کاراج کس طرح اپنے شہریوں کی زندگی کو عذاب بنارہاہے۔ ۲۷؍اپریل ۲۰۱۰ء کو نجی شعبے میں سب سے بڑے ٹی وی نیٹ ورک ’چینل ون‘ کو اس لیے بندکردیاگیاکہ وہ حزب اختلاف کی خبریں نشرکرتا ہے۔ ۲۲؍اگست ۲۰۱۱ء کواطلاعاتی ترسیل کے سب سے مؤثرنجی ادارے ’شیرشا نیوز‘(Sheersha News) کوکام کرنے سے روک دیا، اور اس کا سبب بھی حزبِ اختلاف کی خبریں نشرکرنا تھا۔ ۱۶ فروری کوحکومت کی بھارت نواز پالیسیوں پرتنقیدکرنے والے’سوناربلاگ‘ کو بندکردیاگیا۔ ۱۱؍اپریل ۲۰۱۳ء کو بنگلہ دیش میں حزبِ اختلاف کے سب سے بڑے حامی اخبار اماردیش (Amar Desh) کے مدیرکواس بنا پر گرفتارکرکے تشددکانشانہ بنایاگیاکہ انھوں نے نام نہادعدالتی جج مسٹرنظام کی غیرقانونی اور غیراخلاقی گفتگوکو شائع کیا تھا، حالانکہ یہ گفتگو اکانومسٹ لندن بھی شائع کرچکاتھا۔ ۱۴؍اپریل۲۰۱۳ء کو حکومتی مسلح ایجنسیوںنے اسلامی قوتوں کے سب سے بڑے اور قدیم اخبار سنگرام کے دفاترپرحملہ کردیا۔
۵مئی ۲۰۱۳ء کو ’ڈی گنتا ٹیلی وژن‘ (Diganta TV) اور ’اسلامک ٹیلی ویژن‘ پر اس لیے پابندی عائد کردی کہ انھوں نے ’حفاظتِ اسلام‘ تنظیم کے پُرامن احتجاجی دھرنے کو کچلنے کے حکومتی قتلِ عام کی تصاویر دکھائی تھیں۔حفاظت اسلام نامی تنظیم‘ جو علما اور دینیطالب علموں پرمشتمل ہے، کے پُر امن احتجاج ۵مئی ۲۰۱۳ء کو ۱۰ہزار مسلح اہل کاروں کے ذریعے کچل دیاگیا۔ بیسیوں طالب علموں کی لاشوں کا آج تک نشان نہیں ملا۔صحافیوں کو ڈرانے، اخبارات کی اشاعت کو معطل کرنے اور میڈیا کی نشریات کوخراب کرنے کا کھیل پوری قوت سے جاری ہے۔ اس جارحیت پر۱۶قومی اخبارات کے ایڈیٹروں نے ایک مشترکہ بیان میں حکومتی کارروائیوں کی مذمت کی اور مطالبات پیش کیے، جنھیں بھارتی کٹھ پتلی حکومت نے مستردکردیا۔درحقیقت عوامی لیگ حکومت کی جڑ ڈھاکہ میں نہیں، نئی دہلی سے خوراک حاصل کرتی ہے۔
ایک غیرآئینی اور غیر اخلاقی حکومت کی سربراہ حسینہ واجد درحقیقت اپنے والد شیخ مجیب کی جابرانہ انتقامی پالیسیوں کاتسلسل ہے، جس نے فروری۱۹۷۵ء میںپورے بنگلہ دیش میں سیاسی پارٹیوںکوختم کرکے ایک پارٹی کی حکومت قائم کی تھی اور پھر۷جون ۱۹۷۵ء کودستورمیں چوتھی ترمیم کرکے ایک پارٹی اورایک اخبارکا کالاقانون نافذ کیا گیاتھا۔ ان اقدامات کے لیے اسے دہلی سرکارکی سرپرستی حاصل تھی۔ اسی طرح جولائی ۲۰۱۴ء میں مولانا مودودی کی کتب کو مساجد اور تعلیمی اداروں کی ۲۴ہزار لائبریریوں میں رکھنے پر پابندی لگا دی گئی۔پھر حسینہ واجد نے ۱۷؍اگست ۲۰۱۴ء کو دستور میں ۱۶ویں ترمیم کا مسودہ کابینہ سے منظور کرایاہے، جس کے نتیجے میں اعلیٰ عدلیہ ، عملاً اس طرح حکومت کے رحم و کرم پر ہوگی کہ ججوں کا مواخذہ عدالتی کمیشن نہیں کرے گا بلکہ براہِ راست پارلیمنٹ ہی ججوں کی قسمت کا فیصلہ کیا کرے گی۔
بنگلہ دیش کوایک بڑے جیل کی شکل دے کرہزاروں سیاسی بلکہ سماجی کارکنوں تک کو جیلوں میں ٹھونسا جا چکاہے۔ بنگلہ دیش میں اس وقت ۶۲۹پولیس اسٹیشن ہیں جہاں پر صرف ۲۰۱۲ء میں ۲لاکھ ۲۹ہزار ۵سو ۸۵ افراد کو گرفتارکرکے مختلف اوقات میں تشددکانشانہ بنایاگیا۔ ۲۰۱۳ء میں یہ تعداد دگنا ہوگئی۔ جیلوں میںقیدبزرگوں ، لیڈروں اور کارکنوں کوقانونی ، طبی اور بنیادی سہولتیں تک میسرنہیں۔
جماعت اسلامی اور طالب علموں کی تنظیم اسلامی چھاتروشبر (اسلامی جمعیت طلبہ) کے ہزاروں کارکنوں کو جیلوں میں بند‘ سیکڑوں کارکنوں کو زخمی اور درجنوں کارکنوں کو گولی مار کر قتل کیاجاچکاہے، جب کہ سیکڑوں کارکن طالب علموں کو تعلیمی اداروں سے بے دخل کیاجاچکاہے۔
اسلامی چھاتروشبرکے کارکنوں پر تشددکے لیے RAB (ریپڈایکشن بٹالین)، بارڈرگارڈز بنگلہ دیش(BGB)، پولیس اورعوامی لیگ کے غنڈاعناصراورچھاترولیگ کے دہشت گردوںکی مشترکہ ٹیم متحرک ہے۔ شبر کے جن سیکڑوں کارکنوںکوزخمی کیاگیاہے ان میں سے بہت سوں کو زندگی بھرمعذوربنانے کے لیے ‘ ان کی دونوں ٹانگوں پر قریب سے گولیاں مار کر اپاہج کردیاگیاہے، یاپھرکہنیوںمیں گولیاں مارکرہاتھوں سے معذورکردیاگیاہے۔ اس نوعیت کے خوف ناک تشدداورباقاعدہ اندازسے ظلم کی مثالیں عصرِ حاضر میں کہیں نہیں دیکھی گئیں۔ مگرافسوس ہے کہ دنیا میں اس کے خلاف آوازبلندنہیں ہورہی۔
گذشتہ برس ایک طالب علم دلاورحسین کو، جو اسلامی چھاتروشبرسے تعلق رکھتے ہیں، ڈھاکا سے گرفتار کرکے ۳۵۲ مقدمات میں ملوث کیا۔ ۴۵روز تک تشددکے دوران ان کے ہاتھ اور پاؤںکے ناخن جڑسے اکھاڑ لیے گئے اور اتنا تشددکیاکہ دلاور کے جسم کا آدھاحصہ مفلوج ہوگیاہے۔ یہ ایک مثال نہیں بلکہ ایسی بہت سی مثالیں ہیں کہ جنھیں بیان کرتے ہوئے روح کانپ اُٹھتی ہے۔
۲۰۱۴ء کے جون میں اسلامی چھاتری شنگھستا (اسلامی جمعیت طالبات) کی۳۲کارکنان کو بھی توہین آمیزطریقے سے گرفتارکرکے جیلوںمیں بندکردیاگیا۔
معلومات کے اس برق رفتارزمانے میں یہ سب کچھ ہورہاہے اور کوئی اس ظلم کا ہاتھ روکنے والانہیں۔ یہ سب کچھ بنیادی انسانی حقوق کی پامالی اور بے حرمتی ہے اور انسانی حقوق کا تعلق سرحدوں کی قید سے مشروط نہیں۔ اس لیے دنیا کے کونے کونے سے عوامی لیگی کٹھ پتلی حکومت کے اس ظلم کے خلاف آواز بلندہونی چاہیے۔ نام نہاد انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کو توڑاجائے۔ گرفتارشدگان کو رہاکیاجائے۔ جعلی انتخاب کی پیداوارحکومت کو برطرف کرکے نئے انتخابات کرائے جائیں اور بھارتی تسلط سے بنگلہ دیش کے عوام کو آزادی دلائی جائے۔
مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودی ۲۵ستمبر ۱۹۰۳ء کو اورنگ آباد، حیدر آباد دکن میں پیدا ہوئے۔ اسی طرح آپ کے آباو اجداد کا تعلق حضرت ابو اسحاق شامی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھوں تشکیل پانے والے چشتیہ سلسلے سے تھا۔ آپ کے بزرگوں میں سے خواجہ محمد (۹۴۳ء-۱۰۲۰ء) ان مجاہدین میں شامل تھے، جنھوں نے سلطان محمود غزنوی کے سومنات پر آخری اور فیصلہ کن معرکے میں شرکت کی سعادت حاصل کی تھی۔ ازاں بعد انھی کی اولاد سے خواجہ قطب الدین مودود چشتی (م:۱۱۳۳ء ) نے خدمت دین کے چراغ روشن کیے۔ مولانا مودودی کے والد سید احمد حسن کے نانا محسن الدولہ احمد کو انگریزوں نے ۱۸۵۷ء میں جنگ آزادی میں حصہ لینے کی پاداش میں پھانسی دے دی۔
مولانا مودودی نے ہوش سنبھالتے ہی جدید اور دینی تعلیم کے سرچشموں سے فیض پانے کے مواقع پائے۔ اس ضمن میں ان کے والد سید احمد حسن مودودی کی توجہ اور فکر مندی قابل ذکر تھی۔ والد کے ہاتھوں تربیت کے نتیجے میں مودودی صاحب کی اخلاقی، دینی، علمی اور سماجی شخصیت اس سانچے میں ڈھلی کہ وہ بیسویں صدی میں مفکرِ اسلام، مفسرِ قرآن اور قائد تحریک اسلامی کی حیثیت سے جانے اور پہچانے گئے۔ جنھوں نے لاکھوں لوگوں کے دلوں کی دنیا بدلی، افکار و خیالات کی دنیا میں حق بینی اور حق گوئی کا بیج بویا۔
مولانا مودودی نے لڑکپن میں جس حادثے یا المیے کے نتیجے میں اپنی ذات میں تحقیق و تحریر کی جس بے پناہ قوت کا اندازہ لگایا، اس صورتِ حال کا تعلق کم و بیش ہمارے موجودہ عہد سے ملتا جلتا تھا۔ وہ یہ کہ تب اسلام اور مسلمانوں کو ایک جانب تو افریقا اور ترکی میں کچلا جا رہا تھا۔ دوسری جانب ہندوئوں اور یورپی عیسائی سامراجیوں کی جانب سے یہ کہا جا رہا تھا کہ اسلام اور مسلمان خون آلود ماضی اور خون آلود لائحہ عمل رکھتے ہیں۔ اس حد درجہ سفاکانہ پراپیگنڈے کا جواب دینے کے لیے ۲۴برس کی عمر میں مولانا مودودی نے الجہاد فی الاسلام لکھنا شروع کی۔ جو بعدازاں ایک معرکہ آرا کتاب کی صورت میں اہل علم کی تحسین اور توجہ کا مرکز بنی، اور اسی کتاب نے علامہ محمداقبال کو مولانا مودودی کی جانب متوجہ کیا۔ اس موقعے پر اقبال نے فرمایا تھا: اسلام کے نظریہ جہاد اور اس کے قانون صلح و جنگ پر یہ ایک بہترین تصنیف ہے، اور میں ہر ذی علم کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اس کا مطالعہ کرے۔ اقبال ہی نے بعد ازاں چودھری نیاز علی خاں کے وقف (پٹھان کوٹ،پنجاب) میں منتقل ہونے کی دعوت دی۔
مولانا مودودی نے جہاں اسلام کے دیگر پہلوؤں پر قلم اٹھایا اور عصرِ حاضر کے چیلنجوں کا جواب دیا، وہیں انھوں نے جنوری ۱۹۴۲ء میں قرآن کریم کی تفسیر تفہیم القرآن لکھنا شروع کی۔ اور ۳۰برس پانچ ماہ کی مدت میں ۷جون ۱۹۷۲ء کو اسے مکمل کیا۔
کسی بھی زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کرنا ایک مشکل کام ہے، لیکن جب معاملہ قرآن کریم جیسی الہامی کتاب اور الٰہی پیغام کا ہو، تو اس ذمہ داری کی نزاکت بے حدو حساب ہوجاتی ہے۔ مولانا مودودی سے قبل قرآن کریم کے اردو میں اکثر ترجمے لفظی سانچوں کے قریب رہ کر کیے گئے تھے، مگر ان میں کمی یہ تھی کہ قرآن کا مفہوم، پڑھنے والے تک منتقل نہیں ہو پاتا تھا۔ تاہم، مولانا فتح محمد جالندھری مرحوم کا ترجمہ کئی حوالوں سے بہتر اور عام فہم تھا۔ لیکن اسے عام فہم بنانے کے لیے انھوں نے قوسین میں بہت سی اضافی عبارتوں کا سہارا لیا تھا۔ جب کہ مولانا مودودی نے ترجمہ قرآن کے لیے قرآنی آیات کی ترجمانی کا راستہ اختیار کیا، اور کلام الٰہی کی حدود کا حد درجہ خیال رکھا کہ اسی دائرے میں رہتے ہوئے کلام پاک کو اردو خواں طبقے تک منتقل کریں۔ ماہرین لسانیات کے بقول مولانا مودودی نے قرآن سمجھنے کے لیے اپنے قاری کی بے پناہ دست گیری کی ہے۔ ترجمے میں روانی، ربط، عام فہم اور بامحاورہ بنا کر پیش کرتے ہوئے دل کش انداز اختیار کیا ہے۔
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن عظیم کی تفسیر تفہیم القرآن لکھتے وقت، مولانا مودودی نے کلاسیکی اسلوب تفسیر سے ذرا ہٹ کر، لیکن تفسیری روایت اور قرآن و حدیث کے متن سے جڑ کر تفسیری خدمت انجام دی ہے۔ تفسیر لکھنے سے پہلے انھوں نے اعلیٰ پاے کے تفسیری ادب اور امہات تفاسیر کا مطالعہ کیا۔ احادیث نبوی کے ہزاروں صفحات پر پھیلے لوازمے کا مطالعہ کر کے موضوعات کا اشاریہ بنایا، مسلم تاریخ اور فقہی لٹریچر کی بنیادی کتب کے مباحث اور کلامی معرکوں کو ذہن نشین کیا۔ دوسری جانب اپنے آپ کو عصرِ حاضر سے جوڑتے ہوئے مغربی افکار و نظریات اور برسرپیکار عالمی و مقامی تحریکات مثلاً :نسل پرستی، سرمایہ داری، اشتراکیت، لادینیت، استعماریت، اور نام نہاد آزاد خیالی کے نام پر سٹراند پیدا کرتی عریانی و فحاشی کے سرچشموں کو گہرائی میں جا کر پرکھا۔
مولانا مودودیؒ خود لکھتے ہیں: ’’اس سلسلے میں میں نے ویدوں کے تراجم لفظ بلفظ پڑھے۔ بھگوت گیتا لفظ بلفظ پڑھی۔ ہندو شاستروں کو پڑھا۔ بدھ مذہب کی اصل کتابیںجو انگریزی میں ترجمہ ہوئی ہیں، ان کو پڑھا۔ بائبل پوری پڑھی اور پادری ڈومیلو کی تفسیر کی مدد سے پڑی۔ یہودیوں کی اپنی کتابوں کو پڑھا۔ تالمود کے جتنے حصے مل سکے وہ سب پڑھے‘‘۔ یاد رہے مولانا مودودیؒ کو اردو، عربی، انگریزی اور فارسی پر تو دسترس حاصل تھی، اس کے ساتھ انھوں نے جرمن زبان بھی سیکھی تھی۔
اس کے پہلو بہ پہلو خود مسلمانوں میں در آنے والی آبا پرستی، الحاد، انکار حدیث، فرقہ پرستی اور اس کے ساتھ بدترین بغاوت انکارِ ختم نبوت کے کانٹوں بھرے جنگل کو صاف کرنے کے لیے چومکھی لڑائی لڑی۔ اس جان جوکھم معرکے اور اس مطالعاتی عمل کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کی تفسیر لکھنے کا عمل بھی جاری رکھا۔ اس دوران میں مولانا مودودی پے درپے گرفتاریوں کا نشانہ بنے اور سزاے موت کا بھی سامنا کیا، جو بعد میں عمر قید میں تبدیل ہو گئی۔
تفہیم القرآن کے لکھے جانے سے پہلے اور پھر بعد میں بہت سے علماے کرام نے بھی کمال درجہ محنت، اور تفقہ فی الدین کے ساتھ تفسیر قرآن کی خدمات انجام دیں۔ اس کے باوجود تفہیم القرآن کو دوسری تفاسیر سے متعدد حوالوں سے امتیاز حاصل ہے۔ پروفیسر خورشید احمد کے مطابق: تفہیم القرآن میں اس نقطۂ نظر سے قرآن کا مطالعہ کیا گیا ہے کہ یہ کتاب صحیفۂ ہدایت ہے، جو ہر فرد اور پوری امت میں غور و فکر اور مطالعے کا ایک خاص انداز پیدا کرنا چاہتا ہے۔ تفہیم نے اس امر کی وضاحت پیش نظر رکھی ہے، کہ قرآن کریم، زمانے کے تغیر اور تبدیلی کے تقاضوں کا پورا لحاظ رکھتے ہوئے ایک مکمل ضابطۂ حیات فراہم کرتا ہے۔ اس مجموعی نقشے کے مطابق انسانی معاشرتی زندگی کے پورے دھارے کا رخ موڑنے کی قوت پیش کرتا ہے۔
تفہیم القرآن کے اوراق پر پھیلے مباحث سے یہ پیغام روشنی کی طرح پھوٹتا ہے کہ قرآن کریم ایک الہامی اور عظیم کتاب ہونے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ ابدی ہدایت اور پیغام دعوت ہے۔ دعوت قبول کرنے والوں کے لیے زندگی بھر کی جدوجہد کا ایک واضح اور نکھرا ہوا نصاب ہی نہیں بلکہ صراطِ مستقیم کا زادِ راہ بھی ہے۔
اسی طرح تفہیم القرآن نے سورتوں کے باہمی ربط اور سورتوں کے متن میں پوشیدہ وحدت کو بیان کرنے کے لیے کسی فلسفیانہ تقریر کے بجاے صاف اور عام فہم انداز میں نمایاں طور پر قاری کے سامنے پیش کیا ہے۔ مولانا مودودی نے ہر سورت کے پس منظر اور مرکزی موضوعات کو آغاز میں بیان کر کے قاری کے لیے سہولت دے کرقرآن فہمی سے اس کی وابستگی کو مضبوط بنا دیا ہے۔
تفہیم القرآن کا ایک بڑا کمال یہ ہے کہ اس نے فقہی مسائل کو اس توازن، اعتدال اور وسیع البنیاد رنگ میں حل کیا ہے کہ امت میں اتحاد اور بقاے باہم کی خوشبو بکھرتی ہے۔ انھوں نے کسی ایک فقہ کے وکیل صفائی بننے کے بجاے قرآن، سنت، حدیث اور اکابرین ملت اسلامیہ کے متفق علیہ فیصلوں اور افکار کو قارئین کے سامنے پیش کیا ہے۔
تفہیم القرآن میں تقابل ادیان کا موضوع خصوصی شان کا حامل ہے۔ اس ضمن میں مولانا مودودی نے اسرائیلی خرافات سے آلودہ روایات سے دینی لٹریچر، خصوصاً تفسیری ادب کو پاک کرنے کا کارنامہ انجام دینے والوں میں اہم مقام پایا ہے۔
تفہیم القرآن میں قدیم اور جدید کا توازن برقرار رکھا گیا ہے۔ مولانا مودودی نہ تو جدیدیت کا رنگ اختیار کر کے مغرب زدہ معذرت خواہی کی راہ پر چلے اور نہ قدامت سے چمٹ کر عصرِ حاضر سے بے خبر رہے۔ اس نازک سفر میں انھوں نے قرآن و سنت کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھا اور جدید عہد کے سوالوں کا جرأت ایمانی اور دانش برہانی سے مدلل اور شافی جواب دیا۔
اس عظیم تفسیر کے انسائی کلوپیڈیا محاسن کو ایک مختصر مضمون میں سمیٹا نہیں جا سکتا۔ تاہم، یہ امر پیش نظر رہے کہ اب تک اس تفسیر کے ۶ لاکھ ۴۰ ہزار سے زیادہ سیٹ ( ۳۸لاکھ اور ۶۰ہزار جلدوں سے زیادہ ) اردو میں شائع ہو چکے ہیں، جب کہ اس کے مکمل ترجمے دنیا کی حسب ذیل زبانوں میں شائع ہو چکے ہیں: انگریزی، ترکی، بنگالی، روسی، فارسی، پشتو، جرمن اور سندھی۔ جن زبانوں میں ترجمے تکمیل کے قریب ہیں، ان میں ہندی، چینی، جاپانی، انڈونیشنی، ہسپانوی اور عربی شامل ہیں۔
تفہیم القرآن کی اس مقبولیت کا اعتراف کرتے ہوئے حضرت مولانا انور شاہ کاشمیری کے شاگرد مولانا محمد چراغ نے فرمایا تھا:ـ تفہیم القرآن کا پیرایۂ بیان اس قدر سلجھا ہوا ہے کہ انسان دورِ حاضر کے فتنوں کی اصل حقیقت سے اچھی طرح آگاہ ہو جاتا ہے۔ ملّاواحدی نے اعتراف کیاـ: ’’مولانا مودودی سمجھنے اور سمجھانے دونوں اوصاف سے بہرہ ور ہیں۔ سمجھنے کا وصف تو کسی نہ کسی قدر اکثر لوگوں میں ہوتا ہے، مگر سمجھانے کے وصف سے بہت کم لوگ نوازے جاتے ہیں۔ تفہیم القرآن جدت دکھاتی ہے، تاہم حدود اور اعتدال کے دامن کو پکڑے رہتی ہے‘‘۔ پروفیسر زینب کا کاخیل کے مطابق: ’’مولانا مودودی کا اصل مقصد کلام الٰہی کی صحیح ترین تفسیر بیان کرنا ہے، نہ کہ کسی خاص مکتب فکر کی تقویت یا آبیاری کرنا‘‘۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین جسٹس محمد افضل چیمہ نے کہا: تفہیم القرآن کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں نہ صرف طرز استدلال میں نہایت معقول اور سائنٹی فک انداز اختیار کیا گیا ہے بلکہ مناسب مقامات پر فلسفہ، طبیعیا ت، علم الکیمیا، فلکیات اور دیگر جدید سائنسی علوم کا براہِ راست تجزیہ کرتے ہوئے بات کی گئی ہے۔ جس سے ایک متجسس طالب علم کی علمی حس مطمئن ہوتی اور شکوک و شبہات کا ازالہ ہو جاتا ہے۔
فیڈرل شریعت کورٹ کے چیف جسٹس ڈاکٹر تنزیل الرحمان نے اعتراف کیا ہے: تفہیم القرآنمیں مولانا مودودی اس عہد کی زبانِ علم میں، اس عہد کے لوگوں سے مخاطب ہیں۔ میں نئی نسل کو تفہیم کے مطالعے کا مشورہ دوں گا۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج والدین کے لیے، اپنی اولاد کو پیش کرنے کے لیے تفہیم القرآن ایک بہترین تحفہ ہے، جو ایمان کو مضبوط، اسلامی تہذیب کو بارآور اور صراطِ مستقیم کے سفر کو آسان بنا دیتا ہے۔
بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی جس ابتلا و آزمایش سے گزررہی ہے، اس کی جڑیں سرزمینِ بنگلہ دیش میں نہیں بلکہ اس طوفانِ کرب و بلا کا مرکز سرحدپار موجود ہے۔ بنگلہ دیش میں اس نفرت کے سوداگر عوامی لیگ، بنگالی قوم پرست، مقامی ہندو اور سیکولر طبقات ہیں۔ حسب ذیل تحریر ملاحظہ کیجیے:
میں ذاتی سطح پر جماعت اسلامی کے بارے میں ۱۹۷۱ء کی مناسبت سے کوئی اچھی راے نہیں رکھتا۔ لیکن اس لمحے جب بنگلہ دیش میں دانش وروں اور صحافیوں کی ایک بڑی تعداد جماعت اسلامی پر سنگ باری کر رہی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ مجھے سچ کہنے میں بزدلی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔
بہت سے مقامات پر، بہت سے لوگوں سے ملنے کے بعد مجھے یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے کہ عوامی لیگ خود دہشت گردانہ کارروائیاں کرکے، ان جرائم کا الزام جماعت اسلامی پر دھر رہی ہے۔ مزید یہ کہ ، بے شمار تحریروں اور تصانیف کے مطالعے کے بعد، جب میں [بنگلہ دیش کے حوالے سے] بھارت کے موجودہ طرزِعمل کا جائزہ لیتا ہوں، تو مجھے صاف دکھائی دیتا ہے کہ ۱۹۷۱ء میں [مشرقی پاکستان پر مسلط کردہ] جنگ بھارت کی مسلط کردہ تھی، اور جو فی الحقیقت بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ (RAW) کا پراجیکٹ تھا۔ اسی طرح جب میں عوامی لیگ اور ذرائع ابلاغ کو جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈا کرتے ہوئے دیکھتا ہوں، تو مجھے اس یلغار کے پسِ پردہ محرکات کو سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی کہ بنگلہ دیش میں فی الواقع جماعت اسلامی ہی وہ منظم قوت ہے، جو بھارت کی بڑھتی ہوئی دھونس اور مداخلت کو روکنے میں اہم کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ گویا کہ ۱۹۷۱ء میں ہماری آزادی کے حصول کی جدوجہد کے دشمن، آج ہماری آزادی کے تحفظ کے بہترین محافظ ہیں۔ میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جماعت اسلامی کی سیاسی جدوجہد کی مخالفت کرنے کے باوجود میں محسوس کرتا ہوں کہ اس پارٹی کا وجود ہماری آزادی کے تحفظ کے لیے اشد ضروری ہے۔ بھارت نے ہمارے صحافیوں، سیاست دانوں، قلم کاروں اور فوجیوں کو خرید رکھا ہے، لیکن میں واشگاف کہوں گا کہ وہ جماعت اسلامی کو خریدنے میں ناکام رہا ہے۔
یہ تحریر بنگلہ دیش کے سابق وزیر بیرسٹر شاہ جہاں عمر کی ہے، جو ایک ماہر معاشیات بھی ہیں اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے مرکزی رہنما اور خالدہ ضیا کے مشیر بھی ۔ پاکستان سے علیحدگی کی جدوجہد میں حصہ لینے کے اعتراف میں بنگلہ دیش نے انھیں دوسرے سب سے بڑے قومی اعزاز ’بیراتم‘ سے نوازا ہے۔ انھوں نے یہ احساسات اپنے فیس بک اکائونٹ پر ۱۸جنوری ۲۰۱۴ء کو مشتہرکیے۔ انھی بیرسٹر شاہ جہاں عمر نے عبدالقادر کی شہادت کے دو روز بعد ۱۴دسمبر ۲۰۱۳ء کو لکھا تھا:
وہ لوگ جو عبدالقادر کی شہادت پر مٹھائیاں تقسیم کر رہے تھے، ان کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ نہ تھی، اور یہ لوگ ایک غیرانسانی اور وحشیانہ عمل کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ لیکن ان ایک ہزار پاگلوں کے مقابلے میں ۱۰۰ سے زیادہ مقامات پر لاکھوں لوگوں نے عبدالقادر کی شہادت پر غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کرکے اس ابدی سچائی کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا کہ وہ ایک مظلوم انسان تھا، جسے انتقام کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔
بنگلہ دیش جماعت اسلامی درحقیقت اُس نام نہاد ’امن کی آشا‘ کے سامنے ایک آہنی چٹان ہے، جسے ڈھانے کے لیے برہمنوں ، سیکولرسٹوں اور علاقائی قوم پرستوں کے اتحادِ شرانگیز نے ہمہ پہلو کام کیا ہے۔ اس ضمن میں ان کا حقیقی سرمایہ جھوٹا پروپیگنڈا اور اسلام کی تضحیک ہے۔ بھارتی کانگریس کے لیڈر اور گذشتہ ۱۰ برسوں سے حکمران وزیراعظم من موہن سنگھ اس مناسبت سے ایک دل چسپ کردار ہیں۔ جنھوں نے: بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کو بے دست وپا کرنے، مولانا مودودیؒ کی کتابوں پر پابندی عائد کرنے اور دو قومی نظریے کی حامی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کو دیوارسے لگانے کے لیے حسینہ واجد حکومت کی بھرپور سرپرستی کی۔ دوسری جانب خود بھارت میں مسلم نوجوانوں کو جیل خانوں اور عقوبت کدوں میں سالہا سال تک بغیر کسی جواز اور عدالتی کارروائی کے ڈال دینے کا ایک مکروہ دھندا جاری رکھا ہے۔ افسوس کہ پاکستانی اخبارات و ذرائع ابلاغ اس باب میں خاموش ہیں۔
بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے حوالے سے بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کے اس بیان کو پڑھیے، جو انھوں نے بنگلہ دیش میں اپنے مجوزہ دورے سے قبل۳۰جون ۲۰۱۱ء کو نئی دہلی میں بنگلہ دیش اور بھارت کے ایڈیٹروں سے گفتگو کرتے ہوئے دیا تھا:
بنگلہ دیش سے ہمارے اچھے تعلقات ہیں، لیکن ہمیں اس چیز کا لحاظ رکھنا پڑے گا کہ بنگلہ دیش کی کم از کم ۲۵ فی صد آبادی اقراری طور پر جماعت اسلامی سے وابستہ ہے اور وہ بہت زیادہ بھارت مخالف ہے۔ اس لیے بنگلہ دیش کا سیاسی منظرنامہ کسی بھی لمحے تبدیل ہوسکتا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ یہ عناصر جو جماعت اسلامی پر گرفت رکھتے ہیں، بنگلہ دیش میں کب کیا حالات پیدا کردیں۔
وزیراعظم من موہن سنگھ کی اس ’فکرمندی‘ اور بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کو کچلنے کی خواہش کو معلوم نہیں پاکستانی وزارتِ خارجہ کس نظر سے دیکھتی ہے، تاہم عوامی لیگ، حسینہ واجد اور ان کے ساتھیوں کی حیثیت محض ایک بھارتی گماشتہ ٹولے کی سی ہے۔ جسے بنگلہ دیش کے مفادات سے زیادہ بھارتی حکومت کی فکرمندی کا احساس دامن گیر ہے۔ گذشتہ تین برسوں پر پھیلے ہوئے عوامی لیگی انتقام کو پاکستانی سیکولر طبقے ۱۹۷۱ء کے واقعات سے منسوب کرتے ہیں، حالانکہ بدنیتی پر مبنی اس یلغار کا تعلق حالیہ بھارتی پالیسی سے ہے۔ وہ پالیسی کہ جس کے تحت بھارت اپنے ہمسایہ ممالک میں نوآبادیاتی فکر اور معاشی و سیاسی بالادستی کو مسلط کرنا چاہتا ہے۔ بنگلہ دیش کی حکومت یہ کام کھل کر ، کررہی ہے اور پاکستان میں یہ ظلم ’مادرپدر آزاد میڈیا‘ اور وفاقی حکومت میں گھسے کچھ عناصر انجام دے رہے ہیں جس کے تحت انجام گلستان صاف دیکھا جاسکتا ہے۔
ظلم اور وہ بھی انصاف کے نام پر، ہمیشہ فسطائی اور ظالم قوتوں کا ہتھیار رہا ہے۔ جب ایسے ظلم کو میڈیا اور سامراجی قوتوں کی پشت پناہی حاصل ہوجائے تو پھر سوال اور جواب کی گنجایش کم ہی رہ جاتی ہے۔
ایسا ہی ظلم بنگلہ دیش میں ۶۵سالہ عبدالقادر مُلّا، اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی کے ساتھ روا رکھا گیا ہے، جنھیں ۵فروری ۲۰۱۳ء کو قانون کی من مانی تاویل کرتے، من پسند عدالت سجاتے اور دفاع کے جائز حق سے محروم رکھتے ہوئے عمرقید سنائی گئی۔ وہ اس ظلم پر اپیل کے لیے سپریم کورٹ گئے، مگر ساڑھے سات ماہ تک بنگلہ دیشی سپریم کورٹ نے عجیب و غریب تاریخ رقم کی۔ بنگلہ دیش کے معروف قانون دان محمد تاج الاسلام کے بقول: ’’جنوبی ایشیا کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ ایک ٹرائل کورٹ کی طرف سے سنائی گئی سزا کو سپریم کورٹ نے بڑھا کر سزاے موت میں تبدیل کردیا ہے‘‘۔ مگر یہ تماشا ہوا ہے۔
عبدالقادر مُلّا کا جرم کیا ہے؟ یہی کہ جب ۱۹۷۱ء میں، دنیا بھر کی برادری میں ایک تسلیم شدہ ملک پاکستان کے مشرقی حصے میں ہندستانی فوج کی زیرنگرانی تربیت یافتہ دہشت گردوں کی مسلح کارروائیوں نے زورپکڑا، تب ملک توڑنے، بھارتی افواج کا ساتھ دینے، پُرامن شہریوں کو قتل کرنے اور قومی اِملاک کو تباہ کرنے والی مکتی باہنی کے مقابلے میں مسلح طور پر نہیں، بلکہ محض تبلیغ اور افہام و تفہیم کے ذریعے پُرامن رہنے اور شہری زندگی کو بحال کرنے کی جدوجہد میں عبدالقادر نے اپنی بساط کے مطابق کھلے عام رابطہ عوام مہم چلائی۔ اُس وقت وہ ایم اے کے طالب علم تھے۔ ان کا یہی ’جرم‘ آج ۴۲سال بعد ’جنگی جرم‘ بلکہ ’انسانیت کے خلاف جرم‘ بنا دیا گیا۔ عوامی لیگ نے اپنی گرتی ہوئی سیاسی ساکھ کو سہارا دینے، ہندو آبادی کو خوش کرنے اور بھارت نواز سیکولر قوتوں سے تعاون لینے کی غرض سے اس مقدے بازی کا ڈراما رچایا۔
جوں ہی عبدالقادر مُلّا کو جنگی جرائم کی نام نہاد عدالت نے سزاے عمر قید سنائی، حسینہ واجد سپریم کورٹ میں گئیں اور کہا:’’عبدالقادر کو عمرقید کے بجاے سزاے موت دی جائے‘‘۔ اور سیکولر لابی کے وہ کارکن جو سزاے موت کو ویسے ہی ختم کرنے کا علَم تھامے نظر آتے ہیں، وہ بھارتی سرکاری پشت پناہی (یہ الزام نہیں بلکہ اس بات کی گواہی بھارت کے معتبر اخبارات بھی پیش کرچکے ہیں) میں ’’عمرقید نہیں، سزاے موت چاہیے‘‘ کے نعرے بلند کرتے ہوئے سڑکوں پر آگئے۔ سڑکوں پر کیا آئے، خود حکومت کے اہل کاروں نے، عوامی لیگ کے عہدے داروں اور کابینہ میں بیٹھے وزیروں نے، اداکاروں اور گلوکاروں نے، پولیس کی حفاظت میں، اس مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ پکنک کا ماحول پیدا کرنے کے لیے شاہ باغ چوک کو سرکس کا گڑھ بنایا گیا، اور آخرکار ۱۸ستمبر ۲۰۱۳ء کو اپنی ’روشن دماغ‘ عدلیہ سے یہ فیصلہ لے لیا کہ ’’عبدالقادر مُلّا کو سزاے موت دی جائے‘‘۔
برطانوی دارالامرا کے رکن لارڈ الیگزنڈ ر چارلس کارلائل نے ۲۰ستمبر ۲۰۱۳ء کو مسٹر ایچ ای ناوی پلے، ہائی کمشنر اقوام متحدہ براے انسانی حقوق، سوئٹزرلینڈ کے نام خط میں تحریر کیا:
میں نے برطانیہ کے کُل جماعتی گروپ براے انسانی حقوق کے رکن کی حیثیت سے ۷جون ۲۰۱۳ء کو آپ کی توجہ اس امر کی جانب مبذول کرائی تھی کہ بنگلہ دیش میں انسانی حقوق کی صورتِ حال سخت ابتر ہے، اور یہ حالات روز بروز بدترین شکل اختیار کرتے جارہے ہیں۔ اس ضمن میں خاص طور پر عرض کیا تھا کہ اس المیے کا سب سے بڑا محرک وہاں پر انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کا قیام اور اس کی کارروائی ہے۔
مجھے ذاتی طور پر آپ کے اس طرزِعمل پر حیرت ہوئی کہ آپ نے گذشتہ دنوںجنیوا میں خطاب کرتے ہوئے انسانی حقوق کی بے حُرمتی کے مراکز کے طور پر شام، مصر اور عراق کا نام تو لیا، مگر عجیب بات ہے کہ انسانی حقوق کی ان قتل گاہوں میں آپ نے بنگلہ دیش کا نام نہیں لیا۔
[بنگلہ دیش کے] عام انتخابات سے صرف چند ماہ پیش تر ، یہاں کی حکومت اپنے سیاسی مخالفین کو ہراساں کرنے اور گرفتاریوں کی یلغار کرنے کے لیے پورا زور لگارہی ہے۔ جسے بڑھاوا دینے کے لیے اس حکومت کے قائم کردہ کرائمز ٹریبونل کے جانب دار اور سیاسی طور پر متحرک ججوں نے اپنے کھیل سے، بنگلہ دیشی معاشرے کو بدامنی کی آگ میں دھکیلنے کا پورا بندوبست کررکھا ہے۔ صفائی کے گواہوں کا اغوا اور دیگر غیرمہذب اقدامات نے عدالتی کارروائی جیسے جائز اور مقدس عمل کو تباہی سے دوچار کرا دیا ہے۔
جیساکہ میں نے اپنے جون کے خط میں آپ کو لکھا تھا کہ ’جرائم کے خلاف عالمی انصاف‘ کو لازماً جرائم کے خلاف محض قومی سطح پر دائرۂ سماعت میں نہیں آنا چاہیے، بلکہ اس کے ساتھ لازمی طور پر عالمی سطح پر انسانی حقوق کے معیارِ انصاف اور کارروائی کے عالمی معیار اور شفافیت کے مسلّمہ اصولوں پر بھی پورا اُترنا چاہیے۔ اس ضمن میں کسی بھی کم تر معیار کو اپنانے کا مطلب عدل و امن کے مجموعی ہدف کو ضائع کرنے کے ہم معنی ہوگا۔
تاہم، اس ہفتے عبدالقادر مُلّا کے مقدمے میں بنگلہ دیش سپریم کورٹ کے فیصلے نے سخت پریشانی سے دوچار کیا ہے، جس میں سپریم کورٹ نے گذشتہ عرصے میں دائر کی گئی درخواست پر ایک قدم آگے بڑھ کر عمرقید کو سزاے موت میں تبدیل کردیا ہے اور اپیل کا حق بھی سلب کرلیا گیا ہے۔
بنگلہ دیشی حکومت نے اقوام متحدہ کے گروپ براے ’من مانی نظربندی‘ کی گذشتہ برس کی اس رپورٹ کو مکمل طور پر نظرانداز کردیا ہے، جس میں یہ بات واضح کی تھی کہ وہاں پر عالمی انصاف کی دھجیاں بکھیری جارہی ہیں اور اب اس فیصلے نے پیش قدمی کرتے ہوئے اس سزا یافتہ قیدی کے نظرثانی کے حق اپیل کو سلب کرکے بین الاقوامی ضوابط کو روند ڈالا ہے، جس کی مذمت کرنا لازم ہے۔
میں عبدالقادر مُلّا کے اس فیصلے کے بارے میں ہیومن رائٹس واچ (HRW) کے اس تجزیے کی پُرزور تائید کرتا ہوں کہ:
Bangladesh: Death Sentence Violates Fair Trial Standards, 18th September (بنگلہ دیش میں ۱۸ستمبر کو سزاے موت کا فیصلہ مقدمات کے منصفانہ معیار کی خلاف ورزی ہے)۔
انھوں نے بجا طور پر اس معاملے کی نشان دہی کی ہے کہ [بنگلہ دیش حکومت کی جانب سے زیرسماعت مقدمات کے بارے] بعد از وقت قوانین کی تبدیلی، مقدمے کی شفاف کارروائی کے بین الاقوامی قانونی نظریے کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔
[امریکی] وزیرخارجہ جان کیری کی جانب سے وزیراعظم حسینہ واجد اور ان کی مدّمقابل خالدہ ضیا کو بات چیت کے ذریعے معاملات کا حل نکالنے کی دعوت خوش آیند ہے۔ تاہم، پاے دار امن کے لیے ضروری ہے کہ ’انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل‘ کو لازماً بین الاقوامی نگرانی میں اپنی کارروائی کرنی چاہیے۔
لارڈ الیگزنڈر کارلائل، نہ پاکستانی ہیں اور نہ جماعت اسلامی کے رکن اور کارکن وغیرہ، بلکہ وہ ایک پارلیمنٹیرین، مذہباً غیرمسلم اور پیشے کے اعتبار سے قانون دان ہیں۔انھوں نے اس مقدمے کو خالصتاً قانونی، انسانی اور اخلاقی بنیادوں پر دیکھا تو چیخ اُٹھے کہ: ’’یہ کیا ظلم ہو رہا ہے؟‘‘ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خود ہمارے ہاں کے انسانی حقوق کے علَم برداروں کی حسِ انصاف کو کیا ہوا، اور خود ہمارے حکمرانوں اور مقتدر طبقوں کی قومی حمیت کو کیوں گھن لگ گیا ہے؟
عبدالقادر مُلّا ۱۴؍اگست ۱۹۴۸ء کو ضلع فریدپور (مشرقی پاکستان حال بنگلہ دیش) کے ایک گائوں میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۶۸ء میں راجندر کالج، فریدپور سے گریجویشن کے بعد ڈھاکہ یونی ورسٹی میں ایم اے میں داخلہ لیا۔ اسی دوران یونی ورسٹی کے ایک ہاسٹل میں اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم منتخب ہوئے۔ وہ ۱۶دسمبر ۱۹۷۱ء سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد کبھی اپنے ملک سے باہر نہیں گئے۔ اسی معاشرے میں کھلے عام رہے اور عملی زندگی میں بطور صحافی خدمات انجام دیں۔ معروف اخبار روزنامہ سنگرام ڈھاکہ کے ایگزیکٹو ایڈیٹر، اور بنگلہ دیش نیشنل پریس کلب کے رکن منتخب ہوئے۔
۵فروری کو جب نام نہاد عدالت نے عبدالقادر کو ڈیڑھ گھنٹے پر محیط وقت میں مقدمے کا فیصلہ سنایا تو اس روز بی بی سی لندن کے نمایندے کے مطابق: ’’عبدالقادر نے بلندآواز میں ’اللہ اکبر‘ کا نعرہ بلند کیا اور ججوں کو مخاطب کرکے کہا: ’’ایسا غیرمنصفانہ فیصلہ کرنے پر تمھیں کوئی اچھے نام سے یاد نہیں کرے گا‘‘۔ اور ان کے وکیل بیرسٹر عبدالرزاق نے کہا: ’’یہ عدالت کے رُوپ میں ایک شکاری چڑیل ہے‘‘۔ تاہم، جب باہر نکلے تو برطانوی اخبار دی انڈی پنڈنٹ کے نمایندے فلپ ہشز کے بقول: ’’عبدالقادر مُلّا، عدالت کے فیصلے پر واضح طور پر خوش نظر آرہے تھے، اور انھوں نے عدالت سے نکلتے وقت فتح کا نشان بلند کیا‘‘۔(۱۹فروری ۲۰۱۳ء)
جیساکہ بتایا جاچکا ہے کہ ان کی عمرقید پر بھارت نواز لابی اور بنگالی قوم پرست سیکولر لابی نے ’سزاے موت دو‘ مہم چلانا شروع کردی اور آخرکار ۱۷ستمبر کو سزاے موت کا فیصلہ لے لیا۔ ۲۰ستمبر کو عبدالقادر مُلّا کے بیٹے نے جیل میں ان سے ملاقات کے بعد بتایا کہ: ’’میرے ابا نے کہا ہے، بیٹا! میں کتنا خوش نصیب ہوں کہ لڑکپن سے جس موت کی دعا مانگا کرتا تھا، اللہ کی خوش نودی سے وہ موت میرے سامنے ہے۔ اس پر غم نہ کرو، بلکہ اس کی قبولیت کے لیے رب کریم سے دعا مانگو‘‘۔ آج صورت یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں یہ خبر ہر خاص و عام میں گرم ہے کہ: ’’عوامی لیگ کم از کم عبدالقادر مُلّا کو تو سب سے پہلے سزاے موت ضرور دے گی‘‘___ مگر کیوں؟ جواب بڑا واضح ہے کہ ملک میں بدامنی کا ایک ایسا دور شروع ہوجائے کہ عوامی لیگ کی حکومت جو اگلے ماہ اپنی مدت ختم کررہی ہے وہ براہِ راست راے دہندگان سے بچ جائے اور وہاں کی عدلیہ، فوج اور ٹیکنوکریٹ کا ایک عبوری دورِحکومت ان انتقامی کارروائیوں کو جاری رکھ سکے۔
جماعت اسلامی کے خلاف مقدمات کے فیصلے تو اُوپر تلے آہی رہے ہیں، اور اب ۲۲ستمبر کو اسی کرائمز ٹریبونل نے بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے ایک بزرگ رہنما عبدالعلیم کے خلاف بھی ’۱۹۷۱ء میں انسانیت کے خلاف جرائم‘ کی سماعت مکمل کرلی ہے اور کسی بھی وقت یہ فیصلے کا اعلان کرسکتی ہے۔ یاد رہے، عبدالعلیم، بنگلہ دیش کے مرحوم صدر ضیا الرحمن کی کابینہ میں وزیر رہ چکے ہیں۔
۲۱ستمبر کو حسینہ واجد نے معروف صحافی ڈیوڈ فراسٹ (الجزیرہ ٹی وی) کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ: ’’خالدہ ضیا کی بی این پی سے ہمارا نظریاتی اختلاف ہے، اس لیے ہم کبھی آپس میں نہیں مل سکتے‘‘۔ یہ نظریاتی اختلاف تین دائروں میں دیکھا جاسکتا ہے: l بی این پی ، بنگلہ دیش کے دستور میں اسلامی شقوں کو لانے اور ان کا تحفظ کرنے والی پارٹی ہے، جب کہ عوامی لیگ نے آتے ہی ان دستوری شقوں اور قوانین کو ختم کردیا ہے۔lبی این پی، بنگلہ دیشی قومیت کی علَم بردار ہے (جس کا مطلب دو قومی نظریہ ہے)، جب کہ عوامی لیگ بنگلہ قوم پرستی کی پرستار ہے، جو دو قومی نظریے کی نفی ہے۔ lبی این پی، بھارت کے ساتھ برابری کی سطح پر اور بنگلہ دیش کے اقتدارِاعلیٰ کے تحفظ کی علَم بردار ہے لیکن عوامی لیگ، بھارتی حکومت کے سامنے خود سپردگی اور تابع مہمل رہنے کے لیے بے تاب ہے۔
یہ ہیں وہ نظریاتی اختلافات، جن کے نتیجے میں جماعت اسلامی اور بی این پی آپس میں حلیف ہیں اور عوامی لیگ ان کی دشمنی کے لیے ہرلمحے اور ہرقیمت پر مائل بہ جنگ ۔
’۹۱سالہ پروفیسر غلام اعظم کو دینی تو سزاے موت چاہیے، مگر صحت اور عمر کا خیال کرتے ہوئے ہم ۹۰سال قید کی سزا سناتے ہیں، جو تسلسل کے ساتھ جاری رہے گی یا پھر ان کی موت تک برقرار رہے گی‘۔
یہ الفاظ فضل کبیر، جہانگیر حسن، انوارالحسن پر مشتمل نام نہاد ’جنگی جرائم کے ٹربیونل‘ کے فیصلے میں درج ہیں، جو ۱۵جولائی ۲۰۱۳ء کو سنایا گیا۔اس عدالتی ڈرامے کے اسٹیج کو بنگلہ دیش کے اہلِ دانش اور قانون دانوں نے واضح طور پر مسترد کردیا تھا، تاہم بین الاقوامی سطح پر بھی اس کی قانونی اور اخلاقی حیثیت کو کسی نے مان کر نہ دیا۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
علاوہ ازیں یورپ، ملایشیا اور ترکی وکلا کی تنظیموں نے اس سارے سلسلے کو قانون کے ساتھ صریح مذاق قرار دیا، اور اسی مضحکہ خیز ’عدالت‘ نے بنگلہ دیش ہی نہیں، بلکہ عالمِ اسلام کے ایک بزرگ، عالمِ دین اور رہنما پروفیسر غلام اعظم کے لیے عملاً سزاے موت کی سزا کا اعلان کیا ہے۔
پروفیسر غلام اعظم ۷نومبر ۱۹۲۲ء کو پیدا ہوئے۔ زمانۂ طالب علمی میں تحریکِ پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ۱۹۵۰ء میں ڈھاکا یونی ورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے، پھر بنگلہ زبان تحریک میں حصہ لیا اور ۱۹۵۵ء میں جماعت اسلامی سے وابستہ ہوئے۔ انھوں نے پاکستان میں دعوتِ دین، دستور سازی، بنیادی انسانی اور جمہوری حقوق کی بحالی کے لیے بھرپور جدوجہد کی اور متعدد بار قیدوبند کی آزمایشوں سے گزرے۔غلام اعظم صاحب کی جماعت اسلامی میں شمولیت کے بعد، مشرقی پاکستان جماعت اسلامی کی ترقی اور پھیلائو کی رفتار میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ اُن کی پُرکشش اور دل نواز شخصیت نے اپنوں اور غیروں کے دلوں کو جس طرح فتح کیا، یہی خوبی دشمن کے لیے کانٹا بن گئی۔
یکم سے ۲۴ مارچ ۱۹۷۱ء تک عوامی لیگ نے غیربنگالیوں کا قتلِ عام کیا ، اُردو بولنے والوں کی عورتوں کی سرعام بے حُرمتی کی، ہزاروں بہاری ، پنجابی اور پٹھان مسلمانوں کو چُن چُن کر ذبح کیا۔ پھر ۲۵مارچ ۱۹۷۱ء کو پاک آرمی نے جوابی آپریشن کیا تو، پروفیسر غلام اعظم ان مرکزی شخصیات میں شامل تھے، جنھوں نے ’امن کمیٹی‘ قائم کرکے شہری زندگی کی بحالی کے لیے سرتوڑ کوششیں کیں۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے بھارتی فوج کے پشت پناہ مداخلت کاروں کی دہشت گردانہ کارروائیوں کی پروا نہ کرتے ہوئے، مشرقی پاکستان کے تمام اضلاع اور اکثر تحصیل ہیڈکوارٹرز کا دورہ کیا۔ پروفیسر صاحب کے رفیقوں میں بزرگ سیاست دان نورالامین، فضل القادر چودھری، مولوی فریداحمد، خواجہ خیرالدین، شفیق الاسلام وغیرہ شامل تھے۔ ان کاوشوں سے حالات میں تبدیلی آئی، مگر بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے مشرقی پاکستان میں بھیجی جانے والی بھارتی آلۂ کار مکتی باہنی اور کمیونسٹ تخریب کاروں کی مدد سے پاکستان توڑنے کے اس موقع سے پورا فائدہ اُٹھایا۔ بھارتی جرنیلوں کی کتابیں گواہ ہیں کہ وہ مارچ سے دسمبر تک پوری طرح مشرقی پاکستان میں علیحدگی پسندوں کی مدد میں مصروف تھے۔ آخرکار ۱۶دسمبر ۱۹۷۱ء کو پاکستان توڑنے کا منصوبہ مکمل کیا۔
پروفیسر غلام اعظم ۲۱دسمبر ۱۹۷۱ء کو مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان (بعد میں بنگلہ دیش) جارہے تھے کہ بھارتی افواج نے مشرقی پاکستان پر حملہ کردیا، اس لیے ان کا طیارہ کولمبو سے واپس مغربی پاکستان آگیا۔ اس کے بعد وہ ۱۹۷۴ء تک پاکستان میں رہے۔ ۱۸؍اپریل ۱۹۷۳ء کو مجیب حکومت نے اُن کی شہریت منسوخ کردی۔ ایک طویل عرصہ جلاوطنی گزارنے کے بعد پروفیسر صاحب ۱۱؍اگست ۱۹۷۸ء کو ڈھاکہ واپس چلے آئے اور ۲۰برس تک عدالتی جنگ لڑنے کے بعد اعلیٰ عدلیہ نے پروفیسر صاحب کی شہریت بحال کی، اور وہ جماعت اسلامی کے امیر منتخب ہوئے۔
۱۱جنوری ۲۰۱۲ء کو بھارت نواز حسینہ واجد حکومت نے انھیں گرفتار کیا اور خراب صحت کے باوجود پہلے پہل طبی سہولت دینے سے انکار کیا۔ پھر انھیں قرآن پاک تک اپنے پاس رکھنے کے لیے عدالتوں میں درخواست دائر کرنا پڑی ، اور چھے ماہ کی جدوجہد کے بعد قرآن،سیرتِ رسولؐ ، حدیث کے انتخاب پر مشتمل اور دعائوں پر مبنی ایک ایک کتاب فراہم کی گئی۔
ان کے مقدمے کی کارروائی کو عالمی اخبارات نے بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ برطانیہ اور ترکی سے وکلا کی تنظیموں نے غلام اعظم صاحب کے مقدمے کی پیروی کے لیے آنا چاہا، مگر نام نہاد ٹربیونل نے انھیں اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ غلام اعظم صاحب کی طرف سے ۲ہزار گواہوں نے عدالت میں پیش ہونے کے لیے اپنے نام درج کرائے، مگر صرف ۱۲؍افراد کو گواہی کی اجازت دی گئی اور ان میں سے بھی متعدد افراد کو دھمکایا ڈرایا گیا، حتیٰ کہ ایک ہندو گواہ شکھو رنجن کو اغوا کرلیا۔ ایک اطلاع کے مطابق اُسے اغوا کرکے کلتّے لے جایا گیا ہے۔ دوسری جانب استغاثے پر گواہ پیش کرنے کے لیے کوئی پابندی نہ لگائی۔ یہی نہیں بلکہ انڈین ایجنسی ’را‘ (RAW) کے ایجنٹ شہریار کبیر کو ایک معزز اتھارٹی کے طور پر تسلیم کیا۔ یہ وہی فرد ہے، جسے پاکستان میں ہیومن رائٹس کمیشن کے بھارت نواز پروپیگنڈا مینیجرز نے گذشتہ برس بلاکر لیکچر کرائے تھے۔
پروفیسر غلام اعظم صاحب کو اس گرفتاری کے دوران اپنے مرحوم بھائی کی نمازِ جنازہ میں شرکت تک کی اجازت نہ دی گئی، جب کہ گرفتاری سے قبل پروفیسر صاحب کے بیٹے بریگیڈیئر جنرل عبداللہ اعظم کو بغیر کسی وجہ کے فوج سے برطرف کردیا گیا۔پروفیسر غلام اعظم کی اس سزا نے پورے بنگلہ دیش کو ہلا کر رکھ دیا، مگر وزیراعظم حسینہ واجد نے ۱۶جولائی کو پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’ہم خوش ہیں کہ غلام اعظم کو سزا ملی ہے۔ ہمیں اُمید ہے کہ ہم اپنی مدتِ حکومت میں سزائوں پر عمل درآمد کرائیں گے۔ میں ججوں کی جرأت کو سلام پیش کرتی ہوں کہ انھوں نے عالمی اور مقامی دبائو کو مسترد کردیا ہے، اور یہ ہماری بہت بڑی قومی کامیابی ہے‘‘۔ یہ وہ ’کامیابی‘ ہے جس کی کوئی اخلاقی اور قانونی حیثیت نہیں ہے، مگر افسوس تو پاکستان کے حکمرانوں اور دانش وروں پر ہے۔ حکومت اور دفترخارجہ اس پر کوئی ردعمل نہیں دے رہے، جب کہ پروفیسر صاحب کو سزا دی گئی ہی اس جرم کی بنا پر ہے کہ ’’انھوں نے ۱۹۷۱ء میں پاکستان کا ساتھ دیا‘‘___ اور پاکستان ہے کہ خاموش!
اگر فیصلے کو پڑھا جائے تو وہ تمام تر اخباری رپورٹوں پر مشتمل ہے۔ یاد رہے کہ اُس وقت ملک پر مارشل لا نافذ تھا اور سنسرشپ کے باعث پروفیسر صاحب کے حکومت وقت پر تنقیدی بیانات کی اشاعت ممکن نہ تھی۔ پھر غلام اعظم صاحب پر براہِ راست الزام لگانے کے بجاے، جماعت اسلامی کو ’مجرم‘ قرار دینے کے لیے استغاثے کے مخالفانہ سیاسی بیانات سے مقدمے کو سجایا گیا ہے۔ درحقیقت یہ فیصلہ پروفیسر صاحب کی زندگی سے کھیلنے اور آخرکار جماعت اسلامی، آج کی جماعت اسلامی کے لیڈروں اور لٹریچر پر پابندی لگانے کا فیصلہ ہے۔
وہ لوگ جو آج یہاں اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں، چاہے وہ اسٹیبلشمنٹ ہو یا حکومتی کارندے، انھیں یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ مقدمے بنگلہ دیش کی نمایشی حکومت کے مقدمے نہیں، بلکہ یہ بھارت کے سیاسی پروپیگنڈے اور فوجی یلغار کا ایک محاذ ہیں۔ آپ دیکھیں پہلے یہ مقدمے دو، پھر چار، اس کے بعد ۱۱؍افراد پر چلنے شروع ہوئے۔ اب ان کا دائرہ ان لوگوں تک پھیلا دیا گیا ہے، جو امریکا یا برطانیہ کے شہری بن چکے ہیں۔ جس نام نہاد بنگلہ دیشی ایکٹ کی بنیاد پر یہ ٹربیونل بنایا گیا ہے اس کی یہ شق قابلِ غور ہے: ’’یہ ٹربیونل ہر اس فوجی، دفاعی یا رضاکار فرد یا گروہ پر مقدمہ چلانے کا اختیار رکھتا ہے، جس نے بنگلہ دیش کی سرزمین پر جنگی جرم کیا، چاہے وہ کسی بھی قومیت سے تعلق رکھتا ہو‘‘۔ اور پھر یہ پے درپے مقدموں کے جعلی فیصلے مستقبل کے ڈرامے کا رُخ دکھاتے ہیں۔بنگلہ دیش تو محض ایک دکھلاوا ہے، اصل ڈائریکٹر بھارت ہے۔
پروفیسر غلام اعظم صاحب نے حق کی شہادت دے کر اپنا فرض ادا کردیا ہے۔ کیا اس شہادت کی شہادت دینے والے کسی غیبی مدد کا انتظار کریںگے یا قافلۂ حق میں شہادتِ حق ادا کریں گے!
۱۷جولائی کو اسی خانہ ساز عدالت نے بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل علی احسن محمد مجاہد کو سزاے موت سنائی۔ سزاے موت کا اعلان سننے کے بعد وہ پُرسکون انداز سے کھڑے ہوئے اور اعلان کرنے والے سے مخاطب ہوکر کہا: ’’آپ کا فیصلہ سو فی صد بددیانتی پر مبنی ہے اور میں سو فی صد بے گناہ ہوں۔ ہاں، میرا ایک جرم ہے اور وہ یہ کہ میں اسلامی تحریک کا کارکن ہوں‘‘۔
علی احسن محمد مجاہد گذشتہ دورِ حکومت میں مرکزی وزیر کی حیثیت سے شاندار کارکردگی کے باعث بنگلہ دیش کی بیوروکریسی اور پالیسی ساز اداروں اور دانش وروں کی نگاہوں میں ایک دیانت دار، پُرعزم، محنتی اور معاملہ فہم رہنما کی حیثیت سے اُبھرے ہیں۔ اُن کی یہ متاثر کن کارکردگی حسینہ واجد حکومت کو ہضم نہ ہوسکی۔
اس سال کے آغاز سے فیصلے سنائے جارہے ہیں۔ سب سے پہلے ۲۱جنوری کو جماعت اسلامی کے رہنما ابوالکلام آزاد کو سزاے موت سنائی گئی۔ اس کے بعد اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل عبدالقادر ملّا کو ۵فروری کو عمرقید کی سزا سنائی گئی۔ ۲۸فروری کو جماعت کے مرکزی رہنما اور بنگلہ دیش کے مقبول ترین مذہبی راہنما دلاور حسین سعیدی کو سزاے موت دی گئی۔ قیدیوں کو شرمناک حالت میں رکھا گیا ہے۔ غلام اعظم صاحب ۸فٹ کی کوٹھڑی میں تھے۔ انھیں ڈھاکے سے دُور دوسری جیل میں منتقل کر کے اب علی احسن مجاہد اس میں لائے گئے ہیں۔ غلام اعظم صاحب نے کہا: ایسا لگ رہا ہے کہ قبر سے نکلا ہوں۔
علی احسن مجاہد کی سزا کے بعد اب مولانا مطیع الرحمن نظامی کے مقدمے کی سماعت شروع ہوگئی ہے۔ اس کے بعد ابوالکلام محمد یوسف، مولانا عبدالسبحان، ازہرالاسلام اور میرقاسم علی کے مقدمات پر فیصلے ہوں گے۔
یہ فیصلے اور یہ ڈرامے ایک طرف، مگر پاکستان کادفترخارجہ کہہ رہا ہے کہ ’’یہ بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ ہے‘‘ حالانکہ یہ تمام فیصلے پاکستان پر الزام تراشی کا دفتر اور متحدہ پاکستان کی حمایت کا ’جرم‘ کرنے والوں کے لیے پھانسی کے اعلانات ہیں۔ اس بے رحمانہ انداز سے مظلوموں کے زخموں پر نمک پاشی کرکے مسلم لیگ کی حکومت نے پاکستان اور تحریکِ پاکستان سے مذاق کیا ہے۔
آج ۲۸فروری اور پاکستان میں صبح سوا بارہ بجے کا وقت ہے۔ بنگلہ دیش میں ’جنگی جرائم‘ کے ٹربیونل کا ایک جج فضلِ کبیر اپنے دوساتھیوں کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا ہے، سامنے کٹہرے میں مفسرِقرآن، بنگلہ دیش میں لاکھوں دلوں کی دھڑکن ، جماعت اسلامی کے نائب امیر دلاور حسین سعیدی کھڑے ہیں، جن کا چہرہ مطمئن اور دائیں ہاتھ میں قرآن کریم ہے۔
جج کے رُوپ میں انصاف کا قاتل ۱۲۰ صفحے کا فیصلہ پڑھتے ہوئے کہتا ہے: ’’دلاور حسین کے خلاف ۲۷،اور حمایت میں ۱۷ گواہ پیش ہوئے۔ چونکہ ۲۰ الزامات میں سے آٹھ الزامات ثابت ہوئے ہیں، اس لیے:He will be hanged by neck till he is dead. (انھیں پھانسی کے پھندے پر اس وقت تک لٹکا رہنے دیا جائے جب تک یہ مر نہیں جاتے)۔
اگلے ہی لمحے ڈھاکا میں کمیونسٹوں کا اخبار ڈیلی سٹار انٹرنیٹ ایڈیشن میں سرخی جماتا ہے: Sayeed to be hanged ۔ اور انڈین ٹیلی ویژن NDTV مسرت بھرے لہجے میں بار بار یہ سرخی نشر کرتا ہے: Senior Jamaat leader gets death sentence۔
علامہ دلاور حسین سعیدی دعا کے لیے ہاتھ اُٹھاتے ہیں اور چپ چاپ، جلادوں کے جلو میں پھانسی گھاٹ جانے والی گاڑی کی طرف مضبوط قدموں کے ساتھ چل پڑتے ہیں۔
۱۹۷۶ء سے دلاور حسین سعیدی، اسلامیانِ بنگلہ دیش کے دلوں پر راج کرنے اور قرآن کا پیغام سنانے والے ہر دل عزیز خطیب ہیں، جو متعدد بار پارلیمنٹ کے رکن بھی منتخب ہوچکے ہیں۔ انھیں ۲۹ جون ۲۰۱۰ء کو حسینہ واجد کی حکومت نے گرفتار کیا۔ ڈھائی برس کے عدالتی ڈرامے کے بعد آج سیاہ فیصلہ اس حال میں سنایا کہ پورا ڈھاکا شہر اور دوسرے بڑے شہر ’بارڈر گارڈ بنگلہ دیش‘ (بی جی بی) اور ’ریپڈ ایکشن بٹالین‘(آر اے بی) کی سنگینوں تلے کرفیو کا منظر پیش کر رہے تھے۔ دوسری طرف شاہ باغ میں بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے زیراہتمام مظاہرہ پروگرام چل رہا ہے کہ ’’مارچ میں جماعت کے لیڈروں کو پھانسی دو‘‘۔ فیصلے کے اعلان کے بعد احتجاجی مظاہرہ کرنے والے اسلامی جمعیت طلبہ کے ۳۰ کارکنوں کو گولی مار کر شہید کر دیا، سیکڑوں کو زخمی اور ہزاروں کو گرفتار کرلیا گیا۔
پنڈت جواہر لال نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی اپنی مجلسوں میں کہا کرتی تھی: ’’میری زندگی کا حسین ترین لمحہ وہ تھا، جب میں نے پاکستان میں مداخلت کر کے بنگلہ دیش بنایا‘‘۔ لیکن دوسری طرف عجب معاملہ ہے۔ سابق مشرقی پاکستان کی عوامی لیگ ۱۹۷۱ء کے المیے کو اپنا کارنامہ قرار دیتی ہے، ۴۰برس بعد ان لوگوں کو قابلِ گردن زنی قرار دیتی ہے، جنھوں نے دشمن ملک کے حملوں کے خلاف اپنے وطن کا دفاع کیا۔ آج کے بنگلہ دیش میں اسی اندرا کے پرستار حکمران پاکستان کا نام لے کر اسلام اور اسلامیانِ بنگلہ دیش کے خلاف آگ اُگل رہے ہیں اور اسلامی سوچ کے حامل افراد کو خون میں نہلا رہے ہیں۔ ۱۰ فی صد ہندو آبادی ان بلوائیوں کا مؤثر حصہ ہے اور دہلی نواز عوامی لیگ کے کارکن اور نیم فوجی تنظیمیں ان کی پشت پناہ ہیں۔ ہندستانی خارجہ پالیسی سے حرارت حاصل کرنے والے ذرائع ابلاغ اس صورتِ حال کو دہکتے الائو میں تبدیل کرنے کے لیے ہرلمحہ مستعد ہیں۔
نومبر ۲۰۱۲ء میں جب نام نہاد ’انٹرنیشنل وار کرائمز‘ ٹربیونل ( ICT) کے صدر جج نظام الدین کی غیراخلاقی، غیرقانونی اور دھاندلی آمیز گفتگو کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوٹا، اور اس نام نہاد ’جج‘ کو استعفا دے کر گھر کی راہ لینا پڑی تو نئی دہلی اور ڈھاکہ میں حکمران پارٹیوں نے بہ عجلت ِتمام ایک ڈراما اسٹیج کرنے کی ٹھانی۔
سب سے پہلا کام یہ کیا کہ وہ نام نہاد، ٹربیونل‘ جو بار بار سرکاری وکلا کی حماقتوں اور خانہ ساز گواہوں کے جعلی پن کے ہاتھوں دنیابھر میں رسوا ہو رہا تھا، اس نے جماعت اسلامی کے قائدین کے خلاف جعلی مقدموں کی کارروائی کو تیز تر کر دیا، تاکہ عوامی لیگ کے ’سیکولرانصاف‘ کی مزید دھجیوں کو بکھرنے سے بچایا جاسکے۔ یوں ۲۲جنوری ۲۰۱۳ء کو جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے ایک رہنما ابوالکلام آزاد کو سزاے موت دینے کا اعلان کردیا۔ اس فیصلے سے بنگلہ دیش کی سیاسی فضا میں بھونچال آگیا۔ ملک بھر میں اس فیصلے کے خلاف مظاہرے شروع ہوگئے۔ حکومت نے ان مظاہروں سے توجہ ہٹانے اور دہشت طاری کرنے کے لیے عوامی لیگ کے کارکنوں کو مسلح کر کے گلی کوچوں میں پھیلانا شروع کر دیا، جن کی مدد کے لیے ’ریپڈ ایکشن بٹالین‘ (RAB) اور ’بارڈر گارڈ بنگلہ دیش‘ (BGB) کے باقاعدہ دستے متعین کردیے۔
ابھی یہ کش مکش جاری تھی کہ جماعت اسلامی کے دوسرے رہنما عبدالقادر کو عمربھر قید بامشقت کی سزا سنا دی۔ سزاے موت کے برعکس عبدالقادر کو عمرقید سزا سنانے کا جو مقصد تھا وہ اگلے ہی روز بے نقاب ہوگیا۔ عوامی لیگیوں، کمیونسٹوں اور ہندوئوں نے فوراً یہ مطالبہ اُٹھا دیا کہ ’عبدالقادر کو سزاے موت دی جائے، اور اس مطالبے کے لیے ڈھاکہ کے ایک چوراہے ’شاہ باغ‘ کو ان مظاہروں کا مرکز بنانا شروع کر دیا۔ دوسری طرف سوشل میڈیا پر سیکولر قوم پرست بلاگروں نے: اسلام، قرآن، رسول کریمؐ اور اللہ تعالیٰ کے حوالے سے غلیظ ترین جملے لکھنا اور پھیلانا شروع کردیے ( راقم کے لیے ان میں سے ایک جملہ بھی نقل کرنا ممکن نہیں۔ ان جملوں کو پڑھ کر خون کھولتا اور آنکھیں اشک بار ہوتی ہیں)۔ یہ کارٹونسٹ اور بلاگر ’شاہ باغ‘ مظاہروں کے نمایاں لیڈروں کے طور پر سامنے آئے۔ انھی میں سے ایک اہم بلاگر طارق شنٹو دل کا دورہ پڑنے سے بے ہوش ہوگیا، جسے شیخ مجیب الرحمن میڈیکل یونی ورسٹی ہسپتال لے جایا گیا، مگر وہ ملعون جاں بر نہ ہوسکا ۔ طارق شنٹو سبھی لوگوں کے سامنے ایڑیاں رگڑتے ہوئے مرا، لیکن حسینہ واجد نے اس کی موت کو المیہ قرار دیا اور آخرت میں نجات کے لیے دعا مانگی (روزنامہ انڈی پنڈنٹ ڈھاکہ، ۲۰فروری ۲۰۱۳ء)۔ اسی طارق شنٹو کے مرنے کو دینی جماعتوں پر قتل کے الزام کی صورت میں پھیلایا گیا۔
۱۹فروری کو کاکسس بازار میں جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کے تین کارکنوں کو سرِبازار گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔ ۱۸ فروری کو ’شاہِ باغ‘ چوک کو پُرونق بنانے کے لیے فلمی دنیا کے طائفے کو بھرپور تشہیر کے ساتھ لایا گیا جنھوں نے پاکستان اور بنگلہ دیش کی دینی جماعتوں کے خلاف زہرآلود تقریریں کیں۔ ۱۹ فروری ہی کو عوامی لیگ نے مطالبہ کر دیا کہ: ’’بنگلہ دیش کو جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ سے صاف کیا جائے‘‘۔ساتھ ہی یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ ’’مارچ ۲۰۱۳ء کے وسط تک مقدمے کو مکمل کرکے ملزموں کو پھانسی دی جائے‘‘۔
۲۰فروری کو عبدالقادر کو سزاے موت دینے کے لیے اپیل دائر کی گئی۔ اسی روز بنگلہ دیش حکومت کے وزیر بے محکمہ سرنجیت سین گپتا نے کہا: ’’ہمیں ۱۹۷۲ء کا اصل دستور بحال کرنا چاہیے (یاد رہے، اس دستور میں ایک پارٹی سسٹم اور غیرسرکاری اخبارات پر پابندی کا قانون ہے)۔ جماعت اسلامی پر ہرسطح پر پابندی لگانی چاہیے اور اس کے رہنمائوں کو موت کی سزا دی جائے‘‘۔ اسی وزیر نے شیخ مجیب کے سابق ساتھی قانون دان اور بنگلہ دیش کے اوّلین وزیرخارجہ ڈاکٹر کمال حسین اور نوبیل انعام یافتہ ڈاکٹر محمد یونس پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا: ’’یہ لوگ جماعت اسلامی کے رہنمائوں کے لیے سزاے موت کی تائید نہ کرکے قومی جرم کا ارتکاب کررہے ہیں‘‘۔ (روزنامہ انڈی پنڈنٹ، ڈھاکہ، ۲۱فروری ۲۰۱۳ء)
۲۲فروری بروز جمعہ بنگلہ دیش کے شہر شہر اور قصبہ قصبہ اسلامی قوتوں نے اسلامی شعائر کی توہین اور اسلامی قوتوں کی کھلے عام جدوجہد پر پابندی لگانے کی حکومتی مہم کی مذمت کی تو عوامی لیگ کی قیادت میں جوابی حملہ آوروں نے کئی جگہوں پر مساجد کو گھیرے میں لے لیا۔ ڈھاکہ کی مشہور مسجد بیت المکرم کے سامنے باقاعدہ میدانِ جنگ بنا رہا اور چارکارکنوں کو گولی مار کر شہید اور سیکڑوں کو زخمی کر دیا۔
اسی طرح ۲۴فروری کو اسلامی قوتوں نے پورے بنگلہ دیش میں ہڑتال کی اپیل کی، جسے ناکام بنانے کے لیے پولیس، پیراملٹری فورس اور عوامی لیگ کے مسلح افراد نے صبح ہی سے مختلف جگہوں پر مظاہرین حملے شروع کردیے، جس میں ۱۰ کا رکن شہید ہوگئے۔
طرفہ تماشا یہ کہ خود مار بھی رہے ہیں اور ساتھ یہ مطالبہ بھی کرتے جارہے ہیں کہ جماعت اسلامی پر پابندی لگائیں۔ اس سے بڑا مذاق یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کی تمام سیکولر قوتیں اور انسانی حقوق کی علَم بردار پارٹیاں اس ظلم پر خاموش ہیں۔ پاکستان کے دفترخارجہ کے اہل کاروں کے منہ میں گویا کہ زبان ہی نہیں کہ جو اُس ہرزہ سرائی کا جواب دے، جو روزانہ پاکستان کو گالیوں کی صورت میں سنائی جارہی ہے۔
آج کا بنگلہ دیش سنگین صورتِ حال سے دوچار ہے۔ بھارت اور اس کے زیرسایہ عوامی لیگ کی حکومت، بنگلہ دیش کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ دیگر مظاہر کے علاوہ وزیراعظم حسینہ واجد کا ۲۱دسمبر کو دیا جانے والا یہ بیان بڑی اہمیت کا حامل ہے : ’’فوج، انتظامیہ اور عوام سے مَیں یہ کہتی ہوں کہ جو لوگ ’جنگی جرائم‘ کے ٹربیونل کو ناکام بنانا چاہتے ہیں، آپ آگے بڑھ کر انھیں عبرت کی مثال بنا دیں‘‘۔
کیا کوئی جمہوری حکومت: فوج اور انتظامیہ اور عوام کو اس اشتعال انگیز انداز سے اُبھارکر، اپنے ہی شہریوں پر حملہ آور ہونے کی دعوت دے سکتی ہے؟ لیکن سیکولر، جمہوری، ترقی پسند اور بھارت کے زیرسایہ قوت حاصل کرنے کی خواہش مند عوامی لیگی حکومت اسی راستے پر چل رہی ہے۔ انتقام کی آگ میں وہ اس سے بھی عبرت حاصل نہیں کر رہی کہ ایسی ہی غیرجمہوری، آمرانہ اور بھارت کی تابع مہمل ریاست بنانے کی خواہش میں ان کے والد شیخ مجیب الرحمن، ہم وطنوں کے ہاتھوں عبرت کا نشان بنے تھے۔
سوال یہ ہے کہ اس تلخ نوائی کا سبب کیا ہے؟ عوامی لیگی حکومت کی ہمالیائی ناکامیاں، بدعنوانی کا سیلاب اور اگلے سال عام انتخابات کا سر پر آنا سبب تو ہے ہی، لیکن فوری وجہ نام نہاد جنگی جرائم کے ٹربیونل (ICT) کی پے درپے ناکامی اور جگ ہنسائی ہے۔ ذرا چند ماہ پیچھے مڑ کر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ اس عجیب الخلقت ٹربیونل کے بارے میں یورپی یونین کی انسانی حقوق کی کمیٹی اور برطانیہ کے نمایاں قانون دانوں کی انجمن یہ کہہ چکے ہیں کہ: ’’بنگلہ دیش کا یہ ٹربیونل، عدل کے بین الاقوامی اور مسلّمہ تقاضوں سے یک سر عاری ہے‘‘۔ یہی بات ترکی اور امریکا کے وکلا کہہ چکے ہیں، بلکہ خود بھارت میں انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی اسے مسترد کیا ہے۔
دوسری جانب بنگلہ دیش میں نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کے چیئرمین میزان الرحمن نے ۱۵؍اگست ۲۰۱۲ء کو جوابی طور پر کہا: ’’جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ’انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل‘ آزادانہ اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق کام نہیں کر رہا، وہ بھیانک غلطی کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ پھر یہی صاحب ۱۳؍اکتوبر کو کہتے ہیں: ’’یہ ٹربیونل منفرد شان کا حامل ہے اور قومی پشت پناہی کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ ٹربیونل عالمی عدالت انصاف کے متبادل کی حیثیت سے کارِنمایاںانجام دے رہا ہے، تاہم قوم اس کی رفتارِکار سے مطمئن نہیں، کہ فوری نتائج سامنے نہیں آرہے‘‘۔ (ڈیلی اسٹار، ڈھاکہ)
انسانی حقوق کے ان بنگلہ دیشی علَم برداروں کی بے چینی اگر ایک جانب دیدنی تھی تو دوسری جانب عوامی لیگ حکومت کا یہ پروگرام تھا کہ کسی نہ کسی طریقے سے ۱۶دسمبر ۲۰۱۲ء تک جماعت اسلامی کے دو تین رہنمائوں کے لیے سزاے موت کا اعلان حاصل کرلیا جائے۔ مگر صورت یہ بنی کہ حکومت کے وکلا اور خانہ ساز گواہوں کو جماعت اسلامی کے وکلاے صفائی کی جانب سے شدید قانونی دفاعی حکمت عملی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور ان کے گواہ بھی منحرف ہورہے ہیں۔ خود ٹربیونل کے سربراہ جسٹس محمد نظام الحق اس اعتبار سے ایک متنازع شخصیت ہیں کہ اب سے ۲۰سال قبل جب وہ ابھی وکیل تھے، تو انھوں نے ’عوامی عدالت‘ لگاکر جماعت اسلامی کے رہنمائوں کو سزاے موت دینے کا اعلان کیا تھا، مگر اب تو وہ ’ترقی‘ کر کے جج بن بیٹھے ہیں اور اعلیٰ عدالتی مسند پر تشریف فرما ہیں۔
لیکن ان کی ساری کاوش اور بدنیتی کا بھانڈا اس وقت بیچ چوراہے پھوٹا، جب انٹرنیٹ اسکایپ (skype) پر ان کی ۱۷گھنٹے کی گفتگو اور ۲۳۰برقی خطوط(ای میل) قوم کے سامنے آگئے۔ حادثہ یہ ہوا کہ جسٹس محمد نظام الحق نے بریسلز میں ایک بنگالی قانون دان محمد ضیاء الدین سے اس طویل گفتگو اور خط کتابت میں یہ بات بڑی ڈھٹائی سے کہی: ’’حسینہ واجد حکومت تو چاہتی ہے کہ میں جلد سے جلد فیصلہ دوں، اور اس خواہش میں یہ لوگ پاگل لگتے ہیں۔ تم ہی بتائو، جب استغاثہ نالائقوں پر مشتمل ہے، اور ان سے صحیح طریقے سے کیس پیش نہیں ہورہا، تو اس میں مَیں کیا کروں؟ مَیں انھیں کمرئہ عدالت میں ڈانٹتا ہوں، مگر ساتھ ہی پرائیویٹ چیمبر میں بلا کر کہتا ہوں، بھائی ناراض نہ ہوں، یہ سب ڈراما ہے تاکہ غیر جانب داری کا کچھ تو بھرم باقی رہے۔ پھر انھیں یہ بتانا پڑتا ہے کہ وہ کیا کہیں۔ اب تم ہی رہنمائی دو میں کس طرح معاملے کو انجام تک پہنچائوں‘‘۔
یہ گفتگو ثبوتوں کے ساتھ اکانومسٹ لندن کے خصوصی نمایندے نے رسالے کو چھپنے کے لیے دی، تو اکانومسٹ نے فون کر کے جسٹس نظام صاحب سے پوچھا کہ ہمارے پاس یہ رپورٹ ہے، مگر وہ جواب میں کہنے لگے: ’’ایسا نہیں ہوسکتا، ہم تو عدالتی معاملات اپنی بیوی کے سامنے بھی زیربحث نہیں لاتے‘‘۔ لیکن اکانومسٹ نے ڈنکے کی چوٹ ڈرامے کا پول کھول دیا، اور دسمبر ۲۰۱۲ء کے ابتدائی شمارے میں خلافِ معمول رسالے کے مدیر نے اپنے ادارتی نوٹ کے ساتھ ساری کہانی شائع کردی جس نے بنگلہ دیش میں بالخصوص اور اہلِ دانش میں بالعموم تہلکہ مچادیا۔ اس پر جماعت اسلامی اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) نے اپنے بیانات میں کہا: ’’ہم پہلے سے یہ کہتے آئے ہیں کہ یہ جج نہیں قاتل ہیں۔ یہ انصاف دینے والے نہیں انصاف کے قتل کرنے والے ہیں اور ان کی سرپرستی کرنے والی حکومت بھی انصاف اور انسانیت کی قاتل ہے‘‘۔ اس پر جسٹس محمدنظام الحق نے ۶دسمبر ۲۰۱۲ء کو حکم دیا کہ اکانومسٹ کے دو ارکان ان کے ٹربیونل کے سامنے پیش ہوکر توہین عدالت کا سامنا کریں۔ دوسری جانب بنگالی اخبار اماردیش (ہمارا وطن)، ڈھاکا نے وہ ساری بنگلہ گفتگو حرف بہ حرف شائع کردی۔ انجامِ کار جسٹس نظام الحق نے جو اس ڈرامے کا مرکزی کردار ہیں، ۱۱دسمبر ۲۰۱۲ء کو ٹربیونل کی سربراہی سے استعفا دے دیا۔
اس خبر نے حسینہ واجد کو شدید صدمہ پہنچایا، لیکن شرمندگی کا کوئی احساس کرنے کے بجاے، انھوں نے پلٹ کر جماعت اسلامی اور بی این پی کے کارکنوں کو بے رحمانہ انداز سے ریاستی جبر کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔
اس وقت بھی اگرچہ جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر کے ۶ہزار سے زائد کارکن جیلوں میں بند ہیں لیکن حکومت نے ۱۷دسمبر کو سیاہ کاری کا وہ نشان بھی عبور کرلیا کہ جس کا آج تک پاکستان کی کسی بدترین حکومت نے بھی ارتکاب نہیں کیا تھا۔ اس روز سہ پہر کے وقت ڈھاکہ میں اسلامی جمعیت طالبات (اسلامی چھاتری شنگھستا) کے دفتر پر چھاپا مار کر، جمعیت طالبات کی ۲۰باپردہ کارکنوں اور ۵۵سالہ محترمہ ثروت جہاں (جن کے شوہر عبدالقادر گذشتہ ڈیڑھ سال سے مذکورہ ٹربیونل کے سامنے گرفتاری کے بعد مقدمے کا سامنا کررہے ہیں) کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا، اور الزام لگایا کہ: ’’جمعیت طالبات کے دفتر میں جہاد پر مبنی لٹریچر تھا‘‘۔حیرت کا مقام ہے کہ پاکستان میں کسی اخبار اور ٹیلی ویژن نیٹ ورک نے اس واقعے کا نوٹس تک نہیں لیا۔
دوسری طرف نظر دوڑائیں تو ڈھٹائی اپنے عروج پر نظر آتی ہے۔ مثالیں تو بہت سی ہیں، لیکن ۲۳دسمبر ۲۰۱۲ء کے اخبار ڈیلی اسٹار کی یہ رپورٹ کس درجہ شرم ناک مثال پیش کرتی ہے: ’’فورم فار سیکولر بنگلہ دیش اینڈ ٹرائل آف وار کریمنلز ۱۹۷۱ء کے صدر شہریار کبیر نے مطالبہ کیا ہے کہ: ان لوگوں کے خلاف عبرت ناک کارروائی کی جائے، جنھوں نے جسٹس نظام الحق کی گفتگو اسکایپ سے پکڑی (ڈائون لوڈ کی) ہے۔ اماردیش نے یہ گفتگو چھاپ کر جرمِ عظیم کیا ہے۔ ان تمام ذمہ داران کو سخت ترین سزا دی جائے‘‘۔
’ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہیے‘ بجاے اس کے کہ یہ لوگ شرمندگی سے اپنا منہ نوچتے اور ایک بے معنی مقدمے کے ڈرامے کی بساط لپیٹتے، وہ کہہ رہے ہیں کہ: ’’ہاں، ہمیں انصاف اور عدل سے بددیانتی کرنے کا حق حاصل ہے۔ ہم جو چاہیں کریں، کوئی ہم سے پوچھ ہی نہیں سکتا‘‘۔ یاد رہے یہ شہریار کبیر ۲۰۱۲ء کے اوائل میں پاکستان آئے تھے، تاکہ پروفیسر غلام اعظم، مطیع الرحمن نظامی اور جماعت اسلامی کے دیگر رہنمائوں کے خلاف پروپیگنڈا مہم چلا کر، یہاں کی سیکولر شخصیات کے بیان حاصل کریں۔ ان کا استقبال کرنے کے لیے عاصمہ جہانگیر اور اقبال حیدر گروپ کا نام نہاد ہیومن رائٹس کمیشن پیش پیش تھا۔ لیکن جب یہ امر سامنے آیا کہ شہریار کبیر تو بھارتی ایجنسی ’را‘ (RAW) کا بدنامِ زمانہ آلۂ کار ہے، تو یہ مہم دھیمے سُروں میں چلی گئی اور یہ صاحب لاہور، اسلام آباد آنے کے بجاے کراچی ہی سے رفوچکر ہوگئے۔
مسئلے کی سنگینی کو نمایاں کرنے کے لیے دیگر اُمور بھی پیش نظر رہنے چاہییں۔آنے والے عام انتخابات کے بارے میں ستمبر ۲۰۱۲ء کو ٹائمز آف انڈیا یہ خبر دے چکا ہے کہ: ’’حسینہ واجد کی نااہل اور بھارت نواز حکومت اگلے عام انتخابات میں بدترین شکست سے دوچار ہوگی‘‘۔ اس چیز نے بھی بھارتی حکمرانوں کی نیند حرام کر رکھی ہے۔ اسی لیے ۱۸دسمبر ۲۰۱۲ء کو ڈھاکہ میں بھارتی ہائی کمشنر نے خلافِ معمول یہ کہا: ’’ہماری حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ جنھوں نے ۱۹۷۱ء میں بنگلہ دیش بننے کی حمایت نہیں کی تھی، ہماری حکومت ان کے ساتھ نہیں چل سکے گی۔ اس طرح دوطرفہ لین دین کے سارے معاہدے غیرمؤثر ہوجائیں گے‘‘۔ یاد رہے بنگلہ دیش کا بال بال بھارتی معاہدوں میں بندھا ہوا ہے۔ اس تناظر میں یہ بیان دراصل بلیک میلنگ کا حربہ اور جماعت اسلامی کی اس متوقع گرفت کو کمزور کرنے کا بھارتی ردعمل ہے کہ جس حقیقت کو وہ دیوار پر لکھا دیکھ رہے ہیں۔ ذہن میں رہے کہ ستمبر ۲۰۱۱ء کو بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے ڈھاکا جانے سے قبل بنگلہ دیش کے ایڈیٹروں کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا: ’’بنگلہ دیش ایک غیریقینی ملک ہے، جہاں کسی بھی وقت کوئی حکومت تبدیل ہوسکتی ہے، اور سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ وہاں پر جماعت اسلامی کو ۲۵ فی صد لوگوں کی حمایت حاصل ہے، جو کوئی بھی ناپسندیدہ صورت حال پیدا کرسکتے ہیں‘‘۔
چونکہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش گذشتہ دو ماہ سے پورے ملک میں بڑے پیمانے پر کامیاب عوامی رابطے کی مہم چلا رہی ہے، جس میں کامیاب ہڑتالوں اور نوجوانوں کے زبردست مظاہروں نے حکومت کو ہلا دیا ہے۔ اسی لیے پولیس نے عوامی لیگ کے کارکنوں سے مل کر جماعت اور جمعیت کے کارکنوں کو نہ صرف تشدد کا نشانہ بنایا، گرفتار کیا بلکہ کھلے عام گولیاں مار کر شہید بھی کیا۔ اسی طرح خالدہ ضیا کی پارٹی بی این پی کے ساتھ جماعت اسلامی کا اتحاد عوام کو متحرک کرنے میں کامیابی حاصل کر رہا ہے، جس سے بوکھلا کر وزیراطلاعات حسن الحق نے کہا ہے: ’’بی این پی اور خالدہ ضیا براہِ راست جماعت اسلامی کا ساتھ دے رہی ہیں تاکہ جنگی جرائم کے مقدمے کو ناکام بنادیا جائے۔ ان کا یہ عمل جمہوریت کے لیے خطرہ ہے۔ بنگلہ دیش کے محب وطن اور ترقی پسند لوگ متحدہوکر مقدمے کو تکمیل تک پہنچائیں۔ اسی طرح بی این پی کو چاہیے کہ جماعت اسلامی کو اپنے اتحاد سے نکال باہر پھینکے‘‘۔ (ڈیلی اسٹار، ڈھاکہ، ۲۳ دسمبر۲۰۱۲ء)
یہ ہے وہ خوف، جو بھارتی حکمرانوں اور ان کی طفیلی حسینہ واجد حکومت کو کھائے جا رہا ہے۔ اس لیے وہ جماعت اسلامی کی درجہ اوّل کی قیادت پروفیسر غلام اعظم، مطیع الرحمن نظامی، علی احسن مجاہد، علامہ دلاور حسین سعیدی، میرقاسم علی، قمرالزمان، عبدالقادر اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے سیکرٹری جنرل صلاح الدین قادر (جو فضل القادرچودھری کے بیٹے ہیں) کو پھانسی گھاٹ میں پہنچانے اور ملک کو خانہ جنگی کی آگ میں دھکیلنے پر مائل ہے۔
برمی مسلمانوں کا بے رحمانہ قتل عام اور بے بسی کی زندگی، ایک پتھر دل انسان کو بھی گہرے دکھ میں مبتلا کر دیتی ہے۔ بدھ مت کے پیروئوں کے اکثریتی ملک برما (میانمار) میں درندگی کے اس کھیل نے بدھ مت کی اُس بناوٹی اور افسانوی اصلیت کی قلعی کھول کے رکھ دی ہے کہ: ’’بدھ مت تو امن کا گیت اور صلح کا مذہب ہے‘‘۔
۳جون ۲۰۱۲ء کو برپا ہونے والے اس خونیں طوفان میں بدھ بھکشووں کی درندگی نے ہزاروں مسلمانوں کو ذبح کر دیا، بچ جانے والوں کو زخمی، بے گھر کیا اور ان کے گھروں کوآگ لگا دی۔ بے بس عورتوں کو جنسی درندگی کا نشانہ بنایا، بہت سوں کو زندہ جلا دیا اور بچ رہنے والوں کو دھکیل کر سمندر کی لہروں کے سپرد ہونے پر مجبور کیا گیا۔ یہ سب کچھ آج کے اس ترقی یافتہ دور اور فعال ومتحرک میڈیا کی آنکھوں کے سامنے کیا گیا ہے۔
میانمار کی فوجی حکومت بظاہر اس منظرنامے میں تماشائی دکھائی دیتی ہے، لیکن حکومت اور انتظامیہ کی ہرحرکت یہ بتاتی ہے کہ وہ براہِ راست اس قتل عام اور درندگی کے کھیل میں برابر کی شریکِ کار ہے۔ برمی بدھ لیڈروں اور عبادت گزاری کے نام پر فارغ بدھ بھکشوئوں کے دل میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی دبی چنگاری نے آناً فاناً، غیظ و غضب کی آگ میں تبدیل ہوکر پورے اراکان کواپنی لپیٹ میں ہی نہیں لیا، بلکہ اس کو بڑھانے کے لیے وہاں مسلسل فضا بنائی گئی ہے۔ ۱۴جولائی کو برمی صدر تھین سین نے برملا اعلان کیا: ’’روہنگیا مسلمانوں کو لازماً، میانمار سے نکالا اور اقوامِ متحدہ کے کیمپوں میں دھکیلا جائے گا۔ اس مسئلے کا واحد حل یہی ہے‘‘۔ (تہران ٹائمز، ۱۵ جولائی ۲۰۱۲ئ)
اس قتل عام پر منافقانہ سنگ دلی کا رویہ اُس خاتون نے بھی اختیار کیا ہے، جسے لوگ آنگ سان سو کوئی کے نام سے جانتے ہیں، جو اپنے ملک میں فوجی حکمرانوں پر انسانی حقوق کی پامالی کا مقدمہ پیش کرتے ہوئے ایک بے نیام تلوار قرار دی جاتی ہے، مگر مظلوم مسلمانوں سے ہمدردی کے لیے اس کے پاس دو بول تک نہیں۔ اسے اس بات سے کوئی غرض ہے اور نہ کوئی پریشانی کہ فوجی حکمران، فسادی بدھوں کے سرپرست ہیں۔ بلکہ نوبیل انعام یافتہ آنگ سان بھی برمی مسلمانوں کو برما کا شہری تسلیم نہیںکرتی۔ اس نے لندن اسکول آف اکنامکس (LSE) میں، جون ۲۰۱۲ء کو خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’روہنگیا مسلمانوں کو برما کا شہری نہیں تسلیم کیا جانا چاہیے‘‘۔ پھر ڈائوننگ سٹریٹ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اس مسئلے پر ایک حرف نہ کہا، لیکن جب صحافیوں نے سوال اُٹھایا تو صرف اتنا کہا: ’’اس نسلی فساد کا دانش مندی سے جائزہ لینا چاہیے‘‘۔
برما (میانمار) کے شمال مغربی صوبے کا نام ’اراکان‘ ہے۔ یہاں رہنے والے مسلمانوں کو ’روحنگیا‘کہا جاتا ہے۔ ’روحنگ‘ اصطلاح، لفظ ’رحم‘ (ہمدردی) سے پھوٹی ہے۔ روحنگی مسلمانوں کی یہاں آبادی کا آغاز آٹھویں صدی عیسوی میں ہوا، جب عرب تاجر اور ملاح، چین جاتے ہوئے یہاں رُکے۔ اُن کے حُسنِ سلوک اور قابلِ رحم جذبے سے متاثر ہوکر مقامی لوگوں نے انھیں مسلمان کے نام سے یاد کرنے سے زیادہ ’رحم کرنے والے‘ لوگوں سے پہچانا اور پکارا۔ اس طرح نہ صرف یہاں کے لوگوں میں اسلام پھیلنا شروع ہوا، بلکہ مسلمانوں کے نام کے ساتھ ’روحنگ‘ اور ’روحنگیا‘ کا لاحقہ بھی منسلک ہوگیا۔ اتنی صدیاں گزرنے کے بعد اُن عربوں کے یہاں کوئی آثار نہیں، لیکن ’روحنگی‘ زبان عربی رسم الخط میں بھی لکھے جانے کی گنجایش اس تعلق کی ایک یادگار ضرور ہے۔ عجب بات ہے کہ جب یہاں کے لوگ ایمان کی دولت سے فیض یاب ہوئے، تو یہی دولت ان کے حقِ زندگی کے خلاف قتل کا جواز بھی بنا ئی گئی۔ اراکانی مسلمانوں میں، چین کے صوبے ’یونان‘ کے علاوہ ہندستان اور کچھ بنگالی النسل مسلمان بھی موجود ہیں۔ ان کی آبادی ۱۰لاکھ سے زیادہ ہے اور اقوام متحدہ کی رپورٹوں کے مطابق: ’’روہنگی مسلمان دنیا کی مظلوم ترین اقلیتوں میں شمار ہوتے ہیں‘‘۔
برمی مسلمانوں کے خلاف فرقہ پرست بدھوں کی یلغار کے آثار، گذشتہ صدی کے دوسرے عشرے سے نمایاں ہونے شروع ہوئے، جو تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد فسادات کی صورت میں پھوٹتے رہے ہیں۔ گذشتہ ۳۵برس کے دوران میں جو بڑے واقعات ہوئے، ان میں: ۱۹۷۸ء میں ۲لاکھ برمی مسلمانوں کو بنگلہ دیش دھکیل دیا گیا۔ پھر ۱۹۹۲ء میں ڈھائی لاکھ کو ملک بدر کیا گیا۔ افسوس ناک یہ صورت ہے کہ ان تباہ حال مسلمانوں کو بنگلہ دیش جیسا مسلمان ملک بھی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اور جو لوگ جان بچاکر تھائی لینڈ کی طرف گئے، انھیں تھائی ساحلی پولیس نے فائرنگ کرکے چھوٹی کشتیوں میں، کھلے سمندر میں ڈوبنے کے لیے چھوڑ دیا۔ ۱۶مارچ ۱۹۹۷ء کو ڈیڑھ ہزار بدھ بھکشوئوں کا ایک جلوس مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز نعرے بلند کرتا سڑکوں پر نکل آیا، جس نے سب سے پہلے مسجدوں پر حملہ کرکے آگ لگائی، پھر مسلمانوں کی دکانوں کو لُوٹ مار کے بعد نذرِ آتش کیا، اور گھروں کو آگ لگا دی۔ لائبریریوں میں قرآن کریم کے نسخے چُن چُن کر جلائے گئے اور بعدازاں تمام کتابوں پر تیل چھڑک کر جلا دیا گیا۔ کینگ ڈن اور منڈالے کے شہر اس سے بُری طرح متاثر ہوئے۔ ۱۵ مئی ۲۰۰۱ء کو ٹااونگو شہر میں بھکشوئوں نے مسلمانوں کے خلاف ہزاروں پمفلٹ تقسیم کیے، اور سورج غروب ہونے سے پہلے مسلمانوں کو گھیر گھیر کر جلایا، مارا اور لُوٹا گیا، جب کہ عورتوں کی بے حُرمتی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔
۳جون ۲۰۱۲ء سے اُٹھنے والی حالیہ خونیں یلغار کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے، جس میں وہاں کی حکومت، حزبِ اختلاف، میڈیا اور فوج پوری طرح شریکِ کار ہیں۔ الم ناک پہلو یہ ہے کہ :l۲۸ہزار سے زیادہ مسلمان موت کے گھاٹ اُتارے گئے ہیں۔
بے خبری میں سرزد ہونے والا غیر قانونی قدم بھی قانون کی نظر میں جرم ہی قرار پاتا ہے۔ قانون اس دلیل کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے کہ: ’’ملزم بے چارے نے بے خبری میں ارتکابِ جرم کیا تھا‘‘۔
اہلِ پاکستان کے سامنے مسلسل یہ ڈراما پیش کیا جا رہا ہے کہ حکمران تاریخ کا کوئی زیادہ گہرا شعور نہیں رکھتے، اس لیے جوشِ جذبات میں اگر وہ کوئی غلط اقدام کر بیٹھیں، تو انھیں کام کے دبائو اور بے خبری کی رعایت دے کر معاف کر دیا جاتا ہے___ یہ معاملہ اور یہ ظلم، اس مظلوم اور مجبور قوم کے ساتھ مسلسل کیا جا رہا ہے۔ قوم اس لیے بھی ’مظلوم‘ اور ’مجبور‘ ہے کہ اس کے اکثر صحافی اور اینکر پرسن بے لگام ہیں، اور قوم کے معاملات میں ان کا رویہ ذاتی پسند و ناپسند کے گرد گھومتا ہے۔ اگر واقعی وہ قوم اور اہل وطن کے بہی خواہ ہوتے، تو نئی پود کے مستقبل کے اس تعلیمی قتل عام پر خاموش نہ بیٹھتے اور پاکستان کی موجودہ جمہوری حکومتوں کی جانب سے انگریزی کی نام نہاد بالادستی کے ذریعے قوم کے برباد ہوتے ہوئے مستقبل کو یوں ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہ کرتے۔ غالباً ہماری حکومتوں نے یہ وطیرہ بنا رکھا ہے کہ ہر چمکتی چیز کے پیچھے بھاگو، اور ہر سراب کی طرف لپکو، چاہے یہ بھاگ دوڑ کسی کھائی میں ہی کیوں نہ جاگرائے۔
اس طرزِ عمل کا ایک افسوس ناک نمونہ، صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ کی موجودہ حکومت کے ہاتھوں سامنے آیا ہے اور وہ معاملہ ہے پنجاب بھر میں، پرائمری سے انگریزی ذریعہ تعلیم کے نفاذ کا آمرانہ فیصلہ، جو نہایت عجلت میں بغیر سوچے سمجھے اور ماہرین تعلیم سے مشاورت کے بغیر کیا گیا ہے۔ حالانکہ مذکورہ سیاسی پارٹی نے اپنے ۲۰۰۸ء کے انتخابی منشور میں ’انگریزی ذریعۂ تعلیم‘ کی شق شامل نہیں کی تھی۔ پھر اس غیرحکیمانہ فیصلے کے نفاذ کا اعلان کرنے سے متوسط طبقے کی اس قیادت نے نے صوبائی اسمبلی میں موجود سیاسی پارٹیوں سے بھی کوئی تبادلۂ خیال نہیں کیا ۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے سوچا، یا کسی عاقبت نااندیش نے انھیں ایسا سوچنے کی راہ سجھائی اور موصوف نے فقط چند جونیئر، ناتجربہ کار بیوروکریٹوں سے مشورہ فرما کر، شاہانہ اعلان کر دیا کہ پنجاب بھر میں آیندہ تعلیم انگریزی میں ہوا کرے گی۔ یہ نہ سوچا کہ کیوں؟ اور پھر انگریزی کس طرح تمام بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کی نشوونما اور تعلیم و تربیت کا ذریعہ بن سکے گی؟
پنجاب کی صوبائی حکومت کا یہ حکم نامہ (۶۷) ۲۸مارچ ۲۰۰۹ء کو جاری ہوا: ’’چونکہ پرائیویٹ تعلیمی ادارے انگریزی میڈیم کے نام پر قوم کا استحصال کر رہے ہیں، اس لیے اس صورت حال کو درست کرنے کے لیے نچلے درجے تک تمام اسکولوں میں انگریزی میڈیم کیا جا رہا ہے۔ یکم اپریل ۲۰۰۹ء سے منتخب اسکولوں میں انگریزی میڈیم میں تعلیم دی جائے گی۔ ‘‘
دو دن کے نوٹس پر حکمِ حاکم کی اطاعت کی معجزانہ توقع رکھنے والی حکومت نے ۱۸ستمبر ۲۰۰۹ء کو اپنے اگلے حکم نامے نمبر ۱۷۶ میں نوید دی : ’’حکومت پنجاب ، ہر اسکول میں سائنس اور ریاضی انگریزی میں پڑھائے گی۔ پہلے مرحلے میں ۵۸۸ ہائی اسکول، ۱۱۰۳ گورنمنٹ کمیونٹی ماڈل گرلز پرائمری اسکول، انگریزی میڈیم میں تبدیل کر دیے گئے ہیں۔ دوسرے مرحلے میں یکم اپریل ۲۰۱۰ء تک یہ تعداد دوگنا کی جائے گی، اور آخر کار یکم اپریل ۲۰۱۱ء تک پنجاب کے تمام اسکولوں میں ریاضی اور سائنس کے مضامین انگریزی میں پڑھانے شروع کر دیے جائیں گے‘‘۔ یہی حکم نامہ سلسلۂ کلام کو جاری رکھتے ہوئے بتاتا ہے:’’ابتدائی درجے میں ۱۷۶۴ اسکولوں میں یکم اپریل ۲۰۱۰ء تک انگریزی میڈیم میں تعلیم کا آغاز کر دیا جائے گا۔جس کے تحت: نرسری، اول اور دوم کلاسوں سے ان بچوں کو معلومات عامہ، ریاضی، سائنس کی تعلیم انگریزی میں دی جائے گی‘‘۔
حکم نامہ چونکہ شاہانہ ہے، اس لیے پیراگراف نمبر ۵ میں خسروانہ عنایت کرتے ہوئے ان الفاظ میں اجازت عطا کرتا ہے: ’’ یہ بات صاف لفظوں میں بیان کی جاتی ہے کہ پرائمری سے لے کرہائی اسکولوں تک کے ہیڈماسٹر صاحبان، اس امر کے لیے مکمل طور پر با اختیار ہیں۔ انگریزی میڈیم کو نافذ کرنے کے لیے انھیں کسی اتھارٹی سے اجازت لینے کے ضرورت نہیں ہے‘‘۔ (no permission is required from any authority for this purpose)
یہ اور اس قسم کے حکم نامے، اعلانات اور اخبارات کو جاری کردہ کروڑوں روپے کے اشتہارات نے پرویز الٰہی دور کی ’پڑھا لکھا پنجاب‘ مہم کی یاد تازہ کردی ہے۔ جنابِ وزیر اعلیٰ اس کارنامے کی انجام دہی کے وقت بھول گئے کہ ایسی حماقت اُن سے قبل ۱۹۹۴ء میں اقلیتی پارٹی کے پیپلز پارٹی نواز وزیر اعلیٰ پنجاب منظور احمد وٹو فرما چکے تھے، اور یہ غنچے کھلنے سے قبل ہی مرجھا گئے تھے، یعنی معاملہ رفت گذشت ہوگیاتھا۔ معلوم نہیں کس دانش مند نے انھیں یہ سبق پڑھایا کہ انگریزی میڈیم کا اعلان کر دینے سے طبقاتی نظام تعلیم کے فسادِ آدمیت پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ حالانکہ جس چیز نے پہلے ہی قومی وجود کو سرطان زدہ کر رکھا ہے، اس غیر حکیمانہ اور تعلیمی دانش سے عاری اقدام سے جسدِ اجتماعی پر فسادِ خون مکمل طور پر حاوی ہوجائے گا۔
بچے کو اگر بچپن ہی سے اپنی زبان میں سوچنے اور اپنی زبان میں بات کرنے سے روک دیں گے تو اس طرح آپ نہایت سفاکی سے، اس کے تخلیقی وجود کو قتل کرنے کا ذریعہ بنیں گے۔ دنیا کی کون سی قوم ایسی ہے، کہ جس نے سائنس، ٹکنالوجی، میڈیکل، عمرانیات اور ادبیات میں اپنی زبان کے علاوہ کسی بدیسی زبان میں کوئی کارنامہ انجام دیا ہو؟ تخلیق کا جو ہر تو کھلتا ہی اُس زبان میں ہے، جو آپ کے خواب اور آپ کے ماحول اور معاشرت کی زبان ہوتی ہے، اور جس میں آپ بے تکلف تبادلۂ خیال کر سکتے ہیں۔
پورے یقین و اعتماد کے ساتھ ہم آج بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہم پاکستان کی تعمیر و ترقی اور تحقیق سے متعلق تمام شعبہ جات میں کام کرنے والوں میں انگریزی میڈیم کے تعلیم یافتہ طبقے کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ حاکمانہ وسیلے سے انگریزی میڈیم چہروں کو اداروں کی سربراہی سونپ دی جاتی ہے، لیکن نیچے اتر کر دیکھیں تو سائنسی،زرعی، ایٹمی، اسلحہ سازی، میڈیکل، عمرانی علوم، صحافت اور اچھی تعلیم کے دیگر شعبہ جات تک میں نہایت بڑی تعداد انھی دیسی اسکولوں سے پڑھ کر نکلنے والوں کی ہے۔ نہ صرف یہ لوگ اس سخت ناہموار اور ناقدر شناس ماحول میں کام کر رہے ہیں، بلکہ پاکستانی قوم کو کسی نہ کسی درجے میں آزادی اور عزت کا سانس لینے کی نعمت بھی عطا کر رہے ہیں۔
وہ مسلم لیگ جس کی سربراہی قائداعظمؒ نے کی، اور جنھوں نے تحریک پاکستان کی بنیاد: ’’اسلام، مسلم قومیت اور اردو زبان‘‘ پر رکھی تھی،انھی قائد محترم کی نام لیوا پارٹی، وطن عزیز میں جہالت اور بے خبری کے اندھیروں کو گہرا کرنے کے لیے انگریزی میڈیم کے نام پر تعلیمی بربادی کے غیر شریفانہ اقدام کا باعث بن رہی ہے۔ خادمِ اعلیٰ ذرا معلوم کرکے دیکھیں تو سہی کہ اُن کے اس ایک فیصلے نے کتنے لاکھ بچوں کی آنکھوں سے علم کا نور چھین لیا ہے۔ اُن کے اس ایک تجربے نے کتنی زندگیوں کو تعلیم اور تخلیق کی نعمت سے دور کر دیا ہے؟ چاہیے تو یہ تھا کہ انگریزی میڈیم کے نام پرجو ڈراما ہمارے معاشرے کے اسکولوں میں اسٹیج کرکے والدین کی جیبوں پر ڈاکا ڈالا جا رہا ہے، اسے کسی کمیشن کے ذریعے تحقیق و تجزیے کے تحت دستور پاکستان اور شہداے پاکستان کی امنگوں کے مطابق ڈھالا جاتا اور سرکاری اسکولوں کو یتیم خانوں کے بجاے تعلیم گاہوں میں تبدیل کیا جاتا، اُلٹا ان اداروں کو بے تعلیمی کی آماج گاہ بنایا جا رہا ہے۔ پھر ان اداروں کو سنبھالا دینے کے بجاے پرائیویٹ شعبے کو اندھی چھوٹ دینے کے لیے ایک سے ایک بڑھ کر اقدام کیے جارہے ہیں (بذاتِ خود پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن کے کروڑوں روپے کے وظائف اس مقصد کے لیے جھونکے جا رہے ہیں کہ سرکاری اسکول ختم ہوں اور نام نہاد انگریزی میڈیم نجی اسکول قائم ہوں بلکہ پھلیں پھولیں)۔ اُردو ذریعۂ تعلیم کو ختم کرکے تعلیم کو بازیچۂ اطفال بنانے والوں کے پیچھے غالباً کوئی اور بھی ہے۔ اندازہ ہورہا ہے کہ سرکاری اداروں کو برباد کرنے والے، تعلیم دشمن بڑی تعداد میں ہمارے اردگرد منڈ لا رہے ہیں۔
اس سارے قضیے میں ایک اور معاملہ گہرے غور وفکر کا تقاضا کرتا ہے، اور وہ یہ ہے کہ پاکستان میں حکومت تو جمہوریت کے نام پر قائم ہے مگر تعلیم کے معاملات میں فیصلے محض دوچار بے دماغ افراد کی آمریت کرتی ہے۔ فوجی آمریتوں پر چار حرف بھیجئے، بجا ہے، مگر یہ بھی تو دیکھیے کہ جمہوریت کا راگ الاپنے والی حکومتیں کیا کر رہی ہیں؟ یہی کہ صوبائی اور مرکزی حکومت میں صرف دو چار افراد اپنی من مانی کرتے، حکومت چلاتے اور قوم کی قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں۔ حالانکہ پارلیمانی نظام حکومت کی اصل خوبی یہی ہے کہ اُس میں چیزیں، کہیں زیادہ وسیع مشاورت کے ساتھ طے کی جاتی ہیں۔ لیکن یہاں سول پارلیمانی جمہوری حکومتوں کا مرغوب طرزِ حکمرانی بھی فوجی آمروں کا سا ہے۔ اس رویے نے جمہوری نظام کو نام نہاد جمہوری اور دراصل آمرانہ جمہوری تماشے میں بدل دیا ہے۔ضرورت یہ ہے کہ ناتجربہ کار، غلامی کے رسیا اور شہزادگی کے خوگر حکمرانوں کے بجاے جہاں دیدہ، مستقبل بین، دانش مند اور زیرک حکمران اور سول سرونٹ سرجوڑ کر بیٹھیں اور ایسی پالیسیاں بنائیں جو قوم کے اجتماعی مفاد میں ہوں۔ بھارت نے اب سے ۵۵ برس پیش تر زبان کے مسئلے پر اپنی قومی پالیسی مرتب کر لی، مگر ہمارے ہر دستور نے آج کے کام کو کل پر ڈال کر اپنا بوجھ اگلے لوگوں پر ڈال دیا اور آنے والے راہ فرار اختیار کر بیٹھے۔ اس مسئلے میں دیکھیے: کہ ۱۹۶۲ء کے دستور میں کہا گیا تھا: ۱۹۷۲ء تک اردو سرکاری زبان کے طور پر نافذ ہو جائے گی (ظاہر ہے کہ ذریعۂ تعلیم اس کا حصہ ہونا تھا، مگرعمل نہ ہوا)۔ پھر ۱۹۷۳ء کے دستور میں طے کیا کہ :۱۹۸۸ء تک اردو سرکاری زبان ہو گی، لیکن جنرل ضیاء الحق نے ۱۹۸۲ء میں (خدا جانے کس مجبوری یا مصلحت کے تحت)نجی اور انگریزی میڈیم سرکاری اداروں کو کھلی چھوٹ دے کر اس سب کیے کراے پر پانی پھیر دیا۔ ازاں بعد آنے والے بھٹو اور شریف خاندانوں نے سکھ کا سانس لیا۔
قیام پاکستان کے بعد بظاہر گورے انگریز حاکموں سے جان چھوٹ گئی، لیکن ان کے جاتے ہی انگریزی کی حاکمیت نہ صرف برقرار رہی بلکہ اس حاکمیت کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔ مقابلے کے امتحانات اور ترقی کے مواقع کو انگریزی سے اس طرح مربوط کر دیا گیا کہ ملک کالے اور کرپٹ انگریزوں کی سفاکانہ حاکمیت میں سسکنے لگا۔ آج عدالتوں ، دفتروں، افواج اور کاروبار ریاست کی زبان انگریزی ہے۔ اس کا مقصد ہی یہ ہے کہ استعماری حاکمیت کو دوام ملے۔ اگر اردو کو اس طرح دن دیہاڑے قتل کرنے کا عمل یوں ہی جاری رہا، تو وہ ملک جو پہلے ہی ہچکولے کھا رہا ہے، انتشار اور افتراق کے گہرے عذاب سے کبھی نہ نکل سکے گا۔
افسوس کا مقام ہے کہ اس قوم کے جسدِ ملی کو یہ زخم کسی دشمن ملک کے جرنیل یا ان کے آلہ کار سیاست دان نہیں لگا رہے، بلکہ محب وطن مگر نادان حکمران یہ ڈیوٹی ادا کر رہے ہیں، جو سنجیدگی کے ساتھ کسی مسئلے پر مشاورت کرنے سے گریزاں رہتے ہیں اور اپنی سوچ کی کچی پکّی لہر کو حکم نامے کی شکل دے کر نافذ کردیتے ہیں۔
جنرل محمدضیاء الحق کے دورِ اقتدار (۱۹۷۷ئ-۱۹۸۸ئ)میں نجی شعبۂ تعلیم کو پوری قوت سے قدم جمانے کے لیے راستہ دیا گیا۔ اگلے قدم کے طور پر جنرل پرویز مشرف کے زمانۂ اقتدار (۱۹۹۹ئ-۲۰۰۸ئ)میں ذرائع ابلاغ اور بالخصوص برقی ذرائع ابلاغ (الیکٹرانک میڈیا) کو ایک طوفان کی سی تیزی کے ساتھ معاشرے کے قلب و دماغ اور فکروثقافت کو مسخر کرنے کے مواقع عطا کیے گئے۔ یہ دونوں کام کسی مناسب نظم وضبط کی ضرورت کو بالاے طاق رکھتے ہوئے کیے گئے۔ ان کے لیے نہ کوئی ضابطۂ کار مرتب ہوا اور نہ کوئی ضابطۂ اخلاق وضع کیا گیا۔ پھر جس نے اس آزادی سے جو حیثیت اختیار کرلی، وہ اسے چھوڑنے اور دوسری کوئی بات سننے کے لیے روادار نہ ٹھیرا۔ نجی شعبۂ تعلیم نے قوم کی کس انداز سے خدمت کی اور کس پہلو سے تخریبِ فکروتہذیب کا زہر پھیلایا ہے؟ سرکاری شعبے نے کیا خدمت کی اور کس حوالے سے بربادی کے کھیل میں آگے بڑھ کر معاونت کی؟ ذرائع ابلاغ نے کردار، ایمان، تاریخ، طرزِحیات اور تہذیب و ثقافت کو کیا چرکے لگائے اور کس حد تک ان سب کو مسخ کیا؟بلکہ ان کا مُثلہ کیا؟___ یہ سوالات اس تحریر میں زیربحث نہیں ہیں۔ زیربحث یہ امر ہے کہ آج ہمارے نجی تعلیمی ادارے کس کلچر کو فروغ دیتے ہوئے ہمیں کس موڑ پہ لے آئے ہیں؟
جیساکہ عرض کیا ہے ضیاء الحق کے دورِحکومت میں جب نجی تعلیمی اداروں کو کام کرنے کے لیے کھلی چھوٹ دی گئی، تو پہلے ہی ایک دو سال کے دوران ان میں سے اکثر بڑے شہروں کے تعلیمی اداروں نے بطورِ فخر ہماری تہذیبی روایات و اقدار کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے ٹیلی ویژن یا فلمی اداکاروں یا اداکارائوں کو اپنی تقریبات میں بلاکر مہمانِ خصوصی کا اعزاز بخشا۔ گویا بچوں کو بتایا گیا کہ یہ ہیں آپ کے رول ماڈل۔ مزیدبرآں بعض اداروں نے موسیقی کی تربیت دینے کے لیے پرائمری کے بچوں کو ہدف بنانے کا راستہ اختیار کیا۔ پھر یہ سلسلہ بڑھتے بڑھتے یہاں پہنچا کہ مخلوط تعلیم کے اداروں نے اپنا دائرہ اسکول سے اعلیٰ تعلیم تک پھیلا دیا اور ذرائع ابلاغ کے تعاون سے بعض نجی تعلیمی اداروں نے بلاانقطاع موسیقی کے سالانہ پروگرام ترتیب دینے شروع کیے۔ والدین نے اس بات پر غور کیے بغیر کہ یہ عمل اندر ہی اندر کیا طوفان مچارہا ہے؟ اپنے ضمیر کو تھپک تھپک کر سلا دیا۔ شاید اس لیے کہ اس سوال کی جانب توجہ دینے کا مطلب ’دقیانوسیت‘ اور ’ملائیت‘ کی پھبتی کا نشانہ بننا ہے، اس لیے چاروں طرف خاموشی کی سی فضا نظر آتی تھی مگر اس صورتِ حال کا نتیجہ، ۹ اور ۱۰ جنوری ۲۰۱۲ء کی درمیانی شب قذافی اسٹیڈیم لاہور سے متصل الحمرا کلچرل کمپلیکس میں ایک نہایت الم ناک سانحے کی صورت میں سامنے آیا۔ اس دردناک حادثے کی رپورٹنگ مختلف اخبارات نے مختلف زاویوں سے کی تھی، اس لیے یہ تفصیل اخبارات ہی کی زبانی ملاحظہ کیجیے:
یہ تو تھیں مختلف اخبارات میں اس حادثے کی رپورٹیں۔ اب دو تین اداریے ملاحظہ کیجیے (یاد رہے انگریزی اخبارات نے اس واقعے پر کوئی ادارتی سطر لکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی):
اس افسوس ناک واقعے پر اخبارات ہی کے صفحوں سے اتنا لوازمہ نقل کرنے کا ایک واضح مقصد یہ ہے کہ آزادیِ اظہار اور ریاست کا چوتھا یا پانچواں ستون قرار دینے والے ذرائع ابلاغ پر اس پہلو سے بھی نظر ڈالنی چاہیے کہ وہ کس انداز سے مچھر چھانتے اور کس کاریگری سے اُونٹ نگل جاتے ہیں۔ دیکھیے، کم و بیش سبھی اخبارات نے اس نجی گروپ آف کالجز کا نام شائع کرنے سے اجتناب برتاہے۔ البتہ ایک انگریزی اور ایک اُردو اخبار نے لکھ دیا کہ یہ ’پنجاب گروپ آف کالجز‘کے زیراہتمام میوزک شو تھا، اور متاثرین اس کی طالبات تھیں۔
ایسے واقعات آنکھیں کھولنے کے لیے رونما ہوتے ہیں، مگر مفلس کی آہ کی طرح یہ ناشنیدہ ہی رہتے ہیں اور اکثر و بیش تر فنا کے گھاٹ اُتر جاتے ہیں۔ بہرحال نقّارخانے میں طوطی کی آواز کہیں، کسی درجے میں سنی جاسکے اور اس پر کسی روک ٹوک کے بارے میں سوچنا ہی شروع کر دیا جائے تو غنیمت ہوگا۔۲۴جنوری کو پنجاب اسمبلی میں تعلیمی اداروں میں میوزک پروگراموں کے خلاف متفقہ قرارداد کی منظوری اور پھر میڈیا کی جوابی یلغار کے جواب میں حکومت پنجاب کی پسپائی، پھر ۲۵جنوری کو قرارداد کی واپسی میں عبرت کا پیغام پوشیدہ ہے۔
انسانی جان کتنی قیمتی ہے اور انسانی حُرمت کیا معنی رکھتی ہے، قرآن حکیم نے دوٹوک الفاظ میں وضاحت کر دی ہے: مَنْ قَتَلَ نَفْسًام بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا (المائدہ ۵:۳۲) ’’جس نے ایک بے گناہ کو قتل کیا، اس نے گویا ساری انسانیت کو قتل کر دیا‘‘۔ مراد یہ کہ بے گناہ انسانوں کا قتل کوئی بھی کرے، یہ ایک ایسا گھنائونا جرم ہے کہ کوئی اور جرم اس کی سنگینی کو نہیں پہنچتا۔ اگر مقتولین کی تعداد دوچار نہیں، دس بیس بھی نہیں،سیکڑوں اور ہزاروں بھی نہیں بلکہ لاکھوں میں ہو تو معاملہ اور بھی نازک اور سنگین ہوجاتا ہے۔ اس معاملے کی وضاحت ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے المیے اور بنگلہ دیش کی تشکیل میں قتل و غارت کے مبالغہ آمیز اعداد و شمار کے حوالے سے پیش کی جارہی ہے۔ یہ اعداد و شمار دروغ گوئی کی آخری حدود سے بھی متجاوز ہیں اور یہ سلسلہ بڑے دھڑلّے سے گذشتہ ۳۹برسوں سے جاری ہے۔ آیئے حقائق کی روشنی میں اس صورتِ حال کا تجزیہ کرتے ہیں۔ یک طرفہ پروپیگنڈے کا آغاز اس طرح ہوتا ہے:
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے عمل (۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ء) کے ساتھ ہی اُوپر تلے مختلف اعداد و شمار فضا میں گردش کرنے لگے۔ مثال کے طور پر: ’’مشرقی پاکستان سے ایک کروڑ بنگالی، بھارت میں پناہ گزین ہونے پر مجبور ہوگئے ہیں، ان کی گزربسر بڑی اذیت ناک ہے، انھیں دنیا بھر سے امداد کی ضرورت ہے‘‘۔ ’’پاکستانی فوج نے لاکھوں بنگالی مار دیے ہیں‘‘۔۱۰لاکھ، نہیں ۲۰ لاکھ، نہیں ۳۰ لاکھ، یہ بھی نہیں ۳۵لاکھ مار دیے ہیں‘‘ بلکہ ’’۵۰لاکھ سے بھی زیادہ مار دیے ہیں‘‘___ ’’۲لاکھ بنگالی عورتوں کو زنا بالجبر کا نشانہ بنایا گیا‘‘۔ ’’۳ لاکھ، نہیں ساڑھے تین لاکھ بنگالی عورتوں سے زیادتی کی گئی‘‘___ ۸ جنوری ۱۹۷۲ء کو پاکستان توڑنے کی سازش کے مرکزی کردار شیخ مجیب الرحمن نے پاکستان سے رہائی پاکر لندن پہنچتے ہی دعویٰ کیا: ’’بنگلہ دیش میں ۱۰لاکھ انسان مارے گئے ہیں‘‘۔ (دی ٹائمز، ڈیلی ٹیلی گراف، لندن، ٹائمز آف انڈیا، دہلی، پاکستان ٹائمز، لاہور ۹جنوری ۱۹۷۲ء) لیکن لندن سے براستہ دہلی، ڈھاکا جاتے ہوئے شیخ مجیب کے ’فہم‘ اور ’معلومات‘ میں حیرت انگیز اضافہ ہوا، اور ۱۰جنوری کو ڈھاکا کی سرزمین چھونے کے بعد موصوف نے کہا: ’’۳۵لاکھ بنگالی مارے گئے ہیں‘‘ (جیوتی سین گپتا، بنگلہ دیش میں تحریکِ آزادی، ۱۹۴۷ء تا ۱۹۷۳ء (انگریزی) کلکتہ، ۱۹۷۴ء، ص ۴۴۵)۔ مگر کچھ ہی عرصے بعد انھوں نے ۳۵ لاکھ کے عدد میں ذرا کمی کرکے: ’’۳۰ لاکھ مارے گئے اور ۳ لاکھ عورتوں سے بالجبر زیادتی (ریپ) کی گئی‘‘ کے عدد پر جم جانا مناسب سمجھا اور پھر یہی موقف نجی، عوامی اور بین الاقوامی سطح پر دہرانا وظیفۂ زندگی بنا لیا۔
معروف صحافی ڈیوڈ فراسٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے جسے ۱۸ جنوری ۱۹۷۲ء کو نیویارک ٹیلی ویژن نے ٹیلی کاسٹ کیا تھا، اس میں بھی شیخ مجیب نے ۳۰لاکھ افراد کے قتل کا دعویٰ کیا تھا اس سے ایک روز قبل ٹائم میگزین کو انٹرویو میں مجیب نے بتایا تھا: ’’آج اگر ہٹلر زندہ ہوتا تو اپنی کارکردگی پر شرم سار ہوتا‘‘ (۱۷ جنوری ۱۹۷۲ء)۔ اور پھر ۳۰ لاکھ کا عدد ایک قومی نغمے یا بنگالی لوک گیتوں کا حصہ بن گیا، جس کا دہرانا ہرکس و ناکس نے اپنے اُوپر لازم کرلیا۔
اس تجزیے کے لیے ہمارا بیش تر انحصار خود بنگلہ دیش کے تحقیق کاروں اور مغربی صحافیوں کی رپورٹوں پر مبنی ہے۔ یہ تحقیق کار اگرچہ پاکستان کے حامی نہیں ہیں، مگر اس پروپیگنڈے پر بحث کے دوران میں وہ اپنے نتیجۂ فکر کو ضرور قلم بند کرتے ہیں۔
پہلے اس منظر کو دیکھیے: مشہور اطالوی صحافی خاتون آریانا فلاسی (Oriana Fallaci) لکھتی ہے: ’’میں مجیب کے گھر [فروری ۱۹۷۲ء میں] انٹرویوکرنے پہنچی، وہاں برآمدے میں ۵۰افراد کھڑے تھے۔ میں نے کہا: اندر اطلاع کیجیے۔ میری اس درخواست کے جواب میں وہاں کھڑے ایک آدمی نے نہایت غصیلے بلکہ خوف ناک انداز میں غراتے ہوئے کہا: ’انتظار کرو‘۔ میں انتظار میں بیٹھ گئی۔ ایک گھنٹہ، دوگھنٹے، تین گھنٹے، چار گھنٹے گزرے، حتیٰ کہ رات کے آٹھ بج گئے۔ پھر ساڑھے آٹھ بجے یہ کرشمہ رونما ہوا کہ مجھے مجیب کے کمرے میں جانے کی اجازت ملی، جہاں ایک آرام دہ صوفہ اور دوکرسیاں پڑی تھیں۔ مجیب نہایت بے ڈھنگے انداز میں ٹانگیں پسارے صوفے پر قابض تھا اور باقی دونوں کرسیوں پر، دو موٹے موٹے وزیر دھنسے ہوئے تھے۔ میں داخل ہوئی تو نہ کسی نے کوئی سلام کیا اور نہ میری آمد کا کوئی نوٹس لیا۔ میں حیران گم سم کھڑی تھی کہ اچانک مجیب نے ہاتھ کا اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’بیٹھ جائو‘۔ میں اسی کے صوفے کے ایک بازو کے ساتھ دبک کر بیٹھ گئی اور تیزی سے اپنے ٹیپ ریکارڈر کو متحرک کرنے لگی، لیکن ابھی میں نے بٹن دبایا بھی نہیں تھا کہ مجیب نے گرج دار آواز میں مجھ سے کہا: ’’جلدی کرو، جلدی کرو، میرے پاس وقت نہیں ہے۔ ہاں، پاکستانیوں نے ۳۰ لاکھ بنگالیوں کو مارا ہے اور یہی سچ ہے۔ ۳۰ لاکھ، ۳۰ لاکھ، ۳۰ لاکھ‘‘۔ میں حیران تھی کہ وہ کس طرح ۳۰لاکھ انسانوں کے مارے جانے کے اعداد و شمار تک پہنچا ہے؟ میں نے کہا: ’’جناب وزیرعظم…‘‘ مگر وہ کوئی بات سننے کے بجاے پھر گرج دار آواز میں دھاڑنے لگا: ’’انھوں نے ہماری عورتیں اپنے شوہروں کے سامنے ماری ہیں ۔ شوہر، بیٹوں اور بیویوں کے سامنے مارے ہیں… دادا اور نانا اپنے پوتوں، نواسوں کے سامنے، چچیاں، چچوں کے سامنے…‘‘۔ میں نے فوراً کہا: ’’جناب وزیراعظم… میں چاہوں گی…‘‘ مگر مجیب نے میری بات مکمل ہونے سے قبل اسی بپھرے انداز میں وزیروں کی طرف رُخ کرتے ہوئے کہا: ’’اس کو سنو، یہ کیا چاہتی ہے؟ تمھیں کوئی حق نہیں چاہنے کا، سمجھی، جو میں کہہ رہا ہوں وہی سچ ہے‘‘۔ (آریانا فلاسی، لایورپیا، روم، ۲۴فروری ۱۹۷۲ء بحوالہ ڈاکٹر عبدالمومن چودھری Behind the Myth of Three Million [۳۰ لاکھ کی کہانی کے پیچھے]، الہلال پبلشرز،لندن، ص۶،۷)
آیئے، دیکھتے ہیں کہ اعداد و شمار کا یہ اُتار چڑھائو کس طرح وجود میں آیا ہے؟: ۷جنوری ۱۹۷۲ء کو پریس ٹرسٹ آف انڈیا (PTI) نے بنگلہ دیش کے نئے وزیراطلاعات و نشریات شیخ عبدالعزیز کے حوالے سے کلکتے سے اعلان کیا: ’’۱۰لاکھ سے زیادہ لوگ مارے گئے ہیں‘‘۔ اسدچودھری کی نظم رپورٹ ۱۹۷۱ء ان تمام واقعات و حوادث کی تفصیل پر مبنی قرار دی جانے لگی، جس میں دعویٰ کیا گیا: ’’ہم کو آزادی کے لیے ۱۰ لاکھ شہیدوں کا لہو دینا اور ۴۰ ہزار عورتوں کی عزت قربان کرنا پڑی‘‘۔ ۳۰ لاکھ کی کہانی کے پیچھے کے مطابق: سابق بھارتی سپہ سالار جنرل مانک شا کے نزدیک: ’’مجیب کے بقول ۳۰ لاکھ‘‘ اور مشرقی محاذ کے کمانڈر جنرل جگجیت سنگھ اروڑا کے مطابق: ’’جیساکہ ہم جانتے ہیں پاکستانی فوج نے ۱۰لاکھ افراد کو مارا، لیکن جہاں تک شیخ مجیب کے اس دعوے کا تعلق ہے کہ ۳۰ لاکھ مارے گئے، ایک ناممکن سی بات ہے۔ مجیب منتظم کے بجاے ایک شورش پسند (ایجی ٹیٹر) انسان تھا، جس نے ظلم کی داستان کو بڑھاوا دینے کے لیے ۳۰لاکھ کا دعویٰ کیا، حالانکہ مجیب کا یہ دعویٰ ناممکن سی بات ہے، کیونکہ پاکستانی فوج کو بہ یک وقت ملک کے اندر اور ملک کی سرحدوں پر لڑنا پڑ رہا تھا‘‘۔ (لیفٹیننٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑا، Remimiscences of Bangladesh War، وِڈیو انٹرویو، ماس کمیونی کیشن سنٹر، جامعہ ملّیہ، دہلی، ۱۹۹۴ء)۔ اس سے قبل بنگلہ دیش کی تخلیق کے ایک اہم کردار میجر جنرل ڈی کے پیلٹ نے بھی ۱۰ لاکھ کا عدد دہرایا، حالانکہ اس کے لیے وہ کوئی تائیدی ثبوت تک نہ پیش کرسکا۔ اس جنگ کے حوالے سے ان تینوں جرنیلوں یعنی مانک، اروڑا اور پیلٹ نے صرف دولفظوں کا سہارا لیا ہے: ’’یہ ایک معروف بات ہے‘‘ یا ’’جیساکہ ہم جانتے ہیں‘‘۔ یا ’’مجیب نے کہا‘‘ اتنے اہم معاملے پر ایسی سہل انگاری پر مبنی اسلوب اختیار کرنا بذاتِ خود غیرذمے دارانہ رویہ ہے اور بددیانتی پر مبنی انداز ہے۔
بقول ڈاکٹر عبدالمومن چودھری: دراصل ۳۰ لاکھ کے افسانے کو وضع کرنے کے پیچھے روزنامہ پوربودیش ڈھاکا کے مدیر احتشام حیدر چودھری اور اشتراکی روس کے سرکاری اخبار روزنامہ پراودا ماسکو کا نمایندہ متعینہ دہلی، صاف صاف دکھائی دیتے ہیں۔ پوربودیش میں احتشام حیدر نے ۲۲دسمبر ۱۹۷۱ء کو اداریہ ’’یحییٰ حکومت کو پھانسی دو‘‘ میں لکھا: ’’پاکستانی فوج نے ۳۰لاکھ بنگالی اور ۲۰۰ دانش ور مارے‘‘، جب کہ اسی اخبار نے صرف ایک روز قبل یعنی ۲۱ دسمبر ۱۹۷۱ء کو آٹھ کالم پر مشتمل ایک فیچر، جسے سرخ رنگ کی سرخیوں سے مزین کیا گیا تھا، یہ عنوان جمایا تھا: ’’بنگال کے کتنے لوگ مارے گئے؟‘‘ اور فیچر میں یہ بحث کی گئی: ’’بنگال میں ہر جگہ یہ سوال پوچھا جارہا ہے کتنے لوگ قتل ہوئے: ۱۰، ۲۰، ۳۰، ۴۰ یا ۵۰ لاکھ؟ کسی کے پاس اس سوال کا جواب نہیں ہے۔ لوگوں کو اس کا جواب چاہیے اور ہمیں اس سوال کا جواب دینا ہوگا‘‘۔ (پوربودیش، ۲۱ دسمبر ۱۹۷۱ء)۔ پھر ایک ہی رات گزرنے کے بعد وہ جواب کی ’تلاش و تحقیق‘ مکمل کرلیتا ہے اور اگلے روز یہی اخبار جواب دیتا ہے: ’’۳۰لاکھ سے کم نہیں‘‘ (۲۲دسمبر ۱۹۷۱ء)۔ پھر اسی خبر کو پراودا کا خصوصی نمایندہ دہلی، اپنے مرکز ماسکو بھیجتا ہے، جہاں خبر اس طرح شائع ہوتی ہے: ’’۳۰ لاکھ سے زیادہ‘‘۔ اور پھر پراودا کے حوالے سے ۵جنوری ۱۹۷۲ء کو ڈھاکا اور دہلی کے اخباروں پر خبر شائع کی جاتی ہے: ’’۳۰ لاکھ سے زیادہ بنگالیوں اور ۸سو بنگالی دانش وروں کو مارا گیا‘‘۔ یوں پندرہ روز میں،اور افراتفری کے عالم میں دو صحافی ایک افسانہ تراشنے میں پوری طرح کامیاب ہوجاتے ہیں۔ پھر ۱۰جنوری ۱۹۷۲ء کو شیخ مجیب نے ڈھاکا ایئرپورٹ پر اُترتے وقت پورے طمطراق سے یہ اعلان کردیا: ’’پاکستانیوں کے ہاتھوں ۳۵لاکھ بنگالی مارے گئے اور ۳ لاکھ بنگالی عورتوں سے زیادتی کی گئی‘‘۔
اسی دوران میں خود بھارتی حکومت بھی بہ عجلت تمام کہہ دیتی ہے: ’’۳۰ لاکھ افراد کو قتل کیا گیا‘‘ (ماہ نامہ نیشنل جیوگرافک، ستمبر ۱۹۷۲ء)۔ رابرٹ پاینی نے اپنی کتاب Tragedy of Bangladesh (میکملن، ۱۹۷۳ء، نیویارک) میں اسی بات کو تحقیقی رنگ دینے کے لیے یہ افسانہ تراشا: ’’۲۲فروری ۱۹۷۱ء کو جرنیلوں کے ایک اجلاس میں صدر پاکستان جنرل یحییٰ خان نے کہا تھا: ۳۰لاکھ بنگالیوں کو مار دو تو امن ہماری جھولی میں ہوگا‘‘ (ص ۵۰) یعنی ایک سال پہلے ہی جنرل یحییٰ نے قتل کی گنتی مکمل کرلی۔ یہاں سے وہاں تک ۳۰ لاکھ کا عدد کس کس روپ میں گھڑا، دکھایا اور پھیلایا گیا۔
جوہری کا نام بنگلہ دیش کے مشہور صحافی کی حیثیت سے تسلیم شدہ ہے۔ انھوں نے اپنی بنگلہ کتاب The Riddle of Thirty Lakh [۳۰ لاکھ کا معمّہ] (ڈھاکا، ۱۹۹۴ء) میں لکھا ہے: ’’یہ بات فہم سے بالاتر ہے کہ آٹھ ماہ اور بارہ روز کی ایک گوریلا جنگ میں ۳۰ لاکھ انسان مارے جائیں، اور یہ بات بھی وہم و گمان سے کوسوں دُور ہے کہ اس دوران میں دو لاکھ سے زیادہ عورتوں سے بالجبر زیادتی کی گئی ہو۔ میں نے ملک کے مختلف اضلاع کے ۵۰۰ افراد کا انٹرویو کیا، اور ان سے پوچھا ہے: ’’آپ کے خاندان کے دُور و نزدیک میں، یا آپ کے جاننے والوں میں یا پھر آپ کے گائوں محلے میں، کسی پاکستانی فوجی نے جنسی بے حُرمتی کی ہو تو ایسا کوئی واقعہ آپ بتا سکتے ہیں؟‘‘ ان میں سے ہر فرد نے کہا: ’نہیں‘۔ ممکن ہے وہ اپنے خاندان کے بارے میں ایسی بات بتاتے وقت شرماتے ہوں، مگر گائوں، محلے کے بارے میں گواہی دینے میں کسی فرد کے لیے کوئی امرمانع نہیں ہوسکتا تھا۔ البتہ چند بدکرداروں کے ہاتھوں ایسے واقعات ہوئے، مگر ان چند کو پھیلا کر ۲لاکھ بنا دینا کیسے ممکن ہوا ہے؟ پھر ملک بھر سے ان اعداد و شمار کو صرف ایک ہفتے میں فیصلہ کن شکل دینا کیسے ممکن ہوا؟ کس نے یہ سروے کیا؟‘‘ (ایضاً، ص ۱۴)
ولیم ڈرومنڈ (William Drummond)، نمایندہ خصوصی روزنامہ گارڈین لندن رقم طراز ہے: ’’۳۰ لاکھ افراد کا قتل ایک غیرحقیقی داستان سرائی ہے، جسے دنیا بھر کے اخبارات میں اُچھالا گیا۔ میں نے بنگلہ دیش کے بہت سے دورے کیے۔ اس دوران بے شمار لوگوں کے ساتھ ملاقاتیں کرنے، سیکڑوں دیہات کا سفر کرنے اور اُوپر سے لے کر نچلی سطح تک حکومتی اہل کاروں سے تبادلۂ خیال کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ۳۰لاکھ افراد کے قتل کی بات ایک انتہا درجے کی مبالغہ آمیزی ہے (گارڈین، ۶ جون ۱۹۷۲ء)۔ ایک اور صحافی پیٹرگل نمایندہ خصوصی روزنامہ ٹیلی گراف، لندن (۱۶؍اپریل ۱۹۷۳ء) نے لکھا ہے: ’’شیخ مجیب کا یہ دعویٰ کہ ۳۰لاکھ بنگالی افراد مارے گئے ایک ایسی مبالغہ آمیز کہانی ہے، جس میں نقصان کو ۲۰فی صد زیادہ، بلکہ ۵۰،۶۰ فی صد تک بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا ہے‘‘۔
عبدالمہیمن ضلع نواکھالی کے معروف سیاسی رہنما، ۱۹۷۰ء میں قومی اسمبلی کے منتخب رکن اور شیخ مجیب الرحمن کے طویل عرصے تک قریبی دوست رہے ہیں۔ انھوں نے ۱۹۹۰ء میں یحییٰ مرزا کو انٹرویو میں بتایا: ’’بنگلہ دیش کی پہلی دستور ساز اسمبلی کا رکن ہوتے ہوئے میں یہ بات پوری ذمہ داری سے کہتا ہوں کہ میں نے ضلع نواکھالی کے طول و عرض میں، پولیس اسٹیشنوں اور یونین کونسلوں میں گھوم پھر کر بڑی باریک بینی سے ۱۹۷۱ء کے مقتولین کے بارے میں معلومات اکٹھی کی ہیں۔ جن کے مطابق ضلع نواکھالی میں ۷ہزار سے کم افراد مارے گئے اور اگر [متحدہ پاکستان کے حامی] مقتول رضاکاروں کو بھی شامل کرلیا جائے تو یہ تعداد ساڑھے سات ہزار سے ہرگز زائد نہیں بنتی۔ یاد رہے کہ ۱۹۷۱ء میں بنگلہ دیش کے اضلاع کی تعداد ۱۹ تھی، اور تمام اضلاع اس جنگ سے برابر کی سطح پر متاثر نہیں ہوئے تھے، جب کہ نواکھالی وہ ضلع تھا جو جنگ سے بہت زیادہ متاثر اضلاع میں شمار ہوتا تھا۔ مراد یہ ہے کہ اگر ضلع نواکھالی سے جمع کردہ اعداد و شمار کو پیش نظر رکھیں اور تمام اضلاع میں مقتولین کی تعداد کا اوسط نکالیں تو اس کے باوجود یہ تعداد ایک لاکھ ۲۵ ہزار سے ہرگز زیادہ نہیں ہوسکتی‘‘۔ (بحوالہ ۳۰ لاکھ کا معمّہ، از جوہری، ص ۴۸،۴۹)
بنگلہ دیش کے محقق پروفیسر نعیم مہیمن نے اپنے مقالے Accelerated Media and 1971 میں اس پر بحث کی ہے: ’’۳۰ لاکھ کے اس عدد کو بنگلہ دیش کی سرکاری تاریخ میں تقدیس اور ایمان کا درجہ حاصل ہوگیا۔ یوں برسوں سے اس تعداد کو کسی بھی دائرۂ تحقیق میں اعتراض اور تجزیاتی چیلنج سے یک سر آزاد سمجھ لیا گیا۔ البتہ حالیہ زمانے کے تجزیہ کاروں نے دلیل دی ہے کہ پاکستانی فوج کے لیے ان سات مہینوں کے عرصے میں ۳۰لاکھ انسانوں کو قتل کرنا قطعی طور پر ناممکن ہے۔ اگر یوں انسانوں کو مارنا مقصود ہوتا تو اُس کے لیے باقاعدہ کوئی لائحہ عمل ترتیب دیا جاتا۔ مثال کے طور پر جرمنی کے آمر فیوہرر ہٹلر نے مبینہ طور پر اپنی پوری قوت سے ۶۰لاکھ یہودیوں کو چھے برسوں میں مارا، اور اس کے لیے باقاعدہ قتل گاہیں بنائی گئیں۔ گیس چیمبرز اور لانے لے جانے کے لیے سڑکوں کے جال سے استفادہ کیا گیا۔ مگر پاکستان کے حوالے سے ہمیں کہیں بھی ایسا پروگرام دکھائی نہیں دیتا اور نہ پاکستانی فوج نے مشرقی پاکستان میں نسل کشی (ethnic cleansing) کا کوئی منصوبہ تشکیل دیا۔ اس لیے ان چند مہینوں میں، مشینی قتل گاہوں، نسل کشی کے کیمپوں کی عدم موجودگی میں ۳۰لاکھ انسانوں کو مارنا، ناممکن ہے‘‘۔ (ص۱۰، اس مقالے کا ایک حصہ۔Economic & Political Weekly ،ممبئی، ۲۶ جنوری ۲۰۰۸ء میں بھی شائع ہوا)
یاد رہے ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان کی آبادی ۶ کروڑ ۹۷ لاکھ ۷۴ہزار نفوس پر مشتمل تھی۔ جہاں ۶۸ہزار ۳ سو ۸۵ دیہات اور ۴ہزار ۴ سو ۷۲ یونین کونسلیں تھیں۔ جیسے ہی ۳۰ لاکھ کا نمبر فضا میں اُچھالا گیا تو متعدد آزاد ذرائع نے اپنی تحقیقی کاوشوں سے ثابت کیا کہ یہ اعداد و شمار سخت مبالغہ آمیز ہیں___ ضلع جیسور، کلکتہ کی جانب، مشرقی پاکستان کا ایک سرحدی ضلع ہے۔ اس کے معروف سماجی رہنما خوندکر ابوالخیر بتاتے ہیں: ’’ہمارے پورے ضلعے سے ۲۰، ۲۵ سے زیادہ افراد، فرار ہوکر بھارت نہیں گئے۔ خود میرے گائوں اور مضافات کے دیہات میں پاکستانی فوج سے کہیں ایک جگہ بھی لڑائی کے واقعے اور کسی قسم کے قتل و غارت کی نوبت نہیں آئی‘‘۔ (۳۰ لاکھ کی کہانی کے پیچھے، ص ۲۰)
اس طرح دیکھا جاسکتا ہے کہ آزاد ذرائع ہی نہیں بلکہ شیخ مجیب کے قریبی ساتھی بھی لاکھوں کے اعداد و شمار کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ دوسری طرف خود بنگلہ دیش حکومت نے ۷جنوری ۱۹۷۲ء سے مقتولینِ آزادی کے اعداد و شمار اکٹھا کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر تشہیری مہم چلائی۔ ۱۶جنوری ۱۹۷۲ء کو شیخ مجیب نے عوامی لیگ کے کارکنوں اور اسمبلی کے ارکان کو حکم دیا کہ وہ اپنی پہلی فرصت میں ’مقتولینِ آزادی‘ کی تفصیلات اکٹھی کریں، اور دو ہفتے کے اندر اندر عوامی لیگ کے مرکزی دفتر جمع کرائیں (روزنامہ بنگلہ دیش آبزور، ۱۶ جنوری ۱۹۷۲ء، بحوالہ ۳۰ لاکھ کی کہانی، ص ۲۳)۔ پھر شیخ مجیب نے ۲۹ جنوری ۱۹۷۲ء کو سرکاری سطح پر ایک ۱۲ رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی، جس کے سربراہ عبدالرحیم، ڈی آئی جی پولیس تھے، جب کہ ارکان کمیٹی میں عوامی لیگ اور نیشنل عوامی پارٹی (بھاشانی گروپ) کے لیڈر اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے تجربہ کار ارکان شامل تھے۔ سرکاری گزٹ میں اس کمیٹی کا باقاعدہ اعلان کیا گیا۔ کمیٹی کے ذمے یہ کام تھا کہ: وہ مقتولین اور املاک کے نقصان کا جائزہ لے اور شرپسندوں کی نشان دہی کرے۔ ساتھ ہی یہ بھی حکم دیا گیا کہ مذکورہ کمیٹی: ’’اپنی رپورٹ ۳۰ اپریل ۱۹۷۲ء تک لازماً پیش کرے، اور اس مقصد کے حصول کے لیے تمام وسائل بروے کار لائے‘‘۔
’’عبدالرحیم انکوائری کمیٹی‘‘ نے بڑی تن دہی سے کام کیا، ایک ایک یونین کونسل اور ایک ایک پولیس اسٹیشن سے رابطہ کرکے کوائف جمع کیے، اور انفرادی گواہیوں کو بھی قلم بند کیا۔ روزنامہ گارڈین لندن کا نمایندہ خصوصی ولیم ڈرومنڈ جو مستقل طور پر ڈھاکا میں مقیم تھا، بیان کرتا ہے: ’’مارچ کے تیسرے ہفتے تک انکوائری کمیٹی کے سامنے صرف ۲ہزار افراد کے قتل کی رپورٹیں پیش ہوسکیں کہ: انھیں پاکستانی افواج نے مارا تھا‘‘ (روزنامہ گارڈین، لندن، ۶ جون ۱۹۷۲ء)۔ تاہم جب انکوائری کمیٹی نے رپورٹ مکمل کی تو معلوم ہوا کہ پورے بنگلہ دیش میں اس ساڑھے آٹھ ماہ کی بغاوت، خانہ جنگی، بلوے، لوٹ مار اور گوریلا جنگ میں ۵۶ہزار ۷ سو ۶۳افراد کے قتل کے ثبوت فراہم کیے جاسکے ہیں۔ بقول ولیم ڈرومنڈ: ’’جوں ہی انکوائری کمیٹی کے سربراہ نے رپورٹ وزیراعظم کو پیش کی تو جلد مشتعل ہوجانے والا جذباتی مجیب آپے سے باہر ہوگیا، اور اس نے رپورٹ پکڑ کر فرش پہ دے ماری اور غصے میں چلّانے لگا: ’’میں نے ۳۰ لاکھ کہے ہیں ۳۰ لاکھ۔ تم لوگوں نے یہ کیا رپورٹ مرتب کی ہے؟ یہ رپورٹ اپنے پاس رکھو، جو میں نے کہہ دیا ہے، بس وہی سچ ہے‘‘۔ (گارڈین، لندن، ۶ جون ۱۹۷۲ء)
بنگلہ دیش قومی اسمبلی میں وزارتِ خزانہ کے بیان کے مطابق یہی نمایندہ آگے چل کر رقم طراز ہے کہ: ’’مجیب نے مقتولین کی مدد کے لیے ۲ ہزار ٹکہ فی کس کا جو اعلان کیا تھا، اس کے حصول کے لیے ۷۲ہزار افراد نے درخواستیں جمع کرائیں، جن میں ۵۰ہزار مقتولین کے لیے رقم حاصل کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا، اور ان درخواستوں میں متعدد جعلی درخواستیں بھی شامل تھیں‘‘۔ (گارڈین، لندن، ۶جون ۱۹۷۲ء)
یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ عوامی لیگ کی پروپیگنڈا مشین کے مطابق: ’’بھارت میں پناہ گزین بنگالیوں میں سے لاکھوں افراد بھوک اور بیماری سے مارے گئے‘‘۔ اس طرح جن لوگوں نے مذکورہ بالا دعوے کے ساتھ رقوم وصول کیں، ان میں بہت سے وہ لوگ بھی شامل تھے جو بھارتی کیمپوںمیں مارے گئے تھے۔ (عبدالغفار چودھری، مضمون: ’ہمیں ہمت سے سچ کا سامنا کرنا چاہیے‘، روزنامہ جنپد، ڈھاکا، ۲۰ مئی ۱۹۷۳ء، بحوالہ ۳۰ لاکھ کی کہانی کے پیچھے، ص ۲۹، ۳۰)
شیخ مجیب نے جھوٹ کی جو آلودگی پھیلائی تھی، وہ ذہنوں کو مسموم کرتی رہی۔ پھر ۱۵جون ۱۹۹۳ء کو بنگلہ دیش قومی اسمبلی میں کرنل اکبر حسین (جو جنرل ضیا الرحمن اور خالدہ ضیا کی حکومتوں میں وزیر رہ چکے تھے) نے یہ کہہ کر بحث کو دوبارہ زندہ کر دیا کہ: ’’عوامی لیگ نے ۳۰لاکھ مقتولینِ آزادی کا افسانہ گھڑا، جب کہ حقیقت اس کے صرف ۱۰ فی صد کے قریب ہے‘‘۔ اس پر عوامی لیگ کے رکن اسمبلی عبدالصمد آزاد نے اسمبلی میں جواب دیا: ’’یہ بات ہم نے اپنے لیڈر شیخ مجیب سے سنی ہے اور اسے ہی ہم درست سمجھتے ہیں‘‘۔ پھر ہندو رکن اسمبلی شدھن گھشو شیکر نے چیلنج کرتے ہوئے سوال اُٹھایا: ’’اکبر حسین اپنے دعوے کا ثبوت پیش کریں‘‘۔ تب وزیر اکبرحسین نے کہا: ’’بنگلہ دیش بننے کے بعد حکومت نے اعلان کیا تھا کہ جس جس گھرانے کا کوئی فرد بھی اس جنگ میں مارا گیا ہے یا لاپتا ہوا ہے،و ہ گھرانہ متعلقہ فرد کا نام پتا بتا کر ۲ہزار ٹکے بطور امداد وصول کرے۔ اس اپیل کے جواب میں بنگلہ دیش بھر سے صرف ۳ لاکھ افراد نے نام درج کرائے۔ اگر وہ ۳۰لاکھ ہوتے تو لازماً وہ بھی نام درج کراتے، مگر ایسا نہیں ہوا، باقی ۲۷ لاکھ کہاں گئے؟ جب یہ جواب ملا تو پورے ایوان پہ خاموشی چھا گئی‘‘۔(بنگلہ دیش قومی اسمبلی کی روداد، ۱۵، ۱۶ جون ۱۹۹۳ء بحوالہ ۳۰لاکھ کی کہانی کے پیچھے، ص ۵)
مجیب حکومت سقوطِ مشرقی پاکستان کے فوراً بعد نقصان، اموات اور جرائم کے ذمہ داران کے تعین کے لیے پوری طرح سرگرم عمل ہوگئی۔ یوں ۲۲دسمبر ۱۹۷۱ء کو کلکتہ سے مجیب کی جلاوطن حکومت نے اعلان کر دیا تھا: ’’جن خواتین کے ساتھ پاکستانی فوجیوں نے زیادتی (ریپ) کی ہے وہ ’بنگالی ہیروئنیں‘ ہیں۔ پھر مجیب کی آمد پر جنوری ۱۹۷۲ء میں ڈھاکا میں ایک بہت بڑا ’بنگالی ہیروینز کمپلیکس‘ قائم کر دیا گیا، جس کا سربراہ مجیب کے رشتے دار جہانگیر حیدر کو مقرر کیا گیا۔ اس کمپلیکس کے لیے ریڈیو، ٹیلی ویژن اور اخبارات کے ذریعے بڑے پیمانے پر تشہیر کی گئی۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کرٹ والڈ ہایم نے ’ہیروینز کمپلیکس‘ کا دورہ بھی کیا، لیکن یہ کمپلیکس ایک روز کے لیے بھی آباد نہ ہوسکا۔ کتنی بنگالی ہیروینیں یہاں رجسٹرڈ ہوئیں؟ آج تک کسی کو یہ عدد معلوم نہ ہوسکا۔ کیونکہ اس باب میں دعوے کے لیے کوئی قابلِ ذکر ثبوت فراہم نہ ہوسکا۔ یوں خجالت میں چند ماہ بعد یہ منصوبہ اور کمپلیکس اچانک ختم کر دیا گیا‘‘۔ (۳۰ لاکھ کی کہانی کے پیچھے، ص۲۵، ۳۰)
ازاں بعد تحریک آزادیِ ہند کے معروف رہنما اور بنگالی نژاد سبھاش چندرابوس کی بھتیجی پروفیسر ڈاکٹر شرمیلا بوس (بھارتی بنگالی اور ہاورڈ یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی) نے جون ۲۰۰۵ء میں اپنے تحقیقی مقالے Problem of Using Women as Weapons in Recounting the Bangladesh War [بنگلہ دیش کی جنگ میں عورتوں کا بطور ہتھیار استعمال] میں لکھا ہے: ہمیں سچ بتانا چاہیے اور سچ یہ ہے کہ پاکستانی افواج پر بنگالی عورتوں کی اس پیمانے پر بے حُرمتی کا الزام مبالغہ آمیز حد تک بے بنیاد ہے۔ پاکستانی فوج نے ایک منظم قوت کے طور پر اپنی ڈیوٹی انجام دی جس میں عورتوں اور بچوں کو نشانہ بنانے سے گریز کیا گیا۔ میں نے وسیع پیمانے پر انٹرویو، مکالموں اور تحقیق سے یہی بات دیکھی ہے کہ پاکستانی فوج نے عورتوں کو یک سر نظرانداز کرکے، صرف مقابلہ کرنے والے جوانوں کو نشانہ بنایا‘‘۔ اس پر روزنامہ ڈیلی ٹائمز لاہور نے ۲ جولائی ۲۰۰۵ء کو اپنے اداریے New Impartial Evidence [نیا غیر جانب دارانہ ثبوت]میں لکھا: ’’پروفیسر شرمیلا بوس نے چشم دید گواہوں کی گواہی اور گہرے تحقیقی کام کی بنیاد پر برسوں سے لگنے والے اس الزام کی تردید کی ہے کہ پاکستان نے بنگالی عورتوں کو بالجبر زیادتی کا نشانہ بنایا‘‘۔
یہاں ایک مرتبہ پھر اطالوی صحافی خاتون آریانا فلاسی کے مکالمے سے رہنمائی لیتے ہیں، جس نے اپریل ۱۹۷۲ء میں (تب) صدر پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کا انٹرویو لیا، جو اس کی کتاب Interview With Historyمیں شامل ہے۔ فلاسی کے جواب میں بھٹو نے کہا: ’’مجیب الرحمن ایک پیدایشی جھوٹا شخص ہے۔ یہ اس کے بیمار ذہن پر ہے کہ وہ کب کیا بات کر دے، مثلاً وہ یہ کہتا ہے کہ اس قتلِ عام میں ۳۰ لاکھ لوگ مارے گئے تھے۔ وہ پاگل ہے___ وہ سب لوگ پاگل ہیں۔ بہ شمول اخبارات کے جو اس کی بات کو دہراتے ہیں کہ ۳۰ لاکھ لوگ مارے گئے، ۳۰ لاکھ قتل ہوگئے۔ بھارتیوں نے کہا تھا کہ ۱۰ لاکھ لوگ مارے گئے تھے۔ شیخ مجیب نے پہلے ۱۰کو ۲۰ کیا اور پھر ۳۰ لاکھ بنا دیا۔ وہ تو طوفان سے مرنے والے لوگوں کی تعداد بھی اسی طریقے سے ضرب تقسیم کر کے بڑھاتا رہتا تھا۔ بھارتی صحافیوں کے مطابق مرنے والوں کی تعداد ۶۰ سے ۷۰ ہزار تھی، جب کہ کچھ مشنری لوگوں کے مطابق ۳۰ ہزار لوگ مارے گئے تھے، اور جہاں تک میری اطلاعات ہیں تقریباً ۵۰ہزار لوگ مارے گئے تھے۔ چاہے اس ملٹری ایکشن کا کوئی بھی جواز پیش کیا جائے، میں حالات کی سنگینی کو کم کرنے کی کوشش نہیں کر رہا۔ میں محض چیزوں کو حقیقت کی طرف واپس لا رہا ہوں، کیونکہ ۵۰ہزار اور ۳۰ لاکھ لوگوں کے مرنے میں بہت بڑا فرق ہے___ مشرقی پاکستان سے بھارت جانے والے پناہ گزینوں کے بارے میں [بھارتی وزیراعظم] اندرا گاندھی کہتی ہیں کہ یہ ایک کروڑ لوگ تھے۔انھوں نے جان بوجھ کر ایک کروڑ کا نمبر دیا، تاکہ اسے جواز بناکر مشرقی پاکستان پر حملہ کرسکے، لیکن جب ہم نے اقوام متحدہ سے کہا کہ وہ [بنگالی] پناہ گزینوں کی تعداد چیک کر کے بتائے تو بھارت نے ہمارے اس مطالبے کی شدید مخالفت کی۔ اگر ایک کروڑ کا عدد ٹھیک تھا تو انھیں اقوام متحدہ سے چیک کرانے سے خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اصل بات ایک کروڑ یا دو کروڑ کی نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آرمی آپریشن میں جو لوگ مارے گئے ہیں، ان کی تعداد غلط ہو، لیکن پناہ گزینوں کی تعداد کے بارے میں میرے پاس موجود اعداد و شمار غلط نہیں تھے۔ ہمیں اچھی طرح پتا تھا کہ کتنے لوگ مشرقی پاکستان سے بھارت گئے تھے۔ اب یہ بات کہ وہاں کتنی عورتوں کے ساتھ بالجبر زیادتی کی گئی اور کتنی قتل ہوئیں؟ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ وہاں بہت زیادتیاں ہوئی تھیں۔ اس پورے عرصے میں اس طرح کی زیادتی کے صرف چار کیس رپورٹ ہوئے، اگر ان کو دس سے ضرب دیں تو ان کیسوں کی تعداد ۴۰ ہوجاتی ہے۔ پھر بھی ہم ان اعداد تک نہیں پہنچ سکتے جو مجیب اور اندرا گاندھی پوری دنیا میں پھیلاتے تھے‘‘ (ایک سیاست کئی کہانیاں، میں مذکورہ انٹرویو کا ترجمہ از رؤف کلاسرا، ص ۳۶۲، ۳۶۳)۔ ڈھاکا ہی سے نعیم مہیمن کے مطابق: ’’۱۹۷۱ء میں بھارت جانے والے بنگالیوں کی تعداد ۱۲ لاکھ سے ایک کروڑ ، بلکہ دو کروڑ تک بیان کی جاتی رہی۔ پھر ایک فلم ساز لیرلیون نے اس خودساختہ کہانی پر فلم بناکر انتہائی مبالغہ آمیزی کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کیا‘‘۔(مقالہ مذکورہ، ص ۱۴)
واشنگٹن میں بنگلہ دیش کے سفیر شمشیر ایم چودھری نے کہا کہ:’’۱۹۷۱ء کی جنگ کے حوالے سے ہمارے ہاں جو مبالغہ آمیز اعداد و شمار گردش کر رہے ہیں، ان میں غلطی اور شرارت دونوں چیزوں کا عنصر شامل ہے۔ سچ کی تلاش اور الزام تراشی سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ بنگلہ دیش اور پاکستان کی حکومتیں مل کر ایک ایسا کمیشن مقرر کریں، جو اس المیے کے دوران پیدا شدہ حقائق کو ایک رپورٹ کی صورت میں مرتب کرے‘‘۔ (روزنامہ ڈان، کراچی، ۷جولائی ۲۰۰۵ء)
یہاں پر دوبارہ اس امر کا اعادہ کیا جاتا ہے کہ کسی ایک فرد کی جان اور ایک فرد کی آبرو اتنی ہی قیمتی ہے جتنی کہ پوری قوم کی جان اور آبرو۔ مسئلہ اعداد و شمار کا نہیں لیکن اعداد و شمار کے بل پر جو طوفان اُٹھا کر اس خطۂ ارضی کے مسلمانوں کے درمیان نفرت اور خلیج پیدا کر کے باہمی دشمنی کو ہوا دینے کی کوشش ہورہی ہے، اسے زیربحث لانا اور ریکارڈ درست کرنا بے حد ضروری ہے۔اس مختصر مضمون میں اسی بڑے مسئلے پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
اوّلاً یہ کہ جھوٹ گھڑ کر، کروڑوں انسانوں اور بیسیوں قوموں میں ملکِ پاکستان کے بارے میں نفرت اور حقارت کی آگ سلگائی جارہی ہے، جسے افسانوی پٹرول چھڑک کر بڑے پیمانے پر پھیلایا جاتا ہے، نتیجے میں پاکستان اور اہلِ پاکستان کو اس نفرت کی قیمت دینا پڑتی ہے۔
ثانیاً یہ کہ اس مبالغہ آمیز طرزِ بیان نے بالخصوص ان لوگوں کو جو، ۱۹۷۱ء میں پاکستان کے لیے سربکف تھے، وہ ’پاکستانی دلّالی‘ کے ’الزام‘ اور اس پروپیگنڈے کی تپش میں خود اور ان کی آیندہ نسلیں جل رہی ہیں۔ اس طرح ان کے لیے اپنے مادرِ وطن میں زندگی بسر کرنا ایک اذیت ناک تجربہ بنا دیا گیا ہے۔
ثالثاً یہ کہ جھوٹ کے بل بوتے پر جس تاریخ کو گھڑا اور پھر ’حقیقت‘ کے طور پر ذہنوں، نصابوں اور کتابوں میں نقش کیا گیا ہے، ان کا نتیجہ ایک نہ ختم ہونے والی نفرت کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ آج بنگلہ دیش کی مقتدر حکومت اور پالیسی ساز ادارے اسی خانہ ساز نفرت میں اپنے ’اقدام‘ کا جواز پاتے ہیں۔
ظاہر ہے یہ الفاظ فضا میں تحلیل ہوکر تو نہیں رہ گئے۔ ان الفاظ نے اپنا ایک اثر دکھایا ہے، اور بنگلہ دیش کی نئی نسل کے ذہن میں: پاکستان اور مسلمان کی ایک تصویر بھی بنائی۔ ایسی تصویر جسے خود پاکستان کی لسانی قوم پرست تحریکیں پسند کرتی ہیں اور ان کے سایے میں اپنی منزل دیکھتی ہیں۔ اسی تصویر کے خدوخال کو گہرا اور نمایاں کرنے کے لیے بھارتی لابی، ہندو کمیونٹی کی مؤثر قیادت اور وہ اشتراکی لابی سرگرم عمل رہی ہے، جسے پاکستان کا وجود ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ بلکہ اس کے نزدیک سب خرابیوں کا مرکز پاکستان ہی ہے۔
تاریخ کا یہ ایک ایسا بوجھ ہے جسے بحیثیت قوم، اہلِ پاکستان کو اٹھانا ہے، مگر بوجھ اتنا ہونا چاہیے، جتنا ہے۔ ایسا بے حدوحساب بوجھ جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، اسے وضاحت کے ساتھ بیان کرنا ضروری ہے۔ گناہ پہ ندامت اور چیز ہے، لیکن ناکردہ گناہوں کے بوجھ تلے کچلا جانا دوسری بات ہے۔ آیئے، دیکھتے ہیں،اعداد و شمار اور پروپیگنڈے کی یہ آگ کس طرح لمحہ بہ لمحہ بھڑکتی ہوئی یہاں تک پہنچی کہ آج عالمی پروپیگنڈے اور تاریخی و ادبی لٹریچر کا حرفِ معتبر بن گئی ہے، مگر جواب اور وضاحت کے لیے کوئی سامنے نہیں آتا۔ اس طرح یک طرفہ پروپیگنڈے کا آغاز اس طرح ہوتا ہے:
یہاں یہ امر بھی زیربحث نہیں ہے کہ اس قتل و غارت کا کیا جواز تھا اور کیا جواز نہیں تھا۔ اور یہ بھی جائزہ نہیں پیش کیا جا رہا کہ ۲۵ اور ۲۶ مارچ ۱۹۷۱ء کی درمیانی شب شروع ہونے والے ’آپریشن سرچ لائٹ‘ کی کیا قانونی حیثیت تھی۔ اسی طرح یہاں یہ جائزہ بھی پیش نہیں کیا جا رہا کہ یکم مارچ سے ۲۵ مارچ ۱۹۷۱ء تک کتنے ہزار غیربنگالی، پنجابی، پٹھان پاکستانیوں، خصوصاً بہار سے ہجرت کر کے آنے والے عام غریب مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں پر کیا بیتی؟ (صرف ایک مثال ملاحظہ کیجیے: ’’۳ اور ۴ مارچ کی درمیانی شب چٹاگانگ کی فیروزشاہ کالونی کو جہاں اُردو بولنے والے رہتے تھے اسے عوامی لیگ کے کارکنوں نے چاروں طرف سے گھیر کر ۷۰۰ گھروں کو آگ لگا دی۔ جو عورتیں اور بچے آگ سے بچنے کے لیے باہر نکلے ان کو گولی مار دی جاتی۔ اس طرح صرف ایک جگہ پر لگ بھگ ۲ ہزار افراد کو زندہ جلامارا گیا‘‘) اور آپریشن کے ایک ہفتے کے بعد وہ مسلسل مقامی مسلح افراد اور بھارتی شرپسندوں کے کس کس ظلم کا نشانہ بنائے گئے؟ (ملاحظہ کیجیے: ’’مشرقی پاکستان میں لاکھوں غیر بنگالی بری طرح پھنس کر رہ گئے ہیں اور وہ بنگالیوں کے انتقام کا نشانہ ہیں‘‘۔ (روزنامہ سٹیٹسمین، نئی دہلی، ۴؍اپریل ۱۹۷۱ء)۔ ’’مشرقی پاکستان میں جگہ جگہ غیربنگالیوں کے گھروں کو جلایا، ان کے مردوں اور عورتوں کو مارا اور ان کی بے حُرمتی کی جارہی ہے۔ میمن سنگھ کی صرف ایک مسجد میں ۱۵۰۰ ایسی غیربنگالی بیوہ عورتوں نے پناہ لی، جن کے شوہروں کو ذبح کر کے مار دیا گیا‘‘۔ (سیلون ڈیلی نیوز، کولمبو، ۱۵ مئی ۱۹۷۱ء)
پھر سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد ان غیربنگالی اور ان کے ساتھ ’متحدہ پاکستان‘ پر یقین رکھنے والے بنگالی شہریوں پر کیا گزری؟ دنیا بھر کے اخبارات ان مظلوموں کی چیخ و پکار اور خون کے آنسوئوں سے لکھی مظلومیت کی گواہی پیش کرتے رہے، مگر ان کی تائید و ہمدردی میں کہیں سے نحیف سی آواز بھی نہیں اُبھری، کہیں کوئی پتّا تک نہیں ہلا۔ یاد رہے آرمی آپریشن کے بعد غیربنگالی پاکستانیوں کو عوامی لیگ اور بھارتی پشت پناہی سے تیار کردہ مکتی باہنی (جس کا مؤثر آپریشنل حصہ بھارتی فوج پر مشتمل تھا)کو پاکستانی فوج اور غیربنگالیوں کے قتلِ عام کے لیے اذنِ عام مل گیا، جس نے ۱۶دسمبر سے پہلے اور پھر بعد میں خون کی ہولی کھیلی۔ اور ساتھ ہی ۱۹۷۲ء کے دستورِ بنگلہ دیش میں یہ تحفظ بھی لے لیا کہ اس آزادی کی تحریک میں حصہ لیتے وقت آزادی کے سپاہیوں نے جو کچھ بھی کیا ہے، اسے کہیںچیلنج نہیں کیا جاسکے گا۔ گویا اُن کے ہرقسم کے قتل و غارت گری کے جرائم کو دستوری تحفظ اور عام معافی دے دی گئی___ یوں اگر یہ کہا جائے کہ مشرقی پاکستان میں حقیقی معنوں میں قتل عام عوامی لیگ ہی نے کیا تو اسے مبالغہ آمیزی قرار نہیں دینا چاہیے۔ نعیم مہیمن اپنے مقالے Accelerated Media and 1971میں ایک اور پہلو کی طرف توجہ دلاتے ہیں: ’’ایک طرف بھارتی فوج نے اپنی سرزمین پر مکتی باہنی کے لیے مشرقی پاکستان سے عوامی لیگی جوانوں اور چین نواز سوشلسٹوں کو گوریلا تربیت دی، تو دوسری جانب ۱۹۷۱ء کے اسی بحران سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، عوامی لیگ کی تائید اور اپنے اسٹرے ٹیجک مفادات کی تکمیل کے لیے انھی سوشلسٹ گوریلوں کو منظم طریقے سے ذلیل کرنا اور انجام تک پہنچانا شروع کر دیا۔[اضافہ از مضمون نگار: پھر اپنی پروپیگنڈا مشینری سے قتل کے ان واقعات کا سارا الزام پاکستان اور متحدہ پاکستان چاہنے والے بنگالیوں کے کھاتے میں ڈال دیا]۔ اس شاطرانہ چال کو سمجھنے کے لیے عوامی لیگ کے اس رویے کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ء کے بعد جوں ہی عوامی لیگ کو اقتدار پر قبضہ مضبوط کرنے کا موقع ملا تو اس نے ڈیڑھ دو سال کے اندر اندر سوشلسٹ بنگالیوں کو نہ ختم ہونے والی گندی جنگ کی بھینٹ چڑھایا‘‘ (ص ۸)۔ وہ عوامی لیگ جس کے چہرے پر ۱۹۷۱ء اور ۱۹۷۲ء میں بے گناہ غیربنگالیوں کے خون کے دھبے صاف نظر آتے ہیں: ’’اسی عوامی لیگ نے اپنے پہلے دورِاقتدار میں چٹاگانگ کے پہاڑی علاقے [ہل ٹریک] میں آباد بدھ مت کے ہزاروں شہریوں کو قتل کیا‘‘ (نعیم مہیمن، ص ۹)۔ مگر امن کے کسی دیوتا نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔ ان بے چاروں کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ عوامی لیگ کی طرح برہمن نواز نہیں تھے۔
سوال یہ ہے کہ کیا یکم مارچ ۱۹۷۱ء کے بعد ہزاروں کی تعداد میں غیربنگالیوں کا قتل عام بھلا دینے والی بات تھی؟ اور کیا اس خون کا جواب لینے والا اس دنیا میں کوئی نہیں؟
کیا پاکستان کے تحقیقی اداروں اور یونی ورسٹیوں کی یہ ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ پاکستان توڑنے، پاکستانیوںکو مارنے اور پاکستان کو بدترین الزامات کا نشانہ بنانے والے اقدامات کا معروضی اور تحقیقی انداز سے جائزہ لیں؟
اگر یہ سمجھ کر چپ سادھ لی جائے کہ الزام فلاں پہ لگ رہا ہے تو وہی بھگتے، ایسا بے رُخی پر مبنی رویہ اختیار کرنا کم از کم تحقیقی اداروں کے شایانِ شان نہیں ہوسکتا۔ آج پاکستان کے حوالے سے انتہا درجے کا منفی پروپیگنڈا پورے بنگلہ دیش کے وجود میں خون کی طرح گردش کر رہا ہے۔ جماعت اسلامی، مسلم لیگ، پاکستان جمہوری پارٹی اور نظامِ اسلام پارٹی کے وہ لوگ جو متحدہ پاکستان چاہتے تھے اور جائز طور پر ’ایک پاکستان‘ چاہتے تھے، آج وہی لوگ اس نفرت کی آگ میں جلائے جارہے ہیں۔ اگر ریاست اور ریاست کے اداروں کا یہی رویہ رہا تو مستقبل میں خود اس پاکستان کی سالمیت اور دفاع کے لیے نکلتے وقت لوگ کیا سوچیں گے؟