بے نظیر بھٹو کی زندگی کا آخری سیاسی کارنامہ ’قومی مفاہمتی آرڈی ننس‘ (NRO- National Reconciliation Ordinance) تھا اور آخری کتاب Reconciliation۔ [کتاب کا پورا نام: مفاہمت: اسلام، جمہوریت اور مغرب ہے۔] وہ ۲۷دسمبر ۲۰۰۷ء کی شام جلسۂ عام میں رونما ایک الم ناک حملے میں جاں بحق ہوئیں۔ اگلے روز ۲۸دسمبر کو مارک اے سیگل نے اس کتاب کا دیباچہ لکھا، جب کہ ساتویں روز ۳ جنوری ۲۰۰۸ء کو ان کے شوہر آصف علی زرداری، بیٹے بلاول اور بیٹیوں بختاور اور آصفہ نے کتاب کا اختتامیہ قلم بند کیا۔ ۳۲۸صفحات پر مشتمل یہ کتاب سائمن اینڈ شسٹر نے لندن، نیویارک اور ٹورنٹو سے ۲۰۰۸ء کے اوائل میں شائع کی ہے۔
عجیب اتفاق ہے کہ اس کتاب کا عنوان ہے: ’مفاہمت‘ مگر کتاب کے مندرجات میں کہیں کسی ایک سطر میں بھی مذکورہ ’مفاہمتی آرڈی ننس‘ کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی، حالانکہ اسی آرڈی ننس کی بنیاد پر نہ صرف ان کی جلاوطنی ختم ہوئی بلکہ ان پر اور ان کے شوہر آصف علی زرداری پر قائم کرپشن کے مقدمات ختم ہوئے اور سیاست میں ان کی واپسی ممکن ہوئی اور اس کے نتیجے میں پیپلزپارٹی کو نئی زندگی اور زرداری صاحب کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی صدارت ملی۔ ’مفاہمت‘ (deal) کے بارے میں یہ پُراسرار خاموشی بہت معنی خیز ہے۔
اس کتاب میں جو چیز زیربحث ہے وہ مغرب بلکہ امریکا اور مسلمان ہیں، مسلمان بھی وہ، جنھیں کٹہرے میں کھڑے ملزم بلکہ مجرم بن کر پیش کیا گیا ہے۔ کتاب کے مباحث کی تکرار، اس میں موجود پیغام کے رنگ اور اس کے اسلوبِ نگارش کو دیکھ کر بسااوقات یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس کتاب کا بیش تر حصہ بے نظیر بھٹو کا لکھا ہوا نہیں ہے، تاہم پیپلزپارٹی کے جنرل سیکرٹری جہانگیر بدر نے اس کتاب کو بے نظیر بھٹو کی: ’’وراثت کی آخری کڑی اور نعرئہ حق کی ایسی صدا قرار دیا ہے، جس کی بازگشت آنے والے زمانوں میں بھی گونجتی رہے گی‘‘۔ پاکستان کی ایک اہم سیاسی پارٹی کی رہنما سے منسوب اس کتاب کا مطالعہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس میں بیان کردہ وژن کو سمجھا جائے، اور جسے وصیت یا وراثت کہا گیا ہے، اس میں پائے جانے والے پیغام کے مضمرات کا احاطہ کیا جائے۔
کتاب میں متعدد مقامات ایسے ہیں کہ ان تحریروں کے اثرات مستقبل پر اثرانداز ہوں گے، اس لیے ضروری ہے کہ حق کی گواہی دی جائے۔ انسانی جان کا قتل جتنا بڑا جرم ہے، کم و بیش اتنا ہی بڑا جرم تاریخ کا قتل ہے۔ علمِ تاریخ، انسانی تجربے، اجتماعی زندگی کے حادثے، اور کارنامے کو اگلی نسلوں تک منتقل کرنے کا محضرنامہ ہوتا ہے۔ کیا ’مفاہمت‘ کے نام پر ’نفرت‘ کا درس دینا کوئی مناسب عمل ہے؟ اگرچہ کتاب کے دو تہائی مباحث اس امر کا مطالبہ کرتے ہیں کہ ان پر غور کرکے ان کا بے لاگ تجزیہ کیا جائے۔ مگر زیرنظر صفحات میں اس قدر تفصیل کی گنجایش نہیں، اس لیے ہم اپنے تجزیے کو صرف دو ایک مرکزی موضوعات ہی تک محدود رکھیں گے۔ اس مبحث کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا رہا ہے: ۱-اسلام اور عالمِ اسلام ۲- سید قطب، مولانا مودودی اور جماعت اسلامی۔
یہ درست ہے کہ دینی امور پر بات کرنا کسی فرد کی اجارہ داری نہیں ہے۔ مصنفہ نے اس کتاب میں متعدد جگہ دینی معاملات پر اپنے نتیجہ ٔ فکر کو پیش کیا ہے۔ اپنی بات کہنا ان کا حق ہے، مگر اس میں بہرحال یہ ضرور دیکھا جائے گا کہ وہ بات درست ہے یا نہیں۔ ایک جگہ لکھا ہے:
قرآن کی تفسیر میں یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ تفسیر کون کر رہا ہے۔ کئی مسلمان، خصوصاً جن کا تعلق مذہبی حکومتوں سے ہے، یقین رکھتے ہیں کہ صرف چند مخصوص لوگوں ہی کو قرآن کی تفسیرکرنے کا حق حاصل ہے، حالانکہ یہ بات درست نہیں ہے۔ قرآن کی تفسیر کو کسی ایک فرد یا مجلس تک محدود نہیں رکھا گیا۔ قرآن کی تفسیر کرنے کی آزادی ہرمسلمان کو حاصل ہے۔ تمام مسلمانوں کو قرآن کی تفسیر کرنے کا حق دینے کی ضمانت (یعنی حق اجتہاد) حاصل ہے۔ (ص ۶۵)
یہ لطیف نکتہ تو بڑے بڑے روشن خیالوں کو بھی نہ سوجھا تھا کہ قرآن کی تفسیر کرنے کا حق ہرفرد کو ہے۔ علما نے کہیں نہیں کہا کہ تفسیر کرنے کا حق ہمیں حاصل ہے، بلکہ انھوں نے صرف یہ کہا ہے کہ تفسیر کے لیے علم اور تقویٰ، عربی اور دینی نظائر پر گہری دسترس حاصل ہونی چاہیے، اور جو فرد بھی یہ دسترس حاصل کرلے وہ تفسیر کرسکتا ہے۔علما نے یہ بھی کہیں نہیں کہا کہ کسی مخصوص نسلی طبقے کو یہ حق حاصل ہے، مگر انھوں نے یہ ضرور کہا کہ قرآن کے مفسر کو دین دار اور خدا ترس بھی ہونا چاہیے۔ مذکورہ پیراگراف میں مصنفہ نے ’اجتہاد‘ کو بھی ہرشہری کا ایسا حق قرار دینے کی کوشش کی ہے، جیساکہ وہ قانون کی تشریح کے لیے علم سے بے بہرہ ہرکس و ناکس کو حق دینے کے لیے آمادہ نہیں ہوسکتیں، آخر یہ آزاد روی صرف دین اسلام کے ساتھ ہی کیوں؟مصنفہ نے برعظیم پاک و ہند میں جن افراد کو علمِ دین کی وضاحت کے لیے نامزد فرمایا ہے، وہ ہیں: ’’مولانا وحیدالدین اور خالد مسعود جیسے زندہ مصلح، جو اپنے جدت پسند علمِ دین کو ریاست کے ظلم وستم یا دھونس کا نشانہ بنائے بغیر پڑھا سکتے ہیں‘‘ (ص ۲۸۴)___ عورتوں کے حقوق پر بحث کرتے ہوئے لکھا گیا ہے:
حقیقت یہ ہے کہ پردے (veil) یا برقعے کا تعلق زیادہ تر قبائلی روایات سے ہے۔ روایت پرست ماضی میں صاحب ِ ثروت خواتین صرف عزیزوں کی شادیوں یا جنازوں میں شریک ہونے کے لیے گھروں سے نکلتی تھیں۔ یہ اُس وقت اِس خطے کا عام چلن تھا، مگر کسی بھی حوالے سے اسلام کی تعلیم نہیں تھا۔ (ص ۴۲)
اگر پردہ کرنا قبائلی روایت کا حصہ ہے تو پھر پردہ نہ کرنا بھی تو کسی قبیلے کی روایت کا حصہ ہوسکتا ہے۔ کیا عہد ِ رسالتؐ و عہدصحابہؓ میں یہ چیزیں محض قبائلی سلسلے کی کڑیاں تھیں یا ان کے لیے قرآن و سنت اور اسلامی روایات کا ایک گراں قدر تسلسل ہمیں رہنمائی دیتا آیا ہے؟ تاہم پردے یا حجاب کی شکلیں مختلف ادوار میں لوگوں کے ذوق اور ضرورت کے مطابق تبدیل ہوتی رہی ہیں۔ یہ چیز روایت کی اسیری یا دولت کے اظہار کا ذریعہ بھی نہیں تھی۔ مسلمان عورتیں کبھی جنازوں میں نہیں جایا کرتیں۔ اور آخر میں ان کا یہ لکھنا کہ ’’پردہ کسی بھی حوالے سے اسلام کی تعلیم نہیں‘‘۔ ایک بے بنیاد جسارت اور ایک غلط فتویٰ ہے ___ آگے چل کر وہ کہتی ہیں:
عورتوں کے لباس سے متعلق قرآن کی دو بڑی آیات کو حجاب کی دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، اور فقہا انھی کو استعمال کر کے عورتوں سے حجاب پہننے کا تقاضا کرتے ہیں--- حالانکہ آیت (الاحزاب:۶۷) خاص رسولؐ کے اہلِ بیت کے لیے ہے۔ (ص ۴۲)
مصنفہ کے نزدیک پردہ صرف بعد کے فقہا کی ذہنی اُپج ہے اور یہ کہ قرآن کا حکم صرف اور صرف رسولِؐ پاک کے اہلِ بیت اور بیویوں کے لیے تھا۔ یہ بصیرت افروز انکشاف، عبرت کے کئی پہلو رکھتا ہے۔ انھوں نے مزید یہ بیان کیا ہے:
جب میں عُنفُوانِ شباب کو پہنچی تو میری والدہ [بیگم نصرت بھٹو صاحبہ] نے مجھ سے برقع (burqa) پہننے کے لیے کہا۔ [یہ سن کر] مجھے اچانک دنیا دھندلائی دھندلائی سی نظر آنے لگی۔ کپڑے کی اِن بندشوں تلے مجھے گرمی اور سانس لینے میں دقت محسوس ہوتی تھی۔ میرے والد [ذوالفقار علی بھٹو صاحب] نے مجھ پر صرف ایک نگاہ ڈالی اور کہا: ’’میری بیٹی کو پردہ (veil) کرنے کی ضرورت نہیں ہے‘‘۔ میری والدہ نے فیصلہ کیا، اگر یہ پوری طرح لپیٹ لینے والا برقع نہیں پہنے گی تو پھر میں بھی نہیں پہنوں گی۔ اس طرح روایت شکنی کا آغاز ہوا--- اور رسولؐ نے تو کہا ہے کہ بہترین پردہ ’نظر کا پردہ‘ ہے۔ (ص ۴۳)
یہ واقعی انکشاف ہے کہ بیگم نصرت بھٹو صاحبہ نے اپنی بیٹی بے نظیر بھٹو کو برقعہ پہننے کے لیے کہا، مگر بھٹوصاحب نے پردے کی تجویز کو جھٹک دیا اور پھربیگم صاحبہ نے بھی برقع پہننے سے انکار کردیا۔ یوں روایت شکنی کا علَم بلند ہوا۔ اس میں توجہ طلب بات تو یہ ہے کہ بیگم صاحبہ ایک اصفہانی خاندان سے تعلق رکھنے والی ایران نژاد ماڈرن خاتون تھیں، جو بے نظیر کے سنِ بلوغت سے پہلے بھی کھلے چہرے کے ساتھ، سماجی مجالس میں شرکت کیا کرتی تھیں۔ جب انھوں نے خود برقع پہنا ہی نہیں تو ایسے میں، ان کی جانب سے ردعمل میں آکر برقع چھوڑنے کا اعلان ایک نئی بات ہے۔ اور جو بھٹو صاحب نے کہا یا جس تصور سے بے نظیر لرزاں و ترساں ہوئیں، وہ ان کا ذاتی احساس ہے، اس پر مزید کچھ کہنا لاحاصل ہے، تاہم قرآن، سنت، حدیث اور اسلامی سماجی روایات کو چھوڑ بھی دیں، تب بھی کم از کم ان تین حضرات کے بارے میں کیا کہیں گے جو اپنی وسیع المشربی کے باوجود پردے بلکہ برقعے کے قائل تھے، مراد ہیں: جدیدیت کے حدی خواں سرسیداحمد خاں، روشن خیالی کے ’امام‘ نیاز فتح پوری اور مغرب کے ظاہروباطن کے رازداں علامہ محمداقبال۔ کیا یہ لوگ بھی ’قبائلی طرزِ احساس کے قیدی‘ تھے؟ ___
مسلمانوں میں انتہا پسندی کا کھوج لگاتے ہوئے لکھتی ہیں:
ازمنہ وسطیٰ کے عالم احمد ابن تیمیہ [۱۲۶۲ء-۱۳۲۸ء]نے مسلمانوں اور غیرمسلموں کے درمیان ایک واضح حدِفاصل قائم کی اور کہا: ’’مسلم شہریوں کا یہ فرض ہے کہ ان [غیرمسلموں] کے خلاف بغاوت کریں اور جہاد کریں۔ اس فتوے کو کئی گروہوں نے نقل کیا۔ یوں ان کے نزدیک غیر مسلموں کے خلاف اعلانِ جہاد کرنا جائز ہے۔ (ص ۲۷-۲۸)
پہلی بات تو یہ ہے کہ امام ابن تیمیہ کو وحشی منگولوں کی بے رحمانہ یلغار روکنے کے لیے تلوار اٹھانا پڑی۔ اسلامی تاریخ کے اس عظیم محسن نے بذاتِ خود اس درندگی کو ایک ایسی سطح پر دیکھا، جس کا مشاہدہ ہمارے مغرب پلٹ اہلِ دانش نہیں کرسکتے۔ ظاہر ہے کہ حالت ِ جنگ اور تلواروں کی بارش میں وہ پھول کی پتیاں تو نچھاور نہیں کرسکتے تھے، بلکہ ایسی صورت حال میں اسلام جو رہنمائی دیتاہے، انھیں اس سے روشنی حاصل کرنا تھی۔ اب یہ مصنفہ یا ان کے مددگار اسکالروں کی تحقیق اور تخیل کی کرشمہ سازی ہے کہ امام ابن تیمیہ کے نزدیک ایک مسلمان کا کام ہروقت، ہر جگہ اورہر حالت میں یہی ہے کہ وہ غیرمسلموں پر جہاد کی تلواریں برساتا رہے۔ آگے چل کر ابن تیمیہ کو ان مجاہدین سے جوڑا گیا جو یہودی، نصرانی اور ہندو استعمار سے آزادی کے لیے مصروفِ جہاد ہیں۔ جو بات امام ابن تیمیہ نے کہی نہیں، اس کے لیے ان کو ذمہ دارکیوں قرار دیا جائے اور ان احوال و ظروف کو نظرانداز کیوں کیا جائے جس میں انھوں نے فتویٰ دیا اور تلوار اٹھانے کی بات کی تھی۔
اکیسویں صدی میں اہلِ مغرب کی تاریخ کروٹ لے رہی ہے، اور وہ سعودی حکمران جو ماضی میں ان کے ہاں ’اعتدال‘ کی علامت قرار دیے جاتے تھے، اب نئی عالمی صف بندی میں ان کے خلاف مغرب کی جانب سے گاہے گولہ باری دیکھنے میں آتی ہے۔ ۱۹۷۳ء میں سعودی فرماں روا شاہ فیصل بن عبدالعزیز نے اسرائیل کی پشت پناہی کرنے پر امریکا کو تیل کی سپلائی روکنے کی بات کی تو امریکی انتظامیہ نے ایک طرف دوستی اور دوسری جانب دشمنی اختیار کرنے کی دو رُخی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے سعودی مملکت کو نفرت کا نشانہ بنانا شروع کیا۔ اس کے ساتھ دوسرا شکار ’وہابیت‘ ہے۔ گذشتہ ۲۰۰ برس کے دوران مغربی استعماریوں نے ان کی اطاعت نہ کرنے والے مسلمانوں کو ’وہابی‘ کا نام دیا۔ اور ’وہابی‘ لفظ کے ساتھ متعدد بے بنیاد روایات منسوب کر کے مسلمانوں میں عمومی سطح پر نفرت کی آگ بھڑکائی گئی۔ موجودہ سعودی عرب کے علاقے نجد میں شیخ محمد بن عبدالوہاب (۹۲-۱۷۰۳ء) کے رفقا موجود تھے، تاہم بھارت، انڈونیشیا، چیچنیا، افریقہ وغیرہ میں جہاں بھی مسلم سرفروشوں نے گوری اقوام کے استعماری اقتدار کو للکارا تو انھیں وہابی کہہ کر بدنام کیا اور: ’’مارنے سے پہلے دشمن کو بُرا نام دینے‘‘ کی روایت کو آگے بڑھایا۔ مصنفہ نے لکھا ہے:
سُنّی اسلام میں اسلامی سُنّی شریعت کے چار مکاتب ہیں: حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی۔ سُنّی فرقے کے بیج سے ایک اور فرقہ نکل کر اُبھر رہا ہے جنھیں ’وہابی‘ کہا جاتا ہے، جو موجودہ دور میں سعودی عرب میں غالب اکثریت اور قوت رکھتا ہے۔ اس کے بانی محمد بن عبدالوہاب حنبلی مسلک کے پیرو تھے۔ سعودی بادشاہت، خاندانِ سعود پر مشتمل ہے اور وہابیت سلطنت کا سرکاری مذہب ہے۔ وہابیوں نے غیروہابی مسلمانوں کی قبریں مسمار کردیں۔ انھوں نے باجماعت نماز میں شرکت کو لازمی قرار دے دیا۔ وہابی خاص طور پر شیعہ مسلمانوں کے خلاف تھے۔ ۱۸۰۲ء میں وہابی افواج نے عراق میں کربلا پر قبضہ کرلیا اور اپنے ہتھے چڑھنے والے ہرمعلوم شیعہ مرد، عورت اور بچے کو موت کے گھاٹ اُتار دیا--- وہابیت ایک سخت گیر اور کٹّر مسلک ہے۔ یہ عیسائیوں، یہودیوں اور مسلمانوں کے چند فرقوں کو بھی مرتد قرار دیتا ہے۔ بعض وہابیوں کا کہنا ہے کہ شیعوں کو قتل کرنا ایک مذہبی فریضہ ہے۔ (ص ۵۱)
بلاشبہہ شیخ محمد بن عبدالوہاب کے رفقا نے ایسے مزار مسمار کیے تھے کہ جن پر ضعیف الاعتقادی کے باعث نذرونیاز اور توسّل و التجا کے عمل نے قبرپرستی کے قریب پہنچا دیا تھا مگر اس میں وہابی اور غیروہابی کی تمیز نہ تھی۔ اسی طرح باجماعت نماز کی ادایگی کسی وہابی کا حکم نہیں، بلکہ مردوں کے لیے یہ اللہ کے رسولؐ کا حکم ہے کہ وہ باجماعت نماز پڑھیں۔ ’وہابی سعودیوں‘ کو شیعہ مسلمانوں کا جانی دشمن قرار دینا بھی ایک افسانہ ہے اور کربلا پر ان کی یلغار کا جو نقشہ اس کتاب میں کھینچا گیا ہے وہ بذات خود فرقہ واریت کے شعلوں پر تیل چھڑکنے کے مترادف ہے۔ اس آگ کو بھڑکانے کے لیے مغرب کے پالیسی ساز نت نئے شوشے چھوڑتے رہتے ہیں۔ ہم یہاں پاکستان میں دیکھتے ہیں کہ شیعہ حضرات پر وقتاً فوقتاً افسوس ناک حملے کرنے والے چھوٹے سے جنگ جُو گروہ کا تعلق اہلِ حدیثوں (’وہابیوں‘) سے نہیں، بلکہ اس گروہ سے ہے کہ جس کے سیاسی گروپ کے ساتھ اکثر پیپلزپارٹی شراکتِ اقتدار کرتی چلی آرہی ہے۔ چونکہ سعودی مملکت اور خاص طور پر سلفیوں کو نشانہ بنانا آج کے مغربی حکمرانوں کو مطلوب ہے، اس لیے خاص طور پر اہلِ مغرب کے اس پروپیگنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے یہاں کہا گیا ہے کہ وہ ’عیسائیوں اور یہودیوں‘ کے دشمن ہیں۔ یہ اعلان مغربی تھنک ٹینک باربار کررہے ہیں، اور ان کی صداے بازگشت یہاں بھی موجود ہے۔ آگے چل کر لکھا ہے:
ترکی سے پاکستان تک کی مسلم آبادیوں میں مغرب، خصوصاً ریاست ہاے متحدہ امریکا کے لیے تحقیر اور دشمنی کے جذبات روز افزوں ہیں اور عراق کی جنگ [۱۹۹۱ء اور ۲۰۰۳ء تاحال] کو اس کی وجہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ فلسطین کی صورت حال کو ایک اور سبب کے طور پر سامنے لایا جاتا ہے۔ مغرب کی نام نہاد انحطاط پذیر اقدار کو بھی اکثر ایک حصے کے طور پر شاملِ بحث رکھا جاتا ہے۔ اپنے مسائل کے لیے دوسروں پر الزام دھرنا، اپنی ذمہ داری کو قبول کرنے سے کہیں زیادہ آسان ہے۔ [مغرب کے] غیرملکیوں اور نوآبادیاتی حاکموں کی مذمت بڑی آسانی اور بڑی تیزی سے کی جاتی ہے، مگر مسلم دنیا میں اپنے گریبان میں جھانکنے اور اپنی غلطیوں کو پہچاننے کے معاملے میں اتنی ہی کم آمادگی پائی جاتی ہے۔ (ص ۴)
’دانش وری‘ اور ’ٹھنڈے دل و دماغ‘ پر مبنی یہ بیان بھی مسلم دنیا کی مذمت اور امریکی حکومت کے لیے انسانیت سوز اقدامات کی طرف داری کا پہلو لیے ہوئے ہے۔ اصل بات آخر میں کی گئی ہے کہ مغرب اور نوآبادیاتی حاکموں کی مذمت ’بڑی آسانی اور بڑی تیزی‘سے کی جاتی ہے، مگر ’اپنے گریبان میں نہیں جھانکا جاتا‘۔
حقیقت یہ ہے کہ مسلم دنیا میں اپنی غلطیوں کو پہچاننے ، اور اپنے گریبان میں جھانک کر اپنی خرابیوں کو دُور کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ صرف مغرب یا امریکا وغیرہ نہیں، بلکہ امریکا وغیرہ کے وہ دیسی ٹھیکے دار ہیں، جو سیاست اور اقتدار کے سرچشموں پر قابض ہیں، اور جنھیں استعماری حکمرانوں کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔ اسی چیز کا شعور رکھتے ہوئے مظلوم مسلمان، اپنے دکھوں کا سبب مغرب کی طاقتوں کو قرار دیتے ہیں اور یہ کوئی غلط بات بھی نہیں ہے۔ جس طرح وہ خود بھی گذشتہ برسوں میں پاکستانی آمر جنرل پرویز مشرف کو خرابی کا سبب قرار دیتی تھیں اور اس کا اہم ذمہ دار مغرب اور امریکا کو قرار دیتے ہوئے ان سے مطالبہ کرتی تھیں کہ وہ مشرف کی پشت پناہی چھوڑ دیں۔ یہ بات عام لوگ کہیں تو غلط، لیکن اگر وہ کہیں تو درست۔ غالباً اسی چیز کو ’خودمختاری‘ کہا جاتا ہے۔ اس سے قبل یہ بھی لکھا ہے:
دنیا بھر میں ایک ارب مسلمان جنگ ِ عراق پر غم و غصے کے اظہار میں اور اقوامِ متحدہ کی تائید کے بغیر امریکی فوجی مداخلت کے نتیجے میں مسلمانوں کی ہلاکتوں کی مذمت کرنے میں تو یک جا نظر آتے ہیں، مگر اس فرقہ وارانہ خانہ جنگی پر، جو اس سے کہیں زیادہ ہلاکتوں کا موجب بنی ہے، ایسے غم و غصے کا اظہار نہ ہونے کے برابر ہے۔ مسلم قائدین، عوام اور یہاں تک کہ دانش ور بھی شرم ناک طور پر اپنے برادر مسلمانوں کو بیرونی عناصر کے ہاتھوں پہنچنے والے نقصان پر تنقید کرنے میں خاصی سہولت محسوس کرتے ہیں، مگر [اس کے برعکس] جب مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں پر تشدد کی بات آتی ہے تو [ان پر] موت جیسی خاموشی چھا جاتی ہے۔ (ص ۳)
مسلمانوں کا زوال محض نوآبادیاتی نظام کی ناانصافی یا طاقت کی عالمی تقسیم کی وجہ سے نہیں ہوا۔ مسلم معاشروں کو خود بھی ذمہ دار اور جواب دہ ہونا پڑے گا۔ مسلم ممالک کے خزانے بھرے پڑے ہیں۔ (ص ۳۰۰)
چلیے، ان کم ظرف مسلمانوں کو تو مطلوبہ تنقید کرنے کی توفیق حاصل نہیں ہوئی، مگر اس کتاب کے اوراق پر یہ کارِعظیم بار بار کیا گیا ہے۔ کہاں عراق اور افغانستان میں مجموعی طور پر ۲۶لاکھ مسلمانوں کا قتل (جس میں پہلے روسی کمیونسٹ فوجوں کے ہاتھوں ۱۳ لاکھ افغانوں کے لیے موت اور پھر ۲۰۰۱ء کے بعد ان دونوں ملکوں میں مزید ۱۳ لاکھ بے گناہ انسانوں کا بہیمانہ قتل اور وہ بھی کسی ثبوت کے بغیر)۔ اس قتل پر احتجاج کرنے میں اس لیے مستقبل کے ’مسلم حکمران‘ لوگ خاصے محتاط ہیں کہ اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھنے کے لیے امریکا بہادر کی خوش نودی میں رخنہ آئے گا۔ مسلم دانش پر ماتم کناں مصنفہ کو یہ بات بھول گئی کہ جو فرقہ وارانہ خانہ جنگی انھیں نظر آرہی ہے، وہ المیہ بھی دراصل اسی امریکی قبضے و یلغار اور مقامی لوگوں کا حق حکمرانی سلب کرنے کا نتیجہ ہے۔ اس لیے مسلم دانش اس المیے کو الگ حقیقت، جب کہ امریکی فوجی مداخلت اور اس سے پیدا شدہ وحشت و درندگی کو دوسری چیز سمجھتی ہے، تاہم مبالغہ آمیز فرقہ واریت کے افسانوی تذکرے سے بھری پڑی مسلم دنیا اسی کتاب کے اوراق پر نظر آتی ہے، حقائق کی دنیا میں نہیں:
مسلم دنیا کے اندر فرقوں، نظریوں اور اسلام کی تشریحات کے مابین ایک اندرونی خلیج، ایک متشدد محاذ آرائی موجود ہے، اور ہمیشہ موجود رہی ہے۔ اس تباہ کن کشیدگی نے بھائی کو بھائی کے خلاف لاکھڑا کیا ہے۔ آج مسلمانوں کے مابین یہ فرقہ وارانہ تشدد اس مجنونانہ، اور اپنی ہی جڑوں کو کاٹنے والی فرقہ وارانہ خانہ جنگی میں پوری طرح نظر آتا ہے۔ اور مسلم دنیا میں فرقہ واریت ہر موڑ پر نظر آتی ہے۔ (ص ۲)
میرے اس موقف کی تصدیق ہوتی ہے کہ ہمارے جدید دور کے اہم ترین تصادم اسلام اور مغرب کے درمیان نہیں، بلکہ اسلامی ریاستوں کے اندر اعتدال پسندوں اور جدیدیت کی قوتوں اور انتہا پسند اور جنونی قوتوں کے درمیان داخلی لڑائیوں کی صورت میں رونما ہوئے ہیں۔ (ص ۲۵۶)
مسلم دنیا، نظریوں اور فرقوں کی ایسی کسی عالم گیر اور متشدد محاذ آرائی کی تصویر پیش نہیں کرتی۔ اختلاف ہمیشہ اور ہر معاشرے میں رہا ہے، لیکن یہ گلے کاٹنے کا بحیثیت مجموعی ہولناک منظر یا تو اس کتاب میں نظر آتا ہے یا پھر سیکولر حلقوں کی اس خواہش کا پرتو ہے کہ دین کو اور دین دار طبقے کو بُرا کہنے کے لیے یہ بہانا تراشا جائے کہ دین اسلام تو بس فرقہ وارانہ لڑائیوں کا مذہب ہے۔ جس جنگ یا قتل و غارت کو کتاب میں پوری مسلم دنیا کا سرطان قرار دیا گیا ہے، وہ الم ناک فضا ’مہذب‘ امریکا اور اس کے اتحادیوں اور مسلم دنیا میں اس کے باج گزار حکمرانوں کی حکمت عملیوں کا نتیجہ ہے، اور وہ افسوس ناک صورت حال بھی انھی علاقوں میں ہے جہاں انھوں نے استعماری قبضہ جما رکھا ہے___ وضاحت کرتے ہوئے یہ بھی لکھا ہے:
۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے حملوں نے تصورِ خلافت سے تحریک حاصل کرنے والی خوں ریز محاذآرائی کے ہراول دستے، یعنی صلیبی جنگوں کی آمد کا اعلان کیا۔ جب جڑواں ٹاوروں کے جلنے اور منہدم ہونے کی تصویر ٹیلی وژن پر دکھائی گئی تو مسلم دنیا میں اس کا خیرمقدم دو مختلف طریقوں سے کیا گیا: ایک بڑی تعداد کا، اگرچہ بہت بڑی تعداد نہیں، ردِعمل خوف، خفت اور شرمندگی کا تھا، جب [اس پر] یہ واضح ہوا کہ تاریخ میں دہشت گردی کا یہ سب سے بڑا واقعہ اللہ اور جہاد کے نام پر مسلمانوں کے ہاتھوں انجام پایا ہے۔ مگر ایک ردعمل اور بھی تھا اور وہ یہ کہ کچھ لوگوں نے فلسطین کی گلیوں میں خوشی سے رقص کیا، کچھ نے پاکستان اور بنگلہ دیش میں مٹھائیاں بانٹیں… (ص ۳)
۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے المیے پر دنیا کے کسی مسلمان ملک یا شہر نے خوشی کا اظہار نہیں کیا۔ اگر فلسطین کے کسی شہری نے اسرائیلی مظالم کے دکھ سہتے سہتے، اس کے پشتی بان کو پہنچنے والے نقصان پر لمحہ بھر کے لیے کوئی مسرت کا اظہار کردیا، تو اسے ایک ارب اور ۳۰ کروڑ مسلمانوں کے ’ذہنی افلاس‘ کا حوالہ بنانا ظلمِ عظیم ہے۔ اس سانحے کو تو آج تک کسی ذمہ دار مسلمان لیڈر نے ’اللہ اور جہاد‘ کا مظہر قرار نہیں دیا۔ حادثے کے چند گھنٹوں کے اندر اندر امریکی صدربش نے اسامہ اور افغانستان سے اس کا رشتہ جوڑ ڈالا، اور تقریباً ۹ برس گزر جانے کے باوجود آج تک کسی کھلی عدالت میں اس الزام کو جرم کے طور پر ثابت نہیں کیا جاسکا۔ البتہ کروڑوں مسلمانوں پر الزام تراشی اور لاکھوں پر کسی تامّل اور جواز کے بغیر تعزیر جاری کرنے کا کام ضرور کیا گیا۔ بعدازاں مسلم دنیا میں امریکی مظالم کے خلاف جو ردعمل سامنے آیا، اس میں صرف مسلمان ہی نہیں، پوری دنیا کے خوددار، غیرت مند اور بہادر انسان شریک ہیں، جنھوں نے رنگ و نسل اور قوم و مذہب کی تفریق سے بالاتر رہتے ہوئے، افغانستان اور عراق پر امریکا اور اس کے اتحادیوں کی بدترین بم باری اور قتل و غارت گری کی نہ صرف مذمت کی، بلکہ جب بھی ان قاتل فوجوں کو نقصان پہنچا تو انھوں نے سُکھ کا سانس لیا۔ اس لیے امریکی فوجیوں سے ہمدردی اور مسلم اُمہ کی مذمت کا یہ یک طرفہ فتویٰ عدل سے خالی، حقائق سے رُوگردانی اور بے رحمانہ خود مذمتی کی دلیل ہے۔ اسی طرح ’صلیبی جنگوں‘ کی اصطلاح کو صدربش نے استعمال کیا تھا، کسی مسلمان لیڈر نے نہیں۔
کتاب میں مسلک دیوبند کے بارے میں درج یہ اقتباس بھی دل چسپ ہے:
دیوبند مسلک ایک قدامت پسند فرقہ ہے۔ دیوبندی، مسلم اقدار پر مغربی اثر کے حوالے سے متفکر رہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’مغربی‘ بننے کے بجاے ’مسلمانوں کو اپنی پہچان، برقرار رکھنی چاہیے۔ یہ حنفی مسلک کی پیروی کرنے اور غیراسلامی افعال ترک کرنے کے حامی ہیں۔ (ص ۵۱- ۵۲)
حقیقت یہ ہے کہ دیوبندی ہی نہیں، یہاں کا ہر دین دار اپنے آپ کو مغرب کے فکری اور اعتقادی رنگ میں رنگنے کو دین کے تقاضوں کے منافی سمجھتا ہے، غیراسلامی افعال کو ترک کرنے کی تلقین اور تربیت کرتا ہے۔ اس بنیادی بات کو صرف اہلِ دیوبند سے منسوب کرنا، مشاہدے کی خامی، دین سے وابستگی رکھنے والے عام مسلمانوں کے بارے میں معلومات کی کمی اور دینی تعلیمات کے تقاضوں کو سمجھنے میں سوے فہم کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے۔ پھر یہ لکھنا کہ:
دیوبندیوں کا عقیدہ ہے کہ دینی اور دنیاوی معاملات کے درمیان کوئی حدِفاصل نہیں، اور یہ کہ اسلام زندگی کے ہر پہلو کو محیط ہے۔ جنوبی ایشیا میں داخلے کے لیے وہابی تحریک ایک عرصے سے دیوبندی مدرسوں میں سرمایہ کاری کرتی چلی آرہی ہے۔ (ص ۵۲)
دین اور دنیا کی تفریق کا قائل مغرب ہے، اسلام نہیں، بقول اقبال: ’جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘۔ اسلام کا سارا معاشی وعدالتی اور وراثتی نظام ایسی تفریق و تقسیم کو کسی درجے میں بھی تسلیم نہیں کرتا۔ اس لیے اسلام اہلِ مغرب کی خواہش کے مطابق دو رنگی کا شکار نہیں ہوسکتا۔ اسی یک جائی فکر کو اہلِ مغرب کبھی ’انقلابی اسلام‘ اور کبھی ’سیاسی اسلام‘ کا نام دیتے اور اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں۔ تاہم، اس ذیل میں دیوبند سے منسلک سب سے بڑی تبلیغی جماعت اور تصوف کے سلسلوں کا مسلک ’دین و دنیا‘ کے تعلق پر خاصا مختلف ہے، مگر اس نقطۂ نظر کو نظرانداز کردیا گیا ہے۔ آگے چل کر لکھا ہے:
مجھے خاص طور پر یاد آتا ہے کہ دہشت گردی کے نیٹ ورک ’الرشید‘ [ٹرسٹ] نے افغانستان کے طالبانی علاقوں میں جابجا تندور، یعنی اوون بیکریاں قائم کر رکھی تھیں۔ ہرروز مائیں اور باپ ان بیکریوں پر آکر اپنے گھرانوں کے لیے مختص کردہ ہرفرد کے لیے ۳،۳نان لے کر جاتے۔ یہ خاندان بھوک سے مر رہے تھے، اب [’الرشید‘ کے طفیل] ان کے پیٹ بھرنے لگے تھے۔ ’الرشید‘ کی قائم کردہ ہر تندور بیکری میں اسامہ کی تصویر آویزاں ہوتی تھی، جو ماں باپ اس روٹی کا راشن یہاں سے حاصل کرتے، وہ اس کا کریڈٹ اسامہ بن لادن کو دیتے۔ (ص ۳۰۴- ۳۰۵)
یہ بیان بھی کذب آمیز رنگین بیانی کا شاہکار ہے۔ دیوبندی مسلک سے وابستہ ایک رضاکار تنظیم افغانستان کے بے آب وگیاہ ویرانوں میں ایسے کتنے تندور قائم کرسکتی تھی کہ انھیں افغانوں کی پوری نسلوں کو روٹی کے بدلے دہشت گردی کی فوج کا سپاہی بننے کا سبب قرار دیا جائے؟ دوسری بات یہ ہے کہ ’الرشید‘ والے اپنے رسالوں اور کتابوں میں خود اپنے بانی کی تصویر چھاپنے کو درست نہیں سمجھتے، تو بھلا اسامہ کی تصویر کو کیوں اپنی رضاکارانہ خدمت کا حوالہ بنائیں گے۔ یہ جھوٹ کسی مغربی پروپیگنڈا ٹکسال میں گھڑا گیا، جسے مبالغہ آمیز وسعت دے کر یہاں تھوپ دیا گیا ہے، اور ان کے تمام تر رفاہی و تعلیمی نیٹ ورک کو تباہ کرنے کے جواز کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ نائن الیون کمیشن رپورٹ کی سفارشات (باب ۱۲) میں متعین طور پر یہ کہا گیا ہے: مسلمانوں کی رفاہی تنظیموں کی شہ رگ کاٹ دی جائے، مسلم عورتوں میں آزاد روی کے فروغ کے لیے ان کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی جائے۔ ثانوی درجے تک تعلیم پر مسلم ریاستوں کا کنٹرول کمزور بلکہ ختم کیا جائے وغیرہ وغیرہ۔ پہلے نکتے کی تکمیل کے لیے مذکورہ بالا مثال پیش کرنا سمجھ میں آتا ہے___ مصنفہ نے بیان کیا ہے:
امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے تعلیمی اور ثقافتی تبادلے کے پروگرام کی بدولت ہزاروں غیرملکی نوجوان ، جن میں سے کئی ایک کو آگے چل کر اپنے اپنے ملک کی قیادتیں سنبھالنی تھیں، امریکا پڑھنے، سیر کرنے، اور سیکھنے کے لیے آئے۔ اور جب یہ لوگ واپس [اپنے ممالک میں] پہنچے تو ہمیشہ آزاد اور قابل مواخذہ معاشروں کے مبلّغ بن کر سامنے آئے۔ وہ جو صدارت اور وزارتِ عظمیٰ کے عہدے تک پہنچے مجھ جیسے لوگ، انھوں نے تعلیم کے دوران میں حاصل ہونے والے جمہوری، صنفی مساوات اور آزادیِ اظہار کے اسباق کو اپنی اقوام کے طرزِعمل پر لاگو کیا۔ اپنے ساتھی [امریکی] طالب علموں کے ساتھ ہمارے گرم جوشانہ تعلقات آج بھی زندہ ہیں۔ اس لیے نوجوان لیڈروں کو مطالعاتی دوروں پر یہاں [امریکا] لانے اور یہاں کے خاندانوں کے ساتھ ٹھیرانے سے انھیں اپنی آنکھوں سے مغربی زندگی کا مشاہدہ کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔ (ص ۳۱۲- ۳۱۳)
کتاب میں جگہ جگہ اسی طرح کے مشورے امریکی حکومت کو دیے گئے ہیں۔ شاید مصنفہ کو علم نہیں تھا (مگر مغرب سے قربت رکھنے والی مصنفہ کیوں کر لاعلم ہوسکتی ہیں؟) کہ یہی تجاویز اور کم و بیش انھی الفاظ اور انھی اہداف کے ساتھ، عرب اور مسلم دنیا کے مستقبل کو قابو کرنے کے لیے اکتوبر ۲۰۰۳ء میں امریکی ایوانِ نمایندگان کی رپورٹ Changing Minds Winning Peace میں امریکی سفیروں، دانش وروں اور The Muslim World after 9/11 میں رینڈ کارپوریشن ۲۰۰۴ء نے پیش کی تھیں، جن کو مؤثر ’تریاق زہر‘ سمجھ کر عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔ پیش نظر یہی رکھا گیا ہے کہ: مسلمان اقوام کو امریکی مرضی کے تابع بنانے کے لیے وہاں کے مؤثر طبقوں کی اولادوں کو یہاں لاکر ذہنی غسل دیا جائے اور یہاں کی تہذیب کا دل دادہ بنایا جائے، اور یہاں کے ’لوگوں‘ [غالباً خفیہ ایجنسیوں] سے مضبوط رابطے قائم کرائے جائیں،تاکہ وہ واپس جاکر، بدلے ہوئے دل و دماغ اور تطہیرشدہ فکرونظر کے ساتھ اپنی ریاستوں کو امریکا کے تابع بناسکیں___ آگے بڑھیں تو انکشاف ہوتا ہے:
مغرب میں مسلمانوں کا معیارِ زندگی غیرمعمولی حد تک بلندہے۔ بہت سی جگہوں پر یہ غیرمسلموں کے برابر یا ان سے بھی بلند تر ہے… مسلمانوں نے ان مغربی ممالک میں نہ صرف اپنے لیے خیرمقدمی جذبات محسوس کیے، بلکہ کوئی انکار نہیں کرے گا کہ انھیں وہاں اپنے مذہب اور ثقافت پر عمل پیرا ہونے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ (ص ۳۱۵)
اس بیانیے کو ٹھنڈے دل سے دیکھیں تو یہ کسی امریکی سفارت خانے کے پروپیگنڈا پمفلٹ کے ایک ٹکڑے سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا۔ ’چند مسلمانوں‘ کو مجموعی طور پر وہاں محنت مشقت کرنے والے لاکھوں مسلمانوں کی حالت زار کی بہتری سے تشبیہہ وہی قارون دے سکتا ہے، جو خود اپنی آسایش و آسودگی کے مماثل سبھی لوگوں کو سُکھ چین کی زندگی گزارتے ہوئے محسوس کر رہا ہو۔ آج مغرب اور امریکا میں مسلمانوں کی عظیم اکثریت قدم قدم پر جس مذہبی و سماجی تعصب کا شکار ہے، جس طوفانی پروپیگنڈے کا ہدف ہے اور جس کے نتیجے میں کم و بیش ہرمسلمان مشکوک انسان قرار پا رہا ہے، بھلا ایسے میں کون کہہ سکتا ہے کہ وہاں رہنے والے: ’’مسلمانوں کا معیارِ زندگی غیرمعمولی حد تک بلند ہے‘‘۔ اپنے استدلال کے لیے ہم مختلف مثالوں اور خود مغربی آرا پر مبنی سروے رپورٹوں سے نظائر پیش کرنے کے بجاے، سوال اٹھاتے ہیں کہ یہ: ’مذہب اور ثقافت پر عمل کرنے کی مکمل آزادی‘ کا کون سا نمونہ ہے کہ مغرب ایک مسلمان بچی کے سر پر ڈیڑھ فٹ کا اسکارف بھی برداشت نہیں کر رہا، مگر دوسری طرف مکمل عریانی کو وسعتِ نظر قرار دے رہا ہے۔ کتاب کے اختتامی اوراق میں اس بیانیے سے کون سا پیغام دینا مقصود ہے؟
بھارت سے مرعوبیت تو کئی حوالوں سے اس کتاب کا حصہ ہی ہے، لیکن کیا ضروری ہے کہ تواریخ کا حوالہ بھی غلط درج کیا جائے۔ لکھا ہے:
بھارت نے ۱۹۴۹ء میں دستور منظور کیا اور ۱۹۴۹ء ہی میں عام انتخابات منعقد کرائے، جب کہ پاکستان میں پہلے عام انتخابات ۱۹۷۰ء میں ہوئے۔ (ص ۱۶۹)
پہلی بات یہ ہے کہ بھارتی دستور ۲۶نومبر ۱۹۴۹ء کو منظور اور ۲۶ جنوری ۱۹۵۰ء کو نافذ ہوا، اور عام انتخابات ۱۹۵۱ء میں ہوئے۔ جہاں تک دستورِ پاکستان کا تعلق ہے اس کی منظوری میں بیوروکریسی کی سازش اور دستور ساز اسمبلی کے جاگیردار ارکان کی عدم دل چسپی نے مسلسل روڑے اٹکائے، تاہم جب ۱۹۵۶ء میں دستور پاکستان منظور ہوکر نافذ ہوگیا اور ۱۹۵۹ء کے اوائل میں عام انتخابات کی راہ ہموار ہوگئی، لیکن اس مرحلے تک پہنچنے سے قبل ہی میجر جنرل اسکندر مرزا نے بحیثیت صدر، ۷ اکتوبر ۱۹۵۸ء کو ملک میں مارشل لا نافذ کرکے جنرل ایوب خان کو سیاہ و سفید کا مالک بنا دیا، دستور پاکستان کو منسوخ کیا اور ۲۴ اکتوبر کو جمہوریت پر شب خون مارنے والے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی آٹھ رکنی کابینہ میں ذوالفقار علی بھٹو نامی نوجوان ایڈووکیٹ بھی شامل تھے۔ پھر ۲۸ اکتوبر کو دوبارہ وزارت تشکیل دی تو اس میں بھی بھٹوصاحب کو وزیر مقرر کیا گیا، جو جون ۱۹۶۶ء تک فوجی ڈکٹیٹر ایوب خان کے دست ِ راست بنے۔ بے نظیر صاحبہ نے اس کتاب میں جمہوریت کی پامالی کا بہت رونا رویا ہے۔ مقامِ عبرت ہے کہ جمہوریت کے قتل میں اور ان کے والد ِ گرامی، فوجی ڈکٹیٹر کے ساتھ شامل تھے۔
کتاب میں تاریخ کے ساتھ مختلف مقامات پر دل چسپ کھیل کھیلا گیا ہے۔ اس مناسبت سے بہت سی متنازع فیہ باتیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ چند سطریں ملاحظہ ہوں:
تحریکِ پاکستان پر لکھی جانے والی کتابوں میں قائداعظم کے لاڑکانہ کے دوروں کا سراغ نہیں ملتا۔ نومبر ۱۹۶۹ء کے برعکس یحییٰ خان کا مارشل لا دسمبر ۱۹۷۱ء تک ہی نہیں، بلکہ بعد میں بھٹوصاحب کے دورِ حکومت میں۱۹۷۲ء تک جاری رہا۔ شیخ مجیب تو ضد میں جتنا اَڑے رہے، وہ اپنی جگہ ایک المیہ ہے، لیکن فروری ۱۹۷۱ء میں خود بھٹوصاحب نے ’اُدھر تم، اِدھر ہم‘ اور ’’۳ مارچ [۱۹۷۱ء] کے طے شدہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے مغربی پاکستان سے جو رکن اسمبلی ڈھاکا گیا، مَیں اس کی ٹانگیں توڑ دوں گا‘‘ جیسی دھمکیاں دے کر جنرل یحییٰ کی فوجی جنتا کے ہاتھ مضبوط کیے،اس پر دبائو ڈالا اور یکم مارچ کو اجلاس ملتوی کرا دیا۔ اس اعلان سے مشرقی پاکستان میں لاکھوں غیربنگالیوں کو موت کے گھاٹ اُتارنے کا سامان کیا گیا۔ اور پھر جب ڈھاکا میں جنرل یحییٰ خاں نے فوجی ایکشن کا حکم دیا تو اُس وقت جنرل موصوف سے ملاقات کر کے نکلنے والے آخری فرد کا نام ذوالفقار علی بھٹو تھا۔
اس بے رحمانہ فوجی ایکشن کے چندگھنٹوں بعد بھٹوصاحب نے مغربی پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی یہ بیان دیا: ’’خدا کا شکر ہے پاکستان بچ گیا‘‘۔ (روزنامہ مساوات اور روزنامہ نواے وقت، لاہور، ۲۷ مارچ ۱۹۷۱ء) اور جس پاکستانی فوج کو دو ہفتوں کے اندر اندر اُکھاڑ پھینکنے کی بات کی گئی ہے، وہ عملاً چھے ماہ سے بغیر تازہ کمک کے لڑ رہی تھی، جسے تین اطراف سے بھارتی فوج، روسی مدد، کمیونسٹ گوریلا فورس اور مکتی باہنی گھیرے ہوئے تھی۔ اسی طرح ۹۰ہزار فوجی، جنگی قیدی نہیں بنے تھے، بلکہ لگ بھگ ۴۵ہزار فوجی قید ہوئے تھے___ درمیان کی کڑیوں کو اُڑا کر اور من پسند واقعات کو بلاسیاق و سباق نمایاں کرکے بیان کرنا تاریخ نگاری نہیں، دیانت سے عاری منفی پروپیگنڈا ہے۔
وطن عزیز میں یہ ایک غلط روایت ہے کہ حکومتیں نصابِ تعلیم پر طبع آزمائی کرنا اپنا حق سمجھتی ہیں۔ اسی روایت پر عمل کرتے ہوئے جنرل ضیا الحق نے بھی نصابِ تعلیم کو دو مرتبہ ترمیم و اضافے کی مشق سے گزارا۔ مگر یہ کام فوج کے ہیڈکوارٹر نے نہیں بلکہ ’صوبائی نصابی بورڈوں‘ اور ’قومی نصابی ادارے‘ نے کیا تھا۔ وہ کتابیں آج بھی دیکھی جاسکتی ہیں کہ ان میں کس ’جرم‘ کا کتنا ارتکاب کیا گیا۔ اب زیرتبصر کتاب کا یہ حصہ ملاحظہ کیجیے:
جنرل ضیاء اپنے انتہا پسند اتحادیوں کا وفادار دوست ثابت ہوا، اس نے اسکولوں کی نصابی کتابوں کو بھی تبدیل کردیا اور تحریکِ پاکستان اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں ان کے منفی کردار کو سفید چولا پہنا دیا۔ نصاب میں شامل ہونے والی کتب پاکستان میں فوجی حکومت کی حمایت کرتیں، ہندوئوں کے خلاف نفرت پھیلاتیں، [مسلم] جنگوں کو شان و شوکت کا مظہر بناکر پیش کرتیں اور پاکستان پر مشتمل علاقے کی ۱۹۴۷ء سے پہلے کی تاریخ کو مسخ کرکے پیش کرتیں۔ (ص ۱۸۹)
یہ سارا بھاشن، اصل میں امریکی حکومت کی اس ’فکرمندی‘ کا مبالغہ آمیز اظہار ہے کہ جس کے تحت پاکستان ہی نہیں، بلکہ پورے عالمِ اسلام کے تعلیمی اداروں میں پڑھائے جانے والے نصاب کو گذشتہ ۹برس سے نشانہ بنایا گیا ہے۔ پاکستان میں ایس ڈی پی آئی کی بدنامِ زمانہ رپورٹ میں قومی نصابِ تعلیم کو ہدف بنا کر یہ ثابت کیا گیا تھا کہ: ’’دو قومی نظریے کی تدریس یہاں پر انتہاپسندی کو پروان چڑھا رہی ہے‘‘۔ پھر یہ کہا گیا کہ: ’’محمدبن قاسم اور پاک بھارت جنگوں میں نشانِ حیدر لینے والے کرداروں کے حالات پڑھ کر بچوں میں بھارت سے دشمنی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں ‘‘۔ ۱۹۴۷ء سے پہلے کی تاریخ کے بارے میں کہا گیا کہ: ’’نصابی کتابیں پڑھ کر طالب علموں میں برطانیہ کے نوآبادیاتی دور کے حوالے سے انگریزوں کے خلاف جذبات پیدا ہوتے ہیں‘‘۔ یہ سب باتیں جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت (۱۹۹۹ء-۲۰۰۸ء) میں، امریکی منشا کے مطابق مشتہر کی گئی تھیں۔ مذکورہ بالا اقتباس بھی انھی خیالات کی نمایندگی کر رہا ہے۔
پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن) کی اتحادی اور ’اعلانِ جمہوریت‘ پر دستخط کرنے والی ایک حلیف پارٹی ہے۔ گذشتہ پانچ برسوں کے دوران میں میاں محمد نوازشریف نے پیپلزپارٹی کے کسی سابقہ دورِحکومت کو کسی شکوے اور طعنے کا موضوع نہیں بنایا، مگر اس کتاب میں ایک حلیف ہونے کے باوجود نوازشریف مسلسل سوقیانہ تنقید کا نشانہ بنے نظر آتے ہیں۔ بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں، تاہم صرف ایک مثال دیکھیں: ’’نواز شریف نے آئی ایس آئی کو طالبان کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے فروغ کی اجازت دے رکھی تھی‘‘ (مفاہمت، ص ۲۱۱)۔۱؎ ان امور پر وضاحت پیش کرنا مسلم لیگ (ن) کی ذمے داری ہے، تاہم مصنفہ کتاب میں طالبان حکومت کی آمد کا پورا ملبہ فوج اور میاں نوازشریف پر ڈال کر اپنا دامن جھاڑ کر الگ جاکھڑی ہوئی ہیں۔ مگر کیا غلط بیانیوں سے تاریخی حقائق کا چہرہ مسخ کیا جاسکتا ہے؟
واقعاتی ترتیب دیکھیں تو ۱۹۹۳ء کے وسط میں پیپلزپارٹی نے صدر غلام اسحاق خاں اور فوج کی مدد سے وزیراعظم میاں نواز شریف کو اقتدار سے بے دخل کرادیا، پھر ۱۹۹۳ء میں ہونے والے انتخابات میں اکثریت حاصل کی اور نومبر ۱۹۹۶ء تک بلاشرکت غیرے حکومت کی۔ دوسری طرف نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ: ۱۹۹۴ء کے اوائل میں طالبان پارٹی کے طور پر وجود میں آتے اور نومبر ۱۹۹۴ء میں وہ قندھار کا کنٹرول سنبھالتے ہیں۔ ستمبر ۱۹۹۵ء میں ہرات ان کے زیرنگیں ہوتا ہے اور ستمبر۱۹۹۶ء میں وہ کابل پر قبضہ کرلیتے ہیں___ اس پورے عرصے میں پیپلزپارٹی کے وفاقی وزیرداخلہ میجر جنرل نصیراللہ بابر بڑے فخریہ انداز سے اس آپریشن کی سرپرستی کرتے نظر آتے ہیں اور خود پیپلزپارٹی کی حکومت بھی خوش نظر آتی ہے کہ اس نے مجاہدین کا ’علاج بالمثل‘ کرکے انھیں بے اثر کردیا ہے۔ امریکی حکومت بھی پیپلزپارٹی کے ذریعے طالبان کے اس طلوع میں مددگار بنتی اور سُکھ کا سانس لیتی ہے۔ ان حقائق سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ اُس زمانے میں فوجی قیادت سے ان کے تعلقات خوش گوار تھے۔ موصوفہ نے اعتراف کیا ہے:
اپنے دوسرے دورِ حکومت [۹۶-۱۹۹۳ء] میں فوج کے سربراہوں جنرل وحید کاکڑ اور جنرل جہانگیر کرامت کے ساتھ میرے اچھے تعلقات تھے… اسی طرح جب تک جنرل جاوید اشرف قاضی آئی ایس آئی کے سربراہ رہے، اس وقت تک آئی ایس آئی سے بھی میرے اچھے تعلقات تھے۔ (ص ۲۰۸)
تاریخ پر نظر ڈالیں تو طالبان کا آغاز، طلوع اور افغانستان پر قبضہ، پیپلزپارٹی کے دورِحکومت میں ہوا، مگر ان کی ذمہ داری صرف فوج اور نواز شریف پر ڈالتے ہوئے یوں دامن بچالینے کو کسی طرح بھی معروضی عمل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یاد رہے کہ پروفیسر برہان الدین ربانی اور گل بدین حکمت یار کو ۱۹۷۳ء ہی کے وسط میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اعتماد میں لے کر افغانستان میں کمیونسٹ روس اور بھارت کے گہرے اثرات کو نشانہ بنانے کا کام شروع کردیا تھا جب سردار دائود نے ظاہرشاہ کا تختہ اُلٹ کر حکومت پر قبضہ جمایا تھا۔ افغانستان پر بھارتی اور روسی گرفت کو کمزور کرنے کے لیے بھٹوصاحب کے رابطہ کار کی ذمہ داری جنرل نصیراللہ بابر ہی ادا کررہے تھے۔ (جاری)
سماجی زندگی میں تعلیم کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ تعلیم فرد کے تصورِ زندگی کو مثبت بنیادوں پر تعمیر اورانسانیت کو بلندیوں سے ہم کنار کرتی ہے، اور پھر تعلیم ہی کے ہاتھوں ایک اچھا بھلا انسان، خاصا مختلف بلکہ انسانیت کُش رویوں کا نمونہ بن جاتا ہے۔ اس مفروضے کی بنیادیں بڑی گہری اور وسیع ہیں۔ مثال کے طور پر دیکھیں کہ اسی معاشرے میں، انھی گلیوں اور دیہات میں بیک وقت پروان چڑھنے والے وہ بچے جنھیں عام مدارس اور اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے اور وہ بچے جنھیں اعلیٰ طبقاتی اور عیسائی مشنری تعلیمی اداروں میں زیورِ تعلیم سے آراستہ ہونے کے مواقع میسر آتے ہیں، فی الحقیقت دو مختلف دنیائوں کی نمایندگی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس چیز کا اصل سبب تعلیم و تربیت، ماحول اور اس سے بڑھ کر تصورِ زندگی ہے۔
آج کے پاکستان میں، بجاے اس کے کہ زبوں حالی کے شکار قومی نظامِ تعلیم کو درست بنیادوں پر تعمیر کیا جاتا اور اس میں پائی جانے والی خامیوں کا ازالہ کیا جاتا، اہلِ اقتدار نے اس قومی نظامِ تعلیم کو تباہی کے بھنور میں دھکیل کر، برطانیہ کی سرزمین سے دوسرے درجے کا نظامِ تعلیم ایک برتر نظام کے طور پر متعارف کرانے کا راستہ منتخب کیا۔ یاد رہے کہ برطانیہ میں ثانوی اور اعلیٰ ثانوی درجے کے لیے جی سی ایس ای (GCSE) نظام ہے، جب کہ ہم جیسے کالے انگریزوں کے لیے وہاں کی ایک یونی ورسٹی نے جی سی ای (GCE) نظام دیا ہے، جسے برطانیہ میں تو کوئی گھاس بھی نہیں ڈالتا۔ اس نظامِ تعلیم کے دریچے ’او‘ لیول اور ’اے‘ لیول ہیں، جو ہمارے ہاں حکمرانی، شائستگی، علم اور معیارِ معاشرت کی بنیاد سمجھے جاتے ہیں۔
گذشتہ دو برسوں کے دوران میں قومی نظام تعلیم میں بالخصوص اسلامیات کے نصاب کو فوجی حکمرانوں نے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور بار بار یہ فرمایا کہ: ’’اسلامیات کے نصاب میں تاریخ اور اختلاف کی چیزیں نہیں ہونی چاہییں، بلکہ اس کی جگہ معاملاتِ زندگی سے متعلق دینی ہدایات پڑھائی جانی چاہییں‘‘۔
اس پروپیگنڈے کے زور پر قومی نصابِ تعلیم کی کافی ’تطہیر‘ کی گئی اور بہت سے بنیادی دینی اور تاریخی حقائق کو قلم زد کرکے نصاب سے خارج کردیا گیا۔ اس مقصد کے لیے ایس ڈی پی آئی (Sustainable Development Policy Institute) کی رپورٹ کو ’فتویٰ دانش‘ کے طور پر استعمال کیا گیا۔ مگر عجیب بات یہ ہے کہ انھی مغرب پرست حکمرانوں نے خود مغرب کے پروردہ نظام جی سی ای یا ’او‘ لیول میں اسلامیات کی جس کتاب کو متعارف کرایا ہے، وہ حددرجہ فرقہ وارانہ کشیدگی کو پروان چڑھانے کا سامان مہیا کرتی ہے۔
اس کتاب کا نام ہے Islamiat for Students۔ فرخندہ نورمحمد اس کی مؤلفہ ہیں اور اسے فیروز سنز، لمیٹڈلاہور نے ۲۰۰۸ء میں پانچویں اڈیشن کی شکل میں شائع کیا ہے۔ یہ کتاب ’او‘لیول کے پاکستانی بچوں اور بچیوں کو اسلامیات کا فہم عطا کرنے کا ذریعہ قرار دی گئی ہے۔ اس میں فنی اعتبار سے جو کوتاہیاں موجود ہیں، سردست وہ زیربحث نہیں ہیں۔
اس مختصر تحریر کا مقصد اس پہلو کی جانب توجہ دلانا ہے کہ یہ کتاب درحقیقت، خود مسلمانوں کے مابین فرقہ وارانہ کشیدگی کو بڑھانے کا ایک اہم ذریعہ بن جائے گی۔خلافت، امامت، دورِ صحابہ اور تدوین حدیث کے اختلافات کو جس غیر دانش مندانہ، غیرحکیمانہ اور حددرجہ غیرمحتاط انداز سے بیان کیا گیا ہے، وہ ۱۳برس کے بچوں کے لیے کلاس روم کی فضا کو خراب کرنے کے ساتھ ساتھ، خود پڑھانے والے اساتذہ کے لیے آزمایش اور ہر دو مکاتب فکر کے بچوں کے مابین محبت و یگانگت اور دینی بھائی چارے کی فضا کو بھی ضعف پہنچانے کا ذریعہ بنیں گے۔ اس تدریسی مواد کی فراہمی کسی مکتب ِفکر کی کاوش کا نتیجہ نہیں ہے، لیکن فضا کی خرابی میں چاروناچار مذہبی افراد کو وہ بوجھ اٹھانا پڑے گا، جس کے ذمہ دار وہ نہیں ہیں۔
دراصل ایک مخصوص طبقہ اس نوعیت کی کاری گری کے ذریعے ان راہوں کو کشادہ کرتا ہے، جن پر براہِ راست چل کر حملہ آور ہونا ممکن نہیں ہوتا۔ اس کتاب کے مندرجات میں یہی اہتمام بہ کمال کیا گیا ہے کہ اسلامیات کے مضمون سے جان چھڑانے کا طریقہ یہی ہے کہ اسے متنازع بنادیا جائے، اور پھر کہا جائے کہ: ’’جب بھی اسلام پر بات ہوگی تو لوگوں کے درمیان دُوریاں بڑھیں گی،اس لیے اس مضمون ہی کو ختم کردیا جائے‘‘۔ یہ ماڈل مغرب نے بالعموم اور امریکا نے بالخصوص مسلم دنیا میں بڑی کامیابی سے آزمایا ہے۔
پاکستان جیسے ملک میں، جہاں مختلف مکاتب فکر ایک مضبوط تشخص کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں، وہاں پر حکمت اور دیانت داری کا تقاضا یہ ہے کہ کم از کم تعلیمی اداروں میں اشتعال پھیلانے اور بچوں کے دلوں کو مذہبی سطح پر زخمی کرنے کی حماقت نہ کی جائے۔ ایمانیات، تاریخ اور معاملاتِ زندگی کے ایسے متناسب نصاب کو کلاس روم میں پیش کیا جائے کہ استاد، طالب علم اور والدین میں سے کسی کے لیے بھی نصابی متن باعثِ آزار نہ بنے۔
اس نوعیت کی ایک بڑی کامیاب کاوش مدیر ترجمان القرآن پروفیسر خورشید احمد نے چھٹے عشرے میں کی تھی۔ انھوں نے کراچی یونی ورسٹی کے بی اے، بی ایس سی اور بی کام کے طلبہ و طالبات کے لیے اسلامی نظریۂ حیات کے نام سے ایسی درسی و علمی کتاب مرتب کرکے متلاشیانِ حق کے سامنے پیش کی تھی، جسے تمام مکاتب ِفکر کے جید علما کے رشحاتِ قلم سے سجایا گیا تھا۔ تمام مکاتب ِفکر اسے اپنا موقف سمجھتے تھے اور تمام مکاتبِ فکر کے طالب علموں کے لیے اس میں اسلامی نظامِ زندگی کے سرچشموں کے بارے میں رہنمائی موجود تھی۔ کراچی یونی ورسٹی کی اس پیش کش کو آج بھی ایک زندہ درسی کتاب کے طور پر پڑھا جاتا ہے۔
آج کی ضرورت یہ ہے کہ ’او‘ لیول اور ’اے‘ لیول کے لیے بھی اسی انداز کی معیاری کتب تیار کی جائیں اور حکومت زیرنظر کتاب کا فی الفور جائزے کا اہتمام کرے، اور اسے تبدیل کرے۔
۹ مارچ ۲۰۰۷ء کو پاکستان میں شروع ہونے والے عدالتی انقلاب کے قائد چیف جسٹس افتخار محمد چودھری ہیں‘ جب کہ مصر میں اس انقلاب کے لیے مدتوں سے جدوجہد جاری ہے۔
۲۱ جون ۲۰۰۷ء کو مصر کے دو جج صاحبان نے اس پیرایے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ جسٹس محمود مکی کے بقول: ’’ہمیں جھکانے میں حکومت کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ بلاشبہہ ہمیں معاشی اعتبار سے قتل کیا گیا ہے‘ مگر ہمیں اس بات کی ذرہ برابر فکر نہیں ہے۔ جب تک لوگوں کے دلوں میں ہماری عزت موجود ہے‘ اس وقت تک ہمیں کسی بات کی پروا نہیں ہے‘‘۔ جسٹس ہشام بستاوسی بیان دیتے ہیں: ’’ہم پر چلائے جانے والے مقدمات کی کوئی اہمیت نہیں ہے‘ اصل اہمیت تو اس سوال کو حاصل ہے کہ: مصری عوام کو ایک خودمختار عدلیہ‘ شفاف انتخابات اور قانون کی حکمرانی کب نصیب ہوتی ہے؟ ہماری جدوجہد انھی سوالوں کا جواب حاصل کرنے کے لیے ہے‘‘___ مصر کے ججز کلب (judges club) کے ان اہم ارکان کے یہ جذبات ججوں کی تحریک کی پوری داستان بیان کردیتے ہیں جنھیں ۲۰۰۶ء میں برطرف کردیا گیا تھا۔
مصر میں بڑی اور چھوٹی عدالتوں کے جج حضرات نے ۱۹۳۹ء میں اپنی تنظیم ججز کلب کی رجسٹریشن کرائی تھی۔ پہلے پہل یہ تنظیم محض ایک رسمی سا ادارہ تھی‘ لیکن ۱۹۶۸ء میں ججزکلب نے آزاد عدلیہ کے ذریعے‘ شہری آزادیوں کے تحفظ کا مطالبہ کیا۔ درحقیقت مصری جج‘ جون ۱۹۶۷ء میں اسرائیل کے ہاتھوں مصر کی شکست سے پیدا شدہ سیاسی ‘ سماجی اور معاشی صورت حال سے سخت دل برداشتہ تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ انھیں خدشہ تھا کہ کہیں واحد حکمران پارٹی ’عرب سوشلسٹ یونین‘ میں پورا عدالتی نظام جذب ہوکر نہ رہ جائے۔ یہ پہلا موقع تھا جب صدر جمال عبدالناصر کی بدترین آمریت کے مقابلے میں اخوان کے علاوہ کسی دوسری قوت نے آواز بلند کی‘ جب کہ اخوان المسلمون کی صورت حال یہ تھی کہ حکمرانوں نے اگست ۱۹۶۶ء میں سید قطب کو پھانسی دے دی تھی۔ ہزاروں کارکن پابند سلاسل تھے اور ریاستی دہشت پورے ماحول پر مسلط تھی۔ ججوں کے اسی گروہ نے‘ ججوں کی یونین کا الیکشن بھی جیت لیا جس کے جواب میں ۱۹۶۹ء میں صدر ناصر نے ’عدلیہ کے قتل عام‘ کا راستہ منتخب کیا اور چھوٹی بڑی عدالتوں کے ۱۸۹ ججوں کو منصب عدل کی ذمہ داریوں سے برطرف کردیا۔ تاہم ستمبر ۱۹۷۰ء میں‘ ناصر کی موت کے بعد‘ ججوں کی تحریک کے نتیجے میں انورالسادات اور پھر حسنی مبارک نے عدالتی آزادیوں کو کسی حد تک بحال کیا۔
۱۹۸۶ء میں ججز کلب نے ’قومی کانفرنس براے عدل‘ منعقد کی، جس نے عدالتی عمل میں دُوررس اثرات کے حامل مطالبے پیش کیے۔ ۱۹۹۱ء میں ججزکلب نے عدالتی عمل کے لیے ایک جامع دستور منظور کیا‘ لیکن فعال قیادت کی عدم موجودگی کے باعث ’سفارشات و اصلاحات عدلیہ‘ کی تحریک کچھ عرصے کے لیے کمزور پڑ گئی۔ البتہ دسمبر ۲۰۰۴ء میں ایک نئے عزم کے ساتھ ججزکلب نے ۱۹۹۱ء کے عدالتی دستور میں دوٹوک انداز میں ترامیم کرکے‘ مطالبات کو واضح الفاظ میں بیان کیا تاکہ عدالتی عمل میں سے انتظامیہ کی مداخلت اور اتھارٹی کے دبائو سے نجات حاصل ہوسکے۔ ۲۰۰۴ء کے اس دستورِ عدل میں کہا گیا ہے:
دراصل جج حضرت اس نوعیت کے چارٹر کے ذریعے: عدالتی آزادی کو یقینی بنانے اور حکومت و ریاست کی بے جا مداخلتوں اور فیصلوں پر اثرانداز ہونے کے واقعات کا سدباب چاہتے ہیں۔ ججز کلب بنیادی طور پر نظریاتی فورم نہیں‘ بلکہ پیشہ ورانہ بنیادوں پر عدالتی اصلاح کے علَم برداروں کی تنظیم اور تحریک ہے۔ مصری آمر جمال ناصر کے پرستار صحافی عبدالحلیم قندیل نے لکھا تھا: ’’ججوں کے ’انقلاب‘ کا مطلب انتظامیہ کی موت ہوتا ہے‘‘۔ اس جملے میں شرارت کا ایک پہلو چھپا ہوا ہے۔ اس حوالے سے مصر کے دانش ور حلقوں میں یہ بات زیربحث آئی کہ: ’’اس تحریک کو ججوں کا انقلاب کہا جائے یا ججوں کی لہر۔ انقلاب ایک سخت لفظ ہے‘ لیکن لہر ذرا نرم لفظ ہے‘ اور لہر کے نتیجے میں سیاسی نظام کے تلپٹ ہونے کا تاثر نہیں ملتا‘‘۔ ویسے بھی ججوں کی یہ تحریک‘ حکومت کے متوازی کسی مقتدرہ کے قیام کی خواہش کا اظہار نہیں ہے‘ بلکہ ان کی اصلاحات کا محور آئینی اور قانونی اختیارات کے آزادانہ استعمال کا حق حاصل کرنا ہے‘ جسے مصری آمروں نے زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے۔
مصر کا دستور حکومت کو اس چیز کا پابند بناتا ہے کہ تمام انتخابات لازماً عدلیہ کی نگرانی میں ہوں لیکن ججزکلب نے اس شق کی بے حرمتی کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے: ’’پورے حلقۂ انتخاب میں بظاہر انتخابی عمل کا نگران ایک جج ہوتا ہے‘ لیکن انتخاب کے روز نیچے پورا عملہ حکومتی مشینری کا مقرر کیا ہوتا ہے‘ جس سے جو کام چاہے‘ لیا جاتا ہے۔ جب اور جہاں حکومت‘ پولیس یا مسلح فوجی دستے چاہتے ہیں‘ بے بس جج کو مفلوج بناکر من مانی کرتے اور نتائج کو تلپٹ کردیتے ہیں اور جج بے چارا صداے احتجاج بلند کرنے کے حق سے بھی محروم رہتا ہے‘ چہ جائیکہ وہ اس انتخاب کو منسوخ کرے کہ جس میں انتخاب نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی‘‘۔
ہشام بستاوسی اور محمود مکی‘ ججزکلب کے دو مرکزی قائدین ہیں‘ جنھیں عدلیہ کی آزادی کے لیے طویل جدوجہد کا اعزاز حاصل ہے۔ مصری حکومت ان کی بے باکی‘ حق گوئی اور پُرعزم بہادری سے خائف رہتی تھی۔ ان دونوں حضرات نے نومبر اور دسمبر ۲۰۰۵ء میں منعقد ہونے والے مصری پارلیمانی انتخابات کے انعقاد کے طریقے اور اعلان کردہ نتائج کو تنقید کا نشانہ بنایا‘ اور کہا: ’’حکومت نے قوم سے خیانت کی ہے‘ دھاندلی کا راستہ کشادہ کیا ہے‘ عوامی راے کو دفن کیا ہے‘ پولنگ اسٹیشن پر جانے والے لوگوں کو پولیس کے دستوں کے ذریعے روکا گیا ہے‘ اور سادہ کپڑوں میں ملبوس ایجنسیوں اور عسکری اداروں کے اہل کاروں نے مخالف راے دہندگان کو ڈرا دھمکا کر انتخاب سے دُور رکھا ہے۔ راے عامہ کے اس قتل عام کو انتخاب کہنا عوام کی توہین ہے‘‘۔
ان ججوں کے مذکورہ بیان پر حسنی مبارک حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہوکر دیوانگی پر اتر آئی اور ۱۳ فروری ۲۰۰۶ء کو اس بیان کو ’ججوں کی سرکشی‘ (judges rebellion) سے موسوم کیا۔ اعلیٰ عدالتی کونسل نے انھیں عدالتی خدمات انجام دینے سے روک دیا۔ حق گو ججوں نے ’کورٹ آف اپیل‘ میں درخواست دائر کی‘ تاکہ وہ اپنا موقف وضاحت سے پیش کرسکیں۔
اب یہ ۲۷ اپریل ۲۰۰۶ء کا منظر ہے۔ قاہرہ کے وسط میں ہائی کورٹ کی عمارت ہے‘ جس کے قرب و جوار میں ججزکلب کا دفتر ہے۔ اس روز ججوں کے کیس کی سماعت تھی۔ لوگ اپنے محسن ججوں کے خلاف روا رکھے جانے والے ظالمانہ سلوک کے خلاف سراپا احتجاج تھے۔ رفتہ رفتہ ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اور ۱۰ہزار پولیس اہل کاروں نے احتجاج کرنے والوں کو گھیرے میں لے لیا۔ مظاہرین کی بڑی تعداد کو گرفتار کرتے ہوئے بے رحمی سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ یہیں پر ۸۰ ججوں نے درجنوں حامیوں کے ساتھ ہفتے بھر کے لیے احتجاجی دھرنا دینے کا اعلان کیا اور شاہراہ پر بیٹھ گئے۔ پولیس نے وحشیانہ انداز سے ان قانون دانوں پر چڑھائی کردی‘ یوں نظر پڑا جیسے حکومتی سیکورٹی عناصر کسی دشمن ملک کی فوج پر پل پڑے ہوں۔ حالانکہ وہ جج تو محض اپنے دو بھائیوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لیے آئے تھے‘ ان کے ہاتھ میں نہ پتھر تھے اور نہ ڈنڈے۔
حسنی مبارک حکومت‘ عدلیہ کی اس تنقید سے جھنجھلاہٹ کا شکار ہوگئی جس کے تحت وہ حکومتی طور طریقوں‘ حقوق کی پامالی اور بے ضابطگیوں کو زیربحث لاتے ہیں۔ وہ ملک جہاں ذرائع ابلاغ پر پابندیاں ہیں‘ حزبِ اختلاف کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے‘ انتخابات میں دھاندلی کو حکومتی حق قرار دے دیا گیا ہے اور مالی خیانت کو جدید مصری انتظامیہ کا استحقاق تسلیم کرایا جا رہا ہے‘ وہاں پر صرف ایک جگہ رہ جاتی ہے‘ اور وہ ہیں عدالت کے ایوان‘ جہاں پر بہادر جج وقتاًفوقتاً اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے فیصلے دیتے ہیں۔ ان کا یہی عمل حکومت کے اعصاب کو شل اور دماغ کو پاگل کیے دیتا ہے۔ دراصل مصر میں صرف عدلیہ ہی وہ ادارہ ہے‘ جس نے ۶۰کے عشرے میں کی جانے والی جدوجہد کے نتیجے میں کچھ نہ کچھ خودمختاری حاصل کرلی تھی‘ جس کا اظہار عدالتی کارروائی اور ججزکلب کی سرگرمیوں کی صورت میں سامنے آتا رہتا ہے۔
۲۱ جون ۲۰۰۷ء کو جوڈیشل کونسل نے ہر دو ججوں کے مقدمے کا فیصلہ سنایا‘ جس میں ہشام بستاوسی کے بارے میں چند سخت جملے لکھے اور محمود مکی کو بری کردیا گیا۔ اس کے بعد ججوں کی تحریک نے سڑکوں کے بجاے عدالت کی کرسی اور اخبارات کے اوراق کو اپنے موقف کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ مصر میں ججوں کی یہ تحریک بہرطور روشنی کی ایک کرن ہے۔ اخوان المسلمون کے جہاں دیدہ رہنما اور پُرعزم کارکن اس تحریک کے پہلو بہ پہلو کھڑے ہیں۔
اس تحریک کا آغاز ۱۹۶۸ء میں ہوا تھا‘ اور اب ۴۰ برس گزرنے کے باوجود ان میں کسی مایوسی کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا۔ ان ججوں نے کبھی سُست روی سے اور گاہے بہ گاہے برق رفتاری سے حق گوئی اورپُرعزم جدوجہد کا علَم بلند کیے رکھا ہے۔ جسے کچھ لوگ ’عدالتی بغاوت‘ بعض افراد ’عدالتی انتفاضہ‘ اور کچھ حضرات ’عدالتی جہاد‘ کہتے ہیں۔ نام جو بھی دیا جائے‘ بہرحال اس تحریک نے غلامی کے رزق پر عدل کی آزادی کو ترجیح دی ہے۔ ملازمت سے برطرفی‘ ڈنڈوں کی بوچھاڑ اور زخموں کی سوغات سے عدلیہ کی سربلندی اور قوم کی آزادی کا سورج طلوع ہونے کی امید باندھی ہے۔ اس تحریک میں مسلم دنیا پر مسلط موت کے سناٹے اور غلامی کے جال کو توڑنے کا پیغام موجود ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کس ملک کے جج غلامی کے رزق پر آزادی کی آزمایش کو خوشی خوشی قبول کرنے کا راستہ اختیار کرتے ہیں‘ اور ان خالی ہاتھ ججوں کے پشتی بان بننے کا اعزاز کن سیاسی و سماجی قوتوں کو حاصل ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں جاری عدلیہ کی بالادستی کی تحریک اور اس کے لیے سرگرم عناصر کے لیے مصر کے ججز کی ’عدالتی جہاد‘ کی یہ تحریک اُمید کی کرن اور روشنی کا پیغام ہے!
طاغوت سے آزادی اور اسلامی ریاست کا قیام ہر زندہ ضمیر مسلمان کا خواب ہے۔ تحریک پاکستان کی بازگشت سمندر پار پہنچی تو یہ خواب دیکھنے والے لاکھوں لوگ اس کی کامیابی کے لیے دعاگو ہوگئے۔ وادیِ نیل میں بسنے والی ایک ولی اللہ شخصیت حسن البنا شہید نہ صرف اپنے لاکھوں ساتھیوں کے ہمراہ اس تحریک کی کامیابی کے لیے دعاگو تھے، بلکہ اپنے محاذ پر سرگرم کار بھی تھے۔ قائداعظم اور حسن البنا کے درمیان براہِ راست ملاقات بھی ہوئی۔ بعدازاں یہ رابطہ متعدد حوالوںسے برابر قائم رہا۔ دونوں کی تمنا ایک ہی تھی اور ایک ہی خواب: استعمار سے آزادی اور ایک ترقی یافتہ مثالی اسلامی ریاست کا قیام۔
دوسری جانب قائد اعظم محمد علی جناح [۲۵دسمبر ۱۸۷۶ء- ۱۱ستمبر ۱۹۴۸ء]،تحریک پاکستان کو رہنمائی دینے کے ساتھ انڈونیشیا ، فلسطین ، لیبیا، ملایشیا وغیرہ میں مسلمانوں کی آزادی کی تحریکوں کو ہمیشہ قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور ان کے حق میں کلمۂ خیر کہتے تھے۔ ریکارڈ سے معلوم ہوتاہے کہ بحیثیت صدر آل انڈیامسلم لیگ قائد اعظم نے ایران، اُردن ،مصر ،ترکی ،عراق وغیرہ کے مسلمان حکمرانوں سے بھی رابطہ رکھا۔ اس زمانے میں عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل عبدالرحمن عزام۱؎ تھے۔ ایک جانب قائداعظم کا ان سے رابطہ تھا اور دوسری جانب عالم عرب کی ہمہ گیر اسلامی عوامی تحریک اخوان المسلمون، تحریک پاکستان کی تائید و حمایت کو اپنی دینی اور ملی ذمہ داری سمجھتی تھی۔
دسمبر۱۹۴۶ء میں قائد اعظم کچھ دنوں کے لیے مصرمیںرکے ، تو اخوان المسلمون کے مرشدعام حسن البنا نے ۱۶دسمبر سے ۱۹دسمبر ۱۹۴۶ء کے دوران ان سے ملاقات میں تحریک پاکستان کی تائید وتحسین کی، اور انھیں قرآن کریم کا ایک نہایت خوب صورت نسخہ، تحریک پاکستان کی علامتی تائید کے لیے، بطور ہدیہ پیش کیا (یہ نسخہ اس وقت بھی کراچی میں مزارِ قائد پر موجود نوادرات میں نمایاں طور پردیکھا جاسکتاہے ‘ جس کا عکس یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔)
مفتیِ اعظم فلسطین محمد امین الحسینی (۱۸۹۳ء-۱۹۷۴ء) بیان کرتے ہیں: ’’مجھے یاد ہے ایک دعوت کا اہتمام عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل عبدالرحمن عزام نے قائداعظم محمد علی جناح کے اعزاز میں کیا تھا، قائداعظم کے ہمراہ لیاقت علی خاں [یکم اکتوبر ۱۸۹۵ء- ۱۶ اکتوبر ۱۹۵۱ء] بھی تھے عزام صاحب کے گھر سب سے پہلے پہنچنے والوں میں‘ میں اور امام حسن البنا شہید تھے۔ ہم قائداعظم سے دیر تک محو گفتگو رہے۔۲؎
قائداعظم نے ۱۶ دسمبر ۱۹۴۶ء کو قاہرہ پہنچنے پر اپنے بیان میں فرمایا تھا: ’’مصر کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ مسلم ہند کس مقصد کے لیے جدوجہد میں مصروف ہے؟ یہ مصر کے لیے بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا اہلِ ہند کے لیے۔ اگر ہم حصولِ پاکستان میں کامیاب ہوگئے تو یہ مصر کے لیے بھی اچھا ہوگا۔ کانگریس کے پروپیگنڈے سے بہت سے اہلِ مصر گمراہ ہوئے ہیں۔ میں ان مصری بھائیوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ مسلم ہند کے معاملات میں زیادہ دل چسپی لیں اور ہند کے آیندہ دستور کے مسائل کا مطالعہ کریں۔ اہلِ مصر کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ مسلمانانِ ہند کی جدوجہد کا مقصد کیا ہے‘اور یہ جدوجہد مصر کے لیے کس قدر اہم ہے کہ ہم پاکستان حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں‘ اور یہ کتنا خطرناک ہوگا کہ اگر ناکام ہوجاتے ہیں… جب پاکستان قائم ہوجائے گا تب ہی ہم [ہندی اور مصری مسلمان] حقیقت میں آزاد ہوں گے‘ وگرنہ ہندو سامراج کی لعنت اپنے پنجے (tentacles) مشرق وسطیٰ کے اس پار تک پھیلا دے گی‘‘۔۳؎ [قاہرہ میں ایک ضیافت سے خطاب کرتے ہوئے ۱۸دسمبر ۴۶ء کو کہا] ’’اگر ہند میں ہندو سلطنت قائم ہوگئی تو اس کا مطلب ہوگا ہند میں اسلام کا خاتمہ اور دیگر مسلم ممالک میں بھی… اس باب میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ روحانی اور مذہبی رشتے ہمیں مصر سے منسلک کرتے ہیں۔ اگر ہم ڈوبے تو سب ڈوب جائیں گے‘‘۴؎… [پھر قاہرہ ریڈیو سے ۱۹دسمبر کو نشری تقریر میں وضاحت کی] ہم چاہتے ہیں کہ ان دو منطقوں میں جہاں ایک مسلم حکومت اپنے علاقوں کی فرماں روا بنے‘ وہاں ہم ایک خودمختار قوم کی حیثیت سے اپنی زندگی بسر کریں‘ اور ان تمام اقدار کا تحفظ کریں جن کا علَم بردار اسلام ہے… یہ ۱۰کروڑ مسلمانوں کی حیات و موت کا معاملہ ہے‘‘۔۵؎
قاہرہ میں ۱۹ دسمبر کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا:’’اگر ہند پر ہندو سامراج کی حکمرانی ہوئی تو یہ مستقبل کے لیے‘ اگر اس سے زیادہ نہیں تو اتنا ہی بڑا خطرہ ہوگا جتنا بڑا خطرہ برطانوی سامراج سے ماضی میں تھا۔ لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ پورا مشرق وسطیٰ آسمان سے گر کر کھجور میں اٹک جائے گا… میں یقین دلاتا ہوں کہ پاکستان ان تمام اقوام کو بلاتمیز رنگ و نسل اپنا تعاون پیش کرے گا‘ جو حصولِ آزادی کی غرض سے جدوجہد کر رہی ہوں‘‘۔۶؎
حسن البنا شہید، آل انڈیا مسلم لیگ کے مقصدِ تخلیق پاکستان کے زبردست تائید کنندگان میں شمار ہوتے تھے۔ بقول جناب پروفیسر خور شید احمد: ’’اخوان کے نوجوان رہنماسعید رمضان [م:۸ اگست ۱۹۹۵ء] نے بتایا کہ وہ خود اور اخوان کی قیادت کے مرکزی رہنما تحریک پاکستان کی تائید کے لیے مصر کے طول و عرض میں پُرجوش تقاریرکیاکرتے تھے۔اس کے برعکس مصرکے سیکولر قوم پرستوں میں کانگریس اور نہرو کے بارے میں نرم گوشہ پایا جاتا تھااور وہ ان کی تائید کرتے تھے‘‘۔
خود قائد اعظم بھی اس حقیقت سے آگاہ تھے کہ عرب قوم پرست اور سیکولر عناصر انڈین نیشنل کانگریس اور انڈین نیشنل ازم کے حامی ہیں۔ اس پس منظر میں اخوان المسلمون کی جانب سے عالمِ عرب و افریقہ کے مرکز علم و تہذیب میں تحریکِ پاکستان کی تائید و حمایت اپنی قدر وقیمت کے اعتبار سے بہت زیادہ اہمیت رکھتی تھی۔ ۱۹۴۷ء کے اوائل میں کانگریس نے دہلی میں ایک بین الاقوامی ایشیائی کانفرنس [۲۳مارچ تا ۲اپریل۱۹۴۷ء]منعقد کرنے کا ڈول ڈالا۔ قائد اعظم اس کانفرنس کے پس پردہ محرکات کو مسلمانوںکے لیے نقصان دہ سمجھتے تھے۔اگرچہ شام،لبنان اوریمن نے اس کانفرنس کادعوت نامہ مسترد کردیاتھا ، لیکن عرب لیگ نے کانفرنس میں وفدروانہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ قائد اعظم نے فروری ۱۹۴۷ء کو عرب لیگ کے سیکرٹری عبدالرحمن عزام کے نام خط میں اس فیصلے پر افسوس کااظہار کیا تھا۔
اسی دوران میں حافظ کرم علی (م:۳جنوری ۱۹۷۲ء۔سربراہ حج کمیٹی، مسلم لیگ صوبہ جات متحدہ (یوپی)۷؎ نے قاہرہ میں امام حسن البنا سے ملاقات کرنے کے بعد آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر‘ قائداعظم محمد علی جناح کے نام خط لکھا : ۸؎
نیو ہوٹل ،قاہرہ
مارچ ۱۹۴۷ء
جناب محترم [محمد علی جناح]
میں کئی دنوں سے یہاں مقیم ہوں۔اس قیام کے دوران میں ،میں نے قاہرہ میں موجود بہت سے مسلمانوں سے رابطہ قائم کیا--- اور [انھیں] مسلم لیگ کے موقف سے آگاہ کیا ہے۔
میں ،عبد الرحمن عزام سیکرٹری [جنرل]عرب لیگ سے بھی ملا،اور ان سے درخواست کی کہ وہ بھارت میں[منعقد ہونے والی کانفرنس میں ]کوئی وفد نہ بھیجیںکیوں کہ یہ مسلم لیگ کے مفاد میں نہیں ہوگا۔انھوں نے جواب میں کہا کہ:’’ہمارا وفد وہاں کوئی تقریر نہیں کرے گا۔اگر مسلم لیگ چاہے تو انھیں چائے پر بلالے‘‘۔
میں گذشتہ دو ہفتے سے یہاں پر مقیم ہوں ،اور امکان ہے کہ جلد یہاں سے چلا جائوں گا۔اگر کوئی اطلاع ہو تو براہ کرم مجھے جلد مطلع فرمائیں،میں اپنی استعداد کے مطابق تعمیل ارشاد کے لیے بھرپور کوشش کروں گا۔
مصر میں سب سے زیادہ طاقت ور ، مضبوط اور مقبول تنظیم اخوان المسلمون کے نام سے موسوم ہے‘ جس کے سربراہ شیخ حسن البنا ہیں۔ ان کے ۵۰ہزار رضا کار اور لاکھوں پیروکار ہیں۔ اس تنظیم کا اپنا ایک روزنامہ اخبار اورایک ہفت روزہ بھی ہے۔ میں نے تنظیم کے مرکزی دفتر میںتنظیم کے سربراہ سے ملاقات کی۔ وہ نہایت تپاک اوربڑی شفقت سے پیش آئے۔ آپ سے میری استدعاہے کہ حسن البنا سے رابطہ قائم کریں۔
اگر آپ مناسب سمجھیں تو [آل انڈیا مسلم] لیگ کے سیکرٹری انھیںایک خط لکھیں‘ جس میں ان کے کریمانہ سلوک پر شکریہ اداکریں۔اس چیز کی قطعاً ضرورت نہیں ہے کہ خط میں میرا تذکرہ کیا جائے۔
ان کا پتا ہے:شیخ حسن البنا ،الاخوان المسلمون ،حلمیہ قدیمہ،قاہرہ
آپ کا نہایت مخلص
محمدکرم علی
ممبر ورکنگ کمیٹی یوپی ،ممبر ،آل انڈیا مسلم لیگ کونسل
۱۳ اپریل ۱۹۴۷ء کو قائداعظم نے عبدالرحمن عزام کے نام خط میںزور دیا کہ:’’کانفرنس میں اگرچہ بہت سے لوگوں کو گمراہ کیاگیا ، لیکن ہم ان شاء اللہ اس کوشش سے بچ نکلیں گے اورہم ہندستان اور مشرق وسطیٰ دونوںجگہ کامیاب ہوںگے‘‘۔ اسی تسلسل میں قائد اعظم نے اخوان المسلمون کے سربراہ حسن البنا کے نام جو ذاتی پیغام مصطفی مومن کے ذریعے بھیجا تھا،۹؎ امام البنا نے دستی طور پراس کا جواب مصطفٰے مومن کے ذریعے ہی بھیجا ،جو حسب ذیل ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ اکبر وللہ الحمد
قاہرہ،۲۸ مئی ۱۹۴۷ء
میرے محترم قائد محمدعلی جناح ،
ہمارے بھائی جناب مصطفی مومن ۱۰؎ کے ذریعے آپ کا پر خلوص پیغام موصول ہوا،جس کے لیے میں آپ کا انتہائی شکر گزار ہوں۔جہاں تک ایشیائی کانفرنس کا تعلق ہے ،تو اس بارے میں ،میں یہ عرض کر سکتا ہوںکہ ہم اس کانفرنس کے مقاصد اور اہداف کے بارے میں بے خبر نہیں ہیں۔ہم نے اس موقعے کو بعض وجوہ سے مناسب سمجھا ،کہ وہاں پر مصر کا ایک نہایت متقی اور وفادارمسلمان شرکت کرے۔ جو پورے ہندستان کی اسلامی تحریک کے قائدین ،بالخصوص آپ سے ذاتی طور پر ملے ،خط کتابت کے ذریعے نہیںبلکہ بالمشافہہ ملاقات کی سعادت حاصل کرے ،تاکہ پاکستان کی مبارک تحریک کے بارے میں اسلامیان مصر کے مخلصانہ جذبات اور نیک تمنائیں آپ تک پہنچائے۔
اس کانفرنس میں ہماری شرکت کا دوسرا بڑا ہدف یہ تھا کہ اگر خدانخواستہ اس میں کوئی ایسی بات ہو، یاتبادلہ خیالات کے دوران میں کوئی ایسا پہلوزیر بحث آجائے جو مسلمانوں اور عالم عرب کے خلاف ہو، جیساکہ اس سے پہلے مسئلہ فلسطین کے بارے میں عملاً ہوچکاہے تو ہم اسے ناکام بناسکیں۔
آپ کویہ بتاتے ہوئے مجھے انتہائی مسرت ہو رہی ہے کہ پوری وادیِ نیل کامل خلوص دل کے ساتھ آپ کی مکمل تائید کرتی ہے۔اورکامل اعتمادرکھتی ہے کہ آپ کی زیر قیادت یہ جدوجہد ہندستان کی اسلامی قوم کو اتحاد سے سرفراز کرے گی،اور آزادی کے لیے کی جانے والی یہ جدوجہد بالآخر کامیاب ہوگی۔آج کے بعد پوری روے زمین پر کوئی ا یسی طاقت نہیں ہے جو اخوت اسلامی کے ان مضبوط رشتوں کوتوڑسکے ،یاجو امت اسلامیہ کی آزادی اور استقلال کی راہ میں حائل ہوسکے، یا ان کے منصفانہ قومی مطالبات کو تسلیم ہونے سے روک سکے۔اس لیے آپ کامل یقین سے آگے بڑھیے، اللہ آپ کے ساتھ ہے اور وہ آپ کی بہترین کوششوں کا اجر عطا فرمائے گا۔۱۱؎
السلام علیکم ورحمتہ اللہ
حسن البنا۱۲؎
سربراہ ،اخوان المسلمون
قائداعظم گورنر جنرل پاکستان کے نام ٹیلی گرام
قیام پاکستان کی خبر سن کر حسن البنا نے پاکستان کے بانی اور گورنر جنرل قائداعظم کے نام حسب ذیل ٹیلی گرام ارسال کیا:
[قاہرہ: ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء]
عزت مآب محمد علی جناح
آج کے اس تاریخی اور ابدی حقیقت کے حامل دن، کہ جب دانش اور حکمت پر مبنی آپ کی قیادت میں پاکستان کی اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آیا ہے،میں آپ کو دل کی گہرائیوں سے مبارک باد اور نیک تمنائیں پیش کرتا ہوں۔ یہ مبارک باد‘ وادیِ نیل کے سپوتوں اور بالخصوص اخوان المسلمون کے دلی جذبات کی حقیقی عکاس اور نمایندہ مبارک باد ہے۔
حسن البنا۱۳؎
گاندھی جی۱۴؎ ، نہرو۱۵؎ اور ماؤنٹ بیٹن۱۶؎ کے نام مشترکہ ٹیلی گرام
قیامِ پاکستان کے وقت‘ ہندو اکثریت کے علاقوں میں مسلمانوں کے قتل عام‘ عورتوں کی بے حُرمتی اور مہاجر قافلوں کی لوٹ مار پر بھارتی قیادت سے احتجاج کرتے ہوئے حسب ذیل ٹیلی گرام روانہ کیا:
[قاہرہ: ۳۱ اگست ۱۹۴۷ء]
سرزمین ہند پر مسلمانوں کی خوں ریزی نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے دل‘ رنج و حزن اور غم و غصے سے بھر دیے ہیں۔ اسلام سراسر سلامتی کا دین ہے‘ الا یہ کہ اہل اسلام پر کوئی زیادتی کرے۔ اخوان المسلمون ،عالم عرب اور عالم اسلام کی نمایندگی کرتے ہوئے اپنے بھائیوں کی خوں ریزی کو روکنے میں تساہل کا ذمہ دار آپ کو قراردیتے ہیں۔ یاد رہے کہ لہو کی پکار کو کوئی نہیں دبا سکا اور یہ ہمیشہ زیادتی کرنے والے کے لیے تباہی لے کر آتی ہے۔ آپ حضرات کو معلوم ہونا چاہیے مسلمانوں سے دوستی، اس خوں ریزی کے تمام اہداف و مقاصد سے زیادہ مفید و بہتر ثابت ہوگی۔
حسن البنا۱۷؎
قائداعظم ، گورنر جنرل پاکستان کے نام ٹیلی گرام
قیامِ پاکستان کے فوراً بعد بھارت کے مسلمانوں پر ہندوئوں اور سکھوں نے جو بہیمانہ مظالم کیے‘ ان پر مسلمانوں سے یک جہتی اور اظہارِ ہمدردی کی غرض سے امام حسن البنا نے قائداعظم کے نام حسب ذیل ٹیلی گرام بھیجا:
[قاہرہ: ۳۱ اگست ۱۹۴۷ء]
جناب قائد اعظم محمد علی جناح
مسلمانان ہند کے بہنے والے خون پر اخوان المسلمون گہرے رنج و غم کا شکار ہیں۔ ہم اپنے تمام فوت شدگان کے لیے شہادت اور ان کے اہل خانہ کے لیے صبر جمیل کی دعا کرتے ہیں۔ ہم نے مائونٹ بیٹن ،نہر و اور گاندھی کے نام بھی فوری تار ارسال کیے ہیں اور انھیں مسلمانوں پر ہونے والی اس زیادتی کو روکنے میں غفلت برتنے کا ذمہ دار ٹھیرایا ہے۔ ہم دل کی گہرائیوں سے آپ کے ساتھ ہیں اور عملاً آپ کے شانہ بشانہ ہیں۔اس ضمن میںہم نے اپنے ہاں موجودسفارتی حلقوں تک بھی اپنے جذبات پہنچائے ہیں، اورہم اپنے بھائیوں کی خوں ریزی رکوانے کے لیے جو کچھ بھی ممکن ہوسکا‘ ضرورکریں گے۔ آپ ہمیں جو بھی ہدایت فرمائیں گے، ہم اس کی روشنی میں اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔یقینا صبر اور ثابت قدمی کا مقدر فتح و نصرت ہوا کرتی ہے۔
حسن البنا ۱۸؎
صدر مسلم لیگ برطانیہ ،علی محمد خاں کے نام خط
مسلم لیگ ‘ لندن نے پاکستان اور بھارت کے مسلمانوں پر ٹوٹنے والے مظالم پر آواز بلند کرنے کے لیے دنیا بھر کے مسلم ممالک اور اہم پارٹیوں کے ساتھ رابطہ کیا۔ اس موصولہ خط کے جواب میں امام حسن البنا نے لکھا:
[قاہرہ: ۳۱ اگست ۱۹۴۷ء]
محترم جناب علی محمد خان،صدر مسلم لیگ ،لندن
لندن میں اخوان المسلمون کے اخبار کے دفتر کے ذریعے پہنچنے والی آپ کی اپیل نے پورے مصر میں شدید اضطراب پیدا کردیا ہے۔ اے ہمارے مسلم بھائی ،ہم آپ کی پکار پر لبیک کہتے ہیں۔ آپ کی اپیل آتے ہی ہم نے ان تمام سرگرمیوں کا آغاز کردیا ہے جن کا تذکرہ آپ نے کیاتھا۔ ہم نے فوراً مائونٹ بیٹن ،گاندھی اور نہر و کے نام ٹیلی گرام روانہ کیا ہے، جس میں انھیں اس شرم ناک اور وحشیانہ خوں ریزی کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ ہم نے انھیںلکھا ہے کہ اسلام سراسر سلامتی کا دین ہے۔ اہل اسلام اپنے دفاع کے علاوہ کبھی جنگ نہیں کرتے، اوربھارت کے لیے زیادہ بہتریہ ہے کہ وہ دنیا بھر میں بسنے والے مسلمانوں کا دل جیتنے کی کوشش کرے، اور اپنے ہاں موجود مسلمانوں سے حسن سلوک برتے۔
اسی طرح ہم نے خود قائد اعظم کے نام بھی ٹیلی گرام ارسال کیا ہے، جس میں ہم نے مسلمانان ہند کی تائید کی ہے‘ ان سے غم گساری کا اظہار کیا ہے ،اور ان کے ہم وطن مسلمان فوت شدگان کے لیے رتبہ شہادت کی دعاکی ہے۔ ہم نے اپنے ہاں موجود سفارت خانوں سے بھی رابطہ کیا ہے اور آئندہ بھی یہ عمل جاری رکھیں گے۔ اس کے علاوہ بھی ہم جو کچھ کرسکے اور جس کام کا بھی آپ نے ہمیں مشورہ دیا،ان شاء اللہ ضرور کریں گے۔ پور ی امت مسلمہ ایک جسد واحد کی حیثیت رکھتی ہے اور ہم اسی جسد ملّی کا حصہ ہیں، اور اس کی خدمت کے لیے ہمیشہ مستعد ہیں۔
لندن میں ہمارے اخبار کے دفتر کے ذریعے آپ نے ہم سے جو رابطہ کیا ہے، ہم اس پر آپ کے شکر گزار ہیں۔ ہمیں خوشی ہوگی کہ اس رابطے کو جاری رکھیں، تاکہ حق اور خیر کی خاطر باہمی تعاون جاری رہے۔
خدا حافظ اور السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ
حسن البنا ۱۹؎
علامہ شبیر احمد عثمانی کے نام خط
تحریک پاکستان کے بزرگ رہنما اور ممتاز دینی قائد‘ جناب شبیراحمد عثمانی۲۰؎ نے امام حسن البنا سے اظہار یک جہتی کرتے ہوئے یہ تفصیلی خط لکھا، جس میں رنج و غم کا اظہار اور ہزاروں کلومیٹر کے فاصلے پر سرگرم کار اسلامیانِ عالم کے دلی جذبات اور پاکستان سے وابستہ توقعات کا بیان ملتا ہے:
[قاہرہ: ۱۸ نومبر ۱۹۴۷ء]
بزرگ جلیل جناب شبیر احمد عثمانی مدظلہٗ
اللہ تعالیٰ آپ کی حفاظت فرمائے، جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں۔اس مالک کی تعریفیں بیان کرتے ہوئے ‘آقاے نامدار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، آپ کے اہل بیت صحابہ کرامؓ اور قیامت تک آپ کی شریعت پر عمل کرنے اور آپ کی دعوت عام کرنے والوں پر درودو سلام بھیجتے ہوئے، السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ!
حرمین شریفین میں اور پھر قاہرہ میں مجھے برادر عزیز الحاج کرم علی صاحب سے بہت مفید ملاقاتوں کا موقع ملا۔ ان کے ذریعے آپ کی خدمات جلیلہ کا بھی علم ہوا۔ انھوں نے ہمیں بتایا کہ آپ پاکستان اور دیگر ممالک میں ہمارے بھائیوں میں اسلام کی دعوت اور اس کے احکامات عام کرنے کے لیے ہمہ پہلو جہاد کررہے ہیں۔ یہ سب کچھ جان کر ہمیں دلی مسرت ہوئی۔ غائبانہ طور پر آپ سے اللہ کی خاطر محبت کاایک مضبوط تعلق قائم ہوگیا‘ اور ہم نے رب ذوالجلال سے دعا کی کہ اپنے فرشتوں کے ذریعے آپ کی مدد فرمائے اور ہمارا اور آپ کا شمار اپنے ہدایت یافتہ اور پیغام ہدایت کے حامل ان داعیان حق میں فرمائے ،کہ جو اللہ کی عطا کردہ بصیرت کے سہارے دعوت حق کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔
پاکستان کی صورت میں ایک ابھرتی ہوئی اسلامی ریاست کے وجود سے‘ ہمیں عظیم مسرت نصیب ہوئی اور اللہ کے حکم سے اس کے ساتھ ہماری بڑی امیدیں وابستہ ہوگئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہماری یہ امیدیں پوری فرمائے۔ اگرچہ پاکستان کو معرض وجود میں آنے کے فوراً بعد بڑی مہیب رکاوٹوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے‘ تعصب کرنے والوں کے تعصبات ، سازشی عناصر کی سازشوں اور ان کی جانب سے حالیہ مجرمانہ و تباہ کن جارحیت کا منہ دیکھنا پڑا ہے ،لیکن ہمیں یقین ہے کہ یہ سب کچھ اسے جہاد فی سبیل اللہ ، جدوجہد آزادی و استقلال سے اور اسلام حنیف کے احکامات کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھنے سے روک نہیں سکے گا اور پرچم اسلام یقینا سربلند ہوگا، ان شاء اللہ۔
ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں اس مبارک سفر میں ہمارے پاکستانی بھائی تنہا نہیں ہیں۔ پوری امت اسلامیہ اور اقوام عرب اپنے تمام تر جذبات واحساسات اور اپنی عملی کاوشوں کے ذریعے آپ کے ساتھ ہیں۔ اخوان المسلمون جوکہ ان اقوام و امم کی اکثریت کی ترجمانی کرتی ہے اور جس کا شعار یہ ہے: ’اللہ ہمارا مقصود ہے ، رسولؐ ہمارا اسوہ ہیں ، قرآن ہمارا دستور ہے ، جہاد ہمارا راستہ ہے، اور اللہ کی راہ میں موت ہماری سب سے بڑی آرزو ہے‘___ وہ تب تک چین سے نہیں بیٹھیں گے اور انھیں تب تک سکون نصیب نہیں ہوگا، جب تک کہ پاکستان کو نصرت و استحکام نصیب نہ ہوجائے اور اسے اطمینان و سلامتی حاصل نہ ہوجائے ،اس راستے میں جو بھی قربانیاں دینا پڑیں‘ وہ ضرور دیں گے۔
پورے روے زمین کے مسلمانوں کی سب سے بڑی آرزو یہی ہے کہ ریاست اسلامی پاکستان کے تمام سرکاری اور عوامی معاملات:اسلامی تعلیمات و احکامات اور جامع رہنمائی کی محکم بنیادوں پر استوارہوجائیں۔ اگر عصر حاضر کے حادثات نے سوشلزم ، جمہوریت یا دیگر ایسے نظریات کو جنم دیا ہے، جو کسی بھی صورت اسلام کے جامع اور مکمل نظام کی برابری کا دعویٰ نہیں کرسکتے۔ کیونکہ اسلام عذاب و اذیت سے دوچار انسانیت کو عالمی بھائی چارے کے مضبوط رشتے سے جوڑتاہے، اور اگر دنیا میں ایسے ممالک موجود ہیں جنھوں نے ان نظریات کو اپنایا ہے اور اپنے مال و اعمال سے ان کی مدد کررہے ہیں، تو ہم مسلمانوں کا بھی فرض اولین ہے کہ ہماری ایسی حکومتیں قائم ہوں اورایسے ممالک وجود میں آئیں ،جن کی بنیاد اسلام کی دعوت پر رکھی گئی ہو ،اس دعوت پر کہ ایک جامع نظام اور کامل پیغام کی حامل دعوت ہے۔
اکثر مسلم ممالک کی حکومتیں اسلام کی حقیقی تعلیمات سے منحرف ہوچکی ہیں، کوئی کم کوئی زیادہ‘ لیکن اب یہ اللہ تعالیٰ کی مشیت ہے کہ حکومت پاکستان کی بنیادہی اسلام پر رکھی جائے۔ اب اسلام ہی اس کا شعار، اسلام ہی اس کی متاع ،اسلام ہی اس کی تکوینی بنیاد اور اسلام ہی اس کی ترقی کا رازقرار پایا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے یہ فضیلت اسی کے لیے بچا کر رکھی ہوئی تھی، تاکہ وہ دوسروں سے پہلے اور دوسروں سے نمایاں ہو کر اس فضیلت کو پالے۔
جناب من ، اب ان لوگوں کی ذمہ داریوں میں مزید اضافہ ہوگیا ہے، جنھیں اللہ تعالیٰ نے کتاب عطا کی ہے ،جن سے پختہ عہد لیا ہے کہ وہ اس کتاب کو لوگوں تک پہنچائیں گے ، اس کا کتمان نہیں کریں گے۔اس کی خاطر نصیحت کریں گے اور اسی کی طرف لوگوں کی رہنمائی کریں گے، خواہ انھیں اس راہ میں کتنی بھی مصیبتیں کیوں نہ برداشت کرنی پڑیں۔ اب آپ کے لیے یہ سنہری موقع ہے ، کہ آپ حکومتی ذمہ داران کی بھی اسی درست سمت میں رہنمائی فرمائیں۔ انھیں دین حنیف کی تعلیمات اپنانے پر آمادہ کریں، اور انھیں اس ضمن میں دین کی آسانیوں سے روشناس کروائیں۔ جناب من،آپ امت مسلمہ میں اخوت کی وہ روح دوڑائیں ،جس کی آبیاری، جس کی سرپرستی اور جس کی بیداری کے لیے قرآن کریم نازل ہوا۔ اس مقصد کے حصول میں کامیابی ہوگئی‘ تو امت مسلمہ، وحدت ویگانگت کے علاوہ کسی دوسری جانب نہیں جاسکے گی۔ اس کی تاریخ ، اس کا شعور ،اس کی اخوت اور اس کی جہت ایک ہی رہے گی، خواہ وہ بعض مسائل یا آرا میں کچھ اختلافات ہی کیوں نہ رکھتی ہو۔ جناب من !آپ امت واحدہ میں مذہبی تعصبات کی بیخ کنی کے لیے ہر ممکن سعی فرمائیے، جس کی جو راے ہے وہ رکھے، لیکن رہیں گے سب ہمہ پہلو اسلام ہی کے زیر سایہ۔
اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ آپ کو اس کی تائید حاصل رہے اور آپ کے دست مبارک پر خیر کثیر جاری فرمائے اور ہمیں اپنے فیصلوں میں رشد و ہدایت سے نوازے۔
خدا حافظ اور السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ
حسن البنا ۲۱؎
قائد اعظم محمد علی جناح گورنر جنرل پاکستان کے نام
پاکستان کو معرض وجود میں آئے ساڑھے تین ماہ گزر چکے تھے‘ لیکن مشکلات اور رنج و الم کا طوفان تھمتا دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اس صورت حال میں امام البنا نے قائداعظم سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا:
[قاہرہ: ۲۴ نومبر ۱۹۴۷ء]
عزت مآب جناب قائداعظم محمد علی جناح
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
ہم وہ مبارک گھڑیاں کبھی فراموش نہیں کرسکتے ہیں جن میں مصر کو آپ کی زیارت ، اور ہمیں آپ سے ملاقات کی سعادت نصیب ہوئی۔ آج جب کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری ان آرزوئوں کوپورا کردیا ہے جن کے بارے میں ہم نے باہم گفتگو کی تھی، اور پاکستان کی اسلامی ریاست ایک حقیقت کی صورت میں نقشۂ عالم پر موجود ہے۔ ہم‘ جناب کی خدمت میں دلی مبارک باد اور نیک تمنائیں پیش کرتے ہیں۔
اس وقت خوں ریزی کے جو افسوس ناک واقعات دیکھنے میں آ رہے ہیں ، اور جس طرح مسلمانوں کے نوتشکیل اور نوخیز ملک کے خلاف جارحیت کی جا رہی ہے، اس کی بازگشت مصر اور عالم عرب کے ہر باشندے نے اور اخوان المسلمون کے ہر کارکن نے خاص طور پر اپنے دل میں محسوس کی ہے۔ ان کٹھن لمحات میں مسلم اقوام ،پاکستان کے مجاہد عوام اور پاکستان کی مقدس ریاست کی مدد کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے۔
جناب قائد ،آپ اس ضمن میں کامل یقین اور بھروسا رکھیے۔ آپ یقین رکھیے کہ ہم آپ کے شانہ بشانہ رہ کر دل و جان سے ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہیں، یہاں تک کہ پاکستان اپنی آزادی ، استحکام اور مذموم تعصب کے خلاف مزاحمت کی بھرپور جدوجہد میں مکمل طور پہ فتح یاب ہوجائے۔
ہمیں کامل یقین ہے کہ آپ کی حکیمانہ قیادت میں پاکستان ہر شعبہ زندگی میں حقیقی اسلامی منزل کی طرف گام زن ہوگا۔ پاکستان، اسلام کی ان تعلیمات پر اپنی ترقی کی بنیادیں استوار کرے گا جو ہر زمانے اور ہر علاقے کے لیے یکساں موثر ہیں۔ اس طرح پاکستان مضبوط ترین بنیادوں پر تعمیر حیات کرتے ہوئے دنیا بھر کے مسلمانوں اور دیگر اقوام کے لیے ایک روشن مثال قائم کرے گا۔
میں آپ کی خدمت میں اخوان المسلمون کے سیکرٹری جنرل اوراپنے مجاہد بھائی صالح عشماوی۲۲؎ کو بھیج رہا ہوں، جو ہمارے روزنامے کے ایڈیٹر بھی ہیں۔ الحمدللہ، ہمارا یہ روزنامہ مصری اور پاکستانی راے عامہ میں قربت و ہم آہنگی پیدا کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتا۔ یہ آپ کی خدمت میں حاضر ہو رہے ہیں، تاکہ وادیِ نیل اور عالم عرب کے شرق و غرب میں بسنے والے اخوان کے مخلصانہ اورمحبت بھرے جذبات آپ تک پہنچا سکیں۔ میں اس موقع پر یہ ذکر خیر کرتے ہوئے بھی خوشی محسوس کررہا ہوں کہ ان دنوں ہمارے بھائی عبدالعلیم صدیقی۲۳؎، مصر کے معزز مہمان کی حیثیت سے یہاں موجود ہیں، جو پاکستان سے وادیِ نیل میں اخوان المسلمون کے مرکز آئے ہوئے ہیں۔
انھوں نے نہایت محنت و خوش اسلوبی سے اپنے پروگرام کیے ہیں اور وہ بہت کامیاب عوامی سفیر ثابت ہوئے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ مصر میں پاکستان کا موقف کیسے پیش کریں اور یہاں کے عوام کے ساتھ اپنے قلبی روابط کس طرح مضبوط کریں۔
اگرچہ اس وقت ہم آپ کی طرف صرف یہی نیک جذبات اور خطوط ارسال کرپا رہے ہیں، لیکن ہمیں امید ہے کہ ہم عنقریب اپنی اس ابدی اخوت کا عملی اظہار بھی کرسکیں گے کہ جس اخوت کے اس ابدی رشتے کو کبھی زوال نہیں آسکتا، یہ ہمیشہ باقی رہنے والے دین اسلام کی طرح قائم و دائم، زیادہ قوی، زیادہ مؤثر اور دوجہاں میں زیادہ نفع بخش ثابت ہوگا۔
آخر میں ایک بار پھر ہمارے تحیات اور احساسات توقیر قبول فرمایئے۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
حسن البنا ۲۴؎
بھارتی قیادت کے نام ٹیلی گرام
جنوبی ہند میں ۱۱۳۷ھ/۱۷۲۴ء کو نظام الملک کی قیادت میں حیدرآباد‘ دکن‘ خودمختار ریاست بن گئی تو مغل بادشاہ محمد شاہ نے نظام الملک کو آصف جاہ کا خطاب دیا۔ ۱۸ویں صدی عیسوی میں جب سازش‘ ہوس اور ظلم کے زور پر برطانوی سامراج نے ہندستان پر غلبہ پانا شروع کیا تو حیدرآباد‘ دکن نے دوسری ریاستوں کے برعکس اپنی نیم خودمختارانہ حیثیت کا تحفظ کرنے کی کوشش کی۔ اس ریاست کا اپنا سکّہ‘ اپنی ڈاک‘ ریل اور اپنا فوجی و انتظامی نظم و نسق تھا۔ اس کے فرماں روا کبھی برطانوی ہند کے ’والیانِ ریاست کے اجلاس‘ (چیمبر آف پرنسس)میں شریک نہ ہوئے۔ ۳جون ۱۹۴۷ء کو تقسیم ہند کے فارمولے کا اعلان ہوا‘اور برطانوی مقبوضہ ہند کی ریاستوں کو حق دیا گیا کہ وہ بھارت یا پاکستان میں سے کسی ایک ملک سے الحاق کرسکتے ہیں۔ ۱۱ جون ۱۹۴۷ء کو حیدرآباد، دکن کے حاکم میرعثمان علی خاں۲۵؎ نے حیدرآباد کی آزادی کا فرمان جاری کرتے ہوئے کہا: ’’پاکستان میں شرکت، حیدرآباد کی ہندو رعایا کے لیے تکلیف کا باعث ہوگی‘ اس لیے حیدرآباد‘ ریاست آزاد رہ کر‘ مستقبل کے ممالک بھارت اور پاکستان سے دوستانہ تعلقات قائم رکھے گی‘‘۔ ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان اور ۱۵ اگست کو بھارت کا قیام عمل میں آیا‘ مگر پہلے ہی روز سے بھارت نے حیدرآباد کو دبانے اور مرعوب کرنے کی پالیسی پر عمل شروع کیا۔ آخرکار ۲۹نومبر ۱۹۴۷ء کو بھارت اور حیدرآباد کے درمیان’معاہدہ انتظامیاتِ جاریہ‘ طے پایا‘ جس میں بھارت نے ریاست حیدرآباد‘ دکن کی محدود خودمختاری کے احترام اور تحفظ کا وعدہ کیا۔ مگر بھارت نے اس معاہدہ جاریہ کی بہت جلد خلاف ورزیاں شروع کردیں‘ اور ریاست کے اندر ہندو انتہاپسندی کو کھلے عام جدید ترین اسلحہ فراہم کرنا شروع کردیا‘ جنھوں نے دہشت انگیزی اور مسلم کشی کی منظم کا آغاز کردیا۔ چاروں طرف سے بھارتی سلطنت میں گھری (land locked) اس ریاست پر دہلی کے حکمرانوں کا حریصانہ دبائو بڑھتا گیا، جس کے تحت ریاست کی معاشی ناکہ بندی کردی‘ پٹرول کی فراہمی ختم کر دی‘ ادویات‘ کپڑے اور خوراک کی سپلائی روک دی‘ انجام کار ہزاروں افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔ ریاست نے دہلی سے مفاہمت کی بہت کوشش کی مگر ہر پیش کش ٹھکرا دی گئی۔۲۶؎ بھارت نے حیدرآباد پر چڑھائی کرنے کے لیے ریاست کی سرحدوں پر اپنی افواج لگادیں، تاکہ اس کی آزادی سلب کرتے ہوئے اسے زبردستی اپنے ساتھ قبضے میں لے آئے۔ اس تباہ کن صورت حال میں اخوان المسلمون کے مرشد عام امام حسن البنا نے بھارت کی حسب ذیل شخصیات کے نام یہ ٹیلی گرام ارسال کیا:
[قاہرہ: ۱۴ جون ۱۹۴۸ء]
o پنڈت جواہر لال نہرو: وزیراعظم‘ نئی دہلی
o راج گوپال: ۲۷؎گورنر جنرل ،نئی دہلی
o سری پرکاش: بھارتی قونصل جنرل ،کراچی
’’حیدرآباد ایک آزاد ریاست ہے، اور ہر مسلمان اور عرب باشندے کو بے حد عزیز ہے۔ اس کے خلاف کوئی بھی جارحیت یا اس سے کوئی بھی چھیڑ چھاڑ، عالم اسلام کے ہر باشندے کو اشتعال دلانے کا سبب بنے گی۔ عالم اسلام اس آزاد ریاست کے مسلمانوں کے خلاف ہونے والی کسی جارحیت پر ہاتھ پہ ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے رہیں گے۔
عالم عرب اور عالم اسلامی کی ترجمانی و نمایندگی کرتے ہوئے اخوان المسلمون،بھارتی حکومت کو ریاست حیدرآباد [دکن]کی سلامتی کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ وہ ظلم وزیادتی کے بجاے انصاف و سلامتی کی ترویج کے لیے اپنی ذمہ داریاں ادا کرے گی‘‘۔
حسن البنا ۲۸؎
حیدر آباد دکن کے سربراہ عثمان علی خان کے نام
اُوپر مذکورہ صورت حال کی مناسبت سے میرعثمان علی خاں کو یہ ٹیلی گرام روانہ کیا گیا:
[قاہرہ: یکم اگست ۱۹۴۸ء]
محترم المقام نظام عثمان علی
عالم عرب اور عالم اسلام کے اخوان المسلمون کی طرف سے ہم ریاست حیدرآباد کی آزادی کی مکمل تائید کرتے ہیں، اور آپ کی مملکت کے خلاف ہونے والی کسی بھی جارحیت کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ ہم نے اس ضمن میں بھارتی حکومت کے ذمہ داران کے نام بھی ایک ٹیلی گرام ارسال کیا ہے، جس میں ہم نے عالم عرب او رعالم اسلام کے اس دوٹوک موقف کا اعادہ کیا ہے کہ حیدرآباد کے خلاف کسی بھی طرح کی جارحیت ناقابل قبول ہے۔ ہم نے مطالبہ کیا ہے کہ اس سرزمین کا امن و استحکام یقینی بنایا جائے اور اس کی آزادی و استقلال پر کوئی آنچ نہ آنے دی جائے۔
حسن البنا ۲۹؎
مصر میں مسلم ممالک کے وزراے خارجہ کے نام ٹیلی گرام
[قاہرہ: یکم اگست ۱۹۴۸ء]
محترم جناب ، السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ
پاکستان اور بھارت کی صورت میں انگریزی سامراج کے چنگل سے آزادی نے تمام مسلم اقوام کے دلوں پر گہرا اثر چھوڑا تھا۔ مشرقی اقوام کو عمومی طور پر انتظار تھا کہ یہ دونوں نوآز اد ریاستیں باہم محبت و ہم آہنگی سے رہیں گی، لیکن بد قسمتی سے بھارت انگریز وں کی شہ پر ، برادر ملک پاکستان سے دشمنی پر اتر آیا ہے، وہ اس کے ایک مضبوط اور معزز مشرقی ملک بننے سے پہلے ہی اس کا خاتمہ کردینا چاہتاہے۔
یہی نہیں،بلکہ وہ پورے بھارت میں پھیلے ہوئے مسلمانوں سے جنگ پر اتر آیاہے۔ اسلامی ریاست جموں و کشمیر سے اس کا برتائو پوری دنیا کو معلوم ہے۔ وہ وہاں کے عوام کے حق خودارادیت کے خلاف برسرپیکار ہے۔ وہ اپنے غلط موقف پر اصرار کرتے ہوئے امن وسلامتی کو جنگ و جدال میں بدل دینا چاہتاہے۔ بھارت نے مسلمانوں کو کچلنے کے لیے اپنی یہ رجعت پسندانہ پالیسیاں ہرخطے میں اپنائی ہوئی ہیں۔ اب وہ ایک نئے شکار (ریاست حیدرآباد)پر جھپٹا ہے۔ حالانکہ یہ ایک مستقل ریاست ہے، مگر بھارت اس کی آزادی کا انکاری ہے، اور اسے دھمکیاں دے رہا ہے۔ وہ نظام حیدرآباد کے زیر انتظام آزادی و امن سے رہنے والے بعض چھوٹے غیر مسلم دھڑوں کو بغاوت پر اُکسا رہاہے۔
یہی نہیں، بلکہ بھارت نے اس ریاست کی سرحدوں پر فوجیں لا بٹھائی ہیں ، اور اس سے چھیڑ چھاڑ شروع کردی ہے ، اس طرح حیدرآباد کے خلاف خفیہ اعصابی جنگ چھیڑ دی گئی ہے۔ خود نظام [یعنی میرعثمان علی خان] کے خلاف پروپیگنڈا کیا جا رہاہے اور ان کی حکومت پر استبدادی نظام ہونے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ حالات بتارہے ہیں کہ بھارت کو تب تک چین نہیں آئے گا، جب تک وہ حیدرآباد کے خلاف ظالمانہ حملہ نہیں کردیتا، اس کی دولت اور قیمتی ذرائع آمدنی پر قبضہ نہیں جمالیتا اور ہندوئوں کے ہاتھ میں مسلمانوں کی گردنیں دیتے ہوئے ان کے مردوں کوذبح کرنا اور خواتین کی توہین کرنا یقینی نہیں بنالیتا۔ ان کے گھر بار اور بستیاں تباہ نہیں کروا دیتا، اس سے پہلے وہ کشمیر اور پاکستان میں بھی ایسا ہی کرچکا ہے۔
تحریک اخوان المسلمون آپ سے بھرپور اپیل کرتی ہے کہ آپ ازراہ کرم آزاد ریاست حیدرآباد کی تائید وحمایت کریں۔ اپنے ملک میں موجودبھارتی سفیر کو فوراً طلب کریں یا بھارتی وزیرخارجہ کو بلائیں اور انھیں بتائیں کہ آپ ایک آزاد [مسلم] ریاست حیدرآباد پر کسی بھی طرح کی جارحیت کو یکسر مسترد کرتے ہیں۔ آپ سے یہ بھی درخواست ہے کہ آپ نظام حیدرآباد سے رابطہ کرتے ہوئے انھیں اپنی تائید کا مکمل یقین دلائیں۔
اس عادلانہ مسئلے کے بارے میں آپ کی کامیاب کاوشوں کے انتظار میں ہم آپ عزت مآب کی خدمت میں با حترام تمام، سلام و تحیات پیش کرتے ہیں۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
حسن البنا ۳۰؎
پاکستان کے پہلے یوم آزادی پر حسن البنا کا پیغام
اسلامی نیوز ایجنسی نے مرشد عام سے درخواست کی کہ پاکستان کے پہلے یوم آزادی ۱۴ اگست ۱۹۴۸ء کے موقع پر اپنا پیغام ارسال کریں، تو مرشد عام حسن البنا نے درج ذیل پیغام لکھا:
[قاہرہ: اگست ۱۹۴۸ء]
’’اسلامی ریاست پاکستان کی تشکیل و ولادت پر پورے عالم اسلام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اسلامی نظام حیات کی اقامت کی طرف دعوت دینے والے اخوان المسلمون کی خوشی اپنے دوسرے بھائیوں سے کئی گنا زیادہ ہے۔ ہم نے نظام اسلامی کی آغوش میں جنم لینے والی‘ اس کے سایے میں پروان چڑھنے والی اس مضبوط ریاست کے وجود میں آنے پر وہ حوصلہ و ہمت حاصل کی ہے، جس نے ہمارے جذبۂ جہاد کو دوچند کردیا ہے، ہمیں حادثات سے دل شکستہ نہ ہونے کا پیغام دیا ہے، اور مشکلات پر غلبہ پالینے کے یقین سے سرشار کردیا ہے۔ پاکستان کی آزادی سے ہمارے اس یقین کو مہمیز ملی ہے کہ ہمیں بھی یقینا اسلامی نظام کی اسی منزل تک پہنچنا ہے، جس کی نعمت سے ہمارا یہ برادرا ور نوزائیدہ ملک ہم کنار ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس اسلامی ریاست کو برکتیں عطا فرمائے اور اسے اپنی تائید و نصرت سے نوازے۔
اس دور میں کہ جب پوری دنیا ایک دوراہے پر کھڑی ہے۔ اسے ایک طرف سے سوشلزم اپنی طرف کھینچ رہا ہے اور دوسری طرف سے اینگلو امریکی سرمایہ دارانہ جمہوری نظام، حالانکہ مسلمانوں کے لیے ان دونوں نظاموں میں کوئی خیرا ور بھلائی نہیں ہے۔ ان کے پاس اللہ کی کتاب ہے، نظام اسلامی کا مکمل خاکہ ہے اور رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ ہے :
قَدْ جَآئَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّ کِتٰبٌ مُّبِیْنٌo یَّھْدِیْ بِہِ اللّٰہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہٗ سُبُلَ السَّلٰمِ وَ یُخْرِجُھُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ بِاِذْنِہٖ وَ یَھْدِیْھِمْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ o (المائدہ ۵:۱۵،۱۶) تمھارے پاس اللہ کی طرف سے روشنی آگئی ہے اور ایک ایسی حق نما کتاب جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو اس کی رضا کے طالب ہیں ،سلامتی کے طریقے بتاتاہے اور اپنے اذن سے ان کو اندھیروں سے نکال کر اجالے کی طرف لاتاہے ، اور راہ راست کی طرف ان کی رہنمائی کرتاہے۔
ہم پاکستان کی اس مبارک عید آزادی کے موقع پر، اس کے معزز عوام ، حکیم حکومت اور قائد اعلیٰ [محمد علی جناح]کی خدمت میں دلی مبارک باد اور معطر تحیات پیش کرتے ہیں۔ ہم اللہ تبارک وتعالیٰ کے حضور دعا گو ہیں کہ وہ اسے اپنی خصوصی تائید سے نوازے ، اپنی خصوصی رحمت سے اس کی حفاظت فرمائے اور اس کے نصیب میں عروج وکمال اور توفیق وہدایت لکھ دے ، آمین۔
ہم اپنے عزیزملک پاکستان کے عوام اور حکومت کی خدمت میں عید الفطر کے مبارک موقع پر بھی خلوص و محبت کے پر جوش احساسات و جذبات پیش کرتے ہیں۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
حسن البنا۳۱؎
بھارتی وزیراعظم نہر و کے نام ارسال کردہ ٹیلی گرام
۲۱ اگست ۱۹۴۸ء کو ریاست حیدرآباد نے اپنا مقدمہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کیا۔ ۱۱ستمبر ۱۹۴۸ء کو قائداعظم کا انتقال ہوا‘ اور ۱۳ستمبر ۱۹۴۸ء کو علی الصبح بھارت کی مسلح افواج نے ریاست پر پوری قوت سے حملہ کردیا۔ دو لاکھ مسلمان‘ ہندو افواج کے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنے۔ ہزاروں خاندان اُجڑ گئے اور حیدرآباد دکن بھارت میں ضم کرلی گئی ہے۔ فوری حکم کے تحت اُردو میں تعلیم ختم کرتے ہوئے ہندی لازمی کر دی گئی۔ مسلمانوں کو ملازمتوں سے برطرف کردیا گیا اور بہت سی مساجد شہید کردی گئیں۔۳۲؎ حسن البنا نے وزیراعظم ہند جواہر لال نہرو کو یہ ٹیلی گرام ارسال کیا:
[قاہرہ: ستمبر۱۹۴۸ء]
عالم عرب اور عالم اسلام کے الاخوان المسلمون حیدرآباد پربھارت کی وحشیانہ جارحیت پر شدید احتجا ج کرتے ہیں۔ عنقریب رجعت پسند ہندوازم بھی اسی انجام سے دوچار ہوگا، جس سے دیگر سامراجی ممالک دوچار ہوئے۔ ریاست حیدرآباد آزاد ہوکر رہے گی۔
حسن البنا۳۳؎
جارحیت کسی اخلاق کی پابند نہیں ہوتی۔ دورِحاضر میں مسلم دنیا جس ہمہ گیر جارحیت کا سامنا کر رہی ہے‘ یہ کوئی وقتی اُبال نہیں ہے۔ ماضی میں اس جارحیت کا انداز مختلف تھا‘یعنی محاذجنگ‘ الزامی پروپیگنڈا اور پھر سازش کا سہارا۔ تاہم موجودہ دور میں دشمن نے ان اسالیب کو اختیار کرنے کے ساتھ‘ مسلم اُمت کے فعال کارکنوں اور بزرگوں کی زبان بندی‘ روابط و تعلقات کی تنسیخ اور اظہاروبیان کے حق کے تعطل کو بطور ہتھیار استعمال کرنا شروع کیا ہے۔ اس ظلم کے فتنوں کو اُبھارنے کے لیے بین الاقوامی اداروں اور ریاستی وسائل سے مدد لی جاتی ہے اور مسلم دنیا کے باج گزار حکمرانوں کی معاونت سے‘ خود مسلم دنیا پر عذاب مسلط کرنے کے منصوبوں پر عمل کیا جاتا ہے۔ اسی تسلسل کی ایک کڑی الرشید ٹرسٹ اور الاختر ٹرسٹ پر عائد کی جانے والی پابندیاں ہیں۔
تفصیلات کے مطابق ۱۸ فروری ۲۰۰۷ء کو امریکی حکومت نے کہا کہ الرشید اور الاختر ٹرسٹ کے رفاہی پردے میں دہشت گردی کی پشت پناہی ہورہی ہے۔ جس پر اسی رات پاکستانی وزارتِ خارجہ کے حکم پر ان دونوں تنظیموں کے دفاتر پر قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں نے دھاوا بول دیا۔ راولپنڈی کے موتی پلازا اور کراچی کی طارق روڈ پر ان کے دفاتر نشانہ بنائے گئے۔ سیکڑوں کارکنوں کو گرفتار کرکے صرف الرشید ٹرسٹ کے ۲۸دفاتر سربمہرکردیے۔ بنکوں میں کھاتے منجمد کردیے‘ رفاہی منصوبوں کو معطل کرنے کی جانب پیش قدمی کی‘ جرائد کی اشاعت منسوخ کرنے اور انٹرنیٹ ویب سائٹس روک دینے کا ارادہ ظاہر کیا۔ وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے وضاحت کرتے ہوئے کہا: ’’ہم اقوام متحدہ کی پابندیاں عائد کرنے والی کمیٹی کی ہدایات پر عمل کر رہے ہیں‘‘۔
۲۰۰۱ء میں امریکی صدر کے حکم پر حکومت پاکستان نے الرشید ٹرسٹ کے مالی وسائل منجمد اور دفاتر سربمہر کردیے۔ الرشید ٹرسٹ نے سندھ کی عدالت عالیہ میںدادرسی کے لیے رجوع کیا جس نے اگست ۲۰۰۳ء میں ٹرسٹ کو بحال کردیا۔ ۲۰۰۵ء کے زلزلے میں اس ٹرسٹ نے غیرمعمولی خدمات انجام دیں۔ لیکن اب پھر ان ملّی و قومی اداروں کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔
اس جارحیت کے متعدد مضمرات ہیں‘ جن پر ٹھنڈے ذہن کے ساتھ غور کرنا ملک و ملّت کے ہر بہی خواہ کی ذمہ داری ہے۔ بعض قابلِ غور پہلو:
کیا ہمارے حکمرانوں کو اب بھی نظر نہیں آتا کہ امریکا پاکستان کادوست نہیں۔ اب تو روز بے وفائی کا اظہار ہوتا ہے ‘ لیکن اب بھی وہ خوشی خوشی ان احکامات کی بھی تعمیل کرتے ہیں جو صاف صاف پاکستان کے مفاد کے خلاف اور اس کے شہریوں کو نقصان پہنچانے والے ہیں۔ کاش! اس ملک میں راے عامہ بیدار ہوتی تو حکومت کو اس قسم کا اقدام کرنے کا حوصلہ ہی نہ ہوتا۔
اکتوبر ۱۹۹۹ء کو اقتدار سنبھالنے والی فوجی حکومت نے، پاکستان کے تعلیمینظام، نصاب اور نظامِ امتحان کی جڑوں کوبنیاد سے ہلا دیا ہے اور اب اسے فیصلہ کن انداز سے تبدیل کرنے کے لیے نئی قومی تعلیمی پالیسی لانے کی تیاری کی جاری ہے۔ جس کا اظہار وفاقی وزارت تعلیم کے وائٹ پیپر (قرطاس ابیض) سے ہوتا ہے۔
تعلیمی پالیسی کے اس مسودے میں کہیں کہیں چلتے چلاتے اسلام کا ذکر کیا گیا ہے، لیکن شعوری طور پراس سے اجتناب برتا گیا ہے اور پالیسی کی اساس کو بنیادی طور پر لادین بنایا گیا ہے۔
بعض مقامات پر زور دار انداز میں خود احتسابی پر مبنی جملے لکھے گئے ہیںجن میں درد کا احساس پایا جاتا ہے۔ مگر اس طرح بڑے فنی انداز سے پورے قومی نظام تعلیم کو ناقص، ناقابل اعتماد اور ایک بے مقصد تماشا ثابت کرنا دکھائی دیتا ہے۔ وزیرتعلیم بلاتکلف اسے بھوٹان سے بھی بدتر قرار دے رہے ہیں (چار سال کی ’تعمیری پالیسیوں‘ کے باوجود بھی)۔ اس تاثر کے بعد پاکستان کے موجودہ تعلیمی نظام کو ایک بے مصرف ڈھانچا قرار دے کر تلپٹ کر دینا آسان اور جائز بھی ہو جاتا ہے۔ آیندہ صفحات میں ایسی تجاویز کی نشان دہی کی جا رہی ہے، جو پالیسی سازوں کا اصل مقصد ہیں اور جن پر عمل کا زیادہ امکان اور یقین ہے‘ جب کہ بعض مفید تجاویز درج تو ہوگئی ہیں لیکن تشنہ تعمیل ہی رہیں گی۔
قرطاس ابیض کے اختتام پر پاکستان کی گذشتہ ۹ تعلیمی پالیسیوں (۱۹۴۷، ۱۹۵۱، ۱۹۵۹، ۱۹۶۶، ۱۹۷۰، ۱۹۷۲، ۱۹۷۹، ۱۹۹۲، ۱۹۹۸) کا ایک تقابلی چارٹ(ص ۶۷-۷۴- ۷۷- ۸۶) پیش کیا گیا ہے۔ واضح ہوتا ہے کہ مقاصدِ تعلیم کے حوالے سے ان تمام گذشتہ پالیسیوں میں اسلام ایک غالب مثالی نمونے کے طور پر موجود رہا ہے، جب کہ پالیسی دستاویزمیں پاکستان کے اساسی نظریے، اسلام کو نظر انداز ہی نہیں کیا گیا بلکہ نام لیے بغیر بے دلیل عقیدہ اور ماضی پرستانہ یا دایام (nostalgia) قرار دے کر مسترد کیا گیا ہے اور بے وزن ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے(ص۲)۔ اور کہا گیا ہے کہ یہ [تعلیمی] پالیسیاں غیرحقیقت پسند انہ اور ترقی کی دشمن تھیں‘‘ (ایضاً، ص۲)۔ ایسا فتویٰ دینے والوں کے نزدیک: صدر جنرل ایوب خان سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو اور میاں محمد نواز شریف تک سبھی حکومتیں کور فہم یا ترقی دشمن تعلیمی پالیسیوں کی خالق تھیں۔
نصاب تعلیم:رپورٹ میںنصابات اور درسی کتب کے تحت یہ کہا گیا ہے: ’’مرکزی ریاستی کنٹرول نے نصابی تشکیل اور درسی کتب کی تیاری کے عمل کو جمود کا شکار کر دیا ہے (ایضاً، ص۱۸)‘ ان کتابوں کا معیار سخت خراب ہے‘ یہ بے روح ہیں‘ منتشر خیالی سے لبالب ہیں اور طباعت کی غلطیوں سے بھرپور ہیں‘‘(ایضاً، ص۱۷)۔ پھر یہ بھی اطلاع دی ہے کہ:’’ہم نے گذشتہ برس نصاب کا بڑی گہرائی سے جائزہ لیا تھا(ایضاً، ص۱۶)‘ اور یہ دیکھا کہ: نجی شعبے کی کتب دل چسپ اور مجموعی طور پر اچھی لکھی ہوئی ہیں‘ جن میں سے بیش تر سنگاپور کی چھپی ہوئی ہیں‘‘۔(ایضاً، ص۱۷)
اوپر بیان کردہ کہانی ہی کا یہ نتیجہ تھا کہ وفاقی وزیرتعلیم جنرل جاوید قاضی نے صوبوں کی راے کو نظرانداز کرتے ہوئے صوبائی درسی بورڈوں اور مرکزی ادارہ نصابیات کو ’خاموش رہو اور انتظار کرو‘کی تصویر بنا کر، براہ راست درسی کتابوں کی تیاری کے لیے جرمن این جی او GTZ‘ اور اسی طرح کے دوسرے منظور نظر عناصر کا بالواسطہ تعاون لیا‘ جن کی شائع کردہ کتب واقعتا توجہ طلب ہیں، مگر اس کی ذمہ داری درسی بورڈوں پر نہیں آتی۔ اس ’انقلابی حرکت‘ کا ایک ابتدائی فائدہ یہ ضرور ہوا کہ سرکاری درسی کتب کو اور زیادہ برا کہنے کا جواز مل گیا۔
جنرل مشرف یہی چاہتے ہیں کہ درسی کتابوں کی تیاری کا کام کھلی مارکیٹ پر چھوڑ دیا جائے جس کو وہ ڈی ریگولیشن کہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو کتاب چاہے پڑھائی جائے‘ جو ادارہ چاہے درسی کتاب شائع کرے اور جس قیمت پر چاہے فروخت کرے مگر ریاست کا درسی کتاب سے نہ کوئی تعلق ہو اور نہ اشاعت و فراہمی کی کوئی ذمہ داری۔ یہی خواہش ایس ڈی پی آئی جیسی این جی اوز کی ہے، جنھیں: راجا داہر سے محبت اور محمد بن قاسم سے نفرت ہے اور جن کے نزدیک دو قومی نظریہ نفرت کی علامت ہے اور عزیز بھٹی شہید کے تذکرے سے سارک ممالک کا امن ڈانواں ڈول ہو جاتاہے۔
عقل و دانش اور انصاف کا تقاضا ہے کہ پہلے سے قائم قومی نصابی ادارے ہی مسلسل، مربوط اور مؤثر انداز سے اپنا فرض ادا کریںاور وہی پاکستان کے تہذیبی تقاضوں اورقومی ترقی کے مطلوبہ اہداف کا ادراک کرتے ہوئے یہ فریضہ انجام دیں۔ پھر انھی اداروں کا تشکیل کردہ نصاب اور درسی لوازمہ پورے پاکستان کے تمام تعلیمی اداروںمیں پڑھایا جائے (اس چیز کو ’یکساں نصاب تعلیم‘ کہتے ہیں)، تاکہ نصاب ، درس وتدریس اور علمی لیاقت کی پیمایش کا کم از کم پیمانہ ایک ہو۔
تعلیم و تدریس ایک ہمہ وقت ذمہ داری ہے‘ لیکن اساتذہ کو عارضی مدت کے معاہدے (contract) پر ملازمت دینے کا اصول نافذ کرکے رہی سہی کسر نکال دی گئی ہے۔ اس غیردانش مندانہ عمل کانتیجہ یہ ہے کہ استاد نے توہین آمیز شرائط پر ملازمت تو لے لی‘ مگر ساتھ ہی کسی بہتر ، متبادل یا مستقل ملازمت کے لیے دیکھنا شروع کر دیا۔ ممکن ہے کہ اس سے چند کروڑ روپے بچ گئے ہوں‘ مگر ان غیرمطمئن اساتذہ سے پڑھنے والے طلبہ کے مستقبل کی قیمت کا کسی نام نہاد جدیدیت پسند کو کوئی اندازہ نہیںہے۔
سرکاری اسکولوں کی حالت زار کا نقشہ حکومت پاکستان کی پہلی جامع نمبر شماری کے مطابق یہ ہے :’’۵۳ ہزار۴سو ۸۱ اسکولوں کے گرد چار دیواری نہیں ہے‘ ۴۶ہزار۷سو۶۶ سرکاری اسکولوں میں پینے کے پانی کا بندوبست تک نہیں‘ ۵۷ہزار۲سو۱۶ اسکولوں میں بیت الخلا کا وجود نہیں ہے‘ ۸۱ہزار ۶سو ۳۳ اسکولوں میں بجلی کا کنکشن نہیں ہے‘ جب کہ ۹ہزار۷سو ۷۶ اسکولوں کی کوئی عمارت تک نہیں (نیشنل ایجوکیشن سینسس پاکستان‘ اسلام آباد دسمبر۲۰۰۶ء‘ ص ۲۷)۔ ایک طرف عالم یہ ہے اور دوسری جانب نئے نئے منصوبوں پر قوم کا قیمتی زرمبادلہ پھونکا جا رہا ہے۔ پہلے ’نئی روشنی‘ اور پھر ’پڑھا لکھا پنجاب‘ جیسے منصوبوں میں کتنا سرمایہ واقعی تعلیمی اداروں کی بہتری پر خرچ ہوا‘ اور کتنا محض تنخواہوں اور انگریزی اخبارات اور ٹیلی ویژن پر بے مغز تشہیری مہم کی آگ میں جھونکا گیا؟ اس کا کوئی جواب نہیں دیتا۔ اس پس منظر میں ’ابتداے بچپن کی تعلیم‘ کے ۴۲ہزار ۵ سو مراکز کے منصوبے پر بے پناہ اخراجات ہوں گے۔ اس کے لیے: ’’الگ بجٹ کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے‘‘(ص ۳۵)۔
پاکستان کی سول اور ملٹری نوکر شاہی کی انگریزی سے مرعوبیت ختم ہونے میں نہیں آئی۔ اس مراعات یافتہ طبقے نے اردو کو ہمیشہ صوبائی زبانوں سے لڑا کر انگریزی کا راستہ صاف کیا ہے۔اسی لیے پالیسی دستاویز میں مذاق اڑاتے ہو ئے کہا گیا ہے : ’’زبان اور ذریعہ تعلیم کے مسئلے کو پاکستان میںسیاسی اور مذہبی حوالے سے لیا گیا ہے۔ یہاں کچھ علاقوں میں یقینا اردو ایک سامراجی زبان(imperialist language) سمجھی جاتی ہے‘جب کہ انگریزی ترقی اور عمل کا ذریعہ ہے‘‘ (ص۳۱)۔ اس کے ساتھ ہی یہ سفارش کی گئی ہے : ’’پانچویں تک ذریعہ تعلیم کا مسئلہ صوبائی حکومتوں پر چھوڑ دیا جائے، پہلے تین سال کی تعلیم مادری زبان میں ہونی چاہیے… پنجابی اور بلوچی زبان کو کبھی ذریعہ تعلیم بنانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ اس لیے اس سمت میں کام کیا جانا چاہیے کہ ان زبانوں میں درسی کتب تیار ہوں… اور۲۰۰۸ء تک جماعت سوم میں انگریزی زبان کی تعلیم لازمی کر دی جائے‘‘ (ص۳۱-۳۲)۔یہ بات بھی ’انکشاف‘کا درجہ رکھتی ہے کہ ’’پاکستان میں اردو کے خلاف فضا پائی جاتی ہے‘‘ اور یہ بھی ایک ’دریافت‘ ہے کہ پاکستان میں ذریعہ تعلیم کا مسئلہ ’مذہبی ہوّا‘ بنا ہوا ہے۔
صوبائی زبانوں کی اشاعت و ترویج ضروری ہے، لیکن محض روا روی میں یہ کہنا کہ مادری یا صوبائی زبانوں کو ذریعہ تعلیم بنا دیا جائے، کوئی سنجیدہ بات نہیں معلوم ہوتی۔ امرواقعہ ہے کہ صوبہ پنجاب میں کوئی بھی پنجابی کو باقاعدہ ذریعہ تعلیم بنانے میں دل چسپی نہیں رکھتا۔ صوبہ سرحد کے غیرپشتون علاقوں میں چترالی، بلتی، پوٹھوہاری، سرائیکی وغیرہ کے وسیع لسانی پس منظرکے تحت صوبہ سرحد کی حکومت پشتو کو ذریعہ تعلیم بنانے کے لیے تیار نہیں ہے۔پھر صوبہ بلوچستان کو دیکھیں جہاں بلوچی کے علاوہ سندھی، پشتو ، سرائیکی، بروہی بولنے والی بڑی آبادیاں موجود ہیں۔ ان سب کے لیے بلوچی زبان کو بطورذریعہ تعلیم قبول کرنا ممکن نہیں ہے۔ اسی لیے ۱۹۷۲ میں نیشنل عوامی پارٹی کی بلوچ پشتون قوم پرست حکومت نے بھی صوبہ سرحد اور صوبہ بلوچستان میں اردو ہی کو بطور سرکاری زبان اور بطور ذریعہ تعلیم اختیار کرنے کا اعلان کیا تھا۔
یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ محض پرائمری کلاسوں میں انگریزی لازمی کر دینے سے انگریزی نہیں آجائے گی۔ حکومت آج تک میٹرک، ایف اے، بی اے کی سطح پر طالب علموں کو کم از کم معیار کی انگریزی پڑھانے میں کامیابی حاصل نہیں کر سکی۔ وہ اس کے لیے مناسب تعداد میں اساتذہ‘ موزوں ماحول، لازمی تربیت اور بنیادی سہولیات فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ایسی صورت میں وہ اسکول جہاں ریاضی اور دوسرے لازمی مضامین پڑھانے کے استاد تک میسر نہیں ہیں‘ وہاں اس قدر بڑے پیمانے پر کس قیمت پر اور کس طرح انگریزی کی تدریس ممکن ہو گی؟ خدشہ ہے کہ دستاویز میں پیش کردہ ’تعلیمی منصوبہ بندی‘پرائمری ہی سے تعلیمی عمل برباد کرنے کے سوا کچھ اور نہ کرپائے گی۔
آل انڈیا مسلم لیگ نے ۱۹۰۸ء سے ۱۹۳۸ء کے دوران سالانہ اجلاسوں میں ۹ قراردادیں اردو کی بھرپور حمایت کے لیے منظور کیں۔ قائداعظم نے ۱۹۴۱ء، ۱۹۴۲ء، ۱۹۴۶ء میں اردو کو مسلمانان ہند کی قومی زبان، جب کہ ۱۹۴۸ء میں چار بار اردو کو پاکستان کی سرکاری زبان قرار دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ تحریک پاکستان کی ایک اہم بنیاد اردوتھی‘ مگر اسی بنیاد کو متنازع بنانے میں نوکر شاہی آج تک کامیاب رہی ہے۔ ۱۹۷۳ء میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور میں متعین کیا گیا کہ ۱۵سال کے اندر اردو کو انگریزی کی جگہ ملک کی سرکاری زبان کے طور پر نافذ کر دیا جائے گا اور یہ مدت ۱۴ اگست ۱۹۸۸ء تک تھی۔ دستور پاکستان میں یہ وعدہ آج بھی قائم ہے لیکن اب کہاں پر اردو کے خلاف آگ بھڑکائی جائے، اسے مقتدر طبقہ ہی خوب جانتا ہو گا، جو برعظیم میں مسلمانوں کے اتحاد کی علامت اردو کو گرانے کے لیے صوبائی زبانوں کا نعرہ لگاتا اور انگریزی کا راستہ ہموار کرتا ہے۔
قیام پاکستان سے لے کر جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت کے خاتمے تک (۸۸-۱۹۴۷ء)‘ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم پر امیر اور مراعات یافتہ طبقوں کی وہ یک طرفہ اور ظالمانہ اجارہ داری نہیں پائی جاتی تھی‘ جس کا دور دورہ آج دیکھا جا رہا ہے۔ زیادتی پر مبنی اس نظام کی نہ صرف ریاست کی پوری مشینری سر پرستی کر رہی ہے‘ بلکہ اس تعلیمی قرطاس ابیض میں بھی اس تضاد کو مزیدگہر ا کرکے تقویت دی گئی۔
آج سرکاری یونی ورسٹیوں میں بڑھتی ہوئی فیسیں، مخصوص پس منظر کے داخلہ ٹیسٹ، سیلف فنانس اور سیلف سپورٹ کے نام پر ایک ہی چھت کے نیچے دو تین رنگوں کا تعلیمی و تدریسی ماحول، کسی درس گاہ سے زیادہ تعلیمی ڈپارٹمنٹل اسٹور کا منظر پیش کرتا ہے۔ اس کے پہلو بہ پہلو نجی شعبے کے ڈگری دینے والے بیش تر ادارے کسی اخلاق اور معیار سے بالا تر رہ کر بدنام زمانہ فنانس کارپوریشنوں جیسی لوٹ کھسوٹ کا منظر پیش کرتے اور بچوں کے مستقبل سے کھیلتے نظرآتے ہیں۔ افسوس کہ یہ دستاویز ظلم و زیادتی کے اس کھیل پر بالکل خاموش ہے۔
یہ بات اہل وطن کے علم میںرہنی چاہیے، کہ وفاقی وزیر تعلیم جنرل جاوید قاضی نے ۲۹ نومبر ۲۰۰۶ء کو امریکا میں جس مشترکہ اعلامیے پر دستخط کیے تھے اس میں یہ طے کیا گیا ہے کہ: ’’امریکا نے پاکستان میں تعلیمی اصلاحات کے لیے ۲۰۰۲ء سے اب تک ۲۰ کروڑ ڈالر دیے ہیں، لیکن اب ان میں مزید ۱۰ کروڑ ڈالر کا اضافہ کر دیا ہے۔ اور رقم کو خرچ کرنے کے لیے من جملہ دوسری چیزوں کے ’سرکاری اور نجی شراکت داری‘ کے لیے بھی روابط جاری رکھے جائیں گے‘‘ (دوماہی خبر ونظر، سفارت خانہ امریکا، اسلام آباددسمبر ۲۰۰۶ء، ص۷)۔ امریکی حکومت، حکومت پاکستان سے معاہدہ کرتے ہوئے نجی شراکت کے لیے فنڈ خرچ کرنے کا اختیار حاصل کر رہی ہے توسوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ لفظ ’نجی‘ کہاں سے آ گیا‘ جب کہ یہ معاہدہ دو حکومتوں کے درمیان طے پا رہا ہے‘ نہ کہ نجی شعبوں کے درمیان۔ مطلب صاف ظاہر ہے کہ امریکی حکومت اپنے جس اعلامیے کو اسٹرے ٹیجک معاہدہ قرار دے رہی ہے، اس کے تحت وہ ان رقوم کو مختلف منظور نظر مقامی یا عالمی این جی اوز یا مشنریوں کے ذریعے استعمال کر سکتی ہے۔ یوں امریکیوں کی اس پر اکسی (proxy) خرید و فروخت کو ریاستی پروٹوکول کے تحت، پاکستان میں تعلیمی اداروں اور ان کی زمینوں کو طویل مدتی پٹے پر خریدنے اور من مانے نصاب پڑھانے یا انتظام و انصرام چلانے کا لائسنس مل جائے گا۔ اب سے ایک سو برس قبل سرزمین فلسطین پر یہودیوں نے اسی طرح رفتہ رفتہ املاک خرید کر اسرائیل کی ناجائز ریاست بنائی تھی‘ جب کہ عیسائی مشنری تعلیمی ادارے آج بھی پاکستان میں، ریاست در ریاست کا عکس پیش کرنے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ ان مشنری تعلیمی اداروں سے پڑھ کر نکلنے والے طاقت ور لوگ اگرچہ عیسائی نہیں بنے، مگر ان میں سے ایک قابل ذکر تعداد کے لیے، اسلام سے وابستگی شرمندگی کا باعث ضرور بنتی ہے، جس کے لیے وہ ’روشن خیالی‘ کے خود ساختہ مذہب میں پناہ ڈھونڈتے ہیں۔
یہاں پرایک اور توجہ کے قابل یہ خبرہے کہ، وفاقی وزیر تعلیم جنرل جاویدقاضی نے اخبار نویسوں کو بتایا: ’’صوبہ سرحد کی حکومت نے نویں جماعت کی اردو کی کتاب میں اسلامی تاریخ کے مزید مضامین‘ جب کہ اسلامیات کی کتاب میں مزید آیات اور احادیث کو اردو ترجمے کے ساتھ شامل کرنے کے مطالبات کیے تھے۔ ہم نے مزید دینی مواد شامل کرنے کے یہ مطالبے تسلیم کر لیے ہیں‘ لیکن نصاب میں یہ تبدیلیاں صرف صوبہ سرحد میں نافذ العمل ہوں گی‘‘ (نواے وقت، لاہور ۷فروری۲۰۰۷ء)۔ اس خبر کا تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ ایسا صرف سرحد میں ہو سکتا ہے، غالباً باقی پاکستان کے تین صوبوں کو اسلامی تاریخ یا دینی تعلیم کی ضرورت نہیں ہے۔یہ متضاد فیصلے کون سی ’روشن خیالی‘ ہے؟
وزارتِ تعلیم نے مارچ ۲۰۰۷ء کے وسط میں قرطاس ابیض کا نظرثانی شدہ مسودہ شائع کیا ہے۔ اسے دسمبر ۲۰۰۶ء کے وائٹ پیپر سے ملا کر دیکھیں تو کوئی خاص تبدیلی نہیں کی گئی بلکہ قابلِ اعتراض حوالوں کو مزید زور سے بیان کیا گیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ تعلیمی پالیسی تو آئے گی‘ مگر ان میں سے اکثر چیزوں پر حکومت پہلے سے عمل کر رہی ہے۔
اس مختصر جائزے سے واضح ہوتا ہے کہ یہ قومی تعلیمی پالیسی، مغربی مراکز دانش (think tanks) کی طرف سے وقتاً فوقتاً دیے جانے والے احکامات کو عملی جامہ پہنانے کی ایک عاجلانہ اور غیر دانش مندانہ کوشش ہے۔ یہ قرطاس ابیض قومی نظام تعلیم اور بالخصوص قومی تعلیمی اداروں میں تازگی، فعالیت اور معنویت لانے کے باب میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکتا‘ بگاڑ ضرور پیدا کرے گا۔
’’رات تین بجے دروازے پر دستک ہوئی‘ دروازہ کھولا‘ تو چند مسلح افراد کچھ پوچھے بغیر گھر میں گھس آئے‘ میرے بیٹے کو پکڑ کر لے گئے‘ فون کے تار کاٹ دیے اور جاتے ہوئے کہا: ’’اس بات کا کسی سے ذکر کیا تو عبرت ناک انجام ہوگا‘‘۔
’’میرا بیٹا نہایت بے ضرر اور سیدھا سادا نوجوان ہے مگر مسجد سے نکلتے ہی ایک آدمی نے اس کی گردن دبوچ لی اور کہا: یہ دہشت گرد ہے‘ سامنے سے جیپ آئی‘ اُس میں پھینکا اور گاڑی نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ ڈیڑھ سال ہوگیا ہے میں اسے تلاش کر کے تھک گئی ہوں۔ میری بیوگی میں وہی میرا سہارا تھا اور ابھی بارھویں میں پڑھ رہا تھا‘ معلوم نہیں کس حال میں ہے۔ وزیرداخلہ سے لے کر کور کمانڈر تک کو ملی ہوں‘ کوئی نہیں مانتا کہ اس نے پکڑا ہے‘‘۔
’’میرا بھائی آٹھ ماہ سے غائب تھا‘ ہم اسے تلاش کر کرکے تھک گئے۔ اسی غم میں والد صاحب فالج کے حملے کے نتیجے میں بستر سے لگ گئے۔ ہر ادارہ اس کے بارے میں بے خبری کے پتھر برساتا رہا‘ لیکن اب سے ۱۵ روز پہلے ایک ہرکارے نے آکر اطلاع دی کہ وہ سرکاری ایجنسی کی حراست میں ہے‘ ضمانت پر رہائی ہوجائے گی‘‘۔
یہ واقعات کسی جاسوسی ناول کی من گھڑت کہانیاں نہیں‘ نہ یہ کسی کمیونسٹ ملک میں گزرنے والی ظلم کی داستانیں ہیں‘ بلکہ پاکستان کے طول و عرض میں ایسی خوف ناک داستانیں‘ سامع کا خون منجمد کردیتی ہیں۔
بلاشبہہ پاکستان میں خفیہ ایجنسیوں نے قومی مقاصد کے لیے بہترین کارنامے سرانجام دیے ہیں جن پر قوم کو فخر ہے‘ مگر بدقسمتی سے متعدد ایجنسیوں نے گذشتہ کئی برسوں سے یہ راستہ منتخب کر رکھا ہے کہ جب اپنے ارادے یا منصوبے کے تحت ضروری سمجھا تو آناً فاناً کسی فرد کو اٹھا لیا۔۱؎ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس مشق ستم کا نشانہ اکثر وہ لوگ بنے جنھوں نے زندگی کے کسی نہ کسی حصے میں خود اپنی مسلح افواج کا ہاتھ بٹاتے ہوئے‘ دشمن سے دو دو ہاتھ کیے تھے۔
ناین الیون کے بعد بعض لوگوں نے ایک ایک دو دو ہزار ڈالر کے عوض غیرملکی مسلمان مجاہدوں کو امریکیوں اور مقامی اہل کاروں کے ہاتھ بیچا۔ حالانکہ کل تک یہ لوگ پاکستان کے محسن قراردیے جاتے تھے‘ کہ جنھوں نے جان لڑا کر سوویت یونین کو شکست دینے کا تمغہ پاکستانی پالیسی سازوں اور عساکر کے سینے پرسجا دیا تھا‘ مگر اب حالات نے کروٹ لی اور یہ سب لوگ بڑی بے رحمی سے مسترد شدہ بوجھ قرار پائے‘ جنھیں قیمت پر یا بلاقیمت بڑی بے رحم اور دنیا بھر میں لاقانونیت کی علامت ریاست کے سپرد کردیا گیا۔ ظاہر ہے کہ خود پاکستان سے ایک قابل لحاظ تعداد افغان مجاہدین کے شانہ بشانہ جہاد میں شریک رہی تھی‘ جنھیں خود پاکستانی افواج نے یہ تربیت دی تھی‘ اب وہ تمام جاں باز ’مشکوک کردار کے حامل‘ قرار پائے۔ اسی طرح جہاد کشمیر میں شریک نوجوان اپنے جذبے اور ایمان کے ساتھ شریک ہوئے تھے‘ لیکن پاکستان کی حکومتوں نے ابتدائی زمانے سے لے کر آج تک جس اخلاقی کمزوری کے ساتھ عوام میں سے جاں باز شہریوں کے جذبوں کا خون کیا ہے اور پھر آن واحد میں سجدہ سہو کیا ہے‘ وہ قومی تاریخ کا ایک درد ناک باب ہے۔ وہ لوگ جنھیں عظیم مجاہد کہا جاتا تھا‘ ان میں کتنے ہیں جنھیں عقوبت خانوں میں دھکیلا جا رہا ہے‘ جو قومی خفیہ ایجنسیوں کے آہنی پنجروں میں سسک رہے ہیں اور ان کے والدین کرب ناک کیفیت میں تڑپ رہے ہیں۔
وہ لوگ جو جذبۂ ایمانی میں اپنا معاشی مستقبل اوراپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر قومی قیادت کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے جہاد کے لیے نکلے تھے‘ جنھیں نہ تنخواہ کا شکوہ تھا اور نہ نوکری کی تلاش‘ ان میں سے کتنے ہیں جنھیں کرزئی اور بش کے وحشیوں کے سپرد کیا جا رہاہے یا خود ان کے ہم وطن ہی ان پر ستم کے تمام گر آزما رہے ہیں۔ اب یہ عمل کوئی راز نہیں رہا ہے۔ کل تک کوئی اخبار یہ چیزیں شائع کرنے کی ہمت نہیں کرتا تھا‘ لیکن اب‘ جب کہ صبر کا پیمانہ لبریزہوچکا ہے تو پاکستانی پریس میں گاہے بہ گاہے کوئی نہ کوئی چیخ سنائی دیتی ہے۔
یکم جولائی ۲۰۰۶ء کو بی بی سی کی اُردو سروس پر اس حوالے سے ایک جان دار پروگرام نشر ہوا۔ ۲جولائی کے تمام پاکستانی قومی اخبارات نے اسی مناسبت سے ہلا دینے والی خبریں شائع کیں۔ روزنامہ نوائے وقت کے ادارتی نوٹ کے مطابق: ’’بی بی سی نے گذشتہ ڈیڑھ دو سال کے دوران پاکستان کے مختلف علاقوں سے غائب اور لاپتا ہونے والے ایسے افراد کی فہرست جاری کی ہے جن کا تعلق مختلف سیاسی تنظیموں سے ہے اور ان افراد کو مبینہ طور پر ایجنسیوں نے اپنی تحویل میں لے رکھا ہے… وزیرستان میں روزنامہ دی نیشن کے بیوروچیف کے بارے میں بھی بتایا گیا تھاکہ انھیں مبینہ طور پر کسی ایجنسی ہی نے اغوا کیا تھا اور بعدازاں انھیں شہید کردیا تھا۔ پاکستان میں ایجنسیوں کے ذریعے سیاسی کارکنوں اور دیگر حکومت مخالف عناصر کو گرفتار کرنا اور انھیں اس طرح لاپتا رکھنا کہ ان کے ورثا مارے مارے پھرتے رہیں اور کوئی [سرکاری] محکمہ ان کی گرفتاری کی ذمہ داری ہی نہ لے‘ انتہائی وحشت ناک اور انسانیت سوز عمل ہے۔ دنیا کا کوئی بھی مہذب معاشرہ ایسی گرفتاریوں کو برداشت نہیں کرتا۔ خفیہ ایجنسیوں کا یہ کام نہیں ہے… خفیہ ایجنسیوں کو غیرقانونی اقدامات اور اپنے چارٹر کی خلاف ورزی نہیں کرنا چاہیے‘‘۔ (۳ جولائی ۲۰۰۶ئ)
۱۸ اگست ۲۰۰۶ء کے قومی اخبارات میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس افتخار محمد چو دھری کا یہ شدید ردعمل شائع ہوا جس میں انھوں نے راولپنڈی سول لائنز کے تھانے دار سے فرمایا کہ وہ چالاکی اور تماشا بند کرے‘ اور اغوا کیے جانے والے فرد کو عدالت کے سامنے پیش کرے۔ مگر ایک ممتاز کالم نگار کے بقول صرف اہلِ پاکستان کے ساتھ ہی یہ سلوک نہیں کیا جا رہا‘ بلکہ قانونی ویزے پر آنے والے مسلم ممالک کے باشندوں کو بھی اسی بھٹی سے گزارا جارہا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’لیکن یہ صرف ایک فرد تو نہیں ہے جسے اغوا کرلیا گیا‘ وہ تو ہزاروں کی تعداد میں ہیں… [۱۸ اگست ہی کے اخبارات] پر ایک چھوٹی سی خبر یہ بھی ہے کہ پشاور کی ایک عدالت نے عراقی مزاحمت کار مرحوم الزرقاوی کے نائب ہونے کے الزام میں گرفتار ملزم سمیت سات غیرملکیوں کو رہا کردیا۔ ان میں اکسفرڈ سے پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھنے والے ڈاکٹر برہان شامل ہیں۔ الجزائر کے سعید احمد ہیں جو ۱۶ ماہ جیل میں پڑے رہے۔ الجزائر ہی کے سفیان اخضر ہیں جنھوں نے ۱۳ ماہ قید کاٹی‘ ناجہ بن صالح کا تعلق تیونس سے ہے اور وہ ۱۸ ماہ سے سلاخوں کے پیچھے پڑے تھے۔ اسی زمانے میں تاجکستان کے جمشیداحمد بھی پشاور سے گرفتار ہوئے اور ناجہ بن صالح کے ساتھ وہ بھی رہا کردیے گئے کہ بے گناہ ثابت ہوئے۔ ان کے ہم وطن ظریف لطیف کے خلاف کوئی ثبوت نہ پیش کیا جاسکا‘ تاہم ان پر جیل میں تشدد کے کیسے حربے آزمائے گئے کہ [ظریف] قیدی کی انتڑیاں پھٹ گئیں اور وہ کچھ کھا پی نہیں سکتا۔ ۶ ہزار سے زیادہ ایسے پاکستانی اور غیرملکی [مسلمان] جیلوں میں پڑے ہیں جن کی فریاد سننے والا کوئی نہیں… امریکیوں کو ان پر شبہہ تھا… [حالانکہ] خود عراق اور افغانستان میں برپا امریکیوں کی خوں آشامی نے وہ عالم گیر کش مکش پیدا کی ہے جس نے پاکستان کو استعمار کی چراگاہ بنا دیا ہے۔ ہمارے ہوائی اڈوں پر وہ براجمان ہیں‘ ہمارے گھروں کو غیرملکی سونگھتے پھرتے ہیں اور ہمارے شہریوں کو وہ گرفتار کرکے لے جاتے ہیں اور پھر گوانتاناموبے کے پنجروں میں بند کرا دیتے ہیں‘‘۔ (ہارون الرشید‘ نوائے وقت‘ ۱۹اگست ۲۰۰۶ئ)
گوانتاناموبے میں ہمارے ’روشن خیال ترقی پسند‘قائدین۲؎ کے دستِ فیض سے بھیجے جانے والے قیدیوں کا کیا حشر ہو رہا ہے‘ اسے جاننے کے لیے پاکستانی کشمیری معظم بیگ (پیدایشی برطانوی) کی کتاب Enemy Combatant (لندن‘ فری پریس ۲۰۰۶ئ) کا مطالعہ کافی ہے‘ جسے جنوری ۲۰۰۲ء کو پاکستانی ایجنسی نے اسلام آباد سے اغوا کرکے گوانتاناموبے کے جلادوں کے حوالے کیا تھا۔ خود پاکستان میں ایسے بے گناہ قیدیوں کے احوال جاننے ہوں تو کوئی نہ کوئی نوجوان اپنے اندر اٹھنے والے نوحوں کو ہونٹوں پر روکے نظرآجائے گا۔ جن کو اندھادھند پکڑ کر غائب کردیا جاتا ہے اور سال سال بھر اُن کے بارے میں کچھ بتانے سے ایجنسیوں‘ پولیس اور وزارتِ داخلہ کے کارندے انکاری رہتے ہیں۔ ان میں سے کوئی بے گناہ ثابت ہوکر یا تو خدا کے حضور پہنچ جاتا ہے‘ وگرنہ اس حال میں رہا کیا جاتا ہے کہ بے گناہ ہوتے ہوئے وہ ہڈیوں کا پنجر اور ٹی بی یا کالے یرقان کا مریض بن چکا ہوتا ہے۔ کیا ایسا عمل کرنے والے واقعی پاکستانی ہیں؟
اقتدار اور اختیار ڈھلتی چھائوں ہے۔ ہمیں اس امر پر غور کرنا چاہیے کہ ہم کس کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ امریکی چاہتے ہی یہ ہیں بقول نپولین: ’’مسلم معاشروں کو خود ایک دوسرے پر بھوکے شیروں کی طرح چھوڑ دیا جائے اور یہ آپس ہی میں لڑتے مرتے رہ جائیں‘‘۔ اس عمل کی عبرت ناک مثال افغانستان اور عراق میں روزانہ ہم وطنوں کی دونوں جانب سے اٹھنے والی لاشیں ہیں۔
یہاں پر واضح الفاظ میں یہ بات کہنا چاہتے ہیں کہ کوئی فرد قانون سے بالاتر نہیں ہے‘ چاہے وہ عالم ہو یا صحافی یا سپہ سالار ہو یا عام شہری۔ اگر ان بے گناہ قیدیوںمیں سے واقعی کسی نے جرم کیا ہے تواسے لازماً اپنے جرم کی سزا ملنی چاہیے‘ مگر کھلی عدالت میں مقدمہ چلنے کے نتیجے میں۔ حکومت اسے قانون کے مطابق سزا دلائے اور عدالت کے ذریعے ہی مجرم کو سزا دی جائے۔ ان کے بچوں‘ والدین اور رشتہ داروں کو ذلیل کرنے اور قدم قدم پر جھوٹ بول کر دھوکا دینے کا ہرگز کوئی جواز نہیں ہے۔ یہ عمل متاثرین کا اعتماد صرف حکومت پر ختم نہیں کرتا بلکہ ایسے افراد کایقین خود ریاست سے اٹھ جاتا ہے۔ اور وہ فرد جو سال بھر بے جا تشدد کی سولی پر لٹکنے کے بعد بے گناہ ثابت ہوکر پاکستانی گوانتاناموبے سے یا امریکی گوانتاناموبے سے رہا ہوتا ہے تو اس کی زندگی کے ان قیمتی لمحوں اور ناپیدا کنار صدمے کا جواب دہ کون ہے؟ اس لیے یہ بے جرم ملزم اور ان کے رشتے دار سوال کرتے ہیں کہ کیا پاکستان واقعی ایک آزاد ملک ہے؟
یہ ایک انسانی مسئلہ ہے اور اس المیے میں سب سے زیادہ تکلیف دہ یہ پہلو بھی ہے کہ ان بے نوا مظلوموں کی دادرسی کے لیے سیاسی پارٹیوں نے کوئی بامعنی آواز نہیں اٹھائی‘ حالانکہ یہ واقعات دلدوز چیخوں کے ساتھ ہرشہر میں سنے جارہے ہیں۔ یہ بے چارے تو اتنے بڑے ملک میں بے پہچان اور شاید بے نام لوگ ہی قرار دیے جائیں‘ مگر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ جو ہو رہا ہے ‘ وہ پاکستانی اہلِ دانش اوراہلِ سیاست کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس صورت حال میں امید کی واحد کرن سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس رہ جاتے ہیں‘ جو ان تفصیلات کو جمع کرنے اور ان کا تجزیہ کرنے کے لیے اپنے اختیار سوموٹو کو حرکت میں لائیں۔ اس سے نہ صرف مظلوموں کو نجات ملے گی‘ بلکہ خفیہ کاری کے تمام ادارے اپنے چارٹر سمیت عمل اور تجزیے کی میزان سے گزریں گے اور ان اداروں کے اہل کار بھی یہ بتا سکیں گے کہ وہ کتنے مجبور اور کتنے بااختیار ہیں؟ نیز عوام کو بھی معلوم ہوسکے گا کہ وہ کتنے آزاد اور کتنے مجبور ہیں؟
۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ ابتدائی دور کی مشکلات اور پریشان کن حالات کے باوجود‘ نوزائیدہ مملکت میںجو سب سے پہلی قومی کانفرنس منعقد ہوئی‘ وہ پاکستان کے نظام تعلیم کے بارے میں تھی۔ اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ تعلیم کی تشکیل نو کا مسئلہ ابتدائی اور کس قدر اہم تھا۔ یہ کانفرنس ۲۷نومبر سے یکم دسمبر ۱۹۴۷ء تک کراچی میں منعقد ہوئی‘ یعنی قیام پاکستان کے صرف دو ماہ اور ۱۳ دن بعد۔ قائداعظمؒ بیماری کے باعث شریک نہ ہوسکے‘ مگر کانفرنس کی اہمیت کے پیشِ نظر انھوں نے اپنے پیغام کے ذریعے شرکت کی اور مرکزی وزیرتعلیم کو جو ہدایات دیں‘ وہ کلیدی خطاب میں قوم کے سامنے آئیں۔
کانفرنس کے چیئرمین جناب فضل الرحمن مرکزی وزیر داخلہ‘ اطلاعات و نشریات اور تعلیم تھے‘ جب کہ ۵۷ شرکاے کانفرنس میں متعدد ارکان دستورساز اسمبلی اور چوٹی کے ماہرین تعلیم شامل تھے۔
یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے آزادی کی جنگ لڑی تھی اور اب ایک نئے وطن‘ پاکستان کی تشکیل کا فریضہ انجام دینے چلے تھے۔ انھیں قوم سے کیے گئے اپنے وعدے بھی یاد تھے اور قوم کی منزل کے نقوش بھی ان کے سامنے روشن تھے۔ ان شرکا میں وطن عزیز میں بسنے والے دیگر مذاہب‘ یعنی عیسائیوں اور ہندوئوں کے قابلِ احترام نمایندے بھی شریک تھے۔
اس پانچ روزہ پاکستان تعلیمی کانفرنس کی روداد (proceedings) مرکزی وزارت داخلہ (شعبہ تعلیم) نے شائع کی‘ جو ۹۱صفحات پرمشتمل نہایت اعلیٰ درجے کی دستاویز ہے۔ قائداعظم محمدعلی جناح نے نہ صرف اس دستاویز۱؎ کا مطالعہ کیا‘ بلکہ اسے سراہا بھی۔ اس کانفرنس کی روداد میں پاکستان کے مستقبل‘ یعنی پاکستان کی نسلِ نو کو درست سمت عطا کرنے کا جذبہ اور شعور‘ گہرے ادراک کی حدوں کو چھوتا نظر آتا ہے۔ لازم ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ‘ بالخصوص فوج‘ سیاست دان‘ بیورو کریسی‘ تعلیم اور قانون سازی کے متعلقین‘ بانیان پاکستان اور تحریک پاکستان کے سنجیدہ و فہمیدہ قائدین کے اس تعلیمی وصیت نامے کو پڑھیں۔ چونکہ آج کل بالخصوص امریکی صدر بش نے‘ مسلم دنیا کے نظام تعلیم کو اپنا مرکزی ہدف قرار دے رکھا ہے۔ اس لیے کئی مسلم ممالک میں ان کے حلیف حکمران ان کی اطاعت کرتے ہوئے اپنے اپنے ملک کے نظام تعلیم پر حملہ آور ہو رہے ہیں اور سرکاری اداروں یا وہاں سرگرمِ کار‘ مخصوص این جی اوز کو ہر طرح کی مدد بہم پہنچا رہے ہیں۔
پاکستان کی تخلیق کسی فوجی جرنیل کے دماغ کی اختراع نہیں تھی۔قانون‘ جمہور اور راے عامہ کے ملاپ اور ایمانی جذبے نے اس تصور کو ایک زندہ ریاست کا روپ عطا کیا تھا۔ اس لیے یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ وہ لوگ پاکستان میں کیسا نظام تعلیم چاہتے تھے۔ زیرمطالعہ قومی تعلیمی روداد میں‘ سائنسی ترقی و تحقیقات پر شدت سے اصرار کیا گیا ہے مگر اس کے ساتھ‘ تحریک پاکستان کی لازوال روح کو بھی پوری دل سوزی سے نظام تعلیم میں سمودینے کا بھرپور اہتمام بھی کیا گیا ہے۔
کانفرنس کے افتتاحی اجلاس کے بعد معزز شرکا نے مختلف کمیٹیوں کی شکل میں‘ اپنے اپنے دائرے میں تجاویز دیں اور حکمت عملی تجویز کی‘ جسے آخری روز مکمل اجلاس میں شق وار منظور کیا گیا ہے۔ روداد میں اس بات کا بھی اہتمام کیا گیا کہ کمیٹی کی سفارشات کو مکمل طور پر ریکارڈ پر لایا جائے۔ پھر مکمل اجلاس نے جس لفظ کو حذف کیا یا جس لفظ کا اضافہ کیا‘ اسے بھی دستاویز کا حصہ قرار دیا گیا تاکہ حک و اضافہ اور ناسخ و منسوخ دونوں نگاہ میں رہیں۔ کیسے محتاط لوگ تھے!
۱- تعلیم‘ اسلامی نظریۂ آفاقی اخوت‘ سماجی جمہوریت‘ اور سماجی عدل وا نصاف کی ترویج پر مبنی ہوگی۔
۲- طالب علموں کے لیے لازم ہوگا کہ وہ اپنے مذاہب کے بنیادی اصولوں کو پڑھیں۔
۳- تعلیم روحانی‘ سماجی اور فنی امتزاج پر استوار ہوگی۔ (روداد‘ ص ۲۱)
ان سفارشات میں نظریاتی تعلیم کی اہمیت کے ساتھ‘ طالبات کے لیے جداگانہ نصاب کی ضرورت اور مخلوط تعلیم کی نفی قابلِ غور ہے۔
بعدازاں دیگر شعبہ جات جن میں سائنس و ٹکنالوجی‘ زراعت‘ تعلیمِ بالغاں‘ مظلوم طبقات‘ اقوام کے مابین ثقافتی تعلقات وغیرہ پر مشتمل کمیٹیوں کی رپورٹیں بھی منظور ہوئیں۔ یونی ورسٹی ایجوکیشن‘ ویمن ایجوکیشن اور اسکول ایجوکیشن کمیٹیوں کے مشترکہ اجلاس نے پانچ قراردادیں منظور کیں‘ جن میں پہلی چار قراردادیں پیش مطالعہ ہیں:
۱- کانفرنس اس امر پر زور دیتی ہے کہ پاکستان کی تعلیمی سرگرمیوں کو اس کے قومی کردار کا مظہر ہونا چاہیے‘ اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب اسلام کے تصورِ انسانیت کو روبہ عمل لایا جائے اور نسلی و جغرافیائی عصبیتوں سے مکمل طور پر علیحدگی اختیار کی جائے۔ کانفرنس نے اکثریت کے اس عزم کو قبول کیا ہے کہ اس کا نظامِ تعلیم اسلامی تعلیمات سے فیض یاب ہو‘ تاہم اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اقلیتوں کو ان اصولوں کے تحت تعلیم دی جائے جو انسانیت کے لیے اسلام کے ترقی پسندانہ اور معیاری نشان کے مظہر ہیں۔ عزت مآب جوگندر ناتھ منڈل[وزیر قانون و محنت] اور مسٹر سی ای گبن [صدر اینگلو انڈین ایسوسی ایشن آف پاکستان] اس حوالے سے کانفرنس کمیٹی کی پیش کردہ سفارشات سے پوری طرح متفق ہیں۔ اس لیے یہ امر متفقہ طور پر تسلیم کیا جاتا ہے کہ پاکستان کا نظام تعلیم‘ اسلامی نظریے ہی کی بنیادوں پر استوار ہونا چاہیے کہ جس میں آفاقی بھائی چارے‘ تحمل اور عدل کے امتیازی اوصاف پائے جاتے ہیں۔ (روداد‘ ص ۴۰)
۲- کانفرنس محسوس کرتی ہے کہ جدید طرز زندگی (ماڈرن لائف) کی بہت سی سماجی آفت انگیزیوں کا سبب روحانی اور اخلاقی اقدار کی نفی ہے۔ اس حوالے سے جان لینا چاہیے کہ سماجی تعمیرنو کا کوئی پروگرام اُس وقت تک حصولِ مقصد کاذریعہ نہیں بن سکتا جب تک کہ انسانی روح کے اس خلا کو پر نہیں کیاجاتا۔ کانفرنس یہ پہلو نمایاں کرنا ضروری سمجھتی ہے کہ بہت سے مغربی ممالک‘ جہاں جدید تعلیمی نظریات نافذ ہیں‘ اب وہ بھی اس ضرورت کو محسوس کرتے ہیں کہ اسکولوں کے نصابات میں دینی تعلیم کا لازمی طور پر نفوذ ہوناچاہیے اور جسے کالج کی سطح پر معتدبہ طور پر بڑھانا چاہیے۔ کانفرنس کی سفارشات میں اس حوالے سے مسلم اکثریت کی خواہش کا عکس موجود ہے‘ تاہم اقلیتوں کی ثقافتی خودمختاری کا پاس و لحاظ کرتے ہوئے اس امر کا اہتمام کیا جانا چاہیے کہ‘ جس طرح مسلمان طالب علموں کے لیے دینی تعلیم لازمی ہو‘ ویسے ہی اقلیتیں اگر خواہش کریں تو ان کے بچوں کے لیے بھی ان کے مذاہب کے مطابق تعلیم و تدریس کا اہتمام کیا جائے۔ (روداد‘ ص ۴۰‘ ۴۱)
۳- کانفرنس اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ ہمارے نظامِ تعلیم کو ٹوٹ پھوٹ کے اس عمل سے مقابلہ کرنا چاہیے‘ جس نے جدید دنیا (ماڈرن ورلڈ) میں فرد کی شخصیت کو انتشارکا شکار کر کے رکھ دیا ہے۔ لازمی طور پر ایک متوازن نظام تعلیم ہی ایسے پارہ پارہ تصورِتعلیم کا مداوا کرسکتا ہے۔ اس لیے خاکہ نصاب (کریکولا) اور مقررہ نصاب (سلیبس) کی اس انداز سے تشکیل و پشت پناہی کی جانی چاہیے کہ جس سے تعلیم کے مختلف عناصر باہم متحد اور یک جان ہوسکیں۔ (روداد ‘ ص ۴۱)
۴- کانفرنس تسلیم کرتی ہے کہ روحانی‘ ذہنی اور جسمانی پہلو لازمی طور پر طالب علم کی زندگی میں ہم آہنگی اور توازن پیدا کرتے ہیں۔ لیکن ہمارا موجودہ نظام تعلیم محض کمرہ تدریس اور مطالعۂ کتاب پر زور دیتا ہے‘ جس کے نتیجے میں ایک عام سا طالب علم اپنی صحت کے بارے میں غفلت کا شکار ہوکر بیماری اور کمزوری کا نمونہ دکھائی دیتا ہے۔ جدید تعلیم کا بڑا ہدف ایک اچھے شہری کی تعمیرہے‘ اور صحت کے بارے میں غفلت کا شکار ہونے والا فرد اچھا شہری نہیں بن سکتا۔ اس مقصد کے لیے جسمانی تربیت کے کلچر کو عام کیا جائے‘ بالغ طالب علموں کو اپنے وطن عزیز کی آزادی کے تحفظ کے لیے لازمی فوجی تربیت دی جائے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ اہتمام کیا جائے کہ اسکائوٹنگ‘ ملٹری ڈرل‘ رائفل کلب‘ کوہ پیمائی‘ پیراکی وغیرہ کو تعلیمی دنیا میں رواج ملے‘ جب کہ کالجوں اور یونی ورسٹیوں کی سطح پر لازمی فوجی تربیت کا اہتمام کیا جائے۔ (روداد ‘ ص ۴۱)
نصف صدی بعد‘ ہم پلٹ کر دیکھتے ہیں تو ہمیں بانیانِ پاکستان کے متذکرہ بالا محسوسات اور ان کی ہدایات کا ہلکا سا پرتو بھی اپنی تعلیم پر نظر نہیں آتا۔ آنے والے طالع آزما اور مفاد پرست سیاست دانوں نے تعلیم کے اس نقشۂ راہ کو اٹھا کر ردّی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ آغاخان بورڈ کی اباحیت پسندانہ پالیسی‘ مخلوط تعلیم کی روز افزوں ترویج‘ تعلیمی اداروں میں اخلاقیات کی پامالی اور سیکولر این جی اوز کا تسلّط‘ ہماری اِسی غفلت اور کوتاہی کا نتیجہ ہیں ؎
فطرت افراد سے اِغماض بھی کرلیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملّت کے گناہوں کو معاف
۳ رمضان المبارک کی صبح زلزلے سے آزاد جموں و کشمیر میں مظفرآباد‘ باغ‘ کوٹلی اور راولا کوٹ کے ساتھ نیلم وادی اور لائن آف کنٹرول کا علاقہ بری طرح متاثر ہوا اور اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ وادی نیلم اور وادی جہلم کے بے شمار دیہات اور پہاڑوں پر بستے گھر صفحہ ہستی سے مٹ گئے ہیں۔ اسی طرح صوبہ سرحد میں مانسہرہ‘ ایبٹ آباد‘ بالاکوٹ‘ بٹگرام‘ شانگلا کے طول و عرض پر موت کے سائے حکمران ہوئے۔ آزاد کشمیر اور صوبہ سرحد ۲۸ ہزار مربع کلومیٹر علاقے میں ۳۵لاکھ سے زیادہ لوگ بری طرح متاثر ہوئے جن میں سے ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ جاں بحق اور ۳لاکھ سے زیادہ زخمی ہوئے۔ جہاں پر ۴ لاکھ ۷۱ ہزار ۶ سو ۹۰ مکانات تباہ ہوئے۔ ان میں سے ۲لاکھ ۳۰ ہزار اور ۷۷ گھر صوبہ سرحد میں‘ جب کہ ۲لاکھ‘ ۴۱ ہزار ۶ سو ۱۳ گھر آزاد کشمیر میں تباہی سے دوچار ہوئے۔ ان علاقوں میں ایک ہزار بارہ کلومیٹر (چھوٹی بڑی) سڑکیں تباہ ہوئیں‘ جن میں سے کشمیر کی ۵۹۸ کلومیٹر اور سرحد کی ۴۱۴ کلومیٹر طویل سڑکیں شامل ہیں۔ اب تک حاصل شدہ اعداد و شمار کے مطابق ۶ ہزار ۴ سو ۹۲ اسکول‘ دینی مدرسے اور کالج تباہی کا نشانہ بنے‘ جن میں آزادکشمیر کے ۴ ہزار ایک سو ۷ اور صوبہ سرحد کے ۲ ہزار ۳سو ۹۰ تعلیمی ادارے تباہ ہوئے۔
زلزلے کی تباہ کاریوں کا حال جوں ہی ذرائع ابلاغ سے نشر ہوا‘ یوں محسوس ہوا کہ خیبر سے کراچی تک پوری پاکستانی قوم میں بجلی کی طرح یہ جذبہ سرایت کرگیا کہ ہر فردِ قوم کو ‘بچے اور جوان کو‘ مرد اور عورت کو آگے بڑھ کر اپنا فرض ادا کرنا ہے۔ یہ تاثر عام تھا کہ سنہ ۶۵ء کی یاد تازہ ہوگئی۔ صرف پاکستان میں ہی نہیں‘ دنیا بھر میں جہاں جہاں پاکستانی آباد ہیں‘ سبھی جاگ اٹھے۔ صرف پاکستانی ہی نہیں اسلام کے رشتے سے بندھی اُمت مسلمہ بھی جاگ اُٹھی۔ استنبول اور جدہ میں اسی طرح مہم چلی جس طرح کراچی اور لاہور میں۔ معاشرے میں جتنا خیر تھا سامنے آگیا۔ ہر ادارے اور ہرتنظیم نے اپنی بساط سے بڑھ کر کارگزاری دکھائی۔ انفرادی حیثیت میں بھی بڑے بڑے منصوبے روبۂ عمل آگئے۔ ذرائع ابلاغ نے اس لہرکو آگے بڑھایا گویا اپنا فرض ادا کیا۔ کوئی فہرست بنائی جائے‘ شمار کیا جائے تو بظاہر ممکن نہیں۔ جماعت اسلامی پاکستان اور الخدمت فائونڈیشن نے جو کچھ کیا اس کا ایک تذکرہ پیش کیا جا رہا ہے۔
قاضی حسین احمد‘ امیرجماعت اسلامی پاکستان کی ہدایت پر مرکز جماعت اسلامی اور الخدمت فائونڈیشن نے تمام اضلاع کو متاثرین کے لیے امدادی کیمپ قائم کرنے کی ہدایت کی۔ پہلے ہی روز شام تک ایبٹ آباد کے راستے بالاکوٹ تک اشیاے صرف کی فراہمی اور طبی امداد کی ترسیل کا آغاز ہوا۔ ابتدائی مشاورت کے بعد راولپنڈی میں آزاد کشمیر اور مانسہرہ میں صوبہ سرحد کے متاثرہ علاقوں کا بیس کیمپ قائم کرکے علی الترتیب ڈاکٹر حفیظ الرحمن اور مشتاق احمد خاں کو متعلقہ کیمپوں کا نگران مقرر کیا گیا۔ نعمت اللہ خاں ایڈووکیٹ کی سربراہی میں مجموعی طور پر رابطہ کاری کا نظام قائم کیا‘ جب کہ الخدمت فائونڈیشن کے جنرل سیکرٹری سیداحسان اللہ وقاص جملہ اشیا کی ترسیل‘ اور منصوبہ سازی کے لیے سرگرم کار ہوئے‘ پاکستان کے بیسیوں صنعتی و تجارتی اداروں کے ساتھ ۵۰ممالک کی مختلف دینی و رفاہی تنظیموں اور مؤثر شخصیتوں سے رابطہ کیا۔
پہاڑی علاقے میں سڑکیں بند ہوچکی تھیں جس کے باعث ترسیل و رابطے کا نظام قائم کرنے میں سخت دشواری پیش آرہی تھی‘ تاہم ۲۴ گھنٹے کے بعد راستے بننے اور امدادی و طبی کارکنوں کی آمدورفت شروع ہوگئی۔ دوسرے روز جماعت کے مرکزی نظم اور حلقہ خواتین کی مرکزی قیادت نے اپنے اپنے ہنگامی اجلاس طلب کر کے منصوبہ سازی کی۔ مثال کے طور پر ۲۴ گھنٹے کے اندر اندر پاکستان بھر میں امدادی کیمپوں نے کام شروع کردیا اور صرف کراچی شہر میں اس نوعیت کے ایک سو سے زائد کیمپ کھڑے ہوگئے‘ جب کہ لاہور میں ۸۰ مقامات پر اشیا کو جمع کرنے کا انتظام کیا گیا۔
مقامی کارکنوں نے زلزلے سے متاثر ہونے اور اپنے عزیزوں کے کفن دفن میں مصروفیت اور رنج و الم کا پہاڑ اٹھانے کے باوجود جس حوصلہ مندی کے ساتھ متاثرین کی امداد کے لیے ہاتھ بٹایا‘ وہ تاریخی کردار کا حامل پہلو ہے۔ زخمیوں کو ملبے سے نکالنے‘ باہر پڑے زخمیوں کا علاج کرنے اور بھوک و خوف سے نڈھال انسانوں کی مدد سب سے فوری اہمیت کے نہایت مشکل اہداف تھے۔ محدود وسائل اور بے لوث کارکنوں کی پرعزم ٹیم کے ساتھ اس جانب پیش رفت ہوئی۔ ۲۴ گھنٹے کے اندر اندر مختلف جگہوں پر ۲۵ ہزار انسانوں کے لیے کھانے اور افطار کی ترسیل کا نظام بحسن و خوبی قائم کر دیا گیا۔ کارکنوں نے ملبہ ہٹانے‘ لاشیں نکالنے اور ان کی تدفین کے سخت تکلیف دہ فریضے کو بڑی جاں فشانی سے انجام دیا۔ نیز ہر علاقے میں عارضی خیمہ بستیوں کی تنصیب اور امدادی سامان کی فراہمی کے لیے مقدور بھر کوششیں کیں۔ تباہی جس پیمانے پر وسعت پذیر ہے‘ اس میں لوگوں کی مدد کر کے انھیں بحال کرنا بڑا صبرآزما کام ہے۔ تاہم جماعت کے ۱۲ ہزار کارکنوں نے مختلف اوقات میں یہ ذمہ داری ادا کرنے کی کوشش کی‘ جن میں کشمیر کے مقامی ایک ہزار اور پنجاب و کراچی سے ۵ہزار کارکنوں نے‘ جب کہ صوبہ سرحد میں ۲ہزار مقامی اور پورے صوبہ سرحد سے ۳ہزار کارکنوں نے دادرسی کی کاوشوں میں حصہ ادا کیا۔
جماعت اسلامی نے ۱۰ اکتوبر کو کراچی سے ایروایشیا کی چارٹر فلائٹ کے ذریعے امدادی سامان راولپنڈی بھیجا گیا۔ لاہور جماعت نے پہلے ہی چند روز میں ڈھائی کروڑ اور کراچی میں جماعت اسلامی نے ۳۵کروڑ روپے سے زیادہ رقم جمع کی یا اس مالیت کی اشیاے صرف متاثرہ علاقوں کو بھیجنا شروع کیں۔ کراچی سے لے کر خیبر تک ہر شہر اور قصبے سے جماعت اسلامی‘ الخدمت فائونڈیشن‘ حلقہ خواتین جماعت اسلامی‘ اسلامی جمعیت طلبہ‘ جمعیت طلبہ عربیہ‘ اسلامی جمعیت طالبات اور پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن نے ٹرکوں‘ ویگنوں اور جیپوں کے ذریعے نہایت تسلسل کے ساتھ سامان اور رضاکار کارکنوں کو جاے تباہی پر بھیجنے کا نظام قائم کیا اور دُور دراز پہاڑی مقامات کے لیے خچر اور گدھوں کے ذریعے باربرداری کا کام لیا گیا۔ اب دو ہیلی کاپٹروں کے ذریعے رسل و رسائل کا کام لیا جا رہا ہے۔
کراچی‘ لاہور‘ مرکز جماعت اور راولپنڈی میں امدادی اشیا کو چھانٹ کر مناسب پیکٹ تیار کرنے کا انتظام کیا۔ اشیاے ضرورت کی ترسیل کے مراکز میں راولپنڈی‘ مظفرآباد‘ ایبٹ آباد‘ باغ‘ مانسہرہ‘ بٹگرام‘ بالاکوٹ‘ راولا کوٹ‘ دھیرکوٹ‘ سیراں وغیرہ شامل ہیں۔
امدادی کاموں کے لیے ۵۵ ریلیف کیمپ قائم کیے گئے۔ ۱۵ نومبر تک ایک ہزار ۸سو ۵۳ ٹرکوں میں سامان بھیجا گیا‘ جن میں ۱۸ ہزار خیمے‘ ۱۶ ہزار ترپال‘ ۲۰۰پلاسٹک رول‘ ایک لاکھ کمبل/لحاف‘ ۶ہزار جیکٹس‘ ۱۶ ہزار کفن شامل تھے۔
جن اشیاے خوردونوش کی فراہمی کی جارہی ہے ان میں: آٹا‘ چاول‘ گھی‘ کوکنگ آئل‘ چینی‘ دالیں‘گڑ‘خشک دودھ‘ پیکٹ دودھ‘ بسکٹ‘ جوس‘ منرل واٹر‘ کھجور‘ جام شامل ہیں۔ اشیاے صرف میں: گرم کپڑے‘ جوتے‘ صابن‘ ٹارچ‘ چولہے‘ گیس سلنڈر‘ موم بتیاں‘ ماچس‘ لالٹیں‘ چارپائیاں‘ برتن‘ وہیل چیئر‘ بیساکھیاں‘ واکر‘ اسٹریچر‘ پھاوڑے‘ کسیاں‘ گینتیاں‘ بیلچے‘ چھتریاں‘ جنریٹر 25KV شامل ہیں۔ خصوصی مہمات کے طور پر عیدگفٹ اسکیم پیکٹ ۱۳ ہزار اور راشن پیکج اسکیم کے تحت ۳۵ہزار پیکٹ تقسیم کیے۔
۱۶ ممالک (سعودی عرب‘ کویت‘ مصر‘ متحدہ عرب امارات‘ امریکا‘ برطانیہ‘ ہالینڈ‘ ناروے‘ سنگاپور‘ ملایشیا‘ انڈونیشیا‘ جنوبی افریقہ‘ بحرین‘ بنگلہ دیش‘ سری لنکا‘ کینیا) سے ۱۸۰ ڈاکٹروں نے الخدمت میڈیکل ایڈ پروگرام میں ہاتھ بٹایا۔۱۰ کروڑ روپے کی ادویات فراہم کیں‘ جب کہ ۲کروڑ روپے کے طبی آلات خریدے گئے۔ معذور افراد کے لیے مصنوعی اعضا کی فراہمی کا نظام وضع کیا گیا۔ تین فیلڈ ہسپتالوں (مظفرآباد‘ باغ‘ بالاکوٹ) اور گیلانی ہسپتال ایبٹ آباد میں ۵ہزار ۷ سو ۵۳ بڑے آپریشن اور ۳۵ہزار ۸سو ۷۰ چھوٹے آپریشن کیے گئے۔ مجموعی طور پر ایک لاکھ ۱۵ ہزار ۴ سو ۳۹ مریضوںکا علاج کیا گیا۔ ۴۷۱ موبائل ٹیمیں جو دُورافتادہ علاقوں بہ شمول کاغان‘ شنکیاری‘ شیام‘ الائی‘ وادی نیلم میں پہنچیں اور ۴۹ ہزار ۹ سو ۷۰ مریضوں کا علاج کیا۔ اس وقت الخدمت فائونڈیشن یا پیما کے ہسپتالوں میں ۳۱۲ ڈاکٹر‘ ۱۷۸ ڈسپنسر‘ ۷۴۰ طبی کارکن کام کر رہے ہیں۔
راولپنڈی‘ اسلام آباد‘ ایبٹ آباد‘ پشاور‘ لاہور کے سرکاری ہسپتالوں میں الخدمت کیمپ قائم ہیں۔ راولپنڈی‘ ایبٹ آباد‘ اسلام آباد کے پرائیویٹ ہسپتالوں میں طبی امداد دی جارہی ہے۔ متحدہ عرب امارات کے فوجی ہسپتال بالاکوٹ سے تعاون کرنے کے ساتھ الہجری ہسپتال مظفرآباد اور کشمیر سرجیکل ہسپتال مظفرآباد کی تعمیرنو کا آغاز کیا گیا ہے۔ ادویات کو محفوظ رکھنے کے لیے ’گودام ہائوس‘ کا بندوبست کیاگیا ہے۔
تباہ شدہ علاقے میں خواتین کی حالت سب سے زیادہ خراب تھی۔ بچوں اور مردوں کی اموات‘ گھربار کی بربادی اور زخمیوں کی بے چارگی نے منظر کو اور بھی زیادہ دردناک بنا دیا تھا۔ عدمِ تحفظ کا احساس اور خوفناک مستقبل اس پر حاوی تھے۔ ملک کے مختلف حصوں سے پردہ دار خواتین کے لیے گھر سے نکل کر ان عورتوں کی مدد کے لیے جانا بظاہر ناممکن دکھائی دیتا تھا۔ لیکن الحمدللہ اس باب میں جماعت اسلامی کے حلقہ خواتین نے جو پیش قدمی کی اپنی اہمیت کے پیش نظر اس کے کچھ پہلو الگ سے پیش کیے جا رہے ہیں۔
پہلامرحلہ سمت کا تعین اور افراد کار کو لائحہ عمل دینے کا تھا۔ جس کے لیے حلقہ خواتین کی سیکرٹری ڈاکٹر کوثر فردوس (ممبر سینیٹ) کی قیادت میں سرحد و کشمیر کے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا۔ کارکنوں کی خیریت دریافت کی‘ ریلیف کے کاموں میں رہنمائی دی‘ متاثرین کی ضروریات اور مشکلات کا اندازہ لگایا اور تباہ حال علاقوں کی خواتین کا حوصلہ بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان علاقوں میں خواتین کے کسی بھی ادارے کی جانب سے یہ پہلی رابطہ کاری تھی۔
امدادی اشیا اور فنڈز اکٹھا کرنے کے لیے گھروں‘ مخیر لوگوں اور فیکٹری مالکوں سے رابطے کیے۔ ایک ہفتے کے اندر دو کروڑ روپے جمع کر کے مرکز جماعت کو دیے گئے۔ جمع ہونے والے سامان کو نئے سرے سے چھانٹی کر کے ضروریات کے مطابق پیک کیا‘ لیبل لگائے اور ریکارڈ مرتب کیا۔ جو کپڑے صاف نہیں تھے یا سامان کی نقل و حمل کے دوران خراب ہوگئے تھے انھیں دھلوایا اور استری کر کے تیار کیا گیا۔
ملایشیا‘ سعودی عرب‘ برطانیہ اور امریکا سے آنے والی خواتین ڈاکٹروں نے علاج معالجے کے لیے ہاتھ بٹایا۔ مستقبل کی منصوبہ سازی میں حصہ لیا۔ خواتین ڈاکٹروں اور طبی عملے (ملکی اور غیرملکی) کی رہایش اور نقل و حرکت کے جملہ امور نبٹائے۔ طبی ضروریات کی فراہمی‘ مریضوں کی تیمارداری اور دیکھ بھال کی سرگرمیوں میں جماعت اسلامی خواتین‘ جامعۃ المحصنات اور اسلامی جمعیت طالبات نے بڑی توجہ اور اخلاص سے تعاون کیا۔
ربع صدی قبل‘ ۱۹۷۹ء کے ایرانی انقلاب کو بیسویں صدی میں تاریخ کا رخ موڑنے والے واقعات میں شمار کیا جاتاہے۔ اس میں ایک قوم نے بے نظیر قربانیاں دے کر اس امر کا اظہار کیا کہ وہ اپنی زندگی ___انفرادی اور اجتماعی‘ ہر دائرے میں ___ اپنا نظریۂ حیات اسلا م کی روشنی میں تشکیل کریں گے اور ریاست کا نظم اس کا ذریعہ ہوگا۔ یہ دنیا کے اس رائج الوقت نظام کے خلاف اعلانِ بغاوت تھا جہاں مذہب کو ایک خانے میں محدود کرکے‘ زندگی کے تمام معاملات وحی الٰہی سے بے نیاز ہوکر‘ محض عقل و خرد کی روشنی میں انجام دیے جا رہے تھے۔
یہ انقلاب‘ ہر انقلاب کی طرح‘ مدوجزر سے گزرتا رہا۔ یہ کتابی نہیں‘ بلکہ عملی انقلاب تھا۔ اسی لیے اس نے بے شمار مسائل اور چیلنجوں کا سامنا کیا۔ مخالفوں نے اسے ناکام کرنے کی ہر تدبیر کی۔ ایرانی عوام ہر طرح کی آزمایش سے گزرے‘ لیکن دین اور جمہوریت ان کے اجتماعی خمیر میں گندھی ہوئی ہے۔ طویل عراق ایران جنگ‘ معاشی بحران اور عالمی پابندیوں کے باوجود انھوں نے اس کا دامن نہ چھوڑا اور انتخابات بروقت منعقد ہوتے رہے۔ صدر خاتمی کا انتخاب اپنے مضمرات و اثرات رکھتا تھا اور اب ۲۰۰۵ء میں محمود احمدی نژاد کی کامیابی بھی اپنے دامن میں بہت سے سبق رکھتی ہے۔
بنیادی طور پر اسے انقلاب ۱۹۷۹ء کی تجدید کہا جاسکتا ہے۔ ایک دفعہ پھر ایرانی عوام نے واضح اور فیصلہ کن انداز سے ثابت کر دیا ہے کہ وہ انقلاب کی منزل اور اہداف کے حصول کے لیے یکسو ہیں۔
ایران میں ایک انقلاب ڈاکٹر مصدق کا انقلاب بھی تھا۔ لیکن امریکا نے ۱۹۵۳ء میں اسے سازشوں کے ذریعے ناکام کر دیا اور شاہ کو پھر لا بٹھایا۔ موجودہ صدارتی انتخابات میں بھی امریکا کی منصوبہ بندی یہی تھی کہ اپنا اثرورسوخ‘ اپنے میڈیا کی طاقت‘ اپنے ڈالر اور اپنے ’طاقت ور‘ صدر کے بیانات کے ذریعے ایران میں ایسی تبدیلیوں کا آغاز کردے جو بالآخر ایران کے اسلامی انقلاب کے مقاصد کو ناکام بنادے۔ امریکی ذرائع نے ترقی‘ ترقی پسندی‘ روشن خیالی اور جدت پسندی کے خوش نما نعروں کے ساتھ ہاشمی رفسنجانی اور ڈاکٹرکروبی کے دوماڈل آگے بڑھائے۔ اس صورت حال میں انقلاب کے محافظوں نے مکمل تیاری اور کمال درجے کی ہوش مندی کے ساتھ راستہ بنایا اور الحمدللہ بازی پلٹ کر رکھ دی۔ دوسرے مرحلے میں محمود احمدی نژاد کی ۷۰لاکھ ووٹوں کی اکثریت سے کامیابی نے امریکا کا منصوبہ خاک میں ملا دیا۔ اب اسے الیکشن فراڈ نظر آنے لگے۔
اسلامی قوتوں کی اس کامیابی کے بعد امریکا اور مغرب یہ تصویر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ احمدی نژاد ایک عام سا ہنگامہ پرور لیڈر ہے۔ حالانکہ وہ ایک پڑھے لکھے فرد ہیں‘ پی ایچ ڈی ہیں‘ اپنے میدان کار کے ماہر ہیں۔ لوہار کے بیٹے ضرور ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ سنار کی سو چوٹوں کا اپنی ایک ہی چوٹ کے مقابلہ کرنے کی روایت کو بھول گئے ہیں۔ڈاکٹر محمود احمدی نژاد تہران کے میئر کی حیثیت سے اپنی صلاحیتیں تسلیم کروا چکے ہیں۔ ان کے رویے اور بودوباش میں اسلامی روایات کا عکس ہے۔ یقینا ان کی مقبولیت میں ان امور کا بھی دخل ہے۔
ایران کے حالیہ انتخابات کا نتیجہ پوری اُمت مسلمہ اور خصوصاً احیاے دین اور اصلاحِ قیادت کی جدوجہد کرنے والی تحریکوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے اور غوروفکر کے لیے بعض نکات سامنے لاتا ہے۔
امام خمینی کے انقلاب کا ہدف ایک بے رحم سیکولر استبداد سے نجات اور جدیدیت کے نام پر امریکا کا کھلونا بننے سے انکار تھا‘ جب کہ حالیہ انتخابات میں عوام کے سامنے دو ایشوز تھے۔
اوّل: امریکا اور مغرب سے تعلقات درست کرنے کی طرف قدم ضرور اٹھائے جائیں‘ لیکن یہ احتیاط ملحوظ رہے کہ دروازے اس طرح نہ کھول دیے جائیں کہ اپنا اقتداراعلیٰ باقی نہ رہے۔
دوم: ۱۹۷۹ء کے انقلاب کے بعد متعدد خارجی اور داخلی محرکات کے نتیجے میں مالیاتی توازن بہتر ہونے کے بجاے بگڑ گیا۔ مزید یہ کہ ایک مفاد پرست طبقہ وجود میں آگیا‘ افراطِ زر میں بے حد اضافہ ہوا‘ اور بے روزگاری بہت زیادہ بڑھ گئی۔ انقلاب کے وقت تیل کی قیمت تقریباً ۲۰ڈالر فی بیرل تھی‘ اور اب ۶۰ ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ اس سے عامۃ الناس کے احوال میں جو بہتری آنا چاہیے تھی نہیں آئی‘ بلکہ مفاد پرست طبقہ ہی خوش حال تر ہوگیا۔ موجودہ انتخابی معرکے میں رفسنجانی اس طبقے کی علامت تھے۔ موجودہ انتخابی نتائج دراصل اس عدم توازن کے خلاف ایک بھرپور احتجاج ہے۔ نئے صدر اس بات کو سمجھتے ہیں کہ غریب افراد نے ان کو ووٹ اسی لیے دیے ہیں کہ وہ ان کے مسائل حل کریں‘ سماجی انصاف قائم کریں اور معاشی عدم توازن کو دُور کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کریں۔
گویا کہ ۲۰۰۵ء کا صدارتی انتخاب ایران کے اسلامی انقلاب کی تجدید نو کے لیے ایک ریفرنڈم کی حیثیت رکھتا ہے اور اس طرف بھی اشارہ کر رہا ہے کہ جس طرح امام خمینی اور مہدی بازرگان نے قدیم و جدید کے سنگھم کی کیفیت پیدا کر دی تھی‘ اسی طرح رہبر اعلیٰ خمینی ثانی اور ڈاکٹر محمود احمدی نژاد مل کر انقلاب کی اصل روح کے مطابق تعمیرنو کا کام سرانجام دے کر ایران کے مسائل کے حل اور امت مسلمہ کے روشن مستقبل کے حصول کے لیے نئے چراغ جلائیں گے۔ جہاں یہ ایک بڑی کامیابی ہے وہیں دراصل ایک چیلنج بھی ہے کہ ایرانی قیادت عوام کی حمایت سے انقلاب کے مقاصد کی تکمیل کرے جس میں وہ:
۱- مغرب کی گمراہی کے جواب میں‘ نظریاتی طور پر درست مؤقف پیش کرے۔
۲- مغربی نیوکلیئر اجارہ داری کے جواب میں خود انحصاری پر مبنی نیوکلیئر پروگرام پر عمل جاری رکھے۔
۳- ملک کے عوام کے معاشی مسائل بہتر نظم اور مؤثر حکمتِ عملی سے حل کرے۔
۴- اسلامی تعمیرنو کا کام شخصی آزادی اور جمہوری روایات کے ساتھ عوامی تائید اور شراکت سے انجام دے۔
ایرانی انقلاب تو آیا ہی ایمانی جذبے سے سرشارمستضعفین کے نام پر تھا۔ لیکن گذشتہ ۲۵برس میں بہت کچھ کیے جانے کے باوجود‘ بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔ احمدی نژاد نے تہران کے میئر کی حیثیت سے جو تجربات حاصل کیے ہیں انھیں اب پورے ملک میں آزمانے کا موقع ہے۔ ساری دنیا کی نظریں ان پر لگی ہیں‘ اور امید ہے کہ اگست میں حلف اٹھا لینے کے بعد‘ ایک لمحہ ضائع کیے بغیر وہ اپنے کام میں لگ جائیں گے‘ اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرے۔
یوں تو کسی بھی ملک کے لیے تعلیمی نظام کی اہمیت مسلّمہ ہے لیکن ایک نظریاتی مملکت کے لیے توتعلیم کی فکری جہت اور اس کے معیار کو‘ وہی حیثیت حاصل ہے جو انسانی جسم میں ریڑھ کی ہڈی کی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قیامِ پاکستان سے قبل اور اس کے قیام کے فوری بعد قائداعظم ؒنے اس بات کو بخوبی اُجاگر کیا کہ پاکستان کا نظامِ تعلیم کیا ہوگا اور تعلیمی پالیسی کی تشکیل میں کیا تعلیمی اہداف و مقاصد پیشِ نظر رکھے جائیں گے۔ اس کا ایک بھرپور اظہار انھوں نے‘ اپنی گرتی ہوئی صحت کے باوجود‘ پاکستان تعلیمی کانفرنس منعقدہ ۲۷نومبر تا یکم دسمبر ۱۹۴۷ء کے موقع پر کیا۔ کانفرنس میں وہ خود شریک نہ ہوسکے مگر اپنے پیغام میں پاکستان کے تعلیمی نظام کے خدوخال بخوبی واضح کر دیے تاکہ صحیح خطوط پر نظامِ تعلیم تشکیل پاسکے۔
المیہ یہ ہے کہ آج نصف صدی بعد پاکستان کے تعلیمی اداروں میں قائداعظم کے افکار سے کھلم کھلا انحراف کیا جارہا ہے اور جو کچھ پیش کرنے کی کوشش ہو رہی ہے‘ وہ مملکتِ پاکستان کے بنیادی نظریے سے صریحاً متصادم ہے۔ اس ضمن میں چند پہلو ملاحظہ کیجیے: لڈی ڈانس‘ بھنگڑے‘ گانے بجانے‘ میراتھن ریس‘ مینابازاروں‘ تلک لگانے اور بسنت منانے کے ساتھ بڑے تواتر‘ اور کثرت کے ساتھ محافل موسیقی (میوزک شو) کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ جنرل مشرف کہتے ہیں: مجھے موسیقی پسند ہے۔ میں کلاسیکل پاپ موسیقی پر نوجوانوں کے ساتھ جھوم سکتا ہوں‘دنیا میں پاکستان کا نرم تاثر(soft image) پیدا کرنے کے لیے موسیقی اور ثقافت [غالباً مغربی اور ہندووانہ] کا سہارا لینے کی ضرورت ہے۔ ۱۹۷۰ء سے ۱۹۹۰ء کے دوران آرٹسٹوں کو نظرانداز کیا گیا‘ جس کے باعث انتہاپسندوں نے ہمارے [؟] بارے میں قائم نرم تاثر کو ملیامیٹ کر دیا‘‘۔ (روزنامہ نواے وقت‘ لاہور‘ ۱۷ مئی ۲۰۰۶ئ)
پاکستان بنانے والوں نے تو یہاں کے طالب علموں کی شخصیت کو ایک متوازن اور صحت مند انسان بنانے کے لیے پہلی کُل پاکستان تعلیمی کانفرنس (نومبر‘ دسمبر ۱۹۴۷ئ) کی قرارداد نمبر۴ میں ایک مختلف لائحہ عمل دیا تھا‘ مگر وہ فرد جو قیامِ پاکستان کے وقت چار سال دو ماہ کا کم سن بچہ تھا‘ آج اسی قوم کی ملازمت کے دوران اختیارات کی امانت کا ناجائز استعمال کر کے حکمران بننے کے بعد اپنی اس قوم کو کسی اور ہی منزل تک پہنچانا چاہتا ہے۔ موصوف کے وزیرتعلیم بھی ایک ریٹائرڈ جرنیل ہیں اور قوم کو للکار کر کہتے ہیں: ’’ہم پاکستان میں اتاترک کا نظامِ تعلیم لائیں گے‘‘۔ جنرل موصوف غالباً نہ اتاترک سے واقف ہیں اور نہ وہ نظام تعلیم و تعلّم کا حدود اربعہ جانتے ہیں۔ اُن کی شہرت فقط یہ ہے کہ وہ اپنے نامۂ اعمال میں فرسودہ ریلوے انجنوں کی سوداکاری کا ریکارڈ رکھتے ہیں۔
پاکستانی نظام تعلیم کی تشکیل کے حوالے سے پہلی قومی کانفرنس میں جو قرارداد منظور کی گئی تھی‘ اس میں تو نسلِ نو کو جسمانی تربیت دینے اور دفاعی صلاحیت پیدا کرنے کے مجاہدانہ کردار کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا۔ لیکن جنرل ضیا الحق کے دور میں نجی شعبے کو جو آزادی ملی اور نجی شعبے‘ بالخصوص بیکن ہائوس سسٹم وغیرہ نے برگ و بارلانا شروع کیے تو سوچا گیا کہ چونکہ نجی شعبہ اپنے محدود کیمپسوں میں نیشنل کیڈٹ کور کی تربیت کا اہتمام نہیں کرسکتا‘ اس لیے جو لڑکے‘ لڑکیاں لازمی فوجی تربیت سے ۲۰نمبروں کا فائدہ اٹھا رہے ہیں‘ اُن سے یہ تھوڑا سا امتیاز بھی چھین لیا جائے (اور انٹری ٹیسٹ کے نام پر مخصوص طبقوں کو آگے بڑھنے کی مزید سہولت بہم پہنچائی جائے)۔ یوں ۱۹۹۷ء میں نواز شریف صاحب کی حکومت نے تعلیمی اداروں سے این سی سی کے خاتمے کا اعلان کیا اور اب ’پاکستانی اتاترک‘ نے قوم کی رگوں سے جہاد‘ تربیت اور قومی جذبے کی اُمنگ کو کھرچ دینے کے لیے راگ‘ رنگ اور مستی کی لہر کے ساتھ مخلوط و بے باک کلچر کی ترویج کو ترقی قرار دیا۔
طلبہ و طالبات کے لیے مخلوط میراتھن ریس کے پروگرام کو دیکھیے: گوجرانوالہ کے ایگزیکٹو ڈسٹرکٹ افسر (تعلیم) نے ضلع بھر کے طلبہ و طالبات کے کالجوں کے پرنسپلوں کو اپنے خط (مورخہ ۳۱ مارچ ۲۰۰۵ئ) میں حکم دیا: ’’وزیراعلیٰ پنجاب کی ہدایات کے مطابق مِنی میراتھن ریس ۲۰۰۵ئ‘ ۳ اپریل ۲۰۰۵ء کو گوجرانوالہ اسٹیڈیم میں منعقد ہوگی۔
آپ کو ہدایت کی جاتی ہے کہ اپنے تدریسی عملے [خواتین اور مردوں]‘ نیز اپنے کالج کے طالب علموں [لڑکوں‘ لڑکیوں] کو لے کر میراتھن ریس کے مقام آغاز پر پہنچ جائیں۔ آپ (سرکاری ملازموں)کی حاضری‘ گوجرانوالہ جناح اسٹیڈیم میں ریس کے آغاز اور ریس کے اختتام پر لگائی جائے گی۔
پاکستان بنانے والی مسلم لیگ۱۹۴۷ء میں نسلِ نو کی تعمیرذات کے لیے ایک الگ لائحہ عمل رکھتی تھی‘ جب کہ آج کی مسلم لیگ یہ راستہ اختیار کر رہی ہے جس میں اسکولوں اور کالجوں کی لڑکیوں کو تین سے دس کلومیٹر تک شہر کی سڑکوں پر دوڑایا جائے۔ یہ کون سی تعلیم اور کون سی صحت مند سرگرمی ہے! یہ صحت مند سرگرمی سے زیادہ‘ پاکستان کو ’’اسلام کی دقیانوسی‘‘ چادر سے نکال کر روشن خیالی کے اسٹیڈیم میں لانے اور تماش بینی کا بندوبست ہے۔
پاکستان کے نظام تعلیم کو آغاخان فائونڈیشن کے ادارے آغا خان بورڈ کے حوالے کرنے کا فریضہ انجام دینے والے جنرل مشرف اور ان کے وزیرتعلیم بعض اوقات حاکمانہ لہجے میں فرماتے ہیں: ’’ہم آغا خان بورڈ کو جاری وساری کرکے دکھائیں گے‘‘۔ اگر واقعی یہ ایک نجی ادارہ ہے تو پھر ہمارے حکمران اس کے دفاع کے بارے میں اتنے حسّاس کیوں ہیں؟ کیا آج تک کبھی کسی حکمران نے اور خاص طور پر کسی فوجی طالع آزما نے کسی پرائیویٹ ادارے کے لیے یوں سینہ تان کر دفاع کی جرأت دکھائی ہے؟ ان کی یہی سرگرمی بے شمار اندیشوں کو جنم دیتی ہے‘ حالانکہ خود آغا خان فائونڈیشن کی دستاویزات‘ عملی اعلانات اور اس پر تضادات کی بھرمار سے ہمارے حکمرانوں کی وکالت کا سارا کھیل چوپٹ ہوتا نظر آتا ہے۔
آغا خان بورڈ کے افسراعلیٰ شمس قاسم لاکھا ایک ٹیلی وژن پروگرام میں بڑے پرسکون اور دلیل کے بغیر بات کرتے دیکھے گئے‘ جب کہ وزیرتعلیم جنرل جاوید اشرف سطحی الزام تراشی میں لپٹے اور غصے کی حالت میں گرجتے پائے گئے۔ جنرل جاوید اشرف نے ۳۰ مارچ ۲۰۰۵ء کو پاکستان کے تمام ارکان قومی اسمبلی وارکان سینیٹ کو ایک خط (نمبر ای ایم ۲۰۰۵ئ) بھیجا‘ عنوان تھا: ’’آغا خان یونی ورسٹی ایگزامی نیشن بورڈ‘ اے فیکٹ شیٹ‘‘۔ یہ فیکٹ شیٹ (حقائق نامہ) کیا تھی؟ تین صفحے کا تضادات سے بھرپور اور حقائق سے کوسوں دُور بیان اور اس کے ساتھ جنرل مشرف صاحب کا منظور کردہ آرڈی ننس‘ پھر آغا خان فائونڈیشن کے شمس لاکھا کا بیان بھی ہر رکن اسمبلی کے ہاتھ میں تھمایا گیا۔ اس میں پیش کردہ استدلال اپنے کیس کا دفاع کرنے سے قاصر ‘اور محض سیاسی پروپیگنڈا تھا۔
الماری کی زینت بننے والے دستور پاکستان کے مطابق جو صوبے اپنے دائرہ اختیار میں تعلیمی نظم و ضبط کے لیے خودمختار ہیں‘ انھیں جنرل جاوید اشرف کا یہی ’’فیکٹ شیٹ‘‘ والا وثیقہ بھیج کر دبائو میں لانے اور جکڑنے کی کوشش کی گئی۔ پنجاب کی حکومت نے‘ ارکان اسمبلی کے نام بھیجے جانے والے اس وثیقے کی ہوبہو نقل صوبہ بھرکے اسکولوں اور کالجوں کے پرنسپلوں کو ارسال کردی۔ کیا حکومت پنجاب بھی ایک ایسی نجی این جی او کی کاروباری مہم میں ’عوامی رابطہ کاری‘ کی حصہ دار بن چکی ہے؟ وہ این جی او جسے اپنا بورڈ چلانے کے لیے مکمل آزادی حاصل ہے‘ جس کا ’’تصورِ قومی نصاب‘‘ بالکل جدا ہے‘ جس کے اقدامات کو پاکستانی عدالتوں میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا‘ جس کی فیسوں کا تعین اس کی ’نیک نیتی‘ پر چھوڑدیاگیا ہے‘ اور جس کے لیے پورا وطن عزیز کھلی چراگاہ ہے۔
وفاقی وزیرتعلیم یہ کہتے ہیں کہ: ’’آغا خان بورڈ تو ’او‘ لیول، ’اے‘ لیول کے لیے ہے‘ تاکہ زرمبادلہ بچایا جائے۔ پھر یہ بورڈ پاکستان کا قومی نصاب ہی پڑھائے گا‘‘۔ سوال کیا گیا: ’’جناب‘ پاکستان میں تو ’او‘ لیول ، ’اے‘ لیول کا نہ کوئی نصاب ہے اور نہ نظام۔ پھر بھلا یہ کس طرح قومی نصاب کے دائرے میں آئے گا؟‘‘ جواب حقارت آمیز خاموشی کی صورت میں ملا۔ پھر وزیر صاحب نے کہا: ’’پاکستان کا تعلیمی معیار اور یہ بورڈ بڑے خراب ہوچکے ہیں‘‘۔ سوال یہ ہے کہ کیا وزیرتعلیم نے پاکستان کے قومی اور سرکاری نظام تعلیم کو درست کرنے کے لیے وزارت کا قلم دان سنبھالا ہے‘ یا خرابی دیکھ کر اسے ٹھکانے لگانے‘ بیچ دینے اور قومی زندگی سے غیرمتعلق بنانے کا بیڑا اٹھایاہے؟
دوسری طرف او/اے لیول سے مقتدر طبقے کاعشق خاصّے کی چیز ہے۔ گذشتہ اڑھائی برسوں کے دوران سینیٹ اور قومی اسمبلی میں کم از کم سات مرتبہ وزارت ہاے تعلیم‘ خزانہ اور داخلہ سے یہ سوال پوچھا گیا کہ: ’’پاکستان سے کتنے طلبہ و طالبات او/اے لیول کا امتحان دے رہے ہیں؟ ان کے نتائج کا تناسب کیا رہا؟ امتحان کی رجسٹریشن‘ امتحان کے انعقاد کی مد میں گذشتہ تین برسوں کے دوران (سال بہ سال) کتنا زرمبادلہ خرچ ہوا؟‘‘--- متعلقہ وزارتوں نے پہلے تو جواب ہی نہیں دیا‘ اور جب بار بار یاد دہانیوں سے مجبور ہوکر جواب دیا تو کہا: ’’ہمارے پاس معلومات نہیں‘‘۔ پھر پوچھا گیا تو جواب ملا: ’’چونکہ او/اے لیول پاکستانی نظام تعلیم نہیں ہے‘ اس لیے جواب نہیں دیا جا سکتا‘‘۔ یہ کیسی گڈگورننس اور شاندار نظامِ حکومت ہے کہ جس کی آنکھوں کے سامنے قوم کے اربوں روپے پاکستان سے باہرجا رہے ہیں‘ اس کے ہزاروں بچے بچیاں بیرون پاکستان امتحان دے رہے ہیں‘ مگر حکومت کی کسی ایجنسی‘ کسی ادارے یا وزارت کے پاس اس کا ریکارڈ تک نہیں ہے۔ اور لطف یہ کہ اسے ایک قابلِ رشک اور قابلِ تقلید نظام قرار دے کر کہا جارہا ہے کہ یہی نظام آغا خان بورڈ لائے گا۔ حالانکہ آغاخان بورڈ بھی ایک بیرونی ایجنسی کا سوداکار نمایندہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امتحانی بورڈ کے کرتا دھرتا اور نصابی ڈھانچے کے نگران پاکستانی نہیں بلکہ برطانوی ہی مقرر کیے گئے ہیں۔
آغا خان بورڈ کی طرف سے پاکستان کے ’’قومی نصاب کی پابندی‘‘ کا پے درپے اعلان‘ ہاتھی کے دکھاوے کے دانتوں کے سوا کچھ حقیقت نہیں رکھتا۔ اس میں بڑا بنیادی سوال یہ ہے کہ اگر نصاب پاکستان کا ہونا ہے تو محض ایک مشینی انداز سے امتحان لینے کی زحمت کرنے میں آغا خان یونی ورسٹی کو کیوں اتنی دل چسپی ہے؟ اور اتنے سے کام کے لیے یو ایس ایڈ کی کروڑوں ڈالر کی امداد‘ امریکی سفیر کی بے چینی‘ اور حکومتی عقابوں کا اضطراب کیا صرف اور صرف امتحان لینے دینے کے لیے ہے؟ نہیں! یو ایس ایڈ کی ویب سائٹس اور آغا خان ایجوکیشن سروس‘ آغا خان یونی ورسٹی اور اس کا بورڈ تصویر کا دوسرا منظر پیش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر آغا خان بورڈ نے ۱۱‘۱۲ اگست ۲۰۰۳ء کو نصابِ تعلیم پر گول میز کانفرنس منعقد کی‘ جس میں نصابی تبدیلیوں پر غور کیا گیا۔ پھر اسی تسلسل میں مارچ ۲۰۰۴ء کے دوران مزید اجلاس کیے۔ اس کے بعد جولائی اور ستمبر ۲۰۰۴ء کو اسی نوعیت کے بھرپور اجلاس میں نصابی جائزے کے لیے ۱۸ پینل بنائے گئے جنھوں نے مختلف سطحوں پر سامنے آنے والے ردعمل کا جائزہ لیا۔ صرف اس مشق کے لیے ۱۳ لاکھ امریکی ڈالر صرف کیے گئے۔
پاکستان کیا‘ دنیا کا کوئی بھی ملک اپنے نظام تعلیم سے مطمئن نہیں‘ لیکن وہ ملک اسے بیچ دینے یا اکھاڑ پھینکنے کے بجاے اسے بہتر بنانے کی سبیل سوچتے ہیں۔ مگر یہاں نہ صرف اس کی مذمت کی جارہی ہے بلکہ ردی کی ٹوکری میں پھینکنے کا بندوبست بھی کیا گیا ہے۔ آج سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں پاکستان کے عام اسکولوں اور دیہی علاقوں کے ذہین اور محنتی طالب علموں کے جو عظیم کارنامے نظر آتے ہیں‘ اور پھر دفاع وطن کے لیے جوہری و میزائل ٹکنالوجی میں جو پیش رفت دکھائی دیتی ہے‘ بالیقین کہا جاسکتا ہے کہ اس عظیم قومی ذہانت و محنت میں آپ کو کسی عیسائی مشنری تعلیمی ادارے‘ اولیول گروپ یا اعلیٰ طبقاتی انگلش میڈیم کا کوئی رول ڈھونڈے سے بھی نہ ملے گا۔ میڈیکل اور زراعت میں انھی کم مایہ اور غریب مگر ملک و قوم کے وفادار سائنس دانوں کی عظمت کے نقوش پرآج مسلم دنیا خصوصاً ملایشیا‘ ترکی اور مصر کے سائنس دان بھی رشک کرتے ہیں۔ پھر بھی یہی بے چارے مذمت اور تحقیر کے حق دار ہیں۔
بات دراصل یہ ہے کہ پاکستان کے قومی نظام تعلیم کے جسدِملّی سے روح محمدؐکی بچی کھچی رمق کو نچوڑ کر رکھ دینا امریکی سامراج کا ہدف ہے۔ اس کے لیے انھوں نے پاکستان کی وزارت تعلیم کو بے دست و پا بناکر‘ ٹکڑوں میں بانٹ دیا ہے اور ہر ٹکڑے پر چار چار عالمی این جی اوز کو بٹھا دیا ہے جن کی وفاداریوں کا مرکز پاکستان میں نہیں بلکہ سات سمندر پار ہے۔ ان این جی اوز کی حکمرانی وزارت ہاے تعلیم اور ادارہ ہاے نصابیات سے لے کر اساتذہ کی تربیت اور انھیں دفتری اور انتظامی گُر سکھانے تک پھیلی ہوئی ہے۔ بڑے انتظامی عہدوں پر لاکھوں روپوں کی تنخواہوں والے باس بٹھائے اور سابق اعلیٰ فوجی افسران مسلط کیے جا رہے ہیں‘ جنھیں نہ تعلیم کے رموز سے شناسائی ہے اور نہ اجتماعی زندگی کے پیچ در پیچ سلسلوں سے نبردآزما ہونے کی کوئی تربیت حاصل ہے۔ البتہ وہ اُوپر سے ملنے والے حکم کو یونٹی آف کمانڈ کے اصول پر نچلے عملے پر اندھا دھند نافذ کرنے کا پیشہ ورانہ تجربہ ضرور رکھتے ہیں۔ غالباً ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ میں امریکا کو ایسے ہی فدوی مگر کروفر کے حامل افراد کار کی ضرورت ہے۔
روزنامہ ڈیلی ٹائمز‘ لاہور (۲۰ اپریل ۲۰۰۵ئ) کے واشنگٹن میں متعین نمایندے خالد حسن نے رپورٹ دی کہ: ’’ایجوکیشن ان اسلامک ورلڈ‘ ٹاپ یو ایس پرییارٹی‘‘ (یعنی: مسلم دنیا میں تعلیم: امریکا کی ترجیح اول)۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ: ’’امریکا نے طے کیا ہے [کہ مسلم دنیا کی] وزارت ہاے تعلیم کو فنی معاونت کے لیے مادی وسائل فراہم کیے جائیں گے‘‘۔ الزبتھ چینی پرنسپل ڈپٹی اسسٹنٹ سیکرٹری نے یہ بیان امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی کے سامنے‘ تعلیم اور دہشت گردی کی مناسبت سے دیا۔ کمیٹی کے اجلاس کی صدارت سینیٹر رچرڈلوگر نے کی جن کے سامنے اسلام آباد سے انٹرنیشنل کرائسز گروپ (ICG) کی ڈاکٹر ثمینہ احمد‘ عالمی بنک کے سابق اعلیٰ عہدے دار شاہد جاوید برکی ‘ اُردن کے وزیر مال ڈاکٹر بسیم‘ امریکی حکومت کے متعدد اعلیٰ افسروں اور یوایس ایڈ کے جیمز کنڈر نے بیانات دیے۔ جیمزکنڈر نے کہا: ’’امریکا کو [مسلم دنیا کے] نوجوانوں تک پہنچنا چاہیے‘‘۔ ثمینہ احمد نے کہا: ’’نائن الیون کے بعد بڑی خطیر مالی معاونت کے باوجود پاکستان کے تعلیمی ماحول کو خاطرخواہ طریقے سے متاثر نہیں کیا جاسکا‘ جس کا ایک سبب پاکستان کی غیرمؤثر تعلیمی بیوروکریسی ہے اور دوسرا یہ کہ پاکستانی حکومت مذہبی عناصر کے دبائو کے سامنے قدم نہیں جماپاتی جنھوں نے پاکستان کے نصاب تعلیم کو یرغمال بنا رکھا ہے‘‘--- یہ سب چیزیں اُس ایجنڈے کا حصہ ہیں‘ جن کے تحت پاکستان کے پورے تعلیمی منظرنامے کو تبدیل کرنے کی سرگرمی عروج پر ہے۔
مخلوط تعلیم کو رواج دینے میں ذوق شوق ‘ تربیت اساتذہ کے بے شمار قومی ادارے موجود ہونے کے باوجود امریکا اور آغا خان فائونڈیشن کی مدد کا حصول‘ نصابات کو عدم مرکزیت کی دلدل میں دھکیلنا‘ اعلیٰ تعلیمی ڈھانچے کو غیرمؤثر اور کاروباری نشیب کی طرف دھکیل دینا‘ عورتوں اور طالبات کی تعلیم و تربیت اور مخصوص ذہن سازی پر خصوصی ارتکاز‘ میڈیا کی آزاد روی بلکہ آوارہ خرامی کی سرپرستی اور اس کام کے لیے مخصوص این جی اوز کو کھل کھیلنے کا سامان مہیا کرنا--- یہ سب چیزیں نائن الیون کمیشن کی سفارشات کے بعد برق رفتاری سے مسلم دنیا‘ بالخصوص پاکستان کے تعلیمی نظام کو پامال کر رہی ہیں۔ اگر معاملات کی یہی رفتار رہی اور اہل سیاست اور اہل اقتدار نے اپنی آنکھوں پر بدستور ذاتی مفادات کی پٹی باندھے رکھی تو اب سے چار سال بعد کا پاکستان‘ نہ اقبال کا پاکستان ہوگا اور نہ قائداعظم کا پاکستان۔ ایوب خاں کی طرح آج کے حکمران بھی ماضی کی کتابوں میں بند پڑے ہوں گے‘ تاہم وہ مجبور و مقہور پاکستان این جی اوز کا پاکستان ہوگا۔ جہاں بظاہر چہرے پاکستانیوں کے ہوں گے لیکن‘ دل اور دماغ عالمی این جی اوز مافیا کی گرفت میں ہوں گے۔
اس ساری صورت حال میں سپریم کمانڈر صدر بش اپنے مددگار کمانڈروں کی خدمات کا اعتراف کرنے میں بخل سے کام نہیں لے رہے۔ C.Span ٹیلی وژن نیٹ ورک پر ۳۱ جنوری ۲۰۰۵ء کی شام انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے کہا: ’’جنرل مشرف نے عظیم قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے اور ہمارے کسی دبائو کے بغیر ہی درست سمت میں چلنے کے لیے انھوں نے متعدد راستے اختیار کیے ہیں۔ بہت سے مواقع پر‘ میں نے جنرل مشرف سے بات چیت کے دوران یاد دلایا کہ اپنی پالیسیوں میں تبدیلی کے عمل میں وہ خاص طور پر پاکستان کی تعلیمی پالیسی کو تبدیل کریں اور اس تعلیمی پروپیگنڈے کا خاتمہ کریں جو ان کے اسکولوں میں پڑھایا جاتا ہے‘‘ (یکم فروری ۲۰۰۵ئ‘ قومی اخبارات)۔ سامراج کی ایک خوبی کا اعتراف کرنا چاہیے‘ اور وہ یہ کہ جب کوئی فرد اُن کے مقاصد کی تکمیل کے لیے اُن کا مددگار بنتا ہے‘ تو وہ اس کی اتنی تعریف کرتے ہیں کہ خود اپنی قوم کے خلاف گواہی دینے والے کو شرمندگی سی محسوس ہونے لگتی ہے۔ لیکن ایسا کام اُس وقت تک ہوتا ہے جب تک کہ آپریشن مکمل نہیں ہوتا۔ سرزمین ہند میں گوری اقوام نے بار بار یہی ڈراما کیا تھا اور اس صدی میں توا س کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔
’’دہشت گردی کے خلاف مہم‘‘ تو ایک بہانہ ہے۔ دراصل یہ جنگ اسلام اور قرآن کے خلاف ہے‘ اسلام کے دیے ہوئے خاندانی نظام اور سیرت محمدیؐ کے خلاف ہے اور اس سے بڑھ کر مسلم اُمت کو ایک کم تر کمیونٹی بنانے کا شیطانی منصوبہ ہے۔ اس کام کے لیے تعلیم کا میدان اوّلیت کا حامل ہے۔ دشمن جانتا ہے کہ بقول اکبر الٰہ آبادی مرحوم:
دل بدل جائیں گے‘ تعلیم بدل جانے سے
اجتماعی زندگی مختلف سطحوں پر رواں دواں رہتی ہے جس میں حالات میں خرابی‘ الجھائو اور سدھار کی موجیں پہلو بہ پہلو چلتی ہیں۔ بلاشبہہ دوسری اقوام کی بھی قومی زندگی کو گوناگوں چیلنجوں کا سامنا ہوگا‘ لیکن پاکستان کئی حوالوں سے منفرد نوعیت کے حالات و واقعات کے بھنور میں گھرا نظر آتاہے۔
بدقسمتی سے ہماری یونی ورسٹیوں میں‘خصوصاً سماجی علوم پر ہونے والی تحقیق اور تجزیہ کاری‘ بیش تر صورتوں میں بے رنگ‘ بے لطف اور بڑی حد تک بے مغز بھی ہے۔ ان دانش کدوں میں زندہ موضوعات پر دادِ تحقیق دینا غالباً شجرممنوعہ ہے‘ اسی لیے تحقیق ایک لگے بندھے (stereotype) اسلوب میں لڑکھڑاتی نظرآتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل علم و صحافت کو‘ ہماری جامعاتی سطح کی تحقیقات سے کوئی قلبی رغبت نہیں ہے۔ اس تناظر میں ایسے اہلِ قلم غنیمت ہیں جو ’’چراغ اپنے جلا رہے ہیں‘‘۔ عبدالکریم عابد ایسے دانش وروں میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں‘ جنھوں نے مختلف اخباروں میں کالم نگاری اور اداریہ نویسی کے ذریعے قوم کی بروقت رہنمائی کی ہے۔
عبدالکریم عابد کی تازہ کتاب سیاسی‘ سماجی تجزیے موضوعات کی بوقلمونی کے ساتھ علمی گہرائی اور مشاہداتی وسعت کا ایک قیمتی نمونہ ہے۔ ان کے ہاں کسی نام نہاد اسکالر کا سا جامد اسلوب نہیں ہے اور نہ کارزارِ سیاست کے کھلاڑی جیسا یک رخا پن‘ بلکہ ان کے چھوٹے چھوٹے مضامین میں انصاف‘ اظہار اور اطلاع کا جھرنا پھوٹ رہا ہے۔ وہ فلسفے‘ سیاسیات‘ ادب‘ آرٹ اور تاریخ کی عبرت آموز تفصیلات اور وجدآفریں تجزیے پیش کرتے ہیں۔ ان کی یادداشت قابلِ رشک ہے اور سماجی سطح پر تعلقات کا دائرہ بڑا وسیع ہے۔ انداز نگارش رواں دواں ہے اور لکھنے والے کے ذہنی توازن اورپختہ فکری کا پتا دیتا ہے۔ یہ کتاب عبدالکریم عابد کے ۴۹ مضامین پر مشتمل ہے‘ جن میں بیشتر کی اشاعت جسارت اور فرائیڈے اسپیشل میں ہوئی۔
جناب عابد نے اپنی زندگی کی ساٹھ بہاریں صحافت و سیاست‘ اور ادب و دانش کے ویرانوں (یا مرغزاروں) میںگزاری ہیں۔ وہ ایمان اور عقیدے کی پختگی اور تشخص کا امتیاز رکھنے کے باوجود‘ پیشہ ورانہ دیانت اور تجزیاتی معروضیت پر آنچ نہیں آنے دیتے۔
ہماری قومی تاریخ کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں: ’’پاکستان پان اسلام ازم کے جذبے کی پیداوار ہے اور اس جذبے کے بغیر پاکستان کو نہ مضبوط بنایا جا سکتا ہے‘ نہ چلایا جا سکتا ہے (ص ۱۷۳)--- پاکستان کی سیاسی زندگی میں‘ اہلِ سیاست کا یہ وطیرہ ہے کہ وہ اپنی نااہلی‘ ناعاقبت اندیشی ‘ اور مرغِ بادنما جیسی فطرت کے ہاتھوں وطن عزیزکو کھیل تماشے کی طرح برتنے میں ]کوئی[ عار محسوس نہیں کرتے‘ لیکن جوں ہی عوام میں کوئی بے چینی پیدا ہوتی ہے تو یہ لیڈر حضرات اپنی توپوں کا رخ دوسری قومیت کی طرف پھیر دیتے ہیں‘‘۔
پاکستان کے تمام المیوں کا ذمہ دار پنجاب کو قرار دینا ہماری سیاست میں ایک چلتا سکّہ ہے‘ عابد صاحب نے تفصیل سے اس کا تجزیہ کیا ہے۔ لکھتے ہیں: ’’ہماری سیاست کا فیشن پنجاب کو مطعون کرنا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ خداوندان پنجاب کے جرائم بہت ہیں… لیکن دوسرے صوبوں کے اہلِ سیاست نے کیاکسی اچھے کردار کا مظاہرہ کیا (ص ۱۷۹)… یہ حسین شہید سہروردی تھے جنھوں نے مسلمانوں کے اتحاد ] کے نظریے [ کو زیروجمع زیرو قرار دے کر اینگلو امریکی طاقتوں کے سامنے سجدہ ریزی کا مسلک پورے دھڑلے سے اختیار کیا (ص ۱۸۱)… جمہوریت کی تباہی کے عمل میں پنجاب کے علاوہ دوسرے صوبوں کی سیاسی قیادت کی بے اصولی اور موقع پرستی بھی شامل ] رہی ہے[۔ صورتِ حال ہرگز یہ نہیں تھی کہ پنجاب میں صرف حکمران طبقہ تھا‘ بلکہ یہاں جمہوریت‘ وفاقیت‘ صوبائی خودمختاری اور منصفانہ اقتصادی نظام کے لیے جدوجہد کرنے والے لوگ موجود اور خاصے منظم تھے لیکن دوسرے صوبوں کی سیاسی قیادتوں نے ان سیاسی عناصر کے ساتھ اشتراکِ عمل کے بجاے ] پنجاب کے[ حکمران طبقے کے ہاتھوں کھلونا بننا پسند کیا۔ انھوں نے اپنا سارا وزن‘ جمہوریت اور وفاقیت کے بجاے آمریت اور غیر جمہوری مرکز کے پلڑے میں ڈال دیا (ص ۱۲۵)… سرحد کے قیوم خاں کوئی معمولی رہنما نہیں تھے] انھوں[ نے اتحاد کے لیے کبھی پنجاب کی عوامی قوتوں کو پسند نہیں کیا]بلکہ[ ان کا گٹھ جوڑ اوپر کے اس حکمران طبقے سے تھا جس نے ظلم و جبر کی حکومت قائم کر رکھی تھی۔ ان کے سائے میں خود خان قیوم کی حکومت بھی حزبِ اختلاف کو کچلنے کی کارروائیاں بے جھجک کرتی رہی۔ انھوں نے مانکی شریف کا لحاظ کیا نہ دوسرے مسلم لیگیوں کا‘ اور سرحد کا مردِ آہن بن کر اپنے ہتھوڑے سے جمہوریت کا سر کچلتے رہے۔ ادھر غفار خاں کو سواے پختونستان کی رَٹ لگانے کے‘ دوسری کوئی بات ہی نہیں سوجھتی تھی (ص ۱۲۶)… بھٹوصاحب نے سرحد‘ بلوچستان میں نمایندہ حکومتوں کو ختم کیا‘ بلوچستان پر فوج کشی کی تو ایک طرف اکبربگٹی نے ] بھٹو صاحب کا ساتھ دے کر[ ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا‘ اور دوسری طرف سندھ سے حفیظ پیرزادہ‘ ممتاز بھٹو‘ طالب المولیٰ نے تالیاں بجا کر اس کا خیرمقدم کیا۔ اس کا مطلب تھا کہ جمہوریت نہ کسی کو عزیز ہے نہ کسی کو مطلوب۔ اب بلا سے اگر جمہوریت ذبح ہوتی ہے تو ہوجائے‘ ہم کیوں اس کا غم کریں۔ یہی ذہنیت تھی جس نے آخرکار جمہوریت اور سندھی رہنمائوں کے چند روزہ اقتدار‘ سب کو ختم کر دیا (ص ۱۲۹)… سب کھیل جو آمریت‘ چھوٹے صوبوں کے جغادری لیڈروں کی مدد سے کھیلتی رہی ہے‘ اور اب بھی کھیل رہی ہے اس کا تجزیہ کیا جانا چاہیے۔ بے شک پنجاب کا حکمران طبقہ بڑا لعنتی ہے‘ مگر اس لعنتی گروہ کے ساتھی ہر صوبے میں پائے جاتے ہیں۔ جب تک یہ لوگ اپنی ضمیرفروشی ترک کر کے‘ پنجاب کے حکمران طبقے کے بجاے‘ پنجاب کے جمہوریت پسند اور سیاسی عناصر کو تقویت نہیں پہنچائیں گے‘ اس وقت تک ] پاکستان[ آمریت کے چنگل میں پھنسا رہے گا۔ اس لیے چھوٹے صوبوں کے لوگ اپنے لیے پرانی ضمیرفروش قیادت کے بجاے نئی قیادت تلاش کریں‘ جس کا اصولوں پر واقعی ایمان ہو‘ اور وہ استقامت کا مظاہرہ کرے‘ورنہ صرف پنجاب کو گالیاں دیتے رہنے سے کچھ نہیں ہوگا‘‘ (ص ۱۲۹‘ ۱۳۰) وغیرہ۔
یہ تبصرہ تو ماضی پر تھا‘ اب دورِ جنرل مشرف میں پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر ابھرنے والے ان ناسوروں کی ایسی سچی تصویرکشی بھی کی ہے۔ میرظفراللہ خاں جمالی کا بے آبرو ہو کر کوچہ بدر ہونا‘ آنسو بہانا اور پھر کپڑے جھاڑ کر‘ حکمران طبقے کی تعریف پر کمربستہ ہونا عبرت کی جا ہے۔ پنجاب کے چودھریوں اور وڈیروں کا اپنے جیسے خاندانی خدمت گاروں اور پارہ صفت انسانوں کو جمع کر کے ملازمین ریاست کی چوکھٹ پر سجدہ ریز کرانے کی خواری مول لینا ایک گھنائونافعل ہے۔ کراچی سے ایم کیو ایم قسم کی بھتہ خور قیادت کا کذب و دہشت گردی وغیرہ۔
سماجی زندگی پر ادب کے کردار و احوال پر بھی بڑے جان دار تبصرے سامنے آتے ہیں۔ اس کے ساتھ علامہ اقبال کے کارنامے اور ان کے بارے میں نام نہاد ترقی پسندوں کا رویّہ زیربحث آیا ہے‘ لکھتے ہیں: ’’وہ قنوطیت اور بے عملی کے خلاف ساری زندگی جہاد کرتا رہا‘ اور اس جہاد کے سبب ہی برصغیر کے مسلمان عوام نے اقبال کو ملّت کے اقبال کا ستارہ سمجھا‘ لیکن ترقی پسندوں کو یہ ناگوار گزرا۔ اخترحسین رائے پوری نے رسالہ اردو‘ جولائی ۱۹۳۵ء میں لکھا:’’اقبال فاشتّیت کا ترجمان ہے۔ وہ مسلمانوں اور ہندستان کے لیے خطرناک ہے‘ یہی بات روزنامہ پرتاپ کے مدیرمہاشے کرشن نے ایک اداریے میں لکھی تھی: ’’شمالی ہند کا ایک خطرناک مسلمان‘‘۔ ]تاہم[ اقبال جب مسلمان عوام کا شاعر بن گیا تو ترقی پسندوں نے یہ کوشش کی کہ اسے ترجمان اشتراکیت ظاہر کریں‘ لیکن وہ دھوکا دہی کی اس واردات میں کامیاب نہیں ہوسکے…اس ضمن میں سب سے شاہکار چیز علامہ اقبال پر وہ رنگین فلم تھی‘ جو فیض احمد فیض نے کرنل فقیر وحید الدین کے سرمائے سے بنائی تھی۔ اس فلم کو میں نے بھی کراچی میں دیکھا‘ اور جب ہال سے باہر نکلا تو ممتاز حسن آگ بگولا نظرآئے۔ وہ کہنے لگے: ’’اس فلم سے اصل اقبال جو مسلمان تھا‘ غائب کر دیا گیا ہے‘ اور وہ جعلی اقبال رکھ دیا گیا ہے‘ جو مارکس اور لینن کا پیرو نظرآتا ہے‘‘۔ ہم دونوں کرنل فقیر سید وحید الدین کے مکان پر بھی گئے۔ ممتاز صاحب نے ان سے کہا: ’’مجھے افسوس ہے کہ آپ کے سرمائے سے اقبال پر ایسی فلم بنی‘ جس میں اقبال کو مسخ کر کے پیش کیا گیا ہے‘‘۔ کرنل صاحب نے ان کی گفتگو سن کر فیصلہ کیا کہ یہ فلم عوام میں نمایش کے لیے پیش نہیں کی جائے گی ‘ اور اسے ضائع کر دیا جائے گا۔ کرنل صاحب نے کہا: ’’میں یہ سمجھ لوں گا کہ جو سرمایہ اس فلم پر صرف کیا گیا‘ وہ کوئی چور لے اڑا‘‘۔ اس کے بعد فیض صاحب اور کرنل صاحب کے تعلقات میں کھنچائو پیدا ہوگیا (ص ۱۱۱-۱۱۴)وغیرہ۔
اس نوعیت کے تجزیاتی نکات سے عابد صاحب نے ان دقیق بحثوں کو ایک عام فہم اسلوب میں سمو کر رکھ دیا ہے۔
کتاب کا سب سے زیادہ دل چسپ اور فکرانگیز حصہ وہ ہے‘ جس میں انھوں نے تحریکِ آزادی‘ تحریکِ پاکستان‘ جدید مسلم قیادت اور علما کے حرکی تجربات وغیرہ کو موضوع بحث بنایا ہے۔ تاریخ کے سیاسی اور منطقی پہلو کو ایسے قائل کر دینے والے لہجے میں بیان کیا ہے کہ ایک اوسط درجے کی تعلیمی قابلیت رکھنے والا فرد بھی اس سے روشنی حاصل کرکے مستقبل کی تاریکیوں کو ختم کرنے پر سوچ بچار شروع کر دیتا ہے۔ سید احمد شہید کی تحریک‘ علامہ شبلی نعمانی کے نظریات‘ مغرب زدہ حکمران‘ پاکستانی سیاست میں جاگیردار طبقے کا کردار‘ جدید تعلیم اور ماڈرن اسلام اور موجودہ اقتصادی نظام وغیرہ کے حوالے سے ایک جہان معانی‘ نظرنواز ہوتا ہے۔
عبدالکریم عابد کہتے ہیں:’’ایک مثالی اسلامی لیڈرشپ کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ تعلق باللہ اور تعلق بالعوام دونوں کی مالک ہوتی ہے۔ اس کا خدا اور خلقِ خدا ہر دو سے رابطہ ہوتا ہے۔ (ص ۱۷۲)… اسلام کے نام لیوائوں پر یہ خاص ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ وقت کے اقتصادی چیلنج کا جواب پیش کریں۔ اگر ان کے پاس اس چیلنج کا کوئی جواب نہیں ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ان کا اسلام اصلی اسلام نہیں ہے‘ کیونکہ وہ اصلی اسلام ہوتا تو اس کے پاس عوام کے اقتصادی اطمینان کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا اور یہ محرومی جو نظر آرہی ہے نہ ہوتی‘‘ (ص ۲۳۱)۔
معاشی ناہمواری کے موجودہ ظالمانہ شکنجے پر عابد صاحب نے جان دار بحث کی ہے۔ اس نگارخانہ دانش و حکمت کے دلآویز رنگ گوناگوں ہیں: موضوعات کا تنوع ہے‘ بحث کی وسعت‘ نقطہ نظر کی کشادگی اور اسلوب تحریر سادہ مگر دل چسپ اور پُرکشش۔ ابتدائیہ جناب سید منور حسن نے تحریر کیا ہے۔ مناسب ہوتا کہ ہر مضمون کے آخر میں اس کی تاریخِ اشاعت بھی درج ہوتی۔ اس کتاب کو منشورات (منصورہ‘لاہور) نے شائع کیا ہے۔ صفحات ۳۶۰ اور قیمت ۱۵۰ روپے ہے۔