جب گھر کے چوکیدار اپنی طاقت کے زور پر گھر کے مالک بن کر من مانے فیصلے کرنے لگیں تو اس گھر کے مکینوں کو سوچنا پڑتا ہے کہ وہ کس پُرامن طریقے سے اپنے ان ملازموں سے گھرکو واگزار کرائیں۔ یہ معاملہ ایک گھر کا ہو تو تکلیف دہ اور اگر ایک قوم کے ساتھ ہو تو المناک ہوا کرتا ہے۔
پاکستان میں ملازمین ریاست نے (چاہے وہ باوردی ہوں یا بے وردی) اسی قوم کو اپنے جبروزیادتی کا نشانہ بنایا ہے‘ جس قوم نے سخت قربانیوں کے ساتھ ان کے کروفرکا بندوبست کیا اور اختیار کی امانت ان کے سپرد کی۔ یہ ملازمین بنیادی طور پر عوام کے مسائل و معاملات سے لاتعلق نہیں تو بے بہرہ ہونے کی ایک تاریخ رکھتے ہیں اور اس کی وجہ اُن کی تربیت کا استعماری پس منظر ہے۔ بہرحال ایسے لوگ جب اقتدار کے سرچشموں کو اپنی مرضی کے مطابق چلانا شروع کرتے ہیںتو کبھی اس کا قبلہ درست کرنے پر تل جاتے ہیں اور کبھی اس کی تاریخ ٹھیک کرنے کی فکر میں غلطاں ہوتے ہیں۔ ایسے میں کچھ خود ساختہ حکمران‘ فکری بونوں اور سیاسی بالشتیوں میں کھڑے ہو کر جب اپنے عقل کل ہونے کا اعلان کرتے ہیں تو کسی دل جلے کے ہونٹوں سے آہ پھوٹ پڑتی ہے۔ ایسے میں یہ عقلِ کل صاحبان ’’کچل دینے‘‘کی دھمکی سے کم پر نہیں رکتے۔ ایسے ہی عقلِ کل حکمرانوں نے پاکستان کے سیاسی مستقبل کو خدشات و خطرات شکار کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیمی مستقبل کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ قومی نظام تعلیم کے ساتھ جس کھیل تماشے کا انھوں نے آغاز کیا ہے‘ اس پر ہر محب وطن شدید صدمے کی کیفیت سے دوچار ہے‘ تاہم قوم کو صدمے کی کیفیت سے نکل کر اس مسئلے کا حل تلاش کرنا ہے۔
جنرل یحییٰ خان کے زمانے سے اسماعیلی فرقے کے سربراہ کو پاکستان میں سرخ قالین پر استقبال کرانے والے شہنشاہ معظم کا رتبہ حاصل ہے‘ حالانکہ ان کے پاس کوئی ریاست اور کوئی حکومت نہیں۔ عجیب و غریب عقائد و نظریات کے حامل اس عالمی استعماری گروہ نے فی الواقع پاکستان میں ریاست در ریاست قائم کرنے کے لیے شمالی علاقہ جات کو اپنا مرکز بنایا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اپنے عقائد کے اعتبار سے اسماعیلی شیعہ بھی نہیں کہ مسلمانوں میں شمار کیے جائیں بلکہ ان کے عقائد قادیانیوں سے قریب تر ہیں۔ اہلِ تشیع ان کے بارے میں اسی رائے کو درست سمجھتے ہیں جو جمہور مسلمان قادیانیوں کے بارے میں رکھتے ہیں۔اور عجیب بات یہ ہے کہ انھی اسماعیلیوں کو اکثر ہمارے حکمران سب سے اچھا پڑھا لکھا‘ اور روشن خیال مسلمان قرار دیتے ہیں۔
۱۹۸۳ء میں جنرل ضیا الحق مرحوم نے آغاخان فائونڈیشن کو کراچی میںایک میڈیکل یونی ورسٹی کھولنے کی اجازت عطا کی۔ اس تعلیمی ادارے نے بے پناہ فنڈز رکھنے کے باوجود نہایت مہنگے داموں میڈیکل تعلیم کا چراغ روشن کیا۔ یہاں پر یہ مسئلہ زیربحث نہیں کہ کس طبقے کے کتنے بچوں نے یہاں سے تعلیم حاصل کی اور پھر ان میں سے کتنے فی صد پاکستان میں خدمت انجام دینے کے لیے رکے رہے۔ اس موضوع پر حقائق سامنے لائے جائیں تو خود بخود یہ حقیقت کھل جائے گی کہ یہ ادارہ اپنے حتمی نتائج کے اعتبار سے پاکستان کے بجاے دوسروں کی خدمت پر کمربستہ ہے۔ بلاشبہہ اس ادارے نے میڈیکل سائنس اور صحت کے میدان میں بڑے نمایاں نتائج دیے ہیں‘ مگر اس بات سے یہ نتیجہ کیسے اخذ کیا جا سکتا ہے کہ یہ ادارہ پاکستان بھر کے ۱۵ کروڑ لوگوں کے بچوں کو بھی تعلیم دینے کی اہلیت اور قابلیت رکھتا ہے۔
اکتوبر ۲۰۰۲ء میں عام انتخابات ہوئے۔ قوم نے اپنے نمایندے چن لیے‘ لیکن جنرل پرویز مشرف نے اپنی متنازعہ صدارت اور بوگس ریفرنڈم سے حاصل کردہ اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے ۸ نومبر ۲۰۰۲ء کو اپنے دستخطوں سے ’’غیرمعمولی آرڈی ننس‘‘(CXIV/2002) منظور کیا‘ جسے ’دی گزٹ آف پاکستان‘ کے صفحات ۱۷۳۱ تا ۱۷۳۵ پردیکھا جا سکتا ہے۔ یوں قوم کے مستقبل پر ایک اور کمانڈوایکشن لیا گیا۔ افسوس کہ اہلِ سیاست اور اہلِ قانون اس آرڈی ننس کی نزاکت سے بے خبر رہے‘ اور اب یہ آرڈی ننس اپنی تمام حشرسامانیوں کے ساتھ قوم کی فکری‘ تاریخی‘ دینی اور معاشی مستقبل پر شب خون کا درجہ ہی نہیں رکھتا بلکہ دن دھاڑے ڈاکازنی کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ اسے تیار کرنے والوں کو بخوبی معلوم ہے کہ کسی معاشرے اور قوم کے وقار‘ عزت اور خودی کو مسخر کرنے اور اسے ہمہ پہلو غلامی کے شکنجے میں کسنے کا سب سے کامیاب گر تعلیم ہے۔
یہاں پر آغا خان یونی ورسٹی ایگزامی نیشن بورڈ (AKU-EB) کے اس آرڈی ننس کی چند شقیں پیش کی جا رہی ہیں‘ جنھیں دیکھنا‘ پرکھنا اور اس پر آواز بلند کرنا تمام اہل نظر کی دینی‘ قومی اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔ آرڈی ننس کا آغاز ان الفاظ میں ہوتا ہے:
آرٹیکل (۱) اس آرڈی ننس کو ’’آغا خان یونی ورسٹی ایگزامی نیشن بورڈ ۲۰۰۲ئ‘‘ کہا جائے گا۔ (۲) یہ پورے پاکستان پر محیط ہوگا۔ (۳) یہ فوری طور پر نافذ العمل ہوگا۔
۴- امتحانی بورڈ کے مقاصد: ] سات آٹھ مقاصد درج ہیں[
۶- امتحانی بورڈ کو معقول حد تک امتحانات کی فیسیں عائد کرنے کا اختیار ہوگا۔
۸- اس آرڈی ننس کے تحت نیک نیتی سے کیے گئے تمام کام کسی قسم کے عدالتی دعوئوں اور قانونی کارروائیوں سے محفوظ ہوں گے۔
واقعات کو اگر ترتیب سے دیکھیں تو نظرآتا ہے کہ اکتوبر ۱۹۹۹ء میں اقتدار پر قبضہ کرنے والے گروہ نے اخلاقی جواز نہ رکھنے کے باعث کئی قسم کے دبائو قبول کیے اور کئی حوالوں سے‘ ہتھیار ڈالتے وقت خود دشمن کو بھی حیران کر کے شادی مرگ میں مبتلا کر دیا۔ اسلام آباد کے باخبر سرکاری حلقے تسلیم کرتے ہیں کہ دسمبر ۱۹۹۹ء میں استعماری مفادات کی حامل این جی اوز نے بڑی تیزی کے ساتھ‘ مختلف وزارتوں اور پالیسی ساز اداروں میں اپنا عمل دخل بڑھا لیا۔ یوں رفتہ رفتہ پالیسی سازی اور پالیسی دستاویزات کی تیاری میں حیرت ناک حد تک اختیار حاصل کرلیا‘ بلکہ ۲۰۰۰ء کے اواخر تک اس حق کو ایک ’اعلیٰ قدر‘ کے طور پر تسلیم بھی کرا لیا۔ ڈیوولیوشن پلان یا ’اختیارات کی تقسیم پروگرام‘ کی ظاہری خوش نمائی کے باوجود اس کی داخلی بدنمائی نے قومی مرکزثقل کوہلا کر رکھ دیا۔
۲۰۰۱ء میں حکومت نے بڑی تیزی کے ساتھ ایجوکیشن سیکٹر ریفارم کے نام پر سال بہ سال چھوٹی چھوٹی تعلیمی پالیسیاں جاری کرنا شروع کیں۔ حالانکہ اس سے قبل تعلیم کے حوالے سے یہ طے شدہ امر تھا کہ پالیسی واضح طور پر مشتہرکی جائے کہ اہل حل و عقد‘ تعلیم کے میدان میں آیندہ کیا کرنے جا رہے ہیں۔ لیکن فوجی حکمرانوں نے اتنے اہم اسٹرے ٹیجک شعبے کو بے سروپا انداز میں چلانا شروع کیا۔ ۲۰۰۲ء میں آغا خان یونی ورسٹی کے فرنٹ مین مسٹر شمس قاسم لاکھا کی نگرانی میں پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی اداروں اور یونی ورسٹیوں کے نظام کو ادھیڑ کر رکھ دیا۔ پھراسی سال آغا خان امتحانی بورڈ کو رات کے اندھیرے میں پاکستان بھر کے تعلیمی مستقبل کا مستقل مالک بنا دیا گیا۔ بعدازاں امریکی ادارے‘ یونائیٹڈ اسٹیٹس ایجنسی فار انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ (USAID) نے آغا خان یونی ورسٹی سے ۱۳؍اگست ۲۰۰۳ء کو کراچی میں ایک معاہدہ کیا‘ جس پر امریکی سفیرہ نینسی پاول اور آغا خان یونی ورسٹی کے نمایندے شمس قاسم لاکھا نے دستخط کیے۔ اس تقریب میں وفاقی وزیر تعلیم زبیدہ جلال صاحبہ (جنھیں امریکی حکومت ’’ونڈرفل لیڈی‘‘ کے طور پر یاد کرتی ہے) اور سندھ کے وزیرتعلیم عرفان اللہ مروت بطور سرکاری گواہ موجود تھے۔ ان دستخطوں سے حکومتِ امریکا نے آغا خان یونی ورسٹی کو اپنے امتحانی بورڈ کی تعمیروترقی کے لیے ۴۵۰ لاکھ ڈالر عطا کیے اور ’’جب تک یہ بورڈ اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہوجاتا اسے امداد دی جاتی رہے گی‘‘ کا مژدہ بھی سنایا گیا۔ ہدف یہ مقرر ہوا کہ پاکستان بھر کے اعلیٰ و ثانوی تعلیمی بورڈ‘ آغا خان بورڈ کے قبضۂ اختیار میں چلے جائیں۔
آغا خان امتحانی بورڈ نے آغاز کار میں صرف تین ہزار ۸ سو روپے رجسٹریشن فیس فی طالب علم مقرر کی ہے‘ جسے ہر طالب علم نومبر ۲۰۰۴ء تک ادا کرے گا۔ یاد رہے کہ سرکاری تعلیمی بورڈ میں یہ فیس ۳۰۰ روپے ہے۔ بعدازاں امتحان کے لیے فیس الگ سے لی جائے گی‘ اور وہ بھی چار ہزار ہوگی۔ کیا عام طالب علم اتنی فیس ادا کر سکے گا۔ موجودہ تعلیمی بورڈوں میں امتحانی فیس میٹرک کے لیے ۷۰۰ روپے اور انٹرمیڈیٹ کے لیے ۹۰۰ روپے ہے۔تعلیم کو سستا کیے بغیر معاشرے میں تعلیم عام نہیں ہو سکتی۔ اس وقت بنگلہ دیش میں انٹرمیڈیٹ تک تعلیم مفت ہے‘ کتاب اور کاپی بھی مفت ہے‘ جب کہ انٹر تک طالبات کیبہت بڑی تعداد کو وظیفہ دیا جاتا ہے۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں تعلیم عام کا ہدف سرکاری سرپرستی اور اعانت کے بغیر ممکن نہیں ہوا‘ لیکن یہاں پر تعلیم کی زمامِ کار ساہوکاروں اور کثیرقومی کارپوریشنوں کے ہاتھ میں دے کر ’’روشن پاکستان‘‘ (رائزنگ اور توانا پاکستان) بنانے کا خواب دیکھا جا رہا ہے۔
چند ماہ پیش تر قومی ادارہ نصابات (نیشنل کریکولم ونگ) اور صوبائی درسی کتب بورڈوں کے ہاتھوں جہالت پر مبنی جن غلطیوں پر قوم سراپا احتجاج بنی‘ واقعہ یہ ہے کہ اس احتجاج نے جہاں ان اداروں پر سے قوم کے اعتماد کو مجروح کیا ہے‘ وہیں حکومت اپنے منصوبے کے مطابق‘ خود نصاب اور ٹیکسٹ بک بورڈوں ہی کے وجود پر فاتحہ خوانی کے لیے تیار ہے۔ نصابی کتب کی ڈی ریگولیشن سے جنرل مشرف اور زبیدہ جلال کی یہ والہانہ وابستگی دراصل قومی نصابی عمل کوختم کرنے کا واضح اعلان ہے۔ قوم نے اپنے نصابی اداروں کو ٹھیک کرنے کے لیے آواز بلند کی‘ جسے عملاً دبا دیا گیا اور محض چند سطروں کی اصلاح اور دو تین مضامین کو حذف کرنے کے سوا تمام کا تمام متنازعہ نصاب درس گاہوں میں آج بھی موجود ہے‘ اور قومی نمایندے اس سارے ظلم سے بے خبر‘ لاتعلق اور غیرمتعلق ہیں۔ پارلیمنٹ میں اس موضوع پر ایک دو بار بات ہوئی اور حکومتی نمایندوں کے جھوٹے‘ مبہم اور متضاد بیانات سن کر‘قوم کے نمایندے ’مطمئن‘ ہوگئے۔
اب ‘ جب کہ آغا خان بورڈ‘ امریکی امداد اور حکومت پاکستان کی سرپرستی میں امتحانی نظام پر مرحلہ وار انداز میں قبضہ کر رہا ہے‘ تو پھرلامحالہ یہی بورڈ اپنا نصاب خود بنائے گا‘ خود پڑھائے گا اور اس کے مطابق امتحان لے گا۔ اس کے نصاب یا مالی طریق کار اور پیمایشی نظام پر قوم کے نمایندوںکا کوئی اختیار نہیں ہوگا۔ اس ضمن میں قوم کو دھوکا دینے کے لیے حقیقی حکمران اور ان کے دست راست افراد غیرمنطقی بیانات دے رہے ہیں۔ کہا یہ جاتا ہے کہ یہ بورڈ ’’قومی نصاب کے مطابق کام کرے گا‘‘ (اور آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے مختلف جگہ پر آغا خان امتحانی بورڈ نے یہ لکھا بھی ہے) تاہم‘ قدم قدم پہ‘ یہ اعلان بھی کرتے جا رہے ہیں کہ ’’ہم وہی کریں گے جو ہم چاہیں گے‘‘--- مثال کے طور پر آغا خان بورڈ نے الحاق کے لیے جو شرائط نامہ جاری کیا ہے‘ اس کی شق ۳ئ۳ کے مطابق کہا گیا ہے: ’’اسکول لازماً اسی قومی نصاب کو اختیار کریں گے‘ جسے آغا خان یونی ورسٹی امتحانی بورڈ جاری کرے گا‘‘۔ اس شق میں بظاہر لفظ ’’قومی‘‘ سے یہ دھوکا ہوتا ہے کہ یہ پاکستان کا طے شدہ قومی نصاب ہوگا‘ لیکن خود اس جملے کی ساخت بتاتی ہے کہ یہاں مراد وہ ’’قومی‘‘ ہے‘ جسے آغاخان بورڈ ’’قومی‘‘ قرار دے گا۔ اس معاملے کو ایک دوسری مثال سے پرکھتے ہیں۔ آغا خان بورڈ نے میٹرک کے لیے اسلامیات کے جس نصابی خاکے کو جاری کیا ہے‘ اس کے ابتدایئے میں وعدہ کیا ہے کہ ’’پاکستان کے نصابی شعبے کی ہدایات کی روشنی میں نصاب تیار کیا جائے گا‘‘۔ لیکن اس کے صفحہ ۵ پر پہنچتے ہی اعلان کیا گیا ہے: ’’قومی مقاصد کے مطابق‘ اسلامیات کا نصاب وضع کرنے کے لیے‘ زیتونیہ یونی ورسٹی‘ تیونس سے رہنمائی لی جائے گی‘‘۔ سوال یہ ہے کہ تمام اسلامی ممالک کو چھوڑ کر تیونس ہی کی مثال کیوں؟
اس لیے کہ وہاں کے آمرمطلق حبیب بورقیبہ نے ۹۸ فی صد آبادی کے مسلمان ملک میں جبری طور پر روزے پہ پابندی لگانے اور اسکارف و حجاب کو جبراً ممنوع قرار دینے کے علاوہ مسجدوں میں خطبہ و نماز پر اپنے من مانے احکام چلانے شروع کر دیے۔ قوم کو عریانی اور یورپی اقوام کی تفریحی شکارگاہ بنانے کے لیے اقدامات کیے۔ تفصیل کے لیے مولانا سیدابوالحسن علی ندوی کی کتاب مسلم ممالک میں اسلامیت اور مغربیت کی کش مکش دیکھی جاسکتی ہے۔ بلکہ قرآن و سنت کے بتائے ہوئے اسلام کو چھوڑ کر خود جنرل مشرف کو تیونس کا لبرل اسلام پسند ہے تو اس کی ایک خاص وجہ ہے۔ نماز‘ روزے سے نجات‘ شراب اور ڈانس پارٹیوں کی فراوانی کا کلچر‘ عریانی و آوارگی کا چلن--- یہ ہے تیونس کے ’’لبرل اسلام کی منزل‘‘ ۔ ایسے ہی جابر اور آمر حکمرانوں کی رہنمائی میں تیار کردہ ’’اسلامیات‘‘ ہمارے آغاخان امتحانی بورڈ کو پسند ہے۔ آغاخان بورڈ نے اسلامیات کے لیے میٹرک کا جو نصاب پیش کیا ہے‘ اس میں قرآن کے متن کو تلاش کرنے کے لیے خوردبین کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود کہا یہ گیا ہے کہ ’’پاکستان کے قومی نصاب کی روشنی میں نصاب تیار کیا جائے گا‘‘۔ کیا ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ حکومت نے نصاب میں قرآن سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے تیونس کے اسلام بذریعہ آغا خان کا یہی طریقہ مناسب سمجھا ہے؟ --- یہی صورت حال تاریخ‘ مطالعہ پاکستان اور سماجیات و ادب کے دیگر مضامین میں روا رکھی گئی ہے۔
امریکا و یورپ نے پہلے پہل یہ کہا کہ دینی مدارس سے دہشت گردی پیدا ہو رہی ہے‘ بعد میں یہ کہنا شروع کیا: ’’جدید تعلیم کے اداروں سے دہشت گرد پیدا ہو رہے ہیں‘‘۔ اس لیے مغرب کے بھتے (پے رول) پر کام کرنے والی این جی اوز نے گذشتہ چار برس سے اس پروپیگنڈے کا آغاز کیا کہ: ’’دو قومی نظریہ نفرت کی علامت ہے‘ محمد بن قاسم نے چوری چھپے حملہ کر کے وطن کے بیٹے راجہ داہر جیسے بے ضرر انسان کو خواہ مخواہ شکست دی۔ ہندستان پر قبضہ کرنے والے انگریز ماضی کی داستان تھے اور آج کے انگریز دوسری چیز ہیں جو ہمارے دوست ہیں‘ اس لیے انگریزی سامراج کے خلاف حصے نصاب سے خارج ہونے چاہییں۔ میجرطفیل‘ راجہ عزیز بھٹی‘ راشد منہاس اور دیگر نشانِ حیدر رکھنے والے افراد کا تذکرہ بھی خارج از نصاب قرار دیا جائے‘ کیونکہ اس طرح بے جا طور پر ہندوئوں سے نفرت پیدا ہوتی ہے۔ محمود غزنوی اور غوری حکمرانوں کا ذکر بھی ہندو کے خلاف نفرت پیدا کرتا ہے۔ نہرو اور کانگریس کے خلاف بھی مواد حذف کیا جائے۔ اصل اسلام صوفیوں نے پیش کیا۔ اسی طرح حضرت فاطمہؓ، حضرت خدیجہؓ، حضرت عائشہؓ کے ذکر کے بجاے بلقیس ایدھی اور عاصمہ جہانگیر وغیرہ کو رول ماڈل (خاکم بدہن) کے طور پر پیش کرنے کے لیے پیش رفت کی جائے (بلکہ ایسا کر بھی دیا)۔ صحابہ کرامؓ بڑے ’’لبرل‘‘ تھے۔ رسول اکرمؐ نے مسلمانوں اور یہودیوں پر مشتمل ایک تاریخی معاہدہ کیا تھا‘ جس سے مسلم اور یہودی اسلامی ریاست کے شہری بن گئے‘‘--- ان چیزوں کو روبہ عمل لانے کے لیے ایک حد تک سرکاری ٹیکسٹ بک بورڈوں کو استعمال کیا گیا اور آیندہ یہ کام زیادہ یکسوئی کے ساتھ کرنے کے لیے آغا خان بورڈ کے ذمے لگایا گیا ہے۔
اس مسئلے پر اسی قبیل کے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے ترجمان جہد حق (اگست ۲۰۰۴) نے تو یہ لکھا ہے: ’’اب وقت آن پہنچا ہے کہ جنوبی ایشیا کے لیے ایک مشترکہ کتاب کے طور پر برصغیر کی تاریخ مرتب کی جائے --- بچوں کو بجاے اس کے کہ کسی واحد سرکار کی طرف سے منظور کردہ آلایشوں سے پاک سچائی سے روشناس کرایا جائے‘ انھیں ہر قسم کے نظریات سے واقفیت کرائی جائے۔ ’’نظریہ پاکستان‘‘ جس سے یہ [پاکستان] چمٹا ہوا ہے وہ بھارت کے لیے حکمران فوجی اور دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے مذہبی گروہوں کی نفرت سے کسی حد تک علیحدہ چیز ہونا چاہیے۔ صوبائی ٹیکسٹ بک بورڈ‘ جن کی اجارہ داری ہے نظریاتی چوکیداروں کے فرایض سرانجام دیتے ہیں اور تابع دار مصنفین کی سرپرستی کرتے ہیں‘‘۔ (ص ۸)
اس سال کے آغاز میں‘ حکومت نے ان تمام وعدوں کو پس پشت ڈال کر‘ کہ آغا خان بورڈ تو بنیادی طور پر نجی تعلیمی اداروں کے لیے ہے‘ سب سے پہلا وار وفاق کے زیرانتظام تعلیمی اداروں پر کیا۔ جنوری ۲۰۰۴ء میں اس حوالے سے سرگرمی سے کام شروع کیا گیا‘ جس پر اسلام آباد کے شہریوں کی بے چینی کو زبان دیتے ہوئے روزنامہ دی نیشن نے اپنی رپورٹ (۹فروری ۲۰۰۴ئ) میں بتایا: حکومت نے وفاقی تعلیمی بورڈ (ایف بی آئی ایس ای)کو آغا خان بورڈ سے منسلک کرنے کا منصوبہ بنا لیا ہے۔ اس مقصد کے لیے وفاقی وزیرتعلیم زبیدہ جلال اور فیڈرل ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن کے ڈائرکٹر جنرل بریگیڈیر (ر) مقصودالحسن نے سرگرمی سے دبائو بڑھانا شروع کیا ہے۔ لیکن والدین اور اساتذہ کی انجمن نے اس امر کی مخالفت کی‘ اور ۲۰ جنوری کو ہونے والے اجلاس میں مزاحمت کرنے کا فیصلہ کیا۔ دوسری جانب معلوم ہوا کہ اس منصوبے پر دو طریقے سے عمل کیا جائے گا۔ پہلے والدین کو اختیار دیا جائے گا کہ وہ ایک ہی تعلیمی ادارے میں اپنے بچے کو آغا خان بورڈ کے تحت امتحان دلانا چاہتے ہیں یا نہیں‘ جب کہ دوسرے مرحلے میں اس ادارے کے سب بچوں پر لازم کر دیا جائے گا کہ وہ آغا خان بورڈ ہی کو منتخب کریں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نہم دہم کا امتحان ایک ہی مرتبہ لیا جائے۔ کسی سرکاری تعلیمی ادارے کو کسی پرائیویٹ ادارے کے زیرانتظام منسلک کرنا مکمل طور پر غیرقانونی فعل ہے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ آغا خان بورڈ کے فارغ التحصیل طلبہ کو بیرون پاکستان آسانی سے داخلہ مل جائے گا‘ لیکن سوال یہ ہے کہ کتنے طلبہ بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں اور اس معمولی تعداد کے لیے کیا پورے پاکستان کے بچوں کو اس مہلک سسٹم میں دھکیل دینا کوئی عقل مندی کی بات ہوگی‘‘۔
تاحال وفاقی تعلیمی بورڈ پر گرفت مضبوط بنانے کے لیے آغا خان بورڈ سرگرداں ہے‘ جب کہ وفاقی بورڈ میں قومی درد رکھنے والے چند افسر مزاحمت کر رہے ہیں۔ دوسری جانب پنجاب کے بورڈوں کے چیئرمینوں نے بھی سردست آغا خان کے سامنے ہتھیار نہ پھینکنے کا فیصلہ کیا ہے‘ لیکن یہ مزاحمت یا ضد علامتی ہے۔ اکثر چیئرمین سفارش یا ذاتی جوڑ توڑ سے اس منصب تک پہنچتے ہیں۔ جو چند ملّی درد رکھنے والے افراد ہیں‘ ان کی مزاحمت اس وقت تک باثمر نہیں ہو سکتی جب تک کہ قومی سطح پر اہل دانش اور عوامی حلقے انھیں اخلاقی امداد بہم نہ پہنچائیں۔ ایک طرف امریکی استعمار کھلے عام‘ امریکی سفیرہ کی قیادت اور جنرل مشرف و زبیدہ جلال صاحبہ کی سیادت میں تعلیمی ڈھانچے اور نظام پر قبضہ کرنے کے لیے کھلے عام پیش رفت کر رہا ہے‘ دوسری جانب ریٹائرمنٹ کے قریب تھکے ہارے چند بے نوا پروفیسر حضرات اپنے اپنے بورڈوں کو کب تک بچائیں گے۔ پھر جس طرح کا ہمارے ہاں نظام ہے کہ ایسے مباحث میں کئی مفاد پرست ناصحین مشورہ دینے کے لیے تیار ہوتے ہیں کہ ’’قبول کر لیا جائے‘‘۔ دوسرا یہ کہ آغا خان بورڈ کے کارندوں نے مختلف انجمنوں اور تعلیمی اداروں کی انتظامیہ سے رابطوں میں تیزی پیدا کی ہے۔ اس حوالے سے وہ مذہبی پس منظر کے چند اداروں اور دینی شکل و صورت رکھنے والے چند بندگانِ زر کو بھی شیشے میں اتار رہے ہیں‘ بلکہ اس نوعیت کے کچھ لوگوں سے رابطوں کو انھوں نے کمپنی کی مشہوری اور مذہبی طبقے کی جانب سے سندِ قبولیت کے طور پر پیش کرنا بھی شروع کر دیا ہے۔
آغا خان امتحانی بورڈ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر تھامس کریسٹی جو برطانوی نژاد انگریز اور مانچسٹر یونی ورسٹی کے سابق ڈین ہیں‘ شب و روز کی جدوجہد سے اپنے وابستگان میں اضافے کے لیے کوشاں ہیں۔ ان کے ہمراہ شمس قاسم لاکھا ہیں‘ جن کے ہاتھوں یونی ورسٹی کے نظام کار کا حلیہ بگاڑنے اور تعلیم کو تجارت و زرپرستی کا دوسرا نام دینے کا المیہ رونما کرانے کے بعد‘ اب ثانوی اور اعلیٰ ثانوی تعلیم کی بساط بھی لپیٹی جارہی ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے یونیورسٹی سطح کی تعلیم کے دروازے تو اب نچلے اور متوسط طبقے کے بچے کے لیے بند ہو چکے ہیں۔ سیلف فنانس‘ سیلف سپورٹ اور لوٹ مار کے بے شمار نجی تعلیمی اداروں نے ناداروں کو زندگی بہتر بنانے کی دوڑ سے باہر نکال دیا ہے۔ مختلف ناموں کی یونی ورسٹیاں ہر شہر میں کھل رہی ہیں‘ جو اپنی جگہ قانون کی نہایت سنگین خلاف ورزی ہے۔ لیکن ہمارا ریاستی نظام ان جعلی اداروں کی حوصلہ شکنی کرنے کے بجاے‘ انھیں مختلف اقدامات کے ذریعے پروان چڑھانے میں مددگار بن رہا ہے۔
آغا خان اقلیت کی حکمت عملی قادیانیوں اور یہودیوں سے ملتی جلتی ہے۔ وہ یہ کہ قوت کے سرچشموں کو اپنے اثرونفوذ میں لیا جائے‘ بظاہر امن پسندی کا ڈھونگ رچایا جائے اور اصل میں ہڈیوں میں اتر جانے والا ظلم ڈھایا جائے۔ اس مقصد کے لیے ان کے ہاں مادی وسائل پر قبضہ اور پس پردہ سازش دو بنیادی اصول ہیں۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ آغا خان بورڈ میں فی طالب علم کی محض رجسٹریش فیس کا سرکاری بورڈوں کے مقابلے میں تناسب تقریباً چار ہزار بمقابلہ تین سو ہے‘ اور امتحانی فیس کا تناسب بھی یہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ عام آدمی کے لیے اپنے بچے کو پڑھانا ممکن نہ ہوگا۔ اسی طرح جنرل مشرف کے ڈی ریگولیشن کے محبوب تصور کے تحت درسی کتب بے پناہ مہنگی ہوجائیں گی۔ ممکن ہے اس مہنگائی کا کوئی عارضی علاج امریکا اور اس کے حلیف سوچ لیں (جس کے تحت وقتی طور پر آغا خانی تعلیم کو کچھ سستا بھی کر دیں) لیکن اصل چیلنج ہمارے نزدیک اس تعلیم کا مہنگا ہونا نہیں ہے‘ بلکہ دیسی‘ بدیسی اور دشمن قوتوں کے ہاتھوں نئی نسل کے ذہن‘ فکر‘ تربیت اور مستقبل کو غلام بنانے کے راستے پر چلنا ہے۔
یورپی اقوام نے نظام تعلیم کو محکوم قوموں کے خلاف ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا‘ جس کی ایک مثال لارڈ میکالے کا فرمان ہے‘ دوسرا اعلان نپولین کا ہے کہ مسلمان ملکوںمیں ’’مقامی لوگوں کو مقامی لوگوں سے مرواو‘‘ (یعنی (natives to kill natives۔ گذشتہ تین برسوںکے دوران امریکا نے مسلم دنیا کے بارے میں جتنی رپورٹیں جاری کی ہیں‘ ان میں مسلمان ملکوں کے نظام تعلیم کو بنیادی ہدف بنانے کی سفارش کی گئی ہے۔ عراق پر قبضہ کرنے سے ایک سال پیش تر جون ۲۰۰۲ء میں عراقیوں کے لیے امریکا نے درسی کتب تیار کر لی تھیں اور ۱۰‘ اپریل ۲۰۰۳ء کو بغداد پر کنٹرول حاصل کرنے کے آدھے گھنٹے بعد امریکا نے عراق کے لیے جاری کی جانے والی سب سے پہلی امداد عراقی نظام تعلیم سے منسوب کی تھی۔
ہم دیکھ سکتے ہیں کہ انگریز اور یورپی استعمار نے ہر مسلمان ملک میں سیکولر اور مذہبی نظام تعلیم کو رواج دے کر خود مسلمانوں کو دو‘ مسلسل متحارب اور اجنبی گروہوں میں بانٹ کر رکھ دیا۔ ایک گروہ پر ملازمت‘ عزت اور احترام کے دروازے بند ہیں‘ چاہے وہ جس قدر بھی دیانت دار اور اسلامی تعلیمات سے قریب تر ہو۔ دوسرے گروہ کے لیے دولت‘ ثروت‘ عزت اور قوت کے تمام دھارے کھول کر رکھ دیے ہیں‘ چاہے وہ گروہ مجموعی طور پر‘ خود اپنی قوم کے لیے نفرت‘ حقارت اور بے رحمی کی چلتی پھرتی علامت ہی کیوں نہ ہو۔
اب آغا خان بورڈ اور بیکن ہائوس قسم کی برگر پود تیار کر کے خود جدید تعلیم کے فاضلین میں بھی ایک نہایت گہری تقسیم پیدا کی جا رہی ہے۔ اس ظلم کو متعارف کرانے کا کام ’’فوجی یونٹی آف کمانڈ‘‘ کے سنہری اصول کے تحت کیا جا رہا ہے۔ معاشی وسائل پر دسترس دینے کے لیے ایک جانب امریکا کی طرف سے کھلی مالی امداد ہے‘ جب کہ خفیہ طور پر دیے جانے والے فنڈز ہماری معلومات سے کہیں زیادہ ہیں۔ گذشتہ دنوں حبیب بنک جیسے قومی ادارے کو ’’آغا خان فنڈ براے ترقی‘‘ کے سپرد کرتے وقت یہ شفافیت اپنائی گئی کہ اخباری اطلاعات کے مطابق ۷۰ارب روپے کے اثاثوںوالا بنک صرف ۲۲ ارب میں فروخت کر دیا۔ اس ضمن میں آئی ایم ایف اور عالمی بنک کے دبائو کا اعتراف خود وکلا حضرات نے سپریم کورٹ کے سامنے کیا۔ وفاقی تعلیمی بورڈ کو سب سے پہلے آغا خان کے حوالے کرنے کا جو ڈول ڈالا گیا ہے‘ تو یاد رہنا چاہیے کہ اس بورڈ کی صرف اسلام آباد اور بیرون پاکستان میں اربوں روپے کی جایداد ہے‘جب کہ پاکستان کے ۲۳ تعلیمی بورڈوں کو‘ جنھیں رفتہ رفتہ آغا خان فاؤنڈیشن جیسے مگرمچھ کے منہ میں دھکیلا جا رہا ہے‘ ان کے اثاثہ جات کئی ارب سے تجاوز کرجاتے ہیں۔ اور پھر قوم کے ہر بچے کی جانب سے سالانہ تاوان دینے کی مجبوری الگ۔ یہ تمام چیزیں لمحۂ فکریہ ہیں۔
آغا خان بورڈ حالات کو کس رخ پر لے جائے گا‘ یا اپنے تصورِ جہاں (ورلڈ ویو) کے مطابق اس کے کرتا دھرتا کن دائروں میں زندگی گزارنے کی پہچان رکھتے ہیں‘ اسے دیکھنے کے لیے آغاخان ایجوکیشن کے دو سوال ناموں پر نظر ڈالنا مفید رہے گا۔ آغا خان ایجوکیشن سروس پاکستان نے کلاس نہم سے گیارھویں جماعت تک کے طلبہ و طالبات کے ’’بالغانہ صحت کے سروے‘‘ کے لیے ایک سوالنامہ مرتب کیا ہے۔ اس سروے کو ’’دی گلوب فنڈ‘‘ اور حکومت پاکستان کے ایک شعبے کا بھی تعاون حاصل ہے۔ ان میں بچوں سے سوال پوچھا گیا ہے:
__ آپ کے خیال میں پاکستان میں ایڈز کا سب سے خطرناک ذریعہ کون ہے؟
(۱) غیرمحفوظ جنسی تعلقات (کمرشل جنسی ورکر‘ ایک سے زیادہ جنسی تعلقات) (۲) مرد سے مرد کا جنسی تعلق‘ وغیرہ (ص ۹)
__ آپ خود کو کس طرح ایڈز سے متاثر ہونے سے بچاسکتے ہیں؟
(۱)محدود جنسی تعلقات رکھنے سے (۲) کمرشل جنسی ورکر سے گریز (۳) حکیمی جڑی بوٹیوں اور دوائوں کے استعمال سے ‘ وغیرہ (ص ۱۰)
__ مندرجہ ذیل جملوں میں سے سب سے زیادہ اہمیت کون سے جملے رکھتے ہیں؟
(۱) اپنی مرضی سے زندگی گزارنا (۲)اپنا ہم سفر خود چننا (۳) شادی اور بچے‘ وغیرہ (ص ۲۲)
__ ان میں سے کون سی چیزیں آپ نے پچھلے چھے مہینوں میں کی ہیں؟
(۱) والدین سے جھوٹ بولا (۲) مزے کے لیے اسکول سے فرار ہوئے (۳) دکان سے چرا کر بھاگے (۴) گھر سے بھاگے (ر) دوستوں کے بہکاوے میں اگر غلط کام کیا (۵) شراب پی ہے‘ وغیرہ (ص ۲۲‘ ۲۳)
__ کیا آپ دوستوں سے گرل فرینڈ/بواے فرینڈ رکھنے کی خواہش کا اظہار کرسکتے ہیں؟
(۱) جی ہاں (۲) بالکل نہیں (۳) میں کر سکتا ہوں وغیرہ (ص ۲۳)
__ کیا آپ نے کبھی جنسی تعلقات استوار رکھے ہیں؟
(۱) ہاں (۲) نہیں (ص ۲۳)
__ اگر ہاں تو پہلی بار جنسی تعلقات استوار کرتے وقت آپ کی عمر کتنی تھی؟
(۱) ۱۳سال سے کم عمر میں (۲) ۱۳ سال کی عمر میں (۳) ۱۴سال کی عمر میں (۴) ۱۵ سال کی عمر میں (۵) ۱۶ سال کی عمر میں (۶) ۱۷ سال یا اس سے زیادہ عمر میں‘ وغیرہ (ص ۲۳)
__ جو آپ درست سمجھتے ہیں ان پر صحیح کا نشان لگائیں؟
(۱) میں اپنے جنسی اقدار اور عقیدوں کی وجہ سے پریشان ہوں (۲) میں نے کبھی بھی کسی سے جنسی تعلقات نہیں رکھے (۳) میرے گرل/ بواے فرینڈ کے ساتھ جنسی تعلقات ہیں (۴) میں اپنے جنسی رویے پر شرمندگی محسوس کرتا ہوں (۵) میرے جنسی تعلقات کی وجہ سے میرے دوست حسد کرتے ہیں (ص ۲۴)
__ آپ کتنی مرتبہ نشہ کرتے ہیں؟
(۱) روزانہ (۲) ہفتے میں ایک بار (۳) مہینے میں ایک بار‘ وغیرہ (ص ۲۶)
__ کیا آپ شراب پیتے ہیں؟
(۱) ہاں میں پیتا/پیتی ہوں (۲) نہیں‘ میں نہیں پیتا/ پیتی ہوں (۳) کبھی کبھار پیتا/پیتی ہوں (ص ۲۷)
__ آپ نے شراب پینا کیوں شروع کی؟
(۱) میرے تمام دوست شراب پیتے ہیں (۲) میں دوستوں کے سامنے اچھا نظر آنا چاہتاہوں /چاہتی ہوں (۳) میں اکثر شراب کے بارے میں سنتا تھا اور پی کر دیکھتا چاہتا تھا/چاہتی تھی (۴) میں بہت پریشان رہتا تھا/رہتی تھی (ص ۲۷)
__ ہمارے معاشرے میں اخلاقی اقدار اور اصولوں کو بہت اہمیت حاصل ہے‘ آپ کے
خیال میں کیا ایک لڑکی کا شادی سے پہلے جنسی تعلقات رکھنا جائز ہے؟
(۱) اخلاقی طور پر غلط ہے (۲) بالکل غلط نہیں (۳) میں نہیں جانتا (ص ۲۸)
__ آپ جن جوابات کو درست سمجھتے ہیں ان پر نشان لگایئے؟
(۱) میرے دوست جی بھر کے تمام قسم کے جنسی تعلقات میں حصہ لیتے ہیں (۲) میں وہ کرنا چاہتا ہوں جو میرے دوست کرتے ہیں (۳) دو محبت کرنے والوں کے لیے شادی سے پہلے جنسی تعلق ٹھیک ہے۔
__ کیا آپ گاڑی لے کر گئے؟
(۱) دوست کے گھر (۲) گھر کے آس پاس (۳) اپنے بواے/گرل فرینڈ کے گھر تک‘ وغیرہ (ص ۲۹)
اسی نوعیت کا سوال نامہ میٹرک‘ انٹر کے اساتذہ کے لیے بھی ہے۔
اوپر درج شدہ چند سوالات اور ان کے مجوزہ جوابات دیکھیے۔ اس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ حکومت کی آشیرباد سے فائونڈیشن اول روز سے ہی حلال و حرام کے مذہبی ضابطوں اور جملہ اخلاقی اقدار کو تہس نہس کر کے پاکستان کے مسلم معاشرے کو یورپ و امریکا کے طرز کی اباحیت میں ڈوبی ہوئی مادر پدر آزاد سوسائٹی میں تبدیل کرنے کا عزم رکھتی ہے۔ کسی کلاس روم میں طلبہ و طالبات کے ان فارموں کو پُر کرنے کا تصور کیجیے‘ جس سے آپ کو وہ ماحول سمجھ میں آجائے گا‘ جس میں باقاعدہ بھڑکا کر لانا مطلوب ہے۔ اس سوالنامے کے نفسیاتی اور سماجی پہلو پر گفتگو کرنے سے خود حیا آتی ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ یہ سوال نامہ ’لبرل ماڈریٹ‘ مستقبل کی نشاندہی کرتا ہے۔
اس بحث کے آخر میں یہ عرض کرنا بے جا نہ ہوگا کہ ظلم پر مبنی اس آرڈی ننس اور حقارت و زیادتی پر مبنی اس نظام کو مسلط کرنے کے لیے مختلف استعماری این جی اوز اور حکومت کے بارسوخ افراد نے بڑے تسلسل سے کام کیا ہے۔ حکومت کے ’’اصل لوگ‘‘ سرخوشی کے عالم میں کچھ اچھے اور زیادہ تر برے فیصلے کرتے جارہے ہیں۔ بلاشبہ آغا خان امتحانی بورڈ کا آرڈی ننس بھی سترھویں ترمیم کے پردے میں قوم پر مسلط کیا جانے والا ظلم ہے۔ سترھویں ترمیم کو تسلیم کرنے والوں پر یہ بہت بڑا قرض ہے کہ وہ اپنی نئی نسلوں کو اس طوق غلامی سے نجات دلانے کے لیے‘ اس پر پارلیمنٹ میں بحث کریں اور مسترد کریں۔ لیکن اس سے پہلے یہ ضروری ہے کہ خود منتخب نمایندوں کو ہنگامی بنیادوں پر اس مسئلے کی نزاکت سے آگاہ کیا جائے۔ سترھویں ترمیم کی منظوری کے وقت یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ گذشتہ عہد مشرف میں جو آرڈی ننس یا فیصلے ہوچکے ہیں‘ انھیں مشترکہ پارلیمانی کمیٹی میں زیربحث لا کر‘ قبول کرنے یا مسترد کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اس مشترکہ کمیٹی کا قیام التوا میں چلا آرہا ہے۔ حالات کی سنگینی کا تقاضا ہے کہ طے شدہ طریقے کے مطابق خصوصاً اس آرڈی ننس کا جائزہ لیا جائے اور اسے مسترد کیا جائے۔
اس الم ناک صورت حال پر اہلِ دانش اور اساتذہ کرام کا یہ دینی اور قومی فریضہ ہے کہ وہ قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹ کے ایک ایک رکن کو یہ بات سمجھائیں۔ یہ مسئلہ متحدہ مجلس عمل‘ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کا نہیں ہے‘ بلکہ سبھی کے لیے مشترکہ درد اور کرب کا مسئلہ ہے۔ کیا اہلِ دانش اور اہلِ سیاست کسی جابر کی حکمت عملی کو تسلیم کر کے صدیوں تک اپنی نسلوں کو غلامی کے غار میں دھکیلنے کے لیے تیار ہیں یا حکمت و دانش سے بیداری و یک جہتی کی شاہراہ پر چلتے ہوئے ان زنجیروں کو توڑنے کے لیے آمادہ ؟
استعماری دنیا کے اپنے اسالیب ہیں۔ طاقت کے بل پر اپنی پسند سے جسے چاہیں وہ ظالم قرار دے ڈالیں اور جسے چاہیں مظلوم کہہ گزریں۔ دنیا بہرحال اہل دانش اوراہل عدل سے خالی نہیں‘ لیکن حیرت اُن لوگوں پر ہوتی ہے جو ہر چڑھتے سورج کے پجاری بن کر حقائق کو جھٹلاتے ہیں‘ اپنے اور اپنی قوم کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن کر‘ دانستہ اور نادانستہ طور پر دشمن ہی کے ہاتھ مضبوط کرتے ہیں۔ لیکن کیا کیجیے کہ گذشتہ ڈھائی سو سال کی مسلم تاریخ ہرآنے والا ظالم اور وعدہ معاف گواہ یہی کہتا ہے:’’میں اپنے مسلمان بھائیوں کو بچا رہا ہوں‘‘۔
امریکی استعمار کا مسلط کردہ نام نہاد ’’مسلم ہّوا‘‘ غیرحقیقی ہونے کے باوجود‘ آج کے سیاسی اور سماجی منظرنامے پر پوری طرح چھایا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ یہ سب پروپیگنڈے کی کرشمہ سازی ہے کہ رائی کا پہاڑ بلکہ ہمالہ بناکر دکھایا جاتا ہے۔ پھر افغانستان اور عراق پر قیامت مسلط کی جاتی ہے اور اب پاکستان افغان سرحد پر ایک نیا میدانِ جنگ منتخب کرنا پیشِ نظر ہے۔
مغربی اقوام نے اپنے استعماری مقاصد کے لیے کھلے اورچھپے ‘ بڑے نپے تلے اقدامات کیے اور آیندہ بھی کر رہے ہیں۔ اس وقت ہمارے سامنے ایک امریکی رپورٹ ہے جو یکم اکتوبر ۲۰۰۳ء کو ایوانِ نمایندگان میں پیش کی گئی۔ یہ رپورٹ کسی فردِ واحد کی بڑ یا کسی امریکیت زدہ دانش ور کا ذہنی بخار بھی نہیں ہے‘ بلکہ اسے ۱۵ رکنی ایڈوائزری (مشاورتی) گروپ نے مرتب کیا ہے‘ جس میں ۴ سابق امریکی سفیر‘ ۷ امریکی دانش ور اور ۴ مسلم نژاد امریکی شامل ہیں۔ اس رپورٹ کا عنوان ہے:
Changing Minds Winning Peace: a new strategic direction for US Public. Diplomacy in the Arab and Muslim World.
رپورٹ کے دیباچے سے پتا چلتا ہے کہ اس کی تشکیل ایوانِ نمایندگان کے ایما پر ہوئی۔ ایڈوائزری گروپ چیئرمین ایڈورڈ پی ڈجرجین (Edward P. Djerejian)کے بقول: میں وزیرخارجہ کولن پاول کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انھوں نے گروپ کو اپنے مشن کی تکمیل کے لیے بھرپور اعانت فراہم کی۔ مزیدبرآں حکومت امریکا کے اعلیٰ سرکاری حکام نے نہ صرف واشنگٹن میں‘ بلکہ میدانِ عمل میں بھی ہماری مدد کی۔ ہمیں امید ہے کہ یہ رپورٹ ] امریکا کی[ اسٹرے ٹیجک سمت کے تعین کے لیے نہایت بنیادی اور نازک خطوط متعین کرنے میں مددگار ثابت ہوگی۔ (ص ۵-۷)
۸۰ صفحات کی یہ رپورٹ سات حصوں پر مشتمل ہے جس کا مطالعہ مسلم دنیا کے حکمرانوں‘ صحافیوں‘ سیاست دانوں‘ دانش وروں اور اساتذہ کرام کو ضرور کرنا چاہیے۔ رپورٹ کے مرتب کنندگان نے مصر‘ شام‘ ترکی‘ سینی گال‘ مراکش‘ برطانیہ اور فرانس کا دورہ کیا‘ جب کہ پاکستان اور انڈونیشیا میں ویڈیو کانفرنسوں اور سفارتی اور دیگر ذرائع سے معلومات حاصل کیں۔
m ’’۱۹۴۰ء میں راک فیلر نے لاطینی امریکا کے صحافیوں کو دعوت دی‘ اس کے بعد سے اب تک امریکی سرکاری پالیسی‘ فل برایٹ پروگرام اور ہمفرے پروگرام کے تحت تقریباً ۷لاکھ افراد کو تبادلہ دانش کے پروگرام میں امریکا آنے میں مدد ملی ہے۔ اس وقت بقول کولن پاول: انٹرنیشنل وزیٹر پروگرام (IVP) سے استفادہ کرنے والوں میں ۳۹سربراہان ریاست شامل ہیں (ص ۴۶)۔ اسی طرح انٹرنیشنل ملٹری ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ (IMET) نے عرب‘ مسلم دنیا کے ایک ہزار سے زاید فوجی افسروں کو تربیت دی۔ آئی ایم ای ٹی ایک طاقت ور پروگرام ہے جو دنیا میں مستقبل کے لیڈروں کی تربیت کرتا ہے‘‘۔ (ص ۴۷)
__اگر ہم بالترتیب ان نکات پر نگاہ ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ‘ امریکی پالیسی سازوں کا پورا زور میڈیا‘ تعلیم‘ این جی اوز اور انگریزی زبان پر ہے:
__ یہ ایک عجیب بات ہے کہ ایک طرف اربوں ڈالر کی یلغار اور خود مسلمان ملکوں کے حکمرانوں کے ہاتھوں میں مقبوضہ قومی وسائل ہیں اور دوسری جانب ’’نادیدہ دشمن‘‘ اور بڑی حد تک ’’تخیلاتی مخالف‘‘ کے وسائل کا حال کسی موازنے کی بنیاد بنتا دکھائی نہیں دیتا۔ مگر ان کے مالی وسائل کو سلب کرنے کا جنون عروج پر ہے۔
__ پروپیگنڈا میں بے بسی کی بات وہ کہہ رہے ہیں جنھوں نے زمین و آسمان سے یک طرفہ اور منفی پروپیگنڈے کا طوفان برپا کر رکھا ہے۔ افغانستان اور عراق کے حوالے سے خود ان کے ذمہ دار کہہ رہے ہیں کہ یہ سب کچھ بے بنیاد افسانے کے بل بوتے پر کیا گیا۔ انسان سوچتا ہے کہ مادی ذرائع کی فراوانی اور الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر بھرپور کنٹرول کے باوجود‘ یہ کیسی عالمی طاقت ہے جو راے عامہ سے خائف ہے۔
__ مسلم دنیا کے حکمرانوں کو جان لینا چاہیے کہ یہ اقتدار انھیں ’’اللہ کی طرف سے انعام‘‘ کے طور پر نہیں‘ بلکہ امریکی و استعماری طاقتوں کی نیازمندانہ رفاقت کے عوض ملا ہے۔
__ مخصوص پروپیگنڈا اور میوزک کے بخار سے اپنے مذموم مقاصد کو پورا کرنے کا امریکی منصوبہ اپنے اندر عبرت کے بڑے سبق رکھتا ہے۔ خود ہمارے ہاں کیبل سروس‘ نجی ٹی وی نیٹ ورک‘ ایف ایم سروس بھی کسی نہ کسی درجے میں اسی ایجنڈے پر عمل ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ان ذرائع ابلاغ کی گرفت‘ ابلاغیات کی دیگر تمام اقسام سے زیادہ پراثر اور گمراہ کن ہے۔
__ تعلیم کے میدان میں امریکی منصوبہ سازوں کی حریصانہ بے چینی کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انھیں جیکب آباد ’’شہباز بیس‘‘ سے بھی زیادہ ضرورت تعلیم کے نام پر سامراجی عزائم کے حلیف ان فکری امریکی اڈوں کی ہے۔ یہ ایک درست قول ہے کہ: امریکی یونی ورسٹی بیروت نے عرب دنیا کے فکری‘ دینی اورسماجی مستقبل کو متاثر کرنے کے لیے وہ کام کیا ہے جو بہت سی مغربی حکومتیں بھی نہ کرسکتی تھیں‘‘۔ آج پاکستان میں ایف سی کالج پر امریکی کنٹرول کی بحالی ‘ نجی شعبے میں نام نہاد انگریزی میڈیم کی گرفت اور پھر آیندہ پاکستان بھر کے ثانوی و اعلیٰ تعلیمی بورڈوں کو آغا خان فائونڈیشن کے قبضے میں دینے کی تجاویز‘انھی سامراجی اور مسلم کش منصوبوں کا حصہ ہیں‘ جن کے بارے میں اہل دانش ہوشیار رہنے کی دہائی دے رہے ہیں‘ مگر مغرب سے زیادہ مغرب کے وفاداروں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔ پھر ’’تعلیمی آزادی‘‘ کا مطلب اگر سمجھنا ہو تو لاہور سے شائع ہونے والے Journal South Asia کے شمارہ۲ (دسمبر ۲۰۰۳ئ) کو ملاحظہ کیا جا سکتا ہے‘ جس میں اے ایچ نیر نے ’’پاکستان میں نصاب کی اسلامائزیشن‘‘ (ص۷۱-۸۷) میں دین‘ اخلاق‘ پاکستانیت‘ دو قومی نظریہ ہر ایک چیز کو نصاب سے کھرچ ڈالنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور یہ رسالہ سفما (سائوتھ ایشین فری میڈیا ایسوسی ایشن) کی پیش کش ہے۔ مستقبل میں شارجہ اور دوبئی کو امریکی یونی ورسٹی کی شاخوں کے ذریعے آباد کرنے اور ’’دانش کے شہر‘‘ آباد کرنے کے منصوبوں پر بڑی برق رفتاری سے کام کا آغاز ہوچکا ہے۔
__ مسلم دنیا کی عورتوں‘ تعلیم اور اقلیتوں کا مسئلہ امریکی استعمار کے لیے کسی انسانی مسئلے سے زیادہ‘ خود امریکی ’’اقدار و تصورات ‘‘کے پھیلائو اور مذموم سامراجی مقاصد کے حصول کا ایجنڈا ہے۔ دیکھا جائے تو حقوق اور عورتوں وغیرہ کے نام پر قائم شدہ مغربی مفادات کی محافظ نظریاتی این جی اوز کا بنیادی ہدف کسی فرد کی دست گیری سے زیادہ مسلم تہذیبی اقدار کو ہدف بنانا‘ اسلامی نظریاتی اصولوں پر تنقید کرنا‘ خاندانی نظام کی توڑ پھوڑ اور آخرکار اباحیت پسندی اور تشکیک کے کانٹے بونا ہے۔ ہم اپنے ارد گرد مخصوص این جی اوز کو واقعی امریکی مفادات کے مضبوط قلعے (سٹرانگ ہولڈز) کے طور پر کام کرتا دیکھ سکتے ہیں۔ پاکستان میں انھی این جی اوز کو پاکستان کی وفاقی وزارت میں نمایندگی اور قومی وزارتوں میں منصوبہ سازی کے لیے کلیدی رول مل چکا ہے۔ علما‘ اہل دانش اور محب وطن ارکان اسمبلی غالباً ان گہری جڑوں سے نموپانے والے کانٹوں سے پوری طرح باخبر نہیںہیں‘ اور جو اس کے ہولناک نتائج کا شعور رکھتے ہیں‘ ان کی زبانوں پر گوناگوں مفادات کے قفل لگے ہوئے ہیں۔
__ ایک جانب تو اپنی قومی زبان سے پہلوتہی اور ترقی کے نام پر انگریزی کی جانب پیروجواں اور مرد و زن کی لپک ہے اور دوسری طرف صیاد‘ دانہ ودام لیے انھیں اور ان کے مستقبل کو شکار کرنے کے درپے ہیں۔
امریکی ایوان نمایندگان کی اس رپورٹ میں مسلم دنیا کی مسندِاقتدار اور مسندِدانش پر بیٹھے افراد کے لیے غوروفکر اور اُمت کے مفاد میں حکمت عملی تجویز کرنے کا بھرپور چیلنج موجود ہے۔ اہل دانش اور عوام کے لیے اس میں سوچ وبچار کے بڑے نکات ہیں۔
تیرھویں صدی عیسوی میں ‘ عرب مسلمان تاجروں کے ذریعے جزائر شرق الہند ]انڈونیشیا[ میں اسلام کی روشنی پہنچی۔ گذشتہ ۲۰۰ برس کے دوران مغربی استعمار میں سب سے پہلے پرتگالی ‘ ان کے بعد ہسپانوی اور آخر میں ولندیزی فوجوں نے انڈونیشیا کے جزائر پر قبضہ جمایا۔ ولندیزیوں نے یہاں کے کلچر کو مغربی اور عیسائی رنگ میں رنگنے کے لیے فوج اور پادریوں سے مدد لی۔ ۳ہزار سے زیادہ جزائر پر مشتمل‘ دنیا کا یہ سب سے بڑا مسلم ملک ۱۹۴۹ء میں آزاد ہوا۔
پوری مسلم دنیا میں ‘ انڈونیشیا ایک ایسا خطہ ہے ‘ جہاں پر مسلمان عورتوں میں دینی تبلیغ اور دینی تعلیم کا ایک بڑا وسیع اور مربوط نظام قائم ہے۔ اس نظام میں ’’مبلغہ‘‘ کا رول نہ صرف ایک دینی معلمہ کا سا ہے ‘ بلکہ وہ معاشرے کے باہمی تعلقات کی مضبوطی میں بھی ایک اہم عنصر ہے۔ دینی مبلغہ اسلام کا پیغام عام کرنے کے ساتھ معاشی‘ خانگی‘ طبی‘ سیاسی اور سماجی پہلوئوں پر بھی اپنی سامع خواتین کو رہنمائی دیتی ہے۔
انڈونیشیا میں دو طرح کے تعلیمی ادارے ہیں: ایک کو پینرنتران (pesantran)کہتے ہیں جہاں عام طور پر وہی تعلیم دی جاتی ہے‘ جیسی ہمارے ہاں عام اسکولوں میں رائج ہے‘ تاہم اس کے ساتھ بچے بچیوں کے لیے دینی تعلیم کا بھی خصوصی طور پر انتظام کیا جاتا ہے۔ دوسرے تعلیمی ادارے ’’مدارس‘‘ کہلاتے ہیں۔ یہ ہمارے دینی مدارس سے ملتے جلتے ہیں‘ مگر اپنے نصاب اور نظام کار میں ان سے زیادہ جدید ہیں۔ اس نظام میں خواتین ’’مبلغات‘‘ کا کردار بڑا منفرد ہے۔
انڈونیشی مسلم ’’مبلغات‘‘ کی دو قسمیں ہیں: پہلی کسی دینی معلم ’’کیائے‘‘ (kyai) کی بیوی ’’نیائے‘‘ (nyai) کہلاتی ہے‘ اور دوسری کو ’’استاذہ‘‘ کہتے ہیں۔ استاذہ دراصل معلمۂ قرآن ہوتی ہے۔ ’’نیائے معلمہ‘‘ اپنے شوہر یا والد کے سماجی اثرات کے پھیلائو کی بنیاد پر دینی تعلیم کا کام شروع کرتی ہے۔ اس کی مقبولیت میں بڑا حصہ اس کے شوہر کی معلمانہ قابلیت اور سماجی قبولیت کا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس ’’استاذہ‘‘ خانگی دائرہ اثر سے بالا محض اپنی صلاحیت اور محنت کے بل پر دینی تعلیم پھیلاتی ہے۔
’’استاذہ‘‘ بچوں کو قرآن پڑھنا سکھاتی ہے ‘اور دین کے بنیادی موضوعات پر تعلیم دیتی ہے۔ اس کی کامیابی اور مقبولیت کا راز اس کی تقریری صلاحیت اور ’’مجلس تعلیم‘‘ کو منظم کرنے کی مہارت پر منحصر ہوتا ہے۔ ایسی مقبول اساتذہ میں سے بعض کو اپنے خانگی پس منظر کے باعث کام کی سہولت حاصل ہوتی ہے‘ لیکن بیش تر خاتون اساتذہ‘ اپنی بے پناہ محنت‘ لگن اور علمی قابلیت کے بل پر معاشرے میں توجہ اور احترام کا مقام حاصل کرتی ہیں۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ان مبلغات میں ایک قابل ذکر تعداد نومسلم خواتین کی ہے۔ نومسلم مبلغات میں اکثریت کا تعلق چینی نسل سے ہے۔ نومسلم مبلغات کی شہرت اور خواتین میں مقبولیت کا ایک سبب ان کا نومسلم ہونا بھی ہوتا ہے کہ: ’’انھوں نے سچے دل سے اسلام قبول کیا ہے اور اب دین اسلام کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو وقف کیے ہوئے ہیں‘‘۔
صدر سہارتو کے زمانے میں ان دینی مبلغات کی سرگرمیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا‘ کیونکہ حکومت کا خیال تھا کہ ’’مبلغہ خواتین کی تعلیم‘ تربیت‘ تہذیب اور ترقی کے لیے رضاکارانہ طور پر جو خدمت انجام دیتی ہے‘ وہ سرکاری اداروں اور ذرائع ابلاغ سے بھی ممکن نہیں‘‘۔ انڈونیشیا کی جدید تاریخ پر نظر رکھنے والے ماہرین کی رائے ہے کہ بہت سی مبلغات نے واقعتا اپنے اثرانگیز اسلوب بیان کے ذریعے خواتین کی نہ صرف تعلیمی ترقی کا گراں قدر کام کیا‘ بلکہ ان پر کسی بھی سیاسی یا مذہبی رہنما سے زیادہ گہرے اثرات مرتب کیے۔
انڈونیشیا میں اسلام کی دعوت‘ تبلیغ‘ تنظیم اور اجتماعی جدوجہد کرنے والی دو بڑی تحریکیں محمدیہ اور نہضۃ العلما کے نام سے معروف ہیں۔ ان میں محمدیہ کو ’’جدیدیت کی علم بردار‘‘ (modernist) اور نہضۃ کو ’’روایتی‘‘ (traditional)دھارے میں شمار کیا جاتا ہے۔ دونوں نے خواتین اور طالبات میں کام کے لیے علیحدہ تنظیمیں قائم کی ہیں۔ نہضہ کی طالبات کی تنظیم فتایۃ اور خواتین کی مسلمات ہے۔ اسی طرح ’’محمدیہ‘‘ کی طالبات کے لیے نصیحۃ اور خواتین کے لییعائشیۃ ہے۔
فتایۃ اور نصیحۃ‘ طالبات کی حد تک‘ دینی تعلیم‘ دنیاوی تعلیم اور سماجی بہبود کے کاموں میں فعال حصہ لیتی ہیں۔ خواتین کی تنظیمات مسلمات اور عائشیۃ کی سب سے بڑی سرگرمی پینگاژن (یعنی درس قرآن) اور مجلس تعلیم کا باقاعدگی سے انعقاد ہے۔ ان تنظیموں کی ترجیح اول یہ ہے کہ ان سے وابستہ خواتین‘ درس کی مجلسوں میں لازماً شرکت کریں‘ تاہم وہ عام خواتین کو بھی شرکت کے لیے باقاعدہ دعوت دیتی ہیں۔
ان مجلسوں کے نتیجے میں کئی اساتذہ‘ مقبول معلمات بن جاتی ہیں۔ بہت سی ’’نیائے‘‘ معلمات اور اساتذہ مذکورہ بالا تنظیموں سے تعلق رکھتی ہیں ‘ لیکن اس کے باوجود روایتی اور جدید دھارے سے متاثر ایک بڑی تعداد ایسی ’’نیائے معلمات‘‘ اور اساتذہ خواتین کی ہے‘ جو آزادانہ طور پر اپنا تدریسی و تعلیمی نظام کار منظم کرتی ہیں۔ ایسی مبلغات شہر کی پسماندہ ترین آبادیوں اور دُور دراز علاقوں میں اپنے کام کا آغاز کرنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ البتہ کچھ تدریسی حلقے شہر کی خوش حال آبادیوں میں بھی قائم کرتے ہیں۔ ان مبلغات کی درسی اور تبلیغی مصروفیات کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے ‘ کہ ایک مبلغہ ہفتے کا پہلا روز گھریلو خواتین میں‘ دوسرا روز طالبات میں‘ تیسرا روز پڑھی لکھی خواتین کی محفل میں‘ چوتھا روز مختلف دفاتر میں ملازمت سے وابستہ خواتین میں درس دینے کے لیے مخصوص کرتی ہے۔ باقی دنوں میں بعض اوقات خوشی اور غمی کی مجلسوں میں شرکت کرتی ہے۔
ان درسی مجلسوں میں شرکت کرنے والی خواتین ایک بڑے کمرے میں نشست منعقد کرتی ہیں‘ جہاں پر ایمان و تقویٰ اور معاشی ‘ سماجی اور تعلیمی موضوعات پر درس کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اگرچہ مختلف عمروں اور مختلف سماجی و معاشی طبقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین ان درسوں میں شریک ہوتی ہیں‘ لیکن یہ سماجی اونچ نیچ ان کے باہم گھل مل جانے میں کوئی رکاوٹ نہیں پیدا کرتی۔
خواتین کی مجلس تعلیم کا حال: ایک غیر مسلم اسکالر خاتون لیزایم مارکوس نے انڈونیشی مسلم خواتین میں اس دینی سرگرمی کا جائزہ لینے کے لیے تحقیق کے دوران ایک ’’مجلس تعلیم‘‘ کا آنکھوں دیکھا حال لکھا‘ جو یہاں پیش کیا جا رہا ہے:
یہ صبح چھ بجے کا وقت ہے۔ شہر کے مضافات میں چاول کے کھیتوں کے بیچوں بیچ خواتین کا ایک گروپ آ رہا ہے۔ ان میں کچھ ادھیڑ عمر کی ‘ بعض نوجوان اور بقیہ درمیانی عمر کی عورتیں ہیں۔ زیادہ تر نے انڈونیشیا کا روایتی لباس پہن رکھا ہے ۔ کچھ نے پتلونیں پہنی ہوئی ہیں‘ لیکن اُوپرایسا ڈھیلا ڈھالا کرتا ہے جو گھٹنوں سے نیچے تک چلا گیا ہے۔ تمام عورتوں نے سر پر اسکارف اس طرح باندھ رکھا ہے کہ ان کے سر کا ایک بال بھی دکھائی نہیں دے رہا‘ جب کہ دوسرا اسکارف چادر کی طرح اپنے ارد گرد لپیٹ رکھا ہے۔ کچھ عورتوں نے سر پر اسکارف کے بجائے ٹوپیاں پہنی ہوئی ہیں۔ بعض نوجوان عورتوں نے اپنے کم سن بچوں کو بھی اٹھایا ہوا ہے۔ یہ سب عورتیں ’’مجلس تعلیم‘‘ میں شرکت کے لیے اجتماع گاہ آ رہی ہیں۔
اجتماع گاہ پہنچنے سے پہلے ہی ذرا بلند آوازیں سنائی دینے لگتی ہیں۔ یہ آوازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے کی ہیں۔ البتہ ان میں سب سے نمایاں ترین آواز نعت پڑھنے والی خاتون کی ہے۔ یہ وہ خواتین ہیں جو قدرے پہلے اجتماع گاہ میں پہنچ چکی ہیں۔ ایسی اجتماع گاہوں کے مختلف نام بھی ہوتے ہیں۔ اس اجتماع گاہ کا نام ’’نورالاحیا‘‘ ہے۔ یہاں پہنچنے والی تمام ہی عورتیں ایک دوسرے کو خوش اخلاقی سے سلام کہتی اور خیریت دریافت کرتی ہیں۔ البتہ نوجوان عورتیں‘ بڑی عمر کی خواتین کی تعظیم کرنے کے لیے ان ہاتھوں کی پشت کو بوسہ دیتیں اور دعائیں لیتی ہیں۔ اب ہال کھچا کھچ بھر چکا ہے۔ ایک عورت نعت پڑھ رہی ہے‘ تاہم کچھ عورتیں درود شریف پڑھ رہی ہیں‘ اور باقی عورتوں کو آپس میں گفتگو کرنے کا ایک اچھا موقع ملا ہے جس سے وہ استفادہ کر رہی ہیں۔
اسی دوران سفید لباس زیب تن کیے ہوئے ایک ’’کیائے‘‘ (دینی معلم‘ شوہر) اور ’’نیائے‘‘ (اس کی معلمہ بیوی) ہال میںداخل ہوتے ہیں‘ اور سب کو ’’السلام علیکم‘‘ کہہ کر ایک چوڑے بنچ پر بیٹھ جاتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں قرآن اور عربی کی کتب ہیں۔ بغیر کسی تاخیر کے نیائے ]معلمہ[ سورۃ فاتحہ پڑھتی ہے‘ اور اس کے ساتھ تمام عورتیں کورس کی صورت میں سورۃ فاتحہ کی تلاوت کرتی ہیں۔یہ سلسلہ صرف ایک بار پڑھنے سے رک نہیں جاتا بلکہ ’’نیائے‘‘ ]معلمہ[ کی رہنمائی میں وہ ۱۰ بار‘ سورہ فاتحہ پڑھتی ہیں ‘ ہر بار سورۃ مکمل کرنے کے بعد خدا کے حضور بخشش اور سلامتی کے لیے کسی ایک فرد کے لیے ایک جملے میں دعا کرتی ہیں‘ مثلاً حضرت آدم ؑ، حضرت ابراہیم ؑ، حضرت محمدؐ، حضرت خدیجہؓ، حضرت ابوبکر صدیق ؓ،حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت عمرؒ بن عبدالعزیز اور آخر میں خود مجلس تعلیم کی شرکا کے لیے دعا کرتی ہیں۔ جب فاتحہ کے ساتھ یہ دعائیہ عمل ختم ہوتا ہے تو ’’نیائے‘‘ ]معلمہ[ اپنے شوہر ’’کیائے ‘‘]معلم[ سے کہتی ہیں‘ وہ گذشتہ درس کا خلاصہ بیان کرے۔ جس کے بعد کیائے ]معلم[ قرآنی تفسیرجلالین سے عربی متن کی ایک ایک لائن پڑھتا ہے جس کا انڈونیشی میں ترجمہ اس کی بیوی‘ نیائے ]معلمہ[کرتی جاتی ہے۔ جونہی متن کا ترجمہ ختم ہوتا ہے تو پھر نیائے ]معلمہ[ اپنی علمی صلاحیت کی بنیاد پر اس متن کا موجودہ دینی‘ اخلاقی‘ سیاسی‘ ذہنی اور سماجی نوعیت کے روز مرہ مسائل سے تعلق جوڑتی ہے اور یہ عمل بڑا پرُتاثیر ہوتا ہے۔ ’’کیائے‘‘ ]معلم[ اگرچہ پورے درس میں زیادہ تر خاموش رہتا ہے‘ لیکن اپنی فاضل اہلیہ کے ساتھ اس کی موجودگی اس اعتبار سے اہم تصور کی جاتی ہے کہ وہ کسی دینی یا فقہی اُلجھن کو حل کرنے کے لیے اپنے فہم کے ساتھ‘ سامعین کو بروقت رہنمائی دے سکتا ہے۔
جب اس درس کے پہلے حصے کا اختتام ہوتا ہے تو ایک عورت پلاسٹک بیگ‘ اور دوسری لکڑی کا چھوٹا باکس اٹھا کر تمام عورتوںکے قریب سے گزرتی ہے۔ کم و بیش تمام ہی عورتیں اپنے پرس سے کچھ سکّے یا نوٹ نکال کر ان میں ڈالتی ہیں۔ پلاسٹک کا بیگ ان دونوں معلموں کے لیے اور لکڑی کا باکس اس اجتماع گاہ کی تعمیر و ترقی کے لیے ہوتا ہے۔ اس کے بعد درس کا دوسرا دَور شروع ہوتا ہے۔ اس مرتبہ پھر ’’کیائے‘‘ ]معلم[ امام غزالیؒ کی احیاء العلوم سے متن پڑھتا ہے اور ’’نیائے‘‘ ]معلمہ[ اس کا ترجمہ کر کے‘ مفصل تشریح کرتی ہے۔ اس تشریح کو بھی وہ موجودہ حالات سے جوڑتی ہے۔ تقریباً ساڑھے سات بجے یہ ’’مجلس تعلیم‘‘ اختتام کو پہنچتی ہے۔ جس کے بعد بڑے خشوع و خضوع کے ساتھ سبھی کے لیے بخشش اور مغفرت کی دعا کی جاتی ہے۔ اس کے بعد عورتیں اُمڈ کر آتی ہیں اور نیائے ]معلمہ[ کے ہاتھوں کو بوسہ دیتی ہیں اور کیائے ]معلم[ کا شکریہ ادا کر کے ہال سے باہر نکلنا شروع کرتی ہیں۔
یہ ایک مضافاتی علاقے کی مجلس تعلیم کا حال ہے‘ جب کہ ۱۹۹۰ء میں انڈونیشیا کے صرف ایک جزیرے بوگر(Bogor) میں خواتین کے درس قرآن یا مجلس تعلیم کے ۱۹ ہزار ۸ سو ۵۱ حلقے تھے‘ جن میں اب تک کم از کم ۲۰‘۲۵ فی صد ضرور اضافہ ہوا ہوگا۔
مختلف سطحوں پر مجلس تعلیم یا درس قرآن کے ایسے سلسلے چل رہے ہیں‘ مثلاً ’’کام باپا‘‘ مردوں کے لیے‘ ’’پینگوژن ریماجا‘‘ نوجوانوں کے لیے ‘ ’’پینگوژن گابنگن‘‘ مخلوط مجلس کے لیے اور ’’پینگاژن‘‘ صرف عورتوں کے لیے ہیں۔ ان درسی سرگرمیوں کے نقطہ ء آغاز کا تعین ذرا مشکل ہے‘ تاہم یہی خیال کیا جاتا ہے کہ اس کا آغاز روایتی دھارے کی تنظیم نہضۃ نے نہیں بلکہ جدید دھارے کی محمدیہ نے کیا تھا۔ کیونکہ وہ روایتی طرزعمل سے ہٹ کر کام کرنے والی تنظیم قرار دی جاتی ہے۔ محمدیہ ۱۹۱۲ء میں قائم ہوئی اور اس نے ۱۹۱۷ء میں عائشیۃ تشکیل دی۔ اس تنظیم نے مسلمان عورتوں میں دینی‘ تعلیمی‘ تربیتی اور اصلاحی امور کو اولیت دیتے ہوئے ۱۹۲۲ء میں پہلی ’’مسجد براے خواتین‘‘ (ضلع کائومن‘ یوگی آکارتا) میں قائم کی۔ یہ مسجد خواتین کو نماز اور عبادت کی سہولت فراہم کرنے کے ساتھ خواتین کی عمومی دینی تعلیم کا مرکز بھی قرار دی گئی۔ اس کا مکمل انتظام و انصرام عائشیۃ کی دو خواتین کے ہاتھ میں تھا۔ خواتین کی دوسری مسجد ۱۹۲۶ء میں ’’مسجد اسطری‘‘ (گورٹ‘ جنوبی جاوا) میں قائم کی گئی۔ اس طرح محمدیہ نے عورتوں میں دینی تعلیم اور عبادت کے لیے علیحدہ مساجد قائم کرنے کی روایت متعارف کرائی۔
گھریلو خواتین کے درس یا مجلس تعلیم کے پروگرام زیادہ تر ان اوقات میں ہوتے ہیں جب انھیں گھر کے کاموں سے کچھ فرصت میسر ہوتی ہے‘ تاہم طالبات اور ملازمت پیشہ عورتوں کے لیے مغرب اور عشاء کے درمیان پروگرام کیے جاتے ہیں۔ مختلف اعداد و شمار کے مطابق جدید تعلیم یافتہ خواتین یا زیرتعلیم طالبات کی مقابلتاً بڑی تعداد ان پروگراموں میں شرکت کرتی ہے۔یہ پروگرام ۱۵روزہ یا ترجیحاً ہفت روزہ ہی کیے جاتے ہیں تاکہ دینی معلومات کی فراہمی کا تسلسل قائم رہے۔
خواتین کے پروگراموں میں آیات قرآنی اور ان کے ترجمے کو بار بار دہرانے پر زور دیا جاتا ہے‘ تاکہ آیات ‘ ان کا مفہوم اور ان میں پوشیدہ پیغام کی تاثیرشرکا کے ذہن نشین ہو جائے۔ اگرچہ اکثر درسی مجالس کسی موضوع یا موقع کے حوالے سے منسوب کی جاتی ہیں‘ لیکن ان مواقع پر خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے‘ مثلاً جشن نزول قرآن‘ استقبال رمضان‘ لیلۃ القدر‘ میلادالنبی‘ رجبان ‘ وغیرہ۔ دینی مدارس یا مستحق لوگوں کی مدد کے لیے ’’ایک گلاس چاول‘‘ جیسے سلسلے بھی ساتھ ہی ساتھ چلتے ہیں‘ تاکہ عام فرد کو بوجھ کا احساس بھی نہ ہو اور رضاکارانہ طور پر بڑے پیمانے پر خوراک جمع کر لی جائے۔ یہ مسئلہ صرف خوراک کی اشیا تک محدود نہیں بلکہ بہت سی عورتیں بہ یک مشت رقم دینے کے بجائے قسطوں میں عطیہ دے کر دینی تعلیم کے نظام کو ایک مستحکم معاشی بنیاد فراہم کرتی ہیں۔ خواتین کا یہ ایثاراور شوق اس درجے بڑھا ہوا ہے کہ مردوں اور نوجوانوں کے دینی سلسلہ ہاے درس کے بہت سے اخراجات انھی کے ذریعے پورے ہوتے ہیں‘ بلکہ بعض مدرسے یا مساجد تو صرف ایک ایک مبلغہ کی محنت سے جمع شدہ وسائل سے قائم ہوئی ہیں۔
دینی معلمات اس پہلو پر خصوصی توجہ دیتی ہیں کہ وہ جس علاقے یا جس طبقے میں خطاب کریں‘ ان کی اپنی زبان اور انھی کے محاورے میں کلام کریں تاکہ سامعین اپنائیت محسوس کریں۔ ان مجلسوں میں بعض عورتیں روایتی طور پر بوتلوںمیں صاف پانی بھر لاتی ہیںکہ حاضرین کی دعا سے یہ پانی شفا کا باعث بن سکتا ہے۔ اس سے فائدہ ہوتا ہے یا نہیں‘ لیکن پانی بھری بوتلوں پر دم اور دعا کی مشق روز افزوں ہے کہ یہ پانی کے پینے سے شوہر توجہ دینے لگ جائے ‘ بچے پڑھائی میں دلچسپی لیں‘ بچوں کو نماز سے تعلق ہو جائے‘ زچگی کا زمانہ سہل رہے‘ کاروبار اور قرض کی الجھنیں دُور ہو جائیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ دینی معلمات اور مبلغات ‘ اپنی حاضرین کو توجہ دلاتی ہیں کہ: ’’اس محفل کو فرشتوں کا سایہ‘ خدا کی رحمت اور رسولؐ خدا کی خوشنودی حاصل ہے۔ آپ اپنی ان بہنوں کے لیے صراط مستقیم کی دعا کریں جو اس وقت ڈسکو ڈانس کلبوں‘ جمناسٹک کے اداروں‘ سینما ہالوں اور بازاروں‘ کلبوں میں اپنا حال اور اُخروی مستقبل خراب کر رہی ہیں‘‘۔ ان کلمات سے کلاس میں شریک عورتیں ایک خاص قسم کی قلبی طمانیت حاصل کرتی ہیں۔
انڈونیشی معاشرے میں معلمہ‘ مبلغہ یا استاذہ کا کردار مرکزیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ معلمہ اپنے شوہر کے ہمراہ دینی خدمت انجام دیتی ہیں۔ استاذہ آزادانہ طور پر خود اس میدان میں پیش رفت کرتی ہیں، ’’نیائے‘‘ اور ’’استاذہ‘‘ کو معاشرے کا وہ طبقہ قرار دیا جاتا ہے جو خواتین میں تعلیم و تربیت کے ذریعے توازن پیدا کرتا ہے۔ ایک مبلغہ اس امر کا خصوصی اہتمام کرتی ہے کہ وہ بہترین عربی اور شان دار انگریزی بول سکے۔ اس مقصد کے لیے ریفریشر کورسز اور سمعی و بصری اعانات سے بھی استفادہ کرتی ہیں۔ ان کا شوق اور منصبی ذمہ داریاں انھیں محنت کے لیے اُبھارتی ہیں۔ بلاشبہ ان کی تعلیمی قابلیت اور تعلیمی اسناد بھی انھیں وقار دیتی ہیں۔ لیکن مشاہدہ ہے کہ یہ چیز ثانوی ہے۔ اصل چیزیں دوسری ہیں جو انھیں مقبولیت اور اثرانگیزی کا جوہر عطا کرتی ہیں ‘ وہ یہ ہیں:
۱- دین کا علم (چاہے اس کے لیے کوئی اعلیٰ درجے کی سند لی گئی ہے یا نہیں)
۲- اپنی تقریر میں قرآن کی آیات کا برمحل حوالہ دینا اور احادیث نبویؐ سے استدلال کرنا ۔
۳- سماجی زندگی اور سماجی مسائل سے واقفیت کا ثبوت دینا (یہ چیز ان کی تقریروں سے خود بخود ظاہر ہو جاتی ہے کہ وہ حالات حاضرہ اور قومی یا مقامی زندگی سے کس قدر واقف ہیں۔ اس کے لیے وہ جدید اخبارات و رسائل کا مطالعہ کرتی ہیں)۔
۴- گفتگو میں عربی اور انگریزی زبان میں مختلف تحریروں سے استفادے کا اظہار۔
۵- تقریر کے دوران کسی لطیفے اور ہلکی پھلکی بات سے سامعات کو اچانک ہنسا کر ماحول کو بوجھل بننے سے محفوظ رکھ سکیں اور تقریر سنتے سنتے عورتیں اچانک کھل کھلا کر ہنسنے پر مجبور ہو جائیں۔
پانچویں چیز کو چاروں خصوصیات کے ساتھ ایک اہم مقام حاصل ہے۔
بہت سی مقبول مبلغات کی تقریروں کے کیسٹ‘ بڑے بڑے پاپ میوزک سنٹروں پر دستیاب ہیں اور ان کی مانگ میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ان مبلغات کا تعلق محمدیہ‘ نہضۃ اور آزاد حلقوں سے ہے۔ طریق کار اور اسلوب بیان ایک جیسا ہے۔ ان کی تقریروں کے مرکزی موضوعات میں: عبادت‘ تقویٰ‘ عورت کا مقام‘ سماجی بہبود اور سماجی انصاف شامل ہیں۔ خواتین میں ان مبلغات کی شہرت اور مقبولیت بڑھتی جا رہی ہے۔ یہی وہ پہلو ہے جس پر مغربی حلقے اور خاص طور پر عیسائی مشنری سخت پریشان ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ عورتوں میں دین سے وابستگی کا یہ سلسلہ اُن ]مشنریوں[کے بہت سے منصوبوں پر پانی پھیر رہا ہے۔ اگرچہ مبلغات میں ایک طاقت ور غیر روایتی یا جدید لہر بھی کام کر رہی ہے‘ تاہم اپنی تمام تر جدیدیت کے باوجودیہ ویسی ’’جدید‘‘ بن نہیں سکتی کہ دین کے مصالح اور اہداف کی تعبیر کو اُلٹ پلٹ کر رکھ دے‘ بلکہ تجزیہ یہی بتاتا ہے کہ گاہے آزاد روی کا جذبہ رکھنے کے باوجود یہ معلمات جب قرآن کھول کر درس دیتی ہیں تو پھر ان میں اور روایتی طرزفکر رکھنے والی دینی معلمات میں کوئی خاص فرق رہ نہیں جاتا۔ خواتین میں دینی تعلیم‘ تبلیغ اور تربیت کا مسلم دنیا کا یہ غالباً سب سے موثر اور وسیع ادارہ ہے (ماخوذ :
The Muballighah: Religion in Indonesia by Lies M. Marcose ‘ مجلہ Dossiers شمارہ ۷‘۸‘ پیرس)۔
یکم اکتوبر ۲۰۰۱ء کو بنگلہ دیش میں آٹھویں عام انتخابات ہوئے۔ ان انتخابات میں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی)‘ جماعت اسلامی‘ جاتیو پارٹی اور متحدہ اسلامی الائنس پر مشتمل چار جماعتی اتحاد اور عوامی لیگ کے درمیان اصل مقابلہ ہوا۔ چار جماعتی اتحاد کا تشخص یہ تھا کہ: یہ اسلامی رحجان کی حامل‘ پاکستان سے تعلقات کی حامی اور دو قومی نظریے کی طرف دار پارٹیاں ہیں۔ دوسری طرف عوامی لیگ واضح طور پر سیکولرزم کی علم بردار‘ ہندو اور بھارتی مفادات کی حلیف جماعت کے طور پر قوم کے سامنے تھی۔ عوامی لیگ کی پشت پر ماضی کے کمیونسٹوں اور حال کے این جی اوز مافیا کی بھرپور تائید کا آسرا اور ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ ہندوئوں کی طرف داری بھی شامل تھی۔
عوامی لیگ کی سربراہ حسینہ واجد کے مقابلے میں چار جماعتی اتحاد کی مرکزی قیادت بی این پی کی بیگم خالدہ ضیا اور جماعت اسلامی کے امیر مطیع الرحمن نظامی کے سپرد تھی۔ اس انتخابی مہم کے دوران عوامی لیگ کے غنڈا عناصر نے جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر (اسلامی طلبہ تنظیم) کے کارکنوں کو تشدد کا نشانہ بنایا اور بی این پی کے کارکنوں کو بھی مارا جس کے نتیجے میں متعدد قیمتی کارکن شہید ہوگئے‘ تاہم چار جماعتی اتحاد نے تشدد کے واقعات کا تشدد سے جواب دینے کے بجائے سیاسی تعلیم اور انتخابی مہم پر زور دیا۔ جن دنوں انتخابی مہم زوروں پر تھی‘ انھی دنوں ۱۱ ستمبر کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا حادثہ بھی رونما ہو گیا۔ اس واقعے کو بنیاد بنا کر عوامی لیگ نے چار جماعتی اتحاد کو: پاکستان کا دلال‘ طالبان کا ہراول دستہ اور اسلامی بنیادی پرستی کا قائم مقام گردانتے ہوئے بھرپور الزامی مہم شروع کر دی۔
یکم اکتوبر ۲۰۰۱ء کو جب انتخابات ہوئے تو ڈالے گئے ووٹوں کا تناسب ۷۳ فی صد سے زیادہ نکلا۔ ۲۸۲ میں سے عوامی لیگ کو ۶۲ اور چار جماعتی اتحاد کو ۲۰۲ نشستیں ملیں‘ جن میں سے جماعت اسلامی کے ۳۱نامزد امیدواروں میں سے ۱۷ ارکان نے‘ جماعت کے انتخابی نشان ترازو کے تحت کامیابی حاصل کی اور جماعت کو ۱۰ فی صد ووٹ ملے۔ ہارنے والے ۱۰ امیدوار ۵۰۰ سے ایک ہزار تک کے ووٹوں کے فرق سے ہارے (جماعت اسلامی اور اسلامی متحدہ محاذ کے مجموعی طور پر ۲۹ امیدوار کامیاب ہوئے)۔ جماعت اسلامی کے کامیاب امیدواروں میں: مولانا مطیع الرحمن نظامی (امیر جماعت)‘ مولانا عبدالسبحان‘ مولانا دلاور حسین سعیدی‘ مولانا فریدالدین‘ مولانا عبدالعزیز‘ مفتی عبدالستار‘ ڈاکٹر عبداللہ محمد طاہر‘ پروفیسر عبداللہ کافی‘ پروفیسر شہادت حسین‘ مولانا ریاست علی‘ پروفیسر محمد روح القدوس‘ پروفیسر عزیز الرحمن‘ محمدشاہ جہاں‘ میزان الرحمن‘ پروفیسر غلام پرواز‘ پروفیسر عبدالخلیق‘ اور غازی نذرالاسلام پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ مطیع الرحمن نظامی نے عوامی لیگ کے سابق وزیر اطلاعات و نشریات ابوسعید کو شکست دی۔
یہ نتائج بھارت و مغرب نواز اور بنگلہ قوم پرستی کے حامی لوگوں کے لیے دھچکا ثابت ہوئے۔ اسی لیے متعدد بھارتی اور مغربی مبصرین یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ: ’’یہ نتائج اس اعتبار سے خطرے کی گھنٹی ہیں کہ بنگلہ دیش میں اسلامی بنیاد پرست انتخابی عمل کے ذریعے ایک بڑا مرحلہ طے کر کے آگے نکل آئے ہیں‘‘۔ سہ روزہ دعوت دہلی کے اداریے کے مطابق ’’ہندستانی میڈیا اور سیاسی حلقوں میں سب سے زیادہ تشویش جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے ساتھ خالدہ ضیا کے اتحاد پر ظاہر کی جا رہی ہے--- کہا جا رہا ہے کہ خالدہ ضیا کی حکومت جماعت کے زیراثر رہے گی‘‘۔ بنگلہ دیش میں متعدد مبصرین نے ان نتائج کو دو قومی نظریے کی تجدید قرار دیتے ہوئے ۱۹۴۶ء میں سلہٹ کے اس ریفرنڈم کا اعادہ قرار دیا ہے‘ جس میں وہاں کے لوگوں نے پاکستان میں شمولیت کا ووٹ دیا تھا۔ یہ تبصرے کسی جذباتی ردعمل کا مظہر قرار دیے جائیں یا انھیں حقیقت سمجھا جائے‘ بہرحال یہ بات واضح ہے کہ بنگلہ دیش کے عوام نے ایک واضح ‘ مثبت‘ اسلامی اور مسلم قوم پرستانہ سوچ کی تائید میں یک جہتی کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے۔
اگرچہ بھارتی ذرائع ابلاغ نے عوامی لیگ کی شکست کو سیکولرزم کی شکست اور پاکستان نواز گروہ کی کامیابی قرار دیا ہے‘ لیکن خالدہ ضیا نے بھارتی حکومت کو متعدد بار یقین دہانی کرائی ہے کہ: ’’اسے بھارت کے خلاف کسی مہم جوئی سے سروکار نہیں‘‘۔ اس موقف کا سبب یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں بھارت نے جس درجے کا اثر و نفوذ حاصل کر رکھا ہے اور اس کی سرحدات جس قدر غیر محفوظ ہیں‘ اس پس منظر میں وہاں کی حکومت کا ایک بڑا مسئلہ ریاست کے اقتداراعلیٰ کا تحفظ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ’’را‘‘ ۱۰ اخبارات چلا رہی ہے۔ ملک کے پانچ بڑے اخبارات میں سے تین اِن میں شامل ہیں۔
پاکستان میں بسنے والا کوئی بھی فرد اس مشکل چیلنج اور بے شمار عملی مسائل کو نہیں سمجھ سکتا جو وہاں کی اسلام دوست اور تعمیری قوتوں کو درپیش ہیں۔ بنگلہ قوم پرستی‘ لادینیت‘ ہندو اور بھارت کا اتحاد تو تھا ہی‘ لیکن اس ’’اتحاد‘‘ کو ان نام نہاد رضاکار تنظیموں (NGOs)کی بھی بڑی کمک میسر ہے جو اسٹرے ٹیجک مفادات کی حامل اور غیر ملکی امداد یافتہ پروپیگنڈا تنظیمیں ہیں۔اگر یہ کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا کہ چار جماعتی اتحاد کی مدمقابل عوامی لیگ کی اصل قیادت انھی تنظیموں کے وفاق کے پاس تھی۔ یاد رہے ان مخصوص سیاسی مفادات کی حامل این جی اوز کی فیڈریشن ’’اداب‘‘ (دی ایسوسی ایشن آف ڈویلپمنٹ ایجنسیز بنگلہ دیش‘ADAB) کے نام سے منظم ہے جو عملاً ایک طاقت ور سیاسی پارٹی کا عکس ہے۔ اس میں یو ایس ایڈ‘ دی ایشیا فائونڈیشن‘ کاریتاس‘ وائی ایم سی اے‘ پروشیکا‘ براک وغیرہ شامل ہیں۔ ۲۱ مئی ۲۰۰۱ء کو ’’اداب‘‘ نے اس قرارداد کے تحت بڑے پیمانے پر پروپیگنڈا مہم کا آغاز کیا کہ: ’’بنگالی قوم میں یہ بیداری پیدا کی جائے کہ وہ ان قوتوں کوووٹ نہیں دیں گے‘ جو ملک کی ترقی کو پیچھے کی طرف لے جانا چاہتی ہیں‘‘۔ ان تنظیموں کا یہ نعرہ بذاتِ خود ان کے ہدف اور مقصد کو واضح کر رہا ہے۔
انتخابی نتائج اور عمل کی تکمیل پر تمام غیر جانب دار مبصرین نے اطمینان کا اظہار کیا۔ بنگلہ دیش میں دستوری ترمیم کے بعد اب انتخابات غیر جانب دار عارضی حکومت کی نگرانی میں ہوتے ہیں (یہ پاکستان کے لیے بھی قابل تقلید ہے)۔ یاد رہے کہ دستور میں اس ترمیم کی تجویزاور مہم سابق امیر جماعت بنگلہ دیش پروفیسر غلام اعظم نے چلائی تھی لیکن اس کے باوجود‘ عوامی لیگ کی لیڈر نے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ پاکستان کی طرح بنگلہ دیش میں بھی انتخاب ہارنے والی پارٹی کے لیے نتائج کو تسلیم کرنا سخت اذیت ناک عمل ہوتا ہے۔ پچھلی مرتبہ خالدہ ضیا نے الیکشن جیتا تو پورا عرصہ حسینہ واجد نے ان کے خلاف مہم جوئی کی‘ اور پھر جب ۱۹۹۶ء میں حسینہ واجد ۱۴۶ نشستوں پر کامیاب ہوئیں تو خالدہ ضیا نے تسلسل کے ساتھ احتجاجی عمل جاری رکھا‘ تاہم بنگلہ دیش میں جمہوریت کے وجود کو اس پیمانے پر خطرہ لاحق نہیں ہوتا جس طرح پاکستان میں ہو جاتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بنگلہ دیش کی فوج اتنی مضبوط نہیں اور نہ وہاں کی خفیہ ایجنسیوں کو وہ ’’احترام و مقام‘‘ حاصل ہے جو پاکستان میں پایا جاتا ہے ۔ بہرحال بنگلہ دیشی فوج میں بھارت مخالف جذبات پائے جاتے ہیں۔ انتخابات کے انعقاد میں‘ عبوری حکومت کے ساتھ بنگلہ دیشی فوج نے بھرپور معاونت کی۔
اس تناظر میں بنگلہ دیش کے انتخابات کے بعد یہ منظر اُبھرتا ہے کہ عوامی لیگ ان تمام عناصر کے تعاون کے ساتھ محاذ آرائی کے راستے پر چلے گی۔ بھارت کے مفادات کی نگہبانی کو درپیش خطرہ بھی ان کے لیے باعث تکلیف امر ہے۔ موجودہ حکومت کا یہ مخالف عنصردانش ور طبقے اور صحافت میں کارفرما لوگوں کو متحرک کر کے جماعت اسلامی کے حوالے سے اپنی مہم کو استوار کر رہا ہے‘ اور غالباً ان کا مرکزی ہدف بھی جماعت ہی ہوگی۔
یہ پہلو بھی قابل توجہ ہے کہ عوامی لیگ بے لوث کارکنوں کی ایک بڑی ٹیم رکھنے کے باوجود‘ اپنے کارکنوں کو نئی قیادت اور نئی پارلیمنٹ کے خلاف متحرک کرنے میں خاطرخواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کارکنان سمجھتے ہیں کہ وہ الیکشن ہارے ہیں (اس لیے ارکان پارلیمنٹ کی حلف برداری کے روز عوامی لیگ کی ہڑتال کی اپیل بری طرح ناکام ہوئی۔ عوامی لیگ کے ارکان نے پارلیمنٹ کے رکن کی حیثیت سے ۲۴ اکتوبر کو حلف اٹھایا ہے)۔ عوامی لیگ کے منجھے ہوئے صلاح کاروں نے بھی حسینہ واجد کی ردعمل کی پالیسی پر لبیک نہیں کہا۔ ان کا خیال ہے کہ اس طرح نہ صرف ملک میں جمہوریت کا مستقبل خطرے میں پڑ سکتا ہے بلکہ عوامی لیگ کے لیے آیندہ فتح کے امکانات کم ہو جائیں گے۔
خالدہ ضیا کی ۶۰ رکنی کابینہ میں جماعت اسلامی کے مطیع الرحمن نظامی نے وزیر زراعت اور علی احسن محمد مجاہد نے وزیر سوشل ویلفیئر کا حلف اٹھایا ہے (امیر اور قیم دونوں کے وزیر بن جانے کے جماعت پر کیا اثرات ہوں گے‘ یہ الگ موضوع ہے) ۱۹۷۱ء کے ’غداروں‘ کو وزیر بنانے پر خالدہ ضیا کو بہت کچھ سننا پڑ رہا ہے۔ عوامی لیگ کی حکمت عملی یہ ہوگی کہ کسی طرح چارجماعتی اتحاد میں غلط فہمی کو پروان چڑھایا جائے۔اگر عوامی لیگ اپنے ان مقاصدمیں ناکام رہی اور چار جماعتی اتحاد یک جہتی کے ساتھ خدمت انجام دینے میں کامیاب رہا‘ تو بنگلہ دیش ہی کے نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کے سیاسی مستقبل پر اس کے اثرات پڑیں گے۔ لیکن دوسری جانب خود بی این پی اپنی بھرپور وسیع اکثریت کے زعم میں اپنے اتحادیوں کی آرا کو نظرانداز کرنا چاہے تو بلاشبہ وہ ایسا کر سکتی ہے۔ یہی وہ پہلو ہے ‘ جس کو اُبھار کر عوامی لیگ اور سیکولر حلقے کامیابی کے امکانات کی دنیا دیکھتے ہیں۔ بہرحال اس وقت تک تو اس اتحاد کو بچانے کے لیے خالدہ ضیا کا ذہن بالکل واضح ہے۔ وہ عوامی لیگ جیسی نظریاتی اور گہرے اثرات رکھنے والی قوت کا توڑ کرنے کے لیے جماعت اسلامی کے تربیت یافتہ‘ پرعزم اور پرجوش کارکنوں کی معاونت کی اہمیت کو اشد ضروری سمجھتی ہیں کیونکہ بی این پی بہرحال ایسی ٹیم نہیں رکھتی‘ تاہم مستقبل کے پردے میں امکانات اور خدشات دونوں پائے جاتے ہیں۔
۳۰ برسوں پر پھیلے اس طویل عرصے نے پاکستان کو بنگلہ دیش بنا دیا‘ آئین تبدیل ہو گیا‘ اور معاشرے کی ہیئت میں تبدیلی واقع ہو گئی۔ اسی طرح مسائل کی نوعیت اور تقدیم و تاخیر کا مسئلہ بھی ہے۔ جس میں بی این پی کو ایک یہ مسئلہ بھی درپیش ہے کہ وہ عوامی لیگ کے منفی حربوں کا کیسے مقابلہ کرے اور کس طرح اچھی کارکردگی پیش کرکے اپنے رفقا کو کرپشن سے بچائے؟ دوسری طرف جماعت اسلامی کو یہ چیلنج درپیش ہے کہ وہ سیکولر لابی کے بالمقابل کیسے آئینی دستاویزات میں اسلامی شقوں کا اضافہ کرا سکے گی؟ اس کے علاوہ دوسرا راستہ یہ ہے کہ ان امور پر پورا زور لگانے کے بجائے کابینہ کی مجموعی کارکردگی کو بہتر بناکر اپنے دائرہ اثر کو بڑھایا جائے۔ اگر اس حکومت میں جماعت اسلامی یہ نقش قائم کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تودوسرے مقامات پر اسلامی تحریکوں کے لیے بھی اس تجربے سے استفادے کا راستہ کھل سکتا ہے۔