مضامین کی فہرست


مارچ ۲۰۲۳

قرآن کریم نے اسلام کی دعوت کو انتہائی مختصر اور عام فہم انداز میں ایک مختصر سی آیت کریمہ میں سمو دیا ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ انسان اپنے بنائے ہوئے تصوراتی اور مادی خداؤں اور اداروں کی غلامی سے آزاد ہو کر صرف اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی بندگی اور پناہ میں آجائے۔ فرمایا:

اَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَـنِبُوا الطَّاغُوْتَ ۝۰ۚ (النحل ۱۶:۳۶) اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو۔

آیتِ مبارکہ مثبت اور تعمیری پہلو پر متوجہ کرتے ہوئے یاد دہانی کراتی ہے کہ تمام بندگیوں سے نکل کر صرف اور صرف اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی اطاعت و فرماں برداری اختیار کی جائے۔  اقتدار مکمل طور پر صرف اور صرف اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے لیے ہے۔ انسانی عقل اور قیاس نے جو معبود تراش لیے ہیں، وہ سب’طاغوت‘ کی تعریف میں آتے ہیں۔ طاغوت انسانوں پر اپنے اختیارات اور قوت کا خوف طاری کر کے اللہ کے بندوں کو صراط مستقیم سے گمراہ کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا سب سے زیادہ کامیاب حربہ فوری فائدے اور فوری کامیابی کا تصور ہے۔

شیطان اور اس کی ذُرِّیت بندگانِ خدا میں جلد سے جلد حصولِ اقتدار کی خواہش بیدار کرکے انھیں ایسے راستے کی طرف لے جاتی ہے، جو آخر کار معصیت اور گمراہی میں مبتلا کر دیتی ہے۔ ’طاغوت‘ بڑی چالاکی سے یہ سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ تحریک اسلامی کو اپنے مقصد اور نصب العین کے حصول کی جدوجہد میں دو نسلیں گزر گئیں ۔ ۷۰،۸۰سال کی تگ ودوکے بعد بھی وہ عوام کی ایک محدود تعداد ہی کو اپنے ساتھ شامل کر سکی اور عوام یہ جاننے کے باوجود کہ اس تحریک کے کارکن ایمان دار، امانت دار اور بے غرض ہو کر صرف اللہ کے لیے کام کرتے ہیں، مگر انتخابات میں اُنھیں ووٹ نہیں دیتے۔ وہ ووٹ انھی افراد کو دیتے ہیں جن کے دامن کبھی صاف نہیں رہے، کیوں کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ افراد ان کے جائز و ناجائز روز مرہ امور میں ان کو فائدہ پہنچا سکیں گے ، لہٰذا ووٹ انھی کو دیا جائے۔ یہ صورتِ حال عموماً حق کے لیے کام کرنے والوں میں مایوسی اور ناامیدی کے ساتھ یہ احساس بھی پیدا کرتی ہے کہ کیوں نہ جن افراد کے کامیاب ہونے کا امکان ہے ، انھی کے ساتھ کوئی مفاہمت کر کے راستہ نکالا جائے۔

یہ طے کرنے کے لیے کہ مفاہمت کی گنجایش کہاں تک ہے؟ اسلامی فقہ میں ’سیاست شرعیہ‘ کا تصور پایا جاتا ہے ، جو مصلحت ِعامہ کی بنا پر چند مخصوص صورتوں میں کم تر برائی کو برداشت کرنے اور ملک میں افراتفری اور فساد پیدا ہونے کے خطرے سے بچنے کے پیش نظر وقتی طور پر ایسی حکمت عملی وضع کرنے کی اجازت دیتا ہے، جس میں اصولوں سے انحراف نہ ہو اور شریعت کے کسی مقصد کی مخالفت بھی نہ ہوتی ہو ۔

اس جدو جہد میں بعض اوقات یہ گمان بھی ذہن میں آتا ہے کہ کب تک اس صبح کا انتظار کیا جائے گا جب اللہ کی حاکمیت اس کی زمین پر اپنی مکمل شکل میں نافذ ہوسکے؟ یہ احساس عموماً مستقبل سے نااُمیدی اور مایوسی پیدا کرتا ہے، لیکن قرآن کریم نے اس وسوسے کا جو تجزیہ اور حل پیش کیا ہے، وہ قیامت تک تحریکات اسلامی کے لیے مشعل راہ ہے۔

قرآن کریم نے اس انسانی نفسیات اور تحریک اسلامی کو پیش آنے والے ایسے مراحل کو وضاحت سے بیان کر دیا ہے، تاکہ اقا مت دین کی جدو جہد کرنے والے افراد اور قیادت کو اپنی قلتِ تعداد پر مایوسی اور دل شکستگی نہ ہو ، بلکہ اپنی دعوت پر اعتماد میں مزید اضافہ ہو اور حصولِ منزل کے الٰہی وعدوں پر یقین میں کمی نہ آنے پائے ۔فرمایا:

فَمَآ اٰمَنَ لِمُوْسٰٓى اِلَّا ذُرِّيَّۃٌ مِّنْ قَوْمِہٖ عَلٰي خَوْفٍ مِّنْ فِرْعَوْنَ وَمَلَا۟ىِٕہِمْ اَنْ يَّفْتِنَھُمْ۝۰ۭ وَاِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِي الْاَرْضِ۝۰ۚ وَاِنَّہٗ لَمِنَ الْمُسْرِفِيْنَ۝۸۳ (یونس ۱۰:۸۳) (پھر دیکھ کہ) موسٰی کو اس کی قوم میں سے چند نوجوانوں کے سوا کسی نے نہ مانا،فرعون کے ڈر سے اور خود اپنی قوم کے سربر آوردہ لوگوں کے ڈر سے (جنھیں خوف تھا کہ) فرعون اُن کو عذاب میں مبتلا کرے گا۔ اور واقعہ یہ ہے کہ فرعون زمین میں غلبہ رکھتا تھا اور وہ ان لوگوں میں سے تھا جو کسی حد پر رُکتے نہیں ہیں۔

سورئہ یونس کی یہ آیت تحریک اسلامی کی موجودہ صورتِ حال میں ہمیں راہنمائی فراہم کررہی ہے۔ یہاں بات یہ کہی جا رہی ہے کہ وقت کی جابر اور ظالم قوت (وہ حاکمِ وقت ہو یا کوئی ادارہ ہو، جس کے بارے میں ہر فرد کو معلوم ہے کہ وہ جس فرد کو خطرہ سمجھے، اسے ختم کرنے ، دبانے اور خریدنے کی پوری کوشش کرتا ہے) اس لیے ایسی قوت کے خلاف آواز اٹھا نا یا میدانِ عمل میں نکل کر مخالفت کرنا خطرات کو دعوت دینا ہے۔

قرآن کریم اس بات پر شاہد ہے کہ اگر وہ چند افراد جو حق پر ایمان رکھتے ہوں استقامت، صبر اور توکل الی اللہ کے ساتھ صحیح حکمت عملی اختیار کریں تو قلت تعداد کے باوجود، آخر کار غالب وہی رہتے ہیں۔فرمایا:

يٰٓاَيُّھَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلَي الْقِتَالِ۝۰ۭ اِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ عِشْــرُوْنَ صٰبِرُوْنَ يَغْلِبُوْا مِائَـتَيْنِ۝۰ۚ وَاِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ مِّائَۃٌ يَّغْلِبُوْٓا اَلْفًا مِّنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاَنَّہُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَہُوْنَ۝۶۵ (الانفال۸:۶۵) اے نبیؐ! مومنوں کو جنگ پر اُبھارو۔ اگر تم میں سے بیس آدمی صابر ہوں تو وہ دوسو پر غالب آئیں گے اور اگر سو آدمی ایسے ہوں تو منکرینِ حق میں سے ہزار آدمیوں پر بھاری رہیں گے کیونکہ وہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ نہیں رکھتے۔

یہاں قرآن کریم نے چند الفاظ میں عروج و زوال کے اہم اصول کو بیان کر دیا ہے کہ اگر صرف ۲۰؍ افراد ایسے ہوں جو ایمان اور عمل میں یکساں ہوں اور ا ن پر جلد کامیابی کے نتائج کی نفسیات طاری نہ ہو، وہ صٰبِرُوْنَ ہوں ، ان میں مستقل مزاجی ہو ، وہ قلت تعداد کی بنا پر اپنے آپ کو کمزور نہ سمجھیں ، اپنے ربّ پر بھروسا رکھتے ہوں اور وقت کی بہترین حکمت ِ عملیوں کے استعمال سے آگاہ ہوں، یعنی ان میں استعداد (capacity)، قابلیت (ability ) اور صلاحیت (capability) پائی جاتی ہو، تو پھر مخالفین کی کثرت تعداد بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ ایسے چند نوجوان ہی تاریخ ساز اور زمانے کا رخ موڑنے کا سبب بنتے ہیں۔

قرآن حکیم کی مذکورہ بالا آیت کی تصویر خود دعوت اسلامی کے مکی اور مدنی دور میں نظر آتی ہے۔ اسلام کی دعوت کے اوّلین قبول کرنے والے مکہ کے شیوخ اور جہاں دیدہ سردارانِ قبائل نہیں تھے بلکہ علی ؓابن طالب ، جعفر ؓ طیار ، زبیر ؓ، طلحہ ؓ، سعد ؓبن ابی وقاص ، مصعب ؓ بن عمیر ، عبداللہؓ بن مسعود جیسے افراد تھے جن کی عمریں بیس سال سے کم تھیں ۔ عبدالرحمن ؓ بن عوف ، بلال ؓ، زید ؓ بن حارثہ ، عثمان ؓبن عفان، عمر ؓ فاروق وہ صحابہ تھے جو۳۰،۳۵  سال کے لگ بھگ تھے ۔ حضرت ابو بکر ؓ ۳۸سال کے لگ بھگ ، اور صرف عمار ؓ بن یاسر آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم عمر تھے، جب کہ صرف عبیدہ ؓبن حارث کی عمر نبی کریم ؐسے زیادہ تھی ۔

 گویا استقامت ، صبر اور توکّل کے ساتھ صلاحیت اور اہلیت میں سب سے بڑھ کر ہونا، وہ شرط ہے جو قلت تعداد کے باجود باطل قوتوں کی کثرت پر قرآنی اصول کی روشنی میں ہر دور میں غالب آئے گی ۔ تحریکات اسلامی کے لیے اصل فکر اور کرنے کا کام دعوت اور معاشرتی اصلاح کے ساتھ انسانوں کی کردار سازی ہے، نہ کہ محض عددی قوت میں اضافے کی فکر کو خود پر طاری کرنا۔ توجہ کا مرکز یہ ہونا چاہیے کہ جو تعداد میسر ہے، کیا ان میں سے ہر ایک فرد اپنے خلوص ، ایثار و قربانی اور ادایگی فرائض میں مثالی کردار رکھتا ہے؟ اور ایسا نہیں تو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ تحریک کی قوت کردار اور اخلاق کی بلندی سے ہے۔ اللہ تعالیٰ صرف اہل اور امانت کا حق ادا کرنے والوں کو ذمہ داری بطور ایک عطیہ اور امانت کے دیتا ہے۔ باصلاحیت اور اعلیٰ کارکردگی والے افراد کی تیاری تحریک کی ترجیح ہونی چاہیے ، محض تعداد میں اضافہ یا کثرت تحریک کی ترجیح نہیں ہونی چاہیے۔

قرآنی اصطلاح صٰبِرُوْنَ  سے مراد وہ لوگ نہیں جو مشکلات و آزمایش کو محض تحمل سے برداشت کر لیں بلکہ وہ لوگ مراد ہیں جو ڈٹ کر سینہ سپر ہو کر پوری اُمید (optimism) کے ساتھ اپنی جدوجہد کو جاری رکھیں ۔ مایوسی ، نااُمیدی اور مستقبل کو تاریک دیکھنا صبر و استقامت کے منافی ہے۔ حالات کا نامساعد ہونا حق کے علَم برداروں کو کبھی مایوس نہیں کرتا۔ وہ پُرعزم طور پر کسی مفاہمت کے بغیر استقامت اور صحیح حکمت عملی اختیار کرتے ہیں اوراکثر قلیل المیعاد اہداف کے پیش نظر طویل المیعاد ہدف سے غافل نہیں ہوتے۔ اگر ایک ایسی صورت حال ہو جس میں کسی ایسی قوت کے ساتھ شمولیت کرنے سے جو ماضی میں تلخ تجربات سے بھری پڑی ہے ، ہمیں فوری برتری نظر آتی تو جادۂ حق کو نہیں چھوڑتے اور طویل المیعاد ہدف کے حصول کے لیے فوری فوائد کو قربان کر دیتے ہیں اور دعوت کے نئے ذرائع کو استعمال میں لاتے ہیں ۔

اقامت دین کے ذرائع

جس صورت حال سے ملک عزیز گزر رہا ہے، اس میں اقامت دین کی جدو جہد کے راستوں میں کسی ایک تک اپنے آپ کو محدود کر لینا دینی حکمت سے مطابقت نہیں رکھتا۔ بانیٔ تحریک اسلامی نے ایسی ہی صورت حال میں جو بات ارشاد فرمائی تھی، اسے ذہن میں تازہ کرنے کی ضرورت ہے کہ دعوتی مراحل میں ایسا بھی ہوتا ہےکہ تحریک کے سامنے ایک چٹان حائل ہو جائے اور اس کے سفر کو روکنے کی کوشش کرے، لیکن تحریک کا کام حیات بخش دریا کی طرح ہونا چاہیے جو اپنے سامنے چٹان کو حائل دیکھ کر رُک نہ جائے بلکہ چٹان کے دائیں اور بائیں سے راستہ نکال کر منزل کی طرف گامزن ہو جائے ، اور چٹانیں منہ دیکھتی رہ جائیں۔

 یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اللہ کی بندگی کی دعوت فرائض و واجبات کی پابندی تک محدود نہیں ہے، بلکہ اللہ کے بندوں کی مشکلات کو دور کرنا اور حقوق العباد کا ادا کرنا بھی یکساں اہمیت کا حامل ہے۔ قرآن کریم ان افراد کو جو یتیم اور بے سہارا افراد کی خبر گیری سے لاپروا ہیں اور ایسے افراد کو بھی جو فرائض دین مثلاً نماز میں سستی کرتے ہیں اور دیگر کاموں کو بعض اوقات فوقیت دے دیتے ہیں، سرزنش کرتا ہے:

 اَرَءَيْتَ الَّذِيْ يُكَذِّبُ بِالدِّيْنِ۝۱ۭ فَذٰلِكَ الَّذِيْ يَدُعُّ الْيَتِيْمَ۝۲ۙ وَلَا يَحُضُّ عَلٰي طَعَامِ الْمِسْكِيْنِ۝۳ۭ فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّيْنَ۝۴ۙ الَّذِيْنَ ہُمْ عَنْ صَلَاتِہِمْ سَاہُوْنَ۝۵ۙ الَّذِيْنَ ہُمْ يُرَاۗءُوْنَ۝۶ۙ وَيَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَ۝۷ۧ (الماعون۱۰۷: ۱-۷) تم نے دیکھا اُس شخص کو جو آخرت کی جزا و سزا کو جھٹلاتا ہے ؟ وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے ، اور مسکین کو کھانا دینے پر نہیں اُکساتا۔ پھر تباہی ہے اُن نماز پڑھنے والوں کے لیے جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں،جو ریاکاری کرتے ہیں، اور معمولی ضرورت کی چیزیں (لوگوں کو) دینے سے گریز کرتے ہیں۔

آج معاشرے میں غربت ، بھوک ، بے روزگاری اور عدم تحفظ اپنی انتہا پر ہے ۔ آفاتِ سماوی کے نتیجے میں اللہ کے بے شمار بندے بے گھر ، کھلے آسمان کے نیچے پڑے کسی غیبی مدد کے منتظر ہیں۔ بعض اوقات فقر و فاقہ ایک فرد کو شرک کے قریب لے جاتا ہے۔ یہی وہ موقع ہے جس میں تحریک اسلامی کو ان مستحقین کی خدمت اور صرف اللہ کی رضا کے لیے ان کی امداد کے لیے تمام ممکنہ کوششوں کی ضرورت ہے ۔ اللہ کے بندوں کی امداد اور انھیں مصائب سے نکالنا تحریک اسلامی کی جدوجہد کی ایک اہم ترجیح ہونی چاہیے۔

ہم جس دور سے گزر رہے ہیں یہ نفسا نفسی کا دور ہے۔ اس میں ہر فرد صرف اپنے مفاد کو اور اپنی ذات کو دیکھتا ہے ۔ یہ صورتِ حال صرف حکومت کے اہل کاروں سے نہیں بلکہ ہرشہری سے مطالبہ کرتی ہے کہ بے غرضی کے ساتھ خدمت خلق کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جائے اور اللہ تعالیٰ سے خلوص دل کے ساتھ استدعا کی جائے کہ وہ نہ صرف ہماری قربانیوں کو قبول کرے بلکہ لوگوں کے دلوں میں حق کی قبولیت کی صلاحیت پیدا کرے۔ بلاشبہہ اسی کی گرفت میں انسانوں کے دل و دماغ ہیں اور جب تک وہ نہ چاہے کوئی دعوت کامیاب نہیں ہو سکتی ۔

 تحریک کے کرنے کے کاموں میں بنیادی چیز معاشرے کے افراد میں دعوتِ اسلامی کے بنیادی تصورات کے شعور کے ساتھ آج کے مسائل کا فہم اور انسانی مسائل کے حل کے لیے ایسے افراد کی تلاش ہے جو صاحب امانت ہوں، سچے ہوں ، وعدوں کو پورا کرنے والے ہوں ، جن کا کردار بے داغ ہو، جو خود کسی منصب کے اُمیدوار نہ ہوں اور اگر ا ن پر اعتماد کر کے انھیں ذمہ داری دی جائے تو وہ امانت کا حق ادا کرنے میں سب سے آگے ہوں۔ ان کا ہر لمحہ اللہ کی بندگی میں صرف ہو اور وہ دکھاوے اور دنیا وی فائدوں کے لیے کسی ضرورت مند کی امداد نہ کرتے ہوں ۔وہ لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ فکری اصلاح اور نظریاتی تربیت کو بنیادی اہمیت دیتے ہوں۔ یہی وہ صٰبِرُوْنَہیں جن کی یقینی کامیابی کا وعدہ ربِّ کریم نے فرمایا ہے اور جو سب سے زیادہ اپنے وعدوں کو پورا کرنے والا ہے ، وما علینا الاالبلاغ

عَنْ  اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ  قَالَ  قَالَ  رَسُوْلُ اللہِ  صَلَّی اللہُ  عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ صَامَ  رَمَضَانَ  اِیْمَانًا  وَّ اِحْتِسَابًا   غُفِرَ  لَہٗ  مَا تَقَدَّمَ  مِنْ ذَنْبِہٖ  وَمَنْ  قَامَ  رَمَضَانَ اِیْمَانًا  وَّاِحْتِسَابًا  غُفرَ  لَہٗ  مَا  تَقَدَّمَ  مِنْ  ذَنْبِہٖ(متفق علیہ) حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے ایمان اور احتساب کے ساتھ، تو اس کے وہ سب گناہ معاف کر دیئے جائیں گے جو اس سے پہلے سرزد ہوئے ہوں گے۔ اور جس شخص نے رمضان میں قیام کیا (یعنی راتوں کو کھڑے ہوکر عبادت کی) ایمان اور احتساب کے ساتھ، تو معاف کر دیئے جائیں گے اس کے وہ قصور جو اس نے پہلے کیے ہوں گے۔ اور جس شخص نے لیلۃ القدر میں قیام کیا، ایمان اور احتساب کے ساتھ تو معاف کر دیئے جائیں گے اس کے وہ سب گناہ جو اس نے پہلے کیے ہوں گے۔

’احتساب‘ اس چیز کا نام ہے کہ آدمی اپنے تمام نیک اعمال پر صرف اللہ تعالیٰ ہی کے اجر کا اُمیدوار ہو اور خالصتاً اسی کی رضاجوئی کے لیے کام کر ے۔

اس حدیث میں گناہوں سے معافی کی جو خوش خبری سنائی گئی ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی کرنے والے اور آخرت کی بازپُرس سے بے خوف ہیں ان کو اس بات کا لائسنس دیا جارہا ہے کہ میاں رمضان کے روزے رکھ لو، تراویح پڑھ لو اور لیلۃ القدر میں کھڑے ہوکر عبادت کرلو، تو پچھلا حساب صاف اور آگے پھر گیارہ مہینے تمھیں جو کچھ کرنا ہے کرتے رہنا۔ رشوتیں کھائو، لوگوں کے حق مارو، جو ظلم و ستم چاہو کرو، رمضان میں آگے پھر عبادت کے لیے کھڑے ہو جانا، روزے رکھ لینا اور نمازیں پڑھ لینا اور پھر پہلے کا کیا ہوا سب معاف ہوجائے گا۔

اس طرح کی احادیث کا مطالعہ کرتے ہوئے اس بات کو کبھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ ان کے مخاطب کون لوگ ہیں؟ ان کے مخاطب وہ صلحاء و ابرار ہیں جو اپنی زندگیاں ہروقت اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے مطابق بسر کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اُن سے اگر کوئی لغزش یا گناہ سرزد ہوجاتا تھا، تو ان کی نوعیت ایسی ہرگز نہیں ہوتی تھی کہ جیسے ایک آدمی پوری ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ گناہ کا ارتکاب کرے اور پھر اس پر ڈٹا رہے، بلکہ وہاں صورت اس سے یکسر مختلف تھی۔ ان راست باز لوگوں سے اگر کوئی قصور سرزد ہو بھی جاتا تھا تو وہ بشری کمزوری کی وجہ سے ہوتا تھا اور وہ ہروقت اس پر توبہ کے لیے مستعد رہتے تھے۔ بشری کمزوری سے اگر کسی سے کوئی قصور سرزد ہوجائے اور وہ اس کے بعد نیکی اختیار کرے اور اللہ تعالیٰ کے تقویٰ کو اپنا شعار بنائے رکھے تو وہ بجائے خود ایک توبہ ہے۔

’توبہ‘ کی ایک صورت تو یہ ہے کہ ایک آدمی سے کوئی گناہ سرزد ہوا اور اس نے اس سے توبہ کرلی تو یہ بات بھی گناہ کی معافی کا ایک ذریعہ ہے۔دوسری صورت یہ ہے کہ ایک آدمی سے قصور سرزد ہوا اور پھر وہ دوسرے کاموں میں ایسا مشغول ہوا کہ توبہ کرنا بھول گیا، تو اس کے بعد اس نے جو نماز پڑھی وہ نماز اس کے لیے پہلے کی لغزش کو اس کے حساب سے صاف کردے گی۔ اسی طرح اگر اس نے روزہ رکھا تو وہ بھی اس کے گناہ کو صاف کردے گا۔دراصل ’توبہ‘ اسی چیز کا نام تو ہے کہ ایک شخص ایک وقت میں ایک قصور کا مرتکب ہوا تھا، لیکن اس کے بعد وہ پھر اپنے ربّ کی طرف پلٹ آیا۔جیسے ایک نوکر اگراپنی کسی غلطی کی وجہ سے اپنے مالک کی اطاعت سے نکل جائے، لیکن پھر معافی مانگ لے اور خدمت پر حاضر ہوجائے، تو اس سے ایک دفعہ قصور سرزد ہوجانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مالک اُسے ہمیشہ کے لیے اپنی نوکری سے نکال دے گا، بلکہ جس وقت وہ آکر معافی مانگتا ہے اور پہلے کی طرح خدمت کرنے لگتا ہے، تو مالک اس سے درگزر کرے گا اور اس کی گذشتہ وفاداری کی وجہ سے اس پر پہلے کی طرح مہربان ہوجائے گا۔

ایسا ہی معاملہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کے ساتھ ہے۔ بندہ اگر بنیادی طور پر اللہ تعالیٰ کا وفادار ہے اور جان بوجھ کر اس کے مقابلے میں استکبار اور سرکشی کرنے والا نہیں ہے، تو اگر اس سے کسی وقت کوئی قصور سرزد ہوجاتا ہے اور اس قصور کے بعد وہ پھر خدا کے دربار میں نماز کے لیے حاضر ہوجاتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اُس کو اپنی مغفرت سے محروم نہیں رکھے گا۔ کیونکہ اس کا طرزِعمل یہ بتاتا ہے کہ وہ ٹھوکرتو کھا گیا تھا ، لیکن اپنے ربّ سے بھاگا نہیں تھا۔ اس کا باغی نہیں ہوگیا تھا۔ اسی بنا پر فرمایا گیا کہ اگر ایک شخص نے ایمان اور احتساب کے ساتھ روزے رکھے تو اس کے پچھلے گناہ معاف ہوگئے۔ رمضان میں راتوں کو کھڑے ہوکر عبادت کی تو وہ بھی پچھلے قصوروں کی معافی کا ذریعہ بن گئی۔ اسی طرح اگر وہ لیلۃ القدر میں عبادت کے لیے کھڑا ہوا تو اُس کا یہ عمل بھی اس کے پچھلے قصوروں کی معافی کا سبب بن گیا۔

روزے کی جزا

عَنْ  اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ  قَالَ  قَالَ  رَسُوْلُ اللہِ  صَلَّی اللہُ  عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کُلُّ عَمَلِ ابْنِ اٰدَمَ  یُضَاعَفُ  الْحَسَنَۃُ بِعَشْـرِ اَمْثَالِھَا  اِلٰی  سَبْعِ  مِائَۃِ  ضِعْفٍ قَالَ اللہُ تَعَالٰی  اِلَّا  الصَّوْمُ  فَاِنَّہٗ  لِیْ   وَاَنَا  اَجْزِیْ  بِہِ  ، یَدَعُ  شَھْوَتَہٗ وَطَعَامَہٗ  مِنْ  اَجْلِیْ  ،  لِلصَّائِمِ  فَرْحَتَانِ  فَرْحَۃٌ  عِنْدَ  فِطْرِہٖ  وَفَرْحَۃٌ  عِنْدَ   لِقَاءِ  رَبِّہٖ  ، وَلَخُلُوْفُ  فَمِ  الصَّائِمِ  اَطْیَبُ  عِنْدَ اللہِ  مِنْ رِیْحِ  الْمِسْکِ  وَالصِّیَامُ  جُنَّۃٌ  وَّ اِذَا کَانَ  یَوْمُ  صَوْمِ  اَحَدِکُمْ  فَلَا  یَرْفُثْ وَلَا یَصْخَبْ  فَاِنْ  سَآبَّہٗ   اَحَدٌ  اَوْ قَاتَلَہٗ  فَلْیَقُلْ   اِ نِّیْ امْرءٌ صَائِمٌ  (متفق علیہ) حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابن آدم کا ہرعمل اس کے لیے کئی گنا بڑھایا جاتا ہے یہاں تک کہ ایک نیکی دس گنی تک اور دس گنی سے سات سو گنی تک بڑھائی جاتی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزے کا معاملہ اس سے جدا ہے، کیونکہ وہ میرے لیے ہے اور مَیں ہی اس کی جزا دوں گا۔ روزہ دار اپنی شہواتِ نفس اور اپنے کھانے پینے کو میرے لیے چھوڑتا ہے۔ روزہ دار کے لیے دوفرحتیں ہیں: ایک فرحت افطار کے وقت کی اور دوسری فرحت اپنے ربّ سے ملاقات کے وقت کی___ اور روزے ڈھال ہیں، پس جب کوئی شخص تم میں سے روزے سے ہو تو اُسے چاہیے کہ نہ اُس میں بدکلامی کرے اور نہ دنگا فساد کرے۔ اگر کوئی شخص اس سے گالی گلوچ کرے یا لڑے تو وہ اس سے کہہ دے کہ بھائی مَیں روزے سے ہوں۔

یہ جو فرمایا کہ دوسری نیکیاں تو دس گنی سے لے کر سات سو گنی تک بڑھائی جاتی ہیں لیکن روزے کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ وہ میرے لیے ہے اور میں اُس کی جزا دوں گا، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دوسری نیکیاں اللہ کے لیے نہیں ہیں اور اللہ ان کی جزا نہیں دے گا بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق روزہ اس کے لیے خاص ہے اور وہ اس کی جتنی چاہے گا، جزا دے گا۔ جب یہ فرمایا کہ دوسری نیکیاں سات سو گنی تک بڑھائی جاتی ہیں اور اس کے مقابلے میں استثنیٰ کے ساتھ روزے کے متعلق فرمایا کہ مَیں ہی اس کی جزا دوں گا۔ تو اس سے مراد یہ ہے کہ روزے کے اجر کی کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ اور اللہ تعالیٰ جس قدر چاہے گا روزہ دار کو اس کا اجر دے گا۔

روزے کی غیرمعمولی فضیلت

بات دراصل یہ ہے کہ دوسری تمام نیکیاں آدمی کسی نہ کسی ظاہری فعل سے انجام دیتا ہے، مثلاً نماز ایک ظاہری فعل ہے۔ نماز پڑھنے والا نماز میں اُٹھتا اور بیٹھتا ہے، رکوع اور سجدہ کرتا ہے۔ اِس طرح حج اور زکوٰۃ کا معاملہ ہے۔ لیکن اس کے برعکس روزہ کسی ظاہری فعل سے ادا نہیں ہوتا، بلکہ یہ ایک ایسا مخفی فعل ہے، جو فقط آدمی اور اس کے خدا کے درمیان ہوتا ہے۔

اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ روزہ دراصل اللہ کے حکم کی تعمیل کی ایک منفی شکل ہے، مثلاً نہ کھانا نہ پینا اور اسی طرح جن دوسری چیزوں سے منع کیا گیا ہے ان سے باز رہنا۔اس منفی فعل کو یا تو آدمی خود جان سکتا ہے یا اُس کا ربّ، کسی تیسرے کو معلوم نہیں ہوسکتا ہے کہ یہ منفی فعل اس نے کیا ہے یا نہیں۔ مثلاً اگر ایک آدمی چھپ کر کھاپی لے تو کسی کو اس کا علم نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ وہ روزہ نہ رکھتے ہوئے بھی کہہ سکتا ہے کہ میں روزے سے ہوں اور کوئی شخص یقین کے ساتھ یہ نہیں جان سکتا کہ آیا وہ روزے سے ہے یا نہیں۔ اگر وہ روزے سے ہے تو اس بات کو صرف وہ جانتا ہے اور اگر روزے سے نہیں ہے تو اس کو بھی اس کے سوا کوئی نہیں جان سکتا۔

اسی وجہ سے روزے کا معاملہ صرف خدا اور اس کے بندے کے درمیان ہوتا ہے اور اسی بناپر اس میں ریا کا امکان نہیں ہوتا۔ ایک آدمی دُنیا کو دکھانے کے لیے بے شک یہ کہتا پھرے کہ میں روزے سے ہوں لیکن حقیقت ِ صوم کے اندر اس ریاکاری کی کوئی گنجایش نہیں کیونکہ وہ خدا کو دھوکا نہیں دے سکتا۔ اسی لیے فرمایا کہ روزہ خاص میرے ہی لیے ہے، وَاَنَا اَجْزِیْ بِہٖ، ’’مَیں ہی ان کی جزا دوں گا‘‘۔

مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ روزے کی بے حد و حساب جزا دے گا۔ جتنے گہرے اخلاص کے ساتھ آپ روزہ رکھیں گے، اللہ تعالیٰ کا جتنا تقویٰ اختیار کریں گے، روزے سے جتنے کچھ روحانی و دینی فوائد حاصل کریں گے اور پھر بعد کے دنوں میں بھی ان فوائدکو برقرار رکھنے کی کوشش کریں گے،  اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی جزا بڑھتی چلی جائے گی۔روزے کی اس غیرمعمولی فضیلت اور مقبولیت کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ روزہ دار اپنی شہواتِ نفس اور کھانے پینے کو صرف اللہ ہی کی خاطر چھوڑتا ہے، اس لیے وہ بھی اسے آخرت میں بے حدو حساب اجر سے نوازے گا۔

رمضان ایک نادرموقع ہے جو سال میںصرف ایک دفعہ میسر آتا ہے۔ اب ہمارے اور اس مبارک مہینے کے درمیان چند ہی دن باقی ہیں۔ یہ مہینہ شروع ہوتے ہی آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور اللہ کے نیک بندوں پرمزید برکتوں کا نزول شروع ہوجاتا ہے۔ اس ماہ مبارک کے شب وروز میں اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں پرخصوصی نظرِ کرم فرماتا ہے، اُن کی دعائیں قبول فرماتا ہے ، اطاعت گزاروںکے ثواب کو دُگنا کرتا ہے، اور گنہگا روںاور خطاکاروں سے درگزر فرماتا ہے۔

نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : جب رمضان آنے لگتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیںاور جہنم کے دروازے بندکردیے جاتے ہیں، سرکش شیطانوں کو باندھ دیا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک منادی یہ آواز لگاتا ہے : اے بدی کے طلب گار! رک جااور اے خیر کے طلب گار! آگے بڑھ۔ (بخاری)

ماہ صیام ایسے حالات میں طلوع ہورہا ہے کہ جب مسلمان گوناگوں مسائل کا شکار ہیں  جن کا مقابلہ کرنا اللہ کی اُس تائید ونصرت کے بغیر ممکن نہیں ہے، جس کااس نے اپنے مومن بندوں سے وعدہ فرمایاہے :

یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے،نیکی کا حکم دیں گے اوربرائی سے منع کریں گے ۔ اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ (الحج ۲۲:۴۱)

آج مسلمانوں کے سامنے وادیِ نیل کا مسئلہ ہے، فلسطین وجزائر عرب کا مسئلہ ہے،  پاکستان ، ریاست حیدرآباد اور ہندستان میں مسلم اقلیت کے مسائل ہیں ۔ان کے علاوہ یورپ اور افریقہ میں مسلمانوں کو درپیش لا تعداد گمبھیر مسائل ہیں، جن سے نکلنا تائیدِ خداوندی کے بغیرممکن نہیں، اور اللہ کی نصرت ،معصیت سے نہیں بلکہ اطاعت سے حاصل کی جاسکتی ہے۔

لہٰذا، اس عظیم موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے کمر بستہ ہوجائیے۔ دلوں کو آلایشوں سے صاف کیجیے، اپنے نفس کو آمادہ کیجیے، دل وجان سے رمضان کااستقبال کیجیے، کثرت سے توبہ واستغفار کا اہتمام کیجیے اورہمیشہ اللہ کے ساتھ جڑے رہیے، تاکہ اللہ آپ کے ساتھ رہے۔جب اللہ آپ کے ساتھ ہوگا تو وہ آپ کی نصرت فرمائے گااور اللہ کی مدد شامل حال ہو توکوئی آپ پر غلبہ نہیں پاسکتا۔(۲ جولائی ۱۹۴۸ء)

عبادت کی حکمت

اسلام میں جو اعمال اور عبادات فرض یا واجب کی گئی ہیں، ان میں ایک حکمت پوشیدہ ہے۔ دراصل اللہ تعالیٰ نے بندوں پرخصوصی مہربانی کرتے ہوئے ان کے لیے وہی اصول وضوابط مقرر فرمائے ہیں، جو بندوں کی کامیابی اورسعادت کا موجب ہیں۔

اللہ تعالیٰ کے دربار میں مقبول عبادت کا سب سے اہم اور بنیادی قاعدہ ،خلوص نیت اور حضورِ قلبی ہے۔ اگر عبادت کابنیادی محرک رضائے الٰہی نہ ہو تو نہ اس عبادت کی کوئی حیثیت ہے اور نہ ثواب، بلکہ حدیث نبویؐ کے مطابق: کتنے ہی روزہ دار ہیں جنھیں ان کے روزے سے سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ نہیں ملتا۔

دوسرا اصول یہ ہے کہ اسلام عبادت گزاروں کو مشقت میں نہیں ڈالتابلکہ عبادت میں آسان شرائط کے ساتھ رخصت بھی فراہم کرتا ہے۔ چنانچہ اگر کوئی بیمار ہے تو اسے روزہ نہ رکھنے کی آزادی ہے کہ تندرستی کے بعد رکھے، یا اگر تندرستی کی امید نہیں ہے تو فدیہ ادا کرے۔ یہ بھی یاد رہے کہ بلا عذر عبادات سے محرومی ابدی محرومی ہے۔

تیسرا اہم پہلو یہ ہے کہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی پر ان تمام عبادات کے گہرے اثرات مرتب ہونے چاہییں۔ یہ فرائض محض عبادت برائے عبادت نہیں ،بلکہ اُخروی فلاح کے ساتھ ساتھ دنیاوی زندگی پر ان کے اثرات وفوائد کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے۔اسلام نے کوئی ایسا عمل فرض نہیں کیا ،جس کے نتائج انسان کی عملی زندگی میں ظاہرنہ ہوں۔ شریعت نے اگر کسی چیز کا حکم دیا ہے تو وہ سراسر خیر ہی ہوتا ہے اور بندوں کی زندگی پراس کا براہ راست مثبت اثر ہوتاہے، اور اگر کسی عمل سے منع کیا ہے تو اس لیے کہ وہ انسانی زندگی کے لیے ضرر رساں ہوتاہے۔ ارشاد ربانی ہے:

(پس آج یہ رحمت اُن لوگوں کا حصہ ہے) جو اُس پیغمبر، نبی اُمی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی پیروی اختیار کریں، جس کا ذکر انھیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے۔ وہ انھیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، اُن کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے، اور اُن پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جو اُن پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔(اعراف ۷: ۱۵۷)

میں مسلم حکومتوں سے گزارش کروں گا کہ وہ دیگر ملکی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوںکی طرح رمضان کے مہینے میں روزہ نہ رکھنے والوں کے لیے بھی کڑی سزا مقرر کریں تاکہ کسی کو اس ماہِ مقدس کی حرمت پامال کرنے کی جرأت نہ ہو۔اس ضمن میں چند سرکاری محکموں سے اپنے ذیلی اداروں کورمضان کے احترام پر مشتمل ایسی رسمی ہدایت جاری کردینا کافی نہیں ہے جس کی نہ پیروی کی جاتی ہے اور نہ مخالفت کرنے پر کوئی سزا ہی دی جاتی ہے۔حکومت اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے اس حوالے سے ٹھوس اقدامات اٹھائے ۔ (۲۶ جولائی ۱۹۴۶ء)

نیکیوں کا موسمِ  بہار

اسلام میں عبادت کی حیثیت ٹیکس یاجرمانے کی نہیں کہ جسے ادا کرکے کوئی بوجھ اتارنا مقصود ہو،بلکہ اسلامی عبادات رب اور بندے کے درمیان ایک مقدس روحانی تعلق کی ایک علامت  ہیں۔ اس سے ان کے دلوں میں ایک سرمدی نور پیدا ہوتا ہے،جو ان کے گناہوں، وسوسوں اور اندیشوںکے خاتمے کا سبب بنتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ انسان کی تکریم وعزت ہے کہ خاکی ہونے کے باوجودوہ ان عبادات کے ذریعے رب ذوالجلال کے ساتھ مناجات کرسکتا ہے۔

رمضان کا مہینہ اطاعت و عبادات کا موسم بہار ہے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ بندوںکے شب وروز کو مزین فرماتاہے اور یہی اس مہینے کے حسن وجمال کا سبب ہے۔ اطاعت گزاری تو ہروقت ایک مطلوب صفت ہے لیکن رمضان میں اس کی قدرو قیمت اور حسن میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس مہینے کی سب سے اہم عبادت روزہ ہے۔ روحانی اعتبار سے یہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضااور اس کا قرب حاصل کرنے کو ،اپنے نفس، فکر، ارادہ اور اپنی سوچ وشعور کا محور بنانے کو تقویٰ کہتے ہیں اور روزہ اس کا بہت بڑا محرک ہے۔

قرآن سے خصوصی تعلق

اس مہینے میں قرآن کے ساتھ خصوصی تعلق جوڑنا چاہیے اور کثرت سے کلام پاک کی تلاوت کرنی چاہیے کیونکہ یہ قرآن کا مہینہ ہے ۔ جبریل امین ؑ خصوصی طور پر رمضان میں آکر  حضور پاک ؐسے قرآن سنتے تھے۔ زندگی کے آخری برس آپؐ نے دو دفعہ جبریل ؑ کو قرآن سنایا۔ یہ وہی قرآن ہے جوصحابۂ کرامؓ اور ہمارے اسلاف کے پاس موجود تھا۔ ہم بھی اسے اسی طرح پڑھتے اور سنتے ہیں جس طرح وہ سنتے تھے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ قرآن نے اس طرح ہماری زندگی کو نہیں بدلا جس طرح صحابۂ کرامؓ کی زندگی کو بدلا تھا؟ اس سے ہمارے اخلاق ومعاملات میں وہ تبدیلی کیوں نہیں آتی جو ان کی زندگی میں آئی تھی؟

یہ اس لیے کہ انھوں نے اس کتاب کومضبوط ایمان کے ساتھ قبول کیا، تدبر کے ساتھ اس کو پڑھا،اس کے احکام کو نافذ کیااور اپنے آپ کومکمل طور پر اس کے سپرد کردیا۔ آپ اور ہم بھی ان کی طرح بن سکتے ہیں، اگر اس کتاب پر اُن کی طرح ایمان لے آئیں۔ اُن کی طرح اس کے مطابق چلیں، اس کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام مانیں، اس کی آیات میں غور وفکر کریں۔ اس کے احکام کونافذ کردیںاور اس کے مطابق اپنی زندگی ڈھال لیں۔تو کیا ہم اس کے لیے تیار ہیں؟

صدقہ اور کثرت سے استغفار

کثرت سے صدقہ اور غریبوں اور مساکین کی مدد کرنا بھی اس مہینے کے امتیازی اعمال میں سے ہے۔ نبی پاکؐ جود وسخاکے پیکر تھے لیکن اس مہینے میں آپؐ کی سخاوت تیز ہوا کی مانند ہوجاتی تھی۔

اسی طرح دعا اور کثرت سے استغفار بھی اس ماہ کی خصوصی عبادات میں شامل ہے۔     یہ دعائوں کی قبولیت کا مہینہ ہے۔ اللہ تعالیٰ مانگنے والوں کے لیے دروازے کھول دیتا ہے، اور  توبہ کرنے والوں کی توبہ قبول فرماتا ہے۔ روزے داروں کی دعا رد نہیں کی جاتی۔ لہٰذا میرے مسلمان بھائیو! کہیں اس مہینے کی مبارک راتیں اللہ کی رحمتیں سمیٹے اور اُس کی رضا حاصل کیے بغیر نہ گزرجائیں۔

آج جب ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے ،اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک کو روح کی تسکین کا سامان بنایا۔ اس میںدن کو روزہ رکھ کر تمام دنیاوی لذتوں اور لغوکاموں اور باتوں سے اجتناب کیا جاتا ہے اوررات کو اٹھ کر اللہ کے حضور طویل قیام اور تلاوت قرآن سے اپنے دلوں کو منور کیا جاتا ہے اور روح کو تسکین پہنچائی جاتی ہے۔

میرے عزیز بھائیو! اس موقعے سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے پہلے ہی دن سے مضبوط ارادے کے ساتھ اس مدرسے میں داخل ہوجایئے۔ ہر وقت اپنی توبہ کی تجدید کرتے رہیے ۔ غور وفکر کے ساتھ قرآن پاک کی تلاوت کیجیے۔ اپنے نفس کو روزے کے فوائد سے روشناس کیجیے۔جتنا ممکن ہو قیام اللیل کا اہتمام کیجیے۔زیادہ سے زیادہ ذکر و فکر میں وقت گزاریئے۔اپنی روح کو مادیت کے فتنے سے بچائیے اور کوشش کیجیے کہ اس ماہ مبارک سے متقی بن کر نکلیں۔ (۱۷ نومبر ۱۹۳۶ء۔امام حسن البنا کے مختلف مضامین کا مجموعہ خواطر رمضانیہ سے انتخاب۔ ترجمہ: سمیع الحق شیرپاؤ)

_______________

o     امام حسن البنا کے مختلف مضامین کا مجموعہ خواطر رمضانیہ سے انتخاب۔ ترجمہ: سمیع الحق شیرپاؤ

ماہِ مبارک کی آمد کا احساس کتنا خوب صورت ہے۔ اس ماہ کا آغاز ملّت اسلامیہ کے لیے نیکی اور خیروبرکت کا آغاز ہے۔ سلف صالحین اس مہینے کے آنے پر خوشیاں مناتے تھے۔ وہ خود کو اس کے استقبال اور اس کی برکات سے بھرپور انداز میں استفادے کے لیے تیار کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں: ’’ہم ماہ (رمضان) کو جو تمام خیر کا منبع ہے، خوش آمدید کہتے ہیں۔ اس کے دن میں روزہ رکھتے ہیں اور اس کی رات کو قیام کرتے ہیں۔ اس مہینے میں رات دن اللہ کی راہ میں انفاق کرتے ہیں‘‘۔ معلّٰی بن فضل بتاتے ہیں: ’’سلف چھے مہینے تک اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کیا کرتے تھے کہ وہ رمضان کا مہینہ پالیں، اور اگلے چھے ماہ وہ یہ دعا کیا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرما لے‘‘۔  اس سے اندازہ لگایئے یہ ماہ کتنی بڑی غنیمت ہے۔

دوسری طرف ہمارے زمانے میں لوگ رمضان کے قیمتی لمحات کو لغویات کی نذر کر دیتے ہیں۔ بعض کھانے پینے میں، بعض نیند اور سونے میں اور بعض ٹیلی ویژن پر مختلف پروگراموں سے دل بہلا کر اس ماہ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ درحقیقت یہ لوگ اس ماہ کے فضائل کی حقیقت سے آگاہ نہیں۔

ایک وہ بندۂ مومن ہے جو عملِ صالح کے لیے جدوجہد کرتا ہے، آگے بڑھنے کا متمنی ہوتا ہے۔ وہ رمضان کا استقبال نیکیوں میں آگے بڑھنے اور منکرات سے بچنے سے کرتا ہے۔ وہ غنیمت کے ان لمحات کو خیروبھلائی سمیٹنے اور رب العالمین کا قرب حاصل کرنے کے لیے بھرپور انداز میں استعمال کرتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا و خوش نودی چاہتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ دردناک عذاب سے بھی خوف زدہ ہوتا ہے۔وہ یہ بات یقینی طور پر جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود نیکی کی راہ میں سبقت پر اُبھارا ہے: فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرَاتِ(البقرہ ۲:۱۴۸) ’’پس تم بھلائیوں کی طرف سبقت کرو‘‘۔

رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کو سمیٹنے کے ضمن میں چند عملی پہلو درج ہیں:

  • عمل کے لیے تحریک: رمضان آپ کو تحریک دیتا ہے اور مسلسل عمل کی طاقت سے ہم کنار کرتا ہے۔ آپ اس ماہ میں اللہ کے حضور قیام و نماز اور نمازِ تراویح ادا کرتے ہیں، صدقہ کرتے ہیں۔ اصحابِ رسولؐ اس مہینے میں اعلائے کلمۃ اللہ کی غرض سے جہاد کرتے تھے اور مسلمانوں کو فتح کی نوید سناتے تھے۔ بھوک، پیاس اور روزہ کبھی ان کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے۔ یعنی رمضان تمام مسلمانوں کے لیے عظیم نعمت ہے، جس میں اپنی طاقت اسلام کی سربلندی کے لیے صَرف کی جاسکتی ہے۔ اس طرح آپ کو روحانی سکون میسر آئے گا، اور اعمال بہتر ہوںگے۔ سُستی اور کاہلی اور ٹال مٹول کا رویہ ختم ہوجائے گا۔ یہ رویے انسان کو غم اور پریشانی سے دوچار کردیتے ہیں۔
  • تنظیمِ وقت:رمضان کا مہینہ، اسلامی شعائر ادا کرنے کے ذریعے ہمیں تنظیم وقت کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ سحر اور افطار کا وقت معین ہے۔ یوں انسان کو اپنے وقت کی صحیح تنظیم کا موقع حاصل ہوتا ہے۔ اس طرح وہ صحیح عمل کے لیے قدم اُٹھاتا ہے، آگے بڑھتا ہے اور کامیابی حاصل کرتا ہے۔
  • دعوتِ دین: اس مہینے میں نیکی و بھلائی کی طرف رغبت ہوتی ہے اور دل نیکی کی طرف زیادہ مائل ہوتے ہیں۔ اس لیے دعوت کا بہت آسان موقع ہوتا ہے۔ لہٰذا اپنے عزیز واقارب اور ہمسائیوں تک دعوتِ دین پہنچانے کا خصوصی اہتمام کیجیے۔ داعیانِ حق کو چاہیے کہ وہ اس ماہ میں دعوت کی توسیع واشاعت کے لیے ہرممکن کوشش کریں۔
  • اجتماعی تکافل: رمضان کامہینہ ایسی سنہری اور انمول گھڑیاں لے کر آتاہے، جن میں والدین کے ساتھ بھلائی اور حسنِ سلوک، بھائیوں کے ساتھ ہمدردی اور صلۂ رحمی اور اُمت کے حقوق کی ادائیگی کے لیے فکرمند ہونے، نیز محتاجوں، معذوروں، فقرا اور مساکین کی خدمت کرنے اور ان کے حقوق کی ادائیگی کا بہترین موقع ہوتا ہے۔ اسی طرح خیراتی اداروں کے ساتھ تعاون کرنا، اور ان لوگوں کی مدد کرنا بڑی نیکی ہے جو سفیدپوش ہیں اور کسی کے سامنے سوال نہیں کرسکتے۔ اس ماہِ مبارک میں اپنے مال میں سے زکوٰۃ نکالی جائے اور اس کو مستحقین میں تقسیم کیا جائے۔ ان لوگوں کا احساس کیا جائے جو ضعیف اور کمزور ہیں۔ اس کے علاوہ جتنی توفیق و استطاعت اللہ تعالیٰ نے دی ہو، راہِ خدا میں خرچ کیجیے۔ اس کے نتیجے میں پریشان حال لوگوں کے مصائب بھی کم ہوں گے۔
  • تزکیہ و تربیت: یہ ماہِ مبارک گناہ گاروں اور خطاکاروں کے لیے بہتر ین موقع ہے کہ وہ اپنی زندگی کے ان بُرے اعمال سے معافی کے خواست گار ہوں اور نئی زندگی کا آغاز کریں۔ اللہ تعالیٰ سے سچی توبہ کریں۔ گناہوں، معصیت اور نافرمانیوں سے خلاصی حاصل کریں۔ پس اپنے دلوں کو نیکی اور عبادت کی طرف راغب و متوجہ کرنے کا اس سے بہتر موقع نہیں ملے گا۔ تربیت کرنے والوں کے لیے بھی یہ غنیمت ہے کہ وہ اس ماہِ مبارک میں ان نفوس کی تربیت کے لیے اپنی پوری قوت لگادیں جو خدا کی اطاعت و بندگی اور تقویٰ کی زندگی اپنانے کے لیے تیار ہیں۔ ان کے لیے ضروری ہے کہ مختلف النوع تربیتی پروگرام ترتیب دیے جائیں۔
  • اثرانگیزی:یہ ماہِ مبارک اہلِ ایمان کے دلوں میں اثر کرتا اور عمل کا وہ پودا اُگا دیتا ہے جو انھیں اللہ کی رضا حاصل کرنے والے اعمال پر آمادہ کرتا ہے۔ اس میں مجاہدۂ نفس کی طلب پیدا ہوتی ہے۔ جیساکہ ایک حدیث قدسی ہے: ’’اس نے میری خاطر اپنا کھانا پینا اور شہوت کو چھوڑے رکھا‘‘(متفق علیہ)۔ اس میں ایک رات ہے جس میں گردنیں آزاد کی جاتی ہیں۔ یہ اس کے روزے رکھنے اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ اثرانگیزی بڑی اہمیت کی حامل ہے جو روزے اور قیامِ لیل میں تسلسل پیدا کرتی ہے۔ اسی کے نتیجے میں وہ بشارت دی گئی ہے: ’’جس کسی نے ایمان اور احتساب سے روزہ رکھا اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیے گئے‘‘ (متفق علیہ)۔
  • مساجد کے ساتھ تعلّق: اس ماہِ عظیم میں نفس کو مساجد کے ساتھ تعلق پر آمادہ کرناچاہیے، تاکہ ان سات لوگوں میں شامل ہوجائیں، جن کو اللہ تعالیٰ اپنے سایے میں اس دن جگہ دے گا جس دن اس کے سایے کے سوا کوئی دوسرا سایہ نہ ہوگا۔ آخری عشرے میں ربّ العالمین سے تعلق جوڑنے کے لیے مساجد میں اعتکاف کیا جائے۔ اس سے ہدایت کے لیے مناجات کی جائیں کہ وہ ہمارے لیے مشکلات سے بندشدہ دروازے کھول دے، جہنم کی آگ سے بچائے اور جنت نعیم میں داخل فرماد ے۔ ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کیجیے۔ روزہ دار عصر کی نماز ادا کرنے کے بعد مغرب کی نماز کاانتظار کرنے لگتا ہے اور وہ رباط (اللہ کی راہ میں پہرہ) کا اجر حاصل کرلیتا ہے جس کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی۔ مسجد میں قیام کے دوران اللہ کا بندہ قرأ ت قرآن، دعا، ذکراللہ اور اللہ تعالیٰ سے توبہ کر کے اجر کامستحق ٹھیرتا ہے۔
  • استغفار سحری: رمضان استغفار کے لیے بیش قیمت لمحات پر مبنی ہے جس سے اکثر مسلمان غافل ہیں۔ خاص طور پر سحری کے وقت کی عبادت اور استغفار اس حوالے سے بہت اہم ہوتا ہے۔ بندۂ مومن کو چاہیے کہ وہ فرصت کے ان لمحات کو غنیمت جانے اور اس وقت میں زیادہ سے زیادہ اجر کے غنائم سمیٹے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں مومنین کی صفات کا ذکر فرمایا ہے: وَالْمُسْتَغْفِرِیْنَ بِالْاَسْحَارِO (اٰل عمرٰن ۳:۱۷) ’’بخشش مانگنے والے پچھلی رات میں‘‘۔ اور وَبِالْاَسْحَارِ ھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ O (الذاریات ۵۱:۱۸) ’’وقتِ صبح وہ استغفار کرتے تھے‘‘۔
  • قرآن سے خصوصی شغف: رمضان اس حوالے سے بھی غنیمت ہے کہ اس میں حفظ قرآن کیاجائے، کیونکہ اس میں دن رات اس کی دہرائی کی جاسکتی ہے، اور راتوں میں قیام کے دوران اسے پڑھا جاسکتاہے۔ اس ماہ میں قرآن میںتدبر و غور و فکر اور اس کے فہم کے لیے بھی کوشش کی جانی چاہیے۔ ہمارے سلف صالحین کاقرآن سے تعلق قابلِ رشک حدتک بڑھا ہوا ہوتا تھا۔
  • دلوں کی صفائی: اس مہینے میں بھائی چارے، ناراضی و اختلاف ختم کر کے صلہ رحمی کرنے کا بہترین موقع ملتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ سے شیطان کی پناہ مانگنا چاہیے۔ قلب کو سلیم و فرماں بردار بنانا چاہیے۔ ایسا دل مانگنا چاہیے جس میں خیانت، بُغض اور حسد جیسی بیماریاں نہ پائی جاتی ہوں۔ اسی طرح عزیز و اقارب سے تعلقات شریعت کی منشا کے مطابق ہونے چاہییں، اور ان حقوق کی ادائیگی کا اہتمام کیا جانا چاہیے جو اللہ تعالیٰ نے فرض کیے ہیں۔ ان میں سے خاص طور پر وہ حقوق جو ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کے لیے ادا کرنے لازم ہیں۔ لوگوں کی دل آزاری سے بھی بچیے۔
  • صبر: اس مہینے میں ایک شخص کو ایسی تربیت سے گزرنا پڑتا ہے کہ خاص طور پر صبر کا مفہوم اس پر بخوبی اُجاگر ہوتا ہے۔ احنف بن قیس سے جب کہا گیا: آپ بزرگ آدمی ہیں اور روزے آپ کو کمزور کردیں گے توانھوں نے جواب دیا: ’’میں نے زندگی کا طویل سفر طے کرلیا ہے، اللہ کی اطاعت پر صبر کرنا بہتر ہے نہ کہ اس کے عذاب پر۔ (سیراعلام النبلاء)

حضرت جابر بن عبداللہؓ کہتے ہیں: جب تم روزہ رکھو تو چاہیے کہ تمھاری سماعت کا بھی روزہ ہو، تمھاری آنکھوں کا بھی روزہ ہو، تمھاری زبان جھوٹ سے بچے، پڑوسی کو اذیت نہ دو۔ روزے کے دن تم پر وقار اور سکینت طاری ہونا چاہیے۔ تمھارا روزہ اور بے روزہ کا دن ایک جیسا نہیں ہونا چاہیے۔

  • تربیت اولاد: ماں اور باپ دونوں مربی ہوتے ہیں۔ وہ اس ماہ میں چاہیں تو بچوں کے دلوں میں فضائل کے بیج بوسکتے ہیں اور ان کے دلوں میں رمضان، قیامِ لیل اور قرآن کی محبت کا جادو جگا سکتے ہیں۔ اس ذوق و شوق کے لیے مختلف انداز اپنائے جاسکتے ہیں۔ اس کی ایک صورت یہ ہوسکتی ہے کہ عصر کی نماز کے بعد گھر کے تمام افراد ایک جگہ بیٹھ جائیں اور درسِ قرآن یا لٹریچر کا مطالعہ کیا جائے۔ اس میں جہاں ضرورت ہو تشریح و وضاحت کی جائے۔ اسی طرح اذان کے وقت سب گھر والے ہاتھ اُٹھا کر اللہ کے حضور گڑگڑا کر دعا کریں۔
  • دعا: اللہ رب العالمین کو اپنی مناجات کے ذریعے یاد کرنے سے دل کو اطمینان اور سکون کی جو کیفیت حاصل ہوتی ہے، اس سے افضل وقت اس کی زندگی میں کوئی اور نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا، اپنے لیے اور اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے بندوں کے رب کو پکاریں اور دعا کریں۔
  • غذا کی تنظیم اور وزن میں کمی: رمضان غذا کی ترتیب یا تنظیم کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔ کم کھانا جسم کے لیے بہت مفید ہے۔ اگر اس میں اعتدال اور توازن نہ ہو تو نفس کے لیے مضر ثابت ہوتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ روح و بدن دونوں پر اس کی خرابی کا اثر پڑتا ہے۔    پس روزہ دار اگر رب کی زیادہ عبادت کرنا چاہتا ہے اور خاص طور پر اس مہینے میں، تو اسے چاہیے وہ کم کھائے۔

فرصت کے ان لمحات کو غنیمت جانیے! کوئی دوسرا مہینہ مسلمانوں کے دلوں میں ایسا مقام نہیں رکھتا اور ایسا افضل نہیں جیساکہ رمضان کا مہینہ ہے۔ اس میں جنت کے دروازوں کو کھول دیا جاتا ہے اور جہنم کے دروازوں کو بند کردیا جاتا ہے۔ اس لیے چاہیے کہ ان لمحات کو زیادہ سے زیادہ اللہ کی اطاعت میں گزارا جائے۔ اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کے تقرب اور روحانیت کی کئی صورتیں اس میں موجود ہیں۔ پس اے خیر کے طلب گار! ’آگے بڑھو اور شر کی طلب سے رُک جا‘ واللّٰہ المستعان۔( عربی سے ترجمہ: محمد سفیرالاسلام)

[سورۃ القدر] میں اُس رات کا تذکرہ ہے جس کا پوری کائنات نے فرحت و انبساط کے ساتھ استقبال کیا۔ یہ ملائِ اعلیٰ اور زمین کے مابین ربط و اتصال کی رات تھی۔ یہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب پر نزولِ قرآن کے آغاز کی رات تھی۔ یہ اُس عظیم واقعے کی رات تھی، جس کی طرح کا کوئی واقعہ عظمت و اہمیت، حقائق کی طرف رہنمائی اور حیاتِ انسانی پر اپنے اثرات کے لحاظ سے زمین نے مشاہدہ نہ کیا تھا۔ ایسا واقعہ جس کی عظمت کو انسانی ادراک پوری طرح پا نہیں سکتا:

اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِيْ لَيْلَۃِ الْقَدْرِ۝۱ۚۖ وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا لَيْلَۃُ الْقَدْرِ۝۲ۭ لَيْلَۃُ الْقَدْرِ۝۰ۥۙ خَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَہْرٍ۝۳ۭؔ  (القدر ۹۷:۱-۳) بے شک ہم نے اُسے شب ِ قدر میں نازل کیا ہے۔ اور تم کیا جانو! شب ِقدر کیا ہے؟ شب ِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔

قرآنی آیات، جو اس واقعے کو بیان کرتی ہیں، گویا نور سے جگمگ جگمگ کر رہی ہیں۔ وہ اللہ کے نور کو جو پُرسکون، خوش منظر، محبت سے بھرپور اور کائنات میں جاری و ساری ہے اور جو قرآن میں پھیلا ہوا ہے، ہر سُو بکھیر رہی ہیں۔ اِنَّـآ اَنْزَلْنٰـہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ ’’بے شک ہم نے اُسے ’شب ِ قدر‘ میں نازل کیا ہے!‘‘

اللہ کے نور کے ساتھ فرشتوں اور روح الامین کے نور اور پوری رات زمین اور ملائِ اعلیٰ کے مابین اُن کی آمدورفت سے بھی یہ آیات معمور ہیں:

تَنَزَّلُ الْمَلٰۗىِٕكَـۃُ وَالرُّوْحُ فِيْہَا بِـاِذْنِ رَبِّہِمْ۝۰ۚ مِنْ كُلِّ اَمْرٍ۝۴ۙۛ ( ۹۷:۴) فرشتے اور روح الامین اس میں اپنے ربّ کے اذن سے ہر حکم کو لے کر اُترتے ہیں۔

اسی کے ساتھ یہ آیات صبح کے نور کو، جو نورِ وحی اور نورِ ملائکہ سے ہم آہنگ ہے اور سلامتی کی روح کو جو پوری کائنات کی ارواح میں جاری و ساری ہے، پیش کرتی ہیں:

سَلٰمٌ۝۰ۣۛ ہِيَ حَتّٰى مَطْلَــعِ الْفَجْرِ۝۵ۧ  (۹۷:۵) سرتا سر امن وسلامتی (کی رات)! یہ صبح کے طلوع ہونے تک۔

جس رات کا اِس سورت میں ذکر ہے، یہ وہی رات ہے جس کا ذکر سورئہ دخان میں اِس طرح ہے:

اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِيْ لَيْلَۃٍ مُّبٰرَكَۃٍ اِنَّا كُنَّا مُنْذِرِيْنَ۝۳ فِيْہَا يُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِيْمٍ۝۴ۙ اَمْرًا مِّنْ عِنْدِنَا۝۰ۭ اِنَّا كُنَّا مُرْسِلِيْنَ۝۵ۚ رَحْمَۃً مِّنْ رَّبِّكَ۝۰ۭ اِنَّہٗ ہُوَالسَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ۝۶ۙ (الدخان ۴۴:۳-۶) بے شک ہم نے اِس (قرآن) کو ایک بابرکت رات میں اُتارا ہے۔ یقینا ہم (قرآن کے ذریعے) لوگوں کو خبردار کرنے والے ہیں۔ اس رات میں تمام حکیمانہ امور ہمارے حکم سے طے ہوتے ہیں۔ بے شک ہم ہی رسول بھیجنے والے ہیں۔ یہ تمھارے ربّ کی رحمت کے باعث ہے۔ یقینا وہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔

شب ِ قدر رمضان ہی کی ایک رات ہے، جیساکہ سورئہ بقرہ میں ہے:

شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰى وَالْفُرْقَانِ ۝۰ۚ (البقرہ ۲:۱۸۵) رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا جو انسانوں کے لیے ہدایت ہے اور جس میں ہدایت کے واضح دلائل اور حق و باطل میں فرق کرنے والی واضح تعلیمات ہیں۔

یعنی رمضان المبارک کی اِس رات میں قرآن مجید کے نزول کی ابتدا ہوئی تاکہ آپ اُس کی تعلیمات لوگوں تک پہنچائیں۔ ابنِ اسحاق ؒکی روایت ہے کہ سب سے پہلے سورئہ علق کی ابتدائی آیات کی وحی رمضان المبارک کے مہینے میں نازل ہوئی، جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی عبادت کے لیے غارِ حرا میں خلوت گزیں تھے۔

یہ رات کون سی ہے؟ اس سلسلے میں بہت سی روایات ہیں۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان کی ۲۷ویں شب ہے۔ کچھ اور روایات سے ۲۱ویں شب۔ بعض دوسری روایات سے واضح ہوتا ہے کہ رمضان کی آخری دس راتوں میں سے ایک رات ہے اور کچھ دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان کی کوئی ایک رات ہے___ بہرحال زیادہ راجح بات یہ ہے کہ شب ِ قدر رمضان ہی کی ایک رات ہے۔

اس رات کا نام لَیْلَۃُ الْقَدْرِ کیوں ہے؟

’قدر‘ کا ایک مفہوم ہے: ’منصوبہ بندی اور تدبیرِ امر‘۔ دوسرا مفہوم ہے ’قدروقیمت اور مقام‘ اور دونوں ہی مفہوم اس عظیم واقعے ___ قرآن، وحی اور رسالت کے سلسلے میں صحیح ہیں۔ کائنات میں اس سے زیادہ عظیم کوئی واقعہ نہیں، نہ اس سے زیادہ کوئی واقعہ بندوں کی تقدیر اور تدبیرِ امر سے متعلق ہے۔

’’شب ِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے‘‘۔ قرآن مجید میںاس طرح کے مواقع پر عدد سے کوئی مخصوص تعداد مراد نہیں ہوتی۔ اس سے صرف کثرت کا اظہار مقصود ہوتا ہے، یعنی یہ رات نوعِ انسانی کی زندگی کی ہزارہا راتوں سے بہتر ہے! ہزاروں مہینے اور ہزارہا سال گزر جاتے ہیںاور حیاتِ انسانی پر اُن کے اثرات اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں پڑتے جتنے اِس مبارک اور سعید رات نے  انسانی زندگی پر ڈالے۔

اِس رات کی عظمت کی حقیقت انسانی فہم و ادراک سے ماورا ہے: وَمَآ اَدْرٰکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِ ’’اور تم کیا جانو! شب ِ قدر کیا ہے؟‘‘

اس رات کے سلسلے میں جو افسانوی داستانیں عوام میں پھیلی ہوئی ہیں، اس کی عظمت کا اُن سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ اس لیے عظیم ہے کہ اسے قرآن کے___ جس میں عقیدہ، فکر، قانون اور زندگی کے وہ تمام اصول و آداب ہیں، جن سے زمین اور انسانی ضمیر کی سلامتی وابستہ ہے___ نزول کے آغاز کے لیے منتخب کیا گیا۔ یہ اس لیے بھی عظیم ہے کہ اس میں ملائکہ بالخصوص جبریل علیہ السلام اپنے ربّ کے اِذن کے ساتھ قرآن لے کر زمین پر نازل ہوئے۔ اور پھر یہ فرشتے کائنات کے اس جشنِ نوروز کے موقع پر زمین و آسمان کے مابین پھیل گئے۔ سورت اِن اُمور کی تصویر کشی کرتی ہے۔

ہم اِس بزرگ اور سعید رات کی طرف دیکھتے ہیں جس کا مشاہدہ اُس رات زمین نے کیا اور اُس رات میں جس امر کی تکمیل ہوئی، اس کی حقیقت پر غور کرتے ہیں اور زمانے کے مختلف مراحل، زمین کے واقعات اور قلوب و اذہان کے تصورات و افکار پر اس کے دور رس اثرات کو دیکھتے ہیں، تو ہم واقعتاً ایک عظیم امر کا مشاہدہ کرتے ہیں اور قرآن مجید نے وَمَآ اَدْرٰکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِ ’’اور تم کیا جانو! شب ِ قدر کیا ہے؟‘‘ کہہ کر اُس رات کی عظمت کی طرف جو اشارہ کیا ہے، اُسے ہم تھوڑا سا سمجھ پاتے ہیں۔

اِس رات میں تمام حکیمانہ امور کا فیصلہ ہوا۔ اس رات میں قدریں، بنیادیں اور پیمانے وضع ہوئے۔ اس میں افراد کی قسمتوں سے بڑھ کر قوموں، نسلوں اور حکومتوں کی قسمتوں کا فیصلہ ہوا بلکہ اس سے بھی زیادہ عظیم امر، حقائق، طور طریق اور قلوب کی قدریں طے ہوئیں۔

نوعِ انسانی اپنی جہالت و بدبختی سے اِس شب کی قدروقیمت، اس واقعہ __وحی__ کی حقیقت اور اس معاملے کی عظمت سے غافل ہے، اور اس جہالت و غفلت کے نتیجے میں وہ اللہ کی بہترین نعمتوں سے محروم ہے۔ وہ سعادت اور حقیقی سلامتی، دل کی سلامتی، گھر کی سلامتی اور سماج کی سلامتی کو، جو اسلام نے اسے بخشی تھی___ کھو چکی ہے۔ مادی ارتقا اور تہذیب وتمدن کے جو دروازے آج نوعِ انسانی پر کھلے ہیں، اُس سے اِس محرومی کی تلافی نہیں ہوسکتی۔ آج انسانیت شقاوت و بدبختی کا شکار ہے حالانکہ پیداوار کی کثرت ہے اور معاشی وسائل کی بہتات۔

جمیل نُور، جو انسانیت کی روح میں ایک بار چمکا تھا، بجھ چکا ہے۔ ملائِ اعلیٰ سے ربط و تعلق کی فرحت و انبساط کا خاتمہ ہوچکا ہے اور روحوں اور دلوں پر سلامتی کا جو فیضان تھا، وہ مفقود ہوچکا ہے۔ روح کی اِس مسرت، آسمان کے اس نور اور ملائِ اعلیٰ سے ربط و تعلق کی مسرت کا کوئی بدل اسے نہیں مل سکا ہے!

ہم اہلِ ایمان مامور ہیں کہ اِس یادگار واقعے کو فراموش نہ کریں، نہ اُس سے غافل ہوں۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری ارواح میں اس یاد کو تازہ رکھنے کا بہت آسان طریقہ مقرر فرما دیا، تاکہ ہماری ارواح اُس رات سے اور جو کائناتی واقعہ __ وحیِ آسمانی__ اس میں رُونما ہوا،     اس سے ہمیشہ وابستہ رہیں۔ آپؐ نے ہمیں اس بات پر اُبھارا کہ شب ِ قدر کو ہم ہر سال رمضان کے آخری عشرے کی راتوں میں ڈھونڈیں اور اس رات میں جاگ کر اللہ کی عبادت کریں۔

بخاری اور مسلم میں ہے: ’’شبِ قدر کو رمضان کی آخری دس راتوں میں تلاش کرو‘‘۔ اور صحیحین ہی کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس کسی نے شب ِ قدر میں اللہ کی عبادت ایمان اور احتساب کی حالت میں کی، اُس کے پچھلے گناہ معاف کر دیے جائیں گے‘‘۔

اسلام ظاہری شکلوں اور رسموں کا نام نہیں ہے۔ اسی واسطے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’شب ِقدر‘ کی عبادت کے بارے میں فرمایا کہ وہ ’ایمان‘ اور ’اِحتساب‘ کی حالت میں ہو۔ ایمان کا مطلب یہ ہے کہ شب ِ قدر جن عظیم مطالب و معانی سے وابستہ ہے (دین، وحی، رسالت اور قرآن) انھیں ہم ذہن میں تازہ کریں، اور ’احتساب‘ کا مطلب یہ ہے کہ عبادت صرف اللہ کی رضا کے لیے اور اخلاص کے ساتھ ہو۔ اسی صورت میں قلب کے اندر اُس عبادت کی متعینہ حقیقت زندہ و بیدار ہوسکتی ہے اور قرآن جس تعلیم کو لے کر آیا ہے، اس سے ربط و تعلق قائم ہوسکتا ہے۔

تربیت کا اسلامی نظام، عبادت اور قلبی عقائد کے درمیان ربط قائم کرتا ہے اور اُن ایمانی حقائق کو زندہ رکھنے، انھیں واضح کرنے اور انھیں زندہ صورت میں مستحکم بنانے کے لیے عبادات کو بطور ذریعہ کے استعمال کرتا ہے، تاکہ یہ ایمانی حقائق غوروفکر کے دائرے سے آگے بڑھ کر انسان کے احساسات اور اس کے قلب و دماغ میں اچھی طرح پیوست ہوجائیں۔

یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ تربیت کا یہی نظام اِن حقائق کو زندہ و تازہ رکھنے اور دل کی دنیا اور عمل کی دنیا میں انھیں حرکت بخشنے کے لیے موزوں ترین نظام ہے۔ یہ بات بھی واضح ہوچکی ہے کہ ان حقائق کا صرف نظری علم، عبادت کی معاونت کے بغیر اِن حقائق کو زندہ و برقرار نہیں رکھ سکتا اور نہ کسی اور طریقے سے ہی ممکن ہے اور نہ اِس نظام کے بغیر ان حقائق کو فرد اور معاشرے کی زندگی میں قوتِ محرکہ کی حیثیت حاصل ہوسکتی ہے۔

شب ِ قدر کی یاد اور اس میںایمان و احتساب کے ساتھ اللہ کی عبادت، اِس کامیاب اور بہترین اسلامی نظامِ تربیت کا ایک جزو ہے۔ (فی ظلال القرآن)

دورِ حاضر میں جن مسائل کو پوری دنیا نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، ان میں آبی بحران کا مسئلہ سرِ فہرست ہے۔ اس کی ہولناکیوں سے کرۂ ارض کا ہر شخص اس سے کسی نہ کسی درجے میں متاثر ہے، حتیٰ کہ شدید خدشات لاحق ہیں کہ اب مستقبل میں جنگوں کی بنیاد بھی آبی وسائل پر ہو گی۔ اس لیے ضروری ہے کہ آبی وسائل کے انتظام و انصرام کی طرف توجہ کی جائے اور آبی مسائل کو حل کیا جائے۔ سیرت النبیؐ کو قرآن حکیم نے اسوۂ حسنہ و کاملہ قرار دیا ہے اور سیرت کے گوناگوں گوشوں میں ہر لحاظ سے رہنمائی موجود ہے اور ہمارے تمام مسائل کا حل بھی سیرت النبیؐ سے ہدایت و رہبری میں پوشیدہ ہے۔

انتظامِ آب (Water Management)سے مرادپانی کے انتظام کی منصوبہ بندی ،اس کی بہتری و ترقی اور تقسیم کی حکمت عملی کے ذریعے آبی قواعد و ضوابط کے تحت پانی کے وسائل کا زیادہ سے زیادہ بہترین استعمال ہے۔ اس میں پینےکے پانی ، صنعتی پانی ، نکاسی آب یا گندے پانی کی صفائی کا انتظام ، آبی وسائل کا نظم و نسق ، سیلاب سے بچاؤ کا انتظام ، آبپاشی کا انتظام اور پانی کا انتظام شامل ہیں۔

یعنی انتظامِ آب سے مرادپانی کے ذرائع کی تضبیط اوران کی نقل و حرکت کو اس انداز میں منظم کیا جائے کہ وہ زندگی و املاک کے لیے کم سے کم ضرر رساں ہوں اورزیادہ سے زیادہ فائدہ مندہوں۔ ڈیموں اور بندکے اچھے انتظام کی بدولت سیلاب کی وجہ سے ہونے والے نقصان کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔

انتظامِ آب سیرت النبیؐ کی روشنی میں

اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو جن اعزازات و اکرا مات سے نوازا ۔ ان میں سے ایک خاص انعام حوض کوثر ؎۱کا بھی ہے۔ ارشاد ربانی ہے:

اِنَّـآ اَعْطَيْنٰكَ الْكَوْثَرَ۝۱ۭ  (الکوثر۱۰۶:۱)بے شک ہم نے آپ کو کوثر عطا کر دیا۔

اسی وجہ سے آپؐ کے ہاتھ پر بکثرت پانی کے معجزات کا ظہور ہوا۔ اگرچہ یہ آیت آخرت میں آپؐ کی شرف و عزت اور وجاہت و کرامت کو ظاہر کرتی ہے مگر اس زمین پر بھی آپ ؐنے پانی کے انتظام و انصرام پر خصوصی توجہ مرکوز کی اور مدینہ کی ریاست میں اس بہترین انتظام کی عملی شکل اپنے کمال اور جوبن پر نظر آتی ہے۔ ویسے بھی آبی انتظامات کی تعلیم و تربیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ورثے میں ملی تھی۔ حاجیوں کے لیے پانی کے انتظامات کی ذمہ داری قصی کے سپرد تھی۔ ؎۲ پھر یہ خدمت عبد مناف، ہاشم ،مطلب، عبد المطلب، اور پھر آپؐ کے چچا عباس کے سپرد ہوئی۔ ؎۳  اس وجہ سے آبی انتظامات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہارت مسلّم تھی جس کا عملی ظہور مدینہ منورہ میں ہوا۔ ان اقدامات کے ضمن میں آپؐ نے بہت سی تدبیروں سے کام لیا، جنھیں درج ذیل اقسام میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

  • نئے آبی ذخائر کی تلاش
  • ترغیبات
  • پانی پلانا بہترین صدقہ
  • آبی وسائل میں تعاون کے فروغ کے لیے بھائی چارہ کا قیام
  • پانی کے ذرائع پر اجارہ داری کا خاتمہ
  • پانی کی خرید و فروخت کی ممانعت
  • زائد پانی کو روکنے کی ممانعت
  • آبی ضیاع کی ممانعت
  • آبی آلودگی کو روکنے کے اقدامات
  • انتظامی اقدامات
  • بہتر انتظامِ آب پر حوصلہ افزائی
  • آب پاشی کے عملی اقدامات
  • دیگر قبائل سے معاہدات
  • پانی سے متعلقہ معجزات

اب ذیل میں ان امور کی تفصیل بیان کی جاتی ہے:

نئے آبی ذخائر کی تلاش

عہد رسالتؐ کے آبی ذخائر میں کنوؤں اور چشموں کو خاص اہمیت حاصل تھی اگرچہ دریا، ندی نالے، تالاب ، چشمے اور وادیاں بھی پائی جاتی تھیں۔؎۴  اس زمانے میں چونکہ آبادی کم ہوا کرتی تھی اس لیے کنوؤں سے بآسانی گزارہ ہو جاتا تھا بلکہ ایک کنویں کی مدد سے پورا شہر پانی پی سکتا تھا۔ جیسا کہ احادیث میں ذکر کیا گیا ہے کہ بیر رومہ میٹھے پانی کا صرف ایک کنواں تھا، لیکن اس سے پورا مدینہ پانی استعمال کرتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ کنویں کی مدد سے لوگ اپنا روزگار بھی چلاتے تھے اور یہ مال و دولت اور متمول ہونے کی بھی ایک نشانی تھا۔اس لیے اسلام کے ابتدائی دور میں کنوؤں اور چشموں کا بکثرت ذکر ملتا ہے کہ پانی کی کمی کو دور کرنے کے لیے مختلف کنویں کھودے گئے۔ ہرچند کہ کنویں کھودنے کا رواج زمانۂ قدیم سے چلا آ رہا تھا۔

مکہ کی مقدس سرزمین میں سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام نے شعب حرا میں ایک کنواں کُرّآدم کھودا تھا جس کا پانی لوگ استعمال کرتے تھے۔ اسی طرح مرۃ بن کعب لوی نے رُمّ، کلاب بن مرہ نے بنی مخزوم کے لیے خُمّ، اور ہاشم بن عبد مناف نے صفا اور مروہ کے درمیان سجلہ نامی کنواں کھودا تھا ، بعد میں یہ کنواں جبیر بن مطعم کے نام سے مشہور ہوا۔ عبد الشمس بن عبد مناف نے الطَّوِیّ بنوایا تھا، جو بعد میں عقیلؓ بن ابی طالب نے بحال کیا تھا۔ امیہ بن عبد الشمس نے الجفر نامی کنواں جیاد میں کھودا۔ بنی عبدالشمس کے اُمّ جعلان اور علوق نامی کنویں بھی تھے۔ ام ہانی کے مکان والی جگہ قصی بن کلاب نے النجول کھودا تھا۔؎۵ مدینہ میں صرار نامی کنواں دور جاہلیت میں کھودا گیا۔ ؎۶

اس لیے آپؐ نے بھی ان روایات کو قائم رکھا اور پانی کی کمی کو دور کرنے کے لیے بہت سے کنویں کھدوائے گئے۔غزوہ مریسیع سے واپسی پر اسلامی افواج کا گزر نقیع کے مقام سے ہوا جہاں متعدد تالاب اور خوب صورت قطعات تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی خوب صورتی، وسعت اور سر سبزی سے بہت متاثر ہوئے۔ آب و ہوا اور پانی کی فراہمی کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ آپؐ کو بتایا گیا کہ موسم گرما میں یہاں پانی کم ہو جاتا ہے کیونکہ تالاب سوکھ جاتے ہیں۔ چنانچہ آپؐ نے ایک مشہور صحابی حاطب بن ابی بلتعہؓ کو وہاں ایک کنواں کھودنے کا حکم دیا۔ ظاہر ہے کہ یہ کنواں متعدد مسلمانوں کی مدد سے کھودا گیا۔؎۷  جس کی وجہ سے وہاں قلت ِآب کے مسئلے پر بآسانی قابو پا لیا گیا۔

علامہ تقی فاسی نے صرف مکہ معظمہ میں ۵۸ کنوئوں کی موجودگی بیان کی ہے۔ جن میں سے باب معلاء سے منٰی تک۱۷ ، منٰی میں ۱۵ اور مزدلفہ میں تین کنویں پائے جاتے تھے۔ عرفات میں زیادیۃ الکبری، زیادیۃ الصغری اور الشمروقیہ کا ذکر کیا ہے اور باب الشبیکہ سے تنعیم تک ۲۳کنویں بیان کیے ہیں۔

چونکہ ابتدا میں آبادی تھوڑی اور حجاج کرام کی تعداد بھی زیادہ نہیں ہوتی تھی، اس لیے کنویں کے پانی سے گزر ہو جاتی تھی لیکن جب آبادی اور زائرین کی تعداد میں اضافہ ہو گیا تو پھر مزید انتظام کی شدید ضرورت درپیش ہوئی۔ اس لیے بعد کے ادوار میں نہریں اور برساتی تالاب بھی بنائے جانے لگے۔؎۸  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بنو حرام کی غار کے قریب ایک چشمہ بھی کھدوایا تھا۔؎۹   یوں مکہ معظمہ میں بھی بہتر انتظامِ آب کی بدولت نہ صرف یہ کہ مکہ میں رہنے والوں کی مشکلات میں کمی واقع ہوئی بلکہ حجاج اور معتمرین کو بھی آسانیاں میسر آئیں۔

ترغیبات

رحمت کائنات صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کرکے مدینہ میں تشریف فرما ہوئے تو اس وقت مدینہ شریف میں میٹھے پانی کی سخت قلت تھی ۔ مسجد قبلتین کے شمال مغرب میں زغابہ کے مقام پر صرف ایک بیر رومہ کا کنواں واقع تھا جس کا مالک یہودی تھا اور پانی قیمتاً فروخت کرتا تھا۔ اس کنویں کے علاوہ تمام کنویں کھاری تھے۔ امیر لوگ پانی خرید لیتے مگر نادار و غریب لوگ سخت بے بس اور مجبور تھے۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ ’’جو شخص اس کنویں کو خرید کر وقف کر دے گا اسے اس کے بدلے جنت ملے گی‘‘۔ آپؐ کی ترغیب کی وجہ سے سیدنا عثمانؓ نے ۳۵ہزار درہم میں کنواں خرید کر وقف کر دیا۔ ؎   ۱۰ بعد ازاں کچھ نئے کنویں کھودے گئے اور کچھ کنوؤں کا پانی نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزہ کی وجہ سےمیٹھا ہو گیا۔یوں مدینہ کے لوگوں کی ضروریات پوری ہوتی رہیں ۔

حضرت طلحہ بن عبید اللہ ؓنے میٹھے پانی کے کئی کنویں تیار کروائے۔ ۱۱؎ اور پھر وہاں سے زراعت کے لیے کئی نالے بنائے گئے۔ جس سے پہلی دفعہ مدینہ میں کنویں کے پانی سے گندم کاشت کی گئی۔ آپؐ پینے کے پانی کے لیے کنویں کو دھونے کی ترغیب دیا کرتے تھے۔۱۲؎

پانی پلانا بہترین صدقہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی پلانے کو بہترین صدقہ قرار دیا۔ اس طرح لوگوں کو  ترغیب ملی کہ وہ دوسرے لوگوں کو پانی پلا کر اُخروی ثواب اور رضائے الٰہی کو حاصل کرسکیں۔ حضرت سعید بن المسیبؓ سے روایت ہے کہ حضرت سعد بن عبادہؓ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور پوچھا: ’’سب سے زیادہ پسندیدہ صدقہ کون سا ہے ؟ فرمایا: ’’پانی پلانا‘‘۔ ۱۳؎

ایک روایت میں ہے کہ حضرت سعد بن عبادہؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ ! میری ماں کا انتقال ہوگیا ہے۔ اس کے ایصال ثواب کی غرض سے کون سا صدقہ افضل ہے ؟ فرمایا: ’پانی‘۔ راوی کا بیان ہے کہ حضرت سعد نے ایک کنواں کھدوایا اور کہا یہ ام سعد کے (ایصالِ ثواب کے) لیے ہے۔  ۱۴؎

کسی دوسرے مسلمان بھائی کے برتن میں اپنے برتن سے پانی ڈالنے کو بھی صدقہ قرار دیا گیا ہے۔ ۱۵؎ ایک دوسری روایت میں ہے کہ جو مسلمان کسی مسلمان کو پیاس کی حالت میں پانی پلائے گا اللہ رب العزت اس کو مہر لگی ہوئی شراب پلائیں گے۔ ۱۶؎ اور جہاں پانی ہو وہاں کوئی مسلمان کو ایک گھونٹ پانی پلائے تو گویا اس نے ایک غلام آزاد کیا، اور جہاں پانی نہ ہو وہاں کوئی مسلمان کو پانی پلائے تو گویا اس نے ایک جان کو زندگی بخشی۔ ۱۷؎  مومن کے مرنے کے بعد بھی جن اعمال اور نیکیوں کا ثواب اسے ملتا رہتا ہے، ان میں سے ایک عمل نہر  ۱۸؎ یا کنواں ۱۹؎ جاری کرنا روایت کیا گیا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات کی بدولت سب لوگوں کو یہ ترغیب ملی کہ وہ دوسرے مسلمان بھائیوں کو اور دیگر ذی روحوں کو بوقت ضرورت پانی صدقہ کریں۔ اس طریقے سے نہ صرف یہ کہ ضرورت مندوں کی ضروریات پوری ہوئیں بلکہ قلتِ آب کے مسئلے پر قابو پانے میں بھی مدد ملی۔

آبی وسائل میں تعاون کے فروغ کے لیے بھائی چارہ کا قیام

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ تشریف لاتے ہی انصار و مہاجرین کے درمیان مواخات قائم کروائی۔ مواخات کے ذریعے نہ صرف یہ کہ تعاون کو فروغ ملا بلکہ تمام سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسائل کا حل کرنے میں بھی مدد ملی۔ مواخات کے قیام کی بدولت آبی مسائل پر بآسانی قابو پا لیا گیا ۔

صفی الرحمٰن مبارک پوری لکھتے ہیں: اس طرح کی کوششوں کی بدولت نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے اندر ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینے میں کامیاب ہو گئے، جو تاریخ کا سب سے زیادہ باکمال اور شرف سے بھر پور معاشرہ تھا اور اس معاشرے کے مسائل کا ایسا خوشگوار حل نکالا کہ انسانیت نے ایک طویل عرصہ تک زمانے کی اتھاہ تاریکیوں میں ہاتھ پاؤں مار کر تھک جانے کے بعد پہلی بار چین کا سانس لیا۔ اس نئے معاشرے کے عناصر ایسی بلند و بالا تعلیمات کے ذریعے مکمل ہوئے، جس نے پوری پامردی کے ساتھ زمانے کے ہر جھٹکے کا مقابلہ کرکے اس کا رخ پھیر دیا اور تاریخ کا دھارا بدل دیا۔ ۲۰؎

پانی کے ذرائع پر اجارہ داری کا خاتمہ

آبی قلت کو دُور کرنے اور پانی کے دستیاب وسائل سے بہترین طریق پر استفادہ کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سے اقدامات کی ممانعت کر دی اور پانی کے حصول کے لیے عامۃ الناس کی سہولت کے لیے ہر قسم کی اجارہ داری کو آپؐ نے ختم کر دیا ۔اسی طرح آپؐ نے گھاس پر مشتمل چراگاہوں اور پانی دونوں کو ہر شخص کے لیے مباح قرار دیا ۔ آپؐ نے ان دونوں کو قدرتی عطیہ قرار دیا اور ہر ضرورت مند کواس سے استفادہ کرنے کی عام اجازت دے دی۔ حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین چیزیں یعنی پانی، گھاس اور آگ ایسی ہیں، جن میں تمام مسلمان شریک ہیں ۔ ۲۱؎ اس حدیث میں اللہ کی ان نعمتوں کا ذکر ہے جو کائنات کے ہر فرد کے لیے ہے۔ ان میں کسی کی ذاتی ملکیت وخصوصیت کا کوئی دخل نہیں ہے۔ پانی سے مراد دریا ، تالاب اور کنویں وغیرہ کا پانی ہے اور وہ پانی مراد نہیں ہے جو کسی شخص کے برتن میں بھرا ہوا ہو۔

امام شمس الائمہ لکھتے ہیں کہ تمام لوگ ان تینوں چیزوں میں برابر کے حصہ دار ہیں اور یہ پہلی روایت( ابوداؤد کی روایت )سے عام ہے کہ اس میں تمام انسانوں کی شرکت کا اعلان ہے، خواہ مسلمان ہو یا کافر، اور پانی کے بارے میں یہ شرکت وادیوں، دریاؤں سے متعلق ہے، جیسے دریائے سیحون، جیحون، دجلہ، فرات اور نیل وغیرہ۔ اس لیے کہ ان سے فائدہ اٹھانا ایسا ہے، جیسے سورج کی دھوپ اور ہوا سے فائدہ حاصل کرنا ۔اس میں تمام کائنات انسانی برابر کی شریک ہے۔ کسی کو حق نہیں کہ دوسرے کو روک سکے۔اس کی مثال شارع عام کی سی ہے کہ اس پر ہر مسلمان و کافر سب کو چلنے کا حق ہے اور لفظ شرکت سے اصل اباحت اور انتفاع میں تمام انسانوں کا مساوی ہونا مراد ہے ۔ یہ مراد نہیں کہ وہ ان کی ملکیت ہے کہ وادیوں اور دریاؤں میں موجود پانی کسی کی ملکیت نہیں ہوتا۔  ۲۲؎

قدرتی وسائل پر انفرادی ملکیت کی ممانعت

موجودہ زمانے میں بھی بکثرت ایسا ہے کہ کثیر قدرتی وسائل پر کوئی فردِ واحد قابض ہے اور وہ دوسرے لوگوں کو ان قدرتی وسائل کے استفادہ سے روکتا ہے، یا کسی شخص کے پاس بہت بڑی جاگیر یا دولت ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ شخص توفائدے میں ہوتا ہے لیکن دوسرے لوگوں کو اس کی وجہ سے ضرر کا سامنا ہوتا ہے۔ شریعت، مفادِ عامہ کو نقصان پہنچانے اور تنگی پیدا کرنے والی ایسی ملکیت کو روکتی ہے کہ کوئی ایسا سرچشمہ جس کا تعلق مفادِ عامہ سے ہو اور وہ کسی فردِ واحد کی ملکیت میں ہو ۔ اگر انفرادی ملکیت کی وجہ سے باقی عوام کو تکلیف یا ضررکا سامنا ہو تو ایسی ملکیت کو ختم کیا جا سکتا ہے ۔ اس کی دلیل حضرت بلال بن حارثؓ کا وہ واقعہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ایک وسیع جاگیر عطا فرمائی تھی اور بعدمیں آپؐ نے خود ہی مفادِ عامہ کے تحت اس کی ملکیت کو  منسوخ قرار دیا تھا ۔  ۲۳؎ اور آپؐ نے اس کے بدلے میں حضرت بلالؓ کو جرف مراد میں زمین اور کھجور کے درخت بطور جاگیر عطا فرمائے۔ ۲۴؎  پھر ضرورت کے تحت حضرت عمرؓ نے وہ زمین بھی حضرت بلالؓ بن حارث سے واپس لے لی۔ ۲۵؎

حضرت عبداللہ بن ابوبکرؓ فرماتے ہیں : بلال بن حارث مزنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپؐ سے زمین بطور جاگیر مانگی۔ آپؐ نے انھیں لمبی چوڑی زمین دے دی۔ جب حضرت عمرؓ خلیفہ بنے تو آپؓ نے کہا : اے بلالؓ ! تو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے   لمبی چوڑی زمین حاصل کی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی سوال کرنے والے کو خالی نہ لوٹاتے تھے اور تو اس کی طاقت نہیں رکھتا جو تیرے پاس ہے۔ بلال ؓنے کہا : ’ہاں‘۔ عمرؓ نے کہا : تو اس کو دیکھ جو طاقت رکھتا ہے اتنی رکھ لے اور باقی دے دے۔ ہم مسلمانوں میں تقسیم کردیں۔ بلالؓ نے کہا : میں ایسا نہ کروں گا، جو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے۔ حضرت عمرؓ نے کہا : تجھے ایسا ضرور کرنا پڑے گا، پھر حضرت عمرؓ نے اس سے زمین لے لی اور مسلمانوں میں تقسیم کردی۔  ۲۶؎  آج اگر ان اصولوں سے استفادہ کیا جائے تو نہ صرف یہ کہ قدرتی وسائل و دولت کی تقسیم کوعدل کے اصولوں کے تحت بہتر بنا یا جا سکتا ہے بلکہ سسکتی ہوئی انسانیت کی مشکلات کو دور کر کے غربت و افلاس کو ختم کیا جا سکتا ہے۔

اسی اصول کا اطلاق آبی وسائل کے ضمن میں کر کے آبی وسائل کی تقسیم بھی بہتر کی جا سکتی ہے۔ اس کی دلیل یہ روایت بھی ہے کہ حضرت حصین بن مشمتؓ فرماتے ہیں کہ وہ وفد کی صورت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور اسلام قبول کرنے کی بیعت کی اور آپؐ کی خدمت میں اپنے مال کے صدقات پیش کیے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں جائیداد میں مختلف علاقے دیئے، جن میں بہت سارے چشمے بھی تھے۔ ان کا نام لیا، لیکن ہمارے شیخ ان ناموں کو یاد نہ رکھ سکے۔ راوی کہتے ہیں : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر شرط لگائی جو ابن مشمت کو دیا ہے وہ اس کا پانی فروخت نہ کرے گا اور اس کی چراگاہ کو نہ کاٹے گا اور نہ اس کے درختوں کو کاٹےگا۔ ۲۷؎

پانی کی خرید و فروخت کی ممانعت

انتظامِ آب کے ضمن میں ایک اقدام نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اٹھایا کہ پانی کی خرید و فروخت سے منع فرما دیا۔ ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے غلام نے ان کو خط لکھا کہ میں نے آپؓ کی زمینوں کی سیرابی کے بعد باقی پانی کو ۳۰ ہزار درہم میں فروخت کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اب آپؓ کی اجازت درکار ہے۔ آپ نے جواب دیا کہ میں نے تمھارا مطلب سمجھ لیا ہے لیکن میرے پیش نظر وہ حدیث، جس میں ضرورت سے زیادہ پانی اور گھاس کو روکنے اور دوسروں کو فائدہ نہ پہنچانے والے شخص کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ناراضی کا ذکرہے، کہ ایسا شخص روز قیامت خدا کے فضل سے محروم ہوگا، تو جب تیرے پاس میرا یہ خط پہنچے تو اس پر عمل کرتے ہوئے پہلے اپنے باغوں، کھیتوں اور زمینوں کو سیراب کرواور جو فالتو پانی ہو اسے بیچنے کے بجائے اپنے اس پڑوسی کو دو، جو تمھارے سب سے زیادہ قریب ہو اور پھر اسے جو اس کے بعد قریب ہو۔ ۲۸؎

حضرت عبداللہ بن عمروؓ کے آزادکردہ غلام سالم فرماتے ہیں کہ انھوں نے مجھے اپنی زمین کا زائد پانی ۳ ہزار میں دیا جو گڑھے میں تھا، چنانچہ میں نے یہ بات عبداللہ بن عمروؓ کو بتائی تو انھوں نے میری طرف جوابی خط میں لکھا :اسے مت بیچ تو باری مقرر کردے، پھر اپنے قریب والوں کو پانی دے کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ : ضرورت سے زائد پانی نہ بیچو۔ ۲۹؎

 حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد اور دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ان کا ایک غلام تھا جوان کے چشمہ کا زائد پانی ۲۰ ہزار میں فروخت کرتا۔ حضرت عبداللہ بن عمرو نے اس سے فرمایا : اس کو فروخت نہ کرو، بیشک اس کی بیع جائز نہیں۔ ۳۰؎  اور یہ روایت بہت جامع ہے کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم نے سوائے اس پانی کے جس کو اٹھا کر لایا جائے ہر قسم کے پانی کی فروخت سے منع فرمایا ہے۔ ۳۱؎  پانی کی خرید و فروخت کی ممانعت کر دینے کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگوں کا ذہن تجارت و مالی فوائد کی طرف جانے کے بجائے خیر خواہی و بھلائی کی طرف منتقل ہوا، نیز اس جذبے کی بدولت لوگوں کے آبی قلت کے مسائل میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی۔

زائد پانی کو روکنے کی ممانعت

لوگوں کے پاس بکثرت چیزیں موجود ہوتی ہیں، لیکن وہ ضرورت سے زائد اشیا کسی دوسرے فرد کو دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے، حتیٰ کہ وہ چیزیں ضائع ہو جاتی ہیں یا گل سڑ جاتی ہیں۔

اس عملِ بد کو روکنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں دیگر زائد اشیا اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں کو دے دینے کی ترغیب دلائی، وہیں یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ’’کوئی شخص اپنے پاس زائد پانی نہیں رکھے گا بلکہ اپنے دوسرے مسلمان بھائی کو دے دے گا‘‘۔

اسی طرح حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تین آدمیوں کی طرف نہ دیکھے گا اور نہ انھیں پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے: اوّل وہ شخص جس کے پاس ضرورت سے زائد پانی راستہ میں ہو اور وہ اسے مسافر کو نہ دے، دوسرے وہ شخص جس نے کسی امام سے بیعت صرف دنیا کی خاطر کی کہ اگر اس کو کوئی دنیوی چیز دیتا ہے تو راضی ہے اور نہ دے تو ناراض ہوجاتا ہے، تیسرے وہ شخص کہ اپنا سامان عصر کے بعد لے کر کھڑا ہو اور کہے کہ اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں مجھے اس کی قیمت اتنی اتنی مل رہی تھی، (لیکن میں نے نہیں دیا) اور کوئی شخص اس کو سچا بھی سمجھے پھر یہ آیت پڑھی :  اِنَّ الَّذِيْنَ يَشْتَرُوْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ وَاَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيْلًا (اٰل عمرٰن ۳:۷۷) ’’بے شک جو لوگ بیچتے ہیں اللہ کے عہد کو اور اپنی قسموں کو ایک حقیر قیمت کے‘‘۔ ۳۲؎   (جاری)

حوالہ جات

۱-    بخاری، الجامع الصحیح، حدیث : ۶۵۸۱۔ ایک روایت میں ہے کہ حوضِ کوثر تین مہینوں کی مسافت کے برابر ہے۔ اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور مشک سے زیادہ خوشبودار ہے، اس کے کوزے آسمان کے ستاروں کی طرح ہیں، جو شخص اس سے پی لے اس کو کبھی پیاس نہ لگے گی۔ بخاری، الجامع الصحیح، حدیث۶۵۷۹

۲-    ا بن کثیر ، البداية والنهاية: بیروت، ج۲،ص ۲۶۳

۳-    ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون،ج۲،ص ۳۹۹-۴۰۴؛ طبری، تاریخ طبری، ج۲،ص ۲۴۸-۲۵۴

۴-    ڈاکٹر محمدالیاس عبدالغنی ، تاریخ مدینہ منورہ،لاہور ،ص۱۲۰

۵-    عبدالمعبود، محمد، تاریخ مکۃ المکرمہ،لاہور ، ج۱،ص ۳۴۱

۶-    السمہودی، نورالدین، وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفٰى، لاہور،ج۴،ص ۱۰۵

۷-    ڈاکٹریٰسین مظہر صدیقی، عہد نبوی میں تنظیم ریاست و حکومت، مشمولہ نقوش رسولؐ نمبر، مرتب محمدطفیل ،لاہور ، ج۵، ص ۶۹۲

۸-    محمد عبدالمعبود، تاریخ مکۃ المکرمہ، ج۱،ص ۳۴۲

۹-    محب الدین ابو عبد الله محمد بن محمود بن الحسن ،الدرة الثمينة في أخبار المدينة،ص۶۴

۱۰-  ترمذی، جامع ترمذی، بَابٌ فِي مَنَاقِبِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، حدیث۳۶۹۹، ج۵، ص۶۲۵

۱۱-  حضرت طلحہ ابن عبید اللہ التیمیؓ مشہور صحابی ہیں، جن کاشمار عشرہ مبشرہ میں ہوتا ہے۔ جنگ جمل میں شہید ہوئے۔ البخاری، التاريخ الکبیر، ج۴،ص ۳۴۴

۱۲- محمد مہربان باروی، عہد رسالت میں مملکت کا بنیادی تصور: ایک تحقیقی جائزہ، ششماہی التفسیر کراچی، شمارہ۳۵، جنوری ۲۰۲۰ء،ص ۱۹۴

 ۱۳- ابن ماجہ، سنن ابن ماجہ ،بیروت، حدیث ۳۶۸۴؛ النسائی ، السنن الصغرى للنسائي،  حدیث۳۶۶۵؛ ابو داؤد، سنن ابو داؤد، حدیث ۱۶۷۹

۱۴- النسائی ، السنن الصغرىٰ للنسائي، حدیث ۳۶۶۴؛ ابو داؤد،سنن ابوداؤد،حدیث ۱۶۸۱

 ۱۵- ترمذی، جامع ترمذی، حدیث۱۹۵۶

۱۶-  ابو داؤد، سنن ابو داؤد، حدیث ۱۶۸۲؛ ترمذی، جامع ترمذی، حدیث۲۴۴۹

۱۷-  ابن ماجہ، سنن ابن ماجہ، حدیث ۲۴۷۴

۱۸-  ابن ماجہ، سنن ابن ماجہ، حدیث ۲۴۲

۱۹-  ابو الحسن نور الدین الہیثمی ، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، القاہرہ،حدیث ۷۶۹

۲۰- علامہ صفی الرحمٰن مبارکپوری، الرحيق المختوم،بیروت، ص ۱۷۲

۲۱-  ابوداؤد، سنن ابوداؤد، حدیث ۳۴۷۷؛ ابن ماجہ، سنن ابن ماجہ، حدیث۲۴۷۲

۲۲-  محمد بن احمد، السرخسی، المبسوط،بیروت ، ج۲۳،ص ۱۶۴

۲۳-  ابن ماجہ، سنن ابن ماجہ، حدیث ۲۴۷۵

 ۲۴- احمد بن حنبل، مسند احمد، حدیث۲۷۸۵۔حضرت عمرو بن عوف مزنی سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال بن حارث مزنی کو قبلیہ نامی گاؤں کی بالائی اور نشیبی کانیں اور قدس نامی پہاڑ کی قابلِ کاشت زمین بطور جاگیر کے عطا فرمائی اور یہ کسی مسلمان کا حق نہیں تھا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دے دیا ہو اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے یہ تحریر لکھوا دی، جس کے شروع میں بسم اللہ کے بعد یہ مضمون ہے کہ یہ تحریر جو محمدالرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال بن حارث مزنی کے لیے لکھی ہے۔

 ۲۵- البیہقی، السنن الکبرٰی، حدیث۷۶۳۷، علی متقی ہندی، کنز العمال،حدیث۹۱۶۵

۲۶-  البيہقی ، سنن البيہقی الکبرٰی ، حدیث۱۱۶۰۵

 ۲۷- البيہقی ، سنن البيہقی الکبرٰی، حدیث ۱۱۵۷۱؛ علی متقی، کنزالعمال، حدیث۳۰۳۲۰

۲۸-  یعقوب بن ابراہیم، ابویوسف، الخراج ،القاہرہ، ص ۹۶

۲۹-  البيہقی ، سنن البيہقی الکبرٰی ،حدیث ۱۱۰۶۲

۳۰-  ابوبکر عبداللہ، ابن ابی شیبہ،المصنف، جدۃ، حدیث۲۱۳۴۳

 ۳۱- القاسم بن سلاّم، ابو عُبيد،کتاب الاموال ،بیروت،حدیث ۷۵۵

۳۲-بخاری، الجامع الصحیح ،بیروت، حدیث ۲۳۵۸

برصغیر پاک و ہند میں تحریک ِ اسلامی کا ارتقا-۲
مجدد الف ثانی ؒسے علّامہ محمد اقبالؒ تک

اسلامی احیا کی اس تحریک کو شاہ ولی اللہ کے بعد شاہ عبدالعزیز دہلوی [۲۰ستمبر ۱۷۴۶ء- ۵جون ۱۸۲۳ء] اور آپ کے خانوادے کے دوسرے بزرگوں نے زندہ رکھا۔اگرچہ احمدشاہ ابدالی کے کامیاب حملے نے مرہٹہ جنگجوئوں کی صورت میں ہندو نسل پرست تحریک کی کمر توڑ دی تھی، لیکن اس کے باوجود ہندستان میں بدامنی اور طوائف الملوکی کے اس زمانے میں مسلمانوں کی سماجی، دینی، معاشی اور سیاسی زندگی بے وزنی کی تصویر بنی ہوئی تھی۔ مشرق اور دکن سے برطانوی سامراج قدم پھیلاتا ہوا بڑھتا چلا آرہا تھا اوردوسری جانب پنجاب عملاًسکھوں کی سکھاشاہی کا منظر پیش کر رہا تھا۔ تیسری جانب مسلمانوں میں ہندوانہ رسوم و رواج اور بدعات نے دین کی شکل تبدیل کرنے کا سفر جاری رکھا تھا۔ ایسے میں سیّداحمدشہید [۲۹نومبر ۱۷۸۶ء،رائے بریلی- ۶مئی ۱۸۳۱ء، بالاکوٹ] اور شاہ اسماعیل شہید [۲۶؍اپریل ۱۷۷۹ء-۶مئی ۱۸۳۱ء] کی قیادت میں تحریک ِ مجاہدین نے راہِ منزل متعین کی۔

تحریکِ مجاہدین

 تحریک مجاہدین کے پس منظر میں شاہ عبدالعزیز بن شاہ ولی اللہ کے ان فتاویٰ نے بنیادی کردار ادا کیا: ’’یہاں کے عیسائی حکام کا حکم بے دھڑک جاری ہے۔ یہ لوگ خود میں حاکم اور   مختارمطلق ہیں۔ بے شک یہ نمازِ جمعہ، عیدین، اذان وغیرہ میں رکاوٹ نہیں ڈالتے، لیکن ان سب کی جڑ بے حقیقت اور پامال ہے۔چنانچہ یہ لوگ بے تکلف مسجدوں کو مسمار کر دیتے ہیں۔ عوام کی شہری آزادیاں ختم ہوچکی ہیں، یہاں تک کہ کوئی مسلمان یا غیرمسلم ان کی اجازت کے بغیر اس شہر یا اس کے اطراف میں نہیں آسکتا۔ دہلی سے کلکتے تک ان کی عمل داری ہے‘‘(فتاویٰ عزیزیہ، اوّل، ص۱۷)۔ [دوسرے فتوے میں لکھا:]’’نصاریٰ بلکہ کافروں کی ملازمت کی کئی اقسام ہیں۔  اس میں بعض مباح، بعض مستحب، بعض مکروہ ، بعض حرام، بعض گناہِ کبیرہ ہیں‘‘ (ایضاً، دوم، ص ۱۱۹)۔ ’’ہندستان اب دارالحرب ہوگیا ہے‘‘(ایضاً، اوّل، ص ۱۰۵)۔شاہ عبدالعزیزؒ کے یہ فتاویٰ اور خطبات عملی سطح پر تحریک مجاہدین کی تشکیل و تحریک اور آزادیِ ہند اور اسلامی ریاست کی تعمیر کا عنوان بنے۔

یاد رہے کہ تحریک مجاہدین محض جہاد بالسیف کی تحریک نہ تھی، بلکہ یہ تعلیم و اصلاح کی تحریک بھی تھی۔ جس کا پہلا ہدف اصلاح عقائد اور بدعات سے اجتناب اور مقامی ثقافتی رواج کو اسلام بناکر اختیار کرنے کے فتنے سے مسلمانوں کو بچانا تھا۔ دوسرا یہ کہ انگریزی اثرات اور حکومت کو ختم کرنا۔ تیسرا یہ کہ کتاب و سنت کی ترویج اور احیائے دین۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے ایک آزاد ٹھکانے کی ضرورت تھی، جسے قائم کرنے کے لیے سیّداحمد بریلوی کی قیادت میں تحریک مجاہدین نے راجستھان، سندھ ، قندھار سے ہوتے ہوئے کابل اور پنجاب کے درمیان پٹھان قبائلی علاقے کو مستقر بنانے کی راہ اختیار کی۔

سیّد احمد شہید نے صراطِ مستقیم میں پہلے طریقِ نبوت اور صوفیا کے طریقے کا فرق بیان کیا ہے، بدعت کی حقیقت اور اس سے بچنے کے موضوع پر بڑی جامع بحث کی ہے۔پھر   آپ نے ہندستان میں فعال تصوف کے اُن تمام سلسلوں کے افکار و اشغال کو بیان فرمایا ہے، جو آپ کی نگاہ میں صحیح تھے۔ آخر میں ایک بڑا اہم باب مسلک راہِ نبوت پر لکھا ہے، جس میں بیان کیا ہے کہ فکری و روحانی اصلاح کے لیے نبویؐ طریقہ کیا ہے؟

  • احیائـے حج: تحریک ِ مجاہدین کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ سیّداحمدبریلوی نے جہاد سے پہلے جہاں ایک طرف احیائے سنت کی ہمہ گیر مہم چلائی، وہیں آپ نے لوگوں میں حرکت پیدا کرنے کے لیے اور اُنھیں ایک بڑی قربانی پر تیار کرنے کے لیے احیائے حج پر زور دیا۔ بدامنی اور راستے کی مشکلات کے باعث ہندستان میں علما نے ایک مدت سے یہ فتویٰ تک دے رکھا تھا: ’’حج یہاں کے مسلمانوں پر فرض نہیں رہا، اس لیے کہ سفرِحج کی راہ بہت پُرخطر ہے‘‘۔ سیّدصاحبؒ نے اس پر فرمایا کہ: ’’زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ حج آج بھی اُسی طرح فرض ہے جس طرح کہ اللہ اور اُس کے رسولؐ نے فرض کیا ہے۔ مسلمانوںکا یہ فرض ہے کہ وہ اس سنت کا احیا کریں اوراپنی جان پر کھیل کر بھی اس فرض کو ادا کریں‘‘۔ اس مقصد کے لیے آپ نے صلائے عام دےدی کہ: ’’پورے ہندستان سے جو میرے ساتھ چلنا چاہتا ہے، آئے، میں اُس کو لیے چلتا ہوں‘‘۔ حاجیوں کے چھے بحری جہاز آپ اپنے ساتھ لے کر حجازِ مقدس گئے اور حج کا فریضہ ادا کرکے واپس سرزمین تشریف لائے۔ اس طرح مسلمانوں میں ایک نیا جذبہ اور ولولہ پیدا ہوگیا اور اسلام کی خاطر خطرات کو مول لینے کا داعیہ اُمڈ آیا۔
  • دعوت و ارشاد:پھر سیّدصاحب نے تعلیم، ارشاد اور ہدایت کا ایک نظام قائم کیا۔ آپ لوگوں سے بیعت لیتے تھے۔ ان میں سے جو اہلِ علم تھے اور تقریر کرسکتے اُن سے کہتے کہ: ’جائو شہر شہرجائو، بستی بستی جائو، محلے محلے جائو، گھرگھر جائو اور بدعات کو ختم کرنے کا، شرک کو جڑ سے کاٹنے کا ، سنت کے احیا کا اور جہاد کے جذبے کو بیدار کرنے کا کام انجام دو‘۔
  • جہاد بالسیف: سیّد صاحب کی اپیل پر ملک کے ہر گوشے سے جہاد کی اس دعوت پر مسلمانوں نے لبیک کہا۔ لڑائی لڑی گئی۔ اُس وقت کے شمال مغربی پنجاب اور آج کے خیبرپختونخوا میں، مسلمان اس دعوتِ جہاد میں شرکت کی سعادت حاصل کرنے کے لیے کھچ کھچ کر دکن، بنگال اور بہار سے آئے۔ یہ مجاہدین اپنے گھربار، اپنے دوستوں اور اعزہ کو، غرض کہ پوری دُنیا کو چھوڑ کر آئے۔ ہرقسم کی صعوبتیں جھیلیں اور مصیبتیں انگیز کیں، صرف اس لیے کہ اللہ اور اُس کے آخری رسولؐ کے کلمے کو سربلند کریں۔ جہاد کا یہ عظیم فریضہ انجام دینے کے لیے سیّداحمد بریلوی نے ایک مستقل جماعت بنائی۔ اس جماعت میں شامل ہونے والوں کے قلوب کا تزکیہ کیا۔ دین کا ایک انقلابی تصور اُن کو دیا۔ نظامِ دعوت و تبلیغ قائم کیا اور یہ سب کچھ صرف اعلائے کلمۃ الحق کے لیے کیا۔

اس بارے میں خود سرسیّد احمد خاں [۱۷؍اکتوبر ۱۸۱۷ء- ۲۷مارچ ۱۸۹۸ء]کی شہادت بڑی دل چسپ ہے۔ سرسیّد احمد خاں مرحوم، شاہ اسماعیل شہید کے بارے میں لکھتے ہیں: بموجب ارشاد سیّد پیر طریق یدا (سیّد احمد بریلوی صاحب) کے، اس طرح سے تقریر و وعظ کی بنا ڈالی کہ مسائل جہاد فی سبیل اللہ بیش تر بیان ہوتے۔ یہاں تک کہ آپ کے صیقلِ تقریر سے مسلمانوں کا آئینہ باطن مصفّا اور مجلّٰی ہوگیا، اور اس طرح سے راہِ حق میں سرگرم ہوئے کہ بے اختیار دل اُن کا چاہنے لگا کہ سر اُن کا راہِ خدا میں فدا ہو اور جان ان کی اعلائے لوائے محمدیؐ میں صرف ہو۔ (آثار الصنادید ، طبع اوّل، بحوالہ سہ ماہی رسالہ تاریخ  و سیاست، بابت نومبر۱۹۵۲ء، ص ۸)

مولانا عبدالحی [م: ۸شعبان ۱۲۴۳ھ/۲۴ فروری ۱۸۲۸ء]کے بارے میں سرسیّد احمد خاں لکھتے ہیں: ’’لوگوں کو نہایت ہدایت حاصل ہوئی اور بااتفاق مولوی محمداسماعیل صاحب کے ترغیب ِ جہاد فی سبیل اللہ میں سرگرم رہے‘‘(ایضاً، ص ۷۶)۔اس طرح تحریک ِ مجاہدین نے قوم میں جہاد کی روح پھونک دی، مسلمانوں کو دوبارہ اس جذبے سے سرشار کیا کہ اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے وہ اپنی جانیں دے دیں۔

  • برصغیر کی پہلی اسلامی ریاست: سیّداحمد شہیدؒ نے اس مقصد کے لیے ہندستان کی سرزمین میں پہلی چھوٹی سی اسلامی ریاست قائم کی تھی۔ آپ نے قوم کے سامنے جو مقصد رکھا، وہ یہ تھا:’’جہاد قائم کرنا اور بغاوت و فساد کو مٹانا ہر زمانے اور ہر مقام پر خدا کا نہایت اہم حکم ہے، خصوصاً اس زمانے میں جب کافروں اور سرکشوں کی شورش ایسی عام صورت اختیار کرگئی ہو کہ سرکشوں اور باغیوں کے ہاتھوں دینی شعائر بگاڑے جارہے ہوں، اس صورت میں سرکش کافروں کی بیخ کنی سے غفلت اور مفسد باغیوں کی گوشمالی سے سہل انگاری بہت قبیح گناہ ہے۔ اس بنا پر خدا کی درگاہ سے اس بندے نے اپنے وطن سے نکل کر ہند و سندھ و خراسان کا دورہ کیا اور وہاں کے مومنوں اور مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دی‘‘۔

اپنی تحریک کے بارے میں سیّد احمد بریلوی فرماتے ہیں:’’وہ غیر جن کا وطن بہت دُور ہے، بادشاہ بن گئے۔ وہ تاجر جو سامان بیچ رہے تھے، انھوں نے سلطنت قائم کر لی ہے۔ بڑے بڑے امیروں کی عمارتیں اور رئیسوں کی ریاستیں خاک میں مل گئی ہیں ، ان کی عزّت اور ان کا وقار چھن گیا ہے ۔ جو لوگ ریاست و سیاست کے مالک تھے، وہ کنج ِ عافیت میں بیٹھے ہیں۔   آخر فقیروں اور مسکینوں میں سے تھوڑے سے آدمیوں نے ہمت باندھی اور ضعیفوں کا گروہ محض خدا کے دین کی خدمت کے لیے اُٹھا ہے، یہ لوگ نہ دُنیادار ہیں اور نہ جاہ طلب۔ جب ہندستان کا میدان غیروں اور دشمنوں سے خالی ہوجائے گا اور ضعیفوں کی کوششوں کا تیر نشانے پر جا بیٹھے گا تو آیندہ کے لیے ریاست و سیاست کے عہدے طالب لوگوں میں بانٹ دیئے جائیں گے۔خدا کے اس انعام کا شکر بجا لائیں، ہمیشہ ہرحالت میں جہاد قائم رکھیں، کبھی اس کو معطل نہ چھوڑیں، عدالت اور فیصلوں میں شرع کے قانون سے بال برابر بھی تجاوز نہ کریں۔ ظلم اور کشت و خون سے برابر بچتے رہیں‘‘۔

  • تحریکِ مجاہدین کا اصل مقصد:حضرت بریلوی شہید مزید کہتے ہیں:’’پھر میں ان مجاہدین کو لے کر ہندستان کی طرف متوجہ ہوجائوں گا، تاکہ وہاں سے اہلِ کفر کے طغیان کو ختم کیا جاسکے اور میرا اصل مقصودِ جہاد یہ نہیں کہ خراسان میں سکونت اختیار کرلوں‘‘۔کچھ لوگوں نے یہ کہا تھا: ’’آپ کا مقصد تو یہ ہے کہ آپ اپنے لیے ایک چھوٹی سی ریاست بنالیں‘‘۔ آپ نے فرمایا:’’نہیں، میرے پیش نظر یہ ہے کہ پورے ہندستان کو اسلامی حکومت کے ماتحت لے آئوں، خدا کا قانون یہاں پر جاری ہو۔ انگریزوں کو یہاں سے نکال دیا جائے، سکھوں کی کمر توڑی جائے اور مرہٹوں کی سرکشی ختم کی جائے‘‘۔

یہ تھا وہ مقصد، جس کو لے کر آپ اُٹھے تھے۔ آپ نے سنتؐ کے اتباع کی دعوت دی۔ اس دور میں صحابہؓ سے قرب کی کوئی مثال ہمیں ملتی ہے تو اس تحریک میں ملتی ہے۔ وہی جذبہ ہے، وہی کیفیت ہے، وہی قربانیاں ہیں،وہی اخلاص ہے، اسی قسم کی للہیت ہے اور پروانہ وار فدا کاری!

  • جذبۂ جہاد:جہاد کا موقع آتا ہے، ایک شخص بیمار ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ: ’’تم اس میں شرکت نہ کرو‘‘۔وہ کہتا ہے: نہیں،میں کوئی ایسا بیمار تو نہیں ہوں۔ یہ پہلا معرکہ ہے اس میں مجھے ضرور شرکت کی اجازت دیجیے۔ ایک کمزور اور لاغر انسان ہے۔ رسد اُٹھائی جارہی ہے۔ اُس سے بوجھ نہیں اُٹھتا۔ آپ منع کر دیتے ہیں کہ ’تم کمزور ہو، اناج کی بوریاں نہ اُٹھائو‘۔وہ کہتا ہے: ’ٹھیک ہے۔ لیکن کیا میں ایک نیک کام میں شرکت سے محروم رہ جائوں‘۔

ایسی غیرمعمولی مثالیں اس تحریک میں ملتی ہیں کہ کم از کم ہندستان کی تاریخ میں تو کوئی   اُن کی مثال نہیں۔ پھر جن مشکلات سے یہ لوگ گزرے، اس میں جس تحمل اور پامردی اور جس ہمت کا انھوں نے مظاہرہ کیا،وہ غیرمعمولی ہے۔ ذاتی اخلاق اور عفت و پاک بازی کا معیار بھی بڑا ہی اُونچا تھا۔ ہزاروں کا لشکر ایک شہر میں جاتا ہے اور کسی شخص کا ایک برتن نہیں لُوٹا جاتا۔ کسی دکان پر سے ایک چیز نہیں اُٹھائی جاتی اور نہ بلاقیمت لی جاتی ہے۔ عورتیں اس بات کی شہادت دیتی ہیں کہ سیّداحمد شہید کی فوج نہ معلوم کیسے انسانوں سے بنی ہوئی ہے کہ کبھی ہم نے اُن کی نگاہوں کو عورتوں پر اُٹھتے ہوئے نہیں دیکھا ہے۔

یہ تحریک اس ملک کی پہلی حقیقی اسلامی تحریک ہے، جس نے فکروعقیدہ اور عمل اور اجتماعی نظام ان سب کو بدلنے کی کوشش کی۔ یہ ٹھیک ہے کہ مقامی مسلمان خوانین کی غداری اور کچھ دوسری وجوہ کی بناپر دُنیوی حیثیت سے بظاہر یہ تحریک کامیاب نہ ہوسکی۔ لیکن کیا یہ بات کچھ کم ہے کہ وہ ہمیشہ کے لیے یہ بات ثابت کرگئی کہ اگر اخلاص کے ساتھ اللہ کے دین کو قائم کرنے کے لیے لوگ اُٹھیں، تو وہ اخلاق اور سیرت و کردار کا ایک ایسا نمونہ پیش کرسکتے ہیں کہ جس میں ایک گونہ مشابہت اس دور کی آجائے جس کا نظارہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرامؓ کی زندگیوں میں ملتا ہے۔

لوگ یہ کہتے ہیں کہ حضوؐر کے صحابیؓ مافوق البشر تھے، اب اس کے بعد یہ چیز نہیں ہوسکتی۔ مگر تحریک ِ مجاہدین کا مطالعہ کیجیے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اسلام وہ پارس ہے کہ جس زمانے میں بھی انسانوں کوچھو جائے اُنھیں سونا بنا دیتا ہے بشرطیکہ ان میں اخلاص ہو اور وہ فی الحقیقت اسلام کے آگے جھک جائیں اور اس کو قبول کرلیں۔ پھر کیا یہ بات کم ہے کہ ہندستان کے اتنے وسیع و عریض ملک میں چند سرفروش ایسے اُٹھے جنھوں نے عزت کی موت کو غلامی کی زندگی پر ترجیح دی، اور بقول مرزا سودا:

سودا قمارِ عشق میں مجنوں سے کوہکن
بازی اگرچہ پا نہ سکا سر تو کھو سکا

  • تحریکِ مجاہدین کے اثرات:پھر یہ تحریک بالاکوٹ (ضلع مانسہرہ ،پاکستان) کی شہادت گاہ میں ختم نہیں ہوگئی اور اس کی آگ فرزانوں کے سینوں میں حرارت پیدا کرتی رہی۔ زیرِزمین یہ تحریک برابر کام کرتی رہی۔ مؤرخین ایک ہی وقت میں آپ کے ۶۶متحرک خلفا کی تعداد بتلاتے ہیں۔ گویا ۶۶ مراکز سے یہ خلفا، تحریک کو اپنے اپنے دائرے میں چلاتے رہے۔ پھر یہ صرف زیر ِ زمین ہی نہیں چلتی رہی بلکہ اس نے انگریزوں کا ناطقہ بند کر دیا۔ اُن کے لیے ایسے حالات پیدا کر دیے کہ انگریز حکمرانوں کی راتوں کی نیند حرام ہوگئی۔(ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر [۱۸۴۰ء -۱۹۰۰ء ] Indian Musalmans، طبع اوّل: ولیمز اینڈ نارگیٹ، لندن، ۱۸۷۱ء، ناشر طبع سوم:(ترمیم شدہ) ٹربنر اینڈ کمپنی، لندن، ۱۸۷۶ء)

سیّد احمد بریلوی اور ان کے رفقائے کار کے کارنامے قابلِ رشک ہیں۔ سیّدصاحب اور ان کے جانشینوں کا سب سے اہم اور نتیجہ خیز کام، خطۂ بنگال میں احیائے اسلام اور اس وسیع مملکت کا برصغیر کے اسلامی مراکز سے دوبارہ رشتہ جوڑنا تھا۔ (شیخ محمد اکرام، موجِ کوثر، ادارہ ثقافت اسلامیہ، لاہور، ۲۰۲۱ء، ص ۵۰)

۶مئی ۱۸۳۱ء کو بالاکوٹ کے مقام پر سیّدصاحب شہید ہوئے، لیکن آنے والے کم از کم ۵۰برس تک یہ تحریک مختلف علاقوں میں برابر کام کرتی رہی اور ان کے خلاف انگریزی حکومت کی جانب سے چلائے گئے ۱۸۷۳ء کے جو آخری مقدمات ہم کو ملتے ہیں (دیکھیے: محمد جعفر تھانیسری کی کتاب کالا پانی اور Selected Papers Wahabi Trials)، ان میں برطانوی حکومت ِ ہند کہتی ہے کہ ’’اب ہم نے اس تحریک کا قلع قمع کر دیا ہے‘‘۔ لیکن اہلِ تحقیق بتاتے ہیں کہ اس کے بعد بھی مجاہدین برابر خاموشی کے ساتھ کام کرتے رہے اور بیسویں صدی کے آغاز تک مختلف حلقوں میں یہ کام ہوتا رہا۔ پھر ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں مسلمانوں پر بے پناہ ظلم و تشدد اور ہرممکن کوشش کے باوجود اس تحریک کا یہ نتیجہ ہے کہ کم از کم مسلمانوں کو انگریزوں سے سمجھوتا کرنے پر آمادہ نہ کیا جاسکا۔ مسلمانوں میں برطانوی سامراج سے بغاوت کرنے اور مصالحت نہ کرنے کا جذبہ اسی تحریک کا پیدا کردہ تھا۔

یہی تھی وہ چیز، جس نے ۱۸۵۷ء کے معرکے کو جنم دیا، اور یہی تھی وہ چیز جس نے اس کے بعد مسلمانوں کو انگریزی سامراجیت سے برابر برسرِ پیکار رکھا۔ اس میں واقعہ کانپور [اگست ۱۹۱۳ء] ہو یا خلافت کی تحریک ہو یا جلیانوالہ باغ کا المیہ [۱۳؍اپریل ۱۹۱۹ء] یا ترکِ موالات اور پھر خود  تحریکِ پاکستان ہو۔ان تمام تحریکات میں یہی روح کارفرما نظر آتی ہے کہ ہم انگریزوں کے تسلط کے ساتھ راضی (reconcile )نہیں رہ سکتے اور نہ اس کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرسکتے ہیں۔ استعمار اور غلامی کا جوا بہرحال ہمیں اپنے کندھوں سے اُتار پھینکنا ہے۔ یہی تھا وہ احساس، جو سیّدصاحب کی تحریک نے پیدا کیا۔ اس سے بڑھ کر کامیابی کسی تحریک کی اور کیا ہوسکتی ہے۔

فرائضی تحریک

اس زمانے میں ایک اور بڑی نمایاں تحریک ہم کو نظر آتی ہے، جس کی دعوت، خدمات اور اثرات کے تجزیے کی طرف ابھی تک بہت کم توجہ دی گئی ہے۔ یہ تحریک بھی تقریباً اسی عہد میں برپا ہوئی، تاہم اس کا زمانۂ آغاز تحریک ِ مجاہدین سے کچھ پہلے کا ہے۔ حاجی شریعت اللہ [۱۷۸۱ء- ۱۸۴۰ء] کی ولادت بہادرپور، ضلع فریدپور (بنگال) میں ہوئی، انھوں نے اس کا آغاز کیا۔ وہ اٹھارہ برس کی عمر میں حج بیت اللہ کے لیے حجازِ مقدس تشریف لے گئے اور ۲۰برس تک مکہ معظمہ میں مقیم رہے۔ وہاں علّامہ طاہر مکی شافعی سے تعلیم حاصل کی۔

حاجی شریعت اللہ ۱۸۰۲ء میں واپس وطن آئے اور ۱۸۰۴ء میں فرائضی تحریک شروع کی۔ ایک طویل عرصے سے ہندوئوں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے بنگال کے مسلمانوں میں بھی  غلط رسمیں اور شرک سے آلودہ عقائد جڑپکڑ چکے تھے۔ حاجی شریعت اللہ نے ان عقائد کی درستی اور اسلام کی صحیح تعلیمات کی تعلیم و تربیت کے لیےفرائضی تحریک شروع کی۔پہلے تو انھوں نے امرا کو اور مسلمان نوابوں کو خیر کے کاموں کے لیے اُبھارنے کی کوشش کی۔ پھر یہ کہ یہاں کے مسلمانوں میں آزادی کی روح پھونکنا، انگریزوں سے نجات پانا اور ہندو زمین داروں کے مظالم سے جان چھڑانا بھی اس تحریک کا مقصد قرار دیا۔

انگریزی حکومت کے تحت رہتے ہوئے ایسے باغیانہ پروگرام کی اشاعت اور جدوجہد نہایت جرأت مندانہ قدم، موت اور آزمایشوں کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ لیکن حاجی صاحب نے مسلمانوں کو پستی، غلامی اور ذلّت سے نکالنے کے لیے ذرہ برابر ہچکچاہٹ سے کام نہیں لیا اور سخت حوصلہ شکن حالات کے باوجود منزل کی طرف رواں دواں رہے۔جب اس میں کچھ کامیابی ہوئی تو عوام کی طرف رجوع کیا، خصوصیت سے کاشت کاروں کو جمع کیا۔ کاشت کاروں میں یہ تحریک جنگل کی آگ کے مانند پھیلی۔ حاجی شریعت اللہ نے جس بات کی کوشش کی وہ یہ تھی کہ بدعات ختم ہوں اور شرک کا استیصال ہو، یعنی جو آئیڈیل تحریک ِ مجاہدین کے تھے وہی آئیڈیل انھوں نے بھی اپنے سامنے رکھے۔ اس کے ساتھ انھوں نے جہاد کی بیعت تو لی، لیکن جہاد کر نہیں سکے۔

حاجی شریعت اللہ نے اس تنظیمی اور تحریکی سلسلے میں پیر اور مرید، یا خادم اور مخدوم کا کلچر اختیار کرنے کے بجائے ہدایت کی کہ: ’ہمارا باہم تعلق استاد اور شاگرد کا ہے‘۔ انھوں نے کسانوں اور کھیت میں کام کرنے والے مزدوروں کے حقوق کے تحفظ اور حالت ِ زار کو حیوانی سطح سے بلند کرنے اور شرفِ انسانی سے قریب ترلانے کے لیے رفاہی انداز سے کام شروع کیا۔ ان کا نعرہ تھا: ’الارض للّٰہ،یعنی زمین اللہ کی ہے‘۔مخالفین نے انگریزوں کے اشارے پر آپ کی تحریک کو بھی ’وہابی‘ تحریک کا نام دیا، حالاں کہ ان کا ایسا کوئی تعلق نہیں تھا۔

حاجی شریعت اللہ کی رحلت [۱۸۴۰ء] کے بعد ان کے بیٹے حاجی محسن میاں [۱۸۱۹ء-۱۸۶۰ء] نے تحریک کی قیادت سنبھالی۔ حاجی محسن میاں کو بنگال کے مسلمان محبت سے دودھو میاں کے نام سے پکارتے تھے۔ حاجی شریعت اللہ نے انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے اور انھیں بنگال سے نکالنے کے لیے بیعت لی تھی ، لیکن جیساکہ بتایا گیا ہے کہ وہ جہاد کا آغازنہ کرسکے ۔ البتہ ان کے صاحب زادے نے اس میدان میں قدم بڑھایا۔ انھوں نے عملاً انگریزوں کے خلاف بغاوت کی۔ مختلف مقامات پر ہزاروں آدمیوں کو قیدوبند کی صعوبتوں سے گزرنا پڑا۔ ’فرائضی تحریک‘ سے تعلق رکھنے والے سرفروشوں نے بڑے پیمانے پر قربانیاں دیں۔ انگریز حکومت نے جھوٹے مقدمے بنابنا کر مختلف طریقوں سے ان کو پریشان کیا اور یہ سلسلہ برسوں جاری رہا۔ تقریباً ۳۰،۳۵ سال تک یہ تحریک بنگال میں مؤثر خدمات انجام دیتی رہی۔ حقیقت یہ ہے کہ بنگال، آسام اور کسی حد تک بہار میں اسلام کو مستحکم کرنے کا کارنامہ انھی دو تحریکوں: ’تحریک ِ مجاہدین‘ اور’ فرائضی تحریک‘ ہی نے انجام دیا۔(ڈاکٹر جیمس وایز ، Mohammadans of Eastern Bengal)

اسی عرصے میں اسلام کے ایک اور سرفروش، سیّدمیرنثارعلی المعروف تیتومیر [۱۷۸۲ء- ۱۹نومبر ۱۸۳۱ء] نے سرزمین بنگال میں انقلابی تحریک شروع کی۔تیتومیر، سیّداحمد بریلوی کے عقیدت مند اور ان سے والہانہ محبت رکھتے تھے۔ انھوں نے ہندو زمین داروں کے مظالم اور استحصال، اور ان کے پشت پناہ انگریزوں کے خلاف پسے ہوئے بنگالی مسلمانوں میں نہ صرف زبردست بیداری پیدا کر کے مسلمانوں کو ظلم کی زنجیریں توڑنے پر آمادہ کیا، بلکہ عملی اقدامات بھی کیے۔ آخرکار اسی طرح کے ایک معرکے میںشہید ہوگئے۔[عبداللہ ملک، بنگالی مسلمانوں کی صدسالہ جہدِ آزادی، ناشر: مجلس ترقی ادب، لاہور، ۱۹۶۷ء]

  • ۱۸۵۷ء اور اُس کے بعد:اب ہمارے سامنے ۱۸۵۷ء کا معرکہ آتا ہے، جسے انگریز اور ان کے زیراثر قلم کار ’غدر‘ کہتے ہیں۔ انگریزی جبر کے زمانے میں سرسیّد نے لکھا: ’’غدر کیا ہوا، ہندوئوں نے شروع کیا، مسلمان دل جلے تھے وہ بیچ میں کود پڑے۔ ہندو تو گنگا نہاکر جیسے تھے ویسے ہوگئے [لیکن] مسلمانوں کے تمام خاندان تباہ و برباد ہوگئے‘‘۔ (الطاف حسین حالی حیاتِ جاوید، ص۲۸۰)

 مگر حقائق و شواہد بتاتے ہیں کہ بنیادی طور پر یہ بغاوت مسلمانوں ہی کی برپا کردہ تھی۔ ہندو مؤرخین بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اس کے روح رواں مسلمان تھے۔ اس بغاوت کی تنظیم اور تحرک میں سب سے زیادہ حصہ علما نے لیا تھا۔ دراصل یہ معرکہ بھی سیّداحمد شہید کی تحریک ہی کا ایک فکری اور عملی مظہر تھا۔ بظاہر بجھتے ہوئے چراغ کی ناقابلِ فراموش بھڑک!

سچی بات ہے کہ ۱۸۵۷ء کی اس جنگ کی سنگینی کا عصرحاضر کے نوجوانوں کو کچھ بھی علم نہیں، اور نہ وہ اس کی شدت کا اندازہ کرپاتے ہیں۔ وہ ایک قیامت تھی جو ہندستانی مسلمانوں کے سر سے گزر گئی۔ اس بہانے انگریزوں اور ان کے طرف دار اور حلیف ہندوئوں کو موقع مل گیا کہ جس طرح ممکن ہو مسلمانوں کو برباد کر دیا جائے، بقول بہادر شاہ ظفر     ع

جسے دیکھا، حاکمِ وقت نے کہا یہ بھی قابلِ دار ہے

قیصر التواریخ (کمال الدین لکھنوی) کے مطابق سات ہزار مسلمان معززین کو پھانسی پر لٹکایا گیا۔ تین ماہ تک مردہ گاڑیاںطلوعِ آفتاب سے غروبِ آفتاب تک گھومتی پھرتی تھیں۔ لاشوں کو درختوں سے اُتارتی تھیں۔ اس طرح چھے ہزار کے قریب افراد کو اُتارا گیا۔ پھر ہزار علما، فضلا، فقہا، شرفا، امرا کو عمرقید کے لیے جزائر انڈیمان (کالے پانی) عمرقید کاٹنے کے لیے بھیج دیا۔ اس سے متصل زمانے میں لارڈ ہاردنگ نے حکم نامہ جاری کیا کہ آیندہ عربی، فارسی جاننے والے فرد کو سرکاری ملازمت میں نہیں لیا جائے گا۔ ۱۸۴۹ء تک پنجاب کی سرکاری زبان فارسی تھی، مگر اس کا خاتمہ کرکے عام لوگوں کے لیے ۱۸۷۶ء سے پنجاب میں اُردو کو ذریعۂ تعلیم بنانے کی کوششیں شروع ہوئیں۔(پروفیسرسیّد محمد سلیم، مغربی زبانوں کے ماہر، ص ۱۰۷- ۱۰۸)

  • ردعمل اور انحراف کا دور:اس کے بعد ہم جس دور میں داخل ہوئے، اس کو مَیں ہندستان کی تاریخ میں ردعمل (reaction) اور انحراف (deflection)کا دور سمجھتا ہوں۔یہ زمانہ تقریباً ۵۰، ۶۰ سال پر حاوی ہے۔اس زمانے میں تین اہم ردعمل ہمارے سامنے آئے ہیں:
    • ایک سرسیّداحمد خاں اور ان کی قیادت میں رُونما ہونے والی علی گڑھ تحریک۔
    • دوسرا دیوبند کے علما اور قدامت پسند علما کاردعمل۔ lتیسرا مرزا غلام احمد قادیانی اور قادیانیت کا رُوپ بہروپ ۔

حالت یہ تھی کہ بحیثیت ِ مجموعی مسلمانوں میں ۱۸۵۷ء کے معرکے میں ناکامی کے بعد ایک عام مایوسی کی کیفیت پیدا ہوچکی تھی۔ انھوں نے اس وقت انگریز سامراج سے نجات حاصل کرنے کے لیے تین کوششیں کیں: بالاکوٹ جاکر لڑے، بنگال میں بغاوت کی اور ۱۸۵۷ء میں مختلف مقامات پر برطانوی حکومت کے خلاف بغاوت کی، لیکن یہ تینوں کوششیں بظاہر باثمرثابت نہ ہوسکیں۔  اس کے نتیجے میں فطری طور پر مسلمانوں میں لامرکزیت، بے بسی، مایوسی اور قنوطیت رُونما ہوئی۔

انگریز نے بھی اس بات کو اچھی طرح محسوس کرلیا تھا کہ مسلمان نرم نوالہ نہیں، ان میں کم از کم کچھ لوہے کے چنے تو ایسے بھی ہیں کہ اُن کو چبانے کی کوشش میں دانت ٹوٹ سکتے ہیں۔ ان پر  بے اعتمادی ، ان کو ختم کرنے کے لیے ہندوئوں سے تعاون کی کوشش، ان کے رہے سہے اقتدار کو ملیامیٹ کرنے کی مربوط کوشش، یہ تھے انگریز کی پالیسی کے بنیادی اصول۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں کی تمام مادی قوتیں ان سے چھین لی گئیں، انھیں روزگار سے محروم کر دیا گیا، ملازمتوں سے نکال دیا گیا، دربار اور عدالتوں سے ان کی ملازمتیں ختم کر دی گئیں۔ اس کے مقابلے میں ساری عنایتیں ان ضمیرفروشوں پر نچھاور ہوئیں، جو مسلمانوں سے غداری کررہے تھے اور بیرونی قوت سے سازباز کررہے تھے، یا پھر ہندوئوں کے ساتھ ہوئیں، جن کو یہ احساس دلایا گیا کہ: ’تم اکثریت میں تھے، لیکن تمھارے اُوپر آٹھ سو سال سے مسلمان حکمران تھے۔ اب تم ان سے آگے بڑھو اور اس ملک کے حکمران بنوگے‘۔

  • عیسائیت کی یلغار: انگریزوں نے صرف اس بات کو بھی کافی نہیں سمجھا، بلکہ انھوں نے مسلمانوں کے ذہن کو مرتد کرنے کے لیے بھی ایک منصوبہ بنایا۔ ایک طرف عیسائیت کا پرچار وسیع پیمانے پر کیا گیا اور برطانیہ کے وزیراعظم نے خود پارلیمنٹ میں یہ بات کہی کہ: ’ہماری حکومت کے قیام کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ کا پیغام ہم سارے ہندستان میں پہنچائیں‘۔ لٹریچر کا ایک طوفان تھا، جو اسلام پر لایعنی اور بڑے سوقیانہ اعتراضات کے ساتھ برصغیر کے کونے کونے میں پھیلایا گیا۔ اس بنا پر عوام میں ایک بے چینی اور ہلچل سی مچ گئی، شک و شبہے کے کانٹے لوگوں کے ذہنوں میں چبھو دیے گئے۔ہروہ فرد جو مغربی استعماریت اور نوآبادیاتی اقتدار کو چیلنج کرتا، اسے ’وہابی‘مشہور کر دیاجاتا، یوں خود مسلمانوں میں انتشارو افتراق کو گہرا کیا گیا۔

عیسائی مشنریوں کی ایک فوج تھی جو ملک کے طول و عرض میں کام کر رہی تھی۔ اس کے کام کی وسعت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ۱۸۵۷ء کی جنگ ِ آزادی سے بھی قبل، یعنی ۵۳-۱۸۵۲ء میں، جب کہ برصغیر ہند کے تمام سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں صرف ۳۰ہزار طلبہ زیرتعلیم تھے تو اس کے برعکس عیسائی مشنری تعلیمی اداروں میں اس سے دس گنا زیادہ، یعنی ۳لاکھ طالب علم زیرتعلیم و تربیت تھے (بحوالہ: The  Education of  India,  p49)۔ اگرچہ بظاہر تو دُنیاوی ترقی کے لیے یہ مشنری ادارے خواب دکھاتے، مگر ان کا اصل ہدف یہ تھا اور وہ اس میں کامیاب بھی رہے کہ مقامی طالب علموں میں دین کے بارے میں شک و شبہہ اور تہذیب کے بارے میں احساسِ کمتری پیدا کریں۔

  • جدید نظامِ تعلیم:پھر برطانوی حکمرانوں کی زیرقیادت مستشرقین اور معلّمین نے مل کر ایک نیا نظامِ تعلیم قائم کیا۔ جس کے بارے میں علّامہ محمد اقبال نے کہاتھا:

اور یہ اہلِ کلیسا کا نظامِ تعلیم
ایک سازش ہے فقط دین و مُروت کے خلاف

 مستشرقین (Orientalists)کی سوچ کا اندازہ لگانے کے لیے معروف مستشرق ولیم میور [۱۸۱۹ء-۱۹۰۵ء]کی مثال کافی ہوگی۔ میور نے اپنی کتاب The Life of Mahomet  (۱۸۶۱ء) میں لکھا:’’دُنیا کو اسلام سے دوخطرے ہیں (نعوذ باللہ من ذٰلک)۔ ایک محمد[صلی اللہ علیہ وسلم] کی تلوار سے اور دوسرا محمد [صلی اللہ علیہ وسلم] کے قرآن سے، اور جب تک ہم دونوں کو ختم نہیں کردیں گے، چین سے نہیں بیٹھیں گے‘‘۔ یہ بات بظاہر تو ایک اسکالر نے کہی، مگر یہی انداز تھا جو بحیثیت ِ مجموعی سارے مستشرقین نے اختیار کیا اور جسے انھوں نے نئے نظامِ تعلیم میں اختیار کیا۔ جبھی تو اکبر الٰہ آبادی [۱۸۴۶ء-۱۹۲۱ء] نے کہا ہے:

توپ کھسکی پروفیسر پہنچے
جب بسو لا ہٹا تو رندا ہے

یعنی پہلے توپ سے حملہ کیا گیا جس سے ہماری سیاسی قوت کو ختم کیا گیا۔ اب مستشرقین اور معلّمین تشریف لے آئے تاکہ ہمارے ذہنوں اور دلوں کو ، ہمارے نظریات اور خیالات کو، ہمارے اخلاق اور کردار کو بدل کر رکھ دیں اور انگریزوں کے غلام ابن غلام تیار کریں۔ اس پس منظر میں ہمارے سامنے دو تحریکات اُبھریں: پہلی تحریک کی سربراہی سرسیّداحمد خاں اور دوسری تحریک کی قیادت علمائے دیوبند نے کی۔

  • سرسیّد احمد خاں اور علی گڑھ تحریک:سرسیّد احمد خاں کی فکر اور ان کی تحریک کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ حالات کے بارے میں اُن کی تشخیص یہ تھی:
    •  حکومت کا اعتماد :مسلمانوں کی ترقی کا راز اس بات میں ہے کہ برطانوی حکومت ان پر اعتماد کرنے لگے۔ خرابی کی اصل جڑ یہ ہے کہ مسلمان، حکومت کے قابلِ اعتماد (trustful) نہیں رہے اور چوں کہ حکومت کے قابلِ اعتماد نہیں رہے، اس لیے زندگی کے تمام شعبوں سے نکال باہر کیے گئے ہیں۔ اس لیے مسلمانوں کا کام یہ ہے کہ وہ اعتماد کو بحال کریں۔ انگریزوں سے جُڑیں، سامراجی حکومت کو اپنی وفاداری کا یقین دلائیں، اس سے اپنے تعلقات استوار کریں اور اربابِ حکومت کے ساتھ اُٹھیں، بیٹھیں، کھائیں اور پئیں۔ اسی طریقے سے مسلمان اُن کے ساتھ جڑ سکیں گے۔
    • مغربی تہذیب کی تقلید :فکری اور تہذیبی میدان میں مسلمانوں کو جدید مغربی تہذیب سے سمجھوتا کر لینا چاہیے۔ کچھ چیزیں اس کی لے لی جائیں، کچھ اپنی باقی رکھی جائیں اور اس طرح ایک نیا مرکب تیار کیا جائے جو نئے حالات میں چل سکے۔
    • جدید تعلیم کا حصول  :ترقی کا زینہ تعلیم ہے۔ مسلمانوں کو جدید تعلیم حاصل کرکے حکومت کے مناصب حاصل کرنے چاہییں اور سرکاری ملازمتیں اختیار کر کے اپنی معاشی حالت کو درست کرنا چاہیے۔

سرسیّد کے افکار کے تجزیے سے یہ تین بنیادی چیزیں ہمارے سامنے آتی ہیں۔ انھوں نے اپنے فکروفلسفے کی وضاحت اور تبلیغ کے لیے متعدد کتب اور بہت سے مقالات لکھے،    ان سب کا ذکر اس وقت ممکن نہیں۔ ہم فی الحال ان کی چار چیزوں کی طرف اشارہ کریں گے، جو ان کے پیش کردہ نظریات و خیالات کا جوہر (essence)پیش کرتی ہیں:

  • بائبل کی تفسیر:سب سے پہلے ان کی بائبل کی تفسیر تبیین الکلام فی تفسیر التوراۃ  والانجیل علٰی ملۃ الاسلام   [۶۵- ۱۸۶۲ء ] تین حصے کو لیجیے۔اس میں سب سے اہم چیز یہ ہے کہ انھوں نے بائبل کو غیرمحرف اور الہامی مان کر اس سے اسلامی تعلیمات کی تائید میں استدلال کیا۔ ایک تحریف شدہ کتاب کو غیرمحرف ماننا ’سمجھوتا کاری‘ کی پہلی کوشش تھی، جو سرسیّد مرحوم نے کی۔ یہ سمجھوتا بائبل کے ساتھ نہیں بلکہ پوری مغربی تہذیب اور خصوصیت سے انگریز حکمرانوں کے ساتھ ایک سمجھوتا تھا، جس نے سیاسی حیثیت سے ہمارے وزن کو کم کیا اور علمی و تہذیبی حیثیت سے ہمیں محض دفاعی پوزیشن میں پھینک دیا۔
  • رسالہ طعام اہلِ کتاب:پھر آپ کا رسالہ [۱۸۶۸ء] احکام طعامِ اہلِ کتاب بہت اہم ہے۔ جس میں آپ نے لکھا کہ ’اہلِ کتاب‘ کا ذبیحہ مسلمانوں کے لیے حلال ہے، خواہ اس پر کلمہ پڑھا گیا ہو یا نہیں۔ اور اس کی دلیل منجملہ دیگر دلائل کے یہ بھی دی کہ مسلمانوں کی یہ ضرورت ہے کہ وہ انگریزوں کے ساتھ اگر اُٹھیں بیٹھیں گے تو کھانا پینا ضرور ہوگا۔ اس لیے طعام کے معاملے میں ان سے یہ اختلاف نہیں رکھا جاسکتا کہ ہم تمھارا ذبیحہ نہیں کھائیں گے۔ پس، مسلمانوں کے لیے جائز ہے کہ وہ اہلِ کتاب کے ساتھ کھانا کھائیں، نیز نشست و برخاست اور کھانے پینے کے ان طریقوں کو بھی اختیار کریں، جو ان حضرات کے ہیں کہ اس کے بغیر ان سے آپ کا میل جول نہیں ہوسکتا۔ اس لیے آپ نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ میز،کرسی اور کانٹے چھری کا استعمال کیا کریں۔
  • خطباتِ احمدیہ:سرسیّد احمد خاں نے خطباتِ احمدیہ ، بہ زبان انگریزی، ولیم میور کی کتاب The Life of Mahomet کے جواب میں لکھی۔ [سرسیّد نے کتاب اُردو میں لکھی تھی، مگر لندن سے Essay on the Life of Muhammad کے سرورق سے ۱۸۷۰ء میں ٹربنر کمپنی نے شائع کی تھی۔ آپ کے بیٹے سیّد محمود (۱۸۵۰ء-۱۹۰۳ء) نے یہ انگریزی ترجمہ کیا تھا]۔اس کتاب میں بڑی دردمندی ہے اور حضوؐر کی ذات سے بے پناہ محبت بھی نظر آتی ہے۔۳ مغرب نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر جتنے بھی اعتراضات کیے ہیں، یہ اُن کا جواب ہے، اور خاصا مدلل جواب ہے۔ لیکن جو چیز کھٹکتی ہے وہ یہ ہے کہ اہلِ مغرب کے اعتراضات کی پشت پر جو اقدار (values) ہیں، انھی کو بنیاد بناکر آپؐ کی زندگی کی توضیح کی گئی ہے۔ اس طرح اعتراضات کا رد تو کردیا گیا ہے، لیکن اُن بنیادی اقدار کو تسلیم کرلیاگیا ہے، جو مغربی تہذیب کی اساس ہیں۔

اس بات کو سمجھنے کے لیے ایک مثال لیجیے:اگر کوئی شخص تعدد اَزدواج (Polygamy) کے بارے میں یہ کہے کہ صاحب یہ تومجبوری تھی، اصل چیز تو اسلام میں یک زوجگی (Monogamy)  ہی تھی، تعدد اَزدواج تو اسلام کی اسپرٹ کے خلاف ہے۔ ہاں، کچھ مجبوریوں اور مشکلات کی وجہ سے اس کی اجازت دے دی گئی تھی۔ اس طرح خواہ اس نے معترضین کو جواب تو دے دیا، لیکن اس بنیاد کو صحیح مان بھی لیا، جس سے اعتراض پیدا ہوا تھا۔ یہ جواب ایک معذرت نامہ ہے اور شکست خوردہ ذہنیت کی غمازی کرتا ہے۔ حضوؐرِ اقدس کی ذات سے بے پناہ محبت اور اپنے تمام اخلاص اور نیک نیتی کے باوجود بدقسمتی سے سرسیّد مرحوم نے یہی نقطۂ نظر اختیار کیا ہے اور اس طرح سرسیّد احمد کو جدید مذہبی لٹریچر میں معذرت خواہانہ رویے کا بانی قرار دینے میں کوئی مبالغہ نہیں۔۴

  • تفسیرِ قرآن: چوتھی چیز سات جلدوں میں ان کی تفسیر تفسیرالقرآن وھدیٰ والفرقان، [۹۵-۱۸۸۰ء] ہے۔ انیسویں صدی تک سائنس اور فلسفے کے جو تصورات تھے، وہ اگر قرآنِ پاک کے کسی واضح حکم سے ٹکراتے تھے تو سرسیّد نے ان نظریات کو صحیح مان کر قرآنِ پاک کی تاویل کرنے میں کوئی باک محسوس نہ کی۔ مثال کے طور پر معجزات سے انکار کر دیا اور حضرت عیسیٰ ؑ کے بن باپ پیدا ہونے کا انکارکر دیا۔ ان کے اسی رویے اور معذرت خواہانہ انداز کو مسلمان علما نے ’نیچریت‘کہا۔ ’معتزلہ‘ کی سی تاویلات کرتے ہوئے، خود سرسیّد بھی اپنے نظریات کو ’نیچریت‘ (Naturism) کہتے تھے (دیکھیے: مقالاتِ سرسیّد، ج ۱۵، ص ۱۴۷، ناشر مجلس ترقی ادب، لاہور)۔ اسی چیز کی بنا پر سرسیّد مرحوم کو کچھ غلو کرنے والوں نے ’کرسٹان‘ تک کہہ دیا۔ شرپسند عناصر کو چھوڑ کر علمی حلقوں میں ان کی مخالفت کی اصل وجہ یہی تھی کہ قرآن پاک کی تفسیر اور تاویل مغربی فکر کے مطابق کی گئی تھی اور مغربی تہذیب کی اقدار کا احترام ہر توجیہہ اور تشریح میں ملحوظ رکھا گیا تھا۔
  • سرسیّد کی تعلیمی کوششیں: علمی کاموں کے ساتھ ساتھ سرسیّد کا دوسرا بڑا اہم کام تعلیم کی ترویج و اشاعت تھا۔ انھوں نے اپنی ساری قوتیں مسلمانوں میں نیا نظامِ تعلیم یا دوسرے لفظوں میں مغربی نظامِ تعلیم رائج کرنے کے لیے وقف کر دیں۔ ۱۸۷۵ء میں ’محمڈن اینگلو اورینٹل ہائی اسکول کی بنیاد رکھی ، جو ۱۸۷۷ء میں کالج بن گیا اور ۱۹۲۰ء میں یونی ورسٹی۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ مسلمان اس لائق ہوجائیں کہ تعلیم حاصل کرکے ہندوئوں کا مقابلہ کرسکیں، ملازمتیں ان کو حاصل ہوں، دفاتر میں وہ داخل ہوسکیں،اور حکومت کے دائرے کے اندر وہ دخیل ہوسکیں۔ ان اہداف کا حصول جدید تعلیم کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ اس لیے انھوں نے مغربی علوم اور سائنس کو مسلمانوں میں پھیلانے کے لیے غازی پور میں ’سائنٹی فک سوسائٹی‘ [۱۸۶۳ء]بنائی اور مسلمانوں کے لیے ایک سیاسی محاذ فراہم کرنے کے لیے دسمبر ۱۸۸۶ء میں ’محمڈن ایجوکیشن کانفرنس‘ کی بنیاد رکھی۔ جس نے یہاں کی سیاسی زندگی میں نہایت قابلِ قدر خدمات انجام دیں۔ [آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام ۱۹۰۶ء میں، محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے اجلاس منعقدہ ڈھاکہ کے دوران ہی عمل میں آیا تھا]۔ سرسیّد کی اُٹھائی ہوئی تعلیمی تحریک جس نے بعدازاں علی گڑھ میں مرکزی حیثیت اختیارکرلی، کے نتیجے میں بہرحال مسلمانوں کے معاشی مفادات کا تحفظ ہوا، جو اس کا سب سے روشن پہلو ہے۔
  • علی گڑھ تحریک کا بنیادی نقص:سرسیّد کی علی گڑھ تحریک اور اس کے نتائج کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی بنیادی خرابی یہ تھی کہ انھوں نے اسلام کو معیار بناکر اصلاحی کام انجام نہیں دیا تھا بلکہ اس کے برعکس وہ کئی مرحلوں اور موقعوں پر اسلام کی قطع و برید کرنے کے لیے تیار پائے گئے۔ یہاں تفصیل کی گنجایش نہیں، صرف ایک چیز کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے۔

’آثار الصنادید‘ جو۱۸۵۷ء کی جنگ ِ آزادی سے پہلے ۱۸۴۳ءکی تصنیف ہے، اس میں سیّداحمد شہیدؒ بریلوی کا ذکر کرتے ہوئے جہاد کے بارے میں کہتے ہیں کہ: ’’انھوں نے جہاد کی طرف لوگوں کو اس لیے بلایا کہ اللہ کا دین سربلند ہو اور کلمۃ اللہ غالب ہو‘‘۔ یعنی سیّداحمد شہیدؒ کی کوششوں کو انھوں نے بہت سراہا،لیکن ملاحظہ فرمایئے کہ جب جناب سرسیّد سمجھوتے کی پالیسی پر اُترآئے تو اپنی تفسیر میں اور اپنے رسالے تہذیب الاخلاق  [اجراء:دسمبر ۱۸۷۰ء] کے مضامین میں یہ کہتے ہیں: ’’اسلام میں اصلاحی جہاد کوئی جہاد نہیں ہے۔ اگر کوئی دوسرا حملہ کرے تو جہاد ہے ورنہ نہیں‘‘۔ سیّداحمد بریلوی صاحب پر کسی نے حملہ نہیں کیا تھا بلکہ وہ خود کفر کا قلعہ توڑنے کے لیے ہندستان سے جاں نثاروں کو اکٹھا کر کے لائے تھے۔ مذکورہ بالا طرزِبیان سے معلوم ہوتا ہے کہ سرسیّد نے اسلام کو جدید تصورات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی۔

یہ امربحث کا موضوع نہیں کہ یہ کام نیک نیتی کے ساتھ کیا گیا یا بدنیتی کے ساتھ؟ ہمارا گمان ہے کہ نیک نیتی ہی کی بنا پر کیا گیا ہوگا، لیکن نیک نیتی سے اگر کسی کے ’دست و بازو‘ کاٹ دیے جائیں تو بہرحال وہ شخص اپاہج ہی ہوجائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ سرسیّد احمد خاں اہم اسلامی مباحث پر بنیادی اسلامی فکر سے بہت دُور ہٹ گئے اور اس میں کم از کم گیارہ مواقع تو ایسے ہیں کہ جن میں اس نوعیت کے اختلاف کی کوئی نظیر اس سے پہلے ملت اسلامیہ کی پوری تاریخ کے یہاں نہیں ملتی۔ ہم یہ بات سرسیّد احمد کے سوانح نگار اور مدلل مداح خواجہ الطاف حسین حالی [۱۸۳۷ء- ۱۹۱۴ء] کی سند پر کہہ  رہے ہیں۔

  • جدید نظامِ تعلیم کی مخالفت:تعلیم کے بارے میں جو موقف سرسیّداحمدخاں نے اختیار کیا، اس سلسلے میں بڑی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ ہم نے ان کی تعلیمی کوششوں پر ان کے معترضین کی تحریروں کا جو کچھ بھی مطالعہ کیا ہے، اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں نے سرسیّدمرحوم کی تعلیم کی مخالفت تو کی تھی، مگر خود تعلیم کی مخالفت نہیں کی تھی۔ ان تمام مخالفانہ تحریروں کو پڑھ جایئے اور ان تمام اعتراضات کا ٹھنڈے دل سے مطالعہ کیجیے جو اُن پر وارد کیے گئے۔   ان میں کہیں یہ نہیں کہا گیا کہ کسی غیرزبان کا سیکھنا کفر ہے یا جدید تعلیم کو حاصل کرنا کفر اور یہ کوئی بُرائی ہے۔ اعتراض یہ کیا گیا تھا کہ سرسیّد احمد خاں جن کے خیالات یہ اور یہ ہیں اور جن کے زیر ِاثر اور زیر ِ نگرانی یہ تعلیم دی جارہی ہے، وہ غلط ہے۔ یہاں اس بات کا ذکر بھی دل چسپی سے خالی نہ ہوگا کہ علمائے کرام میں سے شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ۶ ، سرسیّد کی تعلیمی تحریک سے بہت پہلے فتویٰ دے چکے تھے کہ انگریزی زبان سیکھیے اور اس لیے سیکھیے کہ اس کے ذریعے آپ اسلام کا دفاع کرسکیں۔۷ مسلمان جو چیزیں دوسروں سے حاصل کرسکتے ہیں اُن سے ضرور فائدہ اُٹھائیں، لیکن اپنے بنیادی نقطۂ نظر کو محفوظ رکھتے ہوئے ۔ اس لیے نہیں کہ دوسروں کی دی ہوئی عینک سے آپ خود اپنے مذہب ہی کو دیکھنا شروع کردیں۔

اعتراضات کی بنیادمحض تعلیم نہ تھی، جیسا کہ تاریخ کو جھٹلانے اور دانستہ جھوٹ گھڑنے والے اکثر لوگ یہ افسانہ طرازی کرتے ہیں: ’’علما نے انگریزی میں تعلیم کی مخالفت کی تھی‘‘، نہیں، بلکہ جس چیز کی مخالفت کی گئی، وہ یہ تھی کہ جس تعلیم کو آنکھیں بند کرکے مسلمانوں پر ٹھونسنے کی کوشش کی جارہی تھی، وہ تعلیم مغرب سے مرعوبیت کی تعلیم ہے۔ اس میں صاف کہا گیا تھا کہ ’تم کو داڑھیاں منڈوانا پڑیں گی، تم کو ہیٹ پہننا پڑیں گے، تم کو نئے طریقے اختیار کرنا پڑیں گے اور یہی راستہ ہے جس سے تم آگے بڑھ سکتے ہو‘۔ اس ذہنیت پر چوٹ کرتے ہوئے علّامہ محمد اقبال نے کہا تھا کہ: ’مغرب کی ترقی کا سبب نہ شیو کرنا ہے اور نہ ہیٹ پہننا ، اس کا راز اس جذبے اور ولولۂ قربانی میں ہے، جس کا اس نے مظاہرہ کیا ہے اور جس سے ہم آج عاری ہوچکے ہیں‘۔

پھر جنابِ سرسیّد اس علی گڑھ مدرسے میں یورپی اساتذہ کو لے آئے۔ عام طور پر انھوں نے انگریز پرنسپل رکھے، جن میں یورپی پادری بھی شامل رہے۔ ایسی صورتِ حال میں آخر مسلمان کیسے اس تعلیم پر دیوانہ وار لبیک کہہ سکتے تھے؟ اگرچہ علی گڑھ تحریک نے مسلمانوں میں تعلیم عام کی، لیکن یہ تعلیم مسلمانوں کو صرف سرکاری ملازمت کے لیے ہی تیار کرسکی۔ ہمیں ابھی تک یہ جاننا ہے کہ   علی گڑھ سے اس پورے زمانے میں کون سی علمی کتاب شائع ہوئی۔ اسلام کے دفاع اور اسلام کی خدمت کے سوال کو چھوڑ کر دیکھیے، کیا علم کے کسی پہلو پر کوئی درجۂ اوّل کی کتاب، اس درس گاہ سے آئی!

تعلیم کا پورا مزاج یہ تھا کہ ’طلبہ کو ملازمت کے لیے تیار کیا جائے‘ اور اس کی بہترین مثال سرسیّد کے صاحب زادے سیّد محمود کی زندگی ہے۔ سرسیّد خود کہتے ہیں: ’میری توقع یہ تھی کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد یہ اپنی قوتوں کو دین و ملّت کی خدمت کے لیے استعمال کریں گے‘۔ ہندستان کے مسلمانوں کی خدمت کریں گے، لیکن ہُوا یہ کہ انھیں ججی مل گئی اور انھوں نے فوراً اسے قبول کرلیا‘۔ یہ واقعہ اس پورے ذہنی کردار کی علامتی تشکیل (symbolise)کرتا ہے، جو یہاں پروان چڑھا۔ اگر ہم سرسیّد مرحوم کی آخری عمر کی تحریریں پڑھیں تو وہ خود اس المیے کا اعتراف کرتے ہیں۔ مثلاً اپنے ایک خط میں جو ۱۸۹۰ء یعنی جو اُن کا آخری زمانہ تھا تب لکھا:

تعجب ہے کہ جو تعلیم پاتے جاتے ہیں اور جن سے قومی فلاح کی اُمید تھی وہ خود شیطان اور مرتدینِ قوم ہوتے جاتے ہیں۔

خواجہ الطاف حسین حالیؔ ایک مخلص دوست کی طرح آخری دم تک سرسیّد مرحوم کے ساتھ رہے۔ ان کے حوالے سے بابائے اُردو مولوی عبدالحق [۱۸۷۰ء-۱۹۶۱ء] اپنے مضمون ’چند ہم عصر‘ میں لکھتے ہیں: ’حالی اپنی آخری عمر میں اس تعلیم سے شدید حد تک مایوس ہوگئے تھے اور کہتے تھے کہ جو توقعات ہم نے وابستہ کر رکھی تھیں،ان میں سے کوئی بھی پوری نہیں ہوئی‘۔ پھر مثال کے طور پر نواب وقار الملک [۱۸۴۱ء-۱۹۱۷ء] جو سرسیّد کے رفقائے کار میں سے ہیں، سرسیّد کو لکھتے ہیں:

یہ کعبے کی راہ نہیں، یہ ترکستان کا راستہ ہے۔ یہ غلطی آپ کے دل کی نہیں آپ کے دماغ کی ہے۔ جو راستہ آپ نے لیا ہے وہ راستہ آپ کو منزلِ مقصود تک نہیں پہنچا سکتا۔

اسی نوعیت کی مایوسی کے بعد نواب وقار الملک نے ۱۹۱۳ء میں جامعہ ملّیہ کی تجویز پیش کی، جسے ۱۹۲۰ء میں مولانا محمدعلی جوہر نے عملی جامہ پہنایا، اور اس تعلیمی تحریک پر اکبر الٰہ آبادی کا تبصرہ سنیے:

ابتدا کی جنابِ سیّد نے ، جن کے کالج کا اتنا نام ہوا
انتہا یونی ورسٹی پر ہوئی، قوم کا کام اب تمام ہوا

ہمیں اعتراف ہے کہ یہ تعلیم ایک دائرے میں یقینا مفید ثابت ہوئی۔ مسلمانوں میں  قومی احساس پیدا کرنے میں اس تعلیم کا بڑا حصہ ہے۔ معاشی طور پر روزگار فراہم کرنے میں بھی اس تعلیم کی خدمات بڑی واضح ہیں۔ تحریک ِ آزادی کے لیے بھی اس تعلیم نے کچھ لیڈر اور کارکنان تیار کیے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ بحیثیت ِ مجموعی، قوم کا صحیح مزاج بنانے میں یہ تعلیم کامیاب نہ ہوسکی۔

جدید تاریخ کا ہر طالب علم اس امر سے واقف ہے کہ مغربی اقوام کی ترقی، صنعت و تجارت کی ترقی سے عبارت ہے اور اگر انھی کے طریقے کو اختیار کرنا تھا تو تعلیمی نظام میں صنعت و حرفت کو، تجارت کو، تجرباتی سائنسوں کو اور انجینیرنگ کو خصوصی مقام دیا جاتا۔ لیکن علی گڑھ کے نظامِ تعلیم کو پڑھ لیجیے: اس میں تجارت، صنعت و حرفت اور دوسرے تجرباتی علوم کو کوئی قرار واقعی مقام نہیں دیا گیا، اہمیت دی بھی گئی تو مغربی فلسفے اور ادب کو۔ اس کے برعکس ہمارے سامنے جاپان کی مثال موجود ہے۔ جاپان کو بھی ایسے ہی حالات درپیش تھے، مگر اس نے اپنی تہذیبی بنیادوں پر قائم رہتے ہوئے مغربی سائنس اور صنعت و تجارت کا مطالعہ کیا، اس سے فائدہ بھی اُٹھایا۔

ابتدائی دور میں محض قومی نقطۂ نظر کو سامنے رکھا گیا۔ ’دینیات‘ کو بھی ایک لازمی مضمون کی حیثیت دی گئی تھی، مگر تعلیم کے پورے نظام میں اسلامی روح اور اسلامی مزاج کو نہیں سمویا جاسکا۔ بنیادی اہمیت اسلام کے تقاضوں کے مقابلے میں محض مسلمانوں کے مفاد کو، یا پھر جسے اُس وقت مسلمانوں کا مفاد سمجھا جا رہا تھا، اسے اہمیت دی گئی۔ البتہ بعد میں کچھ فرق واقع ہوا، خصوصیت سے تحریک ِ خلافت کے زمانے میں ، جس کے اثرات کے تحت علی گڑھ محض انگریزی اقتدار کے کارندے تیار کرنے کے بجائے قومی سیاست کا مرکز بھی بن گیا اور اسلامی ملّی احساس میں بھی اضافہ ہوا۔

  • سرسیّد اور تجدّد پسندی:باوجود اپنے تمام اخلاص کے،تعبیر (interpretation) کے بہت سے فتنوں کی بنیاد سرسیّد مرحوم ہی نے رکھی اور ان کے افکارو نظریات سے تحریک پاکر بہت سے فکری اور اعتقادی فتنے اُبھرے۔۸ اس طرح قرآن اور حدیث کی مرعوبانہ (Apologetic) ذہن سے تعبیر کرنے کا جو فتنہ اس ملک میں رُونما ہوا ، اس کی ابتدا بہرحال سرسیّد کے تفسیری مباحث ہی سے ہوئی۔

یوں ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن و سنت کی بنیاد پر مثبت طور پر مسلمانوں کو جمع کرنے کی جو کوشش شاہ ولی اللہ کے کارنامے میں نظر آتی ہے ، اس قسم کی کوئی چیز ہمیں سرسیّد مرحوم کے یہاں نہیں ملتی۔ اگرچہ مغرب کے اعتراضات کا جواب دینا بحیثیت ِ مجموعی کچھ فوائدپہنچانے کا ذریعہ بنا، لیکن سرسیّد کا یہ کام تحریک ِ اسلامی کے استحکام کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ کے طور پر آج تک  چلا آرہا ہے۔ ہماری نگاہ میں سرسیّدؒ اور اقبالؒ میں بنیادی فرق یہی ہے کہ اقبالؒ نے مثبت رویہ اختیار کیا ،جب کہ سرسیّد کی تحریک اپنی روح اور مزاج کے اعتبار سے منفی تھی۔

علمائے کرام کی خدمات

پھرہمارے سامنے علمائے کرام کا ردعمل آتا ہے۔فکری اعتبار سے اس کا سلسلہ شاہ ولی اللہ کی تحریک سے وابستہ ہے۔

  • دارالعلوم دیوبند:۱۸۵۷ء کی جنگ ِ آزادی کے آٹھ سال بعد ضلع سہارن پور (اترپردیش کے قصبے) دیوبند میں دینی اور عربی علوم کے دارالعلوم کی بنیاد ۱۵محرم ۱۲۸۳ھ/۳۰مئی ۱۸۶۶ء کو چھتے کی پرانی مسجد کے صحن میں انار کے ایک چھوٹے سے درخت کے سایے میں بڑی سادگی سے دُعا کرتے ہوئے رکھی گئی۔اس کے قائم کرنے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ حکومت کی سرپرستی کے بغیر، امرا اور نوابوں کے آگے ہاتھ پھیلائے بغیر دین کی حفاظت کی ایک منظم کوشش کی جائے۔ علما کا نقطۂ نظر یہ سامنے آتا ہے کہ ہم دین کو غالب نہیں کرسکتے تو کم از کم اس کو بچا تو لیں۔ اگر اپنی روایات کو ہم سارے ملک میں جاری و ساری نہیں کرسکتے تو کم از کم ان کو محفوظ تو کرلیں۔ اگر اسلام کی چھاپ ہم دوسروں پر نہیں لگا سکتے تو کم از کم جو کچھ ہمارا ورثہ ہے اس کو تو بچا لے جائیں۔ اس ردعمل کی بنیادی روح (spirit) یہی تھی۔ ان کے پیش نظر مخالف قوتوں سے ٹکر لینا اوّلین مقصد نہیں تھا بلکہ اپنے آپ کو بچالینا مقصود تھا، جو اپنی جگہ ایک مثبت سوچ تھی۔ محمودحسن اس مدرسے کے پہلے طالب علم تھے، جو بعد میں شیخ الہند کہلائے۔ اسی روایت سے جڑے دوسرے مدرسے مظاہرالعلوم، سہارن پور کی تاسیس بھی اسی سال نومبر ۱۸۶۶ء کو کی گئی۔

پیش نظر یہ تھا کہ ایسے علما تیار ہوں جو ملک کے گوشے گوشے میں دین کا پیغام پہنچا سکیں اور لوگوں کو اسلام پر قائم رکھ سکیں۔ دینی علوم کا تحفظ ہو، بدعات سے بچائو اور عقائد کی اصلاح ہو۔ اربابِ دیوبند نے اُمورِ دنیوی سے تقریباً قطع تعلق کی روش اختیار کی اور وہ مسلک اختیار کیا، جس میں کہ وہ کم از کم دین اور دینی روایات کو بچا سکیں۔

جیسا کہ ہم اس سے قبل واضح کرچکے ہیں، مسلمانوں کی کیفیت ایک ہاری ہوئی فوج کی سی تھی۔اس ہاری ہوئی فوج میں اس نقطۂ نظر کا رُونما ہونا ہرگز غیرفطری بات نہ تھی۔ لیکن اس کے باوجود یہ ماننا پڑتا ہے کہ دارالعلوم دیوبند نے اُمت کی ایک عظیم خدمت انجام دی۔ کم از کم یہ تو کیا کہ ہمیں اللہ اور اس کے رسولؐ کے کلمے پر قائم رکھا۔ یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ ہمارا تعلق قرآن اور حدیث سے قائم رہا اور جنوب مشرقی ایشیا میں شعائر اسلامی کا پرچار ہوتا رہا۔ جو حملہ ہمارے دلوں سے  دین کو اُکھاڑ پھینکنے کے لیے کیا گیا تھا، اس کی مدافعت کی گئی اور اس کے سامنے علما کی کوششیں حصار بن گئیں۔ یہ درست ہے کہ ہم ان سے ٹکر نہ لے سکے، لیکن کم از کم اپنے ایمان، اپنے معیارات، اپنی روایات، اپنی اقدار اور اپنے علوم کو تو ہم نے بچالیا ، جس سے بعد میں اس بات کا امکان پیدا ہوا کہ اس بچے ہوئے سرمایے کو اللہ کے کچھ دوسرے بندے استعمال کریں اور آگے بڑھا لے جائیں۔

  • شیخ الہند مولانا محمود حسن: دیوبند کے اور دوسرے علما نے ہندستان کی سیاست میں بھی حتی الوسع حصہ لیا۔ اس گروہ کی قیادت شیخ الہند مولانا محمود حسن [۱۸۵۱ء-۱۹۲۰ء]  نے کی۔ آپ نے ۱۸۷۳ء میں ’تمرۃ التربیت‘ کے نام سے ایک انقلابی تحریک علما اور اپنے شاگردوں کی بنائی، جو خاصے عرصے تک یہاں کی سیاسی زندگی میں ایک اہم کردار ادا کرتی رہی۔

مولانا محمودحسن نے پوری زندگی انگریزوں کے خلاف جدوجہد میں گزاری۔ انھوں نے مسلمانوں کو جمع کرنے کی کوشش کی اور دوسری مسلم حکومتوں کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ سب مل کر ہندستان کو آزاد کرائیں۔۹  اس کے لیے انھوں نے سفر بھی کیے، جیل بھی گئے اور قیدوبند میں کوڑے بھی کھائے۔ انتقال پر جس وقت آپ کی میّت کو غسل دیا جارہا تھا، اس وقت دیکھا گیا کہ آپ کی پیٹھ اس تشدد کے باعث بالکل سیاہ تھی، لیکن آپ نے اپنی زندگی میں کبھی یہ پسند نہ کیا کہ اُن پر جو گزرتی رہی ہے، وہ کسی کے سامنے بیان کریں۔

دارالعلوم دیوبند اور دوسرے علمائے کرام کی یہ قابلِ رشک خدمات بجا، لیکن اس سلسلے میں کم از کم دو چیزیں ایسی ہیں جو مجھے کھٹکتی ہیں:

  • مولانا عبیداللہ سندھی: ان میں ایک مولانا عبیداللہ سندھی [۱۰مارچ ۱۸۷۲ء- ۲۱؍اگست ۱۹۴۴ء]کی تحریک ہے کہ جس میں شریعت، تصوف اور ویدانت کا ایک معجون مرکب تیار کرنے کی کوشش کی گئی۔ ان محترم بزرگ کی روش سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے مغرب کے آگے بالکل گھٹنے ٹیک دیے گئے ہوں۔ دارالعلوم دیوبندکے تیار کردہ افراد میں سرسیّد احمد خاں کا فکری اثر اگر کسی نمایاں شخصیت میں پایا جاتا ہے تو وہ مولانا عبیداللہ سندھی کے ہاں دیکھا جاسکتا ہے۔
  • متحدہ قومیت کا مسئلہ: دوسری بات جو دارالعلوم دیوبند میں پروان چڑھی، وہ متحدہ قومیت کی مذہبی تعبیر کا معاملہ تھا۔۰  اقبال نے قومیت کی حقیقت کو بڑی خوبی سے ان اشعار میں بیان کردیا تھا:

اپنی ملّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی

اُن کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری

یہ ٹھیک ہے کہ اس فتنے کا توڑ خود دیوبند کے کچھ دوسرے مقتدر علما نے کرنے کی کوشش کی اور یہ کہ اس اہم دینی مرکز کے تیار کردہ تمام اہلِ علم متحدہ قومیت کے علَم بردار نہ تھے، لیکن بہرحال ایک عرصے تک دارالعلوم دیوبند اس فکر کا بہت بڑا مرکز رہا ہے اور اس کا نقصان اسلامی تحریک بلکہ پوری ملّت ِ اسلامیہ ہند کو اُٹھانا پڑا ہے۔(جاری)

حواشی

۳     سرسیّداحمد خاں ، لندن سے اپنے دوست نواب محسن الملک کو خط لکھتے ہیں: ’’ولیم میور صاحب نے جو کتاب آنحضرتؐ کے حالات میں لکھی ہے، اس کو دیکھ رہا ہوں۔ اس نے دل جلا دیا ہے۔ اس کی ناانصافیاں اور تعصبات دیکھ کر دل کباب ہوگیا، اور مصمم ارادہ کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں، جیساکہ پہلے بھی ارادہ تھا ، کتاب لکھ دی جائے۔ اگر تمام روپیہ خرچ ہوجائے اور مَیں فقیر مانگنے کے لائق ہوجائوں تو بلا سے!قیامت میں تو یہ کہہ کر پکارا جائوں گا کہ اس فقیر مسکین احمد کو جو اپنے نانا محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر فقیر ہوکر مرگیا حاضر کرو (بحوالہ موج کوثر، ۲۰۲۱ء،ص ۹۲)

۴     اس ضمن میں جب معذرت خواہی شروع ہوئی تو وہ بڑھتی ہی چلی گئی۔ اس فکر کو حافظ محمد اسلم جیراج پوری [م:۱۹۵۵ء] اور اُن کے بعد غلام احمد پرویز [م: ۱۹۸۵ء] نے آگے بڑھایا۔عزیز احمد [م:۱۹۷۸ء] Islamic Modernism in India & Pakistan 1857-1964 (۱۹۶۷ء) میں لکھتے ہیں: ’’سیّداحمد خاں سے لے کر آج تک کے تمام متجددین (Modernists) میں غالباً [غلام احمد] پرویزمغرب کے تصورِ حیات سے سب سے زیادہ قریب ہیں۔ وہ بلند معیارِ زندگی اور سیاسی، سماجی، انفرادی اور معاشی آزادیِ مطلق کو دُنیوی زندگی کا مقصد قرار دیتے ہیں۔ البتہ وہ ایک معقول بات کو دور ازکار اور ناقابلِ یقین تفسیری اصطلاحات وضع کر کے برباد کر دیتے ہیں (ص۲۲۴- ۲۲۵)‘‘۔ پھر لغت کے سہارے تفسیر کا ایک نرالا اور بے ڈھنگا طریقہ اختیار کرتے ہیں‘‘۔(ص ۲۴۷)

۵     شیخ محمد اکرام نے بجا طور پر لکھا ہے: ’’تفسیر کی اشاعت نے سرسیّد کے دوسرے [قومی]کاموں کو بہت نقصان پہنچایا۔ ان کا اصل مقصد مسلمانوں میں تعلیم عام کرنا اور اُن کی دُنیوی ترقی کا انتظام کرنا تھا [لیکن] اسلام اور تفسیرقرآن کے متعلق، بالخصوص ان مسائل سے متعلق جن کا نہ تعلیم سے خاص تعلق ہے نہ دُنیوی ترقی سے، عام مسلمانوں سے گہرا اختلاف پیدا کرکے سرسیّد نے اپنی مخالفت کا سامان آپ پیدا کرلیا، اور بعض لوگوں کو انگریزی تعلیم سے عقائد متزلزل ہوجانے کا جو ڈر تھا، اس کا بدیہی ثبوت خود فراہم کردیا۔ اس کے علاوہ سرسیّدنے اپنی رائے اور قیاس کے زور سے قرآنی آیات کو نیا مفہوم دے کر ایسی مثال قائم کردی، جس کی پیروی بعضوں نے بُری طرح کی ہے، اور ہرآیت یا حدیث کی تاویل کرکے حسب خواہش معنی مراد لیے ہیں.... سرسیّد کی قابلیت، محنت اور مذہبی ہمدردی کے باوجود یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ان کے علمِ کلام نے تعلیم یافتہ طبقے یا اربابِ تشکیک و الحاد کو ایمان کی دولت بہم پہنچائی ہے‘‘۔(موجِ کوثر، ص ۱۳۶-۱۳۷)

۶     مولانا شاہ عبدالعزیز نے عبرانی زبان سیکھی تھی اور وہ براہِ راست تورات کا مطالعہ کرسکتے تھے (پروفیسر سیّدمحمد سلیم، مغربی زبانوں کے ماہر علما، ص ۸۲)۔ فتاویٰ عزیزیہ، دوم میں انگریزی زبان سیکھنے کے حق میں فتویٰ دیا: ’’لغت انگریزی کا پڑھنا یا لکھنا اگر بہ لحاظ تشبہ کے ہو تو ممنوع ہے، اور    اگر اس لیے ہو کہ ہم انگریزی زبان میں لکھا پڑھ سکیں اور ان کے مضامین سے آگاہ ہوسکیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ تشبہ سے مراد اپنی انفرادیت کھو دینا اور انگریزی تہذیب میں اپنے آپ کو گم کرنا ہے۔(سیّد محمد سلیم،ایضاً، ص ۲۶، ۲۷)

۷     رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’حکمت مومن کی گم شدہ متاع ہے، جہاں سے ملے، اسے لے لو‘‘۔ اسی طرح آپؐ نے صحابۂ کرامؓ کو دوسری زبانیں سیکھنے کی ترغیب دلائی۔ اس ضمن میں سب سے روشن مثال حضرت زید بن ثابتؓ کی ہے، جنھیں آپ نے غیرملکی زبانیں سیکھنے کی ہدایت فرمائی ، جس کے بعد انھوں نے سریانی، ارامی، فارسی اور حبشی زبانیں سیکھ لی تھیں (مشکوٰۃ)۔اس طرح حضرت عمرو بن العاصؓ سریانی زبان بول سمجھ لیتے تھے۔ فقہ حنفی کے جید عالم سلطان علی قاری ہروی (م:۱۶۰۵ء) مشکوٰۃ کی حدیث پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’شریعت [اسلامی] میں کسی زبان کا سیکھنا جرم نہیں ہے، خواہ: عبرانی ہو یا سریانی، ہندی ہو یا ترکی، فارسی ہو یا کوئی اور زبان‘‘۔ (پروفیسرسیّد محمد سلیم،مغربی زبانوں کے ماہر علما، ص ۲۵)

۸     اس ضمن میں فتنہ انکارِ حدیث اور پھر ایک درجے میں ’جہاد‘ کے معاملے میں بہت زیادہ گریز پائی نے خود ’قادیانیت‘ کے فتنے کو بھی راہ دی۔ واللہ اعلم!

۹     ہندستان کو اسلام کے لیے آزاد کرانا مقصد نہ تھا، بس انگریزوں کو یہاں سے نکالنا مقصد تھا۔ کابل میں آزاد ہندستان کی عارضی حکومت قائم کی گئی تھی، جس کے صدر راجا مہندر پرتاب تھے۔ اُمید تھی کہ انقلاب پسند ہندو اور سکھ مدد کریں گے اور اس تحریک ِ آزادی میں شامل ہوجائیں گے۔

۰     سیّدابوالاعلیٰ مودودی،l مسئلہ قومیت [۱۹۳۸ء] lمسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش، اوّل [فروری ۱۹۳۸ء]، دوم [دسمبر ۱۹۳۸ء] اور lتحریک ِ آزادیِ ہند اور مسلمان،اوّل [مرتبہ: خورشیداحمد] ۱۹۶۸ء۔ جمعیۃ العلما ہند کی تاسیس ۲۳نومبر ۱۹۱۹ء کو دہلی میں اُس وقت ہوئی، جب  خلافت ِکانفرنس ہورہی تھی۔ ۲۸دسمبر ۱۹۱۹ء کو جمعیۃ کے اجلاس منعقدہ امرتسر میں یہ تین مقاصد شامل کیے گئے: ’’غیرمسلم برادران کے ساتھ ہمدردی اور اتفاق، مذہبی حقوق کی نگہداشت سے مسلمانوں کی رہنمائی (طفیل احمد منگلوری،مسلمانوں کا روشن مستقبل، ص ۵۲۸)۔ جمعیۃ العلما کے اجلاس امروہہ (۳۰مئی ۱۹۳۰ء) میں انڈین نیشنل کانگریس کے ساتھ غیرمشروط اشتراکِ عمل کا اعلان کیا (ایضاً، ص ۵۳۲)۔ جس سے خود جمعیۃ میں انتشار پیدا ہوا۔ اس سے قبل ۱۹۲۹ء میں مجلس احرار اسلام قائم ہوچکی تھی۔

کیمرے کے سامنے منہ لپیٹے درمیانی عمر کے ایک صاحب کہنے لگے: ’’کہنے کو کیا رہ گیا ہے اب، بس زندگی کے دن کاٹ رہے ہیں۔ اللہ مالک ہے، حالات ایسے ہیں کہ کچھ بولتے ہیں تو شام کو اُٹھا کر لے جاتے ہیں۔ بس چل رہا ہے‘‘۔ دوسرے صاحب بتاتے ہیں: ’’اب ہم بالکل بے کار ہوچکے ہیں، ہم دس روپے کمائیں گے، گھر پر ماں باپ بیمار ہیں، ان کو بھی دیکھنا پڑتا ہے۔ غریب آدمی ہیں‘‘۔

میں نے ایک راہ گیر سے پوچھا: ’’وعدہ کیا گیا تھا کہ آرٹیکل۳۷۰ ختم کرنے کے بعد حالات بالکل بہتر ہوجائیں گے؟‘‘بولے: ’’وہ تو آپ دیکھ ہی رہی ہیں۔ حالات خراب ہیں، حالات کہاں ٹھیک ہیں، خراب ہی ہیں‘‘۔

ایک نوجوان نے کہا:’’شام کو چھے بجے یہاں حالات کرفیو جیسے ہوتے ہیں۔ حالات بہت خراب ہیں۔ وہ حالات نہیں ہیں جب لوگ رات کو ۱۰ بجے تک بازارمیں گھومتے پھرتے تھے۔ کیسے کہیں کہ حالات ٹھیک ہیں‘‘۔

ایک بزرگ نے کہا: ’’حالات بہت زیادہ خراب ہوگئے ہیں۔ لوگ مالی اعتبار سے پیچھے ہوگئے ہیں اور ذہنی لحاظ سے اس سے بھی زیادہ پیچھے ہوگئے ہیں‘‘۔

پختہ عمر کے ایک فرد سے سوال کیا: ’’یہاں کے حالات کیسے ہیں؟‘‘وہ مسکرا کر اور گھبرا کر کہنے لگے:’’ ٹھیک ہی ہیں‘‘۔

قریب کھڑے ایک نوجوان نے غصے سے کہا: ’’سب سنسان پڑا ہے۔مارکیٹ میںکچھ کام دھندا نہیں ہے۔ ہمارے لیے یہاں کچھ نہیں رکھا‘‘۔

’The Wire ٹی وی‘سے میرا تعلق ہے اور زینہ کدل، سری نگر سے مخاطب ہوں۔ یہ شہر کا پرانا علاقہ ہے۔ میں اور میری ٹیم نے یہاں کئی گھنٹے کوشش کی ہے کہ لوگ حالات کے بارے میں بات کریں اور اگر سیاسی حالات کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتے تو کم سے کم اپنے ذاتی حالات کے بارے میں ہی کوئی بات کریں۔لیکن لوگ بات کرنے یا کوئی ردعمل دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ تاہم، کچھ لوگوں کے تاثرات پیش ہیں:

ایک صاحب سے بات ہوئی تو کہنے لگے کہ’’کام مندا ہے، مہنگائی بڑھ گئی ہے۔ سب کام بیٹھے ہوئے ہیں۔ اولڈسٹی کو نظرانداز کردیا گیا ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ یہاں زیادہ حالات خراب ہوتے ہیں اور زیادہ سیکورٹی ہوتی ہے۔ اس لیے یہاں کوئی آتا جاتا نہیں ہے، گاہک نہیں ہے‘‘۔ اُن سے پوچھا کہ ’’پچھلے دنوں کے مقابلے میں کاروباری حالات کیا زیادہ خراب ہوئے ہیں؟‘‘ کہنے لگے: ’’ آپ خود دیکھ سکتی ہیں کہ مارکیٹ کی صورتِ حال کیا ہے۔ اگرچہ کرفیو بھی نہیں لگتا اور ہڑتال بھی نہیں ہوتی، مارکیٹ ہفتہ بھر کھلی رہتی ہے، لیکن مارکیٹ بہت مندی ہے‘‘۔

’’کہا جارہا ہے کہ آرٹیکل ۳۷۰ ہٹ جائے گا تو حالات بہتر ہوجائیں گے‘‘، میں نے ایک اور راہ گیر سے پوچھا۔وہ کہنے لگے: ’’کیا آپ سمجھتی ہیں کہ واقعی حالات بہتر ہوگئے ہیں؟‘‘ اندرونی حالات تو بہتر نہیں ہوئے ہیں۔ آزادی سے گھوما پھرا نہیں جاسکتا۔ شام کو چھ بجے کرفیو کے سے حالات ہوتے ہیں۔ بازار کا ماحول کرفیو جیسا ہوتا ہے۔ وہ حالات نہیں ہیں کہ جب لوگ رات کو دیر تک گھومتے پھرتے رہتے تھے۔ ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ حالات ٹھیک ہیں؟ اگر مارکیٹ رات کو ۱۰بجے کھلی ہوتی تو ہم کہہ سکتے تھے کہ حالات ٹھیک ہیں۔ یہاں ڈر کا ماحول ہے۔ سب کے دلوں میں ڈر سا ہے۔ کوئی بہتری نہیں ہوئی۔ آپ خود دیکھ لیں‘‘۔

ایک نوجوان نے کہا کہ ’’مودی نے آکر حالات خراب کیے ہیں۔ آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے کے بعد پوری وادی میں حالات خراب ہیں۔ غربت بڑھی ہے۔ لوگوں کے پاس کام کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ بے روزگاری بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ نوجوانوں کے لیے کوئی کام نہیں ہے۔ آرٹیکل ۳۷۰ اُٹھانے سے حالات بہت خراب ہوگئے ہیں بلکہ اس سے پہلے کے حالات کچھ بہتر تھے۔

’’کیا انتظار کرنے سے شاید حالات بہتر ہوجائیں گے؟‘‘ میں نے پوچھا تو جواب ملا: ’’ہم تو کھانے پینے کے لیے چاول اور روٹی بھی نہیں کما پارہے ہیں۔ یہ دیکھیں مارکیٹیں سنسان پڑی ہوئی ہیں۔ کوئی کام اور دھندا نہیں ہے۔اگر کوئی دو مرلے یا چار مرلے زمین بیچنا چاہتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ کاغذ لائو، وہ کاغذ لائو۔ ہم کہاں سے کاغذ لائیں؟‘‘

میں نے حالات خراب ہونے کی وجہ جاننا چاہی تو بتایا گیا: ’’مودی نے حالات خراب کیے ہیں، یہ دفعہ لگائی ہے، وہ دفعہ لگائی ہے، بہت سے ایکٹ لگائے ہیں۔ شام کو چھ بجے کے بعد ہم باہر نہیں نکل سکتے‘‘۔ قریب میں ایک بزرگ کھڑے تھے۔ غصے میں کہنے لگے: ’’خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لو۔ مجھے یہاں رہتے ہوئے ۴۰ سال ہوگئے ہیں۔ اس بازار میں اتنی بھیڑ ہوتی تھی کہ ہم یہاں کھڑے نہیں ہوسکتے تھے، یہ پرانا بازار ہے‘‘۔

جب میں نے پوچھا کہ ’’آپ مودی جی سے کچھ کہنا چاہیں گے؟ ‘‘تو اس بزرگ نے چلتے ہوئے وی [فتح]کا نشان بناتے ہوئے کہا: ’’آپ سمجھ دار ہیں۔ اس کا مطلب بخوبی سمجھتی ہیں‘‘۔

مایوسی اور غصے میں ڈوبے ایک نوجوان نے کہا: ’’میں آٹوٹرانسپورٹ چلاتا ہوں، انھوں نے وہ بھی ختم کر دی ہے۔ کوئی کام نہیں رہا۔ کہاں سے کمائیں؟‘‘

ایک نوجوان نے کہا کہ ’’جن کے پاس اعلیٰ پروفیشنل ڈگریاں ہیں وہ بھی یہاں بیکار ہیں۔ ہم خالی ہاتھ ہیں، بے روزگار ہیں۔ اب کاروبار نہیں چل رہا ہے۔ جب سے یہ حکومت آئی ہے حالات بہت خراب ہوگئے ہیں۔ پہلے حالات بہتر تھے۔ ہم بالکل بے کار ہوچکے ہیں‘‘۔

میں نے کہا: ’’ابھی وہ بزرگ کہہ گئے ہیں کہ لوگوں کے دل میں غصہ ہے‘‘، تو نوجوان نے کہا:’’ہاں، غصہ ہے۔ مودی نے آکر کئی دفعات لگا دی ہیں، بچوں کے لیے، بڑوں کے لیے قانون لگارہے ہیں۔ ہم کیا کریں گے؟ پولیس روکتی ہے۔ شام کو باہر نہیں نکلنے دیتی ہے۔ ہمیں کاروبار سے مطلب ہے۔ لیکن یہاں تو اب وہ دن ہی نہیں رہے کہ پیسے کمائیں‘‘۔

چلتے ہوئے ایک نوجوان کہنے لگا: ’’سرکار جب سے آئی ہے، بہت غربت ہوگئی ہے۔ ہم نے بہت مصیبت دیکھی ہے۔ ہم کاروبار کرنا چاہ رہے تھے اور جب کاروبار ہی بیٹھ گیا تو کیا کریں گے؟ لوگوں کے پاس پیسہ نہیں ہے۔ ہم جو مال بناتے ہیں وہ گھر پر پڑا رہتا ہے۔ لوگوں کے پاس خریداری کے لیے پیسہ نہیں ہے، لہٰذا ہم بہت مجبور ہیں۔ ہم حکومت سے کہنا چاہتے ہیں کہ ہمارا کاروبار چلنا چاہیے۔ ہم نے غریبی بہت دیکھی ہے، ہم محنت کرنا چاہتے ہیں۔ میرے پاس ایک کمرہ تھا۔ میں نے محنت سے تین کمرے بنائے اور قرض بھی لیا ہے۔ مجھے قرض بھی اُتارنا ہے‘‘۔

میں نے کہا: ’’حکومت کہتی ہے کہ کچھ انتظار کریں سب ٹھیک ہوجائے گا۔ ابھی آرٹیکل ۳۷۰ ہٹائے ہوئے دو تین سال ہی تو گزرے ہیں ‘‘۔نوجوان نے کہا:’’یہ بات نہیں ہے، گھر بھی تو چلانا ہے، غریبی بھی بہت ہے۔ کشمیر پہلے آگے تھا، اب پیچھے ہوگیا ہے‘‘۔

ایک اور صاحب سے پوچھا: ’’ماحول کیسا ہے؟‘‘ مفلر سے منہ لپیٹے کہنے لگے کہ’’ سب ٹھیک ہے لیکن کاروبار بیٹھا ہوا ہے۔ اس کی وجہ مہنگائی ہے اور یہ پچھلے ایک دو سال سے بڑھی ہے‘‘۔

’’ماحول کے بارے میں کچھ بتائیں کہ لوگ کیوں خوف زدہ ہیں؟‘‘ وہ بتانے لگے: ’’یہاں انھوں نے ماحول ہی ایسا بنایا ہے اور ایسی فضا بنا دی ہے‘‘۔

’’پوچھا: وعدہ تو یہ کیا گیا تھا کہ آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے کے بعد حالات بہتر ہوجائیں گے؟‘‘ وہ بولے:’’حالات کہاں ٹھیک ہوئے ہیں بلکہ خراب ہی ہوئے ہیں‘‘۔

ایک تاجر سے بات کرتے ہوئے میں نے کہا:’’ ۲۰۱۹ء میں آرٹیکل ۳۷۰ ہٹانے کے بعد آپ کیا محسوس کرتے ہیں کہ حالات بہتر ہوئے ہیں یا خراب ہوئے ہیں؟ انھوں نے جواب دیا: ’’حالات پہلے سے بہت زیادہ خراب ہوگئے ہیں۔ آرٹیکل ۳۷۰ ہٹانے کے بعد اور پھر کووڈ میں کشمیر بند رہا تو اس کے اثرات اب سامنے آرہے ہیں۔ ان دو برسوں میں لوگوں کے پاس جو پیسہ تھا، بچت تھی، اور اگر سونا رکھا تھا تو اسے بیچ کر کھایا، اُدھار لے کر کھایا۔ اُوپر سے حکومت کے نئے نئے قوانین پریشانی کا باعث ہیں۔ اب تجاوزات ہٹانے کے نام پر مارنے کچلنے کی مہم چل رہی ہے۔ لیز پر دکانیں بھی گرائی جارہی ہیں اور مکانات بھی۔ لوگ ذہنی صحت کے اعتبار سے بہت پیچھے ہوگئے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جو بھی سیاسی پارٹی اقتدار میں آئی اور اس نے ہمارے ساتھ وعدے کیے، مگر ہمیں دھوکا ہی دیا۔ ۱۹۴۷ء سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ ہم سے لوگوں نے جو وعدے کیے وہ کبھی سچ نہیں ہوئے۔رہی مودی صاحب کی بات تو انھوں نے کچھ اچھے اقدامات بھی کیے ہیں، جس سے سرکاری محکموں میں رشوت تو کم ہوگئی ہے لیکن تجارت کا شعبہ بہت پیچھے چلا گیا ہے۔ پچھلے دو تین برسوں میں تجارتی سطح پر جو نقصان ہوا ہے، اس کا ازالہ نہیں ہوپارہا۔ زیادہ تر تاجر بنکوں کے نادہندہ ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آمدن کم ہے‘‘۔

’’کیا ماحول میں خوف کی کیفیت ہے؟‘‘ میں نے سوال کیا۔ان کا جواب تھا: نہیں، خوف تو نہیں ہے لیکن ایک ڈر اور خدشہ ہے کہ حکومت ہمارے ساتھ مخلص نہیں ہے۔ وہ ہمارے ساتھ صاف شفاف نہیں ہے۔ حکومت جس طرح دہلی اور دوسری ریاستوں سے معاملہ کرتی ہے، ہمارے ساتھ اس کا الگ رویہ ہے۔ ہمارے ساتھ انصاف نہیں ہو رہا بلکہ زیادتی ہورہی ہے‘‘۔

ایک اور صاحب سے پوچھا: ’’یہاں کے حالات کیسے ہیں؟‘‘ تو انھوں نے کہا: ’’ٹھیک ہی ہیں‘‘۔اور جب پوچھا: ’’کچھ بتانا چاہیں گے؟‘‘ تو انھوں نے کہا کہ ’’نہیں‘‘۔

جب کاروباری حالات کے بارے میں ایک صاحب سے بات ہوئی تو کہنے لگے: ’’میں پھل کی تجارت سے وابستہ ہوں، اسی کے متعلق بات کروں گا۔ اس سال سیب کی پیداوار دوگنی ہوگئی ہے۔ مثال کے طور پر اگر کشمیر سے ہرسال سیب کی پیداوار ۱۰کروڑ پیٹیاں ہوتی ہیں تو اس سال تقریباً دگنا ہوگئی ہے۔ لیکن دوسری طرف حکومت نے اس سال ایران سے جو پھل درآمد کیا جاتا تھا اس پر امپورٹ ڈیوٹی کم کردی ہے، جس سے ہماری مارکیٹ دبائو میں آگئی ہے‘‘۔

’’آپ ان مسائل کو اُٹھا نہیں پاتے ہوں گے کیونکہ آپ کے انتخابی نمایندے موجود نہیں اور بہت برسوں سے الیکشن بھی نہیں ہوئے ہیں‘‘، میں نے کہاتو وہ صاحب کہنے لگے: ’’میں تو ایک چھوٹا سا کاروباری ہوں، اس لیے میں سیاست پر بات نہیں کرنا چاہتا۔ ہم بہت مشکلات میں ہیں‘‘۔

یہاں پر لوگوں میں ایک جھجک تو ہے ہی اور بات کرنے کے لیے بہت کم لوگ تیار ہیں۔ سیاست پر بات کرنے کے لیے تو بالکل تیار نہیں ہیں۔ اگر کاروباری مسائل پر بات کرتے بھی ہیں تو سیاست پر بات کرنے سے بچتے ہیں۔ آج کا یہ بہت الگ کشمیر ہے۔ وہ کشمیر جو میں نے ۲۰۱۹ء سے پہلے دیکھا اور جو کشمیر آج کا ہے،اس میں زمین و آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔

ایک بزرگ سے پوچھا کہ ’’حالات کیسے ہیں؟‘‘ تو انھوں نے کہا کہ ’’حالات پر ہم کیا کہہ سکتے ہیں…کچھ کہہ نہیں سکتے ،بس چل رہے ہیں‘‘۔جب میں نے کہا کہ ’’اگر کچھ کہیں گے تو کیا مشکل ہوگی؟‘‘ اس پر کہنے لگے: ’’اب کہنے کو کیا رہ گیا ہے؟ بس دن کاٹ رہے ہیں بیٹا!‘‘

سری نگر کے اس پرانے شہر میں، کئی گھنٹے گزارنے کے بعد مَیں نے لگ بھگ پوری دوپہر اور شام یہاں پر گزاری ہے۔ درجنوں لوگوں نے بات کرنے سے انکار کردیا۔ کوئی بھی ہم سے بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔ صرف چند لوگوں نے اپنی کاروباری مشکلات کا تذکرہ کیا۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت دُکھ اور افسوس ہوا کہ سری نگر اور کشمیر کو سیاسی طور پر دبانے کی ہمیشہ ہی کوشش کی گئی، اور آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے کے بعد تو ایک کشمیری کی اُمنگ ہی کو کچل دیا گیا۔ حالانکہ اس سے پہلے میں نے دیکھا تھا کہ یہاں لوگ منہ پر کھڑے ہوکر بولتے رہے۔پہلی بار یہ احساس ہوا کہ یہ بدلا ہوا کشمیر ہے۔ یہ وہ کشمیر نہیں ہے جو ۲۰۱۹ء سے پہلے مَیں نے دیکھا تھا، جہاں تمام طرح کی حکمران طاقتیں کبھی کشمیری شہری کا دل نہیں توڑ پائی تھیں۔ یہاں آج آپ جس کسی سے پوچھیں کہ کیسے حالات ہیں تو اس کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی بھی ہوتی ہے: ’’کیا کہیں؟ سارے حالات آپ کے سامنے ہیں‘‘۔ اگر حالات کے بارے میں بات کریں گے تو وہ سمجھتے ہیں کہ ’’یہ حالات بھی نہیں بچیں گے‘‘۔ یوں سمجھیے کہ پچھلے تین برسوں سے آرٹیکل ۳۷۰ کے ہٹنے کے بعد یہاں یہ کہانی ہرشخص جانتا ہے کہ ’’بولنے کی قیمت کیا ہوتی ہے؟‘‘ کشمیر ہمیشہ مسائل سے دوچار رہا ہے، مشکلات کا گڑھ رہا ہے، لیکن اس کے باوجود ایک کشمیری میں کم از کم اتنی آزادی اور ہمت ہواکرتی تھی کہ وہ سینہ تان کر اپنی مشکلات اور پریشانیوں کا اظہار کیا کرتا تھا، لیکن اب پہلی بار ایسا ہوا کہ یہاں کوئی بھی بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ کوئی امیر ہو یا غریب، رکشہ چلانے والا ہو، ٹھیلہ لگانے والا ہو، کوئی پروفیسر ہو یا طالب علم، کوئی صحافی ہو، کوئی بڑا یا چھوٹا کاروباری ہو، کوئی بھی فرد ہو، یہاں اس کی زندگانی سیاسی ہوچکی ہے، وہ کوئی بھی بات نہیں کرنا چاہتا۔

مَیں امید کرتی ہوں کہ اُونچے پائیدانوں پر بیٹھے وہ سیاست دان جنھوں نے کشمیریوں سے کسی قسم کی بات چیت اور مشورہ کیے بغیر کشمیر کے لیے بڑے بڑے فیصلے کر دیئے۔ اس نئے کشمیر کی موجودہ صورتِ حال کو دیکھ کران کا دل ضرور دُکھے گا کہ کیا وہ کشمیر کے لیے یہی چاہتے تھے؟

جمہوریہ ترکیہ کے جنوب مشرق میں شام کی سرحد سے متصل ۶فروری ۲۰۲۳ءکو آئے زلزلے نے ملک میں قہر مچا دیا ہے۔ تقریباً ایک لاکھ مربع کلومیٹر پر محیط علاقہ اس کی زد میں آیا ہے۔ دس صوبوں، قہرمان مارش، حاتائی، عثمانیہ، غازی ان تپ، شانلی عرفہ، دیاربکر، مالاتیہ، کیلس، آدانا اور آدیمان کی ایک کروڑ ۲۰ لاکھ کی آبادی متاثر ہوئی ہے۔ اس متاثرہ علاقے کے ایک سرے یعنی آدانا سے دوسرے سرے یعنی دیار بکر یا مالاتیہ تک ۷۰۰کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔   یہ سارا علاقہ تباہی اور بربادی کی ایک داستان بیان کر رہا ہے۔ ۵۰ہزار سے زیادہ افراد کی ہلاکت کا اندیشہ ہے ۔ اتنے بڑے علاقے میں بچائو اور سہارے کے لیے حکومتی اہل کاروں اور رضاکاروں کی ایک بڑی فوج کی ضرورت ہے۔ ترکی کے ان صوبوں کے علاوہ سرحد کی دوسری طرف شام کے پانچ صوبہ لاتیکا، ادلیب، رقہ اور الحکہ بُری طرح متاثر ہوئے ہیں۔

تین سال قبل جب ترکیہ کی قومی نیو ز ایجنسی انادولو سے دارالحکومت انقرہ میں وابستگی اختیار کی تو مجھے بتایا گیا: ’’ترکیہ میں زلزلے آتے رہنا تو ایک عام سی بات ہے، اس سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بلڈنگوں کے ڈیزائن و تعمیر ایسی ہے کہ یہ ہلتی تو ہیں، مگر گرنے کا احتمال کم ہی ہوتا ہے۔ ترکیہ دوٹیکٹونک پلیٹوں کے بیچ میں واقع ہے اور یہ پلیٹ ایک دوسرے سے ٹکراتے رہتے ہیں‘‘۔ آج صورت حال یہ ہے کہ ہمارے دفتر میں کئی ترک ساتھیوں کو اپنے اہل خانہ یا والدین کا پتہ نہیں چل رہا تھا۔

شانلی عرفہ کے سرحدی سوروج قصبہ میں مقامی صحافی آیان گلدووان مجھے بتا رہے تھے: ’’جب زلزلے کے جھٹکے سے مَیں بیدار ہوا تو پہلے تو مجھے یوں لگا کہ ترکیہ نے شاید شام میں امریکا کے حلیف کرد باغیوں کے خلاف آپریشن شروع کر دیاہے اور بمباری ہو رہی ہے۔ زلزلہ مقامی وقت کے مطابق ۴بج کر ۱۷منٹ پر آیا، جب کہ باہر برف باری ہو رہی تھی۔ آج کل فجر کی اذا ن ۶بج کر ۴۵ منٹ پر ہوتی ہے۔ اپنے والدین کے ساتھ جان بچانے کے لیے میں بلڈنگ سے باہر نکلا۔ دُور سے تاریخی عرفہ شہر سے گرد و غبار آسمان کی طرف بلند ہوتا دکھا ئی دیا۔زمین کی تھرتھراہٹ ۶۵ سیکنڈ تک جاری رہی اور پندرہ منٹ کے بعد، میں برف باری اور منجمد کرتی سردی سے بچنے کے لیے اپنی بلڈنگ کی طرف جانے لگا۔ اسی دوران ایک اور زلزلہ آگیا اور مَیں نے اپنی آنکھوں سے اس بلڈنگ کو گرتے دیکھا ، جس میں میرا فلیٹ تھا۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے بے گھر ہوچکا تھا‘‘۔

متمول صوبہ غازی ان تپ، جس کے دارالحکومت کا نام بھی غازی ان تپ ہے، کے نواح میں ایک پہاڑی پر نیوز اینکر اوکتے یالچن کا فلیٹ تھا۔ ان کی بلڈنگ بھی زلزلے کے دوسرے جھٹکے سے گر گئی۔ پہاڑی سے وہ شہر پر آئی قیامت دیکھ رہے تھے۔ ان کا کہناہے: ’’ہمیں یوں لگا جیسے کوئی ایٹم بم گرادیا گیا تھا۔ ماہرین نے بتایا کہ اس زلزلہ کی شدت ۵۰۰میگاٹن ایٹم بم جتنی تھی۔ جاپان کے ہیروشیما شہر پر جو ایٹم بم امریکا نے گرایا تھا اس کی طاقت تو بس ۱۵کلو ٹن تھی۔ زلزلہ تھمنے کے بعد میں شہر کے مرکز کی طرف روانہ ہوا، تو دیکھا کہ شاپنگ مال، کلبس اور ریسٹورنٹس ، جہاں کل رات تک لوگ چمکتی ہوئی بھڑکیلی روشنیوں کے جلو میں ویک اینڈ جشن منا رہے تھے، زمین بوس ہو چکے تھے۔ قہر مان مار ش صوبہ کے دو قصبے پزارجک اور البستان کا نام و نشان مٹ چکا ہے۔ زلزلہ کا مرکز یہیں تھا‘‘۔

حاتائی میں ہی انادولو نیوزایجنسی کے ایک اور رپورٹر اپنے مکان کے گرنے سے اپنے خاندان کے ساتھ زندہ ہی ملبے میں دفن ہو گئے تھے۔ وہ بتا رہے تھے:’’ہر طرف اندھیر ا تھا اور  لگتا تھا کہ ہم زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ چند گھنٹوں کے بعد مَیں نے محسوس کیا کہ زلزلہ کے مزید جھٹکوں نے دیوار میں شگاف ڈال دیا، جس سے روشنی نظر آنا شروع ہوئی۔ پھر میں نے کئی گھنٹوں کی مشقت کے بعد وہاں پڑی ایک سخت چیز سے اس سوراخ کو بڑا کیا۔ مجھے کچھ یاد نہیں کہ و ہ آلہ کیا تھا اور کیسے ہاتھ میں آگیا تھا۔ سوراخ تھوڑا بڑا ہوگیا ، تو پہلے اپنے بچوں کو باہر نکالا اور پھر اپنے والدین اور پھر خود اپنی اہلیہ کے ساتھ باہر آگیا۔ ہم دو دن تک خون جمانے والی سردی اور بارش میں بغیر جوتوں کے نائٹ سوٹ پہنے سڑک پر کسی ریسکیو ٹیم کا انتظار کر رہے تھے‘‘۔

 بحیرۂ روم کے ساحل پر حاتائی صوبہ کی بندرگاہ اسکندرون تو آگ کی نذر ہو گئی ۔ یہاں ترکیہ کی قومی بحریہ کا ایک اسٹیشن بھی ہے۔ زلزلہ سے کئی کنٹینر الٹ گئے اور آگ بھڑک اٹھی، کئی روز کے بعد آگ پر قابو پایا گیا۔ پڑوس میں آدانا صوبہ میں انجیرلک کے مقام پر ناٹو اور امریکی فوج کی فارورڈ بیس کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ مگر اس کے ایئرپورٹ کو ٹھیک کرکے بھاری طیاروں کے اترنے کے قابل بنا دیا گیا ہے۔

 غازی ان تپ کے دو ہزار سال پرانے تاریخی قلعے نے کئی زمانے دیکھے ،مگر اس زلزلہ کی وجہ سے اس کا ایک بڑا حصہ مسمار ہو گیا ہے۔ آثار قدیمہ کے ماہرین کے لیے اس کی مرمت اور بحالی ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ ترکیہ کا یہ متاثرہ علاقہ تاریخی لحاظ سے خاصا اہم ہے۔ شان لی عرفہ کے صوبے میں عرفہ شہر کو فلسطین کی طرح پیغمبروں کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ اس کا قدیم نام شہر’ ار‘ ہے۔ یہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام پیدا ہوئے تھے اور ان کو نمرود نے آگ میں ڈالا تھا۔ جس جگہ ان کو آگ میں ڈالا گیا تھا وہاں اب ایک خوب صورت تالاب ہے، جس میں ہزاروں مچھلیاں تیرتی رہتی ہیں۔ یہ حضرت شعیبؑ ، حضرت ایوبؑ اور حضرت الیاس علیہم السلام کا بھی وطن ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی اپنی زندگی کے سات سال یہاں گزارے۔

جمہوریہ ترکیہ میں آفات سے نمٹنے والی ایجنسی AFADدنیا بھر میں اپنی کارکردگی اور مہارت کی وجہ سے مشہور ہے ۔ مگر یہ تباہی جس بڑے پیمانے پر اور جس وسیع خطے میں آئی ہے،  اس وجہ سے اکیلے یہ بحالیات کرنے والی ایجنسی شاید ہی اس سے نپٹ سکے۔ فی الحال دینا بھر کے نوّے ممالک کی ٹیمیں میدا ن میں ہیں۔ان میں پاکستان اور بھارت کی ریسکیو ٹیمیں بھی شامل ہیں۔ پاکستان ریسکیو ٹیم نے آدیمان میں ایک ۱۵ سالہ بچے کو ملبے سے زندہ نکالا، جو یقینا ایک کرشمۂ قدرت ہے۔ اس ٹیم نے اب اس جگہ پر ریسکیو آپریشن ختم کر دیا تھا کہ اس کے ایک کارکن نے موہوم آواز میں کسی کو کلمۂ شہادت پڑھتے ہوئے سنا ۔انھوں نے دوبارہ آلات نصب کیے، تو معلوم ہو اکہ آواز ملبے سے آرہی ہے۔ کئی گھنٹوں کی مشقت کے بعد اس بچے کو برآمد کیا گیا، جو منفی درجہ حرارت میں ۱۳۷گھنٹوں تک ملبہ میں دبا رہا ۔ ایسے اَن گنت واقعات منظر عام پر آرہے ہیں۔چونکہ زندہ افراد کے ملبے سے نکلنے کا سلسلہ جاری رہا، اس لیے بلڈوزر اور بھاری مشینری استعمال کرنے سے پرہیز کیا گیا ہے۔ ہاتھوں سے ملبہ اٹھانا اور اس میں زندہ وجود کا پتہ لگانا انتہائی صبر آزما کام ہے۔

اب صورتِ حال یہ ہے کہ ایک بڑی متاثرہ آبادی کی آبادکاری اور ان کی متبادل رہایش کا انتظام کرنا، شہروںاور قصبوں کا پورا انفراسٹرکچر کھڑا کرنا ایک بہت بڑا اور سخت کٹھن کام ہے۔ یاد رہے، عددی اعتبار سے ترکیہ، امریکا کے بعد دُنیابھر میں بیرونِ ملک انسانی امداد پر خرچ کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔ چاہے بنگلہ دیش، میانمار، روہنگیا کے متاثرین ہوں یا افغانی، شامی، جنوبی امریکی اور افریقی آفت زدگان۔ ۲۰۲۱ء میں طیب اردوان کی حکومت نے بیرونِ ملک انسانی امداد کے لیے ۵ء۵ بلین ڈالر خرچ کیے تھے۔

ترکیہ کا ایک ادارہ ’ترکش کوآپریشن اینڈ کوآرڈی نیشن ایجنسی‘ انھی خدمات کے لیے مختص ہے۔ علاوہ ازیں مذہبی اُمور کی وزارت اور بہت سی غیر سرکاری تنظیمیں بھی امداد اور زکوٰۃ جمع کرکے دُوردراز ممالک میں ضرورت مندوں تک پہنچاتی ہیں۔ اس طرح جمہوریہ ترکیہ کی مجموعی قومی پیداوار کا اعشاریہ ۸۶ فی صد بیرون ملک انسانی امداد پر مختص کرکے، ترکیہ امریکا سے کافی آگے ہے۔ اب آزمایش دیکھیے کہ سخاوت، دریا دلی اور خود داری کے لیے مشہور یہ ملک،جس کے پاس عرب دنیا کی طرح تیل کے چشمے بھی نہیں ہیں، اس مصیبت کی گھڑی میں خود امداد کامستحق ہوگیا ہے۔

ان آفت زدہ علاقوں کے اوپر سے پرواز کرتے ہوئے دور دور تک صرف ملبے کے ڈھیر نظر آتے ہیں اور ان کے درمیان جزیروں کی طرح چند عمارتیں کھڑی نظر آ رہی ہیں۔ مقامی افراد کے مطابق یہ حکومت کی طرف سے رعایتی نرخوں پر غریبوں کے لیے بنائے گئے مکانات ہیں، جو شدید زلزلوں کے جھٹکوں کو سہہ سکے ہیں، جب کہ اسکائی اسکریپرز، پُر تعیش کثیر منزلہ عمارات، ان میں سے کئی تو بس چند ماہ پہلے ہی مکمل ہو چکی تھیں، اور ان کو بیچنے کے لیے کئی شہروں میں ہورڈنگس لگی ہوئی تھیں، زمین بوس ہو چکے ہیں۔ اسی طرح  زلزلہ کے مرکز قہرمان مارش صوبہ کے پزارجک قصبہ سے صرف ۸۰کلومیٹر دُور ایرزان قصبہ کا بال بھی بیکا نہیں ہوا۔ اس کے سبھی مکین مع مکانات صحیح و سلامت ہیں۔

آفت زدہ علاقے کے باسی ابھی تک دہشت زدہ ہیں، اور ابھی تک گھروں کے بجائے سڑکوں اور پارکوں میں خیموں میں رہ رہے ہیں۔آفٹر شاک آنے کا سلسلہ جاری ہے ۔حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ۱۹ہزار کثیر منزلہ عمارات زمین بوس ہو چکی ہیں اور مزید ۳۰ہزار ناقابل رہایش ہوچکی ہیں۔ اس کے علاو ہ لاتعداد عمارتوں کو انتہائی مرمت کی ضرورت ہے۔ چونکہ ۱۹۸۰ءسے ہی ترکیہ میں قانونی طور پر انفرادی مکانات یا بنگلے تعمیر کرنے پر پابندی عائد ہے، اس لیے کم و بیش پوری آبادی کثیر منزلہ عمارات میں ہی رہتی ہے۔

۱۹۹۹ء میں ازمت اور استنبول کے آس پاس آئے زلزلے کے بعد بلڈنگ قوانین میں بڑی تبدیلیاں کرکے یہ لازم کردیا گیا تھا کہ زلزلہ کو سہنے والی عمارات ہی بنائی جائیں۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ جنوب مشرق کے ان صوبوں کی مقامی بلدیہ نے ان قوانین کا سختی کے ساتھ اطلاق نہیں کیا ہے۔ مالاتیہ صوبہ میں ایک ایسی بلڈنگ گر گئی، جس کا پچھلے سال ہی افتتاح ہوا تھا۔ حاتائی کے انتاکیا شہر میں جب ایک ۱۲منزلہ عمارت گرنے کی خبر آئی تو اس کے بنانے والے مہمت یاسا ر ملک سے باہر فرار ہو رہے تھے، ان کو استنبول ایرپورٹ پر گرفتار کیا گیا۔ اسی شہر میں بحر روم کے کنارے ایک ۲۵۰  فلیٹوں پر مشتمل سپر لگزری ۲۴منزلہ عمارت ایک ڈویلپر نے بنائی تھی، جس کے ہورڈنگس ملک بھر کے خریداروں کو لبھا رہے تھے۔ یہ عمارت تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئی ہے۔

زلزلوں کے ماہر اور اسٹرکچر انجینئر مہدی زارا کے مطابق اکثر ہلاکتیں زلزلہ کے بجائے بلڈنگوں کے گرنے سے ہوئی ہیں اور اگر کوئی بلڈنگ شاک سے گر جاتی ہے، تو یہ تسلیم کیا جانا چاہیے کہ اس کی تعمیر میں کوئی نقص تھا۔ ان کے مطابق جدید ٹکنالوجی کے ذریعے بلڈنگوں کو شاک پروف بنایا جاسکتا ہے اور یہ تکنیک عمارت بنانے کے لیے استعمال کرنا تو ترکیہ میں لازمی ہے۔ اس کا بڑاثبوت اسی علاقے میں غریب افراد کے لیے بنائی گئی عمارات ہیں، جو بالکل سلامت کھڑی ہیں۔ لگتا ہے کہ بلڈنگ قوانین یا کوڈ کو سختی سے ان علاقوں میں لاگو نہیں کیا گیا تھا۔ حالانکہ ایک بہتر ڈیزائن والی عمارت اس سے بھی زیادہ شدت کے زلزلے برداشت کر سکتی ہے۔کسی بھی بلڈنگ کو شاک پروف بنانے کے لیے اس کی بنیاد میں اسٹیل کی راڈیں ڈالی جاتی ہیں اور پھر استونوں کے کالم بھی اسٹیل سے ہی کھڑے کیے جاتے ہیں۔ زلزلہ کے وقت لچک کی وجہ سے اسٹیل کالم جھٹکے کے بعد واپس اپنی پوزیشن میں آتے ہیں اور بلڈنگ محفوظ رہتی ہے۔

انقرہ میں حکومت کا کہنا ہے کہ ان علاقوں میں چونکہ بلدیاتی ادارے اپوزیشن گڈ پارٹی اور کرد ایچ ڈی پی کے پاس ہیں، انھوں نے مقبولیت حاصل کرنے کے لیے اور رئیل اسٹیٹ بوم دکھانے کے لیے بلڈنگ بنانے کی شرائط اور ان پر عمل درآمد کروانے میں نرمی برتی ہے۔ نائب صدر فواد اوکتہ کے مطابق ابھی تک ۱۳۱ٹھیکے داروں، انجینئرو ں اور معماروں کی نشان دہی کی گئی ہے، جن کے خلاف مقدمے درج کیے جائیں گے۔ وزارت انصاف نے تو باضابطہ تفتیش کے لیے ایک ٹیم بھی تشکیل دی ہے۔ ترکیہ میں ہر گھر کا انشورنس کرنا لازمی ہوتا ہے، اس کے بغیر بجلی، پانی اور گیس کا کنکشن مل ہی نہیں سکتا۔ اس طرح ہر سال انشورنس کمپنیاں مکان مالکان سے ۲ء۱۹ بلین لیرا اکٹھا کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت کی طرف سے عائد زلزلہ ٹیکس میں بھی ۸۸بلین لیرا حکومت کے خزانے میں جمع ہیں۔ ہر سال بلدیہ کے ضابطہ محکمہ کے افراد جدید آلات لیے عمارتوں کی چیکنگ کرتے رہتے ہیں۔ انقرہ میں جس علاقے میں، مَیں رہایش پذیر ہوں ، صرف پچھلے ایک سال کے دوران پانچ بلڈنگوں کو غیر محفوظ قرار دے کر مسمار کردیا گیا ۔ ضابط محکمہ مکینوں کو نوٹس دیتا ہے اور پھر ان کو ایک سال تک متبادل رہایش اور سامان کے نقل و حمل کے لیے خرچہ دے کر مسمار شدہ جگہ پر نئی عمارت بغیر کسی خرچہ کے تعمیر کراتا ہے۔ اس کا خرچہ مکان مالک کے بجائے انشورنس کمپنی سے لیا جاتا ہے۔

یہ زلزلہ ایسے وقت آیا ہے کہ جب صدر رجب طیب اردوان اپنی سیاسی بقا کی جنگ لڑرہے ہیں ۔ انھوں نے پہلے ہی ۱۴مئی ۲۰۲۳ء کو صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کے انعقاد کا اعلان کردیا تھا۔ ان زلزلوں کا ایک ضمنی مثبت اثر یہ رہا کہ ترکیہ اور یونان میں مفاہمت کے آثار نظر آرہے ہیں۔ سیاسی کشیدگی ہوتے ہوئے بھی یونان نے سب سے پہلے اپنی ریسکیو ٹیموں کو بھیجا اور ان کے وزیر خارجہ نکوس ڈنڈیاس خود اس کی نگرانی کرنے پہنچ گئے۔ دوسری طرف آرمینیا اور ترکیہ کے درمیان بارڈر پوسٹ ۳۰سال بعد کھولی گئیں۔ کاش! اسی طرح کی کوئی مفاہمت شام اور ترکیہ کے درمیان بھی ہوتی، تاکہ اس خطے میں امن بحال ہوسکے اور شورش کی وجہ سے ۴۰لاکھ کے قریب بے گھر شامی اپنے گھروں کو جاکر زندگی گزار سکیں۔

ترکیہ اور شام میں حالیہ زلزلہ ایک ایسا موقع ہے، جس سے بہت کچھ سبق سیکھا جا سکتا ہے۔   بچوں کی تربیت اور خود بڑوں کی تربیت کے ضمن میں بطور مسلمان ہم سب پریہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ اس دنیا اور ہماری تخلیق سے متعلق اسلامی نقطۂ نظر بچوں کے سامنے رکھیں۔

ساری دنیا میں زلزلے آتے رہتے ہیں۔ زمین کی اندرونی تہوں کے ہلنے سے سطح ارض پر جو ارتعاش پیدا ہوتا ہےاسے زلزلہ کہتے ہیں۔ قدرتِ حق سے زمین کی یہ تہیں آپس میں ٹکراتی ہیں،  جو سطح زمین پر زلزلے کا باعث بنتی ہیں۔۶ فروری ۲۰۲۳ء کی سحری کے وقت آنے والا زلزلہ، گذشتہ آٹھ عشروں کا شدید ترین زلزلہ تھا۔ شدت کے ساتھ ساتھ اس زلزلے کا وقت بھی نقصان دہ ثابت ہوا۔ دن طلوع ہونے سے قبل زیادہ تر لوگ اپنے گھروں میںمحو خواب تھے کہ ان کی چھتیں ان کے اُوپر آن پڑیں۔ زلزلے کی نوعیت اور آفات کو دیکھ کر بہت سے غورطلب اور سبق آموز پہلو سامنے آتے ہیں ، ان کے بارے میں چند گزارشات پیش ہیں:

تمام تر دعوئوں کے باوجود انسان ابھی تک اپنی دنیا کو مکمل طور پر سمجھنے سے قاصر ہے۔ زلزلے جیسے واقعات ہمیں اپنی کمزوری اور بے بسی کا احساس شدید تر کرنے کا باعث بنتے ہیں۔  ہم کسی بھی بڑے سے بڑے یا چھوٹے سے واقعے کے بارے میں بھی یقینی طور پر نہیں کہہ سکتے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہمارے لیے سزا ہے یا آزمایش۔ یہ علم اسی کی ذات کے پاس ہے جو علیم و خبیر ہے۔

دنیا کی آزمایشوں ، مشکلات یا چھوٹے موٹے مسئلوں کو لے کر انسان کا پریشان ہونا اچنبھے کی بات نہیں، یہ چیزیں تو اَزل سے ہمارے ساتھ ہیں۔ اس صورتِ حال میں اصل مشکل اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہے کہ ہم جتنے بھی با خبر یا سمجھ دار ہو جائیں، بہت سی چیزیں ہمارے علم سے ہمیشہ باہر رہیں گی۔ ایسی ہی ایک مثال سورۂ کہف کے مطالعے سے یاد آ رہی ہے، جسے اکثر مسلمان جمعہ کے روز پڑھتے ہیں۔ اس سورہ میں حضرت موسٰی کی جناب خضر سے ملاقات کا ذکر ہے۔ یہ ملاقات تب ہوتی ہے جب حضرت موسٰی دنیا میں سب سے بڑا عالم ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اللہ ان کی جناب خضر سے ملاقات کرواتا ہے جو بعض اُمور میں ان سے بھی زیادہ علم رکھتے ہیں۔ یہ واقعہ بڑی تفصیل سے بیان ہوا ہے اور جو قرآن حکیم میں دیکھا جا سکتی ہے۔

چنانچہ یہ بات انتہائی اہم ہے کہ ہم عاجزی سے اس حقیقت کو تسلیم کر لیں کہ ہم جتنا بھی علم حاصل کر لیں، جتنے بھی باخبر ہو جائیں، زندگی اور موت کے معاملات ہماری سمجھ سے باہر رہیں گے۔  کائنات کا حتمی علم اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے۔ اس حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے ہم اپنے روزمرہ معاملات میں اس ہدایت سے بہرہ مند ہو سکتے ہیں، جو اللہ کی جانب سے ہم تک پہنچتی ہے۔ اس میں ہمارے سیکھنے اور اپنے بچوں کو سکھانے کے لیے بہت کچھ ہے۔

سیکھنے کے اسباق

ذیل میں وہ اسباق درج ہیں جو قرآن مجید اور ہدایت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم اس تباہ کن آفت سے سیکھ سکتے ہیں ۔

۱- اللہ کی قدرت کا اعتراف:تمام تعریفیں اللہ ہی کے شایانِ شان ہیں۔ اس دنیا کے متعلق جتنے بھی سائنسی حقائق ہم نے دریافت کیے ہیں، وہ اسی لیے کیے ہیں کہ اللہ کی ذات نے ہمیں اس علم سے نوازا ہے۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ دنیا کی ہر چیز، یہاں تک کہ قدرتی طور پر آنے والے زلزلے بھی اللہ کی قدرت کا اظہار ہیں۔یہ زلزلہ اس حقیقت کی طرف واضح اشارہ ہے کہ دنیاوی واقعات کی کمان اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ انسان اتنا بے بس ہے کہ نہ ان واقعات کو روک سکتا ہے اور نہ ان کے بعد ہونے والی تباہی کا تدارک اس کے اختیار میں ہے۔قرآنِ عظیم میں فرمایا گیا ہے:

اَللہُ الَّذِيْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَہُنَّ۝۰ۭ يَـتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَيْنَہُنَّ لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝۰ۥۙ وَّاَنَّ اللہَ قَدْ اَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا۝۱۲ۧ (الطلاق ۶۵: ۱۲) اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور زمین کی قِسم سے بھی انھی کے مانند۔ اُن کے درمیان حکم نازل ہوتا رہتا ہے۔ (یہ بات تمھیں اس لیے بتائی جارہی ہے ) تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہرچیز پر قدرت رکھتا ہے، اور یہ کہ اللہ کا علم ہرچیز پر محیط ہے۔

۲- ایک سبق جدوجہد کے متعلق:اس دنیا میں جدوجہد اور اس کے مجوزہ مقاصد کی اہمیت ہم جانتے ہیں۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے خبر دار کیا ہے :

لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْ كَبَدٍ۝۴ۭ (البلد۹۰: ۴) درحقیقت ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے: ’اللہ اپنے بندوں کو پریشانیوں کے ذریعے آزماتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ بندے مشکلات کے خلاف نبرد آزما ہو کر اس کی عبادت کریں، اس لیے ان پر کئی آزمایشیں پڑتی ہیں۔ یہ سب اس لیے کہ ان کے دلوں سے غرور نکل جائے اور عاجزی ان کی روحوں میں رچ بس جائے۔ انھی مشکلات کے ذریعے اس کی رحمت کے دروازے کھلتے ہیں اور بندوں کو آسان بخشش کا ذریعہ میسرآتا ہے‘۔ (میزان الحکمہ ۲۹۸۰)

۳- مشکلات اور آزمایشوں کا مقصد :اللہ کی طرف سے آنے والے امتحان اور یہ مشکلات ہماری دنیاوی زندگی کا اہم حصہ رہیں گے۔ یہ امتحان ہمیں جذباتی، جسمانی، نفسیاتی اور روحانی طور پر آزمانے کے لیے آئیں گے:

فَاَمَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فَيَعْلَمُوْنَ اَنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّہِمْ۝۰ۚ وَاَمَّا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَيَقُوْلُوْنَ مَاذَآ اَرَادَ اللہُ بِہٰذَا مَثَلًا۝۰ۘ يُضِلُّ بِہٖ كَثِيْرًا۝۰ۙ وَّيَہْدِىْ بِہٖ كَثِيْرًا۝۰ۭ وَمَا يُضِلُّ بِہٖٓ اِلَّا الْفٰسِقِيْنَ۝۲۶ۙ (البقرہ۲:۲۶) جو لوگ حق بات کو قبول کرنے والے ہیں، وہ انھی تمثیلوں کو دیکھ کر جان لیتے ہیں کہ یہ حق ہے جو اُن کے ربّ ہی کی طرف سے آیا ہے، اور جو ماننے والے نہیں ہیں،و ہ انھیں سن کر کہنے لگتے ہیں کہ ایسی تمثیلوں سے اللہ کو کیا سروکار؟ اس طرح اللہ ایک ہی بات سے بہتوں کو گمراہی میں مبتلا کردیتا ہے اور بہتوں کو راہِ راست دکھا دیتا ہے۔ اور اُس سے گمراہی میں وہ انھی کو مبتلا کرتا ہے جو فاسق ہیں۔

ان تمام آزمایشوں کے جواب میں ہمارے پاس صرف صبر اور شکر ہے: 

وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ۝۰ۭ وَبَشِّـرِ الصّٰبِرِيْنَ۝۱۵۵ۙ الَّذِيْنَ اِذَآ اَصَابَتْہُمْ مُّصِيْبَۃٌ۝۰ۙ قَالُوْٓا اِنَّا لِلہِ وَاِنَّآ اِلَيْہِ رٰجِعُوْنَ۝۱۵۶ۭ ( البقرہ۲: ۱۵۵-۱۵۶) اور ہم ضرور تمھیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کرکے تمھاری آزمایش کریں گے۔ ان حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے تو کہیں کہ ’’ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے‘‘۔ انھیں خوش خبری دے دو۔

۴-موت سے متعلق  سبق: حالیہ حادثے کے بعد سامنے آنے والی خبروں اور ویڈیوز میں ہم نے زندگی اور موت کو باہم دست و گریباں ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ ایک ہی گھر کے بچے اور جوان ملبے تلے دبے تو ان میں سے کچھ کو خراش تک نہ آئی، کچھ زخمی ہوئے، کچھ اپنے ربّ کے حضور پیش ہو گئے اور کچھ کی اب تک کوئی خبر نہیں ہے۔ کس کے ساتھ کیا ہوگا؟ اس کا علم صرف اللہ  کی ذات بابرکات کو ہے، جو تمام دنیا کا خالق و وارث ہے:

اِنَّ اللہَ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِ۝۰ۚ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ۝۰ۚ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْاَرْحَام۝۰ِۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا۝۰ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌۢ بِاَيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ۝۳۴ۧ (لقمان۳۱: ۳۴) اُس گھڑی کا علم اللہ ہی کے پاس ہے، وہی بارش برساتا ہے، وہی جانتا ہے کہ مائوں کے پیٹوں میں کیا پرورش پارہا ہے، کوئی متنفس نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کمائی کرنے والا ہے، اور نہ کسی شخص کو یہ خبر ہے کہ کس سرزمین میں اس کو موت آنی ہے، اللہ ہی سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔

وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ اَنْ تَمُـوْتَ اِلَّا بِـاِذْنِ اللہِ كِتٰبًا مُّؤَجَّلًا۝۰ۭ وَمَنْ يُّرِدْ ثَوَابَ الدُّنْيَا نُؤْتِہٖ مِنْھَا۝۰ۚ وَمَنْ يُّرِدْ ثَوَابَ الْاٰخِرَۃِ نُؤْتِہٖ مِنْھَا۝۰ۚ وَسَنَجْزِي الشّٰكِرِيْنَ۝۱۴۵

(اٰل عمرٰن۳: ۱۴۵) کوئی ذی روح، اللہ کے اِذن کے بغیر نہیں مرسکتا۔ موت کا وقت تو لکھا ہوا ہے۔ جو شخص ثوابِ دُنیا کے ارادہ سے کام کرے گا اس کو ہم دُنیا ہی میں سے دیں گے، اور جو ثوابِ آخرت کے ارادہ سے کام کرے گا وہ آخرت کا ثواب پائے گا اور شکر کرنے والوں کو ہم ان کی جزا ضرور عطا کریں گے۔

اور جو اس حادثے میں فوت ہوچکے ہیں، ان کی موت رحیم و خبیر اللہ نے اسی لمحے اور اسی طرح مقرر کر رکھی تھی۔ ہم جانتے ہیں کہ اللہ کے کاموں میں کوئی ضُعف اور کمزوری نہیں۔  رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:

پانچ لوگ شہید ہیں: طاعون میں مرنے والا، پیٹ کی بیماری سے، ڈوب کر یا چھت کے نیچے دب کر مرنے والا اور اللہ کی راہ میں جان دینے والا۔ (بخاری : حدیث ۲۹۸۹)

ہمیں دُعا کرنی چاہیے کہ اللہ کریم اس موت کو ان مرحومین کے لیے بخشش کا وسیلہ بنا دے۔ جہاں تک ہماری موت کا تعلق ہے اس کا علم صرف ذاتِ الٰہی کو ہے۔

۵- انسانیت سے متعلق سبق: جب بھی اس آفت سے ہونے والی تباہی کے مناظر نظر آتے ہیں کہ جو اس تکلیف سے گزر رہے ہیں تو ہمارا دل ان لوگوں کے لیے گہرے جذبۂ ہمدردی سے لبریز ہو جاتا ہے۔ ہم سب اس وقت زلزلے کے آفٹر شاکس اور لوگوں کے بچ نکلنے سے متعلق کئی طرح کی خبروں سے جڑے ہوئے ہیں۔ ابھی کل ہی زلزلے کےہفتہ بھر بعد ایک اٹھارہ ماہ کے بچے کو ملبے سے زندہ نکالا گیا ہے۔ اپنے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کے لیے جو درد ہم اپنے دل میں محسوس کرتے ہیں وہ مبنی بر حقیقت ہے کیونکہ تمام مومنین کے دل آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا تھا:

مومن باہمی محبت، ہمدردی اور رحم کے معاملے میں ایک جسم کی طرح ہیں۔ کسی ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم بے چینی اور بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ (صحیح البخاری، حدیث ۵۶۶۵، صحیح المسلم، حدیث ۲۵۸۶)

ہمیں اس تعلق کو مزید مضبوط کرنے کے لیے کوشش کرنی چاہیے کیونکہ یہ ہمارے لیے روحانی ترقی اور تقویت کا باعث ہے۔ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ کریم نے فرمایا:

تم میں سے کوئی تب تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے کرتا ہے۔(صحیح البخاری، حدیث ۱۳)

رضاکار مستعد ہیں، غذائی اجناس، کپڑے، دوائیاں اور دیگر ضروری اشیا عطیہ کی جا رہی ہیں۔ امدادی کاموں کے لیے دنیا بھر سے بڑے پیمانے پر مادی وسائل بھی جمع کیے جا رہے ہیں۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کے مطابق یہ سب کرنا ہمارا دینی فریضہ بھی ہے:

بے شک مسلمان ایک دیوار کی مانند ہیں جس کا ہر حصہ دوسرے کو سہارا دیتا ہے(پھر رسولؐ اللہ نے اپنی انگلیاں ایک دوسرے میں پھنسا کر دکھائیں)۔(صحیح بخاری)

۶- ہماری زندگیوں کے لیے سبق:انسان اپنی موت سے بے خبر ہیں۔ حالیہ زلزلے میں شہید ہونے والوں نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ وہ اگلے دن کا سورج نہیں دیکھ پائیں گے۔ ان آفتوں اور ان کی بڑھتی ہوئی شدت کودیکھ کر ہمیں بھی موت کا تصور فکرمند رکھتا ہے۔ چنانچہ ایسے میں ہمارے بھائیوں یا بہنوں پر جو مشکل پڑتی ہے وہ ہمارے لیے یاددہانی کا کام کر سکتی ہے۔ ہمیں اپنے آپ سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ اگر آج کا دن ہمارا آخری دن ہو تو ہم اسے کیسے گزاریں گے؟

۷- ایک سبق قیامت سے متعلق: سورۃ الزلزال میں اللہ تعالیٰ نے روز قیامت پیش آنے والی تباہی کا ذکر فرمایا ہے:

يَوْمَىِٕذٍ يَّصْدُرُ النَّاسُ اَشْتَاتًا۝۰ۥۙ لِّيُرَوْا اَعْمَالَہُمْ۝۶ۭ فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَيْرًا يَّرَہٗ۝۷ۭ وَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا يَّرَہٗ۝۸ۧ (الزلزال ۹۹: ۶ تا ۸)اُس روز لوگ متفرق حالت میں پلٹیں گے تاکہ اُن کے اعمال اُن کو دکھائے جائیں۔ پھر جس نے ذرّہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرّہ برابر بدی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔

قرآن میں بیان کی گئیں تفصیلات دل دہلا دینے والی ہیں، لیکن ان کا حالیہ زلزلے سے کیا تعلق ہے؟ ہمیں بتایا گیا ہے کہ قیامت تب تک نمودار نہیں ہو گی جب تک ہم کچھ نشانیاں نہ دیکھ لیں۔ ان میں سے کئی نشانیاں آج ہمارے سامنے ہیں:

  • علما کی وفات کے ساتھ ساتھ دنیا سے علم بھی اٹھتا جا رہا ہے۔
  • زلزلوں کی تعداد اور شدت بڑھتی جا رہی ہے۔
  • وقت سے برکت اُٹھ گئی ہے۔
  • قتل و غارت بڑھ رہی ہے۔ قاتل اور مقتول دونوں بے خبر ہیں کہ وہ کیوں قتل کر یا ہو رہے ہیں؟
  • دولت لالچ کے ذریعے بڑھائی جارہی ہے۔
  • بدعنوانی دنیا میں عام ہے۔

مشکلات کا نشانہ بننے والوں پر انفرادی ذمہ داری ڈالنے کے بجائے ہمیں اجتماعی طور پر یہ سوچنا ہو گا کہ ہم سب مل کر کس طرح دنیا میں فتنہ کے پھیلاؤ کا باعث بن رہے ہیں؟ کیا یہ آفتیں اس لیے بڑھ رہی ہیں کہ زمین پر گناہ اور ظلم میں اضافہ ہو رہا ہے؟ ایسے میں ہمارے انفرادی گناہ کون سے ہیں، جن کے باعث ہم بھی اس ظلم اور گناہ کا حصہ بنے ہوئے ہیں؟

۸- اللہ  کی ذات پر بھروسے اور توکّل کا سبق:اگر ہمارا ایمان یہ ہے کہ اللہ کی ذات ہی سب سے بڑی، سب سے طاقت ور اور سب سے عظیم ہے، تو ہمیں اس کے فیصلوں اور صرف اسی کے فیصلوں کے آگے سر تسلیم خم کرنا چاہیے۔ ہمارا دین ہمیں ایک خوب صورت دعا سکھاتا ہے جو پریشانی اور امتحان کے مرحلے میں ہمارے لیے سکون کا باعث بن سکتی ہے۔ یہ دعا اللہ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے سکھائی ہے:

فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِيَ اللہُ۝۰ۤۡۖ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ۝۰ۭ عَلَيْہِ تَوَكَّلْتُ وَھُوَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ۝۱۲۹ۧ ( التوبہ۹: ۱۲۹) اب اگر یہ لوگ تم سے منہ پھیرتے ہیں تو اے نبیؐ! ان سے کہہ دو کہ ’’میرے لیے تو بس، اللہ ہی کافی ہے۔ کوئی معبود نہیں مگر وہ، اُسی پر میں نے بھروسا کیا اور وہ مالک ہے عرشِ عظیم کا۔

یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ خود کو اور بچوں کو، اس دنیا اور اس میں آنے والی آزمایشوں کے بارے میں بتائیں۔ گھر اور گھر کے باہر بھی پیش آنے والے واقعات سبق آموز ہوسکتے ہیں۔ ہمیں روزمرہ زندگی میں جو بھی پریشانی یا مشکل دیکھنی پڑے ہم بچوں کو اسلامی نقطۂ نظر سے اس کا مقصد اور نتیجہ سمجھا سکیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو ہمارے اندر ان مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لیے نیا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ یہی چیز ہم اپنے بچوں کے لیے بھی پسند کرتے ہیں۔ اور اللہ نے مومنین کے ساتھ انعام کا وعدہ کیا ہے:

مومن کا معاملہ عجیب ہے۔اس کا ہرمعاملہ اس کے لیے بھلائی کا ہے۔اور یہ بات مومن کے سوا کسی اور کومیسر نہیں۔اسے خوشی اور خوش حالی ملے توشکر کرتا ہے،اور یہ اس کے لیے اچھا ہوتا ہے، اور اگر اسے کوئی نقصان پہنچے تو(اللہ کی رضا کے لیے) صبر کر تا ہے، یہ(بھی) اس کے لیے بھلائی ہوتی ہے ‘‘۔(صحیح مسلم: حدیث ۲۹۹۹)

بعض حلقے یہ بات کہتے ہیں کہ ’’مسلم دُنیا کی نظریاتی تحریکیں کوئی دیرپا کامیابی حاصل نہیں کرسکیں، خاص طور پر کئی مسلم ادارے یا تنظیمیں‘‘۔ اس بات کے اسباب کا تعین نہ پیچیدہ ہے نہ مشکل، لیکن مسئلہ کے حل پر عمل کرنا تقریباً مشکل ہے۔ ناکامی یا ضُعف کی مثالیں گنوانے کے بجائے صرف یہ چاہوں گا کہ یہ سوال اٹھے کہ ’’آخر ایسا کیوں سوچا جاتا ہے؟‘‘ حقیقت کا دکھائی دینا مشکل نہیں، مگر اس کو قبول کرنا مشکل ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ہم انسانوں کو کرۂ ارض پر ایک ایسا نظام قائم کرنے کے لیے بھیجا ہے، جو انصاف، ہمدردی اور اللہ کے سامنے جواب دہی کے احساس پر قائم ہو اور اس وجہ سے سب باشندگانِ زمین کے حق میں بہتر ہو۔ اس قابل بنانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے اپنی کتاب، قرآن مجید کی شکل میں نازل کی اور بہترین استاد اپنے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں بھیجے، جنھوں نے ہمیں اللہ کے تجویز کردہ نظام کے مطابق رہنا سکھایا اور رہ کر دکھلایا۔

اللہ کی یہ لا محدود رحمت ،ہمارے لیے سکون، اطمینان اور خوش حالی کی زندگی کو ہمارا مقدر بنانے کے لیے ہے۔ اسی لیے اسلام انسانی زندگی کے ہر شعبے کے لیے ہدایات کا جامع نظام دیتا ہے، تاکہ انسان اپنی پوری زندگی پر محیط معاملات کی انجام دہی کے قابل ہو جائے۔ معاملات خواہ سماجی ہوں یا معاشرتی، عدالتی ہوں یا انتظامی، شادی بیاہ کے ہوں یا وراثت کے، جنگ سے متعلق ہوں یا امن کے، کھانےپینے اور پہننے کے ہوں یا دوسروں کی امداد کرنے کے، کمانے سے متعلق ہوں یا خرچ سے، نماز، عبادت کے بارے میں ہوں یا ایثار اور قربانی کے___ اسلام ہر شعبۂ زندگی کے لیے نظام کار وضع کرنے کے لیے ہدایات دیتا ہے۔اس لیے، اسلام صرف ایک تصوراتی نظریہ نہیں، بلکہ مجسم اور متحرک عمل ہے۔اس کی طاقت، اس کی ہدایات کا محض علم رکھنے پر نہیں، ان پر عمل کرنے میں ہے۔علم اور عمل میں فرق کا پیدا ہونا ہی وہ جال ہے جس سے ہمیں بچنا ہے۔

اسلام کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے ہمیں ذرائع اور اوزار چاہییں۔ مثال سے یوں سمجھیے کہ ہمارے پاس گاڑیاں بنانے کے لیے لکھی گئی کتابوں کا بڑا ذخیرہ ہے۔ ہم ہر صبح کا آغاز کتابیں پڑھنے سے کرتے ہیں، گاڑیاں بنانے کے طریقوں اور صنعت کے متعلق اپنی معلومات میں اضافہ کرتے ہیں، اور پھر شام کو گھر چلے جاتے ہیں۔ مگر کتابیں پڑھتے رہنے سے کچھ نہیں ہو گا۔ اگر واقعی اپنے علم کو بروئے کار لانا ہے تو اس کے لیے ہم کو گاڑیاں بنانے والا کارخانہ قائم کرنا ہوگا۔ اس طرح نہ صرف ہم خود اپنی سواری کے لیے گاڑی بنا لیں گےبلکہ دنیا کو بھی اپنے ساتھ لے کر چلیں گے۔

اب اگر کوئی یہ پوچھے:’’جب ہمارے پاس انجن کے کام کو جاننے والے زبردست اہلِ علم موجود ہیں، تو ہمیں ان سب کارکنوں اور انجینئروںوغیرہ کی کیا ضرورت ہے ؟‘‘ تو اس کو آپ یہی جواب دیں گےکہ ’’محض یہ جاننے سے کہ انجن کس طرح کام کرتا ہے اس وقت تک کوئی فائدہ نہیں ہو گا جب تک تم خود انجن نہ بنا لو گے، اور ایک ایسے نظام میں لگائو گے جو انجن کی پیدا کردہ طاقت کو حرکت میں بدل کر گاڑی چلا دے‘‘۔ اس لیے یہ سوال کہ ’’زیادہ اہمیت کس کی ہے —سائنس دان کی، انجینئر کی، یا ڈرائیور کی ؟‘‘ ایک بے معنی بات ہے، ہر ایک کی اپنی جگہ اہمیت ہے۔

نظریاتی تنظیموں یا تحریکوں کو پائے دار کامیابی نہ ملنے کی ایک وجہ دانش وروں کا کارکنوں کے کام کو اہم نہ سمجھنا، یا کارکنوں کا اہلِ دانش کے علم اور اُن کی فکرمندی کو اہمیت نہ دینا ہے۔ ناکامی کی وجہ نہ نظریہ ہےاورنہ طریق کار، بلکہ ایک بالکل مختلف معاملہ ہے، دونوں سے زیادہ اہم، اور وہ ہے انسانی رویہ۔

ہم اس قابل نہیں کہ اختلاف کے ساتھ معاملہ نبھائیں، اختلاف رائے کے ہوتے آگے بڑھیں، علم اور تجربہ اور مہارت کا احترام کریں۔ ناکامی اس لیے سامنے آتی ہے کہ ہم میں یہ احساس نہیں کہ ہمیں واقعی ’دوسرے‘کی ضرورت ہے، اور یہ کہ’ دوسرے‘ کے بغیر ہمارا ’اپنا‘ نظریاتی عمل نامکمل ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم روایتی غلطیوں سے سبق حاصل کریں اور ان کو دُہرانے سے بچیں۔ اس ضمن میں اکثر ایسے سوالات پوچھے جاتے ہیں:

’’کیا اقامت دین کے لیے بپا تحریک کا کام یہ بھی ہے کہ وہ مختلف انسانی ضروریات پوری کرنے کے لیے ادارے قائم کرے ؟‘‘

اس کا انحصار اس بات پر ہےکہ آیا وہ تحریک اپنے نظریے پر عمل درآمد میں سنجیدہ ہے، یا نہیں۔یہ بالکل اس طرح کا سوال ہے کہ کیا صحت عامہ کے لیے چلائی جانے والی مہم کوہسپتال قائم کرنا یا قائم شدہ ہسپتالوں کی امداد بھی کرنا چاہیے؟ظاہر ہے کہ یہ موشگافی بے معنی ہے، درحقیقت تنظیمیں تو ذرائع کی طرح ہیں۔ یہ نظریاتی ’کیوں‘ کاعملی جواب ’کیسے‘ ہوتی ہیں۔نظریہ جہاں جدوجہد کا مقصد بتاتا ہے وہاں تنظیم اس مقصد کے حصول کے لیے ذرائع فراہم کرتی ہے۔

مثال کہ طور پر دیکھیے کہ سودی کاروبار کی ممانعت کے حکم الٰہی کا نفاذاقامت ِدین کا ایک جزو ہے۔ اسلامی بنیادوں پر بینک یا اس جیسے ادارے قائم کیے بغیر آپ یہ کام کیسے کر سکتے ہیں؟ اگر اسلام کی تعلیمات کے مطابق لوگوں کے لیے ادھار رقم حاصل کرنے کاکوئی طریقہ نہ ہو، تو بے شک آپ سارا دن سود کے حرام ہونے کی گردان کرتے رہیں، کبھی کوئی مثبت پیش رفت نہ ہوگی۔ ویسٹ منسٹر فلر کے الفاظ میں:’’کسی فرسودہ نظام سے چھٹکارا پانے کے لیے آپ اس سے متعلق سوچ کے اندرتبدیلی نہیں لاتے، بلکہ ایک نئی سوچ بروئے کار لا کرپرانی سوچ کو ختم کرتے اور نیا نظام لاتے ہیں‘‘۔

تنظیمیں وہ ذرائع ہیں جن کے ذریعے نظریے کو حقیقت کی دنیا میں پائے دار بنیادوں پر نافذ کیا جاتا ہے۔ تنظیموں کے بغیر ایک نظریے پر عمل درآمدمحض وقتی اور’جھٹ پٹ‘ قسم کا ہو گا کہ جس کا کبھی اطلاق ہوا بھی تو وہ جزوی ہی ہو گا، اور کبھی اتنا بھی نہیں ہو گا۔

ایک اور مثال لیجیے: ۲ہجری تک زکوٰۃ فرض ہو چکی تھی اور مال غنیمت کی تقسیم سے متعلق قوانین (سورئہ انفال) واضح کر دیے گئے تھے، لیکن باقاعدہ مربوط معاشرتی بہبود کا کام حضرت عمرؓ کےدورمیں بیت المال کا ادارہ قائم ہونے کے بعد ہی شروع ہوا۔اس سے پہلے خیرات کا کام ’اچانک‘ اور ’ہنگامی‘ طور پر ہوتا تھا۔ مگر اب بیت المال کے ادارے کاقیام ہر ضرورت مند کو بروقت امداد ملنے کا ضامن بنا۔

اسی طرح کا معاملہ ایک مسقل سپاہ اور فوج کے قیام کا ہے۔ جس میں سپاہیوں اور کارکنوں کو دشمن سے ملنے والے مال غنیمت یا زمینوں پر قبضے کے بجائے باقاعدہ تنخوہ اور مشاہرہ ملنے شروع ہوئے۔اس سے پہلے، جنگ میں ملنے والی دشمن کی ہزاروں مربع کلومیٹر رقبے کی زمین بے کار پڑی رہتی تھی کہ اس کے نئے مالکان کو کاشت کاری سے کوئی واسطہ نہ تھا اور پرانے مالکان جو کسان تھے وہ اس سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ حضرت عمرؓ نے ایسی مفتوحہ زمینوں کو ریاست کے نظم میں لے کر سخت مخالفت کے باوجود ان کے پرانے مالکان کے حوالے کر دیا اور محصولات (ٹیکس) کا ایسا نظام وضع کیا جیسا کہ اللہ کے رسولؐ نے فصلوں اور پیداوار پر عشر کے حوالے سے دیا تھا۔ اس اقدام سے ریاست کو بہت فائدہ ہوا، جو بصورت دیگروسیع زمین فتح کرنے کے باوجود وسائل کی کمی کا شکار رہتی۔

ایک اور مثال لیجیے، جس سے واضح ہو گا کہ تنظیموں اور خاطر خواہ انتظام کے بغیر خلوص نیت بارآور نہیں ہوتا۔ کوئی مسلمان اور اس کے والدین تزکیہ نفس اور تعمیر اخلاق کی ضرورت سے انکاری نہیں۔ مگر، اپنے ارد گرد دیکھیے۔ کیا مسلمان معاشرے میں کہیں بھی ان کا کوئی اثر نظر آتا ہے؟ آپ کے گھر میں؟ خود آپ پر؟ اگر کچھ اثر ہے تو وہ آپ کا کمال ہے یا استثنائی صورت؟ برسرِ زمین حقیقی صورت حال تو یہی ہے کہ ہمارے معاشرتی اور باہمی مسائل کی بڑی بنیادی وجہ اسلامی تعلیمات کے ان دونوں عناصر کا فقدان ہے۔

’’جب سب مانتے ہیں کہ یہ ضروری ہے تویہ ہوتا کیوں نہیں؟‘‘

 اس لیے کہ اس کے نفاذ کے لیے ادارے یا تنظیم نہیں ہے۔ محض بیانات میں اس پر زور دینے سے اپنا اور معاشرے کا تزکیہ ممکن نہیں ہے۔

ایک اور مثال معروف مذہبی جماعت میں تقسیم در آنے کی ہے۔ جس میں اَنا اور ہٹ دھرمی نے دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ایک مفید نظریاتی تحریک کو تقسیم کر کے رکھ دیا۔ ایک صدی تک منبر سے اکرامِ مسلم کی باتوں کے بعد جب باہمی اکرام کاوقت آیا تو قیادت توازن پیدا کرنے کا سبق بھول کر نقصان کے راستے پر گامزن ہو گئی۔ تنازعے کے حل کے لیے نہ کوئی نظام ہے، نہ کوئی ایسا ادارہ جو بیچ بچائو اور مصالحت کرا دے۔ ایسا اس لیے نہیں ہو رہاکہ کوئی نظریہ موجود نہیں ، بلکہ یہ اس لیے ہو رہا ہے کہ تنظیم نہیں ہے، اور اس وجہ سے یہ اُفتاد پڑی ہے۔

’’کیا اداروں کے قیام سے اقامت دین کے کام میں حرج ہوتا ہے، یا فائدہ؟‘‘

نہ صرف یہ کہ اداروں کے قیام سے اقامت دین کے کام میں کوئی حرج نہیں ہوتا، بلکہ ان کے نہ ہونے سے اقامت دین کا کام ہو ہی نہیں سکتا۔

  • ’’مگر اداروں کی کامیابی کا دارومدار محض اخلاص پر نہیں بلکہ اخلاص کے ساتھ پیشہ ورانہ قابلیت اور ماہرین کی ضرورت ہوتی ہے، جب کہ اداروں کی سمت کا تعین نظریہ سے ہوتا ہے، جس کے لیے دانشور درکار ہوتے ہیں۔ دونوں ضرورتوں کو بیک وقت کیسے پورا کیا جا سکتا ہے؟‘‘

یہ اس وقت ممکن ہے جب ایک شخص ’دوسرے‘ شخص کے تجربے کا احترام کرے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ اختلاف اور مختلف رائے کو برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں پایا جاتا۔ ہم اختلاف رائے کو سرکشی اور بغاوت گردانتے اور اس سے اسی طرح نمٹتے ہیں۔ منصوبہ خواہ کچھ ہو، اس رویے سے تعاون کی بنیاد ہی ڈھے جاتی ہے جس کا مطلب ناکامی مقدر ہے۔ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے اور اب بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ کامیاب ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہمیں معلوم ہو کہ کامیاب کیسے ہوا جاسکتا ہے؟ اور تبدیلی کا آغاز’اپنے‘ سے ہی ہوتا ہے۔

’’تحریک کے قائم کردہ اداروں کا احتساب کیسے ہو گا؟ اس کی مثالی شکل کیا ہوگی؟‘‘

احتساب کے عمل کا آغاز باہمی تعاون سے ہدف کے تعین، کامیابی کے پیمانوں کے متعلق فیصلے اور کارکردگی کے جائزے سے ہوتا ہے۔ ’باہم‘ اس لیے کہتا ہوں کہ احتساب کی بنیاد مختلف افراد کی مختلف مہارتوں، علم اور ہنر پر ہو گی، نہ کہ آجر اور اجیر یا قائد اور ماتحت کی بنیاد پر۔ یہ ترقی اور بڑھوتری کا اندازہ لگانے کی اجتماعی کوشش ہو گی اور یہ عمل اعتراض سے پاک ہونا چاہیے اور اس کا ہدف واضح ہونا چاہیے: مقصد کے حصول میں کامیابی کے لیے احتساب سے پہلے باہم احترام کی فضا قائم کرنا ہو گی۔

’’تحریک کے زیر اثر چلنے والے اکثر ادارے عمدہ کارکردگی دکھانے میں اکثر ناکام کیوں ہوجاتے ہیں؟ اور اس کمی سے کس طرح نمٹا جا سکتا ہے؟‘‘

جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے، یہ ادارےکامیابی کے لیے مناسب ذرائع و اوزار استعمال نہ کرنے کی وجہ سے ناکام ہوتے ہیں۔ جذبہ، لگن اور خلوص کی اہمیت اپنی جگہ، مگر مہارت اور ہنرمندی کی ضرورت بھی اپنی جگہ۔ اللہ کے رسولؐ نے حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ یا حضرت علیؓ کو سپاہ کی قیادت کے لیے مقرر نہیں فرمایا، گو کہ یہ سب حضرات علوم اسلامی میں گہری نگاہ رکھنے والے، مخلص اور ایثار کیش، اور مختلف مہارتوں کے حامل تھے۔ اللہ کے رسول نے اس کام کے لیے حضرت خالدبن ولیدؓ کو نامزد فرمایا، جوعلم ومرتبہ میں تو ان اصحاب جیسے نہ تھے مگر سپہ گیری میں مشاق اور غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل جنگی قائد تھے۔ اللہ کے رسولؐ نے اہلیت کی بنیاد پر فیصلہ فرمایا، نہ کہ دوستی، رشتہ داری یا پسند و ناپسند کی بنیاد پر۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ مقصد ہمیشہ نگاہ میں رہے اور ذاتی انا، یا پسند و ناپسند کو بیچ میں آ کرکامیابی کا راستہ کھوٹہ نہ کرنے دیا جائے۔ ہمیں اپنے فیصلوں پر کڑی نظر رکھنا ہو گی، خاص طور پر جب معاملہ کسی ایسے شخص کا ہو جو کام کے لیے تو موزوں ہو مگر جس کی رائے سے ہم کو اختلاف ہویا جسے ہم زیادہ پسند نہ کرتے ہوں۔

’’کیا اداروں کی اہمیت ابہام کا شکار ہے؟ اور اعتدال کا راستہ کیا ہے؟‘‘

ابہام تو مشاہدے میں آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو حضرات مختلف نظریاتی تحریکوں کے اہم مناصب پر فائز ہیں۔ انھیں اختیارات اور ذمہ دایوں کی تقسیم، پیشہ ورانہ تعاون، اور مل جل کر مختلف اُمور کی انجام دہی جیسے عوامل کا شعور نہیں ہے۔زیادہ تر ’یونی ورسٹی یا مدرسہ‘ کی تعلیم کے ساتھ ’حاکمانہ‘ انداز رکھتے ہیں، اندھی پیروی اور بے چون و چرا ہر بات تسلیم کرنے کو خوبی گردانتے، جب کہ سوال اٹھانے کو گستاخی یا بغاوت سمجھتے ہیں۔ اس طرزِ عمل کو بدلنا ایک مشکل کام ہے۔ مگر جب تک ایک دوسرے کا احترام کرنا نہیں سیکھیں گے، اکٹھے ہو کر کوئی فائدہ مند کام انجام نہ دے سکیں گے۔ اکثرنظریاتی رہنماؤں کا حال یہ ہے کہ وہ خودپسند ہوتے ہیں، اور اختلاف کی جرأت کرنے والوں کی اپنے سامنے یا پشت پیچھے تحقیر کرتے ہیں۔ اس رویے کی درستی کے بغیر بہتری ممکن نہیں۔

تحقیقی کام کے سلسلے میں پہلی چیز جو ہماری نگاہ میں رہنی چاہیے وہ یہ ہے :

فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا۝۵ۙ اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا۝۶ۭ  (الم نشرح۹۴:۵-۶﴾ )،پس حقیقت یہ ہے کہ تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے۔بے شک تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے۔

تنگی یا مشکل سے مراد ہے محنت۔کیوں کہ محنت کرنا ایک مشکل کام ہے۔ اگر آدمی محنت کرتا ہے تو اس کے بعد اس کا پھل ملتا ہے ۔ محنت کے بغیر زندگی میں کچھ حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے محنت کو اپنی عادت بنائیں۔ مثلاً اگر عربی نہیں آتی تو اسے سیکھنے کی کوشش کریں۔ ضروری نہیں ہے کہ کسی ادارے میں جاکر ہی سیکھی جائے، گھر میں بیٹھ کر بھی سیکھی جاسکتی ہے۔ عربی سیکھنا تو ویسے بھی بہت ہی ضروری ہے۔ کیوں کہ جب تک آپ عربی نہیں جانیں گے تو قرآن حکیم کی مٹھاس سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔ ترجمہ پڑھنا تو ایسا ہی ہے کہ آپ کے پاس شہد آیا اور کسی نے اُس کی شیرینی نکال دی اور باقی آپ کو دے دیا۔ عربی سیکھنا کچھ زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔ کتاب عربی کا معلّم جو کہ چار جلدوں پر مشتمل ہے ، اس کام کے لیے انتہائی موزوں ہے۔ آج کل تو عربی سیکھنے کے جدید طریقے سامنے آگئے ہیں جن سے عربی سیکھنا اور بھی آسان ہوگیا ہے۔ قرآن وحدیث کو عربی میں سمجھے بغیر کام نہیں چل سکتا۔ عام آدمی کے لیے تو یہ نہیں کہا جاسکتا، لیکن جو لوگ اسلامک اسٹڈیز میں کام کر رہے ہیں ، ان کے لیے عربی کے بغیر کوئی مفر نہیں۔ اگر آپ عربی نہیں سیکھ رہے ہیں تو آپ اسلام کی اچھی طرح خدمت نہیں کرسکتے۔

جہاں تک تحقیق کا تعلق ہے تو اس کام میں محنت کے بغیر کچھ ممکن نہیں ہے۔ اگر آپ اس کے لیے تیار نہ ہوں اور گھنٹوں کے حساب سے ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ پر وقت صرف کریں ، تو زندگی میں کچھ حاصل نہیں ہوسکتا۔ خصوصاً علمی کام تو ہوہی نہیں سکتا۔ ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ سے حاصل شدہ معلومات محض وقتی ہوتی ہیں۔ اس کے مقابلے میں آپ کوئی کتاب پڑھتے ہیں تو وہ آپ کو یاد رہتی ہے ۔ اگر کچھ پڑھا ہوا بھول گئے ہیں تو دوبارہ کتاب دیکھ سکتے ہیں۔ جتنا زیادہ مطالعہ کرسکیں، کیجیے۔ مطالعے کابھی طریقہ یہ ہے کہ پڑھنے کے بعد نوٹس لیں۔ اگر لائبریری کی کتاب ہے تو اپنے کارڈ پر یا کسی اور جگہ نوٹس لے لیں۔ اگر آپ کوئی مقالہ لکھ رہے ہیں تو اس کے نوٹس بنائیے ۔ موضوع کی مناسبت سے پڑھیں اور نوٹس لیں۔ اس کے بعد اپنے خاکے (Outline) کی مناسبت سے لکھیں۔

 ہمارے ہاں بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ تحریر کے معاملے میں پہلی کوشش ہی کافی ہے اور اس سے زیادہ بہتر تو لکھا ہی نہیں جاسکتا۔ اگر تکبر کا عنصر آجائے تو وہاں علم کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ کیوں کہ تکبر اور علم ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ اپنے لکھے ہوئے کو کئی مرتبہ دُہرائیں۔ اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ اس کام میں بہت وقت اور محنت لگتی ہے، لیکن اس کے بغیر کام بھی نہیں بنتا۔ لکھے ہوئے کو خود بھی دُہرائیں اور دوسروں کو تبصرے کے لیے دیں۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ تبصرے کے لیے دیتے ہیں تو صرف تعریف کی امید رکھتے ہیں۔ اگر آپ نے ان پر کوئی تنقید کردی تو ان کا پارہ چڑھ جاتا ہے۔ یہ رویہ ہوتو بہت زیادہ سیکھا نہیں جاسکتا۔ اس کے لیے بھی تیار ہونا چاہیے کہ اگر کوئی غلط قسم کی تنقید بھی کردے تب بھی ناراض نہ ہوں۔ اچھی طرح غور کرکے دیکھیں کہ اس کی تنقید درست ہے یا نہیں؟ درست ہے تو اپنی تحریر کو بہتر بنائیں اور صحیح نہیں ہے تو اس کو چھوڑ دیں۔

کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ اچھے رسالے کے لیے مقالہ لکھیں اور محنت سے لکھیں۔ اس کے بعد بھی اس چیز کے لیے تیار رہیں کہ مبصرین کے جو تبصرے آئیں گے اس کی مناسبت سے آپ اس میں بہتری لائیں گے۔ گویا سب سے پہلے محنت، بہت سا مطالعہ کرنا اور خاص طور سے اگر کوئی مضمون لکھنا ہے تو اس سے متعلق چیزوں کا مطالعہ کرنا ، نوٹس لینا، پھر مقالہ لکھنا ، اس کو کئی بار دُہرانا، لوگوں کو تبصرے کے لیے دینا اورتبصروں کی مناسبت سے دُہرانا ہے۔ پھر فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا کے مصداق آپ کو آپ کی محنت کا صلہ مل جائے گا۔ آپ کو خوشی ہوگی جب آپ کا مقالہ کسی عمدہ رسالے میں چھپے گا، لوگ اس پر اچھے تبصرے کریں گے اور آپ کی عزت بڑھے گی۔ جو محنت کرنے اور تنقید سننے کے لیے تیار نہیں ہے وہ عالم نہیں بن سکتا۔ اپنا مطالعہ وسیع تر کریں۔ ٹی وی اور انٹرنیٹ کے دورانیے کو کم کریں اور وہ وقت مطالعے میں صرف کریں۔ شام کو گھر پر جاکر ضرور مطالعہ کریں۔  چھٹی والے دن اور معمول کے دنوں میں بھی، فرق صرف یہ ہونا چاہیے کہ چھٹی کے دن آدمی گھر میں کام کرے اور اس کا دفتر آنے جانے کا وقت بچے۔ زندگی میں اپنے سامنے اس بات کو نشانِ راہ کے طور پر رکھیں: ’’محنت کے بغیر کچھ حاصل نہیں کیا جاسکتا، اور محنت کے ذریعے سب کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے‘‘۔

باہر کے ممالک میں لوگ تحقیق کے لیے بہت زیادہ محنت کرتے ہیں جو ہمارے ہاں نہیں ہے۔ دوسرے ممالک میں لوگ اپنے مقالہ جات کو خود بار بار پڑھتے ہیں، لوگوں کے تبصرے لیتے ہیں، لوگوں کے ساتھ اس پر تبادلۂ خیال کرتے ہیں اور اس دوران میں نوٹس لیتے رہتے ہیں۔ ان کی روشنی میں مقالے کو مزید بہتر کرتے ہیں۔ یہ ایک اسکالر کی صفات ہیں۔

بعض اوقات دفتروں کے اندر بھی لوگ نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان چیزوں سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ کیوں کہ مسلمان کا یہ عقیدہ ہے کہ جب تک اللہ نہ چاہے کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتا، اور جب تک اللہ نہ چاہے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بظاہرآپ کے خلاف کسی نے سازش ہی کی ہو، لیکن بعد میں آپ کو پتا چلے کہ یہ تو آپ کے حق میں بہت بہتر ہوگیا: وَعَسٰٓى اَنْ تَكْرَھُوْا شَـيْـــًٔـا وَّھُوَخَيْرٌ لَّكُمْ۝۰ۚ (البقرہ۲:۲۱۶﴾)’’ممکن ہے تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور وہ تمھارے حق میں اچھی ہو‘‘۔

 ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ کو ترقی نہ ملے اور آپ اپنے افسر کو برا بھلا کہنے لگیں لیکن ترقی دینے والا آپ کا افسر بالا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اگراللہ نے چاہا تو آپ کی ترقی کو کوئی روک نہیں سکتا اوراگر اللہ تعالیٰ نے نہ چاہا تو کوئی ترقی دے نہیں سکتا۔ ہمارایہ عقیدہ مضبوط ہو کہ جتنا ہمیں ملے گا ،اللہ ہی کی ذات سے ملے گا اور اسی کے سامنے آدمی دستِ طلب بھی دراز کرے، اور اسی کی دی ہوئی تعلیمات پر عمل کرے تو زندگی میں ترقی ہی ترقی ہے۔

ہمہ جہت شخصیت مولانا عبد الرحمٰن خان المعروف ابو البیان حماد ۲۹جنوری ۲۰۲۳ءکی علی الصبح، بنگلورو میں ساڑھے ۹۹ برس کی عمر میں انتقال فرماگئے۔ انھیں ۱۹۴۰ء کے عشرے کے وسط میں داعی تحریک اسلامی سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی قربت میں دار الاسلام پٹھان کوٹ اور پھر ان کے رفیق اور دارالعروبہ (جالندھر) کے سر پرست مولانا مسعود عالم ندوی سے مزید تعلیم و تربیت حاصل کرنے، اور ان کی نگرانی میں تحریک اسلامی کے عروج اور بقا پر تحقیق کرنے کا اعزاز حاصل تھا۔

یہ اکتوبر ۲۰۱۱ء کی بات ہے کہ بنگلورو میں ایک کانفرنس کے موقعے پر ہوٹل میں امیرجماعت اسلامی ہند جناب سیّد جلال الدین عمریؒ سے ملاقات ہوئی، تو انھوں نے بڑے احترام سے ایک بزرگ کی طرف متوجہ کرتے ہوئے راقم سے فرمایا کہ ’’ان سے ملیے، یہ میرے استاد محترم مولانا ابوالبیان حماد ہیں‘‘۔ ایک صحافی کو اور کیا چاہیے تھا ؟ اگلے روز ناشتے کے وقت خصوصی انٹرویو لینے ان کے کمرے میں پہنچ گیا۔ ڈائننگ ٹیبل پر مختلف قسم کے پکوانوں کی ڈشیں دیکھ کر پوچھا: ’’یہ ناشتہ ہے یا کھانا؟‘‘ تو مولانا ابوالبیان صاحب نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’آپ کے نارتھ میں صبح کا ناشتہ بقدر بادام ہوتا ہے، جب کہ ہمارے ساتھ میں بقدر گودام‘‘۔ ناشتے کے دوران اور اس کے بعد انھوں نے بڑی تفصیل سے تحریک اسلامی کی تاریخ کے چند گم شدہ ابواب پر روشنی ڈالی۔

تاریخی لحاظ سے ابوالبیان حماد بہت اہم شخصیت تھے۔ برصغیر میں تقسیم سے قبل تحریک اسلامی کے ابتدائی دور کے عینی شاہد تھے۔ ۱۹۴۳ء میں دربھنگہ (بہار) میں جماعت کے اوّلین علاقائی اجتماع، پھر۱۹۴۴ء میں پٹھان کوٹ (پنجاب) کے علاقائی اجتماع کے بعد ۱۹تا۲۱؍ اپریل ۱۹۴۵ء کو پٹھان کوٹ میں ہی منعقد ہونے والے پہلے آل انڈیا اجتماع اور ۲۵اور۲۶؍ اپریل ۱۹۴۷ءکو مدراس (چنائی) میں حلقہ جنوبی ہند اجتماع میں بنفس نفیس شریک رہے۔ ۴۶-۱۹۴۵ء میں مرکز دارالاسلام اور ساتھ ہی جالندھر میں مولانا مسعود عالم ندوی کے ہاں ایک برس گزارا۔ یوں تحریک کی تاریخ سازی کو قریب سے دیکھا۔

ابوالبیان حماد آبائی وطن مالور (کرناٹک) میں ۲۵ جولائی ۱۹۲۳ء کو پیدا ہوئے۔ والدین نے ان کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی۔ ابتدائی تعلیم کے بعد جامعہ دارالسلام، عمر آباد سے ۴۴-۱۹۳۶ء میں عالم و فاضل کیا۔ وہیں انھوں نے ایک ہردل عزیز استاد مولانا سید صبغۃ اللہ بختیاری سے خوب فیض حاصل کیا۔ بختیاری صاحب اگست ۱۹۴۱ءکو جماعت اسلامی کے تاسیسی اجتماع میں شریک ۷۵ خوش نصیب شخصیات میں شامل تھے۔ تاسیس کے بعد امیر جماعت مولانا مودودی کی نیابت کے لیے مختلف علاقوں کی ذمہ داریوں کے لیے جو چار نائب امرا بنائے گئے تھے، ان میں سے یہ حلقہ دکن و مدراس کے انچارج تھے ۔ لہٰذا، اپنے استاد مولانا بختیاری کے ذریعے ابوالبیان حماد نے تحریک اسلامی سے پوری طرح واقفیت حاصل کی۔ علومِ قرآنی میں مہارت حاصل کرنا، تحریک اسلامی کی روایت اور ارتقا پر تحقیق ان کا شوق تھا۔

چنانچہ عمر آباد سے فراغت کے بعد لاہور میں جامعہ قاسم العلوم پہنچے اور وہاں ۴۵-۱۹۴۴ء کے دوران مشہور و معروف مفسر قرآن مولانا احمد علی لاہوری کی سر پرستی میں تخصص فی التفسیر قرآن کیا۔ مولانا ثناء اللہ امرتسری سے فیض حاصل کرنے امرتسر گئے۔ لاہور میں قیام کے دوران انھوں نے مولانا مودودی سے دارالاسلام پٹھان کوٹ میں حاضری کی اجازت مانگی۔ مولانا مودودی کی ہدایت پر قیم جماعت میاں طفیل محمد نے خط لکھا: ’’مولانا مودودی نے ہدایت کی ہے آپ دارالاسلام آئیں‘‘۔ ابوالبیان حماد نے بتایا: ’’یہ اجازت نامہ عید کی خوشی سے کم نہیں تھا۔ میں فوراً لاہور سے ٹرین کے ذریعے دارالاسلام سے قریب سرنا ریلوے اسٹیشن پہنچا۔ وہاں پلیٹ فارم پر اترتے ہی مولانا مودودی کی ہدایت کے مطابق ایک شخص میرے پاس آیا اور میرا نام پوچھا اور پھر بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ مصافحہ کیا اور کہا کہ ’’مَیں آپ کو لینے آیا ہوں‘‘۔ میرے منع کرنے کے باوجود اس نوجوان نے بڑے اصرار کے ساتھ میرا سارا سامان اپنے سر اور کاندھے پر اٹھالیا۔ دارالاسلام، اسٹیشن سے چند کلومیٹر کی دُوری پر تھا۔ منزل پر پہنچ کر میں نے ایک فرد سے اس شخص کے بارے میں دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ عجز و انکسار اور سادگی کا یہ نمونہ ملک غلام علی ہیں ۔وہی ملک غلام علی جو بعد میں شریعت کورٹ پاکستان کے جج اور تحریک اسلامی سے متعلق کئی کتابوںکے مصنف کے طور پر معروف ہوئے‘‘۔جسٹس ملک غلام علی کا تذکرہ کرتے وقت ابوالبیان صاحب کی آنکھیں آبدیدہ تھیں۔

انھوں نے بتایا: ’’دارالاسلام پہنچنے پر میری ملاقاتیں مولانا مودودی، مولاناامین احسن اصلاحی اور دیگر رفقائے کرام سے ہوتی رہیں۔ میں نے جب مولانامودودی سے تحریک اسلامی پر مطالعہ و تحقیق کے بارے میں اپنی خواہش عرض کی تو مولانا نے مجھے دار الاسلام کے بجائے پٹھان کوٹ سے کچھ دوری پر واقع بستی دانش منداں، جالندھر جاکر دار العروبہ میں مسعود عالم ندوی سے فیض حاصل کرنے کی ہدایت کی اور یہ بھی فرمایا کہ’’ وہاں سے برابر دار الاسلام آتے جاتے رہیں اور دونوں مراکز سے فائدہ اٹھاتے رہیں‘‘۔

وہ جالندھر پہنچے اور مسعود عالم ندوی کی سحر انگیز شخصیت اور علمی کمال کے اسیر ہو کر رہ گئے ۔ وہاں ان کی موجودگی میں جماعت اسلامی کے شعبہ دارالعروبہ کا باضابطہ قیام عمل میں آیا ۔ یہاں پر پہلے سے تحریک اسلامی کے رہنما اور جلیل القدر عالم دین جلیل احسن ندوی اور اسکالر عمر قطبی صاحبان موجود تھے ۔ اس طرح ابوالبیان حماد کو دارالعروبہ میں مولانا مسعود عالم ندوی سمیت تین عظیم شخصیات اور اساتذہ کی سرپرستی ملی ۔ اس لحاظ سے تحریک اسلامی کے ابتدائی ایام میں تحقیق و تالیف سے وابستہ اوّلین افراد میں شامل ہوگئے۔ دارالعروبہ میں ان تینو ں شخصیات کے علاوہ ابوالبیان نے خود داعی تحریک اور مرکز جماعت میں موجود متعدد اکابر سے بھی خوب استفادہ کیا، جن میں میاں طفیل محمد، عبدالجبار غازی، مولانا امین احسن اصلاحی، ملک غلام علی، سید عبدالعزیز شرقی، مستری محمد صدیق، نعیم صدیقی اور ملک نصراللہ خاں عزیز قابل ذکر ہیں۔ اسی دوران مرکز میں وقتاً فوقتاً آنے والے حضرات گرامی قدر صدرالدین اصلاحی ، اختر احسن اصلاحی، علی میاں، محمد حسنین سید اور محمد شفیع داؤدی سے بھی ان کی ملاقاتیں رہیں۔

۱۹۴۵ء میں منعقدہ تاریخی اجتماع حماد صاحب کے لیے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوا۔ وہاں مذکورہ بالا شخصیات سے ملنے کے علاوہ مختلف زبانوں میں تحریکی لٹریچر کے ترجمے اور مزید لٹریچر کے علاوہ تعلیم اور درس گاہ اسلامی کے قیام نیز ذرائع ابلاغ پر بھی تفصیل سے بات چیت ہوئی تھی۔

 ۲۶-۲۵؍ اپریل ۱۹۴۷ءکو یہ مدراس میں منعقدہ حلقہ جنوبی ہند کے اجتماع میں شریک ہونے کے لیے عمر آباد سے خاص طور پر آئے، جہاں جامعہ دارالسلام میں بحیثیت استاد وابستہ ہوئے تھے۔مدراس کے اس اجتماع میں مولانا مودودی نے اپنے صدارتی خطبہ میں چار نکات پیش کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا تھا کہ اب، جب کہ ہندستان کی تقسیم ناگزیر ہے۔ ہندستان میں تحریک اسلامی کے کرنے کا کام یہی ہے کہ اسلام کا مکمل تعارف قرآن و حدیث اور سیرت کی روشنی میں مختلف زبانوں میں ترجموں کے ذریعے کرایا جائے اور یہی کوشش مستقبل میں اُٹھنے والی قومی کش مکش کو روک سکتی ہے۔ ابوالبیان صاحب ۲۰۱۱ء میں یہ بات یاد کرکے فرما رہے تھے: ’’اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مولانا مودودی کے اندیشے درست تھے، لیکن دُوراندیشی پر مبنی ان کے مشورے پر ہم لوگ ٹھیک طریقے سے عمل نہیں کرسکے۔ اس طرح اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے ہنوز بے شمار غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں‘‘۔

ابوالبیان صاحب کے بقول: ’’مولانا مودودی نے درحقیقت مستقبل میں جھانک کر یہ خطبہ ارشاد فرمایا تھا۔ مولانامودودی نے اس خطبے میں جو کچھ کہا تھا وہ ان کی گہری نظر، کمال درجے کے ویژن اور عبقری ذہانت پر مبنی تھا‘‘۔

ابوالبیان حماد ایک اچھے استاد، صحافی، مصنف، شاعر و ادیب اور مترجم کے علاوہ قرآن و حدیث کے علوم میں زبردست مہارت بھی رکھتے تھے۔ انھوں نے ۱۹۴۶ءسے لے کر چند برس قبل تک جامعہ دارالسلام، عمر آباد میں درس و تدریس کا فریضہ انجام دیا ۔ اپنے استاد محترم صبغۃ اللہ بختیاری اور شاکر نائطی کی سرپرستی میں شاعری اور نثری تحریرو تخلیق کا ۱۹۳۸ءسے آغاز کیا اور اپنی پہلی غزل ایک کُل ہند مشاعرہ میں شیدا کشمیری، ماہر القادری ، تبسم نظامی اور جگر مراد آبادی جیسے عظیم شعرا کی موجودگی میں پڑھی تھی اور خوب داد حاصل کی تھی۔ ان کے تین شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں: فردوس تغزل، نغمات حمد و نعت اور   بانگِ حرا۔نثر میں: توحید کی اہمیت  و تقاضے، تازیانے، سفر حجاز و ا یران ہیں۔ یاد رہے کہ تازیانے علامہ ابن حجر عسقلانی کی معرکہ آرا کتاب المنہات کا اُردو ترجمہ ہے، جو پہلی بار لاہور سے اور دوسری مرتبہ پرانتک ہاؤس بنگلورو سے شائع ہوکر بہت مقبول ہوا۔ ان کی کتاب تاریخ کا ایک گم شدہ ورق پڑھنے کے لائق ہے۔

انھوں نے جامعہ دارالسلام میں چوتھی کلاس میں تعلیم کے دوران قلمی رسالے الاخلاق  کی ادارت کی۔ پھر اپنے بھائی مولوی ثنا اللہ عمری اور شاگرد سیّد جلال الدین عمری کے ساتھ مل کر ۱۹۵۰ء میں اُردو ہفت روزہ پیغام نکالا اور ایک عرصہ تک باقاعدگی سے چلایا۔ نیز رسالہ اعتدال کی سرپرستی بھی فرمائی۔ ملک نصر اللہ خاں عزیز اور نعیم صدیقی کی سرپرستی میں شائع ہونے والے اخبار کوثر  میں صحافتی تربیت لی تھی۔ ان کی تخلیقات ماہ نامہ چراغِ راہ ،کراچی کے ابتدائی دور میں شائع ہوتی رہیں۔ پھر حکیم فضل الرحمٰن سواتی سے علمِ طب بھی سیکھا تھا۔

صحیح معنوں میں وہ تاریخ کا زندہ اثاثہ تھے۔ ایک ایسے وقت میں ، جب کہ آزادی کے بعد ہندستان میں جماعت اسلامی کی تشکیل نو یعنی جماعت اسلامی ہند کے قیام کو اس سال ۷۵  برس ہورہے ہیں، تو تقسیم سے قبل اور بعد کی تاریخ کے یہ عینی شاہد بہت یاد آئیں گے۔

 ۱۷؍ اکتوبر ۲۰۱۱ء کو ان کے کہے یہ الفاظ میرے کانوں میں گونج رہے ہیں: ’’۴۶-۱۹۴۵ء میں پٹھان کوٹ کا مرکز متحدہ ہندستان میں نیکی کے نگہبانوں کا ہب (Hub) تھا، جہاں بلا تفریق مذہب و ملت انسانیت کی بقا و فلاح اور مختلف شعبۂ حیات بشمول معاشرت، تعلیم، معیشت اور شعرو ادب میں خوفِ خدا کے ساتھ مثبت انداز میں تفکر و تدبر کی باتیں ہوتی اور منصوبے بنتے تھے۔ پھر یہ سلسلہ تقسیم کے بعد تشکیل نو کی صورت میں بھی جاری رہا‘‘۔ تبھی تو ۱۹۷۴ء میں دہلی کے کُل ہند اجتماع کی رپورٹنگ کرتے ہوئے معروف صحافی شیام لال شرما نے ٹائمز آف انڈیا گروپ کے مشہور ہندی ہفتہ وار دنمان (Dinaman) میں اپنی رپورٹ پر ’نیکی کے نگہبانوں کا اجتماع‘ کی سرخی لگائی تھی اور میڈیا میں داد پائی تھی، حق مغفرت کرے!

آسان ترجمہ قرآن مبین، نیا اور آسان ترجمہ، مترجم:محمدعبدالحلیم فاروقی۔ ناشر: نور پبلی کیشنز، بی-۴۱، گلستانِ جوہر، کراچی، فون: 0332-2954788۔ صفحات:۵۰۰۔ ہدیہ:۹۵۰ روپے۔

تمام انسانیت کے لیے اللہ تعالیٰ کا خاص انعام اور تحفہ قرآن ہے۔ یہ دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے،جو پوری انسانیت کے لیے رُشدوہدایت کا ذریعہ ہے۔ ہرمسلمان کی دینی اور دُنیاوی زندگی کی کامیابی کا انحصار اس مقدس کتاب سے وابستگی پر ہے۔

اُردو میں قرآن کریم کا پہلا ترجمہ حکیم محمد شریف خان دہلوی (م: ۱۸۰۷ء) نے کیا ، مگر وہ کبھی شائع نہ ہوسکا۔ اس لیے شاہ ولی اللہ کے صاحبزادوں شاہ رفیع الدین اور شاہ عبدالقادر کے ترجمے کو اُردو میں قرآن کا پہلا ترجمہ قرار دیا جاتا ہے، جو انھوں نے ۱۷۸۸ء ہی میں مکمل کرلیا تھا ۔ شاہ عبدالقادر کاترجمہ ۱۸۰۵ء میں شائع ہوا،اور شاہ رفیع الدین کا ۱۸۳۸ء میں طبع ہوا۔

زیرنظر ترجمہ قرآن اتنا آسان، سہل ،رواں اور عام فہم ہے کہ دل چاہتا ہے ایک ہی نشست میں مطالعہ کرلیا جائے۔ اس کے مترجم محمد عبدالحلیم، اسلامی جمعیت طلبہ کے رکن اور حلقہ (عزیز آباد، کراچی) کے ناظم بھی تھے۔ انھوں نے حرم شریف کی دوسری بڑی توسیع اور صفا و مروہ کے توسیعی منصوبے کے سینئر آرکیٹکٹ کی حیثیت سے سولہ سال تک خدمات انجام دیں۔ انھی کی زیرقیادت پہلی مرتبہ بیت اللہ کے فرش کے اندر بہت گہری کھدائی ہوئی، جس سے بیت اللہ کی تعمیر کے تمام اَدوارکی تاریخ معلوم ہوئی، جو پہلے کسی کو بھی معلوم نہ تھی۔ کعبۃ اللہ کی دیوار کی تعمیر کے دوران موجود نصب حجر اسود ،جو نو(۹) ٹکڑے لاکھ سے جڑے ہوئے ہیں، عین اس کے پیچھے حجراسود کا ایک انتہائی حسین ٹکڑا جو 253 x 112 31  ملی میٹر کا دیوار کے اندر فولادی شکنجے میں محفوظ ملا، اسے دوبارہ نصب کرنے کا شرف بھی مترجم کو حاصل ہوا، نیز میوزیم حرمین شریفین کی توسیع، ڈیزائن ، تعمیر اور ہر مرحلے کے آرکیٹکٹ بھی رہے۔

وہ لکھتے ہیں کہ مکہ مکرمہ میں قیام کے دوران دل میں باربار قرآن کریم کے ترجمے کا خیال اللہ ربّ العزت کی طرف سے آتا رہا اور پھر وہیں پر ترجمۂ قرآن کاعظیم کام مکمل کیا۔ اس ترجمۂ قرآن میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ ایک عام آدمی چاہے وہ کتنا ہی کم پڑھا ہوا کیوں نہ ہو، وہ بھی قرآنِ مبین کو آسانی سے سمجھ لے اورقرآن کو مشکل نہ سمجھے ۔اس وجہ سے عام بول چال میں بولے جانے والے الفاظ ہی اس میں استعمال کیے گئے ہیں ۔ اشاعت سے قبل کبار علمائے کرام، اہل علم اور کم پڑھے افراد کو متن فراہم کرکے ان کی آراء حاصل کیں۔ سبھی نے اس ترجمے کو بہت آسان اور عام فہم قرار دیا ہے اور  محکمۂ اوقاف نے بھی اس پر تصدیقی مہر ثبت کردی کہ ’’یہ ترجمۂ قرآن اغلاط سے پاک ہے‘‘۔پہلی جلد پندرہ پاروں پر سورۂ فاتحہ سے سورۂ کہف تک، اعلیٰ کاغذ پر شائع کی گئی ہے (دوسری جلد تیاری کے آخری مراحل میں ہے)۔ (شبیرابنِ عادل)


روح الامین کی معیت میں کاروان نبوتؐ،پروفیسر ڈاکٹرتسنیم احمد۔ناشر:مکتبہ دعوۃ الحق، ۹۳- اے، اٹاوہ سوسائٹی ، احسن آباد ، کراچی۔ فون: 0300-9242606۔ 13 جلدیں۔ قیمت:۶۴۵۰ روپے۔

سیرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر محبانِ رسولؐ نے بےشمار زاویوں سے اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کیا ہے اور بعض علمی تحریرات عرصہ گزرنے کے باوجود آج بھی مصدقہ معلومات کے لیے مصادر کا درجہ رکھتی ہیں۔ ڈاکٹر تسنیم احمد صاحب کی یہ کاوش خصوصیت رکھتی ہے کہ اس سےسیرت کے واقعات کو قرآن کریم کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے۔ بلاشبہہ الکتاب اور صاحب ِکتاب کو الگ نہیں کیا جاسکتا۔ اُم المومنین سیّدہ عائشہؓ کا ارشاد ہے: کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآنَ ۔

تیرہ جلدوں پر مشتمل روح الامین کی معیت میں کاروانِ نبوتؐ میں نہ صرف سیرتِ رسولؐ ہے بلکہ ۲۳ سالہ دعوت اسلامی کے مراحل کی رُوداد بھی ہے ۔ جس میں نہ صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیّبہ اور اصحابؓ و صحابیاتؓ کے بارے میں قیمتی معلومات یکجا کر دی گئی ہیں۔ یہ کتاب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے جامع انقلاب کا ایک تجزیاتی جائزہ پیش کرتی ہے ۔ تحریک اسلامی کے کارکنان کے لیے اس کا مطالعہ افادیت کا باعث ہوگا۔ کتاب میں ہجری اور میلادی تاریخوں کے حوالے بھی فراہم کر دیے گئے ہیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتی زندگی جن مراحل و مشکلات اور مصائب سے گزری، اس کے لیے ترتیب نزولی مطالعے کا ایک پہلو تو ہے، تاہم قرآن کریم کے مطالعے اور ہدایت سے فیض یاب ہونے کے لیے جس ترتیب سے خالق کائنات نے جبرئیل امینؑ کے ذریعے اپنے رسولؐ کو ہدایت دے کر مرتب فرمایا، اسی ترتیب سے یہ مطالعہ ہدایت فراہم کر سکتا ہے ۔ اگرچہ بعض مسلم علما اور غیر مسلم مستشرقین نے ترتیب نزولی کو موضوع بنایا ہے ،جو قرآن کا مدعا نہیں ہے۔ مستند مآخذ سے مرتب کردہ ان قیمتی معلومات کا مطالعہ ان شاء اللہ نئی نسل کو سیرت پاکؐ اور کلام عزیز دونوں سے قریب لائے گا۔(پروفیسرڈاکٹر انیس احمد)


انسائی کلوپیڈیا مکتوباتِ رحمۃ للعالمینؐ، علّامہ عبدالستار عاصم۔ناشر:قلم فائونڈیشن، بنک سٹاپ، یثرب کالونی، لاہور کینٹ۔ فون: 0300-5150101۔ صفحات:۳۷۰۔ قیمت: درج نہیں۔

سیرتِ نبویؐ پر عربی کے بعد اُردو زبان میں سب سے زیادہ کتابیں لکھی گئیں۔ سیرت کی بیسیوں شاخیں ہیں۔ مذکورہ کتاب صرف ایک شاخ (مکاتیب ِ نبویؐ) کو سامنے لاتی ہے۔ رسولِ کریمؐ نے بیسیوں خطوط لکھوا کر بھیجے۔ مرتب نے خطوط کے تراجم کو مع پس منظر و پیش منظر یکجا کیا ہے۔ ہرمکتوب الیہ کا تعارف اور اس کی حیثیت، جو ایلچی (صحابہ کرامؓ) خطوط لے کر گئے، اُن کا تعارف، حالات، مکتوب الیہ پر مکتوبِ نبویؐ کے اثرات ، نتائج، آپؐ کے مکتوبات، کہاں کہاں اور کس ملک میں کس کی ملکیت میں ہیں، بتایا ہے۔ متعلقات کی وسعت کو بیان کیا ہے۔تاہم اسے انسائی کلوپیڈیا کہنا سمجھ سے بالاتر ہے۔

ابتدا میں دس تقریظ نگاروں نے مرتب کی بجاطور پر تحسین کی ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


پسِ قانون: پاکستانی قانون پر برطانوی نوآبادیاتی اثرات، آصف محمود ایڈووکیٹ۔ ناشر: شیبانی فائونڈیشن، اسلام آباد۔ فون: 0333-5915287۔صفحات:۲۰۰۔قیمت:۱۰۰۰ روپے۔

مغربی سامراجیوں نے گذشتہ صدیوں میں جب مسلم علاقوں کو غلام بنایاتو اپنے فوجی اور انتظامی اقتدار کو مضبوط کرنے کے لیے جن شعبوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا، اُن میں سرفہرست قانون اور تعلیم کے شعبے تھے۔ بظاہر پاکستان سے انگریزی سامراج کو براہِ راست حکمرانی چھوڑے ۷۵برس گزر چکے ہیں، لیکن اس علاقے پر حاکمیت کے لیے وہ جس انتظامی، سیاسی، عسکری، تعلیمی اور فکری ڈھانچے کو چھوڑ کر گئے تھے، وہ ذُریت پوری فعال ہے، مقتدر بھی ہے اور بدوضع بھی۔

آصف محمود ایڈووکیٹ، تخلیقی ذہن کے حامل دانش ور، قانون دان اور استاد ہیں، جنھوں نے زیرنظر کتاب میں، خصوصاً پاکستان کے شعبہ قانون پر انگریزی سامراجی باقیات کو گہرے مطالعے اور باریک بین مشاہدے کے بعد قلم بند کیا ہے۔ انھوں نے بتایا ہے کہ یہ محض قانونی غلامی کا شکنجا نہیں ہے، بلکہ تہذیبی وفکری غلامی سے نموپانے والے احساسِ کمتری کا وہ زہر ہے، جس نے حُریت فکروعمل اور آزادیٔ خیال و اظہارپر تالا چڑھا کر غلامی کی اتھاہ میں دھکیل دیا ہے۔

اس کتاب کا امتیازی پہلو یہ ہے کہ یہ کوئی خطیبانہ الزام تراشی نہیں ہے، بلکہ ٹھوس شواہد پر مشتمل وثیقہ ہے، جو گذشتہ دوسو برسوں میں لکھی گئی درجنوں کتب کا مطالعہ کرکے مرتب کیا گیا ہے۔ پاکستان میں مغربی تہذیب، لبرلزم اور سیکولرزم کے سرچشموں کو دیکھنے اور پرکھنے کے لیے یہ مختصر مگر جامع کتاب ایک قیمتی ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے۔ پاکستان کے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ صاحب نے کتاب کا استقبال کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’پاکستان کے قانونی و عدالتی نظام میں بامعنی اصلاحات کے خواہش مند یہ کتاب شوق سے پڑھیں گے، اور یہ ججز، وکلا اور قانون کے اساتذہ و طلبہ کے علاوہ عام لوگوں کے لیے بھی بہت مفید ثابت ہوگی‘‘ (ص ۴)۔ یہی وجہ ہے کہ صرف ایک ماہ میں اس کا پہلا ایڈیشن ختم ہوگیا اور اب دوبارہ شائع کی گئی ہے۔ (سلیم منصور خالد)


دید و شنید، ڈاکٹر سیّد امجد علی ثاقب۔ ناشر: رائل بک کمپنی، ریکس سنٹر، فاطمہ جناح روڈ، کراچی۔ فون: 021-35684244۔ صفحات: ۳۳۸ ۔ قیمت (مجلد) : ۱۵۰۰ روپے۔

زندگی گزارنے کے لیے لوگ کاروبار، محنت اور ملازمت کا وسیلہ اختیار کرتے ہیں، مگر ہرزندگی کے چاروں طرف حقیقی زندگی کے جو رنگ بکھرے ہوئے ہیں، بہت کم لوگ زندگی کے ان رنگوں کو مجسم تحریر میں ڈھالنے کی صلاحیت رکھتے یا اہمیت سمجھتے ہیں۔

ڈاکٹر امجد علی ثاقب زمانۂ طالب علمی میں پروفیسر خورشیداحمد صاحب کی شاگردی اور مولانا ظفر احمد انصاری مرحوم کی مجالس سے فیض پاتے ہوئے، پاکستان کے اعلیٰ تربیتی و انتظامی اداروں میں خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ اس حوالے سے انھیں پاکستان کے مقتدر طبقوں اور شخصیتوں تک رسائی حاصل رہی ہے۔ انھوں نے آپ بیتی میں زندگی کے مختلف کرداروں کی سوچ، عمل اور رویے کو دل چسپ معلومات کی صورت میں یک جا کردیا ہے۔ یہ لوگ، بلندپایہ اساتذہ اور قابلِ غور اہلِ فکرودانش ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: ’’حُسنِ نیت و حُسنِ اخلاق سے بگڑے ہوئے لوگ ٹھیک اور اُلجھے ہوئے کام سلجھ جاتے ہیں، اور بگڑے ہوئے انسانی روابط درست ہوجاتے ہیں۔ اگر ہربات احتیاط اور دُوراندیشی سے کی جائے تو نتائج بڑے مثبت ہوتے ہیں‘‘۔(ص ۲۵)

یہ تذکرہ خوش رنگ تو ہے ہی، لیکن تاریخ کے کئی موڑ بہت قریب سے دکھاتا ہے۔ الطاف حسن قریشی صاحب نے پیش لفظ میں بجاطور پر لکھا ہے: ’’اس [آپ بیتی] میں سوچ بچار کے شگوفے کھلتے ہیں‘‘ (ص۲)۔ اپنی نوعیت کی یہ ایک منفرد کتاب ہے۔(س م خ)


ارادہ، فیاض باقر۔ ناشر: سچیت کتاب گھر، شرف مینشن، گنگارام چوک، لاہور۔ فون: 042-6308265  صفحات: ۳۵۲۔ قیمت  (مجلد): ۳۰۰ روپے۔

انسانی زندگی سوچ، ارادے اور عمل سے عبارت ہے۔ انسان اگر تعمیری سوچ اور انسانی ہمدردی کے جذبے سے کسی اچھے عمل کا ارادہ کرے تو ایسی زندگی قابلِ رشک اورانسانی تعمیر اور سماجی و تہذیبی کمال کا سنگ میل بن جاتی ہے۔

معاشیات کے استاد اور سماجیات کی حرکیات پر نظر رکھنے والے ممتاز دانش ور فیاض باقر نے زیرنظر کتاب میں اسی سوچ، ارادے اور عمل سے نسبت رکھنے والے چند قابلِ قدر انسانوں کو ہمارے بیمار معاشرے سے منتخب کرکے زندگانی سے بھرپور چند مثالوں کو یکجا کیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جنھوں نے چاروں جانب پھیلی گھٹاٹوپ میں اپنے حصے کی شمع جلاتے ہوئے روشنی پھیلانے کی کوشش کی ہے۔ نظریاتی پس منظر کے حوالے سے شاید یہ لوگ آزاد خیال ہیں، لیکن خدمت کی مثال پیش کرنے میں مصروف کار ہیں۔ایسی مثالیں سبق آموز ہیں ۔

حرفِ آغاز میں جناب مؤلف لکھتے ہیں:’’ہمارے میڈیا کی توجہ بدقسمتی سے [ملک کے] قرضوں، مالی بدعنوانی اور اقتصادی گداگری پر اٹکی ہوئی ہے....[مگر ایک سطح پر] پاکستان میں ایک خاموش تبدیلی آرہی ہے: خودکفالت، قومی خودداری ، انصاف اور ترقی کے اصولوں پر قائم ایک نیا نظام جنم لے رہاہے... [اسی مناسبت سے] ہم نے یہ کہانیاں اکٹھی کی ہیں‘‘(ص۷)۔ بلاشبہہ یہ عمل کی راہیں سجھانے والی داستانیں ہیں۔ ان کا مطالعہ خدمتی جدوجہد سے منسوب کارکنوں کو رہنمائی دیتا ہے اور حوصلوں کو بلندی عطا کرتا ہے۔ (س م خ)

میں نے جس قدر بھی قرآن مجید کا مطالعہ کیا ہے اس کی بنا پر یہ سمجھتا ہوں کہ ہروہ شخص جو شرک کا ارتکاب کرے، یا جس کے عقیدہ و عمل میں شرک پایا جائے، اس کو نہ اصطلاحاً ’مشرک‘ کا خطاب دیا جاسکتا ہے اور نہ اس کے ساتھ مشرکین کا سا معاملہ کیا جاسکتا ہے۔ اس خطاب اور اس معاملے کے مستحق صرف وہ لوگ ہیں جن کے نزدیک شرک ہی اصل دین ہے، جو توحید کو بنیادی عقیدے کی حیثیت سے تسلیم نہیں کرتے ، اور وحی و نبوت اور کتاب اللہ کو سرے سے ماخذ ِ دین ہی ماننے سے انکار کرتے ہیں۔

میں یہ بات قطعی جائز نہیں سمجھتا کہ اُن لوگوں کو ’مشرک‘ کہا جائے اور مشرکین کا سا معاملہ اُن کے ساتھ کیا جائے جو کلمہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے قائل ہیں، قرآن کو کتاب اللہ اور سندوحجت مانتے ہیں، ضروریاتِ دین کا انکار نہیں کرتے، شرک کو اصل دین سمجھنا تو درکنار ، اپنی طرف شرک کی نسبت کو بھی بدترین گالی سمجھتے ہیں، اور تاویل کی غلطی کے باعث کسی مشرکانہ عقیدے اور عمل میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ وہ شرک کو شرک سمجھتے ہوئے اس کا ارتکاب نہیں کرتے بلکہ اس غلط فہمی میں پڑگئے ہیں کہ ان کے یہ عقائد و اعمال عقیدئہ توحید کے منافی نہیں ہیں۔

اس لیے ہمیں ان پر کوئی بُرا لقب چسپاں کرنے کے بجائے حکمت اور استدلال سے ان کی یہ غلط فہمی رفع کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ آپ خود سوچیں کہ جب آپ اس طرح کے کسی آدمی کے سامنے اس کے کسی عقیدے یا عمل کو توحید کے خلاف ثابت کرنے کے لیے قرآن و حدیث سے استدلال کرتے ہیں تو کیا آپ کے ذہن میں یہ نہیں ہوتا کہ وہ قرآن و حدیث کو سند و حجت مانتا ہے؟ کیا یہ استدلال آپ کسی ہندو یا سکھ یا عیسائی کے سامنے بھی پیش کرتے ہیں؟ پھر جب آپ اس سے کہتے ہیں کہ ’دیکھو، فلاں بات شرک ہے‘۔ اس سے اجتناب کرنا چاہیے، تو کیا آپ اُس وقت یہ نہیں سمجھ رہے ہوتے کہ یہ شرک کے گناہِ عظیم ہونے کا قائل ہے؟ اگر یہ بات نہ ہوتی تو آخر آپ اس کو شرک سے ڈرانے کا خیال ہی کیوں کرتے؟ (رسائل و مسائل، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، ج ۵۹، عدد۶، مارچ ۱۹۶۲ء، ص۵۷-۵۹)