اسرائیلی اخبار یروشلم پوسٹ کے ایڈیٹر یاکوف کاٹزنے ۲۲ستمبر کو ادارتی نوٹ میں جب سوال کیا کہ ’’کیا اسرائیل کو دوبارہ ۱۹۷۳ءکی ’یوم کپورجنگ‘ جیسی صورت حال کا سامنا کرپڑسکتا ہے؟‘‘ تو خود ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا ، کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں کی ناک کے نیچے ایسی ہی کارروائی کی منصوبہ بندی کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔
تاریخی شہر یروشلم یا القدس سے جنوب کی طرف جاتے ہوئے النقب یعنی نیگیو صحرا سے گزریں تو جدید زرعی تکنیک کے ذریعے اسرائیلی ماہرین نے ریگستان کو گلزار و شاداب بنا دیا ہے، اس کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ یہاں ایک طرف یہودی قصبے آراد، دیما، مٹزپے اور رامون کی بلندو بالا عمارتیں، جدید شاپنگ مالز اور انتہائی جدید انفرا سٹرکچر کسی بھی مغربی ملک کے شہر کا منظر پیش کرتے ہیں، انھی کے بغل میں عرب بدو بستیاں اور قصبے راحت، تل شیوا اور لاکیا، انتہائی کسمپرسی اور لاچاری کی داستان بیان کرتے ہیں۔ اس سوکلومیٹر کے راستے میںہی عسقلان، سدیرات، کفار عزا، بیری، نہال اوز اور میگن کی اسرائیلی رہائشی بستیوں ہیں،جہاں ۷؍اکتوبر کی صبح کو حماس نے حملہ کرکے ان علاقوں کو جہنم زار بنادیا، اور اس کے بعد سے اسرائیلی فضائیہ غزہ کی پٹی پرمسلسل قہر برسا رہی ہے۔ حماس نے سادہ موٹر سائیکلوں سے لے کر غیرروایتی پیرا گلائیڈرز پر سوار اور دنیا کے انتہائی جدید ترین نگرانی کے سسٹم کو چکمہ دیتے ہوئے اور راکٹوں کی بارش کرکے تین دن تک ان علاقوں پر قبضہ برقرار رکھا۔
ماضی میں جب بھی غزہ پر اسرائیلی حملہ ہوتا تھا، تو اسی علاقےمیں کبورز بیری کی مکین ایک کینیڈا نژاد یہودی معمر خاتون ۷۴ سالہ ویوین سلورکو فون کرکے حالات معلوم کرتے تھے۔ حقوق انسانی کےکارکن کی حیثیت سے اسکو اکثر سدیرات کے قصبہ میں غزہ کی سرحدکے پاس اسرائیلی حملوں کے خلاف اور فلسطینیوں کے حق میں مظاہرےکرتے ہوئے دیکھا جاتا تھا۔ مگر ۷؍اکتوبر کے حملے میں جہاں ان کےکبورز یعنی ہاؤسنگ سوسائٹی کے دیگر گھرمتاثر ہوئے ہیں ،وہیں ان کی رہایش بھی تباہ ہو گئی ہے۔ اس دن سے وہ غائب ہیں اور ان کا فون بھی بند ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر حماس کے عسکری اس کو اپنے ساتھ لےگئے ہوں گے، تو وہ محفوظ ہوگی اور جلد ہی واپس آکر پھر سرگرم ہوجائے گی، مگر جنگ میں کسی بھی چیز کی گارنٹی نہیں دی جاسکتی ہے۔بس ایک موہوم سی اُمید ہے۔ بیرون دنیا کے صحافیوں کے لیے، جو فلسطین کے مسائل کو خاص طور پر غزہ کو کور کرنا چاہتے تھے، وہ ایک طرح سے پہلا وسیلہ ہوتی تھی۔ ان کاکہنا تھا کہ ۱۹۹۰ء میں جب وہ غزہ سرحد کے قریب واقع کبورز بیری میں منتقل ہوگئی تھی، تو وہ عرب معاملات سے واقف ہوگئیں۔ اس کے بعد انھوں نے غزہ کی آبادی کی بہبود کے لیے پروگرام ترتیب دیئے۔ابھی ۴؍ اکتوبر کو ہی سلور نےیروشلم میں ایک امن ریلی کا انعقاد کیا تھا، جس میں فلسطینی مسئلے کو نظر انداز کرنے پر اسرائیلی حکومت پر شدید تنقید کی گئی۔ اس میں ۱۵۰۰؍ اسرائیلی اور فلسطینی خواتین نے شرکت کی تھی۔
بارود کا قہر صرف اسی سرزمین تک محدود نہیں تھا۔ صرف پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر غزہ، اسرائیل کی انتقامی کارروائیوں اورجھنجھلاہٹ کے بوجھ تلے لرز اٹھا۔ جیسے جیسے دن گزرتے ہیں، غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اب تک ۵ہزار سے زیادہ فلسطینی بچّے، عورتیں اور مرد شہید ہوچکے ہیں۔ اسی طرح اسرائیل نے الاہل عرب، عرب ہسپتال غزہ پر حملہ کرکے ۵سو سے زیادہ مریضوں اور زخمیوں کو ماردیا ہے۔
سابق امریکی فوجی افسر مارک گارلاسکو، جو اب نیدر لینڈ کی پیکس فار پیس تنظیم کے لیے کام کرتے ہیں کا کہنا ہے:’’ اسرائیل نے تو صرف ایک ہفتے میں ہی۶۵۰۰بم گرائے، یعنی ایک ہزار بم ایک دن میں۔ امریکا نے افغانستان میں پورے سال بھر۷۴۲۳ بم گرائے تھے۔ غزہ پر بمباری اس لیے بھی تشویش کا موجب بنتی ہے کہ افغانستان کے برعکس یہ ایک گنجان آباد شہری علاقہ ہے۔ امریکی فوجی ریکارڈ کے مطابق: ’’ناٹو اتحادی افواج نے لیبیا میں پوری جنگ کے دوران طیاروں سے تقریباً ۷۶۰۰ بم اور میزائل گرائے تھے‘‘۔
غزہ اس وقت اپنے وجود کے بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ اس علاقے میں ہر فرد بے گھر، الجھن اور نااُمیدی کے احساس کی عکاسی کر رہا ہے۔ غزہ کے رہایشی جمعہ ناصر اور فری لانس صحافی عصیل موسیٰ پناہ کی تلاش میں اپنے دردناک سفر کا ذکرکرتے ہوئے کہتے ہیں:’’بمباری کے خوف سے وہ رات بھر بھاگتے رہے‘‘۔ فون پر گفتگو کرتے ہوئے عصیل کہہ رہی تھی:’’کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں ہے، کوئی پناہ گاہ نہیں ہے۔ جب بمباری نہیں ہوتی ہے، تو سروں کے اوپر اسرائیلی ڈرون خوفناک آوازیں نکالتے ہوئے پرواز کرکے ایک لمحہ بھی چین سے رہنے نہیں دے رہے ہیں‘‘۔ وہ ان دس لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں میں سے ایک ہیں،جنھیں اسرائیل نے کہا ہے کہ اگر وہ وہاں رہنا چاہتے ہیں تو غزہ کے جنوب میں بھاگ جائیں،مگر ان کے بھاگتے قافلہ پر بھی بمباری کی گئی۔
حماس کی کی کارروائی نے پوری دنیا کوحیران تو کردیا، مگر اس خطے پر نظر رکھنے والے کچھ عرصے سے فلسطین کے حوالے سے کسی بڑی کارروائی کی پیش گوئی کر رہے تھے۔ ایک لاوا خطے میں پک رہا تھا، جس کو پھٹنا ہی تھا۔ فلسطینیوں میں ’ابراہیمی معاہدے‘ کی وجہ سے مایوسی پھیل گئی تھی۔ پہلا معاہدہ متحدہ عرب امارات، بحرین اور اسرائیل کے درمیان ۱۵ ستمبر۲۰۲۰ء کو ہوا تھا، جس کے بعد اسرائیل، مراکش اور سوڈان کے درمیان بھی اسی طرح کے معاہدے ہوئے۔ گذشتہ ماہ سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے کہا تھا کہ ’’قطر اور سعودی عرب کے ساتھ ایک بنیادی فریم ورک پر کام کیا جا رہا ہے‘‘۔مگر ان معاہدوں کی خبروں نے فلسطینیوں کی زمینی صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ اس کے برعکس ۲۰۲۳ء کے صرف پہلے نو مہینوں میں، اسرائیل نے کم از کم ۲۳۰ فلسطینیوں کو ہلاک کردیا۔ اقوام متحدہ کے مطابق اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان ۲۰۰۵ء کے بعد سے جاری تنازعے میں ہلاکتوں کی یہ سب سے زیادہ تعداد ہے۔صرف رواں سال کی پہلی ششماہی میں فلسطینیوں پر اسرائیلی آباد کاروں کے کم از کم۱۱۴۸ حملے ریکارڈ کیے گئے۔مزید یہ کہ اسرائیل کے انتہائی مذہبی شدت پسند جان بوجھ کر الاقصیٰ کمپلیکس کے اندر اشتعال انگیز مارچ میں اس کی بے حُرمتی کر کے فلسطینیوں کو اُکسا رہے تھے۔ حال ہی میں انھوں نے مسیحی برادری کے مقدس مقام پر تھوک کر ان کی بھی توہین کی ۔ مصری خفیہ ایجنسی کے ایک افسر نے میڈیا کو بتایا کہ: ’’ہم نے اسرائیلیوں کو خبردار کیا تھا کہ فلسطینی علاقوں میں صورتِ حال دھماکہ خیز ہوتی جا رہی ہے،مگر انھوں نے ان کو قابلِ توجہ نہیں سمجھا‘‘۔
مغربی کنارے اور اپنے زیرتسلط عرب آبادی کو اسرائیل نے بد ترین نسل پرستی کا نشانہ بنایا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک حالیہ رپورٹ میں بھی بتایا گیا ہے کہ عرب آبادی کو امتیازی سلوک کا سامنا کر نا پڑرہاہے ۔ صحراؤں میں رہنے والے عرب بدوؤں کو بنیادی سہولیات سے محروم کرنے کے واقعات پیش آرہے ہیں۔ ان کے ۳۵دیہات، جہاں تقریباً ۷۰ ہزار لوگ رہتے ہیں، اس وقت اسرائیل کی طرف سے ان معنوں میں ’غیر تسلیم شدہ‘ہیں کہ وہاں بجلی اور پانی کی سپلائی منقطع ہے اور انھیں بار بار مسمار کرنے کے لیے نشانہ بنایا جارہا ہے۔
مغربی کنارے میں انتفاضہ جیسی کارروائی یا اسرائیل کے اندر عرب آبادی کی بغاوت کی پیش گوئی کر رہے تھے۔ غزہ کے راستے اس طرح کی پیش قدمی یقینا ان کے لیے بھی حیرانی کا باعث ہے۔ اس غلط اندازے کی وجہ سے اسرائیل نے بھی مغربی کنارے پر افواج کی تعیناتی کی تھی، اور جنوبی خطے کو ایک طرح سے خالی چھوڑا تھا۔ جس کی وجہ سے یہ علاقے واپس لینے کے لیے اس کے انتہائی تربیت یافتہ اور جدید آلات سے لیس کماڈوز کو تین دن زور لگانا پڑا۔
معروف اسرائیلی کالم نگار، گیڈون لیوی کا کہنا ہے: ’’کئی برسوں میں بہت سی اشتعال انگیزیاں ہوئی ہیں جو ایک دھماکا خیز صورتِ حال بنا رہی تھیں۔ یہودی آباد کاروںکی طرف سے فلسطینی آبادی کو اشتعال دلایا جا رہا تھا۔ اور جب حماس نے ان پر حملہ کیا، تو ان کی حفاظت کرنے والا کوئی نہیں تھا‘‘۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق: ’’۲۸ستمبر کو سی آئی اے کی خفیہ رپورٹ میں حماس کی جانب سے اسرائیل پر کئی دنوں تک راکٹ فائر کرنے کے امکان کی نشاندہی کی گئی تھی اور پھر ۵؍اکتوبر کو دوسری رپورٹ میں اس انتباہ کو دُہرایا گیا‘‘۔
اسرائیلی افواج اب غزہ کے تباہ شدہ منظر نامے میں داخل ہو رہی ہیں۔اپنی باقاعدہ فوج کے علاوہ، اسرائیل نے حماس کے خلاف لڑائی میں شامل ہونے کے لیے۳لاکھ ۶۰ ہزار ریزروسٹ، یا کل اسرائیلی آبادی کے ۴ فی صد کو بھرتی کیا ہے۔ فوجی حکمت عملی کے ایک اسرائیلی ماہر جیک خووری کے مطابق: ’’انتقامی کارروائیاں فوری طور پر جذباتی سکون فراہم تو کرتی ہیں، مگر وہ اکثر پیچیدہ، دیرپا مسائل کا باعث بنتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ حماس کو اگر ختم کردیا جائے تو غزہ پر کون حکومت کرے گا اور کون تعمیرِ نو کرے گا؟‘‘ جیک خودری کا کہنا ہے کہ :’’امریکا نے نائن الیون کے حملوں کے بعد افغانستان اور عراق پر چڑھائی کی۔ دو عشرے کے بعدافغانستان میں طالبان مضبوطی کے ساتھ واپس اقتدار میں آگئے اور عراق میں ایران کو تاریخ میں سب سے زیادہ اثر و رسوخ حاصل ہے، جس سے یہ ملک امریکیوں کے لیے مزید خطرناک ہوگیا ہے‘‘۔ ایڈرین لیوی کے مطابق: ’’اعلیٰ امریکی اور یورپی حکام کے دورے اور امریکی صدر جو بائیڈن کی ہمدردانہ تقریر سے اسرائیلیوں کو گمراہ نہیں ہونا چاہیے‘‘۔ حماس کے حملوں نے بتایا ہے کہ فلسطین کے مسئلے کو نظر انداز کرنا ایک غلطی تھی۔ اسرائیل اور اس کے عرب شراکت داروں کے لیے لازم ہے کہ غزہ اور مغربی کنارے کے لیے ایک نئے، پُراُمید وژن پر غور کریں۔فوجی کارروائی سے نہ تو حماس کے عسکریوں کو ختم کیا جاسکتا ہے اور نہ اس کے نظریہ یا بنیادی مسائل کو، جس کی وجہ سے ان کی آبیاری ہوتی ہے۔
اکتوبر ۱۹۷۳ء میں مصر ی افواج نے اچانک حملہ کرکے نہر سویز اور صحرائے سینا کو اسرائیلی قبضہ سے آزاد کرواکر اسرائیل کے ناقابلِ تسخیر ہونے کے بت کوپاش پاش کر دیا تھا۔ پچھلے ۵۰برسوں میں یہ سودا ایک بار پھر اسرائیلی حکمرانوں کے سر میں سما گیا تھا۔ اسی غرور کی وجہ سے وہ فلسطینیوں کو کوئی رعایت دینے کو تیار نہیں تھے۔ اپنے عرب پڑوسیوں کے ساتھ امن کے لیے ’ابراہیمی معاہدے‘ کے مندجات پر بات چیت کرتے ہوئے اسرائیلی، فلسطین کی خودمختاری کے حوالے سے کسی بھی طرح کی بات چیت کرنے کے لیے تیار نہیں ہو رہے تھے۔
پچھلے ایک عشرے سے تو کسی بھی سفارتی اجلاس میں اسرائیلی سفارت کار، فلسطین کے حوالے سے کوئی بات سننے کے روادار نہیں ہوتے تھے۔ وہ اس کے بجائے عرب ہمسائیوں کے ساتھ علاقائی روابط اور استحکام پر توجہ مرکوز رکھتے تھے۔ سعودی عرب کے ساتھ ’ابراہیمی معاہدے‘ پر دستخط کرنے سے قبل، صیہونی وزیر اعظم نیتن یاہو کی حکومت نے یہودی غیر سرکاری تنظیموں کوچھوٹ دے رکھی تھی، کہ وہ زیادہ سے زیادہ یہودی آباد کاروں کو مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی زمینوں پر آباد کریں۔ کیونکہ فلسطینیوں کے حوالے سے وہ عرب ممالک کو بس اتنی سی رعایت دینے کے لیے تیار تھے کہ وہ مزید یہودی آبادکاروں کو فلسطینی زمینوں پر آباد نہیں کریں گے۔
سعودی عرب میںبھارت کے سابق سفیر تلمیذ احمد کے مطابق: ’’یہ اقدام کرکے حماس نے پیغام دیا ہے کہ فلسطین کے مسائل کو حل کیے بغیر عرب ممالک کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات معمول پر نہیں آسکتے ہیں۔ کچھ عرصے سے مغربی میڈیا جو اسرائیل کا حامی ہے، اسے اس مسئلے کے حوالے سے بات کرنا بھی گوارا نہیں تھا۔ حد یہ کہ نیتن یاہو تو اب دوریاستی فارمولے پر بھی غور کرنے پر آمادہ نہیں تھا۔وہ بس اردن سے مسجد اقصیٰ کی نگرانی چھین کر اس کو سعودی عرب کو دینے کے لیے تیار تھا اور اسی چیز کو ایک بڑی رعایت سمجھتا تھا‘‘۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب میں نیتن یاہو نے ’گریٹر اسرائیل‘(عظیم تر اسرائیل) کا نقشہ پیش کر کے معاملے کو مزید پیچیدہ کردیا۔ اس میں مغربی کنارے اور غزہ کو اسرائیل کی سرحدوں کے اندر دکھایا گیا ہے۔ نیتن یاہو کے سابق مشیر یاکوف امیڈور نے اعتراف کیا ہے کہ: ’’حماس کی کارروائی ایک بڑی انٹیلی جنس ناکامی ظاہر کرتی ہے،کیونکہ اس طرح کے حملوں کے لیے مہینوں کی منصوبہ بندی اور متعدد گروپوں کے درمیان محتاط تربیت اور ہم آہنگی کی ضرورت ہوتی ہے‘‘۔
جہاں تک اس بات کا سوال ہے کہ ’’حماس کی کارروائیوں سے کس کو فائدہ ہوا؟‘‘ بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس اقدام نے بہت سے اسٹیک ہولڈرز کے لیے راحت کا ساما ن فراہم کیا ہے۔ ایران، چین اور روس اس لیے خوش ہو رہے ہیں کیونکہ امریکی ثالثی میں ہونے والے ’ابراہیمی معاہدے‘ کو شدید دھچکا لگا ہے۔ خطے میں متوقع استحکام کی اُمید میںامریکا اس خطے سے نکل کر اپنے وسائل ایشیا پیسیفک کے علاقے میں منتقل کرنے کی کوشش کر رہا تھا تاکہ چین کا مقابلہ کیا جاسکے۔ روس کے لیے یوکرین سے مغربی دنیا کی توجہ ہٹانے کے لیے یہ ایک نعمت غیرمترقبہ ثابت ہوسکتی ہے۔ اگرچہ ایران نے حماس کی براہ راست مدد نہ کی ہو، لیکن مزاحمتی گروپ پر اس کا اثر و رسوخ اور لبنان میں حزب اللہ کے ساتھ اس کی قربت اسرائیل کے لیے تنائو کی صورتِ حال بناتی ہے۔اسرائیل جو ایران پر حملہ کرنے کے لیے پر تول رہا تھا، اب اس خطے میں ہی محدود ہو کر مزاحمتی گروپوں سے لڑنے میں مصروف رہے گا۔ اسرائیل کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے پر مجبور شرق اوسط کے ممالک بھی اب تل ابیب کے ساتھ مضبوط بنیادوں پر بات چیت کر سکتے ہیں کیونکہ اب اسرائیل چاہے کچھ بھی کرے وہ اپنا مضبوط اثر و رسوخ کھو چکا ہے۔ ’ابراہیمی معاہدے‘ پر ثالثی کے دوران، امریکا نے بھی اَزحد کوشش کی تھی، کہ کسی طرح اسرائیل کو فلسطینیوں کو کوئی رعایت دینے پر آمادہ کیا جائے، مگر اسرائیل نے امریکی کوششوں کو کئی بار سبو تاژ کیا، جس سے امریکی صدور بھی نالاں تھے۔
چند سال قبل نئی دہلی کے دورے پر آئے یہودی مذہبی لیڈر اور ’امریکن جیوش کمیٹی‘ (AJC) کے ایک عہدے دار ڈیوڈ شلومو روزن نے مجھے بتایا کہ: ’’مصر اور اسرائیل کے درمیان کیمپ ڈیوڈ معاہدہ ۱۹۷۳ءکی جنگ کے بعد ہی ممکن ہوسکا۔ اس جنگ نے ہمارے ناقابل تسخیر ہونے کا بھرم توڑ دیا۔ اس لیے اس جنگ کے بعد عمومی طور پر اسرائیلی معاشرے میں احساس پیدا ہوگیا تھاکہ ان کو بے یار و مدد گار چھوڑ دیا گیا‘‘۔ جون ۱۹۶۷ء کی چھ روزہ جنگ میں مصر، شام اور اردن کو مکمل طور پر شکست دینے کے بعد اسرائیل حد سے زیادہ پُر اعتماد ہو گیا تھا۔ دستاویزات کے مطابق اسرائیل امن مذاکرات شروع کرنے یا اپنے عرب پڑوسیوں کو کچھ رعایتیں دینے کے لیے امریکی دباؤ کو بار بار مسترد کر رہا تھا۔ ۲۰۲۱ء میں شائع ہونے والی کتابMaster of the Game ' کے مصنف مارٹن انڈک کے مطابق ہنری کسنجر نے امریکی انتظامیہ کو مشورہ دیا تھا کہ ’’وہ فور ی طور پر اسرائیل کی مددکو نہ آئے‘‘۔ وہ اسرائیل کو ایک جھٹکا(shock) دے کر باور کروانا چاہتے تھے کہ اس کا وجود اور سلامتی بس امریکا کے دم سے ہے۔ اسی جنگ کے بعد ہی ۱۹۷۹ء میں اسرائیل نے مصر کے ساتھ ایک امن معاہدے پر دستخط کیے، بعد میں اردن اور پھر فلسطینیوں کے ساتھ ’اوسلو معاہدے‘ عمل میں آئے۔ اس کی ایک بڑی وجہ اسرائیل کے بھرم کا ٹوٹنا ہی تھا۔
حماس کی کارروائی عرب ہمسایوں اور بڑی طاقتوں کے لیے بھی ایک سبق ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی دوڑ میں، مسئلہ فلسطین کو نظر انداز کرکے انھوں نے ایک بڑی غلطی کی تھی۔ امریکی ڈپلومیسی کے ایک ماہر ہنری کسنجر نے کئی عشرے قبل خبر دار کیا تھا کہ ’’اگر آپ فلسطین جیسے ایشو کو نظر انداز کرتے ہیں، تو یہ کسی بھی وقت پلٹ کر وار کرکے آپ کے چہرہ کو بگاڑ دے گا‘‘۔ واقعات نے ظاہر کیا ہے کہ شرق اوسط میںحالات تیزی کے ساتھ بدل سکتے ہیں۔ اس لیے دیرپا امن کے مفاد میں ضروری ہے کہ فلسطین کے مسئلے کو معتبر طریقوں کے ساتھ حل کرتے ہوئے عالمی سطح پر استحکام پیدا کیا جائے۔ یہی زریں اصول نہ صرف فلسطین، بلکہ تمام متنازعہ خطوں پر صادق آتا ہے۔
اس دوران دہشت گرد یہودیوں کا بار بار مسجد اقصیٰ میں داخل ہوکر شوروشغب کرنا، نمازیوں کو تنگ کرنا، مسجد کے احاطے میں مسلمانوں کو چیلنج کرکے یہودی عبادات و رسومات ادا کرنا، مسجداقصیٰ کو اپنے زیرتصرف لانے کے اقدامات کرنا اور یہاں تک کہ ہارن بجاکر مسجد کی بے حُرمتی کرنا، سب شامل ہے۔ اقصیٰ کی تقسیم کو عملی جامہ پہنانے کے اقدامات شروع کیے گئے: ۱-ضحی (چاشت) کے وقت ۲-ظہر اور عصر کے درمیانی وقت اور ۳- عصر کے بعد کے وقت، مسجداقصیٰ میں مداخلت کرکے اپنے اوقات عبادات کو نافذ کرنے کی کوشش کی گئی، جو دراصل مسجد اقصیٰ کے انہدام اور اس کی جگہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے لیے فضا بنانے کا عمل تھا۔ اس دوران غزہ اور مغربی کنارے پر لوگ اشتعال محسوس کر رہے تھے اور روز اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے اپنے ہم وطن فلسطینی بھائیوں کے جنازے اُٹھا رہے تھے۔ اس صورتِ حال میں القسام بریگیڈ، حماس، الحرکۃ الاسلامیہ اور ایلیٹ فورسز نے الاقصیٰ کی حفاظت کے لیے ’الاقصیٰ طوفان‘ لانچ کرنے کا فیصلہ کیا۔
اب ہمارے موجودہ اقدام نے ہماری عسکری کامیابی کو ثابت کردیا ہے، جو قانونی دائرے میں ہے اور ہمیں اس پر فخر ہے۔ عالمی جنگ میں ڈیگال کو یہ سہولت بی بی سی کے ذریعے دی گئی کہ وہ فرانسیسیوں سے براہِ راست مخاطب ہوکر انھیں جرمنی کے ساتھ جنگ پر آمادہ کرے، جب کہ آج امریکا کا موقف ہے کہ وہ روس کے خلاف یوکرائن کا درست ساتھ دے رہا ہے کیونکہ یہ جنگ روس نے یک طرفہ شروع کی ہے۔ ہمارا سوال ہے کہ اسرائیل جو ۷۰سال سے زائد عرصے سے یک طرفہ جنگ کر رہا ہے، کیا اس کے خلاف اقدام کی ضرورت نہیں ہے؟
۱- اسرائیل کے خلاف ایسا مشترکہ موقف اختیار کیا جائے جو اسے زیادتیاں کرنے سے روکنے کا باعث بنے، خاص طور پر آج کل کی وحشیانہ بمباری کو رکوانے کے لیے واضح مضبوط موقف اپنانا چاہیے۔
۲- یہ مضبوط موقف کہ فلسطینی اپنے علاقوں ہی میں رہیں گے، انھیں کسی طور پر اپنے علاقوں سے دربدر نہیں کیا جائے گا۔
۳- اہل غزہ کی ہرنوعیت کی نصرت کا سامان کیا جائے۔
۴- تمام ممالک میں عوامی رائے عامہ کو مزید متحرک کرکے مسلسل بڑے بڑے مظاہروں کا اہتمام کیا جائے تاکہ دشمن مزید زیادتی سے رُک جائے۔
۵- جو کوئی بھی فلسطین کی سرحدوں تک آسکے، آئے۔اسرائیل آگ سے کھیل رہا ہے۔ اسے اس کام سے روکنا ہماری اجتماعی کوششوں سے ممکن ہے۔
ہم فلسطینیوں کی سوچ دو نکات کے تحت پروان چڑھی ہے: ہم عقلی و تدبیری اور سیاسی و ایمانی اصولوں کو سامنے رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہرطرح کی کمی، کمزوری پر ہم نے قابو پایا ہے۔ یہ سب ایمانی، سیاسی، عقلی و عملی نکات کا مرہونِ منت ہے۔ ہم نے گذشتہ سولہ برس میں سخت حصار کے دوران اللہ پر کامل ایمان کے زیرسایہ یہ سب حاصل کیا ہے۔ ہماری ایلیٹ فورس نے علی الصبح اسرائیلی فوجی ٹھکانوں پر کامیابی کے جھنڈے گاڑ کر بفضل اللہ اسرائیلی فساد اور غرور کو، بحروبراور فضا سے پاتال میں پھینک دیا۔ سوال یہ ہے کہ ان برسوں میں کسی نے ہمیں اس شورش سے بچانے کی کیا کوشش کی؟ اسرائیل، سب طاقتوں کے تعاون کے باوجود ایک بار پوری طرح رُسوا ہوا۔ غزہ کے شہریوں کے پاس اپنی عزت و وقار کے سوا اورکیاہے؟ وہ اپنی عزت و تکریم کے بقا کی جنگ لڑتے رہیں گے، چاہے کتنی ہی قربانیاں کیوں نہ دینی پڑیں۔
میں ان لوگوں میں سے نہیں جو سوشل میڈیا پر چھڑنے والی ہر متنازع گفتگو کا جواب دینے کے لیے میدان میں اُتر پڑتے ہیں۔چند روز پہلے بعض احباب نے دریافت کیا: ’’اس شخص کی رائے کے بارے میں آپ کا کیا جواب ہے، جو یہ کہتا ہے کہ صیہونی دشمن کو چھیڑنے کی ضرورت نہیں تاکہ اسے اتنے شدید ردِ عمل کا موقع نہ ملے‘‘۔ خاموش رہنے کے بجائے اپنے احساسات کو سرسری طور پر بیان کروں گا:
ماضی قریب میں قیدیوں کے ساتھ ہونے والا اذیت ناک سلوک برداشت کی حدوں سے بھی باہر ہوچکا ہے۔ ان میں یہ احساس پیدا ہونے لگا ہے کہ امت انھیں بھول بیٹھی ہے، کسی کو ان کی مصیبت اور ان کے حالات کی فکر نہیں بلکہ کسی کو یہ بھی نہیں پتہ کہ ان کے ساتھ کیا کچھ ہو رہا ہے؟ صیہونی حکومت کے اندر انتہا پسند یہودیوں کی مضبوط گرفت کے سبب قیدیوں کی زندگی کو اس طرح جہنم بنا دیا گیا ہے کہ عملاً ان کے لیے یہ سب نا قابلِ برداشت ہو چکا ہے۔ گذشتہ مہینوں سے یہ آواز اٹھ رہی تھی کہ ان قیدیوں کی رہائی اور اس جہنم سے ان کی آزادی کے لیے جد وجہد ضروری ہے۔ اس مصیبت میں ہماری قیدی بہنوں کی اذیت کا اضافہ بھی کر لیجیے۔ ہماری بہنوں کو رُسوا کیا جارہا ہے۔ ان کے دین، ان کی عفت، اور ان کی حیا کوجس طرح تار تار کیا جا رہا ہے، مجھ میں تاب نہیں کہ اس کی تفصیل بیان کرسکوں۔ ایسے مرحلے میں مجاہدین نے آپریشن کیا تاکہ مظالم کے اس لا متناہی سلسلے پر بند باندھا جائے۔
میں نے جنگی جہازوں اور میزائلوں کی گھن گرج کے درمیان جلدی میں یہ چار اسباب بیان کیے ہیں۔پھر یہ بھی عرض کروں گا کہ بارود، آگ، خون اور موت کے مقابلے میں کھڑے لوگ اپنے احوال سے بہتر واقف ہیں، جو ان احوال سے واقف نہ ہو اسے چاہیے کہ وہ کوئی بھی رائے قائم کرنے سے پہلے صحیح صورتِ حال دریافت کر لے۔ یہی حکمت اور دیانت کا تقاضا ہے۔ اور جو وطن سے دُور ہو اس پر ایسی کوئی پابندی تو نہیں کہ وہ ملکی معاملات میں فتویٰ نہیں دے سکتا، البتہ ضروری ہے کہ پہلے وہ حصول معلومات کے ممکنہ ذرائع کا استعمال کر لے، کیونکہ فتویٰ کے لیے یہ ایک ضروری شرط ہے۔
جب معرکہ برپا ہو اس وقت ہمیں دستِ تعاون بڑھانا چاہیے، نہ کہ تنقید اور محاسبہ کے تیرچلانے چاہییں۔ جو لوگ صیہونی موقف پر تکیہ کرنے والے استبدادی حکمرانوں کے نقطۂ نظر کو درست سمجھتے ہوں، وہ ان وضاحتوں سے بھی مطمئن نہیں ہو سکتے بلکہ یہ لوگ ہر اس شخص کے رَد کے لیے تیار رہیں گے، جو انھیں مطمئن کرنے کی کوشش کرے گا، تاکہ اسی کی بات درست مانی جائے ۔ لہٰذا، اس قسم کی بحثوں میں اُلجھنے کا کوئی بڑا فائدہ نہیں۔
ہم نے برسہا برس سے ایسے تماش بیں لوگوں کو دیکھا ہے جن کے بارے میں رسولؐ اللہ کے فرمودات میں ہمیں پہلے ہی بتا دیا گیا ہے۔ ہمیں نصوص میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ محاذوں پر ڈٹ جانے والوں کو اللہ کے حکم سے نہ تو ان کے مخالفین نقصان پہنچا سکیں گے اور نہ ان کو بے یار مددگار چھوڑ کر تماشا دیکھنے والے ایسا کرسکیں گے۔
مجھے اچھی طرح اندازہ ہے کہ کچھ لوگوں کو اس پر کوئی دُکھ نہیں ہوتا کہ پوری کی پوری قوم ذلت، رُسوائی، فقر، اور مظلومیت کی دلدل میں ہے۔ انھیں قید و بند کی زنجیروں نے جکڑ رکھا ہے۔ مسجد اقصٰی کی حرمت پامال ہو رہی ہے۔ ہمارے قیدیوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک ہو رہا ہے۔ ان کے نزدیک ’’یہ سب فطری اور معمول کی باتیں ہیں، ان سب کے ساتھ جینا سیکھ لینا چاہیے‘‘۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ باطل کہاں ہے جو تمھیں اس کی اجازت دے دے گا کہ تم اسے اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کرو اور پھر اس پر خاموش رہ کر تم سے محبت اور مہربانی کے ساتھ پیش آتا رہے۔
اللہ جل جلالہٗ سے بس یہی فریاد ہے کہ الٰہی ہم کمزور ہیں ہماری مدد فرما، ہم محتاج اور تیری عنایت کے طلب گار ہیں ہم پر کرم فرما، ہم عاجز ہیں ہمیں غلبہ و قوت عطا فرما، ہم رُسوائی سے دوچار ہیں ہمیں عزت و اقتدار عطا فرما، کسی بھی افواہ پھیلانے والے اور ساتھ چھوڑ کر بھاگنے والے کے شر سے ہمیں بچا: وَاللہُ غَالِبٌ عَلٰٓي اَمْرِہٖ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ۲۱ (یوسف ۱۲:۲۱) ’’اللہ اپنے معاملے پر غالب آکر رہنے والا ہے لیکن اکثر لوگ اس حقیقت کو نہیں جانتے‘‘۔
اسرائیل کی صورت میں انسانیت کے لیے کینسر، فلسطین کی سرزمین پر ظاہر ہے۔ میزائل اُڑتے ہیں، جہنم کا منظر عالمی سرخیاں بنتی ہیں، ہزاروں لوگ مر جاتے ہیں، میرے خدا، ان میں سے بہت سے بچّے ہیں۔ اسرائیلی وزیر دفاع یوو گیلنٹ نے اعلان کیا: ’’ہم انسانی جانوروں سے لڑ رہے ہیں اور ہم غزہ کا مکمل محاصرہ کر رہے ہیں۔ نہ بجلی، نہ کھانا، نہ پانی، نہ ایندھن___ سب کچھ بند ہو جائے گا‘‘۔ یہ ہے صیہونی اصول کہ انسانوں کو جانور قرار دے کر مار ڈالو، چاہے وہ معصوم بچّے ہی کیوں نہ ہوں۔ یہ جنگ شیطانی چکر ہے۔ حماس نے اسرائیل پر میزائل داغے، جس کے جواب میں اسرائیل کی طرف سے (بہت زیادہ جدید ترین) میزائل اور بھی زیادہ گھناؤنے ردعمل کا جواز بناکر برسائے گئے ہیں، اور غزہ کی ’اوپن ایئر جیل‘ میں پھنسے لوگوں کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا۔ —
میں یہ الفاظ اس لیے لکھ رہا ہوں کہ اس تنازعے کی غلطیوں کو ’برابر‘ کرنے کی کوشش نہ کریں اور نہ اس کی تاریخ کو چھیڑیں: پہلی جنگ عظیم کے نتیجے میں فلسطین میں اسرائیل کی نوآبادیاتی، ریاست کے قیام میں یہاں کے سیکڑوں دیہات کو وحشیانہ انداز سے تباہ کردیا گیا۔ جیسا کہ کرس ہیجز لکھتے ہیں:’’اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف تشدد کی یہ خون آلود زبان بولی ہے۔ جب سے صیہونی ملیشیا نے تاریخی فلسطین کے ۷۸فی صد سے زیادہ حصے پر قبضہ کر لیا، تقریباً ۵۳۰ فلسطینی دیہات اور شہروں کو تباہ کر دیا، اور ۷۰ سے زیادہ مرتبہ قتل عام میں ہزاروں فلسطینیوں کو ہلاک کیا۔ ۱۹۴۸ء میں اسرائیل کی ریاست بنانے کے لیے ۱۹۴۷ء اور ۱۹۴۹ء کے درمیان تقریباً ۷لاکھ ۵۰ ہزار فلسطینیوں کا نسلی طور پر صفایا کیا گیا۔ دوسرے لفظوں میں وزیردفاع پوچھتا ہے: ’’اسرائیل سے تم کیا توقع رکھتے ہو؟‘‘
یہ تازہ ترین جنگ، نسلی تطہیر اور اپنی نسل کشی کے خلاف ردعمل کی کارروائی کے نمبرشمار میں ایک اضافہ ہے۔ حماس، یعنی غزہ کی موجودہ انتظامیہ کو امریکی میڈیا کی زبان میں ایک ’دہشت گرد تنظیم‘ سمجھا جاتا ہے۔ بات یہ ہے کہ تقریباً ہر قومی حکومت کی فوج ایک دہشت گرد تنظیم ہی ہے، یا کم از کم ممکنہ طور پر ایسا ہی رویہ اختیار کرتی ہے۔ امریکا تو یقیناً اسی معیار پر پورا اُترتا ہے۔ اب جنگ کے لیے ایک اور لفظ کا اضافہ ہوگیا ہے: ’دہشت گردی‘۔
ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جو جنگ کی آگاہی کے شعور میں پھنسی ہوئی ہے۔ خطرے سے بچنے کا واحد راستہ پھر یہ ہے: ’انھوں نے ہمارے بچوں کو مارا ہے، لہٰذا ہم ان کو مارنے والے ہیں‘۔ یوں جو سب سے زیادہ بچوں کو مارتا ہے وہ واقعی جیت جاتا ہے، یا ایسا نظر آتا ہے۔
کیا جغرافیائی سیاست کی سطح پر سوچنے کا ایک مختلف طریقہ ممکن ہے؟ کیا جنگ کے بغیر دنیا ممکن ہے؟ اورلی نوئے، جو اسرائیلی اور عبرانی زبان کے نیوز میگزین لوکل کال کی ایڈیٹر ہیں، لکھتی ہیں: ’’جب حماس نے اسرائیل پر میزائل داغے تو یہ کتنا خوفناک تجربہ تھا‘‘۔ دی گارڈین میں وہ لکھتی ہیں: ’’عوام میں بدلہ لینے کی خواہش قابل فہم اور خوفناک بھی ہے، لیکن کسی اخلاقی سرخ لکیر کا مٹ جانا ہمیشہ ایک خوفناک چیز رہا ہے‘‘۔یہ بات اہم ہے کہ حماس کی طرف سے کیے جانے والے اقدام کی اہمیت کو کم نہ کیا جائے اور نہ معاف کیا جائے۔ لیکن یہ خود ہمیں اپنے آپ کو یاد دلانا بھی ضروری ہے کہ وہ سب کچھ جو اب ہم اپنے اُوپر مسلط ہوتا دیکھ کر تڑپ رہے ہیں، بالکل یہی تو ہم برسوں سے فلسطینیوں پر ڈھا رہے ہیں… میں اپنے آپ کو یاد دلاتی رہتی ہوں کہ اس سیاق و سباق کو نظرانداز کرنا خود میری اپنی انسانیت کی تذلیل رہی ہے۔ کیونکہ کسی بھی سیاق و سباق سے عاری تشدد صرف ایک ممکنہ ردعمل کی طرف لے جاتا ہے: انتقام، اور بدلہ‘‘۔ اورلی نوئے لکھتی ہیں: ’’سیکورٹی کا مخالف، درحقیقت امن کا مخالف ہے، اور انصاف کا بھی مخالف ہے اور یہ مزید تشدد کے سوا کچھ بھی نہیں… ہم نے نہ صرف غزہ کو فاقہ کشی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے بلکہ اسے مکمل تباہی کے دہانے پر بھی پہنچا دیا ہے، اور یہ سارا کام ہمیشہ سیکورٹی کے نام پر ہی کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ کرکے ہمیں کتنی سیکورٹی ملی؟ انتقام کا یہ دوسرا دور ہمیں کہاں لے جائے گا؟‘‘
’’اس ہفتے کے روز اسرائیلیوں کے خلاف جو خوفناک اقدام کا ارتکاب کیا گیا، جسے دماغ سمجھ نہیں سکتا اور غم کے اس تاریک لمحے میں ایک چیز سے چمٹی ہوئی ہوں جسے میں نے تھامنا چھوڑ دیا اور وہ ہے: میری انسانیت۔ مکمل یقین کہ یہ جہنم پہلے سے طے شدہ نہیں ہے۔ نہ ہمارے لیے، نہ ان کے لیے‘‘۔
اس خوفناک لمحے کو سمجھا، پڑھا جا سکتا ہے، کہ کیا ہم ۷؍ارب انسانی دماغ سوچ سمجھ نہیں سکتے۔ انتقام اور جنگ میں عقل کام نہیں کرتی۔ تنازعے کو صرف ان تمام فریقوں کے تناظر میں سمجھا جاسکتا ہے، جو اس کا حصہ ہیں۔ یہی سوچ اور شعور امن کی تخلیق ہے۔ ہاں، افسوس کہ یہ محض کسی کی پشت پر لات مارنے سے زیادہ پیچیدہ کام ہے۔ یہ سب ایسا ہی ہے جیسے تنازعات کو زندہ رکھنے میں عالمی تجارتی مفاد کی حکمرانی! نہ صرف سیاسی حواریوں اور اسلحے کے ڈیلروں کے درمیان بلکہ اس گندے کھیل کے لیے بھی یہ کھیل ٹھیک ہے۔تمام زندگی ایک صحافی کے طور پر کام کرتے ہوئے مَیں یقینی طور پر اپنے پیشے کو بھی اسی انسانیت کُش فہرست میں شامل کر سکتا ہوں، جسے اپنے اخباروں میں خون آلود سرخیاں چھاپنے سے دلچسپی ہے، اور یہ خیال بھی ساتھ ساتھ کہ ’’فریقین رابطے اور مکالمے میں مصروف ہیں‘‘۔
یاخدا! دشمن کے ساتھ بھی رابطے؟ حکومتیں اس مقصد کے لیے اپنے وسائل کیوں ضائع کریں گی؟ انسانیت کے متعلق ہماری سمجھ بھی ایسی نہیں ہے۔ بہت مثبت بن کر سوچا جائے تو جنگ کا خاتمہ یا انسان کا اس سے بلند تر ہوجانا بھی ایک ناقابلِ فہم حد تک طویل اور ناممکن ترین سا عمل ہے۔ اس عمل کے بارے میں ہم اتنا بھی نہیں جانتے، جتنا ’ایٹم‘ کے بارے میں جانتے ہیں۔
لیکن کیا واقعی ایسا ہی ہے؟ ہوسکتا ہے کہ جتنا ہم سمجھتے ہیں، اس سے زیادہ ہی جانتے ہوں جیساکہ ماہر نفسیات مصنف مارین ووڈمین کا کہنا ہے: ’’دوسروں پر حکم چلانا اور ان کے ساتھ ایک بامعنی ربط پیدا کرنا، دو مختلف چیزیں ہیں۔یہ پہلی قسم جسے ’پدرشاہی‘ قسم بھی کہاجاسکتا ہے، دوسروں کی کچھ پروا نہیں کرتی۔ اس کے برعکس مَیں تو لوگوں کو بااختیار بنانے کے حق میں ہوں‘‘۔
ہمیں کوشش جاری رکھنی ہے، ہمیں بطورِ انسان ایک دوسرے کی قدر کرنی ہے، ایک دوسرے کے ساتھ ربط رکھنا اور زندہ رہنا سیکھنا ہے، چاہے یہ کام ہمیں کتنا ہی ناممکن کیوں نہ لگے۔ بطور انسان ہمارا پہلا فریضہ بھی یہی ہے۔ اگر ہم اس جنگ کو ختم نہیں کرتے، تو یہ ہمیں ختم کردے گی! [ترجمہ: ادارہ]
یہ جنوری ۲۰۲۲ء کی بات ہے، برطانیہ کے ایک آزاد تحقیقی ادارے ’اسٹوک وائٹ انویسٹی گیشن‘ نے انکشاف کیا تھا کہ ان کے ایک گاہک ’کریم‘ کو کشمیر میں دورانِ حراست تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
مقبوضہ وادی میں انڈین فوجی اداروں کی جانب سے کشمیریوں کی بلاجواز گرفتاری اور حراست کے دوران تشدد کوئی نئی بات نہیں۔ تاہم، کریم نے اپنے تفتیش کنندگان کی جو داستان سنائی وہ کافی عجب تھی۔ کریم کے بقول: ’’مجھ سے تفتیش کرنے والے اہلکار ہندستانی نہیں تھے۔ ان کا رنگ سفید تھا اور وہ امریکی لہجے میں بات کرتے تھے۔ ان کو کشمیر سے متعلق سرگرمیوں یا مقامی مسئلوں سے بھی کوئی سروکار نہ تھا، بلکہ وہ عالمی سیاست اور مسئلہ فلسطین کے متعلق میرے خیالات جاننا چاہتے تھے‘‘۔
کریم نے اس رپورٹ میں کہا ہے کہ ’’میرے خیال میں وہ یہ جاننا چاہتے تھے کہ کیا میں فلسطین اور افغانستان کی جدوجہد ِآزادی سے کوئی وابستگی رکھتا ہوں یا نہیں؟ ایک افسر نے مجھ سے حماس کے متعلق بھی پوچھا۔ اس سوال پر مجھے حیرانی کا جھٹکا لگا کیونکہ حماس کا کشمیر سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ میں نے انھیں بتایا کہ مجھے فقط کشمیر پر ہندستانی قبضے سے مسئلہ ہے، لیکن وہ مجھ سے یہ قبول کروانا چاہتے تھے کہ میں کسی عالمی ایجنڈے کا حصہ ہوں‘‘۔۱
کریم کے مطابق یہ افراد اپنی شناخت کے بارے میں بڑے پُراعتماد تھے۔ انھوں نے کھلم کھلا اسے بتایا کہ وہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی ’موساد‘ سے وابستہ ہیں اور کشمیر میں ’تحقیقی‘ فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ سرینگر کے ہوائی اڈے پر قائم عقوبت خانے میں یہ پُرتشدد تفتیش تین دن تک جاری رہی اور اس کے بعد کریم کو ڈھائی مہینے کے لیے ایک نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا۔
کریم کے ساتھ جو ہوا وہ ہندستان اور اسرائیل کے درمیان بڑھتے ہوئے اسٹرے ٹیجک تعاون کا نتیجہ ہے۔ بڑھتی ہوئی نظریاتی و مفاداتی قربتوں کے باعث دونوں ریاستیں معاشی و سیاسی میدان میں مل کر کام کر رہی ہیں۔ اسی قرابت داری کے باعث اب ہندستانی مقبوضہ علاقوں میں ریاستی جبر صرف ہندستانی ریاست کا خاصہ نہیں رہ گیا ہے بلکہ ایک بڑے عالمی منصوبے سے جڑ چکا ہے۔ یہی منصوبہ ہندستان کو اسرائیل اور اس کی نوآبادیاتی پالیسیوں سے جوڑ دیتا ہے۔
اگرچہ ہند اور اسرائیل کے درمیان باضابطہ طور پر کھلے عام تعلقات ۱۹۹۲ء میں قائم ہوئے، لیکن ان دو ریاستوں کا روحانی تعلق ۱۹۴۷ء اور ۱۹۴۸ء میں ان کے قیام سے پہلے کا چلا آرہا ہے۔ دونوں ریاستیں اپنے قیام سے قبل برطانوی استعمار کا حصہ تھیں، جو فلسطین اور جنوبی ایشیا کے زیادہ تر حصے پر قابض تھا۔ اس تعلق کا ایک ثبوت دونوں ممالک کا حیران کن حد تک مماثل قانونی نظام ہے۔ مثلاً دونوں ممالک نے مہاجرین کی زمینوں پر قبضہ کرنے کے لیے برطانیہ کے جنگی قوانین کا سہارا لیا۔ ’اسرائیلی ابسنٹی پراپرٹی لا‘ (Israeli Absentee Property Law) اور ہندستانی متروکہ املاک کا قانون بہت حد تک مشابہ ہیں۔
بیسویں صدی کے آغاز میں ہندستان کے کئی قوم پرست رہنما مثلاً ڈی وی سوارکر (D.V Savarkar) اور ایس ایم گولوالکر(S.M Golwalkar) صیہونیت سے متاثر ہوئے۔ فلسطین کے نوآبادیاتی منصوبے میں انھیں اپنے اکھنڈ بھارت کی جھلک نظر آتی تھی، جو سارے جنوبی ایشیا پر مشتمل ہو گا اور یہاں ہندوؤں کی حکمرانی ہو گی۔ صیہونیت سے یہ محبت اب بھی کئی طاقت ور قوم پرست ہندو اداروں میں پائی جاتی ہے، جن میں وزیراعظم مودی کی جماعت بھارتی جنتا پارٹی بھی شامل ہے۔ انھی بااثر اداروں کی وجہ سے صیہونیت کے ساتھ یہ تعلق نہ صرف ہندستان کی داخلی و خارجی سیاست پر اثرانداز ہوتا ہے بلکہ بی جے پی کے زیر انتظام علاقوں میں عوامی رائے کو بھی متاثر کرتا ہے۔
ان کٹر قوم پرست حلقوں سے باہر اور سیکولر سمجھے جانے والے ہندستان کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو بھی صیہونی تحریک اور اسرائیلی عزائم کے بڑے مداح تھے۔۲ تاہم، ان کا خیال تھا کہ اسرائیل سے براہ راست تعلق استوار کر لینے کی صورت میں ان کی کشمیرپالیسی متاثر ہو گی اور نوآبادیاتی غلامی سے نکلنے والی ریاستوں کی سربراہی کا خواب بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ اس کے باوجود ہندستان نے ۱۷ستمبر ۱۹۵۰ء کو اسرائیل کو باقاعدہ طور پر تسلیم کر لیا اور ۱۹۵۳ء میں بمبئی میں اسرائیلی سفارت خانہ بھی کھل گیا۔
۱۹۹۲ء میں باقاعدہ تعلقات استوار ہونے سے پہلے ہندستان اور اسرائیل کا رابطہ ’موساد‘ اور’ را‘ کے ذریعے ہوتا تھا۔ ’را‘(RAW) ہندستانی خفیہ ایجنسی ہے، جس کی بنیاد ۱۹۶۸ء میں اندراگاندھی نے رکھی تھی۔ یہ خفیہ دفاعی تعلقات جو ٹکنالوجی کے تبادلے سے لے کر خفیہ سفارتی دوروں تک پھیلے ہوئے تھے، پاکستان کی چین سے بڑھتی ہوئی قربت کے رد عمل میں قائم کیے گئے تھے۔۳ ’موساد’ ،’را‘ تعلقات اور دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بحالی کے علاوہ ہندستان نے سوویت یونین (USSR)کے ساتھ بھی مضبوط دفاعی تعلقات قائم کیے۔ دسمبر ۱۹۹۱ء میں سوویت یونین کے زوال کے وقت ہندستان سوویت اسلحے کا سب سے بڑا خریدار تھا۔
۹۰ کے عشرے سے ’ہندستان اسرائیل تعلقات‘ میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ اس سے پہلے اس رشتے کی بنیاد دفاعی مصلحتوں پر تھی، لیکن اب اپنے مقبوضہ علاقوں پر شکنجا مضبوط کرنے کے لیے ہندستان کو اس اتحادی کی ضرورت پڑی۔ سوویت یونین کے زمین بوس ہونے سے ہندستان کے لیے اسلحے کی سب سے بڑی دکان بند ہو چکی تھی۔ اب اندر اور باہر سے جب معیشت کو آزاد کرنے کا دباؤ بڑھا تو ہندستان نے امریکا کے ساتھ تعلقات بڑھانا شروع کیے۔ اسی زمانے میں کشمیر کے اندر ایک مسلح جدوجہد بھی شروع ہو چکی تھی جس کا آغاز ۱۹۸۹ میں ہوا تھا اور وہاں ۱۹۸۷ء میں ہونے والے متنازع انتخابات بڑی دیر سے دبے لاوے کے پھوٹنے کی بنیاد بنے تھے۔ ان انتخابات میں نئی دہلی حکومت نے دھاندلی کے ذریعے ہندستان پسند جماعت نیشنل کانفرنس کو جتوایا تھا۔
’تامل ٹائیگرز‘ کے ہاتھوں وزیر اعظم راجیو گاندھی کے قتل [۲۱مئی ۱۹۹۱ء]کے بعد جون ۱۹۹۱ء میں نرسمہا راؤ نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا۔ اسی مہینے کشمیری مجاہدین نے سری نگر سے آٹھ سیاحوں کو اغوا کرلیا، جن میں سے سات اسرائیلی تھے اور انھیں مبینہ طور پر مجاہدین کے درمیان پھوٹ ڈلوانے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ اس صورتِ حال میں جہاں ایک طرف بھارتی و اسرائیلی سفارت کار ان کی رہائی اور وادی سے بقیہ اسرائیلیوں کے انخلا کی کوششوں میں مصروف تھے، ہندستانی میڈیا میں اسرائیل سے تعلقات کی بحالی کا راگ الاپا جا رہا تھا۔ بھارتی سیاست میں اسرائیل پسند جماعت بی جے پی کا رسوخ بھی بڑھ رہا تھا اور فلسطین کی جانب سے بھی ان دو ریاستوں کے بڑھتے تعلقات کی زیادہ مخالفت نہیں کی جا رہی تھی، چنانچہ بھارتی حکومت نے اسرائیل سے باقاعدہ تعلقات بحال کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ ۴
چنانچہ اسی زمانے میں جب ہندستان کشمیریوں کا محاصرہ سخت کرنے کی کوشش کر رہا تھا،اسرائیل پہلی انتفاضہ بغاوت کو کچلنے میں مصروف تھا۔ اسرائیلی حکومت کو درپیش بڑھتے ہوئے خطرات کے پیش نظر اسرائیلی ریاست اپنا آزاد معاشی نظام ترتیب دینے کے لیے مصروفِ عمل تھی۔ اس منصوبے کا ایک حصہ اسرائیلی معیشت دان شیر ہیور (Shir Hever)کے الفاظ میں ’اسرائیلی دفاع کی نجکاری‘ بھی تھا۔ ۵ چنانچہ ان بڑھتے دفاعی و معاشی تقاضوں کے باعث ہندستان اور اسرائیل کےیہ تعلقات دفاعی پوزیشن سے نکل کر جارحانہ پوزیشن میں آ گئے اور دونوں ممالک ہرطرح کے حقیقی یا ’خیالی خطرے‘ سے قبل از وقت نپٹنے کے لیے متحد ہو گئے۔
۹۰ کے عشرے سے اسرائیلی حکومت اور دفاعی کمپنیوں کی جانب سے اس پہلو پر بہت زور دیا جانے لگا جسے ’اسرائیلی تجربہ‘ کہا جاتا ہے۔ اسرائیلی معلم نیوو گورڈن کے مطابق ’اسرائیلی تجربہ‘ کا یہ نعرہ بیرون ملک اسرائیلی اسلحہ اور دیگر دفاعی خدمات فروخت کرنے کے لیے گھڑا گیا تھا۔ ۶ نائن الیون کے بعد اسرائیل کے دفاعی شعبے کی مانگ میں مزید اضافہ ہو گیا تھا کیونکہ ہندستان جیسی ریاستیں امریکی سربراہی میں شروع ہونے والی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں چیمپئن بن کے سیاسی فوائد حاصل کرنا چاہتی تھیں۔
کشمیری اسکالر محمد جنید لکھتے ہیں: ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ جیسا خام اور یک رُخا نعرہ ہندستان جیسی ریاستوں کے لیے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوا، جنھوں نے اسے استعمال کر کے عشروں سے جاری کشمیریوں کی جائز جدو جہد آزادی کا گلہ گھونٹنے کی کوشش کی۔ ۷ جنید کے مطابق اندرون اور بیرونِ ہند مبصرین نے بڑی آسانی سے کشمیر کی حق خود ارادیت کی تحریک سے وابستہ جدوجہد کو بھی عالمی جہادی ایجنڈے کا حصہ قرار دے کر ایک طرف کر دیا۔ اسی ’دہشت گردی‘ کے نعرے کا فائدہ اٹھا کر ہندستان نے بھی کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کو فلسطین اور چیچنیا میں ہونے والی جدوجہد کو ’دہشت گردی‘ سے جوڑ کر اپنے لیے گنجایش پیدا کر لی۔ اس وقت کے ہندستانی مرکزی وزیر جسونت سنگھ کا کہنا تھا کہ ’’۱۹۹۹ء میں کشمیریوں کی جانب سے ہندستانی طیارے کا اغوا دراصل نائن الیون کی تیاری کی ایک مشق تھی‘‘۔ ۸
اس بیانیے کو مزید تقویت تب ملی جب نائن الیون کے کچھ ہی مہینوں بعد پاکستان سے منسوب لشکر طیبہ اور جیش محمد کو دہلی کی پارلیمنٹ پر حملے سے جوڑ دیا گیا۔ اس حملے کے بعد ہندستانی حکومت نے ایک اسرائیلی سیکیورٹی کمپنی ’نائس سسٹمز‘ (Nice Systems) کے ساتھ دفاعی معاہدہ کیا، جس نے بھارت اسرائیل تعلقات میں نئی جہتوں کا اضافہ کیا۔
پھر ہندستان کے تاج ہوٹل، ممبئی پر حملوں (نومبر ۲۰۰۸ء ) کے بعد ان رحجانات میں مزید اضافہ ہوا۔ کہا گیا کہ لشکر طیبہ سے تعلق رکھنے والے ۱۰ افراد نے ممبئی شہر میں ۱۲ مختلف جگہوں پر حملہ کیا تھا۔ان حملوں کا نشانہ بننے والوں میں ۹ اسرائیلی شہری بھی شامل تھے۔ اس حملے کے بعد آزاد عیسیٰ کے بقول، جو بھارت اسرائیل تعلقات پر ایک کتاب کے مصنف ہیں،اسرائیل ہمیشہ کے لیے ایک بھارتی سانحے کا حصہ بن گیا۔ ۹ ان کے مطابق اسرائیل کی دفاعی صنعت کے لیے اس واقعے نے ایک بڑا کاروباری امکان پیدا کردیا۔
ہندستانی میڈیا کی جانب سے مسئلے کے عسکری حل پر زور دیے جانے کے بعد ریاست مہاراشٹرا نے جولائی ۲۰۰۹ء میں ’اسرائیلی تجربے‘ سے سیکھنے کے لیے ایک وفد اسرائیل بھیجا۔ اس کا پہلا نتیجہ یہ نکلا کہ بھارت میں اسرائیل کے تربیت یافتہ کمانڈوز کے دستے تیار کر کے انھیں ممبئی میں تعینات کیا گیا۔پولیس کمشنر دھنوش کودی سیوانندن کا کہنا تھا: ’’بھارت کو دہشت گردی کے معاملے میں عسکری انداز سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں اسے اسرائیل کی بے رحم جبلت سے سبق سیکھنا چاہیے اور بیرونی دُنیا کی کسی تنقید کی کوئی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔ ۲۰۰۸ء اور ۲۰۰۹ء میں اسرائیل کی جانب سے غزہ پر ہونے والی وحشیانہ بمباری کے بعد ان کا کہنا تھا کہ ’’اسرائیلی اپنے دفاع کے معاملے میں خاموش نہیں رہتے۔ وہ اپنے جہازوں میں جاتے ہیں، دشمن کا صفایا کرتے ہیں اور پھر آ کر خاموش ہو جاتے ہیں۔ اس کے برعکس ہم ذرا بھی جارحیت کا مظاہرہ کریں تو باہر سے دباؤ آنے لگتا ہے‘‘۔ ۱۰ اس طرح ان کے بقول: ’’ہندستان برسوں سے دہشت گرد حملوں کے سامنے چپکا بیٹھا ہوا ہے‘‘۔ ۱۱
ان حملوں کے بعد پورے ہندستان میں ’سینٹرل مانیٹرنگ سسٹم‘ (CMS)لاگو کیا گیا۔ یہ نظام برقی مواصلات کے تقریباً تمام ذرائع کی جاسوسی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور بھارت کو اسے نصب کرنے میں اسرائیلی کمپنیوں مثلاً ’ویرنٹ سسٹمز‘ (Verint Systems) کی مدد حاصل تھی۔ اس CMS نظام کا نفاذ ہندستان کی دفاعی پالیسی میں ایک اہم موڑ ثابت ہوا، کیونکہ اس سے قبل صرف مجرموں کی نگرانی کی جاتی تھی، اب ہر قسم کی نجی مواصلات کو بھی ریکارڈ کیا جانے لگا، تا کہ خطروں کی پیش بینی کی جا سکے۔ نگرانی کا یہ نیا نظام کسی عدالتی وارنٹ کا بھی محتاج نہیں اور فون یا انٹرنیٹ استعمال کرنے والے ہر شہری کی جاسوسی کر سکتا ہے۔ اس کے تحت شہری اپنی گفتگو یا رابطے کے بارے میں کہیں اپیل بھی نہیں کر سکتا۔ اس کے نفاذ میں اسرائیلی مدد ایک طرف، اس سارے قضیے سے ہمیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ بھارت اسرائیلی دفاعی حکمت عملیوں سے کس قدر متاثر ہے۔
اپنے داخلی دفاع کو لے کر بھارت کی ’سخت‘ حکمت عملی اور بھارتی ریاست و عوام کی ’اسرائیلی طرزِ عمل‘ سے والہانہ محبت بھارتیہ جنتا پارٹی اور نریندر مودی کی حکومت سے بھی پہلے کا قصہ ہے۔ ہندستان کی جانب سے اسرائیلی ٹکنالوجی نکسل باڑیوں کے خلاف اڑیسہ، چتیش گڑھ اور آندھرا پردیش وغیرہ میں اور اسرائیلی ڈرون کا استعمال ،نئی دہلی میں ’یونائیٹڈ پروگریسو الائنس‘ (UPA) کی لبرل حکومت کے دوران ہی شروع ہو گیا تھا۔۲۰۰۴ءسے ۲۰۱۴ء تک کانگریس پارٹی اس اتحاد کی نمایندہ جماعت اور من موہن سنگھ وزیر اعظم تھے۔
۲۰۱۴ء میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت آنے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری کے لیے مزید راہ ہموار ہوئی، اور ۲۰۱۷ء میں وزیر اعظم نریندر مودی کے دورۂ اسرائیل کے بعد مشترکہ بیان میں ’’بھارت اور اسرائیل کے تعلقات کو ’اسٹرے ٹیجک تعلقات‘ قرار دیا گیا‘‘۔ ۱۲ اس دورے میں وزیر اعظم نریندارا مودی اور نیتن یاہو نے زراعت، آب پاشی اور ٹکنالوجی کے میدان میںتعلقات کو مزید نکھارنے کے لیے کئی معاہدوں پر دستخط کیے۔
چنانچہ ان خطرناک حد تک اچھے تعلقات کے باعث اسرائیل، بھارت کے ’میک ان انڈیا‘ (Make in Inida) منصوبے میں سب سے بڑا حصہ دار بن چکا ہے۔ اس منصوبے کا اعلان نریندرامودی نے ستمبر ۲۰۱۴ء میں کیا تھا اور اس کے تحت غیرملکی کمپنیوں کو ہندستان میں پیداوار شروع کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔ اس پر کسی کو کیا حیرت ہو سکتی ہے کہ زرعی ٹکنالوجی تو رہی ایک طرف، سب سے پہلے اور سب سے زیادہ جس مال کی پیداوار ہندستان میں شروع ہوئی وہ اسرائیلی میزائل اور اسلحہ ہی تھا۔ ہندستان کے چند بڑے سرمایہ داروں مثلاً اڈانی گروپ کے مالک اور مودی کے دیرینہ خیر خواہ گوتم اڈانی کو اسرائیل کے ساتھ ان سودوں سے بڑا منافع ہوا۔اس منصوبے کا حصہ بننے والے دیگر ممالک میں روس اور امریکا اہم ہیں۔ روس اپنے براہموس میزائل ہندستان میں تیار کر رہا ہے، جب کہ امریکا ایک بڑی اسلحہ ساز کمپنی ’لاک ہیڈ مارٹن‘ (Lockheed Martin) کے ذریعے اس منصوبے میں شامل ہے۔ عسکری مصنوعات سے ہٹ کر اسرائیلی کمپنیوں نے دیگر اہم شعبوں مثلاً قابل تجدید توانائی کے منصوبوں میں بھی سرمایہ کاری کی ہے۔ دوسری طرف اسرائیل نے بھی بھارت کو اپنی معیشت میں بڑا حصہ دیا ہے۔ جنوری ۲۰۲۳ء میں اڈانی گروپ نے حیفہ کی بندرگاہ ایک اعشاریہ دو بلین ڈالر کے عوض خرید لی تھی۔ اس کمپنی کے چیف ایگزیکٹو نے نیتن یاہو کے ساتھ اس منصوبے پر دستخط کرتے ہوئے ’دو ممالک کے درمیان دیرینہ تعلقات‘ کی تعریف کی اور انھیں مزید بڑھانے کا عندیہ بھی دیا۔
اس دوران ہندستان، اسرائیل کی عسکری ٹکنالوجی کا سب سے بڑا خریدار بھی بن چکا ہے۔ مودی کے دورۂ اسرائیل ۲۰۱۷ء کے دوران اسرائیلی تاریخ کے سب سے بڑے ۲ بلین ڈالر کے دفاعی معاہدے پر دستخط کیے گئے تھے۔ یہ معاہدہ ۲۰۲۱ء میں دوبارہ خبروں کی زینت بنا، جب بھارتی اخبار The Wire نے انکشاف کیا کہ ۲۰۱۹ء کے انتخابات میں بی جے پی کی جیت کو یقینی بنانے کے لیے اسرائیلی کمپنی این ایس او کے سافٹ ویئر پیگاسس (Pegasus) کی مدد سے انڈین حزب اختلاف کے معروف سیاست دانوں بشمول راہول گاندھی کے فون ہیک کیے گئے تھے۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ (جنوری ۲۰۲۲ء ) کے مطابق یہ سافٹ ویئر ’پیگاسس ‘۲۰۱۷ء کے سودے کا ایک اہم حصہ تھا۔ دوسری جانب مودی حکومت اس کی خریداری سے انکار کرتی ہے۔ تاہم، ’آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پراجیکٹ‘ (OCCRP)کی حاصل کردہ اہم دستاویزات کے مطابق ’’بھارت نے اسرائیلی کمپنی NSOسے وہ آلات خریدے ہیں، جو اسی سافٹ ویئر کی تنصیب کے لیے دیگر ممالک میں استعمال ہوئے تھے‘‘۔ ۱۳
The Wire کی رپورٹ کہتی ہے کہ مودی کے حریفوں کے علاوہ مزید سیکڑوں لوگوں کی نگرانی بھی اس سافٹ ویئر کے ذریعے کی جاتی ہے۔ ان دعوؤں کی تصدیق ’لیگل فورم فار کشمیر‘ (LFK) کی حالیہ رپورٹ سے بھی ہوتی ہے، جس میں ایسی شخصیات کی ایک فہرست شائع کی گئی ہے، جو اس سافٹ ویئر کی مدد سے جاسوسی کا شکار ہو چکے ہیں۔
اسرائیل کے ظالمانہ ہتھکنڈوں سے شہ پا کر بی جے پی نے بھی بھارت میں اختلاف رائے کو دبانے کے لیے کئی محاذ کھول دیے ہیں۔ مثلاً خاتون صحافی سواتی چترویدی نے بی جے پی (بلکہ سچی بات یہ ہے کہ RSS)کی پروردہ ایک ’ڈیجیٹل فوج‘ کی نشاندہی کی ہے۔ یہ فوج سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر مشتمل ہے، جو اختلاف رائے رکھنے والوں کے خلاف آن لائن مہم چلا کر انھیں ہراساں کرتے ہیں۔ ۱۴ ایسا ہی ایک منصوبہ اسرائیل میں بھی شروع کیا گیا تھا۔ اسرائیلی خفیہ اداروں کی ایک مہم ’فلڈ دی انٹرنیٹ‘(Flood the Internet) کے تحت، انٹرنیٹ پر فلسطینی تحریک بی ڈی ایس (BDS) کے خلاف مواد بڑی مقدار میں شائع کیا جاتا تھا۔ اسی سے متاثر ہو کر اور اسرائیلیوں سے اپنی محبت کا اظہار کرنے کے لیے بھارتی ’ڈیجیٹل فوج‘ بھی اکثر ایسے آن لائن ٹرینڈ چلاتی ہے، جن میں اسرائیل کو سراہا جاتا ہے اور فلسطینیوں کی مذمت کی جاتی ہے۔
۲۰۲۰ء سے جاری رہنے والا میڈیا بلیک آؤٹ تو بظاہر ختم ہو چکا لیکن کشمیر کی وادی اب بھی کڑی نگرانی کی زد میں ہے۔ اگست ۲۰۱۹ء میں بھارتی آئین کے آرٹیکل ۳۷۰ اور ۳۵ -اے کو تبدیل اور کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے بعد وہاں ایک طویل اور ظالمانہ کرفیو نافذ کردیا گیا تھا۔ اس ترمیم کے ذریعے وادیٔ کشمیر کو دو حصوں (جموں و کشمیر اور لداخ) میں تقسیم کر کے یک طرفہ طور پر ہندستانی وفاق میں ضم کر دیا گیا تھا۔ کشمیری حقوق کے لیے کام کرنے والے کئی رہنماؤں نے، جن میں اکثریت جلاوطن رہنماؤں کی ہے، بھارت پر الزام لگایا ہے کہ ’’ہندستان، کشمیر پر ’اسرائیل ماڈل‘ لاگو کرنے کی کوشش کر رہا ہے کیونکہ نئی آئینی ترامیم کے ذریعے تمام ہندستانیوں کو کشمیر میں زمین خریدنے اور آباد ہونے کا حق دے دیا گیا ہے‘‘۔ ۱۵ بھارتی اہلکار بھی اپنے بیانات کے ذریعے ان الزامات کو تقویت دے رہے ہیں۔ مثلاً نیویارک میں تعینات بھارتی کاؤنسل جنرل سندیپ چکرورتی ایک بیان میں کھل کر یہ مطالبہ کر چکے ہیں کہ ’’کشمیر میں بھی ’اسرائیل ماڈل‘ کی نقل کی جائے‘‘۔ ۱۶
آرٹیکل ۳۷۰ اور ۳۵ -اے کے خاتمے پر اسرائیلی ردعمل وہی تھا جو ایک قابض ریاست کا ہو سکتا ہے۔ اسرائیلی سفیر رون مالکا نے بھارتی اقدامات کا دفاع کرتے ہوئے کہا: ’’ہمارے نزدیک یہ معاملہ بھارت کی سرحدوں کے اندر کا ہے۔ چونکہ یہ ہندستان تک ہی محدود ہے، اس لیے ہم اسے ہندستان کا داخلی معاملہ سمجھتے ہیں‘‘۔ ۱۷ بالکل اسی طرح جیسے اسرائیل اپنے ظالمانہ طرزِ عمل پر پردہ ڈالنے کے لیے جمہوری لبادہ اوڑھ لیتا ہے، اور ساتھ ہی سفیر صاحب نے بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت قرار دیا اور بھارت کے ساتھ دوستی کا اعادہ کیا۔
اسرائیل کی جانب سے دور و نزدیک کے علاقوں میں فلسطین پسند عناصر کے خلاف کارروائیاں تو معمول ہیں، لیکن بھارت بھی کشمیر میں اسرائیل مخالف اور فلسطین پسند حلقوں کو دبانے کی اپنی ایک تاریخ رکھتا ہے۔ اگرچہ پی ایل او (PLO) کی قیادت خصوصاً یاسر عرفات ماضی میں بھارت کو اپنا ہمدرد قرار دیتے آئے ہیں، لیکن کشمیری شروع سے ہی فلسطین پر اسرائیلی قبضے کو کشمیر پر بھارتی قبضے کے مماثل سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیریوں اور فلسطینیوں کے درمیان باہمی یکجہتی کا ایک گہرا رشتہ پایا جاتا ہے۔ فلسطینی بھی کشمیری جدوجہد آزادی کی حمایت کرتے ہیں۔
ہندستان اور اس کے دفاعی ادارے کشمیر یوں کے فلسطین پسند جذبات کو بھارت مخالف جذبات سمجھتے ہوئے انھیں بزور طاقت دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثلاً ۲۰۱۴ء میں غزہ پر اسرائیلی بمباری کے خلاف ہونے والے مظاہرے میں بھارتی پولیس نے ایک نوجوان سہیل احمد کو شہید کردیا تھا۔ مئی ۲۰۲۱ء میں فلسطینیوں نے اسرائیلی نوآبادیات کے خلاف احتجاج شروع کیا، تو بھارتی سرکار نے کشمیر میں ۲۱ کارکنوں کو اس لیے گرفتارکر لیا کہ وہ اس احتجاج کی حمایت کر رہے تھے۔ کشمیریوں کو مزید خبردار کرنے کے لیے کشمیری پولیس نے سوشل میڈیا پر بیان بھی جاری کیا کہ ’’فلسطین کی کشیدہ صورتِ حال کو کشمیر میں حالات خراب کرنے کے لیے استعمال نہ کیا جائے‘‘۔ ۱۸
اپنے مشترکہ مصائب کو دیکھتے ہوئے کشمیری اور فلسطینی حریت پسندوں نے اپنی جدوجہد میں مماثلت تلاش کرنا شروع کر دی ہے۔ وہ اب پہچاننے لگے ہیں کہ ان کے خلاف استعمال ہونے والی ٹکنالوجی قابض ریاستوں کے تزویراتی تعلقات سے منسلک ہے۔ مثال کے طور پر ۲۰۲۱ء میں ’فلسطین ایکشن‘ (Palestine Action) نامی تنظیم نے ’ایلبیٹ سسٹمز‘ (Elbit Systems) نامی ایک اسرائیلی اسلحہ ساز کمپنی کے خلاف برطانیہ میں مہم چلائی تھی کیونکہ اس کمپنی کے کارخانے برطانیہ میں ہیں۔ اپنی ویب سائٹ پر فلسطین ایکشن کا کہنا ہے کہ اس کمپنی کے خلاف احتجاج کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کی بنائی ہوئی ٹکنالوجی کشمیریوں کے خلاف استعمال ہوتی ہے۔
کشمیری اور فلسطینی عوام کا اتحاد ہمیں ایک اور موقعے پر بھی نظر آیا جب ۲۰۲۳ء میں بھارت نے ’جی۲۰ ‘کے صدر کے طور پر ’جی ۲۰ ‘اور ’وائے ۲۰ ‘کے اجلاس کشمیر میں منعقد کرنے کا فیصلہ کیا۔ دنیا بھر سے تعلق رکھنے والی آٹھ سول سوسائٹی تنظیموں نے مشترکہ طور پر ان اجلاسوں کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا، جن میںنیو یارک سے تعلق رکھنے والی فلسطینی تنظیم Within our Lifetime بھی شامل تھی۔
اسرائیلی موساد کے ہاتھوں کریم کی تفتیش کی طرح کشمیریوں اور فلسطینیوں کی اندرون و بیرون ملک مشترکہ جدوجہد بھی بھارت۔اسرائیل رشتے کو واضح کرتی ہے۔ ان دو ریاستوں کے نظریات اور مفادات مشترک ہیں اور یہی چیز ان کو قریب لے آئی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان اسلحے، سرمائے اور بیانیے کا اشتراک ہر گزرتے دن کے ساتھ دونوں ملکوں میں آمریت پسندی اور ظلم کو مزید تقویت پہنچا رہا ہے۔
حواشی
۱- رپورٹ: India’s War Crimes in Kashmir: Violence, Dissent & the War on Terror ، اسٹوک وائٹ انوسٹی گیشن، ۲۰۲۲ء، ص۲۸
۲- پی آر کمارا سوامی،India's Recognition of Israel, September 1950، مشمولہ Middle Eastern Studies، شمارہ ۳۱، ۱۹۹۵ء
۳- آزاد عیسیٰ، Hostile Homelands:The New Alliance Between India and Israel پلوٹو پریس، لندن، ۲۰۲۳ء
۴- ایضاً، ص ۳۴
۵- شیرہیور، The Privatisation of Israeli Security ،پلوٹو پریس، لندن، ۲۰۱۸ء
۶- نیوو گورڈن،The Pditical Economy of Israel's Homeland Security/Surveillance Industry ، ۲۰۰۹ء، ص۳
۷- محمد جنید، From a Distance Shore to War at Home: 9/11 and Kashmir،مشمولہ: South Asian Review، شمارہ ۴۲/۴، ۲۰۲۱ء، ص۴۱۷
۸- ایضاً، ص۴۱۹
۹- آزاد عیسیٰ، ایضاً، ص ۴۷
۱۰- مضمون: ، India Lacks Killer Instinct،مشمولہ:The Times of India، ۲۳جولائی ۲۰۰۹ء
۱۱- ایضاً
۱۲- اندرانی پاگچی، India, Israel Elevate Their Ties to Strategic Partnership، مشمولہ: The Times of India ، ۱۶جولائی ۲۰۱۷ء
۱۳- شاراڈویس اور جورے فان برگن، India Spy Agency Bought Hardware،مشمولہ: Organized Crime and Corruption Project، ۲۰؍اکتوبر ۲۰۲۲ء
۱۴- ایس چتورویدی، I am a Troll: Inside the Secret World of The BJP's Digital Army،جگرناٹ بکس، نئی دہلی، ۲۰۱۶ء
۱۵- رپورتاژ، India Replicating Israeli Model in Kashmir ،مشمولہ: The Express Tribune، یکم اکتوبر ۲۰۲۲ء
۱۶- رپورٹ، Anger Over India's Diplomat Calling for Israel Model in Kashmir، الجزیرہ، ۲۸نومبر ۲۰۱۹ء
۱۷- محمد صالح ظافر، Israel Announces Support to India on IHK ، اخبار The News، ۷ستمبر۲۰۱۹ء
۱۸- Religions Preacher Arrested after Parying for Palestine،اخبار، Outlook India، ۱۵مئی ۲۰۲۱ء
’جی۲۰سربراہی اجلاس‘ جو۹-۱۰ ستمبر ۲۰۲۳ء کو نئی دہلی میں ’’ایک زمین، ایک خاندان، ایک مستقبل‘‘ کے خوش نما نعرے کے تحت منعقد ہوا۔ دنیا کی بڑی معیشتوں کے رہنمائوں نے دیگر مسائل کے علاوہ 'بین الاقوامی امن کی حفاظت، اور 'پائیدار ترقی اور نمو، پر تبادلۂ خیال کیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بین الاقوامی امن، ترقی اور نمو اور مسئلہ کشمیر کے حل کے درمیان بھی کوئی تعلق ہے؟
یاد رہے اس گروپ کے چند ارکان ممالک پہلے ہی مختلف اوقات میں اس موضوع پر واضح موقف اختیار کرچکے ہیں:
ہم نے یہاں یاددہانی کے لیے یہ موقف پیش کیے ہیں، تاکہ جی ۲۰ ممالک کی قیادت اس حقیقت کو سمجھ سکے کہ کشمیر میں امن کے لیے ابھی موقع موجود ہے۔ ہندستان، کشمیر میں استصواب رائے کے انعقاد کا وعدہ پورا کرکے دنیا پر ثابت کرسکتا ہے کہ وہ واقعی ایک جمہوری ملک کہلانے کا حق دار ہے، نہ کہ مسلسل جارح اور عسکری جابر جیساکہ وہ بن گیا ہے۔ پی چدمبرم، جو کہ ہندستان کے تجربہ کار سفارت کار ہیں، انھوں نے ۳۱ جولائی ۲۰۱۶ء کو کہا تھا:’’اگر ہندستان چاہتا ہے کہ جموں و کشمیر کے لوگ ہندستان سے پیار کریں، تو اس کا واحد راستہ استصواب رائے عامہ ہے‘‘۔
دُنیا کے امن اور انصاف پسند چاہتے ہیں کہ جی۲۰ ممالک اس بات کو سمجھیں کہ تجارت اور تجارتی معاہدے اپنی جگہ اہم ہیں، لیکن یہ تجارت اعلیٰ اخلاقی اور عالمی اصولوں کی قیمت پر نہیں، جن کا عالمی طاقتوں نے ہمیشہ دعویٰ کیا ہے۔ اخلاقی اقدار اور انسانی حقوق ہی مہذب کہلانے کی روح ہیں۔ کشمیر میں جمہوریت اور انسانی حقوق سے انکار، خاص طور پر حقِ خود ارادیت سے محرومی نے جوہری ہتھیاروں اور میزائل کے بڑے پیمانے پر پھیلاؤ کو جنم دیا ہے۔ کشمیر ۷۶ برس سے زیادہ عرصے سے پاک بھارت تعلقات میں رستا ہوا زخم ہے۔ اسی لیے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے چاردیگر بین الاقوامی این جی اوز کے ساتھ مل کر ۲۴؍اگست ۲۰۲۳ء کو جی ۲۰ ممالک کو خط لکھا تھا کہ وہ بھارت کو کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو ختم کرنے اور جیلوں میں بند انسانی حقوق کے محافظوں اور سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے پر مجبور کریں۔ ہندستانی وزیر اعظم مودی کو یہ سمجھنا چاہیے کہ پیسے کے زور پر جموں و کشمیر کے مسائل کو حل نہیں کیا جاسکتا۔ اس سے جبر، سڑکوں پر تشدد، عصمت دری، قتل اور گمشدگیوں کے مسلسل صدمے کے مستقل اور غیر مستحکم ماحول کو دُور نہیں کیا جاسکتا، جو کشمیر میں ہندستان کی تاریخ کی پہچان چلا آرہا ہے۔
محض نعروں، دعوئوں، اقتصادی پیکج اور جی ۲۰ ٹورازم ڈپلومیسی سے مسئلہ کشمیر کبھی حل نہیں ہوگا۔ کشمیر ایک بین الاقوامی اور انسانی مسئلہ ہے، جس کا سیاسی حل ضروری ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے درج ذیل فوری اقدامات ضروری ہیں: lکشمیر میں بھارتی مسلح افواج کے وحشیانہ تشدد کو جلداز جلد ختم کرنے کے لیے بین الاقوامی برادری کی مداخلت l جنگ بندی لائن کے دونوں طرف ریاست جموں و کشمیر کو غیرفوجی علاقہ قرار دیا جائے lمحمد یاسین ملک، شبیر احمد شاہ، مسرت عالم ، آسیہ اندرابی ، خرم پرویز اور دیگرتمام سیاسی قیدیوں کی رہائیl ہندستان، پاکستان اور جموں و کشمیر کے لوگوں کی قیادت سمیت تمام متعلقہ فریقوں کے درمیان سیاسی مذاکرات کا آغاز ہو، تاکہ جمہوری اور پُرامن حل کے لیے فضا ہموار کی جاسکے۔
یاد رہے، ۱۹۳۸ء میں، برطانوی وزیر اعظم، نیویل چیمبرلین نے چیکوسلواکیہ کے لیے نازی خطرے کا مذاق اُڑایا تھا: ’’یہ ایک دُور دراز ملک کے بارے تنازع ہے‘‘، مگر اس کی غیرذمہ دارانہ غفلت نے دوسری جنگ عظیم کو جنم دیا۔ جی ۲۰ کو اس سے سبق سیکھنا چاہیے اور اسی طرح کی تباہی سے بچنے کے لیے کشمیر کو نظر انداز کرنا بند کرنا چاہیے۔
اس دن قاہرہ کے علاقے رابعہ العدویہ چوک،قاہرہ میں ٹوٹنے والی قیامت کے بہت سے ثبوت موجود ہیں۔ عینی شاہدین، تصاویر، ویڈیوز، یہاں تک کہ ایک مکمل دستاویزی فلم بھی (Memories of a Massacre،ایک قتل عام کی یادیں)، جو اگست۲۰۲۳ء میں جاری کی گئی ہے۔ ان تمام شواہد کے باوجود وہاں موجود متاثرین کا کہنا ہے کہ ایک عشرہ قبل ہونے والے اس قتل عام میں ملوث کسی بھی ایک کردار کو آج تک قرار واقعی سزا نہیں ملی۔
۱۴ ؍اگست ۲۰۱۳ء کو رابعہ العدویہ چوک میں تقریباً ۸۵ ہزار افراد،اپنے وطن عزیز میں فوجی مداخلت سے پیدا شدہ صورتِ حال کے خلاف احتجاج کر رہے تھے، کہ مصری مسلح افواج نے جنرل سیسی کی قیادت میں انھیں گھیرے میں لے لیا۔ وہ مظاہرین یہاں اس لیے جمع ہوئے تھے کہ گذشتہ مہینے جولائی (۲۰۱۳ء) میں مصری فوج نے منتخب صدر محمد مرسی کا تختہ اُلٹ کر حکومت پر قبضہ کر لیا تھا۔ محمد مرسی اخوان المسلمون میں بھی ایک اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ اس کارروائی کے بعد ان کے حامی مصر کے مختلف علاقوں میں جمع ہورہے تھے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق مصری مسلح افواج نے مظاہرین کو منتشر ہونے کا حکم دیتے ہی ان پر گولیاں برسانا شروع کر دیں۔ مختلف اندازوں کے مطابق اس دن ۶۰۰ سے ۱۰۰۰ کے درمیان پُرامن اور نہتے شہریوں کو بلا اشتعال موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
مصری فوجی حکومت، انسانی حقوق کے اداروں کی مذکورہ بالا رپورٹوں کو[کمال ڈھٹائی سے] ’جانب دارانہ‘ قرار دیتی ہے۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان رپورٹوں کی تردید کے لیے جنرل سیسی کی حکومت نے کسی درجے میں غیر جانب دارانہ تحقیقات کی ضرورت محسوس کی ہے اور نہ اس ضمن میں کسی سوال کا جواب دیا ہے۔ تاہم، عالمی دبائو بڑھنے پر مصری حکومت نے اس قتل عام کے متعلق اندرونی طور پر تحقیقات کا اعلان کیا تھا، اور ۲۰۱۳ء کے اواخر میں حقائق کی نشاندہی کے لیے ایک کمیشن تشکیل دیا تھا،جب کہ ایک دوسری تفتیش انسانی حقوق کی مصری کونسل کے تحت کی گئی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ دونوں تحقیقات، صدرمرسی کی جبری برطرفی کے خلاف مظاہرین ہی کو قصوروار قرار دیتی ہیں، کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ ’’اکثر یت مسلح ہتھیاروں سے لیس تھی‘‘۔ دوسری طرف عینی شاہدین اس دعویٰ کو باطل قرار دیتے ہیں۔ بہرحال دونوں تحقیقاتی رپورٹیں اس بات پر متفق ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے طاقت کا بلاجواز اور بے حساب استعمال کیا، لیکن قصورواروں کے لیے کوئی سزا تجویز نہیں کرتیں۔
۲۰۱۸ء میں اسی فوجی نظام کے تابع مصری حکومت نے ایک قانون کے ذریعے اعلیٰ فوجی افسروں کو عدالتی استثنا فراہم کر دیا تھا۔اس قانون کی رُو سے ’’۲۰۱۳ء میں آئین کی معطلی سے لے کر پارلیمنٹ کے اگلے اجلاس تک فوجی افسران کے تمام اعمال عدالتی مواخذے سے مستثنیٰ ہیں‘‘۔ اس کے بعد ۲۰۲۱ء میں مصری فوجی حکومت نے اپنی ’دستوری سپریم کورٹ‘ سے متعلق قوانین میں بھی تبدیلیاں کی ہیں۔
ان ترامیم کی رُو سے یہ قرار دیا گیا ہے کہ اگر مستقبل میں کوئی بھی بین الاقوامی عدالت یا ادارہ مصری سرکار کو انسانیت کے خلاف جرائم کا مرتکب اور سزا کا حق دار قرار دیتا ہے تو اس معاملے کو بھی کارروائی کے لیے مصری سپریم کورٹ کے پاس ہی بھیجا جائے گا، اور یہی مصری سپریم کورٹ حتمی فیصلہ کرے گی کہ بیرونی اداروں کا فیصلہ درست اور قابل عمل ہے یا نہیں۔ انسانی حقوق کی وکیل مے السادانے کہتی ہیں: ’’یہ ترامیم ایک واضح پیغام ہے۔ اپنے شہریوں کو بتایا جا رہا ہے کہ انسانیت کے مجرم اپنی کارروائیاں اسی طرح قانونی استثنیٰ کے ساتھ جاری رکھیں گے، جب کہ بین الاقوامی برادری کو کھلا پیغام دیا جارہا ہے کہ مصر بین الاقوامی نظام کے تابع نہیں ہے‘‘۔
۲۰۱۴ء میں مصری وکلا اور صدر محمد مرسی کی حریت و انصاف پارٹی نے بین الاقوامی فوجداری عدالت سے مطالبہ کیا تھا کہ رابعہ میں ہونے والے قتل عام اور انسانیت کے خلاف جرائم کی تحقیقات کی جائیں۔ لیکن اس عدالت نے ان کی درخواست کو اس اعتراض کے ساتھ رد کر دیا تھا کہ’’ درخواست گزار مصری حکومت کے نمایندہ نہیں ہیں‘‘۔
۲۰۱۵ء میں حریت و انصاف پارٹی کے وکلا نے برطانوی پولیس سے درخواست کی تھی کہ جنرل محمود حجازی کو گرفتار کر لیا جائے جو ان دنوں ہتھیاروں کی ایک نمائش میں شرکت کے لیے برطانیہ آ رہے تھے کہ ان پر تشدد اور رابعہ آپریشن میں براہ راست ملوث ہونے کا الزام ہے۔ تاہم، پولیس نے اس بنیاد پر یہ درخواست رد کر دی تھی کہ ’’جنرل حجازی کو سفارتی استثنیٰ حاصل ہے‘‘۔
روپرٹ سکل بیک لندن میں ’مداوا‘ (Redress) کے نام سےقائم ایک ادارے کے سربراہ ہیں، جو تشدد کا شکار ہونے والے افراد کو قانونی مدد فراہم کرتا ہے۔ ان کے مطابق: ’’مصریوں کے پاس واحد راستہ یہی ہے کہ اقوام متحدہ کی مختلف کمیٹیوں کے ذریعے تحقیقات کی درخواست دیں یا قضائے عالمی (Universal Jurisdiction) کے تحت عالمی اداروں سے کارروائی کا مطالبہ کریں‘‘۔
lکیا قضائے عالمی کا اصول معاون ہوسکتا ہـے ؟ :سکل بیک کا کہنا ہے: ’’اس معاملے کو حقیقت پسندی کی نظر سے دیکھا جائے تو قضائے عالمی کا اصول بھی اس قدر معاون نظر نہیں آتا کیونکہ مصر کی جانب سے اپنے اعلیٰ حکام کو ملک بدر کرنے یا کسی اور ملک کے حوالے کیے جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ یہاں تک کہ جرمنی میںبھی ، جہاں اس قانون کا استعمال سب سے زیادہ کیاجاتا ہے، یہ مقدمہ چلنا مشکل ہے۔ ‘‘
برلن میں قائم ’یورپی ادارہ برائے انسانی و دستوری حقوق‘ کے ڈائریکٹر،اینڈریاس شلر کا کہنا ہے:’’سب سے پہلے تو آپ کو قانون میں مقررہ تعریف کے مطابق یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ واقعی انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیاگیا ہے؟‘‘ حال ہی میں شام کے جنگی مجرموں کے خلاف جرمنی میں جو مقدمے چلائے گئے ہیں، ان کا بنیادی محرک یہی تنظیم تھی۔ ان کا کہنا ہے: ’’عدالت یا ادارے کی جانب سے اس واقعے کو انسانیت کے خلاف جرم قرار دینے کے لیے بہت محنت درکار ہے‘‘۔
اس قانون کے تحت شامی مجرمان کے خلاف مقدمہ کی کئی وجوہ تھیں۔مثلاً گواہان، شواہد اور مجرمان کی جرمنی میں موجودگی اور جرمنی کا سیاسی عزم۔ اینڈریاس کا کہنا ہے: ’’یہ معاملہ شام کی صورتِ حال سے مختلف ہے۔ شامی حکومت کے ساتھ جرمنی کے سفارتی تعلقات نہیں تھے،جب کہ مصری حکومت کو بین الاقوامی طور پر اچھی خاصی حمایت حاصل ہے۔ مزیدبرآں مصری حکومت نے بین الاقوامی فوجداری عدالت اور اقوام متحدہ کے متعلقہ چارٹر پر بھی دستخظ نہیں کیے ہیں۔ چنانچہ کوئی بھی ملک ان کی شنوائی کے لیے تیار نہیں ہے۔
سکل بیک کا کہنا ہے: ’’انسانی حقوق کے لیے کام کرتے ہوئے یہ مشکل اکثر پیش آتی ہے کہ کچھ مغربی ممالک سیاسی مصلحتوں کے باعث دیگر ممالک میں انسانی حقوق کے مسائل کو لے کر واضح مؤقف اختیار نہیں کرتے ‘‘۔
’ہیومن رائٹس واچ‘ سے تعلق رکھنے والے سینئر محقق امر مگدی بھی اسی موقف کے طرف دار ہیں: ’’خطے کی سیاسی صورتِ حال کے باعث مصر میں ہونے والی انسانی حقوق کی یہ خلاف ورزیاں نظر انداز ہوئی ہیں۔ اس زمانے میں یمن، لیبیا، شام سمیت سارا خطہ انھی مسائل سے دوچار تھا۔ مصری حکومت نے بین الاقوامی برادری کے مفادات کا بڑی مہارت سے فائدہ اٹھایا ہے۔ موجودہ حکومت نقل مکانی، دفاع اور معاش جیسے معاملات میں مغربی ممالک کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے اور بدلے میں یہ ممالک جمہوریت اور انسانی حقوق کے معاملے میں مصری حکومت کے جرائم کو نظرانداز کر دیتے ہیں‘‘۔
تاہم، پچھلے ایک عشرے میں صورتِ حال کافی تبدیل ہو چکی ہے۔ جنرل عبدالفتح السیسی کی حکومت اپنے آمرانہ طرز عمل اور انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزیوں کے باعث تنقید کی زد میں رہتی ہے۔ سکل بیک کا کہنا ہے: ’’یہ ایک اچھا نکتہ ہے۔ یہ ساری کاروائی واقعے کے فوراً بعد کی گئی تھی۔ جب معاملہ گرم ہو تو لوگ ردعمل میں محتاط رہتے ہیں۔ ایسے واقعات میں عموماً شواہد اکٹھے کرنے کے لیے طویل عرصہ درکار ہوتا ہے۔ اس ضمن میں طویل عرصے سے جاری روانڈا، کمبوڈیا، سابقہ یوگوسلاویہ اور جنگ عظیم دوم کے مقدموں کی مثال بھی موجود ہے، اور ایک عام قتل کے مقدمے کو بھی کسی نتیجے تک پہنچنے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔ اس لیے ان مقدمات میں بھی وقت صرف ہوسکتا ہے۔ تاہم، ہمارے پاس اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ہے‘‘۔(انگریزی سے ترجمہ:اطہر رسول حیدر)
یہ ایک چشم کشا مضمون ہے۔ چین کی سفارت کاری سے سعودی عرب اور ایران میں بحالی تعلقات کی جو خوش آیند کیفیت پیدا ہوئی ہے، امریکا اور اسرائیل اسے بے اثر بناکر شرق اوسط میں بے اطمینانی کا ایک نیا کھیل کھیلنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک بڑا خطرناک کھیل ہے، جس کا مسلم دُنیا کی حکومتی، ریاستی، صحافتی اور دانش ور قوتوں کو بروقت نوٹس لینا چاہیے۔ امریکی سفارتی جارحیت کا راستہ روک کر، چین کی پہل قدمی سے شرق اوسط جس سمت بڑھ سکتا ہے، اس کی تائید کے لیے ہمہ پہلو کوششیں کرنی چاہئیں۔ پاکستانی وزارتِ خارجہ کو اس پر ضروری مشاورت اور اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔ تحریک اسلامی پر لازم ہے ان موضوعات پر عوامی دبائو کو مؤثر بنائے۔(مدیر)
جہاں ایک طرف ایران اور سعودی عرب کے درمیان تاریخی معاہدہ امریکا کی بائیڈن حکومت کے لیے زبردست دھچکا ثابت ہوا ہے، وہیں اس میں موجودہ امریکی حکومت کے لیے کئی مشکلات بھی پوشیدہ ہیں۔ ایران و سعودی عرب کی صلح نے مشرق وسطیٰ میں امریکا کے کئی علاقائی اہداف خطرے میں ڈال دیئے ہیں۔ مثلاً طویل عرصے سے ایران کو تنہا کرنے اور سعودی عرب واسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات قائم کرنے کی امریکی امیدوں پر پانی پھر چکا ہے۔ اس معاہدے پر ثالثی کا کردار ادا کر کے چین نے مشرق وسطیٰ میں ایک اہم طاقت کے طور پر اپنی حیثیت مستحکم کر لی ہے۔ اب اس معاہدے نے مقامی ریاستوں کے تعلقات کو یکسر تبدیل کر کے خطے کی سفارتی ہیئت پر اثر ڈالنا شروع کیا ہے، تو امریکا کے لیے اپنی بے چینی چھپانا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔
بائیڈن حکومت اب خطے میں چینی اثر کو کم اور اپنی ساکھ کو بحال کرنے کی کوششیں کر رہی ہے۔ صدر بائیڈن نے تصدیق کی ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے لیے سعودی عرب کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔ ۲۸ جولائی کو اپنی اگلی انتخابی مہم کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کی غرض سے منعقدہ ایک دعوت سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا: ’’صلح کا امکان موجود ہے‘‘، البتہ انھوں نے اس سے زیادہ معلومات فراہم کرنے سے گریز کیا۔ تاہم، اس بارے میں ایک دن قبل نیویارک ٹائمز میں شائع شدہ ایک مضمون میں تھامس فرائیڈمین نے کچھ معلومات فراہم کی ہیں، جنھوں نے گذشتہ ہفتے بائیڈن کا انٹرویو کیا تھا۔ ان کا کہنا ہے: ’’بائیڈن حکومت شرق اوسط میں ایک ’بڑی سودے بازی‘ پر کام کر رہی ہے۔ اس معاہدے کے تحت سعودیہ کے تعلقات اسرائیل سے قائم کروائے جائیں گے اور بدلے میں دونوں ممالک کو امریکا سے ایک دفاعی معاہدہ حاصل ہو گا۔ سعودیہ، مغربی کنارے کے فلسطینیوں کے لیے ایک بڑے امدادی پیکج کا اعلان کرے گا اور چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو محدود کر لے گا۔ جس کے بدلے میں اسرائیل مغربی کنارے پر قبضے کا منصوبہ ترک کر دے گا، وہاں آبادکاری کا عمل روک کر مسئلے کے دوریاستی حل پر راضی ہوجائے گا۔ اس کے ردعمل میں فلسطینی انتظامیہ ’سعودی-اسرائیل معاہدے‘ کی توثیق کرے گی‘‘۔
حال ہی میں ایک اعلیٰ سطحی امریکی وفد نے ولی عہدمحمد بن سلمان سے ملاقات میں ظاہر کیا ہے کہ امریکی خطے میں ایسے معاہدے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ وایٹ ہائوس کے نمایندے نے یہ کہا کہ ۲۷ جولائی کو سعودی رہنماؤں کی امریکا کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان اور نمایندہ برائے مشرق وسطیٰ بریٹ مکگرک کے ساتھ ملاقات میں اسرائیل کے ساتھ صلح پر بات چیت ہوئی ہے۔ تاہم، دونوں طرف سے جاری ہونے والے سرکاری بیانات میں اس کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔
اگرچہ ابھی کوئی ٹھوس پیش قدمی تو نہیں ہوئی ہے، لیکن مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی صدر کے پیش نظر معاہدے پر کئی قسم کے سوالات پیدا ہوئے ہیں۔ وایٹ ہائوس کی جانب سے اس قسم کے معاہدوں کے لیے اب کوششیں کیوں کی جا رہی ہیں؟ اس کے مقاصد کیا ہیں؟ ان کوششوں کی کامیابی کے امکانات کس قدر ہیں؟ اگر اس قسم کا معاہدہ ہو بھی جاتا ہے، تو کیااس پر عمل ہوپائے گا؟
ہم پہلے موقع محل کی بات کرتے ہیں۔ واشنگٹن بہت عرصے سے سعودی عرب اور اسرائیل تعلقات کی استواری کے لیے کوشش کر رہا ہے۔ ۲۰۲۰ء میں ’ابراہیمی معاہدوں‘ کے تحت کئی عرب ریاستوں کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات استوار ہونے کے بعد ان کوششوں میں بھی تیزی آ چکی ہے۔ خبروں کے مطابق سعودیہ کی جانب سے بدلے میں کئی اہم مطالبات کیےگئے ہیں، مثلاً امریکا کے ساتھ ایک دفاعی معاہدہ، ایک غیر عسکری نیوکلیئر معاہدہ، میزائیل ڈیفنس سسٹم اور دیگر جدید آلات، اور فلسطینیوں کے لیے اسرائیل سے کئی قسم کی رعایتیں۔ حالیہ ایران سعودی صلح نے یقیناً سعودیہ کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کو متاثر کیا ہے، مگر دوسری جانب اس سودے بازی میں سعودی عرب کی پوزیشن مزید بہتر بھی ہو گئی ہے۔ لیکن اس معاہدے کے بعد امریکی کوششوں میں بھی تیزی آ گئی ہے اور اب امریکا خطے میں اپنا کھویا ہوا اثر و رسوخ بحال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
اس سال کے اختتام تک امریکی صدارتی انتخابی سرگرمیاں شروع ہو جائیں گی۔ اس صورت میں امریکی توجہ اندرونی سیاست کی جانب مرکوز ہو جائے گی۔ صدر بائیڈن نے اس معاملے کا ذکر بھی انتخابات سے متعلق ایک تقریب میں کیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ وہ اس کے ذریعے اپنی اندرونی سیاست میں بھی کچھ فوائد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ معاہدہ اس لیے بھی اہم ہوگا کہ آیندہ انتخابات میں صدر بائیڈن کے پاس اپنی خارجہ پالیسی کے حق میںاس معاہدے کے علاوہ دکھانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ ان انتخابات میں صدر بائیڈن کو اپنی فتح کے امکانات بہتر کرنے کے لیے ہر قسم کی مدد درکار ہے۔ لیکن اسی تناظر میں دیکھا جائے تو ان کی یہ کوششیں ذرا تاخیر کا شکار دکھائی دیتی ہیں، کیونکہ اس قسم کے پیچیدہ اور پہلو دار معاہدے کے لیے طویل مذاکرات درکار ہوں گے۔ مزید برآں اگر کوئی معاہدہ ہو بھی جائے، تو بائیڈن کی صدارت خطرے سے دوچار ہے۔
اس معاہدے سے حاصل ہونے والے اہداف بڑے واضح ہیں: خطے میں امریکی بالادستی کی بحالی، چین کی سفارتی و معاشی کامیابیوں کا تدارک، امریکی و اسرائیلی مفادات کے حق میں علاقائی سیاست کی تنظیم نو۔ اس سب کے ساتھ اگر مغربی کنارے کے فلسطینیوں کو کچھ چھوٹ مل جائے تو اس میں بھی امریکی فائدہ ہے۔ اس سے عرب اور دیگر مسلم ریاستوں میں واشنگٹن کے لیے مثبت جذبات پیدا ہوں گے، چاہے حتمی اور نقد فائدہ اسرائیل کو ہی پہنچے!
ایسی سفارتی کامیابی کے امکانات کم ہیں کیونکہ چار فریقین (امریکا، اسرائیل، سعودی عرب اور فلسطین) کے درمیان مذاکرات کی راہ میں کئی مشکلات حائل ہیں۔ حال ہی میں امریکا نے مشرق وسطیٰ میں اپنی عسکری موجودگی بڑھانے کا اعلان کیا ہے، جس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ واشنگٹن یہاں اپنا رسوخ بڑھانے میں سنجیدہ ہے۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب فریقین امریکا اور معاہدے میں مذکور شرائط اور رعایتوں پر عمل درآمد کروانے کی اس کی صلاحیت پر اعتبار کرسکتے ہیں؟ یہ سوال جواب طلب ہے اور یہ دیکھتے ہوئےکہ امریکا میں صدارتی انتخابات کی آمد آمد ہے، جواب کاملنا مزید مشکل ہو جاتا ہے۔ قیاس ہے کہ کوئی بھی حتمی معاہدہ کرنے سے قبل سعودی و اسرائیلی حکومتیں، امریکی انتخابات کے نتائج کا انتظار کریں گی۔ گذشتہ برسوں میں دونوں ریاستوں کے بائیڈن حکومت کے ساتھ تعلقات تناؤ کا شکار رہے ہیں۔
بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین امریکی انتظامیہ کے اس مجوزہ معاہدے کو ایک ’ناقابل عمل‘ منصوبہ اور دورازکار سمجھتے ہیں،جب کہ فرائیڈمین نے اسے ایک دور کی کوڑی قرار دیا ہے۔ ان مذاکرات کو وسعت دینے کے لیے سعودیوں، اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کو بنیادی قسم کے سمجھوتے کرنے ہوں گے۔ کیا امریکا اب بھی ان ریاستوں پر اس قدر رسوخ رکھتا ہے کہ انھیں سمجھوتوں پر مجبور کر سکے؟ اس سوال کا جواب واضح نہیں ہے۔ اسرائیل میں قومی سلامتی کے مشیر کا کہنا ہے کہ اس قسم کے معاہدے کے لیے ابھی طویل سفر طے کرنا ہو گا، جب کہ انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے حکومتی وزرا نے فلسطینیوں کو کسی قسم کی رعایت دینے کی مخالفت کی ہے۔ اس سب کے علاوہ ایک مسئلہ امریکی کانگریس کی منظوری کا ہے جہاں ری پبلکن اراکین سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدے کے لیے آسانی سے راضی نہیں ہوں گے، جب کہ ڈیموکریٹ اراکین کو کسی ایسے حل کے لیے مطمئن کرنا مشکل ہو گا جو دو ریاستی فارمولے سے متصادم ہو یا فلسطینیوں کے حقوق کو پامال کرتا ہو۔
ان تمام مشکلات کو دیکھتے ہوئے اس قسم کے معاہدے کے لیے امکانات کافی کم ہیں۔ تاہم، آخر کار سفارت کاری بھی سیاست کی طرح ناممکن کو ممکن کر دکھانے کا نام ہے!
(بشکریہ روزنامہ ڈان، ترجمہ:اطہر رسول حیدر)
وزیر اعظم نریندر مودی حکومت نے ۵؍اگست ۲۰۱۹ء میں جموں و کشمیر کی آئینی خود مختاری ختم اور ریاست کو تحلیل کرکے مرکز کے زیر انتظام دو علاقے بنانے کا جو قدم اُٹھایا تھا،اس کے خلاف دائر کی گئی درخواستوں پر فی الوقت بھارتی سپریم کورٹ روزانہ سماعت کر رہی ہے۔ پیر اور جمعہ چھوڑ کر ہفتے کے بقیہ تین دنوں میں سپریم کورٹ کا پانچ رکنی آئینی بینچ صرف اسی مقدمے کی سماعت کر رہا ہے۔ ۲؍اگست ۲۰۲۳ء کو جب سماعت شروع ہوئی، تو چیف جسٹس ، جسٹس دھنن جے یشونت چندرا چوڑ نے اعلان کیا کہ ’’اس ایشو پر کُل ۶۰گھنٹے کی سماعت ہوگی‘‘۔ اس لیے اگست کے آخر تک سماعت مکمل ہونے کا امکان ہے۔
اس مقدمے کا فیصلہ جو بھی ہو ، مگر وکیلوں کے دلائل، ججوں کے سوالات اور کورٹ میں جمع کرایا گیا تحریری مواد ، کشمیر کے موضوع سے دلچسپی رکھنے والوں کے علاوہ قانون و سیاست کے کسی بھی طالب علم کے لیے ایک بڑ ا خزانہ ہے۔ عدالت میں۱۳ہزار ۵ سو ۱۵ صفحات پر مشتمل دستاویزات کے علاوہ ۲۸جلدوں پر مشتمل ۱۶ ہزار ایک سو۱۱ صفحات پر مشتمل کیس فائلز دائر کی گئی ہیں۔ کئی شہرۂ آفاق کتابیں Oxford Constitutional Theory, The Federal Contract اور The Transfer of Power by V P Menonکی جلدیں بھی کورٹ کے سپرد کردی گئی ہیں اور وکلا دلائل کے دوران ان کے نظائر اور شواہد پیش کر رہے ہیں۔ لیکن جس کتاب کے حوالوں کو سب سے زیادہ عدالت اور وکلا نے سوالات یا دلائل کے دوران استعمال کیا ہے وہ شہرۂ آفاق مصنف اے جی نورانی کی مدلل کتاب: Article 370: Constitutional History of Jammu and Kashmir ہے۔ بطور ایک ریسرچر کے اس کتاب میں تحقیقی معاونت سے منسلک ہونے کا مجھے اعزاز حاصل ہے۔
معروف وکیل کپل سبل نے ۲؍اگست کو بحث کا آغاز کرتے ہوئے ججوں کو یاد دلایا: ’’ یہ ایک تاریخی لمحہ ہے۔ تاہم، اس کیس کی سماعت کا آغاز کرنے میں عدالت کو پانچ سال لگے۔ یہ اس لیے بھی تاریخی ہے کہ پچھلے پانچ برسوں کے دوران میں، جموں و کشمیر میںکوئی نمایندہ حکومت نہیں ہے‘‘۔ اس کے بعد کپل سبل نے ترتیب زمانی کے ساتھ تاریخوں کی ایک فہرست پڑھی، جس میں ان عوامل کی نشاندہی کی گئی کہ جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ کیوں دیا گیا تھا؟ انھوں نے کہا: ’’کشمیر کے لیے ایک علیحدہ ستور ساز اسمبلی تشکیل دی گئی تھی۔ پارلیمنٹ خود کو دستور سا ز اسمبلی میں تبدیل نہیں کرسکتی۔ جب ایک بار آئین منظور ہو جاتا ہے، تو ہر ادارہ اس پر عمل کرنے کا پابند ہوتا ہے۔
۱۸۴۶ء کے ’معاہدۂ امرتسر‘ سے لے کر ۱۹۴۷ء کی ’دستاویزالحاق‘ کی شقوں کو بنیاد بنا کر کپل سبل نے تقریباً ڈھائی دن تک بحث کی۔ انھوں نے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن کا وہ خط بھی پڑھا، جس میں انھوں نے الحاق کے سوال کو عوامی رائے کے ذریعے طے کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ ان دستاویزات کے مطابق، بھارت کی دیگر ریاستوں کے لیے وفاق کے پاس جو اختیارات ہیں، ان کے برعکس ،بقیہ اختیارات جموں و کشمیر ریاست کے پاس ہی ہیں۔ انھوں نے مزید کہا:میرا نکتہ یہ ہے کہ، حکومت ہند اور ریاست کے درمیان ایک مفاہمت تھی کہ ان کی ایک آئین ساز اسمبلی ہوگی جو مستقبل کے لائحہ عمل کا تعین کرے گی‘‘۔
کپل سبل نے کہا: اس لیے آرٹیکل ۳۷۰ ایک عارضی انتظام تھا، کیونکہ یہ جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کو طے کرنا تھا کہ وہ اس کو مستقل بنیادوں پر رکھنا چاہتی ہے یا منسوخ کرنا چاہتی ہے؟ اس دوران چیف جسٹس نے بار بار پوچھا کہ ’’آئین ساز اسمبلی تو سات سال کی مدت ختم کرنے کے بعد اس دفعہ پر کوئی فیصلہ کرنے سے قبل ہی تحلیل ہوگئی ، تو ا ب اس دفعہ کی ترمیم وغیرہ کے لیے کیا طریقۂ کار ہے؟‘‘ سبل نے استدلال پیش کیا کہ ’’چونکہ جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کا وجود ختم ہو گیا ہے، اس لیے آرٹیکل ۳۷۰ کو منسوخ نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا، آرٹیکل ۳۷۰ کی شق (۳) ناقابل اطلاق ہو جاتی ہے‘‘۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ’’ اگر سبل کی طرف سے پیش کردہ استدلال کو مدنظر رکھا جائے تو آرٹیکل ۳۷۰، جو کہ ایک 'عبوری پروویژن ہے، مستقل پوزیشن کا کردار ادا کرتا ہے کیونکہ اب کوئی آئین ساز اسمبلی موجود نہیں ہے‘‘۔ جسٹس کانت نے یہ بھی استفسار کیا کہ آرٹیکل ۳۷۰ کو کیسے عارضی سمجھا جا سکتا ہے جب یہ دلیل دی جاتی ہے کہ اس دفعہ کو کبھی منسوخ نہیں کیا جا سکتا؟‘‘ جسٹس کھنہ کے مطابق: ’’جس مسئلے پر توجہ دینا باقی ہے وہ یہ ہے کہ کیا آرٹیکل ۳۷۰ کی عارضی نوعیت، جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کی موروثی عارضی نوعیت سے ہم آہنگ ہے؟یعنی، ایک بار جب جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کا وجود ختم ہو گیا، کیا آرٹیکل ۳۷۰ کی شق (۳)، جو آرٹیکل ۳۷۰ کو منسوخ کرنے کی اجازت دیتی ہے، ناقابل عمل بن جاتی ہے؟‘‘
بحث کے دوسرے د ن کپل سبل نے عدالت کو بتایا:’’ آرٹیکل ۳۷۰(۱) کی شق (b )(i) بھارتی پارلیمنٹ کے وفاق کے تحت جموں و کشمیر کے لیے قانون بنانے کے اختیارات کو محدود کرتی ہے اور بھارتی آئین کے ساتویں شیڈول کی کنکرنٹ لسٹوں میں الحاق کی دستاویز میں مذکور مضامین کے سلسلے میں جموں و کشمیر حکومت کی ’مشاورت‘ کا لفظ درج ہے۔ دوسری طرف، آرٹیکل ۳۷۰(۱) کی شق (b) (ii)، پارلیمنٹ کو یونین کے تحت جموں و کشمیر کے لیے قانون بنانے کے اختیار میں توسیع کرتی ہے اور آئین کے ساتویں شیڈول کی کنکرنٹ لسٹیں معاملات کا احترام کرتی ہیں۔
اس سماعت کے آغاز میں، چیف جسٹس نے آرٹیکل ۳۷۰ پر چند مشاہدات پیش کیے: آرٹیکل ۳۷۰(۱) کی شق (b) پارلیمنٹ کو ریاست جموں و کشمیر کے لیے قانون بنانے کا اختیار نہیں دیتی۔ یعنی قانون بنانے کااختیار آرٹیکل ۳۷۰(۱)کے علاوہ کہیں اور ہے۔اس بحث میں حصہ لیتے ہوئے جسٹس کول نے کہا کہ آرٹیکل ۳۷۰(۱) کی شق (b) ایک محدود شق ہے۔ مزید یہ کہ آرٹیکل ۳۷۰(1) کی شق (b) (i) کے تحت جموں و کشمیر کے لیے قانون بنانے کی بھارتی پارلیمنٹ کی طاقت دو چیزوں پر محدود ہے۔سب سے پہلے، پارلیمنٹ کا دائرہ جموں و کشمیر پر لاگو قوانین بنانے کا اختیار صرف 'یونین اور کنکرنٹ لسٹ کے معاملات تک محدود ہے۔دوسرا، حکومت جموں و کشمیرکے ساتھ مشاورت یونین اور کنکرنٹ لسٹوں میں ایک شرط ہے جو دستاویز الحاق کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے۔ یعنی جموں و کشمیر سے متعلق کسی بھی معاملے میں ریاستی حکومت کی آمادگی اور رائے کی ضرورت ہے۔
دوسرا، یہاں تک کہ اگر صدر کوئی استثنیٰ اور ترمیم نہیں کر رہے ہیں، لیکن ہندستانی آئین کی کچھ شقوں کو جموں و کشمیر پر لاگو کیا جا رہا ہے، تب بھی جموں و کشمیر حکومت کی مشاورت یا 'اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ جسٹس کول نے یہ مسئلہ بھی اٹھایا کہ اگر دفعہ ۳۷۰ کا کوئی مستقل کردار نہیں ہے، تو پھر اس کو کس طریقے سے ختم کیا جا سکتا ہے اور کیا جو طریقۂ کار اپنایا گیا، وہ درست تھا؟‘‘
سبل کی دلیل تھی کہ آرٹیکل ۳۷۰ مختلف مراحل سے گزرا ہے۔ اس کا آغاز ایک عبوری انتظام کے طور پر ہوا، جس میں جموں و کشمیر میں ایک دستور ساز اسمبلی تشکیل کرنے کی سہولت فراہم کی گئی تھی۔ جب ایک بار جموں و کشمیر کی دستور ساز اسمبلی نے جموں و کشمیر کا ایک آئین بنا کر اپنا مقصد پورا کر لیا، جس میں ہندستانی آئین کے آرٹیکل ۳۷۰ کی توثیق کرنے والی مخصوص اور واضح دفعات موجود تھیں ، اس کے تحلیل ہونے کے بعد آرٹیکل ۳۷۰'منجمدہو گیا۔اس طرح اس دفعہ کے مستقل کردار کو قبول کیا گیا۔ اس کے بعد، سبل نے عرض کیا کہ جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی کےپاس ہندستانی آئین کے آرٹیکل ۳۷۰ کی شق (۳) کے تحت جموں و کشمیر کو دیے گئے اختیارات کو منسوخ کرنے کا اختیار نہیں ہے، کیونکہ اس طرح کے اختیارات کو منسوخ کرنے کا اختیار صرف آئین ساز اسمبلی کو دیا گیا تھا۔
جب جسٹس کول نے پوچھا کہ کیا ہندستانی پارلیمنٹ کے پاس ایسا کرنے کا اختیار ہے، تو سبل نے جواب دیا کہ یہ طے شدہ قانون ہے کہ قانون ساز ادارہ کسی ایسے اختیارپر مداخلت نہیں کرسکتا، جو پہلے اس کے پاس نہیں تھا، جیسا کہ سپریم کورٹ نے ایس آر بومائی بمقابلہ میں مشاہدہ کیا تھا۔اب سوال یہ تھا کہ کیا پارلیمنٹ آئین ساز اسمبلی کا کردار ادا کرسکتی ہے؟ اس پر چیف جسٹس نے خود ہی کہا کہ جب پارلیمنٹ آئین میں ترمیم کرتی ہے، تب بھی وہ آئین ساز اسمبلی کے اختیارات کا استعمال نہیں کر رہی ہوتی، بلکہ ایک جزوی طاقت کا استعمال کرتی ہے۔ جسٹس چندر چوڑ نے استدلال دیاکہ پارلیمنٹ اور آئین ساز اسمبلی دوالگ الگ ادارے ہیں اور پارلیمنٹ کے لیے خود کو آئین ساز اسمبلی میں تبدیل کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
سماعت کے تیسرے دن سبل نے عدالت کو بتایا: جموں و کشمیر کے گورنر ، جو خود ہی وفاق کا نمایندہ ہے کے ذریعے خصوصی حیثیت کو چھین لیا گیا اور بتایا گیا کہ ریاست کے ساتھ مشاورت کی گئی ہے۔ جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعظم شیخ عبداللہ کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے، سبل نے نشاندہی کی کہ اگرچہ آرٹیکل ۳۷۰ کو ایک عارضی شق قرار دیا جاتا ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ دفعہ ۳۷۰ کو 'یک طرفہ طور پر منسوخ، ترمیم یا تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ ۱۱؍ اگست ۱۹۵۲ء کی تقریر میں شیخ عبداللہ نے کہا تھا کہ آرٹیکل ۳۷۰ کی عارضی نوعیت جموں و کشمیر اور یونین آف انڈیا کے درمیان آئینی تعلقات کو حتمی شکل دینے کے پہلو میں ہے، جس کا اختیار خاص طور پر جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کے پاس ہے۔ ہندستان کے آئین نے یونین کے اختیارات کے دائرہ کار اور دائرہ اختیار کو الحاق کی شرائط کے ذریعے محدود کر دیا ہے ۔شیخ عبداللہ نے کہا کہ آرٹیکل ۳۷۰ ہندستان کے ساتھ ہمارے تعلقات کی بنیاد ہے۔ اس میں چھیڑ چھاڑ ، ہماری ریاست کی ہندستان کے ساتھ وابستگی پر اثر انداز ہو سکتی ہے اور اس کے سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ یہ بھی شیخ عبداللہ نے کہا کہ یہ دو حکومتوں کے درمیان معاہدے کی طرح ہے۔
سبل نے دلیل دی کہ دونوں خودمختارریاستوں یا مملکتوں کے ذریعے طے شدہ اور دستخط شدہ معاہدے کی ایک توقیر ہوتی ہے اور اس کو ختم نہیں کیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو جو کچھ ہوا، وہ ایک صدارتی حکم کے تحت کیا گیا۔ اس صدارتی آرڈرکے جاری ہونے سے پہلے راجیہ سبھا میں ایک قرارداد پیش کی گئی تھی، جس کے ذریعے جموں و کشمیر کی تنظیم نو کرکے اس کو دولخت کردیا گیا، جب کہ ضابطے میںیہ طے ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کے نام یا حدود کو تبدیل کرنے والا کوئی بل ریاستی مقننہ کی رضامندی کے بغیر پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ گورنر ایک 'مکمل اتھارٹی نہیں ہے بلکہ ایک آئینی مندوب ہے۔سبل نے سوال کیا: اگر صدر مرکزی کابینہ کی مدد اور مشورے کے بغیر پارلیمنٹ کو تحلیل نہیں کر سکتے تو گورنر اس اختیار کا استعمال کیسے کر سکتا ہے؟سبل نے اپنی گذارشات کو یہ کہتے ہوئے ختم کیا:جموں و کشمیر کے لوگوں کی آواز کہاں ہے؟ کہاں ہے نمایندہ جمہوریت کی آواز؟ پانچ سال گزر چکے ہیں ۔ انھوں نے دوبارہ کہا کہ عدالت اس وقت تاریخ کے ایک کٹہرے میں ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ عدالت خاموش نہیں رہے گی بلکہ عدل و انصاف کی گواہی دے گی۔
سبل کی تقریباً تین دن تک محیط اس بحث کے بعد سینیر وکیل گوپال سبرامنیم نے دلائل کا آغاز کیا۔ انھوں نے اس سے بحث شروع کی کہ بھارتی آئین کی طرح ، جموں و کشمیر کا بھی اپنا آئین ہے ، جو ۱۹۵۷ءمیں آئین ساز اسمبلی نے تشکیل دیا۔ انھوں نے کہا کہ دفعہ ۳۷۰کے ذریعے دونوں آئین ایک دوسرے سے مطابقت پیدا کرتے ہیں۔ سبرامنیم نے دوسرا نکتہ یہ پیش کیا کہ موجودہ کیس میں، عدالت کا تعلق صرف ایک نہیں بلکہ دو آئین ساز اسمبلیوں کے مینڈیٹ سے ہے، یعنی ہندستان کی دستور ساز اسمبلی اور جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی۔سبرامنیم نے آئین سے متعلق ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کی تعارفی تقریر کا حوالہ دیا، جس میں کہا گیا ہے کہ ہندستانی آئین کا وفاقی ڈھانچا ریاست میں لوگوں کو خصوصی حقوق اور مراعات دینے کی اجازت دیتا ہے۔
سبرامنیم نے کہا کہ عدالت کو اس حقیقت کو دھیان میں رکھنا چاہیے کہ ’’جموں و کشمیر کسی دوسری ریاست کی طرح نہیں تھا‘‘۔انھوں نے اس دلیل کو یہ بتاتے ہوئے واضح کیا کہ دیگر راجواڑوں کے برعکس، جموں و کشمیر کا اپنا ۱۹۳۹ء کا آئین تھا، یہاں تک کہ ہندستان کے تسلط کے ساتھ الحاق کے معاہدے پر دستخط کرنے سے پہلے بھی وہاں ایک پرجا پریشد تھی۔ انھوں نے جموں و کشمیر کی دستور ساز اسمبلی کے مباحثوں کی اہمیت پر زور دیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ یہ جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی تھی جس نے آرٹیکل ۳۷۰(۱)(d) کے تحت ہندستان کو ۱۹۵۰، ۱۹۵۲ء اور ۱۹۵۴ء کے صدارتی احکامات کے ذریعے جموں و کشمیر پر ہندستانی آئین کے اطلاق کے سلسلے میں کچھ مستثنیات کو لاگو کرنے کی دعوت دی۔
سبرامنیم نے کہا کہ ہندستان ان صدارتی احکامات کی پابندی کرنے پر راضی ہے۔ واضح رہے کہ ۱۹۵۴ء کے صدارتی حکم نامے کی، جس نے پہلے کے احکامات کی جگہ لے لی تھی، بالآخر جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی نے توثیق کی۔ اس طرح جموں و کشمیر کی دستور ساز اسمبلی نے ایک رسمی قرارداد منظور کی جس میں کہا گیا کہ ہندستان کو ۱۹۵۴ء کے صدارتی حکم کی پابندی کرنی چاہیے اور اسے آرٹیکل ۳۷۰ کی شق (۱) اور شق (۳) کے ساتھ جاری رہنا چاہیے۔ اس دوران سبرامنیم نے خود سپریم کورٹ کے ہی پچھلے فیصلوں کا حوالہ دیا۔ انھوں نے کہا کہ اگر آرٹیکل ۳۷۰ کو منسوخ کرنا جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کا مینڈیٹ نہیں تھا اور ریاستی مقننہ کے ذریعے منسوخی کا اختیار کبھی بھی استعمال نہیں کیا جاسکتا ہے، تو ایسا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ وفاق یا پارلیمنٹ خود کو ریاست کی آئین ساز اسمبلی میں تبدیل کرکے اس دفعہ کو منسوخ کرادے۔
سبرامنیم ، جو لندن سے آن لائن دلائل دے رہے تھے، ان د س گھنٹے کی بحث کے بعد پوڈیم جموں و کشمیر کے معروف وکیل ظفر شاہ نے سنبھالا۔ انھوں نے وضاحت کی کہ آرٹیکل ۳۷۰ نے جموں و کشمیر کے آخری ڈوگرہ مہاراجا، مہاراجا ہری سنگھ کے ذر یعے دستاویز الحاق میں درج اختیارات کو برقرار رکھا۔انھوں نے کہا کہ مہاراجا نے جموں و کشمیر کا ہندستان کے ساتھ الحاق کیا تھا مگر انضمام کا کوئی معاہدہ عمل میں نہیں آیا تھا۔انھوں نے الحاق اور انضمام کی تشریح کی۔ شاہ نے کہا کہ چونکہ انضمام کے کسی معاہدے پر دستخط نہیں ہوئے تھے، جموں و کشمیر نے اپنی آئینی خودمختاری کو برقرار رکھا۔ انھوں نے مزید کہا کہ قانون بنانے کے بقایا اختیارات کے ذریعے ہی ریاست نے اپنی خودمختاری کا استعمال کیا۔آرٹیکل ۳۷۰(۱) کے حوالے سے، انھوں نے کہا کہ یہ شق ہندستانی آئین کے ساتویں شیڈول کے تحت تین فہرستوں کے قوانین کے اطلاق کے بارے میں بات کرتی ہے جو جموں و کشمیر پر لاگو ہوگی۔ظفر شاہ نے واضح کیا کہ چونکہ جموں و کشمیر کے لیے تین موضوعات یعنی دفاع، خارجی امور اور مواصلات پر قانون بنانے کے لیے ہندستان کو پہلے ہی مکمل اختیارات دیے گئے تھے، اس لیے آرٹیکل ۳۷۰(۱)(i) لفظ ’مشاورت‘ کا استعمال کرتا ہے۔اس موقع پر، شاہ نے یہ بھی نشاندہی کی کہ آرٹیکل ۳۷۰(۱)(ii) یا ۳۷۰(۱)(d) میں استعمال ہونے والے اظہار ’اتفاق‘ کا مطلب ہے کہ دونوں فریقوں کو متفق ہونا پڑے گا۔انھوں نے کہا کہ انسٹرومنٹ آف ایکشن کے تحت متعین کیے گئے ہندستانی قوانین میںیہ واضح ہے کہ دونوں فریقین کا رضامند ہونا ضروری ہے۔
ظفر شاہ نے کہا کہ آرٹیکل ۳۷۰ کے تحت، یہ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ پارلیمنٹ کوئی یک طرفہ فیصلہ کرے۔ جسٹس کھنہ نے شاہ کی اس بات کا جواب دیتے ہوئے کہ جموں و کشمیر کا ہندستان کے ساتھ انضمام مکمل نہیں ہوا، کہا کہ انضمام کا سوال 'مکمل طور پر یقینی ہے۔انھوں نے ہندستانی آئین کے آرٹیکل (۱) کا حوالہ دیا جس میں لکھا ہے کہ ہندستان ریاستوں کا ایک یونین ہے جو جموں و کشمیر کے آئین کے آرٹیکل ۳ سے مطابقت رکھتا ہے۔کھنہ نے واضح کیا کہ آرٹیکل ۳۷۰ صرف ریاستی مقننہ کو اپنے لیے قانون بنانے کا خصوصی حق دیتا ہے۔جسٹس کھنہ نے ریمارکس دیئے: مجھے مکمل انضمام کے لفظ کے استعمال پر تحفظات ہیں۔ انھوں نے مزید کہا: 'بھارتی آئین کے آرٹیکل(۱) کے لحاظ سے مکمل انضمام ہوا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے جموں و کشمیر کے ذریعے الحاق کے مسودہ پر دستخط کرنے کے بعد انضمام کی بحث ختم ہوتی ہے۔ ظفرشاہ، بنچ کے استدلال سے متفق نہیں ہوسکے۔ انھوں نے اپنے استدلال کو دہرایا کہ خودمختاری دستاویز الحاق کے ذریعے منتقل نہیں کی گئی۔ اسے صرف انضمام کے معاہدے کے ذریعے منتقل کیا جا سکتا ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے نشاندہی کی کہ آج بھی، پارلیمنٹ کے پاس ریاستی فہرست میں اندراجات کے لیے قانون بنانے کے مکمل اختیارات نہیں ہیں لیکن اس سے اس حقیقت پر کوئی اثر نہیں پڑتا کہ بالآخر خودمختاری ہندستان کے پاس ہے۔انھوں نے مزید کہا: 'ایک بار جب ہندستانی آئین کا آرٹیکل (۱) کہتا ہے کہ ہندستان ریاستوں کا ایک یونین ہوگا، جس میں ریاست جموں و کشمیر شامل ہے، خودمختاری کی منتقلی مکمل ہوگئی تھی۔ ہم ہندستانی آئین کو ایک دستاویز کے طور پر نہیں پڑھ سکتے جو آرٹیکل ۳۷۰ کے بعد جموں و کشمیر کو کچھ خودمختاری برقرار رکھے۔اس دلیل کو آگے بڑھاتے ہوئے، چیف جسٹس نے کہا کہ لفظ ’اتفاق‘ کا استعمال جموں و کشمیر کے آئینی حوالہ جات کے لیے منفرد نہیں ہے، ہندستان کے آئین میں ’اتفاق‘ کے بہت سے مختلف شیڈز کی ضرورت ہے۔ چیف جسٹس نے ہندستانی آئین کے آرٹیکل ۲۴۶-اےکی مثال پیش کی، جو گڈز اینڈ سروسز ٹیکس (جی ایس ٹی) کے لیے جواز فراہم کرتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس دفعہ کے تحت پارلیمنٹ ریاستی مقننہ کی منظوری کے بغیر کچھ نہیں کر سکتی۔
ظفرشاہ، جنھوں نے اسی معاملے پر پھر بنچ سے کہا کہ وہ ہندستانی آئین کے آرٹیکل ۲۵۳ جو بین الاقوامی معاہدوں، معاہدوں اور کنونشنز سے متعلق ہے، میں ایک شرط شامل کی گئی، کہ ریاست جموں و کشمیر کے اختیار کو متاثر کرنے والا کوئی فیصلہ ریاست کی حکومت کی رضامندی کے بغیر انڈیا کی حکومت نہیں کرسکتی ہے۔ شاہ نے مزید کہا کہ جموں و کشمیر کی صورت حال کی ایک اندرونی اور ایک بیرونی جہت ہے اور دونوں ایک ساتھ ہندستانی آئین کے آرٹیکل ۳۰۶-اے کے مسودہ میں شامل ہیں جو کہ حتمی فیصلہ تک زیر التوا ہے۔شاہ نے اپنی دلیل کا اختتام بھارت کے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی۲۰۰۵ء کی سری نگر کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کیا کہ 'مسئلہ کشمیر کو انسانیت اور جمہوریت کے دائرے میں حل کیا جائے گا۔ شاہ نے امید ظاہر کی کہ عدالت اس بیان کی روشنی میں اپنا فیصلہ صادر کرے گی۔
شاہ کی آٹھ گھنٹے طویل بحث کے بعد ڈاکٹر راجیو دھون نے مختصر بحث میں عدالت کو بتایا کہ بھارت ایک ملک کے بجائے ایک براعظم ہے اور اس کے تنوع کے لیے خود مختاری کے انتظامات کی ضرورت ہے جیسا کہ آئین کے آرٹیکل ۳۷۰ کے تحت جموں و کشمیر میں موجود تھا۔ راجیو دھون نے دلیل دی کہ آئینی اخلاقیات تجویز کرتی ہے کہ اس طرح کے انتظامات کو محفوظ رکھا جانا چاہیے۔انھوں نے نشاندہی کی کہ بحث کے دوران چیف جسٹس نے آرٹیکل ۲۴۹ اور ۲۵۲ کا حوالہ دیا۔انھوں نے ان آرٹیکلز کے حوالے سے بینچ کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات کو بہت اہم قرار دیا اور کہا کہ اس نے درخواست گزاروں کو 'بنیادی ڈھانچا کے خطوط پر بحث کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بینچ نے انضمام کے معاہدوں کی حیثیت سے کئی سوالات اٹھائے ہیں۔ اس پر دھون نے کہا کہ دستاویز الحاق کی رو سے بیرونی خودمختاری ختم ہو جاتی ہے، لیکن اندرونی خودمختاری ختم نہیں ہوتی ہے۔
دھون نے نشاندہی کی کہ مہاراجا ہری سنگھ نے ہندستان کے ساتھ جوں کے توں یعنی اسٹینڈ اسٹل کے معاہدے پر دستخط نہیں کیے تھے۔اس طرح کا معاہدہ مہاراجا نے پاکستان کے ساتھ کیا تھا۔ دھون نے اپنی دلیل کو مضبوط کرنے کے لیے پریم ناتھ عدالتی فیصلہ کا حوالہ دیا کہ آرٹیکل ۳۷۰ اسٹینڈ اسٹل یا انضمام کے معاہدے کا آئینی متبادل ہے۔ انھوں نے کہا کہ دستاویز الحاق کے ذریعے مہاراجا نے اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ جموں و کشمیر ہندستان کے تسلط کا حصہ بن چکا ہے۔ لیکن مہاراجا نے الحاق کے ذریعے اپنی خودمختاری کو منتقل نہیں کیا۔دھون نے نشاندہی کی کہ خودمختاری کی منتقلی کا عمل جزوی طور پر سیاسی وجوہ اور جزوی طور پر آرٹیکل ۳۷۰ کی وجہ سے شروع ہوا۔ انھوں نے آرٹیکل ۳ کے مندرجات کا حوالہ دے کر کہا کہ اس کی رُو سے کسی بھی ریاست کے نام یا حدود کو تبدیل کرنے والا کوئی بل ریاستی مقننہ کی رضامندی کے بغیر پیش نہیں کیا جا سکتا۔
انھوں نے مزید کہا کہ ۱۹۵۴ء (صدارتی حکم CO 48) نے آرٹیکل ۳ میں ایک اور شرط شامل کی، جس میں کہا گیا ہے کہ جموں و کشمیر کے رقبے کو بڑھانے یا کم کرنے یا ریاست کے نام یا حدود کو تبدیل کرنے کا کوئی بل جموں و کشمیر مقننہ کی رضامندی کے بغیر ہندستانی پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ دھون نے سوال کیا کہ ریاستی مقننہ کی مشاورتی طاقت کو پارلیمنٹ کے ساتھ کیسے بدل دیا گیا؟دھون نے ہندستانی آئین کے آٹھویں شیڈول کے ساتھ پڑھے گئے آرٹیکل ۳۴۳ کا بھی حوالہ دیا، جو کشمیری کو ایک زبان کے طور پر تسلیم کرتا ہے۔انھوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ ایک ایگزیکٹو ایکٹ کے ذریعے کشمیری کو بطور زبان نہیں چھینا جا سکتا۔انھوں نے کہا کہ آرٹیکل ۳۵۶ کے تحت صدر کو جو اختیارات دیئے گئے ہیں وہ مکمل نوعیت کے نہیں ہیں۔ اختیارات کا اس حدتک استعمال اور غلط استعمال کیا گیا ہے کہ ان کے استعمال میں کچھ نظم و ضبط لازمی ہے۔ دھون نے متنبہ کیا کہ صدارتی راج کی آڑ میں جموں و کشمیر کے ساتھ جو ہوا وہ کسی اور ریاست کے ساتھ ہوسکتا ہے اگر آرٹیکل ۳۵۶ کے تحت اختیارات پر قدغن نہیں لگائی گئی۔انھوں نے دلیل دی کہ آرٹیکل ۳اور ۴ کے تحت نہ تو صدر اور نہ پارلیمنٹ ہی ریاستی مقننہ کا متبادل ہو سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے دھون سے سوال کیا کہ ’’کیا پارلیمنٹ آرٹیکل ۲۴۶(۲) کے تحت صدر راج کے دوران ریاست کے لیے قانون بنا سکتی ہے؟‘‘اس پر دھون نے جواب دیا: پارلیمنٹ ریاستی فہرست کے تحت قانون بنا سکتی ہے لیکن جب وہ آرٹیکل ۳ کے تحت کوئی قانون پاس کرتی ہے، تو اسے مذکورہ شرائط کی پابندی کرنی ہوگی۔انھوں نے نشاندہی کی کہ جموں و کشمیر میں ایک قانون ساز کونسل بھی تھی جسے آئینی ترمیم کے بغیر ختم نہیں کیا جا سکتا تھا۔ دھون نے کہا کہ آرٹیکل۲۴۴-اے خود مختار ریاستوں کے قیام کا انتظام کرتا ہے۔ یہ ریاستوں کی خود مختاری کو تقویت دیتا ہے جو آرٹیکل ۳۷۰ میں جموں و کشمیر کو دی گئی خود مختاری کے مطابق ہے۔دھون نے کہا کہ آئین کو اخلاقیات کے ساتھ پڑھا جانا چاہیے۔ بھارتی حکومت نے کشمیری عوام کے ساتھ جو وعدے کیے ہیں کہ ان کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق ہوگا۔ انھوں نے یاد دلایا کہ کئی مواقع پر بھارتی لیڈران نے عزم کا اظہار کیا کہ وہ رائے شماری کے ذریعے لوگوں کی مرضی جاننے کے لیے پابند ہیں بشرطیکہ پُرامن اور معمول کے حالات بحال ہوں اور رائے شماری کی غیر جانب داری کی ضمانت دی جا سکے۔ دھون نے کہا کہ ہم نے اس بات پر بھی اتفاق کیا ہے کہ آئین ساز اسمبلی کے ذریعے لوگوں کی مرضی ریاست کے آئین کے ساتھ ساتھ یونین کے دائرۂ اختیار کا تعین کرے گی۔انھوں نے کہا کہ یہ وہی عہد ہے جو آرٹیکل ۳۷۰ کی روح ہے۔
دھون کے بعد وشانت دوئے نے دلیل دی کہ ۲۰۱۹ء کے آئینی احکامات تضادات کا مجموعہ اورآئین ہند کے ساتھ دھوکا دہی ہیں۔ انھوں نے عدالت کو کہا کہ انصاف صرف ہونا ہی نہیں چاہیے، ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے۔آرٹیکل ۳۷۰ کے عارضی ہونے کی وجہ بتاتے ہوئے دوئے نے کہا کہ یہ ہندستان کے لیے کبھی بھی عارضی نہیں تھا۔ یہ جموں و کشمیر کے لوگوں کے لیے اس حد تک عارضی تھا کہ وہ جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کے ہاتھوں اپنی قسمت کا فیصلہ کر سکتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کے آخری ڈوگرہ مہاراجا ہری سنگھ نے ہندستان کے اس وقت کے گورنر جنرل لارڈ لوئس ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ مشروط طور پر ہندستان کے تسلط میں الحاق کے لیے جو معاہدہ کیا تھا، اس کی تشریح آرٹیکل ۳۷۰ کی روشنی میں کی جانی چاہیے۔وشانت دوئے نے کہا کہ معاہدہ سازی کی طاقت کو آئین کے زیر غور طریقے سے استعمال کرنا ہوگا اور اس کی طرف سے عائد کردہ حدود کے تابع ہونا پڑے گا۔ آیا یہ معاہدہ عام قانون سازی کے ذریعے نافذ کیا جا سکتا ہے یا آئینی ترمیم کے ذریعے یہ قدرتی طور پر خود آئین کی دفعات پر منحصر ہوگا۔دوئے نے کہا کہ آرٹیکل ۳۷۰ کی تشریح آرٹیکل ۳۷۰ میں ہی موجود ہے۔
کشمیر کے معاملے پر وہ چاہے سپریم کورٹ ہو یا انڈین قومی انسانی حقوق کمیشن ، بھارت کے کسی بھی ادارے کا ریکارڈ کچھ زیادہ اچھا نہیں رہا ہے، مگر چونکہ اس مقدمے کے بھارت کے عمومی وفاقی ڈھانچے پر بھی دُور رس اثرات مرتب ہوں گے، اس لیے شاید سپریم کورٹ کو اس کو صرف کشمیر کی عینک سے دیکھنے کے بجائے وفاقی ڈھانچے اور دیگر ریاستوں پر اس کے اثرات کو بھی دیکھنا پڑے۔ اس تناظر میں امید ہے کہ وہ ایک معروضی نتیجے پر پہنچ کر کشمیری عوام کی کچھ دادرسی کا انتظام کر پائے گا۔خیر اس وقت تمام نگاہیں بھارتی سپریم کورٹ کی طرف لگی ہوئی ہیں۔ کیا سپریم کورٹ واقعی کوئی تاریخ رقم کرے گا؟ ایک بڑا سوال ہے، جس کا جواب وقت ہی دے گا۔
ایران اور امریکا نے حالیہ دنوں میں طے پانے والے ایک پیچیدہ معاہدے کے تحت اپنے اپنے ملکوں میں ایک دوسرے کے قیدی شہریوں کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس معاہدے پر یہ اتفاق رائے دونوں ملکوں کے درمیان بالواسطہ (indirect) مذاکرات کے بعد سامنے آیا۔ جس کے تحت تہران کو امریکی ایما پر منجمد کیے جانے والے چھ ارب ڈالر مالیت کے اثاثوں تک دوبارہ رسائی ملنے کا امکان بھی پیدا ہوا ہے۔ امریکا اور ایران اپنی سطح پر محدود مقاصد کے حامل’ قیدیوں کے معاہدے‘ کو تبدیلی کے ایک بڑے قدم کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کرنے میں مصروف ہیں۔
معاہدے کی خبر شائع ہوتے ہی تہران میں قید پانچ امریکی شہریوں کو ’ایون جیل‘ سے نکال کر نامعلوم مقام پر ہوٹل کے الگ الگ کمروں میں نظر بند کر دیا گیا ہے۔جیل سے رہائی کے بعد ہوٹل میں نظربند کیے جانے والوں میں تاجر صیامک نمازی، عماد شرجی اور ماہر ماحولیات مرادطہباز شامل ہیں، جو برطانوی شہری بھی ہیں۔ اسی طرح امریکا میں قید ایرانیوں کو بھی رہائی کا پروانہ جلد ملنے والا ہے۔
اس پیش رفت کے باوجود ایران پر امریکی پابندیاں اور فریقوں کے درمیان عدم اعتماد کی فضا پہلے کی طرح برقرار ہے۔ تاہم، یہ معاہدہ اہم سیاسی پیش رفت ہے۔ بعض سیاسی تجزیہ کار اسے ۲۰۱۵ء میں امریکا اور ایران کے درمیان طے پانے والے جوہری معاہدے پر نظرثانی کے لیے بنیادی کام قرار دے رہے ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا قیدیوں کی رہائی سے متعلق معاہدے کے دُور رس نتائج کا حامل کوئی نیا معاہدہ سامنے آنے والا ہے؟ کیا یہ معاہدہ دیرینہ دشمن ملک سے تعلقات میں بہتری کا پیش خیمہ بن سکتا ہے؟
یاد رہے ’قیدیوں کا معاہدہ ‘ تہران اور واشنگٹن کے درمیان خلیج کے علاقے میں بڑھتی کشیدگی کے تناظر میں طے پایا۔خلیج میں تجارتی جہازوں کی نقل وحمل کی نگرانی کے لیے امریکا نے اپنے ہزاروں فوجی خطے میں تعینات کر رکھے ہیں، تاکہ ایران کو بین الاقوامی تجارتی جہازوں کو ہراساں کرنے سے باز رکھا جا سکے۔
ایران کو قطر اور عمان جیسے اہم علاقائی ملکوں کا اعتماد بھی حاصل ہے، جو منجمد ایرانی اثاثوں کی واپسی کے لیے بطور چینل استعمال ہوں گے۔ ایران کو روس اور چین جیسی بڑی طاقتوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔سعودی عرب کے ساتھ ایران کے دیرینہ کشیدہ تعلقات، چین کی ثالثی کے بعد کافی حد تک معمول پر آرہے ہیں۔ دونوں ملکوں نے اپنے مستقل سفارتی رابطے کو یقینی بنا لیا ہے۔
تاہم، امریکی وزیرخارجہ اس رائے کا اظہار کر چکے ہیں:’’امریکا میں ایران کے غیر منجمد اثاثوں کو صرف انسانی ضروریات یعنی ادویہ اور خوراک کی خریداری کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے‘‘۔ حالانکہ ادویہ اور خوراک کی خریداری پہلے بھی امریکی پابندیوں سے مستثنیٰ تھی۔
اس صورت حال کے بعد تہران اور واشنگٹن کے درمیان ۲۰۱۵ء میں طے پانے والے جوہری معاہدے کی بحالی کا امکان پیدا ہوا ہے، تاہم امریکی حکومت ردعمل اور خجالت کے ڈر سے بار بار اس امر کی تردید کرتی بھی دکھائی دیتی ہے۔
امریکی نیشنل سکیورٹی کونسل کے ترجمان جان کربی کے بقول: ’جوہری معاہدے کی طرف واپسی یا اس سے متعلق مذاکرات نہ امریکا کی ترجیح ہیں اور نہ قیدیوں کی رہائی سے متعلق معاہدے کی شرائط میں یہ بات شامل تھی۔‘
تہران نے ’مشترکہ جامع منصوبۂ عمل معاہدے‘ کے تحت اس شرط پر جوہری پروگرام میں کمی لانے پر رضامندی ظاہر کی تھی کہ ’’اگر عائد عالمی اقتصادی پابندیاں ختم کر دی جائیں‘‘۔ مگر ۲۰۱۸ء میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس جوہری معاہدے سے باہر نکلنے کا فیصلہ کیا اور نتیجتاً ایران پر دوبارہ اقتصادی پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ اگرچہ اُن کے بعد امریکی صدر جوبائیڈن نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی بحالی میں دلچسپی تو ظاہر کی ہے، تاہم اس پر عمل درآمد کی صورت میں دونوں فریقوں کو نئے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
قیدیوں کی رہائی سے متعلق معاہدے کو عملی جامہ پہنانے سے متعلق لائحہ عمل میں کچھ دوسرے ملک بھی ملوث ہیں۔ معاہدے کے لیے کئی برسوں سے دونوں ملکوں کے درمیان گفتگو جاری تھی، لیکن اسی دوران میں تہران نے ایک اور امریکی شہری کو یرغمال بنا کر واشنگٹن کا اعتماد مجروح کیا۔
اس پیش رفت نے امریکا کو تذبدب کا شکار کر دیا کہ قیدیوں کی رہائی سے متعلق معاہدے کے ذریعے تہران کون سے مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے؟ واشنگٹن کو خدشہ تھا کہ تہران منجمد اثاثے واپس ملنے کے بعد انھیں ’سپاہ پاسداران انقلاب‘ کے لیے ہتھیار خریدنے میں استعمال کرے گا، جس سے خطے میں تہران کے خفیہ پروگراموں کو قوت ملے گی۔
دوسری جانب امریکا کو اس بات کا بھی ادراک تھا کہ اگر یہ مذاکرات ناکام ہوئے تو جوہری معاہدے سے متعلق گفتگو کا باب ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے گا۔ قیدیوں کی رہائی کا معاہدہ دراصل علاقے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کی فضا کو کم کرنا تھا تاکہ مشرق وسطیٰ کسی بڑی جنگ کے شعلوں کی لپیٹ میں آنے سے محفوظ رہے۔ایران کو اپنی معیشت بچانا تھی اور امریکا کو جنگ سے گریز کی پالیسی میں عافیت دکھائی دیتی تھی۔ ایران نے چین کی ثالثی میں سعودی عرب سے مذاکرات کا ڈول ڈالا، تو اس کے بعد تہران کے پاس امریکا کے ساتھ مذکرات سے انکار کا کوئی جواز باقی نہیں تھا۔
امریکی جاسوس دنیا کے کئی ملکوں میں کام کر رہے ہیں۔ واشنگٹن کی ایران دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اس وقت ایرانی ہوٹل میں نظر بند امریکی شہریوں میں کتنے جاسوس ہیں یا نہیں؟ اس بحث میں اُلجھے بغیر یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ امریکی سی آئی اے نے روس، ایران اور چین کو کئی برسوں سے اپنی خارجہ پالیسی کا محور بنا رکھا ہے۔
ماضی میں بھی حکومتی تبدیلی کی امریکی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے تہران مشتبہ غیرملکیوں کو ’یرغمال‘ بنانے کی پالیسی پر عمل کرتا چلا آیا ہے۔ ایران کے پانچ شہری بھی امریکی جیلوں میں قید ہیں۔ سی آئی اے کا الزام ہے کہ ان گرفتار ایرانیوں نے امریکی پابندیوں کی خلاف ورزی کا ارتکاب کیا ہے۔
ایران سے ’جوہری معاہدے‘ کو معطل کر کے امریکا نے ایران پر جن پابندیوں کا دوبارہ احیا کروایا، امریکی فہم کے مطابق آج تک ان کا کوئی مثبت نتیجہ دُنیا کے سامنے نہیں آیا ہے۔ تہران کی پالیسیاں جوں کی توں برقرار ہیں اور ان پابندیوں نے ساڑھے آٹھ کروڑ ایرانیوں کو گوناگوں مسائل سے دوچار کیا ہے۔
قیدیوں کی رہائی اور ’جوہری معاہدے‘ سے متعلق مذاکرات کا آغاز حالیہ دنوں میں طے پانے والے ’قیدیوں کی رہائی کا معاہدہ‘ کا ایک انتہائی چھوٹا حصہ ہے، جس پر اذیت پسند امریکا نے تہران پر اپنی اقتصادی پابندیوں کو برقرار رکھنے کا اعلان کر کے ایران کی خوش گمانی کو ایک مرتبہ پھر گہرا صدمہ پہنچایا ہے۔
نائیجر چاروں طرف سے خشکی میں گھرا ملک ہے اور سرکاری طور پر اس کا نام جمہوریہ نائیجر ہے۔ مغربی افریقہ میں واقع اس ملک کا نام اسی سرزمین پر بہنے والے دریائے نائیجر کی نسبت سے رکھا گیاہے ۔ملک کے جنوب میں نائجیریا اور بنین ،مغرب میں بورکینا فاسو اور مالی، شمال میں الجزائر اور لیبیا، جب کہ اس کی مشرقی سرحد پر چاڈ واقع ہے ۔
نائیجر کا کُل رقبہ ۱۲ لاکھ ۷۰ہزار مربع کلومیٹر ہے۔ اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ مغربی افریقہ کا یہ سب سے بڑا ملک ہے۔۲۰۲۱ء کی مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی ۲ کروڑ ۵۰لاکھ سے کچھ زیادہ ہے اور بیش تر آبادی ملک کے انتہائی جنوبی اور مغربی علاقوں میں آباد ہے۔ دارالحکومت نیامی ہی ملک کا سب سے بڑا شہر ہے اور یہ دریائے نائیجر کے مشرقی کنارے پر ملک کے جنوب مغرب میں واقع ہے ۔آبادی کی غالب ترین اکثریت مسلمان ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق ملکی آبادی کے ۹۹ء۳ فی صد کا مذہب اسلام ہے ۔
نائیجر میں اسلام کب آیا؟ اس کے بارے میں مؤرخین کی رائے مختلف ہے ۔کچھ مؤرخین کے نزدیک اس علاقے میں اسلام بالکل ابتدائی دور میں جلیل القدر صحابی حضرت عقبہ بن عامرؓ کے ہاتھوں پہنچا تھا ، اور مؤرخ عبد اللہ بن فودیو کی کتاب بھی اسی رائے کی تائید کرتی ہے ۔ بعض مؤرخین اس کی نسبت حضرت عقبہ بن نافعؓ کی طرف کرتے ہیں، جو ۶۶۶ء میں اس علاقے میں تشریف لائے تھے۔ روایات میں ملتا ہے کہ حضرت عقبہ بن نافعؓ براعظم افریقہ کے اس گریٹ صحارا ریگستان میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے اور جنوب کی طرف فتوحات کرتے شہر’ کعوار‘ تک جاپہنچے اور اسے بھی فتح کیا۔ انھوں نے ریگستان کے جنوب میں واقع تقریباً تمام قابلِ ذکر شہر فتح کرلیے تھے۔ آج کل ’کعوار‘ کا علاقہ نائیجر اور لیبیا کی سرحد پر ملک کی شمال مشرقی سمت میں واقع ہے ۔اس روایت کے مطابق اسلام نائیجر اور اس کے اطراف میں واقع دیگر علاقوں میں اپنی تاریخ کے بالکل ابتدائی زمانے یعنی پہلی صدی ہجری میں ہی پہنچ چکا تھا ۔
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ بحیرۂ چاڈ کے کنارے اور ملک کے مشرق میں رہنے والوں نے پہلے پہل اسلام قبول کیا ۔اور ان میں دین حق کی روشنی پہنچانے کا شرف ان مسلمان عرب تاجروں کو حاصل ہے جو نائیجر کے ساتھ تجارتی تعلقات اوربندھنوں میں جڑے ہوئے تھے اور انھی کے توسط سے علاقے میں عربی زبان بھی عام ہوئی۔ بعد ازاں مملکت غانا کے خاتمے کے بعد یہاں مرابطین کی حکمرانی رہی۔ غربی نائیجر کا علاقہ مالی کی اسلامی مملکت کے تابع بھی رہا اور اس کے بعد یہ علاقہ سنغی حکومت کے تابع تھا جو شمالی نائیجر میں اجادیس (شہر) تک پھیلی ہوئی تھی۔
نائیجر کا مغربی سامراجیوں سے ۱۸۹۹ء میں اس وقت واسطہ پڑا، جب فرانس نے اس علاقے پر فوجی حملہ کیا۔ اس حملے میں فرانسیسی فوجوں کو مقامی مجاہدین کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا رہا اور وہ علاقے میں قدم نہ جماسکیں۔ پے درپے حملوں کے بعد فرانس کو ان افریقی ممالک میں اسی وقت قدم جمانے میں کامیابی حاصل ہوئی جب ۱۹۲۲ء میں علاقے میں شدید قحط اور خشک سالی کا دور آیا اور صحرا نشین لوگوں کی مزاحمت اس کے آگے بے بس ہوگئی ۔یوں نائیجر بھی مغربی افریقہ کے دیگر ممالک کی طرح فرانسیسی مقبوضات کا حصہ بن گیا ۔
۱۹۴۶ءمیں نائیجر کو فرانس کا حصہ بناکر یہاں کے لوگوں کو فرانسیسی شہریت دی گئی۔ان کے لیے مقامی پارلیمنٹ بنائی گئی جس کے نمایندوں کو ایک خاص تناسب کے مطابق فرانسیسی پارلیمنٹ میں بھی نمایندگی دی گئی تھی ۔۱۹۵۶ء میں جب فرانس نے اپنے بعض قوانین میں تبدیلی و ترمیم کی تو افریقی مقبوضات میں سے کچھ علاقوں کو فرانسیسی قوانین کے اندر رہتے ہوئے داخلی خود مختاری حاصل ہوگئی۔
۱۹۵۸ء میں نائیجر نام کی حد تک رسمی طور پر فرانس سے علیحدہ ہوگیا، تاہم ۱۹۶۰ء میں مکمل طور پر اس کی آزادی کو تسلیم کرلیا گیا ۔تحریک آزادی کے رہنما حمانی دیوری یہاں کے پہلے سربراہ بنے۔ تاہم، ان کے عہد حکومت کو بےتحاشا کرپشن کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے ۔
۱۹۷۴ء میں ایک فوجی انقلاب کے نتیجے میں حمانی حکومت کا خاتمہ ہوا اور انقلابی جرنیل سانی کونتشیہ نے ملک کی باگ ڈور سنبھال لی۔ وہ ۱۹۸۷ء میں اپنی وفات تک ملک کی سربراہی کرتے رہے ۔ ان کی وفات کے بعد علی سیبو نے نائیجر کی سربراہی سنبھالی اور نائیجر کی دوسری جمہوریہ کے قیام کا اعلان کیا۔اپنے دور میں ان کی کوشش رہی کہ ملک کو ایک پارٹی سسٹم کے تحت چلایا جائے۔ لیکن انھیں عوامی مطالبات کے آگے جھکنا پڑا اور ملک میں نئے سرے سے جمہوری دور کا آغاز ہوا ۔
۱۹۹۳ء میں پہلے کثیر جماعتی انتخابات میں ماھمان عثمان ملک کے پہلے صدر منتخب ہوگئے۔ ان کا عرصۂ اقتدار زیادہ عرصہ نہیں رہا اور ۱۹۹۶ء میں ایک فوجی بغاوت کے نتیجے میں ان کے اقتدار کا خاتمہ ہوگیا اور ابراہیم مناصرہ نئے فوجی صدر بنے۔ تاہم، ان کی حکومت کو ملک کے سیاسی حلقوں میں پذیرائی نہ مل سکی۔
۱۹۹۹ء میں ایک اور فوجی بغاوت میں ابراہیم مناصرہ قتل کردئیے گئے اور نئی عبوری حکومت تشکیل دی گئی ۔ملک میں یہ تیسرا فوجی انقلاب تھا، جسے خونی انقلاب کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس انقلاب کے نتیجے میں فوجی سربراۂ مملکت ابراہیم مناصرۃ قتل کردئیے گئے تھے۔حالانکہ اس سے قبل کسی فوجی انقلاب کے نتیجے میں کوئی خون خرابہ نہیں ہوا تھا ۔
اسی سال ملک کا نیا دستور منظور ہوا اور نئی جمہوری حکومت مامادو تانجا کی زیر قیادت تشکیل پائی۔ اس دور میں سیاست دانوں کے درمیان اختلاف رہا کہ شریعت اسلامیہ کو ملکی دستور اور قانون کی اساس ہونا چاہیے یا نہیں ؟
۲۰۰۴ء میں ملک میں نئے انتخابات ہوئے جن میں ایک بار پھر مامادو تانجا دوسری مدت صدارت کے لیے منتخب ہوئے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا دسمبر۲۰۰۹ء میں آئینی طور پراپنی مدت صدارت کی تکمیل پر وہ عہدۂ صدارت چھوڑ دیتے لیکن ان کا مطالبہ تھا کہ ان کی تیسری مدت صدارت کے لیے بھی دستور میں گنجایش نکالی جائے۔ لیکن فروری ۲۰۱۰ء میں ان کی حکومت ملک کے چوتھے فوجی انقلاب کے نتیجے میں ڈھیر ہوگئی ۔
نئی فوجی حکومت نے عبوری فوجی کونسل بنائی ،دستور پر عمل درآمد کو معطل کیا، مملکت کے تمام آئینی ادارے تحلیل کردئیے گئے اور نعرہ یہ لگایا کہ ہم حقیقی جمہوریت چاہتے ہیں ۔عملاً ایک نیا دستور وضع کیاگیا جس میں صدر کے بہت سے اختیارات کو سلب کرلیا گیا۔ نئے دستور کی روشنی میں ۳۱جنوری ۲۰۱۱ء کو ملک میں نئے صدارتی انتخابات ہوئے اور دوسری بار کے انتخاب میں محمدایسوفو کامیاب ہوکر ملک کے نئے صدر بنے۔
۲۰ مارچ ۲۰۱۶ء کو محمد ایسوفو دوسری مدت صدارت کے لیے پھر منتخب ہوگئے اگرچہ ملک اس وقت شدید سیاسی اختلافات کا شکار تھا اور کئی سیاسی پارٹیاں الیکشن کا بائیکاٹ بھی کرچکی تھیں۔ ملک بدامنی کا بھی شکار ہوچکا تھا اور مسلح حملوں کا سامنا کررہا تھا ۔تاہم، ان کی دوسری مدت صدارت اس لحاظ سے کچھ کامیاب کہلاسکتی ہے کہ ان کے اس عہد ِحکومت میں خط ِغربت سے نیچے رہنے والی آبادی کی شرح ۵۰٪ فی صد سے گھٹ کر ۴۱ فی صد رہ گئی تھی ۔
۲۱فروری ۲۰۲۱ء کے صدارتی الیکشن میں اقلیتی عرب قبائل سے تعلق رکھنے والے محمد بازوم ملک کے نئے صدر منتخب ہوگئے ۔ایک ایسے ملک میں جہاں قبائلی عصبیتیں عروج پر ہوں ایک اقلیتی قبیلے کے فرد کا صدر منتخب ہوجانا انہونی بات ہے۔ تاہم، خوشی کا یہ عالم زیادہ دیر برقرار نہ رہ سکا اور ۲۶ جولائی ۲۰۲۳ء کو ایک نیا فوجی انقلاب صدارتی محل کے دروازے پر دستک دے رہا تھا ۔ صدارتی محافظوں نے اپنے ہی صدر کو یرغمال بناکر ایک بار پھر پورے ملک کا کنٹرول سنبھال لیا۔ حالیہ فوجی بغاوت کا آغاز اگرچہ صدارتی محل کے گارڈز نے کیا تھا، تاہم اب ملک کی بَری اور فضائی اور ساری فوج ایک ہی پیج پر آچکی ہے۔
مغربی ممالک نے اس فوجی بغاوت کو یکسر مسترد کر ہوئے نظر بند صدرمحمد با زوم کی فوری رہائی اور دستور کی مکمل بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔ ایکواس ممالک (اکنامک گروپ برائے مغربی افریقی ممالک) نے جس کی سربراہی اس وقت پڑوسی ملک نائجیریا کے پاس ہے ،یورپین یونین اور فرانس اس کے اقدامات کی حمایت کررہے ہیں ،نئی فوجی قیادت کو بیرکوں میں واپسی کے لیے ۱۵ دن کی مہلت دی ہے۔ نائیجر کےہمسایہ ایکواس ممالک نے گذشتہ اتوار کو اپنے سربراہی اجلاس میں فیصلہ کیا تھا کہ نائیجر میں جمہوریت کی بحالی اور فوجی انقلاب کی پسپائی اور منتخب مگر تاحال نظر بند صدر محمد بازوم کے اقتدار کی اَز سر نو بحالی کو بہرصورت ممکن بنایا جائے گا، خواہ اس مقصد کے حصول کے لیے انھیں فوجی مداخلت ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔ مغربی ممالک نے نئی انتظامیہ پر اقتصادی پابندیاں عائد کردی ہیں۔ دوسری طرف ایکواس ممالک کی سربراہی کرنے والے ہمسایہ ملک نائجیریا نے بجلی کی سپلائی بند کردی ہے ۔
مغرب کی نائیجر میں دلچسپی کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ غریب مسلم ملک کسی وقت فرانسیسی کالونی رہا ہے ۔دوسرے، یہ علاقہ قیمتی معدنیات سے مالامال ہے۔نائیجر افریقہ کا یورینیم برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ملک کا ۳۵ فی صد یورینیم فرانس کو برآمد کیا جاتا ہے، جس سے فرانس اپنی توانائی کی ۷۵ فی صد ضروریات کی تکمیل کرتا ہے ۔بدلے میں فرانس اس غریب افریقی ملک کو کیا دیتا ہے ؟محض ۱۵۰ ملین یورو سالانہ۔قیمتی معدنیات سے مالا مال ہونے کے باوجود اس ملک کا شمار براعظم افریقہ کے غریب ترین ممالک میں ہوتا ہے۔
بحر اطلس پر واقع یورپی ممالک کے لیے نائیجیر کی اہمیت اس لیے بھی دوچند ہوجاتی ہے کہ اس کے ہمسایہ ملک نائیجیریا سے نکلنے والی زیر تعمیر گیس پائپ لائن، نائجیر سے گزر کر ہی شمالی افریقہ اور پھر یورپی ممالک تک گیس کی سپلائی یقینی بنائے گی۔
اپنے مذکورہ مفادات کے تحفظ کے لیے اور علاقے میں بوکو حرام اور دیگر مسلح گروپس کے مقابلے کے لیے مغربی ممالک نے نائیجر میں اپنے فوجی اڈے قائم کررکھے ہیں ۔اس وقت نائیجر میں فرانسیسی فوجی اڈوں کی تعداد چار ہے، جن میں ہزاروں فوجی تعینات ہیں ۔ علاقے میں نیٹو افواج کا ہیڈ کوارٹر بھی نائیجر ہی میں واقع ہے ۔ علاوہ ازیں امریکا سے باہر امریکی ڈرونز کا سب سے بڑا اڈا بھی نائیجر ہی میں واقع ہے اور اس کی منتخب فوج کی اسپیشل یونٹ بھی نائیجر کے شہر اکا دیش میں تعینات ہے ۔نائیجر کے علاوہ ہمسایہ ممالک، مالی، چاڈ، موریطانیہ، برکینا فاسو میں بھی جگہ جگہ امریکی، فرانسیسی اور جرمن فوجی اڈے قائم ہیں۔ اسی بنا پر کہا جاتاہے کہ نائیجر سمیت پورا غربی افریقہ ایک بار پھر مغربی سامراجی قبضے کا شکار ہوچکا ہے ۔
دیکھیے نائیجر کے تازہ ترین فوجی انقلاب کے بعد علاقے کے حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں، اور بدلتے حالات میں کیا غریب نائیجر مسلمانوں کے لیے بھی خوشی اور راحت کا کوئی پیغام پوشیدہ ہےیا نہیں ؟
کشمیر کی جنت نظیر وادی اپنی بے پناہ خوب صورتی کے نیچے کئی المیوں کو چھپائے ہوئے ہے۔ انسانی مصائب، منظم ظلم و جور اور بنیادی حقوق کی صریح خلاف ورزی، اس خطے کی پہچان بن چکے ہیں، اور اس ہر دم بڑھتے ہوئے بحران کی بازگشت بین الاقوامی برادری کے درمیان فقط سرگوشیوں کی صورت سنائی دے رہی ہے۔
کشمیریوں سے دُنیا کی لاتعلقی پریشان کن ہے کیونکہ اس سے بین الاقوامی امن اور استحکام براہِ راست متاثر ہو رہا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری اس تنازعے کو دیکھتے ہوئے اقوام متحدہ جیسے بین الاقوامی ادارے جو انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ہی قائم کیے گئے تھے، ایک طرف ہو چکے ہیں۔
انسانی حقوق کی سرکردہ تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل (AI)کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار صورت حال کی بھیانک منظر کشی کرتے ہیں۔ ۱۹۹۰ء سے لے کر اب تک ۸ہزارکشمیری جبری طور پر لاپتا،جب کہ ۶۰ ہزار سے زائد ریاستی حراست میں یا کوچہ و بازار کے اندر شہید کیے جا چکے ہیں۔ ان خوفناک اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے بھی بین الاقوامی برادری کا ردعمل گونگے، بہرے اور اندھوں جیسا ہے۔
مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادیں عالمی طاقتوں کی بے حسی تلے دب کر فراموش ہو چکی ہیں۔ ان میں قرارداد نمبر ۴۷ بھی شامل ہے، جو کشمیر میں استصواب رائے کو ضروری قرار دیتی ہے۔ حق خودارادیت بنیادی انسانی حقوق کااہم ترین جزو ہے اور اس کے بغیر ایک پُرامن، منصفانہ اور جمہوری اصولوں پر مبنی عالمی نظام کا قیام ممکن نہیں۔ چنانچہ یہ اصول کشمیریوں کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ اپنی سیاسی حیثیت کا فیصلہ خود کریں اوراسی کے مطابق اپنی سماجی، معاشی اور ثقافتی بہبود کے لیے کام سرانجام دیں۔
گذشتہ کئی عشروں سے یہ جنت ارضی، کشمیریوں کی نسل کشی، جبری قبضے اور زبردستی آبادکاری جیسے مسائل کو برداشت کر رہی ہے، جو دنیا کی اخلاقی منافقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ گذشتہ کچھ مہینوں سے صورتِ حال مزید خراب ہو چکی ہے۔ بھارتی حکومت کشمیریوں کو معاشی طور پر بے دست و پا کرنے اور ان کی آبادی کا تناسب بدلنے کے لیے لوگوں کے گھر، کاروبار اور کھیت کھلیان تباہ کر رہی ہے۔ خطے کی آبادیاتی ہئیت کو بدلنے کے لیے کی جانے والی یہ کوششیں نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں بلکہ کشیدگی میں اضافے کا بھی باعث ہیں۔ ان وجوہ سے دنیا میں کشمیریوں کا احساسِ تنہائی بڑھ رہا ہے۔
من مرضی کی گرفتاریاں اور ریاستی تشدد کشمیریوں کے لیے ایک جیتی جاگتی حقیقت ہیں۔ ۲۰۲۰ء کی سالانہ رپورٹ میں ’ہیومن رائٹس واچ‘ (HRW) نے ان مظالم پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ ان اقدامات کے لیے اکثر متنازعہ قسم کے قوانین کو بنیاد بنایا جاتا ہے، مثلاً قانون تحفظ عوامی یا قانون اختیاراتِ خصوصی برائے مسلح افواج۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سیکڑوں لوگ اس ظالمانہ قانون کے تحت گرفتار ہیں، جو بغیر مقدمے کے دو سال تک لوگوں کو قید رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔
’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ اور ’اقوام متحدہ کمیشن برائے انسانی حقوق‘ (UNCHR) نے ان منظم ناانصافیوں، طاقت کے ناروا استعمال اور ظلم کو تفصیل سے لکھا ہے۔ لیکن اس پیچیدہ صورتِ حال کی سنگینی کا مکمل ادراک کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس بحران کو انسانی حقوق کے بین الاقوامی تصور کے پس منظر میں دیکھا جائے۔ کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ صرف ایک علاقائی تنازع نہیں ہے بلکہ یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا ایک بدترین مسئلہ ہے جو بین الاقوامی اصولوں اور قوانین کے لیے بھی چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ دنیا ایسے سنگین مسئلے کو اتنی لا پروائی اور سنگ دلی سے نظر انداز کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ انسانی حقوق کے بین الاقوامی ضابطوں کی ساکھ تب ہی قائم رہ سکتی ہے، جب وہ اس قسم کے بحرانوں کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے نظر آئیں۔
دنیا کے دیگر علاقائی مسائل پر عالمی برادری کے ردعمل کو دیکھا جائے تو کشمیر سے ان کا صرفِ نظر کرنا اور بھی واضح ہو جاتا ہے۔ مثلاً بوسنیا، مشرقی تیمور اور سوڈان میں اہداف حاصل کرنے کے لیے بین الاقوامی اداروں کا طرز عمل بالکل مختلف رہا ہے۔ ۹۰ کے عشرے کے وسط میں بوسنیائی جنگ میں تقریباً ایک لاکھ لوگ ہلاک اور۲۲ لاکھ بے گھر ہوئے تھے۔ بین الاقوامی برادری نے فیصلہ کن طرزِ عمل اختیار کرتے ہوئے دخل اندازی کی اور ۱۴دسمبر ۱۹۹۵ء کو ’معاہدہ ڈیٹن‘ عمل میں آیا، جس سے امن بحال ہوا۔
اسی طرح ۹۰ کے عشرے کے آخر میں مشرقی تیمور کی زندگی بھی کشت و خوں سے عبارت تھی، جس میں ملک کی تقریباً ربع آبادی رزقِ خاک بن گئی۔ تاہم، اقوام متحدہ کی سربراہی میں شدید بین الاقوامی دباؤ کے نتیجے میں آخر مشرقی تیمور کو آزادی مل گئی۔ سوڈان کی تقسیم اور جنوبی سوڈان کے قیام کے لیے بھی بین الاقوامی برادری خصوصاً افریقا متحدہ اور اقوام متحدہ نے اہم کردار ادا کیا اور اس ملک کو خانہ جنگی سے بچایا۔
اس کے برعکس، اقوام متحدہ کی کئی قراردادوں اور بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کے باوجود کشمیر کے مسئلہ پر بین الاقوامی ردعمل بھیانک خاموشی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ بین الاقوامی برادری کا یہ متضاد رویہ یہاں بہت واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔بوسنیا، مشرقی تیمور اور سوڈان کے معاملے میں جو تحریک، اتحاد اور عزم ہم نے دیکھا تھا وہ کشمیر کے معاملے میں سرے سے ناپید ہے۔
کشمیر کے متعلق دنیا کا مایوس کن رویہ اس کے دوہرے معیارات کی نشان دہی کرتا ہے۔ مغرب جو اپنے آپ کو انسانی حقوق کا رکھوالا قرار دیتا ہے، کشمیر کے مسئلے پر مکمل خاموش ہے۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا دنیا کے لیے سیاسی اور معاشی مفادات کشمیریوں کے بنیادی حقوق سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں؟
اس وقت اشد ضرورت ہے کہ دنیا کے طاقت ور ممالک اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے میدان میں آئیں۔ خصوصاً انگلستان تاریخی طور پر بھی اس مسئلے کے لیے ذمہ دار ہے۔ اس بحران کا آغاز ۱۹۴۷ء میں برصغیر کی غیرمتوازن تقسیم سے ہوا تھا جو برطانیہ کے ماتحت ہوئی تھی۔ اس وقت دوراندیشی اور منصوبہ بندی کے مجرمانہ فقدان سے ہی بعد میں یہ سرحدی تنازع پیدا ہوا۔ جس کے نتیجے میں برطانیہ کی اخلاقی اور تاریخی طور پر یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ حل کے لیے عملی اقدامات کرے۔
بین الاقوامی تنظیموں اور خاص طور پر اقوام متحدہ کو مسئلہ کشمیر سے متعلق اپنی رائے منوانے کے لیے مزید ثابت قدم ہونے کی ضرورت ہے۔ کشمیر سے متعلق ان کی خاموشی کو دیکھتے ہوئے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے بننے والے ان اداروں کے متعلق شدید شکوک و شبہات پیدا ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے عالمی اجلاس منعقدہ ۲۰۰۵ء میں ہونے والے معاہدہ’حق دفاع‘ کے مطابق یہ ادارہ اس بات کا پابند ہے کہ دنیا بھر کے انسانوں کو نسل کشی، قتل عام اور دیگر جنگی جرائم کے خلاف تحفظ مہیا کرے۔
اس معاہدے کی تیسری شق کے مطابق ’’ اگر ایک ریاست اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہو جائے، تو انھیں تحفظ فراہم کرنا بین الاقوامی برادری کی ذمہ داری ہے‘‘۔ اس سے ان جرائم کے خلاف بین الاقوامی کوششوں کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ اگر یہ ادارے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اسی طرح بت بنے دیکھتے رہیں، تو ان کی رہی سہی ساکھ بھی خطرے میں پڑجائے گی۔
کشمیر کا بحران ایک انسانی بحران ہے، جو فوراً بین الاقوامی توجہ کا متقاضی ہے۔ دنیا کی خاموشی اس مسئلے سے ناواقفیت کی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ یہ خاموشی بھارت کو اپنے اقدامات کے لیے جواز مہیا کرتی ہے۔ اقوام متحدہ کو اب اپنا سکوت توڑ کر اس مسئلے کے حل کے لیے عملی کوششیں کرنا ہوں گی۔ یہ بحران اتنا شدید ہے کہ بین الاقوامی برادری کی جانب سے خانہ پُری کے طور پر کی جانے والی کوششوں سے حل نہیں ہو گا۔ اب عملی اور فیصلہ کن کوششوں کا وقت ہے، جن کے لیے انصاف اور امن کے اصولوں کو رہنما بنایا جائے، تا کہ دنیا کے اخلاقی معیارات پر مزید زد نہ پڑے۔ امن کا سفر چاہے طویل ہو لیکن اس کا آغاز ابھی سے ہو جانا چاہیے۔ (ترجمہ: اطہر رسول حیدر)