اخبار اُمت


غزہ شہر سے گذشتہ ماہ لاپتہ ہونے والی ایک چھ سالہ بچی اپنے کئی رشتہ داروں اور انھیں بچانے کی کوشش کرنے والے دو طبی اہلکاروں کے ساتھ مُردہ پائی گئی ہے، جسے اسرائیلی ٹینکوں نے گولیوں کا نشانہ بنایا ہے۔

چھ سالہ ہند رجب کو اس وقت نشانہ بنایا گيا جب وہ اپنی چچی، چچا اور تین کزنز کے ساتھ کار میں شہر سے فرار ہو رہی تھیں۔ہند اور ایمرجنسی کال آپریٹرز کے درمیان فون پر ہونے والی باتوں کی آڈیو ریکارڈنگ سے پتا چلتا ہے کہ کار میں صرف چھ سالہ بچی زندہ بچی تھی اور وہ اپنے رشتہ داروں کی لاشوں کے درمیان اسرائیلی فورسز سے چھپ رہی تھی۔

ایک موقعے پر وہ ایمرجنسی سروسز سے کہتی ہیں کہ ’’ٹینک میرے کافی قریب ہے۔ وہ پاس آ رہا ہے۔ کیا آپ مجھے آ کر بچا سکتے ہیں؟ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے‘‘۔

ان کی التجا اس وقت ختم ہو گئی جب مزید فائرنگ کی آواز کے درمیان فون لائن کٹ گئی۔

فلسطینی ہلال احمر سوسائٹی (پی آر سی ایس) کے پیرامیڈیکس ہفتہ کے روز اس علاقے تک پہنچنے میں کامیاب رہے جسے ایک فعال جنگی زون ہونے کی وجہ سے پہلے بند کر دیا گیا تھا۔

انھیں موٹر کمپنی کِیا کی سیاہ کار نظر آئی جس میں ہند رجب اپنے اہل خانہ کے ساتھ سفر کررہی تھیں۔ اس کار کی ونڈ سکرین اور ڈیش بورڈ پاش پاش ہو گئے تھے اور گاڑی پر چار اطراف سے گولیوں کے سوراخ تھے۔

ایک پیرامیڈیک نے صحافیوں کو بتایا کہ کار کے اندر سے ملنے والی چھ لاشوں میں ہندرجب کی میت بھی شامل تھی، جن میں سے سبھی پر گولیوں اور گولہ باری کے نشانات تھے۔ چند میٹر کے فاصلے پر ایک اور گاڑی پڑی تھی جو مکمل طور پر جل چکی تھی۔ اس کا انجن نکل کر زمین پر پھیل گیا تھا۔ ہلال احمر کا کہنا ہے کہ یہ ہند رجب کو لانے کے لیے بھیجی گئی ایمبولینس تھی۔

تنظیم کا کہنا ہے کہ رجب کو بچانے کے لیے روانہ کیا جانے والا ان کا عملہ یوسف الزینو اور احمد المدعون اس وقت مارے گئے جب ایمبولینس پر اسرائیلی فورسز نے بمباری کر دی۔

ایک بیان میں پی آر سی ایس نے اسرائیل پر ایمبولینس کو جان بوجھ کر نشانہ بنانے کا الزام لگایا اور کہا کہ اس گاڑی کو ۲۹ جنوری کو جائے وقوعہ پر پہنچتے ہی نشانہ بنایا گیا۔ اس میں کہا گیا: 'قابض (اسرائیلیوں) نے جان بوجھ کر ہلال احمر کے عملے کو نشانہ بنایا، حالانکہ ان سے پیشگی تعاون حاصل کرنے کے لیے ایمبولینس کو جائے وقوعہ پر پہنچنے کی اجازت دی گئی تھی تاکہ بچی ہند کو بچایا جاسکے۔

پی آر سی ایس نے بتایا کہ اسے ہند کو بچانے کے لیے پیرا میڈیکس بھیجنے میں کافی وقت لگا کیونکہ اسرائیلی فوج کے ساتھ رابطہ قائم کرنے میں کئی گھنٹے لگ گئے تھے۔پی آر سی ایس کے ترجمان نیبل فرسخ نے رواں ہفتے کے شروع میں مجھے بتایا: 'ہمیں کوآرڈینیشن ملا، ہمیں گرین لائٹ ملی۔ ہمارے عملے نے وہاں پہنچنے پر اس بات کی تصدیق کی کہ انھیں وہ کار نظر آ رہی ہے، جس میں ہند رجب پھنسی ہوئی تھیں، اور وہ اسے دیکھ سکتے ہیں۔ آخری بات جو ہم نے سنی وہ مسلسل فائرنگ تھی۔ فون کال آپریٹرز کے ساتھ ہند کی بات چیت کی ریکارڈنگز کو فلسطینی ہلال احمر نے پبلک پلیٹ فارم پر شیئر کیا ہے۔ جس کے بعد اس بات کو جاننے کی ایک مہم چل پڑی کہ اس کے ساتھ کیا ہوا؟

ہند کی ماں نے ہمیں بتایا کہ بیٹی کی لاش ملنے سے پہلے تک وہ 'ہر لمحے، ہر پل اس کی آمد کی منتظر تھیں۔اب وہ مطالبہ کر رہی ہیں کہ اس کا احتساب ہونا چاہیے اور کسی نہ کسی کو اس کا ذمہ دار ٹھیرایا جانا چاہیے۔انھوں نے بتایا کہ 'میں ہر اس شخص کو جس نے میری اور میری بیٹی کی التجا سنی، پھر بھی اسے نہیں بچایا، قیامت کے دن اللہ کے سامنے ان سے سوال کروں گی۔ میں نتن یاہو، بائیڈن اور ان تمام لوگوں کے لیے اپنی دل کی گہرائیوں سے بددعا کروں گی جنھوں نے ہمارے خلاف، غزہ اور اس کے لوگوں کے خلاف تعاون کیا ہے۔

اس ہسپتال میں جہاں وہ اپنی بیٹی کی خبر کا انتظار کر رہی تھیں ہند کی والدہ وسام کے پاس اب بھی وہ چھوٹا سا گلابی بیگ ہے جو وہ اپنی بیٹی کے لیے رکھے ہوئے تھیں۔ اس بیگ کے اندر ایک نوٹ بک ہے جس میں ہند اپنی خوش خطی کی مشق کرتی تھی۔

ہند رجب کی والدہ پوچھتی ہیں: 'آپ اس درد کو محسوس کرنے کے لیے اور کتنی ماؤں کا انتظار کر رہے ہیں؟ اور کتنے بچوں کو مارنا چاہتے ہیں؟ہم نے دو بار اسرائیلی فوج سے اس دن علاقے میں ان کی کارروائیوں کے بارے میں تفصیلات جاننے کی کوشش کی اور ہند کے لاپتہ ہونے اور اسے بازیافت کرنے کے لیے بھیجی گئی ایمبولینس کے بارے میں پوچھا، تو انھوں نے کہا کہ وہ اس بارے میں جانچ کر رہے ہیں۔ہم نے ہفتے کے روز فلسطینی ہلال احمر کی طرف سے لگائے گئے الزامات پر ان سے دوبارہ جواب طلب کیا ہے۔

جنگ کے اصولوں میں کہا گیا ہے کہ طبی عملے کو تحفظ دیا جانا چاہیے اور انھیں کسی تنازعے میں نشانہ نہیں بنایا جانا چاہیے۔ اور یہ کہ زخمی افراد کو ممکنہ عملی حد تک اور کم سے کم تاخیر کے ساتھ ہی سہی وہ طبّی دیکھ بھال فراہم کی جانی چاہیے جس کی انھیں ضرورت ہو۔

یہ خبر دوپہر ۲ بجے کے قریب آئی کہ غزہ میں طبی عملے کے رُکن محمود المصری اور اُن کی ٹیم کے ارکان شمالی غزہ کے العودہ ہسپتال میں ایمرجنسی کال کا انتظار کر رہے تھے۔

اس دوران اعلان ہو گیا کہ ’ایمبولینس ۵-۱۵ کو نشانہ بنایا گیا ہے‘۔ یہ وہی ایمبولینس تھی کہ جس میں محمود المصری کے والد اور اُن کی ٹیم کے ارکان سوار تھے۔ یاد رہے محمود کے والد بھی  طبّی عملے کے رُکن تھے۔محمود اور اُن کے ساتھی یہ دیکھنے کے لیے اُس جانب بھاگے کہ آخر ہوا کیا ہے؟جب وہ وہاں پہنچے، تو انھوں نے دیکھا کہ ایمبولینس سڑک کے کنارے متعدد ٹکڑوں میں بکھری پڑی تھی۔ محمود چیختے ہوئے گاڑی کے ملبے کی طرف بھاگے، لیکن اس ایمبولینس کے اندر موجود تمام افراد ’بُری طرح جل چکے تھے اور اُن کے جسموں کے ٹکڑے ٹکڑے‘ ہو چکے تھے۔  محمود نے روتے اور ہچکیاں لیتے ہوئے کہا کہ ’میرے والد کا چہرہ قابلِ شناخت نہیں رہا تھا‘۔

یہ اسرائیل، غزہ جنگ شروع ہونے کے پانچ دن بعد یعنی ۱۱؍ اکتوبر کی بات ہے۔ محمود کے والد یوسری المصری کا بے جان جسم سفید کفن میں لپٹا ہوا تھا اور اسی کے ساتھ اُن کا خون آلود ہیلمٹ بھی پڑا تھا۔جنازے کے موقعے پر جب محمود اپنے والد کی میت کے پاس گھٹنے ٹیکے اپنے آنسو پونچھ رہے تھے تو ایسے میں اُن کے دوست اُن کے قریب جمع ہو گئے۔ ایسے ہولناک واقعات کو غزہ کے ایک مقامی صحافی فراس الاجرامی نے دستاویزی فلم ’غزہ ۱۰۱: ایمرجنسی ریسکیو‘ کے لیے فلم بند کیا ہے۔

اپنے والد کی موت کے بعد، ۲۹ سالہ محمود، جن کے اپنے تین بچے ہیں، نے چند ہفتوں کی چھٹی لے لی۔لیکن ان کا کہنا تھا کہ ’گہرے دُکھ کے باوجود مَیں کام پر واپس جانا چاہتا ہوں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میری سب سے بڑی خواہش فلسطینی عوام کی خدمت کرنا ہے‘۔

انھوں نے اپنے فون کے وال پیپر پر اپنے والد کی تصویر لگا رکھی ہے ،صرف اس لیے تاکہ ’وہ اپنے والد کے چہرے کو دن رات دیکھ سکیں‘۔محمود کی اپنے والد سے آخری ملاقات اُن کی ہلاکت سے چند گھنٹے قبل ہی ہوئی تھی۔ انھوں نے محمود سے ایک کپ کافی کی فرمایش کی تھی جو انھوں نے دوپہر کی نماز سے قبل پی لی تھی۔ اس کے بعد ایمبولینس سنٹر میں محمود کے والد یوسری کی ایمبولینس کا نمبر پُکارا گیا اور انھیں زخمیوں کو طبی امداد دینے کے لیے روانہ ہونا پڑا۔

اس واقعے سے صرف دو دن پہلے محمود خود بھی زخمی ہوئے تھے اور اُنھیں سٹریچر پر ہسپتال لے جایا گیا تھا۔ ایک حملے کے دوران محمود کی گردن اور پیٹھ میں چھرے لگے تھے۔ اُس وقت کو یاد کرتے ہوئے محمود نے کہا کہ ’ان کے والد شدید پریشانی کے عالم میں اُن کے پہلو میں کھڑے رو رہے تھے اور وہ بہت پریشان تھے‘۔

مگر اب چند ہفتے گزر جانے کے بعد خود محمود کو اپنے والد کی تباہ شدہ ایمبولینس کو دیکھنے کا صدمہ برداشت کرنا پڑا۔ محمود نے کہا کہ ’جب بھی میں اکیلا بیٹھتا ہوں، میں انھیں یاد کرتا ہوں کہ میں ایمبولینس کی طرف بھاگ رہا تھا، میں اپنے والد کی طرف بھاگ رہا تھا، میں ان کے جسم کے ٹکڑے دیکھ کر نیم بے ہوشی کے عالم میں ڈوب چکا تھا۔ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ میرے والد کے ساتھ کیا ہوا؟ میں حواس باختہ ہوگیا تھا‘۔

محمود سات سال سے میڈیکل عملے کے رکن ہیں اور اِس وقت ’فلسطین ریڈ کریسنٹ سوسائٹی‘ (پی آر سی ایس) کی ٹیم میں شمالی غزہ کے علاقے جبالیہ میں مقیم تھے۔

اس دستاویزی فلم میں ۷؍اکتوبر کے ایک ماہ بعد تک کے واقعات کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔ یادرہے حماس کے زیر انتظام وزارتِ صحت کے مطابق اسرائیلی فوج کے غزہ پر حملوں میں ہلاک ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد ۳۰ ہزار سے بڑھ چکی ہے۔

اس دستاویزی فلم میں طبّی عملے کے اراکین کو قریب سے اس دورانیے میں فلمایا گیا ہے، جب وہ اندھیری گلیوں سے گزر رہے تھے اور زخمی بچوں کی لاشوں اور ان کے جسموں کے ٹکڑے جمع کر رہے تھے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی کس طرح ایک دوسرے سے جڑی ہوئی تھی۔ اس صورتِ حال نے اس صدمے کو ظاہر کیا جس کا انھیں سامنا تھا، خاص طور پر جب انھیں بچوں کی لاشوں سے نمٹنا پڑا۔

جنگ کے ان ابتدائی دنوں میں طبی عملے کے ایک اور رُکن رامی خمیس اپنی ایمبولینس کے سٹیرنگ ویل کے سامنے بیٹھے روتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ انھیں ایک ایسے گھر کی جانب بلایا گیا کہ جو اس کے اپنے ہی مکینوں پر آن گرا تھا، اور اس گھر میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہی موجود تھے۔ جب وہ اس تباہ حال گھر کے ایک کمرے تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے تو انھوں نے وہاں تین فلسطینی بچیوں کو مُردہ حالت میں پایا اور انھیں یہ منظر دیکھ کر اپنی بیٹیوں کا خیال آیا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں اپنے آپ پر قابو نہیں رکھ سکا، میں یہ دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا تھا‘۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب رامی کی روتے ہوئے ویڈیو وائرل ہوئی تھی۔گذشتہ برس اکتوبر کے آخر میں ٹیم کے ایک اور رکن علاء الحلبی کو ایک رشتہ دار کی طرف سے ایک ایمرجنسی کال موصول ہوئی۔

علاء نے کہا کہ ’ان کے چچا کے گھر کو دو روز قبل اسرائیلی حملے میں نشانہ بنایا گیا تھا، لیکن ہلاک ہونے والے کچھ افراد اب بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ ان کے کزن کی لاش نکال لی گئی تھی اور وہ اسے ہسپتال لے جانے کی کوشش میں تھے‘۔جیسے ہی وہ ایک تنگ گلی میں داخل ہوئے، جہاں لوگوں کا ایک گروپ کنکریٹ کے ڈھیر کو ہٹانے کی کوشش کر رہا تھا، ایک رشتہ دار نے انھیں بتایا کہ ’ایک لڑکی ہے، یا تو اس کا آدھا یا پورا جسم ہے‘۔

وہ رُک گئے، ایک گہری سانس لی، اُن کا چہرہ جزوی طور پر ان کے میڈیکل ماسک کے پیچھے چھپا ہوا تھا، انھوں نے کہا کہ ’لڑکی کے اعضا اس کے ساتھ ہی رکھ دیں‘۔

اسی دن علاء ایک ایسے گھر میں پہنچے جہاں بُری طرح جھلسے ہوئے پانچ مردہ بچوں کو رکھا گیا تھا۔ انھوں نے ایک ٹیم کو ہدایت کی کہ بچوں کو پلاسٹک کے کفن میں اُن کی ایمبولینس میں رکھ دیں۔انھوں نے کہا کہ جب آپ کسی بچے کے جسم کے اعضا کو پکڑتے ہیں تو سب سے پہلے جو چیز ذہن میں آتی ہے وہ آپ کے اپنے بچے ہوتے ہیں۔

طبّی عملے کے یہ اراکین فون پر یا ریڈیو نیٹ ورک پر ہونے والی گفتگو کے ذریعے اپنے بیوی بچوں سے رابطے میں رہتے تھے۔ رامی دو عشروں سے طبی عملے کے رُکن کے طور پر کام کررہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ جب بھی غزہ میں تشدد کا کوئی نیا واقعہ پیش آتا ہے تو میری بیٹیاں مجھ سے چپک جاتی ہیں اور مجھ سے کام پر نہ جانے کی التجا کرتی ہیں۔ علاء نے یہ بھی کہا کہ جب وہ بچوں کی بات نہ مانتے ہوئے کام پر چلے جاتے ہیں تو اُن کے بچے روتے ہیں۔

ایک اور واقعے میں، جب طبی عملے کے چند اراکین العودہ ہسپتال کے باہر اپنی گاڑی میں انتظار کر رہے تھے تو ایک بڑے دھماکے نے انھیں ہلا کر رکھ دیا۔ اس حملے میں کم از کم دو ایمبولینسوں کو نقصان پہنچا۔ طبی عملے کے ایک رُکن نے بتایا کہ اسرائیلی فضائی حملے میں ہسپتال کے قریب واقع ایک گھر کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

پی آر سی ایس کا کہنا ہے کہ ۷؍ اکتوبر سے اب تک غزہ میں اس کی ٹیموں کے گیارہ ارکان ہلاک ہو ئے ہیں۔تنظیم کی ترجمان نیبل فرسخ کا کہنا ہے کہ ’ہر مشن میں ہماری ٹیموں کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہوتا ہے‘۔وہ کہتی ہیں کہ ’ڈیوٹی کے دوران ہمارے عملے کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور جن حالات میں ہم کام کر رہے ہیں وہ خطرناک اور خوفناک ہیں‘۔ وہ کہتی ہیں کہ ’اسرائیلی کارروائیوں کے دوران استعمال ہونے والی ٹکنالوجی کے ہوتے ہوئے یہ کہنے کا کوئی جواز نہیں کہ اسے دیکھا ہی نہیں گیا‘۔

پی آر سی ایس کا کہنا ہے کہ ۷؍ اکتوبر سے جاری لڑائی کی وجہ سے اس کی اپنی ۱۶ گاڑیاں ناکارہ ہوئی ہیں اور غزہ بھر میں مجموعی طور پر ۵۹؍ ایمبولینسیں مکمل طور پر تباہ ہو ئی ہیں۔

فرسخ کہتی ہیں کہ ’پی آر سی ایس کو کبھی فلسطینی جنگجوؤں کی مداخلت کا سامنا نہیں کرنا پڑا‘۔ وہ کہتی ہیں کہ ’زمین پر ہمارا کام صحت اور انسانی ہمدردی کی خدمات فراہم کرنا ہے‘۔

جنوری کے اواخر میں، جب خان یونس کے ارد گرد لڑائی میں شدت آئی، محمود نے اپنی بیوی اور بچوں، ۶سالہ محمد، ۵ سالہ لیلیٰ اور ۳ سالہ لیان کو ساحلی صحرائی علاقے المواسی میں ایک خیمے میں رہنے کے لیے منتقل کر دیا، جسے پہلے اسرائیل نے محفوظ علاقہ قرار دیا تھا۔اپنے والد کی موت کے چار ماہ بعد بھی وہ کہتے ہیں کہ بیماروں اور زخمیوں کی مدد کرنے کا ان کا عزم جاری ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’یہ میرے والد کا پیغام اور مشن تھا اور مجھے اسے جاری رکھنا ہے‘۔

۱۹۷۱ءکی جنگ میں ہندستان نے اس اُمید پر مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کی عسکری اور سفارتی مدد کی تھی کہ مشرقی سرحد پر بننے والی یہ نئی ریاست آزادی کے بعد مستقل اس کے تسلط میں رہے گی۔ بھارتی رہنماؤں کو اُمید تھی کہ پاکستان سے علیحدگی کے بعد بنگالی رفتہ رفتہ اپنا اسلامی تشخص بھول جائیں گے اور ہندو بنگالی ثقافت کو قبول کر کے ’عظیم بھارت‘ کا حصہ بن جائیں گے۔  جنوبی ایشیا میں مجموعی طور پر ہندستان کی حکمت عملی یہی ہے کہ کمزور ہمسایوں کو ڈرا دھمکا کر یا ان کے اندرونی اختلافات کو ہوا دے کر انھیں اپنا دست نگر رکھا جائے۔

عوامی لیگ کے دعوئوں اور حقائق کے مطابق شیخ مجیب نے پاکستان بننے کے کچھ عرصے بعد اس ہندستانی منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا آغاز کیا لیکن تب ذرا جھجک باقی تھی۔ اس ضمن میں ’اگرتلہ‘ بھارت مجیب گٹھ جوڑ اور سازشوں کا مرکزبنا۔ جس سے پہلے تو عوامی لیگی انکار کرتے رہے، مگر ۲۰۱۱ء کو اس سازش کے ایک براہِ راست کردار ڈپٹی اسپیکر شوکت علی نے بنگلہ دیش پارلیمنٹ میں کھل کر اعتراف کیا کہ ’’ہم اگرتلہ میں ۱۹۶۲ء سے بھارت کے رابطے میں تھے‘‘۔ ۱۹۷۵ء میں شیخ مجیب کے خلاف خون ریز فوجی بغاوت کی ایک بڑی وجہ ان کی ہندستان نوازی بھی تھی، اگرچہ وسیع بدعنوانیوں، ۱۹۷۴ میں پڑنے والے قحط کے اثرات اور یک جماعتی آمر حکومت سےلوگوں کی بیزاری نے بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔ ہندستانیوں نے خاموشی سے اس صدمے کو برداشت کیا اور دوبارہ ایسے عالمی و مقامی سیاسی حالات کا انتظار کرنے لگے، جن کے اندر اپنی کٹھ پتلی حکومت کو بنگلہ دیش پر دوبارہ مسلط کر سکیں، تاکہ شیخ مجیب الرحمٰن کے جانے سے ہونے والے نقصان کی تلافی ہو سکے۔ ہندستان کو یہ مراد پوری ہونے کے لیے تین عشروں تک انتظار کرنا پڑا۔

تاہم، اس دوران ہندستان فارغ نہیں بیٹھا رہا۔ اس کی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے لوگ پیہم بنگلہ دیشی عدلیہ، انتظامیہ، فوج، صحافت، تعلیم اور سول سوسائٹی میں نقب لگاتے رہے، تا کہ حتمی وار سے پہلے زمین ہموار کی جا سکے۔ نائین الیون کے بعد پیدا ہونے والی اسلام مخالف سیاسی صورتِ حال کا ہندستان نے بھرپور فائدہ اُٹھایا اور امریکی انتظامیہ کے تعاون سے بنگلہ دیش کے خلاف شکنجہ تنگ کرنا شروع کر دیا۔ اکیسویں صدی کے آغاز میں جب امریکی صدر بش نے ’’آپ ہمارے دوست ہیں یا دشمن‘‘ کا نعرہ لگایا، تو مسلم ممالک میں پائی جانے والی سیکولر جماعتوں کی اہمیت مغربی دنیا میں بڑھنے لگی۔ عراق اور افغانستان پر خوفناک اور خوں ریز حملے کے بعد بش حکومت مسلم ممالک میں ایسی جماعتوں کو مضبوط کرنا چاہتی تھی، جو اسلامی نظریات کو دباسکیں۔ ہندستان نے اس صورتِ حال کا پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے ۲۰۰۹ء میں امریکی حکومت کے تعاون سے بنگلہ دیش میں شیخ مجیب کی بیٹی حسینہ واجد کی حکومت قائم کروا دی۔

بنگلہ دیشی فوج پہلے ہی ’را‘ کے ذریعے رام کی جا چکی تھی۔ چنانچہ اس نے ۲۰۰۹ء کے انتخابات میں عوامی لیگ کی فتح یقینی بنانے کے لیے ہر طریقہ استعمال کیا، تا کہ ایک ایسی آمرانہ حکومت (Orwellian State) قائم کی جا سکے جو اپنے شہریوں پر ہر جبر کو روا رکھتے ہوئے ہندستانی غلبے کو قبول کرے اورقبول کرائے۔ تب بنگلہ دیشی فوج کے سپہ سالار جنرل معین نے پہلے ہی اپنے عہدے اور معاشی مفادات کے لیے بنگلہ دیشی خودمختاری کا سودا کر لیا تھا۔ بھارتی صدر پرناب مکھرجی (م: ۲۰۲۰ء)اپنی یادداشتوں The Presidential Years میں لکھتے ہیں: ’’فروری ۲۰۰۸ء میں بنگالی سپہ سالار معین احمد چھ دن کے دورے پر ہندستان آئے۔ اس دوران وہ مجھ سے بھی ملے۔غیر رسمی گفتگو کے دوران میں نے سیاسی قیدیوں کی رہائی کے لیے زور دیا۔ وہ حسینہ واجد کی رہائی کے بعد اپنی نوکری کے لیے فکر مند تھے۔ تاہم، میں نے ذاتی ذمہ داری لیتے ہوئے انھیں یقین دہانی کروائی کہ حسینہ واجد کے آنے پر ان کی نوکری متاثر نہیں ہو گی‘‘۔ (ص ۱۱۴)

پرناب مکھرجی اور حسینہ واجد دونوں نے اپنا وعدہ پورا کیا۔ جنرل (ر) معین نے حسینہ واجد کی سربراہی میں اپنی مدت اطمینان سے پوری کی۔ اس دوران انھوں نے ۲۰۰۹ء کی بی ڈی آر بغاوت میں ۵۷ افسران کے خون سے اپنے ہاتھ رنگے اور بڑی مہارت سے بنگلہ دیشی فوج کا مورال کچل کر اسے نااہل، بزدل، بدعنوان اور ملک دشمن فوج بنا دیا۔ آج کل وہ اپنے خاندان کے ساتھ بہت ساری دولت سمیٹ کر نیویارک منتقل ہوکر زندگی بسر کررہے ہیں۔

۲۰۰۹ء سے حسینہ واجد، ہندستان کی کھلی حمایت کے ساتھ تین جعلی انتخابات کروا چکی ہیں اور ریاستی طاقت پر ان کی گرفت سخت سے سخت ہوتی جا رہی ہے۔ جنوری ۲۰۱۴ میں قاضی راکب الدین کے الیکشن کمیشن نے یک جماعتی الیکشن کروایا، جس میں ۳۰۰ کے ایوان میں عوامی لیگ کے ۱۵۳ ؍ارکان بلامقابلہ الیکشن سے پہلے ہی منتخب کرا دیئے گئے۔ چنانچہ پہلے سے جاری حکومت کو بغیر ایک بھی ووٹ ڈالے، آئندہ پانچ سال کا مینڈیٹ سونپ دیا گیا۔

ہندستان نے سفارتی سطح پر کوششیں کرکے واشنگٹن اور دیگر دارالحکومتوں میں الیکشن کے نام پر ہونے والے اس فراڈ کے لیے قبولیت پیدا کی۔ اس وقت کے ہندستانی سیکرٹری اور وزیر خارجہ نے واشنگٹن، لندن اور برسلز کا دورہ کر کے حسینہ واجد کے لیے سازگار فضا پیدا کی۔ دریں اثناء حسینہ واجد نے امریکی حمایت برقرار رکھنے کے لیے ’اسلامی دہشت گردی ‘ کا بھی بھرپور شور مچایا۔ ان کے خفیہ اداروں نے ڈھاکہ اور گردونواح میں کئی جعلی دہشت گرد حملے کر کے بے گناہ لوگوں کو قتل کیا اور کئی افراد کو بغیر کسی ثبوت کے ’دہشت گرد‘ قرار دے کر تختۂ دارپر چڑھا دیا گیا۔ اسلام مخالف مغربی مقتدرہ کی جانب سے حسینہ واجد کی اس حکمت عملی کو سمجھنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی اور مغربی ممالک ایک بے رحم آمر کی حمایت میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے رہے۔ یوں بنگلہ دیش میں ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیوں کی رات طویل تر ہوتی چلی گئی۔

دسمبر ۲۰۱۸ء میں نورالہدیٰ کی سربراہی میں ہونے والے الیکشن میں عوامی لیگ کے غنڈے اور پولیس کے سپاہی الیکشن سے ایک رات قبل انتخابی باکس بھرتے رہے، تا کہ عوامی لیگ کی جیت یقینی بنائی جا سکے۔ ۳۱ دسمبر ۲۰۱۸ کو ٹائم میگزین نے رائے دہندگان کی حق تلفی پر ایک مضمون شائع کیا، جس کا عنوان ’’ حسینہ واجد کی جیت ووٹروں کی واضح حق تلفی سے عبارت ہے‘‘ تھا۔ بنگلہ دیش میں جمہوریت کے قتل پر جہاں ہر طرف سے مذمت ہوئی، وہیں ہندستان اس دفعہ بھی اپنی کٹھ پتلیوں کے ساتھ کھڑا رہا۔

جنوری ۲۰۲۴ء میں ہونے والے انتخابات کو حسینہ واجد خود ’ڈمی الیکشن‘ قرار دے چکی ہیں۔ ان انتخابات میں حزب اختلاف کی تمام جماعتوں خصوصاً بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (BNP) اور جماعت اسلامی بنگلہ دیش [یاد رہے کہ جماعت اسلامی کے براہِ راست انتخاب میں حصہ لینے پر اس حکومت نے پابندی عائد کر رکھی ہے]کے بائیکاٹ کے بعد عوامی لیگ نے حسینہ واجد کے ’ڈمی‘[جعلی] اُمیدواروں کو میدان میں اتارا اور الیکشن ’جیت‘ لیا۔ بنگالی عوام نے بھی انتخابات کے نام پر ہونے والے اس شرمناک ڈرامے کو مسترد کر دیا اور تمام تر حکومتی کوششوں کے باوجود صرف ۱۰ فی صد لوگ ووٹ ڈالنے کے لیے گھروں سے نکلے۔ تقریباً ۹۵ فی صد حلقوں میں عوامی لیگ کے اصل اور ’ڈمی‘ اُمیدواروں کو ’فاتح‘ قرار دے دیا گیا۔ کچھ نشستیں دوسری ہندستان نواز جماعتوں کو بھی دے دی گئیں، جن کا انتخاب خود حسینہ واجد نے ’را‘ کے مشورے سے کیا تھا۔ ’حبیب الاول کمیشن‘ نے ۴۱ فی صد ٹرن آؤٹ کا دعویٰ کرتے ہوئے فسطائی حکمرانوں کی خواہش کے مطابق انتخابی نتائج کا اعلان کر دیا۔ نسل پرست اور متنازعہ ہندو وزیر اعظم نریندر مودی نے ۴۸ گھنٹوں کے اندر فون کرکے حسینہ واجد کو اس فراڈ الیکشن میں ’کامیابی‘ اور چوتھی دفعہ وزیر اعظم بننے پر مبارک باد دی۔

 حسینہ واجد نے بھی ہندستان کے ان احسانات کا پورا پورا بدلہ ادا کیا ہے اور اکثریتی عوام کی اُمنگوں کو نظر انداز کرتے ہوئے تمام ہندستانی مطالبات پورے کیے ہیں۔ تاریخی تناظر میں بنگلہ دیش سے متعلق ہمیں بھارت کے مندرجہ ذیل سفارتی اہداف نظر آتے ہیں:

            ۱-         ہندستان، بنگلہ دیش میں ایک وفادار حکومت چاہتا ہے، جو جنوبی ایشیا میں اس کے عزائم کو پورا کرنے کے لیے معاون ہو سکے۔

            ۲-         ہندستان کو بنگلہ دیش کے بری، بحری اور فضائی وسائل کی ضرورت، تا کہ علیحدگی کے خواہش مند اور متنازعہ شمال مشرقی علاقوں پر گرفت برقرار رکھ سکے۔

            ۳-         ہندستان نہ صرف یہ چاہتا ہے کہ بنگلہ دیش کی جانب سے اسے کوئی دفاعی خطرہ نہ ہو بلکہ یہ مشرق میں بنگلہ دیش کو اپنی چھاؤنی کے طور پر بھی استعمال کرنا چاہتا ہے۔

            ۴-         بنگلہ دیش، ہندستان کے سول اور عسکری منصوبوں کے لیے ایک راہداری ہو سکتا ہے۔

            ۵-         بنگلہ دیش میں بڑھتی ہوئی اسلامی بیداری اور ہندستان مخالف سوچ کو دبانے کے لیے بھارت کو یہاں ایک وفادار حکومت کی ضرورت ہے۔

            ۶-         ہندستان اپنی معاشی ترقی کے لیے بنگلہ دیشی وسائل پر قبضے کا خواہش مند ہے تا کہ ایک چھوٹے ہمسائے کی ملکیت کو غصب کر کے اپنے مفادات کو آگے بڑھایا جائے۔

گذشتہ ۱۵ سال میں ہندستان نے یہ تمام اہداف حاصل کر لیے ہیں۔ ایک اتحادی کا کردار ادا کرتے ہوئے حسینہ واجد نے نہ صرف ملک کا جمہوری انتخابی نظام تباہ کر دیا ہے بلکہ شہریوں کی آزادی اور خودمختاری بھی نئی دہلی کے ہاتھ بیچ دی ہے۔ ایک سابقہ سینئر جرنیل لیفٹیننٹ جنرل (ر) حسن سہروردی جو آج کل سرکاری حراست میں ہیں، کے بقول: ’’بنگلہ دیش ہندستانی مقتدرہ کی پیشگی منظوری کے بغیر اپنا آرمی چیف بھی تعینات نہیں کر سکتا‘‘۔

            ملک کے تمام عسکری، عدالتی اور انتظامی عہدوں پر تعیناتی، ہندستان کے خفیہ اہلکاروں کی ایما اور کلیرنس پر کی جاتی ہے، جو سیکریٹیریٹ اور چھاؤنیوں میں قیام پذیر ہیں۔ ہندستان میں برسرِاقتدار شدت پسند جماعت کی پالیسیوں کے مطابق حسینہ واجد نے ’عظیم بھارت‘ کے لیے ملک کے ۹۰ فی صد مسلمان عوام پر ہندو غلبہ قائم کر دیا ہے۔ ہندو غلبے کے اس عمل کوتیز تر کرنے کے لیے حسینہ واجد حکومت نے تعلیمی نظام میں بھی ہندو ثقافت، روایات، عقائد، داستانوںاور مذہبی رسوم و رواج کو شامل کیا ہے۔ نصابی کتب میں تیرھویں سے سترھویں صدی تک سلاطین کے زمانے میں بنگال کی آزاد سیاسی تاریخ کو بھی مسخ کر کے دکھایا جاتا ہے۔ دوسری طرف بالکل یہی عمل ہندستان میں دُہرایا جا رہا ہے، جہاں نسل پرست حکومت اپنی کتابوں میں مغل سلطنت اور سلاطین دہلی کی تاریخ کو مسخ کر کے پیش کرتی ہے۔ اس سب کا حتمی مقصد یہ ہے کہ آغاز میں ہی نوجوانوں کے ذہن میں غلط معلومات اور مسخ تاریخ کو داخل کر کے بنگالیوں کا اسلامی تشخص ختم کر دیا جائے۔

سارک ریاستوں میں سے بھوٹان باضابطہ طور پر ہندستانی تسلط میں ہے۔ ہمالیہ میں واقع اس سلطنت نے نوآبادیاتی نظام کے خاتمے پر بھی آزادی کا چہرہ نہیں دیکھا۔ بیسویں صدی کے آغاز سے یہ علاقہ برطانوی ہندستان کے انتداب میں تھا۔ ہندستان کو نہ صرف یہ تعلق ورثے میں ملا، بلکہ ۱۹۴۹ء میں بھارت۔بھوٹان معاہدے کے ذریعے اس کو قانونی حیثیت بھی دے دی گئی۔ تب سے یہ ریاست باقاعدہ طور پر براہ راست نئی دہلی کے زیرتسلط ہے۔ اکیسویں صدی میں حسینہ واجد کے ذریعے ہندستان نے بنگلہ دیش کو بھی یہی حیثیت دے دی ہے۔ بھارت میں انتہاپسند نسل پرستی کے عروج کے ساتھ عسکری طور پر کمزور ممالک مثلاً بنگلہ دیش اور بھوٹان کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

’ہندوتوا‘ کا فلسفہ جنوبی ایشیا میں ہندو غلبے کا علَم بردار ہے۔ سخت قسم کے شدت پسند ہندو سمجھتے ہیں کہ ’اکھنڈ بھارت‘ کا نقشہ بنگلہ دیش سے لے کر افغانستان تک پورے جنوبی ایشیا پر مشتمل ہو گا۔ اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کا جنون انتہا پسند ہندوؤں کی کئی نسلوں کو اپنی گرفت میں لے چکا ہے۔ مشرق اور جنوب میں واقع ممالک کو فتح کرنا نسل پرست مودی حکومت کے لیے ضروری ہے تاکہ اپنے ووٹروں کو مطمئن رکھا جا سکے۔ حسینہ واجد اس مہم میں ہراول دستے کا کردار ادا کر رہی ہیں۔ وہ بڑی ذمہ داری سے تمام علاقائی اور بین الاقوامی فورمز پر ہندستانی موقف کی تائید کرتی نظر آتی ہیں۔ چنانچہ ہندستان کے لیے یہ ناگزیر ہے کہ بنگلہ دیش میں عوامی حمایت کے ساتھ یا اس کے بغیر، حسینہ واجد کی حکومت قائم رکھی جائے۔ پس حسینہ واجد کی فسطائی حکومت کے خلاف بنگلہ دیش کے جمہوریت پسند، مگر مظلوم اور مجبور عوام کی جدوجہد دراصل ملکی خودمختاری کے حصول کے ساتھ براہِ راست جڑی ہوئی ہے۔

ویسے تو ۲۰۱۹ء ہی میں بھارتی سپریم کورٹ کے عجیب و غریب فیصلے نے ایودھیا شہر میں واقع تاریخی بابری مسجد کی شہادت پر مہر لگادی تھی، مگر اب اس سال ۲۲جنوری کو اسی مسجد کی جگہ پر ایک بہت بڑے رام مندر کے افتتاح کے بعد یہ مسجد تاریخ کے اوراق میں گم ہوگئی۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے خود ہی اس مندر کا افتتاح کرکے بھارتی سیکولرازم کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔ مندر کے افتتاح سے قبل اور بعد میں پورے ملک میں یاترائیں نکالی گئیں اور کئی جگہوں پر شرپسندوں نے مسلم محلوں میں شر انگیزی کی۔ مسجدوں کے سامنے ’جے شر ی رام‘ کے نعرے لگائے گئے۔ دفاتر میں ایک دن کی چھٹی دی گئی اور دیوالی کی طرح چراغاں کیا گیا، کیونکہ بتایا گیا کہ چار سو برسوں کے بعد بھگوان رام کو اپنا گھر نصیب ہوا ہے۔

اساطیری کہانی رامائن کے مطابق:جب بارہ سال کے بن باس کے بعد رام واپس ایودھیا شہر آگئے تھے، تو اس وقت بھی اس طرح کا جشن نہیں منایا گیا ہوگا، جو اس وقت منایا گیا۔ ایودھیا میں پجاری پرم ہنس اچاریہ نے مغل بادشاہ ظہیرالدین بابر کا پتلا جلا کر اپنے دل کی بھڑاس نکال دی۔ مندر کے افتتاح کو پران پرتشٹھا کا نام دیا گیا، یعنی سیاہ پتھر سے بنی بھگوان رام کی جو مورتی اس مندر میں رکھی گئی، اس میں روح داخل کی گئی۔ ویسے ۱۹۴۹ء میں جب یہ قضیہ شروع ہوا تھا، تب بتایا گیا تھا کہ ’’بابری مسجد کے محراب میں بھگوان رام کی ایک چھوٹی سی مورتی نمودار ہوگئی‘‘، جس سے اخذ کیا گیا، کہ رام اسی جگہ پر پیدا ہوئے تھے۔سپریم کورٹ نے بھی مسمار شدہ بابری مسجد کی جگہ اسی مورتی یعنی رام للا کو دی۔ تاہم پولیس کا کہنا تھا کہ نرموہی اکھاڑہ سے تعلق رکھنے والے چندافراد عشا ء کی نماز کے بعد رات کی تاریکی میں دیوار پھاند کر مسجد میں گھس گئے اور مورتی محراب کے پاس رکھ دی، جس کی شکایت مسجد کے قریب رہائشی ہاشم انصاری نے درج کروائی ۔ اگلے دن پورے شہر میں افواہ پھیل گئی کہ بابری مسجد کی محراب میں رام کی مورتی نمودار ہوگئی ہے۔ مقامی انتظامیہ نے اس افواہ کی علّت کا تدارک کرنے کے بجائے مسجد پر ہی تالا چڑھا دیا۔ بعد میں ۱۹۸۰ء کی دہائی میں ہندوؤں کو پوجا پاٹ کرنے کی اجازت دی۔

ہندستان دھرم کے چار شنکر اچاریوں نے اس افتتاحی تقریب میں یہ کہہ کر شرکت کرنے سے منع کردیا کہ ’’ابھی مندر کی تعمیر نامکمل ہے اور اس میں کیسے مورتی میں روح ڈالی جاسکتی ہے؟ پوری تعمیر میں ابھی ایک سال اور لگ سکتا ہے‘‘۔ مگر مودی تاریخ میں اپنا نام درج کروانے کے علاوہ اس سال اپریل-مئی میں ہونے والے عام انتخابات میں ووٹروں کے دل لبھانے کے لیے ایجنڈے کو ترتیب دینے کے لیے بے چین تھے۔ ان کے رفقا نے تو اُلٹا شنکر اچاریوں پر ہی سوالات اٹھائے اور مودی ہی کو بھگوان ویشنو کا اوتار قرار دیا۔ جس طرح مودی کو اس مندر کے افتتاح کی جلدی تھی، لگتا ہے کہ عام انتخابات کے حوالے سے وہ خاصے فکرمند ہیں اور اقتدار میںواپسی کا ان کو شاید یقین نہیں ہے۔ ان کو معلوم تھا کہ اگر وہ انتخاب ہار جاتے ہیں یا کسی وجہ سے دوبارہ مسند پر بیٹھ نہیں پاتے، تو ان کی اپنی پارٹی ہی ان کی یاد کو ایسے کھرچ ڈالے گی، جیسے وہ کبھی پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔ یہ اس جماعت کا وتیرہ رہا ہے۔ جو کچھ ایل کے ایڈوانی اور مرلی منوہر جوشی کے ساتھ ہوا، مودی کو شاید آئینے میں وہ سب نظر آرہا تھا۔

ہندو قوم پرست جماعتیں، خاص طور پر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) تین متنازعہ ایشوز  لے کر ہی انتخابی میدان میں اترتی ہے۔ یہ ایشوز تھے بابری مسجد کی جگہ ایک عظیم الشان رام مندر کا قیام ، جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کا خاتمہ، اور پورے ملک میں یکساں سول کوڈ کا نفاذ۔ پچھلے دس سالہ دور اقتدار میں مودی حکومت نے دو اہم وعدوں کو عملی جامہ پہنایا ہے۔ یکساں سول کوڈ، مسلمانوں کے بجائے قبائل اور ہندوؤ ں کے ہی مختلف فرقوں کو قابل قبول نہیں ہے، کیونکہ شادی بیاہ کی رسوم بھارت کے ہر خطے میں مقامی رواج کے ساتھ عمل میں آتی ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق: ’’بی جے پی کے پاس ہندو ووٹروں کو لام بند کرنے کے لیے تین اہم ہتھیار: ’’گائے، پاکستان اور مسلمان‘‘ ہوتے ہیں۔ ۲۰۱۴ء کے انتخابات میں ’’گائے کو تحفظ فراہم کرنا‘‘ ایک اہم ایشو تھا۔ گائے اب اس حد تک محفوظ جانور ہے، کہ شمالی بھارت میں کسانوں کے لیے درد سر بن چکی ہے۔ دودھ خشک ہونے کے بعد ان کو گھروں سے نکالا جاتا ہے، تو یہ دندناتے ہوئے بغیر کسی خوف کے کھیتوں میں گھس کر کھڑی فصلوں کو تہس نہس کرتی رہتی ہیں۔ چند برس قبل مدھیہ پردیش کے کسی شہر میں ایک ٹرک حادثہ میں کسی بزرگ خاتون کی جان چلی گئی، جو سڑک کے کنارے چہل قدمی کررہی تھی۔ ٹرک کے ڈرائیور نے بتایا کہ سڑک پر ایک گائے کو بچانے کے لیے اس نے فٹ پاتھ پر ٹرک موڑ دیا، جس سے بزرگ خاتون کی جان چلی گئی۔ اس کا استدلال تھا کہ اگر گائے کو ٹکر لگ جاتی تو وہ اور اس کا ٹرک ’ہجومی تشدد‘ کی نذر ہوجاتا۔ خاتون کی جان جانے سے کم از کم وہ اور اس کا ٹرک تو محفوظ رہا۔ گائے کا ایشو انتخابات میں کیش ہو چکا ہے، اب اس پتّے پر ووٹ کی بازی جیتنا مشکل ہے۔

 بی جے پی نے۲۰۱۹ء میں ’پاکستان اور قومی سلامتی‘ کے ایشو کو لے کر بھاری منڈیٹ حاصل کرلیا۔ انتخابات سے بس چند ماہ قبل جنوری ۲۰۱۹ء میں رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق مودی حکومت خاصی غیر مقبول ہوگئی تھی اور ۵۴۳ رکنی ایوان میں بی جے پی ۲۰۰ سیٹوں کے اندر ہی سمٹ کررہ گئی تھی۔ مگر فروری میں کشمیر میں پلوامہ کے مقام پر فوجی ہلاکتوں اور پھر بالاکوٹ پر فضائیہ کے آپریشن نے تو فضا ہی بدل ڈالی اور انتخابی نتائج میں بی جے پی نے ۳۰۰کا ہندسہ عبور کرلیا۔ اب اس وقت پاکستان خود ہی اپنے گرداب میں پھنسا ہوا ہے۔ لائن آف کنٹرول پر سیز فائر بھی کامیابی کے ساتھ رُوبہ عمل ہے۔ اب لے دے کے ایک ہی ایسا ایشو بچتا ہے، ’’وہ ہے مسلمان‘‘۔

 رام مندر کے افتتاح کے لیے بھارتی وزیر اعظم کا خود موجود رہنا اور اس تقریب کو ’’صدیوں کی غلامی کا طوق اُتار پھینکنے‘‘ سے تشبیہ دینا ، واضح پیغام دے رہا تھا کہ اس بار ہدف  براہِ راست مسلمان ہے۔ اس لیے رام مندر کے افتتاح کے دن کو پورے ملک میں دیوالی کی طرح منایا گیا۔بی جے پی کے لیے سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ جنوبی بھارت میں اس کی دال گل نہیں رہی ہے۔ اگرچہ ریاست کرناٹک کے بغیر باقی جنوبی ریاستوں میں اس کا وجود پہلے سے ہی برائے نام تھا، مگر تلنگانہ، آندھرا پردیش اور تامل ناڈو میں وہ مقامی پارٹیوں کے کندھوں پر سوار ہوکر کسی طرح اپنا اُلو سیدھا کیا کرتی تھی۔ مگر یکے بعد دیگرے کرناٹک اور پھر تلنگانہ میں کانگریس کی جیت نے ان مقامی پارٹیوں کے غبارے سے ہوا نکال کر رکھ دی ہے اور تامل ناڈو میں اس کی اتحادی پارٹی ڈی ایم کے (DMK) بھی مضبوط پوزیشن میں ہے۔ لوک سبھا میں جنوبی بھارت کی ۱۳۲نشستیں ہیں۔

 بی جے پی نے ۲۰۱۹ء میں جن۳۰۳نشستوں پرقبضہ کیا، ان میں ۳۰ سیٹیں جنوبی بھارت سے تھیں۔ ۲۲۴نشستوں پر اس کو ۵۰فی صد سے زیادہ ووٹ ملے تھے۔ حکومت سازی کے لیے لوک سبھا میں ۲۷۲سیٹیں رکھنا لازمی ہے۔ یعنی اس ہدف کو پار کرکے بی جے پی کے پاس اضافی ۳۱سیٹیں ہی ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر بی جے پی شمالی بھارت کی سبھی ۲۲۴سیٹیں برقرار بھی رکھتی ہے، تو اس کو مزید ۴۸سیٹیں ساتھ ملانے کے لیے خاصی جدو جہد کرنی پڑے گی۔ پچھلی بار اس کو مہاراشٹرا، مغربی بنگال، اڑیسہ، تلنگانہ اور شمال مشرقی صوبوں سے کل ملا کر ۷۹سیٹیں حاصل ہوئی تھیں، جس نے اس کی تعداد کو تین سو سے اوپر پہنچایا دیا تھا۔

اس بار ان صوبو ں میں کانگریس کے زیر قیادت نو زائدہ ’انڈیا‘ ( یعنی انڈین نیشنل ڈیولپمنٹ انکلوسیو الائینس)اتحاد کو خاصی سیٹیں ملنے کا امکان ہے۔ بی جے پی کے اپنے اندرونی سروے کے مطابق اگر اپوزیشن متحدہ ہوکر لڑتی ہے تو ۱۰۱؍ایسی سیٹیں ہیں، جن پر دوبارہ جیتنا مشکل ہے۔ اگرچہ ابھی اپوزیشن میں سیٹوں کے بٹوارے پر خاصی لے دے ہونے کے امکانات ہیں، مگر جس طرح ابھی حال ہی میں پارلیمنٹ اراکین کو تھوک کے حساب سے معطل کر دیا گیا اور تفتیشی ادارے اپوزیشن لیڈروں کو زچ کررہے ہیں، اس سے لگتا ہے کہ وہ متحدہوکر انتخابات میں آر یا پار کی لڑائی لڑیں گے۔ اس وجہ سے بی جے پی کے لیڈروں کی نیند اُڑی ہوئی ہے۔ وہ اس تاک میں ہیں کہ کوئی ایسا ایشو ہاتھ آجائے ، جس سے ۲۰۱۹ءکی طرح پورے ملک کو سحر میں گرفتار کرکے ووٹ اس کی جھولی میں گر جائیں۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی رام مندر کا افتتاح ہے۔

 بابری مسجد پر جب سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تھا، تو لگتا تھا کہ اب ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان دیرینہ تنازعات ختم ہو جائیں گے۔ ۸۰کی دہائی کے آخر میں جب اس قضیہ نے ایک خون ریز رُخ اختیار کیا تھا، تو کئی مسلم لیڈروں اور علما جن میں مولانا وحید الدین خان پیش پیش تھے، مشورہ دیتے تھے، کہ ’’فرقہ وارانہ ماحول کو ختم کرنے کے لیے مسلمانوں کو اس مسجد کی قربانی دینی چاہیے‘‘۔ مگر بقول سینئر صحافی عبدالباری مسعود، ’’یہ سہانا خواب اَدھورا ہی رہ گیا۔ اب تو ہر دوسرے دن کسی نہ کسی مسجد پر دعویٰ ٹھونک کر ہندو تنظیمیں عدالتوں کا رُخ کرتی ہیں‘‘۔ اس سلسلے میں ابھی تک وارانسی کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی عید گاہ مسجد پر عدالت نے شنوائی بھی شروع کردی ہے۔ گو کہ نوّے کی دہائی میں پارلیمنٹ نے عبادت گاہوں کی موجودہ حیثیت کو ۱۹۴۷ءکی پوزیشن میں جوں کا توں رکھنے کا قانون پاس کیا تھا، تاہم اس میں صرف بابری مسجد کو باہر رکھا گیا تھا۔ مگر اب عدالتوں کا کہنا ہے کہ یہ قانون گو کہ موجودہ پوزیشن کو جوں کا توں رکھنے کی بات کرتا ہے، مگر یہ مسجد کسی اور عمارت یا عبادت گا ہ کے اوپر بنی ہے، اس کا فیصلہ کرنے یا تجزیہ کرنے سے نہیں روکتا ہے۔ ویسے اس پورے قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے، اور اس پر جلدیا بدیر کوئی فیصلہ آہی جائے گا۔ لیکن جس طرح کا فیصلہ بابری مسجد کے سلسلے میں آیا، اس کے بعد عدالت سے کس طرح کی توقع کرسکتے ہیں۔

 مستقبل کا مؤرخ بھی حیران و پریشان ہوگا کہ اکیسویں صدی میں بھی کسی جمہوری ملک کی عدالت کوئی ایسا فیصلہ دے سکتی ہے!وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی حکومت میں مشیر اور تجزیہ کار موہن گوروسوامی کے مطابق: ’’عدالت کا فیصلہ کچھ اس طرح کا تھا کہ کسی کے مکان پر قبضہ کرنا اور اس کو مسمار کرنا غیر قانونی اور جرم ہے، مگر اس کی جگہ پر نئے مکان کی تعمیر جائز ہے اور اس میں کوئی رکاوٹ نہیں آنی چاہیے‘‘۔۲۰۱۹ء میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے استدلال کے بجائے عقیدے کو فوقیت دے کر متنارعہ زمین، اساطیری شخصیت، ہندو دیوتا رام للاکے سپرد کرکے، وہاں پر ایک مندر بنانے کے لیے راستہ صاف کردیا تھا۔

اس فیصلے میں بھی کورٹ نے ہندو فریق کے دلائل کی دھجیاں بکھیر دی تھیں۔ ان کی دلیل بھی رَد کردی کہ مسجد کسی مندر کو توڑ کر بنائی گئی تھی۔سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے اندر مورتیاں رکھنے اور مسجد کو منہدم کرنے کے واقعات کو بھی غیر قانونی اور مجرمانہ سرگرمی قرار دیا ۔ کورٹ نے یہ بھی تسلیم کیا کہ وہاں بابری مسجد ایستادہ تھی اور نماز کا سلسلہ منقطع ہوجانے سے مسجد کا وجود ختم نہیں ہوجاتا۔عدالت نے مسجد کے نیچے کسی تعمیر کا تو اشارہ دیا ہے، مگر یہ تعمیر ۱۶ویں صدی کے بجائے ۱۱ویں صدی کی تھی۔ یہ بھی کہا ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ نے یہ نہیں بتایا کہ مسجد کی تعمیر مندر توڑ کر کی گئی تھی۔فیصلے کا دلچسپ پہلو یہ ہے، کہ عدالت نے فیصلہ ہندوؤں کے حق میں تو دیا، مگر مسمار شدہ مسجد کی زمین، ہندو فریقین کو دینے کے بجائے ، بھگوان رام کے سپرد کرنے کے احکامات صادر کر دیئے۔ پھر یہ بھی بتایا کہ چونکہ رام للا، نابالغ ہے، اس لیے اس کی سرپرستی کے لیے حکومت کو ایک ٹرسٹ بنانے کے لیے تین ماہ کا وقفہ دے دیا۔کورٹ نے بتایا کہ چونکہ رام للا کی مورتی بابری مسجد کی جگہ پر تعمیر کیے گئے عارضی مندر میں براجمان ہے، اس لیے وہ جگہ ان کی ملکیت ہے۔ کورٹ نے رام للا کو Juristic Personیعنی معنوی و اعتباری شخص، جس پر قانون کے سبھی حقوق و فرائض کا اطلاق ہوتا ہے، قرار دیا۔

 بابری مسجد کا مقدمہ ایک سیدھا سادا سا ملکیتی معاملہ تھا۔مگر جج صاحبان نے برسوں کی عرق ریزی کے بعد قانون اور آئین کی پروا کیے بغیرکہا کہ Law of Limitations کا اطلاق ہندو دیوی،یوتائوں پر نہیں ہوتا ہے اور نہ ان جگہوں پر ہوتا ہے جہاں ان کی نشانیاں ہوں۔ دوسرے لفظوں میں کسی بھی جگہ پر کوئی شخص کوئی مورتی، چاہے وہ پتھرکا ٹکڑا یا کسی درخت کی شاخ یا پتا ہی کیوں نہ ہو، رکھ کر اس پر مالکانہ حقوق جتا سکتا ہے، چاہے اس جگہ کا مالک وہاں صدیوں سے ہی مقیم کیوں نہ ہو۔ اس فیصلے کا اعتبار اور بھی مضحکہ خیز ہو جاتا ہے، جب جج صاحبان نے یہ تسلیم کیا کہ ’’بھگوان رام کا جنم اسی مقام پر ہوا جہاں بابری مسجدکا منبر واقع تھا‘‘، اور یہ بھی کہا کہ ان کے مطابق: ’’رام آٹھ لاکھ سال قبل مسیح میں اس جگہ پر موجود تھے‘‘۔ مگر دوسری طرف دنیا بھر کے تاریخ دان اور آثار قدیمہ کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ جنوبی ایشیا میں اتنی پرانی آبادی کے کوئی آثارابھی تک نہیں ملے ہیں۔

بھارتی سپریم کورٹ آزاد اور خودمختار ہی سہی، مگر جب اس طرح کامعاملہ یہاں پر پہنچتا ہے تو انصاف کی دیوی حقیقت میں آنکھوں پر پٹی باندھ لیتی ہے۔ اگر اس کو عدالتی بحث کا موضوع بنایا جاتا ہے، تو بہت سے مندروںاوردیگر عمارتوں کو توڑنا پڑے گا۔بھارت کے طول و عرض میں لاتعداد مندر تو بدھ مت اور جین مت کی عبادت گاہوں کو توڑ کر بنائے گئے ہیں۔ آٹھویں صدی میں آدی شنکر آچاریہ نے جب ہندو مت کے احیا کی خاطر ملک کے طول و عرض کا دورہ کرکے بدھ بھکشوؤںکے ساتھ مکالمہ کیا، تو بدھ عبادت گاہوں کو مندروں میں تبدیل کرایا۔ اشوکا [م:۲۳۲ ق م] اور کنشکا [پیدائش:۷۸ء]کے عہد حکومت میں تو بھارت کی کثیر آبادی بدھ مت اختیار کر چکی تھی، تو پھر آج بھارت میں بد ھ آبادی محض ۸۵ لاکھ یعنی کل آبادی کا اعشاریہ سات فی صد ہی کیوں ہے؟

بھارت میں ایک خطرناک نظیر پیش کر دی گئی ہے کہ مسلم دور کی کسی بھی عمارت کو لے کر تنازع کھڑا کر دیا جائے پھر محکمہ آثار قدیمہ سے کھدائی کرا کے اس کے نیچے کوئی ہندو اسٹرکچر بتا دیا جائے اور پھر اسے کھود ڈالا جائے۔ ہندی کے ایک معروف صحافی و سماجی کارکن شتیلا سنگھ نے اپنی ایک تصنیف ایودھیا۔رام جنم بھومی بابری مسجد وواد  کا سچ  میں انکشاف کیا ہے کہ کس طرح تین عشرے قبل ان کی موجودگی میں پرم ہنس رام چندر داس کی قیادت میں فریقین نے ایک فارمولے پر اتفاق کیا تھا۔ ’ویشوا ہندو پریشد‘ (VHP)کے سربراہ اشوک سنگھل جب اس فارمولے پر مہر لگانے کے لیے ہندو انتہا پسندو ں کی مربی تنظیم آرایس ایس کے سربراہ بالا صاحب دیورس کے پاس پہنچے ، تو ان کو خوب پھٹکار لگائی گئی۔ دیورس کا کہنا تھا ’’ رام مندر تو ملک میں بہت ہیں، اس لیے اس کی فکر (یعنی رام مندر کی تعمیر) چھوڑ کر اس کے ذریعے ہندو ؤں میں آرہی بیداری کا فائدہ اٹھانا ہے‘‘۔ یعنی اگر معاملہ سلجھ جاتا ہے تو فرقہ وارانہ سیاست کی آگ سرد ہوجائے گی اور اقتدار تک پہنچنے کا راستہ بند ہوجائے گا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق: بابری مسجدکا سانحہ اس خطے کی جدید تاریخ کے چھ بڑے واقعات میں سے ایک ہے۔ پہلا ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی، دوسرا ۱۹۲۰ء میں گاندھی کی قیادت میں کانگریس کا  نیا آئین اور سوراج کا مطالبہ، تیسرا ۱۹۴۷ء میں برصغیر کی تقسیم اور آزادی، چوتھا ۱۹۷۱ء میں بنگلہ دیش کا وجود میں آنا‘ اور پانچواں ۱۹۸۴ء میں سکھوں کی مقدس عبادت گاہ گولڈن ٹمپل پرحملہ اور چھٹا ۱۹۹۲ء میں بابری مسجد کا انہدام‘ جو دراصل اعتماد کا انہدام تھا۔

بابری مسجد کے قضیے کا لاہورکی مسجد شہید گنج کیس کے ساتھ موازنہ کرنا بے جا نہ ہو گا۔ یہ کیس اور اس پر پاکستانی سوسائٹی کا رویہ ’ہندوستانی سیکولرازم‘ او ر اس کی نام نہاد لبرل اقدار پر ایک زوردار طمانچہ ہے۔ ۱۷۶۲ء میں لاہور پر سکھوں کے قبضے کے بعد اس مسجد پر ان کے فوجیوں نے ڈیرہ ڈالا اور بعد میں اس کوگوردوارہ کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا۔ ۱۸۴۹ء میں جب پنجاب برطانوی عمل داری میں شامل ہوا تو مسلمانوں نے اس مسجد کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔ ’پریوی کونسل‘ نے Law of Limitation کو بنیاد بنا کر اس کا فیصلہ سکھوں کے حق میں کیا۔ ۱۸۵۰ء میں مسجد کے متولی نور احمد نے عدالت میں فریاد کی اور وہ ۱۸۸۰ء تک قانون کے مختلف دروازوں پر دستک دیتے رہے، مگر ہر بار Law of Limitation کا حوالہ دے کر عدالتیں ان کی اپیلوں کو خارج کرتی رہیں۔ ۱۹۳۵ء میں انگریز گورنر نے اس عمارت کو محکمہ آثار قدیمہ کے سپرد کرنے کی تجویز دی ‘ جس پر ابھی رائے عامہ ہموار ہو ہی رہی تھی کہ سکھوں نے رات کے اندھیرے میں مسجد کی عمارت ڈھا دی۔ جب بادشاہی مسجد لاہور سے ناراض مسلمانوں نے ایک پُرجوش جلوس نکالا تو کئی افراد لاہور کی سڑکوں پر گولیوں سے شہید کردیئے گئے۔ پورے لاہور میں کرفیو نافذکرنا پڑا۔ عدالتی فیصلے کو رَد کرنے کے لیے مسلم لیگ کے اراکین نے پنجاب اسمبلی میں قانون سازی کے ذریعے یہ جگہ مسلمانوں کے سپرد کرنے کی تجویز پیش کی۔ معروف قانون دان اور مؤرخ اے جی نورانی کے بقول قائد اعظم محمد علی جناح نے اسے رد کر دیا ۔ قائد اعظم کے شدید ناقد ہونے کے باوجود نورانی کا کہناہے کہ انھوں نے اس قضیے کو کبھی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیںکیا، بلکہ قانون کی عمل داری کا پاس کیا۔ پاکستان بننے کے ۷۰ سال بعد بھی یہ گوردوارہ لنڈا بازار میں آب و تاب کے ساتھ کھڑا ہے، جب کہ شاید ہی اب کوئی سکھ اسے عبادت کے لیے استعمال کرتا ہو۔ لاہور میں جس طرح اس مسئلے نے جذباتی رُخ اختیار کیا تھا، آزادی کے بعداندیشہ تھاکہ اس کو دوبارہ مسجد میں تبدیل کیا جاسکتا ہے، مگر کسی پاکستانی سیاستدان یا مذہبی شخصیت نے عدالت کا فیصلہ رد کرنے کی کوشش نہ کی۔

 اس کے برعکس بھارتی عدلیہ کی جانب داری کا عالم یہ ہے کہ ایک سابق چیف جسٹس جے ایس ورما نے ’ہندوتوا‘ کو مذہبی علامت کے بجائے بھارتی کلچرکی علامت اور ایک نظریۂ زندگی بتایا ۔ انھوں نے ہندو انتہا پسندوںکے گورو ویر ساورکر یا گولوالکر کی تصنیفات کے بجائے مولانا وحیدالدین خان کی تحریروںپر اعتماد اور انحصار کر کے ہندو انتہا پسندی کو ایک جواز فراہم کردیا۔ ۱۹۹۲ء میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس وینکٹ چلیا کے طریق کار نے بھی مسجد کی مسماری کی راہ ہموارکی۔ وہ مسجد کو بچانے اور آئین و قانون کی عمل داری کو یقینی بنانے کے بجائے کار سیوکوں (مسجد کو شہید کرنے والے) کی صحت کے بارے میں زیادہ فکرمند تھے۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ ۱۹۹۸ء میں بی جے پی حکومت نے انھیں ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیشن کا سربراہ مقرر کردیا۔

 نورانی نے اپنی کتابDestruction of Babri Masjid:A National Dishonour میں کئی حقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کانگریس کے اندرا گاندھی کے دور اقتدارمیں ہی بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کی راہ ہموار کرنے کے لیے ’ویشوا ہندو پریشد‘ کے ساتھ ایک ڈیل ہوئی تھی۔اگرچہ پریشد نے اندرا گاندھی کی ہلاکت کے بعد اپنی تحریک روک دی، مگر راجیو گاندھی نے اس ڈیل کو پھر زندہ کیا،تاہم اس سے پہلے وہ مسلمانوں پر کوئی احسان کرنا چاہتے تھے۔  اس کے لیے ان کے حواریوں نے ایک مسلم مطلقہ خاتون شاہ بانو کا قضیہ کھڑا کرکے پارلیمنٹ سے ایک قانون پاس کروایا کہ مسلم پرسنل لا میں عدالت کوئی ترمیم نہیں کر سکتی۔مصنف کے بقول انھوں نے راجیو گاندھی کو مشورہ دیا تھا کہ اس قضیہ کو کھینچنے کا کو ئی فائدہ نہیں ہے، اور اس کو اینگلو محمڈن قانون کے بجائے شرعی قانون کے مطابق حل کیا جاسکتا ہے ،مگر وہ مسلمانوںکو سیاسی طور پر بے وقوف بنانے پر تلے ہوئے تھے، تاکہ پریشد کے ساتھ ڈیل کو آگے بڑھایا جاسکے۔ اور یہی ہوا۔

کانگریس پارٹی کے علاوہ دیگر سیکولر جماعتوں سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی، جن کی سانسیں ہی مسلمانوں کے دم سے ٹکی ہیں، کا رویہ بھی افسوس ناک رہا ہے۔ ان دونوں پارٹیوں نے،جو پچھلے ۲۰برسوں سے اتر پردیش میں حکومت کر رہی ہیں ،بابری مسجد کی مسماری کے ملزمان کے خلاف کارروائی کرنے میں کبھی کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔حتیٰ کہ ایک معمولی نوٹیفکیشن تک کا اجرا نہیں کرسکیں، جس سے خصوصی عدالت میں ان افراد کے خلاف مقدمہ چلایا جا سکتا۔

یہ ہے بھارت میں سیکولرزم کا جنازہ اور ہندو نسل پرستی کا جادو!

کشمیریوں کے خصائل اور کردار پر بات کرتے ہوئے پنڈت نہرو نے کہا تھا: کشمیری بہت ذہین اور بہت سی صلاحیتوں کے حامل ہونے کے باوجود شرپسند نہیں ہیں، بلکہ یہ لوگ نرم خو اور آرام دہ طرزِ زندگی کے خواہش مند ہیں۔ جنھیں چند ایک چیزوں جیسے ایمان دار انتظامیہ اور سستی و مناسب غذا کے سوا دوسری چیزوں سے سرو کار نہیں، اور اگر انھیں یہ چیزیں فراہم کر دی جائیں تو یہ لوگ آپ کے مد مقابل ہرگز کھڑے نہیں ہوں گے۔ کہتے ہیں نہرو نے شیخ محمد عبداللہ سے یہ بھی کہا تھا: بھارت کشمیریوں کو سونے کی زنجیروں میں جکڑ لے گا یہاں تک کہ یہ لوگ آزادی اور حقِ خود ارادیت جیسے الفاظ ہی بھول جائیں گے۔

اگرچہ نہرو کی ان دونوں مبینہ باتوں سے مکمل طور پر اتفاق نہیں کیا جاسکتا لیکن اس سے بہرحال ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نہرو کیونکر مسئلہ کشمیر کو مذاکرات کے بہانے طول دینا چاہتے تھے، تاکہ وہ وقت حاصل کر کے کشمیریوں کو سونے کی زنجیروں میں جکڑ سکیں۔ ۱۹۵۲ء میں پنڈت نہرو نے ایک خط کے ذریعے شیخ عبداللہ سے مطالبہ کیا کہ وہ کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کے ذریعے متنازعہ الحاق کی توثیق کروا کر اس مسئلے کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیں، کیونکہ اس مسئلے کی وجہ سے ہی بھارت کے اپنے پڑوسی پاکستان کے ساتھ تعلقات کشیدہ تھے جو عالمی سطح پر بھارت کے لیے سبکی کا باعث بن رہے تھے۔ مگر شیخ عبداللہ کے ساتھ مسئلہ یہ تھا کہ وہ دہلی کے ساتھ ’تیتر بٹیر والا‘ کھیل کھیل رہے تھے۔ چنانچہ جب وہ دلی جاتے تو بھارت کے حق میں بیان داغ دیتے، اور جب کشمیر میں ہوتے تو الحاق ہند کی مخالفت میں بیان دیتے۔اس پر مستزاد یہ کہ جب شیخ عبداللہ کے نہرو کے ساتھ اچھے تعلقات ہوتے تو اس وقت وہ خود کو ہندوستانی کہتے، لیکن جونہی نہرو کے ساتھ ان کی ذرا سی اَن بن ہو جاتی، تو وہ کشمیر کی آزادی کی بات کرنے لگ جاتے۔ شیخ عبداللہ کا یہ رویہ نہرو اور سردار پٹیل کو کسی بھی صورت میں قابلِ قبول نہیں تھا۔ ویسے بھی انھیں جو کام ان سے لینا تھا، وہ پہلے ہی لے چکے تھے۔ ان کے نزدیک اب شیخ عبداللّٰہ کی وہ اہمیت نہیں رہی تھی جو ۱۹۴۷ء تک تھی۔

 اب پیمانے بدل چکے تھے اور بھارتی حکومت کشمیر میں نئے چہرے تلاش کر رہی تھی، جو ان کے منصوبوں کے عین مطابق کام کرسکیں۔ اس کام کے لیے کانگریس کی نظرِ انتخاب شیخ عبداللّٰہ کے قریبی ساتھی بخشی غلام محمد پر جا پڑی، چنانچہ ۱۹۵۳ء میں نہرو نے شیخ عبداللّٰہ کو کرسی سے اتار کر جیل میں ڈال دیا اور بخشی غلام محمد کو کشمیر کا وزیر اعظم بنا دیا۔ بخشی غلام محمد نے ’نیا کشمیر‘ کا نعرہ لگا کر کشمیر کی معاشی ترقی اور خوش حالی کا بیڑا اٹھایا اور حکومت کرنے لگے۔ اقتدار میں آتے ہی بخشی غلام محمد نے کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کے ذریعے متنازعہ الحاق کی توثیق کرا دی اور اپنا سارا زور کشمیری قوم کو بھارتی یونین میں ضم کرنے میں لگا دیا۔ یہ انضمام صرف زمینی اور سیاسی نہ تھا بلکہ معاشی انضمام بھی تھا۔ اس مقصد کی خاطر بخشی حکومت کے لیے نئی دہلی حکومت نے اپنے خزانے کھول دئیے۔

شیخ عبداللّٰہ کے دور حکومت میں کشمیر کے ہوم سیکرٹری اور پھر ہوم منسٹر رہنے والے ڈی پی دھر، پنڈت نہرو کے خاص آدمی تھے۔ انھوں نے بقولِ شیخ عبداللّٰہ نہرو کو یہ مشورہ دیا کہ کشمیریوں کو سیاست بالکل بھی نہیں آتی، زیادہ سے زیادہ اگر انھیں کسی چیز کی فکر ہے تو وہ ہے مناسب اور دلکش کھانا۔  ڈی پی دھر کے بقول کشمیریوں کے دل تک پہنچنے سے پہلے ان کے معدے تک رسائی حاصل کرنی ہوگی۔ رفتہ رفتہ جب یہ لوگ بہترین کھانا اور مفت سہولیات حاصل کر کے آسان طرزِزندگی کے عادی ہو جائیں گے، تو لازماً آزادی کو بھول جائیں گے۔ دھر کے الفاظ میں They could be won over gastronomically ۔ یہ حکمت عملی برطانیہ کی چین میں اپنائی جانے والی ’افیون حکمت عملی‘ کے طرز پر تھی۔

 بخشی غلام محمد نے اسی حکمت عملی کے تحت لوگوں کو غلامی کا خوگر بنانا شروع کیا۔ انھوں نے لوگوں کو سرکاری نوکریاں دینا شروع کیں اور ہر کس و ناکس کے لیے حکمنامے جاری کرنے شروع کیے۔ اس طرح رفتہ رفتہ کشمیری قوم کو ایک خاص Comfort Zone (گوشۂ عافیت) میں دھکیلا گیا۔  اس حکمت عملی کو Politics of Life کہا جاتا ہے، جس میں مقبوضہ علاقے کا باقی دنیا سے رشتہ کاٹ کر مکمل طور پر قابض ملک کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ فلسطین میں اسرائیل اور کشمیر میں بھارت اسی حکمت عملی کے ذریعے لوگوں کے عزم کو کمزور کر رہے ہیں۔ مشہور ہے کہ جب کوئی شخص بخشی غلام محمد کے پاس نوکری مانگنے جاتا تو بخشی صاحب وہیں بیٹھے بیٹھے ماچس کے ڈبے پر یا کاغذ کی پھٹی ہوئی سلپ پر اسے نوکری کا پروانہ تھما دیتے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ جو شخص بخشی کے دور میں بھی بھوکا رہا، وہ زندگی بھر پھر کبھی پیٹ بھر کھانا نہیں کھا سکتا۔اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بخشی دورِ حکومت میں پیسے اور سہولیات کی کتنی ریل پیل رہی ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ معاشی آسودگی کے اعتبار سے بخشی دور حکومت کو کشمیر کا منفرد دور قرار دیا جاتا ہے۔

تاہم اس دور کے پیچھے دو وجوہ کارفرما تھیں: پہلی یہ کہ کشمیر میں تعمیر و ترقی کو فروغ دے کر اول تو دنیا کے سامنے یہ دلیل پیش کی جائے کہ کشمیر میں سب کچھ ٹھیک ہے اور لوگ بھارت کے ساتھ الحاق کر کے خوش ہیں۔ دوم یہ کہ کشمیری قوم کو کمفرٹ زون میں دھکیل کر رام کیا جائے، تاکہ انھیں جذباتی طور پر بھارت میں ضم کیا جا سکے۔ یہ کشمیر میں استعماریت (Colonialism) کی طرف پہلا قدم تھا جس کا بی جے پی ’آبادکار استعماریت‘ (Settler Colonialism ) کے ذریعے اب کلائمکس چاہتی ہے۔

 بخشی دور حکومت کے بعد ۱۹۶۲ء میں بھارت چین، ۱۹۶۵ء میں پاک بھارت اور ۱۹۷۱ء میں پھر دوسری پاک بھارت جنگ ہوئی۔ اسی دوران سقوطِ ڈھاکہ کا دل خراش واقعہ پیش آگیا۔ اس پر مستزاد یہ کہ ذوالفقار بھٹو اور اندرا گاندھی کے درمیان ’شملہ معاہدہ‘ بھی ہوا۔ ان تمام تاریخی واقعات بالخصوص سقوطِ ڈھاکہ کے بعد ’شملہ معاہدہ‘ کا مسئلہ کشمیر پر براہِ راست اثر پڑا۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد شیخ عبداللہ نے اندرا گاندھی کے ساتھ جو معاہدہ کیا، اسے ’اندرا عبداللہ ایکارڈ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ شیخ عبداللہ نے ۲۲ سال کی جدوجہد کو ’۲۲ سالہ صحرا نوردی اور سیاسی آوارہ گردی‘ کا نام دے کر اپنی طرف سے مسئلہ کشمیر کی بساط ہی لپیٹ دی۔

اس کے بعد ۱۹۸۴ء میں شہید مقبول بٹ کو تختۂ دار پر چڑھایا گیا۔ تحریکِ آزادئ کشمیر میں فیصلہ کن موڑ اس وقت آیا، جب ۱۹۸۸ء کے انتخابات میں ریکارڈ توڑ دھاندلیوں کے جواب میں کشمیری نوجوانوں نے جمہوری طریقوں سے مایوس ہو کر مسلح مزاحمت کا راستہ اختیار کرلیا۔ اس طرح کشمیر کی تاریخ میں عسکری تحریک کا آغاز ہوا اور کشمیر کی تحریک آزادی اپنے دوسرے دور میں داخل ہوگئی۔

 اس وقت اگر آپ کشمیر کی آبادی کو تقسیم کریں تو آپ کا سابقہ چار نسلوں کے لوگوں سے پڑے گا۔ پہلی نسل وہ ہے، جس نے یا تو ڈوگرہ دور حکومت کے خلاف مزاحمت کی یا وہ اسی مزاحمت کے دوران پیدا ہوئے۔ یہی وہ نسل ہے جس نے تحریکِ آزادیٔ کشمیر کی بنیاد رکھی۔ بدقسمتی سے شیخ عبداللّٰہ اس نسل کے قائد ِکارواں تھے۔ یہ نسل تحریک آزادی کا اختتام، آزادی کی صبح پر نہیں کرپائی۔ شیخ عبداللّٰہ کی ایک غلطی نے کشمیری قوم کو آزادی کی منزل سے مزید سو سال دور کر دیا۔ بقول اقبال:

  لیکن نگاہِ نُکتہ بیں، دیکھے زبوں بختی مری

’’ رفتم کہ خار از پاکشم ، محمل نہاں شد از نظر

  یک لحظہ غافل گشتم و صد سالہ راہم دَور شد‘‘

 دوسری نسل پہلی نسل کے لوگوں کی اولاد ہے، جو۱۹۶۵ء اور ۱۹۷۵ء کے درمیانی عرصے میں پیدا ہوئی۔ یہی وہ نسل ہے جس نے ۱۹۸۸ء میں مسلح مزاحمت کا راستہ اختیار کیا تھا ۔ تیسری نسل جو۱۹۹۰ء اور ۲۰۰۴ء کے درمیان یعنی مسلح مزاحمتی تحریک کے عین شباب میں پیدا ہوئی۔ اور چوتھی نسل وہ ہے جو۲۰۰۴ء کے بعد پیدا ہوئی جب مشرف کا چار نکاتی فارمولا گفتگو کا موضوع بنا ہوا تھا۔ جہاں تک پہلی نسل کے لوگوں کا تعلق ہے، یہ لوگ اس وقت اپنی عمر کے آخری پڑاؤ میں ہیں، لہٰذا ان سے بھارت کو کسی قسم کا خطرہ نہیں ہے۔ دوسری نسل جس نے مسلح مزاحمتی تحریک میں حصہ لیا تھا، اس وقت تقریباً پچاس اور ساٹھ سال کی عمر کے درمیانی حصے میں ہیں۔ ان لوگوں نے مسلح مزاحمتی تحریک کے دوران بھارت کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم کا بذاتِ خود مشاہدہ کیا ہے، یہ لوگ بھی اب بھارت کے لیے اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہیں۔

رہی آخری دو نسلیں جن میں ۱۹۹۰ءکی مسلح مزاحمتی تحریک میں پیدا ہونے والی نسل نے۲۰۰۸ء، ۲۰۱۰ء اور ۲۰۱۶ء کی تحریک کو جنم دیا، جب کہ آخری نسل جو ۲۰۰۴ء کے بعد پیدا ہوئی، ان تحریکات کے دور میں کم عمری کی وجہ سے حالات سے اتنی آگاہ نہیں ہے۔ البتہ مستقبل میں کشمیر کی تحریک آزادی کیا رُخ اختیار کرتی ہے؟ اس کا انحصار انھیں آخری دو نسلوں پر ہے۔ یہ بات بھارت کے منصوبہ ساز ادارے بھی بخوبی جانتے ہیں اور اسی وجہ سے تیسری نسل کے جوانوں کو ٹارگٹ کر کے یا تو ہیرو بنا کر چوتھی نسل کے سامنے پیش کیا جاتا ہے یا پھر انھیں آہستہ آہستہ منظر سے ہٹایا جاتا ہے۔ اس نسل کو رام کرنے کے لیے بھارت Stick and Carrot والی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔

سب سے پہلے ’Carrot‘ یعنی ’نرم پالیسی‘ اختیار کرکے سکولوں اور کالجوں میں ان کی ذہن سازی کی جاتی ہے تاکہ یہ لوگ کسی بھی طرح سے نئی دہلی کے ’قومی دھارے‘ میں شامل ہو جائیں، اور جو لوگ اس حکمت عملی میں نہیں پھنستے انھیں ’سٹک‘ کے ذریعے مجبور کیا جاتا ہے۔ ’سٹک‘ کے معاملے میں صرف ڈرانا دھمکانا نہیں بلکہ دیگر بہت سے ذرائع ہیں ، جیسے جسمانی طور پر ٹارچر کرنا، ذہنی پریشان کرنا، قید و بند کی صعوبتیں، پی ایس اے ایکٹ لگا کر کریئر کو تباہ کرنا اور نشے کی لت میں مبتلا کروانا جیسے ہتھکنڈے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت جموں و کشمیر میں تقریباً ۱۳لاکھ ۵۰ہزار افراد نشے کی لت میں مبتلا ہیں، جن میں تقریباً ایک لاکھ خواتین بھی شامل ہیں،جب کہ دس سال قبل پوری ریاست میں یہ تعداد ایک یا ڈیڑھ لاکھ سے سے زیادہ نہیں تھی۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ حالات کس سمت میں لے جائے جا رہے ہیں۔

 نئی نسل کی ذہن سازی کے لیے کبھی بھارتی فلم انڈسٹری کا سہارا لیا جاتا ہے، کبھی کے اے ایس اور آئی اے ایس افسران کو ترقیاں دے کر نوجوان نسل کو ان کی دیکھادیکھی کشمیر کی بھارت نواز بیوروکریسی کی طرف مائل کیا جاتا ہے۔جان بوجھ کر طے شدہ منصوبے کے تحت کشمیر میں پہلے بے روزگاری کو بڑھاوا دیا جاتا ہے، پھر سروس سلیکشن بورڈ (ایس ایس بی) کے ذریعے سرکاری ملازمتوں کے لیے نوٹس نکالے جاتے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آسامیاں پُر کرنے کے لیے پہلی فہرست میں آزادی پسند ملازمین کو ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگاکر نوکریوں سے برخواست کر دیا جاتا ہے اور پھر ان کی جگہ نئی آسامیوں کو پُر کیا جاتا ہے۔ اسی طرح نوجوان نسل کو ٹارگٹ کر کے لیفٹیننٹ گورنر کی طرف سے خصوصی انعامات دلا کر انھیں ’یوتھ آئکون‘ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ صحافیوں کی ایک فوج اس مقصد کے لیے تیار کی گئی ہے، جو عوام کو روز مرہ کے جھمیلوں میں اُلجھائے رکھنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔

چوتھی نسل جو اس وقت شعوری طور پر خام ہے، تعلیمی اداروں میں مخصوص تاریخ پڑھا کر ان کی اسلامی روح فنا کی جا رہی ہے۔ بھارتی حکومت کی طرف سے ہر سال تقریباً پانچ ہزار کشمیری طلبہ و طالبات کو’پرائم منسٹرز اسپیشل اسکالرشپ اسکیم‘ (PMSSS) کے تحت وظائف فراہم کیے جاتے ہیں، جس کے پیچھے صرف یہ مقصد کار فرما ہے کہ کشمیر کی نوجوان نسل جب بھارتی ریاستوں میں مخلوط تعلیمی نظام میں پروان چڑھے گی، تو لازماً بھارت کے مشرکانہ ماحول کو اپنے اندر جذب کرلے گی۔ اس طرح سے بوائے فرینڈ، گرل فرینڈ کلچر کو فروغ ملے گا اور ان کی غیرت و حمیت فنا ہوجائے گی۔ پہلے ہی کشمیر میں نوجوان ’غمِ روزگار‘ کے مارے ہوئے ہیں، اس پر جب ’غم عشق‘ کا بھی اضافہ ہوگا تو اس کا نتیجہ ڈپریشن اور قنوطیت کی صورت میں نکلے گا۔ اور یوں نئی نسل اپنے اصلی مقصد سے دُور ہو جائے گی۔

بھارتی حکومت نے تقریباً تین سو سے زائد NGO's کو کشمیری طلبہ و طالبات کے لیے خصوصی پیکیجز مختص کرنے کی ہدایت کی ہوئی ہے اور ہر سال ان پیکیجز میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ یہ NGO's کبھی ’اُڑان‘ کے نام پر تو کبھی ’کھیلو انڈیا‘ پروگرامات کے تحت کشمیری طلبہ و طالبات کو نوکریوں کے بہانے باہر کی ریاستوں میں لے جاتے ہیں۔ اس کام کے لیے کشمیر کی خوب صورت دوشیزاؤں کو اوّلین ترجیح دی جاتی ہے اور اخبارات میں با ضابطہ طور پر اشتہارات دیئے جاتے ہیں۔ جب یہ لڑکیاں باہر کی ریاستوں میں پہنچتی ہیں تو وہاں آر ایس ایس کا ایک مخصوص گروہ انھیں اپنے جال میں پھانسنے کے لیے پہلے سے ہی تیار ہوتا ہے۔ بھارت میں اس گروہ کو’بھگوا لوّ ٹریپ‘  (Bhagva Love Trap) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جس کا مقصد بھولی بھالی مسلم بچیوں بالخصوص کشمیری لڑکیوں کو اپنی محبت کے جال میں پھنسا کر ان کا مذہب تبدیل کروانا ہوتا ہے۔ آرایس ایس اس کے لیے ان کی خصوصی معاونت کرتی ہے۔

کچھ سال پہلے تک کشمیر میں یہ قانون تھا کہ اگر کوئی کشمیری خاتون کسی غیر ریاستی باشندے سے شادی کر لیتی تو اسے وراثت میں کسی قسم کا حصّہ نہیں مل سکتا تھا، لیکن بھارت نے اس قانون کو ختم کرکے ردی کی ٹوکری میں ڈالتے ہوئے آر ایس ایس کے بھگوا اسکواڈ کو کھلی چھٹی دے دی ہے۔ جموں صوبہ کی ہزاروں ہندو لڑکیاں ایسی ہیں، جو بھارت کی دیگر ریاستوں میں شادیاں کر چکی ہیں اور اس طرح سے ان کے شوہروں کو بھی کشمیر میں مالکانہ حقوق حاصل ہوگئے ہیں۔ یہ مسئلہ ابھی تک تو اتنا خطرناک نہیں تھا، لیکن اگست ۲۰۱۹ء میں چونکہ دفعہ ۳۷۰ کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا ہے، اس وجہ سے صورت حال خوفناک ہوتی جارہی ہے۔ دفعہ ۳۷۰ کے ہوتے ہوئے کوئی بھی غیر ریاستی باشندہ کشمیر میں نہ تو زمین کے مالکانہ حقوق حاصل کرسکتا تھا اور نہ ووٹ ڈال سکتا تھا، لیکن اس کے خاتمے کے ساتھ ہی یہ شرط ختم ہو گئی ہے۔ اب بھارت کی کسی بھی ریاست کا باشندہ کشمیر میں زمین خرید بھی سکتا ہے اور ووٹ بھی ڈال سکتا ہے۔

آر ایس ایس اسی لیے دستورِ ہند بنتے ہی دفعہ ۳۷۰ کو ختم کروانا چاہتی تھی تاکہ کشمیر میں ہندوؤں کو بسا کر مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا جاسکے، اور یہ امکان بھی دم توڑ جائے کہ اگر کبھی حریت پسند قیادت اور عالمی دباؤ کے تحت کشمیر میں ریفرنڈم کروانا پڑے تو اس وقت ہندو آبادی چونکہ اکثریت میں ہوگی، اس لیے ان کا ووٹ بھارت کے حق میں پڑے گا اور یوں کشمیری قوم کی غلامی کی رات مزید طویل ہو جائے گی۔

 حالات کی شدت بتا رہی ہے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس اس مسئلے کو اپنی مرضی کے مطابق انجام تک پہنچانا چاہتے ہیں اور کشمیر کو ہندو سٹیٹ بنانے کے اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے جا رہے ہیں۔ پنڈتوں کو الگ کالونیوں میں بسانے کے بعد اب اسرائیلی طرز پر فوجی کالونیوں (Sainik Colonies) بنائی جا رہی ہیں۔ پیر پنجال صوبہ کے مسلمانوں کو دبانے کے لیے وہاں VDC یعنی ’ولیج ڈیفنس‘ کمیٹیاں پہلے سے ہی موجود تھیں، اب انھیں مزید مضبوط کیا جا رہا ہے۔ کل کو اگر VDC's کے یہ مسلح غنڈے پیر پنجال میں مسلمانوں کا قتلِ عام شروع کردیتے ہیں تو کون ہے جو انھیں روک سکتا ہے؟ جموں صوبہ جہاں پہلے سے ہی ہندوؤں کی اکثریت ہے، VDC's کا ہونا کس بات کی طرف اشارہ کررہا ہے؟ ابھی گذشتہ مہینے ہی فوج نے پونچھ ضلع میں تیرہ نوجوانوں پر ٹارچر کیا، جن میں تین نوجوان زیر تشدد ہی شہید ہوگئے۔

سوشل میڈیا پر کشمیری مسلمانوں کی جاسوسی کی جا رہی ہے کہ کون کیا کر رہا ہے، کس سے رابطے میں ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ جس جس پر حکومت کو آزادی پسند ہونے کا شک ہوتا ہے اسے زینتِ زنداں بنا دیا جاتا ہے۔ ایک طرف ہندوؤں کو مضبوط کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف کشمیر میں موجود آزادی پسند تنظیموں خواہ وہ اسلامی ہوں یا قوم پرست، سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جا رہا ہے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کشمیر میں کسی بھی قسم کی آزادی پسند تحریک کو برداشت نہیں کرنا چاہتی ہے۔ پہلے جماعت اسلامی پر پابندی عائد کر دی گئی، پھر جے کے ایل ایف کو ملک مخالف قرار دے کر غیر قانونی قرار دیا گیا اور اب مسلم لیگ اور تحریکِ حریت پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ گوتم نولکھا کے بقول بھارت جب کشمیریوں پر جمہوری طریقے بند کر دے گا، تو لازماً اس کا نتیجہ عسکری تحریک کی صورت میں نکلے گا۔

اس وقت کشمیر میں تقریباً آٹھ سے نو لاکھ بھارتی فوج موجود ہے۔ اس کے علاوہ انتخابات اور امرناتھ یاترا کی سیکورٹی کے نام پر الگ سے فوج منگوائی جاتی ہے، آخر اتنی فوج کا کشمیر جیسی وادی میں کیا کام؟ جب ایک چھوٹی سی وادی میں آٹھ نو لاکھ فوج موجود ہو، ولیج ڈیفنس کمیٹی کے نام پر مسلح جتھے ہوں، آر ایس ایس کے غنڈوں کی کثیر تعداد میں نفری ہو، وہاں کس قسم کے خوف کا ماحول ہوگا؟ اس کا اندازہ آپ فلسطین کی صورتِ حال دیکھ کر لگا سکتے ہیں۔

اسی خوف تلے کشمیر میں نفسیاتی امراض بالخصوص خواتین میں روز بہ روز بڑھ رہے ہیں۔ Poly Cyst Ovarian Syndrome اس وقت وادئ کشمیر میں سب سے زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ حرکت قلب بند (Cardiac Arrest ) ہونے کے کیسوں میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ ان حالات کی یلغار میں اگر وادی کو بذریعہ ٹرین بھارت کی دیگر ریاستوں سے جوڑا جا رہا ہے تو سمجھ جانا چاہیے کہ آر ایس ایس اور بھارت کے منصوبہ ساز ادارے کیا کرنے جا رہے ہیں۔ آخر بھارت اتنا بیوقوف بھی نہیں ہے کہ جو کشمیری مسلمان ان سے آزادی مانگتے ہیں اور ان پر پتھر برساتے ہیں، ان کے لیے وہ ۲۸ہزار کروڑ کی لاگت سے ٹرین کی سہولت فراہم کرے۔

بھارتی ریاستوں کے لوگ اس وجہ سے بھی کشمیر نہیں آتے تھے کہ بس، ویگن یا کار کے ذریعے کشمیر کا سفر دشوار گزار ہے، لیکن ٹرین کی آمد کے ساتھ یہ مشکل بھی ختم ہو جائے گی اور غیرریاستی لوگ مزدوروں اور سیاحوں کے نام پر سیلاب کی مانند کشمیر کا رخ کریں گے۔ نہرو نے سچ کہا تھا کہ بھارت کشمیریوں کو سونے کی زنجیروں میں جکڑ دے گا، اور زنجیر چاہے سونے کی ہو یا لوہے کی، ہرصورت میں یہ غلامی کی علامت ہوتی ہے۔ ٹرین سروس بھی کشمیریوں کے لیے غلامی کی زنجیر سے کم نہیں ہے۔ اس سروس کے بحال ہوتے ہی بھارت کی مختلف ریاستوں سے لوگوں کو لا لا کر وادی میں بسایا جائے گا اور انھیں ولیج ڈیفنس کمیٹیوں کے نام پر مسلح کیا جائے گا، پھر جب بھارتی فوج، آر ایس ایس کے غنڈے اور یہ ہندو جتھے کشمیری مسلمانوں کا خون بہا رہے ہوں گے تو انھیں فسادات کا نام دے کر دبا دیا جائے گا۔ ۱۹۴۷ء میں جموں میں کیا جانے والا قتلِ عام، اس کی زندہ مثال ہے، جب تقریباً پانچ لاکھ مسلمانوں کا نسلی صفایا کیا گیا اور پھر اسے تاریخ سے غائب کر کے کسی کو بھنک بھی نہیں پڑنے دی گئی۔ آج کشمیر کی نئی نسل کو جموں قتلِ عام کے بارے میں بالکل بھی نہیں پتہ کہ وہاں کیا ہوا تھا۔ بالکل اس طرح جیسے ایک سال کے دوران مکتی باہنی اور بھارتی مداخلت کاروں کے ہاتھوں مشرقی پاکستان میں غیربنگالیوں کا ہولناک قتل عام کروا کے اس کا تذکرہ غائب کرادیا گیا۔

ان دنوں کشمیر میں انتخابات کا بگل بجایا جا رہا ہے اور کشمیر کو پھر سے ریاست کا درجہ دینے کی باتیں ہو رہی ہیں۔کشمیر کی بھارت نواز سیاسی جماعتیں اپنی بازی گری کے کرتب دکھانے میدان میں اُتری ہوئی ہیں۔ اس بار ان کا منشور ہے: ’دفعہ ۳۷۰ کو دوبارہ واپس لاکر رہیں گے‘۔  اب اس نام پر کشمیری عوام کو فریب دیا جا رہا ہے کہ اگر کشمیری عوام انھیں ووٹ دیتے ہیں تو وہ  دفعہ۳۷۰ کو واپس لا کر رہیں گے، جب کہ نریندر مودی نے دو ٹوک الفاظ میں یہ بات کہی کہ دنیا کی کوئی بھی طاقت دفعہ ۳۷۰ کو واپس نہیں لا سکتی۔ انتخابات میں چاہے نیشنل کانفرنس جیتے، پی ڈی پی جیتے یا پھر الطاف بخاری کی پارٹی جیت جائے۔ یا اگر یہ ساری جماعتیں متحد ہوکر بھی جیت جائیں، تب بھی انھیں دلی کے سامنے ناک رگڑنے پر مجبور کیا جائے گا۔ لہٰذا، کشمیر کے موجودہ انتخابات اس طرح سے بے حیثیت ہو کر رہ جاتے ہیں۔

اب رہا سوال نئی دہلی میں کون سی حکومت بنتی ہے؟ اس کا سیدھا جواب یہ ہے کہ اگر مرکز میں کانگریس کی حکومت آتی ہے تو اس سے بھارت کے مسلمانوں کو کچھ آسانی تو مل سکتی ہے، لیکن کشمیریوں کے لیے کسی قسم کی راحت (relaxation )نہیں ہوسکتی۔ بی جے پی ہو یا کانگریس ، کشمیر میں ’ہندوتوا‘ کلائمکس پہ لے جانا دونوں صورتوں میں طے ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ بی جے پی یہ کام کھل کے اور جلدی کرنا چاہتی ہے، جب کہ کانگریس آہستگی سے اور سیکولرازم کا لبادہ اوڑھ کر کرنا چاہتی ہے۔

۸ جولائی ۲۰۱۶ء کو بھارت کی ریاستی دہشت گردی نے بُرہان مظفروانی کو شہید کردیا اور اس کا نام ہمیشہ کے لیے امر ہوگیا۔میں اُس زمانے میں نئی دہلی میں پاکستان کا ہائی کمشنر تھا۔  بُرہان وانی کی شہادت کے بعد تقریباً چار ماہ تک مقبوضہ جموں وکشمیر میں مسلسل احتجاج ہوتا رہا،اور بھارتی سیکورٹی فورسز نے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا تاکہ آزادی کی آواز کو دبایا جاسکے۔ اس مقصد کے لیے پیلٹ گنز کا بھی بے دریغ استعمال کیا اور بے شمار معصوم کشمیری بچوں، عورتوں اور شہریوں کو بینائی سے محروم کردیا گیا۔

’ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے‘ ___ یہ نعرہ سیّد علی شاہ گیلانیؒ نے دیا ، جسے مقبوضہ کشمیر کے ہرگھر میں محسوس کیا جاسکتا ہے اور اس کی آواز سنی جاسکتی ہے۔ بلاشبہہ یہ آواز آتی رہے گی، اس لیے کہ کشمیریوں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ ہم نے بھارت کے غاصبانہ قبضے سے جان چھڑانی ہے اور جب تک آزادی نہیں مل جاتی، ہم اپنی یہ جدوجہد جاری رکھیں گے۔ اکثر لوگ مجھ سے سوال پوچھتے ہیں کہ کشمیریوں کی جدوجہد تو واضح ہے کہ وہ کہاں کھڑے ہیں، لیکن ہمیں بتایئے کہ کشمیر کاز کے حوالے سے پاکستان کہاں کھڑا ہے؟ پھر یہ سوال بھی پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان میں کس حکومت نے مسئلہ کشمیر کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا، اور کس حکومت، کس قیادت یا کس سیاست دان نے کشمیر کاز کو بہتر طریقے سے آگے بڑھایا؟

آپ کے سامنے کشمیر کے حوالے سے میں پاکستانی سفارتی محاذ کی نسبت سے چندحقائق بیان کروں گا، جو عام طور پر لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ ہم یہ دیکھیں گے کہ آج جہاں کھڑے ہیں، یہ معاملہ کیسے شروع ہوا؟ اور کس طرح ہماری حکومتیں اپنے اصولی موقف سے بہت پیچھے ہٹ گئی ہیں؟

پہلی سفارتی پسپائی: ۶جنوری ۲۰۰۴ء کو اسلام آباد میں سارک سربراہی کانفرنس ہونا تھی۔ اس کانفرنس میں شرکت کے لیے بھارت کے اُس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی پاکستان آئے تھے اور پاکستان میں حکمران صدر جنرل پرویز مشرف سے ان کی ملاقات ہوئی تھی۔ اس کے بعد ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا۔ اس اعلامیے میں جو الفاظ استعمال کیے گئے، اس نے کشمیرکاز کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا۔ اس اعلامیے میں صدرجنرل پرویزمشرف نے بھارتی وزیراعظم کو یہ یقین دلایا:

Pakistan will not permit in territory under Pakistan's control to be used to support terrorism in any manner.

یعنی پاکستان اپنے زیرانتظام  آزاد جموں و کشمیر مع گلگت و بلتستان کو بھارت کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دے گا۔

مطلب یہ کہ دانستہ یا نادانستہ طور پر پاکستان نے اس بات کو تسلیم کرلیا کہ یہاں سے لوگ جاکر  مقبوضہ جموں و کشمیر میں ’دہشت گردی‘ کرتے ہیں۔ یہ پہلی بار ہوا کہ یہاں سے حقِ خود ارادیت کی آئینی جدوجہد کو بھارت کی شکایت کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔ آج تک بھارت اس اعلامیے کو استعمال کرتا ہے اور اس نے بڑی چالاکی سے جموں و کشمیر کی جدوجہد کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑ دیا۔ جس کے نتیجے میں بعدازاں امریکا نے بھی ۲۰۱۷ء میں حزب المجاہدین جوکہ مقامی تنظیم تھی، اسے دہشت گرد تنظیم قراردے کر پابندی لگادی۔ چنانچہ اس اعلامیے سے سفارتی سطح پر پسپائی کا سفر شروع ہوا۔

دوسری سفارتی پسپائی: صدر جنرل پرویز مشرف نے اپنے زمانۂ اقتدار میں پس پردہ سفارت کاری کا آغاز کیا اور اس میں چار نکاتی فارمولا پیش کیا۔ بلاشبہہ سفارت کاری میں لینا دینا ہوتا ہے اور گفتگو کرتے ہوئے بعض جگہ دوطرفہ مفاہمت بھی کرنی پڑتی ہے، لیکن جو غلطی صدر مشرف سے ہوئی وہ یہ کہ انھوں نے پبلک میں آکر یہ بتایا کہ ہم اپنے اصولی موقف سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ اصولی موقف یہ تھا کہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے تحت جموں و کشمیر میں استصواب رائے کروایا جائے۔ لیکن جب آپ عوامی سطح پر اصولی موقف سے پیچھے ہٹتے ہیں تو سفارت کاری میں آپ کے پاس لینے دینے کے لیے کچھ نہیں باقی بچتا، کیونکہ جو کچھ لینا دینا تھا وہ مذاکرات شروع ہونے سے پہلے ہی آپ نے دے دیا،تو اب مذاکرات کس بات پر کیے جاسکتے ہیں؟

یہ اتنی بڑی غلطی تھی کہ اس کی وجہ سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں حُریت کانفرنس دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ سیّد علی شاہ گیلانیؒ نے بجاطور پر اس فارمولا کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح تو ہم پاکستان کے اصولی موقف سے پیچھے ہٹ جائیں گے۔ لیکن حُریت کانفرنس کا دوسرا حصہ جو میرواعظ عمر فاروق کی قیادت میں تھا اس نے یہ تسلیم کرلیا۔ بعد میں ہم نے دیکھا کہ جیسے ہی ۶جنوری ۲۰۰۴ء کو بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی پاکستان سے واپس گئے تو ۲۲جنوری ۲۰۰۴ء کو ان کی میرواعظ صاحب کی حُریت کانفرنس کی قیادت سے ملاقات ہوئی۔

اس طرح صدر پرویز مشرف نے اپنی ایک بات سے کئی صدمے پہنچا ڈالے۔ ایک تو وہ پاکستان کے اصولی موقف سے عوامی سطح پر پیچھے ہٹ گئے اور مذاکرات کے لیے کچھ باقی نہ بچا۔ دوسرایہ کہ حُریت کانفرنس تقسیم ہوگئی۔ مجھے معلوم ہے کہ ان دونوں حصوں کو قریب لانے کے لیے دہلی میں ہمیں کتنی محنت کرنا پڑی۔بُرہان مظفروانی کی شہادت کے بعد ہمیں کچھ کامیابی ملی اور حُریت کانفرنس کی متحدہ قیادت سامنے آئی، جس میں سیّد علی گیلانی ، یاسین ملک اور میرواعظ عمرفاروق شامل تھے۔

گویا کہ صدر پرویز مشرف نے ایک طرف کشمیر کاز کو دہشت گردی کے ساتھ ملا دیا اور دوسرا مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے چارنکاتی فارمولا کو عوامی سطح پر زیربحث لائے جس نے پاکستان کے اصولی موقف کو بڑا شدید نقصان پہنچایا۔ سفارتی سطح پر ہم ایک صحیح پوزیشن میں بھارت کے ساتھ بات چیت کرسکتے تھے، لیکن بدقسمتی سے ہم نے اپنی پوزیشن خود ہی کمزور کرڈالی۔ اس طرح پس پردہ سفارت کاری میں جنرل صاحب کی مہم جوئی کے نتیجے میں تو مسئلۂ کشمیر پر کم بات ہوئی اور زیادہ تر بات دہشت گردی پر ہوتی رہی۔

 مسئلہ کشمیر ایک جائز (legitimate ) اور حل طلب مسئلہ ہے، اس کو دہشت گردی کے ساتھ نہیں جوڑا جاسکتا۔ لیکن جنرل مشرف کی نامناسب سفارت کاری اور بیان بازی نے بنیادی غلطی کردی اور پھر اسی دوران مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے درمیان جنگ بندی لائن پر انڈیا کو باڑ لگانے کی بھی اجازت دے دی۔

تیسری سفارتی پسپائی: اس کے بعد ۱۶ جولائی ۲۰۰۹ء کو پاکستان اور بھارت کی طرف سے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا، جب کہ پاکستان میں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی اور یوسف رضا گیلانی وزیراعظم تھے۔ ’غیر جانب دارانہ تنظیم‘ (NAM)کی سربراہی کانفرنس میں شرکت کے لیے وہ شرم الشیخ، مصر گئے، جہاں بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ سے اُن کی ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات کے بعد ایک اعلامیہ جاری ہوا۔ ماضی میں پاکستان اور انڈیا کے جو اعلامیے جاری ہوتے رہے، مثال کے طور پر ۲۰۰۴ء کے اعلامیے کو لے لیجیے، جو صدر پرویز مشرف اور وزیراعظم واجپائی کی ملاقات کے بعد جاری ہوا۔ اس میں یہ کہا گیا:

The two leaders are confident that the resumption of composit dialogue will lead to peacful settelment of all bilateral issues including Jammu and Kashmir.

اس مشترکہ اعلامیے میں الفاظ ’بہ شمول جموں اور کشمیر‘ (including Jammu and Kashmir) کو ایک خاص اہمیت حاصل تھی۔ ہم نے ہمیشہ یہی بات کہی تھی کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اصل مسئلہ تو جموں و کشمیر ہے، اور باقی سب جزوی مسائل ہیں۔ ایک بار جموں و کشمیر کا تنازع حل ہوجائے تو پھر پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی ایسے بنیادی اختلافات نہیں ہیں، جو دُور نہ ہوسکیں بلکہ وہ سب اختلافات آسانی کے ساتھ حل ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ ۲۷؍اکتوبر ۱۹۴۷ء سے جموں و کشمیر ہی بنیادی مسئلہ تھا، سیاچن ہو یا سرکریک، یہ تو سب بعد کی پیداوار ہیں۔

جموں و کشمیر کو ہم ہمیشہ مشترکہ اعلامیے میں مرکزی اہمیت دیتے رہے ہیں، لیکن ۱۶جولائی ۲۰۰۷ء کو شرم الشیخ میں جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا، پہلی مرتبہ اس کی سفارتی زبان تبدیل کی گئی:

Singh said that India was ready to discuss all issues with Pakistan including all outstanding issues.

گویا اس مشترکہ اعلامیے میں بھارتی وزیراعظم یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ ’’بھارت تمام مسائل پر بات چیت کے لیے تیار ہے‘‘۔مطلب یہ ہوا کہ اپنی جگہ جموں و کشمیر کی اہمیت ختم کرکے اسے آپ نے باقی مسائل کے ساتھ لاکر کھڑا کردیا، جیساکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ثقافتی یا تجارتی اور دیگر مسائل رہے ہیں۔

بدقسمتی سے یہ پہلی بار ہوا کہ پاکستان کے مشترکہ اعلامیہ میں کشمیر کا ذکر نہیں کیا گیا۔ اس سے پہلے ۲۸مئی ۱۹۹۸ء کو جب پاکستان اور بھارت نے ایٹمی دھماکے کیے تھے تو سلامتی کونسل نے ایک قرارداد ۱۱۷۲، ۶جون ۱۹۹۸ء میں منظور کی۔ اس کے پیرا نمبر ۵ میں بڑے واضح طور پر یہ کہا گیا:

UN Security Council encourages both Pakistan and India to find mutally acceptable solution that address root causes of those tentions including Kashmir.

یعنی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بھی اس بات کا احساس اور ادراک ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بنیادی تنازع جموں و کشمیر ہی ہے۔مگر یہ کیونکر ہوا کہ ہم نے شرم الشیخ میں جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا اس میں جموں و کشمیر کا ہی ذکر نہیں کیا؟

چوتھی سفارتی پسپائی: ۲۰۱۵ء میں روس کے شہر’ اوفا‘ میں شنگھائی آرگنائزیشن کی سربراہی کانفرنس ہوئی، اس وقت پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف تھے۔ کانفرنس کے دوران بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے ان کی ملاقات ہوتی ہے۔ ۱۰جولائی ۲۰۱۵ء کو یہ مشترکہ اعلامیہ دونوں وزرائے اعظم کی ملاقات کے بعد جاری ہوا۔ اس میں بھی ویسا ہی معاملہ ہوا، جو شرم الشیخ میں ہوا تھا۔ اس اعلامیہ میں بھی کشمیر کا ذکر حذف کردیا گیا۔

بنیادی طور پر ہم نے بہت کمزور مذاکرات کیے اور یک طرفہ طور پر ’دہشت گردی‘ کے مسئلے کو ہم نے خاص اہمیت دی۔ بلاشبہہ دہشت گردی کے مسئلے پر پاکستان، بھارت کے ساتھ کوئی معذرت خواہانہ رویہ نہیں رکھتا،اس مسئلے پر بھارت کے ساتھ ہمارے بہت زیادہ خدشات ہیں، جو وہ پاکستان میں کر رہا ہے۔ یہاں مَیں بات یہ کر رہا ہوں کہ مشترکہ اعلامیہ میں ایک توازن ہونا چاہیے، مگر وہ توازن یہاں بگڑ گیا۔ یہاں پر کشمیر کا کہیں ذکر نہیں کیا اور all outstanding issues لکھ دیا گیا، جو شرم الشیخ اعلامیہ میں لکھا گیا تھا۔

ڈپلومیسی میں جب ایک بات مثال بن جاتی ہے تو پھر اسے بار بار پیش کیا جاتا ہے۔ اگر ہم نے شرم الشیخ اعلامیہ میں یہ سفارتی زبان اختیار نہ کی ہوتی تو شاید اوفا میں بھی استعمال نہ ہوتی۔ چونکہ شرم الشیخ میں ہم نے بھارت کو موقع دے دیا تھا تو اس لیے بھارت نے اسی بنیادپر کہا کہ آپ نے پہلے بھی اس سفارتی زبان سے اتفاق کیا تھا، تو اب آپ اس سے کیوں پیچھے ہٹ رہے ہیں؟ لیکن، یہ ماننا ہمارے لیے لازم نہیں تھا، اور اگر کوشش کرتے تو ہم اس مشترکہ اعلامیہ میں جموں و کشمیر کو شامل کرسکتے تھے اور اگر ایسا نہ ہوتا تو ہم کوئی اعلامیہ جاری ہی نہ کرتے۔ اس طرح شرم الشیخ کی مثال اوفا میں دُہرائی گئی۔

اس کے بجائے اگر ہم بی جے پی کے منشور کو سامنے رکھتے کہ مودی حکومت کے مقبوضہ جموں و کشمیر میں کیا عزائم ہیں؟ اور ذرا سخت موقف اختیار کرتے۔ اس وقت ایسی کوئی صورتِ حال بھی نہیں تھی کہ پاکستان کوئی مجبور تھا کہ ہم نے ہرصورت میں بھارت کے ساتھ مذاکرات کرنے تھے۔ سبق یہ ہے کہ جب آپ اپنے اصولی موقف سے ایک بار پیچھے ہٹ جاتے ہیں تو پھر اس کی بہت بڑی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔

اوفا کی میٹنگ کے بعد ۲۰۱۵ء میں مجھے اسلام آباد بلایا گیا اور وزیراعظم نواز شریف صاحب نے کہا کہ اسلام آباد میں افغانستان کے معاملات پر ’ہارٹ آف ایشیا کانفرنس‘ ہونے والی ہے۔ آپ کو یہ ذمہ داری دی جاتی ہے کہ انڈین حکومت کو قائل کریں کہ اس کانفرنس میں سشما سوراج تشریف لائیں۔

پاکستان کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر سرتاج عزیز صاحب نے اسی سال اگست ۲۰۱۵ء میں اپنے ہم منصب سے ملنے کے لیے بھارت جانا تھا، لیکن وہ نہیں جاسکے تھے کیونکہ بھارت کی حکومت نے حُریت کانفرنس کے رہنمائوں سے ان کی ملاقات کروانے سے انکار کردیا تھا۔ ہمارا مطالبہ یہی تھا کہ اگر سرتاج عزیز صاحب آئیں گے تو وہ کشمیری رہنمائوں سے ملاقات ضرور کریں گے۔ چونکہ بھارت اس تجویز کو ماننے پر تیار نہ ہوا تو وہ دورہ منسوخ کر دیا گیا۔ اس لیے ایک لحاظ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان تنائو پیدا ہوگیا تھا۔ ان حالات میں مجھے یہ کہا گیا کہ اس بات کو یقینی بنائوں کہ ۹-۱۰دسمبر ۲۰۱۵ء کو افغانستان پر ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں سشما سوراج شرکت کریں۔ بہرحال میں نے کوشش کی اور بھارت کی حکومت نے فیصلہ کیا کہ بھارتی وزیرخارجہ پاکستان جائیں گی۔ لیکن اس سے پہلے انھوں نے ایک شرط رکھی، جو ہم نے مان لی کہ ’’دونوں ممالک کے نیشنل سیکورٹی افسران کی ایک پس پردہ ملاقات بنکاک، تھائی لینڈ میں ہوگی‘‘۔ ۶دسمبر ۲۰۱۵ء کو یہ ملاقات ہوئی اور اس میں دہشت گردی کے مسائل پر بات چیت ہوئی اور خاص طور پر ممبئی حملہ زیربحث آیا اور بعد میں اس ملاقات کی خبر بھی دے دی گئی۔

سشما سوراج اس کانفرنس میں شرکت کے لیے ۹دسمبر کو پاکستان آئیں اور اس کانفرنس کے بعد ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا۔ اوفا کے بعد یہ تیسرا اعلامیہ تھا، جس میںہم نے باقاعدہ یہاں تک کہہ دیا کہ:

Under the dialogue including peace and security, CBM, Jammu & Kashmir, Siyachen, Sircreek, Wular Barrage, economic and commercial cooperation, counter terrorism, narcotics control, humantarian issues, people to people exchange and religious terrorism....

گویا کہ ۸ستمبرکو ہونے والے ’جامع مذاکرات‘ (Composite dialogue) کو یہاں لاکر جمع کردیا گیا۔ اب تو واضح ہوگیا کشمیر کی حیثیت وہی ہے جو عوامی سطح پر لوگوں کے میل جول کی ہے یا پھر باہم تجارتی سرگرمی کی ہے۔ جب آپ ایک مسئلے کی اہمیت کم (downsize )کردیں گے تو پھر بھارت کیسے سنجیدہ لے سکتا ہے یا دُنیا کیسے کشمیر کے معاملے کو سنجیدہ لے سکتی ہے؟ جب یہ مذاکرات ہورہے تھے تو میں بھی ان میٹنگوں میں شریک تھا۔ اب یہ مذاکرات کس طرح سے ہورہے تھے، یہ الگ کہانی ہے۔

دفتر خارجہ میں سرتاج عزیز صاحب سے سشما سوراج کی کافی طویل ملاقات ہوئی جو پانچ گھنٹے پر پھیل گئی۔ اس ملاقات کے دوران تُو تُو مَیں مَیں بھی ہوئی اور تنائو بھی پیدا ہوا۔ آخرکار بھارت نے ہمیں جو draft دیا تھا ہم نے من و عن اسی کو تسلیم کرکے اسے بھارت کی خدمت میں پیش کر دیا:’ ’ٹھیک ہے جو آپ کہتے ہیں لکھ دیجیے ہمیں کوئی مسئلہ نہیں‘‘۔ یہ تیسرا اعلامیہ ہے جس میں سفارتی سطح پر مسئلہ کشمیر پر پسپائی اختیار کی گئی۔

پہلا اعلامیہ جنوری ۲۰۰۴ء، دوسرا اعلامیہ جولائی ۲۰۰۹ء کی شرم الشیخ کا ہے، تیسرا اوفا میں جولائی ۲۰۱۵ء کا اور پھر چوتھا دسمبر ۲۰۱۵ء کا یہ اعلامیہ ہے۔ آپ کو بالکل ایک تسلسل نظر آرہا ہے کہ پرویز مشرف کے زمانے سے لے کر ۲۰۱۵ء میں نواز شریف وزارتِ عظمیٰ تک کس طرح کشمیر پر ایک لحاظ سے سمجھوتے کیے گئے۔ کچھ باتیں جو پبلک میں کہنے کی نہیں ہوتیں، حکمرانوں نے وہ بھی کہہ ڈالیں، جس کی وجہ سے بھارت نے بھی پاکستان کو سنجیدہ نہیں لیا۔ دُنیا بھلا کشمیر کے معاملے کو کیا سنجیدہ لیتی، جب کہ ہمارے مقتدر حضرات خود کشمیر کے معاملے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہے تھے۔ اس طرح ایک تسلسل کے ساتھ مختلف حکومتوں نے کشمیر سے کھلواڑ کیا جو کہ نہیں کرنا چاہیے۔ سفارت کاری میں ایسی ایسی غلطیاں کیں جو نہیں ہونی چاہییں تھیں۔

پانچویں سفارتی پسپائی:  اب آجاتے ہیں ۵؍اگست ۲۰۱۹ء پر۔ بھارت نے کشمیر پر جو کیا یہ ہمارے لیے صدمے کی بات تو تھی، مگر حیران کن بات نہیں تھی۔ یہ نظر آرہا تھا کہ کیا کچھ ہونے جارہا ہے، لیکن اس سے صرفِ نظر کیا گیا، مگر ایسا کس بنیاد پر کیا؟ کچھ معلوم نہیں اور پھر اس کے بعد ہم نے کیا کیا؟

ہم بھارت سے اپنے تعلقات کو نچلی سطح پر لے آئے اور اپنا ہائی کمشنر واپس بلالیا۔ ہم نے بھارت کے ساتھ اپنی تجارت بند کرلی۔ تین ماہ کے لیے فضائی حدود کو بھارت کے لیے بند کردیا۔ اس کے بعدہم نے اور بھی اقدامات کیے، مگر جن کا تسلسل برقرار نہیں رہ سکا۔ وزیراعظم عمران خان نے یہ کہا تھا کہ ہم کشمیر سے یکجہتی کے لیے ہرجمعہ کی نماز کے بعد کھڑے ہوں گے، لیکن اسے جاری نہ رکھ سکے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ ساری چیزیں ختم ہوگئیں۔

ایک طرف یہ کہا: ’’بھارت کے ساتھ کوئی مذاکرات نہیں ہوسکتے، جب تک بھارت ۴؍اگست ۲۰۱۹ء کی صورتِ حال کو بحال نہیں کرتا۔ اس نے آرٹیکل ۳۷۰ اور ۳۵-اے کو ختم کیا ہے۔ وہ ان اقدامات کو واپس لے، تب ہم بھارت کے ساتھ مذاکرات کریں گے‘‘۔ لیکن ہوا کیا؟ بھارت کے ساتھ بیک چینل پر بات چیت جاری رہی اور اس کے نتیجے میں ہم سب کے لیے وہ ایک بہت بڑا دھچکا تھا، جب ۲۵فروری ۲۰۲۱ء کو بھارت کے ساتھ ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا کہ ملٹری ڈائرکٹر جنرل آپریشن کے درمیان لائن آف کنٹرول پر فائربندی معاہدہ کرتے ہیں۔ یاد رہے نومبر ۲۰۰۳ء سے فائربندی پر ہماری بھارت کے ساتھ ایک رسمی معاملہ فہمی تھی، لیکن فائربندی برائے نام ہی تھی اور لائن آف کنٹرول پر فائرنگ ہوتی رہتی تھی اور بھارت کی جانب سے اس کی بہت زیادہ خلاف ورزیاں ہوئیں۔

یہاں پر میں آپ کو ذرا ماضی میں لے جاتا ہوں۔ ۲۰۱۵ء میں وزیراعظم نواز شریف نے جب اقوام متحدہ سے خطاب میں ۲۱ستمبر ۲۰۱۵ء کو مسئلۂ کشمیر کے حوالے سے متعدد تجاویز دیتے ہوئے یہ کہا کہ کشمیر کی لائن آف کنٹرول پر ہماری فائر بندی کی formal understanding ہے اور ہم اسے فارمل معاہدے میں تبدیل کردیں۔

ان کی تقریر کے بعد بھارت کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر اجیت دول سے مَیں ملنے گیا کہ معلوم کروں کہ بھارت کا کیا ردعمل ہے؟ لیکن انھوں نے اس کا کوئی حوصلہ افزا جواب نہیں دیا اور کہا کہ’’ چھوڑیئے یہ وقت نہیں ہے ان باتوں کا‘‘۔ وہی بھارت جو ۲۰۱۵ء میں سیزفائر انڈرسٹینڈنگ کو ایک معاہدے کی شکل دینے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھا، وہ ۲۰۲۱ء میں ہمارے ساتھ یہ معاہدہ کرتا ہے۔ ہم نے وہ معاہدہ کیوں کیا؟ مجھے اس کی ابھی تک سمجھ نہیں آئی۔ اگرچہ وہ ایک مناسب معاہدہ تھا لیکن اس کا وقت بہت غلط تھا۔ ۲۰۱۹ء کے بعد یہ معاہدہ کرنا بنتا ہی نہیں تھا۔ پھر اسی طرح ’کرتارپور کوریڈور‘ بنانا بھی نہیں بنتا تھا۔

ایک طرف یہ پوزیشن لی کہ ہم بھارت سے کوئی معاہدہ نہیں کریں گے اور دوسری طرف بیک چینل پر بھارت سے مذاکرات کر رہے ہیں۔ اس سے دُنیا کو معلوم ہوگیا کہ یہ کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ۔ اس لیے ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے بعد دُنیا سے جس ردعمل کی توقع کی جارہی تھی، وہ نہیں ہوا۔ اس کی بنیادی وجہ وہ سب اقدامات ہیں جوگذشتہ سولہ برسوں سے کیے جارہے تھے۔

پھر ایک اور دلچسپ بات ہوئی کہ نومبر ۲۰۱۹ء میں شنگھائی کارپوریشنز کے نیشنل ایڈوائزرز کی میٹنگ تھی۔ اس موقعے پر ہماری جانب سے پاکستان کا ایک نیا سیاسی نقشہ جاری کیا گیا۔ اس نقشے میں جہاں مقبوضہ جموں و کشمیر، گلگت، بلتستان اور لداخ کو ایک متنازعہ خطے کے طور پر پیش کیا، جو کرنا بھی چاہیے تھا، لیکن اس کے ساتھ جوناگڑھ کو بھی ایک متنازع علاقہ کے طور پر پیش کردیا۔ جوناگڑھ گجرات (انڈیا) کا علاقہ ہے۔ ۱۹۴۷ء میں اس وقت کے نواب مسلمان تھے، اور انھوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کردیا ، جب کہ ریاست کی اکثریت ہندو آبادی پر مشتمل تھی۔ بعد میں بھارت کی فوجوں نے وہاں قبضہ کیا اور پھر ریفرنڈم کروایا۔ چونکہ اکثریت ہندوئوں کی تھی، انھوں نے کہا کہ ہم بھارت کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں۔ مگر یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اس وقت جوناگڑھ کا پنڈورا باکس کیوں کھول دیا گیا؟ لیکن سوال یہ ہے کہ ان حالات میں اس سوال کو اُٹھانے کی کیا اہمیت ہے؟ آپ کیوں جموں و کشمیر پر اپنے موقف کو کمزور کر رہے ہیں؟

کشمیر کے اصولی موقف سے پسپائی کے یہ مختلف مراحل ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہم کسی ایک حکومت یا کسی ایک شخصیت کو الزام نہیں دے سکتے۔ یہ ایک تسلسل ہے جو کہ جاری تھا اور جاری ہے۔ ہم نے مسلسل سفارتی غلطیوں پر غلطیاں کیوں کیں؟ کوئی اقدام کرنے سے پہلے ہم نے سوچ بچار کیوں نہیں کی؟

سفارت کاری ایک بڑا مشکل فن ہے۔ جو اسے معمولی کھیل سمجھتے ہیں اور بس چند دوست احباب کی باہم رواداری کے معاملے کے طور پر لیتے ہیں، وہ صرف اپنے ساتھ ہی نہیں، اپنی ریاست کے ساتھ بھی مذاق کرتے ہیں۔ خاص طور پر ایسے تنازعات کہ جن سے لوگوں کی براہِ راست جانیں وابستہ ہوتی ہیں۔ کشمیر کوئی علاقائی تنازع تو نہیں ہے۔ یہ ایک کروڑ ۲۰ لاکھ کشمیریوں کی آزادی کا معاملہ ہے۔ آپ کس طرح اس کو اتنا ہلکا لے سکتے ہیں؟

یہ بات ضرور معلوم کرنی چاہیے کہ اگر صدر جنرل پرویز مشرف نے چار نکاتی فارمولا دیا تو اس کے پیچھے کیا حکمت عملی کارفرما تھی؟ کیا دفتر خارجہ کے اس وقت کے لوگ صدر مشرف کو مشورہ نہیں دے سکتے تھے؟ اگر دیا تو کس نے اور کس بنیاد پر اسے وزن نہ دیا؟ اور کیا اس کے اصل فریق کشمیری قیادت کو اعتماد میں لیا گیا؟

آگے کیا کرنا ہے؟ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے۔ امرواقعہ یہ ہے کہ ہمارے مسائل کا تعلق اندرونِ ملک کے حالات سے ہے۔ جب تک ہمارے ملکی حالات بہتر نہیں ہوں گے، جب تک ہم اچھی حکمرانی کا مظاہرہ نہیں کرتے، کرپشن کو ختم نہیں کریں گے، اپنی معیشت کو ٹھیک نہیں کریں گے، سیاسی عدم استحکام سے جان نہیں چھڑائیں گے، اس وقت تک ہم سفارتی میدان میں کامیابیاں حاصل نہیں کرسکیں گے۔

یہ دُعا اور اُمید ہے کہ ان شاء اللہ کشمیریوں کو ان کا حقِ خود ارادیت ضرور ملے گا۔ تحریکوں میں اُتارچڑھائو آتا رہتا ہے، لیکن اگر ایمان پختہ ہو اور عزم راسخ ہو تو کوئی طاقت کامیابی سے روک نہیں سکتی۔ بقول اقبال  ؎

پُر دَم ہے اگر تُو تو نہیں خطرئہ اُفتاد
شاہین کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا

۵ جنوری پاکستان کے لیے خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔ تعجب ہے کہ ملک میں حکومت اور عوامی سطح پر اس مسئلے کو اُٹھانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی، جو سخت تشویش ناک ہے۔ پاکستان کی حکومت کو ملک اورعالمی سطح پر کشمیر کے مسئلے کو مؤثرانداز میں اُٹھانے کا فوری اہتمام کرنا چاہیے۔ (ادارہ)

۵جنوری کو خصوصی اہمیت حاصل ہے، جس کا تعلق حقِ خود ارادیت، امن، انصاف اور کشمیریوں کے انسانی وقار سے ہے، جس سے وہ گذشتہ سات عشروں سے محروم چلے آرہےہیں۔ ہرسال ۵جنوری کو عالمی برادری، خصوصاً اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو یاد دہانی کروائی جاتی ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے زیر اہتمام آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانب دارانہ استصواب رائے کے ذریعے کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کو یقینی بنانے کے وعدے اورذمہ داریوں کو پورا کرے۔ کشمیر پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (UNSC) کی قراردادوں میں اسے اس کا پابند کیا گیا ہے۔ حقِ خود ارادیت ایک بنیادی انسانی حق ہے، اور اس کا مطالبہ کرنا کوئی غیرقانونی عمل نہیں ہے کیونکہ دنیا کے بہت سے ممالک نے جدوجہد کر کے اسے حاصل کیا ہے۔ لیکن یہ انتہائی افسوس ناک امر ہے کہ بھارت کئی برسوں سے کشمیریوں کو اُن کے اس بنیادی اور جائز حق سے محروم کر رہا ہے۔

اقوام متحدہ کی قرارداد ۵ جنوری ۱۹۴۹ء کو اقوام متحدہ کے کمیشن برائے ہندستان اور پاکستان (UNCIP) کے اجلاس میں منظور کی گئی تھی (دستاویز۱۱۹۶/۵)۔ یہ قراردادیں بالترتیب ۲۳دسمبر اور ۲۵ دسمبر۱۹۴۸ء کو ہندستان اور پاکستان کی حکومتوں سے موصول ہوئی تھیں۔ ۱۳؍ اگست ۱۹۴۸ء کو کمیشن کے تحت منظور کی گئی قرارداد میں درج ذیل اُصولوں کو ضمیمہ کی حیثیت حاصل ہے:

            ۱-         ریاست جموں و کشمیر کے ہندستان یا پاکستان کے ساتھ الحاق کے سوال کا فیصلہ آزادانہ اور غیر جانب دارانہ رائے شماری کے جمہوری طریقے سے کیا جائے گا۔

            ۲-         استصواب رائے کا انعقاد اس وقت کیا جائے گا، جب کمیشن کو معلوم ہوگا کہ کمیشن کی ۱۳؍اگست ۱۹۴۸ء کی قرارداد کے حصہ اوّل اور دوم میں طے شدہ جنگ بندی اور عارضی جنگ بندی پر عمل درآمد کیا جارہا ہے اور رائے شماری کے انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں۔

            ۳-         (الف) اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل، کمیشن کے ساتھ اتفاق کرتے ہوئے، استصواب رائے کے لیے ایک افسر (Plebiscite Administrator) کو نامزد کرے گی، جو بین الاقوامی حیثیت کی حامل ایک اعلیٰ شخصیت ہو گی۔ انھیں حکومت جموں و کشمیر کی طرف سے باضابطہ طور پر اس عہدے پر تعینات کیا جائے گا۔

                        (ب) رائے شماری کا منتظم ریاست جموں و کشمیر سے وہ اختیارات حاصل کرے گا، جو وہ استصواب رائے کے انعقاد اور غیر جانب داری کو یقینی بنانے کے لیے ضروری سمجھتا ہے۔

                        (ج) رائے شماری کے منتظم کو ضروری عملے یا معاونین اور مبصرین کے تقرر کا اختیار حاصل ہوگا۔

۵جنوری ۱۹۴۹ء کو UNCIP نے اس قرارداد کو  متفقہ طور پر منظور کیا۔ کمیشن کے ارکان میں ارجنٹائن ، بیلجیم، کولمبیا، چیکوسلواکیہ اور امریکا شامل تھے۔

کشمیری سات عشروں سے خون کے آنسو روتے ہوئے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی تعمیل کے منتظر ہیں، لیکن اس کے برعکس ان کے جائز حق کے حصول کی جدوجہد میں انھیں ہراساں اور قتل کیا جاتا ہے۔ کسی بھی قانونی کارروائی سے استثنا کے ساتھ ' بھارتی ' افواج کو عطا کردہ صوابدیدی اختیارات، بھارت کی جان بوجھ کر اختیار کردہ ریاستی پالیسی کا حصہ ہیں۔ اس کے نتیجے میں ظالمانہ گرفتاریاں، نظربندی، ماورائے عدالت قتل، معصوم شہریوں کے قتل کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ انسانیت کے خلاف ان جرائم کا اصل محرک کشمیری عوام کو بنیادی حقِ خودارادیت کی جدوجہد  ترک کرنے پر مجبور کرنا ہے اور اس نسل کشی کو روکنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے جارہے۔

مظلوم کشمیریوں کو انصاف فراہم کرنے کے لیے کوئی عدالت نہیں ہے کیونکہ جموں و کشمیر میں عدلیہ بھی شدید دباؤ میں کام کر رہی ہے۔ معتبر ذرائع سے پتہ چلتا ہے کہ جج خوف کے عالم میں، سیکورٹی فورسز کے اقدامات کو چیلنج کرنے سے گریزاں ہیں۔ (سپریم کورٹ کا مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے مودی حکومت کے فیصلے کو برقرار رکھنا اس کا واضح ثبوت ہے)۔

مظلوم کشمیری اپنی سرزمین پر نیلے ہیلمٹ والے افسران کو جو ہندستان اور پاکستان میں اقوام متحدہ کے ملٹری آبزرور گروپ (UNMOGIP) کے ایک حصے کے طور پر کام کررہے ہیں، اس اُمید کے ساتھ دیکھتے ہیں کہ اُن کا مقدمہ زندہ ہے اور ایک دن وہ آزادی کا سورج دیکھیں گے۔ مگر اس سمت میں شاید ہی کوئی پیش رفت ہوئی ہو بلکہ حالات روز بروز خراب ہوتے جارہے ہیں۔ بھارت ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کا احترام نہ کرنے پر بضد اور عمل درآمد کے لیے تیا ر نہیں۔ کنٹرول لائن پر، فوج میں ملازمت کے دوران، اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کے ساتھ کام کرتے ہوئے، میں نے ذاتی طور پر دیکھا تھا کہ اقوام متحدہ کے پرچم بردار 'یو این ملٹری آبزرور جب لائن آف کنٹرول کے قریب ہماری طرف اپنے مشن کو انجام دے رہے تھے تو بھارتی فورسز نے ان پر فائرنگ کی اور انھیں خبردار کیا کہ وہ لائن آف کنٹرول کے قریب نہ آئیں۔

’ہندوتوا‘ کے فلسفے کو فروغ دینے والے بھارتی وزیر اعظم مودی نے ۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کو خطے کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرکے اور اسے یک طرفہ طور پر ہندستانی ریاست کا حصہ بنا کر اپنے تمام پیش روؤں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کی اس بدترین غیر قانونی اور یک طرفہ کارروائی کے ساتھ بھارت مقبوضہ کشمیر میں آبادیاتی اور سیاسی تبدیلیوں کی انجینئرنگ کر رہا ہے، تاکہ کشمیریوں کو اپنے ہی وطن میں ایک بے اختیار اقلیت میں تبدیل کیا جا سکے۔

حقیقت یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر طے شدہ اصول و ضوابط کے مطابق ترتیب دیا گیا ہے، جسے نہ تو اتفاق رائے کے بغیر تبدیل کیا جا سکتا ہے اور نہ کوئی رکن ریاست یک طرفہ طور پر ایجنڈے کو تبدیل کر سکتا ہے۔ نئے سال کے آغاز کے موقعے پر اقوام متحدہ اور عالمی برادری سے درخواست ہے کہ وہ صورتِ حال کا نوٹس لیں اور مظلوم کشمیریوں کے دُکھوں کا مداوا کریں تاکہ ۲۰۲۴ءکو پُرامن سال بنایا جا سکے۔ یہ اقوام متحدہ کی ۵جنوری ۱۹۴۹ء کی قرارداد پر اس کی حقیقی روح کے مطابق عمل درآمد سے ہی ممکن ہے۔

۱۹۲۲ء کے موسم بہار میں ۲۲ سالہ آسٹریا نژاد نوجوان یہودی لیوپولڈ کو ان کے چچا دوریان کی جانب سے ایک خط موصول ہوا کہ فوراً برلن چھوڑ کر میرے گھر ا ٓجاؤ۔ ان کا پتھروں سے بنا قدیم طرزکا یہ گھر یافا کے داخلی راستے پر قدیم فلسطینی قصبہ میں واقع تھا۔ چچاکی خواہش کا احترام کرتے ہوئے ۱۹۲۲ء کی گرمیوں کی ایک دھندلی صبح، محمد اسد مشرق کے راستے پر رواں بحری جہاز کے لکڑی کے عرشے پر کھڑے تھے۔یہی یہودی نوجوان اسلام قبول کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہے اور علّامہ محمد اسد (۱۹۰۰ء-۱۹۹۲ء)کے نام سے جانا جاتا ہے۔

اس سفر کے دوران محمد اسد کو عربوں سے میل ملاقات کا پہلا تجربہ ہوا۔لگتا تھا کہ یہ نوجوان، اپنے لیے مستقبل میں چھپے امکانات کو تلاش کرنا چاہتا ہے۔ اس یادگار سفر کے تقریباً دو برس بعد اور مسلمان ہونے سے دو برس پہلے محمد اسد واپس جرمنی لوٹے تو ان کے ساتھ روزانہ کی ڈائری کے وہ اوراق بھی تھے، جو انھوں نے جرمن زبان میں لکھے تھے۔ بلادِ مشرق کے بارے میں ان کے تاثرات خصوصاً ان کی منزلِ اوَلین،القدس کے مشاہدات پر مشتمل ڈائری کے یہ اوراق بعد میں جرمن زبان میں (Unromantisches Morgenland) ’غیر رومانوی مشرق‘ کے نام سے شائع ہوئے۔

 کتاب کی کہانی محمد اسد اور صہیونی تحریک کے اس وقت کے روسی نژاد لیڈر حائیم وائزمین (م:۱۹۵۲ء) کے درمیان گرما گرم مباحثے سے شروع ہوتی ہے۔ وائز مین بعد میں قابض اسرائیلی ریاست کے پہلے صدر بھی بنے۔ دونوں کے درمیان یہ مکالمہ بیت المقدس میں واقع محمد اسد کے ایک دوست کے گھر پر ملاقات کے دوران ہوا تھا۔ محمد اسد کا موقف تھا کہ فلسطین پر عربوں کا حق اصلی ہے اور یہ کہ صہیونی تحریک اپنی فکر و فلسفہ کے لحاظ سے عقل ومنطق اور دلیل و استدلال سے قطعی محروم ہے۔ یہود،عرب ۔ اسرائیل کش مکش کو یک رخے انداز میں دیکھ رہے ہیں۔

 اس کتاب میں اہم ترین اور قابل توجہ بات محمد اسد کی صہیونی تحریک کی مذمت بلکہ مخالفت کرتی ایک قطعی رائے ہے، حالانکہ یہ رائے ان کے مسلمان ہونے سے قبل کی ہے۔ انھوں نے اپنی کتاب میں ایسے بہت سے مضامین بھی درج کیے ہیں جن میں وہ عربوں کو یہودیوں کے منصوبوں اور ان کے نتائج سے باخبر کرتے ہیں۔ جس چیز نے انھیں دلی صدمہ سے دوچار کیا، وہ اہل یہود کا فوج در فوج فلسطین کی طرف نقل مکانی کرنا اور اس سلسلے کو اتنا بڑھانا تھا کہ وہ یہاں پر اکثریت حاصل کر لیں۔

محمد اسد کی یہی آزادانہ آراء تھیں، جن کی وجہ سے ان کے موقف کو یہودیوں نے ’یہود مخالف‘ (Anti-Sematic) قرار دے دیا تھا۔ محمد اسد ، اسرائیل کے قیام کے منصوبے کو ناکام صہیونی منصوبے سے تعبیر کرتے ہیں۔ وہ صہیونی تحریک کے ممبران کو اپنے عقیدے اور اپنے اُوپر عائد ہونے والے اخلاقی فرائض کی پامالی اور ان سے خیانت کا مجرم گردانتے ہیں، حالانکہ ابھی اسد کا اپنا دین بھی یہودیت ہی تھا۔

 محمد اسد مذکورہ نتیجۂ فکر کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ابتدا ہی سے میرا خیال تھا کہ فلسطین میں یہود کی مصنوعی آباد کاری کی سوچ کا بدترین پہلو یہ ہے کہ اس سے یورپی معاشروں کی مشکلات اور سماجی پیچیدگیوں کا رُخ ایک ایسے خطے اور ملک کی طرف مڑجائے گا جو ان یہودیوں کے بغیر زیادہ خوش حال ہے۔ اگر یہود یہاں آکر نہ بسیں تو یہ خطہ خوش حال تر رہے گا۔اسی طرح محمداسد نے یہودیوں کے قومی وطن کی نوید سنانے والے ۱۹۱۷ء کے بالفور ڈیکلریشن کو انتہائی وحشیانہ اور قساوت قلبی پر مبنی سیاسی چال سے تعبیر کیا اور کہا کہ یہ ان استعماری طاقتوں کی ’لڑاؤ اور حکومت کرو‘ پالیسی کی آزمودہ شکل ہے اور اسی دیرینہ پالیسی کو کامیاب بنانے کے لیے یہ بدنام زمانہ اعلامیہ جاری کیا گیا ہے۔

 محمد اسد اس وقت اگرچہ نسلاً یہودی تھے، تاہم ان کا یہودی ہونا انھیں حالات و واقعات کا معروضی انداز میں جائزہ لینے اور اس پر لکھنے سے کبھی نہیں روک سکا۔ وہ ڈس انفارمیشن اور حقائق کو مبہم رکھنے کے سخت خلاف تھے۔ وہ نتائج کی پروا کیے بغیر حقائق کا اظہار کرنے کو فرض سمجھتے تھے، اسی لیے برطانوی صہیونی گٹھ جوڑ کو نمایا ں کرنے میں مصروف رہے۔ یورپ کے کئی بڑے اخباروں میں فلسطین میں یہودی نو آباد کاری اور اس کے مضمرات و خطرات کے بارے میں مسلسل لکھتے رہے۔ صہیونیوں کے اس پروپیگنڈے کی تردید کرتے رہے کہ یہودی، فلسطین میں اکثریت میں ہیں اور سرزمین ِ فلسطین ایک امر واقعہ کے طور پر یہودیوں کا قومی وطن (Jewish Homeland)بن چکا ہے جسے دنیا کو تسلیم کر لینا چاہیے۔

یورپی باشندے مذکورہ صہیونی پروپیگنڈے کے دھوکے میں آگئے، حتیٰ کہ محمد اسد ابتداً خود بھی اسی پروپیگنڈے کا شکار تھے اور جب تک بنفسِ نفیس خود جاکر ارضِ فلسطین کا مشاہدہ نہ کر لیا، انھیں ادراک ہی نہ ہوا کہ حقیقت وہ نہیں ہے جو بیان کی جا رہی ہے بلکہ اصل معاملہ کچھ اور ہے۔ چنانچہ انھوں نے یورپی معاشرے کے سامنے بھی صہیونی پروپیگنڈے کا پول کھولنے کا بیڑا اُٹھایا اور اس مسئلے پر مضامین لکھنے شروع کیے۔انھوں نے لکھا کہ ’’فلسطین میں یہود کی پوزیشن اس فرد کی سی نہیں ہے، جو ایک عرصہ تک بھولا بھٹکا رہا ہو اور اب شام کو واپس اپنے ہی گھر لوٹ رہاہو،بلکہ ان کی کوشش ہے کہ زور زبردستی، دھونس دھاندلی اور جائزو ناجائز، غرض ہر طرح سے اس سرزمین پر قابض ہوں اور یورپی قومی ریاستوں (Nation States)کے دھوکے میں آ کر فلسطین کو اپنا قومی وطن بنا لیں‘‘۔

محمد اسد نے لکھا: ’’یہود کی اصل حیثیت یہ ہے کہ وہ فلسطینیوں کے در پر اجنبیوں کی طرح کھڑے ہیں۔ ایسے میں مجھے ہرگز کوئی تعجب نہیں ہوگا اگر عرب اپنے وطن کے عین دل میں ایک  (’یہودی قومی ریاست‘) کے قیام کے تصور کی مزاحمت کریں‘‘۔

ایک اور جگہ کہتے ہیں:’’میں اگرچہ یہودی ہوں، لیکن میرا موقف صہیونیت دشمنی ہے۔ میں نے بڑی طاقتوں خصوصاً برطانیہ عظمیٰ کے غیراخلاقی موقف کی ہمیشہ مذمت کی ہے، اس لیے کہ برطانیہ یہودی مہاجروں کو دنیا کے کونے کونے سے جمع کر کے فلسطین میں دھکیل رہا ہے تا کہ ان کی یہاں اکثریت ہو جائے اور اس سرزمین کے اصل، جائز اور قانونی وارثوں سے اس خطۂ ارضی کو بزور چھین لیں جو مدتوں سے یہاں رہتے چلے آرہے ہیں۔ ہر ایسی مجلس میں جہاں عرب یہودی تنازعہ زیر بحث ہوتا، میں خود بخود اپنے آپ کو عربوں کی صف میں کھڑا پاتا۔ بہت سے ان یہودیوں کے لیے میرا موقف سمجھنا انتہائی مشکل ہوتا، جن سے اتفاقاً میری ملاقات ہو جاتی یا فلسطین میں رہتے ہوئے مختلف تہواروں پر ہم کہیں اکٹھے ہوتے۔ وہ سمجھ نہیں پاتے تھے کہ مجھے ان عربوں میں ایسی کیا بات دکھائی دیتی ہے، جنھیں وہ انتہائی پسماندہ سمجھتے تھے، بالکل اسی نظر سے دیکھتے تھے جیسے کوئی یورپی باشندہ، وسطی افریقہ کے اجڈ اور گنوار باشندوں کو دیکھتا ہے۔ عرب ذہن کیا سوچتا ہے؟ اس سے انھیں کوئی سروکار نہ تھا، نہ ان میں سے کوئی یہ تکلف ہی کرتا تھا کہ عربی زبان ہی سیکھ لے۔

صہیونی تحریک کی گمراہی کو آشکار کرنے والا  عینی شاہد

محمد اسد نے اپنی اس کتاب میں جو کچھ لکھا ہے اس کی اہمیت محض اس وجہ سے نہیں ہے کہ ان کی مذکورہ رائے کی بنیاد منطقی اسباب پر تھی، ہرگز نہیں۔ درحقیقت یہ اس عینی شاہد کا بیان ہے، جسے ان نتائج تک واقعی،حقیقی اور آنکھوں دیکھے زندہ واقعات و حوادث نے پہنچایا تھا۔ محمد اسد خود ان واقعات اور ان کی جزئیات کا حصہ رہے ہیں۔ گویا یہ اس زمانے کے احوال و واقعات کے بارے میں ایک باخبر صحافی کے ایسے رپورتاژ ہیں جو انتہائی باریک بینی اور دقت نظری سے مرتب کردہ تھے، زمینی حقائق پر مبنی اور نتائج بھی عقلی استدلال سے پُر۔

محمد اسد لکھتے ہیں: ’’ان دنوں ایک عام یورپی باشندہ، فلسطینی عربوں کے بارے میں کیا جانتا تھا؟عملاً کچھ بھی نہیں۔ جب یورپی یہودی فلسطین آئے تو اپنے ساتھ بہت سے غلط العام جذبات و احساسات بھی لے کر آئے۔ان میں سے جو بھی صاف نیت اور تھوڑی سی عقل و شعور کا مالک ہوگا، وہ ضرور اقرار کرے گا کہ ارض فلسطین پر عربوں کی موجودگی کے بارے اسے کچھ معلوم نہیں تھا۔ میں خود بھی ارضِ فلسطین پر آنے سے قبل ہرگز یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ عرب سرزمین ہے جو عربوں ہی کی ہے۔ بس یہاںکے بارے میں کچھ مبہم سی معلومات تھیں کہ چند عرب لوگ بھی یہاں رہتے ہیں اور ان عربوں کے بارے میں میرا تصور یہ تھا کہ یہ عرب قبائلی بدو ہوں گے خیمہ بدوش، کبھی یہاں کبھی وہاں پڑاؤ ڈالنے والے اور صحرائی میدانوں میں اونٹ چرانے والے۔میں نے گذشتہ چند برسوں میں فلسطین کے بارے میں اگر کچھ پڑ ھا تو وہ صہیونیوں کا لکھا پروپیگنڈا لٹریچر ہی تھا، جس میں ان کا اپنا موقف ہی دیا ہوتا تھا۔میں نہیں جانتا تھا کہ فلسطین کے شہر، عرب شہر ہیں جن میں عرب رہتے بستے ہیں۔ ۱۹۲۲ء میں یہاں آبادی کا تناسب کچھ اس طرح تھا کہ ایک یہودی کے مقابلے میں پانچ عرب اور اس کا سیدھا سادہ مطلب یہی تھا کہ یہ ایک عرب ملک ہے‘‘۔

اس طرح صہیونی تحریک کی جانب سے اسرائیل کے قیام کے غیر قانونی اعلان سے  ربع صدی قبل محمد اسد صہیونی سازشوں کو بے نقاب کر رہے تھے اور اس واضح وژن کے ساتھ، جس میں خوف اور تردد کا ادنیٰ سا شائبہ بھی نہیں تھا، پوری تفصیلات اور بھرپور اعتماد کے ساتھ۔ اس لیے کہ انھوں نے  عینی شاہد کے طور پر، صحافی کے طور پر، ایک رپورٹر اور ادیب کے طور پر بچشم سر خود مقبوضہ فلسطین کو دیکھا تھا۔اس مشاہدے اور تجربے نے یورپی قلم کاروں کے ہاتھوں پہلے سے بنائی ہوئی اس مسخ شدہ تصویر کو تبدیل کر کے رکھ دیا جس کی بنیاد غلط معلومات اور فلسطین کے بارے میں یہودی پروپیگنڈا پر تھی جو دن رات وہ کرتے رہتے تھے۔

تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہود اور ان کا پروپیگنڈا ہی اُس دور میں معلومات اور خبروں کا واحد ذریعہ تھا کہ جب انفارمیشن اور خبروں کے ذرائع خال خال ہی تھے۔ یہی وجہ تھی کہ محمد اسد جس اخبار میں اپنے مراسلات بھیجتے تھے، وہ بڑے اہتمام کے ساتھ ان کے مضمون کے آخر میں یہ لکھنا نہیں بھولتا تھا کہ’’مقالہ نگار کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے‘‘ ۔ اس کی ایک وجہ شاید ان اداروں میں یہود ی اثر و نفوذ بھی تھا۔

 محمد اسد کے دورۂ فلسطین کی ایک اہم یادگار ان کی اس وقت صہیونی تحریک کے رہنما حائیم وائز مین کے ساتھ ملاقات بھی تھی۔ اس گرماگرم بحث سے محمد اسد کی صہیونی تحریک کے بارے میں ذاتی رائے بھی معلوم ہوتی ہے اور صہیونی تحریک کی ان کوششوں کے بارے میں آگاہی بھی ملتی ہے، جو وہ فلسطین اور پورے عرب کی صورت مسخ کرنے، اور پھر اس مسخ شدہ تصویر کو عالمی رائے عامہ کے ذہنوں پر مسلط کرنے کے حوالے سے کر رہی تھی۔ اس سطحی صہیونی عقل و منطق کا اندازہ بھی اس سے بخوبی ہو جاتا ہے، جو وہ فلسطین پر ناجائز قبضہ کے جواز کے طور پر رکھتے تھے۔ اس مکالمے سے ہم یہ اندازہ بھی لگا سکتے ہیں کہ دنیا کے اس پُرآشوب خطّے اور اس میں رہنے والے قبائل اور نسلوں کے بارے میں محمد اسد کی اپنی معلومات کس قدر وسیع اور گہری تھیں۔

 گفتگو کا آغاز اس وقت ہوا جب وائز مین ان مالی مشکلات پر شکایت کناں تھے جو فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن بنانے میں آڑے ا ٓرہی تھیں کہ ’’فلسطین سے باہر رہنے والے لوگ ہماری باتوں اور اپیلوں پر کان نہیں دھر رہے‘‘۔ محمد اسد کہتے ہیں کہ اس سے مجھے خیال گزرا کہ یہ بھی دیگرصہیونیوں کی طرح فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن بنانے میں ناکامی کا بوجھ بیرونی دنیا پر ڈالنا چاہتے ہیں۔ بات چیت کے دوران خاموشی کا ایک وقفہ آیا تو میں نے اسے غنیمت جانتے ہوئے ایک سوال اُچھالا:’’ اور یہاں رہنے والے عربوں کا کیا ہوگا؟‘‘ مجھے لگا جیسے میں نے کوئی پہاڑ جیسی غلطی کر دی ہو، یہودی محفلوں کے لیے بالکل اجنبی سا سوال پوچھ کر۔

ڈاکٹر وائز مین نے آہستہ آہستہ اپنا چہرہ میری طرف پھیرا اور میرا ہی سوال دُہرا دیا: ’’عربوں کا کیا ہوگا؟‘‘ میں نے اپنا سوال خود ہی مکمل کیا کہ ’’فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن کیسے بنا پائیں گے، جب کہ عربوں کی طرف سے ہمیں شدید مخالفت کا سامنا ہے اور اس پر طرہ یہ کہ وہ اکثریت میں بھی ہیں؟‘‘ یہودی لیڈر نے اپنے کندھے اچکائے گویا جواب دے رہے ہوں اور پھر خشک لہجے میں بولے: ’’ہمیں امید ہے کہ چند برسوں بعد وہ اکثریت میں نہیں ہوں گے‘‘۔

 میں نے جواباً کہا: ’’اس امر کی کوشش تو آپ برسوں سے کر رہے ہیں اور یقینا مجھ سے زیادہ حقائق کو بھی جانتے ہیں لیکن کیا اس معاملے کا اخلاقی پہلو تو کبھی آپ کو شرمسار نہیں کر دے گا؟ کیا آپ کو فکر ہے کہ اس خطے میں ساری ساری زندگیاں گزارنے والی قوم کو ان کے گھر بار اور علاقے سے نکال دینا بہت بڑی غلطی ہوگی؟

وائز مین نے اپنی آنکھوں کی بھنویں سکیڑیں اور جواب دیا: ’’یہ ہماری زمین ہے اور ہم اس سے زیادہ کچھ نہیں کر رہے کہ غلطی سے جوعلاقہ ہم سے چھن گیا تھا، وہی اب ہم واپس لے رہے ہیں‘‘۔ میں نے جواب دیا: ’’لیکن آپ لوگ تقریباًد و ہزار برس تک اس خطے سے دور تھے۔ ہاں، ٹھیک ہے اس سے قبل اس خطے پر آپ کی حکومت رہی، لیکن پورے خطے پر نہیں اور وہ بھی کوئی ۵۰۰ برس سے بھی کم عرصے کے لیے صرف۔ آپ کی منطق کو اگر قبول کر لیا جائے تو کیا عرب بھی اندلس کی واپسی کا مطالبہ نہیں کر سکتے؟ انھوں نے تو اندلس پر ۷۰۰ برس سے زیادہ عرصہ تک حکومت کی ہے اور ابھی انھیں وہاں سے نکلے پانچ سو برس بھی نہیں ہوئے؟‘‘ اس پر وائز مین کا صبر جواب دے گیا اور وہ کہنے لگے: ’’یہ سب بے کار کی باتیں ہیں۔ عربوں نے اندلس پر جنگ مسلط کی تھی۔ اندلس کبھی بھی ان کی سرزمین نہیں رہا۔ زیادہ معقول اور آخری بات یہ ہے کہ اندلسیوں نے خود انھیں نکال باہر کیا تھا‘‘۔

میں نے ان کی دلیل کا جواب دیتے ہوئے کہا: ’’معاف کیجیے گا، لگتا ہے تاریخی تناظر کے اعتبار سے غلط موقف بنایا جارہا ہے۔ آپ کچھ بھی کہہ لیں مگر حقیقت یہ ہے کہ عبرانی بھی جنگجو بن کر فلسطین میں داخل ہوئے تھے اور ان سے پہلے طویل مدت تک سامی اور غیر سامی قبائل فلسطین میں رہتے آ رہے تھے۔ عموری،فلسطینی، موابی،حتی اور عبرانیوں کی ان سے جنگ کے بعد بھی مسلّمہ تاریخی حقیقت یہی ہے کہ یہ قبائل فلسطین ہی میں رہتے بستے رہے۔اسی طرح یہودا اور اسرائیل، دونوں یہودی مملکتوں کے اندر بھی یہ لوگ بستے رہے۔یہ لوگ اس وقت بھی اس سرزمین میں بس رہے تھے، جب رومیوں نے ہمارے یہودی اسلاف کو ارضِ فلسطین سے بے دخل کیا تھا اور یہی لوگ آج بھی فلسطین کی سرزمین پررہ بس رہے ہیں‘‘۔

میری گرم جوشی دیکھ کر ڈاکٹر وائز مین مسکرا دیے اور غالباً بے بس ہوکر گفتگو کا رُخ دوسری طرف موڑ کر دیگر موضوعات پر بات کرنے لگے‘‘۔

بقول محمد اسد: ’’مجھے اس ملاقات اور اس کے نتائج پر کوئی خوشی نہیں ہوئی۔ مجھے ہرگز توقع نہیں تھی کہ صہیونی منصوبہ عقل و منطق اور دلیل و حجت سے اس قدر عاری ہوگا۔مجھے امید تھی کہ میری طرف سے عرب مسئلہ کا دفاع اس صہیونی منصوبے کے بارے میں اس کے خالقوں کے ذہن میں شک و شبہہ پیدا کردے گا یا کم سے کم اس کی کامیابی کے بارے میں عدم یقین کی کیفیت تو ضرور ہی پیدا ہوگی، جن سے ان میں یہ احساس جنم لے گا کہ ان کے منصوبے کی عربوں کی طرف سے مزاحمت اخلاقی طور پر بر حق ہے، لیکن اس کے برعکس میں نے اپنے آپ کو چبھتی نظروں کی ٹھنڈی دیواروں میں گھرا ہواپایا۔ایسی نظریں جو میری جرأت اور بے باکی کی مذمت کر رہی تھیں۔ ان امور پر اظہارِ تشکیک ان کے نزدیک جرم تھا، جن میں شک و شبہہ مکمل طور پر ناقابلِ قبول ہو۔ ان کے نزدیک یہودیوں کا ان کے آباؤ اجداد کی سرزمین فلسطین پر حق فائق تھا۔

 صہیونی تحریک کے رہنما کی اپنی دلیل ایک ۲۲ سالہ نوجوان صحافی کے سامنے نہ ٹھیرسکی۔ یہی نہیں بلکہ وہ جواب دینے سے کترانے لگا اور بات کا رُخ محض اس لیے موڑ دیا کہ اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا اور نہ وہ اس موضوع پر مزید گفتگو کا متحمل ہو سکتا تھا۔اپنے انھی خیالات، منطقی استدلال اور عملی مشاہدے کی بنیاد پر محمد اسد فلسطین میں یہودیوں کے انجام اور ان کی ریاست کے جلد یا بدیر، زوال کی توقع رکھتے تھے۔

شامی نامہ نگار حیدر الغدیر ۱۹۷۹ء میں مراکش میں محمد اسد کے ساتھ اپنی ایک ملاقات کا احوال بیان کرتے ہوئے ان کا قول دہراتے ہیں: ’’یہود ایک ایسی احمق قوم ہیں، جنھوں نے اپنی تاریخ سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا اور نہ اپنی غلطیوں ہی سے کچھ سیکھا ہے۔ ان میں غرور بھی ہے اور لالچ بھی اور یہی دو چیزیں ہلاکت خیز ہوتی ہیں۔ ان کی مثال اس بندر کی سی ہے جس نے ایک بوتل میں بند بادام دیکھے تو انھیں کھانے کے لیے جھٹ سے اپنا ہاتھ بوتل میں ڈال کر مٹھی بھر لی اب لگا زور لگانے کے ہاتھ باہر نکالے، لیکن کوئی چارہ نہیں تھا۔اتنی عقل تھی نہیں کہ بادام چھوڑے، مٹھی کھولے اور ہاتھ نکال لے۔ باداموں کا لالچ بھی اسے مٹھی میں بھرے بادام چھوڑنے نہیں دے رہا تھا۔ لہٰذا وہ اسی حالت میں رہا، یہاں تک کہ اس کا مالک آگیا اور اس نے مار مار کر اس سے بادام چھڑوائے اور اس کا ہاتھ آزاد کرایااوربندر کو اپنے لالچ کی سزا ملی۔ بس ایسی ہی صورتِ حال فلسطین میں یہودیوں کی بھی ہے۔ ان کے لالچ کی سزا انجامِ کار ان کی منتظر ہے۔ انھیں بھی بالکل اسی طرح مجبوراً فلسطین کو چھوڑنا پڑے گا جیسے لالچی بندر کو مار کھا کھا کر بادام چھوڑنے پڑے تھے‘‘۔

تصور کریں اگر ایران، شام، لبنان یا ترکی - روس اور چین کی مکمل سفارتی حمایت اور مسلح مدد اور ارادے کی قوت کے ساتھ ساتھ وسائل سے بھی لیس ہو اور تل ابیب پر تین ماہ تک دن رات بمباری کرے، دسیوں ہزاروں اسرائیلیوں کو قتل کرے، لاتعداد کو معذور اور لاکھوں کو بے گھر کرے اور پورے شہر کو غزہ کی طرح ناقابلِ رہایش ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کردے۔

صرف چند لمحوں کے لیے یہ تصور کریں کہ: ایران اور اس کے اتحادی تل ابیب کے آبادی والے حصوں، ہسپتالوں، عبادت گاہوں، اسکولوں، یونی ورسٹیوں، لائبریریوں اور ایسی کوئی بھی جگہ جہاں انسان آباد ہوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنارہے ہیں، تاکہ یقینی طور پر زیادہ سے زیادہ شہری ہلاکتیں ہوں۔ اور دنیا کو یہ بتائیں کہ وہ صرف اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو اور ان کی جنگی کابینہ کو تلاش کر رہے ہیں۔

اپنے آپ سے پوچھیے کہ امریکا، برطانیہ، یورپی یونین، کینیڈا، آسٹریلیا اور جرمنی اس خیالی جنگی منظر نامے کے جواب میں ۲۴ گھنٹوں کے اندر اندر کیا کریں گے؟

اب حقیقت کی طرف واپس لوٹ آئیےاور اس حقیقت پر غور کریں کہ ۷؍ اکتوبر سے پہلے (اور اس تاریخ سے بھی پہلے کے کئی عشروں تک) تل ابیب کے مغربی اتحادیوں نے نہ صرف یہ دیکھا ہے کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کے ساتھ کیا کیا ہے،بلکہ ان اتحادیوں نے اسے فوجی سازوسامان، بم، گولہ بارود اور سفارتی امداد فراہم کرنے کے ساتھ مکمل پشت پناہی بھی کی ہے، جب کہ فلسطینیوں کے قتل عام اور نسل کشی پر امریکی ذرائع ابلاغ اسرائیلی جارحیت کے حق میں نظریاتی جواز بھی پیش کرتے آ رہے ہیں۔

مذکورہ بالا خیالی جنگی منظر نامے کو موجودہ عالمی نظام ایک دن کے لیے بھی برداشت نہیں کرے گا۔ اسرائیل کی پشت پر امریکا، یورپ، آسٹریلیا اور کینیڈا کی فوجی غنڈا گردی کے مقابلے میں ہم بے بس لوگ، فلسطینیوں کی طرح کسی شمار میں نہیں لائے جاتے۔ یہ صرف ایک سیاسی حقیقت نہیں ہے بلکہ وہ شے جو’مغرب‘ کہلائی جاتی ہے، اس کے ’اخلاقی‘ وجود اور فلسفہ کائنات کا ایک لازمہ ہے۔

ہم میں سے وہ لوگ جو یورپ کے اخلاقی تخیل کے دائرہ کار سے باہر رہتے بستے ہیں، وہ ان مغربیوں کی فلسفیانہ کائنات میں شمار نہیں کیے جاتے: عرب، ایرانی اور مسلمان؛ یا ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا کے لوگ - ہم یورپی فلسفیوں کے لیے کوئی حقیقی وجود نہیں رکھتے،سوائے اس کے کہ ہم ایک مابعد الطبیعیاتی خطرہ ہیں، جسے ہر طور پر فتح کر لینا یا خاموش کر دینا چاہیے۔

ایمانویل کانٹ اور جارج ولہیم فریڈرک ہیگل سے لے کر، ایمینوئل لیوناس اور سلووج زیزیک کے بعد بھی، ہم یا تو عجیب و غریب چیزیں ہیں، اشیا ہیں یا وہ معلوم چیزیں ہیں، جن کو سمجھنے کی ذمہ داری مستشرقین کو سونپی گئی تھی۔ اسی طرح، اسرائیل یا امریکا اور اس کے یورپی اتحادیوں کے ہاتھوں، ہم میں سے ہزاروں افراد کا قتل، یورپی فلسفیوں کے ذہنوں میں ذرا بھی رُک کر سوچنے کا باعث نہیں بنتا۔

قبائلی یورپی سامعین

اگر آپ کو اس پر شک ہے، تو آپ معروف یورپی فلسفی جرگن ہیبرماس (Jurgen Habermas) اور اس کے چند ساتھیوں پر ایک نظر ڈالیں، جو حیران کن بے شرمی کے ساتھ ظالمانہ بدمعاشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کے قتل عام کی حمایت میں سامنے آئے ہیں۔ اب سوال یہ نہیں ہے کہ آیا ہم ایک انسان کے طور پر ۹۴ سال کے ہیبرماس کے بارے میں کیا سوچیں بلکہ سوال یہ ہے کہ ہم ان کے بارے میں ایک سماجی سائنس دان، فلسفی اور تنقیدی مفکر ہونے کے ناطے کیا سوچیں؟

دنیا اسی قسم کے سوال ایک اور بڑے جرمن فلسفی، مارٹن ہائیڈیگر کے بارے میں اس کی نازی ازم کے ساتھ انسانیت سوز وابستگی کی روشنی میں پوچھتی آ رہی ہے۔ ہمیں بھی اسی طرح ہیبرماس کی متشدد صہیونیت اور اس کے پورے فلسفیانہ منصوبے اور ان کے اہم نتائج کے بارے میں، ایسے اہم سوالات پوچھنے چاہئیں۔

اگر ہیبرماس کے اخلاقی تصور میں فلسطینیوں جیسے لوگوں کے لیے دُنیا میں ذرا برابر بھی جگہ نہیں ہے، تو کیا ہمارے پاس اس کے پورے فلسفیانہ منصوبے کو قبائلی یورپی سامعین کے علاوہ، باقی انسانیت سے متعلق سمجھنے کی کوئی وجۂ جواز موجود ہے؟

ایک کھلے خط میں ممتاز ایرانی ماہر عمرانیات آصف بیات نے ہیبر ماس کو لکھا ہے: ’’جب غزہ کی صورتِ حال پر بات کرنے کا وقت آتا ہے تو ہیبر ماس ’اپنے ہی خیالات سے متصادم‘ بات کرتا ہے۔ میں اس بات سے اختلاف کرتا ہوں۔ فلسطینی زندگیوں سے بے خبری اور سفاکانہ لاتعلقی کی صہیونیت سے پوری طرح مطابقت رکھتی ہے۔ یہ اس عالمی نظریہ سے بالکل مطابقت رکھتا ہے جس میں غیر یورپی لوگ، مکمل طور پر انسان نہیں ہیں، یا محض ’انسان نما جانور‘ ہیں، جیسا کہ اسرائیلی وزیر دفاع یاو گیلنٹ نے سر عام کہا ہے۔

فلسطینیوں کی زندگیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے، ہیبرماس کی صہیونیت ہائیڈیگر کے نازی ازم سے جا ملی ہے۔ فلسطینیوں کو سراسر نظر انداز کرنے کے اس رویے کی جڑیں جرمن اور یورپی فلسفیانہ تخیلات میں بہت گہری ہیں۔ عام حکمت کے مطابق ’ہولوکاسٹ‘ کے جرم میں شرم کے مارے جرمنوں نے اسرائیل کے لیے ٹھوس وابستگی پیدا کر لی ہے۔لیکن باقی دنیا کے لیے، جیسا کہ جنوبی افریقہ کی جانب سے بین الاقوامی عدالت انصاف میں پیش کی گئی شاندار دستاویز سے ثابت ہوتا ہے، جرمنی میں نازی دور میں جو کچھ کیا گیا، اور اب صہیونی دور میں جو کچھ کیا جارہا ہے، میں مکمل مطابقت ہے۔

یقینا ہیبرماس کی پوزیشن صہیونیوں کے ہاتھوں فلسطینی قتل عام کے لیے جرمن ریاست کی پالیسی کے مطابق ہے۔ یہ &’جرمن بائیں بازو‘ ; کی نسل پرستانہ دشمنی، اسلام دشمنی رویوں کے بھی بالکل مطابق ہے، جو وہ عربوں اور مسلمانوں سے کرتے ہیں۔ اور یہ ان کے اس رویے کے بھی مطابق ہے، جس کی بنا پر وہ اسرائیلی غیر قانونی آباد کاروں کی فلسطینی نسل کشی کی حمایت کرتے ہیں۔

ہمیں اس بات پر معاف رکھیے، اگر ہم یہ بات سوچ رہے تھے کہ جرمنی ہولوکاسٹ کی تاریخ پر شرمندہ ہے، نہیں بلکہ وہ نسل کشی کی بیماری میں مبتلا ہے، کیونکہ اس پوری صدی (نہ کہ صرف پچھلے ایک سو پندرہ دن) میں اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کے قتل عام میں جرمنی بالواسطہ ملوث رہا ہے۔

اخلاقی پستی

یورو سینٹرزم (Eurocentrism) کا الزام جو یورپی فلسفیوں کے تصورِ دنیا کے خلاف مسلسل لگایا جاتا ہے، وہ محض ان کی سوچ کی ایک علمی خامی کی طرف اشارہ نہیں ہے، بلکہ یہ ان کی اخلاقی پستی کی ایک مستقل علامت ہے۔ ماضی میں متعدد موقعوں پر میں نے یورپی فلسفیانہ سوچ کی اس لاعلاج نسل پرستی کی طرف نشان دہی کی ہے اور آج بھی ان کے مشہور نمایندوں کے سامنے نشاندہی کرتا رہتا ہوں۔

یہ اخلاقی پستی محض ایک سیاسی غلطی یا نظریاتی خلا پر مشتمل نہیں ہے۔ یہ ان کے فلسفیانہ تخیلات میں گہرائی سے لکھی گئی ہے، جو ناقابل تلافی طور پر ایک وحشیانہ قبائلی سوچ ہے۔ آج کی دنیا، یورپی نسلی فلسفے کی جھوٹی نیند سے بیدار ہو چکی ہے۔ آج ہم نے یہ آزادی فلسطینیوں جیسے مصائب میں گھرے لوگوں کے ہاتھوں حاصل کی ہے۔

یہاں، ہمیں مارٹنیک کے ایک عظیم الشان شاعر ایمی سیزائر (Aime Cesaire)کے ایک بیان کو دُہرانا چاہیے؛ &’’ہاں، یہ سود مند ہوگا، اگر ہم طبی لحاظ سے، ہٹلر کے اقدامات اور ہٹلرازم کا تفصیلی مطالعہ کریں اور بیسویں صدی کے بہت ہی ممتاز، انتہائی انسان دوست، انتہائی مسیحی بورژوا کے سامنے یہ انکشاف کیا جائے کہ اپنے اندر موجود ایک ہٹلر سے وہ ناواقف ہے، وہ ہٹلر اس کے اندر بستا ہے، وہ ہٹلر اس کا شیطان ہے، اور اس کے خلاف آواز اٹھانا اس کے لیے متضاد عمل ہے، اور وہ اس پر قائم نہیں رہ سکتااور یہ کہ دل کی گہرائیوں میں وہ جس چیز کے لیے ہٹلر کو معاف نہیں کرسکتا وہ بذات خود اس کا جرم نہیں جو اس نے انسانیت کے خلاف کیا، اور نہ یہ انسانیت کی بے توقیری پر مبنی رویہ ہے، بلکہ دُکھ صرف اس بات پر ہے کہ یہ جرم ایک سفید فام آدمی کے خلاف ہوا، جس میں سفید فام آدمی کی تذلیل ہوئی اور یہ حقیقت اس میںمضمر ہے کہ اس نے نوآبادیاتی طریق کار کا اطلاق یورپ پر کیا جو اس وقت تک صرف [عرب، ہندستانی اور افریقیوں کے لیے مخصوص تھا]‘‘۔

 فلسطین، آج نوآبادیاتی مظالم کی ایک توسیع ہے جس کا حوالہ سیزائر نے اپنی تحریرمیں دیا ہے۔ ہیبرماس اس بات سے لاعلم دکھائی دیتا ہے کہ اس کی فلسطینیوں کے قتل عام کی توثیق کرنا مکمل طور پر اُس نسل کشی سے مطابقت رکھتا ہے، جو اُس کے آباؤ اجداد نے نمیبیا میں ہریرو اور نِما قبیلوں کی کی۔ اس ضرب المثلی شتر مرغ کی طرح، جرمن فلسفی بھی اپنے سروں کو یورپی فریبوں کے اندر پھنسائے ہوئے ہیں، جو یہ سوچ رہا ہوتا ہے کہ دنیا اسے نہیں دیکھ رہی۔

میری نظر میں، ہیبرماس نے کچھ بھی کہا، وہ حیران کن یا متضاد نہیں کہا ہے۔ بالکل معاملہ اس کے برعکس ہے۔ وہ اپنے فلسفیانہ حسب نسب کی لاعلاج قبائلیت کے ساتھ پوری طرح ہم آہنگ ہے، جس نسب نے غلطی سے آفاقی رنگ اختیار کرنے کا دعویٰ کر رکھاتھا۔

دنیا نے اب اس نام نہاد ’آفاقیت‘ کے غلط داغ سے خود کو صاف کر لیا ہے۔ ہیبر ماس اور اس قبیل کے لوگوں کے مقابلے میں دیگر فلسفی جیسا کہ ڈ یموکریٹک رپبلک آف کانگو کے وی وائی موڈیمبے،ارجنٹائن کے میگنولو یا اینرک ڈوسل یا جاپان کے کوجن کراتانی کے پاس آفاقیت کے کہیں زیادہ جائز دعوے ہیں۔

میری رائے میں، فلسطین پر ہیبرماس کے بیان کا اخلاقی دیوالیہ پن، یورپی فلسفے اور باقی دنیا کے درمیان نوآبادیاتی تعلق میں ایک اہم موڑ ہے۔ دنیا یورپی نسلی فلسفے کی جھوٹی نیند سے بیدار ہوچکی ہے۔ ہم نے یہ آزادی آج فلسطینیوں جیسے مصائب میں گھرے لوگوں کے طفیل حاصل کی ہے، جن کی طویل، تاریخی بہادریوں اور قربانیوں نے آخرکار &’مغربی تہذیب‘ کی بنیادیں، جو بے شرم وحشت و درندگی پر کھڑی تھیں، منہدم کر دی ہیں۔(مڈل ایسٹ آئی)

مذہب و نسل کی بنیاد پر انسان سے نفرت کی تمام شکلیں قابلِ مذمت ہیں لیکن امریکا میں خاص طور پر اکثر یہ ہوتا ہے کہ اسرائیلی حکومت کے تمام ناقدین کو ’یہود دشمن‘ (Antisemitists) قرار دے کر ان کا محاسبہ ہوتا ہے،جب کہ ’عرب دشمنی‘ کے واقعات کو بڑی آسانی سے نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ پہلی عرب اسرائیل جنگ سے بھی پہلے کا ہے اور ۱۹۳۰ء کے عشرے سے یہود پسند گروہ یہ مطالبہ کرتے آئے ہیں کہ ’ارضِ فلسطین سے مسلمانوں اور عیسائیوں کو نکالا جائے‘۔ یہ مذہبی اور نسلی تعصب نہ صرف برداشت کیا گیا بلکہ جب امریکی صدر [۵۴-۱۹۴۵ء] ہیری ٹرومین جیسے سیاست دانوں نے فلسطین کی غیر یہودی اور عرب آبادی کے تحفظات کو مکمل نظر انداز کرنا شروع کیا، تو اُس دن سے لے کر آج تک یہ امریکی خارجہ پالیسی کا باقاعدہ حصہ بن گیا۔

چونکہ اسرائیل اپنی اچھی خاصی غیر یہودی آبادی کے باوجود خود کو یہودی ریاست قرار دیتا ہے، اس لیے اس کی پالیسیوں پر تنقید کرنے والا ہر فرد بڑی آسانی سے ’یہود دشمن‘ قرار پاکر مطعون ٹھیرتا ہے۔ اس رویے کا نقصان عربوں کو ہوتا ہے جو اپنے خلاف پائے جانے والے تعصب یا مسئلہ فلسطین پر بات کریں تو فوراً ’یہود دشمن‘ قرار پاتے ہیں کیونکہ اسرائیلی برادری تاریخی طور پر امریکی میڈیا اور تعلقات عامہ کے دیگر اداروں میں اپنے رسوخ کے باعث الفاظ اور بیانیے کی اہمیت سے بہتر طور پر واقف ہے۔ یہ ’عرب دشمنی‘ کی ایک واضح مثال ہے کہ اسرائیلی وزارتِ دفاع، وزارتِ داخلہ اور کئی منتخب نمایندے کھلم کھلا یہ مطالبہ کر چکے ہیں کہ ’’فلسطینیوں کو غزہ سے نکال کر مصر کی جانب دھکیل دیا جائے‘‘۔

اسرائیلی حکومت کی جارحیت کے ناقدین کو خاموش کرنے کے لیے ’یہود دشمنی‘ کا بطور ہتھیار استعمال نہ صرف اسرائیل غزہ جنگ میں نمایاں ہے بلکہ اس کے اثرات امریکا میں بھی واضح طور پر دیکھے جاسکتے ہیں، جو اسرائیلی ریاست کا سب سے بڑا سرپرست اوراس بات کا ضامن ہے کہ اسے اپنے جنگی جرائم کی سزا نہ مل سکے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھی اسرائیلی حکومت کے ناقدین کو خاموش کروانے کا فریضہ امریکا نے سنبھال رکھا ہے۔ اقوام متحدہ میں امریکا نے غزہ میں ’انسانی بنیادوں پر فوری جنگ بندی‘ کی قرار داد کو ویٹو کردیا تھا جس نے یہ حقیقت مزید آشکارا کر دی کہ اقوام متحدہ انسانی حقوق جیسے بنیادی معاملات پر بھی طاقت ور ممالک کے سامنے بے بس ہے۔

’یہود دشمنی‘ کا یہ استعمال ہمیں یونی ورسٹیوں میں بھی نظر آتا ہے، جہاں طویل عرصے سے یہودی طلبہ کو فلسطینی ہم مکتبوں کے مقابلے میں بہتر حقوق اور سہولیات حاصل ہیں۔ میں ۱۹۷۰ء کی دہائی میں یونی ورسٹی آف الینائی (University of Illinois) میں عرب طلبہ کی تنظیم، عرب اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (ASO) کی قیادت کر چکا ہوں۔اس عہدے پر مجھے یونی ورسٹی انتظامیہ کی جانب سے مسلسل مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ۔ اکثر ہماری تقریبات کے لیے فنڈز دینے سے انکار کر دیا جاتا یا فلسطین پسند سمجھے جانے والے مقررین کو مدعو کرنے کی اجازت نہ ملتی۔ اس کے مقابلے میں اسرائیل کے حق میں ہونے والی تقریبات کو اکثر یونی ورسٹی کی مالی معاونت حاصل ہوتی۔

جب ہم اسرائیلی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرتے تو ہمیں نہ صرف اساتذہ بلکہ یونی ورسٹی کے اخبار کی جانب سے بھی ’یہود دشمن‘ قراردیا جاتا۔ اسی صورتِ حال کے باعث میں نے میڈیکل کو چھوڑ کر صحافت کو پیشہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ آج فلسطین کے حق میں احتجاج کرنے والوں کے لیے یونی ورسٹیوں کی صورتِ حال اس سے بھی بری ہے۔ اس صورت حال کی تشکیل میں امریکی میڈیا کے تعصبات کا کلیدی کردار ہے۔

۷؍اکتوبر ۲۰۲۳ء کو اسرائیل میں ہونے والے پُر تشدد واقعات کے بعد سے امریکا کی اسرائیل پسند تنظیموں کی پوری کوشش ہے کہ تل ابیب کے رد عمل اور اس کے ناجائز اور ناروا مظالم پر ہونے والی ہر تنقید کو ’یہود دشمنی‘ قرار دے کر دبا دیا جائے۔ ۷؍اکتوبر کو حماس کے حملے کو اسرائیل نے اپنے غصے کا جواز بناتے ہوئے وسیع پیمانے پر بلا امتیاز جنگی کارروائیاں کی ہیں، جن کے نتیجے میں ۲۲ہزار سے زیادہ شہری اپنی جان گنوا چکے ہیں۔ ان میں ۸ہزاربچے بھی شامل ہیں۔ ۷؍اکتوبر کے بعد سے اسرائیل غزہ کے تقریباً ۷۰ فی صد گھروں کو مسمار کرچکا ہے۔

اس ضمن میں جو بھی اسرائیلی حکومت کی خونخوار پالیسی کی جانب اشارہ کرتا ہے، اسے ’یہود دشمن‘ قرار دے کر سختی سے خاموش کروا دیا جاتا ہے۔ کوئی یونی ورسٹی بھی اس یک طرفہ ظلم سے محفوظ نہیں ہے۔ ہارورڈ جیسی مؤقر یونی ورسٹی کی پہلی سیاہ فام خاتون صدر کو مستعفی ہونے پر مجبور کردیا گیا۔ ڈاکٹر کلاڈین گی پر ان الزامات کے ساتھ حملہ کیا گیا کہ انھوں نے یونی ورسٹی میں ’یہود دشمنی‘ کو جگہ دی ہے۔ تاہم، اس کے ساتھ یونی ورسٹی میں پائے جانے والی ’عرب دشمنی‘ کے جذبات یا اسرائیلی مظالم کے حق میںہونے والے مظاہروں کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا، پھر ’عرب دشمنی‘ کو مکمل طور پر نظر انداز کیا۔ اس یلغار اور دیگر پروفیسروں، اسرائیل پسند تنظیموں، میڈیااور دائیں بازو کے اراکین کانگریس کی جانب سے یوں ہراساں کیے جانے کے بعد کلاڈین نے مستعفی [۲جنوری ۲۴ء] ہونے کا فیصلہ کر لیا۔

ڈاکٹر کلاڈین کا جرم کیا تھا؟ دراصل انھوں نے یونی ورسٹی میں ’یہود دشمنی‘ کے الزامات کا ایک متوازن جواب دینے کی کوشش کی اور کہا کہ’ ’یہود دشمنی تشدد پر اُبھارنے والے جذبات کا نام ہے۔ یہ سلامتی کے اصولوں کے خلاف اور ہراسمنٹ سے متعلق ہارورڈ کے قوانین سے متصادم ہے‘‘۔ انھوں نے قبول کیا کہ یونی ورسٹی میں اسرائیل پسند اور فلسطین پسند گروہوں کی جانب سے ’بے جا اور بے سوچا سمجھا بیانیہ‘ تشکیل دیا جا رہا ہے۔ لیکن اس بیانیے میں ہمیں ’عرب دشمنی‘ یا فلسطین مخالف جذبات کا کہیں ذکر نہیں ملتا، جس کی مخصوص سیاسی وجوہ ہیں۔ مزید برآں اس سے عیسائی مذہب رکھنے والے عربوں کے تحفظات کا ازالہ بھی نہیں ہوتا، چنانچہ اصل پالیسی وہی ہونی چاہیے جو ’عرب دشمنی‘ اور ’یہود دشمنی‘ دونوں کا تدارک کر سکے۔

اسرائیلی مظالم کے خاتمے کے لیے اٹھنے والی ہر آواز دبا دی جاتی ہے، جب کہ حماس پر الزامات کی بازگشت امریکا میں ہر سطح پر سنائی دے رہی ہے۔ اس غیر متوازن صورتِ حال کا باعث یہی ہے کہ ’یہود دشمنی‘ کو ایک ایسا ہتھیار بنا لیا گیا ہے، جس کی وجہ سے اسی قدر ہولناک جرائم اور اسرائیل کے خلاف ہونے والے واقعے سے کہیں زیادہ فلسطینی بچوں اور عورتوں کی قتل و غارت گری نظر انداز کی جا رہی ہے۔ 

فرانز کافکا کا یہ قول مشہور ہے:’’شاید تم ہر اس شے کو کھو دو جس سے تمھیں محبت ہے، لیکن آخر میں محبت کسی اور صورت میں تمھارے پاس لوٹ آئے گی۔‘‘ میری رائے میں یہی اصول دیگر انسانی جذبات مثلاً نفرت، بے زاری، غصے اور انتقام پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ اربوں ڈالر کی عسکری اور معاشی امداد اور ہر ممکن طریقے سے فلسطینیوں کی نسل کشی میں معاون بننے والے امریکی حکام کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے۔

پوری دنیا اس صورتِ حال کو دیکھ ، سن اور پڑھ رہی ہے اور امریکی ریاست کو براہ راست فلسطینیوں کی خون ریزی کا حصہ بنتے ہوئے دیکھ کر لوگوں کا غصہ بڑھ رہا ہے۔ سیٹلائٹ ڈیٹا کی مدد سے اندازہ لگاتے ہوئے ایسوسی ایٹڈ پریس کا کہنا تھا: ’’غزہ میں اسرائیلی جارحیت نے ۲۰۱۲ء سے ۲۰۱۶ء کے درمیان شام کے شہر حلب میں ہونے والی تباہی، یوکرینی شہر ماریوپول کی بربادی، اور دوسری جنگ عظیم میں اتحادیوں کی جانب سے جرمنی پر ہونے والی بمباری کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اب یہ جنگ حالیہ تاریخ کی سب سے ہولناک اور خون ریز جنگ بن چکی ہے‘‘۔

مرنے اور ملبے میں دب کر لاپتہ ہونے والے ہزاروں شہریوں سے کہیں زیادہ تعداد ان کی ہے جو زخمی یا معذور ہو چکے ہیں۔ ان میں ہزاروں بچے بھی شامل ہیں۔ یونیسف کے مطابق ’’کتنے ہی بچے ایسے ہیں جو اپنی ٹانگ یا بازو کے نقصان کو رو رہے ہیں۔ غزہ کی یہ تکلیف ٹیلی ویژن اور دیگر تمام ممکنہ ذرائع مواصلات پر براہِ راست دکھائی جا رہی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ساری دنیاکے لوگ فلسطینی بچوں کی تکلیف میں شامل ہیں، لیکن اس نسل کشی کو روکنے کے لیے کوئی قدم اٹھانے سے قاصر ہیں‘‘۔

اگرچہ تمام یورپی ممالک اپنی رائے کو بدلتے ہوئے غزہ میں مستقل جنگ بندی کا مطالبہ کر چکے ہیں،لیکن واشنگٹن نے ایسے تمام مطالبوں کو رد کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ۱۸؍اکتوبر کو جنگ بندی کے لیے کی جانے والی پہلی سنجیدہ کوشش کو ’ویٹو‘ کرتے ہوئے امریکی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ کا کہنا تھا کہ ’’اسرائیل کو اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج آرٹیکل ۵۱کے مطابق اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔‘‘یہ منطق ساری دنیا کے سامنے غزہ کی جنگ کا پس منظر واضح ہونے کے بعد بھی امریکی حکام کی جانب سے کئی موقعوں پر دُہرائی جا چکی ہے۔ خودغرضی پر مبنی یہ منطق بین الاقوامی اور انسانی حقوق کے خلاف ہے، جن کے مطابق جنگ کے دوران بھی نہتے شہریوں کو نشانہ نہیں بنایا جاسکتا اور نہ جنگ کا شکار ہونے والے عام شہریوں تک امداد کی رسائی کو روکا جاسکتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بننے والوں میں اکثریت عام شہریوں کی ہے اور اس میں بھی ۷۰ فی صد تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ مزید برآں، اسرائیل کے غیر انسانی اقدامات کے باعث غزہ کی بچ جانے والی آبادی کو اب قحط کا سامنا ہے، جس کی مثال ہمیں فلسطین کی حالیہ تاریخ میں اس سے قبل نہیں ملتی۔ چنانچہ اسرائیل خوراک، ادویات، ایندھن اور دیگر فوری ضرورت کی اشیا کا قحط پیدا کر کے واشنگٹن کے اپنے قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ بیرونی امداد سے متعلق امریکی قانون کے سیکشن ۶۲۰۱ کے مطابق: ’’کسی ایسے ملک کو امداد نہیں دی جائے گی جس کے متعلق صدر کو یہ علم ہو کہ یہ بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر امریکی امداد کی رسائی میں رکاوٹ ڈال رہا ہے یا ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے‘‘۔

امریکا میں بائیڈن حکومت نے مجبور کرنا تو درکنار، اسرائیلی حکومت پر یہ زور بھی نہیں دیا ہے کہ وہ فلسطینیوں کی حالیہ نسل کشی کے دوران انسانیت کے بالکل بنیادی قوانین کا احترام کرے۔ اس کے برعکس صدر بائیڈن اس جنگ کو طول دینے کے لیے درکار تمام وسائل اسرائیلی حکومت کو مہیا کر رہے ہیں۔

 اسرائیلی چینل ۱۲ پہ ۲۵دسمبر کی رپورٹ کے مطابق تقریباً ۲۰بحری بیڑے اور ۲۴۴کے قریب امریکی ہوائی جہاز، ۱۰ ہزار ٹن سے زائد اسلحہ و بارود اسرائیل پہنچا چکے ہیں۔ اس فوجی رسد میں تقریباً ۱۰۰؍ایسے ۲ہزارپاؤنڈ کے بنکر شکن بم بھی شامل ہیں، جو اس جنگ میں مسلسل استعمال ہوتے آرہے ہیں اورہر دفعہ سیکڑوں شہریوں کی ہلاکت کا باعث بنتے ہیں۔ جنگ کے آغاز سے اب تک امریکا نے جو قابل ذکر قدم اٹھایا ہے، وہ بحیرہ احمر میں ’آپریشن پراسپیریٹی گارڈین‘ کے نام سے ایک اتحاد کی تشکیل ہے، تا کہ اسرائیل سے آنے جانے والے بحری جہازوں کو تحفظ فراہم کیا جاسکے۔

گمان غالب ہے کہ امریکا نے اپنے ماضی، عراق جنگ اور ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ وغیرہ سے کچھ نہیں سیکھا ہے، کیونکہ یہ آج بھی اسرائیلیوں ، فلسطینیوں، عربوں اور مسلمانوں کی حمایت میں توازن پیدا کرنے میں ناکام ہے۔ دوسری طرف کچھ امریکی حکام حقیقت سے بالکل ہی لاتعلق نظر آتے ہیں۔ وائٹ ہاؤس میں گذشتہ ماہ ہونے والی ایک پریس کانفرنس میں امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی کا کہنا تھا کہ ’’آپ مجھے کسی ایک ملک، دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک کا نام بتا دیں جو امریکا سے زیادہ فلسطینیوں کے دکھ درد کا مداوا کرنے کی کوشش کر رہا ہو، تو مجھے یقین ہے کہ آپ نہیں بتا سکیں گے‘‘۔ لیکن یہ سوال موجود ہے کہ بدنام زمانہ اسمارٹ بم، بنکر شکن بم، اور ہزاروں ٹن اسلحہ بارود ’فلسطینیوں کے دکھ درد کا مداوا‘ کیسے کر سکے گا؟

اگر جان کربی فلسطینیوں کی نسل کشی میں اپنی ریاست کے کردار سے لاعلم ہیں تو میرے خیال میں امریکی خارجہ پالیسی کا بحران ہماری توقعات سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔ اگر وہ اس سب سے باخبر ہیں، جو کہ انھیں ہونا چاہیے، تو امریکا کا اخلاقی بحران ہماری حالیہ تاریخ کی بدترین مثال ہے۔ امریکی سیاست کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں انتظامیہ کی تمام تر توجہ اسی بات پر رہتی ہے کہ ان کا کوئی عمل یا بے عملی آیندہ انتخابات میں ان کی جماعت کے لیے کن مضمرات کا باعث بنے گی۔ لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ تاریخ نہ ہر چارسال بعد نومبر کی ایک مقررہ تاریخ سے شروع ہوتی ہے اور نہ اس پر اس کا خاتمہ ہوتا ہے۔ جیسا کہ کافکا نے کہا تھا، ’’آخر میں محبت کسی اور صورت میں تمھارے پاس لوٹ آئے گی‘‘۔ ان کی بات درست ہے لیکن نفرت بھی اسی طرح واپس آ سکتی ہے جس کا اظہار عجیب و غریب طریقوں سے ہوتا ہے۔ خود امریکا کو اپنے تجربات کی بنیاد پر سب ملکوں سے زیادہ اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے تھا، مگر وہاں کوئی مردِ دانش یہ بات کرتا دکھائی نہیں دیتا۔

ہر مسلمان کا دل رنجیدہ ہے۔ ہر توحید پرست کا دل زخمی ہے۔ ہر بندۂ مومن کا دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ مگر یہ رنجید گی، یہ زخم اور آنسوؤں کی برکھا، کسی بندوق کی گولی، بم کے ٹکڑے یا تلوار کے وار کا نتیجہ نہیں ہے۔ یہ بے چارگی دراصل حرمین الشریفین سے نسبت رکھتی ہے۔

اگر کوئی عام تنازع نہ ہو توریاستوں کے درمیان سفارتی اور تجارتی تعلقات کے فروغ میں کسی کے لیے اعتراض کی کوئی بات نہیں ہوتی۔ لیکن ہر ملک محض تجارت کی منڈی اور سفارت کی مسند پر نہیں جھول رہا ہو تا، بلکہ ان مفادات کے ساتھ اپنی تاریخ و تہذیب کے کچھ سوالات بھی پیش نظر رکھتا ہے۔ سعودی عرب کی مادی ترقی پر سبھی مسلمان خوش ہیں، لیکن سعودی عرب محض دوسو ملکوں میں سے ایک ملک نہیں ہے۔ حرمین الشریفین کی مناسبت سے یہ ملک پہچان اور بڑے منفرد تقاضے رکھتا ہے، جس سے نہ وہ چھٹکارا پا سکتا ہے اور نہ مسلم دنیا کی توقعات کو وہاں کے حکمران روند سکتے ہیں۔

جیسا کہ اس تحریر کے شروع میں لکھا ہے کہ مسلمانوں کےدل خون کے آنسورو ر ہے ہیں تو اس تلخ نوائی کا حوالہ یہ ہے کہ بھارت میں ایک ایسی حکومت اپنے مسلم دشمنی پر مبنی ایجنڈے کو تیزی سے آگے بڑھا رہی ہے، جو: مسلمانوں کو قتل و غارت میں جھونکنے، مسجدوں کو شہید کرنے، ہجومی قتل عام کی سرپرستی کرنے، مسلمان عورتوں کی بے حرمتی کرنے کے واقعات کو بڑھاوا دینے اور بہت سے نوجوانوں کو مقدمات کے بغیر جیلوں میں پھینک دینے جیسی کارروائیوں میں مصروف ہے۔

راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (RSS) کی سرپرستی میں قائم اس بدنام حکومت کی وزیر برائے اقلیتی اُمور، سمرتی ایرانی، جن کے ہمراہ خارجہ امور کے وزیر مملکت مرلی دھرن بھی تھے، انھوں نے مدینہ منورہ کا دورہ کیا ۔ سمرتی نے اُسی روز یعنی ۸جنوری کو اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر     بڑی خوشی سے اپنی نوعدد تصویریں شائع کرتے ہوئے لکھا ’’آج میں مدینہ کے تاریخی سفر پر نکلی، جو اسلام کے متبرک ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ اس میں مسجد نبویؐ کے اطراف کی زیارت کرنے کے ساتھ ہی احد پہاڑ اور مسجد قبا کی بیرونی حدود شامل ہیں‘‘۔ انڈین سرکاری نشریاتی ادارے ’دوردرشن‘ نے اس دورے کو غیر معمولی اور تاریخی واقعہ قرار دیتے ہوئے کہا: ’’یہ پہلا موقع ہے کہ جب ایک غیر مسلم وفد کا استقبال مدینہ میں کیا گیا، جس سے انڈیا اور سعودی عرب کے غیرمعمولی رشتوں کی عکاسی ہوتی ہے‘‘۔

مراٹھی زبان میں ہندو نسل پرست اخبار سناتن پرابھات نے ۱۲ جنوری کی اشاعت میں فخریہ لہجے میں لکھا:’’بھارتی یونین وزیر سمرتی ایرانی نے مسلمانوں کے مقدس شہر مدینہ کا دورہ کیا،جہاں عورتیں سر ڈھانپ کر جاتی ہیں، وہاں سمرتی اپنی ساڑھی میں ملبوس گئی اور اپنے سر کو بالکل نہیں ڈھانپا۔ سعودی عرب نے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا، لیکن پاکستان والے اس بات پر ضرور پریشان ہیں۔‘‘ بی بی سی لندن نے اس استقبال کو ’’غیر معمولی تاریخی واقعہ‘‘ قرار دیا۔

بنگلہ دیشی تسلیمہ نسرین نے اپنے بیان میں لکھا، ’’میں سمرتی کو سلام پیش کرتی ہوں کہ اس نے سر نہیں ڈھانپا‘‘۔ جرمن ٹیلی ویژن کے مطابق:’’ایک بھارتی میڈیا پرسن نے لکھا ہے: آپ نے ایک کٹر مسلم ملک میں سر نہ ڈھانپ کر اپنی حقیقی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے‘‘ ۔

جواہر لال نہرو کے ہاتھوں ۱۹۳۷ء میں جاری کردہ اخبار قومی آواز (۱۴جنوری ۲۰۲۴ء) کے مطابق: ’’۲۰۲۱ ء میں ولی عہد نےمدینہ منورہ میں غیر مسلموں کے لیے داخلے سے متعلق بورڈ ہٹادیےتھے۔ ہمیں یہ نہیں معلوم کہ اس دورے کے پیچھے وزیر موصوفہ کی اپنی ذاتی خواہش تھی یا سعودی حکام کی جانب سے خود کو لبرل دکھانے کی ایک کوشش؟ بہر حال، اس واقعے سے اتنا اندازہ ہو گیا ہے کہ سعودی حکام آنے والے دنوں میں یہ عمل مکہ مکرمہ میں بھی دکھا سکتے ہیں۔ ویسے سمرتی ایرانی کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ انھوں نے کبھی بھی اسلام اور مسلمانوں سے دشمنی کو چھپانے کی کوشش نہیں کی، بلکہ جہاں اور جب جب موقع ملا ہے کھل کر اپنی ذہنیت کا مظاہرہ کیا‘‘۔ یہی اخبار مزید لکھتا ہے: ’’سمرتی کے دورے سے پہلے تک سعودی حکمرانوں نے بھی حرم مکہ کی طرح حرم مدینہ میں بھی غیر مسلموں، کے داخل ہونے پر پابندی عائد کر رکھی تھی، اور اس پالیسی کے تحت حدودِ حرم پر باضابطہ علانیہ بورڈ لگائے جاتے تھے، جس میں حرم مدینہ کے راستوں پر ’’صرف مسلمین‘‘ (Only Muslims)کے بورڈ لگا ئےجاتے تھے۔اب ۹۴ سال بعد اچانک مدینۃ الرسول میں غیرمسلموں کو عزت و احترام سے بلانا کیا ظاہر کرتا ہے؟‘‘

اسی طرح اُردو العربیہ ڈاٹ نیٹ (۴؍مئی۲۰۲۱ء) کا یہ شذرہ دیکھیے: ’’سعودی عرب کی حکومت نے مذہبی رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مدینہ منورہ میں داخلے کے راستوں پر غیرمسلموں، اور مسلمانوں کے لیے مختص راستوں کی راہ نمائی کے لیے لگائے گئے بورڈوں پر اصطلاحات تبدیل کرنا شروع کر دی ہیں۔ اس ضمن میں پہلی تبدیلی لفظ ’غیرمسلم‘ کے بجائے ’حدود حرم‘ کی شکل میں سامنے آئی ہے۔ ماضی میں یہ عبارت مدینہ منورہ کے تقدس کے پیش نظر اپنائی گئی تھی کہ ’حرمِ مکی‘ کی طرح ’حرمِ مدنی‘ میں بھی غیر مسلم داخل نہیں ہوسکتے تھے‘‘۔ بی بی سی (۹جنوری ۲۰۲۴ء) کےمطابق: ’’سعودی ’ای ویزہ‘ ویب سائٹ کے مطابق غیر مسلم افراد کو مدینہ کی سیر کی دعوت دی جاتی ہے، تاہم مسجد نبویؐ کے احاطے میں ان کا داخلہ ممنوع ہے‘‘۔

ان تفصیلات کا مقصد یہ ہے کہ چودہ سو سال سے اختیار اور نافذ کیے گئے فیصلے اور روایت کو ختم کرنے کا مقصد کیا ہے؟ کیا حرمِ مدنی کے حوالے سے حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ کے فیصلے کو تبدیل کرنا پیش نظر ہے؟ اور کیا اس کا سبب واقعی مغربی دنیا کے سامنے لبرل بننے کی خواہش ہے؟

تین احادیث نبویؐ الجامع الصحیح سے مطالعے کے لیے درج کی جاتی ہیں:

l…’’ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، ان سے ثابت بن یزید نے بیان کیا، ان سے ابوعبدالرحمٰن احول عاصم نے بیان کیا، اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مدینہ حرم ہے فلاں جگہ سے فلاں جگہ تک (یعنی جبل عیر سے ثور تک )۔ اس حد میں کوئی درخت نہ کاٹا جائے نہ کوئی بدعت کی جائے اور جس نے بھی یہاں کوئی بدعت نکالی اس پر اللہ تعالیٰ اور تمام ملائکہ اور انسانوں کی لعنت ہے‘‘۔ (صحیح بخاری، کتاب فضائل المدینہ،حدیث: ۱۸۶۷) [یعنی حرم مدینہ کا بھی وہی حکم ہے، جو مکہ کے حرم کا ہے۔ امام مالک اور امام شافعی اور احمد بن حنبل اور اہل حدیث کا یہی مذہب ہے]۔

l…’’ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے بھائی عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے سلیمان بن بلال نے، ان سے عبید اللہ نے، ان سے سعید مقبری نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مدینہ کے دونوں پتھریلے کناروں میں جو زمین ہے وہ میری زبان پر حرم ٹھہرائی گئی۔ حضرت ابوہریرہؓ نے بیان کیا کہ نبی کریمؐ بنوحارثہ کے پاس آئے اور فرمایا بنوحارثہ ! میرا خیال ہے کہ تم لوگ حرم سے باہر ہو گئے ہو، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مڑ کر دیکھا اور فرمایا کہ نہیں بلکہ تم لوگ حرم کے اندر ہی ہو۔(رقم: ۱۸۶۹)

l…ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالرحمان بن مہدی نے بیان کیا، ان سے سفیان ثوری نے، ان سے اعمش نے، ان سے ان کے والد یزید بن شریک نے اور ان سے علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میرے پاس کتاب اللہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس صحیفہ کے سوا جو نبی کریم ؐ کے حوالے سے ہے اور کوئی چیز (شرعی احکام سے متعلق ) لکھی ہوئی صورت میں نہیں ہے۔ آنحضرتؐ نے فرمایا: مدینہ عائر پہاڑی سے لے کر فلاں مقام تک حرم ہے، جس نے اس حد میں کوئی بدعت نکالی یا کسی بدعتی کو پناہ دی تو اس پر اللہ اور تمام ملائکہ اورانسانوں کی لعنت ہے…آپؐ نے فرمایا کہ تمام مسلمانوں میں سے کسی کا بھی عہد کافی ہے۔ اس لیے اگر کسی مسلمان کی (دی ہوئی امان میں دوسرے مسلمان نے ) بدعہدی کی تو اس پر اللہ تعالیٰ اور تمام ملائکہ اور انسانوں کی لعنت ہے۔ نہ اس کی کوئی فرض عبادت مقبول ہے، نہ نفل۔(رقم:۱۸۷۰)

ہمیں اس بات سے غرض نہیں کہ مملکت سعودی عرب مادی ترقی کے لیے کن راستوں کا انتخاب کرتی ہے (اگرچہ اسلامی شریعت اس معاملے میں بھی واضح احکامات بیان کرتی ہے)۔ تاہم، یہ ضرور عرض کیے دیتے ہیں کہ حرمین الشریفین کسی بادشاہ کی ملکیت نہیں ہیں اور نہ اسلامیانِ عالم اُن کی رعایا ہیں۔ اس لیے وہ تقریباً دو ارب مسلمانوں کے جذبات و احساسات کا احساس کریں اور چودہ سو برس کی تاریخ کا احترام کریں۔ مدینہ منورہ کو ٹورسٹ سنٹر بنانے سے اجتناب برتیں، اور ایسے راستے نکالنے کے لیے درباری علما کی فتویٰ نویسی پر اعتماد کرنے کے بجائے، اللہ اور اس کے رسولؐ سے اپنی محبت کو فروغ دیں، کہ جس پر وہ عشروں سے کاربند چلے آئے ہیں۔

اسی طرح اُن علما اور دانش وروں سے درخواست ہے کہ وہ وہاں کانفرنسوں میںجا کر محض میزبانی کا لطف نہ اٹھائیں بلکہ جس دین کی بنیاد پر وہ یہ اعزاز حاصل کرتے ہیں، اس کی تعلیمات کے مطابق حکمرانوں تک اپنے سچے اور حقیقی جذبات پہنچا کر، انھیں غلط فیصلوں سے منع کریں۔