اخبار اُمت


۷اکتوبر کو اسرائیل پر ’حماس‘ کے حملے کے بعد، انڈین میڈیا اور صہیونیوں کی رائے عامہ نے غزہ میں اسرائیلی جارحیت کی زبردست حمایت کی تھی۔ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ تل ابیب اور نئی دہلی دونوں فلسطینی اور کشمیری علاقوں پر قبضے اور الحاق کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ ۲۰۱۴ء سے انڈین وزیراعظم نریندر مودی، مقبوضہ کشمیر میں جن پالیسیوں پر عمل پیرا ہے، وہ مشرقی یروشلم، مغربی کنارے اور غزہ میں اسرائیل کی اختیار کردہ پالیسیوں سے مختلف نہیں ہیں۔ قابلِ اعتماد ذرائع کی تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ انڈیا، غزہ پر اسرائیل کی جنگ کی حمایت کے ساتھ ساتھ غیر قانونی طور پر ہتھیار فراہم کر رہا ہے۔ اسی طرح غزہ میں اسرائیل کی نسل کشی کی حمایت میں انڈین ہاتھ ملوث ہے، خاص طور پر ہندوتوا حامیوں کے ذریعے۔

یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ مودی حکومت کے دور میں انڈیا، فلسطین کے مسئلے پر اپنے قدیم اور روایتی موقف سے پیچھے ہٹ گیا ہے، بلکہ انڈیا نے اسرائیل کے ساتھ گہرے مشترکہ تعلقات استوار کرلیے ہیں، خاص طور پر غزہ میں جاری تنازعے کے تناظر میں۔ حالیہ رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ انڈیا، اسرائیل کو ہتھیار فراہم کر رہا ہے اور وہ غزہ میں فوجی آپریشن میں شریک ہے۔ ۱۵ مئی کو ہسپانوی ساحل پر کارگو بحری جہاز ’بورکم‘ (Borkum) سے متعلق کیس اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ انڈین ہتھیاروں کی کھیپ اسرائیل کو بھیجی گئی تھی۔ فلسطینی قبضے کے خلاف سولیڈیریٹی نیٹ ورک کی جانب سے کی گئی تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ ’بورکم‘ میں ۲۰ٹن راکٹ انجن، ۱۲ء۵ ٹن دھماکا خیز مواد، ۳۳۰۰پاؤنڈ دھماکا خیز مادہ اور توپوں کے لیے، ۱۶۳۰پونڈ چارجر اور توپ کے گولوں کے لیے دھماکا خیز مواد تھا۔ پھر ۶ جون کو اسرائیل نے غزہ میں اقوام متحدہ کے پناہ گزین کیمپ پر بمباری کی۔ ’قدس نیوز نیٹ ورک‘ نے اسرائیلی جنگی طیاروں کی طرف سے گرائے گئے میزائل کی باقیات کی ویڈیو جاری کی ہیں، جن کے مطابق ایک لیبل پر واضح طور پر لکھا تھا:’میڈ اِن انڈیا‘۔

اس کے علاوہ، کچھ تصاویر میں دکھایا گیا ہے کہ سیکڑوں انڈین فوجی یا شہری، اسرائیل میں فلسطینی عوام کے قتل عام کے حق میں مظاہرے میں حصہ لے رہے ہیں۔ اسرائیل کے لیے انڈیا کی غیرمنصفانہ حمایت سے پیداشدہ لعن طعن کے دباؤ کو کم کرنے کے لیے، نئی دہلی نے اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزین (UNRWA) کے ذریعے غزہ کو علامتی امداد کی ترسیل بھی کی ہے۔ اگرچہ مودی کی حکومت اور حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا اسرائیل کی طرف اسٹرے ٹیجک جھکاؤ ساری دُنیا پر واضح ہے۔ انڈین وزیر خارجہ جے شنکر نے اپنی حکومت پر تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے:’’انڈیا وہی کرے گا، جو اس کے مفاد میں ہوگا‘‘۔

انڈین ملٹری انٹیلی جنس اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات کے ساتھ ساتھ اسرائیلی نسل کشی کی کارروائیوں کی حمایت بھی کررہی ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد جس میں ’غزہ میں فوری اور پائیدار جنگ بندی‘ کا مطالبہ کیا گیا تھا، انڈیا نے حمایت نہیں کی۔ ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی حکومت اس سال فلسطینی مزدوروں کی جگہ ۸۰ ہزار غیر ملکی ملازمین کو مستقل طور پر بھرتی کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، جن کی اکثریت انڈیا سے آئے گی۔ ’امریکا،بھارت،اسرائیل گٹھ جوڑ‘ اقوام متحدہ کے نقطۂ نظر کو مسترد کرتا ہے، جو غزہ کی جنگ کے دوران مشرق وسطیٰ کے نازک حالات میں انسانی ہمدردی، ترقی اور امن کی سرگرمیوں کی منصوبہ بندی پر عمل درآمد اور مالی تعاون پر مبنی ہے۔

مزید برآں، ’ہندوتوا، صہیونی اتحاد‘ کی گھن گرج کو دیکھنا ہو تو انڈیا کی فوجی حمایت زیادہ تر غزہ میں جنگ کے دوران انڈین نیوز چینلوں پر نشر ہونے والے تبصروں سے ظاہر ہوتی ہے۔ ایکس (سابقہ ​​ٹویٹر) پر انڈیا اسرائیل ٹرینڈ شروع کیا گیا اور صہیونی حکومت کے ساتھ اپنی غیرمعذرت خواہانہ یک جہتی کا اظہار کرتے ہوئے فلسطین کی حمایت کرنے والوں کے لیے بازاری اور گھٹیا زبان استعمال کی گئی۔ پھر کمال ڈھٹائی سے جعلی ویڈیوز اور مسخ شدہ تصاویر اور پرانی خبریں تک جاری کی گئیں۔ اس طرح انڈیا، جعل سازی اور غلط معلومات کا مرکز بن گیا، جس نے اسرائیل کو غزہ کی جنگ کا اصل ہدف قرار دینے کی کوشش کی ہے۔ اسی طرح چند انڈین شہروں میں اسرائیل کی حمایت میں جلوس بھی نکالے گئے جہاں ’اسرائیل زندہ باد‘ کے ساتھ ساتھ ’جے شری رام‘ جیسے ’ہندوتوا‘ جیسے قوم پرست نعرے بھی لگائے گئے۔

 اسرائیل کے بارے میں انڈیا کی اختیار کردہ پالیسی، دُہرے انڈین کردار کے بارے میں سوالات اُٹھاتی ہے: ایک طرف علامتی امداد فراہم کرنے اور دوسری طرف غزہ میں اسرائیل کے ساتھ نسل کشی میں بامعنی شریک کار کے طور پر۔ اس کے ساتھ حیرت کی بات ہے کہ مرکزی دھارے کا بھارتی میڈیا غزہ تنازعہ میں انڈین کردار کے بارے میں واضح طور پر خاموش ہے۔ تاہم، انڈین میڈیا کھلے عام ایسے کلپس نشر کرتا آرہا ہے جو غزہ میں جاری ’صہیونی،بھارتی،امریکی گٹھ جوڑ‘ کے بارے میں تاثر پیدا کرتا ہے۔ لیکن اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق فلسطینیوں اور کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کے تحفظ کے لیے بین الاقوامی قانون کی رٹ کے خلاف یہ مکروہ گٹھ جوڑ زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ برطانیہ کی طرف سے اسرائیل کو غیر قانونی ہتھیاروں کی فراہمی کے ردعمل کے طور پر، برطانوی دفتر خارجہ کے ایک سفارت کار نے یہ مانتے ہوئے استعفا دے دیا ہے کہ ’اس طرح برطانوی حکومت جنگی جرائم میں ملوث ہوسکتی ہے‘۔

چوتھے جنیوا کنونشن کے مطابق مغربی کنارے، مشرقی یروشلم اور غزہ کی پٹی پر اسرائیلی قبضہ کسی بھی قانونی حیثیت سے درست نہیں ہے۔ اسی طرح طاقت کے زور پر یا انڈین قانون سازی کے ذریعے جموں و کشمیر پر بھارت کا قبضہ بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے۔ اس لحاظ سے، تل ابیب اور نئی دہلی دونوں نے ’بین الاقوامی انسانی قانون‘ (IHL) کی سنگین خلاف ورزیاں کی ہیں۔ فلسطین کے بارے میں انڈیا کی پالیسی میں واضح تبدیلی اور غزہ کی جنگ میں اسرائیل کی بے جا حمایت، اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیل کے غزہ جنگی شراکت دار کے طور پر، انڈیا کا مقصد کشمیر پر یک طرفہ طور پر قبضے کو مضبوط بنانا ہے۔ یوں اپنے اسٹرے ٹیجک مفادات کے لیے نئی دہلی جنگی جرائم میں ملوث چلی آرہی ہے۔

۱۹۹۵ء میں جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات منعقد کروانے کے لیے بھارت کو شدید عالمی دباؤ کا سامنا تھا۔وزیر اعظم نرسمہا راؤ کی حکومت، کانگریس کی ہم نوا ’نیشنل کانفرنس‘ کی معاونت کے لیے تیار نہیں تھی۔ نئی دہلی میں اس بات پر بھی غصہ تھا کہ ۱۹۸۹ میں فاروق عبداللہ نے وزارت اعلیٰ کے منصب سے استعفا دیا اور بھارت مخالف قوتوں کا سیاسی میدان میں مقابلہ کرنے کے بجائے لندن جا کر بس گئے تھے۔

 ان انتخابات کو معتبر بنانے کے لیے معروف کشمیری رہنما شبیر احمد شاہ پر ڈورے ڈالے جارہے تھے۔ وہ ابھی حُریت کانفرنس میں شامل نہیں ہوئے تھے۔ نئی دہلی میں خفیہ ایجنسیوں کا ایک اور دھڑا، جس کی قیادت اس وقت کے سیکرٹری داخلہ ایس پدمانا بھیا کر رہے تھے، انھوں نے حکومت نواز بندوق برداروں پر مشتمل ایک پارٹی ’عوامی لیگ‘ کے نام سے میدان میں اتاردی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ خود ساختہ منتخب حکومت کی باگ ڈور، وہ تائب بندوق برداروں کے کمانڈر محمدیوسف المعروف ککہ پرے کے حوالے کردیں گے۔ اس گروپ نے ان دنوں چند برسوں میں ظلم و ستم کے جو پہاڑ توڑے تھے، لوگ کسی طرح ان سے چھٹکارا پانا چاہ رہے تھے۔

اگلے سال یعنی ۱۹۹۶ء میں لوک سبھا کے انتخابات ہوئے، تو نیشنل کانفرنس نے ان کا بائیکاٹ کیا ہوا تھا۔ ان انتخابات میں کانگریس کی زیر قیادت نرسہما راؤ کی حکومت کا تختہ اُلٹ گیا اور جنتا دل حکومت وزیر اعظم دیو گوڑا کی قیادت میں برسر اقتدار آگئی۔ انھوں نے خفیہ ایجنسیوں کی ایما پر اپنے دست ِراست سی ایم ابراہیم کو لندن بھیج کر فاروق عبداللہ کو اسمبلی انتخابات میں شرکت پر آمادہ کروالیا۔ ان کو یقین دہانی کروائی گئی، کہ اسمبلی میں ان کو واضح اکثریت حاصل کرنے کی راہ میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہوگی، اور وہ زیادہ خود مختاری کی قراردار منظور کرواکے نئی دہلی بھیج دیں، جس کو پارلیمنٹ سے پاس کروایا جائے گا۔ سی ایم ابراہیم اکثر غیر رسمی گفتگو میں ان انتخابات کا کریڈٹ لیتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے فاروق عبداللہ کو بتایا تھا کہ اگروہ انتخابات میں شرکت نہیں کرتے، تو ان کے پاس متبادل موجود ہیں۔ اس طرح ان کی پارٹی کا نام و نشان مٹ جائے گا۔

 ان انتخابات میں گو کہ زیادہ عوامی شرکت نہیں تھی۔ کئی جگہوں سے لوگوں کو فوج اور نیم فوجی دستوں نے زبردستی ووٹ ڈالنے کے لیے نکلنے پر مجبور کردیا۔ مگر جو بھی پولنگ بوتھ تک گیا، اس کی اولین ترجیح یہی تھی کہ ککہ پرے کی عوامی لیگ یا اس کے بندوق برداروں کے دستوں کو ہروا کر کسی ایسی انتظامیہ کو بر سرِ اقتدار لایا جائے، جس کے زیر سایہ وہ چند سانسیں لے سکیں۔

 نیشنل کانفرنس نے ان انتخابات میں ۸۷ رکنی ایوان میں ۵۷ نشستیں جیت کرکے قطعی اکثریت حاصل کرلی۔ انتخابات کے بعد فاروق عبداللہ کو بتایا گیا کہ اسمبلی میں ۱۹۵۳ء سے قبل کی سیاسی پوزیشن بحال کرنے کی قرارداد یا بل پیش کرنے سے قبل ایک کمیٹی بنائی جائے، جو اس کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لے گی۔ مگر جب تک کمیٹی کی رپورٹ آتی، تب تک جنتا دل حکومت کا تختہ اُلٹ چکا تھا اور اٹل بہاری واجپائی کی قیادت میں بی جے پی اقتدار میں آچکی تھی ، جس نے جولائی ۲۰۰۰ء  میں جموں و کشمیر اسمبلی میں واضح اکثریت سے پاس کی ہوئی قرار داد کو مسترد کردیا۔

فاروق عبداللہ جنھوں نے انتخابات میں شرکت اور بھارت کو عالمی دباؤ سے بچانے کے لیے اس شرط پر آلہ کار بننے پر رضامندی ظاہر کی تھی، کہ نئی دہلی ۱۹۵۳ء کی پہلے والی پوزیشن بحال کرے گی، یہ تلخ گھونٹ پی لیا اور اقتدار میں رہنے کو ترجیح دی۔ عمر عبداللہ واجپائی کی وزارتی کونسل میں جونئیر وزیر بن گئے اور انھوں نے بھی وزارت سے استعفا دینا گوارا نہیں کیا۔

لگتا ہے کہ کشمیر میں تاریخ کا پہیہ گھوم پھر کر وہیں پہنچ جاتا ہے۔ اُس وقت سرکاری بندوق برداروں کے بجائے لیفٹنٹ گورنر کی انتظامیہ، سرکاری ایجنسیوں اور ہندو قوم پرستوں نے عوام کا ناطقہ بند کررکھا تھا۔ پچھلے پانچ برسوں سے کشمیر میں گھٹن کا ماحول تھا۔ اس لیے حالیہ اسمبلی انتخابات میں عوام کی ایک بڑی تعداد نے ووٹ ڈالے، تاکہ عوامی نمائندوں پر مبنی ایک حکومت بن سکے اور سانس لینے کا موقع فراہم ہو۔

 ان انتخابات میں ۱۹۹۶ء ہی کی طرح نیشنل کانفرنس کو برتری حاصل ہوئی۔ ۹۰سیٹوں میں سے ۴۲ پر نیشنل کانفرنس نے جیت درج کی اور اس کی اتحادی کانگریس کو چھ سیٹوں پر سبقت حاصل ہوئی۔ وادیٔ کشمیر کی ۴۷ میں سے نیشنل کانفرنس کو ۳۵ سیٹیں حاصل ہوئیں اور جموں کی ۴۳سیٹوں میں سات سیٹوں پر کامیابی ملی۔ ہندو اکثریتی جموں میں بی جے پی نے ۲۹نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ جیری مینڈرنگ کے ذریعے اس علاقے میں ہندو سیٹوں کی تعداد ۲۴ سے بڑھاکر ۳۱ کردی گئی تھی۔ اس طرح مسلم سیٹوں کو ۱۲ سے گھٹا کر ۹ کر دیا گیا تھا۔

تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ کانگریس، ہندو بیلٹ میں بی جے پی کو ٹکر دے گی۔ مگر اس نے انتہائی حد تک مایوس کن کارکردگی کا مظاہر ہ کیا۔ کانگریس کی چھ سیٹیں بھی مسلم بیلٹ سے ہی آئی ہیں۔ ان میں پانچ وادیٔ کشمیر سے اور ایک جموں کے راجوری خطے سے ہے۔ راہول گاندھی نے وادیٔ کشمیر کے سوپور قصبہ میں جاکر وہاں نیشنل کانفرنس کے خلاف مہم چلائی، اور جس کانگریسی اُمیدوار کے حق میں مہم چلائی، وہ تیسرے نمبر پر آیا۔

جس طرح سے کانگریس نے جموں خطے میں بی جے پی کے لیے میدان کھلا چھوڑ دیا تھا، اس سے لگتا تھا کہ شاید ان میں کوئی ملی بھگت ہے۔ انتخابی مہم کے دوران خود عمر عبداللہ کو کہنا پڑا کہ کانگریس جموں کی ہندو بیلٹ پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے وادیٔ کشمیر اور جموں کی مسلم بیلٹ میں ووٹوں کو تقسیم کرنے کا کام کررہی ہے۔

وادیٔ کشمیر میں ووٹروں نے یقینی بنایا کہ آزاد اُمیدواروں کی بہتات کی وجہ سے ووٹ تقسیم نہ ہوں۔ اس لیے انجینئر رشید ( عوامی اتحاد پارٹی) اور جماعت اسلامی فیکٹر کا بھی نتائج پر بہت کم اثر ہوا ۔ انجینئر رشید نے پارلیمانی انتخابات میں جو جلوہ دکھایا، وہ اسمبلی انتخابات میں مفقود تھا۔ اس کی بڑی وجہ تھی کہ اس نے انتہائی نالائق اُمیدواروں کو میدان میں اتارا۔ شاید ضمانت پر رہائی کے بعد ان کو اُمیدواروں کے انتخاب کے لیے نہایت کم وقت ملا۔

پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی، جس نے ۲۰۱۵ء میں بی جے پی کے ساتھ مخلوط حکومت بنائی تھی، وادیٔ کشمیر میں شکست کھا گئی ہے، اور تین نشستوں تک محدود ہوگئی۔جس پارٹی کے اُمیدوار پر تھوڑا بھی شک گزرا کہ اس کے تعلقات نئی دہلی یا بی جے پی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، کو شکست ہوئی۔

بی جے پی نے تین سیٹیں یعنی بھدروا، ڈوڈاویسٹ اور کشتواڑ وادیٔ چناب سے جیتیں۔ اس علاقے میں کانگریس اور نیشنل کانفرنس دونوں نے اُمیدوار کھڑے کر دیئے تھےاور ووٹوں کی تقسیم کا فائدہ بی جے پی کو ملا۔ بی جے پی کو سب سے بڑا جھٹکا راجوری-پونچھ کی پیر پنجال پٹی میں لگا۔ جہاں اس نے آٹھ میں سے ایک ہی سیٹ جیتی ہے۔ یہ سیٹ بھی اس لیے ممکن ہوسکی کہ جیری مینڈرنگ کے ذریعے انتخابات سے قبل کالاکوٹ کو سندر بنی سے ملاکر بی جے پی کے لیے اس سیٹ کو ہموار کرادیا گیا تھا۔ پیر پنجال کے دیگر حصوں یعنی نوشہرہ، راجوری، درہال، تھانا منڈی، پونچھ،حویلی، مینڈھر اور سورنکوٹ میں بی جے پی کی دال گل نہ سکی۔ اس خطے میں پہاڑی نسل کے لوگوں کو شیڈولڈ ٹرائب کا درجہ دینے کی وجہ سے ان کے لیڈروں کو لگتا تھا کہ یہ خطہ اب ان کی جیب میں ہے۔ وزیر داخلہ امیت شا نے اس خطے کے کئی دورے کیے۔ تاہم، کوئی بھی اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کر سکتا کہ بی جے پی نے کچھ ایسے حلقوں میں اپنی موجودگی ثابت کی ہے جہاں وہ دوسرے نمبر پر رہی ہے یا ۱۰۰۰ سے زیادہ ووٹ حاصل کر چکی ہے۔

 گریز میں اس کی کارکردگی قابل ذکر ہے، جہاں اس کے اُمیدوار فقیر محمد نے ۷۲۴۶ ووٹ حاصل کیے،جب کہ نیشنل کانفرنس کے نذیر احمد خان نے ۸۳۷۸ ووٹ حاصل کیے۔بی جے پی سرینگر کے حبہ کدل میں بھی دوسرے نمبر پر رہی لیکن بڑے فرق سے ہار گئی۔

 ۱۹۹۶ء میں نیشنل کانفرنس نے زیادہ سے زیادہ خود مختاری کے نام پر اور چند سانسیں لینے کے عوض بھاری اکثریت حاصل کی تھی۔ اس بار بھی عوام کو امید ہے کہ شاید آکسیجن کی بحالی ہو۔ فرق یہ ہے کہ اس بار نیشنل کانفرنس خود مختاری کے بجائے ریاستی درجہ کی بحالی کے وعدے کو لے کر میدان میں اُتری ہے اور اس میں کس قدر اس کو کامیابی حاصل ہوتی ہے، وقت ہی بتائے گا۔  ویسے نیشنل کانفرنس کا جیتنا دونوں یعنی کشمیری عوام اور نئی دہلی کےلیے ایک طرح سے فائدے والی صورت حال ہے۔ کشمیری عوام آبادیاتی ساخت کی تبدیلی کے حوالے سے اور نچلی سطح پر غیرریاستی افسران کی آمد سے پریشان تھے۔ یہ مسئلہ حل ہونے کا امکان ہے۔ اگر نیشنل کانفرنس کا کوئی کارنامہ ہے، تو یہی ہے۔ ۱۹۷۵ء میں شیخ عبداللہ کے اقتدار میں آنے کے بعد کسی حد تک انتظامیہ میں کشمیریوں کا عمل دخل بڑھا کر ان کو اقتدار کی راہداریوں تک رسائی فراہم کرا دی گئی تھی، جو اَب معدوم ہو چکی ہے۔

نئی دہلی کو اطمینان ہے کہ نیشنل کانفرنس ریڈ لائنز کراس کرنے کی روادار نہیں ہوگی۔ اس کے لیڈران بس ایک حد تک ہی نئی دہلی کو چیلنج کرتے ہیں۔ جو لیڈران اپنی اسمبلی کی خود مختاری کی قرارداد کو مرکزی کابینہ کے ذریعے مسترد ہونے پر بھی خون کے گھونٹ پی سکتے ہیں، تو وہ اقتدار  برقرار رکھنے کے لیے کچھ بھی برداشت کر سکتے ہیں۔

اسی طرح عمر عبداللہ کے پاس سیاسی قیدیوں کی رہائی اور سابقہ ​​حکومتوں کے دوران نافذ کیے گئے جابرانہ قوانین کی منسوخی کے لیے بھارتی حکومت پر دباؤ ڈالنے کا نادر موقع ہے۔ مسئلہ کشمیر کے پائیدار حل کے حصول کے لیے پاکستان اور کشمیری عوام کے ساتھ بات چیت کی وکالت کے لیے بھی وہ ایک سازگار فضا اور دباؤ ڈال سکتے ہیں۔

اس حکومت پر لیفٹنٹ گورنر کی خاصی گرفت ہوگی، وہ کس طرح اس سے نبرد آزما ہو سکتے ہیں، وہ ان کی سنجیدگی ظاہر کرے گی۔ تمام متعلقہ فریقوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ دیرپا امن اور انصاف کے حصول کے لیے کشمیری عوام کی آواز کو سنا جائے اور اس کا احترام کیا جائے۔ یہ عمر عبداللہ کا اصل امتحان ہوگا۔ اگر وہ اس میں کامیاب ہو جاتے ہیں، اور تاریخ کے اس نازک موڑ پر عوام کی رہنمائی کرتے ہیں، تو یہ کارنامہ تصور ہوگا، ورنہ اس پارٹی کے گناہ اس قدر ہیں، جو شاید ہی ووٹوں سے دُھل سکیں۔

 جمہوریت اِک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے

برطانوی جمہوری طرزِ حکومت میں اکثر یتی آبا دی کے نمائندوں کو حکومت سازی کا حق دیا گیا ہے۔ جن ممالک میں اکثریتی رائے کے برعکس ’ملاوٹی جمہوریت‘ کا نظام نافذ ہے، وہاں اقلیتوں کی آبادی مسلسل دبائو میں رہتی ہے، اور اکثریتی آبادی ہی قیادت کرتی ہے۔

ہندوستان میں بھی اکثریتی سسٹم کے تحت انتخابات منعقد کرائے جاتے ہیں اور حکومت سازی کی جاتی ہے۔ مگر انڈیا میں جمہوریت کی یہ دیوی جموں و کشمیر کی سرحد کو پار نہیں کر پاتی؟ فی الوقت جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات میں اَن گنت اقدامات کے ذریعے یہ یقینی بنایا گیا ہے کہ ان انتخابات میں علامہ اقبال کے مذکورہ بالا شعر کی تفسیر پر عمل ہو اور بندوں کو گننے کے بجائے تولا جائے۔ پلڑے میں مسلم آبادی کو ہلکا رکھنے کے پورے سامان کیے گئے ہیں، تاکہ ان انتخابات کے ذریعے وجود میں آنے والی اسمبلی خطے کی اکثریتی آبادی کی نمائندگی نہ کرسکے۔

اس کی واحد وجہ یہی ہے کہ یہاں کی اکثریتی آباد ی مسلمان ہے۔ ۲۰۱۱ء کی مردم شماری کے مطابق جموں و کشمیر میں مسلم آبادی ۶۸ء۳ فی صد اور ہندوؤں کی ۲۸ء۲ فی صد ہے۔مگر ۲۰۲۲ء کے حد بندی کمیشن نے مسلم اکثریتی وادیٔ کشمیر جہاں ریاست کی ۵۶ء۱۵ فی صد آبادی رہتی ہے، کے حصے میں اسمبلی کی ۴۷ نشستیں اورہندو اکثریتی جموں کی ۴۳ء۸۵فی صد آبادی کو ۴۳ نشستیں دے دیں۔

یہ حد بندی تو خود ہی ووٹروں کی مساوات کے بنیادی جمہوری اصول کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ ہے۔ریاست کے سابق وزیر خزانہ حسیب درابو کا کہنا ہے کہ ’’وادیٔ کشمیر کا ایک ووٹر جموں خطے کے ۰ء۸ ووٹروں کے برابر کر دیا گیا ہے۔ یہ انتخابی عصبیت نہیں تو کیا ہے؟‘‘

پھر جموں ڈویژن کے ہندو بیلٹ کی سیٹوں کی تعداد ۲۵ سے بڑھا کر ۳۱ کر دی گئی، تاکہ اقلیتی آبادی کی نمائندگی میں مزید اضافہ ہو۔اگر یہ جمہوریت ہے، تو یہ فارمولا ملک کے دیگر علاقوں میں بھی لاگو کرنا چاہیے، تاکہ جمہوری اداروں میں وہاں کی اقلیتوں کو بھی متناسب نمائندگی مل سکے۔

اس ۹۰ رکنی اسمبلی میں اب ۲۸ فی صد ہندو آبادی کو ۳۴ء۴۴فی صد نشستیں حاصل ہوجائیں گی۔جموں ڈویژن میں اگرچہ ہندو اکثریت میں ہیں، مگر مسلمانوں کی آبادی بھی ۳۴ء۲۱ فی صد ہے۔غیرمنصفانہ حد بندی کے ذریعے اس علاقے کے مسلم اکثریتی حلقوں کو ۱۲ سے کم کرکے اب ۹کر دیا گیا ہے۔ اسمبلی میں اس خطے کی مسلم نمائندگی ۴۳ فی صد سے کم ہو کر ۳۹ فی صد ہوجائے گی۔پچھلی اسمبلی میں جموں کی کل ۳۷  سیٹوں میں سے ۱۲ مسلم اکثریتی نشستیں تھیں۔

جموں میں، نئے ہندو اکثریتی حلقے بنائے گئے، جیسے کہ پاڈر جس کی آبادی صرف ۵۰ہزار ہے، اسمبلی کا ایک حلقہ ہے، جب کہ اس سے تین گنا زیادہ مسلم علاقوں، جیسے پونچھ ضلع میں سورنکوٹ، کو اسمبلی میں جگہ نہیں دی گئی ہے۔ جموں کے پونچھ اور راجوری کے مسلم اکثریتی اضلاع کو کشمیر کے اننت ناگ کے لوک سبھا حلقہ میں شامل کیا گیا ہے۔ادھم پور حلقہ کا ایک گاؤں جاکھایان، جہاں دلت آبادی ۹۲ء۸ فی صد ہے، بی جے پی کے لیے درد سر بنا ہوا تھا، جہاں اس کے اُمیدوار کو ووٹ نہیں ملتے تھے۔ اسے اب سزا کے بطور چینانی کے ساتھ ملایا گیا ہے۔

۲۰۱۴ء میں راجوری سے بی جے پی کا امیدوار ۲ء۸۶ فی صد کے فرق سے ہار گیا تھا۔ راجوری میں مسلمان ۷۰ فی صد اور ہندو ۲۸ فی صد ہیں۔ کمیشن کی جانبداری کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس سیٹ سے سوہنا تحصیل کو الگ کرکے تھانہ منڈی میں شامل کیا گیا۔ سوہنا میں ۹۱ فی صد مسلمان آبادی تھی، جس کی وجہ سے راجوری کی سیٹ بی جے پی کے لیے نکالنا مشکل ہوتا تھا۔ جموں پارلیمانی حلقے کے راجوری اور پونچھ، جو مسلم اکثریتی علاقے ہیں، اکثر بی جے پی کے امیدوار کے لیے ٹیڑھی کھیر ثابت ہوتے تھے۔

انتخابات کے بعد گورنر منوج سنہا نے پانچ اراکین کو نامزد کرنا ہے، جس سے اسمبلی اراکین کی تعداد ۹۰ سے بڑھ کر ۹۵ ہو جائے گی۔ یہ اراکین دو خواتین، دوکشمیری پنڈت اور ایک رکن ۱۹۴۷ء میں پاکستان سے آنے والوں میں سے ہوگا۔ گویا یہ بھی ہندو ہی ہوں گے۔ نامزد ممبران ہوتے ہوئے بھی ان کو ووٹنگ کا حق حاصل ہوگا۔ اس طرح ایک مخصوص کمیونٹی کو غیر متناسب طور پر فائدہ پہنچانے اور اکثریتی آبادی کو بے اختیار اور لاچار بنانے کی واضح کوششیں کی گئی ہیں۔ اس کے نتیجے میں ۹۵ رکنی اسمبلی میں اقلیتی آبادی کو ۳۹ نشستیں مل سکتی ہیں، جب کہ ان کاجائز حق ۲۹نشستوں کا بنتا ہے۔

چونکہ مسلم آبادی کے ہی نمائندے کے وزیر اعلیٰ بننے کے امکانات ہیں، اس لیے گورنر کو قبل از انتخاب ہی مزید اختیارات دیے گئے، تاکہ منتخب حکومت برسرِاقتدار آتی بھی ہے، تو وہ لاچار اور بے بس ہو۔ اس حکم نامہ کی رُو سے پولیس، بیوروکریسی، اٹارنی جنرل اور پراسیکیوٹر کی خدمات پر لیفٹیننٹ گورنرکا کنٹرول ہوگا۔تقرریوں اور تقرر سے متعلق تمام امور کے لیے لیفٹیننٹ گورنر کی منظوری لینی ہوگی اور اس کے فیصلوں پر وزراء کی کونسل نظرثانی نہیں کر سکے گی۔

لیفٹیننٹ گورنر کے نمائندے کو کابینہ کے تمام اجلاسوں میں شرکت کا پابند بنایا گیا ہے۔ یہاں تک کہ وزراء کی طے شدہ میٹنگوں کے ایجنڈے کو کم از کم دو دن پہلے گورنر کے دفتر میں جمع کرانا ہوگا۔یعنی وزراء اپنی مرضی سے کسی سے مل بھی نہیں سکیں گے۔

ہندو بیلٹ میں نقصان کے اندیشہ کے پیش نظر اب بی جے پی کی نگاہیں، جموں کی مسلم بیلٹ یعنی راجوری اور پونچھ پرلگی ہوئی ہیں۔ حال ہی میں پہاڑی بولنے والی آبادی کو شیڈیولڈ ٹرائب کا درجہ دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے ان کے لیے اعلیٰ تعلیمی اداروں اور نوکریوں میں نشستیں مخصوص ہوجائیں گی۔ مگر اس سے گوجر،بکروال برادری جو ’مشمولہ قبائل فہرست‘ ہونے کا فائدہ اٹھاتے تھے، ناراض ہو گئے ہیں۔

جس طرح نیشنل کانفرنس نے اکیلے انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا ہے، اس نے کشمیر کو گرداب سے نکالنے کے اس کے عزم پر سوالیہ نشان کھڑے کر دیے ہیں۔ یہ وقت تھا کہ کشمیر کی سبھی پارٹیاں چاہے وہ نیشنل کانفرنس ہو یا پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی یا کوئی اور، ایک ساتھ انتخابی میدان میں اُترتیں۔مگر نیشنل کانفرنس کے مغرور لیڈروں نے ہمیشہ ہی نازک مرحلوں پر غلط فیصلے کیے ہیں، یہ فیصلہ بھی اسی زمرے میں تاریخ میں گنا جائے گا۔

عوامی اتحاد پارٹی کے لیڈر انجینئر شیخ عبدالرشید نے نیشنل کانفرنس اور سجاد غنی لون کی پیپلزکانفرنس کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ انجینئر رشید کی جماعت عوامی اتحاد پارٹی قیدیوں کی رہائی، مسئلہ کشمیر کا حل، پاکستان کے ساتھ بات چیت اور انڈین آئین کے آرٹیکل ۳۷۰ کی بحالی کاوعدہ کرکے عوام کو لبھا رہی ہے۔ وہ ’ظلم کا بدلہ ووٹ سے‘ اور ’یہ ملک ہمارا ہے، اس کا فیصلہ ہم کریں گے‘ وغیرہ کے نعرے بلند کررہے ہیں۔

بی بی سی کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق عمر عبداللہ کی نیشنل کانفرنس اور محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی جیسی روایتی جماعتوں کی مہم کے مقابلے میں انجینئر رشید کی مہم کو نہ صرف زمینی سطح پر بھاری عوامی تائید حاصل رہی ہے بلکہ سوشل میڈیا پر بھی اُن ہی کی باتیں وائرل ہوئی ہیں۔ کیونکہ ان کے انتخابی نعروں میں ’ظلم، قید و بند، اظہار رائے پر قدغن، ناانصافی اور مسئلہ کشمیر کے حل‘ کی گونج سنائی دے رہی ہے، جو کشمیری طویل عرصے بعد سن رہے ہیں۔

انجینئر رشید نے حیران کن طور پر جماعت اسلامی کے ساتھ انتخابی اتحاد کر لیا۔ جو گو کہ غیرقانونی تنظیم ہے، مگر اس کے چند اراکین بطور آزاد امیدوار میدان میں ہیں۔ جماعت اسلامی نے آخری بار ۱۹۸۷ء میں الیکشن لڑا تھا، اور عسکری جدوجہد شروع ہوتے ہی انتخابات کا بائیکاٹ کرتی آرہی ہے۔حیرت کی بات ہے کہ عمر عبد اللہ سمیت روایتی پارٹیوں نے انجینئر رشید کو بی جے پی کی پراکسی قرار دیا ہے، جو ان کے ووٹ کاٹنے کی سعی کر رہا ہے۔ مگر سوال ہے کہ آخر عمر عبداللہ نے ۲۰۱۹ء میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو بحال کرنے کے لیے بنائے گئے اتحاد سے کیوں کنارہ کشی کی؟ اور پھر جو ایجنڈا لےکر انجینئر رشید میدان میں آئے ہیں، اس کو اپنانے میں عمر عبداللہ کو کیا چیز روک رہی ہے؟

سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا انتخابات کے بعد کشمیر میں خصوصاً پچھلے پانچ سال سے چھائی سیاسی گھٹن کو کم کیا جاسکتا ہے؟ کیا عام کشمیری کو اس گھٹن سے نجات ملے گی، یا پھر یہ چند سانسیں لینے کی ہی آزادی ہوگی؟

’خوراک کے حق‘ سے متعلق اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ مائیکل فخری نے اپنی حالیہ رپورٹ میں اسرائیل کو قصوروار ٹھہرایا ہے کہ اس کی جانب سے بھوک اور قحط کو فلسطینیوں کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے، تا کہ ان کو مٹا کر فلسطینی زمین پر قبضہ کیا جاسکے‘‘۔ یہ دستاویز ثابت کرتی ہے کہ صہیونی ریاست، فلسطینیوں کی نسل کشی پر کمربستہ ہے اور عالمی استعماری طاقتیں اس جرم میں اسرائیل کی پوری طرح پشت پناہ ہیں، جس کی مثال دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا نے نہیں دیکھی۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کی جانے والی اس ہوش ربا رپورٹ کے مطابق: ’’اسرائیل کی جانب سے یہ سوچی سمجھی مہم چلائی جا رہی ہے کہ غزہ کی ۲۳لاکھ آبادی اور مغربی کنارے میں آباد فلسطینیوں کو بھوکا پیاسا رکھ کر قتل کر دیا جائے‘‘ ۔

مائیکل فخری کے مطابق: ’’اسرائیل نے غزہ کے ہر شہری کو بھوکوں مارنے کا اپنا منصوبہ چھپانے کی کوشش بھی نہیں کی۔ سب کے سامنے اس منصوبے پر عملدرآمد ہوا اور پورے غزہ میں قحط کی سی صورت حال پیدا کی گئی۔ جغرافیائی طور پر قحط کے پھیلاؤ اور اسرائیلی ذمہ داروں کے بیانات کو ملا کر دیکھا جائے تو اسرائیلی عزائم بالکل واضح ہو جاتے ہیں۔ سب سے پہلے پورے غزہ کا محاصرہ کیا گیا جس نے یہاں تمام فلسطینیوں کو کمزور کیا۔ اس کے بعد شمال کے لوگوں پر قحط مسلط کیا گیا تا کہ انھیں نقصان پہنچایا جائے، جان سے مار دیا جائے یا جنوب کی طرف نقل مکانی پر مجبور کردیا جائے۔ نتیجتاً جنوب میں جو مہاجر کیمپ بنے وہاں لوگوں کو بھوکا رکھ کر یا بمباری کے ذریعے قتل کیا گیا‘‘۔

فخری کا کہنا تھا کہ ’’غزہ میں جتنے لوگ بھوک ، غذائی قلت اور بیماری سے مر رہے ہیں اتنے گولہ بارود سے بھی نہیں مر رہے۔‘‘ اس بیان کی تائید جولائی میں ’دی لینسٹ‘ (The Lancet) میں مطبوعہ اعداد وشمار سے بھی ہوتی ہے، جس کے مطابق اسرائیلی حملے میں اب تک ایک لاکھ ۸۶ ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ یہ تعداد فلسطینی اعداد و شمار یعنی ۴۱ہزار سے کہیں زیادہ ہے۔

نازی جرمنی کے ہاتھوں یورپی یہودیوں کی نسل کشی کے ردعمل میں ۱۹۴۸ء کے منظور شدہ کنونشن برائے انسداد نسل کشی کا حوالہ دیتے ہوئے یہ رپورٹ کہتی ہے:’’نمائندہ خصوصی اس بات کو واضح کرنا چاہتا ہے کہ کس طرح اسرائیل نے قحط کو فلسطینی شہریوں کی کلّی یا جزوی تباہی کے لیے استعمال کیا ہے۔اول، انھیں سنگین جسمانی اور ذہنی ایذاء پہنچا کر۔دوئم، فلسطینیوں کے لیے سوچےسمجھے طریقے سے ایسے حالاتِ زندگی پیدا کر کے جو بالآخر ان کی مکمل یا جزوی تباہی کا باعث بنیں گے‘‘۔

اس رپورٹ میں شریکِ جرم قوتوں کا ذکر ہے: ’’بیرونی ریاستیں اور کمپنیاں عمومی طور پر  قحط مسلط کرنے والوں کا ساتھ دیتی ہیں۔ مثلاً یہ بیرونی استعماری ریاستیں اور کمپنیاں نہ صرف غزہ میں قحط اور فلسطینیوں کی نسل کشی کے لیے اسرائیل کو غیر قانونی طور پر اسلحہ فراہم کر رہی ہیں بلکہ فلسطین میں پانی اور خوراک کے نظام کی تباہی اور فلسطینی زمینوں پر اسرائیلی قبضے میں یہ کمپنیاں معاونت کر رہی ہیں‘‘۔

ان جنگی جرائم کے لیے امریکا اور اس کے یورپی اتحادی ممالک کی سیاسی قیادت کو بھی  نیتن یاہو کے ساتھ کٹہرے میں کھڑا کرنا ضروری ہے۔ فخری کے مطابق: ’’۷؍اکتوبر ۲۰۲۳ء سے پہلے غزہ کی تقریباً آدھی آبادی غذائی قلت کا شکار تھی اور ۸۰ فی صد سے زیادہ لوگوں کا گزارہ بیرونی امداد پر تھا۔ اس افلاس میں اسرائیلی محاصرے نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔اسرائیل کی جانب سے باربار دیے جانے والے غیر انسانی بیانات اور غزہ کی مکمل تباہی کی خواہش نے یہاں قحط مسلط کرنے کی اسرائیلی کوششوں پر مشتمل فردِ جرم میں درکار دونوں شرائط یعنی ’جرم کی نیت‘ اور ’جرم کا ارتکاب‘ پوری کر دی ہیں۔ چنانچہ کنونشن برائے انسداد نسل کشی ۱۹۴۸ء کے مطابق دیگر ریاستیں انسانیت کے خلاف اس جرم کو روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں‘‘۔

تاہم، واشنگٹن اور اس کے یورپی اتحادی نہ صرف ذمہ داری سے مفرور ہیں بلکہ انھوں نے اسرائیل کو مہلک ہتھیاروں کی فراہمی مزید تیز رکھی۔ اندرون ملک اس نسل کشی کی مخالفت اور استعماری قوتوں کی شمولیت کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو ریاستی سطح پر جبر کا نشانہ بنایا گیا اور ہر طرح سے ہراساں کرنے کی کوشش کی گئی۔

امریکی اور یورپی، فخری کی رپورٹ پر دم بخود ہیں۔ ہر طرف پھیلی بھوک، مہلک بیماریوں اور علاج معالجے کی ناپید سہولیات کا ذکر اگر ہوتا بھی ہے تو یوں کہ فلسطینیوں کو یہ عظیم بحران اس لیے درپیش ہے کہ اسرائیل، حماس کے خلاف ’اپنے دفاع‘ کی جنگ لڑرہا ہے۔

یہ رپورٹ اس لغو موقف کو بھی رَد کرتی ہے :’’آج دنیا میں انسانی آبادی کی ضرورت سے ڈیڑھ گنا زیادہ خوراک پیدا ہوتی ہے، لیکن پھر بھی قحط، غذائی قلت اور بھوک میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بھوک اور قحط کبھی خوراک کی قلت سے جنم نہیں لیتے، بلکہ خوراک تک رسائی میں رکاوٹ بننے والے عوامل ان کا سبب بنتے ہیں۔ اکثر قحط جنگ، معاشی اُتار یا خشک سالی کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ لیکن یہ تمام عوامل دراصل ظلم اور ناانصافی پر مبنی سماجی نظام سے جنم لیتے ہیں۔ چنانچہ طاقت کے ارتکاز اور غذائی نظام میں احتسابی عمل کی غیر موجودگی سے قحط کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ چنانچہ قحط کو ہمیشہ ایک خود غرضی پر مبنی سیاسی مسئلہ سمجھنا چاہیے۔

اسرائیل اور استعماری اتحادیوں کی جانب سے غزہ میں قحط کا باعث بننے والے ’اقدامات‘ دوسری جنگ عظیم میں نازیوں کے جرائم سے مشابہ ہیں جن میں باقاعدہ منصوبے کے تحت جرمنوں کے لیے سوویت شہریوں سے خوراک چھینی جاتی تھی، تا کہ بڑی تعداد میں سوویت آبادی کو ختم کرکے مشرق میں اپنے لیے وہ زمین حاصل کی جا سکے، جو جرمن قوم کی ’ترقی‘ کے لیے ضروری ہے۔ نازی جنگ کا نشانہ بننے والے۲کروڑ ۷۰ لاکھ سوویت شہریوں کی ہلاکت میں اس منصوبے کا بھی بڑا حصہ ہے۔

آٹھ عشروں بعد صہیونی ’عظیم اسرائیل‘ کے لیے غزہ میں فلسطینیوں کے ساتھ یہی سلوک کررہے ہیں۔ استعماری قوتیں اس قتل عام میں شریک ہیں۔ واشنگٹن، برلن، پیرس اور لندن کی جانب سے اپنے معاشی اور جیو اسٹرے ٹیجک مفادات کے تحفظ کے لیے مسلط کی جانے والی اس جنگ میں غزہ صرف ایک محاذ کا نام ہے۔ یہ ممالک اس جنگ میں ’مقصد‘ پانے کے لیے کسی بھی حد تک گرنے کو تیار ہیں۔

  اگر آپ بوسنیا کو نہیں سمجھتے تو آپ غزہ کو بھی نہیں سمجھ سکتے۔ اس لیے مسلمان پہلے بوسنیا کو سمجھیں، تاکہ غزہ کو سمجھ سکیں۔ لہٰذا غزہ کو اچھی طرح سے سمجھنے کے لیے مکمل مضمون پڑھیں۔

غزہ اور فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس پر حیران نہ ہوں۔ بوسنیا کے مسلمانوں کے خلاف سربوں نے جو تباہی کی جنگ چھیڑی، اس میں ۳۰۰ ہزار مسلمان شہید ہوئے۔ ۶۰ ہزار عورتوں اور بچیوں کی عصمت دری کی گئی۔ ڈیڑھ لاکھ لاوارث ہوئے ۔ کیا ہم اس المیے کا کبھی ذکر کرتے ہیںیا ہم بھول گئے ہیں… یا آپ اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے!! سی این این کی کرسٹیانا امان پور بوسنیا کی سالگرہ پر تبصرہ کرتی ہیں:

مسلمانوں کا قتل عام، محاصرہ اور فاقہ کشی مگر یورپ نے مداخلت کرنے سے انکار کر دیا۔ ہولوکاسٹ تقریباً چار سال تک جاری رہا، جس کے دوران سربوں نے ۸۰۰سے زائد مساجد کو مسمار کر دیا، جن میں سے کچھ سولھویں صدی عیسوی کی تعمیرشدہ تھیں۔  سربوں نے سرائیوو کی تاریخی لائبریری کو جلا دیا۔ اقوام متحدہ نے مداخلت کی اور اسلامی شہروں جیسے کہ گورجدا، سریبرینیکا، زیبا کے داخلی راستوں پر دو دروازے لگا دیے، لیکن وہ محاصرے اور آگ کی زد میں تھے۔ سربوں نے ہزاروں مسلمانوں کو حراستی کیمپوں میں ڈالا، ان پر تشدد کیا، انھیں بھوکا مارا، یہاں تک کہ وہ ہڈیوں کا ڈھانچا اور بہت سی بیماریوں کا شکار ہوکر رہ گئے۔ جب سربیا کے ایک رہنما نے پوچھا: 'کیوں یہ ظلم کرتے ہو؟ تو اس نے جواب میں کہا: وہ سور کا گوشت نہیں کھاتے۔ برطانوی اخبار دی گارڈین نے بوسنیا کے قتل عام کے دنوں میں ایک پورے صفحے کا نقشہ شائع کیا۔ جس میں عصمت دری کے مقامات دکھائے گئے تھے۔

مسلمان خواتین کے ساتھ سربوں نے ۱۷ بڑے کیمپوں میں جو کچھ کیا، اس کے ذکر سے قلم لرزتا ہے۔ _سربوں نے چھوٹی چھوٹی بچیوں تک کی عصمت دری کی۔ دی  گارڈین نے ایک بچی کے بارے میں ایک رپورٹ شائع کی جس کا عنوان تھا: ’’وہ بچی جس کا قصور یہ ہے کہ وہ مسلمان ہے‘‘۔ قصائی ملادک نے زیبا کے مسلمانوں کے لیڈر کو میٹنگ میں بلایا۔ اس نے اسے سگریٹ دیا، اس کے ساتھ تھوڑا ہنسا، پھر اس پر جھپٹا اور اسے ذبح کر دیا۔  لیکن سب سے مشہور جرم تو سریبرینیکا کا محاصرہ تھا۔ عالمی فوج کے سپاہی سربوں کے ساتھ جشن منا رہے تھے، رقص کر رہے تھے۔ کچھ مسلمان ان کے ساتھ مل کر کھانے کے لیے سودے بازی کر رہے تھے۔ _سربوں نے سریبرینیکا کا محاصرہ کر لیا۔ دو سال تک گولہ باری ایک لمحے کے لیے بھی نہیں رُکی۔ _سرب، اس قصبے میں پہنچنے والی امداد کا ایک اہم حصہ اُڑا رہے تھے۔ پھر مغرب نے اسے بھیڑیوں کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا: سریبرینیکا کی حفاظت کرنے والی ڈچ بٹالین نے سازش کی۔ سربوں نے مسلمانوں پر دباؤ ڈالا کہ وہ حفاظت کے بدلے اپنے ہتھیار پھینک دیں۔مسلمان تھکن اور اذیت کے بعد دم توڑ رہے تھے۔

سربوں نے سریبرینیکا پر حملہ کیا، مردوں کو ان کی عورتوں سے الگ کر دیا۔ ۱۲۰۰ مرداور جوان الگ کیے، ان سب کو مار ڈالا۔ _سرب ایک مسلمان مرد کے اوپر کھڑا تھا اور اس کے چہرے پر سوراخ کر رہا تھا (نیوز ویک کی رپورٹ سے)۔ جہاں تک خواتین کا تعلق ہے، ان کی عزّت پر حملہ کیا گیا اور کچھ کو جلاکر ہلاک کر دیا گیا۔ یہ قتل عام سریبرینیکا میں کئی دن تک جاری رہا۔  یہ جولائی ۱۹۹۵ء کا آخر تھا۔ یہ ہمارے بھائیوں کے خاتمے کی جنگ کا آخری باب تھا۔ ایک ماں نے سرب کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا، وہ اس سے التجا کرتی ہے کہ اس کے بچے کو ذبح نہ کرے ، اور اس نے اس کا ہاتھ کاٹ دیا ، اور پھر اس کی آنکھوں کے سامنے اس بچّے کی گردن کاٹ ڈالی۔ قتل عام ہرجگہ ہم دیکھ سکتے تھے۔ سریبرینیکا کے ذبح خانے کے بعد قصاب راڈووان کاراڈزک شہر کو فتح کرتا اور اعلان کرتا ہوا شہر میں داخل ہوا: ’’سریبرینیکا ہمیشہ سے سربیا رہا ہے اور اب واپس آگیا ہے‘‘۔ پھر سرب ہتھیاروں سے مسلح، مسلمان عورتوں کی عصمت دری کر رہے تھے۔ انھوں نے ان کو ۹ماہ تک بند رکھا جب تک کہ وہ ناجائز بچوں کو جنم نہ دے لیں۔ ایک سرب نے ایک مغربی اخبار کو بتایا: ’’ہم چاہتے ہیں کہ مسلمان خواتین سربیا کے بچوں (سربیائی بچوں) کو جنم دیں۔ یاد رکھیں بوسنیا، سرائیوو، بنجا لوکا، سریبرینیکا اور بلقان کو ہم نہیں بھولیں گے۔

بوسنیا میں قتل عام کے دوران، ایک فرانسیسی اخبار نے لکھا: بوسنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی تفصیلات سے یہ بات واضح ہے کہ صرف مسلمانوں کی ثقافت خوب صورت اور مہذب ہے۔ پرانے آرتھوڈوکس (بطرس غالی) کے عہدے، جو اس وقت اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل تھے، انھوں نے کھل کر اپنے ساتھی سربوں کا ساتھ دیا۔ یہاں پر یہ پیش نظر رہنا چاہیے کہ سرب مذہبی اسکالر ایک قدم آگے بڑھ کر مساجد کے اماموں، دانشوروں، تاجروں کو قتل کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ وہ کہتے تھے: انھیں باندھ کر ذبح کر کے پھینک دیں گے۔ انھیں دریا میں ڈال دیں گے۔ اگر سرب کسی قصبے میں داخل ہوتے تو اس کی مسجد کو گرانا شروع کر دیتے۔

 ایک برطانوی اخبار نے بوسنیا میں مسلمانوں کی نسل کشی کو اس جملے کے ساتھ بیان کیا: ’’بیسویں صدی میں یہ جنگ قرون وسطیٰ کے انداز میں چھیڑی گئی ہے..! میں یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ہم اس ظلم کو بھول نہ جائیں، اور آنے والی نسلوں کو بھی یاد دلاتے رہیں۔ یہ پیغام ان لوگوں کے لیے ہے جو مغربی تہذیب اور جعلی انسانی حقوق سے مرعوب ہیں۔ تاریخ کی کہانیاں بچوں کو سونے کے لیے نہیں سنائی جاتیں، بلکہ یہ جگانے کے لیے سنائی جاتی ہیں۔

بھارتی فوج کے ایک سابق سربراہ جنرل سندر راجن پدمانابھن نے ۲۰۰۴ء میں دہلی میں اپنے ایک ناول کا اجراء کیا تھا۔ یہ ناولWritiing on the Wall پاکستان کے ساتھ ایک خیالی جنگ پر مبنی ہے، جس میں فوجیوں اور ٹینکوں کے بجائے سائنس دانوں کے ذریعے مصنوعی ذہانت اور پوشیدہ ہتھیاروں کا استعمال کرکے مواصلاتی نظام میں خلل ڈال کر بھارت یہ جنگ جیت جاتا ہے۔ ناول کے اجرا ء کے وقت ان سے پوچھا گیا کہ ’’کیا اس طرح کے ہتھیار وجود میں آچکے ہیں‘‘؟ تو انھوں نے وضاحت کی کہ’’ یہ مصنف کا تخیل ہے، اس کو فوج کی تیاریوں کے ساتھ نہ جوڑا جائے‘‘۔

اسرائیلی سائنس دانوں کا ایک وفد ایک بار دہلی میں تھا، جہاں سفارت خانے نے چند صحافیوں کے ساتھ ان کی نشست رکھی تھی۔ بات چیت کے دوران وفد میں شامل ان میں ایک سائنس دان نے کہا کہ ’’جب بھی مارکیٹ میں کوئی سائنس فکشن آتا ہے، تو ان کا محکمہ اس کو نہایت سنجیدگی کے ساتھ لیتا ہے اور معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ کیا مصنف کے تخیل کو حقیقت میں ڈھالا جاسکتا ہے؟‘‘ ان کا کہنا تھا کہ ’’سائنس دانوں کو سائنس فکشن لکھنے والے مصنّفین رچرڈ مورگن، السٹر ری نالڈس، (جن کے ناولوں کا مرکزی مو ضوع تھیوریٹیکل فزکس ہوتا ہے) اور اَن گنت دیگر مصنّفین کی نگارشات کو پڑھنے کی نہ صرف ترغیب دی جاتی ہے، بلکہ یہ بھی رپورٹ کرنا پڑتا ہے کہ کیا اس کو عملی رُوپ دیا جاسکتا ہے؟‘‘ یعنی ان اسرائیلی سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ ’’ہم جاسوسی تھرلرز کو بھی سنجیدگی سے لیتے ہیں‘‘۔

جنرل پدمانابھن کا تخیل اور اسرائیلی سائنس دانوں کے یہ دعوے اس وقت واقعی حقیقت میںتبدیل ہو گئے، جب لبنا ن کے طول و عرض سے خبریںآنا شروع ہوئیں کہ حزب اللہ کے مواصلاتی آلات ’پیجر‘ اور پھر بعد میں ’واکی ٹاکی‘ میں پے در پے دھماکے ہو رہے ہیں، جن سے پچاس کے قریب افراد ہلاک اور تقریباً ۳ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔ موبائل نیٹ ورک کے استعمال کو ترک کرتے ہوئے حزب اللہ نے پیجر نیٹ ورک کو محفوظ مواصلاتی ذریعہ سمجھا تھا، کیونکہ ان کو ہیک کرنے کا کم خطرہ رہتا ہے مگر یہ پیجر خود ہی بم بن گئے ۔

حال ہی میں، حزب اللہ کو پیجرز کی ایک نئی کھیپ موصول ہوئی تھی۔خبروں کے مطابق اسرائیلی ایجنٹو ں نے سمندری جہاز کے ذریعے جانے والی پیجرز کی کھیپ تک رسائی حاصل کی تھی اور بیٹری کے ساتھ ہی اس میں چند گرام بارود رکھ کر ان کو دوبارہ بالکل اسی طرح پیک کر کے ان کو اپنے نیٹ ورک کے ساتھ جوڑ دیا تھا۔ مگر ایک روز قبل حزب اللہ سے وابستہ کسی جنگجو کو دو پیجرز پر شک ہو گیا تھا، کہ ان کی پیکنگ کھولی گئی ہے۔ اس سے قبل کہ یہ تنظیم ان پیجرز پر مزید تحقیق کرکے ان کو کوڑے دان میں پھینک دیتی، اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہونے آپریشن کی منظوری دے دی۔

فی الحال حزب اللہ کا محفوظ مواصلاتی نظام، جو حملوں کو مربوط کرنے اور جنگجوؤں کو متحرک کرنے کے لیے ضروری تھا، اس کی کمزوری بن گیا ہے جس کا اسرائیل نے بھر پور فائدہ اٹھایا ہے۔  وہ نہ صرف بیروت بلکہ ملک کے دیگر علاقوں میں بمباری کر رہا ہے۔۲۴ستمبر کی دوپہر تک ۵۸۰ ؍افراد لبنان میں شہید ہوچکے ہیں، جن میں ۷۰ بچّے بھی شامل ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حزب اللہ جو کبھی نظم و ضبط اور ناقابل تسخیر کے طور پر دیکھی جاتی تھی، اسے ڈیجیٹل اشیا کے ذریعے ہی غیر محفوظ بنایا گیا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ میزائلوں اور جدید اسلحہ سے لیس انتہائی محفوظ فوج کو ڈیجیٹل دور میں ایک تباہ کن خطرے میں ڈالا جاسکتا ہے۔

 اسرائیل کا یہ حملہ اس بات کی واضح مثال ہے کہ مستقبل کی جنگیں صرف بموں اور گولیوں سے نہیں بلکہ ڈیٹا، الگورتھم اور سائبر حکمت عملی سے لڑی جا سکتی ہیں۔ماہرین اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ یہ حملہ ۲۱ویں صدی میں جنگ کے حوالے سے ایک اہم لمحہ ہے۔سائبر حملے اکثر پوشیدہ ہوتے ہیں، جس میں کوئی نشان، کوئی ملبہ اورگولہ بارود نہیں چھوڑا جاتا ہے۔یہ حملے مواصلاتی نیٹ ورکس، پاور گرڈز، مالیاتی اداروں کو نشانہ بناتے ہیں۔ اس سے یہ بھی سنگین اندازہ ہوتا ہے کہ ڈیجیٹل دور میں کس طرح روز مرہ استعمال کے آلات ہتھیار بن کر بڑے پیمانے پر تباہی پھیلا سکتے ہیں۔

اسرائیل کے نیشنل سائبر ڈائریکٹوریٹ کے سابق ڈپٹی ڈائریکٹرجنرل ریفیل فرانکو کے مطابق حزب اللہ کو اس شاک سے نکلنے میں کافی وقت لگے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’اب ان کے جنگجو ہرپیجر اور موبائل فون کو شک کی نظر سے دیکھیں گے۔ اسرائیل نے فون اور دیگر آلات کو ہیک کرنے کی ٹکنالوجی کی خاطر خاصی سرمایہ کاری کی ہے۔ یعنی آپ کے گھر پر روبوٹک جھاڑو کو بھی ہیک کرکے اس کو آپ کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے۔ فرانکو کا کہنا ہے کہ: ’’اسرائیلی خفیہ تنظیم موساد نے حز ب اللہ کی سپلائی چین کا پتہ لگا لیا تھا کہ یہ پیجرز کسی شیل کمپنی سے خریدے گئے ہیں۔ ہم نے ہنگری میں بی اے سی کنسلٹنگ کا پتہ لگایا تھا جس نے ان پیجر ز کو سپلائی کرنے کا ٹھیکہ لیا تھا۔ ایران جلد ہی حزب اللہ کو جدید مواصلاتی آلات بھیجے گا،مگر اس نئے نظام کو فعال ہونے میں مہینوں نہیں تو ہفتوں لگیں گے‘‘۔ اس لیے پچھلے چند دنوں میں اسرائیل نے لبنان پر شدید بمباری کی ہے۔

اس سائبر وار سے قطع نظر ماضی میں بھی اسرائیلی ایجنٹوں نے ایسے کئی غیر روایتی حملوں سے مخالفین کو ٹھکانے لگایا ہے۔ اسرائیل کی ایجنسی شن بیٹ نے ۱۹۹۶ء میں غزہ میں حماس کے رکن یحییٰ عیاش کو مارنے کے لیے خفیہ طور پر دھماکا خیز مواد سے لیس موبائل فون ان کے پاس پہنچایا۔ جب فون ان تک پہنچ گیا تو انھی کی آواز پر اس کو ریموٹ سے دھماکا کرکے اُڑا دیا گیا۔

یاد رہے ۱۹۹۷ء میں حماس کے لیڈر خالد مشعل کو قتل کرنے کے لیے موساد کے دو خفیہ ایجنٹوں نے ان کی گردن پر زہر چھڑکا تھا، مگر یہ منصوبہ ناکام ہوگیا اور یہ دونوں ایجنٹ پکڑے گئے۔ حماس کو ہتھیارفراہم کرنے والے محمود المبحوح ۲۰۱۰ء میں دبئی کے ہوٹل کے کمرے میں مُردہ پائے گئے تھے۔ اماراتی حکام نے ابتدائی طور پر اسے قدرتی موت قرار دیا تھا ، مگر بعد کی تحقیقات میں موساد کی ایک ہٹ ٹیم کی سی سی ٹی وی فوٹیج سے پردہ فاش ہوا۔۲۰۱۰ء اور ۲۰۲۰ء کے درمیان، تقریباً نصف درجن ایرانی جوہری سائنس دان پُراسرار انداز سے ہلاک یا زخمی ہوئے۔ایران کے چیف جوہری سائنس دان محسن فخر زادہ کو ۲۰۲۰ء میں تہران کے مضافات میں ایک قافلے میں گاڑی چلاتے ہوئے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ کچھ ایرانی میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے سیٹلائٹ سے کنٹرول کرنے والی سنائپر رائفل کا استعمال کیا۔ ایسا ہی عمل اسماعیل ہنیہ کے ساتھ برتا گیا۔

بنگلہ دیش میں ۵؍اگست کے ’طلبہ انقلاب‘ نے بنگلہ دیش پاکستان تعلقات کے معاملے کو دونوں ممالک کے درمیان بلندی پر پہنچا دیا ہے۔ یہ انقلاب اپنی نظریاتی، ملّی اور قومی بنیادوں پر بنگلہ دیش، پاکستان اور اُمت مسلمہ کے لیے ایک اہم پیش رفت ہے۔ صرف پندرہ روز کے اندر اندر پورے بنگلہ دیش کے طول و عرض میں زبردست بیداری اور مزاحمت کے بہائو کا مشاہدہ کیا جائے، تو یہ حقیقت بہت نمایاں ہوکر سامنے آتی ہے کہ یہ واقعہ خطے میں ہندوستانی بگٹٹ تسلط پسندی کو چیلنج کرنے کا عوامی اظہار ہے، جس کے پیچھے پڑھی لکھی نوجوان نسل پُرعزم کھڑی ہے۔


تاریخی اُمور کے ساتھ ساتھ یہاں پر چند اہم حالیہ واقعات و معاملات پیش ہیں:

  • کہا تو جاتا ہے کہ ’’عوامی لیگ نے جمہوری اور مسلح جدوجہد سے پاکستان توڑا‘‘ مگر ۲۵مارچ ۲۰۲۱ء کو بنگلہ دیش بننے کی پچاسویں سال گرہ پر ڈھاکا میں تقریر کرتے ہوئے انڈین نسل پرست نریندرا مودی نے کہا: ’’بنگلہ دیش کی آزادی کے لیے ہم نے اور ہمارے انڈین فوجیوں نے خون کی بڑی قربانی دی ہے۔ بنگلہ دیش کی آزادی کی تڑپ کے لیے مَیں جیل میں گیا اور کئی دن سو نہیں سکا‘‘ (ڈیلی اسٹار، ڈھاکہ، ۲۶مارچ ۲۰۲۱ء)۔ایک طرف مودی نے کہا کہ پاکستان سے مشرقی پاکستان کو الگ کرکے بنگلہ دیش کا ’کارنامہ‘ ہم بھارتیوں کا ہے، اور دوسری طرف اسی روز ’’ڈھاکے میں مودی کے دورے اور تقریر کے مخالف نوجوانوں کے مظاہرے پر بنگلہ دیش پولیس نے گولی چلا کر پانچ مظاہرین کو، اور اس سے اگلے روز مظاہرین کو روکتے ہوئے چھے مظاہرین کو شہیدکردیا‘‘۔ (الجزیرہ، ۲۶ مارچ ۲۰۲۱ء)
  • بنگلہ دیشی فوج کے موجودہ سربراہ جنرل وقار الزماں نے عالمی نیوز ایجنسی رائٹرز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے: ’’ہم نے قومی سطح پر بنیادی اصلاحات کے لیے عبوری حکومت کی مکمل تائید، حمایت اور اطاعت کا وعدہ کیا ہے، تاکہ اگلے اٹھارہ ماہ میں عام انتخابات کرائے جاسکیں اور ملک اور قوم جلد از جلد جمہوری عمل میں داخل ہوں، مگر جس طریقے سے چیزیں اتھل پتھل ہوئی ہیں،  ان کو درست کرنے کے لیے کچھ وقت مجبوراً درکار ہے۔ ہم عبوری حکومت سے ہرہفتے ملتے ہیں اور مل کر کام کر رہے ہیں۔ ہمارے ذرّہ برابر سیاسی عزائم نہیں، ہمارا واحد مقصد قوم کو جمہوری شاہراہ پر ڈالنا ہے‘‘۔(روزنامہ سنگرام، ڈھاکا، ۲۴ستمبر ۲۰۲۴ء)
  • ڈاکٹر محمد یونس نے امریکا میں انٹرویو دیتے ہوئے کہا:’’فی الحال الیکشن منعقد کروانے کا کوئی نظام الاو قات نہیں دیا جارہا۔ آنے والے مہینوں میں اصلاحات کی سفارشات متوقع ہیں ، ان کے بعد انتخاب کی تاریخ دیں گے۔ جرائم کا حساب لینے کے لیے حسینہ واجد کو انڈیا سے لاکر عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا‘‘۔(روزنامہ دی سن، ڈھاکا، ۲۷ستمبر ۲۰۲۴ء)
  • بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے امیر ڈاکٹر شفیق الرحمان نے ۲۶ستمبر کو ڈھاکا میں وکلا کی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’اگر عبوری حکومت اپنے اہداف پانے اور اصلاحات کو نافذ کرنے میں کامیاب ہوتی ہے تو اس کے نتیجے میں ’طلبہ انقلاب‘ کامیاب ہوگا۔ ہم ان قومی مقاصد کی تکمیل کے لیے مکمل طور پر حکومت کے حامی اور مددگار ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جو لوگ قوم کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں وہ قوم سے دشمنی کر رہے ہیں۔ تمام اختلافات بھلاتے ہوئے قومی مفاد کے لیے متحد ہوکر ملک کی تعمیر کا حلف اُٹھانا چاہیے‘‘۔ (ڈیلی سن، اسٹار اور سنگرام، ۲۷ستمبر ۲۰۲۴ء)

ڈاکٹر شفیق الرحمان نے کہا: عوامی لیگ کی باقیات کی جانب سے واویلا ایک بے معنی اور فضول حرکت ہے۔ شیخ حسینہ نے ۱۵ برس کی فسطائی حکمرانی میں ملک، قوم، اداروں اور اپنی پارٹی عوامی لیگ کو برباد کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک سے فرار کے بعد ان کی پارٹی میں کوئی شخص ایسا نظر نہیں آتا جو پارٹی کو سنبھال سکے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عوامی لیگ سرے سے کوئی سیاسی پارٹی نہیں ہے بلکہ مفاد پرستوں کا ایک ٹولہ ہے، جس کا جمہوریت اور انسانی حقوق کے احترام سے کوئی دُور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ جماعت اسلامی کے سرکردہ اور بزرگ رہنمائوں کو جھوٹے مقدموں میں ملوث کرکے، انصاف کا خون کیا گیا، پھانسیاں دی گئیں، کئی رہنمائوں کو قید کے دوران موت کے منہ میں دھکیل دیا گیا، درجنوں کو لاپتا کردیا گیا اور ہزاروں کو قید رکھا گیا ہے۔ پھر غصے میں آکر جماعت پر کئی پابندیاں بھی عائد کردیں۔ بنگلہ دیش کے غیرت مند شہری، جماعت اسلامی کا احترام کرتے ہیں۔ ۱۵برس کے مسلسل جبر کے باوجود شیخ حسینہ حکومت، جماعت اسلامی کو تباہ نہیں کرسکی، جس پر ہم اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت پر اس مالک و خالق کے حضور سجدئہ شکر ادا کرتے ہیں۔(ایضاً)

ڈاکٹر شفیق الرحمان نے کہا: ’’عوامی لیگ کی انسانیت کش حکمرانی کے دوران اختلاف کرنے والے دانش وروں، وکیلوں اساتذہ اور صحافیوں کو غائب، قید اور قتل کرنے سے بھی اجتناب نہیں برتا گیا۔ افسوس کہ وکلا کے ایک طبقے نے عدل کے قتل میں قاتل حکومت کا مسلسل ساتھ دیا۔ حکومتی آلہ کاروں نے سارا پیسہ بیرونِ ملک اسمگل کیا اور اپنی بداعمالیوں کی سزا سے بچنے کے لیے لیگ کے لُوٹ مار کرنے والے ملک سے بھاگ گئے ہیں اور بھاگ رہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس تحریک کے دوران شہید ہونے والے تمام نوجوان اور شہری قوم کے ہیرو ہیں۔ انھیں قوم ہی کی نسبت سے یاد رکھنا، خدمات کا اعتراف کرنا اور ان کے پسماندگان کی مدد کرنا ہوگی‘‘۔(ایضاً)


۲۲ستمبر کو بنگلہ دیش کے مشہور انگریزی روزنامہ ڈیلی اسٹار  ،ڈھاکا نے، جو ایک آزاد خیال، سیکولر اور جماعت اسلامی کا مخالف اخبار ہے، اس نے ووٹرز کے سروے پر مبنی دل چسپ اعداد و شمار شائع کیے ہیں، جن کے مطابق: ’’عام طور پر یہی سمجھا جارہا تھا کہ فسطائی عوامی لیگ حکومت کے خاتمے کے بعد بیگم خالدہ ضیاء کی زیرقیادت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) بھاری اکثریت سے حکومت سنبھال لے گی، مگر حقائق کے مطابق شاید کرسیاں بدل گئی ہیں۔ ۲۹؍اگست سے ۸ستمبر۲۰۲۴ء کے درمیان رائے عامہ کے جائزے سے ووٹروں کے رجحان کا اندازہ سامنے آیا ہے: ۴۶ء۴۴ فی صد حصہ ’فیلڈ سے ۵۱۱۵؍ افراد کے سائنٹفک (sample) سروے پر مبنی ہے۔ ۳۴ فی صد نے کہا کہ آیندہ ’’رائے دہی کے لیے ہم غیریقینی صورتِ حال کا شکار ہیں کہ کس کو ووٹ دیں؟‘‘ جب کہ ۱۰ فی صد نے کہا کہ ’’ہم طلبہ کی قیادت میں سیاسی پارٹی کو ووٹ دیں گے‘‘۔ مگر جب بنگلہ دیش کے تمام ۶۴ اضلاع میں ’آن لائن‘ ۳۵۸۱؍ افراد پر مشتمل سائنٹفک سیمپل سروے کیا گیا تو اُن میں سے ۳۵ فی صد نے کہا: ’’ہم طلبہ کی زیرقیادت پارٹی کو ووٹ دیں گے‘‘ اور ۱۱فی صد نے کہا: ’’ہم فیصلہ نہیں کرسکے کہ کسے ووٹ دیں گے؟‘‘ یاد رہے ابھی تک طلبہ کی زیر قیادت یا اس سوچ کی نمایندہ سیاسی جماعت وجود میں نہیں آئی۔ اس طرح ’فیلڈ سروے‘ کے ۴۴ فی صد اور ’آن لائن‘ کے ۴۶ فی صد ووٹر غیرفیصلہ کن پوزیشن میں ہیں، جب ان سے پوچھا گیا: ’’آپ غیرفیصلہ کن کیوں ہیں؟‘‘ توزیادہ تر نے کہا: ’’ہم ممکنہ اُمیدواروں سے ناواقف ہیں، اور محض پارٹی نشان کو ووٹ نہیں دینا چاہتے‘‘۔

اس سروے کا دل چسپ پہلو ۱۹۹۷ء سے ۲۰۱۲ءکے درمیان پیدا ہونے والی ’زیڈ پود‘ اور اُن سے قبل پیدا ہونے والی ’بزرگ نسل‘ کا طبعی رجحان ہے۔ ’آن لائن‘ سروے میں ’زیڈ پود‘ کے ۳۷ فی صد نے، اور ’بزرگ نسل‘ نے ۳۰ فی صد تعداد میں طلبہ کی سیاسی پارٹی کی حمایت کی۔ دوسری طرف ’آن لائن‘ سروے کے مطابق:۱۹۵۵ء سے ۱۹۶۴ء کے درمیان پیدا ہونے والوں نے ۱۷ فی صد ، ۱۹۸۱ء سے ۱۹۹۶ء کے درمیان پیدا ہونے والوں نے ۲۴ فی صد اور ’زیڈ پود‘کے ۲۷ فی صد ووٹروں نے کہا کہ ’’ہم جماعت اسلامی کو ووٹ دیں گے‘‘۔ ان نتائج کو دیکھ کر ہر کوئی حیران ہے کہ بالکل نوخیز ’زیڈ پود‘ میں جماعت اسلامی کی اتنی پذیرائی کیونکر سامنے آرہی ہے؟ خواتین آبادی کا ۵۱ فی صد ہیں، ان کی آراء دیکھیں تو ان کی بڑی تعداد تاحال ’غیرفیصلہ کن‘ ہے، یا پھر طلبہ کی طرف جھکائو رکھتی ہے۔ دوسرا یہ کہ خواتین میں جماعت کی مقبولیت کا گراف کم تر ہے۔ ’فیلڈ سروے‘ میں خالدہ ضیاء پارٹی کو ۲۱ فی صد ووٹ ملے، جب کہ جماعت اسلامی کو ۱۴ فی صد۔ مگر ’آن لائن‘ سروے کے مطابق خالدہ ضیاء پارٹی کو ۱۰ فی صد اور جماعت اسلامی کو ۲۵ فی صد ووٹ ملے۔ بی این پی ’فیلڈ سروے‘ میں تمام ڈویژنوں میں آگے ہے، لیکن ’آن لائن‘ سروے میں تمام ڈویژنوں میں جماعت اسلامی آگے ہے۔ دونوں سروے میں بی این پی کو ’زیڈ پود‘ کے برعکس ’بزرگ نسل‘ میں برتری حاصل ہے، مگر نئی نسل میں اس کی مقبولیت کم ہے۔ عوامی لیگ کی پوزیشن یہ ہے کہ ’فیلڈ سروے‘ میں عوامی لیگ کو صرف ۵ فی صد اور ’آن لائن‘ میں ۱۰ فی صد ووٹروں کی حمایت حاصل ہوسکی ہے۔ عوامی لیگی حلقے جماعت اسلامی کی مقبولیت پر سخت بوکھلاہٹ کا شکار ہیں۔


 تاریخ کے اوراق دیکھیں تو خطۂ بنگال سے جڑے چار بڑے موڑ سامنے آتے ہیں، جن کا تعلق پاکستان سے ہے: lپہلا یہ کہ ۱۹۰۵ء میں تقسیم بنگال ہوئی۔ اسے مسلم اکثریتی علاقے کو مذہبی پہچان کی بنیاد پر الگ وجود تسلیم کیا گیا (تاہم، ۱۹۱۱ء کو یہ تقسیم ہندوئوں کے دبائو سے واپس ہوگئی، مگر اس نے تقسیم کا نظریہ پیش کر دیا)۔ l دوسرا یہ کہ دسمبر ۱۹۰۶ء کو ڈھاکہ میں کُل مسلم لیگ قائم ہوئی، جس نے تحریک پاکستان کی قیادت کی۔ lتیسرا یہ کہ ۲۳مارچ ۱۹۴۰ء کی ’قرارداد لاہور‘ کو پیش کرنے کا اعزاز بنگال ہی کے رہنما اے کے فضل الحق (م: ۱۹۶۲ء)کو حاصل ہوا، lاور چوتھا یہ کہ ۶ تا ۹؍اپریل ۱۹۴۶ء کو ہونے والے مسلم لیگ لیجس لیچرز کنونشن دہلی میں، جو قائداعظم کی صدارت میں منعقد ہوا، وہاں پر بنگال ہی سے تعلق رکھنے والے حسین شہید سہروردی (م:۱۹۶۳ء) نے قرارداد پیش کی، جسے متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا۔ اس میں لکھا ہے: ’قراردادِ لاہور‘ میں پاس کردہ لفظ ’states‘کو ’state‘ میں تبدیل کیا جاتا ہے۔

لفظ ’ریاستوں‘ کو ’ریاست‘ کر نا دُور اندیشی پر مبنی حکمت ِ کار تھی کیونکہ ہندوستان نے مسلم آبادی کے اس علاقے کو تین اطراف سے گھیر رکھا ہے۔ بالکل وہی صورتِ حال آج بھی برقرار ہے۔ انڈیا نے بنگلہ دیش میں ایک انتہائی بھارت نواز انتظامیہ قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی، لیکن حالیہ انقلاب سے بھارتی مذموم عزائم کو منہ کی کھانا پڑی ہے۔ بنگلہ دیش میں انقلابی قوتیں سفارتی حمایت کے لیے پاکستان کی طرف دیکھ رہی ہیں، اور پاکستان اس انقلاب کو محفوظ بنانے اور جنوبی ایشیا میں انڈیا کی بالادستی اور دھونس کو کم کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ پاکستان اس انقلاب کی حمایت کے لیے یہ اقدامات کر سکتا ہے:

            ۱-         پاکستان ’اسلامی کانفرنس تنظیم‘ (OIC) اور دیگر بین الاقوامی حکومتی پلیٹ فارموں کے ذریعے انقلاب کی حمایت کے لیے سابق سفارت کاروں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دے۔

            ۲-         یہ کمیٹی سارک (SAARC) کی تنظیم نو کے لیے بنگلہ دیش کی مدد کرے۔ یاد رہے کہ مالدیپ، نیپال اور سری لنکا،ہندوستان کے تسلط پسندانہ عزائم سے پریشان ہیں۔

            ۳-         پاکستانی سیاست دانوں اور این جی اوز کو انقلاب کی حمایت کرنے پر اُبھارا جائے۔

            ۴-         یہ کمیٹی بنگلہ دیشی صحافیوں اور میڈیا کے افراد سے باقاعدہ پیشہ ورانہ سطح پر معاونت لے، تاکہ پاکستانی عوام بنگلہ دیش میں تازہ ترین پیش رفت سے آگاہ ہوسکیں۔

            ۵-         پاکستان، بنگلہ دیشی دانش وروں، صحافیوں، مصنّفوں، پروفیسروں اور اساتذہ اور طلبہ کو پاکستان آنے کی دعوت دے اور اسی مقصد کے لیے پاکستانی صحافیوں کو بنگلہ دیش بھیجے۔

             ۶-        پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی و تحقیقی اداروں میں بنگلہ دیشی طلبہ اور تعلیمی عملے کے لیے اسی طرح کے تبادلے کے پروگرام تیار کیے جائیں۔

            ۷-         پاکستانی تعلیمی اداروں کو بنگلہ دیشی طلبہ کے لیے اسکالرشپ پیش کرنے پر اُبھارا جائے۔

             ۸-        سیاسی، معاشی، ثقافتی اور کھیلوں کے میدان میں وسعت لانے کے لیے ٹھوس بنیادوں پر معاہدے کیے اور عمل درآمد کی صورت بنانی چاہیے۔

            ۹-         بنگلہ دیش چیمبرز آف کامرس اور ڈھاکہ و چٹاگانگ کے ایوان ہائے صنعت و تجارت کے قائدین کو پاکستان آنے اور باہم سرمایہ کاری کی سہولت دی جانی چاہیے۔

            ۱۰-      کراچی یونی ورسٹی اور پنجاب یونی ورسٹی میں بنگلہ زبان و ادب کے شعبے کھولے جائیں۔

            ۱۱-      دونوں ملکوں میں ویزا کی نرمی پیدا کی جائے اور اشیاء کی ترسیل اور وصولی کے تیزرفتار نظام کو عملی شکل دی جائے۔ (مجوزہ سفارتی کمیٹی مزید اقدامات تجویز کرسکتی ہے)۔

بنگلہ دیش کے عوام کی اس اُمنگ کے جواب میں ،جو بھارتی تسلط سے چھٹکارا پانے کے لیے وہ ظاہر کرچکے ہیں، مثبت جواب دینا چاہیے۔ ہمیں خوف کی فضا سے باہر آنا چاہیے اور تاریخ کے اس موقعے کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہیے۔بنگالی نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں نے سروں پر کفن باندھ کر اس انقلاب کے دوران ہندوستان کو بنگلہ دیش سے باہر نکالنے کے لیے ایک ہزار سے زیادہ جانوں کی قربانی دی ہے۔ ہمیں اس کا پاس و لحاظ رکھنا چاہیے۔

ہندوستانی میڈیا، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (RSS) اور خفیہ ایجنسیاں یہ موقف پھیلانے کی سرتوڑ کوشش کر رہی ہیں کہ ’’بنگلہ دیشی مسلمان انتہا پسندوں نے کچھ بین الاقوامی قوتو ںکے ساتھ مل کر ہندوستان کو بنگلہ دیش سے اُکھاڑ پھینکنے کی بڑی ’سازش‘ کی ہے‘‘۔ انھیں اس بات پر یقین ہی نہیں آرہا کہ غیرمعروف سے طالب علموں کی قیادت میں ایک ’مقامی کوٹہ تحریک‘ ایسا بلاخیز سیلاب بھی بن سکتی ہے، جو اُن کی گماشتہ ڈکٹیٹر اور اس کے حمایتی ہندوستان کو نشانہ بنا سکتی ہے۔ وہ اس بات کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کر رہے کہ ہندو نسل پرست بھارتی دھونس نے بنگلہ دیش کی نئی نسل میں مسلم قومیت کی شناخت اور دفاع کے جذبے کو پروان چڑھایا ہے۔

انڈیا کی رہنمائی اور قیادت میں حسینہ واجد حکومت نے پاکستان کے خلاف شدید نفرت کی فصل کاشت کرنے کی خاطر ایک باقاعدہ وزارت قائم کی، جس نے پندرہ برس تک تعلیم، میڈیا اور صحافت میں پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈے کی انتہائوں کو چھوا، لیکن وہ سب مذموم پروپیگنڈا دھرے کا دھرا رہ گیا۔ انقلاب کے بعد ۶ستمبر ۲۰۲۴ء کو قائداعظمؒ کی برسی کے موقعے پر ڈھاکہ نیشنل پریس کلب میں بھرپور پروگرام ہوا۔ طلبہ تحریک کے مرکزی رہنما ناہید الاسلام کے اس جملےنے تاریخ کے ۵۴برس پلٹا کر ۱۹۷۱ء سے پہلے کے مشرقی پاکستان سے جوڑ دیا کہ ’’اگر پاکستان نہ بنتا تو آج بنگلہ دیش بھی وجود میں نہ آتا‘‘۔یہ چیز ایک مقبول رہنما کی زبان سے عام لوگوں کو حقیقت کا فہم دینے میں مددگار بنی ہے۔

تاریخ کا یہ عجیب معاملہ ہے کہ ایک طرف تو بنگلہ دیش کی حکومتوں نے پاکستان کے بارے میں جھوٹے، خودساختہ بلکہ بیہودہ موقف کو نئی نسل کے ذہنوں میں اُنڈیلا، تو دوسری طرف پاکستان میں حکام نے مشرقی پاکستان اور بنگالیوں کے ساتھ اپنی چوبیس سالہ رفاقت کو فراموش کرنے، بنگال کے سرفروشوں کے ساتھ وابستگی کی پوری تاریخ کو مٹانے کی دانستہ اور جاہلانہ کوششیں کیں۔

۱۹۷۱ء میں تقسیمِ پاکستان کے المیے نے خود پاکستانی حکومتوں اور اداروں کے شعور کی دُنیا کو بُری طرح عدم توازن کی نذر کر دیا۔ تاہم، پاکستان کے جوہری پروگرام کی کامیابی نے پاکستان کو مستقبل میں ممکنہ جارحیت سے بچانے میں مدد دی ہے۔ بنگالی دانش ور، پاکستان کی تقلید اور پاکستان کے ساتھ تعاون کی ضرورت کے بارے میں بڑی اُمید کی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ ان حالات میں پاکستان کو اپنی ترجیحات کو مدنظر رکھتے ہوئے بھرپور طریقے سے قدم آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔

اس صورت حال کا نہایت خطرناک پہلو یہ ہے کہ انڈیا کی حکومت اور خفیہ ایجنسیاں بنگلہ دیش میں مسلسل بدامنی کو ہوا دے رہی ہیں۔ حالات و واقعات سے ظاہر ہے کہ خود ہندوئوں کی املاک پر متعدد حملوں اور عوامی لیگیوں کے چند مقامات پر ہجومی قتل کے پیچھے بھی انڈیا کی یہ حکمت عملی کارفرما ہے کہ اس طرح عبوری حکومت بدنام ہو اور عوامی لیگ ہمدردی حاصل کرسکے۔ ان چیزوں پر میڈیا کو بہت محتاط رویہ اپنانا چاہیے۔

ماضی میں اسرائیل نے ہمیشہ مختصر اور فیصلہ کن جنگیں اسرائیل میں نہیں بلکہ اپنے اردگرد محصور عرب سرزمین پر لڑی ہیں۔ آخری بار ۱۹۷۳ء کی جنگ میں عرب اتحادی فوج کو شکست دینے کے بعد سے، اسرائیل نے کبھی اپنے خلاف مؤثر عرب اتحاد کی تشکیل کی اجازت نہیں دی۔ نتیجہ یہ کہ اسے کبھی مشترکہ عرب اتحاد کی طاقت کا سامنا نہیں کرنا پڑا، جس سے اسے متعدد محاذوں پر جنگ کا خطرہ ہو۔

۱۹۷۳ءمیں عرب اتحادی فوج کو شکست دینے کے کئی عشروں بعد، اسرائیل آج نہ صرف غیر ریاستی عناصر اور گروہوں سے بلکہ ’مزاحمت کا محور‘ (حماس) سے نبرد آزما ہے۔ اس بار اسرائیل ایک طویل جنگ لڑ رہا ہے جس کا کوئی خاتمہ نظر نہیں آتا۔ غزہ میں یہ زمینی اور فضائی کارروائیاں کررہا ہے، اور لبنان میں حزب اللہ کی طرف سے شمالی سرحد پر لاحق خطرہ بھی جنگ میں ڈھل چکا ہے۔ مغربی کنارے کی کارروائیاں بھی اسرائیلی فوجیوں کو وہاں اُلجھاتی رہتی ہیں۔بیرونی طور پر شام سے آنے والے پراکسی گروپوں کا خطرہ اور ایران کے ہوائی حملوں یا یمن سے حوثیوں کی طرف سے بحیرۂ احمر میں فوجی کارروائیوں نے اسرائیل اور اس کی حلیف خلیجی ریاستوں کے مفادات سمیت اس جنگ کو بہت پیچیدہ بنادیا ہے۔

یہ پہلی بار ہے کہ اسرائیل نے اپنی سرزمین کے اندر جنگ شروع کی ہے۔ پھر وہ مختصر اور فیصلہ کن نہیں بلکہ ایک طویل جنگ لڑ رہا ہے، اور اسے متعدد خطرات کا سامنا ہے۔ اسے ایسے سیکورٹی مخمصے کا سامنا ۱۹۷۳ء میں عرب اتحاد کے خلاف جنگ کے بعد سے نہیں ہوا تھا۔

اس جنگ کی مہلک خامیاں سیاسی اور قانونی دائرے میں ہیں۔ اسرائیل جتنا زیادہ طویل فوجی جدوجہد میں اُلجھتا جائے گا، اس کے سیاسی اور قانونی مسائل میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ واضح سیاسی ہدف کے بغیر، کوئی بھی عسکری حکمت عملی اپنی اہمیت کھودیتی ہے۔ بلاشبہہ جنگ ایک سیاسی عمل ہے۔ چونکہ طاقت کا استعمال سیاسی ہے، اس لیے اسرائیلی سیاست دانوں کو جس چیز پر غورکرنے کی ضرورت ہے، وہ صرف ذرائع نہیں بلکہ انجام بھی ہے۔ غزہ کی جنگ میں سیاست کس طرح اپنا کردار ادا کر رہی ہے؟ کیا اسرائیل کی سیاسی حکمت عملی صرف غزہ میں حماس کو شکست دینے تک محدود ہے؟ کیا فوجی جبر کی یہ حکمت عملی عالمی اثرات پیدا نہیں کر رہی؟ کیا غزہ میں اسرائیل کی فوجی کارروائی پوری دنیا کو نقصان نہیں پہنچا رہی، جیسا کہ عالم گیریت کی دنیا میں تمام ریاستوں کی معیشتیں ایک دوسرے پر منحصر ہیں؟

اس جنگ میں اسرائیلی حکمت عملی سے پوری دنیا کو نقصان اٹھانا پڑے گا۔ ابھی تک ایسا لگتا ہے کہ سیاسی مقصد صرف حماس کی عسکری قوت کا خاتمہ اور پناہ گزینوں کی واپسی نہیں ہے، بلکہ ایک وسیع تر ایجنڈے پر عمل کرنا ہے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ دنیا اس جنگ کے لیے اسرائیل کے حقیقی مقاصد کے بارے میں اندازہ لگانے میں ناکام ہے۔ خطرہ یہ ہے کہ اسرائیل کا یہ رویہ خطے میں وسیع تر تنازعے کا باعث بن سکتا ہے۔ اسرائیل کا اندازہ ہے کہ حماس کے ۳۰ ہزار جنگجو ہیں اور اس کا دعویٰ ہے کہ اس نے ان میں سے تقریباً ۱۸ ہزار کو مار دیا ہے۔ اس میں جو بات واضح نہیں کی گئی وہ یہ ہے کہ حماس نے اس اسرائیلی ظلم و سفاکیت کے خلاف لڑنے کے لیے مزید کتنے لوگوں کو بھرتی کیا ہے؟ سیاسی طور پر اسرائیل کو عالمی تنہائی کا سامنا ہے اور قانونی طور پر اس کے اقدامات کو عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) میں چیلنج کیا گیا ہے، جس نے وزیراعظم نیتن یاہو کو جنگی مجرم قرار دیا ہے۔ دنیا نے غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے جواز کو چیلنج کیا ہے اور اسرائیلی مسلح افواج کے پاؤں کے نیچے سے قانونی جواز کا قالین کھینچ لیا ہے۔ جنگ کو ختم کرنے کے واضح سیاسی ہدف کے بغیر اسرائیل اپنی معیشت، معاشرے، فوج اور سب سے بڑھ کر ایک قومی ریاست کے طور پر اپنی ساکھ کی بھاری قیمت چکا رہا ہے۔

غزہ میں اسرائیل کی جنگ کے بارے میں سیکیورٹی کے بڑھتے ہوئے کچھ مفروضوں پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے:

  • پہلا مفروضہ، اسرائیل کو درپیش خطرے اور اس سے پیدا ہونے والے اضافی خطرات کو ختم کرنے کے لیے اسے ایک طویل جنگ کی ضرورت ہوگی۔ واضح سیاسی ہدف اور اخراج کی حکمت عملی کے بغیر اسرائیل ایک طویل جنگ لڑتا رہے گا۔
  •  دوسرا مفروضہ، اسرائیل کو یہ جنگ لڑنے کے لیے زیادہ سے زیادہ ہتھیاروں، گولہ بارود اور اضافی پُرزوں کی ضرورت ہوگی۔ فی الحال یہ امریکا پر انحصار جاری رکھے گا، لیکن درمیانی اور طویل مدت میں اگر امریکا دیگر مسائل میں اُلجھ گیا تو اسرائیل کی متعدد محاذوں پر بیک وقت فوجی کارروائیاں کرنے کی صلاحیت تیزی سے کم ہو جائے گی۔ اگر وہ اپنا دفاعی بجٹ بڑھاتا ہے اور اپنی دفاعی صنعتوں کو بڑھاتا ہے، تو یہ صرف اس کی معیشت کی قیمت پر ہوسکتا ہے۔
  •  تیسرا مفروضہ ،اس جنگ میں چین یا روس کا شامل ہوجانا ہے۔ یہ دونوں بڑی طاقتیں غزہ میں جو کچھ ہوتا دیکھتی ہیں، اس کی تائید نہیں کرتی ہیں۔ وہاں جو کچھ ہو رہا ہے، اس پر دونوں طاقتیں تنقید کرتی ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات میں، بڑی طاقتیں یا تو مقابلہ، ورنہ ان کے اثرات کو کم کرنے کی کوششوں کے تحت بات چیت کرتی ہیں۔ امریکا عالمی بالادستی کے طور پر دونوں عظیم طاقتوں کے خلاف ان کے اثرات کو کم کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ روس اور چین بھی مشرق وسطیٰ کے تنازعات میں امریکا کو پھنسے ہوئے دیکھ کر خوش ہوں گے کیونکہ اس سے انھیں اپنے دائرۂ کار میں درپیش چیلنجوں کے حوالے سے خطّے میں اپنے جیو پولیٹیکل مقاصد حاصل کرنے کے لیے مطلوبہ فائدہ اور اسٹرےٹیجک جگہ ملے گی۔

حماس کی جگہ فلسطینی حکومت کا قیام، لبنان میں حزب اللہ کے خطرے سے نمٹنا، ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے روکنا، اور یمن میں حوثیوں کے خطرے سے نمٹنا___ وہ تمام چیلنجز ہیں، جن کا اسرائیل کو اس کثیر محاذ جنگ میں سامنا ہے۔

۱۳ جولائی ۲۰۲۴ء سے شروع ہونے والی طلبہ تحریک کی لہر نے اتحاد، جرأت، عزم، قربانی اور ثابت قدمی سے بنگلہ نسل پرستی کے اُس بُت کو پاش پاش کردیا، جس کی تعمیر کے لیے جھوٹ، تشدد اور عالمی استعمار نے شکنجہ کَس رکھا تھا۔ اس تحریک کا ہراوّل دستہ طلبہ تھے، اور اُن میں طالبات سبقت لے گئیں۔ بہت سی طالبات پولیس کی گولیوں اور عوامی لیگی غنڈوں کے تشدد کے نتیجے میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔

یاد رہے ۱۹۷۲ء میں حسینہ واجد کے والد مجیب الرحمان نے بھی جماعت اسلامی پر پابندی عائد کی تھی، جو ۱۹۷۶ء تک برقرار رہی۔ اسی روایت پر عمل کرتے ہوئے عوامی لیگ نے ۲۰۱۳ء میں جماعت پر ہرقسم کے الیکشن میں حصہ لینے پر پابندی لگائی، اور اب بدحواس ہوکر یکم اگست کو بنگلہ دیشی ڈکٹیٹر نے جماعت اسلامی بنگلہ دیش، اور اسلامی جمعیت طلبہ [اسلامی چھاترو شبر] پر پابندی عائد کردی۔ اس سے قبل ۱۳جولائی سے جماعت اور جمعیت کے کارکنوں کو گھروں سے اُٹھانے، تشدد کا نشانہ بنانے، ’انسانی باڑوں‘میں پھینکنے، اور ان کے گھروں کو روندنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا تھا۔ ۱۴جولائی کی رات یعنی ۲۴گھنٹوں میں ان دو تنظیموں کے اٹھارہ سو کارکنوں کو آزاد زندگی سے محروم کردیا گیا تھا، اور اگلے صرف بیس روز کے دوران جماعت اور جمعیت کے  دس ہزار سے زائد کارکنوں کو قید اور ۲لاکھ کو جعلی مقدمات میں نامزد کیا گیا۔ عوامی لیگی غنڈے اور پولیس اہل کار دندناتے ہوئے آتے اور گھر میں بچوں، عورتوں کو گالیاں بکتے ہوئے، ان کے جوانوں کو پکڑ کر لے جاتے۔

دوسری طرف ہاسٹلوں، کلاس روموں، کالجوں، اسکولوں اور یونی ورسٹیوں میں انقلابی شعلے جوالا بن چکے تھے۔ اُن میں بڑی تعداد ان نوخیز نوجوانوں کی تھی، جنھوں نے اکیسویں صدی میں آنکھ کھولی تھی، مگر چاروں طرف اندھیر نگری دیکھی تھی، جس کی چوپٹ رانی خون کی پیاسی اور کرپشن کی دیوی تھی، جس کی آنکھوں سے نفرت کے شعلے لپکتے تھے اور زبان سے نفرت کے کانٹے جھڑتے تھے۔ یہ وہ نوجوان تھے، جنھیں پرائمری کے قاعدے سے لے کر بی ایس تک صرف ایک بات پڑھائی، سنائی اور ذہن میں بٹھائی گئی تھی کہ ’’پاکستان دُنیا کا بدترین ملک ہے اور جماعت دُنیا کی ناپسندیدہ ترین پارٹی ہے‘‘۔ اس کے باوجود احتجاج کرتے ان نوجوانوں نے جماعت اسلامی کی رفاقت کو خوش آمدید کہا۔ ان لاکھوں طلبہ و طالبات کی بڑی تعداد پارٹی عصبیتوں سے بالاتر، اور اپنی قوم کے مستقبل کو محفوظ بنانے کی اُمنگ سے وابستہ تھی۔ بلاشبہہ ان احتجاجی انقلابیوں میں اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکن پوری قوت کے ساتھ شامل تھے،مگر نوجوانوں کا یہ اُبھار جمعیت  کے پھیلائو سے کہیں زیادہ وسعت رکھتا تھا۔

جوان جذبوں کے سیلاب کی طرح اُمڈتی اور بپھری اس تحریک کی میدانِ عمل میں موجود قیادت کے کوئی گہرے تنظیمی آثار حکومت کو نظر نہیں آرہے تھے، اس لیے حسینہ حکومت نے اس پورے اُبھار کو جمعیت کی ذمہ داری قرار دے کر، منفی پروپیگنڈے کا ایک گھنائونا طوفان اُٹھادیا۔ ان کا خیال تھا کہ طوفان تھم جائے، تو چُن چُن کر جماعت کے حامیوں کو نشانہ بنانے کا جواز فراہم کیا جائے گا۔

 اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ انڈیا سے ’را‘ اور برہمنی نسل پرست ’راشٹریہ سویم سیوک سنگھ‘ (RSS) کی پشت پناہی میں چلنے والے سوشل میڈیا اکائونٹس اور ویڈیو چینلوں نے بھی اپنی توپوں کا رُخ جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کی طرف موڑ دیا کہ ’’یہ ایک جمہوری حکومت کو گرانا اور بنگلہ دیش کی قومی ترقی کو دفن کرنا چاہتے ہیں‘‘۔مگر زمینی حقائق بالکل مختلف تصویر پیش کررہے تھے۔ جن کے مطابق یہ تحریک ہر گھر کی تحریک تھی اور ہر پڑھے لکھے طلبہ و طالبات کی تحریک تھی، جنھوں نے آمریت، لاقانونیت اور بدعنوانی کے سوا کچھ اور اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتا دیکھا ہی نہیں تھا۔

ظلم بڑھتا گیا۔ روزانہ شہروں اورقصبوں میں مظاہرین کی لاشیں گرائی جاتی رہیں۔ حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق بیس روز میں اٹھارہ سو افراد کو قتل کردیا گیا، جب کہ مظاہرین اس سے کہیں زیادہ جانوں کے ضائع ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔ اس بات سے اندازہ لگایا جائے کہ ۴؍اگست کو صرف ایک روز میں ڈھاکہ کے ۱۳۴ طلبہ و طالبات کو پولیس، عوامی لیگیوں اور کچھ بنگلہ دیشی فوجیوں نے گولیوں سے اُڑا دیا۔ یہ خونیں رات ابھی ڈھلی نہیں تھی کہ پُرعزم طلبہ قیادت نے اعلان کردیا: ’’کچھ بھی ہو، ہم ۵؍اگست کو وزیراعظم ہائوس کی اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دیں گے‘‘۔

فجر کے بعد، کرفیو کو توڑتے ہوئے ہزاروں طلبہ و طالبات مارچ کرتے ہوئے اپنے ہدف کی طرف چل پڑے۔ بنگلہ دیشی نوجوان فوجی افسروں نے اپنی ہائی کمان کے سامنے مظاہرین طلبہ پر گولی چلانے سے معذوری کا اظہار کردیا اور پولیس میدان چھوڑ کر بھاگ گئی۔ نہتے طلبہ و طالبات اپنی جان کی حفاظت سے بے پروا، رکاوٹیں ہٹاتے ہوئے، منزل کی طرف گامزن تھے کہ بنگلہ دیشی فوج کے سربراہ جنرل وقارالزماں نے طوفان کا موڈ دیکھ لیا۔ دن کے ساڑھے بارہ بجے حسینہ واجد سے کہا: ’’ایک ڈیڑھ گھنٹے میں چیزیں سمیٹیں اور انڈیا چلی جائیں۔ ہیلی کاپٹر لے جانے کے لیے تیار ہے۔ اگر آپ نہ گئیں تو میں آپ کی اور اپنی جان کی ضمانت نہیں دے سکتا‘‘۔حسینہ واجد نے تکرار کی اور دھمکی کی زبان استعمال کی، مگر آرمی چیف نے رشتہ داری کا واسطہ دے کر کہا: ’’اس وقت میں آپ کے ساتھ اس سے بہتر احسان اور سلوک کا کوئی دوسرا رویہ اختیار نہیں کرسکتا‘‘۔ اور پھر وہ روتی پیٹتی اپنے اصلی وطن انڈیا چلی گئی___ پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔

تقریباً ایک گھنٹے کے بعد ہزاروں طلبہ نے وزیراعظم ہائوس میں داخل ہوکر اس کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ دوسری طرف شیخ مجیب الرحمٰن کے ’تاریخی‘ گھر ۳۲- دھان مندی [بنگ بندھو میموریل میوزیم] کو جلاکر راکھ کردیا۔ سڑکوں پر مجیب کے سارے دیوقامت مجسمے توڑ دیئے، دیواروں پر لگی مجیب اور اس کی بیٹی کی تصویریں نوچ ڈالیں اور عمارتوں پر چُنی باپ، بیٹی کی افتتاحی تختیاں اُکھاڑ کر کوڑے دانوں میں پھینک دیں۔

اسی طرح مارچ ۲۰۱۰ء میں انڈین حکومت کی خطیر رقم سے قائم ’اندرا گاندھی کلچرل سنٹر‘ (IGCC) ڈھاکہ کو بھی مظاہرین نے انڈیا کی مسلسل مداخلت اور عوامی لیگ کی سرپرستی کے خلاف نفرت کا اظہار کرتے ہوئے نذرِ آتش کردیا۔ اس سنٹر میں موسیقی، یوگا اور کتھک رقص کی تربیت دی جاتی تھی۔ ڈھاکہ میں یہی مشہور تھا کہ ’’یہ دراصل انڈین جاسوسوں اور ’را‘ کا مرکز ہے، جہاں بداخلاقی، بے دینی اور ملک دشمنی کی تعلیم دی جاتی ہے‘‘۔

حسینہ واجد کے جانے کے دوگھنٹے بعد فوجی سربراہ جنرل وقارالزمان نے عبوری حکومت کے لیے ایک فہرست سوشل میڈیا پر چلوائی۔ چند منٹ ہی گزرے تھے کہ اس فہرست کو طلبہ قیادت نے ہوا میں اُچھال دیا اور کہا: ’’حکومت وہی بنے گی، جو ہم کہیں گے۔ ہم فوجی حکومت اور فوجی مداخلت سے چلنے والی حکومت کو تسلیم نہیں کریں گے‘‘۔ ساتھ ہی نوبیل انعام یافتہ ڈاکٹر محمدیونس کا نام عبوری حکومت کے لیے تجویز کردیا۔اسی دوران، انڈیا کے استحصالی رویے اور فاشسٹ حکومت کی مسلسل پشت پناہی کے سبب عوام میں انڈیا کے خلاف نفرت کا لاوا اُبل رہا تھا، اور بعض جگہ لوگ مندروں کی طرف جانے لگے۔ ملک میں ہیجانی کیفیت عروج پر تھی، مگر اس کے باوجود جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ بنگلہ دیش کی قیادت نے کمال درجے تدبر کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے کارکنوں کو ہدایت کی کہ وہ ’’فوراً مندروں اور ہندو آبادیوں کی حفاظت کے لیے میدان میں آئیں، ساری رات پہرا دیں اور مظاہرین کو باز رکھنے کی بھرپور کوشش کریں‘‘۔ اس حکمت عملی کا خاطرخواہ فائدہ ہوا۔ مگر عوامی لیگ اور انڈین میڈیا اس حقیقت کو جان بوجھ کر نظرانداز کرکے جماعت، جمعیت کو پروپیگنڈے کا نشانہ بناتا چلا آرہا ہے۔

یہ ۵؍اگست ہی کی شام تھی کہ وہی جماعت اسلامی، جس پر حسینہ واجد نے بنگلہ دیشی   فوجی سربراہ کی مشاورت سے پابندی عائد کی تھی، اسی جماعت کے سربراہ ڈاکٹر شفیق الرحمان صاحب کو یہی فوجی سربراہ فون کر رہے تھے کہ ’’ملک کے مستقبل کو بہتر بنانے اور امن و امان برقرار رکھنے کے لیے آپ مشورہ دیں‘‘۔ گویا کہ اب کی بار پابندی کا یہ دورانیہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے چار روز میں ریزہ ریزہ ہوکر رہ گیا۔ تاہم، ۲۸؍اگست تک جماعت اور جمعیت پر پابندی کے خاتمے کا باضابطہ اعلان ہوا۔

ڈاکٹر محمد یونس آئے، حکومت بنی، جماعت اسلامی نے کوئی وزارت نہیں لی اور حکومت کے قیام کی تائید کی۔ اس بات پر فوج کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے ایک عذاب سے جان چھڑانے کے لیے درست راستہ اختیار کیا ہے۔نئی نسل کی تحسین کہ اس نے ثابت قدمی سے قوم کو بدعنوان اور فاشسٹ ٹولے سے آزادی دلائی اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سجدئہ شکر بجا لائے کہ اُس نے خون کے دریا سے قوم کو پار نکالا ہے۔

نئی حکومت نے دو روز بعد، جماعت اسلامی کے ان تمام دفتروں کی سیلیں توڑ دینے کی ہدایت کی، جنھیں گیارہ برس پہلے حسینہ حکومت نے بند کر رکھا تھا۔ یہ خبر سن کر کارکن خوشی سے جہاں موجود تھے، وہیں اللہ کی بارگاہ میں سجدے میں گرگئے۔ پانچ روز گزرنے کے بعد عوامی لیگی کارکنوں اور نام نہاد ’انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل‘ میں جماعت اسلامی کے برگزیدہ رہنمائوں کو پھانسیاں سنانے والے ججوں پر مشتمل سپریم کورٹ کو طلبہ نے نشانے پر رکھا، تو ۱۰؍اگست کی دوپہر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سمیت چھ ججوں نے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا۔ یہ سب بدنام اور معروف بدعنوان لوگوں کا ٹولہ تھا۔

اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں کوئی بھی پارٹی یہ نہیں چاہتی کہ فوراً الیکشن ہوں، بلکہ عوامی لیگ نے جو تباہی مچا رکھی ہے، اسے درست کرکے چھ ماہ سے ایک سال کے اندر الیکشن پر اتفاق ہے۔ گندگی کا جو بازار گرم ہے، اس کی صرف ایک مثال دیکھیے:

’بنگلہ دیش اسلامی بنک‘جسے جماعت اسلامی کے رفقا نے ۱۹۸۰ء سے مسلسل بڑی محنت سے قائم کیا تھا، اور جس کی نیک نامی نے اسے بنگلہ دیش کا سب سے بڑا بنک بنا دیا تھا۔ عوامی لیگی حکومت نے جماعت اسلامی کے دوسرے تعلیمی اور ادویہ سازی کے اداروں پر قبضہ جمانے کے ساتھ اس بنک کو بھی قبضے میں لے لیا۔ جبری طور پر عملے اور بورڈ کے ممبروں سے دستخط کرائے، اس کی املاک اور جمع شدہ رقوم ہتھیالیں۔ ایک منظورِنظر ’عالم گروپ‘ کو اس کا انتظامی قبضہ دے دیا۔ ۱۹؍اگست کو عبوری حکومت نے حسینہ واجد کے مقرر کردہ اسلامی بنک کے بورڈ کو توڑدیا اور نیا عارضی بورڈ مقرر کیا۔ ۲۰؍اگست کو معلوم ہوا کہ بنک کے ۷۵ہزار کروڑ ٹکے [یعنی ۱۵۰کھرب پاکستانی روپے] قرضوں، بے نامی منصوبوں اور مختلف ناموں سے نکلوائے اور ہڑپ کر لیے گئے ہیں۔ اس ایک خبر سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مزید کتنے معاشی قتل ہوئے ہوں گے اور بدعنوانی کے کتنے ہمالہ تعمیر ہوئے ہوں گے۔ یہ ’’ایک سیکولر، ایک روشن خیال، ایک ترقی پسند، ایک عوام دوست‘‘ حکومت کی سیاہ کاری کی شرمناک تصویر ہے۔ صفحات کی قلت کے سبب ہم نے بہت سی دیگر معاشی غداریوں کی داستانیں یہاں نہیں چھیڑیں، جو ثبوتوں کے ساتھ بنگلہ دیش کے اخبارات میں روزانہ کی بنیاد پر قارئین کو لرزا دیتی ہیں۔

۱۹؍اگست کو بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے امیر ڈاکٹر شفیق الرحمان صاحب نے بنگلہ دیش ہندو کمیونٹی کے سربراہوں سے ملاقات کی اور ان کے مرکز ’کافرل مندر‘ کا دورہ کیا۔ وہاں پوجاکمیٹی اور مندرکمیٹی کے صدر بابو تاپیندرا نارائن کے مشاورتی اجلاس میں شرکت کی۔ ان کے ہمراہ ڈھاکہ جماعت کے امیر محمد سلیم الدین بھی تھے۔

ڈاکٹر شفیق الرحمٰن نے کہا: ’’بنگلہ دیش میں رہنے والے تمام لوگ برابر کے شہری ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اکثریت اور اقلیت کی بحث کو ختم کیا جائے۔ ہماری پہلی پہچان انسان ہونا ہے۔ ہماری دوسری پہچان ہمارا ملک بنگلہ دیش ہے، جہاں ہم پیدا ہوئے، اور ہماری تیسری پہچان ہماری مذہبی و فکری وابستگی ہے۔ اس ملک کے تمام شہری اپنے مذہب، کلچر اور حقوق کو آزادی سے بروئے کار لانے کا حق رکھتے اور ایک دوسرے کے احترام کی ذمہ داری اُٹھاتے ہیں۔ مَیں پُرامید ہوں کہ ہماری نئی نسل یہ ذمہ داری اُٹھائے گی اور اس ذمہ داری کو خوش اسلوبی سے نبھائے گی۔ اس طرح مستقبل کا بنگلہ دیش، پارٹی یا گروہی عصبیت پر نہیں بلکہ معیار، صلاحیت اور میرٹ پر کھڑا ہوگا، اور معیار پر ہی چلایا جائے گا۔ میں بنگلہ دیش کے تمام شہریوں، سماجی طبقوں اور مذہبی برادریوں سے دردمندانہ اپیل کرتا ہوں کہ ہم ایک دوسرے کو آدم علیہ السلام کی اولاد کی طرح دوستوں اور بھائیوں کی طرح قبول کریں، ایک دوسرے کی عزّت ، آبرو اور جان کا احترام کریں۔ تشدد، نفرت،  جھوٹے پروپیگنڈے اور جبر کی جڑ کاٹ کر رکھ دیں۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ دین میں کوئی جبر نہیں ہے۔ اور اگر اس کے باوجود کوئی فرد ایسی کسی بدنمائی کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کے جرم کا تعلق اسلام اور اسلامی تہذیب سے نہیں ہے، بلکہ اُس فرد سے ہے اور وہ فرد اس کے لیے قانون، قوم اور اللہ کے سامنے جواب دہ ہے۔ اسلام، انسانی جان و مال اور عزّت و آبرو کے احترام کا درس دیتا ہے۔ اسلام انسانوں کو حیوانیت اور خود غرضی کے بجائے انسانیت اور ہمدردی کا پیغام دیتا ہے۔ یہی پیغام لے کر میں آپ کے پاس آیا ہوں‘‘۔ (روزنامہ سنگرام، ڈھاکہ، ۱۹؍اگست ۲۰۲۴ء)

یہ تو ہوا اس منظرنامے کا ایک پہلو۔

اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ بنگلہ دیش کا یہ انقلاب فی الحقیقت دو قومی نظریے کی ایک طاقت ور بازگشت ہے۔ وہی دو قومی نظریہ، جسے سرزمین بنگال کے مسلمانوں کی قیادتوں نے انیسویں صدی میں ’فرائضی تحریک‘ اور تیتومیر شہید کی صورت میں اُٹھایا، جس کی تصویرکشی ۱۹۰۵ء میں تقسیم بنگال نے کی اور جسے ۱۹۰۶ء میں کُل ہند مسلم لیگ کے قیام نے سیدھی شاہراہ پر ڈالا۔ ۱۹۴۷ء میں قیامِ پاکستان کے بعد مغربی پاکستان کے حکمرانوں کی حماقتوں اور مشرقی پاکستان سے بنگالی قوم پرست لیڈروں کے جھوٹے پروپیگنڈے نے نفرت کی آگ کا ایسا الائو بھڑکایا کہ دسمبر ۱۹۷۱ء میں پاکستان دوحصوں میں تقسیم ہوگیا۔ تب انڈین وزیراعظم اندرا گاندھی نے کہا تھا: ’’دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے‘‘۔ موجودہ انقلاب نے یہ پیغام دیا ہے کہ ’’دو قومی نظریہ زندہ ہے، توانا ہے اور اپنا دفاع کرنا جانتا ہے‘‘۔

دوسرا یہ کہ نئی نسل اور عام شہری جبر اور فسطائیت پر مبنی آمریت کو کسی صورت قبول نہیں کرتے۔ اس مقصد کے حصول اور آزادی کے لیے وہ اپنے معاشی مستقبل اور اپنی جان کی بازی تک لگادینے سے دریغ نہیں کرتے۔یہ درس ہے آئندہ حکمرانوں کے لیے بھی اور یہی درس ہے ہمسایہ ملک کے نسل پرست برہمنوں کے لیے بھی۔

تیسری چیز یہ ہے کہ اس زلزلہ فگن تحریک کے جھٹکے ابھی تک بنگلہ دیش کے مختلف حصوں میں مسلسل محسوس کیے جارہے ہیں، تاہم حالات گرفت میں ہیں۔ مثال کے طور پر۲۴؍اگست کو ’انصار فورس‘ نے ہنگامہ کھڑا کردیا۔ یہ حکومت کی مسلح ملیشیا ہے، جس میں بڑی تعداد ’طلب کرنے پر‘ ڈیوٹی پر آتی ہے‘۔ انھوں نے اپنی نوکریاں پکّی کرنے کے لیے مظاہرہ کیا، جسے روکنے کے لیے طلبہ نے کوشش کی تو تصادم ہوگیا۔ بعدازاں ۲۵؍اگست کو طلبہ اور فوج نے یہ مزاحمت ختم کردی۔ اسی طرح ڈھاکہ یونی ورسٹی کے وائس چانسلر اور اسی یونیورسٹی کے دس اہم تعلیمی اور انتظامی سربراہو ں نے اپنے کیے کرائے پر شرمندگی محسوس کرتے ہوئے استعفے دے دیے ہیں۔ مختلف انتظامی شعبہ جات کے بدعنوان منتظم افراد ملک سے بھاگنے کی کوشش میں گرفتار ہوچکے ہیں۔ گویا کہ حالات کے پُرسکون ہونے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے۔

چوتھی بات یہ ہے کہ عبوری حکومت کے مشیر اعلیٰ ڈاکٹر محمد یونس نے بجا طور پر نشان دہی کرتے ہوئے کہا ہے: ’’جب تک حسینہ واجد حکومت میں رہی، ہم ایک مقبوضہ ملک ہی رہے۔ ایک قابض قوت، ڈکٹیٹر اور بے رحم جرنیل کی طرح اس نے ہرچیز کو اپنے شکنجے میں کَس رکھا تھا۔ مگر آج بنگلہ دیش کا ہرشہری آزادی محسوس کر رہا ہے اور پوری قوم اس آزادی کے تحفظ کے لیے پُرعزم ہے‘‘۔

۲۹جولائی کو فلسطین کی وزارتِ تعلیم اور ہائر ایجوکیشن نے جب میٹرک کے امتحان کے نتائج کا اعلان کیا تو سارہ رو پڑی۔ ۱۸ سالہ سارہ نے سوشل میڈیا پر مقبوضہ مغربی کنارے کے دیگر طلبہ و طالبات کو دیکھا، جو اپنی کامیابیوں پر خوشیاں منارہے تھے،تو وہ اپنے آنسو ضبط نہ کرسکی۔ جب میں غزہ میں اس کے خیمے میں اس سے ملنے گئی تو اس نے آنسو بھری آنکھوں کے ساتھ مجھے بتایا، ’’میرے لیے یہ خوشی کا وقت ہونا تھا، کیونکہ میں اپنے ہائی اسکول کے سرفہرست طلبہ میں شامل تھی۔ میں نے اپنی کامیابی پر انٹرویو دینے کا خواب دیکھا تھا مگر میرے ہم وطنوں کے ساتھ آج میری تعلیم کا گلابھی گھونٹ دیا گیا ہے‘‘۔

سارہ، غزہ کے ظہرت المدائین سیکنڈری اسکول میں زیر تعلیم اور ڈاکٹر بننے کی خواہش مند ہے۔ میٹرک کا امتحان، جس کے لیے اس نے مہینوں محنت کی تھی، اس کو میڈیکل فیکلٹی میں پڑھنے کے لیے درخواست دینے کا اہل بنادیتا کہ یہ امتحانی نتائج فلسطینی یونی ورسٹیوں میں داخلے کا بنیادی معیار ہیں، لیکن اب سارہ اپنا وقت مایوسی میں گزارتی ہے۔ – اس کا گھر اور ایک بہتر مستقبل کا خواب، اسرائیل کی بمباری سے خاک میں مل چکے ہیں۔وہ غزہ کے۴۰ ہزار فلسطینی طالب علموں میں سے ایک ہے، جنھیں اس سال میٹرک کا امتحان دینا تھا لیکن وہ نہیں دے سکے۔

تاہم، سارہ ان ’خوش قسمت‘ لوگوں میں سے ایک ہے کہ جو زندہ سلامت ہیں۔ فلسطینی وزارت تعلیم کے مطابق، جن طالب علموں کو ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کرنا تھی، ان میں سے کم از کم ۴۵۰ ہلاک ہو چکے ہیں۔ غزہ پر اسرائیل کی نسل کشی کی جارحیت میں ۲۶۰ سے زائد اساتذہ سمیت مختلف درجات کے ۵ہزار سے زائد دیگر افراد بھی ہلاک ہو چکے ہیں۔ ہائی اسکول سے وابستہ افراد اُن اسکولوں میں مارے گئے، جو غزہ کی جنگ شروع ہونے کے بعد بے گھر فلسطینیوں کے لیے پناہ گاہوں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ یہ ایک بڑا ہولناک المیہ ہے کہ غزہ میں علم کی روشنی کی جگہیں موت کی وادیوں میں بدل چکی ہیں۔

جولائی سے لے کر اب وسط اگست تک اسرائیل اسکولوں پر ۲۳ بار بمباری کرچکا ہے، جس سے بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ تازہ ترین حملے میں غزہ کا المدائین اسکول ۱۰۲ سے زائد افراد کا قبرستان بن گیا ہے، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ اس سانحے کی خوفناک رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ والدین کی اپنے مقتول بچوں کی تلاش بیکارہے، کیونکہ بموں سے بچوں کے جسموں کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا جاتا ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق ۷؍ اکتوبر۲۰۲۳ء سے غزہ کے ۵۶۰؍ اسکولوں میں سے ۹۳ فی صد یا تو تباہ ہوچکے ہیں یا انھیں بُری طرح نقصان پہنچا ہے۔ تقریباً ۳۴۰ پر اسرائیلی فوج نے براہِ راست بمباری کی ہے۔ ان میں سرکاری اور پرائیویٹ اسکولوں کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کے زیر انتظام چلنے والے اسکول بھی شامل ہیں۔ اب یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ اسرائیل خاص طور پر منظم طریقے سے غزہ کے اسکولوں کو نشانہ بنا رہا ہے اور اس کی ایک وجہ بھی ہے۔ فلسطینیوں کے لیے یہ تعلیمی مراکز تاریخی طور پر سیکھنے، انقلابی سرگرمیوں، ثقافتی تحفظ اور اسرائیلی نوآبادیات کی وجہ سے ایک دوسرے سے منقطع فلسطینی زمینوں کے درمیان تعلقات کے تحفظ کے اہم مرکز کے طور پر کام کرتے رہے ہیں۔ فلسطینی عوام کو بااختیار بنانے اور ان کی آزادی کی تحریک میں اسکولوں نے ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے۔

دوسرے لفظوں میں، دینی اور جدید تعلیم پر مشتمل تعلیمی ادارے،’۱۹۴۸ء کے نکبہ‘ کے بعد سے فلسطینی عوام کو مٹانے کی اسرائیلی کوششوں کے خلاف فلسطینی مزاحمت کی ایک شکل ہیں۔ جب یہودی ملیشیا فورسز نے فلسطینیوں کی نسل کشی کرتے ہوئے تقریباً ۷لاکھ ۵۰ ہزار فلسطینیوں کو ان کے وطن سے بے دخل کیا، تو پناہ گزین کیمپوں میں منتقل ہونے کے بعد ان فلسطینیوں نے پہلا کام یہ کیا کہ اپنے بچوں کے لیے خیموں میں اسکول کھولے۔ تعلیم کو قومی قدر کے طور پر فروغ دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں فلسطینی تعلیم کا شعبہ ترقی کے اس مقام تک پہنچا کہ جہاں اس نے دنیا میں خواندگی کی سب سے بلند شرح پیش کی۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ غربت و کسمپرسی، محصور اور مسلسل بمباری کا شکار غزہ روایتی طور پر امتحانات میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کرنے والوں کا مرکز رہا ہے۔ غزہ کے طالب علموں کی ایسی کہانیاں بکثرت مشہور ہیں، جو بلیک آؤٹ کے دوران تیل کے لیمپوں یا موبائل فونوں کی روشنی میں باقاعدگی سے مطالعہ کرتے ہیں اور اسرائیل کی گھروں پر بمباری کے باوجود رُکنے سے انکار کردیتے ہیں، اور پھر سب سے زیادہ نمبر بھی حاصل کرتے ہیں۔ اہل فلسطین کی جدوجہد میں ساری مشکلات کے باوجود تعلیم کے حصول میں سبقت حاصل کرنا مزاحمت کی ایک شکل رہی ہے۔

اسرائیل اب جو کچھ کر رہا ہے، وہ فلسطینی مزاحمت کی اس شکل کو ’تعلیمی قتل عام‘ (Scholasticide) کے ذریعے تباہ و برباد کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ یہ تعلیمی اور ثقافتی اداروں کو ختم کر رہا ہے تاکہ ان ذرائع کو ختم کیا جا سکے، جن کے ذریعے فلسطینی اپنی ثقافت، علم، تاریخ، شناخت اور اقدار کو آئندہ نسلوں تک محفوظ اور منتقل کر سکتے ہیں۔

یہ ’تعلیمی قتل عام‘ (Scholasticide) نسل کشی کے سلسلے کا ایک تشویش ناک پہلو ہے۔ اس اسکول کشی کی مہم نے طلبہ کے مستقبل اور تعلیمی شعبے پر تباہ کن اثرات مرتب کیے ہیں۔ تعلیم بہت سے لوگوں کو یہ اُمید دلاتی ہے کہ ان کے لیے زندگی بہتر ہو سکتی ہے، اور وہ محنت کے ذریعے اپنے خاندانوں کو غربت سے نکال سکتے ہیں مگر اسرائیل اُمید کا یہ چراغ بھی بجھا رہا ہے، اور مغرب تماشائی ہے۔

غزہ کے بچوں اور نوجوانوں میں پھیلنے والی نااُمیدی کے بارے میں مَیں نے اس وقت سوچا جب ۱۸ سالہ احسان کو دیر البلاح کی دھول بھری سڑک پر چلچلاتی دھوپ میں ہاتھ سے بنی مٹھائیاں فروخت کرتے ہوئے دیکھا ۔ میں نے اس سے پوچھا کہ وہ شدید گرمی اور چلچلاتی دھوپ میں کیا کر رہا ہے؟ اس نے مجھے بتایا کہ ’’میں اپنے خاندان کو زندہ رہنے میں مدد دینے کے لیے تھوڑی سی رقم کمانے کے لیے ہاتھ سے بنی ہوئی مٹھائیاں بیچ کر اپنا دن گزارتا ہوں‘‘۔ پھر اس نے مایوسی سے کہا:’’میں نے اپنے خواب کھو دیے ہیں۔ میں نے انجینئر بننے، اپنا کاروبار شروع کرنے، کسی کمپنی میں کام کرنے کا خواب دیکھا تھا، لیکن اب تو میرے سارے خواب خاک میں مل چکے ہیں‘‘۔

سارہ کی طرح احسان بھی میٹرک کا امتحان دینا چاہتا ہوگا اور یونی ورسٹی میں پڑھنے کا شوق رکھتا ہوگا۔ میں نے غزہ میں سارہ اور احسان جیسے بہت سے روشن چہروں کے حامل نوخیز لڑکے لڑکیاں دیکھی ہیں، جن کی خواہش تھی کہ اپنی ہائی اسکول کی کامیابیوں پر خوشیاں مناتے، لیکن اب وہ اپنے اُجڑے خوابوں کا ماتم کررہے ہیں، جو ان پر ظلم و ستم، تشدد اور بمباری کے نتیجے میں چھین لیے گئے ہیں۔ جو لوگ غزہ کے مستقبل کے ڈاکٹر اور انجینئر بن سکتے تھے، اب وہ موت اور مایوسی میں گھرے ہوئے بمشکل زندہ رہنے کے لیے خوراک اور پانی کی تلاش میں جدوجہد کرتے زندگی گزار رہے ہیں۔

اس تمام تر ظلم و جور اور سفاکیت کے باوجود مزاحمت ختم نہیں ہوئی ہے۔ تباہ شدہ غزہ کے فلسطینیوں میں تعلیم کی تڑپ ختم نہیں ہوئی۔ مجھے یاد آیا جب میں چھ سالہ ماسا اور اس کے اہل خانہ سے دیر البلاح میں ان کے خیمے میں ملنے گئی تھی، اور اس کی ماں سے بات کر رہی تھی، جو مجھے آنسوئوں سے بھیگی آنکھیں پونچھتے ہوئے بتا رہی تھی: ’’ہر بار جب میری بیٹی روتی ہے تو میرے دل میں درد اُٹھتا ہے کیونکہ وہ اسکول نہیں جا سکتی‘‘۔ ماسا نے التجا کی: ’’ماں، میں اسکول جانا چاہتی ہوں۔ چلو بازار چلتے ہیں اور میرے لیے ایک بیگ اور اسکول یونیفارم خرید دیں‘‘۔ ماسا نے ستمبر میں پہلی جماعت شروع کی ہوگی۔ اس مہینے میں اسکول کی اسٹیشنری، یونیفارم اور اسکول بیگ کی خریداری کا وقت ہوتا، جس سے اس کو بے پناہ خوشی ہوتی۔

آج فلسطینی بچوں کی اسکول جانے کی خواہش بہت سے والدین کے دلوں کو افسردہ کر رہی ہے، تعلیم کی یہ پیاس کل غزہ کے تعلیمی شعبے کی تعمیرِ نو کا آغاز کرے گی، جب یہ نسل کشی کا سیلاب ختم ہوجائے گا۔

حالیہ دنوں میں جاری ہونے والے ایک کھلے خط میں، غزہ کے سیکڑوں اسکالرز اور یونی ورسٹی اساتذہ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ’’غزہ کے تعلیمی اداروں کی تعمیرِ نو صرف تعلیم کا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے اُبھرنے کی صلاحیت اور آنے والی نسلوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے غیرمتزلزل عزم کا ثبوت ہے‘‘۔ درحقیقت، بہت سے فلسطینی اپنی معاشرتی زندگی اور آزادی کے لیے تعلیمی اداروں کی ضروری تعمیرِ نو کی خواہش رکھتے ہیں، جو ان کی ثابت قدمی اور پختہ عزم کا مجسم اظہار ہے۔ اس خط کے اختتامی جملے میں کہا گیا ہے: ’’غزہ کے بہت سے اسکول، خاص طور پر اس کے پناہ گزین کیمپوں میں، خیموں میں بنائے گئے تھے، اور فلسطینی اپنے دوستوں کے تعاون سے بہت جلد انھیں دوبارہ خیموں میں قائم کرلیں گے‘‘۔(الجزیرہ، ۱۱؍اگست ۲۰۲۴ء)

جموں و کشمیر کا تنازعہ، جموں و کشمیر کے لوگوں کی اُمنگوں پر مبنی سیاسی حل کا مطالبہ کرتا ہے۔ اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی دو قراردادوں۱۳؍ اگست ۱۹۴۸ء اور ۵ جنوری ۱۹۴۹ء میں واضح طور پر جموں و کشمیر کے لوگوں کو حقِ خودارادیت اور ریاست میں رائے شماری کے انعقاد کا حق دیا گیا ہے۔ حقِ خود ارادیت اقوام متحدہ کے چارٹر میں انسان کے بنیادی حق کی حیثیت رکھتا ہے، جس کا تقاضا ہے کہ ہر قوم اور برادری کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ بغیر کسی تفریق، پابندی اور رکاوٹ کے اپنے عوام کی خواہشات کے مطابق کرے۔ اگر یہ حق پوری عالمی برادری پر لاگو ہوتا ہے تو کشمیریوں کو، انڈیا اور پاکستان کی جانب سے تسلیم کیے جانے کے بعد اس سے مستثنیٰ نہیں کیا جاسکتا اور نہ انھیں غیر معینہ مدت تک غیر ملکی قبضے کے ذریعے محکوم بناکر رکھا جاسکتا ہے۔ بھارت نے سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کو تسلیم تو کیا ہے، لیکن سات عشروں سے اس پر عمل درآمد سے انکار ی ہے۔

تنازعہ کشمیر کے سیاسی حل سے مسلسل بھارتی انکار نے جموں و کشمیر کے لوگوں میں مایوسی اور بے چینی پیدا کی۔ کشمیریوں کی مایوسی برسوں کے بھارتی قبضے، اپنی ہی ریاست میں کشمیریوں کے ساتھ امتیازی اور ناروا سلوک اور ریاست کی داخلی خودمختاری سے انکار کا نتیجہ تھا۔ نتیجتاً، مقبوضہ جموں و کشمیر کے لوگوں نے ۱۹۹۰ء میں غیر قانونی انڈین حکمرانی اور اس کی مسلسل استحصالی پالیسیوں کے خلاف بغاوت کر دی۔ اس تحریک کا مقبول نعرہ ’آزادی اور حقِ خودارادیت‘ کشمیری عوام کا واحد مطالبہ تھا۔

بھارت نے وحشیانہ ردعمل کے ذریعے پورے مقبوضہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر فوج اور نیم فوجی دستوں کی تعیناتی کردی اور مختلف غیر انسانی حکمت عملیوں کے ذریعے کشمیریوں پر ظلم و ستم شروع کر دیا۔ ۱۹۹۰ء کے آغاز سے ہی پُرامن کشمیریوں کے مظاہروں پر بڑے پیمانے پر گرفتاریاں، حراستی مراکز میں تشدد، زیرحراست قتل اور اندھا دھند فائرنگ روز کا معمول بن گیا۔ ۱۹۹۰ء کی اس تحریک میں مختلف غیرجانب دار ذرائع کے مطابق، بھارتی سفاک سیکورٹی فورسز نے ایک لاکھ سے زیادہ کشمیریوں کو شہید کیا ہے۔ کشمیری قیادت کو اکثر یا تو براہ راست حملے کے ذریعے نشانہ بنایا گیا ہے، یا پھر بھارتی سکیورٹی فورسز کے زیر حراست اور گھر میں نظربند رہتے ہوئے مارا گیا ہے۔ عظیم کشمیری رہنما سیّد علی شاہ گیلانی، کشمیریوں کی مزاحمتی تحریک کے بانی، یکم ستمبر ۲۰۲۱ءمیں پانچ سال سے زائد عرصے تک گھر میں نظر بند رہنے کے دوران انتقال کر گئے۔

مصدقہ اعداد و شمار کے مطابق۱۲ہزار سے زیادہ کشمیری خواتین کو ہراساں کیا گیا، عصمت دری کا نشانہ بنایا گیا، جن میں اجتماعی عصمت دری اور عصمت دری کے بعد قتل کرنا بھی  شامل ہے۔ ہندوستانی ریاست نے مختلف قوانین جیسے آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ (AFSPA)، پبلک سیفٹی ایکٹ (PSA) کے ذریعے ان غیر انسانی کارروائیوں کو قانونی تحفظ بھی فراہم کیا ہے۔ ان امتیازی قوانین نے بھارتی فوج اور اس کے نیم فوجی دستوں کو کشمیریوں کی گرفتاری، غیر قانونی حراست، تشدد اور قتل کے لیے خصوصی دفعات فراہم کیں۔ اس طرح کے قوانین اور وحشیانہ طاقت کے استعمال کے ذریعے کشمیریوں کے ساتھ ناروا سلوک بین الاقوامی قوانین، انسانی قوانین، معاہدوں اور درجنوں بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی ہے، جسے عالمی سطح پر چیلنج کیا جاسکتا ہے۔

دوسری طرف بھارت نے اپنی ۹لاکھ سے زیادہ سکیورٹی فورسز کی تعیناتی کے ذریعے  مقبوضہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو جاری رکھا۔ اس نے ۵؍ اگست ۲۰۱۹ءکو اس کے آئین کے آرٹیکل ۳۷۰ اور ۳۵-اے کو منسوخ کرکے غیر قانونی اور یکطرفہ طور پر ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کردیا۔ اس کے علاوہ، اس نے ہندوستانی یونین کے تحت دو مرکز کے زیر انتظام علاقے (جموں و کشمیر اور لداخ) بنا کر ریاست کی ریاستی حیثیت کو بھی ختم کردیا۔ ریاست پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے، نئی دہلی نے اپریل ۲۰۲۰ء میں جموں و کشمیر کے لیے نئے ڈومیسائل قوانین متعارف کروائے۔

ان قوانین کے تحت انڈین حکومت نے بھارت کے مختلف حصوں سے غیر کشمیری ہندوؤں کو لاکھوں ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری کیے ہیں جو چوتھے جنیوا کنونشن کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ اس کنونشن کا آرٹیکل ۴۹ (۶)قابض طاقتوں کو اپنی آبادی کو مقبوضہ علاقے میں منتقل کرنے سے منع کرتا ہے۔ درحقیقت یہ انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے۔

۱۸ جنوری ۲۰۲۲ء کو، برطانیہ کی ایک قانونی فرم نے لندن کی میٹروپولیٹن پولیس کو اس وقت کے بھارتی آرمی چیف جنرل منوج اور بھارتی وزیر داخلہ امیت شا کی مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کے بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر گرفتار کرنے کے لیے اپیل دائر کی۔ ہندوستانی حکومت کے دو اعلیٰ عہدیداروں کی گرفتاری کے لیے یہ قانونی اپیل ’عالمی دائرہ اختیار‘ کے تحت درج کی گئی تھی۔

۹ لاکھ سے زیادہ ہندوستانی افواج کی تعیناتی کے ساتھ، مقبوضہ کشمیر ایک جنگی علاقہ بن گیا ہے۔ لہٰذا، تنازعہ کے سیاسی حل کے علاوہ، بین الاقوامی انسانی قانون (IHL)تنازعہ کو انسانی بنیادوں پر حل کرنے کے لیے ٹھوس بنیادیں فراہم کرتا ہے۔ IHL درحقیقت قوانین کا ایک مجموعہ ہے جو مقبوضہ کشمیر جیسے جنگی علاقے میں مسلح تصادم کے اثرات کو محدود کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کے علاوہ، ’بین الاقوامی انسانی قانون‘ مقامی آبادی کو تمام جہتوں سے بچانے کے لیے ریاستوں کی ذمہ داریوں کا تعین کرتا ہے: ان کے بنیادی شہری حقوق، ان کی آزادی اور تحفظ اور سب سے بڑھ کر ان کا حقِ خود ارادیت۔ مسئلہ کشمیر کو قانون کی بنیاد پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں کو بھارت کو مقبوضہ کشمیرمیں انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیوں کو روکنے پر مجبور کرنے کے لیے اہل دانش اور سفارت کاروں کو اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے۔ آبادی کے تناسب میں جبری تبدیلیوں کو روکنا اور انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیوں کو بھی نمایاں کرنا چاہیے، جن کے نتیجے میں انسانی المیہ ایک دہکتے الائو کی طرف بڑھتا نظر آرہا ہے۔

تحریک صہیونیت اصل میں اشکنازی یہودیوں نے شروع کی تھی، جو سرخ و سفید رنگت رکھتے ہیں اور مذہب سے جن کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس کابانی تھیو ڈور ہرزل تھاجس کے انتقال کےبعد چیم ویزمین تحریک صہیونیت کا چیرمین بنا اور قیامِ اسرائیل کے بعد وہی ملک کاپہلا صدربھی بنا تھا۔ یہ لوگ یروشلم کے صہیون پہاڑ پر تخت ِداؤد لانا چاہتے ہیں ۔ یاد رہےکہ لادینی اور مذہبی دونوں ہی قسم کے یہودی مل کر ایک ہی مقصد پر کام کر رہے ہیں کہ تخت داؤد کو لایا جائے اور صہیون پہاڑ پر رکھا جائے۔ یہ دونوں گروہ گریٹر اسرائیل کی بھی بات کرتے ہیں اور اس نکتے پر متفق ہیں کہ گریٹر اسرائیل بنانا ان کا خدائی حق ہے ۔ ان کی پارلیمنٹ اور کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ ’’اسرائیل تیری سرحدیں فرات سے لے کر نیل تک ہیں‘‘۔ بلکہ وہ تو خیبر مدینے تک پر اپنا حق جتاتے ہیں،جہاں کبھی یہودی رہے بسے تھے ۔ اسرائیل نے ۱۹۸۸ء میں ایک سکہ جاری کیاتھا، جس میں دریائے نیل سے دریائے فرات تک کا علاقہ دکھایا گیا تھا ۔لیکن وہاںکے اسٹیٹ بینک نے اس کی یہ کہہ کر تردید کی تھی کہ نقشےکی غلط تشریح کی جارہی ہے۔اسرائیلی پرچم پر بھی اوپر نیچے نیلی دو سیدھی لکیریں اسی نظرئیے کی تائید کرتی ہیں۔

ان کے پروٹوکولز میں لکھا ہوا ہےکہ’’ہماری حکومت قائم ہونےکے وقت ہمارے مذہب کے علاوہ کسی اور مذہب کا باقی رہنا مناسب نہیں۔ ضروری ہے کہ ہم ہر قسم کے اعتقادات (ایمانیات) کا خاتمہ کردیں‘‘۔ (دستاویز نمبر ۱۴-۱۷)۔ان کا مذہبی عقیدہ ہے کہ ہم اعلیٰ ترین نسل اور خدا کے چنے ہوئے بندے ہیں۔ ہم تبلیغ بھی اسی لیے نہیں کرتے کہ ہماری نسل سب سے اعلیٰ ہے ۔ اس لیے دوسری قوموں کو ہم اپنے اندر کیسے ملا لیں؟ یہی وجہ ہے کہ ان کی تعداد آج کل بھی دو یا سوا دو کروڑ سے کبھی زیادہ نہیں ہو سکی ہے ۔ پروٹوکولز کے مطابق: ’’ہم یہ چاہتے ہیں کہ دُنیا کی تمام مملکتوں میںہمارے علاوہ صرف مزدوراور محنت کش طبقہ ہو‘‘۔ جب ہماری حکومت قائم ہوگی تو ہم سب سے پہلے یونی ورسٹیوں کی تعلیم کی از سرنو تنظیم کریںگے‘‘ (دستاویز نمبر بالترتیب ۷،۹،۱۶)

صہیونی یہودی دعویٰ کرتےہیں کہ ساری دنیا ہمارے کنٹرول میں ہوگی اور اسے ہم اپنے ماتحت رکھیں گے۔ ہمارا ایک میگا کمپیوٹر ہوگا، جس میں ایک ایک شہری کا ڈیٹا رکھیں گے ۔اور جو ہماری خلاف ورزی کرے گا اسے سزائیں سنائیں گے ۔  انھوں نے تو یہاں تک کہا ہے کہ دنیا کی ہر لڑکی ہماری لڑکی ہوگی۔

پروٹوکولز زوردیتے ہیںکہ ’’ہم قتل عام کرائیںگے اور اپنے کسی مخالف کومعاف نہیں کریں گے‘‘(نمبر ۹)۔دنیا میں بے حیائی پھیلانے کے ان کے جو طریقے ہیں، ان کی تفصیل بہت لمبی ہے۔ امریکا میں انھوں نے ہالی وُڈ اسی مقصد کے تحت قائم کیا تھا۔ ہالی وڈ جب پہلی دفعہ آیا تھا تو انھوں نے کچھ بے شرمی کی باتیں شروع کی تھیں، جس پر سنجیدہ عیسائی چیخ اُٹھے تھے کہ ایسی فلمیں بند کرو جن کے نتیجے میںہماری اخلاقی قدریں کمزور ہورہی ہیں۔ نتیجے میں صہیونی کچھ پیچھے ہٹے تھے۔ مگر پھر آہستہ آہستہ لوگوں کی حِس کو سُن کرکے مطلوبہ درجے پر پہنچ گئے۔

چنانچہ اگر ہم اسرائیلیوں کی باتیں تسلیم کر لیں گے تو ہمارے پاس بچے گا کیا؟پھر مسلمانوں ہی میں سے نعوذ باللہ حج اور عمرے کو برا بھلا کہا جائے گا۔لوگ کہیں گے کہ ’’یہ سب عیاشی ہے‘‘۔ اور دبے لفظوں میں یہ کہا جانے بھی لگا ہے۔ پھر کہا جائے گا: ’’ قربانی کی ضرورت ہی کیا ہے ؟‘‘ ۔ پھر ہماری زبان بدل جائے گی ، پھرہماری نظریں بدل جائیں گی۔ یوں رفتہ رفتہ وہ ثقافتی، تعلیمی اور مذہبی و اخلاقی حوالے سے بھی آگے بڑھتے جائیں گے، بلکہ بڑھ رہے ہیں۔

قیامِ اسرائیل سے اب ۷۵ برسوں تک دہشت گردی اور نسل انسانی کے مٹانے کے رویے میں وہاں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ جو بھی وزیراعظم آتا ہے، (اِس طبقے کا یا اُس طبقے کا)، اس نے اسرائیل کی توسیع ہی کی ہے۔ شروع میں جب اسرائیل کوبرطانیہ کی جانب سے بسانے کی اجازت دی گئی تھی تو نتیجے میں انھیںسات ،آٹھ ،یادس فی صد زمین دی گئی تھی۔ مگر سوچنے کی بات ہے کہ کیوں یہ ریاست آج ا س حد سے بھی آگے بڑھ گئی ہے؟مقامی فلسطینی آبادی گھٹ گئی اور یہودی آبادی بڑھ گئی ہے ۔ تو یہ سب کچھ کیسے ممکن ہوا ؟ جیسا کہ پہلے بتایاگیا کہ اسرائیل کی کوئی حدود ہی متعین نہیں ہیں۔ دنیا کا یہ واحد ملک ہے جس کی کوئی حدود نہیں ہیں ۔یہودی کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ ’’اے اسرائیل تیری سرحدیں دریائے نیل سے دریائے فرات تک ہیں‘‘۔

امریکی کار کمپنی فورڈکے بانی ہنری فورڈنے یہودیوں کے خلاف اپنی معروف کتاب The International Jews ترجمہ عالمی یہودی فتنہ گر   از میاں عبدالرشید میں صہیونیوںکی کئی خفیہ سازشوںکو بے نقاب کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں فورڈ لکھتاہے کہ ’’کالجوں میں بھی یہودیوں نے وہی طریقہ اختیارکیا ہے، جس سے وہ ہمارے گرجوں کو تباہ کرچکے ہیں۔ نوجوانوںکو یہ تاثر دیا جاتاہے کہ وہ ایک نئی عظیم تحریک میںحصہ لے رہے ہیںجو انسانوں کی فلاح کے لیے ہے ‘‘۔ وہ سوال کرتاہے کہ پھرا س کا علاج کیا ہو؟ کہتاہے کہ ’’علاج بالکل آسان ہے۔ طلبہ کو بتایا جائے کہ ان تمام افکار کی پشت پر یہودی ہیں، جوہمیں اپنے ماضی سے منقطع کرکے آئندہ کے لیے مفلوج کرنا چاہتے ہیں۔انھیں بتایا جائے کہ وہ (عیسائی طلبہ) ا ن لوگوںکی اولاد ہیں جو یورپ سے تہذیب لے کر آئے ۔تہذیب ان کی گھٹی میںپڑی ہوئی تھی۔ اور اب یہ یہودی ہمارے اند ر گھس آئے ہیں۔ ان کی نہ کوئی تہذیب ہے نہ مذہب ‘‘۔وہ مزید آگاہ کرتا ہے کہ’’ یہودیوں کی مطبوعات، کتابوں، پمفلٹوں، اعلانوں، اوران کے اداروں کے دستوروں سے ثابت ہےکہ ان کے اندر غیریہودیوں کے لیے سخت نفرت پائی جاتی ہے‘‘ (ص ۱۴، ۵۱)۔آگے زور دیتے ہوئے وہ کہتاہے: ’’اب ہرحکومت کو یہودی مسئلے کانوٹس لینا پڑے گا کیونکہ اس وقت یہ مسئلہ دنیاکے تمام مسائل سے عظیم تر ہوچکاہے۔اور ساری دنیا کےچھوٹے بڑے قومی یا بین الاقوامی مسائل،اسی کی کوکھ سے جنم لے رہے ہیں ‘‘(ص ۵۷)۔ ہنری فورڈکا زمانہ ۳۴،۱۹۳۳ء کا تھا، جب جرمنی میں ہٹلر برسرِاقتدار تھا۔ ہٹلر نے اس کتاب پر فورڈ کو مبارک باد بھی دی تھی ۔کیونکہ اس نے ہٹلر کےکام کو علمی لحاظ سےمزید آسان کیا تھا۔

ایک اور اہم شخصیت نے بھی یہودیوں کی خباثت اور گہری سازشوں سے پردہ اٹھایا ہے۔ امریکی سی آئی اے کا ایک سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر جان کولمین تھا، جواپنی تحقیقی کتاب The Conspirators Hierarchy, the Committee of 300 میں ،جو اس کے بقول صہیونیوں کی ’نادیدہ عالمی تنظیم‘ ہے، انکشاف کرتاہے کہ یہ لوگ دنیا بھر میں ایسی جنسیاتی و ہذیانی کیفیت پیداکرنا چاہتے ہیں، جس میں کسی قسم کاکوئی خوف ، جھجک ،اور شرم نہ ہو ۔ڈاکٹرکولمین نےاس مقصد کے لیے ایک نئی اصطلاح استعمال کی ہے: Mindless Sex۔ یعنی ایسی شہوت اور بدکاری جس میںکوئی بھی ،کسی سے بھی ، کہیں بھی، اور کسی طرح بھی، باہمی مصروف ہوجائے۔ (ص ۵۴)

  یہ سوچنا چاہیے کہ ان کی ایک خفیہ تنظیم فری میسینری ہے۔ عظیم ملک ترکی کو انھوں نے اسی فری میسنری تنظیم کے سائے میں کاٹ کے ٹکڑے ٹکڑے کیا تھا۔ اور اب وہ پاکستان کے وجود کےدرپے ہیں۔ان کی نظریں ایٹم بم اور پاکستان کی سلامتی پر ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان میں ۷۰ء کےعشرے میں ایک کامیاب مہم کے نتیجے میں صہیونیوں کی ’فری میسنری تنظیم‘ پر پہلے ہی پابندی لگائی جاچکی ہے۔مگر ہم دیکھتے ہیں کہ زمین پر وہ پابندی غیرمؤثر ہوچکی ہے۔ اس ’سافٹ دہشت گرد تحریک‘ کے بارے میں پاکستانی قومی سلامتی کے اداروں کو حساس اور خبردار  ہونا چاہیے۔

غرض یہ تو اپنے مقاصد کو لے کے چل ہی رہے ہیں ۔ان کے پروٹوکولز کے کل۲۴ باب ہیں جنھیں ہمیں ضرور ہی پڑھنا چاہیے۔ مطالعہ کرنا چاہیے کہ دنیا پران یہودیوں نے کس طرح قبضہ کیا تھا؟ انقلاب انگلینڈ اور انقلاب اسپین انھی کی سازشوں کی وجہ سے آیا تھا ۔ انقلاب اسپین میں ملکہ اور بادشاہ کے سروں کو اُڑایا گیا تھا ، وہ عمل بھی انھی صہیونیوںنے انجام دیا تھا۔ یہ کہیں بھی ہوں، فساد کرتے ہیں۔اور یہ وہ قوم ہے جس کے دل میں رائی کے برابر بھی رحم نہیںہے ۔

یہودی ، اقوام متحدہ سمیت دنیا کے ہر بڑے عہدے پر موجود ہیں اور وہی مسلم ممالک کی معاشی و سیاسی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ آئی ایم ایف کے شکنجے میں کسے جانے والے تمام بجٹوں کے مشیر اصل میں یہی بڑے یہودی عہدیدار ہوتے ہیں۔