جب ۱۵؍ اگست ۲۰۲۱ء کو تحریکِ طالبان افغانستان نے افغانستان کے دارالحکومت کابل کا انتظام سنبھالا تو یہ ایک محیرالعقول واقعہ تھا۔ اس سے پہلے کم و بیش پورے افغانستان پر ان کا قبضہ ہوچکا تھا ۔تمام بڑے شہر ،ایئرپورٹوں اور اہم عسکری تنصیبات پر وہ ’امارت اسلامی‘ کے جھنڈے گاڑ چکے تھے۔ نیٹو افواج اپنے پورے لاؤ لشکر کے ساتھ افغانستان سے رخصت ہوچکی تھیں۔ ساڑھے تین لاکھ افغانوں پر مشتمل فوج، جس کو امریکا نے اربوں ڈالر خرچ کر کے تیار اور بہترین اسلحے سے لیس کیا تھا، طالبان کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔امریکی کٹھ پتلی صدر اشرف غنی سمیت اُن کی پوری کابینہ ملک سے فرار ہو گئی اور بغیر جنگ لڑے طالبان کابل میں داخل ہو گئے۔ گذشتہ تین سال میں ایک طویل عرصے کےبعد افغانستان میں امن و امان بحال رہا۔ ’داعش‘ تنظیم نے متعدد مقامات پر کئی خودکش حملے کیے، جس سے سیکڑوں جانیں ضائع ہوئیں۔ لیکن اب وہ سلسلہ بھی تھم چکا ہے۔ داعش کی بیش تر قیادت ملک سے باہر نکل گئی ہے اور دیگر ممالک میں سرگرمِ عمل ہے ۔
۱-ملک میں مکمل امن و امان کی بحالی، جنگ کا خاتمہ، عوام کا تحفظ ،شاہراؤں کی حفاظت۔
۲- حکومتی رٹ کا قیام، کابل کی مرکزی حکومت کا پورے افغانستان پر مکمل کنٹرول ہے۔ ملک کے ۳۴ صوبوں اور ۴۰۰ اضلاع میں ایک ہی حکومت ہے۔ تمام صوبوں کے والی، اور بڑے چھوٹے اضلاع کے حکام اس کے سامنے جواب دہ ہیں، اور اس کا حکم پورے ملک میں نافذ ہوتا ہے۔
۳- قانون کی بالادستی اور لاقانو نیت کے خاتمے کے بعد پورے ملک میں شرعی قوانین نافذ ہیں۔ عدالتیں قائم ہیں اور وہ روزمرہ کے مسائل اور تنازعات کا بروقت فیصلہ کرتی ہیں۔ عالمی ادارے نے کابل کو اس خطے کا سب سے محفوظ شہر قرار دیا ہے جہاں جرائم کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔
۴- بدعنوانی اورکرپشن کا ہر سطح پر سد باب کردیا گیا ہے۔ رشوت ستانی ،بھتہ خوری، کمیشن وغیرہ جیسے مسائل جو گذشتہ حکومتوں میں عام تھے، ناپید ہیں۔ تمام حکومتی محصولات کی وصولی کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔ بجلی کے بل اور دیگر خدمات پر ادائیگی پوری طرح لی جاتی ہے، جس سے حکومت کو مستحکم بنانے میں بہت مدد ملی ہے ۔
۵- ملک میں اقتصادی ترقی، تجارت کے فروغ اور معاشی سرگرمیاں بڑے پیمانے پر جاری ہیں۔ افغان کرنسی کو عالمی بینک نےاس خطے کی مضبوط ترین کرنسی قرار دیا ہے۔ افغان تاجر بغیر کسی روک ٹوک کے مقامی اور بین الاقوامی سطح پر آزادانہ طور پر کاروبار کر رہے ہیں۔ بین الاقوامی کمپنیاں اور کاروباری افراد بھی افغانستان میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔
۶- ملک میں بلاامتیاز یکساں طور پر ترقیاتی کام زور و شور سے جاری ہیں ۔ پہلے سال چھوٹے پیمانے پر کاموں کا آغاز ہوا،لیکن اب پورے ملک میں بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں پر کام ہو رہا ہے۔ شاہراؤں کی تعمیر ہو رہی ہے، ڈیم بن رہے ہیں اور سالانگ ٹنل کی تعمیرِ نو ہو چکی ہے۔ ۲۸۰کلومیٹر طویل قوش ٹپہ نہر بن رہی ہے، جو کہ شمالی صوبوں کی لاکھوں ایکڑ زمین کو سیراب کرے گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تمام ترقیاتی کام خود انحصاری کی بنا پر کیے جا رہے ہیں۔ کوئی غیر ملکی قرضہ نہیں لیا گیا۔ بیرونی ممالک مثلاً چین اگر کسی منصوبے میں شریک ہے، تو وہ امداد کے طور پر کام کر رہا ہے۔
۷- مرکزی بینک اور دیگر مالیاتی ادارے ملک کی ترقی اور معاشی کنٹرول میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں، خاص طور پر قیمتوں کے کنٹرول اور درآمدات و برآمدات پر نظر رکھتے ہیں اور جو اقدام ضروری ہے وہ کرتے ہیں۔ غیر ملکی کرنسی کی آمد اور خروج پر بھی دسترس ہے ۔ بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود ملک میں بینکاری کا نظام جاری ہے اور سودی نظام کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔
۸- اقوام متحدہ کے اداروں اور دیگر ملکوں کی حکومتوں کے ساتھ تعلقاتِ کار قائم ہیں۔ ورلڈ فوڈ پروگرام ،عالمی ادارہ صحت، ریڈ کراس وغیرہ تمام تر پابندیوں کے باوجود کام کر رہے ہیں اور ان کے کارکنان اور دفاتر کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے، جب کہ ان کو براہِ راست عوامی مفادات کے کاموں اور امدادی اشیاء کی تقسیم کی دسترس فراہم کی گئی ہے۔ زلزلوں، سیلابی صورتِ حال اور وبائی امراض، انسداد پولیو مہمات میں دیگر ریلیف کے کاموں میں عالمی رفاہی اداروں کو کام کرنے کی آزادی دی گئی ہے۔ ان اداروں میں خواتین کارکنان بھی کام کر رہی ہیں ۔علاوہ ازیں شعبۂ صحت میں ایک لاکھ ۵۰ ہزار اور شعبہ تعلیم میں ۹۰ ہزار خواتین پر مشتمل عملہ کام کر رہا ہے۔
۹- پڑوسی ممالک کے ساتھ سماجی ومعاشی تعلقات کو فروغ دیا گیا ہے۔ چین، ایران، پاکستان ،روس، ازبکستان ،ترکمانستان، تاجکستان وغیرہ کے ساتھ تجارتی تعلقات استوار اور سرحدیں کھلی ہیں، اور اس میں بہتری آرہی ہے۔ ان ممالک کو طالبنائزیشن کا جو خوف درپیش تھا وہ اب معروضی اور عملی معاشی تعلقات میں ڈھل چکا ہے۔ کمیونسٹ ملک چین کے ساتھ خاص طور پر معاشی تعلقات میں بہت اضافہ ہوا ہے اور اس وقت ملک کی ۷۰ فی صد بیرونی تجارت اس کے ساتھ ہے۔ کابل میں اکثر ممالک کے سفارت خانے فعال ہوچکے ہیں۔
۱۰- ملک میں مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ طالبان قیادت نے برسرِ اقتدار آنے کے بعد جس عام معافی کا اعلان کیا تھا، اس پر عمل کیا جا رہا ہے۔ انتقامی کارروائیوں کا سلسلہ تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ جو لوگ بیرونی ملک جانا چاہتے ہیں یابیرون ملک سے واپس آنا چاہتے ہیں وہ بلا خوف و خطر آسکتے ہیں۔ اندرون ملک اور بیرونی ملک فضائی پروازیں بحال ہو چکی ہیں۔
۱- جس عبوری کابینہ کا اعلان ۲۰۲۱ء میں کیا گیا تھا،وہی ابھی تک چل رہی ہے اور مستقل حکومت اور نظام ابھی تک معرض وجود میں نہیں آیا۔ ملک میں جمہوری ،شورائی نظام اور پارلیمنٹ کا وجود نہیں ہے۔ باقاعدہ ملکی دستور و آئین بھی منظور نہیں کیا جاسکا ہے۔ ملکی انتخابات یا اس کا متبادل کوئی نظام بھی ابھی تک قائم نہیں کیا جا سکا ہے۔
۲- کسی بھی ملک نے ابھی تک امارت اسلامی افغانستان کو باقاعدہ رسمی طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔ کئی ملکوں نے سفارتی تعلقات بحال کرنے کا اعلان کیا ہے، لیکن پڑوسی ممالک سمیت کسی نے تسلیم نہیں کیا ہے۔ اسی طرح اقوام متحدہ میں بھی افغانستان کی نمائندہ نشست خالی ہے۔
۳- افغانستان پر عائد بین الاقوامی پابندیاں جاری ہیں ۔اقوام متحدہ ،سیکورٹی کونسل، مغربی ممالک و دیگر عالمی اداروں نے معاشی و سفارتی اور ذمہ دارانِ حکومت پر بین الاقوامی سفر کی جو پابندیاں عائد کی تھیں، برقرار ہیں۔ نیز بینکاری، ہوا بازی اور معاہدوں پر پابندیاں جوں کی توں ہیں۔ گذشتہ حج کے موقع پر طالبان کے اہم رہنما سراج الدین حقانی کو فریضۂ حج کے لیے خصوصی استثنا دیا گیا تھا۔
۴- گذشتہ دو برسوں سے افغانستان میں بچیوں کی ثانوی اور اعلیٰ تعلیم پر پابندی ابھی تک برقرار ہے۔ امیر المومنین ملاہبت اللہ کے ایک فرمان کے مطابق کالجوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کے دروازے طالبات پر بند کیے گئے تھے جس سے پوری دنیا میں طالبان قیادت کو ہدفِ تنقید بنایا گیا۔ اس سال امارت اسلامی نے اعلان کیا کہ ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، جو اسلامی اصولوں کے مطابق بچیوں کا تعلیمی نصاب تیار کرے گی، لیکن ابھی تک اس معاملے پر کوئی اقدام سامنے نہیں آیا جس پر اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک امارت اسلامی کے حامیوں میں بھی تشویش پائی جاتی ہے۔
۵- پاکستان کے ساتھ تعلقات میں جو بہتری کی توقع کی جا رہی تھی، ابھی تک وہ پوری نہیں ہوئی۔ طالبان کے پہلے دور (۱۹۹۶ء-۲۰۰۱ء) میں پاکستان نے امارت اسلامی کی حکومت کو نہ صرف تسلیم کیا تھا بلکہ سفارتی محاذ پر اس کی بھرپور حمایت بھی کی تھی۔ اس کے بعد حامد کرزئی اور ڈاکٹراشرف غنی کے دور میں تعلقات کشیدہ رہے۔ طالبان کی کابل آمد پر پاکستان میں بھی بالعموم خوشی کا اظہار کیا گیا، لیکن اس کے بعد باہمی تعلقات میں تناؤ کی کیفیت پیدا ہو گئی جس کی بڑی وجہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے بڑے پیمانے پر دہشت گردی ہے۔ افغانستان سے متصل قبائلی اور جنوبی اضلاع میں ہزاروں کی تعداد میں ان کے وابستگان، فورسز کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہیں اور ان کی قیادت افغانستان میں موجود ہے۔
تیسری دوحہ کانفرنس منعقدہ ۳۰ جون تا یکم جولائی ۲۰۲۴ء میں ان کے یہ دونوں مطالبات منظور کر لیے گئے۔ کانفرنس میں افغانستان اور اقوام متحدہ کے نمائندگان کے علاوہ امریکا، روس، چین، پاکستان، ایران، تاجکستان، ازبکستان ،قازکستان،کرغزستان، ترکی ،جاپان ،انڈیا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، ناروے، سعودی عرب ،انڈونیشیا، متحدہ عرب امارات، اور قطر شامل رہے۔ یورپی یونین اور اسلامک کانفرنس کے نمائندے بھی موجود تھے جس سے آپ اس کانفرنس کی اہمیت کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔ کابل کے ایک مؤثرتھنک ٹینک سی ایس آر ایس کی ایک رپورٹ کے مطابق اس کانفرنس سے امارت اسلامی نے تین اہم فوائد حاصل کیے :
۱ -امارت اسلامی افغانستان کو اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ایک بین الاقوامی فورم میں پوری نمائندگی دی گئی ۔جس سے اب تک اس کو محروم رکھا گیا تھا۔
۲- ایجنڈا میں وہ نکات شامل کیے گئے،جوافغانستان کی ضرورت ہیں اور زمینی حقائق کے مطابق ہیں ۔جن میں افغانستان پر عائد بین الاقوامی پابندیاں ختم کرنا، بینکاری کی سہولیات اور نجی سیکٹر پر پابندیاں ختم کرنا، افغانستان کے منجمد اثا ثے بحال کرنا ،افیون کی کاشت پر پابندی کے نتیجے میں متاثرہ کسانوں کو ریلیف مہیا کرنا جیسے نکات شامل تھے۔ جس پر کانفرنس کی دوسری نشست میں تفصیلی غور وخوض ہوا اور افغان نمائندوں کو سناگیا ۔
۳- بین الاقوامی برادری نے ایک طرح سے تسلیم کر لیا ہےکہ امارت اسلامی افغانستان کے ساتھ براہ راست رابطہ اور مل کر کام کرنا ناگزیر اور مفید ہے اور اس پر پابندیاں عائد کرنا اور دباؤ ڈالنے کا کوئی فائدہ نہیں، اس لیے اس کو اپنے ساتھ ملاکر چلانے کی ضرورت ہے ۔
اگر چہ اس کانفرنس سے فوری طور پر تو افغانستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوا، لیکن امارت اسلامی افغانستان نے عالمی فورم میں اپنی تین سالہ کارکرد گی بیان کی۔ جس میں امن و سلامتی، معاشی ترقی، پڑوسی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات، ملک میں افیون کی کاشت پر مکمل پابندی اور افغانستان سے منشیات کی سمگلنگ جیسی بڑی سماجی لعنت کا خاتمہ شامل ہے۔ یہ کام طالبان کے پہلے دورِ حکومت میں بھی کیا گیا تھا، لیکن ملک پر امریکی قبضے کے دوران یہ پھربڑے پیمانے پر شروع ہوا اور ۲۰۲۰ء کے اختتام پر ایک اندازے کے مطابق صرف افغانستان میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد ۴۰لاکھ سے زائد تھی۔ منشیات کا خاتمہ امارت اسلامی افغانستان کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔
دوحہ کانفرنس کے دوران ایک اہم اجلاس قطر کی میزبانی میں منعقد ہوا ،جس میں پاکستان، افغانستان اور ازبکستان کے نمائندوں نے شرکت کی۔ اس اجلاس میں ان تین ممالک کے درمیان کارگو ریلوے سروس کے قیام کے منصوبے پر بات چیت کی گئی جس کی فنڈنگ قطر کرے گا۔ یہ پاکستان کے لیے ایک بہت اہم منصوبہ ہے، جس کے ذریعے وسطی ایشیائی ممالک اور روس کی مارکیٹوں تک براہ راست رسائی حاصل ہوسکے گی۔ازبکستان اور افغانستان کے درمیان پہلے سے ریلوے لائن موجود ہے، جو مزار شریف تک ہے ،جب کہ پاکستان کی طرف سے ریلوے طورخم تک ہے۔
امریکی نشریاتی ادارے ’وائس آف امریکا‘ (VOA )کے مطابق اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شدت پسند گروپوں کا اتحاد تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) افغانستان میں ’سب سے بڑا دہشت گرد گروپ‘ ہے۔ اسے پاکستان میں سرحد پار سے حملے کرنے کے لیے طالبان حکومت کی حمایت حاصل ہے۔
اقوام متحدہ کی پابندیوں کی نگرانی کرنے والی ٹیم دیر گئی۔ اس کے مطابق ٹی ٹی پی کی زیرقیادت، پاکستانی سکیورٹی فورسز اور شہریوں کے خلاف دہشت گردانہ حملوں میں بڑا اضافہ ہوا، جن میں حالیہ ہفتوں میں سیکڑوں افراد ہلاک ہوئے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے: ’’ٹی ٹی پی، افغانستان میں بڑے پیمانے پر کام جاری رکھے ہوئے ہے، اور وہاں سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے کے لیے، اکثر افغانوں کو (یا افغانستان کی سرزمین کو ) استعمال کرتی ہے‘‘۔ مزید یہ کہ ’’عالمی سطح پر نامزد دہشت گرد گروپ، جسے پاکستانی طالبان بھی کہا جاتا ہے، افغانستان میں تقریباً۶ہزار۵سوجنگجوؤں کے ساتھ کام کر رہا ہے‘‘۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ’ ’پاکستان، ٹی ٹی پی کے پاکستان میں بڑھتے ہوئے حملوں سے نمٹنے کے لیے مشکلات کا شکار ہے اور طالبان کی ٹی ٹی پی کی حمایت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
ان پُرتشدد کارروائیوں کی وجہ سے اسلام آباد اور کابل میں طالبان حکومت کے درمیان تعلقات کشیدہ ہوگئے ہیں،جب کہ افغان طالبان (امارت اسلامی افغانستان ) دہشت گرد گروہ کی موجودگی کے الزامات کو مسترد کرتی ہے یا یہ کہ پڑوسی ممالک کو دھمکی دینے کے لیے افغان سرزمین کے استعمال کرنےکی اجازت دیتی ہے‘‘۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ: ’’طالبان، ٹی ٹی پی کو ایک دہشت گرد گروپ کے طور پر تصور نہیں کرتے اور ان کے درمیان باہمی مضبوط تعلقات ہیں۔ ٹی ٹی پی ۲۰۰۷ء میں پاکستان کے غیر مستحکم (قبائلی علاقوں )سرحدی علاقوں میں اُبھری، جس نے افغان طالبان کو بھرتی اور پناہ فراہم کی کیونکہ اس کے بعد کے برسوں میں انھوں نے افغانستان میں امریکی اور نیٹو فوجیوں کے خلاف گوریلا حملے تیز کر دیے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے: افغانستان میں القاعدہ کے علاقائی کارندے، جن کے طالبان سے طویل مدتی تعلقات ہیں، پاکستان کے اندر بڑے پیمانے پر دہشت گردانہ کارروائیوں میں ٹی ٹی پی کی مدد کر رہے ہیں‘‘۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں رکن ممالک کے حوالے سے بتایا گیا ہے: ’’ٹی ٹی پی کے کارندوں کو مقامی جنگجوؤں کے ساتھ مل کر القاعدہ کے اُن کیمپوں میں تربیت دی جا رہی ہے جو اس تنظیم نے متعدد سرحدی صوبوں جیسے ننگرہار، قندھار، کنڑ اور نورستان میں قائم کیے ہیں۔ اس طرح القاعدہ ٹی ٹی پی کی حمایت کر رہی ہے۔ اس طرح القاعدہ کے ساتھ ’زیادہ تعاون‘ ٹی ٹی پی کو ’پورے خطے کو خطرے‘ میں تبدیل کر سکتا ہے‘‘۔
لکھا گیا ہے: ’’نیٹو افواج کے ہتھیار، خاص طور پر رات میں دیکھنے کی صلاحیت (Night vision کے حامل حساس آلات) جو کہ طالبان کے قبضے کے بعد سے ٹی ٹی پی کو فراہم ہوچکے ہیں، پاکستانی فوجی سرحدی چوکیوں پر اس کے حملوں میں جان لیوا اضافہ کرتے ہیں‘‘۔
اسلام آباد میں حکام نے بھی بار بار سکیورٹی فورسز میں ہلاکتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ جدید امریکی ہتھیاروں کو قرار دیا ہے جو بین الاقوامی افواج کے ہاتھوں پیچھے رہ گئے تھے اور ٹی ٹی پی کے ہاتھ لگ گئے تھے۔ امریکی محکمہ دفاع نے مئی [۲۰۲۴ء]کے آخر میں منظر عام پر آنے والی سہ ماہی رپورٹ میں ان الزامات کا جواب دیتے ہوئے کہا: ’’پاکستانی انٹیلی جنس فورسز نے اس سال کے شروع میں انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کے دوران، M-16 اور M-4 رائفلز سمیت چند امریکی تیار کردہ چھوٹے ہتھیار برآمد کیے ہیں اور ٹی ٹی پی سمیت عسکریت پسند، پاکستان میں حملوں کے لیے ممکنہ طور پر محدود مقدار میں امریکی ساخت کے ہتھیاروں اور آلات بشمول چھوٹے ہتھیاروں اور نائٹ ویژن چشموں کا استعمال کر رہے ہیں‘‘۔ تاہم، اس میں آگے چل کر کہا گیا ہے: ’’امریکی ساختہ ہتھیاروں کی مقدار جس کا دعویٰ پاکستانی ذرائع نے کیا ہے کہ وہ پاکستان مخالف عسکریت پسندوں کے ہاتھ میں ہے، یہ ممکنہ طور پر مبالغہ آرائی ہے‘‘۔
اسلام آباد نے بارہا کابل سے مطالبہ کیا ہے کہ ’’وہ ٹی ٹی پی کی زیر قیادت سرحد پار دہشت گردی کو لگام ڈالے اور محسود سمیت اس کے رہنماؤں کو پکڑ کر پاکستان کے حوالے کرے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق: ٹی ٹی پی نے بتدریج پاکستان کے خلاف حملوں کی تعداد کو ۲۰۲۱ء میں ۵۷۳ سے بڑھا کر ۲۰۲۳ء میں ۱۲۰۳ کر دیا ہے، اور یہ رجحان ۲۰۲۴ء میں بڑھتا جارہا ہے۔ پاکستانی حکام بھی تشدد میں اضافے کی وجہ ’زیادہ سے زیادہ آپریشنل آزادی‘ کو قرار دیتے ہیں جو تقریباً تین سال قبل طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے دہشت گرد تنظیم کو افغانستان میں حاصل ہوئی ہے۔ طالبان کی جاسوسی ایجنسی، جنرل ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس نے، ٹی ٹی پی کے رہنماؤں کے لیے کابل میں تین نئے گیسٹ ہاؤسز کی سہولت فراہم کی اور مبینہ طور پر ٹی ٹی پی کی سینئر شخصیات کو نقل و حرکت میں آسانی اور گرفتاری سے استثنا کے ساتھ ساتھ ہتھیاروں کے اجازت نامے جاری کیے تھے۔ اس جائزے میں یہ بھی بتایا گیا کہ ’’طالبان کو خدشہ ہے کہ[امارت اسلامیہ کی جانب سے] ’زیادہ دباؤ‘ ٹی ٹی پی کو افغانستان میں قائم داعش کے ساتھ تعاون کرنے پر مجبور کر سکتا ہے‘‘۔
طالبان نے اقوام متحدہ کی ان تازہ رپورٹوں پر فوری طور پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ تاہم، طالبان نے یہ ضرور ظاہر کیا ہے کہ ’’افغانستان پر الزام لگانے کے بجائے (ٹی ٹی پی) پاکستان کا اندرونی مسئلہ ہے‘‘۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اس رپورٹ میں شائع شدہ حقائق یا تصورات زیادہ تر پہلے سے پاکستان اور افغانستان کی قیادت کے علم میں ہیں اور ان پر پاکستانی وزیر دفاع اور دیگر حکام اظہار خیال بھی کرتے رہے ہیں۔ گذشتہ دنوں دہشت گردی کے واقعات کے بعد پاکستانی وزارت خارجہ میں افغان ناظم الامور کو بلا کر سفارتی انداز میں متنبہ بھی کیا گیا اور کم از کم ایک مرتبہ افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کے مبینہ ٹھکانہ پر بمباری بھی کی گئی ہے اور آئندہ بھی ایسا کرنے کی وارننگ دی گئی ہے، جس پر افغان قیادت کی جانب سے شدید رد عمل کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس وقت پاک افغان تعلقات تناؤ کا شکار ہیں اور اعلیٰ سطحی رابطوں کا فقدان ہے۔ پاکستان نے اب تک افغانستان کو سفارتی سطح پر تسلیم بھی نہیں کیا۔ تاہم، ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان افغانستان کو رسمی طور پر باقاعدہ تسلیم کرکے اس کے ساتھ اعلیٰ سطح پر مذاکرات کے عمل کا دروازہ کھولے، جس میں دونوں طرف کی سیاسی اور دینی قیادت شریک ہو۔ جنگی اقدامات کو خیرباد کہنا چاہیے اور دونوں ممالک کے درمیان روزمرہ بنیادوں پر مضبوط سیاسی، اقتصادی اور سماجی تعلقات استوار کرنے چاہئیں۔ اس کام میں پاکستان ہی کو سبقت لینی چاہیے۔ گذشتہ ماہ جولائی کو فرینکفرٹ میں پاکستانی کونسل خانے پر جو افسوس ناک واقعہ ہوا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بھارتی لابی افغانستان میں پاکستان مخالف رائے عامہ کو کسی بھی وقت استعمال کر سکتی ہے، حالانکہ اس مظاہرے میں پاکستانی طلبہ بھی بڑی تعداد میں شریک تھے، جو ممتاز پختون قوم پرست شاعر گیلامند وزیر کی اسلام آباد میں پُراسرار ہلاکت کے خلاف احتجاجی مراسلہ پاکستانی سفارتی عملے کو دینے گئے تھے۔ مگر اسی دوران جن دو افغان طلبہ نے پاکستانی پرچم اُتارا تھا، ان کو اسی وقت پاکستانی طلبہ نے پکڑ کر پولیس کے حوالے بھی کیا تھا۔
’’۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے بھارتی لوک سبھائی حملے کے نتیجے میں کیا مقبوضہ کشمیر پُرامن ہوگیا ہے؟‘‘ اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔
گذشتہ پانچ برسوں کے دوران جہاں ایک طرف نئی دہلی سرکار کے ظلم و تشدد نے مختلف نئے حربے اپنائے ہیں، وہیں عوامی سطح پر محکوم کشمیریوں نے بعض حوالوں سے مایوسی اور ردِعمل کا اظہار کرتے ہوئے جدوجہد کے لیے نئے راستے اپنائے ہیں۔ یہ زمانہ ظلم کی مختلف داستانوں کومجسم پیش کرتا ہے اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آرایس ایس) کی مسلم نسل کش حکمت عملی کا جواب دینے کے لیے اپنی کوششوں میں تبدیلی لایا ہے۔
اس دوران تحریک آزادیٔ کشمیر اپنے عظیم رہنما سیّدعلی گیلانی کی رہنمائی سے ستمبر۲۰۲۱ءکو محروم ہوگئی۔ وہ مسلسل بھارتی حکومت کی قید میں تھے۔ انتقال سے قبل انھیں علاج معالجے کی سہولت سے محروم رکھا گیا۔پھر ان کی میّت بھی بھارتی فورسز نے قبضے میں لے لی اور خاندان کو تجہیزو تدفین کرنے کی اجازت نہیں دی گئی کہ وہ اُن کی وصیت کے مطابق انھیں شہدا کے مرکزی قبرستان میں دفن کرتے۔ اہل کشمیر کے لیے گیلانی مرحوم ایک والد کی سی قدرومنزلت رکھتے تھے مگر لوگوں کو ان کے جنازے میں شریک نہیں ہونے دیا گیا۔
قابض حکومت کی جانب سے اخبارات سخت سنسرشپ اور پابندیوں میں جکڑے گئے۔ اسکولوں سے اُردو کی کمر توڑنے اور اسلامی تہذیب سے وابستہ اسباق کی بیخ کنی کے انتظامات کیے گئے، اور اسلامی اسکولوں کو قومیایا گیا۔ اچانک چھاپے مار کر لکھنے پڑھنے والے دانش وروں اور صحافیوں کی ایک تعداد کو مقدمات کے بغیر انڈیا کی دُور دراز جیلوں میں ٹھونسا یا غائب کردیا گیا۔ مقبوضہ کشمیر سے اُن طلبہ کے راستے میں شدید ترین رکاوٹیں کھڑی کی گئیں، جو اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرونِ ملک جانا چاہتے تھے اور ان کے داخلے بھی ہوچکے تھے۔ اس پالیسی کا شکار وہ طلبہ بھی ہوئے، جو بھارتی حکمرانوں کے کشمیر موقف کے حامی ہیں، لیکن ان کا مسلمان ہونا، ان کی راہ میں رکاوٹ بنادیا گیا۔
اقوام متحدہ کے مطابق مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر متنازعہ علاقے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں کے شہری کشمیر کے ایک دوسرے علاقے میں جانے کا حق رکھتے ہیں۔
۲۰۰۲ء میں جنرل پرویز مشرف کی جانب سے جموں و کشمیر میں یک طرفہ باڑ لگانے سے ایک تو یہاں کے لوگوں کا بنیادی شہری حق سلب ہوا، اور دوسری طرف جو طلبہ و طالبات تعلیم حاصل کرنے آزاد کشمیر آئے تھے، بھارتی حکومت نے ان کی ڈگریاں تسلیم کرنے سے انکار پر مبنی قانون نافذ کردیا۔
اس مدت میں تمام تر بلندبانگ دعوئوں کے باوجود بھارتی حکومت نے یورپی ممالک کے صحافیوں کو آزادی سے مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرنے کی اجازت نہیں دی، اور اگر ایک مرتبہ چند افراد کو جانے دیا بھی، تو ایک دو روز بعدہی انھیں کشمیر سے نکل جانے پر مجبور کر دیا گیا۔ پھر تجاوزات مٹانے کے نام پر خاص طور پر شہری علاقوں اور سری نگر شہر میں بڑے پیمانے پر بلڈوزر چلا کر سیکڑوں برسوں سے آباد کشمیریوں کے کاروبار تباہ اور گھربرباد کر دیئے گئے۔
۱۳جون کی شام نئی دہلی میں نریندرا مودی کی تیسری حلف برداری کی تقریب سے صرف ایک گھنٹہ پہلے ہندو یاتریوں سے بھری بس پر اچانک حملے کے نتیجے میں ۹؍افراد ہلاک ہوگئے۔ انھی دنوں انڈین سیکورٹی فورسز پر چار دن میں چار حملے ہوئے، جن میں کٹھوعہ کے مقام پر ہیرانگر میں دوحُریت پسندوں اور ایک بھارتی فوجی کی جان گئی۔جموں کا یہ علاقہ نسبتاً پُرامن تصور کیا جاتا رہا ہے۔ ذرا ماضی میں دیکھیں تو ۲۰۰۲ء میں جب جموں کے کالوچک علاقے میں فوجی کوارٹروں پر مسلح حملے میں درجنوں بھارتی فوجی اپنے اہل خانہ کے ساتھ ہلاک ہوئے تھے، تو نتیجے میں پاک بھارت سرحدوں پر جنگ جیسی صورتِ حال پیدا ہوگئی تھی۔
اسی دوران کشمیر میں حُریت پسندوں کے حملوں میں اضافہ بھی ہوا ہے۔ ڈی ڈبلیو ٹی وی (جرمنی)کے نمائندے صلاح الدین زین کے مطابق ۹جولائی کو ضلع کٹھوعہ میں مجاہدین نے بھارتی فوجی قافلے کو نشانہ بنایا، جس میں پانچ فوجی مارے گئے، ان میں ایک کمیشنڈ افسر بھی شامل تھا۔ یہ واقعہ کٹھوعہ سے تقریباً ۱۵۰کلومیٹر کے فاصلے پر مچیڈی، کنڈلی، ملہار کے پاس پیش آیا۔ فوجی ذرائع کے مطابق حُریت پسندوں نے ٹرک پر دستی بم (گرنیڈ)پھینکا اور پھر فائرنگ شروع کردی۔ سیکورٹی فورسز نے جوابی کارروائی کی، مگر اس دوران حُریت پسند جنگل کی جانب فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق فوجی قافلے پر دو سمتوں سے حملہ کیا گیا۔
ان مہینوں کے دوران جموں اور عام طور پر وادیٔ کشمیر کے علاقے میں حُریت پسندوں کا غلبہ رہا ہے۔ اس طرح خطۂ جموں میں بھارتی فوج پر حملوں میں خاصی تیزی آئی ہے، اور جولائی کے شروع تک یہ اپنی نوعیت کا پانچواں حملہ ہے، جس میں بھارتی فوج کو خاصا نقصان پہنچا ہے۔
جون کے مہینے میں حُریت پسندوں نے انڈین سیکورٹی فورسز کی ایک بس پر فائرنگ کردی، جس کے نتیجے میں وہ کھائی میں جاگری، اور نو افراد کی ہلاکت ہوئی۔ اس واقعے کے کچھ دن بعد مجاہدین نے ایک گائوں میں سیکورٹی فورسز سے مقابلہ کیا، جس میں سی آر پی ایف کا ایک فوجی مارا گیا اور دو مجاہدین نے جامِ شہادت نوش کیا۔ جون ہی میں ضلع ڈوڈہ (جموں) کے علاقے گندوہ میں مجاہدین اور بھارتی فورسز کے درمیان مقابلہ ہوا، اور تین مجاہدین شہید ہوئے۔
۹جولائی کو ’وائس آف امریکا‘ میں یوسف جمیل نے رپورٹ کیا ہے کہ ضلع کولگام کے مُدھرگام اور فرسل چھنی گام دیہات میں حُریت پسندوں اور بھارتی فوجیوں کے درمیان دو روز تک جھڑپیں جاری رہیں۔ ان جھڑپوں میں حزب المجاہدین سے تعلق رکھنے والے چھ حُریت پسند شہید ہوئے، جن میں: یاور بشیرڈار، ظہیراحمد ڈار، توحید راتھر، شکیل احمد درانی، عادل احمد اور فیصل احمد شامل ہیں، جب کہ دو فوجی مارے گئے۔ یہ سب مقامی کشمیر ی شہری تھے۔ بھارتی حکام کے مطابق: ’’وہ بھاری اسلحے سے لیس تھے‘‘ [جو ظاہر ہے کہ بھارتی فوجیوں ہی سے چھینا گیا تھا]۔ مقامی لوگوں کے مطابق ان تمام شہدا کا تعلق مقامی آبادی سے تھا اور یہ نوجوان مارچ ۲۰۲۱ء سے تادمِ آخر مجاہدین کی صفوں میں شامل رہے۔
انڈین حکومت دُنیا کے سامنے مسلسل یہ کہتی آرہی ہے کہ اگست ۲۰۱۹ء کے بعد اُس نے جموں و کشمیر میں حُریت پسندی کو کچل دیا ہے۔ مگر دوسری جانب کشمیری نوجوان تحریکِ جہاد کا حصہ بنتے اور اپنا ایک اَن مٹ نشان چھوڑ جاتے ہیں۔اسی دوران میں انڈین فوج نے ہیلی کاپٹروں کے ذریعے اسپیشل فورسز (پیراشوٹ رجمنٹ) کے کمانڈوز کو اس علاقے میں اُتارا اور تربیت یافتہ کھوجی کتوں کا بھی استعمال کیا ہے۔
’وائس آف امریکا‘ نے وادیٔ کشمیر کے جنوبی اضلاع میں جڑ پکڑنے والی تحریک جہاد پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا ہے کہ ۸جولائی ۲۰۱۶ء کو یہاں پر بُرہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد انڈین فوجیوں نے سرچ آپریشن کے دوران مقامی مسلم آبادی کے ساتھ جس نوعیت کا بہیمانہ سلوک کیا، اس نے لوگوں کو نہایت گہرے زخم دیئے ہیں اور توہین و تذلیل کے واقعات نے ان کے دلوں سے خوف نکال دیا ہے اور حقارت بھر دی ہے۔
۲۴جولائی کو کپواڑہ کے علاقے میں مجاہدین اور بھارتی فوجیوں میں تصادم ہوا، جس میں ایک فوجی مارا گیا اور ایک مجاہد شہید ہوا۔ بھارتی فوجی حکام یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ حالیہ چند مہینوں میں فوج کے خلاف جنگجو سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اس لیے نئی فوجی پوسٹیں اور نئے فوجی کیمپ قائم کیے جارہے ہیں۔
آج صورتِ حال یہ ہے کہ جموں و کشمیر کے مظلوم عوام کو ہراساں کرنے کے لیے بھارتی حکومت کے جاری کردہ کالے قوانین کا بے دریغ استعمال کیا جارہا ہے۔ فوج اور پولیس مل کر میڈیا پر پابندیاں عائد کیے ہوئے ہیں۔ انٹرنیٹ پر گہری نگرانی (سرویلنس) ہروقت جاری ہے۔ سیاسی قیادت کو جیلوں میں بند یا اپنی نگرانی میں جکڑ رکھا گیا ہے۔
۱۹جولائی کو کُل جماعتی حُریت کانفرنس کے ترجمان عبدالرشید منہاس نے ایک بیان میں یہ حقیقت آشکار کی ہے: بی جے پی کی حکومت جموں و کشمیر کے لوگوں کو ایک جگہ جمع ہونے اور اپنی بات کہنے کی اجازت نہیں دے رہی، بلکہ جموں و کشمیر کے مظلوم عوام کو ہراساں کرنے کے لیے طاقت اور انسانیت کش قوانین کا اندھادھند استعمال کر رہی ہے۔ اسی طرح راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی چھتری تلے ’ہندوتوا‘ تنظیموں کے خفیہ ایجنڈے نے ۱۰لاکھ بھارتی فوج کی مدد سے کشمیر کی معیشت کو شدید بدحالی کا شکار کر دیا ہے، ان کے قدرتی وسائل چھین لیے گئے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر محاصرے اور تلاشی کی کارروائیوں اور چھاپوں نے نفسیاتی دبائو زدہ درندہ صفت فوجیوں کے مظالم کا نشانہ بنارکھا ہے اور اندھا دھند گرفتاریوں نے خاندانوں کو تباہ کردیا ہے۔
دوسری طرف بھارتی شہریوں کو وادیٔ کشمیر میں زبردستی آباد کرنے اور مقامی لوگوں کی تجارت پر اجارہ داری مضبوط بنانے کے لیے مربوط پروگرام پر عمل کیا جارہا ہے۔ تیزرفتار مواصلاتی نظام کو مضبوط بنانے کے لیے شاہرائوں، پُلوں اور ریل گاڑی پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔ کلچرل حملے کو تیز کرنے کے لیے متعدد پروگراموں کو وسعت دی جارہی ہے۔
یہ صورتِ حال، پاکستان اور دُنیا کے دیگر ممالک میں تحریک آزادیٔ کشمیر کو قوت فراہم کرنے کا تقاضا کرتی ہے۔ مگر افسوس کہ چند ماہ پہلے یہاں آزاد کشمیر میں معمولی واقعات کو بدامنی کی راہ پر دھکیل دیا گیا، جس نے پاکستان کی ساکھ کو صدمہ پہنچایا۔ بلاشبہہ اُس میں حقائق سے بے خبر نوجوانوں کا حصہ ہے اور ساتھ دشمن نے بھی اس صورتِ حال کو استعمال کیا ہے۔ کشمیر کے نوجوانوں کے جائز تحفظات کا سنجیدگی سے جواب دینا چاہیے۔ لیکن ردعمل پیدا کرکے اُن میں غصہ پیدا کرنے سے اجتناب بھی برتنا چاہیے۔ آزاد کشمیر کا مواصلاتی نظام بڑے پیمانے پر ترقیاتی کاموں کا تقاضا کرتا ہے۔ اگر آزاد کشمیر میں اضطراب پیدا ہوگا تو اس کا منفی اثر مقبوضہ جموں وکشمیر کی تحریک پر پڑے گا۔ اس نزاکت کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے ذرائع ابلاغ میں سیاست دانوں اور انتظامیہ کو دُوراندیشی سے کام لینا چاہیے۔
بہت مشکل صورت حال ہے۔ حالیہ اسرائیل غزہ جنگ نے منطقی اندازِ فکر کو معطل کر رکھا ہے۔ درست طور پر کہا جاتا ہے کہ جنگ میں پہلی موت سچ کی ہوتی ہے۔
موجودہ تنازع کھڑا ہونا ہی تھا کیونکہ برق رفتار ’ابراہیمی معاہدوں‘ کے دوران فریق دوم یعنی فلسطینیوں کو مکمل نظر انداز کر دیا گیا تھا۔ کم سے کم الفاظ میں بھی اسے انتہائی احمقانہ حکمت عملی کہا جاسکتا ہے۔ اس دھونس کا نتیجہ وہی ہوا جو ہونا تھا، نظرانداز فریق (اور اس کے حامیوں) نے اپنا ردعمل ظاہر کردیا۔ نتیجہ ایک مہلک نسل کشی کی صورت میں نکلا، جس نے فریقین کو ایک بند گلی میں دھکیل دیا ہے۔ اگر امریکا اپنا سارا وزن اسرائیل کے پلڑے میں ڈال دے تو مشرق وسطیٰ اور یورپ میں طاقت کا توازن مکمل طور پر بدل جائے گا۔
تاریخی طور پر دیکھا جائے تو امریکا کبھی یہودی مسئلے کا غیر مشروط حامی نہیں رہا ہے۔ ۱۸۷۶ء میں وفاق کے حامیوں کی شکست کے ساتھ امریکی خانہ جنگی ختم ہوئی، تو یورپی سرمایہ دار اس طرف متوجہ ہوئے۔ ان کے پاس سرمائے کی فراوانی تھی اور وہ نئی منڈیوں کا رُخ کرنا چاہتے تھے، لیکن امریکی خانہ جنگی کے خاتمے کا انتظار کر رہے تھے۔
چنانچہ بہت جلد امریکا میں صنعت کاری کا عمل شروع ہو گیا۔ بڑے صنعت کار (جنھیں ڈاکو رئیس بھی کہا جاتا ہے) سرمائے کی تلاش میںتھے کیونکہ امریکا میں اس کی قلت تھی۔ صنعتوں، ریل گاڑیوں، نہروں، سڑکوں اور تیل کی صورت میں امریکی توسیع کسی حد تک یورپ سے حاصل ہونے والے یہودی سرمائے کے باعث ہی ممکن ہو پائی تھی۔
بیسویں صدی کے آغاز میں وال سٹریٹ کا سب سے بڑا بینکر پیئر پونٹ مورگن (Pierpont Morgan) بھی دراصل روتھ شیلڈ (Rothschild) اور دوسرے یہودی گروہوں کی نمایندگی کر رہا تھا۔ سرمائے کے ساتھ ساتھ یہودی بنکار، فنکار، عالم و دانش ور اور دوسرے ہنرمند بھی امریکا آکر بس گئے اور یہاں انھوں نے اپنے لیے ایک جگہ پیدا کر لی۔
دسمبر ۱۹۱۷ء میں برطانیہ نے فلسطین کے اندر یہودیوں کا قومی وطن قائم کرنے کے سلسلے میں اپنی مکمل حمایت کا اعلان کر دیا۔ بہت کم یہودیوں کو اس وقت سمجھ آئی کہ دراصل یہ انھیں یورپ سے نکالنے کا بہانہ تھا۔
سابق برطانوی وزیر اعظم اور وزیر خارجہ آرتھر بالفور نے یہ قرارداد تیار کی جو صہیونی نمایندہ بیرن روتھ شیلڈ تک پہنچا دی گئی۔ اس قرارداد میں واضح طور پر لکھا گیا تھا: فلسطین میں آباد عرب شہریوں کو بالکل پریشان نہیں کیا جائے گا اورنہ وہاں سے ہٹانے کی کوشش کی جائے گی۔
اس وقت برطانوی جنگی کابینہ کا واحد مقصد، جنگ عظیم اول میں کامیابی حاصل کرنا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ اس اعلامیہ کے بعد صہیونی قوتیں اتحادیوں سے آ ملیں گی۔سیاسی بے رحمی کی ایسی مکمل ترین (یا بدترین) مثال ملنا مشکل ہے۔
۱۹۳۹ء تک جرمنی میں اقتدار ہٹلر اور نازی پارٹی کے پاس آ چکا تھا۔ ہٹلر کو جرمن عوام کےدرمیان جادوئی حیثیت حاصل تھی۔ اس کا بنیادی نظریہ آریائی نسل کی برتری، یہودی و جپسی نسلوں کی کمتری اور پہلی جنگ کے بعد جرمنی کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک پر استوار تھا۔
اس صورتِ حال میں ہٹلر اور اس کے ساتھی جس حل تک پہنچے، وہ یہ تھا کہ جرمنی سے یہودیوں کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے۔ اس پر جب امریکا و یورپی طاقتوں نے اعتراض کیا تو ہٹلر نے دوبدو جواب دیا، ’’ اس میں نیا کیا ہے؟ یورپی نوآبادیاتی قوتیں کئی صدیوں سے قتل عام جیسے افعال سرانجام دیتی آئی ہیں۔ اسپین اور پرتگال نے یہ کام جنوبی امریکا میں کیا، برطانیہ نے ساری دنیا میں، ولندیزیوں نے انڈونیشیا میں، جب کہ بیلجیم یہی کام کانگو میں کر رہا ہے‘‘۔ ‘ امریکا کو ہٹلر کا جواب یہ تھا: ’’نسل کشی اور کشور کشائی کے معاملے میں ہم تو امریکی نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ جس طرح امریکیوں نے مقامی باشندوں کو ختم کر کے ان کی زمین اور وسائل پر قبضہ کیا اور جس طرح وہاں سیاہ فاموں کو غلام بنا کر ہر قسم کے ظلم و جور سے گزارا گیا‘‘۔
ہٹلر کا کہنا تھا کہ: ’’نازی پارٹی یہودیوں یا دیگر نسلوں کے ساتھ جو کچھ کر رہی ہے وہ معمول کی کارروائی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس بار اس کا نشانہ یورپی بن رہے تھے اور نسل کشی کا یہ کام جدید ٹکنالوجی کی مدد سے صنعتی پیمانے پر کیا جا رہا تھا‘‘۔ یہ دلیل ناقدین کو خاموش رکھنے کے لیے کافی تھی۔ اتحادیوں کو آخرکار جنگ میں فتح مل گئی، لیکن اس کا باعث ان کی قوت نہیں بلکہ جرمنی اور جاپان کی ایک بنیادی غلطی تھی۔
جنگ عظیم دوم کے بعد امریکا اور اتحادیوں کو یہ سوال درپیش تھا کہ یہودی مسئلے کا کیا کیا جائے؟ انھیں یہ فکر اس لیے تھی کہ وہ اپنے ملک میں یہودی پناہ گزینوں سے بچنا چاہتے تھے۔ پیشہ ور اور تکنیکی ماہرین کو پہلے ہی امریکا اپنی جانب کھینچ چکا تھا۔
چنانچہ اسرائیل کا قیام اس مسئلے کا کامل ترین حل تھا، جس سے تمام قوتوں ، امریکا، یورپ اور اشتراکی روس کا منشاء بھی حاصل ہو جاتا اور انھیں یہودیوں کو اپنے علاقوں سے نکال باہر کرنے کا بہترین موقع بھی مل جاتا۔ ۱۹۵۶ء میں جب برطانوی، فرانسیسی اور اسرائیلی فوجیں مل کر نہر سویز پر حملہ آور ہوئیں، تو امریکا اور اقوام متحدہ نے اس پر اعتراض کیا۔ چنانچہ تھوڑے ہی عرصے بعد انھیں وہاں سے نکلنا پڑا۔
تاہم، ۱۹۷۳ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد امریکی منصوبہ ساز، اسرائیل کی دفاعی و جارحانہ صلاحیتوں سے متاثر نظر آئے، چنانچہ امریکا اسرائیل کا مربی بن گیا۔ اسے ایک دشمن اور ناقابل بھروسا خطے میں اپنی کاسہ لیس ریاست مل گئی تھی۔ اس خطے میں حکومتیں بدلنے یا ان کی تبدیلی کو روکنے کے لیے یہ ریاست ایک مضبوط عسکری قوت اور امریکا کے لیے ایک قابلِ اعتبار اتحادی ثابت ہوئی اور یوں دو طرفہ تعلقات مضبوط سے مضبوط ہوتے چلے گئے۔ لیکن پھر ۷؍اکتوبر ۲۰۲۳ء آ گیا۔
آگے کیا ہوگا؟ کون جانتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جہاں فرشتوں کے بھی پَر جلتے ہوں وہاں بے وقوف بے دھڑک قدم رکھ دیتے ہیں۔
بنگلہ دیش کے قیام اور پاکستان کی تقسیم میں بنیادی کردار ادا کرنے والے گروہ کا نام ’عوامی لیگ‘ ہے۔ قیام پاکستان کے پونے دو سال بعد۲۳؍جونٍ۱۹۴۹ء کو مشرقی پاکستان میں، مسلم لیگ کے لیڈر عبدالحمید بھاشانی اور شیخ مجیب وغیرہ نے علیحدہ پارٹی بنائی، جس کا نام ’آل پاکستان عوامی مسلم لیگ‘ رکھا۔ مگر بہت جلد، مشرقی پاکستان کی سات فی صد ہندو آبادی کو اپنی جانب مائل کرنے، یا پھر ہندو مقتدرہ کے زیر اثر پارٹی چلانے کے لیے ۱۹۵۳ء میں ’آل پاکستان‘ اور ’مسلم‘ کا لفظ اڑا کر اسے '’عوامی لیگ‘ بنا دیاگیا۔ اس پس منظر سے عوامی لیگ کی تشکیل میں مضمر ایک بنیاد واضح ہوتی ہے۔
عوامی لیگ نے اپنے قیام کے ساتھ ہی مغربی پاکستان کے خلاف مبالغہ آمیز پراپیگنڈے اور مسلم قومیت جو پاکستان کی بنیاد تھی، اس کی نفی پر زور دینا شروع کیا۔ اس مقصد کے لیے جھوٹ، اتہام ’غیربنگالی سے نفرت‘ اور تشدد کو اپنی پالیسی کا بنیادی پتھر قرار دیا (فاطمہ جناح کی حمایت کا ایک مرحلہ اور آخری مرحلے میں ۱۹۵۶ءکے دستور کی حمایت عوامی لیگ کے دو مثبت حوالے ہیں)۔
مارچ ۱۹۶۹ء میں جنرل یحییٰ خان کے ہاتھوں مارشل لا لگنے سے پہلے عوامی لیگ کا فسطائی رنگ، مشرقی پاکستان میں پوری طرح اپنا نقش جما چکا تھا۔ اس دوران ’اگر تلہ سازش کیس‘ جو براہِ راست بھارتی مداخلت اور بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے تعاون سے پاکستان توڑنے، مختلف تنصیبات پر قبضہ جمانے اور اہم حکومتی شخصیتوں کو قتل کر کے علیحدگی کے منصو بے کو عملی جامہ پہنانے پر مشتمل تھا۔ اس مقدمے کی سماعت کرنے والی عدالت پر عوامی لیگ اور اس کی طلبہ تنظیم ’چھاترو لیگ‘ (اسٹوڈنٹس لیگ) نے حملہ کر کے عدالتی مقام کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور ججوں نے بڑی مشکل سے جان بچائی۔ ایک مدت تک عوامی لیگ اور پاکستانی لیفٹ کی طرف سے اس سازش کے وجود کا انکار کیا جاتا رہا، لیکن ۲۲فروری ۲۰۱۱ء کو سازش کے ایک اہم کردار کیپٹن شوکت علی (ڈپٹی اسپیکر بنگلہ دیش پارلیمنٹ) نے اسمبلی کے فلور پر برملا اعتراف کیا کہ یہ منصوبہ سچ تھا، بلکہ ہم نے تو ۱۹۶۳ء ہی سے ’اگرتلہ‘ میں بھارت سے ساز باز شروع کر رکھی تھی۔ اگست ۱۹۶۹ء میں ڈھاکا یونی ورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ ڈھاکہ کے ناظم محمد عبدالمالک کو لوہے کے سریے مار مار کر شہید کر دیا گیا۔ ۱۹۷۰ء کے پورے سال میں کسی بھی مدمقابل پارٹی کو انتخابی مہم تک نہیں چلا نے دی گئی۔ انتخابی عملہ اپنی مرضی سے تعینات کرایا اور نتائج اپنی مرضی کے مطابق مرتب کیے، جنھیں عوامی لیگ کی ’زبردست جیت‘ قرار دیا جاتا ہے۔
۱۹۷۱ء شروع ہوا تو بھٹو، مجیب اور جنرل یحییٰ کے درمیان تناؤ کی فضا پیدا ہوئی۔ انجام کار یکم مارچ سے لے کر۲۵؍مارچ۱۹۷۱ء تک عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان کے طول و عرض میں غیربنگالیوں کا قتل عام کیا، لُوٹ مار کی، عورتوں کی عصمت دری کی اور محب وطن بنگالی پاکستانیوں کو چُن چن کر مارنا شروع کیا۔ جس پر مارچ، اپریل ۱۹۷۱ء میں دنیا بھر کے اخبارات نے رپورٹنگ کی اور حقائق کے شائع کیے۔ مگر حیرت کی بات ہے کہ نہ بنگلہ دیش میں، نہ انڈیا میں اور حد تو یہ ہے کہ خود پاکستان میں اس نسل کشی (Genocide) کا تذکرہ تک نہیں کیا جاتا اور تواریخ کی درسی کتب کو اس وحشیانہ جنون اور قاتلانہ شیطنت سے خالی رکھا گیا ہے۔ معلوم نہیں کون سا دستِ شرانگیز ہے، جس نے نصابوں اور اخباری صفحات کو ان دردناک تفصیلات سے دُور رکھا ہے۔
۱۶دسمبر۱۹۷۱ء کو انڈین فوج کے تعاون سے مشرقی پاکستان الگ کر کے بنگلہ دیش بنا لیا گیا۔ جس میں پاکستانی حاکم طبقوں کی غلط پالیسیوں کا ایک اہم حصہ تھا۔ لیکن مرکزی کردار بہرحال دشمن سے ساز باز کر نے والی عوامی لیگ ہی تھی۔ مراد یہ ہے کہ اپنے جائز حقوق کےلیے جدو جہد ایک جائز جمہوری عمل ہے، لیکن جھوٹ، نفرت، نسل کشی، فسطائیت اور دشمن سے ساز باز کو سیاسی جدوجہد نہیں کہا جاسکتا۔
مجیب نے اقتدار سنبھال کر ’مکتی باہنی‘ کے لوگوں کے لیے ملازمتیں محفوظ کرنے کی خاطر مخصوص کوٹا رکھا۔ ایسے مستحقین کا فیصلہ عوامی لیگ پارٹی ہی کرتی، نہ کہ کوئی غیر جانب دار اتھارٹی۔ مجیب نے ۱۹۷۲ء میں ڈھا کہ پہنچتے ہی پارٹی کا مسلح مافيا ’جاتیا راکھی باہنی‘ (JRB) کے نام سے قائم کیا، جو مجیب کی زندگی تک سیاسی مخالفین کے لیے تشدد اور دہشت کی علامت بنا رہا۔ (اس کے بارے میں معروف صحافی انتھونی مسکرہینس نے اپنی کتاب Bangladesh: A Legacy of Blood میں اسے ’’ہٹلر کی خاکی وردی والے غنڈوں کی طرح کا ایک ریاستی گینگ قرار دیا‘‘۔ہوڈر اینڈ سٹوگٹس، لندن، ۱۹۸۶ء، ص ۳۷)
اس نوعیت کے اقدامات سے لوگوں میں ردعمل پیدا ہونا شروع ہوا۔ آگے چلیں تو شیخ مجیب کے خون میں رچے فسطائی جذبے نے، ۲۴جنوری ۱۹۷۵ء د کو بنگلہ دیش میں ’بکسل‘(BKSAL) یعنی ’بنگلہ دیش کرشک سرامک عوامی لیگ‘ (بنگلہ دیش مزدورکسان عوامی لیگ) کی بنیاد رکھی، اور اس کے مقابلے میں ملک سے باقی تمام سیاسی پارٹیوں کو کالعدم قراردے دیا۔ پھر اسی سال ۱۵؍اگست کو بغاوت ہوئی، جس میں فوج کے نوجوان افسروں نے مجیب کے گھر پر حملہ کرکے اسے قتل کر دیا۔
۲۲جنوری ۲۰۰۶ء کو وزیراعظم خالدہ ضیاء (بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی: BNP )نے ملک میں عام الیکشن کرانے کا اعلان کیا، مگر شیخ مجیب کی بیٹی اور عوامی لیگی لیڈر حسینہ واجدنے ہنگامہ کھڑا کرکے ۱۱جنوری ۲۰۰۶ء کو انتخابی عمل پٹڑی سے اُتار دیا، یہی وہ موڑ ہے جہاں سے فساد کا آغاز ہوا۔ پھر اُس وقت بنگلہ دیش آرمی کے چیف جنرل معین الدین احمد کی سرپرستی میں ٹیکنوکریٹ کی ایسی حکومت بنی کہ اُس نے دسمبر ۲۰۰۸ء کے الیکشن میں عوامی لیگ کو کامیاب کرا دیا۔
جنوری ۲۰۰۹ء میں عوامی لیگ ایک خونیں رنگ و رُوپ کے ساتھ میدان میں اُتری، مگر جلد ہی ۲۵ اور ۲۶ فروری ۲۰۰۹ء کی رات ’بنگلہ دیش رائفلز‘ (BDR) کے جوانوں نے ہیڈکوارٹر پُل خانہ میں بغاوت کرکے بی ڈی آر کے ڈائریکٹر جنرل احمد سمیت ۵۷؍افسروں اور ۱۶ سویلین شہریوں کو قتل کردیا۔ یہاں پر ’مجیب اندرا گٹھ جوڑ‘ کی طرح ’حسینہ ، من موہن سنگھ گٹھ جوڑ‘ کا آغاز ہوا۔ پروفیسر ایویناش پلوال نے اپنی کتاب India`s Near East: A New History (۲۰۲۳ء) میں تفصیل بتائی ہے کہ حسینہ واجد نے پرنام مکھرجی کے ذریعے نئی دہلی حکومت کو پیغام بھیجا: ’جان بچائو‘ (SOS)۔ بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کی ہدایت پر انڈین آرمی پیراشوٹ رجمنٹ بٹالین کے میجر کمل دیپ سنگھ سندھو نے حکم ملنے پر ۲۶فروری کی شام تیاری شروع کی اور ڈھائی گھنٹے بعد ایک ہزار چھاتہ برداروں کے ساتھ ڈھاکہ اُترنے کے لیے تیار ہوگئے۔ بھارتی کمانڈوز نے ۲۷فروری کو بنگلہ دیش میں براہِ راست مداخلت شروع کی اور چار روز میں ناراض فوجیوں کو گولیوں سے بھون ڈالا۔ وہ دن اور آج کا دن، بنگلہ دیش آرمی اور اس کی مسلح معاون رجمنٹیں، انڈین فوج کی براہِ راست اور تابع مہمل اکائیاں ہیں، بلکہ حسینہ واجد نے یہ طے کرایا ہے کہ بنگلہ دیشی فوج کا سربراہ، انڈین فوج کے مشورے سے مقرر کیا جائے گا۔
حسینہ واجد نے ۲۰۰۹ء سے ۲۰۲۴ء کے دوران میں جو حکمرانی کی ہے، اس میں اپنے اقتدار کی مضبوطی، مدمقابل قوتوں سے انتقام، اپنی پارٹی مافیا کے استحکام اور انڈیا کے تابع نظامِ حکومت کو وسعت دینا شامل رہا ہے۔ اس دوران نام نہاد انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل (ICT) کے ذریعے جماعت اسلامی کے چوٹی کے رہنمائوں کو پھانسیاں دی گئی ہیں۔ جماعت اسلامی کو الیکشن لڑنے سے نااہل قرار دیا اور مولانا مودودی کی کتب کی اشاعت پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
اگرچہ ۲۰۱۸ء میں بھی کوٹہ سسٹم ، جو کہ عوامی لیگی کارکنوں کو نوازنے کا ایک شرمناک بہانہ تھا، اس کے خلاف مظاہرے ہوئے، مگر ان کو دبا دیا گیا۔ پھر عوامی لیگ نے اپنے فعال کارکنوں پر مشتمل ہائی کورٹ ججوں کے ذریعے کوٹہ سسٹم میں ۳۰ فی صد استحقاق کو محفوظ بنایا، تو نئی نسل میں بے چینی پھیلنا شروع ہوئی۔
یہ تقسیم اس طرح ہے کہ ۳۰ فی صد مکتی باہنی کے لوگوں کے پوتوں دوہتوں کا حق، ۱۰فی صد عورتوں کا، ۱۰ فی صد غیرترقی یافتہ علاقوں کا، ۵ فی صد قبائل کا اور ایک فی صد معذوروں کا حق ہے۔ اس طرح عوامی لیگ کے من پسندوں کو چھوڑ کر، پورے بنگلہ دیش کے نوجوانوں کے لیے ۴۴ فی صد حصہ رہ جاتا ہے، جو اپنی جگہ انتظامیہ کے رحم و کرم پر ہے، کہ وہ جسے چاہے رکھیں۔
جولائی ۲۰۲۴ء میں مضطرب طلبہ و طالبات نے ڈھاکہ یونی ورسٹی میں احتجاج کیا تو ۱۳جولائی کی سہ پہر حسینہ واجد نے طنز کرتے ہوئے کہا: ’’کوٹے کی مخالفت کرنے والے غدار ہیں، یہ پاکستان کے ایجنٹ ہیں، اور رضاکار ہیں‘‘۔ یاد رہے ۵۴ سالہ تاریخ میں بنگلہ دیش نے اپنے ہاں لفظ ’رضاکار‘ کو: تعلیم، صحافت، تاریخ اور سیاست کے میدان میں گالی بنادیا ہے۔ جیسے ہی حسینہ واجد نے یہ جملہ کہا تو طلبہ و طالبات نے اس ’گالی‘ کو اپنے لیے اعزاز سمجھ کر اپنا لیا اور ڈھاکا یونی ورسٹی کے درودیوار گونجنے لگے: ’تو کون، میں کون___ رضاکار، رضاکار۔ اس پر حکومت نے جھنجلاہٹ میں کہا: ’’یہ نعرے لگانے والے غدار ہیں، جماعت اسلامی کے ایجنٹ ہیں، ان کو سبق سکھانے کے لیے عوامی لیگ کے کارکن اور ہماری طلبہ تنظیم چھاترو لیگ ہی کافی ہے‘‘۔ یہ بیان وزیرقانون، وزیرداخلہ اور وزیر اطلاعات نے تکرار کے ساتھ دُہرایا۔ ساتھ ہی عوامی لیگی مسلح کارکنوں کو کھلی چھٹی دے دی کہ وہ طلبہ و طالبات پر حملے کریں، ان کے سامان کو لوٹیں، کمروں کو آگ لگائیں، ہڈیاں توڑیں یا قتل کریں۔ یوں صرف دو دن میں پورا بنگلہ دیش ایک دہکتا ہوا الائو بن گیا۔
اسلامی جمعیت طلبہ جو اس تحریک میں حصہ لینے والا ایک حامی اور مددگار کردار ہے، اس کے تین ہزار سے زائد کارکنوں کو صرف پہلے دو روز میں گرفتار کرلیا گیا۔ پولیس تماشائی بن کر عوامی لیگیوں کی سرپرستی کے لیے ساتھ ساتھ چلتی رہی، اور عوام میں غصہ بڑھتا گیا، طلبہ و طالبات کٹ کٹ کر سڑکوں پر گرتے رہے۔ پھر جب بہتے خون کا دریا بلند ہوا تو حسینہ واجد نے جمعہ ۱۹جولائی کی رات پورے بنگلہ دیش میں فوج طلب کرکے کرفیو نافذ کرنے کا اعلان کردیا، اخبارات کی اشاعت پر پابندیاں عائد کردیں، انٹرنیٹ کی سروس معطل اور سڑک پر آتے ہی مظاہرین کو گولی مار دینے کا حکم دے دیا۔ اس سب کے باوجود ہنگامے تھمنے میں نہیں آرہے۔
۲۴ جولائی کو طلبہ تحریک کے لیڈروں نے پریس کانفرنس سے خطاب کیا، جو وی پی این کے ذریعے دُنیا میں پھیل گیا: ’’حسینہ واجد نے چھاترو لیگ (اسٹوڈنٹس لیگ) کے نام سے دہشت گرد پیدا کیے ہیں۔ اس نے ووٹ کی عزّت پامال کی ہے۔ اس نے جمہوریت کو برباد کیا ہے۔اس نے عدالتی نظام کو کچل کر رکھ دیا ہے۔ اس نے پولیس میں عوامی لیگی غنڈوں کو بھرتی کرکے عوامی لیگ پارٹی کو ذاتی مافیا کا درجہ دے رکھا ہے۔ اس نے بنگلہ دیش رجمنٹ کے ذہین ترین افسروں کو گولیوں سے اُڑا دیا ہے۔ اس نے میرٹ کے نام پر پارٹی بدمعاشوں کو بھرتی کرنے کا ایک مربوط نظام قائم کیا ہے، جس کے جال کو توڑنا عام آدمی کے لیے ممکن نہیں رہا۔ اس نے ملک کا اقتداراعلیٰ، انڈین حکومت اور انڈین فوج کے ہاتھوں بیچ دیا ہے۔ ہم ایسی حکومت اور ایسی پارٹی کے اقتدار کو مسترد کرتے ہیں۔ ہماری معلومات کے مطابق ڈیڑھ ہزار سے زیادہ طلبہ و طالبات اور شہری شہید ہوچکے ہیں۔ ۲۵ہزار سے زیادہ مہلک زخموں سے چور موت و حیات کی کش مکش میں مبتلا ہیں۔ ۶۱ہزار سے زیادہ طلبہ و طالبات اور شہری گرفتار کرلیے گئے ہیں۔ ہم عالمی اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ نہتے بنگلہ دیشی طلبہ و طالبات کو بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں‘‘۔
’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ (AI)نے اپنے بیان میں کہا ہے: ’’ہم نے فوٹوگرافی، ویڈیو ریکارڈنگ کے ذریعے اور دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ یہ معلومات جمع کی ہیں کہ بنگلہ دیشی سیکورٹی فورسز نے طلبہ و طالبات مظاہرین کے خلاف غیرقانونی اور بدترین طاقت استعمال کی ہے۔ ان نہتوں پر براہِ راست گولیاں چلائی گئی ہیں۔ بند جگہوں میں مظاہرین کو دھکیل کر خطرناک اور جان لیوا آنسو گیس کا استعمال کیا گیا ہے، اس طرح دم گھٹنے سے بہت سے لوگوں کی ہلاکت ہوئی ہے۔ ’اے کے پٹرن اسالٹ رائفلز‘ جیسے مہلک آتشیں اسلحے کا بے لگام اور اندھا دھند استعمال کیا گیا ہے۔ ہم فوری طور پر غیرجانب دار انہ تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں اور ہلاک شدگان کی درست معلومات فراہم کرنے پر زو ر دیتے ہیں‘‘۔ ۲۳جولائی کو ’ہیومن رائٹس واچ‘ (HRW) نے الزام عائد کیا: ’’بنگلہ دیش کی جیلیں اور حوالات سیاسی قیدیوں سے بُری طرح ٹھونسی ہوئی ہیں‘‘۔
۲۵جولائی کو ایک اور بھیانک واقعہ یہ ہوا کہ طلبہ مظاہروں کو دبانے کے لیے حکومت نے بنگلہ دیش میں اقوام متحدہ کے نشان والی بکتربند گاڑیوں اور ہیلی کاپٹروں کو استعمال کیا ۔ جس پر مختلف ممالک کے سفیروں نے عوامی لیگی حکومت پر سخت سوالات کی بوچھاڑ کردی۔ معلوم ہونا چاہیے، اس وقت اقوام متحدہ کے ’امن مشن‘ پروگرام میں بنگلہ دیش آرمی، بنگلہ دیش پولیس، بنگلہ دیش بارڈر گارڈ (BBG) اور ’ریپڈ ایکشن بٹالین‘ (RAB) سستے کرائے کے فوجیوں کی مانند خدمات انجام دے رہے ہیں کہ ان کے پاس کرنے کا کوئی کام نہیں (کیونکہ ’دفاعی ذمہ داری‘ تو انڈین آرمی اپنے ہاتھوں میں لے چکی ہے، یا یہ ذمہ داری اسے دی جاچکی ہے)۔ اس لیے ان بنگلہ دیشی فورسز کا اقوام متحدہ کی گاڑیوں اور ہوائی مشینوں کے نشانات کے پردے میں طلبہ کے خلاف استعمال کرنا، دُنیا بھر میں زیربحث ہے۔
بظاہر امن کی فضا بحال ہوتی نظر نہیں آرہی۔ ان حالات میں انڈیا کی کوشش ہے کہ حسینہ واجد کی صورت میں بدنما حکومت سے جو کام لینا تھا وہ لے لیا اور اب اگر اس سے چھٹکارا پانا ضروری ہو تو اسے چلتا کیا جائے۔ جنرل معین الدین احمد کی طرح موجودہ بنگلہ دیش آرمی چیف جنرل وقارالزماں سے مدد لے کر عوام کی توجہ تقسیم کی جائے(یاد رہے جنرل وقار،حسینہ واجد کے قریبی عزیز اور بھروسے کے آدمی ہیں)۔ لیکن عوام نہ تو انڈیا کا نام سننا چاہتے ہیں اور نہ انڈیا سے منسلک کسی نسبت پہ اعتبار کرنے کو تیار ہیں۔ دوسری طرف انڈیا کے اخبارات اور آر ایس ایس کے سوشل میڈیا پر متحرک گروپ یہ کہہ رہے ہیں: ’’حسینہ واجد کی اقتدار سے بے دخلی، انڈین مفادات کی بربادی ہے۔ اگر یہ حکومت گئی تو جماعت اسلامی اسلامی نظام لانے کے لیے آگے بڑھے گی۔ پھر دوسری طرف خالدہ ضیاء کی بی این پی اور جماعت اسلامی نے پورے بنگلہ دیش میں مہم چلا رکھی ہے کہ مارکیٹ میں انڈیا کے ہرمال کا بائیکاٹ کیا جائے۔ اس لیے ضروری ہے کہ جماعت کے لوگوں کو دبایا،پکڑا یا مارا جائے‘‘___ دُنیا بھر کے امن پسند شہری ظلم کی اس یلغار پر نوحہ کناں ہیں۔
انڈین خفیہ ایجنسی ’را‘ کے زیرنگرانی چلنے والے نام نہاد ’بنگلہ دیش انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل‘ (ICT) اور پھر بنگلہ دیشی سپریم کورٹ نے بنگلہ دیش بننے کے چالیس برس بعد اچانک ایک عدالتی ڈراما شروع کیا۔ جس کے تحت وہاں کے معزز سیاسی و دینی رہنمائوں مطیع الرحمٰن نظامی[۱۱مئی ۲۰۱۶ء]، علی احسن مجاہد[۲۲ نومبر۲۰۱۵ء]، میرقاسم علی [۳ستمبر ۲۰۱۶ء]، قمر الزماں [۱۱؍اپریل ۲۰۱۵ء]، عبدالقادر مُلّا[۱۲دسمبر۲۰۱۳ء]،صلاح الدین قادری چودھری [۲۲نومبر ۲۰۱۵ء]کو پھانسی دے دی، جب کہ پروفیسر غلام اعظم (م: ۲۳؍اکتوبر ۲۰۱۴ء)، اے کے ایم یوسف (م: ۹فروری ۲۰۱۴ء)، مولانا عبدالسبحان (م:۱۴فروری ۲۰۲۰ء) ، دلاور حسین سعیدی (م:۱۴؍اگست ۲۰۲۳ء) کو قیدکے دوران موت کی وادی میں دھکیل دیا۔
دوسری طرف جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے متعدد رہنمائوں کو غیرحاضری میں پھانسی کی سزائیں سنادیں۔ پھر ایک بڑی تعداد اِن جعلی عدالتوں کی بے مغز اور بے ثبوت کارروائیوں کے بوجھ تلے آج تک جیلوں میں بند ہے۔ جماعت اسلامی بحیثیت سیاسی پارٹی، قومی یا بلدیاتی انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتی۔جماعت کو اجتماع کرنے کی آزادی نہیں ہے۔ اس کے رفاہی ادارے تباہ کردیئے گئے ہیں، یا ان پر عوامی لیگی حکومت نے قبضہ کر لیا ہے۔ مولانا مودودی کی کتب کو دو مرتبہ لائبریریوں سے نکال نکال کر جلایا یا ضائع کیا گیا ہے۔ حالیہ عرصے میں جماعت اور جمعیت کے کارکنوں کے قاتلوں کو کھلی چھٹی دی گئی ہے۔
اس تمام بے انصافی، ظلم اور انسانی حقوق کی پامالی پر برصغیر (بنگلہ دیش، انڈیا، پاکستان) میں انسانی حقوق کے علَم بردار خاموش اور قاتل حسینہ واجد کے طرف دار ہیں۔ مذکورہ بالا عدالتی ڈرامے میں، بنگلہ دیش کی انھی کنگرو عدالتوں نے چودھری معین الدین (فی الوقت بنگلہ نژاد برطانوی شہری) کو بھی غیرموجودگی میں سزائے موت سنائی تھی۔یاد رہے معین الدین زمانہ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ ڈھاکہ سے وابستہ تھے، لیکن انتخابات کے سال ۱۹۷۰ء اور فساد کے سال ۱۹۷۱ء میں وہ ایک ممتاز اور فعال صحافی کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے۔ سزائے موت سنانے کے بعد بنگلہ دیش حکومت نے ریڈ وارنٹ جاری کراتے ہوئے، معین الدین کی حوالگی کا مطالبہ کیا۔
۲۰۱۹ء میں برطانوی ہوم ڈیپارٹمنٹ نے اپنی رپورٹ میں انھیں ایک سزایافتہ اور جنگی مجرم کے طور پر درج کیا۔ جس پر معین الدین چودھری نے برطانوی سپریم کورٹ میں ’ہتک ِ عزّت‘ کا دعویٰ کیا۔ انھوں نے بنگلہ دیشی عدالتی کارروائی اور فیصلے کو جعلی، ظالمانہ، بے بنیاد اور توہین آمیز قرار دیتے ہوئے دادرسی کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا، جس پر جمعرات ۲۰جون ۲۰۲۴ء کو برطانوی سپریم کورٹ نے تاریخی فیصلہ دیتے ہوئے، معین چودھری کو بنگلہ دیشی عدالت کے نام نہاد فیصلے سے بری قرار دیا اور پُرزور لفظوں میں حسینہ واجد کی غلام ’عدالتوں‘ کی حیثیت کو بے نقاب کر دیا۔ یہاں پر اسی فیصلے کی روشنی میں چند حقائق پیش کیے جارہے ہیں۔
برطانوی سپریم کورٹ میں ممتاز مسلم کمیونٹی رہنما چودھری معین الدین کی جانب سے برطانوی ہوم سیکرٹری کے خلاف ہتک عزّت کا مقدمہ دائر کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کے صدر لارڈ ریڈ نے اس کی سماعت مکمل ہونے کے بعد متفقہ تاریخی فیصلے کا اعلان کیا۔ کیس کی سماعت یکم و ۲ نومبر ۲۰۲۳ء کو ہوئی، لارڈ ریڈ کی سربراہی میں سماعت کرنے والے بنچ میں جسٹس لارڈ سیلز، لارڈ ہیمبلن، لارڈبروز اور لارڈ رچرڈز شامل تھے۔
دسمبر ۲۰۱۹ء میں، چودھری معین الدین نے قانونی فرم ’کارٹرک‘ کے ذریعے ہوم آفس کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ شروع کیا۔ اس کی قانونی ٹیم میں سینئر وکیل ایڈم ٹیوڈر اور مشیر جیکب ڈین اور للی واکر پار شامل تھے۔ چودھری معین نے برطانوی ہوم آفس کے کمیشن برائے انسداد انتہا پسندی کی ۲۰۱۹ء کی رپورٹ کی مناسبت سے ہوم سیکرٹری کے خلاف:’’منافرت انگیز انتہا پسندی کو چیلنج ‘‘کے عنوان سے کارروائی شروع کرائی۔ دراصل ہوم آفس کی رپورٹ میں چودھری معین الدین پر ’انتہا پسندی‘ کا الزام لگاتے ہوئے بنگلہ دیش میں نام نہاد ’جنگی جرائم کی عدالت‘ کے متنازعہ فیصلے کا حوالہ دیاگیا تھا۔ ۱۹۷۱ء میں پاکستان کے خلاف جنگ کے دوران چودھری معین الدین نے اپنے پر لگنے والے تمام ’جنگی جرائم‘ کے تمام الزامات کی سختی سے تردید کی اور بنگلہ دیشی حکام کے الزامات کو مکمل طور پر بے بنیاد اور سیاسی محرک قرار دیا۔
برطانوی سپریم کورٹ نے فیصلے میں لکھا ہے: چودھری معین الدین ۱۹۴۸ء میں مشرقی بنگال میں پیدا ہوئے، جو اس وقت پاکستان کا حصہ تھا۔ بنگلہ دیش نے دسمبر ۱۹۷۱ء میں جنگ سے گزر کر پاکستان سے علیحدگی اختیار کی۔۱۹۷۳ء سے، چودھری معین الدین برطانیہ کے رہائشی ہیں اور ۱۹۸۴ء سے برطانوی شہری ہیں۔ برطانیہ میں اپنے قیام کے دوران، انھوں نے متعدد سماجی اور رفاہی اداروں میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اسی طرح کئی اعلیٰ سطحی شہری اور انسانی ہمدردی کے عہدوں پر فائز رہے ہیں، جن میں کونسل برائے مساجد برطانیہ اور آئرلینڈ کے سیکرٹری جنرل اور برطانوی وزارت صحت کے تحت ایک پراجیکٹ 'NHS میں مسلم اسپرچوئل کیئر پروویژن کے ڈائریکٹر شامل ہیں۔ وہ بین الاقوامی انسانی فلاحی تنظیم ’مسلم ایڈ یو کے‘ کے بانی ممبر اور چیئرمین تھے۔ انھوں نے ایک متنوع کثیر العقیدہ اتحاد کی سربراہی کی، جس میں عالمی مذہبی گروہ شامل ہیں، جن میں مسلم، عیسائی، یہودی، ہندو، بودھ مت اور دیگر مذہبی کمیونیٹیوں کے معزز لوگ شامل ہیں۔
فیصلے میں کہا گیا ہے: چودھری معین الدین نے بنگلہ دیش میں چلنے والے مقدمے تک، ۴۱سال کے دوران برطانیہ میں کھلے عام اور فعال زندگی گزاری۔ بنگلہ دیشی حکومت اس پورے عرصے میں ان کے ٹھکانے سے باخبر تھی۔ بنگلہ دیشی خصوصی عدالت کا یہ کہنا کہ ’’وہ یا تو 'مفرور تھے یا 'خود کو چھپا لیا تھا‘‘، واضح طور پر غلط مفروضہ ہے۔ فیصلے میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ چودھری معین الدین کو ۲۰۱۳ء میں بنگلہ دیش کے انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل (ICT) نے ۱۹۷۱ء کی جنگ کے دوران انسانیت کے خلاف مبینہ جرائم کے الزام میں ۴۰ سال بعد اچانک غیرحاضری میں سزائے موت سنائی تھی۔
اپنی کارروائی کے دوران قابلِ قبول عدالتی معیارات کو برقرار رکھنے میں ICT بُری طرح ناکام رہا۔ اس نے اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے ان گواہوں کی گواہی پیش کی، جو اس وقت نابالغ تھے۔ ان شواہد، اور میڈیا رپورٹس کی اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی عدالتی، قانونی اور انسانی حقوق کے اداروں کی طرف سے بڑے پیمانے پر تنقید اور مذمت کی گئی ہے۔ یورپی یونین، اور بہت سی غیر ملکی حکومتیں انھیں مسترد کرچکی ہیں۔
فیصلے میں یہ بھی بتایا گیا ہے:انٹرپول نے ابتدائی طور پر بنگلہ دیش کی حکومت کی درخواست پر چودھری معین الدین کے خلاف ’ریڈوارنٹ‘ جاری کیا تھا، لیکن بعد میں ICTکے قانونی طریق کار کی بے ضابطگیوں اور مضحکہ خیز حرکتوں کا حوالہ دیتے ہوئے اسے منسوخ کر دیا گیا، جو بین الاقوامی منصفانہ سماعت کے معیارات کی سنگین خلاف ورزی کرتے ہوئے سزائیں دے رہا ہے۔
فیصلے میں انٹرپول کمیشن کے حوالے سے ان بین الاقوامی اداروں کی ایک طویل فہرست بھی دی گئی ہے، جنھوں نے آئی سی ٹی کی کارروائیوں پر تنقید کی تھی جیسے: اقوام متحدہ(ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق، ججوں اور وکلا کی آزادی کے لیے خصوصی نمائندے، خصوصی نمائندہ ماورائے عدالت، سزائے موت اور تشدد پر خصوصی ورکنگ گروپ) مختلف غیر ملکی حکومتیں اور قومی ادارے (امریکا کے خصوصی سفیر برائے عالمی فوجداری انصاف)، ریاستہائے متحدہ کانگریس کے ٹام لینٹوس، انسانی حقوق کمیشن، یورپی یونین پارلیمنٹ، برطانیہ کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی مختلف تنظیمیں یعنی ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل، انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹ، انٹرنیشنل سینٹر فار ٹرانزیشنل جسٹس وغیرہ___ یہ سبھی ادارے بنگلہ دیشی ٹریبونل (ICT) کے طریق کار پر شدید تحفظات اور سخت تشویش کا اظہار اور گواہوں کے اغوا، دھمکیوں کے واقعات کی دستاویز پیش کرتے آئے ہیں۔ دفاعی وکیل، میڈیا سنسرشپ، حکومت کی طرف سے مجرم کو سزا دینے کا دباؤ، عدالتی افسران کی آزادی کا فقدان بھی شامل ہے۔ خود بنگلہ دیشی حکام کی فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر صاف طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ معین چودھری کے خلاف انٹرپول کے آئین یا انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کے مطابق آئی سی ٹی کی شفاف کارروائی نہیں کی گئی۔
برطانوی ہوم سیکرٹری نے معین الدین کے دعوے کو مسترد کرنے کے لیے عدالت میں درخواست دائر کی تھی اور کہا تھا کہ معین الدین کا ہتک عزت کا مقدمہ برطانوی ہائی کورٹ میں قابلِ سماعت نہیں ہے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ ۱۹۹۵ء میں چینل۴ کی دستاویزی فلم میں جنگی مجرم قرار دینے اور بنگلہ دیشی عدالت سے سزا کی بنیاد پر معین الدین کی ساکھ ختم ہوگئی ہے۔ عدالت نے ہوم آفس کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے لکھا کہ چینل ۴ کی دستاویزی فلم کے بعد سے، معین الدین نے ایچ ایم دی کوئین اور موجودہ بادشاہ اور اس وقت کے پرنس آف ویلز سے کئی مواقع پر ملاقات کی، بکنگھم پیلس میں کوئینز گارڈن پارٹیوں میں شرکت کی۔ سپریم کورٹ کے صدر لارڈ ریڈ نے کارروائی کی نگرانی کرتے ہوئے لکھا: ’’کسی بھی فرد کے لیے عدالتوں تک رسائی کا بنیادی شہری حق ہے۔ اس حق کو صدیوں سے عام قانون اور میگنا کارٹا کے ذریعے تسلیم کیا گیا ہے، اور یہ انسانی حقوق ایکٹ ۱۹۹۸ء کے تحت محفوظ ہے‘‘۔
برطانوی سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ایک تاریخی عدالتی فتح ہے۔ اگر بنگلہ دیش کا نام نہاد انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل (ICT) واقعی ’انٹرنیشنل‘ اور ایک عدل و انصاف کا فورم ہوتا تو دُنیا اس کے فیصلوں کو مانتی۔ اس نوعیت کا ڈراما تو اس سے قبل دوسری جنگ ِ عظیم کے بعد نیورمبرگ اور ٹوکیو ٹرائلز میں بھی نہیں کھیلا گیا تھا، مگر بنگلہ دیش میں یہ سنگین، صریح اور کھلی بے انصافی کی گئی۔ برطانوی ہوم سیکرٹری کو چودھری معین کی بلندپایہ قانونی ٹیم اور درخواست کے مندرجات کی سچائی اور بنگلہ دیشی عدالت کی بددیانتی کا پردہ چاک ہونے کی بنیاد پر شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے صدر جج لارڈر یڈ کی جانب سے برطانوی ہوم سیکرٹری کے استدلال کو ’بیہودہ‘ قرار دینا ایک اہم موڑ تھا۔ یاد رہے اس فیصلے کو لکھنے والے تمام افراد غیرپاکستانی اور غیرمسلم ہیں، کہ جن پر کسی حوالے سے پاکستانی یا اسلامی ہونے کے ’تعصب‘ کی پھبتی نہیں کَسی جاسکتی۔ انھوں نے فیصلہ خالص قانون اور عدل کی بنیاد پر دیا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ دُنیا بھر میں جن لوگوں پر، بے گناہ پھانسی پانے والے افراد کی مظلومیت کا کیس پیش کرنے کی ذمہ داری ہے، ان پر لازم ہے کہ وہ اخبارات، ذرائع ابلاغ، سوشل میڈیا، سیمی ناروں اور تحقیقی و تجزیاتی مقالات کی صورت میں مظلوم مقتولین کا کیس پیش کریں اور بنگلہ دیشی قاتل حکومت کو مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کریں۔
ہم میں سے بہت سے لوگ سال میں چند بار پرندوں کا گوشت کھاتے ہیں، لیکن دنیا بھر میں لوگوں کی ایک غیر معمولی تعداد ان کی بھی ہے جو فطری ماحول میں ان کا مشاہدہ کرکے خوش ہوتی ہے۔ غزہ شہر کی چالیس سالہ دو جڑواں بہنیں میندی اور لارا سردہ بھی پرندوں کا ان کے فطری ماحول میں مشاہدہ کرنے کی شوقین ہیں۔ تقریباً ایک عشرہ قبل انھوں نے اپنے گھر کے پچھواڑے میں پرندوں کی تصویریں بنانا شروع کر دی تھیں۔ انھوں نے سوشل میڈیا پر اپنی تصویریں پوسٹ کرنا شروع کیں، آخرکار غزہ کی پٹی میں دلدل اور پرندوں کی متحرک سرگرمیوں کے دیگر مقامات کا دورہ کیا۔ ۲۰۲۳ء میں غزہ کے پرندوں کی دستاویزبندی اور ان کی پہلی فہرست کی اشاعت میں بنیادی کردار ادا کیا۔
اگر یہاں اسرائیلی قبضہ نہ ہوتا — اور موجودہ بڑے پیمانے پر جنگ جس میں ۳۴ ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے ہیں، جن میں سے ۷۲ فی صد خواتین اور بچے ہیں، اور ۶۲ فی صد مکانات کو نقصان پہنچا یا یا تباہ کر دیا گیا ہے، — تو غزہ پرندوں کے لیے مثالی آماج گاہ ہوتا۔ مشرق وسطیٰ کے بیش تر حصوں کی طرح، یہ علاقہ لاکھوں نقل مکانی کرنے والے پرندوں کے لیے دنیا کی عظیم فضائی گزرگاہوں میں سے ایک ہے۔ بحیرۂ روم سے جڑا اس کا ساحل پرندوں کو راغب کرتا ہے۔ وادیٔ غزہ، ایک ندی سے چلنے والا گھاٹی اور سیلابی میدان جو غزہ کے وسط میں پرندوں کی ۱۰۰سے زیادہ اقسام کے ساتھ ساتھ نایاب پرندوں کا گھر ہے۔ دوسرے لفظوں میں، زمین کی وہ پٹی پرندوں کی جنت ہے۔
پرندوں کی اس جنّت کو کن مسائل کا سامنا ہے؟ اس کی طرف ڈیلی بیسٹ نے ایک سال پہلے رپورٹ میں اشارہ کیا تھا: غزہ میں پرندوں کی نگرانی کرنے کا مطلب لامتناہی پابندیوں کا سامنا کرنا ہے۔ اسرائیل مصر کی سرحد کے علاوہ غزہ کے علاقائی پانیوں، فضائی حدود اور لوگوں اور سامان کی نقل و حمل کو کنٹرول کرتا ہے۔ زیادہ تر فلسطینی جو ۲۰۰۷ء میں مسلط کردہ پابندیوں کے بعد سے غزہ میں پلے بڑھے ہیں، جب سے حماس کی زیر قیادت فلسطینی اتھارٹی کا کنٹرول حاصل ہوا ہے، انھوں نے ۳۷کلومیٹر لمبی اور ۱۰کلومیٹر چوڑی پٹی کو کبھی نہیں عبور کیا۔
غزہ میں پرندوں کا مشاہدہ کرنے کے لیے مختلف آلات کا حصول غزہ سے باہر نکلنے سے بھی زیادہ دشوار ہے بلکہ تقریباً ناممکن ہے۔ یہاں تک کہ اگر وہ ٹیلی فوٹو لینز کے ساتھ دوربین یا کیمرے خریدنے کی استطاعت رکھتے ہیں، تو اسرائیلی حکومت اس طرح کے آلات کو ممکنہ طور پر فوجی اور شہری مقاصد کے لیے کام کرنے کے طور پر دیکھتی ہے اور اس لیے ان اشیاء کو حاصل کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر غزہ میں پرندوں کے بارے مطالعے کی غرض سے سازوسامان کو لانے کے لیے لارا سردہ کو اجازت کے لیے مختلف دستاویزات درکار تھیں۔
غزہ سے باہر نکلنا اور کسی دوسرے ملک جانا تقریباً ناممکن ہے۔ اس کے ۲۳ لاکھ باشندوں میں سے زیادہ تر کی طرح دونوں بہنیں پرندوں کی کانفرنسوں میں شرکت کرنے، اپنی فوٹو گرافی کی نمائشوں کا اہتمام کرنے، یا اپنے کام پر ایوارڈ حاصل کرنے کے لیے بھی علاقہ چھوڑ نہیں سکتی تھیں۔ گویا وہ زمین کی ایک پٹی میں قید ہیں۔ ذرا تصور کیجیے کہ اس چھوٹی سی جگہ پر ۲۳ لاکھ لوگوں کو دھکیلنا، اس کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک بموں اور میزائلوں سے ان کا پیچھا کرنا اور اس سب کے باوجود ایک بار پھر سب کچھ شروع کرنا کیسا ہوگا؟ جیسا کہ اسرائیل لاکھوں پناہ گزینوں کے ساتھ جنوبی غزہ کے شہر رفح میں کرنے جا رہا ہے۔
lتعلیمی اداروں کی تباہی کا ہدف: لاراسردہ نے اپنے پرندوں کی جانچ پڑتال کے منصوبے میں پروفیسر عبدالفتاح کے ساتھ تعاون کیا، جو غزہ کی اسلامی یونی ورسٹی میں ماحولیاتی علوم کے ایک بہت ہی معزز پروفیسر ہیں۔ وہ غزہ میں پرندوں اور دیگر جنگلی حیات کے مطالعے اور تحفظ کے لیے اپنے آپ کو وقف کیے ہوئے ہیں۔ غزہ کی اسلامی یونی ورسٹی موجودہ جنگ کے پہلے ادارہ جاتی اہداف میں سے ایک تھی۔ اس پر ۱۱؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کو اسرائیلی افواج نے بمباری کی تھی۔ اسرائیلی اخبار ہارٹیز کے مطابق، غزہ میں علم کے وسیع ذخیرے اور تعلیمی اداروں کو مٹانے کا منصوبہ بنیادی طور پر مکمل ہو چکا ہے۔
غزہ میں یونی ورسٹیوں کی مکمل تباہی، جنگ کے پہلے ہفتے میں اسلامی یونی ورسٹی پر بمباری سے شروع ہوئی اور ۴ نومبر سے اسراء یونی ورسٹی پر فضائی حملوں کے ساتھ جاری رہی۔ اس کے بعد سے، غزہ کے تمام تعلیمی ادارے تباہ ہو چکے ہیں، اور ساتھ ہی بہت سی لائبریریاں، آرکائیوز اور دیگر تعلیمی ادارے بھی اپنی کتب، دستاویزات، لیبارٹریوں اور تمام امتحانی ریکارڈ سمیت تباہ ہوچکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمیشن کے مطابق: ’’غزہ میں ۸۰ فی صد سے زیادہ اسکولوں کو نقصان پہنچا یا یا تباہ کر دیا گیا ہے۔ فلسطینی تعلیمی نظام کو جامع طور پر تباہ کرنے کی جان بوجھ کر کوشش کی جا رہی ہے۔ یقینا یہ ایک کارروائی بطور ’علمی قتل‘ ہی ہے!
اقوام متحدہ کے ماہرین کی رپورٹ کے مطابق:چھ ماہ کے فوجی حملے کے بعد، غزہ میں ۱۷ہزار سے زیادہ بچے، ۵ہزار ۴سو ۶۹ سے زیادہ طلبہ، ۲۶۱؍ اساتذہ اور یونی ورسٹیوں کے ۹۵پروفیسر مارے جا چکے ہیں، اور ۷ہزار ۸سو۱۹ سے زیادہ طلبہ اور ۷۵۶؍ اساتذہ زخمی ہوچکے ہیں۔ یہ تعداد ہر روز بڑھ رہی ہے۔ کم از کم ۶۰ فی صد تعلیمی سہولیات بشمول ۱۳ پبلک لائبریریوں کو نقصان پہنچایا یا تباہ کیا جاچکا ہے اور کم از کم۶ لاکھ ۲۵ ہزار طلبہ کی تعلیم تک رسائی نہیں رہی۔ مزید ۱۹۵ تاریخی مقامات، ۲۲۷ مساجد اور تین گرجا گھروں کو بھی نقصان پہنچایا گیا یا تباہ کردیا گیا ہے، جن میں غزہ کے مرکزی آرکائیوز بھی شامل ہیں، جن میں ۱۵۰ سال کی تاریخ اور سیکڑوں برس پرانے مخطوطے تھے۔ اسراء یونی ورسٹی، غزہ کی آخری باقی ماندہ یونی ورسٹی کو اسرائیلی فوج نے ۱۷جنوری ۲۰۲۴ء کو مسمار کر دیا۔
میں جاننا چاہتی تھی کہ کیا پروفیسر عبدالفتاح ان ۹۵ یونی ورسٹی فیکلٹی پروفیسروں میں شامل تھے، جو غزہ کی جنگ میں اب تک مارے گئے تھے؟ میں نے انھیں ’گوگل‘ کیا اور ان کا ’فیس بک پیج‘ تلاش کیا۔ پتا چلا کہ وہ ابھی زندہ ہیں اور حال ہی میں مایوس کن حالات، بیماری، آلودگی، تباہ شدہ سیوریج کے بارے میں پوسٹ کر رہے ہیں۔ عارضی پناہ گاہوں میں پناہ گزینوں کو جس کا سامنا تھا، ان کی انھوں نے ایک تصویر پوسٹ کی۔ کچھ دن پہلے، انھوں نے ایک اور ذاتی تصویر اَپ لوڈ کی تھی: سفید چیزوں کا ایک پلاسٹک بیگ، جس پر نیلے عربی حروف میں لکھا ہوا تھا: ’بارش کا پہلا قطرہ‘۔ انھوں نے لکھا: ’’الحمدللہ، آٹے کا پہلا تھیلا مہینوں بعد میرے گھر میں مدد کے طور پر ملا۔سردا اور اس کی جڑواں بہن بھی زندہ ہیں، اور وہ اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر پوسٹ کرتی ہیں۔
’اسکولوں کے قتل عام‘ کے ساتھ ساتھ، اہل غزہ ایک انسانیت کش ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں۔ جیسا کہ گارڈین کی رپورٹ کے مطابق، غزہ نے تقریباً نصف درخت اور کھیتی باڑی کی ساری بنیاد کھو دی ہے، جس کا بیش تر حصہ زمین میں تیل اور گولہ باری سے برباد اور پانی اور فضا زہریلے مادوں سے آلودہ ہوچکے ہیں۔ سمندر کا پانی سیوریج اور فضلہ کے ساتھ آلودہ ہوگیا ہے۔ غزہ بنیادی طور پر ناقابلِ رہائش بن چکا ہے، اور آنے والے برسوں تک اسی صورتِ حال سے دوچار رہے گا۔ اور پھر بھی لاکھوں لوگ وہاں رہنے پر مجبور ہیں۔ انسان اس بات پر حیران ہوتا ہے کہ کیا زہریلے مادوں سے اَٹی فضا، اذیت ناک ماحولیات اور دیگر اُمور انسانی زندگی برقرار رہنے کا باعث ہوسکتے ہیں؟
lغزہ کے پرندے:غزہ کے جنگلی پرندوں کے ساتھ ساتھ پنجروں میں بند چہکنے والے پرندے اب بھی بازاروں میں خریدے جاسکتے ہیں اور رفح کے کچھ مایوس باشندے انھیں تلاش کرتے ہیں، اس امید پر کہ ان کی آوازوں میں بھری موسیقی جنگ کی آوازوں کو چھپادے گی۔ وائس آف امریکا نے نقل مکانی کرنے والی ایک خاتون کی رُوداد سنائی، جس نے سفر کے دوران محسوس کیا کہ اس نے اپنے پرندوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ وہ پنجرے میں بند ایوئین کو بچانے کے لیے واپس آئی، اور یوں ان پرندوں کے ساتھ گہری محبت کا مظاہرہ کیا۔ تاہم، پروفیسر عبدالفتاح کہتے ہیں: ’’زیرتسلط افراد کے طور پر ہمیں پرندوں کو پنجروں میں قید نہیں رکھنا چاہیے‘‘۔
’غزہ کے پرندے‘ بھی ایک بین الاقوامی آرٹ پروجیکٹ کا نام ہے، جو جنگ میں مارے گئے بچوں کی یاد منانے کے لیے بنایا گیا ہے۔ اس پروجیکٹ کی بنیاد سادہ ہے: دنیا بھر کے بچے ایک مخصوص مقتول فلسطینی بچے کا انتخاب کریں، اور اس کے اعزاز میں پرندے کو پینٹ کریں۔ ۶ہزار۵ سو سے زیادہ بچوں کا ڈیٹا بیس میں سے انتخاب کرسکتے ہیں جو گذشتہ اکتوبر سے غزہ میں مرچکے ہیں، پھر اپنی تخلیقات کی تصاویر برڈز آف غزہ کی ویب سائٹ پر اَپ لوڈ کر سکتے ہیں۔ دُنیا بھر میں بچے ایسا کر رہے ہیں۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ فلسطین کا ایک قومی پرندہ بھی ہے؟ ’فلسطینی سن برڈ‘ ایک خوب صورت پرندہ ہے، جس نے چمک دار سبز اور نیلے رنگ کے پروں کا تاج پہنا ہوا ہے۔ مغربی کنارے کے فلسطینی مصور خالد جرار نے ’سن برڈ‘ کا جشن مناتے ہوئے ڈاک ٹکٹ ڈیزائن کیا۔وہ کہتے ہیں: ’’یہ پرندہ آزادی اور تحریک کی علامت ہے۔یہ کہیں بھی اڑ کر جاسکتا ہے‘‘۔
lایک بہتر دُنیا کے لیـے پرندوں کی نگہداشت:آیئے واپس امریکا چلتے ہیں جہاں برڈ کلب پرندوں کے مشاہدے کو کسی کے لیے قابلِ رسائی بنانے کے لیے پُرعزم ہے، خاص طور پر وہ لوگ جنھیں ماضی میں مختلف علاقوں میں پرندوں کے مشاہدے کے لیے محفوظ رسائی حاصل نہیں ہوسکتی تھی۔ ان کا کہنا ہے: ’’اس کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم پرندوں کے لیے تقاریب منعقد نہیں کرسکتے اور ایک ہی وقت میں مساوات اور انصاف کے بارے میں اپنے محبوب نظریات کی حمایت نہیں کرسکتے‘‘۔ ہمارے لیے ، یہ ’ہے‘ یا پھر’ نہیں ہے‘۔ پچھلے سال ایک کتاب برڈنگ فار اے بیٹر ورلڈ شائع ہوئی۔ یہ کتاب اس بارے میں ہے کہ لوگ کیسے حقیقی طور پرندوں سے جڑ سکتے ہیں؟ ’برڈ کلب‘ ماہنامہ برڈز فار فلسطین کو سپانسر کرتا ہے، جس میں شرکا سیکھ سکتے ہیں کہ وہ اپنے پرندوں سمیت فلسطین کے لوگوں کی مدد کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟
جب میں اپنے صحن میں برڈ فیڈر پر شان دار پیلے رنگ کے گولڈ فنچز کو اپنے پروں کو کھرچتے ہوئے دیکھ رہی ہوں، یہ جانتے ہوئے کہ، اس خوب صورت چھوٹے سے جزیرے پر، میں اتنی ہی محفوظ ہوں جتنا کہ ایک شخص ہو سکتا ہے۔ پھر میں فلسطین کی ہولناکیوں کے بارے میں سوچتی ہوں کہ میرے ٹیکس کی بنیاد پر امریکی کانگریس نے صرف اسرائیل کے لیے براہِ راست فوجی امداد کے لیے مزید اربوں ڈالر کی منظوری دی، اور دوسری طرف محکمۂ خارجہ نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق اپنی۲۰۲۳ء کی رپورٹیں بھی جاری کیں۔ اُن میں یروشلم پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق، اسرائیل کی انسانی حقوق کی بہت سی خلاف ورزیوں کا ذکر کیا گیا ہے، جن میں ماورائے عدالت قتل، تشدد، بلاجواز حراست، جنسی تشدد وغیرہ شامل ہیں۔ اس سب کے باوجود، تباہ حال غزہ میں ظلم و درندگی کے شکار فلسطینیوں کے ساتھ، پرندوں کی حالت ِ زار پر کچھ لوگ تحقیق جاری رکھے ہوئے ہیں۔ (Tom Dispatch، مئی ۲۰۲۴ء)
کشمیر کی سیاسی تاریخ خیانت، جوڑ توڑ، منظم ڈھانچے کی ٹوٹ پھوٹ، عسکری ریاستی تشدد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے بھری پڑی ہے۔ طاقت ور حکمران، سیاست دان، فوجی بیوروکریسی اور بھارتی میڈیا میں موجود نسل پرست مقبوضہ علاقے میں ظلم و ستم کے ذمہ دار ہیں۔
بھارت کے نوآبادیاتی منصوبے کا ایک اہم حصہ کشمیریوں پر جبر اور بے اختیاری میں پوشیدہ ہے، جسے انضمام کی حکمت نے اور بھی زیادہ بدنُما بنادیا ہے۔ اس ظلم و زیادتی کے دوران کشمیری عوام کو غیر انسانی سلوک کا نشانہ بنانے کی کوششوں کے ذریعے یہاں تاریخ کو بے دریغ کچلا گیا ہے۔ بین الاقوامی قانونی ماہرین نے ان خلاف ورزیوں کو 'انسانیت کے خلاف جرائم کے طور پر بیان کیا ہے۔
ایک بے چین، دُکھی اور غم و غصہ پر مبنی ماحول کشمیر کے سماجی اور سیاسی منظر نامے پر چھایا ہوا ہے۔ پوری وادی پختہ فوجی مورچوں، برقی لہر میں ڈوبی تاروں، غیر نشان زدہ اجتماعی قبروں، ڈیجیٹل نگرانی کے ایک آکاس بیل اور عسکری چھائونیوں سے اَٹی ہوئی ہے۔ بڑی تعداد میں عورتوں کی عصمت دری اور مردوں کو قتل، اندھے تشدد کا نشانہ بنایا گیا، لاپتہ اور قید کیا گیا ہے۔
فوجی حکام نے پچھلے کچھ برسوں میں اپنی جابرانہ حکومتوں کو تیز تر کیا ہے، جس میں انسانی حقوق کے علَم برداروں، صحافیوں، ماہرین تعلیم اور سول سوسائٹی کے ارکان کی آوازوں کو ہمیشہ کے لیے خاموش کرنے کی نیت سے نشانہ بنایا گیا ہے۔
انڈین حکومت کو انصاف میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ انصاف جوانسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو ختم کرتا ہے، اور مخالفین کو قتل کرنے، معذور کرنے یا خاموش کرنے سے روکتا ہے۔
’کشمیر لا اینڈ جسٹس پروجیکٹ‘ (KLJP) کی ایک جامع سروے رپورٹ، جس کا عنوان ہے: They Should be Beaten and Skinned Alive: The Final Phase of India's War on Kashmir [انھیں مارا پیٹا جائے اور زندہ کھالیں، ادھیڑ دیں: کشمیر سول سوسائٹی کے خلاف ہندوستان کی جنگ کا آخری مرحلہ]، اس میں ان صحافیوں کے مقدمات کی دستاویز مرتب کی گئی ہے، جنھیں حراست میں لیا گیا، تشدد کا نشانہ بنایا گیا ، یا وہ اپنے پاسپورٹ سے محروم ہیں۔
یونی ورسٹیوں نے متعدد ماہرین تعلیم کو برخاست کر دیا ہے اور انھیں بغیر کسی کارروائی کے جیل میں ڈال دیا ہے۔ اسکالرز اور ماہرین تعلیم قریبی نگرانی، ڈرانے دھمکانے اور ہراساں کیے جانے کا شکار ہیں۔اپنی خانہ زاد عدالتوں کے ذریعے جبر کو قانونی شکل دے کر اور کشمیر مخالف اور پاکستان مخالف بیان بازی کو اُبھارا گیا ہے۔ میڈیا میں اپنے ’سپاہیوں‘ کے ذریعے ہندو قوم پرست حکومت نے نوآبادیاتی علاقوں سے اٹھنے والی آوازوں کو دبا کر رکھ دیا ہے۔
ہیلی ڈشنسکی اور ایس این گوش نے 'پیشہ ورانہ آئین پرستی کے طور پر بیان کیا ہے، وزیراعظم مودی کی حکمراں ہندو قوم پرست پارٹی نے بے شرمی سے کشمیر میں جبر کو قانونی شکل دی ہے۔ نوآبادیاتی حکام کی طرف سے کشمیریوں کو دبانے کے لیے استعمال کیے جانے والے قانونی حکم ناموں کی ایک سیریز میں جموں و کشمیر پبلک سیفٹی ایکٹ ۱۹۷۸ (PSA ایکٹ)، اور آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ، ۱۹۹۰ (AFSPA) شامل ہیں۔
’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ کے مطابق PSA ایک ایسا 'غیرقانونی ہتھیار ہے، جو اختلافی آوازوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے، تاکہ انھیں من مانے اور غیر معینہ مدت کے لیے قید کیا جاسکے۔ دوسری طرف AFSPA تلوار اور ڈھال دونوں کے طور پر کام کرتا ہے۔ خود کو احتساب اور قانونی نتائج سے بچاتے ہوئے، ہندوستانی فوج نے AFSPA کو مخالفین کے خلاف تیزدھار تلوار کے طور پر استعمال کیا ہے۔
بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، یہ قوانین بغیر کسی مقدمے کے دو سال تک حراست میں رکھنے کی اجازت دینے کے علاوہ، انصاف کے بنیادی اصولوں جیسے مساوی سلوک کو برقرار رکھنے میں بھی ناکام رہتے ہیں۔ بدترین مذاق یہ ہے کہ وہ لوگ جواب دہ نہیں ہیں جو قتل کے تمغے جیتنے کے لیے ان قوانین کو بے دریغ قتل عام کے آلے کا غلط استعمال کرتے ہیں۔
دسمبر ۲۰۲۰ء میں ایک جعلی پولیس مقابلے کے دوران، ایک سولہ سالہ نوجوان اطہر کو دودیگر شہریوں کے ساتھ، قتل کر دیا گیا تھا۔ اور پھر والدین اور خاندان کے دیگر افراد پر انسداددہشت گردی کے جرائم کا الزام عائد کیا گیا، جب انھوں نے میت کی تدفین کا مطالبہ کیا۔
فوجی حکام ٹکنالوجی کی مدد سے نگرانی اور پیش گوئی کرنے والے آلات استعمال کرتے ہیں، بشمول چہرے کی شناخت کرنے والے سافٹ ویئر کے۔ کاروباری اداروں کو سی سی ٹی وی سسٹم لگانے اور روزانہ کی فوٹیج حکام کو جمع کرانے پر مجبور کیا گیا ہے، جس سے شہری آزادیوں اور رازداری کو خطرہ لاحق ہے۔ ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی کی ان ٹکنالوجیز کے ذریعے، افراد کو ان کے سیاسی عقائد یا سرگرمیوں کی وجہ سے شناخت کیا اور نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ لوگ محسوس کرسکتے ہیں کہ انھیں انتقام کے خوف سے خاموش رہنا چاہیے، اس عمل سے سیلف سنسرشپ کا کلچر جنم لے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ قابض افواج اس ڈیٹا کا غلط استعمال کریں۔
قابض حکام نے حال ہی میں بھارت اور کشمیر میں انسانی حقوق کے مسائل کو اجاگر کرنے پر ایمنسٹی انٹرنیشنل کے بھارت کے دفتر کو بند کر دیا ہے۔ این جی اوز کو پولیس کے ذریعے ڈرایا اور ہراساں کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے پر بھارت سے دیگر چیزوں کے علاوہ، ’مصنوعی ذہانت‘ (AI)استعمال کرنے کے الزامات عائد کیے گئے تاکہ حکومتی کارروائی کی قانونی بنیاد فراہم کی جاسکے۔شاعروں اور موسیقاروں سمیت کشمیری فنکاروں کو ڈرایا دھمکایا گیا، ہراساں کیا گیا اور حراست میں لیا گیا، مگر اس کے باوجود وہ بے خوف رہتے ہیں اور زیر زمین احتجاجی موسیقی اور نغمے بناتے رہتے ہیں۔
بھارتی عدالتوں میں قانونی نمائندگی کی عدم موجودگی میں، کشمیری طالب علموں کو چوکس گروہوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے مارا پیٹا جاتا ہے، ہراساں کیا جاتا ہے، ڈرایا جاتا ہے یا بے دردی سے قتل کر دیا جاتا ہے۔ ۲۰۲۱ء میں، طالب علموں پر الزام لگایا گیا کہ انھوں نے T20 ورلڈ کپ کے دوران پاکستانی کرکٹ ٹیم کی بھارت کے خلاف جیت کا کیوں جشن منایا تھا؟
’نرم جبر‘ (Soft Repression)کا سب سے تیز دھار آلہ جھوٹ پر مبنی ہتھیاروں سے لیس میڈیا ہے۔ قوم پرست مزاحمتی بیانیہ کو ملک دشمن قرار دیا جاتا ہے۔ دہشت گردی کے تماشے کی پکار لگاتے ہوئے اور پاکستان مخالف اور کشمیر دشمنی کو بھڑکاتے ہوئے میڈیا، کشمیریوں کے خلاف بھارتی فوجی تشدد کے لیے جوازگھڑتا ہے۔نوآبادیاتی حکام نے حال ہی میں کئی مزاحمتی گروپوں کو غیرقانونی انجمنیں قرار دیتے ہوئے ان پر پابندی لگا دی۔ مزاحمتی تنظیموں کو بدنام کیا اور غیرقانونی قرار دیا جاتا ہے۔
اس جبر کی نشاندہی، نیم فوجی اہلکاروں کی طرف سے ان تنظیموں کے ارکان کی بے حرمتی، ہراساں کرنے، نگرانی، ممانعتوں، حراستوں، تشدد، اور ٹارگٹ اور حراستی قتل سے ہوتی ہے۔ پولیس اور فوج کے ذریعے نوآبادیاتی حکام کشمیریوں کی سیاسی مزاحمت کو ناکام بنانے میں مصروف ہیں۔ وہ عسکریت پسندانہ جوابی کارروائی کا جواز پیش کرتے ہیں۔
اس کے برعکس بھارت کو دُنیا کے سامنے تسلیم کرنا پڑے گا کہ کشمیری مزاحمتی تحریک کا خونیں بھارتی قوانین کو مسترد کرنا اور برہمنی نوآبادیاتی آباد کاروں کو مسترد کرنا لازم و ملزوم ہے۔ یہ وہ ہتھیار ہیں جس کے ذریعے بھارتی حکمران آبادکار نوآبادیاتی ہندو ریاست کو وجود میں لاتے ہیں۔
کشمیر، حکمران ہندو قوم پرست پالیسی کے لیے ’ہندوتوا‘ نوآبادیاتی تجربہ گاہ بن چکا ہے۔ وہ کشمیر کو ہمیشہ کے لیے اپنے قبضے میں رکھنے کے لیے مستعد ہیں۔ وہ ریاست کی طرف سے سنگدل تشدد مسلط کرتے ہیں، کشمیریوں کو پاکستان کے حامی (لہٰذا انڈیا مخالف) ایجنٹ کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ جنھیں ’دہشت گرد دشمن‘ کے طور پر مارا جانا چاہیے یا بصورت دیگر طویل عرصے تک سماجی اور سیاسی زندگی سے مستقل طور پر ہٹا دیا جانا چاہیے۔ مسلسل جیل کی سزائیں او ر نوآبادیاتی تسلط کو وسیع پیمانے پر پھیلانے کاجنون دیکھتے ہوئے کشمیری بقا کی جنگ لڑرہے ہیں۔ کیونکہ وہ اس جبر کی طویل سیاہ رات میں مادی، نفسیاتی اور جسمانی اثرات کا شکار ہوچکے ہیں۔ ایک طویل سفر ان کے آگے ہے۔ فی الحال، وہ بندوقوں کے سائے میں کھدائی کر رہے ہیں۔
؍ اکتوبر ۱۹۴۷ء سے مقبوضہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان بنیادی مسئلہ ہے۔ پاکستان کا مستقل موقف ہے کہ ’’تنازعہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (UNSC) کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے‘‘۔ اپنے اصولی موقف کو برقرار رکھتے ہوئے، اسلام آباد نے نئی دہلی کو تنازعے کے پُرامن حل کے لیے قائل کرنے کے لیے مختلف طریقے آزمائے ہیں۔
پاکستان نے تقریباً تمام عالمی سطح پر تسلیم شدہ تنازعات کے حل کے طریقوں کو اپنانے کی کوشش کی ہے۔ پاکستان نے ’شملہ معاہدے‘ کے ذریعے دو طرفہ نقطۂ نظر جیسے کئی سفارتی ذرائع آزمائے۔ اسی طرح پاکستان نے تیسرے ملک کو بطور ثالث استعمال کرنے کی کوشش کی، لیکن سب بے سود۔ صدر ضیاءالحق اور وزیراعظم راجیو گاندھی کے زمانۂ حکومت میں اسلام آباد نے نسبتاً چھوٹے تنازعات پر مذاکرات (battom-up approach) کا راستہ اختیار کرنے کی کوشش کی جس میں کم پیچیدہ سیاسی مسائل جیسے سیاچن، سر کریک، ویزا نظام سے متعلق مسائل اور عوام سے عوام کے رابطوں میں بہتری پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔ امید تھی کہ مذاکرات کے لیے سازگار ماحول بھارت کو مسئلہ کشمیر کے حل پر مجبور کر دے گا۔
انڈین وزرائے اعظم آئی کے گجرال سے لے کر منموہن سنگھ تک ۱۹۹۰ء اور ۲۰۰۰ء کے عشروں کے دوران، پاکستان کی اعلیٰ سول اور فوجی قیادت نے کشمیر پر بھارت کی مغرورانہ ذہنیت کو تبدیل کرنے کی حکمت عملی کے طور پر اعتماد سازی کے اقدامات (CBMs) اور ’جامع مذاکرات‘ کا راستہ اپنانے کی کوشش کی۔ مگر اس دوران میں انڈیا میں برسرِاقتدار آنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت کے دورِ حکومت میں تنازع میں مزید پیچیدگیوں کی پرتیں شامل ہو گئیں۔ اس کے نتیجے میں، ۲۰۱۹ءکے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان تنائو بڑھ گیا ہے۔
اسلام آباد میں حال ہی میں دو مسائل پر بات چیت جاری ہے: مقبوضہ کشمیر اور پاک بھارت تعلقات کا مستقبل۔ پاک بھارت تعلقات کے مختلف پہلوؤں اور تنازعہ کشمیر کو سمجھنے کے لیے اس طرح کے مذاکرات اہم ہیں۔ تاہم، کشمیر پر ایک طویل المدتی، متحرک اور مضبوط حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ معاشی اور سیاسی طور پر اس مشکل وقت میں مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کی حکمت عملی چار اصولوں پر مبنی ہونی چاہیے: اندرونی استحکام، اسٹرے ٹیجک برداشت، عالمی شراکت داری کو فروغ دینا، اور ایک ’مربوط کشمیر حکمت عملی‘ تیار کرنا۔
پاکستانی سول اور فوجی قیادت پر قوم کو سیاسی طور پر استحکام اور معاشی طور پر بحال کرنے کے لیے ’اندرونی استحکام‘ کے لیے ایک واضح روڈ میپ کا خاکہ تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں وہ تمام جوہری اجزا موجود ہیں، جو ایک جدوجہد کرنے والی قوم کو سیاسی اور اسٹرے ٹیجک طور پر دنیا کی ایک بااثر ریاست میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ ایک اہم جیو اسٹرے ٹیجک محل وقوع، اہم بندرگاہوں، مضبوط افواج، نوجوانوں کی افرادی قوت، بھرپور ورثہ اور ثقافت، سافٹ پاور اور متحرک سول سوسائٹی کے ساتھ، پاکستان دنیا کی ترقی پذیر اقوام کی دوڑ میں شامل ہونے کی بخوبی صلاحیت رکھتا ہے۔
اس مقصد کے لیے ۱۰، ۱۵ سال کے دوران میں اندرونی استحکام کے ایک واضح روڈ میپ کی ضرورت ہے، جہاں پاکستان کو کئی گمبھیر مسائل سے باہر آنے کی ضرورت ہے۔ ادائیگیوں کے توازن کے بحران، قومی قرضوں، تجارتی خسارے اور توانائی کے شعبے میں گردشی قرض، بہتر برآمدی صلاحیت، چین پاکستان اقتصادی راہداری کی کامیاب تکمیل اور براہِ راست غیرملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے سے اقتصادی بحالی ممکن ہے۔
دوسرا یہ کہ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے آزاد کشمیر میں ریاستی اداروں اور عوامی سطح پر، تزویراتی برداشت کی ضرورت ہے۔ قومی سطح پر محض و قتی اصلاحات کی ذہنیت کی حوصلہ شکنی اور ٹھوس اصلاحات کی ضرورت ہے۔ قدرتی طور پر، اندرونی استحکام کے دور میں، ساختی اصلاحات کا ایک تکلیف دہ عمل لوگوں کی حوصلہ شکنی کر سکتا ہے۔ سیاسی قیادت کا فرض ہے کہ وہ اندرونی استحکام کے وقت عوام کو متحد اور بلند حوصلہ رکھے۔ اسی طرح، ریاستی اداروں ’ سول اور ملٹری‘ کی جانب سے بھی نئی دہلی کو یک طرفہ مراعات سے متعلق پیش کشوں سے گریز کرنا چاہیے۔ درحقیقت، نئی دہلی، اسلام آباد کے مثبت اشاروں سے حوصلہ افزائی پاتے ہوئے کشمیر کے بارے میں پاکستان کے نقطۂ نظر کی غلط تشریح کرتا ہے۔
تیسرا، بین الاقوامی برادری کے ساتھ شراکت داری کو فروغ دینا ایک عملی حل لگتا ہے۔ چھوٹی جنوبی ایشیائی ریاستوں سے لے کر دنیا کے اہم دارالحکومتوں تک، پاکستان کو بین الاقوامی سیاست میں تزویراتی طور پر فعال کردار ادا کرنے کے لیے مضبوط تعاون پر مبنی اور متحرک تعلقات استوار کرنے ہوں گے۔ چھوٹی جنوبی ایشیائی ریاستوں جیسے مالدیپ، سری لنکا اور نیپال کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کو ترجیح دی جانی چاہیے۔ دفاعی تعاون، عوام کے درمیان روابط اور دوطرفہ تجارت کو بڑھانا جنوبی ایشیا کی چھوٹی ریاستوں کے لیے پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بنیادی خصوصیات ہونی چاہیے۔ اسی طرح خلیجی ممالک اور ویٹو کلب ریاستوں کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کو مضبوط بنانا بھی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ اس سے نہ صرف پاکستان کو مسئلہ کشمیر پر حمایت حاصل کرنے میں مدد ملے گی بلکہ پاکستان کو تنہا کرنے کی انڈین حکمت عملی کو بھی شکست ہوگی۔
آخر میں، قومی سطح پر ایک طویل المدتی 'مربوط کشمیر حکمت عملی (IKS: انٹیگریٹڈ کشمیر اسٹرے ٹیجی) کی ضرورت ہے۔ معذرت خواہ ہوئے بغیر، پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر تعلیمی اداروں، سفارتی ذرائع اور میڈیا کو بین الاقوامی آگاہی کے لیے ایک مؤثر ذریعے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اپنے موقف کا دفاع کرنا چاہیے۔
اسی طرح اسلام آباد کو مقبوضہ کشمیر میں انڈین سفارتی اور فوجی اقدامات کا جواب دینے کے لیے تمام ریاستی اداروں ’سول اور ملٹری‘ پر مشتمل ایک جامع حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ آزاد جموں و کشمیر کے حوالے سے انڈین قیادت کی طرف سے درپردہ اور براہِ راست دھمکیوں پر سنجیدگی سے غور کیا جانا چاہیے اور سیاسی اور حکمت عملی کی سطح پر یکساں برابر جارحانہ لہجے کے ساتھ جواب دینا چاہیے۔ معا ملات کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے، اسلام آباد کے لیے لازم ہے کہ 'خطرے کا فہم رکھنے والی 'صلاحیت پر مبنی پالیسیوں میں تسلسل اور وسعت لائے، جن میں پاکستان کا معاشی اثر و رسوخ، اسٹرے ٹیجک مطابقت، سفارتی قبولیت اور کشمیر پرمتفقہ اور اصولی موقف کو وزن حاصل ہو۔
سینی گال مغربی افریقہ کا مسلم ملک ہے۔ اس کے مشرق میں مالی، شمال میں موریطانیہ، جنوب میں گنی بسائو ہے۔ اس کے دارالحکومت کا نام ڈاکار ہے۔ سینی گال میں جمہوریت بہت سے افریقی اور تقریباً سبھی عرب ممالک کی بہ نسبت کافی ترقی یافتہ ہے۔ یہاں کثیرجماعتی نظام پرانا ہے اور سول سوسائٹی آزاد بھی ہے اور فعال بھی۔ حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کے درمیان پُرامن انتقالِ اقتدار عملاً کئی مرتبہ ہو چکا ہے ۔ البتہ ۲۴ مارچ ۲۰۲۴ء کو ہونے والے آخری صدارتی انتخابات میں جو تبدیلی سامنے آئی ہے، وہ سابقہ تمام ادوار سے مختلف ہے۔انتخابات کے بعد دارالحکومت ڈاکار کے سفر میں میری کوشش تھی کہ عربی بولنے والے سرگرم سیاسی کارکنان سے بھی اور فرانسیسی زبان بولنے والے سرگرم سیاسی لوگوں سے براہِ راست گفتگو اور تبادلۂ خیال کرکے اپنے ہاں، یعنی الجزائر کے جمہوری ماڈل کے لیے اب تک حل نہ ہوسکنے والے سیاسی و سماجی مسائل میں، سینی گال کے موجودہ سیاسی تجربے سے اسباق اخذ کر سکوں ۔
سابقہ ادوار میں سینی گال کی سیاست ایک ہی سیاسی ،اقتصادی اور ثقافتی محور کے گرد گھومتی رہی ہے اور وہ تھا فرانسیسی بالادستی کا مغرب نواز محور۔ البتہ آخری صدارتی انتخاب میں جو تبدیلی واقع ہوئی ہے، اسے افریقہ کی اُس عام بیداری سے منسوب کرسکتے ہیں، جو اس بر اعظم نے بحیثیت مجموعی یورپی استعماری طاقتوں کی اندھی تابعداری کے خلاف دکھائی ہے ۔تاہم، اس مقصد کے لیے سینی گال نے جو راستہ اختیار کیا ہے، وہ اپنی جمہوری روایت پر اعتماد تھا نہ کہ مغربی افریقہ کے دیگر ممالک کی طرح فوجی انقلاب کا راستہ۔
سینی گال میں حالیہ تبدیلی کی ایک خصوصیت یہ رہی ہے کہ یہ نوجوانوں کے اندر پیدا ہونے والی ایک ایسی لہر کے زور پر آئی ہے، جس نے ملکی سیاست میں پہلے سے قائم ہر توازن کو بالکل اُلٹ کر رکھ دیا ہے۔ اس نے اپنے سادہ عوامی انقلابی بیانیے کے ذریعے ،کرپشن کی اُس صورتِ حال کو جو سینی گال کے معاشرے کی نس نس میں سرائیت کیے ہوئے تھی، موضوعِ بحث بنایا۔ ترقی کے سفر کی مسلسل ناکامی اور بیرونی قوتوں کی مسلسل تابعداری کے خلاف محاذ کھڑا کیا۔ سینی گال کی اسلامی شناخت جوملک میں غالب مغربی سیکولر نظام کی وجہ سے مسلسل دبائی جارہی تھی ، کی بحالی کے ضامن اور متبادل کے طور پر اپنے آپ کو پیش کیا۔
انتخابات میں کامیاب ہونے والی تبدیلی کی لہر کے قائدین اگرچہ مروجہ معنوں میں دینی جماعتوں اور تحریکوں سے تعلق نہیں رکھتے، تاہم ان میں سے بہت سے رہنمائوں کی نشوونمااسی عام اسلامی فضا میں ہوئی ہے، جو سینی گال میں روز افزوں ہے۔ یہ قائدین اسی فضا اور ماحول کا ثمرہ شمار ہوتے ہیں۔ان رہنمائوں میں حزبِ اختلاف کے لیڈر عثمان سونکو بھی شامل ہیں، جو طالب علمی کے زمانے میں جمعیت طلبۃ و تلامذۃ المسلمین (مسلمان طالب علموں کی جمعیت) کے سرگرم رکن تھے۔ وہ ہمیشہ مختلف اسلامی جمعیتوں اوراسلامی تنظیموں کے قریب رہے۔
وہ صوفیا کے مریدی طریقے، جماعت عباد الرحمٰن اور اتحاد العلماء والدعا ۃ کے بھی قریب رہے۔ مساجد میں قائم مختلف حلقہ ہائے دروس قرآن، دروس حدیث ، دروس فقہ و ادب میں بھی باقاعدگی سے شرکت کرتے رہے۔ بعد ازآں وہ ٹریڈ یونین اور پھر سیاسی سرگرمیوں کے میدان میں داخل ہوئے۔ اس طرح انھوں نے روایتی اسلامی (دعوتی و تنظیمی اور تحریکی) رستے سے ہٹ کر ایک نیا راستہ اور طریقہ اختیار کیا۔
انھوں نے تنظیم سازی کے بجائے فکری لہر اٹھانےپر توجہ مرکوز رکھی ،براہ راست عوام کے ساتھ رابطہ بنائے رکھا اور جدید سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر چھائے رہے ۔ انھوں نے کالموں، مضامین، مقالوں اور بروقت مختلف عملی اقدامات کے ذریعے متبادل حل تجویز اور پیش کیے۔ تعلقات بناکر اور نئے اتحاد قائم کرکے اپنے نیٹ ورک کو وسعت دی۔ پھر جب انھوں نے اپنی پارٹی Patriots for Action Ethics and Brotherhood - Bastiste (محب وطن لوگ برائے عمل اخلاق اخوت- باستیف) کی ۲۰۱۴ء میں بنیاد رکھی، تو اسے بھی انھوں نے پارٹی کے بجائے ایک نیٹ ورک کی صورت ہی دی ۔ ہر وہ فرد اس میں حصہ لے سکتا تھا، جو تبدیلی کے ان کے وژن اور اہداف سے اتفاق کرتا تھا۔ انھوں نے ہر سطح کے مقتدر قائدین کے افکار کو منضبط کیا اور انھیں تنظیم میں پرویا اور مقام و عہدہ دیا ۔
تبدیلی کی اس لہر کی قیادت ۵۰سالہ عثمان سونکو نے کی، جو قربانی پیش کیے بغیر ممکن نہیں تھی ۔ انھیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان پر کئی جھوٹے مقدمات بنائے گئے اور امن عامہ کو خطرے میں ڈالنے کے الزام میں قید رکھا گیا۔ مسلسل یہ ڈراوا دیا جاتا رہا کہ انھیں صدارتی انتخاب میں امیدوار نہیں بننے دیا جائے گا۔ اسی خطرے سے نبٹنے کے لیے انھوں نے اپنے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے کے ساتھ ساتھ اپنے دوست اور اپنی پارٹی کے جنرل سیکرٹری اور معتمد خاص ۴۴ سالہ باسیرو دیومائی فائی کے کاغذات نامزدگی بھی جمع کروا دیئے۔ آخرکار باسیرو دیومائی فائی تبدیلی کی اس لہر کی نمائندگی کرتے ہوئے سینی گال کے حالیہ صدارتی انتخاب میں کامیاب ہوگئے۔
باسیر و بھی ذہانت اور شجاعت میں سونکو سے کچھ کم نہیں ہیں۔ برسرِ اقتدار سسٹم پر تنقید کرنے اور متبادل حل پیش کرنے کے حوالے سے ان میں کسی صلاحیت کی کمی نہیں ہے، بلکہ پارٹی سیکرٹری جنرل ہونے کے ناتے انھیں پارٹی امور چلانے کا اضافی اور قابل قدر تجربہ بھی حاصل ہے۔ اسی طرح تبدیلی کا واضح بیانیہ دینے میں بھی ان میں کمال درجے کی صلاحیت موجود ہے ۔ سونکو کی طرح ان کا پس منظر بھی مالی ، اقتصادی اور قانونی ہے۔ ان دونوں کا باہم تعارف بھی محکمہ ٹیکسیشن اینڈ ایکسائز اور ٹیکس لائرز یونین کے اُس پلیٹ فارم پر ہی ہوا تھا، جسے سونکو نے ۲۰۰۵ء میں قائم کیا تھا۔ ٹیکسیشن کے اس پس منظر نے انھیں کرپشن کوہدفِ تنقید بنانے اور کرپٹ لوگوں کو بے نقاب کرنے میں بہت فائدہ دیا۔
دونوں جیل گئے، دونوں نے جیل ہی سے کاغذات نامزدگی داخل کیے، اور جب ان کی پارٹی (باستیف) تحلیل کی گئی تو بطور آزاد امیدوار انھوں نے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کروائے اورآج باسیرو سینی گال کے منتخب صدر ہیں اور انھوں نے اپنے ساتھی اور اپنے محسن سونکو کو حکومت کا وزیراعظم مقرر کیا ہے، تاکہ دونوں ایک ساتھ نظریے اور افکار کی دنیا سے نکل کر ریاستی اور عملی عہدوں پر متمکن ہوں اوراپنی قوم کی خدمت کے چیلنج سے ایک ساتھ عہدہ برآ ہوسکیں ۔
سابق صدر ’ماکی سال‘ اور سونکو اور باسیرو کی قیادت میں اپوزیشن کے درمیان تعلقات کو معمول پر رکھنے اور بگاڑ سے بچانے میں دینی حلقوں کا کردار بہت مثبت رہا ہے ۔ انھی اسلامی تنظیموں کی ثالثی کی بنا پر دونوں نوجوان رہنماؤں کی جیل سے رہائی ممکن ہوئی۔ تاہم، یہ امر قابل توجہ ہے کہ ثالثی کرنے والے صوفی سلسلوں کے مشائخ اور دینی جماعتوں کے قائدین کی اکثریت انتخابی گرما گرمی شروع ہونے سے قبل جیسا کہ عموماً اقتدار پسند معتدل موقف رکھنے والی دینی جماعتوں میں ہوا کرتا ہے، سابق صدر ’ماکی سال‘ کے ساتھ کھڑی تھی۔ تاہم، اس بار ان پر کھیل کے نئے قواعد غالب آ گئے، خصوصاً نوجوانوں اور یوتھ کی سطح پر اور خاص طور پر طوبی شہر میں جو مریدیہ سلسلے کا مرکز ہے اور پھر تاریخی انتخابی نتیجہ سامنے آیا۔انتخابات کا پہلا راؤنڈ ہی مقبول عام محب وطن نوجوان صدارتی اُمیدوار کے حق میں فیصلہ کن رہا، جس کی توقع دینی جماعتوں کے قائدین اور اسلامی حلقے بالکل نہیں کررہے تھے ۔
سیکولر ریاست نے ملکی سیاست میں عشروں تک ایک ایسا نظام مسلط کیے رکھا، جس میں اقتدار کے لیے باہم مقابلہ صرف سیکولر پارٹیوں اور سیکولر اشرافیہ کے درمیان رہے۔ دینی سوچ کی حامل اوراسلامی فکری قیادت بھی مشترکہ اجتماعی وژن تشکیل دینے میں ناکام رہی کہ وسیع عوامی پذیرائی کے باوجود ، صوفیانہ طریقوں ،دعوتی فاؤنڈیشنوں اور اپنے اپنے ثقافتی و سماجی پلیٹ فارمز کے ذریعے ، جمہوری طریقوں اور راستوں سے ریاستی نظام پر اثر انداز ہوکر اسلامی ایجنڈے کے نفاذ کو آگے بڑھا پاتی۔ اسی طرح ’اصلاح پارٹی برائے سماجی ترقی‘ بنانے کا بعض افراد کا تجربہ بھی کامیاب نہیں رہا تھا۔
تاہم، یہ دین پسند قائدین ہی کے افکار و نظریات ہیں اور انھی کی اُمنگیں ہیں، جنھیں اس وسیع و عریض قومی لہر نے اپنا لیا ہے۔اس لہر کی قیادت اب ایسے مقتدر قائدین کررہے ہیں جو انھی کے افکار ونظریات سے متاثر ہیں ۔ اب یہ ان کے افکار کی نمایندگی تو کرتے ہیں لیکن ان کی پارٹیوں، سلسلوں اور اداروں کی نمایندگی نہیں کرتے ۔انھی کے افکار تھے جنھیں نومنتخب صدر باسیرو، وزیراعظم سونکو اور ان دونوں کے حامیوں نے انتخامی مہم کے دوران زبان دی۔اسلام کا دفاع کرنا، عربی زبان کی خدمت اور اس کا فروغ ،ملک کے اقتدار اعلیٰ کی بحالی ،استعماری طاقتوں کی اقتصادی اور ثقافتی تابع داری سے گلو خلاصی ،خصوصاً فرانسیسی تسلط سے چھٹکارہ ،کرپشن کا خاتمہ، آزادیوں کا تحفظ، ترقی کو فروغ دینا اور عام سینی گالی کی زندگی میں بہتری لانا،قضیۂ فلسطین کے لیےکام کرنا___ ان کے منشور کے عنوان رہے۔
آج باسیرو اور سونکو کے سامنے بڑے چیلنج کھڑے ہیں اور کامیابی کے لیے ان میں سے چھ بڑے بڑے چیلنجوں سے عہدہ برآ ہونا ضروری ہے:اسلام،اقتدار اعلیٰ، آزادیاں، کرپشن کا خاتمہ، ترقی اورقضیۂ فلسطین۔اسی طرح سینی گال کی دینی جماعتوں اور اسلامی تنظیموں کے سامنے بھی ایک بہت بڑا چیلنج ہے کہ وہ کس طرح مذکورہ خواب کو واقعی حقیقت بنانے کے لیے اپنے آپ کو ایک مشترکہ وژن کے گرد اکٹھا اور منظم کرتے ہیں؟ اور ایک ایسے نئے نظام کے ساتھ کیسے اچھی ریلیشن شپ قائم کرتے ہیں جو وژن میں ان کے قریب تر ہے؟برسراقتدار پارٹی میں موجود نوجوانوں کے ساتھ اور آئینی اداروں کے ساتھ کس طرح تعلقاتِ کار قائم کرتے ہیں؟
عین ممکن ہے کہ نیا نظام سینی گال میں پہلے سے موجود اسلام پسندی کی لہر کو نئے آفاق سے ہم کنار کرسکے۔ ایک ایسا مسلم عرب ملک جو لمبے عرصے سے استبدادی جبر کا شکار رہا ہے اور جہاں اسلام ایک سوچ اور ایک نظریے سے آگے بڑھ کر ریاست کے ایوانوں میں پہلے کبھی داخل نہیں ہوسکا تھا، ایک ایسا ملک جس کی قوتیں اور جس کی پارٹیاں اسی کش مکش اور استبدادی نظام کے پیدا کردہ استیصالی نظام کی قیدی رہیں، کبھی بالادست قوتوں کی تابع دار اور ان میں انضمام کا شکارہوتی رہیں یا پھر غیر مؤثر اور غیر فعال رہیں۔ سینی گال اب آزادی کی حقیقی شاہراہ پر گام زن ہے۔ بہت سے خطرات، بہت سے چیلنج اور بہت سے امکانات کا ایک وسیع سلسلہ اس کے سامنے ہے۔
بھارت کی طرف سے اہل کشمیر سے وعدوں میں مسلسل خیانت اور جموں و کشمیر پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کو واضح طور پر نظر انداز کرنے کے نتیجے میں خطے میں جبر اور خوف کی کیفیت ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے مسئلہ کشمیر کے حل کی اہمیت کو بین الاقوامی امن اور سلامتی کے ایک اہم پہلو کے طور پر تسلیم کیا ہے۔ اگست ۲۰۱۹ء میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا کشمیر پر خصوصی اجلاس کا انعقاد خطے میں دیرینہ مسائل کو حل کرنے کی جانب ایک اہم قدم تھا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کشمیر کے تنازع کو اقوام متحدہ کے چارٹر اور یو این سیکورٹی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق حل کرنے کے اقوام متحدہ کے عزم کا اعادہ کیا۔ اسلامی تعاون تنظیم (OIC) نے بھی انسانی حقوق کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزیوں کی مذمت کرتے ہوئے ہندستان کے زیر انتظام کشمیر کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ۔ امریکی محکمۂ خارجہ نے بھارت پر زور دیا کہ وہ خطے میں بلدیاتی انتخابات کی بحالی کے لیے فوری کارروائی کرے۔ یہ ضروری ہے کہ عالمی برادری کشمیر میں احتساب اور انصاف کے لیے دباؤ ڈالے تاکہ خطے کے تمام افراد کے لیے انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔
امریکی حکومت اور یورپی پارلیمنٹ کے ارکان نے بھارت کی طرف سے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس قضیے کا واحد پُرامن حل یہ ہے کہ تنازعۂ کشمیر میں شامل تمام فریق انسانی حقوق اور تمام متاثرہ افراد کے حقِ خود ارادیت کو ترجیح دیں۔
خطے میں پائیدار امن کے قیام کے لیے سفارت کاری، بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کی پاسداری اور مذاکرات اور سمجھوتہ کے لیے مخلصانہ عزم ضروری ہے۔ ایک متوازن اور حقیقت پر مبنی نقطۂ نظر ہی مؤثر پیش رفت کا باعث بنے گا۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے جنوبی ایشیا کے تمام ممالک اور اہل دانش مل کر کام کریں، تاکہ کشمیر کے لوگ آخرکار اس امن اور آزادی کا تجربہ کر سکیں، جس کے وہ حق دار ہیں۔
عالمی برادری کشمیری عوام کے بنیادی حقوق اور نقطۂ نظر کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ انسانی حقوق کی کسی بھی درجے کی خلاف ورزی یا بنیادی آزادیوں سے انکار ناقابلِ قبول ہے۔ ایسی صورتِ حال کا مناسب قانونی اور سفارتی ذرائع سے ازالہ کیا جانا چاہیے۔ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے تحفظ کی علَم بردار بین الاقوامی تنظیموں نے کشمیر کی صورت حال کے بارے میں خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے لیکن ان کے خدشات پر کان دھرے ہی نہیں جا رہے ہیں۔ کشمیر کی صورت حال کی پیچیدگیوں کو اس کے متنوع نقطۂ نظر اور تاریخی شکایات کے ساتھ تسلیم کرتے ہوئے اس کو تمام متعلقہ افراد کی بہتری کے لیے حل کرنا چاہیے۔
اقوام متحدہ انسانی حقوق کمیشن (UNHRC) کی جون ۲۰۱۸ءاور جولائی ۲۰۱۹ء کی رپورٹوں میں کشمیر میں بھارتی مسلح افواج کی جانب سے انسانی حقوق کی جاری خلاف ورزیوں سے نمٹنے اور اس کے تمام متاثرین کو انصاف فراہم کرنے کی فوری ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کی ایک جامع، آزاد اور بین الاقوامی تحقیقات کے لیے کمیشن آف انکوائری کا قیام انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
۲۴مارچ ۲۰۲۲ءکو ہیومن رائٹس واچ نے کشمیری عوام پر عائد سخت پابندیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے واشگاف طور پر کہا کہ ان کی آزادیٔ اظہار اور پُرامن اجتماع کو محدود کر دیا گیا ہے۔ وزیر اعظم مودی کی جابرانہ پالیسیوں سے کشمیریوں میں عدم تحفظ کے احساس میں اضافہ ہوا ہے۔ تنظیم نے ’آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ (AFSPA) کی خصوصی قانونی دفعات کی بھرپور مذمت کی، کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے جواب دہی میں رکاوٹ ڈالنے کی وجہ سے اسے فوری طور پر منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا۔
۲ ستمبر ۲۰۲۲ء کو، ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بتایا کہ مقبوضہ کشمیر کے بیوروکریٹس، سیاستدان، دانش ور اور میڈیا کے لوگ بھارتی حکومت کی جانب تشویش بھری نظروں سے دیکھتے ہیں۔
امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی حالیہ رپورٹ میں بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک کی پریشان کن تفصیلات سامنے آئی ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیم ’جینوسائیڈ واچ‘ (Genocide Watch)کے بانی صدر ڈاکٹر گریگوری سٹینٹن کے مطابق، بھارت مبینہ طور پر ۲۰۰ملین مسلمانوں کی ’نسل کشی اور قتل عام‘ کی تیاری کر رہا ہے۔مسلمانوں پر ظلم و ستم مبینہ طور پر بڑھتا جا رہا ہے۔
رپورٹ میں درخواست کی گئی ہے کہ امریکی محکمۂ خارجہ مذہبی اقلیتوں پر جاری حملوں کی وجہ سے ہندستان کو ’خاص تشویش کا حامل ملک‘ قرار دے۔ ہندستانی حکومت پر بغاوت کے قانون جیسے قوانین کے ذریعے تنقیدی آوازوں، خاص طور پر مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی آوازوں کو دبانے کا الزام لگایا گیا ہے۔
یہ اعداد و شمار واقعی تشویشناک ہیں، جن میں جنوری ۱۹۸۹ء سے اپریل ۲۰۲۴ء تک ۹۶ہزار۳ سو سے زیادہ اموات ہوئیں، جن میں ۷ہزار ۳سو ۳۳ حراستی اموات بھی شامل ہیں۔ شہری گرفتاریوں کی تعداد ایک لاکھ ۷۰ ہزار ۳ سو۵۴ تک پہنچ گئی ہے۔ ایک لاکھ ۱۰ہزار ۵سو۱۰ سے زیادہ گھر اور دکانیں تباہ ہوچکی ہیں۔ خواتین اور بچوں پر اس ظلم و زیادتی کے اثرات تباہ کن ہیں۔ تقریباً۲۳ ہزار خواتین بیوہ، ایک لاکھ ۷ہزار سے زیادہ بچّے یتیم اور ۱۱ہزار سے زیادہ خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ رپورٹ ہندستان میں تمام افراد کے حقوق کے تحفظ کے لیے فوری کارروائی کی ضرورت کی واضح یاد دہانی کے طور پر کام کرنے کے لیے خبردار کرتی ہے، چاہے ان کے مذہبی عقائد کچھ بھی ہوں۔
۲۰۲۳ء میں ہندستانی مقبوضہ جموں و کشمیر میں ریاستی تشدد کے واقعات میں ۲۴۸؍ اموات ہوئیں۔ ان میں ۸۲ آزادی پسند، ۶۶ شہری اور ۱۰۰ بھارتی قابض افواج کے اہلکار شامل تھے۔ ہندستانی فوج صنفی بنیاد پر تشدد کو ہتھیار کے طور پر برت رہی ہے۔ اس طرح کشمیری عوام کی ہندستان کے قبضے سے آزادی کی خواہش کو ڈرانے اور دبانے کے ذریعے دبایا جارہا ہے۔ ۱۹۹۱ء میں ایک ہولناک واقعہ میں، کنان پوش پورہ میں تقریباً ۱۰۰ خواتین پر بھارتی فوجیوں نے حملہ کیا، اور بٹوٹ میں ایک خاتون کو اس کے بچے کے سامنے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔
انسدادِ بغاوت کے لیے بنائے گئے قوانین نے بھارتی قابض افواج کو ضرورت سے زیادہ اختیارات دیے ہیں، جو ممکنہ طور پر معصوم کشمیریوں کے خلاف 'مظالم کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ جنوری سے دسمبر ۲۰۲۳ء تک، بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر میں ۲۶۰ ’کورڈن اینڈ سرچ آپریشنز‘ (CASOs) اور ’کورڈن اینڈ ڈسٹرائے آپریشنز‘ (CADOs) کیے گئے۔ ان کارروائیوں کے نتیجے میں ہندستانی افواج اور کشمیر کے آزادی پسندوں کے درمیان ۷۰ مقابلے ہوئے۔ ان کارروائیوں کے نتیجے میں تقریباً ۱۳۸ شہری املاک کی توڑ پھوڑ اور تباہی ہوئی۔
مزید برآں مقبوضہ جموں و کشمیر میں جنوری سے دسمبر ۲۰۲۳ء تک انٹرنیٹ کی بندش کی متواتر مثالیں ہیں۔ اس طرح خطے میں مواصلات اور معلومات کے بہاؤ پر لگائی گئی سخت پابندیوں کو واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔ کشمیر کے لوگ انصاف کے حصول کے ساتھ تشدد اور جبر کے خوف سے آزادی کے حق کے مستحق ہیں۔
کشمیر میں نوجوانوں کو بلاجواز تفتیشی مراکز میں لے جایا جا رہا ہے اور شہریوں کو بڑے پیمانے پر قتل و غارت کا سامنا ہے۔ کشمیری باشندوں کے ساتھ یہ ظالمانہ سلوک انتقامی کارروائی، سزا اور کنٹرول کا طریقہ ہے، جسے مقبوضہ علاقے میں بڑے پیمانے پر استعمال کیا جارہا ہے۔ یہ ایک منظم حربہ ہے، جو سول آبادی میں خوف پیدا کرنے اور قبضے کے خلاف مزاحمت کے جذبے کو کمزور کرنے کے لیے آزمایا جارہا ہے۔ کشمیریوں کو جھوٹے الزامات کے ساتھ نشانہ بنانے اور اجتماعی سزا دینے کے لیے ’نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی‘ (NIA) کا ظالمانہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ غیر منصفانہ مہم، خوف اور ناانصافی کا ماحول پیدا کرتی ہے، حقِ خود ارادیت، انسانی حقوق اور انصاف کے لیے آواز اٹھانے والوں کو خاموش کر دیتی ہے۔ کشمیر کو آہستہ آہستہ ’روانڈا‘ جیسے انسانیت کُش خونیں ماحول کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔ اس ظلم کے خاتمے کے لیے ہرباضمیر انسان پر لازم ہے کہ وہ ظلم کے خاتمے اور کشمیری عوام کے حقوق کے لیے اُٹھ کھڑا ہو۔آیئے، سب اس انصاف اور برابری کے مطالبے میں ایک ساتھ کھڑے ہوں۔
اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی موجودہ نسل کشی واضح طور پر اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ امریکا و مغرب کی یونی ورسٹیوں کی انتظامیہ سمیت اکثر عالمی ادارے فلسطینیوں کی نسل کشی کی راہ میں کسی بھی قسم کی رکاوٹ ڈالنے سے انکاری ہیں ۔ دوسری طرف یونی ورسٹیوں میں بڑے پیمانے پر اس نسل کشی اور اس خونریزی سے نظریں پھیر لینے والی ’مغربی اکادمیہ‘ (اعلیٰ تعلیمی انتظامیہ)پر لازم ہے کہ وہ غزہ میں جاری تباہ کن جارحیت کے خلاف ایک زبردست مذمتی تحریک کھڑی کرے۔ بظاہر دکھائی دیتا ہے کہ اپنی عقل و شعور، تمام تر علم، تحریک کے اثر کا ادراک، ترقی پسندی، حالات سے واقفیت، اور حقوق کے تحفظ کی بحثیں ملا کر یہ اصحاب علم ودانش ایک پوری کی پوری ریاست کے ملیامیٹ کرنے سے نہیں روک رہے ہیں۔ اس تباہ کاری نے غزہ میں اعلیٰ تعلیم کے ڈھانچے کو مکمل طور پر زمیں بوس کر دیا ہے اور اکا دمیہ اور طالب علموں کی نعشوں کے انبار لگا دیے ہیں، جن میں سے کئی ایک کے بے جان لا شے اب تک ملبے تلے دبے ہیں۔
اس غم زدہ کرنے والے ماحول میں دنیا کی مختلف یونی ورسٹیوں میں طلبہ کی جانب سے لگائے گئے ’غزہ یک جہتی کیمپس‘ میں یہ بات واضح طور پر نمایاں ہے کہ سیاسی شعور، حق کے لیے کھڑے ہونے کا عزم، اور صحیح غلط کی پہچان جیسے بنیادی اوصاف یونی ورسٹیوں کے طلبہ و طالبات میں، یونی ورسٹیوں کی انتظامیہ کے اہل کاروں اور ان کے اعلیٰ عہدے داروں سے کہیں زیادہ پائے جاتے ہیں ،جو بظاہر ان اصولوں کے مجاور بنے پھرتے ہیں۔ اور اب، جب اساتذہ کو آئینہ دکھایا جا رہا ہے،تو جوابا ً وہی علم و تحقیق کے دیوتا ان نہتے طلبہ پر تشدد کے لیے پولیس کو بلا لیتے ہیں۔
دیکھا جائے تو ان کا یہ رد عمل حیران کن نہیں ہے۔ پورے عالمِ مغرب کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں اسرائیل کے لیے نرم گوشہ پایا جاتا ہے۔یہ اسلحہ اور اس جیسے دیگر موضوعات پر تحقیق کو فروغ دیتے ہیں، جو نہ صرف جنگی جنون کو ہوا دیتی ہیں بلکہ اسرائیلی فوج کی فلسطینیوں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت کو بہتربنانے میں بھی معاون ثابت ہوتی ہیں۔علاوہ ازیں اسرائیلی اعلی تعلیمی اداروں کے ساتھ مضبوط دو طرفہ تعلقات کے قیام کے ذریعے، اسرائیلی جارحیت کے حق میں کام کرنے والے اداروں کو دنیا بھر سے توثیق دلوانے میں بھی کردار ادا کرتے ہیں۔ جیسا کہ متحدہ ریاست ہائے امریکا اور فرانس میں لگائے گئے طلبہ کے احتجاجی کیمپس سے اُبھرنے والے رد عمل سے صاف ظاہر ہے کہ یہ لوگ اپنے حکمرانوں کے فیصلوں کے علاوہ ایک سوچی سمجھی تدبیر کے تحت اپنے اداروں میں فلسطین کے حق میں اٹھنے والی آواز کو دبا رہے ہیں۔ ایسا کرنے سے یہ اسرائیل کی اپنی یونی ورسٹیوں میں ہونے والی سرگرمیوں کی ہی ایک مثال پیش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ترقی پسندی کے نام پر اسرائیل کے لیے نرم گوشہ پیدا کرنا بے نقاب ہوچکاہے۔ اس امر میں جس چیز کا کلیدی کردار ہے، وہ نظریے کی آڑ میں ڈالا جانے والا دبائو ہے۔ علاوہ ازیں اختیارات کا نا جائز استعمال اور دبائو کی سیاست بھی اسے بڑھاوا دینے والے عناصر میں شامل ہیں۔
اگرچہ مغرب ہی میں چند ایک تعلیمی اداروں میں اسرائیلی جارحیت پر مزاحمت کی کچھ جھلکیاں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں، جیسے کہ ابرڈین، ٹورونٹو جیسی دیگر کئی یونی ورسٹیوں کی جانب سے کی گئی ’سامیت مخالفت‘ (Anti-Semitism )کی تعریف تسلیم کرنے سے انکار ،اسرائیل سے تعلقات جزوی طور پر منقطع کرنا ، جو کہ حال ہی میں یونی ورسٹی آف ٹورن، ناروے کی چار یونی ورسٹیوں ، اور امریکا میں پِٹزر کالج نے نافذ کیا ہے۔ یا پھر کولمبیا اور دیگر امریکی یونی ورسٹیوں کے منتظمین کے فیصلوں کے برعکس، آسٹریلیا کی یونی ورسٹیوں کا غزہ یک جہتی کیمپوں کو بند کرنے سے اب تک انکار۔ تاہم، ۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کے بعد سے ’فلسطین یک جہتی کیمپس‘ پر ہونے والے شدید جبر اور مغربی اعلیٰ تعلیمی اداروں کے وائس چانسلروں، ریکٹروں اور صدور کی طرف سے اسرائیلی نسل پرستی کو مسلسل پیش کی جانے والے نظریاتی توثیق کے باوجود طالب علموں میں یہ مخالفت کم نہیں ہوئی۔
اگر یونی ورسٹیوں کے ان اعلیٰ عہدے داروں میں سے چند (یا بہت سے) یقینا صہیونی ہیں، یا صہیونیت نواز ہیں تو باقی اکثریت بھی واضح طور پر فلسطین کے حق میں اٹھنے والی آواز دبانے کو محض ایک ذمہ داری کے طور پر دیکھتے اور سمجھتے ہیں، جو ادارے کے سرپرست ہونے کی بدولت وہ خود پر خودبخود عائد سمجھتے ہیں۔فلسطینی موقف کے حامی مظاہرین کی خاموشی کو تنظیمی استحکام، صہیونی مخیر حضرات کوناراض نہ کرنے کی خواہش، یا تہذیب کے تصورات جیسے الفاظ کا ملمع پہنا کر اسے قابلِ قبول حقیقت کی شکل دے دی گئی ہے۔ ایسے جواز جو سینئر تعلیمی منتظمین کے ضمیر کو کسی بھی قسم کی اخلاقی ذمہ داری کو نظرانداز کرنے کا جواز دیتے ہیں، جسے بصورت دیگر اگر وہ محسوس کرتے تو یقینا خود کو تاریخ کے اوراق میں باطل کی فہرست میں موجود پاتے۔ اور تو اور، قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی اپنے عملے کو کٹھ پتلیوں کی طرح استعمال کرتے ہیں۔
تحفظ کی آڑ میں نسل کشی
یونی ورسٹیوں کے اعلیٰ عہدے داروں میں اپنے اداروں کے تحفظ کی بحث اب تحریک یک جہتی فلسطین کے خلاف کسی بھی حد تک تشدد کی پیمائش کے لیے گھڑا گیا جواز بن چکی ہے۔ یہ مطالبہ کہ نسل کشی کے خلاف احتجاج کو صہیونیوں کے ’تحفظ‘ کے لیے دبایا جائے، اسی استدلال کی ایک مثال ہے، جو اسرائیلی ’تحفظ‘ کی ضرورت کے ذریعے غزہ کوملیا میٹ کرنے کا جواز پیش کرتی ہے۔ اسرائیلی یونی ورسٹیوں میں یہودی طلبہ کی حفاظت کے نام پر فلسطینیوں کے ساتھ ظلم اور امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ جب کولمبیا یونی ورسٹی کی مصری نژاد صدر منوشے شفیق نے قانون نافذ کرنے والی فورس کو اپنے طلبہ کے خلاف بلایا، تو اس کا جواز بھی صرف تحفظ تھا۔آسٹریلیا میں، صہیونی تنظیمیں اس بنیاد پر ایک مشترکہ مہم چلا رہی ہیں کہ ’کیمپس یہودی طلبہ کے لیے غیر محفوظ ہیں‘۔ ساتھ ہی ساتھ وہ فلسطینیوں کے خلاف ’دوسرے نکبہ‘ کا جواز بھی پیش کر تے دکھائی دیتے ہیں۔ صہیونیوں اور ان کے ہمدردوں کی طرف سے سوشل میڈیا پر اٹھائے جانے والے نکات میں سے ایک مغربی فلسطین کے حامیوں، خاص طور پر ہم جنس پسندوں کو غزہ جانے کی دعوت دینا ہے، جہاں ان کے خیال میں، حماس کی طرف سے انھیں تیزی سے نکالا جائے گا۔
ان دعوؤں میں موجود خطرات کے تصور کی جانچ کی جانی چاہیے۔اسرائیلی نسل کشی کا دفاع کرتے ہوئے، نیو لبرل یونی ورسٹی میں صہیونی اور ان کے اتحادی ’اسرائیلی یا یہودی تحفظ‘ کا ایک خود ساختہ تصور مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ ’تحفظ کا تصور‘ ایک احساس کے طور پر — ایک ایسا جذبہ ہے جسے ایک علم کا پرستار تعلیمی اداروں سے حاصل کرنے کاپابند ہےبشمول ان دیگر مصنوعات کے جو وہ تعلیم کے نام پر خرید رہا ہے ۔ اس تصور کے مطابق تحفظ ، یونی ورسٹی کے برانڈ کے لیے ایک اور سیلنگ پوائنٹ بن جاتا ہے، جو کہ طالب علم صارف اور خریدار کو مطمئن کرنے کے لیے ایک پیداوار کی مانند ہے جو کہ کیمپس میں دن کے دوران ایک شاپر میں مفت آئس کریم اور کافی کے ساتھ دی جاتی ہے۔
کسی فرد کی شناخت صرف اسی صورت میں برقرار رہتی ہے، جب کہ شناخت دہندہ کسی ایسے معاشرے کا رکن ہو جس میں قوانین کی عمل داری کی شرائط وضع شدہ ہوں ۔ گویا ، تحفظ مکمل طور پر انفرادی احساس کا معاملہ نہیں ہو سکتا۔ بنیادی طور پر یہ ان شرائط اور قوانین پر مبنی ہونا چاہیے، جن کے ذریعے لوگ اجتماعی طور پر محفوظ رہ سکتے ہوں۔ وہ حالات کہ جن میں ایک معاشرہ زندہ اور خوشحال ہو سکے۔ سیاسی جبر، فرعونیت ، بہتان اور جبری گرفتاری کا ’تحفظ کے نظریے‘ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یعنی ایک ایسا معاشرہ جس میں نسل کشی کو غلط قرار دینےکی جرأت ایک جرم ہو جس کے لیے اسے نشانہ بنایا جاتا ہو، اور اس کی سلامتی کو داؤ پر لگایا جاتا ہو ،وہ ترقی کی منازل کبھی طے نہیں کر سکتا۔
غزہ کے باسیوں کی نسل کشی پر خوش ہوتے صہیونی اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ درحقیقت ان کی کمیونٹی محفوظ نہیں ہے۔ فلسطین کے حامی کیمپ کی عالمگیریت کے خلاف صہیونی چاہتے ہیں کہ ہم یہ تسلیم کر لیں کہ اُن کی یک طرفہ یلغار کا جواز اور ان کے تحفظ کا انحصار ہماری خاموشی پر ہے۔
فلسطین کی آزادی کے حامیوں کو ’سامیت دشمن‘ اور دہشت گردوں کے حامی قرار دے کر بدنام کیا جاتا ہے۔ لیکن دنیا میں شعور بڑھنے کی وجہ سے صہیونیت نواز اب اپنی سرگرمیاں کھلے عام نہیں انجام دے سکتے ۔لہٰذا فلسطینیوں کے ساتھ یک جہتی کی سیاست پر براہ راست حملہ کرنے کے بجائے، صہیونی عوامی طور پر دلیل اور جواب کے میدان سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ چونکہ جذبات کی بحث کوئی نہیں جیت سکتا، اس لیے وہ توقع کرتے ہیں کہ فلسطین کے حق کے علَم برداروں پر 'غیرمحفوظ ہونے کا الزام لگا دینے سے ان کے لیے اپنے سیاسی موقف کا دفاع کرنا آسان ہو جائے گا۔
ایک ایسی شناخت جس کو نسل کشی کی مخالفت سے خطرہ لاحق ہو، اس کا انصاف کے ساتھ تعلق ہرگز کسی کے لیے بھی قابلِ قبول نہیں ہو سکتا۔فلسطینیوں کے خلاف جنگ میں ’تحفظ ‘کو اپنے فیصلہ کن کارڈ کے طور پرلہرانا اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ صہیونیت نہ صرف ایک تشدد پر مبنی نسل پرست اور قتلِ عام کرنے والا نظریہ ہے، بلکہ فکری طور پر بھی ایک جاہلانہ تصورہے۔
صہیونیت کے ہاںمضبوط دلائل کی تو کمی ہو سکتی ہے، لیکن جھوٹ کی کوئی کمی نہیں ہے۔ البتہ ہمیشہ یہ شور و غل ضرور سنائی دیتا ہے کہ ’’فلسطین کے حامی سام دشمن ہیں، غزہ میں جو ہو رہا ہے وہ نسل کشی نہیں ہے، اور اسرائیل نسل پرستی پر یقین نہیں رکھتا‘‘۔ لیکن جب اختلاف کیا جاتا ہے، تو گرفتاریاں عمل میں لائی جاتی ہیں، اعلیٰ تعلیمی انتظامیہ کے عہدے داروں کو برطرف کر دیا جاتا ہے اور طلبہ کو اداروں سے بے دخل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ مکوئیر ی (Macquarie) کے دلیر اور ذہین فلسطینی وکیل عبدالفتاح، اور سڈنی یونی ورسٹی کے علومِ سیاسیات کے ممتاز پروفیسر جان کین، اس وقت انھی وجوہ کی بناپر شدید حملے کی زد میں ہیں۔ کیمپس تو امن کے شہر ہیں مگر وہ طالب علموں اور مایہ ناز استادوں کے لیے کتنے محفوظ رہ گئے ہیں ؟ کیا سامیت نوازوں نے کبھی اس پہلو پر سوچا ہے؟
بائیکاٹ بطور تحفظِ جان
ایک طرف تو مغربی یونی ورسٹیوں کے مدبرانہ، آزادانہ، عقلیت، لبرل، ترقی پسندی اور کثیرجہتی بحثوں جیسے تصورات ہیں۔ اور دوسری طرف ہتھیار بنانے والوں، اسرائیلی لابی کے مہروں اور فلسطین دشمن تجزیہ کاروں کے ساتھ تعلقات کی استواری ہے۔ ایسے میں اسرائیل کے لیے مغرب میں پائی جانے والی حمایت کے حوالے سے عوامی اعتماد کو برقرار رکھنے میں مغربی یونی ورسٹیوں کے یہ تصورات کوئی خاص فیصلہ کن کردار نہیں ادا کر تے۔یہ حقیقت تو بالکل واضح ہے کہ مغرب کی تاریخ خونریز نوآبادیاتی نظام اوردیگر جنگوں ، نسل کشی، حراستی کیمپ، تشدد، بے لگام ماحول ، انسانی تذلیل اور استحصال سے بھری پڑی ہے۔لوگوں کے درمیان تعلقات کے کسی بھی منصفانہ یا معقول تصور میں بار بار مداخلت ہمیشہ سے مغرب کا خاصہ رہا ہے۔البتہ جزوی طور پر مغرب اور اسرائیل میں یکساں طور پر یونی ورسٹیوں میں ہونے والی نظریاتی سرگرمیوں کی بدولت لبرل معاشرے کے نظریاتی تصورات کی فضا میں مغرب کی نگرانی میں بنایا گیا 'قوانین پر مبنی ضابطہ ' پھر سے اُڑان بھر رہا ہے۔
مغربی یونی ورسٹیوں کی اسرائیلائزیشن کی مزاحمت کاایک مطلب یہ بھی ہے کہ اپنے اداروں کو ان یونی ورسٹیوں سے دور کیا جائے جوجبری قبضے، نسل پرستی اور نسل کشی کے نظام کی آلہ کار ہیں۔ اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ فلسطین کمیٹی برائے اکیڈمک اینڈ کلچرل بائیکاٹ آف اسرائیل (PACBI) کے تحت ۲۰۰۴ء سے اسرائیلی یونی ورسٹیوں کو ادارہ جاتی تعلیمی بائیکاٹ میں شامل کیا جائے ، جیسا کہ کئی برسوں سے ہو رہا ہے۔جو دیگر سول سوسائٹی ایسوسی ایشنز اور اکیڈمک ٹریڈ یونینوں کی طرف سے بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔ ۱۹۱۸ء سے مسلسل شائع ہونے والے اسرائیلی اخبار ہاریٹز (Haaretz) کے تازہ شمارے میں بائیکاٹ کے اقدامات پر اسرائیلی تعلیمی اداروں میں بڑھتے ہوئے خوف و ہراس کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے، اور بہت سے مضبوط شواہد فراہم کیے گئے ہیں کہ یہ بائیکاٹ اسرائیل میں اعلیٰ تعلیمی اداروں پر فی الواقع دباؤ ڈال رہے ہیں۔
عین ممکن ہے کہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت سے پھیلنے والی وحشت کو سامنے رکھتے ہوئے اسرائیلی یونی ورسٹیوں کے بائیکاٹ کی اپیل غیر مؤثر معلوم ہوتی ہو۔ ایسی صورتِ حال میں تعلیمی بائیکاٹ کی ضرورت پر زور دینا، جب کہ غزہ کھنڈرات میں تبدیل ہو رہا ہے، ہو سکتا ہے کہ موجودہ حالات کے تناظر میں اعلیٰ تعلیم کی یہ بحث بے سود لگنے اور اپنی سیاسی نااہلی کا ملبہ اعلیٰ تعلیمی انتظامیہ کے سر پر لادا جائے۔ جب ایک خونریز نسل کشی جاری ہو ، تو ایسی صورت میں یقیناً مزید ٹھوس مزاحمت کی ضرورت ہوتی ہے۔
ادارہ جاتی اکادمی بائیکاٹ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے باوجود، اب بھی مغربی ماہرینِ تعلیم کی اکثریت کے سامنے یہ تعداد ایک اقلیت ہی سمجھی جارہی ہے۔ ماہرین تعلیم کے بائیکاٹ سے انکار کو کسی حد تک متوسط طبقے کی پیشہ ورانہ مہارت کو برقرار رکھنے کی روش کے شاندار فتنوں کے صرف ایک نتیجہ کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔جس میں حد سے زیادہ احتیاط، سیاسی خاموشی و موافقت شامل ہیں۔ تاہم، بعض اوقات یہ ماہرین تعلیم کے پیشہ وری کی وجہ سے پیداہو جانے والی بدگمانی کا نتیجہ بھی ہوتا ہے، جو پرولتاری مقبولیت اور ادارہ جاتی احترام و خودمختاری میں کمی کی صورت میں نمایاں ہوئی ہے۔ معاصر یونی ورسٹیوں میں ماہرین تعلیم کو بطور غیر ضروری استعمال کے تدریسی یا تحقیقی پرزے گرداننے کا سلوک، اس بات پر کم ہی حیران کرتا ہے کہ وہ ماہرین اپنے اداروں پر اپنے سیاسی اثر و رسوخ کی صلاحیت کو کم تر سمجھتے ہیں۔ غزہ کی موجودہ تباہی اس المناک نتیجے کو نمایاں کرتی ہے۔ مغربی یونی ورسٹیوں کے عملے میں فلسطین کے لیے حمایت میں معمولی اضافہ ہزاروں فلسطینیوں کی ہلاکت کے مقابلے میں کوئی بہت باوزن چیز نہیں ہے، تاہم قابلِ قدر ضرور ہے۔
اکادمی بائیکاٹ نہ صرف اسرائیلی اعلیٰ تعلیمی اداروں اور اسرائیلی معاشرے پر دباؤ ڈالنے کا ایک ضروری قدم ہے، بلکہ یہ خود مغربی یونی ورسٹیوں کی اسرائیلائزیشن کے خلاف مزاحمت اور اس خوش فہمی کو چیلنج کرنے کا بھی ایک موقع ہے کہ تعلیمی سرگرمیوں کو جاری رکھنا ہمیشہ اوّلین ترجیح ہوتی ہے۔ لیکن جب بھوک، بیماری، بے سر و سامانی اور گرتے ہوئے بموں کی دہشت غزہ کے باشندوں کو اپنے مرنے والوں کا سوگ منانے تک سے بھی روک رہی ہو، تو ایسے میں علمی تجزیے کو ترجیح دینا بہت معیوب ہے ۔ یہ کام اور بھی زیادہ معیوب ہے کہ جب زیر بحث تعلیمی سرگرمی اسرائیلی یونی ورسٹیوں کی سرپرستی میں یا ان کے ساتھ مشترکہ طور پر کی جا رہی ہو۔
اگر اور کچھ نہیں تو، اکادمی بائیکاٹ کی قانونی شرائط کے مطابق، اسرائیلی اعلیٰ تعلیمی اداروں کے ساتھ تعلقات کی معطلی اس دکھاوے کو چیلنج کرنے کا ایک طریقہ ہے کہ دنیا کی غلطیاں سرکاری طور پر منظور شدہ کسی لبرل منصوبے کے تحت ٹھیک کی جا سکتی ہیں ۔اس میں مغرب اور اسرائیلی یونی ورسٹیوں کے اعلیٰ عہدے دار، ادارے کے رکن ہونے کے ناتے یکساں پابند ہیں۔ مغرب میں یہ امر فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یک جہتی سے زیادہ کسی بھی ایسے فرد کے لیے خود کو بچانے کے لیے بھی ایک نا گزیر عمل ہے، جو یونی ورسٹیوں کو ریاستی جبر سے آزاد، حقیقی سیاسی تنقید کے مراکز سمجھتا ہو۔
(ماخذ: Overland Magazine، آسٹریلیا)
۱۹ مئی ۲۰۲۴ء کی دوپہر ایرانی صدر جناب ابراہیم رئیسی کو لے جانے والا ہیلی کاپٹر آذربائیجان کی سرحد سے متصل ارسباران پہاڑوں پر پرواز کے دوران لاپتہ ہوگیا۔ اس ہیلی کاپٹر میں صدر سمیت ایران کے وزیر خارجہ حسین امیرعبداللہیان اور دیگر اعلیٰ عہدے داران بھی سوار تھے۔ رئیسی، آذربائیجان کے صدر الہام علیوف کے ساتھ سرحد پر ایک ڈیم کے افتتاح میں حصہ لینے کے بعد واپس آرہے تھے۔ جہاں ہیلی کاپٹر گرا ہے، وہ ’خدافرین ڈیم‘ سے تقریباً ۱۲۰کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس حادثے میں صدر رئیسی سمیت تمام افراد جاں بحق ہوگئے۔ حادثے کے بعد بعض لوگ آذربائیجان کو موردِ الزام ٹھیرا رہے ہیں، کیونکہ اس خطے میں یہ اسرائیل کا اتحادی ملک ہے اورماضی میں آرمینیا کے خلاف جنگ میں اسرائیل نے اس کی بھر پور مدد کی تھی، جب کہ آرمینیا آرتھوڈوکس عیسائی ملک ہونے کے ناتے یہودیوں کا مخالف اور موجودہ صورت حال میں ایران کا اتحادی ہے۔
حال ہی میں خلیجی ریاست اومان میں ایران اور امریکا کے درمیان خفیہ مذاکرات کے دور شروع ہوچکے تھے۔ لیکن اس ناگہانی موت کے بعد یہ مذاکرات خطرے میں پڑ گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق امریکا کو ان مذاکرات کی ضرورت ۱۸ ؍اپریل ۲۰۲۴ء کے بعد محسوس ہوئی، جب ایرانی میزائلوں اور ڈرون طیاروں نے اسرائیل کو نشانہ بنایا۔ یاد رہے اس سے قبل اسرائیل نے دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر حملہ کرکے کئی ایرانی افراد کو ہلاک کردیا تھا۔ ذرائع کے مطابق ان مذاکرات میں پیش رفت ہورہی تھی۔ دوسری چیز جو متاثر ہوئی وہ یہ کہ حالیہ سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کی جانشینی کا معاملہ ہے۔ جس طرح ابراہیم رئیسی کو صدر بنایا گیا تھا، اس سے لگتا تھا کہ ان کو اس منصب کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔
اومان کے دارالحکومت مسقط میں مذاکرات کی سربراہی امریکی صدر بائیڈن کے مشرق وسطیٰ کے سینئر مشیر بریٹ میک گرک اور ایران کے نائب وزیرخارجہ علی باقری کر رہے تھے۔ لیکن ہیلی کاپٹر حادثے میں وزیر خارجہ کی ہلاکت کے بعد اب وہ قائم مقام وزیر خارجہ ہیں۔ مذاکرات تین موضوعات پر مرکوز تھے: اسرائیل میں حکومت کی تبدیلی کی مشترکہ خواہش، غزہ پر اسرائیل کی جنگ کا خاتمہ، اور تنازعے کو خطے میں اور زیادہ پھیلنے سے روکنا___ ایک اندازہ ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام اور تیل کی پابندیوں میں نرمی پر بھی بات چیت ہورہی تھی۔
صدر ابراہیم رئیسی کی موت کے بعد، ایران میں ۵۰دنوں کے اندر صدارتی انتخابات کرانا دستوری اعتبار سے لازم ہیں۔ غیر یقینی کے اس دور میں خارجہ پالیسی کے بڑے فیصلے کیے جانے کا امکان نہیں ہے۔ دوسری طرف امریکی صدارتی انتخابات نومبر میں ہونے والے ہیں۔
صدر رئیسی کی وفات کے بعد سب اہم مسئلہ ایران کے ۸۵ سالہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی جانشینی کا ہے۔ ایران میں یہ ایک اہم اور طاقت ور عہدہ ہے، جو ملک کی سیکورٹی اور خارجہ پالیسی کی حتمی منظوری دیتا ہے۔ آئین کے مطابق ماہرین کی ۸۸ رکنی اسمبلی سپریم لیڈر کے جانشین کا انتخاب کرتی ہے۔ تاہم، خود اسمبلی کے ارکان کو ایران کی ’گارڈین کونسل‘ کے ذریعے پہلے جانچا اور پرکھا جاتا ہے، جو کہ ایک طاقت ور ۱۲ رکنی ادارہ ہے۔ یہ دستوری ادارہ انتخابات اور قانون سازی کی نگرانی کرتا ہے۔ ممکنہ جانشینوں کی فہرست کو انتہائی خفیہ اس لیے رکھا گیا ہے کہ ممکنہ امیدواروں کو ایران کے دشمنوں خاص طور پر امریکا اور اسرائیل کی طرف سے خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ مگر ذرائع کے مطابق تین افراد یعنی موجودہ سپریم لیڈر کے بیٹے مجتبیٰ خامنہ ای، آیت اللہ خمینی کے پوتے حسن خمینی اور صدر ابراہیم رئیسی کو جناب خامنہ ای کے جانشین کے بطور شارٹ لسٹ کردیا گیا تھا۔ رئیسی کی موت کے تین روز بعد ہی اس اسمبلی نے ۲۱ مئی کو ایک بورڈ کا انتخاب کیا۔ جواگلے سپریم لیڈر کے لیے نام دوبارہ شارٹ لسٹ کرے گا۔
ماہرین کی اسمبلی نے جن افراد کو اس بورڈ کےلیے منتخب کیا ہے وہ ہیں، آیت اللہ محمد علی موحدی کرمانی، جو اس بورڈ کے مسندنشین ہوں گے۔ ان کی عمر ۹۳ سال ہے۔ آیت اللہ ہاشم حسینی بوشہری اس بورڈ کے نائب مسندنشین ہوں گے۔ دیگر ممبران میں آیت اللہ علی رضا عرفی، آیت اللہ محسن اراکی اورآیت اللہ عباس کعبی شامل ہیں۔ فی الحال نائب صدر محمد مخبر نے صدارتی اختیارات سنبھال لیے ہیں۔
ابراہیم رئیسی سخت گیر دھڑے کے لیڈر مانے جاتے تھے۔ ۲۰۲۱ء میں جب و ہ ملک کے آٹھویں صدر منتخب ہوئے، تو گارڈین کونسل نے ان کا راستہ صاف کرنے کے لیے متعدد اصلاح پسند اور اعتدال پسند امیدواروں کو نااہل قرار دیا تھا۔ بطور ایک جج، رئیسی کو ۱۹۸۸ء کے متنازعہ عدالتی کمیشن میں اپنے فیصلوں اور پھر ۲۰۰۲ء میں حجاب نہ پہننے کی وجہ سے ایک خاتون مہسا امینی کی حراستی موت کے بعد برپا پُرتشدد مظاہروں اور ہنگاموں کو طاقت سے دبانے کے سبب کافی عالمی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ مظاہرے ۱۹۷۹ء میں انقلاب کے بعد ایران کی تاریخ کے سب سے بڑے اور طویل ترین مظاہروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ جن کے دوران مغربی میڈیا نے ہلاکتوں کے حوالے سے بہت مبالغہ آمیز اعداد و شمار دُنیا بھر میں پھیلا ئے تھے۔
صدر رئیسی کے دور صدارت کا سب سے بڑا کارنامہ ۲۰۲۳ء میں عوامی جمہوریہ چین کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات کے بعد سعودی عرب سے ایران کے تعلقات کو بحال کر نا تھا۔ سعودی عرب اور ایران کی باہمی چپقلش نے کئی عشروں سے مسلم دنیا کی وحدت کو پارہ پارہ کرکے رکھ دیا تھا۔ ان کے اس قدم نے مغربی ممالک خاص طور پر امریکی سفارت کاری کو ایسی مات دی ہے کہ جس کی بازگشت کئی برسوں تک سنائی دیتی رہے گی۔ اگرچہ امریکی خفیہ اداروں کو معلوم ہو گیا تھا کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان گفتگو چل رہی ہے، مگر ان کو امید تھی کہ جوہری معاملات پر ایران کے سخت گیر رویہ کی وجہ سے یہ تعلقات اتنی جلدی معمول پر نہیں آئیں گے۔ تاہم، ابراہیم رئیسی کے تدبّر نے عرب ممالک کو قائل کردیا۔ اس مفاہمت نے یمن اور شام میں امن مذاکرات کی راہیں کھول دیں، جہاں دونوں ممالک متحارب گروپوں کی حمایت کرتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق رئیسی نے خارجہ اُمور میں عملیت پسندی کو اپنایا۔ سعودی عرب کے ساتھ مفاہمت نے دیگر علاقائی طاقتوں کے ساتھ بات چیت کی راہیں بھی کھول دیں۔
یہ سب اسی کا نتیجہ تھا کہ نومبر ۲۰۲۳ء میں، غزہ پر اسرائیل کی جنگ کے دوران، شام کے صدر بشار الاسد اور صدر رئیسی دونوں نے سعودی دارالحکومت ریاض میں عرب لیگ کے ہنگامی اجلاس میں شرکت کی، اور اسرائیل کے خلاف مزید اقدامات کی وکالت کی گئی۔ رئیسی کی قیادت میں، ایران نے ممکنہ امریکی پابندیوں کی پروا نہ کرتے ہوئے چابہار بندرگاہ کے معاہدے کو سرد خانہ سے نکال کر اس کا ایک ٹرمینل باضابطہ طور پر انڈیا کے حوالے کر دیا۔ ان دونوں ممالک نے اس اسٹرے ٹیجک بندرگاہ کو ترقی دینے اور چلانے کے لیے ۱۰ سالہ معاہدے پر دستخط بھی کردیئے۔ جس کے تحت انڈیا شہید بہشتی ٹرمینل کو اپنی تحویل میں لے گا اور اس کو جدید ترین بنانے کے لیے ۱۲۰ ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔
اپریل میں رئیسی نے پاکستان کا دورہ کیا۔ دونوں برادر ملکوں کے درمیان جنوری میں اس وقت سرحدی کشیدگی بڑھ گئی تھی، جب ایران نے سرحد پار سے پاکستان میں فضائی حملے کیے تھے، جس میں پاکستان کے دو بچے ہلاک ہو گئے تھے۔ ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق حملہ میں مسلح گروپ جیش العدل کے دو ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اگلے ہی روز پاکستان نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے ایرانی علاقے میں میزائل داغ دیئے اور تہران سے اپنے سفیر کو واپس بلالیا۔ پاکستانی سفارت کاروں کے مطابق ان حملوں کے فوراً بعد ہی صدر ابراہیم رئیسی کی خواہش پر ایرانی وزیرخارجہ تناؤ کو ختم کرنے کے لیے اسلام آباد آنا چاہتے تھے، مگر پاکستان نے ان کو انتظار کر نے کے لیے کہا۔ صدر رئیسی کے دورۂ پاکستان سے جلد ہی تعلقات دوبارہ پٹڑی پر آگئے۔
اسی طرح اگست ۲۰۲۳ء میں انھوں نے ایران اور امریکا کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کی منظوری دی۔ جس کی وجہ سے کوریا میں منجمد چھ بلین ڈالر تک ایران کی رسائی ہوگئی۔ اکتوبر ۲۰۲۳ء میں جب حماس نے اسرائیل کی طرف سے بنائی گئی سرحدوں کوعبور کر کے کئی فوجی ٹھکانوں پر یہودی بستیوں پر حملہ کیا، تو کئی ممالک نے ایران کو حماس کی مالی اور فوجی امداد و ٹریننگ فراہم کرنے کا ذمہ دار ٹھیرایا۔ مگر چند دن بعد، امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا کہ ’’اس بات کے ابھی تک کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملے ہیں‘‘۔ اس دوران اسرائیل نے ایران کو اس قضیہ میں شامل کرنے کی بھر پور کوشش کی، تاکہ ایران کا نام استعمال کرکے مغربی ممالک اور امریکا کو بھی اس جنگ میں شامل کرکے اس کا دائرہ وسیع کیا جائے، اور دُنیا کی توجہ غزہ سے ہٹ جائے۔ مگر ابراہیم رئیسی کی دانش مندی نے یہ دال گلنے نہیں دی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے جب اسرائیل نے دمشق میں ایران کے موجود سفارت خانے کو نشانہ بنایا، اس کا جواب بھی خاصی دانش مندی سے دیا گیا۔ اس سے ایک طرف اسرائیل کو وارننگ دی، مگر جنگ کے دائرے کو وسیع کرنے کا جوا ز بھی نہیں دیا گیا۔ فلسطین کے مزاحمتی گروپوں کی ایران کی جانب سے مسلسل حمایت اور سفارتی و ابلاغی یک جہتی نے مشرق وسطیٰ اور عرب دنیا میں ایران کی قدرومنزلت اور اثر و رسوخ بڑھا دیا ہے۔ جس کے نتیجے میں مصر اور دیگر عرب ممالک کو بھی فلسطینیوں کی مدد کے لیے عوامی سطح پر آگے آنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔
ترکیہ کے ڈرون کا کردار
ترکی کے ڈرون طیارے نے صدر رئیسی کے لاپتا ہیلی کاپٹر کو تلاش کرکے پوری دنیا کی نگاہیں ترکیہ کے تیار کردہ ملٹری ڈرون پر مرکوز کر دی ہیں۔ ترکیہ کے وزیر ٹرانسپورٹ کے مطابق: ’’ایسا لگتا ہے کہ ایرانی صدر کے ہیلی کاپٹر میں یا تو ٹرانسپانڈر نہیں تھا، یا وہ کام نہیں کر رہا تھا‘‘۔ ٹرانسپانڈر کی وجہ سے جہاز اگر حادثہ کا بھی شکار ہو جائے یا سمندر کی گہرائیوں میں بھی پہنچ جائے، تو سگنل دیتا رہتا ہے۔ جب رات کو دیر تک ریسکیو ٹیم کو کوئی سگنل نہیں مل رہا تھا، تو ترکیہ کے ڈرون کو کسی گرم چیز کے سگنل ملے۔ اکنجی ڈرون، جو کہ ۴۰۰ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار تک پہنچنے اور کم رفتار سے علاقے کو مؤثر طریقے سے سکین (جانچنے) کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اس نے مقامی وقت کے مطابق تقریباً ۱۲بج کر۴۵ منٹ پر ترکیہ کے شہر وان سے ایرانی فضائی حدود کو عبور کیا۔صبح ۲ بج کر۲۲ منٹ پر گرمی کے ایک منبع کا پتہ چلایا۔ جو ایک اہم اشارہ تھا، جسے ترکیہ کے حکام نے فوری طور پر ایرانی حکام تک پہنچا دیا۔ اس دریافت نے ملبے کے مقام کی توثیق کی، لیکن جب امدادی کارکن صبح ۵بج کر ۴۶منٹ پر جائے حادثہ پر پہنچے، تو وہاں کوئی فرد زندہ نہیں بچا تھا۔
گذشتہ برسوں میں ترکیہ کے ڈورنز نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا یا ہے۔جدید ترین ترک اکنجی ڈرون ۲۶ گھنٹوں تک محو پرواز رہ سکتا ہے اور چالیس ہزار فٹ کی بلندی حاصل کرسکتا ہے۔ اس لیے وہ بڑے پیمانے پر ایک وسیع علاقے کے اوپر خاصی دیر تک سرچ اور ریسکیو کر سکتا ہے۔ مصنوعی ذہانت اور جدید ترین الیکٹرانک سسٹمز کی وجہ سے اکنجی کو موسم کے منفی حالات اور جنگی حالات میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کا فنی اور ٹکنالوجی کی سطح پر مقابلہ امریکی ریپر ڈرون کے ساتھ ہے۔ جو ستائیس گھنٹوں تک پرواز کرسکتا ہے اور پچاس ہزار فٹ کی بلندی حاصل کرسکتا ہے۔ مگر امریکی ڈرون زیادہ بھاری پے لوڈ نہیں لے جاسکتا ہے۔
ترکیہ کے دیگر ڈرونز نے حالیہ عرصے کی جنگوں میں شان دار کارکردگی کے مظاہرے کیے ہیں۔ آذربائیجان اور آرمینا کی جنگ میں اس نے میدان جنگ کا نقشہ ہی بدل دیا۔ اسی طرح لیبیا، ایتھوپیا اور یوکرین، روس کی جنگ میں بھی اس نے حریفوں کو مات دی۔ ترکیہ کی اس ڈرون ٹکنالوجی کے بانی سلجوک بائراکتر ہیں، جنھوں نے امریکا کی میسا چوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی (MIT) اور یونی ورسٹی آف پنسلوانیہ سے انجینئرنگ میں ڈگری حاصل کی ہے۔ ان کے والد نے ۱۹۴۸ء میں ہوائی جہازوں کی مرمت وغیرہ کی ایک فیکٹری قائم کی تھی۔ امریکا سے واپسی پر سلجوک نے اپنے فیملی بزنس کو سنبھال کر ڈرون ٹکنالوجی کو متعارف کروایا۔
سلجوک کا ایک اور تعارف یہ بھی ہے کہ وہ ترک صدر رجب طیب اردگان کے داماد ہیں۔ انھوں نے اردگان کی بیٹی سومیہ سے ۲۰۱۲ء میں شادی کی۔ اکثر مواقع پر یہ افواہیں گشت کرتی رہتی ہیں کہ وہ اردگان کے سیاسی جانشین ہو سکتے ہیں، مگر سلجوک نے کئی بار اس کی تردید کی۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ایروسپیس انڈسٹری میں ترکیہ کو دنیا میں ایک اہم پاور بنانا چاہتے ہیں، حکومت میں شامل ہونا ان کی ترجیح نہیں ہے۔ یہ ڈورن اور ان کی فروخت اب ترکیہ کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم جز بن گئے ہیں۔ تقریباً ۳۰ ممالک کو ان ڈرونز کے مختلف ماڈل مہیا کیے جارہے ہیں۔ایران میں ہونے والے المناک واقعے نے بحرانی حالات میں ڈرون ٹکنالوجی کی جنگی اور تزویراتی اہمیت کو اُجاگر کیا اور دکھایا ہے کہ کس طرح یہ بغیر پائلٹ کے چھوٹے جہاز مشکل وقت میں ایک بڑے خلا کو پُر کر سکتے ہیں۔