دوران سفر قسمت سے ایک ہوائی اڈے پر میری ملاقات عبداللہ بن منصور سے ہو گئی۔ عبداللہ بن منصور، فرانس میں اسلامی تنظیموں کے اتحاد (Musulmans De France) کے صدر ہیں اور کچھ برس پہلے میرے ٹی وی پروگرام ’بلا حدود‘ کے مہمان بھی رہ چکے ہیں۔ اگرچہ گذشتہ کئی برس سے ان سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی تھی، تاہم ان سے اچھی شناسائی ہے، کیوں کہ یورپ میں اسلامی مفادات کے لیے ان کی کوششیں اور ان کی موجودگی بہت نمایاں ہے۔
فرانسیسی صدر میکرون کی جانب سے اسرائیل کے حق میں جس اندھے تعصب کا اظہارکیا گیا ہے اور فرانس میں اسلاموفوبیا کو ہوا دینے میں فرانس نے جو کردارادا کیا ہے، ان پہلوئوں کو سامنے رکھتے ہوئے میں نے ابن منصور سے سوال کیا کہ ’’غزہ کے خلاف جنگ نے فرانس کے مسلمانوں کو کس طرح متاثر کیا ہے؟‘‘ جواب میں انھوں نے مجھے ۷ ؍اکتوبر [کے حملے] کے بعد ۲۴ گھنٹوں میں سامنے آنے والےسرکاری احکامات کے بارے میں بتایا: ’’یہ احکامات ہر اس چیز کو غیر قانونی قرار دیتے ہیں، جس کا تعلق فلسطین سے ہو، یعنی فلسطینی جھنڈا اُٹھانا، اور حماس کا نام تک لینا بھی غیر قانونی ہے، حالاں کہ خود اسرائیلی حکام رات دن ’حماس’ کا ہی نام لیتے رہتے ہیں‘‘۔ اس کے بعد انھوں نے مجھے ان تبدیلیوں کے بارے میں بتایا، جوغزہ میں اسرائیل کے ناقابلِ تصور جرائم کی روشنی میں اس مختصر مدت میں فرانسیسی سوسائٹی کے اندر اور بعض سیاسی شخصیات کے اندر واقع ہوئی ہیں۔
لیکن مجھے ابن منصور کی گفتگو میں جس بات نے اپنی طرف متوجہ کیا، وہ مغرب اور خاص طور سے فرانس میں کروڑوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود اسلام کے تعلق سے مثبت سوچ کا پایا جانا ہے ،حالاں کہ گذشتہ عشروں کے دوران اسلام سے خوف زدہ کرنے کے لیے زبردست مہمات چلائی گئیں۔ اسلام کی منفی تصویر کشی کی گئی اور ’اسلاموفوبیا‘ نام کی اصطلاح وجود میں لائی گئی۔ غزہ کے لوگوں نے، ہزاروں کی تعداد میں عام ہونے والی ویڈیوز کے توسط سے مغرب کی ان تمام کوششوں کے بیش تر اثرات کو دھو ڈالا ہے اور اسلام کی ایک روشن و شفاف تصویر پیش کر دی ہے۔ ان ویڈیوز کو بہت سی بین الاقوامی زبانوں میں ڈب بھی کیا گیا ہے۔ یہ ویڈیوز اہلِ غزہ کے صبر اور یقین کو بیان کرتی ہیں اور دکھاتی ہیں کہ جو کچھ ان کے ساتھ ہو رہا ہے، وہ اس پر اللہ کی خوشنودی کے طلب گار رہتے ہیں۔ صبرواستقامت کی اس روشن و شفاف تصویرنے ، جسے دنیا نے اب تک دیکھا نہیں تھا، دیکھنے والوں کو محوِ حیرت کر دیا ہے۔اس منظر نے بے شمار اہل مغرب کو اسلام کے متعلق جاننے ، قرآن کا مطالعہ کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
ابن منصور کہتے ہیں: ’’۴۰ برسوں کے طویل عرصے کے دوران ہم نے فرانس میں خاص طور سے وہاں کے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے اندر اسلام میں داخل ہونے کا ایسا رجحان نہیں دیکھا، جیسا غزہ کی جنگ کے بعد سے دیکھ رہے ہیں۔ اسلام کو اختیار کرنے والے نومسلمین کی رسمی تعداد ۸۰ افراد یومیہ سے بڑھ کر بعض اوقات ۴۰۰ تک پہنچ چکی ہے، اور یہ تعداد روزانہ اوسطاً ۳۰۰ فرانسیسی نومسلم سے کم نہیں ہوتی‘‘۔ اسی سے آپ دوسرے مغربی ممالک کے بارے میں اندازہ لگا لیجیے۔
میں نے ابن منصور سے کہا کہ ’’کیا آپ نے ان سے یہ سوال کیا کہ وہ اسلام میں کیوں داخل ہونا چاہتے ہیں؟‘‘ انھوں نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے کہا: ’’اکثر لوگوں کا جواب یہ ہوتا ہے کہ سنگین ترین مصائب کے باوجود اور اپنے گھر والوں، اپنے پیاروں ، اپنے گھروں اور اپنا مال و دولت کھو دینے کے باوجود صبر و رضا ، یقین و ایمان ، طمانیت اور امن و سلامتی کا جو شعور ہم نے غزہ کے لوگوں کے اندردیکھا ہے، اس نے ہمیں اس کے پیچھے چھپا راز جاننے پر مجبور کر دیا۔ یہ راز ہمیں اسلام اور قرآن کے اندر ملا۔ یہ کیسا عظیم دین ہے جو لوگوں کے دلوں کو، ان کی زندگیوں کو اس یقین اور اس امن و سلامتی سے معمور کر دیتا ہے جس سے ہماری زندگی محروم ہے! ہم نے اسلام کے متعلق پڑھا اور قرآن پر ہمارا دل مطمئن ہو گیا تو اس کے بعد ہم نے اس دین میں داخل ہونے کا فیصلہ کر لیا‘‘۔
اسلام قبول کرنے والوں کی عمر کے متعلق سوال کیا تو ابن منصور نے کہا: ’’اکثریت نوجوانوں کی ہوتی ہے، جن میں لڑکیوں کی تعداد لڑکوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ اٹھارہ سال سے کم عمر کے بچوں کو ہم ان کے والدین کی موجودگی میں اور ان کی رضامندی کے ساتھ ہی کلمۂ شہادت پڑھوا تے ہیں، ورنہ نہیں۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ بعض اوقات والدین بچوں کے ساتھ آتے ہیں اور اپنے بچوں کے اسلام میں داخلے پر رضامندی کا اظہار کرتے ہیں‘‘۔
سب سے زیادہ حیرت میں ڈالنے والے کسی واقعے کے متعلق پوچھا تو ابن منصور کا جواب تھا: ’’۱۸ سال کی ایک لڑکی تھی۔ میں نے اس سے اسلام میں داخل ہونے کی وجہ معلوم کی تو اس نے بتایا کہ میں قرآن کا ترجمہ لے کر آئی کہ اسے پڑھ کر اُس معبود کے بارے میں جاننے کی کوشش کروں، جس نے یہ کتاب نازل کی ہے اور [غزہ کے] ان لوگوں پر ایسی سکینت نازل کی ہے۔ جب میں نے اسے پڑھنا شروع کیا تو میں مکمل نہیں کر پائی تھی کہ ٹھیر گئی اور رونے لگی۔ میری آنکھوں سے آنسو اس طرح بہہ رہے تھے کہ اس سے پہلے کبھی اس طرح نہیں بہے تھے۔ میں نے کہا کہ یہی وہ معبود ہے جس کی میں عبادت کرنا چاہتی ہوں، اور میں نے اسلام میں داخل ہونے کا فیصلہ کر لیا‘‘۔
ایک دوسری لڑکی نے کہا: ’’میں نے ایک عورت کو دیکھا جو اپنے پانچ بچوں کو کھو چکی تھی، اور بجائے اس کے کہ وہ اپنا منہ پیٹتی، چیختی، چلّاتی اور روتی پیٹتی، میں نے دیکھا کہ وہ صبر کا پیکر بنی ہوئی ہے اور کہہ رہی ہے: میرے بچے جنت میں پہنچنے میں مجھ سے بازی لے گئے۔ میں نے سوچا کہ یہ لوگ انسان نہیں ہو سکتے۔ ایسا کیسے ہو کہ میں بھی ان جیسی بن جاؤں؟ پھر مجھے معلوم ہوا کہ اس یقین کے پیچھے دین اسلام ہے۔ بس میں نے فیصلہ کر لیا کہ اس دین میں داخل ہو نا ہے‘‘۔
عبد اللہ بن منصور نے مجھے جو باتیں بتائیں، حالاں کہ ان کی گفتگو صرف فرانس سے متعلق تھی اور انھوں نے چند ایک نمونے ہی بیان کیے تھے، وہی باتیں میں نے مغربی اخبارات سے ترجمہ شدہ ان مختلف رپورٹوں میں بھی پڑ ھیں، جو گذشتہ عرصے کے دوران شائع ہوئی ہیں۔ سوشل میڈیا پر بے شمار ویڈیوز اور خاص طور سے ’ٹِک ٹاک‘ پر مغرب کے نوجوان بچے اور بچیوں کے ویڈیو کلپ دیکھیے۔ ان ویڈیوز میں بھی یہ نوجوان انھی باتوں کی تائید کر رہے ہیں جن کا ذکر ابن منصور نے کیا ہے ۔ یہ نوجوان یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ اس عظیم دین کو جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ شاید فلسطین اور غزہ سے ہمدردی و اظہار یک جہتی نے ہی امریکا اور یورپی یونین کو ’ٹِک ٹاک‘ ایپ کے سلسلے میں سخت پابندیاں عائد کرنے اور امریکی قانون سازوں سے یہ مطالبہ کرنے پر مجبور کیا ہے کہ اس ایپ کے استعمال پر پابندی عائد کر دی جائے۔ نیویارک ٹائمز اور دیگر امریکی اخبارات کے علاوہ دوسرے ذرائع ابلاغ نے ایک سے زائد رپورٹیں شائع کی ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ امریکا میں سب سے زیادہ بکنے والی کتابیں وہ ہیں، جو اسلام، قرآن اور فلسطین کے موضوع پر ہیں۔
شاید ۱۱ ستمبر۲۰۰۱ء (نائن الیون)کے افسوس ناک المیے کے بعد ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔ البتہ ۱۱ ستمبر اور ۷؍اکتوبر کے درمیان فرق یہ ہے کہ اول الذکر واقعے کو اسلام کی تصویر بگاڑنے اور مسلمانوں کو مجرم ثابت کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا، جب کہ ۷ ؍اکتوبر پوری دنیا کو صحیح اسلام کی تلاش پر لگانے میں کامیاب رہا ہے۔ اس نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ مسلمانوں کی مسخ شدہ تصویر، مغربی صہیونیوں کی حرکت تھی اور یہ تصویر خلافِ حقیقت ہے۔ صبر کے پیمانوں سے لبریز اہل غزہ کی ان تصویروں کا مشاہدہ ہی کافی ہے، جن میں وہ صبر و رضا کے ساتھ اپنے جگر کے ٹکڑوں کو الوداع کہہ رہے ہیں، یا ان اسرائیلی قیدیوں کی تصویروں کو دیکھ لینا کافی ہے، جو حماس کے جنگجوؤں سے گرم جوشی کےساتھ وداع ہورہے اور ان کا شکریہ ادا کر رہے ہیں۔ ان تصویروں کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے، گویا یہ لوگ جنگی قیدی نہیں تھے، بلکہ اسلام اور مسلمانوں کی اصل حقیقت کو جاننے کے لیے سیاحتی سفر پر آئے ہوئے تھے۔ ممکن ہے انھی تصویروں نے اسرائیلی مجرموں کو دوبارہ جنگ شروع کرنے اور غزہ میں اپنے جرائم کا سلسلہ جاری رکھنے پر آمادہ کیا ہو ، کیوں کہ قیدیوں کی رہائی کی کارروائی جشن کے ماحول میں تبدیل ہو گئی تھی، جس کا مشاہدہ پوری دنیا کر رہی تھی۔
جس طرح ۱۱ ستمبر کا دن تاریخ میں تبدیلی کی ایک نمایاں علامت بن چکا ہے، بالکل اسی طرح ۷ ؍اکتوبر بھی ایسی ہی ایک نمایاں علامت بن جائے گا۔ شاید فرانس کے اندر اسلام میں داخل ہونے والی تعداد پر دوسرے مغربی ممالک، خاص طور سے امریکا کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے، جہاں کے عوام کے اندر ایک ایسی کش مکش جاری ہے، جس کی مثال نہیں ملتی۔
۷ ؍اکتوبر کے بعد سے دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ کائنات میں آنے والی عظیم تبدیلیوں کی طرف اشارہ ہے۔ یہ شدید درد اور سنگین آزمائش جس سے غزہ اور مغربی پٹی کے لوگ دوچار ہیں، وہ عنقریب ایک ایسی انسانی بیداری کا سبب بنے گی، جو گذشتہ کئی عشروں سے صہیونیوں کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے ذہنوں میں بٹھائے جانے والے بیش تر منفی افکار و تصورات کو بدل کر رکھ دے گی۔
خدا کی قسم ، اے غزہ کے باشندو! تمھارا پاکیزہ اور مقدس لہو، تمھاری پاک روحیں اور تمھارے پاکیزہ نفوس نہ رائیگاں ہوئے ہیں اور نہ ہرگز ہوں گے۔ کیوں کہ مومن کے خون کی حُرمت اللہ کے نزدیک بہت عظیم ہے۔ قرآن میں مذکور اصحابِ اُخدود کا قصہ جسے ہم تلاوتِ قرآن میں دُہراتے ہیں ، ہمارے دلوں کو یقین اور اللہ کی بنائی ہوئی تقدیر کے سامنے تسلیم و رضا کے احساس سے بھر دیتا ہے۔ جب ظالم بادشاہ کو اس بندۂ مومن نے ’بسم اللہ رب الغلام‘ کہنے پر مجبور کیا تو بادشاہ اس کے بعد ہی اس کو قتل کر پایا تھا۔ پھر یہی قتلِ مومن لوگوں کا اللہ کے دین میں فوج در فوج داخلے کا سبب بن گیا تھا۔ اس کے بعد اسلام میں داخل ہونے والے ان لوگوں کی آزمایش یوں ہوئی تھی:
وَمَا نَقَمُوْا مِنْہُمْ اِلَّآ اَنْ يُّؤْمِنُوْا بِاللہِ الْعَزِيْزِ الْحَمِيْدِ۸ۙ (البروج۸۵: ۸)اور ان اہل ایمان سے اُن کی دشمنی اس کے سوا کسی وجہ سے نہ تھی کہ وہ اُس خدا پر ایمان لے آئے تھے جوزبردست اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے۔
یہی اہلِ غزہ کی بھی آزمائش ہے۔ اسی طرح فرعون کے جادوگروں کے ایمان لے آنے سے فرعونی معاشرے میں زلزلہ برپا ہو گیا تھا۔ فرعون کی حکومت و سلطنت اور اس کی فاسد معبودیت بھی اس واقعے سے لرز اٹھی توان جادوگروں کو تکلیف دہ انداز سے قتل کرنے کا حکم دے دیا:
اچھا، اب میں تمھارے ہاتھ پائوں مخالف سمتوں سے کٹواتا ہوں اور کھجور کے تنوں پر تم کو سُولی دیتا ہوں۔ پھر تمھیں پتا چل جائے گا کہ ہم دونوں میں سے کس کا عذاب زیادہ سخت اور دیرپا ہے (یعنی میں تمھیں زیادہ سخت سزا دے سکتا ہوں یا موسٰی؟)۔ جادوگروں نے جواب دیا: قسم ہے اُس ذات کی جس نے ہمیں پیدا کیا ہے! یہ ہرگز نہیں ہوسکتاکہ ہم روشن نشانیاں سامنے آجانے کے بعد بھی (صداقت پر) تجھے ترجیح دیں۔ تُو جو کچھ کرنا چاہے کرلے۔ تُو زیادہ سے زیادہ بس اسی دُنیا کی زندگی کا فیصلہ کرسکتا ہے۔(طٰہٰ ۲۰:۷۱-۷۲)
یہ دونوں واقعات اس بات کی دلیل ہیں کہ آخرت پر یقین رکھنے والوں اور اللہ کی بارگاہ میں درجۂ شہادت کے لیے منتخب کر لیے جانے والوں کی نظر میں موت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ زندگی ختم ہو گئی، وہ تو ’’اللہ کے پاس زندہ ہیں اور اپنا رزق پا رہے ہیں‘‘۔ موت اگر ایک حتمی تقدیر ہے تو شہادت کی یہ موت اشرف ترین موت ہے، جسے انسان حاصل کرسکتا ہے۔ ان آیات پر ایمان و یقین حیات و کائنات کے سلسلے میں انسان کے فہم و تصور کو تبدیل کر دیتا ہے۔ اور مغرب میں اس وقت جو لوگ اسلام کا مطالعہ کر رہے ہیں ان کے ساتھ یہی معاملہ پیش آ رہا ہے۔ غزہ اور مغربی پٹی میں ہمارے لوگوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، وہ تکلیف دہ اور دلوں کو چیر دینے والا ہے، خاص طور سے اس لیے کہ یہ سب کچھ بیش تر مسلم حکمرانوں کی سازش، بے ہمتی، بزدلی یا خیانت کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ البتہ ہمیں اطمینان او ر تسلی ہے کہ وہ اللہ ہی ہے جس نے اہلِ غزہ کو اسی طرح شہید اور پاکیزہ نفوس کی شکل میں پسند کیا ہے، جس طرح اصحابِ اُخدود اور ان کی طرح اللہ کی رضا پر صبر و قناعت کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ کائنات میں ایسی تبدیلیاں راتو ں رات واقع نہیں ہوا کرتیں، لیکن باوجود اس کے کہ مغربی سوساٹیوں میں اسلام کو بدنام کرنے کی عمداً کوششیں کی جاتی ہیں اور وہاں سیاسی و اقتصادی اور میڈیا کی سطح پر صہیونی لابیوں کا تسلط ہے، ہزاروں مغربی نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کا دین اسلام میں فوج در فوج داخلہ اس بات کا غماز ہے کہ کائنات کے اندر عنقریب کوئی بڑی تبدیلی ظہور پذیر ہونے والی ہے، خواہ ابھی اس تبدیلی کے آنے میں وقت ہو، اس لیے کہ اللہ کا وعدہ ہے : كَتَبَ اللہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِيْ ۰ۭ (المجادلہ ۵۸:۲۱) ’’اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسولؑ ہی غالب ہوکر رہیں گے‘‘۔وہ وقت ضرور آئے گا کیوں کہ: وَكَانَ وَعْدًا مَّفْعُولًا O(بنی اسرائیل ۱۷:۵)’’اور اللہ کا وعدہ پورا ہو کر ہی رہتا ہے‘‘۔
ہمیں غزہ کی جنگ میں سوائے بدمعاش صہیونی غنڈوں کے سنگین جنگی جرائم کے کچھ نظر نہیں آتا۔ تاہم، اس جنگ کے کچھ ایسے بے شمار پہلو بھی ہیں جو ہمیں نظر نہیں آ رہے ہیں ۔ وَاللہُ غَالِبٌ عَلٰٓي اَمْرِہٖ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ۲۱ (یوسف۱۲:۲۱)’’اللہ اپنا کام کرکے رہتا ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں‘‘۔
خان یونس کے ناصر ہسپتال کے سامنے جینز اور ہوائی چپل پہنے نوجوان مرد ایسے قطار میں کھڑے تھے، جیسے وہ کسی جنازے کو جاتے ہوئے دیکھ رہے ہوں۔یہ ہسپتال کی ایمرجنسی کے باہر رات کے وقت کے مناظر ہیں۔ طبی عملہ اپنا مخصوص لباس پہنے مزید زخمیوں کو وصول کرنے کے لیے تیار ہے۔اونچی آوازیں آنے لگتی ہیں اور مردوں کا ہجوم جمع ہو جاتا ہے۔
عوامی امن و امان کی صورتِ حال مکمل طور پر خراب ہونے والی ہے۔ لوگ خوف زدہ ہیں اور تھک چکے ہیں۔ایک گاڑی اُونچا ہارن بجاتے ہوئے اور جلتی بجھتی سرخ روشنیوں کے ساتھ رُکتی ہے۔ ایک نوجوان کو اس سے نکالا جاتا ہے اور ایک سٹریچر پر رکھ کر جلدی سے اندر لے کر جایا جاتا ہے۔پھر دھول میں لپٹی ایک اور گاڑی آتی ہے اور ایک چار، پانچ سال کے بچے کی مدد کر کے اسے گاڑی سے نکالا جاتا ہے۔ وہ اتنی ہمت رکھتا ہے کہ گاڑی سے اُتر کر خود چل کر اندر چلا جائے۔
جمعے سے اسرائیل نے غزہ کے جنوب میں شدید بمباری کا آغاز کیا ہے، جس کے بعد غزہ کے دوسرے سب سے بڑے شہر خان یونس کے ہسپتالوں میں زخمیوں کی بڑی تعداد آ رہی ہے، جو اس کی گنجایش سے کہیں زیادہ ہے۔
اسرائیلی ٹینک اور فوجی بھی شہر میں داخل ہو چکے ہیں اور حماس کے ساتھ عارضی جنگ بندی ختم ہونے کے بعد زمینی کارروائیوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق جنگ کے دوبارہ شروع ہونے کے بعد سے کم از کم ۱۲۰۰ سے زائد لوگ جان کی بازی ہار چُکے ہیں اور اس کے بعد غزہ میں ہلاکتوں کی مجموعی تعداد ۱۷ ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔
جنگ کے ابتدائی دنوں میں اسرائیلی فوج نے عام شہریوں کو شمالی غزہ چھوڑنے کا حکم دیا تھا۔ غزہ کے ۲۳ لاکھ رہایشیوں کی بڑی تعداد نے اپنی جانیں بچانے کے لیے جنوب کا رخ کیا تھا۔ لیکن خان یونس تک لڑائی کے پہنچنے کے بعد ایسی جگہیں کم رہ گئی ہیں، جہاں وہ جان بچانے کے لیے رُخ کرسکیں۔
شہر کے یورپین ہسپتال کے میدان اور راہداریاں ہزاروں بے گھر ہونے والے افراد سے بھری ہوئی ہیں۔ دھماکوں کی آوازوں کے درمیان ایک بچے نے کہا:’ ’جب ہم کھیل رہے ہوں اور بمباری شروع ہو جائے تو ہم فوراً دیواروں کے ساتھ خیموں میں جا کر سو جانے کا بہانا کرتے ہیں۔ ہمیں ڈر لگتا ہے۔ ہمارے اوپر کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ کر گرتے ہیں‘‘۔
ہسپتال میں ایک خاتون نے بتایا کہ ’’میں خان یونس کے مشرقی علاقے الفاخاری کی جانب گئی، تو مجھے فون کالوں کے ذریعے بتایا گیا کہ وہ جگہ ’محفوظ مقام‘ ہے۔ لیکن اب صورتِ حال یہ ہے کہ اس علاقے میں بہت بمباری ہو رہی ہے اور صورتِ حال بہت بُری ہے‘‘۔
’’مجھے کوئی علاقہ محفوظ نظر نہیں آتا اور نہ کسی جگہ رہا جا سکتا ہے‘‘۔
۷۵ سال کے بزرگ اس سے اتفاق کرتے ہیں کہ کوئی جگہ محفوظ نہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’’صورتِ حال کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں عورتیں اور بچے ہیں۔ ہم بڑے تو جو کچھ ہو رہا ہے برداشت کر سکتے ہیں‘‘۔
انھوں نے مزید بتایا:’’ان آوازوں کو سنیے ، کوئی کیسے محفوظ مقام پر جانے کے موقعے کے لیے بیٹھ کر انتظار کرسکتا ہے؟ تحفظ کہاں ہے؟ ہم تو محسوس نہیں کر سکتے۔ جہاں بھی ہم جاتے ہیں، جسے وہ محفوظ کہتے ہیں، ہمیں وہ نہیں ملتا‘‘۔
خان یونس مرکز میں سماح الوان دو خالی پانی کی بوتلیں لہراتے ہوئے کہتی ہیں کہ ان کے چھے بچے پیاسے ہیں۔ ان کی پانچ بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے:’’ہم کتے بلیوں کی طرح بن گئے ہیں۔ شاید کتے اور بلیوں کو پناہ مل جاتی ہے، ہمارے پاس کوئی پناہ گاہ نہیں ہے۔ ہم گلیوں میں پھنسے ہوئے ہیں‘‘۔
اقوام متحدہ کے ایک اہلکار کے مطابق غزہ میں انسانی بحران ہر گزرتے گھنٹے کے ساتھ بدتر ہوتا جا رہا ہے۔مجھے اپنی زندگی ختم ہوتی نظر آ رہی ہے۔ جنگ کی ابتدا سے میرے اور میرے خاندان کے ساتھ جو کچھ ہوا، اس سب کے باوجود یہ پہلی دفعہ ہے جب مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ کیا کیا جائے؟
مُجھ سے میری قوت ارادی اور میرا اختیار چھین لیا گیا ہے۔ اپنے گھر والوں کو محفوظ رکھنے کا اب میں کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہا۔ میرا تعلق شمال سے ہے لیکن میں اپنے گھر والوں کے ساتھ اس وقت جنوب کی طرف روانہ ہوا، جب اسرائیلی فوج نے ہم کو حکم دیا کہ ’’ایسا کریں‘‘۔
ابھی میں اکیلا خان یونس میں ہوں اور میرے گھر والے وسطی غزہ میں ہیں اور معلوم نہیں کس حال میں ہیں؟پہلے تومیں کچھ دن بعد ان سے ملنے جاتا تھا اور ہماری ملاقات ہو جاتی تھی مگر اب حالات پہلے جیسے نہیں ہیں۔ اسرائیلی فوج نے اب وہاں جانے والی ایک مرکزی سڑک کو بند کردیا ہے، جب کہ دوسری سڑک انتہائی خطرناک ہے۔
کیا مجھے جنوب میں رفح کی جانب جانا چاہیے، اپنا کام جاری رکھنا چاہیے اور اُمید رکھنی چاہیے کہ میرے گھر والے ٹھیک رہیں گے؟
یا پھر مجھے رپورٹنگ چھوڑ کر واپس جانے کی کوشش کرنی چاہیے، کیونکہ اگر کوئی آفت ہی آنی ہے تو ہم سب پر اکٹھی آئے کم از کم ہم اکٹھے مر تو جائیں گے؟میں اُمید اور دعا کرتا ہوں کہ کبھی کسی پر ایسا کربناک وقت نہ آئے کہ اُس کے پاس انتخاب کرنے کو کچھ نہ ہو۔
اگست ۲۰۱۹ء میں جموں و کشمیر کی آئینی خود مختاری ختم کرنے اور ریاست کو تحلیل کرکے دو مرکزی زیر انتظام علاقے بنانے کے خلاف دائر کی گئی درخواستوں پر بھارتی سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے بھارتی حکومت کے اس قدم کو درست ٹھیرایا ہے۔ ویسے سپریم کورٹ میں ۱۶دنوں تک چلنے والی طویل بحث کے بعد کورٹ کی طرف سے جموں و کشمیر کی اس آئینی خود مختاری کو بحال کرنے کے بارے میں کوئی خوش فہمی تو نہیں تھی، مگر اُمید تھی کہ ریاست جموں و کشمیر کو دولخت کرنے اور اُن کو مرکزی زیر انتظام علاقے بنانے کے لیے سپریم کورٹ، حکومت کی سرزنش ضرورکرے گی، کیونکہ اس کی نظیر بھارت کے دیگر صوبو ں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔
پچھلے ۷۰ برسوں میں بھارت میں مرکزی حکومتوں نے مختلف وجوہ کی بنا پر ۱۱۵ بار آئینِ ہند کی دفعہ ۳۵۶ کا استعمال کرتے ہوئے صوبائی حکومتوں کو معزول کیا ہے۔ اب مرکزی حکومت کو ایک اور ہتھیار مل گیا ہے۔ حزبِ اختلاف کے زیر اقتدار کسی بھی صوبائی حکومت کو نہ صرف ا ب معزول کیا جا سکے گا، بلکہ اس ریاست کو پارلیمنٹ کی عددی قوت کے بل پر براہ راست مرکزی علاقے میں تبدیل بھی کیا جاسکے گا اور صوبائی اسمبلی کے مشورہ کے بغیر ہی دولخت بھی کیا جا سکے گا۔ اس لیے بھارت کے اندر کئی دانش وروں اور قانون دانوں نے اس فیصلے کے مضمرات پر گہری تشویش ظاہر کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’یہ فیصلہ ملک کے وفاقی ڈھانچے کو چیلنج کرتا ہے‘‘۔
افضل گورو کو سزائے موت دینے کے فیصلے کو اجتماعی ضمیر سے جوڑنے اور بابری مسجد کے معاملے پر عجیب و غریب فیصلہ دینے کے بعد، کشمیر کی خودمختاری کے سوال پر بھارتی سپریم کورٹ سے کسی مثبت فیصلے کی شاید ہی کوئی اُمید تھی۔ بہرحال، بابری مسجد پر خو د سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ: ’’اس کو نظیر نہیں بنایا جاسکتا ہے‘‘۔ کیونکہ اس میں بابری مسجد کی زمین ہندو یا مسلم فریق کو دینے کے بجائے بھگوان رام للا کو دے دی گئی تھی اور کورٹ نے جو قانونی سوالات طے کیے تھے، فیصلے کے وقت ان کو نظرانداز کردیا۔
۲؍اگست ۲۰۲۳ء سے شروع ہونے والی سماعت ستمبر کے پہلے ہفتے کو مکمل ہو گئی تھی اور کورٹ نے فیصلہ محفوظ رکھا تھا۔ عدالت میں۱۳ہزار ۵۱۵ صفحات پر مشتمل دستاویزات کے علاوہ ۲۸جلدوں پر مشتمل۱۶ ہزار ۱۱۱ صفحات پر مشتمل کیس فائلز دائر کی گئی تھیں۔ سماعت کے دوران کئی شہرۂ آفاق کتابیں جن میں The Federal Contract، Oxford Constitutional Theory اور وی پی مینن کی The Transfer of Power بھی کورٹ کے سپرد کی گئیں۔
چیف جسٹس چندرچوڑ کے علاوہ پانچ رکنی بنچ میں جسٹس ایس کے کول، جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس بی آر گاوائی اورجسٹس سوریہ کانت شامل تھے۔ یہ طے تھا کہ دسمبر کے وسط میں فیصلہ آئے گا، کیونکہ جسٹس کول دسمبر میں ہی ریٹائر ہونے والے تھے۔ وہ سپریم کورٹ کے واحد کشمیری جج تھے، اگرچہ پانچ ججوں نے متفقہ فیصلہ دیا، مگر تین الگ فیصلے لکھے گئے۔ ایک چیف جسٹس نے جسٹس بی آر گوائی اور جسٹس سوریہ کانت کے ساتھ مل کر تحریر کیا۔ جسٹس کول نے الگ سے اپنے تاثرات تحریر کیے۔جسٹس سنجیو کھنہ نے دونوں فیصلوں سے اتفاق کیا اور صرف کچھ معاملات میں اپنی رائے بیان کی ہے۔
اس آئینی بنچ کے سامنے آٹھ معاملات تھے:
کیا بھارتی آئین میں درج آرٹیکل۳۷۰ کی دفعات کو عارضی یا مستقل حیثیت حاصل ہے اور کیا دستاویز الحاق پر دستخط ہونے کے وقت مہاراجا کشمیر نے کچھ اختیارات اپنے پاس رکھے تھے،جو ریاستی حکومت کو منتقل ہوگئے؟ کیونکہ یہی دفعہ جموں و کشمیر کے اپنے آئین کو تحفظ فراہم کرتی تھی اور اسی وجہ سے اس خطے کی انفرادیت کو تحفظ دینے کے لیے شہریت کا الگ قانون تھا۔
دوسرا سوال یہ کہ چونکہ مذکورہ قانون آئین ساز اسمبلی نے بنایا تھا اورطے تھا کہ قانون ساز اسمبلی ہی اس میں ترمیم کرسکتی ہے۔ اگست ۲۰۱۹ءکو مودی حکومت نے پارلیمنٹ کو پہلے قانون ساز اسمبلی میں تبدیل کیااور پھر اس کے ذریعے دفعہ۳۷۰ میں ترمیم کروائی۔ کورٹ کے سامنے سوال تھا کہ ’کیا آئین اس میکانزم کی اجازت دے سکتا ہے؟ ‘
تیسرا : کیا آرٹیکل۳۷۰ (۱) (d) کے تحت طاقت کے ذریعے بھارت کا پورا آئین ریاست جموں و کشمیر پر لاگو کیا جا سکتا ہے؟
چوتھا: کیا آرٹیکل ۳۷۰ (۳) کے تحت اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے اور جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کی سفا رش کے بغیر بھارتی صدر آرٹیکل ۳۷۰کو منسوخ کرسکتا ہے؟
پانچواں : کیا ۲۰۱۸ء میں گورنر کی طرف سے قانون ساز اسمبلی کو تحلیل کرنادرست قدم تھا؟
چھٹا: اس کے چھ ماہ بعد کیا ریاست میں صدارتی راج کا نفاذ درست تھا؟
ساتواں : کیا ’جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ ۲۰۱۹ء‘ کے تحت ریاست کو دولخت کرنا آئینی طور پر درست تھا؟
آٹھواں : کیا ریاست کی حدود کو ریاستی اسمبلی کے مشورہ کے بغیر تبدیل کیا جاسکتا ہے؟ کیونکہ ابھی تک بھارت میں جو بھی نئے صوبے وجود میں آئے ہیں، ان کی سفارش مقامی اسمبلی نے مرکزی حکومت کو بھیجی تھی۔ اس کے علا وہ کیاکسی فعال صوبے کو راتوں رات مرکزی زیر انتظام علاقے میں تبدیل کیا جاسکتا ہے؟
پہلے سوال کے جواب میں عدالت نے فیصلہ دیا کہ ’دفعہ ۳۷۰ ایک عارضی انتظام تھا اور۱۹۴۷ء میں یونین آف انڈیا میں شمولیت کے وقت مہاراجا نے کوئی اختیار اپنے پاس نہیں رکھا تھا، بلکہ تمام اختیارات حکومت ہند کو سونپ دیے تھے‘۔ نومبر ۱۹۴۹ءکو اس وقت کے صدر ریاست ڈاکٹرکرن سنگھ کا حوالہ دے کر عدالت نے کہا کہ ’بھارتی آئین، ریاستی آئین پر فوقیت رکھتا ہے۔ اس لیے ریاست جموں و کشمیر کسی بھی ایسی داخلی خودمختاری کا دعویٰ نہیں کرسکتی ہے، جو دیگر صوبوں کو مہیا نہ ہو۔ آرٹیکل ۳۷۰ (۱) (d) کے تحت صدر کی طرف سے جاری کردہ متعدد آئینی احکامات جو آئین کی مختلف دفعات کی ترامیم کا اطلاق کرتے ہیں، اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پچھلے ۷۰ برسوں کے دوران، یونین اور ریاست نے باہمی تعاون کے ذریعے آئینی طور پر ریاست کو یونین کے ساتھ ضم کر دیا‘۔ عدالت نے کہا کہ ’اچانک ستّر سال بعد پورے بھارتی آئین کو لاگو نہیں کیا گیا بلکہ ریاست کے آئینی انضمام کا عمل جاری تھا‘۔
عدالت نے ڈاکٹر کرن سنگھ کے اعلامیے کا تذکرہ کیا ہے، مگر ۱۹۵۰ء میں ہونے والے اُس وقت کشمیر کے وزیراعظم شیخ محمدعبداللہ اور بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو کے درمیان طے پائے گئے ’معاہدہ دہلی‘ کو حیرت انگیز طور پر بالکل ہی نظرانداز کردیا گیا ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں ۳ جولائی ۱۹۴۷ء کو سردار پٹیل کے ایک خط کا تذکرہ کیا ہے، جو انھوں نے راجا ہری سنگھ کو لکھا تھا:’’کشمیر کے مفادات بغیر کسی تاخیر کے بھارتی یونین اور اس کی آئین ساز اسمبلی میں شامل ہونے میں مضمر ہیں اور یہ کہ اس کی ماضی کی تاریخ اور روایت اس کا تقاضا کرتی ہے، اور بھارت آپ کی طرف دیکھتا ہے۔ اور آپ سے یہ فیصلہ کرنے کی توقع رکھتا ہے‘‘۔ اسی طرح ۲۷ ستمبر۱۹۴۷ء کو نہرو نے سردار پٹیل پر زور دیا کہ ’’پاکستانی حکمت عملی یہ ہے کہ کشمیر میں مداخلت کی جائے، اور جیسے ہی کشمیر آنے والے موسمِ سرما کی وجہ سے کم و بیش الگ تھلگ ہوجائے تو بڑی کارروائی کی جائے‘‘، یعنی اُن کا کہنا تھا کہ کشمیر کے الحاق پر جلد کارروائی کی جائے۔ بھارت میں جو لوگ نہرو کو کشمیر پر فیصلہ نہ کرنے کا ذمہ دار ٹھیراتے ہیں، اور پاکستان میں جو افراد قبائلی حملے کو ہی کلی طور پر مسئلہ کشمیر کی پیداوار قرار دیتے ہیں، ان کے لیے شاید یہ ایک دلچسپ اطلاع ہوگی کہ اس کھیل کی بساط تو اکتوبر ۱۹۴۷ء سے بہت پہلے ہی بچھائی جاچکی تھی۔
سپریم کورٹ نے مزید کہا کہ ’چونکہ آئین کی تمام دفعات کو ریاست پر لاگو کرنے کے لیے آرٹیکل ۳۷۰ (۱) (d) کے تحت ریاستی حکومت کی رضامندی کی ضرورت نہیں تھی، اس لیے صدر نے بھارتی حکومت کی رضامندی حاصل کی‘۔ریاستی آئین کی بحالی کے حوالے سے عدالت نے دلیل دی کہ ’بھارتی آئین کے کچھ حصوں کے عدم اطلاق سے جو خلا رہ گیا تھا، اسے ریاستی آئین پور ا کرتا تھا۔ اب آرٹیکل ۳۷۰ کی منسوخی کے بعد چونکہ پورے بھارتی آئین کا اطلاق ریاست پر ہوتا ہے، اس لیے اب ریاستی آئین کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور یہ اب غیر فعال ہوگیاہے‘۔
عدالت نے لداخ کو ایک علیحدہ مرکزی علاقہ تسلیم کیا، یعنی ریاست کے دو لخت ہونے پر بھی مہر لگائی۔ مگر عدالت نے اس پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لے کر سوال اُٹھایا ہے کہ ریاست کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنانے کی کیا ضرورت تھی؟اور پھر ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ سالیسٹر جنرل نے حکومت کی طرف سے یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ جموں و کشمیر کا ریاست کا درجہ بحال کیا جائے گا اور یہ کہ مرکزی زیر انتظام والی حیثیت عارضی ہے۔ عدالت نے پھر اس پر کوئی حکم نہیں دیا، بلکہ اُمید ظاہر کی کہ جلد ہی ریاستی حیثیت بحال کی جائے گی۔ مگر الیکشن کے حوالے سے اس نے الیکشن کمیشن کو حکم دیا ہے کہ ریاست میں ستمبر ۲۰۲۴ء تک اسمبلی کے انتخابات ہونے چاہییں۔ لداخ کی بطور یونین ٹیریٹری کی حیثیت برقرار رہے گی۔ عدالت کا کہنا تھا کہ کسی بھی ریاست سے کسی بھی علاقے کو الگ کرکے یونین ٹیریٹری بنانے کی اجازت دی جاسکتی ہے۔
جسٹس سنجے کشن کول، جوسپریم کورٹ کے واحد کشمیری جج، اور اس بنچ کے رکن تھے، انھوں نے الگ سے اپنے تاثرات درج کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ اس خطے نے انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کا سامنا کیا ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے تجویز دی کہ جنوبی افریقہ کی طرز پر ایک ’سچائی اور مفاہمت کمیشن‘ (Truth and Reconciliation Commission) ترتیب دیا جائے، جہاں متاثرین اپنا دُکھ درد بیان کرسکیں گے۔ جسٹس سنجے کول کا کہنا ہے کہ ’کشمیر میں زمینی سطح پر ایک پریشان کن صورت حال تھی، جس کا ازالہ نہیں کیا گیا‘۔ان کا کہنا تھا کہ ’اس خطے میں زخموں کو بھرنے اور سماجی تانے بانے کو بحال کرنے کی ضرورت ہے‘۔
تاہم، سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس مفاہمتی یا مصالحتی کمیشن کے سامنے فوج اور سیکورٹی سے وابستہ وہ افسران حاضر ہوں گے، جو علی الاعلان ا پنے گناہوں کا اعتراف کرسکیں گے؟خیر، یہ تجویز بُری نہیں ہے، مگر اس کمیشن کا قیام کسی غیرمتازع اور آزاد ادارے کے تحت ہی ہونا چاہیے۔ کشمیر میں جو واقعات پچھلے تین عشروں میں رُونما ہوئے، ان کو ریکارڈ پر لانا اَز حد ضروری ہے۔ بہرحال،سپریم کورٹ کے اس ایک جج نے اس قدر تسلیم تو کیا کہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں ہوئی ہیں۔
سپریم کورٹ میں تقریباً ۲۳ کے قریب رٹ پیٹیشنیں دائیر کی گئی تھیں -ان میں سے ایک پیٹیشنر رادھا کمار کا کہنا ہے کہ وہ اس فیصلہ سے خاصی مایوس ہیں ۔ رادھا کمار کو من موہن سنگھ حکومت کے دور میں مصالحت کار نامزد کیا گیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’مجھے ابتدا میں یقین تھا کہ عدالت ریاست کو مرکزی زیر انتظام علاقہ بنانے کے حوالے سے کچھ نہ کچھ ریلیف ضرور دے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ ’جب حکومت نے غیر ریاستی باشندوں کے لیے ریاست میں زمینیں خریدنے کا دروازہ کھولا، تو میں نے اس پر جیسے ہی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا، تو مجھ کو بتایا گیا کہ آخری فیصلے تک انتظار کیا جائے۔ لیکن اب عدالت کے اس فیصلے کے بعد ہم جانتے ہیں کہ زمینی حقائق کو آسانی سے نہیں پلٹا جا سکتا، لیکن پلٹنا ناممکن بھی نہیں۔‘ رادھا کمار کے مطابق ہم نے سوچا تھا کہ عدالت آرٹیکل ۳۷۰ پر ہماری حمایت نہیں کر سکتی، اور ضرور اس بات سے متفق ہو گی کہ ریاست کا خاتمہ بھارتی آئین کے آرٹیکل ۳کے خلاف ہے۔ یہ بھی اُمید تھی کہ عدالت قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کرے گی، مگر اس نے یہ بھی نہیں کیا۔ اس کے بجائے، پانچ ججوں نے سالیسٹر جنرل کی اس یقین دہانی کو قبول کیا ہے کہ ریاست کا درجہ 'مناسب وقت پر بحال کیا جائے گا اور الیکشن کمیشن کو اسمبلی انتخابات کرانے کے لیے مزید دس ماہ کا وقت دیا ہے۔ کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ ۲۰۱۹ء، ۲۰۲۰ء، ۲۰۲۱ء، اور ۲۰۲۲ء میں وزیر داخلہ امیت شا کی بار بار کی یقین دہانیوں کے بعد ریاست کا درجہ واپس کیوں نہیں دیا جارہا ہے؟
اگست ۲۰۱۹ء کے فوراً بعد، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی رہنما محبوبہ مفتی اور کئی دیگر افراد نے خبردار کیا تھا کہ مودی حکومت نے کشمیر کو ایک لیبارٹری بنا یا ہے۔ جو کچھ وہ کشمیر میں آزما رہے ہیں، وہی بہت جلد بھارت کے دیگر علاقوں میں بھی نافذ کرکے ہی دم لیں گے۔ ۱۱دسمبر ۲۰۲۳ء کو عدالت کےکشمیر پر مایوس کن فیصلے کے کچھ ہی دنوں کے اندر، ۱۴۷ کے قریب ممبران پارلیمنٹ کو دونوں ایوانوں سے معطل کیا گیا۔ ان کی غیر موجودگی میں تعزیراتی قوانین، شہادت قانون اور ضابطہ فوجداری کے تین نئے قوانین پاس کیے گئے اور برطانوی دور کے تعزیراتی قوانین کو معطل کیا گیا۔
اسی ایوان میں چیف الیکشن کمشنر کا تقرر کرنے والی کمیٹی سے چیف جسٹس آف انڈیا کو بے دخل کرکے اُن کی جگہ ایک وزیر کو رکھنے کا قانون بھی پاس کیا گیا۔ عدالت کی طرف سے کشمیر کے عوام کے حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزی کے بعد بھارت میں پارلیمانی جمہوریت میں کسی بحث و مباحثے کے بغیر ایسے قوانین کو پاس کرنا، جن کا عوام پر براہِ راست اثر پڑتا ہو، آخر کس بات کی نشاندہی کرتا ہے؟ کیا اب بھی بھارتی جمہوریت میں کچھ باقی رہ گیا ہے؟
حضرت ابراہیم علیہ السلام واحد ایسے پیغمبر ہیں، جنھیں دنیا کے تینوں بڑے مذاہب کے لوگ یعنی مسلمان ، عیسائی اور یہودی اپنا پیغمبر، پیشوا اور ابو الانبیا مانتے ہیں۔ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی ہیں جن سے یہودی ، عیسائی اور مسلمانوں کی نسلیں چل پڑیں۔ اسی لیے اسلام ، یہودیت اور عیسائیت کو ابراہیمی مذاہب کہا جاتا ہے۔ یہ بات بھی غور کرنے کے قابل ہےکہ ایک ہی پیغمبر کی اولاد ہونے کے باوجود ہمیشہ ان تینوں قوموں کے درمیان گھمسان کی لڑائیاں ماضی میں ہوئی ہیں، ابھی بھی ہو رہی ہیں اور مستقبل میں بھی ہوتی رہیں گی۔
مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان ماضی میں صلیبی جنگیں ہوتی رہی ہیں، جب کہ عیسائیوں اور یہودیوں میں بھی باہم جنگیں کوئی چھپی ہوئی بات نہیں۔ تاہم، موجودہ دور میں یہود و نصاریٰ حکومتیں یک جان ہو کر عالم اسلام کے خلاف صف آراء ہوگئی ہیں اور نائن الیون کے وقت امریکا کے صدر جارج بش نے کہا بھی تھا کہ صلیبی جنگیں دوبارہ شروع ہوگئی ہیں۔ اس سے ایک عشرہ قبل افغانستان میں جنگ کے بعد سوویت روس کے حصے بخرے ہوئے تو اس وقت مغربی اتحادی افواج (نیٹو) کے سربراہ سے جب پوچھا گیا کہ ’’سوویت روس کی شکست اور سقوط کے بعد کیا نیٹو اتحاد کو ختم کر دیا جائے گا؟‘‘ تو اس پر نیٹو کے سربراہ نے کہا تھا کہ ’’ابھی مغرب کا اصلی معرکہ باقی ہے جو اسلام سے خطرے کی صورت میں سامنے ہے۔ اس لیے ہم نیٹو اتحاد کو ختم کرنے کا خطرہ نہیں لے سکتے‘‘۔ فرانسس فوکویاما نے سوویت روس کی شکست کے بعد کہا تھا کہ ’’دنیا کے دو بڑے نظریات یعنی سوشلزم اور سرمایہ دارانہ نظام کی لڑائی میں بالآخر سرمایہ دارانہ نظام (Capitalism)کی جیت ہوئی اور تاریخ کا خاتمہ ہوگیا۔ اب دنیا کے پاس سرمایہ دارانہ نظام کو ماننے کے علاوہ کو چارہ نہیں ہے‘‘۔ فرانسس فوکویاما نے سرمایہ دارانہ نظام کو ’اچھا آدمی‘ اور سوشلزم کو ’بُرا آدمی‘ کہہ کر اچھائی اور بُرائی کی جنگ بتایا تھا، جس میں بقول فوکویاما کے بالآخر ’اچھے آدمی‘ کی جیت ہوئی۔ اسی طرح برنارڈ لیوس اور سیموئیل پی ہن ٹنگٹن نے مغربی نظام کے سامنے موجود دو بڑے چیلنجز اسلام اور چینی تہذیب کی نشان دہی کی تھی، جو مستقبل میں مغرب کے لیے درد سر بن سکتے ہیں۔ اسی طرح امریکی مفکر ہنری کسنجر نے بھی یہی بات بڑی تفصیل سے کہی کہ اگر کبھی مستقبل میں مسلم ممالک چین کے قریب آتے ہیں تو اسی وقت مغربی ورلڈ آرڈر کی موت واقع ہو جائے گی۔ اس پس منظر کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔
جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ دنیا کی تینوں بڑی تہذیبیں حضرت ابراہیم ؑ کو اپنا باپ تسلیم کرتی ہیں۔ سوربون یونی ورسٹی کے اسکالر پروفیسر جی ایم ڈی صوفی رجسٹرار یونی ورسٹی آف دہلی، دو جلدوں میں اپنی مشہور کتاب Kashir, Being a History of Kashmir (مطبوعہ پنجاب یونی ورسٹی، لاہور، ۱۹۴۸ء) میں کشمیریوں کی تاریخ پر قلم اٹھاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ دراصل کشمیری قوم فلسطین کے باشندے ہیں، کشمیری اور فلسطینی ایک ہی باپ کی دو اولادیں ہیں اور ان کا سلسلۂ نسب حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملتا ہے۔ ملک کنعاں (موجودہ فلسطین) کے بنی قطورہ قبیلے کی خاتون سے شادی کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جو اولاد ہوئی، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے انھیں مال و اسباب دے کر فلسطین سے مشرق کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا۔ کنعان یعنی موجودہ فلسطین سے ہجرت کر کے یہ لوگ پہلے وسطی ایشیا پھر ترکستان کے شہر کاشغر اور آخر میں لداخ کے کوہستانی سلسلے کو عبور کرتے ہوئے سونہ مرگ علاقے سے کشمیر میں داخل ہو گئے اور یہیں مستقل سکونت اختیار کی۔اس زمانے میں کشمیر میں کوئی آبادی نہیں ہوتی تھی اور کشمیر آنے والے یہ پہلے لوگ تھے جو آگے چل کر یہاں کے اصلی باشندے کہلائے۔ ان لوگوں نے اس نئی جگہ کو ’کشیر‘ نام دیا۔
واضح رہے کہ حضرت ابراہیمؑ کی زبان عبرانی تھی اور اس وقت ملک کنعان یعنی فلسطین کی زبان بھی عبرانی ہوا کرتی تھی۔ایک یہودی مؤرخ بھی کشمیریوں کی فلسطین سے اس ہجرت کی تائید کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ کشمیری قوم بڑی بہادر قوم ہے۔ یہ لوگ ہر وقت وادی کے دروں کی حفاظت پر مامور رہتے ہیں اور کسی بیرونی شخص کو وادی میں آنے سے روکتے ہیں۔ فطرتاً یہ قوم جنگجو اور محنت کش ہے اور مہمان نوازی میں بھی یہ لوگ اپنی مثال آپ ہیں۔ لفظ ’کوشر‘ عبرانی زبان کا لفظ ہے اور اس کا تلفظ داردک زبانوں جیسا ہے نہ کہ سنسکرت جیسا۔ یہ الگ بات ہے کہ کشمیر کی تاریخ پر شب خون مار کر یہاں کی تاریخ کو بھی تلپٹ کر کے رکھ دیا گیا۔ اس تاریخی بددیانتی کی ابتدا کلہن نامی شخص نے راج ترنگنی نامی کتاب لکھ کر کی تھی۔ یہ کتاب نہیں بلکہ دنیا بھر کے جھوٹ کا پلندہ اور دیو مالائی کہانیوں کا مجموعہ ہے، جو صرف اس لیے لکھی گئی تاکہ کشمیری قوم کی اسلامی شناخت کو تبدیل کر کے ہندو خاکے میں ڈھالا جا سکے۔ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ماضی میں بھی کوششیں ہوئی ہیں اور تا حال بھی ہو رہی ہیں۔ دفعہ ۳۷۰ اور دفعہ ۳۵-الف کاخاتمہ اسی سمت کا سفر ہے۔ جس میں یہاں پر موجود مسلمانوں کا قتلِ عام کا کام ہی باقی بچا ہے اور یہ کام ایک خاص منصوبے کے تحت جاری ہے۔
ہم چاہیں گے کہ پہلے مرحلہ وار طریقے سے کشمیری قوم کی اصل سے واقف کرائیں ، اس کے بعد مسئلہ کشمیر کے آغاز اور جموں میں ہونے والے قتل عام اور مستقبل میں کشمیر میں آر ایس ایس اور بھارت کے منصوبے پر بھی بات ہوگی۔ بدقسمتی سے کلہن کے بعد آنے والے ہر مؤرخ، جس نے بھی کشمیر کی تاریخ پر قلم اٹھایا، راج ترنگنی کو حرفِ آخر جان کر اس پر آمنا و صدقنا کہا۔ کلہن، ’شیومت‘ کا ماننے والا تھا۔ اس نے کشمیریوں کی تاریخ میں ہندوانہ رسومات کا ذکر زیبِ داستان کے لیے کیا۔ کشمیریوں کے متعلق یہ کہنا کہ یہ یہودیوں کے گیارہ قبیلوں میں سے ایک کھویا ہوا قبیلہ ہے، ایک مفروضہ ہے۔ کلہن نے کشمیری قوم کی کنعان سے ہجرت کے بارے میں کوئی بات نہیں کی ہے بلکہ کشمیر کے ہندو بادشاہوں کا ہی ذکر کیا ہے۔ کشمیری قوم حضرت ابراہیمؑ کی اولاد ضرور ہے، لیکن یہودیوں سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں۔ یہودی حضرت ابراہیمؑ کے بیٹے حضرت یعقوبؑ کی اولاد ہیں، جن کا دوسرا نام اسرائیل تھا اور اسی نسبت سے یہودیوں کو بنی اسرائیل یعنی اسرائیل کی اولاد کہا جاتا ہے، جب کہ کشمیریوں کے بارے میں اس چیز کا گمان بھی نہیں کیا جاسکتا۔
فلسطین سے ہجرت کے بعد کشمیریوں نے پہلے پہل اپنے آبائی دین ’دین اسلام‘ کو مضبوطی سے تھامے رکھا، لیکن رفتہ رفتہ صدیاں گزرنے کے ساتھ برصغیر میں پہلے بدھ مت اور پھر ہندومت کے عروج کے ساتھ کشمیریوں پر بھی ان کے اثرات پڑے اور انھوں نے پہلے بدھ مت اور پھر ہندومت کو اختیار کیا۔ اس بات کے تاریخی شواہد بھی ملتے ہیں کہ بدھ مت کے بڑے بزرگوں کی کانفرنس کشمیر میں ہی ہوتی تھی اور کشمیر میں ہی پہلی بار بدھ مت کے قوانین تانبے کی چادروں پر لکھے گئے اور پھر زمین کے نیچے دفن کیے گئے۔ محکمہ آثارِ قدیمہ کو اس کے شواہد کشمیر کے خطہ لداخ میں ملے ہیں۔ کشمیر کو وسط ایشیا سے جوڑنے والا راستہ جو بانڈی پورہ کے گریز علاقے سے گزر کر گلگت سے آگے بڑھتا تھا۔ مذکورہ قوانین اسی راستے سے وسط ایشیا پہنچے اور وہاں بدھ مت کا پھیلاؤ ہوسکا۔
صدیوں بعد ترکستان سے حضرت عبدالرحمان بلبل شاہ ترکستانی اور پھر ہمدان کے میرسیّدعلی ہمدانی اسلام کی دعوت لے کر کشمیر آئے تو وہ بھی اسی شاہراہِ ریشم کے راستے کشمیر میں وارد ہوئے۔ کشمیر پہنچ کر یہاں کی ہندو آبادی کے سامنے جب انھوں نے اسلام یہ کہہ کر پیش کیا کہ دراصل یہ وہی دین ابراہیمی ہے، جس کی تعلیم حضرت ابراہیمؑ نے دی تھی، تو کشمیری قوم جوق در جوق اسلام قبول کرتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ پورے کشمیر میں صرف گیارہ گھر ہی ہندو رہ گئے اور اسی وقت سے یہ مثل مشہور ہوگئی: ’کشیر چھ کاہے گھر‘ یعنی اصلی کشمیری اب صرف گیارہ گھر بچے ہیں باقیوں نے ہندومت چھوڑ کر اسلام قبول کر لیا ہے۔ اس بات سے خود اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کشمیر کی کہانی جان بوجھ کر الجھائی گئی ہے تاکہ اس قوم کا اسلام کے ساتھ رشتہ کاٹ دیا جائے۔ اس طرح کی ہندوانہ تاریخ لکھنے والے نام نہاد مؤرخوں کی سرکاری سطح پر ہمیشہ سے حوصلہ افزائی ہوتی رہی ہے، جنھوں نے صوفیت اور ریشیت کا شوشہ چھوڑ کر، جو کہ اسلام سے زیادہ ہندو مذہب کے قریب ہے، اور جو اس جھوٹ کو حقیقت ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کشمیر کی تاریخ ہندو مذہب کی پروردہ رہی ہے اور ہندو مذہب ہی کشمیریوں کا حقیقی مذہب ہے۔
فلسطینیوں اور کشمیریوں کی قسمت دیکھیے کہ دونوں برادر قوموں کی ایک جیسی تقدیر ہے۔ فلسطینی قوم اگر یہود کے ہاتھوں تختۂ مشق بنی ہوئی ہے تو کشمیری قوم، اہل ہنود (ہندو قوم) کے ہاتھوں تختۂ مشق بن رہی ہے۔ اس وقت اسرائیل کی طرف سے فلسطین پر بالخصوص اہل غزہ پر جو قہر ڈھایا جا رہا ہے، کچھ اسی طرح کی منصوبہ بندی کشمیری قوم کے بارے میں بھی بنائی جا رہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس خاکے میں رنگ بھرنے میں کچھ عناصر رکاوٹ بنےہوئے ہیں۔ اللہ نہ کرے اگر یہ رکاوٹیں دُور ہوگئیں یا کمزور پڑگئیں تو جو منظرنامہ اس وقت غزہ میں بنا ہوا ہے، وہی المیہ کشمیر میں بھی دیکھنے کو مل سکتا ہے اور بھارت کی ایک سخت گیر ہندو فاشسٹ حکومت اسی جانب بڑھ رہی ہے۔ جنوری ۲۰۲۴ء سے جموں سرینگر ٹرین سروس شروع ہو رہی ہے، جس پر ۲۸ہزار کروڑ کی رقم خرچ کی گئی ہے۔ اگرچہ بتایا یہی جا رہا ہے کہ اس منصوبے کے ذریعے سے کشمیر میں ترقی کو فروغ ملے گا اور کشمیر کی سیاحت انڈسٹری میں اضافہ ہوگا۔ لیکن غور کیا جائے تو حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ دراصل یہ ٹرین پراجیکٹ کشمیر کے سینے میں ایک خنجر کی طرح پیوست کیا گیا ہے، جس سے کشمیریوں کا روز مرہ کا سفر آسان تو ہوجائے گا لیکن آزادی کی منزل بہت دُور ہو جائے گی۔
تقسیم برصغیر کے وقت کشمیر کی بھارت کے ساتھ صرف ۱۸ فی صد سرحد ملتی تھی اور وہ بھی دریائے راوی، جو پنجاب اور ریاست جموں و کشمیر کے آخری گاؤں لکھن پور کو آپس میں تقسیم کرتا تھا۔ اُس زمانے میں یہ راستہ بالکل ناقابلِ استعمال تھا، بلکہ اگر اسے راستے کے بجائے پگڈنڈی کہا جائے تو زیادہ بہتر رہے گا۔ چونکہ کانگریس کی قیادت پہلے ہی شیخ محمد عبداللہ کو اپنے رنگ میں رنگ چکی تھی اور کشمیر کے راجا ہری سنگھ نے بہت پہلے ہی کانگریس کے ساتھ مل کر کشمیر کو ہندستان سے جوڑنے کا منصوبہ بنالیا تھا، اس خاکے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے پٹیالہ فوج ، ڈوگرہ فوج، بھارتی افواج اور آر ایس ایس کے ہتھیار بند جتھوں نے مل کر جموں صوبے میں لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ ہزاروں مسلمان بچیوں کو اغوا کیا گیا اور ان کی عصمت دری کی گئی۔ تقسیم کے وقت پنجاب میں جو قتلِ عام کیا گیا، وہ اسی لیے تھا تاکہ کسی بھی طرح سے وادئ کشمیر پر قبضہ کیا جاسکے۔ ایک بار وادی قبضے میں آ گئی، پھر لداخ، گلگت اور بلتستان کے پہاڑی سلسلے کو ہدف بنایا جاسکتا تھا اور شاہراہِ ریشم بھارت کے تسلط میں آجاتی۔
۷۰ سال پہلے جس قتلِ عام کی ابتدا جموں صوبے سے کی گئی تھی، آج پوری ریاست میں اسی طرح کا قتلِ عام مختلف صورتوں میں جاری ہے۔ اب چونکہ بھارت نے دفعہ ۳۷۰ اور ۳۵-الف کو ختم کر کے جموں وکشمیر کو مکمل طور پر بھارتی بھیڑیوں کے سامنے ڈال دیا ہے، تو صورتِ حال اور بھی خوفناک ہونے والی ہے۔ مذکورہ بالا دفعات کے ہوتے ہوئے اس بات کا کم از کم یقین تھا کہ بھارت کی کسی دوسری ریاست کا باشندہ کشمیر میں زمین نہیں خرید سکتا۔ لیکن ان کے خاتمے کے ساتھ ہی یہ دیوار بھی درمیان سے ہٹ گئی ہے۔
اسرائیل کی وحشت ناک بمباری کے بعد، جس نے ۴۹دنوں میں تقریباً۱۵ہزار افراد کو ہلاک کردیا، جس میں چھ ہزار کے قریب بچے اور چار ہزار خواتین شامل ہیں، ایک عارضی جنگ بندی نے فلسطینی خطہ کی غزہ کی پٹی کے مکینوں کو سانس لینے کا موقع فراہم کردیا ہے۔ اس خطے میں لگاتار ہورہے موت کے رقص کے دوران، لوگ کس طرح زندگی گزار رہے تھے؟ فری لانس صحافی صفاء الحسنات کا کہنا ہے کہ بس اُدھار کی زندگی جی رہے تھے اور یہ پتہ نہیں تھا کہ اگلے ایک منٹ کے بعد زندہ ہوں گے یا نہیں۔ ان ۴۹ دنوں کے دوران، جب اسٹوری یا تفصیلات جاننے کے لیے کبھی ان کو فون کرنے کی کوشش کرتا، یا تو کال ہی نہیں ملتی تھی یا مسلسل گھنٹی کے باوجود وہ فون نہیں اٹھاتی تھیں۔ جنگ بندی کے اگلے دن ان سے رابطہ ہوا اوراس سے قبل شکایت کے لیے لبوں کو حرکت دیتا، کہ انھوں نے کسمپرسی کی ایسی ہوش ربا دردرناک داستان بیان کی،جس نے ہو ش اُڑا دیئے۔
شمالی غزہ کی مکین الحسنات کے شوہر ۷؍اکتوبر سے قبل ہی انتقال کر گئے تھے۔ وہ ابھی سوگ کی حالت میں ہی تھیں، کہ جنگ شروع ہوگئی اور اسرائیل نے شمالی غزہ کو خالی کرنے کا فرمان جاری کردیا۔ چار یتیم بچوں کو لے کر وہ جنوبی غزہ کی طرف روانہ ہوگئیں، جہاں وہ کسی کو نہیں جانتی تھیں۔ خیر کسی نے ان کو مہمان بنالیا۔ مگر اسی رات ان کے پڑوس میں شدید بمباری ہوگئی اور وہ کسی دوسرے ٹھکانے کی تلاش میں نکل پڑیں۔ دوسرا ٹھکانہ تو مل گیا، مگر صبح سویرے اس مکان پر بھی بمباری ہوگئی اور بڑی مشکل سے بچوں کے ساتھ وہ جان بچاکر ملبہ سے باہر آپائیں۔ اس دوران ان کے ایک بچے کو چوٹ بھی آگئی۔ اس وقت زخم کو کون دیکھتا، زندگی بچ گئی تھی۔ مگر اب کوئی ٹھکانہ نہیں رہ گیا تھا۔ رات گئے تک وہ غزہ کی سڑکوں پر گھوم پھر کر اپنے اور بچوں کے لیے چھت تلاش کرتی رہیں۔ خیر سلطان محلہ میں ایک کمرہ میں جگہ مل گئی، جہاں تین خاندان پہلے ہی رہ رہے تھے۔ پناہ تو مل گئی، مگر پیٹ کی آگ بھی بجھانی تھی۔ان کی کہنا تھا کہ صبح سویرے بچوں کو الوداع کرکے بیکری کے باہر ایک لمبی قطار میں روٹی کا انتظار کرنا پڑتا تھا اور کسی وقت باسی روٹی ہی مل پاتی تھی، جس پر پھپھوندی جمی ہوئی ہوتی تھی۔ ہمہ وقت اسرائیلی بمباری کا خطرہ ہوتا تھا۔
اکثر اسرائیلی بمبار طیارے اسی طرح کے ہجوم کو نشانہ بناتے تھے۔ خیر روٹی کے ملنے کے بعد پانی کی ایک بوتل ڈھونڈنے کا مرحلہ طے کرنا ہوتا تھا۔ چونکہ گیس یا دیگر ایندھن کے ذرائع مسدود کردیئے گئے تھے، اس لیے پرانے زمانے کے مٹی کے چولہے پر کھانا بنانے اور روٹی کو گرم کرنے کے لیے لکڑی اور کوئلہ کی تلاش میں سرگرداں ہونا پڑتا تھا۔
الحسنات کہہ رہی تھیں کہ صبح سویرے جب بچوں کو الوداع کرتی تھی، تو معلوم نہیں ہوتا تھا کہ واپس روٹی، پانی اور لکڑی لے کر آؤں گی یا میری لاش ان کے پاس پہنچے گی۔ جس گھرمیں کسی عزیز کی لاش پہنچتی تھی، وہ بھی اپنے آپ کو خوش قسمت تصور کرتے تھے، کہ انھوں نے عزیز کا جنازہ پڑھا۔ ورنہ بمباری سے ملبہ کے اندر ہی لاشیں دب جاتی تھیں یا ان کی شناخت ہی نہیں ہوپاتی تھی اور پھر گھر والوں کو لاش ڈھونڈنے کی تگ ودو کرنی پڑتی تھی۔ وہ بتا رہی تھیں کہ ’’گھر سے نکلتے وقت اکثر مجھے لگتا تھا کہ شاید آخری وقت بچوں کا چہرہ دیکھ رہی ہوں۔کیا پتہ اس دورا ن اسرائیلی بمباری سے یہ ٹھکانہ بھی مسمار ہو جائے۔ یہ بچے حال ہی میں یتیم ہو گئے تھے اوران کی آنکھیں اور اُداس معصوم چہرے بتاتے تھے کہ اب وہ ماں کے آنچل سے اتنی جلدی محروم نہیں ہونا چاہتے تھے۔ کھانا حاصل کرنے کی اس تگ و دو کے بعد صحافتی ذمہ داریاں بھی نبھانی تھی اور پھر اسٹوری حاصل کرنے کے لیے میدان میں آنا پڑتا تھا۔ یہ میرے پورے ایک دن کی سرگزشت تھی۔ اس لیے اگر میں نے اس دورا ن فون نہیں اٹھایا یا کال کا جواب نہیں دیا،، تو مجھے معافی ملنے کا پورا حق ہے‘‘۔
اس گفتگو کے بعد پھر کون شکایت کرتا۔ یہ نہ صرف الحسنات، بلکہ پورے ۲۰لاکھ غزہ کے مکینوں کی کہانی تھی۔ اسرائیلی بمباری کے سائے میں ۴۹دن انھوں نے کم و بیش اسی طرح گزارے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس عارضی جنگ بندی کو لاگو کروانے اور اس پر اسرائیل کو راضی کروانے کے لیے امریکی صدر جو بائیڈن اور اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے درمیان ۱۳ بار فون پر بات چیت کے دور ہوئے اور اس کے علاوہ امریکی صدر نے مسلسل قطر کے امیر تمیم بن حماد الثانی کے ساتھ رابطہ رکھا۔ انقرہ، دوحہ اور بیروت میں مقیم مذاکرات کاروں نے راقم کو بتایا کہ قطر نے گو کہ اس معاہدے کی ثالثی میں اہم کردار ادا کیا، مگر اس میں ایران، مصر اور ترکیہ نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔ چھ صفحات پر مشتمل جنگ بندی دستاویز میں اسرائیلی فوجی سرگرمیاں بند کرنے، جنوبی غزہ پر اسرائیلی پروازوں پر پابندی اور شمالی فضائی حدود میں کارروائیوں کو محدود کرنے کی شرط رکھی گئی ہے۔اس کے علاہ قیدیوں کے تبادلہ کا نظم بھی وضع کردیا گیا۔ اس کا ابتدائی ڈرافٹ ۲۵؍ اکتوبر کو قطری وزیر اعظم محمد بن عبدالرحمٰن الثانی اور وائٹ ہاؤس کے مشرق وسطیٰ کے کوآرڈی نیٹر بریٹ میک گرک کے ساتھ طے پایا تھا۔
عالمی سطح پر احتجاج اور عرب ممالک خاص طور پر اس کے حکمرانوں سے تعلقات کی مجبوری نے امریکا کو اسرائیل پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے پر مجبور کردیا۔ ان مذاکرات پر نظر رکھنے اور جلد فیصلہ لینے کے لیے، قطر، امریکا اور اسرائیل کے نمایندوں کا ایک ’سیل‘ ترتیب دیا گیا۔ اس میں امریکی سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنز،قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان، اور میک گرک، اسرائیل کے موساد کے سربراہ ڈیوڈ بارنیا شامل کیے گئے۔ قطر کے امیر نے وزیر اعظم عبدالرحمٰن الثانی کو ’سیل‘ کے لیے نامزد کردیا، تاکہ فیصلہ سازی میں آسانی ہو۔ بعد میں اس عمل میں ترک وزیرخارجہ حکان فیدان،جو ایک سابق اینٹلی جنس سربراہ ہیں، اور مصری انٹیلی جنس کے سربراہ عباس کامل نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔ اس سے قبل ۲۰ اور ۲۵؍اکتوبر کے درمیان، بارنیا نے برنز کے ساتھ کئی بار بات چیت کی، اور بائیڈن نے اس عرصے کے دوران نیتن یاہو سے چار بار بات کی تاکہ معاہدے کا خاکہ تیار کیا جا سکے، جس کے بعد ۲۵؍اکتوبر کو قطر کو ہری جھنڈی دی گئی۔
اس سے پہلے کہ مذاکرات کوئی سنجیدہ موڑ لیں، دوحہ، استنبول اور بیروت میں حماس کی سیاسی قیادت کو کہا گیا کہ وہ زمین پر اور عسکری قیادت پر اپنی گرفت کو ثابت کریں، تاکہ بعد میں معاہدہ کے بعد ان کی زمینی قیادت ا س سے انکاری نہ ہو۔ اس کامظاہرہ کرنے کے لیے، حماس نے ۲۱؍ اکتوبر کو امریکی شہریوں جوڈتھ اور نٹالی رانان کو رہا کردیا، جس سے قطر کی ثالثی کی صلاحیتوں پر اعتماد بڑھ گیا اور حماس کی سیاسی قیادت پر اعتماد قائم ہوگیا۔ تاہم، یہ مذاکرات دو بار تعطل کا شکار ہوگئے۔ پہلی بار جب اسرائیلیوں نے ۲۹؍ اکتوبر کو زمینی حملہ کیا اور دوسری بار ۱۵ نومبر کو جب اسرائیل نے غزہ کے الشفا ہسپتال کا محاصرہ کرلیا۔ لیکن سی آئی اے کے سربراہ نے قطری وزیر اعظم اور موساد کے سربراہ کو بات چیت جاری رکھنے پر آمادہ کرلیا۔ذرائع کے مطابق بائیڈن کی قطر کے امیر کے ساتھ براہِ راست فون کال نے بھی بات چیت کی بحالی میں مدد کی۔ تل ابیب میں میک گرک نے اسرائیلی قیادت کو بائیڈن کا پیغام پہنچایا۔ الشفا ہسپتال پر اسرائیلی حملے کے بعد جب روابط دوبارہ منقطع ہو گئے، تو اس کو بحال کرنے میں دودن لگ گئے۔ اس طرح ۱۸ نومبر کو میک گرک اور برنز نے ایک مسودہ کے ساتھ قطری وزیر اعظم سے ملاقات کی۔ قطری وزیراعظم نے اس مسودے پر حماس کے رہنماؤں سے کئی گھنٹے تک بات چیت کی۔اجلاس میں حماس کے سربراہ اسماعیل حانیہ، سابق سربراہ خالد مشعل اور دیگر اہم پولٹ بیورو کے ارکان بھی شامل تھے، تاکہ بعد میں کسی کو شکایت کا موقع نہ ملے۔
ایک طویل اعصاب شکن بات چیت کے بعد بالآخر سی آئی اے کے سربراہ برنز اور قطری وزیر اعظم نے چھ صفحات پرمشتمل معاہدہ اسرائیل کے حوالے کرنے کے لیے تیار کرلیا۔ اگلے دن میک گرک نے قاہرہ میں مصری انٹیلی جنس چیف عباس کامل سے ملاقات کی، جس نے کچھ باقی ماندہ خلا کو پُر کرنے میں مدد کی۔اس دوران دوسرے ٹریک پر ایران بھی سرگرم تھا، جس کی وجہ سے تھائی لینڈ اور فلپائن کے قیدیوں کو رہائی مل گئی۔ حتمی تجویز اسرائیل کے سامنے پیش کی گئی تھی، مگر اس نے شمالی سرحد پر حزب اللہ کے بارے میں خدشات ظاہر کیے اور لبنان بارڈر پر بھی جنگ بندی پر زور دیا۔ اس کے جواب میں ۲۳نومبر کو بیروت میں حماس کے لیڈروں اسامہ ہمدان اور خلیل الحیا ء نے حزب اللہ کے سربراہ حسن نصرا للہ سے ملاقات کی۔حزب اللہ نے حماس کو بات چیت اور فیصلہ کرنے کا کلی اختیار دے دیا اور یہ باور کرادیا کہ حماس، جو معاہدہ کرے گا، وہ اس کی پاسداری کرے گا۔ اس تگ ودو کے بعد ہی غزہ کے مکینوں کو راحت کی چند سانسیں لینے کا موقع ملا۔ مگر کب تک؟ جب تک فلسطین کے مسئلہ کا کوئی پائیدار حل عمل میں نہیں لایا جائے گا، تب تک جنگ بندی عارضی ہی رہے گی۔ پائیدار حل ہی میں اسرائیل کی سلامتی بھی ہے، مگر ان کو کون سمجھائے!
اسامہ ہمدان اس وقت مزاحمتی تنظیم کے کور گروپ کے ممبر ہیں۔ ان کے خاندان کا تعلق یبانہ قصبہ سے ہے، جو اب اسرائیل کی ملکیت میں ہے۔ ۱۹۴۸ء میں ان کے والدین کو گھر سے بے گھر کردیا گیا اور وہ مصر کی سرحد سے ملحق غزہ کے رفح کے علاقہ کے ایک ریفوجی کیمپ میں منتقل ہوگئے۔ وہ اسی کیمپ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم غزہ میں مکمل کرنے کے بعد انھوں نے کنسٹرکشن مینجمنٹ میں امریکا کی کولاریڈو یونی ورسٹی سے ماسٹرس کی ڈگری حاصل کی۔
میں نے چھوٹتے ہی ان سے پوچھاکہ ۷؍اکتوبر کو حماس نے دنیاکی ایک مضبوط ترین فوج سے ٹکراکر اسے حیران و پریشان تو کردیا، مگر جس طرح اسرائیل نے اب جوابی کارروائی کی ہے، جس طرح عام شہری اور بچے مارے جا رہے ہیں ، کیا یہ کارروائی اس قابل تھی، کہ اتنی قیمت دی جاسکے ؟ ابو مرزوق نے کہا ’’ فلسطینیوں پر مظالم یا فلسطین کی کہانی ۷؍ اکتوبر کو شروع نہیں ہوئی۔ اس کی جڑ عشروں پر پھیلی ہے، جس کے دوران سیکڑوں قتل عام کیے گئے۔ اسرائیل روزانہ ہمارے لوگوں کو بغیر کسی مزاحمت کے مارتا ہے۔ غزہ کی پٹی کا محاصرہ ۱۷ سال پرانا ہے، اور یہ ایک سخت محاصرہ ہے۔ جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر نقصان ہوا ہے، اور نوجوانوں کی اکثریت کا مستقبل تباہ ہو گیاہے۔ آپ مجھے بتایئے، کیا ہتھیار ڈالنا یا اسرائیل کے سامنے خود سپردگی کرنا کوئی حل ہے ؟ جن لوگوں نے ہتھیار ڈالے کیا اسرائیلیوں کو وہ قابل قبول ہیں ، کیا ان کے خلاف کارروائیاں کم ہوئی ہیں ؟ اسرائیلی صرف فلسطینیوں کو قتل کرنا اور ان کو اپنی زمینوں اور گھروں سے بے دخل کرنا چاہتے ہیں۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں جو نقشہ لہرایا، اس نے تو ان کے عزائم کو واضح کردیا ہے۔ ہم آزادی کی تحریک چلا رہے ہیں اور مغربی ممالک کے حمایت یافتہ قبضے کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ ہم صرف آزادی چاہتے ہیں کیونکہ ہم اسرائیلی قبضے کے تحت نہیں رہنا چاہتے۔ جس طرح ہندستان نے برطانوی قبضے کو مسترد کر کے آخر کار اسے نکال باہر پھینکا، ہم بھی ویسی ہی جنگ آزادی لڑ رہے ہیں۔ کیا ۱۸۵۷ء کی جنگ جس میں ہزاروں افراد مارے گئے وہ کوئی نا جائز جنگ تھی ؟ اس کا دفاع کیا جاسکتا ہے، ، تو ہماری جدوجہد بھی جائز ہے۔ اگر کوئی اُس وقت کہتا کہ یہ عظیم قربانیاں ہم نہیں دینا چاہتے ، تو آج تک برصغیر پر برطانیہ قابض ہوتا۔
میں نے دوسراسوال پوچھا :’’مگر آپ نے تو نہتے اور عام اسرائیلی شہریوں کو قتل کیا، اس کاکیا جواز ہے؟‘‘ ابو مرزوق نے جواب دیا :”شہریوں کی ہلاکتوں کے بارے میں اسرائیلی موقف ہی غلط ہے۔ خود کئی اسرائیلیوں نے گواہی دی ہے، کہ ہمارے عسکریوں نے ان کو نشانہ نہیں بنایا۔ ایسی شہادتیں بھی ہیں کہ اسرائیلی شہریوں کو مارنے والوں میں ان کی اپنی فوج ہی ملوث تھی، کیونکہ فوج نے جنگجوؤں کو نشانہ بنانے کےلیے بد حواسی میں رہایشی علاقوں پر بمباری کی، جس میں درجنوں شہری مارے گئے۔ ہمارے جنگجوؤں کے پاس ہلکے ہتھیار اورزیادہ سے زیادہ ہلکے مارٹرز تھے۔ جن اسرائیلی علاقوں کی تباہی اور بربادی کو ٹی وی پر دکھاکر ہمارے کھاتے میں ڈالا جا رہا ہے، کسی بھی ماہر سے اس کا معائنہ کروالیں ، وہ بکتر بند گاڑیوں کے گولوں اور بھار ی ہتھیاروں سے تباہ ہوئے ہیں۔ ہمارے پاس اس طرح کے ہتھیار ہی نہیں تھے۔ جہاں تک اس میوزک فیسٹیول کا تعلق ہے جو اسرائیلی پروپیگنڈے کے ذرائع استعمال کر رہے ہیں اور واویلا کیا جا رہا ہے کہ وہاں ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ پہلے تو یہ کہ ہمیں بالکل معلوم نہیں تھا کہ اس علاقہ میں کوئی میلہ لگا ہوا ہے۔ جب ہمارے جنگجو وہاں پہنچے، وہاں اسرائیلی فوج سے جم کر مقابلہ ہوا۔ ان کو نکالنے یا راہداری دینے کے بجائے اسرائیلی فوج نے ان کی آڑ لی۔ یہ علاقہ وار زون بن گیا۔ اسرائیلی فوج نے تو اس علاقے میں میزائل داغے۔ جب ہمارے جنگجوؤں نے سرحد عبور کی، تو وہ سخت مقابلہ کی توقع کر رہے تھے، ان کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ عسقلان تک ان کو کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ بارڈر پوسٹ پر اسرائیلی گارڑز نے ہتھیار ڈال دیئے یا بھاگ گئے۔ جس کی وجہ سے خاصی افراتفری مچ گئی۔ جب سرحد کی باڑ ٹوٹ گئی، تو غزہ کی پٹی سے سیکڑوں شہری اور دیگر افراد دھڑا دھڑ اسرائیلی مقبوضہ علاقوں میں داخل ہوئے۔ یہ نظم و نسق کا معاملہ تھا، مگر ایسے وقت میں اس کو سنبھالنا مشکل تھا۔ ہماری منصوبہ بندی میں ایسی صورت حال کی عکاسی نہیں کی گئی تھی۔ ان شہریوں نے اپنے طور پر کئی اسرائیلیوں کو یرغمال بنالیا۔ ہم نے تمام متعلقہ فریقوں کو مطلع کیا ہے کہ ہم عام شہریوں اور غیر ملکیوں کو رہا کر دیں گے، اور ان کو پکڑکر رکھنا ہمارے منشور میں نہیں ہے۔ ہم ان کی رہائی کےلیے مناسب حالات پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ غزہ کی پٹی پر شدید بمباری کے وجہ سے یہ مشکلات پیش آرہی ہیں ‘‘۔
میں نے ان سے پوچھا :” کیا آپ کے حملے کا ایک مقصد ’ابراہیمی معاہدہ‘ یا عرب ممالک کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات کو معمول پر لانے میں رکاوٹ پیدا کرنا تھا ؟” انھوں نے کہا کہ اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان نارملائزیشن کے معاہدوں کو سبوتاژ کرنے کےلیے حماس کے حملے کی ضرورت نہیں تھی، کیونکہ عرب عوام تو پہلے ہی ان کو مسترد کر چکے ہیں۔ مثال کے طور پر، مصراور اُردن نے اسرائیل کے ساتھ ۴۰ سال قبل امن معاہدے کیے تھے، لیکن ان کے عوام نے ان کو مسترد کر دیا ہے۔ ان ممالک کو بھی معلوم ہے کہ اس کے جواب میں ان کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔ اس لیے ہم اس ’ابراہمی معاہدہ‘ سے خوف زدہ نہیں ہیں۔ وہ خود اپنی موت آپ مرجائے گا۔
میں نے ابو مرزوق کی توجہ دلائی کہ دنیا بھر میں مسلح مزاحمتی تحریکوں کی اب شاید ہی کوئی گنجایش باقی رہ گئی ہے۔ ان گروپوں کو اب دہشت گردوں کے زمرے میں شمار کیا جاتا ہے۔ جیسا آپ نے خود ہی دیکھا ، پورا مغرب اسرائیل کے پیچھے کھڑا ہو گیا ہے۔ کیا اس نئے ماحول میں آپ پُر امن تحریک کی گنجایش نہیں نکال سکتے ہیں ؟ تو انھوں نے جواب دیا ’’۳۰ سال تک انھوں نے پُرامن راستہ آزمایا۔ الفتح تحریک نے اوسلو معاہدے پر دستخط بھی کیے۔ ۳۰ سال بعد کیا نتیجہ نکلا؟ ہمیں فلسطینی ریاست نہیں ملی جیسا کہ انھوں نے ہم سے وعدہ کیا تھا، اور مغربی کنارہ الگ تھلگ جزیرہ کی طرح رہ گیا ہے۔ یہودی بستیوں نے اسے ہڑپ کر لیا ہے، اور غزہ کا محاصرہ کر لیا گیا ہے۔ دونوں فلسطینی علاقوں کو ایک دوسرے سے جدا کر دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے لوگ اب صرف پرامن حل اور جدوجہد پر یقین نہیں رکھتے۔ ہم ’جامع مزاحمت‘ پر یقین رکھتے ہیں جس میں مسلح مزاحمت اور عوامی مزاحمت بھی شامل ہے۔ ہمارے لوگوں نے عظیم مارچ میں شرکت کی اور سیکڑوں ہزاروں لوگ روزانہ غزہ کی سرحد پر محاصرہ توڑنے اورمغربی کنارہ کے ساتھ رابط کرنے کا مطالبہ کرتے تھے، مگر اس پُر امن جدوجہد کا کیا نتیجہ نکلا؟ جدوجہد کو پُرامن رکھنا یا اس کو پُرتشدد بنانا ، قابض قوت کے اختیار میں ہوتا ہے۔ اگر وہ پُر امن جدوجہد کو موقع دے، تو یہ پُرامن رہ سکتی ہے‘‘۔
ایک اور اہم سوال میرے ذہن میں تھا کہ ۲۰۰۶ء میں حماس غزہ میں برسراقتدار آگئی۔ مغربی کنارہ کے برعکس اس خطے کے پاس سمندری حدود تھیں اور اگر گورننس پر توجہ دی گئی ہوتی تو اس کو علاقائی تجارتی مرکز میں تبدیل کرکے مشرق وسطیٰ کے لیے ہانگ کانگ یا سنگاپور بنایا جاسکتا تھا۔ اس طرح سے خطے میں مثالی علاقہ بن جاتا، مگر حماس نے اس کو میدان جنگ بنادیا۔ ابو مرزوق نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ الزام سن کر ہی عجیب لگتا ہے کہ غزہ کو ہم نے میدان جنگ بنادیا۔
حماس ۱۹۸۷ء میں قائم ہوئی۔ ہم نے ۲۰۰۶ء میں اقتدار سنبھالا، اور اسی کے ساتھ ہی ہمارا محاصرہ کیاگیا تاکہ ہم اچھی طرح حکومت نہ کر سکیں۔ اسرائیل، امریکا، اور ظالم مغربی دنیا نے ہمیں ناکام بنانے کے لیے کوئی کسر نہ چھوڑی۔ پھر بھی ہم ثابت قدم رہے۔ اسرائیل نے جان بوجھ کر ہمیں تباہ کرنے کے لیے منظم طریقے سے نشانہ بنایا۔ اس صورت حال میں ہم کیسے ایک معیشت کو ترتیب دے سکتے تھے؟ کیا سنگاپور یا ہانگ کانگ کو اسی طرح کی صورت حال کا کبھی سامنا کرنا پڑا؟ خوش حالی کا پہلا قدم نظم و نسق اور مجرموں سے نجات اور پھر ریاست کی تعمیر ہے۔ اسرائیلی قبضے سے قبل ہم واقعتاً خطے کے سب سے ترقی یافتہ علاقوں میں سے ایک تھے۔ جب قبضہ ہوا تو ہم پر جنگیں، نقل مکانی ٹھونس دی گئی۔ ہمارے آدھے لوگ فلسطین سے باہر پناہ گزین ہوگئے۔ ہم ترقی اور خوش حالی کی زندگی جینا چاہتے ہیں۔ مگر کیا قبضے میں رہتے ہوئے ہم خوش حال ریاست بنا سکتے ہیں؟
میں نے پوچھا، خیر آپ نے تو اب جنگ شروع کردی ہے، اس کا انجام کیا ہوگا؟ ; ابومرزوق نے جواب دیا کہ جنگ تو انھوں نے شروع کی ہے، جنھوں نے سرزمین پر قبضہ کیاہے۔ ’’حماس کے مجاہد خطے کی سب سے مضبوط فوج کو بے بس کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ ہم اپنی مزاحمت اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک کہ ہم اپنی آزادی حاصل نہیں کر لیتے، اور ہماری آزادی ہی اس جنگ کا انجام ہے‘‘۔
عرب ممالک ہمیشہ ہی حماس سے خائف رہتے ہیں۔ کیونکہ حماس کو اخوان المسلمون کی ایک شاخ تصور کیا جاتا ہے۔ ایران نے اس کی بھر پور مدد کی ہے۔ میں نے جب ان کی توجہ اس طرف دلائی، تو ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی مزاحمت ایرانی انقلاب سے پہلے موجود تھی۔ ’’ایران ہمیں مدد فراہم کرتا ہے، اور ہم اس کے لیے اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں ، اور ہم مختلف جماعتوں اور ملکوں سے ہر قسم کی حمایت حاصل کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عرب عوام ان کے ساتھ ہیں ، اور یہ ان کا بڑا سرمایہ ہے۔
میں نے پوچھا کہ کیا مشرق وسطیٰ میں امن کی خاطر اسرائیل اور فلسطین کا ایک ساتھ رہنا ممکن ہے ؟حماس کے لیے یہ قابل قبول کیوں نہیں ہے؟انھوں نے تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’آپ بھیڑ کے بچے سے یہ کہلوانا چاہتے ہیں کہ تم بھیڑیے کے ساتھ رہنے پر راضی ہوجائو؟ آپ کو یہ سوال بھیڑیئے سے کرنا چاہیے ، جس کے پاس جوہری ہتھیار ہیں اور مشرق وسطیٰ میں انتہائی جدید ترین فوج کا مالک ہے۔ جہاں تک ہم فلسطینیوں کا تعلق ہے، ہم نے اوسلو میں مذاکرات کیے، دو ریاستی حل کی راہ بھی ہمیں دکھائی گئی۔ پھر کیا ہوا، کیا ہمارے علاقے خالی کیے گئے؟کیا ہمیں ریاست بننے دیا گیا ؟درحقیقت اسرائیل کے موجودہ وزیراعظم نیتن یاہو فلسطینیوں کے ذہنوں سے فلسطینی ریاست کے قیام کے تصور کو کھرچنا چاہتے ہیں۔ کیا ایسے افراد یا ایسے نظریہ کے ساتھ رہنا ممکن ہے؟ کیا ان لوگوں کے ساتھ رہنا ممکن ہے جو یہ مانتے ہیں کہ ایک اچھا فلسطینی مردہ فلسطینی ہی ہے؟‘‘ میں نے پوچھا کہ ا یک تاثر یہ بھی ہے کہ فلسطینی خود بکھرے ہوئے اور منقسم ہیں۔ دنیا میں کوئی منقسم تحریک کے ساتھ معاملات طے کرنا پسند نہیں کرتا ہے ؟ انھوں نے کہا یہ ایک مضحکہ خیز دلیل ہے۔ حماس تو ۲۰۰۶ء میں غزہ میں برسراقتدار آئی۔ یعنی اسرائیل کے قیام کے چھ دہائیوں بعد، تو پھر ان دہائیوں کے دوران دنیا نے فلسطینی عوام کو آزادی کیوں نہیں دلائی؟آج دنیا فلسطینیوں کے منقسم ہونے کا بہانہ ڈھونڈ رہی ہے تاکہ فلسطینیوں پر الزام دھرا جا سکے۔ ان کی بین الاقوامی پوزیشن مشکوک بنائی جائے۔ آزادی کے عمل کے دوران ہر ملک میں الگ الگ موقف اور رائے رہی ہے، کیا آپ کو برصغیر کی آزادی کی تحریک کی تاریخ معلوم نہیں ہے؟ مگر اس سے عمومی تحریک کی نفی نہیں کی جاسکتی ہے۔ وہ بہرحال برحق ہے۔
بڑے پیمانے پر رپورٹس آ رہی ہیں، خاندانوں کے بارے میں جو مارے جا چکے ہیں۔ ایک خاندان کے نو افراد ،دوسرے خاندان کے ۱۰ افراد بشمول بچے وغیرہ۔ میں نہیں چاہتا کہ کسی بھی شہری کو تکلیف پہنچے ، خواہ فلسطینی ہو ں یا اسرائیلی ، لیکن سوال یہ ہے کہ اسے ختم کیسے کیا جائے؟ کیا یہ غزہ کی پٹی پر دوبارہ حملہ کرنے سے ختم ہو جائے گا؟ اسرائیل اس سے پہلے غزہ پر پانچ جنگیں۱۱ کرچکا ہے، جن میں سے ایک ۵۱ دن تک جاری رہی۔ جس میں انھوں نے سب کچھ تباہ کردیا تھا۔ اس سے حماس نہیں رکی، مزاحمت نہیں رکی۔ کسی بھی قسم کے تشدد کو روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اسرائیلی قبضے کو ختم کرنا اور یہ کہ امریکا اس میں منصفانہ کردار ادا کرے۔ وہ یہ بات نہیں کہہ سکتے کہ اسرائیل کو تو اپنے دفاع کا حق ہے مگر ہم فلسطینیوں کو اپنے دفاع کا حق حاصل نہیں ہے۔ میں آپ کو شیرین ابو عاقلہ کا معاملہ یاد دلاتا ہوں، جو نہ صرف فلسطینی بلکہ ایک امریکی شہری بھی تھی۔ ایک انتہائی پُرامن صحافی، جسے اسرائیلی سنائپر نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ کیا کسی پر فرد جرم عائد کی گئی؟ کیا کسی کو عدالت میں لے جایا گیا؟ نہیں۔ ۵۲ دیگر صحافی بھی مارے گئے۔ ہمارے ابتدائی طبی امداد فراہم کرنے والوں پر گولیاں چلائی جاتی ہیں، ہمارے ڈاکٹروں کو گولیاں ماری جاتی ہیں، اسے رُکنا چاہیے۔ اور اسے روکنے کا واحد طریقہ اسرائیل کو بتانا ہے کہ آپ کو بین الاقوامی قوانین کا احترام کرنا ہوگا۔ آپ کو اس ناجائز قبضے کو ختم کرنا ہوگا اور فلسطینیوں کو برابر کے انسانوں کے طور پر قبول کرنا ہوگا۔
کیا ہم اسے روک سکتے ہیں جو اب ہو رہا ہے؟ ہاں، بلاشبہ تمام اسرائیلی جو اس وقت غزہ میں ہیں کل رہا ہو سکتے ہیں بشمول عام شہری، حتیٰ کہ اسرائیلی فوج کے جرنیلوں کو بھی رہا کیا جا سکتا ہے اگر اسرائیل بھی ہمارے ۵۳۰۰ فلسطینی قیدیوں کو رہا کر دے، جو اسرائیلی جیلوں میں بند ہیں۔ جن میں وہ ۱۲۶۰ فلسطینی بھی شامل ہیں، جو یہ جانے بغیر کہ ان کا جرم کیا ہے نام نہاد ’انتظامی حراست‘ میں ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ انھیں کیوں گرفتار کیا گیا؟ ان پر کوئی فردِ جرم عائد نہیں کی گئی، ان کے وکلا کو نہیں معلوم کہ انھیں کیوں گرفتار کیا گیا اور یہی وہ زندگی ہے، جو ہم نے دیکھی ہے۔ ہم نے ساری زندگی قبضے میں گزاری ہے۔ میرے والد قبضے میں رہتے تھے، میری بیٹی قبضے میں رہ رہی ہے۔ ہم ایک ایسا وقت چاہتے ہیں، جب ہم فلسطینی آزاد ہوں گے۔
حماس ۳۰ سال پہلے یا ۴۰ سال پہلے نہیں تھی، لیکن اس سے پہلے پی ایل او کو دہشت گرد قرار دیا جاتا تھا۔ جو فلسطینی اپنے حقوق یا آزادی کے لیے جدوجہد کرتا ہے اسے دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے اور یہاں سوال یہ ہے کہ کیا ہمیں آزادی کی جدوجہد کا حق ہے؟ کیا ہمیں حقیقی جمہوریت کے لیے جدوجہد کرنے کا حق ہے؟ کیا ہمیں عام جمہوری انتخابات کرانے کا حق ہے، جس کی بدقسمتی سے اسرائیل اور امریکا حمایت نہیں کرتے؟ ہم اس کے حق دار ہیں، لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اگر ہم عسکری جدوجہد کرتے ہیں تو ہم دہشت گرد ہیں۔ اگر ہم غیر متشدد طریقے سے جدوجہد کرتے ہیں تو اس کے باوجود ہمیں متشدد قرار دیا جاتا ہے۔ اگر ہم الفاظ کے ساتھ مزاحمت بھی کرتے ہیں تو ہمیں ’اشتعال انگیز‘ قرار دیا جاتا ہے۔ اگر آپ فلسطین کی حمایت کرتے ہیں اور آپ غیر ملکی ہیں تو وہ آپ کو ’یہود مخالف‘ قرار دیتے ہیں۔ اور اگر آپ یہودی ہیں ،اور بہت سے ایسے یہودی ہیں جو فلسطینی مقدمہ کی حمایت کرتے ہیں ،تو وہ اسے خود سے نفرت کرنے والا یہودی کہتے ہیں۔ یہ سفاکانہ کھیل ختم ہونا چاہیے۔ یہ بالکل بے معنی ہے۔ ہم سب کو یکساں زندگی گزارنی چاہیے۔ ہم سب کو امن میسر ہونا چاہیے، ہم سب کو انصاف میسر ہونا چاہیے اور ہم سب کو عزت سے رہنا چاہیے۔ اس کو حاصل کرنے کا بنیادی طریقہ یہ ہے کہ نسلی عصبیت کی شکل میں اس قبضے کو ختم کیا جائے، جس پر مجھے یقین ہے کوئی بھی یہودی فخر نہیں کرسکتا۔ اس کا وقت آگیا ہے۔ اور انصاف اور آزادی کا وقت آگیا ہے۔ اگر ہم یہ حاصل کرلیتے ہیں تو کوئی تشدد نہیں ہو گا اور کسی کو تکلیف نہیں پہنچے گی۔
_______________
حواشی
۱- حماس: اردو میں اسلامی مقاومت تحریک، عربی میں حركة المقاومة الإسلامية اور انگریزی میں Islamic Resistance Movement کہا جاتا ہے۔ فلسطینی سنی اسلامی سیاسی اور فوجی تنظیم ہے، جس کی بنیاد فلسطینی امام احمد یاسین نے۱۹۸۷ ء میں پی ایل او اور ’اوسلوا کارڈ‘ کی مخالفت میں رکھی، جو آج کل مقبوضہ فلسطینی علاقے غزہ کی پٹی کی حکومتی اور فوجی تنظیم سنبھالے ہوئے ہے۔ حماس کے ۲۰۱۷ء کے چارٹر کے مطابق وہ ۱۹۶۷ ء کی فلسطینی ریاستی حدود کو تسلیم کرتا ہے ،اسرائیل کو تسلیم کیے بغیر۔
۲- اسماعیل ہانیہ ۲۰۱۷ ء میں حماس کے سیاسی امیر بنے۔ اس سے پہلے وہ ۱۹۹۷ ء میں حماس کی تنظیم سے وابستہ ہوئے اور ۲۰۰۶ ءکے الیکشن کے نتیجے میں فلسطین کے وزیر اعظم بھی بنے،جن کو صدر محمود عباس نے ۲۰۰۷ ء میں دفتر سے فتح-حماس کشیدگی کی وجہ سے نکال دیا۔ اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے غزہ کی پٹی پر حکمرانی جاری رکھی۔
۳- مصطفیٰ البرغوثی ایک طبیب اور سیاست دان ہیں، جو کہ فلسطینی قومی اقدام عربی میں: المبادرة الوطنية الفلسطينية اور انگریزی میں Palestinian National Initiative نام سے جانی جاتی ہے کے بانیوں میں سے ہیں۔ ۲۰۰۷ ء میں مصطفیٰ فلسطین کی یکجا حکومت میں اطلاعات کے وزیر بھی رہے ہیں۔
۴- یہ اسرائیلی قبضہ سے پاک بقیہ فلسطینی ریاست کا نام ہے۔ اسے عربی میں السلطة الوطنية الفلسطينية اور انگریزی میں Palestinian National Authority یا Palestinian Authority یا State of Palestineبھی کہا جاتا ہے۔
۵- ’فلسطینی قومی اقدام پارٹی‘ ۲۰۰۲ ء کو وجود میں آئی، جس کے آج کل امیر مصطفیٰ البرغوثی ہیں۔ یہ اپنے آپ کو فلسطینی سیاست میں فتح ، جسے یہ کرپٹ اور غیر جمہوری پارٹی اور حماس ، جسے یہ بنیاد پرست اور انتہا پسند پارٹی سمجھتے ہیں کے بعد ،تیسری بڑی جمہوری طاقت قرار دیتی ہے ۔
۶- فتح ، سابقہ فلسطینی نیشنل لبریشن موومنٹ ،عربی میں:حرکت التحریر الوطنی الفلسطینی، فلسطینی نیشنلسٹ اور سوشلسٹ سیاسی جمہوری پارٹی ہے۔ فلسطینی اتحاد کے صدر محمود عباس فتح کے چیئرمین ہیں۔ یہ یاسرعرفات کو اپنی پارٹی کا بانی مانتے ہیں۔
۷- یہ ۷ اکتوبر ۲۰۲۳ ءکے حماس کے اسرائیل پر حملے کی طرف اشارہ ہے، جس کی وجہ سے حماس کی اسرائیل سے ایک بڑی جنگ چھڑ گئی ہے جو کہ غزہ کی پٹی میں لڑی جا رہی ہے۔
۸- فلسطینی تحریک آزادی (عربی: منظمة التحریر الفلسطينية، انگریزی: Palestine Liberation Organization) ایک فلسطینی قومی متحدہ محاذ ہے، جو بین الاقوامی سطح پر فلسطینی عوام کے آفیشل وکیل کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہ ۱۹۶۴ ءمیں تشکیل دی گئی۔ ابتدائی طور پر اس نے پورے فلسطینی علاقے پر ایک عرب ریاست قائم کرنے کی کوشش کی اور اسرائیل کی ریاست کو ختم کرنے کی تجویز دی۔ تاہم،۱۹۹۳ ء میں، پی ایل او نے ’اوسلوا کارڈ‘ کو تسلیم کیا، اور اب صرف مغربی کنارے اور غزہ کے علاقے میں ایک عرب ریاست چاہتی ہے۔
۹- نیتن یاہو۲۰۲۲ء سے اب تک کے اسرائیلی وزیراعظم ہیں، جو پہلی دفعہ ۱۹۹۶ء تا ۱۹۹۹ء وزیراعظم رہے پھر ۲۰۰۹ء تا ۲۰۲۱ ء وزیراعظم رہے۔ انھوں نےامریکا کے ایم آئی ٹی سے تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد اسرائیلی فوج میں بھی ملازمت کی ۔سیاست میں آنے سے پہلے اقوام متحدہ میں اسرائیل کے مستقل مندوب بھی رہے۔وہ دائیں بازو کی سیاسی پارٹی لیکود کے صدر بھی ہیں۔ نیتن یاہو کے سابق امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ خاص مراسم تھے، جس کی بدولت کئی عرب ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کیا اور سرکاری تعلقات استوار کیے۔
۱۰- یہ شام کے سرحدی علاقے کی پہاڑی چوٹیاں ہیں، جس کا ایک بڑا حصہ ۱۹۶۷ ء کی چھ دن کی جنگ کے دوران اسرائیل نے قبضہ میں لے لیا ۔ جس کو اس نے اپنی ریاست میں ۱۹۸۱ ء میں ضم کر لیا ۔
۱۱- ۲۰۰۵ ء میں اسرائیل کے غزہ سے انخلاء کے فوراً بعد حماس انتخابات جیت گئی اور تب سے اب تک حماس اور اسرائیل پانچ جنگیں لڑ چکے ہیں۔ پہلی جنگ ۲۰۰۸ -۲۰۰۹ء میں ۲۳ دن جاری رہی، دوسری ۲۰۱۲ ء میں ۸ دن جاری رہی، تیسری ۲۰۱۴ء میں ۵۰ دن جاری رہی، چوتھی ۲۰۲۱ ء میں گیارہ دن جاری رہی، اور پانچویں اب ۷؍ اکتوبر سے تاحال جاری ہے، جسے مہینے سےزیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔
۱۲- بزلائی یول سموٹرچ مذہبی انتہا پسند دائیں بازو کے سیاسی پارٹی سے تعلق رکھنے والا وکیل اور رہنما ہے، جو کہ ۲۰۲۲ء سے اب تک اسرائیل کا وزیر خزانہ ہے۔وہ مغربی کنارے کی ایک آباد کاری کدومیم جو کہ بین الاقوامی قانون کے مطابق غیر قانونی ہے میں رہتا ہے۔
۱۳- اتمار بن گویر مذہبی انتہا پسند دائیں بازو کی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھنے والا سیاست دان اور وکیل ہیں، جو ۲۰۲۲ء سے اسرائیل کے وزیربرائے قومی سلامتی ہیں ۔ وہ مغربی کنارے میں غیر قانونی آبادکاری میں رہتا ہے اور عربوں کے خلاف نفرت انگیز زبان استعمال کرنے کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس پر کئی دہشت گرد تنظیموں کی حمایت کا الزام ہے اور وہ انتہا پسندانہ صیہونی نظریہ رکھتا ہے۔
۷؍اکتوبر ۲۰۲۳ء کو حماس کے ۱۲۰۰؍ اسرائیلیوں کے قتل عام کے بعد امریکی سینٹیرز سے لے کر چلّی کے صدر تک، ناروے کے وزیراعظم سے لے کر اقوام متحدہ کے حکام تک نے ایک جیسا موقف اپنانے کی کوشش کی کہ اگرچہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے، تاہم غزہ میں اس کی موجودہ جنگی کارروائی غیرمتناسب اور غیرمتوازن ہے۔ غالباً یہی گروپ مزید ٹارگٹڈ آپریشن کی حمایت کر ے گا۔اگرچہ میں ایک فوجی ماہر ہوں۔ ایک عشرے سے میں غزہ میں فوجی کارروائیوں کا مطالعہ کر رہا ہوں۔ سوچتا ہوں مزید ٹارگٹڈ آپریشن کیسا ہوگا؟ مجھے کچھ اندازہ نہیں ہے۔
اسرائیل اس سے قبل غزہ میں مزید محدود فوجی کارروائیاں کرچکا ہے۔ ۲۰۱۲ء میں اس نے محدود فضائی مہمیں چلائیں، جیسے آپریشن پلر آف ڈیفنس یا حال ہی میں ۲۰۲۱ء میں آپریشن گارڈین آف دی والز کیا۔ اس نے ۲۰۰۸ء سے ۲۰۰۹ء تک محدود زمینی آپریشن کیے اور ۲۰۱۴ء میں آپریشن پروٹیکٹو ایج بھی کیا۔ ان تمام فوجی مہمات کے دوران اسرائیل کے اقدامات پر تنقید کی گئی جیساکہ اب کی جارہی ہے اور ان زیادہ ٹارگٹڈ فوجی مہموں کو غیرمتناسب قرار دیا گیا۔ اسرائیل کے لیے ان سابقہ تنازعات اور فوجی مہمات سے یہ سبق ملتا ہے کہ ان مہمات کو محدود کرنے سے ناقدین کے غصے کو ٹھنڈا نہیں کیا جاسکتا۔
تاہم،اسرائیل کے نقطۂ نظر سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ محدود مہمات اور آپریشنز کامیاب نہیں ہوسکے۔ اسرائیل، حماس کے عسکری ونگ کے سربراہ محمدضیف کو سات بار مارنے کی کوشش کرچکا ہے، لیکن ناکام رہا ہے۔ حماس کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف اسرائیل کی کامیابی کی شرح بھی محدود ہی رہی ہے۔ حماس کے راہنما یحییٰ سنوار کا دعویٰ ہے کہ ۲۰۲۱ء میں آپریشن گارڈین آف دی والز میں غزہ میں حماس کے زیرزمین سرنگوں کے جال کو صرف ۵ فی صد نقصان پہنچانے میں کامیابی حاصل ہوسکی تھی۔ اس بات کے ثبوت کے لیے صرف ۷؍اکتوبر کے حملوں کو دیکھنے کی ضرورت ہے کہ حماس کی عسکری صلاحیت ماضی کے ٹارگٹڈ آپریشنز کے بعد بھی پوری طرح محفوظ اور برقرار ہے۔
مزید برآں جب ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق کا عملی طور پر کیا مطلب ہے تو اسرائیل کے نام نہاد ٹارگٹڈ آپریشنز اور مہمات جو اَب تک کی گئی ہیں، ان کے درمیان فرق دھندلا ہونے لگتا ہے۔
غزہ کے ۲۰ لاکھ سے زیادہ شہریوں کے درمیان ۲۰۰ سے زیادہ اسرائیلی یرغمالیوں کو بچانا اسرائیل کے لیے ایک بہت پیچیدہ مسئلہ ہے۔ ہمارا گمان ہے کہ اسرائیل کے پاس یرغمالیوں کے ٹھکانوں کی حساس معلومات بھی موجود ہوں گی۔ اگرچہ اسرائیل کو غزہ کے گھر گھر، گلی گلی اور خفیہ سرنگوں کی پوری طرح چھان مارنے کی ضرورت ہے۔ حماس یقینا اس طرح کی دراندازی کے خلاف مزاحمت کرے گی، جس کے نتیجے میں زمین پر سب سے زیادہ گنجان آباد خطے میں شدید لڑائی چھڑجائے گی۔
تاہم، جب ہم ایک ناگزیر شرط کے طور پر اسرائیل کو یہ حق دیتے ہیں کہ وہ یرغمالیوں کو ان کے صحیح مقامات جانے بغیرطاقت کے ذریعے چھڑانے کی کوشش کرے، تو اس کے نتیجے میں دیگر ناگزیر نتائج بھی سامنے آتے ہیں۔ اسرائیل کو حماس کو یرغمالیوں کو نامعلوم مقامات پرمنتقل کرنے سے روکنے کے لیے اس بات پر قابو پانے کی ضرورت ہے کہ کون غزہ کو چھوڑ سکتا ہے اور کون نہیں چھوڑ سکتا۔ رسائی پر کنٹرول پانے کے لیے غزہ جانے والے ایندھن پر بھی کنٹرول پانا ہوگا۔ یرغمالیوں کی بازیابی ایک حساس مسئلہ ہے جہاں ایک لمحہ بھی اہمیت رکھتا ہے، اس لیے کہ حماس نے یرغمالیوں کو پھانسی دینے کی دھمکی بھی دے رکھی ہے۔
دوسرا ہدف جو سامنے رہنا چاہیے وہ یہ ہے کہ حماس کو ۷؍اکتوبر کی طرح ایک دوسرے حملے سے روکا جائے۔ حماس کے پاس روایتی فوجی اڈے نہیں ہیں۔ اس کے بجائے حماس کی زیادہ تر فوجی صلاحیت زیرزمین ہے، جو ایک اندازے کے مطابق ۵۰۰کلومیٹر زیرزمین سرنگوں کے جال پر مشتمل ہے جو پورے غزہ میں پھیلا ہوا ہے۔ اسرائیلی فوج اور دیگر میڈیا جو ان سرنگوں کی دستاویزی فلمیں بناچکا ہے، کا کہنا ہے کہ بہت سی سرنگیں شہری انفراسٹرکچر بشمول مساجد، ہسپتال اور اسکولوں کے نیچے سے گزرتی ہیں۔ ان سرنگوں کا کھوج لگانا اور انھیں تباہ کرنا بھی اسرائیل کو زمینی حملے پر مجبور کرتا ہے۔
اگرچہ اس نے سرنگوں کا کھوج لگانے کے لیے تکنیکی حل کی ایک رینج کا بھی آغاز کیا ہے۔ تاہم یہ طریقے ناکافی رہتے ہیں اور اکثر فوجیوں کو اپنے اہداف کے نسبتاً قریب ہونے کی ضرورت ہوتی ہے، جس سے آبادی پر مشتمل علاقے میں لڑائی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اگر یہ سرنگیں مل بھی جائیں تو ان کو صاف کرنا بھی ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ فضائی حملہ ان سرنگوں کے اُوپر جو کچھ ہوتا ہے ، اسے تباہ کردیتا ہے۔ اگر فوجی ان سرنگوں کو بارود سے بھر کر تباہ کرنا چاہیں تو وہ چندعمارتیں ہی تباہ کرسکیں گے۔
اب تیسرے اور آخری پہلو کا جائزہ لیتے ہیں، یعنی ۷؍اکتوبر کے حملوں کے ذمہ داروں کو مارنا یا پکڑنا۔ اسرائیل کا اندازہ ہے کہ حملے کے دوران حماس کے تقریباً ۳ہزار عسکریت پسند اور دیگر افراد اسرائیل میں داخل ہوئے۔ ان میں سے کچھ عسکریت پسند اس حملے میں مارے گئے، لیکن بہت سے کارروائی کرنے کے بعد واپس لوٹ گئے۔ مزیدبرآں اگر ہم اسرائیل کے دفاع کے حق میں ان لوگوں کے خاتمے کو بھی شامل کرلیں جنھوں نے حملے کی منصوبہ بندی کی اور اسے منظم کرنے میں مدد دی تو یہ تعداد اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ امریکا کے نیشنل کائونٹر ٹیررازم سنٹر کے اندازے کے مطابق ستمبر۲۰۲۲ء تک حماس کے ارکان کی تعداد ۲۰ہزار سے ۲۵ ہزار تک ہے، جب کہ چھوٹے عسکریت پسند گروپوں کو چھوڑ دیں۔ عملی طور پر ۷؍اکتوبر کے حملے کے ذمہ داروں کو پکڑنے کا مطلب ہزاروں یا ممکنہ طور پر دسیوں ہزار فضائی حملے یا زمینی حملے ہیں، جو پورے غزہ کی پٹی میں پھیل جائیں گے۔گویا یہ ایک بھرپور جنگ ہے۔
غزہ اور فلسطینی آبادی کے لیے اسرائیل کی حکمت عملی پر بالکل جائز تنقید کی جارہی ہے۔ ۷؍اکتوبر کے حملوں سے پہلے مغربی کنارے میں فلسطینیوں پر اسرائیلی آبادکاروں کے حملے بڑھتے جارہے تھے اور تصادم کو ہوا دے رہے تھے۔ پچھلے ڈیڑھ عشرے سے اسرائیل غزہ میں حماس کے خاتمے کی حکمت عملی پر بڑی حد تک متحرک رہا، جب کہ غربت اور بے روزگاری کے خاتمے اور فرسودہ انفراسٹرکچر کی بہتری کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہ کی گئی۔ یہ حالات بھی ۷؍اکتوبر کے حماس کے خونیں حملے کے لیے زرخیز زمین ثابت ہوئے، حتیٰ کہ آج تک اسرائیل کے پاس کوئی ایسا منصوبہ نہیں ہے کہ اگر وہ حماس پر حاوی ہونے میں کامیاب ہوگیا تو غزہ پر کس طرح حکومت کی جائے گی اور اس کی تعمیرنو کیسے ہوگی؟
اس کے باوجود ، یہ ایک ناخوش گوار حقیقت ہے کہ غزہ میں جنگ چھڑ جانے کا مطلب، خواہ یہ کتنی ہی ٹارگٹڈ کیوں نہ ہو، وہی ہوگا جو آج ہم بڑے پیمانے پر دیکھ رہے ہیں، یعنی بڑے پیمانے پر خون ریزی، ہولناک تباہی کا حامل زمینی آپریشن جس کے نتیجے میں بے شمار شہری دوطرفہ گولہ باری کا شکار ہوجائیں گے۔ اس جنگ میں درمیانی راہ کی حامل کوئی بہتر شکل نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کے حکام، عالمی امدادی تنظیمیں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اس کارروائی کی صرف مذمت ہی کرسکی ہیں۔
اقوام متحدہ کی امدادی سرگرمیوں کے سربراہ مارٹن گریفتھس اور عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیڈرس ادھانوم گبریسس کا کہنا ہے: ’’ہسپتال میدانِ جنگ نہیں ہیں‘‘ اور یہ کہ ’’نوزائیدہ بچوں، مریضوں، طبّی عملے اور تمام شہریوں کے تحفظ کو دیگر تمام خدشات پر مقدم ہونا چاہیے‘‘۔ جیسے جیسے عالمی تنقید بڑھ رہی تھی، وائٹ ہائوس نے ایک طرف اس کی تردید کی اور دوسری طرف اسرائیل کو فوجی چھاپے یا درست لفظوں میں حملے کرنے کے لیے گرین سگنل دیا۔
الشفا پر حملہ غزہ پر اسرائیل کی جنگ کے چھٹے ہفتے میں ہوا جس میں ۴۶۰۰ بچوں سمیت ۱۱ہزار۵۰۰ سے زیادہ فلسطینی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ۱۵ لاکھ سے زائد لوگ جبری نقل مکانی سے دوچار ہوئے ہیں۔ جنگ بندی کے لیے عالمی دبائو کے باوجود، جنگ بندی کی حمایت سے امریکی انکار اسرائیل کے زمینی حملے کو روکنے کی راہ میں حائل ہے۔
اقوام متحدہ میں، سلامتی کونسل نے قرارداد منظور کرنے کی چار ناکام کوششوں کے بعد، مالٹا کی طرف سے پانچواں مسودہ پیش کیا گیا جس میں غزہ میں ’کافی دنوں‘ کے لیے ’فوری اور توسیع شدہ انسانی بنیادوں پروقفے‘ کا مطالبہ کیا گیا، تاکہ اقوام متحدہ کی ایجنسیوں اور امدادی تنظیموں کو بلاروک ٹوک رسائی کی اجازت دی جاسکے۔اسے پندرہ رکنی سلامتی کونسل کے ۱۲ ووٹوں سے منظور کیا گیا۔ قرارداد میں حماس کی مذمت نہ ہونے کی وجہ سے امریکا اور برطانیہ نے احتجاجاً اپنا ووٹ استعمال نہ کیا، جب کہ روس نے جنگ بندی نہ کرنے کی وجہ سے اجتناب کیا۔
انسانی بنیادوں پر یہ ’توقف‘ اسرائیل کی طرف سے کی جانے والی نسل کُشی اور جبری نقل مکانی کے سنگین جرم کی تلافی نہیں کرسکے گا۔ بظاہر عام شہریوں خصوصاً بچوں کے تحفظ کے لیےیہ وقفے غزہ میںانسانی امداد پہنچانے کے لیے صرف تنگ دروازے فراہم کرسکتے ہیں، لیکن چونکہ اسرائیل طویل عرصے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتاچلا آرہا ہے، اس لیے تل ابیب کا قانونی طور پر پابند ہونے کے باوجود اس کی پابندی کا امکان نہیں ہے۔
اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر گیلاداردن نے قرارداد کو ’بے معنی‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک اس کی تعمیل نہیں کرے گا۔ فلسطینی ایلچی ریاض منصور نے اس قرارداد پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے زور دیا کہ ’’جس چیز کی ضرورت تھی وہ جنگ بندی اور جنگ کا خاتمہ تھا۔ سلامتی کونسل جنگ کے آغاز سے زمین پر تباہ کن صورتِ حال کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہی۔ عالمی برادری غزہ کے عوام کو ناکام بناچکی ہے‘‘۔
اس کے باوجود ،اسرائیل کی جانب سے غزہ میں مہلک بمباری میں اضافہ، مغربی کنارے میں چھاپوں میں شدت اور فلسطینیوں کی ہلاکت میں اضافے کے ساتھ ،وائٹ ہائوس امریکی انتظامیہ کے اندر اختلاف رائے، جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والے عوامی مظاہروں اور اس کے اتحادیوں کے درمیان بڑھتی ہوئی بے چینی کی وجہ سے دبائو میں آگیا۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے جنگ بندی کا مطالبہ کیا اور کہا کہ اسرائیل غزہ میں بمباری بند کرے اور بچوں اور خواتین کو قتل کرنا بند کرے۔ جی-۷ میں دراڑیں کینیڈاکے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کے اسرائیل کو محصور غزہ کی پٹی میں خواتین، بچوں اور نومولود بچوں کے قتل کو ختم کرنے کے مطالبے سے بھی واضح تھیں۔ امریکا میں رائے شماری کے نتائج کے مطابق دوتہائی سے زیادہ لوگوں نے جنگ بندی کی حمایت کی اور اسرائیل کے لیے حمایت کم ہوتی جارہی ہے۔
جنگ کا ایک اہم پہلو جھوٹی معلومات اور پراپیگنڈا رہا ہے اور اسرائیلی رہنمائوں اور اس کی فوج نے جان بوجھ کر جھوٹ پھیلایا ہے، جس کی بازگشت زیادہ تر مغربی میڈیا میں سنائی دی گئی۔ اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ کچھ اشاعتی اداروں کے استثنا کے ساتھ فلسطینیوں کی ہلاکتوں کو مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا۔
دی اکانومسٹ نے خود غرضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے استدلال کیا کہ شہریوں کی ہلاکتوں کی پروا کیے بغیر اسرائیل کو لڑنا چاہیے اور جنگ بندی کو ’امن کا دشمن‘ قرار دیا۔ اشاعتی اداروں نے پناہ گزینوں کے کیمپوں اور ہسپتالوں پر اسرائیل کی بے دریغ، وحشیانہ بمباری کو اس کے اپنے ’دفاع کا حق‘قرار دیا۔
غزہ میں نہ رُکنے والی خونریزی سے جذبات میں اشتعال کے باوجود دُنیابھر کے مسلم عوام مغربی میڈیا کی جانب دارانہ کوریج سے حیران نہیں ہوئے کیونکہ یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ ان کی شدید مایوسی عرب حکومتوں سے تھی، جنھوں نے رسمی مذمت کرنے کے علاوہ، نسل کشی اور بڑے پیمانے پر ہولناکی اور انسانی تباہی پر تماشائیوں سے بڑھ کر کوئی کردارادا نہ کیا۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ بعض عرب ممالک نے دیگر ریاستوں کی طرف سے تجویز کردہ کم سے کم اقدامات کی مخالفت کی اور انھیں روکا، جس سے اسرائیل اور امریکا پر اہم سفارتی دبائو بڑھ سکتا تھا۔ اس سے صرف عوامی عدم اطمینان میں ہی اضافہ ہوا اور او آئی سی میں نمایندگی کرنے والے عرب اور مسلم حکومتوں کی جانب سے عدم فعالیت کو بڑے پیمانے پر فلسطینیوں کے ساتھ غداری کے طور پر دیکھا گیا۔ لیکن میںپھر کہوں گا کہ عالمی برادری نے غزہ کے لوگوں کوناکام بنایا ہے۔ انتونیو گوٹیرس نے جسے ’انسانیت کا بحران‘ قرار دیا ہے، اس پر بھرپور عالمی ردعمل دینے میں دُنیا ناکام رہی ہے۔
ریاست فلسطین موجودہ اسرائیل کے کچھ حصوں اور دیگر فلسطینی علاقوں بشمولہ غزہ اور دریائے اردن کے مغربی کنارے پر مشتمل ہے۔ مصر سے شام جانے والے راستےاور بحیرہ روم سے لے کر دریائے اردن کے پار موجود پہاڑی سلسلوں تک سارا علاقہ اس کی عمل داری میں آتا ہے۔
غزہ (عربی : قطعہ)بحیرہ روم کے مشرق اور وادیٔ سینا(مصر) کے شمال مشرق میں واقع ۳۶۳مربع میل پر محیط ساحلی پٹی ہے جس کی لمبائی ۴۱کلومیٹر، جب کہ چوڑائی ۶ سے ۱۲کلومیٹر ہے۔ شمال اور مشرق میں اسرائیل کے ساتھ اس کی سرحد ۵۱کلومیٹر، جب کہ جنوب میں رفح شہر کے نزدیک مصر کے ساتھ اس کی سرحد گیارہ کلومیٹر طویل ہے۔
۲۳لاکھ لوگوں پر مشتمل یہ گنجان آباد علاقہ کئی چھوٹے شہروں اور قصبوں (بشمولہ غزہ شہر، رفح، خان یونس) میں تقسیم ہے اور قانونی طور پر کسی ملک کا حصہ نہیں سمجھا جاتا۔ ۲۰۰۶ء کے انتخابات میں ۱۹۵۰ء سے فلسطین میں متحرک گروہ الفتح کو کرپشن اور بدعنوانی کے باعث حماس نے فیصلہ کن شکست دے دی تھی۔
رفح کی سرحدی راہداری کے علاوہ غزہ میں معیشت، تجارت اور سیاست سمیت ہر شعبۂ زندگی پر اسرائیل کا قبضہ ہے۔ موجودہ حملہ ماضی کے تمام پانچ اسرائیلی محاصروں اور زمینی، فضائی اور میزائل حملوں کی نسبت زیادہ مہلک ثابت ہوا ہے اور اس سے بے شمار شہری خصوصاً عورتیں اور بچے شہید ہوچکے ہیں۔ اس دفعہ گرنے والی لاشوں میں سے ہر تیسری لاش ایک فلسطینی بچے کی ہے۔ غزہ کو دنیا کا سب سے بڑا ’انسانی قید خانہ‘ کہا جاتا ہے۔ اسرائیلی محاصرے اور حماس کے خلاف زمینی جنگ کے باعث دس لاکھ سے زائد فلسطینی اپنا گھر بار چھوڑ کر جنوب کی جانب ہجرت پر مجبور ہو چکے ہیں۔
مغربی کنارہ (عربی: الضفہ الغربیہ) ۱۹۲۰ءسے ۱۹۴۷ء تک برطانوی قبضے میں رہنے والا فلسطینی علاقہ ہے جو دریائے اردن کے مغرب اور غزہ کے شمال مشرق میں واقع ہے اگرچہ غزہ اور یہ باہم متصل نہیں ہیں۔ مغربی کنارے پر اردن کا دعویٰ ہے اگرچہ ۱۹۶۷ء کی جنگ میں اس پر اسرائیل نے قبضہ کر لیا تھا۔ مشرق میں دریائے اردن اور جنوب میں اردن اور بحیرۂ مردار کے علاوہ اس خطے کو ہر طرف سے اسرائیل نے گھیر رکھا ہے۔ مغربی کنارے کا رقبہ تقریباً ۵۶۰۰مربع کلومیٹر، جب کہ آبادی تقریباً ۳۰لاکھ ہے جو گیارہ شہروں مثلاً جنین، نابلس، رملہ، اریحا وغیرہ میں آباد ہے۔ یروشلم اور بیت اللحم منقسم شہر ہیں۔ فلسطین اور اسرائیل دونوں یروشلم (بیت المقدس، القدس) کو اپنا دارالحکومت قرار دیتے ہیں لیکن یہ دونوں دعوے ہی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ نہیں ہیں۔ ۲۰۰۴ء میں بین الاقوامی عدالت انصاف نے اپنے فیصلے میں اسرائیلی فوج کو مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم پر قابض قرار دیا تھا۔ اسرائیل نے بیت اللحم(یروشلم سے ۱۰کلومیٹر پر واقع) پر ۱۹۶۷ء میں قبضہ کیا تھا لیکن ۱۹۹۵ء میں اس شہر کو فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کر دیا۔ اب مغربی کنارے پر الفتح کی حکومت ہے۔
انسانی جغرافیے کے بعد اب آبادی کا ذکر ہو جائے۔ ۲۰۱۷ء میں فلسطین کے تمام علاقوں بشمول اسرائیل، مغربی کنارہ اور غزہ میں عرب آبادی ۷۹ء۵ ملین تھی جس میں اکثریت نوجوانوں کی ہے۔اس میں سے ۸۴ ملین عرب اسرائیل میں رہتے ہیں۔ ۲۰۱۸ء کے اعداد و شمار کے مطابق مغربی کنارے میں شرح پیدائش۲ء۳ ، جب کہ غزہ میں۳ء۹۷ ہے۔ غزہ میں فی مربع کلومیٹر تقریباً چار ہزار لوگ آباد ہیں۔ اس کے برعکس اسرائیل کی کل آبادی۵ء۹ ملین اور قدامت پسند کٹر یہودیوں کے علاوہ بقیہ آبادی کی شرح پیدائش سرکاری حوصلہ افزائی کے باوجود۲ء۴۷ ہے۔ ان اعدادوشمار کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ آئندہ سالوں میں عرب آبادی کا ایک سیلاب اسرائیل کو بہا لے جائے گا۔ اس کے علاوہ اگر باقی خطے کو دیکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ اسرائیل پہلے ہی ہرطرف سے دشمنوں میں گھرا ہوا ہے۔
اسرائیل کے سخت گیر حربے مستقبل میں کام نہیں آئیں گے۔ اس کی وجوہات درج ذیل ہیں:اوّل، آبادی کا توازن اسرائیل کے حق میں نہیں ہے اور نہ کبھی ہو گا۔ نسل در نسل فلسطینی نوجوان، جن میں سے ہر ایک اسرائیلی ظلم و سفاکیت کی کسی نہ کسی داستان کا عینی شاہد ہے، اسرائیلی ریاست کو چین سے جینے نہیں دیں گے۔
دوئم، حماس کا جنم اسرائیل کے ظالمانہ رویے کا براہ راست نتیجہ ہے۔ اس کے خاتمے سے مسئلہ ختم نہیں ہو گا۔ بلکہ مسئلہ تب تک ختم نہیں ہو گا جب تک ناانصافی، فلسطینیوں کے ساتھ غیرانسانی سلوک، ان کی زمینوں پر قبضے اور مسلسل فوجی ظلم کا خاتمہ نہیں ہو جاتا۔ ۷۵سال تک ذلت و رُسوائی برداشت کرنے کے بعد مزاج میں جو بے چینی پیدا ہوتی ہے حماس نے ۷؍اکتوبر کو اسی بے چینی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اگرچہ کسی بھی جنگ میں بچوں اور خواتین کو نشانہ نہیں بنایا جا سکتا لیکن اس تنازعے میں فریقین ایک دوسرے کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے کے لیے ہر حربہ استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ اسرائیل اپنی طاقت اور دستیابیٔ وسائل کے باعث ساری حدیں پار کر جاتا ہے۔
سوئم، کسی بھی قوم کو جبر کے ذریعے دبایا نہیں جا سکتا۔ تاریخ ہمیں بار بار یہی سبق یا ددلاتی ہے۔ فوجی قبضے اور جابرانہ اقتدار کے ذریعے دلوں میں روشن حریت و خودمختاری کی چنگاریاں بجھائی نہیں جا سکتیں۔ یہودی مذہب کے پیروکار، مغربی ممالک کے لوگ، حتیٰ کے اسرائیل کے اندر بھی باشعور لوگ اس حقیقت سے باخبر ہیں۔ انھیں نیتن یاہو کو بھی اس ناقابلِ فراموش حقیقت کا ادراک کروانے کی ضرورت ہے۔ ہولوکاسٹ کو گزرے ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔ انسانی وقار کی توہین اور نفرتوں کے سلسلے یونہی جاری رہے تو ارضِ مقدس میں نئے سرے سے ایک ہولوکاسٹ شروع ہوجائے گی۔ حماس نے مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق اس مسئلے کو زندہ کرنے کی کوشش کی ہے جسے اسرائیل اور اس کے نئے نئے ’ابراہیمی دوست‘ مل کر قصۂ پارینہ بنانے چلے تھے۔
چہارم، حکومتوں کو ایک طرف کر دیا جائے تو اسرائیل کا یہ سخت ترین ردعمل دنیا بھر کے عوام میں اس کیلئے ہمدردیاں پیدا کرنے کا باعث نہیں بنے گا۔ دم توڑتے بچوں اور نوحہ کناں عورتوں کی تصاویر اور وڈیو کلپس جو سوشل میڈیا اور ٹیلی ویژن پر ہمیں ہمہ وقت دکھائی دے رہی ہیں، اسرائیلی بیانیے کو ہمیشہ سے زیادہ کمزور کر دیں گے۔ یوں حماس کو ختم کرنے کی آڑ میں فلسطین کو نابود کرنے کی اسرائیلی کوششیں بھی بے نقاب ہو جائیں گی۔ اس کے اثرات نظر آنے بھی لگے ہیں کیونکہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی بحالی کم از کم ایک طویل عرصے کے لیے کھٹائی میں پڑ چکی ہے۔ اسرائیلی بمباری سیاسی طور پر تباہ کن ثابت ہوئی ہے اور دنیا بھر میں یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ اسرائیل ’دفاع کے حق‘ سے کہیں آگے گزر چکا ہے۔
چنانچہ اسرائیلی ریاست کو جلد یا بدیر مسئلے کی جڑ کی طرف متوجہ ہو نا پڑے گا تا کہ نفرت اور تشدد کے اس گھناؤنے چکر کو ختم کیا جا سکے۔ موجودہ صورتِ حال زیادہ دیر تک چل نہیں سکے گی۔ نیتن یاہو کی سیاسی مصلحتوں کے پیش نظر غزہ پر زمینی حملہ کر کے قابض ہونے کا اسرائیلی فیصلہ ایک تباہ کن سیاسی اور عسکری غلطی ثابت ہو گا۔ صدر بائیڈن نے ۱۶؍اکتوبر کو اسی امکان کی طرف اشارہ کیا تھا اور امید کی جا رہی ہے کہ وہ جلد اسے روکنے کے لیے خطے کا دورہ بھی کریں گے ۔ حماس کو مکمل تباہ کر بھی دیا جائے تو اس کی راکھ سے حماس جیسے کئی ادارے پیدا ہو جائیں گے۔ مزید آتش زنی کی صورت میں دیگر متعلقین مثلاً حزب اللہ، شام، اردن، اور مصر بھی لپیٹ میں آ جائیں گے۔ ایران اوردیگر عرب ریاستیں بھی عوامی دباؤ کے تحت دخل اندازی پر مجبور ہوں گی۔ یوکرینی جنگ میں مصروف امریکا و یورپ ایسی صورتِ حال کی کبھی خواہش نہیں کریں گے۔
چنانچہ مستقل امن صرف دو ریاستی حل کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا ہے۔* فلسطینیوں کو اپنے معاملات کا فیصلہ کرنے کی آزادی ملنے کے بعد جنگ اور نفرت کا یہ کھیل رفتہ رفتہ ختم ہو گا۔ بصورت دیگر یہ خون ریزی شکل بدل بدل کر جاری رہے گی اور بالآخر افغانستان اور عراق کی طرح کمزور فریق کو بھی مقابلہ کرنے کا ہنر آ جائے گا۔ کہا جا سکتا ہے کہ موساد کو بھی ’اندرونی مخبروں‘ کے جال کے باوجود ایسی ناگہانی صورتیں پیش آتی رہیں گی۔
*اس مسئلے کا نام نہاد’دو ریاستی حل‘ فلسطین کے مظلوموں کو ایک نئے گرداب میں پھانسنے کی دوسری دفاعی لائن ہے اور جنگ و بدامنی برقرار رکھنے کا ایک انتظام۔ واحد حل یہ ہے کہ ناجائزاسرائیلی ریاست کے بجائے فلسطین کی ریاست بحال کرنے کا اعلان کیا جائےاور فلسطین میں موجود تمام مذاہب اور رنگ و نسل کے شہریوں کا خود مستقبل کے تعلقاتِ کار طے کرنے کا حق تسلیم کیا جائے۔ اگر نام نہاد ’دو ریاستی‘ حل ٹھونسا گیا تو وہ اس خطے میں نئی جنگوں اور اسلحے کے انبار خریدنے کی ایک اور بدنما دوڑ کا نقطۂ آغاز ہوگا۔ ادارہ
غزہ پر اسرائیلی جارحیت پر مغربی اور امریکی الیکٹرانک میڈیا نے واضح طور پر اسرائیل کی طرف داری کی ہے۔ اس میڈیا وار کی فکری بنیادیں نوم چومسکی اپنی کتاب Manufacturing Consent: The Political Economy of the Mass Media میں چار عشرے قبل واضح کرچکے ہیں۔ کتاب کے آخر میں وہ (ص۴۰۲ ) اپنے مقدمے کا لب لباب پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ امریکی میڈیا ایک مؤثر اور طاقت ور ادارہ ہے، جو جارحانہ طاقت کے نظام کی معاونت میں پروپیگنڈے کی خدمت انجام دیتا ہے۔ یہ بات انھوں نے ۱۹۸۸ء میں لکھی تھی کہ یہ پروپیگنڈا سسٹم ٹی وی نیٹ ورکس کے ذریعے مزید مؤثر ہوگیا ہے۔
اسرائیلی بمباری کے حوالے سے مغربی میڈیا بہت 'محتاط رہا۔ مثال کے طور پر جب ۱۷؍اکتوبر کو غزہ میں ’الاہلی العربی ہسپتال‘ پر بمباری ہوئی، جس میں ۵۰۰ سے زیادہ لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ نیویارک ٹائمز نے بھی خبر لگائی کہ اسرائیل نے ہسپتال پر بمباری کی۔ اس پر اسرائیل نے وضاحتی بیان جاری کیا کہ ’’یہ ’جہاد اسلامی‘ تنظیم کا گائڈڈ میزائل تھا جو ہسپتال پر گرا ہے، ہم نے کوئی حملہ نہیں کیا‘‘ ۔ ۲۳؍اکتوبر کو نیویارک ٹائمز نے یوٹرن لیتے ہوئے ادارتی نوٹ میں لکھا کہ ہسپتال پر حملے کی خبر حماس کے دعوؤں پر مبنی ہے اور اس کی تصدیق نہیں کی جاسکتی۔ بعد میں نیویارک ٹائمز میں کم و بیش درجن تجزیے شائع ہوئے جس میں اسرائیل کے دعوے کی حمایت واضح نظر آرہی تھی۔
اسرائیل کے اس جھوٹے دعوے کی تصدیق یا تائید امریکا اور مغربی ممالک کے ابلاغی اداروں اور کارپوریشنوں نے بھی کی، جن میں نیو یارک ٹائمز کے علاوہ، ایسوسی ایٹ پریس، سی این این، وال سٹریٹ جرنل اور بی بی سی بھی شامل ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ’مہذب مغرب‘ نے پہلے اپنے فارنزک تجزیوں سے حملے کو متنازع بنایا اور بعد میں کھل کر اسرائیلی بیانیے کی حمایت اور تائید کی۔ اگر چہ اسرائیل اپنےدعوے کےلیے کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہ کرسکا، لیکن میڈیا سمیت امریکا اور دیگر مغربی ممالک نے آنکھیں بند کرکے اس کی تصدیق بھی کرلی۔
جس وقت بمباری ہوئی، اس کی فوٹیج اسی وقت الجزیرہ کے رپورٹر نے بنائی۔ اس فوٹیج کے علاوہ دیگر وڈیو سے الجزیرہ کی سند نے اس پورے واقعے کابہت باریک بینی سے فارنزک تجزیہ کیا اور اسرائیل کے دعوے کو مسترد کردیا۔ یہ وڈیو الجزیزہ کی ویب سائٹ پر Video investigation: What hit al-Ahli Hospital in Gaza? کے عنوان سے موجود ہے۔ قارئین دونوں جانب کے دعوؤں کو دیکھ سکتے ہیں۔
مغربی میڈیا کے واضح جھکاؤ کے علاوہ بین الاقوامی میڈیا میں جہاں اس کے برعکس موقف پیش ہو رہا تھا اور جو مغرب کی عمل داری سے باہر تھا، انھیں خاموش کرانے کی بھی کوششیں کی گئیں۔ مثال کے طور پراس جنگ میں بڑے میڈیا مراکز اور ذرائع میں الجزیرہ کا کردار غیر معمولی اور بہت نمایاں رہا۔ امریکی سیکرٹری خارجہ ٹونی بلنکن نے تلملا کر قطری حکومت سے خصوصی طور پر ’جنگ کی کوریج کے حجم کو کم کرنے اور 'اعتدال ' سے کام لینے‘ کا کہا۔
دوسری جانب اس جنگ میں سوشل میڈیا کا کردار بہت اہم رہا۔ سوشل میڈیا آؤٹ لیٹس میں صرف ایکس (سابق ٹوئیٹر) کی پالیسی: فیس بک، لنکڈ ان اور انسٹاگرام وغیرکی بہ نسبت 'سخت ' نہیں تھی۔ اس کا پہلا نتیجہ یہ نکلا کہ یورپ میں ایلون مسک کو’’ ایکس پر اسرائیل -حماس جنگ کی غلط معلومات پھیلانے کی وجہ سے جواب دینے کے لیے ۲۴ گھنٹے کا وقت دیا گیا‘‘۔
یورپی کمشنر برائے انٹرنل مارکیٹ، تھیری بریٹن نے ۱۰؍ اکتوبر کو ایلون مسک کو لکھے گئے ایک خط میں کہا: ’’اس امرکے ’اشارے‘ ملے ہیں کہ ایکس پر غزہ کے حوالے سے غلط معلومات اور ’پُرتشدد‘ مواد پھیلا یا جا رہا ہے، مسک ۲۴ گھنٹوں کے اندراس کی وضاحت کرے‘‘۔ ساتھ یہ بھی کہا گیا: ’’یورپی قانونی ضوابط کی تعمیل نہ کرنے کے نتیجے میں ایکس کی سالانہ آمدنی کا چھ فی صد جرمانہ بھی عائد ہوسکتا‘‘۔
جب اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں غزہ میں انٹرنیٹ اور اس کے علاوہ پورا مواصلاتی نظام منقطع ہوگیا تو سوشل میڈیا پر ایک مہم میں ایلون مسک سے مطالبہ کیا گیاکہ وہ غزہ میں اسٹار لنک انٹرنیٹ بحال کرے۔ تاہم، جیسے ہی ٹرینڈنے زور پکڑا، مسک نے اعلان کیا کہ وہ سٹار لنک کے ذریعے غزہ میں کام کرنے والی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ امدادی تنظیموں کےلیے انٹرنیٹ فراہم کرے گا۔ اس کے رد عمل میں اسرائیلی وزیر مواصلات شلومو نے کہا: ’’اسرائیل سٹار لنک کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلقات منقطع کر دے گا‘‘۔ مسک کو دھمکی بھی دی گئی۔
جب یہ ساری کوششیں نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئیں اوراسرائیلی موقف اس کے باوجود ناکامی سے دوچار ہوا، تو وہ سوشل میڈیا پر مختلف ذرائع سے اپنا بیانیہ پیش کرنے پر مجبور ہوگیا، جس کےلیے اسرائیل نے کئی ملین ڈالر مختص کیے۔ یہ منصوبہ بھی کامیاب نہ ہوسکا اور پوری دنیا میں لاکھوں لوگ اسرئیلی جارحیت کے خلاف نکلے، تو پچھلے ہفتے وزیر اعظم نیتن یاہو نے اعلان کیا کہ ہم بھی ۷؍اکتوبر کی وڈیوز جاری کریں گےتاکہ عالمی رائے عامہ میں توازن آجائے۔ لیکن ابھی تک یہ بھی ناکام ہی معلوم ہوتا ہے۔
میڈیا وار میں اب ایک نیا اضافہ یہ ہوا ہے کہ ۱۲ نومبر کو سیمافور (Semafor) نے ایک رپورٹ شائع کی ہے، جس میں بتایا گیا کہ وال اسٹریٹ اور ہالی ووڈکے ارب پتی امریکی عوام کو حماس بطور ایک دہشت گرد تنظیم اور اسرائیل کے حق میں مہم چلانے کےلیے ۵۰ ملین ڈالر خرچ کرنے کے منصوبے پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔ اس منصوبے کے روح رواں بیری سٹرنلچٹ ہے، جس نے یہ مہم ۷؍اکتوبر کے بعد شروع کی۔ سیمافور کے مطابق سٹرنلچٹ نے دنیا بھر کے درجنوں امیر ترین کاروباری لوگوں کو ای میل کیا، جس میں ان میں سے ہر فرد سے دس دس لاکھ ڈالر کے عطیہ کا مطالبہ کیا گیا۔
سٹرنلچٹ نے لکھا کہ ’’سی این این کے مالک اور اینڈی وور (جو کہ ایک بڑا میڈیا گروپ ہے) سے اس کی ’بہت اچھی گفتگو‘ ہوئی ہے اور دونوں اس مہم میں ہمارا ساتھ دینے پر متفق ہیں‘‘۔ سٹرنلچٹ کے مطابق: ’’اس مہم کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ غزہ میں ہونے والی اموات کی کوریج کے نتیجے میں اسرائیل عالمی سطح پر ہمدردی اور حمایت کھو رہا ہے اور ہمیں اس نقصان کا ازالہ کرنے کے لیے اپنا بیانیہ تشکیل دینا چاہیے۔
اس مہم سے رائے عامہ یقیناً تبدیل ہوجائے گی، کیوں کہ فلسطینیوں کےلیے حماس جو پروپیگنڈا کر رہا ہے اس سے اسرائیل کےلیے ہمدردی ختم ہورہی ہے۔ اس لیے اب ہمیں اپنا بیانیہ تشکیل دینے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔
یہ ای میل اس نے ۵۰ سے زیادہ لوگوں کو بھیجی ہے، جو دنیا کے امیر ترین لوگ ہیں، اور جن کا مجموعی نیٹ ورک پانچ سو بلین ڈالر ہے۔
اسرائیل کی تائید کے لیے میدانِ میں اُتر کر میڈیا کو استعمال کرنے کی یہ ایک معمولی سی جھلک ہے۔ یہ بھی صرف وہ خاکہ ہے ، جو سامنے آیا ہے۔ اس بیانیے کےلیے کروڑوں ڈالر خرچ کیے جارہے، سیاسی اور سفارتی دباؤ سے بھی کام لیا جارہا ہے، دھمکیوں سے بھی دریغ نہیں کیا جا رہا، اور خلافِ واقعہ پروپیگنڈا اس کے بہت اہم عنصر کے طور پر سامنے آیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ کوششیں بار آور ہوتی دکھائی نہیں دے رہی ہیں۔
فلسطین اور کشمیر دونوں تنازعات، مسلم دنیا کے غیر حل شدہ دیرینہ مسائل ہیں جو عالمی سیاست کا شکار ہیں۔ اگر موجودہ غیر متوازن عالمی طاقت کی شطرنج کی بساط بغیر کسی تبدیلی کے جاری رہی تو مسلم دنیا میں مزید خون بہے گا۔ درحقیقت سلطنت عثمانیہ کے بارے میں اپنے مخصوص تصوّر کے تحت متحد ہونے والی مغربی دنیا انفرادی ملک کی تشکیل یا اجتماعی طاقت سے مسلمانوں کے عروج کو تو گوارا کرتی ہے۔ تاہم، عام دنیا اسلام کو ایک زندہ قوت کے طور پر دیکھتی ہے جو دوبارہ ابھرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسلام کے دوبارہ غلبہ پانے کا یہ خدشہ پوری دنیا کو اسلام یا اسلام سے مشابہہ کسی ماڈل کے خلاف متحد رکھتا ہے۔اور ان کی یہ منصوبہ بند سوچ، علاقائی، براعظمی، عالمی، جیو پولیٹیکل طور پر ان کی دفاعی دیوار بناتی ہے۔ مسلم دنیا اپنی موجودہ حیثیت کے ساتھ اپنے خلاف کسی بھی قسم کی سازش کو ناکام بنانے سے قاصر ہے۔
دفاع سے محروم رکھنے کی زندہ مثال فلسطین اور کشمیر کے تنازعات ہیں جو گذشتہ ۷۶ برسوں سے حل طلب ہیں۔ یہاں تک کہ ان دو تنازعات کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے منظور شدہ روڈ میپ کی غالب حقیقت نے بھی عالمی سفارتی قسمت سازوں کو اس بات پر آمادہ نہیں کیا کہ وہ اپنے اخلاقی، سیاسی، سفارتی اثر و رسوخ اور زمینی حقائق کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کردار ادا کریں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو کشمیر اور فلسطین کے پیچیدہ تنازعات کے تصفیے کا اختیار دیا گیا: اقوام متحدہ کی زیر نگرانی کشمیر میں رائے شماری اور فلسطین کے تنازعہ کا دو ریاستی حل۔
کشمیر کو ایک تنازع کے طور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) میں بھارت نے یکم جنوری ۱۹۴۸ء کو عالمی امن اور سلامتی کے لیے خطرہ بننے والے بین الاقوامی تنازع کے طور پر پیش کیا تھا۔سلامتی کونسل نے جموں و کشمیر میں بین الاقوامی استصواب رائے کے لیے ۱۳؍ اگست ۱۹۴۸ء اور ۵ جنوری ۱۹۴۹ء کی قراردادیں منظور کیں جس کا مطلب ہے کہ اس نے جموں و کشمیر پر بھارتی دعوے کو مسترد کر دیا ہے۔ تاہم، بھارت غلط طریقے سے اس بات پر قائم ہے کہ کشمیر کے آخری حکمران مہاراجا ہری سنگھ نے ۲۶؍اکتوبر ۱۹۴۷ء کو کشمیر کا بھارت سے الحاق کیا تھا۔
یہ دعویٰ تاریخ کی کسوٹی پر پورا نہیں اُترتا کیونکہ مہاراجا نے اسی سال اکتوبر کے شروع میں اپنی آمرانہ حکومت کے خلاف عوامی بغاوت کے نتیجے میں اپنی راجدھانی سری نگر چھوڑ کر جموں میں پناہ لی تھی۔ وہ کسی عہدے پر نہیں تھا یا الحاق کے معاہدے پر دستخط کرنے کا حق دار نہیں تھا۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ مہاراجا نے اس سے پہلے ۱۲؍ اگست ۱۹۴۷ء کو حکومت پاکستان کے ساتھ ایک ’تعطل کا معاہدہ‘ (اسٹینڈاسٹل)کیا تھا، یعنی پاکستان جموں و کشمیر کی ریاست کی بالادستی کا ایک جغرافیائی فریق بن گیا تھا اور اس نے سٹینڈ اسٹل معاہدے پر دستخط کیے تھے ۔ دوسری طرف ہندستان نے مہاراجا کی اسی طرح کے اسٹینڈاسٹل معاہدے کی پیش کش کو مسترد کر دیا تھا۔
تاریخی ریکارڈ کے مطابق بھارت کا کشمیر پر کوئی دعویٰ نہیں ہے، لیکن وہ ریاست کے ایک بڑے حصے پر اپنی فوج کے ذریعے زبردستی قابض ہے۔ اس وقت کشمیر کے بھارتی حصے میں ۱۰لاکھ کے قریب پیشہ ور مسلح افواج موجود ہیں۔ کشمیر پر پاکستان کا مقدمہ زیادہ مضبوط ہے لیکن حکومت پاکستان کشمیر کے معاملے میں اقوام متحدہ کے اندر یا اس سے باہر مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اسٹینڈاسٹل معاہدے کا حوالہ نہیں دیتی جو کہ ایک ٹھوس تاریخی ثبوت ہے۔
فلسطین پر اقوام متحدہ کا دو ریاستی حل کافی حد تک قابل عمل ہے لیکن بھارت کی طرح اسرائیلی غاصبانہ تکبر اقوام متحدہ کے تقسیم کے منصوبے پر عمل درآمد کی راہ میں حائل ہے۔ فلسطین کے روڈ میپ پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے پورے مشرق وسطیٰ میں انسانوں کے خون کے تالاب بڑھ رہے ہیں۔ فلسطینیوں کو ۵ مئی ۱۹۴۸ء سے لے کر ۲۱ نومبر۲۰۲۳ء کی خوں ریزی اور سفاکیت کے نتیجے میں سلسلہ وار قتل و غارت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ان کے اُکھاڑ پچھاڑ کے مصائب میں بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر مبنی فلسطین میں حالیہ جنگ بندی کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی تازہ منظور کردہ قرارداد ہے جو قانون اور انسانیت کے تمام تقاضوں کے خلاف ایک جنگجوانہ اقدام ہے۔
سلامتی کونسل کی یہ قرارداد مستقبل میں دنیا کے کسی بھی کمزور ملک کے خلاف کسی بھی طاقت ور ملک کے جارحانہ عزائم کو بڑھانے یا قانونی جواز کا باعث ثابت ہوگی۔ یہ قرارداد نہ رُکنے والی جنگوں کا لائسنس ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ عجیب و غریب واقعہ سلامتی کونسل کے تحت کیوں پیش آیا جس کا بنیادی کام امن کی حفاظت کرنا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ فلسطین میں جنگ کے وقفہ کی یہ قرارداد عام دنیا کے لیے اسی تناظر میں موزوں ہے جس کا میں نے اس مضمون کے آغاز میں ذکر کیا تھا۔ نظریاتی طور پر موجودہ دور کی عالمی طاقتیں مسلم دنیا کے حق میں نہیں ہیں۔ یہ عالمی تقسیم بالکل واضح ہے جس کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ایک منڈلاتا ہوا خطرہ ہے جو ایک حقیقت کے طور پر موجود ہے!
عمران جان
بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور پاکستان ایک جیسی ریاستیں ہیں۔ اس لیے کہ دونوں کو عقیدے کے نام پر بنایا گیا تھا اور ایک مخصوص عقیدے کے پیروکاروں کا گھر قرار دیا گیا تھا، یعنی یہودیوں کے لیے اسرائیل اور مسلمانوں کے لیے پاکستان۔ اس نامعقول دلیل میں وہ جو بات بہت آسانی سے نظرانداز کردیتے ہیں وہ یہ ہے کہ جو لوگ نئے پاکستان کے شہری بنے وہ پہلے ہی یہاں رہ رہے تھے۔ وہ اس سرزمین کے مقامی لوگ تھے۔ وہ یورپ یا سوویت یونین سے بھیجے اور نہیں لائے گئے تھے۔ پاکستان اور ہندستان کے دنیا کے نقشے پر معرضِ وجود میں آنے سے پہلے یہ سرزمین صدیوں تک مسلمانوں اور ہندوؤں کا مسکن تھی۔
اسرائیل کا تصور صہیونیوں کے چالاک ذہنوں کے علاوہ کہیں موجود نہیں تھا۔ یہودیوں کو دنیا کے دوسرے حصوں جیسے یورپ اور سوویت یونین وغیرہ سے وہاں لایا گیا اور انھیں فلسطین میں بسایا گیا جہاں مقامی لوگ رہتے تھے جنھیں فلسطینی کہا جاتا تھا۔ یہ ان کی سرزمین نہیں تھی۔ وہ وہاں نہیں رہتے تھے ۔ اور یہ اب بھی ان کی سرزمین نہیں ہے۔
اگر کوئی بھی دو ریاستیں دنیا کی کسی بھی دوسری ریاستوں کے مقابلے میں مختلف طریقوں سے ایک جیسی ہیں، تو وہ ہندستان اور اسرائیل ہیں۔ دونوں نے بعض علاقوں کو وحشیانہ و سفاکانہ فوجی قبضے میں رکھا ہوا ہے۔ اگر مغربی کنارے اور غزہ کی صورتِ حال بہت پیچیدہ ہے، تو دوسری طرف کشمیر دنیا کا سب سے گنجان فوجی علاقہ ہے۔ دونوں ممالک چاہیں گے کہ ان کی ریاستیں مذہبی طور پر یکساں ہوں۔ دونوں ایک خاص مذہبی گروہ: مسلمانوں سے دیرینہ نفرت رکھتے ہیں۔
۲۰۱۸ء میں، اسرائیل نے نیشن اسٹیٹ لا کے نام سے ایک قانون نافذ کیا، جس میں کہا گیا کہ دیگر نسل پرست اقدامات کے علاوہ، ووٹ کا حق ’یہودیوں کے لیے مخصوص‘ ہے۔ اس طرح اسرائیل کے تمام عرب شہریوں کو قومی خود ارادیت کے حق سے محروم کر دیا گیا ہے۔ اسرائیل کی ۹۰لاکھ آبادی میں عرب اس کا پانچواں حصہ بنتے ہیں۔ اس کے بعد اسرائیل کی ڈروز کمیونٹی ہے، جوکہ تقریباًایک لاکھ ۲۰ ہزار کا ایک چھوٹا گروپ ہے اور وہ عام طور پر جنگ کے لیے فرنٹ لائنز پر ہوتے ہیں، جو ایک ایسے ملک کے لیے اپنی جانیں قربان کرتے ہیں جو انھیں مساوی شہری کے طور پر قبول نہیں کرتا۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے اسرائیل کی نوزائیدہ ریاست کے ساتھ بدنام زمانہ ’خون کے معاہدے‘ پر دستخط کیے تھے۔ تقریباً ۸۰ فی صد ڈروز مرد اسرائیلی فوج میں بھرتی ہوتے ہیں۔ صرف ڈروز خواتین مستثنیٰ ہیں۔
اسی طرح بھارت نے ایک قانون وضع کیا ہے جسے سٹیزن شپ امینڈمنٹ ایکٹ (CAA) کہتے ہیں، جو پڑوسی ریاستوں جیسے پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے مذہبی اقلیتوں کو امیگریشن کی اجازت دیتا ہے لیکن ایک شرط کے ساتھ مشروط ہے: تارکین وطن کا غیر مسلم ہونا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ہی بھارتی ریاست آسام میں لاکھوں مسلمان تارکین وطن ہیں جو وہاں کئی دہائیوں سے غیرقانونی طور پر مقیم ہیں لیکن انھیں ہندستانی شہریت نہیں دی جاتی کیونکہ وہ یہ ثابت نہیں کرسکتے کہ وہ بنگلہ دیش کے ایک خودمختار ملک کے طور پر قیام سے پہلے ہندستان آئے تھے اور اس لیے بھی کہ وہ مسلمان ہیں۔ درحقیقت اس کے نتیجے میں پڑوسی ریاستوں سے آنے والے غیرمسلم تارکین وطن آسام کی ریاست میں بڑی تعداد میں آ جائیں گے کیونکہ اس کی سرحد بنگلہ دیش سے ملتی ہے۔ ان تارکین وطن کے لیے ہندستانی شہری بننے کے لیے ایسی کوئی سخت شرائط نہیں ہیں۔
مذکورہ بالا اسرائیلی اور ہندستانی دونوں قوانین کا مقصد اپنے معاشروں کو بالترتیب مکمل طور پر یہودی اور ہندو بنانا ہے۔ اسرائیل امریکی حکومت پر دبائو ڈالنے کے لیے اور اسے اس یہودی ریاست کے خلاف کام کرنے سے روکنے کے لیے جبری دبائو،پروپیگنڈا، لابنگ اور ان کی حیثیت کو مقامی پولیس والے کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ ہندستان چین کے خلاف مقامی پولیس اہلکار بننے کی اپنی صلاحیت اور امریکی کارپوریشنوں کے لیے ایک بہت بڑی منڈی ہونے کی وجہ سے امریکی حکومت کو اسی طرح دبائو میں رکھنے کے لیے اپنی افادیت کا استعمال کرتا ہے۔ اسرائیل کسی بھی سنیما یا نشریاتی کام کو روکتا ہے جو بے گناہ فلسطینی شہریوں کے خلاف کی جانے والی جارحیت کے لیے اہم ہو سکتا ہے۔ بھارت نے گرفتاریوں کی دھمکیاں، واٹس ایپ کے ذریعے پروپیگنڈا، بڑے پیمانے پر عوامی دباؤ اور دیگر دباؤ کے حربے___ یہاں تک کہ نیٹ فلیکس اور ایمیزون پرائم ویڈیو کو سیلف سنسرشپ پر قائل کیا۔ جب تک ان خطرناک ریاستوں کے ساتھ انکل سام اپنے مفادات کے لیے تعاون کرتے رہیں گے، دُنیا کو سکون نہیں مل سکے گا۔ (ایکسپریس ٹریبون، ۲۳ نومبر ۲۰۲۳ء)
یہ ۸ سے ۱۲مارچ ۱۹۵۴ء کے دوران پانچ روزہ ’کامیاب‘ جمہوریت کش مشقیں تھیں، جب عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان کے صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں ’جگتو فرنٹ‘ کے نام سے الیکشن لوٹنے کا کامیاب تجربہ کیا۔ اس معرکے میں نسل پرستی، جھوٹ، کانگریسی سرپرستی اور پولنگ اسٹیشن پر دھونس و دھاندلی کا مطلب عوامی لیگ کی کامیابی قرار پایا۔ ۷۰سال پر پھیلی تاریخ میں، عوامی لیگ کے فاسد خون میں یہی بیماری پلٹ پلٹ کر اُمڈتی ہے اور سیاسی درندگی کی ایک نئی منزل عبور کرلیتی ہے۔
پچھلے پندرہ برسوں کے دوران حسینہ واجد کی نام نہاد قیادت میں، بھارتی ایجنسی ’را‘ نے کامیابی سے بنگلہ دیش کی جمہوریت کا قلع قمع کرکے ایک گماشتہ ٹولہ مسلط کر رکھا ہے۔ جو قانون شکن ہے، قاتل ہے، فاشسٹ ہے اور جھوٹ کے انبار پر کھڑا ہے۔ بنگلہ دیش سے باہر، بھارتی پشت پناہی میں متحرک این جی اوز پاکستان میں یہ تاثر دیتی ہیں کہ ’’بنگلہ دیش معاشی جنّت بن چکا ہے‘‘۔ لیکن جب بنگلہ دیش میں دیکھتے ہیں تو ظلم، نفرت، قتل و غارت، بے روزگاری اور عدل کا خون بکھرا نظر آتا ہے۔
موجودہ حکمران عوامی لیگی ٹولے نے ۷جنوری ۲۰۲۴ء کو ملک میں ۱۲ویں پارلیمانی الیکشن کا اعلان کیا ہے، لیکن اس شکل میں کہ گذشتہ کئی برس سے بنگلہ دیش میں اپوزیشن کی دونوں بڑی پارٹیوں یعنی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) اورجماعت اسلامی کو مفلوج کرکے رکھا ہے، بلکہ اپنے طور پر انھیں کچل کر رکھ دیا گیا ہے۔
اس سب کے باوجود کہ بی این پی کی سربراہ بیگم خالدہ ضیاء مسلسل جیل میں قید ہیں اور انھیں علاج کے لیے بیرونِ ملک جانے تک کی اجازت نہیں۔ دوسری جانب جماعت اسلامی کی قیادت کو یا تو پھانسیوں پر لٹکا دیا گیا، یا بہت سے قائدین کو جیل کی کال کوٹھڑیوں میں موت کے منہ میں دھکیل دیا گیا ہے۔ جماعت کو بہ حیثیت سیاسی جماعت الیکشن میں حصہ لینے کے حق سے محروم کردیا گیا ہے۔ اس کے امیر ڈاکٹر شفیق الرحمٰن صاحب کو بغیر کسی مقدمے کے ایک سال سے زیادہ عرصہ گزرا، قید کر رکھا ہے۔ اسی طرح جماعت اسلامی کے رفاہی اور معاشی اداروں کو برباد کردیا ہے۔ لٹریچر کو کتب خانوں سے نکال باہر پھینکا ہے۔ عام عوامی لیگی غنڈوں کو بالکل آر ایس ایس اسٹائل میں جماعت کےکارکنوں، دفتروں اور گھروں پر حملے کرنے کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ یہ ہے وہ منظرنامہ، جس میں بنگلہ دیش کے الیکشن کا ڈھول پیٹا جارہا ہے۔
یہ ۱۰ جون ۲۰۲۳ء کی بات ہے، جب دس سال شدید پابندی کے بعد پہلی بار جماعت اسلامی کو ڈھاکہ کے ایک چھوٹے سے ہال میں جلسہ منعقد کرنے کی اجازت ملی۔ اس ہال میں مشکل سے تین سو افراد کی گنجایش تھی لیکن ڈھاکہ نے یہ منظر دیکھا کہ اس اجلاس میں شرکت کے لیے تقریباً ایک لاکھ پُرامن افراد، ڈھاکہ کی شاہراہوں پر کھڑے، جلسہ گاہ جانے یا جلسہ گاہ سے مقررین کی تقاریر سننے کے لیے اُمڈے چلے آرہے ہیں۔ اس منظر نے بنگلہ دیش میں عوامی لیگی، ہندو قوم پرست اور سوشلسٹ اخبارات کے صفحات پر کہرام برپا کردیا اور یہ مطالبہ کیا جانے لگا کہ ’’دس برس میں جماعت اسلامی کو اور اسلامی چھاترو شبر (اسلامی جمعیت طلبہ) ختم نہیں کیا جاسکا، اس لیے حکومت کو چاہیے کہ انھیں کچل دیا جائے‘‘۔ یہ بیانات اور تجزیے آج بھی پڑھے جاسکتے ہیں۔
بنگلہ دیش میں یہ نام نہاد الیکشن درحقیقت بھارتی ایجنسی ’را‘ کی ایک انتخابی دھوکا دہی کی مشق ہے۔ اسی لیے بی این پی نے مطالبہ کیا ہے کہ اگر حسینہ واجد نے وزارتِ عظمیٰ سے استعفا نہ دیا تو وہ الیکشن میں حصہ نہیں لے گی، جب کہ جماعت مطالبہ کر رہی ہے کہ:
۱- جماعت اسلامی پر الیکشن میں حصہ لینے کے لیے عائد پابندی ختم کی جائے۔
۲- حسینہ واجد حکومت ختم کرکے عبوری حکومت قائم کی جائے۔
۳- بی این پی سمیت تمام سیاسی قائدین اور پارٹیوں کو الیکشن میں حصہ لینے کا حق دیا جائے۔
۴- تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے۔
۵- عوامی لیگی مسلح غنڈوں کو لگام دی جائے۔
۶- قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سیاسی مخالفین کچلنے سے منع کیا جائے۔
جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے قائم مقام امیر پروفیسر مجیب الرحمان نے ۱۹نومبر ۲۰۲۳ء کے بنگلہ دیشی کنگرو سپریم کورٹ کے فیصلے پر گہرے صدمے کا اظہار کیا ہے۔ یاد رہے ڈھاکہ ہائی کورٹ نے یکہ طرفہ طور پر یکم اگست ۲۰۱۳ء کو جماعت اسلامی کی رجسٹریشن غیرقانونی قرار دی تھی۔ اس فیصلے کے خلاف جماعت نے سپریم کورٹ میں بروقت اپیل کی تھی، مگر دس سال تک اپیل کی کوئی سماعت نہ ہوئی۔ آخرکار جنوری ۲۰۲۳ء کو سپریم کورٹ نے جماعت کے وکلا سے کہا کہ ’’دوماہ کے اندر اندر دوبارہ جامع بیان داخل کریں‘‘۔ جماعت نے مقررہ تاریخ گزرنے سے پہلے درخواست جمع کرادی۔ مگر پانچ ماہ تک پھر کوئی سماعت نہ ہوئی اور اس عرصے میں ۱۰جون کو جماعت کے بندہال میں جلسے کا سن کر ہزاروں لوگوں کی آمد نے حکومت اور کنگرو کورٹ کی عقل کو بٹہ لگادیا۔ ۱۹نومبر ۲۰۲۳ء کو آخرکار سپریم کورٹ نے کیس سننے کے لیے مقرر کیا، مگر سماعت شروع ہوتے ہی کہہ دیا: ’’ہم جماعت کے وکیلوں کی سماعت نہیں کریں گے‘‘ اور درخواست مسترد کردی۔ یہ سب ڈراما پوری دُنیا کے سامنے کھیلا گیا ہے۔
یہ عدالتی ڈراما ابھی انجام کو پہنچا ہی تھا کہ جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر کے کارکنوں کی پکڑ دھکڑ اور کریک ڈائون کی سیاہ آندھی پورے بنگلہ دیش میں چلنا شروع ہوگئی۔ جس میں گذشتہ ایک ہفتے کے دوران جماعت اسلامی کے ۲ہزار ۹ سو ۳۷ کارکنوں کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ ان قیدیوں میں بزرگ، معذور اور خواتین بھی شامل ہیں۔ تین کارکنوں کو عوامی لیگی غنڈوں نے تیزدھار آلے سے حملہ کرکے شہید کردیا ہے۔ پانچ کارکنوں کو پولیس نے گولی مار کر زخمی کیا ہے۔ ۵۷۳کارکن شدید زخمی حالت میں نجی ہسپتالوں میں پڑے ہیں، کہ سرکاری ہسپتال جماعت کے کارکنوں کو طبّی امداد دینے سے انکاری ہیں۔ ابھی ہم کہہ نہیں سکتے کہ دسمبر کے مہینے میں حسینہ واجد نامی ’کالی ماتا‘ (خونی ماتا) جماعت کے کتنے کارکنوں اور انصاف کا خون پیئے گی!
عوامی لیگی کا رکن، قانون شکن اور بدعنوان شمس الدین احمد چودھری، بنگلہ دیشی عدلیہ کا اصل چہرہ ہے۔ کچھ سال پہلے تک بدنام شہرت کا حامل یہ شخص اپیل کونسل میں منصف کے طور پر شامل ہوکر سپریم کورٹ کا وقار مٹی میں ملا رہا تھا۔ دس سال سے زیادہ عرصہ قبل جب یہ آدمی ہائی کورٹ کا جج تھا تو میں نے بطور شہری اور مدیر روزنامہ امر دیش ،صدر مملکت اور چیف جسٹس کو خط لکھ کر اس کے خلاف احتسابی کارروائی شروع کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس خط میں اس کی بدعنوانی اور اخلاقی گراوٹ کے کئی واضح اور ناقابلِ تردید ثبوت بھی مہیا کیے گئے تھے۔ لیکن نتیجہ وہی نکلا، جو کسی فسطائی ریاست میں ہو سکتا تھا۔ اس ملزم کو ترقی دے کر اپیل ڈویژن میں بھیج دیا گیا۔ دوسری طرف ایک اختلافی آواز کو دبانے کے لیے مبینہ طور پر وزیر اعظم حسینہ واجد کے حکم پر مجھے گرفتار کر لیا گیا۔ دورانِ حراست تشدد کا نشانہ بنایا گیا، کئی دفعہ جان سے مارنے کی کوشش ہوئی، پانچ سال تک قید میں رکھا گیا، اخبار بند کردیا اور چھاپہ خانے کو پولیس نے سربمہر کر دیا۔ ۲۲ جولائی ۲۰۱۸ء کو عدالتی حدود میں ایک دفعہ پھر مجھ پر حکومتی جماعت کے اُجرتی قاتلوں نے حملہ کیا، جس کے بعد ملک چھوڑنے کے سواکوئی چارہ نہ رہا۔
یہی شمس الدین نامی بدمعاش ’جج َ‘ اب ریٹائر ہونے کے بعد چند دن سے دوبارہ خبروں کا حصہ بنا ہوا ہے۔ موصوف نے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں بنگلہ دیش سے امریکی سفیر پیٹر حاس کو نکالنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکا نے بنگلہ دیش کی فسطائی حکومت کے چند محدود اور غیر متعین عناصر کے خلاف ویزا پابندیوں کا اعلان کیا ہے۔ یہ ایک تلخ سچائی ہے کہ بنگلہ دیشی عدلیہ راتوں رات ذلّت کی گہرائی میں جاگری بلکہ ۲۰۰۸ء میں عوامی لیگ کے اقتدار میں آنے کے بعد بنگلہ دیش سے جمہوریت کے خاتمے اور عدل کی زندگی کے قتل کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ ہمارے اخبار امردیش نے ہر طرح کی مخالفت کے باوجود ۲۰۰۹ء میں عدلیہ میں بڑھتی ہوئی سیاسی مداخلت اور بھرتیوں کے خلاف کئی مضامین شائع کیے تھے۔ یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوگیا تھا جب دسمبر ۲۰۰۸ء میں حسینہ واجد، امریکا و بھارت کی مدد سے انتخابات میں کامیابی کے نام پر اقتدار پہ قابض ہوئی تھیں۔ بھارت کے سابق صدر پرناب مکھرجی، جو اُس وقت وزیر خارجہ تھے، اپنی یادداشتوں میں یہ قصہ سناتے ہیں کہ کیسے انھوں نے تب کے بنگالی سپہ سالار جنرل معین کو شیخ حسینہ کے حق میں انتخابات پر اثر انداز ہونے کے لیے آمادہ کیا تھا۔ مکھرجی کے بقول انھوں نے بدلے میں جنرل معین کو یقین دہانی کروائی تھی کہ حسینہ کی حکومت میں بنگالی فوج کی سپہ سالاری انھی کے پاس رہے گی۔
۱۰ مئی ۲۰۱۰ء کومیں نے امر دیش میں ایک کالم بعنوان ’آزادیٔ عدالت کے نام پر دھوکا‘ لکھا تھا۔ اس کے جواب میں توہین عدالت کے دو مقدمے قائم کر کے مجھے چھ ماہ کے لیے جیل بھیج دیا گیا۔ ایک لاکھ ٹکا جرمانہ بھی میری سزا میں شامل تھا، جو میں نے یہ کہتے ہوئے ادا نہیں کیا کہ میرا مضمون مکمل طور پر حق اور سچ پر مبنی ہے اور اخلاص کے تحت لکھا گیا ہے۔ نتیجتاً میری سزا میں ایک مہینے کا اضافہ کر دیا گیا۔
میرا مقدمہ عدالت کے فل بنچ کے سامنے لگا تھا۔ اپیلیٹ ڈویژن کے ایک جج نے عدالت میں کہا تھا: اس مقدمے میں لفظ ’’سچ آپ کا دفاع نہیں کر سکتا‘‘۔ میں نے اپنا مقدمہ بغیر کسی وکیل کے جیل سے خود لڑا تھا کیونکہ قید خانے میں کوئی قانونی مدد اور سہولت دستیاب نہیں تھی۔ ان جج صاحب کا نام عبدالمتین تھا، اور ریٹائر ہونے کے بعد اب وہ سول سوسائٹی کا تازہ تازہ حصہ بنے ہیں، اور جب منہ کھول کر عدلیہ کی آزادی پر خطبے دیتے ہیں تو مجھے ہنسی آتی ہے۔ جب میرا مقدمہ چل رہا تھا تو سپریم کورٹ میں ان کا دوسرا نمبر تھا اور وہ خود چیف جسٹس بننے کے امیدوار تھے۔اس عہدے کے لالچ میں وہ حسینہ واجد کی چاپلوسی میں اُلٹے سیدھے ہو رہے تھے اور ان کی کوشش تھی کہ اس فسطائی حکومت کو خوش کرنے کے لیے مجھے زیادہ سے زیادہ سزا دی جائے کیونکہ میں نے حکمران خاندان کی بدعنوانیوں اور بنیادی حقوق کی پامالی کے خلاف آواز بلند کی تھی۔ مگر سفاک وزیراعظم کے قریب ترین سمجھے جانے والے جسٹس خیر الحق، عبدالمتین کو پیچھے چھوڑ کر چیف جسٹس بن گئے اور بنگلہ دیشی جمہوریت کے تابوت میں آخری کیل انھی نے ٹھونکی۔
پستی کی طرف بڑھتے بنگلہ دیش کو خبردارکرنے کے لیے میں نے اپنی تحریروں کے ذریعے بین الاقوامی برادری کو باخبر رکھنے کی کوشش کی، لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔ میں نے تب کی امریکی انتظامیہ کی پالیسیوں پر بھی کڑی تنقید کی اور ایک مضمون بعنوان ’’گڈگورننس اب امریکی مقاصد کا حصہ نہیں‘‘ ( ۱۷ مئی ۲۰۱۰ء) امر دیش میں شائع کیا۔ ریاستی مشینری اور سیکولرازم کے لبادے میں چھپے اسلام مخالف میڈیا نے، جس کی سربراہی ۹۰ کے عشرے سے پروتھم ایلو اور ڈیلی سٹار اخبار کے گروپ کر رہے ہیں، مجھے ’اسلامی انتہا پسند‘ قرار دے ڈالا۔ یہ بہتان دنیائے مغرب میں شدید اسلام دشمنی کے لیے کافی خطرناک ہو سکتا تھا۔ اگرچہ اسلام دشمنی کو دیکھتے ہوئے اقوام متحدہ نے حال ہی میں ۱۵ مارچ ’اسلاموفوبیا‘ پراپیگنڈا مہم کے خلاف عالمی دن قرار دیا ہے، جو یقیناً خوش آیند ہے۔ تاہم، ۲۰۱۰ء میں عالمی سیاسی حالات کافی مختلف تھے۔ بظاہر ۲۰۱۰ء میں امریکیوں کو اخبار امردیش کے خلاف ہونے والی فسطائی کارروائیوں پر خوشی ہوتی تھی، جو بنگال کا دوسرا مقبول ترین اخبار تھا اور اس کے برعکس امریکا کا حمایت یافتہ پروتھم ایلو بعد میں آتا تھا۔ میری اور اسلام پسند سمجھے جانے والے ’دشمن‘ عناصر کی تکالیف پر ڈھاکہ میں موجود امریکی سفارت خانہ بھی مطمئن تھا۔
دُنیا کے حاکم اس چیز کو اہمیت نہیں دیتے کہ بندے کی وضع قطع کیا ہے، چاہے وہ کیسی ہی ماڈرن صورت رکھتا ہو، وہ اس کے خیالات اور عمل کی بنیاد پر طے کرلیتے ہیں کہ یہ اسلام پسند ہے اور اسے سیکولر طبقے میں شمار نہیں کرنا۔
عوامی لیگی حکومت کی پشت پناہی میں حریص اور مفادات کے اسیر ججوں اور وکلا کی ایک بڑی جماعت نے جارج آرویل [م: ۱۹۵۰ء]کے ناولوں Animal Farm وغیرہ سے مماثل ایک ظالمانہ ریاست بنانے کی سازش کی تھی، جس میں ’کن ٹٹا باپ (شیخ مجیب کا بھوت)‘ اور ’کن ٹٹی شہزادی (شیخ حسینہ جو خودکو ’سر‘ کہلوانے پر مصر رہتی ہیں)‘ اقتدار اعلیٰ پر قابض ہوں گے۔ عدلیہ کی جانب سے اس سازش میں شریکِ جرم درج ذیل تھے:
۱- سابق چیف جسٹس خیر الحق،۲- سابق چیف جسٹس ایس کے سنہا، ۳- سابق چیف جسٹس مزمل حسین،۴- سابق چیف جسٹس تفضل اسلام، ۵- سابق چیف جسٹس فضل الکریم، ۶-سابق چیف جسٹس سید محمود حسین، ۷- سابق چیف جسٹس حسن فائز صدیقی، ۸-موجودہ چیف جسٹس عبید الحسن، ۹- سابق اپیل ڈویژن جسٹس شمس الدین چودھری، ۱۰- سابق اپیل ڈویژن جسٹس نظام الحق نسیم (جن کے کردار کا پردہ روزنامہ امر دیش اور دی اکانومسٹ نے ’اسکائپ اسکینڈل‘ میں چاک کیا تھاـ)،۱۱- موجودہ اپیل ڈویژن جسٹس عنایت الرحمٰن،۱۲- موجودہ وزیرقانون انیس الحق،۱۳- سابقہ وزیر قانون شفیق احمد،۱۴- مرحوم اٹارنی جنرل محبوب عالم، ۱۵-غلام عارف ٹیپو ایڈووکیٹ، ۱۶-سیّدریاض الرحمٰن ایڈووکیٹ،۱۷-رانا داس گپتا ایڈووکیٹ، ۱۸- زیاد المعلوم ایڈووکیٹ (مجرم اسکائپ سکینڈل)
ان کے علاوہ جن بے ضمیر ججوں نے اپنے عہدوں کے لالچ اور مراعات کی ہوس کے لیے فسطائی حکومت کے جائز و ناجائز اقدامات کی حمایت کی، ان میں دو شخصیات خصوصی طور پر قابلِ ذکر ہیں، ایک اپیل ڈویژن کے جسٹس عبدالمتین اور دوسری سابقہ جسٹس نجم الآراء سلطانہ۔ ان میں سے جسٹس عبدالمتین کا ذکر پہلے ہو چکا جو آج کل پروتھم ایلو اور ڈیلی سٹار کی چھترچھایا کے نیچے نام نہاد سول سوسائٹی کے ارکان کے درمیان ایک بزرگ دانشور اور سیاست دان کے طور پر خود کو پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ جسٹس نجم الآراء سلطانہ کے بارے میں یہ بتا دیا جائے کہ انھوں نے جسٹس عبدالوہاب میاں اور جسٹس امام علی کے ساتھ مل کر اس آئینی ترمیم کی بڑی سختی سے مخالفت کی تھی، جس کے تحت نگران حکومتوں کا نظام ختم کر کے بنگلہ دیش میں ایک جماعت کی فسطائی حکومت کا راستہ ہموار کیا گیا۔ جب یہ کیس سپریم کورٹ میں پہنچا تھا تو مذکورہ تین جج اس کے مخالف تھے، جب کہ تین ہی ججوں نے حمایت کی تھی۔ آخر چیف جسٹس خیر الحق نے اس کی حمایت میں فیصلہ دے کر بنگلہ دیش کے آئین میں مہیا کردہ آزادانہ انتخابات کی سب سے بڑی ضمانت ختم کر دی تھی۔
عدلیہ میں موجود عوامی لیگی حواریوں کے جرائم کی ایک فہرست یاددہانی کے لیے پیش ہے:
۱- نگران حکومتی نظام کا خاتمہ کر کے عوامی لیگی شیطانی حکومت کے لیے زمین ہموار کرنا۔
۲- انسانیت کے خلاف ہر طرح کے جرائم مثلاً جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل، حراست میں تشدد وغیرہ میں شیخ حسینہ اورپولیس، فوج، راب(RAB) میں موجود اس کے ڈیتھ اسکواڈ کی مدد۔ حزب اختلاف کے رہنماؤں، آزاد صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی ضمانتوں سے انکار، بنگالی عوام کے بنیادی حقوق پر کھلی ڈاکا زنی۔
۳- فاشسٹ حکمران شیخ حسینہ کی خواہشات کے مطابق اس کے سیاسی مخالفین بشمولہ سابق وزیراعظم خالدہ ضیا کے خلاف وزارت قانون کی جانب سے تیار کردہ فیصلے بغیر کسی شرم، ہچکچاہٹ کے من و عن سنا دینا اور جماعت اسلامی کے امیر ڈاکٹر شفیق الرحمان کی مسلسل گرفتاری کہ جس میں انھیں نہ ضمانت کا جائز حق میسر ہے، نہ اپنی بزرگی اور بگڑتی صحت کے باوجود علاج کی مناسب سہولت۔
۴- نئی دہلی حکومت کے ایما پر اسلام پسند رہنماؤں کے قتل کے لیے کینگرو عدالتوں کا قیام اور ملکی عدلیہ اور اداروں کی مستقل تباہی۔ اس قتل و غارت گری کے لیے ۱۹۷۱ء کی جنگ کو جواز بنایا جاتا ہے۔ روزنامہ امر دیش اور لندن اکانومسٹ نے ۲۰۱۲ء میں ایک زبردست تحقیقی رپورٹ کے ذریعے اس منصوبے کا پردہ چاک کر دیا تھا۔ یہ رپورٹ آزادی کے بعد کی بنگلہ دیشی صحافت میں اہم مقام رکھتی ہے۔ تاہم، بین الاقوامی برادری اور مغرب کے آزادی ٔ صحافت کے علَم برداروں نے سیاسی مصلحتوں کے تحت ہندستان کو خوش کرنے کے لیے آنکھیں بند رکھنے کا فیصلہ کیا۔
۵- آزادیٔ اظہار پر پابندیوں میں حکومت کے ساتھ اتحاد۔
۶- ملک میں قانون کی حکمرانی مکمل طور پر ختم کرنے میں حکومت کے ساتھ اشتراک۔
پچھلے پندرہ برسوں کے دوران ہونے والے عدلیہ کے یہ جرائم مدتوں یاد رکھے جائیں گے۔ یہ سب انڈیا کی پشت پناہی میں ایک بدعنوان اور ظالم خاتون کی ایما پر کیا گیا ہے۔ ہمیں اُمید ہے کہ عدلیہ میں عوامی لیگ کے مقرر کردہ یہ جلاد ایک دن انصاف کا سامنا کریں گے۔