مضامین کی فہرست


اگست ۲۰۱۳

۱۱مئی ۲۰۱۳ء کے انتخابات میں عوام کے فیصلے کا سب سے نمایاں پہلو یہ تھا کہ وہ ملک کے نظام اور پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیوں کے خواہش مند ہیں۔ پرویز مشرف اور زرداری،گیلانی، پرویز اشرف اور ان کے اتحادیوں نے اپنے ۱۴سالہ دورِ حکومت میں ملک کے پورے نظام کو   جس طرح درہم برہم کیا تھا اور ملک کی آزادی، حاکمیت، سالمیت اور نظریاتی شناخت سے لے کر امن و امان، جان و مال اور آبرو کے تحفظ، اور معاشی اور معاشرتی، تعلیمی اور اخلاقی زندگی میں جو بگاڑ اور فساد اس زمانے میں رُونما ہوا، اس نے زندگی کی ہرسطح پر تباہی مچادی۔ کرپشن اور بدعنوانی کا طوفان اُٹھ کھڑا ہوا اور ایک عام آدمی کے لیے زندگی اجیرن ہوگئی۔ قوم کے سامنے ایک طرف وہ سیاسی پارٹیاں تھیں جو اس ۱۴سالہ دور کی نمایندہ بنیں، یعنی پیپلزپارٹی، اے این پی، ایم کیو ایم، مسلم لیگ(ق) اور ایک حد تک جے یو آئی۔ اور دوسری طرف وہ جماعتیںتھیں جو اس اسٹیٹس کو (status quo) کو چیلنج کررہی تھیں اور قوم کو تبدیلی کا پیغام دے رہی تھیں۔

قوم نے تبدیلی کے حق میں ووٹ دیا اور پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کو سندھ میں اپنے اپنے حلقوں میں اگر بظاہر کامیابی ہوئی بھی تو وہ عوامی مینڈیٹ کا نتیجہ نہیں بلکہ اس مینڈیٹ کو جبر اور دھوکے سے اغوا کرنے کے نتیجے میں حاصل ہوئی۔ مسلم لیگ (ن) کو مرکز اور پنجاب میں  واضح مینڈیٹ ملا اور صوبہ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف اور ایک حد تک جماعت اسلامی کو۔      جناب میاں نواز شریف نے ۱۱مئی کی رات ہی کو اپنی فتح کا اعلان کردیا اور گو وزارتِ عظمیٰ کا چارج انھیں ۶جون کو ملا لیکن ان کے فی الواقع (virtual) اقتدار اور آزمایش کا آغاز ۱۱مئی ہی سے ہوگیا۔ چونکہ وہ اس سے پہلے دو بار وزیراعظم کی ذمہ داریاں اُٹھاچکے تھے، ۲۰۰۸ء سے ۲۰۱۳ء تک سب سے بڑے صوبے پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو اقتدار حاصل تھا اور مرکز میں بھی اس زمانے میں مسلم لیگ (ن) قومی اسمبلی اور سینیٹ میں معقول تعداد میں موجود ہونے کے باعث حزبِ اختلاف کا کردار ادا کر رہی تھی، اس لیے توقع تھی کہ اقتدار سنبھالتے ہی وہ تبدیلی کے سفر کا آغاز کرے گی اور قوم کے سامنے سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق ایک نئی راہ کھل جائے گی۔

پارلیمانی جمہوریت کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ حزبِ اختلاف دراصل منتظر حکومت (Government in waiting) کی حیثیت رکھتی ہے، اس کے پاس شیڈوکیبنیٹ کی شکل میں متبادل قیادت ہرلمحہ موجود ہوتی ہے اور وہ متبادل پالیسیوں کے باب میں بھی ہرلمحہ تیار ہوتی ہے۔ پھر مسلم لیگ (ن) کا دعویٰ تھا کہ اس کے پاس بہتر اور تجربہ کار ٹیم موجود ہے۔ اس نے دو سال کی تیاری اور بحث و مباحثے کے بعد ۲۰۱۳ء کے انتخابات کے لیے قوم کے سامنے ایک مفصل منشور  پیش کیا تھا اور اس امر کی توقع تھی کہ ذمہ داری سنبھالنے کے فوراً بعد معروف جمہوری روایات کی روشنی میں وہ پہلے ۱۰۰ دن کا پروگرام قوم کے سامنے پیش کرے گی۔ پھر چونکہ ذمہ داری سنبھالتے ہی ۱۰دن کے اندر اسے نیا بجٹ پیش کرنا تھا جس کے لیے عملاً اس نے ۱۱مئی کے بعد ہی کام شروع کردیا تھا۔ وہ ایک نادر موقع تھا کہ کم از کم نئی پالیسیوں کا ایک مربوط نقشہ قوم کے سامنے پیش کردیا جائے لیکن بجٹ بحیثیت مجموعی مایوس کن رہا اور ان سطور کے لکھتے وقت تک ۱۰۰ میں سے ۵۰دن گزر چکے ہیں لیکن نئے پروگرام کی کوئی جھلک قوم کے سامنے نہیں آسکی۔

ایک بظاہر تجربہ کار ٹیم کی طرف سے یہ کارکردگی بڑی مایوس کن اور ملک کے مستقبل کے لیے تشویش ناک ہے۔ میاں نواز شریف اور مسلم لیگ کی پوری قیادت کو حالات کی نزاکت کا احساس کرنا چاہیے۔ ہم اپنے تمام اختلافات کے باوجود ملک کے وسیع تر مفاد میں دعاگو ہیں کہ وہ سیاسی قوتیں جنھیں قوم نے حالات کو سنبھالنے اور بگاڑ کی اصلاح کے لیے مینڈیٹ دیا ہے، وہ سنجیدگی، دیانت اور اعلیٰ صلاحیت کے ساتھ ملک و قوم کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں اور عوام کو اس دلدل سے نکالیں جس میں ان کو دھنسایا گیا ہے، ورنہ قوم خاص افراد ہی نہیں، سیاسی جماعتوں اور جمہوری عمل سے مایوس ہوسکتی ہے جو سب کے لیے خسارے کا سودا ہے۔

قوم کی توقعات اور حکومتی روش

نئی حکومت سے یہ توقع تھی کہ اسے واضح مینڈیٹ ملا ہے۔ وہ معلّق پارلیمنٹ کی آزمایش سے بچ گئی ہے۔ چھوٹی جماعتوں کے بلیک میل کا بھی کوئی خطرہ نہیں ہے۔ وہ آگے بڑھ کر خارجہ اور داخلہ دونوں میدانوں میں ایک واضح لائحہ عمل قوم کے سامنے لائے گی اور کوشش کرے گی کہ زیادہ سے زیادہ اُمور پر قومی اتفاق راے پیدا کرے اور عوام کو ایک نئی اُمید اور اُمنگ دے کر سب کو ساتھ لے کر آگے بڑھے۔ بلوچستان کے گمبھیر حالات کی بناپر جو ابتدائی روش مسلم لیگ(ن) کی قیادت نے اختیار کی، اس سے اچھی اُمیدیں پیدا ہوئی تھیں لیکن ۵۰دن گزرنے کے باوجود اب تک صوبے میں کابینہ کا نہ بننا ایک پریشان کن صورت حال کی خبر دے رہا ہے۔ نیز دہشت گردی اور لاقانونیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ فاٹا اور کراچی کے حالات بھی دگرگوں ہیں اور سارے بلندبانگ دعوئوں کے باوجود دہشت گردی کے خلاف جامع قومی سلامتی پالیسی بنائے جانے کا خواب ایک خوابِ پریشان بنتا جارہا ہے۔ قومی سلامتی کے مسئلے پر کُل جماعتی کانفرنس کے انعقاد کی ایک تاریخ  (۱۲جولائی) دینے کے باوجود اس طرف کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی اور معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی اُمور کے بارے میں کوئی واضح سوچ بھی موجود نہیں۔ سب سے پریشان کن چیز سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان ہم آہنگی اور یک سوئی کے باب میں متضاداشاروں کا ظہور ہے۔ ایبٹ آبادکمیشن کی رپورٹ کے نام سے جو دستاویز سامنے آئی ہے اور جس طرح سامنے آئی ہے اس نے سیاسی سطح پر بڑے سوالیہ نشان مرتسم کردیے ہیں۔

ڈرون حملے بند کرانے اور امریکا سے دہشت گردی کی جنگ کے باب میں تعلقات پر مکمل نظرثانی قوم کے لیے اوّلین ترجیح کا عالمی مسئلہ تھا اور ہے۔ توقع تھی کہ اس سلسلے میں مسلم لیگ(ن) نے مناسب ہوم ورک کررکھا ہوگا جس کا وہ عندیہ بھی دیتے تھے مگر معلوم ہوتا ہے کہ ان کے سامنے کوئی واضح خطوطِ کار موجود نہیں ہیں اور خود اپنے منشور میں جو باتیں انھوں نے کہی ہیں، ان کو بھی کسی واضح اور متعین پالیسی میں ڈھالنے اور قوم کو ساتھ لے کر ایک حقیقی طور پر آزادخارجہ پالیسی مرتب کرنے کے باب میں ان ۵۰دنوں میں وہ پہلا قدم بھی نہیں اُٹھا سکے۔ نہ معلوم کس مصلحت کے تحت وزیراعظم صاحب نے خارجہ اُمور اور دفاع دونوں شعبے اپنے پاس رکھے ہیں اور عملاً کوئی مستقل وزیر ان اہم ترین شعبوں میں نہیں مل سکا۔ وزیراعظم کے مشیر براے خارجہ اُمور اور سلامتی اور معاون خصوصی کے درمیان بھی ہم آہنگی کا فقدان نظر آتا ہے۔ عالمِ سیاست کے دو اہم ترین مراکز، یعنی واشنگٹن اور لندن دونوں کے لیے مسلم لیگ(ن) کی حکومت مناسب سفیروں کا انتخاب نہیں کرسکی ہے۔ واشنگٹن میں ڈیڑھ مہینے سے کوئی سفیر نہیں ہے اور لندن میں زرداری صاحب کے معتمدخاص  سفارتی تجربہ نہ رکھنے کے باوجود بطور ہائی کمشنر کام کر رہے ہیں۔ ان کے بارے میں جو کچھ ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ میں آیا ہے، اس کا ذکر نہ ہی کیا جائے تو بہتر ہے۔ افغانستان سے تعلقات پر کھچائو اور بے اعتمادی کے سایے صاف نظرآرہے ہیں۔ طالبان امریکا مذاکرات کی جو دگرگوں کیفیت ہے، وہ پاکستان کے لیے بھی بڑے مسائل پیدا کر رہی ہے اور آگ بجھانے کی کچھ کوششیں تو ہورہی ہیں لیکن اصل مسئلہ یعنی ’دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ‘ سے نکلنے اور اس آگ سے خود افغانستان کو بچانے کے لیے جس داعیے (initiative) کی ضرورت ہے، اس کے اِدراک کا دُور دُور پتا نہیں۔

بہارت دوستی اور درست ترجیحات کا فقدان

خارجہ پالیسی کا سب سے تشویش ناک پہلو بھارت کے بارے میں نہایت سطحی اور جذباتی انداز میں نہایت غیرحقیقت پسندانہ پالیسی اشارے ہیں جو ناقابلِ فہم ہیں۔ انتخابی نتائج کے آتے ہی بھارت سے پینگیں بڑھانے کا عندیہ دیا گیا۔ بھارت سے آئے ہوئے ایک سکھ وفد کے سامنے جن جذبات کا اظہار کیا گیا اور جن میں تحریکِ پاکستان کے مقصد ِ وجود تک کی نفی کردی گئی، اس نے پوری قوم کو چونکا دیا۔ اگر تحریکِ پاکستان کی بنیاد، یعنی دو قوموں اور دو تہذیبوں کا اپنا اپنا مستقل وجود ہی محض ایک واہمہ تھا تو پھر پاکستان کا جواز ہی کہاں باقی رہتا ہے۔ یہ بات اگر بھارت میں گونجنے والی آواز کی بازگشت نہیں تو کیا ہے؟ پھر بھارت کے وزیراعظم کو حلف برداری کی تقریب میں بلانے کی بات کسی ہوم ورک کے بغیر اور ان کے ٹکے سے جواب کے بعد بھی شیروشکر ہونے کی باتیں کن عزائم کی غماز ہیں؟ بھارت میں ان د و مہینوں میں پاکستان کے خلاف اور خصوصیت سے کشمیر میں جس طرح بے دردی سے نوجوانوں کا قتل اور قرآنِ پاک کی بے حُرمتی ہورہی ہے، اس پر قرارواقعی ردعمل کا فقدان، بلکہ اس سب کے باوجود تجارت ہی نہیں ٹریک ٹو ڈپلومیسی کا آغاز قومی سلامتی کے باب میں کسی اعلیٰ اور جامع وژن اور ملک کے حقیقی مفادات کے باب میں صحیح ترجیحات کے فقدان کی بدترین مثال ہے۔

بھارت امریکا کے تعاون سے پاکستان میں، افغانستان میں اور اس پورے خطے میں جو کھیل کھیل رہا ہے، اس کو نظرانداز کرکے خوش فہمیوں پر مبنی جو اقدام کیے جارہے ہیں خواہ ان کا تعلق معیشت اور تجارت سے ہو یا سیاسی تعلقات اور بنیادی تنازعات کے بارے میں صحیح رویے سے،     وہ کم سے کم الفاظ میں نہایت غیرحقیقت پسندانہ اور ملکی سلامتی پر منفی اثرات رکھنے والے ہیں۔ بھارت سے دوستانہ تعلقات ہم بھی چاہتے ہیں لیکن پاکستان کے اسٹرے ٹیجک مفادات کی قربانی یا ان کو  پسِ پشت ڈالنے کی قیمت پر نہیں۔ اس سلسلے میں ایک اسٹرے ٹیجک ناکامی کشمیر کے مسئلے کے بارے میں مؤثر اور مضبوط ردعمل پاکستان کی طرف سے مؤثر ردعمل ظاہر نہ کیا جانا ہے۔ نیز عالمی سطح پر ان اُمور کو جس طرح ہمیں اُجاگر کرنا چاہیے تھا، اس کی کوئی فکر دُور دُور نظر نہیں آتی ہے۔ کشمیر میں نوجوان روزانہ اپنے خون سے اپنا احتجاج رقم کر رہے ہیں اور قرآن کی بے حُرمتی کے واقعے پر سروں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں اور پاکستانی حکومت بے جان تحفظات کے اظہار کے تکلف سے آگے بڑھنے کو تیار نہیں۔

بھارتی پارلیمنٹ پر دسمبر ۲۰۰۱ء کے حملے کا الزام بھارت نے پاکستان کو دیا تھا اور ایک سال تک بھارتی فوجیں پاکستان کی سرحدوں میں کیل کانٹے سے لیس کارروائی کے لیے پَر تولتی رہیں،اب اس واقعے کے بارے میں بھارت کے ایک سابق انڈر سیکرٹری نے بھارتی سپریم کورٹ میں ایک حلفیہ بیان دیا ہے جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ یہ حملہ کسی پاکستانی گروہ کے ایما پر نہیں خود بھارت کی اپنی ایجنسیوں کے ایما پر ہوا تھا اور سارا منصوبہ خود انھی کا تیار کردہ تھا۔ لیکن ہماری وزارتِ خارجہ کا یہ عالم ہے کہ اس نے صرف وضاحت حاصل کرنے کا تکلف کیا ہے اور عالمی سطح پر اس سے جو فائدہ اُٹھانا چاہیے تھا اس کا کوئی احساس دُور و نزدیک نظر نہیں آتا ہے۔ حالانکہ صرف یہ بیان ہی بھارت کی ایجنسیوں کے اس معاملے میں کردار کا غماز نہیں، اس سے پہلے خود بھارت کے آزاد مبصرین اور محقق اس راے کا اظہار کرچکے ہیں جس کی تفصیل خود بھارت کی پینگوئن پبلشرز کی شائع کردہ کتاب The Strange Case of The Parliament Attack میں موجود ہے جو ۲۰۰۶ء میں واقعے کے پانچ سال بعد شائع ہوئی ہے، اور جس میں بھاررت کی مشہور دانش ور ارون دھتی رائے نے اس پورے واقعے کے بارے میں ۱۳سوال اُٹھائے ہیں اور صاف الفاظ میں وہی بات کہی ہے جو اب بھارتی وزارتِ داخلہ کا انڈرسیکرٹری روی شنکرمانی ، بھارت کے خفیہ ایجنسی کے افسر ستیش چندرا ورما  کی روایت کی روشنی میں کہہ رہا ہے۔ گویا اس کے اور ممبئی کے ۲۰۰۸ء کے خونیں واقعے کے پیچھے خود بھارت کا ہاتھ تھا اور یہ دونوں خونی ڈرامے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے کیے گئے۔ ارون دھتی رائے جس نتیجے پر ۲۰۰۶ء میں پہنچی، وہ اسی کے الفاظ میں پڑھنے کے لائق ہے کہ سات سال پہلے اس نے وہی بات کہی جو آج سپریم کورٹ میں حلف نامے پر کہی جارہی ہے اور پاکستان کی قیادت منہ میں گھونگنیاں ڈالے بیٹھی ہے۔ اپنے ۱۳سوالات کی روشنی میں ارون دھتی رائے کہتی ہے:

ان سوالات کا مجموعی طور پر جائزہ لیا جائے تو یہ نااہلیت سے بہت زیادہ سنگین صورت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ جو الفاظ ذہن میں آتے نظر آتے ہیں وہ یہ ہیں: شرکت، سازش، خفیہ سازباز۔ کوئی وجہ نہیں کہ ہم صدمے کا جھوٹا اظہار کریں اور نہ ان خیالات کے سوچنے یا ان کو بلندآواز میں کہنے سے پیچھے ہٹیں۔ حکومتیں اور ان کی خفیہ ایجنسیاں ایک پرانی روایت رکھتی ہیں کہ اس طرح کے اسٹرے ٹیجک واقعات کو، جیساکہ یہ ہے، اپنے مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کریں (دیکھیے: جرمنی میں Reichstag کا جلنا اور ۱۹۳۳ء میں نازی طاقت کا عروج یا آپریشن گلے ڈیو جس میں یورپی    خفیہ ایجنسیوں نے دہشت گردی کی کارروائیاں خود کیں، خصوصاً اٹلی میں، جن کا مقصد جنگ جوُ گروہوں جیسے Red Brigades کو منتشر کرنا خیال کیا جاتا ہے۔  (دی گارڈین، لندن، India's Shame از ارون دھتی رائے، ۱۵ دسمبر ۲۰۰۶ء)

واضح رہے کہ ممبئی حملے کے بارے میں صرف مانی اور ورما کے بیانات سوالیہ نشان نہیں اُٹھا رہے، ممبئی حملے میں جس طرح سمجھوتا ایکسپریس کے بارے میں بھارتی فوج کے حاضر سروس افسر کے کردار کا راز فاش کرنے والے پولیس افسر کو نشانہ بنا کر قتل کیا گیا، اور پھر جس طرح حال ہی میں  حصولِ معلومات کے حق (Right to Information) کے ذریعے حاصل کی جانے والی معلومات کے ذریعے یہ حقائق سامنے آئے کہ ممبئی کے میونسپل آفس سے اس تاج محل ہوٹل کے بارے میں جو اس واقعے کا مرکزی مقام تھا، تمام میونسپل ریکارڈ غائب کردیے گئے ہیں جسے بھارتی اخبارات نے ایک بڑا سیکورٹی رسک قراردیا ہے۔ (ملاحظہ ہو، ایوننگ نیوز ڈائجسٹ، ۱۶جولائی ۱۳،۲۰ء رپورٹ کا عنوان: Taj Hotel Files went Missing before 26/11 attacks)

بات ذرا طویل ہوگئی لیکن مقصد اس طرف متوجہ کرنا ہے کہ بھارت سے دوستی کے شوق میں ہماری قومی سلامتی اور خارجہ سیاست کے ذمہ دار کس طرح زمینی حقائق کو نظرانداز کررہے ہیں، اور وہ پاکستان کے خلاف بھارت کے پروپیگنڈے کا مؤثر توڑ کرنے اور اصل حقائق دنیا کے سامنے لانے کے مواقع کو ضائع کر رہے ہیں۔

ہم بڑی دل سوزی کے ساتھ وزیراعظم صاحب کو متوجہ کرنا چاہتے ہیں کہ خارجہ پالیسی کے اُمور پر لب کشائی سے پہلے ٹھنڈے غوروفکر سے کام لیں اور خارجہ سیاست کے نشیب و فراز سے واقف ماہرین سے مشورہ کرلیا کریں۔ وہ بار بار کہہ چکے ہیں کہ ہم بھارت سے معاملات کو اس مقام سے شروع کرنا چاہتے ہیں جہاں ۱۹۹۹ء میں واجپائی صاحب کے ساتھ طے ہوئے تھے۔ ان کی خواہشات اپنی جگہ، اوّل تو جو کچھ اس موقع پر ہوا وہ نمایش زیادہ اور حقیقت (substantion)  کم تھا۔ پھر لاہور کی بس ڈپلومیسی کے بعد کارگل واقع ہوا۔ جس نے حالات کو بدل دیا۔ اس زمانے میں بھارت میں بی جے پی کی پوزیشن اور سیاسی کردار میں زمین آسمان کا فرق واقع ہوچکا ہے۔ دسمبر ۲۰۰۱ء اور جولائی ۲۰۰۸ء کے دہلی اور ممبئی کے ڈراموں نے حالات کو بدل دیا ہے۔ بھارت امریکا تعلقات میں اس زمانے میں جو تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں انھوں نے پوری علاقائی سیاسی بساط کو متاثر کیا ہے۔ افغانستان اور بلوچستان میں بھارت کے کردار نے بھی مستقبل کے سیاسی منظرکو متاثر کیا ہے۔ چین اور بھارت کے تعلقات کے نشیب و فراز بھی ہوا کے نئے رُخ کا پتا دے رہے ہیں۔ کشمیر میں اس زمانے میں جو کچھ ہوا اور ہو رہا ہے اور مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر میں ڈیم تعمیر کرنے کی جو کوششیں کی جارہی ہیں وہ اپنے خاص تقاضے رکھتے ہیں۔ وزیراعظم صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان ۱۴برسوں میں برعظیم کے سیاسی پُلوں کے نیچے بہت سا پانی بہہ گیا ہے اور اب ۱۹۹۹ء کے پروسس کا اُس مقام سے بحالی کا کوئی امکان نہیں۔ اس خواہش کی بحالی کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔ مشرف نے اس زمانے میں کشمیر کے مسئلے کو جو نقصان پہنچایا ہے اس کے منفی اثرات بھی ناقابلِ انکار ہیں۔ نئی پالیسی کو اصولی پوزیشن ، زمینی حقائق اور ملک کے اسٹرے ٹیجک مفادات کی روشنی میں مرتب کیا جانا چاہیے۔ شاعرانہ خوش خیالیوں کا اس میں کوئی دخل نہیں۔ انھیں بھارت کے بارے میں اپنی سوچ پر بنیادی نظرثانی کرنا ہوگی ورنہ وہ خدانخواستہ پاکستان کے مفادات کو مشرف سے بھی زیادہ نقصان پہنچانے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ ریاست کے اُمورپر اگر ’عمرا جاتی‘ کے جذباتی احساسات کا سایہ پڑنے دیا جائے تو اس کے بڑے خطرناک نتائج ہوسکتے ہیں جن کے بارے میں ہم پوری دردمندی سے ان کو متنبہ کرنا اپنا دینی اور ملّی فرض سمجھتے ہیں۔

اس سلسلے کی سب سے تکلیف دہ اور شرمناک مثال دفترخارجہ کا وہ بیان ہے جو بنگلہ دیش کے بارے میں دیا گیا ہے۔ وہاں کی عوامی لیگی حکومت ۱۹۷۱ء کے واقعات کے سلسلے میں جنگی جرائم کے نام پر ایک ڈراما کر رہی ہے جو دو سال سے جاری ہے۔ اس نتیجے میں پروفیسر غلام اعظم صاحب اور جماعت اسلامی کے پانچ قائدین کو شرمناک سزائیں دی گئی ہیں۔ ان کا ہدف صرف جماعت اسلامی کی قیادت نہیں بلکہ پاکستان، اس کی حکومت اور فوج ہے جس پر دنیا بھر میں احتجاج ہورہا ہے۔ جس مقدمے کا سارا بھانڈا خود لندن کے اکانومسٹ نے ٹربیونل کی غیرقانونی کارروائیوں کے پورے ریکارڈ کی بنیاد پر پھوڑا ہے، جس پر کئی مسلم اور مغربی ممالک کی حکومتوں نے احتجاج کیا ہے اور  اس کے خلاف بنگلہ دیش کے عوام گذشتہ پانچ مہینے سے احتجاج کر رہے ہیں اور سیکڑوں افراد شہید ہوچکے ہیں اور ۵۰ہزار افراد اس وقت جیلوں میں ہیں، لیکن شرم کا مقام ہے کہ ہمارے دفترخارجہ کے ترجمان اسے بنگلہ دیش کا ’داخلی معاملہ‘ فرما رہے ہیں۔

امن و امان کی دگرگوں صورتِ حال

بدقسمتی سے داخلی میدان میں بھی ان دنوں میں کوئی مثبت پیش رفت نظر نہیں آرہی اور  ع

وہی رفتار بے ڈھنگی جو پہلے تھی، سو اب بھی ہے

سب سے اہم مسئلہ دہشت گردی، لاقانونیت، قتل و غارت گری، بھتہ خوری اور جرائم پر قابو پانے کا تھا لیکن چند خوب صورت بیانات کے سوا مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے دامن میں کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ سپریم کورٹ ہر روز اسی طرح شکوہ سنج ہے کہ حالات میں کوئی تبدیلی نہیں۔ اس کے احکامات سے اسی طرح رُوگردانی کی جارہی ہے جس طرح ماضی میں ہورہی تھی۔ لاپتا افراد بھی اسی طرح لاپتا ہیں بلکہ ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے( جولائی ۲۰۱۳ء میں سپریم کورٹ نے ۵۰۴ لاپتا افراد کی بازیابی کا حکم دیا ہے اور پشاور ہائی کورٹ نے مزید ۲۵۴ کا)، اور بوریوں میں لاشیں اسی طرح مل رہی ہیں۔ پولیس اور ایف سی کی روز سرزنش ہوتی ہے مگر ’زمیں جُنبد نہ جُنبد گُل محمد ‘کی کیفیت ہے اور نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ عدالت عالیہ کو پولیس کے آئی جی، ڈی آئی جی اور فوج کی خفیہ ایجنسیوں کے کرنل صاحبان تک کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنا پڑ رہے ہیں۔ کراچی اُسی طرح میدانِ جنگ بنا ہوا ہے۔ نئے وزیرداخلہ صاحب نے جوش میں ایک مہینے میں حالات درست کرنے کی وارننگ دے دی تھی مگر پھر خود ہی اپنے الفاظ واپس لینے پڑے۔ لیاری ہی نہیں پورے شہرقائد میں جس طرح انسانوں کا خون ارزاں ہے اور بھتہ خور جس طرح دندناتے پھررہے ہیں، وہ بڑے بنیادی بگاڑ کی خبر دے رہے ہیں۔ کسی بڑے اقدام کے بغیر ان حالات کی اصلاح ممکن نظر نہیں آرہی۔ اصل وجہ مجرموں سے ناواقفیت نہیں، مجرموں پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت اور سیاسی عزم اور اقدام کا فقدان ہے۔ سپریم کورٹ اپنے ۲۰۱۱ء کے فیصلے میں نام لے کر پولیس اور دوسری ایجنسیوں کی جوائنٹ رپورٹ کے حوالے سے ان عناصر کی نشان دہی کرچکی ہے اور ان کے خلاف باربار اقدام کا مطالبہ کر رہی ہے مگر صوبے کی حکومت حسب سابق غافل ہے اور مرکز ’ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم‘ کی تصویر بنا ہوا ہے۔

توانائی کا بحران

بجلی اور توانائی کا بحران ایک عفریت کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ ۴۸۰؍ارب روپے گردشی قرضے کے سلسلے میں ادا کیے جاچکے ہیں لیکن ابھی تک بجلی کی فراہمی اور لوڈشیڈنگ کی کمی کی شکل میں اس کا کوئی اثر نظر نہیں آرہا۔کن اداروں کی کتنی مدد کی گئی ہے اور کن شرائط پر؟ اس کی کوئی تفصیل قوم یا پارلیمنٹ کے سامنے نہیں آئی ہے۔ جس طرح قومی سلامتی کی پالیسی ایک خواب اور خواہش سے آگے نہیں بڑھ پارہی، اسی طرح قومی توانائی پالیسی بھی ابھی تک پردۂ اخفاء میں ہے، حالانکہ یہ دونوں چیزیں ایسی تھیں جنھیں حکومت کے بننے کے بعد فوری طور پر واضح شکل میں قوم کے سامنے آنا چاہیے تھا اور اس کے ساتھ ایک متعین ٹائم ٹیبل طے ہونا چاہیے تھا جس میں ہر ماہ کا ٹارگٹ ہوتا تاکہ کم از کم ان دونوں میدانوں میں فوری نتائج قوم کے سامنے آنا شروع ہوجاتے۔ کوئی بھی  یہ توقع نہیں رکھتا کہ فقط ایک دو ماہ میں یہ مسائل حل ہوجائیں گے لیکن یہ توقع تو ضرور کی جارہی تھی کہ فوری طور پر نئی پالیسی اور اس پر عمل درآمد کا نقشۂ کار قوم کے سامنے ہوگا اور قوم یہ محسوس کرسکے گی کہ ہرماہ ہم اپنی منزل کی طرف چند قدم آگے بڑھا رہے ہیں۔ سب سے زیادہ تشویش واضح پالیسی کا فقدان اور عملی نتائج کی طرف پیش رفت کے نقشے کا نہ ہونا ہے۔اندازِ حکمرانی اور نتائج و ثمرات عوام تک پہنچانے کے نظام میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آرہی اور یہ سب سے تشویش ناک پہلو ہے۔

اچہی حکمرانی کے دعوے کی حقیقت

ہم سیاسی انتقام کو ایک اخلاقی اورقانونی جرم سمجھتے ہیں لیکن اہم قومی اداروں اور دستوری ذمہ داری کے مقامات پر صحیح لوگوں کا شفاف انداز میں تقرر اچھی حکمرانی اور نظامِ کار میں تبدیلی کے لیے ازبس ضروری ہے۔ سب سے بڑا صوبہ دو مہینے سے گورنر سے محروم ہے۔ سندھ میں ۱۱سال سے ایک ہی شخص سیاسی گٹھ جوڑ کی علامت بنا ہوا ہے۔ اہم قومی ادارے بشمول نیب سربراہ سے محروم ہے اور درجنوں مرکزی اداروں اور پبلک سیکٹر (enterprises) پر وہ لوگ براجمان ہیں جو اہلیت اور صلاحیت کو نظرانداز کرکے ذاتی یا گروہی مفادات کی خاطر مقرر کیے گئے تھے جو ان اداروں کی تباہی اور قومی وسائل کے ضیاع کا سبب رہے ہیں، لیکن آج تک نہ نئے افراد کے تقرر کا شفاف نظام بنایا گیا ہے اور نہ صحیح افراد کے تقرر کا عمل شروع ہوا ہے۔ بدقسمتی سے جہاں نئی تقرریاں ہوئی ہیں وہاں وہی پرانی روش جاری ہے۔ اس سلسلے میں پی آئی اے کی مثال میڈیا میں آرہی ہے اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود، نئی حکومت بھی مناسب اقدام کرنے سے گریزاں ہے۔ شخصی پسندوناپسند اور ذاتی وفاداریوں، دوستیوں اور احسانات کا بدلہ اُتارنے کے عمل کے تاریک سایے آج بھی منڈلاتے نظرآرہے ہیں۔ پنجاب میں لگژری مکانات پر ٹیکس ایک اچھا اقدام ہے مگر اس کے ساتھ وزرا اور بااثرافراد کے اپنے لگژری مکانات کو کیٹگری ۲ میں لانے کے بارے میں جو اطلاعات اخبارات میں آرہی ہیں، وہ اسی بیماری کا پتا دیتی ہے جس کے علاج کے لیے قوم نے قیادت کی تبدیلی کا اقدام کیا تھا۔ سرکاری وسائل کا شخصی استعمال اب بھی ہورہا ہے۔ اگر زرداری صاحب اپنے سرکاری دوروں پر بلاول اور آصفہ کو لے جاتے تھے تو اب چین کے دورے پر وزیراعظم اور وزیراعلیٰ اپنے اپنے صاحب زادوں کو لے کر گئے ہیں حالانکہ ان کو ایسے اہم اور حساس سیاسی دوروں میں شامل کیے جانے کا کوئی جواز نہیں۔ قوم سابقہ دور کی کرپشن سے بے زار تھی اور روزانہ سپریم کورٹ میں اُس دور کی کرپشن کے کسی نہ کسی واقعے کی شرمناک داستان بے نقاب ہورہی ہے۔ سابقہ حکمرانوں نے ترقیاتی فنڈز کو جس طرح ذاتی اور جماعتی مفادات کے لیے استعمال کیا ہے وہ شرمناک ہی نہیں مجرمانہ فعل ہے جس پر قانون کے مطابق گرفت ہونی چاہیے۔

ہم توقع رکھتے ہیں کہ موجودہ حکومت بدعنوانی اور کرپشن کے تمام دروازوں کو بند کرے گی اور سپریم کورٹ جس طرح بدعنوانی کے ایک ایک معاملے کو بے نقاب کر رہی ہے، حکومت نہ صرف  ان اتھاہ کنوئوں(bottomless sinks) کو بند کرے گی بلکہ قوم کی لُوٹی ہوئی رقم قومی خزانے میں واپس لائے گی اور کرپشن کے ان شہزادوں کو قانون کے مطابق قرارواقعی سزا دلوائے گی۔ لیکن وزیراعظم کے حالیہ چینی دورے کے ضمن میں جو اطلاعات اخبارات میں آرہی ہیں، وہ بڑی پریشان کن ہیں اور ان کا فوری نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔ نندی پور پروجیکٹ کے باب میں سابق حکومت نے مجرمانہ غفلت برتی اور مشینری ایک سال سے بندرگاہ پر پڑی سڑ رہی تھی، اس پروجیکٹ کو بحال کرنا ایک مفید اقدام ہے لیکن یہ بات عقل سے بالاتر ہے کہ ۳۳؍ ارب روپے کے اس پروجیکٹ کو چشم زدن میں ۵۷؍ارب روپے کا کیسے بنا دیا گیا اور چشم زدن میں متعلقہ وزارت کی سمری اور پلاننگ کمیشن سے منظوری اور غالباً وزارتِ مالیات کی طرف سے رقم کی فراہمی، یہ سب کیسے ہوا؟ اخباری اطلاعات ہیں وزارتِ خزانہ نے انکوائری شروع کردی ہے لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ سب ہوا کیوں؟ اس سلسلے میں ایک سابق ایم ڈی پیپکو کا ایک خط بھی اخبارات میں آیا ہے جس سے بڑی ہولناک صورت حال سامنے آرہی ہے (ملاحظہ ہو روزنامہ دنیا کا کالم ’میرے دوستوں کو اتنی جلدی کیوں؟‘)۔ اس کا فوری سدباب ضروری ہے۔

تبدیلی کی سمت؟

ہم سمجھتے ہیں کہ نئی حکومت کو مناسب موقع ملنا چاہیے لیکن نئی حکومت کا بھی فرض ہے کہ وہ واضح پالیسیوں کا اعلان کرے، پالیسیوں پر عمل درآمد کا نقشۂ کار قوم کے سامنے لائے۔ اس نقشے کے مطابق احتساب کا نظام مرتب کیا جائے جس پر پوری شفافیت کے ساتھ عمل ہو اور قوم اور پارلیمنٹ کو ہرقدم پر پوری طرح باخبر رکھا جائے۔ میڈیا کو بھی پوری دیانت اور ذمہ داری سے مگر کسی مداہنت کے بغیر نگران (watch-dog)  کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ پارلیمنٹ اور خصوصیت سے حزبِ اختلاف کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی آنکھیں کھلی رکھیں اور تمام اہم اُمور پر احتساب کا فریضہ پوری ذمہ داری اور مستعدی سے انجام دیں۔

اس سلسلے میں تحریکِ انصاف اور جماعت اسلامی کے ارکان پر خصوصی ذمہ داری آتی ہے کہ وہ قوم کے ضمیرکا کردار ادا کریں اور پارلیمنٹ اور اس کی کمیٹیوں کو عوام کے حقوق کے تحفظ اور  قوم کے وسائل کے صحیح استعمال کے لیے مؤثر انداز میں استعمال کریں۔ ایبٹ آباد کمیشن کی اصل رپورٹ کو فوری طور پر پارلیمنٹ کے سامنے آنا چاہیے تاکہ وہ کنفیوژن ختم ہو جو ایک ابتدائی مسودے کے ایک پُراسرار انداز میں شائع کیے جانے سے رُونما ہوا ہے۔ اسی طرح سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں کے فیصلوں کے سلسلے میں بھی حکومت اور پوری انتظامیہ کے رویے میں بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے تاکہ ان فیصلوں پر ٹھیک ٹھیک عمل ہو۔ سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ اگر حکومتیں اور ریاست کے تمام ادارے اپنے اپنے کام ٹھیک ٹھیک انجام دیں تو عدالتوں کو انتظامی اُمور میں مداخلت کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ عدالتوں کو اس میدان میں احکام جاری کرنے کی ضرورت بھی صرف اس وجہ سے پڑرہی ہے کہ حکومت اور دوسرے ریاستی ادارے اپنی ذمہ داری ادا نہیں کر رہے اور لوگ مجبور ہوتے ہیں کہ انصاف کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں یا عدالت کو خود نوٹس لینا پڑتا ہے تاکہ ذمہ دار اداروں کی بے حسی پر ضرب لگا سکے۔ اندازِ حکمرانی کی فوری اصلاح ہی سے حالات صحیح رُخ پر آسکتے ہیں۔

ہم ہرگز معجزات کی توقع نہیں رکھتے لیکن قوم کا یہ حق ہے کہ کم از کم اس کے سامنے یہ چیز تو آئے کہ تبدیلی کی سمت کیا ہے اور منزلِ مقصود کی طرف کوئی قدم اُٹھ بھی رہا ہے یا نہیں۔ سفر بلاشبہہ طویل ہے اور قوم صبروہمت کے ساتھ راستہ کاٹنے کے لیے تیار ہوگی اگراسے یہ نظر آئے کہ منزل کا ٹھیک ٹھیک تعین ہوگیا ہے، پالیسیاں واضح ہیں، نقشۂ کار سب کے سامنے ہے، اور عملاً قدم اس سمت میں اُٹھائے جانے لگے ہیں۔ لیکن اگر ان میں سے کوئی چیز بھی نظر نہ آئے اور تبدیلی ایک سراب سے زیادہ نہ ہو تو پھر  ع

میں کیسے اعتبار انقلاب آسماں کرلوں!

 

وائس چانسلر ،رفاہ اسلامک یونی ورسٹی، اسلام آباد

۳۰جون ۲۰۱۳ء کو مصر میں جمہوریت کا قتل عرب بہار (Arab Spring) پر خزاں کا ایک ایسا حملہ ہے جس نے ہرباشعور شخص کو تذبذب میں ڈال دیا ہے۔ وزیردفاع کا فوج کے ذریعے جمہوری انتخابات میں اکثریت سے منتخب ہونے والے صدر اور اس کی کابینہ کا برطرف کرنا اور عوامی راے سے براہِ راست منتخب کیے ہوئے صدر کو نظربند کرنا اور فوجی مداخلت کے خلاف جمہوری مزاحمتی جدوجہد کو قوت، دھونس اور دبائو کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش اور فوجی حکم نامے کے ذریعے ایک عبوری حکومت بنانے اور عارضی دستور کے نام پر ایک من مانا نظام مسلط کرنے کو فوجی قبضے (coup deta)کے علاوہ اور کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

 جمہوریت کے اس قتل عام پر یورپ اور امریکا کا ردعمل شرم ناک ہے جو یہ ثابت کرتا ہے کہ مغرب کا اپنا مفاد اگر فوجی آمروں اور بادشاہتوں سے وابستہ ہو تو اسے کبھی جمہوریت کی یاد نہیں آتی اور اگر ایک عوامی جمہوری انتخاب کے بعد قائم ہونے والی ایسی جمہوریت ہو جس میں مصر کی تاریخ میں پہلی مرتبہ عوام نے اپنا صدر منتخب کیا ہو تو وہ ایسی جمہوریت کے مقابلے میں دوبارہ فوجی آمریت کے قیام میں سرگرم نظر آتا ہے۔

مغربی طاقتوں کی یہ دوعملی کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ اکیسویں صدی میں مسلم دنیا میں جو کچھ ہوا ہے وہ مغرب کی دوعملی کی زندہ مثال ہے۔ لیکن اس اندوہناک واقعے نے بہت سے اہم اور بنیادی سوالات کو ایک مرتبہ پھر ہمارے سامنے لاکر کھڑا کردیا ہے اور اُمت مسلمہ کے ہرباشعور شہری کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ یورپ اور امریکا، ایشیا اور افریقہ آخر کس جمہوریت کی بات کرتے ہیں، کیا ایک جمہوری صدر اور حکومت کو فوج کے ذریعے زیرحراست لاکر فوج کی طرف سے ایک عارضی صدر کا مقرر کیا جانا جمہوریت ہے؟ کیا تحریر چوک میں چند لاکھ افراد کے مظاہرہ کرنے اور مصر کی عوامی اکثریت کے منتخب کردہ صدر کے خلاف نعرے لگانے سے فوج کو یہ حق حاصل ہوجاتا ہے کہ وہ ایک جمہوری حکومت کو برطرف کردے؟

کیا یہ محض ایک اتفاق ہے کہ ۳۰جون ۲۰۱۲ء کو صدرمرسی نے حلف اُٹھایا اور ۳۰ جون ۲۰۱۳ء کو ایک سال گزرنے پر فوج نے انقلاب برپا کرکے انھیں نظربند کردیا؟ یا یہ سب ایک سال سے پلنے والی ایک سازش ہے جس میں فوج، عدلیہ اور مصر کے سیکولر افراد کے ساتھ مغربی طاقتیں اور ان کے زیراثر بعض مسلم ممالک جو مصر میں اسلامی احیا اور بالخصوص اخوان المسلمون کے برسرِاقتدار آجانے کو کسی صورت ہضم کرنے کو تیار نہ تھے، شریک تھے۔ ان ممالک نے بھی اس غیرجمہوری فوجی مداخلت کو پسند کیا اور جمہوریت کے قتل پر اطمینان کا اظہار کرنے میں شرم محسوس نہیں کی۔

نیویارک ٹائمز کے گلوبل اڈیشن میں قاہرہ سے اس کے نمایندوں Ben Hubbard اور David D. Kirkspatrick اپنے مقالے میں ہمارے اس بیان کی تصدیق جن الفاظ میں کی ہے، وہ ہر صاحب ِ عقل کے لیے سوچنے کا مواد فراہم کرتے ہیں:

ریاست کے مختلف ادارے پٹرول کے ذخیروں سے لے کر اسے ملک بھر میں گیس اسٹیشن تک پہنچانے والوں ٹرکوں، سب نے اس بحران کو پیدا کرنے میں حصہ لیا۔

وہ مزید کہتا ہے: پس منظر میں کام کرنے والے حسنی مبارک کے قریبی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھی اور ملک کے چوٹی کے جرنیلوں نے ان لوگوں کو مالیات فراہم کرنے، مشورہ دینے اور منظم کرنے میں مدد دی جو اسلامی قیادت کو اُکھاڑ پھینکنے کا پختہ ارادہ رکھتے تھے۔ ان میں نجیب سویریس بھی شامل تھا جو ایک ارب پتی ہے اور اخوان کا معروف کھلادشمن ہے۔ اور تہامی الجبالی بھی جو سپریم دستوری عدالت کے جج جو حکمران جرنیلوں کے بہت قریب ہیں۔

وہ آگے چل کر کہتا ہے کہ فوجی کو (Coup) کے بعد یکایک سڑکوں پر پولیس اور پٹرول پمپوں پر پٹرول کی فراوانی ہوگئی اور اچانک پوری انتظامیہ حرکت میں آگئی گویا فوج، عدلیہ اور سول انتظامیہ اور مال دار طبقہ سب نے مل کر صورت حال خراب کی تاکہ اسلامی قوتوں کو ناکام کرسکیں۔

اس افسوس ناک واقعے پر غور کرتے وقت ہمیں چند پہلوئوں پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے اس پورے عمل میں ابلاغِ عامہ کے کردار کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

ابلاغ عامہ کا کردار

مصر میں اخوان المسلمون اور دیگر اسلام پسند جماعتوں کے اتحاد کی کامیابی مصر کے سیکولر عناصر خصوصاً میڈیا کے لیے سخت غم و غصے کا سبب بنی۔ چنانچہ روزِ اوّل سے برقی ابلاغِ عامہ خصوصاً نجی چینلوں نے اخوان دشمن مہم کا آغاز کردیا اور عیسائی اقلیت کے حوالے سے بار بار یہ بات اُٹھائی کہ اخوان شریعت نافذ کریں گے اور عیسائیوں کو ’ذمی‘ کا درجہ دیتے ہوئے دوئم درجے کا شہری بنا دیا جائے گا۔ اس بات کو بھی اُچھالا گیا کہ اسلامی سزائوں کے نفاذ سے سب سے زیادہ نقصان غیرمسلموں کو پہنچے گا وغیرہ۔ پھر ابلاغِ عام نے مصر کی معاشی صورت حال کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنا شروع کیا کہ روٹی اور پانی کی فراہمی مشکل ہوگئی ہے، جب کہ یہی صورت حال حسنی مبارک کے دور میں تھی اور میڈیا اس پر خاموش تھا۔ دستور میں بعض دفعات کے اضافے اور شریعت کی بالادستی پر بھی میڈیا نے احتجاج اور مخالفت کی مہم چلائی۔ یہ بات بھی پھیلائی گئی کہ اسلامی حکومت میں مصر کی سیاحت کی انڈسٹری ختم ہوجائے گی جو قومی آمدنی کا ایک بڑا حصہ ہے۔

۳۰سالہ دورِ آمریت میں حسنی مبارک نے مصر کو جس معاشی بدحالی میں مبتلا کر دیا تھا اور جو حسنی مبارک کے خلاف عوامی مہم اور انقلاب کا ایک سبب تھا اسے ابلاغِ عامہ نے نظرانداز کرتے ہوئے یہ تاثر دیا کہ گویا معاشی زوال سب کا سب مرسی کے آنے کا نتیجہ ہے۔

ابلاغ عامہ کی اس سازش میں مصر کا مال دار ترین شخص نجیب سویریس جو ٹی وی چینل اور اخبار کا مالک ہے اور حسنی مبارک کا قبطی دست ِ راست رہا ہے، پیش پیش تھا۔ (اس کا اپنا بیان نیویارک ٹائمز نے ان الفاظ میں کیا ہے: Tammarrud did not even know it was me, I am not ashamed of it. ’تمرد‘ کو معلوم بھی نہ تھا کہ یہ مَیں تھا۔ مجھے اس پر کوئی شرم نہیں ہے)۔ اس نے سب سے بڑے اخبار اور ٹی وی چینل کے ذریعے اس مہم کو چلایا۔

یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ مصر مشرق وسطیٰ میں سب سے زیادہ بیرونی امداد وصول کرنے والا ملک رہا ہے۔ ۳۰سال سے گرتی ہوئی معاشی حالت کو ایک سال سے کم عرصے میں عروج و ترقی کی طرف لے جانا ایک اچھی تمنّا تو ہوسکتا ہے لیکن عملاً ایک ناممکن ہدف ہی کہا جاسکتا ہے۔ جس میڈیا نے حسنی مبارک کو ۳۰سال کی مہلت دی کہ وہ معاشی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے جو اقدامات چاہتا ہو کرے، اسی میڈیا نے صدر مرسی کے سلسلے میں ۳۶۵ دن کی مہلت کو بھی ضرورت سے زیادہ مدت قرار دیا اور بار بار اس بات کو دہرایا کہ حکومت معاشی اصلاح میں ناکام ہوگئی ہے۔ کیا اسی کا نام عدل ہے۔ کیا یہی غیر جانب دارانہ صحافت ہے۔ کیا دنیا میں کسی عوامی منتخب حکومت کو چار پانچ سال کی مدت کے لیے منتخب کیا جائے، اور پھر ایک سال کے بعد یہ کہہ کر کہ وہ ناکام ہوگئی ہے دوبارہ فوج کو مسلط کردینا مسائل کا حل ہوسکتا ہے؟ یا یہ صرف فوج اور عدلیہ کی طرف سے ایک ردعمل ہے تاکہ وہ جس طرح ۳۰سال سے عوام پر حکومت کر رہی تھی اور فوائد حاصل کر رہی تھی، دوبارہ پرانے نظام کو لاکر اصلاح اور تبدیلی کی کوششوں کو قوت کے ذریعے کچل سکے۔

واضح رہے کہ مصر کی معاشی صورت حال کو بگاڑنے اور تیل اور گیس کا مصنوعی بحران پیدا کرنے میں مفادپرست عناصر کا ہاتھ تھا اور اس کا سب سے واضح ثبوت یہ ہے کہ فوجی مداخلت سے دوسرے دن ہی چشم زدن میں تیل،گیس اور بجلی بحال ہوگئی اور یہ بھی لطف کی بات ہے کہ صدرمرسی کی وزارت میں جو غیراخوانی وزیر، وزیرداخلہ اور وزارتِ پٹرولیم کے وزیر تھے، فوج کی بنائی ہوئی نئی وزارت میں وہی ان وزارتوں پر براجمان ہیں۔

پولیس اور فوج کا کردار

۳۰سالہ دورِ استبداد میںپولیس اور فوج نے جن مراعات کو حاصل کرلیا تھا اور جن اختیارات پر ان کو تسلط حاصل ہوگیا تھا وہ اب اس تبدیلی سے سخت برہم تھے۔ چنانچہ وزارتِ داخلہ میں وہ عناصر جو سابقہ دور میں بااختیار تھے پسپا نہیں ہوئے۔ نیویارک ٹائمز کے نمایندے David Kirkspatrick نے اپنے یکم جولائی کے مراسلے میں جن دو اُمور کا تذکرہ کیا وہ حالات کی سنگینی اور ان میں پولیس اورفوج کے کردار کو واضح کرنے کے لیے کافی ہیں۔ وہ کہتا ہے: mismanagement or sabotage of the institutions of the old government has stunned the transition to democracy یعنی سابقہ حکومت کے اداروں کی بدانتظامی اور سبوتاژ نے جمہوریت کی طرف تبدیلی کے عمل کو بالکل روک کر رکھ دیا۔ وہ آگے چل کر پولیس کے ایک اعلیٰ افسر کے الفاظ کو بیان کرتا ہے:

وہ لوگ جو جیلوں میں تھے آج صدر ہیں۔ اگر اتوار کو اخوان کے دفتر کی حفاظت کے لیے کوئی ایک افسر بھی گیا تو میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں کہ اسے گولی ماردی جائے گی۔ جنرل صلاح زیدان نے یقین دلایا: ہم سب نے متفقہ طور پر طے کیا ہے کہ اخوان المسلمون کے ہیڈکوارٹر کو کوئی سیکورٹی نہیں فراہم کی جائے گی۔

پولیس کے ذمہ داران اور فوجی جنرل کا یہ باغیانہ بیان اخوان کے مخالف سیکولر عناصر نے موبائل فون پر ایک دوسرے کو پہنچا کر مزید ہمت بڑھائی کہ اخوان کے خلاف وہ جو کارروائی کرنا چاہیں کریں۔ فوج اور پولیس کے کردار کونرم ترین الفاظ میں ایک جمہوری حکومت کے خلاف بغاوت ہی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔

کامیابی کا پیمانہ

ہم یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ دنیا میں کس جمہوریت میں ۳۶۵ دن کسی نومنتخب حکومت کی کامیابی یا ناکامی کے لیے پیمانہ قرار دیے جاسکتے ہیں؟ نہ صرف یہ بلکہ کہاں پر ایک نومنتخب صدر اور اس کی کابینہ کو حزبِ اختلاف کے مظاہرے اور صدر کی کسی پالیسی سے اختلاف کی بنا پر فوج کو یہ حق حاصل ہوسکتا ہے کہ وہ ایک منتخب صدر کو محبوس کرے اور نہ صرف اس کی کابینہ کو برطرف کردے بلکہ فوج کی طرف سے مقرر کیا ہوا ’عارضی‘ صدر ملک کے منتخب کردہ ایوانِ بالا کو بھی برطرف کردے؟ ظاہر ہے اس کا سبب صرف یہ ہے کہ حالیہ انتخابات کے بعد اخوان المسلمون ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے اور ایوانِ بالا میں اسے واضح اکثریت حاصل ہے۔ اخوان اور اسلامی قوتوں نے ایک نہیں پانچ بار عوامی راے سے انتخاب اور استصواب جیتے ہیں اور انھیں عوامی ووٹ کی قوت سے ہٹانا ناممکن تھا۔ اس لیے پہلے مبارک دور کی مقرر کردہ عدالت کے ذریعے منتخب ایوان کو برطرف کرنے کا اقدام کیا گیا اور پھر فوج نے بلاواسطہ مداخلت کر کے جمہوری بساط کو لپیٹ دیا۔

جمھوریت کا کردار

موجودہ حالات کے تناظر میں سب سے اہم اور کلیدی سوال یہ ہے کہ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ آیندہ کوئی فوجی سربراہ یا وزیرداخلہ یا وزیردفاع کسی جمہوری حکومت کو اپنی مرضی اور خوشی کے مطابق نہ پاتے ہوئے برطرف نہیں کرے گا؟ اگر ایک مرتبہ فوج کے اس استحقاق کو مان لیا گیا تو وہ سیاسی معاملات میں دخل اندازی کو اپنا پیدایشی حق سمجھے گی اور جب چاہے گی کسی بھی منتخب حکومت کو قوت کے ذریعے برطرف کر کے خود اقتدار پر قابض نہیں ہوجائے گی۔ اس سوال کا تعلق اس بات سے ہے کہ کیا فوج قانون سے بالاتر ایک ادارہ ہے؟ یا ملک کا دستور اور قانون دونوں فوج سے بلند شمار کیے جانے چاہیں اور فوج کو بھی دستور کی پابندی کرنی چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہرفوجی جب عہدے کا حلف اُٹھاتا ہے تو دستور کی پابندی کا عہد کرتا ہے۔ فوج دستور کی خلاف ورزی کرتی ہے تو اسے دستور کے تحت قانونی عمل کے ذریعے دستور کا پابند کرنا ہوگا۔ اگر صرف ایک فوجی سربراہ پر دستور کی خلاف ورزی کرنے کی بنا پر عوامی عدالت میں بغاوت کے الزام کے تحت مقدمہ قائم کیا جائے تو صرف ایک مرتبہ اس عمل کے بعد کسی فوجی کو دستور کو توڑنے اور خود آگے بڑھ کر حکومت پر قبضہ کرنے کی خواہش اور خیال بھی نہیں آئے گا۔

مصر میں ۳۰سالہ فوجی آمریت نے جو کلچر پیدا کیا اس میں نہ صرف فوج اور انتظامیہ نوکرشاہی ذہنیت اور بادشاہ نوازی کے طرزِعمل کی عادی بنی بلکہ فوج کے زیراثر عدلیہ میں بھی ایسے افراد کو مقرر کیا گیا جو ہاں میں ہاں ملانے کے لیے قانونی نکات تلاش کرنے میں ماہر ہوں۔ اس سہ طرفہ اخلاق باختہ نظام کے خلاف بغاوت اور تبدیلی کا عمل کسی بھی پیمانے سے ایک سال میں مکمل ہونا ناممکن تھا۔ ہاں جس بات کی ضرورت تھی وہ یہ کہ درجہ بدرجہ تبدیلی کے عمل کو اختیار کیا جائے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ صدر مرسی نے جو اندازے قائم کیے وہ اپنی مثبت فکر اور حسنِ ظن کی بنا پر تھے، جب کہ ایک سازشی اور نوکرشاہی ذہنیت رکھنے والی انتظامیہ اور اقتدار کا مزہ اُٹھانے والی فوج اور ان دونوں کے پشت پناہ اسلام دشمن غیرمسلم اور مسلم حکمران ان سب نے مل کر وہ طریقہ اختیار کیا جسے قرآن کریم نے شیطان کے مکر سے تعبیر کیا ہے۔ شیطان کا مکر بظاہر بہت متاثرکن، غلبہ رکھنے والی اور قوت سے بھرپور نظر آتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی تدبیر آخرکار کامیاب ہوتی ہے۔ اس بظاہر اَبرآلود فضا میں بھی ہمیں یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بجلی کا کڑکا آئے گا اور تاریکی روشنی میں تبدیل ہوگی کیونکہ آخرکار حق ہی کو غالب ہونا ہے۔

معلوم ہوتا ہے کہ جس وقت سے صدر مرسی نے حلف اُٹھایا اسی وقت سے مخالف قوتوں نے اپنی حکمت عملی وضع کرنے کے بعد اس پر عمل کا آغاز کردیا ۔دوسری جانب اخوان نے یہ قیاس کیا کہ فوج اور عدلیہ جمہوری طور پر منتخب افراد اور اداروں کا احترام کرتے ہوئے کوئی ایسی کارروائی نہیں کریں گے جو جمہوری روایات کے منافی ہو۔ چنانچہ ۳۰جون ۲۰۱۲ء کو صدارتی عہدہ سنبھالنے کے بعد صدرمرسی نے ۱۲؍اگست ۲۰۱۲ء کو حسنی مبارک کے زمانے کے فوجی سربراہ فیلڈ مارشل طنطاوی کو برطرف کردیا۔ صدرمرسی کا یہ اقدام ایسا ہی تھا جسے ایک بپھرے ہوئے سانپ کو زخمی کردیا جائے۔ تین ماہ بعد ۳۰نومبر کو صدر مرسی نے دستور میں اسلامی دفعات کے اضافے کے بعد ایوانِ بالا میں پیش کیا جس نے اسے منظور کرلیا۔ صورتِ حال کو قابو میں رکھنے کے لیے صدر مرسی نے ۲۲نومبرکو خصوصی اختیارات کا اعلان کیا تھا جسے حزبِ اختلاف نے ایک قومی مسئلہ بناکر ان کے خلاف مہم شروع کی تو صدرمرسی نے ۸دسمبر کو صدر کے وہ اختیارات ختم کردیے۔

۱۵تا ۲۰ دسمبر کو ملک گیر ریفرنڈم میں ۶۴ فی صد افراد نے دستوری ترامیم خصوصاً اسلامی دفعات کی دو رائونڈ کے بعد توثیق کردی۔ اس کے باوجود افواہوں کا بازار گرم کیا گیا اور ۵؍اپریل ۲۰۱۳ء کو قاہرہ کے شمال میں فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دی گئی۔ ۷مئی کو صدر نے اپنی کابینہ میں ردوبدل کیے لیکن عدالت عالیہ نے جون کی ۲تاریخ کو اسلامی اکثریت رکھنے والی سینیٹ کو معطل کرنے کا اعلان کر دیا۔ عموماً جب تک پارلیمنٹ کے انتخابات نہ ہوں، سینیٹ فعال رہتی ہے۔ یہ گویا عدالت عالیہ کی طرف سے صدر اور اخوان کے خلاف اعلانِ جنگ تھا۔ اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے ۲۳جون کو وزیردفاع جنرل عبدالفتاح السّیسی نے بیان دیا کہ اگر ملک میں ہنگامے ہوئے تو فوج کو مداخلت کرنا پڑے گی۔ ۲۸جون کو امریکی سفارت خانے نے اپنے غیرضروری عملے کو ملک چھوڑنے کی اجازت دے دی اور ۲۹جون کو صدر اوباما نے صدر مرسی کو مشورہ دیا کہ وہ تعمیری رویہ(constructive) اختیار کریں۔ گویا جو لوگ جمہوری طور پر منتخب صدر اور حکومت کے خلاف مظاہرے کر رہے تھے اور کھلی بغاوت (rebellion) یا تمرد میں مشغول تھے، ان کے ساتھ بھلائی کا رویہ اختیار کیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ تمرد کرنے والوں پر ایک خالی فائر بھی نہ کیا گیا جب کہ جہاں کہیں اخوان یا ان کے ہمدردوں نے پُرامن مظاہرہ کرنا چاہا ان کی روک ٹوک کے ساتھ ان پر گولیاں برسائی گئیں اور ۳۰جون کو سرکاری طور پر ۳۰۰، جب کہ غیرسرکاری طور پر کئی ہزار اخوان کو  قید میں ڈال دیا گیا۔

حالات کا یہ تسلسل ظاہر کرتا ہے کہ صدر مرسی کے حلف اُٹھانے کے ساتھ ہی ایک گھنائونی سازش تیار کرلی گئی تھی جس پر قدم بہ قدم عمل کیا گیا اور آخرکار برہنہ قوت کا استعمال کرتے ہوئے فوج نے مداخلت کر کے جمہوری عمل کو منجمد کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ صدر مرسی کے چند اقدامات بظاہر جلدی میں کیے گئے فیصلے نظر آتے ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انھیں کسی نہ کسی مقام سے تبدیلی کے عمل کا آغاز کرنا تھا۔ حسنی مبارک کی میراث ۲ء۱۳ فی صد بے روزگاری جس میں ۱۵ تا ۲۹سال کے افراد کا تناسب ۷۷فی صد تھا، کسی طلسماتی عمل سے ہی ایک سال میں اس مسئلے کا حل کیا جاسکتا تھا۔ امریکا اپنی ۱۲فی صد بے روزگاری کو صدر اوباماکے دو مرتبہ صدر منتخب ہونے کے باوجود حل نہ کرسکا تو صدرمرسی ایک سال میں اسے کیسے حل کرسکتے تھے۔ لیکن جھوٹ، افواہوں اور ابلاغِ عامہ و اخبارات میں باربار یہ بات دہرائی گئی کہ حکومت اپنے اہداف کے حصول میں ناکام ہوگئی ہے۔ اخوان المسلمون حکومت کرنے کا تجربہ نہیں رکھتے اور نہ حکومت کرنا جانتے ہیں، یا یہ کہ صدر مرسی اور حسنی مبارک میں کوئی فرق نہیں ہے وغیرہ۔ ۳۰جون کو تحریر چوک میں چند ہزار افراد کے دھرنے اور مظاہروں کو  حسین کمال نے، جو حسنی مبارک کے خفیہ ادارے کے سربراہ کے دست ِ راست تھے اور گذشتہ کئی ماہ سے مسلسل بیانات داغ رہے ہیں، اس مظاہرے کے بارے میں فرمایا کہ ہم اسے عوام کا ریفرنڈم سمجھتے ہیں۔ عجیب بات ہے، تحریر چوک میں جو افراد جمع ہوئے، خواہ ان کی تعداد کتنی ہی ہو، وہ پورے ملک کے نمایندہ کیسے ہوگئے؟ پھر جو لوگ وہاں جمع ہوئے، وہ کھلے طور پر ان پارٹیوں سے تعلق رکھتے تھے جو صدر کی مخالف ہیں۔ اس لیے ان کا نعرہ لگانا ایک بے معنی بات ہے۔ نیز ان کو فوج کی کھلی سرپرستی حاصل تھی جس نے کئی بار fly past کر کے، اور جھنڈے جہازوں سے چھوڑ کر ان کے ساتھ اپنی شرکت کا اظہار کیا جسے ٹی وی پر دکھایا گیا اور خود فوجی ہیلی کوپٹرز نے فلم بناکر میڈیا کو دی۔

اس پس منظر میں اگر غور کیا جائے تو ایک جانب نوجوان نسل ہی نہیں بلکہ وہ افراد بھی جن کے بال سفید ہونے لگے ہوں، یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ آخر جمہوریت میں رکھا ہی کیا ہے کہ ہم صبح و شام اس کی تسبیح پڑھتے ہیں جب کہ مغرب ہو یا مشرق، فوجی اور غیرفوجی آمر انھیں جب بھی موقع مل جائے وہ جمہوریت کے عمل کو قوت کے استعمال کے ذریعے برسوں پیچھے پھینک دیتے ہیں۔ کیوں نہ خونیں انقلاب کے ذریعے حکومت پر قبضہ کر کے اسلامی نظام کو نافذ کردیا جائے۔

یہی وہ نفسیاتی کیفیت ہے جس کا ذکر قرآنِ کریم میں آتا ہے کہ متٰی انصراللّٰہ ’’اللہ کی وہ مدد کب آئے گی‘‘ جس کے انتظار میں بلالؓ مکہ کی گلیوں میں تپتی ریت پر گھسیٹے جارہے ہیں اورخبابؓ کو دہکتی آگ پر لٹا کر اسلام سے پھرنے کے لیے کہا جا رہا ہے اور وہ اپنے رب کی بندگی سے ایسے خوش ہیں کہ آگ ان کے خون اور پسینے سے ٹھنڈی ہوجاتی ہے مگر وہ جادۂ حق سے سرمُو ہلنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ وہ مدد کب آئے گی؟ یہ سوال بالکل فطری ہے لیکن اس کا جواب اپنی محدود عقل اور محدود تجربے کی روشنی میں نہیں، حکمت نبویؐ اور صبرواستقامت ِ صحابہؓ کی روشنی میں تلاش کرنا ہوگا۔

ہم ایک لمحے کے لیے مان لیتے ہیں کہ نوجوانوں کی ایک جماعت فوج میں بعض افراد کو ساتھ ملا کر ایک مبارک رات میں قصرِصدارت، ٹی وی اسٹیشن اور پارلیمنٹ پر اپنا جھنڈا لگاکر اعلان کردیتی ہے کہ اسلامی خلافت قائم کردی گئی ہے۔ صبح فجربعد سے شریعت کا نفاذ عمل میں آجائے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس اعلان کے بعد وہ انتظامیہ جو ۶۰ سال سے اللہ کے باغی نظام کو چلارہی تھی، وہ فوج جو بیرونی امداد کے سہارے نہ صرف فوائد بلکہ حاکمانہ اختیارات پر قابو کیے ہوئے تھی، وہ پارلیمنٹ جس کی اکثریت غاصب اور ظالم افراد پر مبنی تھی، کیا وہ سب ایک مبارک رات میں تبدیل ہوکر اسلام کے متوالے نوجوانوں کے اعلان پر اپنا ’مذہب‘ تبدیل کر کے ان کے حواری بن جائیں گے۔ کیا انبیاے کرام ؑ کی دعوت پر طاغوت کی پرستش کرنے والے افراد نے ایسا ہی جواب دیا تھا؟ کیا مکہ اور مدینہ منورہ میں ایک رات میں معجزاتی تبدیلی کے بعد سارا معاشرہ اللہ کا تابع دار معاشرہ بن گیا تھایا مکہ میں تیرہ سال شب و روز کی مشقت اور تزکیے کے عمل سے گزرنے کے بعد حبشہ تک ہجرت کرنے اور جان، مال، گھر، ہرہرشے کی قربانی کرنے کے بعد کامیابی کا راستہ مکہ سے حبشہ ہوتا ہوا مدینہ منورہ پہنچا اور ان تمام قربانیوں اور صبرآزما مراحل کے باوجود منافقین کی سازشوں سے محفوظ نہ رہ سکا۔ اسلام کی کامیابی کا عمل ایک صبرآزما عمل ہے۔اس کی منزل محض پارلیمنٹ اور ایوانِ اقتدار نہیں ہے بلکہ وہ ابدی کامیابی ہے جس کے مقابلے میں محض دنیاوی کامیابی اور پارلیمنٹ میں ۹۰ فی صد نشستیں حاصل کرلینا یا صدارت اور وزارت کے عہدے پر بیٹھ جانا ایک قابلِ تعریف کام نہیں ہے۔ اصل کامیابی وہی ہے، اصل منزل وہی ہے ۔ یہ صرف اللہ تعالیٰ کا فضل اور خصوصی کرم ہے کہ وہ اس جدوجہد میں اپنے بندوں کو اس زمین میں خلافت کا منصب بخش دے۔ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو اس کی عنایت ہے اگر وہ اسے مؤخر کرتا ہے تو بھی اس کی حکمت سے وہی آگاہ ہے۔ اگر وہ تمام تر کوششوں کے باوجود اس دنیا میں کامیابی نہیں دیتا تو اس کا وعدہ کہ وہ صابرین، مجاہدین اور صادقین کو آخرت میں بلند مقامات دے گا، یہ اتنا قیمتی وعدہ ہے اس کے لیے اس دنیا میں پیدایش سے موت تک قربانیاں کرنا ایک سستا سودا ہے۔

اصل بات جو غور طلب ہے وہ یہ کہ جمہوری عمل کا اسلامی جواز کیا ہے؟ سادہ الفاظ میں اسلام بھلائی، اچھائی اور نیکی کی طرف دعوت کا نام ہے۔ یہ تمام نظاموں کو ایک طرف رکھ کر، اللہ تعالیٰ کے دین کو انسانی معاشرے میں نافذ کرنے کا نام ہے۔ اس میں حکومت، اور حکومتی ادارے ایک اہم مقام رکھتے ہیں جن کا صحیح استعمال اسلام کا مدعا ہے۔ ان اداروں کی اصلاح بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی افرادِکار کی۔ جمہوری عمل سے مغربی لادینی جمہوریت مراد لینا سادہ لوحی ہے۔ اسلامی تحریک نے کسی بھی مرحلے میں مغربی لادینی جمہوریت کو نہ تسلیم کیا اور نہ اس کی حمایت کی۔ اس کی جگہ تحریکاتِ اسلامی نے مروجہ جمہوری نظام کو پہلے مرحلے میں دستوری تبدیلی کے ذریعے اسلامی نظام کی راہ میں ایک زینہ کی حیثیت دی اور اسے بااِکراہ اس حد تک بطورِ حکمت عملی کے اختیار کیا جس سے اس کا اصل ہدف یعنی نظامِ اسلامی کا قیام عمل میں آسکے۔

حالت ِ جنگ میں اگر حکمت عملی کا مطالبہ ہو کہ وقتی طور پر پیچھے ہٹ کر دشمن کو اپنی زمین پر قبضہ کرنے دیا جائے تو اس کا یہ مطلب نہیں لیا جاسکتا کہ اسلامیان پشت پھیر کر اپنی دعوت سے پھر گئے۔ تحریکاتِ اسلامی نے تبدیلیِ قیادت کے لیے حکمت عملی کے طور پر بعض ممالک میں دستور میں تبدیلی کے ذریعے، مثلاً پاکستان میں اور ابھی حال میں مصر، اور بعض مقامات پر بغیر دستور میں تبدیلی لائے پہلے مرحلے میں ایوانِ حکومت میں اپنے قدم مضبوط کرنے کی کوشش کی اور پھر ان اداروں میں تبدیلی لانے کی کوشش کی جو لادینیت پر مبنی تھے مثلاً ترکی میں دستوری ترمیمات کے ذریعے فوج کے عمل دخل کو ختم کرنا، گو آج بھی ترکی اپنے آپ کو سیکولر ریاست کہتا ہے۔ اس طویل حکمت عملی میں جب تک ہدف اور منزل واضح ہو اور اس کے لیے اخلاقی ذرائع استعمال کیے جارہے ہوں کم تر بُرائی کا گوارا کرنا تاکہ مناسب وقت پر بُرائی کو مکمل طور پر ختم کردیا جائے، دین کی حکمت کا لازمی حصہ ہے۔

فقہ اسلامی میں سیاسۃ شرعیہ، مصالحِ عامہ اور قواعد فقیہہ کی روشنی میں غور کیا جائے تو بغیر کسی مداہنت اور مفاہمت کے دین نے شریعت کے نفاذ کے لیے عملی راستے تجویز کیے ہیں۔ یہ ہماری اپنی ناسمجھی ہے کہ ہم اپنے اصل ہدف کو بھول جائیں اور جزوی بحثوں میں اُلجھ کر اپنا وقت ضائع کریں۔ جیساکہ پہلے عرض کیا گیا حصولِ مقصد کے لیے اصل طریقہ اور مثال انبیاے کرام ؑ کا دعوتی اسلوب ہے، دین کے لیے مسلسل جدوجہد ہے، حق کی دعوت کو بہترین طریقے سے پہچانا ہے ، دین میں کسی مداہنت کے بغیر اپنے اصولوں پر قائم رہنا ہے۔ اگر دینی مصالحت کا تقاضا ہو کہ قوت کے استعمال کو مؤخر کیا جائے تو یہ نہ بے ہمتی ہے نہ بزدلی بلکہ یہ عین دین کا تقاضا ہے۔ قرآنِ کریم نے صبر کی اصطلاح کو جس مفہوم میں استعمال کیا ہے اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ صبر کی ایک شکل وہ ہے جو حضرت ایوبؑ کو پیش آئی یعنی جسمانی تکلیف کو اللہ پر اعتماد کے ساتھ بخوشی برداشت کرنا ، یہی شکل حضرت یعقوب ؑ کو پیش آتی ہے لیکن صبر کی ایک شکل وہ ہے جو قرآن کریم سورئہ انفال میں سمجھاتا ہے کہ اگر باطل اور طاغوت کے ساتھ مقابلہ ہو اور صرف ۲۰؍افراد صابر یا مجاہد ہوں تو وہ ۲۰۰پر غالب آئیں گے یعنی تعداد کی کثریت اصل مسئلہ نہیں ہے جب تک ایمان مستحکم ہے، اہلِ ایمان کی چھوٹی جماعت بھی باطل کی بڑی تعداد پر غالب آئے گی۔ حضرت موسٰی ؑکی اُمت میں طالوت اور جالوت کی معرکہ آرائی قرآنی آیات کی عملی تفسیر پیش کرتی ہے۔

جمھوری جدوجھد کا مقصد

جمہوری جدوجہد سے دراصل جو چیز مراد لی جاتی ہے وہ اس دور کی زبان کو استعمال کرتے ہوئے ’عوامی رابطہ براے دعوت و اصلاح‘ہے۔ یہی وہ جادئہ حق ہے جسے انبیاے کرام نے اپنے اپنے دور میں اختیار فرمایا اور گھر گھر جاکر شب و روز اللہ کے بندوں تک اللہ کا پیغام پہنچانے میں مصروف رہے حتیٰ کہ بعض نے سیکڑوں سال یہ اعلیٰ فریضہ ادا کیا اور اس کے باوجود مطلوبہ نظام قائم نہ کرسکے جب کہ بعض نے مثلاً حضرت یوسف ؑ نے دینی حکمت عملی پر گامزن رہتے ہوئے باطل نظام کو صالح اور عادل نظام سے بتدریج تبدیل کیا، چاہے اس راستے میں انھیں قیدوبند کے مراحل سے گزرنا پڑا ہو۔

دعوتی طریقہ افراد تک پہنچ کر انھیں ایک رشتۂ اخوت میں وابستہ کرنے کے بعد ان کی اخلاقی اور دینی تربیت کے ذریعے انھیں ایک اخلاقی قوت میں تبدیل کرنے کا مرحلہ ہے۔ یہ قوت اگر تعداد میں زیادہ ہو تو کامیابی کا امکان بھی زیادہ ہوگا۔ لیکن اگر یہ قوت تعداد میں زیادہ نہ ہو جب بھی داعی ناکام نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ اس کی خصوصی امداد کرتا ہے لیکن شرط صرف ایک ہے یعنی صبرواستقامت، مسلسل عمل، اَن تھک کوشش، ہرہروسیلے اور ذریعے کا استعمال، حتیٰ کہ اللہ کی نصرت آن پہنچے اور وہ کم تعداد والے صابرین، صادقین اور مجاہدین کو ان کے خلوصِ نیت کی بنا پر بڑی تعداد والے منکر اور گھمنڈ کرنے والے افراد پر غلبہ دے دے۔

جمہوری عمل سے تبدیلی لازماً صبرآزما عمل ہے اور اسی بنا پر ہرلمحہ انسان سوچتا ہے کہ برسہا برس سے جدوجہد کر رہے ہیں، آخر تبدیلی کب آئے گی؟ لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اصل قابلِ قدر کام وہ سعی اور کوشش ہے جو صرف اسی کے لیے کی جارہی ہو۔ نتائج اگر مطلوبہ اندازے کے مطابق ہوں تو یہ صرف اس کی عنایت ہے۔ ہمارے زورِبازو کی بنا پر نہیں ہیں اور اگر اس میں تاخیر ہوجائے چاہے وہ تاخیر برسوں کی ہی کیوں نہ ہو، تو یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کیونکہ صرف وہ ہے جو کسی عمل کی بھلائی اور بُرائی سے آگاہ ہے۔ وہی جانتا ہے کہ ایک کام کی تاخیر سے وہ اپنے بندے کے لیے کس طرح کی خیر اسے دینا چاہتا ہے۔

اس زاویے سے اگر مصر کا جائزہ لیا جائے تو حالیہ آزمایش جہاں ہر صاحب ِ شعور کے لیے تکلیف و اذیت کا باعث ہے اور واضح طور پر مغربی دوعملی جمہوریت کی ڈفلی بجانے کے ساتھ فوجی آمریت کی حمایت اور اسلام دشمنی کی کھلی دلیل ہے، وہاں وہ لوگ بھی جنھوں نے انتخابات میں صدر مرسی کو ووٹ نہیں دیا فوج کے اس شب خون کی کھل کر مخالفت کر رہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ صدر مرسی نے بعض فیصلے غلط کیے ہوں لیکن کیا کوئی غلط فیصلہ کرنا ایسا جرم ہے کہ اسے ایک جمہوری حق سے محروم کردیا جائے؟ کیا آج تک امریکی صدر کا ہرفیصلہ درست تھا اور اگر اس نے ۱۰۰ فیصلے غلط کیے تو کیا اس بنا پر امریکی عوام ایک سال کا موقع دینے کے بعد اسے منصب سے ہٹاسکتے ہیں ؟ کیا اسی کا نام مغربی جمہوریت ہے؟ گویا اس شر میں بھی اللہ تعالیٰ نے ایک خیر کا پہلو یہ پیدا کردیا کہ اخوان کے وہ مخالفین بھی جنھوں نے انھیں ووٹ نہیں دیا تھا وہ بھی اس جابرانہ عمل کو غلط قرار دے رہے ہیں۔ دوسری جانب اخوان کے رہنماے اعلیٰ نے صاف طور پر اعلان کیا ہے کہ ہم قوت کا استعمال نہیں کریں گے جب کہ ایک دن میں قاہرہ یونی ورسٹی میں ۱۷نوجوان اخوان کی حمایت کرنے والے شہید کردیے گئے۔ ایک دن میں پُرامن مظاہرہ کرنے والے عوام پر فوجی یلغار رہی، ۵۳ افراد شہیدہوگئے۔ اخوان کے مرکز اور ملک بھر میں اس کے متعدد دفاتر کو نذرِآتش کردیا گیا ہے اور اخوان کی تحریکِ مزاحمت میں سو سے زیادہ افراد بشمول چار خواتین شہید ہوچکے۔ اس سب کے باوجود اخوان کی پوری تحریک دستوری (legitimacy) اور جمہوریت کی بحالی کے لیے ہے اور پُرامن ہے۔ فوج اور پولیس کا نشانہ اخوان کی تحریک ہے، جب کہ تحریر چوک پر مظاہرہ کرنے والے صدر مرسی کے مخالفین پر نہ پولیس نے نہ فوج نے ایک ہوائی فائر تک نہیں کیا ہے بلکہ تازہ اطلاعات کی روشنی میں فوج اور پولیس کے علاوہ بھی غنڈوں کی ایک بڑی تعداد ہے جو اخوان کی مزاحمتی تحریک پر حملہ آور ہورہی ہے۔

اگر مصری عوام صرف دو آنکھیں رکھتے ہوں تو وہ خود دیکھ سکتے ہیں کہ فوج اور انتظامیہ خصوصاً وزارتِ داخلہ کس طرح دو معیارات کا استعمال کر رہی ہے کہ اخوان کے مظاہروں پر آنسوگیس اور گولی، جب کہ اخوان کے خلاف مظاہروں پر رحمت و تحفظ۔ وزارتِ داخلہ، پٹرولم کی وزارت اور فوج کی قیادت اور اعلیٰ عدلیہ کا کردار جمہوریت کش اور اخوان اور ان کے اتحادیوں کی حکومت کو ناکام بنانا تھا۔ بدقسمتی سے خود صدرمرسی کی وزارت میں ایسے لوگ موجود تھے جو حکومت میں ہوتے ہوئے حکومت کو ناکام کرنے میں مصروف تھے۔ صدرمرسی کی accomdate کرنے کی پالیسی اس خطرناک انتہا تک گئی کہ دشمنوں کو بھی وزارت میں جگہ دی لیکن اس سے بھی ان پر الزام یہ ہے کہ انھوں نے دوسروں کو ساتھ نہیں لیا۔

اخوان المسلمون جانوں کی قربانی دینے کے باوجود پُرامن ہیں لیکن سی این این ، سکائی نیوز اور دیگر مغربی ذرائع ابلاغ انھیں جنگجو ( millitant) کہہ کر مخاطب کر رہے ہیں ، جب کہ جمہوریت کے باغی سیکولر اور غیرمحب وطن افراد کو عوامی مہم کہا جارہا ہے۔ یہ ابلاغی تعصب کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے، لیکن مغربی اور مصری ابلاغِ عامہ کا بار بار ایک بات کو دہراتے رہنا اخوان المسلمون کے بارے میں صرف ایک ہی تاثر کو گہرا کرتا ہے کہ وہ حکومت چلانے کے قابل افراد نہیں ہیں، جذباتی اور شدت پسند ہیں، جب کہ حقیقت حال اس سے بالکل مختلف ہے۔ اخوان تشدد کا نشانہ ہیں اور ملک میں جمہوری عمل سے اصلاح لانے کے عمل سے قوت کے ذریعے روک دیے گئے ہیں۔

حالات جس رُخ پر جارہے ہیں ان میں اس بات کا امکان ہے کہ ملک گیر بدامنی پیدا ہونے دی جائے تاکہ دوبارہ اخوان پر پابندی لگائی جاسکے اور وسیع پیمانے پر انھیں زیرحراست لاکر حزبِ اختلاف کو بے بس کیا جاسکے۔ مسلم ممالک میں کویت، یواے ای اور سعودی عرب میں فوجی انقلاب لانے والے ٹولے کو فوری طور پر مجموعی امداد کی ۱۲ملین ڈالر رقم کا اعلان کیا ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بعض مسلم ممالک اسلامی قوتوں سے کتنے خائف ہیں۔

تحریکاتِ اسلامی کے لیے اس میں اہم سبق یہ ہے کہ ۶۰ فی صد کامیابی کے باوجود تبدیلی کے عمل کو صبروحکمت کے ساتھ کرنا ہوگا تاکہ تبدیلی پایدار ہو، ترجیحات کا تعین کرنا ہوگا اور بعض ایسے پہلوئوں کو جو عوامی نفسیات کی روشنی میں بڑے اہم اور بنیادی نظر آتے ہوں اپنی مہم میں اہم مقام دینا ہوگا تاکہ کلمہ طیبہ کا یہ پودا مضبوط تنے اور شاخوں کے ساتھ ایک مرتبہ مستحکم ہوجائے اور اس کا سایہ ہر مظلوم و محکوم کو اپنی آغوش میں لے کر یہ بات باور کرادے کہ صبرواستقامت کے بعد جب اسلامی نظامِ عدل قائم ہوتا ہے تو وہ ہر انسان کے لیے برکت کا باعث ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نظام میں عدل ہے انسانوں کی جان، مال، عزت کا تحفظ ہے اور رنگ، نسل اور زبان کی قید سے آزاد معاشرہ کی تعمیر ہے۔

(ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن)

 

میں آپ کو اور اپنے تمام مسلمان بھائیوں کو عید کی مبارک باد دیتا ہوں!

عید کی مبارک باد کے حقیقی مستحق وہ لوگ ہیں جنھوں نے رمضان المبارک میں روزے رکھے۔ قرآنِ مجید کی ہدایت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانے کی فکر کی، اِس کو پڑھا، سمجھا، اُس سے رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کی اور تقویٰ کی اُس تربیت کا فائدہ اُٹھایا جو رمضان المبارک ایک مومن کو دیتا ہے۔

قرآنِ مجید میں رمضان کے روزوں کی دو ہی مصلحتیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ ان سے مسلمانوں میں تقویٰ پیدا ہو:

کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ (البقرہ۲:۱۸۳) ، تم پر روزے فرض کیے گئے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم میں تقویٰ پیدا ہو۔

دوسری یہ کہ مسلمان اُس نعمت کا شکر ادا کریں جو اللہ تعالیٰ نے رمضان میں قرآنِ مجید نازل کر کے ان کو عطا کی ہے:

لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ وَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ (البقرہ۲:۱۸۵) ، تاکہ تم اللہ کی تکبیر کرو اور اس کا شکر ادا کرو، اُس ہدایت پر جو اُس نے تمھیں دی ہے۔

دنیا میں اللہ جل شانہ ٗ کی سب سے بڑی نعمت نوعِ انسانی پر اگرکوئی ہے تو وہ قرآنِ مجید کو نازل کرنا ہے۔ تمام نعمتوں سے بڑھ کر یہ نعمت ہے ، اس لیے کہ رزق اور اس کے جتنے ذرائع ہیں، مثلاً یہ ہوا اور یہ پانی اور یہ غلے اور اسی طرح معیشت کے جو ذرائع ہیں جن سے انسان اپنے لیے روزی کماتا ہے، مکان بناتا ہے، کپڑے فراہم کرتا ہے۔ یہ ساری چیزیں بھی اگرچہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہی ہیں، لیکن یہ فضل و احسان اور اللہ تعالیٰ کی یہ نعمتیں محض انسان کے جسم کے لیے ہیں۔ قرآنِ مجید وہ نعمت ہے جو انسان کی روح کے لیے، اُس کے اخلاق کے لیے اور درحقیقت اُس کی اصل انسانیت کے لیے نعمت عظمیٰ ہے۔ ایک مسلمان اللہ تعالیٰ کا شکر اسی صورت میں صحیح طور پر بجالاسکتا ہے، جب کہ وہ اِس کے دیے ہوئے رزق پر بھی شکر اداکرے اور اُس کی دی ہوئی اِس  نعمت ہدایت کے لیے شکر ادا کرے جو قرآن کی شکل میں اُس کو دی گئی ہے۔ اس کا شکر ادا کرنے کی یہ صورت نہیں ہے کہ آپ بس زبان سے شکر ادا کریں اور کہیں کہ اللہ تیرا شکر کہ تو نے قرآن ہمیں دیا، بلکہ اس کے شکر کی صحیح صورت یہ ہے کہ آپ قرآن کو سرچشمۂ ہدایت سمجھیں، دل سے اس کو رہنمائی کا اصل مرجع مانیں اور عملاً اس کی رہنمائی کا فائدہ اُٹھائیں۔

قرآنِ مجید آپ کو اپنی ذاتی زندگی کے متعلق ہدایت کرتا ہے کہ آپ کس طرح سے ایک پاکیزہ زندگی بسر کریں۔ وہ آپ کو ان چیزوں سے منع کرتا ہے جو آپ کی شخصیت کے نشوونما کے لیے نقصان دہ ہیں۔ وہ آپ کو وہ چیزیں بتاتا ہے جن پر آپ عمل کریں تو آپ کی شخصیت صحیح طور پر نشوونما پائے گی اور آپ ایک اچھے انسان بن سکیں گے۔ وہ آپ کی اجتماعی زندگی کے متعلق بھی مفصل ہدایات آپ کو دیتا ہے۔ آپ کی معاشرتی زندگی کیسی ہو؟ آپ کے گھر کی زندگی کیسی ہو؟ آپ کے تمدن اور آپ کی تہذیب کا نقشہ کیا ہو؟ آپ کی ریاست کن طریقوں پر چلے؟ آپ کا قانون کیا ہو؟ آپ کی معاشرتی زندگی کا نظام کیسا ہو؟ کن طریقوں سے آپ اپنی روزی حاصل کریں؟ کن راہوں میں آپ اپنی کمائی ہوئی دولت کو خرچ کریں اور کن راہوں میں نہ کریں؟ آپ کا تعلق  اپنے خدا کے ساتھ کیسا ہو؟ آپ کا تعلق خود اپنے نفس کے ساتھ کیا ہو؟ آپ کا تعلق خدا کے بندوں کے ساتھ کیسا ہو؟ اپنی بیوی کے ساتھ، اپنی اولاد کے ساتھ، اپنے والدین کے ساتھ، اپنے رشتہ داروں کے ساتھ، اپنے معاشرے کے افراد کے ساتھ اور دنیا کے تمام انسانوں کے ساتھ، حتیٰ کہ جمادات اور حیوانات کے ساتھ اور خدا کی دی ہوئی تمام مختلف نعمتوں کے ساتھ آپ کا برتائو کیسا ہونا چاہیے؟ زندگی کے ان سارے معاملات کے لیے قرآنِ مجید آپ کو واضح ہدایات دیتا ہے۔ ایک مسلمان کا کام یہ ہے کہ اُس کو اصل سرچشمۂ ہدایت مانے، رہنمائی کے لیے اُسی کی طرف رجوع کرے اور اُن احکامات و ہدایات اور اُن اصولوں کو صحیح تسلیم کرے جو وہ دے رہا ہے اور اُن کے خلاف جو چیز بھی ہو، اُس کو رد کردے خواہ وہ کہیں سے آرہی ہو۔ اگر کسی شخص نے اِس رمضان المبارک کے زمانے میں قرآن کو اِس نظر سے دیکھا اور سمجھا ہے اور کوشش کی ہے کہ اُس کی تعلیم و ہدایت کو زیادہ سے زیادہ اپنی سیرت و کردار میں جذب کرے، تو اِس نے واقعی اِس نعمت پر اللہ کا صحیح شکر ادا کیا ہے۔ وہ حقیقت میں اس پر مبارک باد کا مستحق ہے کہ رمضان المبارک کا ایک حق جو اُس پر تھا، اسے اُس نے ٹھیک ٹھیک ادا کردیا۔

رمضان المبارک کے روزوں کا دوسرا مقصد جس کے لیے وہ آپ پر فرض کیے گئے ہیں، یہ ہے کہ آپ کے اندر تقویٰ پیدا ہو۔ آپ اگر روزے کی حقیقت پر غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ تقویٰ پیدا کرنے کے لیے اس سے زیادہ کارگر ذریعہ اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ تقویٰ کیا چیز ہے؟ تقویٰ یہ ہے کہ آدمی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچے اور اُس کی فرماں برداری اختیار کرے۔ روزہ مسلسل ایک مہینے تک آپ کو اِسی چیز کی مشق کراتا ہے۔ جو چیزیں آپ کی زندگی میں عام طور پر حلال ہیں وہ بھی اللہ کے حکم سے روزے میں حرام ہوجاتی ہیں اور اس وقت تک حرام رہتی ہیں جب تک اللہ ہی کے حکم سے وہ حلال نہ ہوجائیں۔ پانی جیسی چیز جو ہرحال میں حلال و طیب ہے، روزے میں جب اللہ حکم دیتا ہے کہ یہ اب تمھارے لیے حرام ہے تو آپ اس کا ایک قطرہ تک حلق سے نہیں اُتار سکتے، خواہ پیاس سے آپ کا حلق چٹخنے ہی کیوں نہ لگے۔ البتہ جب اللہ پینے کی اجازت دے دیتا ہے اُس وقت آپ اُس کی طرف اِس طرح لپکتے ہیں گویا کسی نے آپ کو باندھ رکھا تھا اور آپ ابھی کھولے گئے ہیں۔ ایک مہینے تک روزانہ یہ باندھنے اور کھولنے کا عمل اسی لیے کیا جاتا ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی پوری پوری بندگی و اطاعت کے لیے تیار ہوجائیں۔ جس جس چیز سے وہ آپ کو روکتا ہے اُس سے رُکنے کی، اور جس جس چیز کا وہ آپ کو حکم دیتا ہے اس کو بجالانے کی آپ کو عادت ہوجائے۔ آپ اپنے نفس پر اتنا قابو پالیں کہ وہ اپنے بے جا مطالبات اللہ کے قانون کے خلاف آپ سے نہ منوا سکے۔ یہ غرض ہے جس کے لیے روزے آپ پر فرض کیے گئے ہیں۔

اگر کسی شخص نے رمضان کے زمانے میں روزے کی اس کیفیت کو اپنے اندر جذب کیا ہے تو وہ حقیقت میں مبارک باد کا مستحق ہے، اور اس سے زیادہ مبارک باد کا مستحق وہ شخص ہے جو مہینے بھر کی اس تربیت کے بعد عید کی پہلی ساعت ہی میں اسے اپنے اندر سے اُگل کر پھینک نہ دے بلکہ باقی ۱ ۱ مہینے اس کے اثرات سے فائدہ اُٹھاتا رہے۔

آپ غور کیجیے! اگر ایک شخص اچھی سے اچھی غذا کھائے جو انسان کے لیے نہایت    قوت بخش ہو، مگر کھانے سے فارغ ہوتے ہی حلق میں انگلی ڈال کر اس کو فوراً اُگل دے تو اس غذا کا کوئی فائدہ اُسے حاصل نہ ہوگا، کیونکہ اُس نے ہضم ہونے اور خون بنانے کا اسے کوئی موقع ہی نہ دیا۔ اس کے برعکس اگر ایک شخص غذا کھا کر اُسے ہضم کرے اور اُس سے خون بن کر اُس کے جسم میں دوڑے، تو یہ کھانے کا اصل فائدہ ہے جو اُس نے حاصل کیا۔ کم درجے کی مقوی غذا کھاکر اُسے جزوِبدن بنانا اس سے بہتر ہے کہ بہترین غذا کھانے کے بعد استفراغ [قے]کردیا جائے۔ ایسا ہی معاملہ رمضان کے روزوں کا بھی ہے۔ ان کا حقیقی فائدہ آپ اسی طرح اُٹھا سکتے ہیں کہ ایک مہینے تک جو اخلاقی تربیت اِن روزوں نے آپ کو دی ہے ، عید کے بعد آپ اس کو نکال کر اپنے اندر سے پھینک نہ دیں، بلکہ باقی ۱۱ مہینے اس کے اثرات کو اپنی زندگی میں کام کرنے کا موقع دیں۔ یہ فائدہ اگر کسی شخص نے اِس رمضان سے حاصل کرلیا تو وہ واقعی پوری پوری مبارک باد کا مستحق ہے کہ اُس نے اللہ کی ایک بہت بڑی نعمت پالی۔(تفہیمات، چہارم، ص ۱۶۶-۱۷۰)

 

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بہت سے روزے دار ایسے ہیں جنھیں روزے سے سواے پیاسا رہنے کے کچھ نہیں ملتا اور بہت سے قیام کرنے والے    وہ ہیں جنھیں اپنے قیام سے سواے بیدار رہنے کے کچھ نہیں ملتا۔ (دارمی)

رمضان المبارک اور اس کے روزوں اور اس میں قیام کا مقصد تقویٰ ہے۔ روزہ تو ایک ذریعہ ہے، مقصد تو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچنا، فرائض ادا کرنا اور منکرات سے پرہیز کرنا ہے۔ روزے دار صحیح معنی میں اسی وقت روزے دار شمار ہوتا ہے جب رمضان المبارک کے مہینے میں بھی متقی ہو اور بعد میں بھی متقی رہے۔ کچھ لوگ تو ایسے ہیں کہ رمضان المبارک کے مہینے میں روزے نہیں رکھتے اور نمازیں بھی نہیں پڑھتے۔ ایسے وہ لوگ تو رمضان المبارک کی رحمتوں سے مکمل طور پر محروم رہتے ہیں۔ کچھ وہ ہیں جو صرف رسمی روزہ رکھتے اور رسمی نمازیں پڑھتے ہیں، مقصد کو پیش نظر نہیں رکھتے اور دوسرے حرام کام بھی بلادھڑک کرتے ہیں۔ فرائض کی بھی قطعاً پرواہ نہیں کرتے۔ ایسے لوگ بھی روزہ رکھنے کے باوجود روزے کے فوائد سے محروم رہتے ہیں۔ ان کا روزہ سواے بھوک اور پیاس کے کچھ نہیں اور راتوں کو ان کی تراویح اور نفلی نمازیں بھی بے کار اور بے اثر ہیں۔ رمضان کے روزے تقاضا کرتے ہیں کہ آدمی رمضان المبارک اور رمضان المبارک کے بعد اسلام کے تمام احکام پر عمل کرے، زندگی کو کھیل کود نہ سمجھے بلکہ آخرت کے لیے کمائی کا ذریعہ سمجھے اور آخرت کی کمائی میں دن رات مصروفِ عمل رہے اور سستی کو قریب نہ آنے دے۔ اپنی کمر کو شیطان سے مقابلے کے لیے کَس لے۔ رمضان المبارک اپنی رحمتیں نچھاور کرتا ہوا آیا اور رخصت ہوگیا۔ نفل کا ثواب فرض اور فرض کا ثواب ۷۰فرض کے برابر، اور لیلۃ القدر جو ہزار راتوں سے افضل ہے۔ جس نے دامن بھرنا ہو بھرلے۔ خوش قسمت ہیں جنھوں نے اپنی جھولیاں رحمتوں سے بھرلیںاور بدنصیب ہیں وہ جنھیں رحمتوں کی موسلادھار بارش میں بھی صرف پانی کی چند بوندیں ملیں اور ان سے بھی بڑھ کر بدنصیب وہ ہیں جنھیں اس بارانِ رحمت سے ایک بوند بھی نہ مل سکی۔ آیئے اپنا جائزہ لیں کہ ہم کن لوگوں میں شامل ہیں؟ ہم تقویٰ کی راہ اختیار کرکے متقی لوگوں کی معیت اختیارکرکے اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے جدوجہد کرنے والوں اور مظلوم مسلمانوں کا ساتھ دینے والوں میں شامل ہوکر سعادت مندوں میں اپنا نام لکھوا سکتے ہیں۔


حضرت عمربن الخطابؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اس کتاب کے ذریعے کچھ لوگوں کو اُونچا کرتا ہے اور کچھ کو اِس کتاب کے ذریعے پست کرتا ہے۔ (مسلم)

قرآنِ پاک اعلیٰ درجے کی کتاب ہے، اللہ تعالیٰ کے افضل نبی ؐ پر نازل ہوئی۔ اس کتاب پر ایمان، اس پر عمل، اس کی طرف دعوت، اس کے نظام کو قائم اور نافذ کرنے کے لیے جدوجہد بہت عظیم اور  اعلیٰ درجے کا کام ہے۔ اس لیے جو لوگ یہ کام کریںگے، اللہ تعالیٰ ان کو رفعت اور عظمت عطا فرمائیں گے، اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ اور جو اس کتاب اور اس کے نظام کی مخالفت کریںگے اللہ انھیں نیچا کرے گا، انھیں ذلت اور پستی سے دوچار کرے گا۔ آج مسلمان اس کتاب اور اس کے نظام سے محرومی کے سبب ذلت و پستی سے دوچار ہیں۔ وہ قرآن کے راستے پر چل کر دنیا میں عزت اور آخرت میں اجر پاسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انھیں اس کتاب سے وابستگی اور اس کی سربلندی کے لیے جہاد کی سعادت بخشے۔


حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے گھروں کو قبرستان نہ بنائو۔ شیطان اس گھر سے بھاگ جاتا ہے جس میں سورئہ بقرہ پڑھی جائے۔ (مسلم)

قرآنِ پاک کی تلاوت سے گھر آباد ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا ہوتا ہے، ایمان تازہ اور عمل کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ گھر برائیوں سے پاک و صاف ہوجاتا ہے۔ ایسے گھر والوں کے خلاف شیطان میں چالیں چلنے کی سکت نہیں رہتی۔ وہ اس گھر کی طرف رُخ کرنے کی ہمت نہیں پاتا بلکہ بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔ اس لیے ہدایت ہے کہ مسجد میں نمازیں پڑھو تو کچھ حصہ گھر کے لیے بھی رکھ لیا کرو تاکہ گھرآباد رہیں۔ گھروں کا آباد رہنا اور شیطان کے شر سے حفاظت کتنا بڑا فائدہ ہے۔


حضرت ابن مسعودؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ سے اس کے فضل کا سوال کرو۔ اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے کہ اس سے سوال کیا جائے اور سب سے افضل عبادت مصیبت سے چھٹکارے کا انتظار ہے۔ (ترمذی)

مصیبت انسانوں پر آتی رہتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے، وہ راحت دے کر بھی آزماتا ہے اور تکلیف سے دوچار کرکے بھی آزماتا ہے۔ مصیبت آجائے تو انسان اللہ سے لو لگائے، اس کے در کا سوالی بن جائے، اس کی یاد میں لگ جائے، اس سے دعائیں کرے، صبروشکر کا پیکر بن جائے، شکووں اور شکایتوں سے پرہیز کرے۔ اللہ کے فیصلے پر راضی رہے اور دعائوں کی قبولیت کا انتظار کرے۔ انبیاے علیہم السلام پر آزمایشیں سب سے زیادہ آئیں اور انھوں نے سب لوگوں سے بڑھ کر صبر کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ نے صبر کا عظیم نمونہ پیش کیا۔ آج اللہ تعالیٰ کے دین کی سربلندی کے لیے کام کرنے والے دنیا کے مختلف خطوں میں ہولناک مظالم سے دوچار ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ایسے لوگوں کو حوصلہ اور درس دیتا ہے، اُمید دلاتا ہے کہ مصیبت اور آزمایش کی گھڑیاں سدا نہیں رہتیں، ختم ہوجایا کرتی ہیں۔ جب مصیبتیں انتہا کو پہنچ جاتی ہیں اور اہلِ ایمان مسلسل اذیتوں سے بے قرار ہوکر تڑپ اُٹھتے ہیں تو پھر اللہ کی مدد آجاتی ہے، تکلیفیں دُور ہوجاتی ہیں اور اہلِ ایمان ہشاش بشاش اور سرخرو ہوجاتے ہیں۔ آزمایشوں اور ابتلا کا یہ دور بھی ختم ہوجائے گا۔ اہلِ ایمان کو چاہیے کہ وہ اس حدیث کو پیش نظر رکھیں اور اس میں دی گئی ہدایت کو اپنی آنکھوں کا سرمہ اور دل کا سرور بنائیں۔ استقامت سے دین کی سربلندی کے لیے جدوجہد کرتے رہیں، اللہ سے اس کے فضل کا سوال کرتے رہیں کہ یہ اسے پسند ہے۔ ان شاء اللہ کامیاب ہوجائیں گے۔


حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جس دن آپؐ کے صاحبزادے ابراہیم فوت ہوئے اس دن سورج گرہن ہوا تو آپؐ  نے صلوٰۃ الکسوف پڑھی۔ دورکعت میں آپؐ  نے ہر رکعت میں اتنا طویل قیام کیا کہ ہر رکعت میں تین رکوع کیے (دو مرتبہ رکوع کی شکل میں قیام تھا اور ایک رکوع تھا جیسے ہرنماز میں ایک رکعت میں ایک رکوع ہوتا ہے۔ خشوع اور خضوع کا ایسا غلبہ ہواکہ آپ قرأت کرتے کرتے جھک گئے اور ایسا دو مرتبہ ہوا)۔ دورکعتوں میں ہررکعت میں دو سجدے کیے۔ اسی طرح دونوں رکعتوں میں چارسجدے ہوگئے۔

آپؐ  نے اس وقت فرمایا: آخرت کی جن چیزوں سے تمھیں ڈرایا گیا ہے میں نے انھیں اس نماز میں دیکھا۔ آگ بھی اُس وقت سامنے لائی گئی جب تم نے مجھے دیکھا کہ میں پیچھے ہٹ گیا، اس وجہ سے کہ کہیں آگ کی لپٹ مجھ تک نہ پہنچ جائے۔ میں نے دوزخ میں کنڈے والے کو بھی دیکھا، وہ اپنی آنتیں دوزخ میں کھینچتے ہوئے جارہا تھا۔ یہ اپنے کنڈے سے حاجیوں کا سامان چوری کرتا تھا۔ اگر حاجی کو پتا لگ جاتا کہ میرا سامان چوری کر رہا ہے تو کہہ دیتا کہ میرے کنڈے کے ساتھ اتفاقاً اٹک گیا تھا۔ میرا مقصد یہ نہیں تھا کہ اسے لے جائوں۔ اور اگر حاجی کو پتا نہ چلتا تو اسے لے جاتا۔ میں نے بلی والی عورت کو بھی دیکھا جس نے اسے باندھ رکھا تھا۔ نہ اسے کھلاتی تھی اور نہ اسے چھوڑتی تھی کہ کیڑے مکوڑے کھا کر زندہ رہے، یہاں تک کہ بلی مرگئی۔پھر جب تم نے مجھے دیکھا کہ میں آگے بڑھا ہوں تو یہ اس وقت ہوا جب میرے سامنے جنت کو لایا گیا۔ میں نے اپنا ہاتھ بڑھانے کا ارادہ کیا کہ اس کا پھل توڑوں تاکہ تم بھی اسے دیکھ سکو۔ پھر میرا ارادہ بدل گیا اور فیصلہ کیا کہ ایسا نہ کروں۔(مسلم)

سورج گرہن آج کل بھی ہوتا ہے لیکن صلوٰۃ الکسوف کی سنت معطل ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کوئی نشان دیکھتے تھے تو نماز کی پناہ لیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال کے سامنے نماز کے ذریعے سربسجود ہوتے اوراللہ تعالیٰ کی ہر شان سے متاثر ہوکر خشوع و خضوع کرتے۔ صلوٰۃ الکسوف تو آپؐ نے سورج گرہن کی وجہ سے شروع کی تھی لیکن نماز میں مزید آیات (نشانیاں) پردئہ غیب سے ظاہر ہوئیں۔ ان کو آپؐ نے تو دیکھا لیکن آپؐ  کی اقتدا میں نماز پڑھنے والوں نے نہ دیکھا۔ اس وجہ سے آپؐ پر خشوع و خضوع کی مزید کیفیات بھی طاری ہوئیں اور آپؐ سے قیام میں جھکائو اور نماز میں پیچھے ہٹنے اور آگے بڑھنے کی کیفیات کا بھی ظہور ہوا ۔ ہماری نمازوں میں خشوع و خضوع کی بہت زیادہ کمی آگئی ہے اور شب و روز میں اور خاص مواقع کی سنتوں میں بھی کمی واقع ہوگئی ہے۔ دعوت و تبلیغ کے کارکنوں کو چاہیے کہ ان سنتوں کو خود بھی ان کے حق کے ساتھ ادا کریں اور مسلمانوں میں بھی ان کو رواج دیں۔ لہوولعب اور گانے بجانے اور لغو کاموں کو نئی شکلوں میں رواج دیا جا رہا ہے۔ عید کے دنوں میں لوگ رمضان المبارک اور اس کی عبادات کو یک سر بھول جاتے ہیں اور بیہودہ پروگراموں اور مجالس میں وقت گزارتے ہیں۔ بدعات کو رواج دینے والے بیدار اور فعال ہیں لیکن سنتوں کو قائم کرنے والے غفلت کی نیند سورہے ہیں۔


حضرت عبداللہ بن ابی ربیعۃؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ۴۰ہزار کا قرض لیا ۔ اس کے بعد جب آپؐ کے پاس مال آیا تو آپؐ نے مجھے قرض کی ادایگی فرما دی اور ساتھ ہی دعا دیتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالیٰ تمھیں تمھارے مال اور اہل و عیال میں برکت دے۔ قرض کا بدلہ شکرگزاری اور ادایگی ہے۔(النسائی)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ قرض اپنے ذاتی اخراجات کے لیے نہیں بلکہ مسلمانوں کی ضروریات کے لیے لیا، اس کی ادایگی مسلمانوں کے مال سے کی۔ اسلامی حکومت عوام کی ضروریات کے لیے قرض لے سکتی ہے لیکن یہ قرض بلاسود ہونا چاہیے۔ جتنا قرض لے اتنا ہی واپس کرے۔ حکومتی اخراجات اتنے نہ ہوں کہ ان کے لیے قرض لیے جائیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سرکاری خدمت گاروں کے لیے قرض لے کر ادایگیاں نہیں کیں۔ آج مسلمان حکومتوں کے اخراجات مسرفانہ ہیں اور وہ ان کو پورا کرنے کے لیے سودی قرضے لیتی ہیں جو ملکی معیشت کے لیے تباہ کن ثابت ہوتے ہیں۔ جب بجٹ بنائیں تو وہ غیرسودی ہو اور بجٹ کو پورا کرنے کے لیے بین الاقوامی اداروں، آئی ایم ایف اور ورلڈبنک سے سودی قرضے نہ لیں۔ اپنے آپ کو خود ہی ظلم کے حوالے نہ کریں۔ آج کل کی حکومتیں ان اداروں سے سودی قرض بھی لیتی ہیں۔ پھر ان کی ہدایات پر بجٹ بناتی ہیں۔ یہ ادارے سودی قرضوں کے سود کی واپسی کو یقینی بنانے کے لیے عوام پر ظالمانہ ٹیکس لگواتے ہیں، جس کے نتیجے میں مہنگائی کا طوفان آتا ہے اور پبلک ظلم کی چکی تلے پستی ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک شکرگزاری کے مستحق نہیں۔ شکرگزاری کے مستحق تو وہ ادارے ہوسکتے ہیں جو غیرسودی قرضے دیں۔ آج کی حکومتوں کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں بہترین نمونہ ہے۔ وہ اس نمونے کی پیروی کر کے اپنی معیشت کو بہتر اور عوام کو مہنگائی کے عذاب سے بچاسکتی ہیں۔


 

حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اپنی زبان کو روکا اللہ اس کی پردہ پوشی فرمائے گا اور جس نے اپنے غصے کو روکا اللہ اس سے اپنے عذاب کو روکے گا اور جس نے اللہ سے معافی مانگی اللہ تعالیٰ اسے معاف فرمائیں گے۔ (بیہقی شعب الایمان)

دنیا میں عزت ہر انسان کو مطلوب ہے، زبان کو روکنا، اس کا بلاضرورت استعمال نہ کرنا عزت کا سامان ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بھلی بات کہو یا خاموش رہو۔ بے جا غصے کو روکنا دنیوی اور اُخروی فوائد حاصل کرنے کا وسیلہ ہے۔ خلقِ خدا کو اپنے شر سے بچانے اور اس کے شر سے بچنے اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے محفوظ رہنے کی ضمانت ہے۔ اللہ تعالیٰ سے عفو اور مغفرت کا سوال دن رات کا وظیفہ ہونا چاہیے۔


 

حج کے معنی عربی زبان میں زیارت کا قصد کرنے کے ہیں۔ حج میں چونکہ ہرطرف سے لوگ کعبے کی زیارت کا قصد کرتے ہیں، اس لیے اس کا نام حج رکھا گیا....

قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَ لِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْــلًا ط وَ مَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ (اٰل عمرٰن۳:۹۷) ’’اور لوگوں پر اللہ کا حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی قدرت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے اور جس نے کفر کیا تو اللہ تمام دنیا والوں سے بے نیاز ہے‘‘۔

اس آیت میں قدرت رکھنے کے باوجود قصداً حج نہ کرنے کو کفر کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے، اور اس کی شرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ان دو حدیثوں سے ہوتی ہے: مَنْ مَلَکَ زَادًا وَّرَاحِلَۃً تُبَلِّغُہٗ اِلٰی بَیْتِ اللّٰہِ وَلَمْ یَحُجَّ فَلَا عَلَیْہِ اَنْ یَّمُوْتَ یَھُودِیًّا اَوْ نَصْرَانِیًّا، ’’جوشخص زادِ راہ اور سواری رکھتا ہو، جس سے بیت اللہ تک پہنچ سکتاہو اور پھر حج نہ کرے تو اس کا اس حالت پر مرنا اور یہودی یا نصرانی ہوکر مرنا یکساں ہے‘‘۔ مَنْ لَّمْ یَمْنَعْہُ مِنَ الْحَجِّ حَاجَۃٌ ظَاہِرَۃٌ اَوْ سُلْطَانٌ جَائِرٌ اَوْ مَرَضٌ حَابِسٌ فَمَاتَ وَلَمْ یَحُجَّ فَلْیَمُتْ اِنْ شَآئَ یَھُوْدِیًّا وَّاِنْ شَآئَ نَصْرَانِیًّا،’’جس کو نہ کسی صریح حاجت نے حج سے روکا ہو، نہ کسی ظالم سلطان نے، نہ کسی روکنے والے مرض نے،اور پھر اس نے حج نہ کیا ہو اور اسی حالت میں اسے موت آجائے تو اسے اختیار ہے خواہ یہودی بن کر مرے یا نصرانی بن کر‘‘۔

اور اسی کی تفسیر حضرت عمرؓ نے کی جب کہا کہ ’’جو لوگ قدرت رکھنے کے باوجود حج نہیں کرتے، میرا جی چاہتا ہے کہ ان پر جزیہ لگا دوں۔ وہ مسلمان نہیں ہیں، وہ مسلمان نہیں ہیں‘‘۔

اللہ تعالیٰ کے اس فرمان اور رسولؐ و خلیفۂ رسولؐ کی تشریح سے آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ یہ فرض ایسا فرض نہیں ہے کہ جی چاہے تو ادا کیجیے اور نہ چاہے تو ٹال دیجیے بلکہ یہ ایسا فرض ہے کہ ہراس مسلمان کو جو کعبے تک جانے آنے کا خر چ رکھتا ہو اور ہاتھ پائوں سے معذور نہ ہو، عمر میں ایک مرتبہ اسے لازماً ادا کرنا چاہیے، خواہ وہ دنیا کے کسی کونے میں ہو اور خواہ اس کے اُوپر بال بچوں کی اور اپنے کاروبار یا ملازمت وغیرہ کی کیسی ہی ذمہ داریاں ہوں۔ جو لوگ قدرت رکھنے کے باوجود   حج کو ٹالتے رہتے ہیں اور ہزاروں مصروفیتوں کے بہانے کرکرکے سال پر سال یونہی گزارتے چلے جاتے ہیں ان کو اپنے ایمان کی خیر منانی چاہیے۔ رہے وہ لوگ جن کو عمربھر کبھی یہ خیال ہی نہیں آتا کہ حج بھی کوئی فرض ان کے ذمہ ہے، دنیا بھر کے سفر کرتے پھرتے ہیں، کعبۂ یورپ کو آتے جاتے حجاز کے ساحل سے بھی گزر جاتے ہیں جہاں سے مکہ صرف چند گھنٹوں کی مسافت پر ہے، اور پھر بھی حج کا ارادہ تک ان کے دل میں نہیں گزرتا، وہ قطعاً مسلمان نہیں ہیں۔ جھوٹ کہتے ہیں اگر اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں، اور قرآن سے جاہل ہے جو انھیں مسلمان سمجھتا ہے۔ ان کے دل میں   اگر مسلمانوں کا درد اُٹھتا ہے تو اُٹھا کرے، اللہ کی اطاعت اور اس کے حکم پر ایمان کا جذبہ تو بہرحال ان کے دل میں نہیں ہے....


لِّیَشْھَدُوْا مَنَافِعَ لَھُمْ(الحج ۲۲:۲۸)’’تاکہ لوگ یہاں آکر دیکھیں کہ اس حج میں ان کے لیے کیسے فائدے ہیں‘‘۔ یعنی یہ سفر کرکے اور اس جگہ جمع ہوکر وہ خود اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرلیں کہ یہ انھی کے نفع کے لیے ہے اور اس میں جو فائدے پوشیدہ ہیں ان کا اندازہ کچھ اسی وقت ہوسکتا ہے جب کہ آدمی یہ کام کرکے خود دیکھ لے۔

حضرت امام ابوحنیفہؒ کے متعلق روایت ہے کہ جب تک انھوں نے حج نہ کیا تھا، انھیں اس معاملے میں تردد تھا کہ اسلامی عبادات میں سب سے افضل کون سی عبادت ہے، مگر جب انھوں نے خود حج کر کے ان بے حدوحساب فائدوں کو دیکھا جو اس عبادت میں پوشیدہ ہیں تو بے تامل پکار اُٹھے کہ یقینا حج سب سے افضل ہے۔

دنیا کے لوگ عموماً دو ہی قسموں کے سفروں سے واقف ہیں: ایک سفر وہ جو روٹی کمانے کے لیے کیا جاتا ہے، دوسرا جو سیروتفریح کے لیے کیا جاتا ہے۔ ان دونوں قسم کے سفروں میں اپنی غرض اور اپنی خواہش آدمی کو باہر نکلنے پر آمادہ کرتی ہے۔ گھر چھوڑتا ہے تو اپنی غرض کے لیے، بال بچوں اور عزیزوں سے جدا ہوتا ہے تو اپنی خاطر۔ مال خرچ کرتا ہے یا وقت صرف کرتا ہے تو اپنے مطلب کے لیے۔ لہٰذا اس میں قربانی کا کوئی سوال نہیں ہے مگر یہ سفر جس کا نام حج ہے، اس کا معاملہ اور سب سفروں سے بالکل مختلف ہے۔ یہ سفر اپنی کسی غرض کے لیے یا اپنے نفس کی خواہش کے لیے نہیں ہے بلکہ صرف اللہ کے لیے ہے اور اس فرض کو ادا کرنے کے لیے ہے جو اللہ نے مقرر کیا ہے۔ اس سفر پر کوئی شخص اس وقت تک آمادہ ہو ہی نہیں سکتا جب تک کہ اس کے دل میں اللہ کی محبت نہ ہو، اس کا خوف نہ ہو، اور اس کے فرض کو فرض سمجھنے کا خیال نہ ہو۔ پس جو شخص اپنے گھربار سے ایک طویل مدت کے لیے علیحدگی، اپنے عزیزوں سے جدائی، اپنے کاروبار کا نقصان، اپنے مال کا خرچ، اور سفر کی تکلیفیں گوارا کر کے حج کو نکلتا ہے، اس کا نکلنا خود اس بات کی دلیل ہے کہ اس کے اندر خوفِ خدا اور محبت ِ خدا بھی ہے اور فرض کا احساس بھی، اور اس میں یہ طاقت بھی موجود ہے کہ اگر کسی وقت خدا کی راہ میں نکلنے کی ضرورت پیش آئے تو وہ نکل سکتا ہے، تکلیفیں اُٹھا سکتا ہے، اپنے مال اور اپنی راحت کو خدا کی خوشنودی پر قربان کرسکتا ہے۔

نیکی اور تقویٰ کی رغبت

پھر جب وہ ایسے پاک ارادے سے سفر کے لیے تیار ہوتے ہیں تو اس کی طبیعت کا حال کچھ اور ہی ہوتا ہے، جس دل میں خدا کی محبت کا شوق بھڑک اُٹھا ہو اور جس کو ادھر کی لَو لگ گئی ہو اس میں پھر نیک ہی نیک خیال آنے شروع ہوجاتے ہیں۔ گناہوں سے توبہ کرتا ہے اور لوگوں سے اپنا کہا سنا بخشواتا ہے۔ کسی کا حق اس پر آتا ہو تو اسے ادا کرنے کی فکر کرتا ہے تاکہ خدا کے دربار میں بندوں کے حقوق کا بوجھ لادے ہوئے نہ جائے۔ بُرائی سے اس کے دل کو نفرت ہونے لگتی ہے اور قدرتی طور پر بھلائی کی طرف رغبت بڑھ جاتی ہے۔ پھر سفر کے لیے نکلنے کے ساتھ ہی جتنا جتنا    وہ خدا کے گھر کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے اتنا ہی اس کے اندر نیکی کا جذبہ بھی بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ کسی کو اس سے اذیت نہ پہنچے اور جس کی جتنی خدمت یا مدد ہوسکے کرے۔ بدکلامی و بیہودگی ، بے حیائی، بددیانتی اور جھگڑا فساد کرنے سے خود اس کی اپنی طبیعت اندر سے رُکتی ہے کیونکہ وہ خدا کے راستے میں جا رہا ہے۔ حرمِ الٰہی کا مسافر اور پھر بُرے کام کرتا ہوا جائے، ایسی شرم کی بات کسی سے کیسے ہو؟ اس کا تو یہ سفر پورے کا پورا عبادت ہے۔ اس عبادت کی حالت میں ظلم اور فسق کا کیا کام؟ پس دوسرے تمام سفروں کے برعکس یہ ایسا سفر ہے جو ہردم آدمی کے نفس کو پاک کرتا رہتا ہے ، اور یوں سمجھو کہ یہ ایک بہت بڑا اصلاحی کورس ہے جس سے لازماً ہراس مسلمان کو گزرنا ہوتا ہے جو حج کے لیے جائے....

اس میں وقت کی قربانی ہے، مال کی قربانی ہے، آرام و آسایش کی قربانی ہے، بہت سے دنیوی تعلقات کی قربانی ہے، بہت سی نفسانی خواہشوں اور لذتوں کی قربانی ہے.... اور یہ سب کچھ اللہ کی خاطر ہے۔ کوئی ذاتی غرض اس میں شامل نہیں۔ پھر اس سفر میں پرہیزگاری و تقویٰ کے ساتھ مسلسل خدا کی یاد اور خدا کی طرف شوق و عشق کی جو کیفیت آدمی پر گزرتی ہے وہ اپنا ایک مستقل نقش دل پر چھوڑ جاتی ہے جس کا اثر برسوں قائم رہتا ہے۔ پھر حرم کی سرزمین میں پہنچ کر قدم قدم پر انسان ان لوگوں کے آثار دیکھتا ہے جنھوں نے اللہ کی بندگی و اطاعت میں اپنا سب کچھ قربان کیا، دنیا بھر سے لڑے، مصیبتیں اُٹھائیں، جلاوطن ہوئے، ظلم پر ظلم سہے، مگر بالآخر اللہ کا کلمہ بلند کر کے چھوڑا اور ہر اس باطل قوت کا سرنیچا کرکے ہی دم لیا جو انسان سے اللہ کے سواکسی اور کی بندگی کرانا چاہتی تھی۔    ان آیاتِ بینات اور ان آثارِ متبرکہ کو دیکھ کر ایک خدا پرست آدمی عزم و ہمت اور جہاد فی سبیل اللہ کا جو سبق لے سکتا ہے، شاید کسی دوسری چیز سے نہیں لے سکتا۔ پھر طوافِ کعبہ سے اس مرکزدین کے ساتھ جو وابستگی ہوتی ہے اور مناسکِ حج میں دوڑدھوپ، کوچ اور قیام سے مجاہدانہ زندگی کی جو مشق کرائی جاتی ہے، اسے اگر آپ نماز اور روزے اور زکوٰۃ کے ساتھ ملا کر دیکھیں تو آپ کو معلوم ہو کہ یہ ساری چیزیں کسی بہت بڑے کام کی ٹریننگ ہیں جو اسلام مسلمانوں سے لینا چاہتا ہے۔ اسی لیے ہراُس مسلمان پر جو کعبہ تک جانے آنے کی قدرت رکھتا ہو، حج لازم کردیا گیا ہے تاکہ جہاں تک ممکن ہو ہرزمانے میں زیادہ سے زیادہ مسلمان ایسے موجود رہیں جو اس پوری ٹریننگ سے گزرچکے ہوں۔ (حقیقت حج سے ماخوذ)

 

دینی اعتبار سے اپنے مخالفین کے ساتھ معاملات میں جو تصور اور نظریہ مسلمانوں کی رہ نمائی کرتا ہے اس کی اصل اور اس کا منبع وہ افکار اور روشن حقائق ہیں، جو اسلام نے مسلمانوں کے دل و دماغ میں اُتار رکھے ہیں۔ ان میں سے چند اہم افکار و حقائق یہ ہیں:

۱- متعدد گروھوں کے وجود کا اقرار: اسلامی رواداری کی پہلی بنیاد یہ ہے کہ انسانوں کے مختلف اور متعدد گروہوں، جماعتوں اور قوموں کے وجود کا اسلام نے اعتراف کیا ہے۔ تعدداور تنوع تمام مخلوقاتِ خداوندی میں موجود ہے۔ یہ ایک فطری چیز ہے اور کائناتی اصول اور قانون ہے۔ مومن جس طرح اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان رکھتا ہے اسی طرح مختلف شعبوں کے اندر انسانی مخلوق کی یکسانیت کے باوجود اُن کے نسلی، قومی، لسانی اور دینی تنوع کو بھی مانتا ہے۔ نسلی اختلافات کو قرآنِ مجید نے یہ کہہ کر واضح کیا ہے: وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا (الحجرات ۴۹:۱۳)، ’’اور تمھاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو‘‘۔ لسانی اختلاف کا ذکر یوں کیا: ’’اور اُس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمینوں کی پیدایش، اور تمھاری زبانوں اور تمھارے رنگوں کا اختلاف ہے، یقینا اس میں بہت سی نشانیاں ہیں دانش مند لوگوں کے لیے‘‘۔(الروم ۳۰: ۲۲)

دینی تنوع اور اختلاف کا اقرار کرتے ہوئے فرمایا: وَ لَوْ شَآئَ رَبُّکَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّ لَا یَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِیْنَ o اِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّکَ وَ لِذٰلِکَ خَلَقَھُم o (ھود ۱۱: ۱۱۸-۱۱۹)، ’’بے شک تیرا رب اگر چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک گروہ بناسکتا تھا، مگر اب تو وہ مختلف طریقوں ہی پر چلتے رہیں گے اور بے راہ رویوں سے صرف وہ لوگ بچیں گے جن پر تیرے رب کی رحمت ہے۔ اسی کے لیے تو اس نے انھیں پیدا کیا تھا‘‘۔

مفسرین نے وَ لِذٰلِکَ خَلَقَھُم کا مفہوم یہ بیان کیا ہے: وَلِلْاِخْتِلَافِ خَلَقَھُمْ، یعنی اسی اختلاف اور تنوع کے لیے تو انھیں تخلیق کیا گیا ہے۔ اس لیے کہ جب ہرایک کو عقل و ارادے کی صلاحیت عطا کی گئی ہے تو اُن کے نقطہ ہاے نظر اور ادیان و مذاہب لازماً مختلف ہوں گے۔ غرض یہ کہ ان تمام طبیعی دلائل کے ساتھ ہم اس حقیقت کا مشاہدہ تو اپنی نظروں سے کرتے ہیں کہ ایک ہی دین کے اندر فکری اور مسلکی تنوع اور اختلاف موجود ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جو دین نازل کیا ہے اس کی بنیاد نصوص (متن) پر ہے۔ اور ان نصوص کا فہم ایک سے زیادہ نقطۂ نظر، تعبیرات اور اجتہادات کی اپنے اندر گنجایش رکھتا ہے۔ اللہ قادرمطلق کے لیے تو یہ ہرگز مشکل نہیں تھا کہ وہ چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک ہی راے اور مسلک پر یک جا اور متفق کردیتا۔ اور اگر چاہتا تو اللہ تعالیٰ سارے کے سارے دین کو قطعی الثبوت اور قطعی الدلالۃ نصوص پر قائم کردیتا کہ پھر اُس میں اختلاف کی گنجایش ہی باقی نہ رہتی۔

ہماری عمومی دنیاوی اور معاشرتی زندگی میں بھی یہ تنوع اور اختلاف ہرجگہ موجود ہے۔ سیاسی جماعتیں اور گروہ موجود ہیں، اگر ہم فقہی مذاہب (مسالک) کا شروع سے جواز فراہم کرتے آئے ہیں تو سیاسی گروہوں کے وجود کا انکار کیوں کر کرسکتے ہیں۔ یہ بھی فقہ کی طرح سیاست کے مذاہب (مسالک) ہی تو ہیں۔ اور فقہی مذاہب کیا ہیں؟ گروہ اور جماعتیں ہی تو ہیں!!

 مسلمان کا یہ عقیدہ کہ ہرانسان معزز و محترم ہے، اس کا دین، قومیت، اور نسل جو بھی ہو۔ اس عقیدے کی بنیاد اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: وَ لَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ (بنی اسرائیل ۱۷:۷۰) ’’یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی‘‘۔ یہ بیان شدہ عزت ہر انسان کے لیے احترام و مقام کا حق واجب ٹھیراتی ہے۔ اس کی عملی مثالیں بہت سی ہیں۔ ان میں ایک امام بخاری کی روایت کردہ حضرت جابر بن عبداللہؓ سے مروی یہ حدیث ہے: ’’ایک بار ایک جنازہ نبیؐ کے پاس سے گزرا تو آپؐ اس کے احترام میں اُٹھ کر کھڑے ہوگئے۔ آپؐسے کہا گیا کہ یہ تو ایک یہودی کا جنازہ تھا! آپؐ نے جواب میں فرمایا: کیا یہ ایک جان نہیں ہے؟‘‘ دیکھیے رسولِؐ کریم نے  کیسی عمدہ توجیہہ بیان کی اپنے اس عمل کی کہ اسلام میں تو ہر جان کی ایک حُرمت اور مقام ہے۔

۲- اختلاف، اللّٰہ کی مشیت: رواداری کی دوسری بنیاد مسلمان کا یہ عقیدہ ہے کہ انسانوں کے مختلف ادیان کا ہونا اللہ تعالیٰ کی مشیت اور مرضی سے ہے۔ اس نے اپنی مخلوقات کی اس نوع، یعنی انسان کو کوئی دین و عقیدہ اپنانے اور چھوڑنے کا اختیار اور آزادی عطا کر رکھی ہے۔ وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّکُمْ فَمَنْ شَآئَ فَلْیُؤْمِنْ وَّ مَنْ شَآئَ فَلْیَکْفُرْ  (الکھف ۱۸:۲۹)، ’’صاف کہہ دو کہ یہ حق ہے تمھارے رب کی طرف سے، اب جس کا جی چاہے مان لے اور جس کا جی چاہے انکار کردے‘‘۔ وَ لَوْ شَآئَ رَبُّکَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّ لَا یَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِیْنَo (ھود ۱۱:۱۱۸)، ’’بے شک تیرا رب اگر چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک گروہ بنا سکتا تھا، مگر اب تو وہ مختلف طریقوں ہی پر چلتے رہیں گے‘‘۔

ایک مسلمان کا یہ یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کو کوئی روک نہیں سکتا، کوئی بدل نہیں سکتا، اور نہ کوئی اللہ تعالیٰ سے اس کی منشا و مرضی کے بارے میں پوچھ سکتا ہے لیکن مسلمان اس حقیقت کا بھی یقین رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت میں وہی کچھ ہوتا ہے جس میں خیروحکمت ہو۔ انسان اس سے واقف ہوں یا لاعلم رہیں، اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی مسلمان ایک لمحے کے لیے بھی یہ نہیں سوچ سکتا کہ وہ تمام لوگوں کو مجبور کر کے مسلمان بنالے۔ اور یہ کیسے ہوسکتا ہے کیونکہ رسولؐ اللہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ فرما دیا ہے: وَ لَوْشَآئَ رَبُّکَ لَاٰمَنَ مَنْ فِی الْاَرْضِ کُلُّھُمْ جَمِیْعًا اَفَاَنْتَ تُکْرِہُ النَّاسَ حَتّٰی یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَo(یونس ۱۰:۹۹)،     ’’اگر تیرے رب کی مشیت یہ ہوتی (کہ زمین میں سب مومن و فرماں بردار ہی ہوں) تو سارے اہلِ زمین ایمان لے آئے ہوتے۔ پھر کیا تو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ مومن ہوجائیں؟‘‘ وَ لَوْ شَآئَ اللّٰہُ لَجَمَعَھُمْ عَلَی الْھُدٰی فَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْجٰھِلِیْنَo(الانعام ۶:۳۵)، ’’اگر اللہ چاہتا  تو ان سب کو ہدایت پر جمع کرسکتا تھا، لہٰذا نادان مت بنو‘‘۔

اور اگر اللہ چاہتا کہ تمام لوگوں کو ہدایت یافتہ فرماں بردار مومن بنادے تو وہ اُن کو کسی دوسری صورت پر تخلیق فرماتا جیسے فرشتوں کو اپنی مکمل اطاعت و عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ یُسَبِّحُوْنَ الَّیْلَ وَ النَّھَارَ لَا یَفْتُرُوْنَ (الانبیاء ۲۱:۲۰)،’’شب و روز اس کی تسبیح کرتے رہتے ہیں، دم نہیں لیتے‘‘۔ لّاَیَعْصُونَ اللّٰہَ مَآ اَمَرَھُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَo(التحریم ۶۶:۶) ، ’’وہ کبھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم بھی انھیں دیا جاتا ہے اُسے بجالاتے ہیں‘‘۔

اور یہ دینی اختلاف تو واقع ہی اللہ تعالیٰ کی مشیت اور مرضی سے ہے، لہٰذا کون ہے جو اللہ کی منشا و مرضی کے سامنے کھڑا ہوسکے ؟ اور کون ہے جو تمام ادیان کو مٹاکر اپنے ہی دین کو باقی رکھنے کی سوچ سوچے؟ اگر کوئی ایسا تجربہ کرنا چاہے تو کرکے دیکھ لے، اُس کے حصے میں ناکامی و شکست کے سوا کچھ نہیں آئے گا۔ غلبہ اور فتح، اللہ واحد و قہار کی مشیت ہی کو حاصل ہوگی۔

۳-اختلاف کرنے والوں کا حساب روزِ قیامت ھوگا: اسلامی رواداری کی تیسری بنیاد یہ ہے کہ مسلمان اس بات کا بھی پابند نہیں ہے کہ وہ کافروں کا محاسبہ کرے کہ تم کافر کیوں ہو؟ اور نہ وہ گمراہوں کی گمراہی پر انھیں سزا دے سکتا ہے۔اس لیے کہ یہ اس کا کام نہیں ہے اور نہ سزا اور جزا کا مقام یہ دنیا ہے۔ ایسے لوگوں کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے اور اس کا ایک دن مقرر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر مسلمان کسی کافر اور گمراہ کو سزا نہیں دے سکتا تو وہ کسی کو جزا اور بدلہ دینے کی ذمہ داری بھی نہیں اُٹھا سکتا۔کیونکہ وہ کسی کو جزا دینے کی اہلیت ہی نہیں رکھتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: وَ اِنْ جٰدَلُوْکَ فَقُلِ اللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ o اَللّٰہُ یَحْکُمُ بَیْنَکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فِیْمَا کُنْتُمْ فِیْہِ تَخْتَلِفُوْنَo  (الحج ۲۲:۶۸-۶۹)، ’’اور اگر وہ تم سے جھگڑیں تو کہہ دو ’’جو کچھ تم کر رہے ہو، اللہ کو خوب معلوم ہے، اللہ قیامت کے روز تمھارے درمیان ان سب باتوں کا فیصلہ کردے گا جن میں تم اختلاف کرتے رہے ہو‘‘۔رسولؐ کریم کو مخاطب فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اہلِ کتاب کے بارے میں فرمایا: ’’اے محمدؐ، اب تم اُسی دین کی طرف دعوت دو، اور جس طرح تمھیں حکم دیا گیا ہے اُسی پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہوجائو، اور ان لوگوں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو، اور ان سے کہہ دو کہ:’’اللہ نے جو کتاب بھی نازل کی ہے میں اس پر ایمان لایا، مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمھارے درمیان انصاف کروں، اللہ ہی ہمارا رب ہے اور تمھارا بھی۔ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمھارے اعمال تمھارے لیے۔ ہمارے درمیان کوئی جھگڑا نہیں۔ اللہ ایک روز ہم سب کو جمع کرے گا اور اسی کی طرف سب کو جانا ہے‘‘۔(الشورٰی ۴۲:۱۵)

ان تعلیمات اور ہدایات کی بنا پر مسلمان کا ضمیرپُرسکون رہتا ہے۔ اس کے دل کے اندر اپنے عقیدے اور کافر کے کفر کے درمیان ایسا کوئی تصادم محسوس نہیں ہوتا کہ وہ کافروں کے ساتھ احسان اور انصاف نہ کرے، اور انھیں اُن کے دین و اعتقاد پر قائم نہ رہنے دے، اور زبردستی انھیں مسلمان بنانے اور ایذا پہنچانے کا ہدف ٹھیرا لے۔

۴- ساری انسانیت کو ایک ھی خاندان سمجہنا:دینی رواداری کی چوتھی بنیاد یہ نکتہ ہے کہ اسلام تمام انسانوں کو ایک خاندان کے طور پر دیکھتا ہے، ان کے طبقات، علاقے، زبانیں اور رنگ و نسل جو بھی ہوں۔ یہ خاندان بحیثیت مخلوق ربِ واحد کی طرف اور بحیثیت نسب ایک باپ کی طرف منسوب ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کا اظہار کرتے ہوئے قرآنِ مجید نے انسانوں کو بلکہ تمام کے تمام انسانوں کو مخاطب کیا ہے: یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا وَ بَثَّ مِنْھُمَا رِجَالًا کَثِیْرًا وَّ نِسَآئً وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَآئَ لُوْنَ بِہٖ وَ الْاَرْحَامَ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًاo  (النساء ۴:۱)، ’’لوگو، اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اُس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مردوعورت دنیا میں پھیلا دیے۔ اُس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے، اپنے حق مانگتے ہو، اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔ یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کررہا ہے‘‘۔

یہاں استعمال ہوئے لفظ الارحام جن تمام تر انسانی رشتوں پر مشتمل ہے اس کو واضح کرنا مناسب ہوگا۔ خاندانِ انسانی کی وحدت جیسی اس حقیقت کو رسولِؐ اسلام حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر عظیم اجتماع کے سامنے علی الاعلان یوں بیان فرمایا تھا: ’’لوگو! یقینا تمھارا رب ایک ہے، تمھارا باپ ایک ہے، تم سب آدم ؑ کی نسل سے ہو، اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے تھے۔ لہٰذا کسی عرب کو غیر عرب اور کسی غیرعرب کو عرب پر کوئی فوقیت اور برتری حاصل نہیں۔ مگر صرف تقویٰ کی بنیاد پر۔ کیونکہ تم میں سے اللہ کے نزدیک معزز ترین وہ ہے جو سب سے بڑا متقی ہے۔

رسول کریمؐ کے یہ الفاظ قرآنِ مجید کی سورئہ حجرات کے اس مضمون کو تاکید مزید کے طور پر بیان کرتے ہیں: ٰٓیاََیُّھَا النَّاسُ اِِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا اِِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ اِِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ o (الحجرات ۴۹:۱۳)، ’’لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمھاری قومیں اور برادریاں بنادیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمھارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ یقینا اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے؟‘‘۔

اس آیت میں ذَکَرٍ وَّاُنثٰیسے مراد حضرت آدم ؑ و حواؑ ہیں ، اور وہی انسانیت کے والدین ہیں۔ اس مضمون کی مزید تائید و تصدیق مسنداحمد اور ابوداؤد میں مروی حضرت زیدبن ارقمؓ کی یہ روایت ہے کہ نبی کریمؐ ہر نماز کے بعد یہ دعا کیا کرتے تھے:

اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَرَبَّ کُلِّ شَیْ ئٍ وَمَلِیْکَہٗ ، أَنَا شَھِیْدٌ أَنَّکَ وَحْدَکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ

اے اللہ! ہمارے اور ہر شے کے پروردگار اور مالک! میں یہ شہادت دیتا ہوں کہ تو واحد ہے تیرا کوئی شریک نہیں!

اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَرَبَّ کُلِّ شَیْ ئٍ وَمَلِیْکَہٗ ، أَنَا شَہِیْدٌ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُکَ وَرَسُولُکَ

اے اللہ! ہمارے اور ہر شے کے پروردگار اور مالک! میں یہ شہادت دیتا ہوں کہ محمدؐ تیرے بندے اور رسولؐ ہیں!

اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَرَبَّ کُلِّ شَیْ ئٍ وَمَلِیْکَہٗ ، أَنَا شَہِیْدٌ أَنَّ الْعِبَادَ کُلُّھُمْ اِخْوَۃٌ

اے اللہ! ہمارے اور ہر شے کے پروردگار اور مالک! میں یہ شہادت دیتا ہوں کہ تمام کے تمام انسان بھائی بھائی ہیں!

قرآنِ مجید نے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ انسانی اخوت کے ساتھ اہلِ ایمان اور اہلِ دین کے درمیان دینی اخوت بھی ہے۔ جیساکہ فرمایا: اِِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِِخْوَۃٌ (الحجرات ۴۹:۱۰)، ’’مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں‘‘۔ دوسری جگہ فرمایا: فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا       (اٰلِ عمرٰن ۳:۱۰۳)، ’’اور اس کے فضل و کرم سے تم بھائی بھائی بن گئے‘‘۔

اسی طرح قرآنِ مجید قومی اور وطنی اخوت کا اقرار بھی کرتا ہے ، جیساکہ رسولوں اور اُن کی مکذب قوموں کے درمیان اُخوت کا اقرار موجود ہے، مثلاً فرمایا: ’’اور عاد کی طرف ہم نے اُن کے بھائی ہود کو بھیجا‘‘ (اعراف ۷:۶۵)۔ ’’اور ثمود کی طرف ہم نے اُن کے بھائی صالح کو بھیجا‘‘ (النمل ۲۷:۴۵)۔یہاں اخوت دینی بالکل نہیں ہے بلکہ قومی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہررسول لوگوں کو دین کی دعوت دینے کا آغاز ان الفاظ کے ساتھ کرتا:یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ (اعراف ۷:۵۹)،’’اے برادرانِ قوم! اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمھارا کوئی خدا نہیں ہے‘‘۔ جب یہ چیز موجود ہے تو تمام انسانوں کا انتساب انسانیت کے باپ حضرت آدم ؑ کی طرف ہونے کے اعتبار سے انسانی اخوت لامحالہ موجود ہے۔ اس نسبت کو ملحوظ رکھتے ہوئے قرآنِ مجید میں پانچ مقامات پر لوگوں کو ’یابنی آدم‘ کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے۔

۵- انسان کی تکریم محض انسانیت کی بنیاد پر: اسلامی رواداری کی پانچویں بنیاد یہ ہے کہ انسان بحیثیت انسان قابلِ تکریم و احترام ہے۔ اُس کے قابلِ تکریم ہونے میں اُس کی چمڑی کے رنگ، آنکھوں کے رنگ، بالوں کے رنگ، چہرے اور ناک کی بناوٹ، اُس کی زبان کے لہجے، اس کے علاقے کے محلِ وقوع، اس کے خاندانی شجرئہ نسب، یا کسی معاشرتی طبقے سے تعلق، حتیٰ کہ اُس کے دین کو بھی کوئی دخل حاصل نہیں ہے جس پر اُس کا ایمان ہے۔

انسان کی تکریم اور احترام قرآن کی نظر میں صرف اور صرف انسانیت اور آدمیت کی بنیاد پر ہے۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم ؑ کوبزرگی دی اور انھیں خشکی و تری میں سواریاں عطا کیں اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فوقیت بخشی‘‘(بنی اسرائیل ۱۷:۷۰)۔ مزید فرمایا: لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ(التین ۹۵:۴)، ’’ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا‘‘۔ پھر فرمایا: اَلرَّحْمٰنُ o عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ o خَلَقَ الْاِِنْسَانَ o عَلَّمَہُ الْبَیَانَ o (الرحمٰن ۵۵:۱-۴) ’’نہایت مہربان (خدا) نے اس قرآن کی تعلیم دی ہے۔ اُسی نے انسان کو پیدا کیا اور اُسے بولنا سکھایا‘‘۔نزولِ قرآن کی سب سے پہلی وحی میں فرمایا: اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ o الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ o عَلَّمَ الْاِِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْo (العلق ۹۶:۳-۵)، ’’پڑھو، اور تمھارا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا، انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا‘‘۔

تخلیق آدم ؑ کے بعد حضرت آدم ؑ اور فرشتوں کے درمیان ایک مقابلے کا انعقاد کیا گیا جس میں ابوالبشر حضرت آدم ؑ کی فرشتوں پر فضیلت ظاہر ہوگئی۔ اس پہلو سے اسلام نے احترامِ انسان کا حکم دیا ہے۔ لہٰذا یہ جائز نہیں کہ کسی کی موجودگی میں اُسے کوئی تکلیف پہنچائی جائے۔ یا اُس کی غیرموجودگی میں کسی ایسے لفظ سے اُس کی توہین کی جائے جس کو اگر وہ سُن لے تو اُسے ناگوار ہو، خواہ یہ بات بذاتِ خود حقیقت ہی ہو مگر اُسے تکلیف دینے کا باعث بنے۔ حتیٰ کہ انسان کے مرجانے کے بعد بھی اُس کا ذکر اچھے لفظوں میں کیا جائے۔ انسان زندہ ہو یا مرنے کے بعد نعش کی صورت میں موجود ہو، کسی بھی حالت میں اُس کے جسم کی بے حُرمتی جائز نہیں ہے۔ حدیث رسولؐ میں تو یہاں تک آیا ہے: ’’میت کی ہڈی کو توڑنا زندہ انسان کی ہڈی کے توڑنے جیسا عمل ہے‘‘۔ اس سلسلے میں ایک یہودی میت کے احترام میں رسول کریمؐ کے کھڑے ہونے کا ذکر پیچھے گزر چکا ہے۔

۶- بلا تفریقِ مذھب عدل و انصاف کا قیام: دینی رواداری کی چھٹی بنیاد  مسلمان کا یہ ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ عدل کا حکم دیتا ہے۔ انصاف اسے پسند ہے، وہ اچھے اور اعلیٰ اخلاق کی طرف بلاتا ہے، خواہ مشرکین کے ساتھ ہی معاملہ کیا جا رہا ہو۔ اللہ تعالیٰ ظلم کو پسند نہیں کرتا بلکہ ظالموں کو سزا دیتا ہے، خواہ یہ ظلم ایک مسلمان کی طرف سے کافر پر ہی کیوں نہ کیا گیا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھر جائو، عدل کرو، یہ خداترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے‘‘۔ رسولؐ اللہ کی بھی یہ حدیث ہے کہ ’’مظلوم کی بددعا سے بچو (خواہ وہ کافر ہی ہو)۔اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی‘‘۔(المائدہ ۵:۸)

غیرمسلموں کے ساتھ اسلام کی رواداری ایسی رہی ہے کہ تاریخ نے اس کی کوئی مثال نہیں دیکھی۔ یہ رواداری اس وقت تو خاص اہمیت اختیار کرلیتی ہے جب معاملہ اہلِ کتاب کا ہو۔ اس سے بڑھ کر یہ رواداری اس وقت اور زیادہ نمایاں اور پُربہار ہوجاتی ہے جب یہ غیرمسلم دارالاسلام (اسلامی ریاست) کے شہری ہوں، اور اگر یہ کہا جائے تو حرج نہیں کہ اُس کی اہمیت اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب یہ غیرمسلم خود کو عرب تمدن میں ڈھال چکے ہوں اور عربی کو اختیار کرچکے ہوں۔

۷- انسانی عداوتیں دائمی امر نھیں:دینی رواداری کی ساتویں بنیاد جس کو اسلام نے قائم کیا، مسلمانوں کو اُس کی تعلیم دی اور اُن کے دلوں دماغوں میں راسخ کیا، وہ یہ ہے کہ بسااوقات کچھ لوگ مختلف دینی اور دنیاوی وجوہات کی بناپر آپس میں ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں۔ یہ عداوتیں حق ہوں یا باطل، کبھی ابدی اور دائمی نہیں ہوتیں۔ دل بدل جاتے ہیں، حالات تبدیل ہوجاتے ہیں اور کل کے دشمن آج کے گہرے دوست بن جاتے ہیں۔ آج فاصلے پر رہنے والے کل کے قریبی ٹھیرتے ہیں۔ یہ تبدیلی انسانی تعلقات کا انتہائی اہم اصول ہے۔ لہٰذا یہ جائز نہیں کہ انسان اپنی عداوت میں اس حد تک آگے نکل جائیں کہ صلح کا کوئی موقع اور گنجایش باقی نہ رہے۔ سورئہ ممتحنہ میں اس بات سے اللہ تعالیٰ اور مسلمانوں کے دشمنوں کے ساتھ دوستی قائم کرنے سے منع کرنے کے بعد پوری وضاحت سے متنبہ کردیا گیا۔ اس موقع پر حضرت ابراہیم ؑ اور آپ کے رفقا کی استقامت کی مثال دی گئی ہے۔ جب انھوں نے اپنی قوم سے کہا تھا: اِِنَّا بُرَئٰٓ ؤُا مِنْکُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ کَفَرْنَا بِکُمْ وَبَدَا بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْضَآئُ اَبَدًا حَتّٰی تُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَحْدَہٗٓ (الممتحنہ ۶۰:۴)، ’’ہم تم سے اور تمھارے اُن معبودوں سے جن کو تم خدا کو چھوڑ کر پوجتے ہو قطعی بیزار ہیں، ہم نے کفر کیا اور ہمارے اور تمھارے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت ہوگئی اور بَیر پڑ گیا جب تک تم اللہ واحد پر ایمان نہ لائو‘‘۔

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا: عَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّجْعَلَ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَ الَّذِیْنَ عَادَیْتُمْ مِّنْھُمْ مَّوَدَّۃً وَاللّٰہُ قَدِیْرٌ وَّاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo(الممتحنہ ۶۰:۴)، ’’بعید نہیں کہ اللہ کبھی تمھارے اور ان لوگوں کے درمیان محبت ڈال دے، جن سے آج تم نے دشمنی مول لی ہے۔ اللہ بڑی قدرت رکھتا ہے اور وہ غفور و رحیم ہے‘‘۔ اللہ سبحانہ کی طرف سے دلائی گئی اُمید و رجا کو لفظ عسی کے ذریعے بیان کیا گیا ہے۔ یہ لفظ دلوں کو تبدیلی کی اُمید سے بھردیتا ہے کہ بُغض و عداوت کی کیفیات محبت و مودت میں بدل سکتی ہیں اور اللہ دلوں کو تبدیل کر دینے پر قادر ہے۔ وہی تو ہے جو دلوں کو جیسے چاہتا ہے، الٹ پلٹ کرتا ہے۔ کینے اور بُغض کے گناہوں کو بھی اللہ تعالیٰ معاف کردینے والا ہے۔ وہ اپنے اُن بندوں پر بہت مہربان ہے جو اپنے دلوں کو ان آلایشوں سے صاف کرلیتے ہیں۔ اسی وجہ سے تو مسلمانوں کے ہاں یہ مقولہ مشہور ہے کہ ’’کسی کے خلاف اپنی نفرت کا غصہ کچھ نرم رکھو، ہوسکتا ہے کسی وقت وہ شخص تمھارا گہرا دوست بن جائے‘‘۔

۸- مکالمے کے بھترین انداز کی دعوت:اسلامی رواداری کی آٹھویں بنیاد یہ  نکتہ ہے کہ مخالفین کے ساتھ بہترین اسلوب میں بات چیت کی جائے۔ نہایت شائستہ اور مہذب انداز میں اپنی بات کہی اور مخالف کی سُنی جائے۔ اس بنیاد کی دعوت قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا    یہ فرمان ہے: اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَ جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ اِنَّ رَبَّکَ ھُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِہٖ وَ ھُوَ اَعْلَمُ بِالْمُھْتَدِیْنَo (النحل ۱۶:۱۲۵)، ’’اے نبیؐ! اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو، حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ، اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو بہترین ہو۔ تمھارا رب ہی زیادہ بہترجانتا ہے کہ کون اس کی راہ بھٹکا ہوا ہے اور کون راہِ راست پر ہے‘‘۔

حکمت اور موعظۂ حسنہ کی دعوت بیش تر مقامات پر اپنے متفقین کے ساتھ گفتگو کے لیے ہے، اور احسن اسلوب میں جدال کی تعلیم بیش تر جگہوں پر اپنے مخالفین کے معاملے میں دی گئی ہے۔ مسلمانوں کو اُن کے رب کا یہ حکم ہے کہ وہ اپنے مخالفین سے ایسے بہترین طریقے سے مباحثہ و مکالمہ کریں جو مخالف کے لیے بات کو قبول کرنے کے اعتبار سے مثالی اور انتہائی مؤثر ہو۔

 احسن طریقے سے جدا ل (مباحثہ و مکالمہ) وہ گفتگو اور بات چیت ہے جس کی دعوت ہم اپنے مخالفین کو بھی دیتے ہیں اور یہ ایسی چیز ہے جس سے دلوں کے اندر تنائواور دُوری پیدا نہیں ہوتی اور کوئی ایسا ہیجان برپا نہیں ہوتا جو فتنے فساد کا باعث بنے اور نتیجے کے طور پر ایک دوسرے کے بارے میں بُغض و عداوت پیدا ہوجائے۔ یہ طریقہ تو دلوں کو جوڑنے اور قریب کرنے کا سبب بنتا ہے۔ جیسا قرآن مجید نے اہلِ کتاب کے ساتھ مجادلے کے معاملے میں فرمایا ہے: وَ لَا تُجَادِلُوْٓا اَھْلَ الْکِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ اِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْھُمْ وَ قُوْلُوْٓا اٰمَنَّا بِالَّذِیْٓ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ وَ اِلٰھُنَا وَ اِلٰھُکُمْ وَاحِدٌ وَّ نَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَo  (العنکبوت ۲۹: ۴۶)، ’’اہلِ کتاب سے بحث نہ کرو مگر عمدہ طریقے سے سواے اُن لوگوں کے جو اُن میں سے ظالم ہوں___ اور اُن سے کہو کہ ہم ایمان لاے ہیں اُس چیز پر بھی جو ہماری طرف بھیجی گئی ہے اور اُس چیز پر بھی جو تمھاری طرف بھیجی گئی تھی۔ ہمارا خدا اور تمھارا خدا ایک ہی ہے اور ہم اُسی کے فرماں بردار ہیں‘‘۔

اس آیت میں اُن جامع مشترکات پر زوردیا گیا ہے جن کے اُوپر فریقین کا ایمان ہے۔ اختلاف اور تفرقے کا باعث بننے والے نکات کو زیربحث ہی نہیں لایا گیا۔ یہی اچھی گفتگو اور شائستہ مکالمے کا اصول ہے۔ اس بنیاد پر اسلام باہم مخالف گروہوں کے درمیان مکالمے کی ضرورت کو محسوس کرتا ہے وہ اُن کے درمیان تصادم کا قائل نہیں ہے، جیسا امریکی اسٹرے ٹیجک دانش ور سیموئیل پی ہنگ ٹنگٹن کا نظریۂ تصادم ہے۔(ماخذ: www.qaradawi.net)

 

چودھری نیاز علی خاں (م:۱۹۷۶ء) محکمۂ انہار پٹھان کوٹ، ضلع گورداس پور، پنجاب میں ملازم تھے۔ وہ ۱۹۳۵ء میں  علامہ محمد اقبال سے ملے اور اس خیال کا اظہار کیا کہ وہ اپنی باقی ماندہ زندگی اسلام کے لیے وقف کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے جواب میں علامہ اقبال نے ان سے اسلامی قانون کی تشکیل جدید اور مسلمان دانش وروں کو موجودہ مسائل کا اسلامی قانون کی بنیاد پر جائزہ لینے کی ضرورت پر زور دیا (ہفت روزہ ایشیا، ۱۷؍اپریل ۱۹۶۹ء)، اور ان سے کہا کہ وہ ایک اسلامی تحقیقی ادارے کے قیام کے لیے تعاون کریں۔ مارچ ۱۹۳۶ء میں چودھری نیاز علی نے پٹھان کوٹ کے نزدیک اپنی ۶۰؍ایکڑ زمین اس مقصد کے لیے وقف کردی اور ضروری تعمیرات بھی کروا دیں۔

علامہ اقبال نے اس تحقیقی ادارے کے لیے اسلامی اسکالروں کی تلاش میں نیاز علی خاں سے تعاون شروع کیا۔ اس ضمن میں انھوں نے سب سے پہلے الازہر یونی ورسٹی قاہرہ کے وائس چانسلر علامہ مصطفی المراغی کو۵؍اگست ۱۹۳۷ء کو ایک خط لکھا: جس میں ان سے درخواست کی کہ ’’ہمارے مقاصد اور ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے مصر کے اسکالر ہمارے پاس بھیجیں، جس کی مالی معاونت جامعہ ازہر کرے، نیز یہ عالم انگریزی زبان پر بھی قدرت رکھتا ہو‘‘۔ اس کے جواب میں مصطفی المراغی نے علامہ اقبال کی اس تجویز کی تحسین کی لیکن مطلوبہ ضروریات کے مطابق کسی اسکالر کو بھیجنے سے افسوس کے ساتھ اس لیے معذرت کرلی کہ: ہمارے ہاں علماے ازہر میں کوئی ایسا شخص موجود نہیں جو انگریزی زبان پر قدرت رکھتا ہو۔ (خطوطِ اقبال، مرتبہ: رفیع الدین ہاشمی، ص ۲۸۸)

اس کے بعد نیاز علی خاں نے ہندستان کے معروف اہلِ علم اور علماے دین سے مشورہ کیا، جن میں مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا عبیداللہ سندھی، عبداللہ یوسف علی اور محمداسد (سابق لیوپولڈ وائس) شامل تھے۔اگرچہ ان تمام اہلِ علم اور علماے دین نے ایک تحقیقی ادارے کے لیے اس منصوبے کی تائید کی، لیکن اپنی موجودہ مصروفیات کی بناپر اس میں شرکت سے معذرت کرلی۔ اس طرح ادارے کے لیے متعلقہ شخصیات کا حصول مشکل ہوگیا۔

آخرکار علامہ اقبال کی مردم شناس نگاہ سیدمودودی پر پڑی۔ انھوں نے نیاز علی خاں سے کہا: ’’حیدرآباد سے ترجمان القرآن کے نام سے ایک بڑا اچھا رسالہ نکل رہا ہے۔ مودودی صاحب اس کے ایڈیٹر ہیں۔ میں نے ان کے مضامین پڑھے ہیں۔ دین کے ساتھ وہ مسائل حاضرہ پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ ان کی کتاب الجہاد فی الاسلام مجھے بہت پسند آئی ہے۔ آپ کیوں نہ انھیں دارالاسلام آنے کی دعوت دیں۔ میرا خیال ہے وہ دعوت قبول کرلیں گے‘‘۔ (ہفت روزہ ایشیا، ۱۷؍اپریل، ۱۹۶۹ء)

اس زمانے میں مولانا مودودی حیدرآباد دکن میں مصروفِ عمل تھے اور اپنے مقاصد  کے حصول کے لیے انھوں نے زمین بھی حاصل کرلی تھی (ماہ نامہ سیارہ، مئی ۱۹۶۳ء، ص۳۵)۔ ماضی کے اس دور پر نظر دوڑاتے ہوئے انھوں نے لکھا:’’میں پنجاب سے کوئی دل چسپی نہ رکھتا تھا، بلکہ یہاں کی صحافت اور سیاست اور مناظرہ بازیوں کا رنگ دیکھ کر دُور ہی سے اتنا بدگمان تھا کہ پنجاب آنا پسند بھی نہ کرتا تھا، مگر ۱۹۳۶ء کے اواخر میں پہلی مرتبہ ڈاکٹر [محمد اقبال] صاحب نے مجھے توجہ دلائی کہ دکن کو چھوڑ کر پنجاب میں قیام کروں۔ پہلی نگاہ میں تو مجھے اس تجویز نے کچھ زیادہ متاثر نہ کیا، مگر جب ۱۹۳۷ء کے اواخر میں، مَیں نے دکن چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا، اور کسی دوسرے مستقر کی تلاش میں حیدرآباد سے نکلا تو مرحوم سے مشورہ کرنے کے لیے لاہور حاضر ہوا اور یہاں ان سے بالمشافہہ گفتگو کرنے کے بعد مجھے اطمینان ہوگیا کہ آیندہ میرے لیے پنجاب ہی میں قیام کرنا زیادہ مناسب ہے۔ (ماہ نامہ چراغِ راہ، کراچی، سال نامہ ۱۹۶۰ء ، ص ۷۳،ایضاً ص ۲۲) ۱۱؎

وہ اسباب جن کی بناپر مولانا مودودی نے حیدرآباد چھوڑنے کا فیصلہ کیا، ان کا مختصراً ذکر انھوں نے ان الفاظ کیا ہے کہ: ’’جنوبی ہندستان میں سرگرمی کے ساتھ کام کرنے کے امکانات روز بروز معدوم ہوتے جارہے تھے، اور میں نے محسوس کیا کہ مسلمانوں کے مستقبل کے تعین میں شمالی ہندستان زیادہ مناسب ہوگا‘‘۔ ۱۲؎ (ماہنامہ سیارہ، اقبال نمبر، مئی ۱۹۶۳ء، ص۳۵)

اس زمانے میں برعظیم پاک و ہند میں پنجاب میں مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی تھی اور وہ اپنی سیاسی اور سماجی سرگرمیوں کی وجہ سے توجہ کا مرکز تھی۔ اسی زمانے میں ترجمان القرآن کی اشاعت میں اضافے اور اشاعتی اخراجات کو پورا کرنے کے لیے مولانا مودودی وسائل فراہم کرنے کے لیے جدوجہد بھی کر رہے تھے۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے یونانی ادویات کی فروخت کی آمدنی سے اشاعتی اخراجات کو پورا کرنے کی کوشش کی۔ (خطوطِ مودودی، دوم، ۱۹۹۵ء، ص۴۹)

نومبر ۱۹۳۷ء کے ترجمان القرآن کے شمارے میں مولانا مودودی نے اعلان کیا کہ رسالے کا دفتر حیدرآباد سے پٹھان کوٹ منتقل ہو رہا ہے۔ انھوں نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ  اس مقصد کے پیش نظر مرکز بناکر ان باصلاحیت نوجوانوں کو جمع کریں گے، جو جدید اور قدیم علوم پر دسترس رکھتے ہوں۔ (جماعت اسلامی کے ۲۹ سال، سیّد مودودی، ۱۹۷۶ء، ص ۲۴)

ادارہ دارالاسلام دسمبر ۱۹۳۷ء میں قائم ہوا، اس کا پورا نام ’دارالاسلام ٹرسٹ‘ تھا اور یہ نام مولانا مودودی کا تجویز کردہ تھا۔ یہ جمال پور، ضلع گورداس پور میں واقع تھا۔ ادارے کے عزائم اور پروگرام کے بارے میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ:lتمام جائز ذرائع سے اسلام، تہذیب اور تاریخ کی تشریح اور نشرواشاعت کی جائے گی۔ lچودھری نیاز علی خان نے بذریعہ رجسٹری ۴مارچ ۱۹۳۶ء جو جایداد وقف کی ہے، اس کی تمام جایداد، سرمایہ اور آمدنی وغیرہ کو جو ادارہ دارالاسلام کو بصورت وقف یا کسی دوسری صورت میں حاصل ہو، اس مقصد کے لیے خرچ کیا جائے گا۔

دارالاسلام کے انتظامات کے لیے اس کے معاونین کی طرف سے زمین اور جایداد وقف کی گئی تھی جن میں نمایاں نام چودھری نیاز علی خان کا تھا۔

دارالاسلام کے قیام کے بعد مارچ ۱۹۳۸ء میں مولانا مودودی یہاں آئے۔  مولانا مودودی کے مطابق علامہ اقبال نے وعدہ کیا تھا کہ اگر مولانا مودودی دارالاسلام آئے تو وہ نصف سال لاہور میں رہیں گے اور نصف سال دارالاسلام میں قیام کریں گے (ماہنامہ سیارہ، مئی۱۹۶۳ء)۔ لیکن مولانا مودودی کی آمد کے ایک ماہ بعد ہی ۲۱؍اپریل ۱۹۳۸ء کو علامہ اقبال کا انتقال ہوگیا۔

علامہ اقبال کے انتقال کی خبر سننے کے بعد مولانا مودودی نے ان کی یاد میں ترجمان القرآن میں یہ مضمون لکھا: ’’پچھلے سال کے آغاز میں جو دعا مَیں نے اپنے مالک سے مانگی تھی، اس وقت ذہن میں اس امر کا تصور بھی نہ تھا کہ سال پورا ہونے سے پہلے ہی ایک ٹوٹی ہوئی کشتی کو سمندر کی طوفانی موجوں کے مقابلے میں لے جانے کا حوصلہ فرسا کام میرے سپرد کردیا جائے گا۔ اس وقت محض ایک دھندلا سا خیال تھا کہ شاید مستقبل قریب میں ایسی کوئی صورت پیش آجائے، اس لیے میں نے تمنا کی تھی کہ اگر میرا آقا ایسا کوئی بوجھ میرے کندھوں پر رکھنے والا ہے تو اس کو سنبھالنے کی طاقت بھی عطا کرے۔ مجاہد کا سا ایمان دے۔ ایسی روح دے جو شکست کھانے اور سپر رکھ دینے کا تصور ہی نہ کرسکتی ہو۔ ایسی عزیمت دے جو مادی سہاروں سے قطعاً مستغنی ہو اور تمام سہاروں کے  چھوٹ جانے پر بھی نہ ٹوٹے۔ ایسا ارادہ دے جسے کوئی طاقت اپنے مقصد کے راستے سے نہ ہٹاسکے۔(ماہ نامہ ترجمان القرآن، [مارچ]، ۱۹۳۸ء، ص۲)

مولانا مودودی، علامہ اقبال کی دعوت پر پنجاب منتقل ہوگئے، اور دارالاسلام میں پوری سرگرمی کے ساتھ اس کی تنظیم سازی میں مصروف ہوگئے اور اس کے ساتھ اپنی تحریری سرگرمیاں بھی جاری رکھیں۔ اکتوبر ۱۹۳۸ء میں ایک مجلس مشاورت (شوریٰ) قائم کی، مولانا مودودی اس کے صدر منتخب ہوئے۔ یہ ڈھانچا مستقبل میں جماعت اسلامی کی بنیاد بنا۔ (Maududi and the Making of Islamic Revivalism، ولی رضا نصر، ۱۹۹۶ء، ص ۳۸)

ماہ نامہ ترجمان القرآن بھی پٹھان کوٹ سے شائع ہونے لگا، اور مولانا مودودی کے بہت سے مضامین ترجمان میں اشاعت کے بعد کتابی شکل میں شائع ہوئے۔ ان مقالات کے مجموعوں میں تنقیحات، مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش (۱۹۳۹ء)، مسئلۂ قومیت (۱۹۳۹ء) ، پردہ (۱۹۴۰ء) اور تفہیمات ،اول (۱۹۴۰ء) بھی شامل ہیں۔

اسی دوران میں کُل ہند مسلم لیگ کے حوالے سے ہندستانی مسلمانوں میں کچھ مزید   پیش رفت ہوئی۔ مسلم لیگ کے ۲۷ویں اجلاس کے موقع پر جو لاہور میں ۲۳مارچ ۱۹۴۰ء میں منعقد ہوا، مسلم لیگ کے صدر محمدعلی جناح نے اپنی تقریر میں دو قومی نظریے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہندستان میں دو قومیں آباد ہیں: ہندو اور مسلمان___ جن کی تہذیب اور تاریخی اقدار و روایات اپنے مذہبی اختلافات کی بنا پر مکمل طور پر جدا ہیں، اور انھوں نے مسلمانوں کے لیے ایک الگ، خودمختار ریاست کا مطالبہ کیا۔ اس وقت محمدعلی جناح کے پیش نظر صرف یہ بات تھی کہ مسلمانانِ ہند کی نمایندگی کا حق کسی طرح حاصل کیا جائے، اور ان کے لیے یہ بات ثانوی حیثیت رکھتی تھی کہ ان کے حمایتی امرا کے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں یا عوام میں سے ہیں۔ اس طرح سے انھوں نے ان کی نمایندگی کا حق حاصل کیا۔۱۳؎  (The Contemporary History of South Asia، جلددوم، ازکاگایا اور ہاماگوچی، ٹوکیو،۱۹۷۷ء، ص ۱۳۵-۱۳۸)

اسی زمانے میں مولانا مودودی کی کتب میں قوم پرستی کے مسئلے پر بہت سے مضامین ملتے ہیں، بالخصوص مسئلۂ قومیت جو ۱۹۳۹ء میں شائع ہوئی۔ جس میں وہ تمام مضامین شامل ہیں جو ۱۹۳۳ء سے ۱۹۳۹ء کے درمیان ترجمان القرآن میں شائع ہوئے۔اس میں ان عنوانات کے تحت مضامین شامل ہیں، جیسے: ’قومیت اسلام‘، ’متحدہ قومیت اور اسلام‘، ’کیا ہندستان کی نجات نیشنلزم میں ہے؟‘، ’اسلامی قومیت کا حقیقی مفہوم‘ اور ’نسلی مسلمانوں کے لیے دو راستے‘۔

ان تمام مضامین میں مولانا مودودی کا یہ نقطۂ نظر مشترکہ طور پر پایا جاتا ہے کہ قرآنِ مجید میں مسلمانوں کے لیے عموماً جو اصطلاحیں استعمال کی گئی ہیں وہ ’حزب‘، ’جماعت‘ اور ’حزب اللہ‘ (اللہ کی جماعت) اور ’اُمت‘ ہیں نہ کہ ’قوم‘: ’’لفظ ’قوم‘ اور اس کا ہم معنی انگریزی لفظ Nation    یہ دونوں دراصل جاہلیت کی اصطلاحیں ہیں۔ اہلِ جاہلیت نے ’قومیت‘ (Nationality) کو کبھی خالص تہذیبی بنیاد (cultural basis) پر قائم نہیں کیا، نہ قدیم جاہلیت کے دور میں اور نہ جدید جاہلیت کے دور میں۔ جس طرح قدیم عرب میں قوم کا لفظ عموماً ایک نسل یا ایک قبیلے کے لوگوں پر بولا جاتا تھا، اسی طرح آج بھی لفظ ’نیشن‘ کے مفہوم میں مشترک جنسیت (common descent) کا تصور لازمی طور پر شامل ہے، اور یہ چیز چونکہ بنیادی طور پر اسلامی تصورِ اجتماع کے خلاف ہے، اس وجہ سے قرآن میں لفظ قوم اور اس کے ہم معنی دوسرے عربی الفاظ، مثلاً ’شعب‘ وغیرہ کو مسلمانوں کی جماعت کے لیے اصطلاح کے طور پر استعمال نہیں کیا گیا۔ ظاہر ہے کہ ایسی اصطلاح اس جماعت کے لیے کیونکر استعمال کی جاسکتی تھی جس کے اجتماع کی اساس میں خون اور خاک اور رنگ اور اس نوع کی دوسری چیزوں کا قطعاً کوئی دخل نہ تھا، جس کی تالیف و ترکیب محض اصول اور مسلک کی بنیاد پر کی گئی تھی اور جس کا آغاز ہی ہجرت اور قطع نسب اور ترک علائق مادی سے ہوا تھا۔ (مسئلۂ قومیت،سیّد مودودی، ص ۱۶۸)۱۴؎

الجہاد فی الاسلام میں مولانا مودودی نے اس بات کو واضح کیا تھا کہ ’قوموں‘ کی بقا کا ذکر قرآنِ مجید میں آیا ہے۔۱۵؎ جس نکتے پران کا اصرار تھا وہ یہ تھا کہ ’قوم‘ کا تصور ’مسلمان‘ کی تعریف پر پورا نہیں اُترتا۔ وہ کہتے ہیں کہ: ’’مسلمان کا لفظ خود ظاہر کر رہا ہے کہ یہ ’اسم ذات‘ نہیں بلکہ ’اسم صفت‘ ہی ہوسکتا ہے اور ’پیرو اسلام‘ کے سوا اس کا کوئی دوسرا مفہوم سرے سے ہے ہی نہیں۔ یہ انسان کی اس خاص ذہنی، اخلاقی اور عملی صفت کو ظاہر کرتا ہے جس کا نام ’اسلام‘ ہے۔ لہٰذا، اس لفظ کو شخصی مسلمان کے لیے اس طرح استعمال نہیں کرسکتے جس طرح آپ ہندو یا جاپانی یا چینی کے الفاظ شخصی ہندو، یا شخصی جاپانی یا شخصی چینی کے لیے استعمال کرتے ہیں‘‘۔ (مسئلۂ قومیت، ص۱۸۲)

مولانا مودودی نے اس بات پر زور دیا کہ: ’’مسلمان کی بقا صرف اس صورت میں ہے کہ اس کا تعلق صرف اللہ سے ہو، اور مسلمان صرف اسی وقت تک مسلمان ہے جب تک وہ اسلام پر ایمان رکھتا ہے اور اسلام پر عمل کرتا ہے‘‘ (مسئلۂ قومیت، ص ۱۷۴)۔ اگر مسلمان آپس میں کئی نسلوں تک شادی کرتے رہیں، اور مسلمانوں کا ایک نسلی گروہ بن جائے، اسے بظاہر مسلم قوم کہا جاسکتا ہے، لیکن مولانا مودودی کے نزدیک ایسے گروہ کو مسلمان کہنا غلط ہوگا اگر اس کے ارکان بطور مسلمان اپنے فرائض ادا نہیں کرتے۔ اسی طرح وہ اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ ماضی کے مسلمان حکمرانوں کی بادشاہتوں کو ’اسلامی حکومتیں‘ قرار دینا درست نہیں۔ وہ اس بات کو بھی واضح کرتے ہیں کہ بادشاہتوں کی تاریخ سیاسی تاریخ ہے نہ کہ اسلام کی تاریخ۔

یوں مسلمان کی ایک واضح تعریف کا تعین کرنے کے بعد مولانا مودودی نے ہندستان کے بہت سے مسلم دانش وروں کے مسلم قوم پرستانہ نقطۂ نظر کا محاکمہ کرتے ہوئے لکھا:’’جس چیز کو آپ اسلامی اخوت کہہ رہے ہیں یہ دراصل جاہلی قومیت کا رشتہ ہے، جو آپ نے غیرمسلموں سے لے لیا ہے۔ اسی جاہلیت کا ایک کرشمہ یہ ہے کہ آپ کے اندر ’قومی مفاد‘ کا ایک عجیب تصور پیدا ہوگیا ہے اور آپ اس کو بے تکلف ’اسلامی مفاد‘ بھی کہہ دیا کرتے ہیں۔ یہ نام نہاد اسلامی مفاد کیا چیز ہے؟ یہ کہ جو لوگ ’مسلمان‘ کہلاتے ہیں ان کا بھلا ہو، ان کے پاس دولت آئے، ان کی عزت بڑھے، ان کو اقتدار نصیب ہو، اور کسی نہ کسی طرح اُن کی دُنیا بن جائے، بلااس لحاظ کے کہ یہ سب فائدے اسلامی نظریے اور اسلامی اصول کی پیروی کرتے ہوئے حاصل ہوں یا خلاف ورزی کرتے ہوئے۔ پیدایشی مسلمان یا خاندانی مسلمان کو آپ ’مسلمان‘ کہتے ہیں، چاہے اس کے خیالات اور اس کے طرزِعمل میں اسلام کی صفت کہیں ڈھونڈے نہ ملتی ہو۔ گویا آپ کے نزدیک مسلمان روح کا نہیں بلکہ جسم کا نام ہے اور صفت ِ اسلام سے قطع نظر کر کے بھی ایک شخص کو مسلمان کہا جاسکتا ہے۔ اس غلط تصور کے ساتھ جن جسموں کا اسمِ ذات آپ نے مسلمان رکھ چھوڑا ہے، ان کی حکومت کو آپ اسلامی حکومت، ان کی ترقی کو آپ اسلامی ترقی، ان کے فائدے کو آپ اسلامی مفاد قرار دیتے ہیں، خواہ یہ حکومت اور یہ ترقی اور یہ مفاد سراسر اصولِ اسلام کے منافی ہو....آپ کے مسلمان قوم پرست محض اپنی قوم کی سربلندی چاہتے ہیں، خواہ یہ سربلندی اصولاً اور عملاً اسلام کے بالکل برعکس طریقوں کی پیروی کا نتیجہ ہو۔ کیا یہ ’جاہلیت‘ نہیں ہے؟ کیا درحقیقت آپ اس بات کو بھول نہیں گئے ہیں کہ مسلمان صرف اس بین الاقوامی پارٹی کا نام تھا جو دنیا میں انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے ایک خاص نظریے اور ایک عملی پروگرام لے کر اُٹھی تھی؟ (مسئلۂ قومیت، ص۱۸۲-۱۸۳)

اس اقتباس میں یہ پہلو قابلِ غور ہے کہ مولانا مودودی نے اُن مسلمانوں کے نقطۂ نظر کو ’جاہلیت‘ کے لفظ سے منسوب کیا ہے، جو مغربی نظریات سے مرعوب ہیں۔ مولانا مودودی کی جانب سے ’عصرِجدید‘ کے ایسے فکری پہلوئوں کو ’جاہلیت‘ کے ہم پلّہ قرار دینا، درحقیقت اسلام کے   انقلابی فکر کو پیش کرنے کا پیش خیمہ تھا۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے ۱۹۳۹ء میں شروع کر دیا تھا۔ پھر الاخوان المسلمون مصر کے رہنما  سید قطب، سید مودودی کے انھی نظریات سے متاثر تھے، تحقیق کار چوایری (Choueiri) اور لی زوکا (Lizuka) لکھتے ہیں کہ : جیسے مولانا مودودی نے مغربی سیاسی تصورات پر جو جدید ذہن پر غالب ہیں، تنقید کرنے کے لیے ’جاہلیت‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے، اسی طرح سید قطب نے بھی مصری معاشرے کے چند درچند پہلوئوں اور مظاہر کو ’جاہلیت‘ کی اصطلاح سے موسوم کیا ہے۔ (The Development of Islamic State Theory، ۱۹۹۱ء، ص ۲۷۴)

مولانا مودودی اور نیاز علی خاں کے درمیان اس وقت اختلاف پیدا ہوا جب مولانا مودودی نے کُل ہند مسلم لیگ کے مسلم قوم پرستانہ نقطۂ نظر کا تجزیہ کیا۔ چودھری نیاز علی خاں، دارالاسلام کو ایک تحقیقی ادارے تک محدود رکھنا، اور سیاسی اُمور پر راے زنی سے بچنا چاہتے تھے، لیکن مولانا مودودی نے کہا: یہ ناممکن ہے کہ اسلام کو سیاست سے الگ رکھا جائے۔ اس اختلاف کے نتیجے میں مولانا مودودی دارالاسلام چھوڑ کر جنوری ۱۹۳۹ء میں لاہور چلے آئے۔کچھ عرصے کے لیے دارالاسلام نے بھی اپنا مرکزی دفتر لاہور منتقل کیا، لیکن بعدازاں اس کی سرگرمیاں منجمد ہوگئیں۔

جماعت اسلامی کی تشکیل

پنجاب میں تحقیقی ادارے دارالاسلام کے قیام اور ترجمان القرآن میں اپنی تحریروں کے ذریعے مولانا مودودی علمی حلقوں میں خاصے معروف ہوچکے تھے۔ ایسے میں، ۱۹۴۱ء میں انھوں نے موزوں وقت پر جماعت اسلامی کے قیام کا فیصلہ کیا۔ دارالاسلام میں قیام کے دوران انھوں نے تحریک احیاے اسلام پر ایک کتاب تجدید و احیاے دین کے نام سے شائع کی۔ اس کتاب میں انھوں نے اسلامی احیا کے لیے کی جانے والی کوششوں کا جائزہ لیا تھا۔

۱۹۴۱ء میں، مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش کی تیسری جلد میں مولانا مودودی نے اسلامی تحریک کے مفہوم پر بحث کی اور ایک سیاسی جماعت کے قیام پر زور دیا۔ اس طرح    ان لوگوں سے جو اس نقطۂ نظر سے اتفاق رکھتے تھے، اس جماعت کے قیام کے لیے اپنی رضامندی کے اظہار کے لیے ترجمان القرآن کے دفتر میں رابطے کے لیے کہا۔جماعت اسلامی ۲۶؍اگست ۱۹۴۱ء کو اسلامیہ پارک، لاہور کے ایک گھر میں قائم ہوئی، اور اس موقع پر ۷۵؍افراد جمع ہوئے۔

دارالاسلام کے پس منظر میں جماعت اسلامی کی تشکیل کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ نظریاتی فکر کی اصلاح کی اسی مہم کے دوران ’دارالاسلام‘ اسلامی تحریک کے قیام کی طرف پہلا قدم تھا۔ اگرچہ اسے نظرانداز کردیا گیا، لیکن اس کے نتیجے میں حامیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا، اور ایک ایسے وقت میں جب پورے ہندستان میں ہم خیال لوگوں کے مختلف چھوٹے چھوٹے گروہ بن گئے، تو تحریک اسلامی کو ایک منظم انداز میں آگے بڑھانے کے لیے جماعت اسلامی کے قیام کا دوسرا مرحلہ آن پہنچا (The Contemporary History of South Asia، دوم، ٹوکیو، ۱۹۷۷ء،ص ۷۰)۔اگرچہ دارالاسلام کا تجربہ تو کامیاب نہ ہوسکا، لیکن جب مولانا مودودی نے جماعت اسلامی قائم کی تو یہ تجربہ بہت معاون ثابت ہوا۔

مولانا مودودی نے اس امر کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ:’’مسلمانوں کا اصل نصب العین اسلامی نظامِ زندگی کا قیام ہے.... جس کی ہر چیز دنیا کے سامنے اسلام کا نمونہ پیش کرنے والی ہو۔ اسی چیز کو ہم نے جماعت اسلامی کا نصب العین قرار دیا ہے۔ اسلام کی اصطلاح میں اس کا نام اقامت ِدین ہے‘‘(جماعت اسلامی کے ۲۹سال، ستمبر۱۹۷۰ء،ص ۳۰،۳۱)۔ مزیدبرآں ’’صرف باکردار مسلمانوں کو جماعت میں شمولیت کی اجازت دی گئی‘‘، اور ماضی کی دیگر جماعتوں کی طرح ’’جنھوں نے مختلف سیکولر معاشروں اور جماعتوں کی طرح کے طور طریقے اختیار کیے‘‘، ان کے مقابلے میں جماعت اسلامی نے ’’وہی اصول اپنائے جو کہ نبی کریمؐ کی قائم کردہ اوّلین جماعت نے اپنائے تھے‘‘۔ نتیجتاً شوریٰ کے اراکین کا براہِ راست انتخاب اراکین جماعت کرتے تھے اور ان کا سربراہ بھی منتخب کیا جاتا تھا (ایضاً، ص ۴۰-۴۳)۔ انھوں نے اسلام کی بنیاد پر سماجی اصلاح کے لیے لوگوں کو پکارا کہ: ’’[جماعت اسلامی کے] کارکنوں کو پوری دنیا کے نظام زندگی کو لازماً تبدیل کرنا ہے۔ انھیںہرچیز کو بدلنا ہے، یعنی دنیا کی اخلاقیات، سیاست، تہذیب و تمدن، معاشرہ اور اقتصادیات۔ انھیں لازماً اُس نظامِ زندگی کو بدلنا ہے جو اللہ کے احکامات کے برعکس ہے اور جو دنیا میں نافذ ہے اور اسے بدل کر اللہ کے احکامات کے تابع کرنا ہے‘‘۔

مولانا مودودی نے اس بات کا بھی خیال رکھا کہ جماعت اسلامی میں جو لوگ شمولیت اختیار کریں وہ قدیم اور جدید علوم پر نظر رکھتے ہوں، جیساکہ ان کی سرگذشت سے اندازہ ہوتا ہے: ’’ایک اور چیز جس کو ہم نے جماعت کی تشکیل میں پیش نظر رکھا، وہ یہ تھی کہ جدید اور قدیم تعلیم یافتہ، دونوں قسم کے عناصر کو ملاکر ایک تنظیم میں شامل کیا جائے اور یہ دونوں مل کر اسلامی نظام قائم کرنے کے لیے تحریک چلائیں۔ اپنے سابقہ تجربات کی بنا پر میری یہ راے تھی کہ خالص جدید تعلیم یافتہ لوگوں کی جماعت چاہے اپنی جگہ اسلام کے معاملے میں کتنی ہی مخلص ہو، لیکن چونکہ وہ دین کو نہیں جانتی، اس لیے تنہا وہ ایک دینی نظام قائم نہیں کرسکتی۔ اسی طرح محض دینی تعلیم پائے ہوئے لوگ اگرچہ وہ دین کو بخوبی جانتے ہیں مگر چونکہ انھوں نے وہ تعلیم حاصل نہیں کی جس سے وہ ایک جدید دور میں ایک جدید ریاست کا نظام چلا سکیں، اس لیے صرف ان پر مشتمل کوئی خالص مذہبی جماعت بھی نہ دینی نظام قائم کرسکتی ہے، نہ اسلام کی بنیاد پر جدید دور میں ایک اسلامی ریاست کا انتظام کرسکتی ہے۔ ان وجوہ سے میرے نزدیک یہ ناگزیر تھا کہ ان دونوں گروہوں کو ملایا جائے‘‘۔ (ایضاً،ص ۳۵)۱۷؎

مولانا مودودی کا یہ اندازِ بیان اشارہ کر رہا ہے کہ ’اسلامی نظامِ حکومت کا نفاذ‘ کسی ردعمل کا نتیجہ نہیں بلکہ اس کا مقصد عصر جدید میں اسلام کا احیا ہے۔

جماعت اسلامی کے تاسیسی اجلاس کے شرکا نے بالاتفاق مولانا مودودی کو امیر جماعت کی ذمہ داری سونپ دی۔ جون ۱۹۴۲ء میں چودھری نیاز علی خاں نے مولانا مودودی کو دوبارہ دارالاسلام پٹھانکوٹ واپس آنے کی دعوت دی۔ قیامِ پاکستان کے تقریباً دو ہفتے بعد، ۲۹؍اگست ۱۹۴۷ء کو مولانا مودودی نے پاکستان ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان کی طرف ہجرت کے فیصلے کے حوالے سے ایک اشارہ مولانا مودودی کی اس تحریر سے ملتا ہے، جو سہ روزہ اخبار کوثر ،لاہور کی  ۵جولائی ۱۹۴۷ء کی اشاعت میں، قیامِ پاکستان سے تھوڑا عرصہ قبل ہی شائع ہوئی تھی۔ اس وقت تک یہ معاملہ زیربحث تھا کہ افغانستان کی سرحد کے ساتھ شمال مغربی سرحدی صوبے [موجودہ: خیبرپختون خوا] کے لوگ ایک ریفرنڈم میں اپنا ووٹ ڈال کر اپنی اس راے کا اظہار کریں گے کہ آیا انھیں پاکستان میں شامل ہونا ہے یا ہندستان میں؟ سرحدکے مقامی لوگوں کی طرف سے اس سلسلے میں مولانا مودودی سے سوال کیا گیا تو مولانا مودودی نے جواب لکھا تھا:’’ اس معاملے میں جماعت کی طرف سے کوئی پابندی عائد نہیں کی جاسکتی، کیونکہ جماعت اپنے ارکان کو صرف اُن اُمور میں پابند کرتی ہے جو تحریکِ اسلامی کے اصول اور مقصد سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس لیے ارکانِ جماعت کو اختیار ہے کہ وہ اپنی صواب دید کے مطابق جو راے چاہیں دے دیں۔ البتہ شخصی حیثیت سے مَیں کہہ سکتا ہوں کہ اگر مَیں خود صوبہ سرحد کا رہنے والا ہوتا تو استصواب راے میں میرا ووٹ پاکستان کے حق میں پڑتا۔ اس لیے کہ جب ہندستان کی تقسیم، ہندو اور مسلم قومیت کی بنیاد پر ہورہی ہے، تو لامحالہ ہر اُس علاقے کو جہاں مسلمان قوم کی اکثریت ہو، اِس تقسیم میں مسلم قومیت ہی کے علاقے کے ساتھ شامل ہونا چاہیے.... پاکستان کے حق میں ووٹ دینا لازماً اُس نظامِ حکومت کے حق میں ووٹ دینے کا ہم معنی نہیں ہے، جو آیندہ یہاں قائم ہونے والا ہے۔ وہ نظام اگر فی الواقع اسلامی ہوا جیساکہ وعدہ کیا جاتا رہا ہے تو ہم دل و جان سے اس کے حامی ہوں گے۔ اور اگر وہ غیراسلامی نظام ہوا تو ہم اُسے تبدیل کر کے اسلامی اصولوں پر ڈھالنے کی جدوجہد اُسی طرح کرتے رہیں گے، جس طرح موجودہ نظام میں کر رہے ہیں‘‘۔ (سہ روزہ کوثر، ۵جولائی ۱۹۴۷ء اور تحریکِ آزادی ہند اور مسلمان، دوم، ص ۲۸۷-۲۸۸)

اس طرح انھوں نے عبوری طور پر پاکستان کو مسلمانوں کے لیے مسلمانوں کی ریاست کے طور پر قبول کرلیا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنے ارادے کی طرف بھی اشارہ کردیا کہ وہ اسلامی ریاست کے قیام کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیںگے۔ اسی طرح مولانا مودودی نے پاکستان منتقلی کو ہجرت قرار دیا (ماہ نامہ سیارہ، مارچ ۱۹۷۸ء)۔ وہ پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانے کے لیے سوچ سمجھ کر ہجرت کرکے آئے تھے۔

اس طرح سے مولانا مودودی پاکستان منتقل ہوگئے، اور اسلامی نظامِ حکومت کے نفاذ کے لیے سرگرم عمل ہوگئے، اور پاکستان کی دستورساز اسمبلی کے ذریعے قراردادِ مقاصد کے آغاز میں یہ عبارت شامل کروانے میں کامیاب ہوگئے کہ ’حاکمیت صرف اللہ کی ہے‘۔ ۱۹۵۳ء میں مولانا مودودی نے [مرزا غلام احمد قادیانی کے ہم مذہب]احمدیوں پر تنقید [قادیانی مسئلہ، نامی مقالے کی صورت میں] کی۔ جس [مذہب]کی بنیاد انیسویں صدی کے اواخر میں شمالی ہند میں رکھی گئی کہ: ’’یہ غیرمسلم ہیں‘‘۔ اس پر انھیں گرفتار کرلیا گیا اور بعد میں انھیں [مئی ۱۹۵۳ء میں]سزاے موت سنا دی گئی۔  [قادیانی مسئلہ لکھنے پر ہی یہ سزا سنائی گئی تھی، جو بعد میں عالمی دبائو کی بناپر عمرقید میں تبدیل کردی گئی]۔ بعدازاں انھیں رہا کردیا گیا۔ انھوں نے اپنی تحریری سرگرمیوں کو جاری رکھا۔

جنوبی ایشیا میں اسلام کی اشاعت اور مستقبل

اس سے قبل ہم اس بات کا جائزہ لے چکے ہیں کہ علامہ محمد اقبال اور مولانا مودودی نے اپنے اپنے دائرئہ فکروعمل میں اسلام کے احیا کے لیے تجربات کے ذریعے انتہائی جدوجہد کی۔    ان تجربات میں دارالاسلام کا قیام، شعری اور نثری کاوشیں، اور سیاسی سرگرمیاں شامل ہیں۔

اقبال کے شاعرانہ جذبات اور سید مودودی کے فکری استدلال نے نہ صرف ہم عصر پاکستانیوں پر اثرات مرتب کیے، بلکہ دوسرے خطوں کو بھی متاثر کیا۔ مولانا مودودی کی فکر کا نمایاں ترین پہلو ان کے افکار و نظریات کے ساتھ ساتھ ان کا منفرد اسلوب ہے۔ مراد یہ کہ وہ نہ صرف اسلام کے لیے مثبت انداز رکھتے ہیں اور عصرحاضر کو اسلام کے تناظر میں سمجھتے ہیں، بلکہ جدید افکار اور علوم کے بارے میں بھی مثبت رویہ رکھتے ہیں۔ اسلامی قوانین کی تدوین جدید کا مسئلہ مولانا مودودی سے قبل بھی جنوبی ایشیا میں زیربحث آچکا تھا۔

امریکی دانش ور پروفیسر جان لویس ایسپوزیٹو، اقبال کو ایک معروف جدید اسلامی شاعر اور فلسفی قرار دیتے ہیں، جنھوں نے بہت سے مسلمانوں کے تصور کو ۱۹۳۰ء میں مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن کے مطالبے سے جِلابخشی۔ یہ اس بات کا ثبوت بھی ہے اور ایک حقیقت بھی کہ انھوں نے نہ صرف ریاست کی تعمیر کے تصورات کی اہمیت کو اُجاگر کیا، بلکہ اپنی شاعری کے ذریعے ان تصورات کی بھرپور عکاسی بھی کی۔ اس طرح جہاں علامہ محمداقبال نے حاکمیت اور قومیت کے تصورات کو اپنی شاعری کے ذریعے اُجاگر کیا، وہاں مولانا مودودی نے بطور صحافی، مفکر اور عالمِ دین ان تصورات کو جامع اور مؤثر نثری اسلوب میں مدلل انداز میں قرآن و سنت کے استدلال کے ساتھ ٹھوس بنیادوں پر پیش کیا۔

مستقبل میں ایک علمی و تحقیقی کام ہندستان کے مسلم دانش وروں بشمول علامہ اقبال اور مولانا مودودی کے افکار کا جائزہ اور ان کے اثرات کا انطباق ہے (اس ضمن میں ایک تحقیقی کام  شیخ محمد اکرام کی تصانیف آبِ کوثر، موجِ کوثر اور رودِ کوثر کی صورت میں سامنے آچکا ہے)۔ اس علمی و تحقیقی جائزے کے لیے ضروری ہے کہ نہ صرف تحریکِ احیاے اسلام کا مطالعہ کیا جائے، بلکہ صوفی ازم اور اسلام کے دیگر مختلف پہلوئوں کا بھی مطالعہ کیا جائے۔

مولانا مودودی اگرچہ علامہ ا قبال کے اس نقطۂ نظر کے حامی تھے کہ اسلام کی جدید خطوط پر تشکیلِ نو کی جائے، جو مغرب کے جدید تقاضوں کے مطابق ہو،۱۸؎ تاہم جس بات کی انھوں نے بھرپور تائید کی وہ اسلام کی ایسی تعبیر اور تشکیل جدید ہے، جو اسلام کے دورِ اوّل سے ہم آہنگ ہو۔ ان کا یہ منفرد اسلوب جدیدیت ِ اسلام کا تصوراس طرح سے پیش کرتا ہے کہ مغربی تہذیب کے تضادات، اسلامی افکار کی روشنی میں نمایاں ہوکر سامنے آجاتے ہیں۔

اس کے علاوہ جس طرح سے جماعت اسلامی کی جدید علوم کے حامل افراد اور دینی علوم کے حاملین کے درمیان تبادلۂ خیال کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے تنظیم سازی کی گئی، وہ اسے    اُن ردعمل کی حامل تنظیموں سے مختلف بنادیتی ہے جنھوں نے مغربی اقدار کو مکمل طور پر مسترد کردیا تھا۔ یہ اس وجہ سے تھا کہ مولانا مودودی نے جدید مغربی علوم کی اہمیت کو جانتے تھے ، اور وہ اس کے اہل تھے کہ مغرب کے تصورات جنگ، قوم پرستی، حاکمیت وغیرہ کو جان سکیں اور ان پر تنقیدکرسکیں۔ ان کا مغرب سے مرعوب ہوئے بغیر برابری کی سطح پر تنقید اور حقائق کو کھول کر بیان کرنا، جو علاقائیت اور قومیت کی قید سے آزاد تھا، بہت سے حامیوں میں اضافے کا باعث بنا۔ ۱۹۴۰ء اور ۱۹۵۰ء کے عشرے میں مولانا مسعود عالم ندوی۱۹؎ (م:۱۹۵۴ء) نے ان کی تحریروں کا عربی میں ترجمہ کیا اور ان تراجم سے دنیابھر میں پائی جانے والی احیاے اسلام کی تحریکوں پر ان کی فکر کے اثرات مرتب ہوئے۔

۲۰۰۷ء میں، مجھے مولانا مودودی کا انگریزی ترجمہ قرآن اور تفسیر تفہیم القرآن کا انگریزی ترجمہ، اور ان کی دیگر کتب کے ترجمے لندن سے دُور مسلمانوں کی ایک رہایشی بستی کے بک سٹور میں دیکھنے کو ملے۔ اسی طرح مجھے ملایشیا کے ایک بک سٹور میں کوالالمپور کی شائع کردہ ان کی ایک کتاب کا انگریزی ترجمہ بھی نظر آیا۔ جس طرح سے دنیا بھر کے مسلمان، ان کی تحریروں سے متعارف ہورہے ہیں، یہ اس بات کی علامت ہے کہ جنوبی ایشیا سے اسلام کے احیا کا عمل پھیل رہا ہے۔ یہ بات بھی دل چسپی کا باعث ہے کہ ملایشیا میں بہت سی کتابیں جو اسلام پر شائع ہوئی ہیں، وہ ان کتابوں کے شائع شدہ ایڈیشن ہیں جو بنیادی طور پر جماعت اسلامی پاکستان اور ندوۃ العلما لکھنؤ ،ہندستان سے شائع ہوئے تھے۔ مولانا مودودی کے ایک ہم عصر عبداللہ یوسف علی کا انگریزی ترجمہ قرآن اور تفسیر قرآن بھی جنوبی ایشیا میں بہ کثرت پڑھا جاتا ہے۔

دوسری طرف علامہ اقبال،جو پاکستان کے قومی شاعر کے طور پر معروف ہیں، اور ان کا کلام بکثرت ذرائع ابلاغ سے نشر کیا جاتا ہے، اقبال پر مطالعہ و تحقیق کے لیے ’اقبالیات‘ کے نام سے میدانِ تحقیق موجود ہے، اور ان کے افکار پر تحقیق کے لیے پاکستان میں بہت سے ادارے، مثلاً پاکستان کے تہذیبی شہر لاہور میں اقبال اکادمی پاکستان اور بزمِ اقبال موجود ہیں۔ ہمسایہ ملک ایران، جہاں وہ ’اقبال لاہوری‘ کے نام سے معروف ہیں، ان کا فارسی کلام شائع ہوچکا ہے اور وسیع پیمانے پر پڑھا جاتا ہے ۔ ایرانی شاعر ملک الشعرا محمد تقی بہار (۱۸۸۶ء-۱۹۵۱ء) جو کہ بیسویں صدی کے ابتدائی نصف میں مقبول تھا، اپنی ایک نظم میں اقبال کو مسلمانوں کا ’سربرآوردہ رہنما‘ قرار دیتا ہے:’’جب شاعروں نے شکست کھا کر ہتھیار ڈال دیے اس شاہ سوار نے ایک صد گھڑسواروں سے بڑھ کر کام کیا‘‘۔

جیسے جیسے مغربی لادینیت آگے بڑھی، اسلام کی جدیدیت نے، جیساکہ اقبال نے اس کی ترجمانی کی، مرتضیٰ مطہری (۱۹۲۰ء-۱۹۷۹ء) کو جو انقلابِ ایران کے فکری رہنمائوں میں سے تھے ، متاثر کیا۔ اپنی کتاب نہضہ اسلامی (اسلامی تحریکیں) میں مرتضیٰ مطہری عالمِ عرب سے باہر اقبال کو احیاے اسلام کے نمایاں مفکروں میں سے سمجھتے ہیں، اور مغربی علوم اور فلسفے پر گہری نظر رکھنے کی بنا پر انھیں خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔ ڈاکٹر علی شریعتی (۱۹۳۳ء-۱۹۷۷ء) جو  ایرانی انقلاب پر اپنے فلسفیانہ اثرات رکھتے ہیں، وہ بھی اقبال کو ایک عظیم مفکر قرار دیتے ہیں۔

احیاے اسلام کے حوالے سے انقلابِ ایران کے بعد ایک اور پیش رفت یہ ہوئی کہ اشتراکی روس کے خلاف جنگ کو جہاد قرار دیا گیا اور دنیا بھر سے مسلمانوں نے اس میں رضاکارانہ طور پر حصہ لیا۔ یہ بات بھی دل چسپی کا باعث ہے کہ ۱۹۷۷ء میں جب اشتراکی روس کے اثرات افغانستان میں بڑھ رہے تھے، علامہ اقبال پر پانچ تحقیقی مقالات بشمول ان کی نظمیں کابل میں شائع ہوئے۔ مزیدبرآں جن دنوں اشتراکی روس کے خلاف جنگ زوروں پر تھی تو ایک افغان شاعر  خلیل اللہ خلیلی کی کتاب، کلامِ اقبال کے ساتھ جمعیت اسلامی، مجاہدین کی ایک تنظیم کی طرف سے شائع کی گئی۔ یہ ایک اور مثال ہے کہ احیاے اسلام کی فکر کو فروغ دینے میں اقبال کا کیا کردار ہے۔۲۰؎

مزید یہ کہ علاوہ علامہ اقبال کے سات انگریزی خطبات پر مبنی کتاب Reconstruction of Relegious Thought in Islam فارسی، روسی، ترکی، جرمنی، اسپینی،عربی، فرانسیسی اور پنجابی زبان میں ترجمہ ہوچکی ہے، اور نہ صرف ان کے مختلف افکار نظم و نثر محض ان زبانوں میں سامنے آچکے ہیں بلکہ فرانسیسی، چینی، ازبک، ترکمانی، اطالوی اور جاپانی میں بھی ترجمہ ہوچکے ہیں۔۲۱؎ فارسی، تاجک اور ازبک زبانوں میں تراجم اور تحقیقی کام احیاے اسلام کے تناظر میں کیا گیا ہے اور احیاے اسلام کی فکر پر گہرے اثرات رکھتا ہے۔ وہ تراجم اور تحقیقی کام جو مختلف زبانوں میں شائع ہوا ہے، اس میں علمی و تحقیقی کام پر زور دیا گیا ہے اور اس کا مرکزی نکتہ اقبال کی قیامِ پاکستان کی تحریک کے تناظر میں فکر اور فلسفۂ خودی ہے۔

علامہ اقبال کی فکر کا بیش تر حصہ ان کی شاعری پر مبنی ہے، جس کا پوری طرح سے ترجمہ کرنا مشکل کام ہے، جب کہ مولانا مودودی نے اپنے افکار کو اختصار اور جامعیت کے ساتھ نثر میں پیش کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریروں کے تراجم کی اشاعت عالمِ اسلام میں زیادہ وسیع پیمانے پر ہوئی ہے۔ ان کی فکر کو دنیا بھر میں اپنایا جارہا ہے، مثلاً مصر اور ایران میں ان کی فکر کو عملاً اپنایا گیا۔ ان دونوں کے تراجم کی اشاعت میں اگرچہ فرق ہے، تاہم علامہ اقبال کی فکر اور تحریکِ احیاے اسلام کے لیے مولانا مودودی کے افکارونظریات اور حکمت عملی جنوبی ایشیا سے ماورا پورے عالمِ اسلام میں انگریزی کے علاوہ اُردو، عربی اور فارسی زبانوں میں بڑے پیمانے پر متعارف ہوچکے ہیں۔ اس طرح سے احیاے اسلام کی بین الاقوامی جدوجہد پر مبنی ایک عالمی نظام مغربی دنیا سے ہٹ کر موجود ہے اور ارتقا پذیر ہے۔

حواشی

۱۱-         مولانا مودودی نے تذکرہ کیا ہے : ’’علامہ اقبال نے بس یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ میں پنجاب چلا آئوں۔ زیادہ تفصیل نہیں لکھی تھی۔ اس وقت تو میں نہیں سمجھ سکا تھا کہ اس کی مصلحت کیا ہے، البتہ ۱۹۳۷ء کے وسط تک پہنچ کر مجھے یہ خود محسوس ہونے لگا تھا کہ جنوبی ہند چھوڑ کر مجھے شمالی ہند کی طرف رُخ کرنا چاہیے۔ اسی زمانے میں چودھری نیاز علی صاحب نے اصرار کیا کہ میں پنجاب کا سفر کروں اور کم از کم اُن کے اس مقام کو دیکھ لوں، جو انھوں نے ایک ادارہ قائم کرنے کے لیے وقف کیا تھا۔ میں خود بھی ضرورت محسوس کر رہا تھا کہ شمالی ہند کا سفر کرکے کسی ایسی جگہ کا انتخاب کروں، جہاں اپنے عزائم کے مطابق مجھے کام کرنے کا موقع ملے۔ اسی خیال سے شاید اگست کا آخر تھا، ۱۹۳۷ء میں، مَیں نے پنجاب کا سفر کیا اور جالندھر اور لاہور سے ہوتا ہوا پٹھان کوٹ پہنچا۔ اسی سفر میں علامہ اقبال سے تفصیلی گفتگو ہوئی‘‘۔ (سیارہ، مئی ۱۹۶۳ء، ص ۳۵)

                 مولانا مودودی نے ایک انٹرویو میں بتایا:’’علامہ اقبال سے ملاقات کے موقع پر اسلامی تحریک کی تشکیل پیش نظر نہیں تھی۔ اس وقت دو چیزیں پیش نظر تھیں: ایک یہ کہ علمی حیثیت سے ان گوشوں کو پُر کیا جائے جن کے خالی ہونے کی وجہ سے اسلامی نظامِ زندگی موجودہ زمانے کے لوگوں کو ناکافی اور ناقابلِ عمل نظر آ رہا ہے۔ دوسرے یہ کہ ایسے لوگ تیار کیے جائیں جو مسلمانوں کی فکری اور عملی رہنمائی کرنے کے قابل ہوں۔ ایک خالص اور جامع اسلامی تحریک کا تخیل اس وقت واضح طور پر میرے سامنے نہیں تھا۔ اقبال کے پیش نظر اسلامی قانون اور فلسفے کی تدوین تھی۔ اُس وقت حقیقت میں ایک ایسے انسان کی ضرورت تھی، جو مغربی تعلیم پر فخر کرنے والے عام لوگوں سے زیادہ تعلیم پائے ہوئے ہو، اور ان سے بڑھ کر ہی مغربی علوم پر نگاہ رکھتا ہو، اور پھر وہ اُس پُرزور طریقے سے اسلامی نظریات کی تائید کرے کہ مغرب زدہ لوگ اس کے سامنے بولنے کی ہمت نہ کرسکیں۔(ماہ نامہ سیارہ ، لاہور، مئی ۱۹۶۳ء، ص ۳۶)

۱۲-         مولانا مودودی نے بتایا :علامہ اقبال نے مجھ سے فرمایا کہ چودھری نیاز علی صاحب نے جو جگہ وقف کی ہے مَیں اسی کا انتخاب کروں۔ (ماہ نامہ سیارہ ، لاہور، مئی ۱۹۶۳ء، ص ۳۵)

۱۳-         جاپانی محقق کاگایا اور ہاماگوچی کو یہاں مغالطہ ہوا ہے ، اور یامانے سو بھی چوک گئے ہیں۔ قائداعظم کی   یہ تقریر حق نمایندگی کے لیے نہیں تھی، کہ یہ حق تو اس ے پہلے مسلمانوں کو مل چکا تھا۔ یہاں تو وہ الگ  مسلم ریاست کے حصول کا مطالبہ کر رہے تھے۔(سلیم منصورخالد)

۱۴-         اس مقالے کا جاپانی ترجمہ ناکاگاوا یاسوشی (Nakagawa Yasushi) نے کیا۔

۱۵-         مولانا مودودی کے نزدیک اس کا یہ مطلب نکالنا صحیح نہیں ہے کہ اسلام، قومی حکومت کا دشمن ہے۔ وہ ہرقوم کے اس حق کو تسلیم کرتا ہے کہ وہ اپنے احوال کی اصلاح خود کرے۔ مگر جب کسی قوم کے اعمال بگڑجائیں، اس کی اخلاقی حالت خراب ہوجائے اور وہ اپنے شریر اور مفسد لوگوں کی پیروی و اطاعت اختیار کرکے ذلت و مسکنت کی پستیوں میں گر جائے، تو اسلام کے نزدیک اس قوم کا حکومت ِ خوداختیاری کا حق باقی نہیں رہتا اور دوسرے لوگوں کو جو اس کے مقابلے میں اصلح ہوں، اس پر حکومت کرنے کا حق حاصل ہوجاتا ہے۔ قرآنِ حکیم میں نافرمان اور بدکار قوموں کو جگہ جگہ یہ دھمکی دی گئی ہے کہ: ’’اگر تم  حق سے منہ پھیرو گے تو اللہ تمھارے بدلے دوسری قوم کو کھڑا کرے گا اور وہ لوگ تم جیسے نہیں ہوں گے‘‘ (محمد ۴۷:۳۸)۔’’اگر تم راہِ الٰہی میں جہاد کے لیے نہ نکلو گے تو اللہ تمھیں دردناک مصائب میں مبتلا کرے گا اور تمھارے بدلے دوسری قوم کو کھڑا کردے گا اور تم اس کا کچھ نہ بگاڑ سکو گے‘‘ (التوبہ ۹:۳۹)۔(الجہاد فی الاسلام، سیّد مودودی،ص ۱۴۶)

۱۶-         ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، مولانا مودودی کی کتاب مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش، حصہ سوم کو جماعت اسلامی کے قیام کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔ تذکرہ سید مودودی، سوم، ۱۹۹۸ء،ص ۳۳۳۔

۱۷-         ۱۹۷۰ء میں جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ پانچ علما، تین بی اے، دو ایم اے، اور ایک انجینیرمشرقی پاکستان سے،اور ۱۷علما، پانچ بی اے، دو ایل ایل بی، ۱۲؍ایم اے، ایک ایم بی اے، اور ایک ایم ایس سی، مغربی پاکستان پر مشتمل تھی۔

۱۸-         ہمارے خیال میں ڈاکٹر یامانے سو نے یہاں علامہ محمد اقبال اور مولانا مودودی کے نقطۂ نظر کو سمجھنے میں کچھ غلطی کی ہے۔ اقبال اور مولانا مودودی ’اسلام کی جدید خطوط پر تشکیلِ نو‘ کے قائل اور علَم بردار نہیں تھے۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ آج اہلِ مغرب، ہنود، یہود اور سیکولر قوتوں کی آنکھ کا تارا ہوتے۔ پھر یہ جملہ اور بھی نامناسب ہے کہ ’’یہ تشکیل نو ہو بھی تو: مغرب کے جدید تقاضوں کے مطابق‘‘۔شعرِاقبال، فکرِاقبال  اور مولانا مودودی کی فکری و عملی کاوشیں اس الزام سے کُلی برأت کا اعلان کرتی ہیں۔ یہ دونوں   فرزندانِ اسلام صرف یہ چاہتے تھے کہ عصرِحاضر میں جو فکری اور تہذیبی چیلنج درپیش ہیں ان کا اسلامی فکر کی روشنی میں جواب دیا جائے، نہ کہ اسلام کو ان کے مطابق ڈھالا جائے۔ہم یہاں یہ بھی وضاحت کرتے ہیں کہ اگلے ہی جملے میں یامانے سو نے اس کاوش کو ’’اسلام کے دورِ اول سے ہم آہنگ‘‘ کرنے کی بات کی ہے، جو مثبت چیز ہے۔ یہ امر ذہن نشین رہے کہ مغرب یا مغرب کے زیراثر بعض ماہرین دانستہ یا نادانستہ طور پر کچھ جملے بڑے مثبت لکھتے ہیں، لیکن چند جملے نہایت منفی لکھ کر اپنا فیصلہ سنادیتے ہیں، [یامانے ان میں سے نہیں ہیں]اور اصل نقطۂ نظر یہی منفی جملے ہوتے ہیں۔(سلیم منصورخالد)

۱۹-         مولانا مسعود عالم ندوی سے مولانا مودودی کی مراسلت کے ۵۰ خطوط بھی شائع ہوچکے ہیں  (خطوطِ مودودی، اوّل، ۱۹۸۳ء، ۲۰۱۱ء)۔تحریکِ احیاے اسلام کے رہنمائوں، جیسے مصر کے سیدقطب [م: ۲۹؍اگست ۱۹۶۶ء]نے ندوۃ العلما کی شائع کردہ کتب کے ابتدایئے لکھے۔ مجھے مولانا مودودی کی کتب کے عربی تراجم کویت میں تحقیق کرنے پر ملے، جب کہ الجہاد فی الاسلام کی عربی تلخیص بھی دیکھنے کو ملی، جو کہ ایران سے شائع ہوئی تھی لیکن مصنف کا نام نہیں لکھا تھا۔ (الجہاد فی الاسلام، تہران، الجماعت التالیف ۱۹۸۹ء)

۲۰-         وہ پانچ کتب جو کابل میں شائع ہوئی تھیں ان میں اقبال کے دورئہ افغانستان پر مشتمل کتاب بھی شامل تھی جس میں انھوں نے افغانستان کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار کیا تھا اور اس کتاب میں   ان کی اُردو نظموں کا ترجمہ بھی شامل تھا۔ افغان شاعر خلیل اللہ خلیلی جن کی اقبال سے وابستگی تھی، جن کا  بیٹا مسعود خلیلی مجاہدین افغانستان کی تنظیم جمعیت اسلامی کا ایک سربرآوردہ ممبر ہے، جو ۱۹۹۰ء سے پاکستان میں افغان سفارتی نمایندہ رہا اور پھر بھارت میں افغانستان کا سفیر مقرر ہوا۔

۲۱-         مجھے علامہ اقبال پر دنیا بھر میں پھیلے ہوئے تحقیقی کام سے شناسائی کا اس وقت موقع ملا، جب میں نے انٹرنیشنل اقبال کانفرنس ( ۲۱-۲۴؍اپریل ۲۰۰۳ء،لاہور) میں تحقیقی مقالہ پیش کیا۔

 

پاکستان کے سیکولر حلقوں کی جانب سے وقتاً فوقتاً یہ دعویٰ سامنے آتا رہتاہے کہ بانیِ پاکستان اتاترک سے بہت متاثر تھے اور پاکستان میں بھی سیکولرازم کا وہی تجربہ کرنا چاہتے تھے جو اتاترک نے ترکی میں کیا تھا۔نیز یہ کہ کمال پاشا نے اپنے ملک میں سیکولرازم کے نفاذ کے لیے کسی جبر سے کام نہیں لیا اور یہ حربے اس کے جانشین عصمت انونو سے لے کر طیب اردوگان سے پہلے تک کے حکمرانوں نے استعمال کرکے سیکولرازم کو بدنام کیا، جب کہ اتاترک نے سیکولرازم کا سہارا صرف اس بنا پرلیا تھا تاکہ ترکی میں مذہبی لوگوں کی پھیلائی ہوئی فرقہ وارانہ منافرت پر قابو پایا جاسکے جس کی وجہ سے اس دور کے ترکی کے حالات موجودہ پاکستان سے بھی زیادہ خراب ہوگئے تھے۔ مذہبی عناصر کی اسی جنگ کے سبب تین براعظموں پر پھیلی ہوئی سلطنت عثمانیہ مٹ گئی ۔ اتاترک کی جدوجہد کو ترکی ہی نہیں، برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کی بھی بھرپور حمایت حاصل ہوئی۔ اس لیے اس پر سیکولرازم کے نفاذ کے حوالے سے نکتہ چینی درست نہیں۔

سیکولر حلقوں کے یہ دعوے تاریخی حقائق سے کوئی مناسبت نہیں رکھتے۔ترکی میں آج بھی ۸ء۹۹ فی صد آبادی حنفی مسلک کے سنی مسلمانوں کی ہے اور پہلے بھی یہی صورت تھی، لہٰذا وہاں  فرقہ واریت کا کوئی مسئلہ نہ مصطفی کمال پاشا کے دور میں تھا، نہ اس سے پہلے، نہ بعد۔ چنانچہ اس بات میں کوئی صداقت نہیں کہ اتاترک کے دور میں مذہبی لوگوں نے فرقہ واریت کا بازار گرم کررکھا تھا۔ کھلی حقیقت یہ ہے کہ سلطنت عثمانیہ کے کمزور ہونے کا بنیادی سبب پہلی جنگ عظیم میں ترکی کی طرف سے جرمنی کا ساتھ دیا جانا تھا جس میں جرمنی اور اس کے حلیفوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے نتیجے میں جنگ کے اختتام پر ۱۹۱۸ء میں برطانیہ اور اس کے اتحادیوں نے استنبول پر قبضہ کرلیا۔کمال پاشا نے سلطنت عثمانیہ کے تحت ترکی کے مقبوضہ علاقوں کو آزاد کرانے کے لیے بلاشبہہ عظیم الشان خدمات انجام دیں۔ یہی دور تھا جب وہ خلافت اسلامیہ کے محافظ کی حیثیت سے اپنے ہم وطنوں اور پوری مسلم دنیا خصوصاً برعظیم کے مسلمانوں کی آنکھوں کا تارا بنے۔ یہی دور تھا جب ہندستان میں تحریک خلافت شروع ہوئی ۔ جوہر برادران [مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی جوہر] اور دوسرے مسلمان رہنماؤں نے اسے ہندستان کے چپے چپے تک پھیلا دیا اور یہ سلوگن ملک کے طول و عرض میں گونجنے لگا کہ ’’بولیں امّاں محمد علی کی، جان بیٹا خلافت پہ دے دو‘‘۔

۱۹۲۳ء میں اتاترک کے ہاتھوں خلافت کا خاتمہ اور پھر اسلامی تہذیب و روایات کی جگہ جبراً مغربی تہذیب کو مسلط کرنے کے اقدامات کا عمل میں آنا، مسلمانانِ ہند کے نزدیک ایک عظیم المیہ تھا۔ کمال پاشا کو وہ عظیم مسلمان غازی اور مجاہد سمجھتے تھے اور امید رکھتے تھے ان کے ذریعے خلافت اسلامیہ ازسرنو بام عروج پر پہنچے گی اور مسلم دنیا کے درمیان اتحاد ویگانگت کے رشتوںکو مضبوط کرنے کا سبب بنے گی۔ خلافت کے خاتمے اور ترکی کے محض ایک قومی ریاست بن جانے کے المیے پر، مسلمانوں کو ’’ بُتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا، نہ تورانی رہے باقی، نہ ایرانی نہ افغانی‘‘ کا درس دینے والے علامہ اقبال نے اپنے جذبات کا اظہار یوں کیا    ؎

چاک کردی تُرکِ ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی مسلم کی دیکھ‘ اوروں کی عیاری بھی دیکھ

’’جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘‘ اور ’’ہوئی دین و دولت میں جس دم جدائی،   ہوس کی امیری ،ہوس کی وزیری‘‘ جیسے بلیغ کلام کے ذریعے اس نظام کی حقیقت کو بے نقاب کردینے والے حکیم الامت علامہ اقبال کو مصطفی کمال اور شاہ ایران رضا شاہ کے سیکولر اقدامات سے جو مایوسی ہوئی اس کا اظہار اُن کے اس شعر سے بھی ہوتا ہے     ؎

نہ مصطفی نہ رضا شاہ میں نُمود اس کی
کہ روحِ شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی

 کمال پاشا نے خلافت کا خاتمہ کرکے ترکی کو جبراً ایک ایسی سیکولر قومی ریاست بنادیا جس میں اذان اور اللہ کا نام تک عربی ہونے کی وجہ سے ممنوع قرار پایااور اس کی جگہ ترکی کے لفظ Tanri کا استعمال لازمی قرار دیا گیا۔ عورتوں کے لیے حجاب کے قرآنی احکام پر عمل ممنوع ٹھیرا اور مردوں کے لیے مغربی لباس لازمی قرار دیا گیا تو ترکی میں بھی، محض مولویوں کی طرف سے نہیں، عام مسلمانوں کی جانب سے بھی اس اقدام کے خلاف شدید مزاحمت کی گئی جسے کمال پاشا نے نہایت سختی سے کچل دیا۔

اسلام کے بارے میں کمال پاشا کے حقیقی خیالات کیا تھے؟ ان کے ایک سوانح نگار ایچ سی آرمسٹرانگ کی کتاب گرے وولف میں دی گئی کمال پاشا کی ایک تقریر کے ان الفاظ سے اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے:

 تقریباً پانچ سو سال تک ایک عرب شیخ کے یہ قوانین و نظریات اور کاہل و ناکارہ علماء کی جانب سے کی گئی اِن کی تشریحات ترکی کے شہری اور فوجداری قانون کی صورت گری کرتے رہے ہیں۔ ہمارے آئین کی نوعیت، ہر ترک باشندے کی زندگی کی تفصیلات، اس کی غذا، سونے جاگنے کے اوقات، اس کے لباس کی ہیئت ، اس دایہ کے معمولات جس کے ہاتھوں اس کے بچوں کی ولادت ہوتی ہے،وہ سب کچھ جو وہ اپنی درس گاہوں میں سیکھتا ہے،اس کے رسوم و رواج، حتیٰ کہ اس کی بالکل ذاتی عادات تک کا تعین یہی اصول و ضوابط کرتے چلے آئے ہیں۔اسلام، ایک۔۔۔۔۔[ناقابل تحریر لفظ]۔۔۔۔۔ عرب کا مذہب، ایک مردہ چیز ہے۔ممکن ہے ریگستان کے قبائل کے لیے یہ مناسب ہو ، لیکن کسی جدید ترقی پسند ریاست کے لیے یہ کسی کام کا نہیں ۔اللہ کی جانب سے وحی؟ خدا کا کوئی وجود نہیں۔ یہ صرف وہ زنجیریں ہیں جن میں مذہبی رہنما اور برے حکمران لوگوں کو جکڑتے ہیں۔ جس لیڈر کو مذہب کی ضرورت ہو،وہ کمزور ہے، اور کسی کمزور کو حکومت نہیں کرنی چاہیے‘‘۔ (گرے وولف، ص ۱۹۹-۲۰۰)

 واضح رہے کہ بعض سیکولر قلم کاروں کے بقول قائد اعظم نے بھی اس کتاب کی تعریف کی تھی اور اس بنیاد پر ان کا دعویٰ ہے کہ قائد اعظم اتاترک کے مداح تھے اور پاکستان میں ویسا ہی نظام لانا چاہتے تھے جیسا ترکی کا یہ لیڈر اپنے ملک میں لایا تھا۔

اب رہ گئی یہ خوش گمانی کہ کمال پاشا نے اپنے سیکولر نظریات اپنے ہم وطنوں پر مسلط کرنے کے لیے کسی جبر سے کام نہیں لیا ، یہ سب اتاترک کے بعد اور طیب اردوگان سے پہلے آنے والے حکمرانوں نے کیا ، تواسے بھی واقعاتی حقائق کی روشنی میں دیکھ لیجیے۔ ایچ سی آرمسٹرانگ کے مطابق کمال پاشا کے لیے اپنی کسی راے سے اختلاف ناقابل برداشت تھا۔ گرے وولف  کا مصنف لکھتا ہے ’’وہ اپنی راے کے خلاف کسی کی بات نہیں سنتا تھا۔وہ ہر اس شخص کی توہین کرتا تھا جو اس سے اختلاف کی جرأت کرے۔ وہ تمام اقدامات کو حقیر ترین ذاتی مفاد کی کسوٹی پر پرکھتا تھا۔وہ انتہائی حاسد تھا۔اس کے نزدیک ہوشیار اور لائق لوگ ایسا خطرہ تھے جن سے نجات حاصل کرنا ضروری تھا۔ دوسروں کی صلاحیتوں پر وہ شدید نکتہ چینی کیاکرتا تھا‘‘۔(ص ۲۱۳)۔ اس مزاجی کیفیت کے ساتھ کمال پاشا نے ترکی میں کیا ’اصلاحات‘ نافذ کیں اور کس طرح کیں، اس پر روشنی ڈالتے ہوئے دور جدید کے ممتاز مذہبی اسکالر ڈاکٹر یوسف القرضاوی اپنی کتاب اسلام اور سیکولرازم میں لکھتے ہیں:’’اسلامی ممالک میں اسلام اور سیکولرازم کی واضح اور نمایاں ترین مثال ترکی کی ہے جہاں خلافت ِاسلامیہ کو ختم کرکے اور خون کا دریا عبور کرکے پورے زور اور قوت کے ساتھ لادینیت کو مسلط کیا گیا۔اتاترک نے جبر اور تسلط کے ساتھ سیاست، اقتصاد، اجتماع،تعلیم اور ثقافت، غرض زندگی کے ہر پہلو میں مغربی طرز حیات جاری و ساری کردیا، اور ترک قوم سے اس کی ثقافت، اس کی اقدار اور اس کی روایات اس طرح سلب کرلیں جس طرح ذبح شدہ بکری کی کھال کھینچی جاتی ہے ‘‘۔

کمال پاشا نے ترکی میں اللہ کا نام لینے پر جس طرح پابندی عائد کی، ۹ جنوری۱۹۳۳ء کے ٹائم میگزین میں اس کی رپورٹ یوں شائع ہوئی : ’’ترکوں نے پچھلے ہفتے نیا چاند دیکھا جس کے بعد رمضان کا مہینہ شروع ہوا۔وہ مہینہ جس میں پیغمبر اسلام محمد ؐ پر قرآن نازل ہوا تھا۔اس سال نئے چاند کی پہلی جھلک کے ساتھ خوف کی بھی ایک خاص کیفیت لوگوں پر طاری تھی۔ترکوں کو ان کے سخت گیر آمر مصطفی کمال پاشا کی طرف سے، جس نے انھیں حجاب اورترکی ٹوپی چھوڑنے پر مجبور کیا (ٹائم، ۱۵ فروری ۱۹۲۶ء )،حکم دیا گیا تھا کہ اس رمضان کے آغاز کے بعد وہ کبھی خدا کو اس کے عربی نام’ اللہ ‘سے نہیں پکاریں گے ۔۔۔۔۔۔ آمر کمال کے ظالمانہ حد تک سخت فرمان کے ذریعے پچھلے ہفتے مؤذنوں کو پابند کیا گیا کہ وہ ترکی کے میناروں سے مسلمانوں کو کسی بھی صورت ’اللہ اکبر‘ کے الفاظ سے نہیں بلائیں گے، اس کے بجاے نامانوس الفاظ "Tanri Uludur"استعمال کریں گے جس کے معنی ترکی زبان میں وہی ہیں۔ جب اماموں نے دھمکی دی کہ وہ مسجدوں میں خدمات انجام دینا بند کردیں گے ۔۔۔۔۔۔ توحکومت نے اعلان کیا کہ ان کی جگہ نئے تربیت یافتہ افراد کا تقرر کردیا جائے گا جو ترکی زبان میں قرآن پڑھنا جانتے ہیں۔۔۔۔۔

رمضان کی آمد سے عین قبل محکمہ ثقافت (جس میں مذہب بھی شامل ہے) کے کچھ     اہل کاروں نے ہمت جمع کی اور ترکی کے آمر کو بتایا کہ وہ ترکی کے خدا کا نام تبدیل نہیں کرسکتا، کم از کم اِس وقت۔ اسے بتایا گیا کہ متعدد مؤذنوں کے اس اصرار پر کہ وہ اللہ اکبر کہہ کر ہی اذان دیں گے، پہلے ہی جیل بھیجا جاچکا ہے۔ اس پر لوگوں کا غم وغصہ بڑھ رہا ہے ،اور صاف ظاہر ہے کہ وہ اللہ اکبر کہنے والے ان مؤذنوں سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ آمر کمال یکایک ایک نتیجے تک پہنچے اور بولے ’’انھیں عارضی طور پر اسی طرح نماز پڑھنے دو جیسے وہ چاہتے ہیں‘‘۔ یہ سننے کے بعد چاند نکلنے سے محض چند گھنٹے پہلے ان کا وزیر خوش ہو کر یہ اعلان کرنے کے لیے دوڑا کہ ’’مؤذنوں اور اماموں کی عمومی عدم تیاری کی وجہ سے اس رمضان کے دوران نمازوں کی ادایگی اور قرآن کی تلاوت عربی زبان میں کی جاسکتی ہے لیکن خطبہ لازماً ترکی زبان میں دیا جانا چاہیے‘‘۔اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے ٹائم کا رپورٹر کہتا ہے ’’رمضان میں تمام مسلمان خاص طور پر تند مزاج ہوتے ہیں کیونکہ دن کے اوقات میں وہ کچھ کھاتے پیتے نہیں، روزے ختم ہونے کے بعد ترک زیادہ نرم خو ہوجائیں گے،اور امید ہے کہ اپنے آمر کے حکم کے مطابق اپنے خدا کے لیے نیا نام قبول کرلیں گے‘‘۔

اتاترک کے پاکستانی وکیلوں کے اس دعوے کے برعکس کہ اس نے اپنے نظریات سے اختلاف کرنے والوں پر کوئی زیادتی نہیں کی، گرے وولف  کا مصنف ایچ سی آرمسٹرانگ بالکل مختلف کہانی سناتا ہے۔ ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے: ’’ خفیہ پولیس نے اپنا کام کیا۔ ٹارچر، مارپیٹ اور دوسرے طریقوں سے پولیس کو حراست میں لیے جانے والے مخالف لیڈروں کو مجرم ٹھیرانے کے لیے خاطر خواہ ثبوت مہیا کرنے تھے۔ان پر مقدمہ چلانے کے لیے ایک ٹریبونل نامزد کیا گیا۔کسی طریق کار اور شواہد کا تکلف کیے بغیر عدالت نے انھیں پھانسی کی سزا سنادی۔سزاے موت کے وارنٹ مصطفی کمال کو دستخط کے لیے ان کی رہایش گاہ ’خان کیا‘بھیجے گئے۔ان میں سے ایک وارنٹ کمال کے جگری دوست عارف کی سزاے موت کا بھی تھا جو مصطفی کمال سے جھگڑے کے بعد اپوزیشن میں چلا گیا تھا۔ عارف اس کا ایک ایسا دوست تھا جو جنگ آزادی کے تمام کٹھن دنوں میں اس کا وفادار رہا تھا۔وہ اکیلا شخص تھاجس کے سامنے کمال نے اپنادل کھول کر رکھ دیاتھا۔۔۔۔ ایک  عینی شاہد کے مطابق جب یہ وارنٹ سامنے آیا تو غازی کے چہرے پر کوئی تغیر رونما نہیں ہوا۔اس نے کوئی تبصرہ کیانہ ہچکچایا۔اس نے اپنا سگریٹ ایش ٹرے کے کنارے رکھا، اور عارف کے موت کے پروانے پر اس طرح دستخط کردیے جیسے یہ روزمرہ معمول کا کوئی عام کاغذ ہو، اور دوسرے وارنٹ پر پہنچ گیا‘‘۔ آرمسٹرانگ نے اس کے بعد ایک محفل رقص و سرود اور ناؤ و نوش کی تفصیلات بیان کی ہیں جو آمر وقت کی خواہش کے مطابق اسی رات ’خان کیا ‘میں برپا ہوئی، جب کہ عین ان ہی لمحات میں اس عشرت کدے سے چار میل دور انقرہ کے گریٹ اسکوائر پر عارف سمیت پاشا سے اختلاف راے کرنے کے جرم میں ۱۱ ترک لیڈروں کو تختۂ دار پر لٹکایا جارہا تھا۔

ان تفصیلات سے واضح ہے کہ اتاترک جنگ آزادی کے دوران بلاشبہہ ایک محبوب رہنما کی حیثیت سے اُبھرے لیکن خلافت کے خاتمے اور ترکی کو اسلامی اقدار و روایات سے دور کرنے کے اقدامات پر نہ صرف برعظیم اور ساری دنیا کے مسلمانوں کو مایوسی ہوئی بلکہ ان اقدامات کی بھرپور مخالفت ان کے اپنے ملک میں بھی ہوئی جسے انھوں نے انتہائی بے رحمی سے کچل دیا۔ لہٰذایہ دعویٰ بالکل بے بنیاد ہے کہ جبر و ستم کا سلسلہ ان کے بعد کے حکمرانوں نے شروع کرکے اتاترک کے سیکولرازم کو بدنام کیا۔

یہ بات بھی تاریخی حقائق کے منافی ہے کہ کمال پاشا کے بعد اور طیب اردوگان سے پہلے تک ترکی کے تمام حکمراں جبر و تشدد سے کام لیتے رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اتاترک کے جانشین عصمت انونو وغیرہ کے بعد ۱۹۵۱ء سے ۱۹۶۰ء تک عدنان مندریس اور جلال بایار کے دور میں اتاترک کے غلط اقدامات کی اصلاح کرنے کی کوشش کی گئی ، عربی میں اذان اور نماز کی اجازت دی گئی اور دوسرے اقدامات کیے گئے، لیکن ترک فوج نے جو خود کو اتاترک کے اسلام مخالف سیکولر اقدامات کا محافظ سمجھتی تھی، جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دیا اور عدنان مندریس کو اتاترک کے اصولوں سے رُوگردانی کی پاداش میں پھانسی دے دی ۔ اس کے بعد سلیمان ڈیمرل اور نجم الدین اربکان وغیرہ کے ادوار حکومت میں بھی یہ کوششیں جاری رہیں لیکن فوجی مداخلت انھیں ناکام بناتی رہی۔ بالآخر نجم الدین اربکان کے ساتھی طیب اردوگان اور عبداللہ گل کی حکمت عملی کامیاب رہی، اور  ترک عوام کی بھرپور حمایت حاصل کرکے انھوں نے ملک کو فوجی تسلط سے آزاد کرایا اور معاشی بحران سے نجات دلائی ۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ یہ لوگ ترکی کی اسلامی تحریک کا حصہ ہیں لیکن   ان پابندیوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں جو اب تک برقرار ہیں۔

ترکی میں جس درجے اور جس قسم کا سیکولرازم نافذ کیا گیا تھا،اس کی ایک چشم کشا مثال ترکی میں مقیم ایک پاکستانی معلم اور کمال پاشا کے مداح نے اپنے ایک اخباری کالم میں پیش کی ہے۔ ان کے مطابق رمضان کے دنوں میں انقرہ یونی ورسٹی میں ان کی کلاس عین افطار کے وقت بھی جاری رہتی تھی۔ جو طلبہ و طالبات روزے سے ہوتے وہ کلاس کے دوران خاموشی سے چاکلیٹ وغیرہ سے روزہ افطار کرلیتے تھے اور نماز اور افطار کا کوئی وقفہ نہیں ہوتا تھا ۔کالم نگار کے مطابق رمضان اور روزے کا اس طرح اہتمام اصل اسلام کا حقیقی مظاہرہ ہے ۔ انھیں افسوس ہے کہ پاکستان میں ایسا نہیں ہوسکتا۔ حیرت ہے کہ سیکولر مغربی ملکوں میں کرسمس کی دس روزہ تعطیلات اور پُرجوش تقریبات ، شادیوں کا چرچ میں انعقاد، سیکولر بھارت میں ہولی دیوالی کے جشن، مغربی ملکوں میں ہفتہ وار تعطیل کے لیے عیسائیت میں مذہبی اہمیت رکھنے والے دن اتوار اور اسرائیل میں سنیچر، یعنی یومِ سبت کا انتخاب وغیرہ تو انھیں سیکولرازم سے متصادم نظر نہیں آتا، مگر تقریباً ۱۰۰ فی صد مسلمان آبادی والے ملک ترکی میں اسلام کی رو سے مقدس ترین مہینے رمضان میں افطار اور نمازِ مغرب کے لیے وقفہ نہ کرنے کو وہ سیکولرازم ہی کا نہیں اسلام کا بھی مثالی مظاہرہ سمجھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ مثال کمال پاشا کی جبری سیکولر بلکہ اسلام مخالف ’اصلاحات‘ کا ایک ناقابلِ تردید ثبوت ہے۔اس ترکی کو قائد اعظم کا آئیڈیل قرار دینا اور اتاترک کو ان’ اصلاحات‘ کی بنا پر بانی پاکستان کا ممدوح ٹھیرانا قطعی ناقابل فہم ہے۔

کمال پاشا اور قائد اعظم ہر لحاظ سے مختلف تھے۔ ایک خود راے آمر تھا تو دوسرا سرتاپا جمہوریت پسند۔ ایک نے اپنی قوم پر انگریزی لباس اور تہذیب بالجبر مسلط کی تو دوسرے نے سربراہ مملکت بنتے ہی شیروانی اور قراقلی ٹوپی کی ایسی پابندی اختیار کی کہ کسی سرکاری تقریب میں اس کی خلاف ورزی نہ ہوئی۔ ایک نے عربی رسم الخط ختم کرکے رومن حروف تہجی زبردستی رائج کیے تو دوسرے نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ پاکستان کی قومی زبان اُردو اور صرف اُردو ہوگی۔ ایک کا معمول  علماے اسلام کی تحقیر تھا تو دوسرے نے پہلے یوم آزادی کی تقریب پر پرچم کشائی کے لیے  تحریکِ پاکستان میں قائدانہ کردار ادا کرنے والے ممتاز عالم دین علامہ شبیر احمد عثمانی کا انتخاب کیا۔ ایک نے اپنے ہم وطنوں کو عالمی اسلامی برادری سے کاٹ پھینکنے کے اقدامات کیے تو دوسرا  مسلمانانِ عالم کے اتحاد کا علَم بردار تھا۔ ایک کے نزدیک اسلام ریگستان کے قبائل کا دین اور کسی جدید ریاست میں قابل نفاذ نہیں تھا تو دوسرے نے اپنے درجنوں بیانات اور تقریروں میں واضح کیا کہ اسلام ایک مکمل نظام زندگی ہے اور قرآن و سنت میں اس کی مکمل صورت گری کردی گئی ہے۔ اس نے صاف طور پر کہا کہ’’ پاکستان کا مطالبہ محض زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا گیا بلکہ اسے دور جدید میں اسلام کی تجربہ گاہ بنایا جانا ہے‘‘۔

قیامِ پاکستان کے بعد اپنی زندگی کے آخری مہینوں میں امریکی عوام کے نام اپنے نشری پیغام میں آئین پاکستان کے حوالے سے دوٹوک الفاظ میںواضح کیا کہ وہ سیکولر نہیں بلکہ اسلام کے اصولوں کے عین مطابق ہوگا۔ قائد اعظم کے الفاظ ہیں: ’’ مجلس دستور ساز پاکستان کو ابھی پاکستان کے لیے دستور مرتب کرنا ہے۔ مجھے اس بات کا تو علم نہیں کہ دستور کی حتمی شکل کیا ہوگی، لیکن مجھے اس امر کا یقین ہے کی یہ جمہوری نوعیت کا ہوگا جس میں اسلام کے لازمی اصول شامل ہوں گے۔  آج بھی ان کا اطلاق عملی زندگی میں ویسے ہی ہوسکتا ہے جیسے کہ تیرہ سو برس قبل ہوسکتا تھا۔    اسلام نے ہرشخص کے ساتھ عدل اور انصاف کی تعلیم دی ہے۔ ہم ان شان دار روایات کے وارث ہیںاور پاکستان کے آیندہ دستور کے مرتبین کی حیثیت سے ہم اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے باخبر ہیں‘‘ (قائداعظم: تقاریر و بیانات، جلد چہارم، ص ۴۲۱)۔ ایسے شخص کو اُس جیسا قرار دینا جس نے اپنی قوم کا رشتہ اسلام سے کاٹ ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کی، بڑی نا انصافی اور حقائق کے یکسر منافی ہے۔  

 

تیونس میں جمہوریت کی طرف کامیابی سے منتقلی نہ صرف تیونس کے لیے بلکہ تمام خطے کے لیے اہم ہے کیونکہ یہ خطے میں پہلا ملک ہوگا جو جمہوری بھی ہوگا اور مسلم بھی۔ یہی وجہ ہے کہ     ہم تیونس میں اس ذمہ داری کے بوجھ کو محسوس کرتے ہیں اور پوری کوشش کر رہے ہیں کہ کامیابی سے ہم کنار ہوں۔ ہمارا انقلاب برآمد کرنے کے لیے نہیں ہے لیکن ہمیں اُمید ہے کہ ایک کامیاب مثال (ماڈل) پورے خطے پر اثرانداز ہوگی۔

انتخابات سے قبل کے زمانے میں، ہم نے اعلان کیا تھا کہ ہم سیکولر جماعتوں کے ساتھ اتحاد کے ذریعے حکومت کرنا پسند کریں گے۔ ہم آزاد ارکان اسمبلی کے ذریعے اپنی حکومت قائم کرسکتے تھے لیکن ہم نے ایک ایسی اتحادی حکومت بنانے کو ترجیح دی جسے سیاسی تناظر میں وسیع پیمانے پر تائید حاصل ہو۔ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ عبوری دور میں سادہ اکثریت کی حامل حکومت ناکافی ہے، بلکہ ہمیں وسیع تر اتحادی حکومت کی ضرورت ہے جو یہ پیغام دے سکے کہ ملک سب کے لیے ہے نہ کہ محض اکثریت کے لیے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ معتدل اسلام پسند اور معتدل لادین عناصر مل کر  کام کرسکتے ہیں، اور کرنا چاہیے، اور انھیں سیاسی تناظر میں مفاہمت کے لیے افہام و تفہیم کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

ہم نے اپنی حد تک بہت کوشش کی ہے کہ نظریاتی بنیادوں پر تقسیم سے اجتناب کیا جائے کیونکہ یہ انتشار اور ناکامی کا نسخہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے نہ صرف حکومت کی تشکیل بلکہ آئین سازی میں بھی بہت سی رعایتوں کو ملحوظ رکھا ہے۔ ہم اسلام پسندوں اور لادین عناصر کے بقاے باہمی کی ضرورت پر Troika (سہ رکنی کونسل) اور کانگرس براے ری پبلک اینڈ ڈیموکریٹک فورم براے ورک اینڈ لبرٹیز (Attakatol) کے فریم ورک میں یقین رکھتے ہیں۔ ان میں درج ذیل وجوہات شامل ہیں:

اوّل: اسلام اور جمہوریت میں کوئی تضاد نہیں۔ جمہوریت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حکومت بالخصوص لادین عناصر کی ہو، جب کہ اسلام پسندوں کو ریاست کا دشمن تصور کیا جائے جنھیں نظربند کردیا جائے یا جلاوطن۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ لادین عناصر کو اقتدار سے محروم اور آئین سازی میں ان کے اختیار کو محدود کردیا جائے کیونکہ انھوں نے انتخابات میں اکثریت حاصل نہیں کی۔

دوم: اسلام پسندوں کا اقتدار میں آنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ حکومت، معاشرے اور انقلاب میں غالب ہوں گے کیونکہ وہ سب سے زیادہ مقبول پارٹی ہیں جیساکہ ماضی کے  دورِاستبداد میں روا رکھا جاتا تھا۔ ریاست کا کردار عوام پر ایک مخصوص طرزِ زندگی مسلط کرنا نہیں ہے، بلکہ اس کا کردار عوام کو تحفظ فراہم کرنا اور ان کی ضروریات کی تکمیل ہے اور پھر ان کو اپنی پسند کے مطابق طرزِزندگی اختیار کرنے کی آزادی دی جائے۔

سوم: لادین عناصر اور اسلام پسندوں کے درمیان تصادم، جوکہ عشروں سے جاری ہے، بہت سی توانائیوں کے ضیاع کا باعث اور آمروں کے ہمارے ملکوں پر مسلط ہونے میں مددگار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام پسندوں اور سیکولر عناصر کے درمیان اتحاد ایک آزاد جمہوری معاشرے کے قیام کے لیے ضروری ہے جو اپنے اختلافات کو سنجیدہ اور مخلصانہ مکالمے کے ذریعے حل کرسکے۔

دستور کا مسئلہ

آئین ایک اہم دستاویز ہے جو حکومت اور انتظامیہ کی حدود کا تعین کرتی ہے اور انھیں پابند کرتی ہے کہ قانون کی پابندی کریں۔ ہمارے پاس اسلامی تاریخ میں الصحیفہ [میثاقِ مدینہ] کے عنوان سے ایک مثال ہے جو رسولِؐ خدا کے ہاتھوں قائم ہونے والی پہلی اسلامی ریاست کی تشکیل کے وقت سامنے آئی۔ اس آئین نے ایک ہمہ جہتی ریاست کو تشکیل دیا جو مختلف قومیتوں اور مذاہب کو قریب لانے کا باعث بنا اور شہریت کی بنیاد حقوق اور فرائض پر رکھی۔

یہ بات ہمارے لیے باعث ِ مسرت ہے کہ گذشتہ دنوں تیونس میں آئینی اسمبلی کی کمیٹیوں نے دستور کے حتمی مسودے پر کام مکمل کرلیا ہے۔ امید ہے کہ یہ اگلے چند ہفتوں میں اسمبلی کے سامنے پیش کردیا جائے گا۔ اس دستور میں ہمارے لیے بنیادی رہنما اصول یہ ہے کہ یہ صرف سادہ اکثریت کا دستور نہ ہوبلکہ یہ پوری تیونس قوم کا دستور ہو۔ پوری قوم اس دستور میں اپنے آپ کو  دیکھ سکتی ہے اور یہ محسوس کرسکتی ہے کہ یہ سب کا ترجمان ہے خواہ اکثریت ہو یا اقلیت۔

اس مقصد کے حصول کے لیے ہم نے بڑے پیمانے پر مختلف سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں سے مشاورت کی۔ اس عمل کے ذریعے ہم نے بڑے پیمانے پر دستور پر اتفاق راے پیدا کرنے کی کوشش کی۔ تاہم، جب ہمیں مختلف مسائل، مثلاً شریعت، سیاسی نظام خواہ صدارتی ہو یا پارلیمانی، آزادیِ اظہار اور انسانی حقوق کی آفاقیت میں شدید اختلافات کا سامنا کرنا پڑا، تو ہم نے قومی سطح پر اتفاق راے پیدا کرنے کے لیے ملک کی اہم جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کیے جو کہ تقریباً پانچ ہفتوں تک جاری رہے اور ان کا اختتام ان اہم مسائل میں مفاہمت پر ہوا۔ چنانچہ ہم نے اس مطالبے کو تسلیم کرلیا کہ دستور میں شریعت کا ذکر نہ کیا جائے کیونکہ تیونس کے عوام کے لیے سیاسی نظام کے حوالے سے یہ تصور واضح نہ تھا۔ گو، ہم نے ابتدائی طور پر پارلیمانی نظام کو اختیار کیا ہے لیکن ہم اس معاہدے پر بھی پہنچے ہیں کہ ہمارے ہاں ملاجلا نظام ہوگا جس کے مطابق اختیارات صدر اور وزیراعظم کے درمیان تقسیم ہوں گے۔ ہم نے انسانی حقوق کی آفاقیت اور آزادیِ اظہار کو بھی ایک معاہدے کے تحت تسلیم کیا ہے۔ ہماری جماعت کے اندر کچھ لوگوں نے قیادت پر یہ الزام بھی لگایا کہ ہم ایک مفاہمتی جماعت بن کر رہ گئے ہیں، لیکن ہم کہتے ہیں کہ ایک بڑی جماعت ہونے کے ناتے یہ ہماری اہم ذمہ داری ہے کہ ملک کو آگے بڑھانے کے لیے ناگزیر اُمور میں مفاہمت اختیار کریں۔

ہمیں یقین ہے کہ ہمارے پاس ایک ایسا مسودۂ دستور ہے جو اسلام کی اقدار، جدید روایات اور جمہوری روایات کو یک جا کردیتا ہے۔ یہ انیسویں صدی کے عظیم مفکرین و مصلحین کا خواب تھا اور ہمیں امید ہے کہ اس دستور کی توثیق سے ہم اس خواب کو حقیقت میں بدل دیں گے۔  نیادستور مساوات، مختلف آزادیوںاور حقوق اور اختیارات کی تقسیم جیسی تمام اقدار پر مشتمل ہے۔

ہمیں اُمید ہے کہ جب دستورمنظور ہوجائے گا تو پورے ملک میں دوسرے انتخابات کی تیاریاں شروع ہوجائیں گی۔ یہ انتخابات آزاد اور منصفانہ ہوںگے اور دنیابھر میں ہمارے بہت سے احباب ان انتخابات کو دیکھنے اور نگرانی کے لیے تشریف لائیں گے تاکہ ان کی دیانت و صداقت کی ضمانت دے سکیں۔ ہمیں اُمید ہے کہ تمام جماعتیں اس میں حصہ لیں گی۔ صرف ایک پھول سے بہار کا سماں نہیں ہوتا۔ اس لیے یہ انتخابات اس بات کو ثابت کرنے کے لیے بہت ضروری ہیں کہ جمہوری عمل کو واپس لوٹایا نہیں جاسکتا۔

درپیش چیلنج

پہلا چیلنج اقتصادی اور سماجی ہے۔ ہم سب اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ انقلاب کے اہم عناصر میں سے یہ ایک اہم عنصر ہے۔

ہمیں بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ پہلا یہ کہ عوام کی توقعات بہت زیادہ ہیں اور ان کا صبر بہت کم۔ اقتصادی صورت حال بھی اہم مسئلہ ہے۔ یورپ میں ہمارے اہم تجارتی پارٹنر کے متاثر ہونے سے ہماری برآمدات اور سیاحت بھی متاثر ہورہی ہیں۔ ان تمام مسائل کے علی الرغم حکومت بے روزگاری کو ۲فی صد تک، یعنی ۱۸فی صد سے ۱۶فی صد تک کم کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ پیداوار میں بھی ۲۰۱۲ء کے ۵ء۳ فی صد کے مقابلے میں جب ہم نے اقتدار سنبھالا تھا ۲ فی صد اضافہ ہوا ہے۔ سیاحوں کی آمد میں بھی اضافہ ہوا ہے، گذشتہ سال ۶۰لاکھ سیاحوں کی آمد ہوئی تھی۔ تاہم، وہ نوجوان جنھوں نے سعیدی بوزید اور کسرین میں انقلاب برپا کیا تھا، انھیں اپنی زندگیوں میں کوئی بہتری نظر نہیں آتی۔ یہ وہ چیلنج ہے جس کا سامنا کرنے کے لیے کئی برس درکار ہوں گے۔

دوسرا چیلنج سیکورٹی کا ہے۔ انقلاب نے ریاست اور اس کے اختیارات کو کمزور کردیا ہے۔ اس لیے مختلف گروپوں کو موقع مل گیا ہے کہ اپنی حدود سے آگے بڑھیں اور قانون کی خلاف ورزی کریں۔ دونوں طرف کے انتہاپسندوں، یعنی دائیں طرف کے مذہب پسند اور بائیں طرف کے انتہاپسند، نے کوشش کی ہے کہ قانون کو بالاے طاق رکھتے ہوئے بزور اپنے تصورات کو لوگوں پر مسلط کریں۔ ہم نے ان گروپوں سے کہاہے کہ وہ ایک لمحے کے لیے بھی یہ نہ سمجھیں کہ جمہوریت کمزور پڑگئی ہے۔ ہم بتدریج ریاست کے اختیار کو مؤثر بنارہے ہیں لیکن آمریت کی طرح خوف کی بنیاد پر نہیں، بلکہ قانون کی بالادستی کے تصور کی بنا پر۔

سلفی مسئلے کے ضمن میں، مَیں اس بات پر زور دوں گا کہ یہ عنصر بن علی کے دورِحکومت کا پھل ہے نہ کہ جمہوریت کا۔دوسرے، یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے لہٰذا اس کا حل بھی پیچیدہ ہوگا۔ مثال کے طور پر یہ مسئلہ غریب آبادیوں میں پایا جاتا ہے، لہٰذا ترقیاتی کام اس مسئلے کے حل کا حصہ ہونے چاہییں۔

ہمیں اس بات کو بھی جاننے کی ضرورت ہے کہ یہ ایک کثیرجہتی مسئلہ ہے، اور یہ پُرتشدد نہیں ہے۔ لہٰذا اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ سلفیوں کو پُرتشدد عناصر سے الگ کرکے تشدد سے دُور رکھنے کی کوشش کریں اور پُرتشدد عناصر کو اقلیت میں تبدیل کردیں۔ اس مقصد کا حصول مکالمے اور انھیں اس بات پر قائل کرنے سے کہ ان کا اسلام کا تصور غلط ہے، ممکن ہے۔انھیں یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ اگر انھیں ایک شہری کی حیثیت سے مکمل حقوق حاصل کرنا ہیں تو پھر انھیں قانون کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے کام کرنا ہوگا۔

اس مسئلے کے حل کا تیسرا پہلو سیکورٹی ہے۔ وہ لوگ جو قانون شکنی کی کوشش کرتے ہیں یا پُرتشدد انداز میں دوسروں پر اپنے تصورات مسلط کرتے ہیں، ان کے ساتھ سختی سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ یہ وہ کام ہے جو حکومت نے گذشتہ برس میں سیکڑوں ایسے لوگوں کو گرفتار کرکے کیا ہے جنھوں نے قانون شکنی کی کوشش کی۔ بعض ایسے افسوس ناک پُرتشدد واقعات میں ملوث لوگوں کو گرفتار بھی کیا جنھوں نے کچھ لوگوں کو قتل کردیا۔ سیکورٹی کا یہ حل انسانی حقوق کے احترام اور قانون کی بالادستی کو قائم کرتے ہوئے کیا جانا چاہیے نہ کہ آمریت کے زمانے کی طرح، جب کہ حقوق کا کسی بھی طرح احترام نہ کیا جاتا تھا۔

تیونس میں آمریت کا زوال وہ شعلہ ہے جس نے عرب بہار کو برپا کیا۔ اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ تیونس کے تجربے کی کامیابی اس پُرامن اور جمہوری راستے کو آگے بڑھائے گی۔ تیونس نے ثابت کیا ہے کہ عرب بہار بنیادپرست خزاں میں تبدیل نہیں ہورہی۔ آج ہم آپ کو اس بات کی یقین دہانی کراسکتے ہیں کہ یہ ’مذہبی‘ اور ’سیکولر‘ بنیادپرست خزاں میں تبدیل نہیں ہوگی بلکہ ایک جمہوری بہار میں تبدیل ہوگی جہاں سب کے لیے جگہ ہوگی (ترجمہ: امجد عباسی)۔ (بہ شکریہ ریڈیئنس ویوز ویکلی ، دہلی، ۲۹ جون ۲۰۱۳ء)


راشد غنوشی النہضہ پارٹی، تیونس کے صدر ہیں

’۹۱سالہ پروفیسر غلام اعظم کو دینی تو سزاے موت چاہیے، مگر صحت اور عمر کا خیال کرتے ہوئے ہم ۹۰سال قید کی سزا سناتے ہیں، جو تسلسل کے ساتھ جاری رہے گی یا پھر ان کی موت تک برقرار رہے گی‘۔

یہ الفاظ فضل کبیر، جہانگیر حسن، انوارالحسن پر مشتمل نام نہاد ’جنگی جرائم کے ٹربیونل‘ کے فیصلے میں درج ہیں، جو ۱۵جولائی ۲۰۱۳ء کو سنایا گیا۔اس عدالتی ڈرامے کے اسٹیج کو بنگلہ دیش کے اہلِ دانش اور قانون دانوں نے واضح طور پر مسترد کردیا تھا، تاہم بین الاقوامی سطح پر بھی اس کی قانونی اور اخلاقی حیثیت کو کسی نے مان کر نہ دیا۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:

  •  ۲۹ دسمبر ۲۰۰۹ء کو انٹرنیشنل بار ایسوسی ایشن (IBA) نے اس کی تشکیل پر اعتراض اُٹھایا۔
  •  ۱۹ مئی ۲۰۱۰ء کو امریکن سوسائٹی آف انٹرنیشنل لا (ASIL) نے وضاحت طلب کی۔
  •  ۱۵ مارچ۲۰۱۱ء کو انٹرنیشنل سنٹر فار ٹرانزیشنل جسٹس (ICTJ) نے اسے مسترد کیا۔
  • ۲۱ مارچ ۲۰۱۱ء ’جنگی جرائم کے معاملے‘ پر امریکی سفیر اسٹیفن جے راپ نے اعتراض اُٹھایا۔
  •  ۱۸مئی ۲۰۱۱ء کو ہیومن رائٹس واچ (HRW) نے پورے عمل پر تنقید کرتے ہوئے بنگلہ دیشی وزیراعظم کو خط لکھا۔
  •  ۲۱ جون ۲۰۱۱ء کو ایمنسٹی انٹرنیشنل (AI) نے قانونی حیثیت پر بنیادی سوال اُٹھائے۔
  •  ۶فروری ۲۰۱۲ء یو این ورکنگ گروپ آن آربٹریری ڈیٹنشن (UNWGAD) نے اس ڈرامے کے خلاف رپورٹ دی۔

علاوہ ازیں یورپ، ملایشیا اور ترکی وکلا کی تنظیموں نے اس سارے سلسلے کو قانون کے ساتھ صریح مذاق قرار دیا، اور اسی مضحکہ خیز ’عدالت‘ نے بنگلہ دیش ہی نہیں، بلکہ عالمِ اسلام کے ایک بزرگ، عالمِ دین اور رہنما پروفیسر غلام اعظم کے لیے عملاً سزاے موت کی سزا کا اعلان کیا ہے۔

پروفیسر غلام اعظم ۷نومبر ۱۹۲۲ء کو پیدا ہوئے۔ زمانۂ طالب علمی میں تحریکِ پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ۱۹۵۰ء میں ڈھاکا یونی ورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے، پھر بنگلہ زبان تحریک میں حصہ لیا اور ۱۹۵۵ء میں جماعت اسلامی سے وابستہ ہوئے۔ انھوں نے پاکستان میں دعوتِ دین، دستور سازی، بنیادی انسانی اور جمہوری حقوق کی بحالی کے لیے بھرپور جدوجہد کی اور متعدد بار قیدوبند کی آزمایشوں سے گزرے۔غلام اعظم صاحب کی جماعت اسلامی میں شمولیت کے بعد، مشرقی پاکستان جماعت اسلامی کی ترقی اور پھیلائو کی رفتار میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ اُن کی پُرکشش اور دل نواز شخصیت نے اپنوں اور غیروں کے دلوں کو جس طرح فتح کیا، یہی خوبی دشمن کے لیے کانٹا بن گئی۔

یکم سے ۲۴ مارچ ۱۹۷۱ء تک عوامی لیگ نے غیربنگالیوں کا قتلِ عام کیا ، اُردو بولنے والوں کی عورتوں کی سرعام بے حُرمتی کی، ہزاروں بہاری ، پنجابی اور پٹھان مسلمانوں کو چُن چُن کر ذبح کیا۔ پھر ۲۵مارچ ۱۹۷۱ء کو پاک آرمی نے جوابی آپریشن کیا تو، پروفیسر غلام اعظم ان مرکزی شخصیات میں شامل تھے، جنھوں نے ’امن کمیٹی‘ قائم کرکے شہری زندگی کی بحالی کے لیے سرتوڑ کوششیں کیں۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے بھارتی فوج کے پشت پناہ مداخلت کاروں کی دہشت گردانہ کارروائیوں کی پروا نہ کرتے ہوئے، مشرقی پاکستان کے تمام اضلاع اور اکثر تحصیل ہیڈکوارٹرز کا دورہ کیا۔ پروفیسر صاحب کے رفیقوں میں بزرگ سیاست دان نورالامین، فضل القادر چودھری، مولوی فریداحمد، خواجہ خیرالدین، شفیق الاسلام وغیرہ شامل تھے۔ ان کاوشوں سے حالات میں تبدیلی آئی، مگر بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے مشرقی پاکستان میں بھیجی جانے والی بھارتی آلۂ کار  مکتی باہنی اور کمیونسٹ تخریب کاروں کی مدد سے پاکستان توڑنے کے اس موقع سے پورا فائدہ اُٹھایا۔ بھارتی جرنیلوں کی کتابیں گواہ ہیں کہ وہ مارچ سے دسمبر تک پوری طرح مشرقی پاکستان میں علیحدگی پسندوں کی مدد میں مصروف تھے۔ آخرکار ۱۶دسمبر ۱۹۷۱ء کو پاکستان توڑنے کا منصوبہ مکمل کیا۔

پروفیسر غلام اعظم ۲۱دسمبر ۱۹۷۱ء کو مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان (بعد میں بنگلہ دیش) جارہے تھے کہ بھارتی افواج نے مشرقی پاکستان پر حملہ کردیا، اس لیے ان کا طیارہ کولمبو سے واپس مغربی پاکستان آگیا۔ اس کے بعد وہ ۱۹۷۴ء تک پاکستان میں رہے۔ ۱۸؍اپریل ۱۹۷۳ء کو   مجیب حکومت نے اُن کی شہریت منسوخ کردی۔ ایک طویل عرصہ جلاوطنی گزارنے کے بعد   پروفیسر صاحب ۱۱؍اگست ۱۹۷۸ء کو ڈھاکہ واپس چلے آئے اور ۲۰برس تک عدالتی جنگ لڑنے کے بعد اعلیٰ عدلیہ نے پروفیسر صاحب کی شہریت بحال کی، اور وہ جماعت اسلامی کے امیر منتخب ہوئے۔

۱۱جنوری ۲۰۱۲ء کو بھارت نواز حسینہ واجد حکومت نے انھیں گرفتار کیا اور خراب صحت کے باوجود پہلے پہل طبی سہولت دینے سے انکار کیا۔ پھر انھیں قرآن پاک تک اپنے پاس رکھنے کے لیے عدالتوں میں درخواست دائر کرنا پڑی ، اور چھے ماہ کی جدوجہد کے بعد قرآن،سیرتِ رسولؐ ، حدیث کے انتخاب پر مشتمل اور دعائوں پر مبنی ایک ایک کتاب فراہم کی گئی۔

ان کے مقدمے کی کارروائی کو عالمی اخبارات نے بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ برطانیہ اور ترکی سے وکلا کی تنظیموں نے غلام اعظم صاحب کے مقدمے کی پیروی کے لیے آنا چاہا، مگر نام نہاد ٹربیونل نے انھیں اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ غلام اعظم صاحب کی طرف سے ۲ہزار گواہوں نے عدالت میں پیش ہونے کے لیے اپنے نام درج کرائے، مگر صرف ۱۲؍افراد کو گواہی کی اجازت دی گئی اور   ان میں سے بھی متعدد افراد کو دھمکایا ڈرایا گیا، حتیٰ کہ ایک ہندو گواہ شکھو رنجن کو اغوا کرلیا۔ ایک اطلاع کے مطابق اُسے اغوا کرکے کلتّے لے جایا گیا ہے۔ دوسری جانب استغاثے پر گواہ پیش کرنے کے لیے کوئی پابندی نہ لگائی۔ یہی نہیں بلکہ انڈین ایجنسی ’را‘  (RAW) کے ایجنٹ شہریار کبیر کو ایک معزز اتھارٹی کے طور پر تسلیم کیا۔ یہ وہی فرد ہے، جسے پاکستان میں ہیومن رائٹس کمیشن کے بھارت نواز پروپیگنڈا مینیجرز نے گذشتہ برس بلاکر لیکچر کرائے تھے۔

پروفیسر غلام اعظم صاحب کو اس گرفتاری کے دوران اپنے مرحوم بھائی کی نمازِ جنازہ میں شرکت تک کی اجازت نہ دی گئی، جب کہ گرفتاری سے قبل پروفیسر صاحب کے بیٹے بریگیڈیئر جنرل عبداللہ اعظم کو بغیر کسی وجہ کے فوج سے برطرف کردیا گیا۔پروفیسر غلام اعظم کی اس سزا نے پورے بنگلہ دیش کو ہلا کر رکھ دیا، مگر وزیراعظم حسینہ واجد نے ۱۶جولائی کو پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’ہم خوش ہیں کہ غلام اعظم کو سزا ملی ہے۔ ہمیں اُمید ہے کہ ہم اپنی مدتِ حکومت میں سزائوں پر عمل درآمد کرائیں گے۔ میں ججوں کی جرأت کو سلام پیش کرتی ہوں کہ انھوں نے عالمی اور مقامی دبائو کو مسترد کردیا ہے، اور یہ ہماری بہت بڑی قومی کامیابی ہے‘‘۔ یہ وہ ’کامیابی‘ ہے جس کی کوئی اخلاقی اور قانونی حیثیت نہیں ہے، مگر افسوس تو پاکستان کے حکمرانوں اور دانش وروں پر ہے۔ حکومت اور دفترخارجہ اس پر کوئی ردعمل نہیں دے رہے، جب کہ پروفیسر صاحب کو سزا دی گئی ہی   اس جرم کی بنا پر ہے کہ ’’انھوں نے ۱۹۷۱ء میں پاکستان کا ساتھ دیا‘‘___ اور پاکستان ہے کہ خاموش!

اگر فیصلے کو پڑھا جائے تو وہ تمام تر اخباری رپورٹوں پر مشتمل ہے۔ یاد رہے کہ اُس وقت ملک پر مارشل لا نافذ تھا اور سنسرشپ کے باعث پروفیسر صاحب کے حکومت وقت پر تنقیدی بیانات کی اشاعت ممکن نہ تھی۔ پھر غلام اعظم صاحب پر براہِ راست الزام لگانے کے بجاے، جماعت اسلامی کو ’مجرم‘ قرار دینے کے لیے استغاثے کے مخالفانہ سیاسی بیانات سے مقدمے کو سجایا گیا ہے۔ درحقیقت یہ فیصلہ پروفیسر صاحب کی زندگی سے کھیلنے اور آخرکار جماعت اسلامی، آج کی جماعت اسلامی کے لیڈروں اور لٹریچر پر پابندی لگانے کا فیصلہ ہے۔

وہ لوگ جو آج یہاں اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں، چاہے وہ اسٹیبلشمنٹ ہو یا حکومتی کارندے، انھیں یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ مقدمے بنگلہ دیش کی نمایشی حکومت کے مقدمے نہیں، بلکہ یہ بھارت کے سیاسی پروپیگنڈے اور فوجی یلغار کا ایک محاذ ہیں۔ آپ دیکھیں پہلے یہ مقدمے دو، پھر چار، اس کے بعد ۱۱؍افراد پر چلنے شروع ہوئے۔ اب ان کا دائرہ ان لوگوں تک پھیلا دیا گیا ہے، جو امریکا یا برطانیہ کے شہری بن چکے ہیں۔ جس نام نہاد بنگلہ دیشی ایکٹ کی بنیاد پر یہ ٹربیونل بنایا گیا ہے اس کی یہ شق قابلِ غور ہے: ’’یہ ٹربیونل ہر اس فوجی، دفاعی یا رضاکار فرد یا گروہ پر مقدمہ چلانے کا اختیار رکھتا ہے، جس نے بنگلہ دیش کی سرزمین پر جنگی جرم کیا، چاہے وہ کسی بھی قومیت سے تعلق رکھتا ہو‘‘۔ اور پھر یہ پے درپے مقدموں کے جعلی فیصلے مستقبل کے ڈرامے کا رُخ دکھاتے ہیں۔بنگلہ دیش تو محض ایک دکھلاوا ہے، اصل ڈائریکٹر بھارت ہے۔

پروفیسر غلام اعظم صاحب نے حق کی شہادت دے کر اپنا فرض ادا کردیا ہے۔ کیا اس شہادت کی شہادت دینے والے کسی غیبی مدد کا انتظار کریںگے یا قافلۂ حق میں شہادتِ حق ادا کریں گے!

۱۷جولائی کو اسی خانہ ساز عدالت نے بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل     علی احسن محمد مجاہد کو سزاے موت سنائی۔ سزاے موت کا اعلان  سننے کے بعد وہ پُرسکون انداز سے کھڑے ہوئے اور اعلان کرنے والے سے مخاطب ہوکر کہا: ’’آپ کا فیصلہ سو فی صد بددیانتی پر مبنی ہے اور میں سو فی صد بے گناہ ہوں۔ ہاں، میرا ایک جرم ہے اور وہ یہ کہ میں اسلامی تحریک کا کارکن ہوں‘‘۔

علی احسن محمد مجاہد گذشتہ دورِ حکومت میں مرکزی وزیر کی حیثیت سے شاندار کارکردگی کے باعث بنگلہ دیش کی بیوروکریسی اور پالیسی ساز اداروں اور دانش وروں کی نگاہوں میں ایک   دیانت دار، پُرعزم، محنتی اور معاملہ فہم رہنما کی حیثیت سے اُبھرے ہیں۔ اُن کی یہ متاثر کن کارکردگی  حسینہ واجد حکومت کو ہضم نہ ہوسکی۔

اس سال کے آغاز سے فیصلے سنائے جارہے ہیں۔ سب سے پہلے ۲۱جنوری کو جماعت اسلامی کے رہنما ابوالکلام آزاد کو سزاے موت سنائی گئی۔ اس کے بعد اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل عبدالقادر ملّا کو ۵فروری کو عمرقید کی سزا سنائی گئی۔ ۲۸فروری کو جماعت کے مرکزی رہنما اور بنگلہ دیش کے مقبول ترین مذہبی راہنما دلاور حسین سعیدی کو سزاے موت دی گئی۔ قیدیوں کو شرمناک حالت میں رکھا گیا ہے۔ غلام اعظم صاحب ۸فٹ کی کوٹھڑی میں تھے۔ انھیں ڈھاکے سے دُور دوسری جیل میں منتقل کر کے اب علی احسن مجاہد اس میں لائے گئے ہیں۔ غلام اعظم صاحب نے کہا: ایسا لگ رہا ہے کہ قبر سے نکلا ہوں۔

علی احسن مجاہد کی سزا کے بعد اب مولانا مطیع الرحمن نظامی کے مقدمے کی سماعت شروع ہوگئی ہے۔ اس کے بعد ابوالکلام محمد یوسف، مولانا عبدالسبحان، ازہرالاسلام اور میرقاسم علی کے مقدمات پر فیصلے ہوں گے۔

یہ فیصلے اور یہ ڈرامے ایک طرف، مگر پاکستان کادفترخارجہ کہہ رہا ہے کہ ’’یہ بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ ہے‘‘ حالانکہ یہ تمام فیصلے پاکستان پر الزام تراشی کا دفتر اور متحدہ پاکستان کی حمایت کا ’جرم‘ کرنے والوں کے لیے پھانسی کے اعلانات ہیں۔ اس بے رحمانہ انداز سے مظلوموں کے زخموں پر نمک پاشی کرکے مسلم لیگ کی حکومت نے پاکستان اور تحریکِ پاکستان سے مذاق کیا ہے۔

 

ربانیت اور اس کا حصول

سوال: میں چاہتا ہوں کہ جنت میں جائوں ، اپنے نفس سے مجاہدہ کرنا چاہتا ہوں، شیطان اور خواہشاتِ نفس سے دُور ہونا چاہتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے قیامت کے دن ’ربانی بندہ‘ کا خطاب دے، میں اپنے مسلمان بھائیوں سے محبت کرنا چاہتا ہوں، اور یہ چاہتا ہوں کہ میرا ایمان مسلسل بڑھتا رہے۔ بتائیں میں کیا کروں؟

جواب:  آپ نے جو سوالات کیے ہیں، وہ فطرتِ سلیمہ کے غماز ہیں۔ یہ عظیم تمنائیں ہیں جو پختہ ایمان سے ہی پوری ہوسکتی ہیں۔ حضرت سفیان ثوریؒ کا قول ہے کہ ایمان محض خواہشات اور چند رسومات کا نام نہیں، بلکہ ایمان تو وہ ہے جو دل میں بیٹھ جائے اور عمل سے اس کی تصدیق ہو۔ عربی کا مقولہ ہے کہ جو بلندیوں کا طالب ہوتا ہے، اسے راتیں جاگ کر گزارنا پڑتی ہیں۔   حضرت فضیل بن عیاضؒ کہتے ہیں: ’’تمھارے دل ایمان کی حلاوت اس وقت تک نہیں پاسکتے  جب تک تم دنیا سے بے رغبتی اختیار نہیں کرلیتے‘‘۔ مزید کہتے ہیں: ’’اگر تمھیں قیام اللیل (رات کو   اُٹھ کر عبادت کرنے) اور دن کو روزہ رکھنے کی طاقت نہیں تو پھر جان لو کہ تم بھلائیوں سے محروم ہو‘‘۔ سچے مومن کا دل دہکتے انگارے کی طرح ہوتا ہے۔ اس لیے آپؐ نے فرمایا: تمھارے دل میں ایمان پرانا ہوجاتا ہے جیسے کپڑا پرانا ہوتا ہے، تم اللہ سے سوال کرتے رہو کہ وہ تمھارے دلوں میں ایمان کو تازہ کرتا رہے۔ (مستدرک، معجم الطبرانی)

مومن کے دل کو بعض اوقات معصیت کے بادل گہنا دیتے ہیں، اور اس کے نور کو ڈھانپ دیتے ہیں جس سے وہ اندھیرے اور وحشت میں گرفتار ہوجاتا ہے۔ اگر بندے نے اپنے ایمان میں اضافہ کرنے کی کوشش کی اور اللہ سے مدد طلب کی تو یہ کالے بادل چھٹ جاتے ہیں اور دل کا نور پھرسے بحال ہوجاتا ہے۔ لہٰذا رہ رہ کر ایمان کی طرف واپسی ضروری ہے۔ اگر آپ ایمان کی طرف لوٹ آئے اور اس کے تقاضے پورے کردیے تو آپ کی یہ تمنائیں پوری ہوسکتی ہیں۔ اس سلسلے میں ایک اصول ہمیشہ مدنظر رہے جس سے آپ ایمان کے ہونے یا نہ ہونے کا خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔

امام ابن جوزی کہتے ہیں: ’’اے وہ کہ دروازے سے دھتکارے گئے ہو، اور جسے دوستوں کی ملاقات سے محروم کیا گیا ہے۔ اگر تم چاہتے ہو کہ بادشاہ کے ہاں اپنی قدرومنزلت کا اندازہ لگاسکو تو یہ دیکھ لو کہ اس نے تمھیں کن کاموں میں لگا دیا ہے، اور تم سے کون سے کام لے رہا ہے؟ کتنے ہی بادشاہ کے دَر پر کھڑے ہیں، مگر اندر جانے کی صرف ان کو اجازت ملتی ہے جنھیں بادشاہ چاہتا ہے۔ ہر دل تقرب حاصل کرنے کے قابل نہیں، ہرسینے کے اندر محبت نہیں، ہرنسیم نسیمِ سحر نہیں‘‘۔

اگر بندہ یہ جاننا چاہے کہ اللہ کے ہاں اس کی کیا قدرومنزلت ہے تو اسے یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ اللہ کے احکامات کی بجاآوری کس حد تک کر رہا ہے، اس کے اوقات کیسے گزررہے ہیں، اس کے مشاغل کیا ہیں۔ اگر وہ دین کی دعوت اور لوگوں کو جہنم کی آگ سے بچانے میں لگا ہوا ہے، جنت کے حصول، کمزوروں اور ناداروں کی مدد اور دیگر نیک کاموں میں اس کی صلاحیتیں لگ رہی ہیں، تو اسے بشارت ہو کہ اسے بادشاہ کا تقرب حاصل ہے۔ اس لیے کہ اللہ بھلائی کی اس کو توفیق دیتا ہے جس سے وہ محبت کرتا ہے۔ لیکن اگر وہ دعوتِ دین کے کام سے دُور ہے، بھلائی کے کاموں سے محروم ہے، محض دنیا کمانے میں لگا ہوا ہے، قیل و قال اور باتیں زیادہ مگر عمل کچھ نہیں، یا اپنی نفسانی خواہشات کے پیچھے لگا ہوا ہے، تو اسے جان لینا چاہیے کہ وہ اللہ سے دُور ہے، جنت سے قریب کرنے والے اعمال سے محروم ہے: مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْعَاجِلَۃَ عَجَّلْنَالَہٗ فِیْھَا مَا نَشَآئُ لِمَنْ نُّرِیْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَہٗ جَھَنَّمَ  (بنی اسرائیل ۱۷:۱۸) ’’جوکوئی (اس دنیا میں) جلدی حاصل ہونے والے فائدوں کا خواہش مند ہو، اسے یہیں ہم دے دیتے ہیں جو کچھ بھی جسے دینا چاہیں، پھر اس کے مقسوم میں جہنم لکھ دیتے ہیں جسے وہ تاپے گا، ملامت زدہ اور رحمت سے محروم ہوکر‘‘۔

اگر تم چاہتے ہو کہ بھلائی اور نیکی کے تمام کاموں میں تم سبقت حاصل کرتے رہو، ربانی بندہ، والدین کا فرماں بردار اور جنت کے طالب بنو، تو یہ کام کرو:

  •  ایمان کو اپنے اندر بیدار رکھو۔ ایمان ہی سے ایک مومن دنیا اور آخرت کی بھلائیاں حاصل کرسکتا ہے۔ ایمان کی بیداری اور تجدید کے بے شمار ذرائع ہیں اپنے آقا کی طرف سچے دل سے رُخ کرلو، اللہ ہی کو اپنا بڑا مقصد بنا لو۔ ہمیشہ بلندیوں کی طرف پرواز جاری رکھو، اللہ کی خوشنودی اور جنت کے حصول کے لیے تگ و دو اور جدوجہد کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لو۔l تاریخِ اسلام کے روشن کرداروں، صحابہ و تابعین اور دیگر سلف صالحین کی سیرتوں کو مشعل راہ بنا لو۔ نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرو۔ اطاعت کی راہ اختیار کرنے اور گناہوں سے بچنے کا یہ بہترین ذریعہ ہے۔ نیک اعمال کثرت سے کرو، اس سے تمھیں دنیا و آخرت میں سچی راحت ملے گی۔  قیام اللیل اور سحر کے وقت دُعا کو معمول بنا لو۔ تلاوتِ قرآن سے کوئی دن خالی نہ جانے دو، اور قرآن پر غوروفکر کی عادت ڈالو۔ دعوتِ دین کا کام کرو اور دین کی نشرواشاعت میں حتی الوسع حصہ ڈالو۔

سمجھ لو کہ آدمی ’ربانی بندہ‘ تبھی بن سکتا ہے جب وہ ہرحال میں رب العالمین کا ہوکر رہے۔ قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo (الانعام ۶:۱۶۲)  ’’کہو، میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے‘‘۔ ربانیت تبھی حاصل ہوسکتی ہے جب عبادت کے وسیع مفہوم کے ساتھ اللہ سبحانہ کی عبادت کی جائے۔ زندگی اور موت بلکہ تمام حرکات و سکنات اللہ کے احکام کے تابع کردی جائیں۔ بولیں تو اللہ کی مرضی کے مطابق، کوئی کام کریں تو اللہ کی مرضی کے مطابق، ان اقوال و اعمال کے پیچھے ارادہ اور ہدف و مقصد اللہ کی ذات بن جائے۔ صرف یہ نہ ہو کہ بعض مخصوص اذکار و اوراد پڑھ لیں یا کبھی کبھار تھوڑی سی رقم اداکریں یا چند دن روزہ رکھ لیں۔  جس طرح زندگی کے شعبے لامحدود ہیں اور ہمارے تعلقات اور سرگرمیاں لامحدود ہیں، اسی طرح ہرجگہ جہاں آپ ہوں اور ہرلمحہ جو آپ کو میسر ہو، اس میں اپنے مالک کی خوشنودی حاصل کرنے کے راستے تلاش کریں۔ اس فکر میں رہیں کہ جو کچھ  وہ چاہتا ہے، کر گزریں۔ اس طرح آپ ’ربانی بندہ‘ بن سکتے ہیں۔(ڈاکٹرعبدالحی ابڑو)

نکاح کے ساتھ اضافی شرائط کی قید

س:  میاں بیوی میں جھگڑا ہوگیا ۔ بیوی اپنے میکے چلی گئی۔ میکے والوں نے کڑی تحریری شرائط کے بغیر بیوی کو سسرال بھیجنے سے انکار کردیا۔ ایک معاہدے پر فریقین اور ثالثان نے دستخط کیے، اس کی اہم شرائط درج ذیل ہیں: ۱- اگر شوہر نے دوسری شادی کی یا پہلے سے کی ہوئی دوسری شادی ثابت ہوئی تو شوہر پہلی بیوی کو ۱۰ لاکھ روپے ادا کرے گا۔ ۲- شوہر نان نفقہ کے علاوہ بیوی کو ۱۰ہزار روپے ماہانہ بطورِ جیب خرچ     ادا کرے گا۔۳- دوسری شادی کی صورت میں اپنا رہایشی مکان پہلی بیوی کے نام کردے گا۔۴- بیوی اور اس کے بچوں کے لیے علیحدہ کار اور ڈرائیور کا بندوبست کرے گا۔ ۵-بیوی کے لیے صرف یہ نصیحت درج کی گئی کہ وہ عائلی زندگی کے بابت شرعی احکامات کو پورا کرنے کی کوشش کرے گی۔

سوال یہ ہے کہ (ا) اللہ کا دین مرد کو قوام قرار دیتا ہے۔ کیا عائلی تنازعات کو حل کرنے کے لیے مذکورہ بالا شرائط منوانے سے دین کی بنیادی ترتیب درست رہ سکتی ہے؟ (ب)اسلام میں بیک وقت مرد کو چار بیویاں رکھنے کی اجازت ہے اور صرف ایک شرط باہم انصاف کرنے کی عائد کرتا ہے۔ کیا مذکورہ معاہدے میں شوہر کو دوسری شادی کرنے پر جس طرح مالی پابندی میں جکڑا گیا ہے، جائز ہے؟ کیا عدالت نبویؐ کا کوئی فیصلہ ملتا ہے کہ نبی کریمؐ نے کسی عائلی تنازعے میں مرد کو مالی شرائط میں جکڑا ہو؟ 

ج: جب ایک آدمی ایک شرط کو اپنی مرضی سے قبول کرلے اور اس کا وعدہ کرے تو اس کا پورا کرنا اس پر لازم ہوجاتا ہے۔ شوہر کو ان شرائط کے بارے میں اس وقت سوچنا چاہیے تھا جب معاہدہ ہورہا تھا۔ شوہر کے ہمدرد جن کو اب ان شرائط پر اعتراض ہے، انھیں بھی اس وقت سوچنا چاہیے تھا جب یہ شرائط پیش کی جارہی تھیں۔ اگر اس وقت ان شرائط کو قبول نہ کرنے پر متوجہ نہ کیا تو اب شرائط کو پورا کرنے دیا جائے۔ اخلاقاً شوہر پر ان شرائط کو پورا کرنے کی پابندی ہے۔ البتہ شرعی عدالت میں مقدمہ کیا جائے، تو عدالت صرف نصیحت کرے گی۔ ان شرائط کی خلاف ورزی پر  تنسیخ نکاح کی ڈگری جاری نہ کرے گی۔ اس لیے کہ نکاح منعقد کرتے وقت یہ شرائط نہیں لگائی گئی تھیں، یہ بعد میں لگائی گئی ہیں اور وہ بھی لڑکی کے ماں باپ کی طرف سے لگائی گئی ہیں۔ اگر لڑکی شوہر کے ساتھ رہنے کے لیے تیار ہے، تب ان شرائط کا کیا جواز ہے۔ یہ شرائط تو ماں باپ نے اپنی اَنا کی تسکین کے لیے لگائی ہیں۔ بنابریں شوہر قانوناً ان شرائط کا پابند نہیں ہے لیکن باہمی نبھائو تو قانون نہیں کراتا، باہمی رضا مندی سے ہوتا ہے۔ اس لیے اگر بیوی ان شرائط کو لوجہ اللہ واپس   لے لے تو اس کے لیے جائز بلکہ مستحسن ہے۔ کوشش کی جائے کہ یہ رشتہ نہ ٹوٹے اور حتی الامکان ایک دوسرے کی رعایت کریں تاکہ زندگی خوش گوار گزرے۔ دوسری شادی بیوی کو اطلاع دے کر کی جائے تاکہ پہلی بیوی ناراض ہوکر ماں باپ کے گھر نہ بیٹھ جائے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ شرط جو تمام شرطوں سے زیادہ پورا کیے جانے کی مستحق ہے، نکاح کی شرط ہے جس سے تم فرج کو حلال کرتے ہو‘‘(متفق علیہ)۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وعدہ پورا کرنے کی اس قدر تاکید کی ہے کہ وعدے کی خلاف ورزی کو نفاق قرار دیاہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب ایسی صورت حال پیش کی جاتی تھی کہ عورت شوہر کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی اور شوہر کے ساتھ رہنا اس کے لیے گراں ہوتا تو آپؐ شوہر کو مہر واپس دلا کر طلاق دلوا دیتے تھے۔ ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ حضرت ثابت بن قیسؓ کی بیوی آپؐ کے پاس آئیں اور عرض کیا کہ میں ثابتؓ کے اخلاق اور دین پر کوئی اعتراض نہیں کرتی لیکن میرے لیے ایک بیوی کی حیثیت سے اس کے ساتھ خوش دلی کے ساتھ رہنا ممکن نہیں ہے۔ میں کراہت کے ساتھ بیوی بن کر رہنے کو کفر (ناشکری)سمجھتی ہوں۔ اس پر آپؐ نے حضرت ثابت بن قیسؓ کو پوچھے بغیر فرمایا: کیا تو اسے اس کا باغ جو اس نے تجھے مہر میں دیا ہے واپس کرتی ہے؟ نبیؐ نے یہ بات اس لیے پوچھی کہ آپؐ سمجھ گئے کہ خاتون سچی مسلمان ہے، اسلام اور ایمان کے تقاضوں کو سمجھتی ہے اور اسے بزورِ رشتۂ نکاح میں باندھے رکھنا مناسب نہیں ہے۔ تب آپؐ نے حضرت ثابت بن قیسؓ کو بلایا اور ان سے فرمایا کہ اسے طلاق دے دو۔ چنانچہ انھوں نے طلاق دے دی۔ (بخاری)

آپؐ نے ایسا اس لیے کیا کہ اسلام ایسا معاشرہ قائم کرنا چاہتا ہے جس میں معاشرے کی پہلی اکائی اطمینان اور سکون اور پیارو محبت کی زندگی پر مبنی ہو تاکہ اقامت ِ دین کے لیے جدوجہد دل جمعی اور کسی پریشانی کے بغیر کی جاسکے۔ اگر ایک آدمی اپنے گھر میں پریشان ہوگا تو وہ کفار اور منافقین سے کیسے جہاد کرسکے گا۔ صحابہ کرامؓ نے جس جذبے اور جوش اور اطمینان سے جہاد کیا اور قربانیاں دیں، اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے گھروں کے لیے فکرمند نہ تھے۔ ان کی بیویاں ان کے گھروں، ان کی اولاد اور ان کی امانتوں کی پوری طرح محافظ تھیں۔ آج اسی قسم کے معاشرے کی ضرورت ہے۔ جب محبت ہوتی ہے تو عسرت کی زندگی بھی قبول ہوتی ہے۔ شرائط مقرر کرنا اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ فریقین کو بزور باندھ کر رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ثالثوں کو چاہیے کہ وہ مذکورہ جوڑے کو محبت کے رشتے میں باندھنے کی کوشش کریں اور اگر وہ سمجھتے ہیں کہ ان میں محبت ہے تو لڑکی کے والدین کو چاہیے کہ جس طرح نکاح سے پہلے شرطیں نہیں لگائیں، اب بھی شرائط کو واپس لے لیں۔ لڑکی کو چاہیے کہ والدین کو شرطیں واپس لینے کی درخواست کرے۔ اگر میاں بیوی راضی ہیں، محبت سے رہنے کے لیے تیار ہیں تو پھر شرطوں کو مسئلہ نہ بنائیں۔ بنیادی بات باہمی رضامندی اور محبت ہے، اس پر توجہ دی جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دین کی روح کے مطابق رشتوں کو استوار کرنے اور قائم رکھنے کی صلاحیت اور جذبے سے نوازے، آمین۔(مولانا عبدالمالک)

Family Law in Islam: Theory and Application [عائلی قانون اسلام میں: اصول اور اطلاق]، ڈاکٹر محمد طاہر منصوری۔ ناشر: شریعہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد۔ صفحات: ۲۶۳۔ قیمت: درج نہیں۔

اسلام میں خاندان، عیال کا تصور بہت وسیع ہے۔ قرآنِ مجید میں جہاں اللہ کی بندگی کا حکم دیا گیا ہے، اس کے بعد ہی والدین کے ساتھ ’احسان‘ کی ہدایت ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ایک زمانے سے ہمارے ہاں بھی (دوسرے لادینی معاشروں کی طرح) ’خاندان‘ یا ’عیال‘ سے مراد ’شوہر بیوی‘ سے تشکیل پانے والاادارہ ہی لیا جاتا ہے، حالانکہ family کے معنی ’ماں باپ اور اولاد پر مشتمل کنبہ‘ (دیکھیے: قومی انگریزی اُردو لغت،مرتبہ: ڈاکٹرجمیل جالبی) ہیں۔ بہرحال عائلی اور عیال کے اس محدود معنوں میں ڈاکٹر محمد طاہر منصوری کی پیش نظر کتاب اسلامی قوانین کی انگریزی زبان میں تذکیر و تفہیم میں ایک مفید اضافہ ہے۔

پہلے باب میں اسلام میں نکاح اور خاندان کے تصور پر گفتگو کی گئی ہے۔ حیرت انگیز افسوس کہ مسلم فقہا کی بیان کی ہوئی ’نکاح‘ کی تین تعریفوں میں مرد اور عورت کے درمیان ’جنسی تعلق‘ ہی کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے، مگر مصنّف بجاطور پر کہتے ہیں کہ قرآنی تصورِ نکاح میں زوجین کے درمیان طویل رفاقت، باہمی محبت، ہمدردی اور ذہنی ہم آہنگی اہم ہیں، نہ کہ محض جنسی تعلق۔ تاہم نکاح کے وظائف کے ضمن میں وہ بھی جنسی خواہش کی تسکین ہی کو اوّلیت دے کر پہلے اسی کا تذکرہ کرتے ہیں، اور اس کے بعد نسلِ انسانی کی بقا، ذہنی سکون اور اولاد کی دینی و اخلاقی تربیت کا ذکر کرتے ہیں۔

زوجین کے حقوق و فرائض کے سلسلے میں قرآنی احکام واضح ہیں۔ بیویوں کے ساتھ حُسنِ سلوک کی ہدایت کی گئی ہے۔ اگرچہ مرد کو ایک سے زیادہ بیویوں کی اجازت ہے، مگر شرط یہ ہے کہ سب کے ساتھ انصاف اور برابری کا سلوک ہو۔ معاشی ضروریات کی تکمیل، بڑی حد تک مردوں کے فرائض میں ہے اور اُمورِ خانہ داری کی نگہ داشت عورتوں کا فریضہ ہے۔

عہدِنکاح کے قانونی اور درست طریقوں میں مختلف فقہی مدارس، مالکی، شافعی، حنفی اور حنبلی کا ذکر ہے، اور مختلف مسلم ممالک (تیونس، عراق، شام، ایران اور مراکش) میں جدید قانون سازی کا مختصر جائزہ ہے۔ عہدِ طفلی کے نکاح کو بعض فقہی مدارس درست قرار دیتے ہیں، لیکن پاکستان میں مروج قانون کے مطابق لڑکی اور لڑکے کی عمر کم از کم ۱۸سال ہونی چاہیے۔ کم سنی کے نکاح کو    فسخ کرنے کا اختیار لڑکی کو دیاگیا ہے۔ تاہم اس سلسلے میں مختلف مسلم ملکوں میں اختلافات ہیں۔ جہاں تک ’مہر‘ کا تعلق ہے، اِسے بہت سے لوگ عورت کی ’قیمت‘ یا ’معاوضے‘ کے طور پر لیتے ہیں، جو درست نہیں۔ مرد کا اپنی بیوی کو مہرادا کرنا دراصل نکاح کی ذمہ داریوں کی ادایگی کا ایک علامتی اظہار اور اس کی طرف سے تعلقِ خاطر کا ایک تحفہ ہے۔

جن رشتوں کے حوالے سے نکاح کی ممانعت ہے، قرآنِ مجید میں اس کی وضاحت کردی گئی ہے۔ اس کے علاوہ بھی حج، عمرہ یا حالت ِ احرام میں نکاح فاسد ہوگا۔ غیرمسلم خواتین سے نکاح کے بارے میں مختلف فقہا اور مدارسِ فکر کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔ تاہم ایک اہم فقہی مسلک (امامیہ/جعفریہ) میں ’موقتی نکاح‘ یا متعہ کی اجازت اور دوسرے مسالک میں اس کی ممانعت کا ذکر نہیں، اگرچہ ایران کے حوالے سے ضمناً اس کا تذکرہ ہے۔ (ص ۵)

بیوی اور مطلقہ کے حقوق کے بارے میں بھی قرآن مجید کی آیات، مختلف علما کی آرا اور مسلم ملکوں کے قوانین کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔ طلاق، خلع، ظہار، فسخ (عدالتی حکم پر علیحدگی)، عدت، اولاد کی کفالت کے سلسلے میں بھی فقہا کی آرا اور مختلف مسلم ممالک کے قوانین میں اختلافات ہیں۔ مصنف نے ان سب کا تفصیلی جائزہ تو لیا ہے، جو بلاشبہہ ایک مفید کوشش ہے، تاہم انھوں نے اپنی حتمی راے دینے سے گریز کیا ہے۔ قانون سازوں کو اِن تفصیلات سے یقینا آسانی ہوگی کہ انھیں ایک جگہ مختلف نقطہ ہاے نظر مل جائیں گے، مگر ایک عام قاری کی معلومات میں اس سے اضافہ تو ہوگا، لیکن اس طرح وہ انتشارِ فکری کا شکار بھی ہوسکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جس راے میں اُسے سہولت نظر آئے، یا جو اُس کی خواہش کے مطابق ہو وہ اُسے اختیار کرے۔ بہتر ہوتا کہ مصنف، دلائل کے ساتھ اپنا نقطۂ نظر بھی بیان کردیتے۔

پاکستان میں عائلی قوانین کی طرف ابتدا ہی سے توجہ کی گئی۔ ۵۰ کے عشرے میں حکومت نے ایک مجلس قائم کی، جس کی سفارشات پر مشتمل ۱۹۶۱ء میں حکومت ِ پاکستان نے مسلم فیملی لا آرڈی ننس نافذ کیا۔ اس کی تیاری میں علما، قانون دان اور سماجی رہنما (خواتین و حضرات) شامل تھے۔ تاہم بعض علما نے اس قانون کی بعض شقوں (یتیم پوتے کی وراثت، نکاح کے لیے لازمی رجسٹریشن، نکاحِ ثانی کے لیے خاندانی عدالت کی اجازت وغیرہ) سے اختلاف بھی کیا۔ مصنف نے اس سلسلے میں اپنی تفصیلی راے بھی دی ہے۔

کتاب میں ایک دل چسپ اضافہ The Disolution of Muslim Marriage Act 1939 (مسلم نکاح کی تنسیخ کا قانون ۱۹۳۹ء) ہے۔ یہ مفید قانون انگریزی حکومت کے دور کا ہے ، جو بعض حالات اور شرائط پر ایک خاتون کو نکاح کی تنسیخ کا عدالتی حق دیتا ہے۔

بظاہر کمرئہ جماعت کی تدریس میں تشکیل پانے والی اس مفید کتاب میں ناقص ’اشاریہ‘ (دیکھیے India، Psychological ) اور بعض نامکمل آیاتِ قرآنی کی اغلاط اور ترجمانی (ص ۱۰، ۷۸، ۸۸) کھٹکتی ہیں جو اُمید ہے کہ آیندہ اشاعت میں درست کرلی جائیں گی۔

ڈاکٹر محمد طاہر منصوری، بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد میں شریعہ اور قانون کے پروفیسر ہیں۔ اُمید ہے کہ اُن کی یہ تالیف ہمارے قانون کے طلبہ اور قانون سازوں کے لیے مفید ثابت ہوگی۔(پروفیسر عبدالقدیر سلیم)


۱- قرآنی معلومات، صفحات: ۲۶۰۔ ۲-پیغمبرآخرالزماں حضرت محمدؐ کی شخصیت، صفحات:۱۰۴۔ ۳- Life of Prophet Muhammad، صفحات:۴۷۔  ۴-Inter-Faith Essays and Other Articles، صفحات:۱۴۷۔ تالیف:گروپ کیپٹن (ر)عبدالوحید خان۔ حاصل کرنے کے لیے مصنف سے رابطہ کریں۔ اے/۳۶- سائوتھ سنٹرل ایونیو، فیزII، ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی، کراچی-۷۵۵۰۰۔ فون: ۳۵۸۹۴۸۸۶-۰۲۱۔

عبدالوحید خان، پاکستان ایئرفورس سے وابستہ رہے ۔ بین المذاہب موضوعات سے خصوصی دل چسپی رکھتے ہیں۔ ان کی ۱۱ کتب شائع ہوچکی ہیں۔ اس وقت ان کی چار کتب پیش نظر ہیں۔

۱- قرآنی معلومات:اس کتاب کے ذریعے مسلمان کے دل میں قرآن کی محبت کو بڑھانے اور مقاصدسے آشنا اور ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ قرآن کے بارے میں معلومات فراہم کرنے اور اس کے مضامین سے روشناس کرانے کی کامیاب کوشش ہے۔

۲- پیغمبر آخرالزماں حضرت محمدؐکی شخصیت

۳- Life of Prophet Muhammad ، اُردو اور انگریزی میں یہ کتابیں، حضوؐر کی سیرت و شخصیت کا ایک عمدہ خاکہ ہیں۔ سیرت کے اہم واقعات کو سامنے لاکر عمل پر اُبھارا گیا ہے۔ موجودہ دور میں مغرب کی جانب سے حضوؐر کی شخصیت کو مجروح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس پروپیگنڈے کا توڑ بھی کیا گیا ہے۔ علمی استدلال پر مبنی یہ تحریریں حضوؐر سے محبت کو دوبالا کرتی اور عظمت ِ رسولؐ اور احترامِ رسولؐ کے جذبات بیدار کرتی ہیں۔

۴- Inter-Faith Essays and Other Articles،بین المذاہب ہم آہنگی اور دوسرے موضوعات پر مبنی ۲۱ مضامین پر مشتمل ہے۔ اس میں معاشرے کے بہت اہم اور حساس موضوعات پر قلم اُٹھایا گیا ہے۔ قرآن و سنت اور حالات کے تناظر میں ان پر بات کی گئی ہے، بالخصوص اہلِ مغرب نے اسلام سے جو ایک نام نہاد جنگ شروع کررکھی ہے اس پر اظہارِخیال کیا گیا ہے۔ مغرب این جی اوز کے ذریعے تعلیم و صحت کے میدان میں کام کر کے عیسائیت کے فروغ کے لیے کوشاں ہے اور اسلام کو اپنا حریف سمجھ کر اسلام کے بارے میں نت نئے فتنے اُٹھا رہا ہے، اس کے بارے میں اسلام کا نقطۂ نظر پیش کیا گیا ہے اور بتایا ہے کہ قرآن تو بس سیدھا راستہ دکھانے والی ایک کتاب ہے۔ مختصر انگریزی مضامین زبان و بیان کے اعتبار سے انتہائی سادہ اور عام فہم ہیں۔ (عمران ظہورغازی)


ظفر علی خان___ خطوط و خیوط، ڈاکٹر زاہد منیرعامر۔ ناشر: مسندظفر علی خان ، پنجاب یونی ورسٹی، نیوکیمپس، لاہور۔ صفحات: ۲۶۴۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

سرورق کے مطابق یہ کتاب مولانا ظفر علی خان کے ’غیرمطبوعہ خطوط کی روشنی میں‘ ان کا ایک شخصی مطالعہ ہے۔ زاہد منیرعامر پنجاب یونی ورسٹی اورینٹل کالج علامہ اقبال (اولڈ) کیمپس میں اُردو زبان و ادب کے پروفیسر ہیں۔ گذشتہ دو برس قبل شیخ الجامعہ نے انھیں نیوکیمپس بلاکر شعبۂ ابلاغ عامہ سے منسلک ’مسندِظفر علی خان‘ پر فائز کیا تھا۔ یہ کتاب مصنف کے زمانۂ مسند نشینی کا حاصل ہے۔

کوئی ۲۵سال پہلے موصوف نے مولانا ظفر علی خان کے مکاتیب کا پہلا (اور تاحال) آخری مجموعہ شائع کیا تھا، اب دوسرا مجموعہ پیش کیا ہے۔ اس دوسرے مجموعے کی نوعیت خطوں کے عمومی اور روایتی مجموعوں سے مختلف ہے، اور شاید اسی لیے انھوں نے کتاب کے نام میں خطوط و خیوط کی ترکیب شامل کی ہے (کاش مصنفِ علّام سرورق پر ایک حاشیہ دے کر ’خیوط‘ کے معنی بھی اس مبصر جیسے کم علم قارئین کو سمجھا دیتے۔ بہرحال ہم لُغت کی مدد سے بتائے دیتے ہیں کہ خیوط ’خیط‘ کی جمع ہے (خبط کی نہیں)، معنی ہیں: ’تاگہ‘)۔ اس لفظ کو کتاب سے مناسبت یہ ہے کہ مؤلف نے ان خطوں کی مدد سے مولانا ظفر علی خان کی زندگی کے کچھ خیوط ، یعنی نقوش یا پہلو دریافت کیے ہیں۔ خطوں کو تاریخ وار یا مکتوب الیہ وار ترتیب دینے کے بجاے چند عنوانات کے تحت مرتب کیا گیا ہے، مثلاً: ’خانگی زندگی پر کچھ روشنی، (اس حصے کے سارے خطوط مولانا کی بیگم کے نام ہیں)۔ عہدِشباب کے نقوش، پاکستان کا درزی، شہید گنج کا غم، کیا مولانا ظفر علی خان واقعی خط نہیں لکھتے تھے؟ وغیرہ۔ کتاب کے سرورق سے سوالیہ نشان لے کر قاری آگے بڑھتا ہے تو فہرست کے عنوانات دیکھ کر اسے خیال آتا ہے کہ مؤلف نے یہاں پھر کچھ ’گھنڈیاں‘ ڈال دی ہیں، مثلاً: ’پاکستان کا درزی‘  ایک گھنڈی ہے۔ یہ شمس الحسن اسٹیٹ سیکرٹری مسلم لیگ کے نام چند سطری خط ہے اور اس کے ساتھ مولانا ظفر علی خان کی نظم ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ سلطنت پاکستان کی قبا کو پاکستان کا درزی (قائداعظم) کب تک اور کیسے رفو کرے گا۔ اس کے بعد حسب ذیل دو شعر ہیں:

ندا آئی کہ مقصد تک پہنچ سکتی نہیں ملّت
نہ سیکھے گی وہ کرنا آبِ خنجر سے وضو جب تک

نہ آئے گا خدا کی راہ میں جب تک اسے مرنا
بہائے گی نہ اس رستے وہ اپنا لہو جب تک

یہ اشعار بہت کچھ کہہ رہے ہیں۔ مختصر یہ کہ مولانا ظفر علی خان کی بصیرت کی داد دینی پڑتی ہے۔ انھوں نے اندازہ لگالیا تھا کہ قیامِ پاکستان کے بعد مملکت خداداد کی زمامِ کار سنبھالنے والے اکثر و بیش تر ذمہ داران اور اعیانِ حکومت خون دینے والے نہیں، دودھ پینے والے مجنوں ثابت ہوں گے۔ پاکستان کی ۶۵سالہ تاریخ مولانا ظفر علی خان کی خداداد بصیرت کی تصدیق کررہی ہے۔ تاریخ کے اوراق پلٹیے تو معلوم ہوگا کہ تحریکِ حصولِ پاکستان کے دنوں میں اسی خدشے کا اظہار اور بھی کئی لوگوں نے کیا تھا اور کہا تھا کہ ہماری یہ مسلمان قیادت پاکستان میں اسلام دشمن اور وطن دشمن ثابت ہوگی۔ کیا پاکستان کی ۶۵سالہ تاریخ اس کی گواہی نہیں دے رہی؟

کتاب سے مؤلف کی محنت، مہارت اور سلیقہ مندی کا اظہار ہوتا ہے۔ بعض خطوں کے عکس، چند نایاب تصاویر اور محنت سے لکھے گئے حواشی و تعلیقات نے کتاب کی وقعت بڑھا دی ہے۔مولانا ظفر علی خان کی خوش قسمتی ہے کہ انھیں زاہد منیر ایسا محقّق ملا ہے ۔ کتاب کے آخر میں کتابیات اور مفصل اشاریہ بھی شامل ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


آداب خود آگاہی، عتیق الرحمن صدیقی۔ ناشر: الخدمت پبلشرز، ۱-کینال روڈ پُل، تاج باغ، ہربنس پورہ، لاہور۔ فون: ۴۱۹۱۸۵۰-۰۳۳۴۔ صفحات: ۲۵۰۔ قیمت: ۲۸۰ روپے۔

تزکیہ و تربیت اور تعمیر سیرت جہاں نبی اکرمؐ کے فرائضِ منصبی کا اہم ترین تقاضا تھا وہاں اُمت مسلمہ کی تشکیل اور اس کے مقصد وجود کے حصول کے لیے ناگزیر ضرورت بھی ہے۔ زیرتبصرہ کتاب میں مصنف نے اسی مقصد اور ضرورت کو پیش نظر رکھا ہے۔ اس میں جہاں قرآن و سنت کی تعلیمات کی طرف رجوع کرنے، اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم کرنے اور سیرتِ نبویؐ کی اتباع کی بات ہے، وہاں رذائلِ اخلاق سے بچنے اور محاسنِ اخلاق کو اختیار کرنے کی ترغیب بھی پائی جاتی ہے۔ ان مضامین میں قرآنِ مجید، نبی اکرمؐ، اولین وحی، حدیث و سنت، محبت الٰہی کا حقیقی معیار، اُمت مسلمہ، دعوت و تبلیغ، ایمان و عملِ صالح، شیطان کی چالیں، جھوٹ، شراب، لہوالحدیث، سلام، حیا، امانت اور عہدوپیمان، شکر، تفکر، حسنِ نیت،بخل، صدق و سچائی جیسے موضوعات پر شرح و بسط کے ساتھ بحث کی گئی ہے۔ متفرق مضامین کا یہ مجموعہ حقیقت میں اسلامی تعلیمات کا خوب صورت مرقع ہے۔ حوالے، حواشی اور کتابیات کا اہتمام مصنف کی عرق ریزی پر دال ہے۔ زبان و بیان میں ادبی چاشنی، مضامین کی تیاری میں تحقیق کا رنگ اور تالیف و تسوید میں سلیقہ پایا جاتا ہے۔ تزکیہ و تربیت اور تعمیرسیرت کے لیے مفید کتاب۔ (حمیداللّٰہ خٹک)


اسرائیل آغاز سے انجام کی طرف، میربابر مشتاق۔ ناشر: راحیل پبلی کیشنز،اُردو بازار، کراچی۔ فون: ۸۷۶۲۲۱۳-۰۳۲۱۔ صفحات:۳۵۰۔ قیمت:۳۹۰ روپے۔

یہ کتاب اسرائیل، امریکا اور اقوام متحدہ کے اصل چہرے کو بے نقاب کرتی ہے۔ اگرچہ اس کتاب کا جذبۂ محرکہ فریڈم فلوٹیلا کے قافلے پر اسرائیلی فوج کا افسوس ناک اور سفاکانہ حملہ ہے، مگر اسی واقعے کی بنیاد پر اسرائیل کی تاریخ، قیام اور بے گناہ فلسطینیوں پر ظلم و ستم کی انتہا، امریکا اور اقوامِ متحدہ کی اسرائیل کی بے جا حمایت اور مسلمان حکمرانوں کی بے حسی کو وضاحت سے بیان کردیا گیا ہے۔

فلسطین کا جغرافیہ، تاریخ اور سیاسی منظرنامہ بیان کرنے کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کی  چھے عشروں کی جدوجہد آزادی اور حماس کی تاسیس و ارتقا اور قربانیوں کی طویل داستان کو سلیس پیرایے میں بیان کیا گیا ہے۔ حماس کے رہنما خالدمشعل کا خصوصی انٹرویو ،فلسطین کی پُرعزم دختر شہیدوفا ادریس کا تذکرہ اور امریکا کی انسانی حقوق کی نمایندہ راشیل کوری کی لازوال قربانی کا بھی تذکرہ موجود ہے۔ایسے باضمیر یہودیوں کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے جو اسرائیل کے غدار ٹھیرے ہیں مگر ضمیر کی عدالت میں سرخرو ہونے کے لیے نئے نئے انکشافات کر رہے ہیں۔

ترکی واحد ملک ہے جس نے اسرائیلی ناجائز ریاست کے خلاف عالمی سطح پر پُرزور آواز بلند کی ہے۔ فریڈم فلوٹیلا کے واقعے کی پُرزور مذمت کے واقعات اور ترکی کے وزیراعظم رجب طیب اردوگان کا ورلڈ اکانومک فورم میں سابقہ اسرائیلی صدر شمعون پیریز کے سامنے فلسطینی مسلمانوں کے بارے میں جرأت مندانہ موقف کااظہار اور اُس کی سنسنی خیز تفصیلات بھی موجود ہیں۔

فلسطین پر یہ کتاب ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ پروفیسر خورشیداحمد کے الفاظ میں ’’یہ کتاب ان شاء اللہ انسانیت کے ضمیر کو بیدار کرنے اور مسلمان اُمت کو اس کی ذمہ داریوں کا شعور دلانے کی مفید خدمات انجام دینے کا ذریعہ بنے گی اور مصنف کے لیے دنیا اور آخرت میں اجرعظیم کا وسیلہ بنے گی‘‘۔ اُمت مسلمہ کا درد رکھنے والے ہرمسلمان کو اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ (طاہرآفاقی)

تعارف کتب

  •  پیارے نبیؐ اور پیارے بچے، پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق کلوٹا۔ ناشر: زم زم پبلشرز، شاہ زیب سنٹر نزد مقدس مسجد، اُردو بازار، کراچی۔ صفحات:۱۹۹۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔[بقول مصنف:’پیارے بچوں کے لیے پیارے رسولؐ کی تعلیمات، اخلاقِ حسنہ، خوب صورت واقعات اور اسوئہ نبویؐ کا حسین گل دستہ پیش کیا ہے‘۔ مصنف نے آں حضوؐر کی زندگی کے بعض واقعات کا ذکر کر کے کسی خاص موقعے پر آپ کے طرزِعمل یا فرمودات کو زیادہ تر احادیث کی روشنی میں یا سیرت کی معروف و مسلمہ کتابوں کے حوالوں سے پیش کیا ہے۔ تقریباً ہرصفحے پر ’پیارے بچو، پیارے بچو‘ غیرضروری تھا۔ نہایت ضروری تو یہ ہے اللہ کا اِملا صحیح(اللہ) لکھا جائے۔]
  •  معارف مجلۂ تحقیق  ، مدیر: پروفیسر ڈاکٹر محمد اسحاق منصوری۔ پتا: ادارہ معارف اسلامی، ڈی-۳۵، بلاک۵، ایف بی ایریا، کراچی-۷۵۹۵۰۔ فون: ۳۶۸۰۹۲۰۱-۰۲۱۔ صفحات:۱۸۲+ ۱۰ انگریزی صفحات۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔[ادارہ معارف اسلامی کراچی کے علمی، فکری و تحقیقی مجلے معارف مجلۂ تحقیق کا پانچواں شمارہ (جنوری-جون ۲۰۰۳ء) شائع ہوگیا ہے۔ تحقیقی مقالوں میں: ’پاکستان میں زکوٰۃ آرڈی ننس ۱۹۸۰ء کا نفاذ، ایک جائزہ‘ از سعدیہ گلزار، ’حضرت ابوبکرؓ کا اجتہادو احیاے دین‘ از صوفیہ فرناز، فرزانہ جبیں، ’میسنری تنظیم، ایک جائزہ‘ از رضی الدین سید، ’سید قطب:فکروفن کے آئینے میں‘ از عمیررئیس اہم ہیں، جب کہ عورت، مغرب اور اسلام از ثروت جمال اصمعی پر تبصراتی مقالہ اسحاق منصوری کا ہے۔ انگریزی حصے میں پاکستان میں تعلیمی اصلاحات کا تنقیدی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔]
  • حقوقِ انسانی کی رپورٹ ۲۰۱۲ء، مرتبہ: کمال فاروقی، ہیومن رائٹس نیٹ ورک، سندھ چیپٹر۔ ملنے کا پتا: قبا آڈیٹوریم، بلاک۱۳، فیڈل بی ایریا، کراچی۔ فون: ۳۶۳۶۴۴۰۷-۰۲۱۔ صفحات: ۱۵۱۔ قیمت: درج نہیں۔ [حقوقِ انسانی کی جو پامالی آج کل ہے، عالمی سطح پر، قومی سطح پر، شہروں میں، دیہاتوںمیں (اور گھروں میں بھی)، محتاجِ بیان نہیں۔یہ نیٹ ورک آگہی کے معیارکو بلند کرتا ہے اور اُمید کرتا ہے کہ اس جدوجہد کے نتیجے میں صورتِ حال میں بہتری آئے گی۔ ۲۹ عنوانات کے تحت ۲۰۱۲ء کی خبریں اور واقعات پیش کردیے گئے ہیں۔ ’حقوقِ انسانی‘ کی واضح تعریف ہونا چاہیے۔ ہر خبر لازماً حقوقِ انسانی کی خلاف ورزی نہیں ہوتی، مثلاً بجٹ کا پیش کرنا، یہ کس طرح خلاف ورزی ہے؟ (ص ۱۴۳)۔ کچھ سمری ہوتی کہ کتنے قتل، کتنی عصمت دریاں؟]
  •  اے میری بہن! کیا آپ جنت میں جانا چاہتی ہیں؟ تالیف: عبدالقدوس سلفی۔ ناشر: دارسیاف، سیکنڈ فلور، رحمن پلازا بالمقابل جلال دین ہسپتال، مچھلی منڈی، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۳۶۴۱۲-۰۴۲۔ صفحات: ۱۶۰۔ قیمت: ۱۶۰ روپے۔ [کتاب کا مدعا مسلم عورت میں دین کا ذوق و شوق پیدا کر کے دین کے ساتھ وابستہ کرنے، دنیا کی بے ثباتی اور آخرت کے گہرے شعور کی روشنی میں زندگی بسر کرنے کی طرف متوجہ کرنا ہے۔ قرآن و سنت کی تعلیمات اور واقعات کے ذریعے خواتین کو مناسب لباس اور پردے کی طرف راغب کیا گیا ہے۔ یہ کتاب خواتین اور ان کی نئی نسل کے لیے رہنمائی کا ذریعہ اور جنت میں جانے کا راستہ دکھاتی ہے۔ ]
  •  مجلہ الشباب ،مدیر: عزیرصالح۔ پتا: سیدمودودی انٹرنیشنل اسلامک ایجوکیشن انسٹی ٹیوٹ، وحدت روڈ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۱۶۶۹۴-۰۴۲۔صفحات: ۴۸+۲۴ (انگریزی صفحات)۔ قیمت: درج نہیں۔[الشباب عربی اور انگریزی زبانوں پر مشتمل سید مودودی انٹرنیشنل اسلامک ایجوکیشن انسٹی ٹیوٹ کا ترجمان ہے جو ادارے کے ڈائرکٹر ڈاکٹر شبیراحمد منصوری کی سرپرستی میں نکلتا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ کے قیام کی غرض و غایت یہ تھی کہ عالمِ اسلام اور دیگرممالک سے آنے والے طلبا کو اسلام کے افکاروتعلیمات جدیدخطوط پر سکھائے جائیں اور پھر وہ اپنے ممالک میں جاکر اسلام کی حقیقی فکر کو پیش کرسکیں۔ مجلے کے مضامین کا تنوع اور دیگر تعلیمی و ہم نصابی سرگرمیاں اسی مقصد کی جھلک پیش کرتے ہیں۔ انگریزی حصے کے مدیر پروفیسر جمیل اختر ہیں۔ ادارے کی سرگرمیوں کی تصویری جھلکیاں بھی پیش کی گئی ہیں۔]

فلسفۂ الحاد نے جس برق رفتاری سے دنیا میں ترقی کی، اس کی بڑی وجہ لبرلزم (Liberalism) ہے.... مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس آزاد خیالی نے ذہنی انارکی کی شکل اختیار کرلی اور اب روشن خیالی کے یہ معنی قرار پاگئے ہیں کہ انسان کو ہرقسم کی پابندی سے آزاد ہونا چاہیے، خواہ وہ مذہب کی عائد کردہ ہو یا سماج کی....۔
تہذیب ِ الحاد کا دوسرا عنصر ترکیبی مادیت (Materialism) ہے۔ اسے مختصر الفاظ میں یوں کہاجاسکتا ہے کہ دنیا میں مادے کے سوا کوئی چیز نہیں.... حتیٰ کہ انسان بھی صرف برقیہ اور سالمیہ ہی کی کرشمہ سازی ہے۔ اسے اس دنیا میں اگر کسی چیز کی ضرورت ہے تو وہ صرف مادی احتیاجات کی تسکین ہے۔ اس نکتے تک پہنچنے کے لیے کافی مدت صرف ہوئی۔ یورپ کی نشاتِ ثانیہ کے بعد کچھ مدت تک مادی زندگی اور مسیحی اعمال و رسوم کو جمع کرنے کی کوشش کی جاتی رہی۔ مذہب کی پیروی سے وہ پوری طرح آزاد ہونا نہیں چاہتے تھے، اور اس بات کے آرزومند تھے کہ وہ کسی نہ کسی طرح کم از کم زندگی کے پرائیویٹ معاملات میں مذہبی رسوم کی ضرور پابندی کریں۔ ان کا خیال تھا کہ اس سے قوم کے افراد کے درمیان ربط قائم رہ سکے گا اور اس طرح ملک اجتماعی انتشار اور اخلاقی ابتری سے محفوظ رہے گا۔ لیکن مادی تہذیب کا ریلا اتنا تیز تھا کہ اس کے سامنے مذہب اس کمزور حیثیت میں کھڑا نہ رہ سکا، اور وقت کے دھارے کی نذر ہوکر رہ گیا، اور اس کی جگہ مادہ پرستی نے لے لی۔ مصنفین، اہلِ قلم اور اہلِ دماغ گروہوں نے اپنی جادوبیانی، سحرطرازی اور زورِ خطابت سے قدیم مذہبی رسوم اور قیود کے خلاف ملک میں ایک عام بغاوت برپا کردی۔ انھوں نے دنیا پرستی کو نہایت ہی دل فریب بناکر پیش کیا۔ جو چیز اس کی راہ میں حائل ہوئی، اس کے خلاف غیظ و غضب کا جذبہ بھڑکایا اور اس طرح طبیعتوں کو ہرقسم کی قیدوبند سے آزاد کردیا۔ انھیں زندگی سے بھرپور تمتُع، مطالباتِ نفس کی بے عنان تکمیل اور لذت پرستی کی علانیہ دعوت دی۔ حرص و ہویٰ کی اس زندگی کی اہمیت جتانے میں بڑے غلو سے کام لیا گیا۔ نقد لذت  اور ظاہری اور محسوس مادی نفع کے سوا ہرچیز کا ابطال کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یورپ کا موجودہ مذہب صرف مادہ پرستی ہے۔ (’انسانیت کی تعمیرنو اور اسلام‘، عبدالحمید ایم اے، ترجمان القرآن، جلد۴۰، عدد ۴،۵، شوال، ذیقعد ۱۳۷۲ھ، جولائی اگست ۱۹۵۳ء، ص ۸۶-۸۷)