مضامین کی فہرست


مئی ۲۰۱۱

۲مئی ۲۰۱۱ء پاکستان کی ۶۴سالہ تاریخ کے سیاہ ایام میں سیاہ ترین دن کی حیثیت رکھتا ہے۔ امریکا کی دوستی کی چھتری کے تلے چلائے جانے والے نیزوںکے زخم اس ملک کے جسم کے ایک ایک حصے میں پیوست ہیں لیکن ڈرون حملوں کی نہ ختم ہونے والی بوچھاڑ کے ساتھ جو     فوجی کارروائی یکم اور ۲مئی کی درمیانی شب ایبٹ آباد کے حسّاس علاقے میں امریکا کے چار ہیلی کاپٹروں اور ۲۴خصوصی کمانڈوز (SEALS) کے ذریعے ہوئی___ جس کے نتیجے میں مبینہ طور پر نہتے    شیخ اسامہ بن لادن، اس کے غیرمسلح صاحب زادے حمزہ بن لادن، اس کے دو رفقاے کار اور   ان میں سے ایک کی اہلیہ کو شہید کیا گیا اور ان کے مکان سے اپنے مطلب کا قیمتی سامان اور شیخ اسامہ اور حمزہ کی لاشوں کو بے دردی سے گھسیٹتے ہوئے ساتھ لے جایا گیا___ وہ پاکستان کی آزادی، حاکمیت، خودمختاری اور عزت پر حملہ ہے۔ بین الاقوامی قانون کی زبان میں اسے ایک نوعیت کا اعلانِ جنگ بھی تصور کیا جاسکتا ہے۔ اس جرم کے مختلف پہلوئوں پر گفتگو کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مختصراً ان اُمور کو ذہن میں تازہ کرلیا جائے جو اس فوجی اقدام کی اصل حقیقت کو سمجھنے میں مدد دے سکتے ہیں۔

نائن الیون کے الم ناک اور قابلِ مذمت واقعے کے بعد، امریکا نے اپنے ایجنڈے کے مطابق القاعدہ کی سرکوبی کے عنوان سے افغانستان اور پھر عراق کو یک طرفہ جنگ کی آگ میں جھونک دیا اور پاکستان کو تباہ کرنے اور پتھر کے زمانے میں پہنچا دینے کی دھمکی دے کر سات شرم ناک مطالبات کے ذریعے اس وقت کے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا۔خود کو ’کمانڈو صدر‘ کہنے والے سربراہِ مملکت نے امریکی غلامی کا نیا طوق بخوشی پہن لیا اور امریکا کو فوجی اڈے، راہداری اور وہ تمام سہولتیں اور مراعات دے دیں جن کا امریکا نے مطالبہ کیا اور اس طرح ایک ہمسایہ مسلمان ملک پر امریکی فوج کشی کے لیے اپنے کندھے پیش کر دیے۔ جس جنگ کا ہم سے کوئی دُور و نزدیک کا واسطہ بھی نہ تھا، یوں اس میں ہم امریکا کے طفیلی کی حیثیت سے شریک ہوگئے۔ جس پالیسی کا آغاز پرویز مشرف نے کیا تھا، ۲۰۰۷ء کے این آر او اور ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے نتیجے میں برسرِاقتدار آنے والی سول حکومت نے بھی اسی غلامانہ پالیسی کو جاری رکھا۔

اس کے نتیجے میں ملک کے طول و عرض میں دہشت گردی اور لاقانونیت کا دور دورہ ہوگیا۔ امریکا نے پورے ملک میں اپنے جاسوسوں اور فوجی اور کرایے کے سورمائوں (private security personnel) کا جال بچھا یا۔ ملک کی معیشت اس پالیسی کے نتیجے میں تباہ و برباد ہوئی۔ سرکاری اداروں کے اندازے کے مطابق ۴۰ہزار سے زیادہ عام شہری اور فوجی اس جنگ میں لقمۂ اجل بن چکے ہیں، اس سے دگنی تعداد میں زخمی ہوئے ہیں اور صرف پہلے آٹھ برسوں میں عملاً معیشت کو ۶۸ ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے جس میں ۸۲ ارب روپے کا وہ نقصان شامل نہیں ہے جو راہداری کی سہولت دینے کی وجہ سے ملک کی سڑکوں، پُلوں اور انفراسٹرکچر کو ہوا ہے۔ اس سب کے باوجود امریکا کی ’ڈو مور‘ کی رَٹ میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے اور سول اورفوجی دونوں قیادتوں اور سرکاری سراغ رساں ایجنسیوں پر عدمِ اعتماد، منافقت اور دوغلے پن کے الزامات کی صبح و شام بوچھاڑ ہوتی رہتی ہے۔ امریکا کی پالیسی کو اگر تین الفاظ میں سمیٹنے کی کوشش کی جائے تو اسے 3-Bs کہا جاسکتا ہے، یعنی:

  • ... Bully (دھونس ، دھمکی ) 
  • ... Blackmail (بلیک میل ) 
  • ... Bribery ( رشوت) 

اس کے ساتھ جسے معاشی امداد اور فوجی تعاون اور ٹریننگ کہا جاتا ہے، اس کے ذریعے ایک طرف ملک کی معیشت پر امریکا نے اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے تو دوسری طرف زندگی کے ہرشعبے میں اپنے اثرونفوذ کو بڑھانے اور اپنے ہرکاروں کو آگے بڑھانے کا کام انجام دیا ہے۔ یہ سیاسی اور معاشی غلامی کا ایک نیا بندوبست ہے جسے ماضی کے سامراجی نظام کی ایک صاف ستھری شکل (refined version) کہا جاسکتا ہے۔

اس سلسلے میں پاکستان کی سالمیت پر سب سے بڑا وار ڈرون حملوں کے ذریعے کیا گیا جس کا آغاز ۲۰۰۴ء میں ہوا۔ ۲۰۰۴ء سے ۲۰۰۷ء تک ۹ حملے ہوئے جن میں ۱۱۲؍افراد شہید کیے گئے۔ ۲۰۰۸ء میں یہ تعداد ۳۳، ۲۰۰۹ء میں ۵۳، اور ۲۰۱۰ء میں ۱۱۸ ہوگئی۔ ۲۰۱۱ء کے پہلے تین مہینوں میں ۲۴ حملے ہوئے۔ ان حملوں میں ۲۵۰۰؍ افراد ہلاک اور ۱۰ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے۔ امریکا کے تھنک ٹینک بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں ایک مبینہ دہشت گرد کے مقابلے میں ۱۰ عام معصوم شہری، مرد، خواتین اور بچے نشانہ بنے ہیں، جب کہ کچھ دوسرے آزاد اداروں کے مطابق یہ تناسب ایک اور ۵۰ کا ہے۔ ان ڈرون حملوں کی ملک کے تمام حلقوں، اور پارلیمنٹ کی متفقہ قراردادوں میں بھرپور مذمت کی گئی اور انھیں ملک کی حاکمیت پر حملہ، معصوم انسانوں کا قتلِ ناحق اور سیاسی اعتبار سے امریکی مخالفت کے رجحان کو تقویت دینے کا باعث قرار دیا گیا ہے۔ دنیا بھرمیں بشمول امریکا بنیادی حقوق کے تحفظ کے اداروں نے ان کی مذمت کی ہے اور اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی ان کو عالمی قانون کے خلاف اور امنِ عالم کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے لیکن امریکا کے رویے میں نہ صرف کوئی تبدیلی نہیں آئی بلکہ اس نے اس سے آگے بڑھ کر تین بار اپنے فوجیوں کے ذریعے مختصر کارروائیاں کی ہیں۔

اب حکومت کی بے حسی سے شہ پاکر ۲مئی کو وہ کارروائی کی ہے جسے ہراعتبار سے ایک آزاد اور خودمختار ملک پر (جسے امریکا اپنا حلیف اور اسٹرے ٹیجک پارٹنر بھی کہتا ہے) حملہ اور بین الاقوامی قانون کی زبان میں کھلی جارحیت اور جنگی کارروائی (act of war) قرار دیا جائے گا۔ یہ اقدام پوری منصوبہ بندی کے ساتھ ہوا اور امریکی صدر کے باقاعدہ احکام کے تحت انجام دیا گیا۔ اس میں چار فوجی ہیلی کاپٹر جدید ترین ٹکنالوجی سے مسلح تھے جسے سٹیلتھ (stealth) ٹکنالوجی کہا جاتا ہے۔  یہ صرف امریکا کے پاس ہے اور اسے عام ریڈار سے دیکھا نہیں جاسکتا۔ یہ ہیلی کاپٹر بگرام کے  ہوائی اڈے سے روانہ ہوئے۔ پاکستان میں غالباً تربیلا کے آس پاس ان میں ایندھن بھرا گیا۔ دوہیلی کاپٹروں نے عملاً حملے میں شرکت کی اور دو حفاظتی کردار ادا کرتے رہے۔ ۲۴ خصوصی کمانڈوز نے جو بشمول میزائلز ہرطرح کے اسلحے سے لیس تھے، زمینی کارروائی میں حصہ لیا، پانچ افراد کو ہلاک کیا، ایک خاتون کو زخمی کیا، اپنے ہی ایک ہیلی کاپٹر کو جو فنی خرابی یا زمین سے گولی لگنے سے گر کر نذرِآتش ہوگیا تھا، مزید تباہ کرکے ضروری سامان کو لوٹ کر اپنے ساتھ لے گئے۔ اس آپریشن میں تقریباً دوگھنٹے لگے۔ ۴۰ منٹ ایبٹ آباد کے آپریشن میں اور ۸۰ منٹ آنے اور جانے میں۔ اس پورے عرصے میں افغانستان کی فضائی حدود میں ایف-۱۶ طیارے اس لیے موجود رہے کہ اگر پاکستان کی طرف سے کوئی مزاحمت ہو تو پاکستانی ایئرفورس کے جہازوں پر حملہ کیا جاسکے۔ اس کے لیے امریکا نے حفاظت خوداختیاری کا بہانہ تراشا اور دعویٰ کیا کہ اس نے اپنی اس اعلان شدہ پالیسی پر عمل کیا ہے کہ وہ اپنے مطلوبہ افراد کو دنیا کے جس گوشے میں بھی پائیں گے، فوجی کارروائی کر کے اپنے قبضے میں لے لیں گے، حالانکہ نہ اقوام متحدہ نے ان کو یہ حق دیا ہے اور نہ بین الاقوامی قانون اور روایات نے، جن کی رُو سے صرف اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل ۷ کے تحت یا قانونی طور پر دو ملکوں کے درمیان معاہدے (treaty) کے تحت ایسی کارروائی جائز ہوسکتی ہے۔ پاکستان اور امریکا کے درمیان کوئی معاہدہ موجود نہیں، اس لیے کہ پاکستان کے دستور کے تحت کوئی معاہدہ اس وقت تک قانون کا درجہ حاصل نہیں کرتا جب تک کابینہ نے اس کی توثیق نہ کی ہو۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے افغانستان میں فوجی کارروائی کے لیے جو قرارداد منظور کی ہے، اس کا اطلاق صرف افغانستان کی حدود پر ہوتا ہے، اس کی حدود سے باہر نہیں اور دہشت گردی کے مقابلے کے لیے جو قرارداد منظور کی گئی ہے اس میں تمام ممالک کو ایک دوسرے سے تعاون کے لیے کہا گیا ہے ۔ اس قرارداد میں کسی ایک ملک کی طرف سے یک طرفہ کارروائی کی گنجایش نہیں ہے،  مگر امریکا نے اس قرارداد کی کھلی کھلی خلاف ورزی کی ہے کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی اور حکومت تمام معلومات امریکا کو دیتے رہے لیکن امریکا نے اس اقدام سے پہلے کسی طرح کی اطلاعات و معلومات میں پاکستان کو شریک نہیں کیا، بلکہ اس ذلت آمیز دعوے کے ساتھ کہ اگر پاکستان کو معلومات میں شریک کیا گیا تو وہ مطلوبہ عناصر کو اس کی اطلاع دے دے گا، پاکستان پر عدم اعتماد کا اظہار کیا۔ یوں امریکا نے پاکستان کے سارے تعاون پر پانی پھیر دیا اور اقوام متحدہ کی قرارداد کے برعکس یک طرفہ کارروائی کرکے ایک آزاد ملک کی حاکمیت اور خودمختاری کی کھلی کھلی خلاف ورزی کی۔

امریکا نے ایک نہیں، پانچ جرائم کا ارتکاب کیا:

۱- پاکستان کی حاکمیت پر حملہ اور اس کی فضائی حدود (air space) اور آباد زمینی علاقے کی خلاف ورزی، فوجی کارروائی کی شکل میں۔

۲- نہتے انسانوں (مرد، عورتوں اور بچوں) پر حملہ، پانچ افراد کا قتل، ایک کو زخمی کرنا۔

۳- دو مقتول انسانوں کی لاشیں غیرقانونی طور پر اپنے قبضے میں لینا اور انھیں ملک سے باہر لے جانا اور غیرمصدقہ اطلاعات کے مطابق ایک شخص کو اغوا بھی کرنا۔

۴-شہری جایداد اور گھریلو سامان کی تباہی۔

۵- لوٹ اور غصب___  دوسروں کی املاک کو نہ صرف تباہ کرنا بلکہ محض جبر اور قوت کے بل پر ان کی املاک کو اپنے ساتھ لے جانا۔


یہ پانچوں جرم ایک ایسے ملک نے کیے ہیں جو اپنے آپ کو تہذیب کا گہوارہ، جمہوریت کا    علَم بردار، انسانی حقوق کا محافظ اور عالمی امن کا پرچارک قرار دیتا ہے۔ جو اقوام متحدہ کا رکن ہے اور اس جارحیت کا نشانہ اقوام متحدہ کے ایک دوسرے رکن ملک کو بناتا ہے جسے وہ اپنا اتحادی بھی کہتا ہے۔ اس کی حدود اور سرزمین کی کھلے بندوں پوری فوجی تیاری اور قوت کے بے محابا استعمال کے ذریعے خلاف ورزی کرتا ہے اور قتل و غارت گری کا بازار گرم کرتا ہے۔ امریکا نے اپنے اس اقدام کی وجہ سے پاکستان، پوری عالمی برادری اور خود اقوام متحدہ کے مجرم ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ امریکا نے اپنے اس کارنامے کو اپنی فتح قرار دیا ہے۔ اس پر خوشیوں کے شادیانے بجا رہا ہے اور      ستم بالاے ستم یہ کہ اپنے اس گھنائونے جرم پر ’’ہم نے انصاف کردیا‘‘ کا لیبل لگا رہا ہے۔ امریکا اور اس کے میڈیا نے جھوٹ کا ایک طوفان برپا کر دیا ہے اور اس کے خوشامدی اور کاسہ لیس اس کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں لیکن جن کا ضمیر بیدار ہے، وہ امریکا کے اس جرم کا اعتراف کررہے ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ نائن الیون کے سانحے میں جو ہلاک ہوئے ہیں، ان کے ورثا میں بھی   ایسے لوگ موجود ہیں جو اسے انصاف نہیں انصاف کا خون قرار دے رہے ہیں۔

دی گارڈین لندن کی ۳مئی ۲۰۱۱ء کی اشاعت میں نائن الیون کے سانحے کے نتیجے میں بیوہ ہونے والی ایک خاتون کا یہ چشم کشا تاثر شائع ہوا ہے جو اس نے پھولوں کے گلدستے کے ساتھ نیویارک میں گرائونڈ زیرو پر بن لادن کے حادثے کے بعد رکھا ہے:

مَیں اور نائن الیون کے ہلاک شدگان کے رشتہ دار اُمید کرتے ہیں کہ ہم اس موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے امریکا کو جنگ کے بجاے انصاف کی راہ پر لائیں گے۔

اپنے اس مختصر نوٹ میں وہ لکھتی ہے:

بن لادن کی موت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تشدد سے تشدد جنم لیتا ہے۔ مَیں اور میرے ساتھی پُرامن مستقبل کے لیے چاہتے ہیں کہ نائن الیون کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ لیکن ہمیں یقین ہے کہ انصاف عدالت کے کمرے میں ملتا ہے، میدانِ جنگ میں نہیں۔ مجھے انتقام نہیں، انصاف چاہیے اور یہ دو بالکل مختلف چیزیں ہیں۔ ساڑھے نو برس سے میں نائن الیون کی انسانی قیمت کے بارے میں سوچ رہی ہوں۔ یہ صرف وہی زندگیاں نہیں ہیں جو اس روز لی گئیں بلکہ وہ سب فوجی اور شہری جن کی جانیں ان دو جنگوں کی نذر ہوئیں اور جن کی زندگیاں اب بھی خطرے میں ہیں اور ۱۱ستمبر کے نام پر برباد کی جارہی ہیں، سب اس میں شامل ہیں۔

کیوبا کے سربراہ فیڈل کاسٹرو نے ۴ مئی کو اپنے تاثرات کا ان الفاظ میں اظہار کیا ہے:

بن لادن کئی برس تک امریکا کا دوست رہا۔ اسی نے اسے فوجی تربیت دی۔ وہ روس اور سوشلزم کا دشمن تھا۔ اس پر خواہ کوئی بھی الزام لگائے جائیں لیکن عزیزوں کے سامنے ایک غیرمسلح شخص کا قتل، ایک قابلِ نفرت بات ہے۔ بظاہر یہ تاریخ کی سب سے زیادہ طاقت ور قوم کی حکومت نے کیا ہے۔ اوباما نے اپنے ۳ہزار شہریوں کی ہلاکت پر غم کا اظہار کیا ہے لیکن دیانت دار انسان یہ نہیں بھول سکتے کہ امریکا نے عراق اور افغانستان میں جو غیرمنصفانہ جنگیں مسلط کیں، ان کے نتیجے میں لاکھوں بچے اپنے ماں باپ کے بغیر بڑے ہوئے،اور لاکھوں والدین اپنے بچوں کے لمس سے محروم کردیے گئے۔ لاکھوں شہری عراق، افغانستان، ویت نام، لائوس، کمبوڈیا اور کیوبا اور دنیا کے بہت سے دوسرے ملکوں کے دیہاتوں سے لے جائے گئے۔ لاکھوں انسانوں کے ذہنوں میں ابھی تک وہ ہولناک مظالم محفوظ ہیں جو کیوبا کے مقبوضہ علاقے گوانتاناموبے میں برسوں قید رکھے جانے والے قیدیوں پر ناقابلِ برداشت تعذیب کی صورت میں ڈھائے گئے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو اغوا کیا گیا اور نام نہاد مہذب معاشروں کی ملی بھگت سے خفیہ قیدخانوں میں منتقل کیا گیا۔

امریکا کا مشہور دانش ور چوم نومسکی ۶مئی کو اپنے تاثرات کا اظہار ان الفاظ میں کرتا ہے:

اسامہ کی حیثیت ایک مشتبہ کی تھی۔ طالبان کی حکومت امریکا سے ثبوت مانگتی رہی لیکن امریکا کے پاس ثبوت نہیں تھے، چنانچہ اب اوباما کا اپنے بیان میں یہ کہنا کہ ’’جلد ہی معلوم ہوگیا کہ نائن الیون کے حملے القاعدہ نے کیے تھے‘‘، سراسر جھوٹ ہے۔ بعد میں بھی ابھی تک کوئی سنجیدہ ثبوت پیش نہیں کیے جاسکے۔ بن لادن کے اقبالی بیان کا بہت ذکر کیا جاتا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کہ میں یہ اعتراف کرلوں کہ میں نے بوسٹن میراتھن جیتی ہے۔ ہمیں اپنے آپ سے یہ پوچھنا چاہیے کہ اگر عراقی کمانڈو جارج بش کے کمپائونڈ میں اُتریں، اس کو قتل کردیں اور اس کی لاش کو بحراوقیانوس میں پھینک دیں تو ہمارا کیا ردعمل ہوگا؟ اس کے جرائم بلاکسی خوف تردید بن لادن سے بہت زیادہ ہیں اور اس کی حیثیت ایک مشتبہ کی نہیں بلکہ فیصلہ کرنے والے کی ہے جس نے بین الاقوامی جرم کرنے کا حکم دیا۔ یہ وہ جرائم ہیں جن پر نازی مجرموں کو پھانسیاں دی گئیں۔

برطانیہ کا چوٹی کا وکیل جیفرے رابرٹسن  لندن کے اخبار دی انڈی پنڈنٹ کی ۳مئی ۲۰۱۱ء کی اشاعت میں اپنے ایک طویل مضمون میں جس کا عنوان Why it is Absurd to claim that Justice has been done ہے، یہ لکھتا ہے:

امریکا میں مشرق کے چالاک جادوگر کی موت پر خوشیاں منائی جارہی ہیں۔ یہ ایک ایسے قتل کی تائید کرنا ہے جس کا ایک صدر نے حکم دیا جو قانون کے ایک سابق پروفیسر کی حیثیت سے جانتا ہے کہ اس کا یہ بیان کہ ’انصاف ہوگیا‘ واہیات بات ہے۔ بن لادن کے قتل کی تائید کی جارہی ہے کیونکہ گرفتاری، مقدمہ اور پھر فیصلہ دینے میں بڑی مشکلات تھیں لیکن ایک بہتر دنیا کے مفاد میں کیا اس کی کوشش نہیں کی جانا چاہیے تھی؟ مقابلے کی تفصیلات بھی واضح نہیں۔ قانون اپنے دفاع میں مجرم کو مارنے کی اجازت دیتا ہے۔ ممکن ہو تو ہتھیار ڈالنے کا موقع دینا چاہیے اور اگر وہ ہاتھ نہ بھی اُٹھائیں تو کسی اندیشے کے بغیر ممکن ہو تو انھیں زندہ گرفتار کرنا چاہیے۔ بن لادن کو گولی کیسے ماری گئی؟ خصوصاً اگر سر کے پچھلی جانب ماری گئی ہے تو اس کی وضاحت کی ضرورت ہے۔  پوسٹ مارٹم کے بغیر جو کہ قانون کا تقاضا تھا سمندربرد کرنے کی آخر کیا جلدی تھی؟ جو لوگ مقدمے کو غیرضروری، مشکل اور خطرناک سمجھتے ہیں وہ یہ بات نظرانداز کردیتے ہیں کہ بن لادن کے قتل نے اسے شہید بنا دیا ہے۔ وہ بعد موت کے اس کردار میں زیادہ خطرناک ہے، اور اس پر مقدمہ نہ چلنے کے نتیجے میں اس کے افسانوی کردار اور نائن الیون کے بارے میں سازشیں تصفیہ طلب ہی رہیں گی۔

دی انڈی پنڈنٹ کی ایک اور مضمون نگار جوڈی می انٹائر ۳مئی ۲۰۱۱ء کے شمارے میں لکھتی ہے:

میں سمجھتی تھی کہ انصاف یہ ہے کہ جرم کرنے والوں کو عدالت میں لایا جائے نہ کہ انھیں ہدف بنا کر ختم کردیا جائے۔ اب معلوم ہوا ہے کہ میں غلطی پر تھی۔ اگر ہم اس منطق کو مان لیں کہ بن لادن نامی ایک آدمی کو قتل کرنے سے نائن الیون کے ہزاروں مقتولین سے انصاف ہوگیا تو امریکا اور برطانیہ کے عراق پر حملے کے بعد اندازاً ۱۰لاکھ عراقیوں کے خون کا انصاف کس طرح ہوگا؟ حقیقت یہ ہے کہ وہ حالات اب بھی موجود ہیں جن سے بن لادن کا نظریہ پھیلتا ہے۔ فلسطین پر اسرائیل کا قبضہ اب بھی قائم ہے۔ عراق اور افغانستان پر قبضہ اب بھی برقرار ہے۔ لیبیا پر بم باری جاری ہے۔ اگر آج اسامہ بن لادن مارا جاچکا ہے تو کیا دنیا ایک بہتر جگہ بن گئی ہے؟ کیا ہم زیادہ محفوظ ہوگئے ہیں؟ اس صورت میں کہ ایک ایسے ملک میں جو اپنے آپ کو دنیا کا تھانے دار بھی سمجھتا ہے اور دنیا بھر میں ایک ہزار سے زائد فوجی اڈے رکھتا ہے، میں اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھتی۔

انگلستان کے اہم ترین مذہبی رہنما آرچ بشپ آف کینٹربری ڈاکٹر روان ولیمز نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ:

Killing Bin Laden when he was not carrying a weapon meant that justice could not  be seen to be done.

ہم نے امریکا اور یورپ کی چند اہم شخصیات کے ان واضح خیالات کو اس لیے پاکستان کے سوچنے سمجھنے والے حضرات کے غوروفکر کے لیے پیش کیا ہے کہ اسلام اور پاکستان کے بارے میں ساری غلط فہمیوں کے باوجود، امریکا کے ان جارحانہ، غیرقانونی، غیراخلاقی اور غیرانسانی اقدامات اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر ہرقانون کو پامال کرنے، دوسروں کی حاکمیت اور سلامتی کو محض قوت کے زعم پر پامال کرنے پر گرفت کرنے والے بھی موجود ہیں۔ شرم کا مقام ہے کہ وہ ملک جس کی آزادی، حاکمیت اور خودمختاری کو اس دیدہ دلیری کے ساتھ پامال کیا گیا، اس کی قیادت، حتیٰ کہ اس کا صدر، وزیراعظم اور وزارتِ خارجہ بھی ۴۸گھنٹے تک مذمت کا ایک لفظ کہنے کی جرأت نہ کرسکے، بلکہ صدر اور وزیراعظم نے امریکا کے اس جارحانہ اقدام پر مبارک باد دی اور وزارتِ خارجہ کے سرکاری ردعمل میں پہلا جملہ ہی یہ تھا کہ:

یہ آپریشن امریکا کی اعلان شدہ پالیسی کے مطابق تھا کہ اسامہ بن لادن دنیا میں جہاں بھی پایا جائے گا، براہِ راست فوجی کارروائی کر کے اسے ختم کردیا جائے گا۔

اس سے زیادہ معذرت خواہانہ بلکہ غلامانہ ردعمل اور کیا ہوسکتا ہے۔ شرم کا مقام ہے کہ ہماری وزارتِ خارجہ یہ بیان دے رہی ہے اور بھارت کا ایک نام ور کالم نگار پرافل بڈوال اس واقعے پر Did the US serve Justice? کے عنوان سے لکھتا ہے:

کیا امریکا نے، جیساکہ صدر بارک اوباما نے کہا ہے، اسامہ بن لادن کو قتل کرکے  نائن الیون کے ہلاک شدگان کا انصاف حاصل کرلیا ہے___ دیانت داری سے اس کا جواب ’نہیں‘ ہے۔ امریکا نے انتقام لیا ہے، انصاف نہیں کیا۔ مکمل انصاف کا مطلب  یہ ہوگا کہ نائن الیون کے تمام مجرموں پر کھلا مقدمہ چلایا جائے۔ اس کا یہ بھی تقاضا ہوگا کہ جہادی دہشت گرد جن جائز شکایات کو استعمال کرتے ہیں ان کو انسانی بنیادوں پر دُور کیا جائے، جن کا تعلق مغرب کی بالادستی کے منصوبوں اور اسلام کو مجسم شر کی حیثیت سے پیش کرنے، اور فلسطین پر اسرائیل کے قبضے سے ہے۔

ہم نے اپنے تجزیے کے اس حصے میں امریکا کے جارحانہ اقدام، پاکستان کی حاکمیت، آزادی اور خودمختاری کی بدترین پامالی اور بین الاقوامی قانون، اور انسانی حقوق، قانون کی حکمرانی اور انصاف کے بنیادی اصولوں کی پوری دیدہ دلیری، اور رعونت سے بربادی اور پامالی کے کچھ پہلوئوں پر روشنی ڈالی ہے۔ یہ معاملے کا صرف ایک پہلو ہے۔


دوسرا الم ناک پہلو پاکستان کی سول اور عسکری قیادت کے کردار کا ہے۔ امریکا نے تو وہ کیا جو وہ کرنا چاہتا تھا اور اس کے عزائم اور ہتھکنڈے کوئی ڈھکی چھپی چیز نہ تھے۔ سوال یہ ہے کہ ہماری انٹیلی جنس اور دفاع کے ذمہ داروں کا کیا کردار رہا؟ امریکا کو اتنی ہولناک کارروائی کرنے کا موقع کیوں حاصل ہوا؟ ہماری خفیہ ایجنسیاں کیا کر رہی تھیں کہ نہ ان کو یہ معلوم ہوسکا کہ اسامہ بن لادن کب سے کہاں مقیم ہے؟ آئی ایس آئی، ایم آئی، ایف آئی اے، صوبائی پولیس اور اسپیشل برانچ یہ سب کہاں غائب تھے؟ پھر اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ امریکی ہیلی کاپٹر کم از کم دو گھنٹے ہمارے ملک میں دندناتے پھرتے رہے، ایندھن بھی بھرا گیا، حملہ آور بھی ہوگئے، ایک ہیلی کاپٹر گر گیا یا گرا لیا گیا اور اس کے شعلے بلند ہوگئے۔ محلے کے سارے لوگ اُٹھ کھڑے ہوئے، چھتوں پر شوروغوغا ہوا مگر ہماری سرحدوں کے محافظ اور ہمارے شہروں کے پاسبان دشمن کے اپنا مشن پورا کرنے کے بعد حرکت میں آئے اور صرف ہاتھ مَلتے رہ گئے۔ ہماری نگاہ میں اس کے کم ازکم آٹھ پہلو ہیں جن پر گفتگو کی ضرورت ہے، یعنی:

۱- انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ناکامی___ غفلت، یا اہلیت کی کمی۔

۲- دفاعی نظام کی کمزوری اور ناکامی کہ بروقت اقدام سے عاجز رہا، خصوصیت سے  مسلسل دو گھنٹے تک کارروائی جاری رہنا اور جوابی ردعمل میں کوتاہی۔

۳- خطرات کا ادراک (perception) اور اس کے مطابق دفاعی حکمت عملی کی خامیاں۔

۴- ملک کی سلامتی کی پوری صورت حال کا جائزہ کہ اس میں کہاں خلا ہے اور کون کون سے وہ پہلو ہیں جن کا لحاظ نہیں رکھا گیا اور اتنی بڑی چوٹ کھانی پڑی۔

۵- ان سب کی روشنی میں سب سے بنیادی مسئلہ امریکا سے تعلقات کی نوعیت، اس کے اور ہمارے مقاصد، مفادات اور تحفظات کا ادراک، پاکستان میں امریکا کا کردار۔ پرویز مشرف کے دور سے اب تک کیا مراعات اور مواقع ان کو دیے گئے ہیں جن کا کوئی ریکارڈ نہیں۔ باہمی تعامل کے قواعد کیا ہیں اور کن حدود میں رہ کر ایک غیرملک اور اس کے اداروں کو کام کی اجازت اور مواقع ہیں؟ ان کی نگرانی کا کیا نظام ہے اور خلاف ورزی کو چیک کرنے اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے کیا نظامِ کار بنایا گیا ہے؟ اگر نہیں بنایا گیا تو کیوں اور اگر ہے تو اس میں کیا خامیاں اور خلا ہیں؟

۶- جو کچھ ہو رہا ہے اس کا بڑا گہرا تعلق امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ اور اس میں پاکستان کے پھنس جانے کا بڑا اہم کردار ہے۔ دوسروں کی جنگ نے کس طرح ہماری سرزمین کو جنگ کے میدان میں تبدیل کر دیا۔ جہاں سے کبھی کوئی خطرہ نہ تھا وہ اب خطرات کا جنگل بن گیا ہے۔ دوست دشمن بن گئے اور جن کو دوست سمجھا وہ دشمنوں سے بھی کچھ سوا نکلے۔ پورے علاقے کے امن کو کس چیز نے تہ و بالا کر دیا ہے اور کس طرح اس جنگ کی آگ کو ٹھنڈا کیا جائے اور جو اسباب، بگاڑ اور تصادم کے ذمہ دار ہیں، ان کو کس طرح دُور کیا جائے۔ ایبٹ آباد کا واقعہ اس پورے سلسلے کی ایک کڑی ہے اور ضرورت اس پورے مسئلے پر ازسرنو غور کرنے اور نئی پالیسی اور نئی حکمت عملی بنانے کی ہے۔


ایک اور بڑا اہم پہلو سول اور فوجی نظام کے تعلق کا ہے جس کا اس پورے معاملے سے بڑا گہرا اور قریبی تعلق ہے۔ عوام اور حکومت کی سوچ اور عزائم میں فرق، سول اور فوجی اداروں کے درمیان پالیسی اور دوسرے تمام متعلقہ امور کے بارے میں ہم آہنگی اور عوام کی توقعات اور سول اور فوجی قیادت کی کارکردگی میں فرق۔ عوام کی نظریاتی، سیاسی اور تہذیبی اُمنگیں اور عوام کے سیاسی، معاشی، معاشرتی، تہذیبی مسائل، نیز قومی وسائل کے منصفانہ اور حکیمانہ استعمال کا مسئلہ جس کے نتیجے میں عوام کو خوش حالی، امن اور انصاف میسر آسکے۔ معیشت کا قرضوں کے بوجھ تلے دب کر امریکا پر ایسا انحصار جو ملک کی آزادی اور سالمیت کو متاثر کر رہا ہے، ایک بڑا بنیادی ایشو بن گیا ہے۔ دفاع اور عوام کی ضروریات کی تسکین کے تقاضے کہاں ہم آہنگ ہیں اور کہاں متصادم ہیں۔ ان میں صحیح تناسب کس طرح قائم ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی، عسکری اور معاشی امور باہم مربوط ہیں اور حالات کے صحیح تجزیے اور مناسب پالیسیوں کی تشکیل کے لیے ان تمام امور پر غور ضروری ہے۔

ان تمام امور کے ساتھ ایک بڑا اہم مسئلہ ہمارے قومی موقف، ہمارے اہداف، حکمت عملی اور جائز مفادات کے صحیح صحیح ابلاغ (communication) سے متعلق ہے۔ ایک طرف پاکستان کو ساری دنیا میں ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے، ہماری صورت کو بگاڑ کر پیش کیا جا رہا ہے، ہمیں مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا ہے، اور دوسری طرف ہماری حکومت ہمارے سفارتی نمایندے اور ہمارا میڈیا اپنے اپنے چکروں میں پھنسے ہوئے ہیں اور پاکستان کے موقف کو دلیل اور قوت کے ساتھ پیش نہیں کیا جا رہا۔ بلاشبہہ صحیح پالیسی کی تشکیل اولین ضرورت ہے لیکن اپنی پالیسی اور اپنے نقطۂ نظر کو مؤثرانداز میں پیش کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ ہمیں افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ بہت سی وہ باتیں جو ہمیں اعتماد کے ساتھ پیش کرنی چاہییں، دوسرے اپنے الفاظ میں اور اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر پیش کر رہے ہیں اور ہمارا مقدمہ مناسب پیروی نہ ہونے کے باعث کمزوری کا شکار ہے اور ہم کوتاہی کی وجہ سے نقصان اُٹھا رہے ہیں۔ اس لیے ابلاغ بھی ایک اہم ضرورت ہے جس کے تقاضوں کو پورا کرنا وقت کی ضرورت ہے۔

ان امور کی روشنی میں اصل چیلنج یہ ہے کہ آیندہ کے لیے قومی پالیسیاںا ور دفاع اور ترقی کی ایسی حکمت عملی کا تعین کیا جائے جو ملک کو موجودہ دلدل سے نکالنے میں ممدومعاون ہو۔ ہم کوشش کریں گے کہ ان تمام امور پر آیندہ اشارات میں اپنی معروضات پیش کریں۔ وما توفیقی الا باللّٰہ۔


عزمِ نو

ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن  آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ الابلاغ ٹرسٹ کے زیراہتمام ماہنامہ ترجمان القرآن مارچ ۲۰۱۱ء تک جاری رہا۔ اب بوجوہ اسی ادارت اور انتظام کے تحت ایک نئے نام سے آغاز کیا جا رہا ہے۔ یہ رسالہ کسی تجارتی مقصد یا ذاتی غرض سے نہیں نکالا جارہا ہے بلکہ ایک فکری تحریک کا نقیب اور ایک دعوت اور تحریک کا داعی اور ایک نظریاتی، اخلاقی، انفرادی اور اجتماعی انقلاب کے لیے جرسِ کارواں کا کردار ادا کرنے والا رسالہ ہے۔ سیدمودودیؒ کے الفاظ میں: ہمارے پیش نظر صرف ایک مقصد ہے، اور وہ مسلمانوں کو قرآن کی طرف دعوت دینا ہے۔ رسالے کی اشاعت فی نفسہٖ مقصود نہیں بلکہ محض اس دعوت کی اشاعت کے لیے ہے۔ ہر داعی و مبلغ کی طرح ہماری بھی یہ دلی خواہش ہے کہ زیادہ سے زیادہ آدمیوں تک ہمارا پیغام پہنچے۔ ہمیں خریداروں کی ضرورت نہیں، پڑھنے والوں کی ضرورت ہے۔ اگر ایک رسالے کو ہزار ہزار آدمی بھی پڑھیں، تو ہمیں رنج نہ ہوگا بلکہ مسرت ہوگی۔ اگر ہمارے مضامین اخباروں اور رسالوں میں نقل کیے جائیں تو ہم اُن کا شکریہ ادا کریں گے کہ انھوں نے اس دعوت میں ہمارا ہاتھ بٹایا۔

عالمی ترجمان القرآن قرآنی افکارو تہذیب کا نقیب ہے۔ ہمارا تعلق اسی فکری اور نظریاتی تحریک سے ہے جس کا آفتاب حرا اور فاران کی چوٹیوں سے طلوع ہوا تھا اور جس کا مقصدِوحید قرآن و سنت کی روشنی میں اور اپنے دور کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر زندگی کے ہر شعبے کی تشکیلِ نو اور اسلامی نشاتِ ثانیہ ہے۔ اسلام کسی ایسے مذہب کا نام نہیں جو صرف انسان کی نجی اور انفرادی اصلاح کرتا ہو اور جس کا کُل سرمایۂ حیات کچھ عبادات، چند اذکار اور رسوم و رواج کے ایک مجموعے پر مشتمل ہو۔ اسلام تو ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو خالقِ کائنات اللہ رب العالمین کی ہدایت اور اس کے نبی صادق علیہ السلام کے نمونے کی روشنی میں زندگی کے تمام شعبوں کی صورت گری کرتا ہے اور حیاتِ انسانی کے ہر پہلو کو اللہ کے نور سے منور کرتا ہے، خواہ وہ پہلو انفرادی ہو یا اجتماعی، معاشرتی ہو یا تمدنی، مادی ہو یا روحانی، معاشی ہو یا سیاسی، ملکی زندگی سے متعلق ہو یا بین الاقوامی اور عالمی امور سے۔ اسلام کی اصل دعوت ہی یہ ہے کہ خدا کی زمین پر خدا کا قانون جاری و ساری ہو اور دل کی دنیا سے لے کر تہذیب و تمدن کے ہر گوشے تک خالق کائنات کی مرضی پوری ہو___ یہی وجہ ہے کہ مسلمان نام ہے اس نظریاتی انسان کا جو ایک طرف خود اپنی پوری زندگی کو خدا کی اطاعت کے لیے خالص کرلے اور دوسری طرف خدا کے دین کو اپنے گھر، اپنے معاشرے، اپنی معیشت، اپنی سیاست اور ریاست اور بالآخر تمام روے زمین پر غالب کرنے کی جدوجہد کو اپنی زندگی کا مشن بنا لے ، اس لیے کہ: اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ (اٰل عمرٰن۳:۱۹) ’’اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے‘‘۔ اس دین کا اپنے تمام پیروکاروں سے مطالبہ ہی یہ ہے کہ زندگی کو خانوں میں تقسیم نہ کریں اور پوری زندگی کو اپنے رب کی مرضی کے تابع کر دیں، تاکہ زندگی کی تمام وسعتوں کے لیے روشنی اور ہدایت صرف اس دین سے حاصل کی جائے، اور طاغوت کو زندگی کے کسی بھی گوشے میں اپنے پنجے گاڑنے کا موقع نہ ملے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً ص وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ط اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ o (البقرہ ۲:۲۰۸) اے ایمان لانے والو! تم پورے کے پورے اسلام میں آجائو اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔

عالمی ترجمان القرآن اس دعوت کا داعی ہے اور آنے والے دنوں میں حالات کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسے نہ صرف پاکستان، بلکہ دنیا بھر میں اس پیغام کو ہرایک تک پہنچائے گا۔

آیئے! اس موقع پر عزمِ نو کے ساتھ ساتھ دل کی گہرائیوں سے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں: اے اللہ! تو ہمارا حامی و ناصر ہوجا، ہم صرف تیری رضا کے لیے، تیرے دین کی سربلندی کے لیے، تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کو عام کرنے کے لیے، تیرے بندوں کو تیری بندگی کے راستے پر گامزن کرنے کے لیے اور انسانیت کو طاغوت کی مسلط کردہ تاریکیوں سے نکال کر تیری ہدایت کی روشنی کی طرف لانے کے لیے، تیری مدد، توفیق اور استعانت کے طالب ہیں۔

ہمارا سہارا تو اور صرف تو ہے اور تیرے سوا کوئی نہیں جو ہم جیسے کمزور انسانوں کو سہارا دے سکے، بلاشبہہ تو ہی  نعم المولٰی ونعم النصیر ہے___  وما توفیقی الا باللّٰہ!


الابلاغ ٹرسٹ کے پاس جن خریداروں کا زرتعاون جمع ہے ، ان کی خریداری میں ایک ماہ کا اضافہ کردیا جائے گا___ انتظامیہ الابلاغ ٹرسٹ

اسلام کی دعوت جب عرب میں پیش کی گئی تھی، اس وقت اس کی مخاطب آبادی تقریباً ۱۰۰فی صد اَن پڑھ تھی۔ قریش جیسے ترقی یافتہ قبیلے کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس میں صرف ۱۷ افراد پڑھے لکھے تھے۔ مدینے میں اس سے بھی کم لوگ تعلیم یافتہ تھے اور باقی عرب کی حالت کا اندازہ آپ ان دو بڑے شہروں کی حالت سے کرسکتے ہیں۔ قرآن مجید اس ملک میں لکھ کر نہیں پھیلایا گیا تھا بلکہ وہ لوگوں کو زبانی سنایا جاتا تھا۔ صحابہ کرامؓ اس کو سن کر ہی یاد کرتے تھے اور پھر زبانی ہی اسے دوسروں کو سناتے تھے۔ اسی ذریعے سے پورا عرب اسلام سے روشناس ہوا۔ پس درحقیقت لوگوں کا اَن پڑھ ہونا کوئی ایسی دشواری نہیں ہے جس کی وجہ سے اسلام کی تبلیغ نہ ہوسکتی ہو۔

آغازِ اسلام میں اس دین کی تبلیغ اَن پڑھ لوگوں ہی میں کی گئی تھی اور یہ محض زبانی تبلیغ و تلقین ہی تھی جس سے ان کو اس قدر بدل دیا گیا۔ ایسا زبردست انقلاب ان کے اندر برپا کردیا گیا کہ وہ دنیا کے مصلح بن کر کھڑے ہوگئے۔ اب آپ کیوں یہ سمجھنے لگے ہیں کہ ۸۰ فی صد اَن پڑھ آبادی میں اسلام کی دعوت نہیں پھیلائی جاسکتی؟ آپ کے اندر ۲۰فی صد تو پڑھے لکھے لوگ موجود ہیں۔ وہ  پڑھ کر اسلام کو سمجھیں، اور پھر باقی ۸۰ فی صد لوگوں کو زبانی تبلیغ و تلقین سے دین سمجھائیں۔ پہلے کی    بہ نسبت اب یہ کام زیادہ آسان ہوگیا ہے۔

البتہ فرق جو کچھ ہے وہ صرف یہ ہے کہ اس وقت جو شخص بھی اسلام کی تعلیمات کو سن کر ایمان لاتا تھا وہ ایمان لاکر بیٹھ نہیں جاتا تھا، بلکہ آگے دوسرے بندگانِ خدا تک ان تعلیمات کو پہنچانا اپنا فرض سمجھتا تھا۔ اس کی تمام حیثیتوں پر مبلغ ہونے کی حیثیت غالب آجاتی تھی۔ وہ ہمہ تن ایک تبلیغ بن جاتا تھا۔ جہاں جس حالت میں بھی اسے دوسرے لوگوں سے سابقہ پیش آتا تھا، وہ ان کے سامنے اللہ اور اس کے رسولؐ کی ہدایات بیان کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتا تھا۔ وہ ہروقت اس تلاش میں لگا رہتا تھا کہ کس طرح اللہ کے بندوں کو جہالت کی تاریکیوں سے نکال کر علم کی روشنی میں لائے۔ جتنا قرآن بھی اسے یاد ہوتا وہ اسے لوگوں کو سناتا، اور اسلام کی تعلیمات جتنی کچھ بھی اسے معلوم ہوتیں ان سے وہ لوگوں کو آگاہ کرتا تھا۔ وہ انھیں بتاتا تھا کہ صحیح عقائد کیا ہیں جو اسلام سکھاتا ہے اور باطل عقیدے اور خیالات کون سے ہیں جن کی اسلام تردید کرتا ہے۔ اچھے اعمال اور اخلاق کیا ہیں جن کی اسلام دعوت دیتا ہے، اور برائیاں کیا ہیں جن کو وہ مٹانا چاہتا ہے۔ یہ سب باتیں جس طرح پہلے سنائی اور سمجھائی جاتی تھیں، اسی طرح آج بھی سنائی اور سمجھائی جاسکتی ہیں۔ ان کے لیے نہ سنانے والے کا پڑھا لکھا ہونا ضروری ہے، نہ سننے والے کا۔ یہ ہروقت بیان کی جاسکتی ہیں اور ہرشخص کی سمجھ میں آسکتی ہیں۔

اسلام نے کوئی ایسی نرالی چیز پیش ہی نہیں کی ہے جس سے انسانی طبائع مانوس نہ ہوں اور جن کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے بڑے فلسفے بگھارنے کی ضرورت ہو۔ یہ تو دینِ فطرت ہے۔  انسان اس سے بالطبع مانوس ہے۔ اسے پڑھے لکھے لوگوں کی بہ نسبت اَن پڑھ لوگ زیادہ آسانی سے قبول کرسکتے ہیں، کیونکہ وہ فطرت سے قریب تر ہوتے ہیں، اور ان کے دماغ میں وہ پیچ نہیں ہوتے جو جاہلیت کی تعلیم نے ہمارے پڑھے لکھے لوگوں کے دماغوں میں ڈال دیے ہیں۔

لہٰذا آپ اَن پڑھ آبادی کی کثرت سے ہرگز نہ گھبرائیں۔ ان کی ناخواندگی اصل رکاوٹ نہیں ہے، بلکہ آپ کے اندر جذبۂ تبلیغ کی کمی اصل رکاوٹ ہے۔ ابتداے اسلام کے مسلمانوں کی طرح ہمہ تن مبلغ بن جایئے اور تبلیغ کی وہ لگن اپنے اندر پیدا کرلیجیے جو ان کے اندر تھی۔ اس کے بعد آپ دیکھیں گے کہ اسلام کی دعوت پھیلانے کے بے شمار مواقع آپ کے منتظر ہیں جن سے آپ نے آج تک اس لیے فائدہ نہیں اٹھایا کہ آپ اپنے ملک کی آبادی میں ۱۰۰ فی صد خواندگی پھیل جانے کے منتظر رہے۔ (تصریحات ، ص ۲۸۳-۲۸۵)

 

خالقِ ارض و سماوات کے بنی نوع انسان پر لاتعداد اور لامتناہی احسانات ہیں۔ اس کائنات کا ایسا کوئی انسان نہیں ہے، خواہ پیغمبر ہو یا قطب و ابدال، ولی ہو یا مفکرو سائنس دان، یا محقق و معلم، جو اکرام و الطاف اور عنایات و مراعاتِ رب ذوالجلال کا ادراک نہ کرسکے۔ جملہ احسانات میں سے ایک قرآنِ حکیم ہے جو بنی نوع انسان کی رہنمائی کے لیے ربِ کائنات کا ودیعت کردہ ابدی اور دائمی دستورِ حیات ہے، جس کے قوانین و ضوابط ہمہ جہت اور متنوع ہیں۔ یہ انسانی زندگی پر رحمتوں اور مہربانیوں کا ایسا بحرِبیکراں ہے، جس کا احاطہ کرنا اور تمام فیوض و برکات کو ورطۂ تحریر میں لانا انسانی قدرت و طاقت کے بس میں نہیں۔ اس کے موضوعات کی کہکشاں ہروقت، ہرلمحے چمکتی دمکتی رہتی ہے۔ یہ ضیائیں انفرادی، عائلی، عمرانی، قومی، بین الاقوامی، ثقافتی، معاشرتی، معاشی اور اخلاقی وغیرہ اللہ تعالیٰ نے اس کتابِ مبین میں پھیلا دی ہیں جسے ہم آفتابِ جہاں تاب کے تعلیماتی انوار بھی کہہ سکتے ہیں۔ قرآن کریم کی تعلیماتِ رُشد و ہدایت، انسانی زندگی کی دنیوی اور اُخروی فلاح و کامرانی کی ضامن ہیں۔ علامہ اقبال نے اسی بات کا اظہار یوں کیا ہے    ؎

گر تو می خواہی مسلماں زیستن
نیست ممکن جز بہ قرآں زیستن

یہ کتابِ الٰہی ہے مگر یہ بھی درست ہے کہ اسے انسان کی رہنمائی کے لیے نازل کیا گیا ہے:

اِنَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ یَھْدِیْ لِلَّتِیْ ھِیَ اَقْوَمُ (بنی اسرائیل ۱۷:۹) حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھی ہے۔

پھر اللہ تعالیٰ اسے یَسَّرنَا القُرآن بھی کہتا ہے کہ ہم نے قرآن کریم کو سمجھنا آسان بنا دیا ہے۔ اس کو سمجھنے سے انسان اپنی عملی زندگی کو ضیابار کرتا ہے اور یہی مقصدِ حیات ہے۔ سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ اپنی تفسیر تفہیم القرآن کے مقدمے میں نزولِ قرآن کی غایت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اس کا مدعا انسان کو صحیح رویے کی طرف دعوت دینا اور اللہ کی اس ہدایت کو واضح طور پر پیش کرنا ہے    جسے انسان اپنی غفلت سے گم اور اپنی شرارت سے مسخ کرتا رہا ہے‘‘ (ص ۲۰)۔ علامہ اقبال بھی قرآن حکیم میں غوطہ زن ہونے کی دعوت دیتے ہیں    ؎

قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جدّتِ کردار

قرآنِ مجید نے انسانی فہم وفراست اور علم و حکمت کے لیے کچھ ایسی چیزیں بیان کردی ہیں جو آج کی اس دنیا کے انسانوں کے لیے بے حد اہم ہیں۔ آج جب سائنس اور ٹکنالوجی کی ترقی کے گن گائے جارہے ہیں، قرآن حکیم روحانی اور اخلاقی اقدار ہی نہیں، کائنات میں تخلیق کردہ اشیا سے بھی انسان کو استفادے کی دعوت دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ ان فیوض و برکات کو انسانیت کی فلاح قرار دیتا ہے۔ آیئے ان الطاف و عنایات میں سے چند احسانات کی افادیت کا مطالعہ کریں۔

  •  تحقیق و تسخیر: اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے تخلیق کی ہے،اور بنی آدم کو علم کے نور سے منور کر کے اشرف المخلوقات بنا دیا ہے۔ پھر خالقِ کائنات نے انسان کو خیرکثیر ’علم و حکمت‘ سے نوازا ہے اور حکم دیا ہے کہ تحقیق و تفتیش کی ریاضت اسی علم و حکمت سے کرو اور اپنی تحقیقات کے زور سے عملِ تسخیر کو اپنی متاعِ عزیز بنائو۔ خداے بزرگ و برتر نے بتا دیا ہے: وَسَخَّرَ لَکُمْ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مِّنْہُ (الجاثیہ ۴۵:۱۳) ’’اور آسمان و زمین کی ہر ہر چیز کو بھی اس نے اپنی طرف سے تمھارے لیے مسخر کر دیا ہے‘‘۔ غوروفکر کرنے والوں کے لیے مخلوقاتِ آسمانی اور زمینی اور شب و روز میں بھی نشانیاں رکھ دی ہیں:

اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّھَارِ لَاٰیٰتِ لِّاُولِی الْاَلْبَابِo(اٰل عمرٰن ۳:۱۹۰) زمین اور آسمانوں کی پیدایش میں اور رات اور دن کے باری باری سے آنے میں اُن ہوش مند لوگوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں۔

اس کے ساتھ ہی مزید وضاحت فرما دی:

الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰی جُنُوْبِھِمْ وَ یَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلًا سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ o( اٰل عمرٰن ۳:۱۹۱) جو اٹھتے، بیٹھتے اور لیٹتے، ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں اورزمین اور آسمانوں کی ساخت میں غورو فکر کرتے ہیں۔ (وہ بے اختیار بول اٹھتے ہیں ) ’’پروردگار یہ سب کچھ تو نے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا ہے، تو پاک ہے اِس سے کہ عبث کام کرے ۔پس اے رب ،ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔

یہ ہے وہ تسخیر کرنے کی واضح دعوت جو ربِ کائنات نے اہلِ بصیرت کو دی ہے۔ تحقیق کا ایک میدان ان کے سامنے رکھ دیا ہے۔ اس کی بھی وضاحت کر دی ہے کہ یہ اُولی الالباب ہیں جنھیں علمِ لدّنی اور حکمت کے خیرکثیر سے نوازا گیا ہے۔ وہ تحقیق کے میدان میں کودیں، پہاڑوں میں، سیاروں میں، آسمانوں کے آفتاب و ماہتاب میں، دشت و صحرا اور بحرِظلمات میں، زمین میں پنہاں خزانوں میں، سیال تیل اور گیس کے ذخیروں میں، دَل کے دَل پرندوں اور دندناتے درندوں میں، دریائوں اور سمندروں کے آبی جانوروں میں، الیکٹرون، پروٹون میں، عنصر اور ایٹم میں پوشیدہ قوتوں میں غوروخوض کریں۔ تحقیق کے زور پر تسخیر کے عمل کو مضبوط بنائیں۔ محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم پر نزولِ قرآن سے پہلے کہاںیہ تحقیقی عمل کا انکشاف تھا۔ انسان کب تحقیق کی قوت اور کائنات کے حقائق کو جاننے کا علم رکھتا تھا، بلکہ کب وہ اس بات سے باخبر تھا کہ کائنات کی ہرچیز اس کے لیے بنائی گئی ہے۔ یہ تو قرآنِ حکیم کا فیض ہے کہ انسانیت کی بہبود کے لیے سائنس دان، مفکر، معلم قرآنِ مجید کے عطا کردہ علم سے فیض یاب ہوکر علم و تحقیق کے نتائج پر ہرچیز فراہم کر رہے ہیں۔ اقبال فرماتے ہیں    ؎

ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحبِ کشاف

قرآن ہی اس نورِ تحقیق کا منبع ہے۔ اگر قرآن تحقیق کی یہ ضیائیں نہ پھیلاتا تو قافلۂ انسانیت تاریکیوں میں بھٹکتا رہتا۔

  •  مساوات اور وحدتِ انسان:تہذیب انسانی کی تاریخ کا مطالعہ یہ ثابت کرتا ہے کہ نزولِ قرآن سے قبل اقوامِ عالم قومی وحدت سے خالی تھیں، بلکہ آج بھی وہ اقوام جوقرآنِ مجید پر ایمان نہیں رکھتی ہیں مساوات اور وحدتِ انسانی سے گریزاں ہیں۔ یہ تفریق اپنے اندر مختلف وجوہات رکھتی ہے۔ کہیں نسلی تفاوت ہے اور اُونچ نیچ کا یہ دائرہ اشراف اور کمین پر پھیلا ہوا ہے۔ ہندو تہذیب آج بھی انسانی وحدت اور اخلاقی مساوات کے اصول کے خلاف ہے۔ برہمن، وید، کھشتری اور شودر وغیرہ کی تخصیص و تفریق نسلی نسب سے جنم لیتی ہے۔ ایک نسل دوسری نسل کو اپنے سے کم تر اور گھٹیا گردانتی ہے جس کے نتائج بے حد روح فرسا ہیں۔ اسی طرح گورے اور سیاہ فام کا فرق صدیوں سے چلا آرہا ہے۔ ماضی بعید میں سیاہ فام غلامی کی زنجیروں میں جکڑے نظر آتے ہیں۔ رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت کا جائزہ ہمارے سامنے اس تفریق کو رکھتا ہے۔ ایک جانب بلال، صہیب، سلمان رضوان اللہ علیہم وغیرہ جیسے انسان نظر آتے ہیں اور دوسری جانب ابوجہل، ابولہب، عقبہ جیسے سردار غلاموں کی زندگی اجیرن کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

یہی نہیں، یہ نسلی تفاوت مغرب میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ امریکا، برطانیہ وغیرہ ترقی یافتہ تہذیب کے نمایندے کہلاتے ہیں مگر وہاں ان سیاہ فام انسانوں سے کیا سلوک کیا جاتا رہا ہے اور اب تک کیا جا رہا ہے۔ امریکن اور یورپین آج بھی رنگ و نسل کی مخاصمت میں اعلیٰ تہذیب و تعلیم کا دعویٰ کرنے کے باوجود کالے گورے کی تخصیص میں مبتلا ہیں۔ یہی کیفیت جغرافیائی حدبندیوں سے اظہرمن الشمس ہے۔ یہ امتیازی سلوک اور اُونچ نیچ قومی تصادم کو جنم دیتی ہے۔ براعظموں کے تذکار میں ان اختلافات کے مہیب نتائج آج بھی ہمارے سامنے ہیں۔ اسی طرح لسانی اور اعتقادی امتیازات ہیں جن کی بدولت دشمنیاں پھیلتی ہیں، جنگیں برپا ہوتی ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے قبل عرب میں قبیلوں کی لڑائیاں برسوں چلتی رہتی تھیں۔ پاکستان میں دہشت گردی اور سیاسی مخاصمت بھی انھی امتیازات کا پیش خیمہ ہے۔

یہ قرآنِ حکیم کا فیض ہے کہ اس نے ان امتیازات پر ضرب لگائی اور ان بتوں کو پاش پاش کیا۔ وحدتِ الٰہ کا درسِ عظیم دیا۔ اس کائنات کا صرف ایک الٰہ ہے، ایک خالق ہے، ایک مالک ہے، اس کے سوا کوئی دوسرا الٰہ اور حاکم نہیں۔ قرآن حکیم نے اسی حوالے سے وحدتِ آدم کا اصول بیان فرما دیا۔ بنی آدم تو وہی ہیں جنھیں مٹی سے پیدا کیا گیا:

اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰی عِنْدَ اللّٰہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ خَلَقَہٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ  o( اٰل عمرٰن ۳:۵۹) اللہ کے نزدیک عیسٰی ؑکی مثال آدم ؑ کی سی ہے کہ اللہ نے اسے مٹی سے پیدا کیا اور حکم دیا کہ ہو جا اور وہ ہوگیا۔

لہٰذا رنگ، نسل، زبان اور ملکی یا براعظمی امتیاز، سب دائرۂ اختیارِ آدم سے باہر ہے۔ یہ عطاے ربانی ہے جو اس کی پیدایش کے وقت ہی اس کے ساتھ آیا ہے:

یاَیُّھَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا (الحجرات ۴۹:۱۳) لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمھاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔

یہ ہے وہ وحدتِ انسانی جو تعارف کے لیے تشکیل دی گئی ہے۔ یہی بنی نوع انسان کو اس عالمِ فانی میں مساوات کا درس دیتی ہے۔ گویا ہم نے جو امیر و غریب اور کالے گورے کی تفریق پیدا کررکھی ہے یہ اللہ کو پسند نہیں۔ تمام انسان وحدت کی لڑی میں پروے ہوئے ہیں۔ یہ قرآنِ حکیم کا فیض ہے کہ اس نے رنگ، نسل، زبان اور جغرافیائی بتوں کو پاش پاش کر دیا ہے۔

  •  انسان کو انسانیت سے سرفراز فرمایا: قرآن کریم اس کائنات میں انسان کو اشرف المخلوقات قرار دیتا ہے۔ حیوانیت، درندگی اور نباتاتی صفات کی حامل مخلوقات سے ارفع و اعلیٰ قراردیتا ہے۔ نباتاتی قومیت کا نمو اور حیواناتی جبلتیں اگرچہ انسان میں بھی موجود ہیں۔ بھوک، پیاس، حرکت و حرارت، خوف و محبت اور صنفی میلانات وغیرہ زندگی کے کئی دائرے ہر مخلوق میں موجود ہیں مگر ان کی موجودگی کے باوجود  اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو شعلۂ علمِ نور، قوتِ گفتار و اظہار، نعمت فکروتدبر، احساسِ ذمہ د اری، شعورِعمل اور نیک و بد کی تمیز اور خیروشر کی تخصیص عطا کی ہے، اُسے اشرف المخلوقات بناتی ہے۔ قرآن حکیم کا فیض ہے کہ اس نے انسان کو انسانیت کے ان اخلاقی، روحانی اور ودیعت کردہ خصائص سے آگاہ فرمایا۔ قرآن تو انسان کو اس کی اصل حقیقت اور شرفِ انسانیت سے آگاہ کرتا ہے۔ اس کی تخلیق کی رفعت کا شعور دیتا ہے۔ اسے فطری زندگی میں سراسر بھلائی اور خیر کی تعلیم دیتا ہے بلکہ اُسے غلط روش اور کوتاہی کے نتائج سے خبردار کرتا ہے:

لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ o ثُمَّ رَدَدْنٰہُ اَسْفَلَ سٰفِلِیْنَ o اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَھُمْ اَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُوْنٍ o (التین ۹۵:۴ تا۶) ہم نے انسان کو بہترین ساخت پرپیدا کیا، پھر اُسے اُلٹا پھیر کر ہم نے سب نیچوں سے نیچ کر دیا، سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے کہ اُن کے لیے کبھی ختم نہ ہونے والا اَجر ہے۔

اس احسان و برکت کے تذکرے کے ساتھ ساتھ قرآنِ مجید نے انسان کو عطا کردہ ایک اور اسی سلسلے کے فیض کو بھی بیان کر دیا ہے کہ اس کائنات میں انسان ایک ذمہ دار ہستی ہے۔ وہ کائنات میں کوئی کھلونا نہیں ہے بلکہ وہ اس کی ہر چیز پر تصرف کا حق رکھتا ہے۔ تمام وسائل اس کے لیے خدمت اور ضرورت کے وقت مفید بن سکتے ہیں اگر وہ خود کمزوری کا اظہار نہ کرے:

وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ وَ حَمَلْنٰھُمْ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ رَزَقْنٰھُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَ فَضَّلْنٰھُمْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۷۰) یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اورانھیں خشکی و تری میں سواریاں عطا کیںاور اُن کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فوقیت بخشی۔

یہ انسانی زندگی کے وہ مراحل ہیں جن میں آسایشیں ہیں، عزت و وقار ہے، انسانی فلاح ہے،وسائل کو پانے اور ان سے فائدہ اُٹھانے کی ترغیب ہے۔ یہ ایسے پُرکشش احسانات ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کی رحمت، محبت اور رہنمائی جھلکتی ہے۔ وہ انسان کو اس کی دنیوی اور اُخروی زندگی میں اپنے لطف و کرم سے نوازتا ہے۔ وہ رحمن اور رحیم ہے، اس لیے ہدایت فرماتا ہے:

یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ o الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ فِرَاشًا وَّ السَّمَآئَ بِنَآئً وَّ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآئِ مَآئً فَاَخْرَجَ بِہٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقاً لَّکُمْ (البقرہ ۲:۲۱-۲۲) لوگو، بندگی اختیار کرو اپنے اُس رَبّ کی جو تمھارا اور تم سے پہلے جو لوگ ہو گزرے ہیں اُن سب کا خالق ہے ، تمھارے بچنے کی توقع اِسی صُورت سے ہو سکتی ہے۔ وُہی تو ہے جس نے تمھارے لیے زمین کا فرش بچھایا، آسمان کی چھت بنائی، اُو پر سے پانی برسایا اور اس کے ذریعے سے ہر طرح کی پیداوار نکال کر تمھارے لیے رزق بہم پہنچایا۔

انسانی زندگی کی بہبود اور آسودگی کے لیے مہیا کردہ وسائل کا تذکرہ تو اللہ کا اپنے بندے پر احسانِ عظیم ہے کہ  اُسے زندگی کی سرگرمی کا صحیح رستہ دکھا دیا اور نشیب و فراز سے آگاہ کر دیا ورنہ انسان بھٹکتا رہتا اور مشکلات و مصائب سے دوچار رہتا۔

  •  عبدیت و بندگی:قرآن نے واضح کر دیا ہے کہ خالق کائنات ہی ہر ذی روح اور ہر ذی شعور مخلوق کا الٰہ ہے۔ لا الٰہ الا اللہ وہ کلمہ ہے جو سب دوسرے حاکموں، خدائوں، مالکوں اور خالقوں کی جڑ کاٹ دیتا ہے اور ہر ذی روح اور ذی عقل مخلوق کو بتا دیتا ہے کہ وہ اس کا عبد ہے۔ یہ عبودیت کا رشتہ بنی آدم، ملائکہ اور جنات سب کو اپنے احاطے میں لے آتا ہے:

اِنْ کُلُّ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اِلَّآ اٰتِی الرَّحْمٰنِ عَبْدًا o (مریم ۱۹: ۹۳) زمین اور آسمانوں کے اندر جو بھی ہیں سب اس کے حضور بندوں کی حیثیت سے پیش ہونے والے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کی حیثیت بیان کردی ہے۔ انسان کا تعلق باری تعالیٰ سے اس کے بندے ہونے کا ہے۔ یہاں تک کہ رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس کے بندے اور رسول ہیں:

تَبٰرَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرَانِ o(الفرقان ۲۵:۱) نہایت متبرک ہے وہ جس نے یہ فرقان اپنے بندے پر نازل کیا تاکہ سارے جہاں والوں کے لیے خبر دار کر دینے والا ہو۔

یہ ایک اعزاز ہے کہ خالقِ کائنات جو ہر چیز کا مالک ہے، آقا ہے، انسان اس کا بندہ ہے جسے اپنا بندہ بنانے کے بعد اپنا خلیفہ مقرر کر دیا۔ خلیفہ اپنے آقا سے رابطہ رکھتا ہے۔ جب بھی کوئی مسئلہ درپیش ہو تو انسان (خلیفہ) ہروقت، ہرلمحے، ہرجگہ اور ہرحالت میں براہِ راست اللہ تعالیٰ سے رابطہ قائم کرسکتا ہے کیونکہ آقا (اللہ) تو خود فرماتا ہے:

وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ (البقرہ ۲:۱۸۶) اور اے نبیؐ ، میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں ، توانھیںبتا دو کہ میں اُن سے قریب ہی ہوں۔ پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے، میں اس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں۔

یہ تعلق باللہ انسان کو باور کراتا ہے کہ دعائیں، مناجاتیں صرف اللہ قبول کرتا ہے۔ یہ واسطے، یہ سفارشیں بے معنی اور لایعنی ہیں۔ وہ حاکم اور مالک ہے اور انسان اس کا بندہ ہے۔ یہ آقا اور غلام کا رشتہ ہے۔ ضرورت ہے تو صرف اس کا بندہ بننے اور اس کی اطاعت کی ہے۔ اس کے رسولؐکی اتباع کی ضرورت ہیجس پر یہ احکام نازل ہوئے ہیں اور جس نے ان پر عمل کرکے دکھایا ہے۔

ایک بات اور بھی واضح ہوجانی چاہیے کہ باری تعالیٰ جزوی اطاعت کا طالب نہیں بلکہ وہ حکم دیتا ہے: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً (البقرہ ۲:۲۰۸) ’’اے ایمان لانے والو! تم پورے کے پورے اسلام میں آجائو‘‘۔ یہاں انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اطاعت و فرماں برداری مطلوب ہے۔ یہ بندے کی بزرگی کو منور کرتی ہے۔ قرآن حکیم کا یہ انسان پر احسان ہے کہ اس نے انسان کو خالق و مالک کی معرفت سے آشنا کیا کہ وہ قادر مطلق ہے۔ اس کی ذات میں کوئی شریک و سہیم نہیں۔ وہ واحد اور کارسازِ حقیقی ہے۔

یہ قرآن کریم کا احسان ہے کہ اس نے انسان کو نورِ حق سے منور کیا اور باطل کے چنگل سے چھڑایا۔ انسان کو بہت سے خدائوں کی حدود سے باہر نکال کر خداے واحد کی سلطنت کا فرد بنایا:

اِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُo (البقرہ ۲:۱۶۳) تمھارا خدا ایک ہی خدا ہے،اُس رَحمان اور رحیم کے سوا کوئی اور خدا نہیں ہے۔

قرآنِ مجید کا یہ فیض یہ احسان کیا کسی اور ذریعے سے میسر آتا ہے؟ یہ آقا اور بندے کا معاملہ ہے۔ یہ عبدیت کا ذی شان اظہار ہے جس میں انسانیت کی عزت اور وقار ہے کہ اُمت ِ آدم کا یہ تصور انسان کو قرآنِ حکیم نے عطا کیا اور اس کائنات میں انسان کی عزت و عظمت کا معیار بھی بیان کر دیا تاکہ وہ ہرحال میں اس معیارِ فضیلت پر پورا اُترنے کی کوشش کرے:

اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ (الحجرات ۴۹:۱۳) درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمھارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔

انسان پر یہ بات واشگاف الفاظ میں واضح کر دی کہ اس دنیا میں پُرفریب تصور قائم ہے کہ بڑا   انسان وہ ہے جو متاعِ دنیا، دولت، جایداد، جاگیر، مِلیں اور کارخانے یا کثیر اولاد، عزیز و اقارب اور احباب و رشتہ دار رکھتا ہے۔ درحقیقت اللہ کے ہاں برتری کا معیار خاندان، قبیلہ اور نسل و نسب نہیں ہے جو کسی انسان کے اختیار میں ہی نہیں ہے، بلکہ یہ معیار تقویٰ ہے جس کا اختیار کرنا انسان کے  ارادہ و اختیار میں ہے۔

  •  علم و فکر میں طرزِ استدلال:قرآن کریم کا ایک اور احسان جو اہلِ علم و بصیرت کی سوچ اور فکر کو خصوصاً اور عام ذہن کو عموماً مہمیز کردیتا ہے، وہ اسلوبِ استدلال ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عقائد و معاملات کی جزئیات کو بیان کرنے کے بعد اس کے نتائج کو ظاہر کردیا ہے۔ گویا کسی عقیدے یا معاملے کے ایک جز کو ظاہر کر کے اس کے کل کو ظاہر کیا ہے۔ یہ وہ استقرائی اسلوب ہے جو انسان کو خیال وفکر سے عمل اور جدوجہد تک لے جاتا ہے۔ قرآن ایک حقیقت بیان کرتا ہے اور پھر اس کا استدلال اس کے نتیجے تک پہنچا دیتا ہے۔ یہ اسلوب صرف قرآن کی دین ہے۔ ماہرین قرآن نے اسے تفصیل بعد الاجمال کا نام دیا ہے۔ قرآنِ مجید میں اس کا ذکر بھی کر دیا ہے:

الٓرٰ کِتٰبٌ اُحْکِمَتْ اٰیٰتُہٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَکِیْمٍ خَبِیْرٍo  (ھود ۱۱:۱)   ا ل ر، فرمان ہے، جس کی آیتیں پختہ اور مفصل ارشاد ہوئی ہیں، ایک دانا اور باخبر ہستی کی طرف سے۔

گویا پہلے کسی مضمون کو مختصراً ایک جملہ میں اجمالاً بیان کر دیا جاتا ہے اور پھر اس کی تفصیل بیان کردی جاتی ہے۔ اس طرح اس مضمون کی جڑ پانے کے بعد اس کی شاخیں سامنے آجاتی ہیں اور اس تفصیل سے اس کا سمجھنا آسان ہوجاتا ہے۔ مثلاً سورئہ بقرہ کی دوسری آیت کے پہلے دو الفاظ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ بیان کرنے کے بعد آیندہ آیات میں اس کی تفصیل، اس کے ثمرات اور اس کے لوازمات بیان کردیے ہیں جن سے قاری اس کی اہمیت، اس کی غرض و غایت سے آگاہ ہوجاتا ہے۔ بعض اوقات اس اسلوب کا ایک اور فائدہ اس طرح بھی حاصل ہوجاتا ہے کہ ابتدا کا جو مضمون بیان ہورہا تھا، آخر میں پھر اس کا ذکر کر دیا اور درمیان میں جگہ جگہ اس مضمون کی مناسبت سے دیگر مضامین بیان کردیے گئے ہیں۔ یوں وہ مضمون آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوتا۔ قرآنِ حکیم میں اس کی مثالیں جگہ جگہ ملتی ہیں، خصوصاً چھوٹی سورتوں میں اس کا اظہار ہے۔یہ قرآنِ حکیم کا فیض ہے کہ ہر اہلِ قلم، ہر ادیب اور ہرخطیب اس اسلوب کو اپناکر اپنے مضمون کو مؤثر اور پُرکشش بنا سکتا ہے۔

قرآن کا ایک اور اسلوب بھی ہر ذی شعور اور اہلِ علم و فکر کی رہنمائی کرتا ہے، وہ ہے مقفٰی اور مسجع اندازِ بیان۔ یہ متحیر کن اسلوب خالقِ کائنات کی صناعی کا مظہر ہے اور انسان کو حُسن و جمالِ عبارت سے آشنا کرتا ہے۔ اس کا قاری اور سامع اس اسلوب اور طرزِبیان کی قرأت اور سماعت سے کسی دوسری دنیا میں پہنچ جاتا ہے اور اس کے مضامین اس کے سامنے نئے نئے نقوش پھیلا دیتے ہیں۔ سورئہ رحمن، سورئہ مرسلات اور سورئہ شعرا بلکہ بہت سی سورتوں میں یہ انداز اختیار کیا گیا ہے۔

اسلوب کی تفصیل میں جائیں تو اس کے مختلف رنگ قرآن مجید میں بکثرت موجود ہیں، صرف ایک اور حُسنِ اسلوب بیان کرکے اس جمالیاتی رنگ سے آگے بڑھتے ہیں، وہ ہے ایک لفظ یا ایک جملہ کا بار بار دہرانا۔ اس تکرار کی خوبی اور خوب صورتی قرآنی اسلوب کی نمایاں خصوصیت ہے۔ سورئہ رحمن میں فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ کی آیت کس قدر مؤثر ہے اور بار بار ایک خاص انداز اور وقفے کے ساتھ استعمال کی جارہی ہے۔ اسی طرح سورئہ مرسلات میں وَیْلٌ یَّوْمَئِذٍ لِّلْمُکَذِّبِیْنَ کی حسین و جمیل تکرار اور مضمون کا زور متاثر کرتا ہے، یا سورئہ شعراء میں وَمَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ اِنْ اَجْرِیَ اِلاَّ عَلٰی رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ کا بار بار دہرایا جانا کس قدر پُرزور تاثیر کا حامل ہے۔

یہ قرآن کے اسلوب کا ایک اعجاز ہے۔ یہ کتاب تو بحرِبیکراں ہے۔ اس لیے اس کا مطالعہ اور تدبر و تفکر بھی دوسرے علوم و فنون کے مطالعے سے جدا ہے۔ لہٰذا اس سے فیضِ اسلوب کے حصول کے لیے بھی انسان کی عقلی اور دماغی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ قلبی اور روحانی صلاحیتیں بھی پوری طرح شریک ہونی چاہییں۔ گویا اس فیض کو پانے کے لیے علم وفکر کے ساتھ ساتھ حکمت بھی درکار ہے۔

  •  ماضی کے تذکرے سے انسان کے مستقبل کی فلاح: قرآن کریم کا فیض یہ بھی ہے کہ وہ انسان کے فردا کو سنوارنا چاہتا ہے کیونکہ حقیقی کامیابی تو مستقبل کی کامیابی ہے۔ قرآن نے انسان کی ماضی کی ضروری تفصیلات بیان کردی ہیں اور دنیوی زندگی کے مقاصد اور اس کی تخلیق کی غرض و غایت بھی سامنے رکھ دی ہے۔ دیگر مفکرین اور سائنس دانوں کی عقلی و تجرباتی کمزوریوں اور غلط فہمیوں کو فاش کر دیا ہے۔ یہ عقل کے گھوڑے دوڑانے والے انسان کی پیدایش اور انسانیت کے درجے تک پہنچنے کے مختلف مدارج بیان کرکے اپنے علمی وتحقیقی تفوق پر نازاں ہیں اور   تہذیب ِ مغرب کے دلدادہ ان کے گن گاتے نہیں تھکتے، مگر قرآن حکیم نے اللہ تعالیٰ کے انسان کے ارادے سے لے کر خلیفۃ الارض بنانے کے تمام مراحل بیان کر کے ان کے ناقص علم اور عقلی استدلال کی قلعی کھول دی ہے۔ قرآن یہاں تک انسانی کوائف بیان کرنے کے بعد مزید وضاحت کی ضرورت محسوس نہیں کرتا بلکہ اس دنیا میں اس کی عملی زندگی ، معاشرتی و معاشی ضروریات کی جدوجہد کا تذکرہ اس لیے کرتا ہے کہ انسان کا مستقبل اس کے سامنے آجائے۔ پھر وہ اپنے مستقبل کو درخشاں بھی بنا سکتا ہے اور اس کو تاریک بھی کرسکتا ہے۔ ماضی تو ان دونوں صفات سے بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔ علامہ اقبال نے اسی سوچ کو بیان کر دیا ہے    ؎

خرد مندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے
کہ میں اس فکر میں رہتا ہوں، میری انتہا کیا ہے

قرآنِ حکیم کا یہ احسان ہے کہ اس نے انسانی زندگی کے ماضی کے واقعات اور ان سے پیدا ہونے والے نتائج کو مختلف انداز میں بیان کر دیا ہے۔ خصوصاً ان انبیاے کرام ؑ کے زمانے کو پیش کیا ہے جو اپنی اپنی قوم کو صراطِ مستقیم دکھاتے رہے اور ان کی رہنمائی کے اثرات انسانوں پر کسی طرح ظاہر ہوتے رہے۔ عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ اس دنیا میں ایک لاکھ ۲۴ ہزار پیغمبر ؑ مبعوث ہوئے۔ قرآن بھی کہتا ہے: وَلِکُلِّ قَوْمٍ ھَادٍ (الرعد ۱۳:۷) ’’اور ہر قوم کے لیے ایک رہنما ہے‘‘۔ گویا اللہ تعالیٰ نے ہر قوم کی رہنمائی اور ہدایت کے لیے ہادی ضرور بھیجا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ قوموں نے ہدایت کا راستہ اپنایا یا نہیں اپنایا۔ یہاں تک فرما دیا: وَ اِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیْھَا نَذِیْرٌ (فاطر ۳۵:۲۴) ’’اور کوئی امت ایسی نہیں گزری ہے جس میں کوئی متنبہ کرنے والا نہ آیا ہو‘‘۔ ایک اور مقام پر قرآن بیان کرتا ہے: وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا (النحل ۱۶:۳۶) ’’اور ہم نے ہر اُمت میں رسول بھیجا‘‘۔

قرآن کریم میں ۱۵ ؍انبیاے کرام ؑ کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ ان کے بارے میں اہلِ عرب جانتے تھے اور ان کی اُمتوں کا جو حشر ہوا وہ بھی ان کے علم میں تھا۔ ان انبیاے کرام ؑکی تعلیمات کے اثرات اور ان کی قوموں کے حالات اور عذاب آنے کے تذکار کو بیان کرنے کی غرض و غایت بھی یہ ہے کہ انسان ماضی کی اُمتوں کے حالات و واقعات سے عبرت پکڑے۔ اس سے اُمت محمدیہؐ   اور قیامت تک آنے والے انسانوں کو متنبہ کیا جائے کہ ایسی صورت سے دوچار ہونے والا انسان تباہ و برباد ہوجاتا ہے۔ لہٰذا یہ درسِ ہدایت ہے جو انسانوں کو مستقبل سنوارنے کی دعوت دیتا ہے اور حال کو تعلیماتِ نبویؐ کی روشنی میں گزارنے کی تلقین کرتا ہے۔

ہر پیغمبر ؑ نے اپنی اُمت کے سامنے اپنی اخلاقی زندگی کا نمونہ پیش کیا۔ قرآن حکیم ان کے صبر، شکر، قربانی، طاغوتی وصف کے حامل حکمرانوں کے سامنے بے حد جرأت سے حق گوئی کی مثال پیش کر کے ہر انسان کی اخلاقی حیثیت کو بیدار کرتا ہے۔ انبیاے کرام ؑکے ان اوصاف اور سیرت کے انوار کے تذکرے سے بار بار مثالیں پیش کرتا ہے تاکہ ان کی روحانی اور عملی زندگی کے نقوش واضح ہوجائیں اور انسان بار بار ان کے مطالعے سے اپنے اخلاق اور عملی کردار کو منور کرسکے۔ یہ احسان دنیا اور آخرت کی کامیابی کی راہ دکھاتا ہے۔

قرآن ان انبیاے صالحین علیہم السلام کی مثالیں پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے حکمرانوں جو شیطان کے نمایندے ہیں اور ایسے لوگ جو دولت و ثروت کے نشے میں چُور ہیں، ان کی ناکامیوں اور راہِ مستقیم سے بھٹکنے کے نتائج سے بھی ہر قاری کو روشناس کرتا ہے تاکہ وہ ان نتائج سے سبق حاصل کرلے اور اپنی زندگی کو سنوارے۔ قرآنِ مجید تو ہدایت کے ان راستوں سے آگے گزر کر رول ماڈل انبیاے کرام ؑ جو دنیا میں بے حد جلیل القدر تھے، ان کی بے وفا اور نافرمان بیویوں اور کسی کے باپ اور کسی کے بیٹے کی شیطانی خصلتوں سے بھی آگاہ کرتا ہے کہ یہ ربانی ہدایات سے منہ موڑ کر دوزخ کی آگ کا ایندھن بنے، جب کہ بدکار شوہر فرعون کی نیک بیوی کا تذکرہ جنت کے حصول کی راہ دکھاتا ہے۔ قرآن کا یہ احسانِ عظیم ہے جو انسانوں کی غلط فہمیوں کو دُور کرتا ہے اور دونوں جہانوں کی کامیابی کا مژدہ سناتا ہے۔

قرآنِ حکیم نے بنی نوع انسان کو مستحکم بنیاد فراہم کردی ہے اور اسی کی پیروی میں انسان کی دنیوی اور اُخروی زندگی کی فلاح ہے۔ یہ احسان، یہ فیض فکروعمل انسان کی متاعِ عزیز ہے۔ وہ انسان کس قدر خوش قسمت ہے جو ان فیوض، احسانات اور برکات کو اپنی زندگی کا اثاثہ بناتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان فیوض و احسانات کا حق ادا کرنے کی استطاعت عطا فرمائے  ع

ایں دعا از من و از جملہ جہاں آمین باد

یہ ایک کھلی حقیقت ہے اور روزِ روشن کی طرح عیاں کہ برسوں گزر جانے کے باوجود ہمارے حکمران اور سیاسی لیڈر غیر شرعی قوانین اور غیراسلامی نظام کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں اور نفاذ شریعت کے بجاے انسداد شریعت کی پالیسی پر گامزن ہیں… ستم ظریفی تو یہ ہے کہ پاکستان کا آئین بنیادی طور پر اسلامی ہے، سیکولر نہیں ہے، مگر عملاً ملک کا نظام سیکولرزم کے اصولوں پر چلایا جارہا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی حکومت کو طاغوتی حکومت ہی کہا جاسکتا ہے، اسلامی حکومت تو نہیں کہا جاسکتا۔ اگرچہ اس نظام کو چلانے والوں نے اسلام سے کھل کر انکار نہیں کیا، اس لیے وہ قانونی  طور پر مسلمان ہیں لیکن زبانی طور پر اقرار کے باوجود ان کا طرزِ حکومت کافرانہ ہے۔ شرعی احکام کی رُو سے ایسی حکومت کی اہلیت ختم ہوجاتی ہے اور اس کو معزول کرکے اس کی جگہ شریعت کی وفادار حکومت قائم کرنے کے لیے شرعی طریقۂ کار کے مطابق جدوجہد کرنا فرض ہوجاتا ہے۔۱؎

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ شرعی طریقۂ کار کیا ہے جس کے مطابق یہ جدوجہد کرنی چاہیے۔ انتخابی طریق کار کے نتیجہ خیز ثابت نہ ہونے کی وجہ سے اب مخلص مسلمانوں میں مسلح جدوجہد کی فکر فروغ پارہی ہے۔ یہ سوچ آج کل دینی حلقوں میں زیربحث رہتی ہے۔ اس بارے میں میری سوچی سمجھی راے یہ ہے کہ بگڑے ہوئے مسلم معاشرے میں نفاذِ شریعت کے لیے مسلح جدوجہد اگر جائز بھی ہو لیکن عملاً مفید اور نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکتی۔ پھر وہ طریق کار کیا ہے جس کے مطابق جدوجہد کرنا مسلم معاشرے اور مسلمان قوم میں مفید بھی ہے اور ممکن العمل بھی؟

یہاں دو بنیادی باتوں کی توضیح کرنا ہے۔ وہ دو باتیں یہ ہیں:

۱- کیا نفاذِ شریعت کے لیے مسلم معاشرے میں خروج جائز ہے؟

۲- کیا موجودہ حالات میں غیرحکومتی تنظیم کا خروج نتیجہ خیز ثابت ہوسکتا ہے؟

جہاں تک پہلے مسئلے کا تعلق ہے تو جو حکمران کھلے کفر کا ارتکاب کرے اور ملک کا نظام غیرشرعی قوانین پر چلا رہا ہو تو اس کے خلاف خروج [بغاوت] بالاجماع جائز ہے، بشرطیکہ اس کی جگہ اسلامی حکومت قائم کی جاسکتی ہو۔ لیکن جو حکمران مومن ہو اور جس کی حکومت میں عملاً شریعت نافذ ہو، مگر وہ اپنی شخصی زندگی میں منکرات و محرمات سے مجتنب اور فرائض و واجبات کا پابند نہ ہو، یعنی فسق و فجور میں مبتلا ہو، تو جمہور اہلِ سنت کے نزدیک اسے ہٹانے کے لیے قتال جائز نہیں ہے، اور بعض اہلِ سنت کے نزدیک کچھ شرائط کے ساتھ جائز ہے۔

خروج کے بارے میں جمھور کا مسلک

فاسق حکمران کے بارے میں جمہور فقہا اور اکثر ائمہ اہلِ سنت کی راے یہ ہے کہ ان کے خلاف خروج اور مسلح جدوجہد جائز نہیں ہے، بلکہ ان کی اصلاح کے لیے وعظ و نصیحت، دعوت و ارشاد اور جہاد باللسان سے کام لیا جائے، یا پھر راے عامہ کے دبائو اور دوسرے پُرامن ذرائع سے اس کو معزول کرنے کی کوشش کی جائے۔ امام طحاویؒ نے عقیدۂ طحاویہ میں اور شمس الائمہ سرخسیؒ نے مبسوط میں اسی طرح لکھا ہے۔۱؎

جمہور کی دلیل یہ ہے کہ چونکہ احادیث رسولؐ میں امیر کی اطاعت فی المعروف کی بڑی تاکید کی گئی ہے، اس لیے اس کے خلاف تلوار نہ اُٹھائی جائے، کیونکہ اس کی وجہ سے مسلمانوں میں خانہ جنگی، خوں ریزی اور فساد برپا ہوجائے گا اور فتنہ و فساد کا دروازہ کھل جائے گا جسے دوبارہ بند کرنا آسان نہ ہوگا۔ اس صورت حال سے فائدہ اُٹھا کر کچھ لوگ غارت گری اور رہزنی کا بازار گرم کریں گے اور فاسق و ظالم حکمران کے مظالم و مفاسد سے زیادہ تباہ کن مفاسد رونما ہوجائیں گے۔ اگرچہ فاسق کی حکمرانی ایک برائی ہے جس کو مٹانا ضروری ہے لیکن ایک برائی کو ختم کرنے کے لیے مسلمانوں کو اس سے کئی گنا بڑی برائی میں مبتلا کرنا نہ حکمت و دانش کا تقاضا ہے اور نہ دین و شریعت کا تقاضا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ مسجد بنانے کے لیے پوری بستی کو مٹا دیا جائے۔

انھی مفاسد کے پیش نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

خِیَارُ اَئِمَّتِکُمُ الَّذِیْنَ تُحِبُّوْنَھُمْ وَیُحِبُّوْنَکُمْ وَتُصَّلُّوْنَ عَلَیْھِمْ وَیُصَلُّوْنَ عَلَیْکُمْ وَشِرَارُ اَئِمَّتِکُمُ الَّذِیْنَ تُبْغِضُوْنَھُمْ وَیُبْغِضُوْنَـکُمْ وَتَلْعَنُوْنَھُمْ وَیَلْعَنُوْنَکُمْ فَقُلْنَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اَفَلَا نُنَابِذُھُمْ بِالسَّیْفِ عِنْدَ ذٰلِکَ قَالَ لَا مَا اَقَامُوْا فِیْکُمُ الصَّلٰوۃَ اَلَامَنْ وُلِّیَ عَلَیْہِ وَالٍ فَرَاٰہُ یَاْتِیْ شَیْئًا مِّنْ مَّعْصِیَۃِ اللّٰہِ فَلْیَـکْرَہْ مَا یَاْتِیْ مِنْ مَّعْصِیَۃِ اللّٰہِ وَلَا یَنْزَعَنَّ یَدًا مِنْ طَاعَۃٍ (مسلم، کتاب الامارۃ، باب خیار الائمہ وشرارھم) تمھارے بہترین حکمران وہ ہیں جن سے تم محبت کرو اور وہ تم سے محبت کریں اور جن کے لیے تم دعا کرو اور وہ تمھارے لیے دعا کریں، اور تمھارے بدترین حکمران وہ ہیں جن سے تم نفرت کرو اور وہ تم سے نفرت کریں اور تم ان پر لعنت بھیجو اور وہ تم پر لعنت بھیجیں۔ ہم نے پوچھا کہ یارسولؐ اللہ کیا ایسی حالت میں ہم تلوار کے ذریعے ان کا مقابلہ نہ کریں؟ آپ نے فرمایا: نہیں، جب تک وہ تمھارے درمیان نماز قائم کرتے رہیں اس وقت تک تم ان کے خلاف تلوار نہیں اُٹھا سکتے۔ سنو! جس شخص پر کوئی حکمران حکومت کر رہا ہو اور وہ اس میں اللہ کی نافرمانی دیکھے تو اللہ کی اس معصیت کو تو بُرا سمجھے (اور اس میں اس کی اطاعت بھی نہ کرے) لیکن معروف میں اس کی اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچے‘‘، یعنی خروج اور مسلح بغاوت نہ کرو۔

نماز چونکہ مومن کی پہچان اور ایمان کی علامت ہے، اس لیے فرمایا کہ جب تک وہ نماز قائم کرتے رہیں تو تم ان کے خلاف تلوار نہ اٹھائو۔ دوسری حدیث میں آیا ہے کہ جب تک تم ان کے اندر ایسا کھلا کفر نہ دیکھو جس کے کفر ہونے پر تمھارے پاس قطعی دلیل موجود ہو، اس وقت تک تم ان سے جھگڑا نہ کرو۔(بخاری ، کتاب الفتن، مسلم، کتاب الامارۃ)

اُم سلمہؓ روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ایسا زمانہ آرہا ہے کہ اس وقت تم پر ایسے لوگ حکومت کریں گے جن کے کچھ کام تم کو اچھے نظر آئیں گے اور کچھ کام بُرے نظر آئیں گے۔ پس جس نے ان کے بُرے کاموں کو بُرا سمجھا وہ بچ گیا اور جس نے ان پر اعتراض کیا وہ بھی بچ گیا لیکن جس نے ان کو پسند کیا اور ان کی پیروی کی وہ تباہ ہوگیا۔ صحابہؓ نے پوچھا: کیا ہم ان سے لڑائی شروع نہ کریں؟ آپؐ نے فرمایا: نہیں، جب تک وہ نماز پڑھتے رہیں۔ (مسلم، کتاب الامارۃ، باب وجوب الانکار علی الامراء فیما یخالف الشرع وترک قتالھم ما صَلُّوْا)

امام نوویؒ نے مسلم کی شرح میں اس جگہ لکھا ہے کہ: فَفِیْہِ مَعْنَی مَا سَبَقَ اَنَّہٗ لَا یَجُوْزُ الْخُرُوْجُ عَلَی الْخُلَـفَـآئَ بِمُجَرَّدِ الظُّلْمِ اَوِ الْفِسْقِ مَا لَمْ یُغَیِّرُوْا شَیْئًا مِّنْ قَوَاعِدِ الْاِسْلَامِ (نووی شرح مسلم)۔ اس حدیث میں وہی مفہوم بیان ہوا ہے جس کا ذکر پہلے ہوچکا ہے کہ امرا کے خلاف محض ان کے ظلم اور فسق کی وجہ سے خروج جائز نہیں ہے جب تک کہ وہ اسلام کے اصول و قواعد میں کوئی تغیر اور تبدیلی نہ کریں۔ مذکورہ احادیث اور اس مفہوم کی دوسری احادیث کی بنا پر امام نوویؒ نے لکھا ہے: ’’امرا کے خلاف خروج وقتال بالاجماع حرام ہے اگرچہ وہ ظالم اور فاسق ہوں‘‘۔

اجماع کا دعویٰ تو صحیح نہیں ہے، اس لیے کہ امام نوویؒ نے اس کے بعد خود ہی قاضی عیاضؒ کا قول نقل کیا ہے کہ یہ اہلِ سنت کے جمہور فقہا، متکلمین اور محدثین کا مسلک تو ہے مگر یہ اجماعی مسئلہ نہیں ہے۔(نووی شرح مسلم، کتاب الامارۃ، باب وجوب طاعۃ الامراء)

کافر حکومت کے خلاف خروج

مذکورہ احادیث میں یہ استثنا بھی موجود ہے کہ حکمران اگر کھلے کفر کا ارتکاب کریں اور نماز تک قائم نہ کریں تو ان کے خلاف خروج جائز ہے۔ انھی احادیث اور اس مفہوم کی دوسری نصوص کی بناپر امام نوویؒ نے قاضی عیاض کا قول نقل کیا ہے کہ:

اَجْمَعَ الْعُلَمَآئُ عَلٰی اَنَّ الْاِمَامَۃَ لاَ تَنْعَقِدُ لِکَافِرٍ وَعَلٰی اَنَّـہٗ لَوْطَرَئَ عَلَیْہِ الْکُفْرُ اِنْعَزَلَ وَکَذَا لَوْ تَرَکَ اِقَامَۃَ الصَّلَوَاتِ وَالدُّعَائِ اِلَیْھَا فَلَوْطَرَئَ عَلَیْہِ کُفْرٌ وَتَغَیَّرَ لِلشَّرْعِ خَرَجَ عَنْ حُکْمِ الْوِلَایَۃِ وَسَقَطَتْ طَاعَتُہٗ وَوَجَبَ عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ الْقِیَامُ عَلَیْہِ وَخَلْعُہٗ وَنَصْبُ اِمَامٍ عَادِلٍ اِنْ اَمْکَنَھُمْ ذٰلِکَ (نووی شرح مسلم) علمانے اس بات پر اجماع کیا ہے کہ کافر کی حکومت منعقد ہی نہیں ہوسکتی اور علما کا اس پر بھی اجماع ہے کہ اگر حکمران پر بعد میں کفر چھا گیا ہو تو وہ معزول ہوجاتا ہے۔ پس اگر اس پر کفر چھا گیا ہو اور وہ شریعت میں تغیروترمیم کررہا ہو تو شرعاً اس کی حکومت ختم ہوجائے گی اور اس کی اطاعت ساقط ہوجائے گی اور مسلمانوں پر واجب ہوجائے گا کہ اس کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں۔ اس کو حکومت سے الگ کر دیں اور اس کی جگہ عادل حکومت قائم کریں بشرطیکہ وہ اس کی طاقت رکھتے ہوں۔

کفر سے مراد صرف یہ نہیں ہے کہ کلمہ پڑھنا چھوڑ دے اور اسلام سے بالکل منکر ہوجائے، بلکہ یہ بھی کفر ہے کہ غیرشرعی قوانین پر فیصلے کیے جا رہے ہوں، شرعی احکام کا استخفاف کیا جارہا ہو اور حکومت کا پورا نظام عملاً سیکولرزم اور لادینیت کے اصولوں پر چلایا جا رہا ہو۔ ایسی حکومت کے خلاف خروج و قیام کے وجوب پر قاضی عیاض نے اجماع نقل کیا ہے، بشرطیکہ یہ قیام و خروج ممکن العمل ہو اور قیام کرنے والے اس کی قدرت اور مطلوبہ وسائل رکھتے ہوں اور مقصد عادل حکومت قائم کرنا ہو۔ صرف چہرے بدلنا مقصد نہ ہو کہ ایک شخص کی کافرانہ حکومت تبدیل کرکے دوسرے شخص کی کافرانہ حکومت قائم کی جائے۔ جس خروج کو جمہور نے حرام قرار دیا ہے، اور بعض اہلِ سنت نے جائز قرار دیا ہے، اس سے مراد اُس حکومت کے خلاف خروج ہے جس میں شریعت نافذ ہو مگر امیر اور حکمران اپنی شخصی زندگی میں فسق و فجور کا ارتکاب کر رہا ہو۔

خروج کے بارے میں امام ابوحنیفہؒ کا مسلک

اہلِ سنت والجماعت کے امام الائمہ امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک ظالم اور فاسق حکمران کے خلاف خروج جائز ہے، بشرطیکہ یہ خروج ایک ایسے عادل امیر کی قیادت میں کیا جائے جس کے پاس اتنی افرادی اور مادی قوت موجود ہو جس کو استعمال کر کے وہ کوئی نتیجہ خیز اور مفید اسلامی انقلاب لاسکتا ہو۔ لیکن اگر خروج کا نتیجہ محض خوں ریزی اور جانوں کا ضیاع نظر آرہا ہو تو پھر ایسا اقدام نہ کیا جائے، بلکہ مناسب موقع کا انتظار کیا جائے اور اصلاح امیر کے دوسرے ذرائع اختیار کیے جائیں۔

امام ابوبکر رازی جصاصؒ (متوفی ۳۷۰ھ) نے امام ابوحنیفہؒ کے مسلک اور دلیل کا خلاصہ اس طرح پیش کیا ہے: لَا یَنَالُ عَھْدِیْ الظّٰلِمِیْنَ سے ثابت ہوتا ہے کہ فاسق کی امامت و امارت باطل ہے۔ کچھ لوگوں نے زرقان کے حوالے سے کہا ہے کہ ابوحنیفہ کے نزدیک فاسق کی امامت جائز ہے، البتہ وہ قاضی نہیں بن سکتا۔ مگر زرقان نے جھوٹ بولا ہے اور یہ اس قابل بھی نہیں ہے کہ اس کی روایت کو قبول کیا جائے۔ امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک فاسق نہ خلیفہ بن سکتا ہے، نہ قاضی بن سکتا ہے، نہ اس کی روایت قبول کی جاسکتی ہے اور نہ اس کی گواہی قبول کی جاسکتی ہے۔ امام ابوحنیفہؒ کا قول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا زبان کے ذریعے فرض ہے، لیکن اگر زبانی نصیحت قبول نہ کی جائے تو پھر تلوار سے روکنا واجب ہے۔ ظاہر ہے کہ جس شخص کا مسلک امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے بارے میں یہ ہو وہ کس طرح کہہ سکتا ہے کہ فاسق کی امامت جائز ہے، البتہ امام ابوحنیفہؒ اور فقہاے عراق کہتے ہیں کہ  فاسق کی اقتدا میں نماز جائز ہے اور اس کے مقرر کردہ قاضیوں کے شرعی فیصلے نافذ ہیں مگر یہ     اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ فاسق کی حکومت جائز ہے اور اس کے خلاف خروج ناجائز ہے‘‘۔ (احکام القرآن للجصاص، بیروت، ۱۹۸۵ء، ج۱، البقرہ ۱۲۴، ص ۸۶-۸۷)

امام حسینؓ کے پوتے زید بن علی بن حسین نے جب صفر ۱۲۲ھ میں اموی بادشاہ ہشام بن عبدالملک کے خلاف خروج کیا تو امام ابوحنیفہؒ نے ۱۰ ہزار روپے کی مالی اعانت کی اور اس کو جہاد قرار دیا اور فرمایا:

خُرُوْجُہٗ یُضَاھِیْ خُرُوْجُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہِ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ یَوْمَ بَدْرٍ (مناقب الامام للمکی، ج۱،ص ۲۶۰، اور مناقب الامام الکردری، ج ۱، ص۲۵۵) ان کا خروج بدر کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خروج کے مشابہ ہے۔

۱۴۵ھ میں جب حسنؓ بن علی کے پوتوں محمد بن عبداللہ اور ابراہیم بن عبداللہ نے عباسی بادشاہ منصور کے خلاف خروج کیا تو امام ابوحنیفہؒ نے اس کو نفلی حج سے ۵۰ گنا زیادہ اجروثواب کا جہاد قرار دیا اور لوگوں کو اس جہاد میں شرکت کرنے اور ابراہیم کا ساتھ دینے کی ترغیب دلائی۔ (المکی، ج۲، ص ۸۱-۸۲، الکردری،ج۲، ص ۷۱-۷۲)

حسن بن قحطبہ منصور کے معتمد سپہ سالار تھے مگر امام ابوحنیفہؒ کے گرویدہ تھے۔ منصور نے جب اس کو ابراہیم بن عبداللہ کے مقابلے کے لیے بھیجنا چاہا تو اس نے امام ابوحنیفہؒ کے کہنے پر ابراہیم کا مقابلہ کرنے سے انکار کردیا۔

اس موقع پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ خروج و قتال امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک جہاد تھا تو انھوںنے خود زید بن علی اور ابراہیم بن عبداللہ.ؒ کے اس جہاد میں حصہ کیوں نہیں لیا تھا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حصہ لینا صرف لڑنے کا نام نہیں ہے۔ مالی مدد فراہم کرنا، حمایت میں تحریک چلانا اور لوگوں کو ترغیب دلانا بھی حصہ لینا ہے۔ عملاً جنگ میں حصہ نہ لینے کے لیے ان کے پاس کچھ عذر ہوںگے اور ان کی کچھ مجبوریاں ہوں گی۔

امام ابوحنیفہؒ کے دلائل

امام ابوحنیفہؒ کی ایک دلیل تو یہ ہے کہ قرآن و سنت کی نصوص سے ثابت ہوتا ہے کہ ظالم اور فاسق مسلمانوں کی امامت و امارت کا اہل نہیں ہے، اس لیے اس کو معزول کرنا مسلمانوں کا فرض ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: ’’قریش کے امرا کی اطاعت کرتے رہو جب تک وہ حق پر قائم رہیں لیکن اگر وہ حق پر قائم نہ رہیں تو پھر اپنی تلواریں کاندھوں پر رکھو اور ان کے سربرآوردہ لوگوں کو ہلاک کر دو‘‘۔

دوسری دلیل یہ ہے کہ فاسق و ظالم کی حکومت ایک برائی اور منکر ہے اور برائی کا مٹانا فرض ہے۔ اگر وعظ و نصیحت، دعوت و ارشاد اور دوسرے پُرامن ذرائع سے اس برائی کا ازالہ نہ ہوسکے تو جہاد بالید کے ذریعے یہ فرض انجام دیا جائے۔ نہی عن المنکر اور تغیر بالید سے متعلق تمام نصوص امام صاحب کے دلائل ہیں۔

تیسری دلیل یہ ہے کہ یزید کے خلاف امام حسینؓ نے خروج کیا تھا۔ اس کے بعد عبداللہ بن مطیع قرشی اور عبداللہ بن حنظلہ کی قیادت میں اہلِ مدینہ نے یزید کے خلاف خروج کیا تھا۔ پھر عبداللہ بن زبیرؓ نے یزید کے خلاف خروج کرکے مکہ مکرمہ میں اپنی خلافت قائم کی تھی، اور حجاج بن یوسف کے خلاف بھی مسلمانوں نے ممتاز فقہا کی قیادت میں خروج کیا تھا، ان سب مواقع پر   جن صحابہ و تابعین نے خروج سے روکنے کی کوشش کی تھی اور ساتھ نہیں دیا تھا، ان کی راے یہ تھی کہ حالات اور وسائل سازگار نہیں ہیں۔ عوام ساتھ نہیں دیں گے۔ ان کا تجزیہ یہ تھا کہ فاسق کی قیادت سے آزادی حاصل کرنا اور عادل کی حکومت قائم کرنا اگرچہ دینی فریضہ ہے لیکن اس کے لیے جس قسم کی قوت و استطاعت ضروری ہے وہ فی الحال حاصل نہیں ہے۔ اس لیے یہ خروج نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوگا اور اس کا نتیجہ اموال و انفس کے ضیاع کے علاوہ اور کچھ نہیں نکلے گا۔ لہٰذا دوسرے پُرامن ذرائع سے اصلاح امیر کی کوشش کرنی چاہیے اور قتال نہیں کرنا چاہیے۔ دوسری طرف خروج کرنے والوں کی راے یہ تھی کہ حالات سازگار ہیں اور بقدر ضرورت قوت و جماعت موجود ہے، اس لیے اقدام کرلینا چاہیے۔ دونوں طرف کے صحابہ و تابعین کے درمیان حالات کے تجزیے کا اختلاف تھا ورنہ فاسق کو ہٹانے اور عادل کو لانے کی اہمیت و ضرورت پر سب متفق تھے۔

باغی کون ھوتا ھے؟

سورئہ حجرات میں اللہ نے جو یہ حکم دیا ہے کہ باغیوں کے خلاف لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئیں (الحجرات ۴۹:۹)، اسی طرح متعدد احادیث میں امیر کی اطاعت سے ہاتھ کھینچنے اور اس کے خلاف خروج کرنے سے جو ممانعت آئی ہے اور اسے جاہلیت قرار دیا گیا ہے، تو امام ابوحنیفہؒ اور جمہور فقہا کے نزدیک یہ ممانعت اور مذمت ان باغیوں اور خارجیوں کے بارے میں ہے جو عادل اور صالح امیر سے بغاوت کرتے ہوں اور اس کی عادلانہ حکومت کا تختہ اُلٹ کر اپنی فاسقانہ حکومت قائم کرنا چاہتے ہوں۔ اور جو لوگ ایک عادل امیر کی قیادت میں فاسقانہ اور ظالمانہ حکومت کا تختہ اُلٹنے اور اس کی جگہ عادل حکومت قائم کرنے کے لیے قیام و اقدام کرتے ہوں وہ باغی اور خارجی نہیں ہوتے بلکہ مجاہد ہوتے ہیں۔ ابن الہامؒ، ابن نجیمؓ اور ابن عابدینؒ تینوں نے لکھا ہے: ھُمُ الْخَارِجُوْنَ عَنِ الْاِمَامِ الْحَقِّ بِغَیْرِ الْحَقِّ (فتح القدیر، باب البغات، البحر الرائق باب البغات، رد المختار، باب البغات) ’’باغی وہ ہوتے ہیں جو حکومت بالحق کے خلاف بغیر الحق بغاوت کرتے ہیں‘‘۔

مالکیہ کے ممتاز فقیہ قاضی ابن عربی نے امام مالکؒ کی راے اس طرح نقل کی ہے: ’’سحنون کی روایت کے مطابق ہمارے امام نے کہا ہے کہ جنگ صرف عادل امام کی قیادت میں کی جاسکتی ہے خواہ پہلا امام عادل ہو یا وہ جس نے خروج کیا ہو، اور اگر دونوں عادل نہ ہوں تو دونوں سے الگ رہو۔ ہم اسی عادل و صالح شخص کی قیادت میں جنگ کریں گے جسے اہلِ حق    نے امامت کے لیے آگے بڑھایا ہو‘‘۔ (احکام القرآن لابن العربی، بیروت، ۱۹۸۸ء، ج۴،  الحجرات۴۹:۹، ص ۱۵۳)

حنابلہ کا اصل مسلک تو یہ ہے کہ عادل اور فاسق دونوں کے خلاف خروج جائز نہیں ہے لیکن شیخ الاسلام علائوالدین مرداوی حنبلی نے لکھا ہے: وَجَوَّزَ اِبْنُ عَقِیْلٍ وَابْنُ الْجَوْزِی الْخُرُوْجَ عَلٰی اِمَاٍم غَیْرِ عَادِلٍ وَذَکَرَا خُرُوْجُ الْحُسَیْن عَلَی یَزِیْدٍ لِاَقَامَۃِ الْحَقِّ (الانصاف للمرداوی، بیروت، ۱۹۵۷ء، ج ۱۰، ص ۳۱۱، باب البغات) ’’ابن عقیلؒ اور ابن جوزیؒ (دونوں حنبلی ہیں) نے غیرعادل امام کے خلاف خروج کو جائز قرار دیا ہے اور دلیل کے طور پر انھوں نے یزید کے خلاف امام حسینؓ کے خروج کو پیش کیا ہے جس کا مقصد حق کو قائم کرنا تھا‘‘۔

اصل میں بغاوت اللہ کے احکام سے تجاوز کرنے اور اس کی نافرمانی کو کہتے ہیں۔ اس لیے کہ حاکمِ حقیقی تو وہی ہے باقی تو سب بندے اور غلام ہیں، لہٰذا جو بھی فسق و فجور اور سرکشی میں مبتلا ہو، وہی باغی ہے، خواہ پہلا امام ہو یا وہ امام ہو جس نے اس کے خلاف خروج کیا ہو۔

امام ابوحنیفہؒ اور مشائخ حنفیہ کی آرا کے درمیان مطابقت

مذکورہ بحث سے معلوم ہوا کہ امام ابوحنیفہؒ کی راے بلادلیل بھی نہیں ہے اور وہ اس راے کو اختیار کرنے میں اکیلے بھی نہیں ہیں بلکہ یہ اور بھی بہت سے اکابر فقہا کی راے ہے۔ لیکن دوسری صدی ہجری کے اختتام تک اہلِ سنت کی غالب ترین اکثریت کی راے یہ بن گئی کہ امام کے خلاف خروج اور بغاوت جائز نہیں ہے۔ یہاں تک کہ مشائخ حنفیہ کی بھی یہی راے بن گئی اور عملاً حنفی مسلک بھی یہی قرار پایا کہ فاسق و ظالم حکمران کی اصلاح کرنے اور اگر اصلاح پذیر نہ ہو تو پُرامن ذرائع سے اسے معزول کرنے کی کوشش کرنا تو ضروری ہے لیکن مسلح بغاوت جائز نہیں ہے جیساکہ طحاویؒ اور سرخسیؒ کے حوالے پہلے دیے جاچکے ہیں۔ مولانا مودودیؒ نے مسلک ابوحنیفہ اور مشائخ حنفیہ کی راے کے درمیان موافقت اس طرح بیان کی ہے کہ عدم جواز کی راے کی مقبولیت دراصل نصوص قطعیہ پر مبنی نہیں ہے، بلکہ ان تلخ تجربات کا اس میں بہت بڑا دخل ہے جو خروج کے واقعات کے سلسلے میں مسلسل ہوتے رہے تھے۔ اس بنا پر مصالح شرعیہ کا تقاضا وہی کچھ سمجھا گیا جو فقہاے کرام نے بیان کیا ہے۔ (تفہیمات، ج۳،ص ۳۱۹)

یہاں پر کوئی سوال اُٹھا سکتا ہے کہ عدم جواز کی راے تو مصلحت پر مبنی نہیں ہے بلکہ ان آیات و احادیث پر مبنی ہے جن میں اطاعت امیر کی تاکید کی گئی ہے اور اس کے خلاف تلوار اُٹھانے سے ممانعت کی گئی ہے۔ لیکن اس کا جواب انھی احادیث میں موجود ہے کہ امیر کی اطاعت اسی وقت تک کی جاسکتی ہے جب تک کہ وہ دین کو قائم کرتا ہو اور مسلمانوں کی قیادت اللہ کی کتاب کے مطابق کر رہا ہو۔ (بخاری، مسلم)

خروج کی بحث کا خلاصہ

اب تک جو بحث کی گئی ہے اس کا تعلق خروج کے جواز اور عدمِ جواز سے ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس پوری بحث کا خلاصہ چند سطور میں دہرا دیا جائے تاکہ اگلی بحث کو سمجھنے میں آسانی ہو۔

ا- کفر بواح کی مرتکب اور سیکولرزم کے اصول پر چلنے والی حکومت کے خلاف خروج بالاجماع جائز ہے، اگرچہ اس کا سربراہ قانونی طور پر مسلمان ہو بشرطیکہ اس کی جگہ اسلامی حکومت قائم کرنا مقصود ہو۔

ب- جو حکومت شریعت کی بالادستی تسلیم کرتی ہو اور عملاً اس میں شریعت نافذ ہو، مگر حکمران فاسق و فاجر اور ظالم ہو تو جمہور اہلِ سنت کے نزدیک اس کی اصلاح کی کوشش کرنا تو ضروری ہے اور پُرامن طریقے پر اس کو معزول کرنے کی جدوجہد بھی ضروری ہے، لیکن اس کا تختہ اُلٹنے کے لیے خروج و قتال حرام ہے۔ مگر امام ابوحنیفہؒ اور بعض دوسرے ائمہ اہلِ سنت کے نزدیک فاسق اور ظالم حکمران کے خلاف خروج و قتال جہاد ہے بشرطیکہ کامیاب اسلامی انقلاب لایا جاسکتا ہو اور عادل حکومت قائم کی جاسکتی ہو لیکن مشائخ حنفیہ نے بعد میں عدم جواز کا فتویٰ دیا ہے۔ اس لیے کہ تجربوں سے ثابت ہوگیا تھا کہ یہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکتا اور انفس و اموال کے ضیاع کے علاوہ اس سے کچھ حاصل نہیں ہوسکتا۔

ج- ہرقسم کے خروج کے لیے شرط یہ ہے کہ ایک ایسے عادل و صالح امیر کی امارت و قیادت میں خروج کیا جائے جس کی پشت پر معتدبہ اور مناسب حال افرادی اور مادی قوت موجود ہو۔ انفرادی طور پر یا غیر منظم اور غیرمربوط گروپوں کی شکل میں قیام و قتال جائز نہیں ہے۔

موجودہ حالات میں خروج کا قابلِ عمل ھونا؟

خروج کے جائز ہونے یا جائز نہ ہونے سے قطع نظر دورِحاضر کی حکومتوں کے وسائل و ذرائع کے تناظر میں سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا آج کے دور میں کسی غیرحکومتی تنظیم کا خروج نتیجہ خیز ثابت ہوسکتا ہے؟

اس سوال کا جب ہم ٹھنڈے دل و دماغ اور ہوش مندی و دانش مندی کے ساتھ حقیقت پسندانہ جائزہ لیتے ہیں تو صاف طور پر نظر آجاتا ہے کہ مسلم معاشرے میں کسی قانونی مسلمان کی مسلم حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد قابلِ عمل اور نتیجہ خیز نہیں ہے بلکہ قریب قریب ناممکن نظر آرہی ہے۔ بنواُمیہ اور بنوعباس کے دور میں جو مسلح جدوجہد کی گئی تھی اس میں اور موجودہ دور میں بہت بڑا فرق ہے۔اس دور میں حکومتوں کے پاس منظم ہمہ وقتی فوجیں بہت کم ہوتی تھیں، جب کہ موجودہ دور میں حکومتوں کے پاس لاکھوں کی تعداد میں منظم، جدید ترین اسلحے سے مسلح اور جدید ترین جنگی مہارت و تربیت رکھنے والی فوج ہروقت تیار اور مستعد رہتی ہے۔ اُس دور میں جو اسلحہ حکومت کے پاس ہوتا تھا، تقریباً اسی نوع کا اسلحہ عوام کے پاس بھی ہوتا تھا لیکن آج کل حکومتوں کے پاس ایسے جدید ترین سائنٹیفک ہتھیار ہوتے ہیں جن کے حصول کا کوئی غیرحکومتی تنظیم تصور بھی نہیں کرسکتی۔ جنگ کے دوران مربوط نظام کی بہت زیادہ اہمیت ہوتی ہے اور آج کل حکومتوں کے پاس مواصلات و مخابرات کا وہ جدید ترین نظام ہروقت موجود رہتا ہے جو غیر حکومتی تنظیم کے لیے ممکن ہی نہیں ہے۔ عوام کی اکثریت کی تائید کے بغیر اگر کوئی غیرحکومتی تنظیم اور غیرمقتدر جماعت اپنے محدود کارکنوں اور رضاکاروںکے ذریعے منظم حکومت کی فورسز کے خلاف مسلح تصادم کا راستہ اختیار کرتی ہے، تو اس کا یہ اقدام فائدے کے بجاے اُلٹا اسلام کی دعوت کو نقصان پہنچانے کا ذریعہ ثابت ہوگا، اور جہاں پر یہ طریقہ اختیار کیا گیا ہے وہاں پر نقصانات آنکھوں سے دکھائی دے رہے ہیں۔

۱۶ ذی الحجہ ۱۳۸۲ھ کو مکہ معظمہ کی مسجد دہلوی میں اسلامی تحریک کے کارکنوں اور عرب ممالک کے نوجوانوں کو خطاب کرتے ہوئے مولانا مودودیؒ نے فرمایا تھا: ’’اسلامی تحریک کے کارکنوں کو میری آخری نصیحت یہ ہے کہ انھیں خفیہ تحریکیں چلانے اور اسلحے کے ذریعے انقلاب برپا کرنے کی کوشش نہ کرنی چاہیے۔ یہ بے صبری اور جلدبازی کی ایک صورت ہے اور نتائج کے اعتبار سے دوسری صورتوں کی بہ نسبت زیادہ خراب ہے‘‘۔(تفہیمات، ج۳،ص ۳۶۲)

مولانا مودودیؒ نے خروج کے مسئلے میں امام ابوحنیفہؒ کے مسلک کی تائید کی ہے، لیکن باوجود اس کے انھوں نے مسلم معاشرے میں مسلح جدوجہد سے نہ صرف یہ کہ پاکستان میں اجتناب کیا ہے بلکہ عالمِ اسلام کی اسلامی تحریکوں کو بھی اسلحے کے ذریعے اسلامی انقلاب لانے کی جدوجہد سے باز رہنے کا ہر موقعے پر مشورہ دیا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ موجودہ حالات میں منظم حکومتوں کے خلاف غیرحکومتی تنظیم کی مسلح جدوجہد نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکتی۔

جھاد افغانستان اور ایرانی انقلاب کی کامیابی

افغانستان کے جہاد کامیابی کی وجہ یہ ہے کہ روسی فوجوں نے جب اپنے کمیونسٹ ایجنٹوں کے ذریعے کابل پر قبضہ کرلیا اور مجاہدین نے اپنے ملک کو آزاد کرانے کے لیے جہاد شروع کر دیا تو پورے ملک کے عوام مجاہدین کی پشت پر کھڑے ہوگئے۔ عالمِ اسلام بھی جہاد افغانستان کی حمایت اور تائید میں متحد ہوگیا اور پاکستان کی حکومت اور عوام نے تو اس جنگ کو اپنی جنگ سمجھ لیا۔ اس کے علاوہ کمیونزم کے نظریاتی دشمنوں نے بھی اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے وسائل فراہم کیے۔     یہ سارے عوامل جب جمع ہوگئے تو کامیابی نصیب ہوئی اور مجاہدین کی عظیم قربانیوں کا یہ نتیجہ تو دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ روسی فوجیں نہ صرف یہ کہ پسپا ہوگئیں بلکہ بڑی ذلت و رسوائی کے ساتھ افغانستان سے نکلنے پر مجبور ہوگئیں اور سوویت یونین کا وجود ہی صفحۂ ہستی سے مٹ گیا۔ البتہ مجاہدین افغانستان کے نظمِ جہاد میں ایک خامی رہ گئی تھی جس کا خمیازہ وہ آج تک بھگت رہے ہیں۔ وہ خامی یہ تھی کہ وہ ایک امیر کی امارت میں نہیں لڑتے تھے اور ان کا ’واحد نظامِ امر‘ نہیں تھا بلکہ مختلف جہادی تنظیمیں اپنے اپنے تنظیمی امیر کی امارت میں لڑ رہی تھیں اور جو تنظیم جو علاقہ آزاد کرا لیتی وہاں پر اپنے امیر یا اپنے کمانڈر کی حکومت قائم کرلیتی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کمیونسٹ فوجوں کی پسپائی اور ڈاکٹر نجیب اللہ کے سقوط کے بعد مجاہدین کا نہ کوئی واحد مربوط نظام تھا جو اس خلا کو پُر کرتا اور نہ کوئی واحد امیر تھا جو کابل میں اپنی حکومت قائم کرتا۔ اس کے نتیجے میں جہادی تنظیموں اور ان کے امرا کے درمیان مسابقت و منافست پیدا ہوئی۔ کمیونسٹوں نے اور اسلام دشمن قوتوں نے سازشیں شروع کیں اور اقتدار کی جنگ شروع ہوگئی جو آج تک جاری ہے اور ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔

حقیقت یہ ہے کہ اچھے سے اچھا کام اور بڑی سے بڑی عبادت بھی اگر اس کے مقرر کردہ آداب و احکام کے مطابق ادا نہ کی جائے تو وہ بے اثر اور بے ثمر ہوجاتی ہے۔ جس طرح نماز کے کچھ آداب اور شرائط ہیں، اور ان کو ملحوظ رکھے بغیر اور نماز کی شرائط پوری کیے بغیر نماز بے اثر ہوجاتی ہے، اسی طرح جہاد کے بھی کچھ آداب و شرائط ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ جہاد کا واحد امیر اور واحد شورائی نظام ہو جس کی نگرانی میں جہاد کا عمل جاری رکھا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اِنَّمَا الْاِمَامُ جُنَّـۃٌ یُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِہٖ، یعنی امام اور امیر سَپَر اور ڈھال کی طرح ہے جس کے پیچھے لڑائی لڑی جاتی ہے۔ افغان مجاہدین کی متعدد تنظیمیں اور متعدد امرا تھے جن کا کوئی مربوط شورائی نظام بھی نہیں تھا جس کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے۔ باقی رہا ایرانی انقلاب تو وہ بھی فوج کے ساتھ لڑائی کے نتیجے میں نہیں آیا بلکہ عوامی تائید کے نتیجے میں آیا ہے۔ ایران کی پوری شیعہ قوم خمینی کی قیادت میں متحد ہوگئی۔ اس عوامی دبائو کے مقابلے میں ایرانی شہنشاہیت بے بس ہوگئی۔

نفاذِ شریعت اور اسلامی انقلاب کا طریقہ

اب میں آخری نکتے کی طرف آتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ بگڑے ہوئے مسلم معاشرے میں نفاذِ شریعت اور اسلامی انقلاب کا قابلِ عمل طریقۂ کار کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ پوری شریعت کا نفاذ اور مکمل اسلامی نظام کا قیام اسلامی حکومت کے قیام کے بغیر ممکن نہیں ہے، اور اسلامی حکومت عوام کی طلب و تائید کے بغیر قائم نہیں ہوسکتی اور اگر ان کی تائید کے بغیر کسی نہ کسی طرح قائم ہو بھی جائے تو وہ چل نہیں سکے گی، اور جس مصنوعی راستے سے آئی تھی اسی راستے سے واپس چلی جائے گی۔

اس لیے کرنے کا کام یہ ہے کہ ’نسلی‘ مسلمانوں کو ’اصلی‘ مسلمان بنانے اور ’رسمی‘ مسلمانوں کو ’شعوری‘ مسلمان بنانے کی تحریک چلائی جائے، اور ان کے اندر دین کا فہم، دین کی محبت، دین پر عمل کرنے کا جذبۂ صادقہ اور نفاذِ شریعت کے لیے جدوجہد کا عزم پیدا کیا جائے۔ جب مسلمانوں کی اکثریت یا ان کی معتدبہ تعداد میں شریعت کا صحیح تصور، اس پر غیرمتزلزل ایمان، اس پر عمل کرنے کا شوق، اس کے نفاذ کے لیے تڑپ، لگن اور پیاس پیدا ہوجائے گی، اور وہ یہ عزم کریں گے کہ ہم غیراسلامی نظام اور غیرشرعی قوانین کو چلنے نہیں دیں گے، تو ایسی صورت حال میں یا تو حکمران شریعت نافذ کردیں گے اور یا اسلامی حکومت کے لیے جگہ خالی کردیں گے۔ لیکن جب تک یہ صورت حال پیدا نہیں ہوتی تو ان ’رسمی‘ اور ’نسلی‘ مسلمانوں کی اکثریت، بلکہ غالب اکثریت سیکولرزم کے علَم برداروں اور کرپٹ لیڈروں کی حمایت پر کمربستہ رہے گی۔ ’نسلی‘ مسلمانوں کو ’شعوری‘ مسلمان بنانے کا طریقہ سواے دعوت و تربیت اور تعلیم و تبلیغ کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ اسی طریقے سے ’شعوری اسلامی انقلاب‘ آسکتا ہے۔

اس طریقے کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا مودودیؒ فرماتے ہیں:

کھلے بندوں عام دعوت پھیلایئے۔ بڑے پیمانے پر اذہان اور افکار کی اصلاح کیجیے۔ لوگوں کے خیالات بدلیے، اخلاق بدلیے، اخلاق کے ہتھیاروں سے دلوں کو مسخر کیجیے اور اس کوشش میں جو خطرات اور مصائب بھی پیش آئیں ان کا مردانہ وار مقابلہ کیجیے۔ اس طرح بتدریج جو انقلاب برپا ہوگا وہ ایسا پایدار اور مستحکم ہوگا جسے مخالف طاقتوں کے ہوائی طوفان محو نہ کرسکیں گے۔ جلدبازی سے کام لے کر مصنوعی طریقوں سے اگر کوئی انقلاب برپا ہو بھی جائے تو جس راستے سے وہ آئے گا اسی راستے سے وہ مٹایا بھی جاسکے گا۔(تفہیمات، ج۳،ص ۳۶۲)

۱۹۷۴ء میں مولانا مودودیؒ نے راولپنڈی کی شریعت کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’اب جب آپ یہ سوچنے کے لیے بیٹھیں گے کہ ہم یہاں نفاذ شریعت کیسے کریں؟ تو آپ کو ایک طرف لوگوں کے دلوں میں ایمان اُتارنا پڑے گا۔ تمام شکوک و شبہات کے کانٹے جو ان کے اندر چبھے ہوئے ہیں، نکالنے پڑیںگے۔ ان کو مطمئن کرنا پڑے گا، پڑھے لکھوں کو بھی اور عوام کو بھی۔ اس کے بعد ان کے اخلاق کی طرف توجہ کرنی پڑے گی۔ اس سارے کام کے دوران ہرقسم کی مصیبتوں، تکلیفوں اور نقصانات کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنا پڑے گا۔ اسی طرح آپ کو عوام کی راے اس طرح بدلنی پڑے گی کہ وہ سوچ ہی نہ سکیں کہ ہم کسی ایسے شخص کو بھی ووٹ دے سکتے ہیں جس کی اپنی زندگی میں اسلامی نظام کی کوئی جھلک دکھائی نہ دیتی ہو، جس کا عمل اسلامی نہ ہو اور جو اسلام کو جانتا ہی نہ ہو۔

اگر اس حالت میں منصفانہ انتخابات ہوں تو بہت اچھا، ہم نہیں چاہتے کہ ٹیڑھی انگلیوں سے گھی نکالا جائے۔ اگر قوم کے اندر یہ عزم پیدا ہوجائے کہ ہمیں یہ نظام یہاں نافذ کرنا ہے تو پھر کوئی دھن، دھونس، دھاندلی، اس کا راستہ نہیں روک سکتی۔ لیکن یہ بات یاد رکھیے کہ آپ کو جان مار کر ایک مدت دراز تک کام کرنا ہوگا۔ یہاں تک کہ وہ مرحلہ آجائے جس میں لوگ ازخود ہٹ جاتے ہیں کہ اب ہمارا چراغ اس قوم میں جل نہیں سکتا۔ اگر نہ ہٹیں تو ان کو ہٹانا کوئی مشکل کام نہیں رہ جاتا بشرطیکہ قوم کے اندر پورا عزم پایا جائے۔ لیکن اگر قوم اپنے آپ کو فساق و فجار کے لیے تیار کرے اور چاہے کہ فساق و فجار ہی ان کے معاملات چلانے والے ہوں تو اللہ تعالیٰ زبردستی ان کو صالح اور متقی نہیں دیں گے۔

اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ کیا پاکستان میں نفاذِ شریعت کا امکان ہے؟ اس سوال کے دو جواب ہیں: ایک یہ کہ اگر انسان سوچ سمجھ کر عقل مندی کے ساتھ پیہم اور مسلسل سعی اور محنت کرے تو بڑے بڑے پہاڑوں کے اندر سرنگ پیدا کرسکتا ہے۔ اور دوسرا جواب یہ ہے کہ مومن کا کام تو یہ ہے کہ اگر شریعت نافذ ہونے کا ایک فی صد امکان بھی نہ ہو بلکہ ایک فی ہزار امکان بھی نہ ہو، تب بھی وہ اس کے لیے جان لڑائے۔ اس راستے میں کوشش کرتے ہوئے جان دے دینا کامیابی ہے اور کسی غلط راستے پر جاکر وزیراعظم یا صدر مملکت بن جانا بھی کھلی ناکامی ہے‘‘۔(تفہیمات، ج۵، ص۱۷-۱۸)

انبیاے کرام علیہم السلام اور اُمت مسلمہ کے دعاۃ الاسلام کا یہی طریقہ رہا ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ۱۳ سال تک مکہ مکرمہ میں دعوت و تعلیم کا کام بھی جاری رکھا اور تعلیم و تربیت بھی دیتے رہے۔ اس دعوت کے اثرات مدینہ تک پہنچے اور انھی اثرات کے نتیجے میں مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست قائم ہوئی۔ بعد میں اس ریاست کے استحکام اور توسیع کے لیے جہاد بالسیف اور قتال کا حکم نازل ہوا اور یہ جہاد قیامت تک جاری رہے گا جس کی اسلام میں بہت زیادہ اہمیت اور تاکید ہے لیکن ابتدا میں اسلامی حکومت دعوت کے ذریعے قائم ہوئی تھی۔ اِس وقت بھی بگڑی ہوئی اُمت کی اصلاح کا طریقہ وہی ہوسکتا ہے جس کے ذریعے ابتدا میں اصلاح ہوئی تھی۔ اصلاحِ حکومت اور اصلاحِ معاشرہ دونوں محاذوں پر حکمت و دانش مندی اور اعتدال و توازن کے ساتھ پیہم جدوجہد اور سعی و محنت کی ضرورت ہے اور یہی دعاۃ الاسلام اور مصلحین کا طریقہ رہا ہے۔

انتخابات میں حصہ لینے کا مقصد

یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب معاشرہ بگڑا ہوا بھی ہے اور استحصالی طبقے کی زنجیروں میں جکڑا ہوا بھی ہے، عوام کی اکثریت نے اپنی لاعلمی، اخلاقی گراوٹ، مفاد پرستی، دینی شعور کی کمی اور دوسرے بہت سے عوامل کی وجہ سے موجودہ لادین سیاست اور استحصالی نظام کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ اور مفاہمت کرلی ہے، اور جب تک عوام کی اکثریت یا کم از کم معتدبہ تعداد کی اصلاح نہیں ہوتی، اس وقت تک انتخابات میں دینی جماعتوں کو ناکامی ہی کا سامنا کرنا پڑے گا، تو آخر دینی جماعتیں ان انتخابات میں حصہ لیتی ہی کیوں ہیں؟ اور چند افراد کا نااہل ارکان پر مشتمل اسمبلیوں میں بٹھانے کا فائدہ کیا ہے؟

اس سوال کا جو جواب مولانا مودودیؒ نے ۱۹۵۷ء میں جماعت اسلامی کے اجتماعِ ارکان میں دیا تھا وہ کافی و شافی اور تسلی بخش ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے: ’’یہ ایک غلط مفروضہ ہے کہ ہم اصلاحِ معاشرہ کا کام چھوڑ کر صرف انتخابات کے ذریعے قیادت کی تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔ حالانکہ ہمارے لائحہ عمل کے چار میں سے تین اجزا اصلاحِ معاشرہ ہی کا دائمی پروگرام ہے جس پر ہمیں سال کے ۳۶۵دن کام کرنا ہے، خواہ انتخابات ہوں یا نہ ہوں… پھر ووٹر کو صحیح انتخاب کے لیے تیار کرنا، اسے اسلامی نظام کے لیے تیار کرنا، اس کے اندر اسلامی نظام کی طلب پیدا کرنا، اس کو صالح اور غیرصالح کی تمیز دینا، اس کو یہ احساس دلانا کہ ملک کی بھلائی اور برائی کا ذمہ دار وہ خود ہے۔ اس میں اتنی اخلاقی طاقت اور سمجھ بوجھ پیدا کرنا کہ وہ دھن دھونس، دھوکے، دھاندلی کا مقابلہ کرسکے اور اپنا ووٹ صحیح طور پر استعمال کرے___ یہ سارے کام کیا اصلاحِ معاشرہ کے کام نہیں ہیں؟ اگر ہیں تو یہی کام ہم انتخابات میں حصہ لے کر کرتے ہیں…

انتخابات سے الگ رہ کر آپ عقائد، اخلاق اور معاملات کی اصلاح کا کام تو کرسکتے ہیں لیکن صالح قیادت کو اُوپر لانے کے لیے ووٹروں کی سیاسی تربیت انتخابات میں بالواسطہ یا بلاواسطہ حصہ لیے بغیر نہیں ہوسکتی۔ ووٹروں کو فاسد اور نااہل امیدواروں کے حوالے کرکے اور ان کے لیے میدان خالی چھوڑ کر آخر انتخابی عمل کی اصلاح کیسے ہوگی؟ جب نااہل کے مقابلے میں اہل اور فاسد کے مقابلے میں صالح موجود نہیں ہوگا تو ووٹر کے درمیان صالح اور غیرصالح کے درمیان تمیز کیسے پیدا ہوگی؟

رہی یہ بات کہ چند نشستیں حاصل کرنے کا فائدہ کیا ہوگا؟ تو میں عرض کروں گا کہ اس سے بہت کچھ حاصل ہوگا۔ اب تک آپ صرف پبلک میں آواز اٹھاتے رہے ہیں، ایوانِ حکومت میں آپ کی کوئی آواز نہیں ہے۔ وہاں پہنچ کر آپ کی آواز دونوں جگہ بلند ہوگی۔ آپ کے چند لوگ بھی جب اربابِ اقتدار کے سامنے کلمۂ حق کہیں گے، غلط چیزوں پر صاف صاف تنقید کریںگے،  دلیل کے ساتھ صحیح بات پیش کریں گے، تو یہ آواز بڑے انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوگی‘‘۔ (تحریکِ اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل، ص ۱۳۶، ۱۳۸، ۱۳۹، ۱۴۹-۱۵۰)

مولانا مرحوم کا مقصد یہ ہے کہ اگر ہم دعوت اور اصلاحی کام چھوڑ کر صرف ’سیاسی‘ اور  ’انتخابی پارٹی‘ بن کر رہ جائیں تو پھر معترضین کا اعتراض درست ہے لیکن یہ تو ایک غلط مفروضہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم انتخابات کے موقع پر انتخابی مہم کے دوران اسلام کی سیاسی اور انتخابی دعوت ہی کا کام کرتے ہیں اور دین کی آواز کو قومی اداروں کے ایوان تک پہنچانے کی جدوجہد کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جو دعوت و تبلیغ عوام میں کی جاتی ہے وہی دعوت جب اربابِ اقتدار کے سامنے پیش  کی جائے تو اس کی افادیت بہت زیادہ ہے۔ باقی رہی یہ بات کہ نظام غیر اسلامی ہے، اسمبلیاں فساق و فجار سے بھری ہوئی ہیں اور حکومتیں اسلام سے باغی لوگوں کی ہیں، تو اس نظام کے تحت انتخابات میں حصہ لینا کس طرح جائز ہوسکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جو لوگ اس طاغوتی نظام کو بحال رکھنا چاہتے ہیں، ان کو ووٹ دینا اور ان کے لیے ووٹ مانگنا تو تعاون علی الاثم والعدوان ہے اور حرام ہے، لیکن جو لوگ اس غیراسلامی نظام کو بدلنا چاہتے ہیں، اسلامی نظام کا قیام اور شریعت کا نفاذ چاہتے ہیں اور شریعت کی آواز کو اسمبلیوں تک اور حکومت کے ایوانوں تک پہنچانے کے لیے انتخابات میں حصہ لیتے ہیں اور اپنی پوری انتخابی مہم اسلامی آداب و احکام کے مطابق چلاتے ہیں، ان کو ووٹ دینا اور ان کے لیے ووٹ مانگنا آخر کس دلیل کی بنیاد پر حرام ہوسکتا ہے۔ البتہ اگر شریعت کے نام پر انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتیں اپنی مہم غیرشرعی طریقے پر چلاتی ہیں اور اسمبلیوں میں شریعت کی آواز نہیں اُٹھاتیں بلکہ طاغوت کے ساتھ مفاہمت کرلیتی ہیں تو ان کی حمایت نہیں کرنی چاہیے۔(تفہیم المسائل، جلدسوم، ص ۲۸۰-۳۰۲)

 

اللہ کی بے شمار نعمتوں میں سے ہر ایک نعمت، انسان پر اللہ رب العالمین کا احسان ہے۔ لیکن اللہ رب العالمین نے اپنے کلام پاک میں ان میں سے کسی چیز کو اپنا احسان نہیں کہا، بلکہ ارشاد فرمایا: لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ (اٰل عمرٰن۳:۱۶۴) ’’درحقیقت اہلِ ایمان پر تو اللہ نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان خود انھی میں سے ایک پیغمبر اُٹھایا‘‘۔ گویا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری اس کائنات کے ذرے ذرے پر اللہ رب العالمین کا احسان عظیم ہے۔ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بندے کو رب سے ملایا۔ انسانی غلامی کی زنجیر یں توڑدیں۔ طوق غلامی ختم کردیے۔ انسان کو انسانیت عطاکی۔ اسے شعور آدمیت بخشا، اس کے فکر ونظر کے زاویے تبدیل کردیے۔ اس کا شرف آدمیت بلند کیا۔اس کے دل و دماغ کی دنیا کو بدل کے رکھ دیا۔ اسے امن و سلامتی،عدل وانصاف، رحم دلی و خدا ترسی، صداقت و ایفاے عہد، انسانی حقوق کی پاسداری اور اپنے رب سے وفاداری عطا کی۔

نبی کریمؐ کی تعلیمات اور آپؐ کی حیات طیبہ اس زمانے کے لیے ہی نہیں بلکہ آج کے لیے بھی اور آج کے لیے ہی نہیں، قیامت تک آنے والے زمانوں کے لیے ایک کامل واکمل، ارفع و اعلیٰ، بلند و بالا اور نہایت روشن و منور اسوۂ حسنہ اور بہترین نمونہ ہے۔ آپؐ کو اللہ رب العالمین نے وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ (انبیاء ۲۱:۱۰۷)، ارشاد فرماکر ہمیں یہ بتادیا ہے کہ آپ ایک جہان کے لیے نہیں، معلوم ونامعلوم تمام جہانوں کے لیے، ایک دورکے لیے نہیں بلکہ لوح ایام سے اُبھرتے ہوئے تمام ادوار کے لیے، ایک طبقۂ زندگی کے لیے نہیں بلکہ تمام طبقات زندگی کے لیے سراپا رحمت بن کر آئے ہیں۔ اس لیے اگر آج ہم بھی چاہتے ہیں کہ ہماری انفرادی واجتماعی زندگی رحمتوں سے بھر جائے، ہمارے گھر جنت کا نمونہ بن جائیں اور ہمارا معاشرہ امن و سلامتی کا گہوارہ اور عدل وانصاف کا بلند مینارہ بن جائے، تو پھر ہمیں یہ نسخۂ کیمیا صرف دامن مصطفیؐ ہی سے مل سکتاہے۔

اگر ہم پاکستان کے تناظرمیں بات کریں، تو ہمیں یوں محسوس ہوتاہے کہ آج ہم اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزررہے ہیں۔ امن عامہ کی صورت حال انتہائی دگرگوں ہے۔ کسی کی عزت، جان اور مال اگر محفوظ ہے تو یہ صرف اللہ کریم کی خاص مہربانی ہے۔ وگرنہ یہاں انسانی جان نہ چوکوں چوراہوں پر محفوظ ہے، نہ بھرے بازاروں اور سڑکوں، شاہراہوں پر۔ انسان نہ اپنے گھر میں محفوظ ہے اور نہ خدا کے گھر میں۔ پاکستان میں پایدار امن قائم کرنا ہماری خواہش ہی نہیں، فوری اور اشد ضرورت بھی ہے۔ اس ضمن میں ضروری ہے کہ ہم دیکھیں کہ آج امن عامہ کے حوالے سے ہمیں کون سے چیلنج درپیش ہیں۔ اس لحاظ سے موجودہ صورت حال دو حصوں میں تقسیم ہوتی ہے: ۱-بدامنی کی عمومی صورت حال، ۲-نائن الیون کے بعد سے پیدا شدہ خصوصی حالات۔

  •  بدامنی کی عمومی صورت حال: ہمارے معاشرے میں بڑھتے ہوئے جرائم میں چوریاں، ڈکیتیاں معمول بن گیا ہے۔ کارچوری،رسہ گیری اور رہزنی کے واقعات میں کئی گنا اضافہ ہوگیاہے۔ روزانہ ہزاروں موبائل اور خواتین کے پرس چھینے جاتے ہیں۔ قتل وغارت گری میں مسلسل اضافہ ہو رہاہے۔ انتقام کی آگ میں اندھے ہو کر لوگ مخالفین کو عورتوں، بچوں سمیت ذبح کردیتے ہیں۔ تاوان وصول کرنے کے لیے پھول جیسے مسکراتے بچوں کو اغوا کیا جاتاہے، اور پھر تاوان ادا کرنے کے باوجود مائوں کواپنے بچوں کی مسلی ہوئی لاشیں ملتی ہیں۔ منشیات کا کاروبار عروج پر ہے۔ گویا کہ معاشرہ انسانی روپ اختیار کیے ہوئے بھیڑیوں کی گرفت میں آچکاہے۔

نائن الیون کے بعد خصوصی حالات

یہ حالات انتہائی کرب ناک اور خطرناک ہی نہیں انتہائی شرم ناک بھی ہیں۔ اب تک ۳۰ہزار سے زیادہ بے گناہ افراد کا لہو بہہ چکاہے، اور ابھی اس نام نہاد دہشت گردی کے خلاف چھیڑی گئی عالمی جنگ میں پاکستانی قوم کو اپنے کچھ اور معصوموں کے لہو کا خراج اور معاشی بدحالی کی صورت میں مزید تاوان جنگ ادا کرنا پڑے گا۔

  •  ڈرون حملے: ۲۰۰۴ء کے بعد سے پاکستان پر عملاً جنگ مسلط کردی گئی ہے۔  آئے روز فضائی حدود کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور امریکی طیارے میزائلوں کے ذریعے عورتوں، بچوں، بوڑھوں سمیت بے گناہ شہریوں کے جسموں کے چیتھڑے اڑا دیتے ہیں۔ اس طرح کے حملوں کی اجازت نہ پاکستان کاآئین دیتاہے، نہ اقوام متحدہ کاچارٹر اور نہ خود امریکا کے اپنے قوانین ہی، لیکن یہ غیر انسانی عمل تسلسل سے جاری ہے۔ امریکی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق کسی دہشت گرد ٹارگٹ اور بے گناہ افراد کی ہلاکتوں میں تناسب ایک اور ۵۰ کا ہے۔ ۲۰۱۰ء میں کُل ۱۱۸ڈرون حملے ہوئے، ۵۸۴؍افراد جاں بحق ہوئے جن میں سے مطلوب ٹارگٹ صرف دو تھے۔ اب تو ایک دن میں ۴،۴ ڈرون حملے معمول بن گئے ہیں۔ ریمنڈ کی گرفتاری کے بعد کچھ تعطل آیا تھا لیکن اس کی رہائی کے بعد ایک ہی دن ۱۲ حملے کیے گئے جس میں جرگے کے عمائدین سمیت ۴۱ افراد شہید ہوگئے۔
  •  خودکش اور دھشت گردحملے: ڈرون حملوں کے نتیجے میں شہید ہونے والوں کے غصے اور انتقام سے بھرے ہوئے ۱۵سے ۲۰ سال تک کی عمر کے بچوں کو بھی خود امریکا ،بھارت اور اسرائیل کا ایک نیٹ ورک خود کش حملوں کے لیے استعمال کررہاہے۔ ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری، اس سے برآمد ہونے والے جاسوسی آلات، تصاویر اور موبائل کی سموں سے اس کے وزیرستان کے دہشت گردوں سے رابطوں سے یہ حقیقت کھل گئی ہے کہ پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات کروانے،جہاد کو بدنا م کرنے، اسلام کو دہشت گردی کا دین ظاہر کرنے اور پاکستان کو غیر محفوظ ملک ثابت کرکے اس کے ایٹمی اثاثوں پر عالمی پابندیاں لگوانے کے مقاصد کے تحت پاکستان کی مساجد،مزارات،امام بارگاہوں، جلسوں اور جلوسوں پر حملے امریکا خود ہی کروا رہاہے۔
  •  ٹارگٹ کلنگ: پورے ملک میں کسی حد تک لیکن کراچی میں بالخصوص ٹارگٹ کلنگ کاسلسلہ عروج پر ہے۔ کسی بھی جرم کے بغیر محض کسی خاص زبان بولنے کی بنیاد پر بے گناہ مزدوروں، رکشاو بس ڈرائیوروں،ریڑھی ٹھیلے والوں کو قتل کردیا جاتاہے۔ بھتہ خوری اور ناجائز قبضوں کے لیے بھی انسانی جانوں سے کھیلا جاتاہے۔ اب تک ہزاروں افراد اس سیاست کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں، جب کہ کسی ایک بھی واقعے کے قاتل کو سزا نہیں ملی۔ کراچی کے سانحات میں ۱۲مئی، ۹؍اپریل، ۱۲ربیع الاول،۱۰محرم الحرام، ۲۷؍اکتوبر اور بے گناہ شہیدہونے والوں میں حکیم محمد سعید، صلاح الدین، محمد اسلم مجاہدوغیرہ جیسے رہنما شامل ہیں۔

امن عامہ کی صورت حال کے لحاظ سے رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ بلوچستان، سب سے زیادہ متاثر ہے۔ یہاں پر بھی ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے پنجابی اساتذہ،تاجروں اور پولیس اہلکاروں کا قتل ہوا۔ اکبر بگٹی کی ٹارگٹ کلنگ نے حالات میں جو آگ لگائی ہے، اس کی وجہ سے بھارت اور امریکا بلوچستان میں پاکستان مخالف جذبات کو بڑھانے کی سازشیں کررہے ہیں۔ بلوچ رہنمائوں اور جوانوں کی اغوا کے بعد مسخ شدہ لاشوں کا ملنابھی قیامت خیزی میں اضافہ کررہاہے۔

  •  لاپتا افراد اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی: گذشتہ پانچ چھے برسوں سے سیکڑوں افراد لاپتا ہیں۔ اتنے بڑے پیمانے پر لوگوں کا لاپتا ہونا،اور پھر عدالت عظمیٰ کے فیصلوں کے باوجود برآمد نہ ہونا لمحہ فکریہ بھی ہے اور ایک المیہ بھی! ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو اغوا کرکے امریکا کے حولے کرنے اور امریکی عدالت کا اسے صرف مسلمان ہونے کے جرم میں ۸۶سال قید دینے کے واقعے نے بھی نوجوان نسل میں بے پناہ اضطراب پیدا کیاہے۔
  •  ریمنڈ ڈیوس کا معاملہ : ۲۷ جنوری ۲۰۱۱ء کو لاہور میں دن دہاڑے ایک امریکی جاسوس اور قاتل نے تین بے گناہ پاکستانیوں کو شہید کردیا۔ اس کے بعد سے امریکا کامسلسل دبائو بڑھتا رہا ہے کہ قاتل کو بغیر مقدمہ چلائے اور جاسوس سے بغیر معلومات حاصل کیے اسے امریکا کے حوالے کردیا جائے۔ اس معاملے نے عوام میں لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے سانحے کی طرح حکمران طبقے کی بے حسی اور ملک کی بظاہربے بسی کا احساس زیادہ اُجاگر کردیا۔ اب اسے قصاص و دیت قانون کے تحت آزاد کر کے امریکا بھجوانے سے اس شدت میں مزید اضافہ ہوگیاہے۔

پایدار امن کیسے؟

پاکستان میں امن عامہ کی مخدوش عمومی صورت حال اور نائن الیون کے بعد سے پیدا ہونے والے خصوصی حالات کاتقاضا ہے کہ پاکستان میں پایدار امن قائم کیا جائے۔ ہمارا ایمان ہے کہ یہ پایدار امن صرف اسوۂ حسنہؐ کی روشنی میں ہی قائم ہوسکتاہے۔ اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے، اس خطے میں ایک مثالی اور پایدار امن قائم فرمایا جہاں دن کے اُجالوں میں قافلے لٹتے اور رات کے اندھیروں میں شب خون مار کر مردوں کو قتل اور عورتوں بچوں کو غلام بنالیاجاتاتھا۔ جہاں بیٹیاں زندہ دفن کر دی جاتی تھیں اور بات بات پر تلواریں میان سے باہر نکلتی تھیں۔ جہاں انتقام درانتقام کے سلسلے برسوں اور نسلوں تک چلتے تھے۔ بقول مولانا حالی:

کہیں گھوڑا آگے بڑھانے پہ جھگڑا
کہیں پانی پینے پلانے پہ جھگڑا

یوں ہی ہوتی رہتی تھی تکرار ان میں
یوں ہی چلتی رہتی تھی تلوار ان میں

نبی کریمؐ اور ا ن کے لائے ہوئے دین نے جزیرۃ العرب میں وہ مثالی امن قائم کیا کہ سونے کے زیوارت سے مزین ایک عورت کو تنہا صنعاسے حضر موت تک کے طویل سفر میں اللہ کے علاوہ کسی اور کاڈر نہ رہا۔ اس امن کی پایداری یہ ہے کہ ۱۵سو سال بعد آج بھی ان علاقوں میں جرائم کی شرح قریباًنہ ہونے کے برابر ہے۔ پاکستان میں پایدار امن کا قیام صرف اسلامی نظام کے قیام ہی سے ممکن ہے۔ اس لیے کہ اسلامی نظام کے قیام کامقصد ہی قیام خیر اور رفع شرہے:

اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ ط وَ لِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِo (الحج۲۲:۴۱) یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور بُرائی سے منع کریں گے اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔

یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اسلام امن و سلامتی کا دین ہے جو فتنہ و فساد،ظلم وزیادتی، جبرواستبداد،قہر و تعدی، استحصال واستیصال اور بدامنی و دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کرتاہے۔ اس سلسلے میں تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہم نکات حسب ذیل ہیں:

  • داخلی انقلاب : اسلام انسان کو اندر سے مکمل تبدیل کردیتاہے۔ اس کے نفس امارہ کو نفس لوامہ اور پھر نفس مطمئنہ میں بدلتاہے۔ وہ توحید ربانی، محبت و اطاعت رسولؐ، احساس جواب دہی اور فکر آخرت کے عقیدوں اور نظریات و جذبات سے پتھر دلوں، یعنی قلوب قاسیہ کو یاد الٰہی سے   نرم دلوں، یعنی قلوب خاشعہ میں بدل دیتاہے۔ یہ اتنی بڑی تبدیلی ہے کہ جس سے انسان اپنے ان جرائم کا خود اعتراف کرتاہے جسے کرتے ہوئے دنیاکی کسی آنکھ نے نہیں دیکھا۔ کوئی دعویٰ نہیں، لیکن انسان آخرت کی دائمی سزا کے بدلے اس دنیا کی سخت ترین سزا کو بھی برداشت کرنے پر تیار ہوجاتاہے۔ اندر کی تبدیلی سے امتناع شراب کے قانون پر برسوں،مہینوں یا دنوں میں نہیں چند گھنٹوں میں اس طرح سے عمل ہوجاتاہے کہ پورا معاشرہ اس سے پاک ہوجاتاہے۔
  • جرم کے محرکات کا خاتمہ : اسلام نے ان تمام اسباب کا خاتمہ کیا یا ان کی اصلاح کی کہ جن کی وجہ سے انسان مجرم بنتاہے، مثلاً حُبِ دنیا اور حُبِ مال کو وہن کہاگیا۔  اَلْہٰکُمُ التَّکَاثُرُکہہ کر کثرت کے جنون کو وجۂ ہلاکت قرار دیا۔ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَ اُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَکہہ کر بتایا گیا کہ آخرت کی کامیابی ہی اصل کامیابی ہے۔ غصہ جرائم کو جنم دیتاہے چنانچہ وَ الْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ کے پیغام سے عفو و درگزر کا سبق دیا گیا۔ تکبر، حسد، تمسخر، بہتان، بدگمانی،غیبت،بُرے القاب،جھوٹ، بددیانتی، خیانت،دھوکا دہی، ذخیرہ اندوزی سے معاشرے میں جرائم بڑھتے ہیں۔ اسی طرح شراب منشیات،جوا، فحاشی، سود،بدکاری، رشوت، سفارش بھی معاشرے میں مجرموں کی افزایش کرتے ہیں۔ ان سب کو حرام قرار دیا گیا۔ گویا کہ اسلام نے جرم کے سرچشموں اور بنیادوں کو ہی ختم کردیا۔
  •  انسانی حقوق : خطبۂ حجۃ الوداع کی شکل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حقوق انسانی کا عظیم الشان چارٹر دیا ہے۔ اس چارٹر میں آپ نے انسانی جان کی حرمت،معاشرتی مساوات، جاہلیت کے انتقام درانتقام سلسلوں کے خاتمے،شخصی حقوق: تحفظ جان، تحفظ مال، تحفظ کی بہترین تعلیمات دیں۔ میاں،بیوی،بہن بھائیوں، ماں، باپ اولاد، رشتہ داروں،یتیموں، محتاجوں، ضعیفوں، بیماروں، غلاموں، مزدوروں، پڑوسیوں، دوستوں، مسافروں، اساتذہ، شاگردوں، راہگیروں، غرضیکہ ہر طبقے کے الگ الگ حقوق متعین کیے۔ حقوق العباد کے سلسلے میں یہ بہترین تصور دیا کہ بندوں کے حقوق کی پامالی پر معافی کا اختیار اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس نہیں رکھا بلکہ بندوں کو ہی دے دیا ہے، یعنی جب تک جس کا حق مارا گیاہے وہ خود معاف نہیں کرے گا، انسان کی قیامت کے دن رہائی نہیں ہوسکے گی، بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ حقوق العباد کی پامالی کی سزا کے طور پر قیامت کے روز اپنی نمازوں، روزوں اور عبادات کے اجر سے ہی محروم ہوجائے۔
  • حقوق نھیں فرائض : دنیا میں حقوق مانگے اور دیے جاتے ہیں۔ اسلام حقوق سے پہلے فرائض کی بات کرتاہے۔ چنانچہ اگر فرائض اداہوجائیں تو حقوق طلبی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، نیز اسلام نے حقوق و فرائض میں بہترین توازن و اعتدال قائم کردیاہے۔ اس طرح سے معاشرہ کسی بھی کشاکش اور کش مکش کے بغیر ہی جنت نظیر بن جاتاہے۔
  • قوم نھیں اُمت: بلوچستان کا معاملہ ہو یا کراچی کا، علاقائی مطالبات ہوں یا لسانی تعصبات، اسلام کے تصوراُمت سے خودبخود ختم ہوجاتے ہیں۔ اس لیے کہ اسلام شعوب و قبائل کو صرف ذریعۂ تعارف قرار دیتاہے، وجۂ تفاخر نہیں۔ قرآن پاک میں مسلمانوں کو کہیں بھی قوم نہیں کہا گیا، جہاں بھی کہاگیاہے اُمت کہاگیاہے۔ اس لیے کہ قومیں عصبیتوں سے بنتی ہیں اور اُمت عقیدے سے۔ قوم زبانوں،علاقوں،نسلوں سے وجود میں آتی ہے اور اُمت ایمان سے بنتی ہے۔
  •  نظام عبادات : اسلام نے تصوراُمت اور معاشرتی مساوات کو اپنے نظام عبادات کا حصہ بنا دیا ہے۔ قیام امن کے لیے اسلام کی عظیم الشان بنیادیں محض اخلاقی تعلیمات نہیں، بلکہ عبادات کا مستقل حصہ ہیں۔ اسلام دن میں پانچ مرتبہ امیر وغریب، اعلیٰ و ادنیٰ،افسرو ماتحت، کارخانے دار و مزدور،عربی و عجمی، گورے و کالے، پنجابی و سندھی، بلوچی وپٹھان اور مہاجر وغیرمہاجر کو ایک صف میں کھڑا کردیتاہے۔ یہاں کوئی علاقائی تقسیم نہیں،کوئی معاشرتی درجہ بندی نہیں۔ کوئی لسانی و مادی تفاوت نہیں۔ اسی طرح حج و عمرہ کے موقعے پر تمام علاقائی لبادے اتروالیے جاتے ہیں۔ یہاں کج کلا ہوں کے تاج،عماموں کے پیچ، جبہ و دستار اور شیر وانیاں و وردیاں اتر جاتی ہیں۔
  •  امن کے ادارے : اسلام امن کو وعظ و تلقین تک محدود نہیں رکھتا بلکہ اس کے قیام کے لیے بہترین ادارے بھی وجود میں لاتاہے۔ ان اداروں میں خاندان اہم ترین ادارہ ہے کہ یہیں سے شفقت ومحبت ہی نہیں تزکیہ وتربیت کے چشمے پھوٹتے ہیں۔ دوسرا اہم ادارہ مسجد ہے جوکہ ایک محلے کو وحدت کی لڑی میں پرو دیتا ہے، اور جہاں دن میں پانچ مرتبہ اہل محلہ ملتے اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں۔ تیسرا اہم ادارہ مکتب، یعنی نظام تعلیم ہے۔ تعلیم ہی ایک بہترین انسان وجود میں لاتی ہے، جو ایثار و قربانی کا پیکر اور انسانی حقوق کا عملی محافظ ہوتاہے۔ چوتھا اہم ادارہ ریاست ہے کہ ریاست ہی بنائو بگاڑ کا مرکز ہوتی ہے۔ ریاست ہی نظام تعلیم تشکیل دیتی اور میڈیا کو اخلاقی ضابطوں کا پابند بناتی ہے۔ ریاست ہی اپنے اداروں، پولیس، فوج اور عدلیہ کے ذریعے معاشرے میں امن قائم اور انصاف فراہم کرتی ہے۔ اسلامی ریاست اگرچہ انعام خدا وندی ہے۔ لیکن اہل ایمان کو انعام کا انتظار کرنے کے بجاے اس انعام کا حق دار بننے کی تلقین کی گئی ہے۔ یہی مقصدِ بعثتِ رسول ؐ ہے: ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ ط وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیْدًا o (الفتح ۴۸:۲۸) ’’وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اُس کو پوری جنسِ دین پر غالب کردے اور اس حقیقت پر اللہ کی گواہی کافی ہے‘‘۔
  •  امن و سلامتی کی تعلیمات: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امن و سلامتی کا ماحول پیدا کرنے کے لیے جہاں بہترین تعلیمات دی ہیں، وہاں انماالمؤمنون اخوہ کا فرمان ربی پہنچایا ہے، اور المسلم اخو المسلم کہہ کر بتادیا ہے کہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ مسلمان کو گالی دینا فسق اور اسے بے گناہ قتل کرنا کفر قرار دیا ہے۔ ومن یقتل مومنا معتمداً فجزاؤہ جہنم کہہ کر قاتل کا ٹھکانہ جہنم قرار دیا ہے۔ ایک انسان کے قتل کوپوری انسانیت کا قتل کہاگیاہے۔ بتادیا ہے کہ خود کشی حرام موت ہے۔ ایک مسلمان کی حرمت کو خانۂ کعبہ کی حرمت سے بھی زیادہ اہم قرار دیا ہے۔ فرمایا کہ جس کسی نے ہم میں سے کسی پر ہتھیار اٹھایا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ اسی طرح فرمایا کہ پوری دنیاکا تباہ وبرباد ہوجانا اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک مومن کے ناحق قتل ہونے سے ہلکا ہے۔ ذمی یا معاہدکے ناحق قاتل کے لیے فرمایا کہ وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پائے گا، حالانکہ اس کی خوشبو ۴۰ سال کی مسافت سے محسوس کی جاسکتی ہے۔
  •  امن وسلامتی کا ماحول: ان تعلیمات کے ساتھ ساتھ امن و سلامتی کے ماحول کو پیدا کرنے کے لیے نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا کہ اپنے درمیان سلام کو عام کرو۔ سلام کیا ہے؟ سلامتی کی دعا اور جواب دعاہے۔ دوسرے کے لیے سلامتی کی خواہش و تمنا کا اظہار ہے۔ جس معاشرے میں دن رات کروڑوں انسان ایک دوسرے کے لیے سلامتی کی دعائیں مانگتے ہوں وہاں بدامنی اور قتل وغارت کیسے ہوسکتی ہے۔ ہرمسلمان کے دوسرے پر چھے حق بیان کیے گئے ہیں۔ اس میں سلام اور اس کا جواب، چھینک پر الحمد للّٰہ اور یرحمک اللّٰہ کا اظہار،بیمار کی تیمارداری،جنازے میں شرکت وغیرہ شامل ہیں۔ مسکراہٹ کو صدقہ اور کارعبادت قرار دے کر مسلمانوں کے معاشرے کو مسکراتے ہوئے چہروں کا معاشرہ بنادیا ہے۔
  •  بھترین عدالتی نظام اور کڑی سزائیں : قیام امن میں اہم ترین حصہ عدالتی نظام کا ہوتاہے۔ اسلام نے بہترین عدالتی نظام دیا ہے جس میں عدلیہ کی آزادی، اراکین عدلیہ کی صفات، عدالتی طریقۂ کار،قانون شہادت، غرضیکہ ہر پہلو کو بہترین انداز میں مفصل بیان کیا گیا ہے۔ اِعْدِلُوْا قف ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰیز (المائدہ ۵:۸) ’’عدل کرو، یہ خداترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے‘‘، کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْط (النساء ۴:۱۳۵) ’’انصاف کے علَم بردار بنو‘‘، وَ اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْل ط (النساء ۴:۵۸) ’’اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو‘‘، اور دیگر آیات کے ذریعے عدل وانصاف پر بہت زیادہ زور دیاگیاہے۔ اسی طرح اسلام نے چوری، ڈکیتی، رہزنی،بدکاری،بہتان طرازی،شراب نوشی، فساد فی الارض،دہشت گردی وغیرہ جیسے جرائم کے لیے سخت ترین اور عبرت ناک سزائیں مقرر کی ہیںتاکہ چند افراد کی سزائوں کے نتیجے میں پورا معاشرہ امن و سلامتی کا گہوارہ بن جائے۔
  •  پاکستان میں اسلامی نظام کا قیام :پاکستان میں پایدار امن صرف اسلامی نظام کے نفاذ کے ذریعے ہی قائم ہوسکتاہے۔ اسلامی نظام کا نفاذ قیام پاکستان کا مقصد وجود، آئین پاکستان کا لازمی تقاضا اور قرارداد مقاصد کا عملی پہلو ہے، نیز اہالیان پاکستان کی تمنائوں کا مرکز ہے۔ اسلامی نظام کے قیام میں کوئی آئینی رکاوٹ نہیں کہ آئین پاکستان اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کا اعلان بھی کرتاہے، اور پاکستان میں اسلام کو سرکاری مذہب بھی قرار دیتاہے۔ اسی طرح اسلامی نظریاتی کونسل نے کم وبیش تمام مروجہ قوانین پر قرآن وسنت کی روشنی میں نظرثانی اور تدوینِ نو کا کام بھی مکمل کرلیا ہے۔ اب اگر اہالیان پاکستان اپنے ووٹ کی طاقت کے ذریعے قرآن وسنت کی عملی بالادستی کا راستہ ہموار کردیں، تو ان شاء اللہ پاکستان امن کا گہوارہ بن جائے گا۔ امن کے قیام کے لیے قانون کی حکمرانی، امریکی بالادستی اور مداخلت کے خاتمے، ڈرون حملوں کی فوری بندش جو کہ نفرت اور اشتعال انگیزی کا باعث بن رہے ہیں، اور اس ضمن میں پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے تو درپیش فوری مسائل کو حل بھی کیا جاسکتا ہے اور اسلامی نظام کے قیام کی منزل بھی قریب آسکتی ہے۔ (مقالہ نگار نائب قیم جماعت اسلامی پاکستان ہیں)

 

 

 

 

موت کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ سب کے ساتھ یکساں معاملہ کرتی ہے اور بڑے اور چھوٹے، امیروغریب، عالم اور عامی، حکمران اور محکوم، سب کو برابر کردیتی ہے۔ اس حقیقت کو انگریزی محاورے death, the great leveler کے مختصر جملے میں بیان کیا گیا ہے،لیکن اس کلیے میں ایک دوسری حقیقت کو نظرانداز کردیا گیا ہے کہ موت وہ حقیقت بھی ہے جو جہاں سب کو زمین کی آغوش میں ہمیشہ کی نیند سلادیتی ہے، وہیں کچھ نفوس ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو موت ہی زندۂ جاوید بنادیتی ہے___ جن کی یاد حرزِ جاں بن جاتی ہے اور جن کے جلائے ہوئے چراغ روشنی کے مینار بن کر تاریکیوں کو مسلسل چھانٹنے اور فضا کو منور کرنے کا کام انجام دیتے ہیں، جو ہمارے درمیان سے اُٹھ کر بھی ہم سے دُور نہیں ہوتے    ؎

موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
یوں تو دنیا میں سبھی آتے ہیں مرنے کے لیے

۲۷ فروری ۲۰۱۱ء کو عالمِ اسلام کی ایک ایسی ہی تاریخ ساز شخصیت اور ترکی میں اسلامی احیا کی جدید انقلابی تحریک کا میر کارواں پروفیسر نجم الدین اربکان بظاہر ہم سے رخصت ہوگیا، لیکن ترکی ہی نہیں، عالمِ اسلام میں روشنی کے ایسے چراغ جلا گیا جو تاریخ کی تاریک راہوں کو مدتوں منور رکھیں گے! ___ ان شاء اللہ تعالیٰ!

  •  نظریاتی کش مکش: ۲۰ویں صدی میں ترکی کی تاریخ پر اپنے اَنمٹ نقوش چھوڑنے والوں میں چار شخصیات نمایاں ہیں: سلطان عبدالحمید ثانی جو دولتِ عثمانیہ کا آخری چراغ تھا اور اپنی ۳۳سالہ جدوجہد (۱۸۷۶ء-۱۹۰۹ء) کے باوجود چھے صدیوں پر پھیلی ہوئی اس عالمی اسلامی قوت کو اندرونی انتشار اور بیرونی یلغار سے نہ بچا سکا۔ پھر ترکی کے اُفق پر مصطفی کمال پاشا نمودار ہوا جس نے اپنی جدوجہد کا آغاز تو اسلام کے اس آخری حصار کو بچانے اور یورپ کی استعماری قوتوں کی فوج کشی کا مقابلہ کرنے سے کیا اور عالمِ اسلام نے اسے ایک نجات دہندہ سمجھ کر غازی اور اتاترک کا خطاب دیا، لیکن فوجی محاذ پر یورپی اقوام کے دانت کھٹے کرنے اور ترک قوم  اور اناطولیہ کی سرزمین کو استعمار کی گرفت سے بچالینے کے بعد مغربی تہذیب و تمدن اور مغرب کے اندازِ سیاست کا ایسا اسیر بنا کہ دین اور سیاست کے رشتے کو پارہ پارہ کردیا۔ ترک قومیت کو اسلامی شناخت پر غالب کرنے کی کوشش کی۔ ۱۹۲۳ء میں ترک ری پبلک کے قیام کا اعلان کیا اور ۱۹۲۴ء میں خلافت کی قبا کو بھی تارتار کردیا، اور پھر ۱۹۲۷ء میں ترکی کو ایک لادینی ریاست بنانے اور مذہب کو اجتماعی زندگی کے ہر شعبے سے خارج کرنے، حتیٰ کہ قرآن پاک اور اذان کو بھی ترکی زبان کے سانچے میں ڈھالنے کی جسارت کی۔ عربی رسم الخط کو خلافِ قانون قرار دیا اور مغربی قوانین، علوم و افکار اور معیشت، سیاست، تعلیم، ادب اور معاشرت کے ہرمیدان میں مغرب کی نقالی کا راستہ اختیار کیا۔ جمہوریت کا لبادہ ضرور اوڑھا مگر فی الحقیقت ایک پارٹی اور ایک شخص کی آمریت قائم کی اور یہ سلسلہ ۱۹۳۸ء تک جاری رہا۔

مصطفی کمال کے انتقال کے بعد بھی نظامِ زندگی انھی خطوط پر چلتا رہا، البتہ دوسری    جنگ ِعظیم کے بعد عوام کو کچھ جمہوری آزادیاں ملیں۔ سیاست میں اتاترک کی ری پبلکن پارٹی ہی کے بطن سے ڈیموکریٹک پارٹی نے جنم لیا اور عدنان میندریس کی قیادت میں دو پارٹی نظام اور دستوری حکومت کا ایک گونہ آغاز ہوا جس کے نتیجے میں عوام کو اپنے دینی اور تہذیبی جذبات کے اظہار کا کچھ موقع ملا۔ دینی شعائر پر جو پابندیاں تھیں وہ کم ہوئیں، اذان عربی زبان میں بحال ہوئی، قرآن اور دینی کتب سے رجوع بڑھا، دینی مدارس کا احیا امام خطیب اسکول کی شکل میں ہوا، اور اس طرح ترکی نے اپنی اصل شناخت کی طرف مراجعت کے سفرِ نوکا آغاز کیا۔ سیکولرنظام میں دراڑیں پڑنے لگیں اور اسے ’خطرے کی گھنٹی‘ سمجھتے ہوئے ملک کی سیکولر قوتوں نے، جن کے چار ستون فوج، بیوروکریسی، عدالت اور میڈیا تھے، مغربی اقوام کی مدد سے ترکی کی خود اپنی دینی اور تہذیبی شناخت کے خلاف ایک نئی کش مکش اور تصادم کو فروغ دیا جس نے قوم کی صلاحیتوں کو بڑا نقصان پہنچایا۔ عدنان میندریس کو پھانسی دی گئی اور ۱۹۶۰ء سے فوجی انقلابات کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا جس کا آخری مظہر فروری ۱۹۹۷ء کی فوجی مداخلت تھی۔

۲۴-۱۹۲۳ء سے ۱۹۹۷ء تک کے نظریاتی کش مکش کے اس دور میں عدنان میندریس کے چندسالہ شعلے کے علاوہ جن دو شخصیات نے تاریخ کے رُخ کو موڑنے کا کام کیا ان میں سب سے نمایاں بدیع الزماں سعید نورسی (۱۸۷۶ء-۱۹۶۰ء) اور نجم الدین اربکان (۱۹۲۶ء- ۲۰۱۱ء) ہیں۔ سعید نورسی نے شروع میں اتاترک کا ساتھ دیا لیکن جب اس نے سیکولرزم اور مغرب کی تقلید کا راستہ اختیار کیا، قومیت کے سیکولر تصور کو قوت کے ذریعے مسلط کرنے کی کوشش کی، اور اسلام کو اجتماعی زندگی سے بے دخل کرنے کا ایجنڈا شروع کیا، تو سعید نورسی نے اسے چیلنج کیا اور قیدوبند کی صعوبتیں جھیلیں لیکن اسلام کی بنیادی دعوت اور پیغام کو زندہ رکھا اور تصوف کے سلسلۂ نقشبندی کے فروغ، دینی مدارس کے قیام اور اپنے خطوط اور تحریروں کے ذریعے اسلام کی شمع کو روشن اور     عام آبادی کو دین سے وابستہ رکھنے کی خدمت انجام دی۔

  •  اربکان کا مشن:نجم الدین اربکان نے ان دعوتی اور روحانی کوششوں کو اپنے انداز میں مضبوط اور مستحکم کرنے کے ساتھ دین کے اجتماعی زندگی میں کردار کے احیا کو اپنا مشن بنایا، اور نہایت مشکل حالات میں بڑی حکمت و دانش مندی اور صبرواستقامت کے ساتھ ترکی کو اس کی دینی اور تہذیبی شناخت کے احیا اور اُمت مسلمہ سے ایک بار پھر جڑ کر طاقت کی نئی قوت کے حصول کے راستے پر ڈالا۔ اس کے ساتھ انھوں نے ترکی کو مغرب کی سیاسی، معاشی اور تہذیبی غلامی سے نکال کر خودانحصاری اور ملّت اسلامیہ سے دوبارہ جڑنے اور مربوط ہونے کے نئے تاریخی سفر کا آغاز کیا۔

علامہ اقبال نے مصطفی کمال پاشا کے لادینی نظام کے تجربے کے بارے میں جو گِلہ کیا تھا، نجم الدین اربکان نے اپنی ۴۰سالہ جدوجہد سے تاریخ کے رُخ کو موڑنے کا انقلابی کارنامہ انجام دیا۔ اقبال نے ترکی کے انقلابِ معکوس کے بارے میں کہا تھا    ؎

نہ مصطفی نہ رضا شاہ میں نمود اس کی
کہ روحِ شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی

اور یہ کہ    ؎

لادینی و لاطینی ، کس پیچ میں اُلجھا تو
دارو ہے ضعیفوں کا ، لا غَالِبَ اِلاَّ ھُوَ

اللہ تعالیٰ نے جس شخص کو روحِ شرق کو ایک بار پھر جسدِ ترکی میں بیدار کرنے کی سعادت بخشی، وہ پروفیسر نجم الدین اربکان ہیں۔

نجم الدین اربکان ۲۹ ؍اکتوبر ۱۹۲۶ء کو بحراسود کے ساحل پر واقع ایک پُرفضا شہر سینوپ (Sinop) میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محمد صابری دولت عثمانیہ میں جج کے عہدے پر فائز تھے۔ ابتدائی تعلیم طرابزون(Trabzon) میں اور ہائی اسکول کی تعلیم استنبول کے جدید طرز کے مدرسے Istanbul Lisrei میں ہوئی۔ پھر استنبول ٹیکنیکل یونی ورسٹی میں میکنیکل انجینیرنگ میں امتیاز کے ساتھ اعلیٰ تعلیم حاصل کی جس کی تکمیل جرمنی کی RWTH Aachen University میں ہوئی جہاں سے انھوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ نیز عملی تجربہ حاصل کرنے کے لیے جرمنی کی  ایک بڑی موٹر کمپنی Humbolt Dentzمیں کئی سال کام کیا اور اپنی مہارت کا لوہا منوایا۔ ڈیزل انجن ڈیزائن کے میدان میں نئی دریافت سامنے لائے، اور اُس ٹیم کے چیف انجینیر کی حیثیت سے خدمات بھی انجام دیں جس نے جرمنی کے مشہور Leopard IA Tankکو ڈیزائن کیا۔ اس  اعلیٰ تعلیمی اور تجرباتی ریکارڈ کے ساتھ ترکی واپس آکر استنبول ٹیکنیکل یونی ورسٹی میں ۱۹۵۳ء سے ۱۹۶۵ء تک تدریس کے فرائض انجام دیے اور پروفیسر کے درجے پر مامور رہے۔ اس زمانے میں ترکی میں موٹر انڈسٹری کے فروغ کے لیے بھی سرگرم رہے، اہم صنعتی اداروں میں بحیثیت مشیر کام کیا اور بالآخر ترکی کی صنعت و تجارت کے اعلیٰ ترین ادارے یونین آف چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے جنرل سیکرٹری اور ڈائرکٹر جنرل کی ذمہ داریوں پر فائز رہے۔ اس زمانے میں انھیں ملک کے بااثر معاشی اداروں سے قریبی تعلقات استوار کرنے کا موقع ملا اور ان کے بڑھتے ہوئے اثرونفوذ سے خائف ہوکر ان کے ایک سابق کلاس فیلو اور برسرِاقتدار حکمران سلیمان ڈیمرل نے چیمبر سے ان کو فارغ کر دیا۔ یہی وہ موڑ تھا جب نجم الدین اربکان نے عملی سیاست میں شرکت کا فیصلہ کیا۔

  •  ملّی گورش کا قیام: ۱۹۶۹ء میں انھوں نے دو بڑے اہم فیصلے کیے۔  اسلام کو سمجھنے اور اس کی روشنی میں فرد اور معاشرے کی تشکیلِ نو کے لیے نوجوانوں کی ایک منظم تحریک کا قیام جسے ’ملّی گورش‘ کا نام دیا گیا۔ اس موقع پر اسی نام سے اربکان نے اپنی پہلی تحریر قوم کے سامنے پیش کی جو ان کا منشور بن گئی۔ ترکی کی اسلامی تحریک کا منبع اور محور نوجوانوں کی یہی تنظیم ہے۔ چونکہ ترکی قانون کی رُو سے اسلام کا نام استعمال نہیں ہوسکتا، اس لیے اربکان نے ملّت کی اصلاح کو اپنے سارے اجتماعی اور دعوتی کام اور نظامِ حق کو اپنے فکری کام کا ذریعہ بنایا ہے۔ ملّی گورش اس وقت ترکی کے جوانوں کی اہم ترین تنظیم ہے جس کا سارا زور فکری بنیادوں کو مستحکم کرنے اور اخلاقی، روحانی اور اجتماعی تربیت کے اہتمام اور نوجوانوں میں دعوت اور روحِ جہاد کو منظم انداز میں ترقی دینے پر ہے۔ اس سلسلے میں ملّی گورش نہ صرف ترکی کے طول و عرض میں بلکہ جرمنی اور دیگر ایسے  تمام ممالک میں بھی (جہاں جہاں ترک موجود ہیں) نوجوانوں کی سرگرمیوں کو منظم کرتی ہے۔ مزیدبرآں استنبول کے اسلامی قلمرو میں آنے کی مناسبت سے ہر سال ۲۹مئی کو ’یومِ فاتح‘ کے عنوان سے ایک سالانہ تقریب کا اہتمام کرتی ہے جس میں ترکی سے لاکھوں افراد شریک ہوتے ہیں اور عالمِ اسلام سے بھی اہم اسلامی شخصیات اس میں شرکت کرتی ہیں۔ محترم قاضی حسین احمد اور مجھے اس میں کئی بار شرکت کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔ ان تاریخی اجتماعات میں پورا اسٹیڈیم لوگوں سے بھرا ہوا ہوتا تھا، اربکان اپنے خاص مہمانوں کے ساتھ پورے اسٹیڈیم کا چکر لگاتے اور ان کا استقبال ’مجاہد اربکان‘ کے فلک شگاف نعروں سے ہوتا تھا۔ اربکان نے اس کے ساتھ خدمتِ خلق کے دو اہم ادارے قائم کیے: جان سویو اور آئی ایچ ایچ، جن کے ذریعے ترکی اور پوری دنیا میں خدمت خلق کا ایک عالمی نیٹ ورک قائم کیا۔
  •  نظریاتی سیاست اور جدوجھد: اربکان نے ترکی پارلیمنٹ کے ۱۲؍اکتوبر ۱۹۶۹ء کے انتخابات میں بطور آزاد رکن حصہ لیا اور کامیابی حاصل کی۔ یہاں سے اسلام کی بنیاد پر نظریاتی سیاست اور اجتماعی تبدیلی کی جدوجہد کا آغاز ہوا۔ ایک سال پارلیمنٹ میں اپنا لوہا منوانے کے بعد ’ملّی نظام پارٹی‘ کے نام سے پہلی نظریاتی پارٹی قائم کی، جس کے وہ سربراہ تھے۔ اس کے قیام کے ساتھ ہی سیکولر نظام اقتدار اور مغربی اقوام میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ فوج حرکت میں آگئی۔ ملّی نظام پارٹی کو خلافِ قانون قرار دے دیا گیا لیکن نجم الدین اربکان نے سیکولرزم کے ہروار کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ چار بار ان کی جماعت کو خلافِ قانون قرار دیا گیا اور ہر بار وہ     نئے روپ میں اور زیادہ طاقت ور حیثیت سے نمودار ہوئے۔ ایک موقع پر جمہوریت کے مسلّمہ اصولِ جماعت سازی کے حق کی بنیاد پر ترکی کے عدالتی نظام کا پول کھولنے کے بعد جمہوریت کی  علَم بردار یورپین عدالت میں بھی انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے مقدمہ لڑا ۔ اس طرح ساری دنیا کے سامنے اس کا دوغلاپن الم نشرح کر دیا کہ جمہوری یورپ کو اسلام کے نام کے بغیر بھی اسلامی شناخت کو اُجاگر کرنے والی سیاسی جماعت پر پابندی میں کوئی چیز جمہوریت اور انسانی اور سیاسی حقوق کے خلاف نظر نہیں آتی، اور اس نے بھی پوری ڈھٹائی سے ترکی کی عدالت کے فیصلے کی توثیق کردی۔ اربکان نے ملّی نظام پارٹی کے بعد نام بدل بدل کر یکے بعد دیگرے ملّی سلامت پارٹی، رفاہ پارٹی، سعادت پارٹی اور فضیلت پارٹی کے نام سے سیکولر قوتوں اور فوجی قیادت کے ہر وار کے بعد نئی جماعت قائم کی، اور اس طرح مسلسل جدوجہد کرتے ہوئے ترکی کی سیاسی فضا کو بدل کر رکھ دیا۔ ان کا حال یہ رہا کہ    ؎

جہاں میں اہلِ ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے

اللہ اپنے جس بندے سے جو کام لینا چاہتا ہے ، لے لیتا ہے۔ نجم الدین اربکان ترکی کی تاریخ کا رُخ ایک بار پھر اسلام اور اُمت مسلمہ کی طرف موڑ کر دنیا سے رخصت ہوئے ہیں۔     وہ ۱۹۷۰ء سے ۱۹۹۷ء تک (ماسوا اُن ادوار کے، جب وہ قید میں تھے یا ان پر سیاست میں   شرکت کرنے پر پابندی تھی) پارلیمنٹ کے رکن اور ایک اہم سیاسی پارٹی کے قائد رہے۔ دو بار نائب وزیراعظم اور ایک بار وزیراعظم رہے۔ آخری ۱۰، ۱۲ سال ان پر بہت سخت گزرے لیکن وہ ہمت ہارنے والوں میں سے نہ تھے۔ مخالفین کے وار تو وہ ہمیشہ سہتے ہی رہے لیکن اس دور میں ان کو اپنوں سے بھی دُکھ پہنچے۔ اس کے باوجود ان کے پاے استقامت میں لغزش نہیں آئی۔ اکیسویں صدی میں ترکی کے کردار پر جس شخص کا سب سے نمایاں اثر ہے، اور رہے گا وہ نجم الدین اربکان ہیں۔ ان کی بعض آرا یا اقدام کے بارے میں دو رائیں ہوسکتی ہیں لیکن ان کے تاریخ ساز کارناموں کا اعتراف دوست اور دشمن سبھی کر رہے ہیں اور مستقبل کا مؤرخ یہ لکھنے پر مجبور ہوگا کہ اربکان کی ۴۰سالہ نظریاتی، اخلاقی اور سیاسی جدوجہد نے ترکی کے سیاسی اور تہذیبی سفر کے رُخ کو تبدیل کر دیا ہے۔

نجم الدین اربکان سے میرے تعلقات کی داستان بھی نصف صدی پر پھیلی ہوئی ہے۔ ہماری پہلی ملاقات کراچی میں اس وقت ہوئی جب ۱۹۶۷ء میں وہ ترکی کے چیمبر آف کامرس   اینڈ انڈسٹری کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے پاکستان کے سرکاری دورے پر آئے ہوئے تھے۔  وہ بڑے اشتیاق سے اسلامک ریسرچ اکیڈمی کے دفتر، واقع ناظم آباد میں تشریف لائے۔ پھر ہماری ملاقاتیں اسلامک کونسل آف یورپ کے اجتماعات میں بڑی باقاعدگی اور تسلسل سے ہوتی رہیں۔ میں نے ۱۹۶۶ء سے ۲۰۰۷ء تک ۱۰، ۱۵ مرتبہ ترکی کا دورہ کیا اور ہربار ان سے ملنے کا موقع ملا، حتیٰ کہ جب وہ نظربند تھے اس وقت بھی مجھے ان سے ملنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ ۱۹۹۰ء کی جنگِ خلیج کے موقع پر ،عالمی تحریکات کے وفد میں وہ ہمارے ساتھ تھے۔ اس وفد میں شامل محترم قاضی حسین احمد، ڈاکٹر حسن ترابی، راشد الغنوشی اور دنیا کی اسلامی تحریکات کے ۱۵قائدین نے اُردن، عراق، سعودی عرب اور ایران کا دورہ کیا تھا، تاکہ عرب دنیا کو اس تباہ کن جنگ سے بچایا جاسکے جس کے بادل منڈلا رہے تھے اور جو استعماری ایجنڈے کا اہم حصہ تھی۔ اربکان صاحب نے جماعت اسلامی کی دعوت پر پاکستان کا دورہ بھی کیا۔ میری آخری ملاقات ان سے ۲۰۰۷ء میں ہوئی جب انھی کی دعوت پر ان کی رہنمائی میں کام کرنے والے تحقیقی ادارے Essam کی سالانہ کانفرنس میں مَیں نے کلیدی خطاب کی خدمت انجام دی تھی۔

پروفیسر نجم الدین اربکان کے بارے میں اپنے ذاتی تجربے، اور حالات کے بہ چشم سر مطالعہ کرنے کے بعد جو چند باتیں میں اس موقع پر کہنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہیں:

  •  مغرب کی تھذیبی غلامی سے نجات: سب سے اہم چیز پروفیسر نجم الدین اربکان کا وژن ہے جسے سمجھنا ضروری ہے۔ وہ ایک نابغۂ روزگار شخصیت تھے۔ انھیں اچھے خاندان، اچھی تعلیم و تربیت اور اچھے ابتدائی تجربات کی نعمت حاصل تھی لیکن سب سے اہم چیز ان کا یہ احساس تھا کہ وقت کی سب سے اہم ضرورت ترکی اور عالمِ اسلام کو مغرب کی تہذیبی غلامی سے نکال کر ایک بار پھر اسلام کی شاہراہ پر گامزن کرنا ہے، اور یہ کام اجتہادی بصیرت کے ساتھ ان حالات کے پورے ادراک کے ساتھ انجام دینا ہے جن میں اس وقت ترکی اور پورا عالمِ اسلام گھِرا ہوا ہے۔

ان کی زندگی کا پہلا دور اپنی اور اپنے ساتھیوں کی تیاری کا تھا۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ وہ دین کا علم بھی رکھتے تھے۔ روحانی اور اخلاقی اعتبار سے انھوں نے اپنے کو اس طرح تیار کرلیا تھا کہ مستقبل کے چیلنج کا مقابلہ کرسکتے تھے، جیساکہ اقبال نے کہا تھا    ؎

ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکرِ خاکی میں جاں پیدا کرے

نقشبندی سلسلے سے ان کا گہرا تعلق تھا۔ عبادات میں شغف اور تواضع اور خدمت ان کی شخصیت کے دل رُبا پہلو تھے۔ بلاشبہہ انھیں اپنی راے پر بہت بھروسا ہوتا تھا لیکن خوش اخلاقی اور دوسروں کے ساتھ شفقت ان کے کردار کے نمایاں پہلو تھے۔ ان کے فکری کام کا ترکی سے باہر کے علمی حلقوں کو اندازہ نہیں لیکن اس میدان میں بھی ان کی اپنی خدمات کسی سے کم نہیں۔ خود ایک درجن کتابوں کے مصنف تھے اور درجنوں افراد کو تحقیق اور علمی کاموں پر لگانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ میکنیکل انجینیرنگ کے فطری اور عملی دونوں پہلوئوں پر ان کو مکمل عبور تھا، اور بات گہری سوچ اور  عملی تجربات کی روشنی میں کرتے تھے۔

  •  سیکولر نظام میں تبدیلی کی حکمت عملی: ان کا ایک اور بڑا کارنامہ ایک استبدادی سیکولر نظام کے دائرے میں رہتے ہوئے تبدیلی کی راہیں استوار کرنا ہے۔ انھوں نے تبدیلی کے لیے فکری، دعوتی، اخلاقی اور جمہوری راستہ اختیار کیا۔ چونکہ اسلام کے نام پر کام مشکل تھا، اس لیے انھوں نے ایک طرف تو ممکنہ حد تک اسلامی علوم اور افکار کی اشاعت کا اہتمام کیا، اور دوسری طرف دعوتِ اسلامی کو دو نئی اصطلاحات اور عنوانات ’ملّت‘ اور ’حق‘ کے تحت اسلام ہی کی خالص دعوت کو پیش کیا۔ اس طرح ان زنجیروں کو کاٹ دیا جو سیکولر قوانین نے ترک قوم کو پہنا دی تھی۔

انھوں نے سیاسی اور نظریاتی تنظیم کا بھی ایک نیا اسلوب اختیار کیا۔ ملّی گورش کو ایک فکری، نظریاتی اور تہذیبی تحریک کے طور پر منظم اور متحرک کیا۔ خدمت کے میدان میں الگ ادارے بنائے، اور خود سیاسی جماعت کے تصور کو بدل کر رکھ دیا جس میں نظریاتی سیاست اور عوامی خدمت اور فلاح کو مرکزی حیثیت دی گئی۔ طاقت ور اور مفاد پرست طبقوں کے طلسم کو عوامی رابطے،   خدمتِ خلق اور معاشرے اور معیشت کی نئی اُبھرتی ہوئی قوتوں کو منظم کرنے اور اپنی جدوجہد میں  اپنا دست و بازو بناکر توڑا۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں تنظیم کی بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا، اور انھوں نے ان کا بھرپور استعمال کیا۔ روایت پرستی کی جگہ جدت اور سیاست کو ایک نیا آہنگ دیا جس میں عوامی مسائل کو مرکزیت دی گئی۔ مقامی حکومتوں (لوکل باڈیز) کو انھوں نے اپنی سیاسی قوت کی بنیاد بنایا۔ انقرہ اور اِزمیر کے روایتی مراکزِ قوت (power-centres) کے مقابلے میں استنبول جیسے بڑے شہر اور پھر ملک بھر کے شہروں اور قصبات میں اپنی تنظیم کے تنظیمی ڈھانچے قائم کیے۔ بورسا کا تاریخی علاقہ ان کی قوت کا بڑا مرکز بن گیا۔ ۱۹۶۹ء میں صرف ایک نشست پارلیمنٹ میں لینے والے مجاہد نے ۱۹۷۳ء میں ملک کے کُل ووٹوں کا ۱۲ فی صد حاصل کر کے اسمبلی میں ۴۸ نشستیں حاصل کیں۔ ۱۹۸۵ء میں ووٹوں کی تائید گر کر ۷ فی صد رہ گئی لیکن پھر ۱۹۹۵ء میں ۲۱ فی صد ووٹوں کی بنیاد پر اتنی نمایندگی پارلیمنٹ میں حاصل کرلی کہ ایک دوسری جماعت سے اشتراک کی بنیاد پر وزیراعظم کے منصب پر فائز ہوسکے۔ آج کی جسٹس اینڈ ڈائیلاگ پارٹی خواہ ان سے جدا ہوچکی ہے مگر جو کچھ اس نے حاصل کیا ہے، وہ اُسی درخت کا پھل ہے جو پروفیسر نجم الدین اربکان نے لگایا تھا۔

بلاتمثیل یورپ کی تاریخ کا ایک دور ذہن کے اُفق پر اُبھر رہا ہے جس میں کارل مارکس نے اشتراکیت کا فلسفہ بڑی قوت کے ساتھ پیش کیا اور سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادوں کو ہلاکر رکھ دیا۔  عالمی کمیونسٹ تحریک کا بانی بنا اور عالمی انقلاب کی پیش گوئیاں کیں لیکن ۳۰سال کی جدوجہد کے بعد اس کی تحریک ایک فکری لنگر کی طرح تو موجود رہی مگر یورپ کی سیاست میں ارتعاش پیدا نہ کرسکا۔ البتہ اس کی خواہش کے علی الرغم خود اس کی ہی فکر کے بطن سے جرمنی میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی وجود میں آئی، اور مغربی یورپ میں سوشل ڈیموکریسی کی سیاسی لہر اُبھرتی چلی گئی جس نے مارکس کے افکار سے اپنا رشتہ تو باقی رکھا مگر تبدیلی کے لیے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ مارکس نے اس سے براء.ت کا اظہار کیا اور اپنی آخری تحریر Critique of the Gotha Programme (1883)  میں اس پر کڑی تنقید کی، البتہ سوشل ڈیموکریٹس کا ردعمل کچھ یوں تھا    ؎

اس نے اپنا بنا کے چھوڑ دیا
کیا اسیری تھی، کیا رہائی ہے

ترکی کی دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں میں بھی وہی تمام خصوصیات تھیں جو خصوصیت سے ترقی پذیر ممالک کی سیاست کی پہچان بن گئی ہیں، یعنی بااثر طبقات کا تسلط، میڈیا، فوج اور بیورکریسی کا کلیدی کردار، مغربی اقوام کی کاسہ لیسی اور ان ملکی اشرافیہ اور مغربی حکمرانوں کا گٹھ جوڑ، نیز عوام کا استعمال اور استحصال۔ نجم الدین اربکان نے متوسط طبقات کو زبان اور سیاسی کردار دیا۔  یہ انھی کی سوچ اور مساعی کا حاصل ہے کہ متوسط اور چھوٹے تاجر اور زراعت سے متعلق افراد متحرک ہوئے اور سیاسی مرکزی دھارے میں آگئے۔ ان کی تاریخی خدمات میں دینی شناخت کو ترکی قوم کی شناخت کی حیثیت سے اُبھارنا اور مغرب سے اچھے تعلقات کو نظرانداز نہ کرتے ہوئے بھی شعوری طور پر علاقائی ممالک اور عرب اور اسلامی دنیا سے تعلقات کو استوار کرنا اور اجتماعی مفادات کے نئے رشتوں کو استوار کرنا، سرمایہ دارانہ نظام پر تنقید اور مغرب کی معاشی اور سیاسی بالادستی کے چنگل سے نکلنے کی راہیں تلاش کرنا نمایاں ہیں۔ قومی مفاد پر کسی سمجھوتے کو راہ نہ پانے دینا، عوام سے رابطہ اور ان کی حکومت کو سیاسی جدوجہد کا حصہ بنانا، اور اس کے ساتھ اسلام کو زندگی کی صورت گری کرنے والی ایک قوت کی حیثیت سے پیش کرنا، اور یہ بتانا کہ جس طرح نماز اور روزہ اسلامی زندگی کا لازمی حصہ ہیں اسی طرح اجتماعی عدل، سماجی تعلقات اور کرپشن سے پاک سیاست بھی اسلام کا تقاضا ہے۔ سود ایک لعنت ہے، اس سے نجات اخلاقی ہی نہیں ایک معاشی ضرورت بھی ہے۔ مغربی سامراج اور صہیونی ایجنڈے کا مقابلہ کرنا بھی سیاسی جدوجہد کا اہم حصہ ہے___ یہ سب باتیں وہ ہیں جو ترکی کی سیاسی قیادت بھول چکی تھی اور قوم کا ایجنڈا مغربی تصورات اور مفادات کی روشنی میں بنایا جا رہا تھا۔ یہ اربکان ہی کی کوششوں کا ثمرہ ہے کہ سیاست کا انداز اور قوم کا ایجنڈا تبدیل ہوگیا ہے۔ گو، اب بھی مخالف قوتیں بڑی مضبوط اور شکست ماننے کو تیار نہیں، لیکن رنگِ محفل بدل گیا ہے۔

نجم الدین اربکان کا یہ بھی ایک کارنامہ ہے جس کا باہر کی دنیا میں لوگوں کو پوری طرح شعور نہیں ہے کہ تین میدانوں میں انھوں نے اپنی قوم کی ایسی خدمت انجام دی ہے جسے کبھی بھلایا نہیں جاسکتا:

  •  سیاست کا نیا آھنگ: سیاست کو مفادات کی سیاست سے کاٹ کر قوم کے عزائم کے مطابق ڈھالنے اور اسے اصولی اور معاشی و معاشرتی موضوعات کے گرد سرگرم کرنا، ان کا نمایاں کارنامہ ہے۔ فوج سے ٹکر لیے بغیر، اور فوج کی تمام دراندازیوں اور زیادتیوں کے باوجود، اور اس کی حقیقی دفاعی قوت کو کم کیے بغیر، سیاست میں اس کی مداخلت کے دروازے بند کرنے کی بڑی حکمت سے کوشش کی۔ جب حالات زیادہ خراب ہوتے دیکھے تو تصادم اور غیر جمہوری حربوں کے استعمال کو سختی سے روکا اور جمہوی اور سیاسی ذرائع ہی کے ذریعے نئی نئی راہیں تلاش کیں، اور وہ کردکھایا جس کی طرف مولانا مودودیؒ نے ۱۹۶۳ء کے جماعت اسلامی کے اجتماع عام کے موقع پر توجہ دلائی تھی: ’’جسے اللہ تعالیٰ نے حکمت اور صبر دونوں سے نوازا ہو، وہ جوے رواں کی طرح ہوتا ہے جس کی منزل کوئی چیز بھی کھوٹی نہیں کرسکتی۔ چٹانیں منہ دیکھتی رہ جاتی ہیں اور دریا کسی اور طرف سے اپنی منزل کی طرف بہہ نکلتا ہے‘‘۔ (رودادِ جماعت اسلامی، ہشتم، ص ۵۵)

سیاست کے آہنگ کو بدلنا کوئی معمولی کارنامہ نہ تھا۔ ان کے مخالف بھی اعتراف کر رہے ہیں کہ ترکی اب وہ نہیں رہا جو اربکان کے سیاست میں آنے سے پہلے تھا۔ امریکا کے بااثر علمی مجلے  فارن پالیسی نے اربکان کے انتقال پر جو نوٹ لکھا ہے اس میں اپنی تمام اگرمگر کے باوجود وہ   یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوا ہے کہ:

ترکی اربکان کے سیاسی ورثے کی وجہ سے اور اس کے باوجود ڈرامائی طور پر     تبدیل ہوچکا ہے۔ بلاشبہہ ترکی کی موجودہ سیاسی کیفیت، اربکان نے ترکی کے سیاسی نظام میں جو کچھ کیا، اس کا بلاواسطہ یا بہت سی صورتوں میں غیرارادی نتیجہ ہے۔  (فارن پالیسی آن لائن، یکم مارچ ۲۰۱۱ء)

اسی مضمون میں آگے چل کر اعتراف کیا گیا ہے:

آج ترکی جو کچھ ہے اس (اربکان) کے بغیر ہونا ممکن نہ تھا۔ ترکی اس کے چھوڑے ہوئے ورثوں کی وجہ سے زیادہ جمہوری اور زیادہ منقسم ہے۔ انھوں نے عوامی ضروریات کو اپیل کرنے اور سماجی تعاون کے حصول کے لیے جو کچھ سکھایا، ترکی کے قائدین اس کے لیے ان کے احسان مند ہیں۔ سیاسی شراکت اور مخالفوں کے ساتھ اشتراکِ عمل کے ان کے طے شدہ طرز نے بھی ان اُمیدوں کو قائم کیا کہ ترکی کے سیاسی نظام میں اسلام کو تعمیری کردار ادا کرنا ہے۔ (ایضاً)

اور اکانومسٹ، لندن یہ لکھنے پر مجبور ہوا ہے کہ:

ان کے سیکولر دشمن ان کو ایک خطرناک مذہبی انقلابی قرار دیتے ہیں، جب کہ انھیں  ترکی کے اسلام پسندوں کے لیے ایک معتدل قوت کی حیثیت سے تسلیم کیا جاتا ہے۔   عرب دنیا ترکی کو ایک ممکنہ ماڈل کے طور پر دیکھتی ہے۔ اربکان کے ورثے کو اب اہمیت حاصل ہے۔ (دی اکانومسٹ، ۳ مارچ ۲۰۱۱ء)

ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ وہی فوج جس نے ہر بار اربکان کا راستہ روکا اور انھیں قید اور نااہلی کی صعوبتوں سے دوچار کیا، اس کا سربراہ جنرل ایسک کوسانور (Isik Kosaner) ان کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہے۔ وال اسٹریٹ جرنل کے الفاظ میں: ’’انھوں نے ہمارے ملک کے لیے سائنس اور سیاست کے میدان میں ایک قیمتی انسان کی طرح عظیم خدمات انجام دیں‘‘۔ (یکم مارچ ۲۰۱۱ء)

کسی نے سچ کہا___ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے!

  •  قبرص میں فوجی مداخلت پر مزاحمت: اربکان کے ایک اور کارنامے کا اعتراف کھلے طور پر نہیں کیا جا رہا۔ ۱۹۷۴ء میں وہ نائب وزیراعظم اور بلند ایجوت وزیراعظم تھے۔ یونان کی فوجی مداخلت کے ذریعے قبرص میں فوجی انقلاب برپا کرنے کی کوشش کی گئی۔ اربکان  ترکی کی طرف سے فوجی کارروائی کے حق میں تھے مگر ایجوت فوج بھیجنے کی ہمت نہیں کر رہا تھا۔ جب اربکان نے کابینہ میں اور کابینہ سے باہر بھی، قبرص پر فوج کشی نہ کرنے کی صورت میں حکومت چھوڑنے کی دھمکی دی، تب ترک فوج کو قبرص کے ترک مسلمانوں کی حفاظت کے لیے بھیجنے کا اقدام ہوا۔ اس طرح اربکان کے تدبر و جرأت اور بروقت اقدام کے نتیجے میں قبرص یونانی کالونی بننے سے بچ گیا، اور ترک قبرص وجود میں آیا۔
  •  معاشی خودانحصاری: اربکان کا تیسرا بڑا کارنامہ ترکی کو یورپ کی معیشت کی گرفت سے نکال کر خودانحصاری کے راستے پر ڈالنا ہے۔ ۱۹۷۰ء کے عشرے میں جب پانچ چھے سال وہ نائب وزیراعظم رہے، اس زمانے کا ایک عظیم کارنامہ ترکی میں ہیوی انڈسٹری کا قیام اور استحکام ہے۔ نیز ترکی میں انقرہ اور اِزمیر کے سرمایہ داروں کا جو تسلط تھا، اس کو توڑنے اور ترکی کے دوسرے علاقوں کے اُبھرتے ہوئے تجارتی اور نئے گروپوں کو معیشت کے مرکزی دھارے میں لانا ہے۔ یہ اسی معاشی پالیسی کا نتیجہ ہے کہ آج ترکی معاشی اعتبار سے اپنے پائوں پر کھڑا ہورہا ہے۔

ترکی میں اسلامی نظامِ بنکاری کو رائج کرنے میں بھی اربکان کا بڑا کردار ہے۔ یہ انھی کا دیا ہوا ماڈل تھا جس کے نتیجے میں سیکولر ملک ہوتے ہوئے بھی بلاسود بنکاری کو قانونی تحفظ اور مواقع حاصل ہوئے۔ ترکی کا افراطِ زر جو ایک زمانے میں ۷۰۰ اور ۸۰۰ فی صد سالانہ تھا، اب ۵ اور ۶ فی صد کے دائرے میں آگیا ہے۔ قرضوں کا بار اب بھی کافی ہے مگر اب معاشی پالیسی بیرونی احکام اور مطالبات کی روشنی میں نہیں، بڑی حد تک ملک کے اپنے حالات اور ترجیحات کے مطابق ترتیب پاتی ہے۔ معاشی زندگی اور جدوجہد کا رُخ بدل گیا ہے اور ان تمام تبدیلیوں میں ترکی قوم کی مساعی کے ساتھ ان کو صحیح رُخ کی طرف رہنمائی کرنے والے اربکان کے افکار اور سیاسی اور معاشی پالیسی کے میدان میں کردار کا بڑا دخل ہے۔ ترکی ان ۵۰سال میں تبدیلی کے راستے پر گامزن ہوگیا ہے۔ اربکان نے D-8 ، یعنی ترقی پذیر آٹھ ملکوں کے اتحاد کا جو خواب دیکھا تھا اور جس کے لیے     عملی اقدام کا آغاز کر دیا تھا۔ خدا کرے ترکی اس سلسلے میں خود آگے بڑھے اور عالمِ اسلام اور خود ترکی کو درپیش خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے کمربستہ ہوجائے، جن کی اربکان نے نشان دہی کی تھی۔ ۲۰۰۷ء میں، آخری ملاقات کے موقع پر D-8 کے منصوبے پر مشتمل کتاب مجھے اپنے دستخطوں سے دیتے وقت جو بات انھوں نے کہی تھی، میں اسے نہیں بھول سکتا۔ کتاب کی ایک مرکزی تصویر پر انگلی رکھ کر انھوں نے کہا: D-8 کے پہلے اجلاس میں جن آٹھ مسلمان حکمرانوں نے شرکت کی تھی، ذرا غور سے دیکھو ان میں سے کوئی بھی آج منصب ِ اقتدار پر نہیں۔ کیا اب بھی ہم اپنے دوستوں اور دشمنوں میں تمیز نہیں کریں گے؟

_____________

انجینیر، استاد، مربی، قائد اور مجاہد نجم الدین اربکان کا سفرِ آخرت بھی ایک انفرادی شان رکھتا ہے۔ مبصرین کا اندازہ ہے کہ دولت عثمانیہ اور خلافت کے خاتمے کے بعد کسی سیاسی قائد کے جنازے میں عوام کی ایسی شرکت نہیں دیکھی گئی جیسی پروفیسر اربکان کے جنازے میں تھی۔ استنبول کی ۳ہزار مساجد نے جنازہ میں شرکت کا اعلان کیا اور سلطان فاتح مسجد میں اس مجاہد کی نمازِ جنازہ میں ۳۰لاکھ افراد نے شرکت کی۔ صدر مملکت، وزیراعظم، گرانڈ اسمبلی کا اسپیکر، تمام سیاسی اور دینی جماعتوں کے قائد، دنیا بھر کی اسلامی تحریکات کے نمایندے، شمالی قبرص کی حکومت کے صدر اور وزیراعظم، حتیٰ کہ ترک افواج کی قیادت، سب نے شرکت کی اور اربکان کی اس خواہش کے  احترام میں یہ اہتمام کیا گیا تھا کہ ان کا جنازہ معروف اسلامی روایات کے ساتھ اُٹھایا جائے اور سابق وزیراعظم اور سربراہِ حکومت کے جنازوں کے لیے جو سرکاری تام جھام ہوتا ہے اس سے اجتناب کیا جائے۔ پروفیسر اربکان کا جنازہ عوام کے اعتماد اور محبت کا مظہر تھا اور استنبول کی جدید تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ترکوں نے اس جنازے میں شرکت سے اربکان کو اپنا آخری سلام ہی پیش نہیں کیا بلکہ یہ جنازہ ایک ریفرنڈم بن گیا۔ ملک میں جو تبدیلی اربکان اور اس کے ساتھیوں کی مساعی کے نتیجے میں رونما ہوئی ہے، ترک عوام کی بڑی تعداد نے اس سے اپنی ہم آہنگی اور اس لہر کو آگے بڑھانے کے عزم کا اظہار بھی کیا۔ الحمدللہ اربکان کی موت بھی اس کی زندگی کی طرح اسلامی احیا کی تحریک کی علامت بن گئی    ؎

جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے، اس جان کی کوئی بات نہیں

اللہ تعالیٰ پروفیسر نجم الدین اربکان کی تمام مساعیِ جمیلہ کو شرف قبولیت سے نوازے، ان کی خدمات کے عوض انھیں جنت کے اعلیٰ ترین مقام پر جگہ دے، ان کی قبر کو نور سے بھر دے، ان کی بشری کمزوریوں اور کوتاہیوں کو معاف فرمائے ___اور ترکی کو جس راستے پر گامزن کرنے میں انھوں نے کلیدی کردار ادا کیا ہے وہ اس پر تیزرفتاری کے ساتھ گامزن رہے، اور ترکی اور عالمِ اسلام ایک بار پھر مل کر اسلام کی نشاتِ ثانیہ کا سامان پیدا کریں، اور اقبال نے جو خواب دیکھا تھا وہ حقیقت کا روپ دھار لے    ؎

عطا مومن کو پھر درگاہِ حق سے ہونے والا ہے
شکوہِ ترکمانی، ذہنِ ہندی، نُطقِ اعرابی

عورت کے بارے میں دو بنیادی سوالات ہمیشہ سے اٹھتے رہے ہیں۔ ایک یہ کہ معاشرہ میں اس کا صحیح مقام و مرتبہ کیا ہے؟ دوسرا یہ کہ مرد و عورت کے جنسی تعلقات کی صحیح نوعیت کیا ہے؟ مختلف تہذیبوں ، مذاہب اور ممالک کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ عورت ان میں عموماً اپنے بنیادی انسانی حقوق سے محروم رہی ہے۔ اسے مرد کا حاشیہ اور ضمیمہ سمجھا گیا ہے۔ جب صنعتی انقلاب کے نتیجے میں اس کا ردّ عمل ہوا اور مساوات اور آزادی کی تحریکیں چلیں تو مرد اور عورت کے حقوق اور ذمہ داریوں میں کوئی فرق روا نہ رکھا گیا اور عورت سے ہر وہ کام لیا جانے لگا جو مرد کرسکتا ہے۔ بے محابا آزادی کے نتیجے میں مرد اور عورت کے جنسی تعلقات بھی بے اعتدالی کا شکار ہوئے اور آوارگی اور بے راہ روی کو فروغ ملا۔ اسلام کا نقطۂ نظر اس سلسلے میں توازن اور اعتدال کا ہے۔ اس نے سماج میں عورت اور مرد کا صحیح مقام اور نظام تمدن میں دونوں کی صحیح حیثیت متعین کی۔ حال ہی میں عورت اسلامی معاشرے میں کے نام سے مولانا جلال الدین عمری کی عالمانہ تصنیف شائع ہوئی ہے، جس میں انھوں نے، زیربحث موضوع پر پوری قوت، جرأت اور اعتماد کے ساتھ اسلامی نقطۂ نظر کی ترجمانی کی ہے۔

کتاب کے آغاز میں دور قدیم اورعہد جدید میں عورت کے مقام کا تعین کیا گیا ہے۔ یونان، روم اور قدیم یورپ میں، نیز یہودیت، عیسائیت اور ہندو مت میں عورت کی پست حیثیت کو حوالوں کے ساتھ ثابت کیا گیا ہے۔ پھر اس کے ردّعمل میں جدید نظریات نے اس کو کتنی آزادی عطا کردی اور اس کے نتیجے میں کس قدر جنسی آوارگی عام ہوئی، اس کا بھی تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔

اسلامی معاشرے میں عورت کے مقام و مرتبہ کا جائزہ لینے سے قبل بہ طور پس منظر عرب کے دورِ جاہلیت میں عورت کی پست حیثیت کو واضح کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ اپنے تمام حقوق سے محروم تھی ، اسے موجبِ ذلت و عار سمجھا جاتا تھا، بلکہ بعض قبائل میں اسے پیدا ہوتے ہی درگور کردیا جاتا تھا۔ اس کے بعد تفصیل سے عورت کے بارے میں اسلام کے اساسی تصورات سے بحث کی گئی ہے۔ کتاب کا یہ حصہ بہت اہم ہے۔

کتاب کی ایک بنیادی بحث ’عورت کا حقیقی دائرۂ کار‘ کے عنوان سے ہے۔ ’’اسلام نے ریاست اور معاشرے کے تحفّظ کی ذمہ داری اصلاً مرد کے سرڈالی ہے اور عورت کی جدّو جہد کا رخ گھر کی طرف موڑ دیا ہے۔ اس کی حقیقی پوزیشن یہ نہیں ہے کہ وہ بازار کی تاجر، دفتر کی کلرک، عدالت کی جج اور فوج کی سپاہی بنی رہے، بلکہ اس کے عمل کا حقیقی میدان گھر ہے‘‘ (ص۱۱۴-۱۱۵)۔ ’’کسی بڑی مصلحت کے تحت اس کو گھر چھوڑنے کی اجازت دی بھی گئی ہے یا کسی عبادت کے اجتماعی طریقے کو اس کے لیے مفید یا ضروری سمجھا گیا ہے، تو اس کے ساتھ ایسی تدابیر بھی اختیار کی گئی ہیں جو ہر آن اس کے اندر یہ احساس تازہ رکھتی ہیں کہ اس کا حقیقی مقام وہی ہے جہاں سے وہ چلی تھی۔ گھر سے باہر نکلنے کے یہ معنیٰ ہرگز نہیں ہیں کہ وہ حدودِ نسوانیت سے بھی باہر آچکی ہے‘‘۔ (ص۱۲۰)

عورت کا حقیقی دائرۂ کار اس کا گھر ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسلام اسے عضوِ معطّل کی حیثیت دیتا ہے اور معاشرے سے اسے الگ تھلک کردیتا ہے۔ اس نے عورت کو ان حقوق سے محروم نہیں رکھا ہے جو اجتماعی زندگی بسر کرنے کے لیے ضروری ہیں، بلکہ وہ اسے اس قابل بناتا ہے کہ معاشرے میں کامیاب و بامراد زندگی بسرکرسکے۔ اسی وجہ سے اس نے اسے علم و عمل کے میدان میں پوری آزدی دی ہے۔ مصنف نے اس موضوع پر مدلّل بحث کی ہے اور قرونِ اولیٰ کی بہت سی مثالیں پیش کرکے ثابت کیا ہے کہ خواتین کو علم حاصل کرنے اور اس کی توسیع و اشاعت میں حصہ لینے کی پوری آزادی حاصل تھی۔ ساتھ ہی انھیں پاکیزہ مقاصد کے حصول کے لیے گھر سے باہر نکلنے کی اجازت تھی۔ چنانچہ وہ کاشت کاری، تجارت اور صنعت و حرفت کے کاموں میں حصہ لیتی تھیں۔

’اسلامی معاشرے کی تعمیر میں عورت کا کردار‘ کے تحت صدرِ اول کی خواتین کی مثالیں پیش کی گئی ہیں کہ انھوں نے دین کے لیے بڑی قربانیاں پیش کی ہیں، مصیبتیں سہی ہیں، اللہ کے دین کو سربلند دیکھنے کی تمنا میں محاذِ جنگ پر بھی مختلف خدمات انجام دی ہیں، حق کی نصرت و حمایت میں زبان کی قوت بھی صرف کی ہے، معاشرے میں کہیں بگاڑ نظر آیا تو اس کے بدلنے اور اس کی جگہ  خیرو اصلاح کو قائم کرنے کی جدّو جہد کی ہے، ذمہ دارانِ ریاست کے سامنے بے خوف و خطر حق کا اظہار کیا ہے۔ اس طرح اسلامی معاشرے نے مختلف مسائل میں عورت کی راے اور فہم سے فائدہ اٹھایا ہے اور اپنی تعمیر و تشکیل میں بھی اس کی عملی صلاحیتوں سے مدد حاصل کرتا رہا ہے۔ اس ضمن میں آگے فاضل مصنف نے کئی اہم مسائل سے بحث کی ہے اور ان کے سلسلے میں پائی جانے والی غلط فہمیاں دوٗر کی ہیں۔ مثلاً بعض معاملات میں شریعت نے دوعورتوں کی گواہی کو ایک مرد کی گواہی کے برابر قرار دیا ہے۔ اس سے بہ ظاہر عورت کی تنقیص معلوم ہوتی ہے۔ انھوں نے عورت کی گواہی سے متعلق فقہا کے خیالات کا تجزیہ کرتے ہوئے اس موضوع پر مفصّل اور مدلّل بحث کی ہے۔ عورت کی عملی صلاحیت کے ضمن میں مصنف محترم فرماتے ہیں کہ وہ اپنے فطری دائرے سے باہر وقتِ ضرورت معاشرتی خدمات انجام دے سکتی ہے، لیکن اس کے لیے چند بنیادی اصولوں کی پابندی ضروری ہے۔ وہ یہ کہ اپنی حقیقی پوزیشن (خانگی زندگی کی استواری) پر نظر رکھے، اپنے خاوند کی اطاعت کرے اور نامحرموں سے اختلاط اور میل جول سے بچے۔

ایک اہم بحث مصنف نے ’عورت اور منصبِ امامت‘ کے عنوان سے اٹھائی ہے۔ ان کا  نقطۂ نظر یہ ہے کہ ’’اسلام اس کے خلاف ہے کہ عورت کے نازک ہاتھوں میں ملت کی قیادت و رہ نمائی کی زمام دے دی جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے لیے جن اوصاف و خصوصیات کی ضرورت ہے وہ اس میں طبعاً موجود نہیں ہیں۔ یہ انتہائی غیر فطری بات ہوگی کہ عورت جس دائرے میں کما حقّہ ذمے داری ادا نہیں کرسکتی، اس پر اس کا بارِ گراں ڈال دیا جائے‘‘۔ (ص۲۶۶)

کتاب کی دوسری اہم اور مبسوط بحث ’جنسی تعلقات‘ کے عنوان سے ہے۔ فاضل مصنف نے بیان کیا ہے کہ انسانی معاشرے ’جنس‘ کے معاملے میں شروع سے افراط و تفریط کا شکار رہے ہیں ۔ تفریط نے رہبانیت کی شکل اختیار کی، جس کے کڑوے کسیلے پھل صدیوں تک انسانوں کو کھانے پڑے اور افراط نے اباحیت اور آوارگی کا روپ دھارا، جس میں دورِ جدید کا مغربی معاشرے اور اس کے ہم نوا غرق ہیں۔ اسلام کا نقطۂ نظر اس معاملے میں انتہائی متوازن اور معتدل ہے۔ وہ راہبانہ نقطۂ نظر کی تردید کرتا ہے، جائز حدود میں جنسی تسکین کی نہ صرف اجازت دیتا ہے، بلکہ اس کی تاکید کرتا ہے، ہر طرح کے ناجائز تعلق پر روک لگاتا ہے۔ اس معاملے میں وہ فرد کی اخلاقی تربیت کرتا ہے، معاشرے کو پاکیزہ رکھنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے اور اس سلسلے میں قانون کا بھی سہارا لیتا ہے اور ان کی خلاف ورزی پر سزائیں بھی متعین کرتا ہے۔

بہ حیثیت مجموعی یہ کتاب متعدد خوبیوں کی حامل ہے۔ اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ اس معذرت خواہانہ لب و لہجہ سے بالکل پاک ہے، جسے موجودہ دور کے بہت سے مسلم محققین اور دانش ور اختیار کیے ہوئے ہیں۔ مصنف بلاخوف لومۃ لائم پوری جرأت اوراعتماد کے ساتھ عورت کے حقوق اور حیثیت سے متعلق اسلامی تعلیمات کی ترجمانی کرتے ہیں۔

کتاب کی ایک نمایاں خوبی اس کا استدلالی انداز ہے۔ قدیم اور جدید تہذیبوں، معاشروں اور مذاہب میں عورت کی حیثیت کی بحث ہو، یا اسلامی معاشرے میں اس کے مقام و مرتبہ کا بیان، ہرجگہ معتبر اور مستند مآخذ و مراجع (قرآن و حدیث فقہا کی آرا) استعمال کیے گئے ہیں۔

اس کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ مصنف نے اسلامی معاشرے کے خدّو خال نمایاں کرتے ہوئے اسلام کی ابتدائی صدیوں کا مثالی نمونہ پیش کیا ہے۔ صحابیات، تابعیات اور تبع تابعیات کی علمی اور عملی سرگرمیاں تفصیل سے بیان کی ہیں اور اس سلسلے میں حدیث، سیرتِ نبوی، سیرتِ صحابہ و صحابیات، اسماء الرجال اور تاریخ و سوانح کی کتابوں سے واقعات و روایات کا حتی الامکان استقصا کیا ہے۔

یہ کتاب اگرچہ نصف صدی قبل شائع ہوئی تھی، لیکن اپنے مباحث کی اہمیت، استدلال کی قوت اور شستہ و رواں اسلوبِ بیان کی وجہ سے اب بھی اپنے موضوع پر بھرپور اور مفید ہے۔ مصنف کی نظرثانی اور بہت سے نئے مباحث کے اضافے نے اس کی افادیت کو دوچند کردیا ہے۔ اس موضوع پر مصنف کی ایک دوسری کتاب عورت اور اسلام کے عنوان سے ہے۔ اس میں بھی قرآن و سنت کی روشنی میں عورت کے مقام و مرتبے سے بحث کی گئی ہے۔ اس کتاب کا رخ زیادہ تر تاریخی ہے، جب کہ زیر تبصرہ کتاب کا انداز علمی ہے۔ دونوں کتابوں کے مباحث کی یک جائی سے اسلامی معاشرے میں عورت کا تاب ناک کردار قاری کے سامنے آجاتا ہے۔(عورت اسلامی معاشرے میں،    مولاناسید جلال الدین عمری۔ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی۔ صفحات: ۴۳۲، قیمت(مجلد) : ۱۶۰ بھارتی روپے)

 

  •  لیبیا: ذرا نام ملاحظہ فرمائیے: قَذّافُ الدَّم، ’’انتہائی خون بہانے والا‘‘۔ نام ہی شخصیت کا پورا تعارف پیش کرتا ہے۔ موصوف کرنل معمر قذافی کے قریبی رشتہ دار، قریبی مشیر اور خصوصی نمایندہ تھے۔ معمر قذافی کے شہرہ آفاق خطاب کہ جس میں اس نے احتجاج کرنے والے عوام کو چوہے ، کاکروچ اور نہ جانے کیا کیا قرار دیتے ہوئے ان پر تیل چھڑک کر بھسم کردینے کا اعلان کیا تھا کے بعد، قذاف الدم جیسے افراد نے بھی لیبیا چھوڑ کر مصر میں پناہ لے لی۔ بیرون ملک مقیم لیبیا کے درجنوں سفارت کاروں، متعدد وزرا اور فوجی جرنیلوں اور افسروں کی اکثریت نے بھی معمرقذافی کے ۴۲سالہ بلاشرکت غیرے اقتدار سے بغاوت و براء ت کا اعلان کرتے ہوئے انقلابی تحریک کی تائید کا اعلان کردیا۔ یہ سب کچھ دیکھ کر قذافی صاحب آپے سے باہر ہوگئے اور اپنے ہی عوام کے خلاف بھرپور جنگ شروع کردی۔ عوامی انقلابی تحریک کے آغاز ہی سے لیبیا کے اکثر اہم شہروں میں پوری کی پوری آبادیاں قذافی کے خلاف نکل آئی تھیں۔ قذافی کا اقتدار صرف دار الحکومت طرابلس (Tripoly)سمیت تین شہروں کی ایک مختصر سی تکون تک محدود رہ گیا تھا۔ اس نے ان شہروں پر اپنا قبضہ بحال کرنے کے لیے ٹینکوں، جنگی جہازوں اور میزائلوں سمیت ہر ہتھیار استعمال کرنا شروع کردیا۔ یہیں سے لیبیا کی بدقسمتی کا ایک نیا باب شروع ہوتا ہے۔

تقریباً۱۸ لاکھ مربع کلومیٹر رقبے پر مشتمل لیبیا ۱۸ لاکھ بیرل پٹرول روزانہ برآمد کرتا ہے۔ نائیجیریا، الجزائر اور انگولا کے بعد، تیل برآمد کرنے والے افریقی ملکوں میں لیبیا چوتھے نمبر پر آتا ہے۔ لیبیا سے نکلنے والا تیل دنیا میں شفاف ترین تیل کے زمرے میں آتا ہے، جسے صاف کرنے کے لیے سب سے کم لاگت آتی ہے۔ عالمی اندازوں کے مطابق لیبیا میں ۴۲ ارب بیرل تیل کے ذخائر پائے جاتے ہیں۔ تیل کے ساتھ ہی ساتھ لیبیا سالانہ ۱۰؍ ارب مکعب میٹر قدرتی گیس بھی برآمد کررہا ہے۔ وسیع و عریض ملک اور دولت کے ان انباروں کے مالک لیبیا کی آبادی صرف ۶۵لاکھ کے قریب ہے۔ لیبیا کو اگرچہ یورپی یا خلیجی ممالک کی طرح جدید سہولیات والا ملک تو نہیں بنایا گیا لیکن مجموعی طور پر لیبیا کی آبادی خوش حال سمجھی جاتی ہے۔ کوئی کمی تھی تو یہ کہ وہ خود کو اپنے ہی ملک میں قیدی تصور کرتی تھی۔ صدر قذافی جو اکثر کوئی نہ کوئی نیا فلسفہ یا نعرہ لگانے کے ماہر تھے،  کسی شخص کو حق اختلاف دینے کے حق میں نہ تھے۔ خبطِ عظمت کا شکار خود تو قرآن کریم کی آیات، انبیاے کرام ؑکی ہستیوں اور اسلامی مقدسات کے بارے میں بھی عجیب عجیب تبصرے و انکشافات کرتا رہتا تھا، لیکن عوام میں سے اگر کسی نے آواز بلند کی تو سرعام لٹکا دیا گیا۔ راقم کو جب بھی کسی کانفرنس میں شرکت کے لیے لیبیا جانے کا اتفاق ہوا تو لیبین عوام کے سپاٹ چہرے دیکھ کر حیرت ہوتی تھی۔ ایک بار اس حیرت کا اظہار ایک اعلیٰ سطحی ذمہ دار سے بھی کیا کہ کسی چہرے پر سجی مسکراہٹ دکھائی نہیں دیتی؟ وہ اِدھر اُدھر دیکھ کر ہلکا سا مسکرایا اور کوئی تبصرہ نہ کیا۔

تیونس اور مصر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے لیبیا کے عوام نے بھی آزادی و حقوق کا نعرہ بلند کیا تو انھیں بخوبی اندازہ تھا کہ انھیں اپنے دونوں پڑوسیوں سے کہیں زیادہ قیمت چکانا پڑسکتی ہے۔ کرنل قذافی کا ماضی اور مزاج عوام کو ممکنہ نقصانات سے خبردار کررہا تھا، لیکن بالآخر سب پکار اُٹھے کہ اب یا کبھی نہیں۔ تحریک کا آغاز دار الحکومت سے دور چھوٹے شہروں اور لیبیا کے دوسرے بڑے شہر   بن غازی سے ہوا تو معمر قذافی کی گرفت تصور سے بھی کمزور نکلی۔ پولیس، انتظامیہ، فوج، سب مظاہرین کے ساتھ شامل ہونے لگے۔ کچھ مقامات پر جھڑپیں ہوئیں لیکن تمام مظاہرین بار بار نعرہ لگا رہے تھے: سِلمِیّہ سِلمِیّہ، ’’پُرامن پُرامن‘‘۔ ساتھ ہی عوام نے کرنل قذافی سے پہلے شاہ ادریس کے زمانے کا سرخ، سبز اور سیاہ قومی پرچم لہرانا شروع کردیا۔

لیبیا کی ایک بدقسمتی یہ بھی تھی کہ ۸۰ کی دہائی میں صدر قذافی کے خلاف فوجی بغاوت کی کوشش کے بعد سے، ملک میں کوئی باقاعدہ فوج مضبوط نہ تھی۔ قومی فوج سے کہیں زیادہ مضبوط و مسلح، صدر قذافی اور اس کے بیٹوں کی ذاتی ملیشیا فورسز تھیں۔ انھیں خطرہ تھا کہ اگر ملک میں مضبوط فوج بنائی تو اس کا سب سے پہلا نشانہ خود انھی کو بننا پڑے گا۔ ملیشیا فورسز کے علاوہ انھوں نے بعض افریقی ممالک کو بڑی بڑی مالی امداد دے کر اپنی مٹھی میں لے رکھا تھا کہ بوقت ضرورت ان سے بھی کرایے کے سپاہی حاصل کیے جاسکیں گے۔ انھی تین عوامل (معمر قذافی کا مزاج، ذاتی وفادار ملیشیا فورسز اور کرایے کے سپاہی) نے انقلابی عوام کے خلاف مسلح کارروائیوں کو زیادہ مہلک بنادیا ہے۔

بے تحاشا جانی نقصان کے باوجود عوامی تحریک ایک کے بعد دوسرے شہر کی طرف بڑھنے لگی، تو قذافی صاحب نے ’’چپے چپے گھر گھر، در در،فرد فرد اور ایک ایک گلی کوچے سے صفایا کردیں گے‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے ان شہروں پر ناقابل بیان بم باری شروع کردی۔ ہاتھ سے نکل جانے والے شہروں میں ہی نہیں خود طرابلس میں بھی قتل و غارت کا بازار گرم کردیا۔ دار الحکومت سے جان بچا کر واپس آنے والے مزدور و ملازمت پیشہ پاکستانی عینی شاہد بتاتے ہیں کہ وہاں بھی لاشوں کے انبار تھے، جنھیں بڑے بڑے ٹرالروں میں بھر بھر کر ٹھکانے لگادیا گیا۔ ہاتھ سے نکل جانے والے تیل کے کنوؤں اور تیل کے ذخائر کو اڑا دیا گیا۔ اس ساری تباہی و بربادی اور خوں ریزی کا ہدف صرف یہ تھا کہ ۴۲ سالہ اقتدار کو مزید طوالت دی جائے۔ اب ایک طرف یہ ساری تباہی اور تباہ کن حملے تھے اور دوسری طرف نہتے عوام اور ان کا ساتھ دینے والے فوجی دستے کہ جن کے پاس زیادہ سے زیادہ ہتھیار چند ٹینک اور طیارہ شکن توپیں تھیں۔ قذافی صاحب نے ایک کے بعد دوسرے قصبے اور شہر کو فتح کرنا شروع کردیا اور بالآخر بن غازی کا محاصرہ شروع کردیا۔ سب تجزیہ نگار اور لیبیا کے شہری جانتے تھے کہ اگر قذافی ملیشیا بن غازی میں داخل ہوگئی تو ۱۰لاکھ کی آبادی والے اس شہر میں ناقابلِ بیان قتل عام ہوگا۔

عالم عرب اور عالم اسلام نے اس ساری پیش رفت کو دم سادھے دیکھا اور چند بیانات پر اکتفا کیا۔ امریکا کی قیادت میں مغربی ممالک نے موقعے کو غنیمت جانتے ہوئے تیل کے سمندر پر تیرنے والے ایک اہم مسلمان ملک پر اپنا تسلط جمانے کے لیے پہلے ہی دن سے کارروائیوں کا آغاز کردیا۔ پہلے تو مغربی ممالک میں قذافی اور اس کے خاندان کے اربوں ڈالر کے کھاتے منجمد کرتے ہوئے بیرون ملک اس کی ساری دولت پر قبضہ کرنا شروع کردیا۔ صرف امریکا میں ۳۰؍ارب ڈالر منجمد کردیے گئے۔ قذافی صاحب نے اپنی دولت کئی ممالک میں تقسیم کررکھی ہے۔ ان میں سے اکثر ممالک نے ان کے اکاؤنٹ منجمد کردیے گئے اور تو اور تیونس نے بھی اپنے ہاں رکھے گئے اثاثے منجمد کردیے۔ قذافی نے قتل عام شروع کیا تو مغربی ممالک نے اسے جنگی مجرم قرار دینے کی بات کرتے ہوئے ملک سے باہر کہیں جانے کے راستے مسدود کردیے (ویسے قذافی صاحب سے اس کی توقع بھی کم تھی)، اور پھر اقوام متحدہ کے ذریعے لیبیا کو نو فلائی زون قرار دے دیا۔ ساتھ ہی بحر متوسط میں اپنے طیارہ بردار بحری بیڑے لاکھڑے کیے۔ اگر اس موقع پر بھی صدر قذافی ۴۲سالہ شخصی اقتدار پر اکتفا کرتے ہوئے اقتدار اپنے عوام کے سپرد کردیتا، تو لیبیا کے گرد بنایا جانے والا یہ سارا جال، تار تار کیا جاسکتا تھا لیکن  ع اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔

امریکا اور مغربی ممالک کویت پر عراقی صدر صدام حسین کے قبضے کی طرح، معمر قذافی کی خوں ریزی سے بھی ہمہ پہلو فوائد سمیٹنا چاہتے ہیں۔ لیبیا اور اس کے تیل پر قبضہ ان کی اولین ترجیح ہے۔ بدقسمتی سے وہ اپنا یہ ہدف لیبین عوام کے نجات دہندہ بن کر حاصل کررہے ہیں۔ کرنل قذافی اگر اپنی قوم کے لیے عذاب کی صورت اختیار کرگیا تھا تو اس سے نجات دلانے کے لیے اصل ٹارگٹ بھی اس کی ذات ہونا چاہیے تھی، دوسر ے نمبر پر اس کی جنگی مشینری ہوسکتی تھی لیکن صدر اوباما، اس کے جرنیلوں اور یورپی سربراہوں سمیت، سب دہرا چکے ہیں کہ صدر قذافی ہمارا ہدف نہیں ہے، ہم صرف اس کے جنگی جہازوں کا راستہ روکنا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف قذافی ملیشیا تادم تحریر مختلف شہروں کا گھیرائو کرکے اس پر بم باری کررہی ہے۔ گویا قذافی کا رہا سہا اقتدار اور عوام پر اس کے حملوں کا فی الحال جاری رہنا، لیبیا پر مغربی ممالک کے تسلط کو باقی رکھنے کے لیے ناگزیر اور ضروری ہے۔ امریکی اور ناٹو افواج یہ نہیں چاہیں گی کہ دارالحکومت طرابلس سمیت پورے ملک میں امن قائم ہوجائے اور ایک جمہوری نظام کے مطابق وہاں کے شہری اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کے قابل ہوجائیں کیونکہ ایسا ہونے کا مطلب ہے لیبیا کا ان کے شکنجے سے آزاد ہوجانا۔

۸۰ کی دہائی سے صدام حسین اور اس کے تباہ کن ہتھیاروں کا بھوت دکھا دکھا کر امریکا نے کردستان پر نوفلائی زون قائم کیا تھا اور آج عراق کے اندر رہتے ہوئے بھی کردستان عملاً ایک الگ ریاست ہے۔ اس کا صدر، پرچم اور کرنسی تک الگ ہوچکی ہے اور کوئی دن جاتا ہے کہ اسے عراق کے رسمی نقشے سے بھی باہر کردیا جائے۔ اسی طرح لیبیا میں بھی امریکی اور یورپی ملکوں کی پوری کوشش ہوگی کہ لیبیا کو مشرقی اور مغربی لیبیا کی دو ریاستوں میں تقسیم کردیا جائے۔ فرانس نے قذافی کے اقتدار سے آزاد ہوجانے والے شہر بن غازی اور دیگر مشرقی شہروں میں قائم انقلابی نسل کا اقتدار، باقاعدہ تسلیم کرکے اس تقسیم کی جانب عملی قدم اٹھا دیا ہے۔

قذافی کے تشدد اور بیرونی افواج کی مداخلت کے ذریعے عالم عرب میں عوامی انقلابی تحریکوں کو بھی ایک سخت پیغام دیا گیا ہے۔ لیبیا کی اس صورت حال سے ایک بار تو سب عوامی تحریکوں کے سامنے یہ سوالیہ نشان آن کھڑا ہوا کہ کہیں ان پر بھی تو لیبیا جیسی آزمایش نہیں آجائے گی۔ خود عرب حکمرانوں کو بھی محسوس ہونے لگا کہ ہمیشہ کی طرح شاید اس بار بھی آہنی ہاتھ ہی اقتدار بچانے کا مؤثر ترین ہتھیا ر ہوگا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عرب عوام لیبیا کی صورت حال سے اپنی جدوجہد کے لیے مزید توانائی حاصل کررہے ہیں۔ وہ قربانیوں کے لیے پہلے سے زیادہ تیار ہوکر میدان میں آرہے ہیں۔ مصر میں عوامی احتجاج شروع ہوا تھا تو حسنی مبارک اور حواریوں نے کہا تھا: مصر کوئی تیونس نہیں ہے کہ یہاں بھی تبدیلی آجائے اور پھر حسنی مبارک چلا گیا۔ لیبیا میں تحریک کا آغاز ہوا تو قذافی اور اس کے بیٹوں نے کہا تھا: احنا مش تونس و مصر، ’’ہم تیونس اور مصر نہیں ہیں‘‘۔ آج جب دیگر عرب ملکوں میں عوامی تحریکیں شروع ہورہی ہیں تو اب عوام اپنے حکمرانوں کو کہہ رہے ہیں کہ ’’ہم لیبیا نہیں ہیں کہ ہم پر جنگ مسلط کردو‘‘ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ خود لیبیا میں بھی حکمران نے ہزاروں بے گناہوں کا خون بھی اپنی گردن پر لے لیا، ملک بھی تباہ کردیا، ملک کا مستقبل بھی عوام کے بجاے استعماری قوتوں کے ہاتھ گروی رکھ دیا اور بالآخر کلی اقتدار سے یقینا ہاتھ دھونا پڑیں گے۔

لیبیا کی اس اندوہناک صورت حال کا ایک تاریک پہلو یہ بھی ہے کہ عالم اسلام میں امریکا کے خلاف شدید جذبات پائے جانے کے باوجود عوام ’’سامنے آگ اور پیچھے کھائی‘‘ کی کیفیت سے دوچار ہیں۔ امریکی حملوں کی مخالفت کو قذافی اپنے لیے قتل کے اجازت نامے کے طور پر استعمال کررہا ہے ،اور قذافی کے قتل عام کے خلاف احتجاج کو امریکی اپنے لیے ایک کارڈ کی حیثیت کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اس صورت میں بہتر موقف وہی ہے جو الاخوان المسلمون نے اختیار کیا ہے۔ انھوں نے قذافی کے قتل عام اور امریکی حملوں کی یکساں اور شدید مذمت کی ہے، اور لیبیا کی عوامی تحریک کی بھرپور اور مکمل تائید و حمایت کی ہے۔ اس وقت بھی اخوان کی امدادی تنظیمیں لیبیا کے مختلف شہروں میں زخمی عوام کا علاج اور بھوک کے شکار لوگوں کو غذا فراہم کررہی ہیں۔ مصر سے آنے والے صحافی بتاتے ہیں کہ قذافی انتظامیہ کی اکثریت عوام کے ساتھ مل جانے کے بعد مصر اور لیبیا کی سرحدیں کھل گئی ہیں، شہری بلا روک ٹوک ایک دوسرے سے یوں مل رہے ہیں، جیسے دو بچھڑے بھائی آن ملے ہوں۔ ایک ہی قوم کو حسنی اور قذافی جیسے حکمرانوں نے تقسیم کر رکھا تھا۔

  •  یمن: دیگر ممالک میں چلنے والی تحریکوں میں سے اس وقت یمن کی تحریک مضبوط سے مضبوط تر ہورہی ہیں۔ یمن میں پرامن عوامی طاقت کا اظہار تمام ممالک سے زیادہ ہورہا ہے۔ لاکھوں افراد مختلف شہروں میں مستقل دھرنے دیے ہوئے ہیں۔ تحریک ختم کرنے کے لیے حکومت نے طاقت بھی استعمال کرکے دیکھ لی ہے۔ سیکڑوں شہید اور ہزاروں زخمی ہوچکے ہیں لیکن ان تمام کوششوں نے تحریک کو مزید آب و تاب بخشی ہے۔ گذشتہ ۳۳ سال سے اقتدار پر قابض ۷۰سالہ جنرل علی عبد اللہ صالح گرگٹ کی طرح رنگ بدل رہا ہے۔ کبھی مظاہرین پر فائرنگ کی مذمت کرتا ہے، کبھی مزید سختی سے نمٹنے کی دھمکی دیتا ہے۔ کبھی ۲۰۱۳ء میں اور کبھی اس سال کے اختتام تک اقتدار چھوڑنے کی بات کرتا ہے۔ کبھی یہ کہتے ہوئے کہ ’’ہم خود اقتدار سے تنگ آچکے ہیں‘‘ مظاہرین کو مذاکرات کی دعوت دیتا ہے، لیکن عملاً ملک کی تقریباً ۹۰فی صد آبادی کا یہ مطالبہ ماننے سے انکاری ہے کہ اِرْحَلْ چلے جاؤ۔

یمن گہری قبائلی تقسیم رکھتا ہے۔ ہر قبیلہ اپنی روایات، اپنا اسلحہ اور اپنے مردان کار رکھتا ہے۔ خوب صورت کمر بند کے ساتھ چوڑے پھل کا خمدار خنجر یمن کے قومی لباس کا لازمی جزو ہے۔ یمنی صدر کو اس کے عوام ’لومڑ کی طرح عیار‘ کا لقب دیتے ہیں۔ وہ سب سے زیادہ جانتا ہے کہ طاقت سے یمنی عوامی تحریک کو کچلنا ممکن نہیں ہے۔ اب وہ اس حقیقت سے بھی یقینا آگاہ ہوچکا ہوگا کہ کئی مہینوں سے ملک کی سڑکوں پر دن رات گزارنے والے لاکھوں عوام، اس کا اقتدار کسی صورت مزید برداشت نہیں کریں گے، لیکن جسے اقتدار کا نشہ لگ جائے اس کے لیے اسے چھوڑنا، جان کنی کا عالم بن جاتا ہے۔ ریشے ریشے سے کھنچ کھنچ کر روح اقتدار رخصت ہورہی ہوتی ہے، لیکن کسی معجزے کا منتظر مریضِ اقتدار، دیدے پھاڑے کبھی اپنی کرسی اور کبھی اپنے انجام کو دیکھتا اور مزید تڑپنا شروع کردیتا ہے۔ اب یمن کے بڑے بڑے قبائل صدر علی عبد اللہ صالح کا ساتھ چھوڑنے کا اعلان کرچکے ہیں۔ وزرا، سفرا، کئی فوجی جرنیل، قریبی دوست، سب میدان میں جمع مظاہرین میں شامل ہوگئے ہیں۔ اس کا چہیتا داماد بھی عوام سے آن ملا ہے۔ مصری تجربے کی پیروی کرتے ہوئے، یمنی عوام بھی ہر جمعے تمام دنوں کی نسبت زیادہ بڑی تعداد میں سڑکوں پر ہوتے ہیں۔ جمعہ ۲۵ مارچ کو یوم الرحیل (یومِ رخصت) منایا۔ عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس روز ۳۰ سے ۴۰ لاکھ لوگ مختلف شہروں کی سڑکوں پر ہوتے ہیں، لیکن جان کنی کا شکار صدر ابھی سیر نہیں ہوا۔ وہ بھی ملک بھر سے اپنے چندہزار حامیوں کو اکٹھا کرتے ہوئے اسے اپنے حق میں عوامی ریفرنڈم قرار یتا ہے لیکن اب سب کو یقین ہے کہ دل کا جانا ٹھیر گیا ہے۔

یمن میں کسی حد تک جمہوریت پہلے سے موجود ہے۔ چند اپوزیشن جماعتیں بھی موجود ہیں۔ التجمع الیمنی للاصلاح کے نام سے اسلامی تحریک بھی ہمیشہ ۵۰ سے ۶۰ کے درمیان ارکان اسمبلی رکھتی ہے، لیکن حکمران پارٹی کی تقریباً دو تہائی اکثریت متاثر نہیں ہوئی ہے۔ آج یمن کی سڑکوں پر جمع عوام، اس ابدی اکثریت کا پردہ چاک کررہے ہیں۔ صدر علی بھی حسنی مبارک کی طرح صاحب زادے کو اقتدار منتقل کرنا چاہتا تھا، اب انجام بھی یکساں ہونے کو ہے۔

  •  شام: شام میں جبر کا شکنجہ عالم عرب کے بدترین نظاموں میں سے ایک ہے۔ ۸۰ کی  دہائی میں حماۃ اور حلب میں سابق صدر حافظ الاسد نے اخوان المسلمون کے خلاف ناقابل بیان مظالم ڈھاتے ہوئے، تقریباً پوری کی پوری آبادی کو تہ تیغ کردیا تھا۔ تب سے آج کے اس لمحے تک، ہزاروں افراد جیلوں میں لاپتا ہیں۔ ہزاروں خاندان دنیا بھر میں مہاجرت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور جگر تھام کر سنیے کہ آج بھی شام میں اخوان سے وابستگی کی سزا موت ہے۔ بشار الاسد نے وراثت میں اقتدار حاصل کیا تو عرصے تک سیاسی اصلاحات کی بین بجاتا رہا، لیکن عملاً کوئی تبدیلی نہ آئی۔ شامی حکومت نے عالمِ اسلام اور اپنے عوام کو مطمئن کرنے کے لیے ہمیشہ اسرائیل سے لڑائی کا کارڈ استعمال کیا ہے۔ یہ درست ہے کہ فلسطینی مزاحمتی تحریکوں حماس اور جہاد اسلامی سمیت دیگر تنظیموں کو دنیا بھر میں اگر کہیں پناہ حاصل ہے تو وہ شام ہے۔ شام نے اگرچہ اپنے مقبوضہ علاقے، گولان کی پہاڑیوں کو واگزار کروانے کے لیے کبھی کوئی مؤثر اقدام نہیں کیے، لیکن فلسطینی تنظیموں کی مکمل پشتیبانی کی۔ کاش! شامی حکومت اپنے عوام کو بھی آزادیاں دیتے ہوئے انھیں اپنے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہونے کا موقع دیتی، تو عظیم اسلامی تاریخ کا وارث یہ ملک کئی حوالوں سے مثالی بن جاتا۔ اب شام کے ایک چھوٹے سے قصبے درعا سے تحریک کا آغاز ہوا ہے۔ حکومت نے حسب سابق طاقت استعمال کرتے ہوئے پہلے ہی روز ۲۰؍افراد شہید کردیے ہیں، بدقسمتی سے یہ مظاہرین ایک مسجد، مسجد عمری میں شہید کیے گئے۔ نہ جانے تمام ڈکٹیٹر ایک جیسی غلطیاں ہی کیوں دہراتے ہیں۔ بشار الاسد کے اس اقدام سے تحریک کو حسب توقع تقویت ملی۔ درعا ہی نہیں، اب ہر روز شام کے تقریباً ہر شہر میں چھوٹے بڑے مظاہرے ہو رہے ہیں اور سب ڈکٹیٹر جان چکے کہ اب یہ سلسلہ روکے سے نہ رُک سکے گا۔

بشار انتظامیہ نے اس کا ادراک کرتے ہوئے، ملک میں فوری طور پر بنیادی اصلاحات کا اعلان کیا۔ ان اصلاحات کے جائزے ہی سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس وقت ملک میں کیسا نظام رائج ہے۔ بشار الاسد کی خصوصی مشیر بُثَینَہ شعبان نے پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ ملک میں متعدد سیاسی اور معاشرتی اصلاحات کی منظوری دی گئی ہے۔ ان میں ملک سے ایمرجنسی کے فوری خاتمے، شہریوں کو پرامن زندگی کے یکساں مواقع دینے، ملک میں سیاسی پارٹیوں کی تشکیل کے قانون، ذرائع ابلاغ کو مزید آزادیاں دینے اور تنخواہوں میں اضافے جیسی ’اصلاحات‘ شامل ہیں۔ صحافی نے سوال کیا کہ ان پر عمل درآمد کب سے شروع ہوگا؟ بثینہ نے کہا: آج سے اور فوری طور پر۔ ذرا ان سابق الذکر اصلاحات پر ایک نگاہ دوڑائیے۔ ان میں سے کون سی ایسی انوکھی چیز ہے جسے حکومت کا کوئی بڑا کارنامہ سمجھا جائے؟ تاہم شام کے تناظر میں یہ بھی بہت نمایاں اصلاحات ہیں، اور یہ بھی اس وقت کی جارہی ہیں جب عوامی تلوار حکومت کی گردن سے آن لگی۔ یہ سوال بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ اب بھی اس اعلان پر عمل کتنا ہوتا ہے؟

ایک وقت تھا کہ شام کے بہت سارے دوست حکومت اور اپوزیشن بالخصوص حکومت اور اخوان کے مابین گفت و شنید کے لیے جوتیاں چٹخاتے رہے۔ اس وقت مطالبات صرف یہ تھے کہ طویل عرصے سے گرفتار لوگوں سمیت تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کردیا جائے۔ ملک میں سیاسی آزادیاں دی جائیں اور حکومت اور عوام باہم اعتماد کی بنیاد پر ملک و قوم کی خدمت کریں۔ شامی حکومت کا جواب ہوتا تھا: ’’یہ وہ سرخ لکیر ہے جسے ہم عبور نہیں کرسکتے‘‘۔ شام کی عوامی تحریک کو ابھی کئی مشکل مراحل کا سامنا کرنا پڑے گا، لیکن تبدیل شدہ عرب دنیا میں اب اس کا کوئی امکان نہیں ہے کہ بشار حکومت اپنی متکبرانہ ڈکٹیٹر شپ اسی طرح جاری رکھ سکے۔ تمام ظالم حکمرانوں کو معلوم ہے کہ آج کی دنیا میں عوام پر ظلم ڈھانا اور انھیں بنیادی حقوق سے محروم رکھنا خود اپنے ہی ہاتھوں اپنی قبر کھودنے کے مترادف ہے۔

  •  بحرین: لیبیا، یمن، شام اور اُردن کی طرح بحرین میں بھی صورت حال سنگین ہے۔ باقی تمام ممالک میں عوامی تحریکوں کا ایک نمایاں اور مثبت ترین پہلو یہ تھا کہ وہ تمام تر جماعتی، مذہبی، علاقائی یا لسانی تقسیمات سے بالاتر تحریکیں ہیں۔ مصر میں مسلم اور مسیحی، اخوانی اور سیکولر یک زبان ہیں۔ یمن میں شمالی اور جنوبی، تحریکی و بائیں بازو والوں سمیت، سب اکٹھے ہیں۔ شام، لیبیا اور تیونس میں بھی یہی کیفیت ہے۔ بدقسمتی سے بحرین میں یہ صورت نہیں ہے۔ یہاں شیعہ اور سُنّی آبادی کے درمیان مسلح جھڑپوں کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ بحرین اور کویت خلیج کی دو منفرد ریاستیں ہیں جہاں بادشاہت کے ساتھ ہی ساتھ کسی نہ کسی حد تک سیاسی آزادیاں بھی دی گئی ہیں۔ دونوں ریاستوں میں باقاعدہ انتخابات ہوتے ہیں۔ گذشتہ انتخابات میں بحرینی شیعہ آبادی نے تمام جماعتوں سے زیادہ (۴۰ میں سے ۱۸) نشستیں حاصل کیں۔ ان کے کئی ارکان کابینہ میں بھی شامل ہوئے اور ملک میں متعدد اہم پوزیشنوں پر بھی فائز ہیں۔ اگر معاملہ صرف ملوکیت کے نظام میں مزید اصلاحات و آزادیوں تک ہی محدود رہتا، تو یہ شاید سارے خطے کے لیے کئی مثبت پہلو لے کر آتا، لیکن یہاں نہ صرف ساری تحریک، شیعہ اکثریت کا غلبہ ثابت کرنے کے لیے وقف ہوگئی، بلکہ اسے بحرینی حکمران خاندان کی مخالفت سے آگے بڑھاتے ہوئے، کئی دیگر ممالک کے خلاف اظہار نفرت میں بھی بدل دیا گیا۔ چند سال پہلے بحرین میں طویل عرصے سے مقیم غیر ملکی باشندوں کو بحرینی قومیت دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔ ایران اور پاکستان سمیت کئی ملکوں کے باشندوں نے اس سہولت سے فائدہ اٹھایا اور پہلی بار کسی خلیجی ریاست میں پاکستانی نژاد بحرینی شہری بھی دیکھنے کو ملنے لگے۔ حالیہ تحریک میں احتجاجی مظاہرین نے پاکستانی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے کئی افراد پر ہلہ بول دیا۔ ۱۰؍ افراد جاں بحق اور بڑی تعداد میں زخمی ہوگئے ۔ ان پاکستانیوں کا جرم صرف اتنا تھا کہ حملہ آوروں کے بقول انھیں شہریت ملنے سے شاید ریاست کے مذہبی تناسب میں خلل واقع ہوسکتا ہے۔ ان پاکستانیوں کا ایک جرم یہ بھی تھا کہ ان میں سے ایک تعداد وہاں کی پولیس یا فوج میں ملازمت کرتی ہے۔

گروہی ، مذہبی، علاقائی یا لسانی تعصبات، دین اسلام کی حقیقی روح اور بنیادی تعلیمات سے متصادم ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کو سب سے زیادہ نقصان اسی شیطانی ہتھکنڈے سے پہنچایا گیا ہے۔ آج سے کئی سال پہلے ’مشرق وسطی کے نئے نقشے‘ میں امریکی استعمار نے فارسی شیعہ ملک ایران کا مقابلہ کرنے کے لیے بحرین، سعودی عرب کے مشرقی علاقوں اور عراق کے ایک علاقے پر مشتمل، ایک عرب شیعہ ریاست تشکیل دینے کا ابلیسی خواب دیکھا تھا۔ حالیہ عرب عوامی تحریکات اس پورے ابلیسی نقشے کو ناکام بنانے کا سب سے سنہری موقع ہیں۔ اگر اس اہم موقعے کو بھی تنگ نظری پر مشتمل تعصبات کی نذر کردیا گیا، تو یہ ایک بڑے خسارے کی بات ہوگی۔ بحرین کے حالیہ واقعات میں تمام پڑوسی ممالک بالخصوص پاکستان، ایران اور سعودی عرب کو تمام تر تعصبات سے بالاتر رہنا ہوگا۔

  •  مشرق وسطٰی کے لیے نقشۂ کار: اس ضمن میں مصری عوام نے اپنے قول ہی سے نہیں اپنے عمل سے بہترین مثال پیش کی ہے۔ انھوں نے دوران تحریک بھی کسی حزبی یا مذہبی تعصب کو قریب نہیں پھٹکنے دیا۔ مسیحی پادریوں کو بھی نماز جمعہ کے اجتماعات سے مخاطب ہونے کا موقع دیااور حسنی مبارک کے بعد کے مراحل میں بھی ملک کی تمام پارٹیوں کو متفق علیہ پالیسیاں اختیار کرنے کی دعوت دی ہے۔ عبوری دستوری ترامیم پر ریفرنڈم ہوا تو اختلاف کرنے والوں کی راے کو یکساں اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ ریفرنڈم میں ’ہاں‘ اور ’ناں‘ کہنے والے سب افراد کی راے قیمتی ہے۔ اہم ترین ہدف یہ ہونا چاہیے کہ ہم باہم اختلاف کرنے کا سلیقہ سیکھ لیں۔ ریفرنڈم میں ۲ء۷۷ فی صد نے ترامیم کے حق میں اور ۸ء۲۲ فی صد نے خلاف ووٹ دیا۔ لیکن اصل کامیابی یہ تھی کہ گذشتہ نصف صدی سے زائد عرصے میں یہ پہلے انتخابات تھے، جن میں ووٹروں نے مکمل آزادی سے،  مکمل شفاف ووٹنگ میں حصہ لیا۔

حالیہ دستوری ترامیم میں پورا دستور معطل کرنے کے بجاے چند بنیادی اصلاحات منظور کی گئی ہیں۔ تا عمر عہدۂ صدارت پر براجمان رہنے کی راہ بند کرتے ہوئے، زیادہ سے زیادہ دو صدارتی مدتوں کی پابندی عائد کی گئی ہے۔ اب آیندہ نومبر میں پارلیمانی انتخابات ہوں گے۔ منتخب پارلیمنٹ (سینٹ اور اسمبلی) ۱۰۰ رکنی تاسیسی دستوری کمیٹی منتخب کرے گی جو ملک کے لیے جامع دستور تشکیل دے گی۔ ملکی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ دستور کا مسودہ کوئی منتخب کمیٹی تیار کرے گی۔ انتخابات کے بعد چھے ماہ کے اندر اندر نیا دستوری مسودہ تیار ہوگا، پھر ۱۵روز کے اندر اس پر ریفرنڈم کرواتے ہوئے ایک متوازن اور شورائیت پر مبنی نظامِ حکومت تشکیل دیا جائے گا۔

الاخوان المسلمون نے اس ریفرنڈم میں بھرپور حصہ لیا ہے اور اب ایک اور اہم ترین پیش رفت کرتے ہوئے تمام سیاسی پارٹیوں کو بلاکر ایک مشترکہ انتخابی پروگرام پیش کیا ہے جس کے تقریباً تمام نکات متفق علیہ منشور کی حیثیت اختیار کرسکتے ہیں۔ دنیا کے اکثر تجزیہ نگار متفق ہیں کہ اخوان چاہے تو پارلیمنٹ میں بآسانی اکثریت حاصل کرسکتی ہے لیکن اخوان نے دعوت دی ہے کہ اگر سب پارٹیاں اتفاق کریں تو ہم پورے ملک میں مشترک انتخابی پینل تشکیل دے سکتے ہیں۔ باہم لڑنے اور مقابلہ کرنے کے بجاے قومی مفاہمت سے انتخابات میں حصہ لیا جائے۔ اخوان کا نمایاں ترین نعرہ ہے: المشارکۃ لا المغالبۃ، ’’غلبہ نہیں شرکت‘‘۔ مرشد عام ڈاکٹر محمد بدیع نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر پریس کانفرنس میں اعلان کیا ہے کہ ہم تمام نشستوں پر اُمیدوار کھڑے  نہیں کریں گے اور تمام پارٹیوں کے ساتھ مل کر متفق علیہ قومی ایجنڈے کی آبیاری کریں گے۔ اخوان کے اس بڑے پن کا خوش گوار اثر مرتب ہوا ہے اور کئی جماعتوں نے اس پیش کش کا مثبت جواب دیا ہے۔ تقریباً یہی نقشۂ کار تیونس میں تحریک نہضت اسلامی کے سربراہ شیخ راشد الغنوشی نے پیش کیا ہے۔ جس سے مصر اور تیونس میں معاشرے کو دینی جماعتوں کے اقتدار سے خوف زدہ کرنے کا پروپیگنڈا دم توڑ گیا ہے۔

عالمِ عرب میں رُوپذیر یہ سب تبدیلیاں اتنی دُور رس، اچانک اور ہمہ گیر ہیں کہ ان کے بارے میں اکثر لوگوں کو مختلف شکوک و شبہات نے آن گھیرا ہے۔ واقعات کی حدت اس تیزی سے ایک کے بعد دوسرے ملک میں پہنچ رہی ہے کہ مسلسل چرکے سہنے والے اب اس فکرمندی کا شکار ہورہے ہیں کہ کہیں یہ سب کیا دھرا امریکا یا بیرونی طاقتوں ہی کا تو نہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسی طرح کی تشویش خود امریکی مغربی اور اسرائیلی مراکز میں بھی اسی شدت سے پائی جاتی ہے۔ سب سوچ بچار کر رہے ہیں کہ ہمارے تھنک ٹینک اور جاسوسی ادارے ان تبدیلیوں کا ادراک پہلے کیوں نہیں کرسکے۔ حماس کے ایک اعلیٰ ترین ذمہ دار کہہ رہے تھے کہ: تبدیلیاں یقینا ساری دنیا کے لیے اچنبھا خیز تھیں، لیکن ہم میں اور ان میں فرق یہ ہے کہ انھوں نے ہر ممکنہ تبدیلی کی روشنی میں متبادل حکمت عملی تیار کر رکھی ہے۔ اسرائیل نے اس مفروضے کو سامنے رکھتے ہوئے کہ اگر ہمارے نہ چاہنے کے باوجود بھی مصر میں اسرائیل دشمن حکومت آگئی تو متبادل پالیسی کیا ہوگی؟ کا جواب تیار کررکھا ہے۔ امریکا، مغربی ممالک اور صہیونی ریاست اب اسی تبدیل شدہ صورت حال سے اپنے مفاد حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ وہ ہرلمحے یہ سعی کریں گے کہ جہاں جہاں تبدیلی آرہی ہے وہاں اپنے خدمت گزار افراد اور من پسند نظام لاسکیں لیکن قربانیاں دینے والی عوام کی اکثریت مطمئن ہے کہ جس طرح تبدیلیوں کا آغاز مغرب کے نہ چاہنے کے باوجود اور اچانک ہوا ہے، اسی طرح ان تبدیلیوں کی تکمیل بھی ان کے لیے باعثِ راحت نہیں ہوگی۔ البتہ وہ اس میں سے کسی نہ کسی حد تک اپنا حصہ ضرور حاصل کرلیں گے۔ میدانِ عمل میں موجود کارکنان کو یقین ہے کہ اگر وثوق و رسوخ اور ہمہ گیر جدوجہد کے ساتھ تبدیل شدہ صورت حال میں عرب عوام آگے بڑھتے گئے تو عرب دنیا میں یقینا ایک نیا اسٹیج ترتیب پائے گا۔ امریکا کے غلام، جابر فرعونوں اور بے تحاشا ملکی وسائل کو شیرِ مادر کی طرح ڈکار جانے والے کرپٹ حکمرانوں سے آزاد عرب ممالک اور خوفِ خدا سے سرشار اسلامی تحریکیں، اس نئی دنیا میں خدمت و اصلاح کی نئی تاریخ رقم کریں گی۔ وَلَیْسَ ذٰلِک عَلَی اللّٰہِ بِعْزِیْز، ’’اللہ کے لیے یہ کام یقینا کوئی مشکل نہیں‘‘۔

 

بنگلہ دیش کی سیاست میں ایک اہم تبدیلی اس وقت دیکھنے میں آئی جب بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کی سربراہ اور اپوزیشن راہنما خالدہ ضیا نے قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ملک کو درپیش مسائل حل کرنے میں موجودہ حکومت کی ناکامی کی بنا پر     وسط مدتی (مڈٹرم)انتخابات کا مطالبہ کردیا۔ اس موقع پر بی این پی کی اتحادی جماعتیں جماعت اسلامی بنگلہ دیش اور بنگلہ دیش جاتیو پارٹی (بی جے پی) بھی موجود تھیں۔ خالدہ ضیا نے اپنے خطاب میں مہنگائی میں ہوش ربا اضافے، امن و امان کی تشویش ناک صورت حال، بجلی کے بحران جیسے مسائل اور عوامی لیگ کی طرف سے کی جانے والی زیادتیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ناکام ہوچکی ہے، لہٰذا وسط مدتی انتخابات کروائے جائیں۔ انھوں نے مشرق وسطیٰ کے بحران کے نتیجے میں بنگلہ دیش کو درپیش مسائل کی طرف بھی توجہ دلائی (دی ڈیلی سٹار، ڈھاکہ، ۱۵مارچ ۲۰۱۱ء)۔ بی این پی اور اپوزیشن جماعتیں گذشتہ برس جون سے پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کیے ہوئے تھیں۔ اجلاس میں شرکت کا فیصلہ جمہوری عمل کے تسلسل اور ملکی مسائل کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔

عوامی لیگ کی حکومت کو اڑھائی برس ہونے کو آئے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی مخالفت میں اضافہ ہورہا ہے۔ حکومت کی نیشنل ویمن ڈویلپمنٹ پالیسی اور فتویٰ دینے پر پابندی کے اقدامات سے علما کی طرف سے ایسی بھرپور مزاحمت سامنے آئی ہے، جو اس سے قبل دیکھنے میں نہیں آئی۔ گویا ان اقدامات سے علماے کرام بھی حکومت کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں جو کہ بنگلہ دیش میں گہرا اثرورسوخ رکھتے ہیں۔

حکومت نے لادینی اور مغرب نواز حلقوں کی خوشنودی کے لیے خواتین کے حقوق کے نام پر نیشنل ویمن ڈویلپمنٹ پالیسی کا اعلان کیا جس کے تحت وراثت میں مرد اور عورت کا حصہ برابر قرار دیا ہے۔ علاوہ ازیں علماے کرام پر عدلیہ کے ذریعے پابندی لگائی ہے کہ وہ فتویٰ نہیں دے سکتے۔ اس سے قبل حکومت نے جو تعلیمی پالیسی تشکیل دی ہے، وہ بھی قرآن و سنت کے خلاف ہے۔ علما نے قانونِ وراثت میں تبدیلی کو غیرشرعی قرار دیا ہے اور فتویٰ دینے پر پابندی کے خلاف بھرپور احتجاج کیا۔ ۴؍اپریل ۲۰۱۱ء کو ملک گیر ہڑتال کی گئی۔ یہ ہڑتال کمیٹی براے نفاذِ اسلامی قانون (اسلامک لا ایمپلی مینٹیشن کمیٹی) کے امیر مفتی فضل الحق امینی کی اپیل پر کی گئی۔ اس ہڑتال کے نتیجے میں لاکھوں لوگ حکومت کے غیر شرعی اقدامات کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے جس سے حکومت کو تشویش لاحق ہوگئی ہے۔ ہڑتال سے قبل مذہبی جماعتوں کی جانب سے ایک تسلسل سے مختلف شہروں میں بڑے پیمانے پر جلسے اور مظاہرے کیے گئے جس میں بڑی تعداد میں عوام نے شرکت کی۔ عوامی لیگ نے پکڑدھکڑ اور طاقت کے زور سے عوامی ردعمل کو دبانا چاہا لیکن عوام کے سامنے وہ بے بس نظر آرہی تھی۔ علماے کرام اور عوام کا مطالبہ تھا کہ اگر شیخ حسینہ کو اقتدار عزیز ہے تو قرآن و سنت کے خلاف بنائے گئے تمام قوانین واپس لے۔ اس طرح علما کی قیادت میں ملک گیر سطح پر بڑے پیمانے پر حکومت مخالف ردعمل سامنے آیا جو حکومت کے مسائل میں اضافے کا سبب ہے۔

شیخ حسینہ حکومت کو ایک اور ناکامی کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب بنگلہ دیش سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے انتخابات میں عوامی لیگ اور حکمران اتحاد کے حامیوں کو بُری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ الیکشن ۳۰، ۳۱ مارچ ۲۰۱۱ء کو منعقد ہوئے۔ بی این پی کی قیادت میں چار جماعتی اتحاد کے حامی پینل نے ۱۴نشستوں میں سے صدر اور سیکرٹری سمیت ۱۱ نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ الیکشن میں ناکامی کے خدشے کے پیش نظر عوامی لیگ اسٹوڈنٹ ونگ چھاترو لیگ کے غنڈے سپریم کورٹ کی عمارت میں گھس گئے اور ہنگامہ آرائی کی کوشش کی لیکن وکلا برادری نے اس کو ناکام بنا دیا۔ الیکشن میں شان دار کامیابی کے بعد سپریم کورٹ بار کے نومنتخب صدر خوندکر محبوب حسین نے جو خالدہ ضیا کے سیاسی مشیر بھی ہیں، خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہماری فتح درحقیقت ’عوامی جاہلیت‘ کی شکست ہے۔ انھوں نے کہا کہ عوامی لیگ اور اس کے اتحادیوں نے عدالتی نظام کو درہم برہم کرکے رکھ دیا ہے۔ ہم ایک بار پھر عدالتی نظام کو عدل و انصاف کے حسن سے آراستہ کریں گے۔ بار ایسوسی ایشن کے انتخاب میں اپوزیشن کی کامیابی حکومت کے لیے ایک اور دھچکا ہے اور اس کی عدم مقبولیت کا پیمانہ بھی۔

عوامی لیگ کی حکومت کو اندرونِ ملک کے ساتھ ساتھ عالمی دبائو کا بھی سامنا ہے اور یہ اس وقت سامنے آیا جب نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر محمد یونس کو گرامِن بنک کے مینیجنگ ڈائرکٹر کے عہدے سے برطرف کردیا گیا۔ ڈاکٹر محمد یونس نے اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی جو ۸مارچ ۲۰۱۱ء کو خارج کر دی گئی۔ بعدازاں انھوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا لیکن چیف جسٹس اے بی ایم خیرالحق کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے سات رکنی فل بنچ نے بھی ۵؍اپریل ۲۰۱۱ء کو ان کی درخواست کو مسترد کر دیا۔ اس فیصلے کے بعد عالمی ردعمل سامنے آیا۔ ہیلری کلنٹن، جان کیری اور کانگریس کے ایک گروپ نے اس اقدام کی مذمت کی اور ڈاکٹر محمد یونس کی بحالی کا مطالبہ کیا۔ امریکا کے اسسٹنٹ سیکرٹری وسطی و جنوبی ایشیا راورڈ بلیک نے وزیراعظم شیخ حسینہ سے ملاقات کی جس کا مقصد ڈاکٹر محمد یونس کی بحالی تھا۔ انھوں نے بیگم خالدہ ضیا سے بھی ملاقات کی اور گرامِن بنک کے مسئلے پر تشویش کا اظہار کیا ۔

ڈاکٹر محمد یونس بنگلہ دیش میں کبھی بھی مقبول شخصیت نہیں رہے۔ اُن کو گرامِن بنک کی بڑھتی ہوئی شرح سود اورسود کی وصولی کے لیے بے رحمی پر ہمیشہ تنقید کا سامنا کرنا پڑا، البتہ عالمی سطح پر ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ شیخ حسینہ کے ٹارگٹ بننے کے بعد بنگلہ دیش میں اُن کی مقبولیت میں اضافہ ہورہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ شیخ حسینہ نے اپنے پہلے دورِحکومت (۱۹۹۶ء-۲۰۰۱ء) میں ملکی مفاد کے خلاف چٹاگانگ ہل ٹریکٹ کے قبائل کے ساتھ امن کا معاہدہ کیا تھا جس کا مقصد نوبل پرائز کا حصول تھا لیکن اس کے حصول میں وہ ناکام رہیں اور ڈاکٹر محمد یونس کو نوبل پرائز کا حق دار ٹھیرایا گیا۔ شاید اسی وجہ سے وہ ان کے شخصی انتقام کا نشانہ بن رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تمام تر عالمی دبائو کے باوجود شیخ حسینہ ان کو بحال کرنے پر تیار نہیں۔ اس طرح اندرونِ ملک دبائو کے ساتھ ساتھ حکومت کو عالمی دبائو کا بھی سامنا ہے اور اس کی حمایت میں کمی آرہی ہے۔

عوامی لیگ نے برسرِاقتدار آتے ہی انٹرنیشنل کرائم ٹریبونل قائم کرکے جنگی جرائم کے نام پر مخالفین کو انتقام کا نشانہ بنانا شروع کر دیا تھا۔ اس کی زد میں پہلے جماعت اسلامی کے مرکزی قائدین مطیع الرحمن نظامی، علی احسن محمد مجاہد آئے۔ بی این پی کے مرکزی رہنما صلاح الدین قادر چودھری کو بھی گرفتار کیا گیا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ گذشتہ ایک برس سے پابند سلاسل ہیں۔ گذشتہ دنوں بی این پی کے سابق وزیر ۸۰سالہ عبدالعلیم کو ان کے آبائی شہر جے پور ہرٹ سے گرفتار کیا گیا۔ ان کے خلاف الزام ہے کہ انھوں نے ۱۹۷۱ء میں ۱۰ہزار افراد کا قتل کیا تھا۔ جب عدالت نے سوال کیا کہ کیا ۱۰ہزار لوگوں کا قتل اکیلے عبدالعلیم نے کیا، تو سرکاری وکیل اس کا    کوئی واضح جواب نہ دے سکا۔ بعدازاں ان کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ ان کی رہائی پر کسان مزدور عوامی پارٹی کے سربراہ عبدالقادر صدیقی نے کہا کہ عبدالعلیم صاحب کو ضمانت پر رہا کردینے کے بعد ٹریبونل کو چاہیے کہ جنگی جرائم کے الزام میں گرفتار باقی لوگوں کو بھی ضمانت پر رہا کردے۔ اب ان کو جیل میں رکھنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہا۔ مزید یہ کہ خود ٹریبونل بھی بین الاقوامی معیار سے فروتر ہے۔ اس عدالتی فیصلے سے اس احساس کو مزید تقویت ملی کہ حکومت جنگی جرائم کے نام پر مخالفین کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے اور اس کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت بھی نہیں ہیں۔

عوامی لیگ کی حکومت کے مسائل میں اضافہ اور مخالفت بتدریج بڑھتی جارہی ہے۔ جاپان میں زلزلے اور سونامی کی وجہ سے جاپان کی طرف سے ترقیاتی کاموں میں امداد کا سلسلہ رُک گیا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں بحران کی وجہ سے ۳۵ہزار سے زائد بنگلہ دیشی ملک واپس آچکے ہیں۔ ورلڈبنک سے قرضوں کے حصول میں بھی مسائل کا سامنا ہے۔ گرامِن بنک کے مسئلے پر امریکا اور یورپی یونین سے کشیدگی پیدا ہوگئی ہے۔ امن و امان کی ابتر صورت حال، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور حکومت کے غیر جمہوری رویوں اور انتقامی پالیسی سے عوام میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔ نیشنل ویمن ڈویلپمنٹ پالیسی کے تحت غیرشرعی اقدامات نے علما کو بھی حکومت کے خلاف کھڑا کردیا ہے۔ ایسے میں بی این پی کی طرف سے وسط مدتی انتخابات کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ مبصرین کی راے میں اگر حکومت کی یہی روش رہی تو وہ اپنی آئینی مدت پوری نہ کرسکے گی۔

 

حدیث میں سید مودودی کی خدمات، ڈاکٹر محسنہ عظیم۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ فون: ۵۴۱۹۵۲۰-۰۴۲۔ صفحات: ۴۳۷۔ قیمت: ۳۸۰ روپے۔

شریعت ِ اسلامیہ کی تشریح و تعبیر کا قدیم سرمایہ اس بات کی دلیل ہے کہ فہم و استنباط میں تمام ذہن ایک جیسے نہیں ہوسکتے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے بھی اپنے وسیع مطالعے، گہرے غوروفکر اور حالات و زمانے کی رعایت کے پیش نظر بہت سے مسائل میں اعتدال کی راہ نکالی اور ایک محقق عالم کی طرح بعض قدیم اسالیب سے اپنی تحقیق اور فہم کے مطابق اختلاف بھی کیا۔ جسے بعض حلقوں نے ہدفِ تنقید بنایا۔

مولانا مودودیؒ نے تصورِ اقامت ِ دین اور اسلام بطور نظامِ زندگی کو جس مؤثر انداز میں پیش کیا ہے، اس کی بنیاد تین مآخذ ہیں: یعنی قرآن، حدیث اور فقہ۔ یہ حقیقت ہے کہ  مولانا مودودیؒ نے اسلام کی تشریح و تعبیر میں حدیثِ نبویؐ کو وہی حیثیت دی ہے جو فقہا و محدثین دیتے رہے ہیں۔

زیرنظر کتاب میں سید مودودیؒ کی خدمات حدیث پر بحث کی گئی ہے۔ پانچ ابواب پر مشتمل اس کتاب کے پہلے باب میں سید مودودیؒ کی ۱۷ تصانیف میں استدلال بالحدیث پر گفتگو کی گئی ہے۔ دوسرے باب میں علمِ حدیث کے فنی پہلوئوں روایت، درایت اور تطبیق و ترجیح میں ان کا اسلوب زیربحث آیا ہے۔ تیسرا باب حدیث کی تشریح میں سید مودودی کے انداز کے بارے میں ہے۔ چوتھا باب دفاعِ حدیث کے حوالے سے اُس جدوجہد کی طرف مختصر اشاروں پر مشتمل ہے جو انھوں نے حدیث کی آئینی حیثیت منوانے کے لیے کی۔ پانچواں باب حدیث کے حوالے سے سید مودودی پر اعتراضات کا بیان ہے۔ تیسرے اور چوتھے باب کو کتاب کا مرکزی حصہ قرار دیا جاسکتا ہے اور انھی ابواب میں اس اسلوب کا ذکر ہے جو بعض کے نزدیک موردِ تنقید ٹھیرایا گیا۔

زیرنظر کتاب میں سید مودودی کی خدمات ِ حدیث پر اُن بعض اعتراضات کا جواب  فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو بعض حلقوں کی جانب سے اُٹھائے جاتے ہیں، تاہم چند پہلو تشنۂ بحث ہیں۔ (ارشاد الرحمٰن)


اسلامی فکروثقافت کی بنیادیں، ڈاکٹر انیس احمد۔ ناشر: منشورات، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور-۵۴۷۹۰۔ فون: ۳۵۴۳۴۹۰۹-۰۴۲۔صفحات: ۹۳۔ قیمت: ۸۰ روپے۔

اسلام سے متعلق، مستشرقین کی تحقیقات میں یہ چیز بہت واضح دکھائی دیتی ہے کہ اسلام ایک علاقائی، نسلی اور لسانی پس منظر رکھتا ہے۔ یہ عربوں کا مذہب ہے اور عرب ثقافت ہی اس کی بنیاد ہے___ یہ ’تحقیق‘ پیش کر کے، بعض مستشرقین سوال اُٹھاتے ہیں کہ یہ قدیم شریعت جدید دور میں کس طرح قابلِ عمل ہوسکتی ہے؟

زیرتبصرہ کتاب مستشرقین کے پیدا کردہ اسی ابہام اور تشکیک کو دُور کرنے کی ایک کاوش ہے۔ اسلامی تہذیب و ثقافت جن بنیادی عناصر سے تشکیل پاتی ہے، قرآن کی روشنی میں اُن کو جامعیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر انیس احمد صاحب نے ایسے مصنّفین کی تصحیح کی کوشش کی ہے جو اسلامی ثقافت کو بھی دیگر ثقافتوں پر قیاس کرتے ہیں، اور اس بات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے کہ اسلامی ثقافت کسی معاشرتی ارتقا کی بنیاد پر پروان نہیں چڑھی ہے، بلکہ اس کی جڑیں اُن آفاقی اقدار میں ہیں جو کسی بھی معاشرے کو تبدیل کرنے کی صلاحیت قیامت تک کے لیے رکھتی ہیں۔

اسلامی فکروثقافت کی ان قرآنی بنیادوں کو علم و تفقہ، وحیِ الٰہی، مقاصد شریعت و انسانیت، ذکرو فکر اور تزکیہ و تدبر کے عنوانات دیے گئے ہیں۔ یہ وہ نکات ہیں جو اس فکروثقافت کا تعارف بھی ہیں اور اس کا ڈھانچا بھی۔ مصنف نے ایک نکتے کو دوسرے سے مربوط کر کے بہت جامع انداز میں زیربحث موضوع کو سمیٹا ہے۔ ’پیش لفظ‘ میں موضوع پر اظہارِ خیال کی ضرورت پر روشنی ڈالی گئی۔ جدید ذہن میں پیدا ہونے والے بہت سے سوالات کا جواب اس کتاب کی صورت میں فراہم ہوگیا ہے۔(ا-ر )


سیردریا، مرزا محمد کاظم برلاس، (ترتیب و تدوین: ڈاکٹر شفیق انجم)۔ ناشر: الفتح پبلی کیشنز، ۲۹۲-اے،  گلی ۵-اے، لین نمبر۵، گل ریز ہائوسنگ سکیم-۲، راولپنڈی۔ صفحات: ۱۲۸۔ قیمت: ۱۶۰ روپے۔

سیردریا اُردو کے ابتدائی اور قدیم سفرناموں میں سے ایک ہے۔ مصنف مرزا محمد کاظم برلاس ۱۸۹۷ء میں ہندستان سے سری لنکا گئے تھے اور واپسی پر اپنے تاثرات و مشاہدات کو زیرنظر سفرنامے کی شکل میں پیش کیا۔ اگرچہ سیردریا کے بعض حصوں پر اُردو داستانوں کا اثر محسوس ہوتا ہے،تاہم اس کی نثر کا مجموعی مزاج اور رنگ و آہنگ دورِ سرسیّد کا ہے۔

مرزا برلاس متعدد کتابوں کے مصنف تھے جن کی تفصیل زیرنظر سفرنامے کے مرتب ڈاکٹر شفیق انجم نے اپنے مقدمے میں دی ہے۔ رودادِ سفر کا اسلوبِ تحریر بیانیہ ہے۔

مصنف نے اختصار کے ساتھ سری لنکا جزیرے کا جامع تعارف کرایا ہے جس میں لنکا کی تاریخ، جغرافیہ، شہروں اور بستیوں (کولمبو، کنڈی، گالے، رتناپور )، باشندوں اور قوموں (تامل، چولی، جنگلی، ڈچ وغیرہ)، زرعی پیداوار (چائے، کافی، چاول، ناریل، صندل، نارجیل وغیرہ) اور جانوروں (ہاتھی، ’بھگرا‘ نامی شیر سے چھوٹا جانور، ریچھ، کنڈی وغیرہ) کا تعارف شامل ہے۔

سری لنکا سے اس زمانے میں ہاتھی بھی برآمد کیے جاتے تھے۔ مصنف نے تفصیل سے بتایا ہے کہ انھیں کیسے پکڑا یا ان کا ’شکار‘ کیا جاتا تھا۔ اسی طرح سمندر سے موتیوں اور سیپیوں کے نکالنے کا احوال بھی لکھا ہے (ص ۵۸ تا ۶۵)۔ واپسی پر مرزا برلاس نے مالدیپ جزیرے پر مختصر قیام کیا۔ سفرنامے میں وہاں کے ایک اور قریبی جزیرے لکادیپ کے حالات بھی ملتے ہیں۔ بعض معلومات حیران کن ہیں، مثلاً لکھتے ہیں: ’’مالدیپ کے متعلق تمام جزائر میں ایک قوم آباد ہے جس کی نسل عرب معلوم ہوتی ہے۔ مذہب ان کا اسلام ہے۔ تمام خلقت نماز گزار اور قرآن خواں ہے--- تمام معاملات قانونِ شرع محمدی کے مطابق فیصل ہوتے ہیں۔ اس کا حاکم مسلمان ہے اور اس کا لقب سلطان ہے۔ انگریزوں کا کوئی تصرف اس جگہ نہیں، تاہم معاملات قاضی کے حکم سے فیصلہ پاتے ہیں‘‘(ص ۸۳)۔ سرسید دور میں ہمارے بیش تر ادیبوں کا ذہن مصلحت یا مصالحت پسندی کا تھا، مگر مرزا کاظم برلاس نے حسبِ موقع ’’لٹیروں اور دغابازوں‘‘ (انگریزی حکومت) پر سخت تنقید کی ہے۔ ایک جگہ ہندستان کے انگریزی تعلیمی نظام کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’انسان کا بچہ خاصا حیوان بن کر سکون سے نکلتا ہے۔ یہ اس تعلیم کا نتیجہ ہے کہ جس میں ادب اور اخلاق بالکل نہیں‘‘۔

ڈاکٹر شفیق انجم نمل یونی ورسٹی میں اُردو کے استاد ہیں۔ انھوں نے بڑی محنت و کاوش سے سیردریا  مرتب کی ہے۔ اس ’ترتیب‘ میں صحت و تدوینِ متن، تعلیقات، فرہنگ اور مفصل مقدمہ شامل ہیں۔ مرتب نے الفاظ و محاورات کے معنی کے ساتھ متعلقہ کتابِ لغت کا حوالہ بھی دے دیا ہے، کہیں کہیں اِملا میں اصولِ امالہ سے بے نیازی بھی کھٹکتی ہے۔

’’تعلیقات‘‘ میں اماکن و رجال، سری لنکا کی تاریخ اور جغرافیے سے متعلق بعض افراد، اماکن، عقائد، تہواروں اور زبانوں کی وضاحت ہے، مثلاً سیتاجی، بدھ مت، تامل، آدم کا پُل، گالے مُکتی وغیرہ۔ سیردریا میں اشاریہ بھی شامل کیا ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


جمہوریت اور اسلام، مغرب کا مقدمہ، مرزا محمد الیاس۔ ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈمی، کراچی۔ ملنے کا پتا: اکیڈمی بُک سینٹر، ڈی-۳۵، بلاک ۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی۔ صفحات: ۳۱۰۔ قیمت ۲۵۰ روپے۔

مغرب نے پوری دنیا میں اسلام کے خلاف ایک مہم چلا رکھی ہے۔ کتاب کے مصنف نے اس مہم کی بنیادوں کو نمایاں کرنے کے لیے مغرب کے چیدہ چیدہ دانش وروں کے استدلال کو    پیش کیا ہے اور بتایا ہے کہ جہاد کے بارے میں اسلام کی تاریخ، تعلیمات، واقعات اور تازہ حالات کی گمراہ کن تشریح و تعبیر کا سلسلہ کیسے اور کن صورتوں میں جاری ہے۔ وہ مغربی سوچ کا خلاصہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: ’’اسلام ایک تہذیبی قوت کے طور پر شکست کھا چکا ہے… اور اس کی جگہ مغرب نے لے لی ہے، اور شکست خوردہ عناصر اسلام کے غلبے کو دوبارہ قائم کرنے کے لیے تشدد کا استعمال کر رہے ہیں‘‘۔ (ص ۳۱)

مصنف نے بجا طور پر لکھا ہے کہ: ’’مغرب اسلام کا ایک خودساختہ تعارف پیش کرنے اور اس میں اپنے لیے ایک خطرہ کشید کرنے کے ساتھ ساتھ اس الزامی استدلال کو اسلامی قیادت کو نشانہ بنانے کے لیے بھی استعمال کر رہا ہے (ص ۳۷)۔ ’’مغرب ایک الزام متعین کرتا ہے، اس کی سماعت بھی خود کرتا ہے اور خود ہی منصف بن کر یہ فیصلہ دیتا ہے کہ اب اس کا انسداد ہونا ضروری ہے۔ چنانچہ اس کے تھنک ٹینک اس پر کام کرتے ہیں، مذہب کے بارے میں نئے مباحث اُٹھائے جاتے ہیں اور ان میں اسلام پر تنقید کی جاتی ہے‘‘۔ (ص ۴۳-۴۴)

مغرب پہلے زبان، قلم اور قرطاس استعمال کر کے راہ ہموار کرتا ہے اور پھر میزائل،بمبار طیارے خطۂ زمین پر آگ برسانے لے آتا ہے۔ دورِحاضر میں جاری فکری اور عملی جنگ میں  عالمِ اسلام کو اپنے مسائل اور مغربی یلغار کو سمجھنے میں یہ کتاب ایک مفید ماخذ ہے۔ مرزا محمد الیاس نے اپنے گہرے فکری اور مطالعاتی نتائج کو مدلل انداز میں بیان کیا ہے، تاکہ مغرب اور اسلام کے مابین جاری جنگ میں ہونے والی تباہی کا پتا لگایا جاسکے، اور دنیا کو امن کے گہوارے میں بدلنے کے لیے الزام تراشوں کی الزام تراشیوں کا جواب دیا جاسکے۔(محمد الیاس انصاری)

مرد کُہستانی (مولانا عبدالحق بلوچ مرحوم)، مولانا عبدالحق ہاشمی۔ ناشر: مکتبہ الہدیٰ، پٹیل روڈ، کوئٹہ۔ ملنے کا پتا: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ صفحات: ۲۰۸۔ قیمت: درج نہیں۔

مولانا عبدالحق بلوچ معروف عالمِ دین ، جماعت ِ اسلامی کے مرکزی راہنما اور قومی اسمبلی کے رُکن تھے۔ وہ ۱۵ برس تک جماعت اسلامی بلوچستان کے امیر رہے۔ ان کی ساری زندگی اقامت ِ دین کی جدوجہد میں بسر ہوئی اور اُن کی بدولت ایک بڑی تعداد اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد کرنے والے قافلے کی شریکِ سفر ہوئی۔ مولانا عبدالحق بلوچ سے طویل رفاقت اور قریبی تعلق رکھنے والے دوست مولانا عبدالحق ہاشمی نے اُن کی زندگی کے نمایاں پہلوئوں: تحریکی جدوجہد، علمی ذوق، کتابوں سے محبت،  بذلہ سنجی اور بلوچ تہذیب و ثقافت سے آگہی کے حوالے سے مولانا مرحوم کے تجربات اور دستیاب معلومات کو زیرتبصرہ کتاب کی صورت میں یک جا کر دیا ہے۔

مولانا بلوچ مرحوم متواضع شخصیت کے حامل تھے۔ علم و دانش، قرآن وسنت سے استنباط اور تقریر و خطابت کے اوصاف کے ساتھ ساتھ علماے کرام میں باہمی اتحاد و یک جہتی کے لیے بھی اہم کردار ادا کرتے رہے۔ مولانا کے خاندان، ذکری فرقے اور بلوچستان کے مجموعی حالات کے بارے میں اس کتاب میں معلومات افزا تفصیلات ملتی ہیں۔ جس زمانے میں وہ قومی اسمبلی کے رکن رہے، کتاب میں اُس دور کی ملکی سیاسی سرگرمیوں اور سیاست دانوں کی قلابازیوں کے تذکرے بھی ملتے ہیں۔ چند نادر تصاویر بھی شاملِ کتاب ہیں۔ بایں ہمہ مولانا بلوچ مرحوم کے عزیز و اقارب اور قریبی دوستوں کے تذکرے کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ مولانا کے شاگردوں اور اُن سے متاثر لوگوں کا ایک وسیع حلقہ موجود ہے۔ اگر اُن کے تاثرات بھی شامل ہوجاتے تو کتاب کی قدروقیمت میں مزید اضافہ ہوجاتا۔ پیش لفظ جناب سید منور حسن اور تقریظ جناب قاضی حسین احمد نے تحریر کی ہے۔ اُمید ہے مولانا عبدالحق ہاشمی نے اسلاف اور دورِ جدید میں اہلِ اللہ کے تذکرے کے جس سلسلے کا آغاز کیا ہے اسے مزید آگے بڑھائیں گے۔ (محمد ایوب منیر)


نماز باجماعت کی اہمیت، پروفیسر ڈاکٹر فضل الٰہی۔ ناشر: دارالنور، اسلام آباد۔ ملنے کا پتا:  مکتبہ قدوسیہ، رحمان مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۳۰۲۔ قیمت: درج نہیں۔

نماز باجماعت کی اہمیت اسلام میں مسلّم ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کے دور میں اس کا ازحد اہتمام اس حکم کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ مصنف نے دین اسلام کے اس اہم حکم کو سیرتِ رسولؐ اور آثارِ صحابہؓ کی روشنی میں احسن طریقے سے بیان کیا ہے۔ کتاب چار بنیادی مباحث اور ان کی ذیلی تفصیلات پر مشتمل ہے۔ نماز باجماعت کے فضائل و فرضیت، نبی کریمؐ اور   سلف صالحین کا باجماعت نماز کے لیے اہتمام، نیز نماز باجماعت کے بارے میں علماے اُمت کا موقف زیربحث آئے ہیں۔ فقہی آرا، ائمہ اربعہ اور اہلِ ظاہریہ کے نقطۂ نظر کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔ کتاب کے آخر میں خواتین کے لیے بھی شریعت مطہرہ کی روشنی میں نماز کے لیے احکامات و مسائل پر بات کرتے ہوئے ان امور کی طرف توجہ دلائی گئی ہے: ۱-خاتون کے گھر کی نماز کا باجماعت نماز سے اعلیٰ ہونا ثابت ہے۔ ۲-اپنے مردوں کو باجماعت نماز کی دعوت دے کر جماعت کا اجر پانا حدیث سے ثابت ہے۔ ۳-شرعی آداب کی پابندی کرتے ہوئے خاتون کا باجماعت نماز کے لیے جانے کی اجازت دین میں موجود ہے۔(حافظ ساجد انور)


توحید و سنت، ماہر القادری۔ ناشر: مرزا محمد اعظم بیگ۔ ملنے کا پتا: مکتبہ جماعت اسلامی، ۲۹-غازی علم الدین شہید (لٹن) روڈ، لاہور۔ فون: ۳۵۱۲۰۳۱۲-۰۴۲۔ صفحات: ۴۸۔ قیمت: فی سبیل اللہ

ناشر مرزا اعظم بیگ نے دورِ جدید میں جاہلیت جدیدہ (مزار پرستی،قبر پرستی، شرک اور بدعت وغیرہ) کے روز افزوں اور وسیع ہوتے ہوئے دائرے سے پریشان ہوکر یہ کتابچہ شائع کیا ہے۔ ماہرالقادری (م:۱۹۷۸ء) نے یہ مقالہ: ’’توحید کیا ہے؟‘‘ کے عنوان سے اپنے رسالے فاران کے توحید نمبرکے اداریے کے طور پر لکھا تھا۔اس میں قرآن اور حدیث کی روشنی میں بعض مشرکانہ عقائد کا بُطلان کیا گیا ہے۔ ماہرصاحب ’عشقِ رسولؐ ‘کے نام پر کی جانے والی بدعات کے حوالے سے لکھتے ہیں: ’’کتنا بڑا دھوکا ہے جو ’عشق و محبت‘ کے نام پر شیطان نے دے رکھا ہے؟‘‘ (ص ۴۷)___ عالم الغیب کون؟عبدیت اور بشریت، وسیلے کی تلاش اور زیارتِ قبور جیسے عنوانات سے مباحث کی نوعیت کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ ماہرالقادری شاعر تھے مگر قرآن و حدیث پر ان کی نظر گہری تھی، اس لیے ان کی گرفت اور بدعات کے خلاف اُن کا استدلال متاثر کرتا ہے۔ مرزا اعظم بیگ بڑی دردمندی سے صفحہ ۳پر کہتے ہیںکہ یہ کتابچہ جن بہن بھائیوں تک پہنچے، میری اُن سے عاجزانہ درخواست ہے کہ وہ ہرقسم کی فرقہ پرستی سے خالی الذہن ہوکر اس کا مطالعہ کریں ۔ (ر-ہ )

تعارف کتب

  •  Maudoodi on Education ، سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ، ترجمہ: پروفیسر ایس ایم عبدالرئوف۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی۔ ڈی-۳۵، بلاک ۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی ۷۵۹۵۰۔ فون: ۳۶۳۴۹۸۴۰-۰۲۱۔ صفحات:۱۵۶۔ قیمت:۱۳۰ روپے۔ [قیامِ پاکستان سے قبل اور بعد تعلیم کے موضوعات پر سید مودودی کے ۹مقالات تعلیمات کے نام سے شائع کیے گئے۔ یہ ان کا شُستہ اوررواں انگریزی ترجمہ ہے۔ مسائل آج کتنے ہی متنوع ہوگئے ہوں، جدید و قدیم تعلیم کی کش مکش اور قومی و ملّی ضروریات کے تقاضوں کے حوالے سے بنیادی رہنمائی اس وقیع کتاب سے آج بھی ملتی ہے۔]
  •  سہ روزہ دعوت، نئی دہلی، خصوصی اشاعت: بابری مسجد: شرعی، قانونی اور تاریخی حیثیت۔ادارت: پروازرحمانی، شفیق الرحمن۔ صفحات: ۱۶۲ (کتابی سائز)۔ ملنے کا پتا: منشورات، منصورہ، لاہور- فون: ۳۵۴۳۴۹۰۹-۰۴۲۔ قیمت: ۱۰۰ روپے پاکستانی۔ [بابری مسجد پر بہت کچھ لکھا گیا ہے اور بہت کچھ لکھا جا رہا ہے۔ مقدمے کے حالیہ فیصلے کے بعد پھر یہ موضوع گرم ہوگیا ہے۔ اس اشاعت میں ۱۵ عنوانات کے تحت تمام پہلوئوں کو اختصار اور جامعیت سے سمیٹ لیا گیا ہے۔]
  •  سیدہ حفصہؓ ، تالیف: ظہورالدین بٹ۔ ناشر: ادارہ ادب اطفال، رحمن مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۹۸۔ قیمت: ۷۰ روپے۔ [اُمہات المومنینؓ میں سیدہ حفصہؓ نمایاں اوصاف کی حامل ہیں۔ آپ کاتبہ وحی، حافظہ قرآن اور محافظہ قرآن تھیں (آپؓ کے پاس محفوظ مصحف سے قرآنی نسخے تیار کیے گئے تھے)۔ حضرت حفصہؓ بنت سیدنا عمرفاروقؓ کی سیرت مطہرہ، اسلامی تحریک کے مختلف مراحل، نبی کریمؐ کی عائلی زندگی اور اسلامی معاشرت کا افسانوی انداز میں دل چسپ تذکرہ۔ خواتین کی تربیت کے لیے خصوصی تحفہ!]
  •  کرسمس(عیسائیت سے مسلمانوں تک) ،تالیف: عبدالوارث ساجد۔ ناشر: صبح روشن پبلشرز، چیٹرجی روڈ، اُردوبازار،لاہور۔ فون: ۴۲۷۵۷۶۷-۰۳۲۱۔ صفحات: ۱۱۲۔ قیمت:۸۰ روپے۔[کرسمس کی تقریبات  میں اب مسلمان بھی شریک ہونے لگے ہیں۔ کرسمس کی حقیقت اور اسلام کی تعلیمات، نیز مسلمانوں میں کرسمس کے فروغ اور اس کی مخالفت کی وجوہات کے موضوع پر زیرنظر کتاب مرتب کی گئی ہے۔]
  •  ترکی میں احادیث کی جدید موضوعی تدوین ، ثاقب اکبر۔ ناشر: البصیرہ، ۲۹۹، گلی ۷۶، جی نائن تھری، اسلام آباد، فون: ۲۸۵۱۴۰۹-۰۵۱۔ صفحات: ۶۰ روپے۔ قیمت: درج نہیں۔ [ترکی میں حدیث کی موضوعاتی تدوینِ نو کے ایک منصوبے پر کام ہو رہا ہے۔ یہ منصوبہ کیا ہے؟ اس کے بارے میں سامنے آنے والا ردعمل اور مصنف کے انقرہ میں مذکورہ ادارے میں مشاہدات کو یک جا کردیا گیا ہے اور اہلِ علم کو غوروفکر کی دعوت دی ہے۔]
  •  اَمثال القرآن ، تالیف: قاری محمد دلاور سلفی۔ ناشر: صبحِ روشن پبلشرز، چیٹرجی روڈ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۴۲۷۵۷۶۷۔۰۳۲۱۔ صفحات: ۳۰۳۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔ [قرآنِ مجید کا اسلوبِ بیان منفرد ہے اور تمثیل کو بھی ذریعۂ اظہار بنایا گیا ہے۔ قرآنِ مجید میں تمثیلات جابجا بکھری ہوئی ہیں۔ مؤلف نے انھیں یک جا کردیا ہے اور ’تفہیم‘ کے عنوان کے تحت معروف تفاسیر قرآن اور احادیث سے ان کی وضاحت بھی کردی ہے۔ فہم قرآن اور درسِ قرآن کے لیے ایک مفید کاوش۔]
  •  کاروانِ عزیمت ، تحریر و ترتیب: ڈاکٹر ممتاز عمر۔ ملنے کا پتا: راشد جمال پبلی کیشنز، ۵۷۴-T، کورنگی نمبر۲، کراچی۔ صفحات: ۱۹۶۔ قیمت: دعاے خیر۔ [کاروانِ عزیمت ضلع بن قاسم کراچی کے ان شہدا کا تذکرہ ہے جنھوں نے راہِ حق میں جدوجہد کرتے ہوئے اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی۔ مرزا لقمان بیگ شہید کی تحریک سے وابستگی، جدوجہد اور تڑپ کا مفصل تذکرہ، جب کہ محمداسلم مجاہد شہید، طاہر جمال شہید اور ریاض انجم شہید کے مختصر حالاتِ زندگی و خدمات کا بیان۔ کارکنانِ تحریک کے لیے اِک ولولہ تازہ اور تحریکی روایات اور جدوجہد کا ایک ایمان افروز باب___ ۵۰ روپے کے ڈاک ٹکٹ بھجوا کر کتاب بلامعاوضہ منگوائی جاسکتی ہے۔]
  •  خزینۂ نبوت ،پروفیسر سید ارشد جمیل۔ ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈمی، کراچی۔ تقسیم کار: اکیڈمی بُک سنٹر، ڈی ۳۵، بلاک ۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی۔ فون ۳۶۳۴۹۸۴۰-۰۲۱۔ صفحات: ۱۱۰۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔ [۳۱۰ مختصر اور جامع احادیث کا عربی متن اور منظوم ترجمہ یا ترجمانی۔ اساتذہ اور مقررین و مدرسین انھیں ازبرکرکے اپنی گفتگو ، تقریر اور خطاب کو مؤثر بنا سکتے ہیں۔]