انسان کی تخلیق کے حوالے سے قرآن کریم میں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے ایک ایسی جامع اصطلاح بیان فرمائی ہے جو انسان کی پوری زندگی میں ہونے والے اعمال اور ان کے انجام کا احاطہ کرلیتی ہے۔فرمایا گیا: یاَیُّھَا الْاِنْسَانُ مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الْکَرِیْمِ o الَّذِیْ خَلَقَکَ فَسَوّٰکَ فَعَدَلَکَ o فِیْٓ اَیِّ صُورَۃٍ مَّا شَآئَ رَکَّبَکَ o (الانفطار ۸۲:۶-۸) ’’اے انسان کس چیز نے تجھے اپنے اس ربِّ کریم کی طرف سے دھوکے میں ڈال دیا جس نے تجھے پیدا کیا، تجھے نِک سُک سے درست کیا، تجھے متناسب بنایا اور جس صورت میں چاہا تجھ کو جوڑ کر تیار کیا‘‘۔
ان آیاتِ مبارکہ میں جہاںانسان کو یاد دہانی کی جارہی ہے کہ وہ اپنی اصل کو نہ بھولے ، وہاں اسے اللہ تعالیٰ کے اس احسان سے بھی آگاہ کیا جارہا ہے کہ خالق کائنات جو عادل ہے، وہ نہ کسی پر زیادتی کرتا ہے اور نہ کسی معاملے میں بے جا گرفت کرتا ہے۔ انسان کو بناتے وقت نہ صرف ہرلحاظ سے بہترین شکل میں پیدا کیا، بلکہ پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی نوک پلک کا خیال رکھتے ہوئے اسے انتہائی متناسب بنایا، جیساکہ سورۃ التین میں کہا گیا: لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ o (التین ۹۵:۴) ’’ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا‘‘۔
جس طرح ایک مصور تصویرکشی سے قبل اپنے ذہن میں ایک نقشہ بناتا ہے اور یہ بھی طے کرتا ہے کہ اس کی تخلیق کا استعمال کیا ہوگا، اسی طرح خالق کائنات نے انسان کو بہترین ساخت اور توازن کے ساتھ پیدا کرنے سے قبل ہی یہ بات فرشتوں کو سمجھا دی تھی کہ اس کا مقصد اور کردار کیا ہوگا، اسے کہاں زندگی بسر کرنی ہوگی، اور کیا اسے بے لگام چھوڑ دیا جائے گا یا جس طرح اس کی تخلیق میں نِک سُک کا خیال رکھا گیا اسی طرح انسان کو ایسی ہدایت سے نوازا جائے گا جو جامع اور کامل ہو، اور اس کی زندگی کے تمام معاملات میں ہدایت فراہم کرے۔ سورۃ الاعلیٰ میں اسی جانب اشارہ فرمایا گیا ہے: الَّذِیْ خَلَقَ فَسَوّٰی o وَالَّذِیْ قَدَّرَ فَہَدٰیo (الاعلٰی ۸۷:۲-۳) ’’جس نے پیدا کیا اور تناسب قائم کیا، جس نے تقدیر بنائی پھر راہ دکھائی‘‘۔
انسان کی یہ بہترین تخلیق جہاں خالق کے خود کمال کے اعلیٰ ترین درجے پر ہونے کی دلیل ہے، وہیں اس بات کی بھی شاہد ہے کہ اگر اس نے، جو عادل ہے اور انسان کو تعدیل کے ساتھ پیدا کیا ہے، تو انسان کا فرض ہے کہ وہ عدل کو اپنا وتیرا بنائے اور عدل و توازن کے قیام کے لیے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے خلیفہ کی حیثیت سے اس نظامِ عدل کو قائم کرے، جس کا مکمل نقشہ خالق کائنات نے اپنے کلام اور صاحب ِ کلام کے ذریعے انسانوں تک پہنچا دیا ہے، تاکہ زندگی کے ہر شعبے میں عدل قائم کیا جاسکے کہ کارِنبوت کا اصل ہدف یہی ہے: ’’ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں اور لوہا اُتارا جس میں بڑا زور ہے اور لوگوں کے لیے منافع ہے‘‘۔(الحدید ۵۷:۲۵)
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ’میزان‘ اور ’حدید‘ کی وضاحت ان تاریخی الفاظ میں کرتے ہیں: ’’میزان، یعنی وہ معیار حق و باطل جو ٹھیک ٹھیک ترازو کی طرح تول تول کر یہ بتا دے کہ افکار، اخلاق اور معاملات میں افراط و تفریط کی مختلف انتہائوں کے درمیان انصاف کی بات کیا ہے… انبیاے علیہم السلام کے مشن کو بیان کرنے کے معاً بعد یہ فرمانا[یعنی لوہے کا نازل کیا جانا] خود بخود اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہاں لوہے سے مراد سیاسی اور جنگی طاقت ہے اور کلام کا مدعا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو قیامِ عدل کی محض ایک اسکیم پیش کردینے کے لیے مبعوث نہیں فرمایا تھا، بلکہ یہ بات بھی ان کے مشن میں شامل تھی کہ اس کو عملاً نافذ کرنے کی کوشش کی جائے اور وہ قوت فراہم کی جائے جس سے فی الواقع عدل قائم ہوسکے، اسے درہم برہم کرنے والوں کو سزا دی جاسکے اور اس کی مزاحمت کرنے والوں کا زور توڑا جاسکے‘‘۔ (تفہیم القرآن، پنجم، ص ۳۲۲)
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت اوراس سے قبل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا کہ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّ اجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْکَ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًاo (بنی اسرائیل ۱۷:۸۰) ’’پروردگار، مجھ کو جہاں بھی تو لے جا سچائی کے ساتھ لے جا اور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنادے‘‘، اور پھر یہ بشارت کہ جَآئَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ ط اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًاo (بنی اسرائیل ۱۷:۸۱) ’’حق آگیا اور باطل مٹ گیا، باطل تو مٹنے ہی والا ہے‘‘، اس بات کا ثبوت ہے کہ عدل اور اس کا قیام ہی وہ محور ہے جس کے گرد زندگی کا پورا نظام گردش کرتا ہے اور کائنات کی تخلیق کا مرکزی نکتہ بھی میزان ہی کا قیام ہے۔
یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے انسان کو معتدل و متناسب بناکر جو مقصد اور مشن اس کے سپرد کیا وہ بھی اس ترکیب تخلیق سے گہری مناسبت رکھتا ہے، یعنی ایک ایسا متوازن، معتدل اور متناسب نظام کا قیام جس میں ظلم و استحصال،اللہ سے بغاوت، اخلاقی اصولوں کی خلاف ورزی، انسانی حقوق کی پامالی نہ پائی جاتی ہو، اور فرد، معاشرہ، معیشت، سیاست، ثقافت، قانون، تعلیم، غرض ہر شعبۂ حیات میں مکمل عدل پایا جائے۔ نظامِ عدل کے قیام کے لیے قرآن و سنت نے جو اصول، لوازمات اور لائحہ عمل بتایا ہے اسے جب اور جہاں کہیں اختیار کیا جائے گا معاشرے میں عدل و انصاف کے قیام کے راستے کشادہ ہوجائیں گے اور جب اور جہاں کہیں بھی ان اصولوں سے انحراف کیا جائے گا متضاد نتائج سامنے آئیں گے۔
قرآن کریم عدل کی جامع اور مثبت اصطلاح کو ظلم، فساد، عدوان اور طاغوت کی اصطلاحات کی مخالف اصطلاح کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ جو لوگ زمین میں فساد اور ظلم پھیلاتے ہیں اللہ تعالیٰ انھیں اپنے عادل، مطیع اور متقی بندوں کے ذریعے تبدیل کرتا ہے تاکہ زمین میں قیامِ عدل ہو اور انسان افراط و تفریط کی جگہ متوازن طرزِ حیات اختیار کرسکیں۔ فرمایا گیا: وَ لَوْلَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ (البقرہ۲:۲۵۱) ’’اگر اس طرح اللہ انسانوں کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے ذریعے سے ہٹاتا نہ رہتا تو زمین کا نظام بگڑ جاتا‘‘۔
عدل کے قیام اور عدل اختیار کرنے کا مفہوم عموماً یہ لیا جاتا ہے کہ دو افراد کے درمیان غیرجانب داری کے ساتھ کسی تنازعے کا فیصلہ کردیا جائے۔ قرآن کریم نے اس طرف واضح اشارہ کیا ہے: اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا وَ اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ ط (النساء ۴:۵۸) ’’مسلمانو، اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہلِ امانت کے سپرد کرو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو‘‘۔ اسی طرح گواہوں کے حوالے سے بھی عدل کا ذکر قرآن کریم نے کیا ہے کہ عادل افراد کو گواہ بنایا جائے: فَاِِذَا بَلَغْنَ اَجَلَہُنَّ فَاَمْسِکُوْہُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ فَارِقُوْہُنَّ بِمَعْرُوْفٍ وَّاَشْہِدُوْا ذَوَی عَدْلٍ مِّنْکُمْ (الطلاق ۶۵:۲) ’’پھر جب وہ اپنی (عدت کی) مدت کے خاتمے پر پہنچیں تو یا انھیں بھلے طریقے سے (اپنے نکاح میں) روک رکھو، یا بھلے طریقے سے اُن سے جدا ہوجائو اور دو ایسے آدمیوں کو گواہ بنا لو جو تم میں سے صاحب ِ عدل ہوں‘‘۔
اگر غور کیا جائے تو نظام عدالت ہو، عدالت میں گواہی ہو، یا خاندانی معاملات میں کسی دو افراد کا گواہ بنانا ہو، ان سب کا قریبی تعلق اُس مجموعی نظام کے ساتھ ہے جس کا قیام اور جس کے لیے جدوجہد کو انسان کا مقصد تخلیق قرار دیا گیا ہے، یعنی زمین پر اللہ کے حکم کا نفاذ اور زندگی کے تمام معاملات میں خالق کائنات کی رضا کو اختیار کرتے ہوئے اصلاحِ احوال، تزکیۂ مال، تزکیۂ وقت، تزکیۂ صلاحیت کرتے ہوئے خلافتِ الٰہیہ کا قیام۔
قرآن کریم نے زمین پر خلافتِ الٰہیہ کے قیام کو ان افراد سے وابستہ و مشروط کردیا ہے جو خود جادۂ عدل و توازن پر قائم ہوں۔ اسی بنا پر تخلیقِ انسان کے حوالے سے قرآن ہمیں یہ بتاتا ہے کہ انسان کو بنانے کے بعد اور صحیح شکل و صورت دینے کے بعد اسے ہرلحاظ سے متوازن و معتدل بنایا گیا ہے۔ اس میں ایک لطیف اشارہ اس جانب پایا جاتا ہے کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے اپنی عظیم صفت عدل کے تناظر میں انسان کو اپنا خلیفہ بنانے کے لیے اس توازن و عدل پر تخلیق فرمایا جو اس ذمہ داری کے ادا کرنے کے لیے لازمی شرط کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی تناظر میں قرآن کریم نے اُمت مسلمہ اور اُمت مسلمہ میں ایک ایسے گروہ اور جماعت کی ضرورت پر زور دیا ہے جو نقطۂ اعتدال و توازن یا وسط کو اختیار کرلے اور یہی اس کی پہچان بنے۔ وہ غلو، شدت پسندی، اور انتہا کے رویے کے مقابلے میں توازن، عدل اور میانہ روی کو اختیار کرنے والی اُمت ہو: ’’اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’اُمت وسط‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسولؐ تم پر گواہ ہو‘‘۔(البقرہ ۲:۱۴۳)
اسلامی عدل اجتماعی کی بنیاد کسی قیاسی سوشل کنٹریکٹ پر نہیں ہے جس کی تعبیر ہر دور میں صاحب ِ اختیار افراد اپنے مفاد کے پیش نظرکرتے رہیں۔ اسلامی اخلاق و قانون کا ماخذ کسی فرد یا کسی گروہ کی اپنی پسند یا ناپسند نہیں، بلکہ خالق انسان کی جانب سے نازل کردہ وہ قوانین و اصول ہیں جو انسانوں کو دہرے اخلاقی معیار سے نجات دلاکر زندگی کے تمام معاملات کو توحیدی نقطۂ نظر سے دیکھ کر ایک وحدانیت میں لے آتے ہیں۔ جس انسانی معاشرے میں دہرے اخلاقی معیار پائے جاتے ہوں وہ عدلِ اجتماعی سے محروم رہتا ہے۔
آزادی کے مفہوم میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ایک شخص کو شعور کی آزادی اور فیصلے کی آزادی حاصل ہو۔ اس پر ایسے تصورات اور ایسی ثقافت کو زبردستی مسلط نہ کردیا جائے جو اس کے بنیادی عقائد و تصورات سے ٹکراتی ہو۔ چنانچہ آج عالم گیریت کے سہارے یک قطبی سامراجیت اپنی ثقافت کو جس طرح دنیا بھر کی اقوام پرتعلیم، معاشی حکمت عملی، سیاسی دبائو کے ذریعے مسلط کرنے میں مصروفِ عمل ہے، یہ جارحیت کی ایک واضح شکل ہے۔ یہ آزادیِ راے کو معطل یا مقید کردینا ہے۔ یہ انسانوں کے ذہنوں کو ابلاغِ عامہ کے ذریعے اپنا محکوم بنا کر غیرمؤثر کردینا ہے۔ اسلامی عدلِ اجتماعی ہرفرد کو آزادیِ راے، آزادیِ اجتماع اور آزادیِ عمل دے کر شعور وآگہی اور معروف و منکر کی آفاقی بنیادوں کی روشنی میں کسی عمل کو اختیار کرنے یا رد کرنے کا پورا حق دیتا ہے۔ اس کے بالمقابل آمریت ہو یا بادشاہت، سرمایہ دارانہ نظام ہو یااشتراکیت زدہ نظام، اپنی معاشی اور سیاسی گرفت (grip) کی بنا پر عملاً انسانوںسے ان کی قوتِ فیصلہ چھین لیتا ہے اور انھیں اپنی سامراجیت کا غلام بنا لیتا ہے۔ اسلامی نظامِ عدل اس استحصال سے نجات کا نام ہے۔
کسی بھی انسانی معاشرے میں حادثات کے نتیجے میں کل تک جو صاحب ِ وسائل تھا وہ مفلوک الحال بن سکتا ہے۔ معاشی میدان میں قیمتی تجارتی سامان لے کر ایک بحری جہاز روانہ ہوتا ہے اورمنزل پر پہنچنے سے قبل غرق ہوکر تمام اثاثوں کی تباہی کا سبب بن جاتا ہے۔ ایسے مواقع زندگی میں کسی بھی وقت پیش آسکتے ہیں۔ اس لیے اسلامی عدلِ اجتماعی میں تکافل اجتماعی کا تصور اسلامی معاشرے کے قیام کے ساتھ ہی وجود میں آگیاتھا، اور ایسے مواقع پر انسانی ہمدردی اور تعاون کی بنیاد پر تکافلِ اجتماعی کا ادارہ جس میں معاشرے کے افراد اپنا حصہ ڈالتے ہیں، اس نقصان کو پورا کرتا ہے۔
اللہ کی زمین پر اس کا حکم اور نظام قائم کرنے کے لیے اہلِ ایمان میں ایک ایسی منظم جماعت ضروری ہے جو منزل اور مقصد کا واضح شعور رکھتی ہو اور جس کا ہدف صرف اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایات کا نافذ کرنا ہو: ’’تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی ہونے چاہییں جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں۔ جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے‘‘ (اٰل عمرٰن۳:۱۰۴)۔ گویا نظامِ عدل اپنے آپ نافذ نہیں ہوجائے گا بلکہ اس کے لیے مسلسل جدوجہد، ایثاروقربانی اور جوش اور ولولہ کے ساتھ کوشش کرنی ہوگی۔ یہی وہ جماعت ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یوں کہا گیا ہے: وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا (البقرہ ۲:۱۴۳)’’اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک اُمت وسط بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو‘‘۔
انسان پر شہادت کا یہ فریضہ مطالبہ کرتا ہے کہ اس صالح جماعت سے وابستہ ہر فرد اپنے نفس کا جائزہ لیتے ہوئے برابر احتساب کرتا رہے کہ اس کا طرزِعمل کہاں تک عدل سے مناسبت رکھتا ہے۔ کیا وہ اپنے نفس کو پال کر فربہ کر رہا ہے، یا نفس کشی کے ذریعے اپنے اُوپر ان سہولتوں کو حرام کررہا ہے جو اس کے رب نے اسے بطور انعام و فضل دی ہیں؟ کیا وہ اپنی غذا میں، اپنے لباس میں، اپنے رہن سہن میں، اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ تعلق و حقوق کی ادایگی میں یا اپنے ہمسایے کے حقوق کے حوالے سے عدل و توازن اور وسط کا رویہ اختیار کیے ہوئے ہے، یا اس کے اہلِ خانہ والدین، بیوی، بچے اس کی عدم توجہ کا شکار ہیں؟ جس دعوت کو لے کر وہ دنیا کو بدلنے کے لیے نکلا ہے اس دعوت کا کتنا حصہ خود اس کے اپنے گھر میں رائج ہوسکا ہے؟ جس نظامِ عدل کے قیام کے لیے اُس نے اپنی زندگی کا سودا اپنے رب سے کیا ہے، اُس عدل کا عکس اس کے اپنے معاملات اور کاروبار میں کتنا نظر آتا ہے؟ ایک جانب وہ دنیا سے استحصال، زیادتی اور باطل کو ختم کرنے کے لیے نکلا ہے، تو کیا دوسری جانب اپنے کاروبار میں بھی اُس نے عدل کے اس پہلو کو نافذ کیا ہے؟ کیا وہ خود اپنے ملازمین کے ساتھ عدل کررہا ہے؟ کیا وہ کارخانہ جو وہ بطور کاروبارچلا رہا ہے اس میں تمام معاملات میں توازن اور تناسب پایا جاتا ہے، یا وہ بھی اُس ردعمل کا شکار ہے جو آج مسلم معاشروں کی ایک بنیادی بیماری ہے؟ کیا سورۂ صف کی وہ آیت اس کے ذہن میں تازہ رہتی ہے کہ ’’تم وہ کہتے کیوں ہو جو کرتے نہیں، اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم وہ کہو جو کرتے نہیں ‘‘ (الصف ۶۱: ۲-۴)۔ کیا اس کے کاروبار میں وہ شفافیت ہے جو وہ نظامِ عدل قائم ہونے کے بعد دیکھنا چاہتا ہے؟ کیا وہ اپنے عہد، اپنے وعدے جو وہ گاہکوں سے کرتا ہے پورے کر رہا ہے اور اشیا کا وہ معیار (quality) جس کی قیمت وہ لے رہا ہے گاہک کو مل رہی ہے؟ گویا عدل جب تک ایک کارکن کے گھر اور اس کے کاروبار میں داخل نہیں ہوگا اور قابلِ محسوس طور پر اس کا نفاذ نہیں ہوگا، اس وقت تک انسان کے مقصد اور خلافتِ الٰہیہ کے قیام کے مطالبات شرمندۂ تعبیر ہی رہیں گے۔
اس سے ایک قدم آگے چل کر دیکھا جائے تو یہ عدل اس بات کا مطالبہ کرتا ہے کہ معاشرے میں جہاں کہیں بھی ظلم و استحصال، زیادتی اور حقوق کی پامالی پائی جاتی ہے وہ اس کو دُور کرنے کے لیے عادلانہ رویے کے ساتھ کہاں تک اپنے ہاتھ، اپنی زبان اور اپنے دل کا وہ استعمال کررہا ہے جس کی طرف خاتم النبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ فرمایا ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامِ حق کے لیے جو ترجیح متعین فرما دی ہے وہ قیامت تک کے لیے ویسی ہی رہے گی، یعنی ہاتھ سے برائی کو مٹانے کے لیے ممکنہ وسائل کا استعمال ہمیشہ اوّلیت پر رہے گا۔ جو شخص جتنے وسائل رکھتا ہے اس کی جواب دہی اسی کے مطابق ہے۔ اس لیے اگر اس کے ہاتھ کا اختیار صرف اس کے دفتر تک ہے، گھر تک ہے، فیکٹری تک ہے اور وہ اس اختیار کا استعمال نہیں کرتا تو جادۂ عدل کے منافی کام کر رہا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے صلاحیت دی ہے کہ وہ باطل کو مٹانے کے لیے قلم کا استعمال کرے اور وہ ایسا نہیں کر رہا تو یہ عدل کے منافی ہے۔ اگر کسی کو اللہ نے یہ صلاحیت دی ہے کہ وہ اپنے قول سے حق کی دعوت پہنچا سکتا ہے اور برائی کو مٹانے کے لیے سچائی کا استعمال کرسکتا ہے اور وہ ایسا نہ کرے تو وہ ظلم کا مرتکب ہو رہا ہے۔ جہاں تک دل میں برائی کو بُرا سمجھنا ہے تو، وہ تو اضعف الایمان ہے اور نظامِ عدل قائم کرنے کی جدوجہد میں سرگرم کارکن سے یہ توقع نہیں کی جاتی کہ وہ اضعف الایمان پر کسی صورت میں مطمئن ہوجائے۔
گویا نظامِ عدل کے قیام کے لیے ایک ایسی اُمت وسط کی ضرورت ہے جس کا قول و فعل یکساں ہو اور جس نے اپنی ذات اور اپنے خاندان اور کاروبار میں عدل کو عملاً نافذ کر دیا ہو، یا نافذ کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہو۔ شیطان، جو قرآن کے مطابق انسان کا کھلا دشمن ہے، دن کے ۲۴گھنٹوں میں کسی ایک لمحے کے لیے بھی اپنے مشن اور مقصد سے غافل نہیں ہوتا اور طاغوت، ظلم، فساد اور برائی کے لیے ہمہ وقت کارکن کے طور پر مصروف رہتا ہے، اسے بے شمار مواقع پر ناکامی کا سامنا ہوتا ہے اور اس کی کوششیں بارآور نہیں ہوتیں لیکن وہ کبھی مایوس نہیں ہوتا ___ کیا وہ نظامِ عدل قائم کرنے والوں کے دلوں میں بار بار یہ سوال اُبھارتا ہے کہ برسوں کی کوشش کے باوجود آخر نظامِ عدل قائم کیوں نہیں ہو پایا؟ بات بہت آسان ہے۔ اگر جائزہ لے کر دیکھا جائے تو جب تک اس نظام کے لیے صحیح افرادی قوت، صحیح وسائل اور صحیح فضا پیدا نہ ہوجائے نتائج کے بارے میں غور کرنا بہت قبل از وقت ہوگا۔ پھر کیا قرآن کریم ہمیں یہ نہیں سمجھاتا کہ بعض اوقات پورے خلوص، ہمت، توجہ، قربانی اور ہمہ وقت کام کرتے رہنے کے باوجود مشیت الٰہی اپنی کسی حکمت کی بنا پر نتائج کو مؤخر کردیتی ہے، اور رب کریم اپنے بندوں پر فضل و کرم کی بنا پر اس جہادِ خیر میں کچھ اور دیر مصروف رکھ کر اس تاخیر کو ان کے اجر اور درجات میں اضافے کا ایک سبب بنا دیتا ہے۔ اس جملۂ معترضہ سے قطع نظر جو بنیادی سوال ہمارے لیے اہمیت رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا انفرادی اور خاندانی سطح پر اپنے حقوق و فرائض ادا کرنے کے ساتھ ہماری کوششوں سے معاشرے سے برائی، ظلم و استحصال کو ختم کرنے اور نیکی، بھلائی، عدل اور حق کو قائم کرنے کی جدوجہد آگے بڑھی ہے؟ کیا لوگوں میں اس کا احساس پیدا ہوا ہے؟ کیا معاشرے میں کوئی حرکت اور آگہی نظر آرہی ہے یا ہماری ساری جدوجہد محض اپنے خاندان اور کاروبار تک ہی اثرات پیدا کر رہی ہے؟
عقل مطالبہ کرتی ہے کہ اگر بھلائی کے پودے کا بیج گھر میں لگا ہے یا کاروبار میں، تو یہ شجرطیبہ محض اُس مقام پر فائدہ نہیں پہنچائے گا جہاں اسے بویا گیا ہے۔ قرآن کریم اِس بلیغ مثال کے ذریعے نظامِ عدل کے لیے جدوجہد کرنے والوں کی مساعی اور قربانیوں کو اُس بیج سے تعبیر کرتا ہے جو کلمۂ طیبہ اور اسلام کے نظامِ عدل کی جڑ اور بنیاد ہے۔ ایک مرتبہ جب یہ پودا اپنا اکھوا نکالتا ہے تو پھر تندوتیز ہوائیں اس کا راستہ نہیں روک سکتیں اور نہ تمازتِ موسم۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ اپنے تنے کو مضبوط کرتا ہے، اس پر کھڑا ہوتا ہے، اس کی شاخیں فضائوں میں پھیل کر ہر راہ گزر کو سایہ اور اس کے پھل ہر مسافر کو غذا فراہم کرتے ہیں۔ یہ کڑوے کسیلے شجرخبیثہ کی طرح نہیں ہوتا کہ نہ سایہ، نہ ذائقہ، نہ فائدہ۔
اس پس منظر میں اگر غور کیا جائے تو پاکستان ہو یا عالمِ اسلام کا کوئی ملک، حتیٰ کہ نظامِ کفر پر چلنے والا کوئی بھی ملک، جب اس کے معاشرے سے عدل اُٹھ جاتا ہے تو پھر کوئی قوت اس کا دفاع اور تحفظ نہیں کرسکتی۔جو قوم معاشی معاملات میں عدل سے ہٹ جائے اور اس کے لینے کے پیمانے کچھ اور ہوں اور دینے کے کچھ دوسرے ہوجائیں، یا پھر وہ اللہ تعالیٰ کے انعامات کو بھول کر اس کی بندگی کی جگہ مالی منفعت کو اپنا خدا بنا لے تو پھر وہ اللہ کے عذاب کی مستحق ہوجاتی ہے۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سزا دینے میں تاخیر کرتا ہے تو صرف اس بنا پر کہ وہ ارحم الراحمین ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ مجرموں کو ڈھیل دے کر انھیں سنبھلنے اور اپنی اصلاح کرنے کا زیادہ سے زیادہ موقع دے، اور جو لوگ نظامِ عدل قائم کرنے نکلے ہیں انھیں بھی موقع دے کہ وہ گمراہوں کو راہِ راست پر لانے میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھیں۔
نظامِ عدل کے علَم برداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ جہاں کہیں وسائل کے استعمال سے معاشی سرطان کی اصلاح کرسکتے ہوں اور جہاں زبان و قلم سے آواز اُٹھا سکتے ہوں، وہاں اس میںکسر نہ اُٹھا رکھیں تاکہ اتمام حجت ہوسکے اور اگر اللہ کی مشیت شاملِ حال ہو تو مفسدین کو ہدایت مل جائے اور عذاب سے بچائو بھی ہوجائے۔ کیونکہ جب عذاب آتا ہے تو پھر بستی کے سب لوگ اس کا نشانہ بنتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بستیوں کے باغیوں کو تنگی کے بعد خوش حالی دے کر اصلاح کا موقع دیتے ہیں۔ لیکن اگر نہ تنگی میں نہ خوش حالی میں وہ جاگتے نہیں اور دعوتِ اصلاح کو رد کرتے رہتے ہیں تو پھر اچانک انھیں عذاب آپکڑتا ہے: فَاَخَذَتْھُمُ الرَّجْفَۃُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِھِمْ جٰثِمِیْنَo (اعراف ۷:۹۱) ’’مگر ہوا یہ کہ ایک دہلا دینے والی آفت نے ان کو آلیا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے کے پڑے رہ گئے‘‘۔
معاشی عدل کے ساتھ سیاسی عدل بھی یکساں اہمیت کا حامل ہے۔ اگر اقتدار کی باگ ڈور ایسے افراد کے ہاتھ میں ہو جو نہ وعدوں کے سچے ہوں، نہ ذمہ داری کے امین اور مستحق ہوں، جو قومی دولت کو اپنی خاندانی جاگیر اور ذاتی ملکیت تصور کرتے ہوں، جو لسانی، نسلی، علاقائی عصبیت میں سرتاپا ڈوبے ہوئے ہوں، جن کا عمل اور قول متضاد ہو اور جو اللہ کی حدود کو پامال کرنے میں پیش پیش ہوں، جو اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی قرآنی سزائوں کو پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت کے بل بوتے پر بدلنے پر فخر محسوس کرتے ہوں، جن کے بارے میں قرآن کریم صاف کہتا ہے کہ: ’’جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں… وہی ظالم ہیں… وہی فاسق ہیں‘‘ (المائدہ ۵:۴۴-۴۷)۔ ایسے افراد اور ایسے نظام سے نجات حاصل کرنے اور اسلام کے عدلِ اجتماعی کے قیام کے لیے جدوجہد کرنا وہ دینی فریضہ ہے جس سے کسی بھی صاحب ِ ایمان کو بری نہیں کیا گیا۔
اہلِ ایمان کی ایک اہم خصوصیت ظلم کے نظام کی جگہ نظامِ عدل کے قیام کی جدوجہد ہے:
وَ اذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَ مِیْثَاقَہُ الَّذِیْ وَاثَقَکُمْ بِہٖٓ اِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ط اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌم بِذَاتِ الصُّدُوْرِ oیٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِ وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا ط اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی وَاتَّقُوْا اللّٰہَ ط اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَ o (المائدہ ۵:۷-۸) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو یہ خداترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔
یہاں اہلِ ایمان کو متوجہ کرتے ہوئے پہلی بات یہ سمجھائی جارہی ہے کہ قیامِ نظامِ عدل کی جدوجہد کرتے ہوئے اولین چیز جو انھیں شعوری طور پر اختیار کرنی ہوگی وہ صرف اللہ کے لیے راہِ راست، صراطِ مستقیم اور سواء السبیل پر قائم ہونا ہے۔ اپنا رُخ مشرق و مغرب سے موڑ کر صرف اللہ کی رضا کو متاعِ عزیز بنانا ہے۔ یہ کام نہ تمغۂ کارکردگی کے لیے ہے، نہ کسی مجلس میں مقامِ تقرب کے لیے، نہ کسی جماعت میں مقامِ قیادت تک پہنچنے کے لیے ہے بلکہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاصِ نیت کے ساتھ ہے۔ یہی مومن کے ہرعمل کی پہچان ہے۔
دوسری بات یہ سمجھائی جارہی ہے کہ ہمیشہ انصاف کی گواہی دی جائے، یعنی ایک تو گواہی دینے میں عدل برتا جائے اور دوسرے یہ کہ عدل و انصاف کی سربلندی کی جدوجہد میں شامل ہوکر عدل کے قیام کو روشن اور قریب تر بنایا جائے۔ اس عمل میں انتہاپسندی کی جگہ توازن، وسط اور قسط کو اختیار کیا جائے۔ ہرقسم کے غلو اور شدتِ پسندی سے چاہے وہ اپنی راے پر بے جا اصرار ہو یا ہرمعاملے میں انتہائی رویہ اختیار کرنا ہو، ہر دو سے اپنے آپ کو نکال کر توازن و اعتدال کو اختیار کیا جائے۔ اس روش کو تقویٰ سے قریب بیان کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ تقویٰ خود ایک متوازن طرزِعمل کا نام ہے۔ تقویٰ انتہاپسندی کا نام نہیں ہے، حتیٰ کہ عبادات میں بھی تقویٰ کا مطلب وہ توازن ہے جس کی مثال خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ سے ملتی ہے۔
جلیل القدر صحابی حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ اپنے ذوقِ عبادت میں رات بھر نوافل اور دن بھر روزے سے رہتے تھے۔ ان کے والد حضرت عمرو بن عاصؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے بیٹے کی انتہاپسندی کی شکایت کی تو حضور نبی کریمؐ نے انھیں طلب کیا اور دریافت فرمایا: کیا تم نے دن میں روزہ اور رات بھر نماز پڑھنے کو اپنا معمول بنا رکھا ہے؟ انھوں نے کہا: جی ہاں، یارسولؐ اللہ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ طریقہ چھوڑ دو، روزے بھی رکھو اور ناغہ بھی کیا کرو۔ رات کو نماز بھی پڑھا کرو اور سویا بھی کرو، کیونکہ تمھارے جسم کا بھی تم پر حق ہے، تمھاری آنکھ کابھی تم پر حق ہے، تمھاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے، اور تمھارے مہمانوں، ملاقاتیوں کا بھی تم پر حق ہے۔ جو ہمیشہ بلاناغہ روزہ رکھے گا اس نے گویا روزہ رکھا ہی نہیں۔ ہر مہینے میں تین دن نفلی روزے رکھ لینا (رمضان کے فرض روزوں کے علاوہ)، ہمیشہ روزہ رکھنے کے حکم میں ہے۔ اس لیے تم ہر مہینے بس تین روزے رکھ لیا کرو اور مہینے میں ایک قرآن (تہجد میں) ختم کرلیاکرو۔
حضرت عبداللہؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو پھر تم دائود علیہ السلام کی طرح ایک دن روزہ رکھو ، ایک دن افطار کرو اور اس کے علاوہ تہجد میں سات دنوں میں ایک مرتبہ قرآن ختم کرلیا کرو۔ (بخاری، مسلم، مسنداحمد)
گویا قرآن کریم سے محبت اور تعلق کی نوعیت کیا ہو، خود اپنے نفس کے حقوق نیند، آرام، خاندانی تعلق اور دیگر معاشی اور معاشرتی ذمہ داریوں کے ساتھ روزہ کا اہتمام کرنا ہو تو اس میں بھی توازن و اعتدال ہو۔ یہی صورت حال ہمیں اس حدیث مبارکہ میں ملتی ہے جس میں رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعض اصحاب کے بارے میں یہ اطلاع ملنے پر کہ کوئی تمام رات نوافل کا اہتمام کرنا چاہتا ہے اور کسی نے مسلسل روزے کا عہد کیا ہے اور کسی نے نکاح نہ کرنے کی قسم کھائی ہے، ان تینوں اصحاب کو طلب فرما کر یہ ارشاد فرمایا تھا کہ آپؐ ان سے زیادہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا تقویٰ اور خشیہ کرتے ہیں اور رات کے کچھ حصے میں عبادت اور کچھ میں آرام فرماتے ہیں۔ کبھی روزہ رکھتے ہیں، کبھی ناغہ کرتے ہیں اور نکاح آپؐ کی سنت ہے۔ یہاں بھی مقصود توازن و اعتدال کی تعلیم ہی تھی۔
بلاشبہہ انفرادی سطح پر عدل کا اختیار کرنا اسلام کے اوّلین مطالبات میں سے ایک اہم تعلیم ہے۔ قرآن و سنت جتنی شدت سے عدل کا رویہ اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہی اسی شدت کے ساتھ عدل اجتماعی کے قیام کو اُمت مسلمہ کا مقصد اور ہدف قرار دیتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو اسلام اور دیگر مذاہب اور نظاموں میں بنیادی فرق اسلام کا تصورِ اجتماعیت ہی ہے۔ دیگر مذاہب فرد کی نجات، فرد کی روحانیت اور فرد کے تزکیے پر زور دیتے ہیں، جب کہ اسلام عبادات کا معاملہ ہو یا معاشی اور معاشرتی مسائل، ہرشعبۂ حیات میں عدل اجتماعی کو اہمیت دیتا ہے۔ چنانچہ مصالح عامہ اور فلاحِ انسانیت کے پیش نظر قوانین کو مدون کرتا ہے۔
اسلام کے اتنے جامع عدلِ اجتماعی کی موجودگی میں کیا وجہ ہے کہ اُمت مسلمہ میں معاشی بدحالی، تعلیمی زبوں حالی اور فکری و عملی انتشار اور سیاسی عدم استحکام پایا جاتاہے؟ عالمِ اسلام کس طرح اپنی اصلاح کرسکتاہے، اور کیا اسلامی عدلِ اجتماعی ایک عالمی نظامِ عدل کے قیام کی بنیاد فراہم کرسکتا ہے؟
بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا پندرہ سو سال کی گردش کے بعد تاریخ کے جس موڑ پر پہنچ گئی ہے اس میں ساتویںصدی عیسوی میں پائے جانے والے رجحانات اور معاشی، معاشرتی اور اخلاقی زبوں حالی سے گہری مماثلت پائی جاتی ہے۔ اگر وہ قدیم جاہلیت تھی تو آج جدید جاہلیت ہے۔ اگر اس وقت انسان اپنی قبائلی عصبیت، نام و نسب پر فخر اور ذاتی مفاد کے لیے ہرکام کرنے پر تیار تھا، تو آج کا انسان بھی اپنے ذاتی مفاد کا بندہ اور خودساختہ عصبیتوں کا پرستار نظر آتا ہے۔ فوری فائدے کے حصول کے لیے وہ عظیم تر مفاد کو قربان کر دینے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتا۔ بے روزگاری، آمریت، معاشی اور سیاسی استحصال نے انسان کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ وہ گوناگوں مسائل و مشکلات میں اس حد تک گھرگیا ہے کہ اسے منزل کا شعور بھی نہیں رہا۔ اس کسمپرسی میں وہ اپنے مسائل کا حل دوسروں کے تجویز کردہ نسخوں میں تلاش کررہا ہے، جب کہ خود اس کے پاس ایسا نسخۂ کیمیا موجود ہے جو اُس کے تمام امراض کا تشفی بخش علاج کرسکتا ہے۔ اس بے خبری کی کیفیت میں اغیار کی بظاہر معاشی ترقی اور سیاسی تسلط نے اسے یہ بات باور کرا دی ہے کہ ترقی کا آسان نسخہ اغیار کی نقالی ہی میں ہے۔ لیکن کیا واقعی نقالی اُمت مسلمہ کو اس کے معاشی، سیاسی، فکری اور اخلاقی بحران سے نکال سکتی ہے؟ کیا مانگے کا اُجالا اس کے دل کے ویرانوں کو منور کرسکتا ہے، اور کیا اس مانگے کے اُجالے کے ذریعے اُمت مسلمہ اپنے آزاد وجود کو تسلیم کروا سکتی ہے؟ یہ بنیادی اور اہم سوالات اپنی عملی اہمیت کی بنا پر نظرانداز نہیں کیے جاسکتے۔
قیام نظامِ عدل کی ایک ایسی تحریک جسے آج سے پندرہ سو سال قبل خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے برپا کیا تھا، آج وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔ جس طرح اس تحریک کے قیام کے وقت آپؐ کے سامنے ہدف اور مقصد واضح تھا، اسی طرح آج بھی اس بات کی ضرورت ہے کہ جائزہ لے کر دیکھا جائے کہ تحریکاتِ اسلامی کی جدوجہد میں مقصد کا تصور (vision) کہاں تک واضح ہے۔ یہ کہیں دھندلا تو نہیں گیا اور مقصد اور ہدف کے پیشِ نظر جو حکمت عملی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضع فرمائی تھی کیا اس میں تبدیلیِ حالات اور وقت کے لحاظ سے کسی تبدیلی کی ضرورت ہے۔
آج بھی تحریکِ اسلامی کو نظامِ عدل کے قیام کے لیے اس ترتیب کو پیش نظر رکھنا ہوگا لیکن مدینہ میں برپا ہونے والے اسلامی انقلاب سے سبق لیتے ہوئے تمام ذہنی مغالطوں سے آزاد ہوکر اپنے تصورِ تبدیلی و اصلاح کو محض اپنے معاشرے اور ملک تک محدود نہیں رکھنا ہوگا۔ مدینہ میں قائم ہونے والا نظامِ عدل ایک عالمی نظامِ عدل کے قیام کا پیش خیمہ تھا۔ مکہ کے راستے مدینے میں قائم ہونے والی اسلامی ریاست ایک عرب مملکت نہ تھی، بلکہ تمام دنیا سے ظلم، استحصال، کفر اور طاغوت کو ختم کرنے کی ایک تحریک تھی۔ اس کا ہدف عالم گیر عدل کا قیام اور تمام انسانوں کو سامراجیت، نسلی عصبیت، علاقائی محدودیت، لسانی قوم پرستی اور انسانوں کی انسانوں پر حاکمیت سے نجات دلاکر خالق کائنات کی حاکمیت اور العادل کے دیے ہوئے نظامِ عدل و توازن کو دنیا کے تمام گوشوں میں قائم کرنا تھا۔
یہ عالم گیر تحریک براے قیامِ عدل اُس تصور کی ضد ہے جو عالم گیریت (globalization) کے نام پر سامراجی نظام نافذ کرنے میں مصروفِ عمل ہے۔ آج دنیا جس چیز کو عالم گیریت کے نام سے پکارتی ہے وہ انسانوں کو انفرادی آزادی سے محروم کرنے، مغرب کی بزعمِ خود ’’اعلیٰ اور برتر تہذیب ومعاشرت‘‘ کو دیگر اقوام پر نافذ کرنے، اور ان کی معاشی، سیاسی اور ثقافتی آزادی کو چند عالمی اداروں کا غلام بنانے کادوسرا نام ہے۔ اسلام جس عالم گیر نظامِ عدل کی دعوت دیتا ہے وہ انفرادی آزادی، آزادیِ راے، آزادیِ عمل، آزادیِ دین اور انسانی حقوق کی فراہمی پر مبنی ہے۔
اس نظام کے قیام کے لیے ہرفرد کو خواہ مرد ہو یا عورت، بچہ ہو یا بوڑھا، اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے اُٹھنا ہوگا، اور ظلم و استحصال اور غربت و بے روزگاری سے متاثر افراد کے حقوق کی بحالی کے لیے اپنے آپ کو منظم کرکے بھلائی کو غالب کرنے اور برائی کو مٹانے میں اپنا حصہ ادا کرنا ہوگا۔ یہ کام محض نظری باتوں سے نہیں ہوگا۔ اس کے لیے انسانی وسائل کو یک جا کرنا ہوگا، اور انسانوں کی قوت کو منظم کر کے نظامِ عدل کے قیام کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنا ہوگا۔
۲۰۰۴ء سے شروع ہونے والے ڈرون حملے پاکستان کے خلاف ایک قسم کے اعلانِ جنگ کے مترادف تھے۔ راے عامہ کے ہر جائزے میں ۹۰ فی صد سے زیادہ پاکستانیوں نے ان کی مخالفت کرتے ہوئے، انھیں اپنی حاکمیت پر حملہ اور ناقابلِ برداشت قرار دیا ہے۔ پارلیمنٹ نے اپنی ۲۲؍اکتوبر ۲۰۰۸ء اور ۱۴مئی ۲۰۱۱ء کی قراردادوں میں صاف الفاظ میں ان حملوں کی مذمّت کی ہے اور حکومت کو ان کو ناکام بنانے کی واضح ہدایت دی ہے لیکن حملوں کا یہ سلسلہ نہ صرف جاری ہے، بلکہ اس میں اضافہ ہوا ہے اور اب کھل کر امریکا یہ کہہ رہا ہے کہ یہ حملے ہرصورت میں جاری رہیں گے۔
لندن میں قائم ایک تحقیقی ادارے Bureau of Investigation Journalism نے اپنی رپورٹ (اگست ۲۰۱۱ء) میں پوری تحقیق، دستاویزات اور عینی شہادتوں کی بنیاد پر دعویٰ کیا ہے کہ ۲۰۰۴ء سے اب تک سی آئی اے نے ۲۹۱ ڈرون حملے کیے ہیں جن میں سے ۲۳۶ صدراوباما کے دورِ حکومت اور پاکستان میں زرداری گیلانی حکومت کے دور میں ہوئے ہیں،جب کہ بش اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں حملوں کی تعداد ۵۵ تھی۔ تاحال ان حملوں کے نتیجے میں ۲ہزار۸ سو ۶۳ افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں سے اصل جنگ جوؤں (militant fighter ) کی تعداد ۱۶۴ تھی جن کے کوائف موجود ہیں۔ باقی سب یا عام شہری ہیں یا وہ افراد جنھیں low-ranking militant یا نیم فوجی دستے کہا گیا ہے، جب کہ متعین طور پر عینی شاہدوں اور متعلقہ افراد کے بارے میں حاصل شدہ کوائف کی روشنی میں ۷۷۵ عام شہری تھے جن کا کوئی دُور کا بھی رشتہ عسکریت پسندوں سے نہ تھا۔ ان میں واضح طور پر نابالغ بچوں کی تعداد ۱۶۸ تھی جن کے سارے کوائف اس ادارے کے پاس ہیں اور جن میں سے کچھ کی تصاویر لندن کے اخبار گارڈین نے شائع کی ہیں۔ (ملاحظہ ہو: گارڈین، ۱۱؍اگست ۲۰۱۱ء)
یہ رپورٹ اس حیثیت سے بہت اہم ہے کہ اس نے امریکی حکومت کے چوٹی کے ترجمان جان برے من کے اس دعوے کی قلعی کھول دی ہے کہ ڈرون حملوں سے کوئی عام شہری ہلاک نہیں ہوا، صرف عسکریت پسندوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ خود امریکا کے ایک سابق فوجی ایڈمرل بلیر نے ڈرون حملوں کی افادیت کو چیلنج کیا ہے اور امریکا کو اس سلسلے میں اپنی حکمت عملی بدلنے کا مشورہ دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو، نیویارک ٹائمز، ۱۵؍اگست ۲۰۱۱ء)
ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ ایک طرف امریکی ترجمان یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ڈرون حملوں سے کوئی عام شہری ہلاک نہیں ہو رہا لیکن جب امریکا کے قانون Freedom of Information Act کے تحت امریکی شہریوں اور اداروں نے اس سلسلے میں تمام معلومات فراہم کرنے کا مطالبہ کیا تو ’قومی سلامتی کو خطرے‘ کا بہانہ بناکر معلومات دینے سے انکار کر دیا گیا۔ اس وقت خود امریکا میں ان حملوں کے خلاف آوازیں اُٹھ رہی ہیں اور انھیں بین الاقوامی قانون اور انسانی حقوق کے خلاف ہی قرار نہیں دیا جا رہا بلکہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کی حکمت عملی سے بھی متصادم اور دنیابھر میں امریکا کے خلاف جذبات کو بھڑکانے کا ذریعہ قرار دیا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں ایک مؤثر محاذ Compaign for Innocent Victims of Conflict (CIVIC، تنازعات کی شکار معصوم جانوں کے بچائو کی تحریک)کے نام سے کام کر رہا ہے اور راے عامہ کو ہموار کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسی طرح انگلستان میں تفتیشی صحافت کا برطانوی بیورو بھی خدمت انجام دے رہا ہے اور وکلا کی ایک تنظیم نے سی آئی اے کے خلاف اس کی ان سرگرمیوں کی بنیاد پر عدالتی چارہ جوئی بھی شروع کر دی ہے۔ اس وقت سی آئی اے چھے مسلمان ممالک (افغانستان، عراق، پاکستان، صومالیہ، یمن اور لیبیا) میں ڈرون حملوں کی شکل میں جنگی اقدام کر رہی ہے، اور اس حوالے سے اب مغرب کے دانش وروں کا ایک طبقہ بھی یہ سوال اُٹھا رہا ہے اور پاکستان کے حوالے سے صاف پوچھ رہا ہے (اور اس کا جواب سی آئی اے کو دینا چاہیے )کہ آخر یہ کیا تماشا ہے کہ امریکی حکومت پاکستان کے خلاف ایک غیر علانیہ جنگ لڑ رہی ہے، جو نام کی حد تک امریکا کا حلیف ہے۔ (گارڈین، ۱۱؍اگست ۲۰۱۱ء، سی آئی اے کی ڈرون جنگ کے سویلین شکار، مضمون اسٹفورڈ سمتھ)
شرم کا مقام ہے کہ ایک طرف غیر یہ سوال اُٹھا رہے ہیں مگر دوسری طرف پاکستانی عوام کے پُرزور مطالبے اور پارلیمنٹ کی واضح ہدایات کے باوجود پاکستانی حکومت اور اس کی فوجی قیادت، ڈرون حملوں کو روکنے کی صلاحیت رکھتے ہوئے بھی، اس سلسلے میں ’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘ کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ بے غیرتی کی انتہا ہے کہ کچھ سیاسی قائدین اور نام نہاد دانش ور ان کی افادیت کی بات کر رہے ہیں، اور ایک فوجی ترجمان نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ سارے ڈرون حملے صرف دہشت گردوں کو نشانہ بنارہے ہیں اور عام شہریوں کی ہلاکتیں نہیں ہورہی ہیں___ یعنی سی آئی اے کے اس جھوٹے دعوے کی بازگشت فراہم کر رہے ہیںجس کے غلط ہونے کا اعتراف خود یورپی اور امریکی ذرائع کر رہے ہیں۔
ایک طرف امریکا کی یہ کھلی جارحیت ہے اور اس کے ساتھ پاکستانی فوجی امداد کی بندش اور نئی حقارت آمیز شرائط مسلط کرنے کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ ’ڈو مور‘ کا منتر اپنی جگہ ہے اور شمالی وزیرستان میں فوج کشی اور دوسرے مطالبات کی بھرمار ہے، اور دوسری طرف حکومت کی بے حسی ملاحظہ ہو کہ وہ دوٹوک انداز میں امریکا سے تعلقات پر نظرثانی اور اس کی دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ سے ملک کو نکالنے کے لیے فوری اور مؤثر اقدام کرنے سے پہلوتہی کر رہی ہے۔ ان حالات میں اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ تمام محب وطن سیاسی قوتیں عوامی تحریک کے ذریعے حکومت سے نجات یا خارجہ پالیسی خصوصیت سے امریکا کے بارے میں پالیسی میں بنیادی تبدیلی کے لیے جمہوری قوت کو متحرک اور مؤثر کریں۔
اس سلسلے میں ہر دن ہم پر امریکی غلامی کی گرفت مضبوط تر کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ اس وقت کراچی میں جو خونیں ڈراما رچایا جا رہا ہے، اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہمیں امریکا کی غلامی کے خلاف جدوجہد سے توجہ ہٹا کر ایک اندرونی مسئلے میں الجھا دیا جائے، حالانکہ کراچی میں بھی بیرونی ہاتھ اسی طرح اپنی کارفرمائیاں دکھا رہا ہے جس طرح فاٹا اور بلوچستان میں۔ ان حالات میں ہم قوم کو اپنی آزادی اور حاکمیت کے تحفظ کے لیے اُٹھ کھڑے ہونے کا پیغام دینا اپنا دینی اور قومی فرض سمجھتے ہیں ؎
اُٹھو وگرنہ حشر نہ ہوگا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا
تمام مسلمان ملکوں کا مستقبل منحصر ہے اس بات پر کہ آخرکار یہاں اسلام کے بارے میں کیا رویہ اختیار کیا جائے گا۔ اگر اسلام کے بارے میں منافقانہ طرزِعمل کی صورت مسلمان ملکوں میں جاری رہی اور یہ معاندانہ رویہ اسی طرح روا رکھا جاتا رہا تو مجھے ڈر ہے کہ مسلمان قوم زیادہ دیر تک اپنی آزادی کو برقرار نہیں رکھ سکتی۔ پھر دوبارہ غلام ہوگی اور پہلے سے بدتر پوزیشن میں ڈالی جائے گی۔البتہ اب بھی اگر ان لوگوں کو عقل آجائے جو مسلمان قوموں کے معاملات چلا رہے ہیں اور مسلمان ملکوں میں صحیح قسم کی جمہوریت قائم ہوجائے، مسلمان قوموں کو یہ اختیار مل جائے کہ وہ اپنی مرضی سے لوگوں کو منتخب کرکے ان کو اقتدار سونپیں اور یہاں اسلام کے منشا، اس کی تہذیب اور اصولوں کے مطابق نظامِ حکومت، نظامِ معیشت اور نظامِ تعلیم رائج کیا جائے، تو میرا خیال ہے کہ بہت جلدی مسلمان قومیں بہت بڑی طاقت بن جائیں گی۔ نہ صرف یہ کہ طاقت حاصل کرلیں گی بلکہ دنیا میں ان کی ایک فیصلہ کن طاقت ہوگی۔ مسلمان ملکوں کا بلاک کوئی معمولی بلاک نہیں ہے۔ انڈونیشیا سے مراکو تک مسلسل مسلمان قوموں کا اتنا بڑا بلاک جس کے پاس اس قدر وسیع ذرائع و وسائل اور جس کی اتنی آبادی (man power) ہے، اگر سارے کا سارا اسلام کے اصولوں پر کام کرے اور اسلام کے اُوپر متحد ہو، تو دنیا کی کون سی طاقت ہے جو اس کے سامنے ٹھیرسکتی ہے۔
اب دوسرا سوال جو میں نے آپ کے سامنے چھیڑا ہے، اس کا جواب میں چند الفاظ میں دوں گا۔ سوال یہ تھا کہ اسلام اس زمانے میں دنیا میں غالب آسکتا ہے یا نہیں؟ دنیا کی قومیں اس کو قبول کرسکتی ہیں یا نہیں؟ کرسکتی ہیں تو کیسے؟ اور اسلام اس زمانے میں قابلِ عمل ہے یا نہیں؟ یہ سوال آج کل بڑی کثرت سے چھیڑا جاتا ہے۔
میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ کسی زمانے میں بھی زمانے نے خود آگے بڑھ کر نہیں کہا تھا کہ میں اسلام کو قبول کرنے کو تیار ہوں۔ سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب عرب کی جاہلی سوسائٹی میں اسلام کی دعوت دی تھی تو کب زمانے نے اُٹھ کر، پکار کے یہ کہا تھا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہم تمھاری اس دعوت کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اصل انحصار تو اس طاقت ور اور مضبوط داعی پر ہوتا ہے جو یہ کہے کہ ’’اے زمانے! اگر تو مجھ سے موافقت نہیں کرتا تو میں تجھے موافق بنا کر چھوڑوں گا‘‘....
اسی طرح یہ سوال بھی بالکل لغو ہے کہ اسلام آج قابلِ عمل ہے یا نہیں؟ اسلام ہر زمانے میں قابلِ عمل تھا، آج بھی ہے اور قیامت تک قابلِ عمل رہے گا۔ اصل سوال جس پر انحصار ہے وہ یہ ہے کہ کیا کوئی قوم دنیا میں ایسی موجود ہے کہ جو پورے کے پورے اسلام کو اپنانے کے لیے تیار ہو؟ جیساکہ میں نے آغاز میں بتایا تھا کہ ہماری تاریخ کا آغاز ہی اس چیز سے ہوا تھا کہ عرب کی پوری کی پوری قوم اس بات کے لیے تیار ہوگئی تھی کہ اپنے پورے معاشرتی، معاشی، سیاسی اور تمدنی نظام کو اسلام پر قائم کرے، اپنی انفرادی سیرتوں اور اجتماعی احوال کو اسلام کے مطابق ڈھالے۔ اس نے عہد کیا تھا کہ دنیا میں اسلام کی علَم بردار بن کر اُٹھے گی، اسی کے لیے جیے گی اور اسی کے لیے مرے گی۔
جب ایک ایسی قوم دنیا میں پیدا ہوگئی تو دیکھ لیجیے کہ کس طرح وہ دنیا پر بم کی طرح پھٹی! اور کس طرح دنیا پر اس کے اثرات آج تک موجود ہیں۔ اگر اس طرح سے کوئی قوم پوری طرح سے اسلام کو اپنائے اور اپنا پورا نظامِ زندگی اس کے مطابق چلائے اور اسی کے لیے جینے اور مرنے کو تیار ہو، تو میرا خیال ہے کہ آج دنیا اسلام قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔
لوگوں کے لیے ناممکن ہے کہ چلتے پھرتے اسلام کو دیکھیں اور اس کو قبول نہ کریں۔ البتہ اگر آپ زبانی تقریروں اور کتابوں کے ذریعے سے اسلام پھیلانے کی کوشش کرتے رہیں گے تو قیامت تک آپ یہ’شغل‘ جاری رکھیے، دنیا کو اس بات پر قائل کرنا مشکل ہوگا کہ اسلام قابلِ عمل بھی ہے۔
اب آخر میں دل کی بات بھی آپ سے عرض کیے دیتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے چونکہ مجھے اس قوم میں پیدا کیا ہے، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ وہ قوم، یہی قوم ہی ہو۔ میری سیاست ہے تو یہی ہے، میرا مذہب ہے تو یہی ہے، میری ساری کوششوں کا مدعا یہی ہے کہ یہ قوم جس کے اندر میں پیدا ہوا ہوں، پوری طرح سے اسلام کو اپنا لے اور اپنی زندگی میں چلتا پھرتا اسلام دکھا دے۔ (اسلام عصرِحاضر میں، ص ۵۰-۵۳)
قرآن کی زبان میں مشاہدِ قیامت سے مراد زندگی بعد موت، محاسبۂ اعمال، جنت اور دوزخ ہے۔ قرآن نے اس دنیا کے بعد جس عالمِ آخرت کا لوگوں سے وعدہ کیا ہے اس کے محض ذکر پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اسے ایک محسوس زندہ و متحرک اور اُبھرتی ہوئی نمایاں شکل میں پیش کرکے اس کی مکمل و مجسم تصویر لوگوں کے سامنے رکھ دی ہے۔ مسلمانوں نے اس عالمِ آخرت میں اپنی زندگیاں پورے احساسات و جذبات کے ساتھ گزار دی ہیں۔ ان کی آنکھوں نے اس کے مناظر کو دیکھا ہے اور ان کے دل و دماغ نے ان سے گہرا تاثر قبول کیا ہے۔ ان کے مشاہدے سے ان کی قلبی کیفیات لحظہ بہ لحظہ بدلتی رہی ہیں۔ کبھی ان کے دلوں پر گھبراہٹ اور کبھی ان کے جسموں پر کپکپی طاری ہوئی ہے۔ ایک گھڑی ان کے دلوں میں خوف و ہراس اور سراسیمگی کی لہر دوڑ گئی ہے، تو دوسرے لمحے وہ لذت آشناے سکون و اطمینان ہوئے ہیں۔ کبھی دوزخ کی آگ کی لپٹوں سے ان کے جسم جھلس جھلس گئے ہیں اور کبھی نسیمِ بہشت کی تھپ تھپاہٹ سے انھیں راحت و آسودگی حاصل ہوئی ہے۔ اس طرح گویا انھوں نے اس مقررہ دن کی آمد سے قبل ہی اپنے شب و روز اس حیاتِ جاوداں کی روح فرسا سختی اور لذت افزا راحت سے پوری طرح آشنا رہ کر گزارے ہیں۔
یہ عالمِ آخرت بڑا وسیع و عریض ہے۔ اس کی وسعت و کشادگی ایسی ہی ہے جیسی عقیدۂ اسلامی میں وضاحت و صراحت، یعنی موت، موت کے بعد دوبارہ زندگی، پھر جنت و دوزخ۔ وہ لوگ جو ایمان لائیں گے اور عملی زندگی میں نیکی کی روش اختیار کریں گے، ان کے لیے جنت ہوگی جس میں انھیں لازوال ابدی نعمت نصیب ہوگی۔ دوسری طرف وہ لوگ جو کفر و انکار کی راہ چلیں گے اور دربارِ الٰہی میں اپنی حاضری کو جھٹلائیں گے، ان کے لیے دوزخ کی آگ ہوگی جو اَبدی عذاب کی ایک شکل ہے۔ نہ وہاں کوئی سفارش کام آئے گی، نہ فدیہ دے کر عذاب سے چھٹکارا ہوگا،نہ باریک تول والی میزانِ عدل میں بال برابر بھی کوئی فرق ہوگا۔ اعمال کا تول پورا پورا ہوگا۔ ہرایک کو اپنے کیے کی پوری جزا ملے گی۔ جو شخص اس دنیا میں ذرّہ بھر نیکی کرے گا وہاں اس کا بدلہ پالے گا، اور جو شخص اس دنیا میں ذرّہ بھر برائی کرے گا وہاں اس کی سزا پالے گا۔ وہ دن ایک ایسا دن ہوگا کہ نہ کوئی باپ اپنے بیٹے کی جگہ بدلہ پائے گا اور نہ کوئی بیٹا اپنے باپ کی جگہ جزا۔
قرآن کی بیان کردہ یہ کھلی اور واشگاف حقیقت مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتی ہے۔ اس کی چھاپ ایک ایسے عالَم پر لگی ہوئی ہے جو انسانی زندگی کے جملہ پہلوئوں پر حاوی، ٹھوس اور جان دار مناظر پر مشتمل ہے۔ یہ مختلف اوضاع اور مختلف پہلوئوں کے حامل معاشروں میں صاف دکھائی دیتا ہے۔ قرآن کا اندازِ بیان اتنا جامع اور سحرانگیز ہے کہ جب تعذیب خانوں کا ذکر ہوتا ہے تو اس عجیب و غریب انداز میں کہ کانوں سے سن کر کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے اور قوتِ متخیلہ اس کی تائید کرتی ہے، اور جب راحت بخش قیام گاہوں اور ٹھنڈے اور گھنے سایوں کا ذکر ہوتا ہے تو قوتِ احساس و ادراک پر حالتِ محویت و استغراق طاری ہوجاتی ہے۔ غرضیکہ قرآن میں اس ادبی فراوانی اور فنی کمال کے لیے صفحات پر صفحات وقف ہوتے چلے جاتے ہیں جن کی حیثیت بالکل منفرد قسم کی ہے۔ دنیا کے ادبی سرمایے میں نہ ان کی کوئی نظیر ہے نہ مثال....
ان مشاہد کا ایک اہم مقصد قیامت کے دن کی ہولناکیوں کی منظرکشی ہے۔ وہ ہولناکیاں کہ جن کی وجہ سے کائنات کا ذرہ ذرہ لرزہ براندام ہوگا۔ نوعِ انسانیت پر عالمِ سراسیمگی طاری ہوگا اور مارے خوف کے وہ کانپ رہی ہوگی۔ قریب قریب کوئی ایک منظر بھی ایسا نہیں جس میں سب زندہ نفوس شامل نہ ہوں۔ خوف و دہشت کی وجہ سے کائنات اور فطرت کی کوئی علیحدہ حیثیت نہیں ہوگی سواے اس کے کہ اس میں کسی نہ کسی نوع کی زندگی کے آثار موجود ہوں۔ کسی منظر میں نمودار ہونے والے وجود کبھی تو جملہ افراد فطرت ہوتے ہیں اور کبھی یہ پوری نوعِ انسانی کے گوش بر آواز و نگاہ بر انجام، نفوس یا انواع و اقسام کی حیوانی مخلوقات___ اور کبھی میدانِ حشر میں یہ بھی ہوتے ہیں اور وہ بھی۔ پھر کسی وقت یہ افراد ہستی خاموش فطرت کی شکل میں، کبھی بے زبان حیوان کی صورت میں اور کبھی انسان کی حیثیت میں برابر نمودار ہوتے ہیں۔ ملاحظہ ہو:
اِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْ o وَاِذَا النُّجُوْمُ انْکَدَرَتْ o وَاِذَا الْجِبَالُ سُیِّرَتْ o وَاِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ o وَاِذَا الْوُحُوْشُ حُشِرَتْ o وَاِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ o وَاِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ o وَاِذَا الْمَوْئٗ دَۃُ سُئِلَتْ o بِاَیِّ ذَنْبٍم قُتِلَتْ o وَاِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ o وَاِذَا السَّمَآئُ کُشِطَتْ o وَاِذَا الْجَحِیْمُ سُعِّرَتْ o وَاِذَا الْجَنَّۃُ اُزْلِفَتْ o عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّآ اَحْضَرَتْ o (التکویر ۸۱:۱-۱۴) جب سورج لپیٹ دیا جائے گا اور جب تارے بکھر جائیں گے، اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے اور جب دس مہینے کی حاملہ اُونٹنیاں اپنے حال پر چھوڑ دی جائیں گی اور جب جنگلی جانور سمیٹ کر اکٹھے کردیے جائیں گے اور جب سمندر بھڑکا دیے جائیں گے اور جب جانیں (جسموں سے) جوڑ دی جائیں گی اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس قصور میں ماری گئی؟ اور جب اعمال نامے کھولے جائیں گے اور جب آسمان کا پردہ ہٹا دیا جائے گا اور جب جہنم دہکائی جائے گی اور جب جنت قریب لے آئی جائے گی اس وقت ہرشخص کو معلوم ہوجائے گا کہ وہ کیا لے کر آیا ہے۔
غرضیکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ارض و سما، انس و حیوان، خورد و کلاں، جنت و دوزخ سب پر خوف و دہشت کا عالم طاری ہوگا اور سب کے سب گھبراہٹ اور انتظار میں ہوں گے کہ دیکھیے انجام کیا ہونے والا ہے؟
کبھی صرف مظاہر فطرت کے مناظر ہی نگاہوں کے سامنے نمودار ہوتے ہیں اور ماحول کی ہولناکی پوری فضا میں ہیجان و ارتعاش پیدا کردیتی ہے:
اِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَۃُ o لَیْسَ لِوَقْعَتِھَاکَاذِبَۃٌ o خَافِضَۃٌ رَّافِعَۃٌ o اِذَا رُجَّتِ الْاَرْضُ رَجًّا o وَّبُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا o فَکَانَتْ ہَبَآئً مُّنْبَثًّاo (الواقعہ۵۶: ۱-۶) جب وہ ہونے والا واقعہ پیش آجائے گا تو کوئی اس کے وقوع کو جھٹلانے والا نہ ہوگا۔ وہ تہ و بالا کردینے والی آفت ہوگی۔ زمین اس وقت یک بارگی ہلا ڈالی جائے گی اور پہاڑ اس طرح ریزہ ریزہ کردیے جائیں گے کہ پراگندہ غبار بن کر رہ جائیں گے۔
یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْئُ مِنْ اَخِیْہِ o وَاُمِّہٖ وَاَبِیْہِ o وَصَاحِبَتِہٖ وَبَنِیْہِ o لِکُلِّ امْرِیٍٔ مِّنْھُمْ یَوْمَئِذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْہِ o (عبس ۸۰:۳۴-۳۷) اس روز آدمی اپنے بھائی اور اپنی ماں اور اپنے باپ اور اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے بھاگے گا۔ ان میں سے ہرشخص پر اس دن ایسا وقت آپڑے گا کہ اسے اپنے سوا کسی کا ہوش نہ ہوگا۔
یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمْ اِنَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیْئٌ عَظِیْمٌ o یَوْمَ تَرَوْنَھَا تَذْھَلُ کُلُّ مُرْضِعَۃٍ عَمَّآ اَرْضَعَتْ وَ تَضَعُ کُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَھَا وَ تَرَی النَّاسَ سُکٰرٰی وَ مَا ھُمْ بِسُکٰرٰی وَلٰکِنَّ عَذَابَ اللّٰہِ شَدِیْدٌ o (الحج ۲۲:۱-۲) لوگو! اپنے رب کے غضب سے بچو، حقیقت یہ ہے کہ قیامت کا زلزلہ بڑی (ہولناک) چیز ہے۔ جس روز تم اسے دیکھو گے حال یہ ہوگا کہ ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے سے غافل ہوجائے گی، ہرحاملہ کا حمل گر جائے گا اور لوگ تم کو مدہوش نظر آئیں گے، حالانکہ وہ نشے میں نہ ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب ہی کچھ ایسا سخت ہوگا۔
فَکَیْفَ اِذَاجِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍم بِشَھِیْدٍ وَّ جِئْنَا بِکَ عَلٰی ھٰٓؤُلَآئِ شَھِیْدًا o یَوْمَئِذٍ یَّوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَ عَصَوُا الرَّسُوْلَ لَوْ تُسَوّٰی بِھِمُ الْاَرْضُ ط وَ لَا یَکْتُمُوْنَ اللّٰہَ حَدِیْثًا o (النساء ۴:۴۱-۴۲) پھر سوچو کہ اس وقت یہ کیا کریں گے جب ہم ہر اُمت میں سے ایک گواہ لائیںگے اور ان لوگوں پر تمھیں (یعنی محمدصلی اللہ علیہ وسلم) گواہ کی حیثیت سے کھڑا کریں گے۔ اس وقت وہ سب لوگ جنھوں نے رسولؐ کی بات نہ مانی اور اس کی نافرمانی کرتے رہے تمنا کریں گے کہ کاش زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں سما جائیں۔ وہاں یہ اپنی کوئی بات اللہ سے نہ چھپا سکیں گے۔
اَلْقَارِعَۃُ o مَا الْقَارِعَۃُ o وَمَآ اَدْرٰکَ مَا الْقَارِعَۃُ o یَوْمَ یَکُوْنُ النَّاسُ کَالْفَرَاشِ الْمَبْثُوْثِ o وَتَکُوْنُ الْجِبَالُ کَالْعِھْنِ الْمَنْفُوْش o (القارعہ ۱۰۱:۱-۵) عظیم حادثہ! کیا ہے وہ عظیم حادثہ؟ تم کیا جانو کہ وہ عظیم حادثہ کیا ہے؟ وہ دن جب لوگ بکھرے ہوئے پروانوں کی طرح اور پہاڑ رنگ برنگ کے دھنکے ہوئے اُون کی طرح ہوں گے۔
یَوْمَ تَرْجُفُ الْاَرْضُ وَالْجِبَالُ وَکَانَتِ الْجِبَالُ کَثِیْبًا مَّہِیْلًا o اِنَّآ اَرْسَلْنَـآ اِلَیْکُمْ رَسُوْلًا شَاہِدًا عَلَیْکُمْ کَمَآ اَرْسَلْنَـآ اِلٰی فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا o فَعَصٰی فِرْعَوْنُ الرَّسُوْلَ فَاَخَذْنٰہُ اَخْذًا وَّبِیْلًا o فَکَیْفَ تَتَّقُوْنَ اِنْ کَفَرْتُمْ یَوْمًا یَّجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِیْبَانِ o السَّمَآئُ مُنْفَطِرٌم بِہٖ کَانَ وَعْدُہ‘ مَفْعُوْلًا o (المزمل ۷۳:۱۴-۱۸) یہ اس دن ہوگا جب زمین اور پہاڑ لرز اُٹھیں گے اور پہاڑوں کا حال ایسا ہوجائے گا جیسے ریت کے ڈھیر ہیں جو بکھرے جارہے ہیں۔ تم لوگوں کے پاس ہم نے اسی طرح ایک رسول تم پر گواہ بناکر بھیجا ہے جس طرح ہم نے فرعون کی طرف ایک رسول بھیجا تھا۔ (پھر دیکھ لو کہ جب) فرعون نے اس رسول کی بات نہ مانی تو ہم نے اس کو بڑی سختی کے ساتھ پکڑ لیا۔ اگر تم ماننے سے انکار کرو گے تو اس دن کیسے بچ جائو گے جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا اور جس کی سختی سے آسمان پھٹا جارہا ہوگا؟ اللہ کا وعدہ تو پورا ہوکر ہی رہنا ہے۔
ان مشاہد کا ایک مقصد جنت و دوزخ سے پہلے میدانِ حشر کی منظرکشی بھی ہے۔ یہاں ہم دیکھیں گے کہ اس وقت انسانوں پر گزرنے والے جاں گسل حالات و کیفیات پیش کرنے کے لیے قرآن میں بہت سے پیرایہ ہاے بیان اختیار کیے گئے ہیں، اور محشر کا پورا سماں کئی پہلوئوں سے نگاہوں کے سامنے لاکر کھڑا کر دیا گیا ہے۔ کبھی نامۂ اعمال کی پیشی اور حساب کتاب کا منظر اتنا طویل نظر آتا ہے کہ آپ اسے دائمی سمجھنے لگتے ہیں، اور کبھی وہ آنکھ جھپکنے میں اس سُرعت سے گزر جاتا ہے کہ آنکھوں کو سیری تک حاصل نہیں ہوتی۔ کہاں یہ طرزِ انشاء اختیار کیا جائے اور کہاں وہ، اس بات کا تقاضا اور فیصلہ فنی اصولوں کے تحت ہی کیا جاسکتا ہے جو نفسیاتی اور شعوری بنیادوں پر قائم ہیں۔ نیز اس امر کا تعین کہ کسی منظر کی طوالت یا اختصار کی حدود کیا ہیں یا یہ کہ کہاں جاکر طوالت کو اختصار میں یا اختصار کو طوالت میں بدلنا ہے، میدانِ حشر کی طبعی فضا اور فطرتی ماحول پر موقوف ہے۔ اس طرح یہ اندازِ بیان بھی ایک دینی مقصد کی تکمیل میں بہت مفید و معاون ثابت ہوتا ہے۔
وَ بَرَزُوْا لِلّٰہِ جَمِیْعًا فَقَالَ الضُّعَفٰٓؤُا لِلَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْٓا اِنَّاکُنَّا لَکُمْ تَبَعًا فَھَلْ اَنْتُمْ مُّغْنُوْنَ عَنَّا مِنْ عَذَابِ اللّٰہِ مِنْ شَیْئٍ قَالُوْا لَوْ ھَدٰنَا اللّٰہُ لَھَدَیْنٰکُمْ سَوَآئٌ عَلَیْنَآ اَجَزِعْنَآ اَمْ صَبَرْنَا مَا لَنَا مِنْ مَّحِیْصٍ o وَ قَالَ الشَّیْطٰنُ لَمَّا قُضِیَ الْاَمْرُ اِنَّ اللّٰہَ وَعَدَکُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَ وَعَدْتُّکُمْ فَاَخْلَفْتُکُمْ وَ مَا کَانَ لِیَ عَلَیْکُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ اِلَّآ اَنْ دَعَوْتُکُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِیْ فَلَا تَلُوْمُوْنِیْ وَ لُوْمُوْٓا اَنْفُسَکُمْ مَآ اَنَا بِمُصْرِخِکُمْ وَمَآ اَنْتُمْ بِمُصْرِخِیَّ اِنِّیْ کَفَرْتُ بِمَآ اَشْرَکْتُمُوْنِ مِنْ قَبْلُ اِنَّ الظّٰلِمِیْنَ لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌo (ابراہیم ۱۴:۲۱-۲۲) اور یہ لوگ جب اکٹھے اللہ کے سامنے بے نقاب ہوں گے تو اس وقت ان میں سے جو دنیا میں کمزور تھے وہ ان لوگوں سے جو بڑے بنے تھے کہیں گے: ’’دنیا میں ہم تمھارے تابع تھے۔ اب کیا تم اللہ کے عذاب سے ہم کو بچانے کے لیے بھی کچھ کرسکتے ہو؟‘‘ وہ جواب دیں گے: ’’اگر اللہ نے ہمیں نجات کی کوئی راہ دکھائی ہوتی تو ہم ضرور تمھیں بھی دکھا دیتے، اب تو یکساں ہے خواہ ہم جزع فزع کریں یا صبر، بہرحال ہمارے بچنے کی کوئی صورت نہیں، ’’اور جب فیصلہ چکا دیا جائے گا تو شیطان کہے گا: ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے جو وعدے تم سے کیے تھے وہ سب سچے تھے اور مَیں نے جتنے وعدے کیے ان میں سے کوئی بھی پورا نہ کیا، میرا تم پر کوئی زور نہ تھا۔ نہیں، میں نے اس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ اپنے راستے کی طرف تمھیں دعوت دی اور تم نے میری دعوت پر لبیک کہا۔ اب مجھے ملامت نہ کرو، اپنے آپ ہی کو ملامت کرو۔ یہاں نہ میں تمھاری فریاد رسی کرسکتا ہوں اور نہ تم میری۔ اس سے پہلے جو تم نے مجھے خدائی میں شریک بنا رکھا تھا میں اس سے بری الذمہ ہوں ایسے ظالموں کے لیے تو دردناک سزا یقینی ہے‘‘۔
وَیَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیْہِ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا o یٰوَیْلَتٰی لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلاَنًا خَلِیْلًا o لَقَدْ اَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّکْرِ بَعْدَ اِذْ جَآئَنِی وَکَانَ الشَّیْطٰنُ لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلًا o (الفرقان ۲۵:۲۷-۲۹) اور اس روز ظالم انسان اپنے ہاتھ چبائے گا اور کہے گا: ’’کاش! میں نے رسول کا ساتھ دیا ہوتا۔ ہاے میری کم بختی! کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا۔ اس کے بہکائے میں آکر مَیں نے وہ نصیحت نہ مانی جو میرے پاس آئی تھی‘‘۔ شیطان انسان کے حق میں بڑا ہی بے وفا نکلا۔
کُلُّ نَفْسٍم بِمَا کَسَبَتْ رَہِیْنَۃٌ o اِلَّآ اَصْحٰبَ الْیَمِیْنِ o فِیْ جَنّٰتٍ یَتَسَآئَ لُوْنَ o عَنِ الْمُجْرِمِیْنَ o مَا سَلَکَکُمْ فِیْ سَقَرَ o قَالُوْا لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَ o وَلَمْ نَکُ نُطْعِمُ الْمِسْکِیْنَ o وَکُنَّا نَخُوْضُ مَعَ الْخَآئِضِیْنَ o وَکُنَّا نُکَذِّبُ بِیَوْمِ الدِّیْنِ o حَتّٰیٓ اَتٰـنَا الْیَقِیْنُ o (المدثر ۷۴: ۳۸-۴۷) ہرمتنفس اپنے کسب کے بدلے رہن ہے، دائیں بازو والوں کے سوا، جو جنتوں میں ہوں گے۔ وہاں وہ مجرموں سے پوچھیںگے: ’’تمھیں کیا چیز دوزخ میں لے گئی؟‘‘ وہ کہیں گے: ’’ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہ تھے، اور مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے اور حق کے خلاف باتیں بنانے والوں کے ساتھ مل کر ہم بھی باتیں بنانے لگتے تھے، اور روزِ جزا کو جھوٹ قرار دیتے تھے، یہاں تک کہ ہمیں اس یقینی چیز سے سابقہ پیش آگیا‘‘۔
الغرض ان تینوں مناظر میں موقع و محل کی مناسبت سے واقعاتِ قیامت کا علیحدہ علیحدہ نقشہ کھینچا گیا ہے۔ پہلے منظر میں قیامت کے روز مجرمین کے باہمی جھگڑے اور مکالمے کی تصویر ہے۔ دوسرے میں اپنی سیاہ بختی اور گمراہی پر حسرت و ندامت، اور تیسرے میں اپنی نافرمانیوں کا طویل اعتراف و اقرار۔ یہاں اندازِ بیان میں طوالت ہے کیونکہ ان میں سے ہرمنظر اور ہر موقف تاثیر و تاثر میں گہرائی اور گیرائی پیدا کرنے کے لیے مہلت اور طوالت کا تقاضا کرتا ہے۔
وَوُفِّیَتْ کُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ وَھُوَ اَعْلَمُ بِمَا یَفْعَلُوْنَ o (الزمر ۳۹:۷۰) اور ہر متنفس کو جو کچھ بھی اس نے عمل کیا تھا اس کا پورا پورا بدلہ دے دیا جائے گا۔ لوگ جو کچھ بھی کرتے ہیں اللہ اس کو خوب جانتا ہے۔
فَاِذَا نُفِخَ فِیْ الصُّورِ فَلَآ اَنْسَابَ بَیْنَھُمْ یَوْمَئِذٍ وَّلاَ یَتَسَائَ لُوْنَ (المومنون ۲۳:۱۰۱) پھر جونہی کہ صور پھونک دیا گیا ان کے درمیان پھر کوئی رشتہ نہ رہے گا اور نہ وہ ایک دوسرے کو پوچھیںگے۔
یُعْرَفُ الْمُجْرِمُوْنَ بِسِیمٰھُمْ فَیُؤْخَذُ بِالنَّوَاصِی وَالْاَقْدَامِ o (الرحمٰن ۵۵:۴۱) مجرم وہاں اپنے چہروں سے پہچان لیے جائیں گے اور انھیں پیشانی کے بال اور پائوں پکڑ پکڑ کر گھسیٹا جائے گا۔
مختلف مقامات میں موقع و محل کے لحاظ سے اختصار کے اسباب بھی مختلف ہیں۔ کبھی اختصار کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ مقام سکوت و سکون، رعب و جلال یا عجز و نیاز کا متقاضی ہوتا ہے۔ اس میں کسی قسم کے ردّ و قبول اور بحث و استدلال کی کوئی گنجایش نہیں ہوتی۔ کہیں بات میں یک بارگی اور اچانک انقطاع و انفصال مقصود ہوتا ہے۔ بس ایک بات کا ذکر ہوتا ہے کہ اچانک اس کے بعد ساری بحث ختم ہوجاتی ہے۔ اور کبھی مراد چونکہ پوری طرح واضح ہوتی ہے اس لیے مزید کسی بحث و تکرار اور کلام کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ ان مختلف مقاصد میں سے چند ایک ہیں جو کسی منظر کے اختصار اور دفعتاً نظر آکر بسرعت گزر جانے کا باعث بنتے ہیں۔
ان مناظر کا ایک مقصد زندگی بعد موت اور حساب و کتاب کے بعد جنت و دوزخ کی عکاسی ہے۔ یہ مناظر کبھی تو جنت و دوزخ دونوں کو مادی شکل میں پیش کرتے ہیں کہ جنھیں قوتِ حاسّہ لمس سے محسوس کرتی ہے، اور کبھی معنوی صورت میں پیش کرتے ہیں جس کا ادراک انسان کا نفسِ ناطقہ ہی کرسکتا ہے، اور کبھی یہ دونوں صورتیں یک جا ہوجاتی ہیں۔
وَ الَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّھَبَ وَ الْفِضَّۃَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَھَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَبَشِّرْھُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ o یَّوْمَ یُحْمٰی عَلَیْھَا فِیْ نَارِ جَھَنَّمَ فَتُکْوٰی بِھَا جِبَاھُھُمْ وَ جُنُوْبُھُمْ وَ ظُھُوْرُھُمْ ھٰذَا مَا کَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ فَذُوْقُوْا مَا کُنْتُمْ تَکْنِزُوْنَ o (التوبہ ۹: ۳۴-۳۵) دردناک سزا کی خوش خبری دو ان کو جو سونا اور چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں اور انھیں خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔ ایک دن آئے گا کہ اسی سونے اور چاندی پر جہنم کی آگ دہکائی جائے گی اور پھر اُسی سے اُن لوگوں کی پیشانیوں اور پہلوئوں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا۔ ’’یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لیے جمع کیا تھا۔ لو اب اپنی سمیٹی ہوئی دولت کا مزا چکھو‘‘۔
یہاں راہِ خدا میں خرچ نہ کرنے والوں کا حشر چشمِ تصور کے سامنے آگیا ہے۔ وہ مال و دولت جسے وہ دنیا میں سونے چاندی کی شکل میں جمع کرتے رہے تھے آج اسے دوزخ کی آگ میں سرخ کر کے ان کے اعضا و جوارح کو داغا جار ہا ہے اور استہزا یہ کہا جا رہا ہے: ’’لو یہ ہے تمھارا وہ خزانہ جسے تم دنیوی زندگی میں جمع کرتے رہے تھے، آج ذرا اس کا مزا چکھو‘‘۔
ھٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِیْ رَبِّھِمْ فَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا قُطِّعَتْ لَھُمْ ثِیَابٌ مِّنْ نَّارٍ یُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُئُ وْسِھِمُ الْحَمِیْمُ o یُصْھَرُ بِہٖ مَا فِیْ بُطُوْنِھِمْ وَالْجُلُوْدُ o وَ لَھُمْ مَّقَامِـعُ مِنْ حَدِیْدٍ o کُلَّمَآ اَرَادُوْٓا اَنْ یَّخْرُجُوْا مِنْھَا مِنْ غَمٍّ اُعِیْدُوْا فِیْھَا وَ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ o (الحج ۲۲:۱۹-۲۲) یہ دو فریق ہیں جن کے درمیان اپنے رب کے معاملے میں جھگڑا ہے۔ ان میں سے وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا ان کے لیے آگ کے لباس کاٹے جاچکے ہیں۔ ان کے سروں پر کھولتا ہوا پانی ڈالا جائے گا۔ جس سے ان کی کھالیں ہی نہیں پیٹ کے اندر کے حصے تک گل جائیںگے اور ان کی خبر لینے کے لیے لوہے کے گُرز ہوں گے۔ جب کبھی وہ گھبرا کر جہنم سے نکلنے کی کوشش کریں گے پھر اسی میں دھکیل دیے جائیں گے کہ چکھو اب جلنے کی سزا کا مزا۔
منکرین حق کو دوزخ میں برہنہ جسم یوں ڈال دیاگیا ہے کہ اب آتشِ دوزخ ہی ان کے جسم کے گرد لپٹ کر اُن کا لباس بن گئی ہے۔ ان کے سروں پر کھولتا ہوا پانی اُنڈیلا جا رہا ہے جو ان کے دماغ اور قلب و جگر اور امعاء و جلود کو گھلائے جا رہا ہے۔ جب بھی وہ اس ناقابلِ برداشت و روح فرسا تکلیف سے نکل بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں، لوہے کے گُرز مارمار کر انھیں دوبارہ وہیں دھکیل دیا جاتا ہے۔ اور ان کی خبر لینے والے دوزخ کے کارندے انھیں جھڑک کر یوں مخاطب ہوتے ہیں: ’’اونہوں! اپنے جسم و روح کے جلنے کا مزا یہیں چکھو۔ نکل بھاگنے کی کوئی صورت نہیں‘‘۔ اُف! کتنا دردناک منظر ہے!
وَاَصْحٰبُ الْیَمِیْنِ لا مَآ اَصْحٰبُ الْیَمِیْنِ o فِیْ سِدْرٍ مَّخْضُوْدٍ o وَطَلْحٍ مَّنْضُوْدٍ o وَّظِلٍّ مَمْدُوْدٍ o وَّمَآئٍ مَّسْکُوبٍ o وَّفَاکِہَۃٍ کَثِیْرَۃٍ o لاَّ مَقْطُوعَۃٍ وَّلاَ مَمْنُوْعَۃٍ o وَّفُرُشٍ مَّرْفُوْعَۃٍ o اِنَّآ اَنْشَاْنٰہُنَّ اِنْشَائً o فَجَعَلْنٰہُنَّ اَبْکَارًا o عُرُبًا اَتْرَابًا o لّاِصْحٰبِ الْیَمِیْنِ o (الواقعہ ۵۶: ۲۷-۳۸) اور دائیں بازو والے، دائیں بازو والوں کی خوش نصیبی کا کیا کہنا! وہ بے خار بیریوں اور تہہ بر تہہ چڑھے ہوئے کیلوں، اور دُور تک پھیلی ہوئی چھائوں اور ہردم رواں پانی، اور کبھی ختم نہ ہونے والے اور بے روک ٹوک ملنے والے بکثرت پھلوں، اور اُونچی نشست گاہوں میں ہوں گے۔ ان کی بیویوں کو ہم خاص طور پر نئے سرے سے پیدا کریں گے اور انھیں باکرہ بنا دیں گے، اپنے شوہروں کی عاشق اور عمر میں ہم سِن۔
وَاِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ لَحُسْنَ مَاٰبٍ o جَنّٰتِ عَدْنٍ مُّفَتَّحَۃً لَّھُمُ الْاَبْوَابُ o مُتَّکِئِینَ فِیْھَا یَدْعُوْنَ فِیْھَا بِفَاکِہَۃٍ کَثِیْرَۃٍ وَّشَرَابٍ o وَعِنْدَھُمْ قٰصِرٰتُ الطَّرْفِ اَتْرَابٌ o ہٰذَا مَا تُوْعَدُوْنَ لِیَوْمِ الْحِسَابِ o (صٓ۳۸: ۴۹-۵۳) (اب سنو کہ) متقی لوگوں کے لیے یقینا بہترین ٹھکانا ہے ہمیشہ رہنے والی جنتیں، جن کے دروازے ان کے لیے کھلے ہوں گے۔ ان میں وہ تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے۔ خوب خوب فواکہ اور مشروبات طلب کررہے ہوں گے، اور ان کے پاس شرمیلی ہم سن بیویاں ہوںگی۔ یہ وہ چیزیں ہیں جنھیں حساب کے دن عطا کرنے کا تم سے وعدہ کیا جارہا ہے۔
سبحان اللہ! کتنا دل کش اور پُربہار منظر ہے۔ اس حیاتِ ناپایدار میں انسان اس سے بہتر عیش و آرام اور اس سے زیادہ پُرلطف و پُربہار زندگی کا تصور تک نہیں کرسکتا۔ آنکھیں بند کرکے ذرا چشمِ تصور کو وا کیجیے۔ کیا عجب بہار ہے۔ وسیع باغات ہیں جن میں کبھی ختم نہ ہونے والے پھلوں سے لدے ہوئے درخت ہیں جن کے بیچوں بیچ ہردم رواں پانی کے چشمے بہہ رہے ہیں۔ ان چشموں کے کنارے درختوں کے گھنے ٹھنڈے سایے میں نہایت حسین وجمیل ہم عمر نوجوان اور باحیا بیویوں کی معیت میں اُونچی نشست گاہوں پر گائو تکیے لگائے اہلِ جنت فروکش ہیں، جی بھر کر قسم ہا قسم کے پھلوں اور شراب طہور سے لطف اندوز ہورہے ہیں اور بار بار طلب کرر ہے ہیں۔ ’’بھئی اور لو! ضیافت کی یہی تو وہ چیزیں ہیں جو آج کے دن تمھیں مہیا کرنے کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا‘‘ جواب میں کہا جاتا ہے ___ یہ ہے جنت کی وہ ابدی نعمت، جس سے انسان کے کام و دہن لذت اندوز ہوں گے اور جسے یہاں محسوس و مجسم شکل میں لوگوں کے سامنے رکھ دیا گیا ہے۔
غور سے دیکھیں تو جنت و دوزخ دونوں نہایت لطیف و عمیق ہیں۔ یہاں تک کہ دونوں نہایت لطیف روحانی سایے سے معلوم ہوتے ہیں۔ جن میں نفوسِ انسانی بالکل منفرد شکلیں اختیار کرجاتے ہیں یا یوں کہیے کہ ان کے چہروں پر کوئی عجیب و غریب قسم کی پرچھائیں پڑی ہے۔ قرآن نے اس کیفیت کی عکاسی ان الفاظ میں کی ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَھُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا o (مریم ۱۹:۹۶) یقینا جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور عمل صالح کررہے ہیں، عنقریب رحمن ان کے لیے دلوں میں محبت پیدا کردے گا۔
وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّھَدَآئِ وَ الصّٰلِحِیْنَ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا o (النساء ۴:۶۹) اور جو اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کرے گا وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے، یعنی انبیا ؑاور صدیقین اور شہدا اور صالحین۔ کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آئیں۔
اِنَّآ اَنْذَرْنٰکُمْ عَذَابًا قَرِیْبًا یَّوْمَ یَنْظُرُ الْمَرْئُ مَا قَدَّمَتْ یَدٰہُ وَیَقُوْلُ الْکٰفِرُ یٰـلَیْتَنِیْ کُنْتُ تُرٰبًا o (النباء ۷۸: ۴۰) بے شک ہم نے تو تم کو ایک ایسے عذاب سے ڈرا دیا ہے جو قریب ہی آنے والا ہے۔ جس دن ہر ایک آدمی اپنے ان اعمال کو نامۂ اعمال میں لکھا ہوا دیکھ لے گا جو اس نے دنیا میں اپنے ہاتھ سے کیے تھے اور کافر حسرت سے کہے گا: ’’اے کاش! میں مرنے کے بعد ہوگیا ہوتا مٹی!‘‘
وَ لَوْ تَرٰٓی اِذْ وُقِفُوْا عَلٰی رَبِّھِمْ قَالَ اَلَیْسَ ھٰذَا بِالْحَقِّ قَالُوْا بَلٰی وَ رَبِّنَا قَالَ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْفُرُوْنَo (الانعام ۶:۳۰) کاش! وہ منظر تم دیکھ سکو جب یہ اپنے رب کے سامنے کھڑے کیے جائیں گے۔ اس وقت ان کا رب ان سے پوچھے گا:’’کیا یہ حقیقت نہیں ہے؟‘‘ یہ کہیں گے: ’’ہاں! اے ہمارے رب! یہ حقیقت ہی ہے! ’’وہ فرمائے گا: ’’اچھا! تو اب اپنے انکارِ حقیقت کی پاداش میں عذاب کا مزا چکھو‘‘۔
الغرض ان سب مشاہد میں جنت و دوزخ کا نقشہ انسان کے قلب و ضمیر میں ایک طرح کی بے آمیز مسرت و اطمینان اور محبت، یا بے میل ندامت و رسوائی اور نفرت کا احساس پیدا کردیتا ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ مظاہرِ جنت یا مظاہرِ دوزخ میں باہم امتزاج پیدا ہوجاتا ہے۔ اس طرح ان کا تاثر دوہرا ہوجاتا ہے۔ چنانچہ جنت یا دوزخ کے ٹھوس مادی وجود سے جسمانی راحت و تکلیف کے ساتھ ساتھ روحانی آسودگی اور تکلیف بھی محسوس ہوتی ہے۔ جنت و دوزخ کے مظاہر میں یہ رنگ غالب ہے۔(انتخاب: مناظرِقیامت قرآن کی زبان میں، ادارہ تعمیرانسانیت، لاہور، ص ۵۷-۷۷)
ترجمہ وتلخیص: ارشاد الرحمن
اہلِ اسلام کی دو عیدیں ہیں: عیدالفطر اور عیدالاضحی، اور ہر عید کسی بڑی عبادت یا کسی بڑے فرض کے بعد آتی ہے۔ عیدالاضحی فریضۂ حج، اور عیدالفطر ماہِ رمضان کے بعد آتی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ان فرائض و عبادات کی ادایگی کے بعد تم اللہ تعالیٰ کی عظمت بیان کرو اور اس کا شکر ادا کرو کہ اس نے تمھیں اس ادایگی کی توفیق و رہنمائی عنایت فرمائی۔
عیدالفطر کے موقع پر اللہ تعالیٰ کی نعمت اور اس کی توفیق و عنایت پر اس کا شکر ادا کرنے کا ایک اظہار یہ ہے کہ مسلمان عید کی اس خوشی سے تنہا محظوظ نہ ہو، بلکہ فقیروں اور مسکینوں کو اس میں شریک کرنے کی کوشش کرے۔ رمضان کی زکوٰۃ، ’فطرانہ‘ اسی لیے فرض کیا گیا ہے۔ مسلمان یہ زکوٰۃ اپنی اور اپنے اہل و عیال کی طرف سے ادا کرتا ہے۔ یہ ایک معمولی سی مقدار ہے جو ہر اس شخص پر واجب ہے جو عید کے دن اوررات کے کھانے کے علاوہ کچھ اپنے پاس رکھتا ہو۔ جمہور علما کے نزدیک اس شخص کی ملکیت کا نصاب کو پہنچنا ضروری نہیں۔ دراصل اسلام مسلمان کو خوشی غمی کے ہرموقع پر انفاق کا عادی بنانا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس صدقۂ فطر کی ادایگی کرتا ہے خواہ وہ فقیر ہی ہو۔ اگر وہ فقیر ہو تو ایک طرف وہ خود صدقہ ادا کرتا ہے اور دوسری طرف اسے دوسروں سے موصول ہو رہا ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے: اس روز انھیں [فقرا و مساکین کو] کوچہ و بازار میں نکل کر مانگنے سے بے نیاز کردو۔
برادرانِ اسلام! عید کا دن وعید کے دن سے مشابہت رکھتا ہے۔ قرآن حکیم کے الفاظ میں: وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ مُّسْفِرَۃٌ o ضَاحِکَۃٌ مُّسْتَبْشِرَۃٌ o وَوُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ عَلَیْھَا غَبَرَۃٌ o تَرْہَقُھَا قَتَرَۃٌ o (عبس ۸۰: ۳۸-۴۱) ’’کچھ چہرے اُس روز دمک رہے ہوں گے، ہشاش بشاش اور خوش و خرم ہوں گے اور کچھ چہروں پر اس روز خاک اُڑ رہی ہوگی اور کلونس چھائی ہوئی ہوگی‘‘۔ تروتازہ اور خوش باش چہروں والے ہی تو ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے صیام و قیام کی نعمت مکمل فرمائی۔ لہٰذا آج کے دن وہ خوش ہوں گے اور یقینا اُن کا حق ہے کہ وہ خوش ہوں۔ دوسری طرف وہ چہرے جن پر کلونس چھائی ہوگی، یہی وہ چہرے ہوں گے جنھوں نے اللہ کی نعمت کی قدر نہ کی اور قیام و صیام کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی پروا نہ کی۔ ان کے لیے عید کا دن وعید کی حیثیت رکھتا ہے۔
برادرانِ اسلام! ہماری عید کا یہ روز بے ہودگی، بے مقصدیت اور شہوت پرستی کے لیے آزاد ہوجانے کا دن نہیں ہے، جیساکہ بعض قوموں اور ملکوں کا وتیرا ہے کہ اُن کی عید شہوت، اباحیت اور لذت پرستی کا نام ہے۔ مسلمانوں کی عید اللہ کی کبریائی کے اقرار و اظہار اور اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہونے سے شروع ہوتی ہے۔ اس کا مقصد اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق استوار کرنا ہے۔ اس دن کا پہلا عمل اللہ کی بڑائی بیان کرنا اور دوسرا اس کے سامنے سجدہ ریز ہونا ہے۔
اللہ کی کبریائی___ تکبیر، ہم مسلمانوں کی عیدوں کی شان ہے۔ یہ تکبیر ___اللہ اکبر، مسلمانوں کا شعار ہے۔ مسلمان روزانہ پانچ وقت اپنی نماز میں اسی عظیم کلمے کے ساتھ داخل ہوتا ہے۔ روزانہ پانچ وقت نماز کے لیے کیا جانے ولا اعلان ’اذان‘ اسی کلمے سے شروع ہوتی ہے۔ نماز کی اقامت کا آغاز اسی کلمے سے ہوتا ہے۔ جانور کو ذبح کرتے وقت مسلمان اسی کلمے کو ادا کرتا ہے۔ یہ بہت عظیم کلمہ ہے___ اللہ اکبر! ’اللہ اکبر‘ ہر موقع پر مسلمانوں کا شعار ہوتا ہے۔ مسلمان میدانِ جہاد کے معرکے میں داخل ہو تو اللہ اکبر ___ یہ نعرئہ تکبیر دشمن کے دل میں خوف و دہشت طاری کر دیتا ہے۔ اللہ اکبر عید کی شان ہے۔ اسی لیے یہ تکبیر پڑھتے ہوئے عیدگاہ کی طرف جائو: اللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر، لا الٰہ الا اللّٰہ ، واللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر، وللّٰہ الحمد۔
برادرانِ اسلام! رمضان متقین کا موسم ہے، صالحین کا بازار ہے اور بازار میں کاروبار کرنے والا تاجر خاص موسم میں اپنی سرگرمیوں کو تیز کرتا ہے، لیکن وہ دکان کو اس خاص موسم کے بعد بند نہیں کردیتا۔ رمضان وہ موسم ہے جس میں ہم اپنے دلوں کو تقویٰ و ایمان کے مفہوم و معانی سے بھر لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ دلوں کو اُس چیز کے حصول کی ترغیب دلاتے ہیں، جو اللہ کے پاس ہے۔ اللہ کی خوشنودی اور نعمتوں کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ رمضان کی عبادتوں کی قبولیت کی علامت یہ ہے کہ انسان رمضان کے بعد بھی اللہ کی رسّی کو پکڑے رکھے۔ وہ اپنے رب کے ساتھ استوار ہوئے تعلق کو ٹوٹنے نہ دے۔ بعض اسلاف تو یہ کہتے ہیں کہ بہت بُرے ہیں وہ لوگ جو اللہ کو صرف رمضان ہی میں پہچانتے ہیں۔ لہٰذا ہم کہتے ہیں کہ مسلمانو! ربانی بنو، رمضانی نہ بنو۔ ایسے موسمی نہ بنو جو اللہ تعالیٰ کو سال میں صرف ایک مہینے کے لیے پہچانتے ہیں۔ پھر اِس کے بعد اُس کی عبادت و اطاعت کا سلسلہ توڑ دیتے ہیں۔
عید کے معنی ہر پابندی سے آزاد ہونا نہیں ہے۔ عید اللہ تعالیٰ کے ساتھ جڑے تعلق کو توڑ دینے کا نام نہیں ہے۔ بہت سے لوگوں کا رویہ بن گیا ہے کہ رمضان ختم ہوا تو مسجد کے ساتھ تعلق بھی ختم ہوگیا۔ عبادت اور اطاعت کے کاموں سے بھی ہاتھ روک لیا۔ نہیں، ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اگر کوئی شخص رمضان کو معبود مان کر روزہ رکھتا اور عبادت کرتا تھا تو اسے معلوم ہو کہ رمضان ختم ہوگیا، اور جو اللہ کو معبود مان کر اس کی عبادت کرتا تھا تو اللہ زندہ و جاوید ہے، اُسے کبھی فنانہیں!
جس شخص کے روزے اور قیام اللہ کی بارگاہ میں قبولیت پا چکے ہوں، اس کی بھی تو کوئی علامت ہوگی! اس کی علامت یہ ہے کہ اس صیام و قیام کے اثرات ہم اس شخص کی زندگی میں رمضان کے بعد بھی دیکھ سکیں گے:
وَالَّذِیْنَ اہْتَدَوْا زَادَھُمْ ہُدًی وَّاٰتٰھُمْ تَقْوٰھُمْ o (محمد ۴۷:۱۷) اور وہ لوگ جنھوں نے ہدایت پائی ہے، اللہ ان کو اور زیادہ ہدایت دیتا ہے، اور انھیں ان کے حصے کا تقویٰ عطا فرماتا ہے۔
نیکی قبول ہوجانے کی علامت اس کے بعد بھی نیکی کا جاری رہنا ہے، اور برائی کی سزا کی علامت اس کے بعد بھی برائی کرتے رہنا ہے۔ لہٰذا میرے مسلمان بھائیو! اللہ کے ساتھ دائمی تعلق استوار کرو۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں پر اطاعت ہمیشہ کے لیے فرض کی ہے۔ وہ نافرمانی کو بھی ہمیشہ کے لیے ناپسند کرتا ہے۔اگر رمضان کا رب وہ ہے تو شوال، ذوالقعدہ اور دیگر مہینوں کا رب بھی وہی ہے۔ اللہ کی معیت میں چلنا ہے تو دائمی چلو، اس سے ہرجگہ ڈرو، خواہ کسی بھی زمانے میں ہو، اور کسی بھی حال میں ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’تم جہاں بھی ہو، اللہ سے ڈرتے رہو‘‘۔
برادرانِ اسلام! ہر اُمت کا ایک امتیاز ہوتا ہے، اور ہر امتیاز کی ایک کلید ہوتی ہے۔ جب آپ کسی قفل کو کلید کے بغیر کھولیں گے تو وہ ہرگز نہیں کھلے گا۔ اسی طرح اس اُمت کا بھی ایک امتیاز ہے، اور اس امتیاز کی کلید ’ایمان‘ ہے۔ اسے ’ایمان‘ کے ذریعے متحرک کیجیے، یہ حرکت میں آجائے گی۔ ایمان کے ذریعے اس کی قیادت کیجیے، یہ پیچھے چلنے کے لیے تیار ہوجائے گی۔ اسے اللہ تعالیٰ پر ایمان کے جذبات کے ذریعے حرکت دی جائے تو ایک بہترین اُمت تیار ہوسکتی ہے۔ یہ بڑی بڑی رکاوٹوں کو عبور کرلیتی ہے، مشکل ترین اہداف کو حاصل کرلیتی ہے، اور بڑے بڑے کارنامے انجام دے سکتی ہے۔ یہ خالد بن ولید، طارق بن زیاد اور صلاح الدین ایوبی کا دور واپس لاسکتی ہے۔
یہی وہ چیز ہے جس سے اس اُمت کے دشمن خائف ہیں۔ وہ ڈرتے ہیں کہ کہیں یہ اُمت اسلام کی بنیاد پر متحرک نہ ہوجائے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایک کے بعد دوسری رکاوٹ کھڑی کردیتے ہیں۔ اسلامی تحریکوں کا چہرہ مسخ کرکے پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان سے دنیا کو ڈراتے ہیں۔ ان کی دعوت سے متنفر کرتے ہیں۔ اُن کے بارے میں افواہوں کا جال پھیلا دیتے ہیں۔ ہمارے نزدیک ان تحریکوں سے زیادہ صاف و شفاف کوئی تحریک نہیں۔ اپنے اسلوب، طریق کار، قیادت و کارکنان کے اعتبار سے یہ مثالی تحریکیں ہیں۔ یہاں ہرچیز شفاف اور ہرعمل میں اخلاص ہے۔ ہر کام میں ایمانی جھلک موجود ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس پر اہلِ ایمان فرحت محسوس کرتے ہیں۔
برادرانِ اسلام! آج ہم ایک ایسے دور میں زندہ ہیں جو فتنوں کا دَور ہے، آزمایشوں کا دور ہے۔ نبی کریمؐ نے ہمیں اس دور سے ڈرایا ہے جس میں فتنے سمندر کی موجوں کی طرح ٹھاٹھیں ماریں گے، جن کی وجہ سے لوگ اپنے عقائد سے گمراہ ہوجائیں گے۔ رسولؐ اللہ فرماتے ہیں: لوگ ان فتنوں کے کاموں کی طرف اس طرح بڑھیں گے جیسے سخت اندھیری رات چھا جاتی ہے۔ آدمی ایمان کی حالت میں صبح کرے گا اور شام کو کافر ہوگا، شام کو ایمان کی حالت میں ہوگا اور صبح کافر ہوگا۔ آدمی دنیا کی بہت تھوڑی قیمت پر اپنے دین کو بیچ دے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں جن فتنوں سے ڈرایا گیا ہے اُن میں عورتوں کا سرکش ہوجانا، جوانوں کا فسق میں مبتلا ہوجانا، جہاد کا ترک کر دیا جانا، امربالمعروف اور نہی عن المنکر پر عمل نہ ہونا، بلکہ اُن پیمانوں ہی کا بدل جانا، یعنی لوگوں کا اچھائی کو بُرائی اور بُرائی کو اچھائی سمجھنے لگنا بھی شامل ہیں۔
برادرانِ اسلام! اس اُمت کے لیے ہر مشکل سے نکلنے کا راستہ قرآن ہی ہے، انسانوں کے وضع کردہ قوانین نہیں۔ نہ دائیں بازو اور بائیںبازو کی تنظیمیں اس کے مرض کا علاج کرسکتی ہیں۔ یہ صرف قرآنِ مجید ہے جو اسے بحرانوں سے نکال سکتا ہے۔ ہمارے اُوپر یہ فرض ہے کہ ہم اس کی طرف واپس آئیں اور اس کی ہدایت پر چلیں۔ ہم نے اُوپر رمضان اور قرآن کی بات کی، تو یہ حقیقت ہے کہ رمضان قرآن کا مہینہ ہے اور قرآن کی برکت، اس کی پیروی اور اس کے مطابق عمل کرنے میں ہے۔ اس کی برکت اس میں نہیں ہے کہ ہم اس کی آیات کے فریم زینت کی غرض سے دیواروں پر لٹکا لیں، یا اسے مُردوں کے پاس تلاوت کرلیں، یا اس کو بچوں اور عورتوں کے لیے تعویذ بنا لیں۔ قرآن تمام انسانیت کے لیے ہرقسم کی گمراہی سے بچنے کے لیے آڑ ہے۔ قرآن اس لیے نازل ہوا ہے کہ زندوں کے معاملات کا فیصلہ کرے، نہ اس لیے کہ مُردوں پر پڑھا جائے۔ قرآن نازل ہوا ہے کہ عدالتوں میں اس کے مطابق فیصلہ کیا جائے نہ کہ اسے محض ثواب اور اپنے مُردوں کے ایصالِ ثواب کے لیے پڑھا جائے۔ قرآن اس اُمت کا دستور ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ ہم اسی کی طرف رجوع کریں۔ اس کی آیات کو سمجھیں، اس کے فہم میں گہرائی پیدا کریں، اور اسے اپنا اخلاق بنا لیں، جیساکہ نبی کریمؐ کے اوصاف میں بیان کیا گیا ہے کہ قرآن آپؐ کا اخلاق تھا۔ قرآن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْٓا اٰیٰــتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَ اُوْلُوا الْاَلْبَابِo(صٓ ۳۸:۲۹) یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو (اے نبیؐ) ہم نے تمھاری طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل و فکر رکھنے والے اس سے سبق لیں۔
برادرانِ اسلام! اس موقع پر یہ بہت مناسب ہوگا کہ ہم پوری اُمت کو رجوع الی الاسلام کی دعوت دیں۔ قرآن کی طرف بلائیں، دین کی طرف بلائیں۔ ہم نے دائیں بازو یا بائیں بازو کی تنظیموں اور مشرق و مغرب سے درآمد شدہ حل آزمائے۔ ہم نے دوسروں سے امداد کی بھیک کا تجربہ بھی کرلیا۔ ان تمام نے ہمیں کیا دیا؟ شکست، رسوائی، ندامت، نقصان، اخلاقی فساد اور غلامانہ انتشار کے سوا ہمیں کیا ملا ہے! ہمیں نہ معاشی آسودگی میسر آسکی، نہ سیاسی استحکام نصیب ہوا نہ معاشرتی تعلقات میں بہتری آسکی، اور نہ اخلاقی ترقی ہوئی نہ روحانی رفعت حاصل ہوسکی۔
ہمارے پاس اسلامی اصول، ربانی شریعت، محمدی طریق ہاے کار اور عظیم ورثہ موجود ہے۔ لہٰذا ہم امیر ہیں اور دوسروں سے ان چیزوں کے معاملے میں بے نیاز ہیں۔ پھر کیوں سب کچھ درآمد کرتے اور بھیک مانگتے پھرتے ہیں؟ ہمیں اپنے قرآن، آسمانی ہدایت اور نبویؐ سنت کی طرف پلٹنا چاہیے۔ ہماری نجات اسی میں ہے کہ ہم اللہ کی کتاب اور رسولؐ اللہ کی سنت کو مضبوطی کے ساتھ تھام لیں۔ ببانگِ دہل توحید کے عقیدے پر کاربند ہوجائیں۔ اسی طرح مسلمان ہوجائیں جیسے کبھی ہوا کرتے تھے، یعنی حقیقی مسلمان، نہ کہ نام کے مسلمان، یا موروثی مسلمان۔ مسلمانوں کو مستعد و متحرک ہونا چاہیے کہ وہ اپنے دین کے راستے میں اپنا سب کچھ نچھاور کرسکیں، اس دین کی خاطر کسی قربانی سے دریغ نہ کریں۔ لہٰذا ملت کا ہر فرد اور مسالک کے تمام ذمہ دار اپنے دین کے لیے قربانی دیں۔ کیا ہم اسلام کی راہ میں قربانی نہیں دے سکتے؟
برادرانِ اسلام! یہ دین اللہ کے فضل اور مومنوں کی نصرت کے ذریعے بالآخر فتح یاب ہوگا، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولؐ سے فرمایا:
ھُوَ الَّذِیْٓ اَیَّدَکَ بِنَصْرِہٖ وَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ (انفال ۸:۶۲) وہی (اللہ) تو ہے جس نے اپنی مدد سے اور مومنوں کے ذریعے سے تمھاری تائید کی۔
برادرانِ اسلام! مسلمانوں کی تعداد اس وقت اربوں میں ہے، لیکن اہمیت تعداد کے زیادہ ہونے یا لشکروں کے بھاری ہونے کی نہیں ہوتی بلکہ اہمیت معیار کی ہوتی ہے۔ جب مسلمان ۳۱۳ تھے تو انھوں نے عظیم فتح حاصل کی۔ اللہ تعالیٰ نے اُن کے اس دن کو ’یوم الفرقان‘ کا نام دیا، یعنی جس میں حق اور باطل کے درمیان فرق سامنے آگیا اور اللہ نے تو سچ ہی فرمایا ہے کہ:
وَلَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ بِبَدْرٍ وَّ اَنْتُمْ اَذِلَّۃٌ فَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ o (اٰل عمرٰن ۳:۱۲۳) اور اللہ نے بدر میں تمھاری مدد کی حالانکہ اس وقت تم بہت کمزور تھے۔ لہٰذا تمھیں چاہیے کہ اللہ کی ناشکری سے بچو، اُمید ہے کہ اب تم شکرگزار بنو گے۔
وَاذْکُرُوْٓا اِذْ اَنْتُمْ قَلِیْلٌ مُّسْتَضْعَفُوْنَ فِی الْاَرْضِ تَخَافُوْنَ اَنْ یَّتَخَطَّفَکُمُ النَّاسُ فَاٰوٰکُمْ وَ اَیَّدَکُمْ بِنَصْرِہٖ وَ رَزَقَکُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَo (انفال ۸:۲۶) یاد کرو وہ وقت جب کہ تم تھوڑے تھے، زمین میں تم کو بے زور سمجھا جاتا تھا، تم ڈرتے رہتے تھے کہ کہیں لوگ تمھیں مٹا نہ دیں۔ پھر اللہ نے تم کو جاے پناہ مہیا کر دی، اپنی مدد سے تمھارے ہاتھ مضبوط کیے اور تمھیں اچھا رزق پہنچایا، شاید کہ تم شکرگزار بنو۔
گویا جب مسلمان کم تھے مگر اللہ کے ساتھ تھے، حق، یعنی اسلام کے ساتھ تھے، تو اللہ نے لاکھوں پر انھیں غالب کیا۔ آج اُن اربوں مسلمانوں کی کوئی وقعت نہیں جو انصارِ مدینہ کی صفات سے متصف نہ ہوں۔ انصار کی صفت تھی کہ وہ خوف کے موقع پر سب اُمڈ آتے تھے اور طمع و طلب کے وقت خال خال دکھائی دیتے تھے۔ آج ہماری حیثیت آخری دور کے ان مسلمانوں جیسی ہے جن کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ان کی حیثیت سیلاب کے کوڑے کرکٹ جیسی ہوگی جنھیں سیلاب بہا لے جاتا ہے۔
برادرانِ اسلام! عظیم فیصلے اور عظیم ارادے بڑے اجتماعات ہی میں ہوتے ہیں۔ اہلِ اسلام کو عید کے موقع پر اسلام کی نصرت کا عزم کرنا چاہیے۔ روایت کیا گیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز اپنے اصحاب کی ایک جماعت سے پوچھا: سب سے زیادہ کن لوگوں کا ایمان تمھارے نزدیک عجیب ہوسکتا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: فرشتوں کا۔ آپؐ نے فرمایا: وہ کیوں ایمان نہ لائیں گے وہ تو اپنے رب کے پاس ہی ہیں۔ لوگوں نے عرض کیا: تو پھر انبیا کا۔ آپؐ نے فرمایا: وہ کیوں نہ ایمان لائیں گے، جب کہ ان کے اُوپر تو وحی نازل ہوتی ہے۔ لوگوں نے عرض کیا: تو پھر ہمارا۔ آپؐ نے فرمایا: تم کیوں ایمان نہ لاتے، جب کہ میں تمھارے درمیان موجود ہوں۔ پھر آپؐ نے فرمایا: سنو! میرے نزدیک سب سے زیادہ عجیب ایمان اُن لوگوں کا ہے جو تمھارے بعد آئیں گے اور کتاب کو پڑھ کر ہی ایمان لے آئیں گے‘‘۔
برادرانِ اسلام! یہ ہیں وہ بنیادیں جن کے اُوپر ہمیں اپنی عملی زندگی کی عمارت تعمیر کرنی ہے، لہٰذا آیئے اور اللہ کے انصار بن جایئے۔ رسولؐ اللہ کے پیروکار بن جایئے۔ بعید نہیں کہ تمھی وہ گروہ قرار پائو جو اللہ کے دین کو غالب کرنے ولا ہو۔ (بہ شکریہ www.alqardawi.net)
اولاد ماں باپ کے پاس اللہ تعالیٰ کی ایک امانت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اس لطیف، خوب صورت، زند گی سے بھرپور اور معصوم نعمت کے حصو ل کے لیے پیغمبروں نے بھی اپنی اپنی التجا اللہ رب العزت کے سا منے دعا کی صورت میں رکھی۔ حضرت زکریا ؑ نے صالح اولاد کے لیے دعا فر ما ئی جو سورئہ آل عمران میں اس طرح مو جو د ہے: رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً اِنَّکَ سَمِیْعُ الدُّعَآئِ (اٰل عمران ۳:۳۸)،’’اے میر ے ر ب ! مجھے اپنے پا س سے پا کیز ہ اولا د عطا فر مابے شک تو دعا سننے والا ہے‘‘۔ حضرت ابراہیم ؑ نے ان الفاظ میں اپنے رب کو پکارا: رَبِّ ہَبْ لِیْ مِنَ الصّٰلِحِیْنَo (الصافات۳۷:۱۰۰)،’’اے میرے رب مجھے ایک صالح(لڑکا )عطا فرما‘‘۔ حضرت ابراہیم ؑ کی یہ دعا ایک پاک باز ، نیک و صالح اور امام امت کے لیے دعا تھی۔ حضرت اسماعیل ؑ کی فرماںبرداری ، اللہ کی اطاعت اور قربانی کا جذبہ ایک ایسا نشان راہ ہے جو اُمت ِمسلمہ کے لیے اپنی اولادوںکی تربیت کے لیے مثالی نمونہ ہے۔
بچوں کی تربیت کا کا م والدین کی اصل ذمہ داری ہے۔ قرآن میں ارشا د ہے کہ: یایُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا (التحریم۶۶:۶)، ’’اے ایمان والو! بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو (جہنم کی) آگ سے‘‘۔ بچوں سے متعلق منصوبے بنا نا اور ان کے مستقبل کے لیے تگ و دو کرنا ایک فطر ی عمل ہے۔ ہر ما ں با پ کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے کامیابی و کامرانی کے ساتھ نمایاںمقا م حاصل کر یں۔ تاہم، صرف دنیاوی کا میابی کا تصور اس کوشش ، جدوجہد اور ساری مساعی کو صرف اس فانی دنیا تک محدود کر دیتا ہے، جب کہ دنیا کی کامیابی وکامرانی بھی غیر یقینی ہوتی ہے۔ مو من کی اپنی ذات کا ایک ایک لمحہ اللہ رب العزت کی خوشنودی کے لیے وقف ہوتا ہے۔ اسی طرح اس کے اولا د سے متعلق منصوبے اور خواہشات بھی اللہ کی رضا و خوشنودی کے حصول کے لیے ہوتے ہیں۔ دنیا کی محدود کامیابی کے بر عکس اللہ تعالیٰ اپنے بند و ں کو جہا ں کامیابی کا ایک وسیع تصور دیتا ہے، وہاں کامیابی کے ہمیشگی کے تصور کو سمجھنے کے لیے ایک خاص ذہنی بلوغت کا بھی مطالبہ کرتا ہے جس کا تعلق ایمان کی دولت اور خوف خدا رکھنے والے سے دل ہے۔ کامیا بی کا یہ تصور جو قرآ ن میں جا بجا موجود ہے تربیت اولا دکا ایک اہم جزو ہے۔ عصر حاضر میں جب طاغوتی قوتوں کی سربراہی میں ہر طرف امت مسلمہ کے لیے فتنہ و فساد برپا کررکھا ہے وہاں نسلِ نو کی اسلا می نہج پر تربیت ایک ایسی اہم ذمہ داری ہے جس کا احساس ہنگامی بنیادوں پر کرنا ضروری ہے۔ اسلامی تاریخ ہما رے سامنے حضرت علی ؓ ، معا ذ ؓ و معوذؓ ، معصب بن عمیر ؓ جیسے نوعمر صحابہ کرام ؓکی مثالیں رکھتی ہے۔ دوسری طرف بہادر، جری نوعمر محمد بن قاسم جیسا سپہ سالار بھی اسی تاریخ کا حصہ ہے جو اپنی نوجو انی کے دور میں ہی اسلامی تاریخ میں اَنمٹ نقوش چھوڑگئے۔ آج اس عمر کو کھیل کود کے دن کہہ کر ضائع کرنے کی ترغیب دی جا تی ہے اور یو ں امت مسلمہ کا ایک گراں قدر سرمایہ اس مادی دنیا کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے جس کا حاصل سوائے خسارے کے کچھ نہیں ہے۔
بد قسمتی سے جس قدر ابتدائی عمر کو تربیتی حوالے سے اہمیت حاصل ہے اسی قدر اس عمر کو نظرانداز کیا جا تا ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق بچوں کی شخصیت کی تعمیر کا ۸۰ فی صد ابتدائی چھے سال کی عمر میں مکمل ہوجاتا ہے۔ باقی پوری زندگی اسی چھے سالہ تربیت کے محاسن کا عکس ہوتی ہے۔ اس عمر میں مزاج ، عادتیں اور ذوق و شوق کو جس طرف لے جایا جائے گا اسی طرف بچے کا رحجان ہوجاتاہے۔ اس عمر میں عادت بنانا آسان بھی ہے اور ضروری بھی۔ اسلام اصلاح کا جو فطری طریقہ بتاتا ہے وہ بھی عادت پر ہی منحصر ہے۔ اسلا م میں چھوٹے بچوں کی تربیت کے لیے تلقین کے ساتھ ساتھ عادت ڈالوانے کا فطری طریقہ اختیار کرنے کو کہا گیا ہے۔ ابتدائی عمر میں بچے کی سیکھنے کی صلاحیت سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ امام غزالی کے مطابق اس عمر کا بچہ ایک پاک و نفیس موتی کی مانند ہوتا ہے، لہٰذا اسے خیر کا عادی بنایا جائے تو وہ اسی میں نشوونما پائے گا۔ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو فطرتاً سلیم الطبع اور توحید پر پید ا ہوتا ہے۔ قرآن میں ہے کہ اللہ کی اس فطر ت کا اتبا ع کرو جس پر اس نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ اللہ کی بنائی ہو ئی فطرت میں تبدیلی نہیں (الروم ۳۰:۳۰)۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ :ہر بچہ فطرت سلیمہ پر پید ا ہوتا ہے بھر اس کے والدین یا اسے یہودی بناتے ہیں یا نصرانی یا مجوسی بناتے ہیں (مسلم)۔ گویا ماحول بچے کی پاکیزہ فطرت کو پراگندہ کرتا ہے، لہٰذا بچے کے لیے اردگرد کے افراد اور ماحول دونوںکا اسلامی حوالوں سے پاکیزہ ہونا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ شخصیت پر موروثی اثرات سے زیادہ ماحول کی تربیت کا اثر پڑتا ہے۔ کہا جا تا ہے عادتیں صرف ۳۰ فی صد مورثی اور باقی ۷۰ فی صد ماحول سے بنتی ہیں۔
بچے کی تربیت کا پہلو یو ں تو بہت ہمہ گیر اور وسیع ہے لیکن اس کا اہم جز تصورِ حیا ہے۔ اس مضمون میں اسی پہلو کی طرف والدین اور مربی کی توجہ مبذول کروانا مقصود ہے تاکہ اسلامی معاشرے کی کمزور ہوتی اقدار کی طرف ہماری توجہ ہو۔
اسلام میں تصورِ حیا شخصیت کا ایک اہم جز ہے اور بنیادی اخلاقی صفت ہے۔ ارشاد رسولؐ پاک ہے کہ: ’’ہردین کا ایک اخلاق ہوتا ہے اور ہمارے دین کا ممتاز اخلاق شرم کرناہے۔ بچے کی اخلاقی تربیت کا ایک اہم عنصر تصورِ حیا ہے۔ معاشرے کی مضبوطی ایسے اخلاق و کردار کے لوگوں سے وابستہ ہے جن کا کردار شرم وحیا کا پیکر ہو۔ جب پورا معاشرہ بے حیائی اور فحش مناظر سے بھرا پڑا ہو، چاروں طرف بے ہودہ ہورڈنگز، فحش رسالوں، اخبارات ، پوسٹروں کی بھرمار ہو اور سٹرکوں، گھروں، مجالس اور محافل پر شیطانیت کی یلغار ہو، لوگوں کی گفتگو حتیٰ کہ موبائل فون پر بھیجے جانے والے پیغامات تک بھی فحش گوئی کے چنگل میں گرفتار ہوں___ ایسے میں بچوں میں تصورِ حیا پیدا کرنا اور ابتدا ہی سے بچوں کے مزاج کا حصہ بنا دینا والدین و مربی کا اہم فرض ہے۔ حیا کے تصور کو مزاج کا حصہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ’احتیاطی تدابیرـ‘ اور پرہیزگاری کا اصول اپنایا جائے تاکہ بے حیائی کے قریب پائی جانے والی چیزوں سے بھی بچاجاسکے۔ بچوں کو ابتدائی عمر ہی سے حیا کا احساس دیں۔
بچہ جب پیا ر ے اور اچھے الفاظ بولتا ہے تو کتنا پیا را لگتا ہے۔ اگر اسے صا ف ستھرے اور بھلے الفا ظ سکھا ئے جائیںتو کتنا بھلا معلوم ہوگا۔ لیکن یہی ننھی ننھی زبانیں گالم گلوچ، بے ہودہ گانے ، ٹی وی اور فلموں کے لچر مکالموں کو ادا کرنے لگیں تو سماعت پر انتہائی گراں گزرتا ہے۔ رفتہ رفتہ یہ الفاظ جو معصومیت اور نا سمجھی میں ادا ہوتے ہیں بچوں کی گفتگو کا حصہ بن جا تے ہیں، اور ان کو ایسی بے ہودہ گفتگو میں لطف آنے لگتا ہے۔ عام طو ر پر نومولود بچوں سے پانچ سال تک کے بچوں کے بارے میں یہ سوچ کر کہ یہ بچے ناسمجھ ہیں ہر طرح کی بات، فحش گوئی ، لچر مذاق، اور دوسری بداخلاقیاں بغیر کسی شرم و حیا کے کرنا عار نہیں سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ تما م باتیں ننھے سے ذہن میں بیٹھ جاتی ہیں اور رفتہ رفتہ شخصیت کا حصہ بن جاتی ہیں۔ یوں تصورِ حیا پر جو کاری ضرب پڑ تی ہے وہ ابتدا ہی سے بچے کو بے حیائی کی ترغیب دے کر بے باک بننے پر اُکساتی ہے۔
زبان کو پاکیزہ رکھنے کے لیے غیر اخلاقی گفتگو، ناشائستہ الفاظ، گالی گلوچ، غیبت و جھوٹ سے بچنا بہت اہم ہے۔ حدیث ہے کہ ’’انسان کوئی بات کرتا ہے اور اسے اتنا معمولی سمجھتا ہے کہ اسے کہنے میں کوئی حرج نظر نہیں آتا مگر درحقیقت وہ بد ی ہوتی ہے ، جس کے بدلے وہ ۷۰برس کی راہ تک آگ میں گر جائے گا۔ (ترمذی)۔ فضول گوئی کے علاوہ بچوں کو زبان کی آلودگی سے بچانا ہی دراصل زبان کو پاکیزہ بنانا ہے۔ زبان زدعام الفاظ بچہ سیکھتا ہی اپنے ماحول سے ہے۔ گھر کے بڑوں کی زبانوں پر بداخلاقی ، بے ہودگی اور فحش گوئی بچے کو اس گندگی سے بے نیاز کردے گی۔ یوں بچہ ایسی ہی زبان کا عادی ہو جائے گا۔
شعور کی عمر آنے پر لڑ کے اور لڑکیوں کو یہ بتانا بھی بہت ضروری ہے کہ خواتین مردوں سے اور مرد خواتین سے میٹھے ، پیارے ، لوچ دار لہجے میں بات نہ کریں۔ جب بچے اپنے ماں ، باپ، یا دیگر رشتہ داروں کو دیکھتے ہیں کہ خواہ مخواہ ہی امی کی آواز بازار میں دکان داروں کے ساتھ انتہائی مٹھاس والی ہوجا تی ہے یا ابوجان ضرورتاً بھی کسی خاتون سے بات کرتے وقت بناوٹی تمیز اور شائستگی کی مٹھاس گھول لیتے ہیں، تو نوعمر ذہن اس تبدیلیِ لہجہ اور الفاظ کو اپنا کر دوسروں کو متوجہ کرنے کے ساتھ ساتھ اخلاق کا حصہ بھی سمجھتا ہے۔ اسی لیے جب کبھی کو ئی ایسا موقع آئے جہاں بچوں کے ساتھ کسی بھی قسم کی خریداری یا کسی مرد و عورت ملازمہ سے بات کا مظاہر ہ کرنا ہو تو بالخصوص اس بات کی تا کید کردی جائے کہ دکان دار کو اپنے مطلب کی چیز نکلوانے کے لیے اٹھلانا اور لاڈ دکھانا کسی طور بھی قابلِ قبول نہیں ہے۔ ڈرائیور، ملازم، دکان دار، اساتذہ سے بات کرنے کا شائستہ طریقہ سکھانا اور مناسب لہجہ جس سے کسی بھی قسم کی دلی بیماری اور بدنیتی کا شائبہ نہ رہے ، حیا کا اہم جز ہے جس کی تاکید قرآن میں سورۂ احزاب میں کی گئی ہے: ’’اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو دبی زبان سے بات نہ کیا کرو کہ دل کی خرابی کا مبتلا کوئی شخص لالچ میں پڑ جائے، بلکہ صاف سیدھی بات کرو‘‘ (۳۳:۳۲)۔ بلوغت کے بعد اس قرآنی آیت پر عمل کرنا اسی وقت آسان ہو گا جب بچپن سے اس کی عاد ت ہوگی۔ اسی لیے ایسی گفتگو جو ایمانی حالت کو تباہ کرنے کا باعث بنے اور شیطانی اثرات رکھتی ہو اس سے بچنا اور بچانا ایک مسلسل تربیت کا تقاضا کرتا ہے۔
لباس اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے اور حیا کے مظاہر میں سے ایک مظاہرہ لباس سے بھی ہوتا ہے۔ اس ضمن میں چھوٹے بچوں کے ساتھ عام طور پر بے حد لاپروائی اختیار کی جاتی ہے۔ بچوں کے کپڑے تبدیل کرنا، نہلانا، ڈایپر بد لنا جیسے تمام کام بعض اوقات لوگوں کی موجودگی میں کیے جاتے ہیں جس میں بڑوں کے ساتھ ساتھ بچوں کی موجودگی بھی نظرانداز کر دی جاتی ہے۔ بعض گھرانوں میں بچوں کو کپڑوں سے بے نیاز کرکے آزادانہ گھومنے پھرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ اسی طرح چھوٹے بچوں کو مکمل برہنہ کرکے ایک ساتھ غسل کرنے کو بھی عار نہیں سمجھاجاتا ہے۔ بچیوں کو بچپن میں بغیر آستین اور کھلے گلے کی فراک و قمیص یا ٹانگیں کھلی رکھنے کو ایک عام فعل خیال کیا جاتا ہے۔ فقہا لکھتے ہیں کہ: چار سال سے کم عمر کا بچہ چاہے وہ لڑکا ہو یا لڑکی، اس کا جسم ستر کے حکم میں نہیں۔ پھر جب وہ چار سال سے زیادہ کا ہو جائے تو اس کامستور جسم شرم گاہ اور اس کے اطراف ہیں، بالغ ہونے پر ستر بالغ افراد کی طرح ہوگا۔ تاہم، بچے کو بچپن ہی سے پردے کا جتنا عادی بنایا جائے اتنا ہی اچھا ہے (اسلام اور تربیت اولاد ، شیخ عبداللہ ناصح علوان، ص۷۱۵)۔ لہٰذا کپڑے تبدیل کرتے وقت ایسی جگہ کا انتخاب کرنا چاہیے جہاں کوئی نہ دیکھ رہا ہو۔ بعدازاں جب بچے اپنا لباس خود تبدیل کرنے کے عادی ہو جائیں تو ان کو بھی یہی ہدایت کرنی چائیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ستر دکھانے والے اور یکھنے والے کو اللہ اپنی رحمت سے دُور رکھیں‘‘( شعب الایمان ۶؍۲۶۱ سنن بیہقی ۸؍۹۹)
اگر ابتدا ہی سے بچوں کو اپنے جسم کو چھپانے اور اس کی حفاظت کرنے کی عادت نہیں ڈالوئی جاتی تو بچے بچپن ہی سے بے حیا اور بد نگاہ ہو جاتے ہیں۔ جن بچوں کو ہم اپنے شوق پورے کرنے کے لیے مغربی طر ز کے ایسے لباس پہناتے ہیں جن میں ابتدا ء ہی سے ایک معصوم بچے کا تاثرہونے کے بجا ئے حیا باختہ لڑکی یا لڑکے کا تصور پنہا ں ہوتا ہے وہ دیکھنے والوں کو بھی اس معصوم کے اندر بچوں والی معصومیت کے بجاے لڑکا یا لڑکی تلا ش کرنے کا موقع دیتا ہے۔ آئے دن اخبارات میں دل دہلا دینے والی خبریں آتی ہیں کہ درندہ صفت لوگ چھوٹی بچیوں کو بھی اپنی ہوس کا نشانہ بنانے سے نہیں چوکتے۔ حیا کی پرورش اسی وقت ہی ممکن ہے جب اس کو بچے کے ننھے سے دل میں پروان چڑھنے کا موقع دیا جا ئے۔ فطری حیا کو ختم کرنے کے بجاے اس کو ابھارا جائے تاکہ حیا بچے کی شخصیت کا لازمی جز بن جائے۔ لہٰذا بچوں میں ایسے مردوخواتین جن کے لباس حیا سے عاری ہوں دیکھنے پر، اس لباس سے نفرت اور نا پسندید گی کاجذبہ بیدار کیا جائے۔ ایسی گڑیاں (خصوصاً باربی) جن کے لباس اسلامی لباس کے لحاظ سے مناسب نہیں ہوتے، نہ دلائی جائیں، اور بچوں کو اس کی وجہ بھی بیان کی جا ئے کہ اس کا لباس اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق نہیں ہے۔
حاکم اور ابوداود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’تمھارے بچے سات سال کے ہو جائیں تو انھیں نماز کا حکم دو،اور جب ۱۰ سال کے ہوجائیں تو ان کو مارو، اور ان کے بستر علیحدہ علیحد ہ کردو۔ اس نص سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ والدین شرعاً اس بات پر مامور ہیں کہ بچے جب ۱۰سال کے ہوجائیں تو ان کے بستر الگ کر دیے جائیں تاکہ ایک ساتھ لیٹنے کی وجہ سے کہیں ایسا نہ ہو کہ بلوغت کی عمر تک پہنچنے پر کبھی شیطان غالب آجائے اور ان کے جذبات کو شیطانی رنگ دے دے۔ اسی طرح خلوت کا ماحول فراہم کرنا جس میں کزن آپس میں بے تکلفانہ ماحول میں موجود ہوں ، یا ایسے انداز و اطوار کا خیال نہ کرنا جس میں نامحرم رشتہ دار بچوں سے زیادہ بے تکلف نہ ہوں ، مستقبل کے مفاسد کا راستہ آسان کرتا ہے۔ احتیاط علاج سے بہتر ہے کا اصول اپنایا جائے تو ابتدا ہی سے ایک ایسا مزاج ڈھالا جا سکتا ہے جو اسلامی حدود کی پابندی کرنے والا ہوگا۔ ورنہ ایک خاص عمر میں پہنچ کر زور زبردستی کرنے سے بچے میں بغاوت، چڑچڑاپن پیدا ہوجاتا ہے اور وہ اپنے آپ کو قیدی تصور کرتا ہے۔
بچے کی نیک صالح تربیت کے لیے اسلام ان تمام محرکات کا بھی قلع قمع کرتا ہے جو جذبات کو مشتعل کرنے اور نفس کو غالب کرنے کا سبب بنتے ہیں۔
کارٹونز کے نام پر عجیب الخلقت کرداروں سے مانوس کروانا ، ان کو ہیرو کے طور پر پیش کرنا اور پھر غیر معمولی طاقت کا مالک دکھانا بچے کے ذہن کو اللہ کی طاقت اور واحدانیت کے تصورسے خالی کر دیتا ہے۔ بچے کی نظر میں جب کارٹونز کے یہ مناظر گزرتے ہیں کہ ایک ہیرو بے پنا ہ طاقت کا مالک ہے ، ناقابل شکست ہے ، اس کو موت نہیں آتی ہے ، تو اس کے ذہن میں کیا تصویر بنے گی، اس کا اندازہ کرنا ذرا بھی مشکل نہیں۔ بچپن ہی سے روپے پیسوں کا لالچ اور مادیت پرستی کا تصور دے کر ایسے شیطانی ذہن تیار کرنا جو بعد میں دجالی قوتوں کے ہی زیر اثر رہیں آج کے میڈیا کا کام ہے۔ فلم ، سنیما، سب اسی کی شاخیں ہیں، تاہم ٹی وی کی رسائی آج ہر گھر میں ہو چکی ہے اور اس کے زہر سے کوئی محفوظ نہیں، لہٰذا اس کی ہولناکی سے واقفیت خاص طور پر ضروری ہے۔ ٹی وی اسکرین کے سامنے وقت گزرنے کا ایمانی نقصان تو یہ ہے ہی کہ پوری شخصیت کی تعمیر اسی نہج پر ہوجاتی ہے جیسا شیطانی قوتوں کا مقصد ہے۔ تاہم، اس کے ضمنی اثرات میں بچے کے ذہن کا یکسوئی سے محروم ہوجانا، تعلیمی سرگرمیوں سے بددل رہنا اوردور بھاگنا، مطالعے کے شوق و ذوق کا پیدا نہ ہونا، ہروقت غیر سنجیدہ رہنا، اور hyperactivity بھی شامل ہیں۔
اس لیے ضروری ہے کہ بچوں کے ساتھ دوستی کی جا ئے ان کو اپنا صدقہ جاریہ سمجھا جا ئے اور ان کے لیے اپنے اوقات کا ر کو ترتیب دیا جا ئے جس میں والدین اور بچوں کا آپس میں تعلق بنے نہ کہ سارا رشتہ تعلقات کی بنیاد پر چلتا رہے۔ اردگرد نظر دوڑائی جا ئے تو والدین اور بچوں کے درمیان صرف تعلقات کا رشتہ ہوتا ہے جس میں کو ئی رمقِ تعلق کی نہیں ہوتی۔ بچپن میں والدین اپنی ذمہ داری یہی سمجھتے ہیں کہ اچھا کھانا، بہترین لباس، اور تعلیمی سہولیا ت مہیا کرکے ان کی ذمہ داریاں پوری ہو گئیں ہیں اور بڑھاپے میں یہی فصل اپنے بچوں کے ہاتھوں کاٹ کا ٹ کر کھا تے ہیں جس میں بچوں کو بھی یہی تربیت ہوتی ہے کہ والدین کی خدمت اسی مادی حد تک محدود ہے۔ اپنے بچوں کی دل کی باتوں کو سننے کی عادت ڈالیں۔ ان کے روزمرہ کے کاموں کو ان کی زبانی سنیں ، جس میں ان کے اسکول، کالج کا احوال ان کے دوستوں کی روداد، ان کی احمقانہ حرکتیں بھی شامل ہوتی ہیں۔ غلط اور ناپسندیدہ باتوں پر فوری طور پر ردعمل ظاہر کرنے کے بجاے مناسب وقت میں اس کی اصلاح کی جائے۔ یہ وہ عوامل ہیں جن سے والدین اور بچوں میں دوستی کا رشتہ قائم ہوتا ہے۔ عمر کے نازک دور میں بچے اپنے والدین سے چھپ چھپ کر جو سرگرمیاں اختیار کر تے ہیں، اس کی آدھی سے زیادہ وجہ والدین کی اپنے بچوں سے ذہنی لحاظ سے دوری ہوتی ہے۔ بے جا سختی ،ہر وقت لعن طعن ، حد سے بڑ ھا ہو ا پیا ر و محبت بچوں کو بگا ڑنے کا سبب بنتا ہے۔ تعلق ہی رشتے کو قائم بھی رکھتا ہے اور مضبو ط بھی لہٰذا اپنے بچوں سے تعلق قائم کیجیے کیو ں کہ بچے آپ کی آخرت میں نجات کا با عث بھی ہیں، اور اُمت کا سرمایہ بھی۔
مقالہ نگار عثمان پبلک اسکول، شمالی ناظم آباد، کراچی میں معلمہ ہیں،
ہر عبادت انسانی زندگی میں ایک تغیر پیدا کرنا چاہتی ہے۔ جس عبادت کو بھی اس کی اصل روح کے ساتھ ادا کیا جائے گا، عابد کے سامنے وہ اپنا یہ مطالبہ رکھے گی۔ نماز کا سب سے پہلا مطالبہ نمازی سے یہ ہوتا ہے کہ وہ ہروقت اللہ کو یاد رکھے، ہرقدم پر اس کے حکموں پر نگاہ رکھے، اور ہرحکم پر نماز کے رکوع و سجود کی مشق کا اعادہ کرتا چلا جائے۔ اگر نمازی نماز کے پورے حقوق کی رعایت اور اس کے مطالبہ کے شعور ساتھ پابندی سے نماز ادا کرتا ہے تو نماز اُس سے اپنا مطالبہ پورا کرلیتی ہے اور اس کی زندگی میں ایک عظیم تغیر رونما ہوجاتا ہے۔ روزہ، روزہ دار میں صبر وتقویٰ پیدا کرنا چاہتا ہے۔ اگر پورے رمضان کے روزے اس مطالبہ کے گہرے دھیان کے ساتھ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کے مطابق ادا کیے جائیں تو روزہ داران اعلیٰ صفات کا حامل ہوسکتا ہے۔
حج، جو کہ ایک بڑے درجے کی عبادت ہے اور نماز، روزے کے مقابلے میں مشکل اور مہنگی عبادت ہے، حاجی کی زندگی میں ایک بڑے تغیر کا مطالبہ کرتی ہے۔ نماز روزے کی طرح اگر اس کے اعمال و ارکان کو بھی اس کی اصلی روح، یعنی عشق و محبت کی والہانہ کیفیات، اور اس کے تقاضوں اور مطالبات کے پورے شعور کے ساتھ ادا کیا جائے تو حج کے بعد حاجی کی زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوجانا لازمی ہے۔ لیکن جس طرح ہماری دوسری عبادات کا حال یہ ہے کہ وہ ان دو اہم شرطوں کے مفقود ہونے کی وجہ سے شجر بے ثمر بنی ہوئی ہیں، عام طور پر حج کا حال بھی یہی دیکھنے میں آتا ہے کہ حج و زیارت سے مشرف ہونے کے بعد بھی ہمارے حجاج کی زندگی میں کوئی خاص تغیر اور انقلاب رونما نہیں ہوتا، الا ماشاء اللّٰہ۔
حج کے ایک ایک عمل کو دیکھیے اور ان اعمال کی ساری فہرست پر نظر ڈال جایئے۔ پوری فہرست عاشقانہ اور مجنونانہ ادائوں کا مجموعہ نظر آئے گی۔ کفن جیسا لباس، لبیک لبیک کا مجنونانہ شور، کعبہ کے اردگرد والہانہ طواف، حجرِ اسود کو بڑھ بڑھ کے چومنا، چومنے کا موقع نہ ملے تو محبت کی نظر اور ہاتھ کے اشارے سے اپنی حسرت کا اظہار کردینا، صفا و مروہ کے درمیان سعی، عرفہ کا وقوف، بال بکھرے ہوئے، جسم غبارِ راہ سے اَٹا ہوا، اور رہ رہ کے وہی ایک لبیک لبیک کی رٹ___ گویا یہ عبادت عبد و معبود کے درمیان علاقۂ عشق کا مظہرِاتم ہے، ورنہ یہ ادائیں عشق کے سوا اور کس مذہب میں جائز ہیں، اور خود احادیث سے اس عبادت کی یہ خصوصیت ظاہر ہوتی ہے۔
ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے: الحج ، الحج، والحج ، حج (تلبیہ کے مجنونانہ اور والہانہ) شور، اور قربانیوں کا خون بہانے کا نام ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہے: الحاجُّ الشَعِثُ التَفِل، سچا حاجی وہ مست ہے جسے اپنی کچھ خبر نہ ہو، بال بکھرے ہوئے، اور لباس و جسم پر میل چڑھا ہوا۔ حاجی کے اسی حالِ بے حالی کو دیکھ کر باری تعالیٰ فرشتوں سے فرماتے ہیں: اُنظروا الٰی زوار بیتی قد جاء نی شُعثًا غُبرًا ___ میرے دیوانوں کی مستی کا عالم تو دیکھو، میرے در پہ کس شان سے آئے ہیں کہ، نہ بالوں کے بکھرنے کی خبر ہے، نہ جسم کے گردوغبار کا ہوش!
اگران عاشقانہ افعال اور مجنونانہ وضع کے ساتھ حاجی کے دل میں کسی قدر گرمیِ عشق بھی موجود ہو اور ساتھ ہی دماغ کو کچھ بیدار رکھ کر وہ اس پر بھی غور کرتا جائے کہ حج کا ہرہر عمل اُس سے کیا مطالبہ کر رہا ہے، تو بہت واضح طور پر چند مطالبات اس کے سامنے آئیں گے۔ گھربار اور اہل و عیال کو چھوڑ کے اس کا اللہ کے لیے نکل پڑنا، اور پھر جسم سے کپڑے تک اُتار کے کفن جیسا لباس پہن لینا، اور اپنے ظاہر و باطن کو سب سے کاٹ کر لبیک لبیک پکارتے ہوئے مطلق عبدیت کا اعلان کرنا، اس سے مطالبہ کرے گا کہ وہ حضرت ابراہیم ؑکی طرح اپنے بارے میں یہ فیصلہ کرے، کہ:
اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ لَا شَرِیْکَ لَہٗ ج وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَo (انعام ۶:۱۶۲-۱۶۳)، میری نماز اور میری قربانی میری موت اور میری زندگانی سب اللہ وحدہٗ لاشریک کے لیے ہے، مجھے یہی حکم ملا ہے، اور میرا کام تعمیلِ حکم ہے۔
اگر یہ فیصلہ نہیں ہے تو پھر اس احرام اور اس تلبیہ کے کیا معنی ہیں جس میں اللہ کی لاشریک اُلوہیت، ربوبیت اور حاکمیت کا اقرار اور اس کی مطلق طاعت و بندگی کے لیے عاجزانہ اور نیازمندانہ حاضری کا اعلان ہے۔
پھر مکۂ معظمہ پہنچ کر ’اللہ کے گھر‘ کا طواف کرتے وقت وہ اگر سوچے گا تو وہ صاف طور پر اس عمل کایہ تقاضا محسوس کرے گا کہ اس گھروالے کی محبت اور اطاعت کو ہر دوسری چیز کی محبت اور اطاعت پر غالب ہوجانا چاہیے، اور اس کی رضاطلبی کی فکر دوسری ہر چیز کی رضاطلبی سے مقدم ہونی چاہیے۔ اس لیے کہ اس کا گھربار، مال و اولاد اور اقارب و احباب کو چھوڑ کر اتنی دُور آنا اور بلاکسی دنیوی مقصد و منفعت کے آنا، پھر سر سے پائوں تک مجنونوں اور سائلوں کی سی صورت بنانا، پھر مستانہ وار وحدہٗ لاشریک کے نام کا راگ الاپنا، پھر اس کے گھر کو دیکھ کر دیوانہ وار اس کے اردگرد چکر لگانا، ایک نہیں دو نہیں، ایک ایک مرتبہ میں سات سات چکر لگانا، پھر ایک دن نہیں روز روز اور ہر روز باربار کا یہی مشغلہ، اس کی دیواروں سے لپٹنا، رونا، گڑگڑانا، اور مجسم صورتِ سوال بن جانا___ یہ تو اسی بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ گھر جس کی تجلّی گاہ ہے، وہ سب سے بڑا محبوب اور سب سے برتر مطاع ہے، اور اسی کی رضا اس قابل ہے کہ اس کی جستجو میں بندے کے پاے فکروعمل کو ہر دم سرگرداں اور طواف کناں رہنا چاہیے۔
طواف کے بعد صفا و مروہ کی سعی کا نمبر آتا ہے، اس کے متعلق معلوم ہے کہ اس کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ حضرت ابراہیم ؑکی زوجہ محترمہ حضرت ہاجرہؓ اپنے ننھے سے صاحبزادے حضرت اسماعیل ؑکے لیے پانی کی تلاش میں دوڑتی تھیں اور پھر صاحبزادے کی تنہائی کے خیال سے واپس ہوجاتی تھیں۔ ان کی یہ سعی اسی جگہ ہوئی تھی، بس ان کی سعی کی یادگار کے طور پر اللہ تعالیٰ نے حجاج کے لیے یہ سعی مقرر فرما دی ہے۔ ظاہر ہے کہ نہ تو اس عمل کا تعلق عشقِ خداوندی سے ہے، اور نہ بظاہر کوئی خاص رُوحانی فائدہ ہی اس سے متوقع ہے، بلکہ محض اس لیے کیا جاتا ہے کہ یہ اللہ کا حکم ہے۔ بندے کو اس سے کوئی بحث نہیں کہ اس فعل سے کیا فائدہ ہے، لہٰذا اس عمل کا خاص مطالبہ حاجی سے یہ ہے کہ اس میں بلاچون و چرا اطاعت کی شان پیدا ہونی چاہیے، خدا اور رسولؐ کے ہرحکم اور ہرفرمان کے آگے اس کا سر جھک جانا چاہیے، خواہ کسی حکم کی حکمت اور اس کا فائدہ سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ علاوہ ازیں حج کے اس عمل سے چونکہ ایک ایسے واقعے کی یاد وابستہ ہے جس میں اُمت ِ مسلمہ کے لیے دو بڑے اہم اور قیمتی سبق موجود ہیں، اس لیے اس عمل میں دو اور تقاضے اور مطالبے مضمر نظر آتے ہیں۔ صفا و مروہ کی سعی سے جس واقعے کی یاد تازہ ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ: ’’حضرت ابراہیم ؑ کو اللہ کا حکم ہوا کہ اپنی اہلیہ محترمہ اور اپنے اکلوتے صاحبزادے کو مکہ کی بے آب و گیاہ سرزمین میں لے جاکر چھوڑ دیں، چنانچہ آپ نے حکم کی تعمیل فرمائی اور حضرت ہاجرہؓ اور حضرت اسماعیل ؑکو اس غیرآباد اور بنجر سرزمین میں چھوڑ کر چلے آئے، ان کے پاس جو دانہ پانی کا مختصر سا ذخیرہ تھا چند دن میں ختم ہوگیا۔ حضرت اسماعیل ؑپیاس سے بے چین ہوئے، بولنے کی عمر نہ تھی، شدتِ تکلیف سے ایڑیاں رگڑتے تھے۔ حضرت ہاجرہؓ پانی کی تلاش میں اِدھر اُدھر دوڑتی تھیں، جب کچھ دُور نکل جاتیں صاحبزادے کی تنہائی کا خیال آتا تو لوٹ آتیں۔ تنہا اللہ کی ذات ان کا سہارا تھی، اس سے دعا بھی جاری تھی اور اپنی سی کوشش بھی، آخرکار ایک دفعہ جو پلٹ کر آئیں تو یہ منظر دیکھا کہ صاحبزادے جہاں ایڑیاں رگڑ رہے تھے وہاں سے پانی پھوٹ رہا ہے‘‘۔
یہ ہے وہ واقعہ صفا و مروہ کی سعی جس کی یاد دلاتی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی ذُریت کے اس واقعے میں اُمتِ مسلمہ کے لیے پہلا سبق تو یہ ہے کہ اللہ کے دین کو رائج اور قائم کرنے کے لیے اور اس کی عبادت اور بندگی کو عالم میں عام کرنے کے لیے بڑے سے بڑا خطرہ مول لینے سے بھی نہ جھجکنا چاہیے۔ اس سے بڑا کیا خطرہ ہوسکتا ہے جو حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی چہیتی بیوی اور اکلوتی اولاد کے لیے مول لیا کہ انھیں تنہا ایک ایسی جگہ چھوڑ دیا جہاں نہ انسان نہ کوئی اور جان دار، نہ سبزہ نہ پانی، نیچے تپتی زمین، اُوپر تپتا آسمان، دو نازک سی جانیں اور بس اللہ نگہبان.... ایسا کیوں کیا گیا؟___ صرف اللہ کے دین کے لیے۔ قرآن پاک اس بارے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قول نقل کرتا ہے:
رَبَّنَـآ اِنِّیْٓ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ لا رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ (ابراھیم ۱۴:۳۷) میرے مالک میں نے اپنی کچھ آس اولاد تیرے محترم گھر کے پاس بن کھیتی والی ایک وادی میں بسا دی ہے تاکہ اے پروردگار وہ نماز کو قائم کریں۔
یہ واقعہ ہمیں دوسرا سبق یہ دیتا ہے کہ حاجات و ضروریات کی ساری کنجیاں اللہ کے دستِ قدرت میں ہیں، اس میں اس کا کوئی شریک نہیں، ہماری حاجت روائی نہ کسی دوسری ہستی کے بس میں ہے نہ اسباب پر موقوف، بندہ اس بات پر یقین رکھے اور اپنی طاقت و استطاعت کے مطابق کوشش کرتے ہوئے اس وحدہٗ لاشریک کے سامنے دستِ سوال دراز کرے پھر اسباب ظاہری کی نامساعدت میں یہ طاقت نہیں ہے کہ اس داتا کی داد و دہش اور اعانت کو روک سکے۔
اس بے آب وگیاہ سرزمین میں حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل ؑ کے لیے دانے پانی کی ساری راہیں بظاہر مسدود اور اسباب ایک ایک کرکے مفقود تھے، لیکن حضرت ہاجرہؓ کی سعی اور دُعا پر مسبب الاسباب کا حکم ہوا تو بے وہم و گمان اس جلتی بھنتی اور خشک دھرتی کی چھاتی سے پانی کا دھارا پھوٹ نکلا۔ سچ فرمایا کرتے تھے نبی اُمّی: فدہ ابی و اُمّی۔
لا مانع لما اعطیت، داتا تیری دہش کو کوئی روکنے والا نہیں ہے۔
یہ دو سبق ہیں جو اس واقعے سے ہمیں ملتے ہیں۔ پس جو لوگ صفا و مروہ کی سعی کرکے اس واقعے کی یاد تازہ کرتے ہیں انھوں نے اگر غوروفکر کی قوت کو معطل نہیں کر رکھا ہے تو وہ محسوس کریں گے کہ ان کا یہ عمل (سعی) ان سے دو باتوں کا مطالبہ کرتا ہے:
۱- اللہ کے دین کو فروغ دینے اور اس کی عبدیت و عبادت والی زندگی کو دنیا میں رائج کرنے کے لیے اپنی محبوب اور عزیز ترین چیزوں کو بھی خطرے میں ڈالنے سے گریز نہ کریں، خواہ وہ اپنی جان ہو یا اپنے بیوی بچوں کی زندگیاں۔ اس مقصد کے لیے بیوی بچوں کی جدائی اگر ضروری ہو تو اُسے گوارا کریں، غریب الدیاری کی نوبت آجائے تو اس میں پس و پیش نہ کریں، بھوک پیاس اور شدائد و خطرات کی کیسی ہی خوفناک تصویریں ذہن میں گھوم جائیں مگر دینی جدوجہد کے قدم پیچھے نہ ہٹنے پائیں۔
۲- دین کے فروغ اور سربلندی کی جدوجہد میں کامیاب ہونے کے لیے بھی، اور اپنی انسانی ضروریات کے پانے کے لیے بھی اپنی طاقت اور استطاعت کی حد تک تو کوئی کسر اُٹھانہ رکھیں، مگر یہ یقین رکھیں کہ ہماری کوششوں کے کامیاب نتائج برآمد کرنے والا، حقیقی داتا اور حقیقی مشکل کشا تنہا اللہ ہے، جس کا کوئی شریک نہیں، لہٰذا اُس کے حضور میں اپنی انتہائی عاجزی اور بے بسی کے استحضار کے ساتھ اپنی کوششوں کی کامیابی اور نتیجہ خیزی کے لیے دعا کرنے میں بھی کوئی کمی نہ کریں۔ بالفاظِ دیگر اسبابی کوشش اور جدوجہد اس طرح کریں کہ مسبب الاسباب کے منکر اور تنہا اسباب کے پرستار اُن سے پیچھے نظر آئیں، لیکن جب کوئی دعا کے وقت انھیں دیکھے تو یہ سمجھے کہ انھیں اسباب پر بالکل یقین اور اعتماد نہیں ہے، اسباب ان کی نظر میں کوئی حقیقت نہیں رکھتے۔ ان کی نظر اور ان کا اعتماد صرف اللہ پر ہے، وہ اللہ جس نے ظاہری حالات کے علی الرغم حضرت ہاجرہؓ اور حضرت اسماعیل ؑکو صرف یہی نہیں کہ زندہ رکھا بلکہ اُن سے ایک ایسی نسل چلائی جو اُس وقت سے آج تک عزت کے ساتھ زندہ ہے اور جس کی عزت کبھی ذلّت سے نہیں بدلی ہے۔
الغرض اگر غور سے دیکھا جائے تو حج کے یہ اعمال و اشغال اپنے اندر کچھ ایسے تقاضے لیے ہوئے ہیں کہ اگر ان کو سمجھنے اور پورا کرنے کی طرف توجہ دی جاتی تو ہمارے حجاج کی زندگیوں کا رنگ ہی کچھ اور ہوتا، اور حج سے واپس آنے کے بعد ہرسال ہماری آبادیوں میں اسلامی زندگی کے لاکھوں نئے نمونے پیدا ہوجایا کرتے۔
حج کے اعمال و اشغال اور ایامِ حج کی پابندیاں مومن کی مثالی زندگی کی ٹریننگ ہے جو ہرسال اُمت مسلمہ کے لاکھوں نفوس کو بیک وقت دے دی جاتی ہے جس میں ان کو اسلامی زندگی کے اصول، قواعد و ضوابط اور خصوصیات کی عملی مشق کرائی جاتی ہے۔اللہ کی ذاتی و صفاتی توحید کا گہرا اعتقاد، شرک کا بہرصورت و بہرنوع قلبی انکار، تحلیل و تحریم کا حق صرف اللہ کے لیے ماننا اور اسے اس معاملے میں مختار مطلق ماننا (یعنی صرف اسی کو یہ حق ہے کہ وہ جب چاہے اور جس چیز کو چاہے حلال قرار دے، اور جس چیز کو چاہے حرام قرار دے۔ موت کا دھیان، آخرت کی یاد، میدانِ حشر کا استحضار، دعا اور اس میں الحاح و تضرع کی کیفیت، اللہ سے بے انتہا محبت، ہردم اس کی یاد اور ذوق و شوق کے ساتھ اس کی اطاعت، زہد و توکل، انفاق فی سبیل اللہ، نفس کشی، سادگی اور جفاکشی، جماعت اور امارت، لایعنی باتوں سے پرہیز، باہمی نزاع اور جدل و جدال سے مکمل اجتناب، گناہوں کا بالکلیہ ترک، اخلاق میں طینت، کلام میں نرمی، شعائراللہ کی عظمت، اس کے اعدا خصوصاً شیطان سے نفرت، غرض اسلامی زندگی کے سارے اجزا و عناصر کی ایسی مکمل عملی مشق ان دنوں میں کرا دی جاتی ہے کہ اگر حجاج اس کو اپنی کھوئی ہوئی متاع سمجھ کر مضبوطی سے پکڑ لیں تو وہ کام (یعنی زندگیوں میں اسلامی انقلاب) جو اس وقت دنیا کے ہرکام سے زیادہ مشکل نظر آرہا ہے، اتنی آسانی سے ہوسکتا ہے کہ بڑے بڑے انقلابی دماغ تحیر اور سکتے کے عالم میں رہ جائیں۔ پھراس مکمل دینی تربیت کے ساتھ ساتھ دو باتیں اور بھی ہیں:
۱- حجراسود کا استلام: حجراسود کو احادیث میں یمین اللہ (اللہ تعالیٰ کا دست مبارک) قرار دیا گیا ہے، لہٰذا اس کا استلام اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہاتھ دینے کے قائم مقام ہے۔ گویا یہ عمل عہداطاعت، اور اس بات کا پیمان ہے کہ وہ جس ذات کی کبریائی اور آقائی کا زبانِ حال و قال سے کلمہ پڑھ چکا ہے اس سے بیوفائی نہ کرے گا، گویا ٹریننگ کے درمیان میں ہی اس بات کا عہد لے لیا گیا ہے کہ اب ساری بقیہ عمر کو اسی تربیت کے سانچے میں ڈھالا جائے گا اور اب باقی زندگی ویسی ہی گزرے گی جیسی زندگی کی یہاں مشق کرائی گئی ہے۔
یوں تو اس عہد کے بغیر خود وہ ٹریننگ ہی اس بات کی متقاضی تھی کہ اب تک اگر زندگی اس تربیتی نقشۂ زندگی سے مختلف رہی ہے تو اب یہ اختلاف مٹ جانا چاہیے، لیکن استلام کے وقت جو لطیف الحس انسان واقعی ایسا محسوس کرے کہ گویا وہ اپنا ہاتھ اللہ کے ہاتھ میں دے رہا ہے تو اُس کے لیے کوئی گنجایش ہی اس بات کی نہیں رہ جاتی کہ اب بھی اس کی زندگی اس تربیتی نقشہ کے مطابق نہ بنے۔
۲- ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بشارت دی ہے کہ:
جس نے محض اللہ کی رضامندی کے لیے حج کیا اور بے حیائی کی باتوں سے، بے حیائی کے کاموں سے، اور عام گناہوں سے محفوظ رہا، توو ہ ایسا پاک ہوکر لوٹتا ہے جیساکہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے کے روز تھا۔ (بخاری و مسلم)
تربیت اور عہدِوفا کے بعد یہ تیسری چیز ہے جو حجاج سے زندگی کو پوری طرح اسلامی اور ایمانی زندگی بنانے کا مطالبہ کرتی ہے، اس بشارت کی پکار ہے: ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً، ’’پورے پورے فرماں بردار اور اطاعت گزار ہوجائو‘‘۔
یہ حدیث بتاتی ہے کہ جو شخص حج کو پوری پابندیوں اور اس کے حقوق کے ساتھ صحیح صحیح اداکرے اُس کو ایک نئی زندگی بخش دی جاتی ہے، گویا گناہوں سے پاک صاف کرکے اور پچھلی زندگی کا معاملہ ہلکا کر کے اُسے موقع دیا جاتا ہے کہ اب اپنی زندگی اللہ کے پسندیدہ نقشے اور اس کے رسولوں کے بتائے ہوئے نظام کے مطابق گزارے اور اپنے پروردگار کے اس زبردست انعام کی قدر کرتے ہوئے اپنی حیات کے ایک عہدِ جدید کا آغاز کرے اور گزری ہوئی زندگی کے وہ تمام رُسوا کن ابواب بند کر کے جن سے رحمت ِ حق نے خود چشم پوشی کا مژدہ سنادیا ہے، ایک نئے باب کی ابتدا کرے جس کا عنوان ہو: ’اسلامی زندگی‘۔
پورے حج میں اسی کی ٹریننگ ہے، اسی نئے رنگ کے لیے اُورہالنگ ہے اور قدم قدم پر اسی کا تقاضا ہے اور حج کے بعد کی زندگی میں یہی دینی انقلاب اس ’سفرِعشق‘ کے مقبول ہونے کی دلیل ہے، اس لیے کہ بارگاہِ عشق میں جانے والے تو بہت ہوتے ہیں مگر مقبول ہونے والے وہی ہوتے ہیں جو ہمیشہ کے لیے اسیرِزلف یار ہوجائیں، وہ تادمِ مرگ اس قید سے کبھی چھٹی نہیں پاتے، اور نہ رہائی چاہتے ہیں۔
تبدیلی ہمیشہ سے ہی انسانی زندگی کا اہم مظہر رہی ہے۔ تاہم، عصر حاضر کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں تبدیلی کا عمل جس تیزی سے وقوع پذیر ہے ایسا پہلے کبھی نہ تھا۔تبدیلی کے امکانات، وسعت اور پایداری کا دارو مدار ان عوامل پر ہوتا ہے جو تبدیلی کا محرک بنتے ہیں۔ان میں سے اہم ترین عامل تبدیلی کا رضاکارانہ اور اختیاری نوعیت کا ہونا اورمتوقع طور پر مثبت نتائج کا حامل ہونا ہے۔تبدیلی کو جب جبراً نافذ کیا جاتا ہے ، خواہ یہ جبر بالواسطہ ہویابلاواسطہ، تو نتیجتاً تنائو، غیر یقینی صورت حال اور عمومی بے چینی سر اٹھاتی ہیں۔بلاشبہہ آج دنیا کو درپیش مسائل بہت بڑے ہیں اور ان سے نجات (تبدیلی) کے ہدف کاحصول تمام متعلقین کی طرف سے اعلیٰ ظرفی اور بڑے پن کا تقاضاکرتاہے۔
اس پس منظر میں دیکھا جائے تویوں محسوس ہوتا ہے کہ آج کی دنیا میںبڑی بڑی تبدیلیاں آرہی ہیں جن میں ٹکنالوجی کی ترقی،اقتصادی ترقی،معلومات تک تیز، آسان اور سستی رسائی، طب اور صحت کے علوم میں معجزات،نئے اور مؤثر ذرائع پیداوار،آمدورفت اور مواصلات کے دائرے میں آنے والی تبدیلیاں بہت نمایاں اور اہم ہیں۔آج جب ہم اکیسویں صدی کا پہلا عشرہ مکمل کررہے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ ان تبدیلیوں نے انسانی زندگی میں عظیم انقلاب برپا کر دیا ہے۔ دنیا بھر کے عوام، معاشرے اور معیشتیں باہم ضم ہورہے ہیں،فاصلے سکڑرہے ہیں اور تیز ذرائع مواصلات کی بدولت انسانوں، سامان، سرمایے، معلومات اورعلوم کی حرکت آسان تر ہو چکی ہے۔اب جغرافیائی سرحدیں رکاوٹ نہیں رہی ہیں اور گویا خلائیں بھی مسخر ہو چکی ہیں۔
اس تناظر میں اگرچہ یہ بات درست ہے کہ تبدیلی زندگی کے تمام انفرادی اور اجتماعی دائروں میں بہت تیزی سے نفوذ کر رہی ہے جن میں انسانی و سماجی تعلقات،علم و تعلیم،تمدن و معاشرہ، سیاست اور معیشت سب ہی شامل ہیں، لہٰذااس میں انسانی ذہن اور زندگی پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت بھی پائی جاتی ہے، جوخود تبدیلی کا مظہر ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ معیشت آج کی انسانی زندگی میں نمایاں ترین اور مرکزی مقام حاصل کر چکی ہے۔ اس کا اثر تمام شعبہ ہاے زندگی پر اس طرح حاوی ہو چکا ہے کہ درحقیقت تبدیلی کے ہرعمل کے پیچھے اصل قوت محرکہ یہی نظر آتی ہے۔
اگرچہ، معاشی محرک کے اس غلبے کے نتیجے میں غیر معمولی ترقی ہوئی لیکن اس کے نتیجے میں انسانی زندگی کی بنیادی اقدار بھی تبدیل ہوئی ہیں اور یہ صورت حال دور حاضر میں زندگی کے تمام گوشوں میں نمایاں منفی نتائج بھی در لائی ہے۔سرمایے نے کلیدی حیثیت اختیار کر لی ہے۔ زندگی کے کسی بھی میدان میں آگے بڑھنے کے لیے اہم ترین کردار سرمایے کا ہے اور کثیر سرمایے کے حاملین کے لیے مواقع بھی زیادہ پیدا ہوتے ہیں۔لہٰذا اس سارے عمل میں سرمایہ کار ہی سب سے زیادہ فوائد سمیٹتا ہے۔اقتصادی لحاظ سے طاقت ور ممالک میں در اصل معاشی طور پر مضبوط افراد و گروہ ہی اپنے ملک میں اور عالمی سطح پر فیصلہ سازی پر اثر انداز ہونے کے حوالے سے اہم کردار ادا کرتے ہیں خواہ یہ فیصلے سیاست کے حوالے سے ہوں،تنازعات اور جنگوں کے سلسلے میں یا تعلیم اور صحت عامہ جیسے سماجی شعبے میں ترقی کی بابت۔ یہاں تک کہ اقوام متحدہ ،عالمی بنک اور عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) جیسے بین الاقوامی اداروں میں فیصلہ سازی اور اثر اندازی میں مخصوص ممالک اور طاقتوںکے کردارکا انحصار بھی ان کی طرف سے کیے جانے والے مالی تعاون پر ہوتا ہے۔۱؎ معاشروں اور قوموں کے اندر بھی افراد اور جماعتوں کے لیے یہ ممکن نہیں کہ کثیر سرمایے کے بغیر قیادت کے حصول یا اسے برقرار رکھنے کا سوچ بھی سکیں۔نتیجتاً امن، ترقی، جمہوریت، انسانی حقوق، غربت کے خاتمہ اور سب کے لیے صحت و تعلیم کی ظاہری کوششوں کے باوجود بدلتی دنیا کے حقائق کچھ اور ہی داستان سناتے ہیں۔
ممالک کے درمیان اور معاشروں کے اندر بھی عدم مساوات جڑیں پکڑتی جا رہی ہے، خواہ یہ معاشرے ترقی یافتہ ہوں یا ترقی پذیر۔صرف چند اقوام،بلکہ بیش تر صورتوں میں کچھ ادارے یا افراد کو کروڑوں کے ہجوم پر بالادستی حاصل ہوتی ہے۔چنانچہ یہ کوئی انکشاف نہیں ہے کہ اکیسویں صدی کے آغاز پردنیا کی مجموعی قومی پیداوار (GDP) کا ۸۷ فی صد صرف ۲۲ امیر ممالک میں پیدا ہوتا تھا، جب کہ دنیا کے باقی ماندہ ۱۷۰ ممالک میں ۸۰ فی صد عوام دنیا بھر کی مجموعی قومی پیداوار کے محض ۱۳فی صد پر روح وبدن کا رشتہ قائم رکھنے کے لیے کوشاں ہیں۔دل چسپ امر یہ ہے کہ گذشتہ ۲۰۰برسوں میں اس خلیج میں حیران کن حد تک اضافہ ہوا ہے حتیٰ کہ امیر ترین ممالک میں بھی ۱۲ فی صد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔۲؎
دنیا کے سات متمول ترین افرادکے پاس ۴۱ غریب ممالک(جن کی آبادی ۵۶ کروڑ ۷۰ لاکھ ہے)۳؎ کی مجموعی قومی پیداوار سے زائد دولت ہے، جب کہ دنیا کے آدھے کے قریب عوام (تقریباً۳؍ ارب)دو ڈالر یومیہ سے کم آمدن پر گزاراکرتے ہیں۔جو زندگی مشکل سے گزارتے ہیں اوردنیا میں رونما ہونے والی ترقی میں ان کے لیے کوئی حقیقی فائدہ نہیں ہے۔ ایک ارب انسانوں کو حفظان صحت کے نظام تک رسائی حاصل نہیں۔ایک ارب سے زائد لوگوں کو پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں۔ ۸۰ کروڑ انسان بھوک اور خوراک کی کمیابی کا شکار ہیںاور ہر سال ڈیڑھ کروڑ بچے بھوک کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔۴؎ امیر امیر تر ہوتے جارہے اور غریب غریب ترہو رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق کہیں اور نہیں،خود ریاست ہاے متحدہ امریکا میں تمام بڑی صنعتی اقوام سے زیادہ آمدن میںعدم مساوات پائی جاتی ہے۔۵؎
دولت، مادی فوائد اورمعیشت کی بڑھتی ہوئی مرکزیت نے فرد، سماج اورتحفظ سے وابستہ غیر روایتی چیلنجوں کو جنم دیا ہے جو خاندانی نظام کی کمزوری، انفرادیت پسندی،منشیات اور انسانوں کی غیر قانونی آمدورفت سے لے کرماحولیاتی خطرات تک حاوی ہیں۔
ناہمواریاں صرف اقتصادی دولت اورسماجی شعبے تک ہی محدود نہیںبلکہ ان کا عسکری قوت اور سیاسی میدان میں عدم توازن کے ساتھ بھی اختلاط ہو چکا ہے۔ایک اندازے کے مطابق دنیا کا دفاعی خرچ ۲۰۰۹ء تک ۳۱ء۱۵کھرب امریکی ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ ۲۰۰۸ء کی نسبت حقیقی قدر میں یہ چھے فی صد اضافہ ہے،۶؎ جب کہ ۲۰۰۰ء کے مقابلے میں ۴۹ فی صد ہے۔صرف ۱۵ ممالک بلند ترین اخراجات کے ساتھ دنیا کے کُل دفاعی اخراجات کا ۸۲ فی صد خرچ کرتے ہیں۔امریکا موجودہ عالمی رحجان کا اصل سمت نما پیش کرتا ہے۔اس کے دفاعی اخراجات دنیاکے مجموعی اخراجات کے نصف سے کچھ ہی کم،یعنی ۵ء۴۶ فی صد ہیں۔یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ امریکی صدر اوباما، جنھوں نے تبدیلی کے نام پر انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے اورانھیں امن کا نوبل انعام بھی مل چکا ہے،وہ بھی اس رحجان میں تبدیلی نہ لا سکے اورامریکا کے دفاعی اخراجات میں کوئی ٹھیرائو رونما نہیں ہوا۔امریکا کے بعد بہت فاصلے پر چین(عالمی دفاعی اخراجات کا ۶ء۶فی صد)، فرانس (۲ء۴فی صد)، برطانیہ (۸ء۳ فی صد) اور روس (۵ء۳ فی صد) آتے ہیں۔۷؎
کل عسکری اخراجات دنیا کی مجموعی قومی پیداوار کے ۷ء۲فی صد کے برابر ہیںیا تخمیناً ۲۲۵امریکی ڈالر فی کس۔آج کرۂ ارض کوجن گمبھیر حالات کا سامناہے، ان خطیر عسکری اخراجات کا ایک معمولی حصہ دنیا کوان سے نجات دلا سکتا ہے ۔اس کثیر رقم کا موازنہ اگردنیامیںامن و سلامتی کو یقینی بنانے والے عالمی ادارے کے مجموعی بجٹ کے ساتھ کیا جائے توحالات کی سنگینی کا صحیح اندازہ ہوتاہے۔ــ اقوام متحدہ، اس کے تمام ذیلی ایجنسیاں اور فنڈ ہر سال ۳۰؍ارب امریکی ڈالر خرچ کرتے ہیں،یعنی صرف چار امریکی ڈالر فی کس۔یہ دنیا کی اکثر حکومتوںکے بجٹ کے مقابلے میںحقیر رقم ہے اور دنیا کے دفاعی بجٹ کے ۳فی صد سے بھی کم ہے، جب کہ دو عشروں سے اقوام متحدہ کو مالی مشکلات در پیش ہیںاور اسے مجبوراً ہر شعبے میں اپنے منصوبوں کو کم کرنا پڑا ہے حالانکہ اس عرصے میں بہت سی نئی ذمہ داریوں نے سر اٹھایا ہے۔کئی رکن ریاستوں نے اپنے تمام واجبات بھی ادا نہیں کیے، جب کہ کئی نے اقوام متحدہ کے رضاکارانہ فنڈ میں عطیات دینے بھی بند کر دیے ہیں۔ ۳۱؍اکتوبر ۲۰۰۹ء تک رکن ممالک کے ذمے عمومی بجٹ کے بقایاجات ۹ء۸۲ کروڑ امریکی ڈالرتک پہنچ چکے تھے جن میں سے ۹۳فی صد امریکا کے واجبات ہیں۔۸؎
ہم اکیسویں صدی کے پہلے عشرے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یک طرفہ فیصلوں (unilateralism) اور پیشگی دفاعی حملوں (pre-emptive strikes) جیسے نظریات عملی طور پر ان ثمرات کو ضائع کر رہے ہیں جو دنیا نے بین الاقوامی قانون، انسانی حقوق، مساوات اور آزادی کے میدانوں میں حاصل کیے تھے۔ ’قومی مفادات‘کے نام پر بین الاقوامی تعلقات میں بالادستی اور طاقت کی سیاست کا دور دورہ ہے اورعلاقائی تنازعات اور سلگتے ہوئے مسائل روزبروز سر اٹھا رہے ہیں۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل جیسے ادارے عضو معطل بن چکے ہیں۔۹؎
اگرچہ اقوام متحدہ کے ارکان کی تعداد ۲۰۰کے قریب ہے لیکن فیصلے کرنے اور ان کو دنیا پر نافذ کرنے کا اختیار صرف چند ایک کے پاس ہے،بلکہ کچھ معاملات میں عملاً صرف ایک کے پاس۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی توسیع کے مباحث کچھ عرصے سے جاری ہیںلیکن ان کا محور بھی یکساں ذہنیت کی حامل کچھ اورطاقتوں کو آگے لانا ہے جس کے باعث دنیا میں طاقت کا توازن مزید بگڑ جائے گا۔علاوہ ازیں عدم توازن کا یہ معاملہ صرف فیصلہ سازی کے ساتھ ہی نہیں بلکہ فیصلوں کا نفاذ بھی امتیازی طور پر ہوتا ہے۔کمزور کو آسانی سے ہدف بنایا جا سکتا ہے، جب کہ طاقت وربسہولت اقوام متحدہ کی قراردادوں کو نظر انداز کر سکتا ہے۔سرحدات کی خلاف ورزی کی جاسکتی ہے،قومی خودمختاری کا کوئی تقدس نہیں،زبردستی مسلط کی گئی اور اپنی مرضی سے تبدیل کی گئی حکومتوں کو تحفظ دیا جاتا ہے۔
یہ انداز عالمی نظام اور عالمی امن و سلامتی کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے جوغیر ریاستی عوامل کو موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ ان لوگوں کواپنے حق میں منظم کریں جو نا انصافیوں سے تنگ آ چکے ہیںاور جن کا اعتماد عالمی نظام اور اس کے نمایندہ اداروں سے تیزی سے اٹھتا چلا جا رہا ہے۔کئی اور چیلنج جن کا دائرہ مختلف ریاستوں کے اندرونی اور ریاستوں کے باہم تنازعات اورمہلک جوہری ہتھیاروں کے افقی اور عمودی پھیلائوسے لے کر بین البراعظمی جرائم تک وسیع ہے اور جو ابھی تک حل طلب رہے ہیں،وہ اسی حقیقت کا ایک اور رخ ہیں۔اس سے بھی زیادہ اہم انسانی تحفظ کو لاحق غیرروایتی خطرات کا وقوع پذیر ہونا اوران کی شدّت ہے۔خوراک کا تحفظ (food security) قدرتی اسباب اور ان کی اپنی غیردانش مندانہ پالیسیوں، دونوں وجوہات کی بنا پر سنگین شکل اختیار کر چکا ہے۔ توانائی کے تحفظ (energy security) کا معاملہ اتنا بڑا ہے کہ اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔اسی طرح بڑے پیمانے پر ماحولیاتی آلودگی اور پانی کے مسئلے سے پیدا ہونے والے خطرات، نیز موسمیاتی تبدیلی کے ممکنہ اثرات توجہ طلب اورعملی اقدامات کے متقاضی ہیں۔
بلاشبہہ آج دنیا میںگہری تبدیلیوںکا مشاہدہ کیاجاسکتا ہے۔قدیم جغرافیائی و سیاسی حقائق کوآج بڑے بڑے تغیرات، انقلابات اور مدوجزر سے سابقہ درپیش ہے۔نئی صف بندیاں، اتحاد، دوستیاں اور دشمنیاں تشکیل پا رہی ہیں۔علاقائی طاقت کے نئے مراکز، چاہے عالمی نہ ہوں، کئی برسوں سے ظاہر ہو رہے ہیں اور اپنے وجود کا احساس دلانے کے لیے کوشاں ہیں۔ عالمی اور علاقائی سلامتی کو لاحق خطرات کے حوالے سے غیرریاستی عناصر کا کردار نمایاں تر ہوتا جارہا ہے۔ عالمی معیشت اگرچہ ابھی تک عمومی طور پر ترقی یافتہ شمالی ممالک کے کنٹرول میں ہے لیکن اس میں بھی تبدیلی کا رحجان واضح دکھائی دیتا ہے۔چین، ترقی کی جانب غیر معمولی سبک رفتاری سے سفر کرتے ہوئے،عالمی معیشت کی اس تبدیلی کی قیادت کر رہا ہے۔چین کی شان دار ترقی کے ساتھ ہی ساتھ روس، بھارت اور برازیل جیسے ممالک کاعالمی اقتصادیات میں کردار اور حصہ بھی نہ صرف بڑھ رہا ہے بلکہ اپنے اثر ا ت بھی دکھا رہا ہے۔
لیکن کیا یہ عدم مساوات، نا انصافی،طاقت کے استعمال،جارحیت ،غربت اور بیماری، جہالت اور انسانوں، منشیات اور اسلحہ کی غیر قانونی نقل و حمل جیسے مذکورہ بالا مسائل کے تدارک کے لیے معاون ثابت ہو رہا ہے ؟
جس منظر نامے پر اوپر بحث کی گئی وہ تبدیلی کے لیے بیک وقت چیلنج اور موقع پیش کرتا ہے۔ اگرچہ مذکورہ بالا مسائل میں سے ہر ایک کے حل کے لیے مخصوص اور متعین لائحہ عمل درکار ہے لیکن ان کے پایدار اور جامع حل کے لیے ان مسائل کی بنیادی وجوہات کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے جن کی جڑیں زندگی اور ترقی کے معاصر فلسفے میں پائی جاتی ہیں۔ اس کے لیے بنیادی طور پر معاملات کو ابتداً فکری سطح پر طے کرنا ہوگا۔
بلاشبہہ انسانی زندگی سے وابستہ تنوع کے باعث شناخت اور باہم مسابقت کے لیے جدوجہدکا معاملہ انسانی نفسیات کاایک فطری اور لازمی جزو ہے، تاہم امن اور ترقی کے فروغ کی خاطر ضرورت اس امر کی ہے کہ اس رحجان کو صحت مند مسابقت اور دو طرفہ فوائد (win-win situation) کی راہ پر ڈالنے کے لیے اس کی سمت متعین کی جائے۔
بدقسمتی سے survival of the fittest کے نظریے پر چلنے والا موجودہ نظام ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ کا منظر پیش کر رہا ہے۔ یہ کبھی بھی صحت مند مقابلے کا ماحول فراہم نہیں کر سکتا کیونکہ اس نظا م نے انفرادی و اجتماعی سطح پر طاقت کے استعمال کواتنی فوقیت دے دی ہے کہ اس کے آگے اخلاقی اصولوں کی کوئی وقعت نہیں رہی۔تنازعات ایسے حالات کا ناگزیر تقاضا بن جاتے ہیں۔
آج کی دنیا میں ہم یہی کچھ دیکھ رہے ہیں۔موجودہ نظریے کی بنیاد سرمایہ دارانہ طرز پر ہے جس کی زمام کار معاشی طور پر مستحکم ممالک کے ہاتھوںمیں ہے۔اس کی ترویج امدادی ایجنسیاں اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے کر رہے ہیںجن میں سے قابل ذکرعالمی بنک، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور بڑے کاروباری ادارے(کثیرالاقوامی اور بین الاقوامی کمپنیاںMNCs and TNCs) ہیں۔ سرمایے کی تشکیل،آزاد منڈی کی معیشت،نجکاری اور غیر ملکی امداد اسی نظریے اور نظام کے اہم عناصر ہیں جس میں معاشی فوائد کے حصول کے لیے اصولوں،اخلاقی اقداراور سماجی وجمہوری تصورات کی کوئی حقیقی اہمیت نہیں ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ معاشی مفاد کے حصول کی راہ میں صحیح و غلط، جائزوناجائز، مساوات و عدم مساوات اور انصاف و ناانصافی جیسے تصورات بے معنی ہو چکے ہیں۔ بجاے اس کے کہ’ ’سماجی ترقی کے پیش نظر اخلاقی و اصولی انتخاب کو جانااور اپنایا جائے‘‘ بڑھوتری کے حجم و شرح،سرمایے کی تشکیل،بیرونی امدادووسائل کی تخصیص، زیادہ سے زیادہ منافع خوری اور انفرادی فوائد کا جنون عروج پر ہے اور انسانی فلاح اور سماجی بہبود سمیت دیگر تمام امور کو بالاے طاق رکھ دیا گیا ہے۔’انصاف اور انسانی بہبود ‘کے بجاے ’مہارت‘اس نظریے میں نصب العین بن چکی ہے جس میں اصل زور نمو پذیری (growth) پرہے۔غربت میں کمی اور عوامی بہبود کے اہداف کے بارے میں تصور کیا جاتا ہے کہ وہ اس کے نتیجے میں خودبخود حاصل ہو جائیں گے۔ لہٰذا اس نظریے کو’انسانیت کے نصب العین کے ساتھ ترقی و پیش قدمی‘سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔۱۰؎
بین الاقوامی تعلقات کے میدان میں اس نظریے کا اظہار ’قومی مفاد‘کی سوچ ہے۔ دنیا کے ممالک کے درمیان بین الاقوامی تعلقات کی تنفیذ کے حوالے سے اخلاقی اور فکری پہلوکو ترویج دے کرحقیقی معنوں میں عملاً نافذ کرنا ہوگا۔اگر عالمی نظام کلیتاً ’قومی مفاد‘ کی سوچ کے تحت ہی چلتا رہا توکمزور اقوام کے مفادات مضبوط اور طاقت ور اقوام کے ہاتھوں پامال ہوتے رہیں گے۔ مختلف ممالک کا باہم انحصار (interdependence) ہی وہ واحد محرک نہیں جس کی وجہ سے باہمی تعامل، مذاکرات اور تعاون کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے، ہمہ پہلو اورپایدار ترقی بھی اس چیز کا تقاضا کرتی ہے کہ بین الاقوامی سیاسی و اقتصادی تعلقات میںنئی منہج اور نئی بصیرت کے ساتھ فکری انقلاب رونما ہو، یعنی دوسروں کے مفادات کی قیمت پر اپنے قومی مفاد کے حصول کے بجاے ایسے تعلقات کی طرف جس میں توجہ کا مرکز مجموعی اور ہمہ جہت انسانی و سماجی بہبودہو اور جس کی بنیادتعاون،باہمی احترام،دوطرفہ مفاد اورباہمی منافع پر ہو۔ (یہ تحریر اُس مقالے کا ایک حصہ ہے جو مقالہ نگار نے China Institute of Contemporary International Relations (CICIR) کے زیراہتمام ۲۳ تا ۲۵ستمبر ۲۰۱۰ء کو بیجنگ میں منعقد ہونے والی کانفرنس بعنوان ’تغیر پذیر دنیا اور چین‘ میں پیش کیا۔)
êمقالہ نگار انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد کے ڈائرکٹر جنرل ہیں۔
۱- ان اداروں کو جمہوری نہیں کہا جا سکتا۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میںپانچ ممالک مستقل رکن ہیں جو ویٹو پاور رکھتے ہیں۔ویٹو کی حامل ان پانچ طاقتوں میں سے امریکا اپنا اثر و رسوخ سب سے سے زیادہ استعمال کرتا ہے جس کی ایک وجہ تنظیم کے ساتھ اس کازیادہ مالی تعاون ہے۔ آئی ایم ایف میں ووٹ کی صلاحیت فنڈ میں زیادہ سرمایہ کاری کی بنا پر متعین کی جاتی ہے۔ گویا فیصلہ سازی ’’ایک رکن ایک ووٹ ‘‘کی بنیاد پر نہیں بلکہ ’’ایک ڈالر ایک ووٹ‘‘ کی بنیاد پر ہوتی ہے۔WTOکا طریقہ کار کئی دیگر بین الاقوامی تنظیموں سے مختلف ہے۔ اس میں ہر ملک کو ووٹ کا مساوی حق حاصل ہے لیکن غیر معمولی انسانی ، دانشورانہ اور مالی وسائل اور سیاسی اثرو رسوخ کی وجہ سے مال دار ممالک کا فیصلہ سازی میں کافی دخل ہوتا ہے۔
۲- انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز ،اسلام آباد کے جرنل Policy Pespectives جنوری تا جون ۲۰۰۶ء میں پروفیسر خورشید احمد کا مضمون ’’Challenges and Prospects for Muslims‘‘
3.Anup Shah, "Poverty Facts and Stats," Global Issues, last up-dated March 28, 2010,
4. Anup Shah, "Health Issues," Global Issues, last up-dated March 21, 2010,
http://www.globalissues.org/issue/587/health-issues; Global Crisis News,"Over one
billion people lack access to safe drinking water," March 22, 2010, http://www.globalcrisisnews.com/environment/over-one-billion-people-lack-access-to-safe-drinking water/id=1482/;"The World Hunger Problems, Facts Figures and Statistics,"
http://library.thinkquest.org/C002291/high/present/stats.htm (accessed August 18, 2010).
5. http://theeconomiccollapseblog.com/archives/more-than-1-in-5-american- children-are-now-living-below-the-poverty-line (accessed August 18, 2010).
6. Anup Shah, "World Military Spending," Global Issues, last up-dated July 07, 2010, http://www.globalissues.org/article/75/world-military-spending, quoting Stockholm International Peace Research Institute (SIPRI)'s 2010 Year Book on Armaments, Disarmament and International Security, (accessed August 18, 2010).
۷- امریکا کے دفاعی اخراجات میں ۲۰۰۰ء میں جارج ڈبلیو بش سے کچھ پہلے حقیقی اضافہ63فیصد ہوا۔بحوالہ:
SIPRI Yearbook 2010, "Media Background-Military expenditure," 2-3, http://www.sipri.org/media/media/pressreleases/pressreleasetranslations/storypackage_milex
8. http://www.globalpolicy.org/un-reform/un-financial-crisis-9-27.html (accessed August 18, 2010)
۹- ’’پیشگی دفاعی حملوں‘‘ کا نظریہ ،جس کے بعد ساری دنیا کی طرف سے اعتراضات کے باوجود عراق پر قبضہ کیا گیا، دنیا کے سب سے طاقت ور ملک کی طرف سے یکطرفہ فیصلوں کی سوچ کی واضح مثال ہے۔
۱۰- بحث کے لیے ملاحظہ فرمائیے پروفیسر خورشید احمد کا پیش لفظ برائے: Pakistan's Economic Journey Need For A New Paradigm, by Fasih Uddin and Akram Swati, Islamabad: Institute of Policy Studies, 2009, pp.xii-xv.
ترجمہ: اویس احمد
افغان جنگ کی اصل بنیاد بھارت، پاکستان اور کشمیر میں ہے۔ کشمیر کو نظر انداز کر دیا جائے، جیسے امریکا کر رہا ہے، تو تنازعہ ناقابل فہم ہو جاتا ہے، کشمیر کو شامل کر لیں تو ہرچیز واضح ہو جاتی ہے۔۔۔واشنگٹن پوسٹ
کشمیر کے عوام ظلم اور ’سٹیٹس کو‘ (جوں کی توں صورت حال) سے تنگ آ چکے ہیں۔ وہ گذشتہ تین سال سے سڑکوں اور گلیوں میں نکلے ہوئے ظالمانہ بھارتی تسلط کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔ وہ بھارت سے آزادی مانگتے اور کشمیر میں انسانی حقوق کے احترام کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ کشمیری عوام بالکل نہتے ہیں، تاہم کشمیر میں بھارتی افواج کی موجودگی کے خلاف ان کا غم و غصہ ان کا ہتھیار ہے جس کا جواب بھارت کی طرف سے گولی، کرفیو، طرح طرح کی پابندیوں، گرفتاریوں، معصوم شہریوں کے بہیمانہ قتل اور انھیں ’دہشت گرد‘ قرار دینے کی شکل میں دیاجاتا ہے۔
کشمیر میں نہتے عوام اور گولی چلا کر تحفظ حاصل کرنے والے فوجیوںکے درمیان گلیوں میں ہونے والی جنگوں نے لوگوں کے لیے بے پناہ مشکلات پیدا کر دی ہیں اور معاشرتی زندگی تباہ کر کے رکھ دی ہے۔ برطانوی تسلط سے آزادی کے بعد پاک بھارت کشیدگی اور ایٹمی ہتھیاروں سے مسلح حریفوں کے درمیان ہونے والی تین جنگوں میں سے دو کا بنیادی سبب بھی کشمیر ہی رہا ہے۔ بدقسمتی سے کشمیری عوام اس ہلاکت خیز رسہ کشی کا شکار ہو رہے ہیں۔ اکتوبر ۱۹۸۹ء سے کشمیر دنیا کا سب سے زیادہ فوج زدہ علاقہ بن گیا ہے، جہاں بھارت نے ۷ لاکھ سے زاید فوج تعینات کررکھی ہے۔ ان ۲۲برسوں میں قابض بھارتی فوج کے ہاتھوں ایک لاکھ سے زاید کشمیری شہید اور اس سے کہیں زیادہ زخمی ہوئے۔ یہ مظالم اس لیے کیے گئے تاکہ حق رائے دہی، انصاف، آزادی اور انسانی حقوق کے مطالبات کو دبایا جا سکے۔ بھارتی فوج کے ہاتھوں کشمیریوں کی گرفتاریاں، عدالتی قتل، حراستی قتل، ماوراے عدالت قتل، گمشدگی، عصمت دری، تشدد اور جعلی مقابلے آج بھی جاری ہیں۔ کشمیریوں کی کئی نسلیں بندوق کے سائے میں پل کر جوان ہو چکی ہیں؛ کوئی گھرانہ محفوظ نہیں، اربوں روپے کی جایدادیں تباہ کر دی گئی ہیں، عوام کی مشکلات جاری ہیں، بڑے پیمانے پر قتل عام اور تباہی جاری ہے لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ کشمیر عالمی برادری اور اقوام متحدہ کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔
علاوہ از ایں، بھارتی فوج افسپا (Armed Forces Special Powers Act) نامی قانون کے تحت کام کر رہی ہے، جسے عرف عام میں ’کالا قانون‘ کہا جاتا ہے۔ یہ قانون حکام کو بڑے پیمانے پر گرفتاریوں، تلاشیوں اور گولی مارنے کا اختیار دیتا ہے۔ سزا کا خوف نہ ہونے نے قابض بھارتی فوج کو کشمیریوں کی زندگیوں کے ساتھ کھیلنے کا لائسنس دے دیا ہے۔ جان بوجھ کر اور بلا اشتعال حملے اور مظالم کے دوسرے طریقے عام ہیں۔ ان مظالم کی بنیاد پر آج تک کسی کے خلاف بھی صحیح معنوں میں مقدمہ نہیں چلایا گیا، باوجود اس کے کہ ایسے بے شمار واقعات عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں ہیومن رائیٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل وغیرہ کے ذریعے سامنے لائے جاتے رہے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی ۲۰۱۱ء کی رپورٹ میں کہا ہے: ’’۱۹۸۹ء کے مسلح تصادم کے بعد سے کشمیر میں ماضی میں ہزاروں لوگوں کی گمشدگی سمیت ہونے والی زیادتیوںسے چشم پوشی کی جارہی ہے۔ چند ایک مظالم پر ہونے والی سرکاری تحقیقات میں بہت آہستہ یا بہت کم پیش رفت ہوئی۔ جون اور ستمبر(۲۰۱۰ء) کے درمیان پولیس اور فوج نے نہتے عوام پر فائرنگ کی جب وہ آزادی کے حق میں ہونے والے مظاہروں میں ماضی کی زیادتیوںکا حساب مانگ رہے تھے۔ تشدد، بدسلوکی، ماوراے عدالت قتل، حراستی قتل اور انتظامی گرفتاریاں کی گئیں۔ اداراتی نظام کا مقصد انسانی حقوق اور حقوق کے علَم برداروں کا تحفظ ہوتا ہے، عوام ظلم کے سامنے عاجز رہے اور عدالتی نظام ماضی کی زیادتیوں کا شکار لوگوں کو انصاف کی فراہمی میں ناکام ثابت ہوا‘‘۔
۱۲ مارچ ۲۰۱۱ء کو ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بتایا: ’’ہر سال ہزاروں لوگوں کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت جھوٹے مقدمات میں ملوث کر کے جیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے‘‘۔ یہ رپورٹ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت ہونے والی انتظامی گرفتاریوں میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی ایک فہرست سامنے لائی ہے، جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ بھارت عالمی انسانی حقوق کے حوالے سے فرائض سے کیسے رُوگردانی کررہاہے۔ اگر بھارت اپنے ان فرائض کو نبھانے میں سنجیدہ ہے تو اسے پبلک سیفٹی ایکٹ کی واپسی کو یقینی بنانا ہوگا ۔ قیدیوں کو فوراً رہاکیا جائے یا ان کے خلاف عدالتی مقدمات شروع کیے جائیں۔
نیویارک میں قائم’ہیومن رائیٹس واچ ‘نے اپنی حالیہ رپورٹ میں کہا: ’’کشمیر میں سیکورٹی فورسز نے کئی موقعوں پر غصیلے مظاہرین کو دبانے کے لیے غیر ضروری طاقت کا استعمال کیا جس کے نتیجے میں سو سے زاید افرادمارے گئے اور دونوں اطراف سے ہزاروں زخمی ہوئے۔ ہلاک ہونے والے مظاہرین اور زخمیوں میں ایک بڑی تعداد بچوں کی تھی، اس سے غم و غصہ اور بڑھا اورمظاہروں میں شدت آئی اور یوں تشدد کا ایک دور چل پڑا‘‘۔ بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے کشمیری عوام سے ایک وعدہ کیا تھا کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر کوئی رورعایت نہیں کی جائے گی، تاہم اب تک یہ وعدہ وفا نہیں ہو سکا۔
۳ جون ۲۰۱۱ء کو لکھے گئے ایک خط میں ہیومن رائیٹس واچ نے من موہن سنگھ کو ان کا وعدہ ان الفاظ میں یاد دلایا: ’’بھارت نے اپنے انسانی حقوق کے ریکارڈ اور رضاکارانہ کمٹ منٹ کے حوالے سے عالمی برادری سے قابل ذکر وعدے کر رکھے ہیں۔ ان وعدوں کی تکمیل کے باب میں ہیومن رائیٹس واچ آپ (بھارت) کی حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ بھارتی قانون اور نظام پولیس میں مندرجہ ذیل تبدیلیاں کی جائیں تاکہ انسانی حقوق کا بہتر تحفظ ممکن بنایا جا سکے: افسپا کو واپس لیا جائے جس نے جموں کشمیر میں بے تحاشا تشدد اور مشکلات پیدا کر رکھی ہیں۔۔۔اور وہ فوجی جو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے مرتکب ہوئے ہیں اس قانون کے تحت باز پرس سے مستثنیٰ ہیں۔ بھارت کو چاہیے کہ جموں کشمیر کی حکومت کو تحریک دے کہ وہ پبلک سیفٹی ایکٹ کو واپس لے، کیوں کہ یہ قانون سیکڑوں لوگوں کو بلا وجہ حراست میں رکھنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔۔۔‘‘
بھارت کو جان لینا چاہیے کہ انصاف، آزادی اور حق خود ارادیت کے عوامی مطالبے کا جواب تشدد نہیںہوتا۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اور اقوام متحدہ ہی کے زیر انتظام ہونے والی راے شماری اس کا واحد حل ہے۔ گذشتہ چند برسوں میں بھارتی تسلط کے خلاف اچانک بڑے بڑے پُرامن مظاہرے ہوئے، جہاں کشمیری نوجوانوں، مائوں، بہنوں اور بزرگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ وقفے وقفے سے ہونے والے ان مظاہروں نے کشمیر کی تحریک کو ایک روایتی عوامی تحریک میں تبدیل کر دیا ہے۔ وہ آواز جسے بھارت نے کشمیر میں بزور بازو دبانے کی کوشش کی وہ ایک گونج دار کڑک میں تبدیل ہو گئی۔ کشمیر کی نوجوان نسل جو ۲۰ برس سے معصوم شہریوں کے خلاف بھارتی درندگی کا مظاہرہ دیکھتی آ رہی تھی، صبر کا دامن چھوڑ بیٹھی، مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ خوف سے بھی بے نیاز ہوگئی۔ پاگل پن کی حد تک بہادر کشمیری نوجوانوں نے مسلح بھارتی فوجیوں کو پچھاڑ کر اپنی گلیاں واپس لے لیں اور بھارتی ایوا ن ہلا کے رکھ دیے۔
بھارت کو یہ حقیقت سمجھ لینا چاہیے کہ زمین کے ایک ٹکڑے پر تسلط ہو جانے کا ہر گز یہ مطلب نہیںہوتاکہ اس علاقے پر آپ کو مکمل کنٹرول حاصل ہو گیا۔ عوام مل کر ایک قوم بناتے ہیں اوراگر وہ الگ ہونا چاہیں تو ظالمانہ طاقت سے حاصل کیا ہوا اقتدار مستقل امن کا ضامن نہیں ہوسکتا۔ یہ سوچ سرے سے غلط ہے کہ کشمیر پاکستان اور بھارت کا باہمی مسئلہ ہے۔ کشمیر کسی خطہ زمین یا دوملکوں کا مسئلہ نہیں۔ اس سے ایک کروڑ پچاس لاکھ انسانوں کا مستقبل وابستہ ہے جن کی آزادی کی اپنی ایک تاریخ ہے، وہ اپنی زبان اور روایات کے حامل ہیں۔ گذشتہ ۶۴ سال سے وقفے وقفے سے جاری پاک بھارت مذاکرات کی ناکامی کی واضح دلیل یہی ہے۔ کشمیری عوام اس نہ ختم ہونے والے عمل سے تنگ آچکے ہیں جس کا کبھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا، اس کے علاوہ پاک بھارت امن مذاکرات پر سے ان کا اعتماد اٹھ چکا ہے۔ انھیں دونوں ممالک کی قیادتوں پر اعتبار ہی نہیں رہا کہ وہ اس مسئلے کے حل کی اہلیت رکھتے ہیں۔ عالمی برادری پر امید نظر آتی ہے کہ پاک بھارت باہمی امن کے امکانات آج گذشتہ دہائیوں سے کہیں زیادہ ہیں، تاہم یہاں کچھ احتیاط بھی ضروری ہے کیوں کہ دونوں حریف ایٹمی طاقتیں کئی بار پہلے بھی اس مقام تک آ چکی ہیں: ایک قدم آگے تو دو قدم پیچھے، امن کے وعدے کرتے ہیں تاکہ دوسرے فریق کو اگلے دن سے پھر دھمکیاں دینا شروع کر دیں۔ اس سارے عمل میں نقصان پہنچا تو کشمیر کے مسئلے کو جو گذشتہ ۶۴ برس سے جاری کشیدگی کی بنیادی وجہ ہے یا پھردونوں ہمسائیوں کے مابین امن معرضِ خطر میں پڑا۔ یہ دونوں مسئلے باہم مربوط ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلے (مسئلہ کشمیر) کو حل کیا جائے تاکہ دوسرے(پاک بھارت امن) کو بھی ممکن بنایا جا سکے۔
کشمیری عوام کے پیغام کی گونج بلند اور واضح ہے: سٹیٹس کو اب کوئی آپشن نہیں رہا۔ انھوں نے مسئلے کے حل کے لیے چار نکاتی سفارشات کو مسترد کر دیا ہے۔ وہ امن اور آزادی چاہتے ہیں اور باقی دنیا کی طرح عزت سے رہنا چاہتے ہیں۔ حق خود ارادیت کے لیے ان کی جدوجہد ہر گز ختم نہیں ہوگی جب تک بھارت اور پاکستان ان کے اس حق کو تسلیم نہیں کر لیتے۔ ایک ایسا پُرامن حل ہی خطے میں قیام امن کی ضمانت دے سکتا ہے جو انصاف پر مبنی ہو اور کشمیریوں کے لیے اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کا حق تسلیم کرے۔ عالمی برادری خطے میںمسئلہ کشمیر کے حل اورمستقل امن کے لیے اہم کردار ادا کر سکتی ہے اور آج اس کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔
۸؍اگست کے واشنگٹن پوسٹ کے مطابق: ’’افغان جنگ کی اصل بنیاد بھارت، پاکستان اور کشمیر میں ہے۔ اس خطے میں امن کے لیے زمین پر امریکی فوجوں کی موجودگی ضروری نہیں، بلکہ ایک متفقہ کوشش کی ضرورت ہے جو پاکستان اور بھارت کو مذاکرات کی میزپر لے آئے جہاں وہ عالمی برادری کی نگرانی میں کشمیر پر اپنے کثیرجہتی تنازعے حل کر سکیں۔۔۔ دہشت گردوں سے جنگ، طالبان سے جنگ، بلکہ افغانستان کی جنگ دراصل علامات کے خلاف جنگ ہے نہ کہ چھے دہائیوں پر محیط جنوبی ایشیا کی اصل بیماری کے خلاف؛جوخوف ناک، نقصان دہ، الم ناک اور خطرناک پاک بھارت تنازعہ کشمیرہے۔ کشمیر کو نظر انداز کر دیں، جیسا کہ امریکا کر تا ہے، تو تنازعہ ناقابل فہم نظر آتا ہے، لیکن اگرکشمیر کو شامل کر لیا جائے تو ہر چیز نکھر کر سامنے آجاتی ہے۔۔۔ وقت آن پہنچا ہے کہ عالمی برادری پاکستان اور بھارت دونوں پر زور دے کہ وہ کسی قسم کا روڈ میپ پیش کریں تاکہ مسئلہ کشمیر کا ایک مستقل سیاسی حل نکالا جا سکے۔ اس کے علاوہ دونوں کو یہ بھی باور کرایا جائے کہ ’سٹیٹس کو‘ اب کوئی آپشن نہیں رہا۔ کیوں کہ اس سے نہ صرف پاک بھارت امن اور استحکام امن خطرے میںہے ، بلکہ کشمیریوں کے لیے حق خود ادادیت کا حصول بھی اتنا ہی اہم ہے۔
حق ِخود ادادیت۔۔۔جو اقوام متحدہ کے چارٹر کی شق نمبر ایک میں درج ہے، وہ اصول ہے جس پر تعلقات عامہ کا سارا نظام قائم ہے۔ یہ ساری اقوام اور افراد کا سب سے بنیادی اجتماعی حق ہے اور تمام انفرادی انسانی حقوق کا جزو لا ینفک ہے۔ عالمی سول اور سیاسی حقوق کا معاہدہ (International Covenant on Civil and Political Rights) تمام اقوام پر چند ذمے داریاں عاید کرتا ہے جو نہ صرف ان کی اپنی رعایا کے حوالے سے ہیں بلکہ تمام افراد کے لیے ہیں جو اپنے حق خود ارادیت سے محروم رہے ہوں یا محروم کر دیے گئے ہوں۔ یہ اقوام پر زور دیتا ہے کہ وہ مثبت اقدام اٹھائیں تاکہ لوگوں کے لیے حق خود ارادیت کا حصول ممکن بنایا جا سکے اور اس کا احترام کیا جائے۔ ۱۹۹۳ء کی ویانا میں ہونے والی انسانی حقوق کی عالمی کانفرنس ۱۹۹۴ء کا کوپن ہیگن کا سوشل سمٹ، ۲۰۰۰ کا ملینیم سمٹ اور ۲۰۰۵ء کا اقوام متحدہ کا عالمی سمٹ سب نے لوگوں کے لیے ایسے حالات میں کہ جہاں غیر ملکی قبضہ یا برتری ہو، حق خود ارادیت کی حمایت کی۔ اس کے علاوہ اگر مشرقی تیمور، ایریٹیریا، کوسوو، جنوبی سوڈان اور کئی دوسری جگہوں کے لوگ آزادی حاصل کر سکتے ہیں تو پھر حق خود ارادیت کا وہی اصول کشمیری عوام کے لیے بھی ہو تاکہ وہ غیرملکی جبر و تسلط سے مکمل آزادی حاصل کرسکیں۔
عالمی برادری اقوام متحدہ کے چارٹر اور عالمی معاہدوں کے تحت اپنی ذمے داریوں کو نبھاتے ہوئے مثبت کردار ادا کرے تاکہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دلایا جا سکے اور ان کی مشکلات اور محرومیوں کا خاتمہ ہو سکے۔ قضیہ کشمیر ایک سیاسی اور انسانی المیہ ہے اور اقوام متحدہ، عالمی برادری اور خصوصیت سے بھارت نے مسئلے کے اس بے حد اہم انسانی پہلو کو مکمل طور پر نظر انداز کر رکھا ہے۔
کشمیریوں کا مطالبہ بہت ہی سادہ اور عالمی قوانین کے عین مطابق ہے، یعنی اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کرتے ہوئے کشمیر میں راے شماری کے ذریعے اس تصفیہ طلب علاقے کے مستقبل کا پرامن اور جمہوری فیصلہ۔ نتیجہ جو بھی ہو گا، تینوں پارٹیوں کشمیری عوام، پاکستان اور بھارت کا اسے تسلیم کرنا ضروری ہو گا۔ اس سے بھی اہم معاملہ یہ ہے کہ عالمی برادری پاکستان اور بھارت کی مدد کرے تاکہ مسئلہ کشمیر کو ایک جھگڑے سے ایک پُل میں تبدیل کر دیا جائے کہ خطے کے ایک ارب سے زائد عوام کے لیے مستقل امن کی راہ نکالی جاسکے۔ مسئلہ کشمیر کا پر امن حل افغانستان سمیت جنوبی ایشیا میں سلامتی کا ذریعہ بنے گا اور ایک ممکنہ بڑی جنگ کے خطرات کو ٹال دے گا اور پاکستان اور بھارت کے درمیان بقاے باہمی کے دور کا آغاز ہو گا۔
êمقالہ نگار ٹورانٹو میں قائم ایک غیرسرکاری اور غیر منافع بخش ادارے’امن و انصاف فورم‘ کے ایگزیکٹو ڈائرکٹرہیں۔ای میل: mj@peaceforum.ca
سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ بیسویں صدی کے ایک عظیم مفکر، مبلّغ اور تعلیماتِ اسلام کے ایک منفرد استاد ہیں، جن کی زندگی گھر کے اندر اور گھر سے باہر یکساں تھی۔ ان کی قائم کردہ تحریکِ اسلامی کے اثرات عالمی سطح پر دنیا کے کونے کونے میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ ان پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے لیکن یہ مختصر سی تحریر سیّد مودودیؒ کی خوب صورت شخصیت کی یاد تازہ کردے گی۔
یہ سطور رمضان المبارک میں سپردِ قلم کی جارہی ہیں۔ ایک دن خیال آیا کہ معلوم کیا جائے مولانا مودودیؒ رمضان کیسے گزارتے تھے۔ اس خیال کا آنا تھا کہ ان کی منجھلی صاحب زادی اسماء مودودی صاحبہ سے رابطہ کیا۔ انھوں نے نہایت شفقت سے بتایا: ابا جان روزہ کھجور سے افطار کرتے، پھر کٹورا بھر شربت پیتے اور نمازِ مغرب پڑھنے چلے جاتے۔ پانی ہمیشہ کٹورے میں پیتے جو تانبے کا تھا جس پر قلعی کرکے استعمال میں لایا جاتا۔ ہاں، دعوت وغیرہ کے موقع پر مہمانوں کے ساتھ گلاس میں پانی پی لیتے لیکن گھر کے اندر ہمیشہ کٹورا ہی استعمال کرتے۔ افطاری کے لوازمات نہیں کھاتے تھے۔ نماز کے بعد کھانا کھا کر دوائیاں وغیرہ کھاتے۔ عشاء کی نماز کے فرض خود پڑھاتے، جب کہ تراویح حافظ زاہد صاحب پڑھاتے۔ یہ بہت صاف صاف قرآن پڑھا کرتے۔ تراویح کے بعد وتر اباجان ہی پڑھاتے۔ رمضان المبارک میں عصری مجلس نہیں ہوتی تھی۔ ابا جان نمازِ عصر سے لے کر مغرب تک اپنے کمرے میں تلاوتِ قرآن پاک کیا کرتے___ اتنی خوب صورت تلاوت کیا کرتے کہ میں دروازے کے ساتھ لگ کر کافی دیر تک سنتی رہتی___ اب افسوس ہوتا ہے کہ ان کی تلاوت ریکارڈ کیوں نہ کرلی۔
ابا جان روزے کا وقت ختم ہونے سے کوئی گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ سحری پہلے کھالیا کرتے۔ ہم بہن بھائی جب روزہ رکھنے اُٹھتے تو ابا جان سحری کر کے اپنے کمرے میں جاچکے ہوتے تھے۔ اس جلدی کی وجہ یہ تھی کہ ان کا ایک گردہ ہونے کے سبب ڈاکٹروں نے کوئی ۱۶،۱۷ گلاس پانی پینے کی ہدایت کررکھی تھی۔ اب اس مقدار کو پورا کرنے کے لیے وہ اختتامِ سحر تک پانی پیتے رہتے۔ آخری برسوں میں جب انھیں جوڑوں کا درد اور دوسرے عوارض بھی لاحق تھے تو ڈاکٹروں نے روزہ رکھنے سے منع کر دیا تھا۔ تب ابا جان دوپہر کا کھانا کمرے میں اس طرح کھاتے کہ کھڑکیوں پر پردے گرا دیتے۔ کہا کرتے کہ مجھے کھاتے ہوئے آسمان بھی نہ دیکھے___ سبحان اللہ! احترامِ رمضان کا ایسا خیال۔
مولانا مودودیؒ کے بارے میں حمیرا مودودی کی کتاب: میرے والدین! شجرہاے سایہ دار بھی پڑھنے کے لائق ہے۔ اس کتاب میں اپنی شادی کے بارے میں ایک دل چسپ سوال کا جواب دیتے ہوئے مولانا مودودیؒ نے کہا کہ میری شادی ۳۴سال کی عمر میں ہوئی تھی۔ پھر سوال ہوا: اتنی دیر سے کیوں؟ تو فرمایا: ’’میرے معاشی حالات ٹھیک نہیں تھے۔ اس لیے میں اسے مسلسل ٹالتا رہا۔ آخر ایک روز خیال آیا کہ ۱۴سال کی عمر تھی جب والد محترم کا سایہ سر سے اُٹھ گیا تھا لیکن آج تک اللہ تعالیٰ دیے جا رہا ہے، آیندہ بھی وہی اسباب پیدا فرمائے گا۔ یہ خیال آتے ہی میں نے شادی کا فیصلہ کرلیا۔ نسبت تو پہلے سے طے تھی اور مسلسل تقاضے کے باوجود میں ہی ٹالتا چلا آرہا تھا۔ جب میں نے اپنا ارادہ والدہ محترمہ پر ظاہر کیا تو انھوں نے فوراً ہی میری شادی کا انتظام کر دیا۔ میری اہلیہ میری خالہ زاد بہن ہیں اور بڑی صاحب ِ قناعت خاتون ہیں۔ کئی برس تک ہماری یہ حالت رہی کہ دو دن سے زیادہ کے اخراجات ہمارے پاس نہیں ہوتے تھے۔ اس کے باوجود اہلیہ کے رکھ رکھائو اور سلیقہ شعاری سے کسی کو یہ احساس بھی نہ ہوتا تھا کہ ہم تنگ دستی کی حالت میں گزربسر کر رہے ہیں۔ بہرحال خدا کے فضل و کرم سے کسی کے زیربار احسان ہونے کی نوبت نہیں آئی‘‘۔
ملکی حالات سے لوگوں کے اندر پیدا ہونے والی مایوسی کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے مولانا نے فرمایا: ’’میرے پاس تو مایوسی آج تک کبھی نہیں پھٹکی بلکہ یہ لفظ میری لغت ہی سے خارج ہے۔ دوسرے لوگ جو مایوس ہورہے ہیں میں ان سے بھی یہ کہتا ہوں کہ ہمیشہ اللہ سے اچھی اُمیدیں رکھتے ہوئے حق و صداقت کو سربلند کرنے کے لیے جان توڑ جدوجہد کرتے چلے جائو، اور اپنی طرف سے کوشش کا حق پوری طرح ادا کرنے کے بعد نتیجہ اللہ پر چھوڑ دو۔ ضروری نہیں ہے کہ تمھاری خدمت کے نتائج تمھارے جیتے جی برآمد ہوجائیں۔ تم اگر ایک حق پرست کی طرح اپنا فرض انجام دیتے ہوئے مر بھی جائو تو تمھاری حیثیت اس شخص کی سی ہوگی جو حج کے لیے گھر سے نکلے اور دورانِ سفر ہی اس کی زندگی کا آخری وقت آجائے۔ جس طرح وہ حج کے ثواب سے محروم نہ رہے گا اسی طرح تم بھی راہِ حق کی جدوجہد کے ثواب سے محروم نہ رہو گے‘‘___ بڑی سے بڑی اُلجھن کو کیسے چند جملوں میں حل کر کے سائل کو مطمئن کر دیا کرتے تھے سیّد مودودیؒ!
آیئے! ان کے چند اقوال سے قلب و ذہن کو شادکام کریں:
جماعت اسلامی ہند کی مرکزی قیادت کے ایک گلِ سرسبد اور عالمی اسلامی معاشی تحریک کے سرگرم رہنما برادر محترم ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی طویل علالت کے بعد ۲۵ جولائی ۲۰۱۱ء کو علی گڑھ میں انتقال کر گئے___ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔
ڈاکٹر فریدی ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے اسلام کو اپنی زندگی کا مشن بنایا اور پورے خلوص، دیانت اور مکمل سپردگی کے ساتھ اپنی تمام صلاحیتیں اسی مشن کی تکمیل کے لیے وقف کر دیں اور پھر آخری لمحے تک وفاداری کے اس رشتے کو نبھایا۔ اس میں ان کے پیشِ نظر صرف اپنے رب کی خوشنودی تھی۔ ان شاء اللہ ان کا شمار ان سعید روحوں میں ہوگا جن کے بارے میں خود زمین و آسمان کے مالک نے فرمایا ہے:
مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْـلًا o (الاحزاب ۳۳:۲۳) ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچ کر دکھایا ہے۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ انھوں نے اپنے رویّے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔
اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول فرمائے اور انھیں جنت کے بہترین مقامات و انعامات سے نوازے___ انھوں نے ہم سب کے لیے ایک اچھی مثال چھوڑی ہے اور جو چراغ ان کے قلم اور تحریکی مساعی نے روشن کیے ہیں، وہ ان کے رخصت ہوجانے کے بعد بھی ضوفشاں رہیں گے___ ان شاء اللہ تعالیٰ!
برادرم فضل الرحمن فریدی ۴؍اپریل ۱۹۳۲ء کو مچھلی شہر جون پور، یوپی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم جون پور میں اور اعلیٰ تعلیم الٰہ آباد یونی ورسٹی اور علی گڑھ یونی ورسٹی سے حاصل کی۔ لیکن ان کی علمی زندگی اور تحریکی جدوجہد کا رُخ متعین کرنے میں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی کے افکار اور جماعت اسلامی ہند کے نظم سے وابستگی نے بنیادی کردار ادا کیا۔ ثانوی درس گاہ رام پور میں شرکت نے اس وابستگی کو اور پختہ کردیا۔ اس زمانے میں اصحابِ کہف کی طرح جن چند نوجوانوں نے باہر کی دنیا سے منہ موڑ کر ثانوی درس گاہ کو اپنی آماج گاہ بنایا، ان میں فضل الرحمن فریدی بھی شامل تھے۔ ان سب نے اپنے اپنے انداز میں اسلام اور تحریکِ اسلامی کی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں اور ان کے اثرات صدقۂ جاریہ کی شکل میں تادیر جاری و ساری رہیں گے۔
فریدی صاحب سے میری پہلی ملاقات ۱۹۵۶ء میں دہلی میں ہوئی۔ میں خرم [خرم مراد] بھائی کی شادی میں شرکت کے لیے بھوپال گیا تھا۔ وہاں ہم دونوں نے دہلی اور آگرے کا سفر کیا اور فریدی صاحب، برادرم نجات اللہ صدیقی اور برادرم عرفان احمد خاں دہلی تشریف لائے اور وہاں ان سے ملاقات ہوئی۔ اس کے نتیجے میں ان سے زندگی بھر کے لیے تعلقات استوار ہوگئے۔ فریدی صاحب اور نجات اللہ صاحب نے میری طرح معاشیات کے میدان کو اختیار کیا اور اس طرح ان دونوں بھائیوں کے ساتھ مجھے بھی گذشتہ نصف صدی میں علمی اور دعوتی میدانوں میں تھوڑی بہت خدمت کی سعادت حاصل ہوئی۔ فریدی صاحب سے دوسری ملاقات ۱۹۷۶ء میں پہلی عالمی کانفرنس براے اسلامی معاشیات کے موقعے پر مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ بعدازاں اُن کے سعودی عرب کے قیام کے دوران میں، ان سے مسلسل ملنے اور گھنٹوں تحریکی امور اور اسلامی معاشیات کے مختلف پہلوئوں پر تبادلۂ خیال کا موقع ملتا رہا۔ آخری ملاقات بحرین میں اسلامی معاشیات پر منعقد ہونے والی پانچویں کانفرنس میں ہوئی۔ اس کے بعد فقط ٹیلی فون پر رابطہ رہا۔ ۲۰۰۵ء میں دہلی میں اسلامک فنانس پر ایک کانفرنس منعقد ہونے والی تھی۔ فریدی صاحب کا بے حد اصرار تھا کہ میں اس میں کلیدی خطاب کروں لیکن ویزا نہ ملنے کے باعث مَیں دہلی نہ جاسکا اور ملاقات سے محروم رہا۔ زندگیِ نو کے وہ مدیر تھے اور اس رشتے سے ترجمان القرآن اور زندگیِ نو میں بڑا قریبی علمی تعاون رہا اور ہم ایک دوسرے کے علمی کام سے برابر استفادہ کرتے رہے۔
برادرم فضل الرحمن فریدی اُردو اور انگریزی میں ۳۰ سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں اور ان کے سارے کام کا محور دو ہی موضوعات رہے___ اوّل: اسلامی معاشیات، دوم: تحریکِ اسلامی کی دعوت کے فکری اور عملی پہلو۔ ان کی نگاہ قدیم اور جدید دونوں علوم پر تھی اور اللہ تعالیٰ نے ان کو تجزیے اور تعبیر کی بہترین صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ معاشی تجزیے اور خصوصیت سے زری معاشیات (fiscal economics) میں ان کی خدمات بڑی گراں قدر ہیں۔ وہ اسلامی معاشیات کے اصل تصور کو نکھارنے والے لوگوں میں سے ہیں۔
میری اور نجات اللہ صدیقی بھائی کی طرح وہ ہرلمحے اس پہلو سے متفکر رہتے تھے کہ اسلامی معاشیات اپنے اصل وِژن کے ساتھ، جو اقامت ِدین کا ایک حصہ ہے، ترقی اور تنفیذ کے مراحل سے گزرے اور محض روایتی معاشیات کا ایک حصہ بن کر نہ رہ جائے۔ اسی طرح تحریکِ اسلامی اور فکرِ اسلامی کی تعبیر کا ہر وہ پہلو ان کی دل چسپی کا موضوع رہا جس کا تعلق اُمت ِمسلمہ کے اس کردار سے ہے جو اسے خصوصیت سے مسلم اقلیت والے ممالک میں ادا کرنا ہے، اور اصل مقصد سے وفاداری کے ساتھ اپنے مخصوص حالات میں اسلام کے کردار کو واضح اور متعین کرنا ہے۔
ان کی زندگی بڑی سادہ اور صاف ستھری تھی۔ فکری اعتبار سے میں نے ان کو فہم دین اور عصری مسائل کی تعبیر کے سلسلے میں بڑا بالغ نظر اور محتاط پایا۔ وہ اپنے فکری تجزیوں میں، اصل مقاصدِ شریعت سے مکمل وفاداری کے ساتھ جدید علوم سے استفادہ کرتے تھے اور اس نازک ذمہ داری کو میرے علم کی حد تک انھوں نے بڑی خوش اسلوبی سے ادا کیا۔
اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو شرفِ قبولیت سے نوازے اور نئی نسل کے اہلِ علم و تحقیق کو اس راستے پر چلنے کی توفیق دے جس کے نقوش علمی دنیا کے فضل الرحمن فریدی ایسے سچے خادموں نے روشن کیے ہیں، آمین ثم آمین!
سابق سوویت یونین کی ۱۵ سوویت جمہوری ریاستوں میں چھے آزاد اور خودمختار ملک اقوامِ متحدہ کے ممبر بن چکے ہیں۔ ۱۹۹۱ء میں جب سوویت یونین باقاعدہ ٹوٹا تو اُس وقت دنیا کا یہ سب سے بڑا خطہ چار بڑے علاقوں (regions) پر مشتمل تھا جن میں سب سے بڑا ’سلاد‘ (Slavian) علاقہ تھا جس میں موجودہ روسی فیڈریشن کے علاوہ یوکرائن، بلارس اور مالددوا شامل ہیں۔ سابق سوویت یونین کا دوسرا علاقہ قفقاز یا Trans Caucausia کہلاتا ہے، جس میں آرمینیا، جارجیا شامل ہیں۔ ان ممالک میں مسلمانوں کی ریاستیں موجود ہیں، اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ان دونوں ممالک میں مسلمانوں کی تعداد ۴ء۴ ملین ہے۔ اس خطے کا تیسرا ملک آذربائیجان ہے، جس کی کُل آبادی ایک سروے کے مطابق ۵ء۹ملین ہے۔ اس کا ۸۰ فی صد مسلمانوں پر مشتمل ہے۔
سابق سوویت یونین کا چوتھا علاقہ وسط ایشیائی ممالک اور قازقستان پر مشتمل ہے جس میں مجموعی مسلمان آبادی ۸۰ فی صد کے لگ بھگ ہے۔ یہ تمام مسلمان ممالک ہیں جن میں ازبکستان، ترکمانستان، کرغیزستان، قازقستان، اور تاجکستان شامل ہیں۔ یہ تمام علاقے ترکی النسل کے لوگوں سے آباد ہیں۔ یہاں زبانیں مختلف لہجوں اور الفاظ کے ساتھ ایک جیسی بولی جاتی ہیں جو رابطے کا ذریعہ بھی ہیں۔ روسی تسلط کے زمانے میں یہاں کی سرکاری زبان روسی تھی جو اب بھی ان علاقوں میں تعلیم یافتہ لوگوں کی زبان سمجھی اور بولی جاتی ہے۔ وسطی ایشیا کا یہ علاقہ دنیا کے خوب صورت ترین علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہاں کے پہاڑوں اور وادیوں کا قدرتی حُسن یہاں کے باسیوں کی مہمان نوازی اوررواداری کی اعلیٰ ترین روایات سے اور زیادہ دل کش بن جاتا ہے۔ وسطی ایشیا میں اسلامی تہذیب کا آغاز خلافتِ راشدہ کے ادوار ہی سے ہوچکا تھا اور کئی سو برس تک یہ علاقہ علم وفضل کا گہوارہ رہا۔ اب بھی وسطی ایشیا کے تاریخی مقامات اس کی گواہی دے رہے ہیں۔ انھی وسط ایشیائی ممالک میں سے ایک تاجکستان ہے۔
تاجکستان دنیا کی خوب صورت ترین ریاستوں میں سے ایک وسط ایشیائی ریاست ہے جس کا رقبہ ایک لاکھ ۴۳ہزار ایک سو مربع کلومیٹر ہے، جس کا تقریباً ۹۳ فی صد علاقہ پہاڑی ہے جس میں یامیرکے پہاڑ اپنی منفرد حیثیت رکھتے ہیں۔ اس اسلامی ملک کا دارالخلافہ دوشنبے ہے جو اپنی عظیم تاریخی ورثے کے ساتھ ساتھ ایک جدید شہر ہے۔ تاجکستان جسے تاجک لوگ دیس کہتے ہیں، وسط ایشیا کے جنوب میں واقع ہے۔ اس کی سرحدیں شمال مغرب میں ازبکستان، مشرق میں کرغیزستان، جنوب میں افغانستان اور مشرقی سرحد کا کچھ حصہ چین سے بھی ملتا ہے، جب کہ پاکستانی گلگت بلتستان کا علاقہ واخان کی پٹی کے ذریعے تاجکستان سے جدا ہوتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ۲۰۰۳ء کے اعدادوشمار کے مطابق اس ملک کی آبادی ۲ء۶ ملین تھی، جب کہ ۲۰۱۰ء میں تاجکستان کی آبادی ۹۷ء۷ ملین ہوچکی ہے۔ یہاں پر بسنے والی غیرمسلم قومیتوں، مثلاً روسی اور جرمن نسل کے لوگوں میں نمایاں کمی آئی ہے۔ تاجکستان کی کُل آبادی کے ۸۸ فی صد مسلمان ہیں۔ غیرمسلم آبادی میں زیادہ تر روسی، جرمن، یوکرائنی اور یہودی دوسری جگہوں سے آکر یہاں آباد ہوئے، جب کہ روس، ازبکستان، قازقستان، کرغیزستان، ایران اور افغانستان میں تقریباً ۵۱ لاکھ سے زائد تاجک آباد ہیں جو مختلف ادوار میں یہاں سے گئے۔ (انسائیکلوپیڈیا ماسکو، ۱۹۹۴ء، ص۳۱۹-۳۲۰)
تاجکستان وسطی ایشیا کی کم آمدنی والا خطہ ہے لیکن یہاں کے پہاڑ اور علاقے قدرتی وسائل اور نایاب دھاتوں سے مالامال ہیں۔ عام لوگوں کی اوسط عمر ۶۴سال ہے، جب کہ فی کس آمدنی ۷۰۰ امریکی ڈالر ہے۔
تعلیمی لحاظ سے تاجکستان وسطی ایشیا اور روس کے ہم پلّہ رہا ہے، اگرچہ تعلیم پر حکومتی اخراجات دن بدن کم ہوتے جارہے ہیں۔ اس وقت مجموعی قومی پیداوار (GDP) کا صرف ۵ء۳ فی صدتعلیم پر خرچ کیا جا رہا ہے۔ ۱۹۹۱ء میں تاجکستان میں تعلیم کا تناسب ۱۰۰ فی صد تھا، جو اَب گر کر۹۵ فی صد ہوگیا ہے۔ ایک سروے کے مطابق دیہاتوں میں ۲۰ فی صد بچیاں ضروری پرائمری تعلیم مکمل نہیں کرپارہی ہیں۔ تاجکستان کے ذرائعِ آمدن محدود ہیں۔ کُل رقبے کا بہت کم حصہ زیرکاشت ہے اور گذشتہ عشرے میں یہاں پر زراعت و صنعت میں قابلِ ذکر اضافہ نہیں ہوا۔
تاریخی اعتبار سے لفظ تاجک مشرقی ایرانیوں کے لیے بولا جاتا ہے، جب کہ بیسویں صدی کے آخری عشرے میں فارسی بولنے والی قوم تاجک کہلانے لگی ہے۔ جنوبی تاجکستان بظاہر امیربخارا کے زیرتسلط رہا، جب کہ شمالی تاجکستان ۱۸۶۸ء سے ہی روسی تسلط کا شکار ہوچکا تھا۔ ۱۹۱۷ء کے روسی انقلاب کے بعد تاجکوں کی بڑی آبادی قریبی ملک افغانستان ہجرت کر گئی اور پھر ۱۹۲۴ء میں یہ ریاست وسطی ایشیا کی دوسری ریاستوں کی طرح ایک خودمختار سوویت ریاست بن گئی۔ تاجکستان نسبتاً تاخیر سے سوویت یونین کا حصہ بنا اور باضابطہ سوویت ریاست ۱۹۲۹ء میںبنا۔
تاجکستان بقیہ وسط ایشیائی ریاستوں کے مقابلے میں کم آمدنی اور کم وسائل کا حامل ہے لیکن مغربی قوتوں کی ہمیشہ سے توجہ کا مرکز رہا ہے۔ چنانچہ وسط ایشیائی ریاستوں میں امریکی و برطانوی سفارت خانے سب سے پہلے کسی امیرریاست مثلاً ازبکستان یا قازقستان میں نہیں بلکہ تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے میں کھولے گئے۔
تاجک مسلمان وسطی ایشیا کے راسخ العقیدہ مسلمان سمجھے جاتے ہیں اور کہا جاتا تھا کہ اگر کسی کو اسلام کو اصل حالت میں دیکھنا ہے تو وہ ’کرگان توبے‘ چلا جائے۔ ۱۹۷۹ء میں مسلمانوں کی انتہائی مضبوط تنظیم کا باقاعدہ قیام خفیہ طور پر تاجکستان کے چھوٹے سے قصبے دوشنبے میں ہوا۔ اس میں دوسری ریاستوں سے بھی لوگ شامل ہوئے۔ اس طرح تنظیمی احیا کے نتیجے میں اسلامی پارٹی کی بنیاد ڈالی گئی۔ اس کو کوئی نام نہ دیا گیا اور اس جماعت کے اُس وقت کے سربراہ جناب رحمت اللہ (ازبک) کو ایک ٹریفک حادثے میں سوویت یونین کے خفیہ ادارے ’کے جی بی‘ نے شہید کر دیا، جس کے بعد اس کی قیادت کرگان توبے میں منتقل ہوگئی۔
تاجکستان بدترین روسی تسلط و جبر کے زمانے میں بھی اسلامی شعائر اور اقدار کی پاس داری کرنے والی ریاستوں میں سے ایک رہا۔ یہاں کا زیرزمین اسلامی تعلیمات کا نظام نہ صرف اردگرد کی اسلامی ریاستوں کے لیے باعثِ تقویت اور اسلام کو حقیقی طور پر عوام الناس میں اُس کی اصلی حالت میں زندہ رکھنے کا ایک بڑا ذریعہ رہا ہے، بلکہ سوویت یونین کے دوسرے علاقوں، مثلاً داغستان، روسی تاتارستان اور سائبیریا کے مسلمان بھی تاجکی علما سے مستفید ہوتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ تاجکستان کے پہاڑی سلسلوں میں اسلامی تعلیمی ادارے جو انتہائی خفیہ مقامات پر قائم کیے گئے تھے، قرآن و حدیث اور فقہ کی تعلیمات کے علاوہ اسلامی تاریخ اور اسلامی دنیا کے حالات سے باخبر رہنے کا ذریعہ بھی رہے۔
تاجکستان کے بیش تر علما کو عربی زبان، صرف و نحو وغیرہ پر عبور حاصل تھا۔ یہی وجہ ہے ۱۹۹۱ء کی آزادی کے بعد اچانک یہاں ہزاروں عربی بولنے والے نوجوان موجود تھے اور ہزاروں مساجد کے قیام کے بعد ائمہ حضرات کی ایسی ٹیم موجود تھی جو وسطی ایشیا کی دوسری ریاستوں کی مساجد کی ضروریات بھی پوری کر رہی تھی۔ نوجوانوں میں بالخصوص دینی علم کی طلب بڑھتی ہی رہی اور اس کے نتیجے میں تاجکستان کے مسلمانوں کا علمی ورثہ پورے علاقے میں معتبر سمجھا جانے لگا۔ تاجکستان کی روحانی اور علمی شخصیت عبداللہ نوری پورے وسطی ایشیا اور سابق سوویت یونین کے مسلمانوں میں انتہائی مقبول ہیں۔
صدر امام علی رحمانوف نے روسی سامراج کے ساتھ مل کر اسلامی تحریک کو پورے وسطی ایشیا سے بالعموم اور تاجکستان سے بالخصوص ختم کرنے کے لیے مختلف اقدامات کیے جن میں ابتدائی کش مکش (۹۳-۱۹۹۰ء)، پھر مفاہمت (۹۸-۱۹۹۴ء) جس کے دوران میں سازشوں کا جال بچھایا گیا۔ یہاں تک کہ ۱۹۹۹ء کے بعد سرد جنگ باقاعدہ چپقلش اور کھلے عام صدر اور اسلام پسندوں کے درمیان جنگ کی صورت اختیار کرگئی اور بظاہر تحریکِ اسلامی کے لیے تاجکستان میں کام کرنا ناممکن بنادیا گیا۔
تاجکستان کا مستقبل اسلام سے وابستہ ہے۔ یہاں پر اسلامی ثقافت کے گہرے اثرات ہیں، اور اسلامی تعلیمات عام ہیں۔ تاجک علما اسلامی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے اردگرد کے ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اسلامی تحریک بظاہر کمزور ہوتی نظر آتی ہے، لیکن فی الواقع اسلامی تحریک دن بدن زور پکڑتی جارہی ہے۔ افغانستان میں حالیہ امریکی مداخلت نے صدر امام علی رحمانوف کو تقویت دی ہے اور اسلامی جماعت (IRP) کو نقصان پہنچایا ہے۔ وہ آئے دن اپنے احکامات اور صدارتی فرمانوں کے ذریعے اسلامی شعائر پر پابندیاں عائد کرتے رہتے ہیں۔ اسلامی جماعت نے آزادی کے آغاز میں صدر امام علی رحمانوف کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جس کے مطابق ۲۵ تا ۳۰فی صد اقتدار میں حصہ آئی آر پی کے لیے مختص کیا گیا جس پر کبھی بھی عمل نہیں ہوا ۔ پھر صدرجمہوریہ نے نہ صرف فراڈ انتخابات کے ذریعے ۹۸ فی صد ووٹ حاصل کیے (جسے بین الاقوامی ایجنسیوں نے فراڈ انتخابات قرار دیا) بلکہ تحریک اسلامی کو کمزور کرنے کے لیے قریبی ممالک کے رہنمائوں کی مدد حاصل کی اور اسلامی جماعت کو شدید نقصان پہنچایا۔ یہاں انسانی حقوق کی کھلی کھلی خلاف ورزی ہورہی ہے۔ لیکن انسانی حقوق کی عالمی اور علاقائی تنظیموں کا تاجکستان میں انسانی حقوق کی زبوں حالی پر بالکل خاموش رہنا بھی معنی خیز ہے۔ یہاں کے نوجوانوں کی مذہبی لگائو کی بنیاد پر گرفتاریاں اور سزائیں بھی عالمی انسانی حقوق کی انجمنوں کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ تاجکستان میں صرف ریاستی میڈیا ہی قانونی حیثیت رکھتا ہے۔ انسانی حقوق کی کھلے عام پامالی اور اسلامی شعائر پر پابندیوں کے علاوہ عام لوگوں کو اپنے عقائد پر عمل کرنے سے قانوناً روکنا اور پھر ایسے قوانین کے تحت سزائیں دینا عالمی امن اور انسانی حقوق کے علَم برداروں کے نزدیک کوئی جرم نہیں ہے۔
تاجکستان کا عام نوجوان جدوجہد سے بھرپور پُراُمید زندگی کا خواہش مند ہے۔ ایک غیرملکی خبررساں ایجنسی کے حالیہ سروے کے مطابق مسجدوں میں نوجوانوں کے داخلے کی پابندی کو ۹۶ فی صد نوجوانوں نے مسترد کر دیا ہے اور ۶۵ فی صد نوجوان اس کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ ۷۸ فی صد نوجوان اسے صدر امام علی رحمانوف کی حکومت کے خاتمے کا سبب بھی سمجھتے ہیں۔
êمضمون نگار رفاہ یونی ورسٹی اسلام آباد میں پروفیسر آف سرجری ہیں-
اُردو زبان اس اعتبار سے بھی دنیا کی ایک بڑی زبان ہے کہ قرآنِ حکیم، سیرتِ رسولؐ اور علومِ اسلامیہ سے متعلق جتنا بڑا، متنوع اور مختلف الجہات ذخیرۂ مطبوعات اُردو زبان میں موجود ہے (باستثناے عربی) کسی اور زبان میں موجود نہیں ہوگا۔ قرآن حکیم کے تعلق سے اُردو مطبوعات میں رسائل و جرائد کے ایک سو سے زائد قرآن نمبر خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ اس سلسلے کی تازہ کڑی دو جِلدوں پر مشتمل تعمیرافکار کا زیرنظر خصوصی شمارہ ہے۔
اسے دیکھتے ہوئے ہمیں ۴۱ سال قبل کا سیارہ ڈائجسٹ کاقرآن نمبر یاد آگیا جو ۱۹۷۰ء میں تین خوب صورت جِلدوں میں غیرمعمولی اہتمام سے شائع کیا گیا تھا جس میں کثیرتعداد میں علمی اور تحقیقی مضامین کے ساتھ، متعدد مشاہیر کے مصاحبے (انٹرویو)، سچی کہانیاں اور لکھنے والوں کے ذاتی مشاہدات بھی شامل تھے۔ بلامبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ ویسی تحقیق، محنت، اہتمام، تیاری اور دل چسپ لوازمے کے اعتبار سے شاید ہی کوئی اور قرآن نمبر اس سے لگا کھاتا ہو۔ اسے کراچی سے پروفیسر خورشید احمد کی نگرانی و کاوش سے اور لاہور سے جناب نعیم صدیقی کی زرخیز ذہنی و قلبی آبیاری سے مرتّب کیا گیا تھا۔ [پروفیسر اقبال جاوید صاحب نے خورشیدعالم کو اس کا ’مدیر‘ لکھا ہے (زیرتبصرہ تعمیرافکار کا قرآن نمبر، ص ۶۸۴) مگر مذکورہ بالا قرآن نمبر کی تیاری میں خورشیدعالم کی کسی کاوش کا دخل نہ تھا، وہ فقط سیّارہ ڈائجسٹ کے عام شماروں کے مدیر تھے ]
تعمیرافکار کے زیرتبصرہ قرآن نمبر کی مجلسِ ادارت نے بھی خاصی محنت اور کوشش سے نئے پرانے مطبوعہ اور غیرمطبوعہ، طبع زاد اور ترجمہ شدہ ہر نوع کے مضامین جمع کیے ہیں۔ بلاشبہہ بقول مدیر: ’’قرآن کریم کے موضوعات، مضامین و مباحث اور اس کے علمی نکات کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ‘‘ ہے۔ چنانچہ زیرنظر اشاعت کو مدیرمحترم نے ’’ایک عاجزانہ کاوش کے طور پر پیش کیا ہے‘‘۔ لکھنے والوں میں نام ور علماے کرام کے ساتھ واجب الاحترام اور معروف مفسرین عظام، اُردو ادب اور علومِ اسلامیہ کے بلندپایہ محقق، نقاد، اور بعض نسبتاً نئے لکھنے والے اہلِ قلم شامل ہیں۔ کوشش کی گئی ہے کہ قرآنی موضوعات کے علاوہ اس ضمن میں بعض اکابر کی خدماتِ قرآنی کا تجزیہ اور مختلف زبانوں (ہندی، فارسی، انگریزی، سندھی اور پشتو) میں قرآن حکیم کے تراجم و تفاسیر کا جائزہ بھی پیش کیا جائے۔ بعض مستشرقین کے تراجم قرآن پر نقد کرتے ہوئے، ان کی دانستہ تحریفات اور نادانستہ کوتاہیوں کی نشان دہی کی گئی ہے۔
آخر میں ایک تو پروفیسر اقبال جاوید صاحب کا مرتّبہ اشاریہ شامل ہے، اوّل: رسائل و جرائد کے ۹۹ قرآن نمبروں کا (بہ ترتیبِ زمانی) اشاریہ، جو ایک قابلِ قدر تحقیق ہے۔ دوسرا ادارے کا تیار کردہ اشاریہ: ’مضامینِ اشاریہ قرآن‘ ہے، مگر یہ مضامینِ قرآن کا اشاریہ نہیں ہے بلکہ قرآن کے تعلق سے مختلف رسائل میں مطبوعہ مقالات، مضامین، تفاسیر اور تبصروں وغیرہ کی مصنف وار فہارس ہیں اور وہ بھی ناتمام اور اس اعتبار سے ناقص ہے کہ خود مرتّبین کے بقول: ’’اس میں بھی بعض رسائل کو شامل نہیں کیا جاسکا‘‘ (ص ۶۸۹)۔ (رفیع الدین ہاشمی)
کتاب میں عہدنبویؐ کے مبارک دور میں تعلیم سے متعلق مختلف پہلوئوں کااحاطہ کیا گیا ہے۔ نصابِ تعلیم کا باب بہت دل چسپ ہے۔ اس میں سورئہ بقرہ کی آیات ۱۱-۱۵ سے نصاب اخذ کیا گیا ہے۔یہ نصاب قراء ت قرآن، تزکیہ، تعلیمِ کتاب، تعلیمِحکمت، علومِ نو کی تعلیم، عسکری تربیت پر مشتمل تھا۔علومِ نو کے حوالے سے عبرانی اور دوسری غیرملکی زبانیں سیکھنا، خوش نویسی، تقسیمِ ترکہ کی ریاضی، بیماری و طب، علمِ ہیئت، علم الانساب وغیرہ شامل تھے اور عسکری تربیت میں تیراندازی، گھڑسواری، اُونٹ سواری، تیراکی وغیرہ شامل تھی۔
انسان کے مختلف نظام ہاے زندگی، مثلاً اخلاقی، معاشرتی، معاشی، سیاسی، تعلیمی وغیرہ اس وقت تک اسلامی نہیں ہوسکتے جب تک کہ یہ اسلامی عقائد، یعنی توحید، رسالت اور آخرت کے تصورات پر استوار نہ ہوں۔ یہ بات بڑی وضاحت سے باب دوم میں اسلامی نظام تعلیم کے تحت بیان کی گئی ہے۔ بعض بوجھ بجھکڑوں کا خیال ہے کہ تعلیم کے ساتھ صرف دینیات کا دم چھلّا لگادینے سے تعلیمی نظام اسلامی بن جاتاہے، اور اب تو صورت یہ ہے کہ اگر جہاد کی قرآنی آیات اور ارشاداتِ نبویؐ کو نصابی کتب سے نکال دیاجائے اور توحید، آخرت اور رسالت کو نظرانداز کردیا جائے تو پھر بھی تعلیم اسلامی ہی رہتی ہے۔
رسول کریمؐ نے یقینا ایک ایسے تعلیمی نظام کی بنیاد رکھی تھی جس کی بنیاد پر ایک تعلیمی انقلاب برپا ہوا۔ مصنف کے بقول: رسول کریمؐ نے جس تعلیمی انقلاب کی بنیاد رکھی وہ بتدریج ارتقا پذیر تھا۔ ۲۳سال کی قلیل مدت میں ان باتوں کی اساس رکھ دینا کیا کچھ کم تھا؟ جس کے دُور رس نتائج سے ساری دنیانے رہنمائی لی اور آج کا ترقی یافتہ دور اسی کا مرہونِ منت ہے۔ (ص ۱۲۳)
رسول کریمؐ کو ربِ رحیم نے اقراء کی تعلیم سے نوازا۔ پھر دو سال بعد حکم دیا کہ عوام النّاس کو اس تعلیم سے بہرہ ور کیا جائے، لہٰذا آپؐ ہر ہرشخص کے پاس خود تشریف لے گئے، مجمعِ عام میں تعلیم پہنچائی، بااثر لوگوں کی مجالس میں تعلیم کا انتظام کیا۔ اس طرح آپؐ نے ایک سفری تعلیمی ادارے کی ذمہ داری بڑی خوبی سے نبھائی اور اس میںمنہمک رہے۔ آپؐ کی تعلیمی پالیسی کا یہ ایک اہم نکتہ ہے۔
اس کتاب میں طول طویل اقتباسات بہت زیادہ ہیں جو گراں گزرتے ہیں۔ پھر کئی مقامات پر قرآنی آیات میں اغلاط ہیں، جب کہ انگریزی ہندسے طبیعت پر شاق گزرتے ہیں۔ تاہم، کتاب ایک اچھی، سلجھی ہوئی تحریر، قابلِ اعتماد، علمی معلومات کے ساتھ پیش کی گئی ہے۔ (شہزادالحسن چشتی)
علاج معالجہ انسانی زندگی کی ناگزیر ضرورت ہے۔ مریض معالج کے پاس آتا ہے، تو گویا اپنی زندگی اس کے سپرد کر دیتا ہے۔ اس لیے معالج کو ایک مونس، بے لوث، ہمدرد اور امین شخص کا کردار ادا کرنا چاہیے، مگر بے رحم مادہ پرستی کی فضا نے بیش تر معالجین کو دولت پرستی اور سنگ دلی کی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ایک مسلمان معالج کا اس صورت حال پر رنجیدہ اور حالات کی بہتری کے لیے فکرمند ہونا فطری امر ہے، مگر اس اُلجھی ڈور کا سرا پکڑنے والے خال خال نظر آتے ہیں۔
اس پس منظر میں امام حسن البنا، علامہ محمد اقبال، سیدابوالاعلیٰ مودودی اور سید قطب شہید کی دینی و ملّی فکر سے فیض یافتہ ڈاکٹروں نے اپنے اپنے خطۂ زمین میں، یا جہاں جہاں وہ پہنچے، اس افسوس ناک صورت حال کو بہتر بنانے کی کوشش کی۔ اجتماعی جدوجہد کرتے ہوئے ڈاکٹروں کی تنظیمیں اور انجمنیں بنائیں، جن کا مطمحِ نظر گریڈوں کی دوڑ اور تنخواہوں کے فراز کے پیچھے لپکنا نہیں، بلکہ اسلام کے مطلوب معالج کی فکری، دینی اور عملی تربیت ہے۔ انھی تنظیموں نے مل کر دسمبر ۱۹۸۱ء میں اورلینڈ، فلوریڈا (امریکا) میں فیڈریشن آف اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشنز (FIMA) قائم کی جس نے دنیا کے مختلف گوشوں میں پھیلی راست فکر اسلامی میڈیکل تنظیمات کو ایک لڑی میں پرو دیا۔
زیرنظر کتاب درحقیقت اسی قابلِ قدر تنظیم کی تعمیری سوچ اور علمی رہبری کا مظہر ہے۔ اگرچہ کتاب کے عنوان سے نفسِ مضمون کی وضاحت ہوجاتی ہے، تاہم مندرجات کے تعارف کے لیے مختلف ابواب کے موضوعات اس طرح ہیں: lجنوب مشرقی ایشیا کے میڈیکل نصاب میں اسلامی اقدار کو سمونے کا تجربہ lعلاج معالجے سے قبل بنیادی میڈیکل تدریس اور میڈیکل نصاب میں اسلامی فکر کی ترویج lمیڈیکل نصاب کی تدریس میں مسائل و مشکلات کا اسلامی تناظر میں حل lمیڈیکل کی پیشہ ورانہ تدریس، اسلامی نقطۂ نظر سے lاسلامی یونی ورسٹی ملایشیا میں میڈیکل کی تدریس پر آموزگار lاسلامی تصورِ طبی تعلیم اور حیاتی اخلاقیات lاسلامی اصولوں کی روشنی میں میڈیکل تعلیم سے متعلق اخلاقی امور lمسلمانوں کا تحقیق میں حصہ: ماضی، حال اور مستقبل lمعالجین بطور مؤثر تحقیق کار lکلینیکل تحقیق اسلامی تناظر میں lمیڈیکل تعلیم میں معیار کا مسئلہ ، اسلامی مناسبت سے۔
سائنس دان لفظوں کے استعمال میں خاصے کفایت شعار اور ہدف کی براہِ راست وضاحت پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔ چنانچہ اتنے اہم اور وسیع موضوعات کو ڈاکٹر صاحبان نے کم سے کم الفاظ میں سمونے کی کوشش کی ہے۔ مقصدیت، خدمت اور دین و دنیا میں کامیابی کے لیے فکرمندی پر مبنی، پیشہ ورانہ رہنمائی سے موسوم یہ کتاب تقاضا کرتی ہے کہ میڈیکل کی تعلیم و تدریس سے وابستہ ہراستاد کے زیرمطالعہ آئے۔ اگر اسے اُردو میں ترجمہ کرلیا جائے تو اس خطۂ ارضی میں استفادے کا دائرہ زیادہ وسیع ہوجاتا ہے۔ کتاب کی جاذبِ نظر پیش کش پر ’فیما‘ اور پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (PIMA) تحسین کے مستحق ہیں۔ (سلیم منصور خالد)
کتاب کا نام عبدالرحمن بزمی (۱۹۳۰ء-۲۰۰۵ء) کے ایک شعر ؎
نہیں ہے انتہاے شوق بزمی
مگر حرفِ تمنا مختصر ہے
سے ماخوذ ہے۔ یہ مجموعہ شاعر کی وفات کے چھے برس بعد ان کے احباب (رفیع الدین ہاشمی، جاوید اقبال خواجہ، حفیظ الرحمن احسن) کی کوششوں سے منظرعام پر آیا ہے۔ برنی صاحب کی ولادت کینیا میں ہوئی اور عمر کا بیش تر حصہ انگلستان میں گزرا مگر وہ اُردو زبان اور پاکستان و پاکستانیوں سے بے حد انس رکھتے تھے۔ برطانیہ میں رہتے ہوئے بھی بزمی صاحب کے تعلقات اُردو دان طبقے اور پاکستانی احباب سے استوار رہے۔ اس کی ایک مثال حفیظ جالندھری سے ان کے دوستانہ مراسم کی استواری ہے۔ اسی طرح وہ ماہرالقادری، حفیظ تائب، جعفر بلوچ، پروفیسر محمد منور، ڈاکٹر وحید قریشی، ضمیرجعفری، مشفق خواجہ اور صلاح الدین شہید سے بھی ذاتی مراسم رکھتے تھے۔
حرفِ تمنّا بزمی صاحب کی قادرالکلامی کا بھرپور اظہار ہے۔ بیش تر اصنافِ شاعری (نعت، سلام، غزل، نظم، قطعہ، مرثیہ) حرفِ تمنّا کا حصہ ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف اوقات میں معروف دینی، علمی، سیاسی و ادبی شخصیات کی نذر کی گئی منظومات بھی اس مجموعے میں شامل ہیں۔ متفرق موضوعات اور مختلف تہنیتی مواقع پر کہی جانے والی شعری تخلیقات، اساتذہ کی زمینوں میں غزلیات بھی اس مجموعے میں موجود ہیں۔ بیش تر منظومات و غزلیات کے بعد تاریخِ تخلیق بھی درج ہے، اور وہ موقع محل بھی بیان کیا گیا ہے جہاں یہ تخلیق پیش کی گئی۔ غرض اس شعری مجموعے میں ہرصاحب ِ ذوق کے لیے شعر کے مذاق کا کچھ نہ کچھ سامان موجود ہے۔ بزمی صاحب کی شاعری پر سب سے زیادہ اثر علامہ اقبال کا نظر آتا ہے۔ وہ اقبال کے فکری قافلے میں شامل تھے۔ اس تعلق سے حرفِ تمنّا میں ۱۰، ۱۲ نظمیں موجود ہیں۔
کتاب کے آغاز میں جاوید اقبال خواجہ کا ایک مضمون ’بزمی صاحب: باتیں اور یادیں‘ شامل ہے۔ حفیظ الرحمن احسن نے دیباچے میں ان کی شاعری کا بھرپور تنقیدی تجزیہ پیش کیا ہے۔ دونوں مضمون صاحب ِ مجموعہ کی شخصیت اور شاعری کی تفہیم میں معاون ہیں۔ کتاب کے آخر میں رفیع الدین ہاشمی کا مختصر اختتامیہ بھی شامل ہے۔ (ساجد صدیق نظامی)
مصری ادیب نجیب کیلانی کے بارے میں پڑھا تو تھا کہ عرب دنیا کے ممتاز ناول نگار ہیں لیکن ان کی اخوان المسلمون سے وابستگی کا اندازہ اس ناول کو پڑھ کر ہی ہوا۔ ناول کا موضوع کچھ بھی ہو، اس کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ قاری کو اپنی گرفت میں لے لے اور شروع کرے تو ختم کیے بغیر نہ رہے۔ یہ خوبی اس میں بدرجۂ اتم موجود ہے۔
ناول کا عنوان رحلت الی اللّٰہ (ترجمہ: سفرِآخرت) میںکوئی گہری معنویت ضرور ہوگی لیکن کوئی ناول کاشوقین اس جیسے عنوان کی کتاب کو کیوں ہاتھ میں لے! یہ ناول مصر میں جمال عبدالناصر کے عہدصدارت میں اخوان المسلمون پر کیے گئے ظلم و ستم کی داستان ہے۔ عطوہ ملوانی مصر کی جیل کا سربراہ ہے، ۳۵ سال کا ہے، اس کی شادی نبیلہ سے طے ہے۔ عطوہ چاہتا ہے کہ نبیلہ شادی سے پہلے ہی اپنے کو اس کے حوالے کر دے۔ پورے ناول کی کہانی یہ ہے کہ وہ کس طرح اپنے کو اس سے بچاتی ہے۔ اور اس کے دوران ہی جیل کے بے قصوروں کی پکڑدھکڑ، نت نئے ٹارچر کے مناظر اور وہ سب کچھ جو انسان دیکھ سکتا ہے اور سن سکتا ہے بیان کیے گئے ہیں۔
قیدیوں کے ساتھ جو غیرانسانی سلوک ہوتا ہے،اخوان کس صبروتوکل سے اسے سہتے ہیں، عجب عجب مناظر ہیں۔ عطوہ کا محبوب کتا بیمار ہوجاتا ہے تو اخوان ڈاکٹر اس کا علاج کرتا ہے اور قیدیوں میں کسی شاعر کو اس کتے کا قصیدہ لکھنے پر مجبور کیا جاتا ہے، جو سب کو کورس میں گانا پڑتا ہے___ نجیب کیلانی نے کہانی تو بیان کر دی ہے لیکن تبصرہ نگار اس کی جھلک بھی نہیں دکھا سکتا۔
۶۳برس کے بعد اخوان کو مصر میں آزادی سے سانس لینے کا موقع ملا ہے۔ نجیب کیلانی نے مختلف ممالک کے دورے کیے اور مختلف تہذیبوں اور معاشرتوں کا مطالعہ کیا۔ نائیجیریا کے انقلاب کے بعد اور ایتھوپیا کے دورے کے بعد فلسطین کے قیام کے دوران خصوصی ناول لکھے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی اُن کی بہت سی تصانیف ہیں اور کئی ادبی انعامات بھی ان کو ملے ہیں۔ یقینا وہ اسلامی ادب کے میدان کی منفرد شخصیت ہیں۔ نجیب کیلانی کے دوسرے ناولوں کے ترجمے بھی پیش کرنے چاہییں۔ اس وقت جب کہ ’عرب بہار‘ کے بعد اخوان المسلمون توجہ کا مرکز ہے، اس ناول کو ہرپڑھے لکھے فرد تک پہنچاناچاہیے۔(مسلم سجاد)
سوڈان کے عالم ڈاکٹر مالک بدری نے مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے اپنے تعلق کے آغاز و ارتقا پر کئی سال پہلے انگریزی میں ایک مضمون لکھا تھا۔ سید مودودیؒ کی کرشماتی شخصیت اور ان کی پُرتاثیر کلامی نگارشات پر یہ ایک عمدہ تحریر ہے۔ اس کا اُردو ترجمہ ماہنامہ ترجمان القرآن کی سیدمودودیؒ پر اشاعتِ خاص میں شائع ہوا (مئی ۲۰۰۴ء)۔ اب ادارہ معارف اسلامی کراچی نے کسی اظہارِ تشکر کے بغیر زیرنظر کتابچے کی شکل میں شائع کیا ہے۔
مصنف پہلے پہل ۵۰ کے عشرے میں امریکن یونی ورسٹی بیروت کے زمانۂ طالب علمی میں سید مودودی سے آشنا ہوئے تھے۔ ان دنوں وہ اخوان المسلمون سے متاثر تھے مگر اخوان کی بعض پالیسیوں کے بارے میں شدید بے اطمینانی کا شکار تھے۔ اتفاقاً رسالہ دینیات (کا انگریزی ترجمہ) ان کے ہاتھ لگا، بس اسی تحریر نے انھیں سید مودودیؒ کا گرویدہ بنا دیا۔ کہتے ہیں: ’’سید مودودیؒ نے میرے اس تمام ذہنی اور روحانی خلجان کو دُور کر دیا جس کا شکار میں امریکی یونی ورسٹی کے نام نہاد اسلامی فلسفہ کورس پڑھنے کے دوران ہوچکا تھا‘‘۔
مالک بدری نے مولانا مودودی سے خط کتابت کی اور پھر اُن سے ملاقات کے لیے، اپنے ایک دوست کے ساتھ کویت سے بذریعہ پاکستان کا مشقت بھرا سفر کیا ۔ یہاں کچھ عرصہ رہ کر مولانا کے شب و روز اور اس کے ساتھ جماعت اسلامی کے طریقۂ کار کا مطالعہ کیا۔ مولانا سے ملاقاتیں رہیں۔ اس مضمون میں وہ ہر جگہ ان کا ذکر اپنے ایک محسن اور اپنی محبوب شخصیت کے طور پر کرتے ہیں۔ مالک بدری نے سید مودودی کو ایک نابغۂ روزگار شخصیت کے طور پر پیش کیا ہے اور ان کی بعض خوبیوں کا ذکر کیا۔ مضمون پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ برعظیم پاک و ہندکی اُمتِ مسلمہ نے سید مودودیؒ کی قدر نہیں پہچانی۔ (ر- ہ )
اقامت ِ دین کی دعوت کے علَم برداروں کو اس کا خوب اچھی طرح اندازہ ہوگا کہ اس دعوت کے راستے میں فلسفۂ جبریت بعض اوقات بُری طرح روک بنتا ہے اور یہ خواص سے لے کر عامیوں تک یکساں سرایت کیے ہوئے ہے۔ آپ لوگوں سے کہیے کہ غلبۂ دین کے لیے کچھ کرو تو جواب ملے گا کہ یہ سب کچھ تو اللہ کے بس میں ہے۔ جب تک اس نے دین کی مخالف طاقتوں کو سرفرازی دے رکھی ہے، کون ہے جو اس سرفرازی کو پستی سے بدل سکے.... یہ عجیب بات ہے کہ اس طرح کی باتیں ہمیشہ اُونچے درجے کی دینی و اخلاقی ذمہ داریوں کی دعوت کے جواب میں تو کہی جاتی ہیں، لیکن اپنی دن رات کی زندگی میں کوئی بھی جبریت کے فلسفے پر تکیہ نہیں کرتا۔
ہمارے ایک دوست، اس دعوت کے جواب میں کہ اپنی زندگی بدلیے، فرمانے لگے کہ اس میں ہمارا کیا اختیار، یہ تو خدا کی طرف سے ازل کے دن لکھا گیا تھا۔ اس پر اُن سے عرض کیا گیا کہ آپ کا بچہ جب بیمار ہوجاتا ہے تو آپ رات کو سردی میں گرم بستر چھوڑ کر نکل کھڑے ہوتے ہیں، بہتر سے بہتر ڈاکٹر کو تلاش کر کے لاتے ہیں اور بہتر سے بہتر دوائیں اپنا مال خرچ کرکے حاصل کرتے ہیں، پھر تیمارداری میں اپنا آرام قربان کرتے ہیں۔ اس سارے سلسلے میں تو آپ کو کبھی فلسفۂ جبریت یاد نہیں آتا اور کبھی آپ یوں نہیں سوچتے کہ بیماری اور صحت تو خدا نے پہلے ہی لکھ دی ہے۔ پھر ہم کیوں علاج کے چکّر میں پڑیں، مگر بس جہاں خدا کے دین کا کوئی مطالبہ سامنے آیا تو آپ نے جبریت کے فلسفہ کو عذر میں پیش کردیا۔ اگر آپ بے روزگار ہوجائیں تو دَر دَر جاکر روزگار تلاش کریں، سفارشیں لے کے دفتروں میں گھومیں، ایک ایک کی منت سماجت کریں....کوئی آپ کی عزتِ نفس پر حملہ کردے تو دماغ اور زبان اور ہاتھ پائوں کی ساری قوتیں انتقام میں لگا دیں۔ کوئی آپ کا مال مار کھائے تو اس کے خلاف مقدمہ لڑنے کے لیے اپنی سی جو کچھ کرسکتے ہوں کرگزریں۔ ان معاملات میں تو کبھی تقدیر کا سوال پیدا نہ ہو۔لیکن بات جب خدا و رسولؐ کے احکام کی اطاعت کی آئے اور حمایتِ دین کے لیے آپ کو پکارا جائے تو آپ ارشاد فرماتے ہیں کہ روزِاوّل سے یہ معاملات طے ہوچکے، اب سوچنا کیسا اور کوشش کیسی؟ یا دونوں طرف جبریت کے آگے سرجھکایئے، یا دونوں طرف سعی کا حق ادا کیجیے۔ یہ کیا کہ اپنی خواہشات ہوں تو آپ ہمہ تن اختیار بن جائیں، اور خدا و رسولؐ کا حکم سامنے آئے تو جبریت کی پناہ گاہ میں جاچھپیں! براہِ کرم ا فریبِ نفس سے نکلیے!(’مسئلہ تقدیر کا اُلٹا استعمال‘، نعیم صدیقی، ترجمان القرآن، جلد ۳۶، عدد ۵-۶، ذی القعدہ، ذی الحجہ ۱۳۷۰ھ، ستمبر ۱۹۵۱ء، ص ۹۴-۹۶)