اقبال نے سچ کہا تھا کہ ؎
تھا جو ناخوب، بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
غلامی صرف سیاسی ہی نہیں، ذہنی، فکری اور تہذیبی بھی ہوتی ہے، جو بسااوقات سیاسی غلامی سے بھی بدتر ثابت ہوتی ہے۔ اسی طرح مفادات کی اسیری بھی اسی طرح تباہ کن ہوتی ہے جس طرح سامراج کی سیاہ رات میں قومیں تباہی و بربادی سے دوچار ہوتی ہیں۔
بدقسمتی سے آج پاکستان پر ایک ایسی سیاسی قیادت مسلط ہے جو زندگی کے ہرمیدان میں ’ناخوب‘ کو ’خوب‘ بنانے کے کارِ مذموم میں سرگرم ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال ۳نومبر ۲۰۱۱ء کو مرکزی کابینہ کے ایک ’اصولی فیصلے‘ کے نام پر کیا جانے والا وہ شرم ناک اعلان ہے جس کے ذریعے پاکستان کی حکومت بھارت کو ’پسندیدہ ترین ملک‘ (Most Favoured Nation) قرار دے رہی ہے۔ یہ فیصلہ اتنی عجلت میں اور اس کا اعلان اتنے اچانک انداز میں کیا گیا ہے کہ پاکستانی تو پاکستانی، خود بھارت کی قیادت اور سفارت کار بھی ایک بار تو ورطۂ حیرت میں ڈوب گئے اور پھر خوشی اور مسرت سے چلّا اُٹھے کہ انھیں کانوںپر اعتبار نہیں آرہا، بلکہ اسلام آباد میں بھارت کے ایک اعلیٰ سفارت کار نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ یہ اعلان ایک خوش گوار دھماکے سے کم نہیں___ یہ اور بات ہے کہ بھارت کی قیادت کے لیے یہ تحفہ ایک ’نعمت ِغیر مترقبہ‘ تھا تو پاکستانی قوم کے لیے ایک دل خراش سانحہ! ان کے دل و دماغ پر یہ اعلان بجلی بن کر گرا اور پاکستان کی ۶۴سالہ قومی اتفاق پر مبنی پالیسی کو خاکستر کرگیا۔
حکومت کا یہ اعلان تحریکِ پاکستان کے مقاصد کی نفی، پاکستانی ریاست کے وجود کے لیے چیلنج، معیشت کے مستقبل کے لیے خطرہ اور قیامِ پاکستان کے لیے کی جانے والی برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کی جدوجہد سے بے وفائی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ مسئلے کے تمام اہم پہلوئوں پر کھل کر اور دلیل سے بات کی جائے اور تمام محب وطن قوتوں کو منظم اور متحرک کیا جائے تاکہ عظیم قربانیوں کے بعد حاصل کیا جانے والا یہ ملک، جو امریکی غلامی کے جال میں تو پھنسا ہوا ہے ہی، اب کسی نئی غلامی کے جال میں نہ پھنس جائے۔
پاکستان کے قیام کا مقصد صرف برطانوی اقتدار سے آزادی ہی نہ تھا بلکہ ہندو سامراج کی گرفت سے آزادی اور اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں ایک ایسی خودمختار مملکت کی تعمیر تھا جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے وفاداری کے ساتھ عدل و انصاف کا نمونہ، اور اخلاقی، معاشی، معاشرتی اور تہذیبی، ہر میدان میں خیر اور صلاح کی ضامن ہو۔ تقسیم ہند کا مقصد معیشت، سیاست اور تہذیب و تمدن کے دو مختلف بلکہ متضاد نمونوں (models) کو اپنے اپنے دائرے میں نئی دنیا کو تعمیر کرنے کا موقع فراہم کرنا تھا۔ اکھنڈ بھارت کے مذموم مقاصد کو ناکام بنانا تھا۔ آج کا بھارت ایک نئے روپ میں وہی کھیل کھیلنے کی کوشش کر رہا ہے جو کانگریس کی قیادت میں برطانیہ کے آخری دور میں گاندھی جی، جواہرلعل نہرو اور ولبھ بھائی پٹیل نے ادا کیا تھا اور جسے قائداعظم کی قیادت میں برعظیم کے مسلمانوں کی آزادی کی تحریک نے ناکام بنا دیا تھا۔
علاقائی تعاون کے نام پر اصل ایجنڈاجنوبی ایشیا کے لیے ایک معاشی، تہذیبی اور بالآخر سیاسی اکھنڈ (Union) کا قیام ہے اور بھارت امریکا کی آشیرباد سے اس ایجنڈے پر عمل کے لیے سرگرم ہے۔ نیز کھلے اور درپردہ، اس منصوبے کو بروے کار لانے میں اسرائیل بڑا اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ ہمیں دکھ سے اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ زرداری صاحب نے اقتدار میں آنے کے فوراً بعد بھارت سے راہ و رسم بڑھانے اور نئی equation استوار کرکے تقسیم کی لکیر کو غیرمؤثر بنانے کے اشارے دیے تھے اور ستم بالاے ستم کہ مسئلہ کشمیر جو پاکستان اور اہلِ جموں و کشمیر کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے، اس کے بارے میں بھی ارشاد فرمایا کہ وہ مسئلہ کشمیر کو نئی نسلوں کے لیے چھوڑنے کے خواہش مند ہیں اور یہی پیغام الطاف حسین صاحب کا بھی تھا۔ پاکستان کی معیشت کو بھارت کی مصنوعات، سرمایہ،تاجروں اور میڈیا کے لیے کھولنے کے اقدام اس منزل کی طرف مراجعت کے لیے زینے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بھارتی دانش ور صحافی جناب کلدیپ نائر تجارت کے اس مجوزہ دروبست میں بھارت کے اس خواب کے نقش و نگار کی جھلک دکھاکر مستقبل کی تصویر کی یوں منظرکشی کرتے ہیں:
جنوبی ایشیا کے پورے علاقے میں آزادانہ تجارت میرا خواب ہے۔ ہم یورپ کی طرح ایک دن ایک معاشی یونین بنا لیں گے۔ یہ فی الوقت بہت دُوردراز نظرآتا ہے،تاہم اگر تقریباً ۱۶ برس کے بعد انتہائی پسندیدہ قرار دینا (ایم ایف این) ایک حقیقت بن چکا ہے تو معاشی یونین کیوں نہیں بن سکتی؟ (دی ایکسپریس ٹریبون، ۱۴نومبر ۲۰۱۱ء)
بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کی کوششوں کو ان کے اصل تاریخی پس منظر اور علاقے کے لیے نئے بڑے کھیل (great game) کی روشنی میں دیکھنا اور سمجھنا ہوگا۔
بھارت ہمارا ہمسایہ ملک ہے اور جغرافیائی اور سیاسی حقائق کو نظرانداز کرنا ایک حماقت ہے۔ قائداعظم نے قیامِ پاکستان کے فوراً بعد اعلان کیا تھا کہ پاکستان اور بھارت، دونوں کو ایک دوسرے کے جداگانہ نظام ہاے زندگی کو تسلیم کر کے دوستی اور تعاون کی نئی راہیں اختیار کرنی چاہییں لیکن اگر ہماری خودمختاری اور تہذیبی شناخت کو مجروح کرنے اور پرانا کھیل جاری رکھنے کی کوشش کی گئی تو پاکستانی قوم اسے ایک لمحے کے لیے بھی برداشت نہیں کرے گی۔ بدقسمتی سے بھارت نے تقسیم ملک سے آج تک پاکستان کو آزاد، خودمختار اور برابری کی سطح پر معاملات کرنے والے ملک کی حیثیت کو تسلیم نہیں کیا۔ کانگریس نے تقسیم ملک کے منصوبے کو جس قرارداد کے ذریعے منظور کیا تھا، اس میں دونوں ملکوں کے دوبارہ ایک ہوجانے کا شوشہ بھی چھوڑ دیا تھا۔ گویا ابتدا ہی میں بدنیتی ظاہر کر دی گئی۔ کانگریس کی قیادت کا خیال تھا کہ وہ ایسے حالات پیدا کردے گی کہ پاکستان کو گھٹنے ٹیکنے پڑیں گے اور دوبارہ اتحاد، الحاق، یا انضمام کا راستہ اختیار کرنا پڑے گا۔ فسادات اسی ’حکمت عملی‘ کا حصہ تھے۔ پاکستان کو تقسیم کے نتیجے میں ملنے والے تمام اثاثے آج تک ادا نہیں کیے گئے۔ ریڈکلف اوارڈ کے ذریعے مائونٹ بیٹن اور نہرو نے کشمیر پر قبضے کا راستہ تلاش کیا اور پاکستان کے ساتھ ایک نہ ختم ہونے والی جنگ کا آغاز کردیا۔ جوناگڑھ اور ماناودر پر قبضہ کیا اور ریاست حیدرآباد پر فوج کشی کے ذریعے قبضہ کیا۔ ۱۹۴۹ء میں جب پاکستان نے اپنی کرنسی کی قدر گھٹانے (devalue) سے انکار کیا تو پہلی معاشی جنگ کا آغاز ہوا۔ اس وقت پاکستان کی تجارت کا ۶۰ فی صد سے زیادہ بھارت کے ساتھ منسلک تھا، یعنی ہماری برآمدات کا ۶۵ فی صد بھارت کی منڈیوں میں جاتاتھا اور ہماری درآمدات کا ۳۵ فی صد بھارت سے آتا تھا، مگر بھارت نے تجارتی تعلقات کو فی الفور توڑ کر پاکستان کے لیے شدید بحرانی کیفیت پیدا کردی اور ہمیں احساس ہوا کہ بھارت پر انحصار کرنے کے نتائج کتنے خطرناک ہوسکتے ہیں۔
الحمدللہ! پاکستان نے ان تمام کارروائیوں کا سینہ سپر ہوکر مقابلہ کیا اور ۱۹۶۵ء اور ۱۹۷۱ء کی جنگوں کے باوجود ۱۹۹۰ء کے عشرے تک پاکستان کی معیشت بھارت کی معیشت کے مقابلے میں زیادہ جان دار ثابت ہوئی۔ بھارت کی ہرپابندی ہمارے لیے نئے امکانات کا پیش خیمہ ثابت ہوئی اور پاکستان کی معاشی ترقی کی رفتار کو بھار ت کے اضافے کی رفتار کے مقابلے میں مثالی قرار دیا گیا۔ اس سے انکار نہیں کہ اس دور میں بھی معاشی پالیسیوں کی ان کامیابیوں کے علی الرغم معاشی انصاف اور متوازن معیشت کے اہداف حاصل نہ ہوسکے لیکن بحیثیت مجموعی بھارت کی نئی معاشی جنگ کا پاکستان نے بھرپور جواب دیا اور اپنی آزادی اور تشخص کی حفاظت کی۔ ۱۹۹۰ء کے بعد حالات نے نئی کروٹ لی۔ بھارت کی معاشی ترقی کی رفتار تیز تر ہوتی گئی اورپاکستان اپنی ہی غلطیوں کے سبب ایک معاشی بحران کے بعد دوسرے بحران کاشکار ہوتا چلاگیا۔ آج عالم یہ ہے کہ معاشی ترقی کے ہر اشاریے (index) کی رُو سے ہماری حالت دگرگوں ہے اور اس کا فائدہ اُٹھاکر بھارت ایک نیا معاشی وار کرنے میں مصروف ہے اور امریکا اور مغربی ممالک اس کی بھرپور تائید کررہے ہیں۔ بدقسمتی سے ایک لابی خود ملک میں ’امن کی آشا‘ کے نام پر علاقے میں بھارت کی بالادستی کے قیام اور پاکستانی معیشت کو بھارت کے زیراثر لانے کی مذموم کوششوں میں مددگار ہے۔
عالمی سیاست کی جو بساط بچھائی جارہی ہے اس میں امریکا، بھارت اور اسرائیل ایشیا کے مستقبل کی صورت گری کرنے کے لیے ایک مشترکہ منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔ بھارت کوعلاقے کا چودھری بنانا اس کا اہم ترین حصہ ہے۔ پاکستان اور چین اس کی راہ میں اصل رکاوٹ ہیں اور پاکستان نشانے پر ہے۔ سیاسی، عسکری، معاشی، ہر میدان میں اس کے گرد گھیراتنگ کیا جارہا ہے۔ اندرونی عدم استحکام کے ساتھ پاکستان میں بھارت نواز قوتوں کو سہارا دینا، اور جنوب اور شمال ہردوطرف سے پاکستان پر دبائو ڈالنا اس بڑے کھیل (گریٹ گیم ) کا حصہ ہے۔ بھارت کو پسندیدہ ترین ملک (MFN) قرار دینے کے اعلان کی اصل اہمیت اس پس منظر میں سمجھی جاسکتی ہے۔ واضح رہے کہ بھارت کے وزیرخارجہ ۲۴ نومبر ۲۰۱۱ء کو بھی یہی اعلان کر رہے ہیں کہ اصل مسئلہ پاکستان کے’مقبوضہ‘ کشمیر [یعنی آزاد کشمیر] کو واپس لینا ہے۔ افغانستان میں اور افغانستان سے پاکستان میں بھارت کی کارروائیاں سرکاری اعتراف کے باوجود بلاروک ٹوک جاری ہیں۔ پاکستان کے خلاف بھارت کی آبی جنگ اپنے عروج پر ہے۔ ۶۰کے قریب ڈیم وہ بناچکا ہے اور ۱۵۵ منصوبوں پر کام ہورہا ہے۔ کشمیر میں مظالم روزافزوں ہیں اور گمنام قبروں کے بارے میں عالمی اداروں کے انکشافات کے باوجود اس پر کسی قسم کا دبائو نہیں، اور نہ پابندیاں ہی لگانے کی کوئی بات کرتا ہے۔ بلوچستان، فاٹا اور کراچی میں بھارت کی دراندازیوں کے شواہد اور بھارت میں بے قصور پاکستانیوں کے جیلوں میں سڑنے اور بھارت کے عدم تعاون کے باوجود اس حکومت کی نگاہ میں اگر کوئی مسئلہ اہم ہے تو وہ بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قراردینے کا ہے۔ ان مسائل کوحل کرنا اور اس کے لیے مناسب علاقائی اور عالمی حکمت عملی بناکر پوری قوت سے سفارت کاری کا اہتمام کرنا اس کے ایجنڈے میں شامل ہی نہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ حزبِ اختلاف اور حکومت کے اتحادیوں کا کردار بھی اس سلسلے میں مایوس کن ہے۔ صرف جماعت اسلامی اور دوسری دینی جماعتوں نے اس خطرناک پسپائی کے خلاف اپنی آواز اٹھائی ہے اورقوم کو اصل خطرات سے متنبہ کیا ہے ورنہ مفادات کے کھیل میں مصروف سیاسی قیادت کی ترجیحات بہت مختلف ہیں۔
اصل موضوع کے جملہ پہلوئوں پر گفتگو کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس امر کا بھی کھل کر اظہار کردیا جائے کہ حکومت کا موجودہ فیصلہ نہایت عجلت میں کیا گیا ہے اور کُلہیا میں گڑ پھوڑنے کے مترادف ہے۔ بھارت نے ۱۹۹۷ء میں پاکستان کو نام نہاد پسندیدہ ملک قرار دیا تھا مگر اس کو غیر مؤثر بنانے کے لیے سیاسی تعلقات میں کشیدگی، ناکام مذاکرات کے ڈھونگ رچانے اور دوستی کی خواہش کے بلندبانگ دعووں کے علی الرغم کشمیر تو کیا، دوسرے ذیلی متنازع امور، مثلاً سیاچین اور سرکریک کے بارے میں تمام امور طے کرنے اور صرف دستخطوں کی کسر باقی رہنے والی پیش رفت کے باوجود اُلٹی زقند لگائی اور عملاً کسی ایک مسئلے کو بھی حل نہیں کیا۔ گو اس زمانے میں ۱۰۴بار مذاکرات کی میز سجائی گئی اور اس طرح ایک طرف سے بے مقصد اور بے نتیجہ ڈھونگ رچایا گیا تو دوسری طرف عالمی محاذ پر پاکستان کو بدنام کرنے اور اس کی پالیسیوں کی کاٹ کرکے انھیں غیرمؤثر بنانے کی جنگ ’’(crusade)‘‘ جاری رکھی۔ تجارت کے میدان میں ایم ایف این کا ڈھنڈورا ضرور پیٹا لیکن ۷۶۳ اشیا پر بھارت میں درآمد پر پابندی عائد کردی اور کم ترقی یافتہ ممالک سے درآمد کے لیے جن چیزوں کو ممنوعہ فہرست (negative list) میں رکھا، ان میں وہ تمام اشیا موجود ہیں جن کو پاکستان سے بھارت کے لیے برآمد کیا جاسکتا تھا، یا جن میں پاکستان کو قیمتوں کے باب میں مقابلتاً فائدہ حاصل تھا۔ ان اشیا میں گوشت، مچھلی، شہد، آلو، ٹماٹر، لہسن، پیاز، گاجر، مختلف قسم کے پھل بشمول نارنگی، خربوزہ، ناشپاتی، سیب، آڑو، آلوچہ، دالیں، مختلف قسم کے تیل، تمباکو، مختلف نوع کی معدنیات، تعمیرات میں استعمال ہونے والی درجنوں اشیا، کپڑا اور مختلف نوعیت کی ٹیکسٹائل، دھاگا، فیبرک، سلک، بُنا ہوا کپڑا، پولسٹر، قالین، لکڑی اور زرعی آلات وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح تجارتی اشیا پر محصولات (tariff) کا ہتھیار بڑی ہوشیاری سے استعمال کیا گیا ہے اور زرعی پیداوار اور زراعت سے مختلف اشیا کی درآمد پر ۳۳ سے ۴۰ فی صد تک درآمدی ڈیوٹی ہے، اس کے علاوہ غیرمحصولاتی رکاوٹیں (non tariff barriers) ہیں جن کی تعداد ایک تحقیقی مطالعے کی رُو سے ۲۷ ہے جس نے پاکستان کی مصنوعات کے بھارت کی منڈیوں تک پہنچنے کے امکانات کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔
ایک ہاتھ سے دینے اور دوسرے سے واپس لینے کی چانکی اور مکیاولی کی تجویز کردہ حکمت عملی پر بھارت نے بڑی ہوشیاری اور چالاکی سے بھرپور عمل کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو پسندیدہ ملک کی ٹوپی پہنانے کے باوجود جو بھی تجارت بھارت اور پاکستان کے درمیان گذشتہ ۲۰برسوں میں ہوئی ہے، اس میں پاکستان سے بھارت جانے والی برآمدات، بھارت سے آنے والی درآمدات کا پانچواں حصہ رہی ہیں۔ ان تمام تجربات کی روشنی میں پاکستان کی تمام حکومتوں نے بھارت سے تجارت کو معمول پر لانے (normalization of trade) اور تجارت کو آزاد بنیادوں پر استوار کرنے (trade liberalization)کو دو اہم امور سے مشروط کیا تھا___ ایک سیاسی، یعنی کشمیر، پانی کا مسئلہ، سیاچین، سرکریک اور دوسرے متنازع امور کا بین الاقوامی قانون اور معاہدوں اور انصاف کے معروف اصولوں کے مطابق حل، اور دوسرا تجارت اور سرمایہ کاری کے باب میں حقیقی برابری کا حصول جس کے لیے ضروری ہے کہ محصول کے نظام میں بھی تبدیلیاں ہوں، غیرمحصول رکاوٹوں اور دوسری انتظامی رکاوٹوں (infra-structural obstacles) کو دُور کیا جائے تاکہ حقیقی معنی میں برابری کی بنیاد پر مقابلہ (level playing)ممکن ہوسکے۔
پاکستان کی قومی پالیسی کے یہ بڑے محکم اصول تھے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ستمبر۲۰۱۱ء سے نومبر ۲۰۱۱ء کسی نے کہیں سے ڈوری ہلائی ہے جس کے نتیجے میں کوئی ایسا خفیہ انقلاب آیا ہے کہ ان دونوں اصولوں کو پامال کر کے ’چٹ منگنی پٹ بیاہ‘ کی مثال قائم کرتے ہوئے، پاکستان کے اسٹرے ٹیجک مفادات کو صریحاً نظرانداز کرتے ہوئے بھارت کو ’پسندیدہ ترین ملک‘ قرار دینے کا اقدام ملک اور قوم پر مسلط کیا جارہا ہے۔ یہ بنیادی تبدیلی (جیساکہ زرداری گیلانی ’جمہوری حکومت‘ کی روایت ہے)کسی حقیقی مشاورت، پارلیمان اور ملک کی سیاسی قوتوں کو اعتماد میں لیے بغیر کی جارہی ہے۔
ستمبر میں وزیرتجارت نے بھارت کا دورہ کیا، پھر وزیرخارجہ نے بھارت یاترا کی۔ اس کے بعد کابینہ نے یہ اعلان کرڈالا جس پر امریکا اور بھارت نے تعریفوں کے ڈونگرے برسانا شروع کردیے۔ دوسری طرف خود ملک میں بھی ایک خصوصی لابی کی طرف سے تمام زمینی حقائق اور بھارت کے تاریخی کردار کو نظرانداز کرکے داد اور ستایش کا ایک طوفان برپا کیا جا رہا ہے۔ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ ہم نے سب کو اعتماد میں لیا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ پارلیمنٹ اور اس کی متعلقہ کمیٹیوں کو اس کی ہوا بھی نہیں لگنے دی گئی۔ زراعت اور صنعت سے متعلق بیش تر ادارے برملا کہہ رہے ہیں کہ ہم سے کوئی مشورہ نہیں ہوا۔ ٹیکسٹائل، آٹوموبائل، فارماسیوٹیکل صنعت اور چھوٹی اور درمیانی صنعت سے متعلق تمام ہی تنظیمیں اس اقدام کی سخت مخالفت کر رہی ہیں۔ دعویٰ کیا گیا کہ دفاعی اداروں (سیکورٹی اسٹیبلش منٹ) کو اعتماد میں لیا گیا ہے اور صرف ہماری وزیرخارجہ ہی نہیں، بھارت کے وزیراعظم جناب من موہن سنگھ نے بھی مالدیپ میں اعلان کیا کہ اسے فوج کی تائید حاصل ہے، جب کہ اس دعوے کے چند ہی دن کے بعد یہ خبر بھی فوجی حلقوں کی طرف سے آگئی کہ اس فیصلے میں فوج کی مرضی کا کوئی دخل نہیں ہے۔ سب سے افسوس ناک اور تکلیف دہ صورت حال پارلیمنٹ کی کمیٹی براے تجارت کے اسی ہفتے منعقد ہونے والے اجلاس میں سامنے آئی کہ ٹیکسٹائل کی وزارت کے وزیر مخدوم شہاب الدین صاحب اور سیکرٹری ٹیکسٹائل نے کمیٹی کو بتایا کہ ان کی وزارت سے مشورہ تک نہیں ہوا ہے اور وہ اس فیصلے کو پاکستان کے لیے سخت نقصان دہ سمجھتے ہیں۔
ان تمام حقائق کی روشنی میں اس جلدبازی کا سبب تلاش کرنا مشکل نہیں۔ جس طرح افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا معاہدہ اسلام آباد یا کابل میں نہیں ہوا، اس کی جاے ولادت واشنگٹن ہے اور دائی کا کردار خود امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ مادام ہیلری کلنٹن نے ادا کیا ہے، اسی طرح کابینہ کا یہ فیصلہ بھی امریکا کے حکم پر، بھارت کو راضی کرنے اور ایک مخصوص لابی کے مفادات کی ترویج کی خاطر نہایت رازداری کے ساتھ اور نہایت عجلت میں کیا گیا ہے۔ گویا ؎
بے خودی بے سبب نہیں، غالبؔ
کچھ تو ہے، جس کی پردہ داری ہے
اب ہم اس مسئلے کے سب سے اہم پہلو پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں اور وہ اس کا سیاسی پہلو ہے۔ قوم کو یہ وعظ دیا جا رہا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ اور دوسرے تنازعات کو تجارت اور معاشی تعلقات سے الگ کرنا ضروری ہے۔ سیاست سیاست ہے اور معیشت معیشت۔ اب تک پاکستان کی تمام حکومتیں جھک مارتی رہیں کہ بزعم خویش کشمیر کی خاطر معیشت اور تجارت کو یرغمال بنا دیا گیا اور محض اس سیاسی تنازع کی وجہ سے وہ تجارت جو ۱۰بلین ڈالر تک پہنچ سکتی ہے، صرف ۲ بلین کے بھنور میں پھنسی ہوئی ہے۔ امریکا اور بھارت دونوں یہ درس دے رہے ہیں کہ سیاست اور تجارت کو الگ الگ کرنا ہی اصل دانش مندی ہے اور اب تک پاکستان نے مسئلہ کشمیر اور دوسرے تنازعات کے منصفانہ حل کی جو شرط تجارت کو معمول پر لانے اور سرمایہ کاری کے میدان میں بھارت کے لیے دروازے کھولنے کے ساتھ لگا رکھی تھی، اس کو ختم کرنا ضروری ہے۔ معاشی ترقی اور تجارت میں غیرمعمولی متوقع اضافے کا جو سبزباغ دکھایا جارہا ہے اور خصوصیت سے انگریزی پریس اور میڈیا میں اس بات کو جس تکرار سے پیش کیا جا رہا ہے، وہ نہایت گمراہ کن ہے۔
ہم بڑے ادب سے عرض کریں گے کہ سیاست اور تجارت کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور یہی وجہ ہے بین الاقوامی تعلقات علم و عمل دونوں میں یہ بات ایک مسلّمہ اصول کے طور پر تسلیم کی جاتی ہے کہ trade is an extension of diplomacy (تجارت، سفارت کاری کی توسیع ہے)۔ اگر تاریخ پر نگاہ ڈالی جائے تو ایک دوسرے کے ساتھ ایک طرح کے محصولات (reciprocal tariffs) کا تصور ہی سیاست اور معیشت کے ناقابلِ انقطاع رشتے کی پیداوار ہے۔ دورِخلافت ِ راشدہ میں حضرت عمرفاروقؓ نے عشور، یعنی import duty کے محصول کو دوسرے ممالک کی محصول کی پالیسی کے جواب میں اختیار کیا تھا۔ دنیا کی تاریخ بھری پڑی ہے کہ ڈپلومیسی ہی نہیں جنگیں اور بین الاقوامی جنگیں تک تجارت کے اہداف کے حصول کے لیے واقع ہوئی ہیں۔ یورپی استعمار کا تو اہم ترین ہتھیار تجارت تھی۔ ہمیں خود بھی ایسٹ انڈیا کمپنی کی برعظیم میں آمد اور پھر تجارت کے ساتھ برطانوی افواج اور جھنڈے کی آمد کا تجربہ ہے۔ چین پر مشہورِ زمانہ افیم کی جنگیں تجارت ہی کے فروغ کے مقاصد کے لیے برپا کی گئی تھیں۔ امریکا اور کیوبا میں تجارتی تعلقات کا انقطاع کسی معاشی یا مالی وجہ سے نہیں، خالص سیاسی اسباب سے ہے۔ امریکا میں کیوبا کے تجارتی اموال کی درآمد کا تو سوال ہی نہیں ۔ آپ اپنی جیب میں ایک ہوانا سگار تک لے کر آزاد معیشت کے اس سرخیل ملک میں داخل نہیں ہوسکتے۔ دنیا بھر میں معاشی پابندیوں کا جو حربہ امریکا اور یورپی ممالک استعمال کر رہے ہیں، وہ سیاست اور تجارت کے ایک مسئلے کے دو رُخ ہونے کے سوا اور کیا ہے۔ خود پاکستان کو بار بار ان پابندیوں کا تجربہ ہوا ہے۔ ہمارا ہمسایہ ملک ایران اس کا برسوں سے شکار ہے۔ روس، چین اوردسیوں ممالک اس کا تجربہ کرتے رہے ہیں۔
آیئے، ذرا کیری لوگر بل کے قانون پر بھی نظر ڈالتے ہیں جس کے تحت ملنے والی یا نہ ملنے والی امداد کا شور ہے۔ اس قانون پر نظر ڈالتے ہیں تو اس کا تین چوتھائی حصہ سیاسی شرطوں، مطالبات اور پابندیوں پر مشتمل ہے۔ امریکا اور تمام ہی یورپی ممالک ہمیں آزاد تجارت کا درس دیتے ہیں۔ لیکن اگر ہم ان کے اپنے محصولات اور سبسی ڈیز دونوں کے نظام پر نگاہ ڈالتے ہیں تو صاف نظر آتا ہے کہ معیشت اور تجارت سیاست کے ماتحت ہیں۔ ورلڈبنک، آئی ایم ایف اور مغربی معاشی پالیسی ساز ہم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ زراعت یا قومی اہمیت کے دوسرے معاشی شعبوں کو حکومتی امداد (سبسڈی) سے پاک کریں اور باہم مقابلوں (competetion) کی نعمتوں سے مالا مال ہوں، مگر ان تمام ممالک میں زراعت اور اسٹرے ٹیجک اہمیت کے دوسرے معاشی دائرے حکومتی امداد اور محصولات دونوں کے حصار میں ہیں۔ امریکا اور یورپ صرف حکومتی امداد کی مَد میں ۳۶۰؍ارب ڈالر سالانہ فراہم کرتے ہیں اور ہمیں مجبور کرتے ہیں کہ ہم زراعت میں یہ امداد ختم کریں۔ یہ تضاد اور دوغلاپن عالمی سیاست کا حصہ ہے لیکن ہماری اور دوسرے ترقی پذیر ممالک کی قیادتیں صرف بیرونی دبائو میں وہ پالیسیاں اختیار کرتی ہیں جو ان کے اپنے نہیں، دوسروں کے مفادات کی تکمیل کا ذریعہ ہیں۔ ہمیں عالمی تجارتی تنظیم (WTO) کے قواعد و ضوابط (protocols) دن رات یاد دلائے جاتے ہیں لیکن امریکا، یورپ اور خود بھارت میں جو محصولات، غیرمحصولاتی پابندیاں، اور حکومتی امداد پالیسی کا حصہ ہیں اور ان کی آنکھ کے شہتیر ہیں، وہ کسی کو نظر نہیں آتے۔ عالمی تجارتی تنظیم ہی کے طے کردہ Doha Round کے معاہدے کو ۱۰ برس ہوگئے ہیں لیکن آج تک مغربی ممالک نے اس کی توثیق نہیں کی ہے۔ آزاد تجارت کا سارا وعظ صرف پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے لیے ہی ہے۔
اس اصولی تاریخی بحث کے بعد ہم اس امر کا اعادہ کرنا چاہتے ہیں کہ بھارت سے تجارت اور سرمایہ کاری کو معمول پر لانے کا صرف ایک راستہ ہے اور وہ یہ کہ پہلے کشمیر اور پانی کے مسائل طے ہوں، اور پھر دوسرے متنازع امور کو طے کیا جائے اور جب تک یہ نہ ہو، تجارت اور خود سیاسی تعلقات نارمل نہیں ہوسکتے۔ بھارت اور امریکا کے آگے سپر ڈالنے اور ان کے ایجنڈے کے مطابق عمل کرنے سے معاشی فوائد تو حاصل ہونے کی کوئی توقع نہیں لیکن ان سے جو سیاسی نقصانات ہیں وہ ہمالہ سے بھی بڑے ہیں اور یہ قوم کسی قیمت پر ان کو قربان کرنے کے لیے تیار نہیں۔ دینی اور چند سیاسی جماعتوں نے مؤثرانداز میں اس پہلو کو اُٹھایا ہے، مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کی قیادت نے بھی اس سلسلے میں آواز بلند کی ہے اور سب سے مؤثر آواز علی گیلانی کی ہے۔ شروع میں آزادکشمیر کی حکومت خاموش تھی لیکن اب وہ بھی مجبور ہوئی ہے کہ کشمیر کی تمام سیاسی اور جہادی قوتوں کی آواز میں آواز ملائے۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ بڑا ہی نازک مرحلہ ہے۔ بھارت ۶۴برس تک فوجی قوت اور تمام آمرانہ اور ظالمانہ ہتھکنڈوں کو استعمال کرنے کے باوجود جموں و کشمیر کی تحریکِ آزادی کو کچل نہیں سکا ہے اور اب خود بھارت ہی سے بڑی جان دار آوازیں اُٹھنے لگی ہیں کہ کشمیر پر قبضہ جاری رکھنا ممکن نہیں اور اس کی قیمت ناقابلِ برداشت ہوتی جارہی ہے۔ یورپین پارلیمنٹ اور برطانوی پارلیمنٹ میں اس سال بھی کھل کر کشمیر کے مسئلے پر بحث ہوئی ہے اور اس کے حل کی ضرورت کو اُجاگر کیا گیا ہے۔ بھارتی دانش ور ارون دتی راے نے تو بہت ہی واشگاف طریقے سے اعلان کیا ہے کہ کشمیر میں بھارت کی حیثیت قبضے (occupation)کی ہے اور قبضہ ختم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
ان حالات میں کشمیر اور پانی کے مسئلے کو نظرانداز کرکے یا پسِ پشت ڈال کر تجارت اور معاشی تعلقات کی بحالی ایک سراسر خسارے کا سودا اور کشمیری عوام کی قربانیوں اور تاریخی جدوجہد سے غداری ہے۔ پاکستان کی حاکمیت اور آزادی اور کشمیر کے مسلمانوں کی جدوجہد کی معاونت کو جس کا دل چاہے ’غیرت بریگیڈ‘ کے القابات سے نوازے لیکن پاکستانی عوام کی عظیم اکثریت اپنی آزادی اور عزت کی حفاظت اور کشمیر کے بھائیوں کے ساتھ ان کی جدوجہد آزادی میں بھرپور معاونت کو اپنے دین و ایمان اور پاکستان کے اسٹرے ٹیجک مفادات میں مرکزی اہمیت کا حامل سمجھتے ہیں۔ ہرسروے میں بھارت اور امریکا کو عوام نے دوست نہیں دشمن ملک قرار دیا ہے اور یہ اس لیے کہا ہے کہ ان کی پالیسیاں ہماری آزادی، سلامتی، عزت اور مفادات سے متصادم ہیں۔ اگر حکومت عوام کے دل کی اس آواز کو نظرانداز کرکے امریکی دبائو اور بھارتی قیادت کی عیارانہ سفارت کاری کے تحت کوئی پالیسی بناتی ہے تو وہ اسے کسی قیمت پر بھی قبول نہیں کریں گے اور ان شاء اللہ اسے ناکام بناکر دم لیں گے۔
ہماری نگاہ میں مسئلے کا سیاسی، نظریاتی اور اخلاقی پہلو سب سے اہم ہے لیکن خود معاشی اعتبار سے بھی یہ سودا سراسر خسارے کا سودا ہے اور زمینی حقائق کو نظرانداز کرکے ایک نہایت تباہ کن پالیسی ملک پر مسلط کی جارہی ہے۔ اس کے بڑے بڑے وجوہ درج ذیل ہیں:
معاشی تجزیے کے نقطۂ نظر سے تجارت کے فروغ کے لیے دو ملکوں کی معیشت کا ایک دوسرے سے تعلق باعث ِ افادیت (complimentary) ہونا چاہیے تاکہ ایک ملک دوسرے کو وہ چیز فراہم کرسکے جس میں اسے مقابلتاً فائدہ حاصل ہے۔ اس کے برعکس جن ملکوں کی معیشت مسابقانہ (competetive) ہے ان میں تجارت ہمیشہ محدود رہے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کی معیشت مسابقانہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ دونوں کی مصنوعات ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں اور تجارت میں غیرمعمولی ترقی کے امکانات محدود ہیں۔ اس سے بھی اہم یہ ہے کہ بھارت کی معیشت مضبوط ہے اور پاکستان کی اس وقت کمزور اور غیرمستحکم ہے، اور اس مقابلے میں بھارت کو بالادستی حاصل ہے۔ دونوں کے لیے مساوی مواقع موجود نہیں۔ چونکہ بھارت کی معیشت زیادہ ترقی یافتہ اور زیادہ متنوع ہے، اس لیے بھارت کی پاکستان کے لیے برآمدات، پاکستان کی بھارت کے لیے برآمدات سے کہیں زیادہ ہیں۔ اگر گذشتہ ۲۵برس کے تجارتی حقائق کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات بالکل ثابت ہوتی ہے۔ ہماری منڈیوں میں بھارتی مصنوعات کے در آنے کے مواقع ان مواقع سے چار اور پانچ گنا زیادہ ہیں جو پاکستانی مصنوعات کو بھارت کی منڈیوں میں رسائی کے لیے حاصل ہیں۔ یہ سال دو سال کا معاملہ نہیں، ۲۵برس کا رجحان یہی ہے۔ خود پاکستان اکانومک سروے میں اس امر کا اعتراف کیا گیا ہے اور اس کا اندازہ مندرجہ ذیل اعداد و شمار سے بآسانی کیا جاسکتا ہے۔ صرف چند برسوں کے اعداد و شمار دیکھیے:
سال بھارت سے پاکستانی درآمدات بھارت کو پاکستانی برآمدات
۹۵-۱۹۹۴ء ۱۷۲,۳ ملین ۳۷۹,۱ ملین
۹۷-۱۹۹۶ء ۹۸۰,۷ " ۴۱۲,۱ "
۲۰۰۱-۲۰۰۰ء ۹۲۸,۱۳ " ۲۴۶,۳ "
۰۴-۲۰۰۳ء ۰۰۴,۲۲ " ۳۹۸,۵ "
۰۷-۲۰۰۶ء ۹۳۸,۷۴ " ۸۰۳,۲۰ "
۰۸-۲۰۰۷ء ۸۷۲,۱۰۶ " ۹۰۵,۱۹ "
۰۹-۲۰۰۸ء ۹۰۲,۹۲ " ۴۶۳,۲۶ "
یہی رجحان ابھی تک جاری ہے۔ تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ یکم جولائی ۲۰۱۰ء سے ۲۰ جون ۲۰۱۱ء تک صرف واہگہ بارڈر کے راستے بھارت سے ۳۱ہزار ۸سو۹۷ ٹرک آئے جن میں ۲۰؍ارب ۹۹کروڑ ۴۵ لاکھ روپے کا سامان آیا، جب کہ پاکستان نے صرف ۴ہزار ۶سو۶۴ ٹرک بھیجے جن کے ذریعے برآمد ہونے والے مال کی قیمت ایک ارب ۳۳کروڑ ۶لاکھ روپے تھی (کہاں تقریباً سو ارب اور کہاں تقریباً ۲۱ ارب___ گویا تقریباً ایک اور بیس کی نسبت)۔ رواں سال (جولائی ۲۰۱۱ء تا اکتوبر ۲۰۱۱ء) کے چار مہینے میں بھارت سے واہگہ کے راستے ۵؍ارب ۲۷کروڑ ۳۱لاکھ کا سامان پاکستان میں آیا، جب کہ اس عرصے میں پاکستان سے بھارت کے لیے برآمدات صرف ۷۷کروڑ۳۵لاکھ روپے کی تھیں۔
ان حقائق کی روشنی میں اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ بھارت کی ایک ارب ۳۰کروڑ کی آبادی کی وسیع و عریض منڈی کے جو سبز باغ دکھائے جارہے ہیں، ان کا حقیقت کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں۔ ہماری تجارت بھارت سے گذشتہ ۲۵برس میں، جن میں ۱۹۹۶ء کے پاکستان کو نام نہاد پسندیدہ ملک قرار دینے کے ۱۶سال بھی شامل ہیں، ہرسال پاکستان بھارت کی تجارت، پاکستان کے لیے خسارے میں ہی رہی ہے اور اوسطاً ہماری برآمدات کے مقابلے میں بھارت سے درآمدات ۴سے۵ گنا زیادہ رہی ہیں۔اور من جملہ دوسری وجوہ کے اس میں بھارت کی معاشی پالیسی، محصولات اور غیرمحصولاتی رکاوٹوں کا نظام ہے جسے بھارت ذرا بھی بدلنے کو تیار نہیں۔ تاریخی طور پر پاکستان کا ہمیشہ یہ موقف رہا ہے اور یہی صحیح موقف ہے کہ کشمیر اور دوسرے تنازعات کا حل اور معاشی میدان میں بھارت کے محصول اور غیرمحصول رکاوٹوں کے نظام میں بنیادی تبدیلی کے بغیر دونوں ملکوں میں تجارت اور معاشی رابطے نارمل نہیں ہوسکتے___ تاکہ معاشی تعلقات اس نہج پر استوار ہوسکیں، جو محض ایک ملک کے فائدے میں نہ ہوں بلکہ دونوں جن سے برابر کا فائدہ اُٹھا سکیں۔ یہی مسئلے کی اصل حقیقت ہے جسے یکسرنظرانداز کرنے اور ان دونوں کے تعلق (linkage) کو توڑ کر موجودہ حکومت امریکا اور بھارت کے دبائو میں وہ پالیسی ملک پر مسلط کرنا چاہ رہی ہے جو پاکستان کے مفادات کی ضد ہے۔
ایک اور بے حد نازک پہلو بھی توجہ طلب ہے۔ بھارت کی دل چسپی محض تجارت تک ہی محدود نہیں، وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرکے ہماری صنعت پر بھی قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ سابق وزیراعظم شوکت عزیز کا یہ مکالمہ ریکارڈ کا حصہ ہے کہ بھارت نے پاکستانی اسٹیل مل خریدنے کی سرتوڑ کوشش کی۔ بھارت ہماری معیشت کو اپنی گرفت میں لینے کے لیے تجارت کے ساتھ سرمایہ کاری کے ذریعے صنعت اور اسٹرے ٹیجک اداروں پر بھی قبضہ چاہتا ہے، اور اس کے لیے بلاواسطہ سرمایہ کاری کے علاوہ بالواسطہ سرمایہ کاری کے ذرائع بھی استعمال کر رہا ہے جس کا راستہ روکا جانا ضروری ہے۔ حالیہ سارک کانفرنس (مالدیپ) میں بھی یہ مسئلہ آیا اور بھارت نے کھل کر یہ سوال اُٹھایا ہے کہ تجارت کی آزادی کے ساتھ سرمایے کی آزادکاری یا مشترک سرمایہ کاری کو بھی اس کا حصہ ہونا چاہیے۔ اس سے بھارت کے اصل عزائم کو اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے۔
ہم ایک اور پہلو کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتے ہیں اور اس کا تعلق ہماری معیشت کے بھارت پر انحصار (dependence) سے ہے۔ ہم دو بار تجربہ کرچکے ہیں کہ ۱۹۴۹ء اور ۱۹۶۵ء میں بھارت نے تجارتی تعلقات کو یک قلم منقطع کرکے پاکستان کو شدید معاشی بحران میں دھکیلنے کی کوشش کی۔ ہم نے بڑی مشکل اور مسلسل محنت سے بھارت پر انحصار کو کم کیا ہے۔ نئی پالیسی کے تحت یہ انحصار بڑھے گا اور اگر تجارت کے ساتھ سرمایہ کاری کے اثرات کو بھی شامل کرلیا جائے تو معاشی تعلقات کی یہ نوعیت ایک نئی سامراجی کیفیت کو جنم دے سکتی ہے۔ پاکستان کی معیشت پر بھارت اور بھارتی سرمایہ کاروں اور تاجروں کی گرفت بڑھتی جائے گی۔ یہاں کی صنعت خصوصیت سے درمیانی اور چھوٹی صنعت بُری طرح متاثر ہوگی، اور بے روزگاری بڑھے گی۔ بھارت کے لیے معاشی حربوں کے ذریعے صرف پاکستان کی معیشت ہی کو اپنی گرفت میں لانے کا موقع نہیں ملے گا بلکہ اس کی وجہ سے اندرونِ ملک اس کو ایسے فیصلہ ساز (leverage) کی حیثیت حاصل ہوتی چلی جائے گی جو ہماری خودمختاری، نظریاتی شناخت، سیاسی آزادی اور تہذیبی اور ثقافتی وجود کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔ ان پہلوئوں کو نظرانداز کرنے کے بڑے خطرناک اثرات اور نتائج ہوسکتے ہیں جن کا اِدراک اِس وقت ضروری ہے۔ اچھے سیاسی اور معاشی روابط اور تعلقات کے ہم بھی قائل ہیں لیکن یہ اسی وقت ممکن ہیں کہ مسئلے کے تمام پہلوئوں کو سامنے رکھ کر اور سیاسی اور معاشی ہردوپہلوئوں کے ربط و تعلق کی روشنی میں حقیقت پسندانہ پالیسیاں تشکیل دی جائیں جو پاکستان کی آزادی، سلامتی، معاشی استحکام اور نظریاتی اور تہذیبی شناخت کی ضامن ہوں۔ اس سے ہٹ کر جو راستہ بھی اختیار کیا جائے گا، اس کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ ع
ہے ایسی تجارت میں مسلمان کا خسار۱
ہم پاکستان کی تمام سیاسی اور دینی قوتوں کو ان معروضات پر ٹھنڈے دل سے غوروفکر کی دعوت دیتے ہیں۔ قوموں کے فیصلے پورے سوچ بچار اور باہمی مشاورت کے ساتھ، عوام کے جذبات اور اُمنگوں کے مطابق اور ملک و قوم کے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ہونے چاہییں۔ وقتی مفادات، ذاتی ترجیحات اور بیرونی دبائو کے تحت جو فیصلے اور اقدام بھی ہوں گے، وہ تباہی کا ذریعہ بنیں گے۔ ترقی، عزت اور خوش حالی ان کا حاصل نہیں ہوسکتی۔ ہم موجودہ حالات میں بھارت کو ’پسندیدہ ترین ملک‘ قرار دینے کو پاکستان کے مفادات پر ایک کاری ضرب اور معاشی خودکشی کی طرف ایک قدم سمجھتے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس پر فوری نظرثانی کرے اور ملک کو اس تباہی سے بچالے جو خدانخواستہ اس کے لازمی نتیجے کے طور پر سامنے آئے گی۔ ہم پاکستان کی پارلیمنٹ، تمام سیاسی اور دینی جماعتوں اور سب سے بڑھ کر پاکستانی عوام اور ملک کے نوجوان طبقے سے اپیل کرتے ہیں کہ اس اقدام کے خطرناک ہونے کا احساس کریں اور مؤثر احتجاج کے ذریعے، حکومت کو معاشی تباہی کے اس راستے پر ایک قدم بھی آگے بڑھانے سے روک دیں۔ وما علینا الا البلاغ۔
اس ذکر کی مسلسل عبارت یوں ہے: لَا اِلٰہ اِلاَّ اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللّٰہِ، نہیں کوئی معبود مگر اللہ اور اللہ سب سے بڑا ہے، نہیں کوئی معبود مگر اللہ تنہا اور اس کا کوئی شریک نہیں۔ نہیں کوئی معبود مگر اللہ، اسی کے لیے ہے بادشاہت، اوراسی کے لیے ہے حمد۔ نہیں کوئی معبود مگر اللہ اور نہیں کوئی قوت اور نہیں کوئی تدبیر مگر اس کی توفیق اور مدد سے۔
اللہ تعالیٰ کی جو صفات اور شانیں قرآن و حدیث میں آئی ہیں ان پر مشتمل ذکر ایمان وعمل میں قوت کا ذریعہ ہے۔ اس لیے ایسے ذکر کو معمول بنانا چاہیے۔ سب سے بڑی صفت اور شان لا الٰہ الا اللہ ہے اور یہ افضل الذکر ہے۔ پھر یہ احساس کتنا لطف انگیز اور ایمان افروز ہے کہ ادھر ہم ذکر کرتے ہیں، اور ادھر اللہ تعالیٰ اسے دُہراتا ہے۔ پھر موت کے لیے بیماری کی شرط نہیں ہے، اس لیے اس ذکر کے ساتھ جو بشارت ہے اس کی خاطر، اسے معمول بنا لینا چاہیے۔
صحابہ کرامؓ، شہری ہوں یا دیہاتی، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہدیے پیش کیاکرتے تھے اور آپؐ بھی انھیں بدلے میں ہدیہ پیش کیا کرتے تھے۔ زاہر دیہاتی صحابی تھے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتے تھے۔ شہر میں سودافروخت کرنے کے لیے لے کر آتے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دیہات سے پیدا ہونے والی چیزیں پیش کرتے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم شہری چیزیں انھیں ہدیہ کرتے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم زاہر سے محبت رکھتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا منظر حضرت انسؓ نے یہاں بیان کیا___ ذرا آنکھیں بند کر کے یہ منظر سامنے لایئے۔ کسی معاشرت میں قائدین کا بلکہ سب سے بڑے قائد کا اپنے عام رفقا کے ساتھ یہ برادرانہ سلوک، یہ بے تکلفی (کہ آکے پیچھے سے سر پکڑ لیا!)۔ جب نیلام کے لیے آپؐ نے پیش کیا تو زاہر نے اپنے خوش شکل نہ ہونے کی وجہ سے اچھی قیمت نہ ملنے کا کہاتو آپؐ نے کیا اچھی بات کہی کہ اصل قدروقیمت تو اللہ کے ہاں کی ہے جہاں تم کھوٹے نہ ہوں گے، بلکہ تم جیسوں کا ہی سکّہ چلے گا۔ دل چاہتاہے کہ ہمارے آس پاس بھی یہی خوش گوار ماحول ہو اور قدر ظاہری حُسن کی نہ ہو، بلکہ اللہ کے ہاں مقام کی ہو۔
حضرت حارثہ بن نعمانؓ جلیل القدر صحابی ہیں۔ غزوئہ بدر، اُحد اور تمام غزوات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہے، لیکن اس کے ساتھ اپنی ماں کے بھی فرماں بردار اور اطاعت شعار تھے۔ ماں کی خدمت اور فرماں برداری کے نتیجے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں جنت میں قرآن پاک پڑھتے ہوئے سنا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کو ان کی نیکی کی طرف بڑے جذبے سے متوجہ فرمایا کہ نیکی ہو تو ایسی جیسے حارثہ بن نعمانؓ کی نیکی تھی کہ جہاد میں بھی آگے آگے اور ماں کی خدمت میں بھی پیش پیش۔ بڑا خوش قسمت ہے وہ جسے یہ دونوں نعمتیں نصیب ہوں۔ زندگی میں یہ اعتدال مطلوب ہے۔ فرائض بھی ادا کیے جائیں اور حقوق بھی!
صلۂ رحمی کی بڑی تاکید آئی ہے اور اس کے بڑے اجراور برکت بتائی گئی ہے۔ قطع رحمی، یعنی عزیز واقارب کے حقوق ادا نہ کرنا، عام سا گناہ نہیں، دنیا میں بھی سزا ملتی ہے اور آخرت میں بھی۔ ظلم سے مراد حقوق کا ادا نہ کرنا ہے۔ عزیز واقارب کے بھی، دوسرے احباب اور معاشرے کے بھی۔
جنت کی زندگی اصل زندگی ہے۔ اس کی قیمت اللہ تعالیٰ کی بندگی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بندگی ایسی دائمی زندگی کے لیے سب سے اُونچا سودا ہے۔ خوش قسمت ہیں وہ جو اللہ کی بندگی کے ذریعے جنت کی بے نظیر اور بے مثال نعمتوں سے سرفراز ہوں۔ جنت کا یہ تصور اور اس کی وہ نعمتیں جن کے ذکر سے قرآن بھرا ہوا ہے، ہمہ وقت آنکھوں کے سامنے رہیں، تو آدمی دنیا کی عارضی لذتوں کی خاطر جنت کی زندگی کا موقع ضائع ہرگز نہ کرے گا۔
آیت کی تلاوت کرنے کے بعد، دوزخ کی سزا کے بیان کے ذریعے بتایاگیا کہ تقویٰ کی روش اور وہ بھی تاحیات اختیار نہ کرنے والے آخرت میں کس انجام سے دوچار ہوں گے، یعنی زقوم کا کھانا ہوگا۔ آج وہ لوگ جو اسلام کے خلاف صف آرا ہیں، اس دنیا میں کتنی ہی عیش وعشرت کرلیں، ان کے سب مزوں کی سزا دوزخ کی آگ اور زقوم کا کھانا ہوگا جو سب مزوں کو بھلا دے گا۔ آج وقت ہے کہ وہ کفر سے باز آجائیں، اور دنیاوی مزوں اور بڑائیوں کی خاطر اسلام اور ملت اسلامیہ پر حملہ آور ہونے سے باز آجائیں ورنہ کل قیامت کے روز افسوس کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہ آئے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو سب کچھ بیان کرکے اتمامِ حجت فرمادیا ہے۔ راہِ راست واضح ہے جو آنا چاہے، اس کے لیے توبہ کا دروازہ کھلا ہے۔ اسلام کی دعوت پر مشتمل آیت کے بعد جہنم اور اس کے عذاب کی ہولناکی کا بیان اسی غرض کے لیے ہے کہ اسلام اس عذاب سے بچائو کا سامان ہے، اسے غنیمت جانو۔
قربانیاںہماری جدوجہد کی کامیابی میں دو طریقوں سے اپناکردار ادا کرتی ہیں۔ایک یہ کہ ہماری اندرونی روحانی اور اخلاقی طاقتوں کو مضبوط کردیتی ہیں اور ہمارے کردار کی اُن صفات کو پروان چڑھاتی ہیں جو ہماری جدوجہدکے ہر مرحلے پر کامیابی کے لیے لازمی ہیں۔ دوسرایہ کہ اجتماعیت میں نظم وہم آہنگی کو فروغ دیتی ہیں اور انھیں تقویت پہنچاتی ہیں، اور وسیع تر معاشرتی سطح پر جہاد برپا کرنے کی صلاحیتیوں اور قوتوں سے بہرہ مندکرتی ہیں۔
قربانی کا ہر عمل آپ کے ایمان میں اضافہ کرتاہے اور اس کو نشوونما دیتاہے۔یہ عمل آپ کے زبانی اعلان اور ذہنی ایقان کو ایک زندہ حقیقت میں بدل دیتا ہے۔اﷲ سے آپ کی محبت کی توثیق کرتاہے اور اس میں اضافہ کا موجب بنتاہے ،کیوں کہ ہرقدم پرجب آپ اﷲ کی محبت میں کوئی شے قربان کرتے ہیں، تو اﷲ سے آپ کا اخلاص اور اُس پر آپ کا ایمان مضبوط ہوتا چلا جاتا ہے، دیگر تمام وفاداریاں ثانوی حیثیت اختیارکرلیتی ہیں، کیوں کہ اُنھیں آپ صرف اﷲ سے وفاداری کی خاطر قربان کردیتے ہیں۔ مختصر الفاظ میں قربانیاں آپ کو اﷲ سے قریب تر کر دیتی ہیں۔ دونوں باتیں ایک دوسرے پر اثراندازہوتی ہیں۔عقیدہ جتنا مضبوط ہوگا قربانی دینے کی صلاحیت اورعزم اتنا ہی زیادہ ہوگا، اور جتنی بڑی قربانی دی جائے گی، عقیدہ اُتنی ہی گہری جڑ پکڑتا جائے گا۔
تمام اخلاقی اوصاف کی افزایش کے لیے قربانیاں جزوِ لازم ہیں، بالخصوص قوتِ برداشت، استقامت، استقلال ، تحمل وبردباری، عزمِ صمیم اور اولوالعزمی کی صفات میں اضافے کے لیے۔ ان تمام صفات کا خلاصہ ایک لفظ میں کیا جاسکتاہے اوروہ ہے:’صبر‘۔ ہرقربانی صبر کی صلاحیت کو تقویت پہنچاتی ہے، اس کے درجے میں اضافہ اور مضبوطی پیداکرتی ہے۔اس کے عوض صبر قربانی کی صلاحیت میں اضافہ اوراستقرار پیدا کرتا ہے۔ یہ بھی دوطرفہ عمل ہے۔ اﷲ کی طرف سے مددونصرت کے تمام وعدے، اِس دُنیا میں فوزوکامرانی کی تمام یقین دہانیاں اورآخرت کے تمام انعامات و اکرامات، سب ایمان اور صبر کے اکتساب سے مشروط ہیں۔ (آل عمران ۳:۱۲۵، ۱۳۹، الانفال ۸:۴۶، الاعراف ۷:۱۳۷، الزمر ۳۹:۱۰)
صبر بہت جامع وصف ہے۔اس کے متعدد پہلوؤں میں سے ایک پہلو نظم وضبط ہے۔ نظم وضبط کا قربانی سے قریبی تعلق ہے۔ اصل میں دونوںکا ایک دوسرے پر انحصارہے۔ نظم وضبط اپنے مکمل مفہوم میں، بشمول ذاتی نظم وضبط، روحانی واخلاقی نظم وضبط ، جماعتی نظم وضبط اور سماجی نظم وضبط، اُس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتا جب تک آپ اپنی محبوب چیزوں کی قربانی دینے کے لیے تیار نہ ہوں۔ آپ اُس وقت تک اُن چیزوں کی قربانی بھی نہیں دے سکتے ، جن کی آپ کے نزدیک کوئی قدروقیمت ہے جب تک آپ اپنے اندر نظم وضبط نہ پیدا کرلیں ___ اندرونی نظم وضبط۔ اگرچہ منظم اجتماعی زندگی بھی فردکے اندر قربانی کی روح پھونکنے میں کم اہم کردار ادا نہیں کرتی۔ قربانی بھی اس طرح کی منظم اجتماعی زندگی کو تشکیل دینے اور اسے قائم رکھنے کے لیے اُتنی ہی ضروری ہے۔آئیے ہم ایک مختصر جائزہ لیں کہ کیوں ضروری ہے؟
واضح بات ہے کہ جب اﷲ کی راہ پر آپ اکیلے چل رہے ہوں تو اُس کی رضا و خوشنودی کے حصول میں کامیاب ہونے کے لیے آپ کوعظیم سے عظیم تر قربانیاں دینے اور زیادہ سے زیادہ ضبطِ نفس اختیار کرنے کی ضرورت پڑے گی۔مگر جوں ہی آپ یہ فیصلہ کر لیں کہ آپ دوسروں کے ساتھ مل کر دُنیا کو اُس کے خالق کی اطاعت وفرماں برداری کے تحت لانے کی اجتماعی جدوجہد کریں گے تو آپ کواور زیادہ قربانیاں دینے کی ضرورت پڑے گی۔اس کے بغیر آپ کی منظم اجتماعی جدوجہد ہی کوئی پایدار صورت اختیار کر سکتی ہے نہ آپ کے اندر اپنے مشن میں کامیابی کے لیے کوئی اُمنگ پیدا ہوسکتی ہے۔قرآن کہتاہے:اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِہٖ صَفًّا کَاَنَّھُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌo (الصف ۶۱: ۴)’’اﷲ کو تو پسند وہ لوگ ہیں جو اُس کی راہ میںاِس طرح صف بستہ ہوکر لڑتے ہیںگویاکہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں‘‘۔ کتنی حسین اور معنی خیز تمثیل ہے۔ مضبوط اور ٹھوس،مربوط اور پیوست، ناقابلِ تسخیر اور ہرطرح کے شگاف اور دراڑ سے مبرا، یہ ہے وہ انداز جس سے مسلم اُمہ مل جل کر اور باہم مربوط ہوکر اﷲ کی راہ میں جدوجہد کرتی ہے۔
اب دیکھیے دیوار کس طرح تعمیر کی جاتی ہے؟ بہت سی اینٹیں جوڑی جاتی ہیں تو دیوار بنتی ہے۔ ہر اینٹ اپنی منفرد حیثیت رکھتی ہے۔ یہ اینٹیں ایک ٹھوس، مضبوط اور ناقابلِ تسخیر دیوار بننے کے لیے ’صف بندی‘ کیسے کرتی ہیں؟ایک اینٹ دوسری اینٹ کے ساتھ کھڑی کر کے اور ایک اینٹ دوسری اینٹ کے اوپر نصب کرکے آپ سمینٹ سے جوڑ دیتے ہیں اور دیوار اونچی کرتے چلے جاتے ہیں۔ ہر ہر مرحلے پر دیوار کی مضبوطی اور اونچائی میں اضافہ ہوتاچلا جاتاہے۔ ہر اینٹ دوسری اینٹ سے اُسی طرح مشابہت رکھتی ہے جس طرح کی مشابہت ایک انسان دوسرے انسان سے رکھتا ہے، باوجودے کہ ہر ایک کی اپنی اندرونی انفرادیت بھی ہوتی ہے۔ کسی اینٹ کو اپنی یہ انفرادیت قربان کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ مضبوطی اور شان داری کی یہ خوبیاںیقینا بہت سی انفرادیتوں کے اکٹھا ہوجانے سے حاصل ہوتی ہیں۔
لیکن اگر آپ ایک دیوار بنائیں اور ہر اینٹ اپنے طریقے پر چلنے پر اَ ڑ جائے،اوراگروہ اُس بوجھ کو سہارنے کے لیے تیار نہ ہو جو اوپر والی اینٹ سے اُس کو منتقل ہوگا یا جو سہارا اُسے اپنے نیچے والی اینٹ کو دینا ہے،اور اگر وہ اینٹ جسے کونے میں نصب ہونا ہے وہ اس بات کے لیے تیار نہیں کہ اُس کی ایسی تراش خراش کی جائے جس سے وہ اپنے مقام پر درست انداز سے فٹ ہوجائے، توکوئی مضبوط دیوار کبھی بھی تعمیر نہیں کی جاسکتی۔بہت سی اینٹوں کو زمین کے اندر بنیادوں میں نصب ہونا پڑتاہے، عمارت بن جانے کے بعد وہ کسی کو دکھائی نہیں دیتیں، حالانکہ پوری عمارت کا بوجھ اُنھی پر ہوتاہے اوراُن کی اس قربانی کے بغیر عمارت زمین سے بھی اوپر نہیں اُٹھ سکتی۔ بہت سی اینٹوں کی توڑ پھوڑ کرنی پڑتی ہے تاکہ ایک ہموار دیوار بنائی جاسکے۔
ہراینٹ سے تھوڑی تھوڑی قربانی لیے بغیر ایک مضبوط دیوارکبھی وجودمیں نہیںآ سکتی۔
اب ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ قربانی کیا ہے؟ہم کیا قربان کریں؟ کون سی قربانیاںدینا زیادہ دُشوار ہے؟ کن قربانیوںکو عظیم قربانی کہا جا سکتاہے؟
یہاں مجھے تین بنیادی اُصول پیش کرنے کی اجازت دیجیے جو میری نظر میں قربانی کے مکمل مفہوم سے آگاہ ہونے کے لیے سمجھنا ضروری ہیں:
اوّل: کسی چیزسے دست بردار ہوجانا صرف اُسی صورت میں قربانی کہلائے گا جب وہ چیز ہمیں محبوب ہو اور ہمارے نزدیک اُس کی کوئی قدروقیمت ہو۔ اس لحاظ سے مادّی اور مجرد اشیا کے مابین کوئی خطِ امتیاز کھینچنا دُشوارہے۔حتمی تجزیہ یہ ہوگا کہ ہر قربانی ہماری محبت اور ہماری قابلِ قدر چیزوں کی قربانی ہے۔ جب ہم اپنی دولت، اپنی زندگی یا اپنے خاندانی تعلقات سے اﷲ کی خاطر دست بردار ہوتے ہیں، تو در حقیقت ہم جس چیز سے دست بردار ہورہے ہوتے ہیں، اور جوکیفیت اِسے قربانی کی شکل دیتی ہے، وہ خود مال، زندگی یا رشتوں ناتوں سے دست برداری نہیں بلکہ مال کی محبت، زندگی کی محبت یا عزیزوں اور رشتہ داروں کی محبت سے دست برداری ہے۔
دوم:مادّی چیزوں کے بجاے مجرد اشیا کی قربانی دینا زیادہ دُشوار اور زیادہ ضروری ہے۔
سوم:ہم اپنی محبوب اور قابلِ قدر اشیا سے صرف اُنھی چیزوں کے لیے دست بردار ہوسکتے ہیںجوہمیں اِن سے زیادہ محبوب ہوں اور جن کی ہماری نظر میں اِن سے زیادہ قدروقیمت ہو۔
یہاںہمیں مادّی اشیا کی قربانی پر زیادہ وقت صرف کرنے کی ضرورت نہیں۔ہم ایسی قربانیوں سے خوب واقف ہیں،ان کا اچھی طرح سے ادراک رکھتے ہیں اور ان کی ضرورت اوراہمیت کو تسلیم بھی کرتے ہیں، اُس صورت میں بھی کہ جب کئی مواقع پر ہم خود اس قسم کی قربانیاں دینے کے قابل نہ ہوں یا اس قسم کی قربانیاں دینے میں دُشواری محسوس کررہے ہوں۔ لیکن اگر ہم نے اپنے آپ کو کسی نصب العین کے حصول کے لیے وقف کردیا تو وقت یا موقع آنے پرہمیںان میں سے ہر شے کی قربانی دینی ہوگی۔لہٰذاہم یہاں رُک کر اُن کی کچھ اہم خصوصیات ملاحظہ کرتے ہیں۔
وقت ہماری سب سے قیمتی متاع ہے۔ہماری زندگی کی کوئی ضرورت اورکوئی خواہش اُس وقت تک پوری نہیں ہوسکتی جب تک کہ ہم اُس کے حصول کے لیے وقت نہ نکالیں اور باقاعدہ وقت نہ دیں۔ہم اپنا وقت مسرت کی تلاش میں صرف کر سکتے ہیں،دُنیاوی مال و متاع اور دولت کمانے میں صرف کر سکتے ہیں، کام میں صرف کر سکتے ہیں،لطف اندوزی میں صرف کر سکتے ہیں یا محض وقت گزاری میں بھی___ کچھ نہ کرتے ہوئے۔
وقت وہ اوّلین شے ہے جو اﷲ ہم سے طلب کرتاہے۔اﷲ کی راہ میں جہاد کرنے میں وقت صرف ہوتاہے۔نماز اداکرنے میں وقت صرف ہوتاہے۔دعوت کاکام کرنے میں وقت صرف ہوتاہے۔ قرآنِ مجید کی تلاوت کرنے میں وقت صرف ہوتاہے، اور بیمار کی عیادت کرنے میں وقت صرف ہوتاہے۔ اﷲ سے اپنا عہد پورا کرنے کے لیے ہمیں ہر لمحہ اُس کی رضا کے حصول میں صرف کرنا ہوگا۔لیکن اگر آپ مزید گہرائی میں جاکر غور کریں تو آپ تسلیم کریں گے کہ جوچیز آپ فی الواقع قربان کررہے ہیں وہ وقت نہیں ہے۔ وہ اشیا ہیں جن کی جستجو میں آپ کاوقت صرف ہوتاہے، ایسی اشیاجو آپ کی زندگی کے نصب العین سے متصادم ہوسکتی ہیں، بے معنی، غیر اہم، یااﷲ کے کام کے مقابلے میں کم اہم۔ لہٰذا اسلام کے لیے وقت نکالنے سے قبل، کوئی اور کام کرنے سے پہلے، آپ کو بہت سی ایسی چیزوں کی قربانی دینی ہوگی جو آپ کا وقت لے لیتی ہیں۔
آپ اپنے آپ کو ان چیزوں کی قربانی دینے، اور اپنا وقت اﷲ کے لیے مخصوص کردینے پر کس طرح آمادہ کرسکتے ہیں؟
یاد رکھیے کہ وقت ایسی چیز ہے جسے آپ ایک لمحے کے لیے بھی تھام کر نہیں رکھ سکتے۔یہ مسلسل آپ کے ہاتھ سے نکلتااورپھسلتا ہی رہے گا،خواہ آپ اسے کسی کام میں بھی صرف کرناچاہیں۔ وقت سے ملنے والا فائدہ بس وہی کچھ ہے جو آپ اُس وقت میں حاصل کرلیتے ہیں۔ ورنہ وقت توبرف کی طرح پگھل کر ختم ہوجائے گا، البتہ جوچیزآپ حاصل کریں گے وہ رہ جائے گی۔
ہمیشہ اس بات کا خیال رکھیے کہ وقت کاہر لمحہ یاتو ابدی سکون و راحت میں بدل سکتاہے یا کبھی نہ ختم ہونے والے عذاب میں۔ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ وقت کوکیسے صرف کرتے ہیں۔ اِس بات کو ذہن نشین رکھنے کے نتیجے میں آپ زیادہ ثابت قدمی کے ساتھ وقت کی قربانی دے سکیں گے۔ وہ لمحے جنھیں آج آپ اپنی گرفت میں نہیں رکھ سکتے، کل آپ کے لیے نفع بخش ثابت ہوںگے، وہ کبھی ضائع نہیں جائیں گے۔ آخر آپ اُن چیزوں کے حصول کی قربانی کیوں نہ دیں جو کل آپ کو کبھی نہ ختم ہونے والی پریشانی یا پچھتاوے کی صورت میں واپس ملیں گی؟
پس جب وقت گزرہی رہاہے تو ذرا گہرے غور وخوض سے حساب لگائیے کہ آپ کیا حاصل کررہے ہیں؟ کوئی ناپایدار شے یا کوئی ابدی چیز؟ آگے چل کریہ کوئی پچھتاوا بنے گا یا خوشی؟ آپ کے وقت میںسے اسلام کو کون سی ترجیح ملی ہوئی ہے؟اپنے وقت کا کتنا حصہ آپ نے اﷲ کے لیے مخصوص کیا ہے؟ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍط (الحشر ۵۹:۱۸)’’ہرشخص یہ دیکھے کہ اُس نے کل کے لیے کیا سامان کیاہے؟‘‘
اﷲ کے لیے اپنے وقت کی قربانی دینا اسلام کی روح ہے۔جب بھی پکارا جائے آپ کو لازماً لبیک کہناہے۔یوں اﷲ کی راہ میں اپنے وقت کی قربانی دے کر آپ اپنے آپ کو ہر چیز کی قربانی دینے کے لیے تیار کرلیں گے۔دن میں پانچ مرتبہ آپ کے اندر یہ صفت راسخ کی جاتی ہے۔ جمعہ کے دن کے لیے آپ کو ہدایت ہے کہ: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ وَذَرُوْا الْبَیْعَط ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo (الجمعہ ۶۲:۹)’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب پکارا جائے نماز کے لیے جمعہ کے دن، تواﷲ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید وفروخت چھوڑ دو۔ یہ تمھارے لیے زیادہ بہتر ہے اگر تم جانو‘‘۔
آپ کا زیادہ وقت دولت کمانے یا دولت کے ذریعے سے متاعِ دُنیوی حاصل کرنے میں گزرتا ہے۔ اُن کی طلب اور اُن کی محبت ہماری فطرت میں رچی بسی ہوئی ہے۔ زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّھَوٰتِ مِنَ النِّسَآئِ وَالْبَنِیْنَ وَالْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَۃِ مِنَ الذَّھَبِ وَالْفِضَّۃِ وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَۃِ وَالْاَنْعَامِ وَالْحَرْثِط (اٰل عمران ۳:۱۴) ’’لوگوں کے لیے مرغوباتِ نفس: عورتیں، اولاد، سونے چاندی کے ڈھیر، چیدہ گھوڑے،مویشی اور زرعی زمینیں بڑی خوش آیند بنادی گئی ہیں‘‘۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ متاعِ دُنیا سے رغبت و محبت کوئی مذموم بات ہے، نہ غلط بات ہے، نہ بدی۔یہ دُنیا برائیوں کی پوٹ نہیں‘ اس طرح کی باتیں قرآن کی تعلیمات میں نہیں ملتیں۔ قرآن میںمال ودولت کو گھٹیا اور حقیر چیز نہیں قرار دیا گیا ہے ’خیر‘ کہہ کر پکارا گیا ہے۔ اور یہ بالکل معقول بات ہے،کیوں کہ اﷲ کی راہ اور اُخروی نعمتوں کا راستہ اسی دُنیا سے گزرتاہے۔ اگر ہم اس دُنیا کو اپنے اوپر حرام کر لیں تو کوئی چیز ایسی نہیں بچتی جس کی مدد سے ہم آخرت کے انمول خزانے حاصل کرسکیں۔چناں چہ یقینی طورپر یہی دُنیا وہ واحد وسیلہ ہے جس کی بنا پر ہم اﷲ کی رضا اور اگلی دُنیا کی مسرتیں حاصل کرسکتے ہیں۔
جوچیز اس دُنیا کوبرائی اور شر بناتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم اس بات کو فراموش کردیں کہ یہ سب کچھ ہماری صوابدیدپر صرف اسی دُنیا کی زندگی کے لیے دیا گیا ہے۔ یہ اُس حقیقی اور ابدی نصب العین کے حصول کا ایک وسیلہ ہے،جو اِس دُنیا و مافیہا سے بہتر چیز ہے۔جب ذریعہ منزل بن جائے تو وہ ہمیں حقیقی قدروقیمت والی چیز سے بھٹکا کرمصائب وآلام میں مبتلا کردیتاہے۔ اوپر جس قرآنی آیت کا حوالہ دیا گیا ہے وہ آگے چل کر کہتی ہے:
ذٰلِکَ مَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ج وَاللّٰہُ عِنْدَہٗ حُسْنُ الْمَاٰبِo قُلْ اَؤُنَبِّئُکُمْ بِخَیْرٍ مِّنْ ذٰلِکُمْ ط لِلَّذِیْنَ اتَّقَوْا عِنْدَ رَبِّھِمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا وَاَزْوَاجٌ مُّطَھَّرَۃٌ وَّ رِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰہِط (اٰل عمرٰن ۳:۱۴-۱۵)، یہ سب دُنیا کی چند روزہ زندگی کے سامان ہیں۔ حقیقت میں جو بہتر ٹھکانا ہے وہ تو اﷲ کے پاس ہے۔کہو: میں تمھیں بتاؤں کہ ان سے اچھی کیا چیز ہے؟ جولوگ تقویٰ کی روش اختیار کریں اُن کے لیے اُن کے رب کے پاس باغ ہیں، جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، وہاں انھیں ہمیشگی کی زندگی حاصل ہوگی،پاکیزہ بیویاں ان کی رفیق ہوں گی اوراﷲ کی رضا سے وہ سرفراز ہوں گے۔
دُنیاوی مال ومتاع کو اﷲ کی راہ میں قربان کردینا کوئی آسان کام نہیں ہے۔جب حقیقی فیصلے کا وقت آتاہے تو اچھے اچھے ڈانوا ڈول اور ناکام ہوجاتے ہیں۔ چند چیزیں یاد رکھنے کی ہیں جو یہ دشوار قربانیاں دینے میں آپ کی مدد کریں گی:
اوّل: کوئی چیز آپ کی اپنی ملکیت نہیں، ہرچیز کا مالک اﷲ ہے۔جب آپ اﷲ کی راہ میں کوئی چیز قربان کرتے ہیںتو آپ وہ چیز اُس کے اصل مالک کو محض لوٹارہے ہوتے ہیں۔
دوم:آپ کے دُنیاوی مال ومتاع کی خواہ کتنی ہی قدر وقیمت کیوں نہ ہو، آپ کے آخری سانس کے ساتھ ہی آپ کے لیے اُس کی قیمت صفر ہو جائے گی:
مَا عِنْدَکُمْ یَنْفَدُ وَ مَا عِنْدَ اللّٰہِ بَاقٍ ط (النحل ۱۶:۹۶)، جوکچھ تمھارے پاس ہے وہ خرچ ہوجانے والا ہے اور جوکچھ اﷲ کے پاس ہے وہی باقی رہنے والا ہے۔
وَاضْرِبْ لَھُمْ مَّثَلَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا کَمَآئٍ اَنْزَلْنٰہُ مِنَ السَّمَآئِ فَاخْتَلَطَ بِہٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ فَاَصْبَحَ ھَشِیْمًا تَذْرُوْہُ الرِّیٰحُ ط وَکَانَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ مُّقْتَدِرًا o اَلْمَالُ وَالْبَنُوْنَ زِیْنَۃُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ج (الکھف ۱۸:۴۵-۴۶)، اور اے نبیؐ، انھیں حیاتِ دُنیا کی حقیقت اس مثال سے سمجھاؤ کہ آج ہم نے آسمان سے پانی برسا دیا تو زمین کی پود خوب گھنی ہوگئی، اور کل وہی نباتات بھس بن کر رہ گئی جسے ہوائیں اُڑائے لیے پھرتی ہیں۔اﷲ ہر چیز پر قدرت رکھتاہے۔ یہ مال اور یہ اولاد محض دُنیوی زندگی کی ایک ہنگامی آرایش ہے۔
سوم: صرف اﷲ کی راہ میں خرچ کرکے ہی آپ اس کا کئی گُنا زیادہ واپس حاصل کرسکتے ہیں:
وَاَقْرِضُوْا اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا ط وَمَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِکُمْ مِّنْ خَیْرٍ تَجِدُوْہُ عِنْدَ اللّٰہِ ھُوَ خَیْرًا وَّاَعْظَمَ اَجْرًا ط (المزمل ۷۳:۲۰)، اﷲ کو اچھا قرض دیتے رہو۔ جوکچھ بھلائی تُم اپنے لیے آگے بھیجو گے اسے اﷲ کے ہاں موجود پاؤگے، وہی زیادہ بہتر ہے اور اس کا اجر بہت بڑاہے۔
مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ ط وَاللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشآئُ ط وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌo (البقرہ ۲:۲۶۱)، جولوگ اپنے مال اﷲ کی راہ میں صرف کرتے ہیں، اُن کے خرچ کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ بویا جائے اور اُس سے سات بالیں نکلیں اورہر بال میں سَو دانے ہوں، اسی طرح اﷲ جس کے عمل کو چاہتاہے، افزونی عطا فرماتاہے۔ وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی۔
ذرا ایک لمحے کے لیے سوچیے: اسلام سے آپ کی وابستگی کے دعوے کی کیا حیثیت رہ جائے گی اگر آپ اپنے نصب العین کے بجاے فضول قسم کی لطف اندوزی ، مثلاً تمباکو نوشی اور چٹورپن پر زیادہ رقم خرچ کریں۔اﷲ کے وعدے پر آپ کے ایمان کی کیا حیثیت ہو گی اگر اس دُنیا میں حصولِ منفعت کی ہلکی سی اُمید پر بھی آپ اپنی ساری بچت کی سرمایہ کاری کرگزریں، مگر ،کم ازکم سات سَوگُنا نفع کا وعدہ، جو کبھی واپس نہیں لیا جائے گا، آپ کو اپنے بٹوے کا مُنھ کھولنے پر مجبور نہ کرے۔آپ حساب لگاسکتے ہیں کہ اپنی دولت کا جتنا حصہ آپ اﷲ کی راہ میں صرف کرتے ہیں اُس کی روشنی میں اسلام کو آپ کی زندگی میںکیا مقام حاصل ہے۔
دولت کی قربانی دینا کبھی بھی آسان کام نہیں رہا۔ مگر ہمارا زمانہ وہ زمانہ ہے کہ جس میں بہتر معیارِ زندگی،عیش وعشرت پسندی، اسراف، اور مادّیت پرستی زندگی کا واحد مقصد بن کر رہ گئے ہیں۔ لہٰذا آپ کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے کہ کہیں اس معاملے میں آپ کو ناکامی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
ایک وقت ایسا آئے گا جب اﷲ کی راہ میں آپ کو اپنی جان قربان کردینے کی ضرورت بھی پیش آئے گی۔اپنی جان کی قربانی پیش کر دیناشہادت دینے کا بلند ترین عمل ہے،ایسی صورت میں آپ شہید کہے جانے کے حق دارقرارپاتے ہیں۔ زندگی آپ کی سب سے قیمتی متاع ہے۔ اس کی قربانی دینے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے وہ سب چیزیں قربان کردیں جو زندگی آپ کو عطا کرتی ہے یاعطاکرسکتی ہے،وہ تمام مادّی اور غیرمادّی چیزیں جن کا پہلے ذکر کیا جا چکا ہے۔
جوںہی آپ کو اس حقیقت کا احساس ہوگا کہ اپنی زندگی کے مالک آپ نہیں ہیں بلکہ اﷲ ہے توآپ یقینا اُس کی راہ میں اپنی زندگی نثار کردینے پر آمادہ وتیار ہوجائیں گے۔آپ اُس کی امانت اُس کے حضور پیش کردیں گے۔یہ بات بھی آپ کے ذہن نشین رہنی چاہیے کہ موت سے آپ کو مفر نہیںہے، وہ اپنے مقررہ وقت پر، مقررہ جگہ پر اور مقررہ طریقے سے آکر رہے گی۔ (اٰل عمران ۳:۱۸۵، ۱۴۴-۱۴۵، ۱۵۴-۱۵۶، النّساء ۴:۷۸) ۔ آپ کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ جو لوگ اﷲ کی راہ میں جان دیتے ہیں وہ اپنے لیے ، اپنی قوم کے لیے اور اپنے نصب العین کے لیے حیاتِ ابدی حاصل کرلیتے ہیں۔ یہ عمل اُن کی موت کو افضل و اشرف موت بنادیتاہے۔ وَلاَ تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌ ط بَلْ اَحْیَآئٌ وَّ لٰکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَo (البقرہ ۲:۱۵۴)’’اور جولوگ اﷲ کی راہ میں مارے جائیں، اُنھیں مُردہ نہ کہو، ایسے لوگ تو حقیقت میں زندہ ہیں مگر تمھیں اُن کی زندگی کا شعور نہیںہوتا‘‘۔
حُبِّ دُنیا نہ ہو، خوفِ مرگ نہ ہو، تب ہی آپ کو وہ استقامت حاصل ہوگی جو زندگی قربان کرنے کے لیے ضروری ہے۔مخالف قوتوںپر آپ صرف اُسی صورت میں غلبہ حاصل کرسکتے ہیں جب جان دینے پر آمادہ ہوں۔کامیابی کا دروازہ بس اسی طرح کھلے گا۔ مرکر آپ زندگی پالیتے ہیں، اپنے لیے بھی اور اپنی قوم کے لیے بھی۔ شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے۔ جب تک آپ جان دینے کے لیے تیار نہ ہوں تب تک آپ زندہ رہنے کے حق سے محروم رہیں گے، بالخصوص بحیثیت ِ قوم۔ایسا نہیں ہے کہ ہم میں سے ہر فرد کو اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے پکارا جائے گا، مگر آرزوے شہادت کی آگ ہر دِل میں بھڑکنی چاہیے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’جو اﷲ کی راہ میں جہاد نہ کرے یا اس کی آرزو بھی نہ رکھے وہ منافق کی موت مرے گا‘‘ (مسلم)۔ آپؐنے یہ بھی فرمایا کہ: ’’اُس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، مجھے یہ محبوب ہے کہ میں اﷲ کی راہ میںماراجاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر مارا جاؤں، اورپھر زندہ کیا جاؤں، اورپھراﷲ کی راہ میں مارا جاؤں‘‘ (بخاری، مسلم)۔ (جاری)
اقامت ِ دین تمام فقہاے اسلام کے نزدیک متفقہ اور مسلّمہ فریضہ ہے۔ اس میں اختلاف اور تفرقہ حرام ہے۔ جس طرح دین کی تبلیغ، ہماری ذمہ داری ہے، دین کے احکامات پر انفرادی اور اجتماعی طور پر عمل درآمد بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ یہ ذمہ داریاں ہم نے ازخود نہیں لیں بلکہ ربِ کائنات جس نے ہم کو عدم سے وجود بخشا، وہ ہمارا مالک اور حقیقی ولی ہے، وہی اس کا حق رکھتا ہے کہ وہ انسانی پیدایش کا مقصد بتائے اور اس کے لیے ضابطہ اور قانون بنائے۔ اس نے ہمیں انبیا ؑکا وارث قرار دیا ہے۔ اس نے انبیا ؑکی بعثت کا مقصد اقامت ِ دین کو قرار دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اب کوئی نبی نہیں آئے گا، لہٰذا یہ فریضہ اُمت مسلمہ کے سپرد کیا گیا۔ اس طرح ازخود اقامت دین ہماری زندگی کا مقصد بن جاتا ہے۔ مقصدِ زندگی قرار دینے کے بعد یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے مقصد زندگی کا صحیح شعور حاصل کریں اور اس کے مطابق اپنے اندر مطلوبہ اخلاق، اوصاف اور استعداد پیدا کریں۔
اقامت دین کی فرضیت سمجھنے کے لیے ہمیں سب سے پہلے قرآن حکیم اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ جو درحقیقت ایک ہی چیز کے دو عنوان ہیں، کا جائزہ لینا ہوگا۔ فرق صرف علم اور عمل کا ہے۔ قرآن اللہ کے دین کو علمی صورت میں پیش کرتا ہے اور اسوئہ و سیرت اس کو عملی شکل میں ظاہر کرتے ہیں۔ فقہ میں دونوں کو کتاب و سنت سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس کے بعد صحابہ کرام اور تابعین اور تاریخِ اسلام کے بزرگوں کی سیرت و خدمات اور قربانیوں کا مطالعہ کرنا ہوگا۔
قرآن حکیم کی ۱۱۴ سورتوں میں سے ۴۰ سورتوں میں دین کا ذکر آیا ہے۔ تفصیل یہ ہے: ان آیات میں دین کو دین اللّٰہ دو جگہوں پر کہا گیا: الدین الحق پانچ جگہوں پر، یوم الدین ۱۳جگہوں پر، الدین القیم تین مرتبہ آیا۔ دین القیمہدو جگہوں پر، مخلصین لہ الدینچھے مقامات پر، مخلصا لہ الدینتین جگہوں پر، اخلصوا دینھم، النساء میں اتخذوا دینکم ھذوا ولعبا، المائدہ میں اتخذو دینھم لھوا، الانعام میں اتخذوا دینھم لھوا، الاعراف میں ایک ایک مرتبہ آیا ہے۔ مجموعی طور پر ۹۴ مرتبہ لفظ دین کا ذکر کیاگیا ہے۔ اہم رکن اسلام صلوٰۃ (نماز) کا بھی قرآن شریف میں ۹۴ مرتبہ ذکر آیا ہے۔
وَ اِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً ط(البقرہ ۲:۳۰) ’’پھر ذرا اس وقت کا تصور کرو جب تمھارے رب نے فرشتوں سے کہا تھا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں‘‘۔ فرشتوں سے کلام اور جنت میں قیام کے بعد یہ مرحلہ آتا ہے کہ حضرت آدم ؑکو حکم ہوتا ہے: قُلْنَا اھْبِطُوْا مِنْھَا جَمِیْعًا فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ھُدًی فَمَنْ تَبِعَ ھُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لاَھُمْ یَحْزَنُوْنَo (البقرہ ۲:۳۸) ’’ہم نے کہا کہ تم سب یہاں سے اُتر جائو پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمھارے پاس پہنچے تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا۔ اور جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیںگے وہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے‘‘۔ ان آیات سے سب سے اہم حقیقت یہ سامنے آتی ہے کہ آسمان اور زمین اور ساری کائنات میں اقتدار اعلیٰ اللہ رب العالمین کا ہے۔ وہی خالق اور وہی حاکم ہے۔ دوسرے یہ کہ زمین میں اللہ تعالیٰ کے احکام کی تنفیذ کے ذمہ دار اس کے نائب انبیا علیہم السلام ہیں۔ حضرت آدم ؑ سے لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک سارے انبیاؑ خلافتِ الٰہیہ کے منصب پر فائز تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں منتخب فرمایا تھا اور ضمنی طور پر یہ بھی واضح ہوا کہ نبوت کا سلسلہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوا تو اب خلافت رسولؐ کا سلسلہ اس کے قائم مقام ہوا ،اور اس کے خلیفہ کا تقرر ملت کے انتخاب سے قرار پایا۔ اب قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا۔ جو فریضہ انبیا ؑاور رسولؐ کے سپرد ہوا تھا وہ اُمت محمدیہؐ کے سپرد کر دیا گیا۔ یہی اس اُمت کی وجۂ امتیاز ہے۔ کارِ نبوت کی ذمہ داری پوری اُمت پر عائد کی گئی۔
فرشتوں کے مکالمے سے حضرت آدم ؑ کے فائق اور برتر ہونے کا اظہار ہوتا ہے اور یہ بھی کہ حضرت آدم ؑ کو معلم کا درجہ دیا گیا اور فرشتوں کوطالب علم کا۔ عبودیت مخلوق کی صفت ہے، خالق کی نہیں۔ علم اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ علم کی وجہ سے آدم ؑ خلافت کے مستحق ہوئے، جب کہ فرشتے اہل نہ تھے۔ (معارف القرآن، مفتی محمد شفیع)
ان آیات سے مقصدِ تخلیقِ آدم اور نسلِ انسانی کی کائنات میں حیثیت اور اس کے صحیح مقام کا علم حاصل ہوا، انسان محکوم ہے حاکم اور خودمختار نہیں۔ حدود اللہ کے دائرے میں رہتے ہوئے اسے محدود اختیارات حاصل ہیں۔ خلافت الٰہیہ کے تقاضوں کی تکمیل اس کا مقصد زندگی ہے۔
فریضہ اقامت دین کی بحث میں ہمیں سب سے زیادہ رہنمائی سورئہ شوریٰ میں ملتی ہے: شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہٖٓ اِبْرٰہِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسٰٓی اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلاَ تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِط(الشوریٰ ۴۲:۱۳) ’’اس نے تمھارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوحؑ کودیا تھا اور جسے اے محمدؐ اب تمھاری طرف ہم نے وحی کے ذریعے بھیجا ہے اور جس کی ہدایت ہم ابراہیم ؑ اور موسٰی ؑاور عیسٰی ؑکو دے چکے ہیں اس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہوجائو‘‘۔ اس آیت کریمہ سے فریضہ اقامت دین کا قرآنی حکم عبارۃ النص (آیت کا مقصود) سے براہِ راست ثابت ہے، یعنی یہ آیت اسی مقصد کے بیان کے لیے نازل ہوئی ہے۔ قرآن کی یہ آیات مکی دور میں نازل ہوئی تھیں۔
معارف القرآن میں مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تشریح اس طرح فرماتے ہیں کہ اقامت دین فرض ہے اور اس میں تفریق حرام ہے۔ پھر لکھتے ہیں کہ : ’’اس آیت میں دو حکم مذکور ہیں۔ ایک، اقامت دین۔ دوسرے، اس کا منفی پہلو، یعنی اس میں تفرق کی ممانعت، جب کہ جمہور مفسرین کے نزدیک اَنْ اَقِیْمُوْا الدِّیْنَ میں حرف اَنْ تفسیر کے لیے ہے تو دین کے معنی متعین ہوگئے کہ مراد وہی دین ہے جوسب انبیا ؑ میں مشترک چلا آرہا ہے۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ وہ دین مشترک بین الانبیا اصول عقائد، یعنی توحید، رسالت، آخرت پر ایمان، اور عبادات، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ کی پابندی ہے، نیز چوری، ڈاکا، زنا، جھوٹ، فریب، دوسروں کو بلاوجہ شرعی ایذا دینے وغیرہ اور عہدشکنی کی حرمت ہے جو سب ادیانِ سماویہ میں مشترک اور متفق علیہ چلے آئے ہیں‘‘۔ (معارف القرآن، ج ۷، ص ۶۷۸)
مولانا شبیر احمد عثمانی اپنی تفسیر عثمانی میں تحریر فرماتے ہیں کہ اس جگہ حق تعالیٰ نے صاف طور پر بتلا دیا کہ اصل دین ہمیشہ سے ایک ہی رہا ہے۔ عقائد اور اصول دین میں تمام متفق رہے ہیں۔ سب انبیا اور ان کی اُمتوں کو حکم ہوا ہے کہ دین الٰہی کواپنے قول و فعل سے قائم رکھیں اور اصل دین میں کسی طرح تفریق یا اختلاف کو روا نہ رکھیں۔
مولانا مودودی نے سورئہ شوریٰ کی اس آیت کی تفہیم انتہائی بلیغ اور مدلل انداز میں پیش کی ہے اور دیگر حوالے بھی دیے ہیں۔ انھوں نے آیت کے پہلے لفظ شَرَعَ لَکُمْ سے اصطلاحی طور پر ضابطہ اور قاعدہ مقرر کرنا بتایا۔ شرع اور شریعت سے قانون اور شارع کو واضعِ قانون کے ہم معنی قرار دیا۔ پھر اپنے اس اہم ترین استدلال کی طرف متوجہ فرماتے ہیں کہ تشریع خداوندی فطری اور منطقی نتیجہ ہے اس بڑی حقیقت کا کہ اللہ ہی کائنات کی ہر چیز کا مالک ہے اور وہی انسان کا حقیقی ولی ہے۔ اس طرح وہی اس کا حق رکھتا ہے کہ انسان کے لیے قانون اور ضابطے وضع کرے (تفہیم القرآن، ج۴، ص ۴۸۷)۔ اس آسان استدلال سے مغرب کے تمام باطل اور مادی فلسفوںکی خوب صورت طریقے سے تردید ہوجاتی ہے۔ مغرب کا کلمہ لاالٰہ الا انسان ہے، جب کہ اسلام کا کلمہ لاالٰہ الا اللہ ہے۔ مغرب کے مطابق قانون سازی کا اختیار انسان اور جمہور کو ہے، جب کہ قرآن کے مطابق یہ حق صرف اور صرف اللہ کو حاصل ہے۔
فقہاے اسلام نے سورئہ شوریٰ کی آیت اَقِیْمُوْا الدِّیْنَ سے اخذ کرتے ہوئے اقامت دین کا اصطلاح کے طور پر استعمال شروع کیا ہے۔ جب توریت نازل ہوئی تھی تو توریت کی اقامت کا نام اقامت دین تھا، اور جب انجیل نازل ہوئی تو اُس کی اقامت بھی اقامت ِ دین تھا، اور اب قیامت تک قرآن کی اقامت کا نام بھی اقامت ِدین ہے۔ خود قرآن نے اہلِ کتاب کے بارے میں کہا ہے: وَ لَوْ اَنَّھُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰۃَ وَ الْاِنْجِیْلَ وَ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْھِمْ مِّنْ رَّبِّھِمْ لَاَکَلُوْا مِنْ فَوْقِھِمْ وَ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِھِمْ ط (المائدہ ۵:۶۶) ’’اور اگر وہ توریت اور انجیل اور جو کچھ اُن پر اُن کے رب کے طرف سے نازل ہوااُسے قائم رکھتے تو رزق اُن کے اُوپر سے برستا اور نیچے سے اُبلتا‘‘۔
پھر اسی سورہ میں آگے آیت ۶۸ میں اہلِ کتاب کو مخاطب کرکے جو بات کہی گئی ہے اس پر غور کیجیے کہ یہ خطاب اُنھی کے لیے نہیں بلکہ ہمارے لیے بھی کتنا اہم ہے: قُلْ یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰی شَیْئٍ حَتّٰی تُقِیْمُوا التَّوْرٰۃَ وَ الْاِنْجِیْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ ط (المائدہ ۵:۶۸) ’’کہہ دو کہ اے اہلِ کتاب تم ہرگز کسی اصل پر نہیں ہو جب تک کہ توریت اور انجیل اور ان دوسری کتابوں کو قائم نہ کرو، تمھاری طرف جو تمھارے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہیں‘‘۔
ہمارے مفسرین نے لکھا ہے: وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ سے مراد قرآن شریف ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب تک تم توریت انجیل اور قرآن کی اقامت نہ کرو گے اُس وقت تک تم دینی و مذہبی لحاظ سے کچھ نہیں ہو۔ اس طرح یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جو شخص بھی اللہ کی کتاب پر ایمان کا مدعی ہے اس پر اس کتاب کی اقامت فرض ہے، اور اب قیامت تک اقامت ِقرآن ہی کا نام ’اقامتِ دین‘ ہے۔
مولانا سیدابوالحسن علی ندوی، تاریخ دعوت عزیمت میں حضرت شاہ ولی اللہ کے نظریۂ خلافت پربحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ کلیۃ الکلیات (اصل الاصول) وہ حقیقت ہے جس کا عنوان ’اقامت ِ دین‘ ہے۔ غرض یہ ہے کہ اقامت دین ایک جامع اصطلاح ہے اور ان تمام احکامِ قرآنی پر حاوی ہے جو مَا اَنْزِلَ اللّٰہَ سے متعلق ہے۔
حضرت شاہ ولیؒ اللہ نے اپنے ترجمۂ قرآن فتح الرحمٰن میں من الدین کا ترجمہ ’از آئین‘ فرمایا ہے۔ مولانا مودودیؒ اس ترجمے سے استفادہ فرماتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو تشریح فرمائی ہے اس کی نوعیت آئین کی ہے۔ اس توجیہ سے یہ بات آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے کہ آیت میں دین کے معنی ہی اللہ تعالیٰ کی حاکمیت مان کر اس کے احکامات کی اطاعت کرنے کے ہیں، اور یہ کہ وہ خالق و مالک ہونے کی بنا پر واجب الاتباع ہے۔ اس کے حکم اور قانون کی پیروی نہ کرنا بغاوت اور بندگی سے انکار کے مترادف ہے۔
مولانا مودودیؒ نے دین کے مفہوم اور اقامت ِ دین کو بڑی شرح و بسط سے بیان فرمایا ہے۔ معاشرے میں سہل پسندی اور بے عملی کے رجحان پر تنقید کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں: اقامت دین کا مقصد صرف تبلیغ دین سے پورا نہیں ہوتا، بلکہ دین کے احکامات پر کماحقہٗ عمل درآمد کرنا، اسے رواج دینا اور عملاً نافذ کرنا اقامت دین ہے۔ مزید وضاحت کے لیے لکھتے ہیں: دین مشترک بین الانبیا سے صرف ایمانیات عقائد اور چند بڑے بڑے اخلاقی اصول ہی مراد نہیں ہیں، بلکہ اس سے تمام ہی شرعی احکام مراد ہیں۔ دلیل کے طور پر مولانا نے قرآن حکیم کی وہ آیات پیش کی ہیں جن میں ان احکام کو واضح اور صریح طور پر دین سے تعبیر کیاگیاہے۔ ذیل میں وہ آیات درج ہیں:
وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَآئَ وَیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوا الزَّکَٰوۃَ وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِ o (البینہ ۹۸:۵)، اور ان کو اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا کہ اللہ کی بندگی کریں، اپنے دین کو اس کے لیے خالص کرکے، بالکل یک سو ہوکر، اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں۔ یہی نہایت صحیح و درست دین ہے۔
حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ وَ الدَّمُ وَ لَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَ مَآ اُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ وَ الْمُنْخَنِقَۃُ وَ الْمَوْقُوْذَۃُ وَ الْمُتَرَدِّیَۃُ وَ النَّطِیْحَۃُ وَ مَآ اَکَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَکَّیْتُمْ قف وَ مَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ وَ اَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ ط ذٰلِکُمْ فِسْقٌ ط اَلْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِیْنِکُمْ فَلَا تَخْشَوْھُمْ وَ اخْشَوْنِ ط اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ط (المائدہ ۵:۳)، تم پر حرام کیا گیا مُردار، خون، سور کا گوشت، وہ جانور جو خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو، وہ جو گلا گھُٹ کر، یا چوٹ کھا کر، یا بلندی سے گر کر، یا ٹکرکھا کر مرا ہو۔ یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو۔ سواے اُس کے جسے تم نے زندہ پاکر ذبح کرلیا۔ اور وہ جو کسی آستانے پر ذبح کیا گیا ہو۔ نیز یہ بھی تمھارے لیے ناجائز ہے کہ پانسوںکے ذریعے سے اپنی قسمت معلوم کرو۔ یہ سب افعال فسق ہیں۔ آج کافروں کو تمھارے دین کی طرف سے پوری مایوسی ہوچکی ہے، لہٰذا تم ان سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو۔ آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے۔
معلوم ہوا کہ یہ سب احکام شریعت دین ہی کا حصہ ہیں۔
اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍ وَّلاَ تَاْخُذْکُمْ بِہِمَا رَاْفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ (النور ۲۴:۲)، زانیہ عورت اور زانی مرد ،دونوں میں سے ہرایک کو ۱۰۰،۱۰۰ کوڑے مارو اور ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملے میں دامن گیر نہ ہو۔
اس آیت میں قابلِ توجہ امر یہ ہے کہ یہاں فوجداری قانون کو دین اللہ فرمایا گیا ہے۔ معلوم ہوا صرف عبادت ہی دین نہیں ہے، مملکت کا قانون بھی دین ہے۔ (تفہیم القرآن)
ان تفصیلات کے بعد ان آیاتِ ربانی پر غور کرتے ہیں جن سے اصولِ فقہ کی روشنی میں اقامت ِ دین کا فرض ہونا اور منشاے الٰہی کا مقصود ہونا دلالۃ النص اور اقتضاء النص سے ثابت ہوتا ہے۔ مولانا محمد اسحاق ندوی اپنی کتاب اسلام کے سیاسی نظام میں دینی حکومت کے قیام کے لیے سورئہ نساء کی آیت : اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ (اے لوگو جو ایمان لائے ہو اطاعت کرو اللہ کی اور اس کے رسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں صاحب ِ امر ہوں۔ النساء۴:۵۹) سے اقامت ِ دین کا فرض ہونا اقتضاء النص سے ثابت کیا ہے۔ اس آیت میں صاحب ِ امر کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے جس پر عمل اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب صاحب ِ امر موجود ہو۔ اب اسے وجود میں لانا بالفاظِ دیگر اقامت دین کے نظم کوقائم کرنا نص کا منشا اور مقتضا ہے۔
اسی طرح سورئہ انفال کی آیت: وَ اَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَ عَدُوَّکُمْ(اور تم لوگ جہاں تک تمھارا بس چلے زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلے کے لیے مہیا رکھو تاکہ ان کے ذریعے سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان دوسرے اعدا کو خوف زدہ کر دو جنھیں تم نہیں جانتے۔ الانفال۸:۶۰) میں ہمیں حکم دیا جاتا ہے کہ ہم اپنی قدرت کی حد تک دشمنانِ دین کے مقابلے کے لیے قوت فراہم کریں۔ تنظیم، افراد اور نظم حکومت کا قیام بالفاظ دیگر نصب امامت خود قوت کا ایک حصہ ہے، بلکہ اس نوعیت کی کل قوتوں کا سرچشمہ ہے۔ اس آیت سے امام کے تقرر کی فرضیت اسی طرح ثابت ہوتی ہے جس طرح جنگ کے لیے اسلحہ مہیا کرنے کی فرضیت۔
سورئہ توبہ کی آیت: قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ لَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ لَا یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗ وَ لَا یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ حَتّٰی یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَّدٍ وَّ ھُمْ صٰغِرُوْنَo (جنگ کرواہلِ کتاب کے ان لوگوں سے جو اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان نہیں لاتے اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے حرام کیاہے اسے حرام نہیں کرتے اور دین حق کو اپنادین نہیں بناتے۔ یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں۔ التوبہ۹:۲۹) سے اقامت ِ دین اور دینی نظام کے قیام کی فرضیت واضح طور پر ثابت ہوتی ہے۔ آیت کریمہ اہلِ اسلام کو قتال کا حکم دیتی ہے اور اس وقت تک جاری رکھنے کا حکم دیتی ہے تاآنکہ اہلِ باطل کو مغلوب کر کے ان سے جزیہ وصول کیا جائے اور انھیں چھوٹا بناکر رکھا جائے۔ ظاہر ہے کہ ان احکامات کو پورا کرنا دینی حکومت اور اقامت ِ نظم دین کے بعد ہی ممکن ہے۔
سورئہ مائدہ کے ساتویں رکوع میں فرمایا:
وَ مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَo(مائدہ۵:۴۵)، جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی ظالم ہیں۔
وَ مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنََo(مائدہ۵:۴۷)، اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی فاسق ہیں۔
معلوم ہوا کہ تمام معاملات میں ما انزل اللّٰہ کے مطابق فیصلے نہ کرنے والے کافر، ظالم اور فاسق ہیں، اور اقامت ِ دین حکومت و عدالت کی کرسیوں پر اسی طرح ضروری اور لازم ہے جس طرح اقامت ِ صلوٰۃ کے لیے اوقات کے لحاظ سے ادایگی نماز اور مسجد کی تعمیر اور اُس کا انتظام۔ اور یہ کہ یہ سب فرائض اقامت ِدین کا حصہ ہیں۔
وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ ط وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَo(اٰل عمرن۳:۱۰۴) ، اور تم میں ایک جماعت ایسی ہونا ضروری ہے کہ (دوسروں کو بھی) خیر کی طرف بلایا کریں، بھلائی کا حکم دیںاور برائیوں سے روکتے رہیں۔
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ (اٰل عمرن۳:۱۱۰) ، اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
ان دونوں آیتوں میں یامرون اور تامرون کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، یعنی حکم دیتے ہو۔ یبلغون اور وتبلغون نہیں فرمایا گیا۔ گویا صرف پہنچا دینا اورتبلیغ کرنا کافی نہیں ہے بلکہ ربِ کائنات کائنات احکم الحاکمین کے دینی نظام کوقوت سے نافذ کرنا مقصود ہے۔
مولانا ابوالحسن ندوی اسلامیت اور مغربیت کی کش مکش میں اس آیت کے حوالے سے لکھتے ہیں: ’’اس کا سوال ہی پیدانہیں ہوتا کہ اس اُمت کی جگہ قافلے کے پیچھے اور حاشیہ برداروں کی صف میں ہو اور وہ دوسری اقوام کے سہارے زندہ رہے، اور قیادت و رہنمائی، امرونہی اور دینی وفکری آزادی کے بجاے تقلید اور نقل، اطاعت و سپراندازی پر راضی اور مطمئن ہو‘‘۔ اس مضمون کی دوسری آیات آل عمران (۳:۱۱۴)، الاعراف (۷:۱۶۷)، التوبہ (۹:۷۱)، الحج (۲۲:۱۴۱)، لقمان (۳۱:۱۷) ہیں۔
سورئہ توبہ کی آیت ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ (اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدیت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پورے جنس دین پر غالب کردے۔ ۹:۳۳) سے اقامت ِ دین کی فرضیت اور غلبۂ دین دلالت النص سے ثابت ہوتا ہے۔ یہ آیت قرآن شریف میں تین جگہوں پر آئی ہے: سورئہ توبہ کی ۳۳ اور سورئہ صف کی آیت کا آخری ٹکڑا وَ لَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ ہے، اور سورئہ فتح میں آیت کا آخری حصہ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ شَھِیْدًا ہے۔ پہلی دونوں آیتوں میں یہ بات کہی گئی ہے کہ دین حق کا غلبہ مخالفین کو خواہ کتنا ہی بُرا لگے ہم نے اپنے رسول کو اسی مقصد کے لیے بھیجا ہے، اور سورئہ فتح کا آخری حصہ بتاتا ہے کہ بعثت محمدیؐ کی اس غرض و غایت پر اللہ کی گواہی کافی ہے۔ اب اگر تمام دنیا مل کر بھی یہ کہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد یہ نہیں تھا، اُس کی بات قابلِ سماعت نہ ہوگی۔
مولانا مودودیؒ تفہیم القرآن میں لکھتے ہیں کہ اس آیت میں بعثت رسولؐ کی غرض یہ بتائی گئی ہے کہ جس ہدایت اور دین حق کو وہ خدا کی طرف سے لایا ہے اسے دین کی نوعیت رکھنے والے طریقوں اور قاعدوں پر غالب کردے۔ دوسرے الفاظ میں رسولؐ کی بعثت کبھی اس غرض کے لیے نہیں ہوئی کہ جو نظامِ زندگی لے کر وہ آیا ہے وہ کسی دوسرے نظامِ زندگی کا تابع اور اس سے مغلوب بن کر اور اس کی دی ہوئی رعایتوں اور گنجایشوں میں سمٹ کر رہے، بلکہ وہ بادشاہِ ارض و سما کا نمایندہ بن کر آتا ہے اور اپنے بادشاہ کے نظامِ حق کو غالب دیکھنا چاہتا ہے۔ اگر کوئی دوسرا نظامِ زندگی دنیا میں رہے بھی تو اسے خدائی نظام کی بخشی ہوئی گنجایشوں میں سمٹ کر رہنا چاہیے جیساکہ جزیہ ادا کرنے کی صورت میں ذمیوں کا نظامِ زندگی رہتا ہے۔ (تفہیم القرآن، ج۲ص ۱۹۰)
حضوؐر کے اس مقصد بعثت کو شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اپنی کتاب حجۃ اللّٰہ البالغہ اور ازلۃ الخفا میں متعدد مقامات پر پیش کیا ہے۔ اسی آیت پر بحث کرتے ہوئے شاہ صاحب نے یہ تحریر فرمایا ہے: ’’جان لینا چاہیے کہ اس آیت کی صحیح توجیہ یہ ہے کہ ہرغلبہ جودین حق کو حاصل ہوا وہ سب کا سب لیظھرہ علی الدین کلّہ میں داخل ہے، اور وہ عظیم الشان غلبہ، جو کسریٰ وقیصر کی حکومتوں کو درہم برہم کردینے کی شکل میں حاصل ہوا بدرجہ اولیٰ اس کلمے میں داخل ہے، اور اس بڑے درجہ ومرتبہ کے علَم بردار خلفاے راشدین تھے۔ ان بزرگوں کی کوششیں آنحضرتؐ کی بعثت کے مقتضا میں داخل تھیں۔ (اقامتِ دین، سید احمد عروج قادری)
شاہ ولی اللہ نے اپنی کتاب حجۃ اللّٰہ البالغہ میں مختلف عنوانات کے تحت بار بار یہ حقیقت دہرائی ہے کہ اللہ تعالیٰ انبیاے کرام کواقامت دین ہی کے لیے مبعوث فرماتا رہا ہے اور سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اسی لیے مبعوث فرمایا تھا کہ وہ دین کو قائم کریں اور اُسے دوسرے ادیان باطل پر غالب کریں۔ گویا غلبۂ دین کے لیے اجتماعی جدوجہد اور قیامِ جماعت لازمی ہے۔
شاہ ولی اللہ ’الجہاد‘ کے تحت لکھتے ہیں: جان لو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خلافتِ عامہ کے ساتھ مبعوث ہوئے تھے اور آپ نے دین کو تمام ادیان پر غلبہ دینا تھا اور یہ کام جہاد اور آلاتِ جہاد تیار کرنے سے ہی ہوسکتا ہے۔ اگر جہاد کو لوگ چھوڑ دیںاور بیل کی دموں کے پیچھے لگ جائیں (یعنی حصولِ معاش میں لگ کر جہادسے غافل ہوجائیں) تو ذلت ان کو گھیر لے گی اور دوسرے ادیان والے ان پر غالب آجائیں گے۔
شاہ صاحب جہاد کی فضیلت کے بارے میں بہت سی حدیثوں کو پیش کرتے ہیں:
قال رسولؐ مثل المجاھد فی سبیل اللّٰہ کمثل القانت الصائم (اطراف المسند المعتلی)، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی مثال ایسی ہے جیسے کہ شب بیدار اور روزہ دار کی مثال ہے۔
وقال رسولؐ من احتبس فرساً فی سبیل اللّٰہ ایماناً باللّٰہ وتصدیقاً بوعدہ فان شبعہ وریہ و روثہ وبولہ فی میزانہ یوم القیامۃ (السنن الکبریٰ للبیہقی)، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اللہ کی راہ میں اور اللہ پر ایمان رکھتے ہوئے ایک گھوڑا باندھا اور اُس کو پیٹ بھر کھانا کھلایا اس کو پانی پلایا اور قیامت کے دن اس کا چارا، لید اور پیشاب اس کی نیکیوں میں یہ سب تولے جائیں گے۔
قال رسولؐ ان اللّٰہ یدخل بسھم الواحد ثلاثۃ نفر فی الجنۃ صانعہ یحتسب فی صنعہ والرامی بہ ومنبلہ (سنن نسائی)، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ ایک تیر کی وجہ سے تین افراد کو جنت میں داخل کرے گا۔ ایک بنانے والے کو جو اس کی صنعت میں ثواب چاہتا ہے اور چلانے والے اور تیر دینے والے کو۔
وقال رسولؐ من رمٰی بسھم فی سبیل اللّٰہ فھو لہ عدل محرر (سنن نسائی)، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو اللہ کی راہ میں ایک تیر چلائے گا اُس کو غلام آزاد کرنے کا ثواب ملے گا۔
جب اقامت ِ دین اور اعلاے کلمۃ اللہ کے سلسلے میں ایسے چھوٹے کام کا ثواب جنت ہے تو بڑی خدمات کے ثواب کا اندازہ آسانی سے لگایا جاسکتا ہے۔
اقامت ِ قرآن کے لیے اسلامی حکومت (حکومت ِ الٰہیہ) کا قیام لازمی ہے۔ قرآنی آیات احکام پر عمل صرف اسلامی حکومت کے ذریعے سے ہی کیا جاسکتا ہے:
وَالسَّارِقُ وَ السَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْٓا اَیْدِیَھُمَا جَزَآئًم بِمَا کَسَبَا نَکَالًا مِّنَ اللّٰہِ ط (المائدہ ۵:۳۸)، چور خواہ عورت ہو یا مرد، دونوں کے ہاتھ کاٹ دو۔ یہ ان کی کمائی کا بدلہ ہے اور اللہ کی طرف سے عبرت ناک سزا۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo (المائدہ ۵:۹۰)، اے لوگو جو ایمان لائے ہو، یہ شراب اور جُوا اور یہ آستانے اور پانسے، یہ سب گندے شیطانی کام ہیں، ان سے پرہیز کرو۔ اُمید ہے کہ تمھیں فلاح نصیب ہوگی۔
عہدصحابہؓ سے شراب پینے کی سزا ۸۰ کوڑے تھی۔ یہی مسلک امام ابوحنیفہ اور امام مالک کا ہے۔ امام شافعی کے نزدیک شراب نوشی کی حد ۴۰کوڑے ہے۔ ان حدود کا اجرا صرف حکومت کا کام ہے۔
وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوْا بِاَرْبَعَۃِ شُہَدَآئَ فَاجْلِدُوْھُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَۃً وَّلاَ تَقْبَلُوْا لَھُمْ شَھَادَۃً اَبَدًا (النور۲۴:۴)، اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں پھر چار گواہ لے کر نہ آئین ان کو ۸۰ کوڑے مارو اور ان کی شہادت کبھی قبول نہ کرو۔
اَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا ط (البقرہ ۲:۲۷۵)، اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام۔
قرآن حکیم میں قتال فی سبیل اللہ کے لیے گیارہ آیات اور جہاد کے لیے ۲۶ آیات آئی ہیں۔ اسی طرح حدود اللہ کے اجرا کے لیے متعدد قرآنی آیات ہیں۔ اہلِ علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ان قرآنی آیات پر اسلامی حکومت ہی کے ذریعے سے عمل ہوسکتا ہے اور اسلامی حکومت کی عدم موجودگی کی صورت میں انفرادی طور پران پر عمل نہیں کیا جاسکتا۔ ایسے تمام نصوصِ قرآنی سے بطور اقتضا اسلامی حکومت کے قیام کی فرضیت ثابت ہوتی ہے اور مسلم معاشرے کے تمام افراد پر اسلامی حکومت قائم کرنے کی کوشش کرنا حدِاستطاعت تک فرض ہے اور استطاعت کے باوجود اسلامی حکومت قائم کرنے کی کوششیں نہ کرنا ویسے ہی گناہ اور معصیت ہے، جیسے صاحب ِ استطاعت مسلمان پر روزہ، نماز، زکوٰۃ، حج فرض ہے اور ان فرائض کا ترک کرنا عاقبت کو برباد کرنا ہے۔
قرآن حکیم میں مسلمانوں کی ایک بہت اہم اور بڑی ذمہ داری یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے حق کے گواہ بن کر کھڑے ہوں اور شہادتِ حق کی حجت پوری کریں۔ فرمایا گیا: وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا ط (البقرہ ۲:۱۴۳)، ’’اور اسی طرح تو ہم نے تم کو ایک اُمت وسط بنایا تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو‘‘۔ اس فقرے سے مراد یہ ہے کہ حشر کے دن جب حساب لیا جائے گا اُس وقت رسول ہمارے نمایندے ہوکر تم پر گواہی دیں گے کہ صحیح فکروعمل نظامِ عدل اور دین حق کی جو تعلیم انھیں اللہ سے ملتی تھی رسولؐ نے اس کو پوری طرح قولاً و فعلاً پہنچا دیا، اور اس کے بعد رسولؐ کے قائم مقام ہونے کی حیثیت سے اُمت محمدیہؐ نے اسے عام لوگوں تک پہنچانے میں اپنی صلاحیت اور قوت کی حد تک کوئی کوتاہی نہیں کی۔
اُمت محمدیہؐ کا منجانب اللہ گواہی کے منصب پر مامور ہونا درحقیقت اُس کو امامت اور پیشوائی کا مقا م عطا کیا جانا ہے۔ پھر آگے جو بیان تحویل قبلہ اور اتمامِ نعمت کا آیا ہے، اس سے یہ حقیقت واضح ہورہی ہے کہ بنی اسرائیل کو جو منصب امامت حاصل تھا وہ ختم ہوا اور اب امامتِ اُمم (اُمتوں کی امامت) کا منصب اُمت محمدیہؐ کو تفویض ہو رہا ہے۔ سورئہ بقرہ کی اس آیت کے بعد سورئہ حج میں یہ بات ایک نئے انداز سے دہرائی گئی ہے:
ھُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ مِنْ قَبْلُ وَ فِیْ ھٰذَا لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَھِیْدًا عَلَیْکُمْ وَ تَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ(الحج ۲۲: ۷۸)، اللہ نے پہلے بھی تمھارا نام مسلم رکھا تھا اور اس قرآن میں بھی تمھارا یہی نام ہے تاکہ رسولؐ تم پر گواہ ہو۔
اس تفصیل کے بعد منصب امامت و ہدایت اور اقامت دین کی اصل غرض سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں تین آیات بڑی اہمیت کی حامل ہیں:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآئَ لِلّٰہِ وَ لَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ اِنْ یَّکُنْ غَنِیًّا اَوْ فَقِیْرًا فَاللّٰہُ اَوْلٰی بِھِمَا فَلَا تَتَّبِعُوا الْھَوٰٓی اَنْ تَعْدِلُوْا وَ اِنْ تَلْوٗٓا اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا o (النساء۴:۱۳۵)، اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علَم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو، اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زد خود تمھاری اپنی ذات پر یا تمھارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریقِ معاملہ خواہ مال دار ہو یا غریب، اللہ تم سے زیادہ اُن کا خیرخواہ ہے۔ لہٰذا اپنی خواہشِ نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے۔
اسی مضمون کو سورئہ مائدہ میں ایک دوسرے تقاضے کے ساتھ پیش کیا گیا ہے:
کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِ وَ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا ط اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی وَ اتَّقُوْا اللّٰہَ ط اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَ o (المائدہ۵:۸)، اے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ تم انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو یہ خداترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو جو کچھ تم کرتے ہو۔ اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔
پہلی آیت میں یہ بتایا گیا کہ اللہ کی خوشنودی کے لیے گواہی دینے والے بنو، اگرچہ تمھارے اپنے نفس کے یا اعزہ و اقربا کے خلاف گواہی ہورہی ہو۔ دوسری آیت میں یہ بتایا گیا کہ کسی سے دشمنی تمھیں حق کی گواہی سے منحرف کرنے کاسبب نہ ہو۔ غرض محبت و عداوت دونوں ایسی چیزیں ہیں جو انسان کو عدل و راستی کی راہ سے ہٹاکر ظلم میں مبتلا کردیتی ہیں۔ کونوا قوامین بالقسط اور قوامین للّٰہ کوتاکید سے پیش کیا گیا ہے۔ جس کا مقصد یہ ہے کہ عدل وانصاف اور او امراللّٰہ پر ہر وقت اور ہرحال میں قائم رہنا ضروری ہے۔ دوستی دشمنی تمھیں راہِ حق سے منحرف نہ کرے۔
اس ضمن میں تیسری آیت درج ذیل ہے:
لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ وَاَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْہِ بَاْسٌ شَدِیْدٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ (الحدید ۵۷:۲۵)، ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا، اور ان کے ساتھ کتاب، اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں، اور لوہا اُتارا جس میں بڑا زور ہے اور لوگوں کے لیے منافع میں۔
پہلی دو آیات میں خطاب مومنین سے تھا۔ سورئہ حدید کی آیت سے خطاب کا دائرہ وسیع ہوگیا اور لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ کہہ کر پورے انسانی معاشرے اور اس کے پورے نظام کو عدل پر قائم رکھنے کی بات کی گئی۔ اور یہ اعلان سامنے آیا کہ حضرت آدم ؑ سے لے کر خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک سب کی بعثت اور آسمانی کتابوں کا سارا نظام انصاف اور عدل ہی پر قائم کرنے کے لیے وجود میں لایا گیا۔ حضوؐر کے بعد اس نظام کے قیام کی ذمہ داری اُمت محمدیہؐ کے اُوپر ڈالی گئی۔ اسی ذمہ داری کو قرآن نے شہادتِ حق سے تعبیر کیا ہے۔ اور یہ کہ لوہے کو نازل کیا جس میں بڑی طاقت اور منافع ہیں۔ یہ بات خود بخود اس عمل کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اس سے مراد سیاسی اور جنگی طاقت ہے۔ رسولوں کو قیامِ عدل اور اقامت ِ دین کی محض اسکیم پیش کرنے کے لیے مبعوث نہیں فرمایا بلکہ یہ بات بھی ان کے مشن میں داخل تھی کہ اس عدل کامل کو عملاً قوت سے نافذ کیا جائے اور ظالمین کو سزا دی جائے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عدلِ حقیقی اور اقامت ِ دین کو اپنے قول اور فعل سے قائم کیا، اور اس کے لیے ہر طرح کی قربانیاں دیں۔ یہ تمام قرآنی آیات دلالۃ النص (قرآن کی آیت کا دلالت کرنا) سے اقامت دین کے فریضے کو ثابت کرتی ہیں۔
گذشتہ تفصیلات سے یہ مدعا اور مقصد وضاحت سے ثابت ہوتا ہے کہ اقامت ِ دین اولین اور اہم ترین فریضہ ہے اور اس کا مقام تمام فرائض میں جنس اعلیٰ اور کلیۃ الکلیات ہے جو دوسرے تمام فرائض پر حاوی ہے۔ یہ فریضہ نبوت کے ساتھ ہی شروع ہوا اور اقامت ِ دین کی جدوجہد حیاتِ طیبہ کے آخری لمحات تک جاری رہی۔ نماز جو دین اسلام کا رکن اعظم ہے معراج میں، یعنی نبوت کے گیارھویں سال فرض ہوا۔ روزہ دو ہجری اور زکوٰۃتو مکی زندگی سے فرض تھی مگر نصاب کے ساتھ زکوٰۃ کی فرضیت آٹھ ہجری میں ہوئی اور حج نو ہجری میں فرض ہوا مگر فریضہ اقامت ِ دین آنحضرتؐ کی پوری زندگی پر محیط ہے۔
مسلمانوں کی دنیوی و اُخروی سعادت اور اسلام کی دعوت، غلبہ و اقتدار کا انحصار اقامت ِ دین پر ہے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقصد ِ رسالت، یعنی اظہارِ دین کا حصول بھی اقامت ِ دین کے ذریعے ممکن ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قیامت تک آنے والے تمام مسلمانوں پر اقامت ِ دین کو فرض قرار دیا ہے تاکہ ہر دور میں اس کے ذریعے مقصد ِ رسالت ’اظہارِ دین‘ حاصل کیا جاتا رہے۔
دیگر فرائض کا تعلق افراد کے ذاتی اعمال سے ہے اور قیامت کے دن میدانِ حشر میں ان فرائض نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج وغیرہ کا حساب انفرادی ہوگا، جب کہ اقامت ِ دین کُل وقتی طریقۂ حیات ہے جو انسانی اجتماعیت پر منطبق ہوتا ہے اور انسانی زندگی کا کوئی گوشہ اور لمحہ اس سے خالی نہیں۔
اس ہمہ گیر احساس فرض ہی نے مسلم ہند کے لیے پاکستان بنانا ممکن ہوا۔ ۱۹۴۹ء میں آئین ساز اسمبلی نے قرارداد مقاصد، یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ کی حاکمیت کے اصول کو قانونی اور سیاسی طور پر تسلیم کیا۔ اس عظیم خدمت میں بڑا حصہ علامہ شبیراحمد عثمانی، مشرقی پاکستان [موجودہ بنگلہ دیش] کے مولانا اکرم خان اور لیاقت علی خان کا رہا ہے۔ بعد میں ۱۹۵۱ء میں تمام اسلامی مکاتب ِ فکر کے علما نے متحدہ و متفقہ طور پر ۲۲رہنما اسلامی دستوری اصول مرتب فرمائے جس میں مولانا مودودی، علامہ سید سلیمان ندوی، مولانا ظفراحمد انصاری، مولانا مفتی محمد شفیع، مولانا احترام الحق جیسے ۳۱ علما شریک تھے۔ اب یہ ہم سب کی اور بالخصوص علماے کرام اور دینی جماعتوں کی بڑی ذمہ داری ہے کہ اللہ کے دین کو پاکستان میں عملی طور پر نافذ کرنے میں اپنا کردار ادا کریں اور عنداللہ خوشنودی کے مستحق قرار پائیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اسوئہ رسولؐ اور اسوئہ صحابہؓ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
مقالہ نگار شعبہ تقابل ادیان و ثقافت اسلامیہ، جامعہ سندھ جامشورو کے سابق صدر ہیں
گذشتہ چند صدیوں میں مختلف مغربی ممالک میں بنیادی انسانی حقوق کے پُرزور نعرے لگائے گئے اور ان کے لیے زبردست تحریکیں چلائی گئیں۔ اس کے نتیجے میں مطلق العنان حکم رانوں کے لامحدود اختیارات پر قدغن لگی اور بے بس اور مجبور انسانوں کو بہت سے وہ حقوق اور اختیارات حاصل ہوئے جن سے وہ صدیوں سے محروم تھے۔ دھیرے دھیرے عوام طاقت ور ہوتے گئے تو ان کو حاصل ہونے والے حقوق میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ ان تحریکوں کے نتیجے میں آزادی، مساوات اور عدل و انصاف کے تصورات کو فروغ ملا۔ ان کے ثمرات و فوائد سے یوں توعام انسان بہرہ ور ہوئے، لیکن خاص طور پر عورتوں کو ان کا وافر حصہ ملا۔ وہ صدیوں سے اپنے حقوق سے محروم تھیں۔ انھیں مردوں کا محکوم اور زیرنگیں سمجھا جاتا تھا۔ ان تحریکوں نے انھیں محرومی اور جبر سے آزادی اور زندگی کے ہر میدان میں مردوں کے برابر درجہ دینے اور انھی جیسا معاملہ کرنے کی وکالت کی۔
بنیادی حقوق (Fundamental Rights)، مساوی حقوق (Equal Rights) اور آزادیِ نسواں (Emancipation of women) کے نام سے برپا ہونے والی یہ تحریکیں اصلاً مغربی ماحول کی پیداوار تھیں اور کلیسا کے جبر اور عورتوں کے بارے میں مسیحی نقطۂ نظر نے اس کے لیے راہ ہموار کی تھی۔ اس لیے یہ ردِّ عمل کی نفسیات کا شکار تھیں۔ تفریط کے ردّ عمل میں افراط نے جنم لیا اور حدود و قیود سے ماورا ہرطرح کی آزادی اور مردوزن کے درمیان ہر اعتبار سے مساوات کا مطالبہ کیا جانے لگا۔ ان تحریکوں کے اثرات کو مشرقی ممالک نے بھی قبول کیا اگرچہ ان کا تہذیبی و ثقافتی اور تاریخی پس منظر مغربی ممالک سے مختلف اور جداگانہ تھا، لیکن وہاں بھی ان تحریکوں کو خوب پھلنے پھولنے کا موقع ملا اور آزادی و مساوات کے ان تصورات کو کافی فروغ ملا۔
خاندان کی تشکیل مرد اورعورت کے باضابطہ جنسی تعلّق سے ہوتی ہے۔ یہ تعلق ایک دوسرے کے حقوق اور ذمہ داریاں متعین کرتا ہے، جن کی پاس داری بہتر خطوط پر افراد خاندان کے رہن سہن اور نشو و نما کے لیے ضروری ہوتی ہے، لیکن ذمہ داریوں سے بچتے ہوئے لذّت کے حصول کے رجحان نے ضابطے کے ساتھ جنسی تعلق کو فرسودہ قرار دیا اور بغیر نکاح آزاد جنسی رابطہ (Pre Marital Sexual Permissiveness) کو سندِ جواز عطا کی۔ یہ دلیل دی گئی کہ اگر نکاح کے بندھن میں بندھ کر کوئی مرد اور عورت ایک ساتھ زندگی گزاریں گے تو کچھ عرصہ کے بعد ناپسندیدگی یا کسی اور وجہ سے الگ ہونے میں قانونی رکاوٹیں ہوں گی، اس لیے زیادہ بہتر صورت یہ ہے کہ بغیر نکاح کے وہ ایک ساتھ رہیں اور جب ان کا جی بھر جائے، ایک دوسرے سے علیحدہ ہوجائیں۔ جدید اصطلاح میں اسے Live in Relationship کا نام دیا گیا ہے۔ یہ طرزِ رہایش ان نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں میں مقبول ہو رہا ہے جو اعلیٰ تعلیم کے حصول یا ملازمتوں کے لیے اپنے وطن سے دوٗر کہیں عارضی طور پر مقیم ہوتے ہیں اور مختلف اسباب سے ابھی ان کے لیے نکاح کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ یہ وبا مغربی ملکوں میں تو پہلے سے عام تھی، ہندستان میں، جو مذہبی پس منظر رکھتا ہے، اسے عموماً ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا تھا، لیکن اب دھیرے دھیرے اس کے حق میں فضا ہموار کی جارہی ہے۔اس سلسلے میں سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کا حوالہ دینا مناسب ہوگا۔ گذشتہ سال ۲۳؍مارچ ۲۰۱۰ء کو سپریم کورٹ کے تین فاضل ججوں پر مشتمل ایک بنچ نے جنوبی ہند کی مشہور اداکارہ ’خوشبو‘ (جس نے قبل از نکاح جنسی تعلق کی حمایت کی تھی) کی پٹیشن پر اپنا فیصلہ محفوظ رکھتے ہوئے ان احساسات کا اظہار کیا تھا: ’’اگر دو جوان (مرد اور عورت) ایک ساتھ رہنا چاہتے ہیں تواس میں جرم کیا ہے؟ یہ معاملہ جرم تک کہاں پہنچتا ہے؟ ایک ساتھ رہنا جرم نہیں ہے۔ یہ جرم ہو بھی نہیں سکتا‘‘۔ اس سے آگے بڑھ کر فاضل ججوں نے دستور کی دفعہ ۲۱ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھاکہ یہ حقِ حیات او رحق آزادی کے خلاف ہے، جنھیں دستور میں ’بنیادی حقوق‘ کی حیثیت دی گئی ہے۔
یہ تو قبل از نکاح جنسی تعلق کا معاملہ تھا۔ بعد از نکاح جنسی آزاد روی کے معاملے میں تو اس سے بھی زیادہ کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ کہا گیا کہ ہر مرد اور عورت، خواہ وہ شادی شدہ ہو یا غیرشادی شدہ، آزاد اور اپنی مرضی کا مالک ہے۔ جنسی تعلق کے لیے اس پر جبر تو قابلِ مواخذہ اور موجب تعزیر ہے، لیکن اگر دونوں باہم رضامندی سے یہ تعلق قائم کریں تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔ قانون کی کوئی کتاب یا عدلیہ کا کوئی فیصلہ اٹھاکر دیکھ لیجیے ، اس میں زنا (Rape) کی تعریف یہی ملے گی: (وہ جنسی تعلق جو کسی شخص سے بالجبر اس کی مرضی کے خلاف قائم کیا جائے۔ گویا وہ جنسی تعلق جو بالرضا قائم ہو اس پر نہ سماج کو انگلی اٹھانے کا حق ہے، نہ قانون اس پر کوئی گرفت کرسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ باہمی رضامندی سے جنسی تعلقات کے واقعات آئے دن میڈیا پر زیربحث رہتے ہیں۔ جو واقعات قانون کی گرفت میں آجاتے ہیں ان کے مقابلے میں ان واقعات کی تعداد بہت زیادہ ہے جو سماج کی نظروں سے پوشیدہ رہ کر انجام پاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو جنسی تعلق باہم رضا مندی سے قائم کیا جائے گا، دوسروں پر اس کا انکشاف شاذ و نادر ہی ہوپائے گا۔
ایک رپورٹ کے مطابق ہندستان میں ہم جنس پرستوں کی تعداد تقریباً ۲۵ لاکھ ہے۔ اگرچہ یہاں کے قانون میں اب تک ہم جنس پرستی کو قابل سزا جرم قرار دیا گیا ہے، لیکن اب ایسی آوازیں اٹھنے لگی ہیں کہ اسے قانونی جواز عطا کیا جائے اور ہم جنس پرستوں کے بھی روایتی شادی شدہ جوڑوں جیسے حقوق تسلیم کیے جائیں۔ چند سال سے ایک غیر سرکاری تنظیم (NGO) ناز فاؤنڈیشن دہلی اس کے حق میں تحریک چلارہی ہے۔ چنانچہ جون ۲۰۰۹ء میں دہلی ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں ہم جنس پرستی کو قانونی جواز دیے جانے کی رائے ظاہر کی۔ فاضل ججوں نے کہا کہ برطانوی عہد کے بنے ہوئے انڈین پینل کوڈ ۱۸۶۰ء کی دفعہ ۳۷۷، جس میں ہم جنس پرستی اور تسکین جنس کے دیگر غیر فطری طریقوں کو قابل تعزیر جرم قرار دیا گیا ہے، دستور ہند کی دفعہ ۲۱ سے ٹکراتی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ملک کے ہر باشندے کو زندگی گزارنے کے یکساں مواقع حاصل ہیں اور تمام لوگ قانون کی نظر میں برابر ہیں۔ [پاکستانی معاشرے میں آزادانہ جنسی تعلقات اور ہم جنس پرستی کو ایک برائی تصور کیا جاتا ہے۔ تاہم، جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں حدود قوانین میں ترمیم کرکے مرد و خواتین کے ناجائز تعلقات کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پیپلزپارٹی کے موجودہ دورِحکومت میں ’ہم جنس پرستی‘ کے رجحان کو فروغ دینے کے لیے امریکی سفارت خانے میں پہلی مرتبہ ہم جنس پرستوں کی تقریب کا باقاعدہ انعقاد کیا گیا۔ ایک لبرل معاشرے کے مقابلے میں اسلام چونکہ آزاد جنسی تعلق اور ہم جنسی پرستی کو ممنوع قرار دیتا ہے، لہٰذا لبرل اور مغربی تصورات کے فروغ میں یہ ایک بڑی ’رکاوٹ‘ ہے۔ تاہم، لبرل اور سیکولر عناصر اپنے آلۂ کار حکمرانوں اور میڈیا کے ذریعے اس سوچ کو آگے بڑھانے کے لیے کوشاں ہیں۔]
ایک سماجی مسئلہ یہ بھی ہے کہ نکاح دشوار، پُرپیچ اور کثیر المصارف ہوجانے کی وجہ سے بہت بڑی تعداد میں لڑکیاں بڑی عمر کو پہنچ جانے کے باوجود بیٹھی رہ جاتی ہیں اوران کے رشتے نہیں ہوپاتے۔ یہ صورت حال طرح طرح کے سماجی مسائل کو جنم دیتی ہے۔ پھر ناجائز جنسی تعلقات کے نتیجے میں جو بچے پیدا ہوتے ہیں وہ صحیح خطوط پر نشو ونما اور مناسب تربیت اور سرپرستی سے محروم ہونے کی بنا پر سماج کے لیے وبالِ جان بن جاتے ہیں۔
جنسی آوارگی کی سزا قدرت نے ایڈز کی شکل میں دی ہے، جس سے دنیا کے تمام ممالک پریشان ہیں اور کروڑوں اربوں ڈالر خرچ کرنے او ربے شمار احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے باوجود اس موذی اور بھیانک مرض پر قابو پانے میں ناکام ہیں۔ UNAIDSکی ۲۰۰۷ء کی رپورٹ کے مطابق، دنیا میں تقریباً ۳ کروڑ ۳۰ لاکھ افراد ایچ آئی وی اور ایڈز سے متاثر ہیں۔ ان میں سے تقریباً نصف تعداد عورتوں کی ہے۔ ڈیڑھ کروڑ بچے ایسے ہیں جن کے والدین میں سے ایک یا دونوں ایڈز سے جاں بہ حق ہوگئے ہیں ۔ ایڈز سے متاثر ہونے والے نئے مریضوں میں ۱۵ سے ۲۴سال کی درمیانی عمر کے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کا تناسب ۴۵ فی صد ہے۔ ہندستان میں، ایک اندازے کے مطابق ۲۰۰۷ء میں ایڈز اور ایچ آئی وی سے متاثر افراد کی تعداد ۲۵لاکھ سے زائد تھی جن کی تعداد اب پہلے سے زیادہ ہے۔
یہ ہیں وہ چند سنگین مسائل، جو عالمی سطح پر بھی اور ملکی سطح پر بھی انسانی سماج کو درپیش ہیں۔ ان مسائل نے دنیا کے تمام مفکرین، دانش وروں، سیاست دانوں، امن و قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سماجی مصلحین کو پریشان کررکھا ہے۔ انھیں کوئی راہِ عمل سجھائی نہیں دے رہی ہے۔ ان مسائل کو حل کرنے اوران کی گتھیوں کو سُلجھانے کے لیے وہ نت نئی تدابیر اختیار کرتے ہیں، مگر مسائل ہیں کہ مزید الجھتے چلے جارہے ہیں۔ طرح طرح کے قوانین بناتے ہیں، مگر وہ ذرا بھی مؤثر ثابت نہیں ہورہے ہیں۔ فطرت سے بغاوت کا یہ انجام تو سامنے آنا ہی تھا اور اس کے کڑوے کسیلے پھلوں کا مزا تو چکھنا ہی تھا۔
خاندان اور سماج کی صحیح خطوط پر استواری کے لیے اسلام نے جو تعلیمات دی ہیں، اگر ان پر عمل کیا جائے تو وہ مسائل پیدا ہی نہیں ہوں گے، جن کا اوپر کی سطور میں تذکرہ کیا گیا ہے، اس لیے کہ اللہ رب العالمین انسانوں کی ضروریات سے بھی واقف ہے اور ان کی فطرت سے بھی اچھی طرح آگاہ ہے، جس پر اس نے انھیں پیدا کیا ہے۔ خرابی اس وقت پیدا ہوتی ہے، جب انسان اپنی فطرت سے بغاوت کرتے ہیں اور اس سے انحراف کرکے غلط راہوں پر جاپڑتے ہیں۔ اسلام کی یہ تعلیمات محض خیالی اور نظریاتی نہیں ہیں، بلکہ ایک عرصے تک دنیا کے قابل لحاظ حصے میں نافذ رہی ہیں اور سماج پر ان کے بہت خوش گوار اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ آج بھی جن معاشروں میں ان پر عمل کیا جارہا ہے وہ پاکیزگی ، امن اور باہمی ہم دردی و رحم دلی میں اپنی مثال آپ ہیں۔ اس لیے جو لوگ بھی موجودہ دور کے مذکورہ بالا سماجی مسائل سے چھٹکارا حاصل کرنا اور ان کے برے اثرات اور پیچیدہ عواقب سے محفوظ رہنا چاہتے ہیں، انھیں اسلام کی ان تعلیمات کو اختیار کرنے اور انھیں اپنے سماج میں نافذ کرنے کے لیے سنجیدہ کوشش کرنی چاہیے۔
مقالہ نگار ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی، علی گڑھ میں محقق اور مجلہ تحقیقاتِ اسلامی کے معاون مدیر ہیں
ترجمہ: اویس احمد
امریکی ’صلیبی جنگ‘ دراصل کروڑوں لوگوں کو لوٹنے اور قتل کرنے کے لیے رچایا گیا ایک کھیل ہے۔ سوویت یونین کے انہدام سے امریکا نے قتل عام کا لائسنس اور لامحدود طاقت حاصل کرلی تاکہ وہ (افغانستان سے) نائن الیون کا بدلہ لے سکے اور (عراق میں)بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار تلاش کر سکے، لیکن اس کا اصل مقصد ایک تو اسلام کو بدنام کرنا اور دوسرے مشرق وسطیٰ کے تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنا تھا۔
اس حوالے سے کئی تحقیقات ہو چکی ہیں، جیسے دلیپ ہیرو کیSecrets and Lies [راز اور جھوٹ ]، تھامس رک کی Fiasco [مضحکہ خیز ناکامی]، پیٹر گلبریتھ کی The End of Iraq [عراق کا خاتمہ]، فرینک رچ کیThe Greatest Story Ever Sold - The Decline and Fall of Truth [عظیم ترین کہانی جو کبھی بیچی گئی، سچائی کا زوال اور موت]، اور اس کے علاوہ بھی بہت سی ہیں، مگر ان سب میں اسلامی نقطۂ نظر سے ایک مشترک کمی ہے۔ منظور عالم کے اس علمی و تحقیقی تجزیے نے یہ کام بہتر طور پر کیا ہے۔
پہلے باب میں ڈاکٹر منظور نے اس پس منظر کا احاطہ کیا ہے جس نے امریکا کو اس ’صلیبی جنگ‘ کی طرف راغب کیا۔ کمیونزم کے خاتمے اور سوویت روس کے انہدام کے ساتھ ہی امریکی لبرل ازم (ص۱) کا بھی خاتمہ ہو گیا اور وہ ایک مطلق العنان استعماری ملک میں تبدیل ہو گیا۔ اس نے ایک آمرِ مطلق کا سارویہ اپنا لیا (ص۲)۔ اس کے نو قدامت پسند، خصوصاً نائب صدر ڈک چینی نے شیطان کا کردار ادا کیا اور ہمیشہ قتل، تباہی اور غلبے کی بات کی۔
یہ نوقدامت پسند بین الاقوامی قوانین اور ضوابط پر یقین نہیں رکھتے تھے، اس لیے حکومتوں کی تبدیلی کی بات کرتے تھے۔ تاہم، عراق جنگ اتنی بڑی ناکامی ہو گی وہ اس کا پیشگی اندازہ نہ کرسکے۔ ’حکومتوں کی تبدیلی‘ کی پالیسی نے حفظ ماتقدم کے طور پر حملے کے غیراخلاقی فلسفے کو جنم دیا جسے ’پیشگی حملے‘ کا متبادل ٹھیرا لیا گیا۔ مذہبی جنونیت کے فرضی خطرے نے انھیں یہ جنگ ایک کارخیر کے طور پر چھیڑنے پر اکسایا۔ ڈک چینی نے عراق پر حملے کا مشورہ ۱۱ ستمبر سے بھی پہلے دے دیا تھا، تاکہ تیل کے ذخائر پر غلبہ حاصل کیا جا سکے۔ یہودیوں اور مذہبی عیسائیوں نے اسے حضرت عیسیٰ ؑ کے دوبارہ ظہور کے حوالے سے بائبل کا حکم ٹھیرایا اور یوں یہ ان کے لیے ایک مذہبی فریضہ بن گیا (ص۱۱)۔ مسلمان ممالک میں جمہوریت کی کمی کو محسوس کرتے ہوئے امریکا نے اس کمی کو اپنے نام نہاد جمہوری برانڈسے پورا کرنے کا فیصلہ کیا۔ اپنے نظریے کی توضیح کرتے ہوئے سابق صدر بش نے کہا: ’’مجھے خدا نے کہا ہے کہ میں القاعدہ (افغانستان) پر حملہ کروں تو میں نے کر دیا، پھر خدا نے مجھے کہا کہ اب صدام (عراق) پر حملہ کرو تو میں نے وہ بھی کر دیا‘‘ (ص۱۳)۔ فوری خطرہ یہ تھا کہ ’’صدام نے تعاون کرنا شروع کر دیا تھا‘‘ (ص۱۴)۔ مصنف نے اس باب میں اسلامی شدت پسندی میں اضافے پر بھی روشنی ڈالی ہے۔
امریکا میں بہت سے لوگ یقین نہیں رکھتے کہ ٹوئن ٹاور جہازوں کے ٹکرانے سے گرے تھے۔ تاہم، امریکا بہر صورت افغانستان پر حملے (Operation Enduring Freedom) کے لیے تیار تھا تا کہ اسامہ بن لادن کو مارا اور طالبان حکومت کو گرایا جا سکے (ص۲۶)۔ افغانستان پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ امریکانے اسامہ اور باغیوں کی تلاش کا مشن جاری رکھا۔ کرزئی جسے طنزاً ’کابل کا عزت دار میئر‘ کہا جاتا ہے، ایک امریکی کٹھ پتلی تھا اور ہے۔ ۱۰سالہ روسی تسلط کے باعث بدترین معاشی بدحالی کا شکار افغانستان امریکا کی جانب سے ہلاکت خیز حملے کا شکار ہوا۔ ابتدا میں افغانوں نے طالبان کے انخلا کو اس امید کے ساتھ خوش آمدید کہا کہ اب امریکا ہوور ڈیم جیسے منصوبے یہاں بھی شروع کرے گا اور افغانستان کو ’چھوٹا امریکا‘قرار دے کر اس کی معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا ہونے میں مدد دے گا۔
افغانستان میں امریکی مفادات کے مقابلے میں عراق کی جغرافیائی سیاست زیادہ پُرکشش تھی (ص۳۲)۔ افغانستان کی تعمیر ایک خواب ہی رہی(ص۳۳) ۔ جب افغان قوم نے دیکھا کہ اسے دھوکا دیا گیا ہے، تو وہ دوبارہ طالبان سے رجوع کرنے پر مجبور ہوگئی (ص۳۴)۔ امریکیوں کا متکبرانہ اور توہین آمیز برتائو افغانوں کے لیے ناقابل برداشت تھا(ص۳۶)۔ اس لیے انھوں نے اپنے تحفظ کے لیے دوبارہ طالبان کی طرف دیکھنا شروع کر دیا۔ باغی امریکی تسلط کے شکار اپنے ملک کی آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں (ص۴۸) اور مزاحمت کی شدت ناقابل تصور ہے (ص۴۹)۔
اب چونکہ طالبان پہلے جیسے کٹر نہیں رہے، اس لیے ان پر افغانوں کا اعتماد بحال ہو رہا ہے۔ انگریز انھیں کثیر الفم کہتے ہیں کیوں کہ ہرکٹنے والا سر دو نئے سروں کا اضافہ کر دیتا ہے۔ امریکیوں سے حکمت عملی کی بھاری غلطی یہ ہوئی کہ انھوں نے اپنے مشن کا رخ افغانستان کی تعمیرنو سے ’اسامہ اور طالبان‘ کی جانب موڑ دیا۔ ’’ہلمند آپریشن مکمل طور پر ایک خودکشی کا مشن تھا‘‘۔ (ص۵۱)
نام نہاد عالمی امداد پران ممالک کو کنٹرول حاصل ہے جو اس کارخ اپنی طرف رکھتے ہیں۔ عیاش کنسلٹنٹ بڑی بڑی تنخواہیں وصول کرتے ہیں جو ۵ لاکھ ڈالر فی کنسلٹنٹ تک پہنچ جاتی ہیں (ص۵۵)۔افغان کبھی پوست کاشت کرنے والی قوم نہ تھی۔۔۔ بے حساب غربت اور محتاجی نے انھیں اس کی طرف راغب کیا (ص۵۸) جو ان کے لیے بے پناہ نفع بخش ثابت ہوئی، اور اب وہ اسے چھوڑ کر روایتی فصلوں کی طرف واپس نہیں آنا چاہتے۔ بعض اضلاع میں گانجے کی فصل بھی بہت نفع بخش کاروبار بن گئی ہے (ص۶۲)۔ افغانستان میں امریکی اور ناٹو ایڈونچر ایک بدترین ناکامی ثابت ہوا (ص۶۵)۔ اب ان ممالک کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ عزت اور وقار سے رخصت ہونا چاہتے ہیں یا زبردستی انخلاکے منتظر ہیں۔ تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ افغان قوم نے کبھی ہتھیار نہیں ڈالے۔ اگر کسی کو شک ہو تو برطانیہ اور روس میں گواہی دینے والے موجود ہیں۔ (ص۶۶)
تیسرا باب عراق جنگ کے اسباب ڈھونڈتا ہے۔ حملے کا جواز یہ بتایا گیا تھا کہ عالمی تجارتی مرکز پر حملہ صدام حسین نے کرایا، اس لیے وہ بہت بڑا خطرہ ہے، اور یہ بھی کہ اس نے ایٹمی، حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیاروں کا ایک بڑا ذخیرہ جمع کر رکھا ہے۔۔۔ ایک فرضی کہانی جس کا حقیقت سے دُور کا بھی واسطہ نہ تھا (ص۶۷)۔ جواز گھڑے گئے؛ وجوہ تراشی گئیں تاکہ عالمی برادری کو دھوکا دیا جاسکے۔ اصل مقصد کوچھپا کر رکھا گیا۔ امریکی عوام کو بے وقوف بنایا گیا۔ اس کا محرک عربوں پر فوجی برتری قائم کرنے اور اسرائیلی مفادات کو تحفظ دینے کا جنون تھا۔ اصل ہدف تیل کے وسائل پر قبضہ تھا۔ چونکہ صدام حکومت اسرائیل کے لیے ایک خطرہ تھی اس لیے اس کا خاتمہ ضروری تھا۔ صدر بش کے لیے یہ مذہبی فریضے کی طرح تھا کہ وہ بائبل کے مطابق عیسٰی ؑ کے دوبارہ ظہور کی پیش گوئی پوری کرے۔ پال وولف وٹز، ڈگلس فیچ اور رچرڈ پرلی جیسے نوقدامت پسندوں نے وائٹ ہائوس کی پالیسی کا تعین کیا۔ دوسرے حصے داروں کا کردارصرف ’بھالے اٹھانے‘ (ص۷۰)والوںتک محدود کر دیا گیا۔ عراق پر حملے کی خواہش اور ضرورت نائن الیون سے پہلے، بلکہ بش انتظامیہ سے بھی پہلے اپنا وجود رکھتی تھی۔ (ص۷۱)
صدام حسین کا القاعدہ سے (فرضی) تعلق ثابت کرنے کے لیے ایک جعلی کمیٹی تشکیل دی گئی۔ لیکن اس ڈر سے کہ یہ کمیٹی کہیںصدام حسین کو اس الزام سے بری قرار نہ دے دے اوربش منصوبہ خاک میں مل جائے، عراق پر حملہ کر دیا گیا۔ ڈک چینی صدام کو ہر ممکنہ طریقے سے ہٹانے کا عزم رکھتا تھا، جب کہ اس کو ملنے والی خفیہ رپورٹوں کا کہنا تھا کہ صدام حکومت کو کسی خفیہ کوشش سے نہیں گرایا جا سکتا۔ رچرڈ پرلی اور چند دوسرے لوگوں نے انٹیلی جینس کا جوڑ توڑ شروع کر دیا (ص۷۷)۔ جب انھیں یقین ہو گیا کہ ایٹمی ہتھیار تباہ کر دیے گئے ہیں تو وہ بہترین موقع تھا کہ عراق پر حملہ کر کے اسے مزید کمزور کر دیا جائے۔ اس کے بعد سینیٹ میں بھاری اکثریت سے قرارداد (۲۳:۷۳) منظور کرائی گئی جس میں شرم ناک جھوٹ بولے گئے۔۔ ۔وہاں نہ تو کوئی ہتھیار تھے اور نہ القاعدہ سے رابطے۔
برطانوی حکومت نے عراق پر جلد حملے کے امریکی کیس کو مزید مضبوط کیا۔ اس نے ایک دستاویز جاری کی (جس کے لیے اسے بعد میں معافی مانگنی پڑی) جس میں صدام حسین کی فوجی صلاحیت کو جھوٹ موٹ بڑھا کر پیش کیا گیا تھا۔ یہ دراصل جھوٹی اور من گھڑت اطلاعات پر مبنی تھی (ص۸۳)۔ حیاتیاتی جنگ کی تیاریوں کے حوالے سے سی آئی اے کی ایک من گھڑت، جھوٹی اور خیالی رپورٹ میں ٹرالرز کو جراثیم پیدا کرنے والی لیبارٹریاں’ثابت‘کیا گیا (سی آئی اے کو معلوم تھا کہ عراق ایٹمی ہتھیاروں کے پروگرام پر کام کر رہا ہے)۔ کچھ ڈھانچے اور ایلومینیم کی ٹیوبیں دکھائی گئیں کہ یہ کسی خفیہ مقصد کے لیے استعمال کی جاتی ہیں (حالانکہ اس کے اپنے ماہرین جانتے تھے کہ یہ جھوٹ اور دھوکادہی ہے)۔ نائجر سے یورینیم کی خریداری کا معاملہ بھی بہت بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا، حالانکہ اس ملک کے وزیر اعظم اور صدر دونوں نے اس دعوے کی سختی سے تردید کی تھی۔
اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں عراق پر فوجی حملے کے لیے دوسری قرارداد کی کوششیں ناکام ہوگئیں۔ فرانس اور جرمنی نے فوجی حملے کے حوالے سے سخت تنبیہ کی، تاہم بش تو پہلے سے ہی خود کو اس میں جھونک چکا تھا۔ دراصل صدام حسین اس مسئلے کا پر امن حل ڈھونڈ نے کے لیے کئی نمایندے بھیج چکا تھا۔۔۔ یہاں تک کہ تیل کی قیمتوں میں رعایت تک دینے پر تیار تھا۔ حملے کی شدید مذمت کی گئی۔ رابن کُک برطانوی کابینہ سے مستعفی ہو گئے اور مسز کلیئر شارٹ نے بھی (Honourable Deception) کے نام پر ایسا ہی کیا (ص۹۹)۔ پیوٹن نے کہا: اس جنگ نے دہشت گردوں کے لیے جنت پیدا کر دی ہے۔ (ص۱۰۰)
دو کمیٹیوں نے صدام حکومت کے خاتمے پر بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تلاش کی اور سابقہ انٹیلی جنس رپورٹوں کو مضحکہ خیز اور گمراہ کن قرار دیا (ص۱۰۳)۔ برطانیہ نے حملے میں شمولیت کے لیے دو شرائط رکھی تھیں، لیکن ڈک چینی اور رمز فیلڈ نے ان کی ذرہ برابر پروا نہ کی (ص۱۰۷)۔ عراقی فوج کی شکست سے مزاحمت ختم نہیں ہوئی، بلکہ اس نے ایک اورمنفرد قسم کی مزاحمت کو جنم دیا جس نے امریکی کمانڈ کو ہلا کر رکھ دیا۔ (ص۱۰۷)
باب چہارم میں مصنف’’گوانتا نامو بے، ابو غریب اور بگرام۔۔۔شرم ناک ترین اور انسانیت سوز قید خانوں‘‘ کی کہانی بیان کرتا ہے، جہاں ’’قیدیوں سے تفتیش کے لیے سزائوں کی انتہائی سفاکانہ ترکیبیں استعمال کی جاتی ہیں،اور جنیوا کنونشن کو یہ کہہ کر ایک طرف رکھ دیا جاتا ہے کہ یہاںپر یہ لاگو ہی نہیں ہوتا‘‘ (ص۱۰۹)۔ اس کے لیے جواز یہ گھڑا جاتا ہے کہ یہ جنگی قیدی نہیں بلکہ دشمن جنگ جو ہیں۔ قیدیوں میں کئی نابالغ بھی شامل تھے۔
اسلام ہدف تھا، اس لیے بش انتظامیہ نے ہر طرح سے کوشش کی کہ وہ قیدیوں کے مذہبی جذبات سے کھیلیں لیکن وہ کچھ حاصل نہ کرسکے۔ قیدیوں کی اسلام سے عقیدت دوسروں پر اثر ڈالنے والی تھی (ص ۱۱۴)۔ یہاں تک کہ خواتین تفتیشی افسروں کی جانب سے جنسی رغبت اور دوسرے حیا سوز حربے بھی ان کے ایمان کو ڈگمگانے میں ناکام رہے، ’’بلکہ ان کا الٹا اثر ہوا‘‘ (ص۱۱۴)۔ تفتیش کاروں کی معاونت کرنے میں ڈاکٹر اپنی پیشہ ورانہ اخلاقیات بھول بیٹھے تھے (ایسا ہی سلوک بنگلور کے ’NIMHANS‘ نامی ادارے کی ایک ڈاکٹر نے ’سیمی‘ (Students Islamic Movement of India) کے قیدیوں کے ساتھ کیا ہے)۔ قیدیوں کو کئی کئی بار بھوک ہڑتال کرنے پر مجبور کیا جاتا اور پھر ہڑتال کے دوران انھیں زبردستی کھانا کھلا دیا جاتا۔ بعد میں اس بات کا انکشاف ہوا کہ غلط شناخت کے اَن گنت واقعات بھی سامنے آئے ہیں (ص۱۱۸-۱۱۹)۔ القحطانی (قیدی نمبر ۰۶۷) کو غلطی سے عالمی تجارتی مرکز پر حملوں میں ملوث بیسواں گم شدہ پائلٹ قرار دیا جاتا رہا جو بہت عرصے سے مفرور تھا۔ یہ واقعہ امریکیوں کی بے وقوفی کی واضح دلیل ہے۔ (ص۱۲۰)
اسلام دشمنی کا بدترین واقعہ اس وقت پیش آیا جب قرآن پاک کی بے حرمتی کی گئی۔ اسے پائوں میں ڈالا گیا اور یہاں تک کہ ٹائلٹ میں بہایا گیا اور اس پر تحریریں لکھی گئیں۔ یہ دنیا کے لیے ایک جھٹکا تھا جس کی عالمی سطح پرمذمت کی گئی۔ دنیا بھر میں امریکا مخالف پُرتشدد مظاہرے ہوئے جن میں کئی افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ مظاہرین پر پولیس کے گولی چلانے سے چار افراد مارے گئے اور ۶۰ زخمی ہوئے۔
جہاں گوانتا نامو بے افغانستان سے دور ایک سرزمین پر قائم تھا، وہاں بگرام افغانستان کی اپنی سرزمین پر قائم غیر ملکی تعذیب خانہ تھا۔ اس کا شکار ہونے والوں کی اپنی کہانیاں ہیں۔۔۔ حبیب اللہ اور دلاور نامی دو معصوم قیدی (ص۱۳۹،۱۳۷) تھے۔ ہر لات پڑنے پر دلاور کی دل دہلا دینے والی’’اللہ‘‘کے نام کی چیخ تشدد کرنے والوں کے لیے مذاق بن گئی تھی۔ وہ اسے لاتیں مارتے تھے تاکہ وہ چیخے (ص۱۳۷)اور اس مذاق کے لیے دلاور کو ۲۴ گھنٹوں میں ۱۰۰ لاتیں کھانا پڑیں۔ دو باغی ہلاک کیے گئے اور ان کی لاشوں کو جلا دیاگیا (ص۱۴۰)۔ یہ سب جان بوجھ کر کیا گیا تا کہ مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا جا سکے۔ یہاں تک کہ حامد کرزئی جیسا کمزور اور مطیع فرمان صدر بھی لاشوں کے جلانے کے وحشیانہ اقدام پر چیخ اُٹھا۔ (ص۱۴۱)
۲۸؍ اپریل ۲۰۰۴ء کو سی بی ایس نیوز نے بغداد کی ابو غریب جیل میں امریکی فوجیوں کے قیدیوں سے انسانیت سوز سلوک کی شرم ناک تصاویر جاری کیں۔ ان تصاویر پر عالمی سطح پر شدید غم و غصہ پیدا ہوا۔ سابق نائب صدر ایل گور نے اسے ’’امریکی گولاگ‘‘ کا نام دیا (ص۱۴۲)۔ گوانتانامو اور بگرام کے تشدد کے حربے ابو غریب میں بھی استعمال کیے گئے۔ جنرل ملر کو ابو غریب بھیجا گیا تا کہ اسے بھی ’گوانتا نامو جیسا‘ بناسکے (ص۱۴۲)۔ امریکی فوج نے صدام کا تحتہ الٹ تو دیا لیکن اس کی بنائی گئی جیلوں میں اس کے ’فنِ تشدد‘ کو مات دے دی (ص۱۴۴)۔ تاگوبہ (Taguba) کی ۵۳صفحات پر مشتمل رپورٹ جسے ’خفیہ‘ قرار دیا گیا، اعتراف کرتی ہے کہ ’’امریکی فوجیوں نے بدترین عمل کیے اور عالمی قوانین کی بدترین پامالیاں روا رکھی گئیں‘‘۔ (ص۱۴۵)
تشدد کے حربوں میں چند ایک یہ تھے:قیدیوں کو مکوں، تھپڑوں اور لاتوں سے مارنا۔ ان کے ننگے پاؤں پر اچھلنا، برہنہ مرد اور خواتین قیدیوں کی تصاویر اور وڈیو بنانا، برہنہ قیدیوں کو خاص اندازسے بٹھانا تا کہ ان کی تصاویر لی جا سکیں۔ برہنہ قیدیوں کو ایک ڈھیر کی صورت میں فرش پر لٹانا اور پھر ان پر چھلانگیں لگانا اور ان کے ننگے بدن پر ٹھنڈا پانی ڈالنا (ص۱۴۶)۔۔۔کچھ ایسی سزائیںبھی ہیں جو بیان نہیں کی جا سکتیں۔
فیلوپ کارٹر انھیں امریکی فوج کے وقار پر گہرے داغ قرار دیتے ہوئے اسے ’امریکا کو بہت بڑی شکست‘ قرار دیتا ہے (ص۱۴)۔ ان اقدامات نے عراق میں بغاوت کو مزید طاقت فراہم کی۔ ویٹی کن کے وزیر خارجہ آرچ بشپ گیووانی لاجولو نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ’’یہ امریکا کے لیے ۱۱ستمبر (کے حملوں) سے زیادہ سنگین دھچکا ہے، لیکن یہ دھچکا دہشت گردوں کی طرف سے نہیں، خود امریکیوں کی طرف سے ہے ‘‘(ص۱۵۰)۔ کولمبیا سے تعلق رکھنے والے ۷۳ سالہ مصور فرنانڈو بوٹیرو نے عراقی قیدیوں کے ساتھ اس سلوک کو اپنا موضوع بنا لیا اور اس پر ۴۸ پینٹنگز اور خاکے بنائے جن کی نمایش روم میں کی گئی۔ (ص۱۵۲)
امریکی کنٹرول میں کام کرنے والے تمام قید خانوں میں قیدیوں کے ساتھ روا رکھے گئے ذلت آمیز سلوک نے۔۔۔شورش میں مزید اضافہ کیا اور باغیوں کو سارے عالم اسلام سے عراق میں جمع کرنے کے لیے ایک مقناطیس کا کردار ادا کیا۔ عراق میں تعینات ایک امریکی فوجی افسر نے تسلیم کیا کہ ابو غریب بغاوت میں اضافے کے لیے ایک درمیانے درجے کا تربیتی مرکز ہے (ص۱۵۳)۔ گوانتانامو بے ایک ’قانونی بلا‘ ہے۔ (ص۱۵۵)
پانچواں باب سب سے طویل ہے جو دو حصوںاور ۱۳۱ صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ تشدد اور خوف ناک اموات کا ریکارڈ ہے۔ ابتدا میں مصنف بتاتا ہے کہ باغیوں کی طرف سے شدید مزاحمت نے کیسے اتحادی افواج کے تمام آپریشنوں کی کمر توڑ ڈالی۔ امریکا کو منہ توڑ جواب دینے کے لیے شیعہ اور سنی اکٹھے ہو گئے۔ وہ لوگ جو ایمان رکھتے ہیں اور اس لیے لڑ رہے ہیں کہ ان کی آزادی پامال کی گئی ہے، ہتھیار اور ٹکنالوجی ان پر محدود اثرڈالتے ہیں۔ (ص۱۵۹)
صدام اور اس کے مجسمے گرانا تو آسان تھا لیکن افراتفری کو امن میں بدلنا جوے شیر لانے کے مترادف تھا (ص۱۶۰)۔ احمد شیلابی جس نے صدام کا جانشین بننے کا خواب دیکھا تھا بہت ناراض ہوااورڈک چینی سے بات کر کے اس نے گارنر کی جگہ پال برمر سوئم کو گورنر تعینات کروا لیا لیکن یہ ایک آفت ثابت ہوا۔۔۔ امریکی عراقیوں کے رہے سہے جذبۂ خیر سگالی سے بھی محروم ہو گئے۔ اس نے نہ صرف عراقی فوج اور پولیس کے اداروں کو ختم کر دیا اور۳لاکھ ۸۵ہزار فوج اور ۴لاکھ ۸۵ہزار پولیس اہل کاروں کو نوکریوں سے فارغ کر دیابلکہ ہر اعتدال پسند شہری کو ناراض کر دیا۔ وہ لوگ فوراً باغیوں سے مل گئے۔ انھیں افرادی قوت اور ہتھیار فراہم کرنے لگے۔ برمر کی معاشی پالیسی بھی تباہ کن ثابت ہوئی۔ اس نے ۱۹۳سرکاری صنعتیں بند کر دیں۔ معیشت پر اس کا اثر تباہ کن ہوا۔ عراق اسلامی بنیاد پرستی کا مرکز بن کر ابھرا۔ ہر سمت سے مجاہدین کا رخ عراق کی طرف ہو گیا۔ جیسا کہ ایک افسر نے کہا تھا: ’’ہمارے پاس اتنی گولیاں نہیں جتنے ہم دشمن بنا رہے ہیں‘‘ (ص۱۷۹)۔ فلوجہ پر لگاتار بم باری کے دوران امریکیوں نے ’سفید فاسفورس‘ بھی استعمال کی۔ انھوں نے صدام پر الزام لگایا تھا کہ وہ حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیار استعمال کر رہا ہے، لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ خود بھی ان کا استعمال کر رہے ہیں۔ (ص۱۸۶)
طویل عرصے تک فرقہ وارانہ تعصبات لوگوں کوبالکل بھولے رہے۔ اپنی کامیابی کے لیے امریکیوں نے ان کی نفرت کو بھڑکایا اور ایک کو دوسرے گروہ کے خلاف اکسانے کے لیے ان کی مساجد میں بم دھماکے کرائے جس کا بالٓاخرامریکا کو فائدہ ہوااورانھیں انتہائی ضروری ریلیف مل گیا۔ [حضرت] حسن عسکریؒ کے مزار پر ہونے والے دھماکے میں اس کا سنہرا گنبد تباہ ہو گیا۔ شیعہ سُنّی تعصب کی اس آگ نے آبادی کا تناسب تبدیل کر دیا۔ فرقہ وارانہ تعصب خانہ جنگی میں تبدیل ہوگیا جس میں چھے لاکھ لوگ لقمۂ اجل بنے۔
تعمیر نو کا کام بہت سست رو تھا (کچھ علاقوں میں نہ ہونے کے برابر) اور اس میں غیر ملکی کمپنیوں، خصوصاً ڈک چینی کی ملکیتی اور ماتحت کمپنیوں نے بے تحاشا ’جنگی نفع‘ کمایا (ص۲۳۷)۔ ان ترقیاتی منصوبوں پر کام نامکمل رہا اور جو ہوا وہ بھی ناقص۔ فوج چنیدہ صحافیوں کو رشوت دے کر فتح کی جھوٹی خبریں شائع کراتی رہی۔ لیکن اس جھوٹے پروپیگنڈے کا اُلٹا اثر ہوا (ص۲۳۹)۔ جسے وہ ’مختصر، تیز تر اور کم خرچ‘ سمجھے تھے، اس نے متوقع جلد فائدے کی ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا۔
اخراجات ۵۰ ارب ڈالر سے ۳ کھرب ڈالر تک جا پہنچے۔ اس میں زخمی اور معذور فوجیوں کے علاج اور معاوضے کے مستقبل کے اخراجات بھی شامل کر لیں۔۔۔معذوری کا معاوضہ ۵۰ سال تک اور بہت سے زخمیوں کی اگلے دسیوں برسوں تک مسلسل دیکھ بھال۔۔۔اس سے جو بجٹ خسارا ہوا اس نے امریکا کو چین سے قرض مانگنے پر مجبور کر دیا۔ بش کی اس غلطی کو ’تباہ کن ناکامی‘ قرار دیا جاسکتا ہے۔
اس باب کے دوسرے حصے میں مصنف نے انسداد بغاوت کے لیے کیے گئے مختلف اقدامات کااحاطہ کیا ہے۔ عراق سٹڈی گروپ کی تیار کردہ ایک مستند رپورٹ کو مسترد کرنے کے بعد بش انتظامیہ نے اپنی فوج میں اضافے کی حکمت عملی جاری رکھتے ہوئے عراق میں ۲۰ ہزار اضافی فوج بھیج دی،جو دگنا اضافہ تھا۔ جہاں اس نے زمینی فوج کی تعداد میں اضافہ کیا وہیں زمینی گشت ہرممکن حد تک کم کر دیا۔ اس عمل کو سارے امریکا میں ہدف تنقید بنایا گیا۔ بی بی سی کا ایک سروے اس ناکامی کو اجاگر کرتا ہے۔ (ص۲۷۰)
فوجی، معاشی اور سفارتی محاذوں پر ناکامی کے بعد بش انتظامیہ نے شراب کے شوقین عرب شیخوں کے ساتھ القاعدہ پر قابو پانے کے لیے تعاون کے معاہدے کر لیے۔ ان کے ساتھ ہزاروں ڈالر کی شراب اور وہسکی کی فراہمی کا وعدہ کیا گیا۔ اس باب میں گراف، چارٹ اور بار چارٹ سے بھی مدد حاصل کی گئی ہے۔ مصنف نے مختلف ذرائع سے حوالے شامل کیے ہیں۔ دستاویزی اور شماریاتی اعدادوشمار مصنف کی علمی قابلیت کا ثبوت ہیں۔
باب ششم میں قابض فوج کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے رچائے گئے اس مضحکہ خیز انتخابی ڈھونگ کا ذکر ہے جو متنوع خطرات اور نامناسب ووٹر لسٹوں کے باوجود منعقد کیا گیا۔ وائسرائے پال برمر نے جلاوطن عراقی رہنمائوں فیصل استرآبادی اور سلیم شیلابی کو ہدایت کی کہ وہ عراق کا نیا آئین مرتب کریں، اس تنبیہ کے ساتھ کہ اگر اسلام کومرکزیت دی گئی تو وہ اسے ’ویٹو‘ بھی کر سکتا ہے (ص۲۷۹)۔ کئی ایک شقیں جمہوریت کی کھلی نفی کرتی تھیں۔ امریکا میں مقیم ۷۰ ہزار عراقیوں میں سے صرف ۳۵۰ کو ووٹ کا حق دیا گیا (ص۲۸۳)۔ جوآن کول نے کہا: ’’عراقی انتخابات ایک آفت کی آمد کا مظہر ہیں‘‘ (ص۲۸۳)۔ نیویارک ٹائمز نے قومی تعمیر نو کے بغیر قومی انتخابات کے لیے بے وقوفانہ جلدبازی کی شدید مذمت کی(۲۸۳)۔ اس کا سب سے مضحکہ خیز پہلو یہ تھا کہ ان کی نگرانی اردن کے شہر عمان میں بیٹھ کر کی گئی (ص۲۸۴)۔ ۲۰فی صد سے بھی کم سُنّی آبادی نے انتخابات میں حصہ لیا (ص۲۸۶)۔ اربوتھناٹ نے اسے تاریخی نوعیت کا مذاق قرار دیا (ص۲۸۷)۔ یہاں تک کہ انتخابات کا دوسرا دور (دسمبر ۲۰۰۵ء) بھی (انتخاب سے پہلے) کرفیو میں ہی مکمل ہوا (ص۲۸۸)۔ شیعہ آبادی کو امید تھی کہ انتخابات امریکی انخلا کے لیے راستہ صاف کریں گے، مگر وزیر اعظم نے انتخاب کے بعد سب سے پہلے جس چیز کا مطالبہ کیا وہ امریکی قبضے کی مدت میں اضافہ تھا (ص۲۸۹)۔ چونکہ صدر بش نے اس کے لیے ایک حتمی تاریخ دے رکھی تھی، ’’اس نے ملک کی تقسیم اور خانہ جنگی کی دھمکی کے ذریعے ایک مسودہ تیار کرا لیا‘‘۔ (ص۲۹۳)
آئین اس طرح بنایا گیا ہے کہ یہ اسلامی اقدار کا خاتمہ کر سکے۔ مثال کے طور پر آئین مرد اور عورت کا بغیر شادی کے اکٹھا رہنے اور ہم جنس پرستی کو تسلیم کرتا ہے، جسے اسلامی شریعت ناجائز اور قابل نفرت گردانتی ہے۔ مغرب عراق کو اسلامی شریعت کے قلعے میں دراڑیں ڈالنے کے لیے تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے (ص۲۹۶)۔
عراق کی تقسیم کے بارے میں ابتدائی طور پر عراق نے یہ سمجھا تھا کہ شاید متحدہ عراق قائم نہ رہ پائے گا۔ نئے آئین نے بھی اس مسئلے کو حل نہ کیا اور کردستان کو الگ جھنڈا اور امریکا میں الگ نمایندگی کا حق دے دیا (ص۳۰۰)۔ ملک اس وقت تین فرقوں شیعہ، سُنّی اور کرد کے الگ الگ علاقوں میں تقسیم ہے۔ گلبریتھ واضح الفاظ میں کہتا ہے: ’’بغاوت، خانہ جنگی، ایرانی حکمت عملی کی فتح، عراق کی تقسیم، آزاد کردستان اور ایک فوجی دلدل___ یہ سب امریکا کے عراق پر حملے کے وہ نتائج ہیں جن کا بش انتظامیہ پیشگی اندازہ نہیں کر سکی‘‘ (ص۳۰۲)۔ اس طرح موجودہ صورت حال مشرق وسطیٰ میں توازن کے قیام کے لیے وہ خطرہ ہے جس کے نتائج بہت گمبھیر ہوں گے۔ (ص۳۰۳)
ساتویں باب میں ڈاکٹر منظور عالم مشرق وسطیٰ میں بش بلیئر سازش کے کردار کا جائزہ لیتے ہوئے کھل کر اسلامی نقطۂ نظر پر بحث کرتے ہیں۔ اسلام سے نفرت نے ان جنگی سوداگروں کو اُکسایا کہ وہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر نہ صرف افغانستان اور عراق میں دہشت کا بازار گرم کریں، بلکہ ایران، ترکی، لبنان اور فلسطین میں بھی اپنے شیطانی منصوبوں پر عمل درآمد کر سکیں۔ اسلام سے زبانی کلامی ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے عراق اور افغانستان کے آئین میں قابض فوجوں کی ہیراپھیری نے شریعت کو بے وقعت اور قرآن کو اس حد تک غیر متعلق بنا دیا کہ وہاں کے عوام کو ’جمہوری‘ بنانے کے لیے لبرل ترمیمات کی ہر وقت گنجایش رکھی گئی ہے۔ یہ باب بتاتا ہے کہ متعصب امریکا نے کیسے ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام سے وابستگی کو یقینی بنایا۔ گو کہ امریکا ایک تیسری جنگ ایران میں بھی چھیڑنا چاہتا تھا، لیکن اندرونِ ملک احتجاج نے اسے خودکشی کی اس کوشش سے باز رکھا۔
ترکی کا یورپی کونسل میں داخلہ بھی بش بلیئر گٹھ جوڑ نے ناکام بنایا۔ اسی طرح انھوں نے ہمیشہ ’بدی کے محور‘ (axis of evil) کے تیسرے رکن، بدمعاش اسرائیل کے مفادات کے تحفظ کے لیے شرم ناک حربے استعمال کیے اور فلسطینیوں کے لیے کی گئی امن کی کوششوں کے خلاف اسے غیر متزلزل تعاون فراہم کیا۔ تاہم، یہ لبنان تھا جس نے اسرائیلی منصوبوں کو شرم ناک شکست سے دوچار کیا۔ شدید جانی نقصان اٹھانے کے باوجود، حزب اللہ نے اسے کچل دینے اور فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دینے کے اسرائیلی منصوبوں کو شدید دھچکا لگایا۔ نہ صرف اس واقعے کے منفی فوجی اور معاشی اثرات اسرائیل پر پڑے، بلکہ اس نے خود امریکا کو اس کی حیثیت یاد دلا دی۔
آخری باب سارے منظرنامے پر نظر ثانی کرتا ہے اور سامراجی منصوبوں اورمذہبی جنونیت کے علاوہ اپنے بچائو کے لیے دنیا پر غلبے کے امریکی عزم کا ذکر کرتا ہے۔ چارٹ، نقشوں اور اعداد و شمار کے علاوہ مصنف اپنی بحث ایک نصیحت کے ساتھ سمیٹتا ہے جو ایک بار پھر بہرے کانوں سے ٹکرا کر لوٹ آئے گی۔
کتاب کے اختتامیے میں مصنف اوباما کی فتح کو بش پروپیگنڈے کی مکمل شکست اور تردید قرار دیتا ہے۔ چند اہم فیصلے مصنف کو امید دلاتے ہیں کہ شاید محتاط حکمت عملی مسلمانوں کی مجروح نفسیات پر مرہم رکھ سکے۔ تاہم، اسامہ کو مارنے اور ڈبونے میں کامیاب ہونے کے ساتھ ساتھ اوباما جنگ کے میدان کو پاکستان تک وسعت دینے میں کامیاب ہوگیاہے، جس کی ہمت بش بھی نہ کر پایا تھا۔ ۲۰۱۴ء تک افغانستان سے فوجی انخلا کا اعلان کر کے اوبامہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے اپنا انتخابی وعدہ پورا کر دیا ہے۔ تاہم، عراق، فلسطین اور دوسری جگہوں پر ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔
یہ کتاب ایک شاہ کار ہے۔ اعداد وشمار، نقشوں اور چارٹوں کی مددسے مصنف نے ایک گھنائونی کہانی خوش اسلوبی سے بیان کی ہے۔ ہر وہ شخص جو اس تباہ کن منظرنامے سے واقفیت چاہتا ہے ،اس کتاب سے ضرور استفادہ کرے، قطع نظر اس کے کہ وہ مسلمان ہے یا نہیں، یا سیاست اس کا مضمون ہے یا نہیں۔(بہ شکریہ: پندرہ روزہ ملّی گزٹ، دہلی، ۳۰ستمبر ۲۰۱۱ء)
عالم اسلام میں طویل عرصے تک آمریت وملوکیت اور مارشل لاؤں کی سیاہ رات چھائی رہی ہے۔ عرب دنیا تو بالخصوص بنیادی حقوق سے مکمل طور پر محروم کردی گئی تھی۔اس سال کے آغاز سے تیونس سے شروع ہونے والی انقلابی لہر نے دیکھتے ہی دیکھتے تمام عرب ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔تیونس، مصر او رلیبیا سے آمریت کا خاتمہ ہوا اور شام اور یمن انقلاب کے دہانے پر کھڑے ہیں۔اب تک تیونس کا انقلاب ایک مرحلہ طے کرکے اگلے مراحل میں داخل ہوچکا ہے۔
حکومت سازی کے لیے حالیہ گفت و شنید کے دوران البتہ نامزد وزیر اعظم جناب الجبالی کی طرف ایک تبصرہ منسوب کیا گیا ہے کہ انھوں نے اپنی پارٹی کے ایک اجلاس میں اپنے حامیوں سے کہا ہے کہ ان شاء اللہ ہم چھٹی خلافت راشدہ قائم کرنے کے مرحلے میں ہیں۔ التکاتل پارٹی کے نمایندے حُمَیس کَسِیْلہ نے رائٹر کے مطابق اس بیان کو بنیاد بنا کر یہ الزام لگایا ہے کہ نہضت بنیادپرستی کی طرف گامزن ہے۔ اگرچہ ابھی تک انھوں نے باہمی مذاکرات کے بائیکاٹ کا اعلان نہیں کیا مگر یہ خدشہ ظاہر کیا کہ ممکن ہے اس صورت حال میں مخلوط حکومت بنانے اور دستور سازی کے مرحلے میں اتفاق نہ ہوسکے۔ اسلامی پارٹی کے سربراہ نے اس کے جواب میں کہا ہے کہ آئیڈیلز کا تذکرہ اور چیز ہے اور معروضی حالات میں سب کے جذبات کا احترام دوسری بات۔ ہم اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ سب کو ساتھ لے کر چلا جائے لہٰذا کسی کو خائف ہونے کی ضرورت نہیں۔
اخوان کی قائم کردہ پارٹی حزب الحریۃ والعدالۃ کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر سعد الکتاتنی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ سابق صدر کی کالعدم نیشنل پارٹی کو عبوری عسکری کونسل کی تائید حاصل ہے، جس سے حکومت کی غیر جانب داری مشکوک ہوجاتی ہے۔ اس دوران مصر میں ۱۹سال کے بعد میڈیکل ایسوسی ایشن کے قومی اور علاقائی انتخابات منعقد ہوئے ہیں، جس میں پہلی مرتبہ حکومت کی مداخلت کے بغیر ڈاکٹروں نے اپنی راے کا اظہار کیا ہے۔ اس میں اخوان کے امیدوار ڈاکٹر محمدخیری عبدالدائم مرکزی صدر منتخب ہوئے ہیں، جب کہ مجلس عاملہ کی بیش تر نشستیں بھی اخوان ہی کو ملی ہیں۔ ۲۷ صوبائی دارالحکومتوں میں سے ۱۵ میں اخوان کے ارکان صدر، سیکرٹری اور مجلس عاملہ کی اکثریتی نشستوں پر کامیاب ہوئے ہیں۔ ان انتخابات کے بعد ہی حسنی مبارک کی کالعدم پارٹی کو بحال کرنے اور ان کے نمایندوں کو انتخاب میں جانے کی عدالتی کارروائی سامنے آئی ہے۔ المجتمع نے قاہرہ سے محمد جمال عرفہ کا ایک تجزیہ اور اپنے نمایندے کی ایک رپورٹ شمارے ۱۹۷۴ء، ۲۲-۲۸ اکتوبر‘ میں شائع کی ہے جس میں بہت سی تفصیلات سامنے آئی ہیں کہ مصر میں آزادانہ انتخابات کی صورت میں اخوان ان شاء اللہ بڑی قوت بن کر ابھریں گے۔
لیبیا کے عوام طویل آمریت کے مظالم برداشت کرنے کے باوجود اسلام پر کاربند رہے ہیں اور تاریخی لحاظ سے سنوسی دور سے لے کر اب تک لیبیا میں گھر کا ماحول اسلامی اقدار کا محافظ رہا ہے۔ اب یہاں اگلے مراحل میں قوم کا کڑا امتحان ہوگا۔ ایک جانب قذافی کی باقیات بھی ابھی تک بعض علاقوں میں موجود ہیں۔ مغربی سوچ رکھنے والے عناصر بھی میدان سیاست میں منظم ہورہے ہیں اور قبائلی سردار بھی نئے سیاسی سیٹ اپ میں اپنا حصہ طلب کر رہے ہیں۔ ان سب کے درمیان اسلامی سوچ رکھنے والے لوگ اگرچہ تعداد میں زیادہ ہیں مگر ابھی تک ان کی کوئی منظم تحریک سامنے نہیں آسکی۔ اگرچہ الاخوان المسلمون لیبیا کے نام سے تحریک نہ صرف موجود ہے بلکہ عبوری کونسل میں بھی شامل ہے لیکن ان کی پالیسی یہی ہے کہ اپنی شرکت کو زیادہ نمایاں نہ کیا جائے۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ لیبیا میں اخوان کے اثرات پائے جاتے ہیں اور تیونس و مصر کی تبدیلیاں لیبیا کے عوام کو بھی متاثر کریں گی۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو مگر یہ ایک لحاظ سے اسلام دشمن مقامی و عالمی قوتوں کو خبردار کرنے کی بھی سازش ہوسکتی ہے۔ المجتمع کے تجزیہ نگار عبدالباقی خلیفہ نے لیبیا کے انقلاب کے بعد کی صورتِ حال کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ قذافی نے ۲ سو ارب ڈالر ملک سے باہر مختلف ممالک میں منتقل کیے تھے۔ اب مغرب کی نظریں لیبیا کے قدرتی وسائل کے علاوہ ان رقوم پر ہیں جو سابق حکمران اور اس کے خاندان نے مختلف اکائونٹس میں جمع کرا رکھی ہیں۔ تجزیہ نگار کے بقول لیبیا کے عوام اسلام سے بہت قریب ہیں مگر ابھی تک صورتِ حال واضح نہیں۔ مغربی قوتیں لیبیا کو تقسیم کرنے کی سازشیں بھی کر رہی ہیں اور لیبیا میں کئی ایک متحارب قوتیں موجود ہیں، جو مسلح بھی ہیں۔ خدا نہ کرے کہ ان کے درمیان پھر کوئی خون ریزی شروع ہو جائے اور آمریت کے بعد کا سہانا خواب بدقسمتی سے چکنا چور ہو جائے۔ (المجتمع، شمارہ ۱۹۷۵، ۱۹؍اکتوبر تا۴ ؍نومبر۲۰۱۱ء)
عرب لیگ نے یکے بعد دیگرے اپنے تین اجلاسوں میں شامی حکومت کوفی الفور تشدد بند اور اپوزیشن سے مذاکرات کرنے کی قرار دادیں منظور کی ہیں۔ ان قرار دادوں پر ماسواے شام، لبنان اور یمن کے تمام عرب ممالک متفق تھے۔ رباط میں ہونے والے لیگ کے آخری اجلاس مورخہ ۱۶ نومبر ۲۰۱۱ء میں عرب لیگ نے پھر شام کے خلاف قرارداد منظور کی ہے اور اس کے معاشی بائیکاٹ کی بھی حمایت کی ہے۔ اس اجلاس میں شام شریک نہیں ہوا تھا۔ ترکی کے وزیر خارجہ احمددائود اوغلو خصوصی دعوت پر اجلاس میں شریک تھے۔ انھوں نے بھی وہاں اعلان کیا کہ ترکی نے شام کو اسلحے کی سپلائی پر پہلے ہی پابندی لگا دی ہے اور اب شام کے ساتھ تجارتی تعلقات منقطع کرنے اور اس کو بجلی کی ترسیل بھی بند کرنے کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ دمشق میں بشارالاسد کے نصیری حامیوں اور حکومتی کارندوں نے فرانس، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ترکی کے سفارت خانوں پر حملے کیے اور ان ممالک کے پرچم جلائے۔ اس پر ترک صدر، وزیراعظم اور وزیر خارجہ نے سخت ترین الفاظ میں احتجاج کیا اور شام کو نتائج و عواقب کی وارننگ دی۔ ساتھ ہی مطالبہ کیا کہ شامی حکومت فی الفور اس جرم پر معذرت کرے۔ چنانچہ شام کے وزیر داخلہ نے اس پر معذرت کی ہے۔ فرانس اور دیگر ممالک نے بھی احتجاج کیا ہے اور اپنے سفیروں کو واپس بلالیا ہے۔(روزنامہ ڈان، ۱۶ نومبر ۲۰۱۱ء)
او آئی سی کے اجلاس میں بھاری اکثریت سے مسلمان ممالک نے یہ قرار داد منظور کی کہ بشار الاسد ہوش کے ناخن لیں اور خود کو کرنل قذافی جیسے انجام سے بچا لیں۔اجلاس کے بعد او آئی سی کے سیکرٹری جنرل اکمل الدین احسان اوغلونے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ شامی صدر کی ہٹ دھرمی ان کے لیے ہی نہیں پورے ملک اور خطے کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔ اسرائیل سے متصل یہ مسلمان ملک ایک حساس مقام کا حامل ہے اور بحالات موجودہ عالمی جنگ کا اکھاڑا بھی بن سکتا ہے۔ بشار الاسد کی آہنی گرفت کے باوجود تجزیہ نگار رابرٹ فسک کو دمشق ٹی وی نے ایک تجزیاتی پروگرام میں مدعوکیا تو اس نے شامی صدر کو بے لاگ انداز میں اپنے غلط موقف کو بدلنے کی تلقین کی۔ اس نے بتایا کہ بشار الاسد کے بعض فوجی، مظاہرین کے ساتھ مل گئے ہیں۔ انھوں نے آزاد شامی فوج کے نام سے ایک حکومت مخالف محاذ بھی قائم کر لیا ہے مگر کلاشنکوف اور رائفلوں سے بکتر بند گاڑیوں کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ بکتر بند دستے جب بغاوت کریں گے تو دھڑن تختہ ہوجائے گا۔(ڈان، بحوالہ انڈی پنڈنٹ، ۱۶؍نومبر ۲۰۱۱ء)
حکومت مخالف جماعتوں نے شامی قومی کونسل بھی تشکیل دی ہے۔ اس کے ۷۱؍ارکان میں سے ۳۴؍ اخوانی ہیں۔ گویا اخوان المسلمون کے اثرات نمایاں ہیں لیکن سیکولر عناصر سخت قوانین کے نفاذ کے خلاف ہیں۔ تاہم اس اختلاف کے باوجود عوامی مزاحمت آگے بڑھ رہی ہے۔ یورپی یونین، ناٹو ممالک اور او آئی سی سبھی نے بشار الاسد کے مظالم کی مذمت کی ہے۔ شام کی حمایت کرنے والے ممالک میں ایران، لبنان، روس اور چین شامل ہیں۔ المجتمع کی تجزیہ نگار سیدہ فادی شامیہ نے بیروت سے لکھا ہے کہ لبنان حکومت حزب اللہ کے زیر اثر شام کی نصیری حکومت کا ساتھ دے رہی ہے، مگر لبنانی عوام منقسم ہیں۔ کچھ اپنی حکومت کے ساتھ ہیں اور نصف سے زائد شامی عوام کے حامی ہیں۔ اگر شامی حکومت گرے گی تو لبنان کی موجودہ حکومت بھی برسراقتدار نہیں رہ سکے گی۔ (المجتمع، کویت، شمارہ ۱۹۷۴، ۲۲-۲۸؍ اکتوبر ۲۰۱۱ء)
یمن میں اسلامی تحریک حزب الاصلاح الاسلامی کے راہ نما شیخ صادق الاحمر نے کہا ہے کہ صدر صالح حواس کھو بیٹھے ہیں۔ ان کی زبان سے جھوٹ کے سوا کچھ برآمد نہیں ہو رہا اور ملک پر عملاً ان کی حکومت ختم ہوچکی ہے۔ ان کا وجود محض سرکاری ٹیلی ویژن، ریڈیو اور صدارتی محل تک محدود ہوگیا ہے۔ اقوام متحدہ کے نمایندے جمال بن عمر جو دو ہفتے صنعا میں صدر صالح کو اپنے وعدوں کا پاس کرنے کی تلقین کرتے رہے، بالآخر ناکام واپس چلے گئے ہیں۔ صنعا سے المجتمع کے نمایندے عادل امین نے اپنے تجزیے میں لکھا ہے کہ صدر صالح پر اب کوئی آدمی اعتماد نہیں کرتا۔ انھوں نے سیاسی راہ نما محمد قحطان کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس شخص کا جھوٹ اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا کہ تین مرتبہ اس نے اعلان کیا کہ وہ خلیجی کونسل کے فیصلے پر دستخط کر دے گا مگر ہر دفعہ وہ اس سے مکر جاتا رہا۔ تجزیہ نگار کا خیال ہے کہ صدر کا انجام وہی ہوگا جو لیبیا کے معمر قذافی کا ہوا ہے۔ اگر حکومت کے گرنے کے بعد یہاں آزادانہ انتخابات ہوتے ہیں تو یمن کی اسلامی تحریک التجمع الیمنی للاصلاح کے سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی کے طور پر کامیاب ہونے کے امکانات تمام مغربی اور عربی تجزیہ نگاروں کے رشحاتِ قلم میں پڑھے جاسکتے ہیں۔
یمن کی حریت پسند خاتون توکل کِرمان کو امن کا نوبل پرائز ملا ہے۔ یہ الاصلاح کی رکن شوریٰ اور تحریک حریت میں اگلی صفوں میں کام کرنے والی خاتون ہیں۔ ان کے انعام کی خبریں مغربی اور عربی ذرائع ابلاغ میں بہت نمایاں طور پر عوام تک پہنچتی رہی ہیں۔ سڑکوں پر نکلنے والے عوام اور نوجوان زیادہ تر اسلامی تحریک کے ارکان اور مؤیدین ہوتے ہیں۔ المجتمع کے شمارہ ۱۹۷۳ اور ۱۹۷۴میں صنعا سے عادل امین نے بہت تفصیلی رپورٹس بھیجی ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اب جلد ہی یمن میں آمریت کا باب ختم ہونے والا ہے۔ امید ہے تیونس کی طرح یمن سے بھی ان شاء اللہ اہل ایمان کو خوش خبریاں ملیں گی، وباللّٰہ التوفیق۔
عالمِ عرب میں برپا ہونے والے انقلاب کے بارے میں مغرب اور سیکولر عناصر کا یہ دعویٰ تھا کہ یہ ظلم و ناانصافی، آزادیِ اظہار پر پابندی اور معاشی استحصال کے خلاف ردعمل ہے، اس کا اسلام یا اسلام پسندوں سے کوئی تعلق نہیں۔ دوسری طرف یہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ اسلام پسند آگئے تو سخت قوانین نافذ کریں گے، پابندیاں عائد کریں گے بالخصوص خواتین کے حقوق پر زد پڑے گی۔ لیکن تیونس کے انتخابات نے یہ بات واضح کردی کہ ’عرب بہار‘ دراصل اسلامی انقلاب کی طرف پیش رفت ہے۔ عوام نے اسلام پسندوں کے حق میں ووٹ ڈالا ہے اور تیونس میں النہضت کے کامیاب ارکان میں نمایاں تعداد خواتین ارکان کی ہے۔ اسلامی تحریکیں جبر کے بجاے سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہتی ہیں اور اعتدال پسندی، رواداری اور انصاف جیسی اسلامی روایات کو آگے بڑھاتے ہوئے معاشرے میں بتدریج تبدیلی لانا چاہتی ہیں۔ اسلامی تحریکوں کی اس حکمت عملی اور اعتدال پسندی کی روش کی بناپر مغربی اسکالر بھی یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ اب اسلامی تحریکوں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
۸ کروڑ ۵۰ لاکھ کی آبادی پر مشتمل مصری عوام، فوجی آمرحسنی مبارک کے ۳۰سالہ جابرانہ دور کے عوامی قوت کے ذریعے خاتمے کے باوجود اپنے خوابوں کی تعبیر کے منتظر اور نام نہاد سپریم کونسل کی شاطرانہ چالوں کا ہدف ہیں۔ حسنی مبارک کی جانشینی ان فوجی سربراہوں نے اختیار کی جن کی اپنی سلامتی حسنی مبارک سے اپنے آپ کو علیحدہ کرنے میںتھی، اور جو ہوا کے رُخ کو دیکھ کر یہ سمجھ چکے تھے کہ اب حسنی مبارک کا باقی رہنا ناممکن ہے۔ چنانچہ وہ معصوم چہرے کے ساتھ عوامی جدوجہد میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے آگے بڑھے اور مصری انقلابی نوجوانوں کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگئے کہ وہ چند ہفتوں میں اقتدار عوام کے حوالے کردیںگے۔ طاغوتی طاقتوں کا یہ حربہ نیا نہیں ہے۔ عموماً اسی عہد کے ساتھ پاکستان، انڈونیشیا اور دیگر ممالک میں بعض نام نہاد نجات دہندہ سامنے آئے ہیں اورپھر سالہا سال تک اقتدار سے چمٹے رہنے کے بعد بھی بخوشی کرسی چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوئے ہیں۔
مصر کے تناظر میں جہاں فوج حسنی مبارک کے طویل آمرانہ دور میں معاشی اور سیاسی فوائد سے فیض یاب ہوتی رہی، وہیں فوج کی تربیت اور اس کی فکری رہنمائی امریکی حکومت کے ہاتھ میں رہی۔ اس بنا پر فوج کی اعلیٰ اور درمیانہ قیادت امریکا کی پروردہ ہونے کے سبب امریکا نواز تسلیم کی جاتی ہے۔ امریکی وزیرخارجہ کے حالیہ بیان کو جس میں اس نے سپریم کونسل سے کہا ہے کہ وہ جلد اقتدار کی منتقلی کی کارروائی شروع کرے، اگر بغیر کسی پس منظر کے پڑھاجائے تو بہت جمہوریت پسندانہ نظر آتاہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مصری عوام امریکا کے مصر میں عمل دخل کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔ چونکہ فوج امریکی حکومت سے قریبی تعلق رکھتی ہے اس لیے امریکی وزیرخارجہ کے بیان کا اصل مقصد خود اپنی صفائی پیش کرناہے کہ امریکا فوجی کونسل کے مستقل طور پراقتدار پر قابض رہنے کی حمایت نہیں کرتا۔ گو حقیقتاً یہ امریکا ہی تھا جس نے ۳۰سال حسنی مبارک کی اندھادھند حمایت کی، اور جہاں کہیں بھی فوجی یا غیر فوجی آمر مسلم دنیا میں اقتدار پر قابض ہوئے امریکا نے ہمیشہ ان کی حمایت اور سرپرستی کا نیک فریضہ جمہوریت کے وظیفے کے ساتھ جاری رکھا ہے۔
جہاں تک عوام کے تاثرکا تعلق ہے وہ خود مغربی ذرائع کے مطابق واضح طور پر اسلامیان (Islamists) کے حق میں ہے۔ نیویارک ٹائمز کے تجزیہ نگار کے مطابق ۸۰ فی صد عوام اخوان المسلمون کو پسند کرتے ہیں اور اگر آج غیر جانب دار انتخابات کرائے جائیں تو وہ بھاری اکثریت کے ساتھ پارلیمنٹ میں کامیاب ہوں گے۔ مصری پارلیمنٹ کی ۴۹۸ نشستوں کے لیے تقریباً ۶ہزار اُمیدواروں کو میدان میں آنا ہے۔ ملک کی زرعی علاقوں اور دیہاتوں کی آبادی روایتی طور پر اسلام سے تعلق رکھتی ہے اور اگر اسے بغیر کسی دھاندلی اور دبائو کے ووٹ کا حق دیا جائے تو اسلامی جماعتوں خصوصاً اخوان المسلمون کو ووٹ دے گی۔ اخوان نے ۱۹۲۸ء سے عوامی سطح پر کام کیا ہے، عظیم قربانیاں دی ہیں اور ہر دور میں آمروں کے مظالم کا نشانہ بنے ہیں۔ اس کے باوجود انھوں نے عزم و استقامت کے ساتھ اپنی دعوت کو دیہاتوں اور شہروں میں ہرجگہ بہت سلیقے سے پیش کیا ہے۔
آج بھی اخوان کے رہنما عدل و حریت کا علَم لے کرمیدان میں آئے ہیں اور اپنے روایتی شعار کی جگہ نئی سیاسی زبان کا استعمال کرتے ہوئے عوام کے بنیادی مسائل روٹی، روزگار، پانی کی فراہمی، زمینوں کی عادلانہ تقسیم، خواتین کے حقوق کی بحالی جیسے اہم بنیادی مسائل کو اپنی انتخابی مہم کا موضوع بنارہے ہیں۔ نتیجتاً مصر کی آبادی کا بڑا حصہ مصر میں اسلامی عدل و انصاف اور حقوقِ انسانی کی بحالی کے لیے اخوان کے موقف کی تائید کرر ہاہے۔ یہ امر امریکی حکومت کے لیے بہت اضطراب اور فکرمندی کا باعث ہے۔ گو وہ عرصے سے یہ کوشش کرتی رہی ہے کہ غیرسرکاری طور پر اخوانی رہنمائوں سے رابطہ رکھے لیکن اس کی اپنی ترجیح فوجی یا نیم فوجی قیادت کے دوبار ہ آجانے میں ہوگی کیونکہ اس طرح وہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے چند افراد سے معاملہ طے کرتا ہے، جب کہ عوامی نمایندوں کی حکومت کی شکل میں اس کے لیے اتنی تعداد میں افراد کا خریدنا اور انھیں امریکی مفاد کی حمایت پر قائم رکھنا قدرے مشکل ہوجاتا ہے۔ اس کے باوجود ظاہری طور پر امریکی حکومت عوامی خواہش کواچھی طرح جاننے کے باوجود کوشش کرے گی کہ اسلامی قوتوں کے درمیان آپس میں مقابلہ ہوکر ووٹ تقسیم ہوجائیں اور سیکولر اور سوشلسٹ ذہن کی جماعتوں کو کامیابی حاصل ہو اور اس طرح اسلامی قوتوں کو واضح اکثریت نہ مل سکے۔
تیونس میں بھی امریکی حکمت عملی یہی تھی لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت سے وہاں تحریک اسلامی نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ اس عشرے میں جو بظاہر تحریکاتِ اسلامی کا عشرہ نظرآرہا ہے، مصر میں حالات جس رُخ پر جارہے ہیں اس میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ ان شاء اللہ اخوان المسلمون مناسب اکثریت سے کامیاب ہوں گے۔ گو مصر کی قبطی عیسائی آبادی جو اندازاً ۱۰ فی صد بتائی جاتی ہے اسلامی تحریک کی کامیابی کی مخالفت کرے گی ۔ نہ صرف عیسائی بلکہ بعض آزاد خیال مسلمان بھی تحریکاتِ اسلامی کے بارے میں یہ غلط تصور رکھتے ہیں کہ یہ ’قدامت پرست‘، ’انتہاپسند‘ اور ماضی میں بسنے والی جماعتیں ہیں۔ حقیقت حال بہت مختلف ہے۔ اخوان المسلمون کی قیادت کی بڑی تعداد ان افراد پر مبنی ہے جو مغرب کی اعلیٰ درس گاہوں سے انجیینرنگ، میڈیکل سائنسز، عمرانی علوم اور دیگر شعبہ ہاے علم میں اعلیٰ سندات لے کر مصروفِ عمل ہیں۔ اخوان کے رہنما عصام العریان نے اپنے حالیہ بیان (۱۷نومبر ۲۰۱۱ء) میں واضح طور پر یہ کہا ہے کہ ان کی جماعت جمہوریت اور جمہوری ذرائع پر یقین رکھتی ہے اور وہ انتخابی نتائج جو بھی ہوں انھیں تسلیم کریں گے۔ انھوں نے مزید یہ کہا ہے کہ ان کی جماعت حقوقِ انسانی کی بحالی اور خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد میں یقین رکھتی ہے۔ واضح رہے کہ اخوان کے زیراثر جو سیاسی جماعت میدان میں ہے اس کا ایک نائب صدر ایک عیسائی قبطی ہے۔
دوسری جانب مصر کی فوجی سپریم کونسل عوامی انقلاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود یہ چاہتی ہے کہ پارلیمنٹ کے انتخابات تو ہو جائیں لیکن فوج کو فیصلہ کن مقام حاصل رہے۔ اس کے لیے اس کا اصرار ہے کہ اصل فیصلے فوج کی اعلیٰ قیادت کرے، چنانچہ یہ اعلان کیا گیا ہے کہ پارلیمنٹ کے ۱۰۰ نمایندوں پر مبنی ایک کمیٹی بنے گی جو ملک کے نئے دستور کومرتب کرے گی جس میں دستوری طور پر سپریم کونسل کو حتمی فیصلہ کرنے کا حق دیا جائے گا!
گویا اس جمہوری جدوجہد اور قیمتی جانوں کی قربانی کے بعد بھی وہی ڈھاک کے تین پات! فرق صرف یہ ہے کہ حسنی مبارک کی جگہ فیلڈمارشل طنطاوی اور اس کا ٹولہ ملک پر قابض رہے اور پارلیمنٹ محض ایک غیرمؤثر عوامی نمایندوں کے ادارے کے طور پر کام کرتی رہے۔ اس بات کا اظہار مصر کے معروف اخبار الاھرام کے تجزیہ نگار عماد جاد نے بھی کیا ہے کہ مصر کے عوام کی ۵۰فی صد آبادی اس امر پر متفق ہے کہ مصری سپریم کونسل انقلاب کو ناکام بنانے اور اس کی روح کو ختم کرنے کے درپے ہے اور اس بنا پر انتخابات کا عمل شروع کرانے اور اقتدار منتقل کرنے میں شعوری طور پر تاخیر کی جارہی ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ انتخابات کے بعد بھی ۲۰۱۳ء تک یہی کونسل حکمران رہے گی۔
نیوزویک کے تبصرہ نگار نے مصری عوام سے براہِ راست انٹرویو کرنے کے بعد جو راے قائم کی ہے وہ بھی ہمارے لیے غور کے زاویے فراہم کرتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اسلام پسند جماعتوں کو بعض حلقے ’سلفی‘ کہہ کر ان کے بارے میں ذہنوں میں تحفظات پیدا کرنے میں مصروف ہیں لیکن اس کے اپنے تجربے کے مطابق جن کو سلفی کہا جا رہا ہے، یہ وہ حضرات ہیں جو نماز، روزے کی پابندی کے ساتھ عوامی فلاحی کاموں میں مصروفِ عمل ہیں۔ چنانچہ غریبوں کو طبی امداد کی فراہمی اور غریبوں کے علاج کے لیے خون کے عطیات جمع کرنے اور دیہی آبادی میں غریب اور ضرورت مند افراد کے لیے ضروری سہولتیں فراہم کرنے میں ان کا بڑا حصہ ہے۔
ا س کا کہنا ہے کہ ملک کی ایک اقلیت ضرور یہ راے رکھتی ہے کہ حکومت میں اسلام کا عمل دخل نہیں ہونا چاہیے لیکن عوام الناس کی بھاری اکثریت جو کُل آبادی کا تقریباً ۸۰ فی صد ہے، قرآنی نظام کا نفاذ چاہتی ہے۔ لوگ بدعنوانی، بے ایمانی، حکمرانوں کی نفسا نفسی اور اپنی ذات کے لیے ہرکام کرنے کی روش سے تنگ آچکی ہے۔ اب وہ عدل و انصاف چاہتے ہیں اور اس بنا پر اخوان المسلمون کا اپنی سیاسی جماعت کے لیے حریت اور عدل کا اختیار کرنا عوامی جذبات کی صحیح نمایندگی ہے۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان میں تحریکِ اسلامی کے لیے غور کرنے کے کئی زاویے سامنے آتے ہیں۔ انتخابی حکمت کے حوالے سے اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کن مسائل کو مرکزی اہمیت دی جائے۔ اندرونی مسائل اور بیرونی مسائل میں ترجیحات کا تعین غیرمعمولی طور پر معروضیت اور خود احتسابی کا متقاضی ہے۔
پاکستان میں تحریکِ اسلامی نے امریکا کی دخل اندازی کی پالیسی کی ہرسطح پر مستقلاً مخالفت کی ہے اور عوامی سطح پر ’بھاگ امریکا بھاگ‘ کے نعرے کو عوامی مقبولیت کی حد تک پہنچا دیا ہے۔ اس سلسلے میں دیکھاجائے تو جماعت کے اس طرزِعمل کا عکس تقریباً عالمی تحریکاتِ اسلامی کے ہاں بھی نظر آتا ہے۔ مصر ہو یا تیونس، تحریکاتِ اسلامی نے امریکی دخل اندازیوں پر مسلم مفاد کے خلاف بین الاقوامی پالیسی اختیار کرنے پر امریکا کی مخالفت میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی۔ لیکن کیا اسے الیکشن کا ایشو بنانا عوامی حمایت کے حصول میں مددگار ہوگا یا اس کے مقابلے میں ملک میں بجلی کا بحران، ضروریاتِ زندگی کی قیمتوں میں ناقابلِ برداشت اضافے، بے روزگاری، ملکی اداروں کی تباہی، عدلیہ کے فیصلوں کو نظرانداز کرنا، اہم مناصب پر نااہل افراد کی تقرری، ملک میں لاقانونیت، بدامنی اور عدم تحفظ، فرقہ واریت کا برداشت کیا جانا اور ملک میں کرپشن کا طوفان وہ مسائل ہیں جن کا تعلق ایک عام شہری سے ہے، اور کسی بھی نمایندہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ ان بنیادی مسائل کے حل کے لیے اپنا مجوزہ حل پیش کرے۔
خارجہ پالیسی کو بھی ایک اہم مقام حاصل ہے اور دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ نے حالات کو بگاڑنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ لیکن مسئلہ focus کا ہے، یعنی وہ چیز جو عوام کو متحرک کرنے کا مؤثر ذریعہ بن سکے۔ اس پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔
تحریکِ اسلامی مصر نے سیاسی محاذ پر ایک نئے نام سے جدوجہد کا آغاز کر کے یہ مثال قائم کی ہے کہ تحریک بغیر کسی تضاد کا شکار ہوئے اپنے دستوری اہداف کے حصول کے لیے نیم خودمختار تنظیم یا ادارہ قائم کرسکتی ہے جس کا یہ مطلب نہیں لیا جاسکتا کہ ایسے ادارے سے وابستہ افراد تحریک کی اخلاقی اور دستوری پابندیوں سے آزاد تصور کیے جائیں گے۔ اس کا مقصد صرف مخصوص سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے ایسی حکمت عملی اختیار کرنا ہے جو تحریک کے سیاسی مقاصد کے حصول میں راے عامہ ہموار کرسکے۔ اس کا یہ مطلب لینا بھی درست نہ ہوگا کہ تحریک صرف تزکیۂ نفس اور تربیت اخلاق کے لیے ہے اور ذیلی سیاسی جماعت سیاسی ہنگامہ خیزی کے لیے۔ نہ اسے کوئی اصولی انحراف کہا جاسکتا ہے۔ تحریکات کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ مباحات کے دائرے میں رہتے ہوئے اور حرام سے مکمل اجتناب کرتے ہوئے کس طرح حصولِ مقصد کے لیے حکمت عملی میں وقت کے لحاظ سے تبدیلی پیدا کی جائے۔ اگر کسی ایسی حکمت عملی سے تحریک کی پہنچ زیادہ وسیع دائرے تک ہوسکتی ہے تو ایسا کرنا تحریکی مفاد اور دستور کی روح کے مطابق ہی سمجھا جائے گا۔
تحریکاتِ اسلامی کو عموماً دو محاذوں پر مخالفین کی تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک شریعت کا نفاذ، دوسرا خواتین کی آزادی کا مسئلہ۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ اصولوں سے انحراف کیے بغیر واضح طور پر یہ بات سمجھائی جائے کہ شریعت کے نفاذ سے ہمار ی مراد کیا ہے۔ کیا اسلام کا نظامِ قانون صرف سزائوں پر مشتمل ہے یا اسلامی شریعت دراصل عدل و انصاف کے قیام کا نام ہے۔ اس عدل میں نہ صرف انفرادی طور پر عدل شامل ہے بلکہ ایک فرد کے اپنے نفس کے حقوق کا صحیح طور پر ادا کرنا، اہلِ خانہ کے حقوق کی ادایگی، اعزہ و اقربا اور دوستوں کے حقوق کی ادایگی بھی شامل ہے، اس کے ساتھ ہمسایوں اور خصوصاً اہلِ حاجت کے حقوق کی ادایگی معاشرے میں بھلائی کے قیام اور بُرائی کے مٹانے کی کوشش، معاشی استحصال کا خاتمہ اور معاشی عدل کا قیام بھی۔ اسی طرح معاشرتی معاملات میں خواتین کو جو حقوق اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیے، ان کا نفاذ، ان کی تعلیم، صحت، عزت و احترام، گھر اور معاشرے میں ان کا تحفظ۔ پھر ثقافتی میدان میں عدل کا قیام کہ جن اقدار پر ثقافت کی بنیاد ہے، ان کا فروغ اور جو صفات اسلام ناپسند کرتا ہے، ثقافت سے ان کا خاتمہ۔ غرض عدل و انصاف کا قیام بذاتِ خود ایک ایسا موضوع ہے جس پر اگر ایک عام شہری کو اس کی زبان میں اس کے معاشرے کی مثالوں کی مدد سے بات سمجھائی جائے تو وہ سب سے بڑا شریعت کا حامی بننا پسند کرے گا۔ اسی طرح خواتین کی آزادی کی حدود، اور ان معاملات میں ان کے حقوق کے لیے جنگ جنھیں ہمارے معاشرے میں برادری، قبیلے کی روایت اور ذات پات کی ناک کا مسئلہ بنا دیا گیا ہے۔ ان معاملات پر کھل کر موقف کی وضاحت کرنا بہت ضروری ہے۔
یہ تمام امور انتخابی منشورمیں وضاحت سے آنے چاہییں اور اس کے ساتھ چھوٹے بڑے اجتماعات، ٹی وی پر گفتگو، اخبارات میں بیانات، پمفلٹ اور کتابچوں کے ساتھ ساتھ جدید ذرائع ابلاغ کا استعمال بھرپور طریقے سے کرنا ہوگا، کیونکہ آج کی اصل زبان سوشل میڈیا کی زبان ہے۔ موبائل فون، انٹرنیٹ، فیکس بُک وغیرہ کے ذریعے پیغامات اور دیگر ذرائع کا استعال ہی ان موضوعات پر پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دُور کرسکتا ہے۔
امریکا کی سامراجی پالیسیوں اور کارروائیوں کی بھرپور مخالفت کے ساتھ عالمی سطح پر مغربی ممالک کے ایسے معاملات میں تعاون کے امکانات کو ختم نہیں کیا جاسکتا، جن میں مسلمانوں کا مفاد شامل ہو، یا جو آج کے عالم گیریت کے ماحول میں ہرملک کے لیے اہمیت اختیار کرچکے ہیں۔ اس لیے خود ان ممالک کے بارے میں سوچی سمجھی راے تیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ جہاں ایک طرف اُمت مسلمہ کے مفاد کے خلاف اقدام کا مقابلہ کیا جائے وہیں انسانیت کے مشترکہ مفاد اور باہمی مفادات کے تحفظ کے لیے سب کے ساتھ معاملہ کیا جاسکے، اور عدل اور مشترکات کے حصول کے لیے ہر دروازہ کھلا رکھا جائے۔
مصر، تیونس، لیبیا، شام، یمن، کویت، بحرین، غرض مسلم ممالک میں حالیہ صورت حال پر باربار مختلف زاویوں سے غور کرنے اور اس تناظر میں تحریکِ اسلامی کی اپنی حکمت عملی پر تنقیدی نگاہ سے غور کرنا ہی تحریک کے آگے بڑھنے اور ایک صحیح فیصلے تک پہنچنے میں مددگار ہوسکتا ہے۔ حالات جس رُخ پر جارہے ہیں ان میں تحریکِ اسلامی کی کامیابی اور مقبولیت میں اضافے کے گہرے نقوشِ نظر آرہے ہیں۔عزم و استقامت اور حکمت عملی کے ساتھ ان حالات کے جائزے کے ساتھ اپنی حکمت عملی میں نئی صبح کے انتظار کے ساتھ ہمیں اپنے وسائل کی تنظیمِ نو کرنی ہوگی۔
سوال: اگر ایک آدمی حق کی تلاش میں ہے اور وہ دل سے اس کی کوشش کرتا ہے لیکن اُسے کافی جدوجہد کے بعد بھی وہ نہیں ملتا تو کیا وہ بیچارہ حوصلہ ہار نہیں بیٹھے گا؟ اس کی مثال یوں ہے کہ ایک آدمی انتہائی تاریکی میں اِس غرض سے سفر کرتا ہے کہ کہیں روشنی کا چراغ اسے ملے۔ لیکن سفر کرتے کرتے روشنی کا نشان تک اسے نہیں ملتا۔ آخر کو بیچارا تھک ہار کر بیٹھ جاتا ہے اور یہ سمجھ لیتا ہے کہ روشنی سرے سے ہے ہی نہیں، اگر کچھ ہے تو بس گھپ اندھیرا۔
ایک آدمی جو مصیبتوں، تکلیفوں اور ناکامیوں کے حصار میں گھرا ہوا ہے۔ جب کوشش کرکے ان مشکلات سے باہر نکل آتا ہے تو یہ تجربہ اُسے مطمئن کردیتا ہے اور وہ ایسی ذات کا قائل ہوجاتا ہے جو مصیبت زدہ کی پکار کو سنتی ہے اور مدد کرتی ہے۔ مگر ایک دوسرا شخص ہے جو ایک حصار سے نکلتا ہے تو دوسرا حصار، اور دوسرے سے نکلتا ہے تو تیسرا حصار اسے گھیر لیتا ہے۔ یہاں تک کہ یکے بعد دیگرے پیہم حصار پر حصار اُسے گھیرتے چلے جاتے ہیں۔ یہ مسلسل چکر اُسے قطعی مایوس کردیتا ہے اور وہ کسی ایسی ذات سے، جو مصیبت میں کام آئے، مکمل طور پرنااُمید ہوجاتا ہے، کیونکہ بیچارہ باربار چلّاتا ہے کہ مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ ط اور کبھی بیچارے کو اَلَا اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ (البقرہ ۲:۲۱۴) کی آواز سنائی نہیں دیتی۔ یہ شخص اس لیے نااُمید ہوگیا ہے کہ بیچارے کی بیش تر خواہشات میں سے ایک بھی پوری نہیں ہوئی اور بیستکلیفوں میں سے ایک بھی رفع نہیں ہوئی۔ اگر کوئی ایک خواہش بھی پوری ہوجاتی، یا ایک تکلیف بھی رفع ہوجاتی تو وہ اس بات سے کُلّی طور پر مایوس نہ ہوتا کہ اُوپر کوئی بالاتر ہستی دعائیں سننے اور حاجتیں پوری کرنے والی موجود ہے۔
جواب: آپ نے اپنے سوال کے آغاز میں جو بات لکھی ہے اس کا جواب یہ ہے کہ حق کی تلاش ایک بنیادی خوبی ہے جو حق پانے کے لیے شرطِ اوّل کی حیثیت رکھتی ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ تلاشِ حق مخلصانہ ہو، بلاتعصب ہو، اور دانش مندی کے ساتھ ہو۔ یعنی آدمی اِس تلاش کے دوران میں حق اور باطل کے درمیان تمیز کرتا رہے اور جو چیز باطل نظر آئے اُسے چھوڑ کر حق کو قبول کرتا چلا جائے۔ اس صورت میں یہ اِمکان نہ ہونے کے برابر ہے کہ آدمی کو گُھپ اندھیرے کے سوا کچھ نہ ملے۔
سوال کے دوسرے حصے میں آپ نے جو مثال پیش کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ تلاشِ حق براے تلاشِ حق نہیں بلکہ اس غرض سے کر رہے ہیں کہ آپ مصیبتوں اور تکلیفوں اور ناکامیوں کے حصار سے نکل جائیں، اور آپ کو مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ کے جواب میں اَلَا اَنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ کی آواز نہ صرف یہ کہ سنائی دینے لگے بلکہ وہ جواب دینے والی ہستی آپ کے مصائب اور تکالیف اور ناکامیوں کا مداوا بھی کردے۔
میرے نزدیک تلاشِ حق کے لیے یہ نقطۂ آغاز ہی سرے سے غلط ہے جس کی وجہ سے آپ کو مایوسی لاحق ہوئی ہے۔ حق کی تلاش کا صحیح راستہ جو آپ کو اختیار کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ:
سب سے پہلے مطالعہ اور غوروفکر سے آپ یہ تحقیق کریں کہ آیا کائنات کا یہ نظام بے خدا ہے؟ یا بہت سے بااختیار خدائوں کی تخلیق سے بنا ہے اور وہ سب اِس کا نظام چلا رہے ہیں؟ یا اس کا ایک ہی خالق و مالک اور حاکم و منتظم ہے؟
اِس کے بعد آپ اِس کائنات کو سمجھنے کی کوشش کریں اور یہ تحقیق کریں کہ آیا یہ دارالعذاب ہے؟ یا عیش کدہ ہے؟ یا دارالامتحان ہے جس میں لذت اور الم، تکلیف اور راحت، کامیابی اور ناکامی، ہرچیز آزمایش کے لیے ہے؟
پھر آپ اِس دنیا میں انسان کی حیثیت کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ آیا وہ یہاں بالکل آزاد اور مختار مطلق ہے اور کوئی بالاتر طاقت اس کی قسمت پر اثرانداز ہونے والی نہیں ہے اور کسی بالاتر ہستی کے سامنے وہ جواب دہ نہیں ہے؟ یا زمین اور آسمان میں بہت سے خدا اس کی قسمت کے مالک ہیں؟ یا ایک ہی خدا اُس کا اور ساری دنیا کا خالق و حاکم ہے، اور وہ مختارِ مطلق ہے۔ ہماری لگائی ہوئی شرطوں کا پابند نہیں ہے، اور وہ ہمارے آگے جواب دہ نہیں بلکہ ہم اُس کے آگے جواب دہ ہیں، اور وہ یہاں اچھے اور بُرے سب طرح کے حالات میں رکھ کر ہمارا امتحان لے رہا ہے جس کا نتیجہ اِس دنیا میں نہیں بلکہ آخرت میں نکلے گا؟
اِن تین سوالات میں سے اگر آپ کی تحقیق ہر ایک کا جواب پہلی یا دوسری شکل میں دے تو آپ کو مایوسی کی حالت سے نکل کر اُمید کا راستہ پانے کی کوئی صورت بتانا میرے بس میں نہیں ہے۔ البتہ اگر آپ کی تحقیق ہر سوال کا جواب تیسری شکل میں دے تو یہی جواب آپ کو اطمینانِ قلب کی منزل تک پہنچا سکتا ہے، بشرطیکہ آپ مزید غوروفکر کرکے اس کے منطقی مضمرات (logical implications) کو اچھی طرح سمجھتے چلے جائیں۔
جب خداے وحدہٗ لاشریک ساری کائنات کے انتظام کو چلا رہا ہے تو کائنات کی آبادی کے بے شمار افراد میں سے کسی فرد کا یہ چاہنا ہی سرے سے غلط ہے کہ خدا کی ساری خدائی صرف اُس کے مفاد میں کام کرے۔
اور جب یہ دنیا دارالامتحان ہے تو اس میں پیش آنے والی ہرخوشی اور رنج، ہرمصیبت اور راحت، ہرکامیابی اور ناکامی دراصل انسان کی آزمایش کے لیے ہے۔ یہ بات جس شخص کی بھی سمجھ میں آجائے گی، وہ نہ کسی اچھی حالت پر اِترائے گا اور نہ کسی بُری حالت پر دل شکستہ ہوگا، بلکہ ہرحالت میں اس کی کوشش یہ ہوگی کہ خدا کے امتحان میں کامیاب ہو۔ دُنیا کے موجودہ نظام کی اِس حقیقت کو جان لینے کے بعد آدمی یہاں ایسی غلط تمنائیں دل میں پالے گا ہی نہیں کہ اِس زندگی میں اُسے خالص عیش اور بے لاگ لذت اور بے آمیز راحت اور دائمی کامیابی نصیب ہو اور کبھی اسے مصیبت، تکلیف، رنج اور ناکامی سے سابقہ پیش ہی نہ آئے۔ کیونکہ یہ دنیا نہ عیش کدہ ہے اور نہ دارالعذاب کہ یہاں محض لذت یا محض الم، یا محض راحت یا محض تکلیف، یا محض کامیابی یا محض ناکامی کہیں پائی جاسکے۔
اِسی طرح جب تیسرے سوال کا جواب آپ تحقیق سے یہ پالیں کہ خداے واحد خالق و حاکم ہے اور ہم مخلوق و محکوم، اور یہ کہ وہ مختارِ مطلق ہے اور ہم اس کے بندے ہوتے ہوئے اُسے اپنی شرطوں کا پابند نہیں بنا سکتے، اور یہ کہ وہ ہمارے سامنے نہیں بلکہ ہم اس کے سامنے جواب دہ ہیں، تو آپ کا ذہن کبھی خدا سے ایسی غلط توقعات وابستہ نہ کرے گا کہ ہم خود جس حالت میں رہنا چاہیں، وہ ہمیں اُسی حالت میں رکھے اور ہم جو درخواست بھی اُس سے کریں وہ ضرور اُسی شکل میں اُسے پورا کرے جو ہم نے تجویز کی ہے، اور ہم پر کوئی تکلیف، یا مصیبت اگر آہی جائے تو ہمارے مطالبے پر وہ اُسے فوراً دفع کردے۔
مختصر بات یہ ہے کہ صحیح معرفت کا ثمرہ اطمینان ہے، جو ہر اچھے یا بُرے حال میں یکساں قائم رہتا ہے، اور معرفت کے فقدان کا نتیجہ بہرحال بے چینی، اضطراب اور مایوسی ہے، خواہ عارضی طور پر انسان اپنی کامرانیوں سے غلط فہمی میں پڑ کر کتنا ہی مگن ہوجائے۔ آپ مایوسی سے نکلنا چاہتے ہوں تو پہلے حقیقت کا عرفان حاصل کرنے کی فکر کریں، ورنہ کوئی چیز بھی آپ کوگُھپ اندھیرے سے نہ نکال سکے گی۔ (سید ابوالاعلیٰ مودودی، رسائل و مسائل، پنجم، ص ۱۷۳-۱۷۷)
س: آپ کے نزدیک فقر سے کیا مراد ہے؟
ج: فقر کے لغوی معنی تو احتیاج کے ہیں لیکن اہلِ معرفت کے نزدیک اس سے مراد مفلسی اور فاقہ کشی نہیں ہے، بلکہ خدا کے سوا ہر ایک سے بے نیازی ہے۔ جو شخص اپنی حاجت مندی کو غیراللہ کے سامنے پیش کرے اور جسے غنا کی حرص دوسروں کے آگے سر جھکانے اور ہاتھ پھیلانے پر آمادہ کرے وہ لغوی حیثیت سے فقیر ہوسکتا ہے، مگر نگاہِ عارف میں دَرْیوزہ گر [بھکاری] ہے، فقیر نہیں ہے۔ حقیقی فقیر وہ ہے جس کا اعتماد ہر حالت میں اللہ پر ہو۔ جو مخلوق کے مقابلے میں خوددار اور خالق کے آگے بندۂ عاجز ہو۔ خالق جو کچھ بھی دے، خواہ وہ کم ہو یا زیادہ، اس پر قانع و شاکر رہے اور مخلوق کی دولت و جاہ کو نگاہ بھر کر بھی نہ دیکھے۔ وہ اللہ کا فقیر ہوتا ہے نہ کہ بندوں کا۔ (ایضاً، ص ۳۶۶)
برطانوی عہدِ غلامی میں بعض عیسائی مشنریوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر ہرزہ سرائی کی تو جان نثارانِ رسولؐ نے قرطاس و قلم کے ساتھ اس کا دفاع کیا، اس سلسلے میں قاضی محمدسلیمان سلمان منصوری پوری کی کتاب رحمۃ للعالمینؐ ایک معروف و مقبول کتاب ہے۔ ۱۹۱۲ء میں شائع ہونے والی اس کتاب میں سوانح اور واقعات کے ساتھ دوسرے مذاہب کے اعتراضات، صحفِ آسمانی کا موازنہ بالخصوص یہود و نصاریٰ کے دعاوی کا اِبطال، تورات و انجیل اور عیسائی مذہب کے نہایت اہم گوشے خصوصاً مناظرانہ پہلو پیش کیے گئے ہیں۔ عیسائی مستشرقین کے اعتراضات کا مسکت جواب بھی دیا گیا ہے۔ سیرتِ نبویؐ کے واقعات کے ماہ و سال کا تعین کرنے کے ساتھ جامع معلومات کے ساتھ ساتھ غزوات و سرایا اور شہدا کا تفصیلی تذکرہ بھی موجود ہے۔
رحمۃ للعالمینؐ کو کئی اداروں نے شائع کیا ہے مگر ایک مدت گزرنے کے بعد ضرورت محسوس ہو رہی تھی کہ اس عظیم علمی ورثے کو جدید تقاضوں کے پیش نظر ،نظرثانی کے بعد شائع کیا جائے تاکہ موجودہ دور میں بھی اس سے بآسانی استفادہ کیا جاسکے۔ ادارہ معارف اسلامی لاہور نے اس علمی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے کتاب کودو جِلدوں میں مرتب و مدّون کیا ہے۔ تدوین کا کام ادارے کے علمی معاون جناب گل زادہ شیرپائو نے انجام دیا ہے۔ اس کی پہلی جِلد زیورِطباعت سے آراستہ ہوکر سامنے آئی ہے۔ اس بات کا خصوصی اہتمام کیا گیا ہے کہ تدوین نو کرتے ہوئے کتاب کے متن میں کوئی تبدیلی نہ ہو۔ عبارت میں جہاں تبدیلی کی ضرورت محسوس کی گئی اسے قلّابین میں درج کردیا گیا ہے۔ کتاب کے ابواب و فصول کی تقسیم نئے سرے سے کی گئی ہے اور حوالہ جات و حواشی کا خصوصی اہتمام کیا گیا ہے۔ احادیث کی تخریج اور تکمیل و تصحیح کا اہتمام کیا گیا ہے۔ ایک اہم پہلو یہ ہے کہ کتاب میں متن اور حوالہ جات کی بعض اغلاط کی تصحیح بھی کردی گئی ہے۔ اس طرح سے ایک اہم علمی ضرورت کو پورا کیا گیا ہے۔ (عمران ظہور غازی)
امام محمد بن اسماعیل بخاری (۱۹۴ھ-۲۵۶ھ) کی الجامع الصحیح کو احادیث کی کتب میں صحت ِ روایت کے اعتبار سے بلند مقام حاصل ہے۔ امام بخاری نے اس کتاب میں احادیث کو ایک منفرد انداز میں روایت کیا ہے۔ روایت میں پیش نظر رکھی گئی امام کی شرائط سے مکمل آگاہی صحیح بخاری کی استنادی حیثیت کو سمجھنے کے لیے نہایت ضروری ہے۔ ان شرائط سے عدم واقفیت کی بناپر بعض لوگوں کو بخاری کی بعض روایات پر کئی اشکال پیدا ہوئے۔ چند سال قبل بھارت میں لکھی گئی شبیراحمد ازہر میرٹھی کی صحیح بخاری کا مطالعہ: بخاری کی کچھ کمزور احادیث کی تحقیق وتنقید بھی اسی قبیل سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ کتاب لاہور سے ۲۰۰۵ء میں دو جِلدوں پر مشتمل یک جا شائع ہوئی۔ اس میں راویوں کے حوالے سے متعدد فنی، عقلی اور تاریخی اعتراضات اُٹھائے گئے ہیں۔ اس کتاب کے پہلے حصے کا جواب زیرتبصرہ کتاب میں دیا گیا ہے۔ یہ کتاب ۱۸؍احادیث پر اعتراضات کے محاکمے پر مبنی ہے۔ ہرحدیث پر بحث کو الگ الگ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پھر یہ ابواب مزید تین تین فصلوں (حصوں) میں منقسم ہیں۔ پہلی فصل میں فنی اعتراضات، دوسری میں عقلی اعتراضات اور تیسری فصل میں تاریخی اعتراضات کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔
شبیراحمد ازہر میرٹھی نے بخاری کی بعض روایات، مثلاً تحریکِ شفتین، تحویلِ قبلہ، تکمیلِ دین کے محلِ نزول اور روزِ نزول، سیدنا علیؓ کی فضیلت، مالِ تجارت کو دیکھ کر صحابہ کرامؓ کے خطبۂ جمعہ چھوڑ کر جانے کا واقعہ، تقسیمِ خمس اور سیدہ عائشہؓ پر بہتان وغیرہ کے حوالے سے اعتراضات اُٹھائے ہیں۔ انھوں نے بعض روایات کو سند کے اعتبار سے ناقابلِ قبول قرار دیا ہے اور بعض کو عقلی لحاظ سے، اور بعض کو تاریخی طور پر کمزور بتایا ہے، بلکہ بعض جگہوں پر باطل قرار دیا ہے۔
حافظ ابویحییٰ نور پوری کی کتاب کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ شبیراحمد میرٹھی نے اپنے اعتراضات کی جو عمارت تعمیر کی ہے، وہ بہت کمزور ہے اور غیرمحتاط اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔ زیرنظر کتاب اگرچہ رجالِ حدیث کی پیچیدہ علمی بحثوں پر مشتمل ہے، تاہم بخاری پر اُٹھائے گئے اعتراضات کا مدلّل جواب ہے۔ یقینا مصنف اس کارنامے پر مبارک بادکے مستحق ہیں۔ (ارشاد الرحمٰن)
معیشت وتجارت اور انسان کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جوں جوں انسان ارتقا کی منزلیں طے کرتا گیا، ویسے ویسے معیشت و تجارت فروغ پاتی گئی۔ انسان اپنے منافع اور دولت میں اضافے کے لیے نت نئے طریقے ایجاد کرتا گیا جن میں بہت سے طریقے انسان کے استحصال پر مبنی تھے۔ اسلامی نظامِ حیات نے جہاں انسان کی معاشرتی اصلاح کا بیڑا اُٹھایا، وہاں انسان کی معاشرتی ضروریات کا بھی خیال رکھا اور انسان کی پیدا کی ہوئی خرابیوں کودُور کیا۔ ان میں سے ایک بڑی خرابی سود ہے۔ مادیت پر مبنی مغربی سوچ اور فکر نے پرانی قارونی فکر کی بنیاد پر معیشت و تجارت کوسود پر استوار کر کے بنی نوع انسان کے لیے بدترین استحصال کا راستہ وَا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ’وال سٹریٹ پر قبضہ کرو‘ تحریک کی صورت میں اس نظام کے ڈسے ہوئے لوگ سراپااحتجاج ہیں۔
اسی سرمایہ دارانہ نظام کے اہم ترین ملکوں میں سے ایک برطانیہ ہے ، اور مصنف اسی ملک کے باسی ہیں۔ انھوں نے اس نظام کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد سود کی تباہ کاریوں کا ایک نئے انداز میں جائزہ لیا۔ مصنف نے انٹراپی کے خالص سائنسی تصور کی وضاحت کرتے ہوئے ،اس کی روشنی میں سود کے مضر اثرات اور قدرتی وسائل پر منفی اثرات کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ انٹراپی کا طریقہ کسی نظام میں بدنظمی کی مقدار بیان کرنے کے لیے استعمال کیا جاتاہے۔ اسی طرح سود انسانی وسائل کے ضیاع اور عالمی ماحول اور خصوصاً عالمی فضائی حرارتی درجے پر منفی اثرات کا حامل ہے۔ ایک باب میں زر کی دھاتی اور کاغذی اقسام کا جائزہ پیش کیا گیا ہے اور تخلیق زر کے طریق کار اور نتائج کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ دور جدید میں کرنسی کا جدید نظام ، اس کو کنٹرول کرنے کے طریقوں کے جائزے کے نتیجے میں ایک بہترین نظام زر کے بارے میں تجویز کیا گیا ہے کہ اسے دھاتوں پر مبنی ہونا چاہیے۔ چوتھے باب میں وضاحت کی گئی ہے کہ پیداواری عمل انسانی ضرورت اور انسانی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ اس کے مقابلے میں جوا اور سٹہ وغیرہ پیداواری عمل میں اضافے کا سبب نہیں بلکہ ارتکازِ دولت کا باعث ہیں۔
مصنف نے واضح کیا ہے کہ معاشی کارروائی کی بنیاد مکمل طور مادیت پر مبنی نہیں ہونی چاہیے بلکہ اس کی بنیاد اسلامی بنیادوں پر رکھی جانی چاہیے۔ تجارت اور سرمایہ کاری کے اسلامی طریقوں کو بھی متعارف کروایا گیا ہے۔اسلامی تناظر میں معاہدات (عقود) کی خصوصیات اور شرائط کی وضاحت کی گئی ہے۔ اسلامی بنکاری کے موجودہ نظام کا جائزہ لے کر اسلامی بنکاری کا ماڈل بھی پیش کیا گیا ہے جو نفع و نقصان کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے۔ اس کی موجودگی میں سرکاری زرعی پالیسی کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ معاشیات کے طلبہ اور اساتذہ کے لیے یہ کتاب بہت مفید ہے۔ (میاں محمد اکرم)
مصنف مسلمانوں کی اخلاقی، سیاسی، معاشی، معاشرتی اور دینی پستی سے دل گرفتہ ہیں اور انھوں نے زیرنظر کتاب میں اس کے اسباب کی نشان دہی کی ہے اور مسلمانوں کے سامنے نشاتِ ثانیہ کے لیے تجاویز پیش کی ہیں، مثلاً یہ کہ وہ مفاد پرست طبقے اور کرپٹ جاگیرداروں، سیاست دانوں، خاکی اور سویلین بیوروکریسی، اجارہ دار صنعت کاروں اور تاجروں سے اپنی جان چھڑا لیں۔ باشعور اور دیانت دار قیادت کو سامنے لایا جائے اور قومی ترجیحات کا تعین کر کے ایک ملک گیر تحریک اصلاح کا آغاز کیا جائے۔ اپنی نظر کو وسعت دیں اور جامد تقلید سے اپنے آپ کو آزاد کریں، نیز فرقہ واریت، فروعی مسائل، مثلاً تصویر، چہرے کا پردہ وغیرہ میں اُلجھنے کے بجاے دین کی اصولی تعلیمات کو فروغ دیں۔نظامِ تعلیم میں دین و دنیا کی تفریق ختم کی جائے۔ دینی علوم مدارس کے بجاے یونی ورسٹیوں میں پڑھائے جائیں اور جدید علوم اور ٹکنالوجی سے استفادہ کیا جائے۔ بے روزگاری کے خاتمے کے لیے ٹیکنیکل ایجوکیشن عام کی جائے۔ زکوٰۃ و عشر کا نظام جدید خطوط پر استوار کیا جائے۔ مصنف کے نزدیک اگر قومی شعور کی آبیاری اور خواندگی کو عام کرنا پہلی ترجیح ہو اور نظامِ تعلیم درست کرلیا جائے تو صرف ۳۰برس میں (یعنی ایک نسل بعد) پاکستان ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں کھڑا ہوسکتا ہے۔
یہ خواہش بڑی نیک اور اچھی ہے مگر اس کے لیے دینی حکمت عملی کے ساتھ پِتّا مار کر عملی جدوجہد ضروری ہے۔ پاکستانی معاشرے میں ایسے اچھے خیالات اور فکر رکھنے والے حضرات ملک میں جاری ایسی کسی جدوجہد میں شامل ہوکر اس کو دامے درمے سخنے تقویت پہنچائیں، اور اگر وہ پاکستان میں کی جانے والی کسی بھی اجتماعی جدوجہد سے مطمئن نہ ہوں تو خود انفرادی اور اجتماعی جدوجہد کی طرح ڈالیں اور اہلِ ملک کو دعوت دیں۔ صرف اچھی خواہشات اور منصوبہ بندی کا اظہار زیادہ نتیجہ خیز نہیں ہوسکتا ہے۔ کتاب میں صفحات پر نمبر کے لیے انگریزی ہندسوں کو اختیار کیا گیا ہے، جب کہ ہم اُردو کو قومی زبان قرار دیتے ہیں۔ (شہزادالحسن چشتی)
زیرتبصرہ کتاب دعوتِ دین کا حکیمانہ طریقے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی عمدہ تفسیر ہے۔ کتاب مقالہ نگاری کے طرز پر تحریر کی گئی ہے۔ ادع کے حکم اور لتکن منکم امۃ یدعون کے تحت دعوت، اس کی اہمیت اور ضرورت پر سیرحاصل گفتگو کی گئی ہے۔ دعوت فی سبیل اللہ اور بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ کے تحت دعوت کے اسلوب، طریق اور دعوت کے مواقع پر عمدگی سے داعی حضرات کی ضرورت کا سامان کیا ہے۔ البتہ درس، لیکچر، خطبہ پر لکھتے ہوئے مصف نے تکرار سے کام لیا ہے، اور مناقشہ کو بھی واضح نہیں کیا۔ اندیشہ ہے اس طرح مباہلہ کے ساتھ ذکر کرنے سے مناظرے کی راہ نہ کھل جائے۔ آخری حصے میں امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے حکم کو پورا کرنے کے لیے تنظیم کی اہمیت و افادیت اور داعی کے اوصاف بیان فرمائے ہیں اور احتیاطاً اوصافِ رذیلہ کا تذکرہ کیا ہے تاکہ داعی مثبت اوصاف کو اپنائے اور منفی اوصاف سے نجات حاصل کر کے دعوت کے میدان میں سرخرو ہوسکے۔ (قلبِ بشیر خاور بٹ)
بچوں کے ذوقِ مطالعہ اور ان کے ادب پر ابتدائی دور میں زیادہ کام نہیں ہوا۔ البتہ گذشتہ ربع صدی میں بچوں کے ادب پر نسبتاً توجہ دی گئی جس کے نتیجے میں کہانیوں کی سیکڑوں کتب اور بیسیوں رسالے منظرعام پر آئے ہیں۔ خصوصاً بچے کی زندگی میں کہانی کی اہمیت کا احساس اُجاگر ہوا ہے اور بچوں کے رسائل میں تنوع اور معیار میں بہتری آئی ہے۔ کہانیوں پر مشتمل زیرنظرکتاب بچوں کے ادب میں خوب صورت اضافہ ہے۔ بنیادی طور پر ان کہانیوں کی مخاطب نئی نسل ہے۔
بچوں کے لیے ادب کی تخلیق اس سے کہیں مشکل ہے جو بڑوں کے لیے لکھا جاتا ہے۔ بچوں کے دلوں کو مسحور کرنا اور ان کے لیے فن سے مسرت کشید کرنا ریاضت طلب ہوتا ہے۔ اخترعباس گوناگوں صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ ان کہانیوں میں انھوں نے بڑی ریاضت سے کام لیا ہے۔ وہ بچوں کی نفسیات کا اِدراک رکھتے ہیں۔ اس لیے بچوں کی فکروشعور کی قوتوں کو بیدار کرنے کی کوشش کامیاب ہوتی ہے۔ ان کہانیوں میں دیمک، اندر کی چٹخنی، چیک بُک اور دربان جیسی کہانیاں ذہنی بالیدگی کا سبب بھی ہیں اور نئی نسل کے احساسات کی تسکین کا ذریعہ بھی۔ ان سے جہاں دل چسپ پیرایے میں معاشرتی اقدار اور انسانی رویوں سے آگاہی ہوتی ہے وہاں ایسے کرداروں کا تعارف بھی ہوتا ہے جو اعلیٰ قدروں کے علَم بردار بھی ہیں اور زندگی کی تلخ حقیقتوں کے حامل بھی۔ ان کہانیوں کا اسلوب نوجوانوں کے علاوہ بڑوں کو بھی اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور فکری رہنمائی اور تعمیر سیرت و کردار کا ذریعہ بنتا ہے۔(عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)
فاضل مصنف نے بڑی دردمندی سے عام طور پر پھیلی ایسی کوتاہیوں کی ایک فہرست مرتب کی ہے جن سے غفلت برتی جاتی اور ان کی درجہ بندی کی ہے۔ چند اہم موضوعات یوں ہیں: کفریہ غلطیاں، وہ غلطیاں جو شرکِ اکبر ہیں، اللہ تعالیٰ کے حق میں غلطیاں، عبادات میں، حلال و حرام میں، مسلمانوں کے عمومی احوال میں غلطیاں، غیرمسلموں کے ساتھ معاملات میں غلطیاں وغیرہ۔ ان معاملات کے غلط ہونے کی دلیل قرآن و سنت سے پیش کی گئی ہے اور اس کے مقابلے میں درست موقف کی نشان دہی بھی کی گئی ہے۔ مصنف چونکہ عالمِ عرب سے تعلق رکھتے ہیں، انھوں نے بعض ایسے معاملات کا ذکر بھی کیا ہے جو ان کے معاشرے کے ساتھ خاص ہیں، مثلاًعربی عصبیت وغیرہ۔ بعض معاملات میں مصنف کے نقطۂ نظر میں شدت دکھائی دیتی ہے، مثلاً یہ عورت کے نام کے ساتھ ’بنتِ فلاں‘ کے بجاے شوہر کا نام لکھنے کو ’غلطیوں‘ میں شمار کرتے ہیں۔ (آسیہ منصوری)
مسعود جاوید کے مضمون ’’پہلا وہ گھر خدا کا‘‘ (جون ۲۰۱۱ء) میں خانہ کعبہ کی لمبائی ۱۸فٹ، چوڑائی ۱۴فٹ اور اُونچائی ۳۵فٹ بتائی گئی ہے (ص ۵۸) لیکن میرے خیال میں یہ صحیح نہیں۔ کعبۃ اللہ کی حاضری کا شرف حاصل کرنے والا اس کی پیمایش کا سوچ بھی نہیں سکتا لیکن بظاہر اللہ کے گھر کی لمبائی چوڑائی اس سے بہت زیادہ ہے۔ مکتبہ دارالسلام، ڈاکٹر شوقی ابوخلیل کی تالیف اطلس القرآن میں لکھا ہے: ’’بیت اللہ کو کعبہ اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی شکل مکعب ہے۔ بظاہر اس کی لمبائی، چوڑائی اور اُونچائی برابر ہیں لیکن غور سے دیکھیں توایسا نہیں۔ بیت اللہ زمین سے ۱۵ میٹر (۴۹ فٹ ۳ انچ) بلند ہے۔ حطیم کی جانب اور اس کے مقابل کی دیواریں ۳۵،۳۵ فٹ لمبی ہیں، جب کہ دروازے والی اور اس کے مقابل کی غربی دیوار ۴۰،۴۰ فٹ کی ہیں۔ دروازہ فرش مطاف سے چھے فٹ بلند ہے۔ خود دروازے کی بلندی ساڑھے چھے فٹ ہے اور اس کے بائیں ہاتھ زمین سے تقریباً پانچ فٹ بلندی پر حجراسود ہے‘‘۔ (ص ۹۹)
’حکومت، ریاست کے لیے خطرہ‘ (اکتوبر ۲۰۱۱ء) میں پروفیسر خورشیداحمد صاحب نے دردمندی کے ساتھ پاکستان کی موجودہ حالت اور سیاست کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ توجہ کے لائق ہے۔ بجا طور پر فرمایا ہے کہ ’’موجودہ حکمرانوں سے نجات، اسلامی فلاحی جمہوری پاکستان کی تعمیر اور ایک دیانت دار، باصلاحیت، خداترس اور خادمِ خلق قیادت کو منصب ِ اختیار کی تفویض، موجودہ مسائل کا حل ہے‘‘۔
’اسرارِحج‘ ڈاکٹر میرولی الدین کی تحریر فی الواقع مفید اور ایمان افروز ہے۔ کاش! ہر مسافرِ حرم کی نظر سے گزر جائے اور ان کا سفر باعث ِ سعادت و فلاح بن جائے۔
’اسرارِ حج‘ (اکتوبر ۲۰۱۱ء) میں عشق، عاشق، صوفی وغیرہ کی اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں، بکثرت اشعار آئے ہیں اور جذباتی رنگ غالب ہے۔ یہ تصوف کی اصطلاحات ہیں۔ عشق تو حد سے گزر جانے کا نام ہے اور اس کیفیت میں حدِاعتدال سے گزرنے کا احتمال ہوتا ہے۔ شاعری کو بھی پسندیدہ قرار نہیں دیا گیا۔ یہ حج کے روایتی تصور سے مختلف تحریر ہے۔
’خوشی کے آنسو‘ (نومبر ۲۰۱۱ء) بڑی حوصلہ افزا تحریر ہے۔ دنیا کے حالات تیزی سے بدل رہے ہیں۔ خودساختہ نظام ملیامیٹ ہورہے ہیں، وہ تحریکات جن کو دبانے کی بھرپور سعی کی گئی تھی، اُبھر کر سامنے آگئی ہیں۔ تازہ ہوا کے یہ جھونکے پاکستان کی تحریک اسلامی کے لیے اُمید کا ایک نیا پیغام ہیں۔
’زبان کا مسئلہ اور ہمارے فیصلے کرنے والے‘ (اکتوبر۲۰۱۱ء) اہم موضوع پر ہے۔ فی الواقع اس موضوع پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کبھی کسی قوم نے اپنی زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان میں تعلیم پاکر ترقی نہیں کی۔
جماعت اسلامی پاکستان کا دوسرا کُل پاکستان اجتماعِ عام مرکزی مجلسِ شوریٰ کے فیصلے کے مطابق ۱۰ تا ۱۳نومبر ۱۹۵۱ء بروز ہفتہ، اتوار، پیر، منگل، ککری گرائونڈ، کراچی میں منعقد ہوا۔ چونکہ انھی دنوں صوبۂ سرحد میں انتخابات عام کی جدوجہد ہورہی تھی، اس لیے حلقۂ سرحد کے ارکانِ جماعت کو اس اجتماع میں شرکت سے مستثنیٰ کردیا گیا تھا۔ نیز مشرقی پاکستان کے ارکانِ جماعت کو شرکت کی پابندی سے اس بناپر مستثنیٰ کردینا پڑا تھا کہ وہاں سے آمدورفت کے مصارف اتنے زیادہ ہیں کہ ہرشخص ان کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ البتہ وہاں سے صرف حلقۂ مشرقی پاکستان کے قیم، مولانا عبدالرحیم صاحب تشریف لے آئے۔ ان دونوں علاقوں کو چھوڑ کر کراچی کے باہر سے تقریباً ایک ہزار کی تعداد میں ارکان اور متفقین اس اجتماع میں شریک ہوئے۔ ان سب کے قیام اور طعام کا انتظام جماعت کے زیراہتمام اجتماع گاہ ہی میں کیا گیا تھا اور اجتماع کے پورے ایام میں امیرجماعت سمیت تمام ارکان اور متفقین کا قیام مسلسل اجتماع کی قیام گاہ میں رہا۔
اجتماع کی کارروائی پروگرام کے مطابق ۱۰ نومبر مطابق ۹ صفر ۱۳۷۱ھ بروز ہفتہ بعد نمازِ مغرب ٹھیک چھے بجے مولانا ابوالاعلیٰ مودودی صاحب امیرجماعت اسلامی پاکستان کی افتتاحی تقریر سے شروع ہوئی۔ چار دن میں کھلے اور خاص، کُل سات اجلاس منعقد ہوئے اور یہ اجتماع ۱۳نومبر بروزمنگل امیرجماعت کی طرف سے وداعی ہدایات پر ساڑھے آٹھ بجے رات بخیروخوبی ختم ہوا۔ اجتماع کے عام اجلاسوں میں حاضری کم و بیش ۱۵ سے ۳۵ ہزار تک رہی اور خاص جماعتی کارروائیوں سے متعلق اجلاسوں میں تین چار سے چھے سات ہزار تک۔ خواتین کی تعداد کا اندازہ آٹھ نو سو سے لے کر ڈیڑھ پونے دو ہزار تک ہے۔ اجتماع گاہ اور اس کے محلِ وقوع کے لحاظ سے تو یہ حاضری غیرمتوقع حد تک زیادہ تھی۔(’رودادِ اجتماع کراچی‘، میاں طفیل محمد، ترجمان القرآن، جلد ۳۷، عدد ۳-۴، ربیع لاول، ربیع الثانی ۱۳۷۱ھ، دسمبر ۱۹۵۱ء، جنوری ۱۹۵۲ء،ص ۲-۳)