بسم اللہ الرحمن الرحیم
جس طرح جنگ میں دشمن کے مقابلے کے لیے صحیح حکمت عملی کے تعین کے لیے ضروری ہے کہ نقشۂ جنگ اور محرکاتِ جنگ کو ٹھیک ٹھیک سمجھا جائے‘ بالکل اسی طرح فکری اور تہذیبی جنگ میں کامیابی کا انحصار بھی نقشۂ جنگ اور محرکاتِ جنگ دونوں کے صحیح ادراک پر ہے۔ آج ڈنمارک کے اخبار یولاند پوسٹن (Jyllands Posten) کے ۱۲ کارٹونوں کے ذریعے مغرب کے سورمائوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پاک‘ اسلام اور مسلمانوں کو تمسخر‘ تضحیک اور اہانت کا ہدف بناکر اور دہشت گردی کا منبع اور علامت قرار دے کر جس عالمی تہذیبی جنگ کا اعلان کیا ہے اس کی اصل نوعیت کو سمجھنا اور اس کے مقابلے کے لیے صحیح حکمت عملی بنانا فی الوقت دنیاے اسلام کا سب سے اہم مسئلہ بن گیا ہے۔
فطری طور پر مسلم عوام نے اپنے عالم گیر ردّعمل سے یہ ظاہر کردیا ہے کہ اُمت صرف مٹی کا ڈھیر نہیں ہے۔ اس میں ایمان اور غیرت کی وہ چنگاری بھی موجود ہے جو طاقت کے زعم میں بدمست اربابِ اقتدارکے متکبرانہ اقدامات کو چیلنج کرنے کا داعیہ رکھتی ہے اور جس میں ایسا شعلہ جوالہ بننے کی استعداد بھی ہے جو بڑے بڑے محل نشینوں کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔
اُمت مسلمہ کا ردّعمل فوری بھی ہے اور فطری بھی‘ لیکن مسئلہ محض وقتی ردّعمل کا نہیں بلکہ مقابلے کی مکمل اور مربوط حکمت عملی اور ہرسطح پر اس کے مطابق پوری تیاری کے ساتھ مسلسل جدوجہد کا ہے۔ اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ ان شیطانی کارٹونوں کے ذریعے اُمت مسلمہ کو جس تہذیبی کروسیڈ کا ہدف بنایا گیا ہے‘ اس کے اصل نقشے اور اس جنگ کے اسلوب‘ اہداف اور تمام محاذوں کو سمجھا جائے اور مقابلے کی تیاری کی جائے۔ جہاں فوری ردّعمل ضروری تھا‘ وہیں دوسرے تمام پہلوئوں کو نظرانداز کرکے محض جذباتی اظہارِ نفرت اور غیظ و غضب سے اس معرکے کو سر نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ اُمت مسلمہ اور اس کی قیادت گہرائی میں جاکر حالات کا صحیح ادراک کرے اور مقابلے کی حکمت عملی ان تمام پہلوئوں کو سامنے رکھ کر طے کرے۔
مغرب کی استعماری قوتوں کا یہ خیال تھا کہ دوسری جنگ کے بعد جو عالمی نظام قائم ہوگا ‘وہ صرف امریکا اور یورپی اقوام کے سیاسی غلبے سے ہی عبارت نہیں ہوگا بلکہ پوری دنیا میں مغربی تہذیب‘ فلسفے‘ اقدار‘ معیشت اور اصول حکمرانی کا دور دورہ ہوگا۔ ان کا خیال تھا کہ مذہب کا دور اب ختم ہوچکا ہے اور لادینی تہذیب کو مادی اور عسکری غلبے کے ساتھ ساتھ فکری بالادستی بھی حاصل ہوگئی ہے جس کے نتیجے میں وہ پوری انسانیت کو اپنے رنگ میں رنگ لے گی۔ امریکا اور روس کی سردجنگ ایک ہی تہذیب کے دو مرکزوں کی جنگ تھی جو بالآخر امریکا کی بالادستی پر منتج ہوئی اور جلد ہی روس میں بھی لبرلزم اور جمہوریت کی وہی آوازیں بلند ہونے لگیں جو امریکا اور نام نہاد آزاد دنیا کی شناخت تھیں۔ اس زمانے میں ڈیڑھ سو سے زیادہ نئے ملک دنیا کے سیاسی نقشے پر اُبھرے لیکن بظاہر ان کے پاس نہ تو کوئی اپنا نظریہ تھا اور نہ سیاسی‘ معاشی اور عسکری اعتبار سے وہ کوئی وزن رکھتے تھے اس لیے روس کے اشتراکی ڈھانچے کے تتر بتر ہوتے ہی صرف ایک نظریے اور ایک تہذیب کے عالمی غلبے کے خواب دیکھے جانے لگے___ لیکن اس میں ایک سدّراہ کی بھی نشان دہی کی جانے لگی یعنی اسلام، ’سیاسی اسلام‘ اور اُمت مسلمہ جو اپنا تہذیبی تشخص رکھے اور اس تشخص کے اظہار اور استحکام کے لیے اجتماعی نظام‘ قانون‘ معیشت‘ معاشرت‘ تمدن اور سیاسی قوت کی طلب گار ہو۔ یہی وجہ ہے کہ روس کے عالمی قوت کی حیثیت سے میدان سے باہر ہوتے ہی اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا آغاز ہوگیا۔
مغربی استعمار کے خلاف جنگ‘ بظاہر آزادی اور قوم پرستی کے نام پر ہورہی تھی اور حق خودارادیت اس کا محور تھا مگر اسلامی دنیا میں اس کی پشت پر جو سب سے قومی محرک تھا وہ اسلام اور اس کا دیا ہوا تصورِحیات تھا۔ تحریک پاکستان میں یہ پہلو زیادہ واضح اور کھلا کھلا تھا‘ جب کہ دوسرے ممالک میں اگرچہ یہ مؤثر طور پر موجود تھا۔ اصحابِ نظر اور تاریخ پر گہری نگاہ رکھنے والے بخوبی اس سے واقف تھے مگر اظہار اور اعلان کے اعتبار سے ہر جگہ اتنا نمایاں نہیں تھا۔ ولفریڈ اسمتھ اس حقیقت کا کھلا اعتراف کرتا ہے کہ:
جوں جوں آزادی کی تحریک عوام میں مقبول ہوتی چلی گئی ‘ اس کی پس پشت قوت کے طور پر مذہب سامنے آتا گیا۔ اگرچہ تحریک کے نظریات‘ ہیئت اور قائدین زیادہ تر مغربی انداز پر قوم پرستانہ خیالات کے حامل تھے‘ تاہم عام وابستگان اور ان کے اعمال اور احساسات میں نمایاں طور پر اسلامی رنگ کا غلبہ تھا۔ مسلم عوام نے قومیت کا کوئی ایسا تصور قبول نہیں کیا جو اسلام کے بندھنوں سے ماورا کسی برادری کے ساتھ وفاداری یا کسی اور تعلق پر مبنی ہو۔ (Islam in Modern History ‘ پرنسٹن ۱۹۵۷ئ‘ ص ۷۵-۷۷)
۱۹۷۹ء کے ایران کے اسلامی انقلاب‘ ۱۹۷۹ء تا۱۹۸۹ء کے جہاد افغانستان اور ۱۹۷۳ء کے بعد مسلم ممالک میں اسلامی تحریکات اور اتحاد اسلامی کی اجتماعی مساعی نے جہاں اُمت مسلمہ میں اپنے تشخص کی حفاظت اور اپنی اقدار اور تصورات کے مطابق اجتماعی زندگی کی نقشہ بندی کا احساس پیدا کیا‘ وہیں مغربی اقوام کے لیے یہ احساس اور یہ کوشش خطرے کی گھنٹی بن گئی اور اسلام کو مغربی اقوام کے سیاسی مقاصد کے حصول کی راہ میں ایک رکاوٹ اور خطرہ بناکر پیش کیا جانے لگا۔ اس سلسلے میں صہیونی اور امریکی اہلِ قلم نے کلیدی کردار ادا کیا جن میں برنارڈ لیوس‘ سیمویل ہن ٹنگٹن‘ ڈینیل پائپس‘ ہنری کسنجر اور فرانسس فوکویاما خصوصیت سے قابلِ ذکر ہیں۔ ناین الیون کے بعد اسلام کوجس بے دردی سے دہشت گردی کا مذہب اور ہرمسلمان کو ایک بالقوہ دہشت گرد (potential terrorist) کے روپ میں پیش کیا جارہا ہے اس کے فکری ڈانڈے تہذیبی جنگ کے متذکرہ بالا اوّلین قائدین کے رشحاتِ قلم سے جاملتے ہیں۔ صدربش اور ان کے نیوکونز (neo-cons) کا پورا طائفہ مختلف انداز میں کبھی بالکل کھلے طور پر اور کبھی منافقانہ انداز میں اور شاطرانہ اسلوب میں یہی بات کہہ رہا ہے۔ صدربش کے اس سال کے خطاب بہ عنوان State of the Nation (جنوری ۲۰۰۶ئ) میں کھل کر کہا گیا ہے کہ ہمارا اصل مقابلہ ’سیاسی اسلام‘ (political Islam)اور اسلامی بنیاد پرستی (Islamic fundamentalism) سے ہے۔ اور یہی وہ مرکزی نکتہ ہے جو ہن ٹنگٹن نے پوری چابک دستی کے ساتھ مغرب کے پالیسی سازوں کے ذہن میں بٹھانے کی کوشش کی ہے‘ یعنی:
مغرب کا اصل مسئلہ اسلامی بنیاد پرستی نہیں‘ خود اسلام ہے۔ یہ ایک مخصوص تہذیب ہے جس کے وابستگان اپنے تمدن کی برتری کے قائل ہیں اور اور اقتدار و اختیار سے محرومی کی وجہ سے پریشان ہیں۔ اسلام کے لیے مسئلہ سی آئی اے یا امریکا کا محکمہ دفاع نہیں‘ مغرب ہے۔ یہ ایک مختلف (اور متصادم) تہذیب ہے جس کے داعی اپنی تہذیب کی آفاقیت کے قائل ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ ان کی (بظاہر زوال پذیر) مگر بالاتر طاقت تقاضا کرتی ہے کہ اس تمدن کو پوری دنیا میں پھیلا دیا جائے۔ یہ وہ بنیادی عناصر ہیں جو اسلام اور مغرب کے درمیان تنازعے میں جلتی پر تیل کا کام کرتے ہیں۔ (The Clash of Civilizations ،سیمویل پی ہن ٹنگٹن)
بات بہت واضح ہے۔ تصادم کی وجہ دو تہذیبوں کا اختلاف نہیں۔ مغرب کا یہ عزم ہے کہ اس کی تہذیب بالاتر ہے اور اسے دنیا میں بالادست ہونا چاہیے۔ جو چیز کش مکش اور تنازعے کو جنم دے رہی ہے اور پروان چڑھا رہی ہے وہ یہ تصور ہے کہ جو طاقت مغرب کو حاصل ہے‘ اس کا استعمال مغربی تہذیب کو ساری دنیا پر مسلط کرنے کے لیے ہونا چاہیے اور یہ گویا کہ ایک واجب اور فرض ہے جسے انجام دینا مغرب کی ذمہ داری ہے۔ مغرب کی حکمت عملی میں دو تہذیبوں کی بقاے باہمی اور تعاون اور ایک دوسرے کے احترام کا کوئی مقام نہیں‘ اور یہی وہ چیز ہے جو عالمی امن کے لیے خطرے اور جنگ و جدال کی راہ ہموار کرنے کا سبب ہے۔ قوت کے عدمِ توازن کی وجہ سے کمزور ممالک اور اقوام وہ راستے اختیار کرنے پر مجبور ہوتی ہیں جو برابربرابر کی جنگ سے مختلف ہیں۔
یہ ہے وہ فکری‘ تہذیبی اور عسکری نقشۂ جنگ جس میں:
یہ محض چند کارٹون نہیں بلکہ اِن کی اشاعت ایک وسیع تر مہم کا حصہ ہے‘ پوری اسلامی دنیا کے عقیدے اور تہذیب کے خلاف برملا اعلانِ جنگ ہے اور خودپسندی اور تکبر کے مقام بلند سے استہزا‘ تذلیل اور اہانت کے ہتھیاروں سے اُمت مسلمہ کی غیرت اور عزت پر حملہ ہے۔ اگر اس کا بروقت اور مؤثر جواب نہ دیا جاتا تو اس سے بڑا سانحہ اُمت کی تاریخ میں نہ ہوتا۔ مسلم عوام نے اپنی سیاسی کمزوری کے باوجود‘ اپنی غیرتِ ایمانی کا اظہار کر کے تاریخ کا ایک نیا باب رقم کیا ہے اور وقت کے فرعونوں‘ جابر حکمرانوں اور دوسروں کی عزت سے کھیلنے والوں کو چیلنج کیا ہے اور اُمت اپنے دین‘ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور ناموس کا دفاع اور اپنی تہذیب اور اقدار کے تحفظ کے لیے پوری سرفروشی کے ساتھ میدان میں اتر آئی ہے۔ یہ جنگ طویل ہے اور فیصلہ کن بھی___ فوری احتجاج‘ جلسے اور جلوس‘ سفارتوں کا انقطاع‘ سیاسی تنائو‘ معاشی بائیکاٹ اس کا صرف پہلا مرحلہ ہیں۔ بلاشبہہ یہ ناگزیر تھے اور دشمن کے اعلانِ جنگ کے بعد دعوت مبارزت قبول کرنے کا اوّلیں اقدام___ لیکن اصل جنگ فکری‘ تہذیبی‘ معاشی اور سیاسی ہے اور بہت طویل ہے۔ اس لیے ہر سطح پر اس میں شرکت‘ مقابلے کے لیے مناسب تیاری‘ اور صحیح حکمت عملی کے ذریعے بازی سر کرنے کی نقشہ بندی اُمت مسلمہ کی اوّلیں ضرورت ہے۔ ان تمام مراحل اور ان کے لیے وسائل اور ضروری تیاری (mobilization) کے بغیر اس جنگ کا جیتنا ممکن نہیں۔ اللہ پر بھروسا ہماری قوت ہے‘ اصل سرچشمہ ہے لیکن یہ بھی اللہ ہی کا حکم ہے کہ مقابلے کے لیے ایسی قوت بھی حاصل کرو جو مدمقابل پر ہیبت طاری کردے۔
وَاَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَعَدُوَّکُمْ وَاٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِھِمْ لَا تَعْلَمُوْنَھُمْ - (الانفال ۸:۶۰)
اور ان کے لیے جس حد تک کرسکو فوج اور بندھے ہوئے گھوڑے تیار رکھو جس سے اللہ کے اور تمھارے ان دشمنوں پر تمھاری ہیبت طاری رہے اور ان کے علاوہ کچھ دوسروں پر بھی جنھیں تم نہیں جانتے ہو۔
یہ ۱۲ شیطانی کارٹون اتفاقی طور پر شائع نہیں ہوگئے۔ ان کا خاص پس منظر ہے۔ یولاند پوسٹن کے ثقافتی امور کے ایڈیٹر فلیمنگ روز (Flemming Rose)نے باقاعدہ ایک منصوبے کے تحت اس فکری اور تہذیبی جنگ کا آغاز کیا۔ اس اقدام سے ایک سال پہلے وہ امریکا گیا اور وہاں اسلام دشمنی کی مہم چلانے والوں کے سرخیل ڈینیل پائپس سے خصوصی صلاح و مشورہ ہوا۔ ڈینیل پائپس پچھلے ۴۰ سال سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف قلمی جنگ کر رہا ہے۔ دسیوں کتابوں اور سیکڑوں مضامین کا مصنف ہے۔ صہیونی تحریک میں اونچا مقام رکھتا ہے اور فلسطینیوں کے بارے میں کھلے عام کہتاہے کہ ان کو فوجی قوت سے نیست و نابود کرنے کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں۔ صدربش نے اسے ایک ایسے تھنک ٹینک کا مشیر بنایا تھا جس کے مصارف سرکاری خزانے سے برداشت کیے جاتے ہیں۔ اس مشاورت کے نتیجے میں فلیمنگ روز نے کارٹون بنانے والے ۴۰افراد کو دعوت دی اور کہا کہ تم سب موضوعات پر کارٹون بناتے ہو اور شخصیات کا تمسخر بھی اُڑاتے ہو لیکن اسلام کو تم نے کبھی تختۂ مشق نہیں بنایا۔ تو اب اسلام کا چہرہ دکھانے کے لیے اپنے برش حرکت میں لائو۔ ان ۴۰میں سے ۱۲ افراد کے کارٹون ۳۰ستمبر ۲۰۰۵ء کی اشاعت میں The Painting of a Portrait of Islam's Prophet (پیغمبراسلام کی تصویر کا خاکہ) کے عنوان سے شائع کیے گئے اور اس دعویٰ سے کیے گئے کہ اس طرح مسلمانوں کی ’تنگ نظری‘ کا علاج ہوسکے گا۔ ان کارٹونوں کو ہر کسی نے ناخوش گوار‘ اشتعال انگیز اور توہین آمیز قراردیا۔ واشنگٹن پوسٹ نے انھیں a calculated insult (ایک نپی تلی توہین) قرار دیا مگر عالمِ اسلام کے تمام احتجاج کے باوجود ایڈیٹر‘ کارٹونسٹ‘ مغربی میڈیا کی اکثریت اوروہاں کی سیاسی قیادت نے آزادیِ صحافت‘ آزادیِ اظہار راے اور سیکولر جمہوریت کا سہارا لے کر ان کا دفاع کیا اور اب تک ان کی اشاعت کو غلطی تسلیم کرکے معذرت کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔ مصلحت کے تحت جو بات کہی جارہی ہے وہ صرف یہ ہے کہ ہم نے تو جو کیا‘ وہ درست کیا تھا۔ افسوس صرف اس پر ہے کہ اس سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ حالانکہ اصل مقصد ہی اسلام‘ اسلام کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو دہشت گرد دکھانا اور اُنھیں بے ہودہ جنسی مذاق کا نشانہ بنانا تھا۔ اب تک فلیمنگ روز کا دعویٰ ہے کہ I do not regret having commissioned these cartoons. (مجھے یہ کارٹون بنوانے پر کوئی افسوس نہیں ہے)۔
اسی طرح اصل کارٹونسٹ کرٹ ویسٹرگارڈ (Kurt Westergaard) کا بیان لندن کے اخبارات میں ۱۸ فروری کو شائع ہوا ہے۔ ہیرالڈ نامی رسالے کے استفسار پراس نے صاف کہا کہ کارٹونوں کا اصل محرک یہ دکھانا ہے کہ اسلام اور پیغمبر اسلام [صلی اللہ علیہ وسلم] نعوذ باللہ دہشت گردی کی علامت ہیں۔
جب پوچھاگیا کہ کیا اسے ان کارٹونوں کی اشاعت پر افسوس ہے؟ اس نے صاف جواب دیا: نہیں۔ اس نے کہا کہ ان خاکوں کے پیچھے ایک جذبہ کارفرما تھا: دہشت گردی جسے اسلام سے روحانی اسلحہ فراہم ہوتا ہے۔ (اے ایف پی رپورٹ‘ ڈان، ۱۹ فروری ۲۰۰۶ئ)
ڈنمارک کے وزیراعظم نے پہلے ۱۱ مسلمان سفرا سے ملنے سے انکار کیا۔ جب ۲۷ مسلمان تنظیموں کے نمایندے ۱۷ہزار مسلمانوں کے دستخطوں سے ان کے خلاف احتجاج اس کو دینے گئے تو لینے سے انکار کردیا گیا اور اب سارے عالمی احتجاج کے باوجود ان کا موقف یہ ہے کہ یہ سب ایک جمہوری ملک میں آزادیِ اظہار کا مسئلہ ہے اور اصرار کے باوجود انھوں نے کھلے طور اسے غلطی ماننے اور صاف الفاظ میں مسلمانوں سے معافی مانگنے سے احتراز کیا ہے۔ الاھرام کے ایڈیٹر نے طرح طرح سے سوالات کیے مگر ڈنمارک کے وزیراعظم ٹس سے مس نہ ہوئے اور یہی کہتے رہے کہ: جو کچھ بھی شائع ہوا ہے ‘ اس کے لیے ڈنمارک کے عوام اور حکومت کو ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔(ہفت روزہ الاھرام، ۱۲ فروری ۲۰۰۶ئ)
نہ صرف ڈنمارک کے وزیراعظم اور وزیرخارجہ کا رویہ تکبر اور تعصب سے بھرا ہوا ہے بلکہ مسلمانوں کو طیش دلانے اور ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے لیے ناروے‘ جرمنی‘ فرانس‘ اٹلی‘ اسپین اور خود امریکا کے چند اخبارات نے ان کارٹونوں کو شائع کیا۔ یورپین یونین کے صدر نے مسلمانوں سے ہمدردی کے اظہار کے ساتھ آزادیِ صحافت کے نام پر ان شیطانی کارٹونوں کی اشاعت کی مذمت سے انکار کیا بلکہ خود صدربش اور ٹونی بلیر نے اپنے خبث باطن کے اظہار کے لیے ڈنمارک کے وزیراعظم کو ٹیلی فون کر کے اپنے تعاون کا یقین دلایا جس نے ڈنمارک کے وزیراعظم کو یہ کہنے کا موقع دیا کہ Islamic World must realise we are not isolated (اسلامی دنیا کو محسوس کرنا چاہیے کہ ہم تنہا نہیں ہیں۔ انٹرویو‘ ڈیلی ٹائمز‘ ۱۴ فروری ۲۰۰۶ئ)۔
سارے حالات اورحقائق سے ظاہر ہے کہ یہ محض ڈنمارک کے ایک اخبار کی شرارت نہیں بلکہ ایک عالمی مہم ہے جس میں ڈنمارک کو ذریعہ بنایاگیا ہے اور سب کا ہدف اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بنانا اور اسلام کی سب سے مقدس شخصیت اور اللہ کے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی اور ان کو نعوذ باللہ دہشت گرد کے روپ میں دکھاکر مسلمانوں کو دہشت گردی کا منبع قرار دینا ہے۔ اسی طرح جہاد کو‘ جو انصاف کے قیام کی ضمانت‘ آزادی کا محافظ اور ظلم اور بیرونی قبضے کے خلاف مزاحمت کا ذریعہ ہے‘ دہشت گردی کا نام دے کر مسلمانوں کو تہذیبی ہی نہیں سیاسی اور معاشی غلامی کے جال میں پھنسانا ہے___ الحمدللہ! مسلمان اس شیطانی کھیل کو سمجھتے ہیں اور مسلمان حکمران خواہ کتنے بھی غافل ہوں بلکہ ان میں سے کچھ سامراجی قوتوں کے آلہ کار ہی کیوں نہ ہوں‘ لیکن مسلمان عوام اپنے دین‘ اپنے ایمان‘ اپنے نبیؐ کی عصمت اور عزت اور اپنے نظریۂ حیات کی بنیادی اقدار کی حفاظت کے لیے جان کی بازی لگانے کو تیار ہیں اور کوئی رکاوٹ اس جہاد میں ان کا راستہ نہیں روک سکتی۔ دنیا کے ہر خطے سے احتجاج اُمت مسلمہ کی زندگی کی علامت ہے اور باطل کی قوتوں کے لیے اس میں واضح پیغام ہے کہ مسلمانوں کو نرم نوالا نہ سمجھا جائے۔
اس احتجاج کے نتیجے میں پہلی فتح مسلمانوں کو یہ حاصل ہوئی ہے کہ اب سب یہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ کارٹون نامناسب تھے‘ مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے والے تھے‘ اور بدذوقی ہی نہیں بدکلامی‘ تضحیک اور عزت پر حملے کے مترادف تھے___ لیکن اس اعتراف کے باوجود دو دعوے پورے تسلسل سے اور ڈھٹائی کے ساتھ کیے جارہے ہیں اور ایک جوابی اعتراض کی شکل میں مزید داغا جا رہا ہے جن کا جائزہ ضروری ہے۔
پہلا دعویٰ یہ ہے کہ مغربی معاشرے کی بنیاد اظہار راے کی آزادی یعنی آزادیِ صحافت پر ہے اور اس پر کوئی قدغن نہیں لگائی جاسکتی۔ دوسرے الفاظ میں گو ان شیطانی خاکوں سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں اور ایسا عالم گیر احتجاج رونما ہوا ہے جس میں بیسیوں افراد شہید ہوگئے ہیں اور اربوں کا نقصان ہوا ہے لیکن پھر بھی مغربی ممالک اور حکومتوں کے لیے اظہار راے کی تحدید ممکن نہیں اور خوداحتسابی (self-censorship) کے علاوہ کوئی راستہ ایسے شیطانی حملوںکو روکنے کا نہیں۔ اظہار راے اور آزادیِ صحافت پر پابندی مغربی معاشرے و تہذیب کی بنیادی اقدار کے منافی ہوگی۔
دوسرا دعویٰ یہ ہے کہ مغربی تہذیب کی بنیاد سیکولرزم پر ہے اور مسلم معاشرہ مذہبی اقدار پر ایمان رکھتا ہے۔ سیکولرزم میں مذہب اور مذہبی شخصیات کا مذاق اڑانا ایک معمول ہے‘ جب کہ مسلمان اس کے عادی نہیں اور اسی وجہ سے یہ تصادم کی کیفیت پیدا ہوئی ہے۔ یہ دو رویوں (attitudes) کا معاملہ ہے اور سوسائٹی کے بارے میں دو تصورات کا اختلاف ہے___ اور دعویٰ یہ ہے کہ سیکولرزم میں ایسا ہی ہوتا ہے اور ہوگا اور مسلمانوں کو اگر سیکولر معاشرے میں رہنا ہے تو اس کو گوارا کرنا ہوگا۔
تیسری بات کا تعلق احتجاج کی اس نوعیت سے ہے جو چند ملکوں میں رونما ہوئی ہے اور اس میں تشدد کا عنصر آگیا جس سے بہت سی جانوں اور مال کاضیاع ہوا ہے۔ نیز مغربی ممالک کے نقطۂ نظر سے معاشی بائیکاٹ بھی احتجاج کی ایک ناقابلِ قبول صورت ہے اور یورپی یونین نے اس صورتِ حال میں عالمی تنظیم تجارت (WTO) سے دادرسی تک کی دھمکی دی ہے۔
ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان تینوں امور کا بے لاگ جائزہ لیا جائے اور مغرب کے دانش وروں‘ اہل قلم‘ صحافیوں اور سیاسی قائدین کے ان بیانات کا علمی تعاقب کیا جائے۔
آزادیِ اظہار راے اور آزادیِ صحافت پر مغربی اقوام اپنی اجارہ داری کا کیسا ہی دعویٰ کریں‘ حقیقت یہ ہے کہ ان کا تعلق ہمیشہ سے انسانی معاشرے اور تہذیب سے رہا ہے اور یہ ان کی ایجاد نہیں۔ آج بلاشبہہ مغربی ممالک میں ان اقدار کا بالعموم اہتمام و احترام ہو رہا ہے لیکن ایسا بھی نہیں کہ انھی ممالک میں ان آزادیوں کا خون نہ کیا جا رہا ہو۔ دنیا کی تمام تہذیبوں میں اپنے اپنے زمانے میں آزادیِ اظہار کا ایک مرکزی مقام رہا ہے گو اس کے آداب اور اظہار کے طریقوں میں فرق رہا ہے۔اسلام نے اوّل دن سے آزادیِ اظہار کو ایک بنیادی انسانی ضرورت اور قدر کی حیثیت سے تسلیم کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزادی دے کر پیدا کیا ہے اور وہ اس آزادی کو اس حد تک بھی لے جاسکتا ہے کہ خود اپنے خالق کا انکار کر دے۔ بلاشبہہ اس انکارکے نتائج اس کو بھگتنے پڑیں گے مگر انکار کا حق اسے دیا گیا ہے۔ مغرب کو زعم ہے کہ روسو نے یہ کہا تھا کہ Man is born free, but is everywhere in chains.(انسان آزاد پیدا ہوا‘ لیکن ہر جگہ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے)۔ لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ آزادی کا تصور وحی الٰہی پر مبنی ہے اور قرآن اس کا جامع بیان ہے۔ نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ حجۃ الوداع (۹ہجری) تاریخ کا پہلا چارٹر ہے اور سیدنا حضرت عمررضی اللہ عنہ نے روسو سے بارہ سو سال پہلے فرمایا تھا کہ تم نے انسانوں کو غلام کب سے بنا لیا؟ ان کی مائوں نے انھیں آزاد جنا تھا۔
قولوا قولاً سدیدا کا حکم دے کر قرآن نے آزادیِ اظہار کا دستوری حق تمام انسانوں کو دیا۔ لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ کے اصول میں مذہبی رواداری اور حقیقی تکثیریت (genuine plurality) کی قانونی اور اخلاقی حیثیت کو تسلیم کیا گیا۔ امرھم شورٰی بینھم کے ذریعے پورے اجتماعی نظام کو آزادی‘ مشاورت اور حقیقی جمہوریت سے روشناس کرایا گیا۔ حکمرانوں سے اختلاف کے حق کو فان تنازعتم فی شیء فردوہ الی اللّٰہ ورسولہ کے فرمان کے ذریعے قانون کا مقام دے دیاگیا۔ آزادیِ اظہار پر مغرب کی اجارہ داری کا دعویٰ تاریخ کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔
I am free to move my hand but the freedom of my hand ends where your nose begins.
میں اپنے ہاتھ کو حرکت دینے میں آزاد ہوں‘ لیکن جہاں سے تمھاری ناک شروع ہوتی ہے‘ میرے ہاتھ کی آزادی ختم ہوجاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آزادی اور انارکی میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ آزادی اگر حدود سے آزاد ہوجائے تو پھر انارکی بن جاتی ہے اور دوسروں کے حقوق پامال ہوتے ہیں۔ آزادی اور ذمہ داری اور آزادی اور حدود کی پاس داری لازم و ملزوم ہیں۔ آزادیِ اظہار کے نام پر نہ تو دوسروں کی آزادی اور حقوق کو پامال کیا جاسکتا ہے اور نہ آزادیِ اظہار کو دوسروں کی عزت سے کھیلنے اور ان کے کردار کو مجروح کرنے کا ذریعہ بننے کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر نظام میں آزادی کو قانونی‘ اخلاقی اور ملکی سلامتی کی حدود میں پابند کیا جاتاہے۔ جان‘ مال‘ عزت و آبرو کی حفاظت کے فریم ورک ہی میں آزادی کارفرما ہوسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قومی سلامتی‘ معاشرے کی بنیادی اقدار کا تحفظ اور شخصی عزت و عفت کا احترام ہر نظام قانون کا حصہ ہے۔ اقوام متحدہ کا چارٹر آف ہیومن رائٹس بھی آزادی اور حقوق کو ملکی قانون اور معاشرے کی اقدار سے غیرمنسلک (delink) نہیں کرتا۔
آزادیِ اظہار کا حق غیرمحدود نہیں ہے۔ عالمی ضابطہ براے شہری اور سیاسی حقوق (International Convention on Civil and Political Rights - ICCPR) اس آزادی کو صاف الفاظ میں تین چیزوں سے مشروط کرتا ہے‘ یعنی امن عامہ‘ صحت اور اخلاق کو قائم رکھنا (maintenance of public order, health and morals) ۔اس کے نفاذ کے لیے ہر ملک اپنا قانون بناتا ہے لیکن عالمی سطح پر بھی کچھ اہم ضوابط (conventions) ہیں اور دنیا کے بیش تر ممالک نے ان کی توثیق کی ہے اور وہ بین الاقوامی قانون کا حصہ ہیں۔ اس سلسلے میں ایک عالمی ضابطہ نسلی امتیاز کی تمام شکلوں کے خاتمے کے لیے (International Convention on Elimination of All Forms of Racial Discrimination -ICERD ) ہے جس کے ذریعے نسلی تفاخر‘ نفرت اور نسلی تفریق کے فروغ کو ممنوع قرار دیا گیا ہے اور اس قانون کے تحت لازم کیا گیا ہے کہ تمام ممالک ان لوگوں کوسزا دیں جو نسلی اور گروہی منافرت کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میںعالمی سطح پر نسلی امتیاز کے خاتمے کے لیے ایک کمیٹی (The Committee on the Elimination of Racial Discrimination -CERD) ہے جو متذکرہ بالا قانون (ICERD) کے نفاذ کی نگرانی کرتی ہے۔ اس کمیٹی کی عمومی ہدایات (xv of CERD) یہ ہیں کہ:
ملکی جماعتوں کے لیے لازمی ہے کہ نسلی تفاخر یا نسلی منافرت پر اُکسانے کو قابلِ تعزیر جرم قرار دیں۔ کسی بھی قسم کی قومی‘ نسلی یا مذہبی منافرت کی وکالت جسے نسلی امتیاز پر اُبھارنا قرار دیا جاسکے‘ قانوناً ممنوع ہوگی۔ اس طرح کی تعزیر اظہار راے کی آزادی سے مطابقت رکھتی ہے۔ ان فرائض کو ادا کرنے کے لیے سرکاری پارٹیاں نہ صرف مناسب قانون سازی کریں گی بلکہ اس کے نفاذ کو یقینی بنائیں گی۔ کسی شہری کا آزادی اظہارراے کا یہ حق خصوصی ذمہ داری اور فرائض رکھتا ہے۔ (عمومی سفارش نمبر۱۵‘ سی ای آر ڈی)
اسی طرح انسانی حقوق کی کمیٹی (Human Rights Committee -HRC) ہے جس نے درجنوں رپورٹیں تیار کی ہیں اور ان میں وہ رپورٹ بھی موجود ہے جس میں آزادی کے اظہار کی حدود کا واضح تعین کردیا گیا ہے اس لیے کہ اوپر مذکورہ کنونشن کی دفعہ (۲) ۲۰ میں مرقوم ہے کہ: آزادی اظہار راے کے حق کا استعمال اپنے ساتھ خصوصی فرائض اور ذمہ داریاں رکھتا ہے۔ (آرٹیکل ۲۰ [۲۵])
ایسے بیانات پر‘ جو یہودیت دشمن جذبات کو اُبھاریں یا انھیں تقویت دیں‘ پابندیوں کی اجازت ہوگی تاکہ یہودی آبادیوں کے مذہبی منافرت سے تحفظ کے حق کو بالادست بنایا جاسکے۔
اظہار راے کی آزادی کے اس حق کا اطلاق ان معلومات اور نظریات پر بھی ہوگا جو ریاست یاآبادی کے کسی حصے کو ناراض کریں‘ صدمہ پہنچائیں یا پریشان کریں۔ کثیرالقومیتی معاشرت اور رواداری کے یہی تقاضے ہیں جن کو پورا کیے بغیر کوئی جمہوری معاشرہ قائم نہیں ہوتا۔ (Hyndyside کیس)
دفعہ ۹ میں کسی مذہب کے ماننے والوں کے مذہبی احساسات کے احترام کی جو ضمانت دی گئی ہے‘ بجاطور پر کہا جا سکتا ہو کہ مذہبی احترام کی علامات کو اشتعال انگیز انداز میں پیش کر کے اس کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ مذہبی احترام کی ان علامات کا اس طرح سے پیش کرنا اس رواداری کے جذبے کی بدنیتی سے خلاف ورزی قرار دی جاسکے جو ایک جمہوری معاشرے کی خصوصیت ہونا چاہیے۔
مذہبی عقائد کی جس انداز سے مخالفت کی جائے یا انکار کیا جائے‘ اس کا جائزہ ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے‘ یہ ذمہ داری کہ خاص طور پر دفعہ ۹ کے تحت جس حق کی ضمانت دی گئی ہے اسے ان عقائد کے علم بردار پُرامن طور پر استعمال کرسکیں۔
عدالت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی ایسے فرد پر پابندی لگا دے جو کسی مذہب کی مخالفت یا انکار میں اس طرح کے خیالات کا اظہار کرتا ہے تاکہ جہاں تک ممکن ہو‘ ان خیالات سے بچا جاسکے جو دوسروں کے لیے اشتعال انگیز ہوں۔ (Otto Preminger Institut vs Austria)
مذہبی تقدس کی حامل باتوں کا اشتعال انگیز اور پُرتشدد طور پر پیش کرنا دفعہ ۹ کے تحت دیے گئے حقوق کی خلاف ورزی شمار ہوسکتا ہے۔ ریاست کا یہ فریضہ ہے کہ عقائد کے بارے میں حساس اقلیتوں کو حملے سے تحفظ دے۔ ریاست کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ کسی حق کے استعمال کو کسی قاعدے میں لانے کے لیے کسی فرد کی اظہار راے آزادی میں مداخلت کرے۔ ریاست کا یہ فریضہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ افراد اور سرکاری اداروں کے درمیان تعلقات کے دائرے میں مذہبی احترام کو یقینی بنائے۔ اس فریضے کومناسب ترقی دینے سے ہی یہ ممکن ہے کہ یورپی کنونشن برطانیہ میں اقلیتی مذاہب کو آگے بڑھانے میں اہم کردارادا کرسکے۔
بین الاقوامی قانونی اور عالمی عدالتوں کے فیصلے اس سلسلے میں بالکل واضح ہیں اور کوئی جمہوری ملک محض جمہوریت اور آزادیِ اظہار و صحافت کے نام پر مذہبی منافرت‘ مذہبی شخصیات کی تذلیل اور تضحیک اور کسی انسانی گروہ کے جذبات سے مذہبی‘ تہذیبی یا لسانی اہداف کو تحقیر اور تمسخر کا نشانہ بناکر کھیلنے کا حق نہیں رکھتا اور اس سلسلے میں معاملہ صرف خوداحتسابی کا نہیں‘ بلکہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ افراد‘ گروہوں اور برادریوں کے اس حق کا تحفظ کریں۔
خود ڈنمارک کا قانون اس باب میں خاموش نہیں ہے۔ اس ملک میں مذہبی عقائد‘ شعائر اور شخصیات کی عزت کے تحفظ کے لیے ناموسِ مذہب کا قانون (Blasphemy law) صدیوں سے موجود ہے۔ اسی طرح ہر فرد کی عزت کے تحفظ کے لیے Law of Libel and Slander موجود ہے۔ پھر ملک کے قانون فوج داری میں صاف صاف ایسی تمام حرکتوں کو قابل دست اندازی جرم قرار دیا گیا ہے جو دوسرے کی تذلیل اور ان کے جذبات کو مجروح کرنے والے اور مختلف گروہوں اور برادریوں کے خلاف امتیازی سلوک کے مرتکب ہوں۔ ڈنمارک کے ضابطۂ فوج داری کی دفعہ ۱۴۰ اس طرح ہے:
جو لوگ کسی مذہبی برادری کی عبادات اور مسلّمہ عقائد کا کھلا مذاق اڑائیں یا ان کی توہین کریں‘ ان کو جرمانے یا چار ماہ کی قید کی سزا دی جائے گی۔
کوئی بھی فرد جو کھلے عام یا وسیع تر حلقے میں پھیلانے کی نیت سے کوئی بیان دے یا کوئی اور معلومات پہنچائے جس کے ذریعے وہ لوگوں کے کسی گروہ کو ان کی نسل‘ رنگ یا قومی و نسلی عصبیت‘عقیدے یا جنس کی بنیاد پر دھمکی دے‘ توہین کرے‘ یا تذلیل کرے وہ جرمانے‘ سادہ حراست یا دوسال سے کم قید کی سزا کا مستحق ہوگا۔
یہ خود اس ملک کا قانون ہے جس میں مسلمانوں کے ایمان کے ساتھ یہ گھنائونا کھیل کھیلا جارہا ہے اور جس کا دفاع آزادیِ اظہار کے نام پر کرنے کی جرات مغربی اقوام کے دانش ور اور سیاسی قائد کر رہے ہیں۔
بات صرف قانون اور نظری حیثیت کی نہیں‘ اگر ان ممالک کے تعامل پر نگاہ ڈالی جائے تو صاف ظاہر ہوجاتا ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ معاملہ مذہبی امتیاز (religious discrimination) کا ہے۔ اسی اخبار کے ایڈیٹر نے ۲۰۰۳ء میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ہتک آمیز کارٹون چھاپنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا تھا کہ میں نہیں سمجھتا کہ قارئین ان خاکوں کو اچھا سمجھیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ میرا خیال ہے کہ اس سے ہنگامہ برپا ہوجائے گا۔ اس لیے میں انھیں استعمال نہیں کروں گا۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف یہ شرمناک اور ہتک آمیز کارٹون شائع کرنے کے بعد جب احتجاج ہوا اور ایران نے جرمنی کے ہولوکاسٹ کے بارے میں کارٹون بنانے کی دعوت دی تو اس اخبار کے کلچرل ایڈیٹر فلیمنگ روز نے سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے اس بات کا عندیہ دیا کہ وہ ہولوکاسٹ پر بھی کارٹون شائع کرے گا۔ لیکن اس اعلان کے فوراً بعد اخبار کے ایڈیٹر نے اس کی تردید کی اور ساتھ ہی فلیمنگ روز کو طویل رخصت پر بھیج دیا۔ آج یورپ کے کم از کم سات ممالک میںقانونی طور پر ہولوکاسٹ کو چیلنج کرنا جرم ہے اور آسٹریا میں تاریخ کا ایک پروفیسر ڈیوڈ ارونگ (David Irving) جیل میں اس لیے بند ہے کہ اس نے برسوں پہلے ہولوکاسٹ کے بارے میں دیے جانے والے اعداد وشمار کو چیلنج کیا تھا اور اب اسے تین سال کی سزا ہوگئی ہے حالاںکہ اس نے عدالت کے سامنے بیان دیا کہ مجھے غلط فہمی ہوئی تھی اور میں نے اپنے خیالات سے رجوع کرلیا ہے___ وہ آسٹریا کا باشندہ بھی نہیں مگر اس کو آسٹریا میں سزا دی گئی ہے۔ اسرائیل میں باقاعدہ قانون ہے کہ دنیا میں کہیں بھی کوئی شخصی ہولوکاسٹ کو چیلنج کرے تو اسرائیل کو حق ہے‘ اسے اغوا کر کے لے آئے اور اس کو سزا دے۔ انگلستان کے اخبار انڈی پنڈنٹ نے کسی نبی یا یہودی مذہبی لیڈر نہیں ایک دہشت گرد جرنیل ایریل شیرون کے بارے میں ایک کارٹون شائع کیا تھا جس میں اسے فلسطینی بچوں کا خون چوستے دکھایا گیا تھاجس پر ساری دنیا میں ہنگامہ ہوگیا تھا۔ برطانوی یہودیوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا تھا اور جرمنی کے اخبار نے اس کارٹون کو چھاپنے سے انکار کردیا تھا۔ فرانس میں حضرت عیسٰی علیہ السلام پر ایک فلم میں رکیک جنسی حوالوں کی وجہ سے ہنگامے ہوئے‘ ایک سینما کو آگ لگا دی گئی اور ایک شخص جل کر مرگیا۔ آج یورپی ممالک میں گھر میں بلندآواز سے میوزک سننا منع ہے کہ ا س سے پڑوسیوں کی سمع خراشی ہوتی ہے۔ سڑک پر ہارن بجانا خلافِ قانون ہے اور گاڑی میں زور سے گانا نہیں سنا جاسکتا مگر دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے جذبات پر نشترچلانے کی آزادی ہے اور اس کا دفاع بھی جمہوریت کے نام پر کیا جاتا ہے___ کیا آزادی کے ایسے تباہ کن تصور کو‘ جو دراصل فسطائیت کی ایک ’مہذب‘ (sophisticated) شکل ہے‘ ٹھنڈے پیٹوں قبول کیا جا سکتا ہے؟
مسلمانوں کو تحمل اور برداشت کا درس دینے والوں کوا پنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہیے اور سمجھ لینا چاہیے کہ ظلم کی سرپرستی اور ترویج کا اس سے بھی بہتر کوئی طریقہ نہیں ہوسکتا۔ ظلم کا استیصال تو اسے چیلنج کرکے اور مزاحمت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
دوسرا دعویٰ سیکولرزم کے نام پر کیا جا رہا ہے جو انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ تم مذہبی لوگ ہو اور ہم سیکولر ہیں۔ ہمیں مذہب کا مذاق اڑانے کا حق ہے۔ سیکولرزم کے چہرے کو بگاڑنے کی اس سے زیادہ قبیح صورت اور کیا ہوسکتی ہے۔ سیکولرزم کے اس اصول سے مسلمانوںکو ہی نہیں‘ تمام اہل مذہب بلکہ ابدی اخلاقی اقدار کے تمام ماننے والوں کو اختلاف ہے‘ وہ یہ ہے کہ دین و مذہب‘ الہامی ہدایت اور ابدی اقدار کا سیاسی اور اجتماعی زندگی میں کوئی کردار نہیں اور محض انسانوں کے ووٹ سے ہوائوں کے رخ کو دیکھ کر حق و باطل اور خیروشر کا تعین کیا جاسکتا ہے۔ یہ وہ خطرناک نظریہ ہے جو سیکولرزم کی اساس ہے اور ہمیں اس سے بنیادی اختلاف ہے۔ اس کے معنی ہیں کہ جس طرح آج ہم جنسی کو محض راے عامہ کی بنیاد پر جائز قرار دے دیا گیا ہے‘ کل کچھ انسانوں کے بنیادی حقوق کو بھی باطل قرار دیا جا سکتاہے ۔ عملاً مذہب کے ماننے والوں کو تفریق اور امتیاز کا نشانہ بنایا جارہا ہے جیساکہ فرانس میں خواتین کو اسکارف استعمال کرنے کے حق سے محروم کیا جا رہا ہے۔ مذہب نے کچھ ابدی اقداردی ہیں جنھیں محض ووٹ سے تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں ہمارا اور سیکولرزم کا بنیادی اختلاف ہے۔ سیکولرزم کا دوسرا ستون رواداری اور خصوصیت سے مذہبی کثرتیت (religious plurality) کا تصور ہے۔ اس کے یہ معنی نہیں مذہب کے ماننے والوں کو اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں کلچر اور ملکی روایات کی بنیاد پر اپنے مذہبی شعائر سے محروم کیا جاسکتا ہے۔ مذہبی رواداری کے معنی ہی یہ ہیں کہ تمام مذاہب کے ماننے والوں کو اپنے اپنے اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کے مساوی مواقع حاصل ہوں اور اس کا لازمی تقاضا دوسرے مذاہب کا احترام ہے۔ ان کے عقائد‘ شعائر‘ عبادات اور بنیادی مظاہر کو تحقیر‘ تذلیل اور تضحیک کا نشانہ نہیں بنایا جاسکتا۔ علمی انداز میں ہر موضوع پر بحث و اختلاف ہوسکتا ہے۔ لیکن سیکولرزم کے نام پر دوسرے مذاہب کی تضحیک اور تمسخر سیکولرزم کا نہیں فسطائیت اور شیونزم کا خاصا ہے اور آج سیکولرزم کے نام پر یہی کھیل کھیلا جا رہا ہے جو خود سیکولرزم کے بنیادی اصولوں کی نفی ہے۔ مسئلہ نہ آزادیِ اظہار کا ہے اور نہ سیکولرزم کا‘ بلکہ ایک گہرے تہذیبی تعصب‘ طاقت کے نشے میں رعونت اور دوسروں پر اپنی اقدار اور عادات کو مسلط کرنے کی شرمناک کوشش کا ہے جو اب ایک اجتماعی جنگ کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔ ڈنمارک میں جو کچھ ہو رہا ہے اور جس طرح اس کی پشت پناہی کی جارہی ہے وہ اس خطرناک کھیل کا حصہ ہے۔
یہ سیکولرزم بمقابلہ اسلام کا مسئلہ نہیں ہے۔ مسلمانوں کے لیے رسولؐ اللہ وہ شخصیت ہیں جنھوں نے اللہ تعالیٰ سے براہِ راست کلامِ ربانی وصول کیا۔ ہم اپنے پیشوائوں اور نبیوں کو تاریخی شخصیات سمجھتے ہیں جو ہمارے انسانی حقوق کے جدید تصورات اور آزادیوں کے مدمقابل ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارتے ہیں‘ ہم نہیں گزارتے ہیں۔ انھوں نے تاریخ کے اَن گنت نشیب و فراز میں اپنے عقیدے کو محفوظ رکھا ہے۔ ہم اپنا عقیدہ کھو چکے ہیں۔ اسی لیے ہم اسلام کے مقابلے پر مغرب کی بات کرتے ہیں بجاے اس کے کہ اسلام کے مقابلے پر عیسائیت کی بات کرتے۔ اس لیے کہ یورپ میں عیسائی زیادہ تعداد میں نہیں بچے ہیں۔ ہم اس بات سے باہر نہیں نکل سکتے کہ دنیا کے تمام مذاہب کو سامنے لے آئیں اور کہا جائے کہ ہمیں کیوں رسولؐ کا مذاق نہیں اڑانے دیا جا رہا ہے؟
اس بات پر کچھ تعجب کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ ڈنمارک کے عوام اور ان کی حکومت اس اخبار اور اس کے اس فیصلے کی کہ‘ پیغمبر محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے خاکے شائع کیے جائیں‘ پشت پناہی کررہے ہیں۔ کیا ڈنمارک کے لوگوں کے بارے میں نہیںسوچا جاتا کہ وہ عموماً غیرمعمولی طور پر روادار اور دوسروں کا احترام کرنے والی قوم ہیں؟
غیرملکی جس بات کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں وہ یہ ہے کہ گذشتہ کچھ برسوں سے ہم ڈنمارک کے لوگوں میں غیرملکیوں سے نفرت و حقارت کے جذبے میں اضافہ ہو رہاہے۔ میرے خیال میں‘ کارٹونوں کی اشاعت کا خود احتسابی اور آزادیِ اظہار کی بحث شروع کرنے میں بہت کم حصہ ہے۔ اسے صرف ڈنمارک میں کسی بھی مسلم شعار کے خلاف متعدی دشمنی کی فضا کے سیاق میں سمجھا جا سکتا ہے۔
ڈنمارک میں ۲ لاکھ سے زیادہ مسلمان ہیں‘ جب کہ ملک کی کُل آبادی ۵۴ لاکھ ہے۔ چند عشرے پہلے‘ ڈنمارک میں ایک بھی مسلمان نہ تھا۔ اس پر کوئی تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ بہت سے مقامی لوگ اسلام کو ڈنمارک کی ثقافت و تمدن کی بقا کے لیے ایک خطرے کے طور پر دیکھتے ہیں۔
۲۰ برس قبل‘ مسلمانوں کو کوپن ہیگن میں مسجد کی تعمیر کے لیے اجازت نہ دی جاتی تھی۔ مزیدبرآں‘ ڈنمارک میںمسلمانوں کے لیے کوئی قبرستان بھی نہیں ہے‘ جس کا مطلب ہے کہ وہ مسلمان جن کا یہاں انتقال ہوجائے ان کی مناسب تدفین کے لیے ان کی میتوں کو ان کے ملکوں کو واپس بھجوانا ہوتا ہے۔
امریکا کے دائیں اور بائیں بازو کے لوگ آپس میں زیادہ باتوں پر اتفاق نہیں رکھتے۔ لیکن ہفتوں کے مظاہروں اور سفارت خانوں کی آتش زدگی نے دونوں کو ایک نکتے کی طرف دھکیل دیا ہے: اگر تہذیبوں میں تصادم نہیں ہے تب بھی کم سے کم مغربی دنیا اور مسلم دنیا میں ایک بہت بڑا خلا ہے۔
خوش قسمتی سے اس خلا کے حجم میں مبالغہ کیا جا رہا ہے۔ ڈنمارک کے ان کارٹونوں پر مسلمانوں کا شوروغوغا امریکی کلچر کے لیے اتنا اجنبی نہیں جتنا ہم سمجھتے ہیں۔ ایک دفعہ آپ اسے دیکھیں تو ایک معقول اور بنیادی طور پر امریکی ردّعمل سامنے آتا ہے۔ بہت سے امریکی جو کارٹون کی اشاعت کی مذمت کرتے ہیں اس موقف کو تسلیم کرتے ہیں جو ڈنمارک کے اخبار کے اب مشہورزمانہ ایڈیٹر نے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ مغرب میں ہم عام طور پر مخصوص مفادات کے حامل گروہوں کو یہ اجازت نہیں دیتے کہ وہ ہم کو خوف زدہ کر کے اس بات کے لیے آمادہ کریں جسے خوداحتسابی کہا جاتا ہے۔
یہ کتنی واہیات بات ہے۔ بڑے بڑے امریکی میڈیا کے ایڈیٹر خصوصاً نسلی اور مذہبی مفادات کے حامل گروہوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے سے بچنے کے لیے بہت سے الفاظ‘ جملے اور تصاویر حذف کردیتے ہیں۔ مثالیں پیش کرنا مشکل ہیں اس لیے کہ ان کا کوئی ثبوت نہیں ہوتا مگر آپ خود اندازہ کرسکتے ہیں۔ ایک عیسائی مبلغ (ہیوج ہیوٹ) نے پیغمبرمحمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے کارٹونوں کے مقابلے میں ایک مناسب مثال پیش کی: اسقاطِ حمل کے ایک کلینک پر بم باری کے بعد حضرت عیسٰی ؑکے کانٹوں بھرے تاج کا کارٹون جس میں کانٹوں کو ٹی این ٹی کی سلاخوں میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ ایسا کارٹون بہت سے امریکی عیسائیوں کے جذبات کو مجروح کرسکتا تھا۔ یہی ایک وجہ ہے کہ ایسا کوئی کارٹون کسی بڑے امریکی اخبار میں نہیں دیکھا گیا۔
رابرٹ رائٹ نے اس اعتراض کا بھی بھرپور جواب دیا ہے جو مغرب کے دانش ور مسلمانوں کے مظاہروں میں تشدد کے عنصر سے آجانے پر کر رہے ہیں۔ ہم بھی تشدد کو کسی اعتبار سے صحیح نہیں سمجھتے بلکہ اپنے مقصد کے لیے نقصان دہ سمجھتے ہیں۔ لیکن انسانی حقائق سے صرفِ نظر بھی ممکن نہیں۔ اس اعتراض کا جواب ہم خود دینے کے بجاے رابرٹ رائٹ کے مضمون کا متعلقہ حصہ دینا مناسب سمجھتے ہیں:
جوں جوں اس واقعے کے بارے میں تفصیلات ہمارے سامنے آرہی ہیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک بے ساختہ اشتعال انگیزی نہیں تھا۔ کارٹونوں کے خلاف مسلمانوں کا فوری ردّعمل تشدد کا نہیں تھا بلکہ ڈنمارک میں چھوٹے چھوٹے مظاہرے ہوئے اور ڈنمارک کے مسلمانوں نے ایک مہم چلائی جو کئی مہینے چلتی رہی لیکن دنیا کی راڈر اسکرین پر اس کا پتا نہ چلا۔ ان سرگرم لوگوں کو جب ڈنمارک کے سیاست دانوں نے جھڑک دیا اور انھیں مسلم ریاستوں کے طاقت ور سیاست دانوں سے حمایت ملی تو بڑے مظاہروں کا آغاز ہوا۔ ان میں سے بعض مظاہرے پُرتشدد ہوئے لیکن بیش تر مظاہروں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکومتوں‘ دہشت گرد گروپوں اور دوسرے سیاسی عناصر نے منظم کیے۔
دوسری طرف ‘کون کہتا ہے کہ اپنی بات پہنچانے کے لیے تشدداستعمال کرنے کے لیے کوئی امریکی روایت نہیں ہے۔۱۹۶۰ء کے عشرے کے فسادات کو یاد کیجیے جو ۱۹۶۵ء کے وائس رائٹ فسادات سے شروع ہوئے جس میں ۳۴ آدمی مارے گئے (ان فسادات کے نتیجے میں سیاہ فام آبادی کو زیادہ مقام ملا)۔ سیاہ فاموں کی ترقی کی قومی انجمن ۵۰کے عشرے سے جس شو کے خلاف احتجاج کر رہی تھی ۱۹۶۶ء میں جاکر سی بی ایس نے اس پر کارروائی کی۔ کوئی رابطہ ثابت تو نہیں کیا جا سکتا لیکن اس بات میں کوئی شبہہ نہیں کہ ۶۵ کے عشرے کے فسادات نے میڈیا میں سیاہ فام لوگوں کی تصویرکشی (اور مضحکہ خیزی) کے بارے میں حساسیت کو بڑھا دیا۔ اسی کو حساس تر خود احتسابی کہاجاسکتا ہے۔
کارٹونوں پر احتجاج کے دوران کچھ قدامت پرست کٹر عناصر نے تنبیہہ کی کہ جو شکایات تشدد کے ساتھ پیش کی جائیں‘ ان کو حل کرنا انھیں تسلی دینے (appeasement) کے مترادف ہے‘ اور اس سے زیادہ تشدد پیدا ہوگا اور مغربی اقدار کمزور ہوں گی۔ مگر ۶۰ کے عشرے میں تو تسلی دینے کے عمل نے اس طرح کام نہیں کیا۔ ۱۹۶۶ء میں صدر جانسن نے فسادات کے لیے جو کرنر کمیشن قائم کیا تھا اس نے سفارش کی کہ غیرمساوی تعلیم کے مواقع‘ غربت‘ ملازمت اور رہایش میں امتیاز کے مسائل پر زیادہ توجہ دی جائے۔ یہ توجہ فوراً دی گئی اور اس سے آنے والے عشروں میں فسادات نہیں بڑھے۔ کارٹونوں کے شوروغوغا میں یہ احساس بہت کم ہے۔ جب کہ امریکی اس سوال پر یکسو ہوکر سوچ رہے ہیں کہ ایک کارٹون کس طرح لاکھوں افراد کو مشتعل کرسکتاہے؟ جواب ہے کہ آپ کن لاکھوں کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ غزہ میں اصل ایندھن اسرائیلیوں سے کشیدگی نے فراہم کیا۔ ایران میں بنیاد پرستوں نے امریکا سے پرانی دشمنی کو استعمال کیا۔ پاکستان میں مغرب کی حامی حکمران حکومت کی مخالفت نے کردار ادا کیا اور اسی طرح دوسری جگہوں پر ہوا۔ غم و غصہ اور زیرزمین شکایات کا یہ تنوع چیلنج کو پیچیدہ کرتا ہے۔ ظاہراً محض مذہبی حساس امور کو چھیڑنے سے احتراز کافی نہیں ہوگا۔ پھر بھی زیربحث جرم جامع تر چیلنج کی ایک واضح علامت ہے۔ کیونکہ بہت ساری شکایات اسی احساس میں مجتمع ہیں کہ خوش حال طاقت ور مغرب مسلمانوں کااحترام نہیں کرتا (جیسے کہ فسادات برپا کرنے والے سیاہ فام سمجھتے تھے کہ خوش حال طاقت ور ‘ سفیدفام ان کا احترام نہیں کرتے)۔ ایک کارٹون جو رسولؐ کی توہین کرکے اسلام کی بے عزتی کرتا ہے وہ لبلبی کی مانند ہے اور انتہائی اشتعال دلانے والا ہے۔
جس چیزسے زیادہ اختلاف نہیں کیا جا سکتا وہ مسلمانوں کا بڑے بڑے میڈیا چینل سے خود احتسابی کا مطالبہ ہے۔ اس طرح کی خوداحتسابی صرف ایک امریکی روایت ہی نہیں ہے بلکہ ایک ایسی روایت ہے جس نے امریکا کو دنیا کی تاریخ میں سب سے زیادہ ہم آہنگ ‘ کثیرنسلی اور کثیرمذہبی معاشرہ بنایا ہے۔
ان تینوں ایشوز پر پیش کردہ معروضات کی روشنی میں آیندہ کی حکمت عملی کے خطوط کار پر غور ضروری ہے۔ مسلمانوں کا ردّعمل صرف وقتی اور جذباتی نہیں ہونا چاہیے بلکہ ہمیں معاملے کے سارے پہلوئوں پر غور کرکے فوری اقدام اور دور رس حکمت عملی دونوں کی فکر کرنی چاہیے۔
۱- عالمی سطح پر مسلمانوں کے جذبات اور احساسات کا بھرپور اظہار اور اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے پُرامن جدوجہد۔ ڈنمارک کی حکومت حتیٰ کہ متعلقہ اخبار‘ اس کے کارٹونسٹ اور کلچرل ایڈیٹر کسی نے بھی کھلے انداز میں نہ اپنی غلطی تسلیم کی ہے اور نہ معذرت کی ہے۔ لفظوں کی عیّاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے محض مسلمانوں کے جذبات مجروح ہونے پر افسوس کا اظہار ہے جسے کسی حیثیت سے بھی غلطی کا اعتراف اور قرارواقعی معافی نہیں کہا جاسکتا جس کے بغیر ایسے واقعات کے دوبارہ رونما ہونے کے خطرے کاسدّباب ممکن نہیں۔ اسی لیے عوامی اور حکومتی سطح پر یہ سلسلہ برابر جاری رہنا چاہیے___ البتہ اسے پرامن رکھنا اور دلیل اور اجتماعی ضمیر کی قوت کے ذریعے سے اپنے موقف کا لوہا منوانا اسی وقت ممکن ہے جب جذبات میں آکر تشدد کا ارتکاب نہ کیا جائے جس کا نتیجہ اپنے ہی جان و مال کا ضیاع اور تباہی ہے۔
۲- دوسرا محاذ معاشی اور سفارتی دبائو ہے جو ملکی اور بین الاقوامی سیاست کے معروف طریقے (instruments) تسلیم کیے جاتے ہیں۔ اس وقت بھی تھوڑے سے معاشی دبائو کی وجہ سے‘ جس کے نتیجے میں ڈنمارک کی سات بلین کرونا کی تجارت خطرے میں پڑگئی ہے‘ ڈنمارک کی تجارتی کمپنیاں اپنی حکومت کو روش بدلنے کا مشورہ دے رہی ہیں۔ یہ دبائو جاری رہنا چاہیے۔
۳- تیسرا محاذ خود مسلمان ملکوں کا اپنا اندرونی معاملہ ہے کہ حکمران بالعموم عوام کے جذبات‘ احساسات اور امنگوں سے غافل ہیں اور اپنے شخصی اور گروہی مفادات کا شکار ہیں۔ عوامی دبائو سے مجبور ہوکر ہی وہ نہایت کمزور احتجاج پر آمادہ ہوئے ہیں۔ فطری طور پر اس احتجاج کا ایک ہدف خود اپنے ملکوں میں عوام کو متحرک اور تیار کرنے کے ساتھ حکمرانوں کی روش کی تبدیلی اور جو تبدیل ہونے کے لیے تیار نہ ہو‘ اس کو تبدیل کرنے کی جدوجہد ہے۔
اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ او آئی سی اور مختلف مسلم ممالک میں مغرب میں اسلام کے خلاف جو تحریک (Islamophobia) چل رہی ہے اس کا بغور جائزہ لیا جاتا رہے اور اس کا سائنسی بنیاد پر جواب دیا جائے۔ اسی طرح مسلم اقلیتوں پر کام کرنے اور ان کو تقویت پہنچانے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ اس پر بھی سنجیدگی کے ساتھ کام ہونا چاہیے کہ جس طرح anti-semetismکے سلسلے میں عالمی معاہدے اور قانون نافذ کیے گئے ہیں‘ اسی طرح Islamophobia کے خلاف بھی قانونی ضابطے مرتب کیے جائیں۔ یہ تمام کام منظم اور مرتب جدوجہد اور سیاسی اور سفارتی کوششوں کے ذریعے انجام پاسکتے ہیں بشرطیکہ مسلم حکمراں اور او آئی سی اس کے لیے مؤثر انداز میں کام کرنے کا بیڑا اُٹھائیں۔
۱- اُمتِ مسلمہ کا انتشار‘ سیاسی اور معاشی وحدت کی کمی‘نظریاتی اور تہذیبی اعتبار سے ضعف‘ حکمرانوں اور عوام میں بُعد‘ تعلیم‘ سائنس اور ٹکنالوجی اور مقابلے کی قوت کا فقدان۔ ہم دنیا کی بالادست قوتوں سے عزت اور انصاف کی توقع اس وقت تک نہیں رکھ سکتے جب تک ہم خود مضبوط نہ ہوں___ ہر اعتبار سے نظریاتی اور اخلاقی‘ معاشی اور عسکری‘ تعلیمی اور سائنسی‘ معاشرتی اور تہذیبی۔ یہ ہماری کمزوری ہے جس کا دوسرے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور یہی وہ تاریخی حقیقت ہے جسے اقبال نے اس طرح بیان کیا ہے ؎
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
جوبیداری اس شرمناک اور شیطانی کارٹون کی اشاعت سے اُمت مسلمہ میں پیدا ہوئی ہے‘ وہ اس کے اندر خیر اور اخلاقی قوت کی غماز ہے۔ اس کو پروان چڑھانا اور اُمت میں اتحاد‘ یکسوئی اور اخلاقی‘ مادی‘ معاشی اور عسکری قوت کا حصول اور عالمِ اسلام کی سیاسی قوت کو ایک مرکز پر جمع کرکے اُمت کی ترقی اور اس کے مفادات کے تحفظ اور انسانیت کی فلاح کے لیے استعمال کرنا ہے۔
۲- دوسری بنیادی بات یہ ہے کہ ہمیں اس جنگ کو تہذیبوں کی جنگ نہیں بننے دینا ہے۔ ’تہذیبوں کے درمیان جنگ‘ کا تصور ہی ایک جاہلانہ اور فسطائی تصور ہے۔ تہذیبوں کا تنوع انسانیت کا سرمایہ ہے اور جس طرح انگریزی مقولہ ہے variety is the spice of life (زندگی کا حُسن تنوع میں ہے) اسی طرح تہذیبوں کا اختلاف بھی انسانیت کے حُسن کا باعث اور انتخاب کے مواقع فراہم کرکے ترقی اور مسابقت کا ضامن ہے ؎
گلہاے رنگ رنگ سے ہے رونق چمن
اے ذوق! اس جہاں کوہے زیب اختلاف سے
آج انسانیت کو جو خطرات درپیش ہیں اور خصوصیت سے ایٹمی اور عالم گیر تباہی کے دیگر ہتھیاروں کے وجود میں آنے کے بعد جنگ سراسر تباہی کا راستہ ہے۔ اسی طرح کسی ایک طبقے‘ ملک یا تہذیب کی قوت کے بل بوتے پر کسی ایک کا بالادست ہوجانا بھی سلامتی کا راستہ نہیں ہے۔ صحیح راستہ حقیقی اور مستند کثرتیت (genuine and authentic pluralism) میں پوشیدہ ہے جس میں دوسروں کو جینے دینے اور دلیل‘ افہام و تفہیم اور اعلیٰ اصولوں اور انصاف پر مبنی سماج کا نمونہ پیش کر کے اتفاق اور اختلاف میں توازن اور رد و اختیار کا موقع فراہم ہوتا ہے۔
دراصل دو قومی نظریے کی اصل بھی یہی اصول ہے کہ اقوام کو‘ خواہ وہ اکثریت میں ہوں یا اقلیت میں‘ اپنے دین و مذہب اور تہذیب و ثقافت کے تحفظ و ترقی کا حق ہے اور اس کے مناسب مواقع سب کو حاصل ہونے چاہییں۔ دوقومی نظریہ محض تقسیم کا نظریہ نہیں‘ بقاے باہمی کا نظام ہے‘ اس اصول کے ساتھ کہ جہاں اپنا مخصوص تشخص رکھنے والی قوم کو اپنے عقائد و تہذیبی اقدار کے مطابق زندگی گزارنے کے مواقع حاصل نہ ہوں اور جغرافیائی اعتبار سے ان کے ایک الگ وحدت بننے کا امکان اور موقع ہو تو وہاں سرحدوں کی ازسرنو ترتیب بھی اس کا حق ہے لیکن جہاں یہ ممکن ہو کہ مختلف قومیں تعاون اور ہم آہنگی کے ساتھ رہ سکتی ہیں وہاں ریاست کو اپنا مخصوص تشخص رکھنے کے ساتھ دوسری تمام قوموں کو بھی اپنا اپنا تشخص باقی رکھنے کا موقع دینا چاہیے۔ اس لیے قومی حکومت (Nation State) کے مقابلے میں قوموں کی حکومت (State of Nationalities) ایک بالاتر سیاسی ماڈل ہے اور آج کی دنیا میں ایک ایسے ہی سیاسی ماڈل میں انسانیت کی نجات ہے جہاں قوت اور تشدد کے مقابلے میں کثرتیت کو مستند تسلیم کیا جاسکے۔
۳- تیسری بنیادی بات یہ ہے کہ جو شرمناک رویہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں مغرب کے چند ممالک اور کچھ طبقات نے اختیار کررکھا ہے‘ اس کا کوئی تعلق نہ آزادیِ اظہار سے ہے‘ نہ سیکولرزم سے۔ نام نہاد تہذیبوں کے اختلاف اور تصادم میں لڑائی تہذیبوںکے درمیان نہیں‘ تہذیب اور جاہلیت کے درمیان ہے‘ انصاف اور ظلم کے درمیان ہے‘ خیر اور شر کے درمیان ہے‘ انسانیت اور فسطائیت کے درمیان ہے۔ اس میں ایسا نہیں ہے کہ سارے مسلمان ایک طرف ہوں اور دوسری اقوام ان کے مدمقابل بلکہ خود مغربی ممالک میں عام انسانوں کی بڑی تعداد اور ان کے دانش وروں میں بھی ایک معتدبہ تعداد اسے تہذیبوں کی جنگ نہیں بلکہ تہذیب کے خلاف جنگ سمجھ رہی ہے۔ مذاہب اور ان کی مقدس ہستیوں کا احترام سب کا مشترک سرمایہ ہے۔ قرآن نے تو یہ اصول پیش کیا ہے کہ ایک انسان کی ناحق موت پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے اور ایک معصوم انسان (محض مسلمان نہیں) کی جان کا بچانا ساری انسانیت کو زندگی عطا کرنے کی مانند ہے۔
قرآن نے تو جھوٹے خدائوں کو بھی گالی دینے سے منع کیا ہے کیوںکہ اس طرح مخالفین اپنی جہالت میں کائنات کے حقیقی خالق اور آقا سے گستاخی کے مرتکب ہوسکتے ہیں۔ جس پاک ہستی صلی اللہ علیہ وسلم کو دہشت گردی کی علامت بناکر پیش کیاجا رہا ہے‘ وہ تو پوری انسانیت کے لیے رحمت بن کر آیا تھا اور اس کا لایا ہوا دین ہے ہی دین رحمت اور پیغامِ امن و انصاف۔ اس کا کردار تو یہ تھا کہ جو اس کی راہ میں کانٹے بچھاتے تھے‘ وہ ان کی بھی دادرسی کرتا تھا‘ جنھوں نے اسے اذیتیں دے کر اپنا گھربار اور وطن چھوڑنے پر مجبور کیا جب وہ ان کے درمیان فاتح کی حیثیت سے آیا تو کسی سے بدلہ نہ لیا اور نفیرعام دے دی کہ لا تثریب علیکم الیوم۔ جس نے ایک یہودی کے جنازے کی آمد پر بھی اس کا استقبال تعظیم کے ساتھ کھڑے ہوکر کیا اور اس بات پر کہ یہ ایک یہودی کا جنازہ ہے‘ فرمایا:کیا وہ انسان نہیں‘ سیدنا عمرؓ نے جب ایک بوڑھے یہودی کو محنت مزدوری کرتے دیکھا تو اس کا بیت المال سے مشاہرہ مقرر کردیا اور یہ تاریخی الفاظ ارشاد فرمائے: تم ان انسانوں سے جب وہ جوان اور قوی تھے کام لیتے تھے اور جب ان کے قویٰ مضمحل ہوجاتے ہیں تو انھیں بے سہارا چھوڑ دیا ہے۔
ایسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیرووں اور ایسے دین کے حامیوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ’تہذیبوں کی جنگ‘ میں آنکھیں بند کر کے کود نہ جائیں بلکہ تہذیب کے غلبے کے لیے خود بھی اور تمام معقول انسانوں کو منظم و متحرک کریں اور اس طرح اس ایجنڈے ہی کو بدل دیں جس پر ظالم قوتیں اور مفاد پرست عناصر کارفرما ہیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے کہ جب ہم اپنے داعیانہ کردار کو سمجھیں اور اسے صحیح طریقے سے ادا کریں۔ آج بھی‘ ساری مخالفت کے باوجود‘ مغربی ممالک میں اسلام سب سے تیزی سے بڑھنے والا دین ہے۔ ہمارے لیے تہذیبی جنگ کی اس آگ میں کودنااور فریق بنناسب سے بڑی غلطی ہوگی۔ اس کے مقابلے میں ہمیں سمجھنا چاہیے کہ یہ ہمارے لیے ایک اچھا موقع ہے: اپنے دین کا صحیح صحیح نمایندہ بننے اور اس کی تعلیمات کو انسانوں تک پہنچانے کا۔ پھر آپ دیکھیں گے کہ یہ مخالفتیں آپ کے لیے نئے مواقع اور امکانات کا پیغام بن جائیں گی ؎
تندیِ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اُونچا اُڑانے کے لیے
۴-چوتھی بنیادی بات یہ ہے کہ اس موقع پر اُمت مسلمہ اور اس کی قیادت کو خصوصیت سے اوآئی سی کو تمام مذاہب کے احترام کے بارے میں کچھ اصولوں (پروٹوکول) پر دنیا کی تمام اقوام کو متفق کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ضرورت ہے کہ واضح الفاظ میں بقاے باہمی ہی نہیں‘ تعاون باہمی کا ایک ایسا چارٹر تیار کیا جائے جس پر سب عمل پیرا ہوں اور جسے قانونی اور اخلاقی دونوں اعتبار سے ایک بالاتر ضابطے کی حیثیت حاصل ہو۔ اس کے لیے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس بھی بلایا جا سکتا ہے لیکن ضروری تیاری (home work)کے بعد۔ اس کے لیے مختلف سطح پر سیمی نار‘ مذاکرات اور تحقیقی کام کی بھی ضرورت ہے۔ اس کے لیے عالمی سطح پر مکالمہ وقت کی ضرورت ہے۔ اگر ان شیطانی کارٹونوں کے نتیجے میں دنیا ایک ایسے پروٹوکول پر متفق ہوجائے تو اس شر سے ایک بڑے خیر کے نکل آنے کا امکان ہے۔ جس ڈنمارک سے یہ کروسیڈ شروع ہوا ہے اس کے ایک دانش ور اور سابق وزیرخارجہ (Uffe Ellemann Jensen) نے بڑی دردمندی سے اپنے ایک حالیہ مضمون میں لکھا ہے کہ:
اب‘ جب کہ پیغمبرمحمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے کارٹونوں پر تنازع ختم ہورہا ہے‘ یا میں اس کی امید کرتا ہوں‘ یہ بات واضح ہے کہ اس میں جیتنے والے صرف انتہاپسند ہیں‘ اسلامی دنیا میں بھی اور یورپ میں بھی۔ مجھے اس بات پر افسوس ہے کہ تنازع میرے ملک میں شروع ہوا جب ایک اخبار نے آزادیِ اظہار راے کا مظاہرہ کرتے ہوئے کارٹون شائع کیے۔ یہ گذشتہ خزاں میں ہوا اور اس وقت میں نے اس کے خلاف کھلے عام آواز اٹھائی۔ اسے میں بے حسی پر مبنی ایک اقدام سمجھتا تھا کیوں کہ یہ دوسرے لوگوں کے مذہبی جذبات کو تکلیف پہنچاتا ہے۔ یہ واقعہ غیرضروری اشتعال انگیزی تھا اور خود ہماری اس آزادی کا مذاق اڑانے کے مترادف تھا جو ہمیں ازحد عزیز ہے اور جس کی ہمارے دستور میں ضمانت دی گئی ہے۔ میرے والد بھی ایک صحافی تھے‘ وہ کہا کرتے تھے کہ آزادیِ اظہار راے ہمیں وہ کچھ (جو آپ سوچتے ہیں) کہنے کا حق تو دیتی ہے لیکن ایسا کرنا لازمی نہیں ہے۔
میری رائے میں اس منحوس واقعے کے سبق بالکل واضح ہیں۔ ہم سب کو تسلیم کرنا چاہیے کہ جدید دنیا میں یہ ضروری ہوتا جا رہا ہے کہ تمام معقول لوگ باہمی احترام‘ رواداری اور بہتر افہام و تفہیم کے لیے کام کریں۔ ہمیں ایسی صورت حال سے بچنا چاہیے جہاں مختلف اقدار ایک دوسرے کے مقابل ایسے طریقوں سے آجائیں کہ تشدد یک دم برپا ہوجائے۔ اس کے بجاے ہمیں کوشش کرنا چاہیے کہ مذاہب‘ اخلاق اور معمولات کے درمیان رواداری کے ذریعے پُل تعمیر کریں۔
آپ چاہیں تو اسے خود احتسابی کہہ لیں لیکن معقول لوگ ہمیشہ خوداحتسابی پر عمل کرتے ہیں۔ اگر آپ ایسے کمرے میں ٹھیرنا چاہتے ہیں جس میں دوسرے لوگ بھی ہیں تو آپ کو کوشش کرنا چاہیے کہ غیرضروری اشتعال انگیزیوں سے آپ ان کو ناراض نہ کریں۔ ہم جس کمرے کے بارے میں بات کر رہے ہیں‘ وہ مقامی تالاب نہیں بلکہ عالمی گائوں ہے‘ بقاے باہمی کی کلید ہے۔
دنیا میں ایسے افراد کی کمی نہیں۔ موجودہ صورت حال کتنی ہی خراب اور تکلیف دہ کیوں نہ ہو اگر اصحاب خیر ہمت کر کے کوشش کریں تو اسے انسانوں کے درمیان دوستی اور اعتماد باہمی کے پُل باندھنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
آخر میں ہم پاکستان کی اسلامی قوتوں سے بالخصوص اور تمام سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادتوں سے یہ اپیل کرنا چاہتے ہیں کہ جس طرح اس فتنے کا بروقت نوٹس لینا ضروری تھا‘ اسی طرح اس شیطانی کروسیڈ کے مقابلے اور اس کی شکست کے لیے دیرپا لائحہ عمل کی تیاری اور اس پر ہوش مندی سے عمل بھی ضروری ہے۔ یہ ایک تاریخی موقع ہے اور اس موقعے پر ذرا سی غفلت بڑی مہنگی پڑسکتی ہے۔ ملک کی اس قیادت کو بھی ہوش کے ناخن لینا چاہییں جو اپنے عوام کے جذبات اور احساسات سے غافل اور بیرونی سہاروں پر اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ سہارے بڑے بودے اور دھوکا دینے والے ہیں۔ اصل سہارا اللہ کا ہے‘ اس کے دین کا ہے اور اس کے ان بندوں کا ہے جو اصول اور اقدار کے لیے جان کی بازی لگانے میں دنیا اور آخرت کی کامیابی دیکھتے ہیں۔ یہی اس قوم کا اصل سہارا ہیں اور یہی سہارا قابلِ بھروسا اور زمانے کی آزمایشوں پر پورا اُترا ہے۔ وما علینا الا البلاغ۔
آج ___ جب کہ مغرب‘ مسلسل اسلام اور مسلمانوں کے خلاف طبل جنگ بجا رہا ہے‘ اور دنیا کو مستقبل میں اسلام اور مغرب کے درمیان ایک زبردست تہذیبی معرکہ برپا ہونے کی خبر دے رہا ہے۔ ساتھ ہی وہ اپنی طرف سے اس جنگ کے لیے پوری تیاریاں بھی کر رہا ہے‘ اور جو کچھ پیش قدمی اس وقت کرنا ممکن ہیں‘ وہ بھی کر رہا ہے___ مسلمانوں کے لیے یہ سمجھنا بڑا ضروری ہے کہ وہ اصل مسئلہ کیا ہے جس کے گرد یہ تہذیبی جنگ لڑی جارہی ہے؟ اور اس جنگ میں فیصلہ کن حیثیت کس ایشو اور کس مسئلے کو حاصل ہے؟
شاید کم ہی لوگ ہوں گے جنھیں اس بات کا ادراک ہو‘ یا جو اسے آسانی سے تسلیم کرلیں‘ لیکن ہمیں اس بات میں کوئی شبہہ نہیں کہ اصل اور فیصلہ کن ایشو اور مسئلہ رسالت محمدیؐ کی صداقت کا ایشواور مسئلہ ہے: ’’کیا محمدصلی اللہ علیہ وسلم‘ اللہ کے رسول ہیں؟‘‘
غارحرا میں پہلی وحی آنے کے بعد‘ روز اول سے یہی سوال نزاع و جدل کا اصل موضوع تھا‘ اور آج بھی یہی ہے۔ اس وقت بھی انسان اسی بات کے ماننے اور نہ ماننے پر دو کیمپوں میں تقسیم ہوگئے تھے‘ اور ان کے جواب نے قوموں کے مقدر اور تاریخ و تہذیب کے رخ کا فیصلہ کردیا تھا‘ آج بھی اسی سوال پر مستقبل کا مدار ہے۔ یہ کش مکش تو ازلی و ابدی ہے ؎
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفویؐ سے شرار بولہبی
مغرب کے معاشی ‘ سیاسی اور اسٹرے ٹیجک مفادات کا مسئلہ بھی یقینا اہم ہے‘ تیل کے چشمے بھی اہم ہیں۔ اسی لیے مغربی قیادت نے عالمِ اسلام کے قلب میں اسرائیل کا خنجر گھونپا ہے‘ مسلمان حکمرانوں کو اپنا باج گزار بنایا ہے اور شرق اوسط میں فوجی اڈوں کا جال بچھا لیا ہے۔ مسلمان ملکوں کو کمزور اور بے طاقت کر رہا ہے‘ یا جن سے سرتابی کا شبہہ ہے ان کے گلے میں پھندا کس رہا ہے۔ لیکن مفادات کے تنازعات تو امریکا‘ یورپ‘ جاپان‘ چین اور روس کے درمیان بھی ہیں‘ ان کی بنا پر ان کے درمیان مستقل دشمنی اور ایک دوسرے کی بربادی کے مشورے اور منصوبے نہیں۔ دراصل مسئلہ مفادات کا نہیں بلکہ یہ ہے کہ یہ مفادات ان لوگوں اور علاقوں میں واقع ہیں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیوا ہیں‘ اور آپؐ کے دین کے لیے مرنے کو زندگی سے زیادہ محبوب رکھتے ہیں۔
تہذیبی ایشوز کا معاملہ بھی بہت اہم ہے۔ اسی لیے انسانی حقوق کی دہائی ہے‘ عورتوں کے مقام‘ ان کی خوداختیاری (empowerment) اور آزادی (liberation) پر اصرار ہے‘ اسلامی قوانین اور حدود کے خلاف دبائو ہے اور جمہوریت دشمن ہونے کا الزام ہے۔ لیکن دنیا میں بڑی بڑی آبادیاں اور بھی ہیں‘ جو مسلمانوں سے کئی گنا زیادہ ان ساری مزعومہ تہذیبی اقدار کی خلاف ورزی کی مجرم ہیں اور ان ’تحائف‘ کی مستحق۔
ظاہر ہے کہ اصل لڑائی ان تہذیبی ایشوز پر بھی نہیں‘ بلکہ یہ ایشوز تو اس تہذیب کی بربادی کے لیے لاٹھی کا کام کر رہے ہیں‘ جس کی تشکیل و ترکیب اور ترتیب و تکوین‘ رسالت محمدیؐ کے دم سے ہے۔
مغرب کو اچھی طرح معلوم ہے‘ مسلمان آج اتنے کمزور ہیں کہ سیاسی‘ معاشی اور فوجی لحاظ سے کسی طرح بھی وہ ان کا عشرعشیر بھی نہیں۔ اہل مغرب کو یہ بھی معلوم ہے کہ اگر مسلمان اپنے نظام معاشرت و سیاست اور جرم و سزا کی تشکیل اسلام کے مطابق کریں‘ حجاب اختیار کریں یا حدود نافذ کریں‘ تو بھی مغربی تہذیب کو کوئی گزند نہیں پہنچتا۔ لیکن وہ اس بات کی مسلسل رٹ لگائے جا رہا ہے: ’’اسلام کا احیا اور مسلمان___ (اس کے الفاظ میں فنڈامنٹلزم یا بنیاد پرستی)___ دراصل مغرب کی تہذیب‘ اس کے طرززندگی‘ اس کی اقدار اور اس کی آج تک کی حاصل کردہ تہذیبی ترقی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے‘‘___ ایسا کیوں ہے؟ رسالت محمدیؐ کی وجہ سے!
جانتا ہوں میں کہ مشرق کی اندھیری رات میں
بے یدبیضا ہے پیران حرم کی آستیں
عصرِحاضر کے تقاضائوں سے ہے لیکن یہ خوف
ہو نہ جائے آشکارا شرع پیغمبرؐ کہیں
الحذر آئین پیغمبرؐ سے سو بار الحذر
حافظ ناموس زن‘ مرد آزما‘ مرد آفریں
عام مسلمان اگر تہذیبی جنگ کی اس حقیقت سے بے خبر ہیں‘ تو کوئی تعجب کی بات نہیں۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ وہ جو احیاے اسلام کے علم بردار ہیں‘ وہ بھی اس حقیقت کا پورا ادراک اور احساس نہیں رکھتے۔ اسی لیے رسالت محمدیؐ کا ان کے ایجنڈے پر وہ مقام نہیں‘ جو ہونا چاہیے۔ حالاںکہ تہذیبی جنگ‘ دل اور زندگی جیتنے کی جنگ ہے۔ دل پہلے بھی خاتم الانبیا محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے مجتمع اور توانا ہوئے تھے‘ آج بھی اسی محبت سے ایمان‘ اتحاد اور قوتِ عمل سرشار ہوں گے۔ اس کے باوجود رسالت محمدیؐ کے لیے انسانوں کے دل اور ان کی زندگیاں مسخر کرنے کے لیے جو کچھ کرنا چاہیے‘ افسوس صد افسوس کہ وہ نہیں کیا جا رہا۔ یہی کچھ کرنے کا احساس اور جذبہ و فکر پیدا کرنا آج ملت اسلامیہ کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
جب سے اسلام اور عیسائیت کا آمنا سامنا ہوا ہے‘ اس وقت سے عیسائیت اور یورپ نے اسلام کے خلاف اپنی جنگ کا مرکز و ہدف ذات محمدیؐ اور رسالت محمدیؐ کو بنایا ہے۔ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیوا اچانک صحراے عرب سے نمودار ہوئے‘ اور پلک جھپکتے میں انھوں نے شام‘ فلسطین‘ مصر‘ لیبیا‘ تیونس اور الجیریا ___ جو عیسائیت کے گڑھ تھے___ کی زمام کار سنبھال لی۔ نہ صرف انھیں اپنے انتظام میں لیا‘ بلکہ آبادیوں کی آبادیاںبہ رضا و رغبت‘ رسالت محمدیؐ کی تابع بن گئیں۔ یہی نہیں‘ ہزار سال تک اس کا سورج نصف النہار پر چمکتا رہا‘ اور مسیحی پادریوں کی ہزار بددعائوں‘ خواہشوں اور ان کے حکمرانوں کی عملی کوششوں کے باوجود‘ وہ ڈھلنے پر نہ آیا۔
وہ متحیر‘ شکست خوردہ اور غیظ و غضب کا شکار تھے۔ مزید غصے کی بات یہ تھی کہ ان کی کرسٹالوجی (سیدنا مسیح کی ابنیت/ولدیت اور مصلوبیت) اور شریعت کی عدم پابندی کے علاوہ دین اسلام میں کوئی چیز ان کی عیسائیت سے خاص مختلف نہ تھی‘ بلکہ دونوں میں بڑی یکسانیت تھی۔ وہ حیران و ششدر تھے کہ اس غیرمعمولی واقعے کی توجیہہ کیا اور کیسے کریں؟ اس کا مقابلہ کیسے کریں؟ عیسائیوں کو مسلمان بننے سے کیسے روکیں؟
ان کو یہی نظر آیا کہ اس سارے ’’فتنے (نعوذ باللہ) کی جڑ‘ اور ان کی ساری مصیبت کا سبب‘ محمدؐ کی رسالت ہے۔ مسلمانوں کی قوت و شکست کا راز حضوؐر پر ایمان و یقین اور آپؐ کی ذات سے والہانہ محبت اور وابستگی ہے۔ چنانچہ انھوں نے اپنا سارا زور یہ بات ثابت کرنے پر لگا دیا کہ: (نعوذ باللہ) حضوؐر کا دعواے رسالت درست نہیں تھا اور قرآن آپؐ کی تصنیف کردہ کتاب ہے‘ وہ بھی عیسائیوں اور یہودیوں سے مانگ تانگ کر اور مدد لے کر‘ اور اپنے مضامین و اسلوب اور بے ربطی و تکرار کی وجہ سے کلام الٰہی کہلانے کی مستحق نہیں۔ یا کوئی سنجیدہ‘ علمی مہم بھی نہ تھی۔ مغرب کا دورِ ظلمت (dark ages) ہو یا ازمنۂ وسطیٰ (medieval ages) یا روشن خیالی (enlightenment)‘ ان کے ہاں اس مقصد کے لیے حضوؐر کے کردار پر انتہائی رکیک الزامات گھڑے گئے اور غلیظ الزامات لگائے گئے۔ آپؐ کی زندگی کے ہر واقعے کو بدترین معنی پہنائے گئے اور اسے مسخ کرکے پیش کیا گیا۔ یہ الزام لگایا گیا کہ تلوار‘ خون ریزی اور قتل و غارت کے ذریعے‘ اور لوٹ مار اور دنیاوی لذائذ سے لطف اندوزی کی کھلی چھوٹ کا لالچ دے کر‘ آپؐ نے اپنے گرد پیروکار جمع کیے‘ اور ان کے ذریعے دنیا کو فتح کیا۔ یہ سب کچھ کہنے اور لکھنے کے لیے اہلِ مغرب کی جانب سے زبان بھی انتہائی غلیظ استعمال کی گئی۔ اتنی غلیظ کہ اس کا نقل کرنا بھی ممکن نہیں۔ ہم نے اُوپر جو کچھ لکھا ہے‘ یا آگے نقل کریں گے ‘ وہ دل پر انتہائی جبر کر کے‘ اس لیے کہ نقلِ کفر کفر نہ باشد۔ انھیں نقل کرتے ہوئے ہمارا قلم کانپتا اور روح لرزہ براندام ہوتی ہے‘ مگر صرف اس لیے یہ جسارت کر رہے ہیں کہ مسئلے کو سمجھنا ممکن ہو اور خود قرآن نے بھی مخالفین کے الزامات نقل کیے ہیں۔
سینٹ جان آف دمشق [م: ۷۵۳ئ]‘ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ [م: ۷۲۰ئ] سے قبل اموی دربار میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھا اور اسلام سے ناواقف نہیں تھا۔ وہ الزام تراشی کرتے ہوئے لکھتا ہے:’’بنی اسماعیل کی اولاد میں‘ محمدؐ کے نام سے [معاذاللہ] جھوٹے نبی نمودار ہوئے۔ وہ تورات و انجیل سے واقف تھے۔ ایک عیسائی راہب سے بھی تعلیم حاصل کی۔ ان کچی پکی معلومات کے بل پر انھوں نے عیسائیت کی ایک تحریف کردہ شکل وضع کر کے پیش کردی اور لوگوں سے تسلیم کرالیا کہ وہ خدا ترس انسان ہیں۔ پھر یہ افواہ پھیلا دی کہ ان پر آسمان سے کتابِ مقدس نازل ہورہی ہے۔ عیسٰی ؑ اور موسٰی ؑکی طرح‘ وہ اپنی وحی کی صداقت پر کوئی گواہ پیش نہ کرسکے‘ نہ کوئی معجزہ۔۱؎
انھی خطوط پر‘ خلیفہ مامون کے ایک درباری [ابن اسحاق- م: ۸۷۰ئ] نے عبدالمسیح الکندی کا قلمی نام اختیار کر کے الرسالہ کے نام سے ایک فرضی مکالمہ لکھا‘ اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا: ’محمد کس طرح سچے نبی ہوسکتے ہیں‘ جب کہ آپ نے خوں ریزی کی‘ اپنی نبوت کی تائید میں کوئی معجزات پیش نہ کیے۔ جہاں تک قرآن کا تعلق ہے تو وہ کتاب الٰہی کس طرح ہو سکتا ہے؟‘
سینٹ جان آف دمشق اور عبدالمسیح الکندی کے الرسالہنے‘بیسویں صدی کے آغاز تک‘ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اہلِ یورپ کے رویے اور فکر کی تشکیل میں فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔ بارہویں صدی میں الرسالہکالاطینی ترجمہ اسپین میں شائع ہوا‘ پندرہویں صدی میں سوئٹزرلینڈ میں‘ یہاں تک کہ انیسویں صدی میں سر ولیم میور [م: ۱۹۰۵ئ] نے اس کا انگریزی ترجمہ لندن سے شائع کرنا ضروری سمجھا۔ ایک ہزار سال کے اس طویل عرصے میں پادریوں اور یورپی دانش وروں نے رسالت محمدیؐ کے بارے میں جو کچھ کہا ہے‘ وہ بنیادی طور پر مسیح الکندی اور سینٹ جان آف دمشق ہی کی اس یاوہ گوئی کو دہراتے رہتے ہیں: ۱- قرآن‘ یہودیوں اور عیسائیوں سے سیکھ کر وضع کیا گیا‘ متضاد اور الجھی ہوئی باتوں کا مجموعہ ہے۔ ۲-اخلاقی الزامات ۳- سیاست دانوں اور حکمرانوں کی طرح موقع پرستی اور مکروفریب کی کارروائیاں‘ اعاذنا اللّٰہ من ذٰلک ونشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ۔
ان چیزوں کو نقل کرنا‘ اس لیے ضروری تھا تاکہ یہ بتایا جا سکے کہ آج جب ایک طویل زمانہ گزر چکا ہے اور اب اہلِ مغرب کا مسلمانوں سے روز کا ربط ہے۔ اہلِ مغرب کے ہاں سائنٹی فک اندازفکر‘ علمیت اور غیر جانب داری کے نعرے بھی ہیں‘ بلکہ ہمدردانہ اور منصفانہ معاملے کے دعوے بھی___ لیکن اہلِ یورپ کی روش اور سوچ میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یہاں تک کہ ان لوگوں میں پروفیسر منٹگمری واٹ‘ کینتھ کریگ اور ویٹی کن [اٹلی میں واقع رومن کیتھولک چرچ کا ہیڈکوارٹر‘ جسے ۱۹۲۹ء سے ریاست کا درجہ حاصل ہے] کی سوچ اور روش میں بھی‘ جو ڈائیلاگ‘ مکالمے‘ فیاضی اور مراعات کی روش کے دعوے دار ہیں‘ ان کے ہاں تال اور سُربدلے ہیں‘ مگر راگ وہی ہیں۔ بظاہر ان کے الفاظ ’مہذب‘ ہوگئے ہیں لیکن الزامات وہی ہیں‘ دشنام طرازی بھی وہی ہے‘ مگر ’تہذیب‘ کے جامے میں ہے۔ زبان اور تعبیرات وہ ہیں جو آج کے زمانے میں قابلِ قبول ہوں‘ مگر تہہ میں بات وہی ہے۔ چنانچہ نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات ہیں۔
اب ان توجیہات کی جگہ ایسے نفسیاتی‘ سماجی‘ معاشی اور سیاسی عوامل نے لے لی ہے‘ جن سے جدید ذہن زیادہ آشنا ہے۔ مثلاً راڈنسن ‘ سگمنڈ فرائڈ [م: ۱۹۳۹ئ] کی رہنمائی میں‘ حضوؐر کی نفسیاتی تحلیل کرتا ہے۔ پروفیسرمنٹگمری واٹ‘ سوشیالوجی(سماجیات) کے اوزار سے لیس‘ اس سرچشمے کا سراغ عرب کی ریگستانی اور بدویانہ زندگی میں‘ جاہلیت کی خرابیوں میں‘ مکہ میں عیسائی اور یہودی تعلیمات و اثرات میں‘ اور اہل عرب کی سیاسی ضرورت میں پاتا ہے۔ کینتھ کریگ یہ سوال اٹھاتا ہے کہ ’’رسالت نے کہاں جنم لیا؟‘‘ اور خود جواب دیتا ہے: ’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اس جستجو اور آرزو میں کہ عرب متحد ہوں‘ اور اس یقین میں‘ کہ ایک کتاب الٰہی ہی‘ ایک عربی قرآن ہی‘ ان کو اتحاد و تشخص دے سکتا ہے‘‘۔ یہ ایقان کیوں کر پیدا ہوا: ’’عیسائیوں اور یہودیوں کو دیکھ کر‘ کہ وہ بھی اہل کتاب تھے‘‘۔
پھر کوئی بھی ’’ہمدردانہ‘‘ تحریر ایسی نہیں‘ جو (نعوذ باللہ) وحی الٰہی میں خارجی مداخلت ثابت کرنے کے لیے شیطانی ہفوات کے واقعے‘ سیاسی مفاد اور دنیاداری کے ثبوت کے لیے نخلہ کے واقعے [رجب ۲ھ]‘ خون آشامی کی شہادت کے طور پر بنوقریظہ کے قتل کے واقعے [شوال ۵ ہجری] اور اخلاقی سطح کو زیربحث لانے کے لیے حضرت زینبؓ کے ساتھ نکاح کے واقعے سے خالی ہو۔
جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطب تھے‘ وہ ان کے سخت دشمن اور رسالت کے منکر تھے۔ جو آپؐ کے خلاف ہجو کہتے پھرتے تھے‘ وہ بھی اخلاق سے اتنے عاری نہ تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی اخلاقی الزامات لگائیں۔ اگرچہ‘ جاہلیت عرب کا انکار‘ جاہلیت جدیدہ کے انکار رسالت سے کچھ بھی مختلف نہ تھا۔ وہی الزامات‘ وہی اعتراضات نعوذباللہ: شاعر ہیں‘ جن آگئے ہیں‘ جادوگر ہیں‘ خود کلام گھڑتے ہیں‘ اور اسے اللہ کی طرف منسوب کر دیتے ہیں وغیرہ۔ یہ کہ:
وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِنْ ھٰذَآ اِلَّا ٓاِفْکُنِ افْتَرٰئـہُ وَاَعَانَہٗ عَلَیْہِ قَوْمٌ اٰخَرُوْنَج فَقَدْ جَآئُ وْ ظُلْمًا وَّزُوْرًا o وَقَالُــوْٓا اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ اکْتَتَبَہَا فَھِیَ تُمْلٰی عَلَیْہِ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلًا o (الفرقان ۲۵:۴-۵) ایک جھوٹ ہے جو انھوں نے گھڑ لیا ہے‘ اور اس میں دوسرے لوگوں نے ان کی مدد کی ہے۔ یہ گزرے ہوئے لوگوں کے قصے ہیں جن کو انھوں نے لکھ لیا ہے‘ اور یہ ان کو صبح و شام لکھوائے جاتے ہیں۔
وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّھُمْ یَقُوْلُوْنَ اِنَّمَا یُعَلِّمُہٗ بَشَرٌ ط لِسَانُ الَّذِیْ یُلْحِدُوْنَ اِلَیْہِ اَعْجَمِیٌّ وَّھٰذَا لِسَانٌ عَرَبِیٌّ مُّبِیْنٌ o (النحل ۱۶:۱۰۳) کہتے ہیں کہ ان کو تو یہ سب کچھ ایک آدمی سکھاتا ہے‘ لیکن یہ جس کی طرف اشارہ کرتے ہیں اس کی زبان عجمی ہے اور یہ عربی مبین ہے۔
کَذٰلِکَ مَآ اَتَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلاَّ قَالُوْا سَاحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ o اَتَوَاصَوْا بِہٖ ج بَلْ ھُمْ قَوْمٌ طَاغُوْنَ o (الذاریات ۵۱:۵۲-۵۳) یوں ہی ہوتا رہا ہے‘ ان سے پہلے کی قوموں کے پاس بھی کوئی رسول ایسا نہیں آیا جسے انھوں نے یہ نہ کہا ہو کہ یہ ساحر ہے یا مجنون۔ کیا ان سب نے آپس میں اس پر کوئی سمجھوتہ کرلیا ہے؟ نہیں‘ بلکہ یہ سب سرکش لوگ ہیں۔
اس بات کو نارمن ڈینیل (Norman Daniel) نے یوں لکھا ہے: ’’ہم انتہائی غیرجانب دار اسکالر کی تحریر بھی پڑھیں‘ تو ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ قدیم عیسائیت نے (اسلام اور محمد) کے بارے میں کیا انداز فکروگفتگو اختیار کیا تھا۔ وہ انداز ہمیشہ ہر اس مغربی ذہن کا لازمی جزو رہا ہے‘ اور آج بھی ہے‘ جو اس موضوع پر سوچتا اور بات کرتا ہے۔۲؎
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ‘ قرآن مجید اور رسالت کے خلاف عیسائیت اور اہلِ مغرب کی اس شدید دشمنی کے اسباب کیا ہیں؟
چند تاریخی‘ سیاسی اور نفسیاتی اسباب کی طرف ہم اشارہ کرچکے ہیں۔ ان کی نظر میں‘ ان پر اسلام کی صورت میں جو تباہ کن آفت نازل ہوئی تھی‘ اس کی حیرت انگیز قوت و شوکت اور غلبے کا راز رسالت محمدیؐ پر ایمان اور حضوؐر کی ذات سے محبت و وابستگی میں مضمر تھا۔ اس سے مقابلے کا راستہ اس کے علاوہ اور کچھ نہ تھا کہ قوت اور زندگی کے اس منبعے کو ختم کیا جائے۔ اس کو ختم کرنے کا طریقہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ حضوؐر کو نعوذ باللہ جھوٹا نبی‘ قرآن کو آپؐ کی خودساختہ تصنیف‘ اور آپؐ کے کردار کو غیرمعیاری ثابت کیا جائے‘ خواہ اس جھوٹ کے لیے تہذیب و معقولیت کی ہر حد پھلانگنا پڑے۔
دنیا کی قیادت کے لیے مغربی تہذیب کا حریف ایک ہی ہو سکتا ہے: وہ ہے اسلام۔ اس سے مغرب کا تصادم ہو سکتا ہے۔ اس لیے کہ اسلام ایک آئیڈیا ہے‘ آج کی دنیا میں اپنی نوعیت کا واحد آئیڈیا۔ یہ آئیڈیا انسانی تجربے اور مشاہدے سے ماورا حق کے وجود پر یقین کا مدعی ہے! اس کے نزدیک یہ‘ وہ حق ہے جو ۱۴ سو سال پہلے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) پر نازل ہوا‘ اور قرآن کی صورت میں محفوظ و موجود ہے۔ ایک تہذیب کی قوت اور غلبے کے لیے ایسے الحق پر یقین کی قوت کے برابر کوئی قوت نہیں۔ اسی لیے اہلِ یورپ اسلام اور مسلمانوں سے خائف ہیں۔ انھیں خطرہ ہے کہ ایک نئی سرد جنگ آرہی ہے‘ جو غالباً ’سرد‘ نہ رہے گی۔
اسی لیے آج بھی رسالت محمدیؐ، مغرب کے حملوں کا سب سے بڑا ہدف ہے۔ جہاں موقع ملے‘ ذات گرامیؐ پر بھی گندگی ڈالنے سے اجتناب نہیں‘ لیکن اب یہ کام بالعموم مسلمان گھرانوں میں پیدا ہونے والے گنتی کے چند سلمان رشدی [بھارتی نژاد شاتم رسول] اور تسلیمہ نسرین [بنگالی نژاد دریدہ دہن] قسم کے لوگوں کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ اپنا اسلوب بدل دیا گیا ہے۔ اب کچھ لوگ حضوؐر کو پیغمبر تسلیم کرنے کے دعوے دار ہیں‘ لیکن تورات کے اسرائیلی انبیا کی طرح کا پیغمبر۔ کچھ لوگ وحی کی حقیقت اور نوعیت ہی کو ___ مکالمہ ___ اور مفاہمت کے نام پر___ بدلنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ کچھ سینٹ پال [م: ۶۴ئ] کی طرح کے ’’مصلح‘‘ کے ورود [از قسم‘ مرزا غلام احمد قادیانی۔ م:۱۹۰۸ئ] کے متمنی ہیں جو اسلامی شریعت سے نجات دے۔
کچھ چاہتے ہیں کہ قرآن کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے: ایک حصہ‘ عقائد و اخلاق کی تعلیم پر مبنی‘ اس کو کلامِ الٰہی مان لیا جائے۔ دوسرا حصہ‘ زندگی بسر کرنے کے ضوابط پر مشتمل‘ ان کو حضوؐر کی تصنیف قرار دیا جائے‘ جو قابلِ تغیروتبدل ہے۔ اسی ذیل میں کچھ ’دُور اندیش‘ عناصر کسی دینی بحث میں نہیں پڑنا چاہتے‘ لیکن وہ انسانی حقوق‘ عورت کے مقام اور جمہوریت کے نام پر وہ چیزیں دل ودماغ میں اتار رہے ہیں‘ اور اُمت محمدیؐ کی زندگی اور عمل کو ایسے سانچے میں ڈھال رہے ہیں‘ جو رسالت پر ایمان اور ناقابل تغیر و تبدل حق پر یقین کو خودبخود بے معنی اور غیر مؤثر کرکے رکھ دے۔
ہفت روزہ اکانومسٹ‘ لندن نے صحیح لفظوں میں اعتراف کیا: ’’آج رسالت محمدیؐ پر یقین و ایمان ہی مغربی تہذیب کے لیے واحد حریف اور سب سے بڑا خطرہ ہے‘ اور یہی ایمان مسلمانوں کے لیے بے پناہ قوت کا سرچشمہ‘‘۔
۱- مغربی تہذیب اور جدیدیت (modernism) کی بنیاد یہ ہے‘ کہ انسان اب بالغ ہوچکا ہے۔ کسی ماوراے انسان وجود یا ذریعے سے علم اور رہنمائی لینے کا محتاج نہیں۔ وہ مستغنی ہے‘ خصوصاً خدا اور وحی جیسے ان ذرائع و تصورات سے‘ جن کو اس نے اپنے عہدطفولیت میں اپنے سہارے اور تسلی کے لیے گھڑ لیا تھا۔ رسالت محمدیؐ اس کے برعکس‘ یہ علم اور یقین بخشتی ہے کہ خالق کا وجود حقیقی ہے۔ وہ علوم کا رشتہ بھی اس کے نام سے جوڑتی ہے‘ زندگی کا بھی۔ وہی خالق حقیقی کھانا بھی کھلاتا ہے‘ شفا بھی بخشتا ہے‘ اختیار و قدرت بھی صرف اس کو حاصل ہے‘ زندگی بسر کرنے کا صحیح راستہ بھی وہی دکھاتا ہے۔ انسان ہر لحاظ سے اس کا محتاج‘ فقیر اور غلام و بندہ ہے۔
۲- مغربی تہذیب کے فلسفہ علم (epistemology) کی بنیاد یہ ہے‘ کہ علم کا ذریعہ صرف: انسانی حواس اور عقل ہے‘ تجربہ و مشاہدہ ہے‘ سائنسی طریقہ ہے مگر یہ سارا علم بھی ظنی ہے جو آج صحیح ہے وہ کل غلط ہو سکتا ہے‘ بلکہ غلط ثابت ہونے کا امکان نہ ہو تو وہ علم ہے ہی نہیں‘ ایک عقیدہ ہے۔ قطعی اور یقینی علم کے نام کی کوئی چیز دنیا میں پائی ہی نہیں جاتی‘ جو معیار حق ہو‘ جس کے آگے لوگ سرتسلیم خم کریں‘ جس کے لیے کوئی کسی سے مطالبہ کرسکے کہ اس کو مانو اور اس پر چلو۔ اس کے برعکس‘ رسالت محمدیؐ اس شعور سے معمور کرتی ہے کہ علم یقینی کا وجود ہے اور اس کا سرچشمہ وحی الٰہی اور حضوؐر کی رسالت ہے۔ زبردستی کسی پر نہیں کی جا سکتی‘ لیکن جو مان لیں انھیں اس علم کے آگے سرتسلیم خم کرنا چاہیے‘ جہاں اختیار ہو‘ وہاں اس علم کے مطابق چلنا اور چلانا چاہیے۔ مغرب نے حق اور باطل کے الفاظ کو متروک بنا دیا ہے‘ اور ان کا استعمال تہذیب و فیشن کے خلاف۔ رسالت محمدیؐ کے ماننے والوں کے لیے یہ الفاظ آج بھی سچائی اور زندگی سے بھرپور ہیں‘ اور ہمیشہ رہیں گے۔
۳- مغرب کے نزدیک اخلاق و اقدار ہوں یا قوانین و ضوابط‘ ہر چیز مفید ہے یا مضر‘ جیسا اپنا اپنا احساس اور نقطۂ نظر ہو۔ حقیقت کا انحصار دیکھنے والوں کی پوزیشن پر ہے۔ چنانچہ ہرچیز اضافی (relative) طور پر صحیح یا غلط ہوتی ہے‘ کوئی چیز فی نفسہٖ حق اور باطل نہیں ہو سکتی۔ رسالت محمدیؐ کے ماننے والوں کے نزدیک ان چیزوں کی جو حقیقت وحی نے طے کر دی ہے‘ اسے کسی کی راے‘ پسند و ناپسند یا تجربے و دلیل سے بدلا نہیں جا سکتا: لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِ ج [الانعام ۶:۳۴] ’’اللہ کی باتوں کو بدلنے کی طاقت کسی میں نہیں ہے‘‘۔
۴- مغربی تہذیب کے نزدیک علوم غیبی ___ اللہ‘ فرشتے‘ وحی‘ زندگی بعد موت کے نام کی کوئی چیز کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔ اس کے برعکس رسالت محمدیؐ کے ماننے والوں کے نزدیک‘ زندگی کے معنی و مقصد اور انسان کی حقیقت کا علم صرف علوم غیبی ہی سے ہوسکتا ہے۔ اس کے نزدیک یہ حقائق___ جن کی تعلیم رسالت محمدیؐ نے دی ہے___ جیتے جاگتے حقائق ہیں: یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ[البقرہ ۲:۳] ’’وہ غیب پر ایمان رکھتے ہیں‘‘۔
۵- دنیا اور دنیا کی زندگی سے رسالت محمدیؐ کے ماننے والوں کو اتنی ہی گہری اور بھرپور دل چسپی ہے جتنی اہلِ مغرب کو۔ لیکن مغرب کی دل چسپی کا ہدف یہیں دنیا میں انسان کی خوشی‘ راحت‘ لذت اور زندگی کی کیفیت و معیار ہے‘ کہ وہی مقصود ہیں۔ اس کے برعکس‘ رسالت محمدیؐ کے ماننے والوں کی دل چسپی دنیا میں اہلِ دنیا کی بھلائی اور آخرت میں اپنی بھلائی کے لیے ہے۔ اس کے نتیجے میں دو بالکل مختلف قسم کی شخصیتیں اور معاشرے وجود میں آتے ہیں: لاَ یَسْتَوِیْٓ اَصْحٰبُ النَّارِ وَاَصْحٰبُ الْجَنَّۃِط [الحشر ۵۹:۲۰] ’’دوزخ میں جانے والے اور جنت میں جانے والے کبھی یکساں نہیں ہوسکتے‘‘۔
آج کے تہذیبی معرکے میں رسالت محمدیؐ کے مسئلے کو جو فیصلہ کن حیثیت حاصل ہے‘ اس کا پورا ادراک ان سب کو ہونا چاہیے‘ جو دین سے محبت رکھتے ہیں‘ جو غلبۂ دین کی تمنا رکھتے ہیں یا اس کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس ادراک کی روشنی میں انھیں اپنی ترجیحات پر بھی نظر ڈالنا چاہیے‘ اور حکمت عملی پر بھی۔ اس لیے:
۱- یہ سمجھنا ضروری ہے کہ‘ ہمارا یہ زمانہ اگرچہ عہد نبویؐ سے ۱۴ صدیوں کے فاصلے پر ہے‘ اور ہم جن تمدنی حالات میں اسلامی زندگی اور اس کے غلبے کے لیے کوشاں ہیں‘ وہ اس عہد سے بہت مختلف ہیں‘ لیکن یہ ہے اسی عہد نبویؐ کا حصہ اور تسلسل۔ کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی قوم کی طرف نہیں‘ ساری انسانیت کی طرف مبعوث فرمائے گئے ہیں‘ اور آپؐ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے‘ اس لیے آپؐ ہماری اکیسویں صدی کے لیے بھی اسی طرح رسول ہیں جس طرح چھٹی صدی کے لیے تھے‘ اور آج کے سارے انسان اسی طرح آپؐ کی ’’قوم‘‘ ہیں اور آپؐ کے مخاطب‘ جس طرح اس وقت کا اہلِ عرب اور ساری دنیا والے تھے۔ اس سیدھی سادی بات کے دُور رس مضمرات ہیں۔ چنانچہ آج کے زمانے اور لوگوں تک آپؐ کی رسالت کی دعوت اس طرح پہنچنا اور پہنچانا ان کا حق ہے جس طرح آپؐ نے پہنچائی۔
۲- یہ سمجھنا ضروری ہے کہ‘ بہ حیثیت رسولؐ اللہ آپ ہمارے درمیان موجود ہیں۔ کیوںکہ آپؐ کی لائی ہوئی کتاب موجود ہے‘ آپؐ کی سیرت اور اسوہ موجود ہے‘ آپؐ کا دین موجود ہے‘ اور ان امانتوں کی حامل‘ آپؐ کی اُمت موجود ہے۔ گویا اپنی رسالت کی طرف دعوت دینے کا جو مشن بہ حیثیت رسول آپؐ نے ادا کیا‘ اب اسے ادا کرنے کے لیے اُمت ذمہ دار ہے۔
۳- یہ سمجھنا ضروری ہے کہ‘ رسول کی موجودگی میں دعوت اور اسلام و جاہلیت کے درمیان جو تہذیبی کش مکش برپا ہوتی ہے‘ اس میں رسالت کی طرف دعوت کو اوّلین اور فیصلہ کن مقام حاصل ہوتا ہے۔ درجے کے لحاظ سے‘ ایمان باللہ‘ اسلامی زندگی کا مرکز اور روح ہے‘ اسے سب سے اعلیٰ مقام حاصل ہے‘ رسالت کا مدعا وہی ہے۔ لیکن ترتیب کے لحاظ سے ایمان بالرسالت کی حیثیت اولین اور فیصلہ کن ہے۔ انسان‘ محمد کو اللہ کا رسولؐ مانتا ہے‘ تب ہی وہ اللہ اور ہر دوسری چیز تک پہنچتا ہے۔ ایمان باللہ‘ وہی حق اور معتبر ہے جس کی تعلیم حضوؐر نے دی‘ اور اس لیے ہے کہ آپؐ اللہ کے سچے رسول ہیں۔ قرآن اسی لیے بلاشک و شبہہ کلامِ الٰہی ہے کہ رسالت محمدیؐ ہر شک و شبہہ سے بالاتر ہے۔ حلال و حرام‘ واجبات و منہیات اور عذاب و ثواب کے لیے کوئی عقلی یا تجربی دلیل‘ سند ناطق نہیں سواے حکم نبویؐ کے۔ پھر عمل کے لحاظ سے تو ایمان و اتباع رسالت‘ عین اطاعتِ الٰہی اور قربِ الٰہی کے مترادف ہے: مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ [النسائ۴:۸۰۔جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے دراصل خدا کی اطاعت کی۔] اور : قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِی یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ [اٰل عمرٰن ۳:۳۱۔ اے نبیؐ! لوگوں سے کہہ دو کہ اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو‘ اللہ تم سے محبت کرے گا۔]
۴- یہ سمجھنا ضروری ہے کہ دعوت و جہاد میں رسالت کی طرف دعوت کو یہی مقام حاصل ہو۔ اس کے بغیر اللہ کا اقرار بھی کوئی معنی نہیں رکھتا‘ کجا کہ جمہوریت اور انسانی حقوق جیسی سماجی اقدار پر اتفاق و اقرار۔ ورنہ یہودی توحید الٰہی کا عقیدہ رکھتے تھے‘ عیسائیوں کو موحد ہونے کا دعویٰ تھا‘ اور ان کی عبادات و اخلاقی فضائل کی تعریف خود قرآن نے فرمائی ہے۔ مگر وہ مغضوب اور ضال ٹھیرے کہ ایمان بالرسالت سے انکاری تھے۔
۵- یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ایمان بالرسالت اس معنی میں بھی فیصلہ کن ہے کہ اللہ کی طرف سے نصرت‘ نجات اور غلبے کا وعدہ‘ ان لوگوں سے ہے جو رسول مبعوث پر حقیقی معنوں میں ایمان لائیں‘ تن من دھن سے اس کے پیچھے چلیں‘ اور اس کے مددگار بنیں: وَلَقَدْ سَبَقَتْ کَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِیْنَ o اِنَّھُمْ لَھُمُ الْمَنْصُوْرُوْنَ o وَ اِنَّ جُنْدَنَا لَھُمُ الْغٰلِبُوْنَ o (الصافات ۳۷:۱۷۱-۱۷۳) ’’اپنے بھیجے ہوئے بندوں سے ہم پہلے ہی وعدہ کرچکے ہیں کہ یقینا ان کی مدد کی جائے گی اور ہمارا لشکر ہی غالب ہوکر رہے گا‘‘۔
۶- یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ازل سے جو معرکہ چراغ مصطفویؐ اور شرار بولہبی کے درمیان برپا ہے‘ اور جو آج اسلام اور مغرب کے درمیان تہذیبی جنگ کی صورت اختیار کررہا ہے‘ وہ دراصل انسانوں کے دل اور زندگیاں جیتنے کا معرکہ ہے۔ دل فتح ہوں گے تو غلبۂ دین حاصل ہوگا۔ قوت سے زمین فتح ہوسکتی ہے‘ اموال فتح ہوسکتے ہیں‘ سیاسی اقتدار پر قبضہ ہوسکتا ہے‘ مگر زندگیاں فتح نہیں ہو سکتیں اور دلوں پر قبضہ نہیں ہوسکتا۔ دلیل سے موافقت اور حمایت حاصل ہو سکتی ہے‘ مگر یکسوئی‘ لگن اور جاں بازی اور سرفروشی نہیں۔ دل جیتنے کا راستہ صرف ایک ہے۔ لوگ رسالت محمدیؐ کی صداقت پر ایمان لے آئیں‘ آپؐ کے ہاتھ میں اپنے ہاتھ دے دیں‘ اپنے دل آپؐ کی محبت سے بھرلیں‘ آپؐ کے آستانے پر سر رکھ لیں‘ آپؐ کی اطاعت و محبت اور آپؐ پر اعتماد و یقین سے سرشار ہو کر آپؐ کے پیچھے پیچھے چل پڑیں۔ پہلے بھی لوگ اور دل اسی طرح فتح ہوئے تھے‘ تہذیبی جنگ اسی طرح جیتی گئی تھی‘ آج بھی اسی طرح فتح ہوگی‘ اور اسی طرح جنگ جیتی جا سکے گی۔
۷- اس بات کو سمجھنا بڑا اہم ہے۔ یقینا ہمیں اسلام کی حقانیت اور برتری ثابت کرنا چاہیے‘ ہمیں بتانا چاہیے کہ سودی معیشت انسان کے لیے کتنی تباہ کن ہے‘ اسلام کے سیاسی‘ معاشی اور معاشرتی و خاندانی نظام میں کیا محاسن ہیں‘ اسلام کی خوبیاں کیا ہیں؟ لیکن ہمیں یہ بھی ملحوظ رکھنا چاہیے کہ ان سب کاموں کی حیثیت زمین کو نرم و ہموار اور فضا کو سازگار بنانے کی سی ہے۔ لوگ یہ سب کچھ مان بھی لیں‘ لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت پر ایمان نہ لائیں‘ تو تہذیبی جنگ میں کامیابی کی راہ ہموار نہ ہوگی۔ کتنے لوگ ہیں جو اسلام کی تعریف کرتے ہیں‘ اس کے آرٹ اور فنِ تعمیر کی داد دیتے ہیں‘ اس کی روحانیت اور تصوف کے ثناخواں ہیں‘ لیکن وہ محمد رسولؐ اللہ کو اللہ کا رسول مان کر آپؐ کا اتباع کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس لیے وہ رسالت کے مشن کے اعوان و انصار نہیں بن سکتے۔
۸- اسی طرح اگر ہم یہ ثابت بھی کر دیں اور ہمیں یہ ثابت ضرور کرنا چاہیے‘ لیکن اس مشق کے محدود نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے___ کہ اسلام میں بھی جمہوریت ہے۔ اسلام دوسروں سے بڑھ کر حقوقِ انسانی کی ضمانت دیتا ہے۔ اسلام نے عورتوں کو وہ مقام دیا ہے جو آج تک مغرب نے بھی نہیں دیا ہے۔ اسلامی حدود ظالمانہ نہیں بلکہ منصفانہ اور زیادہ رحم دلانہ ہیں‘ تو اس سے بھی دلوں کے جیتنے کے امکانات روشن نہ ہوں گے۔ اس کے لیے عقلی اتفاق سے زیادہ رسولؐ پر اعتماد و محبت درکار ہے۔
چنانچہ سب سے بڑا کام یہ ہے کہ ہم دعوت الی الرسالت کو اپنے ایجنڈے پر سرفہرست مقام دیں۔
نواے او بہ ہر دل سازگار است
کہ در ہر سینہ قاشے از دل اوست
امام مسلم [م: ۸۷۰ئ] روایت درج کرتے ہیں کہ حضوؐر نے فرمایا: ’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمدؐ کی جان ہے‘ اس اُمت میں سے جو میرے بارے میں سنے‘ یہودی ہو یا عیسائی‘ پھر وہ جو میں لایا ہوں اس پر ایمان لائے بغیر مرجائے‘ وہ آگ میں جائے گا‘___ امام محی الدین نوویؒ [م: ۶۷۶ھ] کہتے ہیںکہ اس اُمت سے مراد ایک داعی اُمت ہے‘ یعنی آپؐ کی رسالت سے لے کر قیامت تک تمام اہلِ زمین کے لیے۔ لیکن امام غزالیؒ [م: ۱۱۱۱ئ] بڑی اہم بحث اٹھاتے ہیں: ’سننے‘ کا کیا مطلب ہے؟ کیا صرف کانوں سے نام سن لینا؟___ نہیں‘ وہ کہتے ہیں‘ اس سے حضوؐر کی زندگی اور پیغام کے بارے میں اس طرح سننا مراد ہے‘ جو دل و دماغ کے ماننے کے لیے ضروری ہے۔ ورنہ جن پر سنانے کی ذمہ داری ہے‘ وہ زیادہ آگ کے مستحق ہو سکتے ہیں۔ آج تو نہ ماننے والوں کی عظیم اکثریت نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ہی سنا ہے‘ سنا ہے تو سرسری طور پر یا مخالفانہ انداز میں۔ جن لوگوں کو کماحقہٗ سنایا گیا ہے‘ وہ بھی براے نام ہیں۔ پھر اربوں انسانوں کے اپنے رسول اور آخری رسول پر ایمان نہ لانے کے لیے مسئول‘ ذمہ دار اور جواب دہ کون ہے؟ کیا ہم نہیں؟
جس طرح حضوؐر نے ایک ایک ملک میں اپنے ایلچی بھیجے تھے‘ آج ایک ارب سے زائدمسلمان دنیا کے گوشے گوشے میں آپؐ کے ایلچی ہیں۔ ان کے ہاتھ میں آپؐ کا خط ہے۔ جس کو بھی اپنی اس پوزیشن اور ذمہ داری کا احساس ہو‘ اسے تڑپ کر کھڑا ہوجانا چاہیے۔ سلیقے سے‘ حکمت سے‘ موعظۂ حسنہ سے‘ انسانوں کو حضوؐر سے قریب لانا چاہیے۔ جتنا زور ہم آپؐ کا دین پیش کرنے پر لگاتے ہیں‘ اتنا ہی اہتمام ہمیں آپؐ کی ذات‘ شخصیت‘ کردار‘ اسوئہ حسنہ اور زندگی کو پیش کرنے پر لگانا چاہیے۔ جو سراج منیر سے جتنا قریب آئے گا‘ اس کا دل کھلا ہوگا‘ وہ حضوؐر کی روشنی اور حرارت میں سے حصہ پائے گا۔ جتنے لوگ حضوؐر کی رسالت پر ایمان لاتے جائیں گے‘ آپؐ کے آستانے سے وابستہ ہوتے جائیں گے‘ اتنا ہی تہذیبی جنگ میں حضوؐر کے پیغام کی فتح کے امکانات بڑھتے جائیں گے۔
یہ ایک قرض ہے جو ہم سب پر ہے‘ اور ہم میں ہر ایک کو اسے ادا کرنے اور اپنا حصہ ڈالنے کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔ [ترجمان القرآن، جولائی ۱۹۹۶ئ]
(کتابچہ دستیاب ہے۔ قیمت: ۳ روپے (۲۰۰ روپے سیکڑہ)۔ منشورات‘ منصورہ‘ لاہور)
1- Encounters and Clashes: Islam and Christianity in History, Rome, 1990.
۲- نارمن ڈینیل: Islam and The West: The Making of Image ‘ناشر: ایڈنبرگ یونی ورسٹی پریس‘ ۱۹۶۰ئ‘ ص ۳۰۱
۱- کیا قرآن میں بیان کیے گئے کسی حکم یا قانون کو جو مکمل اور محکم ہو‘ آسانی سے سمجھ میں آنے والا ہو اور مزید تفصیل طلب نہ ہو‘ حدیث کے ذریعے تبدیل (revise) یا منسوخ (abrogate) کیا جاسکتاہے‘ جب کہ قرآن نے خود اس کو تبدیل یا منسوخ نہ کیا ہو؟
۲- اگلے سوال کے لیے چند آیات کا ذکر ضروری ہے جو کہ یوں ہے: قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کے من گھڑت احکام و قوانین کو چیلنج کیا ہے جیسے کہ سورئہ آل عمران میں یہودیوں سے کہا گیا ہے کہ وہ کھانا جس کو تم اپنی شریعت کے مطابق حرام سمجھتے ہو‘ اس کے ثبوت میں تم تورات کی کوئی عبارت پیش کرو(۳:۹۳)۔ اسی طرح سورۂ صٰفّٰت میں اللہ تعالیٰ نے یہ کہا ہے کہ تم کہتے ہو کہ اللہ نے اپنے لیے بیٹوں کے بجاے بیٹیاں پسند کرلی ہیں۔ تمھارے پاس اپنی ان باتوں کے لیے کوئی صاف سند ہے‘ تولائو اپنی وہ کتاب اگر تم سچے ہو (۳۷:۱۵۳-۱۵۷)۔ ان آیات کے اسلوب سے ایک قانون یا اصول اخذ کیا جاسکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ تمام احکامِ خداوندی کا ذکر اس کی کتاب میں ہونا لازم ہے اور اس اصول اور قانون کی بنیاد پر ہی اہلِ کتاب سے‘ اپنی خودساختہ شریعت کے ثبوت کے لیے کتاب کی عبارت لانے کے لیے کہا گیا ہے۔ چنانچہ اس اصول کی روشنی میں اگلا سوال یوں ہے کہ کیا شریعت کے ہر قانون اور حکم کا قرآن میں ذکر ہونا لازم ہے؟ اگر لازم ہے تو وہ احکام و قوانین جو آج اسلامی شریعت کا حصہ ہیں کیا انھیں قرآن میں موجود نہ ہونے کی وجہ سے ماوراے شریعت قرار دیا جاسکتا ہے؟ اگر نہیں تو کیوں؟
۳- سورۂ فرقان میں فرمایا گیا ہے کہ اے رسولؐ !ہم نے تم کو بشارت دینے اور ڈراوا دینے کے سوا کسی اور کام کے لیے نہیں بھیجا (۲۵:۵۶ )۔ اگر اس آیت کا یہی ترجمہ ہے تو پھر اگر کسی حدیث میں بشارت اور انذار کا پہلو نہ نکلتا ہو تو کیااس حدیث کو اس آیت کی روشنی میں‘ رسولؐ کی طرف منسوب کرنا غلط ہوگا‘ یا بالفاظِ دیگر وہ حدیث موضوع قرار پائے گی یا نہیں؟ اگر نہیں تو کیوں؟
۴- قرآن میں مختلف مقامات پر اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکفیر اور تکذیب کرنے پر سخت وعید آئی ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ کی آیات کو محض مصحف میں پڑھ لینا مگر ان کو نہ ماننے اور عمل نہ کرنے کا نام ہی تکفیر و تکذیب ہے۔ اگر یہی بات ہے تو وہ آیات جن کو ہم نہیں مانتے اور منسوخ سمجھتے ہیں‘ کیا ہم ان کی تکفیر و تکذیب نہیں کر رہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر وہ کون سی تکفیر و تکذیب ہے جس پر سخت وعید کی گئی ہے؟
اس ضمن میں بنیادی بات یہ سمجھ لینی چاہیے کہ قرآن پاک اللہ تعالیٰ کی طرف سے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلبِ اطہر پر نازل ہوا ہے‘ اسی طرح سے حدیث مبارکہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کی دوسری شکل ہے۔ قرآن و حدیث میں فرق یہ ہے کہ قرآن پاک شریعتِ الٰہیہ کا متن ہے اور حدیث مبارکہ اس متن کی تفصیل‘ تشریح اور تکمیل ہے۔ اللہ تعالیٰ فاعل مختار ہیں‘ وہ جو حکم جس وقت اور جس انداز سے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دینا چاہیں دیتے ہیں‘ کوئی اس سے بازپرس کرنے والا نہیں ہے۔
قرآن پاک کے کسی بھی حکم کو حدیث کے ذریعے تبدیل یا منسوخ کیا جا سکتا ہے۔ قرآن پاک کے حکم کی تبدیلی کے لیے ضروری نہیں ہے کہ خود قرآن پاک کے ذریعے اسے تبدیل کیا جائے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اس بات کے پابند نہیں ہیں کہ قرآن پاک کے کسی حکم کو تبدیل یا منسوخ کرنے کے لیے اپنے نبی اور رسول کو قرآن پاک کی شکل میں وحی کریں‘ وہ حدیث کی شکل میں بھی اپنے نبیؐ کو وحی کرسکتے ہیں اور اس کے ذریعے بھی حکمِ قرآنی کو تبدیل کرسکتے ہیں اور اس پر اضافہ بھی کر سکتے ہیں۔ وہ اس بات کا بھی اختیار رکھتے ہیں کہ اپنے کسی حکم کو پہلے حدیث کے ذریعے جاری فرمائیں‘ اس کے بعد اسی حکم کو قرآن پاک میں نازل فرما دیں۔ مثال کے طور پر قرآن پاک کی درج ذیل آیت:
کُتِبَ عَــلَیْکُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَـدَکُمُ الْـمَوْتُ اِنْ تَــرَکَ خَــیْرَنِ ا ج الْوَصِیَّۃُ لِلْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِ ج حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِیْنَ (البقرہ ۲:۱۸۰)
تم پر فرض کیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آئے اور وہ اپنے پیچھے مال چھوڑ رہا ہو‘ تو والدین اور رشتہ داروں کے لیے معروف طریقے سے وصیت کرے۔ یہ حق ہے متقی لوگوں پر۔
اور سورۂ نساء کی آیت یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ (۴:۱۱)‘ میں ورثا کے لیے حصصِ وراثت مقرر کردیے گئے ہیں۔
اس آیت کی رو سے ماں باپ اور دوسرے ورثا کے لیے وراثت کے حصص اور صورتیں بیان کر دی گئی ہیں۔ تب آیتِ وصیت پر کیسے عمل ہو؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ ماں باپ اور دوسرے ورثا جو وراثت کے حق دار ہیں‘ اُن کے لیے وصیت کا حکم منسوخ ہوگیا ہے اور اس حکم کو حدیث مبارک اَلَا لَاوَصِیَّۃَ لِـوَارِثٍ (مشکوٰۃ‘ کتاب الوصایا،سنو! وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں ہے) سے منسوخ کردیا گیا ہے۔ اب وصیت کا حکم صرف ماں باپ اور ان قرابت داروں کے لیے باقی ہے جو غیرمسلم ہونے کے سبب وراثت کے حق دار نہ ہوں‘ ان کے لیے وصیت کی جاسکتی ہے۔ اور فوت ہونے والا اپنے غیروارث قرابت داروں کے لیے ۳/۱ کی حد تک وصیت کرسکتا ہے۔ باقی ۳/۲ حصہ ورثا میں بقدر حصصِ وراثت تقسیم ہوگا۔ ورثا کے حق میں وصیت کا یہ قطعی اور واضح حکمِ قرآنی‘ حدیثِ مذکور سے منسوخ یا تبدیل ہوگیا۔
اسی طرح شروع میں زنا کی مرتکب شادی شدہ خاتون کے لیے گھر میں عمرقید کا حکم تھا‘ یہ حکم آج بھی قرآن پاک میں موجود ہے‘ لیکن منسوخ ہے۔ بعد میں شادی شدہ مرد اور عورت کے لیے رجم کی سزا حدیث کے ذریعے نازل ہوئی اور غیرشادی شدہ مرد اور عورت کے لیے ۱۰۰ کوڑوں کی سزا قرآن پاک میں نازل ہوئی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
تمھاری وہ عورتیں جو بے حیائی کی مرتکب ہوجائیں‘ ان پر چار مردوں کی گواہی کا مطالبہ کرو‘ اگر چار مرد گواہی دے دیں تو ان کو گھروں میں قید کردو یہاں تک کہ موت انھیں اٹھا لے یا پھر اللہ تعالیٰ ان کے لیے کوئی سبیل پیدا کردے۔ اور وہ مرد اور عورت جو (غیر شادی شدہ ہوں) اور اس جرم کا ارتکاب کریں ان کو جسمانی ایذا دو‘ پھر اگر وہ توبہ کریں اور اپنی حالت کی اصلاح کرلیں تو انھیں چھوڑ دو‘ کہ اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ (النساء ۴:۱۵-۱۶)
غیرشادی شدہ جوڑے کے لیے آیت بالا میں مذکور جسمانی ایذا کے حکم کی ۱۰۰کوڑوں کی شکل میں تعیین سورئہ نور میں کردی گئی اور شادی شدہ خاتون کے لیے عمرقید کی سزا‘ حدیث کے ذریعے منسوخ ہوگئی۔ اس کی جگہ رجم کی سزا نازل ہوگئی۔ نسخ کی طرف قرآن پاک کے الفاظ: اَوْ یَجْعَلَ اللّٰہُ لَھُنَّ سَبِیْلًاo (النساء ۴:۱۵۔یا اللہ ان کے لیے کوئی سبیل پیدا کر دے) میں اشارہ ہے۔ عبادہ بن صامت کی روایت ہے: نبی صلی اللہ علیہ وسلم سو رہے تھے‘ آپؐ بیدار ہوئے تو مسکرا رہے تھے‘ اور فرما رہے تھے: مجھ سے لے لو‘ مجھ سے لے لو‘ مجھ سے لے لو‘ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے سبیل پیدا فرما دی۔
غیرشادی شدہ مرد اور عورت زنا میں ملوث ہوں تو ۱۰۰ کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی (ان کی سزا) ہے اور شادی شدہ مرد اور عورت زنا کا ارتکاب کریں تو ۱۰۰ کوڑے اور پتھروں سے سنگسار کرنا (ان کی سزا) ہے۔ (مسلم‘ ج ۲‘ باب حدالزنا‘ ص ۶۵)
بعد میں رجم کے ساتھ کوڑوں کی سزا ختم کر دی گئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جن جوڑوں کو رجم کی سزا دی‘ انھیں کوڑے نہیں لگائے۔ اسی طرح غیرشادی شدی خاتون کو صرف کوڑوں کی سزا دی گئی اور غیرشادی شدہ مرد کے لیے کوڑوں کے ساتھ جلاوطنی کی سزا مقرر ہوگئی۔ قرآن پاک کے جن مذکورہ احکام کو حدیث کے ذریعے منسوخ کیا گیا وہ بالکل واضح ہیں اور ان کا مفہوم آسان ہے‘ لیکن حدیثِ رسولؐ کے ذریعے انھیں تبدیل یا منسوخ کیا گیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے ان احکام پر اِس طرح عمل ہو رہا ہے جس طرح مذکورہ احادیث سے ثابت ہے۔
۲- اللہ تعالیٰ کا حکم وہ ہوگا جو اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی‘ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا ہو‘ چاہے وہ قرآن پاک میں ہو یا حدیث میں ہو۔ اگر کوئی شخص کسی حکم کے شریعت ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اسے قرآن و حدیث سے ثابت کرے۔ یہ سمجھنا کہ جو حکم قرآن میں ہے وہ شریعت ہے اور جو قرآن میں نہیں ہے وہ شریعت نہیں‘ قطعاً غلط ہے۔ ان آیات سے یہ اصول ثابت نہیں ہوتا جو آپ نے سمجھا ہے بلکہ ان آیات سے صرف یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جو شخص کسی حکم کو تورات کا حکم قرار دیتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ تورات سے اس حکم کو ثابت کرے‘ اور اگر کسی حکم کو اللہ تعالیٰ کا حکم قرار دیتا ہے تو اس پر بھی لازم ہے کہ کسی آسمانی کتاب سے یا عقلی اور نقلی دلیل سے‘ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی نسبت کو ثابت کر دے۔ اگر ایسا نہ کرسکے تو وہ حکمِ الٰہی شمار نہ ہوگا۔
اگر ایک موقع پر یہود سے تورات لانے کا مطالبہ ہے تو خود آپ کی پیش کردہ دوسری آیات میں مشرکین سے کسی بھی دوسری کتاب یاکسی بھی قسم کی دلیل کا مطالبہ ہے اور سورۂ احقاف میں کتاب سے یا اہلِ علم سے کوئی نقلی دلیل لانے کا مطالبہ ہے (الاحقاف ۴۶:۴)۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ صرف ’کتاب‘ دلیل نہیں ہے‘ بلکہ کتاب کے علاوہ مزید دلائل بھی ہیں۔ سنت رسولؐاللہ تو ’کتاب اللہ‘ کی بھی مصداق ہے۔ قرآن پاک میں صراحتاً حکم موجود ہے: وَمَآ اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ ق وَمَا نَھٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْاج (الحشر۵۹:۷۔ جو کچھ تمھیں رسولؐ دے اسے لے لو اور جس چیزسے تم کو روک دے اس سے رک جائو۔)
اس میں یہ نہیں کہا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمھیں قرآن دیں تو لے لو اور حدیث دیں تو قبول نہ کرو‘ بلکہ حکم عام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو بھی حکم دیں اس کو لینا فرض ہے۔ قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(اے نبی! لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو‘ اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمھاری خطائوں سے درگزر فرمائے گا۔ وہ معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔ (اٰل عمران۳: ۳۱)
یہاں یہ نہیں کہا گیا کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو قرآن کے سلسلے میں میری اتباع کرو‘ بلکہ مطلقاً اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔ اس طرح جگہ جگہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔ اگر صرف قرآن پاک شریعت ہوتا تو پھر اطیعوا القرآن یا اطیعوا اللّٰہ کافی ہوتا۔ اطیعوا الرسول کے حکم کی الگ سے کوئی حاجت نہ ہوتی۔
اگر یہ بات مان لی جائے کہ جو حکم قرآن پاک میں نہیں ہے‘ وہ شریعت نہیں ہے تو پھر پانچ نمازیں اور ان کا طریقہ‘ ان کی رکعتوں کی تعداد‘اوقات کی تحدید میں سے کوئی چیز بھی شریعت نہ ہوگی۔ اس لیے کہ قرآن پاک میں ان میں سے کسی کی تفصیل نہیں ہے بلکہ حدیث اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے یہ چیزیں ثابت ہیں۔ قرآن پاک میں زکوٰۃ کا حکم ہے لیکن اس کے نصاب کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اس طرح حج کے احکام: کہ کب میدانِ عرفات میں پہنچنا ہے‘ وہاں کس وقت تک رہنا ہے‘ ایک آدمی کس وقت حج کو پائے گا اور کس وقت سمجھا جائے گا کہ اس کا حج اس سال فوت ہوگیا ہے۔ یہ ساری تفصیلات احادیث میں مذکور ہیں۔ اسی طرح قرآن پاک میں صرف چار چیزوں: مُردار‘ خون‘ خنزیر کے گوشت اور نذر لغیراللہ کو حرام قرار دیا گیا ہے‘ تو کیا سانپ‘ بچھو‘ کیڑے مکوڑے‘ درندے اور کتے سب حلال ہوں گے؟ اور کیا ان کی حرمت ماوراے شریعت قرار پائے گی؟ جواب ظاہر ہے کہ نہیں۔ یہ تمام چیزیںحرام ہیں اور شریعت میں ان کا ذکر کردیا گیا ہے۔
اُمت مسلمہ شروع سے نماز‘ روزے‘ حج‘ زکوٰۃ اور حلال و حرام اور زندگی کے دیگر معاملات میں ایک واضح اور مفصل نقشے کے مطابق زندگی گزار رہی ہے۔ یہ تفصیلی نقشہ حدیثِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور قطعاً اللہ کی شریعت ہے۔
۳- قرآن پاک کی آیت:اے نبی! تم کو تو ہم نے بس ایک بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا بناکر بھیجا ہے (الفرقان ۲۵:۵۶) کا مفہوم آپ نے یہ سمجھا ہے کہ رسول صرف بشارتیں اور ڈراوے دینے کے لیے آیا ہے۔ آپ کے نزدیک ہر حدیث میں اِنذار اور بشارت کا پہلو ہونا چاہیے ورنہ حدیث موضوع قرار پائے گی۔ آپ نے جو مفہوم سمجھا ہے اس سے تو ساری حدیثیں ہی نہیں بلکہ سارا قرآن بھی نعوذ باللہ موضوع بن جائے گا۔ آپ کے فہم کے مطابق تو ہرآیت قرآنی اور ہر حدیث انذار سے شروع اور بشارت پر ختم ہو ‘تو وہ قرآن کہلانے اور صحیح اور سچی حدیث ہونے کی مصداق ہوگی۔ یہ رویہ اور سوچ قرآن و سنت سے عدمِ واقفیت کی علامت ہے جو کہ درست نہیں۔
آیت کا مطلب یہ نہیں جو آپ نے سمجھا‘ بلکہ یہ ہے کہ آپ کا کام لوگوں کو بزور منوانا نہیں ہے بلکہ ان کو سمجھانا ہے‘ ان کو احکام کی تعمیل کی صورت میں جنت کی بشارت اور نافرمانی کی صورت میں دوزخ سے ڈرانا ہے۔ یہ معنی نہیں کہ دین کی دعوت‘ اس پر عمل‘ اس کی تنفیذ‘ اور حکمرانی قائم کرنے کے لیے جہاد آپ کے فرائض میں شامل نہیں ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں قرآن پاک نے صرف انھی دو صفات کا ذکر نہیں کیا بلکہ شاہد‘ بشیر‘ نذیر‘ داعی الی اللہ اور سراج منیر بھی آپ کے اوصاف ہیں (الاحزاب ۳۳: ۴۵-۴۶)۔ اسی طرح آپ مطاع بھی ہیں کہ ہر نبی کو اللہ تعالیٰ نے مطاع قرار دیا ہے۔ وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِط (النساء ۴:۶۴۔ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے‘ اسی لیے بھیجا ہے کہ اذن خداوندی کی بناپر اس کی اطاعت کی جائے)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں فرمایا گیا: مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ (النسائ۴:۸۰۔ جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے دراصل اللہ کی اطاعت کی)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمایا گیا: نہیں‘ اے محمدؐ!تمھارے رب کی قسم یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک آپ کو اپنے اختلافی معاملات میں حاکم نہ بنائیں۔ پھر اپنے دلوں میں آپ کے فیصلے پر کسی بھی قسم کی تنگی نہ محسوس کریں ‘ بلکہ سربسر تسلیم کرلیں۔ (النساء ۴:۶۵)
لَـقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُـوْلِ اللّٰہِ اُسْـوَۃٌ حَـسَنَۃٌ (الاحزاب ۳۳:۲۱۔ درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ تھا۔
’اسوہ‘ اس کو کہا جاتا ہے جس کی پیروی کی جائے۔ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی ایسی ہے جس کی پیروی کی جائے‘ نہ یہ کہ احکام قرآنی کی حد تک۔ آپ کا یہ کہنا کہ اس وقت جو احکام شریعت قرار پاگئے ہیں وہ قرآن کے مخالف ہیں۔ آپ نے وضاحت نہیں کی کہ قرآن پاک کے مخالف وہ احکام کون سے ہیں‘ پھر آپ نے اس کی مثال بھی نہیں دی۔ اس وقت قرآن و سنت کا نظام ملک میں نافذ نہیں ہے۔ لیکن شریعت صرف قرآن کا نام نہیں بلکہ سنت رسولؐ بھی شریعت کا حصہ ہے‘ اس بات کو تو پاکستان کے آئین میں بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ غیرمسلم بھی قرآن و سنت دونوں کو اسلام کا سرچشمہ سمجھتے ہیں۔
۴- آپ نے ان آیات کی کوئی مثال نہیں دی جن کو بقول آپ کے عام مسلمان نہیں مانتے اور منسوخ سمجھتے ہیں۔ البتہ میں نے بہت سی آیات بطور مثال پیش کر دی ہیں جن کی تکذیب اس وقت لازم آتی ہے‘ جب آپ کی طرح کی سوچ اختیار کی جائے۔ جو لوگ قرآن پاک کو مانتے ہیں لیکن حدیث رسولؐ کو نہیں مانتے وہ درحقیقت قرآن پاک کے بھی منکر ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور اتباع کے بھی۔ وہ اپنے آپ کو اور دوسروں کو دھوکا دیتے ہیں۔ قرآن پاک کے اتباع کے دعوے دار ہیں درآں حالیکہ قرآن پاک میں نبی کی اطاعت کا حکم ہے اور وہ نبی کی اطاعت سے انکار کرتے ہیں اور اس کے باوجود قرآن پاک کی اطاعت کے دعوے دار ہیں۔ درحقیقت ایسے لوگ قرآن پاک کے حکم اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ کا انکار کرکے‘ قرآن پاک اور نبی دونوں کی اطاعت کے دائرے سے نکل جاتے ہیں۔
آپ کے تمام سوالات کا حاصل یہ ہے کہ حدیث کا انکار کیا جائے‘ صرف قرآن پاک کو شریعت قرار دیا جائے۔ آپ کی یہ سوچ قطعاً قرآن پاک کے خلاف ہے۔ اس لیے آپ اپنے ان عقائد اور خیالات پر نظرثانی کریں۔ اس سلسلے میں‘ میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ آپ باقاعدہ طریقے سے علم دین حاصل کریں تاکہ آپ کو معلوم ہوجائے کہ قرآن پاک کیا کہتا ہے‘ حدیث رسولؐ کی ہدایات اور احکام کیا ہیں۔ دین کس شکل میں اترا اور کس شکل میں نافذ ہوا۔ جو علوم‘ اسلام کی بدولت ایجاد ہوئے ان کو سیکھیں۔ قرآن فہمی کے جو اصول اہلِ علم نے مرتب کیے ہیں ان سے باخبر ہوجائیں۔ حدیث رسولؐ کی شرعی حیثیت پر جو لٹریچر لکھا گیا ہے اس کا مطالعہ کریں‘ خصوصاً مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی کتاب سنت کی آئینی حیثیت کا بار بار مطالعہ کریں۔ ان سب علوم و فنون اور اصول استنباط پر عبور حاصل کرنے کے بعد‘ اگر کوئی کمی محسوس ہو تو پھر کسی صاحبِ علم کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔
جس دور میں اسلامی فقہ کی تدوین ہوئی مسلمان غالب و حکمران تھے‘ خواہ آبادی کے لحاظ سے وہ اکثریت میں ہوں یا اقلیت میں ہوں۔ دارالحرب میں مسلمانوں کی موجودگی کا تصور تھا مگر عارضی اور محدود۔ چنانچہ نہ مسلم اقلیت کی اصطلاح تھی نہ فقہ الاقلیات کی تقسیم۔
’فقہ الاقلیات ‘کی اصطلاح گذشتہ چند دہائیوں کے اندر وجود میں آئی اور رفتہ رفتہ خاصی اہمیت اختیار کرگئی۔ فقہ اسلامی کے ماہرین نے اسے بحث و تحقیق کا موضوع بنایا اور متعدد کتابیں‘ مقالے اور مضامین منظرعام پر آگئے۔ جن میں علامہ یوسف قرضاوی‘ ڈاکٹرطٰہٰ جابرعلوانی اورخالد محمدعبدالقادر کی کتابیں قابلِ ذکر ہیں۔ فقہ الاقلیات کے نہج پر عالمی سطح پر اجتہاد و تحقیق کے اجتماعی ادارے بھی قائم ہوئے جن میں سب سے نمایاں نام ’یورپین کونسل فار افتا اینڈ ریسرچ‘ کا ہے۔ اس ادارے نے مغربی ممالک میں رہنے والی مسلم اقلیتوں کی شرعی رہنمائی کے ذیل میں بہت سارے اہم فیصلے کیے۔ ہندستان میں اسلامک فقہ اکیڈمی کے بعض فیصلے بھی فقہ الاقلیات کے دائرے میں آتے ہیں۔
فقہ الاقلیات کا سادہ مفہوم یہ ہے کہ غیرمسلم معاشرے میں مسلمانوں کی شرعی رہنمائی‘ اس میںوہ رعایتیں بھی شامل ہیں جو غیرمسلم معاشرے اور غیراسلامی قانون کے تحت رہنے والے مسلمانوں کے مخصوص مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے فراہم کی جاتی ہیں‘ اور وہ پابندیاں بھی جو وہاں کے منفرد حالات کے پیش نظرمسلمانوں پر اضافی طور پر عائد ہوتی ہیں۔
فقہ الاقلیات عام اسلامی فقہ سے خارج یا اس کے لیے کوئی اجنبی چیز نہیں ہے بلکہ اسی سے مستفاد‘ اسی کا ثمرہ اور اسی کی ٹھوس بنیادوں پر استوار فقہ ہے۔ فقہ الاقلیات کی سب سے مضبوط بنیاد شریعت کا یہ مسلّمہ قاعدہ ہے کہ فقہ کے وہ احکام جن میں حالات اور نتائج کا اعتبار کیا گیا ہے‘ اگر حالات تبدیل ہو جائیں یا مطلوبہ نتائج تقاضا کریں تو ان میں تبدیلی ہوسکتی ہے۔ فقہ کی تاریخ میں اس قاعدے کے انطباق کی بے شمار مثالیں ہیں۔ بعض مسائل میں امام ابوحنیفہؒ کے شاگردوں نے ان کے بعد ان کے مسلک سے اختلاف کیا۔ علماے احناف نے ان کے بارے میں کہا کہ یہ اختلاف دلیل کے اختلاف کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ زمانے کے بدل جانے کا نتیجہ ہے۔
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ مدینہ کے گورنر تھے تو ایک گواہ کے ساتھ ایک قَسم کو کافی قرار دیتے تھے مگر شام آئے اور وہاں جھوٹ کو عام دیکھا تو فیصلے کے لیے دو گواہوں کا ہونا لازم قرار دے دیا۔
فقہا نے زمان و مکان اور حالات کے جس فرق کا اعتبار کیا ہے ‘ مسلم ممالک اور غیرمسلم ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کے حالات کا فرق اس سے کہیں زیادہ ہے اور اعتبار کا زیادہ شدت سے متقاضی ہے۔
شریعت کا ایک اور مسلّمہ قاعدہ ہے کہ ضرورت ممنوعات کو مباح کردیتی ہے۔ اس سلسلے میں علامہ یوسف قرضاوی کا تاثر ہے کہ فقہا نے افراد کی انفرادی ضرورتوں کا لحاظ تو کیا ہے مگر پورے معاشرے کی اجتماعی ضرورتوں کا لحاظ بہت کم کیا گیا ہے۔ مسلم اقلیت جن اضطراری حالات سے دوچار ہوتی ہے ان کا اعتبار فقہ الاقلیات کا اہم حصہ ہے۔
شریعت کا ایک مسلّمہ قاعدہ سدّذرائع کا بھی ہے‘ یعنی مفاسد سے بچنے کے لیے ان مباحات سے پرہیز جو جائز ہونے کے باوجود شرکے ارتکاب کا سبب ہوسکتے ہیں۔ فقہ الاقلیات میں ایسے مباح امور کی شدت سے نگرانی کی جاتی ہے۔ کیونکہ مسلم معاشرے کے بہ نسبت غیرمسلم معاشرے میں مفاسد کے فروغ کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
فقہ الاقلیات یسرّوا ولا تعسّروا کے اصول پر عمل پیرا ہوتی ہے۔ شریعت پر عمل کو دشوار بنانے کے بجاے آسان بنانا پیش نظر ہوتا ہے۔ علامہ قرضاوی کا خیال ہے کہ صحابہ و تابعین دین میں آسانی کا مزاج رکھتے تھے۔ بعد میں دین میں احتیاط کا مزاج بڑھتا گیا اور دین پر آسانی کے بجاے احتیاط غالب آگئی۔ فقہ الاقلیات میں صحابہ کے رویے کی طرف پلٹنے پر زور دیا جاتا ہے۔
فقہ الاقلیات اصولوں میں بھی اور جزئیات میں بھی عام اسلامی فقہ سے ہی مستفاد ہے۔ البتہ اس میں کسی ایک مسلک کی پابندی نہیں کی جاتی ہے بلکہ اسلامی فقہ کا پورا ذخیرہ اس کے سامنے رہتا ہے۔ نہ صرف وہ فقہی اقوال جن پر اُمت عمل پیرا ہے بلکہ فقہاے اُمت کے وہ اقوال بھی جو کسی وجہ سے اُمت میں مقبول نہیں ہوئے مگر آج ان سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ صحابہ کرامؓ سے منقول اقوال و فتاویٰ بھی اہمیت کے حامل ہیںخواہ کسی مسلک کے امام نے ان کو اختیار نہ کیا ہو۔ بنیادی امر یہ ہے کہ دلائل‘ احکام کے نتائج‘ شریعت کے مقاصد اور وہ حالات جن میں شریعت کا نفاذ ہونا ہے ان سارے امور کا مجموعی تقاضا جو ہو اسے اختیار کیا جائے۔ کسی ایک مسلک کی تقلید پر مکمل جمود حالات کے تبدیل ہوجانے پر عام اسلامی معاشرے کے لیے سودمند نہیں ہوسکتا ہے۔ چہ جاے کہ مسلم اقلیتوں کے لیے جن کے حالات حددرجہ مخصوص نہیں ہیں۔
یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ فقہ الاقلیات شریعت کے احکام سے فرار کے لیے زیربحث نہیں آیا‘ اس کا محرک احکام الٰہی کے سلسلے میں رعایت کا جذبہ نہیں ہے‘ بلکہ یہ تو اس وقت زیربحث آیا جب بطور خاص مغرب میں قیام پذیر مسلمانوں میں دین پر عمل کا جذبہ بیدار ہوا اور ان کو یہ احساس ہوا کہ گذشتہ ایک یا دو نسلوں کی غفلت کے باعث وہ دین کی عظیم نعمت کو کھوتے جارہے ہیں۔ بیداری کے اس مرحلے میں انھیں یہ احساس ہوا کہ شریعت پرعمل پیرا ہونے کے راستے میں ان کے سامنے متعدد رکاوٹیں ہیں جن کا حل تلاش کرنا ناگزیر ہے۔ فقہ الاقلیات میں رکاوٹوں اور مسائل کو دور کرکے شریعت پر عمل کو یقینی بنانے کی راہیں تلاش کی جاتی ہیں۔اس کو یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ بیمار کو تیمم کی رعایت وضو سے بچانے کے لیے نہیں دی جاتی ہے بلکہ اس لیے دی جاتی ہے کہ نماز کی ادایگی کو یقینی بنایا جاسکے۔ فقہ الاقلیات میں جوبھی رعایتیں دی جاتی ہیں وہ صرف اس لیے کہ شریعت پر عمل آسانی کے ساتھ ہوسکے‘ اور یہ رعایتیں بھی وہی ہوتی ہیں جو شریعت خود عطاکرتی ہے۔ مگر ہمارا جمود اس کے سامنے حائل ہوگیاہے۔
فقہ الاقلیات ایک متحرک فقہ ہے۔ اس میں دعوتی عنصر شامل بلکہ حاوی ہے۔ اس میں مسلم اقلیت کی یہ حیثیت پیش نظر رہتی ہے کہ وہ اسلامی اور غیراسلامی معاشرے کے درمیانی دعوتی تعلق کا سب سے اہم اور مؤثر ذریعہ ہے۔ چنانچہ اس فقہ میں مسلم اقلیت کے غیرمسلم اکثریت کے ساتھ روابط پر گفتگو کی جاتی ہے اور ایک مثبت اور دعوتی رویہ اپنانے پر زور دیا جاتا ہے۔
دیگر اقلیتوں کے بالمقابل مسلم اقلیتیں چوں کہ ہر جگہ اکثریت کے مقابلے میں معاشی‘ تعلیمی اور سیاسی لحاظ سے کمزور اور پس ماندہ ہی ہوتی ہے۔ فقہ الاقلیات میںاس پہلو پر بھی زور دیا جاتا ہے کہ ہمارے وہ فتوے جو اجتہادی نوعیت کے ہوتے ہیں‘ ساتھ ہی مختلف فیہ بھی ہوتے ہیں‘ ان پر اصرار ان مسلمانوں کی پس ماندگی میں مزید اضافہ نہ کرے بلکہ ان کی معاشی‘ تعلیمی اور سیاسی ترقی کی ضرورت کو معتبر ضرورت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔
فقہ الاقلیات میں بہت سارے ایسے مسائل بھی زیربحث آئے ہیں جن کا تعلق ایسے ممالک کے جغرافیائی حالات سے ہے جہاں عموماً مسلم اقلیتیں ہی رہتی ہیں۔ مثال کے طور پر ان علاقوں میں عشاء کی نماز کا مسئلہ جہاںمغرب کا وقت ختم ہوتے ہی فجر طلوع ہوجاتی ہے یا وہ علاقے جہاں عشاء کا وقت رات گئے شروع ہوتا ہے یا وہ علاقے جہاں روزے کے لیے مقرر وقت ۲۰گھنٹے کا ہوجاتا ہے۔ ان مسائل کا تعلق مسلمانوں کے اقلیت میںہونے سے نہیں ہے مگر چوںکہ عملاً ایسے علاقوں میں مسلمان اقلیت میں ہیں اس لیے فقہ الاقلیات میں یہ مسائل بھی زیربحث آتے ہیں۔
فقہ الاقلیات میں اب تک جو اہم مسائل زیربحث آئے ہیں ان میں سے چند یہ ہیں: کیا نومسلم اپنے غیرمسلم رشتہ دار کا وارث بن سکتا ہے یا وہ اس جایداد کو چھوڑ دے کہ غیرمسلم حکومت اسے اپنے قبضے میں کرلے؟ کیا ایک نومسلم عورت کے لیے اپنے غیرمسلم شوہر کے گھر کو چھوڑ دینا فوراً ضروری ہے یا اسے موقع ملنا چاہیے کہ وہ اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ رہ کر دین کی تبلیغ کرے؟ کیا مسلمان مرد عیسائی یا یہودی عورت سے غیرمسلم ملک میں رہتے ہوئے شادی کرسکتا ہے یا اس پر بطور خاص پابندی لگائی جائے کہ اس صورت میں بچے یقینی طور پر غیرمسلم ماں اور اس ماحول سے متاثر ہوں گے‘ جب کہ مسلم معاشرے میں رہ کر ایسی شادی کی اجازت شریعت دیتی ہے؟ انتخابات میں حصہ لینے کا مسئلہ بھی فقہ الاقلیات کے دائرے میں آتا ہے۔ یہ اور ایسے دوسرے بہت سے مسائل دورِ جدید کے علما کو غوروفکر کی دعوت دیتے ہیں۔
۴۲ سالہ اسماعیل عبدالسلام احمد ھنیہ ۶ستمبر ۲۰۰۳ء کا ایک واقعہ سناتے ہوئے کہہ رہے تھے: ’’میں شیخ المجاہدین احمد یاسین کے ہمراہ ابوراس کے علاقے میں ڈاکٹر مروان بھائی کے ہاں دعوت پہ گیا۔ ہم دوپہر کے کھانے سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ اچانک اسرائیلی فضائیہ کے ایف-۱۶ جہاز فضا میں نمودار ہوئے اور ہم پر بم باری شروع کر دی۔ اس حملے کے بعد ہر طرف گردوغبار کی دبیز چادر تن گئی‘ گھپ اندھیرا چھا گیا۔ کسی کو کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ غبار چھٹا تو معلوم ہوا کہ جس گھر میں ہم تھے اس کے اوپر کی منزلیں تباہ ہوگئی ہیں‘ اینٹ سے اینٹ بج گئی ہے لیکن اللہ کا شکر ہے کہ ہم سب اور اہلِ خانہ محفوظ رہے‘‘۔
کسے معلوم تھا کہ اس واقعے کے اڑھائی سال بعد یہی اسماعیل ھنیہ فلسطینی اتھارٹی کے منتخب وزیراعظم ہوں گے۔ تحریکِ حماس کو حاصل فلسطینی عوام کی بھاری حمایت پوری دنیا کو نظر آجائے گی اور مشرق وسطیٰ کا مستقبل خالد المشعل (جو خود بھی سنگین قاتلانہ حملے کا شکار ہوچکے ہیں) کی قیادت میں اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کا مرہونِ منت ہوجائے گا۔
دنیا انگشت بدنداں ہے کہ جو یہودی لابی سوپرپاور امریکا سمیت پورے عالم پر اثرانداز ہونے کا زعم رکھتی ہے‘ جس کے پاس جدید ترین مہلک ہتھیاروں کے انبار ہیں‘ جس کی قیادت وحشیانہ حد تک مظالم ڈھانا اپنا حق دفاع سمجھتی ہے‘ جس پر ہمیشہ امریکی سرپرستی کی چھتری تنی رہتی ہے اور ڈالروں کا دبیز غالیچہ بچھا رہتا ہے‘ دنیابھر کے ذرائع ابلاغ اس کی مٹھی میں ہیں اور بہترین پالیسی ساز ہمیشہ جس کا دم بھرتے ہیں‘ وہ کیوںکر اپنی ناک کے نیچے وقوع پذیر ’حادثۂ عظیم‘ کو نہ روک سکی۔حماس کی جیت کے بعد اسرائیلی بائیں بازو کی ’میرٹس‘ پارٹی کا بانی یوسی سریڈ چلّا اُٹھا: ’’ان لوگوں نے یاسرعرفات سے جنگ کی‘ اسے تنہا کردیا اور اب ہمیں اس کے بجاے حماس کے ’دہشت گردوں‘ کا سامنا کرنا پڑرہا ہے‘‘۔ اسی پارٹی کی پارلیمانی لیڈر زہافا غلئون نے بیان دیا: ’’ہمیں یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ حماس کی جیت ہم سب کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ممکن ہوئی۔ مشرق وسطیٰ کا بحران حل کرنے میں شریک تمام فریقوں نے فلسطینیوں سے بدسلوکیاں کیں ‘ان پر اجتماعی پابندیاں عائد کیں‘ان کی حکومت سے ناممکن العمل مطالبات کیے‘ یہاں تک کہ فلسطینی عوام مایوس ہوگئے‘اور انھوں نے حماس کو اپنا نمایندہ مان لیا۔ مجھے کوئی امید نہیں کہ مستقبل قریب میں حماس اپنی پالیسیوں میں کوئی تبدیلیاں کرے گی‘‘۔ یوسی نے مطالبہ کیا کہ اسرائیل کو ۱۹۶۷ء کے بعد قبضہ کیے جانے والے تمام فلسطینی علاقے خالی کرکے ان کا انتظام چار رکنی کمیٹی (یعنی امریکا‘ روس‘ یورپی یونین اور اقوام متحدہ) کے سپرد کردینا چاہیے۔
حماس کی جیت کا تجزیہ اور مستقبل کے امکانات کا جائزہ شاید دنیا کے ہر لکھاری‘ تجزیہ نگار‘ سیاست دان اور پالیسی ساز نے لیا ہے لیکن ایک بات جس پر تمام غیرمتعصب جائزہ لینے والوں کا اجماع ہوگا‘ وہ یہ ہے کہ حماس کی جیت میں سب سے زیادہ حصہ تحریکِ حماس کی بے تحاشا قربانیوں‘ صبر اور جہدِمسلسل کا ہے۔ حماس نے ۱۹۸۷ء میں اپنی باقاعدہ تشکیل کے بعد ہی نہیں سرزمینِ فلسطین پر یہودی ریاست کے وجود سے بھی پہلے انگریزی تسلط کے عہد سے ہی اپنا جہاد شروع کر دیا تھا۔ اب تحریکِ حماس کے بازوے شمشیرزن کا نام ہی عزالدین القسّام سے منسوب ہے جنھوں نے ۱۹۲۵ء میں پانچ پانچ افراد پر مشتمل جہادی گروپ تشکیل دے کر انھیں انگریزوں سے آزادی کی خاطر فیصلہ کن معرکے کے لیے تیار کرنا شروع کردیا تھا‘ لیکن ایک قبل از وقت معرکے میں گھِر گئے اور ۲۰نومبر ۱۹۳۵ء کو جامِ شہادت نوش کرگئے۔ چلتے چلتے یہ سلسلہ شیخ احمد یاسین اور چند روز کی ایمان تک پہنچا کہ جس کا سینہ اس کی والدہ کی آغوش میں دشمن کی ایک گولی نے چھیددیا تھا۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود حماس کی قیادت ہی نہیں اس کی خواتین‘ اس کے بوڑھوں اور بچوں نے بھی جہاد اور شہادت و قربانی کے راستے سے ہٹنا قبول نہ کیا۔ ۱۳۲ ارکان پر مشتمل حالیہ پارلیمنٹ میں ان شہادتوں کے امین ۷۶ ہیرے منتخب ہوئے ہیں۔ ان میں نہ صرف گرم سرد چشیدہ بوڑھے اور مَسیں بھیگتے نوجوان ہیں بلکہ اپنے بڑھاپے کے سہارے بیٹوں اور رونق حیات شوہروں کو شہادت کی راہ پر رخصت کرنے والی خواتین بھی ہیں۔ ان میں سے شاید ہر فرد ہی گوہرنایاب ہوگا لیکن بعض ہستیاں افتخارِ انسانیت ہیں جیسے اُم نضال جن کا ذکر آگے آئے گا۔
حماس نے اپنے صبروثبات کا مظاہرہ صرف الیکشن کی منزل تک پہنچنے کے لیے نہیں کیا بلکہ اس سیاسی معرکے کے ساتھ ہی ساتھ اپنے جہاد کو بھی تب تک جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے‘ جب تک فلسطینی عوام کو ان کے کامل حقوق حاصل نہیں ہوجاتے۔ حماس کے ترجمان اور نومنتخب رکن پارلیمنٹ مشیرالمصری کے الفاظ میں: ’’حماس کسی صورت ہتھیار نہیں ڈالے گی‘ کسی صورت جہاد اور مزاحمت کی راہ کھوٹی نہیں ہونے دے گی اور کسی صورت اپنے عسکری بازو سے دست بردار نہیں ہوگی‘‘۔ خالدالمشعل نے بھی قاہرہ پہنچنے پر یہی الفاظ دہرائے کہ ’’فلسطینی عوام کے غصب شدہ حقوق کے حصول‘ القدس کی آزادی‘ فلسطینی مہاجرین کی وطن واپسی اور تمام قیدیوں کی رہائی تک ہم کسی صورت اپنی مزاحمت اور جہاد سے دست بردار نہیں ہوں گے‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ حماس کی جیت اور تشکیلِ حکومت سے اسرائیلی اور امریکی قیادت میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔ وہ مسلسل بیان دے رہے ہیں کہ ’’حماس کی حکومت بنی تو ہم مالی امداد بند کردیں گے‘‘۔ سعودی عرب اور ایران کو خبردار کر رہے ہیں کہ اگر تم نے امداد دی تو تمھیں بھی خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ شارون کے بسترمرگ پر نشانِ عبرت بن جانے کے بعد عارضی طور پر وزارتِ عظمیٰ سنبھالے ہوئے ایہود اولمرٹ اور اس کا وزیردفاع شاؤول موفاز چنگھاڑتے ہوئے کہتے ہیں: ’’اگر حماس نے خودکش حملے جاری رکھے‘ اسرائیلی آبادی پر القسّام راکٹ برسائے گئے اور حماس نے اپنے مجاہدین کو لگام نہ دی تو اسے جان لینا چاہیے کہ اس کے ذمہ داران کا وزرا یا ارکانِ پارلیمنٹ بن جانا ان کی حفاظت نہیں کرسکے گا۔ وہ کوئی چھوٹا ہو یا بڑا‘ ہم اسے اپنی ٹارگٹ کِلنگ کا نشانہ بنانے میں ایک لمحے کا تردد نہیں کریں گے‘‘۔(الشرق الاوسط‘ ۳۰ جنوری ۲۰۰۶ئ)
حماس کے سربراہ خالد المشعل نے ۸ فروری کو دورئہ قاہرہ کے دوران پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاکہ: ’’انتخابات میں حماس کی شرکت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اب جہاد و مزاحمت کے مرحلے سے نکل کر اقتدار و سیاست کے خانے میں آگئی ہے۔ ہم نے جمہوری عمل میں صرف اس لیے حصہ لیا ہے تاکہ ہم اندر سے بھی اپنے گھر کی اصلاح کرسکیں‘کرپشن کا خاتمہ کرسکیں اور داخلی امن و امان کی صورت بہتر کرسکیں‘ لیکن کسی کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہماری تحریک اسرائیلی قبضے کے خلاف قائم ہوئی ہے اور جب تک اس کا خاتمہ نہیں ہوجاتا‘ ہم مزاحمت کا حق باقی رکھتے ہیں‘‘۔ انھوں نے اسرائیلی عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’’تمھارے سامنے دو ہی راستے ہیں یا تو مقبوضہ فلسطینی سرزمین سے نکل جائو یا پھر ایک طویل معرکے کے لیے تیار ہوجائو جس میں کامیابی اللہ کے حکم سے ہماری ہی ہوگی‘‘۔
انتخابات میں بھاری کامیابی کے بعد حماس کو زیادہ کڑی آزمایش کا سامنا ہے۔ اسرائیلی افواج و تسلط کا مقابلہ تو وہ ہمیشہ سے کرتے آئے ہیں‘ لیکن اب انھیں فلسطینی عوام کی نمایندہ حکومت (جس کا کوئی آزاد ملک نہیں) کے طور پر پوری عالمی برادری سے بھی معاملہ کرنا ہے‘ فلسطینی اتھارٹی کے اُس صدر سے نباہ کرنا ہے جو امریکا و اسرائیل کے پسندیدہ ہیں‘فلسطینی لُغت سے جہاد اور مسلح جدوجہد کا لفظ نکالنا چاہتے ہیں اور جنھوں نے موجودہ پارلیمنٹ کے افتتاحی خطاب میں بھی باصرار کہا ہے کہ ’’ہم اسرائیل کے ساتھ مذاکرات‘ بہتر تعلقات اور سیاسی عمل کے ذریعے معاملات طے کریں گے‘ نئی حکومت کو بھی اسرائیل کے ساتھ ہمارے معاہدات کی روشنی میں ہی آگے بڑھنا ہوگا‘‘۔
حماس کے سامنے اصل اور گمبھیر چیلنج فلسطینی حکومت کے اندر پائی جانے والی کرپشن کا سدباب‘ حق زندگی سے محروم فلسطینی عوام کی ممکنہ حد تک خدمت اور ایک فعال‘ شفاف‘ مؤثر اور امانت دار نظامِ حکومت تشکیل دینا ہے۔امریکی اور اسرائیلی ذرائع ابلاغ سے آنے والی رپورٹوں اور بیانات سے یہ عیاں ہو رہا ہے کہ‘ وہ حماس کے اس پورے تجربے کوناکام کرنے کی کوشش کریں گے۔ وہ اس کی خاطرفلسطینی حکومت کو ملنے والی مالی امداد بند کریں گے‘ فلسطینیوں پر مزید پابندیاں عائد کریں گے‘ الفتح اور دیگر تنظیموں کے ساتھ حماس کے اختلافات کو ہوا دیں گے اور مسلم حکومتوں کی طرف سے حماس کو مدد کی بجاے دبائو ڈلوائیں گے اور پھر حماس کے خلاف بالخصوص اور اسلامی تحریکوں کے خلاف بالعموم یہ پروپیگنڈا کیا جائے گا کہ یہ لوگ ریاست چلانے میں ناکام رہتے ہیں۔ پھر اسی آڑ میں دوبارہ انتخابات کا ڈول ڈالا جاسکتا ہے جس میں حماس مخالف تمام عناصر مجتمع ہوں اور اس طرح پرانی ڈگر پر نئی فلسطینی حکومت قائم کر دی جائے۔ لیکن حماس کی قیادت مکمل اطمینان سے سرشار ہے۔ مالی پابندیوں کی بات آتی ہے تو حماس کا ترجمان کہتا ہے: ’’رزق امریکا یا یورپ کے ہاتھ میں نہیں‘ اللہ کے ہاتھ میں ہے اوروہ اپنے بندوں کے درمیان کامل حکمت سے تصرف کرتا ہے۔ ہمارے عوام نے ۲۵جنوری کے انتخابات میں اسلام کے حق میں راے دی ہے اوراسلام کی نعمت عطا کرنے والا رب انھیں رسوا نہیں کرے گا‘ بلکہ وہاں وہاں سے رزق دے گا جہاں ان کا گمان بھی نہیں پہنچا ہوگا‘‘۔
اس سوال کا فنی اعتبار سے اور حقائق پر مبنی جواب دیتے ہوئے ورلڈ بنک کے ایک سابق فلسطینی مشیر رامی عبدہٗ نے لکھا ہے کہ: ’’امریکا جس مالی مدد کو بند کرنے کی دھمکی دے رہا ہے وہ عملاً گذشتہ سال ستمبر سے موقوف ہے۔ اُس وقت فلسطینی انتظامیہ نے اپنی سیکورٹی فورسز کی تنخواہوں میں اضافہ کر دیا تھا جس سے اس مد میں خرچ ہونے والی ۵۷ ملین ڈالر کی رقم ۸۰ ملین ڈالر تک جاپہنچی تھی۔ اس پر امریکا اور یورپ کی طرف سے ملنے والی امداد بند کر دی گئی۔ رامی عبدہٗ نے مزید کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کی مالی امداد کا ۶۵ فی صد حصہ تو صرف عرب لیگ کی دو مدات ’القدس فنڈ‘ اور ’الاقصیٰ فنڈ‘ سے حاصل ہوتا ہے‘ جب کہ امریکا کی طرف سے ملنے والی مدد صرف ۱۰ فی صد بنتی ہے اور یہ امداد بھی مختلف این جی اوز کی وساطت سے دی جاتی تھی اور اصرار کیا جاتا تھا کہ اسے صرف ’ترویج جمہوریت پروگرام‘ اور ’مساوات مردوزن‘ جیسے غیرترقیاتی اخراجات میں صرف کیا جائے۔
رامی عبدہٗ نے انکشاف کیا کہ امریکا کی طرف سے‘ فلسطینی اتھارٹی کو اس کی تاسیس سے لے کر اب تک جتنی امداد دی گئی ہے‘ وہ صرف ایک سال میں اس کی طرف سے اسرائیل کو دی جانے والی امداد سے کہیں کم ہے۔ یورپی ممالک کی طرف سے ملنے والی امداد کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ ممالک جو مدد ایک ہاتھ سے دیتے ہیں‘ وہ دوسرے ہاتھ سے واپس لے لیتے ہیں‘ کیونکہ وہ ان کے بدلے مشیروں اور ماہرین کے نام پر اپنے لوگوں کی فوج ہم پر مسلط کردیتے ہیں‘ ان کی بھاری بھرکم تنخواہیں یہ مدد ہڑپ کرجاتی ہیں۔ رامی عبدہٗ کا کہنا ہے‘ کہ مفادات کے وسیع جال کے باعث یورپی ممالک کے لیے امداد کا یہ سلسلہ بند کرنا بہت مشکل ہوگا۔ لیکن پھر بھی فلسطینی اتھارٹی کو ہر صورت حال کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
رامی نے فلسطین کے بارے میں ورلڈ بنک کے علاقائی ڈائرکٹر نایجل رور بورٹ کی رپورٹ میں سے بھی ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ کیا‘ جس میں انھوں نے کہا تھا: ’’فلسطینیوں کو دی جانے والی کوئی مالی امداد‘ تب تک کوئی فائدہ نہیں دے سکتی‘ جب تک یہاں پائی جانے والی بدعنوانی کا خاتمہ اور قانونی اصلاحات نہیں کی جاتیں‘‘۔
انتخابی نتائج آجانے کے بعد فلسطینی اٹارنی جنرل نے خود اس کرپشن کا اعتراف کیا ہے۔ اس نے ۵۰ سودوں میں ۷۰۰ ملین ڈالر کی کرپشن کے ثبوت پیش کیے جن میں سے صرف ایک سودے میں ۳۰۰ ملین ڈالر کی بدعنوانی کی گئی تھی۔ تجزیہ نگار اس اچانک اعتراف پر بھی حیران تھے کہ آخر نتائج آنے کے چند روز میں یہ ساری تحقیقات کیوں کر مکمل ہوگئیں؟ لیکن پھر عقدہ کھلا کہ وہ چاہتے تھے کہ حماس کے آنے اور اس وقت بدعنوانی کے اسکینڈل سامنے آنے سے بہتر ہے کہ خود ہی اس کا اعلان کر دیا جائے۔
اپنے مستقبل کے بارے میں حماس کی قیادت کے اطمینان کا ایک بڑا سبب یہی مالی بدعنوانیاں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم اگر صرف حکومتی سطح پر پائی جانے والی بدعنوانی ہی کو روکنے میں کامیاب ہوگئے‘ تو ہمارے آدھے مسائل حل ہوجائیں گے اوران شاء اللہ فلسطینی عوام کو مالی وسائل کی کوئی کمی نہیں رہے گی۔
حماس کی حکومت کو درپیش ایک مسئلہ اختیارات کے تعین اور الفتح کے ساتھ تعلقات کا بھی ہے۔ اس بارے میں حماس کا مختصر مطالبہ یہ ہے کہ صدر محمود عباس (ابومازن) ہمیں صرف وہ اختیارات دے دیں جو وہ خود وزیراعظم کی حیثیت سے صدر یاسرعرفات سے طلب کیا کرتے تھے۔ رہی الفتح تنظیم تو ہم پوری فلسطینی قوم کو ایک ہی کشتی کا سوار سمجھتے ہیں اور پوری قوم کی تمام تر مزاحمت فلسطین پر قابض صہیونی افواج ہی کے لیے وقف کرنا چاہتے ہیں۔ ہم الفتح کو بھی حکومت میں شامل کرکے قومی حکومت تشکیل دینے کو ترجیح دیں گے۔ وزیراعظم اسماعیل ھنیہ نے مبارک باد دینے کے لیے آنے والے وفود کو مخاطب ہوتے ہوئے انھیں شیخ احمد یاسین کی یہی بات یاد دلائی کہ ’’اپنے فلسطینی بھائیوں کے بارے میں ہماری پالیسی ہمیشہ وہی رہے گی جو قرآن کریم نے آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں میں سے فرزندِصالح کی پالیسی بیان کی کہ لَئِنْ بَسَطْتَّ اِلَیَّ یَدَکَ لِتَقْتُلَنِی مَا أَنَا بِبَاسِطٍ یَدِیَ لَاقْتُلَکَ(المائدہ۵:۲۸) ’’اگر تم مجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ اٹھائو گے تب بھی میں تمھیں قتل کرنے کے لیے ہرگز اپنا ہاتھ نہیں اٹھائوں گا‘‘۔ اسماعیل ھنیہ نے اقتصادی پابندیوں اور اپنے اصولوں میں سے کسی ایک چیز کو پسند کرنے کے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’خدا کی قسم! ہم فلسطینی زیتون کے تیل اور چٹنی پر گزارا کرلیں گے‘ لیکن آزادیِ فلسطین کے بارے میں اپنے موقف سے دست بردار نہیں ہوں گے۔ مالک الملک رب ذوالجلال ہے‘ کوئی دنیاوی قوت نہیں‘‘۔
ایمان کی یہی حرارت و حلاوت ہمیں دیگر ارکانِ پارلیمنٹ اور قائدین و کارکنانِ حماس کی زندگی میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ جس فلسطینی باوقار و ضعیف خاتون اُم نضال کا حوالہ ابھی گزرا ہے وہ تین شہدا کی ماں ہے۔ فلسطین میں انھیں فلسطینی خنساء کا نام دیا جاتا ہے۔ ان سے ملنے والے اکثر صحافیوں کا کہنا ہے کہ ان سے ملتے ہوئے زبان گنگ اور الفاظ و حروف غائب ہوجاتے ہیں۔ بس ایک نورانی ہالہ ہوتا ہے اور مخاطب اس میں کھو جاتا ہے۔ وہ بھی بھاری اکثریت سے رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئی ہیں۔ انھوں نے ایک ایک کرکے اپنے تین بیٹوں کے سر شہادت کا سہرا باندھنے کے علاوہ سال ہا سال تک اپنے سب بچوںکی اسیری کا عذاب بھی برداشت کیا ہے۔ ان اسیرانِ اقصیٰ میں سے وہ خاص طور پر اپنے بیٹے وسام کا ذکر کرتی ہیں جس کی اسیری کے دوران ہی اس کے والدفوت ہوگئے‘ اس کے بھائی شہید ہوگئے اور وہ کسی کا چہرہ نہیں دیکھ سکا۔
اپنے بیٹوں کا ذکر کرتے ہوئے اُم نضال کہتی ہیں: ’’اللہ کے فضل سے میرے سب بیٹے جہاد میں شریک ہیں۔ میرا بیٹا نضال اور اس کے ساتھی ہمارے گھر ہی میں ’القسّام
جب میرے بیٹے محمد کو اطلاع دی گئی کہ کارروائی کے لیے اس کا نام چُنا گیا ہے تو وہ خوشی سے جھوم اُٹھا۔ میں نے اسے مبارک باد دی اور کہا کہ مجھے یقین ہے کہ تمھاری کارروائی کامیاب ہوگی حالانکہ یہ اسرائیلی عسکری اکیڈمی کے اندر ہونا تھی اور بے حد مشکل تھی۔ میرا بیٹا گھر سے نکلا تو میں نے خود کو دعائوں اور نوافل کے لیے وقف کرلیا تاکہ وہ کامیاب ہوجائے۔
اللہ کا شکر ہے کہ میرے بیٹے کی آرزو اور ہماری دعائیں پوری ہوئیں۔ محمد فرحات نے آدھ گھنٹے تک دشمن پر گولیاں برسائیں اور ۱۰ فوجی قتل کیے( جن میں اکیڈمی کا سربراہ بھی شامل تھا) اور ۳۰زخمی کیے۔ یہودی فوجیوں کا گمان تھا کہ یہ کارروائی فردِواحد نے نہیں پورے گروپ نے کی ہے۔ مجھے خبرملی تو ایک بار دل غم میں ڈوب گیا‘ لیکن پھر میں نے خود کو سنبھالا اور اللہ نے ہماری شہادت قبول کرلی۔ اس سب کچھ کے باوجود اُم نضال کا اصرار ہے کہ میں نے جو کچھ کیا وہ ایک بڑے فریضے اور اعلیٰ مقصد کی خاطر‘ چھوٹی سی قربانی ہے‘ اور وہ دیگر فلسطینی خواتین ہی کی طرح ایک خاتون ہیں جو آزادیِ اقصیٰ کے لیے ہر قربانی کو ہیچ سمجھتی ہیں۔
اُم نضال جیسے ارکان پرمشتمل فلسطینی پارلیمنٹ یقینا اسرائیل و امریکا کے لیے ایک بڑا کڑوا گھونٹ ہے جو اسے بہرصورت برداشت کرنا ہوگا۔ اور پارلیمنٹ میں ان قدسی نفوس کا وجود‘ ان تمام خدشات کا خاتمہ کرتا ہے کہ شاید حماس بھی حکومت کی خاطر سودے بازی کرلے ‘ جہاد کو پس پشت ڈال دے یا اپنے اصل ہدف‘ آزادیِ اقصیٰ کو دل و نگاہ سے اوجھل کردے یا یہ کہ کہیں میدانِ جہاد کی خوگر حماس حکومت چلانے میں ناکام نہ ہوجائے۔ مالی و سیاسی مشکلات اس کی راہ کھوٹی نہ کردیں۔ اُمت کے لیے یہ وقت مخلصانہ دعائیں کرنے کا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ حماس کے مقدمے کو ہرجگہ پیش کرتے رہنا چاہیے‘ نیز آزادیِ اقصیٰ کے جہاد میں مالی تعاون بھی پیش کرنا ہے خواہ یہ کتنا ہی حقیر کیوں نہ ہو۔
’ہم ماں کا کردار ادا کرنا چاہتی ہیں!‘ فرانس کی خواتین میں یہ نعرہ دن بدن مقبول ہوتا جارہا ہے۔ بادی النظر میں فرانسیسی خواتین کا یہ نعرہ یورپ میں ایک نئے تنازعے کا آغاز محسوس ہوتا ہے۔ اس لیے بھی کہ گذشتہ صدی کے نصف اوّل میں فرانس ہی تحریکِ نسواں کا سب سے بڑا علَم بردار تھا اور اب یہ وہی فرانس ہے جہاں عورتوں کے سب سے بڑے مجلے میں رپورٹ شائع ہوئی ہے جس کا عنوان ہے: (نرید أن نکون امھات) ہم ماں کا کردار ادا کرنا چاہتی ہیں۔
فرانسیسی منظرنامے پر ایک نظر ڈالیں تو یہاں وقوع پذیراور ہرلمحہ بدلتے حوادث کا آپس میں گہرا اور مربوط تعلق دکھائی دیتا ہے۔ آج کا فرانسیسی معاشرہ انتہائی تناقضات کا شکار ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس کی وجہ حکومتِ فرانس کی مختلف ثقافتوں اور نسلوں کے لیے کھلی پالیسی (open door policy) ہو۔ بعض لوگوں کے نزدیک یہ اس لیے ہے کہ قانونی اور غیرقانونی مہاجرین اچھی ملازمت اور محفوظ مستقبل کے لیے کثرت سے فرانس کا رخ کرتے اور اسے جاے قیام بناتے ہیں۔ فرانسیسی قوانین کے مطابق سرزمین فرانس پر تین برس گزار لینے والے ہر فرد کو شہریت دے دی جاتی ہے اور فرانس میں پیدا ہونے والے بچوں کے لیے تو اور بھی نرمی ہے۔ یہاں تک کہ اگر اس کے والدین بے روزگار ہوں تو بچے کو ماہانہ وظیفہ ملتا ہے۔ شاید اسی وجہ سے دوسرے ممالک سے آنے والے مہاجرین کے سیلاب کا بیش تر رخ فرانس کی جانب ہے اور یوں فرانس رنگارنگ ثقافتوں اور قومیتوں کا مجموعہ بن چکا ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ فرانس کی اپنی اصل شناخت اور تشخص بالکل ہی معدوم ہوچکا ہے۔
فرانسیسیوں کی اصل مشکلات: فرانسیسی اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ان کی مشکلات کا اصل منبع رنگارنگ ثقافتیں اور دیگر قومیتیں نہیں بلکہ سماجی مشکلات کا اصل سبب اقتصادیات ہے۔ وہ ادارے اور کارپوریشن جن پر کبھی فرانس فخر کیا کرتا تھا‘ نج کاری کی دیوانگی کا شکار ہیں۔ اسی نج کاری کا شاخسانہ تھا کہ ان اداروں سے ملازمین کی بڑی تعداد فارغ کی جاچکی ہے۔ کئی کارپوریشنیں اپنے دیوالیہ ہونے کا اعلان کرچکی ہیں‘ جب کہ کئی دوسری‘ کارکنوں کی قلت کا شکار ہیں۔ یورپین کمپنیاں ایک کے دو بنانے کے چکر میں ہیں۔ انھیں سماجی اثرات کی زیادہ فکر بھی نہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ کارکنوں کو دُگنا کام کرنا پڑ رہا ہے لیکن مادی ضروریات کا بوجھ ہے کہ گھٹنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ یہ حالت خصوصاً اس وقت سے ہے جب سے فرانس نے اپنے سکّے فرانکو کو چھوڑ کر یورو کو اپنایا ہے۔
فرانسیسی خاندان اپنی تاریخ میں پہلی بار حقیقی افلاس سے دوچار ہے۔ ملازمت کے پیچھے بھاگتے ہوئے‘ دوران ملازمت‘ طویل عرصے تک گھروں سے باہر رہنے اور گھنٹوں اوور ٹائم کرنے کے بعد فرانسیسی اپنی نجی زندگی کو تو بھول ہی چکے ہیں۔ بہت سی وہ چیزیں جو ۲۰برس قبل فرانسیسیوں کی عادتِ ثانیہ اور ان کا فخر ہوا کرتی تھیں‘ اب طاقِ نسیاں کی نذر ہوچکی ہیں۔ یہی احساس ہے جو ڈھلتی عمر کی فرانسیسی خواتین میں روز افزوں ہے کہ ڈھلتی عمر اور طویل ملازمتوں نے انھیں اپنے آپ سے بے خبر کر دیا ہے۔ اور اب وہ گھریلو زندگی کے بنیادی تقاضے پورے کرنے سے بھی قاصر ہیں۔
فرانس کیا پورے یورپ ہی میں وقت کی قلت کا علاج نہایت مشکل ہے۔ انسان اگر کامیاب ملازم بننا چاہتا ہے تو اسے اپنی نجی زندگی کو قربان تو کرنا ہی پڑے گا۔ خواتین کے مذکورہ مجلے کی ایڈیٹر ستیفانی تروکرین خواتین میں روز افزوں یاس اور ایک گھر کی مالکہ نہ ہونے کے احساس میں اضافے کے متعلق کہتی ہیں کہ میرے خیال میں فکری وسماجی تبدیلی نے اس تصادم کو جنم دیا ہے۔ فرانس کی ۷۰ فی صد سے زائد خواتین کی عمر اس وقت ۳۵ برس یا اس سے زیادہ ہے۔ اسی لیے اب سوئٹزرلینڈ کی طرح فرانس کا شمار بھی بوڑھی مملکت میں ہونے لگا ہے۔ واضح ہو کہ سوئٹزرلینڈ کی ۶۶فی صد سے زائد خواتین ۴۰ برس سے زائد عمر کی ہیں۔ فرانسیسی خواتین کی اصل مشکل تھکا دینے والی طویل دورانیے کی ملازمت نہیں ہے بلکہ ان کا خاندان ہے۔ ۴۴فی صد سے زیادہ کامیاب ملازم خواتین کا کہنا ہے کہ انھیں یہ کامیابی اولاد اور گھر کو ملازمت کے بھینٹ چڑھاکر حاصل ہوئی ہے‘ جب کہ ۳۲ فی صد خواتین کا کہنا ہے کہ انھیں اپنی ملازمت کے لیے اپنا بلیدان (اپنا آپ قربان کرنا) دینا پڑا ہے۔ انھیں شادی کرنے اور گھر بنانے کے لیے وقت ہی نہیں مل سکا۔
فرانسیسی میڈیا آج جسے فکری انقلاب سے تعبیر کررہا ہے ‘ ریڈیو فرانس انٹرنیشنل کے ایک سروے کے مطابق خواتین کی بڑی تعداد اسے گھر کی طرف مراجعت (back to home)قرار دے رہی ہے۔ دوسری طرف اہم تر بات یہ بھی سامنے آئی ہے کہ گھرکی کشش کا فقدان صرف ملازمت پیشہ خواتین ہی محسوس نہیں کر رہی ہیں بلکہ گھریلو خواتین میں بھی شدت کے ساتھ یہ احساس پایاجاتا ہے۔ اس لیے کہ ان کا شوہر اپنی ملازمت کے سلسلے میں دن کا اہم تر حصہ گھر سے باہر گزارنے پر مجبور ہے۔
فرانس کے اہم اخبار لیبراسیون کی طرف سے قارئین کے سامنے یہ سوال پیش کیا گیا تھا کہ معاشرے کو خاندانی نظام اپنانے کے لیے کس طرح تیار کیا جائے؟ اس کے جواب میں ۳۱ فی صد خواتین کا کہنا تھا ہم مزید ملازمت نہیں کرنا چاہتیں‘ لہٰذا گھریلو اخراجات و ضروریات کے لیے ماہانہ مشاہرہ دیا جائے۔ اسی سروے کو مدنظر رکھتے ہوئے اور فرانس کے محفوظ مستقبل کے لیے ہی فرانس کی نیشنلسٹ پارٹی نے اسے باقاعدہ اپنے منشور کا حصہ بنایا ہے۔
فرانس کی مشہور ماہر معاشیات فلولانس موریانتی سے جب دریافت کیا گیا کہ ماضی کی بہ نسبت اب گھر کی طرف لوٹنے والی خواتین کا تناسب کیوں زیادہ ہے؟ تو ان کا کہنا تھا: کبھی وقت تھا جب فرانس کے بارے میں عموماًکہا جاتا تھا کہ یہاں کوئی بھوک سے نہیں مرتا۔ لیکن افسوس کہ ماضی کی یہ حقیقت اب حقیقت نہیں رہی۔ اب یہاں لوگ بھوک‘ سردی‘ غربت اور مناسب گھریلو زندگی نہ ہونے کے سبب مر رہے ہیں۔
وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہیں کہ فرانس اب جنت نہیں رہا‘ یہاں کا سماج تبدیل ہوچکا‘ لہٰذا سوچ اور فکر میں تبدیلی آئی ہے۔ فرانسیسی لوگ اب امریکا اور کینیڈا کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کا تو کبھی کسی نے سوچا تک نہ تھا لیکن اب یہ امر واقعی بن چکا ہے۔ میرے نزدیک عورت کا زندگی میں ہمیشہ اہم کردار رہا ہے لیکن آج کی عورت سوچ رہی ہے کہ وہ اپنی ممتا (امومت) قربان کر کے بھی کچھ حاصل نہیں کرسکی۔ وقت گزرنے پر آج کی بہت سی عورتیں سوچ رہی ہیںکہ ڈھلتی عمر میں اب نہ ان کا کوئی گھر ہی ہے اور نہ بال بچے۔
اس پر مستزاد یہ کہ جس ملازمت کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کیا۔خود اس کا وجود خطرات کی زد میں ہے۔ فرانس میں خواتین کے سب سے بڑے پرچے’وہ‘ کی معروف لکھاری مارسلسیاجادون کہتی ہیں کہ اجتماعی سطح پر چھائی ہوئی مایوسی اب انفرادی سطح پر بھی لوگوں کے دل و دماغ میں گھر کرچکی ہے۔ حالات بھی کچھ زیادہ خوش آیند نہیں ہیں اور ایسے میں تنہائی بھی کاٹ کھانے کو دوڑتی ہے۔ کسی بھی چیز پر اعتماد باقی نہیں رہا۔ اوّل تو بے روزگاری عام ہے اور پھر ملازمت سے برخواستگی کی تلوار ہروقت سر پر لٹک رہی ہے اور پوری قوم ہی اخلاقی و روحانی اقدار سے عاری فضا میں زندگی گزار رہی ہے۔ انھی مخدوش حالات نے فرانسیسی خاتون کے دل و دماغ پر اثرات مرتب کیے ہیںاور اسے تنہا ان مشکل حالات سے سابقہ ہے۔ بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ ان میں یہ احساس جڑ پکڑتا چلا جا رہا ہے کہ ان کا نہ کوئی گھر ہے اور نہ ہی پُرسانِ حال اولاد۔ مصروفیت نے انھیں اتنا وقت بھی نہیں دیا کہ شادی ہی کرسکتیں۔ امورخانہ داری کی طرف لوٹنے کی رغبت رکھنے والی خواتین کی عمر دیکھیں تو ۳۵ سے ۴۴ برس کے درمیان ہے۔ اسی عمر میں خوابوں کا محل منہدم ہوتا ہے اور تنہائی اور عزلت کاٹ کھانے کو دوڑتی ہے۔ انھی کے بارے میں فرانسیسی میں تنہائی گزیدہ مائیں کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے کہ انھوںنے زندگی کی کش مکش میں اپنا سب کچھ کھو دیا اور انجام کار اپنے لیے مزید سماجی مشکلات کھڑی کرلیں۔
فرانس کے مشہور صحافی شارل موورا مذکورہ خواتین کے تجزیے سے مکمل اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ فرانس حقیقی اقتصادی مشکلات کا سامنا کررہا ہے۔ ایسے میں اگر امورخانہ داری کی طرف لوٹنے کو پسند کرنے والی خواتین کی تعداد میں اضافہ نظر آرہا ہے تو یہ کوئی تعجب انگیز بات نہیں ہے۔ ہمیں فی الفور اور سنجیدہ بنیادوں پر اس نئے رجحان کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ پھر یہ مسئلہ صرف ہمارا ہی نہیں ہے بلکہ کچھ عرصہ قبل سوئٹزرلینڈ کے بارے میں بھی ایسی ہی تحریریں سامنے آچکی ہیں‘ بلکہ یہ تو اب سارے یورپی معاشرے کا مسئلہ بن چکا ہے۔ یورپین عورت عجب مشکلات میں گھری ہوئی ہے۔ اس کے لیے ایک ہی وقت میں بیوی‘ اور ملازم پیشہ عورت کا کردار اداکرنا نہایت مشکل ہے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ ہرچیز میں اعلیٰ معیار کی کارکردگی ہو یا پھر کچھ بھی نہ ہو۔ خواتین کی نہایت ہی قلیل تعداد ایسی ہوگی جو گھریلو معاملات میں بھی پوری طرح کردار اداکرے اور اپنی ملازمت کے تقاضوں کو بھی خوب نبھائے۔
فرانس میں طلاق کی اُونچی شرح اور بن بیاہی مائوں کی بڑی تعداد واضح کر رہی ہے کہ شاید ہم نے خواتین پر ان کی بساط سے بڑھ کر بوجھ لاددیا ہے۔ انجام کار عورت پر واضح ہوتا ہے کہ اس نے حقیقی معنی میں تو گھر بسایا ہی نہیں‘ نہ اس کا کوئی شوہر ہے اور نہ کوئی اولاد۔ میرے نزدیک تو اس ساری مشکل سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے‘ اور وہ یہ کہ یورپ کو روحانی اقدار کی طرف لوٹنا چاہیے۔ بالفاظ دیگرہمیں اپنے خاندانی نظام کو بحال کرنا ہوگا۔ میرا خیال ہے کہ بہتری کی طرف قدم بڑھانے کا وقت آچکا ہے۔ (المجتمع، عدد ۱۶۸۰‘ دسمبر ۲۰۰۵ئ)
۱۳؍ مئی ۲۰۰۵ء کا دن مسلمانانِ ازبکستان کے لیے وہ دن تھا جب ازبکستان کے شہروںاندیجان اور قاراسو میں پولیس اور فوج ان مظاہرین پر پوری سنگ دلی اور بے رحمی کے ساتھ ٹوٹ پڑی جو سیاسی اصلاحات کا اور ان مظالم کے سدباب کا مطالبہ کر رہے تھے‘ جو صدررِیاست اسلام کریموف کی لادینی حکومت مسلم آبادی پر ڈھا رہی تھی۔ ملک کی مجموعی آبادی میں مسلمان ۹۰فی صد ہیں‘ اور وقتاً فوقتاً سیاسی تشدد سے لے کر قیدوبند تک ہرقسم کے ظلم وستم کا نشانہ بنائے جاتے رہتے ہیں___ پُرامن مظاہرین پر بم پھینکے گئے‘ نتیجتاً ایک ہزار سے زیادہ مسلمان شہید ہوگئے اور بہت سے زخمی ہوئے۔
بات شروع یہاں سے ہوئی کہ قیدیوں کے کچھ اعزا و اقارب اندیجان کے ایک قیدخانے میں گھس آئے اور تقریباً ۴ ہزار سیاسی قیدیوں کو چھڑا لے گئے۔ یہ ۱۲؍مئی ۲۰۰۵ء کی رات کی بات تھی___ پے درپے نظربندیوں اور مقدموں سے وہ تنگ آگئے تھے‘ قیدیوں کی رہائی کے بعد لوگ بڑی تعداد میں مظاہرے کرنے لگے اور مطالبہ کیا کہ صدر کریموف مستعفی ہوجائیں۔ اس مسئلے میں روس نے یہ کہہ کر مداخلت سے انکار کردیا کہ یہ ازبکستان کا داخلی معاملہ ہے۔ رہا امریکا تو اس نے اتنا ہی کہا کہ قیدیوں کو زبردستی چھڑا لے جانا پریشانی اور افسوس کی بات ہے۔
پس منظر: یہ حادثے ایک طویل کش مکش کا نتیجہ ہیں‘ جس کے دو فریق ہیں۔ ایک فریق صدر اسلام کریموف ہیں جو ۱۹۸۹ء میں برسرِاقتدار آئے‘ اور دوسرا فریق اسلامی حزب مخالف‘ جس میں اکرام یولداشوف کی اسلامی آزاد پارٹی اور دوسری اسلام پسند پارٹیاں شامل ہیں جو قومی سطح پر بدامنی کو روکنے‘ گرتی ہوئی معیشت کو سنبھالنے اور بے روزگاری دُور کرنے کے لیے کوشاں ہیں‘ مگر حکمراں پارٹی حزب مخالف کو ’دہشت گرد‘ اور ’بنیاد پرست‘ قرار دے کر خاتمے کے درپے ہے۔
۱۱ستمبر کے حملے اور ’دہشت گردی‘ کے خلاف امریکا کی باقاعدہ جنگ کے بعد ملک کی اسلامی تحریک اور ازبکی قوم کے خلاف کریموف حکومت کا ظلم وستم کئی گنا بڑھ چکا ہے۔ ’بنیاد پرستی‘ اور ’دہشت گردی‘ کی آڑ لے کر حزب مخالف کے لوگوں کو گرفتار کیا جارہا ہے‘ انھیں جان سے مار ڈالا جارہا ہے‘ بڑے بڑے علما تک کو بخشا نہیں جاتا۔ اور تو اور مسجدیں بند کرائی جارہی ہیں۔ جب سے امریکا سے دوستی کا عہدوپیمان ہوا ہے اور افغانستان پر حملے کے لیے یہاں امریکی چھائونیاں کھل گئی ہیں‘ ظلم وستم کی کارروائی زوروں پر ہے۔ اس کا ایک فائدہ حکومت کو یہ ہوا کہ یہاں انسانی حقوق کی جو پامالی کھلے بندوں ہورہی ہے اس پر امریکا چوں نہیں کرتا‘ حالانکہ اشتراکی روس کے عہدحکومت میں انھی حقوق کی بحالی کے لیے وہ بہت چیختا چلاتا رہتا تھا۔
آزادی کے فوراً بعد ازبکستان کی حکومت نے اسلام کو سرکاری حیثیت دی۔ مذہبی اداروں کو نجی قبضہ وتصرف سے آزاد کردیا۔ مقصود یہ تھا کہ اسلامی تحریکات کو بے اثر کردیا جائے۔ ۱۹۹۱ء میں سوویت یونین زوال پذیر ہوا تو ملکی مطلع پر ایسے آثار ظاہر ہوئے‘ کہ دنیا کی دوسری مسلم قوموں کی طرح ازبک قوم بھی اپنی مذہبی اصلیت کی طرف لوٹنے لگی۔ چنانچہ مسجدیں جو ۱۹۸۹ء میں کُل ملاکر ۸۲ تھیں دیکھتے ہی دیکھتے ۷ہزار۲ سو ہوگئیں اور یہ تمام تر نجی طور پر بنائی گئی ہیں۔ سرکاری‘ نیم سرکاری اہتمام سے نہیں۔ اب سرزمین ازبک پر کوئی مقام ایسا نہیں جہاں اللہ کا گھر موجود نہ ہو۔ اس کے ساتھ‘ ۱۰۰ سے زیادہ دینی مدرسوں اور اداروں کا آغاز ہوا جن میں آدھے سے زیادہ خواتین کے لیے مختص ہیں۔ ان درس گاہوں میں لکھنے پڑھنے والوں کی تعداد بڑھ کرکہیں سے کہیں پہنچ گئی۔ مذہبی کتابوں کا سیلاب سا بہنے لگا۔ ملک کے باشندوں کی خدمت و حفاظت کے لیے ’مذہبی پولیس کا محکمہ‘ قائم کرنے کی کوشش ہوئی۔ لوگ مذہبی تعلیم سے بھرپور دل چسپی لینے لگے‘ پردے کا اہتمام بڑھنے لگا۔ ہزاروں طلبہ علم دین کی تحصیل کے لیے اسلامی ممالک کی یونی ورسٹیوں کا قصد کرنے لگے‘ بہت سے لوگوں نے داڑھیاں رکھ لیں۔
ابتدا میں تو حکومت نے اس سیلِ رواں کا ساتھ دیا‘ اور وطنی تشخص کی تعمیر میں اس سے فائدہ اٹھایا‘ کیوں کہ یہ تشخص اقتدار کے استحکام کا باعث ہوتا ہے۔ صدر ریاست اسلام کریموف کا حال یہ تھا کہ اپنی بات چیت اور تقریروں میں آیات اور احادیث سے استدلال کرتے تھے‘ بلکہ ۱۹۹۱ء کے ایک انتخابی جلسے میں نمنغان نامی صوبے میں تقریر کرتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ ازبکستان کو اسلامی جمہوریہ بنا دیں گے‘ اور زور دے کر کہا تھا کہ اس سلسلے میں ہرگز دریغ نہیں کریں گے اورکوشش کریں گے کہ مذہب اسلام کو قابلِ رشک مقام ملے جس کا وہ ہر طرح مستحق ہے۔ پھر جب صدر بنے تو قرآن پاک کے نام پر حلف لیا‘ مگر حکومت میں قدم جم گئے تو قوم کو آنکھیں دکھانے لگے۔ ارشاد ہونے لگا کہ ’’مسلمان ملک کے امن و استحکام کے لیے خطرہ ہیں‘‘۔ مزید فرمایا کہ ازبکستان میں اسلامی حکومت کی باتیں مغربی بلاک کے غیظ وغضب کو بھڑکا دیں گی۔ اس کے بعد موصوف نے بہت سے ایسے علماے کرام کی داروگیر شروع کردی جو حکومت کے صیغۂ امور مذہبی کے ہتھے نہیں چڑھتے تھے۔ اس کے بعد مسجدوں پر ہاتھ ڈالا اور یہ کہہ کر سیکڑوں مسجدیں بند کروائیں کہ یہ عبادت کے لیے نہیں بلکہ دوسرے اغراض و مقاصد کے لیے بنی ہیں۔ پھر انھیں اسلحہ خانوں میں تبدیل کردیا جیسی وہ اشتراکی عہد میں تھیں۔ حکومت کے صیغۂ امور مذہبی نے تقریباً ۴۰۰مسجدوں پر ہاتھ ڈالا اور وہاں اپنے لوگ متعین کیے۔
قصرِصدارت نے سرکاری ذرائع ابلاغ کے نام‘ احکام صادر کیے کہ علماے کرام کے خلاف افواہیں پھیلائیں‘ ان کی کردارکشی کریں‘ ان کو تعصب‘ دہشت پسندی اور دقیانوسیت کے مجرم ٹھیرائیں اور اس غرض کے لیے اشتراکی لغات کے سارے الفاظ کام میں لائیں۔ اس سلسلے میں سرکاری ٹیلی ویژن ان تمام حلقوں پر حملے کرنے کا خاص طور پر پابند بنایا گیا جو ازراہ تعصب ملک کی دستوری حکومت کا تختہ اُلٹ دینا چاہتے ہیں۔ ایسے ’آستین کے سانپوں‘ سے خبردار رہنا چاہیے۔ اسی پر بس نہیں‘ پردے کے خلاف پروپیگنڈا کیا گیا کہ یہ عربوں کی چیز ہے‘ لہٰذا ازبکستانی خواتین کے لباس و پوشاک سے میل نہیں کھاتی۔ رہے اسلامی علوم و فنون‘ تو ان کی تعلیم پر بھی قدغن لگادی گئی اور ان کے طلبہ اور اساتذہ کو دوسرے شعبوں میں تتربتر کردیا گیا۔ مسجدوں سے لائوڈاسپیکر اتار لیے گئے‘ داڑھی رکھنے والوں کو جیل بھیج دیا گیا اور مجبور کیا گیا کہ پولیس اسٹیشن جاکر ’چارابروکا صفایا‘ کرڈالو‘ ورنہ قیدخانے کی ہوا کھانی پڑے گی۔
ایک نیا قیدخانہ بن کر تیار ہوا ہے جو ایسے مذہبی بنیاد پرستوں اور دہشت گردوں کے لیے مخصوص ہے جن کی اصلاح ممکن نہیں۔ پھر قیدیوں کی ایک تعداد ایسی بھی ہے جو آتش گیر مادوں کی تیاری کے الزام میں ماخوذ ہیں۔ ان سے وہ دہشت گردی پھیلانا چاہتے ہیں‘ حالانکہ یہ بے چارے زراعت پیشہ ہیں اور وہ جو کچھ تیار کر رہے تھے وہ کیمیاوی کھاد کے سوا کچھ نہیں تھا۔
ان قیدیوں کے مصائب کی بابت انسانی حقوق کی تنظیم بھی چیخ اٹھی ہے۔ اس کی رپورٹ مظہر ہے کہ انھیں ظلم وستم کی چکی میں پیسا جارہا ہے کہ ان کا دم خم ختم ہوجائے‘ ان کے حوصلے ٹوٹ جائیں۔ جو لوگ قیدوبند میں نہیں ہیں ایسے مذہبی ’دیوانوں‘ کو جو سزائیں دی جاتی ہیں ان میں ایک یہ ہے کہ انھیں ملازمتوں سے معطل اور تعلیمی اداروں سے خارج کر دیا جاتا ہے۔ بہرحال فردِقرار دادِ جرم بڑی طویل ہے‘ اس کی بعض دفعات یہ ہیں: ا: بلدیہ کے ایسے اعلیٰ عہدے داروں کی معزولی جنھوں نے مسجدیں بنانے کی اجازت دی‘ مگر ان مذہبی کارگزاریوں سے صرفِ نظر کرلیا تھا جو ان کے حلقوں میں جاری تھیں۔ ب:صدارتی کابینہ کے ان ارکان کی برطرفی جو پابندی سے مسجد آیا جایا کرتے تھے۔ ج: بیرونی ممالک کی دینی تنظیموں سے قطع تعلقات کے احکام کا اجرا۔ د: فلاحی اور دعوتی کام کرنے والے بیرونی ملکوں کے افراد کو ویزا دینے میں سختی اور ان کے مصارف کی کڑی تنقیح۔
اس فہرست کے ضمیمے کے طور پر حکومت نے ۳ ہزار سے زیادہ ایسے طلبہ کو وطن واپسی کا حکم دیا ہے جو اسلامی ’یونی ورسٹیوں‘ میں زیرتعلیم تھے۔ سبب اس نادری حکم کا یہ بتایا ہے کہ نئی نسل کے یہ افراد وہاں ’بنیاد پرستی‘ اور ’دہشت گردی‘ کی تربیت پاتے ہیں۔ خود صدر کریموف نے برسرِعام کہا ہے کہ یہ طلبا غلط راستے پر ڈال دیے گئے ہیں اور جن ملکوں میں یہ علم و ہنر سیکھنے کے بہانے گئے ہیں وہاں ہتھیار اور بم بنانے کی صنعت سیکھ رہے ہیں۔ خیر اسی میں ہے کہ وطن واپس ہوں اور پولیس اسٹیشن جاکر توبہ نامہ داخل کروائیں‘ ورنہ ان پر اور ان کے ماں باپ پر قیامت ٹوٹ پڑے گی۔
امریکی کردار: ازبکستان میں پچھلے دنوں جو حادثے رونما ہوئے ان میں امریکا کے کردار کا تجزیہ کرنے سے پہلے پیچھے مڑ کر ان دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات پر ایک نظر ڈال لینی ضروری ہے۔ اس سے معلوم ہوگا کہ ۱۱ستمبر کے حادثے کے بعد صورت حال پرپیچ ہوگئی اور صدرکریموف نے اس کا پورا فائدہ اٹھایا۔ حزبِ مخالف کے خلاف اپنا موقف سخت سے سخت تر کردیا‘اور ’دہشت گردی‘ کے مقابلے کے نام سے ملک میں قیامت ڈھا دی۔ امریکا سے تعلقات مستحکم کرلیے اور اسے ایسی سہولتیں مہیا کیں جن کے بل بوتے پر اس نے ازبکی‘ افغانی سرحد پر فوجی چھائونی قائم کرلی۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے‘ خود کریموف نے ازبکی پارلیمنٹ میں اس بات کا کھل کر اعتراف کیا ہے‘ چنانچہ ارشاد ہے: واضح رہے کہ امریکا اور بش میرے پشت پناہ ہیں‘ وہ اس قسم کی بے کار باتوں کو اہمیت نہیں دیتے۔ اگر وہ ہمارے خلاف ہوتے تو سالانہ خطیر مالی امداد نہ دیتے۔ میں نے اپنے دورئہ واشنگٹن کے دوران میں یہ بات محسوس کرلی تھی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے سلسلے میں میری جدوجہد کو وہ بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔داڑھیوں کا صفایا کرنے پر انھوں نے مجھے فیاضانہ انعام سے نوازا ہے۔ میں ارکانِ پارلیمنٹ سے کہوں گا کہ یہ دیکھ کر پریشان نہ ہوں کہ امریکی عہدے دار انسانی حقوق کے بارے میں ہمارا ریکارڈ دیکھ کر نکتہ چینی کرتے ہیں‘ کیوں کہ امریکا کا مقصود دراصل یہ ہوتا ہے کہ دنیا کے سامنے ظاہر کرے کہ اسے جمہوری اصول و قوانین کا بڑا خیال ہے۔
ازبکستان میں انسانی حقوق کی پامالی پر امریکا کی طویل خاموشی کا شدید ردعمل ہوا۔ خود امریکا کی متعدد تنظیموں نے حکومت کی اس چشم پوشی پر کڑی تنقید کی‘ بعد از خرابیِ بسیار حکومت نے مجبوراً ازبکستان کی امدادی رقم کا ایک حصہ منجمد کردیا اور گرتی ساکھ سنبھالنے کی خاطر بات یہ بنائی کہ ازبکستان نے مطلوبہ دستوری اور جمہوری اصلاحات نہیں کیں۔ بعد میں کہا گیا کہ اس ملک نے انسانی حقوق کے تحفظ میں تھوڑی سی پیش رفت دکھائی ہے‘ مگر جمہوری اور معاشی اصلاحات کا معاملہ بدستور مایوس کن ہے۔ اُدھر ماسکو کی ایک تنظیم کی رپورٹ خبر دے رہی ہے کہ ازبکستان کے قیدخانوں میں ۵۰ ہزار سے زیادہ قیدی ایڑیاں رگڑ رہے ہیں۔ مختلف قسم کی سخت سزائوں کی بنا پر جو لوگ جاں بحق تسلیم ہوگئے ان کا تو شمار ہی نہیں۔ اس طرح اسرائیل اور امریکا کے ساتھ پُرامن تعاون کو تقویت پہنچی۔ اس تعاون کی تفصیل یہ ہے کہ سونا‘ چاندی‘ یورینیم‘ تانبا‘ جست‘ قدرتی گیس‘ مٹی کا تیل‘ کوئلہ وغیرہ معدنی دولت میں شراکت ہوسکے گی۔ اسی لیے گذشتہ ایک سال کے دوران میں ازبکستان کو امریکا نے ۴۶ ملین ڈالر کی امداد دی تھی۔ سینیٹ نے بھی اس پر مہرتصدیق ثبت کردی ہے‘ مگر چونکہ بین الاقوامی سطح پر تنقید آئے دن بڑھتی ہی چلی گئی کہ ایک ایسے ملک کے ساتھ فیاضانہ سلوک کیا جا رہا ہے جو حزبِ مخالف کو ختم کرنے کے درپے ہے‘ تو اس خطیر رقم میں ۱۸ ملین ڈالر کی کٹوتی کر دی گئی۔
ماسکو اور واشنگٹن کو کریموف سے کوئی محبت نہیں ہے‘ انھیں اسلام پسندوں سے نفرت ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ ازبکستان میں (بلکہ دنیا بھر میں کہیں بھی) کوئی اسلامی پارٹی برسرِاقتدار آئے۔ اس سے انھیں خدا واسطے کا بیرہے۔ صدر کریموف کریملن اور وہائٹ ہائوس کا یہ الہامی پیام سمجھ گئے ہیں اور اپنے سیاسی مفاد کے تحفظ کے لیے سارے جتن کرلیے ہیں‘ یعنی باغی شہر (اندیجان) کے تمام راستے بند کر دیے ہیں۔ تمام مقامات پر پولیس کے ہزاروں سپاہی اور جاسوس پھیلا دیے گئے ہیں۔ توپوں اور بندوقوں سے آگ برسائی جارہی ہے اور ہرسُو سیکڑوں بندگانِ خدا کی لاشیں گررہی ہیں۔ اس سنگ دلی اور سفاکی کا صاف مطلب یہ ہے کہ وسط ایشیا کے اندر اسلام پسندوں کا عروج ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔ حالانکہ جارجیا‘قازقستان اوریوکرائن جیسی پڑوسی ریاستوں میں ایسے انقلاب کامیاب ہوچکے ہیں اور اپنی اپنی مصلحتوں کے پیش نظر روس اورامریکا انھیں تسلیم بھی کرچکے ہیں۔
صورت حال کا سب سے زیادہ خطرناک پہلو یہ ہے کہ دنیابھر کے مسلمان اس المیے کے تماشائی بنے بیٹھے ہیں‘ وہ المیہ جس کا اہم ترین کردار کریموف ہے۔ اس ظالم نے روسی ڈکٹیٹر جوزف اسٹالن کی تلخ یاد تازہ کر دی ہے جو وسط ایشیا کے مسلمانوں کے حق میں بَلاے بے درماں تھا‘ جس نے ۱۵ ملین مسلمانوں کے خونِ ناحق میں اپنے ہاتھ رنگے تھے اور انھیں سائیبریا کے دُور دراز علاقے میں دفن کروا دیا تھا۔
بات یہ ہے کہ کریموف کو ہلاکت و بربادی کے سبھی وسائل میسر آگئے ہیں اور اس نے یہ حقیقت پالی ہے کہ حکومت پر جمے رہنے کی واحد صورت یہ ہے کہ ملک کی اسلامی تحریک کا خاتمہ کردیا جائے‘ کیوں کہ یہی ایک ایسی طاقت ہے جو اس شخص کی ظالمانہ حکومت کو مات دے سکتی ہے۔ وہ حکومت جس نے ملک کو اس کی عظیم معدنی دولت اور زرعی پیداوار کے باوجود انتہائی غربت اور پس ماندگی سے دوچار کر دیا ہے(عربی سے تلخیص۔ بشکریہ راہِ اعتدال‘ عمرآباد‘ بھارت‘ فروری ۲۰۰۶ئ)
سوال: برطانیہ میں معروف معنوں میں کسی سیاسی پارٹی کی ممبرشپ اختیار کرنا (ممبرشپ paidہوتی ہے) اس کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑنا اور پارلیمنٹ کا رکن بننے کے بارے میں بہت سے لوگ تردّد کا شکار ہیں ۔ بعض لوگ تو بالکلیہ ایسی سرگرمیوں کو عقیدۂ توحید کے خلاف سمجھتے ہیں کیوں کہ ایسی جمہوریتوں میں اقتدارِاعلیٰ انسان کو سمجھا جاتا ہے‘ یعنی پارلیمنٹ کو۔
مولانا مودودیؒ کی راے بھی دلیل کے طور پر پیش کی جاتی ہے: موجودہ زمانے میں جتنے جمہوری نظام بنے ہیں وہ اس مفروضے پر مبنی ہیں کہ… قانون سازی کے لیے راے عامہ سے بالاتر کسی سند کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ اسلام کے نظریے کے بالکل برعکس ہے… اس نظریے سے ہٹ کر اول الذکر جمہوری نظریے کو قبول کرنا گویا عقیدۂ توحید سے منحرف ہوجانا ہے۔ اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ جو اسمبلیاں یا پارلیمنٹیں موجودہ زمانے کے جمہوری اصول پر بنی ہیں ان کی رکنیت حرام ہے‘ اور ان کے لیے ووٹ دینا بھی حرام ہے‘ کیوںکہ ووٹ دینے کے معنی ہی یہ ہیں کہ ہم اپنی راے سے کسی ایسے شخص کو منتخب کرتے ہیں جس کا کام موجودہ دستور کے تحت وہ قانون سازی کرنا ہے جو عقیدۂ توحید کے سراسر منافی ہے… جو نظام اس وقت مسلمانوں پر مسلط ہوا ہے‘ جس کے تسلط کو وہ اپنے لیے دلیلِ اضطرار بنارہے ہیں‘ وہ آخر ان کی اپنی ہی غفلتوں کا تو نتیجہ ہے۔ پھر اب بجاے اس کے کہ اپنا سرمایہ‘ وقت و عمل اس نظام کے بدلنے اور خالص اسلامی نظام قائم کرنے کی سعی میں صرف کریں‘ وہ اس اضطرار کو حجت بناکر اسی نظام کے اندر حصہ دار بننے اور پھلنے پھولنے کی کوشش کر رہے ہیں…
یہ لوگ اس اصولی فرق کو نظرانداز کردیتے ہیں جو ایک فرد غیرمسلم کے شخصی کاروبار اور ایک غیراسلامی نظام کے اجتماعی کاروبار میں ہے۔ ایک غیراسلامی نظام تو قائم ہوتا ہی اس غرض کے لیے ہے اور اس کی سارے کاروبار کے اندر ہر حال اور ہر پہلو میں مضمر ہی یہ چیز ہوتی ہے کہ اسلام کے بجاے غیراسلام‘ طاعت کے بجاے معصیت اور خلافتِ الٰہی کے بجاے خدا سے بغاوت انسانی زندگی میں کارفرما ہو‘ اور ظاہر ہے کہ یہ چیز حرام اور عام حرمات سے بڑھ کر حرام ہے۔ لہٰذا ایسے نظام کو چلانے والے شعبوں میں یہ تفریق نہیں کی جا سکتی کہ فلاں شعبے کا کام جائز نوعیت کا ہے اور فلاں شعبے کا ناجائز کیوںکہ یہ سارے شعبے مل جل کر ایک بڑی معصیت کو قائم کر رہے ہیں۔(مکمل مطالعے کے لیے دیکھیے: رسائل و مسائل‘ اوّل‘ ص ۲۸۹- ۲۹۱)
بعض لوگ لوکل کونسل کی سطح تک حصہ لینے میں قباحت نہیں سمجھتے کیوںکہ اس میں قانون سازی نہیں ہوتی۔ بعض لوگ مطلق اس کے حق میں ہیں۔
یہ بھی وضاحت فرمائیں کہ اس ملک کی شہریت حاصل کرنے کے لیے ملکۂ برطانیہ کی وفاداری کا جو حلف لیا جاتا ہے اس میں اور پارلیمنٹ کا ممبر بننے میں کیا فرق ہے؟
جواب: اسلام کی ہمہ گیریت اور آفاقیت اس بات کا مطالبہ کرتی ہے کہ اس کے سیاسی‘ معاشی‘ معاشرتی‘ دعوتی اور قانونی نظام میں بھی نہ صرف اسلامی ریاست کی حدود میں بلکہ غیر اسلامی نظام کے ماحول میں بھی عمل کیا جاسکے‘ جب کہ بہت سے مسلمانوں نے اپنی خودساختہ فکر سے یہ بات ایجاد کرلی ہے کہ جب تک اسلامی ریاست اپنی تمام بھلائیوں کے ساتھ قائم نہ ہوجائے اس وقت تک اسلامی نظام کے بہت سے پہلوئوں کو معطل رکھا جائے۔ آپ کے سوال کے دو پہلو بہت اہم ہیں۔ ایک نظری حیثیت سے غیراسلامی نظام کا توحید سے تعلق اور دوسرے کسی ایسے نظام میں جو اسلامی بنیادوں پر قائم نہ ہوا ہو‘ ایک فرد کی شمولیت اور ذمہ داری۔
ہم پہلے عملی صورت کو لیتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ قرآن وسنت کی روشنی میں ایک ایسے نظام میں جس کی بنیاد اسلامی اصولوں پر نہ ہو‘ ایک باشعور شہری کے فرائض پر غور کریں۔
فرض کیجیے ایک اسلامی ملک میں موروثی بادشاہت رائج ہے اور بادشاہ کے مرنے پر اس کا بھائی یا بیٹا اس کا جانشین قرار پاتا ہے چاہے اس میں اہلیت‘ علم‘ تقویٰ‘ تجربہ وغیرہ ہو یا نہ ہو۔ کیا ایسے سیاسی نظام کو اس بنا پر اسلامی کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایک مسلم اکثریتی ملک میں رائج ہے؟ عقل یہ مطالبہ کرتی ہے کہ قرآن وسنت کے منافی جانشینی اور وراثتی بادشاہت کو غیراسلامی قرار دیا جائے۔ اب ذرا آگے چلیے۔ اگر ہر غیراسلامی نظام میں جہاں حاکمیتِ الٰہی کی جگہ انسان کی بادشاہت‘ آمریت یا حاکمیت ہو‘ ایک شہری کا کام اپنے آپ کو مروجہ نظام سے کاٹ کر اپنے ایمان کا تحفظ ہی ہے تو پھر اصلاحِ حال کی شکل کیا ہوگی؟ پہلا کنکر کون پھینکے گا؟ گویا ایک نظام کے غیراسلامی ہونے کے باوجود امربالمعروف‘ نہی عن المنکر اور فتنہ و فساد کو دُور کرکے عدل و انصاف کے نظام کو قائم کرنے کا فریضہ موقوف نہیں کیا جائے گا۔ اور اگر ایسے کسی ملک میں عوامی ادارے ہوں جہاں سے آواز بلند کرکے اصلاح حال کی جاسکتی ہو تو قرآن وسنت کا مطالبہ ہوگا کہ ایک باشعور شہری کو جو وسائل بھی میسرآسکیں وہ ان کا استعمال کرے۔ اگر پارلیمنٹ یا کانگریس کا ممبر بننے کے بعد وہ فتنہ و فساد کو دُور کرنے کا کام زیادہ مؤثر طور پر کرسکتا ہو اور وہ ایسا نہ کرے تو عنداللہ جواب دہی سے نہیں بچ سکتا۔
اب فرض کیجیے ایک ایسے ملک میں جہاں اکثریت غیرمسلموں کی ہے قانون سازی‘ انسانی حقوق کے تحفظ‘ دینی اور ثقافتی آزادی کے حصول کے لیے قوتِ نافذہ پارلیمنٹ کے پاس ہے تو کیا مسلمان جو اقلیت میں ہیں اپنے تمام مسائل و حقوق کو غیرمسلم اکثریت کی صواب دید پر چھوڑ دیں یا خود اپنے میں سے ایسے افراد کو پارلیمنٹ میں بھیجیں جو وہاں جاکر نہ صرف ان کے حقوق بلکہ غیرمسلموں کے حقوق کے لیے بھی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جدوجہد کرسکیں؟
اس عملی مشکل پر غور کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ نظری اور اصولی حیثیت سے ایسی جمہوریتوں کی حیثیت پر بھی غور کیا جائے جو بنیادی طور پر اسلامی اصولِ حکومت و سیاست سے متصادم ہوں۔ مغربی لادینی جمہوریت جو اکثر مسلم ممالک میں بھی نافذ ہے پارلیمنٹ کی راے کی بناپر فیصلے کرتی ہے۔ ظاہر ہے یہ اسلامی اصولوں کے منافی ہے۔ اسلام لازمی طور پر ’جمہوری روح‘ کو فوقیت دیتا ہے اور ہرمعاملے میں آزادیِ راے اور حریتِ فکری کے مواقع فراہم کرتا ہے لیکن فیصلوں کی بنیاد محض اکثریت کو قرار نہیں دیتا۔ اگر ایک اقلیتی راے قرآن و سنت سے زیادہ قریب ہو تو اسلامی نقطۂ نظر سے اس کا اختیار کرنا زیادہ جمہوری عمل ہوگا۔ کیوںکہ اس میں اُمت کے مصالح اور مفاد کا زیادہ بہتر تحفظ ہوگا۔
محترم مولانا مودودیؒ نے جو بات ۱۹۴۵ء میں تحریر فرمائی ہے وہ اصولی حیثیت سے بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ کسی بھی طاغوتی نظام سے تعاون کرنا توحید کے منافی ہے۔ لیکن اگر ایک غیراسلامی نظام میں ایک منتخب یا مقرر کردہ نمایندے کو یہ اختیار ہو کہ وہ قانون سازی کے ذریعے امنِ عامہ‘ عدل و انصاف اور حقوقِ انسانی کے تحفظ کے لیے ان اختیارات کو استعمال کرسکے جن کی بناپر حضرت یوسف ؑ نے ایک غیراسلامی نظام میں کلیدی منصب لینا قبول کیا تھا‘ تو اس کی نوعیت مختلف ہوگی۔
محترم مولانا کا یہ فرمانا کہ سیکولر جمہوریت توحید کے منافی ہے‘ بالکل صحیح ہے لیکن ایک ایسے ملک میں جہاں سیکولر جمہوریت نافذ ہو اور مسلمان اقلیت میں ہوں اصلاح حال کا ذریعہ کیا ہوگا۔ تین امکانات فوری طور پر سامنے آتے ہیں: اوّلاً: تمام معاملات کو غیرمسلموں پر چھوڑ دیا جائے اور صبروشکر کے ساتھ ایک محکوم اور غلام کی زندگی گزاری جائے۔ ثانیاً: اسلامی اصولوں کو نظرانداز کرتے ہوئے حکمران ٹولے کے ساتھ مل کر اپنے مفادات کا تحفظ کیا جائے۔ ثالثاً: ایسے نظام کو اصولاً غلط مانتے ہوئے تبدیلیِ اقتدار کے لیے نظام میں رہتے ہوئے کوشش کی جائے۔ میری ناقص راے میں یہ تیسرا طرزِعمل اسوۂ یوسفی ہے‘ جو آخرکار زمامِ کار کی تبدیلی‘ اسلامی اصولوں کے قیام کی طرف لے جاتا ہے ‘اور مطالبہ کرتا ہے کہ توحید کی دعوت کو ایوانِ اقتدار میںپہنچ کر نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیرمسلموں کو بھی حکمت کے ساتھ توحید کی دعوت دی جائے۔
حضرت یوسف علیہ السلام کے کلیدی منصب پر فائز ہونے کے حوالے سے امام قرطبیؒ کی راے یہ ہے کہ ایک فاضل شخص کے لیے فاسق وفاجر شخص یا کافر حکمران کے ہاتھ سے کسی کام کی ذمہ داری قبول کرنا جائز ہے بشرطیکہ عہدہ قبول کرنے والے کو معلوم ہو کہ اسے پورے اختیارات حاصل ہوں گے۔ وہ جو چاہے گا اصلاحی تدبیر اختیار کرسکے گا اور اس کے کام میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کی جائے گی۔ یہی راے مولانا قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے تفسیرِ مظہری میں تحریر فرمائی ہے۔
جہاںتک سوال لوکل باڈی یا قومی اداروں میں ذمہ داری اٹھاتے وقت رسمی طور پر عہد لینے کا ہے‘ اگر وہ عہد غیرمشروط اطاعت کا ہے تو یہ ہر لحاظ سے ایک غیراسلامی فعل ہے۔ لیکن اگر صرف ان باتوں کا ماننا جو ایک شخص کے ضمیر‘ تصور اور ذاتی معتقدات سے نہ ٹکراتے ہوں تو اس میں کوئی قباحت اس کے سوا نہیں ہے کہ یہ عہد بھی ایک ایسے نظام کا حصہ ہے جس کی اصلاح‘ نظام میں نفوذ کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ اسے بہ اکراہ ماننا ہوگا اور قانونی اداروں کے ذریعے اس کی تبدیلی کے لیے جدوجہد کرنا ہوگی۔
مسلمانوں کے لیے بہتر شکل یہی ہے کہ ان کی اپنی سیاسی پارٹی ہو۔ لیکن اگر ایسا ممکن نہ ہو تو پھر جس سیاسی پارٹی میں زیادہ رواداری اور اُمتِ مسلمہ کے مفادات کے تحفظ کا امکان زیادہ ہو‘ اسے اختیار کرنا افضل ہوگا۔ ایک سے زائد پارٹیوں میں شرکت اگر مسلمانوںکے مفادات کے تحفظ کے لیے بہتر ہو تو اس میں بھی کوئی قباحت محسوس نہیں کرنی چاہیے‘واللّٰہ اعلم بالصواب۔ (ڈاکٹر انیس احمد)
س: زکوٰۃ کے مصارف میں فی سبیل اللہ کی مد سے کیا مراد ہے؟
ج: تیر و تلوار کی طرح قلم اور زبان سے بھی جہاد ہوتا ہے۔ جہاد کبھی فکری ہوتا ہے‘ کبھی تربیتی‘ کبھی اقتصادی اور کبھی سیاسی‘ بالکل اسی طرح جس طرح عسکری جہاد ہوتا ہے۔ بہرحال ہرنوع کے جہاد کے لیے امداد اور سرماے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اہم ترین چیز یہ ہے کہ ان سب میں بنیادی شرط پائی جاتی ہو اور وہ ہے فی سبیل اللہ۔ یعنی ان تمام کوششوں کا مقصد اسلام کی نصرت اور زمین پر اللہ کے کلمے کی سربلندی ہو۔بلکہ میری راے میں تو فکری جہاد جس میں دعوتی ذرائع ابلاغ کے اداروں کا قیام بھی شامل ہے‘ کبھی کبھار فوجی جہاد سے بھی اولیٰ ہوجاتا ہے۔
اگرچہ مذاہب اربعہ کے قدیم فقہا کی اکثریت نے زکوٰۃ کی اس مد کو غازیوں کو سازوسامان سے مسلح کرنے کے لیے مخصوص کیاہے جیسے گھوڑے‘ جنگی اسلحہ اور سواری وغیرہ مہیا کرنا‘ لیکن ہم اس میں اپنے زمانے کی ضرورت کے لحاظ سے اضافہ کرسکتے ہیں اور وہ غازی بھی اس میں شامل کرسکتے ہیں جو قلوب و اذہان کو اسلامی تعلیمات سے روشن کرنے کے لیے اور اسلام کی طرف دعوت دینے کے لیے اپنی کوششیں صرف کرتے ہیں اور اپنی زبانیں اور قلم‘ عقائدِ اسلام اور شریعتِ اسلامیہ کے دفاع کے لیے وقف کیے رکھتے ہیں۔ جہاد کی یہ قسم بھی احادیث سے ثابت ہے جیساکہ حضوؐر کا ارشاد گرامی ہے: جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہنا افضل جہاد ہے۔
جہاد کی جن اقسام کا ہم نے ذکر کیا ہے اگر یہ بطور نص جہاد میں شامل نہ بھی ہوں تو قیاساً انھیں جہاد کے زمرے میں شامل کیا جاسکتا ہے کیوںکہ دونوں کا مقصد غلبۂ اسلام‘ شریعت اسلامیہ کا دفاع‘ دین کے دشمنوں کی مزاحمت اور اللہ کے کلمے کو زمین میں غالب کرنا ہے‘ بلکہ فی سبیل اللہ کی مد کو اس دور میں‘ ثقافت‘ تربیت اور ذرائع ابلاغ میں صرف کرنا اولیٰ ہے۔ بشرطیکہ یہ صحیح اور اسلامی ہوں۔ مثلاً خالص اسلامی اخبار جاری کرنا جو کہ گمراہ کن صحیفوں کا پوری طرح مقابلہ کرسکے اور اللہ کا کلمہ بلند کرسکے‘ حق و انصاف کی بات کرسکے‘ اسلام کے خلاف افتراپردازوں کا ردّ کرسکے۔ گمراہ لوگوںکے شکوک و شبہات کو رفع کرسکے اوردین کی صحیح تعلیمات بغیرکسی حذف و اضافہ کے ٹھیک ٹھیک لوگوں تک پہنچا سکے۔ ایک اسلامی کتاب کی طباعت بھی فی سبیل اللہ کی مد میں شامل ہے جو اچھے طریقے سے اسلام کا تعارف پیش کرسکے اور اسلام کے جوہر کو دنیا کے سامنے نمایاں کرسکے‘ اس کی تعلیمات کے حسن و جمال کو نمایاں اور مخالفین کے باطل دعووں کو جھوٹا کرسکے۔ انھی صفات کی حامل کتاب کو ری پرنٹ کرکے وسیع پیمانے پر پھیلانا بھی اس مد میں شامل ہے [اسی طرح فلم بنانا بھی]۔
ایسے امانت دار اور مخلص لوگوں کو مذکورہ کاموں کے لیے فارغ کرنا بھی جہاد فی سبیل اللہ کی مد میں شامل ہے جو اس دین کی خدمت کے لیے منصوبہ بندی کرسکیں اور چاردانگ عالم میں اسے پھیلاسکیں‘ دشمن کی چالوں کا توڑکرسکیں‘ اسلام کے سوئے ہوئے بیٹوں کو بیدارکرسکیں اور نصرانیت‘ لادینیت‘ اباحیت اور سیکولرازم کا مقابلہ کرسکیں۔ ان اسلامی داعیوں کی معاونت کرنا جن کے خلاف خارج کی اسلام دشمن طاقتیں مقامی سرکش اور دین اسلام کے باغیوں کی مدد سے سازشوں میں مصروف ہیں‘ یہ بھی جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ مذکورہ متعدد مدات میں زکوٰۃ اور صدقات صرف کرنا بدرجۂ اولیٰ ہے خاص طور پر اسلام کی اجنبیت کے اس زمانے میں۔(علامہ یوسف قرضاوی‘ ترجمہ:طارق محمود زبیری۔المجتمع، کویت‘ شمارہ ۱۶۸۵‘ ۲۷جنوری ۲۰۰۶ئ)
کوئی آرٹسٹ تصویر بناتا ہے تو برش ہاتھ میں لے کر ایک ایک نقش بناتا ہے۔ تاآنکہ جب وہ کام ختم کرتا ہے‘ تو سامنے مکمل تصویر آجاتی ہے۔ قوموں کی ہلاکت پر خلیل الرحمن چشتی کی اس تالیف کی یہی کیفیت ہے۔ ۸اکتوبر کے زلزلے نے بستیوں کی بستیاں ملیامیٹ کرکے ہلاکت اور عذابِ الٰہی کے موضوع کو گرم موضوع بنا دیا۔ فاضل مؤلف اس حوالے سے قرآن کی تمام آیات کو سابقہ اقوام کی ہلاکت‘ ہلاکت کے اصول‘ مقاصد ہلاکت‘ طریقۂ ہلاکت‘ ہم کیا کریں‘ قیادت کیا کرے‘ کے عنوانات کے تحت ایک مربوط انداز سے پیش کیا ہے۔ جب بات ختم ہوتی ہے تو موضوع کا ہر رخ قرآنی آیات کی روشنی میں روشن ہوجاتا ہے۔ قوموں کا عروج و زوال قرآن کا ایک اہم موضوع ہے جو عموماً دروس قرآن میں اوجھل رہ جاتا ہے حالاںکہ اس کا اطلاق کرنے سے عبرت کے بہت سے پہلو سامنے آتے ہیں۔
یہ کتاب ایک طرف قرآن کا حقیقی فہم پیدا کرتی ہے اور دوسری طرف فاسق و فاجر اور صالح قیادت کو آئینہ دکھاتی ہے۔
یہ بھی کہنے کو دل چاہتا ہے کہ جب سے ہوش سنبھالا ہے مغربی تہذیب کے زوال کی علامات پڑھ پڑھ کر اس کی ہلاکت دیکھنے کے منتظر ہیں لیکن غالباً صدیوں کے فیصلے ایک حین (مدت) حیات میں نہیں ہوتے۔ ویسے بھی ہم جو گنتی کرتے ہیں تو اللہ کے ایک دن میں ہمارے ۵۰ہزار دن آجاتے ہیں۔(مسلم سجاد)
زیرتبصرہ کتاب السیرہ عالمی کے نائب مدیر سید عزیز الرحمن کے اُن سیرت ایوارڈ یافتہ سات مقالات کا مجموعہ ہے جو انھوں نے وفاقی وزارتِ مذہبی امور حکومت پاکستان کی جانب سے منعقدہ قومی سیرت کانفرنسوں میں بالترتیب ۱۹۹۶ئ‘ ۱۹۹۷ئ‘ ۱۹۹۹ئ‘ ۲۰۰۰ئ‘ ۲۰۰۲ئ‘ ۲۰۰۳ء اور ۲۰۰۴ء میں پیش کیے۔ ان کے عنوانات یہ ہیں: ۱- تعمیرشخصیت و فلاح انسانیت‘ اطاعتِ رسولؐ اور سیرت طیبہ کی روشنی میں‘ ۲-استحکام پاکستان کے لیے بہترین رہنمائی سیرتِ طیبہ سے حاصل ہوسکتی ہے‘ ۳- عدمِ برداشت کا قومی اور بین الاقوامی رجحان اور تعلیماتِ نبویؐ، ۴-بے لاگ احتساب‘ ۵- پاکستان کے لیے مثالی نظامِ تعلیم کی تشکیل اور اُمت مسلمہ کی ذمہ داریاں‘ ۶-نئے عالمی نظام کی تشکیل اور اُمت مسلمہ کی ذمہ داریاں‘ ۷-عصرِحاضر میں مذہبی انتہا پسندی کا رجحان اور اس کا خاتمہ۔
’عدم برداشت کا رجحان‘ میں مصنف نے مختلف مذاہب اور اقوام کی تعلیمات کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے مخالفین کے سلوک کے متعلق ان مذاہب کی مقدس کتب اور تحریروں سے اقتباسات پیش کیے ہیں‘ مثلاً ہندومت کی تعلیمات کا خلاصہ سوامی دیانند کے الفاظ میں یہ ہے: دھرم کے مخالفوں کو زندہ آگ میں جلا دو‘ دشمنوں کے کھیتوں کو اُجاڑ دو‘ گائے‘ بیل اور لوگوں کو بھوکا مار کر ہلاک کر دو جس طرح بلی چوہے کو تڑپا تڑپا کر مارتی ہے ‘ اسی طرح دشمنوں کو تڑپا تڑپا کر ہلاک کرو۔(ص ۱۸)
ہر موضوع کے تمام ممکنہ پہلوئوں پر سیرحاصل بحث کی گئی ہے۔ ہرمقالہ اپنی جگہ ایک مختصر کتاب کی مانند ہے۔(محمد الیاس انصاری)
اس مختصر‘ مگر جامع کتاب میں نیاز فتح پوری کی ایک تصنیف من و یزداں کامل کی روشنی میں خدا‘ مذہب‘ عبادات‘ انبیا‘الہامی کتابوں اور تصورِ آخرت کے بارے میں‘ اُن کے افکار و خیالات کا جائزہ زیادہ تر اُنھی کے الفاظ میں پیش کیا گیا ہے۔ اگرچہ نیاز کے یہ افکار و خیالات‘ پون صدی قبل کے ہیں‘ مگر اُن کی کتابوں اور تحریروں کی اشاعت کا سلسلہ اب بھی جاری ہے‘ اس لیے‘ مصنف کا خیال ہے کہ جس مادّہ پرست اور دہریہ انسان نے زندگی بھر ملحدانہ افکار کی تبلیغ و اشاعت کی ہو اور اسلامی عقائد و تعلیمات کی مخالفت ہی نہیں‘ ان کی تضحیک بھی کی ہو‘ اُس کی تردید کرنا‘ ایک دینی اور علمی فرض ادا کرنے کے مترادف ہے۔
نیاز فتح پوری کے ’کمالاتِ فن‘ کی فہرست طویل ہے۔ انھوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے‘ ہر نوع کی مذہبی اور اخلاقی اقدار کو ملیامیٹ کرنے اور نوجوانوں کے جنسی جذبات بھڑکانے کے علاوہ شخصی سطح پر بھی بعض نہایت قبیح حرکات کیں‘ مثلاً قمرزمانی بیگم کا روپ دھار کر آگرہ کے ادیب شاہ دل گیر کو عشقیہ خطوط لکھے اور اس طرح انھیں تین سال تک بے وقوف بناتے رہے۔تعجب تو اس وقت ہوتا ہے جب ہمارے بزرگ دوست ڈاکٹر فرمان فتح پوری جن کا شمار ایک بلندپایہ محقق و نقّاد کے طور پر ہوتا ہے وہ کئی برس سے نگار و نیاز کے سالانہ جشن کے ذریعے نیاز کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کا علَم اٹھائے ہوئے ہیں۔ بہرحال یہ کتاب نیاز فتح پوری کے اصل چہرے کی فقط ایک جھلک دکھاتی ہے۔ ان کے جملہ ’کارناموں‘ کا تفصیل سے جائزہ لینا باقی ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)
اسلام پر ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے یا ایک غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ یہ آزادیِ فکروعمل کا مخالف ہے۔ مصنف نے نہایت مدلل انداز میں ایسے تمام اعتراضات کا بھرپور اور دل نشیں جواب دیا ہے۔ زیرنظر کتاب میں عقیدے‘ مذہب‘ عبادت گاہوں کی تعمیرومرمت‘ لباس اور پوشاک‘ غذا اور خوراک‘ تہوار‘ جلسے جلوس‘ تہذیبی تشخص اور تہذیبی انفرادیت‘ تعلیم گاہوں‘ پریس اور میڈیا‘ اظہار راے‘ تبدیلیِ مذہب‘ رہنے سہنے‘ کاروبار اور ملازمت جیسے شعبہ جات میں اسلام کی دی ہوئی آزادیوں کو قرآن و حدیث اور تاریخِ اسلامی کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے۔
مصنف اسی آزادی کا موازنہ بھارت سے کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آج دنیا کی ہندستان جیسی مثالی جمہوریت میں بھی یہاں کی مسلمان اقلیت کو غذا اور خوراک کے معاملے میں بھی آزادی اور سہولت میسر نہیں ہے۔ (ص ۶۲-۶۳)
آزادیِ فکروعمل کے حوالے سے پروپیگنڈے کا جواب اس مختصر مگر جامع کتاب میں موجود ہے۔ پاکستان میں بہت سی غیر سرکاری تنظیمات ایسے ہی موضوعات کو اُچھالتی ہیں۔ یہ مختصر کتاب غیرمسلموں سے ربط ضبط رکھنے والوں اور این جی اوز سے مکالمے کے خواہش مند افراد کے لیے ایک خوب صورت تحفہ ہے۔ (م - ا - ا )
حافظ مبشرحسین نے بڑی محنت سے ’ازدواجی زندگی‘ کے تمام مسائل اور پہلوئوں کا احاطہ کیا ہے۔ ان کی اس تحقیق میں جدت بھی پائی جاتی ہے۔ بالخصوص انھوں نے میاں بیوی کی عائلی زندگی کے موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔ اس حوالے سے پائے جانے والے بیش تر اشکالات کا علمی اور شرعی دلائل کی روشنی میں حل پیش کیا ہے۔
مصنف نے وسیع تناظر میں تمام مسائل کا احاطہ کیا ہے۔ ولی کی اجازت کا مسئلہ‘ مہر کی مقدار‘ غلط رسومات‘ تقریبات شادی میں غیراسلامی اقدار کا رجحان‘ جہیز کا مسئلہ‘ نکاح حلالہ‘ وٹہ سٹہ‘ تعدد ازدواج اور خاندانی منصوبہ بندی تمام ہی موضوعات پر بحث کی گئی ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام کے نتیجے میں جنم لینے والے مسائل کا حل بھی پیش کیا گیا ہے۔ بہت سے دین دار گھرانوں میں اسے مقدس سمجھا جاتا ہے حالانکہ یہ اسلام کا تقاضا نہیں۔ اس کتاب کا مطالعہ کسی بھی شادی شدہ جوڑے کے لیے مفید ہوگا۔ بلوغ کے مسائل سے دوچار نوجوان بھی اس سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ کتاب کی طباعت معیاری ہے۔ اس میں بہت سی ایسی معلومات ہیں جو عموماً دستیاب نہیں۔ مصنف اس کاوش پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔ (عبدالمالک ہاشمی)
پروفیسر ڈاکٹر انعام الحق کوثر اُردو اور فارسی کے نام ور اور اَن تھک مصنف‘ محقق اور ادیب ہیں۔ ان کی عمر کا زیادہ تر حصہ بلوچستان کے مختلف کالجوں میں تدریسی اور انتظامی مصروفیات میں گزرا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی توجہ تصنیف و تالیف پر مرکوز رہی۔ وہ اب تک تصنیف و تالیف اور تحقیق اور ترجمے کی ۱۰۹ چھوٹی بڑی کتابیں شائع کرچکے ہیں۔ ان کے برادر ِبزرگ پروفیسر محمد انور رومان (پ: ۱۹۲۴ئ) بھی ایک مشّاق مصنف اور مترجم ہیں۔ وہ اب تک اُردو اور انگریزی میں ۵۵کتابیں شائع کرچکے ہیں۔
زیرنظر تینوں کتابیں بلوچستان کی مختلف پہلوئوں: تعلیم‘ علم و ادب‘ شاعری‘ بلوچی زبانوں‘ قبائل‘ بعض نام ور شخصیات اور وہاں کی علمی روایات کے تعارف پر مشتمل ہیں۔ پہلی کتاب میں بلوچستان اور اس کے قبائل کا تعارف‘ اُردو فارسی کی صورتِ حال‘ بلوچستان میں ظفر علی خاں اور لیاقت علی خان جیسے موضوعات پر مضامین شامل ہیں۔ دوسری کتاب چند علمی و تحقیقی مضامین کا مجموعہ ہے۔ اس میں بعض شخصیات (مُلّا محمد حسن براہوی‘ پیرمحمدکاکڑ‘ یوسف عزیز مگسی اور علامہ عبدالعلی اخوندزادہ) پر مضامین شامل ہیں۔ ایک مضمون ’بلوچستان میں ہائیکونگاری‘ ہے۔ تیسری کتاب میں محمد انور رومان نے بلوچستان میں تعلیمی صورت حال سے بحث کی ہے۔ اس میں اعداد و شمار بھی ہیں۔ دیہات میں تعلیم‘کالج‘ اساتذہ‘ طلبہ کے مسائل‘ مکتبی تعلیم‘ یونی ورسٹیوں کا تعارف اور ترقیِ تعلیم کے لیے تجاویز کے ساتھ اعداد و شمار بھی شامل ہیں اور تعلیمی اداروں اور ماہرین تعلیم کی فہرستیں بھی۔ اس طرح یہ بلوچستان میں تعلیم کے موضوع پر ایک جامع مرّقع ہے۔
تینوں کتابیں مل کر بلوچستان کے بارے میں ایک خوش گوار تاثر پیش کرتی ہیں جو اس کی پس ماندگی کے عمومی تاثر سے خاصا مختلف ہے۔ اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں علوم و فنون کی ایک پختہ روایت ہمیشہ سے موجود رہی ہے۔ (ر- ہ )
سفرنامہ ایک دل چسپ صنفِ سخن ہے۔ گذشتہ ربع صدی میں لکھے گئے سفرنامے زیادہ تر حج و عمرہ کے ہیں یا پھر ترقی یافتہ ممالک کی معاشرتی تصویریں اور رنگین ساحلوں کے حیاسوز ماحول کی روادادیں۔ زیرنظر سفرنامہ اس لحاظ سے منفرد ہے کہ یہ ایک غریب‘ پس ماندہ اور ترقی پذیر افریقی ملک سوڈان کا سفرنامہ ہے۔ ایک ایسا ملک جس کے حالات اور معاشرت ایک تسلسل اور تیزی سے بدل رہے ہیں اور تبدیلی کا یہ سفر نہایت مثبت سمت میں ہے اور اسلامی قوانین کے عملی نفاذ کے بعد رونما ہونے والی تبدیلی خوش آیند ہے اور نظر بھی آتی ہے۔
سفرنامہ نگار ‘ مدیرہ ماہنامہ بتول کے قلم سے سوڈان پر یہ پہلا بھرپور سفرنامہ ہے۔ بقول ڈاکٹر وحیدقریشی: اس میں سوڈان کی بدلتی ہوئی زندگی کا منظرنامہ پیش کیا گیا ہے… قارئین کے لیے کسی ترقی پذیر ملک کی سرگذشت ایک نئی چیز ہوگی (ص ۱۰)۔ یہ پاکستان کے ان قارئین کے لیے ایک خاصے کی چیز ہے جو پاکستان میں اسلامی نظامِ حیات کی فیوض و برکات کے منتظر ہیں اور یہ آس ایک حسرت بنتی جارہی ہے۔ ثریا اسماء نے شادی بیاہ اور دیگر سماجی محفلوں کے علاوہ‘ وہاں کی سماجی تقاریب میں بھی بنفسِ نفیس شرکت کی‘ اندرونِ ملک سفر کیے اور معاشرے میں گھوم پھر کر دیکھا اور مشاہدات کو بلاکم و کاست مگر تجزیاتی سلیقے سے قلم بند کردیا۔
معاشرے میں مساوات اور برابری ہے۔ گھریلو ملازمتیں اور مالکان‘ چھوٹے ملازمین اور افسران میں کوئی اُونچ نیچ کا نظام نہیں۔ شراب پر پابندی ہے۔ کھاناپینا نہایت سادہ اور ذرائع ابلاغ کا کردار قابلِ رشک ہے۔ ۴۰ سال تک کی عمر کے ہر مرد و زن کے لیے فوجی تربیت لازمی ہے۔
آبادی میں عورتوں کا تناسب زیادہ ہے اور وہ کثیرتعداد میں معاشرے کی تعمیر میں لگی ہیں۔ عورتوں کی باپردہ فوج بھی موجود ہے۔ مصنفہ نے بجاطور پر تنقید کی ہے کہ سوڈانی عورتیں‘ مردوں سے مصافحہ کرنے اور چہرہ کھلا رکھنے میں مضائقہ نہیں سمجھتیں۔ اس سلسلے میں انھوں نے وہاں کی خواتین سے بحثیں بھی کیں۔ سوڈان کی معاشیات پر بھارت کے اثرات کو انھوں نے حیرت ناک اور توجہ طلب قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کا یہ تبصرہ بجا ہے: یہ معلومات افزا سفرنامہ ہمیں ظاہری لفظوں سے فقط خارج ہی کی سیر نہیں کراتا‘ بلکہ کہیں کہیں دل کے تاروں کو چھیڑتا اور اپنے اندرون میں جھانکنے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے (ص ۹)۔ خوب صورت سرورق‘ عمدہ طباعت اور مضبوط جلد‘ دل کشی میں اضافے کا باعث ہے‘ نیز قیمت بھی مناسب ہے۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)
’کوئلوں پر مُہر‘(فروری ۲۰۰۶ئ) ذہنوں کو صاف کرنے کے لیے بہترین تحریر ہے۔ ’امریکی جمہوریت کا اصل روپ‘ (فروری ۲۰۰۶ئ)میں پروفیسر خورشیداحمد صاحب نے اپنے خصوصی اسلوب میں دلائل اور خود امریکی دانش وروں کے خیالات سے ثابت کیا کہ موجودہ امریکی حکومت کس آمریت بلکہ بدترین آمریت کے راستے پر چل رہی ہے‘ جب کہ دنیا میں جمہوریت کا پرچار کیا جارہا ہے۔
ترجمان القرآن میں مضامین تو ایک سے بڑھ کر ایک شائع ہوتے ہیں لیکن ان کے قارئین کا حلقہ اس قدر وسیع نہیں ہے جتنا کہ یہ مضامین تقاضا کرتے ہیں۔ ویسے بھی ایسے مضامین راے عامہ کی اصلاح اور سیاسی اور دینی رہنمائی میں بہت موثر ہوسکتے ہیں۔ ’مغرب کا اندیشۂ جہاد اور جہاد‘ اور’ سائنس اور انجینیرنگ میں عورتوں کی کم نمایندگی‘ (فروری ۲۰۰۶ئ) وسیع تر اشاعت کے متقاضی مضامین ہیں۔
فروری کے شمارے کے تمام مضامین وقت کی ضرورت‘ تشنگان اُمت کی پیاس بجھانے اور ایمان تازہ کرنے والے ہیں۔ محترم محمد وقاص کا مضمون ’تزکیہ:ایک ہمہ پہلو اور ہمہ گیر عمل‘محترم قاضی حسین احمد کے ’۲۰۰۶ئ: دعوت کا سال‘ میں پیش کیے گئے چار نکات میں سے پہلے نکتے: تطہیر افکار کی تشریح و توضیح اور تفصیل ہے۔ ایک سہو یہ ہوا ہے کہ تزکیہ کا مادہ زک ۃ لکھا ہے(ص ۴۱)۔ یہ قطعاً غلط ہے‘ بلکہ اس کا مادہ زک و ہے۔ اس مادے سے قرآن مجید میں ۵۸کلمات آئے ہیں‘ اسما ۳۸ اور افعال ۲۰ ہیں۔
ترجمان القرآن کے تمام مضامین بالخصوص ’اشارات ‘نہایت ہی معلوماتی اور اعلیٰ معیار کے ہوتے ہیں۔ ہرمہینے کی یکم تاریخ سے رسالے کا انتظار رہتا ہے۔ خالدہ مسلم کا دردبھرا خط (فروری ۲۰۰۶ئ) دنیابھر کے مسلمانوں کے احساسات کی ترجمانی کرتا ہے۔ کاش! مسلمان ملکوں کے حکمران اس حقیقت کو سمجھ سکیں کہ مغرب کی اتباع میں ذلت اور رسوائی کے سوا کچھ نہیں۔
’کشمیر- خطرناک سیاسی زلزلوں کی زد میں‘ (جنوری ۲۰۰۶ئ) حالات و واقعات کے تناظر میں نہ صرف وقت کی پکار اور جیتی جاگتی تصویر ہے‘ بلکہ خوابِ خرگوش میں مبتلا حکمرانوں کو جگانے اور عوام کی فکری رہنمائی اور متحرک کرنے کا موثر ذریعہ بھی ثابت ہوسکتا ہے بشرطیکہ اربابِ اختیار خودپسندی‘ روشن خیالی اور اندھادھند امریکی تابع داری کا جوا اُتار پھینکیں اور بھارت کی وقت گزاری اور منافقانہ پالیسی کو سمجھ جائیں۔
’امدادی سرگرمیوں کی آڑ میں‘ (جنوری ۲۰۰۶ئ) پڑھ کر اندازہ ہوا کہ عیسائی کس طرح عیسائیت پھیلا رہے ہیں‘ اور اس کے مقابلے میں ہم اسلام کی اشاعت کے لیے کس سرگرمی اور جذبے کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ہمیں تو عیسائیوں سے بڑھ کر سرگرم عمل ہونا چاہیے۔ ہمارے کتنے ادارے یا تنظیمیں ہیں جو عیسائیوں میں اسلام پھیلا رہی ہیں یا انٹرنیٹ کے ذریعے اسلام پھیلانے میں مصروف ہیں!
’آیت الکرسی کا مطالعہ‘ (جنوری ۲۰۰۶ئ) اثرانگیز اور نُدرت لیے ہوئے ہے۔ دیگر قرآنی آیات جن کا آغاز اللہ سے ہے کی روشنی میں آیت الکرسی گُلِ سرسبد کی طرح ہے۔ یہ کاوش القُرآن یُفَسّرُ بَعْضُہٗ بَعُضَہ کی عمدہ مثال ہے۔
’دوران نماز متن یا ترجمۂ قرآن دیکھ کر پڑھنا‘ (جنوری ۲۰۰۶ئ) کے مسئلے کا ایک درمیانی حل یہ بھی ہے کہ چار رکعات تراویح میں قرآن حکیم کا جتنا حصہ پڑھا جاتا ہو‘ پہلے قرآن سامنے رکھ کر اس کا ترجمہ اور مختصراً تشریح و توضیح کرلی جائے اور بعد میں اس حصے کو تراویح میں سن لیا جائے۔ اس طرح سامعین کی ترجمے اور مضامین و مفاہیم سے ذہنی مناسبت بھی قائم رہتی ہے اور قیام اللیل کا حق بھی ادا ہوتا ہے۔
احسن مستقیمی ‘ لکھنؤ (بھارت)
’قیادت کا معیار مطلوب‘ (دسمبر ۲۰۰۵ئ) میں جس سلیقے سے مولانا مودودی علیہ الرحمہ کے اقتباسات کا انتخاب اور جتنے عمدہ طور پر انھیں ترتیب دیا گیا ہے وہ قابلِ رشک و تحسین ہے۔ واقعتا تحریک اسلامی کے پیش نظر قیادت کا مطلوبہ معیار غیرمعمولی ہے۔ یہ تحریر قائدین و کارکنان کے لیے رہنمائی و آئینہ ہے اور غوروخوض کا سامان بھی۔
محمود احمدی نژاد کے خیالات مجاہد کی اذاں ہیں۔ متاثرین زلزلہ کی بحالی کے لیے الخدمت فائونڈیشن کی خدمات کا جائزہ اپنی جگہ‘ لیکن ان دنوں متاثرین جن مشکلات سے دوچار ہیں‘ اس کا جائزہ بھی لیا جانا چاہیے۔ انھیں وہ توجہ نہیں مل رہی جو ملنی چاہیے۔
’اشارات‘ برمحل اور موقع کی مناسبت سے اچھی رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ ’تزکیہ و تربیت‘ کے عنوان سے امام غزالیؒ، شاہ ولی ؒاللہ، اشرف علی تھانویؒ، مجدد الف ثانی ؒ، شاہ عبدالقادر جیلانیؒ اور ان جیسے دیگراَئمۂ تصوف کی کتب میں سے اقتباسات دیے جائیں تو تزکیہ و تربیت کا حق ایک حد تک ترجمان ادا کرسکے گا۔
ارض پاکستان کو اسلام کی عظمت سے محروم کرنے کے لیے ‘ اہل مغرب طرح طرح کے کھیل کھیل رہے ہیں‘ جب کہ اسلام کا اپنا مخصوص کلچر اور ثقافت ہے۔ شرم و حیا اور پردہ اہم ترین بنیادی قدر ہے مگر افسوس صد افسوس! مغرب کی اندھی تقلید میں بے غیرتی و بے حیائی کو عام کیا جا رہا ہے۔ مخلوط میراتھن ریس‘ نوجوان نسل سے شرم وحیا ختم کرنے کی ایک گھنائونی سازش ہے۔ یہ ترقی نہیںتباہی کا راستہ ہے۔ دلی دکھ ہوتا ہے جب حکومت فحاشی و بے حیائی اور اسلامی شعائر کے خلاف اس پروگرام میں نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو شرکت کی دعوت دیتی ہے۔ قومی اخبارات میں بڑے بڑے اشتہارات کے ذریعے قومی وسائل بے دردی سے ضائع کیے جاتے ہیں‘ اور اگر اس بے حیائی کے خلاف کوئی آواز اٹھاتا ہے‘ مزاحمت کرتا ہے تو اس جرم میں بے گناہ شہریوں کو ریاستی تشدد‘ لاٹھی چارج‘ جھوٹے مقدمات اور جیلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آخر ہم قوم کو کہاں لے جارہے ہیں؟ حالیہ زلزلے سے پل بھر میں لاکھوں افراد لقمہ اجل بن گئے اور ہنستے بستے شہر زمین بوس ہوگئے۔ ہم نے اس عذاب الٰہی سے کیا عبرت حاصل کی؟
شادی کے موقع پر ولیمہ کی دعوت محض ایک رسم و رواج نہیں ہے‘ بلکہ اس کی ایک شرعی حیثیت ہے۔ افسوس ہے کہ سپریم کورٹ نے ولیمہ کے موقع پر کھانے کی ممانعت کا حکم جاری کرتے ہوئے اس کا لحاظ نہ رکھا۔ عموماً لوگ مہر کی ادایگی میں کوتاہی کرتے ہیں‘ جب کہ رسولؐ اللہ کے اپنے عمل اور سنت سے ثابت ہے کہ مہرشادی کے وقت ہی لڑکی کے حوالے کردینا چاہیے۔ اس پر ہمارے یہاں عام طور سے عمل نہیں ہوتا اور اس سلسلے میں لڑکیوں پر بڑا ظلم کیا جاتا ہے کہ شادی کے بعد شوہر ان سے مہر معاف کرالیتا ہے یا حیل و حجت سے مہر ادا نہیں کرتا۔ سپریم کورٹ کا فرض ہے کہ وہ شریعت کے اس حکم پر لوگوں سے عمل کرائے۔
آج اُمت مسلمہ کو جس ذلت و خواری کا سامنا ہے‘ اس کی سب سے بڑی وجہ مسلمان ملکوں میں سودی نظام کا جاری رہنا اور اللہ اور رسولؐ سے کھلی بغاوت ہے‘ مگر اس کے ساتھ ساتھ بلاسود بنک کاری نظام کے لیے کوششیں بھی جاری ہیں۔ ویب سائٹ www.realislamicbanking.com پر ایسے بلاسود بنک کاری نظام کی تفصیل مہیا کی گئی ہے جو فوری طور پر بلاکسی اتھل پتھل کے موجودہ سودی بنک کاری نظام کی جگہ لے سکتا ہے۔
۲۷ جنوری سے ۴ فروری ۲۰۰۶ء تک پرگتی میدان‘ دہلی کے ۱۷ویں عالمی کتاب میلے میں شرکت کا موقع ملا۔ اس کی وسعت کا اندازہ ایک عام پاکستانی بغیر دیکھے شاید نہیں کرسکتا۔ ۹‘ ۱۰ دن پورے بھی لگائے جائیں تو ہراسٹال پر پیش کی جانے والی کتب پر نظر ڈالنا بھی ممکن نہیں۔ ۲‘۴ پاکستانی ناشرین کے اسٹال جن میں ہمارا منشورات کا بھی تھا‘ ۱۴نمبر ہال میں تھے لیکن ہال نمبر۵ سے جہاں بھارت کے اُردو پبلشرز تھے اتنا فاصلہ تھا کہ آنا جانا آسان نہ تھا‘ گاڑیاں چلتی تھیں۔
ایک ادارہ نیشنل کونسل فار پرموشن آف اُردو لینگویج پورے ملک کے مختلف شہروں میں اُردو کتابوں کے میلے لگاتا رہتا ہے۔ سال بھر سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ایک صاحب نے بتایا کہ مغربی بنگال میں شوق کتب کچھ زیادہ ہی ہے۔ کلکتہ کے ۱۵ روزہ کتاب میلہ میں روزانہ ایک ایک لاکھ آدمی آتا ہے‘ اتوار کو ۴ لاکھ تک آتے ہیں۔ بنگلور کے عبدالرقیب صاحب نے بتایا کہ جنوب میں تامل زبان میں کتاب میلے کی اپنی روایت ہے۔ انھوں نے مجھے خرم مراد کے بعض تامل تراجم بھی دکھائے۔ اندازہ ہوا کہ کتاب کا گاہک موجود ہے‘ اس لیے یہ سارا کاروبار چلتا ہے۔ اس میلے سے ہم نے خود جلوس کے جلوس باہر نکلتے دیکھے۔ لڑکے‘ لڑکیاں‘ بزرگ‘ پورے پورے خاندان‘ سب واپسی پر تھیلوں سے لدے ہوئے تھے۔ رخصت ہونے سے پہلے ہی ہمیں ایک دوسرے بک فیئر کا دعوت نامہ انڈیا بک ٹریڈ پرموشن کی طرف سے ملا جس کے اسٹال کی بکنگ صرف ۴۶ ہزار روپے میں تھی! سائیکل رکشہ غربت اور استحصال کی علامت کے طور پر دہلی جیسے شہر میں موجود ہے۔ جس نے بھی پاکستان سے اسے ختم کیا‘ ہم پر بڑا احسان کیا۔
اس کا رونا تو اب فضول ہے کہ ہمارا ملک عربوں کے ابرکرم سے گویا محروم رہا اور اس بدقسمت سرزمین کے حصے میں درہ خیبر سے آنے والے ایسے فاتح آئے‘ جن کی زبان ترکی یا فارسی تھی اور جن کا اسلامی تصور خود واضح اور صاف نہیں تھا۔ ظاہر ہے‘ ایسے بادشاہوں اور کشور کشائوں کی سرپرستی میں عربی زبان کس طرح پروان چڑھ سکتی تھی؟ نتیجہ یہ ہوا کہ آغاز اسلام سے شاہ ولی اللہ دہلوی (۱۱۱۴ھ - ۱۱۷۶ھ) سے پہلے تک شمالی ہند میں عربی کے دو چار اچھے لکھنے والے بھی نہیں ملتے۔ شمالی ہند کے مایۂ ناز شاعر آزاد بلگرامی تک کا یہ عالم ہے کہ ان کی شاعری خالص عجمی اور ہندی رنگ میں رنگی ہوئی ہے۔ گجرات و سندھ کے علاقوں سے صَرف نظر کرلیجیے‘ تو کیا دین‘ کیا زبان‘ ہرلحاظ سے شمالی ہند میں گھٹاٹوپ اندھیرا چھایا ہوا تھا۔
یہ ایک ٹھوس تاریخی حقیقت ہے۔ خواہ ارباب ’غنیمت‘ اور ملوکیت پرستوں کو اس سے کتنی ہی تکلیف کیوں نہ ہو۔ لیکن ہماری اور آپ کی آرزوئوں سے حقیقتیں نہیں بدل سکتیں‘ اورنہ اسلامی دستور و آئین میں ایسے بادشاہوں کے لیے کوئی جگہ نکل سکتی ہے۔ پر افسوس یہ ہے کہ ہندستان میں عربی زبان کی یہ بے بسی اب بھی دُور نہیں ہوئی اور ۵۰‘ ۶۰ سال سے صحیح زبان کی ترویج و تعلیم کے لیے مخلصانہ کوششیں جاری ہیں‘ مگر اب تک خاطرخواہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ہے۔ کامیابی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ وہ اصحابِ درس ہیں‘ جو اب تک ارسطو کی سڑی ہوئی ہڈیوں پر فاتحہ خوانی کو ’علم‘ سمجھے بیٹھے ہیں اور ان کے ذہن میں کسی طرح یہ حقیقت اُتر نہیں پاتی کہ کتاب عزیز اور دین کے فہم کے لیے یونانی خرافات سے زیادہ علم عربیت کی ضرورت ہے…
جدید مصر میں ایک روشناس ادیب کامل کیلانی نے حکایات الاطفال کے نام سے بچوں کے ازخود مطالعے کے لیے ریڈروں کا ایک سلسلہ تالیف کیا ہے--- [علی میاں] نے کامل کیلانی کا پورا چربہ اُتارا ہے--- اور [مصنف] نے انبیا کے قصے منتخب کیے ہیں۔ زیرتبصرہ کتابچے میں حضرت ابراہیم ؑاور حضرت یوسف ؑ کے قصے ہیں۔ مصنف عربی زبان کا بڑا ستھرا اور اچھا مذاق رکھتے ہیں۔ ایسا اچھا مذاق کہ شاید ہندستان میں کم لوگوں کو نصیب ہو۔ اس لیے کتاب میں کسی قسم کی عجمیت‘ ہندیت یا رکاکت دخل انداز نہیں ہوسکی (قصص النبیین للاطفال‘ مولانا ابوالحسن علی حسنی ندوی پر تبصرہ) ۔ (’مطبوعات‘ مسعود عالم ندوی، ترجمان القرآن‘ جلد ۲۸‘ عدد ۴‘ ربیع الثانی ۱۳۶۵ھ‘ مارچ ۱۹۴۶ئ‘ ص ۶۲-۶۳)