مضامین کی فہرست


جون ۲۰۰۳

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

پاک بھارت مذاکرات کی ضرورت اور افادیت کا کون کافر منکر ہوگا۔ اس سلسلے میں جو بھی پیش رفت ہو سر آنکھوں پر‘ چشم ما روشن دلِ ماشاد! البتہ جو بات سمجھنے اور سمجھانے کی ہے وہ صرف اتنی ہے کہ مذاکرات نہ محض ملاقات کا نام ہیں اور نہ خود کلامی کے انداز میں اپنی اپنی پوزیشن کے اعادے کا۔ مذاکرات اسی وقت مفید اور نتیجہ خیز ہوسکتے ہیں جب کم از کم تنازعے کا ادراک اور اعتراف ہو اور حل کی تلاش کی خواہش اور جستجو۔ اگر عالم یہ ہو کہ ایک طرف شاعرانہ گم گشتگی کے ساتھ ’’دوستی کاہاتھ‘‘ بڑھایا جائے اور دوسری طرف ’’اٹوٹ انگ‘‘ کا نعرۂ مستانہ لگایا جائے اور ’’سرحد پار دراندازی‘‘ بلکہ ’’دہشت گردی‘‘ کا راگ مسلسل الاپا جائے تو پھر بات چیت اور افہام تفہیم کا دروازہ کیسے کھلے؟ بقول غالب   ؎

حضرت ناصح گر آئیں‘ دیدہ و دل فرشِ راہ

کوئی مجھ کویہ تو سمجھا دو‘ کہ سمجھائیں گے کیا؟

پاک بھارت تعلقات میں استحکام اور سدھار کی راہ میں حائل ایک اور رکاوٹ وہ غیر حقیقت پسندانہ انداز ہے جس میں دوستی اور مخالفت دونوں کا رنگ آہنگ رچا بسا نظر آتا ہے۔ مخالفت ہو تو تلخی اتنی بڑھتی ہے کہ چشم زدن میں بات گالم گلوچ اور تیغ و تفنگ تک پہنچ جاتی ہے اور پھر اگر دوستی کی ہوائیں چلتی ہیں تو پل بھر میں رازو نیازاور لطف و التفات کا کچھ ایسا سماں بندھ جاتا ہے گویا تلخی اور تصادم کے کوئی اسباب ہی نہ تھے اور نہ جسم پر کوئی زخم لگے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے امیدوں کے قصرتعمیر ہونے لگتے ہیں‘ شاعرانہ بلند خیالیاں فضا پر چھا جاتی ہیں اور لاہور کی پُرفریب الفت رانیوں اور آگرہ کی ’’ایسی بلندی‘ ایسی پستی‘‘ کی کیفیات طاری ہو جاتی ہیں۔ کبھی معاہدوں کے لیے میزیں سجائی جاتی ہیں اور کبھی الوداع کہنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی جاتی۔ کبھی پیش ضرب کاری (pre-emptive strike) کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ ۱۶ ماہ تک فوجیں کیل کانٹے سے لیس آنکھیں چار کیے رہتی ہیں اور نیوکلیر اسلحہ اپنے خول میں کلبلانے لگتا ہے اور کبھی ایک طرف سے دوستی کے پھول ’’زندگی کی آخری خواہش‘‘ بن کر سرحد پار گل پاشی کرنے لگتے ہیں تو دوسری طرف ’’سنجیدگی اور خلوص‘‘کے دریا دریافت ہو جاتے ہیں اور توقعات کے تاج محل ریت کی زمین پر بلند ہوتے نظر آتے ہیں۔

یہ جذباتیت اورعدم توازن‘ اور زمینی حقائق اور تلخ تاریخی عوامل کو نظرانداز کرکے خیالی ترک تازیاں بھی مسائل کی تفہیم اور حالات کے سدھار میں رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ نہ ایسی دوستی حقیقت پر مبنی ہے اور نہ ایسی دشمنی واحد آپشن۔ حریف سنگ ہونے کے لیے زندگی کے حقائق پر نظر ضروری ہے۔ جذباتی انداز میں ’’چوٹی کی ملاقاتیں‘‘ راہ کی مشکلات کا حقیقی جواب نہیں۔ ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ صرف ٹھنڈے دل سے معاملات اور تنازعات کا تجزیہ اور ٹھوس اور حقیقت پسندی پر مبنی ہوم ورک سے حل کی راہیں استوارہوسکتی ہیں۔ جو حقیقی قوتیں اور دبائو مسئلے کو اجاگر کرنے کا ذریعہ بنی ہیں‘ ان کے موثر ترہوئے بغیر مذاکرات کی کوئی گاڑی آگے نہیں بڑھ سکتی۔

اعتماد بحال کرنے والے نام نہاد اقدامات کے چکر میں ہم ۱۹۴۹ء کے لیاقت نہرو معاہدے سے لے کر ۱۹۶۵ء کے معاہدہ تاشقند‘ ۱۹۷۳ء کے شملہ معاہدہ اور ۱۹۹۹ء کے ’’اعلانِ لاہور‘‘ تک گھرے رہے ہیں اور معاملہ ’’ہنوز دلی دور است‘‘ کا ہے۔ ہماری نگاہ میں کلیدی مسئلے دو ہیں‘ باقی تمام امور ضمنی یا ذیلی ہیں۔

پہلا بنیادی مسئلہ ایک دوسرے کو کھلے دل سے تسلیم کرنے کا ہے۔ محض مینارِ پاکستان پر حاضری کا نہیں۔ بھارت نے پہلے دن سے ملک کی تقسیم کو ایک ’’ناجائز عمل‘‘ سمجھا اور صاف الفاظ میں اس کا اعلان کیا ہے۔ ۳ جون ۱۹۴۷ء کی تقسیمِ ہند کی تجویز کو تسلیم کرتے ہوئے کانگریس کی ورکنگ کمیٹی اور اس کی تمام لیڈرشپ نے کھلے لفظوں میں کہا تھا کہ یہ عارضی ہے اور بھارت کو پھرایک ہونا ہے۔ ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان کو بہ زور (ہماری اپنی غلطیوں کے سہارے) پاکستان سے جدا کرنے پر اندرا گاندھی نے اعلان کیا تھا کہ آج ہم نے مسلمانوں سے ان کے ہزارسالہ اقتدار اور تقسیم ملک کے ’’ظلم‘‘ دونوں کا بدلہ لے لیا۔ بی جے پی‘ آر ایس ایس اور ہندو بنیاد پرست جماعتوں کا منشور ہی یہ ہے کہ اکھنڈ بھارت قائم کرنا ہے اور تقسیم کی لکیر کو مٹانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کے اہل علم کی ایک تعداد پاکستان کو برعظیم میں برطانوی اقتدار کی ایک جانشین ریاست (succeeding state) قرار نہیں دیتے بلکہ اسے ایک علیحدگی پسند اور باغی ریاست (seceeding state) قرار دیتے ہیں۔ یہ ان کا سوچا سمجھا ذہن (mind set) ہے جس سے پالیسی اور رویے دونوں کے دھارے پھوٹتے ہیں۔ اس ذہن کو تبدیل کیے بغیر‘ اور ایک دوسرے کو مبنی برحق ریاست تسلیم کیے بغیر‘ حالات میں بنیادی تبدیلی مشکل ہے۔

گذشتہ سال گجرات کے انتخابات میں صرف مسلمانوں کاقاتل مودی ہی نہیں‘ ایڈوانی اور واجپائی سمیت پوری بی جے پی کی قیادت نے ساری الیکشن کی مہم مشرف ‘پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف پاکستان دشمنی کی بنیاد پر چلائی اور اپنی سر پر لٹکتی شکست کو کامیابی میں بدل دیا۔  ابھی ۲ مئی ۲۰۰۳ء کو بی بی سی کے Question Time India پروگرام میں بی جے پی  /شیوسینا کے رکن پارلیمنٹ نے فخر سے کہا کہ بھارت کو پاکستان میں خودکش حملہ آور بھیجنے چاہیں اور دعویٰ کیا کہ وہ خودخودکش حملہ آوروں کے ایسے گروہ میں شرکت کے لیے آمادہ ہیں۔ جب ایشین ایج کی ایڈیٹر نے اسے مہذب معاشرے کے آداب کے خلاف قرار دیا تو حاضرین کی ۷۰ فی صد نے (واضح رہے کہ بی بی سی کے ان پروگراموں میں مختلف طبقات کے مہذب پڑھے لکھے لوگ ہی بلائے جاتے ہیں) بڑے جوش و خروش سے پاکستان کو ایسے حملوں کا نشانہ بنانے کی تائید کی۔نیز جب ایک ای میل کے ذریعے کشمیر کی لائن آف کنٹرول کو مستقل سرحد بنانے کی تجویز آئی تو بی جے پی کے نائب وزیر خارجہ دج وی جے سنگھ نے نفرت اور غصے سے یہ اعلان کیا کہ ہمیں پورا کشمیر چاہیے ‘محض لائن آف کنٹرول کو سرحد نہیں مان سکتے!

یہ وہ ذہنیت ہے جو تعلقات کی راہ میں سدّ سکندری کی طرح حائل ہے۔ پاکستان میں بھی بھارت کے خلاف شعلہ بیانیاں کرنے والے موجود ہیں لیکن بحیثیت مجموعی پاکستان کی ریاست‘ اس کی کسی بھی حکومت اور اہم سیاسی قیادت نے ریڈکلف ایوارڈ کی ساری زیادتیوں اور حق تلفیوں کے باوجود‘ بھارت کے کسی علاقے پر کوئی دعویٰ نہیں کیا اور کشمیر کے مسئلے کے سوا جو متنازعہ ہے‘ ہمارے درمیان سیاسی جغرافیے کے بارے میں کوئی جھگڑا نہیں۔ پاکستان بھارت کو کھلے دل سے تسلیم کرتا ہے البتہ برابر کی خودمختار حیثیت کی بنیاد پرمعاملہ کرنا چاہتا ہے‘ جب کہ بھارت پاکستان کو جسم میں کانٹے کی حیثیت دیتا ہے اور ایک باج گزار ملک کی حیثیت سے دیکھنا چاہتا ہے بلکہ اپنا ہی کٹا ہوا انگ قرار دیتا ہے۔

پہلا مسئلہ جس پر حقیقت پسندی کے ساتھ افہام و تفہیم کی ضرورت ہے۔ ایک دوسرے کو برابری کے ساتھ تسلیم کرنا اور نظریاتی اور تہذیبی اختلاف کو تحقیر کی نظر سے نہیںاحترام کی نظر سے دیکھنے کی روایت ڈالنا ہے۔ دو قومی نظریہ جو ہماری ریاست کی بنیاد ہے‘ ان کی نگاہ میں وہی   بِس کی گانٹھ ہے۔ نظریاتی اور تہذیبی اختلاف کو وہ معتبر ماننے کو تیار نہیں اور یہی ان کی عدم رواداری بلکہ جارحیت کا منبع ہے۔ اگر اختلاف کو معتبرمان کر برابری کی بنیاد پر دوستی کی بات ہو تو پاکستان اس کے لیے کافی حد تک آگے (more than half way) جانے کے لیے تیار ہے اور اس میں پاکستان کی تمام سیاسی اور دینی قوتوں میں کوئی اختلاف نہیں۔ البتہ بھارت کو اپنا نظریاتی اور تہذیبی تسلط قائم کرنے کا رویہ ترک کرنا ہوگا‘ اسے ہماری سیاسی اور تہذیبی شناخت کے مبنی برحق ہونے پر حرف گیری ختم کرنا ہوگی اور علاقے میںاپنی اپنی تہذیبی و ثقافتی انفرادیت کی بنیاد ایک دوسرے سے تعاون کی روایت مستحکم کرنا ہوگی۔ ثقافتی اور معاشی رشتے--- محض  اعتماد بحال کرنے کے اقدامات نہیں---صرف اسی وقت بارآور ہوسکتے ہیں جب تعلقات برابری اور احترام کی بنیادوں پہ استوارہوں ورنہ یا ان پر نفاق کا سایہ ہرلمحہ موجود رہے گا یا پھر  وہ سامراجی اور برتری اور کمتری کے کسی نہ کسی فریم ورک کے اسیر رہیں گے جو صحت مند اور باوقار تعاون کے منافی ہے۔

دوسرا بنیادی اور کلیدی مسئلہ جموں و کشمیر کی ریاست کے مستقبل سے متعلق ہے۔ دستور‘ قانون اور بین الاقوامی عہدوپیمان ہر اعتبار سے کشمیر کا پورا علاقہ ایک متنازعہ علاقہ ہے جو تقسیم ملک کے ایجنڈے کا نامکمل حصہ ہے۔ بھارت صرف قوت سے ریاست کے بڑے حصے پر قابض ہے اور شملہ معاہدہ کے بعد اس کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے دھوکے سے سیاچین پر بھی قابض ہو گیا ہے۔ سیاچین یا وولربیرج یا سر کریک کے مسائل کوئی مستقل بالذات مسائل نہیں ہیں‘ مسئلہ کشمیر ہی کا ایک حصہ ہیں۔ کشمیری عوام نے ہر دور میں اور خاص کر گذشتہ چودہ سالوں میں سیاسی اور عسکری جدوجہد کے ذریعے بھارت سے اپنی مکمل علیحدگی (alienation) کا بھرپوراظہار کردیا ہے۔ یہ حقیقت دنیا کے سامنے ہے جس کی شہادت ۶۰‘۷۰ ہزار افراد نے اپنے خون سے دی ہے کہ نہ وہ بھارت کا حصہ ہیں اور نہ ان کے لیے کوئی ایسا انتظام قابلِ قبول ہے جس میں وہ بھارت کے دستور کے تحت ہوں۔ انھیں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار ہونا چاہیے اور جو حق شمالی آئرلینڈ اور مشرقی تیمور کو دیا گیا ہے‘ وہی ان کو دیا جائے تاکہ وہ اپنی آزاد مرضی سے اپنے مستقبل کو طے کرسکیں۔

مسئلہ کشمیر کے تین فریق ہیں: پاکستان‘ بھارت اور جموں و کشمیر کے عوام۔ اور مسئلے کا کوئی حل اس کے سوا نہیں کہ یہ تینوں کھلے دل سے مذاکرات کریں۔ حق خود ارادیت اور تقسیم ہند کے طے شدہ اصولوں کی روشنی میں آج کے حالات کے مطابق ریاست کے عوام کو اپنا مستقبل طے کرنے کا آزادانہ موقع دیں اور اس کے تفصیلی عملی طریق کار کو باہمی مشاورت سے خود طے کریں یا غیرجانب دار عالمی انتظام کے تحت اس کا راستہ نکالیں۔

مذاکرات کا موضوع یہی دونوں کلیدی معاملات ہیں اور مذاکرات کا ہدف ان دونوں معاملات کے مبنی برحق اور افہام و تفہیم سے طے ہونے والے متفقہ لائحہ عمل کو ہونا چاہیے۔بیرونی دبائو‘ قوت کے مظاہرے اور سیاسی عجلت پسندی سے ایسے بنیادی مسائل نہ ماضی میں طے ہوئے ہیں اور نہ آج ہوسکتے ہیں۔ ’’کچھ کر دکھانے‘‘ کا جذبہ اور نوبل انعام کا مستحق بننے کی خواہشات خواہ کتنی ہی دل پسند ہوں‘ تاریخی حقائق اور عوامی خواہشات کا بدل نہیں ہوسکتیں۔ ڈپلومیسی کے کتنے ہی راستے (tracks) کیوں نہ ہوں‘زمینی حقائق اور جموں و کشمیر کے عوام کی خواہشات اور ان کے حصہ لینے ہی سے مسئلے کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ روڈمیپ اسی وقت مفید ہو سکتا ہے جب روڈ ہو--- اور روڈ صرف ایک ہے‘ یعنی بین الاقوامی معاہدات کے مطابق استصواب رائے۔ اس کا کوئی شارٹ کٹ نہیں۔ جموں و کشمیر کے عوام نے جس تاریخی شعور کا مظاہرہ کیا ہے‘ بیرونی تسلط کے خلاف جس جرأت‘ استقلال سے مزاحمت کی تاریخ رقم کی ہے‘ آزادی کے لیے قربانیوںکا جو نذرانہ پیش کیا ہے اور غیرمنصفانہ سمجھوتے کے ہر راستے کو جس طرح رد کیا ہے اس کا تقاضا ہے کہ ان کو اپنے مستقبل کو طے کرنے کا موقع دیا جائے۔ نیز بھارت اور پاکستان دونوں کو‘ اگر وہ مسئلے کا حل چاہتے ہیں‘ وہ راستہ اختیار کرنا چاہیے جس کے نتیجے میں جموں و کشمیر کے عوام اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اپنا مستقبل طے کر سکیں اور جو فیصلہ بھی وہ کرلیں اسے کھلے دل سے قبول کر لیا جائے۔ اس سلسلے میں پاکستانی عوام اور جموں و کشمیر کے عوام کے درمیان مکمل یک جہتی ہے اور پاکستانی حکومتیں بھی اسی موقف کو اپنا اصولی موقف اور قومی پالیسی قرار دیتی رہی ہیں۔ اگر ۵۵ سال ہم اس پر قائم رہے ہیںتوکوئی وجہ نہیں کہ آج اس سے انحرف کر کے کوئی اور راستہ اختیار کیا جائے۔ دوستی وہی پایدار اور مستحکم ہوسکتی ہے جو حقائق اور انصاف پر مبنی ہو۔ دبائو یا مصلحت کے تحت ہونے والے معاملات تارِ عنکبوت کی طرح ہوتے ہیں اور زندہ قومیں وقتی مصلحتوں کی خاطر اصولی موقف ترک نہیں کیا کرتیں۔

آج پاکستان کی قیادت اور قوم دونوں کا امتحان ہے کہ وہ ایک نسبتاً معاندانہ بین الاقوامی ماحول میں بھی کس حد تک ایمان‘ استقامت اور تاریخی شعور کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ مذاکرات ضرور کیجیے اور جتنی بار موقع ملے‘ کیجیے لیکن تاریخی حقائق ‘ اصول انصاف اور اہل کشمیر کے حق پر سمجھوتہ کرنے کے ظلم سے اپنے دامن کو بچائے رکھیے۔ تاریخ کا سبق ہے کہ کبھی ایک قوم کسی دوسری قوم کو محض قوت اور جبر سے ہمیشہ کے لیے مغلوب نہیں رکھ سکی ہے۔ فرعون کے دور میں بنی اسرائیل سے لے کر دورِ جدید کے استعماری نظام کے زیرتسلط اقوام کی تاریخ تک اس پر شاہد ہے: ولن تجد لسنۃ اللّٰہ تبدیلا، اور اللہ کی سنت بدلا نہیں کرتی۔ وقت ہمارے ساتھ ہے‘ ضرورت یکسوئی‘ صبر اور استقامت کی ہے۔


پاکستانی قوم اور قیادت دونوں کے لیے ضروری ہے کہ بھارت کی تازہ نام نہاد دوستی اور مذاکرات کی پیش کش کے اصل مقاصد اور اہداف کا ٹھیک ٹھیک ادراک کرے۔ نیز امریکہ کا اس علاقے اور خصوصیت سے چین‘ بھارت اور پاکستان کے سلسلے میں کیا منصوبہ اور پالیسی ہے اس کا بھی گہری نظر سے جائزہ لے اور تاریخی حقائق کی روشنی میں تجزیہ کرے۔ پھر اپنے قومی مفادات اور علاقے کے بارے میں اپنے وژن کی روشنی میں پالیسی کے مقاصد طے کرے‘ ان کے حصول کی حکمت عملی کا تعین کرے اور ان پر موثرانداز میں عمل کرنے کے لیے نقشہ کار مرتب کرے۔ اس وقت جنرل پرویز مشرف‘ وزیراعظم ظفراللہ جمالی‘وزیرخارجہ خورشید محمود قصوری اور شیخ رشیداحمد جس نوعیت کے اور جس رفتار سے بیانات دے رہے ہیں ان سے ژولیدہ فکری‘ عجلت پسندی‘ رومانوی توقعات اور آج تک کی اس پالیسی سے عملی انحراف کے واضح خطوط نظر آرہے ہیں جس پر ملک میں اتفاق رائے تھا۔ ایک طرف اصولی موقف میں عدم تبدیلی کا دعویٰ ہے اور دوسری طرف وہ سب کچھ کہا اور کیا جا رہا ہے جس کا اس اصولی موقف سے کوئی علاقہ نہیں بلکہ اس سے صریح انحراف ہے۔ یہ صورت حال بڑی خطرناک ہے۔

یہ سب کچھ بڑی حد تک ایک فردِ واحد کے اشارہ چشم و آبرو پر ہو رہا ہے‘ نہ پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا گیا ہے اور نہ کسی معقول اور موثر قومی سطح کی افہام و تفہیم کا اہتمام کیا گیا ہے۔ دوسری طرف ملک پر امریکی قیادت کی یلغار ہے اور ہدف محض ۱۱ ستمبر اور نام نہاد عالمی دہشت گردی ہی نہیں‘ پاک بھارت تعلقات اور مسئلہ کشمیر کا امریکی منصوبے کے مطابق ’’حل‘‘ یا بہ الفاظ صحیح تر ’’تحلیل‘‘ بھی ہے‘ اس لیے ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ قوم کے سامنے ان چاروں پہلوئوں یعنی بھارت کے اہداف‘ امریکہ کا منصوبہ‘ پاکستانی قیادت کی لچک اور منتشرخیالی اور اقبال اور قائداعظم کے وژن کے مطابق مسئلہ کشمیر پر اصل قومی موقف اور اس کے حصول کے لیے صحیح حکمت عملی کے بارے میں ضروری گزارشات پیش کریں۔

بھارت نے آگرہ کے بعد کشمیر کے بارے میں اپنی پرانی حکمت عملی کو ایک نیا رنگ دیا۔ ایک طرف ریاستی تشدد میں کئی گنا اضافہ کر دیا۔ پوٹا (POTA)کے ذریعے کشمیری قیادت کی زبان بندی اور ان کو دہشت گردی کے نام پر حراست اور تشدد کا نشانہ بنانے کی جارحانہ پالیسی پر عمل شروع کیا تو دوسری طرف پاکستان کو عالمی برادری میں تنہا (isolate) کرنے کے لیے سفارتی مہم تیز تر کی اور تیسری طرف جموں و کشمیرمیں نئے انتخابات کا ڈھونگ رچا کر نیشنل کانفرنس کی جگہ نئے چہروں کو پرانا سیاسی کردار ادا کرنے پر مامور کیا۔ اس زمانے میں ۱۱ ستمبر کا واقعہ پیش آیا اور بھارت نے اس کے سہارے امریکہ سے رشتے کو مضبوط تر کرنے‘امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ نیا گٹھ جوڑ قائم کرنے اور دہشت گردی کے خلاف مہم میں امریکہ کا دست راست بننے اور پاکستان کو کارنر کرنے کی بازی چلی۔ پاکستان نے امریکہ کو اپنا کندھا پیش کردیا‘ اس سے بھارت اپنے تمام مقاصد تو حاصل نہیں کر سکا البتہ تین مقاصد حاصل کرنے میں وہ کامیاب ہوگیا۔ پہلا: امریکہ سے strategic partnership‘ جب کہ ہم سے صرف tactical alliance ہے۔ دوسرا: اسرائیل سے قریبی تعاون‘ پالیسی میں باہمی ربط‘ انٹیلی جنس کی شراکت اور مشترک فوجی ٹریننگ کے نظام کا قیام ۔اور تیسرا: کشمیر میں تحریک آزادی کو دہشت گردی کی صف میں شامل کرانا۔

اس میں سب سے افسوس ناک اور ناقابلِ فہم رویہ جنرل پرویز مشرف صاحب کا رہا جنھوں نے ۱۱ستمبر کے سلسلے میں امریکہ سے تعاون بلکہ امریکہ کے آگے سپرڈالنے کے موقع پر دعویٰ کیا تھا کہ یہ سب کچھ انھوں نے تین ضمانتوں کے ساتھ کیا ہے‘ یعنی اول: افغانستان میں امریکی ایکشن مختصر اور متعین اہداف تک محدود ہوگا‘ دوم: کشمیر کے سلسلے میں پاکستان کے موقف کا تحفظ اور سوم: پاکستان کے strategic resources یعنی ایٹمی صلاحیت کا دفاع۔ لیکن صاف نظر آ رہا ہے کہ یہ تینوں ضمانتیں پادر ہوا ثابت ہوئیں اور ایک ایک کرکے ہر بات کی نفی ہوگئی۔ افغانستان میں آج تک خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے اور خون خرابے کے اس سلسلے کی کوئی انتہا نظر نہیں آرہی۔کشمیر کے سلسلے میں جنوری اور پھر مئی ۲۰۰۳ء میں جنرل صاحب نے پسپائی اختیار کی اور ’سرحد پار دراندازی‘ مجاہد تنظیموں پر پابندی اور پاکستان کی سرزمین کے نام نہاد دہشت گردی کے لیے استعمال نہ کیے جانے کی ضمانت‘ یہ سب کچھ انھوں نے خود طشتری پر رکھ کر امریکہ اور بھارت کو دے دیا اور اس کے ساتھ یہ بھی گردان جاری رہی کہ اصولی موقف میں تبدیلی نہیں کی گئی۔

اس پورے معاملے کا سب سے نقصان دہ پہلو یہی ہے کہ جنگ آزادی اور دہشت گردی کا اصولی اور مسلمہ فرق نظرانداز کر دیا گیا اور بھارت اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے شاطرانہ کھیل میں پروپیگنڈے کی حد تک کامیاب رہا۔ واجپائی صاحب اپنی اس کامیابی کا اظہاربھارتی پارلیمنٹ میں ۸ مئی ۲۰۰۳ء کو یوں کرتے ہیں:

میں نے بڑی کامیابی کے ساتھ عالمی برادری کوقائل کر لیا ہے کہ پاکستان کو کشمیر میں دراندازی روکنی چاہیے۔

بھارت مسئلہ کشمیر اور پاک بھارت تعلقات کے باب میں جس مسئلے کو سب سے اہم اور کلیدی سمجھتا ہے وہ ’سرحد پار دہشت گردی‘ ہے اور امریکہ کے صدر‘ سیکرٹری آف اسٹیٹ اور ان کے پورے طائفے نے بھارت کی ہاں میں ہاں ملائی ہے اور بالآخر جنرل پرویز مشرف سے یہ یقین دہانی حاصل کر لی ہے کہ ’’پاکستان کی طرف سے کشمیر میں لائن آف کنٹرول پار کرنے کی اجازت یا موقع کسی کو نہ دیا جائے اور یہ کہ آزاد کشمیر میں کشمیری مجاہدین کا کوئی کیمپ نہیں اور اگر کوئی ہیں تو وہ کل ختم کر دیے جائیں گے‘‘۔ یہ امریکی نائب وزیرخارجہ رچرڈ آرمٹیج کے الفاظ ہیں۔

۱۸ اپریل ۲۰۰۳ء کو واجپائی صاحب نے اس شاعرانہ انداز میں کہ ’’منہ پھیرکر اِدھر کو‘ اُدھر کو بڑھائے ہاتھ‘‘ سری نگر سے پاکستان کے لیے دوستی کا سندیسہ دیا جس پر پاکستان کی قیادت بغلیں بجا رہی ہے اور ان کی ’’سنجیدگی اور خلوص‘‘ کے گیت گا رہی ہے۔ لیکن واجپائی صاحب نے ۸ مئی کو اپنی پارلیمنٹ میں صاف الفاظ میں اعلان کر دیا کہ ’’جموں و کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے اور نئے حالات میں بھی رہے گا۔ اب تقسیم کا زمانہ نہیں اس لیے کشمیر کی بھی تقسیم نہیں ہوگی۔ کشمیرہم سے کوئی چھین نہیں سکتا‘‘۔ نیز یہ بھی کہ سرحد پار دراندازی بندکرنا ہوگی۔ اس کے بغیر مذاکرات کے لیے ماحول سازگار نہیں۔ اور وہی پرانی بات کہ بھارت مرحلہ بہ مرحلہ  (step by step) اپروچ پر کاربند ہوگا جس کے معنی یہ ہیں کہ پہلے اعتماد بحال کرنے والے اقدام (سی بی ایم) ہوں‘ تجارت بڑھے‘ بھارت کو انتہائی پسندیدہ ملک (most favoured nation) کا مقام دیا جائے‘ ہوائی راستے کھولے جائیں‘ ثقافتی تبادلے ہوں۔ پھر باقی امور پر بات چیت ہوگی۔ یہی لفظ بہ لفظ وہ حکمت عملی ہے جس پر بھارت ۱۹۴۹ء سے مصر ہے۔ شملہ معاہدے میں اسی کو بنیاد بنایا گیا تھا۔ دو طرفہ گفتگو کا وعدہ کیا گیا تھا مگر ۱۹۷۲ء اور ۱۹۹۹ء کے درمیان ۴۵ بار بھارت اور پاکستان کے نمایندے ملے‘ جن میں ایک تجزیے کے مطابق چھ بار اور دوسرے کے مطابق آٹھ بار کشمیر کا نام لیا گیا‘ مگر فی الحقیقت صرف ایک بار۔ وہ بھی ۱۹۹۴ء میں جب مقبوضہ کشمیر میں جہادی تحریک اپنے عروج پر تھی‘ عملاً بات چیت ہوئی جو حسب توقع نتیجہ خیز نہ ہوئی۔ یہ ہے بھارت کی حکمت عملی اور اس کا ریکارڈ۔

۱۸ اپریل کی پیش کش کے بعد واجپائی‘ ایڈوانی‘ جارج فرنانڈس اور یشونت سنہا   سب نے بعینہٖ وہی بات کہی ہے جو پہلے سے کہتے چلے آ رہے ہیں حتیٰ کہ فرنانڈس نے ۱۷ مئی کو   سری نگر میں صاف کہا ہے سیزفائرکا سوال نہیں۔ ایڈوانی نے ۹ مئی کو پارلیمنٹ میں کہا ہے کہ:

میں ان (واجپائی) کے ساتھ بالکل متفق ہوں۔ اگر دہشت گردی کا انفراسٹرکچر ختم نہ کیا گیا تو پاکستان کے ساتھ کوئی دوستی نہیں ہو سکتی۔

بھارتی پارلیمنٹ کے اس اجلاس میں پوری بھارتی قیادت نے بشمول واجپائی ۱۹۹۴ء کے پارلیمنٹ کے ریزولیوشن پر قائم رہنے کا اعادہ کیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ جموں و کشمیر کی پوری ریاست بشمول آزاد کشمیر بھارت کا حصہ ہے اور ریاست کی تقسیم کا کوئی سوال ہی نہیں۔ پارلیمنٹ میں کہا گیا کہ پاکستان سے مذاکرات کی بنیاد ۱۹۹۴ء کا یہ ریزولیوشن ہوگا۔ انھی باتوں کا اعادہ ۱۹ مئی کو بھارتی وزیرخارجہ یشونت سنہا نے کیا ہے۔ اس سب کے باوجود ہمارے وزیراعظم‘ وزیرخارجہ اور وزیراطلاعات بھارت کی سنجیدگی اور خلوص کی باتیں کر رہے ہیں اور کشمیر کے مسئلے کے حل کی نوید سنا رہے ہیں بلکہ اس مژدہ جانفزا کی متوقع تاریخ پیدایش کے بارے میں بھی اشارے کر رہے ہیں حالانکہ بھارت کی قیادت اپنے موقف اور حکمت عملی سے سرمو ہٹتی نظر نہیں آرہی    ؎

دیکھ مسجد میں شکستِ رشتہ تسبیح شیخ

ار بت کدے میں برہمن کی پختہ زناری بھی دیکھ

بھارت کی حکمت عملی کا اگر تجزیہ کیا جائے تو اس کے اہم نکات یہ معلوم ہوتے ہیں:

۱-  دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی عالمی جنگ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان پر اتنا دبائو کہ وہ جہاد کشمیر اور تحریکِ مزاحمت سے دست کش ہو جائے اور عملاً اسی قسم کا یوٹرن کرا لیا جائے جس طرح افغانستان میں ۲۰۰۱ء میں ہوا۔

۲-  پاکستان کو مرحلہ وار راستے پر ڈال کر ہوائی سفر‘ تجارت‘ ثقافت اور دوسرے میدانوںمیں بھارت کے اہداف حاصل کرنے کے لیے مجبور کیا جائے۔

۳-  امریکہ اور اسرائیل سے اپنے تعلقات کو مضبوط کرکے ایک موثر اتحاد: امریکہ اسرائیل بھارت محورکے طور پر قائم کیا جائے اور کشمیر میں خونی حکمت عملی جاری رکھی جائے جس پر اسرائیل فلسطین میں عمل پیرا ہے۔ اس کے لیے صرف اسرائیلی انٹیلی جنس کا تعاون نہیں‘ بلکہ اسرائیلی حربے (tactics) اور ٹکنالوجی دونوں کو استعمال کیا جائے۔

۴-  پاکستان کو غیر جانب دار (neutralize)کر کے ریاستی قوت اور تشدد کے ذریعے (واضح رہے کہ ۱۸ اپریل کے بعد بھارت نے گن شپ ہیلی کاپٹر استعمال کیے ہیں اور ایک ہی ہلّے میں ۵۶ افراد شہید کیے ہیں) کشمیر کی تحریک مزاحمت کو پاکستان سے مایوس کر کے نرمی اور سختی (carrot and stick) کی پالیسی کے تحت بھارت کے دستور کے تحت  خودمختاری کے نام پر کسی انتظام کو قائم کر دیا جائے اور اس کے لیے امریکی اور عالمی تائید حاصل کرلی جائے۔

۵-  لائن آف کنٹرول کوعملاً سرحد بنا دیا جائے البتہ پاکستان پر دبائو جاری رکھا جائے کہ آزاد کشمیربھی بھارت کے زیرتسلط کشمیر کا حصہ ہے۔

۶-  اگر اس میں کامیابی ہو جائے تو پھر کشمیر کی معاشی ترقی کے نام پر کشمیر سے پاکستان آنے والے دریائوں پر بجلی اور زراعت کے لیے بند (dams) بنائے جائیں اور پاکستان کو اس کے پانی سے محروم کر کے شدید معاشی دبائو کاشکار کیا جائے۔

۷-  امریکی اور اسرائیلی تائید سے بالآخر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھارت کے لیے مستقل نشست حاصل کی جائے‘ مستقل نشست کی بنیاد پر اپنی ایٹمی صلاحیت کو تحفظ دیا جائے اور پاکستان کی ایٹمی طاقت کی حیثیت ختم (de-nuclearize) کرنے کے امریکی منصوبے کے لیے عالمی دبائو استعمال کیا جائے۔

۸-  بالآخر علاقے پر بھارت کی بالادستی قائم کی جائے اور پاکستان کو یا توکسی نوع کی  کنفیڈریشن میں لایا جائے یا کم از کم سیاست‘ تجارت‘ ثقافت اور میڈیا کے ذریعے تقسیم کی لائن کو عملاً غیرموثر بنا دیاجائے۔ اس کے لیے پاکستان کو ایک جمہوری اور سیکولر ملک بنانے کے لیے دبائو ڈالا جائے۔

یہ ہے بھارت کا وہ عظیم منصوبہ جس پر عمل کا آغاز ۱۸ اپریل کی دوستی کی پیش کش سے ہوا ہے۔ ورنہ کسی پہلو سے بھی بھارت کے رویے میں کوئی ایسی تبدیلی نہیں آئی ہے جس سے مسئلہ کشیر کو کشمیر کے عوام کی مرضی کے مطابق حل کرنے اور پاکستان سے بھارت کے تعلقات دو آزاد مساوی ممالک کی حیثیت سے استوار ہونے کا کوئی اشارہ بھی ملتا ہو    ؎

نہ وہ بدلے‘ نہ دل بدلا‘ نہ دل کی آرزو بدلی

میں کیسے اعتبار انقلابِ آسماں کر لوں


امریکہ کے اہداف اور عزائم کے بارے میں ہمیں کوئی شبہہ نہیں ہوناچاہیے۔ بلاشبہہ افغانستان پر اپنے حملے میں اس نے دل کھول کر پاکستان کو استعمال کیا۔ اور ہم نے عملاً امریکہ کی ایک کالونی کی حیثیت سے اپنے کو استعمال ہونے دیا۔ اسی ہفتے امریکہ کی سنٹرل کمانڈ کی جو رپورٹ شائع ہوئی ہے اس نے وہ تمام تفصیلات دنیا کے سامنے کھول کر رکھ دی ہیں جن پر آج تک پردہ پڑا ہوا تھا۔ امریکہ نے پاکستان سے ۵۷ ہزار اڑانیں (sorties)کیں اور ملک کو اس دوستی اور تعاون میں ۱۰ ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ اہل پاکستان اس بارے میں کسی شک میں نہ تھے لیکن اس خدمت کے باوجود پاکستان‘ اس کے نیوکلیر اثاثہ جات اور مسلمانوں کا جذبۂ جہاد امریکہ کی موجودہ قیادت کی آنکھوں میںکانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے۔ صدر جارج بش نے ریاض اور دارالبیضاکے واقعات کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جن ملکوں تک پہنچنے کا اعلان کیا ہے‘ ان میں شام‘ کوریا‘ ایران‘ صومالیہ‘ سعودی عرب‘ کینیا کے ساتھ پاکستان کا نام نامی بھی موجود ہے۔

بھارت اور اسرائیل اس وقت امریکہ کے اہم ترین اتحادی (strategic partners) ہیںاور پاکستان کی ایٹمی صلاحیت اس کی نگاہ میں ایک ناقابلِ برداشت خطرہ ہے۔ ایک طرف دوستی کے دعوے ہیں اور دوسری طرف  سی آئی اے نے برعظیم کا جو نقشہ جاری کیا ہے اس میں بھارت کے زیرقبضہ کشمیر کو ’انڈین اسٹیٹ آف جموں و کشمیر‘ کہا گیا ہے‘ جب کہ آزاد کشمیر کو Pakistan controlled areas of Kashmir قرار دیا گیا ہے۔ اس سے بھی زیادہ آنکھیں کھول دینے والی وہ قرارداد ہے جو ۷ مئی ۲۰۰۳ء کو امریکی کانگریس کے ایوان نمایندگان کی  بین الاقوامی تعلقات کمیٹی نے متفقہ طور پر منظور کی ہے۔ اور جس میں امریکی صدر سے کہا گیا ہے کہ:

کانگریس کو بتائیں کہ پاکستان سرحد پار دہشت گردی ختم کرنے ‘آزاد جموں و کشمیر میں دہشت گردی کیمپ ختم کرنے اور جوہری پھیلائو روکنے کے دعووں کو کس حد تک پورا کر رہا ہے۔

یہ اس سے بھی زیادہ بدتر‘ شرم ناک اور جارحانہ قرارداد ہے جو پریسلر نے افغان جہاد کے آخری ایام میں منظور کرائی تھی اور جس کے تحت ۱۹۸۹ء سے پاکستان کے خلاف امریکی  پابندیاںلگائیگئی تھیں۔

امریکہ کا ہدف پاکستان کو بے بس (corner) کرنا‘اس کی ایٹمی صلاحیت پر قابو حاصل کرنا اور مسلمانوں کے اندر سے روح جہاد کو کمزور اور بالآخر ختم کرنا ہے۔ خود ملک میں سیکولر نظریات کا فروغ اور لادین قوتوں کی تائید و تقویت اس کا حصہ ہے۔ موجودہ قیادت امریکہ پر اعتماد اور اس سے دوستی کا ایک خطرناک کھیل کھیل رہی ہے۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ وہ نہ توامریکہ سے دوستی کی تاریخ سے کوئی سبق سیکھ رہی ہے اور نہ عالم اسلام کے بارے میں امریکہ کے موجودہ عزائم کا اسے کوئی شعور و ادراک ہے۔

ان حالات میں قوم کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیںکہ اس قیادت پر بھروسا نہ کرے اور اپنے مفاد اور اپنے دین و ایمان‘ ثقافت و تمدن اور سلامتی کے تحفظ کے لیے خود موثر اقدام کرے۔ ہمیں خطرہ ہے کہ ایل ایف او کے معاملے میں جو خطرناک کھیل برسرِاقتدار قوتیں کھیل رہی ہیں وہ بھی علاقے کے لیے امریکی عزائم سے غیرمتعلق نہیں۔ فوج جسے کبھی قوم کی مکمل تائید حاصل تھی اور جس کا آج بھی موٹو ایمان‘ تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ ہے‘ اسے عوام کے اعتماد سے محروم کیا جا رہا ہے اور ایسے حالات پیدا کیے جا رہے ہیں کہ قوم اور فوج ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار نہ ہوں بلکہ باہم دست و گریباں اور تصادم کا شکار ہو جائیں۔ جو بالآخر پاکستان کی سلامتی کو کمزور کرنے کا باعث اور علاقہ میں قوت کا توازن بھارت کے حق میں کرنے پر منتج ہوسکتا ہے۔


جنرل پرویز مشرف اور مرکزی حکومت کے دوسرے ذمہ دار حضرات کے چند بیانات کی طرف ہم اشارہ کر چکے ہیں۔ ان بیانات میں تضاد اور انتشار فکری کا سماں نظر آتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ان بیانات میں بھارت اور امریکہ کی موجودہ قیادت کے بارے میں خوش خیالیوں اور خوش فہمیوں کی اتنی کثیر مقدار دیکھی جا سکتی ہے جس کی کوئی توجیہ سفارتی آداب کے نام پر نہیں کی جا سکتی۔ ایک طرف اصولی موقف پر استقامت کا دعویٰ ہے‘ کشمیر کی مرکزی حیثیت کا اعلان ہے‘ تقسیم کشمیر اور لائن آف کنٹرول کو سرحد بنانے سے برأت کا اظہار ہے تو دوسری طرف کبھی ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کی بات ہے، اور کبھی ان کی تقریروں اور تحریروں میں’’پاکستان یا کشمیر؟‘‘ جیسے فتنہ انگیز جملے یا اعلان کی بھی بازگشت ہے۔ اسی طرح feelerکے طور پر چناب پلان کا ذکر ہے اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے بارے میں سہل انگاری کا رویہ ہے‘ جہاد پر معذرت اور جنگ ِ آزادی اور دہشت گردی کے فرق کے بارے میں معذرت خواہانہ رویہ ہے‘ جہادی تنظیموں پر پابندیاں اور مجاہدین کے کیمپوں سے گلوخلاصی کی باتیں ہیں۔ کبھی کشمیر کے مسئلے کے حل کے بغیر تجارت کا لفظ سننے کے لیے تیار نہ تھے اور اب ’’تجارت اورثقافت پہلے‘‘ کے بھارتی مطالبے پر سجدہ ریز ہیں--- اور ان سب پر مستزاد بھارت کے مذاکرات کے ۵۵ سالہ ناکام تجربات اور امریکہ کی دوستیوں اور بے وفائیوں کی الم ناک تاریخ کے باوجود‘ دونوںسے خوش فہمی اور خوش اعتقادی کا ایسا اظہار ہے جو خود فریبی کی حدود کو چھونے لگتا ہے۔ اگر یہ سب ناتجربہ کاری اور پاک ہند تاریخ اور امریکہ کی دو سو سالہ کارگزاریوں سے ناواقفیت کی بنیاد پر ہے تو سخت خطرناک ہے اور اگر اس زعم پر مبنی ہے کہ جو قائداعظم اور آج تک کی قیادت نہیں کرسکی وہ ہم کر دکھائیں گے تو اس کا نام خود اعتمادی نہیں‘ خودفریبی ہے۔ اس پس منظرمیں ضروری ہوگیا ہے کہ قوم اور موجودہ قیادت کے سامنے چند بنیادی حقائق کو بلاکم وکاست رکھ دیا جائے اور پارلیمنٹ‘ سیاسی اور دینی قوتوں اور ملک کے بالغ نظرصحافیوںاور دانش وروں سے درخواست کی جائے کہ وہ اجتماعی احتساب کے ذریعے قیادت کو راہِ ثواب سے نہ ہٹنے دیں۔

۱-  پہلی اہم ترین بات یہ ہے کہ مذاکرات میں اصولی موقف پر ذرا سی بھی لچک نہایت خطرناک ہو سکتی ہے۔ اگر ہمارا موقف مبنی برحق ہے اور بین الاقوامی قانون‘اقوامِ متحدہ کی قراردادیں‘ یو این او اور غیر جانب دار تحریک (NAM) کا چارٹر اور بھارت اور پاکستان کی قیادتوں کے وعدے (commitments) اور سب سے بڑھ کر جموں اور کشمیر کے عوام کی کھلی تائید ہمارے موقف کے حق میں ہے تو پھر ہمارے لیے کسی قسم کی بھی کمزوری دکھانے اور انصاف کی راہ سے پیچھے ہٹنے کا کیا جواز ہوسکتا ہے۔ کشمیر کا مسئلہ محض زمین کا تنازع نہیںہے‘ یہ ایک اصولی مسئلہ ہے اور ایک کروڑ ۴۰ لاکھ انسانوں کے حق خود ارادیت کا مسئلہ ہے۔ مرور زمانہ سے یہ حق نہ کمزور پڑتا ہے اور نہ پادر ہوا ہو جاتا ہے۔ قومیں اس کے لیے برسوں نہیں‘ صدیوں لڑتی ہیں۔ اور کشمیری عوام نے اپنے خون کی گواہی دے کر حصولِ آزادی کے عزم کا ایسا مظاہرہ کیا ہے جس کی نظیر کم ہی ملتی ہے۔ یہ سیاسی جنگ کے ساتھ اعصابی جنگ بھی ہے اور اس میں فتح اسی کا مقدر ہے جو اپنے موقف پر ڈٹا رہے اور اعصاب کی کمزوری کا مظاہرہ نہ کرے۔معاشی ترقی اور دفاع پر اخراجات کا ہّوا دکھا کر جو لوگ پسپائی کی باتیں کرتے ہیں وہ حقائق سے آنکھیں چراتے ہیں۔

معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہماری غلط معاشی پالیسیاں‘ بدانتظامی اور کرپشن ہیں اور سود پر حاصل کیے جانے والے قرضوں کی جونکیں ہیں جو ملک کی معیشت کے خون کو چوس رہی ہیں۔ مرکزی حکومت کی محصولات سے حاصل ہونے والی آمدنی کا نصف‘ اس سود کی نذر ہو جاتا ہے ‘ جب کہ دفاعی اخراجات بجٹ کا صرف ۳۰ فی صد ہیں۔ معاشی ترقی کے ان متوالوں کو ترقی کا دشمن یہ bottom less sink نظرنہیں آتا اور نہ اپنی غلط کاریاں اور عیاشیاں دکھائی دیتی ہیں۔ نزلہ کشمیر اور اس کی تابناک جنگ ِ آزادی پر گرتا ہے۔ یہ خلط مبحث نہیں تو اور کیا ہے؟ ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کی بات بھی کی جاتی ہے مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ کشمیر کے بغیرپاکستان نامکمل اور خالص اسٹرے ٹیجک اور معاشی اعتبار سے شدید خطرے میں (vulnerable)ہے۔ اگر کشمیر بقول قائداعظم‘پاکستان کی شہ رگ ہے تو پاکستان اور شہ رگ میں فرق کیسے کیا جا سکتا ہے؟ قائدعظم نے تو کشمیر میں ۲۸ اکتوبر ۱۹۴۷ء ہی کو پاکستان کی فوجیں بھیجنے کے احکام جاری کر دیے تھے مگر افسوس کہ اس وقت کے برطانوی کمانڈر ان چیف نے ان کو ماننے سے انکار کر دیا اور خود مرکزی کابینہ کے کوتاہ نظر ارکان نے قائد کی رائے کے خلاف فیصلہ دیا۔ قائداعظم نے چودھری غلام عباس کو خود یہ بتایا کہ:

اس کے بعد میں نے کابینہ کا اجلاس طلب کر کے یہی تجویز اپنے رفقا کے سامنے رکھ دی۔ لیکن تم جانتے ہو کہ کیا نتیجہ نکلا؟ کابینہ نے میری تجویز مسترد کر دی۔ اس لیے کشمیر کے معاملے میں ہم نہ صرف صحیح بس کھو بیٹھے بلکہ غلط بس میں بٹھائے گئے۔

کشمیر کے جہاد آزادی نے ایک بار پھر قوم کو صحیح بس کا پتا بتایا مگر آج کی قیادت ۱۹۴۷ء کی کابینہ کی طرح پھر وہی غلطی کرنے پر تلی ہوئی ہے حالانکہ قائداعظم نے اس فاش غلطی کے باوجود یہی کہا تھا:

لیکن کچھ بھی ہو کشمیر کے متعلق مایوسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا۔ ان شاء اللہ ہم کشمیر لے کر رہیںگے (ملاحظہ ہو: کشمیری مسلمانوںکی جدوجہد آزادی‘ ۱۸۹۴ء سے ۱۹۴۷ء تک‘ از پروفیسر محمد سرور عباس‘ صفحہ ۴۵۴-۴۵۵)

۲-  دوسری بنیادی بات یہ ہے کہ بھارت سے مذاکرات میں کامیابی اسی وقت ممکن ہے جب بھارتی قیادت کی نفسیات‘ ان کے مذاکراتی حربوں اور چالوں سے واقفیت ہو۔ برطانوی دور میں جس طرح قائداعظم نے کانگریس سے معاملات طے کیے ہیں اس کی تاریخ سے آگاہی ضروری ہے۔ پاکستان بھارت مذاکرات کی دل خراش داستان کے نشیب و فراز جاننا بھی ناگزیر ہے۔ قائداعظم نے ہندو مسلم اتحاد کے لیے کیا کیا جتن نہ کیے لیکن بالآخر وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اپنا راستہ الگ بنائے بغیر‘ کوئی چارئہ کار نہیں۔ قائداعظم نے شیخ عبداللہ کو بہت سمجھایا لیکن اُس وقت اس نے ان کی ایک نہ سنی اور پھر اسے خود اعتراف کرنا پڑا کہ بھارت کی قیادت کی سیاست کس طرح دھوکے اور عیاری پر مبنی ہے۔ شیخ عبداللہ کی خودنوشت کا مطالعہ اس پہلو سے چشم کشا ہے۔ جنرل پرویز مشرف اور جناب ظفراللہ جمالی کو اس کا مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ سمجھ سکیں کہ بھارت سے کس طرح معاملہ کرنا چاہیے۔

قائداعظم نے بھارتی قیادت کی دوغلی سیاست سے شیخ عبداللہ کو جولائی ۱۹۴۴ء میں ان الفاظ میں آگاہ کیا تھا:

شیخ عبداللہ! میںنے اپنے یہ بال دھوپ میں سفید نہیں کیے ہیں۔ تمھیں باپ کی حیثیت سے سمجھا رہا ہوں۔ وقت آئے گا تو تم مجھے یاد کرو گے۔

شیخ عبداللہ اس وقت تو قائد کی نصیحت کو نہ سمجھے لیکن پنڈت نہرونے‘ جو ان کے جگری دوست بھی تھے نے جب چانکیا سیاست کا مظاہرہ کرتے ہوئے کشمیریوں کے حق خود ارادیت اور استصواب سے برأت کا اعلان کیا تب شیخ عبداللہ کو ان کی سیاست کا اصل چہرہ نظر آیا۔ ۱۳سال بھارت کی جیل میں گزارنے کے بعد ۱۹۶۸ء کے ایک انٹرویو میں وہ کہتے ہیں:

ہندستان نے عارضی شمولیت کا وعدہ توڑ کر یہ اعلان کر دیا کہ کشمیر ہندستان کا حصہ ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ میںنے پریشان ہوکر نہرو سے جو آزادی اور جمہوریت کے بہت بڑے علم بردار تھے‘ کہا کہ ہندستان کے وہ وعدے کیا ہوئے جو اس نے عارضی شمولیت کے بعد کیے تھے۔ جواب میں پنڈت نہرو نے کہا: ’’شیخ محمد عبداللہ! وہ سب تو تماشا تھا‘‘ اور میں بیان نہیں کر سکتا کہ پنڈت نہرو کا جواب سن کر مجھے کتنی حیرت ہوئی‘ میرا دل کس بری طرح ٹوٹ کر چکنا چور ہوگیا۔ (ماہنامہ شبستان‘ دہلی)

بھارت سے مذاکرات کرنے والی ہر ٹیم کو یہ تاریخ نظر میں رکھنی چاہیے۔

۳-  بھارت سے مذاکرات میں سب سے بڑا جال (trap) مرحلہ بہ مرحلہ اپروچ اور مسائل پر الگ الگ بات چیت ہے۔ یہی کھیل فلسطین میں اسرائیل اور امریکہ نے کھیلا ہے اور یہی اب کشمیر میں کھیلا جانے والا ہے۔ اصل مسئلے کو مؤخر کرنا اور جزوی معاملات پر کچھ لو اور کچھ دو کا رویہ اختیار کرنا وہ خطرناک سانپ ہے جو مسئلے کے حل کے ہر امکان کو ہڑپ کر جائے گا اور حاصل کچھ نہ ہوگا۔ بھارت سے معاملہ کرنے کا صرف ایک طریقہ ہے اوروہ یہ کہ کشمیر میں  تحریکِ مزاحمت کا دبائو ناقابلِ برداشت ہو جائے‘ عالمی دبائو جس حد تک ممکن ہو موثر بنایا جائے‘ پاکستان دفاعی حیثیت سے مستعد ہو اور تمام متعلقہ امور پر ایک جامع منصوبے کے ذریعے معاملات کو طے کیا جائے۔ اس سے ہٹ کر راستہ کیمپ ڈیوڈ اور اوسلو کا راستہ ہے جس کا انجام ہماری زمین پر مخالف کا قبضہ‘ دائمی محکومی اور پاکستان کو ٹکڑے کر کے غیر موثر حصوں میں تقسیم کرنا (balkanization) ہے۔ فلسطین کی زبوں حالی سے اگر کوئی سبق ملتا ہے تو وہ یہ ہے کہ جزواً جزواً (piecemeal) معاملات سے احتراز کیا جائے اور جامع منصوبے (comprehensive package) پر اصرار کیا جائے ‘ خواہ اس میں کتنا بھی وقت لگے۔

۴-  چوتھا مسئلہ اعتماد بحال کرنے والے اقدامات (سی بی ایم) کا ہے۔ لیکن ہمارے لیے اعتماد مضبوط کرنے والے اصل عوامل اور اقدامات وہ نہیں جن کا مطالبہ بھارت کر رہا ہے اور ہررعایت اور نرمی کے بعد ھل من مزید کی پکار لگاتا ہے بلکہ وہ ہیں جو جموں اور کشمیر کے عوام اور تحریکِ آزادی کے جانبازوں کے اعتماد کو مضبوط کریں اور انھیں مزید حوصلہ دیں۔ آج ہماری حکومت ہر وہ اقدام کر رہی ہے جس سے کشمیر کے عوام مایوس ہوں‘ مجاہدین آزادی کی ہمتوں پر اوس پڑے اور بھارت کے ایوانوں میں خوشی کے چراغ روشن ہوں۔ اس سے زیادہ غیرحقیقت پسندانہ اور تباہ کن حکمت عملی کوئی نہیں ہوسکتی اور قوم تحریکِ آزادی پر ضرب لگانے والے ان اقدامات پر حکومت اوران عناصرکو جو ان کی تائید کر رہے ہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ ہم کو اس وقت ماضی سے بڑھ کر اس سے یک جہتی کا اظہار کرنا چاہیے اور انھیں جدوجہد تیز تر کرنے کا حوصلہ دینا چاہیے۔ ہمیں عالمی راے عامہ اور اپنی خارجہ سیاست کو اس رخ پر موڑنا چاہیے کہ بھارت فی الفور پوٹا (POTA)جیسے جابرانہ قوانین کو منسوخ کرے جن پر ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی سخت احتساب کیا ہے‘ ریاستی تشدد کو روکے‘ فوجوں اور بارڈر سیکورٹی فورس اور اسپیشل فورس جن کو ختم کرنے کا وعدہ خود مفتی نے انتخابات کے موقع پر کیا تھا کو فوراً ختم کرے‘ تمام اسیروں کو رہا کرے اور عوام کو سیاسی آزادی دے تاکہ وہ کھل کر اپنے جذبات کا اظہار کرسکیں۔

اگر آج بھارت مذاکرات کی بات کررہا ہے تو وہ اس لیے نہیں کہ اس کی سوچ میں تبدیلی آگئی ہے یا امریکہ کے دبائو میں ایسا کر رہا ہے بلکہ اصل دبائواگر کوئی ہے تو وہ جموں و کشمیر کے عوام کی جدوجہد آزادی کا ہے۔ بھارت نے دیکھ لیا ہے کہ ۷ لاکھ فوج اور اربوں روپے کو آگ لگا دینے کے باوجود وہ اس تحریک کو کمزور نہیں کر سکا ہے۔ جو لولے لنگڑے اور  طے شدہ نتائج حاصل کرنے والے انتخابات پچھلے سال جموں و کشمیر میں ہوئے تھے وہ بھی دراصل بھارت کے اقتدار اور اس کی قتلِ کشمیر میں شریک نیشنل کانفرنس کے خلاف تھے‘ کسی مفتی یا کسی کانگریس کے حق میں نہ تھے۔آج اگر پاکستان کی عاقبت نااندیش قیادت کے مختلف اقدامات سے  تحریکِ آزادی کشمیر کمزور ہوتی ہے تو یہ ایک ناقابل معافی جرم ہوگا۔ اصل ضرورت ایسے اقدامات (سی بی ایم) کی ہے جو اس تحریک کو تقویت دیں۔ یہی وہ چیز ہے جو بھارت کو مذاکرات اور بالآخر اصل مسئلے کے حل پر اسی طرح مجبور کرے گی‘ جس طرح گذشتہ صدی میں دنیا کے ۱۵۰ ممالک میں آزادی کی تحریکات نے کیا۔ آخر جب ۱۹۴۵ء میں اقوامِ متحدہ قائم ہوئی ہے تو اس میں شریک ممالک کی تعداد صرف ۴۵ تھی اور آج یہ ۱۹۲ ہے جس میں سے بیشتر نے لڑکر اپنی آزادی حاصل کی ہے۔ اور یہی جذبہ کشمیر میں آج بھی موجزن ہے۔ اسی ہفتے حریت کانفرنس کے اجلاس میں حریت کے قائدین ہی نہیں بلکہ کشمیرٹائمز کے ہندو ایڈیٹر تک نے مجاہدین کو خطاب کرتے ہوئے جو کچھ کہا ہے وہ ہماری قیادت کے لیے چشم کشا ہوسکتا ہے۔   اے ایف پی کی رپورٹ ہے:

ہندو اکثریتی علاقے جموں کے ایک معروف دانش ور ویدبھاسن نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا حل عوام کی خواہشات کے مطابق ہونا چاہیے۔ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کشمیریوں کو کرنا ہے‘ نہ کہ بھارت یا پاکستان کو۔ اگر آپ آزادی کا نصب العین حاصل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو جدوجہد کو جاری رکھنا ہوگا‘ اتحاد برقرار رکھنا ہوگا‘ اور تحریک کو مثبت سمت دینا ہوگی۔ انھوں نے کہا: آزادی کے لیے لڑنے والوں کو اپنے مقصد میں کامیابی کے لیے امریکہ یا کسی ملک پر انحصار نہیں کرنا چاہیے۔ اگر آپ کو مدد طلب ہی کرنا ہے تو دنیا کے لوگوں سے طلب کیجیے نہ کہ مختلف ملکوں کی حکومتوں سے۔ (دی نیوز‘ ۲۰ مئی ۲۰۰۳ئ)

اصل میدان جموں و کشمیر ہے‘ اسلام آباد یا دہلی نہیں۔ اور جو بھی اس مقصد سے مخلص ہے اسے ایسے اقدامات کی فکر کرنی چاہیے جو جہاد آزادی کی تقویت کا باعث ہوں۔

۵-  ہمارا ایک بڑا اہم محاذ خود ملک کی راے عامہ کو متحرک کرنا اور اسے اتنا قوی کرنا ہے کہ حکومت وقت کوئی غلط اقدام نہ کر ڈالے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکمران بڑی عجلت میں ہیں اور امریکہ جو کبھی ۲۰۰۴ء کی بات کرتا ہے اور کبھی ۲۰۰۵ء کی‘ اس کے چکر میں یہ حضرات ایک تاریخی جدوجہد کو مصلحتوں کے پتھر سے پاش پاش کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ان کے قدم روکنا اور تحریک کو اس کے اصل مقاصد کے لیے جاری رکھنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

۶-  ایک اہم کام عالمی راے عامہ تک اصل حقائق پہنچانا اور اسے کشمیر کی جدوجہد آزادی کے حق میں ہموار کرنا ہے۔ غضب ہے کہ یکم جون کو ہونے والی جی-ایٹ کے سربراہی اجلاس میں بھارت کو دعوت دی گئی ہے جہاں وہ نام نہاد سرحد پار دہشت گردی کا  مسئلہ اٹھانے کے دعوے کر رہا ہے اور ہماری وزارتِ خارجہ خوابِ غفلت کا شکار ہے۔ ہم اصل حقائق بھی دنیا کے سامنے رکھنے سے قاصر ہیں حالانکہ یورپی یونین کی پارلیمنٹ نے کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف قرارداد منظور کی ہے اور جنیوا میں اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے صاف الفاظ میں جدوجہد آزادی کی حمایت کی ہے۔ سیکورٹی کونسل کی صدارت کے باوجود ہم مسئلہ اٹھانے میں شرما رہے ہیں حالانکہ اس وقت ایک عالم گیر سفارتی مہم کی ضرورت ہے جس میں ہمارے سفارت کاروں کے ساتھ جموں و کشمیر کے مظلوم عوام کے نمایندوں کو بھی شریک کرکے دنیا کو حقائق سے آگاہ کرنا ناگزیرہے۔

۷-  آخری بات یہ کہ ہماری قیادت اقبال اور قائداعظم کا نام صبح و شام لیتی ہے لیکن ان کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے اور ان کے وژن کے مطابق پاکستان کی تعمیرسے مجرمانہ تغافل برتتی ہے۔ اقبال نے کشمیر کی آزادی کی جدوجہد میں نمایاں حصہ لیا تھا اور یہ راستہ دکھا دیا تھا کہ جہاد آزادی ہی کے ذریعے کشمیر اپنا حق حاصل کر سکتا ہے۔ اقبال اور قائداعظم نے کشمیر اور پاکستان کے ناقابلِ انقطاع تعلق کو واضح کر دیا تھا۔ ان کی وصیت ہی یہ ہے کہ کشمیر کے مسئلے پر کوئی سمجھوتا نہ کیا جائے بلکہ اپنی شہ رگ کو دشمن کے چنگل سے آزاد کیا جائے۔ ہم ان اشارات کو اقبال اور قائداعظم کے تاریخی الفاظ پر ختم کرتے ہیں۔ پاکستانی قوم اور اس کی قیادت ‘خصوصیت سے مذاکرات کرنے والے تمام افراد سے درخواست کرتے ہیں کہ ان الفاظ کو حرزِ جان بنالیں اور قائد کے اس وژن سے ہٹ کر ہرگز کوئی سمجھوتا نہ کریں۔

علامہ اقبال نے تقسیم ہند سے ۱۵سال قبل کشمیر اور پاکستان کے رشتے کو یوں واضح کیا تھا:

کشمیر کا مسئلہ تمام مسلمانان ہندستان کی سیاسی حیات اور موت کا مسئلہ ہے۔ اہل کشمیر سے ناروا سلوک‘ ان کی جائز اور دیرینہ شکایات سے بے اعتنائی اور ان کے سیاسی حقوق کا تسلیم نہ کرنا‘ مسلمانانِ ہند کے حقوق کو تسلیم کرنے سے انکار ہے۔ حق بات بھی یہی ہے کہ اہل خطہ کشمیر ملت اسلامیہ کا جزولاینفک ہے۔ ان کی تقدیر کو اپنی تقدیر نہ سمجھنا تمام ملت کو تباہی و بربادی کے حوالے کر دینا ہے۔ اگر مسلمانوں کو ہندستان میں ایک مضبوط و مستحکم قوم بننا ہے تو دو نکتوں کو ہر وقت ذہن میں رکھنا ہوگا۔ اول یہ کہ شمال مغربی سرحدی صوبے کو مستثنیٰ کرتے ہوئے حدود ہند کے اندر جغرافیائی اعتبار سے کشمیر ہی وہ خطہ ہے جو مذہب اور کلچر کی حیثیت سے خالصتاًاسلامی ہے۔ دوسری بات جسے مسلمانان ہند کبھی نظرانداز نہیں کر سکتے یہ ہے کہ ان کی پوری قوم میں سب سے بڑھ کر اگر صناعی و ہنرمندی اور تجارت کو بخوبی پھیلانے کے جوہر نمایاں طور پر کسی طبقے میں موجود ہیں تو وہ اس خطے کا گروہ ہے۔ بہرحال وہ قوم اسلامی ہند کے جسم کا بہترین حصہ ہیں۔ اگر وہ حصہ درد و مصیبت میں مبتلا ہے تو یہ ہو نہیں سکتا کہ باقی افراد ملت فراغت کی نیند سوجائیں۔ (بحوالہ کشمیری مسلمانوں کی جدوجہد آزادی‘ ص ۴۷۱)

اور قائداعظمؒ نے اس سلسلے میںجو بات کہی وہ حرفِ آخر کا درجہ رکھتی ہے۔

کشمیر کا مسئلہ نہایت نازک مسئلہ ہے لیکن اس حقیقت کو کوئی انصاف پسند قوم اور ملک نظر انداز نہیں کر سکتا کہ کشمیر تمدنی‘ ثقافتی‘ جغرافیائی‘ معاشرتی اور سیاسی طور پر پاکستان کا ایک حصہ ہے۔ جب بھی اور جس نقطہ نظرسے بھی نقشے پر نظرڈالی جائے گی یہ حقیقت واضح ہوجائے گی کہ کشمیر سیاسی اور دفاعی حیثیت سے پاکستان کی شہ رگ ہے۔ کوئی ملک اور قوم اسے برداشت نہیں کر سکتی کہ اپنی شہ رگ کو دشمن کی تلوار کے نیچے دے۔ کشمیر پاکستان کا حصہ ہے۔ ایک ایسا حصہ جسے پاکستان سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ مجھے یہ کہتے ہوئے قطعاً کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ ریڈکلف ایوارڈ میں مسلمانوں کے ساتھ دھوکا کیا گیا۔ (ایضًا‘ص ۴۷۲)

ایک طرف لیگل فریم ورک آرڈر (ایل ایف او) کے بارے میں پارلیمانی کمیٹی اپنی سفارشات مرتب کر رہی تھی اور دوسری طرف جنرل پرویز مشرف‘ وزیراعظم ظفراللہ جمالی‘ چودھری شجاعت حسین‘ شیخ رشیداحمد‘ چودھری پرویز الٰہی اور جنرل صاحب کے لے پالک ناظمین نے ایک کورس کی شکل میں یہ راگ الاپنا شروع کر دیا کہ عوام کو ایل ایف او سے کوئی دل چسپی نہیں ہے اور یہ کہ حزب اختلاف عوامی مسائل میں کوئی دل چسپی نہیں رکھتی اور ایک non-issue پر قوم اور پارلیمنٹ کا وقت ضائع کر رہی ہے۔ اس سیاسی ناٹک میں فوجی دھنوں کا اضافہ کرنے کے لیے یہ سُربھی شامل باجا کر دیے گئے کہ پوری فوجی قیادت جنرل صاحب کی وردی کی پشت پر ہے اور قوم کا اصل مسئلہ ایل ایف او اوراس کے نتیجے میں پارلیمنٹ اور سیاسی نظام پر بری فوج کے چیف آف اسٹاف کا تسلط نہیں بلکہ روزگار‘ افلاس اور امن و امان وغیرہ ہیں۔ یہ ایک خطرناک خلط مبحث ہے اور اس کا تجزیہ اور اصل ایشو کی تنقیح ازبس ضروری ہے۔

امن وامان‘ روزگار‘ غربت و افلاس بنیادی مسائل ہیں اور ان سے کسی کو انکار نہیں۔ یہ ہماری توجہ کا مرکز و محور ہیں اور ہونے چاہییں۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے ان مسائل سے اغماض‘ حزب اختلاف نہیں برسرِاقتدار قوتیں برت رہی ہیں۔اگر امن و امان کی صورت حال خراب ہے‘ غربت و افلاس میں اضافہ ہوا ہے اور اگر بے روزگاری روز افزوں ہے تو اس کی بڑی وجہ موجودہ اور سابق حکومتوں کی غلط پالیسیاں اور شاہ خرچیاں ہیں‘ اور اس کی بڑی      ذمہ داری خود فوجی حکومت پر آتی ہے جس نے معاشی استحکام کی آئی ایم ایف کی بتائی ہوئی پالیسی پر آنکھ بند کر کے عمل کیا اور پیداوارمیں اضافہ‘ زراعت کی ترقی‘ روزگار کی فراہمی‘ غربت سے نجات اور تقسیم دولت کی ناہمواریوں اور ناانصافیوں کی تلافی کی کوئی فکرنہ کی‘ اور اب اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے ایل ایف او پر حزب اختلاف کی گرفت اور تنقید کو ہدف بنا رہی ہے جو ماروگھٹنا پھوٹے آنکھ کے مترادف ہے۔ اس طرح قوم کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونکی جاسکتی۔

ایل ایف او کا مسئلہ بڑا بنیادی اور اصولی ہے۔ فرد کی زندگی کے معاملات ہوں یا ملک اور حکومت میں اصحابِ اختیار کا حق حکمرانی‘ سب کے باب میں بنیادی امر یہ ہے کہ جو بھی اقدام کیا جا رہا ہے اس کا جواز کیا ہے۔ مہذب معاشرہ اور جنگل میں فرق ہی قانون کی حکمرانی اور اختیار اور اقتدار کے لیے سندِجواز (legitimacy)کا ہے۔ آپ کو اپنی مِلک پر تصرف کا حق حاصل ہے اور دوسرے کی املاک پر دست درازی جرم ہے۔ نکاح اور زنا میں فرق عمل کا نہیں جوازِ عمل کا ہے۔ خود فوج میں اتھارٹی کی بنیاد دستور اور آرمی ایکٹ ہے۔ کسی کو اختیار نہیں کہ آرمی ایکٹ میں جو چاہے ترمیم کر لے یا اسے محض ایک نظری چیز قرار دے کر فوجیوں کے مسائل حل کرنے کے شوق اور دعوے کے ساتھ جوچاہے کھل کھیلے۔ خود جنرل مشرف نے جب اقتدار سنبھالا تو اس وقت تک ان کے اقتدار کو جواز میسر نہ تھا جب تک سپریم کورٹ نے مشروط جواز (validation) نہ دے دیا ‘اور اس سترپوشی کے پتے (fig leaf) کے سہارے وہ تین سال حکمرانی کرتے رہے اور خود ایل ایف او کا جواز بھی اس سے حاصل کررہے ہیں۔ دنیا میں جہاں بھی قانون کی حکمرانی ہے اصل ایشو صاحب ِ اختیار کے سندِ جواز ہی کا ہے۔ آج امریکہ قوت کے زور پر عراق پر قابض ہوگیا ہے لیکن اس کا اقتدار سندِجواز سے محروم ہے اور وہ دھونس اور دھاندلی ہی سے سہی اقوام متحدہ سے کسی نہ کسی شکل میں جواز حاصل کرنے کی سعی کر رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ایک اعلیٰ افسر مائیکل اسٹینر نے حال ہی میں اس مسئلے پر بڑی دل چسپ بحث کی ہے اور اس نے لکھا ہے کہ صرف اقوام متحدہ کے ذریعے ہی بین الاقوامی معاملات میں سندِجواز کا حصول ممکن ہے:

جہاں تک سندِ جواز کا سوال ہے اقوام متحدہ کو بالکل منفرد اخلاقی اختیار حاصل ہے کیونکہ اس کے ارکان سیاسی نظاموں اور اقدار کے وسیع تناظر کی نمایندگی کرتے ہیں۔ بیشتر دنیا کسی ایک ملک یا اتحاد کے مقابلے میں اقوام متحدہ پر زیادہ اعتماد کرتی ہے۔ اسی وجہ سے لوگ کسی آمریت یا خاندانی حکومت کے مقابلے میں جمہوریت پر زیادہ بھروسا کرتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ آمر وقت پر کام مکمل کرلیتے ہیں‘ لیکن احکامات کی تعمیل کا نظام‘سندِجواز نہ ہونے کی وجہ سے بالآخر بنیادوں سے اکھڑجاتا ہے۔ جیسا کہ سردجنگ میں مغربی جمہوریتوں کی فتح سے ثابت ہوتا ہے‘ تہذیبی اقدار میں شرکت کا احساس پیدا کرنے کی ان کی صلاحیت بالآخر زیادہ خوش حالی اور استحکام کی شکل میں سامنے آتی ہے۔ مستقل اخلاقی اختیار پر مستزاد‘ اقوام متحدہ کو کسی تنازعے کے اختتام کے بعد کسی نئے سیاسی نظام کو قائم کرنے کا منفرد قانونی اختیار بھی حاصل ہے… تاہم امن کا اصل انحصار سندِجواز پر ہے اور اس میں اقوامِ متحدہ کا کوئی ہمسر نہیں۔ (دی ڈیلی ٹائمز‘ مئی ۱۹‘ ۲۰۰۳ئ)

عراق میں فوجی تسلط حاصل کرنے کے باوجود امریکہ کو سندِجواز حاصل نہیں ہورہی۔ یہی مسئلہ ہمارا ہے۔ مسئلہ ٹرین چلانے یا عوامی مسائل حل کرنے کا نہیں‘ ان تمام کاموں کو انجام دینے والوں کے حق اختیار کا ہے۔ ایل ایف او اپنی ساری خامیوں کے باوجود جمہوریت اور دستوری نظام کی بحالی کے لیے ایک ذریعہ اور ایک پُل تو ہو سکتا ہے لیکن آپ سے آپ دستور کا حصہ نہیں بن سکتا‘ اور جب تک پارلیمنٹ اسے جس شکل میں چاہے اور جن ترامیم کے ساتھ قبول کرنا چاہے‘ قبول کر کے دستوری ترمیم کے ذریعے دستور کا حصہ نہیں بناتی پورا نظام  سندِجواز سے محروم رہے گا۔

یہ دلیل مضحکہ خیز ہے کہ اصل مسئلہ عوامی مسائل کو حل کرنے کا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مسائل کے حل کرنے کے نام پر دستور‘ قانون‘ حق حکمرانی‘ ضابطے اور قاعدے کو بالاے طاق رکھ کرجو جو چاہے کرے۔ اگر اس دلیل کو مان لیا جائے تو پھر کل کوئی ڈاکو اس دلیل کی بنیاد پر لوگوں کی دولت کو لوٹنے کا ’’حق‘‘ تسلیم کرا سکتا ہے کہ وہ اس دولت کو غریبوں میں تقسیم کر رہا ہے۔ اسی ’’دلیل‘‘ کی بنیاد پر سامراجی اقوام دنیا کے دوسرے ممالک کو غلام بناتی تھیں کہ ان کی ترقی کا سامان کر رہی ہیں اور ریلوں کا جال بچھا رہی ہیں‘ سڑکیں بنا رہی ہیں اور بجلی کی روشنی فراہم کر رہی ہیں۔ اس سے کمزور اور لچر دلیل اور کیا ہوسکتی ہے؟

اسلامی نقطۂ نظر سے بھی اگر آپ غور کریں تو آپ دیکھیں گے کہ ایمان کے بغیر اچھے اعمال بھی قابل قبول نہیں۔ اہل کفر کی تو دلیل ہی یہ ہوتی ہے کہ نیک کام کرو‘ خدا اور رسول پر ایمان کی کیا ضرورت ہے۔ لیکن قرآن کا فیصلہ یہی ہے کہ ایمان کے بغیر اعمال اکارت ہیں اور بظاہر نیکی اور خدمت کے کام بھی ‘سمت درست ہوئے بغیر‘ اور سندِجواز جو ایمان سے حاصل ہوتی ہے اس کے بغیر‘ قابلِ قبول نہیں۔

مَثَلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِرِبِّھِمْ اَعْمَالُھُمْ کَرَمَادِنِ  اشْتَدَّتْ بِہِ الرِّیْحُ فِیْ یَوْمٍ عَاصِفٍط لاَ یَقْدِرُوْنَ مِمَّا کَسَبُوْا عَلٰی شَیْ ئٍط ذٰلِکَ ھُوَ الضَّلٰلُ الْبَعِیْدُ o (ابراھیم ۱۴:۱۸) جن لوگوں نے اپنے رب سے کفر کیا ہے ان کے اعمال کی مثال اس راکھ کی سی ہے جسے ایک طوفانی دن کی آندھی نے اڑا دیا ہو۔ وہ اپنے کیے کا کچھ بھی پھل نہ پا سکیں گے۔ یہی پرلے درجے کی گم گشتگی ہے۔

وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْآ اَعْمَالُھُمْ کَسَرَابٍ بِقِیْعَۃٍ یَّحْسَبُہُ الظَّمْاٰنُ مَآئًط حَتّٰیٓ اِذَا جَآئَ ہٗ لَمْ یَجِدْہُ شَیْئًا (النور ۲۴:۳۹)  جنھوں نے کفر کیا ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے دشت ِ بے آب میں سراب کہ پیاسا اس کو پانی سمجھے ہوئے تھا مگر جب وہاں پہنچا تو کچھ نہ پایا۔

جس طرح ایمان کے بغیر اچھے اعمال بے سود ہیں اسی طرح سندِجوازکے بغیر زندگی کے تمام میدانوں میں کسی خیر کی کوئی توقع نہیں۔ ایل ایف او کے سلسلے میں اصل ایشو اس سندِجواز کا فقدان ہے۔ حزبِ اختلاف کی پوری کوشش ہے کہ افہام و تفہیم کے ذریعے دستور اور پارلیمنٹ کی بالادستی کو قائم کرے تاکہ ملک کا ہر ادارہ دستور کے فریم ورک میں اپنے فرائض انجام دے سکے۔ عوام کے مسائل کے حل کا یہی صحیح طریقہ ہے اور یہی عوام کی دلی خواہش ہے جنھوں نے جنرل صاحب کے حسب منشاپارلیمنٹ منتخب نہیں کی بلکہ اپنی مرضی کے مطابق اپنے نمایندے بھیجے‘ اور ساری دھاندلی اور لوٹاکریسی کے باوجود جنرل صاحب کی پارٹی کو دستور میں من مانی تبدیلی کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہو سکا۔ اب انھیں سیدھے سیدھے عوام کے فیصلے کو قبول کر لینا چاہیے اور ان حدود کے اندر ملک کے معاملات کو چلانے کی کوشش کرنی چاہیے جو دستور اور عوام کی رائے نے متعین کیے ہیں۔ اسی میں ملک اور فوج دونوں کی بھلائی ہے---

کیا وہ قوم کو مجبور کرنا چاہتے ہیں کہ وہ تصادم کا راستہ اختیار کرے جس کا آخری نتیجہ تو ان شاء اللہ عوام کی فتح ہی کی شکل میں رونما ہوگا لیکن اس میں فوج اور اس کی قیادت کی ساکھ بُری طرح مجروح ہو جائے گی جو ملک کی سلامتی کے لیے ایک خطرہ ہو سکتا ہے۔ اس سے بچنا سب کے لیے اولیٰ ہے۔ جنرل صاحب کو ضد اور ہٹ دھرمی کا راستہ اختیار کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے اور ملک کو تصادم اور انتشار سے بچانے کے لیے اس راستے کی طرف پیش قدمی میں قوم سے تعاون کرنا چاہیے جو حزب اختلاف اور خصوصیت سے متحدہ مجلس عمل نے اختیار کیا ہے۔

حضرت عروہؓ بن ابی الجعد بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بکریوں کا ایک ریوڑ جو براے فروخت لایا گیا تھا‘ دیکھا۔ مجھے ایک دینار دیا کہ ایک بکری خرید لائو۔ میں گیا اور ایک دینار میں ایک کے بجاے دو بکریاں خرید لیں۔ لے کر آ رہا تھا کہ راستے میں ایک شخض ملا جس نے بکری خریدنی چاہی۔ میں نے ایک بکری ایک دینار میں ان کو فروخت کر ڈالی۔ اس طرح ایک دینار اور ایک بکری لے کر آپؐ کے پاس حاضر گیا۔ بکری اور دینار پیش کرتے ہوئے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! یہ ہے آپؐ کا دینار اسے وصول فرما لیجیے‘ اور یہ ہے آپؐ کی بکری۔ آپؐ نے (خوش ہو کر پوچھا) یہ کس طرح سے ہوگیا۔ میں نے واقعہ بیان کیا۔ سن کر آپؐ نے مجھے دعا دی‘ فرمایا: اے اللہ! اس کے سودے میں برکت عطا فرما۔ اس کے بعد میرا یہ حال ہوگیا کہ میں تھوڑی دیر کوفہ کے بازار میں کام کرتا ہوں اور گھر جانے سے پہلے ۴۰ ہزار کا نفع کما لیتا ہوں۔ ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں اگر عروہ مٹی میں ہاتھ ڈالتے تو اس سے بھی نفع کما لیتے۔ (الفتح الربانی ۱۵‘۱۶)

روز مرہ دنیوی ‘ خصوصاً کاروباری معاملات میں دعا اور اس کی برکتوں کی کارفرمائی آج کل کے مادی ذہن عام طور پر قبول نہیں کرتے۔ نیک اور صالح افراد سے دعا کروانے کی روایت اگر محض رسم نہ ہو‘ اخلاص نیت اور توجہ الی اللہ کے ساتھ ہو تو یقین رکھنا چاہیے کہ نتیجہ خیز ہوگی۔ حضرت عروہؓ  تو خوش قسمت تھے کہ انھیں اللہ کے رسولؐ کی دعا ملی۔ دینے والی ذات تو اللہ تعالیٰ کی ہے جس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں‘ وہ آج بھی اپنے بندوں کی دعائیں سنتا ہے بلکہ پکار پکار کر بلاتا ہے کہ مجھ سے مانگو۔

احادیث میںایسے بہت سے اچھے کاموں کا ذکر ملتا ہے جن کے ساتھ اللہ کے رسولؐ کے متعین وعدے ہیں۔

حضرت جبیربن مطعمؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یارسولؐ اللہ! کون سی جگہ تمام جگہوں سے بری ہے؟ آپؐ نے فرمایا: میں نہیں جانتا۔ جبریل علیہ السلام تشریف لائے تو آپؐ نے ان سے پوچھا: جبریل! کون سی جگہ تمام جگہوں سے زیادہ بری ہے؟ جبریل نے عرض کیا: میں نہیں جانتا اور اس وقت تک کچھ نہیں   کہہ سکتا جب تک اللہ تعالیٰ سے پوچھ نہ لوں۔ جبریل واپس گئے اور پھر لوٹ کر آئے۔ کہا کہ میں نے اللہ عزوجل سے پوچھا کہ کون سی جگہ تمام جگہوں سے زیادہ بری ہے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: دنیا کے بازار۔ (الفتح الربانی‘ ۱۵‘۱۶)

بازاروں کو سب سے بری جگہ کیوں کہا گیا ہے؟ اور وہ بھی اس اہتمام سے کہ حضرت جبریل نے اللہ تعالیٰ سے پوچھ کے آکر بتایا۔ بازاروں میں دنیا اپنے تمام فتنوں کے ساتھ مجسم ہوتی ہے اور آنے والوں کو اپنی طرف کھینچتی اور لبھاتی ہے۔ (بڑے بازاروں‘ ڈیپارٹمنٹل اسٹوروں‘ میلوں اور مینا بازاروں کا تصور کریں)۔ ضروریات کے لیے بازار جانا ضروری ہے لیکن دکانیں آپ کی خواہشات کو جگا کر اسراف و تبذیر پر آمادہ کرتی ہیں۔ خریداروں کو مائل کرنے کے لیے کیا کیا طریقے اختیار کیے جا رہے ہیں‘ بیان کی ضرورت نہیں۔ سادگی کی ساری مہم بازار آکر ختم ہو جاتی ہے۔ بازار بندہ مومن کے لیے ایک فتنہ اور آزمایش ہیں جن سے اپنی حفاظت کرتے ہوئے گزرنا چاہیے۔

حضرت عطاء بن فروخ  ؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمانؓ نے ایک آدمی سے زمین خریدی۔ اس کے بعد اس شخص نے آپ سے ملنے میں دیر کر دی۔ آپ اس سے ملے اور پوچھا کہ کیا مانع پیش آیا کہ رقم لینے نہیں آئے۔ اس نے جواب میں کہا کہ آپ نے اس سودے میں مجھے نقصان پہنچایا ہے۔ میں جس آدمی سے بھی ملا ہوں وہ مجھے اس پر ملامت کرتا ہے۔ آپ نے فرمایا: کیا یہ چیز رقم کی وصولی میں مانع بن گئی ہے؟ اس نے کہا: ہاں۔ آپ نے فرمایا: تو اس میں کون سی مشکل ہے۔ آپ چاہیں تو سودا ختم کر دیں۔ آپ اپنی زمین واپس لے لیں اور چاہیں تو رقم وصول کر لیں۔ پھر فرمایا کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جنت میں داخل کرے گا ایسے شخص کو جو نرم ہو‘ خریدار ہو تو نرم‘ بائع ہو تو نرم‘ ادایگی کرنے والا ہو تو نرم‘ وصول کرنے والا ہو تو نرم۔ (الفتح الربانی)

ہم نے اپنی زندگیوں میں کتنی تلخیاں محض نرم خوئی اور نرم روی کی اس سنہری ہدایت کو ترک کرنے سے گھول رکھی ہیں۔ میاں بیوی کے معاملات ہوں‘ والدین اور اولاد کے معاملات ہوں یا کاروباری معاملات‘ اگر ہم اپنے کو دوسرے کی جگہ رکھ کر سوچ لیں تو ہمارے رویوں میں انقلابی تبدیلی آجائے۔ وہ سلوک کریں جو ہم اپنے ساتھ کیے جانا پسند کریں۔ کیا ہم چاہیں گے کہ ہمیں کوئی گالی دے‘ ہمارے اوپر آستینیں چڑھا لے؟ پھر ہم ایسا کیوں کریں۔ غیر ضروری مقدمات نے‘ جو محض کسی ردعمل میں دائر کیے جاتے ہیں‘ کتنوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ نرمی سے بات کی جائے تو آدمی اپنا حق چھوڑنے پر بھی تیار ہو جاتا ہے۔ لیکن بہرحال‘ تالی دونوں ہاتھ سے بجتی ہے۔ نرمی کی تعلیم و تلقین بھی ہو‘ اور معاشرے کے رہنما اور بزرگ اس کا نمونہ بھی پیش کریں۔ طالب علم استادوں سے اور اولاد والدین سے نرمی کا سبق لیں۔

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دیہاتی سے ایک یا چند اُونٹ ’’ذخیرہ‘‘ نام کی کھجوروں کے عوض خریدے۔ یہ عجوہ کھجوروں کی ایک قسم ہے۔ سودا ہوگیا اور رسولؐ اللہ اسے اپنے گھرلے کر آئے اورکھجوریں تلاش کیں کہ قیمت ادا کی جائے لیکن نہ مل سکیں۔ رسولؐ اللہ باہر تشریف لائے اور فرمایا: اے اللہ کے بندے! ہم نے آپ سے اُونٹ کھجوروں کے عوض خریدے تھے لیکن کھجوریں دستیاب نہ ہو سکیں۔ دیہاتی نے یہ سن کر کہا: ہائے عہدشکنی! حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں:لوگوں نے اسے ڈانٹ ڈپٹ شروع کی اور کہا کہ اللہ تجھے ہلاک کرے۔ کیا رسولؐ اللہ نے عہدشکنی کی؟ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: رسولؐ اللہ نے فرمایا کہ اسے کچھ نہ کہو‘ حق دار کو بات کرنے کا حق ہے۔ رسولؐ اللہ نے دیہاتی سے اپنی بات کو کئی بار دہرایا۔ جب آپؐ نے دیکھا کہ وہ اپنی نادانی کی وجہ سے آپؐ کی بات کو نہیں سمجھتا اور وہ یہی سمجھ رہا ہے کہ آپؐ اسے اس کا حق نہیں دے رہے تو آپؐ نے اپنے ایک صحابی سے فرمایا: خویلہ بنت حکیم بن امیہ کے پاس ذخیرہ نام کی عجوہ کھجوریں ہیں تو ہمیں ادھار دے دیں۔ آدمی گیا پھر لوٹا اور عرض کیا کہ خویلہ کہتی ہیں کہ میرے پاس کھجوریں ہیں‘ میں دے دیتی ہوں۔ آپؐ وصولی کے لیے کسی کو بھیج دیجیے۔ رسولؐ اللہ نے اس آدمی کو کہا‘ جائو اس شخص کو اس کا حق پورے کا پورا دے دو۔ چنانچہ اس نے اس کا پورا حق دیا۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسولؐ اللہ صحابہ کرام کے حلقے میں تشریف فرما تھے کہ دیہاتی کا ادھر گزر ہوا۔ اس نے آپؐ کو دعا دیتے ہوئے کہا کہ اللہ آپؐ   کو جزاے خیر دے۔ آپ ؐنے میرا حق پورے کا پورا بلکہ بہت عمدہ شکل میں دے دیا۔

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں کو ان کا پورے کا پورا حق عمدہ شکل میں دینے والے اللہ کے ہاں قیامت کے روز بہترین بندوں میں شامل ہوں گے۔ (الفتح الربانی)

آج آپ کا حق کسی حساب اقتدا کے پاس پھنس جائے تو آپ سو دفعہ سوچیںگے کہ طلب بھی کریں یا نہ کرنے میں ہی خیریت ہے۔ قربان جایئے اس معاشرے پر جو اللہ کے رسولؐ اور ان کے ساتھیوں نے قائم کیا تھا۔ اس معاشرے میں سب سے بڑی ہستی‘ حق مانگنے والے کے درشت رویے پر ٹوکنے والوں کو خود روکتی ہے اور اس کا حق اس کی مرضی کے مطابق ادا کرنے کی تدبیر کرتی ہے (آج کل ایک عام آدمی بھی کتنی آسانی سے حق کی ادایگی کو ٹال دیتا ہے اور ساری پریشانی حق مانگنے والے کے حصے میں آتی ہے)۔ اس اسوہ کو زندگی کے لیے راہنما بنایا جائے تو حقیقی اسلامی معاشرہ وجود میں آئے۔ حق دار کو اس کا حق ادا کرنا اور عمدہ طریقے سے ادا کرنا‘پُرسکون معاشرتی زندگی کی بنیاد ہے۔ آپ حق ادا کریں‘ آپ کے حق بھی ادا کیے جائیں گے۔ کوئی مظلوم اور شاکی نہ رہے گا۔

حضرت ابوسعیدخدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک شخص باغات کے پھلوں کی خریداری کیا کرتا تھا۔ پھل آفت سے دوچار ہوگئے۔ جس کے نتیجے میں اُس شخص کو مالکوں کی رقوم کا تاوان دینا پڑگیا۔ مالکوں نے ادایگی کا مطالبہ کیا۔ نبیؐ نے مسلمانوں سے اس کے لیے صدقے کی اپیل کی۔ لوگوں نے صدقہ کیا لیکن تاوان کی ادایگی نہ ہوسکی۔ رسولؐ اللہ نے حق داروں سے فرمایا: یہ رقم وصول کرلو‘ تمھارے لیے اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ (الفتح الربانی)

آج بھی اس طریقے کو اپنایا جاسکتا ہے۔ ایک یا چند افراد جو جائز کاروبار کی وجہ سے زیربار ہوجائیں‘ ان کے لیے زرتعاون جمع کیا جا سکتا ہے۔ اس طریقے کو اپنا کر افراد اور ملک کو سودی قرضوں کے بوجھ سے نجات دلائی جا سکتی ہے۔ معاشرے میں اس روایت کو قائم کرنا چاہیے کہ مقروض ادایگی نہ کر سکتا ہو تو اس سے اسی قدر وصول کیا جائے جس قدر وہ دے سکتا ہے‘ باقی معاف کر دیا جائے۔ آپ کے اس فیصلے کے مطابق اگر ایسی اخلاقی روایت ڈال دی جائے تو انفرادی اور اجتماعی مشکلات بڑی حد تک ختم ہو جائیں۔

حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مال تقسیم کر رہے تھے کہ ایک شخص آیا اور آپؐ پر ٹوٹ پڑا۔ آپؐ نے کھجور کی ایک شاخ سے اسے کچوکا لگایا جس سے اس کا چہرہ زخمی ہوگیا۔ رسولؐ اللہ نے اسے بلایا اور فرمایا: ادھرآئو اور اپنا قصاص لے لو۔ اس نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ میں نے معاف کر دیا۔ (الفتح الربانی‘ ۱۵‘ ۱۶)

جواسوۂ رسول کی پیروی کا دعویٰ کرتے ہیں ‘ اس آئینے میں اپنا چہرہ دیکھیں‘ ایسی صورت میں ہمارا ردعمل کیا ہوگا؟ شاید ہم اس شخص کو اس کا قصور بتائیں گے ‘ اپنی زیادتی تسلیم ہی نہ کریں گے۔ ہمارے ہاں تو غربا میں تقسیم کے موقع پر ہجوم ہو جائے تو لاٹھی چارج بھی کیا جاتا ہے۔

قصاص‘ اسلامی معاشرے کی بڑی حسین روایت ہے۔ قرآن کے مطابق اس میں ہمارے لیے زندگی ہے۔ یہ روایت زندہ اور نافذ ہو تو ظالم کا ہاتھ بڑھنے سے پہلے رک جائے۔ معاشرے سے ظلم و زیادتی کی بیخ کنی ہو جائے اور ہر شخص‘ مرد و عورت اپنے کو محفوظ و مامون سمجھے۔ تھانے میں ظلم کرنے والوں سے برسرِعام قصاص لیا جائے‘ تو کس کی مجال ہے کہ ظلم کرے۔ جب اللہ کا رسولؐ قصاص سے بلند نہیں‘ تو ان سے زیادہ معزز کون ہے جو اپنے کو قصاص سے بری سمجھے۔

قوموں اور گروہوں کا گرنا اور اٹھنا‘تاریخ کی ایک ایسی حقیقت ہے جس پر انسان ہمیشہ سوچتا ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟

کچھ قومیں دنیا میں ترقی کرتی ہیں‘ غلبہ اور کامرانی اُن کے حصے میں آتا ہے‘ وہ دنیا پر چھا جاتی ہیں۔ تہذیب‘ تمدن‘ علم‘ ہر لحاظ سے انھی کا سکہ چلتا ہے‘ لیکن پھر مختلف انداز سے زوال کا شکار ہو جاتی ہیں۔ کچھ محض ماضی کی داستان بن کر رہ جاتی ہیں اور صرف تاریخ کے اوراق میں اُن کا ذکر پڑھا جا سکتا ہے۔ کچھ ایک لمبے عرصے کے لیے پستی اور گم نامی کے پردے میں چلی جاتی ہیں۔ کچھ ایسی ہوتی ہیں جو کبھی بھی‘ اس سے نہیں نکلتیں اور کچھ ایسی ہوتی ہیںجو طویل عرصے کے بعد پھر اُبھر کر سامنے آجاتی ہیں۔

یہ سوال ہر سوچنے والے انسان کو ہمیشہ ہی پریشان کرتے رہے ہیں۔ ان کا جواب بھی لوگ دیتے رہے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب اور اپنے نبیؐ کی معرفت دنیا کو ہدایت دی ہے اورجو آخری ہدایت ہمارے پاس موجود ہے اس میں بھی قوموں کے عروج و زوال سے کافی تفصیل کے ساتھ بحث کی گئی ہے۔ قوموں کا ذکر ہے‘ اُن کے کردار اور اُن کے افعال کا بیان ہے‘اُن پر عذاب آنے یا نجات پانے کا ذکر کیا گیاہے۔ یہ اس لیے ہے کہ انسان دنیا کے اندر ہمیشہ کسی گروہ‘ یا کسی قوم‘ یا کسی اجتماعیت کا حصہ بن کر رہتا ہے۔ لہٰذا اگر اُس کو راہِ راست پہ قائم رہنا ہے تو وہ اجتماعیت اور قوم سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ وہ پیدا ہوتا ہے تو اس صورت میں کہ دو انسان مل کر ایک خاندان کی اجتماعیت کو وجود میں لاتے ہیں۔ آنکھ کھولتا ہے توخاندان‘ محلہ‘ اسکول‘ ہر جگہ‘ اُس کی زندگی کا ہر گوشہ دوسرے انسانوںکے ساتھ تعلقات کے اندر بندھا ہوتا ہے۔ بہت ہی تھوڑی زندگی ہے جس کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ انسان دوسرے انسانوں سے بالکل آزاد اور بے نیاز ہو کر گزارتاہے۔ لیکن یہ بھی باہر سے متاثر ہوتی ہے۔ دل میں خیالات اُٹھتے ہیں‘ غصہ آتا ہے‘ محبت ہوتی ہے‘ جذبات پیدا ہوتے ہیں‘ یہ سب باہر سے متاثر ہوتے ہیں۔ اسی لیے وہ لوگ جو کسی ایک خاص پہلو سے انسان کا مطالعہ کرتے ہیں جب وہ اجتماعیت کے نقطۂ نظر سے انسان کا مطالعہ کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ دراصل انسان اپنی قوم یا اپنے معاشرے یا اپنی اجتماعی زندگی کی پیداوار ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انسان تو ایک social animal ‘ یعنی معاشرتی حیوان ہے۔ حالانکہ معاشرے اور اجتماعیت کے لحاظ سے بہت سے جانور بھی بڑی زبردست اجتماعیت اور قومیت اپنے اندر رکھتے ہیں۔ اس کی ایک مثال شہد کی مکھیوں کی ہے۔ اگر آپ نے سنا یا پڑھا ہو تو آپ واقف ہوں گے کہ ان کے اندر کتنی زبردست اجتماعیت پائی جاتی ہے۔

قرآن مجید نے اپنے انبیا‘ اپنی دعوت‘ ایمان اور عملِ صالح کی مناسبت سے کامیابی کے جو مژدے سنائے ہیں اُن کی بنیاد پر‘ آج دنیا کے اندر اُس کی نافرمان قوموں کو غالب دیکھ کر ذہن میں سوال پیدا ہوتے ہیں۔ اس لیے اس موضوع کا بڑا گہرا تعلق ہدایت اور قرآن مجید کو سمجھنے سے ہے۔ اگر اصلاح و تغیر اور انقلاب کا کام کرنا ہے تو اُس کے لیے بھی اُن قوانین کو سمجھنا ضروری ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت اس سلسلے میں ہم کو دیے ہیں۔

انسان کی یہ عادت ہے اور صحیح ہے کہ جن چیزوں کو وہ نہیں جانتا اور سمجھنا چاہتا ہے‘ اُن کو وہ اُن کی معرفت جاننے اور سمجھنے کی کوشش کرتا ہے جواُس کی فہم اور سمجھ کے دائرے کے اندر آتے ہیں۔ وہ یہ تو نہیں جانتاکہ قومیں کیوں پیدا ہوتی ہیں؟کیوںترقی کی منزلیں طے کرتی ہیں؟ اور کیوں زوال کے گڑھے میں جاگرتی ہیں؟ لیکن بہت سارے ایسے واقعات اور مظاہر موجود ہیں جو اسی عمل سے گزرتے ہیں اور انھیں وہ جانتا ہے۔ وہ درخت کا بیج بوتا ہے‘ اُس سے تنا نکلتا ہے‘ درخت جوان ہوتا ہے‘ اُس کے بعد خزاں کا شکار ہوتا ہے اور مٹی میں مل جاتا ہے۔ یہ بھی ایک عروج و زوال کی داستان ہے جو اُس کی نگاہوں کے سامنے برابر پیش آتی ہے۔ وہ روز یہ دیکھتا ہے کہ سورج آہستہ آہستہ نکلتا ہے‘ پھر اُس کی روشنی بڑھنا شروع ہوتی ہے‘ پھر وہ نصف النہار پر پہنچتا ہے‘ اور اُس کے بعد زوال کی طرف جانا شروع کرتا ہے اور آخرکار ڈوب جاتا ہے۔ عروج و زوال کا ایک اور مظاہرہ بھی اُس کے سامنے ہوتا ہے۔ وہ انسان کو دیکھتا ہے کہ وہ پیدا ہوتا ہے‘ بچہ ہوتا ہے‘ اس کے بعد جوانی کی قوتیں آتی ہیں‘ شباب کے عالم میں وہ زندگی گزارتا ہے‘ پھر اُس کے قویٰ مضمحل ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ سوچنے سمجھنے کی قوتیں جواب دینا شروع کر دیتی ہیں‘ جسم بھی جواب دینے لگتا ہے‘ بالآخر وہ بوڑھا ہوکر قبرکے گڑھے میں پہنچ جاتا ہے۔ عروج و زوال کے یہ منظر انسان کی نگاہوں کے سامنے رہتے ہیں۔ اِن کو وہ سمجھ سکتاہے اور دیکھ سکتا ہے۔ جب وہ بغیر کسی ہدایت کے غور کرتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ انھی میں سے کس طریقے یا ماڈل کے مطابق قومیں بھی اُٹھتی اور نیچے گرتی ہیں۔ یا پھر یہ رات اور دن کے چکر کی طرح ایک ناقابلِ مفر چکر ہے۔ اس سے کوئی بھاگ نہیں سکتا۔ دن کا کوئی لمحہ اُس انجام سے بھاگ نہیں سکتا جو اس کے لیے مقرر ہے۔ اگر ۱۲ بجے کے لیے عروج لکھا ہوا ہے تو ہمیشہ ۱۲ بجے عروج ہوگا اور چھ بجے شام کے لیے اگر زوال لکھا ہوا ہے تو اس وقت ہمیشہ زوال ہوگا۔

درخت اور انسان طبیعی وجود تو نہیں رکھتے لیکن ایک حیاتیاتی وجود ضرور رکھتے ہیں۔ یہ اِن ساری منازل سے گزرتے ہیں اور اس سے ان کو کوئی مفر نہیں ہے۔ جوان دوبارہ بچہ نہیں ہو سکتا‘ بوڑھا دوبارہ جوان نہیں بن سکتا۔ موت سے دوبارہ زندگی کی طرف واپسی نہیں ہوسکتی۔ یہ ایک ناگزیر عمل ہے۔

مفکرین نے عروج و زوال کے بارے میں جو بھی قوانین بنائے‘ تجویز کیے‘ سوچے‘ وضع کیے‘ وہ انھی چیزوں کے گرد گھومتے ہیں۔ ایک نظریہ cyclical ہے‘ یعنی ایک چکر ہے جس سے ہر قوم کو گزرنا ہے‘ اس سے کوئی مفرنہیں۔ ایک حیاتیاتی نظریہ ہے۔ دیگر نظریات بھی ہیں لیکن ہم ان کے اندر بڑے بڑے نظریات کو سمیٹ سکتے ہیں۔ یہ تمہید میں نے اس لیے باندھی ہے کہ قرآنِ مجید نے اس ضمن میں جو بالکل منفرد رہنمائی دی ہے‘ اُس کو بخوبی سمجھا جا سکے اور اُس کی جو گراں قدر قیمت ہے اُس کو بھی محسوس کیا جا سکے۔

افراد اور اقوام کی حیثیت

قرآنِمجید جو پہلی بات بہت ہی وضاحت کے ساتھ بیان کرتا ہے وہ یہ ہے کہ فرد کی زندگی ایک حیاتیاتی چکر کے ساتھ بندھی ہوئی ہے: پیدایش‘ بچپن‘ جوانی‘ بڑھاپا اور موت۔ ہرآدمی کو اِس پورے چکر سے یا اس کے بعض مراحل سے گزرنا پڑے گا۔ بچپن کے بعدبھی مر سکتا ہے اور بوڑھا ہو کر بھی مر سکتا ہے۔ میں آیات کے حوالے نہیں دوں گا مگر قرآنِ مجید میں آپ کو‘ اس مضمون کی بہت ساری آیات مل جائیں گی۔ اُس نے کہا ہے کہ انسان کا جو آخری مقدر ہے وہ ہلاکت‘ یعنی موت سے دوچار ہونا ہے۔ کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِط (اٰل عمران ۳:۱۸۵) ’’ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے‘‘۔

اس عمل کا کوئی تعلق‘ اُس فرد کے اعمال سے‘ یا اُس کے اخلاق سے‘ یا اُس کے ایمان سے نہیں ہے‘ اور نہ اُس کی معنوی‘ اخلاقی‘ روحانی‘ علمی اور ایمانی زندگی سے ہے۔ وہ کافر ہو یا مسلمان‘ وہ نبی ہو یا شیطان‘ وہ مطیع و فرماں بردار ہو یا فاسق و فاجر‘ ہر ایک اس عمل سے گزرتا ہے۔ انسان کو اس عمل سے گزرتے ہوئے جو کچھ بھی پیش آتا ہے وہ بالعموم اُس کے اخلاقی اعمال کا نتیجہ نہیں ہوتا۔ اگر شراب پینے سے کسی کی صحت خراب ہوتی ہے تو شراب پینے کی ایک حیثیت اخلاقی ہے اور ایک طبیعی ہے۔ کوئی زہر کھائے گا تو مر جائے گا‘ شراب پیے گا تو اُس کا جگر خراب ہوجائے گا۔ اِس کا کوئی تعلق اُس کے اخلاقی فعل سے نہیں ہے بلکہ طبیعی اثر سے ہے جو رونما ہوتا ہے۔ کسی کو کینسرہوجاتا ہے‘ کوئی اور بیماری ہوجاتی ہے تو اس کا کوئی تعلق اُس کے اعمال سے نہیں ہے۔ اُس کو موت آتی ہے تو اس لیے نہیں آتی کہ وہ برے کام کرتا ہے بلکہ اس لیے آتی ہے کہ کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ ِط  (اٰل عمران ۳:۱۸۵)۔یہ بڑی اہم اور پہلی بات ہے جس کو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر آگے کی بات نہیں سمجھی جاسکتی۔

قرآنِ مجید برملا اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ اس کے برعکس قوموں کی زندگی اعمال اور اخلاق کے ساتھ بندھی ہوئی ہے۔ اگر اُن کو ترقی اور عروج نصیب ہوتا ہے تو وہ اخلاق اور اعمال کی وجہ سے ہے اور اگر وہ زوال کا شکار ہوتی ہیں تو وہ اعمال اور اخلاق کی وجہ سے ہی ہوتی ہیں۔ اِس میں کسی طبیعی چیز کو دخل نہیں ہے بلکہ اصل چیز اعمال ہیں۔ اصل قوت اخلاق کی قوت ہے۔ ایمان اور تقویٰ ہو تو آسمان اور زمین سے بھی نعمتوں کی بارش ہوگی۔ اگرقومیں استغفار کریں گی توآسمان سے بارشیں ہوں گی‘ زمین سے چشمے اگلیں گے اور کھیتیاں اگیں گی اور قوم پر بہار آئے گی۔ اگر ہلاکت اور زوال حصے میں آئے گا تووہ بھی اپنے اعمال کی وجہ سے ہی آئے گا۔ فَکُلاًّ اَخَذْنَا بِذَنْبِہٖم ج  (العنکبوت ۲۹:۴۰) ’’آخرکار ہر ایک کو ہم نے اس کے گناہ میں پکڑا‘‘۔  فَھَلْ یُھْلَکُ اِلاَّ الْقَوْمُ الْفٰسِقُوْنَo (الاحقاف ۴۶:۳۵)‘ اِلاَّ الْقَوْمُ الظّٰلِمُوْنَ o (الانعام ۶:۴۷)‘ یعنی مجرموں‘ ظالموں‘ فاسقوں کے علاوہ کسی کو ہلاک نہیں کیا جاتا۔ ہلاکت‘ بربادی اور زوال‘ اگر ہے تو صرف اپنے اعمال کی وجہ سے ہے۔ یہ حقیقت بڑی نمایاں ہے‘ اور یہی قرآنِ مجید کی تعلیم کی‘ اور اس کے قانون کی بنیاد ہے۔ اس سے اور بہت ساری شاخیں پھوٹیںگی لیکن اس کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔

اس کا تعلق اس بات سے بھی ہے کہ قرآنِ مجید کی نظر میں انسانی زندگی دنیا تک محدود نہیں ہے بلکہ انسان کے لیے موت کے بعد بھی ایک اور دنیا اور ایک اور زندگی ہے۔ اُس دنیا میں اور اُس زندگی میں ہر فرد اپنی انفرادی حیثیت سے اپنے اعمال اور اپنے کارنامۂ زندگی کے لیے جواب دہ ہے۔ اگر یہاں اُس کو اپنے معنوی‘ اخلاقی اور روحانی اعمال کے لیے جزا اور سزا نہیں ملتی‘ تو یہ لازمی ہوا کہ ایک نقطۂ اختتام آئے‘ جہاں اُس کی مہلت عمل ختم ہو اور اُس کے بعد وہ اللہ کے سامنے حاضر ہو اور اپنے کارنامہ زندگی پر اجر و ثواب یا سزا پائے۔ چنانچہ اُس کی جو سوانحِ حیات ہے اُس کی تاریخ موت پر ختم نہیں ہوتی بلکہ موت کے بعد بھی جاری رہتی ہے۔ اگر اُس کو جزا اور سزا یہیں ملنا شروع ہو جائے تو موت کے بعد کا عمل مشکل ہو جائے گا۔ یہ ممکن بھی نہیں ہے کہ اُس کو اعمال کی جزا اور سزا یہاں مل سکے۔ اگرمولانا مودودیؒ کا ایک چھوٹا سا کتابچہ زندگی بعد موت کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ کیوں یہ ضروری ہے کہ انسان کی مہلت ِ عمل ختم کی جائے اور دنیا کا پورا نظام درہم برہم کیا جائے۔ دراصل اُس کا صحیح محاسبہ اُس کے بعد ہی ہوسکتا ہے۔ اس لیے کہ انسان کے اعمال کے اثرات بہت لمبے عرصے اور بہت دور کے دائرے پر محیط ہوتے ہیںجب تک کہ اُس کی زندگی اور یہ دنیا ختم نہ ہو‘ان کو سمیٹا نہیں جا سکتا ۔

فرد اور قوم کی جواب دہی

دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کوئی قوم بحیثیت قوم اللہ کے سامنے‘ اپنے اعمال کی جواب دہی کے لیے آخرت کے دن کھڑی نہیں ہوگی۔ اس لیے کہ قوم کی مثال تو ایک دریا کی طرح ہے۔ وقت کے کسی لمحے میں بھی بہت سارے قطرات آتے ہیں‘ ملتے ہیں اور آگے بڑھ جاتے ہیں۔ قوم کوئی ایسی چیز نہیں کہ اللہ تعالیٰ گردن سے پکڑ کر کہے کہ تم کسی چیز کے لیے جواب دہ ہو۔ اُس میں ہر طرح کے لوگ ہو سکتے ہیں۔ نیک بھی ہوسکتے ہیں اور بد بھی۔ اچھے بھی ہوسکتے ہیں اور برے بھی۔ سب کو ایک لاٹھی سے ہانکنا عدل و انصاف کا تقاضا نہیں ہے۔ البتہ ہرشخص اللہ کے سامنے الگ الگ جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بات بھی قرآنِ مجید میں واضح طور پر بیان فرما دی ہے۔ پاکستانی قوم بحیثیت مجموعی‘ یا کوئی جماعت بحیثیت مجموعی یا کوئی تنظیم بحیثیت مجموعی اللہ کے سامنے جواب دہ نہیں ہوگی۔ اُس قوم میں‘ اُس جماعت میں‘ اُس تہذیب میں جو افراد برائیاں کرتے رہے ہیں وہ اپنی برائیوں کے لیے اور جو نیکیاں کرتے رہے ہیں وہ اپنی نیکیوں کے لیے اللہ کے سامنے جواب دہ ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی اور طریقہ وہاں انصاف کا ہو نہیں سکتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ قوموں کا عرصۂ محشر دنیا میں ختم ہوجائے‘ اور افراد کا عرصۂ محشر موت کے بعد شروع ہو۔ اس لیے یہ ضروری ہوا کہ قوموں کے عروج و زوال اور ہلاکت و بربادی کی داستان اُن کے اعمال مرتب کریں اور افراد کے وجود کا جو عروج و زوال ہے وہ ایک طبیعی‘ حیاتیاتی عمل ہو‘ اور اُس کو طبیعی قوتوں سے متعین اور مرتب کیا جائے۔ یہ دوسرا بڑااصول ہے جو قرآنِ مجید نے بڑی کثرت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ قرآن مجید کے جس ورق کو اُٹھا کر دیکھ لیجیے‘ قومِ عاد کا ذکر ہو یا قومِ لوط کا‘ اگر نجات دی گئی تو انبیاء اور اُن کے ساتھیوں کو اُن کے اعمالِ صالحہ کی وجہ سے دی گئی اور برباد کیا گیا تو اِس وجہ سے کہ لوگ برائی کے راستے پر پڑے تھے۔ برائیاں مختلف قسم کی تھیں لیکن اپنے گناہوں کی وجہ سے پکڑے گئے اور برباد کیے گئے۔ کسی انسان کو موت اُس کے گناہوں کی وجہ سے نہیں آتی۔ کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِط (اٰل عمران ۳:۱۸۵)کے عمومی اور بے لاگ قاعدے کی وجہ سے آتی ہے۔

عروج و زوال کی بنیاد

اگر یہ دوسرا قانون بھی اچھی طرح ذہن نشین رہے تو پھر یہ بات واضح اور صاف ہے کہ عروج و زوال کا انحصار اخلاق اور اعمال پر ہے۔ انسان اپنے اخلاق اوراعمال پر اختیار رکھتا ہے۔ اگر وہ اختیار نہ رکھتا ہوتا تووہ جواب دہ نہ ہوتا۔ اُس کو اختیار دیا گیا ہے کہ چاہے تووہ نیکی کرے اور چاہے تو برائی‘ چاہے تو ایمان لائے اور چاہے تو انکار کر دے‘ چاہے تو اللہ کو مانے اور چاہے تو نہ مانے۔ اس کے لیے یہ بات نہیں کہی جاسکتی کہ یہ ایک ایسا عمل ہے جس کا ہونا ناگزیر ہے یا جس سے کوئی مفر نہیں ہے یا جس کو پلٹا نہیں جا سکتا یا واپس نہیں لوٹایا جاسکتا۔ اگر انحصار طبیعی عوامل کے اُوپر ہے خواہ درخت کی زندگی ہے یا انسان کی زندگی‘ تو یقینا ناگزیر ہے کہ انسان بچپن‘ جوانی اور بڑھاپے سے گزر کر قبر کے گڑھے میں جائے‘ اِس سے کوئی مفر نہیں ہے۔ اعمال اس سلسلے میں کچھ نہیں کر سکتے لیکن اگر قوموں کی زندگی صرف اخلاق و اعمال کے اُوپر منحصر ہے‘ تو اخلاق اور اعمال چونکہ اُس کے اپنے اختیار میں ہیں‘ اس لیے یہ اُس کے اختیار میں ہونا چاہیے کہ اگر وہ اُن قوانین کی پابندی شروع کر دے جن سے اللہ تعالیٰ نے قوموں کے عروج کو وابستہ کیا ہے تو وہ عروج کی طرف جا سکے اور اگر وہ اُن قوانین کی خلاف ورزی شروع کر دے تو وہ زوال کی طرف جا سکے۔ یہ بالکل ایک ایسی بات ہے جس سے انکار ممکن نہیں ہے۔ ہم اس کو آسانی کے ساتھ‘ سوچ سکتے ہیں‘ سمجھ سکتے ہیں۔ یہی بات اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ تمھارے اختیار میں ہے۔

وَلَوْ اَنَّ اَھْلَ الْقُرٰٓی اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْھِمْ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ (الاعراف ۷:۹۶) ’’اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے‘‘۔ انسان کے ساتھ یہ وعدہ نہیں ہے کہ اگر وہ ایمان و تقویٰ اپنائے تو اُس کا بڑھاپا جوانی میں بدل جائے گا‘ یہ نہیں ہوگا۔ یا اُس پر رزق کے دروازے کھل جائیں‘ یہ وعدہ نہیں ہے۔ ایک مومن مفلسی کے عالم میں زندگی بسر کر سکتا ہے لیکن بستی والوں سے اور قوموں سے وعدہ ہے اگر وہ ایمان و تقویٰ کا راستہ اختیار کریں توآسمان و زمین سے برکتوں کے دروازے کھل جائیں گے۔ اگر استغفار کریں گے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے یہ نعمتیں عطا کرے گا‘ یعنی دنیوی وعدے بھی ہیں۔ یہ دراصل اسی قانون کا نتیجہ ہے کہ قوموں کی زندگی اخلاق اور اعمال پر منحصر ہے۔

اخلاق کی وسیع تعریف

اس کے بعد چوتھا قانون جو بڑا اہم ہے وہ اخلاق اور قانون کی وہ بڑی وسیع تعریف ہے جو قرآن مجید نے بیان فرمائی ہے۔ عام طور سے ہمارے ذہنوں میں یہ موجود نہیں ہوتی۔ اسی لیے ہمارے ذہنوں میں طرح طرح کے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ ایمان بھی اسی اخلاق کا حصہ ہے اور ایمان کے معنی یہ ہیں کہ کسی چیز کے ساتھ‘ اخلاص کے ساتھ وابستگی اور اُس کو ماننا۔ چنانچہ ایمان بالباطل بھی ممکن ہے اور ایمان بالحق بھی ممکن ہے۔ ایمان تو خود ایک صفت ہے‘ وفاداری کی‘ وابستگی کی‘ کسی چیز کو مان لینے کی اور اُس پر جم جانے کی۔ یہ اخلاقی صفت ہے۔ یہ باطل کے ساتھ بھی ہو سکتی ہے اور حق کے ساتھ بھی۔ جس کے ساتھ یہ ہوگی اُس کا وزن زیادہ ہوگا۔

نفاق بھی ایک صفت ہے کہ کسی چیز کو نہ ماننا‘ نہ ماننے کے برابر ہونا‘ اُس کو نہ ماننے پر جمنا‘ اور دل میں ہمیشہ دو روش ہونا۔ یہ حق کے ساتھ بھی ہوسکتی ہے اور باطل کے ساتھ بھی۔ جو وعدہ ایمان کے ساتھ ہے‘ وہ نفاق کے ساتھ نہیں ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کے ساتھ نفاق کی روش ہو اور شیطان کے ساتھ ایمان کی روش ہو تو شیطانی ایمان غالب آئے گا اور نفاق شکست کھائے گا‘ اس لیے کہ اصل قیمت ایمان کی ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ آدمی جس قانون کو مانتا ہو اُس کی پابندی کرے۔ اگر آدمی اللہ کا قانون مانتا ہو اور اُس کی پابندی نہ کرتا ہو تو وہ اس کی سزا پائے گا۔ ایک آدمی اللہ کا قانون نہ مانتا ہو‘ اپنا بنایا ہوا قانون مانتا ہو‘ لیکن اُس کی پابندی کرتا ہو تو قانون کی پابندی فی نفسہٖ اپنے اندر وہ قوت رکھتی ہے جو اُس کو غلبہ عطا کر دیتی ہے۔ ایک آدمی اللہ کو ماننے والا ہو لیکن اُس کے لیے محنت کرنے کو تیار نہ ہو‘ اور ایک آدمی شیطان کو ماننے والا ہو اور شیطان کے لیے محنت کرنے کو تیار ہو تو محنت فی نفسہٖ ایک اخلاقی قوت ہے جو کام کرے گی اور اس کا نتیجہ سامنے آکر رہے گا۔ ایک آدمی حق کے اُوپر ایمان رکھتا ہو لیکن اُس کے لیے تحقیق و اجتہاد اور علم سے عاری ہو تو یہ حق اُسے کوئی فائدہ نہیں دے گا۔ اگر ایک قوم باطل پر ایمان رکھتی ہے لیکن تحقیق و اجتہاد اور جدت اور نئے مسائل کے حل نکالنے سے آراستہ ہے تو وہ غلبہ پائے گی۔ ایک قوم اگر صبح شام استغفراللہ کا ورد کرتی ہے لیکن اُس کے اندر احتساب اور جرم کرنے والوں کے لیے سزا کا کوئی نظام نہیں ہے تووہ قوم دنیا میں مغلوب ہوگی اور وہ قوم جو استغفراللہ کا ورد تو نہیں کرتی لیکن اُس نے اپنی قوم کے لیے جو ضابطہ بنایا ہے‘ جو دستور بنایا ہے‘ جن ضوابط کا وہ اپنے آپ کو پابند سمجھتی ہے‘ اُن کی پابندی کرتی ہے ‘ اور اگر کوئی غلطی کا ارتکاب کرتا ہے تواُس کو سزا دیتی ہے اور اُس میں کوئی رعایت نہیں کرتی ہے خواہ وہ اُس کا وزیر ہو‘ صدرِ ریاست ہو یا عام مجرم ہو‘ تو وہ غالب ہو کر رہے گی۔ احتساب‘ اپنی غلطیوں کا ادراک اور اُن کے اوپر داروگیر‘ وہ اخلاقی صفات ہیں جواُس کو غلبے سے ہم کنار کریں گی۔

اگر یہ اصول واضح ہو جائے کہ اخلاق کا دائرہ عورت اور شراب تک محدود نہیں ہے بلکہ اخلاق کا دائرہ وقت کی پابندی‘ اپنے مقاصد کے ساتھ لگن‘ اُن کے لیے محنت‘ اُن کی جستجو‘ اپنی قوم کے اندر انصاف‘ لوگوں کی برابری‘ مظلوم کی داد رسی‘ یہ بھی وہ چیزیں ہیں جو اخلاق کے اندر شامل ہیں‘ تو پھر یہ سوال اُٹھانے کی ضرورت نہیں رہتی کہ وہ قومیں جو ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت سے خالی ہیں وہ کیوں آگے ہیں اور ہماری وہ قوم جو ایک قرآن بھی رکھتی ہے‘ اللہ پر ایمان کی دعوے دار بھی ہے‘ نمازیں بھی پڑھتی ہے‘ روزے بھی رکھتی ہے‘ زکوٰۃ بھی دیتی ہے‘ وہ کیوں مغلوب ہے۔ اگر اخلاق کی جامع تعریف کو سامنے رکھا جائے جس کی ایک تشریح  تحریک اسلامی کی اخلاقی بنیادیں میں کی گئی ہے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بنیادی انسانی اخلاقیات سب سے اہم ہیں اور  انھی کی بنیاد پر اسلامی اخلاق تعمیر ہوتا ہے۔ اسلامی اخلاق کی حالت بھی اگر اتنی زار ونزار ہو کہ نہ ایمان قابلِ اعتبار ہو‘ نہ تقویٰ اور احسان موجود ہو تو پھر قوم محض نام کا لیبل لگانے سے آگے نہیں بڑھ سکتی۔ مذکورہ کتابچے میں مولانامودودیؒ لکھتے ہیں کہ: تانبے کے سکے پر اشرفی کی مہر لگا دیں تو بازار میںنہیں چلے گا اور اگر بُھس بھرے ہوئے سپاہیوں کو آپ وردی پہنا دیں تو وہ نہیں لڑ سکتے‘ خواہ وہ وردی ایمان کی ہو اور ایمان باللہ کی وردی ہو۔ لیکن اگر جسم کے اندر طاقت موجود ہے اور خالص سونا موجود ہے تو وہ بازار میں چل سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ خالص ہی بازار کے اندر چل سکتا ہے‘ منافقت بازار میں نہیں چلتی۔ یہ بھی وہ قانون ہے جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرما دیا ہے کہ زبانی دعویٰ قابلِ اعتبار نہیں ہے‘ اصل چیز تو عمل ہے۔ لِنَنْظُرَکَیْفَ تَعْمَلُوْنَo (یونس ۱۰:۱۴) ’’تاکہ ہم دیکھیں کہ تم کیسا عمل کرتے ہو‘‘۔ وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلاَّ مَا سَعٰیo (النجم ۵۳:۳۹) ’’اور یہ کہ انسان کے لیے کچھ نہیں ہے مگر وہ جس کی اس نے سعی کی‘‘۔

کوشش اور محنت کا بدلہ انسان کو ملتا ہے‘ اور تقویٰ عمل کا نام ہے اور عمل پوری زندگی پر محیط ہے۔ آدمی جس کو صحیح مانتا اور جانتا ہو‘ اسی پر عمل کرتا ہے۔ اُس میں سے بعض چیزیں غلط بھی ہو سکتی ہیں۔ وہ سمجھتا ہے کہ شراب پینے میں کوئی حرج نہیں ہے‘ وہ شراب پیتا ہے۔ اس کے خیال میں زنا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے‘ وہ زنا کرتا ہے۔ اگر وہ سمجھتا ہے کہ جھوٹی گواہی نہیں دینا چاہیے‘ وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتا اور اگر وہ سمجھتا ہے کہ غریب کی مدد کرنا چاہیے‘ وہ غریب کی مدد کرتا ہے‘ اور اپنی جیب سے پیسہ نکال کے دیتا ہے۔ اگر وہ سمجھتا ہے کہ قانون کی پابندی کرنا چاہیے‘ وہ قانون کی پابندی کرتا ہے۔ اگر وہ سمجھتا ہے کہ رشوت دینا گناہ ہے‘ نہ وہ رشوت دیتا ہے اور نہ لیتا ہے۔ یہ وہ اخلاق ہیں جن کی بڑی قدروقیمت ہے بلکہ بعض احادیث کی رو سے شراب‘ زنا اور دوسرے اعمال کے بہ نسبت ان اخلاق کی زیادہ قدروقیمت ہے۔

مغرب کی بالادستی کا سبب

آج جو معاشرے دنیا میں غالب ہیں اگر اُن کے ساتھ مسلم معاشرے کا موازنہ کیا جائے تو صاف فرق محسوس ہوتا ہے۔ انصاف ہی کو لے لیجیے کہ مسلمان معاشرے میں اُس کا کیا حال ہے۔ انصاف تو بہت بڑی چیز ہے‘ ممکن ہے وہ دنیا کو انصاف نہ دیتے ہوں‘ مسلمانوں کے ساتھ انصاف نہ کرتے ہوں لیکن اُن کے اپنے معاشرے میں تو انصاف ہے۔ اُن کے ہاں رشوت نہیں ہے۔ اُن کے ہاں کوئی کسی کا حق پامال نہیں کرسکتا۔ کوئی کسی کو ٹارچر سیل میں نہیں ڈال سکتا۔ کوئی کسی کو پکڑ کر مار پیٹ نہیں کر سکتا۔ اس کے علاوہ اُن کے ہاں بیوائوں‘ یتیموں‘ پنشن یافتہ لوگوں اور بے روزگاروں کی فلاح کے لیے ایک پورا نظام ہے۔ آدمی بیمار ہوتا ہے تو اس کا مفت علاج ہوتا ہے۔ اگر بے روزگار ہو جاتا ہے تو اُس کو الائونس ملتا ہے۔ یونی ورسٹی جاتا ہے اُس کا وظیفہ بندھ جاتا ہے۔ کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو اُس کا وظیفہ بندھ جاتا ہے۔ یہ میں نے صرف چند مثالیںدیں ۔میرا مقصد مغرب سے مرعوب کرنا نہیں ہے بلکہ ذہن سے یہ بات نکالنا ہے کہ صرف شراب اور موسیقی اور ناچ گانا اور زنا وغیرہ ہی وہ چیزیں ہیں جن کی بنیاد پر قوموں کی قسمت کا فیصلہ ہوتا ہے۔ قوموں کے عروج و زوال میں صرف یہی فیصلہ کن امر نہیں ہے بلکہ اخلاق کا دائرہ بڑا وسیع ہے۔ اس ضمن میں حق پسندی اور خود احتسابی بھی بہت اہم ہے۔ لیکن مسلمان ممالک میں قوم کے احتساب کی کوئی مضبوط روایت موجود نہیں ہے کہ اس کے نتیجے میں کوئی جیل جائے۔ مغرب کے حوالے سے یہ ایک اہم پہلو ہے۔ اس کے علاوہ اور بہت سی اخلاقی اقدار ہیں جن کی وجہ سے دوسری قومیں ہم سے آگے ہیں۔

جزا و سزا کا قانون

اگر قوموں کے عروج و زوال کے انھی موٹے موٹے اصولوں کو سامنے رکھا جائے تو قرآنِ مجید کی بیان کردہ بڑی بڑی بنیادیں سامنے آجاتی ہیں۔ انبیا کے بارے میں قرآنِ مجید نے یہ قانون بنایا ہے‘ اور یہ صرف انبیا کے بارے میں ہے اور کسی کے بارے میں نہیں ہے‘ کہ میرے رسول غالب ہوکر رہیں گے۔ کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْط (المجادلہ ۵۸:۲۱) ’’اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول ہی غالب ہوکر رہیں گے‘‘۔

اسی اصول پر غور کرنے سے ذہن میں اٹھنے والے بہت سے سوالوں کا جواب مل جاتا ہے۔ چونکہ انبیا وہ واحد افراد ہیں جو کسی قوم پر اخلاقی طور پر اتمامِ حجت کرسکتے ہیں۔ ہم اور آپ جو دعوتی کام کرتے ہیں‘ اس کے لیے ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے حق ادا کر دیا اور اتمامِ حجت کر دی۔ انبیا چونکہ اتمامِ حجت کر دیتے ہیں اس لیے سید مودودیؒ کے الفاظ میں اگر کوئلے کی کان میں کوئی ہیرا باقی نہ رہے تو اِس کا مقدر اِس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے کہ اِس کو پھونک دیا جائے‘ جلا دیا جائے۔ چنانچہ جب انبیا ان سارے لوگوں کو چھانٹ لیتے ہیں تو کان کو جلا دیا جاتا ہے اور خدا کا عذاب ان پر مسلط کر دیا جاتا ہے۔ وَنَجَّیْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَo (حم السجدہ ۴۱:۱۸) ’’اور ہم نے ان لوگوں کو بچا لیا جو ایمان لائے تھے اور گمراہی و بدعملی سے پرہیز کرتے تھے‘‘۔ گویا ان کی مساعی کے نتیجے میں ان کو نجات مل جاتی ہے۔ یہ قانون صرف انبیا کے ساتھ ہے‘ انبیا کے بعد اور لوگوں کے ساتھ نہیں ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ اور لوگوں کے ساتھ پوری کی پوری قوم کو سزا دی جاتی ہے۔ سوال کیا گیا کہ اُن میں اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں! قیامت کے روز لوگ اپنی اپنی نیتوں کے مطابق اٹھائے جائیں گے۔ اور اگر کوئی بلا آئے گی‘ کوئی عذاب اترے گا تو وہ یہ دیکھ کر نہیں اترے گا کہ اس گھر میں مومن رہتا ہے یا اس گھر میں کافر رہتا ہے‘ بلکہ جب قوم پر عذاب آئے گا تو سب کے سب اُس کا شکار ہوں گے۔ البتہ ایک فرد کے لیے یہ بات اس لیے اہمیت نہیں رکھتی کہ اس کا کام تو اس دنیا کی زندگی کے بعد ختم نہیں ہوا۔ اُس کو تو بہرحال مرنا ہی تھا خواہ وہ کینسر سے مرتا‘ یا ٹریفک کے کسی حادثے میں مرجاتا‘ یا بستر پر پڑا ہوا مرتا‘ یا معمولی زکام یا پائوں پھسلنا اس کی موت کا باعث ہوتا‘ یا اللہ کا عذاب اس کی ہلاکت کا سبب بنتا۔ لہٰذا دنیا میں موت کا آجانا یا ہلاکت کوئی سزا نہیں ہے۔ بے شمار نیک آدمی ہیں جو ہوائی جہازوں اور گاڑیوں کے حادثوں میں‘ کینسر سے اور بہت سارے امراض سے مر جاتے ہیں۔ یہ دنیا میں کوئی عذاب نہیں ہے۔ دنیا کا عذاب نہ کوئی عذاب ہے اور نہ دنیا کا نفع کوئی نفع ہے۔ فرد تو جانتا ہے کہ اصل چیز تو آخرت ہے اور وہاں پر لوگ اپنی نیتوں کے مطابق اٹھائے جائیں گے۔ یہاں اللہ تعالیٰ کے نبیؐ نے جزا و سزا کے قانون کو بھی واضح فرما دیا۔ یہ بڑا قیمتی قانون ہے۔

دنیا میں اگر کسی کو کوئی تکلیف ہے تو وہ بھی عارضی ہے اور اگر کوئی آرام ہے تو وہ بھی عارضی ہے۔ اگر یہاں پر نعمتیں ملتی ہیں تو اس کی بھی کوئی قدروقیمت نہیں ہے اور اگر یہاں پرسزا ملتی ہے تو اُس کی بھی کوئی قدروقیمت نہیں ہے۔ دنیا کی نعمتوں کے بارے میں تو قرآنِ مجید نے یہ فرما دیا کہ ہم کو اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ سارے کے سارے لوگ کافر ہوجائیں گے تو ہم اُن انکار کرنے والوں کے گھر‘ اُن کے دروازے ‘ اُن کی کھڑکیاں‘ اُن کی چھتیں‘ اُن کے بستر‘ اُن کے زینے‘ یہ سب سونے چاندی کے بنا دیتے۔ ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہمارے لیے یہ سب مچھر کے پَرکے برابر بھی وقعت نہیں رکھتا‘ لیکن اس طرح اہل ایمان کی بڑی سخت آزمایش ہو جاتی اور کوئی بھی ایمان پر قائم نہ رہتا اس لیے ہم نے ایسا نہیں کیا۔ لہٰذا دنیا کی تکلیف کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یہ گزر ہی جاتی ہے۔ ایک سانس جب نہیں آتی تو کینسر کا بڑے سے بڑا درد ختم ہو جاتا ہے اور پھر کوئی تکلیف باقی نہیں رہتی۔ اگر دنیا میں لوگ عذاب میں شریک بھی ہیں تو بالآخر آخرت میں اپنا اجر پائیں گے۔ اس لیے کہ آخرت میں تو آدمی اپنی نیتوں اور اعمال کے مطابق اٹھائے جائیں گے۔ جو نیک ہوں گے وہاں پر اُن کے ساتھ پوری داد رسی کی جائے گی۔ یہ قانون اللہ تعالیٰ نے بیان فرما دیا ہے۔

دنیا کی امامت کا منصب

اس قانون کے تحت بعض قومیں ہلاک ہو جاتی ہیں۔  وَّجَعَلْنٰھُمْ اَحَادِیْثَج (المؤمنون۲۳:۴۴) ’’ہم نے ان کو ایک داستان بنا دیا‘‘۔ بعض قومیں قعرمذلت اور گم نامی میں چلی جاتی ہیں اور پھر زندہ ہوتی ہیں۔ اس میں اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ جو اُس کی دنیا کو بہتر طریقے سے چلا سکتا ہے‘ جو دنیا کے لوگوں کے لیے زیادہ بہتر‘ مفید اور باعث خیر ہو‘وہ اسے پستیوں سے نکال کر سربلندی عطا کرتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو مغربی اقوام میں بہت سی خامیاں ہیں۔ انسان اچھائیوں اور برائیوں کا مجموعہ ہوتا ہے‘ اس لیے ہر قوم میں اچھائیاں بھی ہوتی ہیں اور برائیاں بھی۔ لیکن عروج اور سربلندی اس کو ملتی ہے جو بحیثیت مجموعی انسانوں کے بنائو‘ تعمیر اور خیر کا باعث ہو۔ اس کی بہترین مثال وہ ہے جو سید مودودیؒ نے بناؤ اور بگاڑ میں دی ہے۔ اس پر اگر غور کیا جائے تو عروج و زوال کے حوالے سے ذہنوں میں اُٹھنے والے بہت سے سوالوں کا جواب مل جاتا ہے۔ اس کے مطابق باغ کا مالک اپنا باغ اُس کے سپرد کرے گا جو اُس کا نظام بہتر چلا سکتا ہو۔ جو لوگ اپنے ایک ایئرپورٹ کا نظام نہیں چلا سکتے‘ ایک میونسلپٹی کا نظام نہیں چلا سکتے‘ ایک شہر کو صاف ستھرا نہیں رکھ سکتے‘ ایک عدالت کا نظام پورے عدل و انصاف سے نہیں چلا سکتے‘ وہ لوگ پوری دنیا کی قیادت کے اہل کیسے ہو سکتے ہیں۔

دنیا کی قیادت کا اہل تو وہی ہوگا جو بنی نوع انسان کے لیے زیادہ مفید اور کارآمد ہوگا۔ مغرب کے حوالے سے یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ اُن کے اندر برائیاں نہیں ہیں۔ اس سے انکار  نہیں کیا جاسکتا۔ برائیاں بھی اپنا کام کر رہی ہیں اور بالآخر اُن کے زوال کا باعث بنیں گی لیکن دنیا کے اندرکوئی اچھا امیدوار نہیں ہے جو اللہ کو پسند ہو لیکن وہ بہتر امیدوار ہے۔ وہ بہترین امیدوار تو نہیں ہے لیکن مقابلتاً اچھا امیدوار ہے جو دنیا کی قیادت کا مستحق ہے۔ اس لیے کہ وہ اپنی محنت سے‘ اپنی جستجو سے‘ دنیا کو چلانے کے سلیقے سے‘ اپنی قوم کے اندر عدل و انصاف قائم کرنے سے‘ اس بات کا مستحق ہے کہ اسے دنیا کا انتظام سونپا جائے۔ وہ مسلمان حکمرانوں کے اخلاق اور کردار کے لحاظ سے سو گنا بہتر ہیں۔ اُن کے ہاں اگر ایک ’’واٹرگیٹ‘‘ اسیکنڈل ہو جائے تو صدر کو استعفا دے کر رخصت ہونا پڑتا ہے۔ ہمارے ہاں اگر ٹارچر سیل بھی بنے رہیںاُن میں انسانوں پر ظلم بھی کیا جائے اور ملک کے بڑے سے بڑے اصول اور ضابطے کو پامال کر دیا جائے پھر بھی حکمران کی حیثیت سے برقرار رہتے ہیں‘ اور آج بھی وہ اُسی دبدبے سے حکمران ہیں۔ اس کے مقابلے میں مغرب میں یہ روایت ہے کہ اگر کسی مجرم سے کسی وزیر کا تعلق ثابت ہو جائے‘ کوئی حادثہ ہو جائے تو وہ ایک دن بھی نہیں رہ سکتا۔ یہ اُن کے ہاں احتساب کی ایک صفت ہے۔ اسی کو محدود معنوں میں استغفار کہا جا سکتا ہے۔ وہ استغفراللہ تو نہیں کہتے لیکن پبلک لائف میں غلطی کرنے والے کو سزا ملتی ہے۔ پرائیویٹ زندگی میں ممکن ہے وہ ایمان دار نہ ہوں‘ زنا کرتے ہوں‘ شراب پیتے ہوں‘ عورتوں کے ساتھ بدکاریاں کرتے ہوں لیکن پبلک لائف میں وہ اس کو برداشت نہیں کرتے۔ اب بھی اگر اُن کو معلوم ہوتا ہے کہ اُن کا صدر یا وزیراعظم بہت زیادہ شراب پیتا ہے تو وہ اسے منتخب نہیں کرتے۔ وہ خود خواہ کتنی ہی برائیاں کرلیں‘ اپنے اہل کاروں میںنہیں دیکھنا چاہتے۔ اس لحاظ سے وہ بہتر قوم ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ وہ اچھی قوم ہیں بلکہ دنیا میں موجود دوسری قوموں کے مقابلے میں بہتر قوم ہیں۔ اس لیے وہ دنیا کی امامت کے حق دار ہیں۔ یہی حال یہودیوں کا بھی ہے۔ یہودیوں کے بارے میں یہ سوال عام طور سے اٹھایا جاتاہے کہ وہ ذلت اور مسکنت کا شکار ہو جانے کے باوجود کیوں غالب ہیں؟ اُس کا سیدھا سادا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود قرآنِ مجید میں فرمایا ہے:  الا بحبلٍ من اللّٰہ وحبل من الناس (اٰل عمرٰن ۳:۱۱۲) ‘ یعنی اللہ کی طرف سے رسی دراز کر دی جائے یا پھر لوگوں کے سہارے وہ آگے بڑھ سکتے ہیں۔ اور آج اُن کا جو وجود ہے اور جس دم خم کا وہ مظاہرہ کرتے ہیں وہ اپنے بل پر نہیں بلکہ دوسری قوموں کے بل پر ہے۔

اُمت مسلمہ کے لیے ضابطہ

اللہ تعالیٰ نے یہ قانون بھی واضح کر دیا ہے کہ جس قوم کو اپنے کام اور مقصد کے لیے وہ منتخب کرلے اور جس کو یہ ذمے داری دے دے‘ جسے ملازم رکھ لے اور جس سے employment contract پر دستخط لے لے‘ اُس سے ایک میثاق باندھ لے کہ تم میرے کام کروگے‘ میں تم کو اپنی امانت اور اپنی ہدایت سپرد کر رہا ہوں تو اُس کو جب ترازو میں تولا جائے گا تو سب سے پہلے یہ دیکھا جائے گا کہ وہ اپنے معاہدئہ ملازمت کی شرائط (terms of employment) کوکہاںتک پورا کر رہی ہے۔ اگر فردِ جرم عائد ہوگی تو اس لحاظ سے ہوگی۔ وہ کسی اور ذریعے سے دنیا میں ترقی نہیں کر سکتی۔ یہ بات بھی قرآنِ مجید میں اُس نے کھول کھول کر بیان کر دی ہے:  فَبِمَا نَقْضِھِمْ مِّیْثَاقَھُمْ لَعَنّٰھُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوْبَھُمْ قٰسِیَۃًج (المائدہ ۵:۱۳) ’’پھر یہ ان کا اپنے عہد کو توڑ دالنا تھا جس کی وجہ سے ہم نے ان کو اپنی رحمت سے دُور پھینک دیا اور ان کے دل سخت کر دیے‘‘۔ وَضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃُق وَبَآئُ وْبِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِط ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ کَانُوْا یَکْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ (البقرہ ۲:۶۱) ’’آخرکار نوبت یہاں تک پہنچی کہ ذلت و خواری اور پستی و بدحالی ان پر مسلط ہو گئی اور وہ اللہ کے غضب میں گھر گئے۔ یہ نتیجہ تھا اس کاکہ وہ اللہ کی آیات سے کفر کرنے لگے‘‘۔

آج مسلمانوں کو جس ذلت اور مسکنت کا سامنا ہے اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ یورپ والے آگے بڑھ گئے یا اس سے پہلے ساسانی آگے بڑھ گئے تھے بلکہ یہ اس لیے ہے کہ جو ہماری ملازم و وفادار قوم تھی‘ اُس نے ہماری آیات کے انکار کی روش اختیار کی‘ ہم سے بے وفائی کی‘ ہمارے راستے کوچھوڑا‘ چنانچہ ہم نے اس پر ذلت اور مسکنت مسلط کر دی۔

مسلمانوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ خصوصی معاملہ ہے۔ اس لیے کہ اُس نے ان کو ملازم رکھا ہے۔ اور جب کسی کو ملازم رکھا جائے تو اُسے دیگر شرائط کے ساتھ شرائط ملازمت بھی پوری کرنی ہوں گی۔

ترکی نے ۱۹۲۰ء میں فیصلہ کیا کہ ہم مغرب کے سانچے میں ڈھل کے ہی ترقی کر سکتے ہیں۔ انھوں نے اپنے قوانین بدلے‘ لباس بدلا‘ رسم الخط بدلا‘ زبان بدلی‘ سب کچھ بدل دیا لیکن آج بھی یورپ کا ایک مردِ بیمار ہے۔ اس کے مقابلے میں جاپان نے بھی ایک فیصلہ کیا کہ ہمیں بھی آگے بڑھنا ہے‘ ترقی کرنا ہے لیکن اپنی اقدار کو ساتھ لے کر ترقی کرنا ہے۔ آج جاپان دنیا کی پانچ بڑی طاقتوں میں سے ایک بڑی طاقت ہے۔ ہم بھی کئی ’’پانچ سالہ منصوبہ‘‘ پاکستان میں نافذ کرچکے ہیں لیکن ہم ترقی سے محروم ہیں۔ اس لیے کہ ہمارے پاس کوئی مقصد نہیں ہے جس کے لیے کام کریں۔ مسلمان جب قوم بن جائے تو وہ اللہ کے علاوہ کسی مقصد کے لیے متحد نہیں ہو سکتی۔ قوموں کی زندگی میں اخلاق میں سب سے بڑھ کر ایمان ہے۔ چونکہ ہمارا ایمان ہی ناقص ہے اس لیے آگے بڑھنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ایمان خواہ باطل پر ہی ہو مگر مضبوط ہو تو وہ عظمت اور سربلندی کا باعث ہوتا ہے۔

قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے قوموں کے عروج و زوال کے یہ تمام قوانین بڑی وضاحت کے ساتھ بیان فرما دیے ہیں۔یہ قرآنِ مجید کا ایک بڑا اہم باب ہے۔ اس باب کے تمام پہلوئوں کو کسی ایک گفتگو میں نہیں سمیٹا جاسکتا۔ اس کے اتنے پہلو ہیں کہ اس کا احاطہ بہت مشکل ہے۔ تاہم موٹے موٹے اصول میں نے بیان کر دیے ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو قوموں کے عروج و زوال کے حوالے سے بیش تر سوالات کے جواب ان اصولوں اور قوانین کے اندر موجود ہیں۔ یہ قرآنِ مجید کے وہ قوانین ہیں جو جگہ جگہ بیان کیے گئے ہیں۔ کہیں ان کو مبہم نہیں رکھا گیا ہے بلکہ بار بار بیان کیا گیا ہے۔ یہ ہمارا قصور ہے کہ ہم اِن کو پڑھتے ہیں اور گزر جاتے ہیں۔ ان پر غور نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ نے قوموں کے بارے میں کس طرح کھول کھول کر بیان کر دیا ہے کہ اُن کی عزت اور سربلندی‘ مادی قوت سے نہیں ہے بلکہ اخلاقی برتری سے ہے۔ قرآن میں آیا ہے کہ اگر صبر کی قوت ہوگی تو ایک آدمی ۱۰۰ پر غالب ہوگا۔ اگر معاملہ محض مادی قوت کا ہوتا تو۱۰ آدمیوں کو ایک آدمی نہیں ہرا سکتا۔ فرمایا: وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا لَا یَضُرُّکُمْ کَیْدُھُمْ شَیْئًا ط (اٰل عمرٰن ۳:۱۲۰) ’’مگر ان کی کوئی تدبیر تمھارے خلاف کارگر نہیں ہوسکتی بشرطیکہ تم صبر سے کام لو اور اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو‘‘۔

گویا اگر صبر ہو‘ جمائو ہو‘ ثبات ہو‘ اپنی چیز کے لیے جمنے کا حوصلہ ہو‘ آپس میں اتحاد ہو‘ انتشار نہ ہو تویہ وہ چیزیں ہیں جو دنیا کے اندر غالب کرنے والی ہیں۔ ایٹم بم‘ فیکٹریاں اور کارخانے اور مادی وسائل غلبے کی اصل وجہ نہیں ہیں۔ حقیقت مادی ترقی بھی اخلاقی ترقی کی وجہ سے ہوتی ہے۔اگر اخلاق میں زوال ہو تو کارخانے کام نہیں کرتے‘ وہاں بھی مال گھٹیا بنتا ہے جو برآمد نہیں ہو سکتا۔ بددیانت لوگ ہوں گے تو گھٹیا مال برآمد کریں گے۔ مزدور محنت نہیں کرتے‘ اس لیے کہ اُن کا اخلاق کمزورہوتا ہے۔ وہ دیانت داری سے اپنا فرض ادانہیں کرتے۔ اگر بددیانتی ہوگی تو سڑک بننے کے اگلے دن ادھڑ جاتی ہے‘ ایئرپورٹ بنتا ہے‘ اگلے دن ناقص نکلتا ہے۔ غرض دنیا میں بھی بغیر اخلاق کے ترقی نہیں ہو سکتی۔ محنت اور علم کی جستجو نہ ہو تو ایٹم بم نہیں بن سکتا‘ اسلحہ نہیں بن سکتا۔ یہ مادی قوت سے نہیں بنتے بلکہ اخلاقی قوت سے بنتے ہیں۔ ان کے پیچھے اصل کارفرما محرک قوت اخلاقی ہوتی ہے۔ اس لیے اصل قوت لوگوں کے اخلاق ہیں۔ جس نے برائی کمائی اُس کے حصے میں برائی آئے گی‘ جس نے بھلائی کمائی اُس کے حصے میں بھلائی آئے گی۔ فرد کے حصے میں تو موت کے بعد آئے گی لیکن قوموں کو جزا و سزا اسی دنیا میں مل جائے گی۔ یہی ان کے عروج و زوال کا اصل سبب ہے۔ یہ قرآن کے قوانین ہیں۔ ان پر جتنا غور کیا جائے گا‘ اتنی ہی اس حوالے سے الجھنیں دُور ہوں گی۔ ذہنی عقدے حل ہوں گے اور قوموں کے عروج و زوال کے حوالے سے بہت سے مسائل کی تہہ تک بآسانی پہنچا جا سکے گا۔ (کیسٹ سے تدوین: امجد عباسی)

(آخری قسط)

وقت کی اقسام اور ہر قسم کا ایک منفرد انداز اس کائنات کے پیچیدہ نظام کو چلانے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ تخلیقات کا تنوع اوقات کے تنوع کا بھی تقاضا کرتا ہے‘ اور ساتھ ہی تمام تر تخلیقات کے ایک خالق اور اوقات کے ایک مالک کی سب سے بڑی شہادت بھی اس نظام پر غور کرنے سے مل جاتی ہے۔ گویا کثرت ہی میں وحدت کی دلیل چھپی ہوئی ہے۔

اللہ تعالیٰ کی ذات ہی وہ منفرد اور یکتا ہستی ہے جو اول بھی ہے اور آخر بھی‘ ظاہر بھی ہے اور باطن بھی‘ اور وہ سب کچھ جانتا ہے۔ توحید کا تصور اتنا جان دار اور جامع ہے کہ اس کا مطلب وقت کی مختلف حالتوں کا کوئی مجموعہ نہیں بلکہ وقت کی مختلف حالتوں کا وحدت اور اکائی کی صورت میں سمو لیا جانا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں ارشاد فرماتا ہے: ’’وہی ہے جس نے آسمان اور زمین کو برحق پیدا کیا ہے اور جس دن وہ کہے گا کہ حشر ہو جائے‘ اس دن وہ ہو جائے گا۔ اس کا ارشاد عین حق ہے اور جس روز صور پھونکا جائے گا اس روز بادشاہی اسی کی ہوگی۔ وہ غیب اور شہادت ہر چیز کا عالم ہے اور دانا اور باخبر ہے‘‘(الانعام ۶:۷۳)۔ یہ آیت حضرت ابراہیم ؑ کے توحید کی طرف فکری سفر کی روداد سے قبل آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں چار مختلف قسم کے اوقات


o  ریکٹر‘ انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ اینڈ ٹکنالوجی ‘ لاہور

کی تخلیق اور ان کی مدت کے ایک دوسرے کے بعد آنے اور جانے کا امر واقعہ بیان فرما یا ہے۔ زمین اور آسمان کی تخلیق کے ساتھ ہی سورج اورچاند اور زمین کے گردشی نظام کے ذریعے وجود میں آنے والا وقت کا خول بھی ظاہرہے کہ کسی اور طرح کے وقت کے بعد وجود میں آیا ہوگا‘ یعنی ایک وقت تخلیق سے قبل تھا‘ دوسرا تخلیق کے بعد سے شروع ہو کر قیامت تک رہے گا۔ زمین کی تخلیق کا عمل بھی کروڑوں اور اربوں سالوں پر محیط نظر آتا ہے۔ تیسرا نظامِ وقت قیامت کی گھڑی سے قائم ہوجائے گا جب موجودہ وقت کے اجزاے ترکیبی نیست و نابود ہو جائیں گے ۔ اس وقت کے لیے مشرق و مغرب اور چاند‘ سورج اور ذہن کی حرکت کا نظام العمل کیا ہوگا‘اس کی تفصیل اس وقت واضح نہیں ہے۔ چوتھا  نظامِ وقت اس وقت قائم ہوگا کہ جب لوگ دوبارہ اُٹھا کر زندہ کیے جائیں گے۔ آیت مذکورہ میں اوقات کی مختلف اقسام کے بتدریج قیام کو اللہ تعالیٰ کی بادشاہی اور قدرتِ کاملہ کی تصدیق کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو وقت کے نظام پر قادر ہو وہی غیب کا جاننے والا ہے اور دانا اور باخبر ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علم کی جامعیت‘ کاملیت اور ہر شے پر اس کا محیط ہونا ممکن ہی اس وقت ہو سکتا ہے کہ جب وہ وقت کے ایک خول سے اندر اور باہر سب کچھ اس طرح دیکھ سکتا ہو کہ جیسے انسان آئینہ دیکھتا ہے۔ وہ وقت کہ جو ابھی آیا نہیں ہے اس کے بھی انتہائی سرے پر دیکھ سکتا ہے کہ کیا کچھ آیندہ ہونے والا ہے۔

زمینی وقت کی ایک خصوصیت اس کا مدت اور مہلت کی شکل میں پایا جانا ہے۔ حضرت آدم ؑکے زمین پر اتارے جانے کے بعد بنی نوع انسانیت کی مہلت کا آغاز ہوگیا اور یہ مدت وہ ہے جو اس دنیا میں قیامت تک جاری ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’فرمایا‘ اُتر جائو تم ایک دوسرے کے دشمن ہو‘ اور تمھارے لیے ایک خاص مدت تک زمین ہی میں جاے قرار اور سامانِ زیست ہے‘‘۔ دوسری مدت وہ ہے جو ہر قوم یا قریہ کے لیے ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’ہرقوم کے لیے مہلت کی ایک مدت مقرر ہے‘ پھر جب کسی قوم کی مدت پوری ہوتی ہے تو ایک گھڑی بھر کی تقدیم و تاخیر نہیں ہوتی‘‘ (الاعراف ۷:۳۴)۔ تیسری مدت وہ ہے جو ہر فرد کو اُس کی عمر کی صورت میں ملی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’وہیں تم کو جینا اور وہیں مرنا ہے اور اس میں سے تم کو آخرکار نکالا جائے گا‘‘ (الاعراف ۷:۲۴)۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ’’تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے زمین اور آسمان بنائے‘ روشنی اور تاریکیاں پیدا کیں۔ پھر بھی وہ لوگ جنھوں نے دعوتِ حق کو ماننے سے انکار کر دیا ہے دوسروں کو اپنے رب کا ہمسر ٹھہرا رہے ہیں۔ وہی ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا‘ پھر تمھارے لیے زندگی کی ایک مدت مقرر کر دی‘ اور ایک دوسری مدت اور بھی ہے جو اس کے ہاں طے شدہ ہے‘‘۔(الانعام ۶:۱-۲)

دورہ‘ مدت‘ مہلت‘ بار بار پھیر‘ یہ انسانی وقت کی خصوصیات ہیں۔ قرآن میں مہلت کے اٹل ہونے پر بے انتہا زوردیا گیا ہے۔ یہ وقت کبھی ٹل نہیں سکتا۔ کسی کو مفر نہیں۔ کوئی اس نظامِ سلطنت سے باہر نہیں جاسکتا۔ کوئی اس طریقۂ کار کو تبدیل نہیں کر سکتا ہے۔ یعنی مدت و مہلت کی شرائط کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا ہے۔

مشرق اور مغرب نظامِ وقت کے وہ دو ستون ہیں کہ جن پر وقت کا نظام قائم ہے۔ وقت مشرق سے شروع ہوتا ہے اور مغرب میں ختم ہوتا ہے۔ توحید کا تقاضا ہے کہ یہ دونوں ایک ہی ہستی کے اقتدار کا حصہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’مشرق اور مغرب سب اللہ کے ہیں۔ جس طرف بھی تم رخ کرو گے‘ اس طرف اللہ کا رخ ہے۔ اللہ بڑی وسعت والا اور سب کچھ جاننے والا ہے‘‘۔ (البقرہ ۲:۱۱۵)

وقت کے اندر سمت کا تصور بھی موجود ہے۔ وقت بذاتِ خود مخصوص سمت پر سورج اور زمین کی حرکت سے وجود میں آتا ہے اور اس کے وجود میں آنے سے انسان سمیت ہر شے اپنی تخلیق کے تدریجی مراحل سے گزرنا شروع ہوگئی ہے‘ یعنی وقت میں جغرافیائی سمت کے علاوہ معنوی سمت بھی موجود ہے۔ انسان کا مقام اور اس کی عمر‘ ان دونوں کا تعین سمت کے جغرافیائی و معنوی پہلوئوں کو بالترتیب نمایاں کرتا ہے۔ ذہن میں جاے مقام مشرق و مغرب اور شمال و جنوب کے تعین سے ہوتا ہے‘ جب کہ مشرق و مغرب کا تعین پھر وقت کے ذریعے ہی ہوتا ہے۔ گویا  سورج اور زمین کی گردش سے --- انسان کے لیے جائے مقام کے ساتھ ساتھ مدت قیام کی معلومات اس کے تخلیقی سفر کی کیفیت کو ظاہر کرتی ہیں۔ جو وقت گزر گیا ہے عمر سے معلوم ہوجاتا ہے۔ طے شدہ وقت سے اتنا وقت گویا کم ہوگیا۔

کس جگہ کیا وقت ہو رہا ہے؟ اس کے حساب کے لیے سمت کا حساب ضروری ہے۔ مشرق و مغرب سمت ہی کے دو اشارے ہیں۔ صبح و شام اور ستارے سمت کو واضح کرتے ہیں۔ انسان کے لیے یہ سمت انتہائی اہم ہے اور وہ کبھی بھی اس سے بے پروا نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ سمت سے باہر ہے۔ وہ سمت کا خالق ہے۔ وہ اطراف اور میقات‘ میعاد اورانجام پر غالب ہے۔ ہر رخ اور ہر سمت اس کی ہے وہ سب کو سموئے ہوئے ہے۔

اللہ تعالیٰ وقت پر کس طرح قادر ہے اس کا اعلان ایک آیت کو چھوڑ کر پھر ہوتا ہے:’’وہ زمین اور آسمان کا موجد ہے‘ اور جس بات کا وہ فیصلہ کرتا ہے ‘ اس کے لیے بس یہ حکم دیتا ہے کہ’ہوجا‘ اور وہ ہو جاتی ہے‘‘۔ کن فیکون کے تصور میں تمام فاصلے اور نظام ہاے اوقات سمٹ کر آگئے ہیں۔ کن فیکون اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ کا حتمی اظہار ہے۔ وقت اُس کا ہے۔ سارے رُخ اُس کے ہیں۔ زمان و مکاں اپنے تمام تر وجود اور خلق کے ساتھ اُس کا ہے۔ توحید کی ایسی تعریف کہ جس میں مادہ‘ قوت‘ قدر‘ وقت اور خلق کی تمام صورتوں پر مکمل اختیار ماقبل اور مابعد کے ساتھ جھلکتا ہو کن فیکون کے دو الفاظ سے زیادہ بہتر صورت میں ادا نہیں ہوسکتی ہے۔

توحید اور تخلیق اور وقت کے مابین تعلق کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی بھی طرح زمین اور آسمان کے وقت کا پابند ہوچکا ہے‘ یا اس گھیر سے اب کوئی مفر نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ خلق اور امر دونوں اُس کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں متعدد واقعات کا تذکرہ کیا ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وقت کے نظام کی کنجیاں کس طرح اس کے پاس ہیںاور وہ نشانی کے طور پر ماضی کو مستقبل سے اورمستقبل کو ماضی سے تبدیل کر سکتا ہے۔ گھڑی کی سوئی کو تیزی سے آگے یا پیچھے گھما سکتا ہے یا وقت گزرنے کے باوجود وقت کی زد میں آئی ہوئی اشیا کو وقت کے اثرات سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے: ’’تم نے ان لوگوں کے حال پر غور کیا‘ جو موت کے ڈر سے اپنے گھر بار چھوڑ کر نکلے تھے اور ہزاروں کی تعداد میں تھے؟ اللہ نے اُن سے فرمایا: مرجائو۔ پھر اس نے ان کو دوبارہ زندگی بخشی۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ انسان پر بڑا فضل فرمانے والا ہے‘ مگر اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے‘‘ (البقرہ ۲:۲۴۳)‘ یعنی اس دنیا ہی میں دوبارہ زندگی بخش دی۔ اس طرح بنی اسرائیل نے جب کہا کہ جب تک ہم اللہ تعالیٰ کو دیکھ نہ لیں‘ ایمان نہیں لائیں گے تو ایک زبردست کڑکے نے ان کو آلیا وہ بے جان ہو کر گر گئے اور پھر انھیں دوبارہ زندگی دی گئی۔ (دیکھیے:  البقرہ ۲:۵۵-۵۶)

اسی طرح جب حضرت ابراہیم ؑ کا نمرود سے اللہ تعالیٰ کے بارے میں مکالمہ ہوا تو زندگی اور موت کے بارے میں اس نے کہا کہ یہ تو میرے اختیار میں ہے۔ لیکن پھر جب حضرت ابراہیم ؑ نے کہا کہ اچھا‘ اللہ سورج کو مشرق سے لاتا ہے تو ذرا مغرب سے نکال لا تو یہ  سن کر وہ ششدر رہ گیا۔ ظاہرہے کہ وہ سمجھ گیا کہ یہ دونوں اختیارات لازم و ملزوم ہیں اور یہ اللہ ہی کی ذات میں جمع ہیں۔ قادر وہی ہو سکتا ہے کہ جو محیط ہو۔ جو محیط نہ ہو وہ سمت کا تابع ہو کر حدود میں رہتا ہے۔

زندگی بعد موت اور زمینی وقت کے بارے میں کس طرح قرآن احساس و شعور کو جھنجھوڑنا چاہتا ہے‘ اس کے لیے یہ واقعہ نہایت سبق آموز ہے۔ اللہ تعالیٰ بیان کرتا ہے: ’’یا پھر مثال کے طور پر اس شخص کو دیکھو‘ جس کا گزر ایک بستی پر ہوا‘ جو اپنی چھتوںپر اوندھی گری پڑی تھی۔ اس نے کہا: ’’یہ آبادی جو ہلاک ہو چکی ہے‘ اسے اللہ کس طرح دوبارہ زندگی بخشے گا؟‘‘ اس پر اللہ نے اس کی روح قبض کر لی اور وہ ۱۰۰ برس تک مردہ پڑا رہا۔ پھر اللہ نے اسے دوبارہ زندگی بخشی اور اس سے پوچھا: ’’بتائو کتنی مدت پڑے رہے ہو؟‘‘ اس نے کہا: ’’ایک دن یا چند گھنٹے رہا ہوں گا‘‘۔ فرمایا: ’’تم پر ۱۰۰ برس اسی حالت میں گزر چکے ہیں۔ اب ذرا اپنے کھانے اور پانی کو دیکھو‘ اس میں ذرا تغیر نہیں آیا ہے۔ دوسری طرف ذرا اپنے گدھے کو بھی دیکھو (کہ اس کا پنجر تک بوسیدہ ہو رہا ہے) اور یہ ہم نے اس لیے کیا کہ ہم تمھیں لوگوں کے لیے ایک نشانی بنادینا چاہتے ہیں۔ پھر دیکھو کہ ہڈیوں کے اس پنجر کو ہم کس طرح اُٹھا کر گوشت پوست اس پر چڑھاتے ہیں‘‘۔اس طرح جب حقیقت اس کے سامنے بالکل نمایاں ہو گئی تو اس نے کہا: ’’میں جانتا ہوں کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے‘‘۔ (البقرہ ۲:۲۵۹)

اس دنیا میں وقت گزرنے کے بعد محض ایک ذہنی تاثر کی حد تک محدود رہ جاتا ہے۔ ۱۰۰برس کے بعد انسان سوچتا ہے کہ یہ چند گھنٹے یا زیادہ سے زیادہ ایک دن گزرا ہوگا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ کس طرح کھانے اور پانی جیسی اشیا جن میں چند دنوں میں تغیرآجاتا ہے وہ وقت گزرنے پر پڑنے والے معمول کے اثرات سے قطعی طور پر ۱۰۰ سال تک مستثنیٰ رہیں ‘جب کہ ساتھ ہی پڑا ہوا گدھا ۱۰۰ سال میں کس طرح بوسیدہ ہوگیا۔ اسی طرح پھر اللہ تعالیٰ بتاتا ہے کہ کس طرح وقت کو سکیڑ کر اور سمیٹ کر ہڈیوں میں آناً فاناً گوشت پوست چڑھ جاتا ہے۔ بیک وقت یہ ایک ہی مقام پر پڑی مختلف اشیا پر مختلف طریقے سے اثرانداز ہوا۔ وقت آگے سے پیچھے ہوگیا۔ پھر پیچھے سے آگے آگیا۔ کہیں بالکل ہی رُک گیا۔ حالانکہ زمین کا طبیعی و مشینی وقت اپنی رفتار سے گزرتا رہا۔

دنیاوی وقت ایک سراب کی مانند ہے۔ جب تک انسان دور سے آنے والے وقت کو دیکھ رہا ہوتا ہے‘ اس کو بہت حسین لگ رہا ہوتا ہے۔ حال میں رہ کر مستقبل اچھا لگتا ہے۔ مستقبل میں پہنچ کر وہ تاثر محو ہو جاتا ہے۔ انسانی ذہن کل اور مستقبل کے پیرائے میں سوچ کر حال کو ترتیب دینے کی کوشش کرتا ہے۔ اچھے مستقبل کی توقع حال میں قوتِ عمل فراہم کرتی ہے۔ فکرآخرت سے بے نیازی‘ آخرت میں اچھے انجام کی ضمانت‘ دنیا اگر اچھی مل جاتی ہے تو آخرت بھی اچھی مل جائے گی‘ اس طرح کے عقائد یہودیت و نصرانیت اور مادہ پرست تہذیب کا خاصہ رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ دنیا میںمزید مست ہو جانے کی شکل میں نکلتا ہے۔ قرآن میں   اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’جس روز اللہ ان سب لوگوں کو گھیر کر جمع کرے گا‘ اس روز وہ جنوں (یعنی شیاطین) سے خطاب کر کے فرمائے گا کہ ’’اے گروہِ جن‘ تم نے تو نوعِ انسانی پر خوب ہاتھ صاف کیا‘‘۔ انسانوں میں سے جو ان کے رفیق تھے وہ عرض کریں گے ’’پروردگار! ہم میں سے ہر ایک نے دوسرے کو خوب استعمال کیا ہے اور اب ہم اس وقت پر آپہنچے ہیں جو تو نے ہمارے لیے مقرر کر دیا تھا‘‘۔ اللہ فرمائے گا: ’’اچھا‘ اب آگ تمھارا ٹھکانہ ہے اس میں تم ہمیشہ رہو گے۔ اس سے بچیں گے صرف وہی جنھیں اللہ بچانا چاہے گا۔ بے شک تمھارا رب دانا اور حلیم ہے‘‘۔ (البقرہ ۲:۱۳۰)

اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’جنھوں نے کفر کیا ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے دشت ِ بے آب میں سراب کہ پیاسا اس کو پانی سمجھے ہوئے تھا‘‘ (النور۲۴:۳۹)۔ وقت کے عارضی ہونے کی اس سے بڑی کیا مثال ہو سکتی ہے۔ وقت جب بے پروا نظر آتا ہے تو اس لیے کہ وقت کے مالک نے ڈھیل دی ہے۔ انسان سمجھ بیٹھتا ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہی ہوتا رہے گا۔ وقت گزرنے کی کیفیت غیر یقینی‘ مسلسل‘ یکسانیت اور بالخصوص خوش حالی کی صورت میں ختم ہوتی ہوئی لگتی ہے یہاں تک کہ اللہ کی پکڑ آجاتی ہے۔ تاثرات پر مبنی وقت کی حالت پر صرف اور صرف ایمان ہی کے ذریعے یقینی کیفیت غالب ہو سکتی ہے۔ جب انسان آخرت پر نگاہ جما کر دنیا گزارتا ہے تو وہ اس دنیا کے گزرنے والے لمحات کو آخرت کے خالصتاً‘ دائمی اور حقیقی لمحات کے حصول کے لیے استعمال کرتا ہے۔

وقت کا تاثر انسان کی حِّس اور شعور کی پیداواربھی ہوتا ہے۔ ’کیا وقت ہے‘ کا جواب جب گھڑی سے ملتا ہے تو ساتھ ’کیسا وقت ہے‘ کا جواب بھی ذہن جوڑ دیتا ہے۔ انسان اپنی شناخت اپنے وقت کے بارے میں تاثرات سے قائم کرتا ہے۔ کامیابی و ناکامی‘ عزت و ذلت‘ خوشی و غم‘ تکلیف و راحت‘ محبت و عداوت‘ رحم وعفو‘ یہ سارے تاثرات اور رویے وقت کے گزرنے کے ساتھ بنتے ہیں۔ ایک صاحب ِ ایمان کے لیے وقت کی تعریف اس لحاظ سے بغیر ایمان کے کسی فرد سے مختلف ہوگی۔ ایمان کی روشنی میں وقت دیکھنا‘ اس کی منصوبہ بندی کرنا‘ اس کو گزارنا‘ یقینا زیادہ معنی خیز ہوتا ہے۔


نظمِ وقت میں انتہائی درجے کی باقاعدگی کا پایا جانا ایک حیران کُن عمل ہے۔ اس کے لیے پورے نظامِ کائنات میں جس ربط اور گرفت کی ضرورت ہے وہ ایک غالب قوت کے کارفرما ہونے کی واضح دلیل ہے۔ کائنات کا پورا نظام ضابطے کے مطابق معمولات کی شکل میں چلتا نظرآتا ہے۔ اس باقاعدگی میں جو تسلسل اور ہمیشگی نظر آتی ہے وہ انسان کو دھوکے میں بھی مبتلا کر ڈالتی ہے۔ کوئی یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ یہ کائنات ایک دفعہ بنا دی گئی اور پھر اللہ تعالیٰ نے تخلیق سے ہاتھ روک دیا۔ کوئی یہ سمجھ بیٹھا کہ یہ نظام تو گھڑی کی طرح بس چلتا ہی نہیں ہے۔

اس نظام میں جہاں باقاعدگی پائی جاتی ہے وہاں اتفاق وحادثاتی نوعیت کی بھی پوری گنجایش ہے۔ اس نظام کے یقینی ہونے کے اندر ہی اس کے غیریقینی ہونے کی گنجایش بھی موجود ہے۔ بظاہر انتشار نظر آتا ہے لیکن اندرونی طور پر تنظیم کی کیفیت ظاہر ہوتی ہے۔ بعض اوقات بظاہر ترتیب محسوس ہوتی ہے لیکن اندرونی طور پر خلفشار کا سماں ہوتا ہے۔ یقینی و غیر یقینی‘ نظام و انتشار‘ منصوبہ جاتی و اتفاقی‘ ارادی و حادثاتی‘ کش مکش اور ٹھیرائو‘ تعمیروتخریب‘ ان سب کا امتزاج اس کائنات کو انسان کے لیے بہترین جولان گاہ بنا دیتا ہے۔ اس کی فکر اور شعور کے اندر یہ طاقت رکھی گئی ہے کہ وہ اس کائنات کے رازوں کو تہہ بہ تہہ سمجھ سکے‘ عوامل و عواقب کو معلوم کر سکے‘ مابعد وماقبل کا تعین کر سکے۔ اپنے ارادوں کی تکمیل کے لیے مواقع تلاش کر سکے اور اس کی خوبیوں سے فائدہ اٹھا سکے۔

معمولات میں باقاعدگی ایک ظاہری صفت ہے۔ اگر کہیں باقاعدگی پائی جاتی ہو تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کوئی بڑا اہم اور نازک کام مقصود ہے۔ اس کائنات میں ذرات کے اندر کی دنیا سے لے کر کھربوں کہکشانوں (galaxies) کا نظام دراصل وقت کی ایسی زنجیر سے بندھا ہے کہ جس کی بعض کڑیاں ایک سیکنڈ کے کھربوں حصے پر مشتمل ہے اور بعض کھربوں سالوں پر محیط ہیں۔ نوعِ وقت کی یہ وسیع تقسیم اور اس میں ربط کا مسلسل قائم رہنا ایک انوکھی صفت ہے۔ یہی باقاعدگی اورنظم‘ اسلام اہل ایمان میں بھی پیدا کرنا چاہتا ہے۔ قرآن میں عبادات‘ معاہدات سے متعلق احکامات جب بھی آئے ہیں تو وقت کا ذکر حکم کی مناسبت سے ضرور کیا گیا ہے۔ شادی‘ طلاق‘ حرام و حلال‘ جہاد‘ انفاق اور نماز‘ روزہ‘ حج‘ زکوٰۃ ان تمام امور کے متعلق آیات میں وقت کے پہلو پر بھی جابجا روشنی ڈالی گئی ہے۔ سود کی حرمت اس لیے کی گئی ہے کہ اس کو محض وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا اور چڑھتا سمجھ لیا گیا۔ انفاق کے بارے میں بتایا گیا کہ جہاد سے پہلے انفاق کرنے والے فتح کے بعد انفاق کرنے والوں سے بہتر ہوں گے۔ نماز کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ یہ وقت کے ساتھ فرض کی گئی ہے۔ سحری کے بارے میں بہت ہی باریک بینی سے وقت کا تعین کیا گیا ہے۔ نیک کام اس وقت اور اتنا ہی نیک تصور ہوگا جتنا وہ وقت کے لحاظ سے درست ہوگا‘ برموقع اور برمحل ہوگا۔ فرعون عذاب شروع ہونے کے بعد ایمان لایا‘ لہٰذا بے کار رہا۔ موت کا منہ دیکھ کر توبہ کرنا کوئی فائدہ نہیں دیتا۔

باقاعدگی بالآخر مستقل مزاجی اور استقامت پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے۔ جو ضعف انسان کے ارادے میں ودیعت کیا گیا اس کو ختم کرتی ہے‘ اور جو نسیان اُسے غفلت میں مبتلا کر دیتا ہے اس کا مقابلہ کرتی ہے۔ اسلامی معاشرت کی آبادیاںدن میں پانچ مرتبہ اللہ اکبر کی صدائوں سے لبریز ہوجاتی ہیں۔ اذان کی حیثیت ایک گھنٹے کی ہے۔ وقت کے پہروں پر اذان سن کر وقت کا مجموعی حساب رکھا جا سکتا ہے۔ یہ ایک لحاظ سے interactive clock ہے۔ اس لیے کہ اذان کے ساتھ جواب بھی دیا جاتا ہے۔ اس طرح وقت کا ہر پہر شہادت اور عبادت کے ساتھ شروع ہوتا ہے اور ختم ہوتا ہے۔ مقصد گزرتے ہوئے دن کے ہر پہر کے سرے پر اللہ کی یاد کے لیے باقاعدگی سے نماز پڑھنا ہے۔ کائنات میں نظمِ وقت کی موجودگی دراصل اللہ تعالیٰ کی فطرت کو ظاہر کرتی ہے۔ اسی کا اہتمام اہلِ ایمان سے بھی مطلوب ہے۔ یہ باقاعدگی اُس خود نظمی (self-organization) کو پروان چڑھاتی ہے جو اس کائنات کا خاصہ ہے۔ مغرب نے جو Time Culture دیا ہے اس کا خاصہ مشینی انداز سے وقت گزار کر محض تفریح و مسرت کے لیے وقت صَرف کرنا ہے۔

وقت ایک گواہ ہے۔ والعصر سے یہی بات واضح ہوتی ہے۔ سائنس دانوں کا بھی یہ خیال ہے کہ ہر سیکنڈ اور گھنٹہ یا کوئی بھی اور وقفہ درحقیقت ایک لفافے یا فائل کی صورت میں کھلتا اور اس عرصے میں وقوع پذیر ہر شے اور اُس کی کیفیت کا نقش محفوظ کرتے ہوئے چلا جاتا ہے۔ گویا وقت ایک گواہ ہونے کے ساتھ اپنا دفتر اور اپنا ریکارڈ خود رکھتا ہے۔ ذرات سے لے کر پہاڑوں کی چٹانوں میں‘ گلیشیئرمیں‘ یہ گواہی مرتسم ہے۔ اس کی زبان قدرتی ہے اور انسان اب تحقیق کے نتیجے میں قدیم زمانے میں واقع ہونے والی تبدیلیوں کو جان لینے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ حقیقت تقاضا کرتی ہے کہ وقت کا استعمال وقت کے مقاصد کی روشنی ہی میں کیا جائے۔


تنظیمِ وقت کے اصولوں کو فہمِ وقت کے اسلامی تصورات کی روشنی میں آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔ درج ذیل احادیث عملی زندگی کے لیے زبردست رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔

رسولؐ اللہ فرماتے ہیں: ’’کوئی صبح نہیں ہوتی‘ جب کہ دو فرشتے نہ پکاریں کہ اے آدم کے بیٹے میں ایک نیا دن ہوں اور تمھارے اعمال پر گواہ ہوں۔ پس مجھ سے زیادہ فائدہ اٹھائو کیونکہ اب روزِ قیامت سے قبل نہ پلٹوں گا‘‘۔

گویا وقت ایک عظیم نعمت ہے کہ جو دوبارہ نہیں ملے گی۔ دولت‘ صحت اور دوسری اشیا سے محروم ہونے کے بعد دوبارہ حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن وقت کو نہیں--- یہ حدیث وقت کی منصوبہ بندی کی دعوت دیتی ہے۔ اس منصوبہ بندی کا مقصد وقت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا ہے۔ یہ فائدہ کم وقت میں زیادہ کام کرنے ہی سے نہیں بلکہ صحیح وقت پر صحیح کام اور زیادہ دیرپا فائدے والے کام کرنے سے ممکن ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہو رہا ہے کہ ہر دن کو ایک نیا دن سمجھ کر شروع کرنا چاہیے۔ ہر روز ایک نیا یونٹ ہے‘ ایک نئی زندگی ہے۔

وقت انسان کا کتنا بڑا اور قیمتی ہتھیار ہے‘ اس کا اندازہ اس حدیث سے لگایا جا سکتا ہے کہ رسولؐ اللہ نے دو آدمیوں میں بھائی چارہ قائم فرمایا۔ پھر ان میں ایک شہید کر دیا گیا۔ پھر دوسرا ایک ہفتہ یا کم و بیش اسی مدت میں فوت ہوگیا۔ رسولؐ اللہ نے اُس کی نماز جنازہ پڑھی۔ اس کے بعد رسولؐ اللہ نے صحابہؓ سے پوچھا کہ اس کے بارے میں تم نے کیا کہا۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ یارسولؐ اللہ ہم نے دعا کی کہ اللہ اس کی مغفرت فرمائے‘ اس پر رحم کرے‘ اور اُسے اپنے ساتھی کے ساتھ ملا دے۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا کہ پھر اُس کی نماز اس کی نماز کے بعد اور اس کا عمل اس کے عمل کے بعد یا فرمایا اس کا روزہ اس کے روزے کے بعد کہاں گئے؟ ان دونوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان اور زمین کے درمیان بھی نہیں ہے۔ گویا ایک ہفتہ کے نیک اعمال بھی اتنے کافی ہو سکتے ہیں کہ نہ صرف شہید کے درجے سے زیادہ بڑا درجہ مل جائے بلکہ جو فرق ہو وہ زمین اور آسمان سے بھی زیادہ ہو۔ ہر دن‘ ہر لمحہ‘ ہر گھنٹہ انتہائی قیمتی ہے۔ ہر دن کو کیسے گزارا جائے؟ یہ حدیث ملاحظہ کیجیے:

حضرت ابوذرؓ نبی اکرمؐ سے بیان فرماتے ہیں کہ ’’حضرت ابراہیم ؑکے صحیفوں میں یہ بات بھی ہے کہ عقل مند آدمی کے لیے ‘ جب کہ اس کی عقل کام کرے‘ لازم ہے کہ وہ اپنے اوقات اس طرح تقسیم کرے کہ اس میں کچھ گھڑیاں ایسی ہوں کہ ان میں اپنے رب کی مناجات کرے‘ کچھ گھڑیاں ایسی ہوں کہ ان میں اپنے نفس کا محاسبہ کرے‘ ایک گھڑی ایسی بھی ہو کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی شان صناعی میں غوروفکر کرے‘ اور ایک گھڑی ایسی بھی کہ اس میں اپنی ضروریات خوردونوش کے لیے فارغ ہو۔ اور عقل مند آدمی کا کام ہے کہ رخت سفر نہ باندھے مگر تین چیزوں کے لیے: آخرت کے توشے کے لیے‘ معاش کے سلسلے میں کاروبار کے لیے یا ایسی لذت کے حصول کی خاطر جو حرام نہ ہو۔ اور عقل مند آدمی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے زمانے کودیکھنے‘ سمجھنے والا ہو‘ اپنی حالت پر توجہ دینے والا ہو اور اپنی زبان کی حفاظت کرنے والا ہو۔ جو آدمی اپنے کلام کو اپنا عمل سمجھتا ہو‘ اس کا کلام تھوڑا ہوگا مگر یہ کہ بامقصد باتیں ہوں‘ وہ ان ہی تک اپنے آپ کو محدود رکھے گا۔ (صحیح ابن حبان)

اوقات کی تقسیم کے چار اہم خانے بتائے گئے ہیں۔ مناجات و عبادات‘ ذاتی محاسبہ‘ کائنات و قدرت پر غوروفکر‘ خوردونوش و ضروریاتِ زندگی۔ سفر کہ جو زندگی کی ایک بڑی سرگرمی ہوتی ہے اس کے تین مقاصد بتائے گئے ہیں اور انسان کا رویہ اپنے زمانے کے ساتھ اپنی حالت کے ساتھ‘ اپنی زبان کے ساتھ کیا ہونا چاہیے۔ تنظیمِ وقت کا نسخہ اس حدیث میں بڑی خوب صورتی کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے--- زمانے سے بے پروا ہو کر زندگی گزارنا دین داری کا کوئی تقاضا نہیں۔ زمانے کو پلٹانے کی کوشش کرنا ہی درست رویہ ہے۔ وقت کے ساتھ صحیح سلوک وقت کے دھاروں سے بے تعلقی نہیں بلکہ مقصد میں نوعیت کا ضبط و عمل ہے۔

وقت ایک موقع لے کر آتا ہے۔ اس موقع کو کسی کام کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس سے متعلق ایک حدیث بخاری میں حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ ’’دو نعمتیں ایسی ہیں کہ بہت سے لوگ ان سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔ ایک صحت‘ دوسرے فارغ البالی۔ جو کام حالت ِ صحت اور فارغ البالی کی صورت میں ہوسکتے ہیں وہ کسی اور صورت میں ممکن نہیں۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں رسول ؐاللہ فرماتے ہیں کہ ’’دنیا اچھی ہے اس کے لیے جو اس سے اپنی آخرت کے لیے توشہ بنائے حتیٰ کہ اس کا رب اس سے راضی ہو جائے۔ (حاکم فی المستدرک)

وقت کی منصوبہ بندی --- دراصل زندگی کی منصوبہ بندی ہے۔ اور زندگی کی منصوبہ بندی کے لیے زندگی کی ترجیحات کا صحیح تعین ضروری ہے۔ دنیا اور آخرت کے تعلق کی سمجھ بھی ضروری ہے۔ چونکہ دنیا میں یہ موقع اللہ کی طرف سے نعمت ہے اس لیے اس کے خاتمے کی تمنا کرنے سے منع کر دیا گیا ہے۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا ہے کہ تم میں سے کوئی آدمی موت کی تمنا نہ کرے وہ نیک ہو تو اس لیے کہ شاید نیکی میں اضافہ ہو اور برا ہو تو اس لیے کہ شاید توبہ کرلے۔ (بخاری)

حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا کہ موت کی تمنا نہ کرو‘ اس لیے کہ موت کی سختیاں جو آنے والی ہیں وہ بہت سخت ہیں‘ سو سعادت کی بات ہے کہ آدمی کی عمر لمبی ہو اور اللہ تعالیٰ اسے اپنی طرف رجوع کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

ظاہر ہے کہ جس کو زیادہ موقع ملا اور اس نے اس کا زیادہ فائدہ اٹھایا‘ اس کا اجر زیادہ ہونا چاہیے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ عمل کا ہر ذخیرہ ناکافی محسوس ہوگا۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا کہ ’’اگر بندہ پیدایش کے وقت سے لے کر بوڑھا ہونے تک اللہ کی اطاعت میں اپنے چہرے کے بل گرا پڑا ہو‘ تو اسے قیامت کے روز حقیر سمجھے گا اور چاہے گا کہ اسے دنیا میں لوٹا دیا جائے تاکہ اجروثواب میں اضافہ کرے۔ (مسنداحمد‘ رواہ محمد بن عمیرہ)


کون سا وقت زیادہ باعث برکت ہے؟ احادیث اور قرآنی آیات فجرسے قبل اور بعد کے وقت کو دن اور رات کے تمام اوقات سے بہتر بتاتی ہیں۔

حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: اے اللہ! تو میری اُمت کو اس کے بکور میں برکت دے۔ (الطبرانی فی الاوسط)

بکور سے مراد دن کا پہلا حصہ ہے۔

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا کہ ’’جس نے فجر کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کی پھر وہ طلوعِ آفتاب تک بیٹھا رہا۔ اللہ کا ذکر کرتا رہا اور پھر اس نے دو رکعت نماز پڑھی تو اُس کا اجر حج اور عمرے کے برابر ہوا۔ آپؐ نے اسے تین مرتبہ فرمایا:  تامۃ‘ تامۃ‘ تامۃ‘ یعنی حج و عمرے کا مکمل اجر۔

اس طرح رات کا مقصد جہاں سکون و آرام بتایا گیا ہے وہیں اس کے ایک حصہ کو عبادت اور مناجات کے لیے وقف کرنے کے بارے کہا گیا ہے۔ اختصار کے سبب یہاں تفصیل سے ان آیات و احادیث کا حوالہ نہیں دیا جا رہا ہے لیکن وقت کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے اس ضرورت کو سامنے رکھنا بھی ضروری ہے۔ دن کے کاموں میں اللہ کی برکت‘ مشیت کی شمولیت اور زندگی کے راستے میں کامیابی کے ساتھ سفر کے لیے رات کی عبادت ناگزیر ہے۔

نمازباجماعت کی ادایگی وقت کے معمولات کو خود بخود ترتیب دے دیتی ہے ۔ یہ معمول اوقات کو بڑے حصوں میں تقسیم کر دیتا ہے۔ دیگر تمام مصروفیات کو نماز باجماعت کے اوقات کے ساتھ ہم آہنگ کرنے سے بے انتہا سہولت پیدا ہو جاتی ہے۔

یہ دعا بھی آئی ہے کہ ’’اے اللہ! میرے دن کے پہلے حصے کو درست‘ درمیانے کو کامیاب اور آخری کو آسان بنا دے اور میں تجھ سے دنیا و آخرت کی بھلائی مانگتا ہوں۔ لمبی عمر کا مطلب لمبی مدتِ عمل ہے۔ اگر مدتِ عمل کا استعمال درست ہو تو یہ باعث ِ فخر ہے ورنہ وبال اور تباہی۔ یہ تین حدیثیں خوشخبری بھی دیتی ہیں اور ڈراتی بھی ہیں۔

حضرت ثوبانؓ کہتے ہیں کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: تقدیر کوکوئی چیز بھی پھیر نہیں سکتی سوائے دعا کے‘ اور عمر میں کوئی چیز اضافہ نہیں کر سکتی سوائے حق شناسی اور نیکی کے۔ اوریقینا آدمی گناہ کی شامت سے کبھی رزق سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔

حضرت ابوصفوانؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا: سب سے بہتر آدمی وہ ہے جس کی عمر لمبی ہو اور عمل اچھا ہو۔

حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس آدمی کے لیے کوئی عذر باقی نہیں رہنے دیا جس کی عمر ۶۰ سال کو پہنچ گئی۔


فہمِ وقت کے بارے میں آخری بات یہ ہے کہ اگرچہ گزرا ہوا وقت واپس نہیں آسکتا لیکن گزرے ہوئے وقت میں کیے گئے برے اعمال کو نیک اعمال سے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اسلام میں جہاں تزکیے کی تعلیم دی گئی ہے تاکہ حال اور مستقبل کی اصلاح ہو سکے وہیں توبہ اور استغفار کے ذریعے انسان اپنے ماضی کو درست کرسکتا ہے۔ جوبوجھ لدا ہوا ہو اس کو اتار پھینک سکتا ہے۔

اس طرح اسلام نے گزرے ہوئے وقت کو حال میں گرفت میں لے کر تبدیل کرنے کا راستہ بتایا ہے۔ یہ سہولت بار بار استعمال ہوسکتی ہے اور وقت کے معیار پر اور اس کے آئینے میں جب بھی انسان کو احساس ہو کہ یہ کام غلط ہوا تھا وہ واپس پلٹ سکتا ہے‘ اپنی اصلاح کر سکتا ہے۔ توبہ و استغفار کے ذریعے انسان اپنی پوری زندگی کو نئے سرے سے شروع کر سکتا ہے۔ زندگی اُمید کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت پر توکل اور اس کی رضا پر قناعت کے ذریعے آیندہ آنے والے وقت کو ماضی سے بہتربنایا جا سکتا ہے۔ ماضی ہمیشہ کے لییانمٹ نہیں ہے بلکہ بندے کی توجہ کا متلاشی ہے۔ جب بھی بندہ اپنا محاسبہ کرے اور ماضی کو دھونا چاہے تو وہ اس کے لیے ممکن ہے۔ ایک نیا انسان کسی بھی وقت اُبھرسکتا ہے۔ انسان اپنی زندگی کو ماضی کے برے عمال کے شکنجے سے نکال کر ازسرنو ترتیب دے سکتا ہے--- حقیقت یہ ہے کہ ماضی کو حال میں تبدیل کرنے کی جو قوت توبہ اور استغفار اور تزکیے میں موجود ہے‘ انسان کے لیے وقت کے سلسلے میں سب سے بڑی نعمت ہے۔

۱۹۹۱ء کی خلیجی جنگ میں یہ حقیقت واضح ہو کر سامنے آئی تھی کہ میدانِ جنگ کے ساتھ ساتھ ایک جنگ ذرائع ابلاغ کے محاذ پر بھی لڑی جاتی ہے۔ ماضی میں بھی پروپیگنڈے کو جنگ میں خصوصی اہمیت حاصل رہی ہے اور خصوصی ریڈیو اسٹیشن اور نیوز بلٹن اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں لیکن اب ٹی وی اور سیٹلائٹ چینلوں کے دور میں‘ جنگ کا منظر اور اس کے ساتھ پیش کرنے والوں کا زاویۂ نظر‘ ہر ہر گھر میں‘ آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔ عراق پر امریکی و برطانوی حملے سے قبل کے زمانے میں اور دورانِ جنگ مغربی ذرائع ابلاغ نے جو کردار ادا کیا ہے‘ وہ سب کے سامنے ہے۔ الجزیرہ چینل کے بارے میں بہت کچھ کہانیاں بیان کی جاتی ہیں لیکن عراق پر تھوپی گئی اس جنگ میں اس کی کارکردگی عملاً اتنی موثر تھی کہ دنیا بھر کے میڈیا کو اس پر انحصار کرنا پڑا‘ کوئی بھی اسے نظرانداز نہ کر سکا۔ اس کی قیمت انھوں نے اپنے نمایندے کی شہادت سے ادا کی۔ کاش! اس طرح کا ایک چینل انگریزی زبان کا بھی ہوتا جوپوری دنیا میں موثر انداز سے براہِ راست ابلاغ کا ذریعہ بنتا۔

مغرب نے آزادیِ فکر اور آزادیِ رائے کا پرچار کچھ اس انداز میں کیا ہے کہ ہمارے بعض دانش ور اپنے بنیادی عقائد اور قومی مفادات کے خلاف بولنے اور شبہات اٹھانے کو ہی


o پروفیسر ‘گورنمنٹ اسلامیہ کالج‘ لاہور کینٹ

اس کا مظہر سمجھتے ہیں‘ جب کہ مغرب کی اپنی تنگ نظری کا یہ حال ہے کہ اس جنگ میں اس کا انتظام  کیا گیا کہ کوئی خبر سی آئی اے‘ اور پینٹاگون سے کلیر ہوئے بغیر نہ جائے۔ ماہنامہ نیوز لائن نے عالمی ٹی وی نیٹ ورکس کے نمایاں اینکرپرسن کے لبوں کو امریکی جھنڈے سے سِی کر اسی حقیقت کا اظہار کیا کہ کوئی اظہار رائے میں آزاد نہ تھا (مارچ‘ ۲۰۰۳ئ‘ ص ۲۶)۔ پیٹر آرنیٹ جیسے نمایندے سے عراق سے ہمدردی میں دو بول بولنے پر معذرت کروائی گئی اور پھر واپس بلا لیا گیا۔ ایک دوسرے معروف اینکرپرسن کو اس لیے برطرف کر دیا گیا کہ اس نے کہا تھا کہ ۲ ہزار میل دُور سے بم باری کرنا بزدلی ہے۔

اصل مسئلہ تو عالمی سطح پر الیکٹرونک ہی نہیں‘ پرنٹ میڈیا پر بھی غیرمتعصبانہ اور سچائی     پر مبنی نقطۂ نظر پیش کرنے کا ہے‘ اور صرف دورانِ جنگ ہی نہیں‘معمول کے حالات میں بھی۔ صورت حال کا ایک جائزہ اس مسئلے کی اہمیت کو سمجھنے میں معاون ثابت ہوگا۔

ابلاغ کے جدید ذرائع دوسری قوموں کو محکوم بنانے اور ان پر اجنبی تہذیب و ثقافت مسلط کرنے کے لیے بے دریغ استعمال کیے جا رہے ہیں‘ اور اس کا اولین ہدف مسلمان خصوصاً ترقی پذیر ممالک کے مسلمان ہیں۔ فوج کشی کے ذریعے دیگر اقوام کو نسل در نسل غلام بنانے کا سلسلہ اہل یورپ نے شروع کیا۔ فرانس‘ ہالینڈ‘ جرمنی‘ بلجیم‘ اٹلی اور برطانیہ نے دنیا کے ہرحصے میں لوگوں اور ملکوں کو غلام بنایا اور ان غلام ملکوں کو ’کالونی‘ کا نام دیا۔ یہ کام تین صدیوں تک جاری رہا۔ لیکن جدید دور میں ’’مہذب یورپ‘‘نے طریقۂ واردات تبدیل کیا‘ دوسری قوموں کوغلام بنانے کے لیے افواج کا استعمال ترک کر دیا گیا اور سیٹلائٹ کمیونی کیشن کو استعمال کیا گیا۔ پہلے افواج یلغار کرتی تھیں اور جسموںپر حکمرانی کی جاتی تھی‘ اب ذرائع ابلاغ یلغار کرتے ہیں اور ذہنوں کو مسحور کردیتے ہیں۔ اس وقت عالمی کاروبار زندگی کی امامت ریاست ہاے متحدہ امریکہ کر رہا ہے۔ دنیا بھر میں جو ٹیلی فون پائے جاتے ہیں ان کا ۵۷ فی صد امریکہ میںہیں۔ اخبارات‘ رسائل‘ فلم اور کیسٹ کے ذریعے جس قدر خبریں تیار کی جاتی ہیں اس کے ۵۷ فی صد کا منبع بھی امریکہ ہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم جو کچھ بھی سنتے ہیں یا دیکھتے ہیں یا اخبارات و رسائل میں پڑھتے ہیں یا محسوس کرتے ہیں‘ امریکہ کے ذرائع ابلاغ بالواسطہ یا بلاواسطہ اس میں شریک ہوتے ہیں۔

اس وقت صورت حال یہ ہے کہ امریکہ سے شائع ہونے والا ہفت روزہ  ٹائم دنیا کے ہر کونے میں پڑھا جاتا ہے۔ کم و بیش ہر ملک میں اس کے نمایندے موجود ہیں جن کی مجموعی تعداد کئی ہزار ہے۔ حکمران طبقہ‘ بیوروکریسی‘ امرا اور اخباری صنعت سے وابستہ ایک بڑی تعداد اس کا باقاعدگی سے مطالعہ کرتی ہے۔ اس کی اشاعت ۵۰ لاکھ (قارئین ۳ کروڑ) ہے۔ دنیا بھر کے دو صد سے زائد نمایاں ترین قومی اخبار نیویارک ٹائمز‘ واشنگٹن پوسٹ‘ لاس اینجلس نیوز سروس سے خبریں وصول کرتے ہیں۔یونائیٹڈ پریس انٹرنیشنل (UPI) ۴۸ زبانوں میں خبریں جاری کرتا ہے۔ رائٹر کم و بیش ۱۰ ہزار اخبارات کو روزانہ خبریں فراہم کرتی ہے اور ایک ارب سے زائد افراد (تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ) ان خبروں کو موضوع بحث بناتے ہیں اور ان کے اثرات قبول کرتے ہیں‘ اور شعوری یا لاشعوری طور پر ان کے رنگ میں رنگتے چلے جاتے ہیں۔ برطانیہ سے شائع ہونے والے جریدے اکانومسٹ کے خریدار ۸ لاکھ ۴۵ ہزار ہیں۔     نیوز ویک کی اشاعت ۳۲ لاکھ اور۱۲ ایڈیشن نکلتے ہیں۔ وائس آف امریکہ سننے والوں کی تعداد ۹ کروڑ سے متجاوز ہے۔ بی بی سی کی نشریات سننے اور دیکھنے والے بلاشک و شبہہ کروڑوں میں ہیں۔ وال اسٹریٹ جرنل کی روزانہ اشاعت ۱۸ لاکھ ہے۔ ریڈرز ڈائجسٹ ۱۶ زبانوں میں شائع ہوتا ہے۔ وائس آف امریکہ کی نشریات ۵۲ زبانوں میں ہوتی ہیں۔ اس کے مقابلے میں اسلامی دنیا سے شائع ہونے والے رسائل و جرائد کا جائزہ لیا جائے تو یہ افسوس ناک صورت حال سامنے آتی ہے کہ ساری اسلامی دنیا میں کوئی ایسا اخبار نہیں نکلتا جس کی روزانہ اشاعت ۱۵ لاکھ ہو۔ دنیا بھر کے ۵۰ سب سے زیادہ اشاعت والے اخبارات کا موازنہ دیکھنے سے معلوم ہوا کہ اسلامی دنیا سے شائع ہونے والا کوئی اخبار اس فہرست میں نہ آسکا۔

عالمی نشریاتی اداروں اور ویب سائٹس کے ذریعے معلومات بہم پہنچانے والے اداروں کی اس قدر کثرت ہو چکی ہے کہ پرنٹ میڈیا بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ    ۵۶ مسلمان ممالک کے بڑے بڑے اخبار عالمی اطلاعاتی اداروں سے خبریں حاصل کرتے ہیں۔ انٹرنیٹ کے ذریعے معلومات کی فراہمی اور وصولی کا جو سلسلہ شروع ہواہے وہ کسی بھی قسم کی پابندی سے مبرا ہے۔ عالمی نشریاتی اداروں اور انٹرنیٹ کے ذریعے جو کچھ اسلامی ممالک میں ہو رہا ہے اس کے اثرات کا اندازہ لگانابہت مشکل ہے۔

کمیونزم کے زوال سے قبل مغربی دنیا نے اپنی ساری قوتیں کمیونزم کے نظام کو غلط ثابت کرنے میں جھونک دی تھیں۔ اور اب‘ جب کہ کمیونزم زوال پذیر ہو چکا ہے تو ’’مہذب‘‘ اور ’’آزاد‘‘ دنیا نے یہ طے کر لیا ہے کہ اصل خطرہ ’’بنیاد پرستی‘‘ اور ’’فنڈامنٹلزم‘‘ ہی ہے۔ الجزائر میں کچھ افراد ٹریفک بلاک کرنے کی کوشش کریں‘ یا مصر کے کسی قصبے میں چند نوجوان اکٹھے ہوں اور پولیس پر پتھر پھینکیں‘ فلسطین میں مظاہرین اور یہودیوں کے درمیان جھڑپیں ہوں یا نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور ممبئی کے ٹریڈ سنٹر میں دھماکا ہو‘ اس کو فی الفور بنیاد پرستوں کی سازش قرار دے دیا جاتا ہے۔ عالمی نشریاتی اداروں میں اس کی اس طرح تشہیر کی جاتی ہے گویا کہ جنونیوں اور عقل و خرد سے محروم لوگوں کے انبوہ کثیر اس کائنات کی ایک ایک چیز کو آگ لگا دینے یا دریا برد کرنے کے لیے اپنے اپنے گھروں سے نکل چکے ہیں اور اگر اس خطرے کو نہ روکا گیا تو مہذب اور غیر مہذب دنیا ایک روز راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوجائے گی۔

عالمی ذرائع ابلاغ نے لوگوں کے ذہنوں کو کس طرح غلط راہ پر ڈالا‘ اس کی ایک مثال صومالیہ ہے۔ امریکی ذرائع ابلاغ آپریشن صومالیہ کے ۱۰۰ سے زائد افراد کے صومالیوں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں کا ۲۰ ماہ تک شدید پروپیگنڈا کرتے رہے لیکن ہلاک اور زخمی ہونے والے ان ۱۳ ہزار صومالیوں کا کبھی بھی ذکر نہ آیا جنھیں اقوامِ متحدہ کی افواج نے ’’امن و امان‘‘ قائم رکھنے کے لیے صفحۂ ہستی سے مٹا دیا۔ فرح عدید‘ صومالیہ کا ہر دلعزیز لیڈر رہا ہے اس کو جنگجو‘ وحشی‘ خون کا پیاسا سردار قرار دیا گیا۔ جب کئی لاکھ افراد نے موغادیشو میں اس کا استقبال کیا تو اس کا کہیں چرچا نہ ہوا۔ صدر صدام حسین نے کویت پر حملہ کیا تواس کے خلاف ۲۸ ممالک کی فوج تیار کی گئی اور جب اقوامِ متحدہ کی مختلف پابندیوں کے باعث ۵ لاکھ عراقی بچے فاقہ کشی کی نوبت کو پہنچے تو کسی نے ان کی حالت زار کی طرف توجہ نہ دی۔ کویت کی آزادی کے لیے امریکہ نے اہم کردار ادا کیا لیکن بوسنیا کے مظلوموں کو سربیا کی ظالمانہ کارروایئوں سے بچانے کے لیے کچھ نہ کیا گیا اور اسے خانہ جنگی قرار دیا گیا۔ مصر کے صدر اور وزیراعظم کو ’’انتہا پسندوں‘‘ کی طرف سے جارحانہ اقدامات کی دھمکیاں ملیں تو عالمی پریس نے بڑھ چڑھ کر اس کو شائع کیا لیکن جب حسنی مبارک کی حکومت نے جیلوں کو بے گناہ نوجوانوں سے بھر دیا اور ہزاروں شہریوں کو بغیر مقدمہ چلائے حوالۂ زنداں کیا اور ۱۰۰ کے قریب افراد کومقدمہ چلائے اور جرم ثابت کیے اور اپیل کا حق دیے بغیر خصوصی سماعت کی عدالتوں کے ذریعے پھانسی کی سزا دی گئی تو عالمی پریس میں سے کسی نے ان کے حق میں آواز بلند نہ کی۔ جب گوجرانوالہ کے ۱۲ سالہ ’’سلامت مسیح‘‘ کو گستاخیِ رسولؐ آرڈی ننس کے تحت گرفتار کیا گیا تو انسانی حقوق کی اس ’’خوف ناک‘‘  خلاف ورزی پر عالمی پریس نے پاکستان کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں مگر افغانستان کے قلعہ جنگی میں    بم باری اور زیرحراست افغانوں کے قتلِ عام پر کسی کی آنکھ پُرنم نہ ہوئی۔ بوسنیا کا نائب وزیراعظم برسرِعام قتل کر دیا جاتا ہے یا پھر فلسطین کی مسجدابراہیم میں ایک شخص ۷۰ افراد کو اپنی گولیوں سے بھون کر رکھ دیتا ہے تو اسے ایک فرد کا ذاتی فعل قرار دیا جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں تاجکستان‘ الجزائر اور تیونس میں اختلاف رائے رکھنے والے لوگوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیے جاتے ہیں تواسے ’’ضروری کارروائی‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔

لیبیا کے دو باشندے امریکہ کاطیارہ لاکربی کے شہر میں تباہ کر دیتے ہیں تو پورا ملک اس کی سزا بھگتتا ہے اور اس کا عالمی پیمانے پر حقہ پانی بند کر دیا جاتا ہے۔ اقوامِ عالم کو لیبیا کے ساتھ تجارت نہ کرنے کا حکم دیا جاتا ہے اور کروڑوں ڈالروں کے اثاثے ضبط کر لیے جاتے ہیں۔ اس کے برعکس امریکہ ایرانی طیارہ مار گراتا ہے جس میں ۱۵۰ افراد ہلاک ہوتے ہیں تو اس پر نہ شور بلند ہوتا ہے نہ واویلا مچتا ہے‘ نہ معاوضے کا مطالبہ ہوتا ہے‘ نہ امریکہ پر پابندیاں لگانے کی آوازیں بلند ہوتی ہیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ذرائع ابلاغ خبروں اور نشریوں کو امریکی مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں اور کر رہے ہیں۔ اس کے خلاف وہ کیوں استعمال کریں؟

آئرش ری پبلکن آرمی اور آئرلینڈ کی برطانیہ سے آزادی کے علم بردار گروہ پُرتشدد کارروائیوں پر عرصۂ دراز سے گامزن ہیں۔ صورت حال قابو سے باہر ہونے لگی تو اُس وقت برطانوی وزیراعظم جان میجر نے اعلان کر دیا کہ اگر آئرش صوبے کے لوگ ریفرنڈم کے ذریعے الگ ہونا چاہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ اس کے برعکس مقبوضہ کشمیر کے عوام نے ۸۵ ہزار افراد قربان کرا دیے ہیں‘ اربوں روپے کی فصلیں‘ فیکٹریاں‘ کاروبار اور املاک کو بھارتی فوجیوں نے ملیامیٹ کر دیا ہے‘ ہزاروںعورتوںکی فی الواقع عصمت دری ہوچکی ہے‘ پوری قوم بھارت کے پنجۂ استبداد سے آزادی کے لیے یک جان ہو چکی ہے لیکن عالمی ذرائع ابلاغ مجاہدین آزادی کو ’’مٹھی بھر شرپسند عناصر‘‘ انتہا پسند اور فرقہ پرست قرار دے کر ساری جدوجہد آزادی کو سبوتاژ کردیتے ہیں۔ اس دو رنگی کے ذمہ دار وہ یہودی عناصر اور ایجنسیاں ہیں جو ان عالمی رسائل و جرائد کے مالک اور پشت پناہ ہیں اور تمام فیصلے اپنی مرضی کے مطابق کرانا چاہتے ہیں۔

سی آئی اے کے ڈائریکٹر رابرٹ جے وزلی نے واشنگٹن حکومت کو ان ممالک کی فہرست پیش کی جو ایٹمی توانائی میں خود کفیل ہوا چاہتے ہیں یا ایٹمی صلاحیت حاصل کر چکے ہیں۔ پاکستان اور شمالی کوریا کا اس میں ذکر ہے لیکن اسرائیل کا اس میں کوئی ذکر نہیں ہے جس نے عرصۂ دراز سے ایٹم بم بنانے کی صلاحیت حاصل کر رکھی ہے۔

عالمی ذرائع ابلاغ کے دہرے معیاروں کی ایک ہلکی سی جھلک اُوپر پیش کردہ مثالوں سے واضح کی گئی ہے۔ سیٹلائٹ‘ ٹیلی وژن اور ۲۴ گھنٹے چلنے والی نشریات نے ترقی پذیر ممالک کے عوام کے ذہن کو اپنی مٹھی میں بند کر رکھا ہے۔ اس کے خلاف کوئی آواز بلند نہیں ہوتی ہے۔ اس میں اسلامی تہذیب‘ اسلامی تمدن‘ اسلامی تاریخ‘ اسلامی کردار‘ اسلامی اخلاق کے خلاف ہرچیز موجود ہے۔ جینز سے لے کر جاز میوزک اور فری سوسائٹی تک کون سی چیز ہے جو ہمارے تمدن اور معاشرت کے مطابق ہے لیکن ہر لمحے مخلوط معاشرے‘ بے خدا تہذیب‘ مادہ پرستانہ ثقافت اور مادہ پرستی کی دوڑ میں ہمیں شریک کرنے کے لیے عالمی ذرائع ابلاغ کوشاں ہیں۔ فرانس اور برطانیہ میں دسویں جماعت کی اسکول کی مسلمان لڑکیوں کو اسکارف سے سر ڈھانپنے کے لیے اعلیٰ عدالتوں سے اجازت حاصل کرنی پڑتی ہے‘ جب کہ سیٹلائٹ نشریات کے لیے نہ کسی ملک سے اجازت لی جاتی ہے نہ میگا ٹرانسمیٹرنصب کرتے ہوئے اس چیز کا خیال ہی رکھا جاتا ہے کہ ان ممالک پر ان کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔

بی بی سی ورلڈ سروس‘ سی این این اور دیگر عالمی نشریاتی اداروں نے استعماری ممالک کا پیغام آسان انداز میں سمجھانے کے لیے لسانی تدریس (language teaching) کے مسلسل پروگرام شروع کر رکھے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ دنیا بھر کے ۸۰ کروڑ افراد انگریزی زبان جانتے ہیں اور زمین پر چلنے والا ہر پانچواں شخص کسی نہ کسی حد تک انگریزی سے آگاہ ہے۔ یہ چیز تو سب جانتے ہیں کہ زبان کے ساتھ ہی تہذیب کے معیار بدلتے ہیں‘ ثقافت کی قدریں بدلتی ہیں‘ سوچ کے انداز بدلتے ہیں‘ فکر کے اطوار بدلتے ہیں‘ لباس کی ساخت بدلتی ہے‘ مکانوں کی طرز تبدیل ہوتی ہے‘ خیروخوبی کے معیار بدلتے ہیں‘ مقصدِزندگی بدلتا ہے۔ ترقی کے نام پر ہمیں جو کچھ سکھایا جاتا ہے اس کی بدولت اپنا مذہب دقیانوس‘ اپنی زبان فرسودہ‘ اپنے طریقے پیچیدہ‘ اپنی روایات ناقابلِ فہم اور اپنی رسومات مضحکہ خیز محسوس ہونے لگتی ہیں۔ معیارِ زندگی اور ’’ڈالر کی تلاش‘‘ میں پاکستان ہی نہیں بلکہ بہت سے اسلامی ممالک کے ’’گنج ہاے گراں مایہ‘‘ یورپ کے تحقیقی اداروں سے وابستہ ہو چکے ہیں۔ صرف امریکہ کے اندر پاکستان کے تقریباً ۵۰ ہزار ڈاکٹر موجود ہیں۔ دنیا کے جتنے نام ور مسلمان سائنسدان ہیں وہ سب غیرملکی لوگوں کی خدمت کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مغربی ذرائع ابلاغ کے زیراثر وہ سمجھتے ہیں کہ زندگی کی معراج یہ ہے کہ ’’معیارِ زندگی‘‘ کو بہتر بنایا جائے اور وہ اس طرح ممکن ہے کہ اپنی صلاحیتیں مہنگے داموں فروخت کی جائیں۔

امریکی ذرائع ابلاغ نے اس چیز پر اتفاق کر لیا ہے کہ روس کے زوال کے بعد اب کسی اور ’’فتنے‘‘ کو سر اُٹھانے کا موقع نہ دیا جائے۔ میوزک‘ فلم‘ اسپورٹس‘ ریسرچ‘ پالیٹکس‘ سائنس و ٹکنالوجی کے بارے میں لاتعداد ویب سائٹس‘ ہزارہا کیسٹ اور فلمیں دنیا بھر میں انتہائی سستے داموں فراہم کی جاتی ہیں۔ سیکڑوں کے حساب سے بچوں کے لیے مووی کارٹون تیار کیے گئے ہیں اور بچوں کے لیے کہانیاں تیار کی گئی ہیں۔ ان کے اندر عموماً کسی لمبی داڑھی والے شخص کو Devil (شیطان)‘ Dragon (بلا) اور Titan (عفریت) بناکر پیش کیا جاتا ہے۔ ان میں سے کسی ایک میں بھی خدا‘ آخرت‘ قومی ذمہ داری‘ حسن اخلاق کا ذکر نہیں ہوتا۔ اس کا نتیجہ    یہ ہے کہ ہماری نسلِ نو کا ایک حصہ پاکستان کو اپنا ملک تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے‘ اس کی خدمت کا سوال تو ایک طرف رہا۔

مغربی تہذیب اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے ثقافتی یلغار کا مقابلہ کرنے کے لیے حکومتوں کی پوری پوری مشینری درکار ہے۔ لیکن عالم اسلام کے حکمران اس یلغار کا مقابلہ کرنا تو کجا‘ محسوس ہوتا ہے کہ شاید‘ اس کے مضر اور دیرپا اثرات تک سے واقف نہیں۔ لیکن تمام کی تمام  ذمہ داری حکمرانوں کے سر ڈالنا بھی کوئی دانش مندی نہیں ہے۔ ضرورت ہے کہ محب وطن عوام اس طوفانِ بلاخیز کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر سطح پر منظم ہوں اور اس کے مضراثرات کو مٹانے کے لیے جدوجہد بھی کریں۔

میڈیا کی غیرمعمولی اہمیت‘ عالمی سیاست پر اس کے اثرات اور معاشرتی زندگی پر اس کی گرفت کے پیش نظر مندرجہ ذیل اقدامات کی ضرورت ہے:

  • غالب اکثریت کے مسلمان ممالک‘ مثلاً ملائشیا‘ انڈونیشیا‘ ترکی‘ سعودی عرب‘ ایران‘ پاکستان اور بنگلہ دیش اپنے قومی بجٹ کا معقول حصہ ’’علومِ جدید ابلاغ ‘‘ کی ترویج پر صَرف کریں۔ ایسے media institutes ان ممالک میں قائم ہوں جہاں ابلاغ کی جدید ترین تعلیم ہو اور ایسے ماہرین تیار ہوں جو مغربی رپورٹروں اور تجزیہ نگاروں سے زیادہ جاں فشانی سے کام بھی کریں اور دنیا کو واقعات کی حقیقی شکل سے بھی روشناس کرائیں۔
  • غیر سرکاری سطح پر ایسے ٹی وی چینل قائم کیے جائیں جو مشنری جذبے کے ساتھ سچائی کا علَم لے کر اُٹھیں اور پروپیگنڈا پھیلانے والے اداروں کا پردہ چاک کر دیں۔ مسلمان سرمایہ کاروں کو آگے بڑھ کر--- پٹ سن‘ فٹ بال‘ خام تیل‘ معدنی وسائل کی صنعت سے آگے بڑھ کر --- اطلاعات و ابلاغ کے میدان میں بھی سرگرم ہونا چاہیے۔ اس طرح صاف شفاف اطلاعات کی فراہمی سے لوگوں کی تربیت بھی ہوگی اور کارگاہِ حیات میں وہ زیادہ روشن کردار ادا کر سکیں گے۔ انقلاب امامت کے لیے ذرائع ابلاغ کو اہم کردار ادا کرنا ہے۔
  • عالم گیریت کے اس دور میں وسائل کو یک جا کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلامی دنیا کے نمایاں اخبارات‘ رسائل‘ جرائد‘ ٹی وی چینل اور نیٹ کے sevice provider مل بیٹھیں تو کم از کم چند نیٹ ورک تو ایسے تشکیل دے سکتے ہیں کہ جو دنیا بھر کے انسانوں کو جھوٹ‘ مبالغے‘ دنیا پرستی اور بے مقصد زندگی سے پاک دنیا میں لے جائیں۔

ممتاز عالم دین‘ جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر و سابق امیرصوبہ سندھ مولانا جان محمد عباسی طویل علالت کے بعد اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ اناللّٰہ وانا الیہ راجعون!

مولانا جان محمد عباسی ایک معروف عالم دین‘ حوصلہ مندقائد‘ مدبر‘ دُوراندیش اور منجھے ہوئے سیاست دان‘ مشفق و مربی رہنما‘ اقامت دین کے لیے جوانی سے وفات تک ایک ایک لمحہ وقف کرنے والے عظیم انسان تھے۔ یقینا انھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا اور اپنی نذر پوری کر دی۔

ابتدائی حالات: مولانا عباسیؒیکم جنوری ۱۹۲۵ء کو ‘ لاڑکانہ کے قریب ایک چھوٹے سے قصبے بیڑوچانڈیو میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام مولانا غلام رسول اور دادا کا نام مولانا جان محمد تھا اور ان کا شمارعلاقے کے جید علما میں ہوتا تھا۔ مولانا عباسی مرحوم کے دادا مولانا جان محمد نے اپنے گائوں بیڑوچانڈیو میں مدرسہ دارالفیوض کی بنیاد رکھی جس کو ان کے فرزند غلام رسول (مولانا عباسیؒ کے والد) نے عروج پر پہنچایا۔ ان کے طلبہ کی کثیرتعداد اس وقت بھی ایران‘ افغانستان‘ سندھ اور بلوچستان میں پھیلی ہوئی ہے۔ ۱۹۶۹ء میں علاقے کے بااثر لوگوں کی مخالفت کی وجہ سے مولانا غلام رسول مرحوم‘ لاڑکانہ میں جاکرانی روڈ پر آکر مقیم ہوگئے اور یہاں اللہ والی مسجد اور دارالفیوض کے نام سے قرآن و سنت کی تعلیم و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔


o ڈائرکٹر‘مہران اکیڈمی‘ شکارپور

مولانا عباسیؒ کی ابتدائی تعلیم و تربیت اپنے والد گرامی کے زیرنگرانی ہوئی۔ ابتدا میں انھوں نے انگریزی اسکول میں داخلہ لیا تھا لیکن دو تین سال کے بعد ان کے والد محترم نے انھیں عربی اور فارسی تعلیم کے لیے وقف کر دیا اور انگریزی تعلیم کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ اپنے والد کے یہاں ہی انھوں نے درس نظامی مکمل کیا اور ان کی دستاربندی ہوئی۔ درس نظامی کی تکمیل کے بعد مولانا نے حصولِ علم کا سلسلہ جاری رکھا اور فلسفہ و عربی میں علامہ اقبالؒ کے استاد مولانا علی احمد کا کیپوتہ ساکن گائوں مارو کا کیپوتہ ضلع شکارپور کے یہاں اکتسابِ علم کے لیے تشریف لے گئے۔وہاں وہ چھ مہینے مقیم رہے اور اسی دوران تپ دق میں مبتلا ہوگئے۔ ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ انھیں کوئٹہ بھیج دیا جائے۔ یوں وہ علاج کی غرض سے کوئٹہ چلے گئے۔ ان کے والد محترم کو ان کی تعلیم کی بے حد فکر رہتی تھی اس لیے قیامِ کوئٹہ کے دوران وہ مشہور دینی و روحانی درگاہ چشمہ شریف میں جید علما سے علم حاصل کرتے رہے۔ صحت یاب ہونے کے بعد وہ لاڑکانہ تشریف لے آئے اور اپنے والد محترم کی بنائی ہوئی مسجد و مدرسہ میں عوام الناس کے لیے درس قرآن کا سلسلہ شروع کیا۔ ان کی گفتگو‘ ٹھیرائو‘ شیرینی‘ روانی‘ شستگی اور بلاغت کا اعلیٰ نمونہ ہوتی۔ اگرچہ شعلہ بیاں مقرر نہیں تھے لیکن دلیل کی طاقت سے سامعین کے دلوں کو مسخر کرلیتے تھے۔ اس لیے تھوڑے عرصے میں ہی ان کے سلسلۂ درس نے مقبولیت حاصل کر لی اور شہرکے کونے کونے سے جوق در جوق لوگ ان کے درس میں شریک ہونے لگے۔

جماعت اسلامی سے تعارف: مولانا عباسی مرحوم ۱۹۴۸ء میں ہی مولانا مودودیؒ اور جماعت اسلامی سے روشناس ہو چکے تھے۔ اس زمانے میں ایک رسالہ سندھی زبان میں نکلتا تھا‘ جس میں تفہیم القرآن کا سندھی ترجمہ قسط وار شائع ہوتا تھا۔ وہ قسطیں مولانا باقاعدگی سے پڑھتے تھے اور پرچے کا انتظار کرتے رہتے تھے۔ ۱۹۵۱ء میں اسلامی دستور کی مہم کے دوران وہ شکارپور تشریف لائے اور شکارپور جماعت اسلامی کے بانی استاد محترم پروفیسرسید محمد سلیمؒ کے گھر پر جو علوی محلہ ہاتھی در میں واقع تھا‘ ایک اجتماع میں شرکت کی۔

سب سے پہلے انھیں جماعت کی دعوت دینے والے اور جماعت میں شمولیت پر آمادہ کرنے والے فرد محمد الٰہی مرحوم ساکن ضلع سانگھڑسندھ تھے جو جہلم کے رہنے والے تھے اور پولیس کی ملازمت کے سلسلے میں سندھ آئے تھے۔محمد الٰہی مرحوم بہت متقی‘ اصول پرست اور باعمل انسان تھے۔ جماعت کے فدائی تھے۔ انھوں نے ہی مولانا جان محمد بھٹوؒ کو جماعت کی دعوت دی تھی۔

مولانا مودودیؒ سے پہلی ملاقات: ۱۹۵۲ء میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ لاڑکانہ تشریف لائے۔جناح باغ میں جلسہ عام سے خطاب کیا۔ مولانا عباسیؒکہا کرتے تھے کہ ’’مجھے اس بات پر شدید تعجب ہوا جب مولانا مودودیؒ نے سامعین کو سوال کرنے کی دعوت دی‘‘۔ اس لیے کہ اس زمانے میں سیاسی قائدین عام جلسوں میں سوالوں کے جوابات نہیں دیتے تھے۔

آگے چل کر مولانا عباسیؒ کے بچپن کے دوست اور پڑوسی عبدالسلام آرائیں مرحوم نے انھیں جماعت کا لٹریچر دیا۔ مولانا جان محمدبھٹو مرحوم جب جماعت میں شامل ہوگئے تو انھوں نے مولانا عباسی صاحب سے رابطہ رکھا اور انھیں جماعت میں عملاًشمولیت پر آمادہ کیا۔ اس طرح مولانا بھٹو مرحوم اور دیگر حضرات کی کوششوں سے وہ جماعت میں شامل ہوگئے۔

جماعتی زندگی کا آغاز:  ۱۹۵۵ء میں مولانا عباسیؒ جماعت کے رکن بن گئے۔ ان کی تحریکی زندگی کا یہ ایک دل چسپ واقعہ ہے کہ جس اجتماع میں انھوں نے جماعت کی رکنیت کا حلف اُٹھایا‘ اسی وقت امیرشہر محمد ابراہیم قریشی نے ارکان کے سامنے اپنا استعفا پیش کرتے ہوئے پیش کش کی کہ چونکہ ایک اہل اور مجھ سے بہتر صائب الرائے اور باصلاحیت متحرک فرد رکن بن گیا ہے۔ اس لیے امیر اسی کو ہونا چاہیے۔ اس طرح کچھ عرصے کے بعد ان کو لاڑکانہ شہر کا امیر مقرر کیا گیا۔ یہ قریشی صاحب کا ایثار تھا جس کے لیے وہ اللہ کے یہاں یقینا اجر کے مستحق ہوںگے۔ امیر بننے کے بعد انھوں نے لاڑکانہ شہر میں تحریک کے کام کا آغاز پُرجوش اندازسے کر دیا۔ اسی سال انھیں ضلع لاڑکانہ کا امیر مقرر کیا گیا۔ ۱۹۶۳ء میں وہ خیرپور ڈویژن (موجودہ لاڑکانہ و سکھر ڈویژن) کے امیر مقرر ہوئے۔ ۱۹۶۸ء میں ان کو حیدر آباد ریجن (کراچی کے علاوہ بقیہ سندھ) کا امیرمقرر کیا گیا۔ ۱۹۷۰ء میں ون یونٹ کے خاتمے کے بعد وہ صوبہ سندھ کے امیر مقرر ہوئے۔ ۱۹۷۳ء میں انھیں جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر کی اضافی   ذمہ داری سونپی گئی۔ وہ ۱۹۹۷ء تک ۲۷ برس صوبہ سندھ کے امیر اور زندگی کے آخری لمحات تک پاکستان کے نائب امیر رہے۔

سیاسی جدوجہد: مولانا زمانۂ طالب علمی سے ہی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتے تھے۔ مسلم لیگ کے قائدین محمد ایوب کھوڑو اور قاضی فضل اللہ کے ساتھ تحریکِ پاکستان میں حصہ لیا۔ ’ہاری کمیٹی‘ کے کچھ اجلاسوں میں بھی شریک ہوئے لیکن ان سے منسلک نہیں ہوئے۔ ۱۹۶۲ء میں بنیادی جمہوریت کے تحت منعقدہ بلدیاتی انتخاب میں اپنے محلے سے ممبر منتخب ہوئے۔ بعد میں یونین کمیٹی کرماہ باغ کے چیئرمین منتخب ہوئے۔ اسی دوران شہر لاڑکانہ کی میونسپل کمیٹی کے وائس چیئرمین کے عہدے کا انتخاب لڑا لیکن ذوالفقار علی بھٹو کی سخت مخالفت کی وجہ سے ایک ووٹ سے ہار گئے۔

۱۹۷۰ء کی قومی الیکشن میں ممتاز علی بھٹو اور قاضی فضل اللہ کے خلاف کھڑے ہوئے۔ ۱۹۷۷ء کے قومی انتخاب میں جماعت نے اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی سیاست کا انداز جاگیردارانہ‘ فاشسٹ سوچ کا آئینہ دار تھا۔ وہ اپنی سیاسی مخالفت کوبرداشت نہیں کرتے تھے۔ اس لیے مخالفین کے ساتھ نہایت غیر جمہوری‘ آمرانہ اور فاشسٹ رویے رکھتے تھے۔ دھونس‘ دھاندلی ‘جبروستم‘ گرفتاریاں اور اذیتیں دینا ان کا پسندیدہ فعل تھا۔ انھوں نے لاڑکانہ سے بلامقابلہ منتخب ہونے کے لیے مولانا عباسی اور ان کے چیدہ چیدہ رفقاے کار کوکاغذات نامزدگی جمع کرانے سے پہلے پولیس کے ذریعے اغوا کروا لیا اور لاڑکانہ دادو کی سرحد پر واقع گائوں ’سیری‘ کے ایک بنگلے میں رکھا۔ جب بھٹو کے بلامقابلہ منتخب ہونے کا اعلان کر دیا گیا تب ان کو رہائی ملی۔

بھٹو صاحب کی اس کارروائی نے ان کے خلاف دھاندلی کی تحریک کو بنیاد فراہم کر دی۔ ملکی و غیرملکی ذرائع ابلاغ نے اس واقعے کو خوب کوریج دی اور یوں مولانا عباسی ملکی و بین الاقوامی سطح پر نمایاں ہوگئے۔

۱۹۸۵ء کے غیر جماعتی انتخاب میں انھیں پھر لاڑکانہ سے کھڑا کیا گیا۔ ان کا آخری الیکشن ۱۹۸۸ء کا قومی الیکشن تھا جس میں انھیں بے نظیر بھٹو کے مقابلے پر الیکشن لڑایا گیا۔ وہ اپنی بزرگی‘ صحت اور بعض دیگر وجوہات سے بے نظیر کے مقابلے میں کھڑا ہونے کو پسند نہیں کرتے تھے لیکن جماعتی فیصلے کے آگے سرتسلیم خم کرتے ہوئے اس فیصلے کو تسلیم کیا۔ یہ تحریک میں سمع و اطاعت اور اخلاص کی اعلیٰ مثال ہے۔

مولانا عباسی مرحوم نے ۴۲ سال تک مسلسل امیر رہے۔ شہر کی امارت سے لے کر صوبے کی امارت تک۔ انھوں نے اپنی تمام تر صلاحیتیں جماعت کو صوبے میں ایک سیاسی قوت بنانے میں صرف کر دیں۔ اس سلسلے میں ان کی کوشش ہوتی تھی کہ سندھ کے بااثر طبقات میں نفوذ کیا جائے۔ سندھ کے کونے کونے میں وڈیروں‘ زمین داروں اور دیگر بااثرافراد سے مسلسل رابطے رکھتے تھے اور انھی جماعت کے قریب لانے کے لیے سرگرداں رہتے تھے۔

مولانا کے سیاسی کردار کی عظمت کا اندازہ ان دو واقعات سے لگایا جا سکتا ہے:

ضیاء الحق مرحوم نے ۱۹۸۵ء کے قومی انتخاب کے موقع پر جنرل جہانداد کے ذریعے انھیں سینیٹ اور ان کے بڑے صاحبزادے قربان علی عباسی کو صوبائی اسمبلی کی نشست سے کامیاب کروانے کا پیغام بھیجا۔ سندھ کی جاگیردارانہ سیاست میں بہتی گنگا سے ہاتھ دھونے کا اور اپنے سیاسی مستقبل بنانے کا یہ سنہری موقع تھا لیکن انھوں نے یہ پیش کش ٹھکرا دی اور جماعت کے فیصلے کی روشنی میں انکار کر دیا۔

مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کے دورِاقتدار کے خاتمے کے بعد فوجی حکومت نے سابقہ حکومت کے خلاف ٹی وی پر ایک مہم چلائی جس میں ’’ظلم کی داستانیں‘‘ کے نام سے بھٹودور کے مظالم کو ذرائع ابلاغ کی مدد سے پوری دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا تھا۔ مولانا‘ چونکہ بھٹو کے شہرسے تعلق رکھتے تھے اور ان کے اہم مخالفین میں شمار ہوتے تھے۔ اس لیے ایجنسیوں نے مولانا سے رابطہ کیا اور کہا گیا کہ وہ بھٹو کے خلاف ٹی وی کو ایک انٹرویو دیں۔ مولانا نے انکار کر دیا اور کہا کہ ہمارا بھٹو سے اختلاف اس کے غلط طریقہ سیاست کی وجہ سے تھا۔ اب‘ جب کہ وہ اقتدارمیں نہیں رہے ہماری ان سے کوئی دشمنی نہیں ہے۔ یہ ان کی اعلیٰ ظرفی تھی کہ مخالف سے انتقام نہیں لیا اور اسے معاف کر دیا۔

تحریکی خدمات: مولانا جان محمدعباسی‘ صاحب ِ بصیرت اور صائب الرائے قائد تھے۔ تاریخ پر ان کی گہری نظر تھی۔ ان کے سیاسی تجزیے‘ تقاریر بہت پُرمغز اور مدلل ہوتی تھیں۔ اسلامی انقلاب کے لیے پُرامن اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے جدوجہد کے سخت حامی تھے۔مولانا کی شخصیت میں حلم اور بردباری تھی۔ بڑی سی بڑی تنقید کو خندہ پیشانی سے سنتے تھے۔ کبھی مشتعل نہیں ہوتے تھے۔ معترضین کو بہت ہی دھیمے اور ٹھنڈے انداز سے دلیل سے مطمئن کرتے تھے۔ اگر کوئی سخت بات بھی کہنی ہوتی تو لطیفوں میں اور ہلکے پھلکے مزاح میں کہہ دیتے۔ دانائی اور حکمت کے بڑے بڑے موتی لطیفے سنا کر اور کہانیاں سنا کر بیان کرنا‘ ان کا طرئہ امتیاز تھا۔

جماعتی زندگی میں معاملہ فہم اور مردم شناس تھے۔ افراد کی چھوٹی موٹی خامیوں کو نظرانداز کرنے کے قائل تھے۔ اقبال نے قائد کے لیے جو خوبیاں بیان کی ہیں وہ تمام کی تمام مولانا کے اندر ہمیں ملتی ہیں    ؎

نگہ بلند‘ سخن دل نواز ‘ جاں پُرسوز

یہی ہے رختِ سفر میرِکارواں کے لیے

مولانا تمام طبقات کے افراد سے روابط رکھتے تھے لیکن قوم پرست عناصر کی سرگرمیوں کو اُمت اور ملک کے مفاد کے خلاف سمجھتے اور اس بارے میں سخت رائے رکھتے تھے۔ اس ضمن میں سندھ میں محمد بن قاسم سندھی ادبی سوسائٹی اور اشاعت اسلام سوسائٹی کی داغ بیل ڈالی۔ مولانا اس سوسائٹی کے سرپرست تھے۔ سندھ کے مسلمان ادیبوں‘ شاعروں اور اہل قلم کو اس سوسائٹی کے تحت منظم کیا گیا۔ تفہیم القرآن کے سندھی ترجمے و اشاعت کے لیے سندھ اسلامک پبلی کیشنز قائم کیا۔ ترجمے کی تکمیل پر مولانا کی خوشی دیدنی تھی۔

مولانا عباسی مرحوم سیاسی کام کے ساتھ ساتھ تحریکی لٹریچر کو سندھی زبان میں منتقل کرنے کو بہت اہم سمجھتے تھے۔ مہران اکیڈمی کا قیام ان کا بہت بڑا کارنامہ ہے جس کی انھوں نے مکمل سرپرستی کی اور اب الحمدللہ تحریکی لٹریچر کا بہت بڑا ذخیرہ سندھی زبان میں منتقل ہوچکا ہے۔

تحریکی زندگی میں کئی مرتبہ جیل بھی گئے۔ پہلی دفعہ تحریکِ ختم نبوت میں‘ دوسری بار جب جماعت پر پابندی عائد کی گئی اور پوری مرکزی شوریٰ کو پابندِ سلاسل کیا گیا۔ مولانا نے اس قیدوبند کے مرحلے کو بڑی استقامت اور حوصلے کے ساتھ کاٹا۔

ان میں ایک بہت بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ جماعتی سرگرمیوں کے ساتھ تحریک کے اندر اور باہر اپنے ذاتی دوستوں اور احباب سے قریبی تعلق بھی رکھتے تھے۔ شادی‘ تعزیت‘عیادت‘ غرض یہ کہ ہر موقع پر ان سے رفاقت نبھاتے تھے۔ اللّٰہ رفیق یحب الرفق فی الامور کلہ اس حدیث کی عملی تفسیر تھے۔ وفات سے چند ماہ پہلے سخت کمزوری‘ ضعف اور ڈاکٹروں کے منع کرنے کے باوجود لاڑکانہ گئے اور قرب و جوارمیں موجود اپنے پرانے دوستوں کی عیادت کی اور کہیں تعزیت کی۔ گھر والوں نے بھی روکا لیکن مولانا نے جواب دیا کہ میں اپنے پرانے دوستوں سے ضرور ملوں گا۔ کل کس نے دیکھی ہے۔

ان کی تحریکی زندگی میں بعض مشکل لمحات بھی آئے‘ جس دوران انھوں نے قیادت اور پالیسیوں سے اختلاف کیا اور کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیا لیکن یہ ان کے کردار کی عظمت ہے کہ جماعت سے وابستہ رہے۔ پیوسہ رہ شجر سے اُمیدِ بہار رکھ کے مصداق تحریک سے ساتھ نبھاتے رہے اور سمع و اطاعت کے جذبے سے ‘باوجود اختلاف کے جماعت کے فیصلوں کو نہ صرف قبول کیا بلکہ اپنے صوبے میں اس کی تنفیذکے سلسلے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مزاج اور رائے کے خلاف فیصلوں کو قبول کرنا اور ان کو لے کر چلنا ہی اصل سمع و اطاعت ہے۔

صوبہ سندھ کئی اعتبار سے ایک حساس صوبہ ہے۔ آبادی کے تناسب میں فرق اور شہری اور دیہی آبادی میں بڑے پیمانے پر تضادات کے باوجود انھوں نے جماعت کو مجتمع رکھا۔ اعتدال اور میانہ روی سے بڑے مشکل فیصلے اور نازک معاملات میں جماعت کی نہ صرف قیادت کی بلکہ اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے سب کو ساتھ لے کر چلتے رہے۔

یہ حسنِ اتفاق ہے کہ سندھ میں جماعت کو منظم‘ متعارف اور مضبوط کرنے والی دونوں شخصیات کے نام جان محمدتھے جن کو قائد ِ تحریک مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ ’’جانان محمد‘‘کے لقب سے پکارتے تھے۔ مولانا جان محمدبھٹوؒ نے دعوتی میدان میں عظیم الشان خدمات سرانجام دیں۔ سیکڑوں لوگ جماعت میں شامل کیے۔ قریہ قریہ جماعت کی دعوت پہنچائی‘ جب کہ مولانا جان محمد عباسیؒ نے جماعت کو ایک سیاسی قوت بنایا‘ سیاسی طور پر متعارف کرایا اور منظم کیا۔ ۱۹۷۰ء کے عشرے میں سندھ میں جو نعرے بڑے مقبول ہوئے ‘ ایک ’’اسلامی بھٹو--- جان محمد بھٹو‘‘ اور دوسرا ’’سندھ کا غازی --- جان محمد عباسی‘‘۔

اللہ نے ان کو ایک اعزاز یہ بخشا کہ ان کا جواں سال بیٹا نجم الدین عباسی ۱۹۸۹ء میں جہادِ افغانستان میں خوست کے محاذ پر دورانِ جہاد شہید ہوا۔ یہ جماعت کے پہلے مرکزی رہنما ہیں جنھوں نے کفر کے خلاف اپنے لخت ِ جگر کاخون اللہ کی راہ میں بہایا۔

ان کے متعلق‘ سندھ کے قوم پرست رہنما جی ایم سید مرحوم نے ایک بار کسی محفل میں کہا تھا کہ ’’اگر جان محمد عباسی جیسے سیاسی ورکر مجھے سندھ میں مل جاتے تو میں اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتا‘‘۔ یہ ایک مخالف کی گواہی ہے۔

ان کے اندر اخلاص‘ تحریک سے فنائیت کی حد تک تعلق اور اقامت دین کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کا جذبہ وداعیہ اعلیٰ درجے میں موجود تھا۔ جوانی سے لے کر وفات تک ایک ہی مقصد کے لیے جدوجہد کرتے رہے۔ ہمیشہ سفر میں رہنے کی وجہ سے اپنے گھر کو پوری طرح توجہ نہیں دے سکے۔ آخری ایام میں اس کا اظہار بھی کرتے کہ انھوں نے تحریک کے کام کو آگے بڑھانے کے لیے دن رات محنت کی اور تحریکی مصروفیات کی وجہ سے بچوں کو وقت نہیں دے سکے۔ ان کی اولاد الحمدللہ‘ تحریک سے وابستہ ہے۔ ان کے ایک صاحبزادے شمس الدین عباسی ایڈووکیٹ جماعت کے رکن اور لاڑکانہ شہر کے امیر ہیں۔ان کے ایک داماد اسلامی جمعیت طلبہ صوبہ سندھ کے سابق ناظم ڈاکٹر عبدالقادر سومرو ہیں جو اس وقت تحریک سے وابستہ ہیں۔ ان کے صاحبزادوں قربان علی عباسی‘ بدرانیس عباسی‘ شمس الدین عباسی نے ملاقات میں بتایا کہ مولانا اپنے بچوں کے لیے بہت ہی شفیق تھے۔ کبھی ڈانٹتے تک نہیں تھے۔ اگر کوئی بات ناگوار گزرتی تو خاموش ہوجاتے۔

اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات کو بلند فرمائے ۔ ان کی لغزشوں سے صرفِ نظر فرمائے اور انھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطافرمائے۔ آمین!

ڈاکٹر عبدالحق انصاری جماعت اسلامی ہند کے نئے امیر (براے میقات ۲۰۰۳ئ-۲۰۰۷ئ) منتخب ہوئے ہیں۔ آپ نے تحریکی لٹریچر سے تعارف کے بعد‘ ندوۃ العلما سے عالمیت کا کورس کیا۔ اس کے بعد سرائے میر میں مولانا اخترحسن اصلاحی سے علم تفسیرحاصل کیا۔علی گڑھ سے ۱۹۵۹ء میں فلسفہ میں ایم اے کیا۔ ۱۹۶۲ء میں فلسفۂ اخلاق‘ ابن مسکویہ کی تعلیمات کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۶۵ء میں شانتی نکیتن (بنگال) میں فلسفے کے لکچرر سے تدریس کا آغاز کیا اور پھر شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے صدر مقرر ہوئے۔ ۱۹۷۲ء میں ہارورڈ یونی ورسٹی سے ماسٹر ان تھیالوجیکل اسٹڈیز (MTS) کی ڈگری حاصل کی۔ ۹۵-۱۹۸۵ء تک ام درمان یونی ورسٹی (سوڈان)‘ کنگ فہد یونی ورسٹی (ظہران) کنگ سعود یونی ورسٹی (ریاض) میں تعلیم و تحقیق کی خدمات انجام دیں۔ تصوف اور شریعت پر مبسوط تحقیقی کتاب تصنیف کی۔ سعودی عرب میں تحریک کے کام کو نہایت منظم انداز میں ٹھوس بنیادوں پر آگے بڑھایا۔ سعودی عرب سے واپسی پر ۱۹۹۵ء میں ایک تحقیقی ادارہ سنٹر فار ریلجس اسٹڈیز اینڈ گائیڈنس (CRSG) بھی قائم کیا۔ تحریک کی طرف سے وقتاً فوقتاً عائد کی جانے والی متعدد ذمہ داریاں نبھاتے رہے ہیں۔ گذشتہ دو میقاتوں میں مرکزی شوریٰ کے رکن رہے۔ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ امیرجماعت کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد جماعت اسلامی ہند کے حوالے سے ان کی ترجیحات اور حکمت عملی پرمبنی مختصر تحریر ذیل میں پیش کی جا رہی ہے۔ (ادارہ)

انسانی وسائل کا فروغ اور اس کی زیادہ سے زیادہ فراہمی ہماری ترجیح اول ہے۔ ہرمیدان میں جو کارکن مصروف عمل ہیں‘ ان کی ماہرانہ تربیت کے ذریعے ارتقا اور ان میں جِلا پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ داعی‘ صحافی‘ مفکرین اور محققین‘ قائدانہ صلاحیت کے   حامل لوگوں کی تیاری اولین ترجیح ہوگی۔ اس ضمن میں تحریکی کارکنوں کی تربیت کے پیش نظر  دینی مطالعے اور رہنمائی کا ایک مرکز (سی آر ایس جی) کے نام سے قائم کیا گیا تھا۔ اس کو دوبارہ فعال بنانے کی سعی کی جائے گی۔ اس میں تیار ہونے والے کارکنوں سے تحریکی کاموں کی   انجام دہی میں بھرپور استفادہ کیا جائے گا۔ میری خواہش ہے کہ مرکز کے اسٹڈی گروپ کے نظم کو مزید مستحکم اور فعال بنانے کی طرف توجہ دی جائے۔

میری ذاتی رائے میں ملک کے اندر ’’مبنی براقدار سیاست‘‘ کے تصور کو عام کرنے اور اس میں جان ڈالنے کے سلسلے میں جماعت بڑا اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ اگر ممکن ہو سکے تو اس کے لیے کسی درجہ نیم آزاد اور موثرمیکانزم وجود میں لایا جائے۔ مسلمانانِ ہند کی سیاسی قوت کو ملکی سیاست پر اثرانداز ہونے کے قابل بنانا بھی میں ضروری سمجھتا ہوں۔ ملکی مسائل کے سلسلے میں عوامی شعور بیدار کرنے‘ نیز ان کے جامع اور مناسب حل کے لیے پُرامن اور تعمیری اقدامات کی فضا پیدا کرنے کی طرف توجہ دلانے کی بھی ضرورت ہے۔

نوجوانوں کی قوتوں کو مجتمع کر کے انھیں تعمیری کاموں کی طرف موڑنے کے لیے منظم سعی کی ضرورت ہے۔ نوجوانوں کو منظم کرنے کی طرف خصوصی توجہ دی جائے گی۔ تعلیمی میدان میں جماعت جو سعی و جہد کر رہی ہے اسے مزید مستحکم اور منظم کرنے کی اور اس میں تیزی لانے کی ضرورت ہے۔ اگر ضرورت ہو تو اس میدان میں تبدیلیوں سے ہچکچانا نہیں چاہیے۔ طلبہ تنظیم  ایس آئی او اور جماعت کے درمیان ایسے مشترکہ کام کیا ہوسکتے ہیں‘ سوچا جانا چاہیے۔ ایسے کاموں میں طلبہ کو ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے۔

مسلمانوں کی اصلاح‘ اخلاقی اور سماجی ترقی کے لیے ٹھوس اقدامات کی سخت ضرورت ہے۔ جب تک کہ کچھ ٹھوس اقدامات نہ کیے جائیں‘ اُمت مسلمہ کی اصلاح و ترقی مشکل ہے۔  اسلامی تحریک کو عوامی تحریک کی حیثیت تک پہنچانے کے لیے جن اقدامات کی ضرورت ہے اس کا جائزہ لینے اور تجاویز مرتب کرنے کے لیے ضروری تدابیر اختیار کرنا بھی ہمارے پیش نظرہے۔ گائوں اور دیہات کو مرکز بنا کر وہاں کی مختلف ضرورتوں کی تکمیل کے ذریعے گائوں کے لوگوں کی ہمہ گیر ترقی اور اخلاقی و انسانی اقدار کے فروغ کی طرف توجہ دینا چاہتا ہوں۔ جماعت کے پیغام اور عقائد‘ نظریات کی طرف لوگوں کو براہِ راست دعوت دینے اور اس کے لیے کارکنوں میں آمادگی پیدا کرنے کی طرف بھی توجہ دی جائے گی۔

تحریک کے اندر اور سماج میں خواتین کا مقام‘ کردار اور حصہ واضح طور پر ادا ہو‘ اس کے لیے بتدریج آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ انھیں مردوں کے ساتھ برابر کا حصہ دار بنانے کی ضرورت ہے۔

میڈیا کے سلسلے میں جامع اسکیم کی تیاری پیش نظر ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی طرف اور اس کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ کے استعمال کی ترویج کی طرف توجہ دینے کی بڑی ضرورت ہے۔

بیرون ملک اسلامی اسکالروں سے میری ملاقات ہوا کرتی تھی اور اب بھی بہت سارے لوگوں سے خط و کتابت ہے۔ ان تعلقات کو مزید مستحکم اور منظم کرنے کی کوشش ہوگی۔

عقیدہ و مذہب کی آزادی بنیادی انسانی حقوق میں سے ہے۔ اس پر کسی طرح کی پابندی برداشت نہیں کی جانی چاہیے۔ اگر کوئی قانون اس آزادی کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہو تو اس کے خلاف قانونی و عدالتی چارہ جوئی اختیار کرنی پڑے گی اور ہم اس سے گریز نہیں کریں گے۔ (ماخوذ: سہ روزہ دعوت‘ دہلی‘ یکم مئی ۲۰۰۳ئ)

گھر میں والد کا رویّہ

سوال:  بعض والدین سمجھتے ہیں کہ اولاد کی ضروریات کو پورا کر دیا جائے اور انھیں آسایشیں فراہم کر دی جائیں تو یہی ان سے محبت کا اظہار ہے اور شاید وہ سمجھتے ہیں کہ یہی محبت ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے والدین نے ہمیں زندگی کی ہر سہولت دی ہے لیکن انھوں نے شاید ہم سے اتنی امیدیں لگائی ہوتی ہیں جو ہمارے بس میں نہیں ہوتیں۔ محنت اور کوشش کے باوجود امتحان میں اگر اچھے نتائج نہ آسکیں تو طعنے دیے جاتے ہیں۔ کبھی کوئی اچھا کام کریں تو اس میں سو خرابیاں نکال دیتے ہیں‘ کبھی حوصلہ افزائی نہیں کرتے اور اپنی اولاد پر اعتماد نہیں کرتے۔دوسروں کی باتیں سن کر پہلے ہی دل بدگمانیوں سے بھرلیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں ڈر کے مارے اپنے ابو سے بات نہیں کرتی کہ کہیں وہ مجھے ڈانٹ نہ دیں۔ کبھی کھل کر ان سے بات نہیں کی۔ ان کے ساتھ میرا تعلق بالکل اجنبیوں جیسا ہے۔ انھوں نے کبھی ہمارے ساتھ مسائل پر بات نہیں کی اور نہ کبھی ہم نے ان سے کی۔ کبھی حوصلہ افزائی نہیں کی‘ ہمیشہ حوصلہ شکنی ہی کی ہے۔ اگر کبھی ہمت بڑھاتے ہیں تو اتنی زیادہ امیدیں باندھ لیتے ہیں کہ ہمارے بس سے باہر ہوتی ہیں۔ اگر کبھی غلطی ہو جائے یا میری وجہ سے کوئی پریشانی آجائے تو کبھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کرتے کہ آخر ایسا کیوں ہوا۔

میرا دل چاہتا ہے کہ میرے والدین میرے معاملات میں دل چسپی لیں اور مجھ سے میرے مسائل کے بارے میں دریافت کریں۔ لیکن انھوں نے بچپن ہی سے مجھے اپنے سے اس قدر دور کر دیاہے کہ اب میں ان کے قریب ہونا بھی چاہوں تو نہیں ہوپاتی۔ ان کو مجھ پراعتماد ہی نہیں ہے۔ خواہ ہم اپنی جان لڑا دیں لیکن وہ مطمئن نہیں ہوتے۔ مجھے اپنی شادی کے حوالے سے زندگی کا ایک بڑا اہم فیصلہ کرنا تھا اور میرا بہت دل چاہا کہ میں اپنے والد سے اس کے متعلق خود بات کروں لیکن نہیں کرپائی۔ گھر پر والد صاحب کا ہی زیادہ کنٹرول ہے۔ ہر کام ان کی رضامندی لے کر کرنا ہوتا ہے۔ امی ہیں تو وہ بھی بھائیوں کا دم بھرتی ہیں خواہ وہ کیسا ہی کام کریں۔ بہن اور بھائی دونوںسے رویے میں فرق روا رکھا جاتا ہے۔ مجھ میں اتنا اعتماد نہیں ہے کہ میں کھل کر اپنے والد سے بات کر سکوں۔ وہ دنیا بھر کے لیے تو بہت اچھے ہیں‘ سب سے خوش اخلاقی سے پیش آتے ہیں لیکن گھر والوں سے بالکل مختلف رویہ ہے۔ ان کے خیال میں گھر والوں کی ضروریات پوری کر دینا ہی ان کے لیے کافی ہے۔ میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ والدین اور بچوں کا باہمی تعلق کیسا ہونا چاہیے اور اولاد کے حقوق کیا ہیں؟

جواب: اسلام کے اخلاقی اور معاشرتی نظام میں خاندان بنیادی اکائی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس خاندان کے نظام میں سربراہِ خاندان مسئول‘ امیر اور قائد کے مقام پر فائز کیا گیا ہے۔ البتہ دین کے مجموعی نظام سے مناسب واقفیت نہ ہونے‘ اور خصوصی طور پر مقامی اور خاندانی روایات کی اندھی تقلید اور غلط العام تصورات کو بغیر کسی تحقیق کے ماننے کے نتیجے میں‘ ہمارے معاشرتی اور خاندانی نظام میں اکثر اوقات عدم توازن‘ ذمہ داری کا غلط استعمال اور بعض اوقات فرائض و حقوق کی صریح پامالی مشاہدے میں آتی ہے۔

آپ کے سوالات اسی عدم توازن اور اپنے اختیارات و فرائض کو صحیح طور پر نہ سمجھنے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ جو سوالات آپ نے اٹھائے ہیں انھیں اسی ترتیب سے لیتے ہوئے جواب درج کیا جا رہا ہے۔

جہاں تک والدین کی طرف سے بچوں سے توقعات اور اُمیدیں قائم کرنے کا سوال ہے‘ یہ ان کا ایک جائز حق ہے لیکن وہ کتنی اور کہاں تک یہ امیدیں کر سکتے ہیں؟ اس کو قرآن کریم نے واضح الفاظ میں انفرادی وسعت سے پکارا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: لاَ یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلاَّ وُسْعَھَاط (البقرہ ۲:۲۸۶)‘ یعنی اللہ تعالیٰ کسی نفس پر اس کی وسعت (برداشت) سے زائد بوجھ نہیں ڈالتا۔ اسی بنا پر ہر وہ شخص جو کسی دوسرے پر نگراں ہو اس پر بھی لازم ہو جاتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کلّی اختیارات کے باوجود ہر ہر فرد و مخلوق کی استطاعت دیکھ کر اس پر ذمہ داری ڈالتا ہے اور اس سے توقع رکھتا ہے تو اپنے محدود اختیارات کے ساتھ ایک باپ یا ماں‘ ایک دفتر کا نگراں اپنے ماتحت‘ اولاد یا اپنے عملے سے کس بنیاد پر ان کی صلاحیت اور وسعت سے بڑھ کر اُمید رکھ سکتا ہے۔

اسے یوں سمجھیے کہ ایک ذہین طالبہ جوعام حالات میں چھ گھنٹے روزانہ اپنے گھر پر مطالعے کے بعد فرسٹ کلاس نمبر حاصل کرسکتی ہو‘ اگر مزید دو گھنٹے محنت میں اضافہ کر دے تو توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ فرسٹ کلاس فرسٹ آجائے۔ لیکن ایک سست اور نااہل طالب علم جو آٹھ گھنٹے محنت کے بعد بھی پہلی جماعت سے آٹھویں جماعت تک مستقل مزاجی سے تھرڈ ڈویژن ہی لاتا رہا ہو‘ اس سے یہ توقع قائم کرنا کہ مزید دو گھنٹے محنت کرکے فرسٹ کلاس لے آئے گا‘ حقیقت ِ واقعہ کے خلاف ہے۔ اس مثال کی روشنی میں اولاد اور والدین دونوں اپنا جائزہ لے کر طے کر سکتے ہیں کہ ان کی توقعات حقیقت سے کتنی قریب یا بعید ہیں۔

سوال کا دوسرا پہلو کہ محنت اور کوشش کے باوجود اگر فرسٹ کلاس نہ آسکے یا فرسٹ کلاس آجائے اور دونوں صورتوں میں محنت کا اعتراف تو کجا‘اُلٹا اسے نظرانداز کیا جائے‘ یہ والدین کی طرف سے صریح ناانصافی‘ زیادتی‘ اور عدل کے اسلامی اصول کے منافی ہے۔ اپنی اولاد کی کوشش‘ محنت اور سنجیدگی کو دیکھتے ہوئے یہ والدین کا فرض ہے کہ وہ ان کی محنت کا اعتراف کریں اور کسی تحفے یا حوصلہ افزائی کے چند کلمات کے ساتھ ان کی کوشش کا اعتراف کریں۔

اولاد پر اعتماد کا معاملہ بھی دو طرفہ ہے۔ بعض اوقات اولاد اپنے اوپر ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی (over confidence) کی بنا پر یہ سمجھتی ہے کہ والدین ہمیں بچہ سمجھتے ہیں‘ اس لیے ہم سے مشورہ نہیں کرتے۔ لیکن دیکھنے میں آتا ہے کہ بعض معاملات میں والدین بھی اسی قسم کی زیادہ خود اعتمادی کا شکار ہوتے ہیں اور اس خوف کی بنا پر کہ اگربچوں کے علم میں ہماری وہ حماقتیں بھی آئیں جوانسان ہونے کی بنا پر وہ کربیٹھتے ہیں تو ہمارا بھرم و اثر کم ہو جائے گا‘ بہتریہی سمجھتے ہیں کہ بچوں سے مشورہ ہی نہ کیا جائے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے یہ درست نہیں ہے۔

قرآن کریم نے تمام امور میں مشورہ کرنے کا حکم دیا ہے‘ چنانچہ وشاورھم فی الامر‘ اور وامرھم شوریٰ بینھم کے واضح الفاظ سے نہ صرف حکومت کے ذمہ داروں‘ اداروںکے سربراہان بلکہ خاندان کے سربراہ کو بھی یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہر اہم معاملے میں مشورہ کیا جائے۔ اگر ایک ماں روزانہ کھانے کے وقت بچوں سے یہ پوچھتی ہے کہ کل کیا پکوایا جائے تو ایک باپ بھی یہ مشورہ کر سکتا ہے کہ گھر کی تعمیر‘ کسی چیز کی خرید و فروخت‘ کسی کاروباری مشکل ‘ کسی کا رشتہ ‘ غرض تمام خاندانی امور میں دوسروں کی رائے کیا ہے۔ اسلام کا مدّعا آغاز سے یہی تھا کہ گھر کے اندر شوریٰ ہو تاکہ یہ شوریٰ طرزِ حیات کا جزو بن جائے اور گھر کے باہر کے معاملات میں بھی اس پر عادتاً عمل کیا جانے لگے۔والدین کا اولاد سے کوئی مشورہ نہ کرنا‘ ایک غلط حکمت عملی ہے۔ ہمیں اس کی اصلاح کرنی چاہیے۔ یہ ایک معروف بات ہے کہ شادی بیاہ کے معاملے میں لازمی طور پر مشورے کے بعد ہی فیصلہ کیا جانا چاہیے۔

والد سے خائف ہو کر بات نہ کرنا اور اجنبیوں کی طرح ان سے رویہ بنا لینا اسلامی    تصورِ خاندان کے منافی ہے۔ اس شرم و حیا کے ساتھ‘ جو ایک لڑکی اپنے باپ سے رکھتی ہے‘  اس کا کھل کر بلاتکلف باپ سے بات کرنا اور بہت سے معاملات میں اپنے اختلاف کا اظہار کرنا اس کا اسلامی فریضہ ہے۔ امر بالمعروف کا حکم تنہا کسی فریق کے لیے نہیں بلکہ ہر فریق معاملہ کے لیے ہے۔ بیوی کی طرف سے شوہر کے لیے اور شوہر کی طرف سے بیوی کے لیے اس کا کرنا فریضہ ہے۔ اسی طرح اولاد اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔

جس طرح والدین پر اولاد کو نصیحت کرنا فرض ہے‘ ایسے ہی اولاد پر والدین کو مشورہ دینا‘ انھیں مختلف امور پر متوجہ کرنا فرض کر دیا گیا ہے۔ باپ کے لیے خصوصی طور پر اپنی لڑکیوں کے حوالے سے‘ احادیث میں جو اشارے اور تعلیمات ملتی ہیں وہ ہمارے لیے بہت قابلِ غور ہیں۔

ایک حدیث میں صادق و امین صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جس شخص نے اپنی دولڑکیوں کی تربیت اچھی طرح کی اور وہ بلوغ کو پہنچ گئیں‘ یعنی اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کے قابل ہوگئیں توقیامت میں وہ شخص اور حضور نبی کریمؐ اتنے قریب اور ساتھ ہوں گے جیسے ہاتھ کی   دو انگلیاں۔ گویا ایک باپ اپنی لڑکیوں سے محبت‘ نرمی‘ بھلائی اور ان کی صحیح اسلامی تربیت کر کے حضور نبی کریمؐ سے جنت کا وعدہ لے سکتا ہے اور لڑکیاںذریعہ نجات بن سکتی ہیں۔ ظاہر ہے یہ کام باپ اور بیٹی کے درمیان حجابات کی دیواریں کھڑی کر کے نہیں ہوسکتا بلکہ ان دیواروں کو منہدم کرکے باہمی اعتماد اور ہمت افزائی سے ہی ہو سکتا ہے۔

اگر آپ کے والد آپ سے بات کرنا پسند نہیں کرتے تو آپ کو اپنے آپ کو خود اپنے والد سے بات کرنے پر آمادہ کرنا چاہیے۔ آپ کا خوف بے بنیاد ہے۔ اسے بغیر کسی تاخیر کے ذہن سے نکال کر اللہ پر اعتماد کرتے ہوئے ان سے احترام و محبت کے ساتھ بات کیجیے تاکہ یہ برف پگھلے اور آپ کی صحیح شخصیت آپ کے والد کے علم میں بھی آسکے۔

آپ کے والد کے اس رویے کا تعلق ممکن ہے کہ خود آپ کی والدہ کا ایک روایتی گھریلو خاتون کی طرح شوہر کی اندھی اطاعت سے بھی ہو۔ انھوں نے گھریلو معاملات میںآپ کے والد کی ہربات کو مشورہ اور تبادلۂ خیالات کے بغیر مان لینے کا رویہ رکھا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کے والد خود کو ایک مطلق العنان بادشاہ کی طرح گھر پر حاکم سمجھتے ہوں اور محض نان نفقہ فراہم کر دینے کے بعد ایک آمر کی طرح ہر بات پر اصرار کرنے کے عادی ہوں‘ اور اس بنا پر آپ سے کسی بات میں مشورہ لینے کی ضرورت نہ سمجھتے ہوں۔ لیکن اگر وہ اپنی بیٹی کو تو نظرانداز کریں اور بیٹوں کو اہمیت دیں تو یہ رویہ بھی اسلام کے منافی ہے۔ اولاد میں تفریق اور خصوصی طور پر جنس کی بنیاد پر تفریق‘ اسلام کے منافی ہے۔ آپ کو علم ہے کہ حضور نبی کریمؐ اپنی صاحبزادی سیدہ فاطمہؓ کا کتنا خیال کرتے تھے اور جب وہ آتی تھیں تو ان کے لیے اُٹھ کرکھڑے ہو جاتے اور پیشانی کو بوسہ دیتے تھے۔ ہمارے لیے دلیل اگر کوئی ہے تو وہ کتاب و سنت ہی سے ہے۔ اس لیے سیدہ فاطمہؓ کا اپنے والد سے جا کر ملازم کا مطالبہ کرنا‘ یہ ثابت کر دیتا ہے کہ بلاکسی خوف کے انھوں نے اپناحق طلب کیا۔ یہی شکل آپ کو اختیارکرنی چاہیے۔

اسلام بے جا قسم کے حجابات اور تکلفات کو پسند نہیں کرتا۔ اللہ پر اعتماد کرتے ہوئے اور سنت پر عمل کرتے ہوئے آپ کو اپنے والد سے براہِ راست بات کرنی چاہیے اورانھیں اللہ کے خوف کے ساتھ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے تقاضے کے طور پر‘ بغیر کسی برہمی کے‘ آج تک آپ کو نظرانداز کرنے کی غلطی کے اعتراف کے ساتھ آپ کے ساتھ محبت اور اعتماد کا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔

حضور نبی کریمؐ باہر والوں کے ساتھ ہی نہیں‘ بلکہ گھرکے اندر انتہائی شفیق و رحیم تھے۔ آپ کے والد اگر چاہتے ہیں کہ قیامت میں اللہ کے رسولؐ سے قربت ملے تو انھیں خود اپنے رویے کی اصلاح کرنی چاہیے اور عفو ودرگزر سے کام لیتے ہوئے ماضی کو بھلا کر اپنی بیٹی اور بیٹوں کے ساتھ مودت و رحمت کا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔عظمت اور بڑائی اسی میں ہے۔ فاصلے پیدا کر کے مصنوعی طور پر اپنی بڑائی کے احساس میں مبتلا ہونے میں نہیں ہے۔ (پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد)

 

دینی مدارس میں تعلیم ‘ مرتبہ: سلیم منصور خالد۔ ناشر: انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز‘ مرکز ایف سیون‘ اسلام آباد۔ صفحات: ۴۷۲ مع اشاریہ۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

اس کتاب کے مرتب نے علامہ محمد اقبال کے ملفوظات سے چند جملے نقل کیے ہیں‘ جن میں علامہ‘ دینی مدارس کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے‘ کہتے ہیں کہ ان مکتبوں (مدرسوں) کو اسی حالت میں رہنے دو۔ غریب مسلمانوں کے بچوں کوانھی مکتبوں میں پڑھنے دو۔ اگریہ مُلّا اور درویش نہ رہے‘ تو جانتے ہو کیا ہوگا؟ جو کچھ ہوگا‘ میں اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں۔ اگر ہندستان کے مسلمان ان مکتبوں سے محروم ہوگئے تو بالکل اسی طرح‘ جس طرح ہسپانیہ میں‘ ۸۰۰برس کی حکومت کے باوجود آج غرناطہ وقرطبہ کے کھنڈروں اور الحمرا کے سوا اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش نہیں ملتا‘ یہاں بھی تاج محل اور دلی کے لال قلعے کے سوا مسلمانوںکی تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملے گا (ص ۱۹)۔ یہی وجہ ہے کہ تحریکِ آزادی اور سرخ و سفید استعمار کے خلاف مزاحمت کی جدوجہدمیں‘ انھی مدرسوں کے درویش پیش پیش رہے ہیں۔ اشتراکیوں کو یہ صدمہ نہیں بھولتا کہ ان کی ذلّت آمیز شکست اور روسی سامراجی امپائرکے انہدام میںبنیادی کردار انھی مدرسوں کے ملّائوں کا ہے۔ دوسری طرف سرمایہ دارانہ سامراج کو بھی بخوبی اس حقیقت کا ادراک ہوچکا ہے کہ    ؎

ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اُس اُمت سے ہے

جس کی خاکستر میں ہے‘ اب تک شرارِ آرزو

چنانچہ نائن الیون کی سازش‘ اسامہ کی گرفتاری کے لیے افغانستان پر یلغار اور پھر خطرناک ہتھیاروں کی تلاش کے بہانے عراق پر قبضہ اسی ضمن میں پیش بندیوں کی حیثیت رکھتی ہیں۔

بدقسمتی سے ہمارے اندر بھی ایک گروہ ایسا ہے جو حقیقت ِحال کا ادراک کیے بغیر یا پھر بدنیتی یا اپنی لادینی افتادِ طبع کی وجہ سے دینی مدرسوں کے خلاف ہنود ویہود اور استعماری طاقتوں کی اس اسلام دشمن سازش میں شامل ہوگیا ہے کہ دینی مدرسوں کو بند کر دیا جائے یا انھیں طرح طرح کی جکڑبندیوں میں کس کر بے موت مرنے کے لیے چھوڑ دو۔

زیرنظر کتاب‘ دینی مدارس اور ان کے تعلیمی نظام پر منتخب مضامین کا ایک عمدہ اور جامع مجموعہ (anthology) ہے۔ کتاب چار حصوں پر مشتمل ہے۔ اوّل: نہایت جید‘ مخلص صاحبان فکرونظرکے علمی خطبات۔ دوم: دینی مدارس میں تعلیمی و تدریسی عمل کے پہلوئوں اور انتظامی عناصرترکیبی پر گزارش۔ سوم: دینی مدارس کی شماریاتی تصاویر اور ارتقا کی کیفیت۔ چہارم: دینی مدارس کے نصابیاتی عمل پر مشتمل ضمیمہ جات (یہ حصہ تقابلی مطالعے کے لیے مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے)۔

اس زمانے میں دینی مدارس کے موضوع پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ سلیم منصورخالد نے رطب و یابس اور مناظرہ و مجادلہ سے قطع نظر کرتے ہوئے‘ موضوع کو علمی سطح پر پیش کیا ہے۔ چنانچہ  اس مطالعے میں دینی تعلیم کی خوبیوں کے ساتھ اس کے کمزور پہلو بھی سامنے آتے ہیں اور   اصلاحِ احوال کی بہت سی بنیادی تجاویز پر بھی بحث کی گئی ہے (ممکن ہے اس پر کچھ اپنے بھی ناخوش ہوں)۔ لیکن ہمیں بقول اقبال: ’’اپنے عمل کا حساب‘‘ کرنے سے گھبرانا نہیں چاہیے۔

اپنے موضوع پر اس جامع دستاویز کے مطالعے سے دینی مدارس میں تعلیم کی نوعیت‘ ماہیت اور مسائل کے بہت سے چھپے ہوئے گوشے بھی سامنے آتے ہیں۔ پروفیسر خورشید احمد کے الفاظ میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ’’دینی نظام تعلیم کی خوبیوں‘ خامیوں اور اصلاح طلب پہلوئوں کا پوری بالغ نظری سے تجزیہ کر کے اصلاح احوال کی سنجیدہ کوششیں کی جائیں‘‘۔ زیرنظرکتاب ایسی کوششوں میں نہایت مفیدومعاون اور مددگار ثابت ہوگی۔

مؤلف نے جس محنت و کاوش‘ تلاش و جستجو اور مہارت و سلیقے کے ساتھ اسے مرتب کیا ہے‘ اس کی داد نہ دینا بے انصافی ہوگی۔ کتاب کی پیش کش خوب صورت اور معیاری ہے اور قیمت نسبتاً کم ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


A Brief Study of the Holy Quran ] قرآن پاک کا ایک مختصر مطالعہ[ ‘ پروفیسر شفیق احمد ملک۔ ناشر: طارق برادرز‘ ۵-پہلی منزل‘ جلال الدین ٹرسٹ بلڈنگ‘ اُردوبازار‘ لاہور۔ صفحات: ۱۹۱۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔

قرآن کے زندہ معجزات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دنیا کے ہر حصے میں اس کے پیغام کو سمجھنے اور اس کے مفہوم کو دوسروں تک پہنچانے کی کوشش برابر جاری ہے۔

پروفیسر شفیق احمد ملک نے رُبع صدی سے زائد عرصہ اسلامیہ کالج لاہور میں انگریزی زبان کی تدریس کی ہے۔ اب انھوں نے انگریزی تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم طلبہ کے لیے مختصر مطالعۂ قرآن کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ سب سے پہلے سورہ کے مرکزی مضامین کا تعارف کرایا گیا ہے‘ پھر ہررکوع کے مضامین کا مختصر مفہوم اور خلاصہ۔ اس کام میں انھوں نے معروف اُردو تفسیروں کے علاوہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی شہرہ آفاق تفسیر تفہیم القرآن کے تازہ ترین انگریزی ترجمے (از ظفراسحاق انصاری) سے بھی استفادہ کیا ہے۔

مصنف‘ دقیق علمی بحثوں اور باریکیوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے‘ ایک رُکوع کے مرکزی موضوع کو تقریباً ایک صفحے میں سمیٹ دیتے ہیں۔ مذکورہ مطالعے کی پہلی جلد میں    سورۂ فاتحہ سے سورۂ یوسف تک ۱۲ سورتیں شامل ہیں۔ ہر سورہ کا تعارف انتہائی باریک خط میں ہے‘ نسبتاً بڑے خط میں ہونا چاہیے تھا۔ مکۃ المکرمہ کے لیے MECCA کی بجاے MAKKAH لکھنا مناسب ہے۔ صلوٰۃ کا اُردو متبادل NAMAZ لکھا گیا ہے۔ مناسب ہوتا کہ SALAT لکھا جاتا۔

مجموعی طور پر کاوش قابلِ تحسین اور وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔ انگریزی دان طبقے خصوصاً نوجوان طالب علموں کے لیے یہ ایک مفید اور لائق مطالعہ کتاب ہے۔ (محمدایوب منیر)


یاد نامۂ دائودی‘ مرتبین: تحسین فراقی‘جعفر بلوچ۔ ناشر: دارالتذکیر‘ غزنی سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۳۰۶۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

جناب خلیل الرحمن دائودی (۱۹۲۳ئ-۲۰۰۲ئ) ادبی تحقیق اور مخطوطہ شناسی میں ایک ممتاز مقام رکھتے تھے۔ اُردو ‘عربی اور فارسی زبانوں پر اچھی قدرت رکھتے تھے۔ اُن کی عمر کا بیشترحصہ مخطوطات کی تلاش‘ جانچ پرکھ‘ اُن کی ترتیب و تدوین اور خرید و فروخت میں گزارا۔ اُن کی کاوشوں سے متعدد پبلک اور قومی کتب خانوں میں گراں بہا مخطوطات کے ذخائر جمع ہوئے۔ زیرنظرکتاب‘ اُن کے سوانحی خاکے کے ساتھ‘ اُن کی شخصی خوبیوںاور علمی و تحقیقی کارناموں کا ایک عمدہ تعارف پیش کرتی ہے۔

دائودی صاحب کی شخصیت کا قابلِ قدر پہلو یہ تھا کہ وہ علمی کام کرنے والوں سے نہایت محبت و شفقت اور فیاضی کے ساتھ پیش آتے تھے۔ کسی اسکالر کی ضرورت کی کتاب یا مخطوطہ اسے بلاتامل اور بلامعاوضہ دے دیتے۔ اکثر فرماتے: ’’میں ہر کتاب پر اس شخص کا حق سمجھتا ہوں جس کی اسے ضرورت ہو‘‘۔ اُن میں ایک خوبی یہ تھی کہ ہر خط کا جواب فوراً دیتے۔ اگر شب میں یاد آتا کہ فلاںخط کا جواب نہیںگیا تو اپنی اس کوتاہی پر افسوس کرتے۔ وہ ’’نیکی کر دریا میں ڈال‘‘ کے قائل تھے۔ کہا کرتے تھے: ’’دورِحاضر کے ڈپریشن کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے توقعات وابستہ کرلیتے ہیں۔جب توقعات پوری نہیں ہوتیں تو دماغی اور جسمانی امراض لاحق ہو جاتے ہیں۔ اس لیے صلے کی توقع کے بغیر کام کریں اور نیکی کر کے بھول جائیں۔ توقعات وابستہ کرو گے اور وہ پوری نہ ہوںگی تو مایوس اور افسردہ ہوکر بیمار ہوجائو گے۔ اگر لوگ حقوق العباد کا خیال رکھیں تو معاشرے میں بدامنی اور بے چینی نہیں ہوگی۔ (ص ۲۱)

یہ کتاب مرحوم کے دوستوں اور احباب (ڈاکٹر وحید قریشی‘ محمد اکرام چغتائی‘ محمداقبال مجدّدی‘ عارف نوشاہی اور تحسین فراقی وغیرہ) کے مضامین کا مجموعہ ہے۔ کتاب کے دوسرے حصے میں دائودی مرحوم کی چند منتخب اُردو اور انگریزی تحریریںاور عکسِ تحریر شامل ہے۔ کتاب میں    متعدد تصاویر کے علاوہ دائودی صاحب کی تصانیف کی فہرست‘ ان کے چند خطوط اور ان کے نام خطوطِ مشاہیر شامل ہیں۔ یہ کتاب دائودی صاحب کی شخصیت کا ایک دل کش نقش اور ان کے علمی کارناموں کا عمدہ تعارف پیش کرتی ہے۔ اشاعتی پیش کش اچھی ہے۔ اعترافِ خدمات کی روایت میں مرتبین نے قابلِ تحسین اضافہ کیا ہے۔ ( ر - ہ)


دنیا جن سے روشن ہے‘ مرتب: ڈاکٹر نثار احمد قریشی۔ ناشر: پنجابی ادبی سنگت‘ ۲۶۲-محمدنگر‘ مرزا روڈ‘ اٹک کینٹ۔ صفحات: ۱۴۴۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

برعظیم پاک و ہندکے چند نامور ادیبوں اور ماہرین تعلیم کے ۲۴ مضامین کا مجموعہ‘ جس میں اپنے اپنے اساتذہ کو خراجِ عقیدت پیش کیا گیا ہے۔ نسلِ نو کی تعمیرمیں استاد کا ہمیشہ نہایت اہم کردار رہا ہے اور انسان کی اپنی کاوش سے استاد کی تربیت زیادہ اہم ہوتی ہے۔ مذکورہ مجموعے میں سیدابوالحسن علی ندوی‘ ڈاکٹر محمد باقر اور ڈاکٹر مشتاق الرحمن صدیقی کے علاوہ متعدد دیگر اہل قلم کی تحریریں شامل ہیں۔ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ اساتذہ کرام کس طرح اپنا علمی ورثہ آنے والی نسلوںتک منتقل کرتے ہیں۔ ہر مضمون سبق آموز ہے اور تاریخ ساز اساتذہ کی زندگی کے کسی نہ کسی پہلو پر روشنی ڈالتا ہے۔

انتساب مؤلف کے استاد ڈاکٹر وحید قریشی کے نام ہے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ مؤلف کا اپنے کسی استاد کے بارے میں کوئی مضمون اس میں شامل نہیں ہے جو بآسانی وہ لکھ سکتے تھے۔ یقینا وہ کسی نہ کسی یا بعض اساتذہ سے ضرور متاثر ہوئے ہوں گے۔ اساتذہ اور طلبہ کے لیے یہ ایک معلوماتی ‘ دل چسپ اور مفید کتاب ہے مگر قیمت زیادہ معلوم ہوتی ہے۔ (م - ا -م)


Making Connections ‘مولفین: پروفیسر خواجہ محمد صدیق‘ ڈاکٹر عبدالمجید خان۔ اہتمام و اشاعت: اسلامک ایجوکیشن فائونڈیشن‘ رچمنڈ‘ ورجینیا‘ امریکا۔ صفحات: ۱۷۵۔ قیمت: درج نہیں۔

تعلیم و تربیت وہ بنیادی سانچا ہے جس کے ذریعے نسلوں کی تعمیر یا تخریب کا کام ہوتا ہے۔ اس میدان میں الٰہیات و اخلاقیات سے بغاوت جیسے تخریبی کاموں کے لیے تو دنیا بھر کے خزانوں  کے منہ کھلے ہوئے ہیں‘ لیکن ان کے مقابلے میں تعمیری کاوشوں سے منسلک افراد‘ وسائل کی قلت اور مہارت میں کمی کے ہاتھوں مجبور دکھائی دیتے ہیں‘ تاہم اس قلّت و کمی کے باوجود وہ اسکول قائم کر کے چیلنج کا ایک حد تک جواب دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان اسکولوں میں تربیت یافتہ اساتذہ کی فراہمی کے ساتھ ایک اہم مسئلہ نصابی کتب کی تیاری اور پیش کش کا بھی ہے۔ یہ کام  مشکل‘ نازک اور مہنگا ہے۔ انتخاب‘ معیار اور ابلاغ میں سے کوئی ایک کڑی ٹوٹ جائے تو نصاب کا دامنِ درس تار تار ہو جاتا ہے۔

زیرتبصرہ کتاب‘ دسویں تا بارھویں جماعت (یا ۱۵ سے ۱۷ برس عمر) کے بچوں کے لیے مرتب کی گئی ہے۔ اس کے سرورق پر لفظ connections مرکزیت کا حامل ہے۔ کنکشن یا تعلق کس سے؟ مولفین نے ۱۵ ابواب میںنصف صداحادیث رسولؐ میں پوشیدہ: تربیت‘ حکمت‘تدبر‘ رہنمائی اور عمل کی کرنوں کو حد درجہ خوب صورتی سے بزبان انگریزی پیش کیا ہے۔ مسلمانوں کی وہ  نسلِ نو‘ جو دارالکفرمیں زندگی گزاررہی ہے یا پھر پاکستان جیسے عملاً سیکولر ملک کے انگریزی زدہ اسکولوں میں زیرتعلیم ہے‘ اُس کے لیے یہ کتاب ایک موجِ نور ہے۔

اس کتاب کو ایک شان دار انتخاب‘ پیشہ ورانہ نصابی مہارت کا مظہر اور پراثر پیش کش کا مرقع کہا جا سکتا ہے۔ دل چسپی رکھنے والے افراد ویب سائٹ www.isgr.com پر رابطہ کرکے معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔(سلیم منصورخالد)


ذکرِماں‘ ڈاکٹر کیپٹن غلام سرور شیخ۔ ناشر: سارا سرور پبلشرز‘ ۱۷‘۱۸ گل فشاں کالونی‘ جھنگ روڈ‘ فیصل آباد۔ صفحات: ۲۲۹۔ بلاقیمت۔

ماں جیسی عظیم ہستی کا تصور کرتے ہی انسان (خواہ وہ عمر کے کسی بھی مرحلے میں ہو) خود کو بچہ محسوس کرنے لگتا ہے۔ ماں کی رحمت و شفقت کائنات میں مثالی حیثیت رکھتی ہے۔ یہی وہ عظیم ہستی ہے جو اپنے بچوں کی پرورش کے لیے طرح طرح کی تکالیف اٹھاتی اور مشکل سے مشکل مرحلے کو بھی حوصلے اور صبر کے ساتھ برداشت کرتی ہے۔

زیرتبصرہ کتاب میں اس عظیم المرتبت ہستی کے بارے میں بھرپور معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ ان معلومات کو کل نو ابواب میںتقسیم کیا گیا ہے۔ باب اول (قرآنِ حکیم اور ذکرِماں)میں قرآن مجید کی ان تمام آیات کے تراجم کو سورت کے حوالے کے ساتھ جمع کیا گیا ہے جن میں ماں کا ذکر آیا ہے۔ دوسرا باب (رسولؐ کا فرمان اور ذکرِماں)میں احادیث مبارکہ کو یکجا کیا گیا ہے۔

مابعد ابواب میں پیغمبران اسلام کی جلیل القدر مائوں‘ اُمہات المومنین اور اپنی مائوں کے بارے میں اسلامی تاریخ کے متعدد علما و زعما‘ مثلاً: امام بخاریؒ، امام غزالیؒ، اویس قرنیؒ،امام شافعیؒ، علامہ اقبالؒ، سرسیداحمد خاںؒ، قائداعظمؒ، سیدابوالاعلیٰ مودودی ؒاور مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کے خیالات و احساسات یکجا کیے گئے ہیں۔ ایک حصے میں ماں کے بارے میں مشاہیر عالم کے اقوال شامل ہیں۔ پھر اس موضوع پر اُردو اور پنجابی شعرا کی نظمیں اور اشعار بھی جمع کر دیے گئے ہیں۔

مصنف کو ’’ماں‘‘ کے موضوع سے ایک جذباتی وابستگی ہے اور انھوں نے کتاب محنت اور لگن کے ساتھ مرتب کی ہے مگر یہ پہلو اجاگر نہیں ہوسکا کہ ماں کو اس قدر اُونچا مقام و مرتبہ کیوں دیا گیا ہے؟ (اس لیے کہ نہ صرف ولادت‘ بلکہ رضاعت‘ پرورش اور تربیت کے مراحل میں وہ انتہائی ایثار و قربانی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ وغیرہ) اسی طرح ص ۸۰ کے آخری پیرا‘ ص ۸۸ کی سطور ۱۲‘ ۱۳--- اور ص ۸۹ کی سطور ۲‘ ۳پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ مجموعی طور پر کتاب دل چسپ اور قابل مطالعہ ہے۔ آخر میں کتابیات بھی شامل ہے۔ سرورق بہت سادہ اور جاذبِ نظر ہے۔ مولف اسے دوسری بار چھاپ کر مفت تقسیم کررہے ہیں۔ (شایستہ ہاشمی)


انسان دوستی اور جمہوریت (مغربی اور اسلامی تناظر میں)۔ مصنف: ڈاکٹر سیدعبدالباری۔ ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز‘ نئی دہلی۔ صفحات: ۷۲۔ قیمت: ۲۵ روپے۔

عہدِحاضر میں جمہوریت (democracy) اور انسان دوستی (humanism) نہایت کثرت کے ساتھ استعمال ہونے والی وہ اصطلاحات ہیں جو ہمارے ہاں مغرب سے آئی ہیں اور ہم نے بلاسوچے سمجھے محض ذہنی مرعوبیت کی بنا پر ان دل کش اصطلاحات کو‘ ان کے مغربی تصورات سمیت اپنا لیا ہے۔ ڈاکٹر سید عبدالباری نے زیرنظرمختصر اور نہایت عالمانہ اور جامع مقالے میں ان پُرفریب اصطلاحات کی اصلیت پر روشنی ڈالی ہے۔ بتایا ہے کہ مغرب میں انسان دوستی کی نشوونما مذہب سے بے زاری اور مذہب سے بغاوت کے ماحول میں ہوئی اور انسان دوستی کو اس لیے تمام مادی اور معاشرتی ترقیات کا ضامن قرار دے دیا گیا کہ مذہب سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔   دل چسپ بات یہ ہے کہ خدا پرستوں اور منکرین خدا دونوں نے یورپ میں انسان دوستی پر اپنا دعویٰ ثابت کیا ہے۔

مصنف نے ہندستانی فکروفلسفے کی روشنی میں انسان دوستی کی روایت پر مختصراً روشنی ڈالی ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ اسلام میں انسان دوستی کا حقیقی تصور کیا ہے؟ دوسرے باب میں جمہوریت کے مغربی تصورات اور جدید ہندستان میں جمہوریت کے تجربے پھر جمہوریت کے اسلامی تصور پر بحث کی ہے۔ آخر میں یہ بتایا ہے کہ مغرب کی بے خدا جمہوریت اور انسان دوستی کے مقابلے میں اسلام میں ان کے کیا امتیازی خصائص ہیں۔ مصنف کے خیال میں دورِحاضر کے مسائل کے حل میں انسان دوستی اور جمہوری تصورات بری طرح ناکام ثابت ہوئے ہیں (اس سلسلے میں ایک مثال انھوں نے بھارت کی بھی دی ہے)۔ چونکہ اسلام میں شورائیت‘ احتساب اور جواب دہی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اس لیے انسان دوستی اور جمہوریت کی وہی صورت انسانیت کو حقیقی معنوں میں تحفظ ِ جان اور تحفظ ِمال و آبرو کی ضمانت فراہم کرسکتی ہے‘ جو اسلام نے پیش کی ہے۔ (ر-ہ)


توبہ کا تصور اور مومنین ‘خواجہ غفور احمد۔ ناشر: ۱۸۹‘ گلشن بلاک‘ علامہ اقبال ٹائون‘ لاہور-۵۴۵۷۰۔ صفحات: ۵۱۔ قیمت: درج نہیں۔

انسان اور حیوان کے درمیان حدِفاصل‘ نیکی اور گناہ کا احساس اور خالق کائنات کے سامنے توبہ کا تصور ہے۔ اسلام کے سوا دیگر مذاہب میں توبہ کا تصور نہ صرف ایک پہیلی ہے‘ بلکہ شاید عقل و عدل کے بھی منافی ہے۔ زیرنظر تحریر اسلام کے تصور توبہ و مغفرت کو پیش کرتی ہے۔ جس کا اسلوب دل چسپ اور توبہ و مغفرت کی طرف رغبت دلاتا ہے۔ مصنف نے قرآن و حدیث سے رہنمائی کے ساتھ دیگر آثار سے بھی کسبِ فیض کیا ہے۔

کتاب کی ہیئت ایک مربوط تحریر سے زیادہ کسی علمی خطبے سے قریب ترہے۔ کیونکہ ایک اچھا خطیب بظاہر تجربات‘ جذبات اور آثار سے اس طرح کام لیتا ہے کہ جس میں سامع کی نفسیات کو مدنظر رکھتے ہوئے ابلاغ کیا جاتا ہے۔ اس تحریر میں اگرچہ لغوی مباحث قیمتی ہیں‘ لیکن ایک اوسط درجے کے قاری کے لیے انھیں سمجھنا قدرے مشکل ہوگا۔ بہرحال یہ مجموعہ فرد کے دل میں رجوع الی اللہ کا جذبہ اور اس سے مغفرت کی طلب کا احساس پیدا کرتا ہے۔(سلیم منصورخالد)

سید جعفر حسین ‘ متحدہ عرب امارات

’’عالمی امریکی استعمار ‘ اُمت مسلمہ اور پاکستان‘‘ (مئی ۲۰۰۳ئ) میں ایک جگہ لکھا گیا ہے: ’’فردِواحد کو آئین جیسی مقدس اور محترم دستاویز میں ٹاٹ کا پیوند لگانے کی اجازت نہیں‘‘۔اس سلسلے میں عرض ہے کہ مسلمانوں کا مقدس اور محترم آئین صرف قرآن ہے۔ جمہوری ملک کا آئین کبھی بھی مقدس نہیں ہو سکتا کیونکہ اس میں انسانوں کا عمل دخل شامل ہوتا ہے۔


رانا صابر نظامی ‘ الٰہ آباد

’’امریکی برطانوی مصنوعات کا بائیکاٹ‘‘ (مئی ۲۰۰۳ئ) میں اُمت مسلمہ کے نفع نقصان پر خوب روشنی ڈالی گئی ہے۔ البتہ یہ بائیکاٹ اس وقت کامیاب ہوگا جب متبادل مشروبات و مصنوعات مارکیٹ میں آجائیں۔ ملکی صنعت کاروںکو اس طرف توجہ دینی چاہیے اور اس موقع کو بھرپور استعمال کرنا چاہیے۔مسلمان اس وقت حالت ِ جنگ میں ہیں۔ لہٰذا زندگی کو سادہ سے سادہ بنانے کی ضرورت ہے۔ ترجیحات کا تعین کرکے جن اشیا کے بغیر گزارہ ہو سکتا ہے ان کا استعمال بند کر دیں‘ نیز سامان تعیش کو بالکل ترک کر دیں۔ حکومت بھی آگے بڑھ کر اقدام کرے۔ ’’بغداد کا المیہ: چند سبق‘‘ میں اقبال کا شعر٭(ص ۶۶) غلط شائع ہوگیا ہے۔

  • جی ہاں‘ یہ ہمارا سہو ہے جس پر ہم قارئین سے معذرت خواہ ہیں۔ درست شعر یوں ہے    ؎

ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے        پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے


عتیق الرحمان صدیقی ‘ ہری پور

’’خصائص سیدالانامؐ‘‘ (مئی ۲۰۰۳ئ) بہت موثر مضمون ہے۔ معلومات افزا بھی ہے اور فکرافروز بھی‘ نیز اسلوب نگارش بھی پُرتاثیر ہے۔ البتہ رسالت کی شہادت کے ضمن میں مصنف نے جن روایات کا سہارا لیا ہے استنادی پہلو سے وہ خاصی کمزور ہیں۔ سید سلیمان ندویؒ نے ایسی روایات کی صحت پر   سیرت النبیؐ جلد سوم میں تفصیل سے گفتگو کی ہے۔ ترجمان کا دامن اگر ضعیف روایات سے پاک رہے تو زیادہ اچھا ہے۔


محمد بشیر جمعہ ‘ کراچی

وقت ‘ اللہ تعالیٰ کا ایک بیش بہا عطیہ ہے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر حسن صہیب مراد کے مضامین: (اپریل‘ مئی ۲۰۰۳ئ) نہ صرف دل چسپ ہیں بلکہ ان میں عملی باتوں کے ساتھ فکری رہنمائی بھی ہے‘ نیز تحقیقی لوازمہ ہے اور فلسفیانہ تناظر بھی۔


غلام قادر جتوئی ‘ کراچی

’’بغداد کا المیہ : چندسبق‘‘ اور ’’القدس براستہ بغداد‘‘ (مئی ۲۰۰۳ئ) بے حد معلومات افزا اور حقائق پر مبنی ہیں۔ یہود و نصاریٰ کی اسلام دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ ملت اسلامیہ اور خصوصاً اس کے حکمرانوں کو اگر اب بھی ہوش نہیں آیا‘ اور اسلام کو صرف اپنے مفاد اور مقاصد کے لیے استعمال کرتے رہے تو وہ بھی صدام حسین کی طرح نشانِ عبرت بنا دیے جائیں گے!


عبدالخالق بٹ ‘ کراچی

’’کلام نبویؐ کی کرنیں‘‘ (اپریل ۲۰۰۳ئ) میں لکھا گیا ہے: ’’امیرالمومنین حضرت عمرؓ کو ایک مجوسی نے شہید کیا اور اس نے خودکشی کر لی۔ لیکن خود حضرت عمرؓنے ارشاد فرمایا کہ مدینہ کے مجوسیوں کو کوئی نقصان نہ پہنچایا جائے۔ چنانچہ مدینہ میںکسی مجوسی کی نکسیر تک نہیں پھوٹی‘‘ (ص۳۳)۔ حالانکہ یہ بات خلافِ حقیقت ہے۔ بے شک حضرت عمرؓ نے بدلہ نہ لینے کا حکم دیا تھا مگر حضرت عمرؓکے صاحبزادے حضرت عبیدؓاللہ نے جوشِ انتقام میں حضرت عمرؓکے قاتل کی بیٹی‘ ایرانی سپہ سالار ہرمزان (جو گرفتار ہوکر مدینہ آئے اور پھر اسلام قبول کرکے وہیں بس گئے‘ یہ حضرت عمرؓ کے جنگی مشیر بھی تھے) اور ایک دوسرے مجوسی سمیت تین افراد کو قتل کر دیا تھا۔ بے شک یہ انتقام ایک بیٹے کی طرف سے تھا۔اسلامی حکومت یا اس کا کوئی اہلکار اس کام میں شریک نہیں تھا مگر یہ کہنا کہ ’’کسی کی نکسیر تک نہیں پھوٹی‘‘ خلافِ حقیقت ہے۔


خلیل الرحمان ‘ لالہ موسٰی

گذشتہ ماہ تحریک اسلامی کے روشن ستارے ایک کے بعد ایک جہانِ فانی سے رحلت فرما گئے۔اناللّٰہ وانا الیہ راجعون۔ مولانا گوہر رحمن‘ مولانا مصاحب علی‘ مولانا جان محمد عباسی کے  سانحات ارتحال دل و دماغ پر گہرے زخم لگا گئے۔ آسمانِ دنیا پر روشن کردار و خیالات کے یہ روشن آفتاب بجھ گئے۔ نصف صدی سے انسانیت کے یہ معمار پیہم محنت اور لگن کے ساتھ اسلام‘ تحریک اسلامی اور پاکستان کی خدمت کرتے آ رہے تھے۔ ہم اندازہ نہیں کرسکتے کہ کتنا بڑا نقصان ہوگیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان     رجال صادقون سے راضی ہو۔

محترم قاضی حسین احمد کی تحریر ’’عالمی امریکی استعمار‘ اُمت مسلمہ اور پاکستان‘‘ کی روشنی میں اُمت کی بیداری کا خواب حقیقت بنتا نظر آ رہا ہے۔ پروفیسر خورشیداحمد کے مقالے ’’بغداد کا المیہ: چند سبق‘‘ میں حکمرانوںاور عوام کے لیے یکساں سبق پوشیدہ ہیں۔ ’’اُمت کی تربیت‘‘ نے تو مایوسی کے سایے ختم کر دیے۔ ڈاکٹر حسن صہیب مراد کے مضمون: ’’وقت: اسلامی تصورات‘‘ نے دیرینہ آرزو پوری کر دی کہ دینی مضامین سائنٹفک انداز میں آئیں۔ اس مضمون کا انگریزی ترجمہ ہو تو خاصے کی چیز ہوگی۔


ظفراقبال سعید ‘ کراچی

ترجمان القرآن کے لیے ایک تجویز ہے۔ ایک حصہ تحقیقی‘ تنقیدی‘ فکری‘ علمی ہو۔اس میں اسی زبان میں مضامین ہوں۔ دوسرا حصہ آسان ‘عام فہم‘ دل چسپ اور رواں بیان اور زبان میں ہو۔ اب سوال اٹھے گا کہ ترجمان کا آغاز اور مقصد کیا تھا۔ دو باتیں ہیں: اس وقت دوسرا حصہ خطبات‘ سلامتی کا راستہ وغیرہ کی شکل میں آجاتا تھا۔ دوسرے‘ اس وقت غالباً پہلے حصے کی زیادہ ضرورت اور طلب تھی۔ اب حالات بدل چکے ہیں۔ دوسرے حصے کی بہت زیادہ ضرورت ہے اور آبادی کی طلب بھی ہے۔ اس کا طالب کہاں جائے اور کس طرح آپ کے پاس آئے!


سید فیاض الدین احمد ‘ برطانیہ

ترجمان القرآن کے مندرجات تو سب ہی اپنی اپنی جگہ پر اچھے ہوتے ہی ہیں‘ مگر ’’مدیرکے نام‘‘ آئے ہوئے خطوط کے اقتباسات سے بھی ہوا کے رُخ کا پتا چلتا ہے۔ہماری صفوں میں یہ فیشن چل پڑا ہے کہ ہر بات کی ذمہ داری اوروں پر ڈال دیتے ہیں اور یہ بھی اکثر کہا جاتا ہے کہ ’’ہمارے دشمنوں نے کیا کیا سوچ رکھا ہے اور ان کی کیسی گہری چالیں ہیں‘‘۔ خدارا سوچیے کہ سوا ارب مسلمانوں کوآخر کس نے روک رکھا ہے کہ وہ جذباتیت کی فضا سے نکل کر ٹھوس اور جامع اور دور رس منصوبہ بندی کریں۔ آج اور کل نہیں بلکہ آیندہ دس‘ بیس اور پچاس برسوں کی منصوبہ بندی کریں۔ افسوس کہ اغیار کے تھنک ٹینک جو سوچتے ہیں اور جو ideas وہ ہمیں ’’فروخت‘‘کرتے ہیں ہم اُن پر ردعمل کرنے لگتے ہیں۔ آگے بڑھنے اور پیش بینی کرنے کی ضرورت ہے۔خطرات کی نشان دہی ضروری ہے مگر روشن مستقبل کیسے حاصل ہو سکتا ہے‘ اس کی منزلوں کی نشان دہی اور راستے کے نقوش بھی بتانے کی ضرورت ہے۔ورنہ تو پھر ہم صرف ایک reactive (ردعمل کا مظاہرہ کرنے والی ) قوت بن کررہ جائیں گے حالانکہ مسلمان تو pro-ctive (آگے بڑھ کر اقدام کرنے والا) ہوتا ہے۔ اُس کا دین اُسے ہمیشہ آنے والے دن اور حالات کے لیے تیار کرتا ہے۔

سیرتیں‘ نہ کہ ضابطے

فوجوں کی نقل و حرکت‘ منظم جماعتوں کی سرگرمیاں اور بڑے بڑے اداروں کے کام دیکھ کر عموماً لوگ یہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ اصل چیز جماعتی تنظیم ہے‘ افراد چاہے جیسے بھی ہوں‘ تنظیم اگر مکمل اورمستحکم ہے تو کامیابی اس کے قدم چوم کر رہتی ہے۔ اسی طرح اجتماعی نظامات کی قیل و قال اور مختلف اجتماعی فلسفوں کی کاغذی بحثیں سن کر اور پڑھ کر بہت سے لوگ اس غلط فہمی میں پڑ جاتے ہیں کہ اجتماعی نظام ہی سب کچھ ہے‘ وہ اگر صحیح اور منصفانہ ہو اور پُرزور جدوجہدسے قائم کر دیا جائے تو انسانیت کی فلاح یقینی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف تنظیم‘ تنظیم کا شور برپا ہے اور دوسری طرف اجتماعی نظاموں پر سرگرم علمی و نظری بحثیں ہو رہی ہیں۔ گویا ایک اچھی منظم جماعت کا وجود میں آجانا اور ایک مکمل اجتماعی نظام کو پالنا ہی کامیابی کی ضمانت ہے۔ حالانکہ درحقیقت جماعتی تعلیم ہو یا اجتماعی نظام‘ اس کی صحت اور اس کے بقا و استحکام کا سارا انحصار اُن افرادکی سیرت و کردار پر ہوتا ہے جو اس ظاہری عمارت کے اندر اینٹوں کی طرح جوڑے جاتے ہیں۔ اگرچہ ضبط و نظم کے قاعدے اور اجتماع کے اصول بھی اپنے اندر بہت کچھ اہمیت رکھتے ہیں‘ لیکن سیلابِ حوادث کا اصل مقابلہ اور عملی زندگی کی آزمایشوں کا حقیقی سابقہ قاعدوں اور اُصولوں سے نہیں بلکہ ان کو چلانے والے افراد سے پیش آتا ہے۔ دنیا کی امتحان گاہ میں ضابطے اور اصول نہیں اُترتے‘ افراد اُترتے ہیں اور انھی کی طاقت وہ آخری طاقت ہوتی ہے جس پر امتحان کے فیصلے کا مدار ہوتا ہے۔ جماعتی ضبط خواہ کتنا ہی مکمّل ہو اور اجتماع کے اصول چاہے کتنے ہی صحیح ہوں‘ لیکن اگر انفرادی سیرتیں عمدہ اور پختہ نہ ہوں تو نہ ضابطے اور قاعدے کسی کام آتے ہیں نہ اصول۔ زمانے کا طوفان بندکی ایک ایک اینٹ کوآزماتا ہے اور جہاں چند کمزور اینٹیں اُسے مل جاتی ہیں وہیں سے رخنہ پیدا کر کے اپنا راستہ نکال لیتا ہے‘ پھر نہ انجنیری کے وہ اصول کچھ بنا سکتے ہیں جن سے بند کی تعمیرمیں کام لیا گیا ہو اور نہ وہ بندشیں ہی سیلاب کا منہ پھیرسکتی ہیں جن سے اینٹوں کو جوڑا گیا ہو۔ (’’اشارات‘‘، ابوالاعلیٰ مودودی‘ ترجمان القرآن‘ جلد ۲۲‘ عدد ۶‘ جمادی الآخر ۱۳۶۲ھ‘ جون ۱۹۴۳ئ‘ ص ۳)