مضامین کی فہرست


اگست ۲۰۱۴

جماعت اسلامی جس غرض کے لیے قائم ہوئی ہے، وہ ایک اور صرف ایک ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ دُنیا میں اللہ کے دین کو پوری طرح سے، پوری زندگی میں نافذ کیا جائے۔ اس کے سوا اس جماعت کا اور کوئی مقصد اور نصب العین نہیں ہے۔ جو شخص بھی اس جماعت سے وابستہ ہے، خواہ رکن کی حیثیت سے ہو یا کارکن اور متفق کی حیثیت سے وابستہ ہو، اُسے یہ بات کبھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ جماعت اسلامی کا اصل مقصد دینِ حق کو مکمل طور پر خدا کی زمین پر غالب کرنا ہے۔ اگر ہم سیاسی کام بھی کرتے ہیں تو اقتدار حاصل کرنے یا دوسری سیاسی اغراض کے لیے نہیں کرتے، بلکہ اس غرض کے لیے کرتے ہیں کہ اُن رکاوٹوں کو دُور کیا جائے، جو دینِ حق کے قیام میں مانع ہیں، اور جمہوری ذرائع سے ملک کے اندر اسلامی انقلاب برپا کرنے کا راستہ ہموار ہوسکے۔ جماعت اسلامی نے یہ جو مسلک اختیار کیا ہے کہ وہ کسی قسم کے تشدد اور توڑپھوڑ کے ذریعے سے، کسی قسم کی دہشت پسندانہ تحریک کے ذریعے سے اور کسی قسم کی خفیہ تحریک یاسازشوں کے ذریعے سے ملک میں انقلاب برپا نہیں کرنا چاہتی، بلکہ خالصتاً جمہوری ذرائع سے انقلاب برپا کرنا چاہتی ہے___ یہ مسلک قطعاً کسی کے خوف کی وجہ سے نہیں ہے۔ یہ ہرگز اس بنا پر نہیں ہے کہ ہم کبھی کسی ابتلا کے وقت اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے یہ کہہ سکیں کہ ہم دہشت پسند نہیں ہیں، ہمارے اُوپر تشدد یا قانون شکنی کا الزام نہ لگایا جائے۔ یہ بات ہرگز نہیں ہے۔

اسلامی انقلاب اور اس کی مضبوط جڑیں:

اصل حقیقت یہ ہے کہ ہمارے پیشِ نظر اسلامی انقلاب ہے اور اسلامی انقلاب کسی خطۂ زمین میں اس وقت تک مضبوط جڑوں سے قائم نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہاں کے رہنے والے لوگوں کے خیالات تبدیل نہ کردیے جائیں۔ جب تک لوگوں کے افکار اور ان کے اخلاق و عادات میں تبدیلی نہ لائی جائے، اس وقت تک مضبوط بنیادوں پر کوئی انقلاب برپا نہیں ہوسکتا۔ اگر زبردستی کسی قسم کے تشدد کے ذریعے سے، یا سازشوں اور خفیہ ہتھکنڈوں کے ذریعے سے کوئی انقلاب برپا کردیا جائے، تو اس کو کبھی دوام اور ثبات نصیب نہیں ہوتا اور بالآخر اسے کسی دوسرے انقلاب کے لیے جگہ خالی کرنی پڑتی ہے۔ اسی طرح اگر دھوکے بازیوں اور جھوٹ اور افترا کی مہم کے ساتھ انتخابات جیت کر، یا کسی اور طریقے سے حکومت پر قبضہ کر کے کوئی سیاسی انقلاب برپا کر بھی دیا جائے، تو چاہے وہ کتنی دیر تک قائم رہے، لیکن وہ اُکھڑتا ہے تو اس طرح اُکھڑتا ہے جیسے اس کی کوئی جڑ ہی نہیں تھی۔

چاھے کتنا ھی عرصہ لگے:

ہم اس طرح کے تجربے نہیں کرنا چاہتے۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ چاہے کتنا ہی عرصہ لگ جائے، لیکن پہلے قوم کے ذہن کو تبدیل کیا جائے اور اس کو اس حد تک تیار کیا جائے کہ وہ اسلامی نظام کا بوجھ سہار سکے۔ اسلامی انقلاب کو چلانے کے قابل ہوسکے۔

30سالہ محنت کا ثمر:

لوگ کہتے ہیں کہ جماعت اسلامی نے ۳۰ برس اپنا زور لگایا مگر کیا کرلیا؟ میں کہتا ہوں کہ ہماری ۳۰سالہ شبانہ روز محنت کا ثمر یہ ہے کہ اِس وقت خدا کے فضل سے ملک کے تعلیم یافتہ طبقے کی اکثریت ہماری ہم خیال ہے۔ ملک کے اہلِ دماغ طبقے کے اندر اسلامی افکار اپنا مقام بناچکے ہیں۔ زندگی کے مختلف شعبوں میں، جہاں جہاں بھی تعلیم یافتہ اور صاحب ِ فکر لوگ موجود ہیں، ان کی اکثریت متاثر اور اِن افکار کی قائل ہوچکی ہے۔

خیالات اور اخلاق میں انقلاب:

اب دوسرا کام جو ہمارے سامنے ہے اور فی الحقیقت بہت بڑا کام ہے، وہ عام لوگوں کے خیالات تبدیل کرنا اور ان کے اندر اسلامی فکر اور اسلامی نظام کے بنیادی تصورات کو راسخ کرنا ہے۔ ان کے اندر اخلاقی انقلاب برپا کرنا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک بڑا مشکل کام ہے، لیکن یہ کام ہمیں بہرحال کرنا ہے۔ یہ کام پہلے بھی ہمارے پروگرام میں شامل رہا ہے اور ہم اس سے کبھی غافل نہ تھے۔ ہم اگر اس میدان میں اب تک بڑی کامیابی حاصل نہ کرسکے تو اس کے کچھ اسباب و موانع بھی ہیں، جن سے صرفِ نظر نہ کرنا چاہیے....

آپ کا اپنا معیار درست ھونا چاھیے:

[تاہم] یہ کام آپ صرف اسی صورت میں انجام دے سکتے ہیں، جب کہ آپ کے اپنے اخلاق اُس سانچے میں ڈھلے ہوئے ہوں جو اس نظام کا تقاضا ہے۔ جب آپ اسلام کی طرف دعوت دینے کے لیے اُٹھیں گے تو یہ لوگ دیکھیں گے کہ ہمیں یہ دعوت دینے والے خود کیسے ہیں۔ اگر آپ کے اخلاق اور سیرت و کردار میں کوئی خرابی ہوئی یا آپ کے اندر ایسے لوگ پائے گئے، جو مناصب کے خواہش مند اور ان کے لیے حریص ہوں، یا آپ کے اندر ایسے لوگ موجود ہوئے، جو کسی درجے میں بھی خلاف ورزی کرنے والے ہوں، تو اس صورت میں آپ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔

اس لیے یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلیجیے کہ اسلامی انقلاب کے لیے جدوجہد کرنے کے مخصوص تقاضے ہیں۔ اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد کرتے وقت آپ کو جن چیزوں کو خاص طور پر پیش نظر رکھنا ہوگاوہ یہ ہیں کہ آپ کے اخلاق نہایت بلند ہوں۔ آپ کی زندگی پوری طرح اسلام کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہو۔ آپ کے اندر نظمِ جماعت کی کاملِ اطاعت پائی جاتی ہو۔ آپ جماعت کے دستور کی پوری طرح پابندی کرنے والے ہوں، اور اس کے ساتھ ساتھ آپ عوام الناس کے اندر پھیل کر زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنا ہم خیال بنانے کے لیے ہرلحظہ کوشاں ہوں، اورچاہے یہ کام آپ کو ۵۰سال بھی کرنا پڑے لیکن آپ لگن کے ساتھ اسے کرتے چلے جانے کا مصمم ارادہ رکھتے ہوں، تو ان شاء اللہ کوئی طاقت اس ملک کو اسلامی ملک بننے سے نہیں روک سکے گی۔ (۲۱ مارچ ۱۹۷۴ء کے اجتماعِ ارکان سے خطاب، بحوالہ تحریکی شعور، نعیم صدیقی، ص ۲۹- ۳۱،۳۵)

صالح عنصر کو چھانٹنا اور منظم کرنا:

ہمارے لیے اُمید کی ایک ہی شعاع ہے اور وہ یہ ہے کہ ہماری پوری آبادی بگڑ کر نہیں رہ گئی ہے، بلکہ اس میں کم از کم ۴،۵فی صد لوگ ایسے ضرور موجود ہیں جو اس عام بداخلاقی سے بچے ہوئے ہیں۔ یہ وہ سرمایہ ہے جس کو اصلاح کی ابتداکرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اصلاح کی راہ میں پہلا قدم یہ ہے کہ اس صالح عنصرکو چھانٹ کر منظم کیا جائے۔

ہماری بدقسمتی کی وجہ یہی ہے کہ ہمارے ہاں بدی تو منظم ہے اور پوری باقاعدگی کے ساتھ اپنا کام کر رہی ہے لیکن نیکی منظم نہیں ہے… یہ حالت اب ختم ہونی چاہیے، اگر ہم یہ نہیں چاہتے کہ ہمارا ملک خدا کے عذاب میں مبتلا ہو اور اس عذاب میں نیک و بد سب گرفتار ہوجائیں، تو ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہمارے اندر جو صالح عناصر اس اخلاقی وبا سے بچے رہ گئے ہیں، وہ اب مجتمع اور منظم ہوں اور اجتماعی طاقت سے اس بڑھتے ہوئے فتنے کا مقابلہ کریں، جو تیزی کے ساتھ ہمیں تباہی کی طرف لیے جارہا ہے۔

آپ اس سے نہ گھبرائیں کہ یہ صالح عنصر اس وقت بظاہر بہت ہی مایوس کن اقلیت میں ہے۔ یہی تھوڑے سے لوگ اگر منظم ہوجائیں، اگر ان کا اپنا ذاتی اور اجتماعی رویہ خالص راستی، انصاف، حق پسندی اور خلوص و دیانت پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہو، اور اگر وہ مسائلِ زندگی کا ایک بہتر حل، اور دنیا کے معاملات کو درست طریقے پر چلانے کے لیے ایک اچھا پروگرام بھی رکھتے ہوں، تو یقین جانیے کہ اس منظم نیکی کے مقابلے میں منظم بدی اپنے لشکروں کی کثرت اور اپنے گندے ہتھیاروں کی تیزی کے باوجود شکست کھا کر رہے گی۔ انسانی فطرت شرپسند نہیں ہے۔ اسے دھوکا ضرور دیا جاسکتا ہے اور ایک بڑی حد تک مسخ بھی کیا جاسکتا ہے مگر اس کے اندر بھلائی کی قدر کا جو مادہ خالق نے ودیعت کردیا ہے، اسے بالکل معدوم نہیں کیا جاسکتا....

اگر خیر کے علَم بردار سرے سے میدان میں آئیں ہی نہیں اور ان کی طرف سے عوام الناس کو بھلائی کی راہ پر چلانے کی کوئی کوشش ہی نہ ہو، تو لامحالہ میدان علَم برادرانِ شر ہی کے ہاتھ رہے گا اور وہ عام انسانوں کو اپنی راہ پر کھینچ لے جائیں گے۔ لیکن اگر خیر کے علَم بردار بھی میدان میں موجود ہوں اور وہ اصلاح کی کوشش کا حق ٹھیک ٹھیک ادا کریں، تو عوام الناس پر علَم بردارانِ شر کا اثر زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا، کیونکہ ان دونوں کا مقابلہ آخرکار اخلاق کے میدان میں ہوگا، اور اس میدان میں نیک انسانوں کو بُرے انسان کبھی شکست نہیں دے سکتے۔ سچائی کے مقابلے میں جھوٹ، ایمان داری کے مقابلے میں بے ایمانی اور پاک بازی کے مقابلے میں بدکرداری خواہ کتنا ہی زور لگائے، آخری جیت بہرحال سچائی، پاک بازی اور ایمان داری ہی کی ہوگی۔ دنیا اس قدر بے حس نہیں ہے کہ اچھے اخلاق کی مٹھاس اور بُرے اخلاق کی تلخی کو چکھ لینے کے بعد آخرکار اس کا فیصلہ یہی ہو کہ مٹھاس سے تلخی زیادہ بہتر ہے‘‘۔ (جماعت اسلامی کا مقصد، تاریخ اور لائحہ عمل، ص ۳۶-۳۷)

جماعت اسلامی سے باہر بھی ایسے گروہ اور افراد موجود ہیں جو لادینی کے مخالف اور دینی نظام کے حامی ہیں۔ ہماری پہلے بھی یہ خواہش اور کوشش رہی ہے ، اور اب بھی یہ ہونی چاہیے کہ لادینی کی حامی طاقتوں کے مقابلے میں اِن تمام عناصر کے درمیان اتفاق اور باہمی تعاون ہو، اور ان کی قوتیں ایک دوسرے کی مزاحمت میں صرف ہوکر مخالف ِ دین عناصر کے لیے مددگار    نہ بنیں۔یہی کوشش ہمیں آیندہ انتخابات میں بھی کرنی ہے تاکہ آیندہ اسمبلیوں میں اسلامی نقطۂ نظر کی وکالت کرنے کے لیے ہماری پارلیمنٹری پارٹی تنہا نہ ہو بلکہ ایک اچھی خاصی تعداد دوسرے ایسے لوگوں کی بھی موجود رہے جو اس خدمت میں اُس کا ساتھ دینے والے ہوں۔ اس لیے ہم دل سے یہ چاہیں گے کہ جن حلقوں میں ہم براہِ راست انتخابی مقابلہ نہیں کرپا رہے ہیں وہاں ہماری طاقت بے کار ضائع ہونے کے بجاے کسی حامی ٔ دین گروہ یا فرد کے حق میں استعمال ہو....

میرے نزدیک کوئی گروہ اسی زمانے میں نہیں، کسی زمانے میں بھی جاہلیت سے لڑکر اسلامی نظامِ زندگی قائم کرنے کے قابل نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ تجربات سے سبق سیکھ کر، اور حالات کو  سمجھ کر اپنی پالیسیوں میں ایسا ردّ وبدل نہ کرتا رہے جس کی حدودِ شرع کے اندر گنجایش ہو۔ آپ کو اگر فی الواقع یہ کام کرنا ہے اور صرف تبلیغ کا فرض انجام دے کر نہیں رہ جانا ہے تو اپنے اُوپر اُن پابندیوں کو کافی سمجھیے جو خدا اور رسولؐ کی شریعت نے آپ پر عائد کی ہیں اور اپنی طرف سے کچھ زائد پابندیاں عائد نہ کرلیجیے۔ شریعت پالیسی کے جن تغیرات کی وسعت عطا کرتی ہو، اور عملی ضروریات جن کی متقاضی بھی ہوں، ان سے صرف اس بناپر اجتناب کرنا کہ پہلے ہم اس سے مختلف کوئی پالیسی بناچکے ہیں، ایک بے جا جمود ہے۔ اس جمود کو اختیار کرکے آپ ’اصول پرستی‘ کا فخر کرنا چاہیں تو کرلیں، مگر یہ حصولِ مقصد کی راہ میں چٹان بن کر کھڑا ہوجائے گا، اور اس چٹان کو کھڑا کرنے کے آپ خود ذمہ دار ہوں گے، کیونکہ اللہ اور اس کے رسولؐ نے اُسے کھڑا نہیں کیا ہے۔(تحریک اسلامی کا آیندہ لائحۂ عمل، ص ۲۳۴-۲۳۶)

جماعت کے کارکنوں کو یہ بات نگاہ میں رکھنی چاہیے کہ ہمیں ہرگوشۂ زندگی میں اسلام کے مطابق پورے معاشرے کی اصلاح کرنی ہے اور اسی پروگرام کو بتدریج ہمہ گیر اصلاح کا پروگرام بنادینا ہے۔ کارکنوں کو اس امر کی کوشش بھی کرنی چاہیے کہ وہ اصلاحِ معاشرہ کے اس کام میں اپنے اپنے علاقوں کے تمام اسلام پسند اور اصلاح پسند عناصر کا تعاون حاصل کریں اور جو کوئی جس حد تک بھی ساتھ دے سکتا ہو اسے اس عام بھلائی کی خدمت میں شریک کریں۔(ایضاً، ص ۲۴)

بلاشبہہ اس کائنات کے ذرے ذرے میں اللہ تعالیٰ کی آیات اور نشانیاں بکھری پڑی ہیں، اور یہ نشانیاں ہیں ہی اس لیے کہ ان پر غوروفکر کیا جائے اور ان کی روشنی میں اپنا رویہ اور عمل مرتب کیا جائے۔ مگر افسوس کہ انسانوں کی عظیم اکثریت ان نشانیوں پر کوئی توجہ نہیں دیتی اور اندھوں اور بہروں کی طرح اللہ کی روشن نشانیوں سے معاملہ کرتی ہے۔ قرآن بار بار انسانوں کو  اللہ کی ان نشانیوں پر غور کرنے اور کھلی آنکھوں اور کھلے دماغ سے ان سے روشنی حاصل کرنے کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَ یُبَیِّنُ اٰیٰتِہٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّھُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ o(البقرہ۲:۲۲۱) ’’اور وہ اپنی نشانیاں واضح طور پر لوگوں کے سامنے بیان کرتا ہے، توقع ہے کہ وہ سبق سیکھیں‘‘۔ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ o(النحل ۱۶:۱۱) ’’اس میں ایک بڑی نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو غوروفکر کرتے ہیں‘‘۔  اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوْمٍ یَّذَّکَّرُوْنَo(النحل ۱۶:۱۳) ’’ان میں ضرور نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو سبق حاصل کرنے والے ہیں‘‘۔

ملت ِاسلامیہ پاکستان کے لیے ۱۴؍اگست کا دن بھی اللہ کی ایک نشانی ہے۔ صرف سات سال کی بھرپور اور پُرامن جدوجہد کے نتیجے میں دنیا کے سیاسی نقشے پر، اور وہ بھی ایک ایسے سیاسی نقشے پر جس کے سبھی نقش مغربی تہذیب، مادیت، سیکولرزم اور لبرلزم کے رنگوں سے آلودہ تھے، عقیدے اور نظریے کی بنیاد پر ایک ریاست کا قیام ایک تاریخی کرشمے سے کم نہ تھا۔ تحریکِ پاکستان کی اصل بنیاد اور روح ہی یہ تھی کہ برعظیم ہند میں مسلمان محض دوسری اکثریت نہیں بلکہ ایک نظریاتی قوم ہیں۔ ان کا مقصد صرف یورپی استعمار سے آزادی ہی نہیں، توحید اور رسالت ِ محمدیؐ کی بنیاد پر ایک نئے سیاسی اور اجتماعی نظام کا قیام ہے۔ جو بہرحال وقت کے غالب تصورات سے بغاوت اور ایک نئے نظریاتی مستقبل کی تعمیر کے عزم سے عبارت تھا۔ آزادی کا حصول اس اصل مقصد کے لیے تھا۔ ان دونوں میں لازم و ملزوم کا رشتہ تھا، جسے علامہ محمد اقبال نے اپنے ۱۹۳۰ء کے خطبے اور پھر قائداعظم محمدعلی جناح کے نام اپنے خطوط میں بہت صاف الفاظ میں بیان کردیا تھا:

  • سیاسی مطمح نظر کی حیثیت سے مسلمانانِ ہند، ملک میں جداگانہ سیاسی وجود رکھتے ہیں۔ یہ انتہائی ضروری ہے کہ اندرون اور بیرونِ ہند دنیا کو بتا دیا جائے کہ ملک میں صرف اقتصادی مسئلہ ہی تنہا ایک مسئلہ نہیں ہے، اسلامی نقطۂ نگاہ سے ثقافتی مسئلہ ہندستان کے مسلمانوں کے لیے اپنے اندر زیادہ اہم نتائج رکھتا ہے۔
  • اسلامی قانون کے طویل و عمیق مطالعے کے بعد مَیں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر اس نظامِ قانون کو اچھی طرح سمجھ کر نافذ کیا جائے، تو ہرشخص کے لیے کم از کم حقِ معاش محفوظ ہوجاتا ہے، لیکن شریعت اسلام کا نفاذ اور ارتقا ایک آزاد مسلم ریاست یا ریاستوں کے بغیر اس ملک میں ناممکن ہے۔ سالہا سال سے میرا یہی عقیدہ رہا ہے۔
  • مسلم ہندوستان کے ان مسائل کا حل آسان طور پر کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ملک کو ایک یا ایک سے زیادہ مسلم ریاستوں میں تقسیم کیا جائے، جہاں پر مسلمانوں کی واضح اکثریت ہو۔ کیا آپ کی راے میں اس مطالبے کا وقت نہیں آپہنچا؟

انگریزوں سے آزادی اور حصولِ ملک براے قیامِ نظامِ اسلامی‘ ہی تحریکِ پاکستان کی امتیازی خصوصیت ہے اور قائداعظم کی قیادت میں جو تاریخی کامیابی قیامِ پاکستان کی شکل میں حاصل ہوئی، اس کا سہرا اسی تصور اور اس تصور کی خاطر برعظیم کے مسلمانوں کی جدوجہد اور قربانیوں کے سر ہے۔ ۱۴؍اگست کی اصل اہمیت ہی یہ ہے کہ یہ تاریخ ہرسال پوری قوم کو تحریکِ پاکستان کے اصل مقصد اور ہدف و منزل کی یاددہانی کراتی ہے، اور ہمیں اس امر پر سوچنے کی دعوت دیتی ہے کہ  سات سال میں کیا کچھ اس قوم نے حاصل کرلیا تھا پھر آزادی کے چھے عشروں میں اس اصل مقصد کے باب میں غفلت اور بے وفائی کا راستہ اختیار کیا، تو اب ٹامک ٹوئیاں مارنے کے نتیجے میں  موت و حیات کی کش مکش میں مبتلا ہیں، لیکن افسوس تو یہ ہے کہ اللہ کی اس نشانی سے سبق سیکھتے ہوئے راہِ راست کی طرف آنے کی کوشش اور جدوجہد نہیں کررہے۔

آزادی کی ۶۸ویں سالگرہ کے موقعے پر ہم قوم کو متنبہ کرنا چاہتے ہیں کہ اس عظیم موقعے کو محض چند روایتی اور نمایشی کارروائیوں کی نذر کرنا ایک سنگین مذاق اور بڑا المیہ ہوگا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پوری دیانت داری کے ساتھ اس عظیم دن کی اصل نوعیت کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ پھر اس سبق اور پیغام کو حرزِ جاں بنایا جائے جس کی نشانی (آیت) ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء، ۲۷رمضان المبارک ۱۳۶۶ھ ہے۔

 تحریکِ پاکستان کی اساس

پاکستان کا قیام ایک تاریخ ساز واقعہ ہے۔ اس ملک کے قیام کی جدوجہد جہاں زوال پذیر برطانوی استعمار اور اُبھرتے ہوئے ہندو سامراج کی گرفت سے آزادی کی تحریک تھی، وہیں اس سے زیادہ یہ ایک نظریاتی اور تہذیبی احیا کی تحریک تھی۔ اس کا اصل مقصد برعظیم کے ان علاقوں میں جہاں مسلمانوں کو اکثریت حاصل ہے، وہاں کے لوگوں کو اپنے دین، ایمان، تصورِ حیات، روایات اور ملّی عزائم کی روشنی میں آزاد فضا میں ایک روشن مستقبل کی تعمیر کا موقع فراہم کرنا تھا۔ سیاسی آزادی اور دینی اور تہذیبی تشکیلِ نو کا مقصد اور عزمِ تحریکِ پاکستان کے دو اہداف تھے، جو ایک ہی تصویر کے دو رُخ کی حیثیت رکھتے ہیں___ ان دونوں کا ناقابلِ انقطاع تعلق اسلامیانِ پاکستان کی قوت کا راز ہے اور ان میں تفریق اور امتیاز بگاڑ اور خرابی کی اصل وجہ ہے۔

تحریکِ پاکستان کا یہ کارنامہ ہے کہ اس نے برعظیم کے مسلمانوں کو ان کی قومی شناخت دی اور اس شناخت کی بنیاد پر ایک آزاد مملکت کے قیام کے لیے ان کو سرگرم اور متحرک کردیا، جس کا نتیجہ تھا کہ سات سال کی مختصر مدت میں برعظیم کے دس کروڑ مسلمانوں نے ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کے مانند اپنی آزادی اور دین کے تحفظ کی جنگ لڑی اور بلالحاظ اس کے کہ پاکستان کے قیام سے کس کو کیا فائدہ پہنچے گا اور کس کو کیا قیمت ادا کرنا پڑے گی، ایک نظریاتی جنگ کے نتیجے میں ایک آزاد ملک قائم کیا۔

تحریکِ پاکستان کی بنیاد اسلام کا تصورِ قومیت ہے جس کی روشنی میں قوم کی آزادی اور آزادی کے سایے میں قوم کی اجتماعی زندگی کی تشکیل نو کے لیے مملکت کا حصول عمل میں آیا۔ لیکن پاکستان کے ساتھ یہ المیہ رُونما ہوا کہ وہ قوم جسے مختصر ترین وقت میں یہ مملکت ِ خداداد ملی تھی، اسی قوم کے اہلِ حل و عقد اسلامی قومیت کی بنیاد پر ملک کی تعمیر سے غافل ہوگئے۔ نظریاتی شناخت اور بنیاد سے ہٹ کر ملک کو ’ترقی یافتہ‘ بنانے کی سعی لاحاصل میں ملک کا حلیہ ہی بگاڑ کر رکھ دیا۔ جس کانتیجہ ہے کہ صرف ۲۴برس بعد ۱۹۷۱ء میں ملک دولخت بھی ہوگیا اور آج جو کچھ موجود ہے، اس کی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ آج جس حقیقت کے اِدراک اور اقرار کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان کا قیام اور پاکستان کے وجود،بقا اور ترقی کا انحصار اس نظریے پر ہے، جو تحریک کی روح اور کارفرما قوت تھی۔ قائداعظم نے ایک جملے میں اس حقیقت کو بیان کردیا تھا:

اسلام ہمارا بنیادی اصول اور حقیقی سہارا ہے۔ ہم ایک ہیں اور ہمیں ایک قوم کے طور پر آگے بڑھنا ہے۔ تب ہی ہم پاکستان کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوں گے۔

لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ قائد کے اس انتباہ کو ہم نے بحیثیت قوم نظرانداز کیا۔

۱۴؍اگست ایک عظیم یاددہانی ہے، اور یہ ایک انتباہ بھی ہے کہ اگر ملک اور نظریے کے رشتے کو نظرانداز کیا گیا تو ملک کا وجود بھی معرضِ خطر میں ہوگا (یوں تو اس وقت بھی معرضِ خطر ہی میں ہے) ۔ ہم قیامِ پاکستان کی ۶۸ویں سالگرہ کے موقعے پر اسی بنیادی نکتے پر قوم کو غوروفکر کی دعوت دیتے ہیں کہ ملک آج  جن مشکلات میں پھنسا ہوا ہے، ان سے نکلنے کے لیے اس بنیاد کی طرف لوٹ کر آنے کے سوا کوئی راستہ نہیں، جو تحریکِ پاکستان کی اساس ہے، جو ہماری قوت کا اصل منبع ہے، جس کے ذریعے ہم یہ ملک حاصل کرسکے اور جس کے بغیر ہم اس کو نہ قائم رکھ سکتے ہیں اور نہ ترقی دے سکتے ہیں۔

آج سب سے بڑی ضرورت قوم اور ملک کے اس تعلق کو سمجھنے اور اس پر سختی سے قائم رہنے میں ہے کہ اللہ کی سنت یہ بھی ہے کہ اگر ایک فرد یا قوم اس کی نعمتوں پر شکر کا رویہ اختیار کرتے ہیں تو اس کے انعامات میں بیش بہا اضافہ ہوتا ہے اور اگر وہ کفرانِ نعمت کرتے ہیں تو پھر اس کی پکڑ بھی بہت ہی شدید ہے___ اور ناشکری کے نتیجے میں جو بگاڑ اور تباہی رُونما ہوتی ہے، اس کی ذمہ داری صرف اور صرف فرد اور قوم کے اپنے رویے اور کرتوتوں پر ہوتی ہے:

وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّکُمْ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ وَ لَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ  لَشَدِیْدٌ o (ابراہیم ۱۴:۷) اور یاد رکھو، تمھارے رب نے خبردار کردیا تھا کہ اگر تم شکرگزار ہو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا اور اگر کفرانِ نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے۔

اور یاد رکھو:

وَ مَا کُنَّا مُھْلِکِی الْقُرٰٓی اِلَّا وَ اَھْلُھَا ظٰلِمُوْنَ o(القصص ۲۸:۵۹) اور ہم بستیوں کو ہلاک کرنے والے نہ تھے جب تک کہ ان کے رہنے والے ظالم نہ ہوجائیں۔

 قیامِ پاکستان کے اصل محرکات

جیساکہ ہم نے عرض کیا پاکستان کا قیام ایک تاریخ ساز واقعہ ہے۔ جس میں ہمیں آزادی کی نعمت حاصل ہونے کے ساتھ یہ موقع بھی ملا کہ آزاد فضا میں اپنے تصورات کے مطابق نئی زندگی تعمیر کریں۔ لیکن افسوس کہ ابتدائی چند برسوں کے بعد ہی جو عناصر قیادت پر قابض ہوگئے تھے، انھوں نے نہ صرف ان مقاصد کو فراموش کیا بلکہ ملک کو انھی باطل نظریات اور مفادات کے حصول کی بھٹی میں جھونک دیا جن سے نکلنے کے لیے تحریکِ پاکستان برپا کی گئی تھی۔ وہ یک سوئی جو تحریکِ پاکستان کا طرئہ امتیاز تھی ختم ہوگئی اور ملک اندرونی کش مکش اور بیرونی سازشوں کی آماج گاہ بن گیا اور آج ہماری آزادی بھی معرضِ خطر میں ہے اور ملک بھی معاشی، سیاسی، ثقافتی، اخلاقی غرض ہر اعتبار سے تنزل کا شکار نظر آتا ہے۔

۱۴؍اگست ہمیں دعوت دے رہا ہے کہ ان اصل مقاصد کی نشان دہی کریں جو قیامِ پاکستان کی جدوجہد کا محرک اور اس تحریک کی امتیازی خصوصیت تھے اور پھر اس بگاڑ کی نشان دہی کریں جس نے ہمیں تباہی کے کنارے پر پہنچا دیا ہے۔ اس تجزیے کی روشنی میں ایک بار پھر اس راستے اور منزل کی نشان دہی کریں جو اس تباہی سے بچنے اور اصل مقاصد کے حصول کی طرف پیش قدمی کا راستہ ہے۔

تحریکِ پاکستان کا پہلا اور سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اس کے ذریعے دورِحاضر میں برعظیم کے مسلمانوں نے اپنی خودی کو پہچانا اور اس طرح اپنے حقیقی وجود کو پایا۔ تحریکِ پاکستان نے پاکستانی قوم کو اس کا اصل تشخص دیا تھا۔ انڈین نیشنل کانگریس اور سامراجی قوتیں جو خطرناک کھیل کھیل رہی تھیں، وہ ناکام ہوئیں اور مسلمانوں نے اپنے اصل تشخص کی بقا اور استحکام کے لیے جان کی بازی لگادی۔ انھوں نے بھی جن کو اس جدوجہد کے نتیجے میں سیاسی آزادی ملی اور انھوں نے بھی جو جانتے تھے کہ سامراج کے رخصت ہونے کے بعد وہ خود حقیقی آزادی کی روشن صبح سے محروم رہیں گے۔ انھیں یہ یقین تھا کہ مسلمانوں کی ایک ایسی آزاد مملکت قائم ہوگی، جو اسلام کا مظہر اور سارے مظلوم انسانوں کا سہارا ہوگی۔ نظریاتی وطن کے قیام کی اس کامیاب جدوجہد نے مغرب کی لادینی قومیت کے بت کو پاش پاش کردیا اور ملت اسلامیہ پاک و ہند نے اقبال کا ہم زباں ہوکر انسانیت کے لیے ایک نئے روح پرور تشخص کی یافت سے ایک نئے دور کا آغاز کیا:

اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر

خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیؐ

ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار

قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری

دامن دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں

اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی

قیامِ پاکستان کا یہی وہ پہلو ہے کہ ۱۹۴۷ء کے بعد پوری مسلم دنیا میں اسلامی ریاست اور اسلامی تہذیب کے احیا کی لہریں بار بار اُٹھ رہی ہیں اور سارے نشیب و فراز کے باوجود یہ سلسلہ جاری ہے اور ان شاء اللہ جاری رہے گا۔

قیامِ پاکستان کا دوسرا اہم پہلو یہ تھا کہ اس کے نتیجے میں ایک طرف اہلِ پاکستان نے غلامی کی زنجیریں توڑیں، دوسری طرف برعظیم کے مسلمانوں کو امن کی جگہ میسر آئی۔ برعظیم کے مسلمانوں کے ایک بڑی تعداد ’’ہے ترکِ وطن سنت محبوب الٰہی‘‘ پر عمل کرتے ہوئے اپنے گھربار چھوڑ کر اس نئے ملک کی تعمیر کے لیے سرگرمِ عمل ہوگئی۔ جس جذبے اور جن عزائم سے یہ ترک و اختیار،  واقع ہوئے، وہ ہماری تاریخ کا نہایت ایمان افروز اور روشن باب ہے۔ یہی وہ جذبہ تھا، جس نے پاکستان کو ان اولیں ایام میں ایسے تمام خطرات کا مقابلہ کرنے کے لائق بنایا، جو اس نوزائیدہ ملک کو درپیش تھے اور جن حوادث کا ہدف اس غنچے کو پھول بننے سے پہلے ہی مَسل دینا تھا۔ آزادی خود ایک بہت بڑی نعمت ہے اور اس کا پورا اِدراک انھی لوگوں کو ہوسکتا ہے، جنھوں نے غلامی کی تاریک رات کی صعوبتوں کو برداشت کیا ہو۔ آزادی کی شکل میں جو نعمت آج اہلِ پاکستان کو حاصل ہے،  وہ ہر دوسری نعمت سے زیادہ قیمتی اور حیات افروز ہے۔

اس تحریک کا تیسرا پہلو یہ تھا کہ یہ ایک عوامی اور جمہوری تحریک تھی۔ قائداعظمؒ نے مسلمان قوم کو بیداراور منظم کیا اور سب کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر کے عوامی قوت اور تائید کے ذریعے  سات سال کی قلیل مدت میں وہ کام کردکھایا، جسے دوسرے، سالہا سال میں بھی انجام نہ دے سکے۔ تحریکِ پاکستان ایک عوامی تحریک تھی۔ جن کی نظر تحریکِ پاکستان کی تاریخ پر ہے، وہ جانتے ہیں کہ سیاسی اشرافیہ (elites) نے کس کس طرح اس تحریک کاراستہ روکنے کے لیے سازشوں کے جال بُنے۔ لیکن اللہ کے فضل سے قائداعظمؒ کی قیادت اور عوام کی تائید و اعانت نے اس تحریک کو آزادی کی منزل سے ہم کنار کیا۔

اس تحریک کاچوتھا پہلو یہ تھا کہ قیامِ پاکستان ،اس تحریک کی آخری منزل نہیں تھا بلکہ پہلا سنگِ میل تھا۔ اصل ہدف ایک ایسے معاشرے اور ریاست کا قیام تھا، جو اللہ اور اس کے رسولؐ کی سچی وفادار اور ان تعلیمات کی آئینہ دار ہو، جو انھوں نے انسانیت کو عطا کی ہیں۔ جس میں اخلاقی اقدار کو بالادستی حاصل ہو، جہاںفرد کے حقوق کی پوری حفاظت ہو، جہاں ہر مرد اور ہرعورت کی جان، مال اور آبرو محفوظ ہو۔ جہاں تعلیم کی روشنی سے بلاتخصیص مذہب و عقیدہ ہرفرد نورحاصل کرسکے۔ جہاں قانون کی حکمرانی ہو۔ جہاں حلال رزق اور معاشی ترقی کے مواقع تمام انسانوں کو حاصل ہوں۔ جہاں عدلِ اجتماعی کا بول بالا ہو اور جہاں ریاست اور اس کے کارپرداز عوام کے خادم ہوں۔ اسلام اور اس کے دیے ہوئے جمہوری اور عادلانہ نظام کا یہ تصور تھا، جس نے مسلمانوں کو اس تحریک میں پروانہ وار شریک کیا تھا اور وہ برملا کہتے تھے ہمیں ایک بار پھر اس دور کا احیا کرنا ہے، جس کی مثال اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے خلفاے راشدینؓ نے قائم کی تھی۔

آیئے، قیامِ پاکستان کے ان مقاصد اور عزائم کے پس منظر میں اپنی قومی زندگی کے اس نئے سال کے آغاز پر اس امر کاجائزہ لیں کہ پاکستانی قوم اور اس کی قیادتوں نے کہاں تک ان اہداف کی طرف پیش قدمی کی اور ملک عزیز کو آج کون سے مسائل، خطرات اور چیلنج درپیش ہیں۔ نیز ان حالات میں اصل منزل کی طرف پیش رفت کے لیے صحیح حکمت عملی اور لائحہ عمل کیا ہے۔

ملک کا اصل المیہ

تحریکِ پاکستان اور تاریخ ِ پاکستان کے معروضی تجزیے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ قیامِ پاکستان کا اصل سہرا اللہ تعالیٰ کے فضلِ خاص کے بعد اگر کسی کے سر جاتا ہے تو وہ قائداعظم کی فراست و قیادت اور مسلمان عوام کا جذبہ اور قربانی ہے۔ آزادی کے فوراً بعد ان کی بیماری اور وفات نے ایک ایسی صورت حال پیدا کردی، جس میں وہ کھوٹے سکے، جو ان کے گرد جمع تھے، اقتدار پر قبضہ جماکر ریاست کی مشینری کو بالکل دوسرے ہی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے لیے میدان میں کود پڑے۔

پہلے وزیراعظم کو گولی کا نشانہ بنا کر قومی منظر سے ہٹا دیا گیا، دوسرے وزیراعظم کو برطرفی کی تلوار کے بل پر نکال باہر کیا گیا اور ان کے مخلص ساتھیوں کو سازشوں کے ذریعے غیر مؤثر بنادیاگیا، اور چند ہی برسوں میں بساط سیاست ایسی اُلٹی کہ اصل نقشہ درہم برہم کرکے یہ مخصوص ٹولہ اقتدار کے ہرمیدان پر قابض ہوگیا۔قانون اور ضابطے کا احترام ختم ہوگیا۔ منتخب دستور ساز اسمبلی کو بار بار توڑ دیا گیا۔ انتظامیہ اور پولیس کو سیاسی قیادت نے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا، جو بالآخر انھی کے ہاتھوں اسیر ہوکر رہ گئی۔ فوج کو بھی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا اور پھر فوج نے اپنے لیے سیاسی کردار حاصل کرلیا۔ عدلیہ نے کچھ مزاحمت کی، لیکن اسے بھی زیردام لانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی۔

 نوسال بعد پہلا دستور بنا، جسے دوہی سال کے بعد توڑ دیا گیا، اور دستور شکنی کی ایک ایسی ریت چل پڑی، جس کے مذموم اثرات سے آج بھی نجات ممکن نہیں۔ جس احساس تشخص نے قوم کو جوڑا تھا، اس پر ہر طرف سے تیشہ چلایا گیا، لادینی نظریات، علاقائیت، لسانیت، برادری کا تعصب، قبائلیت، غرض کون سا تیشہ ہے جو اس پر نہ چلایا گیا ہو۔

آزادی کے بعد۲۳سال تک بالغ راے دہی کی بنیاد پر انتخاب نہ کرائے گئے اور پھر دسمبر ۱۹۷۰ء میں انتخابات منعقد ہوئے تو وہ دھونس، دھاندلی اور بدعنوانی کا شاہ کار رہے کہ عوامی مینڈیٹ ایک مذاق بن گیا۔ سیاسی جماعتوں میں ذاتی بادشاہت، خاندانی قیادت اور علاقائی اور لسانی تعصبات کا غلبہ رہا اور حقیقی جمہوریت کے فروغ کا ہر راستہ بند کردیا گیا۔ جس کے نتیجے میں علاقائی تعصبات نے سیاست کو آلودہ کیا اور قومی سیاست کی گاڑی پٹڑی سے اُتر گئی۔ مغربی اور ہندو تہذیب کو رواج دینے کی دانستہ کوشش کی گئی۔

معاشی ترقی کا وہ راستہ اختیار کیا گیا جس نے ملک کو ایک طرف طبقاتی تصادم میں مبتلا کیا تو دوسری طرف مغرب کے سودی سامراج کے چنگل میں اس طرح گرفتار کردیا کہ آج ملک اندرونی اور بیرونی قرضوں کے پہاڑ جیسے بوجھ تلے سسک رہاہے۔ بیرونی قرضے ۶۰؍ارب ڈالر کی خبر لارہے ہیں اور قرضوں کا کُل حجم ۱۵کھرب روپے سے متجاوز ہے۔ وفاقی حکومت کے کُل سالانہ بجٹ کا تقریباً ایک تہائی صرف سود اور قرضوں کی ادایگی کی نذر ہورہا ہے اور ملک کا ہر بچہ، جوان اور بوڑھا ۸۰ ہزار روپے کا مقروض ہے۔

پاکستان کا اصل المیہ ہی یہ ہے کہ اصل اقتدار اور اختیار آج تک عوام کی طرف منتقل نہیں ہوا، اور سارے وسائل پر ایک طبقہ قابض ہے جس کا تعلق سیاسی، انتظامی اور عسکری اشرافیہ سے ہے اور جو باری باری اقتدار پر براجمان ہوکر ملک کے سفید و سیاہ کا مالک بنا ہوا ہے۔ قومی دولت کا ۸۰فی صد آبادی کے اُوپر کے ۱۰ فی صد کے پاس ہے۔ ۱۰/۱۲ہزار بڑے خاندان ہیں جو زراعت، صنعت اور تجارت پر مکمل تصرف رکھتے ہیں اور یہی خاندان سیاست پر بھی چھائے ہوئے ہیں۔ پارٹی خواہ کوئی بھی ہو، سول بیوروکریسی اور عسکری اسٹیبلشمنٹ بھی اس گٹھ جوڑ کا حصہ ہے۔

دستور موجود ہے مگر اس کا بڑا حصہ عملاً معطل ہے۔ قانون صرف کتاب قانون کی ’زینت‘ ہے، اور عملاً قانون، ضابطے اور میرٹ کا کوئی احترام نہیں۔ پولیس سیاسی قیادت کی آلۂ کار بنی ہوئی ہے۔ ہرسمت کرپشن کا دور دورہ ہے ۔ عوام کے مسائل اور مشکلات کا کسی کو درد نہیں اور نہ کوئی ان کا پُرسانِ حال ہے۔ عدالت، خصوصیت سے اعلیٰ عدالت نے کچھ آزادی حاصل کی ہے مگر اس کے فیصلوں اور احکام کو بھی کھلے بندوں نظرانداز کیا جاتا ہے، یا عملاً انھیں غیرمؤثر (frustrate) کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔ مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام کی زندگی اجیرن کررکھی ہے۔ بجلی،گیس اور پانی کے بحران نے تباہی مچائی ہوئی ہے اور لاقانونیت اور دہشت گردی کے سبب عوام کی جان، مال اور عزت، سب معرضِ خطر میں ہیں۔

اندرونی انتشار اور بیرونی مداخلت

ان حالات کو اور بھی سنگین بنادینے والے چند پہلو اور بھی ہیں، جن کا اِدراک ضروری ہے۔

ان میں سب سے اہم محاذ یہ ہے کہ ملک کے معاملات میں بیرونی قوتوں اور خصوصیت سے امریکا اور مغربی اقوام کی دراندازیاں ہیں۔ یہ سلسلہ توملک غلام محمد اور جنرل ایوب خان کے دور ہی سے شروع ہوگیا تھا مگر جنرل پرویز مشرف اور آصف علی زرداری کے اَدوار میں یہ اپنے عروج کو پہنچ گیا اور یہی اُلٹا سفر آج بھی جاری ہے۔ ویسے تو قوم کو اس کا پورا پورا اِدراک تھا مگر  وکی لیکس، ریمنڈ ڈیوس، ایبٹ آباد کے واقعے اور شکیل آفریدی کے اسکینڈل، این آر او اور پھر جنرل مشرف کے صدارت سے استعفے کے ڈرامے، فوجی سلامی کے ساتھ رخصتی، اور پھر بیرونِ ملک روانگی کے سلسلے میں جو تفصیلات سامنے آرہی ہیں اور ان میں جو کردار سیاسی اور عسکری قیادت کے ساتھ امریکا اور برطانیہ کے سفارت کاروں کا سامنے آیا ہے، اس نے تو ملک کی آزادی اور ہماری سیاسی قسمت کی تخریب و تعمیر میں بیرونی کردار کا پردہ بالکل ہی چاک کر کے رکھ دیا ہے۔

معاشی اعتبار سے بھی انھی قوتوں کی گرفت ہماری معیشت پر مضبوط تر ہورہی ہے اور سیاسی اعتبار سے بھی اندرونی معاملات کی باگ ڈور انھی کے ہاتھوں میں نظر آرہی ہے۔ سول اور فوجی تعلقات کے جو نشیب و فراز قوم نے رواں سال میں دیکھے ہیں اور دیکھ رہی ہے، معاشی پالیسیوں کی صورت گری جس طرح عالمی بنک اور عالمی مالیاتی فنڈ کے اشاروں پر کی جارہی ہے اور سیاسی اُفق پر تبدیلیوں کا جو کھیل کھیلا جا رہا ہے، اس نے آزادی اور قومی خودمختاری کی حقیقت کا بھانڈا پھوڑ کر رکھ دیا ہے۔

اس پر مستزاد وہ نظریاتی انتشار ہے جو ملک و قوم اور خصوصیت سے نئی نسلوں پر مسلط کیا جارہا ہے۔ پاکستان کا مطلب کیا؟ بھی آج متنازع بنایا جارہا ہے۔ قراردادِ مقاصد ہدف تنقید و ملامت ٹھیری ہے۔ تاریخ کے قتل کا ہوّا دکھا کر تاریخ کو مسخ کیا جا رہا ہے۔ ریاست اور مذہب کے تعلق کو زیربحث لایا جا رہا ہے۔

ایک فی صد سے بھی بہت کم تعداد رکھنے والا سیکولر اور لبرل طبقہ ہے جو میڈیا پر قابض ہے، اور آزادیِ فکر کے نام پر قومی زندگی کے مسلمات کو چیلنج کر رہا ہے اور ملک و قوم میں فکری انتشار اور خلفشار پیدا کرنے اور بھارت اور مغربی اقوام کے سامراجی ایجنڈے کو فروغ دینے میں مصروف ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے ان ۶۷برسوں میں جو طبقہ حکومت، معیشت اور سیکورٹی کے نظام پر قابض رہا ہے وہ یہی سیکولر گروہ ہے جو کبھی سوشلزم کے نام پر، کبھی سرمایہ داری کے نام پر،  اور کبھی روشن خیال جدیدیت کے نام پر حکمران رہا ہے اور سارے بگاڑ کا سبب رہا ہے۔ ملّا کو گالی دینا اور ہر خرابی کو ضیاء الحق کے سر تھوپنا تو اس کا وتیرا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ غلام محمد کے دور سے لے کر مشرف اور زرداری کے دور تک اقتدار اگر کسی طبقے کے ہاتھوں میں رہا ہے تو وہ یہی سیکولر مراعات یافتہ اشرافیہ ہے۔ سول دور ہو یا عسکری ، اس دوران میں یہی سیکولر طبقہ حکمران رہا ہے ۔

جنرل ضیاء الحق کے دور میں کچھ چیزیں اسلام کے احکام کے مطابق ضرور ہوئیں، لیکن بحیثیت مجموعی اس دور میں بھی اصل فکر اور اصل کارفرما ہاتھ بہت مختلف نہ تھے۔ اس لیے اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ آزادی کے چھے عشروں میں اگر کوئی فکر اور کوئی طبقہ حکمران رہا ہے تو وہ یہی سیکولر فکر اور سیکولر طبقہ ہے۔ چند مغربی محققین نے بھی اس امر کا برملا اعتراف کیا ہے کہ پاکستان اور عرب ممالک میں خود مسلمانوں کی مغرب زدہ سیکولر قیادت ہے جو ناکام رہی ہے اور بگاڑ کی بھی  بڑی حد تک ذمہ دار یہی بدعنوان اور نااہل قیادت ہے۔ اس سلسلے میں پروفیسر ولفریڈ کینٹ ول اسمتھ اور پروفیسر کیتھ کیلارڈ نے بہت صاف الفاظ میں لکھا ہے کہ ان ممالک میں آج جو بھی حالات ہیں وہ مذہبی قوتوں کے پیدا کردہ نہیں ہیں، بلکہ ان ممالک میں مغرب نواز سیکولر قیادتیں ان کی ذمہ دار ہیں۔

انھی حالات کا نتیجہ ہے کہ پاکستان آج صرف سیاسی اور معاشی بحران ہی کا شکار نہیں، نظریاتی، اخلاقی اور تہذیبی انتشارمیں بھی مبتلا ہے۔ حالات کی اصلاح کے لیے اس طرح کی ایک ہمہ جہتی نظریاتی تحریک اور جدوجہد کی ضرورت ہے، جیسی برعظیم کے مسلمانوں کو برطانوی اور برہمن سامراج سے نجات دلانے کے لیے اقبال کی فکری اور قائداعظم کی سیاسی رہنمائی میں برپا کی گئی تھی۔

اس ہمہ گیر بگاڑ کے تین بڑے تشویش ناک پہلو ہیں:

  • پہلا اخلاقی بگاڑ جو خود سرکاری سرپرستی میں منظم اور ہمہ گیر کوششوں کے نتیجے میں بد سے بدتر صورت اختیار کررہا ہے اور ظلم اور بداخلاقی اس نشان کو چھو رہی ہے جہاں کارواں کے دل سے احساسِ زیاں بھی رخصت ہوتا نظر آتا ہے۔ ہرسُو بدعنوانی کا دور دورہ ہے جو تقریباً ہرسطح پر طرزِحیات بنتی جارہی ہے، حتیٰ کہ بین الاقوامی ادارے بھی پاکستان کو دنیا کے دو یا تین سب سے زیادہ بدعنوان ملکوں میں شامل کر رہے ہیں۔ ملکی اور عالمی ذرائع ابلاغ سبھی اسلامی شعائر اور معاشرے کی مسلّمہ اقدار و آداب کو پامال کرنے میں مصروف ہیں۔ تعلیم کے نظام نے صرف علم ہی کی رسوائی کا سامان نہیں کیا ہے، بلکہ اخلاق کا بھی جنازہ اُٹھا دیا ہے۔ روایات کے بندھن کھل رہے ہیں اور اباحیت پسندی اور آزاد روی کا سیلاب اُمڈ رہا ہے اور بچشم سر دیکھا جاسکتا ہے کہ اس کا نتیجہ تباہی کے سوا کچھ نہیں۔
  • دوسرا تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ افراد کے اس اخلاقی بگاڑ کے ساتھ ساتھ ملک و ملت کے ہر اس ادارے کو تباہ کیا جا رہا ہے، جو قوم کی کشتی کو لنگر کی طرح تھامتا ہے۔ دستور ہو یا قانون، پارلیمنٹ ہو یا انتظامیہ، عدلیہ ہو یا پولیس، سول سروس ہو یا بلدیاتی نظامِ حکومت، تعلیم ہو یا ذرائع ابلاغ، حتیٰ کہ قوم کا آخری سہارا، یعنی خاندان___ ہر ایک کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ جن اداروں کو بڑی محنت اور قربانی سے استعمار کے اقتدار کے باوجود محفوظ رکھا گیا تھا، آج ان کی چولیں بھی ہل گئی ہیں اور دیواریں گر رہی ہیں۔
  • بگاڑ کا تیسرا پہلو پالیسی سازی کے سارے عمل اور فیصلہ کرنے والے اداروں اور افراد کا بیرونی اثرات کے تابع ہونا ہے، جس سے ملک کی سیاسی اور نظریاتی آزادی خطرے میں پڑگئی ہے۔ معاشی پالیسیاں بیرونی ساہوکاروں کے ہاتھوں گروی رکھ دی گئی ہیں اور اب عالمی بنک اور  عالمی مالیاتی فنڈ کا عمل دخل اتنا بڑھ گیا ہے کہ ملک کا بجٹ ملک کی پارلیمنٹ نہیں، ان اداروں کے احکام کے مطابق بنایا جا رہا ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ خود وزیراعظم کے معاشی مشیر تاجروں اور صنعت کاروں سے کہہ رہے ہیں کہ اگر آپ کو اپنی سفارشات کو منظور کرانا ہے تو آئی ایم ایف کے کارپردازوں سے بات کریں۔

یہی حال قانون سازی کا ہے۔ قانون بناتے ہوئے یہ نہیں دیکھا جا رہا کہ ملک و ملّت کا مفاد کیا ہے یا، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کیا ہے؟ بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ امریکا اور مغرب کس بات پر خوش ہوں گے؟ اور کس پر نکتہ چیں؟ چونکہ مغرب نے آج کل فنڈامنٹلزم اور تشدد کا ہوّا کھڑا کر رکھا ہے اس لیے ہماری قومی قیادت کی جانب سے نہ صرف قسمیں کھائی جارہی ہیں کہ ہم فنڈامنٹلسٹ نہیں ہیں بلکہ ہرقانون اور اخلاقی قدر کو پامال کر کے واشنگٹن اور اس کے گماشتوں کے آگے ناک رگڑی جارہی ہے اور انسانوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ان بھیڑیوں اور درندوں کی بھینٹ چڑھایا جارہا ہے۔ خود اقتدار میں آنے اور اقتدار میں رہنے کے لیے عوام اور پارلیمنٹ کے بجاے واشنگٹن کی خوش نودی حاصل کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔

غرض سیاست، معیشت اور ثقافت و تمدن ہر میدان میں ہم اپنی آزادی اور حاکمیت پر سمجھوتے کر رہے ہیں اور جو کچھ مسلمانانِ پاک و ہند نے اپنی جان، مال اور آبرو کی قربانی دے کر حاصل کیا تھا اسے چند طالع آزما اپنے مفاد کی خاطر مسلسل دائو پر لگاتے چلے آرہے ہیں۔

یہ ہے وہ حالت ِزار جس میں، آزادی کے ۶۷سال کے بعد ماضی کے کچھ فوجی اورماضی اور حال کی کچھ نام نہاد جمہوری قوتوں کی حکمرانی کے طفیل پاکستان اور اہلِ پاکستان مبتلا ہیں۔ وہ ملک جو پوری ملت اسلامیہ کے لیے نئی اُمیدوں اور ایک روشن مستقبل کا پیغام لے کر سیاسی اُفق پر نمودار ہوا تھا، اسے ان اتھاہ تاریکیوں میں پہنچا دیا گیا ہے اور بگاڑ اس انتہا کو پہنچ گیا ہے کہ جہاں لوگ خود ملک کے مستقبل کے بارے میں مایوس ہوکر یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ   ع

وہ حبس ہے کہ لُو کی دعا مانگتے ہیں لوگ!

تبدیلی کا لائحہ عمل

صورتِ حال کے بگاڑ اور تاریکی کی شدت کا انکار ، دراصل حقیقت کے انکار اور عاقبت نااندیشی کے مترادف ہوگا۔ لیکن اس کے باوجود ہماری نگاہ میں مایوسی کی کوئی وجہ نہیں۔ اس لیے بھی کہ مایوسی کفر ہے، اور اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ حالات کیسے ہی خراب کیوں نہ ہوں، مومن کبھی مایوسی کا شکار نہیں ہوتا (لَاتَقْنَطُوا مِن رَحْمَۃِ اللّٰہ) ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ ان مخلص انسانوں کی قربانیوں کو کبھی رائیگاں نہیں کرے گا، جن کے خون اور عصمتوں کی قربانی سے یہ ملکِ عزیز وجود میں آیا ہے۔ اس لیے بھی کہ تاریخ کا یہی فیصلہ ہے کہ بگاڑ کی قوتیں ایک خاص حد پر پہنچنے کے بعد شکست و ریخت کا نشانہ بنتی ہیں اور خیر اور صلاح کی قوتیں بالآخر غالب ہوتی ہیں۔ جس طرح زوال اور انتشار ہماری تاریخ کی ایک حقیقت ہے، اسی طرح تجدید اور احیا بھی ایک درخشاں حقیقت ہیں   ؎

گھبرائیں نہ ظلمت سے گزرنے والے

آغوش میں ہرشب کے سحر ہوتی ہے

سوال یہ ہے کہ اصلاح کا راستہ کیا ہے؟ ہماری نگاہ میں نہ فوج کی مداخلت حالات کو درست کرسکتی ہے اور نہ تشدد کی سیاست۔ ملکی سیاست میں تصادم اور تلخی جس حد کو پہنچ گئی ہے،    اس سے صرف سیاست ہی نہیں ملک کا وجود بھی خطرے میں ہے، جس کی بڑی وجہ حکومتوں کی آمرانہ روش، تنگ دلی اور تنگ نظری ہے۔ اگر ایک طرف معاشی بگاڑ اپنی انتہا کو پہنچ رہا ہے اور وسائلِ حیات کی قلت اور مہنگائی نے عوام کی زندگی اجیرن کردی ہے تو دوسری طرف لاقانونیت کا دور دورہ ہے۔ اور اب تو عالم یہ ہے کہ کراچی سے راولپنڈی تک معصوم انسانوں کا خون بہایا جا رہا ہے اور کسی کی آنکھ نہیں کھل رہی۔ یہی وہ حالات ہیں جو تشدد کی سیاست کو جنم دیتے ہیں۔

اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ ملک کے وہ تمام عناصر جو حالات سے غیرمطمئن ہیں، بگاڑ کے اسباب پر متفق ہیں اور جو اصلاح کے خواہاں ہیں، وہ مل جل کر مؤثر سیاسی جدوجہد کے ذریعے نظام کو بدلنے کی جدوجہد کریں۔ بگاڑ کے ایک ایک سبب کو دُور کرنا ہوگا اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ایک نئی قیادت اُبھرے جس کا دامن پاک ہو ، جو عوام میں سے ہو اور جو عوام کے سامنے جواب دہ ہو۔

بگاڑ کے اسباب 

  • سب سے پہلی ضرورت یہ ہے کہ پاکستان کے اصل مقاصد، اس کی منزل اور ترجیحات کے بارے میں یکسوئی ہو۔ وہ تمام دینی اور سیاسی عناصر جو اسلام، جمہوریت، عدلِ اجتماعی اور خودانحصاری پر یقین رکھتے ہیں، وہ ایک دوسرے سے قریب آئیں اور اصولوں پر پختہ ایمان رکھنے والی باکردار قیادت کو قوم کے سامنے لائیں۔

قائداعظمؒ نے اپنا مقدمہ جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور روایتی سیاست کاروں کے سامنے نہیں، برعظیم کے مسلم عوام کی عدالت میں پیش کیا تھا۔ ان کو بیدار اور متحد کرتے ہوئے ایک ایسی عوامی اور جمہوری لہر پیدا کی تھی کہ روایتی قیادتیں اس سیلاب کے آگے بہہ گئیں۔ آج پھر اس کی ضرورت ہے کہ جمہوری ذرائع سے جمہور کو بیدار اور منظم کیا جائے اور قیامِ پاکستان کے مقاصد کے لیے ان کو متحرک کیا جائے۔ ملکی اور غیرملکی سازشی عناصر کا اصل توڑ عوام کی بیداری اور ان کی منظم قوت ہے۔

  • دوسری بنیادی چیز قیادت کا صحیح معیار ہے۔ قوم نے بہت دھوکے کھائے ہیں۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ نئی قیادت عوام میں سے اُبھرے اور اپنے اخلاق اور کردار کے اعتبار سے دستورِپاکستان میں مرقوم معیار (دفعہ ۶۲، ۶۳) پر پوری اُترے۔ عوام اور الیکشن کمیشن کو یہ اختیار ملنا چاہیے جیساکہ وفاقی شرعی عدالت نے اپنے ایک فیصلے میں کہا ہے کہ وہ ان دفعات کو عملاً نافذ کرسکیں۔ یہ وہ چھلنی (filter) ہے، جس سے بہتر قیادت رُونما ہوسکتی ہے۔

خودقائداعظم نے اپنی ۱۹۳۶ء کی ایک تقریر میں قیادت کے لیے بڑے نپے تلے انداز میں مطلوبہ معیار کی نشان دہی کی تھی، جس پر آج ہمیشہ سے زیادہ عمل کی ضرورت ہے۔ طلبہ کو مشورہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا تھا: ’’ملکی حالات کا بغور مطالعہ کیجیے، تجزیہ کیجیے اور سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ اس بات کو یقینی بنایئے کہ مقننہ (Legislature) میں دیانت دار، حقیقی، مخلص اور محب ِ وطن نمایندے پہنچیں‘‘۔

  • تیسری ضرورت آزاد خارجہ پالیسی کی تشکیل اور مؤثر تنفیذ ہے ۔ امریکا اور مغربی اقوام سے محتاجی کا جو رشتہ قائم ہوگیا ہے اور جو اب صرف پالیسیوں تک محدود نہیں بلکہ ایک طرح کا  انتظامی تعلق (structural relationship) بن گیا ہے، جس کے نتیجے میں سیاسی، عسکری، معاشی اور تہذیبی ہر میدان میں بیرونی ممالک اور قوتوں کااثرو نفوذ بڑھ کر اس مقام پر پہنچ چکا ہے، جہاں وہ پاکستان کی آزادی، خودمختاری اور نظریاتی شناخت کو متاثر کررہا ہے۔ بڑے پیمانے (macro) کی سطح پر اثرات سے بڑھ کر بات اب جزوی انتظام و انصرام (micro-management ) تک پہنچ چکی ہے۔ اس لیے نئی آزاد خارجہ پالیسی کی تشکیل اب ملک کی آزادی اور سلامتی کے لیے ازبس ضروری ہوگئی ہے۔

اس کے لیے ایک طرف امریکا کی اعلان کردہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے ہمارانکلنا ضروری ہے، تو دوسری طرف ملکی وسائل کی بنیاد پر معاشی ترقی کا نقشۂ کار بنانا ضروری ہے۔ عسکری میدان میں بھی پہلے قدم کے طور پر اسلحے کے نظام اور خریداری میں مختلف ممالک سے رابطوں کی ضرورت ہے تو دوسری طرف جو حکمت عملی ۱۹۷۰ء میں بنیادی صنعتوں کے قیام اور فروغ کے سلسلے میں ہیوی مکینیکل کمپلیکس اور اسٹیل ملز کے قیام کی صورت میں اختیار کی گئی تھی، اسے نئے حالات کی روشنی میں ایک نئے انداز میں فروغ دینا ضروری ہے۔

شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کی جو صورت حال ہے اسے بھی جلد اور ایک متعین شکل دے کرکے مسئلے کے اصل سیاسی، معاشی اور تعلیمی ذرائع سے حل کی طرف بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

اس سلسلے میں بھارت سے تعلقات کے باب پر بھی نظرثانی کی ضرورت ہے۔ ملکی مفاد کا تقاضا ہے کہ جزوی اُمور میں اُلجھنے کے بجاے اصل بنیادی مسائل کے حل پر توجہ مرکوز کی جائے اور اس کے لیے فوری اور دیرپا دونوں نوعیت کی پالیسیاں بنائی جائیں۔ کشمیر اور پانی کے مسئلے کے حل ہی پر بھارت سے سیاسی اور معاشی تعلقات کا دیرپا بنیادوں پر فروغ ممکن ہے۔ ان اساسی پہلوئوں کو نظرانداز کرکے محض ’اعتماد سازی‘ کے اقدامات اور تجارت کا راستہ اختیار کرنا سیاسی اور معاشی ہردوپہلو سے مہلک ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایک آزاد اور حقیقی معنی میں پاکستانی مفادات اور ترجیحات پر مبنی خارجہ پالیسی اختیار کی جائے اور اس کے لیے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینا ضروری ہے۔ خارجہ پالیسی کے حوالے سے پاکستانی عوام کے حقیقی جذبات اور خطوطِ کار میں بعدالمشرقین ہے۔ تمام عوامی سروے اس امر کا ثبوت ہیں کہ پاکستانی قوم امریکا اور بھارت کو اپنا دوست نہیں سمجھتی اور ان کی پالیسیوں کو ملک کے لیے سب سے اہم خطرہ شمار کرتی ہے، جب کہ جنرل مشرف دور سے اب تک حکومت کی پالیسی اور ترجیحات عوام کے جذبات اور خواہشات کی ضد ہیں۔

  • چوتھی چیز ایک ملّی ضابطۂ اخلاق کی تشکیل ہے جس کی پابندی تمام سیاسی جماعتوں، پریس اور میڈیا پر لازم ہو۔ اسے افہام و تفہیم سے مرتب کیا جانا چاہیے۔ اس ذیل میں بہت کام ماضی میں ہوا ہے۔ خود دستورِ پاکستان میں بھی اس سلسلے میں بڑی رہنمائی موجود ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس پر نیا اتفاق راے پیدا کیا جائے اور اس کے نفاذ کے لیے کوئی مؤثر نظام بنایا جائے، خواہ عدلیہ اس کام کو انجام دے یا کوئی اور نیا قومی ادارہ۔
  • پانچویں چیز نظامِ انتخاب کی اصلاح ہے۔ انتخابی کمیشن حکومت اور حزبِ اختلاف کے باہم مشورے اور اتفاق راے سے مقرر ہونا چاہیے۔ پاکستان کے حالات میں انتخابات نگران حکومت کے تحت ہونے چاہییں، جس کے بغیر منصفانہ انتخابات کی توقع عبث ہے۔ اس امر پر بھی غور کی ضرورت ہے کہ اسمبلی کی مدت پانچ سال سے کم کر کے ۴سال کردی جائے تاکہ احتساب کم وقفے میں ہوسکے۔
  • چھٹی چیز ایک اعلیٰ احتسابی کمیشن کا قیام ہے، جس کا مطالبہ جماعت اسلامی اول روز سے  کر رہی ہے اور جس کا وعدہ خود پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں اس سے پہلے کرچکے ہیں۔ مسلم لیگ کے تو منشور میں بھی اس کا وعدہ ہے۔ اسی طرح اس کا مطالبہ تحریکِ انصاف نے بھی کیا ہے۔ گویا کہ یہ ایک متفقہ قومی مطالبہ ہے۔ پھر اس سے فرار کیوں؟ یہ مستقل کمیشن ایسا ہوناچاہیے جو حکومت، حزبِ اختلاف یا کسی بھی شہر ی یا متاثر ہونے والے فرد کی طرف سے تمام منتخب اور دوسرے ذمہ دار افراد کا احتساب کرسکے۔ اس ادارے کو یہ اختیار حاصل ہو کہ جس نے بھی اپنی سرکاری حیثیت کو ذاتی نفع کے لیے استعمال کیا ہو، اسے قرارواقعی سزا دے سکے اور عوامی وسائل ان سے واپس لے کر سرکاری خزانے میں لائے۔
  • ساتویں چیز دستور کے مطابق صوبائی اور لوکل باڈی کی سطح پر اختیارات کی منتقلی ہے اور ان میں ضروری صلاحیت کار پیدا کرنا ہے۔ سینیٹ کو زیادہ مضبوط اور مؤثر بنانا بھی اس سلسلے میں بڑا مفید ہوسکتا ہے۔
  • آٹھویں چیز عدلیہ کی آزادی، اس کی انتظامیہ سے علیحدگی اور عدلیہ کے فیصلوں کی بلاامتیاز تنفیذ ہے۔
  • نویں چیز سول انتظامیہ اور پولیس کا ایسا انتظام ہے، جو ان کی آزاد اور غیر سیاسی حیثیت کو مستحکم کرسکے۔ ملکی، سول انتظامیہ اور پولیس، ریاست کے ادارے تو ہوں، مگر حکمران پارٹی کے سیاسی آلۂ کار نہ ہوں۔ اس کے لیے ان کو دستوری تحفظ دیا جائے، نیز ان کی تربیت اور وسائل دونوں کا اہتمام کیا جائے۔
  • دسویں چیز قومی زندگی سے کرپشن کا خاتمہ اور اس کے لیے ہرسطح پر مؤثر مہم ہے۔
  • آخری اور بہت ہی ضروری چیز ایک نئی سماجی اور معاشی پالیسی ہے، جس کا ہدف صحیح تعلیم کا فروغ، علاج کی سہولتوں کی فراہمی ، غربت اور بے روزگاری کا خاتمہ اور روزگار کے مواقع کی فراہمی اور ایسی معاشی اصلاحات ہیں، جن سے سود، قمار اور ہر طرح کے استحصال کا خاتمہ ہو، دولت کی تقسیم منصفانہ ہوسکے اور تمام انسانوں کو زندگی کی جائز ضروریات مل سکیں۔

یہ وہ گیارہ نکات ہیں جن پر عمل کر کے قوم ایک بار پھر اسلام کے حیات بخش نظام کے قیام کے لیے متحد اور سرگرمِ عمل ہوسکتی ہے اور چمن میں اس کی روٹھی ہوئی بہار واپس آسکتی ہے۔

دہشت گردی کی روک تھام اور دہشت گردی کے جرائم پر قانون کی گرفت کے مؤثر بنانے کے لیے قرارواقعی اقدام کی ضرورت نہ پہلے متنازع تھی اور نہ آج ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ  قانون سازی میں اصل ضرورت سیکورٹی اور عدل و انصاف اور قانون کی بالادستی___ دونوںکے تقاضوں کو بیک وقت ملحوظ رکھنا ہے۔ کسی ایک طرف جھکائو ظلم کی ایک شکل ہے جو دستورِ پاکستان، اصولِ قانون اور شریعت، سب سے متصادم ہے اور کوئی بھی مہذب معاشرہ، چہ جائیکہ ایک اسلامی معاشرہ اس کی اجازت نہیں دے سکتا۔

نوازشریف حکومت نے اپنی مصالح یا مجبوری کے تحت اکتوبر ۲۰۱۳ء میں دو قوانین بذریعہ آرڈی ننس جاری کیے تھے، جن میں سے ایک دہشت گردی کے خلاف قانون میں ترامیم اور دوسرا ’تحفظ ِ پاکستان‘ کے نام پر ایک نیا Draconian (اژدہائی)قانون تھا، جن پر ملک کے گوشے گوشے سے شدید تنقید ہوئی اور حقوقِ انسانی کی عالمی تنظیموں نے بھی انھیں تنقید کا نشانہ بنایا۔ ہم نے    بھی نومبر ۲۰۱۳ء کے عالمی ترجمان القرآن میں ان قوانین پر گرفت کی اور تین بنیادوں پر اسے ایک ظالمانہ اور خلافِ دستور و شریعت اقدام قرار دیا:

  1. پارلیمنٹ کو نظرانداز کرکے آرڈی ننس کے ذریعے عوام کے حقوق پر ڈاکا ڈالنا۔
  2. مذاکرات کے عمل کو فروغ دینے کے دعووں کے ساتھ ایسے اختیارات حاصل کرنا جو سرکاری اہتمام میں صریح ظلم کا راستہ ہموار کرتے ہیں۔
  3. ان قوانین کا دستورِ پاکستان، مسلّمہ اصولِ قانون اور شریعت کے اصول و ضوابط سے متصادم ہونا۔

حکومت نے اب پارلیمنٹ کے ذریعے قانون سازی کا راستہ اختیار کیا ہے، جس کا ہم اصولی طور پر خیرمقدم کرتے ہیں۔ البتہ پارلیمنٹ سے شکایت ہے کہ اس نے اپنی ذمہ داری   ٹھیک ٹھیک ادا نہیں کی اور سیاسی سمجھوتہ کاری اور بیرونی دبائو کے آگے سپر ڈال دینے کی روش اختیار کر کے، عوام کے حقوق کے تحفظ کے باب میں اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے میں بُری طرح ناکام رہی ہے۔ قومی اسمبلی نے پہلے ہی دن سے تحفظ ِ پاکستان بل کے سلسلے میں سہل انگاری اور سمجھوتہ کاری کا راستہ اختیار کیا۔ پیپلزپارٹی، جمعیت علماے اسلام (ف) ، ایم کیو ایم اور اے این پی نے بظاہر مخالفت کا رویہ اختیار کیا، لیکن سیاسی مصلحتوں اور مراعات کے سایے میں چند جزوی اور غیرمؤثر ترامیم کا سہارا لے کر قانون کی تائید کا راستہ اختیار کرلیا اور یہی رویہ سینیٹ کا رہا، جس نے پہلے تو بہت شورشرابا برپا کیا اور چیلنج کیا کہ اس بل کو ہرگز منظور نہیں ہونے دیں گے، لیکن پھر ایک دم ہتھیار ڈال دیے۔

تحریکِ انصاف نے اصولی مخالفت کی مگر راے شماری کے وقت وہ بھی صرف غیر جانب دار ہوگئے۔ صرف جماعت اسلامی کے ارکان نے ڈٹ کر اس بل کی مخالفت کی،اس کے خلاف ووٹ دیا اور اب اس کے قانون بن جانے کے بعد اسے عدالت ِ عظمیٰ میں چیلنج کیا ہے۔

دوسرا پہلو ان قوانین کے نفاذ کے وقت کے بارے میں تھا جو اب بڑی حد تک غیرمتعلق (irrelevant) ہوگیا ہے۔ بہت سا پانی پُلوں کے نیچے بہہ چکا ہے اور شمالی وزیرستان میں آپریشن کا آغاز ہوگیا ہے۔ ہم صرف اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس آزمایش میں ملک، ہماری افواج، پاکستانی عوام خصوصیت سے متعلقہ علاقے کے ۱۰ لاکھ سے زیادہ بے گھر ہونے والے ہمارے بھائیوں، بہنوں اور بچوں کی حفاظت کرے اور ان کی اپنے گھروں کو جلد واپسی ہو۔

تیسری بنیاد دستور، اصولِ قانون اور شریعت کے اصول و ضوابط سے تصادم تھی، جو چند ترامیم کے باوجود بہت بڑی حد تک اس قانون میں موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بظاہر چند ترامیم کے ذریعے کچھ دانت توڑنے کے عمل کے باوجود ہم اسے ایک کالا قانون اور ظلم کا آلہ تصور کرتے ہیں۔ پاکستان کے حقوقِ انسانی کمیشن اور عالمی اداروں میں ہیومن رائٹس واچ نے بھی اسے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اول الذکر نے اسے بجاطور پر ایک اژدہائی قانون (Draconian Law) قرار دیا ہے، اور ہیومن رائٹس واچ نے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ عام شہریوں کے دستوری اور بنیادی حقوق کی پامالی کا اس میں بے حد سامان موجود ہے۔ڈان اور ایکسپریس ٹربیون نے اپنے ۱۳جولائی ۲۰۱۴ء کے ادارایوں میں ترمیم شدہ قانون کو بھی غیرتسلی بخش اور دستور کے خلاف قرار دیا ہے۔

جو ترامیم کی گئی ہیں انھیں ایک حد تک مثبت قرار دیا جاسکتا ہے لیکن وہ بے حد ناکافی اور ان بنیادی اعتراضات کو دُور کرنے میں بُری طرح ناکام رہی ہیں، جن کی بنا پر اس ظالمانہ قانون پر  ہم نے اور بنیادی حقوق کا تحفظ کرنے والے اداروں نے شدید تنقید کی تھی۔ ان ترامیم میں سے ایک کا تعلق’جنگی دشمنوں‘ (enemy combatant) کے تصور سے ہے، جسے اب نکال دیا گیا ہے اور دہشت گردی کی دو شکلوں کو ایک دوسرے سے ممیز کرنے کی کوشش کی گئی ہے، یعنی ’بیرونی یا خارجی دشمنوں‘ (enemy alien) اور ’دہشت گرد‘ (militant)۔ اول الذکر کا تعلق دہشت گردی کے مرتکب غیرشہریوں سے ہوگا، اور دوسری کا ملک کے شہریوں سے۔ یہ ترمیم بہتر ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ ترمیم شدہ شکل میں بھی ’alien‘ (بیرونی)کی تعریف میں جھول ہے اور  اس میں combatant (’جنگی‘) کے عنصر کو شامل نہیں کیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں ہر کوئی ’بیرونی‘ دشمن اور دہشت گرد شمار ہوسکتا ہے، جو انصاف اور بنیادی حقوق کے تقاضوں کے منافی ہے۔ دہشت گرد صرف وہی غیرشہری ہوسکتا ہے جو جنگی عزائم کا حامل ہو۔ محض کسی مشکوک فرد کو ’دشمن‘ قرار دینا، اس وضاحت کے بغیر کہ وہ دہشت گردی کا مرتکب ہوا ہے، انصاف کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں۔ تعریف میں یہ جھول خرابی کا باعث ہوسکتا ہے۔

ایک دوسری ترمیم کے ذریعے دہشت گردی کے مجرموں کے لیے سزا اب ۱۰سال سے بڑھا کر ۲۰سال کردی گئی ہے لیکن ان کی احتیاطی نظربندی ایک خلافِ انصاف عمل ہے۔ زیادہ سے زیادہ جو گنجایش دی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ ۲۴گھنٹے کی مدت اگر کم ہے تو ۷ یا ۱۰دن کے اندر اندر ایک شخص پر الزام عائد کیا جائے یا اس کی آزادی کو بحال کیا جائے۔ بدقسمتی سے دستور میں اس کی گنجایش موجود ہے لیکن اس قانون میں دستور کی دفعہ ۱۰ کے تحت due process of law (ضروری قانونی عمل) کے باب میں جو رخصت دی گئی ہے، یہ اس سے بہت زیادہ ہے اور اس طرح اس کے انسانی آزادیوں کے لیے خطرہ ہونے اور سیاسی بنیادوں پر استعمال کیے جانے کے خدشات موجود ہیں۔

ایک اور معمولی ترمیم قانون کی اس شق میں بھی کی گئی ہے جس میں شبہے کی بنیاد پر گولی چلانے کا اختیار پولیس، فوج اور قانون نافذ کرنے والے افراد کو دیا گیا تھا اور جسے ہم نے اور تمام ہی حقوقِ انسانی کے علَم برداروں نے، شدت سے تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ ہمارے اصل اعتراض کا تو کوئی مداوا نہیں کیا گیا۔ بس یہ اضافہ کردیا گیا ہے کہ ایسا حکم پولیس کے گریڈ۱۵ یا اس سے اُوپر کا کوئی افسر دے سکے گا۔ ہماری نگاہ میں محض شبہے کی بنیاد پر انسانوں کو گولیوں کا نشانہ بنانا صریح ظلم اور ریاستی دہشت گردی کی ایک بدترین شکل ہے۔ پولیس مقابلے کے نام پر یہ خونیں کھیل شب و روز  ہو رہا ہے ۔ حال ہی میں ماڈل ٹائون میں جو کچھ ہوا (۷جولائی ۲۰۱۴ء) وہ سب کے سامنے ہے۔ گریڈ۱۵ کی قید سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ پھر یہ گریڈ۱۵ کی قید بھی صرف پولیس کے لیے ہے۔ فوج اور دوسرے نیم فوجی ادارے اس سے مستثنیٰ ہیں۔ نیز ایسے اقدام کے سلسلے میں لازمی جوڈیشل ریویو کی بھی کوئی باقاعدہ گنجایش نہیں رکھی گئی ہے۔ شکایت کی شکل میں in-house inquiry (شعبہ جاتی تحقیقات) کا ذکر ہے جو ایک bluff (فریب دہی) اور لیپاپوتی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ اس شق پر ہمارا اعتراض موجود ہے اور یہ دستور، اصولِ قانون اور شریعت کے قواعد و ضوابط کی صریح خلاف ورزی ہے۔ ایک اور ترمیم کے ذریعے اس قانون کی مدت دو سال کردی گئی ہے جسے قانون کی زبان میں sun-set provision (یعنی ایسا معاہدہ جو میعاد کے خاتمے پر اگر تجدید نہ کریں تو خود بخود ختم ہوجائے) کہا جاتا ہے۔ لیکن دو سال قیامت لانے کے لیے کیا کم مدت ہے کہ اس تحدید پر اطمینان کا اظہار کیا جائے۔

اپنی ترمیم شدہ شکل میں بھی اس قانون پر ہمارے موٹے موٹے اعتراضات یہ ہیں:

  1. اب بھی قانون میں دہشت گردی کی تعریف میں بہت سقم پائے جاتے ہیں۔ خاص طور پر یہ واضح دفعہ کہ اس شخص کو بھی دہشت گرد قرار دیا جاسکتا ہے جو دھمکی دیتا ہے، اقدام کرتا ہے، یا اقدام کرنے کی کوشش کرتا ہے جو پاکستان کے دفاع، سلامتی اور استحکام کے خلاف ہو۔ یہ اتنی ڈھیلی ڈھالی تعریف ہے کہ اس کے تحت سرکار جسے چاہے دہشت گرد بناسکتی ہے اور سیاسی اختلاف اور تنقید بھی ایک شخص کو اس لقب کا سزاوار بناسکتی ہے جیساکہ ملک میں ہوتا رہا ہے اور ہو رہا ہے۔ پُرتشدد اقدام (act of violence) پر قانون کی گرفت بجا، مگر محض انتظامیہ کی نگاہ میں جو بھی قول یا فعل سلامتی وغیرہ کے خلاف ہو، وہ بھی دہشت گردانہ اقدام بن جاتا ہے۔ یہ دستور، شریعت اوراصولِ قانون سے متصادم اور انسانی معاشرے اور بنیادی حقوق کے لیے ایک چیلنج ہی نہیں، فی الحقیقت ایک بے نیام تلوار ہے۔
  2. ترمیم شدہ قانون میں ایک نیا ظلم یہ کیا گیا ہے کہ اس کی دوسری فہرست میں جو جرائم ایک دوسرے سے مربوط ہیں، ان میں حکومت اپنی مرضی سے جب چاہے ترمیم و اضافہ کرسکتی ہے۔ یہ پارلیمنٹ کے اختیار پر ڈاکا زنی کے مترادف ہے۔ محض انتظامی حکم نامے سے فہرست میں اضافہ دستور اور اسلامی اصولِ عدل دونوں سے متصادم ہے اور سیاسی بنیادوں پر انتقام کا دروازہ کھولنا ہے۔
  3. احتیاطی نظربندی کے باب میں ہمارے اعتراضات حسب سابق باقی ہیں اور ہم اس پہلو سے بھی ترمیم شدہ بل کو ناقابلِ قبول سمجھتے ہیں جو دستور کی دفعہ ۱۰ کی بھی خلاف ورزی ہے۔
  4. فرد اور گھر کی پوشیدگی اور خلوت پر دست درازی کا جو اختیار اس قانون میں دیا گیا ہے وہ بھی شریعت اور دستور دونوں کے خلاف ہے۔ وارنٹ کے بغیر تلاشی انسانی حقوق پر ایک وحشیانہ حملہ ہے اور کوئی مہذب معاشرہ اس کی اجازت نہیں دے سکتا۔ عدالت ِ عظمیٰ نے بھی اپنے ایک مشہور فیصلے میں جو ’مقدمہ محرم علی بنام وفاق‘ پر مبنی ہے دستور کی دفعہ ۱۴ کے تحت ایسے اقدام کے جواز کو چیلنج کیا ہے اور غیرمعمولی حالات میں جب جوڈیشل آرڈر ممکن نہ ہو تو لازمی قرار دیا ہے کہ ان حالات کا تحریری طور پر ذکر کیا جائے جن کی وجہ سے عدالتی اجازت اور وارنٹ کے بغیر ایسا اقدام کیا جارہا ہو۔
  5. اسی طرح بلااشتعال پیشگی فائرنگ جو محض شبہے کی بنیاد پر کی جائے، اس کا کسی شکل میں بھی جواز ممکن نہیں۔ اس اقدام کو بھی سپریم کورٹ نے دستور کی دفعہ۹ سے متصادم قرار دیا ہے۔ ہماری پولیس اور دوسرے ادارے اس سلسلے میں بڑا سیاہ ریکارڈ رکھتے ہیں اور ان کا اس طرح شبہے کی بنیاد پر عام انسانوں کو گولیوں کا نشانہ بنانا صریح ظلم اور ریاستی دہشت گردی کی بدترین مثال ہے۔
  6. وارنٹ کے بغیر گرفتاری کا حق بھی بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہے اور یہ بھی اس قانون میں حسب سابق موجود ہے۔
  7. اس قانون میں الزام کے ثبوت کے سلسلے میں دستور، شریعت اوراصولِ قانون کے اس مسلّمہ اصول کو کہ ثبوت دینا الزام لگانے والے کا فرض ہے اور ہرشخص معصوم ہے، الا یہ کہ اس کے خلاف کوئی الزام ثابت ہوجائے، اُلٹ دیا گیا ہے۔ اب الزام حکومت کے کارپرداز لگائیں گے اور معصومیت ثابت کرنا ملزم کی ذمہ داری ہوگی۔ اپنی موجودہ شکل میں یہ طریق تفتیش ناقابلِ قبول ہے۔
  8. اس قانون میں لاپتا افراد کے سلسلے میں ایک عظیم ناانصافی کا دروازہ کھولا گیا ہے،   یعنی جو افراد سرکاری اداروں کی تحویل میں بلاقانونی جواز موجود ہیں ان کو بھی مؤثر بہ ماضی (with retrospective effect) زیرحراست تصور کیا جائے گا۔ یہ قانون کے مسلّمہ اصولوں کی نفی ہے اور اس کے ذریعے ایک غیرقانونی عمل کو قانونی جواز فراہم کرنے کے جرم کا ارتکاب کیا جا رہا ہے اور اس پر قانون کا غلاف بھی چڑھایا جا رہا ہے۔ اس طرح دستور کی دفعہ۱۰ کی جو ماضی میں خلاف ورزیاں ہوتی رہی ہیں ان کو سندجواز دی جاسکتی ہے۔

کم از کم یہ آٹھ پہلو ایسے ہیں جن کی وجہ سے یہ قانون ایک کالا قانون ہے۔ پارلیمنٹ نے اسے قانون کی شکل دے کر قوم کے سر شرم سے جھکا دیے ہیں اور وہ دستور اور شریعت دونوں کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوئی ہے۔ ہمیں توقع ہے کہ عدالت عالیہ سیاسی مصلحتوں اور مجبوریوں سے بالا ہوکر دستور اور اصولِ شریعت کی روشنی میں اس قانون کا جائزہ لے گی اور اس کی ان تمام شقوں کو خلافِ دستور قرار دے گی جو بنیادی حقوق اور اصولِ انصاف کی ضد ہیں۔ ہم پارلیمنٹ کو بھی دعوت دیتے ہیں کہ وہ اس قانون پر نظرثانی کرے اور قومی سلامتی اور دستور، شریعت اور انسانی حقوق کی حفاطت اور پاسداری دونوں میں مکمل توازن کے ساتھ قانون سازی کی ذمہ داری ادا کرے ورنہ وہ ان حدود کو پامال کرنے کی مجرم ہوگی جو دستور نے اس کے اختیارات کے استعمال کے لیے مقرر کیے ہیں۔ مقننہ ہو یا انتظامیہ یا عدالت، سب دستور کی تخلیق (creatures) ہیں اور دستور کی دی ہوئی حدود کے اندر ہی وہ اختیارات کے استعمال کا حق رکھتے ہیں۔ وہ عوام اور اللہ دونوں کے سامنے جواب دہ ہیں۔ انسان سے غلطی ہوسکتی ہے لیکن غلطی پر اصرار غلطی سے بھی بڑا جرم ہے۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ پارلیمنٹ کو اصلاح اور اس کالے قانون میں ضروری ترمیم کی توفیق سے نوازے تاکہ وہ اس ظلم کی تلافی کرسکیں جس کا ارتکاب انھوں نے اس قانون کو منظور کر کے کیا ہے۔

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جسے چار چیزیں دے دی گئیں تو اسے دنیا اور آخرت کی تمام بھلائیاں دے دی گئیں: شکرگزار دل، ذکر کرنے والی زبان اور آزمایش پر صبر کرنے والا بدن، اور ایسی بیوی جو اپنے نفس اور شوہر کے مال میں خیانت نہ کرے۔(بیہقی، شعب الایمان)

حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں کا شکر بہت اہم فریضہ ہے بلکہ پہلا فرض ہے جو انسان پر عائد ہوتا ہے۔ شکرگزاری کا جذبہ بیدار ہو تو پھر انسان اللہ تعالیٰ کی بندگی اور طاعت میں سستی نہیں کرتا اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی جرأت نہیں کرتا۔ ذکر کرنے والی زبان انسان کو اللہ تعالیٰ اور اس کی نعمتوں اور احکام سے جوڑے رکھتی ہے کہ یہی ذکر ِ حقیقی ہے۔ جو آدمی زبان سے ذکر کرے لیکن اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے نہ بچے تو یہ ذکر اس کے منہ پر دے مارا جاتا ہے۔ پھر تیسری چیز صبر ہے۔ انسان ہرطرح کی تکالیف اور مصائب میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر قائم رہے، نافرمانی سے بچے اور واویلانہ کرے۔ صبر کی تصویر بن کر وقت گزارے۔ اس معاملے میں اس کی محسنہ اس کی بیوی ہوتی ہے جو عسرویسر کی ساتھی ہو اور اس کی پیٹھ پیچھے اپنے نفس کی حفاظت کرے اور اس کے مال کی بھی حفاظت کرے اور اسے بے فکر کردے۔ جب اسے گھر کی پریشانی نہ ہوگی تو سب تکلیفیں آسان ہوجائیں گی۔

٭

حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے، نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا: کون سا آدمی دوسروں سے زیادہ فضیلت رکھتا ہے؟ آپؐ  نے فرمایا: مَخْمُوْمُ الْقَلْبِ صَدُوْقُ اللِّسَانِ۔ صحابہؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! صَدُوْقُ اللِّسَانِ (سچی زبان والا) کو ہم سمجھتے ہیں مَخْمُوْمُ الْقَلْبِ کا کیا مطلب ہے؟ آپؐ  نے فرمایا: صاف دل جس نے کوئی گناہ نہ کیا ہو اور نہ ظلم و زیادتی، کینہ اور حسد کرتا ہو۔(مشکوٰۃ بحوالہ ابن ماجہ، بیہقی)

ایسا آدمی جس میں یہ صفات ہوں سب سے زیادہ فضیلت کیوں نہ رکھے جس نے نہ تو اللہ تعالیٰ کی کوئی حق تلفی کی ہو نہ ہی مخلوق کی، اور مخلوق کو اس سے پوری طرح امن ہو۔ مسلمان کی صفت ہی یہ ہے کہ دوسرے مسلمان اس کی زبان اور ہاتھ سے محفوظ ہوں۔ یہ ظلم و زیادتی نہیں کرتا، کینہ نہیں رکھتا، حسد نہیں رکھتا۔ اس سے ہرمسلمان محفوظ و مامون ہے۔ اس پر اسلام کی تعریف بھی صادق آتی ہے اور ایمان کی تعریف بھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تزکیہ اور اسلام اور ایمان پر پورا اُترنے کے لیے جامع اور آسان نسخہ بتلا دیا۔ انسان اگر کوشش کرے کہ وہ پاک بازوں میں شامل ہوجائے، افضل لوگوں کے اندر اس کا شمار ہو، اور اسے اللہ تعالیٰ کا قرب اور ولایت حاصل ہوجائے، تو اسے چاہیے کہ ان اخلاقی امراض سے اپنے آپ کو بچائے۔ ہمیشہ سچ بولے، گناہ سے بچے اور لوگوں کے ساتھ حسد، بُغض اور کینہ نہ رکھے۔ خصوصاً نیک لوگوں کے لیے اپنے اخلاص اور محبت میں اضافہ کرے۔ نیک لوگوں کی محبت کی بھی احادیث میں بڑی فضیلت آتی ہے۔

٭

حضرت عبداللہ بن معاویہ عامریؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین کام ایسے ہیں جس نے کیے وہ ایمان کا مزہ چکھے گا۔ جس نے اللہ وحدہٗ لاشریک کی عبادت اس عقیدے کی بنیاد پر کی کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اور خوش دلی سے ہرسال اپنے مال کی زکوٰۃ دی۔ یہ دو باتیں آپؐ نے ارشاد فرمائیں تو ہم نے پوچھا: یارسولؐ اللہ! وہ اپنے نفس کا تزکیہ کس طرح کرے؟ آپؐ نے فرمایا: یہ عقیدہ رکھے کہ جہاں آدمی ہے وہاں اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ہے۔ (مسند بزار)

حضرت عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان کا سب سے افضل درجہ یہ ہے کہ تو یہ جانے کہ اللہ تعالیٰ تمھارے ساتھ ہے جہاں کہیں تم ہو۔ (طبرانی)

 ایمان، عبادت خصوصاً زکوٰۃ کے ساتھ یہ سوچ کہ اللہ تعالیٰ آدمی کے ساتھ ہے،انسان کو ہرقسم کے گناہ سے بچاتا اور ہرنیکی پر آمادہ کرتا ہے۔ ایک مومن جو اللہ تعالیٰ کو واحد خالق و مالک اور معبود و حاکم مانے، اور اللہ تعالیٰ کو حاضروناظر بھی جانے، تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کرسکتا۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے وہ کیسے بدکاری اور خباثت کرے، رشوت اور سود لے، بے گناہ کو قتل کرے اور ظالم کی مدد کرے۔ یہ بُرائیاں ایک انسان اسی وقت کرسکتا ہے جب اللہ تعالیٰ سے اور آخرت سے غافل ہو۔ نفس کے تزکیے کا یہ ایسا نسخہ ہے کہ صحابہ کرامؓ نے اسے استعمال کیا اور دنیا کے پاک باز ترین انسان قرار پائے۔ راتوں کو اللہ کی عبادت اور دن کو گھوڑوں کی پشت پر سوار ہونا ان کی امتیازی صفت ہے۔ انھوں نے اللہ کے دین کی خاطر جانیں اور مال یوں نچھاور کیے کہ گویا وہ جنت اور دوزخ کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہے ہوں۔ انھیں میدانِ جنگ میں جنت کی خوشبو آتی تھی۔ اس لیے جان دینا ان کے لیے آسان ترین کام تھا۔ آج ہمیں اپنی جانوں کی فکر ہے اور دنیا کی ہوس، جو اللہ تعالیٰ کو حاضروناظر جاننے کی راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑی ہے۔ اگر ہم اپنے تمام مسائل کو حل کرنے کے لیے اس نسخۂ کیمیا کو اپنا لیں تو بے شک ساری مشکلات حل ہوجائیں گی اور آخرت بھی سنور جائے گی۔

٭

حضرت عیاض بن حمار مجاشعیؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ تواضع سے پیش آئو! کوئی کسی پر فخر نہ کرے اور کوئی کسی کے ساتھ زیادتی نہ کرے۔ (مسلم، مشکوٰۃ)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ہدایت کو پیش نظر رکھا جائے تو معاشرے میںانس و محبت کا دور دورہ ہوجائے۔ جب ہر کوئی دوسرے سے اپنے آپ کو چھوٹا سمجھے اور کسی پر فخر نہ کرے اور کسی کے ساتھ زیادتی سے بھی پیش نہ آئے تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ لوگ آپس میں متصادم اور برسرِپیکار ہوں۔ اس کے برعکس ہر ایک دوسرے کا ہمدرد و غم گسار ہوگا اور دوسرے کی مصیبت میں اس کے کام آنے والا ہوگا جس کے نتیجے میں باہمی محبت میں اضافہ ہوگا۔ آج معاشرے کو اس ہدایت کی سخت ضرورت ہے۔

٭

حضرت شداد بن الھادؓ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، ایمان لایا اور پیروی کا عہد کیا اور کہا کہ میں آپؐ کے ساتھ ہجرت کرنا چاہتا ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اس چاہت کو منظور فرمایا اور اسے اپنے بعض صحابہؓ کے حوالے کیا اور انھیں اس کی خیرخواہی، دیکھ بھال اور تعلیم و تربیت کی وصیت کی۔ جب غزوئہ خیبر پیش آیا تو وہ اس غزوے میں اپنے ساتھیوں سمیت شریک ہوا۔ خیبر فتح ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو   مالِ غنیمت ملا۔ آپؐ نے مالِ غنیمت تقسیم کیا تو اس دیہاتی کو جو ایمان لاکر آپؐ کے پاس مدینہ طیبہ میں آگیا تھا اور پھر وہ غزوئہ خیبر میں بھی شریک ہوا تھا، غنیمت میں سے حصہ دیا۔ اس کا حصہ اس کے ساتھیوں نے جن کے ساتھ وہ رہتا تھاحاصل کیا تاکہ اس تک پہنچا دیں۔ وہ اس وقت ان کی سواریوں کو چراگاہ میں لے کر گیا ہوا تھا اور انھیں چرانے کی ذمہ داری ادا کر رہا تھا۔

جب اسے مالِ غنیمت دیا گیا تو اس نے پوچھا: یہ کیا چیز ہے؟ ساتھیوں نے کہا: یہ مالِ غنیمت میں سے تیرا حصہ ہے۔ وہ رسولؐ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میں نے اس کی خاطر آپؐ کی اتباع نہیں کی تھی۔ میں نے تو آپؐ کی پیروی اس لیے کی ہے تاکہ میرے گلے میں تیر لگے (اپنے گلے کی طرف اشارہ کرکے کہا) اور میں شہید ہوکر جنت میں داخل ہوجائوں۔ آپؐ نے اس کی یہ بات سنی تو فرمایا: اگر تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ سچ کرے گا تو اللہ تعالیٰ بھی تیرے ساتھ سچ کرے گا۔ اس کے بعد پھر جنگ کا معرکہ برپا ہوا۔ مسلمان میدانِ قتال میں نکلے تو وہ بھی چل پڑا، لڑا اور گلے میں تیر کھاکر شہید ہوگیا۔ اسے آپؐ کے پاس اُٹھا کر لایا گیا ۔ اسے دیکھ کر آپؐ نے پوچھا: یہ وہی ہے؟ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! یہ وہی ہے۔ آپؐ نے فرمایا: اس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ سچ کیا ہے تو اللہ تعالیٰ نے بھی اس کے ساتھ سچا معاملہ فرمایا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے جُبہ میں کفنایا، پھر اس کی میت کو اپنے سامنے رکھا اور اس کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ نماز میں اس کے حق میں آپؐ نے جو دُعائیہ کلمات کہے ان میں سے یہ کلمات بلند آواز میں فرمائے: اَللّٰھُمَّ ھَذٰا عَبْدُکَ خَرَجَ مُجَاہِدًا فِیْ سَبِیْلِکَ فَقُتِلَ شَہِیْدًا وَاَنَا عَلَیْہِ شَہِیْدٌ، ’’اے اللہ!یہ تیرا بندہ ہے، تیری راہ میں جہاد کے لیے نکلا تھا، شہید ہوگیا۔ مَیں اس کی گواہی دیتا ہوں‘‘۔(بیہقی)

جسے اللہ تعالیٰ، اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے دین کے ساتھ عشق و محبت ہوجائے تو پھر یہ  عشق و محبت اسے اللہ تعالیٰ کی بندگی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و پیروی اور جہاد کے لیے کھڑا کردیتے ہیں۔ دیہاتی ایمان لایا اور پھر آپؐ کے ساتھ رہنے اور جہاد میں حصہ لینے کا عزم کرلیا۔  مالِ غنیمت پر اس کی نظر نہیں بلکہ جامِ شہادت نوش کرنے کا ولولہ ہے۔ اس نے اپنی مراد حاصل کرلی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے یہ اعزازبخشا کہ اپنے جُبہ میں کفنایا اور پھر اس کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور اس کے صدق اور شہادت کی اللہ کے ہاں گواہی دی۔ صحابہ کرامؓ کے انھی جذبات نے دنیا کو اسلام کی طرف کھینچا اور اسے دنیا کے کونے کونے میں پہنچا دیا۔ آج بھی اسی قسم کے جذبے سے سرشار     اہلِ ایمان جاں بازی اور جاں نثاری کے نمونے پیش کر رہے ہیں۔ تکالیف اور مصائب سے دوچار ہیں لیکن ان کے پائے استقامت میں لغزش نہیں آتی۔ یہی لوگ اللہ والے ہیں اور یہی اللہ کو پیارے ہیں اور انھی جیسا بننے کی طلب اور تڑپ پیدا کرنی چاہیے۔

عافیت سے بڑھ کر انسان کو اس دنیا میں کوئی نعمت عطا نہیں کی گئی، عافیت ایک عظیم دائمی نعمت ہے اور کلمۂ اخلاص (لا الہ الا اللہ) کے بعد اس سے بہتر کوئی شے نہیں۔حضرت ابو ہریرہ ؓ نے فرمایا: میں نے حضرت ابوبکر ؓ کو اس منبر رسولؐ پر فرماتے ہوئے سنا : میں نے پچھلے سال آج ہی کے دن رسولؐ اللہ کو فرماتے ہوئے سنا، پھر حضرت ابوبکر صدیقؓ رُکے اور رونے لگے۔ پھر فرمایا: میں نے رسولؐ اللہ کو فرماتے ہوئے سنا: نہیں عطا کی گئی کلمۂ اخلاص کے بعد کوئی شے جو عافیت کے مثل ہو۔ پس اللہ سے عافیت کا سوال کرو (احمد، ترمذی، ابن ماجہ )

یہی وجہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کون سی دعا افضل ہے تو آپؐ نے جواب دیا تھا کہ ’عافیت کی دعا‘۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسولؐ اللہ کے پاس آیا اور پوچھا کہ کون سی دعا افضل ہے؟ فرمایا: اللہ سے دنیا اور آخرت کی عافیت کا سوال کرو۔ اگلے دن وہی آدمی پھر آیا اور اپنا سوال دہرایا: اے اللہ کے رسولؐ !کون سی دعا افضل ہے؟ فرمایا: وہی جو تجھے بتائی تھی۔ تیسرے دن وہ آدمی پھر آیا اور بولا: وہی دعا۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا: جس کو دنیا میں عافیت عطا کی گئی۔ اس کو نہیں عطا کیا جائے گا آخرت میں کچھ سواے فلاح کے۔ (ترمذی)

عافیت کی دعا کی وہ شان ہے کہ اس کا التزام نہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود کرتے تھے بلکہ اپنے گھر والوں کو بھی اس کی تاکید کرتے تھے۔ مسند احمد اور ترمذی میں مذکور ہے، حضرت عباس ؓنے فرمایا: میں نے رسولؐ اللہ سے کہا: مجھے ایسی شے کے بارے میں بتائیے جس کا میں اللہ سے سوال کروں؟ فرمایا: اللہ سے عافیت کا سوال کرو۔ کچھ دنوں کے بعد میں پھر گیا اور رسولؐ اللہ سے پوچھا: مجھے ایسی شے کے بارے میں بتائیے جس کا میں اللہ سے سوال کروں؟ فرمایا: اے عباسؓ!اے میرے چچا!اللہ سے دنیا اور آخرت میں عافیت کا سوال کیجیے۔

رسولؐ اللہ خود عافیت کے بغیر کوئی دعا نہیں مانگتے تھے مسند احمد اور ترمذی  میں مذکور ہے، حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ایک آدمی نے اللہ سے صبر کی دعا کی تو رسولؐ اللہ نے فرمایا: کیا تو اللہ سے ابتلا و آزمایش مانگ رہا ہے؟اگر سوال کرنا ہے تو اللہ سے عافیت کا سوال کر، لہٰذا جس نے اللہ سے صبر کا سوال کیا تو اسے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ صبر مشقت کے بغیر نہیں اور  جس نے مشقت مانگی تو گویا اس نے ابتلا و آزمایش مانگی، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نصیحت کی کہ جب بھی اللہ سے اس کے فضلِ عظیم کا سوال کرو تو عافیت کا سوال کرو۔

عافیت: معنی و مراتب

عربی لغت میں عافیت اسم ہے اور یہ عفو سے نکلا ہے۔ اس کا مطلب مکمل صحت ہے اور  اس کی مختلف قسمیں ہیں۔ دین کے معاملے میں عافیت سے مراد گناہوں اور بدعات جیسے اُمور سے بچنا اور اطاعت میں کاہلی سے چھٹکارا ہے۔ دنیا کے معاملے میں عافیت سے مراد اس کے شر اور مصائب سے اللہ کی پناہ میں آنا ہے۔ خاندان کے معاملے میں عافیت سے مراد مرض و بیماری اور گناہوں کی زیادتی سے سلامتی ہے، جب کہ مالی عافیت سے مراد نت نئی مالی آفتوں سے بچنا ہے۔

عافیت کی ان تمام قسموں میں دینی عافیت انسان کے لیے سب سے نفع بخش ہے کیونکہ  یہ اتنی معتبر ہے کے اس کے مثل دنیا میں کلمۂ اخلاص کے بعد کوئی نعمت نہیں۔ یہ نہ صرف بندے کے ایمان کو قائم رکھتی ہے بلکہ اللہ کی پکڑ سے بھی بچاتی ہے۔ اگر انسان کو سب عافیتوں میں سے کسی عافیت کو چننا پڑے تو دین کی عافیت کے مقابل کسی عافیت کو نہ پائے گا، جو نہ صرف اللہ کی پکڑ   سے بچاتی ہے بلکہ بندوں کے شر سے بھی محفوظ رکھتی ہے۔

عافیت کی قسموں میں بدنی عافیت بھی شامل ہے، کیونکہ یہ انسان کی زندگی ہی ہے جس کی وجہ سے انسان احسن طریقے سے عبادت کر سکتا ہے، اور اپنے دیگر امور کے لیے بھی اقدامات و جدوجہد کر سکتا ہے۔ اسی طرح اس میں خاندان کی عافیت بھی شامل ہے تاکہ اللہ ان کے دین، اخلاق،  صحت، احوال، رزق، مال اور دیگر دنیاوی نعمتوں میں برکت ڈالے۔

عافیت: ایک نعمت

اللہ سے دین و دنیا کی عافیت کا ملنا ایک ایسی نعمت ہے جو ان تمام باتوں کا احاطہ کرتی ہے جن کا تقدیر میں ذکر ہے۔ جو اس بات کو سمجھے اس پر یہ حق ہے کہ وہ اللہ کا شکر ادا کرے کیونکہ یہ توحید کے بعد نعمت ِعظیم ہے۔

حضرت عباس ؓ کا قول ہے: جب تم اللہ تعالیٰ کا قول اُذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ ،تم پر جو اللہ کی نعمتیں ہیں ان کا ذکر کرو، تو کہا کرو: عافیۃ اللّٰہ،اللہ کی عافیت۔ اور جب اللہ تعالیٰ فرمائیں: وَمَا بِکُمْ مِّنْ نِّعْمَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِ ثُمَّ اِذَا مَسَّکُمُ الضُّرُّ فَاِلَیْہِ تَجْــَٔـرُوْنَ o (النحل۱۶:۵۳) ’’تم کو جو نعمت بھی حاصل ہے اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ پھر جب کوئی سخت وقت تم پر آتا ہے    تو تم لوگ خود اپنی فریادیں لے کر اسی کی طرف دوڑتے ہو‘‘۔ اس آیت کی تلاوت کے بعد پھر حضرت عباسؓ نے پوچھا: اے لوگو!کیا تم اس نعمت کو جانتے ہو؟ وہ نعمت ہے عافیت، صحت، سلامتی اور تمھارے مالوں کا نقصان سے بچنا اور یہ سب اللہ کی نعمتیں ہیں، پھر فرمایا: اور یہ بھی اسی کے ہاتھ سے ہوتا ہے، یعنی جو بھی مصیبت تمھارے بدن پر آتی ہے، مثلاً بیماری اور آسایشات میں کمی، تو   تم اللہ کی استعانت طلب کرتے ہو اور اس مستغیث سے دعا مانگتے ہو، کیونکہ تم جانتے ہو کہ اس سے بچانے والا اس کے سوا کوئی نہیں۔ پس تم اللہ کی ثنا بیان کرو، اس کی اطاعت کرو اور اس کا شکر ادا کرو تاکہ وہ تمھیں گناہوں سے بچائے اور مغفرت کرے۔

عافیت اور ابتلا

ابتلا و آزمایش اللہ کی اپنی مخلوقات کے لیے سنت ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کا کثرت سے تذکرہ کیا ہے، کیونکہ یہ یا تو گناہوں کا کفارہ ہے یا پھر درجات کی بلندی کا ذریعہ ہے۔ انسان مصیبت میں یا تو اپنے گناہوں کی وجہ سے گرفتار ہوتا ہے، یا پھر اللہ اپنے بندے کی آزمایش کرتے ہیں، جیسا کہ انبیاے کرام ؑمیں حضرت ایوب علیہ السلام کی ہوئی تاکہ ان کے درجات بلند ہوں۔ 

انسان پر جو بھی پریشانی و مشکلات آتی ہیں یا آسایشات و کشادگیاں ملتی ہیں وہ سب آزمایش کی قسمیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: وَ نَبْلُوْکُمْ بِالشَّرِّ وَ الْخَیْرِ فِتْنَۃً ط وَ اِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَo  (انبیا ۲۱:۳۵)’’اور ہم تمھیں اچھے اور بُرے حالات میں ڈال کر تم سب کی آزمایش کر رہے ہیں۔ آخرکار تمھیں ہماری ہی طرف پلٹنا ہے‘‘۔

حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو لکھا: دنیا میں جو رزق تمھیں دیا گیا ہے اس پر قناعت کرو ،کیونکہ یہ تو رحمن کا فضل ہے جو وہ اپنے بندوں میں سے کچھ بندوں پر رزق کے معاملے میں کرتا ہے۔ اس طرح سے وہ سب لوگوں کو ان کی بساط کے مطابق آزمایش میں مبتلا کرتا ہے تاکہ وہ دیکھے کہ کون کیسے شکر ادا کرتا ہے، اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے سے ہی یہ حق ادا ہوتا ہے اور یہ واجب ہے ۔

عافیت کی نعمت کا نہ ہونا اور آزمایش کا آنا متنبہ کرتا ہے کہ آدمی شکر اور ذکر کا محتاج ہے۔ رزق کا اُٹھا لیا جانا بھی آزمایش ہے، جس میں صبر واجب ہے۔ ذرا سوچیے، مومنین جنھیں صبر سے نوازا گیا اور شکر عطا کیا گیا۔ ان کا اللہ کے ہاں کیا مقام ہوگا! اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: وَ اِنَّ کُلًّا لَّمَّا لَیُوَفِّیَنَّھُمْ رَبُّکَ اَعْمَالَھُمْط اِنَّہٗ بِمَا یَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ o (ھود ۱۱:۱۱۱)’’اور یہ بھی واقعہ ہے کہ تیرا رب انھیں ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے کر رہے گا، یقینا وہ ان کی سب حرکتوں سے باخبر ہے ‘‘۔

ابتلا :عافیت کا سبب

ابتلا کسی بھی بُرے کام کے سبب آ سکتی ہے۔ ابتلا عبادت میں تغیر کے سبب سے بھی آتی ہے اور اس صورت میں ابتلا ظاہری طور پر ہوتی ہے، اور باطنی طور پر بھی اللہ کے اذن سے عافیت ہوتی ہے۔ اس کیفیت کا پایا جانا ابتلا کی حکمتوں میں سے ہے۔ ایسی صورت حال میں انسان کو اپنے نفس کا محاسبہ، رب کی طرف پلٹنے کی فکر اور توبہ کرنی چاہیے، تاکہ ابتلا ایک نعمت اور خیر کا   سبب بن جائے۔ اس لیے ہمیں ابتلا پر نظر رکھنی چاہیے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: وَ لَنُذِیْقَنَّھُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰی دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَکْبَرِ لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَo (السجدہ ۳۲:۲۱)  ’’اس بڑے عذاب سے پہلے ہم اسی دنیا میں (کسی نہ کسی چھوٹے) عذاب کا مزا انھیں چکھاتے رہیں گے شاید کہ یہ (اپنی باغیانہ روش سے) باز آجائیں‘‘۔

 حضرت عباس ؓ فرماتے تھے کہ چھوٹا عذاب اس دنیا کے مصائب ہیں، اور جس پر ابتلا آئے اسے اللہ کا بندہ بن کر توبہ کرنی چاہیے۔ ابتلا و آزمایش کا سبب خواہ کچھ بھی ہو، اس سے نکلنے کا راستہ صرف اللہ کی اطاعت ہے، کیونکہ صرف اطاعت کی دوا ہی ابتلا کے مرض سے شفا دیتی ہے، اور ابتلا کا ازالہ بھی کرتی ہے۔

دافع ابتلا

ایک مسلمان کو اس بات کا یقین ہونا چاہیے کہ وہ جس ابتلا میں گرفتار ہے وہ اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہے، اور وہی رب ذوالجلال اسے دفع کر سکتے ہیں اور درجات بلند کر سکتے ہیں۔ حضرت عباس ؓ نے استسقا کے لیے انھی دلائل کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ اللہ آزمایش میں گناہوں کی وجہ سے مبتلا کرتے ہیں، اور جب تک توبہ نہ کی جائے وہ اسے دور نہیں کرتے۔

حضرت سلمان فارسی ؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: قضا کو کوئی چیز رد نہیں کرتی سواے دعا کے۔ اور عمر میں کوئی چیز اضافہ نہیں کرتی سواے نیکی کے (مسند احمد و طبرانی)۔ امام شوکانی  ؒ کہتے ہیں کہ دعا دافع قضا ہے بندے کے لیے، یعنی اللہ کی پناہ ہی دعا کا حاصل ہے۔  دعا کفایت کرتی ہے ہر شر سے جو بندے کے مقدر میں لکھا ہے۔ لہٰذا دعا ہی دافع ابتلا ہے۔ جو کوئی یہ جاننا چاہے کہ ابتلا کے مرض کی شفا کیا ہے تو اس کا اعتقاد اس بات پر ہونا چاہیے کہ اس کی شفا  اللہ کی طرف سے عافیت میں ہے۔ عافیت رب ذوالجلال اسے عطا کرتے ہیں جس سے وہ خوش ہوں اور اپنی نعمتوں سے نوازنا چاہیں یا پھر اپنے بندے کی آزمایش چاہیں۔

ابتلا: رحمت و اجر

ابتلا میں بھی اللہ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوتی ہیں جیسا کہ مریض کو حالت ِمرض میں  ان سارے اعمال کے اجر ملتے ہیں جو وہ صحت مندی کی حالت میں انجام دیتا تھا، کیونکہ اگر وہ صحت مند ہوتا تو وہ نیک اعمال کو انجام دیتا جسے وہ بیماری کی وجہ سے کرنے سے قاصر ہے۔ اس پر  اللہ کا مزید کرم و نوازش دیکھیے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَ ھُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً ج وَ لَنَجْزِیَنَّھُمْ اَجْرَھُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ o (النحل ۱۶:۹۷)جو شخص بھی نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور (آخرت میں) ایسے لوگوں کو ان کے اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے۔

مومن کی زندگی تو مکمل خیر ہے۔ اس کی ابتلا بھی مکمل خیر ہے اور اس کو جو نعمتیں مختلف مواقع پر دی جاتی ہیں وہ بھی خیر ہیں۔ پس اسے عافیت کی نعمت کا شکر ادا کرنا چاہیے، جب کہ وہ ابتلا   دیکھ چکا ہو۔مومن کا ہر غم ثواب کا سبب ہے، ہر اس چھوٹی بڑی شے کے بدلے میں جو اس سے  اس دوران روک لی گئی تھی، یہ ہے حال مومن کا!

حضرت ابو موسٰی ؓ سے روایت ہے، رسولؐ اللہ نے فرمایا: مریض اور مسافر کے حساب میں وہ سارے اعمال لکھے جاتے ہیں جو وہ حالت ِصحت اور قیام میں کرتا تھا(بخاری)۔ اسی بات کو ابوداؤد نے ذرا مختلف الفاظ کے ساتھ اس طرح نقل کیا ہے: جو بندہ نیک عمل کرتا ہے پھر یا تو وہ مرض میں مبتلا ہو جاتا ہے یا سفر اختیار کرتا ہے، تو اس کے اعمال میں نیک اعمال اسی طرح لکھے جاتے ہیں، جس طرح وہ حالت ِصحت میں اپنے قیام کے دوران کیا کرتا تھا۔

انواع المرض

مرض کی دو قسمیں ہیں۔پہلا مرض وہ ہے جو جسم کو لاحق ہوتا ہے جسے عرف عام میں بیماری کہتے ہیں۔ اس کا پہلا علاج اللہ کی طرف توجہ اور اس سے شفا کی طلب ہے۔ پھر اسباب کا اختیار کرنا جیسے کہ ڈاکٹر کو دکھانا، دوا کھانا اور پرہیز کرنا وغیرہ ۔یہ دونوں چیزیں مل کر انسان کو شفا دیتی ہیں۔

مرض کی دوسری قسم حقیقت میں زیادہ مہلک ہے اور یہ جسم کے ظاہری عضو کا مرض نہیں بلکہ دل کا مرض اور اس کا فساد ہے۔ اس کی بڑی وجہ اللہ کی اطاعت سے غفلت ہے۔ اس مرض کے بڑھنے کے اسباب میں سے ایک دل کا گناہوں سے سیاہ ہو جانا ہے، جس سے اس کی بصیرت ختم ہوجاتی ہے اور دل پر قفل پڑجاتا ہے۔اس مرض کی کئی اقسام ہیں، جیسے کہ مرض شہوات، مرض شبہات۔ انسان ان سے بچ نہیں سکتا سواے سلامتی کے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: یَوْمَ لاَ یَنْفَعُ مَالٌ وَّلاَ بَنُوْنَ o اِِلَّا مَنْ اَتَی اللّٰہَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ o (الشعراء ۲۶:۸۸-۸۹)’’جس دن  نہ مال کوئی فائدہ دے گا نہ اولاد، بجز اس کے کہ کوئی شخص قلب ِ سلیم لیے ہوئے اللہ کے حضور حاضر ہو‘‘۔

انسان کی طرح دل بھی زندگی و موت کے بیچ میں منقسم ہے: زندہ، مُردہ اور مریض۔  زندہ یا سلیم قلب ایک مومن کا قلب ہوتا ہے۔ مُردہ قلب ایک کافر یا منافق کا خاصہ ہے، اور مریض قلب زندگی اور موت کے درمیان میں ہے یا تو قلب ِسلیم بنے گا یا پھر اس کی موت واقع ہو گی۔

قلب کے مرض میں قلب کا درد ملتا ہے، جیسے شک اور جہالت۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا کہ آدمی سوال تو جب کرتا ہے جب اسے علم ہو اور شفا تو سوال کرنے پر ملتی ہے۔ جہاں تک شک کا تعلق ہے تو شک کسی بھی چیز کی وجہ سے دردِ دل بن جاتا ہے، حتیٰ کہ آدمی علم اور یقین حاصل کرلے۔ کیونکہ کہتے ہیں کہ جو جواب مانگے گا اسے حق کی پہچان شفا کے طور پر دی جائے گی۔  مریض قلب کا اختتام موت ہے مگر اس کی زندگی، موت، مرض اور شفا ایک اٹل حقیقت ہیں۔

عافیت کا راستہ صرف اللہ عزوجل سے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے جو صرف اطاعت کے راستے پر چل کر ہی مل سکتا ہے۔ پس ابتلا کی سمجھ سے تطہیر کی ابتدا ہوتی ہے اور بندہ عافیت کے راستے پر چل پڑتا ہے، جس سے اس کے درجات بھی بلند ہوتے ہیں ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دن رات اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگتے تھے۔ حضرت عبداللہ   بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ میں نے کوئی دن اور رات ایسی نہیں دیکھی جب رسولؐ اللہ یہ کلمات نہ ادا کرتے ہوں:

اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِیْ دِیْنِیْ وَ دُنْیَایَ وَ أَہْلِیْ وَ مَالِیْ، اَللّٰہُمَّ اسْتُـرْ عَوْرَتِیْ، وَٰامِنْ رَوْعَتِیْ،  اَللّٰہُمَّ احْفَظْنِیْ  مِنْ بَیْنِ یَدَیَّ وَمِنْ خَلْفِیْ، وَعَنْ یَّمِیْنِیْ وَعَنْ شِمَالِیْ ، وَمِنْ فَوْقِیْ، وَأَعُوْذُ بِعَظَمَتِکَ اَنْ اُغْتَالَ مِنْ تَحْتِیْ۔ (عن عمرؓ، ابوداؤد، ابن ماجہ، نسائی)

اے اللہ! میں تجھ سے مانگتا ہوں، معافی اور عافیت اپنے دین میں اور اپنی دُنیا میں، اور اپنے اہل اور مال میں۔ اے اللہ! میرا عیب ڈھانپ دے اور خوف کو امن سے بدل دے۔ اے اللہ! میری حفاظت کر، میرے آگے سے اور پیچھے سے اور میرے داہنے سے اور میرے بائیں سے اور میرے اُوپر سے، اور مَیں تیری عظمت کے واسطے سے پناہ چاہتا ہوں اس سے کہ ناگہاں اپنے نیچے سے پکڑ لیا جائوں۔

(الطریق الی العافیۃ سے اخذ و ترجمہ)

مضمون نگار سے رابطے کے لیے ای میل: taxonomy.ashraf@gmail.com

انسان جب مخالف سمت میں محوِ سفر ہو تو اُس کو تھکاوٹ کے سوا کیا حاصل ہوسکتا ہے۔ نہ وہ منزل کو پاسکتا ہے اور نہ منزل اُس سے قریب ہوسکتی ہے۔ہمارا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ قرآنِ مجید کا نسخۂ ہدایت ہمارے گھروں کی زینت ہے۔ لائبریریوں میں موجود ہے، گاڑیوں میں رکھا ہوتا ہے، غرض یہ کہ قرآن ہر جگہ موجود ہوتا ہے۔ ہم جدید و قدیم ہر ذریعے سے اس کو سن اور تلاوت کرسکتے ہیں۔ ہم میں سے کثیرتعداد اس کی تعلیم اس لیے حاصل کرتی ہے کہ وہ اس کو ناظرہ پڑھ سکیں، زبانی یاد کرسکیں۔ ہم اس قرآن کو نمازوں میں سنتے اور پڑھتے ہیں۔ خود بھی سال بھر بلکہ ساری زندگی اس کی تلاوت کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ ضروری ہے، بہت قابلِ رشک ہے___ مگر سوال یہ ہے کہ ہم یہ سب کچھ کیوں کرتے ہیں؟ کیا اس لیے کہ قرآن کو ہم اپنے لیے وہ دستورِ حیات سمجھتے ہیں جو ہمارے خالق و مالک نے ہمارے لیے نازل کیا ہے اور اس کو اپنی زندگیوں میں نافذ کرنے کا حکم دیا ہے؟ کیا ہم واقعی دنیا اور اس کے بچھے ہوئے جال سے بچ کر خوشنودیِ رب اور سعادتِ دارین کی خاطر ایسا کرتے ہیں؟

قابلِ تعریف بات تو یہی ہے کہ ایسا ہی ہو مگر ہم دیکھتے ہیں کہ جگہ جگہ درسِ قرآن کی محافل منعقد ہوتی ہیں۔ لوگ ایسی آیات کے دروس سننے کے لیے ذوق و شوق سے آتے ہیں جو آیات محبت ِ الٰہی پر اُبھارتی ہوں، ان میں سامعین کی دل چسپی بہت گہری ہوتی ہے۔لیکن جونہی آپ  اُن سے کسی ایسی آیت پر گفتگو کریں جو انسانی عادات اور معاشرتی رویوں کے خلاف ہو ، تو لوگوں کے ذہن ایسی باتوں کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ بیش تر معاشروں میں کسی آیت کے نفاذ کو لوگ اہمیت نہیں دیتے ہیں، حالانکہ یہ معاشرے اسلامی ہوتے ہیں اور اس لحاظ سے اُن کے رسوم و رواج اور عادات و اطوار تو بالکل آیاتِ قرآن سے متصادم نہیں ہونے چاہییں۔ افسوس کے ساتھ مَیں آپ کو ایک ایسے ہی واقعے سے متعارف کروانا چاہتی ہوں، تاکہ ایسے معاشرتی رویوں کی خطرناکی واضح ہوسکے جن کی اللہ نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی مگر وہ ہمارے معاشروں کی اقدار، روایات، رواج اور عُرف و عادت کے طور پر فرض کا درجہ حاصل کرچکے ہیں۔

ایک خاتون اچھے مشاہرے پر ملازم تھی۔ ایک طویل انتظار کے بعد اس کی شادی ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے اُس کو اولاد کی نعمت سے نوازا۔ وہ اپنے بچوں کے درمیان ایک خوش گوار احساس لیے زندگی بسر کر رہی تھی ___مگرایک روز ایسا ناخوش گوار واقعہ پیش آگیا جو اکثر گھروں میں پیش آتا ہے، یعنی شوہر کے ساتھ ناچاقی کا حادثہ۔ خاتون کے خیال میں اُس کا شوہر بعض اہم گھریلو  ضروریات پوری کرنے سے قاصر تھا۔ اُس نے بہت سے وعدے کیے مگر کوئی ایفا نہ ہوا۔ پھر خاتون نے بھی وہی کیا جو عمومی طور پر آج کی عورتیں کرتی ہیں۔ اُس نے شوہر کا گھر چھوڑا اور میکے میں جاکر رہنا شروع کر دیا۔ جاتے ہوئے یہ تک کہہ گئی کہ تم وعدہ پورا کرو گے تو مجھے واپس لاسکو گے۔

پھر دنوں پر دن گزرتے رہے، شوہر تنہا رہا، البتہ شیطان اُس کا ساتھی تھا۔ شیطان اس واقعے کو اُس کے لیے بہت اہم بناکر اُسے غیرت دلاتا رہا، اُس کو عدم مردانگی کا طعنہ دیتا رہا کہ وہ بیوی کی بغاوت کو بھی نہیں کچل سکا۔شوہر بیوی سے یہ کہتے ہوئے ملا کہ : ’’گھر آکر اپنی تمام ذاتی اشیا لے جائو‘‘۔ شوہر نے اس کے لیے وقت مقر کردیا اور خود اتنا وقت گھر سے باہر رہنے کا کہا۔ آخر میں یہ کہا: ’’آج کے بعد تو اس گھر میں داخل نہیں ہوسکتی‘‘۔ خاتون شوہر کے ساتھ جس گھر میں رہایش پذیر تھی وہ اس کے شوہر کے والد کی جایداد تھی۔ خاتون نے ایک دفعہ تو سوچا کہ میں اور میرے بچے اس گھر کے سوا کہاں گزارا کریں گے کیونکہ اپنے والدین کے ساتھ تو میں بچوں سمیت رہ نہیں سکوں گی۔ پھر اُس نے اپنی ساس سے ملاقات کی اور اس سے شکایت کرنا چاہی مگر بدقسمتی سے وہ بھی الٹا الزام تراشی کرنے لگی کہ میرے بیٹے نے تو یہ سب کچھ تنگ آکر کیا ہے۔ خاتون کو یقین نہیں آرہا تھا کہ میں جو کچھ سن رہی ہوں یہ حقیقت ہے۔

خاتون کے والدین کو اس واقعے کا علم ہوا تو والد غضب ناک ہوکربولا: کیا اس کا شوہر   یہ رشتہ لینے اس کے والدین کے گھر نہیں آیا تھا؟ اب ایسے اہم مسئلے میں وہ لڑکی کے والد سے رجوع کیوں نہیں کرسکتا؟ فضا خاصی ناسازگار ہوگئی تھی۔ سب کا خیال تھا کہ جو کچھ ہوا ہے یہ بڑی رُسوائی ہے، اس کا ازالہ اس مرد سے طلاق لے کر ہی ہوسکتا ہے۔ بالآخر طلاق ہوگئی۔

خاتون کے تعلقات ایک تحریکی ساتھی کے ساتھ تھے۔ اُس نے وقت ضائع کیے بغیر اُس سے رابطہ کیا اور آہ و بکا کے بعد ذرا پُرسکون ہوئی تو اپنی داستان سنانے لگی اور اُسے اپنے اور اپنے بچوں کے اُوپر ہونے والے ظلم کی انتہا قرار دیا۔ تحریکی ساتھی نے کہا: اللہ کا شکر ہے کہ اس نے اپنی رحمت سے اس طرح کی مشکلات کے حل کے لیے ہمیں ایک دستور عطا کیا ہے۔ تم دونوں کا یہ عمل کتاب اللہ اور سنت ِ رسولؐ پر پیش کرتے ہیں تاکہ حقیقت میں دیکھ سکیں کہ ظالم کون ہے اور مظلوم کون؟ خاتون کے سانس بحال ہوئے، اور وہ ہرلفظ کو بڑے غور اور توجہ سے سننے کی کوشش کررہی تھی۔ تحریکی ساتھی نے کہا: تو نے اپنا گھر کیوں چھوڑا جب تو اپنے شوہر سے ناراض تھی؟ تجھے معلوم نہیں کہ وہ ایک مشکل مرحلے میں ہے، یعنی طلاق دے چکا ہے۔ رجعی طلاق میں عورت کے لیے مناسب نہیں کہ وہ اپنا گھر چھوڑ دے۔ یہ اللہ سبحانہٗ کا حکم ہے، فرمایا:

لَا تُخْرِجُوْہُنَّ مِنْ م بُیُوْتِہِنَّ وَلَا یَخْرُجْنَ اِِلَّا ٓ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ ط وَتِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ ط وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ (الطلاق ۶۵:۱) (زمانۂ عدت میں) نہ تم انھیں اُن کے گھروں سے نکالو، اور نہ وہ خود نکلیں، الا یہ کہ وہ کسی صریح بُرائی کی مرتکب ہوں۔ یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں اور جو کوئی اللہ کی حدوں سے تجاوز کرے گا وہ اپنے اُوپر خود ظلم کرے گا۔

لوگوں کا حال یہ ہے کہ جب عورت کو پہلی طلاق دی جاتی ہے تو وہ فوراً اپنے میکے چلی جاتی ہے۔ یہ غلط اور حرام ہے کیونکہ اللہ کا حکم ہے کہ نہ تم انھیں گھروں سے نکالو اور نہ وہ خود وہاں سے نکلیں۔ استثنائی صورت ہے تو صرف یہ کہ وہ عورت کسی بے حیائی کا ارتکاب کرے۔ پھر فرمایا:

وَتِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ ط وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ (الطلاق ۶۵:۱)  یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں اور جو کوئی اللہ کی حدوں سے تجاوز کرے گا وہ اپنے اُوپر خود ظلم کرے گا۔

اس کے بعد اس حکم کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا: لَا تَدْرِیْ لَعَلَّ اللّٰہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ اَمْرًا (الطلاق ۶۵:۱) ’’تم نہیں جانتے ، شاید اس کے بعد اللہ (موافقت کی) کوئی صورت پیدا کردے‘‘۔لہٰذا مسلمانوں پر واجب ہے کہ حدود اللہ کا خیال رکھیں اور اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کریں۔ شرعی اُمور و احکام کو معاشرتی اور ذاتی روایات کی بھینٹ نہ چڑھائیں۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ اسلام اس مشکل کے حل کے لیے کیسے راہ نکالتا ہے۔ فرمایا:

وَ اِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِھِمَا فَابْعَثُوْا حَکَمًا مِّنْ اَھْلِہٖ وَ حَکَمًا مِّنْ اَھْلِھَاج اِنْ یُّرِیْدَآ اِصْلَاحًا یُّوَفِّقِ اللّٰہُ بَیْنَھُمَا ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًا خَبِیْرًا (النساء ۴:۳۵) اور اگر تم لوگوں کو کہیں میاں بیوی کے تعلقات بگڑ جانے کا اندیشہ ہو تو ایک حَکم مرد کے رشتہ داروں میں سے اور ایک عورت کے رشتہ داروں میں سے  مقرر کرو، وہ دونوں اصلاح کرنا چاہیں گے تو اللہ اُن کے درمیان موافقت کی صورت نکال دے گا، اللہ سب کچھ جانتا ہے اور باخبر ہے۔

یہاں بات صرف شقاق (بگاڑ) کے خدشے کی ہے۔ اگر یہ خدشہ نظر آجائے تو اس سے ڈرنا چاہیے اور اُس وقت دو حَکم (ثالث) ، ایک عورت کی طرف سے اور ایک مرد کی طرف سے مداخلت کریں۔ ان دونوں کا مقصد اصلاح ہو۔ اب میاں بیوی لازماً ایک ہی گھر میں رہیں گے۔ یہ دونوں ثالث اُن کے پاس اصلاح اور صلح و صفائی کی غرض سے جائیں گے جہاں یہ دونوں میاں بیوی مقیم ہوں گے اور انھیں اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کا احساس بھی ہوگا کہ وہ دونوں اصلاح کرنا چاہیں گے تو اللہ اُن کے درمیان موافقت کی صورت نکال دے گا۔

یہ اس معاملے کے حل کی قرآنی صورت ہے۔ اب اس صورت حال کو پیدا کرنا مرد و عورت کو الگ الگ رکھ کر ممکن نہیں، نہ ٹیلی فون پر گفتگو کے ذریعے اس نتیجے پر انھیں پہنچایا جاسکتا ہے۔ لیکن آج کل یہی ہوتا ہے، جس کا نتیجہ کچھ نہیں نکلتا ہے۔چنانچہ تحریکی ساتھی نے اُس سے کہا کہ تو کیوں غضب ناک ہوکر اپنا گھر چھوڑ آئی؟ اُس گھر کو تیرا گھر تو اللہ تعالیٰ نے قرار دیا ہے۔ عورت اپنے میکے کی طرف نہیں جاسکتی خواہ اُس کے اور شوہر کے درمیان بگاڑ کا خدشہ ہی ہو، بلکہ وہ اپنے گھر میں جم کر رہے اور اصلاح کی پوری کوشش کرے۔ اس کے بعد اگلا مرحلہ آئے گا، یعنی اُس کی ذاتی کاوش کے بعد اگلا مرحلہ ثالثوں کی کوشش کا ہوگا۔ نہ تم نے یہ کیا ہے اور نہ تمھارے شوہر نے۔ خاتون نے بڑی انکساری سے پوچھا: تو پھر اب اس کا حل کیا ہے؟ تحریکی ساتھی نے جواب دیا: اپنے گھر واپس چلی جائو۔ اُس نے کہا: یہ تو مشکل ہے۔ مجھے جو کچھ کہا گیا ہے میرے جانے کے بعد اب وہ کیسے مجھے برداشت کریں گے؟ میں اس صورت حال میں خود اپنی عزت کو کیسے رُسوائی سے دوچار کرسکتی ہوں؟

تحریکی ساتھی نے کہا: سبحان اللہ، کیا تجھے شروع میں ہی یہ اندازہ نہیں ہوا کہ اسی طرح کی کیفیت میں تو اللہ تعالیٰ کوئی راستہ نکالے گا۔ پھر بات یہ ہے کہ یہی ابلیس کا مسئلہ تھا۔ وہ بھی ہماری طرح جانتا تھا کہ اللہ ایک ہے۔ زمین و آسمان کی حکومت اُس کے ہاتھ میں ہے۔ وہ یہ سب کچھ جانتا تھا مگر جب اللہ نے اپنی بادشاہت میں زمین پر ایک خلیفہ بنانا چاہا تو یہاں شیطان نے اعتراض کر دیا۔ آج اپنے گردوپیش میں ہم بھی یہی کچھ دیکھتے ہیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ اللہ ایک ہے، وہی نگہبان و نگران ہے۔ ہم اسماے حسنیٰ کا ورد کرتے ہیں، اپنے خالق و مالک کے لیے نماز ادا کرتے اور روزہ رکھتے ہیں۔ کبھی صدقہ و خیرات بھی کردیتے ہیں۔ خالق اور معبود کے ساتھ اپنی محبت کا واشگاف اظہار کرتے ہیں۔ لیکن جونہی اس خالق اور معبود کا کوئی ایسا قانون ہمارے سامنے آتا ہے جو ہماری عادات سے ٹکراتا ہو، ہماری خواہشات کے برعکس ہو، تو اس کے نفاذ کی بات ہمارے اُوپر سکتہ طاری کردیتی ہے۔ جب ہمارا عمل یہ ہے تو پھر ہم معبود کی ربوبیت اور اُلوہیت کے کیونکر قائل ہوسکتے ہیں؟ اُس کے حکم کو سن کر کیوں اس پر عمل کرنا لازمی نہیں سمجھتے؟ مَیں سمجھتی ہوں کہ آپ کے والد نیک آدمی ہیں، آپ اُن سے کہیں کہ وہ آپ کے شوہر کو بلائیں اور اُس کی بات سنیں۔ اگر وہ اُس کے ساتھ گفتگو میں کسی حل پر نہ پہنچ سکیں تو مرد کے خاندان سے کسی ثالث کو بلالیں، اور اس کے ساتھ بیٹھ کر اس بکھرتے ہوئے خاندان کو یک جا کرنے کی کوئی سبیل نکالیں۔

خاتون کے شوہر کو بلایا گیا تو اُس نے آکر خاتون کے والد سے کہا کہ یہ اب آپ کی بیٹی ہے، یعنی میں اس کو طلاق دے چکا ہوں۔ والد اس کو رسوم و رواج کے مقابلے میں قرآن کی تعلیمات سے آگاہ کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ اس نے کہا کہ اس حالت میں تمھیں اپنی بیوی کو اپنے گھر میں رکھنا چاہیے کیونکہ یہ اللہ کا حکم ہے۔ خاتون کے والد نے اللہ کا وہ دستور اُس کے سامنے کھول کر رکھ دیا جس دستور کی بنیاد پر اُس کی بیٹی اس مرد کی بیوی قرار پائی تھی۔ سورئہ طلاق کی پہلی آیت اُس کے سامنے رکھی۔ نوجوان نے آیت دیکھ لی مگر کہتا رہا کہ ہم تو ایسا نہیں کریں گے۔ مطلقہ لڑکی اپنے والدین کے گھر میں ہی رہتی ہے، شوہر کے گھر میں نہیں۔ طلاق کے بعد اب وہ کیسے میرے پاس رہ سکتی ہے؟ خاتون کے والد نے مومنانہ وقار کے ساتھ کہا: ایک گھنٹہ قبل مَیں بھی تمھاری طرح ہی سوچ رہا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے صحیح راہ کی طرف میری رہنمائی کردی اور میں نے فیصلہ کیا کہ اب اپنی عمر کا اختتام اس آیت کے نفاذ پر کروں۔ تم یہ خیال نہ کرو کہ یہ فیصلہ میرے لیے کوئی آسان تھا، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ اُس کے احکام ہیں جس کی ہم نے تمھارا نکاح کرتے ہوئے اطاعت کی تھی۔

معاملہ شوہر کے ہاتھ میں چلا گیا۔ وہ بیوی کو طلاق دینا چاہتا تھا اور بیوی اُس کے گھر سے اپنی ذاتی اشیا اُٹھا کر واپس لانا چاہتی تھی۔ گویا معاملہ ایسا معمولی تھا کہ کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔ لیکن اب مرد اپنے گھروالوں سے کیا کہے۔ اس پر اُس کی والدہ کا ردعمل کیا ہوگا۔ طلاق کے بعد وہ گھر میں کیسے رہ سکے گی؟ نوجوان نے خاتون کے والد سے کچھ مہلت مانگی کہ وہ سوچ بچار کرلے پھر جواب دے گا۔

خاتون نے تحریکی ساتھی سے یہ ساری صورت حال بیان کی تو اُس نے خاتون کو اپنے گھر چلے جانے کا مشورہ دیا۔ اس کے شوہر سے بھی کہا کہ وہ بیوی کو گھر لے آئے کیونکہ بہرحال یہی خاتون کا گھر ہے۔ خاتون کے دل میں جنگ برپا تھی کہ وہ کیسے ایک بار پھر سسرال کے ہاں جائے گی؟ اُن کا ردعمل کیا ہوگا؟ تحریکی ساتھی نے اُس کو کثرت کے ساتھ ذکر الٰہی کرنے اور اپنے گھر میں داخل ہوتے وقت  اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ پڑھنے کو کہا۔بالآخر خاتون اپنے بچوں کو لے کر اپنے گھر چلی گئی۔

پاک ہے وہ ذات جس نے فرما رکھا ہے:  لَا تَدْرِیْ لَعَلَّ اللّٰہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ اَمْرًا (الطلاق ۶۵:۱) ’’تم نہیں جانتے ، شاید اس کے بعد اللہ (موافقت کی) کوئی صورت پیدا کردے‘‘۔ جب بیوی اور شوہر باہر نکلے تو وہ اپنے ساتھ پیش آنے والے حالات پر گفتگو کر رہے تھے۔ بیوی نے اپنے گھر سے نکل کر شریعت کے خلاف عمل پر معذرت کی۔ اُس نے دراصل اس واقعے سے ایک سبق سیکھا اور قرآنِ کریم کی ایک آیت کے اُوپر عمل اور اس کے حقیقی نفاذ کو ممکن بنایا۔ وہ ہزاروں درسِ قرآن بھی سنتی تو آیات کی ایسی تفہیم اُسے حاصل نہ ہوسکتی جو اَب ہوچکی تھی۔

اُس کے شوہر نے سوچنے کے لیے وقت مانگا، مگر جب بیوی بچے اُس کے پاس چلے گئے تو  حالات نے اُس کو عملی کیفیت میں لاکھڑا کیا۔ اُس نے اپنے بچوں کو دیکھا،بیوی پر نگاہ پڑی کہ وہ خود کو تبدیل کرنا چاہتی ہے، تو برف پگھلی اور میاں بیوی کے درمیان رحمت و مؤدت اُبھری۔  تحریکی ساتھی کے ساتھ آخری گفتگو میں خاتون نے بتایا کہ معاف کیجیے گا میرے پاس وقت نہیں، میرے شوہر میرا انتظار کر رہے ہیں۔ انھوں نے مجھے شام کے کھانے کی دعوت دی ہے۔ بچے کہاں ہیں؟ اُس نے کہا: اُنھیں اُن کی دادی کے پاس چھوڑ آئے ہیں، ہم اکیلے جارہے ہیں۔ اُس کی آواز فرحت و مسرت سے سرشار تھی۔ تحریکی ساتھی نے فون بند کیا اور وہ کہہ رہی تھی: ’’اے رحمن و رحیم!  وہ شخص کامیاب ہوگیا جس نے تیری آیات پر عمل کیا‘‘۔(mugtama.com)

اسلام کا بنیادی عقیدہ یہ تصور ہے کہ انسان اللہ کا بندہ ہے۔ عربی میں اللہ کے بندے کو ’عبداللہ‘ کہتے ہیں۔ یہ نام مسلمان ملکوں میں عام پایا جاتا ہے۔ اسلام کے حقیقی معنی ہیں اللہ کی مرضی کے آگے جھک جانا۔ وہ سب لوگ جو اللہ کی اطاعت و رضا کی اس زندگی کو اختیار کرتے ہیں مسلمان کہلاتے ہیں۔ چونکہ اللہ کی ذات برترو بالا ہے اور وہی ساری کائنات کی فرماں روا ہے، اس لیے مسلمان ذہن کو کلیسا اور ریاست کی تفریق کا مسیحی تصور بالکل غیرمنطقی نظر آتا ہے۔ اسلامی حکومت کا مقصد اللہ کے قانون کا نفاذ ہے، جو قرآن و سنت میں محفوظ ہے۔ مسلمان حکمران نہ تو خود قانون کی حیثیت اختیار کرسکتا ہے، نہ وہ اپنے طور پر کوئی نیا قانون بنانے کا حق رکھتا ہے۔ شریعت ِ الٰہی کو کبھی بدلا نہیں جاسکتا۔ ہاں ، اس کی تعبیر کی جاسکتی ہے، وہ بھی کڑی حدود کے اندر۔

ہرچیز کا مالک اللہ ہے۔ انسان کی اپنی کوئی چیز نہیں ہے۔ وہ کلیتاً اللہ تعالیٰ کا دست ِ نگر ہے۔ ہر وہ شے جو انسان کے قبضہ و تصرف میں ہے، حتیٰ کہ اُس کا جسم بھی___ اللہ تعالیٰ نے محض مستعار دی ہے، تاکہ وہ اسے حتی الامکان انتہائی معقول طریقے سے کام میں لائے۔ اگر کوئی شخص اِس ذمّہ داری سے پہلوتہی کرتا ہے تو وہ عبرت ناک سزا پائے گا۔ انسان کا فرض ہے کہ وہ اللہ کی بندگی کا حق ادا کرنے کے لیے بوقت ضرورت ہرشے اپنی ذاتی مسّرت،اپنا عیش و آرام، اپنی خواہشات، آسایشیں، دولت، مال و متاع، حتیٰ کہ زندگی تک راضی خوشی قربان کردینے میں کوئی پس و پیش نہ کرے۔ اِس کا اجر اُسے ابدی مسرت اور قلبی اطمینان کی صورت میں ملے گا۔ ’اللہ کا بندہ‘ ہونے کا مطلب انسانوں کے جورواستبداد سے آزادی ہے۔ سچا مسلمان کسی انسان سے نہیں ڈرتا، وہ صرف اللہ سے ڈرتا ہے۔

مسلمان دنیا کو دو مخالف کیمپوں___ دارالاسلام اور دارالکفر میں تقسیم کرتا ہے۔ نوعِ انسان کی بدترین مصیبت، غربت، بیماری یا ناخواندگی نہیں، کفر ہے۔ نوعمر حاملہ دُلھنیں، کنواری مائیں، امراضِ خبیثہ، اسقاطِ حمل، زنا بالجبر، حرامی بچے، لاوارث شرابی اور جنگ جویانہ وطن پرستی، سب کفر کے منطقی نتائج اور تلخ ثمرات ہیں۔ جو کچھ اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ ہے، سب سے بڑی نیکی اور بھلائی اُسی سے عبارت ہے۔ اس کے برعکس کفر اللہ تعالیٰ کے خلاف کھلی بغاوت ہے جسے کبھی برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ ایک مسلمان اپنے دوسرے ہم چشم انسان کی سیرت کا اندازہ اُس کے عقیدے کی صحت اور روزمرہ زندگی میں اس کے عملاً نفاذ کی اساس پر کرتا ہے۔ کسی شخص کی نسل، قومیت، دولت یا معاشرتی حیثیت کا، اس کے حقیقی انسانی وصف سے کوئی تعلق نہیں۔ ایک شخص جس چیز پر ایمان لانے کا مدعی ہے، اگر اُس پر عمل پیرا ہونے کی کوشش نہیں کرتا تو وہ محض ایک منافق ہے، فی الحقیقت وہ سرے سے ایمان ہی نہیں رکھتا۔ ایک مسلمان کے نزدیک انسان کے کسی فعل کا دارومدار اُس کے عقائد پر ہے۔ کیونکہ فوق الفطرت دینی بنیادوں کے بغیر وہ حُسنِ عمل اور اخلاقیات کے وجود کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔

سچا مسلمان موت سے نہیں ڈرتا۔ موت وہ گھاٹی ہے جس سے گزر کر ایک مسلمان اَبدی زندگی سے ہمکنار ہوتا اور قربِ الٰہی حاصل کرتا ہے۔ مسلمان جب بیمار ہوتا ہے تو صحت یاب ہونے کے لیے ہرممکن علاج معالجہ کرواتا ہے، لیکن بایں ہمہ اگر تمام طبی وسائل اس کی صحت بحال کرنے اور زندگی بچانے میں ناکام رہتے ہیں تو وہ بڑے سکون و اطمینان کے ساتھ داعی اجل کو لبیک کہتا ہے۔ اُس کا یہ ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر جان دار کی زندگی کی مدّت پہلے ہی سے مقرر کردی ہے۔ کوئی شخص نہ تو اس مقررہ وقت سے پہلے مرسکتا ہے نہ دنیا بھر کی دوائیں اور طبیب مل کر اس کی موت کو آنِ واحد ہی کے لیے مؤخر کرسکتے ہیں۔

سچا مسلمان متعصب نہیں ہوتا۔ قرآنِ پاک تجسس اور غیبت کی ممانعت کرتا ہے۔ کوئی مسلمان چاہے کتنا ہی غلط کار کیوں نہ ہو، جب تک وہ اپنے دین کو علانیہ نہیں چھوڑتا، اُسے دوسرا مسلمان دینی و معاشرتی حقوق سے محروم نہیں کرسکتا۔ مسلمان نہ تو دوسرے مذاہب پر دست ِ جورو وتعدّی دراز کرتے ہیں اور نہ لوگوں کو جبراً مسلمان بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسلامی حکومت کے سایے میں مذہبی اقلیتیں خودمختار اور سالم گروہوں کی صورت میں زندگی بسر کرتی ہیں۔ انھیں اپنے مذہبی قوانین پر چلنے، اپنے بچوں کو اپنی مرضی کے مطابق تعلیم دینے اور اپنی تہذیب و ثقافت کو دوام بخشنے کی اجازت ہوتی ہے۔ مزیدبرآں انھیں جان و مال کا مکمل تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق وہ بحیثیت انسان مساوی انصاف اور عمدہ سلوک کے مستحق ہوتے ہیں۔ تاہم شریعت ِ اسلامی کے اِن تمام عطا کردہ حقوق کے باوجود کسی غیرمسلم کو مسلمان کا ہم سر نہیں سمجھا جاسکتا۔ اسلامی حکومت کے سایے میں بسنے والے غیرمسلم، فوجی خدمت سے مستثنیٰ ہوتے ہیں، کیونکہ جو لوگ اسلام کی دعوت پر ایمان رکھتے ہیں وہی اس کی خاطر جنگ کرسکتے ہیں۔ اسی بنا پر کسی غیرمسلم کو حکومت کے کلیدی مناصب پر بھی فائز نہیں کیا جاسکتا۔ ایک مسلمان نسلی و قومی اختلاف کے باوجود دوسرے مسلمانوں کے ساتھ گہری قرابت محسوس کرتا ہے، لیکن غیرمسلموں کے درمیان وہ اپنے آپ کو ہمیشہ اجنبی پاتا ہے۔

اسلام ایک عالم گیر دین ہے۔ اُس کے دروازے تمام نوعِ انسانی پر کھلے ہیں۔ وہ غیرمسلموں کو اپنی آغوشِ رحمت میں لانے کے لیے سرگرم جدوجہد کرتا ہے۔ مسیحیوں کے برعکس ہمیں پیشہ ور مبلّغین کی ضرورت نہیں۔ ہرمسلمان بجاے خود ایک مبلّغ ہے۔ اسلام کی تبلیغ و اشاعت، اپنی امکانی حد تک، اُس کا مقدس فریضہ ہے۔ بہت سے غیرمسلم یہ جان کر ورطۂ حیرت میں ڈوب جائیں گے کہ دنیا کے وسیع و عریض علاقوں میں خصوصاً جنوب مشرقی ایشیا اور افریقہ میں ___ اسلام عام عرب اور ہندستانی تاجروں کے ذریعے پھیلا۔ اس مقصد کے لیے نہ تو جبروتشدد اور قوت سے کام لیا گیا نہ ان ممالک کو سیاسی طور پر کبھی محکوم بنایا گیا۔ یہ نتائج صرف اس لیے رُونما ہوئے کہ ان تاجروں اور بیوپاریوں نے پہلے اسلام کو پیش کیا اور پھر کاروبار کی طرف توجہ دی۔

صحیح راسخ الاعتقاد یہودیوں کی طرح مسلمان بھی یہ ایمان رکھتے ہیں کہ انسان کو اللہ تعالیٰ کا تقرب اُس کے مقدس قوانین کی تعمیل اور پابندی ہی سے حاصل ہوسکتا ہے۔ بنابریں وہ عبادات اور اخلاقیات کے درمیان کوئی نمایاں خط ِ امتیاز نہیں کھینچتے، جو ایک دوسرے کے ساتھ غیرمنفک طور پر مربوط ہیں۔ مسلمان روح کو اُس کے خارجی قالب سے الگ نہیں کرتے کیونکہ ان کا ایقان ہے کہ کوئی عقیدہ اپنے محسوس مظہر کے بغیر مؤثر اور کارگر نہیں ہوتا۔

وضو اور نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے عین مطابق ادا کرنا لازمی ہے۔ نماز ایک مسلمان کے اندر حساس ضمیر اور بلندکردار کو نشوونما دیتی اور اسے پختگی عطا کرتی ہے۔ اس لیے کہ جب وہ نماز پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی یہ دیکھنے والا نہیں ہوتا کہ اُس نے یہ فرض ٹھیک ٹھیک انجام دیا ہے یا نہیں۔ شخصی حفظانِ صحت اور طہارت و پاکیزگی کی ضرورت پر اور کوئی مذہب اس قدر زور نہیں دیتا۔ جسمانی طہارت، روحانی پاکیزگی کو متاثر کرتی ہے اور خارجی انسان داخلی انسان کا مظہر ہوتا ہے۔

قرآن و سنت کا تعزیری قانون وہ اہم ترین موضوع ہے جس پر غیرمسلموں نے نکتہ آفرینی کی اور غلط فہمی پھیلائی ہے۔ اسلام جن اُمور کو معاشرے کے خلاف بدترین جرائم قرار دیتا ہے  مغربی ممالک میں انھیں شاید ہی جرم سمجھا جاتا ہے، اور چوری کے سوا کسی جرم پر شاذونادر ہی  قانونِ تعزیرات نافذ کی جاتی ہیں۔ مسلمان نہ تو اس بات کے قائل ہیں کہ قانون کی خوبی اور فضیلت کا انحصار اس کی نرمی پر ہے اور نہ اُن کا یہ اعتقاد ہے کہ مجرم معاشرے سے زیادہ ہمدردی اور شفقت کے سزاوار ہیں۔

مسلمانوں کی نظر میں قرآن و سنت کا تعزیری قانون ساتویں صدی عیسوی کے قدیم عرب کا ظالمانہ اور وحشیانہ حاصل نہیں ہے اور نہ وہ آج کی دنیا سے غیرمتعلق ہے۔ اس کے برعکس ان کا ایقان یہ ہے کہ یہ قانون ہمارے جدید قیدخانوں کی اخلاقی سیہ کاریوں اور انتہائی نفسیاتی تخریب کاریوں سے زیادہ مجرموں کا شفیق و ہمدرد اور ایک حقیقی اسلامی معاشرے کو جرائم سے پاک صاف رکھنے میں انسان کے خودساختہ قوانین سے زیادہ مؤثر ہے۔

مسلمانوں کا ایمان ہے کہ ایک صحت بخش معاشرہ وجود میں لانے کے لیے مردوں اور عورتوں کی علیحدگی نہایت ضروری ہے۔ دوسرے الفاظ میں اسلام مردوں اور عورتوں کے آزادانہ میل جول کی ممانعت کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی مسلمان مخلوط معاشرتی تقریبات، مخلوط درس گاہیں یا لڑکوں اور لڑکیوں میں شادی سے پہلے عشق و محبت کی پینگیں (کورٹ شپ) برداشت نہیں کرسکتا۔ لازم ہے کہ نہ تو مرد غیرعورتوں کی طرف دیکھیں، نہ عورتیں غیرمردوں کی طرف۔ ہروقت حیادار لباس زیب تن رہے۔ عورتوں کو کسی کام سے باہر جانا ہو تو اپنا پورا جسم پردے میں ڈھانپ کرنکلیں اور حتی الامکان سیدھے سادے، غیرنمایاں انداز میں چلیں پھریں۔ عورت کا حُسن و جمال صرف اس کے اپنے لیے ہے۔ اُس کا جسم کسی حالت میں بھی بے پردگی اور آوارہ نگاہوں کا ہدف نہیں بننا چاہیے۔ مردوں اور عورتوں کے درمیان عشق و محبت کے کھلے عام مظاہرے سخت تعزیر کے لائق ہیں۔ اسلام مرد کو گھر سے باہر کے معاشرتی فرائص سونپتا ہے اور عورت کو درونِ خانہ کے تمام معاملات کا ذمہ دار بناتا ہے۔ بنابریں کاروبار یا سیاست کے میدان میں مردوں کے ساتھ مسابقت عورتوں کا کام نہیں ہے۔مسلمان خوب اچھی طرح جانتا ہے کہ عورت جب ایک دفعہ گھر کو چھوڑ دیتی ہے تو گھر باقی نہیں رہتا۔

تجرد کی زندگی کو قرآن و سنت مذموم قرار دیتے ہیں۔ ہر مرد اور عورت سے ازدواجی زندگی بسر کرنے کی توقع کی جاتی ہے۔ اگرچہ مرد کو چار بیویاں کرنے کی اجازت ہے، تاہم نہ تو اسلام  تعددِ ازدواج کا حکم دیتا ہے اور نہ مسلمان معاشرے میں اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ بس یہ ایک اجازت ہے جس سے خال خال لوگ فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ مسلمانوں کی غالب اکثریت ہمیشہ یک زوجگی پر عامل رہی ہے۔

اسلام کی طرف سے محدود تعددِ ازدواج کی اجازت ناجائز تعلقات کو بڑی حد تک ختم کردیتی ہے، کیونکہ اگر کوئی شخص کسی دوسری عورت سے تعلقات استوار کرنے کا خواہش مند ہے تو اُس کے لیے پہلے اُس عورت کے ساتھ شادی کرنا، اس کی کفالت کا بار اُٹھانا اور ربویت کی ذمہ داری کو قبول کرنا ضروری ہے۔ اسلام بھی قومی اور بین الاقوامی پیمانے پر ’خاندانی منصوبہ بندی‘ کے اتنا ہی مخالف ہے جتنا کہ رومن کیتھولک چرچ اور اس مخالفت کے اسباب بھی تقریباً یکساں ہیں۔  ایک مسلمان کے نزدیک اس سے بڑھ کر فساد اور دین و مذہب سے انحراف اور نہیں ہوسکتا کہ  انسان ازدواجی تعلقات بھی قائم رکھے اور ان کی اصل غرض و غایت کی راہ میں رکاوٹ بھی ڈالے۔    مانع حمل ادویات وغیرہ استعمال کرنے کی اجازت صرف غیرمعمولی انفرادی صورتوں میں ہے اور وہ بھی محض طبی بنیادوں پر۔ بچوں کی تعداد میں تخفیف کی عمداً کوشش کرنے کے لیے اقتصادی وجوہ کا عذر ناکافی ہے ، کیونکہ آدمی کا رازق خود آدمی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ہے۔

اسلام ’فنونِ لطیفہ‘ کی حوصلہ شکنی کرتا اور اس سلسلے میں تمام دیگر مذاہب سے مختلف راے رکھتا ہے۔ ایک مسلمان قوم میں کسی میخائیلنگلو، ریمبرانٹ، بیتھوئون یا شیکسپیئر کو اپنے اُوپر نچھاور کرنے کے لیے تحسین و آفرین کے پھول نہیں ملیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان شہروں میں سمفنی سرودگاہوں، اوپیرا گھروں،تھیٹروں اور فنی عجائب خانوں کا نمایاں فقدان ہے۔ اسلامی فن کی تخلیقی قوت نے اپنا کاملاً اظہار عربی خطاطی کی صورت میں کیا ہے یا طرزِتعمیر میں، جس سے آج تک کوئی قوم سبقت نہیں لے جاسکی۔

سازوسرود کو ہرجگہ مذموم قرار دیا جاتا ہے۔ مساجد میں تو وہ بالکل ممنوع ہے۔ پیشہ ور مطرب اور سازندے پوری دنیاے اسلام میں معاشرتی لحاظ سے پست اور ذلیل سمجھے جاتے ہیں۔ سازوسرود انسان کے قلب و ذہن کو اپنے اللہ سے غافل کردیتے ہیں اور بالآخر اُسے شہوت پرستی کی پستیوں میں پہنچا دیتے ہیں۔ اگر کوئی شخص اپنے جذبات کے اظہار پر بے حد مجبور ہوجائے تو اُسے گانے کی اجازت ہے، لیکن احتراز و اجتناب اولیٰ تر ہے۔ کوئی عفیف اور پاک دامن شریف مسلمان خاتون کھلے عام نہیں گائے گی۔ قرآنِ پاک کی قرأت، اذان اور قوالی کی صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت گوئی واحد نغمہ و سرود ہے جسے مستحسن سمجھا جاتا ہے۔

چونکہ رقص ناجائز جنسی تعلقات کا نہایت طاقت ور محرک ہے، اس لیے اسلام میں اس کی مکمل ممانعت ہے۔ شاید عیدالفطر اور عیدالاضحی کے تہوار، جب کہ لوگوں کو جہاد کے لیے جوش میں لانا مقصود ہو، یا شادی کی تقریبات اس سے مستثنیٰ ہیں۔ اس قسم کے جشن کبھی مخلوط نہیں ہوتے۔   مرد مردوں کے ساتھ مل کر رقص کرتے ہیں اور عورتیں صرف عورتوں کے ساتھ۔

اسٹیج، سینما یا ٹیلی ویژن کے پردوں پر سوانگ بھرنے کی بھی اسی بناپر حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ کھیل، تماشے، خواہ ان میں کوئی شخص ایک کردار کی حیثیت میں شریک ہوتا ہے یا تماشائی کی،  نہ صرف فسق و فجور کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، بلکہ لوگوں کو اپنے ذاتی تصورات میں اس حد تک   گم کردیتے ہیں کہ حقیقی زندگی سے اُن کی دل چسپی جاتی رہتی ہے۔

لٹریری فکِشن، خواہ ڈرامے کی شکل میں ہو یا ناول کی، کسی مسلمان ملک سے کوئی فطری تعلق نہیں رکھتا۔ البتہ خطابت اور شاعری کو بے حد ترقی دی جاتی ہے اور فصیح تقریروں کو مسلمان ہرجگہ بڑی قدرووقعت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔

اسلام کا نظامِ حیات بدیہی اقدار پر مبنی ہے۔ اخلاق و صداقت ابدی اور عالم گیر ہیں۔ انھیں انسان نے نہیں اللہ نے جاری کیا ہے۔ بنابریں انسان ان میں دخل دینے کا کوئی حق نہیں رکھتا۔ مسلمانوں کے نزدیک قرآنِ کریم حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی نہیں، اللہ کی کتاب ہے۔ ان کا ایمان ہے کہ اس کا ایک ایک لفظ حقیقی معنوں میں سچا ہے اور اس کی اطاعت لازمی ہے۔ قرآنِ کریم  علمِ کُل کا منبع ہے اور اُس کے کسی جزو کے متعلق شک و ریب کا اظہار اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو    مسترد کردینے کے مترادف ہے۔ حدیث یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور سنت___ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا عمل___ قرآن کریم کی صحیح تعبیروتشریح کے لیے لازمی ہیں۔ دوسرے کے بغیر تنہا کسی ایک پر انحصار بے معنی ہے۔ چونکہ قرآنِ کریم اللہ تعالیٰ کی خطا سے مبریٰ، مکمل اور آخری وحی ہے جو انسان کی ہدایت کے لیے بھیجی گئی ہے۔ اس لیے اسلام کی نہ تو ’تہذیب و اصلاح‘ کی جاسکتی ہے، نہ اس میں کسی قسم کا ردّ وبدل کیا جاسکتا ہے۔ اس کو ’ترقی دینے‘ کی ضرورت کبھی پیش نہیں آسکتی۔ اسلام ایک مکمل اور خودمکتفی دین ہے۔ اخذ وانتخاب کی اس میں کوئی گنجایش نہیں ہے۔ مسلمان کے نزدیک ’ترقی‘ یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کو قرآنِ کریم کے الفاظ اور روح کے عین مطابق ڈھالیں۔ اُن کا دنیاوی مقصود مادی کامیابی نہیں، آخرت کی زندگی کے لیے سازوسامان مہیا کرنا ہے۔

اسلام مسلمانوں سے کامل اطاعت کا مطالبہ کرتا ہے۔ مسلمان شب و روز کے ہرلمحے میں مسلمان رہتا ہے۔ اسلام کی ضابطہ پسندی کسی دوسرے مذہب کے پیروکاروں کے لیے ناقابلِ تصور ہے۔ اس کے قوانین ایک مسلمان کی پیدایش سے لے کر موت تک، زندگی کے ہرپہلو پر حاوی ہیں۔ وہ بیداری کے عالم میں ہو یا خوابیدہ، اسلام ہروقت مسلمان کے ساتھ رہتا ہے۔ اُسے ایک لمحے کے لیے بھی اپنی اسلامی حیثیت کو فراموش کرنے کی اجازت نہیں۔ (اسلام ایک نظریہ، ایک تحریک، ص۵۳-۶۱)

اکیسویں صدی کا آغاز جن واقعات سے ہوا، انھوں نے اسلام اور مغرب کی تاریخی آویزش کو ایک نئی شکل دے دی اور ہر دو فریق جن خدشات، خطرات اور تنازعات کا شکار ہوئے، وہ عالمی نقشے پر بعض بنیادی تبدیلیوں کا سبب بن گئے۔ مغربی اقوام خصوصاً امریکا کے سامراجی عزائم عملی شکل اختیار کر گئے اور مغرب کے تمام حقوق انسانی، سرحدی آزادی، ملکی خود مختاری اور امن عالم کے نام نہاد نعروں کی قلعی کھل کر سامنے آگئی۔ مغرب کے بعض نمایندہ مفکرین نے سیاسی، سامراجی عزائم کو نئے عالمی نظام (نیو ورلڈ آرڈر) کا چوغا پہنا کر مسلم ممالک کے توانائی کے وسائل پر عسکری قوت سے قبضہ کرنے کے گھنائونے عمل کو امریکا کی ـ’قومی سا لمیت کے تحفظ‘ کا نام دیا۔ ۱۹۹۲ء میں امریکی مفکر سیموئل پی ہن ٹنگٹن نے اپنے ایک مقالے میں جس تہذیبی ٹکرائو کے خدشے کا اظہار کیا تھا وہ عملاً پہلے سے تحریر شدہ ایک کہانی کے خاکے کی طرح ستمبر ۲۰۱۱ء میں افغانستان اور عراق پر یلغار کی شکل میں ظہور پذیر ہوا۔ واقعات کے اس منطقی تسلسل نے مسلم ممالک کی غالب آبادی کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ ان کے فرماںروا جس امریکا یا مغرب دوستی کا دم بھرتے ہیں وہ کتنی کھوکھلی، ناپایدار اور مغرب کے مفاد پر مبنی ہے۔

نائن الیون نے جہاں منفی تاثرات پیدا کیے، وہیں خود مغرب میں اس سانحے نے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں تجسّس اور حقیقت حال کو سمجھنے کی خواہش کو بیدار کیا۔ اس واقعے کے ایک ماہ کے اندر امریکا کے کتب فروشوں کے پاس قرآن کریم کے جتنے نسخے انگریزی ترجمے کے ساتھ موجود تھے، فروخت ہو گئے اور اسلام پر کتب کی بڑی مانگ پیدا ہو گئی۔ قرآن کریم نے بالکل صحیح کہا ہے کہ بعض چیزوں سے انسان کو کراہت آتی ہے، جب کہ ان میں رحمت ہوتی ہے، اور بعض چیزیں اچھی معلوم ہوتی ہیں، جب کہ ان میں ضرر ہوتا ہے۔ اسلام اور مغرب کی اس تازہ آویزش نے دونوں جانب دانش وروں اور محققین کو اس نئی صورتِ حال کے تجزیے اور اس کے پس ِ منظر میں چھپے اسباب پر تفکر کی دعوت دی، اور مغرب جو اپنے سامراجی دورسے استشراق کے زیرِ عنوان مسلم ممالک کی زبانوں، ثقافت اور تاریخ کو سمجھنے میں مصروف تھا، اب اس کی اس کاوش میں مزید اضافہ ہوا۔

مکالمہ___ تاریخ کے تناظر میں

اگر تاریخ کے آئینے میں اس صورتِ حال کا جائزہ لیا جائے تو ساتویں صدی عیسوی میں ظہور اسلام کے ساتھ ہی قرآن کریم نے اہلِ کتاب کو دعوتِ مکالمہ دینے میں پہل کرتے ہوئے مختلف سطح پر رابطہ اور تبادلۂ خیال کی راہیں نکالیں۔ اس سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے  نامۂ مبارک، جو مختلف عیسائی و غیر عیسائی فرماںروائوں کو لکھوائے گئے تھے ، رابطے کے اولین اقدامات کہا جا سکتا ہے۔ قرآن کریم نے دیگر مذاہب کے ماننے والوں اور خصوصاً اہل ِکتاب کو باربار دعوتِ فکر دیتے ہوئے مشترک بنیادوں پر اس مکالمے کا آغاز کرنے کی دعوت دی۔ اس بنا پر     یہ خیال کرنا درست نہ ہو گا کہ اسلام اور مغرب کا مکالمہ کوئی نئی چیز ہے۔ یہ مکالمہ اسلامی ریاست اور معاشرے کے دورِ عروج میں بھی رہا اور مسلمانوں کے دورِ زوال بلکہ مغربی سامراج کی محکومی کے دوران بھی جاری رہا ،گو ہر دور کے لحاظ سے مکالمے کے دائرے اور زاویے بدلتے رہے۔

قرآنی زاویے سے اس مکالمے کا پہلا مقصد الہامی ہدایت کو ماننے والے مذاہب میں قُرب پیدا کرنا ہے، تا کہ ایک ایسے معاشرے کی تعمیر کے لیے جس میں اسلامی نظام نافذ ہو چند مشترک بنیادوں پر اہلِ کتاب کو معاشرتی اور عائلی تعلق کے دائرے میں لے آیا جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اسلام نے اہلِ ایمان مسلمان مردوں کو صالح اہلِ کتابیہ سے عقد نکاح کی اجازت دے کر اہلِ کتاب کے ساتھ خاندانی تعلق کے قیام کو ممکن بنایا، لیکن اس بات کی اجازت نہیں دی کہ ایک مسلمان خاتون کسی اہلِ کتاب سے نکاح کر سکے۔ وجوہات بڑی واضح ہیں۔ اس طرح مادی طور پر خاندانی رشتہ تو قائم ہو جاتا ہے لیکن گھر کے تمام امور کا فیصلہ اسلامی شریعت کو تسلیم نہ کرنے والے کے ہاتھ میں رہتا ہے، اور نہ صرف یہ بلکہ آیندہ آنے والی اولاد بھی غیر اسلامی اصولوں پر پرورش پاتی ہے، جب کہ اہلِ کتابیہ سے شادی کی شکل میں گھر کا ماحول اور اولاد کی تربیت مکمل طور پر ایک صاحب ِ ایمان کی سرپرستی میں ہوتی ہے۔ یہ موقع تفصیلات میں جانے کا نہیں ہے ہم صرف یہ بات واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اسلام اور دیگر مذاہب کے درمیان مکالمہ محض نظری سطح پر نہیں بلکہ خاندان، تجارت اور بین الاقوامی امور پر ہر سطح پر ظہور ِ اسلام سے رہا ہے، اس لیے کثرتیت (Pluralism) کی بات اسلام کے تناظر میں کوئی نئی دریافت نہیں ہے۔

تاریخی حیثیت سے مغرب اور عیسائی دنیا کا تعلق اتنا قریبی رہا ہے کہ عموماً مغرب دوستی یا مغرب دشمنی کو عیسائی دوستی اور دشمنی سے تعبیر کیا جاتا رہا ہے، جب کہ مغرب نے سولھویں صدی عیسوی کے بعد شعوری طور پر عیسائیت سے اپنا فاصلہ بڑھانے کے عمل___ آزادیِ راے، جمہوریت، انفرادیت، مادیت، مثبتیّت (Positivism) ___کو اپنی فکری بنیاد قرار دیا اور سرمایہ دارانہ فکر کو  اپنا بنیادی نظریہ اور پہچان قرار دیتے ہوئے اپنے معمولات میں ہفتہ میں ایک دن کا کچھ حصہ   اپنے مذہب کے لیے مخصوص کرنے میں اپنی بھلائی جانی، اور مذہب اور دیگر معاملات کے درمیان   عدم تعلق اور فاصلہ رکھنے کو علمی اور عملی حیثیت سے اتنی تکرار کے ساتھ پیش کیا کہ دیارِ مغرب کے باہر بسنے والے افراد بھی اپنی تمام ’مذہبیت‘ کے باوجود زندگی کی اس دوئی میں عملاً مبتلا ہو گئے۔

لیکن غیر مغربی معاشروں کو جب اور جہاں بھی اس خرابی کا شعور ہوا، ان کے دانشوروں اور علما و اساتذہ نے اس پہلو پر توجہ دی۔ چنانچہ تاریخ کے ہر دور میں اصلاح و تجدید کی کوششوں کا بنیادی نکتہ یہی رہا کہ قرآن و سنت کی طرف رجوع کرتے ہوئے اپنی زندگی کے تمام معاملات کو اللہ کی بندگی میں لایا جائے۔

یہاں صرف یہ اشارہ کرنا مقصود ہے کہ مغرب سے مکالمہ ہو یا مجادلہ، دونوں شکلوں میں مشترک بنیادوں پر تبادلۂ خیال کرتے ہوئے بعض بدیہی پہلو نظر انداز نہیں کیے جا سکتے۔ مغرب جس فکر کا ملغوبہ ہے اس کی روح ’مذہب‘ کو محدود کرنے میں مضمر ہے۔ چنانچہ سیکولرازم عموماً یہ نہیں کہتا کہ خالق کائنات، انسانوں کے مالک اور رب کا مکمل انکار کیا جائے، بلکہ صرف اتنی بات کہہ کر اس مقصد کو حاصل کر لیتا ہے کہ اللہ کے دائرہ کار کو مسجد، کلیسا اور ہیکل تک محدود کر دیا جائے۔ مسلمان ہو یا عیسائی یا یہودی وہ اپنے مقررہ دن اور مقررہ وقت پر اپنے عبادت خانے میں جا کر جو چاہے کرے لیکن ہفتہ کے بقیہ دنوں میں کاروبار ہو یا سیاست، معاشرت ہو یا ثقافتی سرگرمیاں،  ان تمام معاملات میں ’مذہب‘ کو دخل دینے کا اختیار نہ ہو۔ دین اور دنیا کی یہ تفریق مغربی ذہن اور مغربی تہذیب کی بنیاد ہے۔ اسی کو ہم لادینیت یا سیکولر ازم کہتے ہیںجسے لامذہبیت یا الحاد کے ساتھ خلط ملط نہیں کرنا چاہیے۔ لادینیت مذہب کو غیر فعال بنانے اور زندگی کو دو خانوں میں بانٹ دینے کا نام ہے۔ یہ ذہن اور یہ فکر اگر ایک ایسے شخص کے اندر پائی جاتی ہو جو ہر جمعہ کو نماز پڑھتا ہو اور ہفتہ کے بقیہ دنوں میں سر پر نماز کی ٹوپی پہن کر اسٹاک ایکسچینج میں بازی لگاتا ہو ،تو اس کا نماز کی    ٹوپی پہننا اور جمعہ کو باقاعدگی سے نماز ادا کرنا اسے غیر سیکولر نہیں بنا سکتا۔ سیکولرازم وہ بنیادی مرض  ہے جس کے زہریلے اثرات مغربی تہذیب اور مغرب کے ہر ہر شعبۂ حیات میں سرایت کر چکے ہیں، اور اب یہ زہر اس کی زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ اس لیے مغرب خود اپنے اس اندرونی مرض کا احساس بھی نہیں کر پاتا۔

مکالمے کی سطحیں

مغرب سے مکالمے کی طرف بڑھتے وقت اس تاریخی پس منظر پر نگاہ دوڑائی جائے تو اسلام کا مکالمہ کم از کم چھے محاذوں یا چھے سطح (levels) پر کرنا ہوگا۔

تصورِ حیات:

ان میں سب سے اول سطح تصور حیات ہے، یعنی مغربی تہذیب جس تصور حیات کی نمایندگی کرتی ہے اور اسلام جو تصور حیات دیتا ہے، ان میں کون سی چیزیں مشترک ہیں اور کہاں پر شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔ کن مقامات پرمفاہمت کی شکل کا امکان ہے اور کہاں پر کوئی تعاون نہیں کیا جا سکتا۔ جب تک ان حدود کا تعین نہ کر لیا جائے مکالمہ اور مکالمے کا تذکرہ ایک نمایش سے زیادہ نہ ہو گا۔ کسی بھی سنجیدہ اور مخلصانہ کوشش کے لیے ضروری ہے کہ قواعدِ عمل اور موضوعات کا تعین پہلے کرتے ہوئے گفتگو کو انھی نکات تک محدود رکھا جائے۔

مغربی تصورِ حیات تین بنیادوں پر قائم ہے۔ اولاً: انسان کی معاشی ضروریات اس کی تمام مساعی کا محرک اور کامیابی کا پیمانہ ہیں۔ چنانچہ مادیت اور مادی ترقی زندگی کا اولین مقصد ہے۔   ثانیاً: زندگی گزارنے کے لیے خوشی اور لذت کا حصول، انسان کی تمام توجہات کا مرکز ہونا چاہیے۔ چنانچہ لذیذ کھانے، تفریحی سفر، شام کے اوقات میں ثقافت کے نام پر حصولِ لذت و خوشی کے لیے موسیقی، ڈراما اور ٹاک شوز، فیشن شوز میں شرکت ایک بنیادی داعیہ اور ضرورت ہے۔ ثالثاً: ’مذہب‘ ایک شخص کا ذاتی معاملہ ہے۔ اس لیے مذہب کو زندگی کے دیگر معاملات میں داخل ہونے سے روکا جائے اور کائنات اور انسانی معاشرہ دونوں کو کسی الٰہی ہدایت کا پابند نہ بنایا جائے ۔انسان اپنی ذاتی راے اور قوتِ فیصلہ سے اپنے معاملات طے کرے۔ اخلاق اور مذہب ایک اضافی چیز ہے۔ انفرادیت (Individualism) یا فرد کی مکمل آزادی کہ وہ جو چاہے کرے، مغربی تہذیب کی پہچان ہے۔

تصورِ حیات کی سطح پر اسلام ان تمام تہذیبوں سے اختلاف کرتا ہے، جو مغرب میں ہوں یا مشرق میں، اور جن کی بنیا داُوپر تحریر کردہ تثلیث ہو۔ اسلام انسان کو ایک اخلاقی مخلوق قرار دیتے ہوئے زندگی کے تمام معاملات عالم گیر اخلاقی اصولوں کے مطابق کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اگر جھوٹ بولنا اور عدل نہ کرنا انفرادی سطح پر غلط ہے، تو معاشرتی اور ملکی اور عالم گیر سطح پر بھی ناقابلِ قبول ہے۔ یہ وقت کے ساتھ نہ تبدیل ہوتا ہے اور نہ فرد کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ اپنی صوابدید اور عقل کے مطابق سچ اور عدل کی تعریف کرلے۔ اسلامی تہذیب کی بنیاد ایک ایسے خالق کے وجود پر نہیں ہے جو کائنات بنانے کے بعد کسی گوشے میں آرام کر رہا ہو، بلکہ وہ حي و قیوم(زندۂ جاوید ہستی) اور عزیز و علیم(صاحب ِ اقتدار و صاحب ِ علم ہستی) ہونے کی بنا پر، ہر لمحے اپنی مخلوق کی نگرانی اور بھلائی میں مصروفِ عمل ہے۔ وہ انسان کو اس کی ضروریات کے پیش نظر ہدایت سے نوازتا ہے اور وقتاً فوقتاً الہامی ہدایت کی شکل میں عالم گیر اخلاقی ضابطہ اور قانون دیتا ہے، تا کہ معاشرے میں عدل و اخوت اور رواداری قائم ہو اور لوگوں کے حقوق پر ڈاکے نہ ڈالے جاسکیں۔ وہ اپنے بندوں کو مال، صحت اور وسائل دیتا ہے، تاکہ وہ اس کے نمایندہ اور خلیفہ ہونے کی حیثیت میں ان وسائل کو انسانیت کی فلاح کے لیے امانت کے احساس کے ساتھ توازن و اعتدال سے استعمال میں لائیں۔ اسلامی نظریۂ حیات اس دنیا کو ایک تجربہ گاہ قرار دیتے ہوئے، انسان کی محدود زندگی کا مقصد تعمیری، اصلاحی اور اخلاقی طرزِ عمل سے ایک طرف مثالی عادلانہ معاشرہ قائم کرناقرار دیتا ہے، جس میں ایک جانب انسان خوشی، لذت اور اطمینان پاتا ہے اور دوسری طرف اس دنیا میں اخلاقی طرزِ عمل اختیار کرنے کے نتیجے میں وہ آنے والی ابدی زندگی میں انسان سے بہترین اجر اور انعامات سے نوازے جانے کا حقیقی اور سچا وعدہ فرماتا ہے۔

اس حیثیت سے دیکھا جائے تو تصورِ حیات میں اختلاف کے باوجود ایسے اُمور میں جہاں انسانوں کا مجموعی مفاد ہو اسلام اور وہ تہذیبیں جو لذت، دولت اور فرد کی بنیاد پر قائم ہوتی ہیں، انتہائی محدود اور مخصوص صورتوں ہی میں تعاون علی البرّ کر سکتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اسلام سے وابستہ افراد کا یہ فریضہ بھی ہے کہ وہ اپنے تصور حیات کی وضاحت اور تعارف کے لیے دیگر تہذیبوں کے ساتھ تبادلۂ خیالات اور مکالمے کا مناسب استعمال کریں، تاکہ حق، عدل، اخوت اور عالمی انسانی برادری کے عالم گیر اصولوں پر تعاون کی فضا پیدا ہو سکے۔

تعلیم و تحقیق:

مکالمے کی دوسری سطح تعلیم اور علمی تحقیق ہے، یعنی اسلام کے ماننے والے افراد اشاعت ِعلم، تصورِ علم، علم کی مختلف شاخوں اور مناہج پر عبور حاصل کرنے کے بعد نتائجِ فکر کو انسانی برادری کے سامنے پیش کریں، اور اس طرح اسلامی فکر عالمی سطح پر دیگر انسانوں کو غوروفکر اور اسلامی نظامِ حیات کی برکتوں سے متعارف کرا سکے۔ تاریخی طور پر مسلمان نہ صرف علوم اسلامی کے ماہربنے،بلکہ طب، ریاضی، طبیعیات، کیمیا اور دیگر علوم کے یورپ تک پہنچنے کا ذریعہ بنے۔ اور آگے چل کر مسلم دنیا سے مغرب کی جانب علوم کی یہ منتقلی ایک علمی مکالمے کی شکل میں یورپ کی ترقی کی بنیاد بنی اور یورپ بالخصوص علم کی استخراجی حکمتِ عملی (Deductive method) کی جگہ علم کی استقرائی حکمتِ عملی  (Inductive method)  سے آشنا ہُوا۔

معیشت:

مغرب کے ساتھ مکالمے کی تیسری سطح معیشت کا میدان ہے۔ جہاں آج اس حقیقت کے باوجود کہ یورپ و امریکا کے معاشی ادارے اور بین الاقوامی معاشی تنظیمات، مثلاً  عالمی تجارتی تنظیم (WTO)، عالمی بنک اور آئی ایم ایف مغربی سامراجیت کے زیر سایہ ترقی پذیر اقوام کو معاشی محکوم بنانے میں مصروف ہیں۔ دوسری جانب مغرب میں سرمایہ دارانہ معیشت اور سودی بنکاری کی ناکامی اب نوشتۂ دیوار سے زیادہ ایک منہ بولتی حقیقت ہے۔ تاریخ کے اس نازک موڑ پر اسلامی معیشت کے عادلانہ اصول، اخلاقی طرزِ عمل اور شراکت کی بنیاد پر تجارت کا فروغ ایسے اصول ہیں، جو آج بھی علمی اور عملی مکالمے کے ذریعے مغرب کے سامنے پورے اعتماد اور فخر کے ساتھ سرمایہ دارانہ نظام کے متبادل کے طور پر پیش کیے جا سکتے ہیں۔

مغربی سرمایہ دارانہ معاشی نظام ہو یا ہندو بنیے اور یہودی سود خواری کا نظام، ان نظاموں کا زوال ایک زیادہ ذمہ دار متبادل معاشی نظام کی ضرورت کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ تاریخ کے اس نازک دور میں اسلام اور مغرب کا معاشی سطح پر مکالمہ اور اسلامی اصولوں کی اشاعت مغرب کے گرتے ہوئے معاشی نظام کو ایک نئی زندگی سے روشناس کر ا سکتا ہے۔

بنیادی اخلاقی اقدار:

اسلام اور مغرب کے مکالمہ کی ایک اور سطح ان بنیادی اقدار کے دوبارہ متعارف کرانے کا عمل ہے جو کچھ عرصہ قبل خود مغرب میں بھی قابل احترام سمجھی جاتی تھیں، لیکن مادیت، انفرادیت اور لذتیت کی تثلیث پر ایمان و عمل نے ان اقدار کو متزلزل کر دیا ہے۔   ان اقدار میں نظامِ خاندان کا احیا اور اسلامی خاندان کے تصور کا مغرب کے سامنے پیش کیا جانا بہت اہمیت رکھتا ہے۔ مغربی تہذیب ہی نہیں، کسی بھی تہذیب کی بقا اور احیا اس کی آنے والی نسلوں پر منحصر ہوتا ہے ۔ اگر آنے والی نسلوں کو اخلاقی اقدار سے روشناس نہ کرایا جائے، ان کی تربیت گھر اور تعلیم گاہ میں نہ ہو، انھیں قربانی، ایثار، حق گوئی، عدل اور رواداری کی صفات گھر کے ماحول اور تعلیم گاہ میں نظر نہ آئیں تو اس تہذیب کا زوال یقینی ہو جاتا ہے۔ مغرب اور اس کی نقالی میں بہت سی دیگر اقوام نے خاندان کے ادارے کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے، شادی دیر سے کرنے اور تنہا رہنے کے تصور کو، اور ’انسانی حقوق‘ کے نام پر حیوانی حقوق سے بھی کم تراِس تصور کو سیاسی نعرے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے یک جنسی شادی کے تصور کو یورپ اور امریکا میں قانونی تحفظ فراہم کر کے، انسانی تہذیب کی مکمل طور پر تباہی کا راستہ اختیار کر لیا ہے۔ روم اور یونان اپنے فلسفہ اورادب کی ترقی کے باوجود، اپنی اخلاقی بے راہ روی اور خاندان کے نظام کے تباہ ہونے کے بعد سنبھالا نہیں لے سکے، تو مشینوں پر پلنے والی تہذیب اور ٹکنالوجی پر فخر کرنے والی اقوام کب تک مشینی کُل پرزوں کے سہارے تہذیب و ثقافت کی گرتی ہوئی دیوار کو سنبھالا دے سکیں گی۔ اس مکالمے میں اسلام، مغرب کو بہت کچھ دے سکتا ہے اور عالمِ انسانیت کی بقا اور احیا کے لیے صحت مند اور آزمودہ اقدار فراہم کر سکتا ہے۔

شدت پسندی اور جہاد:

اسلام اور مغرب کے مکالمے کی ایک سطح دہشت گردی، سفاکیت اور خودکش ذہنیت کے حوالے سے وہ غلط العام ابلاغی اور دانش ورانہ یلغار ہے، جس نے اسلام اور اسلامیان کو بہت سے مقامات پر ایک معذرت پسندانہ رویہ اختیار کرنے پر آمادہ کر دیا ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ قرآن و سنت کی بنیاد پر جہاد اسلامی کی حقیقی صورت کو واضح کیا جائے، کہ یہ ظلم و استحصال اور ناانصافی کو دور کرنے ، امن، اخوت، محبت اور انسانیت کے فروغ کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اس بات کی فوری ضرورت ہے کہ اسلامی جہاد کے صحیح خدوخال کو واضح کیا جائے۔ اب سے تین چوتھائی صدی قبل مولانا محمد علی جوہر ؒکی خواہش پر سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے جو تحریر اس حوالے سے لکھی تھی (الجہاد فی الاسلام) جدید تناظر میں اسی معیار اور وزن کی علمی تحریر کے ذریعے اس سطح پر مکالمے کی ضرورت ہے۔ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ابلاغِ عامہ جس تکرار کے ساتھ بعض الزامات کو دہراتا رہا ہے، حتیٰ کہ بہت سے صحیح الفکر افراد بھی اس مغالطے میں آ چکے ہیں کہ اسلام شدت پسندی اور دہشت گردی کو گوارا کرتا ہے، اس پروپیگنڈے کا علمی سطح پر جواب دیا جائے اور مغرب کے دانش وروں اور ابلاغ عامہ کو اس طرف متوجہ کیا جائے۔ یہ نہ صرف دو تہذیبوں کے باہم افہام و تفہیم کے لیے بلکہ خود دعوتِ اسلامی کے مستقبل کے لیے غیرمعمولی اہمیت کا حامل موضوع ہے اور اس پر بلاکسی تاخیر کے علمی کام کرنے کی ضرورت ہے۔

عورت کا مقام اور حقوق:

خواتین کے حوالے سے مغرب اور مغرب زدہ مسلمانوں نے جن شبہات اور اعتراضات کو بار بار دہرایا ہے ان پر بھی مکالمے کی ضرورت ہے، تاکہ ہر دو جانب سے رجوع کے بعد اسلام کی صحیح تعلیمات کھل کر سامنے آ سکیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اسلام مساواتِ مرد و زَن کو بنیادی انسانی خمیر (Constituent) کی سطح پر تسلیم کرتا ہے، یعنی مرد اور عورت دونوں کا خالق اللہ ہے اور دونوں کو ایک ہی جان سے پیدا کیا گیا ہے۔ اس اصولی موقف کے بعد اسلام ہر دو صنفوں کے حقوق و فرائض اور معاشرے میں کردار کی روشنی میں عادلانہ بنیاد پر دائرۂ کار کو متعین کرتا ہے، اور اس میں بعض اوقات مردوں کو اور اکثر اوقات عورتوں کو فضیلت دیتا ہے۔ لیکن غیر مسلم تہذیبوں کے اثرات جو صدیوں سے مسلم معاشرے میں نفوذ کرتے رہے ہیں، ان کے سبب بہت سے ایسے رواج نہ صرف مسلم معاشرے میں بلکہ عالمی طور پر دیگر معاشروں میں رائج ہوگئے جن کا کوئی رشتہ اسلام سے نہیں جوڑا جا سکتا۔ یہ قبائلی روایتی عصبیت اور نام نہادمردانگی کے تصور پر مبنی رویے اسلام کی بنیادی تعلیمات سے ٹکراتے ہیں، اور بعض اوقات مسلمانوں کا انھیں اختیار کرنا ایسا ہی ہے جیسے بعض مسلمان اپنے پیدایشی اسلام کے باوجود غیر اخلاقی حرکات کا ارتکاب کرتے ہوں۔ کیا ان کے اس انحراف کو اسلام سے منسوب کیا جا سکتا ہے؟ کیا ایک یورپی جو صرف اتوار کے دن چرچ جاتا ہو اور بقیہ تمام دنوں میں سخت بد اخلاقیوں کا ارتکاب کرتا ہو، تشدد کو پسند کرتا ہو، اس کے اس عمل کی بنا پر ہم عیسائیت کو اس کی بے راہ روی کا ذمہ دار قرار دے سکتے ہیں؟ لیکن جب انسانی ذہن ابلاغ عامہ کی زہر پھیلانے والی یلغار کا شکار ہو جاتا ہے تو پھر عقل کی آنکھ بند ہو جاتی ہے اور وہ محض سنی سنائی بات پر یقین کر بیٹھتا ہے۔ مغرب کے ساتھ مکالمے کا ایک اہم پہلو اسلام کے حوالے سے خواتین کے حقوق اور ان کا مقامِ فضیلت ہے جس پر غیر معمولی سنجیدگی اور توجہ کے ساتھ علمی سطح پر کام کی ضرورت ہے۔

اسلام اور مغرب کے مکالمے کے موضوعات اورکس کس سطح پر اس مکالمے کو ہونا چاہیے، کے حوالے سے ایک طویل فہرست پیش کی جاسکتی ہے لیکن ہمارا مقصود کوئی حتمی فہرست ِ موضوعات پیش کرنا نہیں، بلکہ صرف اس طرف اشارہ کرنا ہے کہ ٹکرائو اور آویزش کی جگہ علمی اور فکری مکالمہ  ایک ایسی تعمیری کوشش ہے جسے ہمیشہ اولیت حاصل ہونی چاہیے۔ اگر صرف ان چھے بنیادی مباحث پر علمی اور سنجیدہ مکالمے کو آگے بڑھایا جائے تو نہ صرف ان سے متعلق مغا لطوں کو دُور کیا جاسکتا ہے، بلکہ اسلام اور مغرب کی آویزش میں کمی اور افہام و تفہیم کے ذریعے اسلام کے عالمی پیغام کو متعارف کرایا جاسکتا ہے۔(بہ شکریہ مغرب اور اسلام، شمارہ ۳۹، انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد)

اقوام متحدہ کی اکنامک اینڈ سوشل کونسل کے تحت عورتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے  عالمی سطح پر اُمورسرانجام پاتے ہیں۔ ۱۹۷۵ء میں عورتوں کی پہلی عالمی کانفرنس ہوئی۔ ۱۹۷۹ء میں عورتوں کے خلاف ہر طرح کے امتیاز کے خاتمے کا معاہدہ ’سیڈا‘( CEDAW)ہوا۔ اس پر ۱۲۹سے زائد ممالک نے دستخط کیے۔ ان میں پاکستان بھی شامل ہے مگر یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی روشنی میں کام کرنے سے مشروط ہے۔

اس معاہدے کی روشنی میں بیجنگ میں ہونے والی کانفرنس میں بیجنگ پلیٹ فارم فار ایکشن طے ہوا، جس کے ۱۳ نکات تھے۔ بعد ازاں آٹھ اہداف کو ’ملینیم ڈیویلپمنٹ گولز‘(MDGs)کے  طور پر طے کر لیا گیا، تاکہ خواتین کی ترقی کی رفتار تیز تر اور جائزہ آسان تر ہو جائے۔  اہداف یہ ہیں:۱-غربت کا خاتمہ، ۲-عالمی سطح پر لڑکیوں کا ابتدائی درجۂ تعلیم میں داخلہ یقینی بنانا، ۳-عورت کی برابری کے تصور کو آگے بڑھانا اور عورت کی ترقی کے لیے کام کرنا ،۴-بچوںکی شرح اموات میں کمی، ۵-مائوں کی شرح اموات میں کمی ، ۶-ایچ آئی وی ایڈز، ملیریا اور دیگر بیماریوں سے حفاظت، ۷-ماحولیاتی استحکام کو یقینی بنانا، ۸-ترقی کے لیے عالمی برادری میں شراکت (Global Partnership)۔ ان میں سے نکات ۲،۳،۴،۵ اور ۶ عورتوں سے براہِ راست متعلق ہیں ۔ اہم ترین نکتہ تیسرا ہے، یعنی عورت کی برابری اور ترقی کے لیے کام کرنا ۔ آغاز میں جب برابری کا جھنڈا اٹھایا گیا تو نعرہ اپنے اپنے دائرۂ کار میں ترقی کا تھا۔ اب یہ ہر طرح کی برابری کا ہے۔

’کمیشن آن سٹیٹس آف ویمن‘ (CSW)عورت کی برابری اور ترقی کے لیے منصوبے بناتا اور ان کا جائزہ لیتا ہے ۔ اس کمیشن کا ۵۸واںاجلاس ۱۰ مارچ تا ۲۱ مارچ ۲۰۱۴ء ، اقوام متحدہ کی کانفرنس بلڈنگ اور نارتھ لان بلڈنگ میں منعقد ہوا۔ اس میں حکومتی مشن براے اقوام متحدہ اور  اقوام متحدہ کی ’سوشل اینڈاکنامک کونسل‘ میں رجسٹرڈ این جی اوز، یعنی ’ایکوساک سٹیٹس‘ کی حامل ہیں ، نے شرکت کی۔ انٹر نیشنل مسلم ویمن یونین بھی اکنامک اینڈ سوشل کونسل میں صلاح کار تنظیم کا اسٹیٹس رکھتی ہے۔ راقمہ اس کی صدر اور ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل (ایشیا ) کی حیثیت سے اجلاس میں شریک ہوئیں۔ یہ اجلاس بنیادی طور پر مشاورتی فورم تھا جس میں گذشتہ سال کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا۔ اس میں حکومتی مشن کے نمایندوں اور این جی اوز نے اپنے اپنے ملک میں اہداف کے حصول کے بارے میں کارکردگی رپورٹ پیش کی اور اپنے نقطۂ نظر کا اظہار کیا۔ یہ اجلاس ۲۰۱۵ء کے بعد کے ایجنڈے کی تشکیل کے لیے تھا کہ اہداف کے حصول میں رکاوٹوں کو دُور کیا جا سکے، اور ان پر کام کی رفتار کو تیز کیا جا سکے۔ اجلاس میں ۸۶۰ سول سوسائٹیز سے تعلق رکھنے والے ۶۰۰سے زائد نمایندگان نے شرکت کی۔ ۱۳۵ پروگرام اقوام متحدہ کی ایجنسیز، جب کہ ۳۰۰متوازی پروگرام این جی اوز نے منعقد کیے۔

اجلاس میں شریک حکومتی نمایندگان نے ان نکات پر رپورٹس پیش کیں:

  • ’تعلیم‘کے ذیل میں پرائمری میں لڑکیوں کا داخلہ اور تعلیم کا سلسلہ منقطع نہ ہو ’جاری رہے‘ اس میں کتنا اضافہ ہوا اور آیندہ کے امکانات کیا ہیں؟ ان میں بیش تر ممالک کی کارکردگی خاصی بہتر ہوئی ۔
  • ’صحت‘ کے عنوان کے تحت زچہ و بچہ کی صحت کے معاملات کا جائزہ پیش ہوا تو معلوم ہوا کہ مثبت طور پر صورت حال میں کچھ پیش رفت ہوئی۔ اسی طرح ماں کی صحت، دیہی علاقوں میں ہیلتھ ورکرز کی تربیت و اضافہ، مانع حمل ادویات کی فراہمی اور محفوظ اسقاطِ حمل کی کیفیت بیان ہوئی۔
  • فیصلہ سازی کے مقام تک رسائی میں ’عورتوں کی سیاسی نمایندگی کی شرح میں اضافے‘  کے لیے کیے گئے اقدامات اور اہم مناصب پر موجود خواتین کے بارے میں حکومتی نمایندوں نے اپنی کارکردگی پیش کی۔
  • عورتوں پر تشدد میں گھریلو اور جاے ملازمت پر قانون سازی کے مراحل کے بارے میں بتایا گیا۔
  • عورتوں کی بہتر معاشی مقام تک رسائی کے ذیل میں اعلیٰ تعلیم کے تمام میدانوں میں عورتوں کے داخلے پر تفصیل سامنے آئی۔ اسی طرح طب اور تعلیم کے علاوہ انجینیرنگ، آئی ٹی اور فضائیہ میں عورتوں کی نمایندگی کا جائزہ لیا گیا۔

کمیشن آن اسٹیٹس آف ویمن (CSW ) کا ۵۸واں سیشن صبح ۱۰ بجے شروع ہو کر شام چھے بجے تک جاری رہتا۔ درمیان میں ایک تا تین بجے کا وقفہ ہوتا۔ ہفتہ و اتوار کی چھٹی ہوتی تھی۔ متوازی پروگرام عموماً دو گھنٹے کے دورانیے کے ہوتے اور صبح ۱۰ بجے سے شروع ہو کر رات ۸بجے تک جاری رہتے۔ ایک وقت میں پانچ پانچ مختلف اجلاس ہوتے۔

 عورت پر تشدد کے ذیل میں اندرون اور بیرونِ ممالک میں عورتوں کی خرید و فروخت پر  کئی سیشن ہوئے، دستاویزی فلمیں دکھائی گئیں اور لٹریچر تقسیم کیا گیا۔ نوجوان لڑکیوں اور چھوٹی بچیوں کو غریب اور غیر ترقی یافتہ علاقوں سے لا کر گھروں میں سخت مشقت کروانے، ہراساں کرنے ، مارپیٹ اور منفی طور پر پر یشان کرنے کا عمل، کئی حکومتوں اور بااثر افراد کا ان کو سستے مزدور کے طور پر استعمال کرنا، جنگوں میں فاتح فوج کا مفتوح علاقے کی عورت کو ہوس کا نشانہ بنانے جیسے موضوعات زیربحث آئے اور ان پر رپورٹس بھی پیش کی گئیں۔

اسقاطِ حمل کی حوصلہ افزائی اور ہم جنسیت کی تائید میں نہ صرف لٹریچر تقسیم ہوا، بلکہ مباحث بھی ہوئے جن میں ایک موضوع تھا: ’’ عورتوں کو بچوں کی تعداد کے لیے فیصلے کی آزادی ہونا ضروری ہے‘‘۔ اس کے ساتھ ساتھ فیملی فورم نے خاندان کی ٹوٹ پھوٹ کی طرف توجہ دلائی اور مضبوطی کے لیے اقدامات تجویز کیے۔ عورتوں کے حقوق ،کلچر اور شریعہ پر بھی ایک فورم ہوا۔

ایک فورم پر یہ تقریر کی گئی کہ اگر بیوی پر ازدواجی حقوق کی ادایگی کے لیے زبردستی کی جاتی ہے تو وہ قانونی چارہ جوئی کر سکے گی۔سوالات کے وقفے میں راقمہ نے سوال کیا کہ بیوی اس فعل پر شوہر کو جیل بھجوا دے گی۔ شوہر جب جیل سے رہا ہو کر آئے گا تو بیوی کے ساتھ اس کا سلوک کیا ہوگا؟ جس کے جواب میں مقرر خاتون نے سٹپٹا کر جواب دیا: یہ سوچنا ہمارا کام نہیں ہے۔ عورت کے حقوق اور قانون کے نفاذ نے معاشرے پر مجموعی طور پر کیا اثرات مرتب کیے ہیں، محققین کو   اس پر بھی اعداد و شمار جمع کرکے حقیقت آشکارا کرنا ہوگی۔

فیملی فورم، کیتھولک کرسچن خواتین کا گروپ ہے جو سب سے زیادہ سرگرمی کے ساتھ  اسقاطِ حمل کو قانونی تحفظ دینے کے خلاف کام کرتا ہے۔ اس کے بنیادی ارکان نے آنسوئوں کے ساتھ اپنے ذاتی تجربات اور ذہنی کرب کی تفصیلات بیان کیں۔

اس نشست کے آخر میں شرکا کے تاثرات اور سوالات کے موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے راقمہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایسی ہی ایک عورت کے آنے کا واقعہ بیان کیا جو حد جاری کیے جانے کا اصرار کر رہی تھی کہ اسے دنیا میں اس گناہ کی سزا مل جائے اور آخرت میں رُسوائی سے بچ جائے۔ حضوؐر نے اس سے کہا کہ ابھی تم چلی جائو اور بچے کی پیدایش کے بعد آنا۔ بچہ پیدا ہونے کے بعد وہ پھر آئی کہ حد جاری کروا دیجیے۔ یہ حد سنگساری تاحد موت تھی جس کے لیے وہ اپنے  آپ کو پیش کر رہی تھی۔ حضوؐر اس کو دوبارہ واپس بھیج دیتے ہیں کہ اس بچے کو دودھ پلائو جب تک کہ یہ خود کھانے پینے کے قابل نہ ہوجائے۔ جب وہ تیسری بار آئی تو اس بچے کے ہاتھ میں روٹی کا ٹکڑا تھا جو وہ کھا رہا تھا۔ اس مثال سے دیکھیے کہ حضوؐر نے ماں کی ممتا ، اس کی نفسیات کا کتنا لحاظ کیا اور  بچے سے کتنی شفقت کا معاملہ کیا۔

اس گروپ کے ساتھ ہمارا اچھا تعارف ہے۔ سوڈان سے آنے والی ہماری یونین کی ممبران کے ساتھ بھی ان کے روابط ہیں۔ یہ اس اجلاس میں ہر سال پابندی سے شرکت کرتی، اپنے  نقطۂ نظر کو جدید تحقیق اور مؤثر دلائل سے ثابت کرتی ہیں۔ ان کا میگزین بھی باقاعدگی سے نکلتا ہے۔

عورتوں کے حقوق ٗ کلچر اور شریعہ پر بھی ایک فورم ہوا۔ اس میں عورتوں کے حقوق ،شریعت اور ممالک میں رائج کلچر کے حوالے سے لیکچر ہوئے۔ بعد ازاں سوال و جواب کی نشست میں ایک امریکی نژاد پاکستانی خاتون کھڑی ہوکر کہنے لگیں: میرے پاکستان کو شریعت نافذ کرنے والے لوگوں نے تباہ کر دیا ۔ اللہ کرے وہاں کبھی شریعت نافذ نہ ہو ۔ وہ بدامنی کا گہوارہ بن گیا ہے ۔ پاکستان سے آئی ایک دوسری خاتون نے، جن کے بارے میں ملاقات پر معلوم ہوا کہ عیسائی ہیں اور لاہور سے ہیں، ویمن اسٹڈیز پر لیکچر بھی دیتی ہیں، سوال کیا کہ پاکستان میں کئی فرقے اور مسالک ہیں، سُنّی، بریلوی، اہل حدیث، اہل تشیع، تو وہاں کس کی شریعت آئے گی؟ اس پر یہ جواب دیا گیا کہ جہاں تک شریعت اور کون سی شریعت کا تعلق ہے، یہ نہ طالبان کی شریعت ہے، نہ کسی اور گروہ کی شریعت ہے، یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دستور ہے جو شریعت کے تابع ہے۔ہم دستورِ پاکستان کے نفاذ اور بالادستی کے لیے کوشاں ہیں کہ یہی ہمارے اتحاد کا امین ہے۔

ان اجلاسوں کے دوران مختلف گروپس کے ساتھ تعارف اور ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کو سمجھنا اور سمجھانا ہوتا رہا۔ ایک دن، لابی میں ایک خاتون نے بڑی گرمجوشی سے پوچھا: کیا تم پاکستانی ہو ؟ ہم نے کہا: ہاں، اس نے کہا: میں نے تم پاکستانی عورتوں کے متعلق ایک کتاب لکھی ہے، اس کا عنوان ہے: پاکستانی عورت تو کہاں ہے ؟ یہ میرا تحقیقی مقالہ ہے جو مَیں نے بلوچستان میں رہ کر ڈیڑھ سال کے عرصے میں مکمل کیا ہے۔ ہم نے کہا: بہت خوب، یہ تو بتائیں آپ پاکستان کے دوسرے صوبوں میں بھی گئیں ؟ اس نے کہا: نہیں، عورت کو پاکستان میں گھر کی چار دیواری میں بند کر دیا جاتا ہے ۔ ہم نے اپنا تعارف کروایا کہ ہم بھی پاکستانی ہیں۔ مَیں میڈیکل ڈاکٹر ہوں،   فوج میں بھی کام کیا ہے، اور پارلیمنٹ کی ممبر بھی رہی ہوں ، تو وہ کہنے لگیں: یہ تو اِکا دُکا مثالیں ہیں۔ ہم نے پوچھا: ایک ماڈل اسلام کا ہے کہ مرد، عورت کی تمام ضروریات پوری کرنے کا پابند ہے، اور دوسرا ماڈل وہ ہے جس میں عورت اپنے لیے اور اکثر اپنے بچوں کے لیے خود کماتی ہے، ان دونوں میں سے عورت کے لیے کون سا ماڈل اچھا ہے ؟ اس نے کہا: اچھا تو اسلام والا ہے، مگر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ عورت کو گھر سے نکلنے ہی نہ دیا جائے ۔ ہم نے کہا: مقامی رواج، اسلام نہیں ہے ۔ اسلام میں عورت گھر سے باہر جا سکتی ہے ۔ اسلام میں اس کے گھر سے باہر نکلنے کے لیے پردے کے احکامات بیان ہوئے ہیں۔ وہ کاروبار کر سکتی ہے، اور جو کماتی ہے اس کی خود مالک ہے ۔ اس نے حیرت سے کہا: اگر یہ ایسے ہی ہے تو یہ بہترین ہے!

میں اقوام متحدہ کے ایسے سیشن میں تیسری بار (۲۰۰۰ء، ۲۰۱۲ء اور ۲۰۱۴ ء) شریک ہوئی تھی۔ میرا مشاہدہ ہے کہ۲۰۰۰ ء میں عورتوں کی جو حاضری اور جوش و جذبہ براے حصولِ حقوق تھا وہ اس بار قدرے ماند پڑتا ہوا محسوس ہوا۔ حکومتیں خواتین کے حقیقی مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ نہیں۔  ۲۰۰۰ء کے اجلاس میں مرد غالباً ۱۰ فی صد ہوں گے، جب کہ بعدازاں ان اجلاسوں میں یہ تعداد بڑھ کر تقریباً ۴۰ فی صد ہو گئی ہے ۔ اس کے برعکس عورتوں کی تعداد نسبتاً کم ہوتی جارہی ہے۔

ابتداً جاری ہونے والے اعلامیے میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ ۱۵ برس گزر جانے کے باوجود کسی بھی ملک میں عورت کو حقیقی برابری اور صحت و تحفظ کے حوالے سے ترقی حاصل نہیں ہو سکی۔ عالمی ادارے عورت کی برابری اور ترقی کے لیے ، اپنی ترجیحات کے مطابق، گو   سُست رفتاری مگر مستقل مزاجی کے ساتھ اہداف کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔

اسلامک سرکل آف نارتھ امریکا (ICNA)کی بہنوں کے ساتھ ان پروگراموں میں شرکت کی اہمیت پر بات چیت ہوتی رہی ہے۔ اس اجلاس میں بھی چند بہنوں نے شرکت کی۔ وہ پُرعزم تھیں کہ منصوبہ بندی کے ساتھ آیندہ اس نوعیت کے اجلاسوں میں اپنا نقطۂ نظر پہنچائیں گی۔

ایک خاتون پادری کے ساتھ تبادلۂ خیال میں انھوں نے کہا کہ چرچ میں لوگوں کا رجوع کم ہوتا جارہا ہے۔ لوگ اللہ سے تعلق کو کافی سمجھتے ہیں۔ انھوں نے ہم جنس زدہ جوڑوں کی حمایت کی جس پر حیرت ہوئی۔ تیونس کی ایک اسکارف پہننے والی خاتون نے یہ بتایا کہ اس کے ملک کی مسلمان نمایندگان نے چرچ میں ایک پروگرام کیا ہے، جس میں انھوں نے اسلام کے قانون وراثت میں مرد اور عورت کے غیر مساوی حصے کو ہدف بنایا۔ یہ بات بھی باعث ِ تشویش تھی۔ دوسری طرف خوش آیند پہلو یہ ہے کہ مسلمانوں میںچرچ کو خرید کر مساجد، سکول اور کمیونٹی سینٹر بنانے کا رجحان بڑھ رہا ہے، جہاں محلے کے مسلمان باقاعدگی سے اکٹھے ہوتے ہیں۔

اسی طرح امریکی معاشرے میں بچوں کی والدین سے لا تعلقی و آزادی کی کئی پریشان کن داستانیں سنیں۔ بچے اپنے کمروں میں کسی قسم کی مداخلت پسند نہیں کرتے۔ ایک دین دار گھرانے کی بچی نے والدہ کی معمولی ڈانٹ پر گھر چھوڑ دیا اور بعد میں پتا چلا کہ اس نے اپنی کسی سہیلی کے ساتھ رہایش اختیار کر لی ہے۔ شادی کے لیے رشتہ نہ ملنا اور شادی کے بعد طلاق بہت سے گھروں کی کہانی ہے۔ امریکی انتخابات کے موقعے پر ہم جنسیت کی آزادی ملنی چاہیے یا نہیں کے ۵۸ فی صد اثبات میں جواب کے بعد، ہم جنس پسند دندناتے پھرتے ہیں۔ کوئی اشارتاً بھی کچھ کہہ دے تومعافی مانگے بغیر جان نہیں چھوٹتی۔ عدالتیں بھی ان کے حقِ آزادی کو تسلیم کرتی ہیں۔ یہ مغرب کے معاشرتی انتشار و انحطاط کا کھلا ثبوت ہے۔گھروں میں نبھائو کم ہوا ہے۔خاندانی ٹوٹ پھوٹ کے اس سمندر میں اِکادکا جزیرے بھی ہیں جہاں خاندان کے افراد ماہانہ جمع ہوتے اور اپنے مسائل کے حل کے لیے باہمی تبادلۂ خیال کرتے ہیں۔ قرآن و حدیث کا درس بھی ہوتاہے۔ بچوں کی دوستی اور دل چسپی کا دائرہ خاندان ہے جہاں وہ اپنی صلاحیتیں نکھارتے ہیں۔

یہ ایک ناقابل فراموش منظر تھا ۔ میران شاہ بنوں شاہراہ پر ہزاروں گاڑیاں آہستہ آہستہ رینگ رہی تھیں ۔ ٹرکوں ، بسوں ، ٹرالیوں ،منی بسوں ، کاروں اور موٹر سائیکلوں پر سوار تاحد نظر لوگوں کا ایک اژدھام تھا جو اُمڈ پڑا تھا ۔ بوڑھوں ، نوجوانوں ،عورتوں اور بچوں کے چہرے بھوک و پیاس کی تکلیف سے کرب بلا کی مجسم تصویر بنے ہوئے تھے ۔ وہ مرد جن کے سروں پر مقامی وزیرستانی کالی دھاریوں والی پگڑی عزت و وقار کی علامت ہوتی تھی، اب ننگے سر ، پریشان حال ، دھول و مٹی سے اَٹے ہوئے تھے ۔ عورتیں کالی چادریں اوڑھے ہوئے نصف چہرہ چھپائے کسی پناہ، کسی سایے کی تلاش میں تھیں اور پھول سے سرخ و سفید بچے ، پچکے گال،کملائے چہروں کے ساتھ پانی کے لیے بلک رہے تھے۔۴۳ ڈگری سنٹی گریڈ کی شدیدگرمی میں ۱۸جون کا یہ دن یقینا ان لاکھوں انسانوں کے لیے قیامت کا دن تھا ۔

پاکستان کے سات قبائلی علاقوں میں سے ایک شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کا آغاز ہو چکا ہے ۔۱۵جون کو اچانک پاک فوج کے دستوں نے زمینی کارروائی ،توپخانے سے گولہ باری اور فضائی بمباری شروع کر دی ۔ اس سے چند دن پہلے قبائلی جرگے کو بلا کر ان کو ۱۵دن کا الٹی میٹم دیا گیا کہ وہ ۱۵دن کے اندر علاقے سے غیر ملکیوں اور دیگر مسلح افراد کو نکال باہر کریں وگرنہ سخت کارروائی ہو گی ۔ پھر وقت سے پہلے ہی عسکری کارروائی شروع کر دی گئی ۔ تین دن کے بعد کرفیو میں وقفہ دیا گیا اور لوگوں کو موقع دیا گیا کہ وہ محفوظ مقامات پر چلے جائیں ۔ چنانچہ لاکھوں افراد اپنے گھر بار چھوڑ کر بے یارومددگار پیدل یا سوار انجان منزل کی طرف روانہ ہو گئے ۔ جن کو سواری میسر آئی    وہ سوار ہو گئے اور جن کو نہ ملی وہ پیدل ہی چل پڑے ۔ مردوں اورعورتوں نے سروں پر سامان رکھا اور ہاتھوں میں چھوٹے بچوں کو اٹھایا ۔ بوڑھوں اور بچوں نے مال مویشی کی رسیاں ہاتھوں میں تھامیں اور اہل خانہ کے ساتھ اپنے محفوظ گھروں کوخیر باد کہتے ہوئے انجان منزل کی جانب روانہ ہوگئے ۔

پاکستان کے قبائلی علاقہ جات ایک طویل عرصے سے مسلح گروہوں اور پاکستانی فوج کے درمیان جار ی جنگ کا شکار ہیں ۔ فاٹا میں سات قبائلی ایجنسیاں ، باجوڑ ،مُہمند ، اورکزئی ، خیبر ، کُرم، شمالی اور جنوبی وزیرستان شامل ہیں، جب کہ پاٹا میں سوات ،دیر بالا، دیر پایان ، بونیر اور شانگلہ کے اضلاع شامل ہیں جو خیبر پختونخوا کے نیم قبائلی علاقے ہیں ۔ اس کے علاوہ فرنٹیئرریجن کے نام سے بھی چھے اضلاع میں ایسے قبائلی علاقے موجود ہیں، جو ضلعی ایڈمنسٹریشن کے ماتحت ہیں، جن میں پشاور ،کوہاٹ ، لکی مروت ، بنوں ، ٹانک او رڈیر ہ اسماعیل خان شامل ہیں۔ ان علاقوں میں گذشتہ برسوں میں فوج نے پانچ بڑے اور کئی چھوٹے آپریشن کیے ہیں۔ جن تنظیموں اور مسلح گروہوں کے حامیوں کے خلاف یہ کارروائیاں کی گئی ہیں ان میں تحریک نفاذ شریعت محمدی ، تحریک طالبان پاکستان کے مختلف دھڑے اور کئی مقامی مسلح مذہبی گروپ شامل ہیں ۔ ان علاقوں میں مسلح گروپوں کی موجودگی اور فعالیت کی ایک بڑی وجہ وہ کمزور قانونی او ر آئینی نظام ہے جو قیام پاکستان کے بعد سے ان پر نافذ ہے ۔ اس نظام کو FCR،یعنی فرنٹیئرکرائمز ریگولیشن کہتے ہیں، جو کہ انگریزدور سے ایک کالے قانون کے طور پر چلا آرہا ہے ۔

۲۰۰۱ء میں جب امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا تو پاکستان نے اس کا ساتھ دیتے ہوئے افغان سرحد پر اپنی فوجی چوکیا ں قائم کیں، تاکہ القاعدہ اور طالبان کی جو قیادت افغانستان سے پاکستان بھاگنے کی کوشش کر ے اس کو پکڑا جائے ۔ خاص طور پر تورا بورا،ا ٓپریشن کے دوران میں پاکستانی حکام نے سرحد عبور کرنے والے کئی اہم القاعدہ رہنمائوں کو پکڑا جن میں ابوزبیدہ ، رمزی وغیرہ شامل تھے ۔ البتہ اہم ترین شخصیات اسامہ بن لادن اور ان کے معاون ایمن الزواہری ان کے قابو میں نہ آئے ۔ اسی طرح حکومت نے ان غیر ملکی جنگجوئوں کو بھی نہ پکڑاجو روسی جارحیت کے خلاف جہاد کرنے افغانستان آئے تھے اور اب پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پناہ لیے ہوئے تھے۔ ان میں ازبک ، چیچن اور عرب مجاہدین شامل تھے ۔ لیکن کچھ ہی عرصے بعد امریکی افواج نے یہ شکایت کی کہ پاکستانی علاقوں سے ان کے خلاف کارروائیاں کی جا رہی ہیں ، اس کا سدّ باب کیا جائے۔ اس طرح ۲۰۰۳ء میں پہلی مرتبہ پاکستان نے بڑی تعداد میں فوج( ۷۰؍۸۰ہزار )جنوبی وزیرستان روانہ کی جس کا مقصد یہ تھا کہ ان غیر ملکی جنگجوئوں کو قابو کرنے کے ساتھ ساتھ ان مقامی محسود قبائلی عوام پر مشتمل لشکر کا بھی خاتمہ کرے جو نیک محمد وزیر کی قیادت میں ان کی پشت پناہی کر رہے تھے ۔ پشاور کے کور کمانڈر جنرل صفدر حسین کی قیادت میں اس کارروائی کو آپریشن ’کلوشہ‘ کا نام دیا گیا اور یہ ۲۶مارچ ۲۰۰۳ء کو مکمل ہوا ۔ نیک محمد کی ہلاکت کے بعد بیت اللہ محسود نے اس قبائلی لشکر کی کمان سنبھالی جس نے فروری ۲۰۰۵ء کو ’سراروغہ‘ کے مقام پر پاکستانی فوج کے ساتھ ایک امن معاہدے پر دستخط کیے جس کے بعد کچھ عرصے تک محسود علاقے میں نسبتاً امن رہا ۔ مارچ ۲۰۰۷ء میں بیت اللہ محسود نے کئی مسلح گروپوں کے انضمام کا اعلان کیا اور تحریک طالبان پاکستان کے نام سے نئی تنظیم بنائی ۔

جنوری ۲۰۰۸ء میں پاکستان نے جنوبی وزیرستان میں ایک بڑے فوجی آپریشن کا اعلان کیا۔ جس کا نام آپریشن ’زلزلہ‘ رکھا گیا ۔ اس آپریشن کے دوران میں پہلی مرتبہ بڑے پیمانے پر انسانی آبادی کا انخلا ہوا تھا جن میں ۲لاکھ سے زیادہ مقامی قبائلی عوام شامل تھے ۔ اس آپریشن میں فوج کو جزوی کامیابی ملی ۔ اسی دوران تحریک طالبان کا دائرہ کار جنوبی وزیرستان سے دیگر قبائلی علاقوں میں پھیلتا چلا گیا اور خصوصاً باجوڑ ایجنسی میں فقیر محمد اور ضلع سوات میں ملا فضل اللہ اور صوفی محمد نے اپنی گرفت مضبوط کی ۔ اسی زمانے میں جہاں ایک طرف امریکا نے بغیر پائلٹ جنگی جہازوں، یعنی ڈرون حملوں کا قبائلی علاقوں میں آغاز کیا وہا ں تحریک طالبان نے بھی قبائلی علاقوں سے نکل کر ملک کے مختلف علاقوں میںمسلح کارروائیوں اور خود کش حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا ۔

۹ستمبر ۲۰۰۸ء کو پاکستانی فوج نے باجوڑ میں ایک بڑی فوجی کارروائی آپریشن ’شیر دل‘ کے نام سے شروع کر دی جو قریباً ایک سال تک جاری رہی۔ بعد میں فوج نے مہمند ایجنسی کو بھی اس آپریشن میں شامل کیا ۔ اس فوجی کارروائی کے دوران بھی باجوڑ اور مہمند ایجنسی سے لاکھوں افراد بے دخل ہوئے اور انھوں نے دیر ، ملاکنڈ، پشاور اور چارسدہ میں پناہ لی ۔ رجسٹرڈ خاندانوں کی تعدادایک لاکھ ۵ہزار تھی۔

سب سے بڑا فوجی آپریشن ’راہِ حق‘ تھا جو جنوری ۲۰۰۹ئمیں سوات میں شروع کیا گیا اور بعد میں ضلع بونیر اور ضلع دیر کو بھی جزوی طور پر اس میں شامل کیا گیا ۔ اس آپریشن کی وجہ سے پاکستانی تاریخ کا سب سے بدترین انسانی انخلا وقوع پذیر ہوا جس میں ۳۰لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوئے اور انھوں نے خیبر پختونخوا کے قریبی اضلاع جن میں صوابی ، مردان ، چارسدہ اور پشاور وغیرہ شامل ہیں پنا ہ لی ۔ ایک خاصی تعداد ملک کے دیگر صوبوں پنجاب اور سندھ بھی منتقل ہوئی ۔ اس انسانی المیے کے دورا ن میں پاکستانی قوم نے زبردست انسانی ہمدردی اور بھائی چارے کا مظاہر ہ کیا اور ان بے دخل ہونے والے پاکستانی بھائی بہنوں کی مدد کی ۔ جن اداروں نے قابل قدر سماجی خدمات سرانجام دیں ان میں الخدمت فائونڈیشن سرفہرست تھی۔

۱۷؍اکتوبر ۲۰۰۹ء کو پاکستان آرمی نے ایک او ر بڑی فوجی کارروائی آپریشن ’راہ نجات‘ کے نام سے ایک بار پھر جنوبی وزیرستان کو ہدف بناتے ہوئے کی۔ اس آپریشن میں پاک فوج کے ساتھ ساتھ پاکستان کی فضا ئیہ بھی شریک تھی ۔ اس کے علاوہ ٹینکوں کا بھی بڑے پیمانے پر استعمال ہوا ۔آپریشن کی کامیابی کو یقینی بناتے ہوئے بھارتی سرحد پر متعین دو انفینٹری بریگیڈ اور SSGکی بٹالین بھی استعمال کی گئیں ۔ گن شپ ہیلی کاپٹر بھی استعمال ہوئے ۔ سراروغہ، مکین اور لدھا کے علاقوں کو ہدف بنایا گیا ۔کل ۱۵بریگیڈ آرمی استعمال ہوئی ۔ جنوبی وزیرستان میں بڑی کامیابیوں کے دعوے کیے گئے ۔ لاکھوں افراد ایک بار پھر بے گھر ہوئے اور انھوں نے ٹانک ، ڈیرہ اسماعیل خان ، لکی مروت ، کرک اور بنوں کے اضلاع میں پناہ لی ۔ رجسٹرڈ خاندانوں کی تعداد ۴۱ہزار۴سو۸۹تھی ۔

اس کے بعد کے سالوں میں تمام قبائلی ایجنسیوں میں فوج اور طالبان کے درمیان یہ کش مکش جا ری رہی ۔ اس دوران میں خیبر ایجنسی کی باڑہ تحصیل اور کرزئی ایجنسی، FR،کوہاٹ و دیگر مقامات پر فوجی کارروائیوں کا سلسلہ جاری رہا ۔ ان تمام فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں ہر علاقے سے ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں عام لوگ بے گھر ہوتے رہے ۔ معاشی تنگ دستی اور گھروں کی تباہی و بربادی نے پورے قبائلی علاقے کو ایک جہنم بنادیا۔ بچوں کی تعلیم کی بند ش اور دیگر سماجی معاشرتی برائیوں نے جنم لیا ۔ بدا منی اور قتل و غارت گری ایک معمول بن گئی ۔ بندوبستی علاقوں میں بم دھماکوں،  خودکش حملوں ،پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں پر مسلسل حملوں نے پوری قوم کو ایک شدید عذاب اور اضطراب میں مبتلا کر دیا۔ اس دوران میں قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں کا سلسلہ بھی جاری رہا جس میں املاک کی تباہی کے ساتھ ساتھ انسانی جانوں کی ہلاکت ہزاروں تک پہنچ گئی، جن میں معصوم بچے ،گھر وں میں مقیم خواتین اور امدادی کارکن بھی بڑی تعداد میں شامل ہیں۔

موجودہ آپریشن کو ’ضرب عضب‘ کا نام دیا گیا ہے ۔ یہ کافی عرصے کی تیاری اور پس و پیش کے بعد کیا جا رہا ہے ۔ کئی سالوں سے یہ امریکی مطالبہ تھا کہ شمالی وزیرستان میں بھر پور فوجی آپریشن کیا جائے ۔ ان کو تحریک طالبان کے ساتھ حقانی نیٹ ورک سے بھی شکایت تھی کہ افغانستان میں امریکی مفادات کے خلاف کارروائیوں میں ان کا اہم کردار ہے جس کا ہیڈ کوارٹر شمالی وزیرستان میں واقع ہے ۔ ایک طویل عرصے تک گومگو کی کیفیت رہی جس میں پاکستانی حکومت مسلسل امریکی دبائو میں رہی۔ اس دوران میں پاکستانی راے عامہ بھی فوجی آپریشن کو ناپسند یدہ قرار دیتی رہی۔ دینی و سیاسی جماعتوں کا بھی مطالبہ تھا کہ ایسا نہ کیا جائے ۔ لیکن پھر آہستہ آہستہ ایسے حالات و واقعات پیش آتے رہے جس سے راے عامہ بدلنا شروع ہوئی ۔ اس دوران میں طالبان سے مذاکرات کا ایک اہم فیصلہ بھی ہوا لیکن اسی دوران ہی اندازہ ہو گیا کہ فوجی قیادت مذاکرات کے حق میں نہیں۔ پھر بدامنی، دھماکوں اور حملو ں کے مسلسل ایسے خون ریز واقعات رُونما ہوئے جس نے راے عامہ کو متاثر کیا ۔ خاص طور پر کراچی ائر پورٹ پر حملے میں ازبک جنگجوئوں کو استعمال کیا گیا۔ اس نے آیندہ لائحہ عمل واضح کر دیا اور طبل جنگ بجا دیا گیا ۔ جو پارٹیاں پہلے سے آپریشن کے حق میں تھیں انھوں نے بغلیں بجائیں اور جو اس کے خلاف تھیں انھوں نے خاموشی اختیار کی اور بالآخر بھر پور فوجی آپریشن کا آغاز ہو گیا۔حسب ِتوقع امریکی حکومت نے اس آپریشن کی تائید کی اور کولیشن سپورٹ فنڈ سے اس کی مالی معاونت کا اعلان بھی کیا ۔

شمالی وزیرستان کا کُل رقبہ ۳ہزار ۷۰۷مربع کلومیٹر ہے جو بلند و بالا خشک پہاڑی سلسلوں اور دروں پر مشتمل ہے ۔ درمیان میں دریاے ٹوچی بہتا ہے ۔اس کی ۱۰تحصیلیں ہیں ۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق آبادی ساڑھے ۷ لاکھ ہے لیکن غیر سرکاری اندازوں کے مطابق ۹سے ۱۰لاکھ کے درمیان ہے ۔ ایجنسی ہیڈ کوارٹر میران شاہ ہے جس میں ایک بڑا بازار ہے ۔ اس کی آبادی ایک لاکھ کے لگ بھگ ہے ۔ دوسرا بڑا شہر میر علی ہے ۔ میر علی قریبی ضلع بنوں سے ۳۴کلومیٹر ،جب کہ   میران شاہ ۶۱کلومیٹر پر واقع ہے ۔ شمالی وزیرستان کی آبادی اتمانزئی وزیر داوڑ قبائل پر مشتمل ہے، جب کہ چھوٹے قبیلوں میںگربز ،کارسیز ،سید گئی ،حراسین ،محسود ،بنگش وغیرہ شامل ہیں ۔ پیشہ زراعت ، ٹرانسپورٹ ، کاروبار ،مویشی پالنا اور افغانستان کے ساتھ کاروبار ہے ۔ بڑی تعداد میں لوگ بیرون ملک روزگار کی تلاش میں گئے ہیں اور وہاں سے اپنے خاندان کی کفالت کرتے ہیں جس کی وجہ سے ایک خاصی آبادی متوسط درجے کی معاشی زندگی بسر کرتی ہے ۔ بالعموم یہ پُرامن علاقہ ہے اور لوگ باہمی جنگ و جدل اور اسلحے کے استعمال سے پرہیز کرتے ہیں ۔یہاں پر جرگہ سسٹم موجود ہے اور تمام تنازعات کے فیصلے مقامی روایات اور شریعت کے مطابق کیے جاتے ہیں ۔

۲۰۱۴ئمیں اس سے پہلے دو مرتبہ چھوٹے پیمانے پر آبادی کا انخلا ہوا تھا جب فضائی بمباری کی گئی تھی اور میر علی کے بازار اور بعض دیگر علاقوں کو ہدف بنایا گیا تھا جس میں میران شاہ ، بویا اور غلام خان کے علاقے شامل ہیں ۔ اس وقت دونوں مرتبہ ۲۰،۲۵ ہزار افراد بنوں پہنچے تھے لیکن اس بار پوری کی پوری آبادی نکل پڑی ہے ۔

۱۸جولائی تک رجسٹریشن کے اعداد و شمار درج ذیل ہیں:متاثرین کی کل تعداد ۹لاکھ ۹۳ہزار ۱۶۶ہے۔ اس میں بچوں کی تعداد ۴لاکھ ۵۲ہزار ۳سو ۶۹ہے ۔ کل خاندان جو رجسٹرڈ ہوئے ہیں ان کی تعداد ۹۰ہزار ۸سو ۳۶ہے ۔ گویا سوات آپریشن کے بعد یہ دوسرا بڑا آباد ی کا انخلا ہے ۔

 شمالی وزیرستان اور ضلع بنوں کے درمیان ایک نیم قبائلی علاقہ FRبنوں کہلاتا ہے ۔ اس میں فوج نے سید گئی کے مقام پر استقبالیہ کیمپ لگایا تھا جہاں افراد کی رجسٹریشن کی گئی ۔ اسی کے قریب بکاخیل میں ایک مکمل کیمپ بھی بنایا گیا جس میں کھلے میدان میں ۵۰۰کے قریب خیمے لگائے گئے ہیں۔ لیٹرین وغیرہ کی سہولت بھی موجود ہے۔ اس کیمپ میں بہت کم افراد نے سکونت اختیار کی ہے اور اس کی اب صرف نمایشی حیثیت ر ہ گئی ہے جس کو سرکاری زعما کے دوروں کے دوران فوٹو سیشن کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔ بے دخل افراد کو رجسٹریشن کے وقت ۱۲ ہزارروپے نقد دیے جا رہے ہیں۔ ۲۷جون کو وزیر اعظم پاکستان کے دورے کے موقعے پر انھوں نے رمضان کے دوران فی خاندان  ۴۰ہزار روپے کا اعلان کیا ۔ لیکن اس کی تقسیم کا خاطر خواہ انتظام نہ کیا جا سکا ۔ اب ایک  چینی موبائل کمپنی زونگ کے ذریعے اس رقم کو تقسیم کرنے کا بندوبست کیا گیا ہے لیکن کم ہی لوگ اس سے استفادہ کر سکے ہیں۔ حکومت پنجاب نے بھی اضافی ۷ہزار روپے کا اعلان کیا ہے جو زونگ Time Pay کے ذریعے تقسیم ہوں گے ۔ متاثرین نے شمالی وزیرستان سے نکلنے اور رجسٹریشن کے عمل سے گزرنے کے بعد اپنی مرضی سے صوبہ خیبر پختونخوا کے مختلف شہروں کا رخ کیا اور جس کو جہاں سہولت میسر آئی وہاں چلا گیا ۔ بنوں کے سرکاری اسکولوں میں چند کیمپ موجود ہیں۔  لیکن وہاں سے بھی لوگ دوسرے مقامات پر جارہے ہیں ۔

بین الاقوامی اداروں میں ورلڈ فوڈ پروگرام نے خشک خوراک کے پیکٹ تقسیم کیے ہیں، جب کہ ICRC نے بھی نان فوڈ آئیٹم اور طبی شعبے میں امداد ی سرگرمیاں کی ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں میں صوبائی محکمہ صحت نے مریضوں کو صحت کی سہولتیں بہم پہنچانے کا بندوبست کیا ہے ۔ ایک قابل توجہ بات یہ ہے کہ جہاں پاک فوج شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف بھر پور جنگی کارروائی میں مصروف ہے وہاں امدادی سرگرمیاں بھی اسی کے زیرانتظام ہو رہی ہیں اور سویلین ادارے اس کام سے باہر نظر آتے ہیں ۔ یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے کہ پاکستان کے سول ادارے اور سماجی بہبود کے محکمے اگر ایسے اہم موقعے پر اپنا کردار ادا کرنے سے محروم رہیں تو پھر ان کا مقصد وجود ہی ایک سوالیہ نشان بن جاتا ہے ۔

الحمد للہ ملک کی سب سے بڑی سماجی تنظیم الخدمت فائونڈیشن نے اول روز سے متاثرین آپریشن کی امداد کا بیڑا اٹھایا اور اب تک پورے جوش و خروش سے سرگرم عمل ہے ۔ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر محترم سراج الحق صاحب نے آپریشن شروع ہونے کے فوراً بعد المرکزاسلامی پشاور میں ایک مشاورت کے بعد فیصلہ کیا کہ فوجی آپریشن پر تحفظات کے باوجود ہم متاثرین کی خدمت میں کوئی کمی نہیں کریں گے اور جماعت کے تمام کارکنان کو ہدایت کی کہ وہ فوراً بنوں پہنچ کر اپنے بھائی بہنوں کی مدد کریں ۔ چنانچہ الخدمت فائونڈیشن کے مرکزی صدر ڈاکٹر حفیظ الرحمن ، صوبائی صدر نورالحق اور فاٹا الخدمت کے صدر اول گل آفریدی کی قیادت میں الخدمت کے رضاکاروں اور جماعت اسلامی کے کارکنان نے موقعے پر پہنچ کر کام کو سنبھالا ۔ سیدگئی کے مقام سے ان کو آگے جانے کا موقع نہیں دیا گیا لیکن اس جگہ سے بنوں شہر تک جگہ جگہ استقبالیہ کیمپ لگائے گئے ۔ یہاں آنے والے مہمانوں کو پانی کی بوتلیں اور تیار کھانا دینا شروع کیا گیا۔ الخدمت فائونڈیشن کی  ۲۵؍۳۰ ایمبولینسوں نے اس ریلیف آپریشن میں اہم کردار ادا کیا اور انھوں نے مریضوں کو اٹھانے کے ساتھ ان بوڑھوں عورتوں اور بچوں کو بھی ایمبولینس میں سوار کر کے شہر تک پہنچایا جو میلوں پیدل چل کر سید گئی تک پہنچے تھے ۔ ان کیمپوں میںان جانوروں کے لیے پانی اور چارے کا بندوبست بھی کیا گیا جو متاثرین اپنے ساتھ پیدل چلا کر لائے تھے ۔ معلوم ہوا کہ ایسے کئی جانور راستے میں بھوک و پیاس کی وجہ سے ہلاک بھی ہو چکے تھے ۔ تینمقامات پر میڈیکل کیمپوں کا بھی انتظام کیا گیا ۔ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسو سی ایشن (پیما) نے بھی طبی سہولتیں بہم پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ۔ ضلع امیر مفتی صفت اللہ اور الخدمت فائونڈیشن ضلع بنوں کے پر عزم صدر عزیز الرحمن قریشی اور ان کی ٹیم نے شبانہ روز محنت کر کے ہزاروں متاثرین کی خدمت کی ۔ صوبائی امیر پروفیسر محمد ابراہیم خان بھی اس پورے عرصے میں کام کی نگرانی کرتے رہے ۔

بنوں کے اسکولوں میں متاثرین کو آباد کیا گیا اور وہاں ان کو تیار کھانا پہنچایا گیا۔ جن کو ٹرانسپورٹ کی ضرورت تھی فراہم کی گئی ۔ رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہو چکا تھا اور متاثرین کو سحر و افطار کے لیے کھانے پینے کی اشیا درکار تھیں ۔ اس لیے الخدمت فائونڈیشن نے فوری طور پر خوراک کے راشن پیک تیار کر کے تقسیم کرنے شروع کیے اور اب تک یہ سلسلہ جاری ہے ۔ ۱۰ہزار سے زائد خاندانوں کو راشن مہیا کیا جا چکا ہے ۔ الخدمت کے ساتھ جن اداروں نے اس امدادی مہم میں ساتھ دیا ان میں کراچی کی عمیر ثنا فائونڈیشن ،ترکی کی جانسو اور یارد ملی و دیگر کئی ادارے شامل ہیں۔ پاکستان کی جن دیگر تنظیموں نے قابل ذکر کام کیا ہے اس میں فلاح انسانیت بھی شامل ہے ۔

پورے پاکستان سے جماعت کی تنظیموں نے فنڈز جمع کیے ہیں ۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی کمیونٹی نے بھی عطیات روانہ کیے ہیں۔ حلقہ خواتین اور الخدمت خواتین ٹرسٹ بھی سرگر م عمل ہے لیکن کام بہت بڑا ہے ۔ ایک ملین آبادی کی ضروریات پوری کرنا جو پوری طرح بے یار و مدد گار ہیں۔ اپنے گھروں ، آمدن کے ذرائع ، مال و متاع سے محرو م ہو چکے ہیں۔ ان کے لیے سامان زیست فراہم کرنا کسی کے بس میں نہیں، اور معلوم نہیں کہ کب تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ بس ایک قادر مطلق ذات ،رب کریم ،خالق کائنات کا سہار ا ہے ۔ وہی عطا کرنے والا ہے اسی پر بھروسا ہے۔

گذشتہ سات سال سے محصور غزہ ایک دفعہ پھر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کی وجہ سے آگ اور خون کی میں زد میں ہے۔ ان سطور کے لکھنے تک ۶۵۰فلسطینی شہید اور۴ ہزار سے زائد زخمی ہوگئے ہیں،جب کہ سیکڑوں گھر ، سکول ،رہایشی عمارتیںاور مساجد ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کردیے گئے ہیں۔ اسرائیلی وزیر دفاع گابی اشکنازی نے اعلان کیا ہے کہ غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجاکر  دم لیں گے۔ ۲۰۰۸ء اور ۲۰۱۲ء کے حملے کے برعکس اس دفعہ زمینی حملہ بھی کیا گیا ہے اور اسرائیلی افواج ٹینکوںاور بھاری اسلحے سمیت غزہ پر مختلف اطراف سے چڑھائی کرچکی ہیں۔یہ تو معلوم نہیں کہ ۷جولائی سے جاری آگ اور خون کا یہ کھیل مزید کتنے بے گناہوں کی جان لے گا، تاہم اس موقعے پر مسلم دنیابالخصوص عالم عرب کی خاموشی ایک بڑا سوالیہ نشان بن کر سامنے آئی ہے۔

حملے کے اسباب:

حالیہ حملے کے جواز کے لیے اسرائیل نے الزام عائد کیا ہے کہ حماس ۲۰۱۲ء کے امن معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی کرتی رہی ہے اور اسرائیلی آبادیوں کوغزہ سے اپنے راکٹوں سے نشانہ بنا تی رہی ہے۔اس کشیدگی میں اضافہ اس وقت ہوا جب۱۲ جون ۲۰۱۴ء کو اچانک تین اسرائیلی نوجوان غائب ہوگئے اور چند دن بعد سرحد کے قریب سے ان کی لاشیں ملیں۔ اسرائیل نے اس کا الزام براہ راست حماس پر لگا یا اور انتقامی کارروائی کا فیصلہ کیا۔ حماس نے اس الزام کی تردید کی اور کہا کہ اگر انھوں نے ان اسرائیلی لڑکوں کو پکڑا ہوتاتوانھیں قتل کرنے کے بجاے ان کے بدلے اپنے قیدی رہا کرواتے ، جیسا کہ اس نے جلعاد شالیط کے بدلے تقریباً ۱۳۰۰فلسطینی مرد وخواتین قیدیوں کو رہا کروایا تھا۔ اس کے باوجود اسرائیل نے بزدلانہ کارروائی کرتے ہوئے ایک ۱۴ سالہ فلسطینی بچے کو اغوا کرکے زندہ جلادیا اور رفح کی سرحد پر حماس کے چھے قائدین کو شہید کردیا اور بڑے پیمانے پر کارروائیوں کا آغاز کردیا۔وہائٹ ہاؤس نے بھی فوری طور پراسرائیل کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے اسرائیلی جنگی کارروائیوں کو حقِ دفاع قرار دے دیا۔ امریکی شہ ملتے ہی اسرائیل نے بمباری میں اضافہ کیا اورسرکاری عمارتوںسمیت عام آبادی کو نشانہ بنانا شروع کردیا۔

در اصل جب سے مصر میں فوجی انقلاب کے ذریعے اسرائیل کے حامی اقتدار میں آئے ہیں تب سے اسرائیل کے تیور بدلے ہوئے ہیں۔ حماس نے شروع ہی سے اس صورت حال کا ادراک کیا اور الفتح کے ساتھ مصالحت کرکے ایک دفعہ پھر مشترکہ قومی حکومت تشکیل دینے کا دانش مندانہ فیصلہ کیا ۔ مسلمانوں کو ہمیشہ سے تقسیم کرنے کی پالیسی پر گامزن امریکا واسرائیل کو منظور نہ تھا کہ دونوں دھڑے ایک ہوکر اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھائیں۔یہی وجہ ہے کہ لڑکوں کی گم شدگی اور  قتل کا بہانہ بنا کر ا س نے غزہ پر چڑھائی کردی ۔

 بعض تجزیہ نگاروں نے لکھا ہے کہ چند سال قبل غزہ کی پٹی میں تیل اور گیس کے وسیع ذخائر دریافت ہوئے ہیں ،اسرائیل انھیں اپنی تحویل میں لینا چاہتا ہے۔ اس لیے وہ ہر قیمت پر غزہ کو اپنے کنٹرول میں لینا چاہتا ہے۔ برطانوی اخبار دی گارڈین نے اپنی ۹ جولائی ۲۰۱۴ء کی اشاعت میں معروف دفاعی تجزیہ نگار ڈاکٹر نفیز احمد کے حوالے سے لکھا ہے کہ ۲۰۲۰ء تک اسرائیل کا توانائی بحران شدت اختیار کرسکتا ہے جس کے پیش نظر اسرائیل فلسطینی ذخائر پر قبضے کو ضروری سمجھتا ہے ۔ غزہ کے ساحل کے قریب تقریبا ڈیڑھ کھرب کیوبک فٹ گیس کے ذخائر موجود ہیں۔اسی وجہ سے اسرائیل نے حماس کے خاتمے کے لیے غزہ پر جنگ مسلط کی ہے۔ معروف امریکی ماہرِ توانائی ڈاکٹر   گرے لفت نے امریکی جریدے جرنل آف انرجی سیکورٹی میں اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ اسرائیل ، مصر سے گیس کی مسلسل فراہمی کے باوجود آیندہ چند سالوں میں گیس کے شدید بحران کا سامنا کرے گا۔ اس لیے اس کی نظریں خطے میں موجود تیل اور گیس کے ذخائرپر لگی ہوئی ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ پہلے ہی دن سے غزہ اسرائیل کی نظروں میں خاردار کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے اور وہ ہر قیمت پر اسے باقی مقبوضہ فلسطین میں شامل کرنا چاہتا ہے، تاکہ وہاں مصر کے آمر سیسی کی طرح وفادار اور محمود عباس کی طرح کٹھ پتلی حکومت قائم کرکے جب چاہے فلسطینیوں کو وہاں سے نکال باہر کرے اور جب چاہے وہاں نئی یہودی آبادیاں قائم کرے۔

بین الاقوامی برادری کا رد عمل:

غزہ پر حملے کے اگلے ہی دن امریکی ترجمان نے اسرائیل کی مکمل حمایت اور حماس کی مذمت پر مشتمل بیان جاری کیا ۔ اقوام متحدہ نے دونوں اطراف کو معاملات مذاکرات کے ذریعے حل کرنے اور جنگ بندی کا مشورہ دیا۔ گویا کہ اسرائیل کی وحشیانہ بمباری اور حماس کی جانب سے چلائے گئے دفاعی میزائل برابر ہیں۔امریکی رد عمل کے آتے ہی مسلم دنیا جیسے چپ سادھ گئی اور گاجر مولی کی طرح کٹتے نہتے فلسطینیوں پر جاری وحشیانہ بمباری گویا انھیں نظر ہی نہ آرہی ہو۔

عرب ممالک پہلے تو خاموش تھے لیکن جب سوشل میڈیا پراسرائیلی بموں سے معصوم فلسطینی بچوںکے جسموں کے پرخچے اڑتے ہوئے دکھائے گئے اور ہر طرف سے عرب حکمرانوںکو بے حسی کے طعنے دیے جانے لگے، تو کاغذی کارروائی کے لیے عرب وزراے خارجہ کا اجلاس طلب کیا گیا، حملے کی مذمت کی گئی اورتصویری سیشن کرکے بات ختم کردی گئی۔ مصر نے البتہ جنگ بندی کی ایک تجویز پیش کی جو در اصل اسرائیلی تجویز تھی، سب نے اس کی حمایت کا اعلان کیا۔ اسرائیل نے بھی اسے تسلیم کیا لیکن معاملے کے اصل فریق حماس سے نہ تو کوئی رابطہ کیا گیا نہ مشاورت ، بلکہ حماس کے ترجمان کے مطابق انھیں صرف میڈیا کے ذریعے اس معاہدے کی خبریںملیں ۔اب جس جنگ بندی کے معاہدے کا حماس کو کچھ معلوم ہی نہ تھااسے قبول کرنے سے انکار پر مطعون کیا جا رہا ہے۔

 اس ضمن میں ما سوائے ترکی کے کسی مسلمان ملک سے سرکاری طور پرکوئی احتجاج یا مذمتی بیان سامنے نہیں آیا۔ترکی نے نہ صرف سخت احتجاج کیا بلکہ حملے بندنہ کرنے کی صورت میں سفارتی تعلقات ختم کرنے کی دھمکی بھی دی۔ ترک وزیر اعظم نے اس پورے معاملے میں مصر کے منافقانہ رویے کی سخت مذمت کرتے ہوئے فوجی حکمران جنرل سیسی کو ظالم آمر قرار دیا۔

جنگ بندی کی مصری تجویزاور حماس کا انکار:

عرب وزراے خارجہ کے اجلاس منعقدہ ۱۴ جولائی قاہرہ میں مصر نے جنگ بندی کی تجویز میں کہا کہ حماس اور اسرائیل کو فوری طور پر جنگ بندی کرنی چاہیے ۔ تجویز میں حماس سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ کسی قسم کے راکٹ اسرائیل کی طرف فائر نہ کرے۔ مصر نے غزہ اور اسرائیل کے مابین سرحد پر موجود تمام گزرگاہوں کو کھولنے کی بھی تجویز دی ، تاہم تجویز میں اپنی سرحد کو کھولنے کی کوئی پیش کش نہیں کی۔حماس اور دیگر جہادی تنظیموں نے اس تجویز کو مسترد کردیا ۔ القسام بریگیڈ نے اسے اسرائیلی بالادستی تسلیم کرنے کے مترادف قرار دیا ۔حماس نے موقف اختیار کیا کہ ہماری شرائط تسلیم کیے بغیر جنگ بندی قبول نہیں ہے ۔ اس تجویز میں ہمارے مطالبات کا ذکر ہے نہ ہمیں مشاورت کے بارے میں مطلع کیا گیا ہے۔عرب وزراے خارجہ کے اجلاس کے بعد جاری کردہ اعلامیے کی عبارت ایسے مرتب کی گئی جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ فریقین موجودہ صورت حال کے برابر ذمہ دار ہیں۔

حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ نے کہا کہ ہم جنگ بندی چاہتے ہیں۔ ہم ۲۰۱۲ء کے معاہدے کی طرف لوٹنا چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اسرائیل کی وحشیانہ بمباری بند ہو اور ہمارے عوام سُکھ کا سانس لیں لیکن ہمارا اصل مسئلہ سات سال سے جاری محاصرہ ہے جس سے ہماری قوم فاقوں کا شکار ہے اور ایک بڑی جیل میں قیدیوں کی سی زندگی گزار رہی ہے، جب کہ مصری تجویز میں اس کو یکسر نظر انداز کردیا گیا ہے۔ ۲۰۱۲ء کے امن معاہدے میں اسرائیل کو پابندکیاگیا تھا کہ وہ حماس کے قائدین اور دیگر مجاہدین کو ٹارگٹ نہیں کرے گا ،جب کہ موجودہ تجویز میں اسرائیل کواس کا پابند نہیں کیا گیاہے ۔گویا اسے کھلی چھٹی دے دی گئی ہے کہ جب چاہے اور جسے چاہے ٹارگٹ کرے۔ اس تجویز میں اسرائیل کو پابند کیا گیاہے کہ ضرورت کی اشیا لانے لے جانے کے لیے گزرگاہوں کو کھول دے ،تاہم اسے امن وامان کی صورت حال سے مشروط کیاگیا ہے۔گویا اسرائیل جب چاہے ان گزرگاہوں کو بند کردے۔

غزہ پر مسلط کی گئی اس جنگ میں اگر چہ سیکڑوں فلسطینی شہید اور ہزاروں زخمی ہوچکے ہیں ، لیکن پہلی بار حماس کی طرف سے داغے گئے ۱۰۰ فی صد مقامی ساخت کے میزائل تمام یہودی آبادیوں تک پہنچ رہے ہیں۔ پہلی بار خود اسرائیلی سرکاری ذرائع نے دو درجن سے زائد اسرائیلی فوجی جہنم رسید ہونے کا اعتراف کیا ہے ۔ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو دکھائی گئی ہے، جس میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو امریکی صدر کا فون سن رہا ہے ۔ فون کے دوران حماس کے راکٹوں کی آواز آئی اور وہ فون چھوڑ کر بھاگا۔شاروول نامی ایک یہودی فوجی حماس کے مجاہدین کے ہاتھ لگ گیاتو فلسطینی آبادی میں خوشیوں کے شادیانے بج گئے کہ جلعاد شالیط کی طرح اب مزید قیدی رہا ہوں گے۔

وَلَا تَھِنُوْا فِی ابْتِغَآئِ الْقَوْمِ ط اِنْ تَکُوْنُوْا تَاْلَمُوْنَ فَاِنَّھُمْ یَاْلَمُوْنَ کَمَا تَاْلَمُوْنَ ج وَ تَرْجُوْنَ مِنَ اللّٰہِ مَا لَا یَرْجُوْنَ ط ( النساء :۴:۱۰۴) اس گروہ کے تعاقب میں کمزوری نہ دکھاؤ- اگر تم تکلیف اٹھا رہے ہو تو تمھاری طرح وہ بھی تکلیف اٹھا رہے ہیںاور تم اللہ سے اس چیز کے امیدوار ہو جس کے وہ امیدوار نہیں ہیں۔

ایسا ہرگز نہیں ہے کہ نقصان صرف نہتے فلسطینیوں کا ہورہا ہے۔خود اسرائیل کے اندر یہودی اپنی حکومت کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں کہ خدا را غزہ پر بمباری بند کرو اور ہمیں سکون سے رہنے دو۔فتح ان شاء اللہ حق کی ہوگی اور شیخ احمد یاسین شہید کی پیشین گوئی سچ ثابت ہوگی۔ انھوں نے کہا تھا کہ الٹی گنتی شروع ہوگئی ہے اور ان شاء اللہ اس صدی کی تیسری دہائی اسرائیل کے مکمل خاتمے اور صفحۂ ہستی سے مٹ جانے کی دہائی ہوگی۔

غزہ کے نہتے اور معصوم عوام پر ظلم و سفاکیت کی یہ نئی مثال بھی ختم ہوجائے گی ، لیکن تاریخ بین الاقوامی برادری کی جانب داری ، او آئی سی اور عالم عرب کی بزدلانہ خاموشی کو کبھی معاف نہیں کرے گی ۔ مصر کا منافقانہ رویہ اور اسرائیل دوستی بھی کھل کر سامنے آگئی ہے اور ترک وزیر اعظم نے بجا طور اسے اسرائیل کے ساتھ اس وحشیانہ اور ظالمانہ کارروائی میں برابر کا شریک قرار دیا ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ اگر پوری امت یک جا ہوکر اسرائیل کی طرف پھونک بھی مارے تو وہاں ایک پتّا بھی نہیں رہے گا، لیکن افسوس کہ مسلم حکمران بزدلی اور بے حسی کی تمام حدیں عبور کرچکے ہیں۔ ان سے خیر کی امید تو نہیں پھر بھی ہماری تجویز ہے کہ فوری طور پر تمام مسلم ممالک کا ہنگامی سربراہی اجلاس بلایا جائے اور غزہ پر جارحیت کو رکوانے کے لیے واضح عملی اقدامات کا اعلان کیا جائے۔ اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ عالمی قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے ایسے سخت اقدامات کرے جن سے محصور اہل غزہ کے اجتماعی قتل کو روکا جا سکے۔مصرکو پابند کیا جائے کہ اہل غزہ کا بیرونی دنیا سے رابطے کا واحد راستہ رفح گیٹ وے کوفوری اور مستقل طورپر کھول دے ،تاکہ زخمیوں اور بیماروں کو مناسب علاج معالجے کے لیے مصر اور دیگر ممالک لے جایا جاسکے ۔ مسلمان ممالک بالخصوص عرب ممالک اسرائیل کے سرپرست اور اس جارحیت کی حمایت کرنے والے ممالک کے ساتھ تمام تجارتی معاہدوں خصوصاً تیل کے معاہدوں پرنظر ثانی کریں ۔اورمشترک دشمن کے مقابلے میں فلسطینی دھڑوں میں انتشار پیدا کرنے کے بجاے انھیں متحدکرنے کی سنجیدہ کوششیں کریں۔

۱۰ جون ۲۰۱۴ء کے بعد سرزمینِ عراق نے خطے کے تمام ممالک کی توجہ اپنی طرف مبذول کیے رکھی۔ ان ایام میں تنظیم الدولہ الاسلامیہ فی العراق والشام (داعش) نے ضلع نینویٰ کے انتظامی مرکز اور عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل پر قبضہ کرلیا جس کی آبادی ۱۰لاکھ نفوس سے زائد ہے۔ شمال مغربی بغداد میں ضلع صلاح الدین اور اس کے انتظامی مرکز تکریت، مغربی عراق کے ضلع انبار اور اس کے انتظامی مرکز رمادی پر اپنا تسلط قائم کرلیا۔ اس کے ساتھ پٹرول مہیا کرنے والے بیش تر علاقے پر بھی تنظیم نے کنٹرول حاصل کرلیا۔ یہ تمام کارروائی فلوجہ شہر کو مسلسل محاصرے میں رکھنے اور اس کے ہزاروں شہریوں کو ہجرت پر مجبور کیے رکھنے کے بعد عمل میں آئی۔ حالیہ چند مہینے امن و امان کی صورت حال کے اعتبار سے بہت خوف ناک گزرے۔ اس طرح حکومتی افواج کی پسپائی کے نتیجے میں دارالحکومت بغداد کی طرف رسائی کا راستہ تنظیم کے لیے آسان ہوتا نظر آرہا تھا۔      چند ہفتوں کے درمیان یہ عمل اس سُرعت سے مکمل ہوا کہ عراق کے ایک تہائی رقبے پر داعش نے اپنی اتھارٹی قائم کرلی، اور بغداد میں بھی اپنی کارروائیوں کا آغاز کردیا ہے۔

اس حیرت انگیز تیزرفتار کامیابی پر تنظیم کے ترجمان ابو محمد العدنانی کے اعلانِ قیامِ خلافت نے ہرشخص کو اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ انھوں نے حلب (شام) سے لے کر دیالی (عراق) تک خلافت ِاسلامیہ قائم کرنے کا اعلان کیا۔ ساتھ ہی تنظیم کے سربراہ ابوبکر البغدادی کے منصب ِ خلافت پر متمکن ہونے کا مژدہ بھی سنایا۔

داعش کا یہ اعلان بظاہر غیرمعمولی حد تک غیرمعقول ہے مگر جن حالات میں یہ اعلان سامنے آیا اس نے پورے عالمِ اسلام کی توجہ حاصل کرلی۔ اس میں شک نہیں کہ عراق اور شام دیگر عرب ممالک کی نسبت زیادہ ابتر سیاسی صورتِ حال سے گزررہے ہیں۔ بیرونی طاقتوں نے اپنے مفادات اور مقاصد کے حصول کے لیے ملک کے انسانی و مادی وسائل کو بے دریغ تباہ و برباد کیا ہے۔ ربع صدی قبل ایران کے ساتھ تصادم میں اس کی قوتوں کو ضائع کرنے کا کھیل کھیلا گیا اور بعدازاں صدام حسین کی ’انانیت‘ کو زیر کرنے اور خلیج میں اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی۔ ظلم و ستم اور جبروقہر کی یہ تاریخ نئے سے نئے باب رقم کرتی جارہی ہے، حتیٰ کہ انسانی حقوق کی پامالی اور فرقہ وارانہ تصادم نے انسانی زندگی کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ شیعہ سُنّی فسادات کو ہوا دینے کے لیے اس طرح کا اعلان جلتی پر تیل کا کام کرگیا۔ چونکہ داعش کے نام اور تذکرے کے ساتھ ہمیشہ سُنّی کا لفظ ضرور استعمال کیا گیا ہے، لہٰذا یہ بات اس خدشے کو حقیقت میں بدلتی نظر آئی کہ اس سے لازماً شیعہ سُنّی تصادم کو ہوا ملے گی۔ یہی وجہ ہے کہ عراق کے شیعہ مرجع آیت اللہ سیستانی نے بھی داعش کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا۔

اس اعلان کے بعد جس خوف ناک صورت حال کے پیدا ہونے کا خدشہ تھا اس کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے علماے اسلام کے عالمی اتحاد (الاتحاد العالمی لعلما المسلمین) نے اپنے فوری ردعمل کا اظہار کیا۔ اتحاد نے شرعی طور پر اس اعلان کا جائزہ لیا اور ایک جامع بیان جاری کیا جس میں کہا گیا: عالمی اتحاد براے علماے مسلمین نے ’الدولہ الاسلامیہ‘ نامی تنظیم کی طرف سے جاری کی گئی تصریحات کا بغور جائزہ لیا ہے۔ یہ تنظیم عراق کے اندر دیگر عراقی طاقتوں کے ساتھ ہی وجود میں آئی تھی اور مقصد عراق کے اہلِ سنت اور ملک کے مظلوم انسانوں کی مدافعت تھا۔ یہ بات باعث ِ مسرت تھی اور ہم نے اس جمعیت کو ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کی بناپر خوش آمدید کہا۔ مگر جلد ہی اس تنظیم کی دیگر تنظیموں اور ملکی قوتوں سے علیحدگی عمل میں آگئی اور انھوں نے ’اسلامی خلافت‘ کے قیام اور ’خلیفۃ المسلمین‘ کی نامزدگی کااعلان یہ کہتے ہوئے کیا کہ دنیا بھر کے مسلمان بھی اس خلیفہ کی بیعت کریں اور اس کا حکم مانیں۔ اتحاد ان تمام اُمور کو شرعی اور دنیوی کسی بھی معیار پر درست نہیں سمجھتا۔ اتحاد کے نزدیک اس کے نقصانات زیادہ اور فوائد کم ہیں۔ اس طرح کے   اُمور دیگر تنظیموں اور ملکوں کے سامنے انتشار و انارکی کا دروازہ کھول دیتے ہیں کہ ہر کوئی کھڑا ہو اور ازخود خلافت قائم کرنے کا اعلان کردے۔ اس طرح تو خلافت اسلامیہ کا مقدس مفہوم ہی داغ دار ہوکر رہ جائے گا۔ یہ بہت بڑا خطرہ ہے اور دشمن کے منصوبوں کے سوا یہ کسی کی خدمت نہیں۔

اتحاد نے یہ بھی کہا کہ خلافت ِ اسلامیہ کے معنی و مفہوم کو ایک ایسی تنظیم کے ساتھ جوڑنا جو لوگوں میں تشددپسند مشہور ہو، منفی ذہنیت کی حامل ہو، ایسا عمل کبھی بھی اسلام کی خدمت نہیں ہوسکتا۔

داعش کے موصل پر قبضے سے سیاسی وعسکری اور امن و سلامتی سے متعلق کئی سوالات کھڑے ہوگئے کہ داعش کن لوگوں پر مشتمل ہے اور عراق کے اتنے وسیع علاقے پر کیسے قابض ہوگئی ہے؟   یہ کیسے قائم ہوئی اور پروان چڑھی؟ اس کے حمایتی اور معاون کون ہیں اور اس کی حرکت کا راز کیا ہے؟ اسے مالی امداد کہاں سے ملتی ہے؟

داعش کی تشکیل کا سلسلہ عراق میں ابومصعب الزرقاوی اردنی کی قائم کردہ تنظیم ’التوحیدوالجہاد‘ سے ملتا ہے۔ ابومصعب کی یہ تنظیم ۲۰۰۴ء میں قائم ہوئی تھی۔ ۲۰۰۶ء میں زرقاوی نے القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کی بیعت کرلی۔ زرقاوی اسی سال امریکی افواج کے ایک حملے میں جاں بحق ہوگیا۔ اس کے بعد ابوحمزہ المہاجر تنظیم کا سربراہ مقرر ہوا اور ساتھ ہی ابوعمر البغدادی کی سربراہی میں تنظیم ’دولۃ العراق الاسلامیۃ‘ کی تشکیل بھی عمل میں آگئی۔ ۱۹؍اپریل ۲۰۱۰ء کو ابوعمر البغدادی اور ابوحمزہ المہاجر امریکی و عراقی افواج کے ہاتھوں مارے گئے۔ کوئی ۱۰ دن بعد تنظیم کی شوریٰ کا اجلاس ہوا جس میں ابوبکر البغدادی کو ان کا جانشین مقرر کیا گیا۔

داعش کی تشکیل ۲۰۱۳ء میں ہوئی۔ یہ عراقی تنظیم ’دولۃ العراق الاسلامیہ‘ اور شام میں مصروفِ عمل مسلح تنظیم ’جبھۃ النصرۃ‘ کے درمیان جنگی معرکہ برپا ہونے کے بعد قائم ہوئی۔ یہ جنگی سرگرمیاں ان کے درمیان موجودہ برس بھی جاری رہیںا ور بالآخر دونوں تنظیموں کا اتحاد ہوگیا اور نتیجتاً ’الدولۃ الاسلامیہ فی العراق والشام‘ قائم ہوئی۔

داعش کا سب سے پہلا قدم القاعدہ سے اپنے سابقہ تعلقات اور وفاداریوں سے دست کش ہوجانا تھا، خصوصاً ایمن الظواہری سے لاتعلق ہونا ضروری خیال کیا گیا کیونکہ اُن کی راے تنظیم کی سرگرمیاں صرف عراق تک محدود رکھنے کی تھی۔ داعش کی افرادی قوت کا اندازہ شام اور عراق دونوں ممالک میں ۱۲ سے ۱۵ ہزار تک بتایا جاتا ہے۔ تاہم اس بات میں شک نہیں کہ یہ خطے کی سب سے بڑی مسلح تنظیم ہے۔

ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں اور تجزیہ نگاروں کی آرا کے مطابق داعش کو مالی امداد فراہم کرنے والے ممالک کئی ایک ہیں۔ امریکا سمیت کئی مسلم ممالک بھی اس کی پشت پر کھڑے ہیں۔ یقینا سب کے مقاصد اپنے اپنے ہیں۔ ایک روسی تجزیہ نگار نے وائس آف رشیا میں لکھا ہے  کہ داعش کا امیر اور نامزد خلیفہ ۲۰۰۴ء میں امریکی افواج کے ہاتھوں گرفتار ہوا اور ’بوکا‘ چھائونی میں اُسے رکھا گیا۔ ۲۰۰۹ء میں امریکی صدر باراک اوباما کے دور میں اُسے رہا کیا گیا۔ اس رپورٹ کے مطابق بغدادی امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے ساتھ کسی نہ کسی شکل میں کام کرتا ہے۔ ’بوکا‘ چھائونی کے ایک سابق انسپکٹر نے بتایا کہ بغدادی کو یہاں سے عراقی افواج کے حوالے کیا گیا تھا جس نے اُسے رہا کردیا۔

ایک رپورٹ کے مطابق داعش نے موصل پر قبضے کے دوران ۴۰۰ ملین ڈالر اکٹھے کیے۔ یہ بھی کہا گیا کہ یہ شہریوں سے بھتہ بھی وصول کرتے ہیں۔ مالی اور اسلحی طور پر داعش دنیا کی امیرترین مسلح تنظیم ہے جس پر دہشت گردی کا الزام ہے۔

بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ امریکا اس وقت شامی حکومت کے خلاف مسلح مزاحمت میں اضافے کو پسند نہیں کرتا۔ دوسری طرف ایرانی سرگرمیوں کا بھی اُسے احساس ہے جو روس کے تعاون سے ہوتی ہیں اور یہ خلیجی دوست ممالک کے لیے باعث ِ تشویش ہیں۔ وہ ایک طرف عراق میں اپنے مقاصد کے تحفظ کے لیے داعش کے مقاصد کو تقویت دے رہا ہے۔ دوسری طرف یوکرائن میں بھی روس امریکا کش مکش جاری ہے جس سے عالمی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔

داعش کی مسلح سرگرمیوں کے بارے میں بیش تر تجزیہ نگاروں کی راے ہے کہ عراق میں جو کچھ ہوا ہے یہ نوری المالکی کی ظالمانہ و وحشیانہ سیاسی کارروائیوں کا ردعمل ہے جو اس نے اہلِ سنت کے خلاف روا رکھیں۔ سیاسی میدان کو اہلِ سنت کے لیے بالکل بند رکھا۔ اس مسئلے کے حل کے مواقع پیدا نہ ہونے دیے۔ سوال یہ ہے کہ داعش اُس وقت بھی موجود اور طاقت ور تھی لیکن اس نے دیگر تنظیموں کے ساتھ مل کر اہلِ سنت کے حقوق کی جدوجہد میں کیوں حصہ نہ لیا؟ ممکن ہے داعش کے قیام سے ایک بڑا خطرہ جنم دے کر عراق کے اہلِ سنت کی سیاسی جدوجہد کو کچلنا مقصود ہو۔

اس صورتِ حال کا بغور جائزہ لیا جائے تو کئی امکانات اور خدشات دکھائی دیتے ہیں:

 اس عمل سے عراق کی تقسیم کا ہدف حاصل کرنا بھی مقصود ہوسکتا ہے کہ عراق کو تین مملکتوں میں، یعنی شیعہ، سُنّی اور کرد ریاستوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ مئی میں منعقد ہونے والے انتخابات میں کُرد اور سُنّی نمایندوں کی طرف سے اس طرح کے مطالبات سامنے آچکے ہیں۔ مثال کے طور پر سوڈان کی تقسیم کو دیکھا جاسکتا ہے۔

دوسرا امکان یہ ہوسکتا ہے کہ ایک طرف شیعہ اور ایران کی طاقت کو کچلا جائے تو دوسری طرف سُنّی اور خلیج کی قوت کو توڑا جاسکے۔ ماضی میں ایران عراق تصادم اس کی مثال ہے۔ جب ان دونوں محاذوں پر خطے کے اندر انتشار و افتراق پیدا ہوجائے گا تو عالمی اہداف اور مقاصد کا حصول آسان تر ہوگا۔ نئے اتحادوں اور دوستیوں کے تناظر میں ایک نیا خطہ تشکیل دیا جائے گا۔ اس کی مثال بھی ماضی کے ’سائیکس -پیکو‘ معاہدے میں موجود ہے۔ لیکن اب معاہدے کے فریق یقینا مختلف ہوں گے۔ اس منظرنامے میں عراق کے سُنّی علاقے کو اُردن کے ساتھ جوڑ دیا جائے گا اور شیعہ علاقے کو کویت اور ایران کے ساتھ، جب کہ کرد علاقہ ترکی کے ساتھ، شامل ہوجائے گا۔   مگر اس تقسیم کو امریکا قبول نہیں کرے گا، لہٰذا اس کا راستہ روکنے کے لیے اقدامات کرنا اُس کی ضرورت ہے۔

داعش کی سرگرمیوں سے عراق و شام دونوں ممالک کے اندر ایسی دائمی کش مکش برپا کرنا بھی مقصود ہوسکتا ہے جو افغانستان اور صومالیہ جیسی صورت حال پیدا کیے رکھے کہ مسلح قوتیں مستقل تصادم میں مصروف رہیں۔

ایک امکان یہ ہوسکتا ہے کہ امریکا اگر اپنے مقاصد کو پورا ہوتا نہ دیکھے تو نہ چاہتے ہوئے بھی آخری چارئہ کار کے طور پر اپنی افواج کو عراق میں اُتار دے۔ یہ بھی اُسی وقت ہوسکتا ہے جب عراقی سیاسی و انتظامی صورت حال امریکی مہروں کے کنٹرول سے باہر نکل جائے اور ملک کا انتظامی اختیار متشدد اسلامی طاقتوں کے ہاتھ میں چلا جائے۔

گذشتہ ربع صدی کے دوران عراق میں جو کچھ پیش آیا ہے یہ اس ملک کی غیرمعمولی اسٹرے ٹیجک اہمیت کی بنا پر ہوا ہے۔ دشمنانِ اُمت نے اپنے استعماری اہداف کے حصول کے لیے کھربوں ڈالر یہاں صرف کیے ہیں۔ یہ ’سرمایہ کار‘ آسانی اور سہولت سے تو اپنے اہداف سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔ لہٰذا ممکن نہیں کہ اتنی بڑی عسکری تحریکیں ان قوتوں کی براہِ راست نگرانی اور مداخلت سے بچ جائیں۔ ادھر ایران نے اپنے مفادات کے لیے اور شام میں نفوذ حاصل کرنے کے لیے بے پناہ دولت اور وسائل خرچ کیے ہیں، حتیٰ کہ اس نے ان روابط اور تعلقات کی بھی قربانی دے دی ہے جو اس نے ربع صدی کے دوران اُمت کے ساتھ استوار کیے ہیں۔ اور یہ بات معلوم ہے کہ شام کی اسٹرے ٹیجک اہمیت ایران کے لیے عراق کے مقابلے میں بہت کم ہے۔

شام کے اندر مزاحمت کاروں کی قوت ایک لاکھ سے زائد ہے۔ وہ مسلسل د و سال سے اس حکومت کے خلاف سخت معرکے میں مصروف ہیں۔ ہرقسم کا اسلحہ استعمال کر رہے ہیں۔ مقامی چھائونیاں بھی بنا رکھی ہیں مگر وہ عراق کے اندر جاری مزاحمت کی نسبت آدھی کامیابی بھی حاصل نہیں کرپائے ، جب کہ عراق میں مزاحمت کاروں کی تعداد بہت تھوڑی ہے۔

گذشتہ ایام میں ارضِ عراق کے اندر جو کچھ واقع ہوا ہے یہ عراقی افواج کی پسپائی اور ہزیمت و شکست نہیں ہے بلکہ یہ سرنڈر ہے جو عراقی افواج کے اس سرنڈر سے کامل اور عجیب مشابہت رکھتا ہے جو اس نے امریکی حملے کے سامنے کیا تھا۔ افواج کے یونٹ اپنے کمانڈروں اور سالاروں سے الگ ہوگئے اور انھوں نے سویلین کے اندر چھپنے اور فوجی وردیاں اُتارنے کا مظاہرہ کیا۔ اب کئی سال بعد یہ معلوم ہوا ہے کہ یہ سرنڈر جنگ سے بہت پہلے طے ہوچکا تھا۔

حالیہ واقعات اور داعش کی پیش قدمیوں اور عراقی افواج کی پسپائی نے یقینا بہت سے شکوک و شبہات پیدا کردیے ہیں۔ صرف داعش ہی منظر پر موجود ہے۔ وہ تنہا اپنی عسکری و سیاسی کارروائیوں کی کامیاب منصوبہ بندی کرتی دکھائی دیتی ہے۔ یہ بات بطور خاص توجہ طلب ہے کہ مشکل میدانِ جنگ میں قصبات و شہروں کے اُوپر اس کا قبضہ، حتیٰ کہ بغداد اور نجف و کربلا جیسے مقدس شیعہ مقامات پر کنٹرول حاصل کرلینا، داعش کی عسکری و افرادی قوت اور جنگی حکمت عملی کے تناظر میں ممکن نہیں ہے۔ یہ بات تنظیم کے پیچھے خفیہ ہاتھ اور اس کے نام اور خود تنظیم کو استعمال کرنے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ ایک تجزیہ نگار نے اس کا سبب بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر بغداد ۲۰۱۳ء کے اوائل میں دیرالزور میں شامی تیل کے مسئلے پر اور شمالی کردوں کی آزادی کے قضیے پر امریکا سے مزید تعاون کرتا تو یہ ممکن تھا کہ امریکا مالکی سے منہ نہ پھیرتا اور اُسے زیادہ طویل وقت دے دیا جاتا۔

مارچ ۲۰۱۳ء میں امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے مطالبہ کیا کہ عراق شام کو اسلحی امداد دینا بند کرے۔ تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ اُس دوران امریکی اسلحہ عراق کے اندر داعش کو دیا جاتا رہا۔ ۲۲؍اپریل ۲۰۱۳ء کو وزراے خارجہ کے یورپی اتحاد کے ۲۷ ارکان نے اس قرارداد سے اتفاق کیا کہ شام کے جن علاقوں پر مزاحمتی تحریک کا قبضہ ہے وہاں سے آنے والے تیل کی برآمد پر پابندیاں ختم کردی جائیں۔ مقصد تحریکِ مزاحمت کی حربی جدوجہد کو مالی امداد کی فراہمی آسان بنانا تھا۔

چند ماہ سے ذرائع ابلاغ عراقی حالات و واقعات کی ایسی تصویر دکھاتے رہے ہیں جو حقائق کو ایک دوسرے ہی رنگ میں پیش کرتی ہے۔ داعش کا مسئلہ ایک بڑے خطرے کے طور پر پیش کرکے عراق کے اندر اہلِ سنت کی اصل اور حقیقی جدوجہد کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سُنّی مزاحمت کے حقیقی کرداروں سے اُن کا کردار چھین کر داعش کے کھاتے میں ڈال دیا گیا۔  زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ یہ حوادث و واقعات اُمت مسلمہ اور عراق کے دشمنوں کا کھیل ہے۔

یہاں اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ نقصان بہرحال اُمت مسلمہ ہی کا ہوگا۔ کوئی دینی حکومت کبھی ایسا امتیازی سلوک روا نہیں رکھ سکتی جس میں اپنے ہی دینی بھائیوں کے انسانی حقوق کی پامالی ہوتی ہو۔ عنانِ حکومت کسی سُنّی اکثریت کے ہاتھ میں ہو یا شیعہ اکثریت کے ہاتھ میں عدل و انصاف اورتحمل و برداشت اگر حکومت کا وتیرا نہیں، تو ایسی حکمرانی اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔ حکومت جمہوریت کا ثمر ہو یا نظامِ خلافت کا، اس کے ناگزیر تقاضوں کو اگر پورا نہ کیا جائے تو نہ جمہوریت میں خیر ہوگی اور نہ خلافت کسی کے لیے باعث ِ کشش رہے گی۔

سوال:اقامت ِدین کے لیے مسجد کو زکوٰۃ ؟

’رسائل و مسائل‘ میں ’اقامت ِ دین کے لیے مسجد کو زکوٰۃ دینا‘ (جولائی ۲۰۱۴ء) عنوان کے تحت جواب مبہم ہے۔

  1.  مسجد تو اقامت ِ نماز اور اجتماعات دروسِ حدیث و قرآن ہی کے لیے ہوتی ہے۔ کیا نماز کا قیام اقامت ِ دین میں شامل نہیں؟
  2. اقامت ِ دین اور فی سبیل اللہ میں کیا فرق ہے؟ اگر اقامت ِ دین کے لیے زکوٰۃ دی جاسکتی ہے تو اس کے وہ کون سے اُمور ہیں جو فی سبیل اللہ کی مد میں نہیں آتے؟
  3.  مسجد کے کن اخراجات میں زکوٰۃ استعمال کی جاسکتی ہے؟

جواب:

  1. اقامت ِ دین کے دو معنی ہیں: ایک معنی کے لحاظ سے وہ زکوٰۃ کا مصرف نہیں ہے اور دوسرے معنی کے لحاظ سے وہ زکوٰۃ کا مصرف ہے۔ اقامت ِ دین کا ایک معنی ٰدین کے احکام پر عمل کرنا ہے۔ اس لحاظ سے جو نیکی بھی انسان کرے وہ اقامت ِ دین ہے۔ مسجد بنانا، نماز پڑھنا اور نماز کا قیام، روزہ رکھنا، ہسپتال بنانا، بیماروں کی بیمارپُرسی کرنا، جنازہ پڑھنا، جنازہ گاہ بنانا، ماں با پ کی خدمت کرنا، قرابت داروں کے ساتھ حُسنِ سلوک سے پیش آنا، بیوی بچوں کے کھانے پینے، لباس اور دیگر ضروریات کا بہتر انتظام کرنا، یہ سب کام اقامت ِ دین کے تحت آتے ہیں۔ اسی طرح اگر عدالتیں شریعت کے مطابق فیصلے کریں، زانی کو کوڑے لگائیں، چور کا ہاتھ کاٹیں، ڈاکو کو سزا دیں وغیرہ ، یہ تمام کام بھی اقامت ِ دین ہیں۔
  2. اقامت ِ دین کے دوسرے معنی اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ نظام کو دوسرے نظاموں پر غالب کرنے کے لیے دعوت و تبلیغ اور تلوار اور نیزے کے ذریعے جدوجہد کرنا ہے۔ اس معنی کے لحاظ سے اقامت ِ دین زکوٰۃ کا مصرف ہے جسے قرآنِ پاک میں ’فی سبیل اللہ‘ کہا گیا ہے۔ اس معنی کے لحاظ سے فی سبیل اللہ میں صرف دینی تعلیم و تبلیغ، دینی مدارس، دین کے لیے اشاعت اور دینی لٹریچر اور جہاد و قتال اس کا مصداق اور زکوٰۃ کا مصرف ہیں۔ بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوگئی ہے کہ وہ ہرخیر کے کام کو زکوٰۃ کا مصرف قرار دیتے ہیں لیکن یہ غلط ہے۔ اگر ہرخیر کا کام زکوٰۃ کا مصرف ہوتا تو پھر آٹھ مصارف کو الگ الگ بیان کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ سیدھے سادے الفاظ میں کہہ دیا جاتا کہ نیکی کے کاموں میں زکوٰۃ و صدقات خرچ کریں لیکن ایسا نہیں کہا گیا۔ اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ فی سبیل اللہ اپنے ایک مخصوص معنی کے لحاظ سے زکوٰۃ کا مصرف ہے۔
  3. درسِ قرآن اور درسِ حدیث، دعوت دین اور اشاعت دین کا ذریعہ ہیں، لہٰذا یہ زکوٰۃ کا مصرف ہیں۔ لیکن مسجد کی تعمیر، مسجد کی ضروریات، امام مسجد اور خادم مسجد کی تنخواہ زکوٰۃ سے نہیں دی جاسکتی۔ وہ دیگر عطیات سے جمع کر کے دی جائے۔ (مولانا عبدالمالک)

سوال : ملٹی لیول مارکیٹنگ کمپنی کا منافع

میں ایک ایسی کمپنی سے وابستہ ہوا ہوں جو کہ دنیا کے بہت سے ممالک میں کام کررہی ہے۔ یہ کمپنی مختلف اشیا فروخت کرتی ہے۔ مجھے ۳۵ہزارروپے کی خریداری کرنا ہے۔ اس خریداری پر میں ۳ سٹار (Three Star) بن جائوں گا۔ اس کے بعد مزید تین افراد کو خریدار بنائوں گا۔ وہ افراد جیسے جیسے مزید افراد کو ممبر بناتے جائیں گے میرا گریڈ بڑھتا جائے گا۔ یوں مجھے بھی منافع ملتا رہے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ دوسرے ۳سٹار، ۴سٹار وغیرہ افراد کو بھی حصہ ملے گا۔ دیا گیا منافع فی صد کے حساب سے مقرر ہوتا ہے، جیسے سیونگ اکائونٹ پر فی صد منافع ملتا ہے۔ اس طرح کا منافع سود ہے یا نہیں؟ نیز یہ منافع حلال ہے یا حرام؟

جواب :

مذکورہ بالا کمپنی کے علاوہ بھی کئی کمپنیاں اس طرح کا کاروبار کرتی ہیں اور اپنی اشیا (products) کو فروخت کرتی ہیں۔ بعض کمپنیوں کی فروخت کنندہ اشیا میں ایسی اشیا بھی شامل ہوتی ہیں کہ جن کی خریدار کو ضرورت نہیں ہوتی۔ کمپنی سے وابستہ ہونے والا شخص محض مستقبل کے منافع کے لالچ میں یہ خریداری کرتا چلا جاتا ہے، جو کہ سراسر فضول خرچی اور تعیش کے زمرے میں آتا ہے، جب کہ شریعت بلاضرورت اشیا کی خرید اور استعمال کو منع کرتی ہے۔ نیز بلاضرورت اشیا کی خریدو استعمال کو اسراف اور تبذیر قرار دیتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَّ کُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا ج اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَo (الاعراف ۷:۳۱) ’’اور کھائو پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو، اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘۔ اس طرح کے کاروبار میں پہلی قباحت تو اسراف اور تبذیر کا پایا جانا ہے۔

اس معاملے میں دوسری قباحت خود لالچ کو اختیار کرنا اور دوسروں کو لالچ میں مبتلا کرنا ہے، یعنی اس کے نتیجے میں آپ کو منافع ملے گا۔ تیسری قباحت یہ ہے کہ آپ کس چیز کا کاروبار کر رہے ہیں؟ آپ نے تو کوئی سرمایہ کاری نہیں کی، نہ شراکت اور نہ مضاربت، اور نہ یہ اُجرت (اجارہ اشخاص) ہی کا معاملہ ہے، تو منافع کس چیز کا؟ چوتھی قباحت اس معاملے میں یہ ہے کہ نئے ممبر بنانے میں جو محنت اور جدوجہد دوسرے اشخاص نے کی ہے اس میں آپ کا حق کہاں سے آگیا؟ پانچویں قباحت یہ کہ سیونگ اکائونٹ میں تو ایک شخص اپنی رقم بچت کی صورت میں رکھ کر اس پر سود حاصل کرتا ہے (جو کہ حرام ہے)، جب کہ یہاں تو رقم بھی جمع نہیں کروائی گئی اور آپ ایک مخصوص رقم (final profit) لینے لگ گئے۔ مذکورہ بالا وجوہات کی بناپر یہ معاملہ شرعی لحاظ سے درست نہیں ہے اور مسلمانوں کو اس سے اپنا دامن بچانا چاہیے، واللّٰہ اعلم بالصواب۔(ڈاکٹر میاں محمد اکرم)

___________________________________________________________________

تصحیح: ۱-مکتبہ تعمیر انسانیت، لاہور ۔ فون: ۳۷۲۳۷۵۰۰- ۳۷۳۱۰۵۳۰-۰۴۲ 

 ۲-ماہنامہ سوچنے کی باتیں، لاہور۔ مدیر: انوار احمد، درست فون: ۳۷۱۵۸۷۵۲-۰۴۲

عصری عائلی مسائل اور اسلامی تعلیمات، ڈاکٹر حافظہ شاہدہ پروین۔ناشر: شعبہ علومِ اسلامیہ، پنجاب یونی ورسٹی، لاہور۔ صفحات: ۴۹۲۔ قیمت: ۵۰۰ روپے۔

مغربی لادینیت اور اس کے زیراثر چلنے والے عالمی نظامِ سرمایہ داری نے اپنی بعض خباثتوں کو غازہ استعمال کر کے دنیا کی بہت سی اقوام کے لیے بہت پُرکشش بنا دیا ہے۔ ان میں سے ایک ’نیوکلیر‘ تصورِ خاندان ہے جس میں کچھ عرصہ قبل تک شوہر اور بیوی اور ان کے حد سے حد دوبچوں کو خاندان کا نام دیا جاتا اور ان کے علاوہ دیگر افراد قانونی طور پر خاندان تصور نہیں کیے جاتے تھے۔ چنانچہ شوہر کے ماں باپ، بھائی بہن ہوں یا بیوی کے ماںباپ، ان کی حیثیت اضافی سمجھی جاتی تھی۔ اب اس میں مزید ’ترقی‘ یوں ہوئی ہے کہ خاندان کی تعریف میں شوہر اور بیوی کی شادی کے لیے ’partners‘کی اصطلاح متعارف کرائی گئی ہے، تاکہ جو کچھ تھوڑا بہت تقدس  میاں بیوی کے درمیان باقی رہ گیا تھا، اسے دو دوستوں کا نام دے کر ہم جنس رشتوں کو بھی قانونی حیثیت دے دی جائے۔پاکستان میں بھی مغرب پر ’ایمان بالغیب‘ لانے والے بعض افراد اور   نام نہاد غیرسرکاری تنظیمیں اس تگ و دو میں ہیں کہ یہاں بھی قانون میں یہ تبدیلی لائی جائے۔ اللہ تعالیٰ ملکِ عزیز کو اس شیطانی فتنے سے محفوظ رکھے۔

زیرتبصرہ کتاب پنجاب یونی ورسٹی کے شعبۂ علومِ اسلامیہ کے ڈاکٹریٹ کے ایک مقالے پر مبنی ہے جسے معمولی تبدیلیوں کے بعد خود شعبۂ علوم اسلامیہ نے شائع کیا ہے۔کتاب چھے ابواب پر مشتمل ہے جن میں کوشش کی گئی ہے کہ عائلی زندگی کے معاشرتی، علمی اور قانونی پہلوئوں کو بڑی حد تک زیربحث لے آیا جائے۔

گو عصری مسائل پر اچھا لوازمہ جمع کیا گیا ہے لیکن بالعموم روایتی فکر کی توثیق کا رویہ اختیار کیا گیا ہے، مثلاً گھریلو کام میں عورت کی ذمہ داری (۳۱۳-۳۲۱) میں مختلف اقوالِ فقہا درج کرنے کے بعد ایک چوتھائی اقلیت کی راے کو کہ بیوی نہ صرف شوہر بلکہ سسرال والوں کی خدمت بھی بطور تطوع کرے، اختیار کیا گیا ہے، جب کہ محققہ خود تین ائمہ، یعنی امام مالک، امام ابوحنیفہ اور امام شافعی کے اجماع کو بیان کرنے کے بعد امام ابن القیم کے موقف کو ترجیح دیتی ہیں۔ بلاشبہہ ہرمحقق کو اس کا پورا اختیار ہے لیکن ڈاکٹریٹ کی سطح پر ہم یہ اُمید رکھتے ہیں کہ ایک محقق یا محققہ تنقیدی نگاہ سے جائزہ لے کر اپنے حقِ اختلاف کا استعمال کرے۔

بعض معلومات اخباری اطلاعات پر مبنی ہیں۔ انھیں مصدقہ سمجھنا غورطلب ہے۔ شادی اور طلاق کے حوالے سے پاکستانی معاشرے کی موجودہ صورت حال کا جو نقشہ اخبارات سے جمع کردہ معلومات کے سہارے ہمیں ملتا ہے وہ تشویش ناک حد تک پریشان کن ہے (ص ۴۷-۸۴)۔ محققہ کے مطابق نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ایک عورت نے خلع کی درخواست میں یہ کہا کہ اس کے شوہر نے اس کی شاشلک کھانے کی فرمایش پوری نہیں کی، اس لیے اسے خلع دی جائے۔ کتاب کے اعداد و شمار کی رُو سے پنجاب میں لاہور کی عدالتوں میں ۲۰۰۸ء میں صرف چار ماہ کے دوران ، یعنی اپریل تک ۳ہزار ۵سو ۲۳ مقدمات دائر کیے گئے۔ گویا روزانہ ۸۰ یا ۸۵ مقدمات۔ یہ اس وقت جب عدالتوں میں کیس داخل کرانا ہمت کا کام ہے اور بے شمار مرد اور عورتیں عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کے مقابلے میں ظلم برداشت کرلینا بہتر سمجھتے ہیں۔ گویا اصل تنازعات یقینی طور پر ان اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہوں گے۔

مسئلے کا حل کیا ہو؟ مصنفہ نے کتاب کے آخری باب میں نتائج و سفارشات کے زیرعنوان ۱۴تجاویز دی ہیں جن میں زیادہ اہم کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے:

پہلی اصلاح یہ ہونی چاہیے کہ نظامِ تعلیم میں خاندانی زندگی کی اہمیت اور اس کے اسلامی اصول قرآن وسنت کی روشنی میں داخل نصاب ہونے چاہییں۔ ایک عرصے سے مَیں خود اس تجویز کو پیش کرتا رہا ہوں لیکن ابھی تک اس پر کوئی عمل نظر نہیں آیا۔ سورئہ بقرہ ، النساء، آلِ عمران، النحل، بنی اسرائیل، لقمان اور دیگر مقامات سے قرآنی آیات کی عمومی تفہیم و تشریح کو داخل نصاب کیا جائے تاکہ لڑکوں اور لڑکیوں کو اپنے حقوق و فرائض کا علم ہو۔

برقی ابلاغِ عامہ نے خصوصاً طلاق اور حلالہ کو نہ صرف آسان حل بلکہ ایک مذاق بناکر  رکھ دیا ہے۔ اہلِ علم اپنے فریضے کی ادایگی میں تکلف کا شکار ہیں۔ صحیح اسلامی فکر جو قرآن و حدیث کے الفاظ و معانی دونوں کو سامنے رکھ کر لوگوں کی تربیت کرسکے ناپید ہے۔ ابلاغِ عامہ کے تعمیری استعمال کے بغیر ہم ملک کے دُوردراز خطوں میں دین کا صحیح علم نہیں پہنچا سکتے۔ اس ذریعے کو صحیح طور پر استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔

حکومت اور دستور ساز اداروں کو اپنی ذمہ داری ادا کرنی اور مسلم فیملی لا آرڈی ننس اور تحفظ ِ نسواں بل کے غیرشرعی حصوں کو منسوخ اور اسلامی شریعت کو نافذ کرنے کے لیے قانون سازی کرنی چاہیے۔

میں سمجھتا ہوں کہ گھر، تعلیم گاہ، ابلاغِ عامہ اور حکومتی اداروں کے ساتھ ساتھ خود معاشرے میں اخلاقی اقدار کا احیا کیے بغیر مسئلے کا حل نہیں ہوسکتا۔ اگر عورت کو معاشی دوڑ میں شامل کیا گیا تو مغرب نے اس کی قیمت گھر کی تباہی کی شکل میں ادا کی۔ ان نتائج کو دیکھنے کے بعد جانتے بوجھتے خود کو تباہی کی طرف دھکیلنے کی ضرورت نہیں ہے۔

خواتین کا ایسے موضوعات پر قلم اُٹھانا ایک نیک فال ہے۔ ان موضوعات پر مزید علمی کام اور علم کی اشاعت کی ضرورت ہے۔(ڈاکٹر انیس احمد)


الایام (علمی و تحقیقی جریدہ)، مدیرہ: ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر۔ ناشر: مجلس براے تحقیق اسلامی تاریخ و ثقافت، فلیٹ ۱۵-اے، گلشنِ امین ٹاور، گلستانِ جوہر، بلاک ۱۵، کراچی۔ صفحات: ۳۲۸+۸۰۔ قیمت: ۳۰۰روپے، سالانہ: ۵۰۰ روپے۔ ای-میل: nigarzaheer@yahoo.com

الایام کی بانی (اور موجودہ) مدیر ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر نے مسلسل توجہ، محنت اور تگ ودو سے رسالے کو اس معیار پر پہنچا دیا کہ ہائرایجوکیشن کمیشن نے اسے کسی جامعہ کا مجلہ نہ ہونے کے باوجود، فقط اس کے معیار کے پیش نظر، اسے منظورشدہ مجلات کی فہرست میں شامل کرلیا۔ شمارہ نمبر۸ سے رسالے کی تقطیع بڑھا دی گئی ہے اور اب اس میں نسبتاً زیادہ لوازمہ شامل ہوتا ہے۔ گذشتہ برس الایام نے شمارہ نمبر۷،علی گڑھ کی ایک علم دوست اور فاضل شخصیت ڈاکٹر کبیراحمد جائسی کی یاد میں وقف کیا تھا جس میں جائسی کے بارے میں تقریباً ۴۰ مضامین اور مرحوم کی چند منتخب تحریریں شامل تھیں۔ قدردانی کی یہ ایک اچھی مثال ہے۔

زیرنظر شمارے کا بڑا حصہ ۱۰ مضامین پر مشتمل ’گوشۂ علامہ شبلی نعمانی‘ ہے جس میں پاکستان اور بھارت کے شبلی شناسوں نے مولانا شبلی کی سیرت نگاری، ملّی شاعری، مکاتیب، عربی زبان وادب سے ان کے تعلق اور اپنی تحقیقات میں عربی زبان و ادب سے استفادے کی نوعیت پر دادِ تحقیق دی ہے (آیندہ شمارے میں ’گوشۂ حالی‘ کے لیے اہلِ قلم سے نگارشات بھیجنے کی درخواست کی گئی ہے)۔ مقالات کے حصے میں پروفیسر سیّد نواب علی رضوی کے احوال و آثار کا ایک مفصل تعارف اور جائزہ پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر عارف نوشاہی کا سفرنامۂ فرانس علمی معلومات اور مشاہدے کا عمدہ امتزاج ہے۔ مباحث کے ضمن میں حافظ محمد شکیل اوج نے ’کیا عصرِحاضر میں خلافت ِ راشدہ کا قیام ممکن ہے؟‘ کے موضوع پر ایک مختصر بحث کے بعد لکھا ہے کہ یہ ممکن ہے، بشرطیکہ ہمارے حکمرانوں میں کوئی ایسا ہو جو عصرِحاضر کا عمر بن عبدالعزیز بن کر سامنے آئے۔ ڈاکٹر ظفر حسین ظفر نے مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کے ۳۲ خطوط، تعارف اور تعلیقات و حواشی کے ساتھ مرتب کر کے پیش کیے ہیں۔ ’مطبوعاتِ جدیدہ‘ میں کتابوں پر مختصر تبصرے شامل ہیں۔ ’بیادِ رفتگاں‘ کے تحت ماضی قریب میں مرحوم ہونے والی علمی و ادبی شخصیات کے تعزیتی تعارف شامل ہیں۔ ’افکارِ قارئین‘ کے تحت ایک خط اور ’رپورٹ‘ کے تحت پاکستان میں بھارت کی علمی و ادبی شخصیات کی آمد کا مختصر احوال درج ہے۔ مجلے کے انگریزی حصے میں تین تحقیقی مضامین شامل ہیں۔

تحقیقی اعتبار سے اس مجلے کی ایک اہم چیز (اگر سب سے اہم کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا) ۴۵۵ خاکوں پر مشتمل کتابوں کی ایک فہرست ہے جسے کراچی کے ایک کتاب دوست جناب راشداشرف نے ایک مفصل تمہید و تعارف کے ساتھ مرتب کیا ہے۔ فہرست مصنف وار ہے۔ گذشتہ شمارے (نمبر۸) میں راشد اشرف نے ۷۸۱ اُردو خود نوشتوں (آپ بیتیوں) کی   فہرست شائع کی تھی۔ اس شمارے ’قرآن اور ظفر علی خان‘ میں طاہرقریشی کا ۹۸صفحاتی مقالہ بھی شامل ہے۔

اُردو ادب کے طالب علموں، تحقیق کاروں اور عام قارئین کے لیے بھی یہ فہرستیں ایک قیمتی لوازمے اور معاونِ تحقیق کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ہمارے علم کی حد تک اس طرح کی جامع فہرستیں ابھی تک شائع نہیں ہوئیں۔ امید ہے کہ ایسی ہی مزید فہرستیں الایام میں شائع ہوں گی۔(رفیع الدین ہاشمی)


قرآنی آیات اور سائنسی تحقیق، ڈاکٹر ہلوک نور باقی (ترکی)۔ مترجم: سیّد محمد فیروزشاہ گیلانی۔ ملنے کا پتا: توکّل اکیڈمی، نیو اُردو بازار، کراچی۔ فون: ۸۷۶۲۲۱۳-۰۳۲۱۔ صفحات: ۲۹۵۔ قیمت: ۳۶۰ روپے۔

ڈاکٹر نورباقی کی یہ کتاب پہلی مرتبہ ۱۹۸۵ء میں ترکی زبان میں شائع ہوئی تھی۔ اس کا انگریزی ترجمہ ترکی میں ہوا۔ پھر اس کا اُردو ترجمہ سیّد فیروزشاہ گیلانی نے کیا جو ۱۹۹۸ء میں شائع ہوا، اور اب اس کا جدید ایڈیشن ۲۰۱۴ء میں شائع کیا گیا ہے۔

قرآنِ حکیم سائنس کی کتاب نہیں، وہ انسانوں کے لیے کتابِ ہدایت ہے۔ کائنات اور اس کے اندر موجود تمام چیزوں کی تخلیق اللہ رب العزت نے ہی کی ہے اور قرآنِ حکیم بھی اس کا ہی کلام ہے، لہٰذا اپنی تخلیق شدہ چیزوں کے بارے میں بعض مادی حقائق بھی بیان کیے ہیں۔ یہی وہ باتیں ہیں جو علم سائنس کا میدان بھی ہیں۔ چنانچہ سائنس دانوں نے ان عنوانات پر جو تحقیقات کی ہیں بعض جگہ وہ قرآن کے بیان سے قریب تر ہیں۔ ان عنوانات ہی کو اس کتاب میں بڑی عمدگی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ قرآن میں تقریباً ۷۵۰مرتبہ سائنسی حقائق کی طرف توجہ مبذول کرائی گئی ہے۔

کتاب میں ۵۰ متنوع موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ہر عنوان کے حوالے سے آیاتِ قرآنی پیش کی گئی ہیں۔ ان کا ترجمہ اور تفسیر بھی اور ساتھ ہی سائنسی تحقیقات بھی، مثلاً: سورئہ اعلیٰ آیت ۵ سے تیل کی پیشین گوئی ، سورئہ یٰسین، آیت ۳۶ سے آکسیجن کی پیشین گوئی۔ اسی طرح بعض اسلامی مذہبی عقائداور تعلیمات کو بھی سائنسی انداز میں سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے، مثلاً وضو، روزہ، دوزخ، جنت، صحرا کے اسرار، حضرت عیسٰی ؑ اور حضرت آدم ؑ کی تخلیق وغیرہ۔

کتاب کا تفصیلی اور جامع تعارف اور مقدمہ پروفیسر ڈاکٹر سیّد رضوان علی ندوی نے لکھا ہے اور مقدمے کے حق ادا کردیا ہے۔پاکستان میں سائنس کے محققین اور طلبہ کو اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔آیندہ اشاعت میں ترجمے کی کمزوریوں اور انگریزی اصطلاحات کے اُردو مترادفات پر نظرڈال لی جائے۔(شہزاد الحسن چشتی)


عرف کی شرعی حیثیت، مولانا محمد نقیب اللہ رازی۔ ملنے کا پتا: مکتبہ اسلامیہ، شاہی مسجدروڈ، چترال۔ صفحات:۱۲۸۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

زیرنظر کتاب میں ’عرف‘ کی تفصیل احسن انداز میں بیان کی گئی ہے۔ ’عرف‘ کے مترادفات میں سے عادت اور معروف بھی ہیں۔ فقہا کے ہاں اصطلاحی طور پر عرف وہ ہے جو عقلی شہادتوں کی بنیاد پر دلوں میں راسخ ہو اور طبع سلیم اس کو قبولیت کا درجہ دے۔

کتاب میں عرف کی قانونی حیثیت، فتویٰ میں عرف کا لحاظ، عرف کی بنیادی تین اقسام اور عرف کا شرعی حکم زیربحث آئے ہیں۔ اسی طرح عرف کے بدلنے سے فتویٰ کی تبدیلی کے حوالے سے ’قدیم عرف کے خلاف فتویٰ‘ کے عنوان سے کئی مثالیں بھی ذکر کی گئی ہیں جس سے شرعی حکم میں عرف کے مؤثر ہونے کا بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے۔ آخر میں ’چند جدید عرفی مسائل‘ بھی ذکر کیے گئے ہیں۔ کتاب میں اختصار ہے، تاہم موضوع کا احاطہ کیا گیا ہے۔(حافظ ساجد انور)


قاردش (سفرنامۂ ترکیہ)، حسنین نازش۔ ناشر: خیام پبلشرز، خیابان سرسیّد، راولپنڈی۔ فون:  ۵۲۸۱۴۳۲-۰۳۳۳۔ صفحات: ۲۶۴۔ قیمت: ۴۵۰ روپے۔

حسنین نازش ایک نوجوان ادیب اور افسانہ نگار ہیں۔ انھیں ایک وفد کے ساتھ ترکی کے دورے کا موقع ملا تو انھوں نے پہلے زبانِ یار، یعنی ترکی زبان سیکھی، ترکی کی تاریخ، معاشرت اور اہم شخصیات کے افکار کا مطالعہ کیا۔ سفر کے دوران میں کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کیا، یہی وجہ ہے کہ سفرنامے میں مصنف نے جزئیات نگاری سے کام لیا ہے۔ انھوں نے ترکی زبان اور اُردو کے مشترکات تلاش کیے ہیں اور بتایا ہے کہ ان زبانوں کے کم و بیش پانچ ہزار الفاظ معمولی فرق کے ساتھ مشترک ہیں۔ کتاب کا عنوان ’قاردش‘ کا مطلب ترکی زبان میں ’دوست، بھائی‘ ہے۔

حسنین نازش سفرنامے کے لوازمات اور تکنیک سے واقف ہیں۔ وہ افسانہ نگار ہیں، اس لیے سفرنامے میں کہیں کہیں افسانوی رنگ زیادہ ہوگیا ہے۔ تاہم استنبول، قیصری، کوہِ ارجیس، بورسہ، قونیہ اور دیگر قابلِ دید مقامات کا ذکر انھوں نے دل چسپ انداز میں کیا ہے اور بعض عنوانات میں جدت ہے۔ ترکی میں جن مسلم مفکرین نے دین کو ازسرِنو زندہ و تابندہ کیا ہے، ان میں بدیع الزمان سعید نورسی کا نام سرفہرست ہے۔ وہ نصف صدی تک باطل قوتوں سے برسرِپیکار رہے۔ سیکولر قوتوں نے انھیں مظالم کا نشانہ بنایا مگر وہ ڈٹے رہے۔ ان کے علاوہ شیخ محمد فتح اللہ گولن کی خدمات بھی قابلِ ذکر ہیں۔ مصنف نے گولن کے افکار اور طریقۂ کار کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔   وہ گولن کے بہت قائل معلوم ہوتے ہیں۔ آج کے ترکی کو سمجھنے کے لیے یہ سفرنامہ مفید ہے۔

مصنف کے اسلوب میں ہلکے پھلکے مزاح نے سفرنامے کو دل چسپ اور پُرکشش بنا دیا ہے۔ البتہ کہیں کہیں محاوروں کا نادرست استعمال اور زبان و بیان کی خامیاںبُری طرح کھٹکتی ہیں۔ سرورق ، گٹ اَپ اور طباعت مناسب ہے۔(عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)


مجلہ ارقم ۴، مدیراعلیٰ: ڈاکٹر ظفر حسین ظفر۔ ناشر: دارِارقم ماڈل کالج، راولاکوٹ، آزاد کشمیر۔  فون:۴۴۴۹۱۸-۰۵۸۲۴۔ صفحات: ۴۳۲۔ قیمت: ۵۰۰ روپے۔

کالجوں کے رسالے عموماً ایک ہی ڈگر پر چل رہے ہوتے ہیں۔ کچھ دائیں بائیں سے چیزیں لے کر طالب علم پیش کرتے ہیں یا پھر ابتدائی درجے کی چیزیں نئی نسل کی آواز سے متعارف کراتی ہیں۔ کالج کی سرگرمیوں کی تصویریں ، رپورٹیں اور حاضر ملازمت پرنسپل کی تعریف کے بہانے اور مواقع پیدا کیے جاتے ہیں۔ لیکن مجلہ ارقم کالجوں کے رسائل میں ایک مختلف رنگ لیے ہوئے ہے۔ علمی و ادبی اور اشاعتی مراکز سے دُور دراز واقع ایک پہاڑی علاقے کے کالج نے ایک انوکھا چراغ روشن کیا ہے۔ موضوعات کا تنوع، لکھنے والوں کی کہکشاں اور مضامین کے ذائقے اس طور بہ یک وقت چلتے نظر آتے ہیں کہ ڈیڑھ سو سال پرانے کالج بھی منہ دیکھتے رہ جائیں۔

ارقم۴ کئی حصوں پر مشتمل ہے، تقسیم دیکھیے: l تحقیق و تنقید (سات مضامین) lگوشۂ چراغ حسن حسرت (سات مضامین) lکشمیریات (تین مضامین) l گوشۂ عبدالعزیز ساحر (۱۳مضامین)  l مشاہیر (تین مضامین) l فکرونظر (تین مضامین) وغیرہ۔ اس موٹی موٹی تقسیم سے حُسنِ ترتیب کا کچھ اندازہ ہوجاتا ہے لیکن تحریروں کے معیار اور تحقیق کے آہنگ سے پیدا ہونے والا احساس ، کلمۂ تحسین کہے بغیر نہیں رہتا۔ مضامین علمی اور معلوماتی اعتبار سے خوب تر کا نمونہ ہیں۔ اس تمام خوب صورتی و رعنائی کے ساتھ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ مجلہ اپنے کالج کے طالب علموں کی تحریروں کے لیے بھی کوئی گنجایش رکھتا ہے یا پھر طالب علموں کو معروف اہلِ قلم کی تحریرو ں کا گلدستہ پیش کرنے ہی کو اپنی ترجیح قرار دیتا ہے؟ ہمارے خیال میں دونوں کا امتزاج مناسب حل ہے، یا پھر طلبہ و طالبات کا الگ میگزین شائع کیا جائے، جیسا اورینٹل کالج کے شعبۂ اُردو میں ہے: بازیافت تحقیقی مجلہ ہے اور سنخن طلبہ و طالبات کا میگزین۔ (سلیم منصور خالد)


 

تازہ ترین حادثہ جس نے پورے ملک میں ایک فوری جذباتی ہیجان پیدا کردیا ہے، بھارت کی حکومت کا یہ افسوس ناک اقدام ہے کہ اُس نے دریاے ستلج کے پانی کی بہت بڑی مقدار بھاکراننگل کے سلسلۂ انہار میں منتقل کرلی ہے۔

پاکستان کی نہریں دریاے ستلج سے معمولاً جس مقدار میں پانی لے رہی تھیں وہ ۲۸ ہزار کیوسک سے لے کر ایک لاکھ کیوسک تک گھٹتی بڑھتی رہتی تھی۔ یکم جولائی کو بھارت کے جارحانہ تصرف کی وجہ سے یہ مقدار ۲۲ہزار کیوسک تک آگری ، اور اب ۸جولائی کو یکایک گھٹ کر یہ ۹ہزار ۸سو کیوسک رہ گئی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمارا سات ہزار میل لمبا سلسلۂ انہار بے آب ہوکر رہ گیا ہے، جس پر منٹگمری، ملتان اور ریاست بہاول پور کی زمینوں کی زرخیزی کا انحصار تھا۔ تقریباً ۸۰لاکھ ایکڑ کا وہ علاقہ جو غلے اور کپاس کی پیداوار کے لحاظ سے پاکستان میں درجۂ اوّل پر تھا ایک بے آب و گیاہ صحرا میں بدلنے والا ہے، اور ہمارے ۵۰لاکھ بھائی ہیں جنھیں بے روزگاری اور بھوک کے سامنے لاکھڑا کر دیا گیا ہے۔ علاوہ بریں پاکستان کی غلے کی پیداوار ضرورت کے مقابلے میں جو کمی دکھا رہی تھی اس میں خوفناک اضافہ ہونا بالکل نمایاں ہے۔ واضح رہے کہ معاہدۂ تقسیم کے تحت واجبات اور اِملاک کا جو بٹوارا ہوا تھا، اس میں پاکستان پنجاب کی نہروں کا حساب مجرا [ادایگی] دے چکا ہے۔ گویا بھارت نے نہروں کی قیمت بھی وصول کرلی، اور اب پانی بھی اڑس لیا۔

بین الاقوامی قانون اور روایات کے لحاظ سے اس طرح کے اقدامات اعلانِ جنگ کے مترادف قرار پاتے ہیں۔ اس طرح کے تصرفات کو کوئی مضبوط ملک برداشت نہیں کرسکتا اور کسی سرزمین کے شہری ایسی دراز دستیوں کو چپ چاپ گوارا نہیں کرسکتے۔ تقسیم کے بعد بھارت کی طرف سے حیدرآباد، جوناگڑھ اور کشمیر کے معاملے میں پے درپے جو زیادتیاں ہوئی ہیں، ان سب کے بعد  یہ بہت بڑی کاری ضرب ہے جو پاکستان کی اقتصادی زندگی پر لگائی گئی ہے۔ یہ صریحاً ایک محاربانہ اقدام ہے۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ بھارت کی حکومت بھاکرا اسکیم سے فائدہ اُٹھانے سے زیادہ پاکستان کو نقصان پہنچانا پیش نظر رکھتی ہے۔(’اشارات‘ ، نعیم صدیقی، ترجمان القرآن، جلد۴۲، عدد۵، ذیقعدہ ۱۳۷۳ھ،اگست ۱۹۵۴ء، ص۲-۳)