مضامین کی فہرست


اکتوبر ۲۰۱۴

قرآن کریم نے توحید کو انبیاے کرام ؑ کی دعوت کا مرکزی مضمون قرار دیا ہے۔ ہر دور میں ہراُمت کو دعوت دیتے وقت انبیاے کرام ؑ نے صرف یہی کہا : اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ (النحل ۱۶:۳۶)، یعنی ایک مثبت رویہ اور طرزِعمل کو اختیار کرتے ہوئے صرف اور صرف اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی بندگی اور اپنے آپ کو ہرقسم کے باغیانہ اور نافرمانی کے رویے سے نکال کر اللہ کی پناہ میں آجانا۔ اسلام اللہ کی بندگی، اللہ کی حاکمیت، ربوبیت اور آخرت میں مالکِ حقیقی ماننے اور اپنے عمل سے اطاعت کے رویے کے اظہار کا نام ہے۔ توحید کے مطالبات میں سے ایک مطالبہ یہ ہے کہ رب کریم اپنی رحمت و ربوبیت میں جوشِ کمال کے سبب یہ چاہتا ہے کہ اسے خوش کرنے کے لیے اس کے بندوں کی خلوص کے ساتھ مدد، رہنمائی اور دست گیری کی جائے۔ ایسا کرنے میں اللہ کا بندہ،نہ صرف ربِ کریم کے عبد کی حیثیت سے اس کی عبادت کر رہا ہوتا ہے، بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی ایک اعلیٰ صفت کو ادنیٰ انسانی درجے پر اختیار کر کے اللہ تعالیٰ کے اخلاقِ حمیدہ کی پیروی کر رہا ہوتا ہے۔

تحریکِ اسلامی کی دعوت کا بنیادی نکتہ بھی اللہ تعالیٰ کی بلاشرکت غیربندگی اور اللہ کی حاکمیت کو زمین پر قائم کرنے کی جدوجہد کرنا ہے۔ تحریکِ اسلامی کے ہر باشعور کارکن کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ دین کی دعوت چند مراسمِ عبودیت کی طرف بلانے تک محدود نہیں ہے، بلکہ  اللہ کے بندوں کو مشکلات سے نکالنے، ان کی خدمت کے ذریعے ربِ کریم کو خوش کرنے کا نام ہے۔ مکہ مکرمہ میں دعوتِ توحید محض نظری دعوت نہ تھی، بلکہ مظلوم کو ظالم کے چنگل سے نکالنے اور لوگوں پر سے بوجھ اُتارنے کا نام تھی۔ چنانچہ حضرت ابوبکرؓ نے ہزارہا اشرفیاں ان معمر اور کمزور افراد کو رہا کرانے میں صرف کردیں جن سے انھیں کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا تھا۔ اس طرح حضرت ابوبکرؓ نے خدمت ِ خلق اور رفاہِ عامہ کے کام کا اجر اپنے رب کے پاس محفوظ کرلیا۔

قرآنِ کریم کے بنیادی مضامین سے ایک اہم مضمون انفاق فی سبیل اللہ ہے جس کی وضاحت خود قرآن کریم نے کردی ہے: یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ ط قُلْ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ ط وَ مَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیْمٌ o (البقرہ ۲:۲۱۵)’’لوگ پوچھتے ہیں ہم کیا خرچ کریں؟ جواب دو کہ جو مال بھی تم خرچ کرو اپنے والدین پر، رشتہ داروں پر، یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرو اور جو بھلائی بھی تم کرو گے اللہ اس سے باخبر ہوگا‘‘۔

یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ فعل خیر کی اصطلاح کا استعمال حقوق العباد کی ادایگی میں غیرمعمولی وسعت پیدا کردیتا ہے: وَمَآ اَدْرٰکَ مَا الْعَقَبَۃُ o فَکُّ رَقَبَۃٍ o اَوْ اِِطْعٰمٌ فِیْ یَوْمٍ ذِیْ مَسْغَبَۃٍ o یَّتِیْمًا ذَا مَقْرَبَۃٍ o اَوْمِسْکِیْنًا ذَا مَتْرَبَۃٍ o (البلد۹۰:۱۲-۱۶)’’ اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ دشوار گھاٹی؟ کسی گردن کو غلامی سے چھڑانا، یا فاقے کے دن کسی قریبی یتیم یا خاک نشین مسکین کو کھانا کھلانا‘‘۔ یہ وہ فعلِ خیر ہے جو اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ارْکَعُوْا وَ اسْجُدُوْا وَ اعْبُدُوْا رَبَّکُمْ وَ افْعَلُوا الْخَیْرَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ o(الحج ۲۲:۷۷) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو رکوع اور سجدہ کرو، اپنے رب کی بندگی کرو اور نیک کام کرو اسی سے توقع کی جاسکتی ہے کہ تم کو فلاح نصیب ہوگی‘‘۔

سورئہ ماعون میں مزید فرمایا گیا: اَرَئَ یْتَ الَّذِیْ یُکَذِّبُ بِالدِّیْنِ o فَذٰلِکَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَ o وَلاَ یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ o (الماعون۱۰۷:۱-۳)’’تم نے دیکھا اُس شخص کو جو آخرت کی جزا و سزا کو جھٹلاتا ہے؟ وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے، اور مسکین کا کھانا دینے پر نہیں اُکساتا‘‘۔

اس سے معلوم ہوا کہ یومِ آخرت اور دین کا انکار صرف اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان سے انکار تک محدود نہیں، بلکہ حقوقِ انسانی کی ادایگی کے لیے اللہ اور اس کے رسولؐ نے جو احکام دیے ہیں ان کا مکمل اہتمام بھی ضروری ہے، اور مسکین کو کھانا نہ کھلانا اور یتیم کے حقوق کی ادایگی کا اہتمام نہ کرنا بھی دین اور آخرت کے انکار کے مترادف ہے۔ حقوقِ انسان کی ادایگی کے لیے اس سے بڑا چارٹر اور کون سا ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآنِ پاک میں ایمان اور عملِ صالح کے ساتھ اقامت ِ صلوٰۃ اور انفاق کا حکم دیا گیا ہے اور یہ ناقابلِ تقسیم ہے۔ حقوق العباد کی ادایگی کے بغیر ایمان کے تقاضے پورے نہیں ہوسکتے۔

حدیث فعلِ خیر کی مزید وضاحت کرتی ہے اور اہلِ ایمان کو اللہ کے بندوں کے حوالے سے ذمہ داریوں سے آگاہ کرتی ہے کہ ربِ کریم جو رحمت ہی رحمت ہے، کرم اور بندوں کی بھلائی کے جذبے سے بھرپور ہے، ہم سے کیا توقع رکھتا ہے۔

حدیث قدسی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انسان سے کہے گا: اے ابن آدم! میں بیمار پڑا رہا لیکن تو نے میری عیادت نہیں کی۔ انسان گھبرا کر عرض کرے گا: اے میرے رب! تو سارے جہانوں کا پروردگار، تو کب بیمار تھا اور میں تیری عیادت کیسے کرتا؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تجھے نہیں معلوم تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہے لیکن اس کے باوجود تو اس کی تیمارداری کے لیے نہیں گیا۔ اگر تو اس کے پاس جاتا تو مجھے وہاں پاتا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے ابن آدم! میں نے تجھ سے کھانا مانگا لیکن تو نے مجھے کھانا نہیں دیا۔ انسان عرض کرے گا: اے رب العالمین! تو کب بھوکا تھا اور میں تجھے کیسے کھانا کھلاتا؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا:  کیا تجھے یاد نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا طلب کیا تھا لیکن تو نے اسے کھانا نہیں کھلایا۔ اگر تو نے اس کا سوال پورا کیا ہوتا تو آج اس کا ثواب یہاں پاتا۔

اسی طرح رب العالمین فرمائے گا: اے ابن آدم! میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا لیکن تو نے مجھے پانی نہیں پلایا۔ انسان عرض کرے گا: اے دوجہاں کے پروردگار! تو کب پیاسا تھا اور میں تجھے پانی کیسے پلاتا؟ فرمایا جائے گا: میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی طلب کیا تھا لیکن تو نے اس کی پیاس بجھانے سے انکار کر دیا تھا۔ اگر تو نے اس کی پیاس بجھائی ہوتی تو آج اس کا ثواب پاتا‘‘۔(مسلم، کتاب البر والصلۃ)

حدیث قدسی واضح پیغام دے رہی ہے کہ اگر اللہ کو خوش کرنا ہے تو اس کا راستہ اس کے بندوں کی خدمت ہے۔ جب اہلِ ایمان کی جماعت زمین پر بسنے والوں سے رحمت و شفقت کا سلوک کرے گی تو الرحم الراحمین جو سراپا عفو و درگزر اور محبت و کرم ہے وہ زمین پر بسنے والوں پر رحمت کرے گا۔ اگر ایک ملک میں سیلاب نے تباہی مچائی ہو، اللہ تعالیٰ کی ہدایات پر عمل نہ کرنے کے سبب اللہ کی طرف سے ایک سخت انتباہ (red warning) کے طور پر پانی کے ریلے نے اللہ کے بندوں کو، حیوانات کو گھر سے بے گھر کر دیا ہو، تو عقل کا تقاضا ہے کہ نہ صرف اس پیغام کو سمجھا جائے، بلکہ جو لوگ سیلاب سے متاثر نہ ہوئے ہوں وہ اپنے رب کا شکر ادا کرنے اور متاثرین کی امداد کے ذریعے اپنے رب کو خوش کرنے کے لیے گھروں سے نکل آئیں۔

اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ وہ جب کسی آبادی میں ظلم، حقوق کی پامالی، اپنے احکامات کی خلاف ورزی، سودی کاروبار، فحاشی اور عریانی کو حد سے گزرتا دیکھتا ہے، تو وہ آبادی والوں کو مختلف آفات کے ذریعے متنبہ کرتا ہے کہ وہ سنبھل جائیں اور جس دنیاطلبی، منافع خوری اور دولت کے  جمع کرنے کے لیے وہ بڑی بڑی زمینوں پر کاشت کاری اور کئی کئی منزلہ مکانوں کی تعمیر کے ذریعے اپنی بڑائی اور تکبر کا اظہار کرنا چاہتے ہیں، ان سب کو پانی کے ایک ریلے سے تباہ کردیتا ہے کہ انسان سبق لے اور اس کی طرف لوٹ آئے۔ دوسری جانب دیکھنے والی آنکھ اور محسوس کرنے والے دل رکھنے والوں کو متوجہ کرتا ہے کہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ وہ سیلاب سے بچ گئے تو ان کی نجات ہوگئی۔ جب تک وہ اپنے فرائض، حقوق اللہ اور حقوق العباد کو جیساکہ ان کا حق ہے، ادا نہیں کریں گے وہ بھی خطرے سے محفوظ نہیں ہوسکتے ۔ اگر کسی رحم و کرم کی بنا پر ان کی گرفت فوری طور پر اس دنیا میں نہیں ہوسکی تو بہرصورت آخرت میں اللہ کی گرفت سے نہیں بچ سکتے۔ بلاشبہہ اللہ کی گرفت سب سے زیادہ شدید گرفت ہے اور اُس سے بچنے کے لیے اگر انسان اس دنیا میں اپنی تمام جمع کردہ پونجی بھی لگا دے تو سودا بہت سستا ہے۔

قرآن و سنت کا بڑا واضح رجحان یہ نظر آتا ہے کہ وہ ایک بندئہ مومن اور خصوصاً ان افراد میں جو اپنے آپ کو تحریکِ اسلامی سے وابستہ تصور کرتے ہیں، اجتماعیت کا احساس جاگزیں کرنا چاہتا ہے۔ اسلام کی اعلیٰ پہچان اس کی اجتماعیت میں ہے جو اس کے ہرہر مطلوب عمل میں پائی جاتی ہے۔ وہ نماز ہو، روزہ ہو، حج ہو یا جہاد، اجتماعیت کے بغیر اس سے صحیح استفادہ نہیں کیا جاسکتا۔  اسلام میں عبادات جہاں انفرادی نجات کے لیے ضروری ہیں وہیں اجتماعی فلاح کا بھی ذریعہ ہیں، اور ان دونوں کے درمیان کوئی تفریق جائز نہیں۔ اس کا اظہار پانچ وقت اذان کے کلمات میں بھی صاف نظر آتا ہے۔ اس اجتماعیت میں قرآن کریم نہ صرف خاندان کی مرکزیت کو بلکہ خاندان سے باہر کے حلقے کے افراد کو بھی شامل کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ اہلِ ایمان اُس فطری داعیے کو جو اپنے والدین یا اولادکی ضروریات پورا کرنے کا انسانوں ہی میں نہیں حیوانات تک میں پایا جاتا ہے، اسے مزید آگے بڑھائیں اور اللہ کی مخلوق کو اس میں اہم مقام دیں۔ فرمایا گیا: ’’اور تم سب اللہ کی بندگی کرو۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائو، ماں باپ کے ساتھ نیک برتائو کرو، قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حُسنِ سلوک سے پیش آئو، اور پڑوسی رشتہ دار سے ، اجنبی ہمسایے سے ، پہلو کے ساتھی اور مسافر سے اور ان خدمت گاروں سے جو تمھارے قبضے میں ہوں احسان کا معاملہ رکھو۔ یقین جانو اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اپنے پندار میں مغرور ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کرے‘‘۔ (النساء ۴:۳۶)

اس آیت مبارکہ میں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی بندگی اور اطاعت کے مطالبے کے فوراً بعد جس فریضے کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ والدین کے ساتھ احترام، خدمت اور بھلائی کا رویہ ہے۔ پھر اسے مزید وسعت دیتے ہوئے اجتماعیت کی روح پیدا کرنے کے لیے حکم دیا جا رہا ہے کہ وہ اقربا جو  رشتہ دار بھی ہوں اور پڑوس میں بھی ہوں، اور پھر وہ جو رشتہ دار تو نہ ہوں لیکن صرف پڑوسی ہوں،  پھر جو مستقل پڑوسی نہ ہوں بلکہ وقتی طور پر پڑوسی بن گئے ہوں جیسے ویگن میں سفر کرتے وقت برابر بیٹھا شخص یا ٹرین یا جہاز میں ساتھ سفر کرنے والا، ان سب کے حقوق ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ گھر کے خدمت گار ہوں، یا جن پر ایک شخص کو حاکم بنا دیا گیا ہو اس کے تمام ماتحت، ان کے ساتھ بھلائی کا رویہ اور ان کی خدمت اختیار کی جائے تاکہ صحیح اجتماعیت معاشرتی فلاح کی ضامن ہو۔

معاشرے کے بے بس، ضرورت مند افراد کی امداد اور مصیبت زدہ افراد کو وسائل فراہم کرنا اللہ کی مخلوق کے حقوق میں شامل ہے۔ یہ کسی پر احسان کرنا نہیں ہے بلکہ خود اپنے اُوپر احسان کرنے کی ایک شکل ہے۔ اسی بات کو کئی مقامات پر یوں فرمایا گیا کہ ’’ان کے مالوں میں سائل اور محروم کا ایک مقرر حق ہے‘‘۔ (المعارج ۷۰:۲۵)

اسی تصور کو قرآن کریم نے انفاق فی سبیل اللہ کی جامع اصطلاح سے بیان کیا ہے کہ ’’لوگ پوچھتے ہیں ہم کیا خرچ کریں؟ جواب دو کہ جو مال بھی تم خرچ کرو اپنے والدین پر، رشتہ داروں پر، یتیموں اور مسکینوں او ر مسافروں پر خرچ کرو۔ اور جو بھلائی [خیر] بھی تم کرو گے اللہ اس سے باخبرہوگا‘‘۔ (البقرہ ۲:۲۱۵)

اسی سورۃ میں چند آیات کے بعد دوبارہ اس طرف متوجہ فرماتے ہوئے کہا گیا: ’’پوچھتے ہیں ہم راہِ خدا میں کیا خرچ کریں؟ کہو: جو کچھ بھی تمھاری ضرورت سے زیادہ ہو‘‘۔ اس طرح    اللہ تمھارے لیے صاف صاف احکام بیان کرتا ہے شاید کہ تم دنیا اور آخرت دونوں کی فکر کرو‘‘۔(البقرہ ۲:۲۱۹)

یہاں قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ نہ صرف ان رشتوں پر جو معروف ہیں بلکہ ان اللہ کے بندوں پر جو اجنبی اور غیرمعروف ہیں، خرچ کرنا اللہ تعالیٰ کی اطاعت و بندگی اور اللہ کو خوش کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ مزید یہ کہ ایک شخص کی اپنی ضروریات سے زائد جو کچھ بھی ہو وہ اسے اللہ کی راہ میں لگادے تاکہ یہ عملِ خیر اس کے لیے توشۂ آخرت بن جائے۔احادیث صحیحہ بھی اسی بات پر زور دیتی ہیں کہ ایک شخص اگر حلال کمائی خود اپنی اولاد اور بیوی پر اور ماں باپ پر خرچ کرتا ہے تو یہ ایک قسم کا صدقہ ہے۔ اسی طرح اپنے ایک بھائی سے مسکرا کر ملنا بھی صدقہ ہے۔

صدقے کا غلط العام تصور جو ہمارے ہاں پایا جاتا ہے اس کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ صدقہ دراصل سچائی کے ساتھ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ایک کام کا کرنا ہے۔ اسی لیے فرمایا گیا: وَ اٰتُوا النِّسَآئَ صَدُقٰتِھِنَّ نِحْلَۃً (النساء ۴:۴) ’’اور عورتوں کے مہر صدقِ دل کے ساتھ (فرض جانتے ہوئے) ادا کرو‘‘۔

صدقِ دل کے ساتھ جہاد فی سبیل اللہ میں حصہ لینا دوہرے اجر کا باعث ہے۔ جہاد بجاے خود وہ عمل ہے جس کو قرآنِ کریم نے سب سے افضل قرار دیا اور پھر اسے صدقِ دل سے کرنا، اپنے وقت کا، مال کا اور اپنی جان کا صدقہ ہے۔یہ صدقہ نہ صرف قابلِ محسوس اور قابلِ پیمایش (measurable) اعمال میں ہے، بلکہ اجتماعیت کی روح پیدا کرنے والے رویوں میں بھی ہے۔ اگر ایک صاحب ِ ایمان اپنے بھائی یا بہن کو مسکراہٹ کے ساتھ خوش آمدید کہتا ہے تو اس کا مسکرانا صدقہ ہے۔ سبحان اللہ، وہ دین کتنا اعلیٰ ہوگا جو مسکراہٹ کو بھی عبادت کا حصہ بنادے اور اپنے پاس سے ایک روپیہ خرچ کیے بغیر محض اپنے بھائی کو دیکھ کر محبت و الفت کے اظہار کے لیے مسکرانے کو صدقہ قرار دے دے۔

احادیث ِ شریفہ میں خدمت ِ خلق اور رفاہِ عامہ کے لیے اپنے مال، وقت، صحت کو لگانا صدقہ قرار دیا گیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں رفاہی کاموں کا براہِ راست تعلق اللہ تعالیٰ کی بندگی، اس کی حاکمیت اعلیٰ کے قیام، اور ایک بندے کی عاجزی اور صرف اللہ کو خوش کرنے کے لیے انسانوں کی خدمت کرنے کے عمل کے ساتھ ہے۔ حضرت ابوموسیٰ الاشعریؓ سے روایت ہے، نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہر مسلمان پر صدقہ کرنا واجب ہے۔ اس پر صحابہ نے سوال کیا کہ اگر کسی کے پاس صدقے کے لیے کچھ نہ ہو تو کیا کرے؟ فرمایا: اپنے ہاتھ سے کوئی کام کرے ،جو ملے ا س سے خود بھی فائدہ اُٹھائے اور دوسروں پر خرچ کرے۔ صحابہ نے عرض کیا: اس کی بھی طاقت نہ ہو تو کیا کیا جائے؟ فرمایا: کسی ضرورت مند اور مصیبت زدہ کی (مال کے علاوہ کسی اور طریقے سے) مدد کرے۔ عرض کیا گیا: اگر یہ بھی نہ ہوسکے تو کیا کیا جائے؟ فرمایاکہ: معروف کا حکم دے۔ عرض کیا گیا کہ: اگر کوئی شخص یہ بھی نہ کرسکے تو اس کے لیے کیا ہدایت ہے؟ فرمایا: وہ بُرائی سے رُک جائے۔ یہ بھی اس کے لیے صدقہ ہے۔(بخاری، کتاب الادب، باب کل معروف صدقہ، مسلم، کتاب الزکوٰۃ)

موجودہ حالات میں اس حدیث کی صداقت اُبھر کر سامنے آتی ہے کہ لاکھوں کروڑوں میں کھیلنے والا ایک شخص ہو یا بمشکل نان جویں پر گزربسر کرنے والا شخص، حتیٰ کہ ایک ایسا شخص بھی جو  یہ بھی نہ کرسکتا ہو کہ کسی کو بھلائی کا حکم دے، دعوتِ دین دے، دین کا علم سکھائے، تو ایسا شخص بھی   اللہ تعالیٰ کو خوش کرسکتا ہے صرف اپنے آپ کو بُرائی سے روک کر۔ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ  الرحم الراحمین کس کس طریقے سے اپنے بندوں پر رحم و کرم کرنا چاہتا ہے کہ اگر ایک شخص نے    کسی مصیبت زدہ کی، سیلاب سے متاثر خاندان کی مالی مدد کر دی، کھانا کھلا دیا، کپڑا دے دیا، تو    یہ لازماً صدقہ ہے۔ لیکن اگر وہ یہ سب کچھ نہ کرسکے اور صرف ان مصیبت زدہ افراد کا ہاتھ پکڑ کر سواری پر سوار کرا دے تو یہ بھی صدقہ ہے۔

ایک دوسری حدیث میں یہی بات فرمائی گئی ہے کہ کسی کو سواری پر سوار کرا دینا بھی صدقہ ہے۔ راستے سے ایک کانٹے یا پتھر کا ہٹانا بھی صدقہ ہے، تاکہ معاشرتی ذمہ داری کا احساس پیدا ہو اور ایک صاحب ِ ایمان اپنی ذات سے باہر نکل کر یہ سوچے کہ وہ معاشرے کو کیا دے رہا ہے۔ معاشرے کی بھلائی کے لیے کون سے کام کر رہا ہے، یا وہ صرف روزمرہ کی دفتری کارروائیوں کی حد تک اسلام پر عامل ہے۔

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمام مخلوق اللہ کی عیال (کنبہ) ہے، سو ان میں سے اللہ کو سب سے زیادہ پیارا شخص وہ ہے جو اُس کے عیال کو زیادہ نفع پہنچانے والا ہے‘‘۔ اسی طرح حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جو شخص دنیا میں کسی مومن کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دُور کرے گا، جو شخص کسی مشکل میں پھنسے ہوئے آدمی کو آسانی فراہم کرے گا، اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کے لیے آسانی فراہم کرے گا۔ جو کسی مسلمان کی سترپوشی کرے گا اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کی سترپوشی کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی مدد میں لگا رہتا ہے جب تک کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگارہتا ہے‘‘۔ (مسلم، کتاب الذکر والدعا)

حدیث کے آخری کلمات غیرمعمولی طور پر تحریکِ اسلامی کے کارکنوں کے لیے حکم کا درجہ رکھتے ہیں اور آج ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی نفسا نفسی کا حقیقی علاج ہیں، یعنی جب تک ہم اپنے بھائی کی مدد، اس کی مشکل کے حل اور اس کے لیے مسلسل کوشش کرتے رہیں گے، تو خود ہمارے لیے اللہ تعالیٰ آسانیاں پیدا کرتا رہے گا۔ جب اجتماعیت کو چھوڑ کر ہم فرد بن جائیں، محض اپنی نجات ، محض اپنے مفاد کی فکر ہوگی، تو اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت اور حمایت بھی حاصل نہیں ہوسکتی۔ اس حدیث کی تائید اُس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ لَایَرْحَمُ اللّٰہُ مَنْ لَّا یَرْحَمُ النَّاسُ، یعنی اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم نہیں فرماتا جو انسانوں پر رحم نہیں کرتا۔ (بخاری، کتاب التوحید)

جو لوگ آفات و مصائب کا شکار ہوں، جو گھر سے بے گھرہوگئے ہوں، جن کے مویشی سیلاب میں بہہ گئے ہوں، جن کے کھیت اور گھر طوفانی پانی کی نذر ہوگئے ہوں، ان سے زیادہ امداد کا مستحق کون ہوسکتا ہے۔ تحریکِ اسلامی کے کارکنوں کے لیے اسلام کی دعوت ان مصائب کے شکار افراد کی دلجوئی، ان کی مالی اور جسمانی مدد ہے لیکن یہ اُسی وقت تک عبادت ہے جب اس سے  کوئی غرض وابستہ نہ ہو۔ نہ ستایش نہ تمغہ، نہ سرٹیفیکیٹ، یا کوئی سیاسی مفاد بلکہ صرف اور صرف اللہ رب العالمین کو خوش کرنے کے لیے اس کے بندوں کی خدمت۔

ایک آخری بات یہ کہ اللہ کے بندوں کی خدمت اور امداد کرتے وقت تحریکی کارکنوں اور اداروں کو (مثلاً الخدمت) یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ آفات و مصائب میں گرفتار افراد میں سے بعض تو وہ ہوں گے جو خود آگے بڑھ کر امداد طلب کریں گے یا اُس کے خواہاں ہوںگے لیکن کچھ افراد ایسے بھی ہوں گے جو کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے یا اپنا دُکھ درد بیان کرنے سے گریزاں ہوں گے۔ ایسے سفیدپوش ،خوددار، غیرت مند، قناعت کرنے اور سوال نہ کرنے والے افراد کو نظرانداز کرنا اور بظاہر ضرورت مند نہ سمجھنا قرآنی دعوت کے منافی ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ  نہ صرف ان کی جو آنکھوں کے سامنے امداد کی توقع کر رہے ہوں، بلکہ ان کی بھی جو آگے بڑھ کر امداد مانگنے سے گریز کریں ، یکساں بلکہ زیادہ امداد کی جائے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’خاص طور پر مدد کے مستحق وہ تنگ دست لوگ ہیں جو اللہ کے کام میں ایسے گھِر گئے ہیں کہ اپنی ذاتی کسب ِ معاش کے لیے زمین میں کوئی دوڑ دھوپ نہیں کرسکتے۔ ان کی خودداری دیکھ کر ناواقف آدمی گمان کرتا ہے کہ یہ خوش حال ہیں۔ تم ان کے چہروں سے ان کی اندرونی حالت پہچان سکتے ہو مگر وہ ایسے نہیں ہیں کہ لوگوں کے پیچھے پڑ کر کچھ مانگیں۔ ان کی اعانت میں جو کچھ مال تم خرچ کرو گے وہ اللہ سے پوشیدہ نہ رہے گا‘‘۔ (البقرہ ۲:۲۷۳)

خدمت ِ خلق اسلامی دعوت کا ایک لازمی جز ہے۔ تحریکاتِ اسلامی کے کارکنوں کی ترجیحات میں اس کا مقام اعلیٰ ہونا چاہیے اور ربِ کریم کے حضور اس کا اجر اس کی خصوصی رحمت کی بناپر حدوشمار سے زیادہ ہے۔ اس لیے ایسے مواقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے، جن میں حقوق العباد کی ادایگی کے ذریعے، ہم معاشرے میں بھلائی اور نیکی پھیلانے کا کام صداقت اور دل کی یکسوئی کے ساتھ کرسکیں۔ اگر دیکھا جائے تو تحریکِ اسلامی کی دعوت اس کے سوا کیا ہے کہ لوگوں کو   موعظۂ حسنہ کے ذریعے نصیحت کی جائے۔ خود ایسا کرنا بھی صدقہ اور عبادت کا حصہ شمار کیا جاتا ہے۔

حضرت تمیم بن ادس الداریؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دین سراپا خیرخواہی [نصیحۃ] ہے۔ صحابہؓ کہتے ہیں کہ ہم نے پوچھا: کس کے لیے خیرخواہی ہے؟ فرمایا: اللہ کے لیے، اس کے رسول ؐکے لیے، اللہ کی کتاب کے لیے، مسلمانوں کے سربراہوں کے لیے، اور اُمت کے عام لوگوں کے لیے۔(بخاری)

عام مسلمانوں کی خیرخواہی یہی ہے کہ ان کے معاشی، معاشرتی اور سیاسی حقوق کے حصول میں ان کی مدد کی جائے۔ ان کے مسائل کو قرآن و سنت کی روشنی میں حل کیا جائے، اور رحم و شفقت کے رویے کے ساتھ ہر مصیبت زدہ کو مصیبت سے نجات دلانے میں اپنی تمام قوت صرف کردی جائے۔ معاشرے میں ظلم و استحصال کا خاتمہ اور عدل و سلامتی کے نظام کے قیام کی جدوجہد اس نصیحت کا لازمی جزو ہے۔ یہی وہ دین کی اجتماعی فکر ہے جس کی بنا پر مسلمان ایک جسدِ واحد کی طرح ہوجاتے ہیں کہ اگر جسم کے ایک حصے میں تکلیف ہو تو تمام جسم اس کی کسک کو محسوس کرے، اور  ایک صاحب ِ ایمان اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہو۔

’’میں ا س وقت سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے کونے کونے میں جا رہا ہوں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے سیلاب کی تباہ کاریوں کے دردناک مناظر دیکھے ہیں۔ میرے پاس وہ الفاظ نہیں کہ میں ان کی تفصیل بیان کرسکوں‘‘___ یہ الفاظ پنجاب کے وزیراعلیٰ کی جانب سے جاری کردہ اشتہارات میں دیے گئے ہیں۔ یہ دردناک مناظر ہمارے حکمران آج نہیں بلکہ گذشتہ کئی برسوں سے دیکھ رہے ہیں۔ صرف گذشتہ چار سالوں میں ہی تین مرتبہ ہمارا ملک سیلاب کی تباہی کا شکار ہوچکا ہے، یعنی ۲۰۱۰ء، ۲۰۱۱ء، ۲۰۱۲ء ۔ ماضی میں جھانکیں تو ۱۹۵۵ء اور پھر ۱۹۷۳ء، ۱۹۷۶ء، ۱۹۸۸ء، ۱۹۹۲ء سے اب تک ۲۰سیلاب پاکستان کو زبردست نقصان پہنچا چکے ہیں۔ یہ سیلابی سلسلے اب تک ۱۱ہزار سے زائد لوگوں کی جان لے چکے، اور ایک لاکھ ۸۰ہزار سے زائد دیہات اور ۵لاکھ مکانات متاثر ہوچکے ہیں۔

 ہماری معیشت کا بڑی حد تک انحصار زراعت پر ہے کیوں کہ ہماری مجموعی قومی پیداوار کا ۲۱فی صد، روزگار کا ۴۵ فی صد اور برآمدات کا ۶۰ فی صد انحصار زراعت پر ہے۔ زرعی ماہرین کے مطابق حالیہ سیلاب سے تقریباً ۲ لاکھ ۳۰ ہزار ایکڑ کپاس ، ۲لاکھ ۶۰ہزارایکڑ دھان، ۶۵ہزار ایکڑ گنا کی فصل، جب کہ ۳۵ہزار ایکڑ پر سبزیاں،۲۵ سے ۳۰ہزار ایکڑ پر چارہ جات تباہ ہوگئے ہیں۔ اس کے علاوہ ۲۵۰ کے قریب پولٹری فارم اور ۲۵ سے ۳۰ہزار جانور اِس سے متاثر ہوئے۔ ماہرین معیشت ۲۴۰؍ ارب روپے کے نقصان کا اندازہ کر رہے ہیں۔

سیلاب کے اس موسم میں آپ ان علاقوں کی جانب جائیں جہاں سیلاب سے متاثر غریب کسان اور بے آسرا دیہاتی بے سروسامانی کی کیفیت میں اپنے گھربار لُٹ جانے کے بعد کھلے آسمان تلے پڑے ہیں۔ یہ خانماں برباد لوگ جن کی بربادی پر حکومت، انتظامیہ، سیاسی و سماجی ادارے ہر سال ماتم کرتے ہیں اور پھر سب کچھ بھول جاتے ہیں۔حالانکہ اللہ نے اس کائنات کو انسان کے لیے مسخر کیا ہے کہ خلافت ِ ارضی کے بہترین انتظام کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروے کار لائے اور اس کا بہتر انتظام اور انصرام کرے۔

اگر ہم سیلابوں کے حوالے سے دنیا میں ہونے والے معاملات کا جائزہ لیں تو ہمارے سامنے بے شمار مثالیں نہ صرف موجود ہیں بلکہ ان کی بدولت دنیا نے ایسی بہت سی آفات اور تباہیوں سے کافی حد تک محفوظ کرلیا ہے۔ ۲۰۰۲ء میں یورپ میں سیلاب آیا تو یورپین یونین کے ممالک کوپن ہیگن میں اکٹھے ہوئے۔ ان سب ممالک نے اس کا جائزہ لے کر اپنے اپنے ممالک میں ڈائرکٹر واٹر مقرر کیے۔فرانس، ہالینڈ کے نمایندوں پر مشتمل ایک گروپ نے جامع دستاویز تیار کی۔ ۲۰۰۳ء میں ان تمام ممالک کے نمایندوں نے اس دستاویز کو منظور کیا۔ سیلابوں سے نمٹنے کے بارے میں منصوبہ بندی کی جس میں پانی کو جمع کرنے کی تدابیر اور تعمیراتی اقدامات (یعنی ڈیم وغیرہ بنانے کے مسائل)، حتیٰ کہ سیلاب سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا سدباب اور علاج و صحت سے متعلق تدابیر، عوامی شرکت سے اس کے سدباب کی تدابیر جیسے اقدامات کو زیربحث لایا گیا ہے۔ جاپان نے بھی اس بارے خصوصی منصوبہ سازی کی ہے۔ ان میں دریائوں کے کناروں کی مضبوطی اور بلندی ، نکاسی آب کے بہتر انتظامات اور پانی کے اخراج کے لیے پمپ اسٹیشن، متبادل حکمت عملی،  آبادی کا انخلا، متبادل آبادکاری جیسے اقدامات قابلِ ذکر ہیں۔ ہالینڈ نے سیلابوں کے دریائی پانی کو تقسیم کرنے اور زور گھٹانے کے لیے نہریں کھودی ہیں۔۱۹۷۰ء کے سیلاب کے بعد بنگلہ دیش نے اس طرح سے کام کیا ہے کہ وہاں بڑے بڑے تالابوں، سیلابی علاقوں کی درجہ بندی، متبادل راستوں کی تعمیر، ڈیموں اور بیراجوں کی توسیع اور اجتماعی حکمت عملی کی وجہ سے ۱۹۹۸ء میں وہاں سیلاب کے نقصانات ۱۰ فی صد سے بھی کم رہ گئے۔ ۱۹۶۸ء میں لکھی گئی ایک رپورٹ میں یہ سفارش کی گئی تھی کہ پاکستان کو ہرسال بعد ایک تربیلا جیسے ڈیم کی ضرورت ہے۔

بھارت اب تک ۴۱۹۲ ڈیم اور بیراج بناچکا ہے،جب کہ ہمارے ہاں گذشتہ چھے عشروں سے ڈیموں کے قیام پر جھگڑے ہورہے ہیں اور پاکستان میں جو ڈیم یا بیراج بنے ہیں ان کی تعداد ۶۲ ہے۔ بھارت میں ۲۱۵ ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کیا جاتا ہے، جب کہ پاکستان میں فاضل پانی ذخیرہ کرنے کی حد صرف ۱۸ ملین ایکڑفٹ ہے۔

یہ سب کچھ پڑھ سن کر ہم یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ کیا ہمارے ملک میں بھی اس پر کوئی کام ہوا؟ یقینا ہوا لیکن بدقسمتی سے یہ سب کام فائلوں کا پیٹ بھرنے اور فائلوں کے انبار لگانے کے علاوہ کسی عملی قدم کی طرف بڑھتا شاید اس لیے دکھائی نہیں دیتا کہ ہمارے ہاں نہ قانون کی عمل داری ہے اور نہ انصاف اور احتساب کا کوئی تصور۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ ایک محکمہ ناکام ہوا تو دوسرا محکمہ اور وہ ناکام ہوا تو پھر تیسرا۔ ہمارے ہاں اس وقت سیلاب اور پانی کے معاملات پر پانچ محکمے کام کررہے ہیں۔ اگر ۱۹۵۵ء کے تباہ کن سیلاب کے بعد ہی عملی اقدام کر لیے جاتے تو آج ہم یقینا اپنے ہونے والے نقصانات سے کافی حد تک محفوظ ہوچکے ہوتے۔

سیلابوں کی روک تھام کے لیے جنگلات کا جو کردار ہے اس سے کسی کو انکار نہیں لیکن ہمارے ہاں جنگلات میں اضافہ تو کجا نہروں، راجباہوں، کھالوں کے کنارے لگے درخت پچھلے چند برسوں میں مکمل طور پر غائب ہوچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جونہی پانی کا تھوڑا دبائو آتا ہے ہماری نہریں اور کھالے جو محکمہ آب پاشی کی  ملی بھگت اور کرپشن سے پہلے ہی کمزور ہوچکے ہیں، پانی کے بہائو کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوتے ہیں۔

شاہرائوں کی تعمیر کے دوران برساتی نالوں کی گزرگاہوں کے لیے پُل نہیں بنائے جارہے۔ اس لیے ایسی ناگہانی صورت حال سے نمٹنے کے لیے شاہرائوں میں نقب لگائے جاتے ہیں اور پھر ہمارے منتخب نمایندوں کے قریبی، ٹھیکے دارحضرات ان شاہرائوں کی تعمیرومرمت کے لیے نئے سرے سے ٹینڈر دیتے ہیں۔ اربوں روپے کے ٹھیکے من پسند لوگوں کو دیے جاتے ہیں۔ ہر آنے والے سیلاب اور قدرتی آفات کے بعد ان لوگوں کی چاندی ہوتی ہے۔ کچھ نام نہاد کمیشن قائم کردیے جاتے ہیں جن کی سفارشات کبھی نہ سامنے لائی جاتی ہیں اور نہ عمل درآمد کرنے کی کوئی کوشش ہی کی جاتی ہے۔ ۲۰۱۰ء کے سیلاب میں بھی چند لوگوں کے مفادات کے تحفظ کی خاطر لاکھوں ایکڑ رقبے پر کھڑی فصلوں کو تباہ کردیا گیا۔ ہزاروں لوگوں کو بے گھر ہونا پڑا، جو شاید ابھی تک بھی مکمل طور پر بحال نہیں ہوسکے۔ تحقیقات ہوئیں لیکن کبھی دوبارہ زیربحث نہ آئیں اور نہ ان پر  عمل ہی ہوا۔ آج پھر ہم سیلاب کی لپیٹ میں ہیںتو جسٹس منصور کمیشن کی رپورٹ کے تذکرے کیے جارہے ہیں۔ کوئی اس کو جھوٹ قرار دے رہا ہے اور کوئی سچ۔

ہر سال ہونے والی بارشوں کا ۷۵ فی صد صرف چار ماہ میں (جون تا ستمبر) ہوتا ہے۔ ماہرین کے اندازوں کے مطابق ہر سال ہمارا ۸۰۰ ملین ڈالر کا نقصان صرف قدرتی آفات کی وجہ سے ہوتا ہے اور ہم مسلسل ان خطرات کی زد میں ہیں۔ انٹرنیشنل ریڈکراس کے مطابق ۲۰۲۵ء تک ترقی پذیر ممالک کے ۵۰ فی صد لوگ سیلابوں اور طوفانوں کے خطروں سے دوچار ہوں گے۔ سائنس دانوں نے تحقیق کی ہے کہ گرم آب و ہوا ہمالیہ کے بڑے بڑے دریائوں پر آنے والے سالوں میں بہت اثرانداز ہوگی۔ ان دریائوں میں ۲۰۵۰ء تک پانی کے بہائو میں اضافے کا ہی امکان ہے۔ہم یہ بات مانیں یا نہ مانیں لیکن حقیقت ہے کہ سیلابوں پر دنیا بھر میں شخصیات اور کیمروں کی چکاچوند نے نہیں اداروں نے قابو پایا ہے۔

سیلاب، سماوی اور قدرتی آفات میں سے ہے۔ جس طرح ایک سمجھ دار انسان اور ذمہ دار معاشرہ اور فرض شناس انتظامیہ اس مقصد کے لیے کوشاں رہتی ہے کہ بیماریوں سے بچائو کے لیے حفاظتی تدابیر کرے اور علاج معالجے کے بندوبست کی فکر کرے، اسی طرح ایسی آفات و آزمایشوں سے بچائو کے لیے بروقت، قابلِ عمل اور مؤثر حکمت عملی کو بروے کار لانا ایک ذمہ دار ریاست کے لیے ضروری ہے۔

سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچائو، فاضل پانی کو محفوظ یا ایسے سیلابی اور آبی راستوں کو بنانے کا اہتمام کیا جانا چاہیے، جس سے یہ پانی تباہی کے بجاے زندگی کے لیے مفید ثابت ہوسکے۔ اسی طرح دریائی یا برساتی گزرگاہوں کو گہرا کرنے، سیلابی راستوں سے تجاوزات کو ختم کرنے اور سیلاب کا نشانہ بننے والے علاقوں میں مکانات کی تعمیر کے لیے رہنمائی اور مدد دی جائے۔ موسمی اور سیلابی اطلاعات کی ترسیل کے مراکز کی جانب سے بروقت اطلاع دینے کا بندوبست کیا جائے اور اب تک مقرر کیے گئے سیلابی کمیشنوں کی رپورٹوں پر عمل درآمد کے لیے ایکشن پلان منظور کیے جائیں۔ ایک یا دو سال کی تباہی سے پہنچنے والے نقصان کے برابر رقم سے آیندہ بہت سے نقصان سے محفوظ رہنے کا انتظام کیا جاسکتا ہے۔

نماز، روزہ اور یہ حج اور زکوٰۃ جنھیں اللہ تعالیٰ نے آپ پر فرض کیا ہے ، اور اسلام کا رُکن قرار دیا ہے یہ ساری چیزیں دوسرے مذہبوں کی عبادات کی طرح پوجاپاٹ اور نذرونیاز اور جاترا کی رسمیں نہیں ہیں کہ بس آپ ان کو ادا کردیں اور اللہ تعالیٰ آپ سے خوش ہوجائے، بلکہ دراصل یہ ایک بڑے مقصد کے لیے آپ کو تیار کرنے اور ایک بڑے کام کے لیے آپ کی تربیت کرنے کی خاطر فرض کی گئی ہیں…

مختصر الفاظ میں تو صرف اتنا کہہ دینا ہی کافی ہے کہ وہ مقصد انسان پر سے انسان کی حکومت مٹاکر خداے واحد کی حکومت قائم کرنا ہے اور اس مقصد کے لیے سردھڑ کی بازی لگا دینے اور جان توڑ کوشش کرنے کا نام جہاد ہے اور نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، سب کے سب اسی کام کی تیاری کے لیے ہیں۔ لیکن چونکہ آپ لوگ مدت ہاے دراز سے اس مقصد کو اور اس کام کو بھول چکے ہیں اور ساری عبادتیں آپ کے لیے محض تصوف بن کر رہ گئی ہیں، اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اس ذرا سے فقرے میں جو مطلب میں نے ادا کیا ہے اسے آپ ایک معمّے سے زیادہ کچھ نہ سمجھے ہوں گے۔ اب میں آپ کے سامنے اس مقصد کی تشریح [کرتا ہوں]۔

خرابی کی جڑ :

دنیا میں آپ جتنی خرابیاں دیکھتے ہیں اُن سب کی جڑ دراصل حکومت کی خرابی ہے۔ طاقت اور دولت حکومت کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ قانون حکومت بناتی ہے۔ انتظام کے سارے اختیارات حکومت کے قبضے میں ہوتے ہیں۔ پولیس اور فوج کا زور حکومت کے پاس ہوتا ہے۔ لہٰذا جو خرابی بھی لوگوں کی زندگی میں پھیلتی ہے وہ یا تو خود حکومت کی پھیلائی ہوئی ہوتی ہے یا اس کی مدد سے پھیلتی ہے۔ کیونکہ کسی چیز کو پھیلنے کے لیے جس طاقت کی ضرورت ہوتی ہے وہ حکومت ہی کے پاس ہے…

حکومت کی خرابی تمام خرابیوں کی جڑ ہے۔ لوگوں کے خیالات کا گمراہ ہونا، اخلاق کا بگڑنا، انسانی قوتوں اور قابلیتوں کا غلط راستوں میں صرف ہونا، کاروبار اور معاملات کی غلط صورتوں اور زندگی کے بُرے طور طریق کا رواج پانا، ظلم و ستم اور بدافعالیوں کا پھیلنا اور خلقِ خدا کا تباہ ہونا، یہ سب کچھ نتیجہ ہے اس ایک بات کا کہ اختیارات اور اقتدار کی کنجیاں غلط ہاتھوں میں ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب طاقت بگڑے ہوئے لوگوں کے ہاتھوں میں ہوگی اور جب خلقِ خدا کا رزق انھی کے تصرف میں ہوگا، تو وہ نہ صرف خود بگاڑ کو پھیلائیں گے، بلکہ بگاڑ کی ہر صورت ان کی مدد اور حمایت سے پھیلے گی اور جب تک اختیارات اُن کے قبضے میں رہیں گے، کسی چیز کی اصلاح نہ ہوسکے گی۔

اصلاح کے لیے پہلا قدم:

یہ بات جب آپ کے ذہن نشین ہوگئی تو یہ سمجھنا آپ کے لیے آسان ہے کہ خلقِ خدا کی اصلاح کرنے اور لوگوں کو تباہی کے راستوں سے بچاکر فلاح اور سعادت کے راستے پر لانے کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ حکومت کے بگاڑ کو دُرست کیا جائے۔ معمولی عقل کا آدمی بھی اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ جہاں لوگوں کو زنا کی آزادی حاصل ہو، وہاں زنا کے خلاف خواہ کتنا ہی وعظ کیا جائے زنا کا بند ہونا محال ہے۔ لیکن اگر حکومت کے اختیارات پر قبضہ کر کے زبردستی زنا کو بند کر دیا جائے تو لوگ خودبخود حرام کے راستے کو چھوڑ کر حلال کا راستہ اختیار کرلیں گے۔ شراب، جوا، سُود، رشوت، فحش تماشے، بے حیائی کے لباس، بداخلاق بنانے والی تعلیم، اور ایسی ہی دوسری چیزیں اگر آپ وعظوں سے دُور کرنا چاہیں تو کامیابی ناممکن ہے، البتہ حکومت کے زور سے یہ سب بلائیں دُور کی جاسکتی ہیں۔ جو لوگ خلقِ خدا کو لوٹتے اور اخلاق کو تباہ کرتے ہیں اُن کو آپ محض پندونصیحت سے چاہیں کہ اپنے فائدوں سے ہاتھ دھو لیں تو یہ کسی طرح ممکن نہیں۔ ہاں، اقتدار ہاتھ میں لے کر آپ بزور اُن کی شرارتوں کا خاتمہ کردیں تو ان ساری خرابیوں کا انسداد ہوسکتا ہے۔ اگر آپ چاہیں کہ بندگانِ خدا کی محنت، دولت، ذہانت و قابلیت غلط راستوں میں ضائع ہونے سے بچے اور صحیح راستوں میں صرف ہو، اگر آپ چاہیں کہ ظلم مٹے اور انصاف ہو، اگر آپ چاہیں کہ زمین میں فساد نہ ہو،انسان انسان کا خون نہ چوسے نہ بہائے،   دبے اور گرے ہوئے انسان اُٹھائے جائیں اور تمام انسانوں کو یکساں عزت، امن، خوش حالی  اور ترقی کے مواقع حاصل ہوں، تو محض تبلیغ و تلقین کے زور سے یہ کام نہیں ہوسکتا، البتہ حکومت کا زور   آپ کے پاس ہو تو یہ سب کچھ ہونا ممکن ہے۔

پس یہ بالکل ایک کھلی ہوئی بات ہے جس کو سمجھنے کے لیے کچھ بہت زیادہ غوروفکر کرنے کی بھی ضرورت نہیں کہ اصلاحِ خلق کی کوئی اسکیم بھی حکومت کے اختیارات پر قبضہ کیے بغیر نہیں چل سکتی۔ جو کوئی حقیقت میں خدا کی زمین سے فتنہ و فساد کو مٹانا چاہتا ہو اور واقعی یہ چاہتا ہو کہ خلقِ خدا کی اصلاح ہو تو اس کے لیے محض واعظ اور ناصح بن کر کام کرنا فضول ہے۔ اسے اُٹھنا چاہیے اور غلط اصول کی حکومت کا خاتمہ کر کے غلط کار لوگوں کے ہاتھ سے اقتدار چھین کر صحیح اصول اور صحیح طریقے کی حکومت قائم کرنی چاہیے.....

یہی وہ بنیادی اصلاح ہے جس کو اسلام جاری کرنا چاہتا ہے۔ جو لوگ خدا کو اپنا بادشاہ (محض خیالی نہیں بلکہ واقعی بادشاہ) تسلیم کرلیں اور اس قانون پر جو خدا نے اپنے نبیؐ کے ذریعے سے بھیجا ہے، ایمان لے آئیں، اُن سے اسلام یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اپنے بادشاہ کے ملک میں اُس کا قانون جاری کرنے کے لیے اُٹھیں۔ اس کی رعیت میں سے جو لوگ باغی ہوگئے ہیں اور خود مالک الملک بن بیٹھے ہیں، ان کا زور توڑ دیں اور اللہ کی رعیت کو دوسروں کی رعیت بننے سے بچائیں۔ اسلام کی نگاہ میں یہ بات ہرگز کافی نہیں ہے کہ تم نے خدا کو خدا اور اس کے قانون کو قانونِ برحق مان لیا۔ نہیں، اس کو ماننے کے ساتھ ہی آپ سے آپ یہ فرض تم پر عائد ہوجاتا ہے کہ جہاں بھی تم ہو، جس سرزمین میں تمھاری سکونت ہو، وہاں خلقِ خدا کی اصلاح کے لیے اُٹھو۔ حکومت کے غلط اصول کو صحیح اصول سے بدلنے کی کوشش کرو، ناخدا ترس اور شتر بے مہار قسم کے لوگوں سے قانون سازی اور فرماں روائی کا اقتدار چھین لو، اور بندگانِ خدا کی رہنمائی و سربراہ کاری اپنے ہاتھ میں لے کر خدا کے قانون کے مطابق، آخرت کی ذمہ داری و جواب دہی کا اور خدا کے عالم الغیب ہونے کا یقین رکھتے ہوئے، حکومت کے معاملات انجام دو۔ اسی کوشش اور اسی جدوجہد کا نام جہاد ہے۔

حکومت ایک کٹھن راستہ:

لیکن حکومت اور فرماں روائی جیسی بَدبلا ہے، ہرشخص اس کو جانتا ہے۔ اس کے حاصل ہونے کا خیال آتے ہی انسان کے اندر لالچ کے طوفان اُٹھنے لگتے ہیں۔ خواہشاتِ نفسانی یہ چاہتی ہیں کہ زمین کے خزانے اور خلقِ خدا کی گردنیں اپنے ہاتھ میں آئیں تو دل کھول کر خدائی کی جائے۔ حکومت کے اختیارات پر قبضہ کرلینا اتنا مشکل نہیں جتنا ان اختیارات کے ہاتھ میں آجانے کے بعد خدا بننے سے بچنا اور بندئہ خدا بن کر کام کرنا مشکل ہے۔ پھر بھلا فائدہ ہی کیا ہوا اگر فرعون کو ہٹا کر تم خود فرعون بن گئے؟ لہٰذا اس شدید آزمایش کے کام کی طرف بلانے سے پہلے اسلام تم کو اس کے لیے تیارکرنا ضروری سمجھتا ہے۔

تم کو حکومت کا دعویٰ لے کر اُٹھنے اور دنیا سے لڑنے کا حق اُس وقت تک ہرگز نہیں پہنچتا جب تک تمھارے دل سے خودغرضی اور نفسانیت نہ نکل جائے۔ جب تک تم میں اتنی پاک نفسی پیدا نہ ہوجائے کہ تمھاری لڑائی اپنی ذاتی یا قومی اغراض کے لیے نہ ہو بلکہ صرف اللہ کی رضا اور خلق اللہ کی اصلاح کے لیے ہو، اور جب تک تم میں یہ صلاحیت مستحکم نہ ہوجائے کہ حکومت پاکر تم اپنی خواہشات کی پیروی نہ کرو بلکہ خدا کے قانون کی پیروی پر ثابت قدم رہ سکو۔ محض یہ بات کہ تم کلمہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہوگئے ہو، تمھیں اس کا مستحق نہیں بنا دیتی کہ اسلام تمھیں خلقِ خدا پر ٹوٹ پڑنے کا حکم دے دے، اور پھر تم خدا اور رسولؐ کا نام لے لے کر وہی سب حرکتیں کرنے لگو جو خدا کے باغی اور ظالم لوگ کرتے ہیں۔ قبل اس کے کہ اتنی بڑی ذمہ داریوں کا بوجھ اُٹھانے کے لیے تم کو حکم دیا جائے، اسلام یہ ضروری سمجھتا ہے کہ تم میں وہ طاقت پیدا کی جائے جس سے تم اس بوجھ کو سہار سکو۔

عبادات ، ایک تربیتی کورس:

یہ نماز اور روزہ اور یہ زکوٰۃ اور حج دراصل اسی تیاری اور تربیت کے لیے ہیں۔ جس طرح تمام دنیا کی سلطنتیں اپنی فوج، پولیس اور سول سروس کے لیے آدمیوں کو پہلے خاص قسم کی ٹریننگ دیتی ہیں پھر اُن سے کام لیتی ہیں، اُسی طرح اللہ کا دین (اسلام) بھی ان تمام آدمیوں کو، جو اس کی ملازمت میں بھرتی ہوں، پہلے خاص طریقے سے تربیت دیتا ہے، پھر اُن سے جہاد اور حکومت ِ الٰہی کی خدمت لینا چاہتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ دنیا کی سلطنتوں کو اپنے آدمیوں سے جو کام لینا ہوتا ہے اُس میں اخلاق اور نیک نفسی اور خدا ترسی کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس لیے وہ انھیں صرف کاررواں بنانے کی کوشش کرتی ہیں،خواہ وہ کیسے ہی زانی، شرابی، بے ایمان اور بدنفس ہوں۔ مگر دینِ الٰہی کو جو کام اپنے آدمیوں سے لینا ہے وہ چونکہ سارے کاسارا ہے ہی اخلاقی کام، اس لیے وہ انھیں کارِرواں بنانے سے زیادہ اہم اس بات کو سمجھتا ہے کہ انھیں خدا ترس اور نیک نفس بنائے۔

وہ ان میں اتنی طاقت پیدا کرنا چاہتا ہے کہ جب وہ زمین میں خدا کی خلافت قائم کرنے کا دعویٰ لے کر اُٹھیں تو اپنے دعوے کو سچا کرکے دکھا سکیں۔ وہ لڑیں تو اس لیے نہ لڑیں کہ انھیں خود اپنے واسطے مال ود ولت اور زمین درکار ہے، بلکہ ان کے عمل سے ثابت ہوجائے کہ ان کی    لڑائی خالص خدا کی رضا کے لیے اور اس کے بندوں کی فلاح و بہبود کے لیے ہے۔ وہ فتح پائیں تو متکبر وسرکش نہ ہوں بلکہ ان کے سر خدا کے آگے جھکے ہوئے رہیں۔ وہ حاکم بنیں تو لوگوں کو اپنا غلام نہ بنائیں بلکہ خود بھی خدا کے غلام بن کر رہیں اور دوسروں کو بھی خدا کے سوا کسی کا غلام نہ رہنے دیں۔ وہ زمین کے خزانوں پر قابض ہوں تو اپنی یا اپنے خاندان والوں یا اپنی قوم کے لوگوں کی جیبیں نہ بھرنے لگیں، بلکہ خدا کے رزق کو اس کے بندوں پر انصاف کے ساتھ تقسیم کریں، اور ایک سچے امانت دار کی طرح یہ سمجھتے ہوئے کام کریں کہ کوئی آنکھ ہمیں ہر حال میں دیکھ رہی ہے اور اُوپر کوئی ہے جسے ہم کو ایک ایک پائی کا حساب دینا ہے۔

اس تربیت کے لیے ان عبادتوں کے سوا اور کوئی دوسرا طریقہ ممکن ہی نہیں ہے۔ اور جب اسلام اس طرح اپنے آدمیوں کو تیار کرلیتا ہے، تب وہ ان سے کہتا ہے کہ ہاں، اب تم روے زمین پر خدا کے سب سے زیادہ صالح بندے ہو، لہٰذا آگے بڑھو، لڑ کر خدا کے باغیوں کو حکومت سے   بے دخل کردو اور خلافت کے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لو:

کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ (اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰) دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ (خطبات، ص ۲۵۹-۲۶۷)

حضرت ابوالدرداؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو آدمی رات کے وقت اپنے بستر پر لیٹے اس حال میں کہ نیت رکھتا ہو کہ رات کو اُٹھ کر نماز پڑھے گا لیکن اس پر نیند کا غلبہ ہوگیا اور وہ نماز کے لیے نہ اُٹھ سکا۔ اس نے نماز کی جو نیت کی وہ اس کے لیے لکھ دی جاتی ہے اور نیند اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے صدقہ بن جاتی ہے۔ (نسائی، ابن ماجہ)

رات کو اُٹھ کر تہجد پڑھنا بڑی فضیلت کا کام ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ اسے اپنا معمول بنائے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تہجد کا حکم دیا،فرمایا: وَ مِنَ الَّیْلِ فَتَھَجَّدْ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ ق عَسٰٓی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًاo(بنی اسرائیل ۱۷:۷۹) ’’اور اے نبیؐ، رات کو اُٹھ کر تہجد پڑھیں یہ آپؐ کے لیے انعام ہے۔ اُمید ہے کہ آپؐ کا رب آپؐ  کو مقامِ محمود پر فائز کرے گا‘‘۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مقامِ محمود پر اللہ تعالیٰ فائز فرمائیں گے۔ اگر ایک اُمتی آپؐ کی پیروی میں تہجد پڑھے گا تو اسے بھی بڑا مقام ملے گا۔ اس لیے تہجد کو معمول بنانا ہمیشہ سے نیک لوگوںکی عادت رہی ہے۔ ہمیں بھی نیک لوگوں کی صف میں شامل ہونا چاہیے۔ اگر کبھی تہجد رہ گئی نیند کے غلبے یا بیماری یا تھکاوٹ کے سبب نہ اُٹھ سکے تو بھی اللہ تعالیٰ تہجد کا اجر عنایت فرما دیں گے۔ اس حدیث میں تہجد کے لیے بڑی ترغیب ہے۔ تہجدکے بعد جو دعا کی جائے اس دعا کی قبولیت کی بھی زیادہ اُمید ہے۔ اپنی پریشانیوں اور حاجات کے حل کے لیے بھی اس گھڑی کی برکات سے فائدہ اُٹھایا جائے خصوصاً وہ لوگ جو دعوت الی اللہ کا کام کر رہے ہیں اور ماحول کی ناسازگاری سے انھیں طرح طرح کی مشکلات اور مصائب درپیش ہوتے ہیں۔ قیدوبند کی آزمایش سے بھی دوچار ہو جاتے ہیں۔ ان کے لیے تہجد کی گھڑی سنہری موقع ہے۔ وہ اپنے رب سے، جس کے ہاتھ میں کائنات کی باگ ڈور ہے اور وہ    اپنی مخلوق کے بارے میں فیصلے فرماتا ہے، اس گھڑی میں رجوع کریں۔ اُس سے لَو لگائیں جس نے فیصلہ فرمانا ہے، اس سے اپنے حق میں فیصلہ کرانے کے لیے آہ و زاری کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ   علیہ وسلم نے فرمایا: رب تبارک و تعالیٰ رات کے آخری حصے میں آسمانِ دنیا پر اُترتے ہیں اور فرماتے ہیں: کون ہے جو مجھ سے دعا کرے میں اس کی دعا کو قبول کروں گا۔ کون ہے جو مجھ سے بخشش مانگے کہ میں اس کی مغفرت کروں۔

٭

حضرت ابی کبشہ اعاریؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس اُمت کا حال چار آدمیوں کے حال کی طرح ہے۔ ایک وہ آدمی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے علم بھی دیا ہے اور مال بھی دیا ہے۔ وہ اپنے مال میں اپنے علم کے مطابق تصرف کرتا ہے۔ دوسرا وہ آدمی ہے جسے   اللہ تعالیٰ نے علم تو دیا ہے لیکن مال نہیں دیا ۔ وہ یہ جذبہ رکھتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے اسے مال دیا ہوتا تو وہ بھی اسی بھائی کی طرح اپنے مال میں تصرف کرتا۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا: یہ دونوں آدمی اجر میں برابر ہیں۔ تیسرا وہ شخص ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے علم نہیں دیا لیکن مال دیا ہے۔ وہ اپنے مال میں ناجائز تصرف کرتا ہے۔ اور چوتھا آدمی وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے علم بھی نہیں دیا اور مال بھی نہیں دیا۔      وہ یہ جذبہ رکھتا ہے کہ اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں بھی اس آدمی کی طرح اس مال کو اڑاتا۔    نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ دونوں آدمی گناہ میں برابر ہیں۔ (ترمذی، احمد، ابن ماجہ )

مال اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے، اسے جائز طریقے سے کمانا اور جائز کاموں میں صرف کرنا چاہیے۔ ایک آدمی کو اللہ تعالیٰ مال دے دے تو وہ اسے صرف دنیا بنانے کے لیے استعمال نہ کرے بلکہ اس کے ذریعے اپنی آخرت بھی سنوارے۔ ایسا آدمی خوش قسمت ہے۔ اسی طرح وہ آدمی بھی خوش قسمت ہے جسے مال تو نہیں ملا لیکن اس کی نیت، عزم اور جذبہ یہ ہے کہ اسے مال ملتا تو وہ بھی اسے جائز کاموں میں صرف کر کے آخرت میں بلند مرتبہ حاصل کرتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق یہ شخص بھی اجرعظیم کا مستحق ہے۔ یہ بھی نیت اور جذبے سے اپنی آخرت بنارہا ہے۔ لیکن جو مال ناجائز کاموں میں خرچ کرتاہے وہ گنہ گار ہے، اور اسی کی طرح ناجائز کاموں میں مال صرف کرنے کا جذبہ رکھنے والا بھی گنہ گار ہے۔ فقرااور مساکین کے لیے اللہ تعالیٰ کا کتنا کرم ہے کہ وہ انھیں ان کے اچھے اور پاک جذبات کی بناپر نیک کاموں میں مال صرف کرنے والے امرا کے برابر ثواب عطا فرماتے ہیں۔ مال کمانے میں ناکامی کے باوجود آخرت کا اجر کمانے سے محروم نہیں ہیں۔ آج بے شمار لوگ ایسے ہیں جو فقیر اور مسکین ہونے کے باوجود اپنی آخرت بنا سکتے ہیں۔ انھیں چاہیے کہ نبی ؐ کے اس ارشاد کی روشنی میں اپنے دل و دماغ میں نیک جذبات کو پروان چڑھا کر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اپنا دامن بھر لیں۔

٭

حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے رزقِ حلال کھایا اور سنت پر عمل کیا اور لوگ اس کی طرف سے آفتوں سے محفوظ رہے وہ جنت میں داخل ہوگا۔(مستدرک حاکم)

تین باتوں پر مشتمل جامع نسخہ ہے۔ سارے دین کا خلاصہ بھی ہے۔ جب لوگ دوسرے کے مال پر حملہ آور ہوتے ہیں تو تصادم ہوتا ہے۔ آج افراد اور حکومتیں اس بیماری میں مبتلا ہیں۔ اس بیماری کا علاج یہی ہے کہ ہر آدمی اپنے مال پر قناعت کرے اور دوسرے کے مال پر دست درازی نہ کرے۔ اس طرح جن چیزوں کے استعمال کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دے دیا ہے ان سے بچے، مثلاً شراب، جوا، رشوت اورسود وغیرہ۔ حرام ذرائع بھی انسانوں کو تباہ کر رہے ہیں۔ پھر دوسری چیز یہ ہے کہ انسان کی عملی زندگی سیدھے راستے پر ہو اور اس کا کوئی عمل بھی راہِ راست سے ہٹا ہوا نہ ہو۔ اس کے لیے سنت ِ رسولؐ کا نسخۂ کیمیا موجود ہے، اور تیسرا یہ کہ لوگوں کو نقصان پہنچانے ، حقوق العبادکو تلف کرنے سے احتراز کیا جائے۔ انسانوں کا تمسخر اُڑانا، انھیںبُرے ناموں سے پکارنا، ان کی غیبت کرنا، ان پر بہتان لگانا، ان پر بے جا بدگمانی کرنا، فتنہ و فساد کا ذریعہ ہے۔ ان بُرائیوں کا انسداد ہو، آدمی ان میں ملوث نہ ہو تو پھر دخولِ جنت کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں رہتی۔

٭

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چھے آدمی ایسے ہیں کہ میں نے ان پر لعنت کی ہے اور اللہ تعالیٰ نے بھی ان پر لعنت کی ہے اور ہر نبی کی دعا قبول کی جاتی ہے۔ پہلاآدمی وہ ہے جو اللہ کی کتاب میں اضافہ کرتا ہے۔ دوسرا وہ جو اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی تقدیر کو جھٹلاتا ہے۔ تیسرا وہ جومیری اُمت پر جبر سے مسلط ہوتا ہے، تاکہ ان کو ذلیل کرے جن کو اللہ تعالیٰ نے عزت دی ہے اور ان کو عزت دے جن کو اللہ تعالیٰ نے ذلیل کیا ہے۔چوتھا آدمی وہ ہے جو   اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کرے، اور پانچواں وہ جو میری عترت (میری آل اور میرے پیروکاروں) کی عزت کو پامال کرے، اور چھٹا وہ جو سنت کا تارک ہو۔ (طبرانی)

اللہ تعالیٰ کی کتاب میں اضافے اور کمی کی ناپاک کوششیں دشمنانِ اسلام نے ہر دور میں کی ہیں ، حتیٰ کہ آج کے دور میں قرآنِ پاک کا ایک نسخہ بھی شائع کیا، جس میں سے بہت سی سورتیں خارج کی گئیں لیکن یہ دشمنانِ اسلام اللہ اور اس کے رسولؐ کی لعنت کے مستحق ہوکر ناکام و نامراد ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک کی حفاظت کا خود ذمہ لیا ہے۔ فرمایا: اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ o (الحجر ۱۵:۹)’’ہم نے اس قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم خود ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں‘‘۔ چنانچہ اس میں آج تک زیروزَبر اور نقطے کا بھی فرق نہیں ہے۔ جہاں تک تقدیر کا تعلق ہے تو اللہ تعالیٰ نے کائنات کو ایک نقشے کے مطابق بنایا ہے۔ اپنے آغاز سے لے کر انتہا تک ہر چیز طے شدہ ہے۔ اس نقشے میں یہ بھی طے شدہ ہے کہ انسان اپنے ارادے اور اختیار کا مالک ہے اور اپنی مرضی سے نیکی اوربدی کرے گا۔ چنانچہ انسان اپنی مرضی سے اسلام بھی لارہے ہیں اور کفر بھی کر رہے ہیں اور اپنے لیے جنت اور دوزخ خرید رہے ہیں۔ جابر حکمران ہر دور میں رہے ہیں اور آج بھی ہیں اور جبروظلم کرکے، نیک لوگوں کو ستاکر، اور بُرے لوگوں کو نواز کر اللہ تعالیٰ کی لعنت کو اپنے اُوپر مسلط کر رہے ہیں۔ نیز  اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کرنے والے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آل و اصحاب اور پیروکاروں کو ذلیل کرنے والے اور سنت رسولؐکے تارک بھی بڑے پیمانے پر سرگرمِ عمل ہیں۔ یہ سب لعنت کے مستحق ہیں اور اس وجہ سے اپنے تمام وسائل و ذرائع کے باوجود اُمت مسلمہ کو مٹانے اور اس کے مستقبل کو تاریک کرنے میں ناکام ہیں۔ اُمت مسلمہ میں اللہ تعالیٰ کے دین کے علَم بردار، مشکلات کے باوجود میدانِ عمل میں موجود ہیں اور کامیابی سے لادینیت کا مقابلہ کر رہے ہیں۔

٭

حضرت معاویہ بن ابی سفیانؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس آدمی کے بارے میں اللہ بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں، اسے دین کی سمجھ عطا فرماتے ہیں۔(بخاری)

دین کی سمجھ کی علامت یہ ہے کہ آدمی نیک ہو اور نیک لوگوں کا ساتھی ہو۔ بُرائی سے اجتناب کرے اور بُروں کا ساتھ نہ دے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ نئی نسل کو یہ بات بچپن ہی سے سمجھا دی جائے اور ان کے ذہن میں اسے راسخ کردیا جائے تاکہ وہ دین کے قدردان بن کراپنی دنیا و آخرت کا بہترین سامان کرسکیں۔ نیز اچھی صحبت اپنائیں اور بُرے لوگوں اور بُری صحبت سے اجتناب کریں۔

بدیع الزماں سعید نورسی مشرقی ترکی میں ۱۸۷۷ء میں پید اہوئے ، اسلام کے لیے قربانی اور   مثالی جدوجہد سے بھر پور زندگی گزارنے کے بعد ۸۳سال کی عمر میں ۱۹۶۰ ء میں انتقال فرماگئے۔ وہ اعلیٰ پائے کے عالم تھے، جنھوں نے نہ صرف روایتی مذہبی علوم کامطالعہ کیا بلکہ جدید سائنسی علوم پر بھی دسترس رکھتے تھے اور جوانی ہی میں اپنی غیرمعمولی صلاحیت اور علم کے بل بوتے پرانھوں نے بدیع الزماں کا لقب پایا۔ ’عمررسیدہ افراد کے نام‘ ان کی ترکی زبان میں لکھی گئی کتاب کا اُردو ترجمہ  عبدالخالق ہمدرد نے کیا ہے۔ اس کی تلخیص پیش ہے۔ (ادارہ)

جب میں نے بڑھاپے کی منزل میں قدم رکھا اور جاڑے کے ایک دن عصرکے وقت دنیا پرایک اونچے پہاڑ کی چوٹی سے نظر ڈالی تو اچانک ایک انتہائی تاریک اور غم ناک کیفیت میری   رگ رگ میں سرایت کر گئی۔میں نے اپنے آپ کو دیکھا کہ میں پیرفرتوت [بہت بوڑھا] ہوچکا ہوں، دن بوڑھا ہو گیا ہے، سال کو پیرانہ سالی نے آلیا ہے اور پوری دنیا نے بڑھاپے میں قدم رکھ دیا ہے۔ہرشے پر چھا جانے والے اس بڑھاپے نے مجھے بری طرح جھنجھوڑ ڈالا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ دنیاسے فراق کا وقت قریب آلگا ہے اور احباب سے فراق کی گھڑ ی بس سر پر کھڑی ہے۔پھر جس وقت میں مایوسی اور غم کی کیفیت سے دوچار تھا، اچانک رحمت الٰہیہ میرے سامنے اس طرح کھل گئی کہ اس نے اس دردناک غم اور دلی مسرت میں اور احباب کے اس قدر دردناک فراق کو ایسی تسلی میں بدل دیا، جس سے میرے نفس کا ایک ایک گوشہ روشن ہوگیا۔

اے میرے بوڑھے بھائیو اور بہنو!

اللہ سبحانہ وتعالیٰ جو اپنی ذات کو ہمارے سامنے پیش کرتا ہے اور قرآن کریم میں ۱۰۰ سے زائد مقامات پر اپنا تعارف الرحمنٰ و الرحیم کی صفات کے ساتھ کرتا ہے،جو جان داروں میں سے اس کی رحمت طلب کرنے والوں کی مدد اور کمک کے لیے ہمیشہ روے زمین پر اپنی رحمت کے دریا بہا دیتا ہے، جو عالم غیب سے تحفے بھیجتا ہے اور ہرسال بہار کو بے شمار نعمتوں سے بھردیتا ہے ۔ وہ یہ نعمتیں ہم  جیسے رز ق کے محتاجوں کے لیے بھیجتا ہے۔ اس سے وہ پوری وضاحت کے ساتھ اپنی گہری رحمت کی تجلیات کو ہمارے اندر پوشیدہ کمزوری اور عاجزی کے درجات کے مطابق ظاہر کرتا ہے۔ اس لیے ہمارے رحیم خالق کی رحمت سب سے بڑی امید اور اس پیرانہ سالی میں سب سے بڑا بلکہ سب سے روشن نور اورسہارا ہے۔

میرا وہ جسم جو میری روح کا ٹھکانہ ہے ، کمزور ہو کر مرورزمانہ کے ساتھ ایک ایک پتھر کرکے گرنے لگااور میری وہ امیدیں جو پوری طاقت سے مجھے دنیا سے جوڑتی تھیں، ان کی رسیاں بھی بوسیدہ ہو کر ٹوٹنے لگی ہیں۔ جس سے میرے دل میں بے شمار دوست واحباب کے فراق کے وقت کے قرب کا احساس پیدا ہوا اور میں اس گہرے روحانی گھائو کے لیے مرہم تلاش کرنے لگا، جس کے لیے کسی تریاق کے ملنے کی بظاہر کوئی اُمید نہیں ۔ 

جب میرے پائوں بڑھاپے کی دہلیز پر پڑے تو میری وہ جسمانی صحت جو غفلت کی مہار کو ڈھیلا چھوڑتی تھی ، کمزور اوربیما رپڑ چکی تھی ۔ چنانچہ بیماری اور پیرانہ سالی ایک ساتھ مل کر مجھ پر حملہ آور ہو ئیں اور میرے سر پر مسلسل ضربیں لگاتی رہیں، یہاں تک کہ انھوں نے میری غفلت کی نیند کو اُڑاکر رکھ دیا ۔ چونکہ میرے پاس کو ئی مال ، اولاداور ان جیسی کوئی اور چیز نہ تھی جو مجھے دنیا سے جوڑتی، اس لیے میں نے دیکھا کہ میں نے اپنی عمر کا وہ حصہ جو شباب کی غفلت میں ضائع کیا،   اس میں گنا ہوں اور خطاو ں کے سوا کچھ نہیں ۔

اچانک معجز بیان قرآن حکیم میری مدد اور تسلی کو آتا ہے اور میرے سامنے امید کا ایک عظیم دروازہ کھول کر امیدو رجا کا ایک ایسا روشن نور عطا کرتا ہے ، جو میری اس مایوسی سے کئی گنا بڑی مایوسی کو ہٹا کر میرے ارد گرد چھا ئے گھٹا ٹوپ اندھیروں کو نیست ونابود کر دیتا ہے ۔

اس لیے ا س بات میں کوئی شک نہیں کہ ا س نے جو کتابیں نازل فرمائی ہیں ان میں  کامل ترین کتاب قرآن مجید ہے ، جو معجز بیان ہے ، جس کی تلاوت کروڑ وںزبانوں پر ہر لمحے جاری رہتی ہے، جو روشنی پھیلاتا اور سیدھا راستہ دکھاتاہے ، جس کے ہر ہر حرف پر دس دس نیکیاں اور کم سے کم دس گنا اجر ہے۔ کبھی اس پر ۱۰ ہزار نیکیاں ، بلکہ ۳۰ہزار نیکیاں بھی ہوجاتی ہیں جیسے کہ    لیلۃ القدر میں ہوتاہے ۔ اس طرح یہ کتاب جنت کے وہ پھل اور برزخ کا وہ نور عطا کرتی ہے ، جو اللہ تعالیٰ نے بندۂ مومن کے لیے مقدرکر دیا ہے۔ کیا پوری کائنات میں کوئی ایسی کتاب ہے جو  اس کامقابلہ کرسکے ؟ کیا کسی کے لیے یہ دعویٰ کرنا ممکن ہے ؟

پس جب ہمارے سامنے موجود قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور اس کا ہم تک پہنچایا گیا حکم اور اللہ کی اس رحمت کا منبع ہے ، جو ہر شے پر محیط ہے اور وہ خالق ارض و سما جل و علا سے اس کی ربوبیت مطلقہ ، ا س کی الوہیت کی عظمت اور اس کی ہر شے پر محیط رحمت کے رخ سے صادر ہواہے، تو پھر اس سے چمٹ جااور اسے مضبوطی سے پکڑ لے کہ اس میں ہر بیماری کی دوا ، ہر اندھیرے کی روشنی اور ہر مایوسی کے لیے، اُمید ہے جب کہ اس ابدی ضرورت کی کنجی ایمان اور تسلیم ورضا ہے۔ اسے سننے، اس کے حکم کو بجا لانے اور اس کی تلاوت سے لطف اندوز ہونے کے سوا کچھ نہیں ۔

بڑھاپے کے آغاز میں جب میری خواہش تھی کہ لوگوں سے کنارہ کشی کرلوں ، میر ی روح نے ’خلیج باسفورس‘ کے اوپر واقع ’یوشع‘کی پہاڑی پر عزلت اور گوشہ نشینی کی راحت کو تلاش کیا ۔ پھر  ایک دن  جب میں اس اُونچی پہاڑی سے آفاق کی طرف دیکھ رہا تھا، تو میں نے بڑھاپے کی علالت کی وجہ سے زوال کی ایسی تصویر دیکھی ، جس سے حز ن و غم ٹپک رہا تھا۔ کیونکہ میں نے اپنی عمر کے درخت کی چوٹی، یعنی پینتالیسویں شاخ پر نظر ڈالی اور نیچے اتر تے اترتے اپنی زندگی کی سب سے نچلی منزل تک جاپہنچا، تو میں نے دیکھا کہ ہر سال کی شاخ میں میرے احباب اور دوستوں اور میرے متعلقین کے بے شمار جنازے ہیں۔

ان گہری حسرتوں میں میں نے امید کے کسی دروازے اور نور کے کسی روزن کو تلاش کرنا شروع کیا جس سے میں اپنے آپ کو تسلی دے سکوں ۔ چنانچہ آخرت پر ایمان کے نور نے میری دستگیری کی اور مجھے ایک زبر دست روشنی عطا کی۔اس نے مجھے ایسی روشنی دی جو کبھی نہیں بجھتی اور ایسی اُمید بخشی جو کبھی نااُمید ی میں نہیں بدل سکتی ۔

اے میرے بوڑھے بھائیو اور بہنو!

جب آخرت موجود ہے اور وہ دائمی ہے ، دنیا سے زیادہ خوب صورت ہے اور جس ذات نے ہمیں پید اکیا ہے وہ حکیم اور رحیم ہے، تو پھر ہم پر لازم ہے کہ ہم بڑھاپے کا شکوہ کریں اور نہ اس سے تنگ ہوں۔ کیونکہ ایمان اور عبادت سے بھر پور بڑھاپا جو آدمی کو عمرِ کمال تک پہنچاتاہے زندگی کے کاموں اور ذمہ داریوں کے ختم ہونے کی علامت اور عالم رحمت کی جانب آرام کی خاطر منتقل ہونے کا اشارہ ہے۔ اس لیے اس پر خوب اچھی طرح راضی رہنا چاہیے۔

جی ہاں! ایک لاکھ ۲۴ ہزار انبیاے کرام علیہم الصلوات والسلام میں سے بعض نے مشاہدے اور بعض نے حق الیقین کے ساتھ اجماع اور تو اتر سے دار آخرت کے وجود کی خبر دی، اور سب نے بالا تفاق اعلان فرمایا کہ لوگوں کو اس کی جانب لے جایا جائے گا اور حق سجانہ و تعالیٰ یقینا اس دن کو لائے گا ، جس کا اس نے قطعی وعدہ فرمایا ہے ۔

اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی حکمت جس میں کسی قسم کی کمی بیشی کا امکان نہیں، جو درختوں کی بے جان لاشوں اور ڈھانچوں میں جان ڈالتاہے، جو ہر سال کی بہار میں سطح زمین پر بے شمار درختوں کو ’کن‘ کے امرسے زندہ کرکے ان کو بعث بعد الموت کی علامت بناتاہے ، جس سے ۳لاکھ قسم کے حیوانات اور نباتات کو زندگی ملتی ہے۔ بے شک اس کی یہ قدرت حشر اور نشور کے سیکڑوں نمونے اور آخرت کے وجود کے دلائل کو ظاہر کرتی ہے ۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ کی وہ وسیع رحمت جو رزق کے محتاج جان داروں کی زندگی کو دوام بخشتی ہے اور کمال شفقت سے ان کو غیر معمولی انداز میں زندہ رکھتی ہے، اور اللہ تعالیٰ کا وہ دائمی لطف وکرم جو ہر بہار کی مختصر سی مدت میں لاتعدا د طریقوں سے خوب صورتی اور حُسن وجمال کے مظاہر دکھاتا ہے ، بلاشبہہ بدیہی طور پر آخرت کے وجود کاتقاضا کرتاہے ۔

اسی طرح کائنات کے کامل ترین پھل، یعنی انسان کی فطرت میں بقا کاعشق اور ابدیت اور سرمدیت کا شوق اس طرح پنہاں ہے کہ وہ کبھی اس سے جدا نہیں ہوتا ، جب کہ انسان اللہ تعالیٰ کی محبوب ترین مخلوق اور ساری کائنات سے زیادہ اس سے تعلق رکھنے والا ہے ۔ اس لیے یہ انسان بھی بدیہی طور پر اس عالم فانی کے بعد ایک عالم باقی اور عالم آخرت اور دار سعادت کے وجودکی  جانب اشارہ کرتا ہے ۔ 

قرآن کریم کا سب سے اہم سبق آخرت پر ایمان ہے اور یہ درس انتہائی مضبوط اور قوی ہے۔ اس ایمان میں ایسا زبردست نور اور عظیم تسلی ہے کہ اگر ایک شخص میں سو بڑھا پے بھی جمع ہوجائیں تو یہ ان کو کافی ہوجائے ، کیونکہ یہ اُمید اور تسلی اسی ایمان سے حاصل ہوتی ہے ۔ اس لیے ہم بوڑھوں پر لازم ہے کہ ہم خوشیاں منائیں اور یہ کہیں کہ ایمان کے کمال پر اللہ کا شکر ہے ۔

اے عمر رسیدہ مردو! اور اے عمر رسیدہ عورتو! جب ہمارا خالق رحیم ہے تو پھر ہم کبھی بھی اجنبیت کا شکار نہیں ہو سکتے ۔ جب حق تعالیٰ شانہ موجود ہے تو ہر شے ہمارے لیے موجود ہے ، جب اللہ تعالیٰ موجود ہے اور اس کے فرشتے بھی موجود ہیں، تو یہ دنیا مونس وغم خوار سے خالی نہیں، اور یہ خالی پہاڑ اور وہ چٹیل ریگستان ، سب کے سب اللہ تعالیٰ کی برگزیدہ مخلوق یعنی فرشتوں سے بھرے ہوئے ہیں ۔ یہ سب چیزیں ہمارے خالق رحیم وکریم، ہمارے صانع اور حامی کی جانب رہنمائی کرتی ہیں، جب کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عاجزی اور کمزوری اس اُونچے اور اعلیٰ دروازے پر سب سے بڑے سفارشی ہیں۔ اور سب جانتے ہیں کہ بڑھاپے کا زمانہ عاجزی اور کمزوری کا وقت ہوتا ہے۔ اس لیے ہم اس سے منہ نہ موڑیں کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے دربار عالی میں ہمارا شفیع ہے۔

اے میرے بوڑھے بھائیو! اے میری عمر رسیدہ بہنو! 

اور وہ لوگو جو میری طرح بڑھاپے کی تھکن سے چُور چُور ہو! جب ہم اللہ کے فضل سے اہل ایمان ہیں، جب کہ ایمان کے نتیجے میں اس حد تک میٹھے ، روشن ، لذیذاور محبوب پھل ہیں اور بڑھاپا ہمیں ان خزانوں کی طرف زیادہ تیزی سے دھکیل رہا ہے، تو ہمیں بڑھاپے کی شکایت نہیں کرنی چاہیے ، بلکہ ضروری ہے کہ ہم اللہ عزوجل کا ہزار بار شکر ادا کریں اور ایمان سے منور اپنے بڑھاپے پر اس کی حمدو ثنا کریں ۔

میرے سرمیں چاندی اُتر آئی، جو بڑھاپے کی علامت ہے ۔ مجھے حضرت زکریاؑ کی پکار یاد آگئی، جب انھوں نے اپنے رب کو پکارا:

کٓھٰیٰعٓصٓ o ذِکْرُ رَحْمَتِ رَبِّکَ عَبْدَہٗ زَکَرِیَّا o اِذْ نَادٰی رَبَّہٗ نِدَآئً خَفِیًّا o قَالَ رَبِّ اِنِّیْ وَ ھَنَ الْعَظْمُ مِنِّیْ وَ اشْتَعَلَ الرَّاْسُ شَیْبًا وَّ لَمْ اَکُنْم بِدُعَآئِکَ رَبِّ شَقِیًّا o (مریم ۱۹:۱-۴)  یہ ذکر ہے اُس رحمت کا جو تیرے رب نے اپنے بندے زکریاؑ پر کی تھی، جب کہ اس نے اپنے رب کو چپکے چپکے پکارا۔اس نے عرض کیا:’’اے پروردگار! میری ہڈیاں تک گُھل گئی ہیں اور سر بڑھاپے سے بھڑک  اُٹھا ہے۔ اے پروردگار، میں کبھی تجھ سے دعا مانگ کر نامراد نہیں رہا۔

ان سفید بالوں کے ظاہر ہونے اور ان کی نصیحت کی وجہ سے حقیقت مجھ پر واضح ہوئی۔ کیونکہ میں نے دیکھاکہ وہ شباب جس پر مجھے گھمنڈتھا ، بلکہ جس کی لذتوں پر میں  فدا تھا ، مجھے الوداع کہہ رہا ہے اور دنیا کی وہ زندگی جس کی محبت سے میں جڑا ہوا تھا ، رفتہ رفتہ بجھنے لگی اور وہ دنیا جس سے میں چمٹا ہو اتھا ، جس کا میں مشتاق اور خوگر تھا ، اسے میں نے دیکھا کہ مجھے الوداع کہہ کر یہ احساس دلارہی ہے کہ میں اس سراے سے کوچ کروں گا اور عنقریب اسے چھوڑ دوں گا۔ میں نے دنیا کو دیکھا کہ وہ خود الوداع کہتے ہوئے، رخت ِسفر باندھ رہی ہے ۔ اس آیت کریمہ کل نفس ذائقۃ الموت کی کلیت اور عموم سے درج ذیل معانی دل میں آئے :

ساری انسانیت ایک نفس کی طرح ہے ، اس لیے ضروری ہے کہ وہ دوبارہ زندہ کیے جانے کی خاطر موت کو گلے لگائے ۔ اس طرح کرۂ ارض بھی ایک نفس ہے ، اس لیے ضروری ہے کہ وہ بھی مرجائے اور تباہی کا شکار ہو تاکہ اسے بقا اور خلود کی شکل مل سکے ۔ اسی طرح دنیا بھی ایک نفس ہے جو مرکر ختم ہو جائے گی تاکہ آخرت کی صورت اختیار کر سکے ۔

میں نے اپنی حالت پر غور کیا تو معلوم ہو ا کہ جوانی جو لذتوں اور قوتوں کا مدار ہے زوال کی طرف بڑھ رہی ہے اور اپنی جگہ بڑھاپے کو چھوڑ ے جارہی ہے ، جو غموں کا منبع ہے اور ظاہری روشن زندگی پا بہ رکاب ہے، جب کہ اندھیرے اور خوف ناک موت اس کی جگہ لینے کے لیے تیا ر کھڑے ہیں۔

میں نے اپنی غفلت سے ایک بار پھر جاگنے اور اس سے مکمل طور پر بیدار ہونے کے لیے قرآن سننا شروع کر دیا تاکہ قرآن کے آسمانی دروس سے مستفید ہو سکوں۔ چنانچہ اس وقت میں نے درج ذیل آیت میں موجود مقدس خدائی اوامر کے ذریعے اس آسمانی راہنما ئی کی خوش خبریاں سنیں:

وَ بَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ ط کُلَّمَا رُزِقُوْا مِنْھَا مِنْ ثَمَرَۃٍ رِّزْقًا لا قَالُوْا ھٰذَا الَّذِیْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ لا وَ اُتُوْا بِہٖ مُتَشَابِھًا ط وَ لَھُمْ فِیْھَآ اَزْوَاجٌ مُّطَھَّرَۃٌ ق وَّ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ  (البقرہ ۲:۲۵) اور اے پیغمبر،جو لوگ اس کتاب پر ایمان لے آئیں اور (اس کے مطابق) اپنے عمل درست کرلیں، انھیں خوش خبری دے دو کہ اُن کے لیے ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ اُن باغوں کے پھل صورت میں دنیا کے پھلوں سے ملتے جلتے ہوں گے۔ جب کوئی پھل اُنھیں کھانے کو دیا جائے گا تو وہ کہیں گے کہ ایسے ہی پھل اس سے پہلے دنیا میں ہم کو دیے جاتے تھے۔ ان کے لیے وہاں پاکیزہ بیویاں ہوں گی، اور وہ وہاں ہمیشہ رہیں گے۔

چنانچہ میں نے اس چہرے پر نظر ڈالی جو سب کو ڈراتا ہے اور یہ وہم ہوتا ہے کہ وہ انتہائی خوف ناک ہے، یعنی موت کا چہرہ، تو میں نے قرآن کریم کے نور سے دیکھا کہ مومن کے لیے موت کا حقیقی چہرہ خوب صورت اور روشن ہے ، حالانکہ اس کا حجاب تاریک ہے اور اسے چھپانے والے پردے پر خوف ناک سیاہی چھائی ہوتی ہے۔

موت آخری قتل ہے نہ ابدی فراق ہی ، بلکہ یہ ابدی زندگی کا مقدمہ اور اس کی تمہید ہے ۔ موت زندگی کے کاموں اور ذمہ داریوں کا خاتمہ اور ان سے رخصت اور سبکدوشی ہے۔ یہ ایک جگہ کی دوسری سے تبدیلی ہے اور ان احباب کے قافلے سے وصال اور ملاقات ہے، جو عالم برزخ کی طرف کوچ کر چکے ہیں۔

اس کے بعد میں نے زمانۂ شباب پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ اس کا زوال سب کو غمگین کرتا ہے اور سبھی اس کے مشتاق اور دلدادہ ہوتے ہیں، جب کہ یہی شباب غفلت اور گناہوں میں بیت جاتا ہے ۔ میرا شباب بھی اسی طرح گزرا ہے، چنانچہ میں نے دیکھا کہ جوانی پر پڑی خوب صورت اور کھلی خلعت کے نیچے ایک انتہائی بدصور ت ،بدمست اور عبرت ناک چہرہ چھپا ہوا ہے۔ اگر میں اس کی حقیقت نہ جانتا تو وہ مجھے ساری زندگی رُلاتا اور غم زدہ کرتا رہتا، اگر چہ مستی اور ہنسی میں گزرنے والے چند برسوں کے مقابلے میں میر ی عمر سو سال ہی کیوں نہ ہو جاتی جسے زمانہ شباب پر انتہائی حسرت سے رونے والے شاعر نے کہا ہے    ؎

جوانی پلٹ کر جو آتی کبھی

بڑھاپے کی سختی بتاتا اسے

جی ہاں! جن بوڑھوں کو جوانی کا راز اور اس کی حقیقت معلوم نہیں ہوتی وہ اس شاعر کی طرح اپنا بڑھاپا جوانی پر رونے اور افسوس کرنے میں گزار دیتے ہیں، جب کہ سمجھ دار اور پُرسکون مومن کی زندگی میں جب شباب کی قوت اور خوب صورتی آتی ہے اور اگر وہ شباب کی اس طاقت اور قوت کو عبادت، اعمالِ صالحہ اور اُخروی تجارت میں استعمال کرتا ہے، تو وہ خیر کی سب بے بڑی قوت، تجارت کا سب سے افضل ذریعہ اور خوب صورت ترین بلکہ لذیز ترین نیکیوں کا وسیلہ بن جاتی ہے۔

جی ہاں !عہدشباب سچ مچ نہایت نفیس اور بہت قیمتی متاع ہے ۔ یہ بہت بڑی خدائی نعمت ہے اور جو شخص اپنے اسلامی فرائض کو جانے اور اسے غلط استعمال نہ کرے اس کے لیے وہ ایک لذیذ نشہ ہے ۔ اس کے مقابلے میں اگر جوانی میں استقامت ، عفت اور تقویٰ نہ ہو تو پھر ہلاکت اور تباہی ہے۔ کیونکہ ایسے میں جوانی کے جذبات اور طیش آدمی کی ابدی خوشی ، اخروی زندگی اور ممکنہ طور پر دنیا کی زندگی کو بھی تباہ کر دیتا ہے، اور چند برسوں کی لذتوں اور مزوں کے بدلے اسے بڑھاپے میں طرح طرح کی مصیبتوں اور تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

چونکہ اکثر لوگوں کے ہاں زمانہ شباب نقصان سے خالی نہیں ہوتا، اس لیے ہم بوڑھوں پر لازم ہے کہ اس بات پر اللہ کا شکر کریں کہ اس نے ہمیں شباب کی تباہیوں اور نقصان سے نجات دی ہے۔ اس شباب کی لذتیں بھی دوسری تمام چیزوں کی طرح لامحالہ ختم ہونے والی ہیں۔ اس لیے اگر عہد شباب کو عبادت، بھلائی اور نیکی میں لگایا جائے تو قیامت میں اس کے دائمی اور سدارہنے والے ثمرات ہوں گے، اور یہ جوانی ابدی زندگی میں ہمیشہ کی جوانی اور کامیابی حاصل کرنے کا ذریعہ ہوگی۔

یہ کہتے ہوئے میں نے غور کیا کہ بے شک میری بھی ایک خاص دنیا ہے جو کسی بھی دوسرے شخص کی دنیا کی طرح منہدم ہو رہی ہے، تو پھر میری اس مختصر سی عمر میں اس مخصوص دنیا کا کیا فائدہ ہے؟ چنانچہ میں نے قرآن کریم کے نور سے دیکھا کہ یہ دنیا میرے اور دیگر لوگوں کے لیے  ایک عارضی مکان کے سوا کچھ نہیں۔ یہ ایک مہمان سراے ہے جو روز بھرتی اور خالی ہوتی رہتی ہے۔ یہ آنے جانے والوں کے لیے سڑک کے کنارے لگایا جانے والا ایک بازار ہے۔ یہ خالق کائنات کی کھلی کتاب ہے ، جس میں وہ اپنی حکمت کے مطابق جو چاہتا ہے باقی رکھتا ہے اور جو چاہتا ہے مٹادیتا ہے۔ اس دنیا کی ہر بہار ایک سنہری خط اور ہر موسم ایک خوب صورت قصیدہ ہے ، جو اللہ تعالیٰ کے اسماے حسنیٰ کی تجلیات کو ظاہر کرتے ہوئے بار بار آتا ہے۔ یہی دنیا آخرت کی فصل کی کھیتی اور اس کا باغ ہے۔ یہ رحمت الٰہیہ کا گلدان اور ان ابدی اور خدائی شاہکاروں کو تیار کرنے کا عارضی کارخانہ ہے، جو عالم بقاوخلود میں ظاہر ہوں گے ۔ چنانچہ میں نے دنیا کو اس شکل میں پیدا کرنے پر خالق ذوالجلال کا انتہائی شکر ادا کیا، لیکن جس انسان کو اسماے حسنیٰ اور آخرت سے تعلق والے دنیا کے دو حقیقی اور خوب صورت چہرے عطا ہوئے ہیں، اگر وہ اس محبت کو غلط جگہ استعمال کرتا ہے تو وہ اپنے ہدف سے ہٹ کر غلطی میں پڑ جاتا ہے۔ کیونکہ اس نے اس محبت کو دنیا کے فانی، قبیح اور غفلت اور نقصان والے چہرے کی طرف موڑ دیا ، یہاں تک کہ اس پر یہ حدیث صادق آتی ہے:  ’’دنیا کی محبت ہر خطا کی جڑ ہے‘‘۔

اے بوڑھے مردو! اور بوڑھی عورتو!

میں نے یہ حقیقت قرآن کریم کے نور، اپنے بڑھاپے کی نصیحت اور ایمان کے نور کے ذریعے دیکھ لی ہے اور اس کو کئی رسائل میں قطعی دلائل سے ثابت کر دیا ہے۔ میں نے دیکھا کہ یہ حقیقت میرے لیے حقیقی تسلی، قوی اُمید اور کھلی روشنی ہے۔ چنانچہ میں اپنے بڑھاپے پر راضی اور شباب کے جانے پر خوش ہوا۔

اس لیے میرے بوڑھے بھائیو! تم بھی غم نہ کھائو اور اپنے بڑھاپے پر آنسو مت بہائو،بلکہ اللہ کا شکر اور اس کی تعریف کرو۔ جب تمھارے پاس ایمان کی دولت ہے تو پھر غافلوں کو رونے دو اور گمراہوں کو غم میں گھلنے اور آنسو بہانے دو۔

اے سن رسیدہ خواتین وحضرات!

یہ بات اچھی طرح جان لوکہ بڑھاپے کی عاجزی اور کمزوری اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے کرم کو متوجہ کرنے کے ذریعے کے سواکچھ نہیں۔کیونکہ میں اپنی زندگی کے کئی واقعات کی روشنی میں اس بات کا گواہ ہوں۔ اسی طرح روے زمین پر رحمت کی تجلی کا ظہور بھی بڑے واضح انداز میں ہو رہا ہے۔ حیوانات کے بچے سب سے کمزور اور ناتواں ہوتے ہیں، جب کہ رحمت کے لطیف ترین ، لذیز ترین اور خوب صورت ترین حالات کی تجلی    انھی میں نظر آتی ہے۔ کیونکہ کسی گھنے پیڑ پر آشیانے میں پڑے چوزے کی عاجزی ، اس کی ماں کو رحمت کی تجلی کے ذریعے یوں استعمال کرتی ہے جیسے وہ حکم کی منتظر ایک سپاہی ہے ۔ چنانچہ وہ سرسبز و شاداب کھیتوں کے گرد گھوم کر اپنے چوزے کے لیے وافر مقدار میں رزق لاتی ہے۔ لیکن جوں ہی وہ چوزہ پَر نکلنے اور بڑا ہونے کے بعد اپنی کمزوری کو فراموش کرتا ہے تو اس کی ماں اس سے کہہ دیتی ہے کہ اب اپنا رزق خود تلاش کرو اور اس کے بعد وہ اس کی آواز پر کوئی توجہ نہیں دیتی۔

پس جس طرح رحمت کا راز اس شکل میں چھوٹوں کے لیے جاری وساری ہے اسی طرح ضعف اور عاجزی کی وجہ سے بوڑھوں کے لیے بھی ہے، کیونکہ وہ بھی بچوں کی مانند ہو جاتے ہیں۔

مجھے اپنے ذاتی تجربات سے اس بات کا یقینِ کامل حاصل ہو گیا ہے کہ جس طرح کمزوری کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی رحمت چھوٹے بچوں کا رزق غیر معمولی انداز میں ماں کے سینے سے چشمے جاری کرکے بھیجتی ہے، اسی طرح گناہوں سے بچنے والے ایمان دار بوڑھوں کا رزق بھی رحمت الٰہیہ کی جانب سے برکت بن کر آتا ہے، جب کہ ہر گھر کی برکت کا مدار اور محور اس گھر کے بوڑھے ہی ہوتے ہیں۔ یہ بات ایک حد یث سے پوری طرح ثابت ہوتی ہے جس میں وارد ہوا ہے۔

اگر خمیدہ پشت بوڑھے نہ ہوتے تو تمھارے اوپر مصیبتوں کے انبار لگ جاتے۔ اس طرح چونکہ بڑھاپا، عاجزی اور کمزوری اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت کو متوجہ کرنے کا سبب بنتی ہے اور قرآن کریم ان آیات میں:

وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا ٓ اِیَّاہُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا ط اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ اَحَدُھُمَآ اَوْ کِلٰھُمَا فَـلَا تَقُلْ لَّھُمَآ اُفٍّ وَّ لَا تَنْھَرْ ھُمَا وَ قُلْ لَّھُمَا قَوْلًا کَرِیْمًا o وَ اخْفِضْ لَھُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا o  (بنی اسرائیل ۱۷:۲۳-۲۴) اگر ان میں  سے ایک یا دونوں تمھارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو اف تک نہ کہنا اور نہ انھیں جھڑکنا اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا۔ اور عجز ونیا ز سے ان کے آگے جھکے رہو اور ان کے حق میں دعا کر و کہ ’’اے پروردگار جیسا انھوں نے بچپن میں مجھے شفقت سے پالا تھا ، تو بھی ان کے حال پر رحم فرما ‘‘۔

انتہائی معجزانہ اسلوب کے ساتھ پانچ مراتب میں والدین کے ساتھ احترام اور نرمی سے پیش آنے کی دعوت دیتا ہے اور انسانی فطرت تقاضا کرتی ہے کہ بوڑھوں کے ساتھ احترام اور رحمت کا سلوک کیا جائے۔ توپھر بوڑھوں پر بھی لازم ہے کہ وہ اپنے اس بڑھاپے کو بچپن کے سو زمانوں سے بھی نہ بدلیں، کیونکہ اس بڑھاپے میں بہت سی روحانی لذتیں ہیں، وہ اس میں اللہ تعالیٰ کے لطف وکرم سے پھوٹنے والی رحمت اور انسانیت کی فطرت سے جنم لینے والے احترام سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

پس اے وہ شخص جو میری طرح بڑھاپے کی طرف رواں دواں ہے! اے شخص جو بڑھاپے کی علامتوں کی وجہ سے موت کو یاد کر رہا ہے! اس پر لازم ہے کہ بڑھاپے کی علامتوں کی وجہ سے موت اور بیماری کو دل سے قبول کرلیں اور قرآن کریم کے لائے ہوئے ایمان کے نور کے ذریعے اسے ایک نعمت سمجھیں، بلکہ ہم پر لازم ہے کہ ہم ایک رخ سے اس سے محبت کریں۔ کیونکہ جب ہمارے پاس ایمان کی نعمت موجود ہے تو پھر بڑھاپا اچھا ہے، بیماری اچھی ہے اور موت بھی اچھی ہے۔

میراوجدان کہتاہے کہ میراایک ایسا پالنے والا خالق ہونا چاہیے ، جو میرے دل کے  لطیف خیالات اورپوشیدہ ترین امید اور دعا کو جانتا اور سنتا  ہو اور اس کی قدرت مطلق ہو ، تاکہ وہ میری روح کی خفیہ ترین ضروریات کو بھی پورا کر ے اور اس عظیم دنیا کو بھی ایک اور دنیا سے بدل دے، تاکہ مجھے دائمی سعادت حاصل ہو جائے اور اس دنیا کو ختم کر نے کے بعد آخرت برپا کر دے۔  وہ ایسا خالق ہو کہ جس طرح وہ مکھی کو پیدا کرتا ہے ، اسی طرح آسمانوں کو بھی وجود میں لائے۔ پھر جس طرح اس نے آسمان کے چہرے کو سورج سے خوب صورتی بخشی ہے اسی طرح اس کے ایک ذرے کو میر ی آنکھ کی پتلی میں لگادیا ہے ، ورنہ جو ذات مکھی پیدا نہیں کرسکتی وہ میرے دل کے خیالات میں مداخلت کر سکتی ہے اور نہ میری روح کی عاجزی کو ہی سن سکتی ہے، اور جو ذات آسمانوں کو پیدا نہیں کرسکتی وہ مجھے ابدی سعادت بھی نہیں دے سکتی ۔ اس لیے میرا رب وہ ہے جو میرے  دل کے خیالات کو سنتا اور ان کی اصلاح کرتا ہے ۔ پس جس طرح وہ ایک لمحے میں فضا کو بادلوں سے بھرتا اور پھر خالی کردیتا ہے ، اسی طرح وہ اس دنیا کو بدل کر آخرت بھی لے آئے گا اور جنت کو آباد کرے گا، اور یہ فرماتے ہوئے اس کے دروازے کھول دے گا کہ چلو اندر داخل ہو جائو۔

اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر اور احسان ہے کہ اس نے مجھے دنیا کی ان بے حقیقت اور بے لطف لذتوں کے بجاے جن کے انجام میں بھی کوئی خیر نہیں ، ان حقیقی ، ایمانی اور دائمی لذتوں کو لا الٰہ الااللہ اور تو حید کے نور میں پانے کی توفیق بخشی ۔ میں اس کا شکر اد اکرتا ہوں کہ اس نے مجھے توفیق دی کہ بڑھاپے کو ہلکا سمجھوں،اس کی گرمی اور روشنی سے لطف اٹھاوں اور غافلوں کی طرح اس میں سردی اور بوجھ محسو س نہ کروں ۔

اے میرے بھائیو!

جب تمھارے پاس وہ نماز اور دعا ہے جو ایمان کو روشن کرتی ہے، بلکہ اس میں اضافہ کرتی اور اسے صیقل کرتی ہے، تو تم اپنے بڑھاپے کو ایک دائمی جوانی کی طرح دیکھ  سکتے ہو۔ کیونکہ اس کے ذریعے تم دارالخلود میں جوانی حاصل کر سکتے ہو، جہاں حقیقی ٹھنڈاپانی اور  بے حدوحساب عنایات ہوں گی۔انتہائی بوجھل اور بڑا بلکہ تاریک اور درد ناک بڑھاپا گمراہوں کا بڑھاپا ہوگا، بلکہ ہو سکتا ہے کہ ان کی جوانی کا بھی یہی حال ہو۔ اس لیے وہ روئیں گے، پیٹیں گے اور کہیں گے: افسوس … صد افسوس!

اے محترم مومن بوڑھو!ان کے مقابلے میں تم پر لازم ہے کہ پوری خوشی اور سرور کے ساتھ یہ کہتے ہوئے اپنے رب کا شکر ادا کرو: ہر حال پر اللہ کا شکر ہے۔

اے میرے بوڑھے بھائیو اور بہنو!

اور وہ لوگو جو میری طرح بڑھاپے میں اپنے  عزیز ترین بچے کھو چکے ہو۔ یا ان کا کوئی عزیز داغ مفارقت دے گیا ہو! اور اے وہ لوگو جن کے کاندھے بڑھاپے کا بوجھ اٹھانے سے عاجز ہیں، جب کہ اس کے ساتھ ساتھ ان کے سر پر فراق سے پیدا ہونے والے زبردست غم بھی ہیں۔ اس بات میں ذرا بھی شک نہیں کہ قرآن کے مقدس دواخانے میں تمھاری ہر بیماری اور سُقم کا علاج موجود ہے۔ اس لیے اگر تم ایمان کے ذریعے دواخانے سے رجوع کر سکو اور عبادت کے ذریعے ان کا علاج کرو تو یقینا تمھارے کاندھوں پر پڑے بڑھاپے اور سر پر اٹھائے غموں کے بوجھ کا وزن اور زور کم ہو جائے گا۔

مطلب یہ ہے کہ انسان کو ہلاک اور تباہ کرنے والی سب سے بڑی چیزاحباب کا بچھڑنا ہے۔ جس وقت میری روح کسی سہارے اور مدد کو تلاش اور لا محدود فراق، جدائیوں اور تباہ کاریوں اور عظیم اموات سے پیدا ہونے والے غموں اور دکھوں سے نجات کے لیے کسی تسلی کی منتظر تھی، اچانک قرآن معجز بیان کی اس آیت نے میرے لیے اطمینانِ قلب کا سامان کر دیا: سَبَّحَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ج وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُo لَـہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ج یُحْیٖ وَیُمِیْتُ ج  وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ o (حدید۵۷:۱-۲) ’’اللہ کی تسبیح کی ہے ہراُس چیز نے جو زمین اور آسمانوں میں ہے،اور وہی زبردست اور دانا ہے۔ زمین اور آسمانوں کی سلطنت کا مالک وہی ہے، زندگی بخشتا ہے اور موت دیتا ہے، اور ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے‘‘۔

دنیا ویران اور غیر آباد ہے اور نہ کوئی تباہ شدہ شہر، جیسا کہ میں غلطی سے سمجھتا تھا، بلکہ  مالکِ حقیقی اپنی حکمت کے تقاضے کے مطابق انسان کی بنائی ہوئی عارضی تصویروں کو دوسری تصویروں سے بدل کر اپنے پیغامات کی تجدید کرتا ہے ۔ اس لیے جس طرح درخت پر ایک پھل کٹنے کے بعد نیا پھل لگتا ہے، اسی طرح بشریت میں فراق اور زوال بھی تجدید اور تجدد کے لیے ہے۔ اس کی وجہ سے تکلیف دہ غم پیدا نہیں ہوتا، بلکہ ایمان کے رخ سے ایک لذیذ غم ملتا ہے، جس کا سرچشمہ وہ فراق ہوتا ہے جس کا اختتام وصال کی پُرکیف لذت پرہوتاہے۔

اے میرے بوڑھے بھائیو اور میری سن رسیدہ بہنو!

اور اے وہ لوگو جو بڑھاپے کی وجہ سے میری مانند بہت سے احباب کے فراق کا درد واَلم گھونٹ گھونٹ کر کے پی رہے ہو!میں روحانی طور پر اپنے آپ کو تم سے زیادہ بوڑھا سمجھتا ہوں اگر چہ تم میں ایسے لوگ ہیں جو عمر میں مجھ سے بڑے لگتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنی تکلیف کے علاوہ میں اپنے ہزاروں بھائیوں کی تکلیف بھی محسوس کرتا ہوں، کیونکہ میری فطرت میں اپنے ابناے جنس کے لیے بڑی نرمی اور شفقت پائی جاتی ہے۔ اس وجہ سے مجھے یوں تکلیف ہوتی ہے جیسے میں سیکڑوں سال کا پیر فرتوت ہوں۔ اس کے مقابلے میں تمھیں فراق کا جتنا بھی درد ہو، تمھیں میری تکالیف اور مصیبتوں کا سامنا ہی نہیں ہوا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ میرا کوئی بیٹا نہیں کہ میں اس کی فکر کروں ، مگر میں اپنی فطرت میں پوشیدہ شفقت کی وجہ سے ہزاروں فرزندانِ اسلام کی تکالیف اور مصائب کو بلکہ جنگلی جانوروںتک کی تکلیف کو بھی محسوس کرتا ہوں۔ علاوہ ازیں میں اپنے آپ کو اس ملک بلکہ پوری اسلامی دنیا سے جڑا ہوا سمجھتا ہوں۔ اس ملک اور اسلامی دنیا سے میرا تعلق ایسا ہے جیسے اپنے گھر سے ہوتا ہے، حالانکہ میرا اپنا کوئی ذاتی گھر نہیں کہ میرے ذہن کا تعلق اس سے ہو۔ اس لیے میں اس ملک اور اسلامی دنیا کے تمام مسلمانوں کے درد کو محسوس کرتے ہوئے ان کے فراق پر غمگین ہوتا ہوں۔

جب ایمان کا نور میرے لیے پوری طرح کافی ہو گیا اور اس نے میرے بڑھاپے اور جدائی کی تکالیف سے پیدا ہونے والے تمام اثرات کا خاتمہ کر دیا، اور مجھے مایوس نہ ہونے والی اُمید، نہ ختم ہونے والی آس، نہ بجھنے والی روشنی اور نہ ختم ہونے والی تسلی دے دی ہے، تو پھر ضروری ہے کہ ایمان تمھارے لیے بھی بڑھاپے سے پیدا ہونے والے اندھیروں اور اس کی غفلت اور اس سے پیدا ہونے والے اثرات اور درد واَلم کے مقابلے میں بھی کافی ہو جائے۔ سچی بات یہ ہے کہ سب سے زیادہ سیاہ بڑھاپا اہل ضلالت اور بے وقوفوں کا ہے، اور سب سے زیادہ تکلیف دہ جدائی اور درد بھی انھی کا ہے۔

جی ہاں، وہ ایمان جو اُمید پیدا کرتا ہے ، جو نور پھیلاتا اور تسلی دیتا ہے، اس تسلی اور لذت کا احساس شعوری طور پر اس بندگی کو بجا لانے سے ہوتا ہے جو بڑھاپے کے مناسب اور اسلام کے موافق ہو۔ یہ احساس بڑھاپے کو بھلانے اور نوجوانوں سے مشابہت اختیار کرنے کی کوششوں اور ان کی نشہ آور غفلت میں گھسنے سے نہیں ہوتا۔ ہمیشہ اس حدیث پر غور وفکر کرو کہ تمھارے سب سے اچھے نوجوان وہ ہیں جو بوڑھوں سے مشابہت اختیار کریں اور سب سے بُرے بوڑھے وہ ہیں جو تمھارے نوجوانوں سے مشابہت اختیار کریں۔مطلب یہ ہے کہ سب سے اچھے نوجوان وہ ہیں جو تحمل ، متانت اور بے وقوفی سے بچنے میں بوڑھوں سے مشابہت اختیار کریں، اور سب سے بُرا بوڑھا وہ ہے ، جو بے وقوفی اور غفلت میں نوجوانوں سے مشابہت اختیار کرے۔

میرے بوڑھے بھائیو اور بوڑھی بہنو!

ایک حدیث کا مفہوم ہے: اللہ کی رحمت کو  اس بات سے حیا آتی ہے کہ کسی بوڑھے مومن مرد یا عورت کے دعا کے لیے اٹھے ہاتھ کو خالی لوٹا دے ۔ پس جب اللہ کی رحمت تمھارا احترام کرتی ہے تو تم بھی اللہ کی بندگی کر کے اس کا احترام اورتعظیم کرو۔ ہم اُس عالم کی جانب رواں دواں ہیں جہاں نبی کریمؐ تشریف لے گئے ہیں۔    اسی عالم کی طرف جارہے ہیں جو اس سراجِ منیر کے نور اور اس کے گرد ہالہ کیے ہوئے بے شمار  اصفیا واولیا کے ستاروں سے روشن ہے ۔ نبی کریم ؐکی سنت کی پیروی ہی آدمی کو آپؐ کی شفاعت کے جھنڈے تلے کھڑے ہونے، آپؐ کے انوار سے روشنی لینے، اور برزخ کے اندھیروں سے نجات کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔

تنظیمِ وقت (Time Management) ایک ایسی صلاحیت کا نام ہے جس کی بنیاد آپ کی اپنی ذات ہے۔ جب تک آپ اپنی ذات کی بہتری اوراصلاح نہیں کرلیتے اس وقت تک  آپ اپنے مہیا وقت کو بہتر طریقے سے استعمال نہیں کرسکتے۔ لہٰذا اپنی ذات کی تنظیم ،بہتری ، ترقی اوراخلاق اور کردار میں بڑھوتری کی کوشش آپ کی تنظیمِ وقت کی صلاحیت کو نکھا ر دے گی۔

تنظیمِ وقت کے حوالے سے پانچ مراحل ترتیب دیے گیے ہیں۔ ان مراحل کے ذیلی حصے بھی ہیں۔ اپنی تربیت ، تزکیہ، ترقی، اپنی ذات کی ترتیب اور اپنی کارکردگی کو بڑھانے کے لیے   ان نکات پر غور کیجیے۔

پہلا مرحلہ:  شخصیت کا جائزہ

اپنے آپ کو پہچانئے

  • تنہائی میں بیٹھ کر اپنا جائزہ لیں ۔ خالق سے رابطہ قائم کریں اور سوچیں کہ اس نے مٹی کے اس پُتلے میں روح کے ساتھ کتنی نعمتیں، صلاحیتیں اور کتنے رشتے پیدا کیے۔
  • مالک کی دی ہوی نعمتیں شمار نہیں ہو سکتیں،البتہ اپنے تصور میں لانے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔

اپنی شناخت کو ضبط تحریر میں لائیں

  • احساس کیجیے کہ آپ کیا  تھے، کیا ہیں اور مالک کی نعمتوں کا یہی سلسلہ رہا تو کیا کچھ ہو سکتا ہے۔
  • ہفتے میں ایک دن ضرور تنہائی میں اپنے آپ سے ملاقات کیجیے اور اس ملاقات کے نوٹس لیجیے۔
  • اپنی ذات کو وقت دیجیے اور اس سے باقاعدگی سے ملاقات کیجیے۔ یہ ذات آپ  کے ساتھ ہوتے ہوئے عموماً آپ سے دُور اورمحروم رہتی ہے ۔

اپنے مثبت اور منفی معاملات کو دیکھیں

  • آپ یقینا اس دنیا کے کروڑوں افراد سے بہترہیں اور کروڑوں افراد آپ سے بہتر ہیں۔آپ اپنی کئی خامیوں کو محض کوشش سے دُور کرسکتے ہیں۔
  • ہر ہفتے، اپنی خامیوں کا جائزہ لیں اور انھیں کم کرنے کی کوشش کریں۔
  • اس کام کے لیے اپنی نوٹ بک بنائیں اوراس کے لیے ایک پین یا بال پین بھی مختص کرلیں۔ یہ درحقیقت آپ کی ایک رازدان دستاویز ہے۔

 جائزہ لیں کہ آپ اپنا وقت کھاں اور کیسے خرچ کرتے ھیں؟

  • کم از کم ایک ماہ تک آپ اس بات کی کوشش کریں کہ آپ اپنے جاگنے کے اوقات کے مصرف کو ریکارڈ کریں اور ہر ہفتہ کے ۱۵۶ گھنٹوں کا جائزہ لیں کہ وہ کس انداز سے خرچ ہوئے؟ کیا اس خرچ سے آپ کو ، آپ کے خاندان کو یا آپ کے کاروبارکوکوئی فائدہ ہوا یا دنیا یا آخرت  کے لحاظ سے کوئی بہتری ہوئی؟
  • اس ایک ماہ کے جائزہ کے بعد کوشش کریں کہ غیر مفید کاموں کے مقابلے میں اپنے آپ کو مفید کاموں میں لگائیں۔

تنظیمِ وقت کے حوالے سے اپنی صلاحیتوں اور خامیوں کا جائزہ لیں

  • اگر تالاب میں دو افراد کو دھکیل کر ان سے کہا جائے کہ وہ دونوں دوسرے کنارے پر پہنچنے کی کوشش کریں، تو دوسرے کنارے پر وہی پہنچ سکتاہے جسے تالاب میں تیرنا آتا ہے اور جسے نہیں آتا وہ کسی اور منزل پر پہنچ جائے گا۔ تنظیمِ وقت ایک فن ہے، اسے سیکھنے کی کوشش کریں۔
  • تنظیمِ وقت کی صلاحیت کی تربیت شرو ع کے دنوں میں مشکل ہوتی ہے، مگر مسلسل مشق کے نتیجے میں آپ بڑی بلندی پر پہنچ سکتے ہیں۔
  • اس صلاحیت کے ذریعے آپ کی کارکردگی بڑھ جاتی ہے۔ آپ کی شخصیت میں تاثیر ،    آپ کے معاملات میں توازن پیدا ہوجاتا ہے اور آپ کی زندگی معتدل اورآپ کی محنت نتیجہ خیز ہوجاتی ہے۔

اندرونی اور بیرونی مسائل کا جائزہ لیں

  • ہر انسان مسائل سے دو چار ہے۔ مگر تنظیمِ وقت اس گاڑی کی مانند ہے جسے لمبے سفر پر روانہ ہونا ہے اور اس سے پہلے گاڑی کی بہت ساری چیزوں کی چیکنگ کر لی جاتی ہے۔
  • وہ مسائل جو آپ کی ذات سے وابستہ ہیں ان کا جائزہ لیجیے ۔ان مسائل کا بھی جائزہ لیجیے جو آپ کی ذات سے وابستہ نہیں ہیں مگر آپ کے لیے تکلیف دہ ہیں اور ان کی وجہ سے آپ کی کارکردگی متاثر ہورہی ہے۔ یہ مسائل دفتری بھی ہوسکتے ہیں، کاروباری بھی، خاندانی بھی اور معاشرتی بھی اور صحت کے حوالے سے بھی۔

اپنی عادات کا جائزہ لیں

  • وہ عمل جو آپ بغیر سوچے سمجھے کرنے لگتے ہیں کیوں کہ وہ آپ کی عادت بن چکا ہوتا ہے،    یہ عادات عملاً آپ کے لیے اصول بن جاتی ہیں۔
  • اپنی بری عادتوں کا جائزہ لیں۔ انھیں کم کرنے اور ختم کرنے کی منصوبہ بندی کریں اور پھر اس پر باقاعدگی سے عمل کریں تاکہ وہ مقررہ مدت میں ختم ہوجائیں۔ جس انداز سے بیماریوں کا علاج کیا جاتا ہے، اسی انداز سے ترقی میں رکاوٹ ڈالنے والی عادتوں کا بھی علاج کیجیے۔

دوسرا مرحلہ: نصب العین کا تعین

  • زندگی اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ زندگی کے لمحات کا پیمانہ وقت ہے۔
  • زندگی ،نعمتوں کے استعمال اور ان سے وابستہ ذمہ داریوں کو ادا کرنے کا نام ہے۔
  • زندگی دنیا میں عمل اور آخرت میں نتائج کا نام ہے۔

زندگی کا نصب العین کیا ھونا چاھیے

  • زندگی کا نصب العین خالق سے وابستگی اور اس کے دیے گئے ضابطہ ٔ حیات اور اس سے کیے ہوئے عہد پر عمل کرنا ہے۔
  • اس کی بہترین مثال اللہ کے نبیؐ ہیں اور ان کی سیرت کے تابع زندگی گزارنے کی کوشش، ہمارا نصب العین ہونا چاہیے۔
  • اس عہد کے اپنے آداب ہیں، کچھ کرنے کے کام ہیں اور کچھ کام نہ کرنے کے ہیں۔
  • احساس ذمہ داری اور آخرت میں جواب دہی کی تیاری ہمارا نصب العین ہونا چاہیے۔
  • اس نصب العین کی خوبی یہ ہے کہ دنیا بھی بہتر ہو، آخرت اور دنیا کی درمیانی مدت (برزخ) بھی بہتر ہو، اور بالآخر آخرت بھی بہتر ہو۔

نصب العین کے متعین ھونے کے بعد زندگی پر اثرات

  • مندرجہ بالا نصب العین کے تعین کے بعد ہماری زندگی میں امید اور خوف کا معاملہ آتاہے۔
  • اس نصب العین کے تعین کے بعد شخصیت میں ایک توازن، ترتیب، تنظیم، تہذیب اور توکّل کے عناصر آجاتے ہیں۔
  • متعینہ نصب العین ہمارے اندر سچائی، ایمان داری، امانت،ایفاے عہد اور اپنی ذات کے ساتھ انصاف جیسے اخلاقی اوصاف کا متقاضی ہے۔
  • عزتِ نفس، احترام انسانیت ، اعتدال، معاملہ فہمی، عفو و درگزر ، ضبط، غصہ، صبر و شکر___ یہ اقدار ہماری ذات کے لیے مطلوب ہیں ۔
  • اس نصب العین کے حصول کے لیے، آپ کو  مقاصد یا اہداف متعین کرنے ہوں گے۔

تیسرا مرحلہ: حصولِ نصب العین کے لیے اھداف کا تعین

زادِ سفر کا جائزہ لیں اور بہتری کے لیے بہی مقاصد مقر ر کریں

  • احسا س ذمہ داری: یہ وہ بنیادی عنصر ہے جو ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر آپ کی ذات میں ہونا چاہیے۔
  • رویہ:یہ وہ عنصر ہے جو آپ کو مقبول بھی بناسکتاہے اور معتوب بھی۔ اس پر غور کرنے اور تیاری کرنے کی ضرورت ہے۔
  • عادات:یہ وہ افعال ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ آپ کی زندگی کے قواعد اور اصول بن سکتے ہیں۔ان عادات کے ذریعے آپ کے سفر کی رفتار تیز اور منزل قریب ہوسکتی ہے۔
  • صلاحیتیں اور قابلیتیں:یہ وہ مطلوبہ صلاحیتیں ہیں جو آپ کی بقا، ترقی اور کامیابی کے حصول کے لیے ضروری ہیں۔ ان صلاحیتوں میں غوروفکر سے لے کر اجتماعی کوششیں، تقسیم کار اور قیادت شامل ہیں۔ لیکن عمر اور ذمہ داریوں کے ساتھ اس کی نسبت ہے۔
  • ٹکنالوجی :یہ صدی تیز رفتاری، غیر دیواری یا بغیر سرحدوں کی صدی ہے۔ ٹکنا لوجی اس قدر ترقی کرگئی ہے کہ برسوں کے سفر اب لمحوں میں طے ہورہے ہیں اور دنیا ایک لیپ ٹاپ یا موبائل فون میں سمٹ کر رہ گئی ہے۔

درج ذیل میدانوں کے لیے مقاصد و منازل کا  تعین کریں

  • ذاتی زندگی کے لیے، تربیت اور صحت ، ترقی اور کامیابی کے لیے۔
  • تعلیمی زندگی، کیریر، رزقِ حلال اور معاشی آسودگی کے لیے۔
  • خاندان، والدین، بیوی بچے اور گھریلو زندگی کے لیے ۔
  • سماجی اور معاشرتی زندگی میں اپنی عزت نفس اور مقام کے لیے۔

چوتھا مرحلہ: ذات میں تبدیلی اور سیکھنے کا عمل

  • اپنی سوچ اور انداز فکر کا جائزہ لیں، اس میں تبدیلی لانے کی کوشش کریں اور اسے نصب العین اور مقاصد زندگی سے ہم آہنگ بنائیں۔
  • اپنی صلاحیتوں کا جائزہ لیں انھیں دورِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق ڈھالیں۔
  • اپنے تعلقات کا جائزہ لیں اور نصب العین اور مقاصد زندگی کے مطابق بنائیں۔
  • اپنے اخلاق کو سنوار کر تمام میدانوں میں ہر دلعزیز  بننے کی کوشش کریں۔
  • اپنے معاملات کے حوالے سے قابل اعتماد بنیں کہ آپ پر بھروسا کیا جا سکے۔
  • اپنے آپ کو منظم کریں۔اپنی ذات کو پھیلانے کے بجاے سمیٹنے کی کوشش کریں۔ اپنی بکھری ہوئی چیزوں اور معاملات کو مجتمع کریں اور پھر جائزہ لیں کہ کیا ضروری ہے اور کیا غیر ضروری ؟
  • جو  کام سرانجام دے رہے ہیں ان کا جائزہ لیں کہ کیا وہ کرنا ضروری ہیں اور ساتھ ساتھ ایک ایسی فہرست بنائیں جس میں آپ طے کرلیں کہ آپ کو یہ کام نہیں کرنے۔
  • تضیع اوقات اور تساہل کو ترک کریں۔اپنے اوقات کے ضائع ہونے کا خاص خیال رکھیں اور اپنی زندگی سے سستی ، کاہلی اور ٹال مٹول کی عادت کو کم سے کم کرنے کی کوشش کریں۔
  • نصب العین اور مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے کام کریں۔ جو بھی کام کریں، اپنے ذہن میں اپنے نصب العین کو پیش نظر رکھیں اور دیکھیں کیا یہ کام اپنے نصب العین کے مطابق کررہے ہیں۔
  • روزانہ چند لمحات تنہائی کے حاصل کیجیے اور اپنے آج کو گذشتہ کل سے بہتر بنائیں۔ اپنے آنے والے کل کو اپنے گزرے ہوئے آج سے بہتر بنانے کی تیاری اور کوشش کریں۔

پانچواں مرحلہ: عملی پیش رفت اور جائزہ

ترجیحات کے  مطابق منصوبہ بندی کریں

  • ترجیحات کی درجہ بندی کرکے اپنے لیے عملی پروگرام بنائیں۔
  • مقاصد، مطالب، منازل کے حصول کے لیے منصوبہ بندی کریں۔
  • کیلنڈر کو سامنے رکھتے ہوئے ان کو اوقات کا پابند بنایئے ۔

فیصلہ کریں کہ اپنے مقاصد کے لیے کن معاملات سے دستبردار ھوں گے

  • اپنے کاموں اور مقاصد کی فہرست بنانا ضروری ہے۔
  • وسائل اور صلاحیتوں کو سامنے رکھتے ہوئے آپ کو چند مقاصد اور کاموں کو دوسرے کاموں کے مقابلے میں ترجیح دینا ہوگی، اور چند مقاصد اور کاموں سے دستبردار ہوناہوگا۔

اپنے کرنے کے کاموں کا ٹائم ٹیبل بنایئے

  • مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے کاموں کو ترتیب دیجیے۔
  • یومیہ ، گھنٹوں کے لحاظ سے ٹائم ٹیبل بنایئے اور اس کو ٹائم ٹیبل میں مربوط کیجیے۔

کاموں کے لیے وقت اور وسائل کا تعین کیجیے

  • مقاصد سے لگن کے لیے اپنے کاموں کے لیے وسائل مہیا کرنا آپ کی ذمہ داری ہے۔
  • کام، وسائل اور معینہ اور مقررہ وقت کی سختی سے پابندی کیجیے۔

یومیہ امور کی فہرست بنائیں اور اس پر باقاعدگی سے عمل کریں

  • روزانہ رات سونے سے قبل، اگلے روز کرنے کے کاموں کی فہرست تیار کرلیں۔ اپنے کاموں کی ترجیحات بنالیں اور ان پر عمل کرنے کے لیے ترتیب کے نمبر بھی ڈال دیں۔

افراد کے ساتھ کام کرنے کے لیے اجتماعی جدوجہد کا فن سیکھیے

  • افراد کے ساتھ مل کر کام کرنے کی صلاحیت پیدا کیجیے۔
  • افراد کی تربیت کرکے ان کی ایک مؤثر ٹیم بنانے کی کوشش کیجیے۔
  • تربیت کے بعد ٹیم کو کا م بھی سکھائیں۔
  • کام کرکے بھی دکھائیں اور پھر ان میں اعتماد پید ا کرکے تفویض اُمور کا فن بھی سکھائیں۔
  • اپنا بھی جائزہ لیں اور اپنی ٹیم کے ساتھ بھی جائزے کا کوئی فورم بنائیں۔
  • اچھی کارکردگی کو سراہنے کی عادت ڈالیں اور اپنے اچھے کام کرنے والے افراد کی سب کے سامنے تعریف کریں۔
  • متاثرہ کارکردگی والے افراد کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کریں، ورنہ ان کو اچھے الفاظ میں تنبیہ کریں۔
  • تنبیہ میں اپنے ساتھی کی عزت نفس کا خیال رکھیں اور ایسی بات نہ کریں جو دل شکنی کا باعث ہو۔

نئی سوچ اور نئی فکر کے ساتھ تبدیلی لائیں۔      

  • اپنی سوچ میں تنوّع پیدا کریں۔
  • اس کے لیے مطالعہ اور غورو فکر کریں۔
  • اپنے افراد کار میں بھی یہ عادت ڈالیں۔ انھیں سمجھائیں کہ یہ گھر کے حساب کی مانند ہے تاکہ آپ کو ضروری اور غیر ضروری مصارف کا احساس ہوسکے۔

بے شک آپ پابندی سے نماز پڑھتے ہیں، روزے رکھتے ہیں، زکوٰۃ کا بھی اہتمام کرتے ہیں، استطاعت ہو تو حج کو بھی جاتے ہیں، آپ اسلامی وضع قطع کے بھی پابند ہیں، حلال و حرام کی تمیز میں بھی نہایت حساس ہیں، آپ تقویٰ و طہارت کے لوازم کا بھی التزام کرتے ہیں اور نوافل و اذکار، صدقہ و خیرات کا بھی زیادہ سے زیادہ خیال رکھتے ہیں، اس لیے کہ آپ کو اپنے مسلمان ہونے کا احساس ہے۔

خدا کا شکر ہے کہ اس احساس میں آپ تنہا بھی نہیں ہیں، آپ کی طرح شریعت کے احکام و آداب کی اتباع اور پیروی کرنے والے اُمت میں ہزاروں نہیں لاکھوں ہیں، اور اگر مَیں یہ دعویٰ کروں تو اس کی تردید نہیں کی جاسکتی کہ اپنی عبرت ناک پستی کے باوجود آج بھی مسلمان مذہب کی پیروی اور عبادات سے شغف میں ہر مذہب کے پیروئوں سے آگے ہیں۔ اُمت مسلمہ میں لاکھوں افراد اب بھی موجود ہیں جن کی زندگیاں قابلِ رشک حد تک خداترسی اور فرض شناسی کا نمونہ ہیں، جن کی سیرت اور کردار آئینے کی طرح صاف ہے، جن کا تقویٰ ہر شبہے سے بالا ہے، اور جن پر سوسائٹی اعتماد کرتی ہے، اور یہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی مذہبی گروہ ان کی ٹکر کے انسان پیش کرنے کی ہمت نہیں کرسکتا۔

یہ بھی واقعہ ہے کہ مسلمان تعداد کے اعتبار سے بھی دنیا میں دوسری عظیم اکثریت ہیں۔ ان کے پاس ہر طرح کے وسائل و ذرائع بھی ہیں۔ ان کے پاس کوئلہ بھی ہے، پٹرول بھی ہے، لوہا بھی ہے، سونا بھی ہے، یہ دولت مند بھی ہیں اور دنیا کے کتنے ہی حصوں میں ان کی اپنی حکومتیں بھی ہیں۔

مگر تلخ سہی یہ بھی حقیقت ہے کہ اس مذہبی تقدس اور دولت و حکومت کے باوجود سب سے زیادہ ذلیل و خوار اور بے وزن یہی مسلمان قوم ہے، نہ ان کی اپنی کوئی راے ہے ، نہ کوئی منصوبہ،  نہ ان کا کوئی وقار ہے اور نہ کوئی اعتبار۔ انفرادی حیثیت سے ان میں یقینا لاکھوں ایسے ہیں جن پر انسانیت فخر کرسکتی ہے، لیکن اجتماعی حیثیت سے دنیا میں ان کا کوئی مقام نہیں ہے۔

آپ اسی اُمت کے ایک فرد ہیں۔ آپ کا مستقبل اُمت کے مستقبل سے وابستہ ہے۔  کیا آپ کو یہ احساس پریشان کرتا ہے کہ اُمت کو اس ذلت سے نکالا جائے اور اس کو عظمت ِ رفتہ حاصل کرنے کے لیے پھر سے بے تاب کردیا جائے؟

کبھی آپ نے غور کیا کہ اس بے قدری اور ذلت کی وجہ کیا ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ اُمت نے اپنا وہ فرض بھلا دیا ہے، جس کے لیے خدا نے اس کو پیدا کیا تھا۔ اُمت ِ مسلمہ عام اُمتوں کی طرح کوئی خود رو اُمت نہیں ہے۔ اس کو خدا نے ایک خاص منصوبے کے تحت ایک   عظیم مقصد کے لیے پیدا کیا ہے۔ خدا نے اس کی زندگی کا وہی مشن قرار دیا ہے جو اپنے اپنے دور میں خدا کے پیغمبروں کا مشن رہا ہے۔ نبوت کا سلسلہ نبی اُمیؐ پر ختم ہوگیا۔ آپؐ کے بعد اب کوئی نبی نہیں آئے گا___ خدا کے بندوں تک خدا کا دین پہنچانے کا کام اب رہتی دنیا تک اسی اُمت کو انجام دینا ہے۔ یہی اس کی زندگی کا مقصد ہے، اسی کی خاطر خدا نے اسے ایک اُمت بن کر رہنے کی تاکید کی ہے، اور اسی فرض کی ادایگی سے اس کی تقدیر وابستہ ہے۔ خدا کا ارشاد ہے: وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ  (اٰلِ عمرٰن ۳:۱۰۴) ، یعنی’’تم کو ایک ایسی اُمت بن کر رہنا چاہیے جو خیر کی طرف لوگوں کو دعوت دے‘‘۔

خیر سے مراد ہر وہ نیکی اور بھلائی ہے جس کو نوعِ انسانی نے ہمیشہ نیکی اور بھلائی سمجھا ہے، اور خدا کی وحی نے بھی اس کو نیکی اور بھلائی قرار دیا ہے۔ الخیر سے مراد وہ ساری نیکیاں ہیں جن کے مجموعے کا نام دین ہے، اور جو ہمیشہ خدا کے پیغمبر ؑ خدا کے بندوں تک پہنچاتے رہے ہیں۔ اُمت کا کام یہ ہے کہ وہ خدا کے بندوں کو کسی امتیاز کے بغیر اس دین کی دعوت دے، اور اُسی سوز اور تڑپ کے ساتھ دعوت کا کام کرے جس طرح خدا کے پیغمبروں ؑ نے کیا ہے، اس لیے کہ وہی مشن خدا نے اس اُمت کے سپرد کیا ہے۔

اُمت کی زندگی میں دعوتِ دین کے کام کی وہی حیثیت ہے جو انسانی جسم میں دل کی حیثیت ہے۔ انسانی جسم اسی وقت تک کارآمد ہے جب تک اس کے اندر دھڑکنے والا دل موجود ہو۔ اگر یہ دل دھڑکنا بند کردے تو پھر انسانی جسم، انسانی جسم نہیں ہے مٹی کا ڈھیر ہے۔ اس لیے کہ جسم کو صالح خون پہنچانے والا اور اس کو زندہ رکھنے والا دل ہے۔

ٹھیک یہی حیثیت دعوتِ دین کی بھی ہے۔ اگر اُمت یہ کام سرگرمی سے انجام دے رہی ہے، خدا کے منصوبے اور منشا کے مطابق اُمت میں صالح عناصر کا اضافہ ہو رہا ہے،اور غیرصالح عنصر چھٹ رہا ہے، نیکیاں پنپ رہی ہیں اور بُرائیاں دم توڑ رہی ہیں تو اُمت زندہ ہے اور عظمت و عزت اور وقار و سربلندی اس کی تقدیر ہے، لیکن اُمت اگر اس فرض سے غافل ہوجائے، دینِ حق کے کام کا اسے احساس ہی نہ رہے تو وہ زندگی سے محروم ہے___ اور مُردہ ملّت بھلا عزت و عظمت کا مقام کیسے پاسکتی ہے۔

خدا کے نزدیک بھی اُمت کی تمام تر اہمیت اسی وقت ہے جب وہ اس منصب کے تقاضے پورے کرے جس پر خدا نے اسے سرفراز فرمایا ہے۔ اگر وہ اس منصب ہی کو فراموش کردے اور اسے احساس ہی نہ رہے کہ خدا نے مجھے کس کام کے لیے پیدا کیا ہے، تو پھر خدا کو اس کی کیا پروا کہ کون اسے پیروں میں روند رہا ہے، اور کون اس کی عزت سے کھیل رہا ہے۔(شعورِ حیات، ص ۱۳-۱۵)

موجودہ دور میں ایک سماجی مسئلہ، جس نے ملکی اور عالمی دونوں سطحوں پر گمبھیر صورت اختیار کرلی ہے، خواتین کی عزت و آبرو کی پامالی اور عصمت دری ہے۔ وہ اپنوں اور پرایوں دونوں کی جانب سے زیادتی اور دست درازی کا شکار ہیں۔ کوئی جگہ ان کے لیے محفوظ نہیں ہے۔ گھر ہو یا دفتر، پارک ہو یا بازار، ٹرین ہو یا بس، ہر جگہ ان کی عصمت پر حملے ہو رہے ہیں اور انھیں بے آبرو کیا جا رہا ہے۔ کبھی معاملہ عصمت دری پر رُک جاتا ہے، تو کبھی ظلم کی شکار خاتون کو اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔ ایک گھناونی صورت اجتماعی آبروریزی کی ہے، جس میں کئی نوجوان مل کر کسی معصوم لڑکی کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں، پھر بڑے درد ناک طریقے سے اسے قتل کردیتے ہیں۔

اس طرح کے واقعات آئے دن پیش آتے رہتے ہیں۔ کسی دن کا اخبار اٹھاکر دیکھ لیجیے، عصمت دری کی بہت سی خبریں اس میں مل جائیں گی۔ ان میں سے کچھ ہی معاملے عدالتوں تک پہنچ پاتے ہیں۔اور جو پہنچتے ہیں، ان میں بھی عدالتی پیچیدگیوں کی وجہ سے فیصلہ آنے میں کئی سال لگ جاتے ہیں اور بہت کم مقدمات میں مجرموں کو سزا مل پاتی ہے۔

اسلامی سزاے زنا کا مطالبہ

یہ واقعات اب اتنی کثرت سے پیش آنے لگے ہیں کہ ان کی سنگینی کا احساس ختم ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن انھی کے درمیان کبھی کوئی درد ناک واقعہ رونما ہوتا ہے تو عوام بیدار ہوجاتے اور اس کے خلاف سراپا احتجاج بن جاتے ہیں۔ اس موقعے پر ایسے جرائم کی روک تھام کے لیے مختلف تجاویز سامنے آتی ہیں، مثلاً مجرموں کو سرِ عام پھانسی دینے کا مطالبہ کیاجاتا ہے، سخت سے سخت قوانین بنانے کی بات کی جاتی ہے، کڑی نگرانی کے لیے سی سی ٹی وی کیمرے نصب کرنے اور مضبوط سیکورٹی فراہم کرنے پر زور دیا جاتا ہے، لڑکیوں کو جوڈو کراٹے سیکھنے اور خود حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ اس ضمن میں بعض اطراف سے ایک آواز یہ بھی سنائی دیتی ہے کہ زنا کی وہ سزا نافذ کی جائے جو اسلام نے تجویز کی ہے۔ اسی بات کو بعض لوگ ان الفاظ میں کہتے ہیں کہ سزاے زنا کے لیے عرب ملکوں جیسا قانون بنایا جائے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ مطالبے ان لوگوں کی طرف سے بھی ہوتے ہیں، جو اسلام کے شدید مخالف ہیں، جو اسلام پر اعتراضات کرنے اور مسلمانوں کو برا بھلا کہنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، لیکن چوں کہ انھوں نے کہیں سے سن رکھا ہے کہ اسلام زنا کرنے والے کو پتھر مار مار کر ہلاک کرنے کا حکم دیتا ہے، اور جرم کی سنگینی کی بنا پر یہ سزا ان کے دل کی آواز ہوتی ہے، اس لیے ان کے اندرون میں چھپی خواہش ان کی زبان پر آجاتی ہے اور وہ خواہی نہ خواہی اسلام کا نام لینے لگتے ہیں۔

مکمل اسلامی نظام کا نفاذ ضروری ھے

آبرو ریزی کے واقعات کی روک تھام کے لیے سخت سے سخت قانون بنانے کی بات کی جائے، یا اسلامی سزاے زنا کو نافذ کرنے کی تجویز رکھی جائے، دونوں مطالبے جذباتیت کے مظہر اور سنجیدگی سے محروم ہیں۔ کتنا ہی سخت قانون بنا لیا جائے، اس سے جرائم کا بالکلیہ خاتمہ ممکن نہیں، بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے معاشرے کو پاکیزہ بنانے کی تدابیر اختیار کی جائیں اور جو چیزیں افراد کو غلط کاموں پر ابھارتی اور جرائم کے ارتکاب کی جانب مائل کرتی ہیں، ان پر پابندی عائد کی جائے۔ قانون جرائم کو روکنے میں معاون تو ہوسکتا ہے، لیکن محض قانون سے ان کا سدِّ باب ناممکن ہے۔ اگر جرائم کے تمام محرکات اور ترغیبات کو علی حالہٖ باقی رکھا جائے اور محض کوئی سخت تر قانون منظور کرلیا جائے تو جرائم میں تو کوئی کمی نہیں آئے گی، البتہ قانون کے غلط انطباق اور استعمال کے اندیشے بڑھ جائیں گے۔ عدالتوںکے بھاری مصارف کی بنا پر اس کا خدشہ رہے گا کہ غریب اور اپنے دفاع سے عاجز سزاپاجائیں اور مال دار اور طاقت ور اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے سزا سے بچ جائیں۔

اسی طرح اسلام کے کسی ایک حکم کا مطالبہ اور دیگر احکام سے صرفِ نظر درست رویّہ نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے اسلامی نظام کو ایک کُل کی حیثیت سے قبول کرنا ہوگا۔ اسلامی تعلیمات کے اثرات کا مشاہدہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پورے کے پورے اسلام کو نافذ کیا جائے۔ جس طرح کوئی مشین اسی وقت صحیح طریقے سے کام کرے گی، جب اس کے تمام پرزے اپنی اپنی جگہ نصب ہوں۔ اگر اس میں سے کوئی ایک پرزہ نکال لیا جائے تو نہ مشین صحیح ڈھنگ سے وہ کام کرے گی جس کے لیے اسے بنایا گیا ہے اور نہ اس نکالے گئے پرزے سے وہ کام لیا جاسکتا ہے جو پوری مشین کے کرنے کا تھا۔ اسی طرح اسلام کے کسی ایک قانون کو نافذ کردیا جائے اور اس کے دیگر احکام پر عمل نہ کیا جائے، تو اس سے بھی مطلوبہ فوائد حاصل نہیں ہوسکتے۔

جنس کے تعلق سے مختلف رویّے

ہر انسان میں بنیادی طور پر تین طرح کی خواہشات پائی جاتی ہیں: کھانے کی خواہش، پینے کی خواہش اور جنسی خواہش۔ کوئی بھی انسان ہو، چاہے وہ دہریہ ہو یا سیکولر، یا اس کا کسی مذہب سے تعلق ہو، بہ حیثیت انسان اس کے اندر ان فطری خواہشات کا پایا جانا لازمی ہے۔ جنس کے تعلق سے مختلف رویّے اختیار کیے گئے ہیں۔

کچھ لوگوں نے جنسی خواہش کو دبانے اور کچلنے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے یہ تصور پیش کیا کہ جنسی خواہش کو دبا کر ہی انسان کی نجات ممکن ہے، تبھی اسے نروان [نجات] حاصل ہوسکتا ہے اور وہ کامیابی کے مدارج طے کرسکتا ہے۔ یہ تصور عیسائیت میں راہبوں اور ہندو مت میں جوگیوں کے یہاں ملتا ہے۔ چنانچہ انھوں نے جنسی تعلق کو ایک قابل نفرت چیز سمجھا اور شادی بیاہ کے بکھیڑوں میں پڑنے سے گریز کیا۔ انھوں نے جنگلوں اور بیابانوں کی راہ لی اور وہاں کٹیا بنا کر تنہائی کی زندگی گزارنے لگے۔ اسی طرح ان مذاہب میں ان لوگوں کو عظمت کی نگاہ سے دیکھا گیا جو غیرشادی شدہ رہتے ہوئے پوری زندگی گزار دیں، چنانچہ انھیں گرجوں اور مندروں میں اعلیٰ مناصب سے سے نوازا گیا۔ لیکن انسانی فطرت کو دبا کر اور اس سے جنگ کرکے زندگی گزارنا ممکن نہیں ہے۔ چنانچہ تاریخ شاہد ہے کہ چرچ سے وابستہ پادری اور مندروں کے پجاری بارہا بدکاری میں ملوث پائے گئے ہیں اور روحانیت اور پوجا پاٹ کے ان مراکز کی پاکیزگی پامال ہوئی ہے۔

اس کے بالمقابل کچھ لوگوں نے جنس کے معاملے میں ہر طرح کی آزادی کی وکالت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انسان آزاد پیدا ہوا ہے، اس لیے اس کو یہ حق حاصل ہے کہ جس طرح چاہے اپنی جنسی خواہش پوری کرلے، خواہ اس کے لیے وہ کتنا ہی غیرفطری طریقہ کیوں نہ اختیار کرے۔ چنانچہ ہم جنسی (Homosexuality)کو قانونی تحفظ فراہم کیا گیا اور مرد کو مرد کے ذریعے اور عورت کو عورت کے ذریعے جنسی تسکین حاصل کرنے کا حق دیا گیا۔ جن لوگوں نے یہ غیر فطری طریقہ اختیار نہیںکیا انھوں نے بھی نکاح کرنے اور خاندان تشکیل دینے کو فرسودہ قرار دیا اور بہتری اس میں سمجھی کہ کوئی مرد اور عورت جب تک چاہیں ساتھ رہیں اور جب چاہیں الگ ہوکر اپنی اپنی راہ لیں۔ کھلی چھوٹ دے دی گئی کہ وہ باہم رضا مندی سے جب چاہیں جنسی تعلق قائم کرلیں۔صرف زور زبردستی کو قانوناً جرم قرار دیا گیا۔ یہ تصو ّر پیش کیا گیا کہ ہر انسان اپنے جسم کا مالک ہے، وہ اپنے جس عضو کو چاہے چھپائے اور جس کو چاہے کھلا رکھے۔ اسی طرح اس کو یہ بھی اختیار ہے کہ وہ اپنے اعضا سے جیسا چاہے کام لے۔ چنانچہ عورتوں کے رحم (uterus)کرایے پر ملنے لگے کہ کوئی بھی مرد اس میں اپنا نطفہ داخل کروا کے بچہ حاصل کرسکتا ہے۔ اسی طرح مردوں کے نطفے (sperm) کی بھی تجارت ہونے لگی اور اس کے بنک قائم ہوگئے۔ ان چیزوں نے بہت بڑی صنعت کی صورت اختیار کرلی، جس میں کروڑوں اربوں روپے کا سرمایہ لگا ہوا ہے۔

اس بے مہار آزادی نے انسانی معاشرے کو جانوروں کے باڑے میں تبدیل کردیا۔    اس کے نتیجے میں انارکی، انتشار، فتنہ و فساد او رقتل و غارت گری کو خوب فروغ ملا۔ زنا بالجبر کے واقعات کثرت سے پیش آنے لگے، جنسی بیماریاں: آتشک، سوزاک، امراض رحم، اسقاط وغیرہ عام ہوئیں۔ یہاں تک کہ فطرت سے بغاوت کی سزا ایڈز کی صورت میں ملی، جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور اربوں کھربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود اب تک اس پر قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔ عالمی سطح پر ہونے والے سروے رپورٹوں سے ظاہر ہے کہ ایڈز کے متاثرین میں ۸۰ فی صد سے زائد افراد کو یہ مرض جنسی آوارگی کے نتیجے میں لاحق ہوا ہے۔

اسلام کا نقطۂ نظر

جنس کے بارے میں تیسرا نقطۂ نظر وہ ہے جو اسلام پیش کرتا ہے۔ یہ نقطۂ نظر افراط اور تفریط کے درمیان ہے۔ اسلام نہ تو جنسی جذبے کو دبانے اور کچلنے کی ترغیب دیتا ہے اور نہ انسان کو کھلی چھوٹ دے دیتا ہے کہ جس طرح اور جہاں چاہے اس کی تسکین کرلے۔ وہ ہر انسان کو اپنی جنسی خواہش پوری کرنے کا حق دیتا ہے، لیکن ساتھ ہی اسے کنٹرول کرنے کی راہ دکھاتا ہے۔

نکاح کی پابندی

اسلام نے جنسی خواہش کی تکمیل کو نکاح کا پابند بنایا ہے اور اس سے ماورا کسی طرح کا تعلق رکھنے کو حرام قرار دیا ہے۔ اس نے مردوں اور عورتوں دونوں پر سخت پابندی عائد کی ہے کہ وہ نکاح کے علاوہ باہم کسی طرح کا جنسی تعلق نہ رکھیں۔ قرآن میں ہے:

اس طرح کہ تم (مرد) ان (عورتوں) سے باقاعدہ نکاح کرو، یہ نہیں کہ علانیہ زنا کرو یا پوشیدہ بدکاری کرو۔(المائدہ۵:۵)

وہ (عورتیں) پاک دامن ہوں، نہ کہ علانیہ بدکاری کرنے والیاں، نہ خفیہ آشنائی کرنے والیاں۔(النساء۴:۲۵)

ان آیات میں مردوں اور عورتوں دونوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ اپنی جنسی خواہش کی تکمیل کے لیے نکاح کریں۔ اس طرح وہ شیطان کے حملوں سے محفوظ ہوجائیںگے۔ نکاح سے ماورا کسی طرح کا تعلق نہ علانیہ قائم کریں نہ چوری چھپے۔

اسلام نے زنا کو ایک سنگین سماجی جرم قرار دیا ہے اور اسے گھناونااور برا فعل کہتے ہوئے اس سے دُور رہنے کی ہدایت کی ہے:’’اور زنا کے قریب نہ پھٹکو۔ بلاشبہہ وہ بڑی بے شرمی کا کام اور بڑا ہی بُرا راستہ ہے‘‘(بنی اسرائیل۱۷: ۳۲)۔اس نے کامیاب انسانوں کا ایک وصف یہ قرار دیا ہے کہ:’’وہ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں بجز اپنی بیویوں اور لونڈیوں کی حد تک سو اس بارے میں ان کو کوئی ملامت نہیں‘‘۔(المومنون۲۳:۵-۶)

اسلام کی نظر میں جتنا سنگین جرم زنا بالجبر ہے، اتنا ہی سنگین جرم زنا بالرضا بھی ہے۔ دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جس طرح ایک مرد کسی عورت پر جبر کرکے اس کی عصمت کو داغ دار کرتا اور اس کی پرسکون زندگی میں زہر گھولتا ہے، اسی طرح دو مرد و عورت باہم رضا مندی سے جنسی تعلق قائم کرکے معاشرے کی پاکیزگی کو ختم کرتے اور اجتماعی امن و سکون پر ڈاکا ڈالتے ہیں، اس لیے دونوں برابر کے مجرم ہیں۔

نکاح کی ترغیب اور اسے آسان بنانا

اسلام چاہتا ہے کہ بلوغت کی عمر کو پہنچنے کے بعد کوئی بھی لڑکا یا لڑکی بغیر نکاح کے نہ رہیں، بلکہ جلد از جلد نکاح کے بندھن میں بندھ جائیں۔ چنانچہ وہ ان کے سر پرستوں کو اس کی طرف متوجہ کرتا اور ان کا نکاح کرادینے کی تلقین کرتا ہے۔ زمانۂ نزولِ قرآن میں غلامی کا رواج تھا، مردوں اور عورتوں کو غلام بنا لیا جاتا تھا۔ قرآن نے حکم دیا کہ نہ صرف اپنے لڑکوں اور لڑکیوں کے نکاح کی فکر کرو، بلکہ اپنے غلاموں اور لونڈیوں کا بھی نکاح کرادو:’’تم میں سے جو لوگ مجر ّد ہوں اور تمھارے لونڈی غلاموں میں سے جو صالح ہوں ان کے نکاح کردو‘‘۔(النور۲۴:۲ ۳)

اسلام نہیں چاہتا کہ کوئی نوجوان مرد بغیر بیوی کے اور کوئی نوجوان عورت بغیر شوہر کے رہے۔ اللہ کے رسولؐ نے اپنے متعدد ارشادات میں نکاح کی ترغیب دی ہے اور اس سے غفلت کے بُرے نتائج سے ڈرایا ہے۔ ایک مرتبہ آپؐ نے نوجوانوں کو مخاطب کرکے فرمایا:’’اے نوجوانوںکے گروہ! تم میں سے جو بھی شادی کی استطاعت رکھتا ہو اسے شادی کرلینی چاہیے، اس لیے کہ یہ نگاہ کو نیچی رکھنے اور شرم گاہ کی حفاظت کرنے کا زیادہ کارگر طریقہ ہے‘‘۔ (بخاری، مسلم)

ایک موقعے پر آپؐ  نے سخت الفاظ میں تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا:’’جو شخص نکاح کرنے پر قادر ہو، پھر بھی نکاح نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں‘‘۔ (دارمی)

آپؐ  نے لڑکیوں کے سرپرستوں کو مخاطب کرکے انھیں نصیحت کی کہ اگر کوئی اچھا رشتہ آجائے تو نکاح کرنے میں بالکل تاخیر نہ کریں:’’جب تمھارے پاس کسی ایسے شخص کی طرف سے پیغام آئے جس کی دین داری اور اخلاق تمھارے نزدیک پسندیدہ ہوں تو اس سے نکاح کرادو۔ اگر ایسا نہیں کروگے تو روے زمین پر فتنہ اوروسیع فساد برپا ہوجائے گا‘‘۔ (ترمذی)

رسولؐ اللہ نے نکاح کی صرف ترغیب ہی نہیں دی، بلکہ اسے آسان بنانے کے صریح  احکام دیے ہیں۔ آپؐ  نے فرمایا:’’سب سے بہتر نکاح وہ ہے جو بہت سہولت سے انجام پا جائے‘‘۔ (ابوداؤد)

اسلام میں نکاح کے انعقاد کا طریقہ بھی بہت آسان ہے۔ دو گواہوں کی موجودگی میں  لڑکا اور لڑکی میں سے کوئی نکاح کی پیش کش کرے اور دوسرا اسے قبول کرلے، بس نکاح ہوگیا۔ نکاح کے وقت دعوت لڑکی والوں کی ذمہ داری نہیں ہے، بلکہ نکاح کی خوشی میں لڑکے کو ولیمہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

آج کل مختلف اسباب سے نکاح میں تاخیر کی جاتی ہے۔ ان میں سے ایک سبب بڑے پیمانے پر جہیز کا لین دین ہے۔ اسلام میں جہیز کا کوئی تصور نہیں ہے۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ  اللہ کے رسولؐ نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہؓ کو جہیز دیا تھا، لیکن یہ سراسر غلط ہے۔ آپؐ  نے جب حضرت فاطمہؓ کا نکاح اپنے چچا زاد بھائی حضرت علیؓ بن ابی طالب سے (جو بچپن ہی سے آپؐ کی سرپرستی میں آپؐ  کے ساتھ رہتے تھے) کرنا چاہا تو ان سے دریافت کیا: تمھارے پاس کیا ہے؟ انھوں نے جواب دیا: ایک زرہ۔ آپؐ  نے اسے فروخت کروایا اور اس کی رقم سے شادی کے بعد کام آنے والا کچھ سامان خریدنے کا حکم دیا۔ گویااس موقعے پر جو بھی سامان آیا اس کے مصارف خود حضرت علیؓ نے برداشت کیے تھے۔ حضرت فاطمہؓ کے علاوہ آپؐ  نے اپنی تین اور صاحب زادیوں کا نکاح کیا۔ کسی موقع پر بہ طور جہیز کچھ دینے کا تذکرہ روایات میں نہیں ملتا ہے۔

عہد نبویؐ میں نکاح کو آسان بنانے کے واقعات حدیث کی کتابوں میں اتنی کثرت سے ملتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ایک خاتون خدمتِ نبوی میں حاضر ہوئی اور آپؐ  سے اپنا نکاح کرا دینے کی خواہش کی۔ اس مجلس میں موجود ایک نوجوان آمادہ ہوگیا۔ آپؐ  نے اس سے دریافت کیا: تمھارے پاس کچھ ہے؟ اس نے جواب دیا: کچھ بھی نہیں۔ آپؐ  نے پھر سوال کیا: کیا تمھارے پاس لوہے کی ایک انگوٹھی بھی نہیں ہے؟ اس نے جواب دیا: وہ بھی نہیں ہے۔ آپؐ  نے فرمایا: تمھیں کچھ قرآن یاد ہے؟ اس نے جواب دیا: ہاں، فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں۔ آپؐ  نے اسی پر دونوں کا نکاح کرادیا۔ (بخاری، مسلم)

ایک نوجوان، جو قبیلۂ بنوبیاضہ کے آزاد کردہ غلاموں میں سے تھا، پچھنے لگانے کا کام کیا کرتا تھا۔ اس پیشے سے وابستہ لوگوں کو کم تر درجے کا سمجھا جاتا تھا۔ آپؐ نے قبیلے والوں کو حکم دیا کہ اس نوجوان کی شادی کی فکر کریں اور قبیلے کی کسی لڑکی سے اس کا رشتہ کردیں۔ (ابوداؤد)

تعددِّ ازدواج کی اجازت

اسلام نے مرد کو ایک سے زیادہ (چار تک) عورتوں کو بہ یک وقت اپنے نکاح میں رکھنے کی اجازت دی ہے۔ قرآن میں ہے:’’اور اگر تم کو اندیشہ ہو کہ یتیموں کے ساتھ انصاف نہ کرسکوگے تو جو عورتیں تم کو پسند آئیں ان میں سے دو دو، تین تین، چار چار سے نکاح کرلو ، لیکن اگر تمھیں اندیشہ ہو کہ ان کے ساتھ عدل نہ کرسکوگے تو پھر ایک ہی بیوی کرو‘‘۔(النساء۴: ۳)

اسلام کی اس تعلیم کو بھی اعتراضات کا نشانہ بنایا جاتا ہے، حالاں کہ غور کرنا چاہیے کہ اسلام نے اس کا حکم نہیں دیا ہے کہ لازماً ہر مرد ایک سے زائد شادیاں کرے، بلکہ اس کی صرف اجازت دی ہے۔ جب یہ حکم نازل ہوا تھا، تب ہنگامی حالات تھے، جنگیں ہو رہی تھیں، مرد مارے جا رہے تھے اور شادی شدہ عورتیں بیوہ ہو رہی تھیں۔ اس وقت ان کے نکاح کی یہ صورت نکالی گئی۔ بعد میں بھی اس حکم کو عام رکھا گیا، اس لیے کہ کسی شخص کے حالات ایسے ہوسکتے ہیں کہ اسے ایک سے زیادہ نکاح کرنے کی ضرورت پیش آجائے، مثلاً پہلی بیوی کسی ایسے مرض میں مبتلا ہوجائے کہ وہ جنسی تعلق کے قابل ہی نہ رہے۔ پھر کیا مرد دوسری عورت سے نکاح کرنے کے لیے اسے طلاق دے دے؟

بعض معاشروں میں مرد کو صرف ایک عورت سے نکاح کرنے کا پابند کیا گیا ہے، لیکن اسے کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے کہ ناجائز طریقے سے جتنی عورتوں سے چاہے جنسی تعلق رکھے۔ اسلام نے اس کی اجازت نہیں دی ہے۔ اس کی تعلیم یہ ہے کہ اگر ضرورت ہو تو آدمی ایک سے زائد چار عورتوں تک سے نکاح کرسکتا ہے، لیکن اس صورت میں اس پر لازم ہوگا کہ وہ ان سب کو تمام قانونی حقوق دے اور ان کے ساتھ برابری کا معاملہ کرے۔

دوسرا نکاح معیوب نھیں

اسلام اس چیز کو بھی پسند نہیں کرتا کہ اگر کسی مرد کی بیوی یا کسی عورت کے شوہر کا انتقال ہوجائے یا کسی شادی شدہ جوڑے کے درمیان علیحدگی ہوجائے، تو ان میں سے ہر ایک اپنی بقیہ زندگی تجّرد کی حالت میں گزار دے، کیوں کہ اسلام نہیں چاہتا کہ معاشرے میں کوئی مرد بغیر بیوی کے اور کوئی عورت بغیر شوہر کے رہے۔ اسلام کی ابتدائی صدیوں میں اس کی بڑی روشن مثالیں ملتی ہیں۔

حضرت عاتکہؓ بنت زید مشہور صحابیہ ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ کے صاحب زادے عبد اللہؓ سے ان کا نکاح ہوا۔ وہ شہید ہوگئے تو حضرت زید بن خطابؓ نے ان سے نکاح کرلیا۔ ان کی شہادت کے بعد وہ حضرت عمر بن الخطابؓ کی زوجیت میں آگئیں۔ وہ بھی شہید ہوگئے تو حضرت زبیر بن العوامؓ سے ان کا نکاح ہوگیا۔ آخر میں وہ حضرت حسن بن علیؓ کی زوجیت میں آئیں۔ اسی بنا پر ان کا نام ہی زوجۃ الشھداء (شہید ہونے والوں کی بیوی) پڑ گیا تھا۔ (اسدالغابۃ، ابن الاثیر)

حضرت اسما بنت عمیسؓ کی شادی حضرت جعفر بن ابی طالبؓ سے ہوئی۔ ان کی شہادت کے بعد وہ حضرت ابوبکرؓ کی زوجیت میں آئیں، پھر جب ان کا انتقال ہوگیا تو حضرت علیؓ نے ان سے نکاح کرلیا۔  (اسد الغابۃ)

حضرت فاطمہ بنت قیسؓ کو ان کے شوہر نے طلاق دے دی۔ عدت پوری ہوتے ہی ان کے پاس نکاح کے پیغامات آنے لگے۔ انھوں نے اللہ کے رسولؐ سے مشورہ کیا۔ آپؐ  نے ایک اچھے رشتے کی نشان دہی فرمادی۔ (مسلم)

اسلامی عقائد تربیت کا اھم ذریعہ

اسلام کے بنیادی عقائد انسان کی بھرپور تربیت کرتے ہیں اور اسے زندگی کے کسی معاملے میں بہکنے سے بچاتے ہیں۔ ان عقائد پر ایمان سے آدمی کی زندگی سنورتی ہے اور اس میں پاکیزگی آتی ہے۔ خاص طور پر دو عقائد کا کردار اس معاملے میں بہت نمایاں ہے:

اللّٰہ تعالٰی ھرجگہ موجود ھے:

اسلام یہ تصور دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہرجگہ موجود ہے اورہر انسان کو دیکھ رہا ہے۔ وہ کوئی کام چاہے علانیہ کرے یا چھپ کر، کسی کھلی جگہ کرے یا بند کمرے میں یا کسی تہہ خانے میں، کوئی بات زور سے کہے یا کسی کے ساتھ سرگوشی کرے، کسی غلط کام کا ارتکاب روے زمین پر کرے یا سمندر کی تہوں میں جاکر، کوئی لفظ زبان پر لائے یاکوئی خیال    اس کے دل میں آئے یا محض آنکھوں سے اشارہ بازی کرے، اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کی خبر ہوجاتی ہے۔   اس لیے کہ وہ کائنات کے ذرّے ذرّے پر نظر رکھتا ہے، کوئی چیز اس سے مخفی نہیں ہے۔ اس مضمون کی چند آیات کا ترجمہ درج ذیل ہے:

اس کے علم میں ہے جو کچھ زمین میں جاتا ہے اور جو کچھ اس سے نکلتا ہے اور جو کچھ آسمان سے اترتا ہے اور جو کچھ اس میں چڑھتا ہے۔ وہ تمھارے ساتھ ہے جہاں بھی تم ہو۔(الحدید۵۷:۴)

خشکی اور سمندر میں جو کچھ ہے، سب سے وہ واقف ہے، درخت سے گرنے والا کوئی پتّہ ایسا نہیں جس کا اسے علم نہ ہو۔(الانعام۶: ۵۹)

وہی اللہ آسمانوں میں بھی ہے اور زمین میں بھی، تمھارے کھلے اور چھپے سب حال جانتا ہے اور جو برائی یا بھلائی تم کماتے ہو اس سے خوب واقف ہے‘‘۔(الانعام ۶:۳)

کیا تم کو خبر نہیں ہے کہ آسمانوں اور زمین کی ہر چیز کا اللہ کو علم ہے؟ کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ تین آدمیوںمیں کوئی سرگوشی ہو اور ان کے درمیان چوتھا اللہ نہ ہو، یا پانچ آدمیوں میں سرگوشی ہو اور ان کے اندر چھٹا اللہ نہ ہو۔ خفیہ بات کرنے والے خواہ اس سے کم ہوں یا زیادہ، جہاں کہیں بھی وہ ہوں، اللہ ان کے ساتھ ہوتا ہے۔(المجادلہ ۵۸:۷)

’’اللہ نگاہوں کی چوری تک سے واقف ہے اور وہ راز تک جانتا ہے جو سینوں نے چھپا رکھے ہیں‘‘۔(المومن ۴۰:۱۹)

جس شخص کے دل میں اللہ تعالیٰ کے ہر جگہ موجود ہونے اور ہر چیز سے باخبر رہنے کا عقیدہ راسخ ہوگا وہ اس جگہ بھی، جہاں کوئی آنکھ اسے دیکھ نہ رہی ہو، کسی برائی کے ارتکاب سے بچے گا۔  حتیٰ کہ اگر کوئی عورت تنہائی کا فائدہ اٹھا کر اسے معصیت کی دعوت دے گی تو بھی وہ اس کی دعوت کو ٹھکرا دے گا اور فوراً پکار اٹھے گا کہ مجھے اللہ کا خوف ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن سات افراد عرشِ الٰہی کے سایے میں ہوں گے۔ ان میں سے ایک وہ شخص ہوگا جس کو کوئی خوب صورت اور جاہ و منصب والی عورت بدکاری کے لیے بلائے، لیکن وہ کہہ دے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔  (بخاری، مسلم)

آخرت میں جواب دھی:

دوسرا اسلامی عقیدہ، جو انسان کو دنیا میں محتاط زندگی گزارنے پر آمادہ کرتا ہے، آخرت کا عقیدہ ہے۔ اس کے مطابق یہ دنیا امتحان گاہ ہے۔ ایک وقت آئے گا جب یہ دنیا فنا ہوجائے گی اور دوسری دنیا برپا ہوگی۔ اس میں تمام انسان دوبارہ پیدا کیے جائیں گے اور ان سے اس دنیا میں کیے گئے ان کے تمام اعمال کا حساب لیا جائے گا۔ جن لوگوں نے یہاں اچھے کام کیے ہوں گے انھیں جنت عطا کی جائے گی، جس میں طرح طرح کی نعمتیں ہوں گی اور جن لوگوں نے یہاں بُرے کام کیے ہوں گے انھیں جہنم میں جھونک دیا جائے گا، جس میں تکلیف و اذیت کا ہر سامان موجود ہوگا۔ اِس دنیا میں کیا گیا کوئی عمل خواہ اچھا ہو یا برا، وہاں نگاہوں سے اوجھل نہیں ہوسکے گا۔ قرآن میں ہے:’پھر جس نے ذرّہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرّہ برابر بدی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا‘‘۔(الزلزال:۷-۸)

یہاں اللہ تعالیٰ نے انسانوں پر اپنے فرشتے مقرر کر رکھے ہیں، جو ان کی تمام حرکات و سکنات کو نوٹ کر رہے ہیں۔ روزِ قیامت ہر انسان کا پورا نامۂ اعمال اس کے سامنے ہوگا اور وہ دنیا میں کیے گئے کسی عمل کا انکار نہ کرسکے گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’بلکہ تم لوگ جزا و سزا کو جھٹلاتے ہو، حالاں کہ تم پر نگراں مقرر ہیں، ایسے معزّز کاتب جو تمھارے ہر فعل کو جانتے ہیں‘‘۔(الانفطار۸۲:۹-۱۲)

جذبۂ حیا کا فروغ

اسلام نے ہر فرد کے اندر حیا کا جذبہ ابھارا ہے۔یہ جذبہ اسے بے حیائی کے کاموں سے روکتا ہے۔ اگر کسی کے اندر حیا نہ ہو تو وہ غلط سے غلط کام کا ارتکاب کرسکتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا:’’سابقہ زمانوں کی ایک پیغمبرانہ بات یہ ہے کہ اگر تم میں حیا نہ ہو توجو جی میں آئے کر بیٹھوگے (سخت گھناؤنے کام سے بھی نہیں ہچکچاؤگے)‘‘۔ (بخاری)

حیا کے جذبے ہی سے انسان اپنے اعضاے ستر کو دوسروں کے سامنے کھولنے سے باز رہتا ہے۔ ایک موقعے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی سے فرمایا: اپنے اعضاے ستر اپنی بیوی کے علاوہ اور کسی کے سامنے نہ کھولو۔ انھوں نے سوال کیا: اے اللہ کے نبیؐ، اگر کوئی شخص   کسی جگہ تنہا ہو اور وہاں دوسرا کوئی نہ ہو تو کیا تب بھی وہ اپنے اعضاے ستر کو چھپائے رہے؟   آپؐ  نے جواب دیا: انسانوں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ اس سے حیا کی جائے‘‘۔ (ابوداؤد)

معاشرے کی پاکیزگی کے لیے احتیاطی تدابیر

اسلام نے افراد کے لیے جنسی آسودگی فراہم کرنے کے ساتھ معاشرے کی پاکیزگی قائم رکھنے کے لیے مختلف احتیاطی تدابیر اختیار کی ہیں۔ یہ تدابیر افراد کو جرائم کا ارتکاب کرنے سے    باز رکھتی ہیں اور جنسی جرائم کے تمام ممکنہ چور دروازوں کو بند کرتی ہیں۔ یہ تدابیر درج ذیل ہیں:

نگاھیں نیچی رکھنے کا حکم:

اسلام نے مردوں اور عورتوں دونوں کو حکم دیا ہے کہ وہ بدنگاہی سے بچیں اور آبرو کی حفاظت کریں۔ قرآن میں ہے:

اے نبیؐ! مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے۔(النور۲۴:۳۰)

 اور اے نبی، مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔(النور۲۴:۱ ۳)

ان آیات میں دو باتیں (نظریں بچانا اور شرم گاہ کی حفاظت کرنا) ساتھ ساتھ کہی گئی ہیں۔ اس سے اشارہ ملتا ہے کہ دونوں کا خاص تعلق ہے۔ اگر کوئی شخص، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، اپنی نگاہوں کو قابو میں نہیں رکھے گا تو اس کے بدکاری کی کھائی میں جاگرنے کا اندیشہ رہے گا۔

ایک مرتبہ اللہ کے رسولؐ نے اپنے چچا زاد بھائی حضرت علیؓ کو، جو آپ کے داماد بھی تھے، نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ’’اے علیؓ، اگر کسی اجنبی عورت پر تمھاری نظر پڑ جائے تو فوراً اپنی نظر پھیر لو اور دوبارہ اسے نہ دیکھو، اس لیے کہ پہلی نظر تو قابل مواخذہ نہیں، لیکن دوبارہ اسے دیکھنے کا تمھیں حق نہیں ہے‘‘۔ (ابوداؤد، ترمذی)

نامحرم کے ساتھ تنہائی میں رھنے کی ممانعت:

اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ کوئی مرد یا عورت کسی نامحرم کے ساتھ تنہائی میں نہ رہے۔ اس کی بہت سخت الفاظ میں ممانعت آئی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا:’’کوئی مرد کسی اجنبی عورت کے ساتھ تنہائی میں ہرگز نہ رہے،کیوں کہ اس صورت میں ان کے ساتھ تیسرا لازماً شیطان ہوگا‘‘۔ (ترمذی)

ایک مرتبہ آپؐ  نے صحابہؓ کو مخاطب کرکے فرمایا: ’’جب عورتیں تنہا ہوں تو ان کے پاس ہرگز نہ جاؤ‘‘۔ اس پر ایک شخص نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول، کیا عورت کا سسرالی رشتہ دار (دیور یا جیٹھ وغیرہ) بھی نہیں جاسکتا؟ فرمایا: وہ تو موت ہے‘‘۔ (بخاری، مسلم)

آزادانہ اختلاط کی ممانعت:

اسلام مردوں اور عورتوں کا آزادانہ اختلاط پسند نہیںکرتا۔ وہ چاہتا ہے کہ مرد اور عورتیں گھل مل کر نہ رہیں،اس لیے کہ مخلوط طور پر رہنے سے ان میں صنفی جذبات ابھرنے کا امکان رہتا ہے اور یہ چیز بسا اوقات بدکاری تک پہنچا سکتی ہے۔

ایک مرتبہ اللہ کے رسولؐ نے دیکھا کہ کچھ عورتیں سڑک کے درمیان مردوں کے ساتھ  گھل مل کر چل رہی ہیں۔ آپؐ  نے انھیں ٹوکا اور فرمایا: ’’پیچھے ہٹ جاؤ، تمھارا راستے کے درمیان میں چلنا مناسب نہیں۔ کنارے ہوکر چلا کرو‘‘۔ (ابوداؤد)

اُم المومنین حضرت عائشہؓ نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں گواہی دی ہے کہ آپؐ  نے کبھی کسی اجنبی عورت کو ہاتھ نہیں لگایا۔ (بخاری، مسلم)

بغیر محرم عورت کے سفر پر پابندی:

اسلام کی ایک ہدایت یہ ہے کہ کوئی عورت اپنے شوہر یا محرم کے بغیر سفر نہ کرے۔ عورتیں جہاں رہتی ہیں وہاں تو وہ اپنی ضروریات کے لیے تنہا نکل سکتی ہیں، لیکن دور کی مسافت پر تنہا جانا ان کے لیے روا نہیں ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا ہے:’’کوئی عورت، جو اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتی ہے، اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ بغیر محرم کے ایک دن اور ایک رات کی مسافت کا سفر کرے‘‘۔(بخاری، مسلم)

اسلام کی اس تعلیم پر اعتراض کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس نے عورت کی آزادی کو محدود کردیا ہے اور اسے گھر کی چار دیواری میں مقید کردیا ہے۔ لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے۔ اسلام نے عورت کو گھر سے باہر نکلنے سے نہیں روکا ہے، لیکن وہ اس کی عزت و عصمت کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ اس لیے وہ چاہتا ہے کہ جب عورت دور کی مسافت کے لیے نکلے تو اس کے ساتھ اس کا کوئی محرم ہو، تاکہ کوئی آوارہ اور بدچلن شخص اس کے ساتھ چھیڑ خانی کی جراء ت نہ کرسکے۔

بن سنور کر نکلنے کی ممانعت:

اسلام نے حکم دیا ہے کہ کوئی عورت سج دھج کر گھر سے باہر نہ نکلے اور نہ باہر نکلتے وقت خوشبو لگائے۔ اس لیے کہ اگر وہ ایسا کرے گی تو اجنبی مردوں کی نگاہیں اس کی جانب اٹھیں گی اور ان کے صنفی جذبات مشتعل ہوں گے، اس وجہ سے  اس پر دست درازی کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ یہاں تک تاکید کی ہے کہ جب عورتیں گھر سے باہر نکلیں تو اپنے عام لباس کے اوپر ایک اور بڑا کپڑا (چادر وغیرہ) اوڑھ لیں، جس سے ان کا بدن خوب اچھی طرح ڈھک جائے اور ان کا کوئی عضو نمایاں نظر نہ آئے۔

قرآن میں ہے:’’اے نبی، اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ِ ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلّو لٹکا لیا کریں‘‘(الاحزاب ۳۳:۵۹)۔ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا:’’عورت جب خوشبو لگا کر کسی ایسی جگہ سے گزرتی ہے جہاں بہت سے مرد ہوں تو وہ ایسی اور ایسی ہے، (یعنی وہ بدکار ہے)‘‘۔ (ترمذی)

لباس ساتر ھو:

اسلام کا ایک حکم یہ ہے کہ عورتیں ایسا لباس پہنیں جو ان کے پورے جسم کو (سوائے چہرہ اور ہاتھ کے) چھپانے والا ہو۔ نہ ان کا سر کھلا ہو، نہ گریبان چاک ہو اور نہ لباس اتنا شفاف ہو کہ ان کا بدن جھلکتا ہو۔ قرآن میں ہے:’’عورتیں اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں‘‘(النور۲۴:۳۱)۔ایک مرتبہ اللہ کے رسول ؐ کی زوجۂ محترمہ ام المومنین حضرت عائشہؓ کی بڑی بہن حضرت اسماءؓ آپؐ  کے گھر آئیں۔ اس وقت وہ باریک کپڑے پہنے ہوئے تھیں۔ ان پر آپؐ  کی نظر پڑی تو آپؐ  نے اپنا چہرہ پھیر لیا اور فرمایا:’’اے اسماء،لڑکی جب بالغ ہوجائے تو اس کے چہرے اور ہاتھ کے علاوہ جسم کا کوئی حصہ کھلا نہیں رہنا چاہیے‘‘۔ (ابوداؤد)

ایک مرتبہ آپؐ  نے بہت سخت الفاظ میں تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا:’’بہت سی عورتیں ایسی ہیں جو لباس پہنے ہونے کے باوجود عریاں ہوتی ہیں۔ وہ دوسروں کو اپنی طرف مائل کرنے والی اوردوسروں کی طرف خود مائل ہونے والی ہوتی ہیں، ان کے سر بختی اونٹوں کے کوہان کی طرح  اُٹھے ہوتے ہیں۔ وہ قیامت کے دن جنت کی خوشبو بھی نہ پائیں گی، حالاں کہ اس کی خوشبو کافی فاصلے سے محسوس ہوگی‘‘۔ (مسلم)

ایک حدیث میں ہے کہ ’’آپؐ  نے ایسے مردوں پر لعنت فرمائی ہے جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں اور ایسی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں‘‘۔  (ابوداؤد، ترمذی)

پردے کا خصوصی حکم:

عورتوں کو ایک خصوصی حکم یہ بھی دیا گیا ہے کہ وہ غیرمردوں کے سامنے اپنی زینت کا اظہار نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’اور اپنا بناؤ سنگھار    نہ دکھائیں، بجز اس کے جو خود ظاہر ہوجائے‘‘(النور۲۴:۳۱)۔اس آیت میں صرف اس زینت کو مستثنیٰ رکھا گیا ہے، جو خود بہ خود ظاہر ہوجائے، اور جس کے چھپانے پر عورت کا اختیار نہ ہو۔ ’’اس سے صاف مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کو خود اس کا اظہار اور اس کی نمایش نہیں کرنی چاہیے، البتہ جو آپ سے آپ ظاہر ہوجائے.... حکمِ حجاب میں منہ کا پردہ شامل [ہے]‘‘ (تفہیم القرآن، سوم، ص ۳۸۵-۳۸۶)۔ بعض علما کا خیال ہے کہ اس سے مراد چہرہ اور ہاتھ (گٹے تک) ہیں کہ انھیں عورت کھلا رکھ سکتی ہے، باقی پورے بدن کو چھپانا ضروری ہے۔ علما یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر فتنے کا اندیشہ ہو تو عورت کا اپنے چہرے کو چھپانا بہتر ہے۔

بدکاری کے محرکات پر پابندی

درج بالا احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے ساتھ اسلام نے ان چیزوں پر بھی پابندی عائد کی ہے جو بدکاری پر ابھارنے والی اور مردوں اور عورتوں میں صنفی جذبات برانگیختہ کرنے والی ہیں۔

  • شراب حرام ھے: بدکاری کی تحریک پیدا کرنے والی ایک اہم چیز شراب ہے۔ شراب کے بارے میں یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ وہ تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ شراب پینے کے بعد آدمی اپنے ہوش و حواس میں نہیں رہتا اور بھلے برے کی تمیز کھو بیٹھتا ہے۔ اسے کچھ پتا نہیں رہتا کہ  کب کیا حرکت کر بیٹھے۔ اسی طرح شراب سے آدمی کے صنفی جذبات برانگیختہ ہوتے ہیں اور رشتوں کی تمیز اٹھ جاتی ہے۔ انھی وجوہ سے اسلام نے شراب کو حرام قرار دیا ہے۔ قرآن نے شراب نوشی کو گندے شیطانی کاموں میں شمار کرتے ہوئے، اہلِ ایمان کو اس سے بچنے کی تلقین کی ہے:’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، یہ شراب اور جوا اور یہ آستانے اور پانسے، یہ سب گندے شیطانی کام ہیں، ان سے پرہیز کرو، امید ہے کہ تمھیں فلاح نصیب ہوگی‘‘۔(المائدہ ۵:۹۰)
  • شراب نوشی موجبِ سزا عمل:  ابتداے اسلام میں اگرچہ اس کی کوئی متعین سزا نہیں تھی، لیکن بعد میں صحابہ کرامؓ نے متفقہ طور پر ۸۰ کوڑے سزا تجویز کی۔ اس کی دلیل انھوں نے یہی بیان کی کہ شراب پینے کے بعد آدمی کو اپنے ذہن و دماغ اور زبان پر قابو نہیں رہتا، وہ اول فول بکتا ہے اور عفت مآب خواتین پر گندے الزامات اور تہمتیں لگاتا ہے۔ظاہر ہے، جب اسلام کے نزدیک شراب نوشی حرام ہے تو وہ شراب کی فیکٹریاں قائم کرنے اور اس کا کاروبار چلانے کی کیوں کر اجازت دے سکتا ہے۔
  • فحاشی کی ممانعت: اسلام معاشرے میں فحاشی کی اشاعت کی قطعاً اجازت نہیں دیتا۔ وہ ان تمام چیزوں پر پابندی عائد کرتا ہے جن کے ذریعے بے حیائی اور عریانی عام ہو، گندی باتوں اور گندے کاموں کا پرچار ہو، جنھیں دیکھ کر اور سن کر عوام کے صنفی جذبات بھڑکیں اور برائی اور بدکاری کی جانب ان کا میلان ہو۔ جو لوگ معاشرے میں فحاشی پھیلانے کا ذریعہ بنتے ہیں، اسلام انھیں درد ناک سزا کی وعید سناتا ہے۔ قرآن میں ہے:’’جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں فحش پھیلے وہ دنیا اور آخرت میں درد ناک سزا کے مستحق ہیں‘‘۔(النور۲۴:۱۹)

موجودہ دور میں معاشرے میں فحاشی، بے حیائی اور عریانی پھیلانے والی بہت سی چیزیں رواج پا گئی ہیں، مثلاً گندی فلمیں، عریاں پوسٹر اور اشتہارات، بے حیائی کا پرچار کرنے والے رسائل، انٹرنیٹ پربے شمار عریاں سائٹس وغیرہ۔ معاشرے کے لیے ان چیزوں کا ضرر رساں ہونا کھلی حقیقت ہے، لیکن چوں کہ انھوں نے صنعت کی شکل اختیار کرلی ہے اور ان سے حکومت اور سربر آوردہ طبقے کو خطیر رقمیں حاصل ہوتی ہیں، اس لیے ان کی خطرناکی کو نظر انداز کرکے انھیں  خوب بڑھا وا دیا جا رہا ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے یہ تمام چیزیں معاشرے کے لیے سمِّ قاتل ہیں، اس لیے ان میں سے کسی کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

زنا کی کڑی سزا

ان تمام تعلیمات اور ہدایات کے بعد، جو فرد اور معاشرے کی تربیت سے متعلق ہیں، آخر میں اسلامی قانون اپنا کام کرتا ہے۔ ان تمام کوششوں کے باوجود معاشرے میں کچھ ایسے بدخصلت افراد ہوسکتے ہیں جو بدکاری میں ملو ّث ہوجائیں۔ ایسے لوگوں کے لیے اسلام درد ناک سزا تجویز کرتا ہے۔ وہ قانون یہ ہے:’’زانیہ عورت اور زانی مرد، دونوں میں سے ہر ایک کو ۱۰۰ کوڑے مارو اور  ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملے میں تم کو دامن گیر نہ ہو، اگر تم اللہ تعالیٰ اور روز ِ آخر پر ایمان رکھتے ہو۔ اور ان کو سزا دیتے وقت اہلِ ایمان کا ایک گروہ موجود رہے‘‘۔(النور۲۴:۲)

اس آیت سے درج ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں:

  1. زنا کا ارتکاب اگر مرد اور عورت دونوں کی مرضی سے ہوا ہے تو دونوں سزا کے مستحق ہیں۔ لیکن زنا بالجبر کی صورت میں صرف جبر کرنے والے کو سزا دی جائے گی۔
  2. زنا کی سزا ۱۰۰ کوڑے مارنا ہے۔
  3. یہ اللہ کا دین ہے۔ جس طرح دین کے دیگر احکام واجب التعمیل ہیں، اسی طرح اس حکم پر بھی عمل ضروری ہے۔ اسے سماجی مسئلہ قرار دے کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
  4. زنا کے مجرمین کے ساتھ ترس کھانے کا جذبہ اہلِ ایمان کے دلوں میں نہیں پیدا ہونا چاہیے۔ ان لوگوں نے بہت بھیانک جرم کیا ہے، اس لیے ان پر مذکور سزا لازماً نافذ کی جائے۔
  5. زنا کی سزا کسی پبلک مقام پر دی جائے، تاکہ دوسرے لوگ سزا نافذ ہوتے ہوئے دیکھ سکیں۔ اس سے وہ عبرت حاصل کریں گے اور اس غلط کام کے ارتکاب سے بچیں گے۔

اس آیت میں زنا کی سزا ۱۰۰ کوڑے بیان کی گئی ہے۔ یہ سزا غیر شادی شدہ افراد کے لیے ہے۔ احادیث اور عہد نبویؐ میں نافذ کی جانے والی سزاؤں کی تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ زنا کا ارتکاب کرنے والے شادی شدہ افراد کی سزا یہ ہے کہ انھیں پتھر مار مار کر ہلاک [رجم]کردیا جائے۔

غیر شادی شدہ اور شادی شدہ افراد کی سزاؤں میں فرق کی حکمت علما نے یہ بیان کی ہے کہ شادی شدہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص کو جنسی آسودگی حاصل ہوچکی ہے، اس کے باوجود اس نے اس گھناونے فعل کا ارتکاب کیا ہے، اس لیے وہ سخت ترین سزا کا مستحق ہے۔

سزا کے نفاذ کے لیے قطعی ثبوت

اسلام نے زنا کی سزا جتنی سخت رکھی ہے، اس کے ثبوت کے لیے اتنی ہی کڑی شرائط بھی عائد کی ہیں۔ یا تو کوئی شخص اپنے ضمیر کی آواز پر اعتراف کرلے کہ اس سے یہ غلط کام سرزد ہوگیا ہے، تب اس پر یہ سزا نافذ کی جائے گی، یا چار مرد یہ گواہی دیں کہ انھوں نے اپنی کھلی آنکھوں سے کسی مرد اور عورت کو بدکاری کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ قطعی ثبوت فراہم ہونے کے بعد ہی کسی کو یہ سزا دی جائے۔

ایک خاص بات یہ ہے کہ اسلام نے ہر شخص کے ضمیر کو بیدار کیا ہے اور اس کے اندر گناہ سے بچنے اور اگر اس کا ارتکاب ہوجائے تو اس سے پاکی حاصل کرنے کا جذبہ پیدا کیا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ عہد ِ نبویؐ میں ایک واقعہ بھی ایسا پیش نہیں آیا، جس میں چار مردوں نے یہ گواہی دی ہو کہ انھوں نے کسی مرد اور عورت کو بدکاری کرتے ہوئے دیکھا ہے اور اس گواہی کے نتیجے میں ان پر سزا کا نفاذ ہوا ہو۔ سزاے زنا کے جو اِکّا دکّا واقعات اس دور میں پیش آئے ان سب میں زنا کرنے والوں نے اپنے ضمیر کی آواز پر خود آکر اعتراف کیاتھا۔

تطہیرِِ معاشرے کا آزمودہ نسخہ

معاشرے کو پاکیزہ رکھنے کے لیے اسلام کی یہ تعلیمات محض نظری نہیں ہیں، بلکہ ان پر  عمل ہوچکا ہے اور دنیا نے ان کے اثرات کا اپنی کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہے۔ عرب کا معاشرہ فسق و فجور کے دلدل میں غرق تھا، برائی کو برائی نہیں سمجھا جاتا تھا، عصمت و عفّت کے کوئی معنیٰ نہیں تھے، شراب ان کی گھٹّی میں پڑی تھی۔ اسلام کی ان تعلیمات کے نتیجے میں ان کی زندگیاں پاکیزہ ہوگئیں، اخلاقی قدروں کو ان کے درمیان فروغ ملااور عورت کو عزت و توقیر حاصل ہوئی۔ بعد کے ادوار میں جہاں جہاں ان تعلیمات پر عمل کیا گیا اور ان احکام کو نافذ کیا گیا وہاں وہاں معاشرے پر ان کے خوش گوار اثرات مرتب ہوئے۔ آج بھی جو لوگ معاشرے میں برائیوں کو پنپتا دیکھ کر فکرمند ہیں اور آبروریزی کے بڑھتے ہوئے واقعات کو روکنے کے لیے اسلامی سزا کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھ رہے ہیں اور اسے نافذ کیے جانے کا مطالبہ کر رہے ہیں، اگر وہ سنجیدہ ہیں تو انھیں پورے اسلامی نظامِ معاشرت کو قبول کرنا اور اسلام کی تمام تعلیمات پر عمل کرنا ہوگا، تبھی مطلوبہ فائدے حاصل ہوسکتے ہیں، برائیوں پر قابو پایا جاسکتا ہے اور معاشرے کی پاکیزگی قائم رکھی جاسکتی ہے۔

مقالہ نگار مجلہ تحقیقاتِ اسلامی، علی گڑھ کے معاون مدیر ہیں۔

ہم بنگلہ دیش کی معاشی خوش حالی، قومی آزادی اور سیاسی خودمختاری کے حامی ہیں اور دعاگو ہیں۔ لیکن عوامی لیگ کی غیرقانونی اور غیرنمایندہ حکومت کے تحت بنگلہ دیش میں آج کل بخار کی سی جو کیفیت پائی جاتی ہے جس میں یہ آوازیں بلند ہورہی ہیں: ’’یہ پاکستان کا ایجنٹ ہے۔ اس کی کتاب جھوٹ کا پلندہ ہے۔ اس نے ایجنسیوں سے پیسے لے کر کتاب لکھی ہے۔ ملکی آزادی اور اقتدارِ اعلیٰ کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ تاریخ کی حفاظت کے لیے اس پر پابندی لگائی اور شائع شدہ کتاب کو ضبط کرلیا جائے۔ مصنف پر غداری کا مقدمہ چلایا اور سخت سزا دی جائے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔   یہ واویلا ہے بنگلہ دیش کے ایئروائس مارشل (سابق) عبدالکریم خوندکر کی کتاب بیٹوری بیرے: ۱۹۷۱ء [۱۹۷۱ء، اندر اور باہر کی کہانی] میں شائع ہونے والے ایک جملے کے خلاف۔

ذرا آگے بڑھنے سے پہلے ضروری ہے کہ اصولی طور پر چند پہلو سامنے رکھ لیے جائیں اور تاریخ کے دوچار ورق بھی پلٹ لیے جائیں۔ جھوٹ تو ویسے بھی ایک ایسی لعنت ہے کہ جسے شرک کا دستاویزی ثبوت سمجھنے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ دیکھا جائے تو لسانی، علاقائی یانسلی قوم پرستی کا سب سے بڑا ہتھیار بھی یہی جھوٹ ہوتا ہے۔ نفرت کی آگ بھڑکانے کے لیے اعداد و شمار کا جھوٹ، معاملات فہمی کی جڑ کاٹنے کے لیے جھوٹ کی کاری ضرب اور پروپیگنڈا کا الائو بھڑکانے کے لیے جھوٹ کے پٹرول کا مسلسل چھڑکائو۔ گویا کہ اس طرح نفرت کے دیو کو بے قابو کرکے دین، اخلاق،کردار، انسانیت اور شائستگی کے قتلِ عام کا گھنائونا کھیل کھیلنا نسلی قوم پرستی کا وتیرا ہے۔ بنگلہ دیش کی تشکیل اور پاکستان کی تخریب کا یہ کھیل ہماری آنکھوں کے سامنے کھیلا گیا۔ اس پس منظر میں جزوی معاملات کو جھوٹ کے رنگ میں یوں رنگا گیا کہ ہنستی بستی زندگی خون آلود ہوگئی۔ معمولی درجے کی پھنسیاں جھوٹ کے بل بوتے پرسرطان کے رستے ناسور دکھائی دینے لگے۔ معاشی اعداد و شمار کو مبالغہ آرائی کے لباس میں یوں بناسنوار کر پیش کیا جاتا رہا کہ حقائق کے ٹیلے، ہمالہ کی چوٹیاں دکھائی دینے لگیں۔ بلاشبہہ جہاں انسان بستے ہیں، معاملات میںا فراط و تفریط ہوتی ہے، جنھیں احسن طریقے سے حل کیا جاتا ہے اور حل کیا جانا چاہیے۔ مگر ایسا شاید ہی ہوا ہو کہ اس بدمستی میں اپنوں کو دشمن اور دشمنوں کو اپنا سمجھ لیا گیا ہو۔ مگربنگلہ دیش کی تشکیل کے وقت ایسا ہی ہوا تھا۔ یوں جھوٹ کی بنیاد پر شروع کیا جانے والا سفر ۴۳برس گزرنے کے بعد بھی جھوٹ کا سہارا مانگتا ہے اور سچائی کو قتل کرنے کے لیے متحرک رہتا ہے۔

۱۶دسمبر ۱۹۷۱ء کو بنگلہ دیش بننے سے چار سال قبل کے حالات پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جنوری ۱۹۶۸ء میں مشرقی بھارت کے صوبے ’تری پورہ‘ کے شہر ’اگرتلہ‘ میں، خفیہ طور پر عوامی لیگ کی قیادت اور بھارتی انٹیلی جنس بیورو نے مل کر ایک سازش تیار کی۔ عوامی لیگ کے نمایندے شیخ مجیب کے ایما پر یہاں پہنچے تھے۔ ان خفیہ اجلاسوں میں طے پایا کہ: ’’مشرقی پاکستان کو  پاکستان سے کاٹ کر الگ کر لیا جائے گا اور اس ضمن میں بھارت، سازشیوں کی مدد کرے گا۔ حکومت پاکستان کو اس سازش کا علم ہوا تو اس نے عوامی لیگ کے ۳۵ افراد کو گرفتار کرکے سازش کی تفصیلات قوم کے سامنے پیش کردیں۔ مگر اگلے ہی لمحے بنگالی قوم پرست، نام نہاد ترقی پسند اور  آزاد خیال اخبارات نے پاکستان بھر میں شور مچا دیا کہ: ’’ایسی کوئی سازش تیار نہیں کی گئی، یہ   مغربی پاکستانی حکمرانوں کا جھوٹا الزام ہے اور انسانی بنیادی حقوق کا قتلِ عام ہے‘‘۔

تاہم، صدر ایوب خاں حکومت کو اپنے موقف کی سچائی پر یقین تھا، جنھوں نے پاکستان کے نیک نام سابق چیف جسٹس ایس اے رحمن (۱۹۰۳ء-۱۹۹۰ء) کی سربراہی میں خصوصی تحقیقاتی ٹربیونل قائم کردیا۔ لیکن ڈھاکہ میں جوں ہی اس خصوصی عدالت نے کارروائی شروع کی تو قوم پرستانہ فاشزم حرکت میں آیا، تاکہ سچائی کا گلا گھونٹا جاسکے، اور عوامی لیگی مسلح غنڈوں نے حملہ کرکے نہ صرف ریکارڈ کو نقصان پہنچایا، بلکہ جسٹس ایس اے رحمن کو مشکل سے جان بچانا پڑی۔ پھر پاکستان مسلم لیگ کے صدر ممتاز محمد خاں دولتانہ کے بے پناہ اصرار پر فروری ۱۹۶۹ء میں ان مقدمات پر کارروائی معطل کرکے مجیب کو رہا کرنا پڑا۔ یاد رہے کہ اس پورے عرصے کے دوران ’روشن خیال‘ صحافی، مجیب کی ’بے گناہی‘ کا ماتم کرتے رہے۔ لیکن جوں ہی بھارتی فوج کی مدد سے مشرقی پاکستان کو کاٹ کر بنگلہ دیش بنادیا گیاتھا تو مجیب الرحمن نے اعتراف کیا: ’’ہم اس علیحدگی کے لیے برسوں سے بھارت کے ساتھ رابطے میں تھے‘‘۔ اسی بات کا چند برس پہلے حسینہ واجد نے بھی اعتراف کیا اور پھر ۲۲فروری ۲۰۱۱ء کو عوامی لیگی ڈپٹی اسپیکر پارلیمنٹ شوکت علی (جو اگر تلہ سازش کے ملزموں میں شامل تھا) نے اعترافِ عام کیا کہ: ’’ہمارے خلاف اگر تلہ سازش کے حوالے سے حکومت نے درست مقدمہ بنایا تھا، ہم نے شیخ مجیب کی قیادت و رہنمائی میں ’سنگرام پریشد‘ بناکر علیحدگی کے لیے عملی پروگرام بنایا تھا‘‘۔

۱۹۷۰ء کے پورے سال انتخابی مہم میں ایک جانب تو عوامی لیگ نے اپنے مدمقابل جماعتوں: جماعت اسلامی، پاکستان جمہوری پارٹی اور مسلم لیگ کو جلسے تک نہ کرنے دیے، اور دوسری جانب اپنے منشور میں اور جلسوں کی تقاریر میں باربار یہ کہا کہ ہمارا پروگرام ’پاکستان کو مضبوط بنائے گا، ہم وحدت پاکستان پر یقین رکھتے ہیں‘‘۔ لیکن جوں ہی انتخابی نتائج سامنے آئے جو   یک طرفہ تھے، کیونکہ انتخابات کے روز، پولنگ اسٹیشنوں پر عوامی لیگ کے مسلح لوگوں کا قبضہ تھا اور انتظامیہ بے بس تماشائی تھی۔ نتیجہ یہ کہ جن دو تین حلقوں پر وہ یوں ظالمانہ قبضہ نہ کرسکے، وہاں سے راجہ تری دیوراے اور نورالامین قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے۔ یہاں ایک اور قابلِ غور بات دیکھیے کہ ویسے تو صدر جنرل یحییٰ خاں کو ساری قوم کے ساتھ یہ بقلم خود ’روشن خیال طبقے‘ بھی بُرا کہتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ برملا یہ فتویٰ بھی دیتے ہیں: ’’پاکستان کی تاریخ کے سب سے زیادہ شفاف اور غیرجانب دارانہ انتخابات ۱۹۷۰ء میں جنرل یحییٰ خاں کے زیرقیادت ہی میں منعقد ہوئے تھے‘‘۔کیا وہ شفاف انتخابات تھے یا روشن دن میں کھلے عام ڈاکازنی تھی؟

یکم مارچ ۱۹۷۱ء کو جب صدر جنرل یحییٰ خاں نے دستور ساز اسمبلی کا اجلاس، ذوالفقار علی بھٹو کے دبائو میں چند روز کے لیے ملتوی کیا تو شیخ مجیب نے چشم زدن میں مشرقی پاکستان میں ’سول نافرمانی‘ کی تحریک شروع کرکے ایسا غنڈا راج قائم کردیا جس میں ہم وطن غیربنگالی پاکستانیوں (اُردو بولنے والوں، پنجابیوں، پٹھانوں) کی خواتین، اجتماعی عصمت دری اور قتل و غارت گری کی خاطر بنگالی قوم پرست مسلح جتھوں کے لیے ’حلال‘ قرار پائیں۔ مردوں اور بچوں کا قتلِ عام شروع ہوا۔ لُوٹ مار سکہ رائج الوقت ہوگیا۔اسی فضا میں ۷مارچ ۱۹۷۱ء کو ریس کورس گرائونڈ ڈھاکہ میں ایک بڑے جلسے سے فسطائی سیاست کے دیوتا مجیب الرحمن نے خطاب کیا۔ اس مضمون کے شروع میں جس الزامی بارش کا تذکرہ کیا گیا ہے اس کا نشانہ عبدالکریم خوندکر ہیں، اور ان کا جرم یہی جلسہ عام ہے۔

ایئروائس مارشل (سابق) اے کے [عبدالکریم] خوندکر، جو ۱۹۷۲ء سے ۱۹۷۵ء تک  بنگلہ دیش فضائیہ کے چیف آف ایئرسٹاف رہے، یہ صاحب ۱۹۷۱ء کے دوران علیحدگی کی تحریک میں ڈپٹی چیف آف اسٹاف تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ۱۹۷۶ء سے ۱۹۸۲ء تک آسٹریلیا میں اور ۱۹۸۲ء سے ۱۹۸۶ء تک ہندستان میں بنگلہ دیش کے سفیر رہے۔ ۱۹۸۶ء میں پارلیمنٹ کا الیکشن جیتا اور عوامی لیگ حکومت میں قومی منصوبہ سازی کے دو مرتبہ وزیر رہے۔ موجودہ ستمبر میں انھوں نے اپنی کتاب’ بیٹوری بیرے ۱۹۷۱ء‘ میں لکھا ہے کہ: ’’۷مارچ ۱۹۷۱ء کو ڈھاکہ میں بڑے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے شیخ مجیب الرحمن نے آزادی کا اعلان نہیں کیا تھا بلکہ تقریر کے اختتام پر  ’جئے پاکستان‘ (پاکستان زندہ باد) کا نعرہ بلند کیا تھا‘‘۔ ظاہر ہے کہ اس واقعے کے لاکھوں گواہ موجود ہیں، مگر بُرا ہو قوم پرستانہ دروغ گوئی کا، کہ وہ سچائی کی روشنی میں آنا نہیں چاہتی۔ اسی لیے ستمبر کی دوتاریخ کو مذکورہ کتاب کے شائع ہوتے ہی بنگلہ دیش میں عوامی لیگ اور ہندو اسٹیبلشمنٹ نے خوف ناک طوفان برپا کردیا۔ یہاں اُس کی چند جھلکیاں ملاحظہ ہوں:

  • اخباری ایجنسی Newsnextbd (۵ستمبر ۲۰۱۴ء) کے مطابق: ’’بنگلہ دیش کی پارلیمنٹ میں معمول کی کارروائی روک کر، پوائنٹ آف آرڈر پر بیٹوری بیرے پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے وزیرصنعت امیرحسین نے کہا: ’’اس کتاب سے ۷مارچ ۱۹۷۱ء کی تاریخی تقریر ہی کو نہیں بلکہ پوری بنگلہ دیش کی قوم کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے، جس سے بنگلہ دیش کی آزادی اور  اقتدارِ اعلیٰ خطرے میں پڑگئے ہیں‘‘۔ممبر پارلیمنٹ طفیل احمد (یاد رہے یہ شخص ۱۲؍اگست ۱۹۶۹ء کو محمدعبدالمالک ناظم اسلامی جمعیت طلبہ ڈھاکہ کے براہِ راست قاتلوں میں شامل تھا) نے کہا: ’’۷مارچ کی تقریر کے حوالے سے خوندکر اپنا بیان واپس لے اور پوری قوم سے معافی مانگے‘‘۔  شیخ فضل الکریم نے کہا: ’’بنگلہ دیش کا مطلب مجیب الرحمن ہے۔ خوندکر نے یہ بات لکھ کر آئین شکنی کی ہے۔ اس پر غداری کا مقدمہ چلایا جائے۔ یہ کتاب اس پاکستانی ایجنٹ نے ایجنسیوں سے پیسے لے کر لکھی ہے۔ بنگلہ دیش کی تاریخ کی حفاطت کے لیے ضروری ہے کہ اس کتاب پر پابندی لگائی جائے اور طبع شدہ کاپیاں ضبط کی جائیں‘‘۔
  • روزنامہ Dhaka Tribune (۷ستمبر ۲۰۱۴ء) نے بتایا کہ: ایئروائس مارشل (سابق) اے کے خوندکر نے کتاب کے دوسرے ایڈیشن میں ترمیم کر کے ص۳۲ پر لکھا ہے کہ: ’’مجیب نے تقریر کے آخر میں جئے بنگلہ اور جئے پاکستان کا نعرہ بلند کیا تھا‘‘۔ (یاد رہے کہ اس کتاب کا پہلاایڈیشن ۲ستمبر ۲۰۱۴ء کو شائع ہوا تھا)۔ پہلے ایڈیشن میں اے کے خوندکر نے لکھا تھا: ’’مجیب نے تقریر کے آخر میں جئے پاکستان کا نعرہ بلند کیا تھا‘‘(اس ترمیم کے بعد بھی اصولی طور پر ایئروائس مارشل خوندکر اپنے موقف پر قائم ہیں کہ مجیب کے آخری الفاظ ’پاکستان زندہ باد‘ ہی تھے)۔
  • ڈھاکہ کے روزنامہ اخبار  New Age(۶ستمبر ۲۰۱۴ء) کے مطابق: ’’بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی)کے قائم مقام سیکرٹری جنرل فخرالاسلام نے کہا ہے:’’اے کے خوندکر نے سو فی صد درست واقعہ لکھا ہے کہ مجیب الرحمن نے ۷مارچ کی تقریر کے آخر میں پاکستان زندہ باد کا نعرہ بلند کیا تھا۔ یہ سچائی بیان کر کے درحقیقت اے کے خوندکر نے عوامی لیگ کی مدتوں سے پھیلائی ہوئی دروغ گوئی کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے‘‘۔

مسئلہ دراصل یہ ہے کہ بھارتی پشت پناہی سے تقویت حاصل کرنے کی رسیا عوامی لیگ کے کارندے اپنے لیڈر مجیب کو شیر کی کھال پہنانا چاہتے ہیں، مگر بدقسمتی سے وہ مجیب کے وجود پر پوری نہیں آتی۔ اس لیے وہ ہر اُس فرد پر چڑھ دوڑتے ہیں جو کہتا ہے کہ: ’’یہ شیر نہیں ، شیر کی کھال ہے‘‘۔ آج عوامی لیگی تڑپ رہے ہیں کہ ۷مارچ ۱۹۷۱ء کی تقریر کے آخر سے، مجیب کے کہے جانے والے الفاظ ’پاکستان زندہ باد‘ کو اگر درست تسلیم کرلیا جائے تو اُن کے لیے اس تقریر کی   بطور ’اعلانِ آزادی‘ حیثیت ختم ہوجاتی ہے۔ حالانکہ مجیب نے ’پاکستان زندہ باد‘ ہی پر تقریر کا اختتام کیا تھا اور اُس کا یہ کہنا ایک درجے میں بزدلی یا منافقت کا شاہکار تھا۔

وجہ صاف ظاہر ہے کہ مجیب نے ۱۹۷۲ء کے بعد یہ بات بار بار ریکارڈ پر لانے کی کوشش کی  ہے کہ: ’’میں بہت مدت سے علیحدگی کے لیے کام کر رہا تھا‘‘۔ مگر ۷مارچ ۱۹۷۱ء کو یہی شیربنگال، بھیگی بلی بن کر، ان الفاظ کو منہ سے نکالنے کی ہمت نہ کرسکا۔صرف یہ نہیں بلکہ جب اگست ۱۹۷۱ء میں، یعنی مارچ ۱۹۷۱ء کے چھے ماہ بعد مجیب کو خصوصی عدالت میں مقدمے کا سامنا کرنا پڑا تو    ان کے وکیل اے کے بروہی مرحوم کے بقول: ’’مجیب نے جو حلفیہ بیان عدالت میں جمع کرایا،  اس کے مطابق مجیب نے ثبوتوں، گواہوں اور اپنے دستخطوں کے ساتھ یہ تسلیم کیا کہ مَیں مشرقی پاکستان کو علیحدہ نہیں کرنا چاہتا، پاکستان کے وفاق کو مضبوط کرنے اور صوبائی حقوق کے تحفظ کی جدوجہد کر رہا ہوں، اور ایک پاکستان کا حلفیہ لیڈر اور شہری ہوں‘‘۔ یہ دستاویز آج تک ہمارے حقیقی حکمران طبقے کے ریکارڈ میں موجود ہے۔ گویا کہ عوامی لیگ کی طرف سے دعویٰ کردہ نام نہاد اعلانِ آزادی کے چھے ماہ بعد اور بھارتی حملے کے بل پر علیحدگی حاصل کرنے سے چار ماہ پہلے تک’عظیم بنگالی لیڈر‘ مجیب الرحمن نے باربار جھوٹ کہا تھا کہ میں پاکستان قائم رکھنا چاہتا تھا۔ مراد یہ ہے کہ یہ کیسا لیڈر ہے جو موت کو سامنے دیکھ کر سراسر جھوٹ بولنے لگتا ہے اور وہ بھی بار بار۔ یہی پے درپے غلط بیانی عوامی لیگ کی علیحدگی کی تاریخ کی بنیاد تھا۔ اسی افسانہ طرازی کی بنیاد پر عوامی لیگ، بنگلہ دیش کی نئی نسل کو گمراہ کر کے پاکستان کے خلاف نفرت پھیلانے کی آج تک کوشش کررہی ہے۔ اسی بے جا اور بے بنیاد اساس پر مجیب کو ’عظیم لیڈر‘ قرار دلوانے کے لیے تاریخ کا قتل کرنے پر تلی ہوئی ہے،اور ہر اس شخص کی زبان گدی سے کھینچ دینے کے لیے آمادہ جنگ رہتی ہے، جو سچائی کی ذرا سی خوشبو بھی پھیلانے کی کوشش کرے، اور عوامی لیگی جھوٹ کی نشان دہی کرے۔

مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے چند ہفتوں بعد مجیب الرحمن نے بے سوچے سمجھے ۳۰لاکھ بنگالیوں کے قتل کا الزام پاکستانی افواج پر تھوپ دیا،اور جب خود مجیب کی مقرر کردہ تحقیقاتی ٹیم نے کہا کہ:’’ تمام مقتولین کی تعداد اس پورے عرصے میں ۵۰ ہزار کے لگ بھگ تھی (جن میں خود عوامی لیگی مکتی باہنی کے ہاتھوں غیربنگالی مقتولین بھی شامل تھے)‘‘، تو اُس رپورٹ کو مجیب نے فرش پر دے مارتے ہوئے کہا: ’’میں نے ۳۰ لاکھ کہا ہے، اس لیے ۳۰ لاکھ ہی لکھو اور کہو‘‘۔ اسی طرح ۳لاکھ بنگالی خواتین کی بے حُرمتی کا افسانہ۔ لیکن جب ڈاکٹر شرمیلابوس نے طویل تحقیقی جدوجہد کے بعد اپنی کتاب Dead Reckoning میں دلائل و شواہد کے ساتھ ثابت کیا کہ: ’’یہ ۳۰ لاکھ اور ۳لاکھ کے اعداد و شمار بے ہودہ پروپیگنڈے سے زیادہ کچھ حیثیت نہیں رکھتے‘‘، تو اُس ہندو اور بھارتی خاتون کو پاکستانی ایجنٹ قرار دیا اور اس کی کتاب پر بنگلہ دیش میں پابندی لگادی۔ حیرت کی بات ہے کہ آزادی راے اور مجیب کا دم بھرنے والے ’روشن خیال‘ صحافی اور دانش ور اس ظلم پر بالکل چپ سادھے بیٹھے ہیں۔

یہاں پر اس کو بھی ریکارڈ پر لاناضروری ہے کہ وہی شیخ مجیب جو متحدہ پاکستان میں کالے قوانین کی منسوخی، انسانی بنیادی حقوق کے تحفظ اور جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد کا سب سے بڑا لیڈر تصور کیا جاتا تھا، وہی صاحب جب خوابوں کی جنت بنگلہ دیش کا کرتا دھرتا بنا تو اسے حکمرانی کا کچھ مزا نہ آیا۔ اسی لیے شیخ مجیب نے چوتھی ترمیم کے ذریعے ۲۵ جنوری ۱۹۷۵ء کو تمام سیاسی پارٹیوں کو قانونی طور پر ختم کرنے کا اعلان کیا۔ اسی دستوری ترمیم کے ذریعے ملک میں پارلیمانی کے بجاے صدارتی نظام رائج کیا۔ اعلیٰ عدلیہ کی آزادی سلب کی اور بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے   ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے دائرہ سماعت و اختیار کو محدود تر کرایا۔ یہی نہیں بلکہ خود پارلیمنٹ کے اختیارات میں بھی کمی کردی۔ ۲جون ۱۹۷۵ء کو اپنی عوامی لیگ کے نام میں دو لفظوں کا اضافہ کر کے واحد حکمران پارٹی قائم کرنے کا اعلان کیا۔ اس پارٹی کا نام تھا: ’بنگلہ دیش مزدور کسان عوامی لیگ‘ (BKSAL: بنگلہ دیش کرشک سرامک عوامی لیگ)۔ جمہوریت کے اس قتل عام اور فسطائیت کے تحفظ کے لیے چوتھی ترمیم کو مجیب نے ’دوسراانقلاب‘ بھی قرار دیا۔ پھر اپنی اس سیاسی پارٹی کی سنٹرل ورکنگ کمیٹی میں حاضر ملازمت فوجی جرنیلوں کو رکن مقرر کیا، جن میں ایک ایئروائس مارشل عبدالکریم خوندکر بھی تھے۔ بہرحال اس انتہا کا انجام صرف ڈھائی ماہ بعد اس وقت ہوا، جب ۱۵؍اگست ۱۹۷۵ء کو فوجی انقلاب نے مجیب کے پورے خاندان کو گولیوں سے بھون ڈالا، اور حسینہ واجد اس لیے بچ رہی کہ ملک سے باہر تھی۔ہمارے ’انقلابی‘ اور ’ترقی پسند‘ اپنے محبوب مجیب کی اس بدترین عہدشکنی اور آمریت کے تذکرے کو بھی گول کرجاتے ہیں۔

۲۰۰۹ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد عوامی لیگی حکومت نے نام نہاد جنگی جرائم کی خصوصی عدالتیں (ICT) قائم کیں، جہاں جماعت اسلامی کے بزرگ رہنمائوں اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے لیڈروں کو سزاے موت دلوانے کے لیے جعلی مقدمے شروع کیے گئے اور یہ عمل آج تک جاری ہے۔ اپنے وطن پاکستان کے دفاع کرنے کے جرمِ بے گناہی میں ملوث کیے جانے والے  ان ملزموں کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے نہ متعلقہ ریکارڈ تک رسائی دی گئی ہے، نہ گواہوں کو پیش کرنے دیا گیا ہے اور نہ وکلا کی پوری طرح مددلینے دی گئی ہے۔ پھر ان نام نہاد عدالتوں میں بیٹھے قصابوں کے ہاتھوں دھڑادھڑ موت کی سزائیں سنانے کا عمل شروع کرایا گیا۔ سچائی کی قاتل عوامی لیگ نے اپنے مسلح غنڈوں کو ریاستی پشت پناہی کے ساتھ ’شاہ باغ مورچہ‘ لگانے کے لیے ڈھاکہ میں موقع فراہم کیا، تاکہ کنگرو عدالت اگر غلطی سے بھی صفائی کی کسی دلیل کو سن کر متاثر ہونے لگے تواُسے بیرونی دبائو میں لایا جائے۔ اس فسطائی غنڈا گردی کی بدترین مثال شہید عبدالقادر مُلا  کی سزا ہے، جنھیں خصوصی عدالت نے عمرقیدسنائی، مگر اس غنڈا مورچے کے دبائو کے تحت پہلے تو حسینہ واجد نے مؤثر بہ ماضی آرڈی ننس جاری کر کے بدترین دھاندلی کی ، اور پھر سپریم کورٹ نے سزاے موت سنادی اور چند گھنٹوں بعد اُس سزا پر عمل کرکے عبدالقادر کو پھانسی دے دی گئی۔

اسی طرح خود بنگلہ دیش میں عوامی لیگی حکومت نے گذشتہ چار برسوں میں دو مرتبہ مولانا مودودی کی کتابوں مع تفہیم القرآن، سرکاری تعلیمی اداروں اور مسجدوں کی لائبریریوں میں ترسیل و مطالعے پر پابندی عائد کی ہے۔ ہندو آقائوں کو خوش کرنے اور بے دینی کو فروغ دینے کی علَم بردار عوامی لیگ سے اس کے سوا کیا اُمید کی جاسکتی ہے۔ مگر ہمارا سوال خود پاکستان کی اس ’روشن خیال‘ ، ’انسانی حقوق کی علَم بردار‘ اور ’کشادہ دل‘ اشرافیہ سے ہے، جو اسلامیانِ پاکستان کی زبان کاٹنے اور یادداشت سے ہر مثبت چیز کھرچنے کے لیے ہر آن متحرک رہتی ہے۔ جس کے نزدیک عوامی لیگ، روشن خیالی، حقوق کی ’کامیاب‘ جنگ جیتنے کی علامت ہے، لیکن یہ کیا ماجرا ہے کہ وہ اپنی محبوب حکومت کی جانب سے کتابوں پر پابندیوں، تحقیق کاروں پر دائرۂ حیات تنگ کرنے اور ہاتھ پائوں باندھ کر مقدمے چلاچلا کر ذبح کرنے جیسے گھنائونے افعال پر خاموش ہیں؟ کیا ان کے بارے میں یہ تصور کرنا درست نہیں کہ، یہ ہیں پورس کے ہاتھی اور تاریخ کے قاتل! مہذب اصطلاحوں کے پردے میں دشمن کی ہاں میں ہاں ملانا ان کا مذہب ِ عشق ہے اور اپنوں کے خون اور جذبات کی ہولی کھیلنا ان کا من بھاتا کھاجا ہے۔ یہ ہے ہماری ’روشن خیال تعلیم یافتہ‘ اشرافیہ، جس کی موجودگی میں بیرونی دشمنوں کو کچھ زیادہ تگ ودو کی ضرورت نہیں۔

چند سال قبل یمن جانا ہوا۔ یمنی تحریک اسلامی التجمع الیمنی للإصلاح کے ذمہ داران نمازِ مغرب کے لیے دار الحکومت صنعاء کے قلب میں واقع ایک تاریخی مسجد لے گئے۔ نماز میں حاضری غیر معمولی محسوس ہوئی۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ حاضری معمول کے مطابق ہے، ہمیں زیادہ اس لیے لگ رہی تھی کہ یمن میں ’زیدی‘ فرقے سے تعلق رکھنے والے شیعہ اور اہلسنت اکٹھے باجماعت نمازِ مغرب ادا کرتے ہیں۔ شافعی عقیدہ رکھنے والے اہل سنت حضرات سنتیں اور نوافل  ادا کرکے چلے جاتے ہیں، جب کہ زیدی حضرات کے مطابق نمازِ عشاء کا وقت مغرب سے آدھ گھنٹے بعد ہوتا ہے، وہ وہیں انتظار کرتے ہیں اور عشاء باجماعت ادا کرکے جاتے ہیں۔ مزید تقریباً ایک گھنٹے بعد انھی مساجد میں اہل سنت آبادی کے لیے باقاعدہ اذان اور نماز عشاء ہوتی ہے۔ یہی رواداری اور اخوت رکھنے والا یمن، گذشتہ کئی سال سے ’زیدی‘ عقیدہ رکھنے والے حُوثی قبائل اور ریاست کے مابین باقاعدہ جنگوں کا شکار ہوچکاہے۔

حالیہ ۲۱ ستمبر ان جنگوں کا عروج تھا۔ اس روز ’عبد الملک الحُوثی‘ کی سرپرستی میں خلیجی ممالک کی ایک قدرے نئی مسلح تنظیم ’انصار اللہ‘ نے اپنے اسلحے کے بل بوتے پر دارالحکومت صنعاء کا انتظام و انصرام سنبھال لیا۔ عالم عرب کے عوام میں تشویش کی گہری لہر دوڑ گئی، اور کہا جارہاہے کہ آج سقوط یمن کا سانحہ ہوگیا۔ اسی شام قصر صدارت میں اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی جمال بنعمر (مشکوک ماضی رکھنے والا مراکش کا سابق سیاستدان) کی زیر نگرانی عبوری صدر عبد ربہ ھادی منصور، حوثی نمایندوں اور دیگر یمنی جماعتوں کے مابین ایک دستاویز پر دستخط ہوئے۔ اس دستاویز کو  اتفاقیۃ السلم والشراکۃ (معاہدہ امن و اشتراک) کا نام دیا گیا۔ اس معاہدے کے مطابق یمنی حکومت کا خاتمہ ہوگیا ہے، اور اب چند روز میں ایک ٹیکنو کریٹ حکومت قائم ہونا ہے جس کا وزیراعظم حُوثی ہوگا۔ حُوثیوں نے اگرچہ امن معاہدے پر دستخط کردیے ہیں، لیکن فوجی اور دفاعی امور سے متعلق دستاویز کو قبول نہیں کیا۔ دارالحکومت پر قبضے کے اگلے روز ۲۲ ستمبر کی شب زبردست آتش بازی اور فائرنگ کرتے ہوئے ’’انقلاب آزادی‘‘ کی کامیابی کا جشن منایا اور وزارت دفاع، داخلہ، فوجی مراکز سمیت دارالحکومت کے تمام حساس علاقوں پر اپنا قبضہ مستحکم کرلیا۔ اسی اثنا میں اہم فوجی چھاؤنیوں سے ٹینکوں، توپوں اور بکتربندگاڑیوں پر مشتمل بھاری اسلحہ اپنے قبضے میں لیتے ہوئے، شمال میں واقع اپنے فوجی ٹھکانوں میں منتقل کردیا۔ آگے بڑھنے سے پہلے، آئیے ذرا حُوثیوں اور زیدی فرقے کا تھوڑا سا مزید تعارف حاصل کرلیں۔

زیدی:

یہ اہم شیعہ فرقہ، حضرت زید بن علی زین العابدینؒ ]ولادت ۸۰ہجری- شہادت ۱۲۲ ہجری [ سے منسوب ہے۔زیدی اپنے عقائد کے اعتبار سے اہل سنت سے انتہائی قریب ہیں۔ حضرت ابوبکرصدیق، حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان غنی (رضی اللہ عنہم) کی خلافت کو درست تسلیم کرتے ہوئے یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ’افضل‘ کی موجودگی کے باوجود ’مفضول‘ کی امامت تسلیم کی جاسکتی ہے۔ تمام صحابہ کرامؓ کا احترام کرتے ہیں اور ان میں سے کسی پر تبرا بھیجنا گناہ سمجھتے ہیں۔ ۱۲۲ ہجری میں اہل کوفہ نے جناب زید بن علی زین العابدین کو اُموی خلیفہ ہشام بن عبد الملک کے خلاف خروج کے لیے قائل کرلیا، لیکن عین میدان میں یہ کہتے ہوئے تنہا چھوڑ گئے کہ آپ  ابوبکرؓ اور عمرؓ پر تبرا نہیں بھیجتے۔ آپ اپنے باقی ماندہ ۵۰۰ جاں نثاروں کے ہمراہ میدان میں اُترے اور پیشانی پر تیر لگنے سے شہید ہوگئے۔ آپ کی شہادت کے بعد آپ کے صاحبزادے جناب یحی بن زیدؒ اور پیروکار مختلف ممالک میں مقیم رہے اور بالآخر یمن میںمستقل سکونت اختیار کی۔ مختلف اَدوار میں اقتدار بھی قائم ہوا جس کی آخری کڑی عثمانی خلافت کے خلاف امام یحیٰ بن منصور کی بغاوت تھی۔ یہ آخری زیدی ریاست گذشتہ صدی میں ۱۹۶۲ء تک قائم رہی۔

یمن:

تقریباً ۲۸ہزار مربع کلومیٹر رقبے پر مشتمل جمہوریہ یمن، سعودی عرب کے جنوب اور سلطنت عمان کے مغرب میں واقع ہے۔ اڑھائی کروڑ پر نفوس مشتمل آبادی کا تقریباً ۵۰ فی صد خط غربت سے نیچے زندگی گزارتا ہے۔ اہم جغرافیائی اہمیت رکھتا ہے۔ سعودی عرب کی ڈیڑھ ہزار کلومیٹر  طویل سرحد یمن سے ملتی ہے۔ اس لیے سعودیہ کا وسیع جنوبی علاقہ اس سے براہِ راست متأثر ہوتا ہے۔ بحیرۂ احمر کی اہم گزرگاہ باب المندب بھی یمنی ساحل ہے۔ ملک کی ۸۵فی صد آبادی مختلف قبائل پر مشتمل ہے اور تقریباً ہر شخص مسلح ہے۔ آبادی کا ۷۰  فی صد اہل سنت (امام شافعی کے پیروکار)  ہیں اور ۳۰ فی صد زیدی شیعہ ہیں۔ براے نام تعداد میں اسماعیلی بھی ہیں۔۲۰۱۱ء  میں عالم عرب میں طویل آمریت کے خلاف اٹھنے والی عوامی تحریکوں کا اثر یمن بھی پہنچا اور علی عبد اللہ صالح کا ۳۳سالہ اقتدار ختم ہوا۔ نائب صدر عبدربہ ھادی منصور کی سربراہی میں ایک عبوری حکومت قائم ہوئی، جس میں الاصلاح تحریک (اخوان) سمیت تقریباً تمام پارٹیوں کو حصہ ملا۔ عبوری فارمولے کے مطابق ۲۰۱۵ء میں نئے دستور پر ریفرنڈم اور پھر عام انتخابات ہونا تھے، لیکن اب سارا نقشہ تبدیل ہوگیا ہے۔

’انصار اللّٰہ‘ تحریک اور حوثی:

شمالی یمن میں واقع زیدی اکثریت کے پہاڑی علاقے ’صعدہ‘ میں ایک مسلح دینی تحریک ’تحریک مؤمن نوجوانان‘ کے نام سے فعال تھی۔  ۱۹۹۲ء میں اسے ’انصار اللہ‘ کا نام دے دیا گیا۔ بانی کا نام حسین بدر الدین الحوثی تھا۔ انھی کی نسبت سے پوری تحریک کو حوثیوں کی تحریک کہا جاتا ہے۔ تحریک نے آغاز ہی سے اپنے مذہبی تشخص اور  مسلح تربیت پر زیادہ توجہ دی اور دعویٰ کیا کہ حکومت نے زیدیوں کے حقوق سلب کررکھے ہیں۔ ۲۰۰۴ء میں صدر علی عبد اللہ حکومت کے ساتھ ان کی باقاعدہ مسلح جھڑپیں شروع ہوگئیں۔ تحریک کا بانی حسین الحوثی ایک لڑائی میں مارا گیا تو اس کے بھائی عبدالملک حوثی نے سربراہی سنبھال لی، جو تاحال جاری ہے۔ ۲۰۱۰ء  تک یمنی حکومت اور انصار اللہ کے مابین چھے باقاعدہ جنگیں ہوئیں۔ ۲۰۰۹ء  میں ایک جنگ خود سعودی عرب سے بھی ہوگئی۔ اسی اثنا میں حوثیوں کے کئی ذمہ داران زیدی شیعہ سے اثنا عشری عقیدے کی طرف منتقل ہوگئے اور کئی حوالوں سے شدید تعصب کا شکار بھی۔

علی عبد اللہ صالح کی حکومت ختم ہونے کے بعد عبوری حکومت قائم ہوئی تو حوثی اس کا حصہ نہ بنے۔ البتہ جب حکومت نے ’’قومی مذاکرات‘‘ کے نام سے تمام سیاسی قوتوں سے مشاورت شروع کی تو حُوثی بھی اس میں شریک ہوئے۔ مذاکرات ابھی تکمیل کو نہ پہنچے تھے، کہ حُوثیوں نے پھر سے مسلح کارروائیاں شروع کردیں اور ایک ایک کرکے مختلف علاقوں پر اپنی بالادستی قائم کرتے ہوئے دار الحکومت صنعاء کے قریب آن پہنچے۔ مالی مشکلات کی شکار حکومت کو گذشتہ جولائی میں   وہ مشکل قدم بھی اٹھانا پڑا، جس کے بارے میں وہ شدید تردد کا شکار تھی۔ پٹرول اور اس کی مصنوعات کو دی گئی سرکاری سب سڈی کا ۵۰ فی صد ختم کردیا گیا۔ عسکری لحاظ سے مضبوط تر اور  فرقہ واریت کی بنیاد پر قائم جماعت نے موقع غنیمت جانا، اپنی تحریک کا فیصلہ کن اقدام اٹھاتے ہوئے تین مطالبات کا نعرہ لگادیا: ۱- حکومت مستعفی ہو اور ٹیکنو کریٹ حکومت بنائی جائے۔۲- سب سڈی ختم کرنے کا فیصلہ واپس لیا جائے ۳- قومی مذاکرات کی سفارشات پر عمل درآمد کیا جائے (حالانکہ اس کی سفارشات پر دستخط ہی نہیں ہوئے)۔ چند ہفتوں کی مزید فوجی کارروائیوں، وزیراعظم ہاؤس کے سامنے خوں ریز جھڑپوں، اور سیاسی مطالبات کی تشہیر کے بعد ۱۷؍ اگست کو دار الحکومت کے چاروں اطراف میں دھرنا دے دیا گیا۔ بالآخر یہی دھرنا اور خوں ریز جھڑپیں ۲۱ ستمبر کو دارالحکومت پر ’انصار اللہ‘ کے قبضے، حکومت کے خاتمے اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں ایک معاہدے پر منتج ہوا۔

تلخ حقائق، اثرات و نتائج

یہ امر اب ایک کھلا راز ہے کہ حُوثیوں کو پہلے روز سے ایران کی مکمل سرپرستی حاصل ہے۔ یمنی افواج سے چھے اور سعودی عرب سے ایک جنگ کے دوران اسے سمندری راستے سے ایرانی اسلحے کی مسلسل ترسیل جاری رہی اور اسے زیادہ چھپایا بھی نہیں گیا۔ ادھر سعودی عرب نے بھی اپنے گھوڑے صدر علی عبد اللہ صالح کی بھرپور پشتیبانی کی۔ یہ جاننے کے باوجود کہ ۳۳ سالہ بانجھ دورِاقتدار کے بعد، اسے یمنی عوام کی غالب اکثریت مسترد کرچکی ہے، اسی کو باقی رکھنے کی کوشش کی گئی۔ بالآخر جب وہ اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا تو سعودی عرب نے یمن کی جغرافیائی، تاریخی اور سیاسی اہمیت کے باوجود، وہاں وہ دل چسپی نہ لی جس کے حالات متقاضی تھے۔ خود علی عبداللہ صالح جس نے حوثیوں سے کئی جنگیں لڑی تھیں، موجودہ یمنی حکومت سے انتقام کی آگ میں جھلستے ہوئے حوثیوں کی حوصلہ افزائی کرنے لگا۔ فوج اور بیوروکریسی میں موجود اپنے سب نمک خواروں کو بھی یہی پالیسی اختیار کرنے کا کہا۔

یہ تلخ حقیقت یقینا اپنی جگہ درست ہے کہ حوثیوں نے دارالحکومت کو اسلحے، بیرونی سرپرستی اور اندرونی سازشوں کے بل بوتے پر زیر کیا ہے لیکن بعض اہم ترین حقائق اور بھی ہیں۔ مثلاً یہ کہ یمن کی عبوری حکومت میں مؤثر ترین عوامی حکومت وہاں کے ’اخوان‘ ہیں۔ مصر میں اخوان کی  منتخب حکومت کے خاتمے اور لیبیا میں اخوان کی ممکنہ کامیابی کو خانہ جنگی کی نذر کردینے کے بعد یمن سے بھی ان کا اقتدار ختم کرنا بعض عرب ممالک کے لیے تمام اہداف سے زیادہ اہم ہدف ٹھیرا۔ یمن میں نہ صرف الاصلاح (یعنی اخوان) کا اقتدار ختم کرنا اصل مقصود قرار پایا، بلکہ نقشہ یوں بنایا گیا کہ اپنی قیادت کے ایک اشارے پر جان تک قربان کرنے کے لیے تیار لاکھوں اخوانی کارکنان کو براہِ راست مسلح حُوثیوں کے سامنے لاکھڑا کیاجائے۔ دارالحکومت صنعاء سے پہلے جہاں جہاں حُوثیوں نے قبضہ کیا، وہاں الاصلاح کے ذمہ داران اور ان کے مختلف اداروں کو بالخصوص نشانہ بنایا گیا۔ دارالحکومت کا محاصرہ کیا گیا تو الاصلاح کے وزرا اور ذمہ داران کو دھمکیاں ہی نہیں دی گئیں، ان کے بعض نوجوان قائدین کو شہید بھی کردیا گیا۔ صنعاء میں قائم ان کی بین الاقوامی یونی ورسٹی (الایمان یونی ورسٹی) جہاں ہزاروں ملکی و غیر ملکی طلبہ زیر تعلیم تھے پر قبضے کی دھمکیاں دی گئیں۔ اور مختلف اطراف سے ایسے بیانات آنے لگے کہ حکومت ریاست اور فوج تو بہت کمزور ہوگئے ہیں، اب اگر یمن کو حوثی خطرے سے کوئی بچا سکتا ہے تو وہ ’الاصلاح‘ ہے۔ یہ مہم اتنی وسیع تر تھی کہ ہمیں پاکستان میں بھی اس طرح کے ایس ایم ایس موصول ہونے لگے کہ: ’’آج یمنی اسلامی تحریک کے فلاں ذمہ دار شہید کردیے گئے، الاصلاح کب تک ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہے گی؟‘‘ خدا کا شکر ہے کہ الاصلاح کسی اشتعال انگیز مہم کا شکار نہیں ہوئی۔ اس نے مسلسل یہی کہا کہ حکومت اور فوج کی ذمہ داریاں، ہم اپنے سر نہیں لیں گے۔ ہم کسی مسلح تصادم کا حصہ نہیں بنیں گے خواہ حوثی ہمارے گھروں پر ہی کیوں نہ قابض ہوجائیں۔ پھر جیسے ہی دارالحکومت پر چڑھائی شروع کی گئی تو حیرت انگیز طور پر کہیں کسی ریاستی ادارے فوج، پولیس، پیرا ملٹری فورسز نے حوثیوں کے سامنے مزاحمت نہ کی۔ منصوبہ بندی کرنے والوں کا مقصد یہ تھا کہ یمن جیسے مسلح معاشرے میں خانہ جنگی شروع کرواتے ہوئے، جہاں ایک طرف ایک مستقل شیعہ سنی تنازعہ کھڑا کردیا جائے وہیں سب سی بڑی عوامی قوت الاصلاح کو حوثیوں کے مہیب اسلحے کے ذریعے کچل دیا جائے۔ اگر ایسا نہ ہوسکے تب بھی انھیں حکومت سے تو بے دخل کر ہی دیا جائے۔ فی الوقت یہ دوسرا ہدف حاصل کیا جاچکا ہے۔

یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ یمن میں ’انصار اللہ‘ اور حوثیوں کا اقتدار بنیادی طور پر  ایران کا اقتدار ہے۔ ایرانی اخبارات ہی نہیں، ذمہ داران بھی اس کا کھلم کھلا اعلان کررہے ہیں۔ تہران سے منتخب رکن اسمبلی علی رضازاکانی کا یہ بیان عالم عرب میں بہت نمایاں ہورہا ہے کہ  ’’ایران اب چار عرب دارالحکومتوں پر اختیار رکھتا ہے۔ بغداد، دمشق، بیروت اور اب صنعاء‘‘۔ اگر یہ بیان حکومتی کارپردازان کے دل کی آواز سمجھا جائے، تو اس کا مطلب ہے کہ تمام خلیجی ریاستیں تین اطراف سے ایرانی گھیرے میں آگئی ہیں۔ بدقسمتی سے سیاسی نفوذ کی اس لڑائی پر فرقہ وارانہ تیل کی بارش بھی کی جارہی ہے۔ طرفین کے ذرائع ابلاغ اشتعال انگیز سرخیاں جمارہے ہیں: ’’انقلابیونِ یمن پاکسازی تکفیری ھا را آغاز کردند‘‘ (ایرانی روزنامہ کیہان)، یمنی انقلابیوں نے تکفیریوں کا صفایا شروع کردیا۔ ’’حوثیوں کی صفوی یلغار کو ناکام کرنا، یمن کا ہی نہیں، مکہ اور مدینہ کا دفاع ہے‘‘ (معروف کویتی دانشور ڈاکٹر عبداللہ نفیسی)۔

اگرچہ سرکاری سطح پر کئی عرب ممالک نے اقوام متحدہ کی سرپرستی میں ہونے والے امن معاہدے کی تائید کی ہے، لیکن عوامی سطح پر اسی معاہدے سے مزید شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں۔ سوشل میڈیا میں سوال اٹھائے جارہے ہیں کہ متعدد مسلم ممالک کی طرح یمن میں کوئی نامعلوم بم دھماکے نہیں، حوثی بھاری اسلحہ لیے پھرتے ہیں، لیکن کسی مغربی ملک کو ’دہشت گردی‘ یا ’’داعش‘‘ جیسے نام یاد نہیں آرہے۔ کسی مغربی ملک نے اپنے شہریوں کو وہاں سے نہیں نکالا۔ جامعہ الایمان ہی نہیں اس کے ہاسٹل میں مقیم طلبہ تک کا سامان لوٹ لیا گیا۔ لیکن قریب ہی واقع امریکی سفارتخانہ بلاخوف و خطر حسب معمول کام کرتا رہا۔ معاہدہء امن پر دستخط کرنے کے ۴۸گھنٹے بعد یمنی صدر عبدربہ کے اس بیان نے عوام کے ان شکوک شبہات کو زبان دی ہے کہ ’’یمن میں جو کچھ ہورہاہے وہ ایک خوف ناک عالمی سازش اور ملک کے اندر سے کئی عناصر کی خیانت کا نتیجہ ہے‘‘۔

یہ تحریر آپ تک پہنچنے تک یمن میں ٹیکنو کریٹس پر مشتمل ایک نئی عبوری حکومت تشکیل پاچکی ہوگی، لیکن لگتا ہے کہ خطے میں بڑی بڑی تبدیلیوں کا سلسلہ تھمنے کے بجاے، مزید تیز تر ہوجائے گا۔ یمن کی تبدیلی مشرق وسطیٰ کے باقی ممالک کی تبدیلیوں سے الگ نہیں دیکھی جاسکتی۔ عراق اور شام میں ’داعش‘ جیسے پراسرار دیو کے خلاف امریکی کارروائی شروع ہوگئی ہے۔ اس ڈرامے کا اصل راز اسی بات سے معلوم ہورہا ہے کہ امریکی افواج کی موجودگی میں چند روز کے اندر اندر عراق اور شام کے وسیع رقبے پر قبضہ کرلینے والی اس تحریک کے خلاف جنگ کے لیے، امریکی وزیر دفاع چک ہیگل (Chuck Hagel) نے پانچ سو پچاس ارب ڈالر کا تقاضا کیا ہے۔ یقین نہیں آرہا تو رقم دوبارہ پڑھ لیجیے، اتنی ہی رہے گی۔ صاحب بہادر نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ یہ جنگ تین سال تک جاری رہ سکتی ہے۔ کچھ دیگر ذرائع ۱۰ سال کی مدت بھی دے رہے ہیں۔ کیا یہ باعثِ حیرت نہیں کہ  گذشتہ تین سال میں ۳لاکھ سے زائد بے گناہ شامی عوام کے قتل پر تو خالی خولی بیانات، اور اب دومغویوں کے قتل کے بعد اتنی بڑی جنگ ...؟ قتل ہونے والے برطانوی شہری کے اہلِ خانہ نے تو ایک پریس کانفرنس میں یہ بھی بتایا ہے کہ ہم کئی بار اغواکاروں سے معاہدے کے قریب پہنچے لیکن برطانوی حکومت رکاوٹ بنتی رہی۔اکثر مسلمان ممالک اس جنگ کے ’بجٹ شریک‘ حصہ بن گئے ہیں۔ ترکی پر بھی مسلسل اور شدید دباؤ ڈالا جارہا ہے۔ اس نے کسی زمینی جنگ کا حصہ بننے سے انکار کیا، تو اس پر ’داعش‘ اور ’دہشت گردی‘ کی امداد کے الزامات عائد ہونا شروع ہوگئے ہیں۔

عرب ممالک سے شام کا جلاد بشار الاسد قبول کروانے کے لیے ایک پتّا یہ بھی پھینکا جارہا ہے کہ ’’یمن سے حوثیوں کااقتدار ختم کروانے کے بدلے، شام میں بشار کی تائید کرو‘‘۔ ۷۰ فی صد آبادی اور مسلح قبائل پر ویسے بھی حُوثی کتنی دیر تک مسلط رہ سکیں گے؟ لیکن یہ امر طے شدہ ہے کہ پورے خطے پر مسلط کیا جانے والا مسلح گروہوں کا منصوبہ تیزی سے پایۂ تکمیل کو پہنچایا جارہا ہے۔ اس نازک موقعے پر ہر صاحب خرد کو اپنی اپنی جگہ اس آگ کو بجھانے میں اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔ امریکی، اسرائیلی یا بھارتی استعمار کے خلاف جہاد پر پوری اُمت کا اجماع ہے۔مسلمانوں کو مسلمانوںکے خون کا پیاسا بنا دینے کے انوکھے فارمولے کا اکلوتا فائدہ ، صرف اور صرف امریکا اور صہیونی ریاست اور بے گناہ عوام کی گردنوں پر مسلط ظالم درندوں ہی کو پہنچے گا۔

’داعش‘ ہی کو دیکھ لیجیے، نام تو ریاست اسلامی رکھا ہے لیکن اب تک کی سب سے کامیاب کارروائی گذشتہ تین برس سے بشارالاسد کے خلاف برسرِپیکار مخلص مجاہدین ہی کے خلاف کی ہے۔ ’احرار الشام‘ کی مجلس شوریٰ کا خفیہ اجلاس شام کے اِدلب میں ایک زیرزمین خفیہ مقام پر ہورہا تھا کہ ان پر حملہ کر کے تحریک کے سربراہ سمیت مجلس شوریٰ کے ۴۵ مخلص ترین ارکان شہید کردیے۔ سیکڑوں ارب ڈالر کا بجٹ اور جنگ کی طویل مدت کا اعلان ہی بتا رہا ہے کہ اس کے خلاف جنگ کرنے والے ہی اسے باقی رکھیں گے۔

تین سال قبل لیبیا میں شروع ہونے والے انتفاضہ کے نتیجے میں قذافی حکومت کا خاتمہ ہوا اور دیگر عرب ممالک کی طرح یہاں بھی عبوری حکومت قائم ہوئی جس نے پُرامن انتقالِ اقتدار کا وعدہ پورا کیا، مگر بدقسمتی سے نئی حکومت کے قیام سے لے کر اب تک لیبیا میں انتشار و انارکی اور ہلاکت و تباہی کا دور دورہ ہے۔ اب تو صورت حال سنگین تر ہوگئی ہے۔ داخلی جنگ نے ملک کو تخریب سے دوچار کر رکھا ہے۔ کئی ناموں سے تنظیمیں موجود ہیں جو مسلح کارروائیوں میں شریک ہیں۔ قتل و غارت اور لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے۔ عبوری حکومت بھی اور منتخب حکومت بھی دونوں ملک کو اس صورت حال سے باہر نکالنے میں ناکام رہی ہیں۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ حکومت اور حکمرانی نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے۔ مسلح کارکن اور جماعتیں سمجھتی ہیں کہ انقلاب برپا کرنے والے صرف ہم ہیں۔ قذافی حکومت کا خاتمہ ہمارا کارنامہ ہے۔ لہٰذا اُس کی جگہ حکمرانی کا حق ہم ہی رکھتے ہیں۔ بہت سی مسلح تنظیموں کے قائدین ہتھیار چھوڑنے کے قائل نہیں ہیں۔ اسلحہ اُٹھانا اور اسے استعمال میں لانااُن کی عادت اور مزاج بن گیا ہے جس نے ملک کو ہلاکت و تباہی میں ڈال رکھا ہے۔

انقلاب کے ایک سال بعد ۲۰۱۲ء کے انتخابات کے نتیجے میں علی زیدان محمد نے وزارتِ عظمیٰ سنبھالی۔ ستمبر ۲۰۱۲ء سے لے کر مارچ ۲۰۱۴ء تک علی زیدان اس منصب پر متمکن رہے مگر اس دوران وہ کوئی بھی قابلِ ذکر کامیابی حاصل نہ کرپائے۔ ان کے انتخاب کے موقعے پر ہی عالمی ذرائع ابلاغ کے تبصروں میں یہ بات موجود تھی کہ وہ ایک کمزور وزیراعظم ہوں گے۔ واقعتا ان کا دورِحکومت اس بات کا شاہد رہا۔ مارچ ۲۰۱۴ء میں تو ان کے اغوا کا حادثہ بھی سامنے آیا اور پھر وہ حکومت سے دستبردار ہوگئے۔ ان کے بعد عبداللہ الثنی نے وزارتِ عظمیٰ کا قلم دان سنبھالا۔ یہی انتخابات کا بھی زمانہ تھا۔ نئی حکومت کی تشکیل کے لیے انتخابات ہوئے مگر ان کو انتخابات کہنا بھی مذاق ہے۔ پانچ چھے فی صد کی شرح جن انتخابات میں رہی ہو اُس کے نتیجے میں کیسی حکومت تشکیل پائے گی اور اس کی قانونی حیثیت کیا ہوگی۔ خود اس حکومت کی طاقت اور اختیار کا عالم کیا ہوگا، اس کا اندازہ مشکل نہیں۔ بہرحال ان انتخابات میں عوام کی لاتعلقی اور عدم دل چسپی کااظہار بہت واضح رہا ، حتیٰ کہ نومنتخب ارکانِ اسمبلی کو بھی اسمبلی کے اجلاس اور تشکیل حکومت کے عمل سے خاص دل چسپی دکھائی نہیں دی۔ ۲۰۰کے ایوان میں ۹۳،۹۴ ممبران اسمبلی تشکیل حکومت کے لیے منعقدہ اجلاس میں شریک ہوئے۔ وزارتِ عظمیٰ کے اُمیدوار احمد معیتیق کو حاضر افراد میں سے ۸۳ کا ووٹ ملا۔ احمد معیتیق ارکانِ اسمبلی میں سب سے کم عمر ممبر تھے۔ ان کی کابینہ کی تشکیل کے چند ہی گھنٹے بعد ان کے گھر کا بھی محاصرہ کرلیا گیا اور فائرنگ کے نتیجے میں ایک شخص مارا گیا اور کچھ زخمی ہوئے۔ معیتیق محفوظ رہے۔ ادھر عبوری وزیراعظم عبداللہ الثنی نے چارج دینے سے انکار کر دیا اور دونوں افراد کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی شروع ہوگئی۔ معیتیق نوعمر اور نوتجربہ کار ہونے کے باعث انتہائی کمزور وزیراعظم تھے۔ غالباً فوج نے بھی عبداللہ الثنی کی حمایت کی جس کی بناپر وہ وزارتِ عظمیٰ چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھے۔ بالآخر عدالت ِ عظمیٰ کو مداخلت کرنا پڑی اور عدالت نے عبداللہ الثنی کو برقرار رکھتے ہوئے ایک مصالحتی کونسل کی تشکیل کا اعلان کیا جس کا مقصد حالات کو درست کرنا تھا۔ ستمبر میں عبداللہ الثنی کو بھی کابینہ کی تشکیل کا ہدف دیا گیا تو اس کے لیے پارلیمان کا اجلاس ہوا مگر وزارتوں پر ارکانِ اسمبلی کے اختلافات کے باعث اجلاس برخاست کردیا گیا۔ ارکانِ اسمبلی کا مطالبہ تھا کہ بحرانی حالات کے پیش نظر کابینہ کو مختصر سے مختصر رکھا جائے مگر وزیراعظم کے لیے یہ ممکن نہیں تھا۔

۲۲ستمبر کی شام کو طبرق شہر میں ہونے والے اجلاس میں عبداللہ الثنی کی حکومت کو اعتماد کا ووٹ مل گیا ۔ نوتشکیل شدہ حکومت کو اجلاس میں حاضر ۱۱۲؍ارکانِ اسمبلی میں سے ۱۱۰ نے ووٹ دیا۔ وزارتِ دفاع سمیت ۱۰ وزرا پر مشتمل کابینہ وجود میں آئی۔ وزارتِ دفاع کا قلم دان وزیراعظم الثنی نے اپنے پاس رکھا ہے اور تین ارکان بھی وزیراعظم کے مشیران کی حیثیت سے اُن کے ساتھ ہوں گے۔ وزیرخارجہ محمد الدایری ہیں اور وزارتِ داخلہ عمر السکنی کے حوالے کی گئی ہے۔

دوسری طرف المؤتمر الوطن (عبوری کونسل) نے بھی عمرالحاسی کی صدارت میں ’نگران حکومت‘ تشکیل دے رکھی ہے۔ الثنی اور الحاشی کے درمیان اس وقت نزاع موجود ہے۔ عبوری کونسل کے اجلاس طرابلس میں اور منتخب اسمبلی کے طبرق میں ہو رہے ہیں۔ الثنی کے طرف داروں کا کہنا ہے کہ عبوری کونسل اپنی میعاد پوری کرچکی ہے، جب کہ عبوری کونسل کا بیان ہے کہ نومنتخب ارکان کی اسمبلی نے جون میں اجلاس منعقد کر کے دستوری اعلان کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس بناپر انتقالِ اقتدار کا عمل اس اعلان کے مطابق انجام نہیں پاسکتا۔ عدالت نے اس دستوری نزاع پر اکتوبر کے شروع میں فیصلہ دینے کا کہا ہے۔

قذافی حکومت کے خاتمے (۲۰۱۱ء) سے لے کر اب تک لیبیا سیاسی اعتبار سے دو گروپوں میں تقسیم ہے، اور نیا ایوان بھی اسی چیز کی نمایندگی کرتا ہے جو جون کے انتخابات کے بعد بنا۔ الثنی کی حکومت لبرل گروپ کی نمایندہ ہے، جب کہ دوسرا گروپ اسلام پسندوں پر مشتمل ہے۔ انقلاب کے بعد سے اب تک عبوری اور منتخب حکومت میں سے کسی کے لیے بھی ممکن نہیں ہوسکا کہ وہ عملاً حکومت کرسکیں۔ زیدان حکومت کی بے بسی کے بعد اب عبداللہ الثنی کی بے چارگی کا عالم یہ ہے کہ دارالحکومت طرابلس میں اسمبلی کا اجلاس منعقد کرنا ان کے لیے ممکن نہیں ہوسکا۔ اُنھیں یہ اجلاس طبرق شہر میں بلانا پڑا۔ نومنتخب حکومت پر لبرل افراد کا غلبہ ہے اور دارالحکومت اسلام پسندوں کے قبضے میں ہے۔ایوانِ حکومت طرابلس پر صدرمملکت عمرالحاسی اور اس کے حامیوں کا تسلط ہے۔

۲۰۱۱ء میں قذافی حکومت کے خاتمے پر قائم ہونے والی عبوری حکومت اور پھر منتخب حکومتوں میں سے ہر حکومت اس قدر کمزور رہی کہ نہ ایوانِ حکومت مسلح تنظیموں کے حملوں سے محفوظ رہا نہ وزیراعظم کو تحفظ حاصل رہا۔ دومنتخب وزیراعظم علی زیدان اور احمد معیتیق کے ساتھ پیش آنے والے واقعات ، ان حکومتوں کی طاقت اور اختیار کی نشان دہی کرتے ہیں۔ اسلحہ ملک کے اندر جس قدر عام ہوچکا ہے اور مسلح تنظیمیں جس بڑی تعداد میں تشکیل پاچکی ہیں، اُن کی موجودگی میں ایسی کمزور حکومتوں اور نام نہاد انتخابات کا کوئی فائدہ نہیں۔ ملک کے اہم اور مرکزی ہوائی اڈے ان مسلح تنظیموں کے قبضے میں ہیں۔ دارالحکومت طرابلس پر ان کا تسلط ہے۔ اس وقت تین بڑے گروہ باہمی اور داخلی جنگ میں مصروف ہیں اور چوتھا مناسب وقت کے انتظار میں ہے۔ ان میں اسلام پسندوں کا گروہ ۲۰ سے زائد مسلح دستوں اور ملیشیائوں پر مشتمل ہے۔ ملکی اور غیرملکی تنظیمات کے قائدین   ان گروپوں کی قیادت کر رہے ہیں۔ القاعدہ اور اخوان پر ان کی قیادت کا الزام ہے۔ دارالحکومت کے مشرق میں واقع مصراتہ شہر ان کی قوت کا مرکز ہے۔ دارالحکومت پر بھی ان کا گہرا رسوخ قائم ہے۔ یہ اسلامی گروپ سابق بَری فوج کے سربراہ خلیفہ حفتر کی افواج سے بھی جنگ آزما ہیں۔ اسلام پسندوں کا یہ اتحاد طرابلس میں ’دروع‘ کے نام سے اور بن غازی و درنہ شہروں میں ’انصارالشریعہ‘ کے ناموں سے مسلح سرگرمیوں میں مصروف ہے۔

دوسرا اتحاد لبرل طاقتوں کا ہے۔ اس گروپ کا حکومت سے بھی رابطہ ہے اور یہ قعقاع اور الصواعق دستوں کے ناموں سے دارالحکومت طرابلس کے جنوب مغرب میں واقع شہر زنتان میں مصروف ہے۔ النصر دستہ بھی اسی اتحاد کا حصہ ہے۔

تیسرا مجموعہ ’الجیش الوطنی‘ ہے جس کی قیادت جنرل حفترکر رہا ہے۔ اس کا مرکز بن غازی کا جنوب مشرق ہے۔ یہ فضائیہ سے بھی کام لیتا ہے اور زمینی حملوں سے بھی ’متشدد اسلام پسندوں‘ کا قلع قمع کرنے میں مصروف ہے۔ اس گروپ کا ظہور اسی سال عین اس وقت ہوا جب مصری افواج کے سربراہ جنرل عبدالفتاح السیسی نے مصر کی منتخب حکومت کو ختم کرنے کے ٹھیک ایک سال بعد نام نہاد صدارتی انتخابات کا ڈراما رچایا۔لیبیا کے سیاسی منظرنامے پر اچانک لیبیا کا سابق فوجی سربراہ    خلیفہ حفتر نمودار ہوا اور اس نے اعلان کیا کہ ہم لیبیا کو متشدد اسلام پسند قوتوں اور اخوان المسلمون سے پاک کردیں گے۔حفترنے ملکی افواج کے ہزاروں سپاہیوں اور افسروں کو یک جا کیا اور رضاکاروں کو بھی ساتھ ملا لیا لیکن وہ اپنے مزعومہ مقاصد میں ابھی تک کامیاب نہیں ہوسکا اور کامیاب ہونا ممکن بھی نہیں ہے۔ یوں لگتا ہے کہ یہ سارا ڈراما مصری جنرل سیسی کو سہارا دینے کے لیے رچایا گیا تھا۔

چوتھا گروپ قبائلی طاقتوں کا ہے۔ یہ ورفلہ اور مقارحہ وغیرہ قبائل پر مشتمل ہے۔ یہ      نہ اسلامی طاقتوں کے ہم نوا ہے اور نہ حکومت کے حمایتی۔ یہ آغاز ہی سے غیر جانب دار چلے آرہے ہیں۔ البتہ وہ اپنے خلاف ہونے والی مسلح کارروائیوں سے بہت نقصان اُٹھا چکے ہیں۔ دراصل   یہ قبائل قذافی حکومت نواز تھے۔

اس وقت مسلح جدوجہد اور کارروائیوں میں مصروف اثرانگیز طاقتیں دروع، الصواعق و القعقاع، انصارالشریعۃ، دستہ ۱۷فروری، دستہ راف اللہ سحاتی، الجیش الوطنی اور قبائلی ملیشیا ہیں۔ الجزیرہ اور العرب کے تجزیہ نگار یاسرالزعاترہ کے مطابق لیبیا ایسا ملک ہے جہاں ہتھیار ڈالنے کی روایت کم ہے بلکہ ایسی جماعتیں موجود ہیں جو آسانی سے اپنے سر کسی جلاد کو پیش نہیں کرسکتیں۔ وہ آخری سانس تک لڑیں گے۔ رہی بات انتشار اور تشدد کی تو اس کا سب اقرار کرتے ہیں۔ لیکن مسلح کارروائیوں کے بعد متوقع کیفیت یہی ہونا تھی کہ تیل کی دولت سے مالا مال ملک کے بڑے قبائل اور خاندان خلیفہ حفتر کے ہم نوا بن جائیں اور وہ کچھ حاصل کرنے کی کوشش کریں جو وہ بیلٹ بکس کے ذریعے حاصل نہیں کرسکتے۔ مختصر یہ کہ کسی بھی طاقت کو منظر سے ہٹاکر جمہوریت کا عمل جڑ نہیں پکڑ سکتا۔ ملکی قوتوں کے مقابلے میں امریکا سے آنے والے خلیفہ حفتر کے پیش نظر کوئی بڑی سیاسی قوت تشکیل دینا نہیں ہے۔ سب جانتے ہیں کہ یہ بیرونی منصوبے ہیں جن کی تشکیل اور تکمیل کا فریضہ حفتر جیسے لوگ انجام دیتے ہیں۔ بیرونی قوتوں نے عرب بہار کو سبوتاژ کرنے کے لیے لاکھوں ڈالر صرف اس لیے خرچ کیے ہیں کہ یہ انقلاب کی چنگاری ان تک نہ پہنچ جائے۔

خلیفہ حفتر نے اعلان کیا تھا کہ لیبیا کو اسلام پسندوں خصوصاً اخوان المسلمون سے پاک کردیںگے۔ اس پر اخوان المسلمون لیبیا کے مراقب عام بشیرالکبتی نے کہا کہ ہم لیبیا قوم کا حصہ ہیں اور حفتر ایسی جماعت کے بارے میں بات کر رہے ہیں خود جس کے اپنے اُوپر تشدد اور   دہشت گردی روا رکھی گئی۔ اخوان کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ ایسی کارروائیوں میں ملوث ہو۔ لیبیا کے بحران کا حل ہمارے نزدیک تمام قوتوں کا مذاکرات اور مکالمے کی میز پر بیٹھنے میں مضمر ہے۔ جس قدر جلدی ہوسکے مذاکرات کا عمل شروع ہو۔ عبداللہ الثنی کی حکومت نے بھی اپنے ایک بیان میں یہی مطالبہ کیا کہ تمام قوتیں گفتگو کی میز پر آجائیں اور سیاسی مسائل کو اسلحے کی زبان سے حل کرنا چھوڑدیں۔ قانون اور عدالت کی طرف رجوع کریں۔

اقوامِ متحدہ، یورپی یونین اور ۱۳ممالک نے ۲۲ستمبر کو ایک اجلاس میں مطالبہ کیا کہ لیبیا کے اندر قتل و خونریزی کا سلسلہ بند کیا جائے اور کسی بھی غیرملکی مداخلت کی کوشش نہ کی جائے۔ اجلاس میں شریک ۱۳ممالک میں الجزائر، مصر، قطر، سعودی عرب،تیونس، امارات، ترکی، فرانس، جرمنی، اٹلی، ہسپانیہ، برطانیہ اور امریکا ہیں۔اجلاس کے اختتام پر جاری کیے گئے اعلامیے میں تمام جماعتوں اور طاقتوں کو تعمیری فکر کے ساتھ پُرامن سیاسی مذاکرات میں شرکت کے لیے کہا گیا۔ کسی بھی ایسے عمل سے باز رہنے کی تاکید کی گئی جس سے خطرے کی صورت حال پیدا ہونے کا خدشہ ہو۔ عالمی اور علاقائی سطح پر مسئلے کے حل کے لیے کاوشوں کو سراہا گیا۔ الجزائر ملک کے اندر جاری نزاع کے دونوں فریقوں کو گفتگو کی ضرورت پر زور دے گا اور اقوام متحدہ کا مشن ابتدائی بات چیت کو ستمبر کے آخر تک ممکن بنانے کی کوشش کرے گا۔

لیبیا کی اندرونی صورتِ حال کو معمول پر لانے کی غرض سے لیبیا میں موجود اقوامِ متحدہ کے مشن نے اپنی ویب سائٹ پر ۲۹ستمبر کو ہونے والے مذاکرات کے بارے میں کہا: ان مذاکرات کی بنیاد ان اُمور پر ہوگی کہ منتخب اداروں کی قانونی حیثیت کو مانا جائے، دستوری اعلان کا احترام کیا جائے، انسانی حقوق اور بین الاقوامی قانون کا لحاظ رکھا جائے اور دہشت گردی کو پوری قوت سے  رد کیا جائے۔ نومنتخب اسمبلی حکومت سے متعلقہ اُمور پر اتفاق راے پیدا کرے، اہم اُمور پر کوئی فیصلہ کرنے کے لیے اسمبلی ارکان کی دوتہائی اکثریت کی راے لی جائے۔ عبوری کونسل اور منتخب اسمبلی کے درمیان انتقالِ اقتدار کے عمل کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے تاریخ، مقام اور اقتدار کے انتقال کا طریق کار طے کیا جائے۔

اقوام متحدہ نے اہلِ لیبیا سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سلامتی کونسل کی اگست میں پاس کی گئی قرارداد پر عمل کو یقینی بنائیں اور فوری اور مستقل جنگ بندی پر عمل کریں۔ اس بیان میں مسلح جماعتوں کے بڑے شہروں اور ہوائی اڈوں اور عام کارخانوں وغیرہ سے انخلا کا لائحہ عمل بھی طے کیا جائے گا۔ خدمت ِ انسانیت کی کاوشوں کا آغاز ممکن بنایا جائے گا۔کاش! اقوامِ متحدہ کے اس خیرخواہانہ بیان پر عمل ہوجائے اور لیبیا کے طول و عرض میں پھیلی مایوسی بدامنی اور خوف و ہراس کے سایے چھٹ جائیں۔

الشرق الاوسط کے مطابق لیبیا میں شروع ہونے والے انتفاضے کو پونے تین سال ہونے کو ہیں۔ اس انتفاضے کو نتیجہ خیز بنانے میں ’ناٹو‘ کا کردار کلیدی رہا۔ اگر یہ نہ ہوتا تو مظاہرین کے لیے قذافی حکومت کا خاتمہ ممکن نہ ہوسکتا۔ لیکن ناٹو نے اس وقت اس عمل میں حصہ کیوں لیا؟ اس لیے کہ یہ آگ پورے خطے میں نہ پھیل جائے، مگر اب ناٹو خاموش تماشائی ہے۔ پہلے کی طرح اب بھی ضروری ہے کہ ناٹو ملک کے اندر امن و امان اور مستحکم حکومت کے قیام میں اپنا کردار ادا کرے۔

سوال : شوت اور اضطرار

  1. حالت ِ اضطرارکیا ہے؟ کیا اضطرار کے بھی حالات اور ماحول کے لحاظ سے مختلف درجات ہیں؟
  2. موجودہ حالات اور موجودہ ماحول میں کیا مسلمانوں کے لیے کسی صورت میں بھی رشوت جائز ہوسکتی ہے؟
  3. اس سوال کا جواب دیتے ہوئے رشوت کی ایک جامع تعریف بھی بیان کردیجیے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ کس قسم کے معاملات رشوت کی تعریف میں آتے ہیں۔

جواب :

  1. اضطرار یہ ہے کہ آدمی کو شریعت کی مقرر کی ہوئی حدود سے کسی حد پر قائم رہنے میں ناقابلِ برداشت نقصان یا تکلیف لاحق ہو۔ اس معاملہ میں آدمی اور آدمی کی قوتِ برداشت کے درمیان بھی فرق ہے اور حالات اور ماحول کے لحاظ سے بھی بہت کچھ فرق ہوسکتا ہے۔ اسی لیے اس امر کا فیصلہ کرنا کہ کون شخص کس وقت کن حالات میں مضطر ہے، خود اس شخص کا کام ہے جو اس حالت میں مبتلا ہو۔ اسے خود ہی اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اور آخرت کی جواب دہی کا احساس کرتے ہوئے یہ راے قائم کرنی چاہیے کہ آیا وہ واقعی اس درجہ مجبور ہوگیا ہے کہ خدا کی کوئی حد توڑے؟
  2. موجودہ حالات ہوں یا کسی اور قسم کے حالات، رشوت لینا تو بہرحال حرام ہے، البتہ رشوت دینا صرف اس صورت میں بربناے اضطرار جائز ہوسکتا ہے، جب کہ کسی شخص کو کسی ظالم سے اپنا جائز حق حاصل نہ ہو رہا ہو اور اس حق کو چھوڑ دینا اس کو ناقابلِ برداشت نقصان پہنچاتا ہو اور اُوپر کوئی بااختیار حاکم بھی ایسا نہ ہو جس سے شکایت کرکے اپنا حق وصول کرنا ممکن ہو۔
  3. رشوت کی تعریف یہ ہے کہ ’’جو شخص کسی خدمت کا معاوضہ پاتا ہو وہ اسی خدمت کے سلسلے میں ان لوگوں سے کسی نوعیت کا فائدہ حاصل کرے جن کے لیے یا جن کے ساتھ اس خدمت سے تعلق رکھنے والے معاملات انجام دینے کے لیے وہ مامور ہو قطع نظر اس سے کہ وہ لوگ برضاو رغبت اسے وہ فائدہ پہنچائیں یا مجبوراً۔ جو عہدے دار یا سرکاری ملازمین تحفے تحائف کو اس تعریف سے خارج ٹھیرانے کی کوشش کرتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ ہروہ تحفہ ناجائز ہے جو کسی شخص کو ہرگز نہ ملتا اگر وہ اس منصب پر نہ ہوتا۔ البتہ جو تحفے آدمی کو خالص شخصی روابط کی بنا پر ملیں، خواہ وہ اس منصب پر ہو یا نہ ہو، وہ بلاشبہہ جائز ہیں۔ (سید ابوالاعلیٰ مودودی، رسائل و مسائل ، دوم، ص ۱۷۹-۱۸۰)

سوال : توبہ اور کفارہ

میں نے ایسے ماحول میں پرورش پائی ہے جہاں اُٹھنے بیٹھنے کے آداب سے لے کر زندگی کے بڑے مسائل تک ہربات میں شریعت کی پابندی ہوتی رہی ہے اور میں اب کالج میں تعلیم پارہا ہوں۔ ماحول کی اس اچانک تبدیلی سے میں عجیب کش مکش میں مبتلا ہوگیا ہوں۔ بعض غیراسلامی حرکات مجھ سے سرزد ہوگئی ہیں۔ جب کبھی ایسی کوئی حرکت ہوئی، ضمیر نے ملامت کی اور اللہ سے عفو کا طالب ہوا، مگر پھر بُرے اثرات ڈالنے والوں کے اصرار اور شیطانی غلبے سے اسی حرکت کا مرتکب ہوگیا۔ اس طرح بار بار توبہ کرکے اسے توڑچکا ہوں۔ اب اگرچہ اپنی حد تک میں نے اپنی اصلاح کرلی ہے اور بظاہر توقع نہیں کہ میں پھر اس گناہ میں مبتلا ہوں گا، لیکن یہ خیال بار بار ستاتا ہے کہ کیا میرے وہ گناہ معاف ہوجائیں گے جو میں نے توبہ توڑ توڑ کر کیے ہیں؟ نیز یہ بھی بتائیں کہ توبہ توڑنے کا کفارہ کیا ہے؟ اور یہ کہ توبہ شکنی کا علاج کیا ہے؟

جواب :

گناہ کا علاج توبہ و اصلاح ہے۔ توبہ کر کے آدمی خواہ کتنی ہی بار توڑ دے، اسے پھر توبہ کرنی چاہیے اور نئے سرے سے اصلاح کی کوشش شروع کردینی چاہیے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک آدمی کسی پہاڑی راستے پر چلتے ہوئے بار بار پھسل جائے۔ ظاہر ہے کہ اس کے اپنی  منزلِ مقصود پر پہنچنے کی صورت یہی ہے کہ وہ خواہ کتنی ہی بار پھسلے، ہر بار اسے گر کر پھر اُٹھنے اور چڑھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔جو شخص پھسل کر نہ اُٹھے اور ہمت ہار کر وہیں پڑارہ جائے جہاں وہ گرگیا ہے وہ کبھی منزلِ مقصود پر نہیں پہنچ سکتا۔ اسی طرح اخلاقی بلندی پر چڑھنے والا بھی اگر ہرلغزش پر سنبھل جائے اور راہِ راست پر ثابت قدم رہنے کی کوشش جاری رکھے، تو اللہ تعالیٰ اس کی لغزشوں پر گرفت نہ فرمائے گا اور اس کو فائز المرام ہونے سے محروم نہ رکھے گا۔ البتہ گناہ کر کے جو لوگ   گناہ گاری کے مقام پر پڑے ہی رہ جائیں وہ ضرور بُرا انجام دیکھیں گے۔

آپ کے قلب میں اپنی لغزشوں پر ندامت و شرمساری کا احساس تو ضرور رہنا چاہیے، اور عمربھر اپنے رب سے معافی بھی ضرور مانگتے رہنا چاہیے، لیکن یہ شرمساری کبھی آپ کو اپنے رب کی رحمت سے مایوس نہ کرنے پائے۔ کیونکہ اس طرح کی مایوسی اللہ تعالیٰ سے بدگمانی ہے، اور اس میں یہ بھی خطرہ ہے کہ جب آدمی کو سزا سے بچنے کی اُمیدنہ رہے گی تو شیطان اسے دھوکا دے کر بآسانی گناہوں کے چکر میں پھانس دے گا۔

توبہ کو مضبوط بنانے اور توبہ شکنی سے بچنے کے لیے ایک کارگر نسخہ یہ ہے کہ آدمی نفل نماز، نفل روزے اور صدقات نافلہ سے مدد لے۔ یہ چیزیں گناہوں کا کفارہ بھی بنتی ہیں، اللہ کی رحمت کو انسان کی طرف متوجہ بھی کرتی ہیں، اور انسان کے نفس کو اتنا طاقت ور بھی بنادیتی ہیں کہ وہ بُرے میلانات کا زیادہ اچھی طرح مقابلہ کرسکتا ہے۔

اگر توبہ کے ساتھ آدمی نے قسم بھی کھائی ہو اور پھر اسے توڑ دیا ہو تو اس کا کفارہ واجب ہے، یعنی ۱۰ مسکینوں کو کھانا کھلانا یا کپڑے پہنانا، اور اس کی استطاعت نہ ہو تو تین دن کے روزے رکھنا۔ (ایضاً، ص ۳۰۲-۳۰۴)


سوال : خیانت اور ازالے کی صورت

اگر کوئی شخص اپنے سرکاری یا نجی ادارۂ معاش میں وقت کی پابندی نہ کرتا ہو، مقررہ وقت شروع ہوجانے کے بعد تاخیر سے آتا ہو اور وقت ختم ہونے سے قبل ہی چلاجاتا ہو۔ کئی کئی روز حاضر ہی نہ ہوتا ہو اور پھر جب آتا ہو تو گذشتہ دنوں کی بھی حاضری لگا دیتا ہو۔ دفتری اوقات ذاتی کاموں پر صرف کرتا ہو۔ بسااوقات شہر سے باہر بغیر رخصت لیے جاتا ہو اور بعد میں ان ایام کی حاضری بھی لگادیتا ہو اور ان اوقات یا ایام میں کام نہ کرکے بھی مشاہرہ لیتا ہو تو کیا وہ خیانت کا مرتکب نہیں ہوتا؟

جواب : 

ایک آدمی سرکاری یا نجی ادارے میں ملازم ہو تو جو وقت کام کے لیے مقرر ہے وہ پورا وقت اس کام کے لیے دینا ضروری ہے اور مشاہرے کے لیے جو ضابطہ ہے اس کے مطابق مشاہرہ وصول کرنا ضروری ہے۔ اگر وقت کی کمی سے ضابطے کے مطابق مشاہرہ کٹتا ہو تو مشاہرہ کٹوا کر باقی رقم بطور مشاہرہ لی جائے۔ اسی طرح جس دن غیرحاضری ہو اس دن کی حاضری لگانا بھی خیانت اور جھوٹ ہے، اور جھوٹ کے بارے میں ہر ایک کو معلوم ہے کہ گناہِ کبیرہ ہے۔ اسی طرح ملازمت کے اوقات میں نجی کام کرنا بھی جائز نہیں ہے بلکہ خیانت اور جھوٹ ہے ۔ غرضیکہ آدمی صرف وہ کام کرسکتا ہے جس کا ادارے کو پتا چلے تو ادارے کے نزدیک وہ کام جائز اور معیوب اور قابلِ اعتراض نہ ہو۔

مولانا مفتی محمد شفیع اپنی تفسیر معارف القرآن میں فرماتے ہیں: ’’ایمان والوں کا ’پانچواں وصف‘ امانت کا حق ادا کرنا۔ وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِاَمٰنٰتِھِمْ وَعَھْدِھِمْ رٰعُوْنَo (المعارج ۷۰:۳۲)۔ لفظ امانت کے لغوی معنی ہر اس چیز کو شامل ہیں جس کی ذمہ داری کسی شخص نے اُٹھائی ہو اور اس پر اعتماد و بھروسا کیا گیا ہو۔ اس کی قسمیں چونکہ بے شمار ہیں اسی لیے باوجود مصدر ہونے کے اس کو بصیغہ جمع لایا گیا ہے تاکہ امانت کی سب قسموں کو شامل ہوجائے خواہ وہ حقوق اللہ سے متعلق ہوں یا حقوق العباد سے۔ حقوق اللہ سے متعلق امانات تمام شرعی فرائض و واجبات کا ادا کرنا اور تمام محرمات و مکروہات سے پرہیز کرنا ہے، اور حقوق العباد سے متعلق امانات میں مالی امانت کا داخل ہونا تو معروف ہے کہ کسی شخص کے پاس اپنا کوئی مال امانت کے طور پر رکھ دیا ہو،   یہ اس کی امانت ہے۔ اس کی حفاظت اس کے واپس کرنے تک اس کی ذمہ داری ہے۔ اس کے علاوہ کسی نے کوئی راز کی بات کسی سے کہی وہ بھی اس کی امانت ہے۔ بغیر اذنِ شرعی کے کسی کا راز ظاہر کرنا امانت میں خیانت ہے۔

مزدور ملازم کو جو کام سپرد کیا گیا اس کے لیے جتنا وقت خرچ کرنا باہم طے ہوگیا اس کو اسی کام میں لگانا امانت ہے۔ کام کی چوری یا وقت کی چوری خیانت ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ امانت کی حفاظت اور اس کا حق ادا کرنا بڑا جامع لفظ ہے۔ سب مذکورہ تفصیلات اس میں داخل ہیں‘‘ (سورئہ مومنون، آیت ۸)۔

کوئی شخص وہ کچھ کرتا ہو جو آپ نے لکھا ہے، وہ امانت کی شرائط پر پورا نہیں اُترتا۔ البتہ اگر ادارہ جس میں یہ صاحب کام کرتے ہوں اس کی اپنی مِلک ہو تو پھر اسے اختیار ہے کہ ادارے سے مشاہرہ لے یا نہ لے ، تھوڑا لے یا زیادہ لے۔ ادارے کے نگران یا مالک نے جو اپنے لیے طے کیا ہو اس پر عمل درآمد کرسکتا ہے۔ اگر ادارہ سرکاری ہے یا نجی یا کسی دوسرے کا، تو پھر ضروری ہوگا کہ ضابطے کے مطابق عمل شروع کرے، اور سابقہ طرزِعمل سے توبہ کرے اور ادارے سے جو ناجائز مفاد اُٹھایا ہو اسے ادارے کو واپس کرے۔ (مولانا عبدالمالک)


سوال : حج کے ساتھ ساتھ کاروبار کرنا

ایک شخص ہر سال حج کرنے کا عادی ہے اور اس سے اس کا مقصد چیزیں خریدنا اور انھیں منافع پر بیچنا ہوتا ہے۔ کیا اس کا حج مقبول ہے؟

جواب :

اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ کو حج کی اجازت دیتے ہوئے اس کی حکمت یہ بیان فرمائی  کہ: وَ اَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَاْتُوْکَ رِجَالًا وَّ عَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ یَّاْتِیْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ o لِّیَشْھَدُوْا مَنَافِعَ لَھُمْ (الحج ۲۲:۲۷-۲۸) ’’اور لوگوں کو حج کے لیے اذنِ عام دے دو کہ وہ تمھارے پاس ہر دُوردراز مقام سے پیدل اُونٹوں پر سوار آجائیں تاکہ وہ فائدے دیکھیں جو یہاں ان کے لیے رکھے گئے ہیں‘‘۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ    اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلاً مِّنْ رَّبِّکُمْ ط (البقرہ ۲:۱۹۸) ’’اور اگر حج کے ساتھ ساتھ تم اپنے رب کا فضل بھی تلاش کرتے جائو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں‘‘۔

حج کرنے والا مختلف قسم کے دینی و دنیاوی منافع کا مشاہدہ کرتا ہے اور حج کے موسم میں تجارت اور حلال کمائی کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا فضل تلاش کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔اس آیت کے سبب نزول کے متعلق امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ نے حضرت ابن عباسؓ سے حدیث روایت کی ہے کہ انھوں نے فرمایا: ’’لوگ حج کے پہلے دنوں میں عرفہ اور میدانِ عرفہ کے قریب ذی المجاز کے مقام پر خریدوفروخت کرتے تھے درآں حالیکہ وہ احرام میں ہوتے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ لہٰذا حج کے موسم میں حلال کمانے میں کوئی مضائقہ نہیں، یعنی اس سے نہ حج فاسد ہوتا اور   نہ اس کا ثواب ہی ضائع ہوتا ہے۔

لہٰذا جو لوگ حج کرنے کے ساتھ ساتھ تجارتی لین دین بھی کرتے ہیں ان کے حج درست ہیں اورفاسد نہیں ہوتے۔ ان پر دوبارہ حج کرنا لازم نہیں آتا ہے، ان کا فریضہ بھی ادا ہوجاتا ہے۔ جہاں تک ثواب کا تعلق ہے تو بظاہر تو یہی ہے کہ اللہ انھیں اس سے محروم نہیں کرے گا لیکن اس کے باوجود اس حدیث کا لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ: ’’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہرشخص کے لیے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی‘‘۔  چنانچہ اگرسفر حج کے لیے تھا اور وہاں پہنچ کر تجارت بھی کرلی تو حج کا ثواب زیادہ ہوگا، اور اگر سفر تجارت کے لیے تھا اور وہاں پہنچ کر حج بھی کرلیا تو حج کا ثواب کم ہوگا۔ جب ایک نیک کام میں نیتیں زیادہ ہوجائیں تو ممکن ہے کہ ثواب اس نیت سے وابستہ ہو جو سب سے زیادہ قوی ہو۔ باقی ہر چیز سے پہلے اور بعد سارے اختیارات اللہ کے پاس ہیں۔ وہ پاک ہے، سینوں کے راز تک جاننے والا ہے۔(شیخ سعد الدسوقی، ترجمہ: حاجی محمد)


 

محمد الرسولؐ اللہ ،مستشرقین کے خیالات کا تجزیہ  ،محمد اکرام طاہر۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی منصورہ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۲۴۷۶-۰۴۲۔ صفحات: ۴۶۲۔ قیمت: ۳۶۵ روپے۔

شرارِ بولہبی ازل سے چراغِ مصطفوی سے ستیزہ کار رہا اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ مستشرقین نے آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کے مختلف پہلوئوں پر طرح طرح کے اعتراضات کیے۔ محبانِ رسولؐ نے ہر دور میں ایسے دریدہ دہنوں کو دندان شکن جواب دیا۔اللہ غریق رحمت کرے سرسیّداحمد خاں، سیّد امیرعلی اور مولانا مودودی و دیگر رحمہم اللہ کو، جنھوں نے منطقی انداز سے اسلام کی حقانیت کو ثابت کیا اور اسلام اور رسولؐ مخالفوں کے اعتراضات کے جوابات دیے۔

زیرنظر کتاب میں فلسفہ و منطق اور علم الکلام کے ذریعے پروفیسر محمد اکرام طاہر نے حیاتِ رسولؐ پر مستشرقین کے اعتراضات کا تجزیہ کر کے ان کے جوابات دیے ہیں، مثلاً: اس اعتراض کا کہ اسلام میں عورت کو مرد کی نسبت آدھا حصہ کیوں ملتا ہے؟ جواب دیتے ہوئے مصنف نے کہا کہ وہ   آدھا باپ کے گھر سے لے جاتی ہے۔ پھر خاوند کی جایداد میں بھی اس کا آٹھواں حصہ ہے۔ چنانچہ بعض صورتوں میں وہ مرد سے زیادہ حصہ وصول کرتی ہے۔

مستشرقین اسلام کے نظامِ زکوٰۃ و عشر، جزیہ، خمس، فَے، قرضِ حسنہ اور سود کی ممانعت پر اعتراضات کرتے ہیں۔ ان کے جوابات دیتے ہوئے عربوں کی معاشی حالت، قبل از اسلام اور بعد از اسلام کا تجزیہ و موازنہ کر کے بتایا گیا ہے کہ اسلام کا معاشی نظام دنیا کا بہترین نظام ہے۔

مصنف نے رسولؐ اللہ کی قانونی، ریاستی اور سیاسی اصلاحات او ر انصاف کی بلاتفریق فراہمی اور تعزیراتِ اسلام جیسے موضوعات پر مدلل گفتگو کر کے ثابت کیا ہے کہ عالمِ انسانیت کے لیے اسلام ہی واحد راہِ عمل اور راہِ نجات ہے۔ اسی طرح اسلام میں عورت کے مقام و مرتبے کا دوسرے معاشروں سے تقابل کر کے بتایا ہے۔ اسلام نے عورت کی جو عزت افزائی کی ہے اس کی مثال ماقبل اسلام یا بعد کسی معاشرے میں نہیں ملتی۔

بعض مستشرقین معتدل مزاج دکھائی دیتے ہیں جیسے: منٹگمری ڈبلیوواٹ، مائیکل ایچ ہارٹ اور برناڈلیوس وغیرہ مگر ان کے ہاں بھی کچھ مغالطے ہیں۔ ان کے مغالطوں کا جائزہ لے کر مناسب جوابات دیے گئے ہیں۔

مجموعی طور پر کتاب اپنے موضوع کے ساتھ انصاف کرتی نظر آتی ہے اور حیاتِ رسولؐ پر اُٹھائے جانے والے اعتراضات کے مدلل اور منطقی جوابات دیتی ہے۔(قاسم محمود احمد)


سیرتِ نبویؐ کے دریچوں سے، ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی۔ ناشر: مکتبہ قاسم العلوم، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۲۴۰۔ قیمت:۳۰۰ روپے۔

زیرتبصرہ کتاب مصنف کے سیرت النبیؐ پر لکھے گئے ۱۳ مقالات کا ایک انتخاب ہے۔    ان ۱۳ مقالات سیرتِ النبیؐ کے متعدد پہلوئوں پر تحقیقی انداز میں اظہارِ خیال کیا گیا ہے۔ یہ مقالات رسولِ اکرمؐ کی گھریلو زندگی، آپؐ  کے زہد و قناعت، آپؐ  کے تبسم، مناسکِ حج میں   آپؐ  کی اصلاحات، حلف الفضول میں آپؐ  کی شرکت، صلح حدیبیہ، عصرِحاضر کے محروم و مظلوم طبقات کے مسائل میں آپؐ  کا اسوئہ حسنہ، سیرت نگاری میں معجزات کا مقام اور سیرت نگاری کی تاریخ پر نہایت جامعیت کے ساتھ تاریخی ریکارڈ کھنگالا گیا ہے اور ان عنوانات پر قرآن و حدیث اور تاریخ و سیر کی کتب کے حوالوں سے حقیقت تک رسائی کی کوشش کی گئی ہے۔ ایک مقالہ    ابن نفیس کے الرسالۃ الکاملیۃ فی السیرۃ النبویۃ کے تعارف و تجزیے پر مشتمل ہے۔ آخری چودھویں باب میں سیرت النبیؐ پر لکھی گئی ۱۱ ؍مطبوعات پر تحقیقی و تنقیدی تبصرے سپردِ قلم کیے گئے ہیں۔

یہ کتاب حدیث اور تاریخ کے گہرے مطالعے کے نتیجے میں سیرت النبیؐ کے بعض گوشوں کو واضح کرتی ہے۔ مصنف نے کتب ِ سیرت کے قدیم و جدید ذخیرے کو تحقیقی اور تنقیدی نقطۂ نظر    سے مطالعہ کر کے مفید، قابلِ عمل اور عصرِحاضر کے مسائل کی تحلیل کے لائق حاصل مطالعہ پیش کیا ہے ۔ (ظفرحجازی)


سرکارِ مدینہؐ اور آپؐ کے خلفاے راشدینؓ، چراغ حسن حسرت۔ طٰہٰ پبلی کیشنز، ۱۹-ملک جلال الدین (وقف) بلڈنگ چوک اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۴۴۷۰۵۰۹-۰۳۳۳۔ صفحات: ۲۳۲۔ قیمت ۲۵۰ روپے۔

چراغ حسن حسرت بڑے پائے کے صحافی، ادیب اور شاعر تھے۔ ان کی عمر کوچۂ صحافت میں بسر ہوئی۔ انھوں نے بچوں اور نوجوانوں کے لیے شخصیات پر سادہ زبان اور آسان اسلوب میں بہت سی کتابیں بھی لکھیں، کہانیاں بھی تحریر کی ہیں۔

زیرنظر کتاب کا موضوع سیرت النبیؐ اور سیرتِ خلفاے راشدینؓ ہے۔ ابتدا میں   سرزمینِ عرب کے جغرافیے، موسم، فضا اور عربوں کے مزاج، زبان اور شعرگوئی کا بیان ہے۔     پھر ضمنی عنوانات (ہمارے نبیؐ، بچپن، جوانی، بی بی خدیجہؓ، ایک جھگڑے کا فیصلہ، نبوت وغیرہ) کے تحت آپؐ کے مختصر حالات، قریش کی مخالفت، مسلمانوں پر ظلم و ستم، ہجرت اور غزوات کا ذکر کرتے ہوئے اس تذکرے کو آں حضوؐر کی وفات پر مکمل کیا ہے۔چاروں خلفاے راشدین اور ان کے عہدِخلافت کے نمایاں واقعات کا ذکر کیا گیا ہے۔ حالات و واقعات نئے نہیں ہیں لیکن چراغ حسن حسرت کے اسلوب کی تازگی اور شگفتگی کی وجہ سے قاری کتاب کو دل چسپی کے ساتھ پڑھتا چلا جاتا ہے۔

ناشر نے مصنف کے نام کے ساتھ ’مولانا‘ کا سابقہ لگایا ہے، حالانکہ کلین شیوڈ حسرت، مولانا تھے نہ اپنی تصانیف پر یہ لفظ لکھتے تھے، نہ خود کو مولانا سمجھتے تھے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


بے نظیربھٹو…قاتل بچ نکلا، ہیرالڈ میونوز۔ترجمہ: یاسرجواد۔ ناشر: نگارشات، ۲۴-مزنگ روڈ،  لاہور۔ فون: ۳۷۳۲۲۸۹۲-۰۴۲۔صفحات (بڑی تقطیع): ۱۸۵۔ قیمت: ۵۹۰ روپے۔

تاریخِ پاکستان کے بڑے سانحات پر رپورٹیں تیار ہوئیں اور کتابیں بھی لکھی گئیں۔ اسی ضمن میں محترمہ بے نظیربھٹو کے قتل پر ایک کتابGetting Away wtih Murder شائع ہوئی ہے۔ ہیرالڈومیونوز جو اقوام متحدہ میں اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل اور اقوام متحدہ انکوائری کمیشن کے سربراہ ہیں، وہ اس کے مصنف ہیں۔ موصوف جنوری ۲۰۱۰ء میں اقوام متحدہ کی طرف سے بے نظیر قتل کیس کے تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ مقررہوئے۔ انھوں نے کتاب کے پیش لفظ میں لکھا: ’’یہ کتاب سال بھر طویل انکوائری کے دوران ملنے والے پس پردہ شواہدوتجربات پر مبنی ہے۔      یہ کتاب بے نظیربھٹوکے قتل اور ان کے متعلق میرا ذاتی نقطۂ نظر ہے اور اقوام متحدہ یا تفتیشی کمیشن کے دیگر ارکان کے خیالات کا لازمی طور پر عکاس نہیں‘‘۔

آٹھ ابواب، مابعدتحقیق، حاصل بحث اور آخر میںحوالوں پر مشتمل کتاب میں بے نظیر کے عروج کی کہانی بھی ہے اور پاکستان میں سیاسی قتل کی تاریخ بھی۔ ’لبرل‘ اور ’اسلامسٹوں‘ کی کش مکش بھی ہے اور پاک امریکاتعلقات، وفا وبے وفائی کے قصے بھی۔ مشرف اور پاکستانی طالبان کے تذکرے بھی ہیں،آئی ایس آئی، سی آئی اے تعلقات کے اُتار چڑھائو بھی۔ اس کتاب میںجہاں تفتیش اورتحقیق کا دعویٰ پایا جاتاہے وہاں تاریخ سے بے خبری ،  اسلام سے تعصب نمایاں ہے۔

’عدم استحکام کی ابتدائی تاریخ‘  کے عنوان سے لیاقت علی خان سے بے نظیر بھٹو کی موت تک کی کہانی بیان کرتے ہوئے زمانی لحاظ سے انتہائی فاصلے پرواقع واقعات کو بڑی مہارت کے ساتھ جوڑا گیاہے: ’’۲۹سالہ افغانی سید اکبر نامی قاتل خوست کے افغانستان کے سردارکا بیٹا تھا۔    اکبر ایبٹ آبادمیں رہتا تھا۔ وہی شہرجہاں کئی عشرے بعد اسامہ بن لادن کے خلاف حتمی کارروائی ہوئی‘‘۔ ’’جس پارک میں وزیراعظم لیاقت علی خان کا قتل ہوا‘ … وہی جگہ جہاں پر ۶۰ برس بعد  بے نظیربھٹوکو قتل کیاگیا۔جس ڈاکٹر نے لیاقت علی خان کا معائنہ کیاتھا،  آج اُن کے بیٹے ڈاکٹرمصدق نے ۶۰برس بعد اپنے باپ کی طرح بے نظیربھٹوکی زندگی بحال کرنے کی کوشش کی‘‘۔’’ ذوالفقار علی بھٹو کو راولپنڈی جیل میں پھانسی دے دی گئی۔ اس شہرمیں پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو قتل کیاگیاتھا اور یہیں پر ذوالفقارعلی بھٹوکی بیٹی بے نظیر کو قتل ہوناتھا‘‘۔(ص۳۴)

حیرت ہوتی ہے کہ ایک بین الاقوامی ادارے سے وابستہ تحقیق و تفتیش کے علم بردارمصنف نے بعض باتیں بڑی’آسانی‘ سے بغیر تحقیق کے بلکہ تعصب کی بنیاد پر لکھ دیں، مثلاً ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’مودودی، بانیِ پاکستان محمدعلی جناح کو کافر سمجھتا تھا اور اس نے ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر کو بھی کافر قراردیا‘‘ (ص۳۷)۔ تاریخ کی تھوڑی سی واقفیت رکھنے والاکوئی بھی شخص یہ ثابت نہیں کرسکتا تھا کہ مولانا مودودی نے کبھی کسی شخص کو کافر قراردیاہو۔ قائداعظم تو دُور کی بات ہے وہ توان لوگوں کے معاملے کو بھی اللہ پر چھوڑ دیتے تھے جنھوں نے خود مولانا مودودی پر کُفر کے فتوے لگائے تھے۔ اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو کو بھی مولانا مودودی نے کبھی کافر قرار نہیں دیا۔ اسی طرح ریمنڈ ڈیوس کے بلاوجہ تذکرے میںبھی مصنف نے لکھا ہے کہ’’ریمنڈ ڈیوس نے ڈاکا زنی کی کوشش کرنے والے دوآدمیوں کو مار ڈالا‘‘(ص ۱۴۸) جو خلافِ واقع ہے۔

پانچویں باب’پاکستانی معاملات میں امریکی سنجیدگی‘ کے زیر عنوان کچھ ایسے حقائق سامنے آئے ہیں جن کے مطالعے سے پاکستانیوں کے سر شرم سے جھک جائیں گے۔ مثلاً جنرل ایوب خان نے ستمبر۱۹۵۳ء میں واشنگٹن ڈی سی کے دورے کے دوران سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ایک اعلیٰ افسرسے کہا:’’ اگر آپ چاہیں توہماری فوج آپ کی فوج بن سکتی ہے‘‘ ۔بے نظیر کے پہلے دوراقتدار کے بارے میں مصنف رقم طراز ہیں کہ ’’بے نظیر امریکی مشیروں میں گھِر گئیں‘‘(ص ۷۱)۔ پھر: ’’۱۹۹۵ء کے اوائل میں رمزی یوسف کی گرفتاری اور امریکا کے حوالے کرنے کی وجہ سے بے نظیر بھٹوکواپریل ۱۹۹۵ء کے اپنے دورۂ واشنگٹن کے دوران ایک مرتبہ پھر میڈیا اور سیاسی اشرافیہ کی جانب سے پذیرائی ملی۔ اسی طرح جون ۱۹۹۷ء میں نواز شریف نے ایمل کاسی کو پکڑنے کے پاک امریکا مشترکہ آپریشن کی اجازت دی اور: ’’حوالگی کے قواعدوضوابط پورے کیے بغیر کاسی کو امریکا بھیجوادیاگیا‘‘ (ص۷۴)۔بے نظیربھٹو کے بارے میں مصنف نے لکھا ہے کہ وہ پاکستان آمدسے پہلے ۱۵؍اگست ۲۰۰۷ء کونیویارک کونسل براے فارن ریلیشنز کے ایک غیرمعمولی اجلاس میں شریک ہوئیں۔ بے نظیر نے اس اجلاس میں پاکستان جانے اور عسکریت پسندوں اور انتہاپسند قوتوں سے دودوہاتھ کرنے کا عزم ظاہرکیا۔ مصنف لکھتاہے: ’’مشرف نہیں چاہتاتھا کہ بے نظیر انتخابات سے پہلے پاکستان آجائیں، لیکن وہ انتخابی مہم کے لیے اپنی آمدضروری سمجھ رہی تھیں‘‘۔

۲۷دسمبر۲۰۰۷ء کو بے نظیر بھٹو لیاقت باغ میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کے بعد پارک سے باہرایک حملے میںجان کی بازی ہارگئیں۔ پیپلزپارٹی نے قتل کی تحقیقات اقوام متحدہ سے کروانے کا فیصلہ کیا۔ جنوری ۲۰۰۸ء کے اوائل میں آصف علی زرداری نے واشنگٹن پوسٹ میں لکھا: ’’میں اقوام متحدہ سے درخواست کرتاہوں کہ میری بیوی کے قتل کے بارے میں حقائق معلوم کرنے کی غرض سے مفصل تفتیش شروع کریں‘‘۔ جب وہ ۶ستمبرکو صدربنے تویہ مطالبہ ایک ریاست کی طرف سے سرکاری درخواست بن گئی۔ لیکن اقوام متحدہ کے کمیشن کو ایسے شواہد نہ مل سکے جنھیں وہ دوٹوک طور پرقتل سے منسلک کرسکتے‘‘(ص۱۲۷)۔آخر میں مصنف نے لکھا ہے کہ’’شایدہمیں قطعی طور پر کبھی معلوم نہیں ہوسکے گا کہ بے نظیربھٹو کوکس نے قتل کیا؟ قتل کی منصوبہ سازی کے پیچھے کون تھا؟‘‘ (حمیداللّٰہ خٹک)


اشاریہ ماہنا مہ تعمیر افکار، مرتبہ : سیّدمحمد عثمان۔ ناشر: زوار اکیڈمی پبلی کیشنز، اے۴/۱۷، ناظم آبادنمبر۴، کراچی۔ فون: ۳۶۶۸۴۷۹۰-۰۲۱۔ خصوصی شمارہ ۳۵۰۔صفحات: ۲۴۶۔ قیمت:درج نہیں۔

اسلامی افکار کا ترجمان علمی و ادبی اور تحقیقی مجلہ ماہنامہ تعمیرافکار ۱۴برس سے باقاعدگی سے شائع ہورہا ہے۔ اس عرصے میں اس نے بعض علما (پروفیسر سید محمد سلیم ، علامہ محمد طاسین،  مولانا سید زوار حسین شاہ، مفتی غلام قادر، مولانا محمد اسماعیل آزاد) اور بعض موضوعات (سیرت النبیؐ، قرآن حکیم مطالعہ سیرت اور عصرحاضر) پر خاص اشاعتیں پیش کی ہیں۔ علمی رجحان کا حامل، یہ ایک صاف ستھرا دینی رسالہ ہے۔ ادارے نے ۱۳برس میں شائع ہونے والے ۱۳۳ شماروں کا ایک جامع اشاریہ تیار کیا ہے۔ پہلا حصہ بہ لحاظ مصنفین و مقالہ نگار ، دوسرا حصہ بہ لحاظ مضامین و عنوانات، تیسرا حصہ بہ لحاظ موضوعات، چوتھا حصہ رسالے میں مطبوعہ حمدونعت و منقبت اور پانچواں حصہ تبصرۂ کتب کے حوالوں پر مشتمل ہے۔ تبصرۂ کتب کے بھی دو حصے ہیں بہ لحاظِ مؤلف کتاب اور بہ لحاظ عنوانِ کتاب۔

اشاریہ عمدگی سے مرتب کیا گیا ہے اور تحقیق کرنے والے اساتذہ اور طلبہ کے لیے افادیت کا حامل ہے، البتہ بہت سے دوسرے اشاریوں کی طرح ایک خامی اس میں بھی موجود ہے۔ ہرحوالے کے ساتھ شمارے کے ماہ و سال کی نشان دہی تو کی گئی ہے اور صفحہ نمبر بھی درج ہے، یہ مضمون کے آغاز کا صفحہ نمبر ہے، مگر پتا نہیں چلتا کہ مضمون ختم کس صفحے پر ہوتا ہے ۔ (رفیع الدین ہاشمی)


افکارِ شگفتہ (چند علمی و فکری مباحث) ، ڈاکٹر محمد شکیل اوج۔ ناشر: فیکلٹی آف اسلامک اسٹڈیز جامعہ کراچی۔ صفحات: ۲۸۸۔ قیمت: ۵۰۰ روپے۔

کتاب میں مصنف نے اپنے ۲۴مقالات میں مختلف موضوعات پر تنقیدی اور تحقیقی نقطۂ نظر سے اپنی منفرد آرا پیش کی ہیں۔ زیرنظر کتاب میں ’اعضا کی پیوند کاری‘ ،’کیا عصرِحاضر میں خلافت راشدہ کا قیام ممکن ہے؟‘، ’سیاسی، مذہبی اور روحانی ملوکیتیں‘، ’اظہار راے کی آزادی کا قرآنی تصور‘ ، ’رویت ہلال میں سائنسی علوم کا کردار‘، ’خُلع میں قاضی کا اختیار‘، ’ہمسایے کے حقوق‘، ’اتحادِ اُمت کی راہ میں رکاوٹیں‘ اور بعض دوسرے عنوانات کے تحت فکرانگیز بحث کی ہے۔ ان کے خیال میں خلفاے راشدین کے عہد کے بعد عمر بن عبدالعزیز نے ملوکیت کے ماحول میں جب خلافت علی منہاج نبوت قائم کر کے دکھا دی تو بعد کے اَدوار میں اس کا قیام کیوں کر ناممکن ہے۔ اسی طرح ان کے خیال میں آج فلکیات کے سائنسی مشاہدات کے یقینی نتائج کو علماے کرام کے عینی مشاہدے سے ملاکر فیصلہ کن راے قائم کرنے میں کیا ہرج ہے۔

فاضل مصنف نے جن عنوانات پر اپنی راے ظاہر کی ہے، ان سے مختلف راے رکھنے والے مکاتب ِ فکر بھی موجود ہیں۔ فاضل محقق نے اپنی آرا کو پیش کرنے میں کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا۔ یہ سطور لکھی جارہی تھیں کہ خبر ملی، انھیں ۱۸ستمبر کو کراچی میں بعض لوگوں نے شہید کردیا۔ پروفیسر شکیل صاحب، جامعہ کراچی میں شعبہ اسلامیات کے سربراہ تھے۔(ظفرحجازی)


بچوں سے قرآن کی باتیں، سیّد نظرزیدی۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۲۴۷۶-۰۴۲۔ صفحات: ۱۰۵۔ قیمت: ۱۶۵ روپے۔

اللہ تعالیٰ نے ہمیں زندگی گزارنے اور رہنمائی کے لیے قرآنِ پاک عطا کیا۔ یہ انسانیت کی فلاح اور ہمیشگی والیِ زندگی کی رہنمائی کے لیے اُترا ہے۔ اگر یہ ہرعمر کے لوگوں کے لیے ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ معاشرے کی بنیادی اکائی ’گھر‘ اور اس کے ایک اہم عنصر ’بچوں‘ سے قرآن مخاطب نہ ہو۔

سیّد نظرزیدیؒ نے اس کاوش میں بچوں کے لیے جابجا پھیلے ہوئے انمول موتیوں کو سمیٹ کر عام فہم انداز میں وہ تمام بنیادی باتوں کو یک جا کر دیا ہے جو آج کل کی زبان میں کردار سازی میں بنیادی اہمیت رکھتی ہیں۔ اسلوبِ بیان ایسا ہے کہ اگر بچہ خود مطالعہ کرکے مستفید ہونا چاہے تو ہوسکتا ہے۔ انداز عام فہم، جگہ جگہ عام مثالوں اور حکایات سے بات کو واضح کرنا اور پھر ہر موضوع کے آخر میں سوالات (مشق) کہ اہم باتیں ذہن نشین ہوسکیں۔ گویا فی زمانہ اخلاقی اقدار، دینی تعلیم، عادات و اَطوار، معاملات اور کردار سازی کے جتنے عنوانات ممکن ہوسکتے ہیں، سب لے لیے گئے ہیں۔ اس سے قبل نظرزیدی مرحوم کی یہ کتاب قرآن کی باتیں کے نام سے دو حصوں میں شائع ہوئی تھی۔ اب اسے نئے نام کے ساتھ یک جا شائع کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس خوب صورت اور مفید پیش کش پر مصنف اور ناشر کو اجر عطافرمائے۔(علیم پراچہ)


تعارف کتب

  • تنبیہات ، ابوزبیر۔ ناشر: اذانِ سحر پبلی کیشنز، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۵۶۶۷-۰۴۲۔ صفحات:۲۹۲۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔[مصنف نے قرآن و حدیث کے احکامات بالخصوص جن میں مسلمانوں کو تنبیہ کی گئی ہے، کم و بیش ڈیڑھ سو موضوعات کے تحت بیان کیا ہے۔ نیز ان کو مسلمانوں کی حالت ِ زار اور مسائل پر منطبق کرتے ہوئے رہنمائی بھی دی ہے۔ ہرموضوع دو صفحات پر مشتمل ہے۔ ایک مختصر اور مفید تذکیر۔ ]
  • داعیاتِ دین اور عصری تقاضے ،شگفتہ عمر۔ ناشر: مکتبہ راحت الاسلام، مکان نمبر ۲۶، گلی نمبر ۴۸، سیکٹر ۴؍۸-ایف، اسلام آباد۔ فون: ۵۷۳۰۷۲۴-۰۳۳۴۔ صفحات: ۳۲۔ قیمت: ۶۰ روپے۔[فریضۂ دعوتِ دین کی اہمیت و تقاضے مرد و خواتین کے لیے یکساں ہیں۔ مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی اس میدان میں    سرگرمِ عمل ہیں۔ اس کتابچے میں داعیاتِ دین کی ذمہ داریاں، دعوت کے مختلف دائرۂ کار اور خواتین سے متعلق اہم مباحث کو عصری تقاضوں کی روشنی میں زیربحث لایا گیا ہے۔ نیز داعیاتِ دین کے لیے ضروری ذاتی اوصاف بھی بیان کیے گئے ہیں۔]

حافظ محمد ارشد ، لاہور

عالمی ترجمان القرآن دینی، تحریکی، تربیتی اور عالمی و ملّی اُمور و مسائل پر بہترین آگاہی فراہم کرتا ہے۔ ستمبر ۲۰۱۴ء کا ترجمان اس ضرورت کو بہ احسن پوری کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ ’اشارات‘ میں ڈاکٹر انیس احمد نے روداری اور برداشت کے تحت اہم اُمور کی طرف توجہ دلائی ہے جو موجودہ سیاسی بحران کے تناظر میں قابلِ غور ہیں۔ ’فہم قرآن‘ کے تحت ’اہلِ خانہ کے ساتھ جنت میں! ‘ایک ایسے موضوع پر قلم اُٹھایا گیا ہے جس کی طرف توجہ  کم جاتی ہے۔ تزکیہ و تربیت میں ’حج کا پیغام‘ خرم مرادؒ کی تحریر شاید کسی خاص روحانی کیفیت کا ثمر ہے کہ حج کے پیغام کے جملہ اُمورکو تربیتی رنگ میں ایسے بیان کیا ہے کہ پڑھنے والا اثر لیے بغیر نہیں رہتا۔ اسے ستمبر کے ترجمان کا حاصل کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ ’آزمایشیں‘ استقامت و عزیمت کے تصور کو نکھارتی اور تحریکی و دینی زندگی کو توانائی فراہم کرتی ہے۔ زندگی نو، دہلی کے مدیر ڈاکٹر محمد رفعت کی تحریر نے اسلامی تحریک کی جدوجہد اور درپیش چیلنج کا جس خوبی اور جامعیت کے ساتھ تجزیہ کیا اور رہنمائی فراہم کی ہے، تحریک کے ہر کارکن اور قیادت کو اس کا مطالعہ ضرور کرناچاہیے۔ بنگلہ دیش میں ظلم کی سیاہ رات بظاہر طویل ہوتی جارہی ہے۔ سلیم منصور خالد وقتاً فوقتاً آگاہی دیتے رہتے ہیں۔ اس پر جامع تجزیے کی ضرورت ہے۔


احمد علی محمودی ،حاصل پور

’’رواداری، برداشت اور معاشرتی اصلاح‘‘ (ستمبر ۲۰۱۴ء) میں اصلاحِ معاشرہ کے حوالے سے اہم نکات زیربحث آئے ہیں۔ باہمی تعلقات، اصلاحِ نفس و اصلاحِ معاشرہ کے حوالے سے یہ تحریر ایک آئینہ ہے۔ معاشرتی خرابیوں کا آغاز ایک فرد کی خرابی سے ہوتا ہے۔ اگر فرد کی اصلاح پر عدم توجہی برتی جائے تو یہ مرض   بتدریج معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے، جس کے نتیجے میں پورا معاشرہ انتشار و بدامنی کا شکار ہوجاتا ہے۔اصلاحِ احوال کے لیے قرآن وسنت کی تعلیمات کو اپنانے، عام کرنے اور نظامِ عدل کے قیام کی ضرورت ہے۔


بینا حسین خالدی ،صادق آباد

سمیہ رمضان کی تحریر ’’قرآن پر عمل__ ایک منفرد تجربہ‘‘ (اگست ۲۰۱۴ء) بے حد پسند آئی۔ اس لادینی دور میں، جب کہ اسلام کے بارے میں پاکستان میں بعض حلقے یہ تصور پیش کرتے ہیں کہ دین اسلام معاملات و مسائل کا عملی حل پیش نہیں کرتا، یاہم مسائل کا عملی حل دین میں ڈھونڈنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ ایسی تحریروں کی اشد ضرورت ہے۔


 

.....آدمی کو باربار اپنی پوزیشن کے بارے میں دھوکا ہوتا ہے۔ وہ بار بار اس غلط فہمی کا شکار ہوتا رہا ہے کہ اس کائنات میں وہی وہ مختار ہے، اس سے اُوپر کوئی اور نہیں۔اس کی یہی وہ غلط فہمی ہے جس کا ازالہ کرنے کے لیے اور اس کی یہی وہ عظمت ہے جس کا پردہ چاک کرنے کے لیے کائنات کی اصل فرماں رواطاقت ہوائوں اور گھٹائوں، بجلیوں اور پانیوں، طوفانوں اور زلزلوں کی پولیس اور فوج کو حرکت میں لاتی رہتی ہے اور حادثات کے کوڑوں کی ضرب لگا کر تادیب کرتی ہے۔ یہی ہوا جس پر زندگی کا دارومدار ہے جب حکمِ الٰہی کے تحت بپھر جاتی ہے تو بستیوں کی بستیاں تلپٹ ہوجاتی ہیں۔ یہی گھٹائیں جن کو دعائیں کرکر کے بلایا جاتا ہے جب غضب ِ خداوندی کی بجلیاں چمکاتی اور قہر کے اولے برساتی ٹوٹ پڑتی ہیں تو نباتات اور حیوانات اور انسانوں پر قیامت گزر جاتی ہے۔ یہی دریا اور ندی نالے جن کے پانیوں سے کھیتیاں سیراب ہوتی ہیں جب اُوپر سے اشارہ پاکر منہ میں جھاگ لائے اُمڈتے ہیں تو پانی سروں سے گزر جاتا ہے۔

مادّہ پرست غیرمعمولی طبعی حادثات کی توجیہ کرے گا تو کہے گا کہ آتش فشاں پہاڑ کی تہ میں لاوا بھرا پڑا تھا، وہ اُمڈ پڑااور بھونچال آگیا۔ مون سون ہوائوں نے پانی کی زیادہ مقدار بادلوں کی شکل میں کندھوں پر لاد کر کسی علاقے میں آ انڈیلی اور تباہی آگئی۔ پہاڑوں کی برف زیادہ مقدار میں پگھل بہی اور سیلاب آگیا۔ بارش نہ ہوئی اور قحط کی مصیبت آوارد ہوئی....  مادّہ پرستی میں گھِری ہوئی عقلِ انسانی حوادث کے پسِ پردہ کام کرنے والے عذابِ الٰہی کے قانون کو نہیں پاسکتی۔ یہ حقیقت اس کی نگاہ سے ہمیشہ اوجھل رہتی ہے کہ انسانی معاشروں کے لیے کوئی اخلاقی ضابطہ بھی ہے جو خیروشر کے تمام طبعی و معاشرتی مظاہر کے پیچھے برسرِعمل ہے۔ بھوک، بیماری، قحط، معاشی بے اطمینانی، تفرقہ ، غلامی، جنگ، زلزلے، بجلیاں، سیلاب ، طوفان،اولے اور   نہ جانے کیسے کیسے مہیب عساکر اُس گورنمنٹ کے اشاروں پر حرکت کرتے ہیں جو کائنات اور عالمِ انسانی پر  اپنا تسلط رکھتی ہے۔ یہ عساکر کبھی سرکشوں کی تادیب و تنبیہہ کے لیے دھاوا بولتے ہیں، کبھی باغی اور مفسد سلطنتوں اور قوموں کو قطعی طور پر ملیامیٹ کرنے کے لیے ٹوٹ پڑتے ہیں، اور کبھی ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ ایک قوم میں خشیت، لینت، احساسِ عجز، دردمندی، رِقّت اور رجوع الی الحق کے جذبات کو پیدا کرکے قبولِ ہدایت کی موزوں ذہنی فضا کی تخلیق فرماتا ہے۔ (’اشارات‘ ، نعیم صدیقی، ترجمان القرآن، جلد۴۳، عدد۱، محرم ۱۳۷۴ھ ، اکتوبر ۱۹۵۴ء، ص۵-۶)