اس فانی دنیا میں باعزت اور باوقار زندگی گزارنے کا اللہ تعالیٰ نے یہ طریقہ بتایا ہے کہ نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو۔نبی کریم نیکی کا بہترین نمونہ تھے۔ اس لیے ہمیں ان کے اُمتی ہونے کے حیثیت سے ہر لمحے نہ صرف خود نیکی اختیار کرنی ہے بلکہ نیکی کا حکم بھی دینا ہے۔ برائی سے خود بھی رُکنا ہے اور دوسروں کوبھی روکنا ہے۔ جس کلمہ توحید کی بنیاد پر یہ ملک بنا تھا__ لَا اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہَ مُحَمَدٌ رَّسُوْلُ اللّہ اس کا مقصد بھی نیکی عام کرنا اور بدی کی روک تھام کرناہے۔ ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پرفخر ہے۔ آئیے ہم مل کر ان پر دل کی گہرائیوں سے درود و سلام پیش کریں۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں اُمت ِوسط، یعنی اعتدال والی امت کا درجہ دیا ہے۔ ایک ایسی امت جو انصاف پسند ہو ، جو حق کی نصیحت کرنی والی ہو اور ظلم کے خلاف ایک مضبوط قوت ہو۔ ظلم کو روکنا اور ظلم کو ہونے سے بچانا دونوں اس امت کے فرائض میں شامل ہیں۔
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ تُؤْ مِنُوْنَ بِاللّٰہِ (اٰل عمران ۳:۱۱۰) دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہواور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
اس کا تقاضا ہے کہ ہم اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جائیں۔ ہماری انفرادی زندگی اور اجتماعی زندگی میں کوئی تضاد نہیں ہونا چاہیے۔ ظاہر اور باطن ایک ہونا چاہیے۔ہمارا گھر اسلام کامرکز اور جنت کا نمونہ ہونا چاہیے۔ جہاں والدین کواحترام ملے۔ بڑوں کو عزت ملے۔ بچوں کو شفقت ملے اور جہاں میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس بنیں۔ ایک گھر ہمار ا یہ ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان بھی ہے۔۔ہمیں اس کی عافیت اور بہتری بھی مطلوب ہے۔ ہمیں اس گھر میں بھی اللہ اور اس کے رسول کا حکم نافذ کرنا ہے۔
ہم نے اسی جذبے کے ساتھ اس اجتماع عام کا انعقاد کیا۔ ہم نے تجدید عہد کرنے کے لیے اپنے بھائیو، بہنو ،جوانوںاوربزرگو ں کویہاں مشورے کے لیے بلایا۔ میں نے آج تک وہ جذبہ نہیں دیکھا جو آج میں دیکھ رہاہوں۔تاکہ اس ملک میں انصاف کے قیام اورحق کی گواہی قائم ہوجائے۔ اجتماع عام کاانعقاد ایک غیرمعمولی فیصلہ تھا۔ ہمارے پاس نہ وسائل تھے اور نہ خفیہ قوتوں کی آشیر باد۔ہم نے صرف اللہ کے نام پر سب کو یہاں اکٹھا کیا۔ تحریک پاکستان کے نام پر سب کو اکٹھا کیا۔
اس اجتماع کے انعقاد کے لیے کارکنان جماعت اسلامی، مرد و خواتین سب نے دن رات اَن تھک محنت کی۔یہاں ہم سب اللہ کی رضا کے لیے آئے ہیں اور ان شاء اللہ آپ یہاں سے محبت ، اخوت اور بھائی چارے کا پیغام لے کر جا رہے ہیں۔
قائد اعظم ؒ نے فرمایا تھا کہ تحریک پاکستان اُس وقت شروع ہو گئی تھی جب ہندستان میں پہلا مسلمان داخل ہواتھا۔ تحریک پاکستان برسو ں جا ری تھی مگر قراردادِ پاکستان۱۹۴۰ء میں منظور ہوئی۔ اس قرارداد میں مملکت پاکستان کا واضح نقشہ رکھ دیا گیا اور مرکز اور محور قرآن و سنت کو قرار دیا گیا۔ مغرب زدہ لوگ آج بھی قائد اعظم پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ پاکستان کو سیکولر بنانا چاہتے تھے حالانکہ قائد اعظم، پاکستان کو اسلام اور جمہوریت کا مرکز بنانا چاہتے تھے اور کہتے تھے کہ ’’میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات اُس اسوہ حسنہ پر چلنے میں ہے جو ہمیں قانون عطا کرنے والے پیغمبر ؐاسلام نے ہمار ے لیے بنایا ہے‘‘۔ انھوں نے یہ بھی فرمایاتھا کہ: ’’مجھے یقین ہے کہ جوں جوں ہم آگے جائیںگے ہم میں زیادہ اتحاد پیدا ہوتا جائے گاکیونکہ ہم ایک خدا، ایک رسولؐ اور ایک امت کے پیروکار ہیں‘‘۔
مؤرخ پاکستان ڈاکٹر صفدر محمود نے …… آج میں یہ بات بڑے واضح طو ر پر کہنا چاہتا ہوںکہ تحریک پاکستان میںاس وقت تیزی آئی تھی جب ۱۹۴۵ء میں یہ نعرہ لگا کہ پاکستان کا مطلب کیا لا اللہ الا اللہ۔ پھر دنیا نے دیکھاکہ دو سال کی قربانیوں کے بعد پاکستان وجود میں آگیا۔ یہ تھی طاقت لا اللہ الا اللہ کی۔ اور آج سب لوگ جان لیں لیںکہ اس ملک کا مستقبل ان الحکم الااللہ ہے یہاں کوئی دوسرا نظام نافذ نہیں ہو سکتا۔ کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ قائد اعظم کی اس مسجد میں کوئی دوسرا اِزم نافذ کر سکتا ہے۔
قائد اعظم ؒ نے تو پاکستان اسلام اور جمہوریت کے لیے بنایا مگر یہاں نہ اسلام کو نافذ ہونے دیا گیا اور نہ جمہوریت کو۔ قائداعظم کی وفات کے بعد اس ملک پر مفاد پرستوں نے قبضہ کر لیا۔ انگریز کے ٹکڑوں پر پلنے والے جاگیرداروں ، سرمایہ داروں ، سول اور ملٹری ڈکٹیٹروں نے بار بار شب خون مارا۔اسلام اور جمہوریت کے خلاف سازشیں کیں۔شہری آزادیاں سلب کیں اور قومی خزانے کو لوٹنا شروع کیا۔ ۱۹۵۴ئمیں غلام محمد نے اقتدار سنبھالا۔ ۱۹۵۶ئمیں پہلا آئین بنا لیکن اس کو چلنے نہیں دیا گیا اور ایوب خانی مارشل لا آگیا۔ ۱۹۶۲ء میں دوسرا آئین بنا اور یحییٰ خان کا مارشل لا آگیا۔ اس عرصے میں اس ملک میں نفرتوں کے بیج بوئے گئے اور سیاسی جماعتوں کو کام نہیں کرنے دیا گیا۔ اخبارات پر پابندی لگائی گئی۔ سیاسی لیڈروں اور صحافیوں کو جیلوں میں ڈالا گیا اور ظلم کی انتہا کر دی گئی۔ ۱۹۷۰ئمیں جب پہلے عام انتخابات ہوئے تو اس کے نتائج کو اسٹیبلشمنٹ اور مفاد پرست جاگیرداروں نے قبول نہیں کیا۔ عوام کے فیصلے کو قبول نہیں کیا گیا۔ اقتدار اکثریتی جماعت کو سپر د نہیں کیا گیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک کے دونوں حصوں کو ایک دوسرے سے جدا کردیا گیا۔
۱۹۷۳میں تیسرا آئین بنا۔ یہ وہ متفقہ آئین تھا جس میں چاروں صوبوں اور ملک کی تمام جماعتوں نے دستخط کیے۔ اس میں مقتدرِ اعلیٰ اللہ تعالیٰ کو تسلیم کیاگیا۔اس دستور میں قرار داد مقاصد شامل ہے۔ اس آئین میں وفاقی شرعی عدالت ہے۔ اس آئین کے مطابق کوئی قانون قرآن وسنت کے خلاف نہیں بنایا جا سکتا ، اس آئین کے مطابق قرآن و سنت کی تعلیمات کو عام کرنا ہے ، عربی زبان کو سکھانااور اس آئین کے مطابق اسلام کے منافی کوئی قدم نہیں اٹھایا جا سکتا۔ اس آئین کے مطابق کوئی طالع آزماجمہوریت کو ختم نہیں کر سکتا، میرٹ کو ختم نہیں کر سکتا ،بنیاد ی حقوق کوختم نہیں کرسکتا ، شہری آزادیوں کو ختم نہیں کر سکتا ،اظہار راے کو ختم نہیں کر سکتا عورتوں پر تعلیم کے دروازے بند نہیں کر سکتا ، ریاست کے خلاف بغاوت نہیں کر سکتا اور آزادیِ اظہار کو بھی ختم نہیں کرسکتا۔ اس آئین میں صوبوں کے حقوق کو تسلیم کیا گیا ہے۔ وسائل کی تقسیم کو تسلیم کیا گیا ہے۔ اعلیٰ عدالتوں کو فیصلوں کا اختیار دیا گیاہے۔ پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم کیا گیاہے۔ شفاف انتخابی نظام اور الیکشن کمیشن کی گارنٹی دی گئی ہے مگر کیا یہاں جمہوریت کو پنپنے نہیں دیا گیا۔۱۹۹۹ئمیںپرویز مشرف نے ایک مرتبہ آئین کو توڑنے کا گناہ کیا۔ اور پھر دوسری مرتبہ ۲۰۰۷ئمیںبندوق کے زو ر پر آئین کو پامال کیا اور ملک کی عزت کو ایک ٹیلی فون کال پر امریکا کے سپرد کیا۔اپنی بہنو ںاور بھائیوںکوڈالروں کے عوض بیچ ڈالا۔آج بھی ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور کئی پاکستانی امریکا کے جیلوں میں پرویز مشرف کی وجہ سے پڑے ہوئے ہیں۔سیکڑوں پاکستانی لاپتا ہو گئے ہیں۔ بلوچستان کے اندر آپریشن کے ذریعے بلوچوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کیا گیا پہاڑوں پر چڑھ کر گوریلاجنگ کرنے پر مجبور کر دیا۔ ہندستان کے ساتھ ساز باز کر کے مسئلہ کشمیر کو سردخانے میں ڈالا اور لاکھوں کشمیری شہدا کے خون سے بے وفائی کی۔ یہاں تک کہ اسرائیل کے ساتھ بھی پینگیں بڑھائی۔ جو قبلہ اول اور مسجد اقصیٰ پر قابض ہے اور وہ ہزاروں فلسطینیوں کا قاتل ہے۔ ملک میں انتہا پسندی کو فروغ دیا گیا ، بے حیائی کا سیلاب بہایا گیا اور ملک کے تعلیمی نصاب کو غیر اسلامی بنانے کی کوشش کی گئی۔ لیکن جب وہ اپنے اقتدار سے ہٹا تو اس کے جرائم پر پردہ پوشی کرتے ہوئے اسے گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔ وی آئی پی بنایا گیا۔ یہ دنیا کا واحدملک ہے کہ جہاں ملک توڑنے والوںکو ، آئین توڑنے والوں کو ، اپنی بہنوںکو بیچنے والوں کو اور اپنی فضائیں دشمنوں کو دینے والوں کو وی آئی پی بنا کر رکھا جاتاہے اور جب وہ مرتے ہیں تو پاکستان کے جھنڈے میں ان کو دفنایا جاتا ہے۔
آئین کی بار بار پامالی سے یہ ملک بھی ٹوٹا ، اس کے ادارے بھی تباہ ہوئے۔ یہ آئین کئی مرتبہ بے توقیر ہوا۔ اس ملک میں نہ اسلام کو آنے دیا گیا ، نہ جمہوریت کو جڑ پکڑنے دی گئی۔ جس کے پاس دولت تھی یا بندوق، اُس نے اس ملک کے عوام کا ستیاناس کر دیا۔ اس ملک کی بنیادیں ہلادیں۔ اس ملک کے شہریوں کو بنیادی حقوق سے محروم کیا۔ اسلامی حقوق، معاشی حقوق اور معاشرتی حقوق سے محروم کیا۔ تعلیم سے محروم کیا۔ صحت سے محروم کیا۔ اچھے ماحول سے محروم کیا۔ خواتین پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے۔ نوجوانوں پر ملازمتوں کے دروازے بند کیے گئے۔ ہسپتال اور سکولوں میں طبقاتی نظام لایا گیا۔ مزدوروں کو حق نہیں دیا گیا ، بچوں سے مشقت کروائی گئی۔ ان کو اپنا غلام سمجھا گیا۔ اس ملک میں کرپٹ اشرافیہ نے آمروں اور مفاد پرستوں کے ساتھ مل کرپاکستان کی بیوروکریسی کو تباہ کیا، پولیس کو تباہ کیا ،ٹیکسوں کے نظام کو تباہ کیا ، کرپشن کو عام کیا ، اقرباء پروری کو عام کیا ، طبقاتی نظام کو دوام بخشااور سارے اداروں کو تباہ و برباد کیا۔ آج ملک کا کوئی بھی ادارہ چوروں اور لٹیروں سے ، ظالموں اور استحصالیوں سے خالی نہیں۔ ہر طرف وی آئی پی کلچر کا راج ہے۔ تھانوں میں ، عدالتوں میں ، ہسپتالوں میں ، سکولوں میں ، دفتروں میں۔ دوسری طرف اس ملک کو اس مٹھی بھر اشرافیہ نے اپنے مفادات کی خاطر تقسیم در تقسیم کیا۔ مذہبی منافرت پھیلائی ، مسلکی جھگڑے پیدا کیے ، فرقہ پرستوں کی حوصلہ افزائی کی اور سیاسی انتشار پیدا کیا۔ کسی کو اقتدار میںلائے اورکسی کو محروم کیا۔ انتخابات ، پارلیمنٹ اورقومی اداروں کو بے وقعت کیا۔ اپنے اقتدار کو دوام پخشنے کے لیے امریکی دہشت گردی کا ساتھ دیا۔ معاشی نظام کو بر باد کر کے غریبوں سے دو وقت کی روٹی چھین لی۔ مہنگائی میں اضافہ کر دیا۔ سی این جی کو نایاب کردیا۔ گیس اور بجلی کے بلوں میں اضافہ کردیا۔ کرایے بڑھ گئے ، فیسیں بڑھ گئیں۔ہر طرف بھوک کے سائیے نظر آرہے ہیں۔ ہر طرف غربت ناچ رہی ہے۔ ہر طرف لاقانونیت ہے ، بھتے ہیں ، کمیشن ہے اور ٹارگٹ کلنگ ہے۔ کیا یہ قائد اعظم ؒ کی خوابوں کی تعبیر ہے ؟ کیا اس کے لیے مسلمانوں نے قربانی دی تھی ؟ کیا اس کے لیے پاکستان حاصل کیا گیا تھا؟
سوات آپریشن کے دوران لاکھوں لوگوں کو اپنے ملک میں مہاجر بنایا گیا اور کیمپوں میں ان کی تذلیل کی گئی۔ اب فاٹا میں اور شمالی وزیرستان میں آپریشن کیاجارہا ہے۔ ۹ لاکھ قبائلی پاکستانی اپنے ہی ملک میں ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ وہ خواتین جو حیا کی وجہ سے ڈاکٹروں کے پاس بھی نہیں جاتی تھیں ان کو کیمپوں میں رہنے پر مجبور کر دیا گیا۔ آج ان کا کوئی والی وارث نہیں۔ آج امریکا کو بتایا جا رہا ہے کہ ہندستان کی کاروائیوں کی وجہ سے پاکستانیوں کے خلاف آپریشن متاثر ہو گیا ہے۔ میں واضح کرنا چاہتاہوں کہ قبائلی پاکستانی ہیں ان کی تذلیل بند کی جائے اور ان کے خلاف آپریشن بند کیا جائے۔ اور ان کو اپنے گھروں کو عزت کے ساتھ جانے دو۔ قبائلیوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کا ازالہ کرواور امریکا کی جنگ سے باہر نکلو۔
اس ملک میں کرپٹ اشرافیہ نے اقتدار میں باریاں لگائی ہوئی ہے۔ ایک اقتدار میںآجاتا ہے تو دوسرے کے مفادات کی حفاظت کرتاہے۔ یہ اقتدار پرستوں کی جائنٹ فیملی ہے جس میں میڈیابھی ان کے قدموں کے اندر بیٹھتا ہے۔ دولت کی ریل پیل میں حق اور سچ سامنے نہیں آتا۔
ایسے میں اس ملک کے اندر ہم امید کی کرن دکھانے کے لیے اجتماع عام کر رہے ہیں تاکہ قائد اعظم کے نامکمل مشن کو اور پاکستان کے نامکمل ایجنڈے کو تکمیل تک پہنچائیں۔ تحریک پاکستان کا دوبارہ آغاز ہم اس لیے کر رہے ہیں کہ قائد اعظم کے مشنـ اسلام، جمہوریت اور عوام کی فلاح کوپوراکریں جس ملک کا قیام اسلامی بنیادوں اور اسلامی جذبوں کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ اسی طرح اس کا تحفظ ، اس کی سلامتی اور آزادی بھی اسلام کے سچے اور عادلانہ نظام کے بغیر ممکن نہیں۔ ہم اس ملک کو اسلامی اورخوش حال پاکستان اس لیے بنانا چاہتے ہیں کہ یہاں پر طبقاتی تقسیم ختم ہو، کرپشن ، ناانصافی ، ظلم و زیادتی ، جہالت اورغربت ختم ہو۔ ہماری تحریک پاکستان کے ذریعے اختیارات اور اقتدار عوام کے حقیقی نمایندوں کو سپرد کرنے کے لیے نچلی سطح تک منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ ہم قومی زبان کو ترویج دیں گے اور مقابلہ کا امتحان بھی قومی زبان میں کرائیں گے۔ تحریک پاکستان کی اس تحریک میں ہم صوبائیت اور علاقائی تعصبات کو ختم کریں گے۔ غیر مسلم برادری کے حقوق دوسرے شہریوں کے برابرہوں گے۔ ان کو مذہبی اور معاشی آزادیاں حاصل ہوں گی۔ ہم تحریک پاکستان کی اس تحریک میں عوام کے سیاسی شعور میں اضافہ کر کے آمریت کی ہر شکل کو بے نقاب کریں گے۔ ہم دھاندلی سے بننی والی حکومتوںکو بے نقاب کریں گے۔ ہم سیاستدانوں کی خریدوفروخت کی گھنائونی سازشوںکو طشت ازبام کریں گے۔ ہم عوام کو ظاہری اور باطنی حکومتوں کا فرق سمجھائیں گے۔ اس لیے میں پاکستان کے ہر مرد اور عورت کو ،ہر پاکستانی کو ، ہر نوجوان کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ تحریک پاکستان کی اس نئی جدوجہد کا حصہ بنے پاکستان کو ایک جدید ریاست بنانے کے لیے ، اسلامی ریاست بنانے کے لیے اور خوش حال پاکستان بنانے کے لیے کمر بستہ ہو جائیں۔
میں ہر پاکستانی سے اپیل کرتا ہوں کہ اسلامی پاکستان اور خوشحال پاکستان کی خاطر تحریک پاکستان کا پیغام گھر گھر تک پہنچائیں۔یہ ہماری تقدیر کا سوال ہے ،یہ ہمارے مستقبل کا سوال ہے۔ میں پاکستان کے عوام کو کہتا ہوں، اور سب سے کہتا ہوںکہ ہم نے جو عوامی ایجنڈا آپ کو دیا ہے۔ یہ قومی ایجنڈا ہے ، یہ پاکستان کو بچانے کا ایجنڈا ہے۔ ہم واضح طور پر کہتے ہیں کہ تحریکِ پاکستان کو راستہ دے دو تاکہ یہ ملک ترقی کر جائے۔ہماری جدوجہد سیاسی ہے۔ قائد اعظم نے پاکستان لشکر کشی کے ذریعے سے حاصل نہیںکیا تھا نہ گوریلا جنگ کے ذریعے سے بلکہ پاکستان عوامی اور جمہوری جدوجہدکے بعد حاصل کیا گیا تھا اور ہم بھی عوامی اور جمہوری جدوجہد کے ذریعے سے قائد اعظم کے وژن کے مطابق پُرامن ذرائع سے پاکستان کو حقیقی اسلامی ، جمہوری ، سیاسی اور پروگریسو ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو یاد رکھو کہ تمھاری جاگیریں اور تمھارا پیسہ اور تمھاری طاقت صدانہیں رہے گی۔ نا م صرف اللہ کا رہے گا ، اسی اللہ تعالیٰ کا حکم چلے گا۔ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ (انعام۶ :۵۷)
نائن الیون کے بعد امریکا نے ہمارے ملک پر ایک علانیہ جنگ مسلط کر رکھی ہے۔ پرویز مشرف ایک ٹیلی فون کال پر ڈھیر ہو گیاتھا۔ عالمی ایٹمی قوت ہونے کے باوجود امریکا اور نیٹو فورسز نے افغانستان پر قبضہ کرنے کے لیے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے۔ لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ بچے یتیم اور عورتیں بیوہ ہوگئیں۔ جوان قتل ہو گئے۔ اس پر بس نہیں کیا بلکہ امریکا نے پاکستان میں ایک خفیہ جنگ مسلط کی۔ جن کی وجہ سے داخلی انتشار میں مزید اضافہ ہوا۔ ۵۵ہزار پاکستانی شہید ہوگئے مگر امریکا اب بھی قلعہ بند ہو کر افغانستان پر قابض ہے۔ ہم واضح کرتے ہیں کہ ہم افغانستان کے عوام کے ساتھ ہیں اور ان کی آزادی ، سلامتی اور خودمختاری کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ افغان اتحاد اور اتفاق کا مظاہرہ کر کے اپنی آزادی کو امریکا سے واپس لیں گے۔
تحریک پاکستان کے آغازِ نو پر میں واضح کردینا چاہتا ہوں کہ جماعت اسلامی دنیا کے کسی ملک کے خلاف نہیں۔ ہم سب کی آزادی اور خودمختاری کا احترام کرتے ہیں۔ ہم امریکا کے عوام کے خلاف نہیں بلکہ امریکی حکمرانوں کی ظالمانہ پالیسی کے خلاف ہیں جو وہ مسلمانوں اور مسلمان ممالک کے خلاف اختیار کئے ہوئے ہیں۔ ہم یورپ و امریکا سے اچھے تعلقات برابری کی بنیاد پر چاہتے ہیں۔ ہم بین المذاہب مکالمہ کرنا چاہتے ہیں۔ ہم تمام مذاہب کااحترام کرتے ہیںاور ہر قسم کے عالمی تعصب کے مخالف ہیں۔
ہم امریکا اور یورپ سے کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف عالمی جنگ کو ختم کریں۔ اگر تم دنیا میں امن لانا چاہتے ہو اور لڑنا چاہتے ہو تو غربت ،جہالت اور ناخواندگی کے خلا ف لڑو۔
جماعت اسلامی پاکستان تمام اسلامی اور عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کو اولیت دیتی ہے۔ سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات، قطر ، کویت اور دوسرے عرب ممالک میںلاکھوں پاکستانی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ جویہاں زرمبادلہ بھیجتے ہیں ہم ان کا احترام اور ان کے احسان مند ہیں۔ مسلم ممالک کے باہمی تنازعات کے بارے میں ہماری رائے ہے کہ اس کو بات چیت اور نیک جذبوں سے حل کیا جائے۔ اخوان المسلمین اور حماس کے بارے میں بعض دوست ممالک کو غلط فہمی ہو گئی ہے۔ ہم اپیل کرتے ہیںکہ مسلم امت کی خاطر اپنے بھائیوں اور اپنی طاقت کو تقسیم نہ کریں اور متحد ہوجائیں۔ ہم اسرائیل کی فلسطین اور فلسطینی بچوں ، عورتوں اوربوڑھوں پر اور سکولوں اور ہسپتالوں پر بمباری کی مذمت کرتے ہیں اور قبلہ اول کی آزادی تک فلسطینی عوام کی حمایت کرتے رہیں گے۔
ہم ہمسایہ ممالک ، چین ایران ، افغانستان کے ساتھ ترجیحی بنیادوں پر بہترین تعلقات کے خواہاں ہیں۔ ہم ہندستان کے ساتھ بھی اچھے اور دوطرفہ تعلقات چاہتے ہیں مگر تعلقات، کشمیر کی قیمت پر نہیں ہو ں گے۔ پیاز اور ٹماٹر ڈپلومیسی یا کرکٹ ڈپلومیسی سے بہتر نہیں ہوں گے۔ جنوب مشرق ایشیا میں امن قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے ذریعے حل کیا جائے۔ مقبوضہ کشمیر میں بچوں ، جوانوں اور بوڑھوں کا قتل عام بند کیا جائے۔ کشمیریوں کی نسل کشی بند کی جائے۔ مَیں کشمیر کے مسلمانوں کو پیغام دیناچاہتا ہوںکہ آپ کی جدوجہد زمین کے ٹکڑے کے لیے نہیں بلکہ اسلامی پاکستان کی تکمیل کی جدوجہد ہے۔ آپ کا جذبہ جہاد اور شوق شہادت اور طویل جدوجہد پر پاکستان کے عوام آپ کو خراج تحسین پیش کرتے ہیںاور امید کرتے ہیں کہ ان شاء اللہ وہ وقت آنے والا ہے جب سری نگر اسلامی پاکستان کا گرمائی دارالخلافہ بنے گا۔
جماعت اسلامی نے ہمیشہ پاکستان کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کی۔ ۱۹۷۱ء میں جب مشرقی پاکستان پر ہندستان نے حملہ کیا اور جماعت اسلامی کے رضا کاروں نے ہندستان کی تربیت یافتہ فورس کے خلاف مادروطن کی حفاظت کی۔ ہزاروں نوجوان بھارتی فوج اور ان کی تربیت یافتہ مکتی باہنی کے ہاتھوں شہید ہو گئے۔ فوج نے ہتھیار ڈال دیئے مگر ایک طرف ہمارے ملک میں بعض لوگوں نے مادر وطن کی حفاظت پر جماعت اسلامی کو طعنے دئیے تو دوسری طرف بنگلہ دیش بننے کے بعد جماعت اسلامی کے کارکنوں کو آزادی دشمن اور پاکستان دوست قرار دیا اور آج ۴۴سال گزرنے کے باوجود جماعت اسلامی کے بزرگ رہنمائوںکو جھوٹے مقدمات میں سزائے موت اور عمر قید کی سزائیں دی جا رہی ہیں۔ ہم حسینہ واجد کے انتقام کی مذمت کرتے ہیں مگر ساتھ ہی اپنی حکومت سے پوچھتے ہیں کہ پاکستان کی حمایت اگر جرم ہے تو پھر کل کیوں اس مادرِ وطن کے لیے قربانی دینے کے لیے کوئی تیار ہو گا۔
یہ بنگلہ دیش کا داخلی معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک عالمی معاملہ ہے۔ عالمی معاہدوں کا تقدس ہوتا ہے ایک طرف حکومت مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر اور دوسری طرف بنگلہ دیش کے ساتھ عالمی معاہدوں پر عمل درآمد نہیں کروا سکی۔ کیا بنگلہ دیش کو اس لیے تسلیم کیا تھا کہ وہ عالمی معاہدوں سے روگردانی کر ے اور ظلم اور فاشزم کا ثبوت دے۔
سوال یہ ہے کہ نظام کیسے تبدیل ہوگا؟
مولانا مودودی ؒ نے فرمایا تھا کہ پُرامن آئینی جدوجہد کرو، ذہنوں کو تبدیل کرو، انسان کو اندر سے تبدیل کرو، پھر عوام کو منظم کرو اور قیادت مہیا کرو۔ منتشر معاشرے کو ایک کرنا، عوام کو روشنی دینا، عوام کو منزل دینا یہ قیادت کا کام ہے۔ ہم زیرزمین سازشوں، گوریلا جنگ یا ڈنڈے کے زور پر یقین نہیںرکھتے۔ دلوں کی دنیا کو تبدیل کریں تو معاشرہ تبدیل ہوگا۔ اگر آپ اس ملک میں اسلامی نظام چاہتے ہیں تو دلوں کو فتح کرنا ہوگا۔ خیالات اور خواہشوں کو تبدیل کرنا ہوگا۔ اچھا اخلاق اور کردار ہماری قوت ہیں۔
مَیں کارکنانِ جماعت سے اپیل کرتا ہوں کہ سورج کی طرح کرنیں بکھیرو، چاند اور تاروں کی طرح جگمگانا سیکھو، گلاب کے پھول بنو اور کردار کی خوشبو تقسیم کرو۔ ان شاء اللہ خلقِ خدا تمھارے گرد جمع ہوجائے گی۔معاشرے کے خدمت گار بنو۔ یتیموں، مسکینوں، بیوائوں اور بوڑھوں کا سہارا بنو۔ مظلوموں کی آواز بنو اور ان کی دُعا بنو۔ خالق کو راضی کرنا ہے تو مخلوقِ خدا کی خدمت کرو۔
ہم جانتے ہیں کرپٹ اشرافیہ نے صرف پاکستان کو منزل سے ڈی ریل ہی نہیں کیا بلکہ انھوں نے بیوروکریسی کو بھی کرپٹ کیا، پولیس کا نظام بھی تباہ کیا۔ ٹیکس کا نظام عوام کو نچوڑنے کا اور اِن کی تجوریاں بھرنے کا ذریعہ ہے۔ انھوں نے اس ملک میں کرپشن، اقرباپروری اور طبقاتی نظام کو دوام دیا۔ ریلوے غریبوں کی سواری ہے، اس کو تباہ کیا۔ کرپشن کی وجہ سے ہی پی آئی اے کو مفلوج کیا۔ پارلیمنٹ پر عوام کروڑوں روپے خرچ کر رہے ہیں لیکن اس سے کچھ حاصل نہیں ہو رہا۔ مظلوم کو سننے کے لیے کوئی ادارہ نہیں ہے۔ چور اور لٹیروں کو پکڑنے کا کوئی نظام نہیں ہے۔
پاکستان کے آئین میں اللہ کی بادشاہت اور انسانوں کی خلافت کو تسلیم کیا گیا ہے مگر یہاں منافقت کا نظام ہے۔ کرپٹ اشرافیہ کا نظام ہے، جاگیرداروں کا نظام ہے، امریکی وفاداروں کا نظام ہے۔ اللہ کا نظام کہیں نظر نہیں آتا اور نہ خلافت کا نظام نظر آتا ہے۔ آئینِ پاکستان قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی کی اجازت نہیں دیتا، لیکن سارا معاشی نظام سود پر چلتا ہے۔ سود تو اللہ اور رسولؐ کے ساتھ جنگ ہے۔
ہم آئینِ پاکستان کے ساتھ ہیں اس لیے کہ اس آئین نے پاکستان کو جوڑ رکھا ہے۔ اس میں اللہ کی حاکمیت کو اقتدارِاعلیٰ تسلیم کیا گیا ہے۔ اگر پاکستان کا آئین ختم ہوا تو فساد کی قوتیں دوبارہ ایسا متفقہ دستور نہیں بننے دیں گی۔ وفاقی شرعی عدالت ختم ہوجائے گی۔ پھر صوبوں کو اکٹھا کرنا مشکل ہوگا۔ یہاں سامراجی قوتیں ہمیشہ غیرجمہوری نظام کی حمایت کرتی ہیں تاکہ اس ملک کا تشخص بدل ڈالیں، اور اس ملک کو بھارت کا غلام بنا ڈالیں۔ ان کے لیے ایک ڈکٹیٹر سے سودا کرنا آسان ہوتا ہے کیونکہ وہ ایک ٹیلی فون کال پر ڈھیر ہوجاتا ہے۔
پاکستان میں مسئلہ آئین کا نہیں، قیادت کا اور قیادت کی بے عملی کا ہے۔ عوام کو جب موقع ملتا ہے تو انھی لوگوں کو جھولیاں بھربھر کر ووٹ دیتے ہیں جنھیں بعد میں جھولیاں بھرکر بددعائیں دیتے ہیں۔ خود ہی سانپوں کے منہ میں دودھ ڈالتے یں اور جب وہ اژدھا بن کر ڈستے ہیں تو پھر خوب روتے بھی ہیں۔
ان اژدھوں نے آپ کو دبایا ہوا ہے۔ یہی سانپ خزانے پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ انھوں نے مقصد پاکستان کو سبوتاژ کیا اور پاکستان کے جغرافیے کو بھی۔ چین اور ملایشیا کو اچھی قیادت ملی تو ترقی کرگئے اور ایشیا کے ٹائیگر بن گئے۔ یہاں استحصالی طبقے نے خود کو امیر اور آپ کو غریب بنایا۔ انھوں نے ہماری صنعت کو تباہ کیا۔ انھوں ہماری زراعت کو تباہ کیا۔ ان کی وجہ سے غریب اور مزدور فاقوں کا شکار ہیں۔ ان کے بچے باہر پڑھتے او رہمارے بچے گندگی کے ڈھیر میں رزق تلاش کرنے پر مجبور ہیں۔ آپ ان کو ووٹ دیتے ہیں اور وہ آپ کو بجلی اور گیس کے ظالمانہ بل بھیجتے ہیں اور یہ وی وی آئی پی کلچر تو یہودیوں کا ہے۔ کیا اس ملک میں ہم سب برابر نہیں ہیں؟ ہسپتالوں میں، ہوٹلوں میں، دفاتر میں، ہر جگہ وی آئی پی کلچر ہے۔ محمود اور ایاز کب ایک صف میں نظر آئیں گے۔ جب اسلامی حکومت قائم ہوگی تو تعلیمی اداروں میں طالب علم ، ہسپتالوں میں بیمار، اور عدالتوں میں ہرمظلوم وی آئی پی ہوگا۔ ہم موجودہ وی آئی پی کلچر کو ختم کریں گے تو لوگ خود کہہ اُٹھیں گے کہ ع
رہے نہ کوئی عالی جاہ ، لا الٰہ الا اللہ
ہمیں قوم کو روشنی کے گرد اکٹھا کرنا ہے، اُمید کی شمع روشن کرنی ہے۔ میں محروموں کو، مظلوموں، مزدوروں اور مجبوروں کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ جماعت اسلامی عام آدمیوں اور غریب عوام کی اصل جماعت ہے۔ یہاں موروثی اور خاندانی سیاست نہیں ہے۔ یہاں کوئی گدی نشین نہیں ہے۔ آئیے ہم سب مل کر مٹی بھر کر پٹ اشرافیہ کی کرپٹ فیملی کا مقابلہ کریں۔ اسلامی پاکستان کے لیے، جمہوری پاکستان کے لیے، فلاحی پاکستان کے لیے، پروگریسیو پاکستان کے لیے ایک ہوجائیں تاکہ محمود و ایاز ایک صف میں نظر آئیں۔
مَیں عوامی ایجنڈے میں یہاں ہر فرد کو خوش حال دیکھنا چاہتا ہوں۔ فرد خوش حال ہوگا تو قوم خوش حال ہوگی، پھر ریاست بھی خوش حال ہوگی۔ اس کے لیے انقلابی جدوجہد کی ضرورت ہے۔ میں مانتا ہوں کہ یہاں پرانے سیاسی کھلاڑیوں اور سیاسی پنڈت بڑے مضبوط ہیں۔ ان کے پاس وسائل ہیں، امریکا ان کے ساتھ ہے اور میڈیا پر بھی ان ہی کا بول بالا ہے۔
ہمارے پڑوس چین میں غریب کسان جاگیرداروں کے خلاف اکٹھے ہوئے اور انقلاب برپا کر دیا۔ فرانس میں مزدور ساہوکاروں کے خلاف اکٹھے ہوئے اور کامیاب ہوگئے۔ ترکی میں اسلامی تحریک کے کارکنوں نے ۱۸، ۱۸ بار ایک ایک گھر پر دستک دی اور کامیاب ہوگئے۔ ہم تو ۱۸کروڑ ہیں۔ ہمارے ساتھ اللہ ہے، ہاتھوں میں قرآن ہے اور ہمارے ساتھ ایک شان دار ماضی ہے۔ اگر عوام بیدار ہوگئے تو کوئی ہماراراستہ نہیں روک سکتا۔
جب اسلامی حکومت قائم ہوگی تو ہر بے روزگار ہنرمند نوجوان کو روزگار دیں گے ، اور روزگار ملنے تک بے روزگاری الائونس دیں گے۔
ہمارا عزم ہے کہ اسلامی حکومت قائم ہوگی تو یکساں نظامِ تعلیم کو رواج دیںگے۔ جس سکول میں وزیراعظم کا بیٹا پڑھے گا اسی میں مزدور اور ہاری کا بیٹا بھی پڑھے گا۔ یکساں ماحول ہوگا تو پتا چل جائے گا کہ کون ہیرو ہے اور کون زیرو؟
ہمارے معاشرے میں ۵۱ فی صد خواتین ہیں۔ اس شرح سے ان کے لیے سکول، کالج اور یونی ورسٹیاں بھی ہونی چاہییں مگر تنگ نظر حکومتوں نے ان کو بھی تعلیم سے محروم رکھا ہے۔ اڑھائی کروڑ بچے سکول سے باہر رہ جاتے ہیںیا نکل جاتے ہیں۔
ہم غیرترقیاتی اخراجات کو کم کرکے تعلیم کو مفت اور عام کریںگے۔ میٹرک تک تعلیم لازمی ہوگی۔ تعلیم کا ذریعہ قومی زبان ہونا چاہیے اور قومی اور علاقائی زبانوں کو ان کا قرار واقعی مقام ملنا چاہیے۔ انگریزی اہم ہے لیکن انگریزی کو ذریعۂ تعلیم بنانا اوراس کی بالادستی قائم کرنے سے اجتناب ضروری ہے۔ انگریزی زبان کی بادشاہت میں کروڑوں نوجوان زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ تعلیم دینا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اسلامی پاکستان میں علم کے نور سے منور پاکستان میں تعلیم مرکز اور محور ہوگی۔
اسلامی فلاحی حکومت قائم ہوگی تو بڑی بیماریوں کا علاج مفت کریں گے۔
اللہ اللہ! جس غیرمسلم کی طرف سے وکیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوں، کیا ہم اسے تکلیف دے سکتے ہیں۔ ملک کے وسائل پر آپ کا بھی اسی طرح حق ہے جس طرح مسلمانوں کا ہے۔
اسلامی حکومت قائم ہوگی تو بنکوں کے دروازے عام لوگوں کے لیے کھل جائیں گے۔ حکومت اسلام کے معاشی نظام کو اپنائے گی تو عام آدمی ترقی کرے گا۔
ہم حکومت سے بھی کہتے ہیں کہ وہ سود کے حوالے سے سپریم کورٹ سے اپنی اپیل واپس لے ورنہ ہم عوام سے سودی اداروں کے بائیکاٹ کی اپیل کریں گے۔ سودی نظام کی وجہ سے مہنگائی ہے۔ عالمی بنک کے قرضے بھی امیروں پر خرچ ہوتے ہیں اور ہتھکڑیاں غریبوں کو پہنائی جاتی ہیں۔ ہم زکوٰۃ کا نظام نافذ کریں گے کہ ہر بیوہ اور یتیم کی کفالت کا سامان ہوسکے۔ غریب کے لیے مفت علاج کا انتظام ہوسکے اور جو مظلوم عدالت میں اپنا فیصلہ، اپنا کیس خود نہیں چلا سکتا تو سرکار ان کو یہ سہولت دے گی۔
یہ کیسی عجیب بات ہے کہ الیکشن سے پہلے صوبے اور علاقے تقسیم کیے جاتے ہیں۔ یہاں ظاہری حکومت ایک ہے اور باطنی حکومت دوسری اور جب دونوں ایک پیج پر نہیں ہوتے تو عوام بھی مشکل سے دوچار ہوتے ہیں اور باہر کی دنیا بھی حیران ہوتی ہے کہ ظاہر حکومت سے معاہدے کرے یا باطنی سے۔ الیکشن کا راستہ ہی تبدیلی کا راستہ ہے۔ جب پُرامن جدوجہد کے راستے بند ہوجاتے ہیں پھر مسلح جتھے بنتے ہیں۔
عوام کا مطالبہ ہے کہ متناسب نمایندگی کی بنیاد پر الیکشن ہو تاکہ کسی کا ووٹ ضائع نہ ہو۔ موجودہ طریقے میں پارٹی اور لیڈر جاگیرداروں اور سرمایہ داروں اور دولت مندوں کے ہاتھوں یرغمال ہوتے ہیں۔ متناسب نمایندگی میں لوگ پارٹی کو ووٹ دیں گے، منشور کو ووٹ دیں گے اور میرٹ کی بنیاد پر لوگ آئیں گے۔ پھر ہر کوئی نہیں کہے گا کہ ہمارے ساتھ دھاندلی ہوئی ہے۔
ہم پاکستان کو ایک اسلامی جمہوری فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ ایک ایسی ریاست جہاں حاکمیت اور شریعت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی ہوگی اور حکومت عوام کے مخلص بندوں کی۔ اس مقصد کے لیے عوام ہمارا ساتھ دیں۔ ہمارے پاس وژن ہے، ہمارے پاس مخلص ماہرین کارکنان کی ٹیم ہے۔ ہم عوام کے تعاون سے ’اسٹیٹس کو‘ کو شکست دیں گے۔
جماعت اسلامی ہی تبدیلی لاسکتی ہے۔ کرپشن کا سومنات ہم ہی توڑ سکتے ہیں۔ ہم نے ہردور میں قربانی دی ہے۔ پاکستان کی محبت میں جماعت اسلامی کے قائدین کے جنازے جیلوں سے نکل رہے ہیں۔ ہم زلزلوں اور سیلاب کی مصیبت میں عوام کے ساتھ کھڑے تھے۔ ہم نے ہمیشہ فلسطینیوں کا ساتھ دیا ؎
سر جلائے ہیں مشعلوں کی طرح
یوں بھی لوگوں کی رہبری کی ہے
ہمارا ایجنڈا قوم نے قبول کیاتو ہم آپ کو ایک ایسی حکومت دیں گے جس میں کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہوگا۔ ایک ایسی حکومت جس کا وزیراعظم ۱۸کروڑ عوام کی قیادت کرسکے۔ مسجد میں امامت بھی کرسکے اور اقوام متحدہ میں ایک ارب مسلمانوں کی نمایندگی بھی کرسکے۔ مَیں ساری جماعتوں سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس ملک کی خاطر ہمارے ایجنڈے کو تسلیم کرلیں تاکہ یہ ملک ترقی کرسکے۔ یہ پارٹی کا نہیں، قومی ایجنڈا ہے۔
میرے بھائیو اور دوستو!
۱۹۴۱ء میں جماعت اسلامی کا جو پودا لگایا گیا تھا، وہ اب ایک تناور درخت بن گیا ہے۔ جو قطر ہ تھا وہ اب ایک سمندر بن گیا ہے۔ یہ ذرّہ اب فولادی چٹان بن گیا ہے۔ ہمارے ہاتھوں میں قرآن ہے اور ہمارے رہنما نبی آخرالزمانؐ ہیں۔ ہم حق پر ہیں۔ ہمیں حق کے ساتھ چلنا ہے، حق کے ساتھ جینا ہے، اور حق کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔
گذشتہ دو عشروں سے پاکستان کے صحافیانہ حلقوں میں، خصوصاً انگریزی زبان کے اخبارات و رسائل میں، بار بار ایک سوال مختلف انداز سے اٹھایا جاتا رہا ہے کہ کیا ریاست کو اپنی بقا اور ترقی کے لیے کسی نظریے کی ضرورت ہے؟ یا ریاست بغیر کسی نظریے سے وابستگی کے شہریوں کے حقوق ادا کرسکتی ہے؟ اس نوعیت کے سوالات کا اُٹھایا جانا کوئی معیوب بات نہیں ہے۔
حقیقت ِ واقعہ یہ ہے کہ وہ صحافی اور دانش ور جو انگریزی اخبارات میں مقالہ نویسی کرتے ہیں عموماً جن کتب سے پاکستان کی تاریخ اخذ کرتے ہیں وہ برطانوی اور امریکی جامعات میں جنوبی ایشیا کے شعبوں سے وابستہ ان اساتذہ کی لکھی ہوئی ہیں، جو مغربی علمی روایت میں فکری تربیت پانے کے بعد مغربی ذہنی سانچے اور پیمانوں سے تحریکِ پاکستان پر نظر ڈالتے ہیں۔ چونکہ ان کا مفروضہ ہی یہ ہوتا ہے کہ اس قسم کی سیاسی تحریکات یا تو ردعمل کے طور پر وجود میں آتی ہیں، یا معاشی استحصال کو دُور کرنے اور معاشی ترقی میں مقام پیدا کرنے کے لیے، اور یا پھر کسی جذباتی وابستگی کی بناپر جسے عموماً ’مذہبی انتہاپسندی‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ چنانچہ تاریخی اور سیاسی مطالعہ جس ملک کا بھی ہو تحقیقی مفروضے عموماً ایک ہی رہتے ہیں۔
یہ ایک ایسا غیرمحسوس عمل ہے جسے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد بھی عموماً محسوس نہیں کرپاتے۔ طریق تحقیق اگر تجربی(empirical) ہو تو نتائج بھی اعداد وشمار کی شکل میں سامنے آئیں گے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ تحقیق کی بنیاد دین و سیاست کی تفریق پر ہو اور نتیجہ تحقیق دین و سیاست کی یک جائی کا نکل آئے۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ ۲۰۰سال سے نہ صرف یورپ و امریکا بلکہ ان تمام ممالک میں جو کبھی ان کے غلام رہے ہوں یا ان کی ذہنی غلامی کے شکار ہوں ان سب دانش وروں نے مذہب اور سیاست کی یک جائی کو تسلیم نہیں کیا، بلکہ جہاں کہیں ایسے امکانات نظر آئے تو ’مذہب‘ کو منافرت، شدت پسندی، عسکریت اور جذباتیت سے تعبیر کرتے ہوئے خطرے کی گھنٹی بجانا شروع کردی۔
انگریز کی چھوڑی ہوئی علمی روایت اور نظامِ تعلیم نے وہی ذہنی سانچے تیار کیے جو انگریز کی غلامی سے سیاسی آزادی کے باوجود زبان، ثقافت، تعلیم، معیشت و معاشرت میں ہمیشہ انگریز کو اپنا معیار سمجھتے رہے۔ان کے ترقی کے پیمانے اور نگاہ کے زاویے وہی رہے جو انگریز سے وراثت میں پائے تھے۔ اگر شعوری طور پر کچھ دانش ور یہ انتخاب کرتے ہیں کہ وہ صرف مغربی فکر کے پیمانوں سے ہرچیز کو ناپیں اور تولیں گے تو اس میں علمی طور پر کوئی حرج نہیں ہے۔ وہ ایسا کرنے میں آزاد ہیں لیکن علمی اور تحقیقی دیانت کا تقاضا ہے کہ وہ اپنے علمی تعصب کے ساتھ معروضیت (objectivity) کا دعویٰ نہ کریں۔ اگر ایک فرد یہ سمجھتا ہے کہ ’مذہب‘ بطورِ ریاست کی نظریاتی بنیاد نہیں ہونا چاہیے تو وہ اپنی بات دلائل سے پیش کرسکتا ہے لیکن اسے کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ قطعیت کے ساتھ یہ اصرار بھی کرے کہ صرف ا س کا تجزیہ اور اخذکردہ نتائج حق ہیں اور باقی سب کچھ محض جذباتیت ہے۔
ان کلمات کے ساتھ ہم موضوع پر نظری او رتاریخی حقائق کی روشنی میں ایک نگاہ ڈالتے ہیں۔
ریاست کی تعریف عموماً یہ کی جاتی ہے: ’’حدودِ مملکت، ریاستی اداروں، مثلاً مقننہ، انتظامیہ، عدلیہ اور دفاع یا ایک خودمختار ریاست کی سیاسی ثقافت (political culture)‘‘۔ ایسے ہی وطنی ریاست (nation state) کو ایک ریاست کے شہریوں اور نظام کے تشخص سے وابستہ کیا جاتا ہے۔ چنانچہ وہ لوگ بھی جو ایک زبان، نسل، جغرافیائی خطہ یا ایک مشترکہ تاریخ و ثقافت سے وابستہ ہوں ایک خودمختار علاقے کی بنیاد پر وطنی ریاست قائم کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
انسانی تاریخ میں آج تک کوئی ایسی ریاست وجود میں نہیں آئی جس کا کوئی ’مذہب‘ نہ ہو، حتیٰ کہ وہ جو اپنے آپ کو سیکولر ریاست کہتے ہیں، لادینیت کو ان کے نظام میں وہی مقام تقدس حاصل ہوتا ہے جو اٹلی میں پائی جانے والی ویٹی کن (Vatican) یا کیتھولک ریاست میں عیسائیت کا ہے۔
برعظیم میں مسلمانوں نے تقریباً ۸۰۰ سال حکومت کی اور اپنی تمام کمزوریوں کے باوجود اسلامی قانون اور معاشرت میں بنیادی اسلامی اصولوں کا احترام و عمل جاری رہا۔ سربراہانِ حکومت میں سے بعض نے بادشاہت کی غیراسلامی روایت کے ساتھ ساتھ اپنے کردار سے اعلیٰ اسلامی رویے کا اظہار کیا اور اکثر نے اسلام سے اپنے روایتی تعلق سے آگے اور کوئی قابلِ ذکر کام نہ کیا۔ لیکن یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے بقول ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کہ: ’’برعظیم پاک و ہند میں تحریکِ پاکستان کی بنیاد اسی وقت رکھ دی گئی تھی جب پہلے مسلمان نے یہاں قدم رکھا تھا‘‘۔ گویا وہ سلاطین ہوں یا مغل شہزادے، اپنی تمام بے راہ روی کے باوجود انھوں نے اسلام سے اپنی وابستگی کو ہرسطح پر برقرار رکھا۔ لیکن جب مسلمان فرماں روا نااہلیت، ناعاقبت اندیشی، خودغرضی، عیش وعشرت اور نفسانفسی کا شکار ہوگئے تو پھر ریاست کا زوال یقینی ہوگیا۔ قوانین فطرت مسلم اور غیرمسلم دونوں کے لیے یکساں ہیں۔
چنانچہ سمندر پار سے آنے والوں اور گھر کے باغیوں کے تعاون سے تجارتی منڈیوں کے بہانے آنے والے انگریزوں نے ملک پر غاصبانہ قبضہ کرلیا اور پھر تقریباً ۲۰۰ سال مسلمان غلامی کا شکار رہے۔ اس غلامی سے نکلنے کے لیے جس سیاسی تحریک کا آغاز ہوا وہ آغاز میں مشترک تھی، لیکن جلد مسلمانوں کو یہ یقین ہوگیا کہ اپنے مفادات کا تحفظ وہ ہندو اکثریت کے حوالے نہیں کرسکتے اور انھیں اپنے دین و ثقافت پر عمل کرنے کے لیے ایک آزاد خطے کی ضرورت ہے۔ اس احساس کے تین اہم پہلو اس وقت بھی او رآج بھی غوروفکر کا مطالبہ کرتے ہیں:
میں نے اکثر یہ بات واضح کی ہے کہ اگر مسلمان باوقار اور لائق احترام لوگوں کی طرح سے زندہ رہنا چاہتے ہیں تو ان کے سامنے ایک ہی راستہ ہے: پاکستان کے لیے لڑیئے، پاکستان کے لیے زندہ رہیے اور اگر ناگزیر ہو تو حصولِ پاکستان کے لیے مرجایئے، یا پھر مسلمان اور اسلام دونوں تباہ ہوجائیں گے۔
ہمارے سامنے ایک ہی راہ ہے: اپنی قوم کی تنظیم کرنا، اور یہ ہم اپنی محنت، مصمم اور پُرعزم مساعی کے ذریعے سے ہی قوت پیدا کرسکتے ہیں اور اپنی قوم کی حمایت کرسکتے ہیں، نہ صرف اپنی آزادی اور خودمختاری حاصل کرسکتے ہیں بلکہ اسے برقرار بھی رکھ سکتے ہیں، اور اسلامی آدرشوں اور اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرسکتے ہیں۔
پاکستان کا مطلب نہ صرف آزادی اور خودمختاری ہے بلکہ مسلم نظری بھی ہے جسے ہمیں محفوظ رکھنا ہے جو ایک بیش قیمت تحفے اور سرمایے کے طور پر ہم تک پہنچا ہے اور ہم اُمید کرتے ہیں اور لوگ بھی اس میں ہمارے ساتھ شراکت کرسکیں گے۔ (فرنٹیر مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے نام پیغام، ۱۵جون ۱۹۴۵ء، قائداعظم: تقاریر و بیانات، جلدسوم، ص ۴۳۸)
۲۸ مئی ۱۹۳۷ء کو علامہ اقبال، قائداعظم کو لکھتے ہیں:
روٹی کا مسئلہ شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ مسلمان نے محسوس کرنا شروع کر دیا ہے کہ وہ گذشتہ ۲۰۰سال میں نیچے ہی نیچے جا رہا ہے۔ عام طور پر وہ یقین رکھتا ہے کہ اس کی غربت کی وجہ ہندوئوں کا مقروض ہونا یا سرمایہ داری ہے۔ جواہرلال کے الحادی سیکولرازم کی مسلمانوں سے زیادہ پذیرائی کی توقع نہیں ہے۔ اس لیے سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی غربت کا مسئلہ کیسے حل کیا جائے؟
خوشی کی بات یہ ہے کہ اسلامی قانون کے نفاذ اور جدید خیالات کی روشنی میں اس کے ارتقا میں ایک حل موجود ہے۔ اسلامی قانون کے ایک طویل اور گہرے مطالعے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر یہ قانون سمجھا جائے اور اس کا اطلاق کیا جائے تو ہرشخص کو زندہ رہنے کا حق مل جائے گا۔ لیکن اس ملک میں ایک مسلم ریاست یا ریاستوں کے بغیر اسلامی قانون اور اس کا نفاذ اور ترقی ناممکن ہے۔
لیکن قائداعظم کی نگاہ دُوربین نے اس سیاسی پہلو کو بہت پہلے بغور سمجھنے کے بعد جو بات کہی وہ آج بھی ویسے ہی سچ ہے جیسی وہ اس وقت تھی۔ ان کے اپنے الفاظ میں:
دو سال قبل مَیں نے شملہ میں یہ کہا تھا کہ جمہوری پارلیمانی نظام ہندستان کے لیے نامناسب ہے۔ کانگریس پریس میں ہر طرف میری مذمت کی گئی۔ مجھے بتایا گیا کہ میں اسلام کو نقصان پہنچانے کا مجرم ہوں۔ اس لیے کہ اسلام جمہوریت پر یقین رکھتا ہے۔ جہاں تک میں نے اسلام کو سمجھا ہے وہ ایسی جمہوریت کی وکالت نہیں کرتاجو غیرمسلموں کی اکثریت کو مسلمانوں کی قسمت کا فیصلہ کرنے کی اجازت دے۔ ہم ایسے نظامِ حکومت کو قبول نہیں کرسکتے جس میں غیرمسلم محض عددی برتری کی وجہ سے ہم پر حکومت کریں اور غالب رہیں۔ مجھ سے سوال کیا گیا کہ جمہوریت نہیں تو پھر میں کیا چاہتا ہوں __ فاشزم، نازی ازم یا آمریت؟ میں کہتا ہوں کہ جمہوریت کے ان چیمپینز نے اب تک کیا کیا ہے؟ انھوں نے ۶کروڑ لوگوں کو اُچھوت بناکر رکھا ہوا ہے۔ انھوں نے ایسا نظم بنایا ہے جو ایک گرینڈ فاشسٹ کونسل کے علاوہ کچھ نہیں۔ انھوں نے ڈمی وزارتیںقائم کیں جو مقننہ یا راے دہندگان کے سامنے نہیں بلکہ گاندھی کے ایک منتخب گروہ کے سامنے جواب دہ ہیں۔ پھر جمہوریت مغرب کے مختلف ملکوں میں مختلف انداز رکھتی ہے۔ اس لیے فطری طور پر مَیں اس نظریے پر پہنچا ہوں کہ ہندستان میں جہاں حالات مغربی ممالک سے بالکل مختلف ہیں، حکومت کا برطانوی پارلیمانی نظام اور نام نہاد جمہوریت قطعی طور پر نامناسب ہیں۔(مسلم یونی ورسٹی یونین، علی گڑھ، ۶مارچ ۱۹۴۰ء سے خطاب، Speeches, Statements & Messeges of the Quaid-e-Azam ، جلد دوم، ص ۱۱۵۸-۱۱۵۹)
پاکستان کے قیام سے قبل اور قیام کے بعد بانیِ پاکستان کے تصورِ پاکستان میں کوئی فرق واقع نہیں ہوا۔ ۱۵جون ۱۹۴۵ء کے مندرجہ بالا بیان میں جو بات قائد نے کہی تھی وہ اسی بات پر آخردم تک قائم رہے۔ چنانچہ ۳۰؍اکتوبر ۱۹۴۷ء کو لاہور میں تقریر کرتے ہوئے انھوں نے کہا:
لمحہ بھر کے لیے بھی اس خیال کو اپنے دل میں نہ لایئے کہ آپ کے دشمن اپنے مذموم ارادوں میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ جس صورتِ حال سے ہم دوچار ہیں، اسے معمولی بھی نہ خیال کیجیے۔ اپنے دلوں میں جھانکیے اور دیکھیے کہ کیا آپ نے اس نئی اور عظیم مملکت کی تعمیر میں اپنا حق ادا کردیا ہے؟
کام کی زیادتی سے گھبرایئے نہیں۔ نئی اقوام کی تاریخ میں کئی ایک مثالیں ہیں جنھوں نے محض عزم اور کردار کی قوت کے بل پر اپنی تعمیر کی۔ آپ کی تخلیق ایک جوہرآب دار سے ہوئی ہے اور آپ کسی سے کم بھی نہیں۔ اوروں کی طرح، اور خود اپنے آباواجداد کی طرح آپ بھی کیوں کامیاب نہ ہوں گے۔ آپ کو صرف اپنے اندر مجاہدانہ جذبے کو پروان چڑھانا ہوگا۔ آپ ایسی قوم ہیں جن کی تاریخ قابل، صلاحیت کے حامل کردار اور بلندحوصلہ اشخاص سے بھری ہوئی ہے۔ اپنی روایات پر قائم رہیے اور اس میں عظمت کے ایک اور باب کا اضافہ کردیجیے۔
اب میں آپ سے صرف اتنا چاہتا ہوں کہ ہرشخص تک میرا یہ پیغام پہنچا دیں کہ وہ یہ عہد کرے کہ وہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے اور اسے دنیا کی ان عظیم ترین قوموں کی صف میں شامل کرنے کے لیے بوقت ِ ضرورت اپنا سب کچھ قربان کردینے پر آمادہ ہوگا جن کا نصب العین اندرونِ ملک بھی امن اور بیرونِ ملک بھی امن ہوتا ہے۔(پنجاب یونی ورسٹی اسٹیڈیم لاہور میں عوام سے خطاب، ۳۰؍اکتوبر ۱۹۴۷ء، قائداعظم: تقاریر و بیانات، چہارم،ص ۳۸۹-۳۹۰)
قائداعظم نہ صرف ایک سیاسی مدبر تھے وہ ایک ماہر قانون دان کی حیثیت سے ایک ایک لفظ کے معنی اور اثرات سے بخوبی واقف تھے۔ ان کے نقاد بھی اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ وہ کھرے انداز میں بات کرنے کے قائل تھے اور کبھی ذومعنی با ت نہیں کہتے تھے۔ اپنے مقام کا احترام رکھتے ہوئے انھوں نے امریکی عوام کو خطاب کرتے ہوئے فروری ۱۹۴۸ء میں دستورِپاکستان کے حوالے سے جو بات کہی وہ ان کے تصورِ پاکستان کی پوری وضاحت کردیتی ہے۔ ان کے اپنے الفاظ میں:
مجلس دستور ساز پاکستان کو ابھی پاکستان کے لیے دستور مرتب کرنا ہے۔ مجھے اس بات کا تو علم نہیں کہ دستور کی حتمی شکل کیا ہوگی، لیکن مجھے اس امر کا یقین ہے کہ یہ جمہوری نوعیت کا ہوگا جس میں اسلام کے لازمی اصول شامل ہوں گے۔ آج بھی ان کا اطلاق عملی زندگی میں ویسے ہی ہوسکتا ہے جیسے کہ ۱۳سوبرس قبل ہوسکتا تھا۔ اسلام نے ہرشخص کے ساتھ عدل اور انصاف کی تعلیم دی ہے۔ ہم ان شان دار روایات کے وارث ہیں اور پاکستان کے آیندہ دستور کے مرتبین کی حیثیت سے ہم اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے باخبر ہیں۔ بہرنوع پاکستان ایک ایسی مذہبی مملکت نہیں ہوگی جس پر آسمانی مقصد کے ساتھ پاپائوں کی حکومت ہو۔ غیرمسلم، ہندو، عیسائی اور پارسی ہیں، لیکن وہ سب پاکستانی ہیں۔ انھیں وہ تمام حقوق اور مراعات حاصل ہوں گے جو کسی اور شہری کو حاصل ہوسکتی ہیں اور وہ اُمورِ پاکستان میں اپنا جائزکردار ادا کرسکیں گے۔ (امریکا کے عوام سے نشری خطاب،کراچی، فروری ۱۹۴۸ء، قائداعظم: تقاریر و بیانات، چہارم، ص ۴۲۱-۴۲۲)
اس اقتباس میں دستور سازاسمبلی کے پہلے صدر کی حیثیت سے بغیر دستوریہ کی راے کو متاثر کیے محتاط الفاظ میں وہ آخری فیصلہ دستور ساز اسمبلی کا تسلیم کرتے ہوئے ہر بات صاف الفاظ میں کہہ رہے ہیں کہ بہرصورت جو بھی دستور بنے گا وہ بنیادی طور پر اسلامی اصولوں کا مظہر و مرقع ہوگا اور اُس جمہوریت کا عکس ہوگا جو۱۳سو سال پہلے اسلام نے عہدنبویؐ میں قائم کی تھی، جس میں انسانی مساوات، عدل اور شفافیت پائی جاتی تھی۔
ساتھ ہی وہ یہ بات بھی وضاحت سے کہہ رہے ہیں کہ یہ نظام تھیاکریسی یا پاپائیت نہیں ہوگا جس میں چند مذہبی علَم بردار خدا بن کر فیصلہ کریں۔ یہ بعینہٖ وہی بات ہے جو مرحوم مولانا مودودی نے، علامہ اقبال نے، علامہ محمد اسد نے اپنی تحریرات میں کہی کہ اسلام میں تھیاکریسی نہیں ہے۔ خلافت اور شورائیت کا واضح مفہوم اللہ تعالیٰ اور انسانوں کے سامنے جواب دہی اور احتساب کے ساتھ حکومت کرنا ہے جو اسلام کی روح ہے۔ اس میں کوئی بڑے سے بڑا عالمِ دین اپنے آپ کو منزہ عن الخطاقرار دے کر تھیاکریسی کے طرز پر فیصلے صادر نہیں کرسکتا۔
دستور سازی کی بنیاد کو واضح طور پر بیان کرنے کے ساتھ ہی قائداعظم نے ان تمام غباروں میں سے ہوا نکال دی جو دین و سیاست کے الگ ہونے اور ریاست کا کوئی مذہب نہ ہونے کی ڈفلی بجابجا کر اپنے آپ کو خوش اور دوسروں کی آنکھ میں دن کی روشنی میں دھول ڈالنے میں آج بھی ملک میں دانش ورانہ ادائوں کے ساتھ مصروف پائے جاتے ہیں۔ بانیِ پاکستان کے اپنے الفاظ میں:
آپ نے دنیا کو فسطائیت کی مصیبت سے نجات دلانے اور اسے جمہوریت کے لیے محفوظ کرنے کے لیے خطہ ارض کے دُور دراز گوشوں میں بہت سی لڑائیاں لڑی ہیں۔ اب آپ کو اپنے وطن میں اسلامی جمہوری، معاشرتی عدل اور انسانی مساوات کے فروغ اور بقا کے لیے سینہ سپر ہونا ہوگا۔(ملیر چھائونی میں فوجی افسروں اور جوانوں سے خطاب، ۲۱فروری ۱۹۴۸ء، قائداعظم: تقاریر و بیانات، چہارم، ص ۴۱۹)
بانیِ پاکستان نے بات محض جمہوریت کی نہیں کی بلکہ جو اصلاح استعمال کی وہ Islamic Democracy ہے اور اس کے ساتھ اسلامی معاشرتی عدل کا اضافہ کیا۔ اگر بانیِ پاکستان کے ذہن میں ’مذہب‘ ایک ذاتی معاملہ تھا تو اُوپر درج کیے گئے تمام بیانات سے ان کا مدعا کیا تھا؟ جیساکہ پہلے عرض کیا گیا کہ ان کے نقاد بھی ان کے خلوص، نڈر، دوٹوک بات کرنے اور نفاق سے پاک رویے کا اعتراف کرتے ہیں۔ اتنے واضح طور پر اپنا مدعا بیان کرنے کے بعد بھی اگر کوئی ان پر تہمت لگاتا ہے کہ وہ پاکستان کے دستور کو اسلام سے خالی اور ملک کو ’سیکولر‘ بنانا چاہتے تھے تو اس میں قصور بانیِ پاکستان کا نہیں ان نام نہاد دانش وروں کی دانش کا نظر آتا ہے۔
اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ۲۳فروری ۱۹۴۸ء کو بانیِ پاکستان جن الفاظ کا انتخاب کرتے ہیں انھیں پڑھنے کے بعد صرف بصیرت اور بصارت سے محروم شخص ہی ان کے تصورِ پاکستان کو ’سیکولر‘ کہہ سکتا ہے، جب کہ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ ان کے کسی ایک خطاب یا بیان میں لفظ سیکولر نام لینے کو ایک مرتبہ بھی استعمال نہیں کیا گیا۔ بانیِ پاکستان کہتے ہیں:
یہ مملکت جو کسی حد تک اس برصغیر کے ۱۰کروڑ مسلمانوں کے حسین خواب کی تعبیر ہے، ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو معرضِ وجود میں آئی۔ پاکستان سب سے بڑی اسلامی مملکت اور دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ (امریکاکے عوام سے نشری خطاب، کراچی، فروری۱۹۴۸ء، قائداعظم: تقاریر و بیانات، چہارم، ص ۴۲۰)
بانیِ پاکستان کی نگاہ میں اسلام اور پاکستان کا رشتہ کیا تھا اسے سمجھنے کے لیے نہ صرف بانیِ پاکستان کے بیانات و تقاریر بلکہ خود ان کی اپنی فکر اور حیات کو بغور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بعض اوقات ہم تک تاریخی معلومات بھی آدھی یا اُس سے کم پہنچتی ہیں اور بقیہ معلومات غیرارادی یا ارادی طور پر نظروں سے اوجھل کردی جاتی ہیں۔ خواجہ عبدالرحیم تحریکِ پاکستان کے سرگرم کارکنوں میں شمار ہوتے تھے۔ ۲۴مارچ ۱۹۴۰ء کو قراردادپاکستان کے ایک دن بعد انھوں نے اپنے گھر پر قائداعظم اور دیگر عمائدین کو مدعو کیا۔ بانیِ پاکستان نے وہاں پر جو بات کہی وہ غیرمعمولی اہمیت کی حامل ہے:
تم نے اور چودھری رحمت علی نے جو نام ۱۹۳۰ء میں تجویز کیا تھا اس پر بہت سرگرمی سے ہندو پریس میں بات ہورہی ہے۔ خواجہ رحیم نے قائداعظم سے پوچھا: پھر آپ کے خیال میں مملکت کا نام کیا ہونا چاہیے؟ علامہ اقبال بھی اس نام کو پسند کرچکے تھے۔ اس پر قائداعظم نے کہا: اگر تم لوگ اور مسلم قوم کو یہ نام پسند ہے تو مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں سواے اس کے کہ پمفلٹ پر تم نے جو نام لکھا ہے وہ Pakistan ہے ، اس میں ’I‘ اسلام کے لیے اضافہ کردو جو ان تمام صوبوں کے درمیان جوڑنے والی کڑی ہے۔ خواجہ رحیم نے قائد کا یہ پیغام چودھری رحمت علی کو پہنچایا جو اُن دنوں کراچی میں آئے ہوئے تھے۔ چند دنوں کے بعد قائد علی گڑھ گئے جہاں ان کا استقبال ’قائداعظم زندہ باد، پاکستان زندہ باد‘ کے نعروں سے ہوا۔اس پر آپ نے کہا کہ یہ درست نہیں ہے کہ ایک فانی شخص کو زندہ باد کہا جائے۔ ہاں یہ ٹھیک ہے کہ پاکستان زندہ باد کہا جائے۔ پھر آپ نے دہرایا کہ ’’اگر ہند کے مسلمان اپنے ملک کا یہ نام رکھنا چاہتے ہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں صرف اس میں ’I‘ کا اضافہ کرلے جو اسلام کی علامت ہے اور جو تمام صوبوں کے درمیان اتحاد کا حصہ رہے۔ (سلطان زہیر اختر، شاید کہ اُتر جائے ترے دل میں مری بات، ۱۹۹۸ء، ص ۲۴)
گذشتہ کچھ عرصے سے پاکستانی صحافت اس مضحکہ خیز سطح پر اُتر آئی ہے کہ ملک کے انگریزی اخبارات میں قائداعظم کا خاکہ نصف چہرے پر ڈاڑھی کے ساتھ دکھایا گیا ہے! مسلمان کو تو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت ہے کہ جو اس کے ساتھ بھلائی کرے اس کے احسان اور شکر کا اظہار کرے، کجا یہ ہ وہ اس کا خاکہ اُڑا کر اپنے نفس کی تسکین کرے! کاش! تاریخ کا چہرہ مسخ کرکے حقائق کو توڑ مروڑ کر گمراہ کن انداز میں دیکھنے اور پیش کرنے والے آل انڈیا مسلم لیگ کے ۱۹۳۹ء کے خطاب کو ایک نگاہ ڈال لیتے جو۲۲؍اکتوبر ۱۹۳۹ء کو لاہور کے روزنامہ انقلاب میں طبع ہوا۔ قائد کے الفاظ یہ تھے:
میں نے بہت دنیا دیکھی ہے اور کافی دولت مند ہوں۔ زندگی کی تمام آسایشوں کا مَیں نے لطف اُٹھایا ہے۔ میری واحد خواہش یہ ہے کہ مسلمان ایک آزاد کمیونٹی کی حیثیت سے پھلے پھولیں۔ میں اس دنیا کو ایک صاف ضمیر کے ساتھ چھوڑنا چاہتا ہوں اور اس احساس اور اطمینان کے ساتھ کہ جناح نے اسلام کے مقاصد سے دھوکا نہیں کیا۔ مجھے آپ سے کسی تعریف یا سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں میرا دل، میرا ضمیر اور میرا ایمان میری موت کے وقت یہ ثابت کرے کہ جناح اسلام اور مسلمانوں کے مقاصد کا دفاع کرتے ہوئے مرا۔ اللہ یہ شہادت دے کہ جناح کفر کی طاقتوں کے خلاف اسلام کا جھنڈا اُٹھائے ہوئے ایک مسلمان کی طرح جیا اور مرا۔(صفدر محمود، Quaid Wanted Islamic Democratic Progressive State ڈان، ۲۳ مارچ ۲۰۰۲ء)
نہ صرف یہ بلکہ جولائی ۱۹۴۷ء میں قائد نے ۱۰-اورنگ زیب روڈ، دہلی اپنے گھر پر مولانا شبیراحمد عثمانی مرحوم کو دعوت دی۔ مولانا نے پوچھا: پاکستان کا دستور کس نوعیت کا ہوگا؟ بانیِ پاکستان نے جواب دیا: قرآن پاکستان کا دستور ہوگا۔ میں نے قرآن ترجمے کی مدد سے پڑھا ہے۔ میرا ایمان ہے کہ کوئی دستور قرآنی دستور سے بہتر نہیں ہوسکتا۔ میں نے یہ جنگ (آزادی) مسلمانوں کے ایک سپاہی کی حیثیت سے جیتی ہے۔ میں قرآنی دستور کا ماہر نہیں ہوں۔ میں آپ سے درخواست کروں گا کہ آپ اور آپ کی طرح کے دیگر علما مل کر قرآنی دستور تیار کریں۔ (سعید راشد، قائداعظم گفتار و کردار، لاہور، مکتبہ میری لائبریری ۱۹۸۶ء)
اسلام اور ریاست کے تعلق کے حوالے سے اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے تحقیقی شعبے کا افتتاح کرتے وقت یکم جولائی ۱۹۴۸ء کو قائداعظم نے اپنی وفات سے صرف دو ماہ پہلے جو خطاب کیا وہ یہ شہادت دیتا ہے کہ قرآنی دستور کی طرح وہ اسلامی معاشیات اور بنکاری کو پاکستان میں رائج دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کے اپنے الفاظ ہیں:
آپ کا تحقیقی شعبہ،بنکاری کے طور طریقوں کو معاشرتی اور اقتصادی زندگی کے اسلامی تصورات سے ہم آہنگ کرنے کے سلسلے میں جو کام کرے گا مَیں ان کا دل چسپی کے ساتھ انتطار کروں گا۔ اس وقت مغربی اقتصادی نظام نے تقریباً ناقابلِ حل مسائل پیدا کردیے ہیں اور ہم میں سے اکثر کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ شاید کوئی معجزہ ہی دنیا کو اس بربادی سے بچاسکے جس کا اسے اس وقت سامنا ہے۔ یہ افراد کے مابین انصاف کرنے اور بین الاقوامی سطح سے ناچاقی کو دُور کرنے میں ناکام ہوگیا ہے۔ برعکس اس کے گذشتہ صدی میںدو عالمی جنگوں کی زیادہ تر ذمہ داری بھی اس کے سر ہے۔ مغربی دنیا اس وقت اپنی میکانکی اور صنعتی اہلیت کے باوصف جس بدترین ابتری کی شکار ہے وہ اس سے پہلے تاریخ میں کبھی نہ ہوئی ہوگی۔ مغربی اقدار، نظریے اور طریقے خوش و خرم اور مطمئن قوم کی تشکیل کی منزل کے حصول میں ہماری مدد نہیں کرسکیںگے۔ ہمیں اپنے مقدر کو سنوارنے کے لیے اپنے ہی انداز میں کام کرنا ہوگا اور دنیا کے سامنے ایک ایسا اقتصادی نظام پیش کرنا ہوگا جس کی اساس انسانی مساوات اور معاشرتی عدل کے سچے اسلامی تصور پر استوار ہو۔ اس طرح سے ہم مسلمان کی حیثیت سے اپنا مقصد پورا کرسکیںگے اور بنی نوع انسان تک پیغامِ امن پہنچا سکیں گے کہ صرف یہی اسے بچاسکتا ہے اور انسانیت کو فلاح و بہبود، مسرت و شادمانی سے ہمکنار کرسکتا ہے۔ (اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی افتتاحی تقریب میں خطاب، کراچی، یکم جولائی ۱۹۴۸ء ، قائداعظم: تقاریر و بیانات، جلدچہارم، ص ۵۰۱)
ان مصدقہ بیانات اور خطابات کے بعد کسی کا معصوم سی شکل بناکر یہ کہنا کہ ہم نہیں جانتے قائد کس طرح کا پاکستان، کس طرح کا دستورِ پاکستان اور کس طرح کی معیشت ملک میں نافذ کرنا چاہتے تھے، اگر بدنیتی نہیں تو کم از کم تاریخی حقائق سے مذاق نظر آتا ہے۔
جن بنیادی اُمور کو بانیِ پاکستان نے اپنی واضح اور مدلل بات سے طے کردیا تھا انھیں نئے سرے سے ایک issue بنانا بجاے خود منفی اور فکری انتشار کا پتا دیتا ہے۔ ان تمام حقائق کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے ایک علمی بددیانتی یہ بھی کی جاتی ہے کہ قائد کے ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کے دستورساز اسمبلی کے خطاب کو سیاق و سباق سے علیحدہ کر کے محض دو جملوں کو بار بار دہرا کر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ وہ ’مذہب‘ کو ایک ذاتی معاملہ اور سیاست سے الگ تصور کرتے تھے۔ یہ بانیِ پاکستان پر ایک گھنائونا اتہام ہے کیونکہ اس پورے بیان میں انھوں نے نہ سیکولر کا لفظ استعمال کیا نہ اس طرف کوئی اشارہ کیا۔ جو بات انھوں نے کہی اگر ان کے اپنے الفاظ میں سُن لی جائے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجاتا ہے۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ اگر محض بطور مفروضہ ہم وقتی طور پر یہ مان بھی لیں کہ اس خطاب میں انھوں نے مذہب کو سیاست سے الگ کردیا تو اُوپر درج کیے گئے سارے بیانات جو قیامِ پاکستان سے قبل اور اس تنہا تقریر، یعنی ۱۱؍اگست کے بعد دیے گئے ہیں، ان کی حیثیت کیا تھی؟ ان تمام تقاریر و بیانات میں جو ۱۱؍اگست کے حوالے کے بعد والے ہیں وہ واشگاف الفاظ میں نہ صرف اسلام بلکہ شریعت کی بنیاد پر پاکستان کے نظام کا ذکر کرتے ہیں۔ ۲۵جنوری ۱۹۴۸ء کو کراچی میں خالق دینا ہال میں بار ایسوسی ایشن کراچی سے خطاب کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں:
وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ لوگوں کا ایک طبقہ جو دانستہ طور پر شرارت کرنا چاہتا ہے، یہ پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ پاکستان کے دستور کی اساس شریعت پر استوار نہیں کی جائے گی۔
قائداعظم نے فرمایا: آج بھی اسلامی اصولوں کا زندگی پر اسی طرح اطلاق ہوتا ہے جس طرح ۱۳سو برس پیش تر ہوتا تھا.....
جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں تو بلاشبہہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اس بات کو بالکل نہیں سراہتے۔
اسلام نہ صرف رسم و رواج ، روایات اور روحانی نظریات کا مجموعہ ہے، بلکہ اسلام ہرمسلمان کے لیے ایک ضابطہ بھی ہے جو اس کی حیات اور اس کے رویے بلکہ اس کی سیاست و اقتصادیات وغیرہ پر محیط ہے۔ یہ وقار، دیانت، انصاف اور سب کے لیے عدل کے اعلیٰ ترین اصولوں پر مبنی ہے۔ ایک خدا اور خدا کی توحید، اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے۔ اسلام میں ایک آدمی اور دوسرے آدمی میں کوئی فرق نہیں۔ مساوات، آزادی اور یگانگت، اسلام کے بنیادی اصول ہیں۔
ہم نے صفحات کی تنگی کے پیش نظر قائد کے واضح اور بلندآہنگ بیانات کو صرف نقل کردیا ہے۔ ان میں سے ہرخطاب اور بیان پر اگر کوئی تجزیاتی مضمون تحریر کیا جائے تو ایک کتاب تیار ہوسکتی ہے۔ ہماری نوجوان نسل کو خصوصی طور پر ان خطابات کو بغور پڑھنے کی ضرورت ہے، کیونکہ پاکستانیات کے نام سے انھیں جو کچھ پڑھایا گیا ہے اس کے ماخذ برطانوی اور امریکی مصنّفین کی پاکستان کے بارے میں لکھی ہوئی کتابیں ہیں، جن کا بنیادی مفروضہ ہی یہ ہے کہ قائداعظم ایک سیکولر انسان تھے اور ایک سیکولر پاکستان بنانا چاہتے تھے۔ یہ دونوں مفروضے حق و صداقت سے دُوری اور قیاس و گمان کی بنیاد پر تاریخ مسخ کرنے کی مثال کہے جاسکتے ہیں۔ ظلم کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ بانیِ پاکستان اور پاکستان کے تصور کو جانے اور سمجھے بغیر اخباری اور برقی صحافت میں غیرمعتبر باتوں کو اتنی کثرت سے بیان کیا جائے کہ ناظرین افواہ کو حقیقت ماننے پر مجبور ہوجائیں۔
مَیں تحریک اسلامی کے مستقبل کے بارے میں بے حد پُرامید ہوں۔ حق و باطل کی جو قوتیں آج برسرِ پیکار ہیں، جب ہم ان کو دیکھتے ہیں اور ان کے حالات کا موازنہ کرتے ہیں، تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ حالات اسلام کی کامیابی اور سربلندی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ مَیں جن وجوہ کی بنا پر یہ بات کہتا ہوں، وہ یہ ہیں:
حضرت انسؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مشرکین سے جہاد کرو اپنے مالوں، اپنی جانوں اور اپنی زبانوں سے۔ (ابوداؤد، نسائی، دارمی )
جہاد دین کی سربلندی اور کفروشرک کی پسپائی کے لیے پوری قوت صرف کر دینے اور تمام وسائل خرچ کردینے کا نام ہے۔ وسائل میں مال بھی ہے، جانیں اور زبان بھی ہے۔ زبان کے ذریعے کفروشرک کو علمی میدان میں شکست دینا ہے۔ علمی میدان میں شکست دیے بغیر حکومت، عدالت، تجارت، سیاست، معاشرت اور معیشت کسی بھی میدان میں شکست دینا ممکن نہیں ہے۔ زبان کے ذریعے جو علمی جہاد ہے، اس میں قلم و قرطاس اور لٹریچر بھی شامل ہے۔ ہفت روزہ، ماہوار اور روزانہ کی سطح پر رسائل و جرائد اور میڈیا میں کفروشرک کو شکست دینا لازم ہے اور یہ بڑا جہاد ہے کہ ہرقسم کے جہاد کی کامیابی اس جہاد میں کامیابی پر موقوف ہے۔ جو لوگ اس میدان میں جہاد کر رہے ہیں ان کے ساتھ ہرقسم کا تعاون کرنا جہاد فی سبیل اللہ میں تعاون کرنا ہے۔ آج کے زمانے میں ہم اس میدان میں پیچھے ہیں۔ کل گذشتہ میں ہم نے اپنے اسلاف کے ذریعے سوشلزم، کمیونزم اور سیکولرزم کو اس میدان میں شکست دی ہے۔ آج سرمایہ دارانہ نظام کی شکست باقی ہے۔ اس کی بھی بنیادیں کھوکھلی ہوچکی ہیں۔ دنیا نے سودی نظام کی ہلاکتیں اور تباہیاں دیکھ لی ہیں۔ اب وہ کسی اور نظام کی متلاشی ہے۔ اسلام کے علَم برداروں کے لیے سنہری موقع ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور اسلامی نظام کی برکات دنیا پر واضح کریں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان ممالک میں انقلابِ اسلامی برپا ہو۔ مسلمانوں کو اس کی برکات ملیں۔ وہ عدل و انصاف اور خوش حالی کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کریں۔
٭
عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو آنکھیں ایسی ہیں کہ ان کو آگ نہیں چھوئے گی۔ ایک وہ آنکھ جس نے اللہ کی خشیت سے روتے ہوئے رات گزاری اور دوسری وہ آنکھ جو اللہ کی راہ میں رات کو پہرہ دیتی رہی۔(ترمذی)
یہ دونوں خوش قسمت اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلق کو مضبوط کرنے اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے بیدار رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی خشیت آدمی کو ہرقسم کے گناہوں سے بچاتی ہے اور اللہ کی راہ میں رات کو پہرہ دینا اسلام کو غالب کردینے کا ذریعہ ہے، اور اسلام کو غالب کر دینا اللہ تعالیٰ کو انتہائی محبوب ہے۔ اس لیے جو آدمی اللہ تعالیٰ کے محبوب نظام کو غالب کر دینے میں راتوں کو جاگے گا، تکالیف برداشت کرے گا تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کو محبوب ہوگا۔ جس طرح راتوں کو پہرہ دینا اور تکالیف برداشت کرنا اللہ تعالیٰ کی محبوبیت کا ذریعہ ہے، اسی طرح کسی بھی شکل میں دن ہو یا رات، سردی ہو یا گرمی جو آدمی اللہ تعالیٰ کے دین کو سربلند کرنے میں مصروفِ عمل ہوگا وہ اللہ تعالیٰ کو محبوب ہوگا۔ دعوت و تبلیغ، تعلیم و تربیت اور درس و تدریس ہر ایک کام کی بڑی فضیلت اور درجہ ہے اور احادیث میں اس کا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔ آدمی جس میدان میں بھی خدمات سرانجام دے سکے وہ اللہ کے ہاں مقام اور مرتبہ حاصل کرنے میں کامیابی سے ہمکنار ہوجائے گا بشرطیکہ اخلاص و للہیت کے ساتھ اس کام کو کیا ہو، ریا، نمود ونمایش کی غرض نہ ہو۔
٭
حضرت عبداللہ بن حبشیؓ سے روایت ہے ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: کون سا عمل سب سے افضل ہے؟ آپؐ نے فرمایا: لمبا قیام، یعنی نماز میں زیادہ دیر کھڑے رہنا اور قراء ت کرتے رہنا۔ پھر کہا گیا کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپؐ نے فرمایا: فقیر آدمی کا مشقت اُٹھا کر صدقہ کرنا۔ کہاگیا: کون سی ہجرت افضل ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ان چیزوں سے ہجرت کرنا (یعنی ان چیزوں کو چھوڑ دینا) جن کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے۔ پھر پوچھا گیا: کون سا جہاد افضل ہے؟ آپؐ نے فرمایا: جس نے مشرکوں سے اپنے مال اور جان سے جہاد کیا ۔ پھر پوچھا گیا: کون سا قتل سب سے افضل ہے؟ آپؐ نے فرمایا: جس کا خون گرا دیا گیا اور اس کا عمدہ گھوڑا بھی مار دیا گیا۔ (ابوداؤد)
نماز، صدقہ، ہجرت، جہاد اور شہادت تمام عبادات اپنے اپنے دائرے میں افضل ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام کی فضیلت اور نوعیت بیان فرما دی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی راتوں کو اس قدر طویل قیام کیا کہ آپؐ کے قدموں پر وَرم آگیا اور صدقہ کا ایسا نمونہ پیش فرمایا کہ خود پیٹ پر پتھر باندھے اور اپنے صحابہ کرامؓ کو کھانا کھلایا۔ صحابہ کرامؓ نے بھی مہمانوں کو کھانا کھلایا اور خود بھوکے رات گزاری اور اپنے بچوں کو بھی بھوکا رکھا۔ ہجرت اور جہاد میں اپنی جانیں اتنی کھپا دیں کہ اللہ کے دین کو غالب کر دیا۔ ان کا جہاداور شہادتیں تمام جہادوں اور شہادتوں سے بلندتر درجہ پاگئے۔
٭
حضرت ابومالک اشعریؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جو شخص اللہ کی راہ میں نکلا اور فوت ہوگیا، یا قتل کردیا گیا، یا اس کے گھوڑے اور اُونٹ نے اُسے گرا دیا اور اس کی گردن کو توڑ دیا، یا اسے سانپ نے کاٹ لیا اور وہ فوت ہوگیا، یا وہ اپنے بستر پر لیٹا ہوا اللہ کی مشیت سے فوت ہوگیا، جیسی موت اللہ تعالیٰ نے دینا چاہی د ے دی تو وہ شہید ہے اور اس کے لیے جنت ہے۔۔(ابوداؤد)
جو لوگ جہاد کے لیے نکلے، دین کی سربلندی کے کام میں لگ گئے، انھیں جس طرح سے بھی موت آئے ان کی موت شہادت کی موت ہے۔ دعوت و تبلیغ کے لیے، تحریک کے کام کے لیے، کسی پروگرام کی دعوت کے لیے نکلنے والے، جن کو بھی موت آجائے، کسی طرح سے وہ فوت ہوجائیں وہ تمام شہید ہیں کہ انھوں نے اپنی جان اللہ کی راہ میں دے دی۔ کتنے خوش قسمت ہیں وہ جو دین کی کسی بھی طرح کی خدمت سرانجام دے رہے ہیں کہ ان کی موت شہادت کی موت شمار ہوگی!
٭
حضرت ابوامامہؓ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک جہادی مہم پر نکلے تو ایک آدمی ایک غار کے پاس سے گزرا جس میں کچھ پانی اور سبزہ تھا۔ اس نے سوچا کہ یہاں قیام کرلے اور دنیا سے الگ ہوجائے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی اجازت طلب کی تو رسولؐ اللہ نے فرمایا: مجھے یہودیت اور نصرانیت کے ساتھ نہیں بھیجا گیا بلکہ آسان دینِ حنیف کے ساتھ بھیجا گیا ہے۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں محمدؐ کی جان ہے! صبح کے وقت تھوڑی دیر کے لیے اللہ کی راہ میں نکلنا اور شام کے وقت تھوڑی دیر کے لیے اللہ کی راہ میں نکلنا دنیاومافیہا سے بہتر ہے۔ اور تم میں سے ایک آدمی کا جہاد فی سبیل اللہ کی صف میں کھڑے ہونا ۶۰سال کی نماز سے افضل ہے۔(مسند احمد)
یہود و نصاریٰ نے دین میں تحریف کرکے یہودیت اور نصرانیت ایجاد کی اور نفس کُشی کو دین قرار دیا۔ غاروں میں بیٹھ جانا، اپنے نفس کو اذیت دینا اور کھانے پینے اور لباس، شادی جیسی راحتوں سے دُور رہنے کو دین بنا دیا، جس کے نتیجے میں تکلیفیں اُٹھانے کے ساتھ ساتھ گناہوں میں مبتلا ہوگئے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام گمراہیوں کا خاتمہ فرمایا اور انھیں آسان دین دے دیا، جس میں انسان اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرلے اور اسے ایسی مشقت بھی نہ اُٹھانی پڑے جو بشری تقاضوں سے متصادم ہو۔ اس سے آسان نسخہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ صبح و شام تھوڑا سا وقت اللہ تعالیٰ کے دین کی سربلندی میں صرف کیا جائے اور ایک رات جہادی صف میں گزاری جائے، لیکن ثواب۶۰سال کی نماز سے بھی بڑھ جائے۔ اسلامی تحریکات، دعوتِ دین کے اس عظیم کام کو پورے جوش اور ولولے سے لے کر آگے بڑھیں، اپنے درجات بڑھائیں۔ یہودیت اور نصرانیت شکست کھاچکی ہیں لیکن ان کے نام لیوا سیکولر حکمران دنیا میں مسلمانوں سے انتقام لے رہے ہیں۔ ان کے اقتدار کو ختم کرنے کے لیے، جہاد فی سبیل اللہ کی صفو ں کو مضبوط اور مستحکم کریں اور منظم جدوجہد کے ذریعے ان کے منصوبوں کو ناکام بنادیں۔
٭
حضرت صہیبؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان تشریف فرما تھے کہ ہنس پڑے۔ پھر آپؐ نے فرمایا: تم لوگ پوچھتے نہیں کہ میں کیوں ہنس پڑا؟ صحابہؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! آپؐ کیوں ہنس پڑے؟ آپؐ نے فرمایا: میں مومن کی خوش قسمتی کا تصور کر کے ہنس پڑا۔ مومن کو خوشی حاصل ہوتی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے تو اس پر اسے اجر ملتا ہے۔ مومن کو تکلیف پہنچتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے تو اس پر اسے اجر ملتا ہے۔مومن کی ہر حالت اچھی ہے۔ مومن کے علاوہ کوئی دوسرا ایسا نہیں ہے کہ اس کی ہرحالت اچھی ہو۔ (مسند احمد)
ایمان اصل دولت ہے۔ ایمان جس قدر کامل ہوگا اسی قدر آدمی کی خوش قسمتی میں اضافہ ہوگا۔ لوگ اپنا بنک بیلنس بڑھانے میں لگے رہتے ہیں اور اس کو اپنی خوش قسمتی سمجھتے ہیں۔ جو جتنا زیادہ مال دار ہے اپنے آپ کو اتنا ہی خوش قسمت سمجھتا ہے لیکن اصل خوش قسمتی یہ ہے کہ آدمی ایمان کے تقاضوں کو پورا کرے، فرائض کو ادا کرے اور منکرات سے بچے۔ اس کے ساتھ اگر حلال دولت بھی کماتا ہے تو اس پر بھی اجر ہے اور اگر حلال دولت کمانے میں زیادہ کامیابی نہیں ہوتی تب بھی اس کے لیے کوشش پر اجر ہے۔ وہ نیکیاں کما رہا ہے اور اجر پا رہا ہے۔ دن کے ۲۴ گھنٹے اس کی کمائی جاری ہے۔ اس سے بڑھ کر خوش قسمتی اور کیا ہوسکتی ہے کہ دنیا میں اطمینان ہو اور آخرت میں جنت الفردوس ٹھکانا ہو۔
قرآنِ حکیم علم و حکمت کا بحرِ بے کنار ہے۔ یہ وہ کتابِ مبین ہے جو ہدایت کا منبع اور معارف کا خزانہ ہے۔ اس کا موضوع انسان ہے، اس کے مضامین و موضوعات انسانی زندگی کی کامیابی اور فلاح کی ترجمانی کرتے ہیں۔ پھر اس کا دائرۂ کار وسیع سے وسیع تر ہوتا جاتا ہے۔ انفرادیت اور اجتماعیت، تصورات و اعتقادات کی وضاحت کرتا ہے۔ وحدت اور مساوات کی صراحت کرتا ہے۔ اخلاقی اقدار اور اعمال و افعال کی تطہیر کرتا ہے۔
تزکیۂ نفس کے حوالے سے یہ امر ذہن نشین رہے کہ تزکیہ کے لغوی معنی پاکی، صفائی اور نشوونما کے ہیں۔ یعنی اپنے آپ کو آلایشوں سے پاک صاف کرنا، نیکی کی نشوونما کرنا اور اس کو ترقی دینا ہے۔ مگر قرآ نی مفہوم کے مطابق تزکیہ کے معنی نفس کو تمام ناپسندیدہ، مکروہ اور قبیح عناصر سے پاک کرکے خداخوفی، نیکی اور تقویٰ جیسی خوبیوں سے آراستہ کرنا ہے۔ رذائلِ اَخلاق سے بچنا اور فضائلِ اخلاق سے منور ہوکر بندگیِ خالقِ کائنات کو درجۂ کمال تک پہنچانا ہے۔ اس کے احاطے میں کردار و اَطوار، اعمال و افعال اور مشاہدات و تجربات کے ساتھ ساتھ احکامات کی تعمیل بھی آتے ہیں۔یہ تمام اُمور انسانی طاقت سے باہر نہیں۔ انسان انھیں بہ رضا و رغبت اور بلاتردّد و کراہت انجام دے سکتا ہے۔ اس میں اشکال اور دقّتیں نہیں، صرف تعلیماتِ قرآن سے محبت درکار ہے۔
اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی عظمت و عزت خلیفۃ اللہ ہونے کے ناتے دیگر مخلوقات سے برتر ثابت کرنے کے لیے تزکیہ کو اختیار کرنے پر زور دیا ہے: قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا o (الشمس ۹۱:۹) ’’یقینا فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا‘‘۔
قرآنِ حکیم کی تعلیمات میں اس پر بار بار زور دیا گیا ہے۔ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ نے انبیاے کرام ؑ کو بھی تزکیہ کی تلقین کو اپنی تبلیغ کی اساس بنانے کا حکم دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سورئہ بقرہ میں اس دعا کو بیان فرمایا، جو حضرت ابراہیم ؑ خلیل اللہ مانگ رہے تھے جس میں تزکیے کا تذکرہ کیا ہے۔ یہ دراصل دعاے ابراہیمی ؑ ہے جس میں رسولِ اکرمؐ کی بعثت کی استدعا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ اور ان کے فرزند ِ ارجمند حضرت اسماعیل ؑ مکہ مکرمہ میں اللہ کے گھر کی دیوار اُٹھا رہے تھے اور دعا کرتے جاتے تھے: ’’اے ہمارے رب! ہم سے یہ خدمت قبول فرما لے۔ تو سب کی سننے اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ اے رب! ہم دونوں کو اپنا مسلم، مطیع فرمان بنا، ہماری نسل سے ایک ایسی قوم اُٹھا جو تیری مسلم ہو، ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتا، اور ہماری کوتاہیوں سے درگزر فرما، تو بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے‘‘ (البقرہ۲:۱۲۷-۱۲۸)۔ یاد رکھیے یہ ایک برگزیدہ رسول ؑ کی دلی کیفیات کی ربِ کائنات کے حضور التجائیں ہیں۔
یہ تمنائیں، آرزوئیں اور ندائیں یہیں ختم نہیں ہوجاتیں بلکہ روح کی صدائیں بصد احترام ہوا کے دوش پر تڑپ اُٹھتی ہیں۔ یہی حالت حضرت ابراہیم ؑ کی ہے۔ وہ استدعا کرتے ہیں:
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ وَ یُعَلِّمُھُمْ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَ یُزَکِّیْھِمْ ط اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ o (البقرہ ۲:۱۲۹) اے ہمارے رب! ان لوگوں میں خود انھی کی قوم سے ایک ایسا رسول اُٹھائیو، جو انھیں تیری آیات سنائے، ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیاں سنوارے۔ تو بڑا مقتدر اور حکیم ہے۔
یہ ہے سیدنا ابراہیم ؑ کی خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہلی دعا، جس میں تزکیے کے فرض کوا دا کرنے کا بھی خصوصی ذکر ہے۔ گویا تعلیمِ قرآن وہ حاصل تزکیۂ نفس ہے جس میں زندگی سنوارنے، اخلاق، سخاوت، معاشرت، تمدن، سیاست غرضیکہ ہرچیز کو سنوارنا شامل ہے۔
محسنِ انسانیتؐ کی پوری زندگی اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ کس طرح آپؐ نے اپنے صحابہ کرامؓ کی زندگیوں کا تزکیہ کیا۔ جہالت کی تاریکیوں سے نکال کر سپیدۂ سحر کی طرح منور کیا، دلوں کو آلودگی سے پاک کیا۔ رحم و کرم کی صفات سے متصف کیا۔ یہی تزکیہ کا عمل ہے جس نے صحابہ کرامؓ کو تقویٰ کے اعلیٰ معیار پر پہنچا دیا۔ اسی پر تو خالقِ کائنا ت نے فرما دیا:
کَمَآ اَرْسَلْنَا فِیْکُمْ رَسُوْلًا مِّنْکُمْ یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰتِنَا وَ یُزَکِّیْکُمْ وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ یُعَلِّمُکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَo (البقرہ ۲:۱۵۱) میں نے تمھارے درمیان خود تم میں سے ایک رسول بھیجا جو تمھیں میری آیات سناتا ہے۔ تمھاری زندگیوں کو پاکیزہ بناتا ہے، تمھیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور تمھیں وہ باتیں سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے۔
یہ ایک فریضہ بھی ہے جو دیگر فرائض کے ساتھ سونپا گیا۔ یہ سلسلہ خاتم النبیین حضرت محمدؐ سے شروع نہیں ہوا بلکہ قبل ازیں بھی اللہ تعالیٰ نے انبیاے کرام ؑ کو تزکیۂ نفسِ انسانی کی ہدایت کی ہے۔ ذرا حضرت موسٰی ؑ کے تذکرے میں اس کام کو انجام دینے کے حکم پر غور کیجیے:
ہَلْ اَتٰکَ حَدِیْثُ مُوْسٰی o اِِذْ نَادٰہُ رَبُّہٗ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًی o اِذْہَبْ اِِلٰی فِرْعَوْنَ اِِنَّہٗ طَغٰی o فَقُلْ ہَلْ لَّکَ اِِلٰٓی اَنْ تَزَکّٰی o وَاَھْدِیَکَ اِِلٰی رَبِّکَ فَتَخْشٰی o(النازعات ۷۹:۱۵-۱۹) کیا تمھیں موسٰی ؑ کے قصے کی خبر پہنچی ہے، جب اس کے رب نے طویٰ کی مقدس وادی میں پکارا تھا کہ فرعون کے پاس جا، وہ سرکش ہوگیا ہے اور اس سے کہہ: کیا تو اس کے لیے تیار ہے کہ پاکیزگی اختیار کرے اور مَیں تیرے رب کی طرف تیری رہنمائی کروں تو اس کا خوف تیرے اندر پیدا ہو۔
ابن زید کہتے ہیں کہ قرآن میں جہاں بھی تزکٰی کا لفظ استعمال ہوا ہے وہاں اس سے مراد اسلام قبول کرنا ہی ہے۔ چنانچہ وہ مثال میں قرآنِ مجید کی حسب ذیل تین آیات کو پیش کرتے ہیں: وَ ذٰلِکَ جَزٰٓؤُا مَنْ تَزَکّٰی o (طٰہٰ ۲۰:۷۶) ’’اور یہ جزا ہے اس کی جو پاکیزگی اختیار کرے‘‘، یعنی اسلام لے آئے۔ وَمَا یُدْرِیْکَ لَعَلَّہٗ یَزَّکّٰیٓo (عبس ۸۰:۳) ’’اور تمھیں کیا خبر شاید کہ وہ پاکیزگی اختیار کرے‘‘، یعنی مسلمان ہوجائے۔ وَمَا عَلَیْکَ اَلَّا یَزَّکّٰیٓ o (عبس ۸۰:۷) ’’اور تم پر کیا ذمہ داری ہے اگر وہ پاکیزگی اختیار نہ کرے‘‘، یعنی مسلمان نہ ہو۔ (تفہیم القرآن، جلدششم، ص ۲۴۲، بحوالہ ابن جریر)
یہی وہ حکمِ ربانی ہے جو حضرت موسٰی ؑ کو دیا گیا کہ تزکیے کی دعوت دو۔ اللہ تعالیٰ کا اَبرِ لطف و کرم اہلِ ایمان پر ہمیشہ برستا رہا۔ یہ رحمت کی انتہا ہے کہ اللہ کے بندے پاکیزہ و مصفا ہوجائیں۔ گناہوں کی دلدل سے بچ جائیں اور دنیا میں پھیلے کانٹوں سے دامن بچاکر خوفِ خدا کو حرزِ جاں بنائیں اور اللہ تعالیٰ کے حضور سرخ رو ہوں۔
اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس موقعے پر مسلمانوں کے تزکیے کا حکم دیا جب مدینہ کے کچھ منافقین سچے دل سے ایمان لے آئے۔ فرمایا:
خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِّرُھُمْ وَ تُزَکِّیْھِمْ بِھَا وَصَلِّ عَلَیْھِمْ ط اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّھُمْ ط وَ اللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ o (التوبہ ۹:۱۰۳) اے نبیؐ! تم ان کے اموال میں سے صدقہ لے کر انھیں پاک کرو اور اس سے تزکیہ کرو (نیکی کی راہ میں انھیں بڑھائو) اور ان کے حق میں دعاے رحمت کرو کیوںکہ تمھاری دعا ان کے لیے وجۂ تسکین ہوگی،اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔
کتنی رحمت و شفقت ہے کہ خالق بنی نوع انسان اپنے بندوں کی تطہیر اور تزکیہ کا فریضہ اپنے رسولِؐ مقبول کو اس وقت بھی سونپتا ہے جب انسان ضلالت کی راہ سے نکل کر منزلِ ہدایت کو پانے کے تمنائی ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم کو علم و حکمت کا خزانہ بنایا ہے۔ اس کی ہر آیت اہلِ ایمان کو ایسے ایسے جواہر عطا کرتی ہے، جن میں ایسے ایسے انوار ہدایت چمکتے دمکتے ہیں، جن کی قدرومنزلت کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ پھر ان کو عطا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ اپنی محبت کا بھی اظہار کرتا ہے:
لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْھِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ اِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍo(اٰل عمرٰن ۳:۱۶۴) درحقیقت اہلِ ایمان پر تو اللہ نے بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان خود انھی میں سے ایک ایسا پیغمبر اُٹھایا جو اس کی آیات انھیں سناتا ہے، ان کی زندگیوں کو پاکیزہ بناتا ہے(تزکیہ کرتا ہے) اور ان کو کتاب (قرآن) اور دانائی (حکمت) کی تعلیم دیتا ہے، حالاںکہ اس سے پہلے یہی لوگ صریح گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے۔
یہ آیات قرآنِ حکیم میں تین بار دہرائی گئی ہیں جن سے رسولِ اکرمؐ کے فریضۂ نبوت کی نشان دہی کی گئی ہے۔ سورئہ جمعہ میں اس آیت ِ کریمہ کے کچھ تبدیلی کے ساتھ تقریباً یہی الفاظ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات کی تکرار سے بعثت ِ رسول مکرمؐ کی ضرورت اور اہمیت کو اُجاگر کیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ منصب ِ نبوت، کارِ نبوت اور مقامِ نبوت کی بھی وضاحت کردی ہے کہ یہ کتابِ مبین، یہ صحیفۂ ہدایت اور یہ متاعِ حکمت تیری پونجی ہے جسے تو نے بانٹنا ہے۔ علاوہ ازیں خالقِ ارض و سماوات بندے کو خود بھی اپنا تزکیہ کرتے رہنے کی تلقین فرماتا ہے۔ مختلف اسلوب ہیں جن کے ذریعے ایک انسان تزکیہ کر کے فلاح دارین حاصل کرسکتا ہے، بُرائیوں سے بچ سکتا ہے۔ مقصدِ تخلیق کو سمجھ کر اس کو پورا کرنے کی سعی کرتا ہے۔ کائنات کا ہر انسان اپنا بوجھ خود اُٹھائے گا۔ کوئی بھی اس کا بوجھ اُٹھانے والا نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ان باتوں کی وضاحت قرآنِ مجید میں مختلف طریقوں سے بیان کرتا ہے۔ انسان کو سمجھاتا ہے بلکہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتا ہے کہ ان کا تذکرہ کرو یہ ان کے لیے بہتر ہے۔
وَ لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی ط وَ اِنْ تَدْعُ مُثْقَلَۃٌ اِلٰی حِمْلِھَا لَا یُحْمَلْ مِنْہُ شَیْئٌ وَّ لَوْ کَانَ ذَاقُرْبٰی اِنَّمَا تُنْذِرُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَیْبِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ ط وَ مَنْ تَزَکّٰی فَاِنَّمَا یَتَزَکّٰی لِنَفْسِہٖ ط وَ اِلَی اللّٰہِ الْمَصِیْرُo (فاطر ۳۵:۱۸) اور کوئی اُٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہ اُٹھائے گا اور کوئی بوجھ میں دبا ہوا اپنا بوجھ بٹانے کو کسی کو بلائے تو کوئی اس میں سے کچھ نہ اُٹھائے گا اگرچہ قرابت دار ہی ہو۔ (اے پیغمبرؐ!) تم ان لوگوں کو نصیحت کرسکتے ہو جو بن دیکھے اپنے پروردگار سے ڈرتے اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو شخص پاک ہوتا ہے اپنے ہی لیے پاک ہوتا ہے اور (سب کو) اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں انسان کو تزکیے کی تلقین کی ہے۔ جتنے بھی احکامات ہیں، جتنی بھی ہدایات ہیں، سب کی اساس تزکیہ ہے۔ جو انسانی زندگی کو اس طرح نکھارتی ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ اور محسنِ انسانیتؐ کی اطاعت کرنے کے قابل ہوجاتا ہے اور دُنیوی و اُخروی فلاح کو پانے کی جدوجہد کرسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایک خاص عائلی مسئلے میں تزکیے کی برکت کا یوں اظہار کرتا ہے:
وَ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَبَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ اَنْ یَّنْکِحْنَ اَزْوَاجَھُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَیْنَھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ ط ذٰلِکَ یُوْعَظُ بِہٖ مَنْ کَانَ مِنْکُمْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ط ذٰلِکُمْ اَزْکٰی لَکُمْ وَ اَطْھَرُ ط وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَo(البقرہ ۲:۲۳۲) جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دے چکو اور وہ اپنی عدت پوری کرلیں تو اس میں مانع نہ ہو کہ وہ اپنے زیرتجویز شوہروں سے نکاح کرلیں، جب کہ وہ معروف طریقے سے باہم مناکحت پر راضی ہوں۔ تمھیں نصیحت کی جاتی ہے کہ ایسی حرکت ہرگز نہ کرنا اگرتم اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان لانے والے ہو۔ تمھارے لیے شائستہ اور پاکیزہ طریقہ یہی ہے کہ اس سے باز رہو۔ اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے۔
اللہ تعالیٰ نے اس ناپسندیدہ عمل سے گریز کرنے کا ذکرکرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اس سے بچنا بھی تزکیے کے زمرے میں آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
ٰٓیاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوتًا غَیْرَ بُیُوتِکُمْ حَتّٰی تَسْتَاْنِسُوا وَتُسَلِّمُوْا عَلٰٓی اَھْلِھَا ط ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ o فَاِِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فِیْھَآ اَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوْھَا حَتّٰی یُؤْذَنَ لَکُمْ وَاِِنْ قِیْلَ لَکُمُ ارْجِعُوْا فَارْجِعُوْا ھُوَ اَزْکٰی لَکُمْ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ o (النور ۲۴:۲۷،۲۸) اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو جب تک کہ گھر والوں کی رضا نہ لے لو اور گھروالوں پر سلام نہ بھیج لو، یہ طریقہ تمھارے لیے بہتر ہے۔ توقع ہے کہ تم اس کا خیال رکھو گے۔ پھر اگر وہاں کسی کو نہ پائو داخل نہ ہو جب تک کہ تم کو اجازت نہ دی جائے۔ اور اگر تم سے کہا جائے کہ واپس چلے جائو تو واپس ہوجائو۔ یہ تمھارے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی ذات کس قدر ہمدرد، مصلح اور انسانوں کی مددگار ہے کہ وہ ان اسباب کا خاتمہ کرنے کی بھی فکر کرتی ہے جو کسی شخص کو اس بُرائی میں مبتلا ہونے پر اُکساتے ہوں ، اس کے لیے مواقع بہم پہنچاتے ہوں یا اس پر مجبور کردیتے ہوں۔
جاہلیت میں اہلِ عرب کا طریقہ یہ تھا کہ وہ صبح بخیر، شام بخیر کہتے ہوئے بے تکلف ایک دوسرے کے گھر میں گھس جاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی اصلاح کے لیے یہ اصول مقرر کیا کہ ہرشخص کو اپنے رہنے کی جگہ میں تخلیے (privacy) کا حق ہے اور کسی دوسرے شخص کو اس کے تخلیے میں اس کی مرضی اور اس کی اجازت کے بغیر دخل انداز ہونے کی اجازت نہیں دی۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تخلیے کے اس حق کو صرف گھروں میں داخل ہونے کے سوال تک محدود نہیں رکھا بلکہ اسے ایک عام حق قرار دیا جس کی رُو سے دوسرے کے گھر میں جھانکنا، باہر سے نگاہ ڈالنا، حتیٰ کہ دوسرے کا خط اس کی اجازت کے بغیر پڑھنا بھی ممنوع ہے۔ حضرت ثوبانؓ (نبیؐ کے آزاد کردہ غلام) کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا: اذا دخل البصر فلا اذن ’’جب نگاہ داخل ہوگئی تو پھر خود داخل ہونے کی اجازت مانگنے کا کیا موقع رہا‘‘(ابوداؤد)۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپناقاعدہ یہ تھا کہ جب کسی کے ہاں تشریف لے جاتے تو آپؐ دروازے کے دائیں یا بائیں کھڑے ہوکر اجازت طلب فرمایا کرتے (ابوداؤد)۔ کوئی ایسی اور بھی احادیث مختلف کتب ِ حدیث میں منقول ہیں۔ اگر تین دفعہ دروازہ کھٹکھٹانے کے بعد صاحب ِ خانہ کی طرف سے اجازت نہ ملے یا وہ ملنے سے انکار کر دے تو واپس چلے جانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ہی پاکیزہ طریقہ کہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہی تزکیہ ہے جو نفسانی خواہشات، بے راہ روی اور فحش اقدام سے بچاتا ہے۔
ان تعلیمات کے بعد پھر ربِ جلیل نے محسنِ انسانیتؐ کو اہلِ ایمان کے تزکیے کے لیے ایک انداز کا حکم فرمایا ہے:
قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوا مِنْ اَبْصَارِھِمْ وَیَحْفَظُوا فُرُوْجَھُمْ ط ذٰلِکَ اَزْکٰی لَھُمْ ط اِِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ م بِمَا یَصْنَعُوْنَ o(النور ۲۴:۳۰) اے نبیؐ! مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے، جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اس سے باخبر رہتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیوی یا اپنی محرم خواتین کے سوا کسی دوسری عورت کو نگاہ بھر کر دیکھنے کو حلال نہیں قرار دیا ہے بلکہ اس دیدہ بازی کو آنکھ کی بدکاری سے تعبیر کیا ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے کہ آدمی اپنے تمام حواس سے زنا کرتا ہے۔ بُری نظر سے دیکھنا آنکھوں کا زنا ہے۔ لگاوٹ کی بات چیت زبان کا زنا ہے، آواز سے لذت لینا کانوں کا زنا ہے۔ ہاتھ لگانا اور ناجائز مقصد کے لیے چلنا ہاتھ اور پائوں کا زنا ہے (بخاری، مسلم، ابوداؤد)۔ آںحضورؐ سے اس نظربازی کے سلسلے میں بہت سی احادیث منقول ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک نظر کے بعد دوسری نظر نہ ڈالی جائے، فوراً پھیر لی جائے یا نیچی کرلی جائے۔ مسلم، ابوداؤد اور احمد نے نبی کریمؐ کا ارشاد نقل کیا ہے: کوئی مرد کسی مرد کے ستر کو نہ دیکھے، کوئی عورت کسی عورت کے ستر کو نہ دیکھے۔ الغرض جس شخص نے اپنی آنکھوں کی حفاظت کی اس نے تزکیہ کیا اور گناہوں سے محفوظ ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس پاکیزگی کے عمل کو پسند فرمایا ہے۔
ستر کی حفاظت کے لیے محسنِ انسانیتؐ کے بہت سے ارشادات کتب ِ سنن میں موجود ہیں۔ آپؐ نے تو یہاں تک فرما دیا: فاللّٰہ تبارک وتعالٰی احق ان یستحیا منہ ’’تو اللہ تعالیٰ اس کا زیادہ حق دار ہے کہ اس سے شرم کی جائے‘‘۔(ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ)
ہم دیکھتے ہیں کہ مغربی تہذیب نے کیا گل کھلائے ہیں۔ گھر، ٹی وی کی یلغار کی زد میں ہیں۔ کیا اشتہار، کیا ہوس ناکی سے لبریز ڈرامے اور کیا نغمہ و سُرود سب فحاشی کی دعوت دیتے ہیں۔ ان پروگراموں کو اہتمام سے دیکھا جاتا ہے۔ غضِّ بصر کا لحاظ کہاں رکھا جاتا ہے۔ ایسے ہی نفس پرستی کے ارتکاب سے ربِ جلیل منع فرماتا ہے اور ان فتنوں سے محفوظ رہنے کے لیے غضِّ بصر کا حکم دیتا ہے بلکہ فرماتا ہے: ذٰلِکَ ازکٰی لھُم کہ ان کے لیے نظربازی سے بچنا اور شرم گاہوں کی حفاظت کرنا پاکیزہ عمل ہے۔ یعنی یہی تو تزکیہ ہے۔ اسی طرح ہادیِ برحقؐ سے یہ بھی اسی سورہ میں فرمایا جارہا ہے: وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَہُنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ …(النور ۲۴:۳۱) اور ’’اے نبیؐ! مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچاکر رکھیں،اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، اور اپنا بنائوسنگھار نہ دکھائیں‘‘۔ اس کے بعد ان محرمان کا ذکر ہے جن کے سامنے بغیر پردہ جاسکتی ہیں۔
سورئہ لیل کا مطالعہ کیجیے، جس میں زندگی کے دو مختلف راستوں کا فرق اور ان کا انجام واضح کیا اور ان نتائج کو دل میں اُتارا گیا ہے، جن میں ایک بھلائی کا راستہ ہے اور دوسرا بُرائی کا راستہ۔ پہلی قسم کی خصوصیت کو بھی دو حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ پہلی یہ کہ انسان مال دے، خداترسی اور پرہیزگاری اختیار کرے اور بھلائی کو بھلائی مانے۔ دوسری یہ کہ انسان بخل کرے۔ خدا کی رضا اور ناراضی کی فکر سے بے پروا ہوجائے اور بھلی بات کو جھٹلا دے۔ یہ دونوں راستے نتائج کے لحاظ سے ہرگز یکساں نہیں۔ پہلے طریقے میں بھلائی کرنے والے کے لیے بدی کرنا مشکل ہوجائے گا اور دوسرے طرزِعمل میں اللہ تعالیٰ اس کے عامل کے لیے زندگی کے بدی کے راستے کو سہل کردے گا۔
سورہ کے دوسرے حصے میں تین حقیقتیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ نے انسان کو بے خبر نہیں چھوڑا، اس نے یہ راستہ بتا دینا اپنے ذمے لیا ہے کہ زندگی میں انسان کے لیے سیدھا راستہ کون سا ہے۔ دوسری حقیقت یہ بیان کی گئی ہے کہ دنیا اور آخرت دونوں کا مالک اللہ ہے۔ دنیا مانگو تو دنیا دے گا۔ آخرت کی فلاح مانگو تو فلاح دے گا۔ تیسری حقیقت یہ بیان کی گئی ہے کہ جو بدبخت اس بھلائی کو جھٹلائے گا، جو رسولؐ اور کتاب کے ذریعے سے پیش کی گئی ہے، اس کے لیے بھڑکتی ہوئی آگ تیار ہے۔ اور جو خدا ترس آدمی پوری بے غرضی کے ساتھ محض رضاے الٰہی کے لیے اپنا مال راہِ خیر میں خرچ کرے گا، اس کا رب اس سے راضی ہوگا اور اسے اتنا کچھ دے گا تو وہ خوش ہوجائے گا۔
اس سورت کی آخری پانچ آیات تزکیہ اور اس کے انعامات کو بیان کرتی ہیں:
وَسَیُجَنَّبُھَا الْاَتْقَی o الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَہٗ یَتَزَکّٰی o وَمَا لِاَحَدٍ عِنْدَہٗ مِنْ نِّعْمَۃٍ تُجْزٰٓی o اِِلَّا ابْتِغَآئَ وَجْہِ رَبِّہٖ الْاَعْلٰی o وَلَسَوْفَ یَرْضٰی o (اللیل ۹۲:۱۷-۲۱) جو بڑا پرہیزگار ہے وہ بچا لیا جائے گا۔ جو اپنا مال دیتا ہے تاکہ پاک ہو۔ وہ اس لیے نہیں دیتا کہ اس پر کسی کا احسان ہے، جس کا وہ بدلہ اُتارتا ہے، بلکہ اپنے خداوند اعلیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے دیتا ہے اور وہ عنقریب خوش ہوجائے گا۔
یہی رضاے الٰہی کا حصول ہی تو حقیقی تزکیہ ہے، جو انسان کی متاعِ آخرت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو واضح طور پر بتلا دیا ہے کہ شیطان تمھارا کھلا دشمن ہے۔ اس کی شیطنت صحرا بہ صحرا، دریا بہ دریا، کو بہ کو پھیلی ہوئی ہے۔ کیسے کیسے وساوس، کیسے کیسے حربے اور کیسے کیسے نفس پرستی کے ہچکولے اس کی سرشت میں جلا پاتے ہیں کہ ہرانسان کو صراطِ مستقیم سے بھٹکا دیتا ہے۔ حقیقتاً وہ ہمارا ازلی دشمن ہے۔ اسی لیے تو خالقِ بنی نوع انسان نے ہمیں متنبہ کیا ہے:
ٰٓیاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ط وَمَنْ یَّتَّبِعْ خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ فَاِِنَّہٗ یَاْمُرُ بِالْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِ ط وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہٗ مَا زَکٰی مِنْکُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَبَدًا وَّلٰـکِنَّ اللّٰہَ یُزَکِّی مَنْ یَّشَآئُ وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ o(النور ۲۴:۲۱) اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، شیطان کے نقشِ قدم پر نہ چلو۔ اس کی پیروی کوئی کرے گا تو وہ اسے فحش اور بدی ہی کا حکم دے گا۔ اگر اللہ کا فضل اور اس کا رحم و کرم تم پر نہ ہوتا تو تم میں سے کوئی شخص پاک نہ ہوسکتا۔ مگر اللہ ہی جسے چاہتا ہے پاک کردیتا ہے،اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔
اس آیت سے قبل اس سورت میں واقعۂ افک کا تذکرہ کیا ہے، جس میں اُم المومنین حضرت عائشہؓ پر تہمت لگائی گئی تھی، مگر اس کے بارے میں ربِ علیم و خبیر نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ تم نے حُسنِ ظن کیوں نہ کیا، سوے ظن کیوں کیا۔ اس کے بعد اس آیت میں اہلِ ایمان کو خبردار کیا ہے کہ شیطان کے نقشِ قدم کی پیروی نہ کرو۔ وہ تو فحش اور بدی کی طرف بلاتا ہے۔ تم لوگ نہیں جانتے اس طرح کی ایک ایک حرکت کے اثرات معاشرے میں کہاں کہاں تک پہنچتے ہیں۔ کتنے افراد متاثر ہوتے ہیں اور اس اجتماعی زندگی کے نقصانات کتنے ہیں جو اللہ ہی خوب جانتا ہے۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں نہیں ہیں، بہت بڑی باتیں ہیں۔ شیطان کے ان حربوں سے بچو۔ ان وساوس کی زد میں آکر کوئی شخص بھی پاک صاف نہیں ہوسکتا۔
قرآنِ حکیم نے نفسِ انسانی کے تزکیے کے لیے رہنمائی دی ہے اور بتلا دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کا تزکیہ کرتا ہے۔ انبیاے کرام ؑ کو اہلِ ایمان کا تزکیہ کرنے کا حکم دیتا ہے اور پھر اہلِ ایمان کو خود تزکیہ کی روش اختیار کرنے کی ہدایت فرماتا ہے تاکہ اس کے بندے نیکی، خداخوفی اور فضائلِ اخلاق سے آراستہ ہوکر اس کے پسندیدہ بندے بن جائیں اور دنیوی اور اُخروی کامیابی سے ہم کنار ہوں۔
قرآنِ کریم نے تزکیۂ نفس کے اور بھی عوامل کا ذکر کیا ہے۔ تقویٰ اختیار کریں، انفاق فی سبیل اللہ کو اپنی فائدہ مند تجارت بنائیں، باطنی صفات میں اخلاص کو کلید ِ تزکیہ بنائیں۔ ذکروفکر سے تزکیے میں مدد لیں اور خلوصِ دل سے استغفار کے لیے نماز، زکوٰۃ اور فریضۂ حج کو اپنی فلاح کا ذریعہ بنائیں۔ چنانچہ دل کی گہرائیوں میں اُتار لیں کہ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی o وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰی o (الاعلٰی ۸۷:۱۴،۱۵) ’’فلاح پا گیا وہ جس نے پاکیزگی اختیار کی اور اپنے رب کا نام یاد کیا پھر نماز پڑھی‘‘۔
سیرت نگار بیان کرتے ہیں کہ نبوت کا تیسرا سال تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت فرمائی: فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ ، ’’جس چیز کا آپؐ کو حکم دیا جا رہا ہے اس کا اعلان کردیجیے‘‘ (الحجر۱۵:۹۴)۔ اس حکم کی تعمیل کرنے کے لیے حضوؐر صفا کی پہاڑی پر چڑھ گئے۔ اہلِ عرب کا دستور تھا کہ جب قوم کو کسی تباہ کن حملے سے خبردار کرنا ہوتا، تو اعلان کرنے والا، جسے النذیر العریاں کہا جاتا، کپڑے اُتار کر واصباحًا (لوگو، صبح صبح ٹوٹ پڑنے کی خبر لو) کا نعرہ لگاتا۔ ہر طرف سے لوگ دوڑ پڑتے۔ حضوؐر نے طریقہ وہی اختیار کیا، مگر اسے کپڑے اُتارنے کی بے شرمی سے پاک کر دیا۔ آپؐ کے واصباحًا یامعشرقریش کی پکار بلند کرتے ہی ہرطرف سے لوگ جمع ہونا شروع ہوگئے۔ مکہ کی بستی چھوٹی سی تھی، اور اس وقت صفا کی پہاڑی کھلے میدان میں تھی، اور آج سے بلند تر ہی ہوگی۔ بہت سے خود آگئے، جو نہ آسکا اس نے اپنے عوض میں کسی کو بھیج دیا۔
جب سب جمع ہوگئے تو آپؐ نے فرمایا: تم مجھے بتائو کہ تم مجھے سچا سمجھتے ہو یا جھوٹا؟
سب نے ایک آواز سے کہا: ہم نے کوئی غلط بات تمھارے منہ سے نہیں سنی۔ ہم یقین کرتے ہیں کہ تم صادق اور امین ہو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میں تم سے کہوں کہ پہاڑی کے پیچھے سے راہ زنوں کا ایک مسلح گروہ آ رہا ہے جو مکہ پر حملہ آور ہوگا، تو کیا تم اس کا یقین کرلو گے؟ (جب کہ میں پہاڑی کی چوٹی پر کھڑا ہوں اور تم اس کے نیچے ہو، میں پہاڑی کے ادھر بھی دُور تک دیکھ رہا ہوں، اور اُدھر بھی)۔
لوگوں نے کہا: بے شک ، کیوں کہ تم کو ہم نے ہمیشہ سچ بولتے دیکھا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو یقین کرو کہ موت تمھارے سر پر آرہی ہے،اور تمھیں اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے۔ (کیوںکہ میں عالمِ آخرت کو ایسے ہی دیکھ رہا ہوں جیسا تم دنیا کو)۔ اگر تم اللہ سے ملاقات پر ایمان نہ لائو گے تو میں تمھیں ایسے ہولناک عذاب سے خبردار کرتا ہوں جو تمھارے سامنے آنے والا ہے۔ (بخاری، مسلم، احمد، رحمۃ للعالمین، ج۱)
یہ آپؐ کا اپنی قوم سے پہلا خطاب تھا۔ دعوت و اصلاح کے کارِعظیم کے سلسلے میں یہ خطاب کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ اس لیے اس کے موضوعات کو بڑے غور سے دیکھیے: نبوت کے منفرد اور بلند مقام کا اعلان و اقرار بھی ہے، جہاں سے آپؐ اس عالم کو دیکھ رہے ہیں، اور اس کی خبر دے رہے ہیں، جسے کوئی نیچے کھڑا ہونے والا اپنے حواس اور عقل کے بَل پر نہیں دیکھ سکتا۔ اُس عالم کے بارے میں علم کے بغیر اِس عالم کے سدھرنے کی کوئی سبیل نہیں، اور علم کے لیے نبیؐ پر اعتمادویقین کے علاوہ کوئی ذریعہ اور راستہ نہیں۔ آپؐ کی صداقت و امانت کی تصدیق و شہادت بھی ہے۔ آپؐ کی یہی صداقت ہے جو رسالت کے بخشے ہوئے علوم و اخبار اور احکام کا قطعی ثبوت ہے۔ لیکن اصل قابلِ غور چیز تو پیغام کا لب ِ لباب ہے: موت سر پر کھڑی ہے، اور موت کے بعد اللہ سے ملاقات یقینی ہے، زندگی کا حساب کتاب بھی، اعمال کی جواب دہی بھی۔ اس لیے بس اس کے عذاب سے بچنے کی فکر کرو، اس سے ملاقات کی تیاری میں لگ جائو۔ یہ ملاقات اور جزا و سزا اسی طرح حقیقی ہے جس طرح (اس زمانے میں) منہ اندھیرے، اچانک راہ زنوں کی غارت گری۔
یہ پیغام کوئی پہلے خطابِ عام ہی کا لب ِ لباب نہ تھا۔ اس کے بعد پے درپے خطبات کا ایک تانتا بندھ گیا۔ مکہ میں یہ خطبے بیش تر آسمان سے نازل ہو رہے تھے۔ مشکل ہی سے کوئی خطبہ ایسا ہوتا جو اللہ سے ملاقات اور اس کے سامنے اعمال کی جواب دہی کی تیاری کے لیے تحریک و ترغیب اور تشویق و تاکید سے خالی ہو۔ جب کہ اکثر کا تو واحد مُدعا یہی موضوع ہوتا۔ بیان کبھی مختصر ہوتا، کبھی طویل۔ آہنگ کبھی انتہائی تیزوتند، کبھی قرنوں کی واردات پبلک جھپکتے گزر جاتی، کبھی ایک لمحے کی رُوداد قرنوں ختم ہونے میں نہ آتی۔ کبھی مستقبل ماضی بن جاتا، کبھی ماضی مستقبل، مژدہ جاں فزا یا اندوہِ جاں گسل کی صورت میں۔ لیکن اثرآفرینی کا معجز نما کمال تھا کہ کم نہ ہوتا۔ جو گھڑی صرف پہاڑی والا دیکھ رہا تھا۔ وہ نیچے سننے والوں کے لیے بھی الواقعۃ اور الحاقۃ بن جاتی۔ جو بہت دُور تھی، وہ القارعۃ بن کر ان کے دل اور زندگی کا دروازہ کھڑکھڑانے لگتی۔ جس کی پرچھائیں بھی نہ دیکھی تھیں، وہ الغاشیۃ بن کر حواس پر چھاجاتی۔
یہی خطبے حضوؐر شب و روز لوگوں کو سناتے۔ یہی خطبے ایمان لانے والے راتوں کو کھڑے ہوکر نمازوں میں پڑھتے۔ یہی سننے والوں کو کھینچتے اور جمع کرتے، یہی آنے والوں کے دلوں کی دنیا بدلتے، انھیں نیا انسان بناتے۔ ہرچیز کی بنیاد رب سے ملاقات کی تیاری کا ہی پیغام تھا۔
یہ سب آسان خطبے قرآنِ مجید میں موجود ہیں۔ ان کو پڑھ لیجیے۔ آپ کو خود بہ خوبی معلوم ہوجائے گا کہ وہ کیا پیغام تھا جس نے دلوں کے روگ دُور کر دیے، بگڑی زندگیوں کو سنوار دیا، انسان ہی کا مقدر نہیں بدل دیا کہ فانی زندگی کے عوض ابدی جنت اس کا نصیب بن گئی، قوم کا بھی مقدر بدل دیا کہ اس کے جاں بہ لب جسم میں زندگی کی لہر دوڑ گئی، اسے امامت ِ عالم اور جنت ِارضی نصیب ہوگئی۔
مدینہ میں حیاتِ اجتماعی کی ضروریات کو ترجیح ضرور حاصل ہوئی، اس کے اصول اور ضوابط بیان ہوئے، جہاد اور انفاق کی تاکید ہوئی، اُمت کے جسد کا ڈھانچا کھڑا ہوا۔ لیکن جب بھی کوئی خطبہ یہ تعلیمات لے کر نازل ہوا، حیاتِ اُخروی اور لقاے رب، حساب اور اعمال کی جواب دہی، جنت اور جہنم کا بیان اسی طرح موجود تھا جس طرح ہڈیوں کے ساتھ گوشت اورخون۔ اور اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی برابر خطبے دے رہے تھے۔ یہ خطبے مختصر ہوتے، لیکن ہرخطبے میں کوہِ صفا کے خطبہ اوّل کا نقش موجود ہوتا۔ ہرگفتگو میں اسی کے مدعا کی تذکیر ہوتی۔ ہرخطبے میں تقویٰ کی وصیت اور تاکید ہوتی۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو قرآن کی یہ ساری تعلیمات اسی طرح بے اثر رہتیں جس طرح آج ہیں۔ نہ کردار کی قوت ہوتی، نہ عزم کی پختگی، نہ حوصلوں کی بلندی، نہ جہاد کے لیے سرفروشی، نہ شوقِ شہادت، جن کے بغیر قرآن زندگی میں جلوہ گر نہیں ہوسکتا۔
اسی لیے پیغامِ رسالتؐ کا لب ِ لباب اور اصلاح کے نسخے کا مرکز و محور یہی ٹھیرا کہ رب سے ملاقات اور جواب دہی کے لیے تیاری کی فکر اور تڑپ سے دلوں کو بھر دیا جائے۔ ایمان باللہ کی حقیقت بھی یہی فکر او رتڑپ قرار پائی، اور ایمان بالرسالت تو عمل کی شکل اختیار ہی نہیں کرسکتا جب تک یہ فکر دلوں میں نہ اُترے۔ جو لوگ تخلیقِ کائنات میں غوروفکر کرتے اور ہرحال میں اللہ کو یاد رکھتے، ان کے دل کی پیاس یہی ہوتی کہ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلًا سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ o رَبَّنَآ اِنَّکَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ اَخْزَیْتَہٗ وَ مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍo (اٰلِ عمرٰن ۳:۱۹۱-۱۹۲) جو صداے رسالت پر لبیک کہتے ان کے دل بھی اسی اضطراب میں مبتلا ہوجاتے کہ فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَ کَفِّرْعَنَّا سَیِّاٰتِنَا وَ تَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ o رَبَّنَا وَاٰتِنَا مَا وَعَدْتَّنَاعَلٰی رُسُلِکَ وَ لَا تُخْزِنَا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اِنَّکَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَادَo (اٰلِ عمرٰن ۳:۱۹۳-۱۹۴) شرک اورفکرِ آخرت کے درمیان بھی لازم و ملزوم کا تعلق ہے۔ جب سب خدائوں کو چھوڑ کر، پتھر کے ہوں یا ہوا و ہوس کے، صرف خداے واحد کو معبود و حاکم بنانے کی بات ہوتی ہے، تو انھی کے دل کڑھنے لگتے ہیں جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے (الزمر ۳۹:۴۵)۔ جب بنی اسرائیل کو اصلاح کی راہ سجھائی گئی، تو انھیں بھی بار بار یہی تاکید کی گئی کہ اس دن کے ہولناک نتائج سے بچو، جس دن کوئی کسی کے کام نہ آئے گا (آدمی اپنے بھائی سے، اپنے ماں باپ سے، اپنی بیوی اور بچوں سے دُور بھاگے گا)، کسی کی سفارش نہ چلے گی، کوئی فدیہ قبول نہ کیا جائے گا (کہ روے زمین کی ساری دولت بے قیمت ہوجائے گی)۔ کہیں سے کوئی مدد نہیں کرسکے گا (البقرہ ۲:۱۲۳)۔ نماز اور صبر کو احیاے اُمت کے لیے درکار بنیادی وسائل میں کلیدی مقام حاصل ہے۔ ان کے لیے استعداد کا راز خشوع میں رکھ دیا گیا، اور بتایا کہ یہ خشوع بھی انھی کو حاصل ہوتا ہے جن کو یہ خیال اور دھڑکا لگا رہتا ہے کہ آخرکار انھیں اپنے رب سے ملنا ہے اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔
٭
آیئے، دیکھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے ملاقات کو، اس کے عذاب کے خوف اور جنت کی طلب کو، کس طرح اپنی قوم اور اپنے ساتھیوں کے لیے ایک زندہ تجربہ بنادیا تھا۔ آخرت کی زندگی کے بارے میں قرآن کے پے درپے خطبات کی بارش اور حضوؐر کے اپنے خطبے اس کارنامے کی بنیاد تھے، اس یقین کی غذا تھے۔مگر عمل کی دنیا میں یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رات دن کا اسوہ تھا جو ان غیبی حقائق کو زندگی میں سمو کر ایک نئے کلچر اور ایک نئے انسان کی تخلیق کررہا تھا۔ یہ اسوہ اسوئہ حسنہ تھا، ہر اس شخص کے لیے ’’جو اللہ اور یومِ آخر کا اُمیدوار ہو رہے اور کثرت سے اللہ کو یاد رکھے‘‘ (الاحزاب ۳۳:۲۱)۔ یہ اسوئہ رسولؐ کی دین تھی، یہی اس کی خصوصیات تھیں۔
صفا کی پہاڑی کے خطاب سے آغاز ہوا۔ پھر ہر قدم پر آخرت کی فلاح کو اور جنت کی ابدی زندگی ہی کو مطلوب و محبوب بنا دیا گیا۔ یہ کام خانقاہی اسلوب پر نہ ہوا، مجاہدانہ نہج پر ہوا۔ ایک طرف، جب حضرت خباب بن الارتؓ نے، جنھیں انگاروں پر لٹایا جاتا تھا یہاں تک کہ چربی کے پگھلنے سے آگ بجھ جاتی تھی، آپؐ سے مشرکین کے ظلم و ستم کے بارے میں دعا کرنے کی درخواست کی، توآپؐ کا چہرئہ مبارک سرخ ہوگیا اور فرمایا: ’’اللہ ضرور بالضرور اپنے دین کو پورا کرکے رہے گا یہاں تک کہ تم دیکھ لو گے کہ ایک سوار تنہا صنعا سے حضرموت تک آئے گا ، اور سواے اللہ عزوجل کے اسے کسی کا ڈر نہ ہوگا۔مگر تم لوگ جلدی کرتے ہو‘‘ (بخاری)۔ دوسری طرف، جب آپؐ کا گزر حضرت یاسرؓ، حضرت عمارؓ اور ان کے گھر والوں پر ہوا جنھیں بدترین تعذیب کا شکار بنایا جا رہا تھا، تو فرمایا: صبرا یا اٰل یاسر، ان موعدکم الجنۃ، ’’اے آلِ یاسر! صبر کرو، تمھارے لیے جنت کا وعدہ ہے‘‘ (احمد، البیہقی)
ایک طرف، مکہ کے گلی کوچوں میں حضوؐر کی اس بشارت کا چرچا عام تھا کہ ’’یہ ایک کلمہ قبول کرلو، سارا عرب تمھارا مطیع ہوگا، سارا عجم تمھارا ہوگا‘‘ (طبری)۔ دوسری طرف، جب ۷۰؍انصار وادیِ عقبہ میں حضوؐر سے بیعت کے لیے حاضر ہوئے حضرت اسعد بن زرارہؓ، ابوہیثم بن تیہانؓ اور عباس بن عبادہؓ کھڑے ہوگئے اور کہا: بھائیو! تم لوگوں کو معلوم ہے تم کس چیز پر اس شخص سے بیعت کر رہے ہو؟ یہ تمام سرخ و سیاہ انسانوں کے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔ یہ تمام عرب کی دشمنی مول لینا ہے۔ (وہ سب مل کر تم کو ایک تیر سے نشانہ بنا لیں گے)۔ تمھارے اموال ضائع ہوں گے۔ تمھارے اشراف قتل ہوں گے۔ پس اگر تمھیں ان سب باتوں پر صبر کی طاقت ہے، اگر تمھیں یہ بات پسند ہے کہ اللہ کے راستے میں شہید ہوجائو اور اپنے مال اور اولاد سے ہاتھ دھو لو، تو آپؐ کو اپنے ساتھ اپنی سرزمین پر لے چلو۔ اگر تم اپنے نفس میں خوف و خطر محسوس کرتے ہو تو آپؐ کو ابھی چھوڑ دو۔ انصارنے کہا: ہم آپؐ کو لے جائیں گے، خواہ مال تباہ ہوں یا اشراف قتل کیے جائیں۔ لیکن یارسولؐ اللہ! اگر ہم اس وعدے میں پورے اُترے تو ہمارے لیے کیا ہے؟
اتنے عظیم اور خطرناک عہد کے صلے میں، زبانِ رسالتؐ پر صرف ایک ہی چیز کا وعدہ تھا۔ آپؐ نے فرمایا: جنت۔
حضرت بشیر بن حفاصیہؓ خدمت مبارک میں بیعت کے لیے حاضر ہوئے۔ حضوؐر نے بیعت کی شرائط بیان کیں تو بولے: دو باتوں کی مجھ میں طاقت نہیں۔ ایک زکوٰۃ کی، خدا کی قسم! میرے پاس دس اُونٹنیاں ہیں اور وہی میرا ذریعہ معاش ہیں۔ دوسرے، جہاد کی، مَیں کمزور آدمی ہوں اور اگر دشمن سے مقابلے میں بھاگ کھڑا ہوا تو اللہ کے غضب کا مستحق ہوجائوں گا۔ یہ سن کر حضوؐر نے دست ِمبارک سمیٹ لیا۔ پھر آپؐ نے اپنا ہاتھ ہلاتے ہوئے فرمایا: اے بشیر! نہ صدقہ دینے پر تیار ہو نہ جہاد پر۔ پھر کیسے جنت میں جائو گے؟ یہ سن کر حضرت بشیرؓ نے تمام مطلوبہ باتوں پر بیعت کرلی۔
رسول اللہ کی تربیت کے نتیجے میں، موت کے بعد زندگی اور جنت دوزخ، ایک آنکھوں دیکھی حقیقت کی مانند بن گئے تھے۔ ایک دفعہ حضوؐر نے سورج گرہن کی بڑی طویل نماز پڑھائی اور نماز کے بعد چند کلمات ارشاد فرمائے۔ صحابہؓ نے پوچھا: یارسولؐ اللہ! ہم نے دیکھا کہ جب آپؐ کھڑے تھے ، آپؐ نے ہاتھ بڑھا کر کوئی چیز پکڑنا چاہی۔ پھر ہم نے دیکھا کہ آپؐ پیچھے ہٹے؟ آپؐ نے فرمایا: میں نے جنت میں دیکھا، اور مَیں نے ہاتھ بڑھایا تاکہ انگور کا ایک خوشہ لے لوں۔ اگر مَیں یہ لے لیتا تو تم رہتی دنیا تک اسے کھاتے۔ پھر مَیں نے جہنم کی آگ کو دیکھا، اور میں پیچھے ہٹا کیوں کہ میں نے ایسا ہولناک منظر کبھی نہیں دیکھا۔ (بخاری، مسلم)
یہ نہ سمجھیے کہ اللہ سے ملاقات کی تیاری کی فکر اور جنت کی طلب سب میں پوری طرح غالب ہوگئی تھی۔ نہیں، جو لوگ حضوؐر کے ساتھ چل رہے تھے، ایمان و یقین کے لحاظ سے ان کے درجات میں بڑا فرق تھا۔ ان میں عام بھی تھے اور خاص بھی۔ اصحاب الیمین بھی تھے اور السابقون بھی۔ یہ بھی نہ سمجھیے کہ ایسے کچھ کاملین بھی تھے جن پر ہروقت ایک ہی کیفیت طاری رہتی تھی۔ نہیں، حضرت حنظلہؓ اور حضرت ابوبکرؓ جیسے جلیل القدر صحابہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضوؐر کی خدمت میں حاضر ہوتے، آپؐ جنت اور دوزخ کا تذکرہ فرماتے، ہمیں ایسا معلوم ہوتا گویا ہم نے سب کچھ آنکھوں سے دیکھ لیا ہے۔ پھر ہم آپؐ کے پاس سے آتے، بیوی بچوں میں پہنچتے، ہنستے کھیلتے، کھیتی باڑی میں مشغول ہوتے، وہ سب باتیں بھول جاتے۔ دونوں حضوؐر کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ ہم تو منافق ہوگئے، اور اپنا یہ حال بیان کیا۔ آپؐ نے فرمایا: اگر تم اپنے اہل و عیال میں پہنچ کر اسی حالت میں رہو جس حال میں میرے پاس رہتے ہو تو فرشتے تمھاری خواب گاہوں میں اور راستوں میں تم سے مصافحہ کریں (یعنی تم فرشتے ہوجائو)۔ لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے، اور کبھی ایسا نہیں ہوتا۔
٭
اللہ سے ملاقات اور اعمال کی جواب دہی کے لیے تیاری اور جنت کی طلب و جستجو میں یکسوئی اور انہماک کے ساتھ لگ جانے کے معنی یہ ہرگز نہیں کہ دنیا کو ترک کرنا ہوگا۔ جنت دنیا ہی کے ذریعے کمائی جاسکتی ہے۔ اپنے مقام پر دنیا کا ہر کام جو اللہ کی حدود سے تجاوز نہ کرے، اور اللہ کے لیے کیا جائے، عین عبادت ہے اور جنت میں لے جائے گا،خواہ وہ شکل و صورت میں خالص دنیاداری ہو۔اس کے برخلاف جو کام بھی ہو، خواہ وہ شکل و صورت میں ٹھیٹھ دینی کام ہو، جنت سے دُور اور جہنم سے قریب لے جائے گا۔ میدانِ جہاد میں شہادت جیسا عظیم کام بھی اگر نام و نمود کے لیے ہو تو سر کے بل جہنم میں گرائے گا۔ مال و دولت کمانے جیسا خالص دنیاوی کام، اطاعت ِ الٰہی کے مطابق اور مقاصد الٰہی کے لیے ہو تو جنت کے اعلیٰ درجات پر پہنچا دے گا۔ آخرت پر یقین کے بغیر دنیا نہیں سدھر سکتی، دنیا کی اصلاح کے بغیر آخرت نہیں سنور سکتی۔
یہ سمجھ لیا جائے تو جب حساب کتاب کی فکر غالب ہوجاتی ہے اور جنت مقصود بن جاتی ہے تو دنیا اور کاروبار دنیا انتہائی اہم ہوجاتا ہے۔ دنیا کا ہرلمحہ قیمتی بن جاتا ہے کہ اس سے لازوال لمحات حاصل ہوسکتے ہیں۔ دولت کا ہر حبّہ بیش قیمت خزانہ بن جاتا ہے کہ اس سے ابدی راحت کے خزانے ہاتھ آسکتے ہیں۔ دنیا کا ہر کام اس لیے دل چسپی اور انہماک کا مرکز بن جاتا ہے کہ وہ جنت کے لیے سرمایہ کاری کا موقع ہے۔
دنیا، طالب آخرت کے لیے کتنی اہم ہوجاتی ہے؟ ایک حدیث سے اندازہ لگایئے۔ حضوؐر نے فرمایا: ’’اگر قیامت کی گھڑی آجائے، اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں لگانے کے لیے کھجور کا پودا ہو، اور وہ قیامت کے واقع ہونے سے پہلے لگا سکتا ہو، تو ضرور لگا دے۔ یہ اس کے لیے بڑے اجر کا باعث ہوگا‘‘۔ گویا آخرت کے طالب کا کام یہ نہیں کہ وہ محض گوشوں میں جاکر عبادت اور آہ و زاری میں لگ جائے۔ نہیں، وہ آخری سانس تک اللہ کی زمین میں پودے لگانے اور جس میں اسے خلیفہ بنایا گیا ہے، اسے آباد کرنے میں لگا رہے، اسی لیے جو لوگ حضوؐر کی معرفت، اللہ سے جنت کے عوض اپنی جان و مال کا سودا چکانے کے بعد دنیا میں نکلے۔ انھوں نے دنیا کی بہترین، اعلیٰ ترین تہذیب کی تعمیروتشکیل کی۔ یہ تہذیب اتنی پایدار ثابت ہوئی کہ اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ خدا سے بے نیاز، تہذیب کا اعلیٰ نمونہ رومن امپائر ہے۔ مغربی تہذیب بھی اس کو اپنا مورث اعلیٰ تسلیم کرتی ہے۔ اس کو اپنے عروج تک پہنچنے میں تقریباً ۶۰۰ سال لگے، مگر ایک صدی میں بکھر کر رہ گئی۔ خدا پرست اسلامی تہذیب___ جو اللہ اور اس سے ملاقات کے یقین اور رسولؐ کے اتباع پر قائم ہوئی___ ۸۰سال کے عرصے میں اپنے عروج پر پہنچ گئی۔اس کا زوال ایک ہزار سال کے بعد شروع ہوا، اور اپنی پندرھویں صدی میں وہ پھر مائل بہ عروج ہے۔
یہ غلط فہمی بھی نہیں ہونا چاہیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بعد موت کے لیے تیاری کی دعوت کے معنی یہ ہیں کہ مسلمان پس ماندہ رہیںگے۔ وہ دنیا کا کوئی لطف نہ اُٹھائیں گے، ان کی دنیا اُجڑ جائے گی، اور دنیا میں وہی قومیں غالب اور آگے رہیںگی جو دنیا کے لیے فارغ ہیں۔ نہیں، حضوؐر کے ان پیروکاروں ہی کو دیکھ لیجیے جنھوں نے آپؐ کی اس پکار پر اس طرح لبیک کہا تھا جیساکہ اس کا حق تھا۔ دنیا کا کون سا کام اور کون سا شعبہ ہے جس میں انھوں نے برتری حاصل نہیں کی۔ وہ دنیا کے بہترین فاتح، حکمران اور منتظم ثابت ہوئے۔ زینت کے طیب سامان میں سے کون سا سامان ہے جو ان کو حدود اللہ کے اندر دستیاب ہوا اور انھوں نے اسے اپنے اُوپر حرام کرلیا۔ انھوں نے ایک طرف اچھے کھانے بھی کھائے۔ قیمتی لباس بھی پہنے، عمدہ مکان بھی بنائے، مال و دولت بھی خوب کمایا، اسے راہِ خدا میں لٹایا تو اپنے اُوپر بھی خوب خرچ کیا اور اپنے گھروالوں پر بھی۔ دوسری طرف شہر بھی آباد کیے، عمارات بھی تعمیر کیں، صنعت و زراعت کو بھی ترقی دی، علوم و فنون کو بھی فروغ دیا۔
٭
سیّد مودودیؒ لکھتے ہیں: انسان کا انفرادی رویہ اور انسانی گروہ کا اجتماعی رویہ کبھی اس وقت تک درست نہیں ہوتا، جب تک یہ شعور اور یقین انسانی سیرت کی بنیاد میں پیوست نہ ہو کہ ہم کو خداکے سامنے اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔ (تفہیم القرآن، ج۲،ص ۲۶۶)
جہاں خدا کے سامنے حاضری اور جواب دہی کے عقیدے کا اقرار نہ بھی ہو، وہاں بھی کسی نہ کسی کے سامنے جواب دہی کا یقین موجود ہوتا ہے جو انسانی رویوں کو درست و مستقیم رکھتا ہے: قوم کے سامنے، عدالت کے سامنے، اپنے سے بالاتر افراد اور اداروں کے سامنے، کچھ نہ ہو تو اپنے ضمیر کے سامنے بھی۔ خدا کے سامنے، جواب دہی کے نتیجے میں جنت پانے کا شوق اور لالچ نہ ہو، تو بھی معاشرے کی بہتری، انسان کی خدمت، دیانت داری، اداے فرض، ضمیر کے اطمینان اور دل کے سکون جیسی چیزوں کا لالچ اور شوق ہوتا ہے۔ آج جو اقوام مستحکم ہیں، ترقی یافتہ اور مہذب شمار ہوتی ہیں، دنیا کی قیادت کر رہی ہیں، ان کی قوت کا راز اس نوعیت کے کسی شعور اور یقین میں مضمر ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں جواب دہی کا احساسِ مسئولیت بھی مفقود ہے۔ سارے اعمالِ بد دھڑلے سے کیے جاتے ہیں، جو زبانِ حال سے کہتے ہیں کہ: ’’کرلو جو کچھ کرنا ہے، ہمارا کون کچھ بگاڑ سکتا ہے!‘‘ اس کی ایک خاص وجہ ہے۔ اللہ سے ملاقات، اس کے سامنے جواب دہی، اور اس کی جنت کے ملنے کا یقین ہو، تو یہ دل کی توانائی، سیرت کی پختگی، جہاں گیری اور جہاں بانی کا ایک عدیم المثال نسخہ ہے، جس کا مقابلہ کوئی نسخہ نہیں کرسکتا۔ لیکن اگر آخرت اور جنت کا اقرار تو ہو، مگر دل آخرت کی فکر سے خالی ہو، عملاً خدا فراموشی ہو، مقصود ِ زندگی، حصولِ دولت یا جاہ و عزت ہو، پائونڈ اور ڈالر کی بندگی ہو، عیش و عشرت میں مست ہو، تو پھر ایسے دل میں کسی نوعیت کا بھی احساسِ مسئولیت قرار نہیں پکڑسکتا، دنیا سے بلند کسی بھی چیز کی طلب و حرص نہیں سما سکتی۔ خانۂ خالی را دیواں می گیرند۔ جو دل یادِخدا سے خالی ہوجاتا ہے، پھر اس میں اَن گنت خواہشات کے ڈھیروں بت ڈیرہ ڈال دیتے ہیں۔ بالکل یہی حادثہ فاجعہ ہمیں پیش آچکا ہے۔ اب ہرحادثہ اور ہربحران، اسی عظیم حادثے کا نتیجہ ہے۔
چنانچہ آج ہمارے ہاں جو بدترین بحران درپیش ہے، اس سے مستقل طور پر نکلنے کا کوئی راستہ، اس کے علاوہ ممکن نہیں کہ صفا کی پہاڑی کا چراغ ہاتھ میں لے کر راہ بنائی جائے۔ اسلوب دوسرا ہوسکتا ہے، محاورہ دوسرا ہوسکتا ہے، زبان دوسری ہوسکتی ہے، تدبیر دوسری ہوسکتی ہے، حکمتِ عملی دوسری ہوسکتی ہے کیوںکہ ہرزمانے کے آدمیوں کی سمجھ اور زبان، طریقہ اوررسم و رواج علیحدہ ہوتا ہے۔ اس لیے اصلاح و تربیت کے لیے ہر زمانے میں اس زمانے کے موافق جو طریقے ٹھیک ہوں، وہی اختیار کرنے چاہییں۔ مگر روشنی وہی ہوگی، روح وہی ہوگی، مدعا وہی ہوگا، منہج وہی ہوگا، جو صفا کی پہاڑی کے خطاب کا تھا۔ جتنی خدا اور رسولؐ سے محبت کی، اللہ سے ملاقات کی فکر اور تیاری کی، جنت کی طلب اور لالچ کی لہر بڑھے گی اور پھیلے گی اتنی ہی ملک و ملّت کی حالت بہتر ہوگی۔
بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم دنیا یاآخرت کی مغالطہ آمیز اور لاحاصل بحث سے باہر نکلیں، اور یک سُو ہوکر خود کو اور اپنی قوم کو آخرت میں فلاح اور جنت کی جستجو کی راہ پر لگانے میں لگ جائیں۔ اسی سے دنیاوی ترقی کے دروازے کھلیںگے۔ اسی سے آج کے سنگین بحران کا مستقل حل نکلے گا۔ کیوں کہ اسی جستجو اور سعی سے ہوا و ہوس کی حکمرانی ختم ہوگی۔ دنیا کی زینت کی رغبت اور کشش انسان کی فطرت میں ودیعت ہے: ’’لوگوں کے لیے مرغوباتِ نفس، عورتیں، اولاد، سونے چاندی کے ڈھیر، چیدہ گھوڑے، مویشی اور زرعی زمینیں (اور کارخانے) بڑی خوش آیند بنادی گئی ہیں (اٰل عمرٰن ۳:۱۴)۔ ان کی رغبت و محبت کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ ہاں، ان کو اس چیز کی رغبت سے مغلوب کیا جاسکتا ہے جو اللہ کے پاس ہے، بشرطیکہ یہ یقین پیدا ہوجائے کہ جو اس کے پاس ہے وہی بہتر ہے کہ وہ باقی رہنے والا ہے۔ اس کے بعد ہی سینوں میں ہواے نفس کی پرستش مٹ سکے گی،اور ہمارے اجتماعی بحران کے اصل اسباب کا ازالہ ہوسکے گا۔
اس مقصد کے لیے ایک ہمہ گیر جدوجہد برپا کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر اسوئہ رسولؐ کے اتباع میں ہم خود اپنے دل کو جنت سے لگائیں، ہرمعاملے میں اور ہر کام میں جنت کو اپنا مقصود بنانے کی کوشش میں لگ جائیں، اور دوسروں کو بھی اسی طرف متوجہ کرنے کے لیے کوشاں ہوں، تو ہمیں یقین ہے کہ آج بھی جنت کی دعوت میں وہ کشش اور قوت موجو د ہے کہ لوگوں کے دلوں کو مسخر کرلے۔ یہ بظاہر دقت طلب کام ہے، لیکن نیکی بھی متعدی ہوتی ہے اور تیزی کے ساتھ پھیلتی ہے، جس طرح بیماری کی وبا۔ جو اس کے قائل ہوں کہ اپنے دل کو اور دوسرے دلوں کو اس رُخ پر ڈالے بغیر قومی زندگی صحیح رُخ پر نہیں پڑسکتی، ان کا فرض ہے کہ وہ جو کچھ کرسکتے ہوں وہ کرنے کے لیے آگے بڑھیں۔
وَ یٰقَوْمِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَیْہِ یُرْسِلِ السَّمَآئَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا وَّ یَزِدْکُمْ قُوَّۃً اِلٰی قُوَّتِکُمْ وَ لَا تَتَوَلَّوْا مُجْرِمِیْنَo(ھود ۱۱:۵۲) اے میری قوم کے لوگو! اپنے رب سے معافی چاہو، پھر اس کی طرف پلٹو، وہ تم پر آسمان کے دہانے کھول دے گا اور تمھاری موجودہ قوت پر مزید کا اضافہ کرے گا۔ مجرم بن کر (بندگی سے) منہ نہ پھیرو۔
اسلام دینِ حق ہے۔ کلمۂ طیبہ کے اندر اللہ کی وحدانیت، ربوبیت اور حاکم مطلق ہونے کا ایمان وعقیدہ موجود ہے۔ یہ کلمہ پڑھنے کے باوجود بدقسمتی سے آج کے مسلمان بھی ان خرابیوں میں ملوث ہوگئے ہیں جن میں مشرکین عرب مبتلا تھے۔ شگون،فال گیری، جادو اور ٹونے ٹوٹکے اس حد تک ہمارے معاشرے میں رواج پا چکے ہیں کہ بعض اوقات یوں لگتا ہے جیسے یہ معاشرہ اسلامی نہیں جاہلی معاشرہ ہے۔ جادواور فال گیری کا دھندہ کرنے والے معاشرے میں یوں نمایاں ہوگئے ہیں کہ ملک کے درودیوار پر جابجا چاکنگ نظر آتی ہے۔ اب تو یہ بیماری یہاں تک پھیل چکی ہے کہ اخبارات اور ذرائع ابلاغ کے اندر بھی اشتہار بازی کا سلسلہ چل نکلا ہے۔ کالی بلی راستہ کاٹ جائے تو اس سے برا شگون لینا۔ اسی طرح اور مختلف باطل تخیلات، مثلاً کوئی پرندہ دائیں سے بائیں جائے گا تو کامیابی ملے گی اور اگر بائیں سے دائیں جائے گا تو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا وغیرہ وغیرہ۔ جادو گروں نے عام لوگوں کا ذہن مسموم اور ماؤف کردیا ہے۔ محبت میں کامیابی وناکامی، دشمن کو زیرکرنے کے لیے گنڈے، تعویذ کا گھناؤنا دھندہ عام ہوگیا ہے۔ کمزور ایمان اور باطل عقائد کی وجہ سے کاروبار چمکانے کے لیے ان نوسر بازوں سے رجوع، یہ سال کیسا ہوگا اور یہ ہفتہ کیسا؟ غرض کون سی بیماری ہے جو یہاں نہیں پائی جاتی۔ اس معاشرے میں منجّم اور ستاروں کا علم رکھنے کے دعوے دار بھی خوب چاندی بنارہے ہیں۔ بے چارے جہلا نہیں جانتے کہ یہ سب انجم شناس محض دعوے اور اٹکل پچو کے ذریعے ان کی جیبیں کاٹ رہے ہیں۔
بقول اقبالؒ ؎
ترے مقام کو انجم شناس کیا جانے
کہ خاکِ زندہ ہے ُتو ، تابعِ ستارہ نہیں
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جس معاشرے میں تشریف لائے وہ مکمل اندھیرے میں ڈوبا ہوا جاہلی معاشرہ تھا۔ آپؐ نے اس معاشرے کو پہلے باطل عقائد سے پاک کیا، پھر صحیح اسلامی عقائد کے مطابق اعمال اختیار کرنے کی تربیت دی اور بالکل ایک نئی ملت کو وجود بخشا، جس کا ہر کام قرآن وسنت اور دلیل ومنطق کے معیار پر پورا اترتا تھا۔ مشرکین عرب ماہِ صفر اور ماہِ شوال کو منحوس سمجھتے تھے، حضرت محمد بن راشدرضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اہلِ جاہلیت صفر کو منحوس سمجھتے ہیںتو آپؐ نے جواب میں فرمایا کہ یہ باطل عقیدہ ہے۔ ماہِ صفر میں کوئی منحوس بات نہیں ہے(سنن ابی داؤد، ح۳۹۱۶)۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ عرب شوال کو منحوس سمجھتے تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ اس مہینے میں شادی نہیں کرنی چاہیے اور نہ کسی مہم پر نکلنا چاہیے،کیوںکہ اس مہینے میں کوئی فعل کامیابی سے ہم کنار نہیں ہوسکتا۔ مزید فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غلط رسم کو ختم کیا اور آپؐ نے میرے ساتھ ماہِ شوال ہی میں نکاح کیا تھا۔ پھر یہ دیکھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کون سی زوجہ مجھ سے زیادہ نصیبے والی ثابت ہوئی۔ (مسلم، ح ۳۵۴۸)۔حضرت عائشہؓ اپنے خاندان کی بچیوں کی شادی کے لیے ماہِ شوال منتخب کیا کرتی تھیں تاکہ شوال کے بارے میں پرانے عقائد کہیں پھر سے سر نہ اٹھا لیں۔
قرآن پاک میں واضح طور پر بیان فرما دیا گیا ہے کہ نفع ونقصان کا تعلق نہ کسی دن اور موسم سے ہے اور نہ کسی خاص چیز اور مخلوق ہی سے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا اپنا اختیار ہے کہ وہ کس کو کب نفع دے گا اور کب اس کے مقدر میں نقصان ہوگا۔ انسان کو ہر عمل شروع کرنے سے پہلے یہ دیکھ لینا چاہیے کہ کام بذات خود حلال اور جائز ہے یا حرام اور ناجائز۔ اگر حلال وجائز نہ ہو تو اس کا ارادہ بھی ترک کردینا ہوگا۔ حلال ہے تو اس کا آغاز اور نیت کرتے ہوئے بسم اللہ پڑھنی چاہیے اور اللہ رب العالمین سے خیروبرکت مانگنی چاہیے۔ قرآن پاک میں جگہ جگہ اس مضمون کو بیان کیا گیا ہے کہ نفع ونقصان کا مالک اللہ ہے۔ ساری دنیا کے انسان بھی مل کر کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے اگر اللہ نہ چاہے۔ اسی طرح تمام بنی نوع انسان مل کر بھی کسی کو نفع نہیں دے سکتے اگر اللہ نہ چاہے۔ صرف حوالے کے لیے ایک آیت لکھ رہے ہیں، اگرچہ اس موضوع پر بہت سی آیات قرآن مجید میں موجود ہیں۔ ارشاد باری ہے: وَ اِنْ یَّمْسَسْکَ اللّٰہُ بِضُرٍّ فَـلَا کَاشِفَ لَہٗ اِلاَّ ہُوَ وَإِنْ یُّرِدْکَ بِخَیْرٍ فَلَا رَآدَّ لِفَضْلِہٖ یُصِیْبُ بِہٖ مَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ وَہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ۔‘‘ اگر اللہ تجھے کسی مصیبت میں ڈالے تو خود اس کے سوا کوئی نہیں جو اس مصیبت کو ٹال دے، اور اگر وہ تیرے حق میں کسی بھلائی کا ارادہ کرے تو اس کے فضل کو پھیرنے والا کوئی نہیں ہے۔ وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اپنے فضل سے نوازتا ہے اور وہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے‘‘۔ (یونس۱۰:۱۰۷)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت ساری دعائیں ہیں جن میں آپؐ نے درپیش کام اور مہم میں کامیابی کے لیے اللہ سے رجوع کیا۔ ایک مختصر اور جامع دعا یہ ہے: اَللّٰہُمَّ اَنْتَ رَبِّیْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ عَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ وَاَنْتَ رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ، مَاشَائَ اللّٰہُ کَانَ وَمَا لَمْ یَشَائْ لَمْ یَکُنْ وَلَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ، اے اللہ تو میرا رب ہے تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں میں تجھی پر توکل کرتا ہوں اور تو عرش عظیم کا مالک ہے، اللہ جو چاہے وہی ہوتا ہے اور جو وہ نہ چاہے وہ کبھی نہیں ہوسکتا۔ میرا کوئی زور اور قوت نہیں سوائے اللہ پر بھروسے کے، جو بہت بلند اور عظمت والا ہے۔ (البیہقی، الاسماء والصفات، باب ماشاء اللّٰہ کان، ح۳۴۰، روایت حضرت ابوالدرداءؓ)۔ جو لوگ کمزور عقیدے اور توہمات کے جال میں پھنس جاتے ہیں ان کو منزل ہاتھ نہیں آتی۔ بعض اوقات ان کی حرکتیں اپنے انھی توہمات کی بدولت انھیں اضحوکہ (مضحکہ خیز) بنادیتی ہیں۔ یہ مثالیں آج بھی نظر آتی ہیں اور عربوں کے بھی بے شمار واقعات تاریخ میں مذکور ہیں۔ کالے علم کا دھندہ کرنے والے بعض اوقات اپنے ہی گاہکوں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اُتر جاتے ہیں، جب کہ کم وبیش تمام گاہک بھی اپنی عزت، آبرو اور جان تک سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اس سے بڑا نقصان اور المیہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے ایمان اور عاقبت کو برباد کرلیتے ہیں۔
مفسرین نے ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ ایک عرب اپنے باپ کے قاتل سے بدلہ لینا چاہتا تھا۔ ذوالْخَلَصَہ نامی بت کے آستانے پر جاکر اس نے فال کھلوائی۔ جواب نکلا یہ کام نہ کیا جائے۔ اس پر عرب طیش میں آگیا، کہنے لگا:
لَوْکُنْتَ یَاذَالْخَلَصِ الْمَوْتُوْرَا
مَثَلِیْ وَکَانَ شَیْخُکَ الْمَقْبُوْرَا
لَمْ تَنْہَ عَنْ قَتْلِ الْعُدَاۃِ زُوْرَا
(اے ذوالخلصہ اگر میری جگہ تو ہوتا اور تیرا باپ مارا گیا ہوتا تو ہر گز تو جھوٹی بات نہ کہتا کہ ظالموں سے بدلہ نہ لیا جائے۔)
ایک اور عرب اپنے اونٹوں کا گلہ اپنے معبودسعد نامی کے آستانے پر لے گیا تاکہ ان کے لیے برکت حاصل کرے۔ یہ ایک لمبا تڑنگا بت تھا، جس پر قربانیوں کا خون لتھڑا ہوا تھا۔ اُونٹ اسے دیکھ کر بدک گئے اور ہر طرف بھاگ نکلے۔ عرب اپنے اونٹوں کو اس طرح تِتر بِتر ہوتے دیکھ کر غصے میں آگیا۔ بت پر پتھر مارتا جاتا تھا اور کہتا جاتا تھا کہ ’’خدا تیرا ستیاناس کرے۔ میں آیا تھا برکت لینے کے لیے اور تونے میرے رہے سہے اونٹ بھی بھگا دیے۔(تفہیم القرآن، جلد۳، ص۴۶۵-۴۶۶)
اللہ تعالیٰ نے سورئہ مائدہ کی آیت ۹۰ میں واضح طور پر فرمایا ہے کہ ’’شراب، جوا، آستانے اور پانسے، یعنی فال گیری اور نیک وبدشگون لینا سب گندے شیطانی اعمال ہیں۔ ان سے پرہیز کرو‘‘۔ غلط رسومات اور جادو کے دھندے میں ایسے ایسے حرام کام کرنے کی اطلاعات میڈیا میں آتی رہتی ہیں کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے۔ عرب بھی اسی طرح کیا کرتے تھے۔ سورۂ انعام آیت۱۳۸ میں اللہ نے فرمایا کہ یہ جاہل لوگ سمجھتے ہیں کہ کچھ جانور ایسے ہیں جن پر سواری اور باربرداری حرام ہے اور کچھ جانور ایسے ہیں جن کو ذبح کرتے ہوئے اللہ کا نام نہیں لینا چاہیے۔ یہ سب کچھ ان کی طرف سے اللہ پر افترا باندھا گیا ہے۔ بہت جلد اللہ ان افتراپردازیوں پر ان کو سزا دے گا۔ (۶:۱۳۶)
نجومیوں اور دست شناسوں کے پاس جانا اور ان سے مستقبل اور غیب کی خبریں جاننے کی کوشش کرنا ضعفِ ایمانی اور عقیدے کی کمزوری کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اسی طرح ستاروں اور سیاروں کے حساب اور زائچے سب لغو اور فضول اعمال ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے کیا خوب فرمایا ؎
ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فراخیِ افلاک میں ہے خوار و زبوں
مختلف آفات سے بچنے کے لیے بلاشبہ اللہ کا کلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسنون دعائیں بہت کارگر ہیں۔ مُعَوِّذَتَیْن (سورۃ الفلق و سورۃ الناس) آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ایسے وقت میں نازل ہوئی تھیں جب آپؐ پر یہودیوں نے جادو کیا تھا۔ ان کو پڑھ کر انسان اللہ کی پناہ میں آجاتا ہے۔ اسی طرح آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سکھائی ہوئی دعائیں بھی بہت بااثر ہیں۔ یہ دعائیں بے شمار ہیں مگر ایک آدھ دعا بھی یاد ہو تو انسان کو اللہ رب العالمین کی طرف سے حفاظت مل جاتی ہے۔ آپؐ صحابہؓ کو بھی تلقین کرتے تھے کہ وہ گھروں کے اندر اور بچوں کے اوپر آنے والی بلاؤں سے ان دعاؤں کے ذریعے اللہ کی پناہ حاصل کریں۔ آپ کی ایک مختصر دعا ہے: اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّاتِ مِن شَرِّ مَا خَلَقَ، میں اپنے آپ کو اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں، اس کے جامع کلمات کے ذریعے، ہر مخلوق کے شر سے۔ (مسلم، ح۷۰۵۳) اسی طرح آپ نے یہ دعا بھی سکھائی: اَعُوْذُ بِعِزَّۃِ اللّٰہِ وَقُدْرَتِہٖ مِنْ شَرِّ مَا اَجِدُ وَاُحَاذِرُ، یعنی میں اللہ کی عزت وقدرت کی پناہ میں اپنے آپ کو دیتا ہوں ہر اس شر کے مقابلے پر جس سے میرا سامنا ہو کہ اللہ مجھے اس سے محفوظ رکھے۔ (مسلم، ح۵۸۶۷) ۔قرآن پاک میں بھی اللہ نے بہت سی دعائیں سکھائی ہیں: وَقُل رَّبِّ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ ہَمَزٰتِ الشَّیٰطِیْنِ o وَاَعُوْذُ بِکَ رَبِّ اَنْ یَّحْضُرُوْنِ o (المومنون ۲۳: ۹۷-۹۸) یعنی دعا کرو کہ ’’پروردگار، میں شیاطین کی اکساہٹوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں، بلکہ اے میرے رب، میں تو اس سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں کہ وہ میرے پاس آئیں‘‘ ۔ اسی طرح ایک اور دُعا ہے: رَبِّ یَسِّرْ وَلاَتُعَسِّرْ وَتَمِّمْ بِالْخَیْرِ، ’’اے میرے رب میرے کام کو آسان بنا دے مشکلات دور فرما دے اور اس منصوبے کو خیروبرکت کے ساتھ پایۂ تکمیل تک پہنچا دے‘‘۔
’علامات‘(Symbols, Insignias, Icons) فرد، ملک، قوم اور ادارے کی شناخت کے اظہار میں اہم مقام رکھتی ہیں۔ انھیں اپنی معاشرتی اور ثقافتی روایات کو پیش نظر رکھتے ہوئے بڑے غوروخوض کے بعد منتخب کیا جاتا ہے۔ پھر کئی طریقوں سے انھیں ظاہر کیا جاتا ہے۔ دھاتی سکّے، دھاتی اجسام، پتھر، کپڑا، لکڑی، ٹائلیں__ کسی بھی چیز پر اپنی شناختی علامات کندہ اور نقش کی جاتی ہیں۔ کبھی روشنیوں کے ذریعے نمایاں کیا جاتا ہے اور کبھی کشیدہ کاری کے ذریعے۔
سومائٹکس (somaitics) علم کی ایک اہم شاخ ہے۔ سمبل ازم (symbolism) ایک باقاعدہ سائنس اور آرٹ ہے کہ ’علامات‘ کی معنویت، تاثیر اور مزاجوں پر اثرانداز ہونے کی قوت کا جائزہ لیا جائے۔ انھیں اس طرح تشکیل دیا جائے کہ یہ افراد، اقوام اور اداروں کے نظریات، ذہنی تصورات، خیالات، اوصاف اور جذبات کی درست نمایندگی کرسکیں۔ یہ علامات الفاظ اور اشیاکا لغوی معنی سے کہیں گہرا مفہوم اور تصور پیش کرتی ہیں، مثلاً فاختہ محض ایک پرندہ نہیں بلکہ امن اور سکون کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ سرخ گلاب محبت اور رومانس کو ظاہر کرتا ہے وغیرہ۔ فی الواقع شناختی علامت زبردست نفسیاتی قوت کی مالک ہے۔
زمانۂ قدیم سے میدانِ جنگ میں ’علَم بردار‘ خاص اہمیت کا حامل رہا۔ یہ شرف اس جواں مرد کو حاصل ہوتا جو دلیر، جرأت مند اور قومی غیرت سے معمور ہوتا۔ علَم کو ہر طرح کے حالات میں بلندرکھنا قومی عزت، غیرت اور وقار کی علامت قرار دیا جاتا جا رہا ہے۔ معرکۂ کارزار میں دشمن کا سب سے زیادہ نشانہ علَم بردار ہوتا اور غیرت مند علَم بردار جھنڈا بلند رکھنے کے لیے جان پر کھیل جاتے۔
غزوئہ موتہ میں یکے بعد دیگرے تین سپہ سالار اسلام کا جھنڈا سربلند رکھنے کے لیے شہادت سے ہم کنار ہوگئے۔ حضرت جعفرؓ بن ابوطالب کی جاں فشانی تو ضرب المثل بن گئی۔ دشمن نے جھنڈا گرانے کے لیے دائیں ہاتھ پر وار کیا تو انھوں نے جھٹ سے بائیں ہاتھ میں اُٹھا لیا۔ بایاں ہاتھ بھی کٹ گیا تو اسے منہ سے تھام لیا۔ دشمن نے سر پر وار کیا تو جھنڈے کو گرنے سے بچانے کے لیے حضرت عبداللہؓ بن رواحہ آگے بڑھے۔ ان کے جامِ شہادت نوش کرنے پر حضرت خالدؓ بن ولید نے آگے بڑھ کر اسے بلند کردیا اور پھر نہایت سُرعت اور حکمت سے اسلامی لشکر کو دشمن کے نرغے سے بچاکر لے آئے۔ علَم کی حفاظت کے لیے دونوں بازو کٹوا دینے پر حضرت جعفرؓ کو جنت میں دو پَر عطا کیے جانے کی بشارت ملی۔ چنانچہ وہ جعفرطیارؓ کے نام سے معروف ہیں۔حضرت خالدؓ بن ولید کو اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار قرار دیا گیا،’سیف اللہ‘ ان کے نام کا جزو بن گیا۔
آج بھی ہر ملک کا اپنا جھنڈا ہے اور اس کا خاص مفہوم۔ جھنڈا کپڑے کا ایک ٹکڑا ہی نہیں ایک اہم علامت ہے، ایک قوم کی پہچان ہے۔ ہر قوم اپنی علامت، اپنی شناخت پر فخر کرتی ہے، اسے بلند رکھنے کی آرزومند ہے۔
اقوام، ممالک اور ادارے اپنی مخصوص امتیازی علامات رکھتے ہیں جنھیں رنگ، تصویر اور گرافک ڈیزائن کے ذریعے ظاہر کیا جاتا ہے۔ جنگ کے میدان ہوں یا کھیل کے، تقریبات میں اقوام و ممالک کی نمایندگی ہو یا بحروبر کا سفر___ مخصوص علامات افراد اور اقوام کا تعارف بن جاتی ہیں، لہٰذا علامات کا تعین بڑی سوچ بچار کے بعد ہوتا ہے۔ تصویر کی صورت میں یہ علامت ایک خاموش پیغام ہے جو کسی فرد، گروہ یا قوم کی شناخت کے علاوہ ان کے یقین، ایمان، ارادے، عزائم اور مقاصد کو ظاہر کرتے ہیں۔ ان کی قوت اور مرتبے کا اظہار ہیں۔
مختلف رنگ مختلف معنی رکھتے ہیں۔ ہر تصویر کا اپنا ایک پیغام ہے ۔ ’سفید جھنڈا‘ صلح کی خواہش کو ظاہر کرتا ہے۔ میدانِ جنگ میں سفید جھنڈے کا لہرایا جانا ہتھیار ڈالنے یا جنگ بندی کا اعلان سمجھا جاتا ہے۔ ’سیاہ جھنڈا‘ جنگ پر آمادگی یا دشمن کو شکست دینے کے عزم کا اظہار ہے۔ نیلارنگ آفاقیت اور امن کا اعلان ہے تو سرخ رنگ رومانس یا خطرے کی علامت۔ سبزرنگ پاکیزگی، خوش حالی اور شادابی کے معنی رکھتا ہے۔ ٹریفک منضبط رکھنے کے لیے سرخ، زرد اور سبز رنگ کا اپنا اپنا مفہوم ہے۔ ’سرخ بتی‘ پر چلنے والا یہ کہہ کر قانون کی گرفت سے چھوٹ نہیں سکتا کہ وہ اس کے پیغام سے واقف نہیں تھا۔
تصاویر بھی اپنا مفہوم رکھتی ہیں۔ ’ہلال‘ اُمت مسلمہ کی پہچان بن چکا ہے اور صلیب عیسائیت کا نشان۔ سرخ رنگ، ہتھوڑا اور درانتی کمیونزم کی پہچان رہے ہیں اور سواستیکا نازی جرمنی کا۔ برطانیہ کا جھنڈا صلیب کی برتری اور زمین کے چاروں گوشوں تک اس کے غلبے کی آرزو کا اظہار ہے۔ پانچ کونوں والا ستارہ اہلِ اسلام کے ساتھ اور چھے کونوں والا ستارہ صہیونیت کے ساتھ وابستہ سمجھا جاتا ہے۔
سیاسی اور بین الاقوامی تنظیمیں اپنا اپنا پرچم اور نشان رکھتی ہیں۔ عالمی سطح پر سب سے بڑے ادارے اقوام متحدہ کا اپنا جھنڈا اور اپنا نشان ہے۔ اس کے ذیلی اداروں کی اپنی اپنی علامات ہیں۔ اقوام متحدہ کا نشان (insignia / logo) منتخب کرنے کے لیے ماہرین کی ایک کمیٹی کئی روز کام کرتی رہی۔ کمیٹی کے انتخاب کو جنرل اسمبلی سے ایک قرارداد کے ذریعے باضابطہ منظور کیا گیا۔ یہ منظوری ۷دسمبر ۱۹۴۶ء کو قرارداد نمبر (A/RES/92(1)) کے ذریعے حاصل کی گئی۔
اقوام متحدہ کے جھنڈے اور نشان میں نیلا اور سفید رنگ نمایاں ہیں۔ نیلا رنگ آفاقیت، امن اور سکون کی علامت کے طور پر رکھا گیا ہے۔ سفیدرنگ امن اور اقوامِ عالم کے مابین صلح کی خواہش کا اظہار ہے۔ جھنڈے پر دنیا کے آباد علاقوں کا نقشہ ہے۔ جہاں امن اور ترقی کا قیام اور فروغ اقوام متحدہ کا عزم ہے۔ اس نقشے کو زیتون کی دو شاخوں نے گھیر رکھا ہے۔ زیتون بھی امن کی علامت ہے۔ دنیا کا نقشہ پانچ دائروں میں مقید ہے جنھیں درمیان سے ایک لائن منقطع کررہی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے ذیلی اداروں کے اپنے جھنڈے ہیں۔ سب میں نیلااور سفید رنگ موجود ہے۔ عالمی ادارۂ صحت (WHO) کے جھنڈے میں ایسکلیپئس کا عصا (Rod of Aesculapius) اور اس کے گرد لپٹا ہوا سانپ ہے۔ یونانی دیومالائی روایات کے مطابق یہ علامت ’صحت کے دیوتا‘ سے متعلق خیال کی جاتی ہے۔
صحت کا دیوتا: ایسکلیپئس اپالو کا بیٹا ہے۔ اسے ’صحت کا دیوتا‘ قرار دیا گیا ہے۔ وہ بیماروں کو شفا بخشتا ہے اور مُردوں کو زندہ کرنے کی قوت رکھتا تھا۔ اس پر دیوتائوں کے بادشاہ زیس (Zeus) نے اسے ہلاک کرڈالا کیونکہ اس طرح وہ فطرت کے کاموں میں مداخلت کا مرتکب ہو رہا تھا۔
دنیا بھر میں صحت کی پیشہ ور تنظیموں اور اداروں میں سے بیش تر نے اس علامت کو اپنی شناخت بنا رکھا ہے۔ شعبۂ طب اور دواسازی سے متعلق اداروں میں ایک اور علامت بھی بہت معروف ہے۔ اسے کیڈوسیس(Caduceus) کہا جاتا ہے۔ پاکستان کے کم و بیش تمام طبی اور دواسازی کے تعلیمی اداروں نے اسی نشان کو اپنایا ہوا ہے۔ تاہم، کچھ ادارے ایسکلیپئس کا نشان بھی رکھتے ہیں۔ غالباً کوئی ایسا طبی ادارہ نہیں جو اس نشان سے پاک ہو۔ دنیا بھر میں تجارتی بنیادوں پر صحت کی سہولتیں فراہم کرنے والے اداروں میں سے ۷۶فی صد نے کیڈوسیس کا نشان اپنا رکھا ہے۔ ’عصا‘ کے گرد لپٹا ہواسانپ دنیا بھر میں شعبۂ طب و دواسازی کی معروف علامت ہے۔ طبی تعلیمی ادارے، دو اساز کمپنیاں، شفاخانے شاید ہی کوئی اس سے بے نیاز ہو۔
کیڈوسیس اولیمپک دیوتا ہرمیز(Hermes) سے منسوب عصا ہے۔ اس عصا کے اُوپر دو پھیلے ہوئے پَر ہیں اور اس کے گرد بڑے توازن سے دو سانپ اس طرح لپٹے ہوئے ہیں کہ اُوپر جاکر دونوں کے منہ آمنے سامنے ہیں۔ یونانی عقیدے کے مطابق ہرمیز خدا اور انسانوں کے درمیان پیغام رساں تھا۔
’عصا‘ اس کی دانش اور قوت کا اظہار ہے۔ یونانی شاعر ہومر کا کہنا ہے کہ ’عصا‘ انسان کی آنکھوں کو مسحور کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ ’عصا‘ کے اُوپر پھیلے ہوئے پَر ہرمیز کے اس مرتبہ و مقام کو ظاہر کرتے ہیں جو اسے زمین اور اس پر رہنے والوں میں حاصل تھا۔ وہ اہلِ زمین کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتا تھا۔ مسافروں کا نگہبان تھا۔ تجارتی قافلوں کی حفاظت کرتا اور لین دین میں معاونت کرتا۔ عصا کے گرد لپٹے ہوئے سانپ تجارت، طلاقت لسانی، فصاحت، فریب کاری، شعبدہ بازی (trickery) اور گفت و شنید کے فن میں مہارت سے منسلک رہے ہیں۔ ہرمیز کو یہ ’عصا‘ اپالو (سورج دیوتا) نے دیا جو صحت و شفا اور شاعری و موسیقی کا دیوتا ہے۔ ایک اور روایت کے مطابق اسے یہ عصا دیوتائوں کے بادشاہ زیس (Zeus) نے عطا کیا تھا۔
’طب‘ کے ساتھ اس عصا کا تعلق صدیوں سے چل رہا ہے۔ بعض اوقات اسے کیمیا، نفع اور دانائی کے ساتھ بھی جوڑا جاتا ہے۔ تیسری صدی عیسوی میں ایک ماہر امراضِ چشم کی مہر میں اس عصا کی شبیہہ پائی گئی ہے غالباً اس لیے کہ عصا آنکھوں پر سحر طاری کردیتا ہے۔ پندرھویں صدی عیسوی میں سوئٹزرلینڈ میں ایک طبی تالیف میں اسے شعبۂ طب سے متعلق ظاہر کیا گیا۔ اس شبیہہ میں عصا کے گرد دو سانپ لپٹے تھے اور اس کے اُوپر ایک فاختہ بیٹھی تھی۔ اس کے ساتھ بائبل کی ایک آیت درج تھی: ’’تم سانپ کی طرح ہوشیار ، دانش مند اور فاختہ کی مانند بے ضرر بن جائو‘‘۔
انیسویں صدی کے آخر میں امریکا میں اسے شعبۂ طب کی علامت کے طور پر اختیار کیا گیا حتیٰ کہ ۱۹۰۲ء میں شعبۂ طب نے باضابطہ طور پر اس نشان کو اپنا لیا ۔ کہا گیا کہ ’’عصا غیر جانب داری کی علامت ہے‘‘۔ اس کی مزید تشریح کرتے ہوئے بیان کیا گیا کہ : ’’عصاقوت کی علامت ہے، سانپ دانش مندی اور دو پَر قوتِ کار اور فعالیت کو ظاہر کرتے ہیں‘‘۔
جنگوں میں طبی خدمات انجام دینے والے عملہ اور گاڑیوں (ایمبولینس) وغیرہ پر اسے غیرجانب داری کی علامت کے طور پر ثبت کیا جاتا۔ اس سے ان کی حفاظت مقصود تھی تاکہ وہ کسی حملے کی زد میں نہ آئیں۔ یہ نشان تجارتی بحری جہازوں پر بھی آویزاں کیا جاتا رہا۔ اس سے نہ صرف ہرمیز کی سرپرستی کے حصول کا جذبہ کارفرما تھا جو نفع بخش تجارت کا ذمہ دار دیوتا ہے، بلکہ یہ اظہار بھی ہوتا کہ یہ بحری جہاز کوئی جارحانہ عزائم نہیں رکھتا۔
کئی دانش ور کیڈوسس کی اس علامت کو شعبۂ طب سے منسلک کرنے پر معترض ہیں۔ اس لیے نہیں کہ یہ بت پرستی کی علامت ہے بلکہ ان کا خیال ہے کہ یہ فیصلہ بہت سی غلط فہمیوں اور فکری انتشار کا نتیجہ ہے کیونکہ ہرمیز نہ صرف تجارت اور تاجروں کا سرپرست ہے بلکہ چوروں، ٹھگوں، جواریوں اور جھوٹوں کا بھی پشت پناہ ہے۔ دیوتائوں کے نمایندے کی حیثیت سے وہ مسافروں اور بحری سفر کرنے والے تاجروں کا محافظ تھا اور زمین پر امن و سکون قائم کرنے والا بھی! چاہے یہ سکون ’موت کا سکون‘ ہو۔ وہ اپنی چرب زبانی سے بُری سے بُری چیز اور حالات کو عمدہ قرار دے سکتا تھا۔
سٹوارٹ ایل ٹائسن کہتا ہے: ’’اس کی ان صفات کو دیکھتے ہوئے ہرمیز کا یہ نشان طبیب کی گاڑی کے بجاے تابوت پر زیادہ سجتا ہے‘‘۔ (Stuart L Tyson, "The Cauduceus", The Scientific)
لیوک وان آرڈن کی راے ہے: ’’تجارتی ذہن رکھنے والے اطبّاکے لیے یہ علامت خاصی حسب ِ حال ہے۔ ان کے جلو میں امن کی خاطر مرنے والوں کی روحیں ہیں تو دانائی، تجارت، قسمت، چرب زبانی، دھوکادہی اور قذاقی بھی ہم رکاب ہیں۔ بیسویں صدی میں شعبۂ طب کی غالباً یہی شناخت ہے‘‘۔
(Luke Van Orden (2002), where have all he Healers gone? A Doctor's recovery journey in universe. p 129).
ھائی جیہ کا پیالہ (Bowl of Hygieia): دواساز اداروں (فارما سیوٹیکل کمپنیاں) اور فارمیسی کے تعلیمی اداروں کے ہاں ایک معروف علامت (symbol) ’ہائی جیہ کا پیالہ‘ ہے۔ ’ہائی جیہ‘ صحت و صفائی کی یونانی دیوی تھی (Goddess of Hygiene)۔ یہ ایسکلیہ پیئس کی بیٹی تھی جسے صحت کا دیوتا کہا جاتا ہے۔ یہ اپنے باپ کی معاون اور مددگار تھی اور خود بھی صحت سے متعلقہ اُمور کی ذمہ داری ادا کرتی۔ اس کے ایک ہاتھ میں شراب خوری کا پیالہ ہوتا اور دوسرے بازو پر ایک سانپ لپٹا ہوتا جس کا سر پیالے میں جھکا ہوتا۔ شراب خوری کا پیالہ (chalice) اب اس کی خاص علامت قرار دیا جاچکا ہے۔ پیالے کے نچلے پتلے حصے پر ایک سانپ کنڈلی کی طرح لپٹا ہوا ہے۔ اس پیالے میں کوئی سیال نشہ آور دوا (potion) ہے۔ سانپ کا سر پیالے پر جھکا ہوا ہے۔ وہ پیالے میں موجود دوا نوش کر رہا ہے۔ یہ وہی سانپ ہے جو ہرمیز اور ایسکلیہ پیئس کے عصا پر ظاہر ہوتا ہے۔ اسے دانائی اور سرپرستی کی علامت قرار دیا گیا ہے (serpent of wisdom & guardianship)۔
ہائی جیہ کا پیالہ سب سے پہلے ۱۷۹۶ء میں دواسازی سے منسلک پیرسین سوسائٹی (Perisian Society of Pharmacy) نے اپنی علامت کے طور پر استعمال کیا اور اس نشان کو ایک سکّے پر کندہ کیا گیا تھا۔ اب دنیا بھر میں متعدد دواساز اداروں، کمپنیوں اور تنظیموں نے اس علامت کو اپنارکھا ہے۔ دواسازی سے متعلق اداروں میں یہ نشان سب سے زیادہ استعمال ہورہا ہے۔
دواسازی میں معروف کمپنی وائتھ (Wyeth) نے اس نام سے ایک ایوارڈ کا اجرا کیا (Bowl of Hygiea Award)۔ بعدازاں امریکا کی تمام ریاستوں کے فارمیسی کے اداروں میں اس نام سے ایوارڈ دیئے جانے لگے۔ یہ ایوارڈ فارمیسی کے شعبے میں نمایاں خدمات انجام دینے والے فرد کو دیا جاتا ہے۔ اس کی نامزدگی فارماسیوٹیکل ایسوسی ایشنز کرتی ہیں۔ سان فرانسسکو میں یونی ورسٹی آف کیلی فورنیا کے سکول آف فارمیسی کے ایک طالب علم کو یونی ورسٹی کی طرف سے اس نام کا ایوارڈ دیا جاتا ہے۔ اس کی نامزدگی اساتذہ اور طلبا اس طالب علم کے لیے کرتے ہیں جس میں ایک اچھے فارماسسٹ کے اوصاف سب سے زیادہ پائے جاتے ہیں۔
طبی نسخے کی علامت (Prescription Symbol): Rx کہا جاتا ہے کہ یہ علامت دراصل لاطینی لفظ Recipe (طبی نسخہ) کا مخفف ہے، جس کا مطلب ہے مجوزہ علاج اور دوا کے بارے میں ہدایات۔ تاہم اس علامت کے ساتھ کچھ دوسری کہانیاں بھی منسوب ہیں۔ ایک روایت کے مطابق یہ درحقیقت قدیم مصری دیوتا ہورس (Horus) کی آنکھ کی شبیہہ ہے۔ یہ آئسس اور اوسرس (Isis & Osiris) کا بیٹا تھا۔ اس کا سر عقاب کا اور دھڑ انسان کا ہے۔ اس کی آنکھ عقاب کی آنکھ ہے۔ وہ بادشاہوں کا دیوتا تھا (God of Kings)۔ انتقام، جنگ، حفاظت، سربلندی اور آسمان کا خدا!!
یونانی دیوتا زیس (Zeus) اور جیوپیٹر (Jupiter) کے ساتھ بھی اس کا تعلق جوڑا جاتا ہے۔ ان دیوتائوں سے رجوع طبی اُمور اور صحت و شفا کے لیے کیا جاتا تھا۔ دیوتا کی آنکھ سے مشابہ یہ علامت حفاظت اور شاہی قوت کے حصول کے عزم کا اظہار ہے(Symbol of Protection & Royal power)۔
نائیکی (Nike)
کھیلوں سے متعلق جوتے، لباس اور دوسری مصنوعات تیار کرنے والی ایک معروف امریکی بین الاقوامی کمپنی ہے اور اس کا نشان (logo) دنیا کی معروف ترین علامات میں سے ہے۔ بچے بالخصوص نائیکی کی مصنوعات اور اس کے نشان کے گرویدہ ہوتے ہیں۔
نائیکی کامیابی اور جیت کی یونانی دیوی ہے (Goddess of Victory)۔ اس کے پَر ہیں۔ اس کی شبیہہ نیم برہنہ ہے۔ اسے قوت، تیزرفتاری اور کامیابی کے ساتھ منسلک کیا جاتا ہے (strength, speed & victory)۔ نائیکی کا معروف نشان اس دیوی کے پَروں کو ظاہر کرتا ہے۔
مذکورہ کمپنی کے علاوہ ایک امریکی میزائل کا نام بھی اس پر رکھا گیا ہے۔ اولمپک کھیلوں میں کامیاب کھلاڑیوں کو دیے جانے والے میڈل پر بھی اس کی تصویر ثبت ہوتی ہے۔
اولمپک کھیلیں، اس کی علامات، روایات، تقریبات تمام روایتی طور پر زمانۂ قدیم میں یونان کے بت پرستانہ شعار سے منسوب ہیں۔
یونان کے شہر اولیمپیا (Olympia) میں زیوس دیوتا کی قربان گاہ (Sanctuary of Zeus) کے سامنے منعقد ہونے والے ان کھیلوں کا آغاز ۷۷۶ ق م میں ’زیوس دیوتا‘ کے بیٹے ہرکولیس نے کیا۔ ۷۰۰ ق م تک اس میں متعدد ترمیمات ہوتی رہیں۔ ۵۶۰ ق م میں ان کھیلوں کے لیے قربان گاہ کے سامنے اسٹیڈیم تعمیر کیا گیا۔
چوتھی صدی عیسوی میں اس خطے میں عیسائیت کے فروغ اور غلبے کے بعد ان کھیلوں کے بت پرستانہ شعار اور مظاہر کے باعث ان کے انعقاد پر پابندی لگا دی گئی۔ دیوتائوں سے منسوب، عبادت گاہیں تباہ کردی گئیں۔ بعدازاں کچھ قدرتی آفات، زلزلوں وغیرہ کے باعث ان کے آثار آٹھ نومیٹر گہرائی میں دفن ہوگئے۔
یورپ کی نشاتِ ثانیہ کے دور (اٹھارویں اور انیسویں صدی عیسوی) میں یورپی اقوام نے قدیم یونانی اور رومی تہذیب سے اپنا رشتہ ازسرِنو استوار کرنے کا آغاز کیا۔ آسمانی مذاہب اور کتابوں سے گریز اور بغاوت کی لہر بھی چل رہی تھی۔ چنانچہ ۱۸۷۵ء میں جرمن حکومت کی دل چسپی کے باعث اولیمپیا میں کھدائی کر کے آثارِقدیمہ کا سراغ لگایا گیا۔ عبادت گاہوں اور اسٹیڈیم کے آثار کی نشان دہی ہوئی۔ پرانی کہانیاں دہرائی جانے لگیں، حتیٰ کہ ۱۸۹۴ء میں اولمپک کھیلوں کا احیا کردیا گیا۔ حتی الامکان کوشش کی گئی کہ یہ کھیل قدیم روایات کے مطابق جاری رہیں۔ روایتی طور پر یہ کھیل غیرپیشہ ور کھلاڑیوں کے لیے تھے اور ان میں صرف مرد ہی شریک ہوتے تھے۔ بیسویں صدی کے آغاز ہی میں خواتین کے مقابلوں کی اجازت دے دی گئی۔ حتیٰ کہ ۲۰۱۰ء میں اولمپک کی انتظامیہ نے ہر ملک کے اولمپک دستے میں خواتین کی شرکت لازم ٹھیرا دی اور کہا گیا کہ جو ملک اپنے دستے میں خواتین کو نہیں بھیجے گا اسے شرکت کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ چنانچہ سعودی عرب جیسے ممالک (جو اس سے پہلے خواتین کو بین الاقوامی کھیلوں میں شرکت کے لیے بھیجنے کی روایت نہیں رکھتے تھے) نے بھی اس کے بعد منعقد ہونے والے کھیلوں میں اپنے دستے میں خواتین کو شامل کرلیا۔ غیرپیشہ ور کھلاڑیوں کے ساتھ اب پیشہ ور کھلاڑیوں کو بھی مقابلوں میں حصہ لینے کی اجازت دی جاچکی ہے۔
ہر چار سال بعد منعقد ہونے والے ان کھیلوں میں دنیا کے ۲۰۰ کے قریب ممالک کے کھلاڑی حصہ لیتے ہیں۔ اندازاً ۱۳ ہزار ایتھلیٹ ۳۳کھیلوں کے مقابلوں میں شریک ہوتے ہیں۔ ان مقابلوں کے دوران ۴۰۰ کے قریب تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ اولمپک کھیلوں کے اپنے مخصوص نشانات، علامات، رواج اور روایات ہیں۔
اس کا جھنڈا، مشعل، افتتاحی اور اختتامی تقریبات، حتی الامکان قدیم یونانی روایات کے مطابق ترتیب دیے جاتے ہیں۔ مخصوص اولمپک مشعل اولیمپیا میں ہیرا کے مندر کے سامنے شیشہ کے محدب عدسہ کے ذریعے سورج کی شعاعوں کو مرتکز کر کے روشن کی جاتی ہے۔ یہ خدمت مندر کی خاتون پجارن انجام دیتی ہے۔ اس مندر میں زیس دیوتا کا بت بھی موجود ہے۔ اولیمپیا میں روشن کی جانے والی مشعل پھر میزبان ملک میں پہنچائی جاتی ہے جہاں کھیلیں منعقد کرنے کا فیصلہ ہوتا ہے۔ ’مشعل کا سفر‘ ایک اہم سرگرمی ہے جسے دنیا بھرکا میڈیا نمایاں کر کے دکھاتا ہے۔ جس ملک کو ان کھیلوں کی میزبانی کا موقع ملتا ہے وہ اسے اپنے لیے ایک اعزاز سمجھتا ہے۔
یہ اعزاز اپنے جلو میں زبردست معاشی فوائد بھی لاتا ہے۔ روایتی طور پر افتتاحی تقریب میں یونانی کھلاڑیوں کا دستہ اپنے جھنڈے کے ساتھ اسٹیڈیم میں سب سے پہلے داخل ہوتا ہے۔ اختتامی تقریب میں صرف تین ممالک کے جھنڈے لہرائے جاتے ہیں اور انھی کے قومی ترانے بجائے جاتے ہیں۔ ان میں لازمی طور پر یونان شامل ہوتا ہے۔ دوسرے دو ممالک میں موجودہ میزبان ملک اور آیندہ کے لیے نامزد ملک شامل ہیں۔
’انصاف کی دیوی‘ علامتی طور پر انصاف کے نظام میں اخلاقی قوت کی بالادستی کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ انصاف کے تصور کی مجسم اور تمثیلی صورت ہے۔ مصری، یونانی اور رومی اَدوار کی کئی دیویوں کے مختلف اوصاف کو موجودہ انصاف کی دیوی جسٹیشیا (Justicia) میں تمثیلی انداز میں ظاہر کیا گیا ہے۔ اس کا سلسلہ قدیم مصری تہذیب کی دیویوں مات اور آئسس (Maat & Isis) سے جاملتا ہے۔ یونان میں انصاف کا فریضہ ڈائک اور تھیمس (Dike & Themis) سے منسوب رہا۔ قدیم روم میں اس کو لسٹیشیا (Lustitia)کا نام دیا گیا۔ اس کے دائیں ہاتھ میں ترازو اور بائیں میں دودھاری ننگی تلوار ہے۔ اس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہے۔ اس کے سر پر لہریے دار رِبن بندھا ہے، بالوں میں شترمرغ کا پَر ہے۔ وہ ننگے پائوں ہے، سینہ کا بالائی حصہ بھی نیم برہنہ ہے۔
ترازو کی علامت یہ ظاہر کرتی ہے کہ وہ ہر معاملے کے حق اور خلاف پہلوئوں کا وزن دیکھتی ہے۔ کیس کی مضبوطی اور کمزوری کا جائزہ لیتی ہے اور پھر بے لاگ فیصلہ کرتی ہے۔
دو دھاری ننگی تلوار دلیل اور انصاف کی قوت کا اظہارہے،وہ اپنے فیصلوں کے نفاذ کی قوت رکھتی ہے۔ آنکھوں پر پٹی یا اندھا پن انصاف کے تقاضے مکمل غیر جانب داری کے ساتھ پورے کرنے کا عزم ہے۔ کسی قسم کا خوف، لالچ یا عصبیت فیصلوں پر اثرانداز نہیں ہوسکتی۔ کسی کی شناخت، اور معاشرتی مرتبہ و مقام کا لحاظ کیے بغیر طاقت ور اور کمزور انصاف کا یکساں حق رکھتے ہیں۔
سر پر لہریے دار رِبن اس امر کا اظہار ہے کہ حقائق اور درپیش مسائل کے مطابق فیصلے کیے جاسکتے ہیں۔ جسم کے کچھ حصوں کا بے لباس ہونا نیکی، پاکیزگی اور بے عیب (purity) ہونے کی علامت ہے ۔ اور یہ کہ انصاف چھپایا نہیں جاتا ظاہر ہوکر رہتا ہے۔
دنیا کے بیش تر قانون ساز ادارے، عدالتیں، قانون کے تعلیمی ادارے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اسی دیوی کے مقاصد، تصورات اور عزائم پر کاربند ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے ’انصاف کی دیوی‘کے مجسمے آویزاں کر رکھے ہیں، جن میں کہیں وہ کھڑی ہے اور کہیں بیٹھی ہے۔ پاکستان میں بھی قانون کے کچھ تعلیمی اداروں میں اس کا مجسمہ ایستادہ ہے۔
دنیا بھر میں کرسمس کا تہوار ۲۵دسمبر کو حضرت عیسیٰ ؑ کے یومِ پیدایش کے طور پر منایا جاتا ہے، جب کہ عیسائی محققین یہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسٰی ؑ کے یومِ پیدایش بلکہ سالِ پیدایش کا بھی یقینی علم حاصل نہیں ہے بلکہ معلوم حقائق کے مطابق وہ ایسا موسم تھا جس میں چرواہے اپنی بھیڑوں کو لے کر کھلے میدانوں میں موجود تھے اور ایسا حضرت عیسٰی ؑکی پیدایش (فلسطین) کے علاقے میں دسمبر میں نہیں ہوتا۔ چرواہے گرمی کے موسم میں اپنے جانوروں کے ہمراہ کھلے میدانوں میں راتیں گزارتے ہیں۔
چوتھی صدی عیسوی میں روم (اٹلی) میں ۲۵ دسمبر کو مسیحی مذہبی تہوار منانے کے لیے مقرر کیا گیا۔اہلِ روم کے ہاں یہ دن سورج دیوتا کا یومِ پیدایش خیال کیا جاتا تھا۔ ان کا عقیدہ تھا کہ تمام دیوتا ۲۵ دسمبر کو زمین پر اُترتے ہیں اور ۶جنوری تک انسانوں کی تقدیر کے فیصلے کرتے ہیں۔ ان کے ہرطرح کے معاملات کی تدبیر کرتے ہیں۔
رومی جشن زحل (Saturnalia) ۲۵دسمبر کو مناتے تھے۔ یہ رومیوں کا ایک بڑا تہوار تھا جس میں خوب رنگ رلیاں منائی جائیں۔ جب عیسائی یہاں پہنچے تو ان کے زعما نے آفتاب پرست اقوام میں عیسائیت کو قابلِ قبول بنانے کے لیے اس دن کو حضرت عیسٰی ؑ کی پیدایش سے منسوب کردیا۔ اسے کرسمس کے تہوار کا نام دیا گیا، کرسمس کی دوسری تقریبات مثلاً سنٹاکلاز، موم بتیاں جلانا اور کرسمس کا درخت (christmas tree) بعدازاں مختلف اَدوار میں شامل کیے جاتے رہے۔ کرسمس کے درخت کا آغاز انیسویں صدی میں یورپ کے ایک شاہی خاندان میں ہوا۔ اس کی نسبت اس درخت سے کی گئی جس کے نیچے حضرت مریمؑ تشریف فرما ہوئیں۔ اگرچہ تکون شکل کا درخت اس علاقے میں نہیں پایا جاتا مگر عقیدۂ تثلیث کے اظہار کے لیے اسے یہ شکل دی گئی۔
بت پرستانہ علامات یونان و روم ہی نہیں ہندستان میں بھی معروف ہیں۔ مثلاً ہاتھی کو لکشمی دیوی کی علامت اور تجارتی منافع، خوش حالی اور خوش بختی سے منسوب کیا جاتا ہے۔ تجارتی مراکز پر ہاتھی کے مجسمے ایستادہ کیے جاتے ہیں۔ گائے تو ’ماتا‘ ہے۔ ترشول تین نوکوں والا نیزہ یا بھالا مہادیو شوکا سے منسوب ہے، اسے قوت کی علامت خیال کیا جاتا ہے۔ چنانچہ ہندو جنگجو اسے خاص طور پر ہمراہ رکھتے ہیں۔ماتھے پر تلک لگانا روحانی تعلق کی خاص علامت ہے۔ مختلف خدائوں سے تعلق کا اظہار مختلف شکلوں کے’ تلک‘ سے ہوتا ہے۔
ماتھے پر بندیا شادی شدہ خواتین کی علامت ہے۔ کنول کا پھول، چکر، غرض مختلف علامات مختلف دیویوں، دیوتائوں سے منسوب اور اپنے اپنے مفہوم رکھتی ہیں۔ مختلف تہوار دیومالائی قصے کہانیوں سے وابستہ ہیں۔
مختلف علامتوں کے بارے میں اسلام کا موقف بڑا واضح ہے۔ دائرۂ اسلام میں داخل ہونے والوں کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے تمام معاملات، علامات کو اللہ کے لیے خالص کرلیں۔ اسلام اس کائنات پر صرف ایک اللہ کی حکمرانی تسلیم کرنے کا حکم دیتا ہے۔ تمام صفات اسی کے لیے ہیں۔ تمام فیصلے اسی کی طرف سے ہیں۔ تخلیق، رزق کی تقسیم، صحت، عافیت، رہنمائی، زندگی، موت، سب کا وہ تنہا مالک اور مختار ہے۔ کسی معاملے میں اسے کسی مددگار کی ضرورت نہیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اَلاَ لِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ (الزمر ۳۹:۳) خبردار، دین خالص اللہ کا حق ہے۔
تعلق، محبت، اطاعت صرف اللہ واحد کے لیے!!
’شعائر‘ کے معنی ہیں: ایسا نشان یا علامت جو کسی فوج، گروہ یا قوم کی پہچان ظاہر کرے۔ یا وہ خاص لفظ جو فوج میں مقرر ہوتا ہے (code)۔ اور جس سے اپنے لوگوں کو پہچانا جاتا ہے۔(المنجد، مفردات راغب)
شعائر کسی حقیقت کے نشان (symbol) اور مظہر ہوتے ہیں اور ان کا مقصود ان حقائق کی تذکیر و تذکر ہوتا ہے جو ان کے اندر مضمر ہیں۔
’نصب‘ کے معنی ہیں کھڑی کی ہوئی علامت۔ عمارت کی صورت میں ہو، پتھر تراشیدہ، ناتراشیدہ، جسے کسی واقعہ، بت، دیوی یا دیوتا کے لیے بطورِ یادگار رکھا جائے یا اس سے منسوب کیا جائے۔
اللہ تعالیٰ نے اس ذبیحہ کو حرام قرار دیا جو کسی ’علامت‘ پر ذبح کیا جائے جو غیراللہ سے منسوب ہو۔ … حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ وَ الدَّمُ وَ لَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَ مَآ اُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ وَ الْمُنْخَنِقَۃُ وَ الْمَوْقُوْذَۃُ وَ الْمُتَرَدِّیَۃُ وَ النَّطِیْحَۃُ وَ مَآ اَکَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَکَّیْتُمْقف وَ مَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ (المائدہ ۵:۳) ’’تم پر حرام کیا گیا مُردار، خون، سور کا گوشت، وہ جانور جو خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو، وہ جو گلا گھٹ کر، یا چوٹ کھاکر، یا بلندی سے گر کر، یا ٹکرکھاکر مرا ہو، یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو__ سوائے اُس کے جسے تم نے زندہ پاکر ذبح کرلیا __اور وہ جو کسی آستانے پر ذبح کیا گیا ہو‘‘۔
سوچنے کی بات ہے وہ ’علامت‘ جو اپنے قریب پہنچنے والے ذبیحہ کو حرام کر دے کیا یہ جائز ہوگا کہ اسے سینے سے لگا کر رکھا جائے، اپنی عمارتوں پر آویزاں کیا جائے؟ اللہ تعالیٰ ایسی تمام علامات کو شیطانی علامات قرار دے رہے ہیں:’’اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، یہ شراب اور جوا اور یہ آستانے، اور پانسے، یہ سب گندے شیطانی کام ہیں۔ ان سے پرہیز کرو،اُمید ہے کہ تمھیں فلاح نصیب ہوگی‘‘۔(المائدہ ۳:۹۰)
گویا ’آستانوں‘ یا بت پرستانہ علامات کے ساتھ تعلق اتنا ہی ناپسندیدہ اور غلط ہے جتنا شراب اور جوے کے ساتھ تعلق۔ اس لیے کہ یہ علامات شیطانی علامات ہیں۔
پس بتوں کی گندگی سے بچو، جھوٹی باتوں سے پرہیز کرو، یک سُو ہوکر اللہ کے بندے بنو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور جو کوئی اللہ کے ساتھ شرک کرے تو گویا وہ آسمان سے گر گیا۔اب یا تو اسے پرندے اُچک لے جائیں گے یا ہَوا اس کو ایسی جگہ لے جاکر پھینکے دے گی جہاں اس کے چیتھڑے اُڑ جائیں گے۔(الحج ۲۲:۳۰-۳۱)
’بتوں‘ کو ’رجس‘ کہا گیاہے۔ ایسی غلاظت جس سے انسانی فطرت گھِن کھاتی ہے، نفرت محسوس کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ بتوں سے منسوب تمام کہانیوں، عقیدتوں کو خود اللہ جل جلالہ پر افترا قرار دیتے ہیں۔ جھوٹی شہادت اور جھوٹی بات میں اگرچہ ہر طرح کا جھوٹ اور بہتان شامل ہیں مگر یہاں خاص طور سے اشارہ ان باطل عقائد ، احکام، رسوم اور اوہام کی طرف ہے جن پر کفروشرک کی بنیاد ہے۔ اللہ رب العزت کی ذات، صفات، اختیارات اور حقوق میں اس کے حقیقی یا خیالی بندوں کو حصہ دار بنانا سب سے بڑا جھوٹ ہے۔
یہ قبیح فعل اس قدر سنگین ہے کہ انسان کو اللہ جل شانہ کی خلافت کے بلند مقام سے پستیوں میں لاپھینکتا ہے۔ اس کے مرتبے اور مقام کو اتنا ہلکا کردیتا ہے کہ ہوائیں اسے اُڑائے لیے پھرتی ہیں۔ شرک کا ارتکاب کر کے انسان خود کو سرفرازی اور امن و حفاظت سے محروم کرلیتا ہے جو اللہ وحدہٗ لاشریک لہٗ سے اس کو مل سکتی ہے۔ پھر وہ شیطان کے ہر فتنے کا ہدف اور اس کے بچھائے ہوئے جال کا شکار بن کر رہتا ہے حتیٰ کہ بے شمار مفاسد، فواحش اور مہلک خرابیوں کے گڑھے میں جاگرتا ہے۔ فکرواخلاق کی پستی، خواہشاتِ نفس کی غلامی اور جذبا ت و تخیلات کی حکمرانی اسے دنیا و آخرت کے خسارے سے دوچار کردیتے ہیں۔
یونان و ہند کے دانش ور، زندگی، موت، رزق کی تقسیم، عافیت، خیروبرکت، صحت وغیرہ، ہرمیز ایسکلیہ پئیس، ہائی جیہ، اور دیگر مختلف دیویوں اور دیوتائوں سے منسوب کررہے تھے اور حضرت ابراہیم ؑ نے واضح اعلان کردیا تھا:
جس نے مجھے پیدا کیا پھر وہی میری رہنمائی فرماتا ہے جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے۔ اور جب میں بیمار ہوجاتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔ جو مجھے موت دے گا اور پھر دوبارہ مجھے زندگی بخشے گا۔(الشعراء ۲۶:۷۸-۸۱)
قرآن اور حدیث میں متعدد مقامات پر واضح الفاظ میں گمراہ اقوام کے عقائد، نظریات، تہوار، رسوم و رواج، شعائر و علامات کو قبول کرنے سے منع کیا گیا ہے اور معاملاتِ زندگی میں ان کی مخالفت کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
مشرکوں کی مخالفت کرو۔(بخاری ۵۸۹۲، مسلم ۲۵۹)
مجوسیوں کی مخالفت کرو۔(مسلم ۲۶۰)
یہود و نصاریٰ کی مخالفت کرو۔(سنن ابوداؤد ۶۵۲)
یہ مخالفت ہر طرح کے مظاہر میں ہے۔ لباس، اطوار، تہوار وغیرہ تشبّہ بالکفار کا مسئلہ اہم ہے۔ اس حد تک اہم کہ روزہ جیسی عبادات میں بھی تشبّہ سے بچنے کا اہتمام کیا گیا۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یومِ عاشور میں روزہ رکھنے کو اپنا معمول بنا لیا اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا تو صحابہؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! اس روز کی تو یہود و نصاریٰ تعظیم کرتے ہیں۔ تو آپؐ نے ارشاد فرمایا: ان شاء اللہ اگلے سال ہم نومحرم کا روزہ رکھیں گے۔ لیکن اگلے سال کا محرم آنے سے پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوگیا۔(رواہ مسلم، معارف الحدیث، کتاب الصوم،ص ۱۲۸)
نویں محرم کا روزہ رکھنے کے دو مطلب ہوسکتے ہیں: ایک یہ کہ آیندہ سے ہم بجاے دسویں کے نویں محرم کو روزہ رکھیں گے اور دوسرا یہ کہ ہم دسویں کے ساتھ نویں کا بھی روزہ رکھیں گے تاکہ ہمارے اور یہود و نصاریٰ کے طرزِعمل میں فرق ہوجائے۔ اکثر علما نے اس دوسرے مطلب کو ترجیح دی ہے اور کہا ہے کہ نویں دسویں اور نویں کا ممکن نہ ہو تو دس گیارہ کاروزہ رکھ لیں۔
نماز کی ادایگی کے اوقات میں بھی یہ خیال رکھا گیا کہ جن اوقات میں آفتاب پرست اقوام عبادت کرتی ہیں۔ طلوع و غروب اور نصف النہار کے اوقات میں نفل نماز پڑھنے سے بھی منع کیا گیا۔
واضح الفاظ میں بتا دیا گیا کہ:
مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ (سنن ابوداؤد، ۴۰۳۱) جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ انھی میں سے ہے۔
غیراقوام کی مشابہت سے بچنے کا کس قدر اہتمام کیا گیا، اس کا اندازہ اس روایت سے ہوتا ہے: ’’ایک آدمی نے نذر مانی کہ وہ بوانہ کے مقام پر اُونٹ قربان کرے گا‘‘۔ تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا وہاں جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تو نہیں پوجاجاتا تھا؟ صحابہؓ نے عرض کیا: نہیں۔ آپؐ نے دریافت فرمایا: کیا وہاں ان کے تہواروں میں سے کوئی تہوار تو منعقد نہیں ہوتا تھا؟ صحابہؓ نے عرض کیا: نہیں۔ تب آپؐ نے فرمایا: اپنی نذر پوری کرلو، البتہ ایسی نذرکا پورا کرنا درست نہیں، جو مصیبت ہو یا جو آدمی کے بس سے باہر ہو۔(سنن ابوداؤد، ۳۳۱۳)
چنانچہ فقہاے کرام کا اس پر اجماع ہے کہ مسلمان کا مشرکانہ شعار و علامات، مراسم اور مقامات سے دُور رہنا شریعت اسلامی کا واضح تقاضا ہے۔
مذکورہ بالا مشرکانہ شعائر و علامات کا مسلم معاشرے میں رواج پانا لمحۂ فکریہ ہے۔ کیا یہ اللہ کے رسولؐ کی اس پیش گوئی کے مطابق نہیں جس میں آپؐ نے فرمایا: ’’تم لوگ پہلی اُمتوں کے طریقوں کی قدم بہ قدم پیروی کرو گے یہاں تک کہ اگر وہ لوگ کسی گوہ کے بِل میں داخل ہوئے ہوں تو تم بھی اس میں داخل ہوگے‘‘۔ (بخاری، ۳۴۵۶)
’ہرمیز‘ یا ایسکلیہ پیئس کا عصا یا ’انصاف کی دیوی‘ اگر ہمارے پیشہ ورانہ تعلیمی اداروں کی علامت بن جائیں، نائیکی (Nike) کا لوگو ہمارے بچوں کی پسند بن جائے، سرکاری سطح پر کرسمس کا تہوار منایا جانے لگے، ’ہواس‘ کی آنکھ ہمارے طبی نسخوں کی زینت ہو، کیا یہ ’گوہ کے بل‘ ہی نہیں؟
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’میں اپنی اُمت کے بارے میں گمراہ کن حکمرانوں (ائمہ) سے ڈرتا ہوں___ اور قیامت اس وقت تک برپا نہیں ہوگی جب تک میری اُمت کی ایک جماعت مشرکوں سے نہ جاملے اور یہ کہ میری اُمت کے بہت سے لوگ بت پرستی نہ کرلیں۔(سنن ابن ماجہ،کتاب الفتن، باب: ہونے والے فتنوں کا ذکر، حدیث ۳۹۵۲)
اللہ رب العزت کی یہ تنبیہہ بھی پیش نظر رہے: ’’اگر تم نے اس علم کے باوجود جو تمھارے پاس آچکا ہے لوگوں کی خواہشات کی پیروی کی تو اللہ کے مقابلے میں نہ کوئی تمھارا حامی و مددگار ہے اور نہ کوئی اس کی پکڑ سے تم کو بچا سکتا ہے‘‘۔(الرعد ۱۳:۳۷)
ہمارے لیے اللہ کے شعار واضح ہیں۔ وہی ہمارے لیے مقدس اور محترم ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَ مَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللّٰہِ فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ o (الحج ۲۲:۳۲) اور جو اللہ کے مقرر کردہ شعائر کا احترام کرے تو یہ دلوں کے تقویٰ سے ہے۔
محبت، تعظیم، اپنائیت صرف اللہ کے شعار اللہ واحد کی علامات کے لیے! حتیٰ کہ شعائراللہ ہماری پہچان بن جائیں۔
امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق کی دعوت پر ۳۰ سے زائد ممالک سے تعلق رکھنے والے ۵۵ تحریکی قائدین ، علماے کرام اور سکالرز نے جماعت اسلامی پاکستان کے اجتماع عام میں شرکت کی۔ اس موقعے پر دنیا بھر سے آئے ہوئے مسلمان رہنماؤں کا ایک اہم اجلاس ۲۴نومبر۲۰۱۴ء کو لاہور میں منعقد ہوا۔ ستمبر ۲۰۱۳ء میں بھی اسی طرح کی ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی تھی۔ سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان جناب سیّدمنورحسن کی زیر صدارت لاہور ہی میں ہونے والی اس کانفرنس میں شرکا نے دو روز تک اُمت کے اہم مسائل پر تبادلۂ خیال اور غوروخوض کرنے کے بعد تقریباً انھی الفاظ میں اپنے موقف اور اسلامی تحریکوں کے موقف کی ترجمانی کی تھی۔ الحمدللہ اس اجلاس میں کیے جانے والے متعدد فیصلوں پر دورانِ سال عمل درآمد ہوا۔ حالیہ اجتماعِ عام نے دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں اور کئی سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کو ایک بار پھر مل بیٹھنے کا موقع دیا۔ امیرجماعت اسلامی پاکستان جناب سراج الحق کی زیرصدارت ’’ایک اُمت، مشترک منزل‘‘ کے عنوان سے دن بھر مشاورت جاری رہی۔ اختتامِ اجلاس پر کامل اتفاق راے سے منظور کیے جانے والے اعلامیے میں تمام اہم مسائل کا احاطہ کیا گیا ہے۔
دنیا کو اس وقت جن گمبھیر مسائل اور چیلنجوں کا سامنا ہے ان کی بنیادی وجہ عدل وانصاف کا پس پشت ڈالا جانا ہے ۔ ہر وہ شخص یا گروہ اور ملک جو اپنے ہاتھ میں طاقت رکھتا ہے وہ دوسروں کو کچلنے پر تلا ہوا ہے۔ عالمی اقتصادی نظام اور سائنس اور ٹکنالوجی پر دسترس رکھنے والی قوتوں نے باقی دنیا کے لیے اپنی مرضی کے قوانین گھڑ رکھے ہیں۔ ہر طرف دہرے معیار برتے جارہے ہیں۔
شرکاے اجلاس عرب حکام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بے گناہوں اور سیاسی حریفوں کے خلاف بے بنیاد الزامات کا سلسلہ بند کریں اور اظہار راے کی آزادی کا احترام کرتے ہوئے انھیں ملک کی تعمیر وترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کریں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو انسانیت کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے۔
۱۴ جنوری ۲۰۱۱ء کو زبردست عوامی احتجاجات نے برادر مسلمان ملک تیونس پرتین دہائیوں سے مسلط سابق صدر زین العابدین بن علی کو اقتدارچھوڑ کرملک سے فرار ہونے پر مجبور کر دیاتھا۔ اسی سال۲۱۷رکنی دستورساز اسمبلی کے لیے انتخابات ہوئے۔ یہ ملکی تاریخ کے پہلے کثیر الجماعتی انتخابات تھے، اس سے پہلے صرف صدر مملکت اور ان کی پارٹی ہی انتخابات’لڑنے اور جیتنے‘ کی اہل تھی۔ ان انتخابات میںراشد الغنوشی کی سربراہی میں اسلامی تحریک ’ تحریک نہضت‘دوسری تمام پارٹیوں سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی لیکن ۵۰ فی صد نشستوں کے نہ ہونے کی وجہ سے نہضت کی قیادت میںمخلوط حکومت تشکیل پائی۔
پہلی منتخب حکومت کے سامنے متعدد بحرانات اور پیچیدہ قسم کے مسائل تھے جن سے نپٹنے کے لیے دو چار سال ہرگز کافی نہ تھے۔ملک میں جبر سے آزاد نئے سیاسی ماحول کا آغازہی نہیں، سیکولر اور بے دین قوتوں کا اسلام سے خوف بھی ایک مسئلہ تھا۔ بورقیبہ اور بن علی کی حکومتوں کی طرف سے ملک کو اسلامی تشخص سے محروم کرنے اور فرانسیسی اور مغربی تہذیب کو رواج دینے کے لیے کئی دہائیوںپر محیط کوششوں کے اثرات کو مٹانا انتہائی کٹھن اور محنت طلب کام تھا۔نصف صدی سے زائد عرصے سے ملک میں صرف طاقت، خوف اور ظلم کاراج تھا۔ حکمران طبقہ ہرقانون سے بالاتر تھا۔ اب، جب کہ ایک جمہوری حکومت عوام کو نصیب ہوئی تو ایک طرف عوام کو آزادیِ اظہار راے کا موقع ملا، تو دوسری جانب نو منتخب حکومت نے بھی خود کو قانون کا پابند بناتے ہوئے طے کر لیا کہ وہ ضابطے اور قانون سے ہٹ کر کوئی کام نہیں کرے گی۔ انقلاب کے بعد عموماً حکومتیں کمزور ہوا کرتی ہیں۔ یہی حال نہضت کی قیادت میں مخلوط حکومت کا تھا۔ایک طرف ۵۰ سالہ آمریت کی باقیات کا احتساب مطلوب تھا اور دوسری طرف متعصب سیکولر سیاسی پارٹیوں کی دشمنی کا سامنا تھا۔ اچانک اُٹھ کھڑے ہونے والے مسلح گروہوں کو کنٹرول کرنے کے لیے بھی انتہائی حکمت، صبر وتحمل اور جہدمسلسل کی ضرورت تھی۔ حکمرانوں کے ظلم وستم سے تنگ عوام نے بھی جلد بازی سے کام لیتے ہوئے فوری طور پر ہر قسم کے مسائل کے خاتمے کے مطالبات شروع کر دیے تھے۔
لیکن ان سب مسائل کے باوجود اپنے دور حکومت میںنہضت کی قیادت نے داخلی اور خارجی مسائل اور سازشوں کے مقابلے میں انتہائی عقل مندی، تدبر، سیاسی بصیرت اور طویل المدت حکمت عملی کامظاہرہ کیا۔ آنے والے مہ وسال ثابت کریں گے کہ تحریک نہضت کی یہ صابرانہ و حکیمانہ پالیسی سب تحریکات اسلامیہ کے لیے مشعل راہ ہے۔
تحریک نہضت نے ملک کے سیکولر اور لادین عناصر سمیت پوری قوم کو ساتھ لے کر چلنے، وسیع تر ملکی مفاد میں تنگ نظری اور اَنا پرستی کو ترک کرتے ہوئے مخاصمت اور تصادم کے بجاے وسعت قلبی اور مفاہمت کی پالیسی اختیار کی۔ ہرچیلنج ، سازش اور اشتعال انگیزی کا مقابلہ تحمل، رواداری اور نرم گوئی سے کیا۔راشد غنوشی کی قیادت میں نہضت نے عملی طور پر ثابت کر دیا کہ وہ جمہوریت کے حقیقی علَم بردار ہیں۔وہ ایک ایسی اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لیے کوشاں ہیں جہاں تمام شہریوں کومساوی بنیادی انسانی حقوق میسر ہوں۔تمام شعبہ ہاے زندگی میں ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے۔ہر فرد اور پارٹی کو ملک کی خدمت کے لیے برابر مواقع میسر ہوں،اور کسی کی حق تلفی نہ ہو۔ متعدد عرب ممالک سے ڈکٹیٹرشپ کے خاتمے کے چارسال بعد آج ان ممالک میں سے تیونس وہ واحد ملک ہے ، جہاں جمہوری اقدار قدرے مضبوط نظر آتی ہیں۔انتہائی کٹھن اور دشوار مراحل سے گزرتے ہوئے دوبرس کی سخت محنت کے نتیجے میں ۲۶جنوری ۲۰۱۴ء کونیا آئین منظور ہوا۔ اور ۲۶؍اکتوبر۲۰۱۴ء کو پارلیمانی انتخابات کے موقعے پر عوام نے پہلی مرتبہ پوری آزادی کے ساتھ اظہار راے کا حق استعمال کیا۔جس کے نتیجے میں ملک پُرامن انتقالِ اقتدار کے حتمی مراحل کی جانب گام زن ہے۔
واضح بیرونی مداخلت، نیز اسلامی تحریکات سے کھلی دشمنی کا مظاہرہ کرنے والے بعض عرب ممالک کی طرف سے نہضت کے خلاف اربوں ڈالر جھونک دیے جانے کے باوجود حالیہ پارلیمانی انتخابات کا مرحلہ خوش اسلوبی سے طے پایا۔اگرچہ سرکاری نتائج کے مطابق سابق وزیراعظم اور صدر بورقیبہ کے دور میں اہم عہدوں پر رہنے والے الباجی قائد السبسی کی سربراہی میںسیکولر پارٹی ’نداے تیونس‘ ۸۶سیٹیں حاصل کر کے پہلے نمبر پر رہی لیکن وہ مختلف النوع، مختلف الخیال گروہوں کا ایک مجموعہ ہے جسے صرف ’نہضت‘ دشمنی میں اکٹھا کیا گیا ہے۔ تحریک نہضت ۶۹نشستوں پر کامیاب ہو کر دوسرے نمبر پر آئی ہے۔یکسو اورمضبوط نظریاتی بنیادوں والی جماعت کی حیثیت سے تحریک نہضت ہی نومنتخب ایوان کی اصل قوت ثابت ہوگی۔ نہضت چاہے تو جوڑ توڑ کی سیاست کرکے اب بھی کوئی کمزور حکومت قائم کرسکتی ہے، لیکن اس کی تمام تر توجہ حصولِ اقتدار نہیں، مستحکم اور آزاد ملکی نظام کی تشکیل و استحکام پر مرکوز ہے۔حالیہ پارلیمانی انتخابات اس لحاظ سے بھی اہمیت کے حامل تھے کہ ان کے نتیجے میں ملک میں عبوری سیاسی مرحلے کا اختتام ہوا، اوراس لحاظ سے بھی بہت اہمیت کے حامل تھے کہ یہ انقلاب کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان ایک اعصاب شکن سیاسی معرکہ تھا ۔
تحریک نہضت کی قیادت نے کھلے دل سے نتائج کو تسلیم کرتے ہوئے نداے تیونس کے سربراہ الباجی قائد السبسی کو مبارک باد دی ہے، ساتھ ہی ملک کے وسیع تر مفاد میں قومی حکومت تشکیل دینے کا مشورہ بھی دیاہے۔ تیونس کے قانون کے مطابق حکومت کی تشکیل کی ذمہ داری اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی کو سونپی جاتی ہے ، لیکن ۵۰فی صد نشستوں پر کامیاب نہ ہوپانے کے باعث سب سے بڑی پارٹی نداے تیونس کو بھی مخلوط حکومت ہی تشکیل دینا پڑے گی۔نداے تیونس کی قیادت نے کہا تھا کہ ۲۳نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات کے بعد ہی ان کی پارٹی فیصلہ کرے گی کہ کس کے ساتھ مل کر حکومت بنائی جائے۔اہم بات یہ ہے کہ نہضت کے پاس بھی اتنی نشستیں ہیں کہ اس کے بغیرکوئی بھی بل پاس نہیں ہوسکے گا۔
پارلیمانی انتخابات کے بعدایک اہم مرحلہ۲۳نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات تھے۔ نہضت نے صدارتی انتخابات میں حصہ نہ لینے کا اعلان تو بہت پہلے کر دیا تھا۔ انتخابات سے پہلے انھوں نے کسی متعین صدارتی امیدوار کی حمایت نہ کرنے کا فیصلہ بھی کر لیا۔ انھو ں نے اپنے ووٹرز کو اختیار دیا کہ وہ جسے زیادہ اہل سمجھیں اسے ووٹ دیں۔ میدان میں ۲۵صدارتی امیدوار تھے لیکن اصل مقابلہ دو بڑے امیدواروں : نداے تیونس کے سربراہ الباجی قائد السبسی اور موجودہ صدر منصف المرزوقی کے درمیان رہا۔ السبسی نے۴۶ء۳۹ فی صد اور منصف المرزوقی نے۴۳ء۳۳ فی صد ووٹ حاصل کیے۔ باقی امیدوار بہت نیچے تھے۔ اب دونوں بڑے اُمیدواروں کے مابین ۲۸دسمبر کو دوبارہ مقابلہ ہوگا۔ ووٹ تقسیم سے بچیں گے تو امید ہے کہ زیادہ فائدہ صدر منصف کو حاصل ہوگا۔ نہضت بھی شاید کسی نہ کسی صورت اس کی واضح تائید کر دے۔ لیکن تحریک نہضت کا فیصلہ ہے کہ فی الحال وہ خود اقتدار میں نہیں آئے گی۔ معاشرے کے ایک ایک فرد کے سامنے اپنی دعوت پیش کرے گی۔ نو منتخب حکومت کی کارکردگی بھی بہت جلد اپنا چہرہ عوام کو دکھا دے گی اور ان شاء اللہ جلد یا بدیر تیونس کے حالیہ سیاسی نقشے پر خیر غالب ہوکر رہے گا۔واضح رہے کہ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے منصف المرزوقی صرف تحریک نہضت کی تائید و حمایت کی بدولت ہی گذشتہ تین برس سے منصب صدارت پر فائز تھے۔ نتائج سے واضح ہوتا ہے کہ اعلان نہ کرنے کے باوجود تحریک نہضت کے اکثریتی ووٹ منصف المرزوقی کے پلڑے میں پڑے، جب کہ انقلاب کے مخالفین، متشدد سیکولر اور سابق صدر زین العابدین کے دور میں اہم حکومتی عہدے داروں کی تمام تر تائید نداے تیونس کو حاصل ہوئی۔
پارلیمانی انتخابات کے بعد ہی سے ذرائع ابلاغ پر تیونس کے مستقبل کے بارے میں مختلف تبصرے کیے جا رہے ہیں لیکن ایک اہم سوال یہ ہے کہ انقلاب کے بعد انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والی اسلامی تحریک ۲۰۱۴ء کے انتخابات میں آخر کیوں دوسرے نمبر پر آگئی؟اس کے جواب میں مخالفین اپنا پورا زوریہ ثابت کرنے پر لگا رہے ہیں کہ ’سیاسی اسلام‘ ناکام ہوگیا۔ آج کے دور میں اسلام کا نظام نہیں چل سکتا۔ اسلام عصر حاضر کے گمبھیرمسائل کا حل نہیں دے سکتا، لیکن یہ حقیقت بھی سب پر آشکار ہے کہ وہ تمام عالمی اور علاقائی طاقتیں تحریک نہضت کے خلاف مکمل طور پر میدان میں تھیں جنھوں نے اس سے قبل مصر میں منتخب حکومت اور عوامی راے کو کچل ڈالا۔ یہ سب قوتیں مصر کی طرح تیونس میں خون کے دریا تو نہیں بہا سکیں لیکن دولت، ذرائع ابلاغ اور معاشرے کے طاقت ور افراد کے بل بوتے پر انھوں نے سب اسلام دشمنوں کو یک جا کردیا۔
گذشتہ نصف صدی سے زائد عرصے تک ملک میں آمریت اور فوجی ظلم وستم کا راج رہا۔ حکمرانوں نے اپنے خلاف آواز اٹھانے والے ہر فرد اور تحریک کو کچل کر رکھ دیا۔بڑے بڑے علما اوراسلامی فکر کے علَم برداروں کو بیڑیاں ڈال کر جیلوں میں بند کر دیا گیا۔معاشرے میںفکری، اخلاقی ، معاشی او ر معاشرتی زوال کو فروغ دیا۔۲۰۱۱ء کے انقلاب کے بعد مختصر عرصے میںقوم کو اپنا مکمل ہم نوا بنانا نہضت کے لیے ممکن نہ تھا۔ ملک میں بنیادی آزادیاں اور جمہوریت بحال کرنا بھی ایک بہت بڑا چیلنج تھا جس کے لیے دسیوں سالوں کی محنت درکار تھی ۔ الحمد للہ تین سال کے عرصے میںعوام کو ایک متفقہ آئین اورآزادی مہیا کرنا نہضت کی ایک بڑی کامیابی ہے۔بعض لوگوں کی راے ہے کہ نہضت کے دوسرے نمبر پرآنے سے ایک طرف ملک میں انقلاب دَر انقلاب کا خطرہ ٹل گیا ہے کیونکہ جن سے خطرہ تھا وہی اب حکومت میں ہیں۔ دوسری طرف تحریک نہضت کو اپوزیشن میں رہ کر حکومتی غلطیوں سے سیکھنے اور اسے ان سے روکنے کا موقع ملے گا۔ اپنی تنظیم نو اور دعوت کو پھیلانے کا وقت ملے گا۔سماجی اور دعوتی سرگرمیوں پر پوری توجہ دینے کی فرصت ملے گی، اور ان شاء اللہ آیندہ انتخابات کو ہدف بنا کر مزید آگے بڑھنے کا موقع ملے گا۔ گویا تحریک نہضت اکثریت حاصل نہ کر کے بھی کامیاب رہی۔
افغانستان کے نئے صدر اشرف غنی نے سب سے پہلے جس ملک کا غیر ملکی دورہ کیا وہ چین تھا اور اس کے بعدپاکستان آئے ۔ اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ اس لیے کہ اشرف غنی صاحب انتخابات سے پہلے اور بعد میں بھی جس فراست اورعملیت پسندی کا مظاہرہ کررہے ہیں اس کا تقاضا یہی تھا کہ ہندستان سے پہلے اس پڑوسی ملک میں آئیں جو ان کے ملک میں غلط یا صحیح سب سے زیادہ موضوع بحث رہتاہے ۔
ڈاکٹر اشرف غنی نے کرسیِ صدارت سنبھالتے ہی ایسے اقدامات کیے جس سے ان کے مصالحانہ رویے اور عملیت پسندی کا اظہار ہوتا ہے ۔ ایک زیرک سیاستدان کی خوبی یہی ہوتی ہے کہ وہ موقعے کا انتظار کرتا ہے اور موقع ملتے ہی فیصلے کرنے سے دریغ نہیں کرتا ۔ چنانچہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ سے مصالحت کرنے کے فوراًبعد انھوں نے امریکا کے ساتھ دوطرفہ معاہدے پر دستخط کرنے میں دیر نہیں لگائی جس کا عرصے سے امریکی حکومت کو انتظار تھا ۔ لیکن یہ مصالحانہ رویہ صرف طاقت ور حریفوں کے ساتھ تھا ۔ حکومتی اداروں اور اہلکاروں پر انھوں نے فوراًہی گرفت مضبوط کی۔ کابل میں موجود سرکاروں شعبوں پر چھاپے مارنے کا سلسلہ شروع کیا اور چند ہی دنوں میں ان کی کایا پلٹ گئی۔ اب آپ کو طورخم بارڈر عبور کرتے ہی ایک مختلف کلچر نظر آئے گا۔ سرکاری افسر ہویا ملازم، کام پر لگ گیا ۔ وہ خود دن میں۱۸گھنٹے کام کررہے ہیں اور اپنے اسٹاف کے آرام سے بیٹھ رہنے کے روادار نہیں۔
پاکستان کا دورہ اور پاکستان کے ساتھ افغانستان کے جملہ معاملات طے کرنا ہی ان کی ترجیحات میں شامل تھا۔ اس لیے پہلی فرصت میں ایک بھاری بھر کم وفد کے ساتھ دورے پر آئے۔ افغان صحافتی حلقوں نے ۱۳۰؍افراد پر مشتمل وفد کے حجم پر اعتراض کیا لیکن وہ جو کہتے ہیں نا کہ He means business، یعنی وہ پاکستان سے کچھ چاہتاہے ۔ ہوسکتاہے کہ پہلے دورے میں وہ متنازع اُمور نہ چھیڑیں، تاہم روزمرہ کے معاملات پر وہ سنجیدگی سے بات کرنا چاہتے تھے ۔ ظاہر ہے پاکستان کی اہمیت افغانستان کے لیے ہر دوسرے ملک سے سوا ہے ۔ اگر طورخم پھاٹک چندگھنٹوں کے لیے بند ہوجاتا ہے تو کابل کے بازار میں ملک پیک کی قیمت بڑھ جاتی ہے اور کرنسی مارکیٹ مندی پڑجاتی ہے ۔ صدر کے وفد میں چیف آف اسٹاف جنرل شیرمحمدکریمی، وزیردفاع بسم اللہ محمدی اوروزیر خزانہ عمرزخی خیل سمیت سینیرافغان دفاعی حکام بھی شامل تھے۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا پروگرام تھا کہ ہر سطح پر پاکستانی اور افغانی قیادت کو باہم مربوط کیا جائے، ذہنی دُوری ختم کی جائے اور قربت پید اکی جائے ۔وہ پاکستان سے فوری طور پر کوئی مراعات لینے کے موڈ میں نہیں تھے بلکہ تعلقات بنانے آئے تھے ۔ اعتماد سازی کا عمل چاہتے تھے۔ کرزئی حکومت کا المیہ یہ تھا کہ وہ پاکستان مخالف رجحانات کی اسیربن گئی تھی اور گاہے بہ گاہے اس کا اظہار بھی ہوتا تھا ۔ اس کا افغانستان کوکوئی فائدہ نہ ہوا بلکہ دونوں پڑوسی ممالک میں دُوریاں پیدا ہوئیں جس کا فائدہ ہندستان نے اٹھایا اور اس کا اثر ورسوخ غیر معمولی حدتک بڑھ گیا ۔ اب ایسا بھی نہیں کہ ڈاکٹر اشرف غنی پاکستان سے تعلقات بنانے کی قیمت پر بھارت سے بگاڑ پیدا کریں گے۔ ان کی عملیت پسندی کا تقاضایہ ہے کہ وہ ہر ایک فریق سے اس کی اپنی حیثیت کے مطابق معاملہ کریں۔ کوئی بھی کابل حکومت پاکستان سے تعلقات بگاڑکر افغانستان میں ترقی اور امن وسلامتی کا خواب نہیں دیکھ سکتی ۔
ڈاکٹر اشرف غنی نے صدر پاکستان ممنون حسین اور وزیر اعظم میاں نوازشریف سے ملاقاتوں میں طالبان کا ایشواس طرح نہیں اٹھا یا جس طرح اس سے پہلے افغان حکومتیں اٹھاتی رہی ہیں۔ اگر وہ ایسا کرتے بھی تو اس کا جواب دینا پاکستا نی قیادت کے لیے زیادہ مشکل نہیں تھا ۔ البتہ ہوسکتا ہے کہ یہ محض اتفاق ہو کہ امریکی انتظامیہ نے نئی افغان حکومت کے سربراہ کے دورۂ پاکستان سے محض ۱۰دن پہلے ایک خفیہ پرانی رپورٹ نشرکردی جس میں حسب سابق پاکستانی جاسوسی اداروں پر افغانستان میں حکومت مخالف گروہوں کی پشت پناہی کا الزام لگایا گیا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ اس رپورٹ کا مقصد پاکستانی حکومت کو دبائو میں لانا ہو تاکہ وہ ڈاکٹر اشرف غنی کے مطالبات بآسانی تسلیم کرے ۔ حالانکہ پاکستانی قوم سب سے زیادہ اس کی متمنی ہے کہ افغانستان میں امن وامان قائم ہو اور ایک منتخب نمایندہ حکومت ملک میں سیاسی استحکام پیدا کرے ،متحارب افغان گروہوںمیں مصالحت ہوجائے اور پاکستان میں موجود افغان مہاجر آبادی اپنے ملک واپس جاسکے۔
افغان صدارتی دورے کی ایک اہم پیش رفت پاکستان مسلح افواج کی قیادت سے اس کا براہ راست مکالمہ ہے ۔ اس سے پہلے پاکستان کے سالار جنرل راحیل شریف نے کابل کا ایک روزہ دورہ کیا ۔ یہ ایک ایسا خیرسگالی دورہ تھا جس کی عرصے سے ضرورت تھی۔ اس کی حیثیت محض علامتی نہ تھی بلکہ پاکستانی اور افغانی فوج کے درمیان تعلقات کی بحالی ایک زمینی حقیقت ہے۔
جنرل راحیل شریف نے اس دورے میں افغان فوج کوتربیت کی سہولتیں پہنچانے کی پیش کش بھی کی تھی ۔ پاک آرمی دنیا میں عسکری اور پیشہ ورانہ صلاحیت کے لحاظ سے ایک اعلیٰ مقام رکھتی ہے ۔ ایبٹ آباد کی کاکول اکیڈمی دنیا میں عسکری تربیت کا ایک منفرد ادارہ ہے۔ اس لیے افغان آرمی کے افسران کے لیے اس کے دروازے کھولنا ایک اہم پیش رفت ہے ۔ اب تک افغان آرمی کی تربیت کاکام مغربی افواج کے ماہرین نے سرانجام دیا ہے ۔ بھارت نے بھی اس میں اپنا حصہ ڈالا ہے اور کئی سطح پر افغان عسکری اہلکار وہاں تربیتی کورسز میں شرکت کررہے ہیں ، جب کہ زیادہ قریب پاکستان ادارے اس ’ثواب‘ سے محروم رہے ہیں ۔ حالیہ دورے میں افغان صدر نے اس پیش کش کو قبول کرنے کا اعلان کیا ہے جس کے لیے تفصیلات بعد میں طے کی جائیں گی ۔ انھوں نے جی ایچ کیو جاکر پاکستانی کمانڈر انچیف سے ملاقات کی اور یادگارِ شہدا پر پھول بھی چڑھائے ۔
افغان صدر کے سہ روزہ دورے کے اختتام پر جو اعلامیہ جاری کیا گیا ہے اس میں پاکستان اور افغانستان کے دوطرفہ تجارت کو بڑھانے اور تعلقات کو فروغ دینے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے ۔ وزیر اعظم پاکستان اور صدر افغانستان نے مشترکہ پریس کانفر نس سے خطاب بھی کیا ۔ میاں نواز شریف نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں امن عمل کے لیے افغان طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے اشرف غنی کے پروگرام کاحامی ہے ۔ یادرہے کہ ڈاکٹر اشرف غنی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران باربار افغان طالبان کے ساتھ با معنیٰ مذاکرات کا ارادہ ظاہر کیا تھا اور اب بھی ایسا کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ مشیرخارجہ سرتاج عزیزنے بھی اس کی وضاحت کرتے ہوئے میڈیا کو بتایا کہ پاکستان افغانستان میں امن کے قیام میں اپنا کردار اداکرنا چاہتا ہے لیکن مسلح افغان گروہوں کے ساتھ اس کے تعلقات اب اس درجے کے نہیں کہ وہ ان پر کوئی دبائو ڈال سکے۔
پاکستان اور افغانستان نے باہمی تجارت کے ایک معاہدے پر دستخط کیے جسکی تفصیلات کے لیے ماہِ دسمبر میں باقاعدہ مذاکرات کیے جائیں گے۔جن اہم تجارتی منصوبوں پر گفتگو ہوئی اس میں وسط ایشیائی ممالک سے بجلی اور گیس کے ترسیل کے معاہدے اور کاسا1000اور تاپی بھی شامل ہیں جو بین الممالک اور علاقائی تجارتی منصوبے ہیں ۔ ایک اور اہم منصوبہ پاکستان سے ریل کی پٹڑی کو افغانستان اورپھر وسط ایشیائی ممالک تک توسیع دینے کا منصوبہ ہے جو بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ گرم سمندروں سے پاکستان کے ذریعے مواصلاتی رابطے ان ممالک کے لیے بہت اہم ہے۔ یہ اس خطے کا پورا نقشہ بدل سکتے ہیں ۔ چین بھی ان رابطوں میں دل چسپی رکھتاہے۔ اس لیے کراچی کے بعد گوادر کی بندرگاہ پاکستان کے لیے بے پناہ تزویراتی اہمیت کی حامل ہے ۔
میاں نواز شریف نے افغان صدر کو خوش آمدید کہتے ہوئے دوجملے ایسے کہے جو اس تعلق کی گہرائی کو ظاہر کرتے ہیں جو دونوں ممالک کے درمیان موجود ہے ۔ انھوں نے کہا کہ ہم اشرف غنی کو ان کے دوسرے گھر پاکستان میں خوش آمدید کہتے ہیں۔ اور یہ کہ افغانستان کے دوست ہمارے دوست، جب کہ اس کے دشمن ہمارے دشمن ہیں۔ اشرف غنی نے جواب میں کہا کہ ماضی کو بھول کر مستقبل پر نظر رکھنی چاہیے ۔ انھوں نے تجارت سے متعلق حالیہ سمجھوتے کے بارے میں کہا کہ ۱۳سال کا سفر تین دن میں طے ہوا۔ گویا دونوں ممالک کی باہمی تجارت میں جورکاوٹیں ہیں ان کو دور کرلیا گیا ہے ۔ انھوں نے وزیراعظم پاکستان کو دورۂ افغانستان کی دعوت بھی دی ۔
افغان صدر نے دورۂ پاکستان کے دوران جن قومی رہنمائوں کو شرفِ ملاقات بخشا ان میں نیشنل عوامی پارٹی کے صدر اسفندیار ولی اور ان کے ہمراہ افراسیاب خٹک ، پختونخوا ملّی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خا ن اچکزئی اور قومی وطن پارٹی کے صدر جناب آفتاب خان شیر پائو قابل ذکر ہیں ۔ جو سب کے سب پختون قوم پرست لیڈر شمار کیے جاتے ہیں ۔ ان کے علاوہ پیپلز پارٹی کے رہنمائوں میں اعتزاز احسن ، فیصل کریم کنڈی ، فرحت اللہ بابر اور شیریں رحمن صاحبہ نے بھی ان سے ملاقات کی ۔ کسی بھی دینی یا مذہبی پارٹی کے سربراہ سے ان کی ملاقات نہ ہوئی ۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کی بہت ساری جہتوں میں ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ یہ دونوں ان ۱۳ممالک کی فہرست میں شامل ہیں جن کو دنیا میں سب سے زیادہ امریکی مالی تعاون حاصل ہے۔امریکی بالادستی عسکری اور معاشی دونوں میدانوں میں فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے۔ امریکی چھتری تلے ان ممالک کی قیادت کے لیے ایسے فیصلے کرنا جو مستقبل میں ان کی معاشی وسیاسی آزادی کا سبب بنیں ناممکن نہیں تو مشکل ضرو ر ہیں۔ پھر بھی قیادت کا استحکام اور تسلسل اس منزل کی طرف سفر جاری رکھ سکتا ہے ۔
آخر میں ڈاکٹر اشرف غنی کے بارے میں ایک افواہ جو کابل کے ٹیکسی ڈرائیوروں میں عام ہے سنتے جائیے ۔ ڈاکٹر اشرف غنی اچھا آدمی ہے، محنت کررہاہے لیکن وہ ایک ایسی جان لیوا بیماری میں مبتلاہے جس کی وجہ سے اس کے پاس وقت بہت کم ہے ۔
مؤلف جو بیرسٹر ہیں، اسلام، قانون اور حقوقِ انسانی پر کئی کتب کے مصنف ہیں، کتاب کی وجۂ تالیف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’پیشِ نظر کتاب میں اسلامی تہذیب کے بنیادی اصولوں اور آداب کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسوئہ رسولؐ کے زندہ جاوید آثار کی رہنمائی میں حُسنِ اخلاق سکھلانے والا یہ مجموعہ مرتب کیا گیا ہے جس میں انسانی زندگی کے بہت سے پہلوئوں سے متعلق اسلامی آداب پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے‘‘۔ (ابتدائیہ)
کتاب میں اختصار کے ساتھ مختلف موضوعات اور ابواب کے تحت احادیث کا انتخاب پیش کیا گیا ہے۔ انداز ایسا ہے کہ دورانِ مطالعہ قاری کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ صحبت ِ رسولؐ میں موجود ہو اور براہِ راست آپؐ کی ہدایات سے فیض یاب ہو رہا ہو۔ کچھ عنوانات: ’خندہ پیشانی حُسنِ اخلاق ہے‘، ’تم آسانیاں پیدا کرنے کے لیے بھیجے گئے ہو‘، ’اللہ سے عزت لینے کا آسان طریقہ‘، ’مزاح سنت ہے‘، ’غیبت بدبودار ہے‘، ’بدگمانی سب سے بڑا جھوٹ ہے‘، ’ایثار شرف کا ثبوت ہے‘۔ آخری باب: ’دعوت انبیا ؑ کا راستہ ہے‘ اس پہلو کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ اخلاقی تعلیمات پر نہ صرف خود عمل کرنا ہے بلکہ اسلامی تہذیب و معاشرت کے فروغ کے لیے دوسروں کو دعوت بھی دینا ہے۔ ہرنبی ؑ کی طرح رسولِ کریمؐ کے اسوئہ کا یہ نمایاں ترین پہلو ہے۔
کتاب کی ایک اور خصوصیت اختصار و جامعیت ہے۔ وقت کی کمیابی سے دوچار افراد بھی مختصر وقت میں اخلاقی تعلیمات اور عملی رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں۔ طباعت کا معیار ’بہترین‘ ہے۔(امجدعباسی)
انسانی تہذیب و ثقافت میں اظہار و ابلاغ کے متعدد ذرائع رُونما ہوئے۔ پریس کی ایجاد نے اخبارو اطلاعات کی ترسیل کا دائرہ بہت وسیع کردیا۔ یورپ کی استعماری طاقتوں نے اپنے تجارتی اور توسیع پسندانہ عزائم کے تحت جب مسلم ممالک پر قبضہ کیا تو پریس کی طاقت کا استعمال بھی ہوا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے عہد میں صحافت کے ابتدائی نقوش اُبھرے۔ ۱۷۸۰ء میں ملّی گزٹ سے متحدہ ہندستان میں صحافت کا آغاز ہوا۔ ۱۸۰۰ء میں فورٹ ولیم کالج قائم ہوا جس سے اُردوزبان کو تعلیم یافتہ طبقے میں اعتبار حاصل ہوا۔ ۱۸۳۳ء میں کلکتہ سے آئینہ سکندری کے نام سے فارسی زبان میں اخبار شائع ہوا۔ عیسائی اپنے اخباروں کے ذریعے اسلام پر شدید تنقید کررہے تھے۔ اسلامی صحافت کا وجود معاصر حالات کے ردّعمل کے طور پر ہوا۔ ۱۸۳۳ء سے ۱۸۵۷ء تک مختلف زبانوں میں شائع ہونے والے اخباروں کی تعداد ۴۴ تھی۔
زیرنظر کتاب میں برصغیر میں اسلامی صحافت کے آغاز اور ارتقا پر تحقیقی و تنقیدی نظر ڈالی گئی ہے۔ ۱۸۵۷ء میں اخبار سراج الاخبار وغیرہ میں مسلمانوں کے کارنامے منظرعام پر لائے جاتے تھے۔جنگ کے بعد انگریز حکومت نے ایک مدت کے لیے مسلمانوں کے تمام اخبار بند کردیے۔ دہلی اُردو اخبار کے ایڈیٹر مولوی محمد باقر کو توپ سے اُڑا دیا گیا۔ انگریزی اخبار مسلمانوں کے خلاف محاذ بنائے ہوئے تھے۔ سرسیداحمدخاں نے جریدہ سائنٹفک سوسائٹی اور تہذیب الاخلاق کے ذریعے مسلمانوں کو جدید تعلیم و تہذیب کی طرف راغب کیا۔
۱۸۵۸ء سے لے کر ۱۹۰۰ء تک مختلف زبانوں میں متحدہ ہندستان میں ہفت روزوں، ماہناموں، دس روزوں، پندرہ روزوں اور روزناموں کی تعداد ۲۵۱تھی۔ ان اخبارات کے ناموں کے علاوہ ان کے مدیروں کے نام بھی لکھے گئے۔ ۱۹۰۱ء سے ۱۹۴۷ء تک کے اخبارات کو اُردو صحافت کا سنہری دور کہا گیا ہے۔ انگریزی سامراج کے خلاف زوردار آواز حسرت موہانی نے ۱۹۰۳ء میں رسالہ اُردوے معلٰی میں اُٹھائی۔ محمد علی جوہر، ابوالکلام آزاد اور ظفر علی خان کے اخبارات نے مسلمانوں کی دینی، معاشرتی اور سیاسی بیداری میں اہم کردار ادا کیا۔ زیرنظر کتاب میں فاضل محقق نے ان اخبارات کے مقاصد، سیاسی وابستگی، مضامین کے عنوان اور مضمون نگاروں کے نام بھی لکھے ہیں۔ مولانا حسرت موہانی، مولانا ظفر علی خان، محمدعلی جوہر، ابوالکلام آزاد، عبدالماجد دریابادی اور مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کی صحافتی زندگی، ان کے اخبار و جرائد کی خصوصیات، سیاسی وابستگی اور ان کے علمی و ادبی کمالات کے علاوہ صحافت کی تاریخ میں ان کے مرتبہ و مقام کا تفصیلاً جائزہ لیا گیا ہے۔ مجلہ معارف ،ترجمان القرآن، اسلامک کلچر، الفرقان اور مجلہ بُرہان پر بھی جامع تنقیدی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ پاک و ہند میں عربی صحافت کا بھی فاضل محقق نے تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ اس کتاب کے مصنف نے ریاض یونی ورسٹی سے ایم اے کے لیے یہ مقالہ عربی زبان میں تحریر کیا تھا جسے مولانا احسن علی خاں ندوی نے اُردو قالب میں ڈھالا ہے۔بعض اندرجات توجہ طلب ہیں: سرسیّد احمد کا سنہ وفات ۱۸۸۹ء نہیں (ص ۴۶) ۱۸۹۸ء صحیح ہے۔ ابوالکلام آزاد نے الہلال دوبارہ ۱۹۲۷ء میں نکالا، اس وقت دوسری جنگ عظیم نہیں بلکہ پہلی جنگ ِ عظیم کی وجہ سے ہندستان پیچیدہ حالات سے گزر رہا تھا(ص ۱۶۲)۔ البلاغ، ۱۹۱۴ء میں نہیں بلکہ ۱۲نومبر ۱۹۱۵ء کو منصہ شہود پر آیا (ص۱۶۲)۔ان کے علاوہ بھی مزید چند مقامات پر تصحیحات کی ضرورت ہے۔(ظفرحجازی)
شاہراہِ وقت پر ترقی اور کامیابی کا سفر تبھی طے ہوسکتا ہے جب انسان متوازن زندگی گزارے۔ محمدبشیر جمعہ کی ترتیب دی ہوئی تازہ کتاب ترقی اور کامیابی بذریعہ تنظیم وقت انسانی زندگی کو مؤثر ، منظم، مستعد اور مربوط بنانے کے عمل میں مشوروں پر مشتمل عمدہ رہنمائی کا ذریعہ ہے۔ کتاب دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ترتیب کار نے کتنی محنت، دقّت نظر اور عرق ریزی کے ساتھ یہ لوازمہ فراہم کیا ہے۔ قرآن و سنت، تاریخی واقعات و شخصیات اور جدید تحقیق کی روشنی میں کامیابی کے گُر سامنے لائے گئے ہیں۔ کتاب میں درج بنیادی ساری باتیںکتابی نہیں عملی بھی ہیں، جن کو کام میں لاکر کوئی چاہے تو زندگی کے میدان میں کامیابی سمیٹ سکتا ہے اور آگے بڑھ سکتا ہے۔
۱۵ ابواب پر مشتمل یہ لوازمہ کامیابی کے مفہوم، وقت کی قدروقیمت، فوائد، اقسام اور استعمال بارے تفصیلی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ وقت بہتر انداز میں کیسے استعمال کیا جائے، اور اس کے ضیاع کو کیسے روکا جائے، اس کے اہم اور کلیدی موضوعات ہیں۔ زندگی کے نصب العین کا تعین، تبدیلی کیوں اور کیسے؟ آگے بڑھنے کا عمل، اخلاقِ فاضلہ کوکیسے پروان چڑھایا جائے؟ بُری عادات اور رویّے کیسے ترک کیے جائیں؟ صلاحیتوں کی آبیاری کیسے ہو؟ ترجیحات کا تعین، منصوبہ سازی، کارکردگی میں بہتری اور سستی اور کاہلی کا مقابلہ کیسے ہو؟ گفتگو، تقریر و تحریر اور مطالعہ کیسے کیا جائے کہ یاد رہے۔ یہ اور اس طرح کے عملی مشوروں پر مشتمل یہ کتاب ایک دل چسپ اور مفید کتاب ہے۔ کتاب میں استعمال کی گئی بعض اصطلاحات اُردو خواں طبقے کے لیے نئی ہوسکتی ہیں اور مشورے اجنبی، لیکن ان پر عمل کرنے والا محروم نہیں رہے گا۔ آخر میں جن کتب ، تراجم اور مضامین سے استفادہ کیا گیا ہے، ان کی فہرست بھی فراہم کردی گئی ہے۔ تمام شعبہ ہاے زندگی سے تعلق رکھنے والے حضرات ان مفید مشوروں سے فیض یاب ہوسکتے ہیں لیکن وہ لوگ جنھوں نے ابھی زندگی کا سفر طے کرنا اور زندگی کے میدان میں کارہاے نمایاں سرانجام دینے ہیں، یہ کتاب ان کے لیے رہنمائی کا عمدہ ذریعہ ہے۔ وہ ایک کامیاب اور متوازن زندگی کے لیے مکمل لائحہ عمل اور پلان ترتیب دے سکتے ہیں۔ بڑے بھی چاہیں تو اس سے نفع پاسکتے ہیں۔
اتنے اہم اور قیمتی مشوروں اور رہنمائی پر مبنی یہ لوازمہ خوب صورت اور معیاری طریقے پر پیش کیا گیا ہے اور قیمت بھی زیادہ نہیں۔(عمران ظہور غازی)
مصنف انجینیرہیں اور مطالعے کا ذوق اور اسلام کا درد رکھتے ہیں۔ا نھوں نے کائنات کے حوالے سے قرآن حکیم کی جتنی آیات اور احادیث مل سکیں ان کو ان ۱۵ مختلف عنوانات کے تحت نہ صرف بیان کیا ہے بلکہ ان کی تشریح بھی لکھی ہے۔ سائنسی تشریحات اور قرآن و حدیث کی تشریحات کا موازنہ بھی کیا ہے۔ کتاب میں جابجا زمین اور آسمان کے نقشے، اللہ تعالیٰ کے عرش کے مختلف حالتوں کے نقشے ،اور زمین ، آسمان اور سیاروں کے ایک دوسرے سے فاصلے کے جدید ریاضی کے مطابق حسابیات بیان کی گئی ہیں۔ غرض کہ کتاب کی تصنیف بڑی عرق ریزی سے کی گئی ہے اور کوشش کی گئی ہے کہ یہ سب قرآن اور حدیث کے تصورات کے حدود میں رہیں۔ اس حوالے سے پروفیسر مفتی منیب الرحمن نے بڑی صائب راے کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے دی ہے: یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ فہم قرآنی کی ایک علمی کاوش اور بشری سعی ہے۔ ضروری نہیں کہ قطعی اور حتمی ہو، حقیقی اور قطعی علم صرف اللہ کے پاس ہے ، کیونکہ سائنسی نظریات بدلتے رہتے ہیں‘‘۔ (ص ۲۷)
سائنسی اُمور پر اُردو میں لکھنا جب تک عبور حاصل نہ ہو بیان اور جملوں میں بے ربطی پیدا کردیتا ہے۔ بعض آیات کے ترجمے بھی قابلِ غور ہیں۔ مصنف کی یہ پہلی کوشش ہے توقع ہے کہ آیندہ طباعت میں اس طرف توجہ کی جائے گی۔ (شہزادالحسن چشتی)
ترجمان القرآن کے ’اشارات‘ نے ہمیشہ تحریک اسلامی کے کارکنان کی ذہنی آبیاری کی ہے اور فکری یکسوئی پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ قطع نظر اس کے کہ یہ ’اشارات‘ مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی نے تحریر کیے ہوں یا پروفیسر عبدالحمید صدیقی نے ، نعیم صدیقی نے یا ملک غلام علی نے، خرم مراد نے یا پروفیسر خورشیداحمد نے۔ یہ ’اشارات‘ خونِ جگر نچوڑ کر تحریر کیے جاتے رہے ہیں۔ لیکن نومبر ۲۰۱۴ء کے اشارات ’تحریک اسلامی اور موجودہ سیاسی بحران‘ نے مولانا مودودی مرحوم کی یاد تازہ کردی۔ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر انیس احمد کو جزا عطا فرمائے۔
’تحریک اسلامی اور موجودہ سیاسی بحران‘ (نومبر ۲۰۱۴ء) ڈاکٹر انیس احمد نے جس تحریکی، دینی، سیاسی اور انقلابی وژن کے ساتھ لکھا ہے وہ قابل تحسین ہے۔ ہر کام اور سوچ میں کارکن کو اللہ تعالیٰ سے مضبوط تعلق پیدا کرنے، اخلاص و خلوص اور دیانت و امانت کو ہرحال میں پیش نظر رکھنے کی جس طرح تلقین کی گئی ہے، نیز شہرت و نام وَری اور ریاکاری و دکھلاوے سے اپنے ہرعمل کو پاک رکھنے کی نصیحت کی گئی ہے___ یہی ایک اسلامی تحریک کا شعار ہے۔
ڈاکٹر انیس احمد کے مضامین اپنے موضوعات اور مواد کے اعتبار سے اہم اور بیش قیمت ہیں۔ وہ جس محنت اور عرق ریزی کے ساتھ لکھتے ہیں اس کو نہ سراہنا قرین انصاف نہ ہوگا۔ ارشداحمد بیگ کا مضمون: ’مؤثر قیادت: چند غور طلب پہلو‘ (نومبر۲۰۱۴ء) بہت اہم ہے۔ تحریکِ اسلامی کی ہرسطح کی قیادت کے لیے اہم اور غورطلب نکات ہیں اور مفید رہنمائی کا ذریعہ ہے۔نومبر کا ترجمان طباعت کے لحاظ سے بہتر لگا۔ اس جانب خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔
’دعوتِ دین: حکمت اور تقاضے‘ (نومبر ۲۰۱۴ء) کے مطالعے سے مولانا مودودیؒ کے درسِ قرآن کی یاد تازہ ہوگئی۔ دعوتِ دین اور فریضۂ شہادتِ حق کے مراحل اور عملی تقاضوں پر اہم نکات سامنے آئے۔ تاہم فجر کی اذان کے بعد نبی کریمؐ کا دو نفل ادا کرنا (ص ۳۹) دراصل فجر کی سنتیں ادا کرنا تھا۔ اس بات کی وضاحت کی ضرورت تھی۔