مضامین کی فہرست


مارچ ۲۰۱۸

پاکستان اور مسلم ممالک کم از کم گذشتہ ۲۵سال سے ایک ایسے سیاسی خلفشار ، عدم استحکام اور سیاسی بازی گری کا شکار ہیں، جس نے نہ صرف عوام بلکہ باشعور اور تعلیم یافتہ نوجوانوں میں بھی جمہوریت پر اعتماد کو متزلزل کر دیا ہے اور عموماً یہ بات کہی جارہی ہے کہ:’ایسی جمہوریت سے تو بادشاہت اور فوجی آمریت ہی بہتر ہیں‘۔ اس مفروضے کو مستحکم کرنے کے لیے یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ: ’عام طور پر فوجی آمریت کے دور میں ملک کی معیشت میں ترقی ہوئی ہے، اس لیے جمہوریت کو خیر باد کہہ کر ہمیں صدارتی یا آمرانہ نظام کو اختیار کرنا چاہیے‘۔ اس کیفیت میں ضرورت اس بات کی ہے کہ جمہوریت سے محبت کے تعلق سے قطع نظر اور جمہوری اَدوار کی بدعنوانیوں ، ظلم اور نا انصافی ، طبقاتی تناؤ اور تفاوت کو کچھ دیر کے لیے ذہن سے محو کرتے ہوئے معروضی طور پر یہ جائزہ لیا جائے کہ خرابی کی جڑ کہاں ہے؟ کیا واقعی مسلم ممالک اپنی تاریخی روایات کے تناظر میں جمہوریت کے لیے ناموزوں اور بادشاہت یا آمریت کی روح اور نظام سے قریب تر ہیں؟ اور کیا واقعی ان کی نجات صرف مغربی جمہوریت میں ہے؟ اس آخری بات کو خاص طور پر تیونس کے تناظر میں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔

مغربی جمہوریت 

جس نظام کو مسلم دنیا میں ’مغربی جمہوریت‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، وہ باقیات ہیں اس مغربی سامراجی نو آباد یاتی نظام کے ورثے کی جسے وہ جاتے ہوئے ہمیں تحفے میں دے گیا۔ اب ہم نے اس تحفے کی جو حالت بنائی ہے؟ وہ سب کے سامنے ہے۔ چنانچہ پاکستان ہو یا ملایشیا، مصرو شام ہو یا الجزائر ، تیونس ہو یا نائیجریا، جو مسلم خطے مغربی استحصالی سامراج کے زیر تسلط رہے اور آزادی اور حریت کی تحریکوں کے باعث آخر کار سامراج کو انھیں چھوڑنا پڑا، وہ اسی نظام کو اپنے انداز میں اپنائے ہوئے ہیں۔ مقبوضات چھوڑنے کے بعد استعماری قوتوں نے مستقبل کے ایسے انتظام پر توجہ دی جس کے نتیجے میں ان تمام ممالک میں وہی سیاسی ، قانونی اور تعلیمی نظام برقرار رہے ،جو استحصالی سامراج نے مسلط کیا تھا۔ چنانچہ یہ نظام برقرار ہے۔ تیونس فرانسیسی زبان اور ثقافت کو سینے سے لگائے ہوئے ہے۔ پاکستان ، ملایشیا اور نائیجریا انگریزی میں اظہار خیال اور انگریز کی فکر، لباس اور غذا کو ترقی اور کمال سے وابستہ سمجھتے ہیں۔ انگریز کی چھوڑی ہوئی قانونی ، تعلیمی اور سیاسی روایت جوں کی توں ، اپنی بوسیدگی اور خستگی کے باوجود برقرار ہے بلکہ روز بہ روز زیادہ مطلوب و مرغوب ہوتی جا رہی ہے۔ اسی کو کامیابی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔

سیاسی تناظر میں پارلیمانی جمہوریت ایوان بالا اور ایوان زیریں کی شکل میں جیسی برطانیہ میں پائی جاتی ہے، اس کا ایک ناقص چربہ ہم نے اختیار کر رکھا ہے، حالاں کہ خود کئی یورپی ممالک (فرانس ، جرمنی ، اٹلی) برطانوی طرزِ جمہوریت کو پسند نہیں کرتے۔

مغربی جمہوریت کی بنیاد عوام کی حاکمیت اور منتخب کردہ نمایندوں کے ذریعے اپنے حق کے استعمال کے اصول پر کام کرنا ہے۔ جس میں قوت کا اصل سرچشمہ عوام قرار پاتے ہیں اور عوام کے منتخب نمایندے اس قوت کو تفویض کردہ اختیارات کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ قانون سازی پارلیمنٹ کرتی ہے اور عدلیہ ایک آزاد ادارے کی حیثیت سے انتظامیہ اور قانون ساز اداروں میں  توازن برقرار رکھنے کا کردار ادا کرتی ہے۔ چنانچہ قانون سازی کہاں تک دستور یا روایات سے مطابقت رکھتی ہے؟ اس کا فیصلہ اعلیٰ عدلیہ (عدالت ِ عظمیٰ )کرتی ہے اور عدالت عظمیٰ کی تعبیر کو حتمی خیال کیا جاتا ہے۔مغربی جمہوریت کے ان تین ستونوں، یعنی پارلیمنٹ ، انتظامیہ ، عدلیہ اور مسلح افواج کے کردار اور اختیار کو متعین کرنے کے بعد اسے اس کا پابند کر دیا گیا ہے۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے ان چاروں اداروں کو نفسیاتی الجھاؤ کی بنا پر گڈمڈ کر دیا ہے اور ساتھ ہی ہمارے اخلاقی زوال نے ان چاروں اداروں کو مسموم بھی کر دیا ہے۔ ہمارے سیاست دان اپنی پشت پناہی کے لیے عوام کی طرف نہیں دیکھتے۔ وہ اپنے طور پر سمجھتے ہیں کہ عوام ان کے زر خرید ہیں۔ دوسری جانب عسکری و بیرونی قوتوں سے ضرور اُمید یں باندھ لیتے ہیں اور ان کے منظور نظر ہونے پر پھولےنہیں سماتے۔ پاکستان کی تاریخ میں ایسے بہت سے واقعات بھی موجود ہیں کہ جب بعض نام نہاد وزراے اعظم نے گریہ وزاری کے لہجے میں امریکی صدورسے اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے حمایت کی درخواست کی۔ اسی طرح ایک آمر صرف ایک بیرونی کال پر ڈھیر ہو گیا۔

ہماراالمیہ یہ بھی ہے کہ ہم نے مغربی جمہوریت کو جو مغرب کی فضا ، ، ماحول ، روایات ، نظامِ حیات ، تہذیبی اقدار اور اخلاق پر مبنی تھی ، بغیر کسی بنیادی تبدیلی کے یہ سمجھ کر اختیار کر لیا کہ  جس صورت میں یہ وہاں رائج ہے، اسی شکل میں یہاں بھی مفید ہو گی۔چنانچہ ایک فوجی آمر کے دور میں ایک فوجی افسر نے پاکستان کو یونین کونسلوں کے نظام کا تحفہ دیا جو برطانیہ میں کام کرتا ہے لیکن یہ نہ سوچا کہ وہ سیاسی تربیت ، تقسیم اختیارات و قوت جو اس کی بنیاد ہے اس کے بغیر یہ کیسے کام کرے گا۔

مغربی جمہوریت کے خمیر میں جو اجزا شامل ہیں وہ ہماری روایات ، نظام حیات اور اقدار سے ٹکراتے ہیں لیکن ہم نے جمہوریت کے بت کو سب سے متبرک سمجھتے ہوئے اس پر مختلف غازے چڑھا کر یہ سمجھ لیا کہ یہ ہمارے لیے مناسب ہو گی۔ چنانچہ مغربی جمہوریت کے لوازمات: لادینیت، سرمایہ دارانہ ذہنیت ، مادہ پرستی ، حق کی جگہ پارٹی پرستی ، پارٹی پرستی کی جگہ شخصیت پرستی اور مفاد پرستی، مساوات مردو زن کا نعرہ لگا کر معاشرتی عدم استحکام کو تقویت دی۔ غرض مغربی جمہوریت جس نظام کو قائم کرتی ہے وہ مسلمانوں کی ثقافت ، عقیدے اور روایات سے کوئی مناسبت نہیں رکھتا، لیکن    ہم نے سادہ لوحی اور دین سے بغاوت کرتے ہوئے اسے ایک واجب تعظیم بُت کا مقام دے دیا ۔ آج پاکستان کی وہ تین بڑی سیاسی جماعتیں جو ہر لمحے جمہوریت کا وظیفہ پڑھتی ہیں، اگر اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں تو ان کا اندرونی نظام اور ملکی سیاست میں ان کا طرزِ عمل خلافِ جمہوریت کارناموں کی ’ا علیٰ ترین‘ مثال کہا جا سکتا ہے۔

مختصراً مغربی جمہوریت کے تحائف میں سرفہرست لادینیت ، مغرب پر انحصار ، ثقافتی مغلوبیت، انفرادی سطح پر خود پرستی ، معاشرتی اقدار سے بغاوت ،آزادی اور ’مذہب‘ کو مخصوص عبادت گاہوں میں محدود کر دینے کی ثقافت ہیں۔ جہاں کہیں بھی اسے اختیار کیا گیا، وہاں اس نے معاشرتی عدم استحکام اور سیاسی افراتفری پیدا کی، اخلاقی قدروں کو پامال کیا اور معاشی حوالے سے ایک طبقاتی، نظام وجود میں لانے کا باعث بنی۔ مسلم ممالک میں موجودہ سیاسی ، سماجی ، تعلیمی ومعاشی بحرانوں کی طویل فہرست مغرب کی اندھا دھند تقلید ہی کا نتیجہ ہے۔ لیکن مقامِ افسوس ہے کہ مسلم ممالک کے ذہنی اور فکری طور پرمغلوب اور غلام فرماں روا کبھی خود احتسابی کی طرف راغب نہیں ہوتے۔

پاکستانی جمہوریت

ہم نے جمہوریت کا جو ماڈل پاکستان میں نافذکر رکھا ہے، اس کے لیے مناسب نام ’مفاد پرست جاگیرداریت‘ ہے۔اس کے عناصر ترکیبی میں موروثی سیاست سب سے نمایاں ہے۔ چنانچہ ناموں سے قطع نظر سیاسی جماعتوں پر (صرف جماعت اسلامی کو چھوڑتے ہوئے ) نظر ڈالی جائے تو ہر جماعت اپنے لیڈر کی میراث پر فخر کرتے ہوئے اپنے مقام کو بڑھانے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کے سیاسی نعروں میں نہ کارکردگی کا تذکرہ آتا ہے ، نہ مستقبل کا لائحہ عمل بلکہ ’مرحومین‘ اور قیادت کے منصب پر فائز تاحیات شخصیتوں کے نام کو اپنا امتیاز بتایا جاتا ہے۔ یہ جاگیر دارانہ مو روثی جمہوریت پاکستان کے لیے زہرِقاتل ہے۔

دوسرا بنیادی عارضہ یہ ہے کہ ہماری جمہوریت علاقائیت یا صوبائیت پر مبنی ہے۔چنانچہ   نام نہاد ’بڑی‘ جماعتیں اپنی صوبائی جڑوں پر فخر کرتی ہیں اور اپنے صوبے کوبطور اشتہار پیش کرتی ہیں کہ انھوں نے ، جس صوبے پر وہ عرصے سے مسلط ہیں، وہاں یہ یہ کارنامے سرانجام دیے ہیں ، اس لیے انھیں آیندہ بھی یہ موقع دیا جائے۔فقط ایک صوبے تک محدود نظر ایک انتہائی خطرناک رجحان ہے جو ملک کی سالمیت اور دفاع کے لیے ایک خطرے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر معروضی طور پر دیکھا جائے تو صرف جماعت اسلامی یہ دعویٰ کرسکتی ہے کہ اس کی پہچان کوئی صوبہ نہیں ہے، نہ اس کی قیادت صوبائی بنیاد پر ہے، نہ اس کی ممبر شپ کسی جاگیردارانہ وابستگی سے ہے، بلکہ وہ صرف اورصرف اپنے نظریے اور اسلام کی جامعیت و ہمہ گیریت کی بنیاد پر ہر صوبے میں اپنی دعوت کی بنیاد پر موجود ہے۔اس کے ساتھ داخلی سطح پر اس میں شورائیت اور بے لاگ احتساب کا نظام بھی قائم ہے۔

مروّجہ پاکستانی جمہوریت کی ایک اورخصوصیت سیاسی قیادت کاآمرانہ طرز عمل ہے۔  جن جماعتوں کو ہمارے ذرائع ابلاغ تین بڑی جماعتیں کہتے ہیں، ان کا قائد عملاً سیاہ و سفید کا مالک ہے۔ جو کچھ وہ کہتا ہے ، اس کا نام پارٹی پالیسی ہے۔ پارٹی کے اندر نہ صحیح جمہوری انتخابات کی صورت ہے اور نہ فیصلوں میں مشاورت کا کوئی نظام ہے۔

قطع نظر جمہوریت کے حوالے سے نہ تو مغربی جمہوریت اور نہ مروجہ پاکستانی جمہوریت پاکستانی عوام کے مسائل حل کر سکتی ہے اور نہ ملکی سالمیت ، استحکام اور ترقی کے لیے کارگر ہو سکتی ہے۔ہمارے نوجوانوں کا اضطراب اور جمہوریت پر اعتماد اٹھنے کا سبب ان دونوں طرز کے جمہوری نظاموں کا بنیادی نقص ہے۔اگر اس کی اصلاح بروقت نہ کی گئی تو نوجوانوں کا اضطراب انھیں غیرجمہوری یا آمرانہ نظاموں کی طرف راغب کر سکتا ہے،جو ملکی سالمیت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہوگا۔ نام نہاد جمہوریت میں پارٹی لیڈر کا آمر ہونا، یا فوجی آمرکا قابض ہو کر انھی سیاسی مہروں میں سے کچھ کو اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے استعمال کرنا، یکساں طور پر ملک وملت کے لیے نقصان دہ ہے۔ان دونوں ممکنہ راستوں سے ہٹ کر شاہراہِ کامیابی اگر کوئی ہے تو وہ صرف وہ نظام ہے ، جس میں عدلِ اجتماعی ، عوام کی عزت وتکریم اور قرآن وسنت کی بالا دستی کو نافذکیا گیا ہو۔

  •  اسلامی نظام عدل:پاکستان اور مسلم دنیا کا غیر جانب دارانہ جائزہ لیا جائے تو ہرباشعور شخص اس نتیجے تک پہنچے گا کہ مغربی سامراجیت کا تحفہ لادینی سرمایہ دارانہ جمہوریت ، جس میں مفاد پرست صنعت کار یا سرمایہ دار اور زمین دار موروثی طور پر سیاسی قیادت پر فائز ہو جا ئیں، پاکستان اور مسلم ممالک کے لیے زہر قاتل ہے۔اور اسی طرح وہ نام نہاد جمہوریتیں جو مقامی علاقائیت اور لسانی قومیت کی بنیاد پر پیدا ہوئیں اور اقتدار پر قابض ہیں، عوام کو عدل و انصاف اور ملک کو استحکام اور ترقی دینے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔ اگر مسلم دنیا اور پاکستان کا کوئی مستقبل ہے تو وہ صرف ایسے عادلانہ نظام کے قیام میں ہے جس کی جڑیں اسلامی تصورِ حیات سے وابستہ ہوں۔
  • اسلامی نظامِ عدل کی پہچان:مغربی لادین جمہوریت کی جگہ قائد تحریک اسلامی سیّدمودودی نے جو اصطلاح اپنی بات کی وضاحت کے لیے استعمال کی وہ Theo-Democracy ہے، جسے عرفِ عام میں اللہ کی حاکمیت پر مبنی عادلانہ جمہوری نظام کہا جاسکتا ہے۔ یہ نظام اپنی ساخت اور خصوصیات میں مغربی لادین جمہوریت اور پاکستانی موروثی اور صوبائی جمہوریت سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔۷۰سال کے تجربات نے ثابت کر دیا ہے کہ اب نظام کی تبدیلی ہی مسائل کا حل ہے۔ نیا اسلامی فلاحی نظام آمرانہ بادشاہت اور مروجہ جمہوریت دونوں سے کوئی مماثلت نہیں رکھتا، بلکہ اس کے خدو خال ان دونوں سے ہر پہلو سے ممتاز ہیں۔
  •  لِلّٰہیت: اس نظام کی پہلی خصوصیت اس کی نظریاتی بنیاد ہے، جو للہیت سے عبارت ہے، یعنی اللہ کو رب تسلیم کرکے اس کی دی ہوئی ہدایت کی روشنی میں پوری انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تشکیل و تعمیر۔

للہیت سے مراد اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا انفرادی ، خاندانی ، معاشرتی، سیاسی، معاشی، قانونی، غرض زند گی کے تمام کاروبار میں فیصلہ کن مقام حاصل کرنا ہے۔یہ کسی خانقاہ میں دنیا سے کٹ کر بیٹھنے کا نام نہیں بلکہ اللہ کی زمین پر اللہ کے حکم کے نفاذ کا نام ہے۔اسلامی عادلانہ نظام میں ہرفیصلے کی بنیاد للہیت ہے،یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لیے اس کا م کا کرنا۔اسلام زندگی کو خانوں میں تقسیم کرنے کا نام نہیں بلکہ زندگی کے تمام کاموں کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت و بندگی میں دے دینے کا نام ہے۔للہیت سیاسی سرگرمی سے نہیں روکتی، بلکہ یہ اخلاقی صورت گری کا ذریعہ بنتی ہے، تاکہ سیاست کا مقصد ذاتی شہرت یا شخصیت کی مرکزیت نہ ہو، اس کی جگہ اللہ کی بندگی کو قرار دیا جائے۔ یہ ملک و ملّت کی قیادت، خدمت، عدالت، انکسار ، بے غرضی اور نمود و نمایش سے دوری کا نام ہے۔ یہ کسی مصنوعی لبادہ اوڑھنے سے پیدا نہیں ہوسکتی نہ کسی جبہ و دستار کی محتاج ہے۔یہ انسان کے روز مرہ کے طرز عمل میں پائی جاتی ہے۔ فخر و اعزاز بادشاہت کا ہو یا کسی پہنچے ہوئے فقیر کا، دونوں للہیت کی ضد ہیں۔یہ صبر و قناعت اور استقامت کا نام ہے۔

  • شریعت کی بالادستی:نئے نظام کی دوسری پہچان قرآن و سنت کی بالا دستی اور فیصلہ کن ہو نا ہے۔ اسلام کے عادلانہ نظام کا قیام صرف اس وقت ممکن ہے جب مقننہ ، انتظامیہ اور عدلیہ ہو، یا ملکی معیشت و ثقافت و تعلیم ہو یا ابلاغ عامہ، ہرشعبے میں، ہر سرگرمی کا انحصار قرآن و سنت کی ہدایات پر ہو۔ اسلامی شریعت کا اعجاز یہ ہے کہ الہامی ہونے کی بناپر اس میں مستقبل میں پیدا ہونے والے مسائل کے حل کی پوری صلاحیت پائی جاتی ہے۔ اسلامی شریعت وقت اور مقام کی قید سے آزادمستقل حیثیت کی حامل ہے۔ مغرب زدہ افراد کے لیے یہ بات ناقابلِ فہم رہی ہے کہ اسلامی شریعت جس کا نفاذ دورِ نبویؐ اور دورِ خلافت راشدہؓ میں ہوا ،کس طرح اس دور میں نافذ ہو سکتی ہے۔ وہ انسان کے بنائے ہوئے زمان و مکان میں قید قوانین سے الہامی شریعت کا تقابل کرتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ ایک بنیادی غلطی کا ارتکاب کر رہے ہیں کہ دو ایسے نظاموں کا تقابل کررہے ہیں ، جن کی بنیاد اور ساخت بالکل مختلف ہے۔اسلامی شریعت الہامی ہے،اس لیے  آفاقی ہے اور اس کے اصول ہر دور میں یکساں طور پر رہنمائی فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، جب کہ مغربی جمہوریت انسان کی خودساختہ ہے، اس لیے مختلف زمانوں میں اور مختلف علاقوں میں اس کی مختلف شکلیں ملتی ہیں۔ یہ یکساں طور پر سب کی رہنمائی فراہم کرنے سے قاصر ہے۔
  •  اسلامی ثقافتی اقدار:اسلامی عادلانہ نظام کی تیسری پہچان اسلامی اخلاقی اقدار کی بنیاد پر فلاحی نظام کا قیام ہے۔ اسلامی نظام نہ صرف شریعت پر مبنی قانون دیتا ہے ،بلکہ وہ انسانیت کی فلاح کی ضامن اخلاقی اقدار فراہم کرتا ہے، جن میں صدق، امانت و استقامت ، حیا، جرأت، اعلاے کلمۃ الحق ، معروف ومنکر ، حلال و حرام کی روشنی میں ترجیحات کا تعین کرتا ہے تاکہ زندگی کے نشیب و فراز میں اسلامی اقدار کی پابندی کی جاسکے۔

اسلامی اقدار توحید ، عدل ، صدق ، امانت ، حیا کا عکس اسلامی قوانین کی شکل میں نظر آتا ہے۔ جھوٹ اور بہتان کا سدِّ باب قرآن و سنت کے دیے ہوئے مثبت اور تعمیری اخلاقی اصولوں کے ساتھ تادیب اور تعزیر کے نظام سے کیا گیا ہے۔ہر قانونی اقدام سے پہلے مثبت اخلاقی اقدار کا وجود اور ہر خلاف ورزی کی شکل میں پہلے اصلاح ، عفو و درگزر اور آخر کار تادیب و تعزیرانسانی معاشرے میں عدل و سکون کی ضمانت فراہم کرتے ہیں۔یہ بات قلم اور زبان تک محدود نہیں ، اسلامی قانون کا تحقیقی مطالعہ یہ ثابت کرتا ہے کہ اسلام سزااور تعزیر سے زیادہ اپنی اخلاقی اقدار کے بل بوتے پر اور انسانی نفسیات کو اخلاق کا تابع کر کے ایک صحت مند ماحول اور معاشرہ پیدا کرتا ہے،جہاں اگر کسی سے غلطی کا ارتکاب ہو بھی جائے تو بجاے کسی کوتوال یا مخبر کے، انسان کا ضمیر نجات چاہتا ہے اور بغیر کسی گواہ کے، ملزم خود آکر اعترافِ گناہ کے ساتھ اپنے لیے سزا کی درخواست کرتا ہے۔یہ اعزاز صرف اسلامی شریعت کو حاصل ہے کہ تجسس، مخبری اور جاسوسی کے بغیر اگر کسی سے غلطی ہو جاتی ہے تو اس کا ضمیر اسے اپنی اصلاح پر مجبور کر دیتا ہے۔ اسلامی اقدارِ حیات کا اطلاق اسی وقت ممکن ہے جب نہ صرف مقنّنہ،عدلیہ اور انتظامیہ اس کی برتری اور حتمی ہونے کے قائل اور اس پرعامل ہوں، بلکہ تعلیم اور ابلاغ عامہ کے ذریعے اسلامی اقدار کو معاشرے کے ہر فرد کے ذہن میں جاگزیں کر دیا جائے۔

  • تعلیم و ابلاغِ عامہ:ہم جس دور میں زندگی گزار رہے ہیں، اس میں ریاست کے اعضا میں تعلیم اور ابلاغ عامہ کو وہی مقام حاصل ہو گیا ہے جو کل تک مقننہ ، عدلیہ اور انتظامیہ کو حاصل تھا۔آج ابلاغ عامہ کی فحاشی اور مخلوط محافل منعقد کروانے کی مہم اس مقام تک آگئی ہے کہ اسلامی شعائر کو بھی مسخ کیا جا رہا ہے اور وہ بھی اس طرح کہ: ’’کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا‘‘ کی کیفیت پیدا ہورہی ہے۔ حال ہی میں ایک ایسی مخلوط نماز جنازہ کا برقی ابلاغِ عامہ پر پیش کرنا جو اخلاق ، دین اور دینی حمیت کے منافی ہو، اشاعت ِمنکر ہی کی تعریف میں آتا ہے۔ اسلامی اخلاقیات نے زندگی کے تمام ہی مسائل اور معاملات کو جو اہم ہونے کے باوجود محدودیت اور احتیاط کا مطالبہ کرتے ہیں ،انتہائی مہذب انداز میں بیان کیا ہے۔ طہارت اور جنسی تعلق جیسے موضوعات کو بغیر کسی منفی یا ہیجانی کیفیت کے تعلیم دینے کے انداز میں قرآن وسنت اور فقہ میں بیان کر دیا ہے۔ آج ابلاغ عامہ مردوں اور عورتوں کے اختلاط کو اس طرح پیش کرتا ہے گویا یہ فطری اور عمومی طریقہ ہے اور آخر کار ایسے مناظر کی تکرار ان کو گوارا بنا دیتی ہے۔یہ حکمت عملی اشتہارات میں، خبرناموں میں ، ڈراموں میں، گانوں میں، حتیٰ کہ تعلیمی مباحثوں اور مکالموں میں اس طرح رائج کر دی گئی ہے کہ نوجوانوں کو ان مناظر کا عادی بنا دیا جائے ،اور اس طرح اسلام کے تصورِ حیات اور مردو زن کے الگ الگ دائرۂ عمل کی جگہ مغربی تصورِ اختلاط مردو زن کو معاشرے کا عموم اور رواج بنا دیا جائے۔

اسلامی نظام عدل کا قیام اسی وقت ہو سکے گا جب قوم کے ضمیر کو اسلامی اقدار کی پابندی پر تعلیمی حکمت عملی سے آمادہ کیا جائے۔ اسلام کوڑے کے مقابلے میں زبان و قلم اور عملی مثال سے تعلیم دینےکو فوقیت دیتا ہے، اور نیا نظام ان شاء اللہ اس معاشرتی برائی کو دستوری ذرائع سے ہی درست کرے گا اور کسی تعزیر کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ تعلیم کو نہ صرف انگریز سامراج نے بلکہ اس کے جانشینوں نے اس ڈگر پر قائم رکھا جس پر انگریز نے اسے چلایا تھا۔۷۰ سالہ دور میں نہ تو معیارِ تعلیم کو بلند کیا گیا اور نہ تربیت کی طرف توجہ دی گئی۔تعلیم دراصل تہذیبِ اخلاق کا نام ہے۔ حصولِ معلومات اس کا ایک پہلو ضرورہے لیکن وہ تعلیم جو تہذیب و اخلاق سے خالی ہو ، ایک بے روح جسم اور دماغ تو پیدا کر سکتی ہے، ایک مکمل انسان وجود میں نہیں لا سکتی۔

اسلام کے عادلانہ نظام کی پہچان ایسے نظام تعلیم کا نفاذ ہے جو قومی ضروریات ، فنی مہارت اور جدید ترین معلومات کے ساتھ تعمیرِ اخلاق کو اوّلیت دے۔ ملک میں امن و سکون اور رواداری اسی وقت پیدا ہو سکتی ہے جب تعلیم اخلاق و تہذیب کے فروغ کا ذریعہ ہو۔تحریک اسلامی کو اس نئے نظام کے قیام کے لیے نئے نظام کے خدو خال کو بار بار پیش کرنا ہو گا،تاکہ صداقت اور حق پر گردوغبار اور غلط فہمیوں کی جو دبیزچادر ڈال دی گئی ہے، وہ دُور ہو، اور حق آجائے اور باطل معدوم ہو جائے کیوں کہ باطل معدوم ہونے کے لیے ہی ہے۔

  • تبدیلی کا طریقۂ کار :اس عزم اور مستقبل کی روشن امید کے ساتھ جو سوال بار بار اٹھتا ہے وہ بھی توجہ طلب ہے، یعنی بلی کے گلے میں گھنٹی کو ن باندھے گا ؟ نظام کی تبدیلی کیسے ہو گی؟ تبدیلی انقلاب اور قوت کے استعمال سے آئے گی یا ایک طویل سیاسی جدوجہد کے بعد آئے گی ؟

قرآن و سنت اور مکی اور مدنی ادوار کے تجزیاتی مطالعے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حق وباطل کی کش مکش اور نظام کی تبدیلی کے لیے سب سے پہلے خود حق کے نظام پر مکمل اعتماد و ایمان شرطِ اوّل ہے۔قرآن کریم نے اسے واضح الفاظ میں بیان فرما دیا ہے کہ اللہ کے رسول جس چیز پر مکمل ایمان لائے اور جو اہل ایمان کی ہدایت کے لیے ان پر نازل کی گئی، یعنی کتاب وشریعت۔ دوسری بنیادی شرط اس ہدایت کا اپنی زندگی میں احسن شکل میں نافذ کرنا ہے۔ فرمایا گیا کہ: کیوں  تم وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟ اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں‘‘(الصف ۶۱:۲-۳)۔ گویا تحریک اسلامی کی جانب سے ایسے افراد کی ایک جماعت ِکثیر کی تیاری جو اپنےعلم و عمل کے لحاظ سے پختہ کار ہوں اور نظریے سے آگہی اور نظریے کے فروغ کے لیے اپنے کردار سے آگاہ ہوں ، ایثار ، قربانی و دیگر اسلامی خصائص سے مثالی طور پر مزین ہوں، جسے ہم آج کی زبان میں افراد کار کی تیاری سے تعبیر کرتے ہیں۔یہ کام محض جلسوں اور مظاہروں سے نہیں ہو سکتا۔اس کے لیے پِتّا ماری کے ساتھ قرآن و سیرت سے براہِ راست تعلق ، تفقہ فی الدین، اور تحریکی مزاج کا پیدا کرنا ہے۔یہ خاصیت برسوں کی محنت سے پیدا ہوتی ہے۔  اس میں صبر و استقامت کاہونا شرط ہے۔

تبدیلی کے اس عمل کی ایک اور اہم شرط تعداد کی اہمیت کو کم کیے بغیر معیار کو فوقیت دینا ہے۔ تحریک اسلامی کے کارکن اپنی علمی ، فکری ، تنظیمی اور قائدانہ صلاحیتوں میں صف ِاوّل میں ہونے چاہییں۔ انھیں عصر حاضر کے علوم کے ساتھ قرآن وسنت کے علوم پر مکمل عبور ہوبلکہ مقامِ اجتہاد پر فائز ہوں۔یہی وجہ تھی کہ جماعت اسلامی کے قیام کے وقت جو افراد کو جمع ہوئے تھے، ان میں ایک واضح تعداد ان افراد کی تھی جو علمی اور فکری طور پر سر براہی کے مقام پر فائز ہونے کے لائق تھے۔ آج بھی تبدیلی لانے کے لیے ایسے افراد تیار کرنا ہوں گے جو دینی اور عصری علوم، دونوں پر عبور رکھتے ہوں۔یہ کام انفرادی طور پر نہیں بلکہ اداراتی بنیاد پر کرنا ہوگا، تاکہ ایسے ادارےموجود ہوں جو محض وقتی طور پر نہیں بلکہ مستقل طور پر بطور ادارہ متحرک ہوں، اور مطلوبہ افرادی قوت کی تیاری و فراہمی میں کمی نہ ہو۔ تحریک کے افراد کی معیاری برتری ہی تحریک کی کامیابی کی شرط ہے۔

 تبدیلیِ نظام کے لیے ایک اور شرط متبادل نقشۂ عمل اور لائحۂ عمل کی تیاری ہے۔نہ صرف ایک خاکہ بلکہ اس میں تفصیلات کی شکل میں رنگ کا بھرنا۔اگر تعلیمی نظام بدلنا ہے تو اس کا نیا نصاب کیا ہو گا؟اس نصاب کی روشنی میں درسی کتب کون سی ہوں گی؟ان کتب کو پڑھانے والا استاد کس کردار اور علمی رُتبے پر ہو گا؟اسکول، کالج اور یونی ورسٹیوں میں کامیابی کا معیار کیا ہوگا؟طلبہ اور اساتذہ میں کن اخلاقی پہلوؤں کو زیادہ اہمیت دی جائے گی؟ درسی کتب کے ساتھ جدید ابلاغ عامہ کو تعلیم کے لیے کیسے استعمال کیا جائے گا؟ کیا ملک کی ۱۸۵ موجودہ جامعات میں تبدیلی لانے کے لیے ایسے افرادِ کار تیار ہیں جو تعلیم، تجربہ اور صلاحیت میں اعلیٰ مقام پر ہوں؟ تعلیم، ملکی معاشی پالیسی، ملک کی دفاعی پالیسی ، ملک کی صحت کی پالیسی پر جب تک تحریک کے پاس ایک واضح نظام عمل موجود نہ ہو، تو کیا محض پارلیمان میں کامیابی تبدیلی لا سکتی ہے ؟

نظام میں تبدیلی کے لیے ایک اور شرط عالمی سیا ست سے اتنی واقفیت بہم پہنچانا ہے کہ اسلام دشمن طاقتوں کی حکمت عملی اور ملک کے اندر اور باہر مختلف عناصر کی منصوبہ بندی سے مکمل آگاہی کے ساتھ ہمارے پاس ایک متبادل حکمت عملی بھی موجود ہو، جس میں حالات کے لحاظ سے تبدیلی لانے کی گنجایش ہو۔جن عالمی قوتوں سے تحریک کا سامنا ہے، وہ کسی بھی صورت حال میں حق کو کامیاب نہیں دیکھنا چاہتیں۔ انھیں محض بدعائیں دے کر ناکام نہیں کیا جاسکتا۔ان کی سازشوں کا علم بھی کافی نہیں ہے۔ جب تک ہماری اپنی حکمت عملی ان سے بہتر اور برتر نہ ہو ، کامیابی ممکن نہیں، اور نہ کوئی تبدیلی دیرپا ہو سکتی ہے۔

ان شرائط پر غور کیا جائے تو ان پر عمل صرف اسی وقت ہو سکتا ہے جب دستوری ذرائع ، تعلیمی ذرائع اورتربیتی ذرائع استعمال کیے جائیں۔ یہ کام کسی قوت یا طاقت کے ذریعے محض اعلیٰ سطح پر تبدیلی لانے سے نہیں ہو سکتا۔ اسلام جس نظامِ عدل کا قیام چاہتا ہے وہ فرد، معاشرہ ، تعلیم ، قانون، معیشت اور سیاست میں ہمہ گیر تبدیلی کے بغیر ممکن نہیں۔یہ صبر و استقامت سے کرنے کا کام ہے۔ اس کے لیے تحریک کے نظامِ تربیت کا انتہائی مؤثر ہونا شرط اوّل ہے، تاکہ کارکن سے قیادت تک للہیت ، فہم دین ، تفقہ ، عصری علوم پر عبور،قرآن وسنت سے انتہائی قریبی تعلق ، معاملات میں شفافیت ، سادگی ، انکسار، ایثار و قربانی کی صفات کارکنوں کی شخصیت کا حصہ ہوں۔اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اور سچا وعدہ ہے۔ جو لوگ اللہ کو رب مان لیں گے اور اہل ایمان کی صفات سے مزین ہوں گے تو ان کی کامیابی کی ضمانت دنیا اور آخرت دونوں مقامات پر رب کریم نے خود دی ہے۔ اس کا یہ وعدہ جیسا ماضی میں حق تھا، آج بھی حق ہے۔ فرمایا:

وَلَا تَہِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۝۱۳۹ (اٰلِ عمرٰن ۳:۱۳۹) دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔

  •  قرآن مجید کتاب ایمان ہے، وہ دل کو ایمان ویقین سے منور کرتا ہے۔
  • قرآن مجید کتاب عمل ہے، وہ زندگی کو بہترین عمل سے آراستہ کرتا ہے۔
  •  قرآن مجید کتاب حکمت ہے، وہ عقل کو آزادی اور توانائی عطا کرتا ہے۔
  •  قرآن مجید کتاب دعوت ہے، وہ بہترین داعی اور دردمند مربی بناتا ہے۔

یہ چاروں اوصاف انسانوں کی زندگی میں نظر آنے لگیں تو گویا زندگی میں قرآن مجید ظہور پذیر ہونے لگے، اور اگر یہی نظر نہیں آئے تو گویا قرآن مجید کا نہ دل پر نزول ہوا ، نہ زندگی میں ظہور ہوا۔

بندگی کا جذبہ ایمان سے پیدا ہوتا ہے، اور ایمان کی قوت کا سرچشمہ قرآن مجید ہے۔ قرآنِ مجید بتاتا ہے کہ کن چیزوں پر کیا ایمان لانا ہے۔ وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ کس درجے کا ایمان لانا ہے۔ وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ ایمان والوں کی زندگی کیسی ہوتی ہے، اور وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ ایمان کیسے بڑھتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کی آیات کو سننے سے ایمان بڑھتا جاتا ہے، اور ایک کرن سے نُور کا ہالا بن جاتا ہے۔ قرآن مجید فلسفہ اور کلام کی غیر ضروری بحثوں سے بچاتے ہوئے، یقین کی بلند منزلوں کی سیر اور ایمان کی بلند چوٹیوں کو سر کراتا ہے۔ قرآن مجید وہ ایمان مانگتا ہے اور عطا کرتا ہے: جو غفلت کو قریب نہ پھٹکنے دے، جو بخل اور بزدلی سے آزاد کردے، جو اللہ کو سب سے زیادہ محبوب اور اللہ کی مرضی کو سب سے زیادہ پسندیدہ بنادے، جو اللہ کے دین کو اللہ کے بندوں تک پہنچانے کے لیے بے قرار کردے۔ قرآن مجید اس ایمان کی تعلیم دیتا ہے جو انسان کے ظرف کو وسیع کرے، اس کے اندر خیر سے محبت اور برائی سے نفرت پیدا کرے، اور اس کے دل میں اللہ کی بندگی، بندوں کی خدمت اور صالحین میں شمولیت کا شوق پیدا کرے۔

قرآن مجید میں اچھے عمل کو جس قدر اہمیت دی گئی ہے، وہ کہیں اور نہیں ملتی۔ عمل کو نجات اور کامیابی کے لیے شرط بھی قرار دیا گیا ہے، اور اسے نجات اور کامیابی کا ضامن بھی بتایا گیا ہے۔ قرآن مجید کا مقصود باایمان اور باعمل فرد کی تیاری ہے۔ بے ایمان یا بے عمل کا انجام آخرت میں کیا ہوگا اس سے قطع نظر، یہ بات یقینی ہے کہ وہ قرآن مجید کے سایے میں تیار ہونے والا انسان نہیں ہے۔ قرآن مجید میں اس کے لئے نہ کوئی وعدہ ہے، اور نہ کوئی بشارت ہے۔ قرآن مجید میں کوئی ہلکا سا اشارہ بھی نہیں ہے جو ایمان اور عمل میں سے کسی ایک کے بغیر نجات اور کامیابی کی گنجایش بتاتا ہو۔ قرآن مجید میں ایمان اور عمل ہمیشہ ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ کسی ایک پر زیادہ زور دینے سے دوسرے کی اہمیت کم ہوسکتی ہے۔ ہرجگہ دونوں کی اہمیت برابر نظر آتی ہے۔ قرآن مجید میں نہ ایمان کے اضافے کی کوئی آخری حد بتائی گئی ہے، اور نہ عمل کے ذخیرے کی کوئی آخری حد بتائی گئی ہے۔ ایمان کا مسلسل بڑھتے رہنا بھی عین مطلوب ہے، اور عمل کا بہتر سے بہتر اور زیادہ سے زیادہ ہوتے رہنا بھی عین مقصود ہے۔

 قرآن مجید میں عقل کے اطمینان کا سامان کیا گیا، عقل کو استعمال کرنے کی تاکید کی گئی اور غور وفکر پر اُبھارا گیا ہے۔ غوروفکر نہ کرنے پر مذمت کی گئی ہے، اس کے لیے مناسب ترین ماحول فراہم کیا گیا ہے۔ غوروفکر کے راستے کی رکاوٹوں کو دُور کیا گیا ہے۔ بہتر طریقے سے غوروفکر کرنے کی تربیت کا انتظام رکھا گیا ہے، اور قرآن مجید کو غور وفکر کا ایسا زبردست سرچشمہ بنا دیا گیا ہے، جہاں غور وفکر کے بے شمار مواقع ہیں، اور جہاں سے غور وفکر کے بہت سے میدانوں کی راہیں ملتی ہیں۔ قرآن مجید میں کہیں عقل کی مذمت نہیں ہے، ہر جگہ عقل کی تعریف ہے۔ کہیں عقل کے استعمال پر قدغن نہیں ہے، عقل کو استعمال کرنے کی پوری آزادی ہے۔ قرآن مجید نے عقل کو جتنا اُونچا مقام دیا ہے، اور جتنا اہم کام قرار دیا ہے، اتنا اونچا مقام اور اتنا اہم کام تو خود انسان اپنی عقل کو نہیں دے سکتا تھا۔ قرآن مجید کے کلام حق ہونے کی ایک بڑی دلیل اس کی حکمت دوستی اور عقل نوازی ہے۔

قرآن مجید کی ہر آیت دعوت وتربیت کی آیت ہے، ہر آیت دعوت وتربیت کے سفر کے لیے بہترین زاد راہ ہے۔ قرآن کی کوئی آیت خاموش نہیں ہے، ہر آیت بول رہی ہے۔ بات رکھنے کا سلیقہ، جواب دینے کا طریقہ، عقل کو مطمئن کرنے کا انداز، دل تک پیغام رسانی کا اسلوب، غرض ایک داعی اور ایک مربی کی بہترین تیاری کا سامان قرآن مجید کی سبھی آیتوں میں موجود ہے۔    مکی آیتیں داعی تیار کرتی ہیں، اور مدنی آیتیں مصلح اور مربی تیار کرتی ہیں۔ قرآن مجید کی آیتوں میں ایک عظیم داعی اور ایک عظیم مربی صاف دکھائی دیتا ہے، وہی قرآن مجید کا مطلوبہ داعی اور     مربی ہے۔ قرآن مجید کے مطابق زندگی کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح کی دعوتی گفتگو اور تگ ودو قرآن مجید میں نظر آتی ہے، اسی جیسی اس انسان کی زندگی میں بھی نظر آنے لگے۔

اس وقت قرآن مجید سے ہماری بہت زیادہ دوری کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ ہمارا حال قرآن مجید کی بنیادی خصوصیات سے یکسر عاری ہے۔ خود ملامتی میرے نزدیک بھی اچھی بات نہیں ہے، لیکن اپنے حال کا صحیح تجزیہ نہ کرنا اور جھوٹ میں گندھی ہوئی خاموشی کو اپنی زبانوں پر تھوپے رہنا اور بھی برا ہے۔ اپنے حال کو خود اپنی نگاہ کے سامنے بے نقاب کرنا اور خوش فہمی کی قبر سے خود کو باہر نکالنا ہی سمجھ داری ہے، اگر ہماری زندگی میں سمجھ داری کے لیے تھوڑی سی بھی جگہ ہے۔

ہم ایمان کا دعویٰ رکھتے ہیں، لیکن ایمان کی ساری خصوصیات سے محروم ہیں۔ ہمارے ایمان میں نہ یقین ہے اور نہ اطمینان، نہ جذبہ ہے اور نہ تمنا، نہ وہ غفلت کا پردہ چاک کرتا ہے اور نہ بدعتوں سے روکتا ہے، نہ معروف کو عام کرنے کا جذبہ پیدا کرتا ہے اور نہ منکر کو مٹانے کی ہمت دیتا ہے، نہ اعلان حق کی جرأت بیدار کرتا ہے، نہ آنسو کے سوتے جاری کرتا ہے، نہ کسی خطرے کا سامنا کرنے دیتا ہے، اورنہ کسی بھاری بوجھ کو اٹھانے کی ہمت پیدا کرتا ہے۔ ایسے کمزور ایمان کے ساتھ تو دنیا کی کوئی مہم سر نہیں کی جاسکتی ہے، بھلا آخرت کا سفر کیسے طے کیا جاسکتا ہے!

جھوٹی اُمیدوں نے ہماری زندگی کو عمل سے بے زار بنادیا ہے۔ بے کاری اور بے عملی ہماری خراب پہچان بن گئی ہے۔ اچھے کاموں کی دوڑ میں ہم آگے نظر نہیں آتے۔ آسان اور تھوڑے سے اعمال کو بہت کافی سمجھ لیتے ہیں۔ بڑے اور بہترین کام، مشکل اور قربانیوں والے کام، فتوحات اور اللہ کو خوش کرنے والے کام، شیطان کو شکست دینے اور قوموں کی امامت والے کام، مختصر یہ کہ قرآن مجید میں کثرت سے نظر آنے والے کام ہماری زندگی میں کم سے کم ہی نظر آتے ہیں۔ مزید یہ کہ عمل کے بغیر جنّت میں چلے جانے کا ہمیں اس قدر یقین ہے، گویا ہمیں جنت کے مالکانہ حقوق حاصل ہیں۔

ہماری عقلیں نہ کائنات کی نشانیوں پر غور کرتی ہیں، اور نہ قرآن مجید کی آیتوں میں تدبر کرتی ہیں، نہ انسانوں کے مسائل پر سوچتی ہیں اور نہ اپنی عاقبت ہی کی فکر کرتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہماری عقلوں کے لیے اس دنیا میں کوئی مصرف ہی نہیں ہے۔ ہمارے رسم ورواج، ہماری عادات ومعمولات، ہمارا رویہ، ہماری عبادتیں، ہمارے تعلقات، غرض ہماری زندگی کے ہر ہر پہلو میں بے عقلی بلکہ عقل دشمنی جگہ جگہ نظر آتی ہے۔ کیا ماجرا ہے کہ قرآن مجید نے جنھیں لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ کہا تھا وہ اس قدر قَوْمٌ لَّا یَعْقِلُوْنَ  ہوگئے۔

ہماری زندگی یوں تو ہر طرح سے جمود کا شکار ہے، مگر دعوت وتربیت کو تو ہماری سرگرمیوں میں بالکل بھی جگہ نہیں ملتی۔ ہم دوسروں سے متاثر اور مرعوب رہتے ہیں۔ ہم دوسروں کے بنائے ہوئے منصوبوں میں رنگ بھرنے کے کام آتے ہیں، دوسروں کے اٹھائے ہوئے ایشوز پر کام کرنے یا انھی کو دُہرانے کا کام کرتے ہیں، اور دوسروں کے چھیڑے ہوئے سُروں پر سر دُھنتے ہیں، نہ ہم اپنے ایشوز اٹھاتے ہیں اور نہ اپنے سُر چھیڑتے ہیں۔ غرض یہ کہ قرآنِ مجید تو ہم کو داعی بناتا ہے، مگر ہم مدعو بنے ہوئے ہیں۔ الیکشن میں کھڑے ہونے والے اُمیدواروں کے حواری ان کا جس قدر پرچار کرتے ہیں، کم از کم اتنا پرچار بھی اگر اللہ کے انصار اور رسول کے حواری نہیں کریں گے توپھر کیسے خیر امت قرار پائیں گے؟ مزید یہ کہ جو داعی اور مربی ہونے کے دعوے دار ہیں، بسااوقات ان کی دعوت وتربیت میں قرآن سے دوری اورلاتعلقی صاف نظر آتی ہے، اور کہیں سے نہیں لگتا کہ ان کی تربیت قرآن مجید کی آیات سے ہوئی ہے۔

قرآن مجید سے تربیت لینے والا انسان ایمان ویقین کی قوت سے مالا مال ہوتا ہے، عمل کے میدان میں سب سے آگے ہوتا ہے، عقل وحکمت کے میدان کا بہترین شہسوار ہوتا ہے، اور اپنے مشن کے لیے ہمیشہ سرگرم رہتا ہے۔ یہ چار اوصاف جس گروہ میں پیدا ہوجائیں اسے عروج و ترقی کے قلعے یکے بعد دیگر فتح کرنے اور دنیا کی امامت کا تاج زیب سر کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔ ایسے ہی لوگ بلاشبہہ اہل القرآن ہوتے ہیں، اور وہی بے شک اہل اللہ بھی ہوتے ہیں۔

جب کوئی ہم نفس، ہم مقصد ساتھی زندگی کا سفر مکمل کر کے چلاجاتا ہے تو بہت کچھ کھونے کے صدمے، تنہائی اور اجنبیت کے احساس میں شدت پیدا ہوجاتی ہے۔ دوستی کی نعمت تو۳۰برس کی عمر سے پہلے ہی ملتی ہے، بعد میں ممکن ہے بہت سے اچھے لوگ حلقۂ احباب میں شامل ہوں، لیکن دوستی کی تعریف پہ کم ہی پورے اُترتے ہیں۔ انسانی زندگی، دوستی کی خوشبو سے معطر نہ ہو تو وہ بجاے خود ایک بوجھ محسوس ہونے لگتی ہے، او ر بے بسی کا پہاڑ اپنی ہیبت طاری کرتا دکھائی دینے لگتاہے۔

صفدر علی چودھری اپنے منصب اور مصروفیات کے اعتبار سے جماعت اسلامی پاکستان کے ناظمِ نشرواشاعت تھے، لیکن مزاجاً وہ دوستیاں بنانے اور پالنے والے شخص تھے__ سب کے دوست اور سب سے دوستی۔ ہرفرد کا اپنا تجربہ ہوگا۔ راقم کے سامنے مشاہدات و تعلقات کی ایک کہکشاں ہے، اور اس ’منوہر‘ بھائی کے طرزِ تعلقات، مقصد کی لگن اور ایثار و قربانی کے پہلو اس قدر پھیلے ہوئے ہیں کہ انھیں بیان کرنا مشکل اور ان کی شدت و گہرائی کو لفظوں میں سمونا مشکل ترین عمل ہے۔

صفدر چودھری صاحب فی الحقیقت کارکن تھے اور ایسا کارکن کہ جس میں قیادت کی صلاحیت تو موجود ہو مگر وہ کارکن کی حیثیت سے آگے بڑھ کر قدم رکھنا نہ چاہے۔ وہ کہا کرتے تھے: ’’میں نہ صاحب ِ قلم ہوں، نہ عالم ہوں، نہ کچھ صحافتی تجربہ رکھتا ہوں، اور نہ مکالمے کی صلاحیت ہے، لیکن اس کے باوجود نعیم صدیقی صاحب اور مصباح الاسلام فاروقی صاحب کی نشست پر دھکا دے کر بٹھا دیا گیا ہوں‘‘۔

سوال کیا:

’’جب یہ ذمہ داری پڑگئی ہے تو پھر اسے نبھانے کا ڈھنگ کیسے اپنایا ہے؟‘‘ جواب میں کہنے لگے: ’’اس زیادتی کا ایک ہی حل سوچا ہے کہ اس میدان میں بھاگ بھاگ کر لکھنے والوں کی خدمت کروں، اگر کوئی میرے مقصد ِ زندگی کی تائید میں ایک جملہ بھی لکھے تو اس کا خادم بن جائوں اور اگر وہ سنگ زنی کرے تو اس کے پتھر کو چُوم کر ایک طرف رکھ دوں اور کہوں: میرے بھائی! مزا نہیں آیا، ایک اور مگر ذرا زور سے۔ ممکن ہے وہ اس صبر کے نتیجے میں شرمندہ ہوکر دوسرا پتھر نہ مارے اور مارے تو زیادہ شدت سے نہ مارے‘‘۔

یہ گفتگو ۱۹۷۲ء کے نومبر میں ہوئی تھی، جب میں سالِ سوم کا طالب علم اور اسلامی جمعیت طلبہ گوجرانوالہ کا کارکن تھا۔ تب وہاں سے البدر  کے نام سے ایک رسالہ نکالا۔ مولانا مودودیؒ کو لکھا کہ رسالے کے لیے پیغام عنایت کریں۔ جوابی پیغام ڈاک کے ذریعے نہیں آیا، بلکہ دستی طور پر دینے کے لیے صفدر صاحب بس کا سفر کرکے تشریف لائے۔ میری حیرانی و ندامت دیکھ کر حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہنے لگے: ’’بھائی، میں نے رضاکارانہ طور پر یہ اپنی ذمہ داری   سمجھ رکھی ہے کہ پاکستان میں جہاں کہیں بھی پڑھنے لکھنے کا شوق رکھنے والے ساتھی کی موجودگی دیکھوں تو اُس سے جاکر ملوں‘‘۔ یہ سن کر مَیں مزید زیربار ہوگیا کیوں کہ یہاں لکھنے پڑھنے والی تو کوئی بات نہیں تھی، مگر وہ سراب کو دیکھ کر نکل پڑے تھے۔ بہرحال، اُس روز سے دوستی کا ایسا رشتہ قائم ہوا کہ آخر دم تک برقرار رہا اور اس سارے عرصے میں کبھی دُوری محسوس نہ ہوئی۔

جب مَیں لاہور آگیا تو دیکھا کہ مولانا مودودی اُن سے اپنے بیٹوں کی طرح محبت کرتے ہیں۔ صفدرصاحب دبے دبے لفظوں میں بے تکلفی سے باتیں کرتے اور انتہا درجے کی برخورداریت سے خدمت کرتے۔ کتنی ہی بار وہ مولانا کے پاس مجھے لے کر گئے اور ان کے ساتھ مولانا کی شفقت ِپدری دیکھ کر رشک آتا۔

ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کا دورِ حکومت [۱۹۷۲ء- ۱۹۷۷ء] سخت تکلیف دہ اور خوف و دہشت کی علامت بلکہ سراپا دَورِ فسطائیت تھا۔ یہ زمانہ صحافت کے لیے بڑی کٹھن بلکہ تاریک رات کا ہم معنی تھا۔ آزمایش میں گھِرے صحافیوں کی دل جوئی کے لیے صفدر صاحب اپنے آپ کو خطرے میں ڈال کر جیلوں، حوالاتوں اور ان کے اہلِ خانہ تک پہنچتے۔ اس ضمن میں ان کے نزدیک جماعت اسلامی کے حامی یا مخالف کی کوئی تفریق نہ تھی، وہ سبھی کے لیے سراپا خدمت ہوتے۔

صفدر صاحب کی ذمہ داری تو نشرواشاعت کی تھی، لیکن وہ بہ یک وقت غیراعلان شدہ  ناظم تنظیم اور سیاسی و سماجی رابطہ کار بھی تھے، بلکہ درست لفظوں میں وہ ناظم خدمت ِ خلق اور ناظم مہمان داری بھی تھے۔ منصورہ میں ان کا گھر اسلامی جمعیت طلبہ کے دُور دراز سے آنے والے کارکنوں کے لیے ’نعمت کدہ‘، اسلامی جمعیت طالبات کے لیے ’اپنا گھر‘، صحافیوں کی بے تکلفانہ گفتگو کے لیے ’پریس کلب‘، بیماروں کے لواحقین کی رہنمائی کے لیے ’پڑائو‘، حتیٰ کہ جماعت کے کارکنوں کا تعاقب کرنے والے پولیس اہل کاروں کو ٹھنڈا پانی پلانے کی ’سبیل‘ تھا!

وہ صحافی برادری کی خدمت کے لیے ہمہ تن مصروف رہتے اور اس مقصد کے لیے ذاتی سطح پہ مالی طور پر زیربار ہونے سے بھی نہ گھبراتے۔ کئی بار ناظمِ مالیات (پہلے شیخ فقیر حسین صاحب ، پھر مسعود احمد خاں صاحب اور ابراہیم صاحب) کو خبردار کرتے دیکھا اور سنا: ’’صفدرصاحب، آپ پر قرض چڑ ھ گیا ہے اور آپ اگلے مہینے کا اعزاز یہ بھی لے چکے ہیں، کیسے اُتاریں گے یہ قرض؟‘‘

قصّہ دراصل یہ ہوتا کہ کسی صحافی بھائی کے والدین کی عیادت کرنے جاتے تو صفدربھائی  علاج کے لیے کچھ رقم دے آتے، کسی کی شادی پر جاتے تو کوئی تحفہ پیش کردیتے۔ ایسے تحفے وصول کرنے والے صحافی سمجھتے تھے یا سمجھتے ہوں گے کہ یہ ’جماعت کے کسی فنڈ‘ سے ہورہا ہے، لاریب، جماعت نے اپنے بجٹ میں ایسا کوئی فنڈ نہیں رکھا تھا۔ صفدر صاحب یہ سب کچھ اپنے  بیوی بچوں کے حق اور اپنی ضروریاتِ زندگی کی قربانی دے کر ایسا بار بار کرتے تھے۔ وہ اس خدمت کا کہیں تذکرہ بھی نہ کرتے کہ کسی کی عزتِ نفس زیربار نہ ہو، مگر قربت کے سبب ہم کبھی کبھی معاملہ جان لیتے۔

یہ منظر میرے مشاہدے میں کئی مرتبہ آیا کہ صحافی بھائیوں کا ایک حلقہ تو بے تکلفانہ احترام سے انھیں پکارتا اور دوسرا گاہے بے تکلفانہ بدتمیزی سے مخاطب ہوتا۔ ایک روز میں نے جل کر کہا: ’’صفدر صاحب، فلاں صاحب نے جس توہین آمیز طریقے سے آپ کو پکارا ہے، میرے لیے یہ ناقابلِ برداشت ہے‘‘۔ ایک دم میرے منہ پر ہاتھ رکھا اور سینے سے لگاکر کہنے لگے:’ایک بات ذہن میں رکھیں، یہ شہر ہے۔ جب میں نے مولانا کی ہدایت پر اس شہر کو اپنا مسکن بنایا تو اسی وقت خوب سوچ سمجھ لیا تھا کہ: ’’عزّت، نامی چیز تو ایک اضافی شے ہے، جو آپ کو اپنے گائوں برادری ہی میں مل سکتی ہے۔ یہاں تو کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا ہوگا، اس لیے یہ دونوں کھانے پڑیں گے۔ مجھے عزّت عزیز ہوتی تو اپنے گائوں میں، اپنی برادری ہی میں رہتا۔ اس لیے عزّت کی توقع کسی سے نہیں رکھتا۔ کوئی عزّت کرے تو اس کی مہربانی، نہ کرے تو جہاں رہے خوش رہے۔ آپ میرے بارے میں پریشان نہ ہوں، بلکہ اپنے پلے بھی اسی بات کو باندھ رکھیں، زندگی کا سفر اچھا کٹے گا‘‘۔ اور پھر اپنا روایتی گھٹاگھٹا قہقہہ فضا میں بکھیر دیا۔

ان کا گھر، وقت بے وقت، اِکا دُکا یا بڑی تعداد میں، تحریکی دوستوں کی مہمان نوازی کا مرکز بنا رہتا۔ ایک روز بے چین ہوکر میں نے پوچھا: ’’چلیے، آپ تو یہ خدمت انجام دے رہے ہیں، مگر آپ کے بیوی بچوں کا کیا قصور کہ انھیں رات دن چولھے کچن میں جھونکے رکھتے ہیں اور ان کے حقِ زندگی کی زبردستی قربانی لیتے ہیں؟ گھر والے دوپہر یا رات گئے آرام کر رہے ہوتے ہیں تو چائے روٹیاں پکانے کے لیے اُٹھا دیتے ہیں، بچے کمرے میں سوئے ہوتے ہیں تو انھیں بے آرام کرکے اندر دھکیل دیتے ہیں۔ یہ بڑی نامناسب بات ہے‘‘۔

کہنے لگے: ’’اس گھر میں ہم سب ایک ہیں، جس میٹھی آگ میں مَیں جلوں گا، اس کی تپش سے بھلا وہ کس طرح الگ رہ سکتے ہیں؟‘‘ پھر مسکرا کر کہنے لگے: ’’وہ بھی خوش رہتے ہیں کہ میں خوش ہوں، اور آپ بھی آکرخوش ہوا کریں‘‘۔ اسی بناپر قاضی حسین احمد مرحوم ، صفدرصاحب کے گھر کو ’خوش حال گھرانا‘ کہا کرتے تھے۔

شعبہ نشرواشاعت میں ہم نے کئی پوسٹر تیار کیے، بہت سے پمفلٹ اور کئی بیانات لکھے۔ پوسٹر کی تیاری اور کتابت کے لیے وہ کاتب اور ڈیزائنر کو اپنی جیب سے اضافی طور پر بھی ہدیہ دیا کرتے تھے کہ: ’’تخلیق کار کی تالیف ِ قلب ضروری ہے‘‘۔ البتہ کاغذ کے تاجروں سے رقم کم کرانے کے لیے متعدد دکانوں پر جاکر باقاعدہ بحث کرتے تھے۔ ۱۹۸۳ء میں انھوں نے اجتماعِ ارکان کے موقعے پر ایک پوسٹر تیار کرنے کی ذمہ داری مجھے سونپتے ہوئے کہا: ’’اس پر کیا خاص بات لکھی جائے؟‘‘ عرض کیا:’’اس بار پوسٹر پر آیت دیتے ہیں: اُدْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً‘‘۔ صفدرصاحب نے اتفاق کیا۔ اسے پیش کرنے کے لیے کوئی آئیڈیا ہمارے ذہن میں نہیں تھا، بس پوسٹر کی تیاری پیش نظر تھی۔ نیشنل کالج آف آرٹس کے طالب علم اور محترم دوست سیّد مبین الرحمٰن صاحب کے پاس حاضر ہوا، اور مدعا بیان کیا۔ مبین صاحب نے دو تین روز بعد پوسٹر تیار کیا۔ چاند اور خانہ کعبہ کے ساتھ آیت ِ مقدسہ کو ایک خاص اسلوب میں نقش کیا۔ میں جب پوسٹر کا یہ ڈیزائن لے کر منصورہ آیا ، تو اسے دیکھ کر صفدرصاحب پر وجد کی سی کیفیت طاری ہوگئی۔ کھینچ کر گھر لے گئے، بڑے جوش سے کھانا کھلایا اور ڈیزائن کو دیکھ کر بار بار کہتے رہے: ’’سبحان اللہ! سبحان اللہ!‘‘

میں نے پوچھا: ’’کیا ہوگیا ہے؟ ڈیزائن ہی تو ہے‘‘۔ کہنے لگے: ’’جماعت اسلامی کا مونوگرام نہیں تھا۔ آج جماعت کو اپنا مونوگرام (طغرا) مل گیا ہے۔ میں اسے چلا دوں گا‘‘۔ صفدر صاحب نے اسے بڑے تسلسل کے ساتھ جماعت اسلامی کی مطبوعات پر شائع کرنا شروع کر دیا۔ ایک سال میں یہ ڈیزائن اتنا استعمال کیا کہ اس کے بعد سے یہ جماعت اسلامی پاکستان کی پہچان اور جماعت کا پارٹی مونوگرام بن گیا ہے___ سیّد مبین الرحمٰن کا ڈیزائن اور صفدر صاحب کا انتخاب۔

صفدر صاحب کی شخصیت جہاں خلوص سے سرشار تھی، وہیں ان کے چہرے پر ہرآن موجِ تبسم کھیلتی تھی۔۱۵؍ اکتوبر ۱۹۹۳ء کو ان کا جوانِ رعنا، دوسرا بیٹا مظفرنعیم، جہادِ کشمیر میں حصہ لیتے ہوئے سوپور میں شہید ہوگیا۔ وہ ہمارے سامنے کھیلتے کھیلتے جوان ہوا تھا۔ سروقامت، سدابہار مسکراہٹ اور اپنی پیاری شخصیت کے باعث جدائی کا گہرا گھائو لگاگیا۔ ہم احباب گریۂ جدائی پر قابو نہ رکھ سکے، مگر صفدر صاحب سب کو اس وقار سے دلاسہ دے رہے تھے کہ نہ آنسو اور نہ آہیں بلکہ خلوصِ نظر کا وقا ر انھیں تھامے رہا۔

تحریکیں اور خاص طور پر نظریاتی تحریکیں ایسے ہی کارکنوں کے دم سے آباد، شاداب اور ثمربار بنتی ہیں۔ صفدر صاحب پنجاب یونی ورسٹی سے ایم اے سیاسیات کرنے کے بعد، ۱۹۶۸ء سے ۱۹۸۷ء تک جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی ناظم نشرواشاعت رہے (ازاں بعد ناظم تعلقاتِ عامہ اور پھر جنوری ۱۹۹۰ء سے جولائی ۱۹۹۶ء تک ہفت روزہ ایشیا کے مدیر رہے)۔ ۱۹برس کی نظامت میں، بطور ناظم نشرواشاعت اُن کے زیادہ سے زیادہ پانچ یا چھے محض چند سطری وضاحتی سے بیان آئے۔ اس گریزپائی و بے نیازی کے بارے میں انھوں نے کہا: ’’کارکن بیان نہیں دیا کرتا، یہ کام قیادت کا ہے‘‘۔ خلوص و محبت کی یہ گھنگھور گھٹا جو ۱۹۴۱ء میں  ضلع جالندھر کے گائوں کرتارپور (بابا گورونانک کا مقامِ وفات) سے اُٹھی تھی، برستے برستے ۱۳جنوری ۲۰۱۸ء کو لاہور میں چھٹ گئی۔ لیکن یہ گھٹا جاتے جاتے ایک سوال چھوڑ گئی کہ کیا زندگی بھر اپنی جان گھلانے، دوسروں کی عزت کرنے اور احترام بانٹنے والے کارکن دمِ واپسیں اور زمانۂ معذوری میں محبت، توجہ اور احترام کا بھی کچھ حق رکھتے ہیں؟

جس وقت بھارت کے دورے پر آئے ایرانی صدر ڈاکٹر حسن روحانی جنوبی ہند کے شہر حیدرآباد کی تاریخی ’مکہ مسجد‘ میں نماز جمعہ ادا کررہے تھے، اسی روز بہار کے سرحدی شہر ساپول کے باسی اور مسجد نبویؐ کے امام شیخ حامد بن اکرم بخاری بھی مسلمانوں کے ایک جمِ غفیر سے خطاب کر رہے تھے۔ دونوں حضرات کے خطبات کا متن تقریباً ایک جیسا تھا۔ جہاں ایرانی صدر نے: ’’کلمۂ توحید کے پرچم تلے عالمِ اسلام سے متحد ہونے کی اپیل کی‘‘ تو دوسری طرف امامِ حرم نے اسلامی دنیا کے انتشار کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ’’اس کا واحد حل اتحاد بین المسلمین ہے‘‘۔ دونوں نے اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنے کی کوششوں کی مذمت کی اور بجاطور پر اسلام کو امن کا پیغامبر بتایا۔

ایرانی صدر اور ان کے وفد نے حیدر آباد میں ایک سُنی امام کی اقتدا میں نماز ادا کرکے مسلم دُنیا کو نہایت ہی مثبت پیغام دیا۔ اب اگر ان دونوں رہنمائوں کا بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے اتحاد کا ایک جیسا پیغام تھا، تو کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ دونوں ممالک خود اس کی عملی تصویر پیش کرکے عالمِ اسلام کو ابتلاو آزمایش سے باہر نکلنے میں مدد فراہم کرتے۔ آج عالمِ اسلام کے بیش تر زخم ایران اور سعود ی عرب کی چپقلش کی دین ہیں۔ دو عشرے پیش تر تک مختلف معاملات، مثلاً افغانستان، فلسطین اور کشمیر کے تئیں مذکورہ دونوں ممالک کا موقف یکساں ہوتاتھا۔ کشمیر کے سلسلے میں ویسے تو سعودی حکومت پس پردہ ہی رول ادا کرتی تھی، مگر ایران کا پاکستان کی ہی طرز پر خاصا فعال کردار ہوتا تھا۔

مجھے یاد ہے کہ ۱۹۸۲ء میں سری نگر کی جامع مسجد میں ایران کے موجودہ سپریم رہنما آیت اللہ خامنہ ای کا والہانہ استقبال کیا گیا تھا۔ ان کا خطبہ سننے کے لیے عوام کا ازدحام اُمنڈ آیا تھا۔ پھر ۱۹۹۱ء میں جب بھارت کے وزیر خارجہ اندر کمار گجرال تہران کے لیے اڑان بھرنے کی تیاری کر رہے تھے، کہ ایران نے ان کی میزبانی کرنے سے معذوری ظاہر کر دی۔ وجہ تھی کہ سری نگر میں سیکورٹی دستوں نے اس دن کشمیر کے کئی افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ تاہم، خطے کے بدلتے حالات، بین الاقوامی رسہ کشی ، افغانستان کے منظرنامے ، پابندیوں اور پھر اپنی معیشت نے شاید ایران کو مجبور کیا کہ بھارت کے ساتھ اپنے رشتوں کا ازسر نو جائزہ لے۔

مارچ ۱۹۹۴ء میں کشمیر کے حوالے سے ایران نے اچانک پوزیشن تبدیل کی۔ ہوا یہ کہ جموں وکشمیر میں حقوقِ انسانی کی ابتر صورتِ حال کے حوالے سے ’اسلامی تعاون تنظیم‘ نے اقوامِ متحدہ کے حقوق انسانی کمیشن میں ایک قرارداد پیش کرنے کا فیصلہ کیا تھا، جس میں کشمیر میں حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے بھارت کی زبردست سرزنش اور اس کے خلاف اقدامات کی سفارش کی گئی تھی۔ منظوری کی صورت میں یہ قرارداد براہِ راست اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے سپرد کردی جاتی، جہاں بھارت کے خلاف اقتصادی پابندیاںعائد کرنے کے قواعد تقریباً تیار تھے۔  اسی دوران کوہِ البرزکے دامن میں واقع تہران ایئر پورٹ پر شدید سردی میں بھارتی فضائیہ کے ایک خصوصی طیارے نے برف سے ڈھکے رن وے پر لینڈنگ کی۔ یہ طیارہ اس وقت کے وزیرخارجہ دنیش سنگھ اور تین دیگر مسافروںکو انتہائی خفیہ مشن پر لے کر آیا تھا۔ دنیش سنگھ ان دنوں دہلی کے ہسپتال میں زیر علاج تھے اور بڑی مشکل سے چل پھر سکتے تھے۔ وہ اسٹریچر پر ایرانی صدر علی اکبر ہاشمی رفسنجانی کے نام بھارتی وزیراعظم پی وی نرسیما رائو کا اہم مکتوب لے کر آئے تھے، اور ذاتی طور پر ان کے حوالے کرنا چاہتے تھے۔ سوء اتفاق کہ وزیرخارجہ ' دنیش سنگھ کا یہ آخری سفارتی دورہ ثابت ہوا کیوںکہ اس کے بعد وہ دنیا سے کوچ کرگئے۔

اس وقت بین الاقوامی برادری میں بھارت کی پوزیشن مستحکم نہیں تھی اور اقتصادی صورتِ حال انتہائی خستہ تھی، حتیٰ کہ سرکاری خزانہ بھرنے کے لیے حکومت نے اپنا سارا سونا بیرونی ملکوں میںگروی رکھ دیا تھا۔ ادھر سوویت یونین کے منتشر ہو جانے سے اس کا یہ دیرینہ دوست بھی اپنے زخم چاٹ رہا تھا۔ وزیر اعظم نرسیما رائو نے بڑی ہوشیاری اور دُوراندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایران کو آمادہ کرلیا کہ وہ او آئی سی میں مذکورہ قرارداد کی منظوری کے وقت غیر حاضر رہے۔ نرسیما رائو کا خیال تھا کہ ایران کے غیر حاضر رہنے کی صورت میں یہ قرارداد خود بخود ناکام ہوجائے گی، کیوںکہ ’اسلامی تعاون تنظیم‘ دوسرے کئی بین الاقوامی اداروںکی طرح ووٹنگ کے بجاے اتفاق راے سے فیصلے کرتی ہے۔ جس وقت بھارتی فضائیہ کا خصوصی طیارہ ایرانی ہوائی اڈے پر اُتر رہا تھا، ایرانی حکام کو ذرا سا بھی اندازہ نہیں تھا کہ بھارتی وزیر خارجہ اچانک تہران میںکیوں نازل ہورہے ہیں؟ ایرانی حکام اتنے حیرت زدہ تھے کہ وزیر خارجہ علی اکبر ولایتی پروٹوکول کو بالاے طاق رکھتے ہوئے خود ہوائی اڈے پر پہنچے اور جب راجا دنیش سنگھ کو صبح سویرے سردی سے ٹھٹھرتے وہیل چیئر اور ڈاکٹروں کے ہمراہ ہوائی جہاز سے برآمد ہوتے دیکھا تو ان سے پہلا سوال ہی یہ کیا کہ: ’’آخر اس وقت اور اتنے ہنگامی طریقے سے اپنی جان جوکھم میں ڈالنے کی کیا ضرورت آن پڑی؟‘‘ دنیش سنگھ نے صدر ہاشمی رفسنجانی اور ایرانی پارلیمنٹ کے اسپیکر ناطق نوری سے ملاقات کی اور اسی دن شام کو دہلی کے اسپتال میں اپنے بیڈ پر دوبارہ دراز دکھائی دیے۔

بتایا جاتا ہے کہ اس مہم کو خفیہ رکھنے کے لیے ان کی واپسی تک ان کے بیڈ پر انھی کی قدوقامت کے شخص کو لٹایا گیا تھا۔ بہرحال دنیش سنگھ کا مشن کامیاب رہا۔ اس پورے معاملے میں ایران کوکیا ملا؟ یہ ابھی تک ایک راز ہے۔ کہتے ہیں کہ اگر پاکستان کو اس واقعے کی بھنک پڑ جاتی تو معاملہ کچھ اور ہوتا۔ ادھر ایرانی دبے لفظوں میںکہتے ہیں کہ بھارت نے مسئلہ کشمیر حل کرنے کے سلسلے میں ان سے ایک وعدہ کیا تھا، جس پر انھوں نے یقین کرلیا ۔ بھارت نے ایران سے درخواست کی تھی کہ:’’اگر وہ مغربی ممالک کی مداخلت روکنے میں اس کی مدد کرتا ہے تو وہ پاکستان اور کشمیری رہنمائوں کے ساتھ بات چیت شروع کرکے اس مسئلے کو حل کرنے کا خواہاں ہے‘‘۔ یہ سچ ہے کہ نرسیما راؤ نے اس کے بعد کچھ تگ و دو کی۔

ایک سال بعد برکینا فاسو میں ناوابستہ ممالک کی سربراہ کانفرنس کے دوران نرسیما رائو نے اعلان کیا کہ: ’’کشمیر کے سلسلے میں بھارت آسمان کی وسعتوں جتنی رعایتیں دینے کے لیے تیار ہے‘‘۔ دنیش سنگھ کی واپسی کے بعد ۷۲گھنٹے بھارت کے لیے کافی تذبذب بھرے تھے، تاہم ایران نے اپنا وعدہ ایفا کرتے ہوئے کشمیر سے متعلق او آئی سی کی قرارداد کو بڑی حکمت عملی سے عملاً ’ویٹو‘کردیا۔

چوںکہ سبھی نگاہیں اس وقت جنیوا پر ٹکی ہوئی تھیں، اس لیے کسی کو اتنی فرصت نہیں تھی کہ یہ جان سکتا کہ تہران میںکیا لاوا پک رہا تھا۔ مجھے یاد ہے، نئی دہلی میں اس وقت کے پاکستانی ہائی کمشنر ریاض کھوکھر خاصے تنائو بھرے ماحول میں کشمیری لیڈروں سید علی گیلانی اور عبدالغنی لون کو بتا رہے تھے کہ: ’’ایران اس انتہائی اہم قرارداد کی حمایت سے ہاتھ کھینچ رہا ہے؛ حالاںکہ صرف ایک ہفتہ قبل نئی دہلی میں ایرانی سفیر نے دونوں کشمیر ی رہنمائوںکی اپنی رہایش گاہ پہ پُرتکلف دعوت کی تھی اور انھیں باورکرایا تھا کہ مظلوم مسلمانوں کی حمایت کرنا ایران کی خارجہ پالیسی کا اہم جز ہے۔

قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ جنیوا میں منعقدہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کے اجلاس میں شرکت کے لیے بھارتی وفد کی قیادت اس وقت کے اپوزیشن لیڈر اٹل بہاری واجپائی نے کی تھی اور ان کے ساتھ مرکزی وزیر سلمان خورشید اور نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ موجود تھے۔ اس وفد کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ۷۲گھنٹے قبل وزیر خارجہ دنیش سنگھ ایک ایسا ’کارنامہ‘ انجام دے چکے ہیں، جس کے دُور رس اثرات مرتب ہونے والے تھے۔ بعدکے حالات و واقعات نے اسے درست ثابت کیا۔ واجپائی اور ڈاکٹر فاروق عبداللہ اب تک اس کامیابی کا سہرا اپنے سر باندھتے پھرتے ہیں اور نرسیما رائو نے بھی مرتے دم تک ان سے یہ سہرا واپس لینے کی کوشش نہیں کی۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اس واقعے کے بعد سے پاکستان نے کشمیر کا معاملہ اقوام متحدہ میں زیربحث لانے کی ہمت نہیںکی۔بعد میں ایران اور پاکستان کے تعلقات کشیدہ ہوتے چلے گئے، حتیٰ کہ افغانستان کے سلسلے میں دونوں نے متضاد موقف اختیار کیا۔ ایران نے بھارت کے ساتھ مل کر افغانستان کے’شمالی اتحاد‘ کو تقویت پہنچائی، جو پاکستانی مفادات کے بالکل خلاف تھا۔ پاکستان کو اس رویے سے زبردست صدمہ پہنچا، جسے اس نے پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف قرار دیا۔

 شاید تاریخ پھر پلٹ رہی ہے۔ حالات و واقعات نے مسلم دنیا کی کمان ایران اور ترکی کی دہلیز تک پہنچا دی ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ دو گھنٹے کی بات چیت میں جہاں دونوں لیڈروں نے عالمی اور علاقائی امور پر بتادلہ خیال کیا، ذرائع کے مطابق ایرانی صدر نے باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ ’’قضیۂ کشمیر کو سلجھانے سے خطے کے مسائل کا بڑی حد تک ازالہ ہوسکتا ہے‘‘۔ خاص طور پر ایرانی وفد کے اصرار پر مشترکہ بیان میں دہشت گردی اور انتہاپسندی کے نظریات سے نمٹنے سے متعلق پیراگراف میں یہ اضافہ کیا گیا ، کہ: ’’اس (دہشت گردی اور انتہا پسندی) کی جڑوں کو ختم کرنے کے لیے اس کی وجوہ اور ان عوامل کو بھی ختم کرنا ضروری ہے، جو اس کی تقویت اور وجہ کا باعث بنتے ہیں‘‘۔ ایرانی صدر نے پریس بیان میں: ’’علاقائی تنازعات کو سفارتی اور سیاسی کاوشوں سے حل کرنے پر زور دیا‘‘۔ ایرانی ذرائع کے مطابق ان کا اشارہ بھارت- پاکستان مذاکرات کی بحالی اور کشمیر کی طرف تھا۔

بھارت کے لیے اس وقت ایرانی بندر گاہ چاہ بہار کو خاصی اہمیت حاصل ہے۔چند ہفتے قبل بھارتی بجٹ میں اس پر ۱۵۰کروڑ روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ گو کہ پچھلے سال بھی اتنی ہی رقم مختص کی گئی تھی، مگر معاہدے اور ٹھیکوں کی تقسیم وغیرہ جیسے معاملات کو طے کرنے میں تاخیر کی وجہ سے صرف ۱۰لاکھ روپے ہی خرچ کیے جاسکے۔ نریندرا مودی نے چاہِ بہار سے زاہدان تک ۶ء۱ارب ڈالر لاگت کی ریلوے لائن بچھانے پر بھی آمادگی ظاہر کی ہے۔ چاہِ بہار، بھارت کی طرف سے اپنے آپ کو ایک بین الاقوامی قوت کے طور پر منوانے کی کوشش کا بھی ہدف ہے۔ دوسرے قدم کے طور پر بھارت اس بندر گاہ کو ۷۲۰۰کلومیٹر طویل ’انٹرنیشنل نارتھ، ساؤتھ ٹرانسپورٹ کوریڈور‘ کے ساتھ جوڑ کر آرمینیا، آذربائیجان، روس اور یورپ تک رسائی حاصل کرکے اس کو چین کے ’ون بیلٹ ون روڈ‘ کے مقابلے میں کھڑا کرنے کا خواب دیکھ رہا ہے۔

بھارت دنیا کی تیزرفتار ترقی پذیر معیشت ہی سہی، مگر اس کے سامنے دنیا سے ربط سازی (connectivity) ہمیشہ ہی سردردی کا ایشو رہا ہے۔اس نے پڑوسی ممالک نیپال سے لے کر سری لنکا ، مالدیپ اور پاکستان تک کو ایک خوف میں مبتلا کرنے کی کوشش کی ہے، مگر بھوٹان جیسے چھوٹے سے ملک کی پارلیمنٹ نے حا ل ہی میںمودی کے پراجیکٹ بھوٹان، بنگلادیش، بھارت اور نیپال (بی بی آئی این) کوریڈور کو منظور کرنے سے منع کردیاہے۔

اس پس منظر میں ایران کے لیے یہ موقع ہے، کہ بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات اور اثر و رسوخ کو بروے کار لا کر نئی دہلی کو اپنے ۱۹۹۴ء کے وعدوں کی یاد دہانی کرائے۔ اگر یہ وعدہ ایفا ہوتا ہے تو اس خطے میں امن اور خوش حالی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا، جس میں بھارت، پاکستان، افغانستان اور ایران اسٹیک ہولڈرز ہوں گے۔

جھوٹ، مکروفریب اور نفرت و عداوت پر مبنی جارحانہ اکثریتی قوم پرستی کی آڑ میں سیاسی اقتدارپر قابض ہونے والے نظریے کو ’فسطائیت‘ (Fascism)کہتے ہیں ۔ تاریخی حقائق کو    توڑ مروڑ کر پیش کرکے ایک خاص قسم کا تاریخی و تہذیبی شعور پیدا کرنا، مفروضہ اور اندرونی و بیرونی خطرات کے تعلق سے خوف و ہراس کی نفسیات پیدا کر کے اکثریت کے جذبات کو برانگیختہ کرنا،  اعلیٰ اخلاقی و جمہوری اقدار کے تئیں نفرت و بے گانگی کا اظہار کرنا، اور خصوصی طور پر اقلیتوں کے خلاف شکوک و شبہات پیدا کرنا فسطائی نظریے کی اہم خصوصیات ہیں۔

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ فسطائیت کا مقصد صرف سیاسی اقتدار پر قبضہ کرنا نہیں ہوتا، بلکہ سیاسی طاقت کا استعمال بڑے اہم اغراض و مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ دراصل فسطائی طاقتیں سیاسی اقتدار کے ذریعے مملکت اور معاشرت پر پوری طرح قابض ہوکر مملکت کی تمام طاقت (پولیس، فوج، خفیہ ایجنسیاں، مقنّنہ، انتظامیہ، عدلیہ وغیرہ) کا استعمال اندرونی اور بیرونی مفروضہ یا حقیقی دشمنی کے خلاف کرتی ہیں۔ لہٰذا قتلِ عام (genocide)، نسل کشی (brutal war) اور جنگ و جدل (ethnic cleansing) فی الحقیقت فسطائیت کی روح اور بنیاد میں شامل ہیں۔

۲۰ویں صدی میں فسطائیت کی خوف ناک شکل جرمنی (۱۹۳۷ء-۱۹۴۵ء) اور اٹلی (۱۹۲۲ء-۱۹۴۳ء) میں دیکھنے کو ملی، جو بالآخر دوسری جنگ ِ عظیم (۱۹۳۹ء-۱۹۴۵ء)کا سبب بنی۔ لیکن یہ سمجھنا غلط ہوگا کہ فسطائیت مذکورہ دو ممالک ہی میں محدود رہی ہے اور دوسری جنگ ِ عظیم کے بعد اس نظریے کا خاتمہ ہوگیا۔ ایسا نہیں ہوا بلکہ فسطائیت اپنی مختلف گھنائونی اور بدترین شکلوں میں دنیا کے کئی اور ممالک میں بھی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ آبادی کے اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ بھارت میں اس کی دستک روز بروز تیز تر ہوتی جارہی ہے۔

فسطائیت، جمہوریت کی سیڑھی سے، یا استحصال کرکے بیلٹ بکسوں کے راستے، یا پھر مسلح طاقت کے استعمال کے ذریعے اقتدار پر قابض ہوتی ہے۔ لہٰذا، جمہوریت کو فسطائیت کے سیلاب کے سامنے بند باندھنے کا وسیلہ سمجھ بیٹھنا خام خیالی ہوگی۔ دراصل جمہوریت کا استحصال کر کے اکثریتی قوم پرستی کے نقاب میں چھپ کر آنے والی فسطائیت زیادہ بااثر ، زیادہ طاقت ور اور زیادہ خوف ناک ہوتی ہے،{جیساکہ جرمنی کے تجربے سے ثابت ہوچکا ہے۔

ہندو فسطائیت کی آمد: تاریخی پس منظر

۲۰ویں صدی کے آغاز سے ہی بھارت میں ’اکثریت پسند قوم پرستی‘ کی بنیاد ڈالنے کی کوشش شروع ہوگئی تھی، اور ’بھارتی قوم پرستی‘ کو ’ہندو قوم پرستی‘ کا لبادہ پہنانے کی سعی ہونے لگی تھی۔ ۱۹۱۴ء-۱۹۱۵ء میں ’ہندو مہاسبھا‘ کا قیام اور ۱۹۲۵ء میں آر ایس ایس (راشٹریہ سوامی سیوک سنگھ) کی بنیاد دراصل اس کوشش کا نتیجہ ہے۔

یوں تو جرمن نسل پرست ہٹلر اور اطالوی نسل پرست مسولینی کی حکمرانی کے زمانے سے ہی بھارت کی اکثریت پسند تنظیموں نے فسطائی نظریات سے خود کو ہم آہنگ کرنے کی کوششیں تیز کر دی تھیں اور فسطائیت کے علَم برداروں سے براہِ راست تعلق پیدا کرنے کی سعی بھی کی، جس کی تفصیل اطالوی دانش ور مارزیا کیسولاری (Marzia Casolari) کی عالمانہ تحقیق The Fascist Heritage and Foreign Connections of RSS Archival Evidence میں درج ہے۔ لیکن عالمی سطح پر فسطائیت کی شکست ِ فاش اور قومی سطح پر کانگریس کی قیادت میں جاری تحریک ِآزادی نے ’ہندوتوا‘ پر مبنی جارحانہ قوم پرستی کو ناقابلِ قبول بنا دیا تھا۔ فسطائیت کی بنیاد ہیرو پرستی (Hero Worship) پر بھی ہوتی ہے۔ اتفاق سے آزادی کے وقت بھارت کے قومی سیاسی دھارے میں اعتدال پسند لیڈروں کی مؤثر تعداد موجود تھی۔ ان لیڈروں کے مقابلے میں     قومی سیاسی دھارے میں ’ہندوتوا‘ کے علَم برداروں کے پاس کوئی ایسا لیڈر موجود نہیں تھا جو ہیرو کے طور پر عوام میں مقبولیت حاصل کرپاتا۔ اس لیے ہندو مہاسبھا اور اس کی معاون تنظیمیں انڈین نیشنل کانگریس [تاسیس: ۲۸دسمبر ۱۸۸۵ء]سے سیاسی انتخابات میں پے درپے شکست کھاتی رہیں۔

فسطائیت کی سب سے بڑی طاقت جارحانہ اور اکثریت پسند قوم پرستی ہوتی ہے۔ چوں کہ قوم پرستی کے لبادے میں احیاپرستی کو چھپا کر فسطائیت ایک عرصے تک لوگوں کو مغالطے میں رکھنے میں کامیاب رہتی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ تاریخ کے گہرے مطالعے کی روشنی میں ہندستان میں فسطائی تحریک اور اس کے معاون کلچر کو سمجھا جائے۔ بعض اوقات فسطائیت ابتدا میں ہی اپنی  شدت پسندی کی وجہ سے بے نقاب ہوجاتی ہے۔ مثال کے طور پر ۳۰جنوری ۱۹۴۸ء کو گاندھی جی کے قتل نے بھارت میں ’ہندوتوا‘ پر مبنی جارحانہ قوم پرستی کے نظریے کو پوری طرح بے نقاب کر دیا تھا، جس کی وجہ سے ’ہندو فسطائیت‘ یہاں کمزور ہوگئی تھی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اس وقت کی سیاسی قیادت نے اسے ملک کے لیے زیادہ بڑا خطرہ نہیں سمجھا اور اس خطرناک نظریے کو ملک میں دوبارہ قدم جمانے کا موقع مل گیا۔

بھارت میں فسطائیت کے خطرے سے متعلق سیاسی مبصرین اور اہلِ نقد و نظر نے حکومت اور عوام کو مسلسل ہوشیار کرنے کی کوشش کی اور اس کے خوف ناک نتائج سے آگاہ بھی کیا۔ چیتنیا کرشنا نے اپنی مرتب کردہ کتاب Fascism in India: Faces, Fangs and Facts  میں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ بھارت کو فسطائیت کا حقیقی خطرہ لاحق ہے۔ چیتنیا کرشنا نے یہ تسلیم کیا ہے کہ بھارت میں فسطائیت اپنی آمد کا اعلان کرچکی ہے۔{ معروف ادبی تخلیق کار اور سماجی کارکن ارُون دھتی راے [پ: ۲۴ نومبر ۱۹۶۱ء]نے گجرات میں فروری، مارچ ۲۰۰۲ء میں ہونے والی مسلمانوں کی نسل کشی کے بعد ملک میں فسطائیت کے جمتے ہوئے قدموں کو خطرناک قرار دیا ہے۔ بھارت کے مشہور سیاسی تجزیہ کار اور مفکر رجنی کوتھاری [م:۱۹ جنوری ۲۰۱۵ء] نے گجرات نسل کشی ۲۰۰۲ء کے بعد ’ہندوتوا‘ کے بڑھتے ہوئے اثرات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔{  اور ’ہندوتوا‘ کو ہندستانی تہذیب کے لیے سب سے بڑا خطرہ بتایا ہے۔ نوبل انعام یافتہ دانش ور اور ماہر معاشیات امرتیاکار سین [پ:۳نومبر ۱۹۳۳ء] نے بھی بارہا ’ہندو توا‘ پر مبنی ثقافتی قوم پرستی کو ملک کے لیے تباہ کن بتایا ہے۔

۲۰۱۴ء کے پارلیمانی انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)کی زبردست کامیابی کے بعد وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پر نریندرا مودی کا فائز ہونا دانش وروں کو خدشات میں مبتلا کرچکا ہے۔  اس کی وجہ سے دانش وروں کا ایک بڑا طبقہ ملکی سیاست اور معاشرت کو ایک خاص سمت میں جاتا ہوا محسوس کر رہا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ملک میں رُونما ہونے والے واقعات دانش وروں کے خدشات کو صحیح ثابت کر رہے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی کامیابی کے بعد جس طرح ’ہندو توا‘ پر مبنی جارح قوم پرستی ایک سماجی طاقت بن کر اُبھر رہی ہے اور زبردست جذباتی لاوا (lava) پیدا کررہی ہے، وہ   آنے والے دنوں میں ایک ہولناک شکل اختیار کرسکتی ہے۔

’لوّجہاد‘ ، ’گھرواپسی‘،’گئورکھشا آندولن‘، ’بھارت ماتا کی جے‘ ،’سوریہ نمسکار‘ ،’یوگا‘،   کیرانہ سے ہندوئوں کی نقل مکانی، کشمیر میں پنڈتوں اور فوجیوں کے لیے علیحدہ کالونی، آسام اور شمال مشرقی ریاستوں میں بنگلہ دیشی دَراندازی کا مسئلہ کھڑا کرنا، تاریخی حقائق کو ایک خاص انداز سے پیش کرنا، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اقلیتی کردار کو مشکوک اور متنازع بنانا، وغیرہ تمام واقعات ایک خاص قسم کا سماجی شعور پیدا کرنے کی کوشش کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ لیکن ان تمام واقعات کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے بھارت میں فسطائیت کی تاریخ اور اس کی نظریاتی اساس کو سمجھنا ہوگا۔

ہندو فسطائیت کی نظریاتی اساس

بیسویں صدی کے اوائل میں بھارت میں دو رجحانات اور نظریات پروان چڑھتے نظر آتے ہیں۔ ایک طرف متحدہ طور پر تحریک ِ آزادی تھی اور دوسری جانب فرقہ وارانہ اور متعصب قوم پرستی کا آغاز ہوا ہے۔ ۱۸۵۷ء کی شورش کے بعد ہی برطانوی حکومت کی ’تقسیم اور حکومت کرو‘ کی پالیسی کے نتیجے میں ’ہندو فرقہ واریت‘ کی ابتدا ہوگئی تھی۔ مغلیہ دورِحکومت میں رائج فارسی اور اُردو زبان کےخلاف باضابطہ تحریکیں شروع ہوگئیں۔ انگریزی حکومت کو عرضداشتیں دی جانے لگی تھیں کہ: ’ہندی کو سرکاری کام کاج کی زبان بنایا جائے‘۔

ہندو نسل پرستی کو تقویت بخشنے کے لیے ۱۰؍اپریل ۱۸۷۵ء کو ’آریہ سماج‘ کا قیام بھی عمل میں آیا، جس کے تحت ’شدھی تحریک‘ چلائی گئی اور بہت سارے علاقوں میں مسلمانوں اور عیسائیوں کو ہندو بنانے کی کوشش کی گئی۔ دراصل ’آریہ سماج‘ نے یہ نظریہ پھیلانا شروع کیا کہ: ’’مسلم حکمرانوں کے زیراثر اور عیسائی مشنریوں کے بہکاوے میں آکر بہت سارے ہندو مسلمان یا عیسائی ہوگئے ہیں، اس لیے انھیں دوبارہ ہندو بناکر ’شدھ‘ یا پاک کیا جانا ضروری ہے‘‘۔ یہاں پر یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ یہی وہ حالات تھے جن کے تحت بانی علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سرسیّداحمد خان [م:۱۸۹۸ء] کے افکار و خیالات میں ہندستان کی مشترکہ تہذیب کے حوالے سے زبردست تبدیلی آئی اور انھوں نے اُردو، فارسی کی بقا و تحفظ کی تحریک چلائی۔ ساتھ ہی ساتھ مسلمانوں کی سیاسی نمایندگی کی بھرپور وکالت کی۔ سیاسی مبصرین اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ۳۰دسمبر۱۹۰۶ء کو ڈھاکہ میں آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام بھی انھی مخصوص حالات اور مسلم تشخص کے بقا کی وجہ سے ہوا۔ ازاں بعد مسلم لیگ کی سیاست کو حوالہ بناکر ہندواحیا پرستی کی تحریک نے پیش رفت میں سہولت محسوس کی۔

بھارت میں فسطائیت کی نظریاتی بنیاد رکھنے والوں میں ونایک دامو ورساورکر  ڈاکٹر کیشوبلی رام ہیڈگیوار مادھو سدا شیو گولوالکر  کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ جیساکہ بتایا گیا ہے ساورکر نے اپنی کتاب Hindutva: Who is Hindu? میں ’ہندوتوا‘ کے نظریے کو سب سے پہلے مربوط طریقے سے پیش کیا تھا۔ ساورکر نے بھارت کو ہندوئوں کا ملک بتایا اور اس بات پر زور دیا کہ: ’’یہ ہندوئوں کی ’پوترا بھومی‘ اور ’پونیا بھومی‘ دونوں ہے ،کیوں کہ ہندوئوں کو ہی اس ملک کی تہذیب وراثت میں ملی ہے۔ وہ ہندستان کی تہذیب کے وارث اور محافظ ہیں ۔ ان کے ہیرو، ان کی تاریخ ، ان کا ادب، آرٹ اوررسم و رواج، سب اس تہذیب کی ترجمانی کرتے ہیں‘‘۔

ساورکر کے نزدیک: ’’مسلمانوں اور عیسائیوں کو بھی اس ملک میں مشترک ’پدریت‘ (fatherhood ) میں حصے داری ملی، لیکن چوں کہ ان کے مقاماتِ مقدسہ، ان کے ہیرو اور ثقافت کا تعلق یہاں سے نہیں ہے، لہٰذا انھیں اس مشترک تہذیب میں حصے داری نہیں مل سکتی، جس پر صرف اور صرف ہندوئوں کا حق ہے‘‘۔ اس طرح سے ساورکر نے بھارتی قوم پرستی کی بنیاد ’ہندوتوا‘ پر ڈالی اور باقی قوموں کو اس قوم پرستی سے اس بنیاد پر علیحدہ کیا کہ ان کے مقاماتِ مقدسہ عربیہ یا فارسی وغیرہ میں ہیں۔ مختصر یہ کہ ساورکر نے ہی دراصل ’’ہندی، ہندو، ہندستان‘‘ جو کہ آج سنگھ پریوار  کا خاص نعرہ ہے اور جو سنگھ کی سیاست کی اساس ہے، کی اس ملک میں بنیاد ڈالی۔ بعد میں ہیڈگیوار اور گولوالکر نے ہندستانی قومیت سے مسلمانوں اور عیسائیوں کو دست بردار کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ: ’’اُنھیں دوبارہ ہندو بنایا جائے تاکہ اس ملک میں ایک متحدہ قومیت پنپ پائے‘‘۔

درحقیقت بھارتیہ جنتاپارٹی، آر ایس ایس وغیرہ جب یہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کو ’مکھ دھارے‘ میں شامل ہونا چاہیے تو ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس ملک کی تہذیب و ثقافت سے جوڑ کر دیکھیں اور طارق، خالد، علی، حسین، محمد، فاطمہ، عائشہ، زینب وغیرہ جیسے نام رکھ کر بیرونی کرداروں سے خود کی شناخت نہ کرائیں۔ عیسائی اپنے آپ کو ڈیوڈ، جوزف، میری وغیرہ کی جگہ رام، سیتا، ہنومان، کرشنا وغیرہ سے جوڑیں، اور اس کا اظہار مسلمانوں اور عیسائیوں کے ناموں اور ان کے اداروں سے ہونا چاہیے۔ یہاں تک کہ مساجد اور چرچوں کی عمارتیں بھی ہندستانی تہذیب کی عکاسی کریں۔ لہٰذا،مینار و گنبد اور چرچوں کی تعمیر کا طریقہ ہندستان کی تہذیب کے خلاف ہے۔

مادھو سارشو گولوالکرسے منسوب کتاب Bunch of Thoughts [گل دستۂ افکار] (۱۹۶۶ء) میں ’ہندوتوا‘پر مبنی بھارت میں فسطائیت کی نظریاتی اساس کی اصل جھلک ملتی ہے۔ چوں کہ گولوالکر نے ۱۹۴۰ء سے لے کر ۱۹۷۳ء تک آر ایس ایس کی قیادت کی، اس لیے گولوالکر کے افکار و خیالات آر ایس ایس کے کام کاج کے طریقوں پر آج تک حاوی ہیں۔ آج جو کچھ بھی   سنگھ پریوار کرتا یا کہتا ہے، اس کی جڑیں گولوالکر کے افکار میں ہی ملتی ہیں۔ اس کتاب کے تعارف میں ایم اے وینکٹ رقم طراز ہے کہ: جس طرح مسلمانوں سے پہلے کے حملہ آوروں کو قومی معاشرت میں ضم کرنے میں ہندستانی سماج نے کامیابی حاصل کی تھی، مگر مسلمانوں کے معاملے میں وہ ناکام رہا ہے۔ یہ ایک کڑوی سچائی ہے جسے قومی آزادی کے رہنمائوں نے یکسرنظرانداز کیا۔ انھوں نے یہ سوچ کر بہت بڑی غلطی کی کہ اکثریت کی قیمت پر مسلمانوں کو مراعات دے کر انھیں جیتا جاسکتا ہے۔رعایتیں حاصل کرنے والوں کے اندر جب تک نظریاتی تبدیلی نہیں آتی، اس وقت تک مقصد حاصل نہیں کیا جاسکتا‘‘۔{

گولوالکر کے مطابق: ’’مسلمانوں کا انضمام ممکن بھی ہے اور ضروری بھی، لیکن اس کے لیے صحیح فلسفے، صحیح نفسیات اور صحیح حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ لیکن ہندستانی لیڈر ایسی کوئی بھی تکنیک وضع کرنے سے قاصر ہیں۔ وہ اپنی زبردست غلطیوں پر مسلسل گامزن رہے، حتیٰ کہ مادرِ وطن کو تقسیم کرنا پڑا۔ افسوس وہ آج بھی انھی غلطیوں پر قائم ہیں اور اس طرح وہ ایک اور پاکستان کو بڑھاوا دے رہے ہیں‘‘۔

قابلِ غور ہے کہ گولوالکر نے جہاں حملہ آوروں کا ذکر کیا ہے، وہاں مسلمانوں کے علاوہ شکاس(Shakas)، ستھیانس (Sythians) اور ہُنز (Huns ) کا ذکر کیا ہے لیکن دانستہ طور پر آریائی حملے کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے۔ حالاں کہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہےجو مختلف تحقیقات سے ثابت ہوچکی ہے کہ آریائی نسل کے لوگوں کا تعلق ہندستان سے نہیں بلکہ یورپ اور وسطی ایشیا سے ہے۔ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ آریائی نسل کے لوگوں کی آمد سے قبل ہندستان میں ایک شان دار تہذیب موجود تھی، جسے ’وادیِ سندھ کی تہذیب‘ کہتے ہیں اور بہت سارے مؤرخین اور محققین کا تسلیم کرنا ہے کہ یہ تہذیب آریائی حملے میں تباہ ہوئی۔ اس لیے آریائی نسل کے لوگ بھی اس ملک میں اسی طرح باہر سے آئے، جیسے شکاس، ستھیانس اور ہُنز اور مسلمان آئے تھے۔ تمام غیر جانب دار دانش ور اور محقق اس بات کو نہایت ہی شدومد کے ساتھ اُٹھاتے ہیں۔

مزید یہ کہ ’ہندوتوا‘ کے علَم برداروں کے نزدیک ہندستان کی تہذیب دراصل ’ویدک تہذیب‘ یا ’آریائی تہذیب‘ ہی ہے اور تمام لوگ جو ہندستان کی تہذیب میں اپنی حصہ داری یا نمایندگی چاہتے ہیں انھیں اسی ’ویدک تہذیب‘ سے خود کو ہم آہنگ کرنا ہوگا۔ لہٰذا، تمام مذاہب کے ماننے والوں، مثلاً بدھ مت، جین مت، سکھ مت، مسلمان، عیسائی وغیرہ خود کو اس تہذیب، یعنی ’ہندوتوا‘ میں ضم کرنا ہوگا۔ اپنی علیحدہ شناخت کو ختم کر کے ’ہندوتوا‘ کے رنگ میں رنگنا ہوگا۔

Bunch of Thoughts  میں تین اندرونی خطرات‘ کی نشان دہی کی گئی ہے، اور سب سے پہلا خطرہ مسلمانوں کو بتایا گیا ہے، دوسرا عیسائیوں کو اور تیسرا کمیونسٹوں کو۔{مسلمانوں کے متعلق کہا گیا ہے کہ ’’ہمارے لیے یہ سوچنا خودکشی کے مترادف ہوگا کہ پاکستان بننے کے بعد (ہندستانی) مسلمان راتوں رات وطن پرست ہوگئے ہیں بلکہ مسلم خطرناکی، پاکستان کے قیام کے بعد سو گنا بڑھ گئی ہے، کیوں کہ پاکستان مستقبل میں ہندستان کے خلاف مسلم جارحیت کا مرکز ہوگا‘‘۔

اسی کتاب میں مشرقی پاکستان، یعنی بنگلہ دیش میں ہندوئوں کی نقل مکانی کا ذکر ہے اور بنگال، بہار، اترپردیش اور دہلی میں ہونے والے ’ہندو مسلم فسادات‘ میں آر ایس ایس کے ممبران کی گرفتاریوں کا تذکرہ ہے۔ گولوالکر کا دعویٰ ہے کہ اس نے اس وقت کے ملک کے اہم لیڈر ولبھ بھائی پٹیل [م:دسمبر۱۹۵۰ء]سے ملاقات کی اور انھیں ہندستان میں مسلمانوں سے درپیش خطرات کا ذکر کیا، جس پر سردار پٹیل نے کہا کہ: ’’تمھاری بات میں سچائی ہے اور آر ایس ایس کے تمام کارکنان کو چھوڑ دیا گیا‘‘۔(ایضاً، ص۱۸۱)

اس کتاب میں ’ٹائم بم‘ کے نام سے ایک ضمنی عنوان ہے، جس میں مغربی اترپردیش میں مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی ہونے پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ دہلی سے لے کر    رام پور اور لکھنؤ تک دھماکا خیزحالات پیدا ہورہے ہیں، اور اس موہوم امکانی صورتِ حال کا ۱۹۴۶ء-۱۹۴۷ء کے حالات سے موازنہ کیا گیا ہے، اور ساتھ ہی ساتھ یہ بے معنی اور خلافِ واقعہ بات بھی کہی گئی ہے کہ ’’متذکرہ علاقوں میں مسلمان ہتھیار جمع کر رہے ہیں اور اس بات کا انتظار کررہے ہیں کہ جب پاکستان ، ہندستان پر حملے کرےگا تو وہ اندرونی طور پر ملک کے خلاف بغاوت کردیں گے اور مسلح جدوجہد شروع کردیں گے‘‘۔(ایضاً)

گولوالکر اور ساورکر اور اس کے بعد دین دیال اوپادھیائے جیسے لیڈران کو ’سَنگھ پریوار‘ [یعنی: ہندو قوم پرست ’تنظیموں کا خاندان‘]میں خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ دراصل یہ تمام لیڈر ’سنگھ پریوار‘ کی نظریاتی اساس بچھانے والوں میں شامل ہیں۔ آج ’سنگھ‘ کی سیاسی شاخ ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) کے اقتدار میں آنے کے بعد بھارت میں جو کچھ بھی ہورہا ہے اور جو کچھ ہوسکتا ہے، وہ ان لیڈروں کی تحریروں اور تقریروں سے پتا چل سکتا ہے۔[جاری]

شام میں الاخوان المسلمون کے مؤسس ڈاکٹر مصطفےٰالسباعی [۱۹۱۵ء-۱۹۶۴ء]نے ۱۹۶۳ء میں جرمنی کا دورہ کیا۔ جب واپس آئے تو ان سے جرمن ماہر اُمورِ شرق اوسط گستائوفشرورلگ نے انٹرویو کیا۔ فشر، جرمن ٹیلی ویژن اور ریڈیو کے خصوصی نمایندے تھے۔ یہ انٹرویو شام کے علمی مجلے الحضارہ الاسلامیہ نے شائع کیا۔ عربی سے ترجمہ جناب حبیب الرحمان ندوی نے کیا ہے اور اس پر حواشی بھی لکھے ہیں۔ادارہ

w  فشر :

آزادی کی اُن تحریکوں اور اجتماعی آرا کے متعلق اسلام کا کیا خیال ہے جن کے ذریعے مسلمان ، سامراج اور اس کے اجتماعی غلبے دونوں سے آزاد ہونا چاہتے ہیں ؟

r  السباعی :

اسلام آزادی اور حریت کا دین ہے۔ اس طرح اسلام، مسلمان کو کسی بھی سامراجی طاقت کا غلام بننے سے روکتا ہے۔ اسلام زندگی کے کسی شعبے میں بھی پیچھے رہنے کا مویّد نہیں۔ اسلام نے اپنی تعلیمات کے ذریعے ۱۴ سو برس قبل عرب کو تمام بُری چیزوںکی غلامی سے آزاد کیا تھا اور دنیا کی راہبری کے لیے ان کو مشعلِ راہ بنا دیا تھا کہ وہ دنیا کو عدالت ، حُریت اور انصاف کا پیغام دیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ انھوں نے وحشی قوموں کو تہذیب کی روشنی بخشی، جاہلوں کا علم کا سبق پڑھایا، اور انسانیت کو خداے واحد کی عبادت کے سوا ہر غلامی وعبودیت سے آزاد کردیا۔ اس طرح انسانوں میں اس اخوت اور بھائی چارگی کا پرچار کیا کہ آج تک کوئی بھی قدیم وجدید دین یا فلسفہ انسانوں میں اس طرح ہمدردی ومحبت کو پیدا نہ کر سکا۔

w  فشر :

پھر عصر حاضر میں مسلمان دوسری قوموں سے تمدن میں پیچھے کیوں رہ گئے ہیں؟

r  السباعی :

اس کے بہت سے اسباب ہیں اور سب سے اہم سبب یہ ہے کہ مسلم حکومتیں اس وقت سامراجی فکر سے متاثر ہیں اور سامراج، جب سے اسلامی حکومتیں اس کی آزمایش میں مبتلا ہوئی ہیں، برابر اسلام کی جڑوں کو کاٹنے کی کوشش میں مصروف ہے اور اسلام کی تعلیمات کو کتربیونت کر کے پیش کر رہا ہے، اور نئی پود کو اسلامی روح اور تعلیمات سے یکسر غافل بنانے کی پوری اسکیم پر عمل پیرا ہے۔ اس سلسلے میں ان تمام وسائل کو اختیار کیے ہوئے ہے جو اس کے پاس موجود ہیں۔ اس لیے مغربی حکومتیں ہی ہمیشہ مسلمانوں کو اسلام کی طرف آنے سے روکتی ہیں۔

w  فشر :

مغربی حکومتیں تو مسلمانوں کو اسلام پر عمل کرنے سے نہیں روکتیں۔ میرا خیال ہے کہ امریکا، برطانیہ اور فرانس تو اسلام سے دشمنی روا نہیں رکھتے۔

r  السباعی :

مشرق سے مغرب کی اور پھر خاص طور پر مغرب کی اسلام سے یہ دشمنی ہمارے نزدیک ایک واضح مسئلہ ہے، جس میں شک کی ایک فیصدی بھی گنجایش نہیں۔ میں صرف ایک معمولی سی مثال دیتا ہوں۔ ابھی جب آپ کے ملک جرمنی سے واپس آرہا تھا تو میں نے وہاں اسلام کی حقیقتوں کے سلسلے میں اسی طرح افترا پردازی دیکھی اور اسلام کو بگاڑ کر پیش کرنے کی ایسی تنظیمی کوششیں دیکھیں کہ میں حیران اور ششدر رہ گیا، اور یہ چیزیں علمی یونی ورسٹیوں ، مذہبی پہچان کے حامل گرجاگھروں، تفریحی کلبوں ، ریڈیو ، ٹیلی ویژن اور ہر فکری مرکز پر موجود تھیں۔

w  فشر :

آپ درست کہتے ہیں لیکن اس کا سبب یہ بھی ہے کہ آپ تمدن وترقی میں پیچھے ہیں۔

r  السباعی :

آپ کے تمدّن سے ہم لوگ کس چیز میں آپ کو پیچھے نظر آتے ہیں؟

w  فشر :

مثال کے طور پر عورت کا مسئلہ ہے کہ آپ مسلمان لوگ اب تک عورت کو اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ اپنے شوہر کے ہمراہ کلبوںاور رقص گاہوں میں جاکر برابر کی تفریح کرسکے یا دفتروں اور کارخانوں میں کھلے عام کام کرے۔

r  السباعی :

کیا آپ کے ملک میں جب عورت گھر سے بالکل باہر نکل گئی تو اجتماعی زندگی میں کوئی نقصان پیش آیا یا نہیں؟ عورت کے اس عمل سے آپ کے ہاں خاندانوں کا وجود سکڑ نہیں گیا ہے۔ گھریلو زندگی اُجڑ گئی، اخلاقی جرم بڑھ گئے۔ عیاشی و بے راہ روی کی راہیں کھل گئیں اور حرامی بچوں کی تعداد میں حیرت انگیز اضافہ ہو گیا۔ میرا خیال ہے کہ ان باتوں کی واقعاتی حقیقت کے بارے میں شاید آپ انکار نہ کر سکیں ۔

w  فشر :

میں اس بات کا کھلے دل سے اعتراف کرتا ہوں کہ ہماری گھریلو زندگی اپنے پورے وسیع مفہوم کے ساتھ اجیرن بن چکی ہے اور ہم اس کی وجہ سے بہت سے نقصانات بھگت رہے ہیں۔  ہمارا خاندانی نظام ٹوٹ چکا ہے اور نفسیاتی عارضے تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ دراصل اس علمی ترقی کی قیمت ہے جو ہم کو ادا کرنا پڑرہی ہے، وہ علمی ترقی جو ہم نے انسانیت کو عطا کی ہے۔ 

r  السباعی :

اگر آپ کو خود عورت کے باہر نکلنے سے مشکلات پیش آرہی ہیں اور آپ کو اس کا علم واندازہ بھی ہے، تو پھر کیوں اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم اپنے اُس ایمانی فلسفے اور اخلاقی اقدار سے ہاتھ دھو بیٹھیں، جن کی وجہ سے ہمارا گھریلو نظام اب تک منظم ومتحد ہے۔

w  فشر :

آپ لوگ اس بات کے محتاج ہیں کہ ہماری سائنسی ترقی سے استفادہ کریں اور ہم اس بات کے لیے پوری طرح تیار ہیں کہ ہرمعاملے میں آپ کی مدد کریں۔ لیکن میرا خیال ہے کہ آپ یہ نہیں کر سکتے کہ ہماری تہذیب وترقی کا ایک رخ اپنا لیں اور دوسرا رخ چھوڑ دیں، بلکہ یہ تہذیب تو آپ کو بھی اپنی اچھائیوں اور برائیوں دونوں کے ساتھ لینی پڑے گی اور آپ لوگوں کو بھی وہی قیمت ادا کرنی پڑے گی، جو اس ترقی کے لیے ہم نے ادا کی ہے۔

r  السباعی :

آپ ذرا ایک بات بتائیے کیا آپ کے ہاں کارخانوں کے قیام اور صنعتی ترقی کے لیے عورت کا گھر سے باہر نکلنا واقعی ایک ایسا ضروری امر تھا؟

w  فشر :

جب ہمارے ہاں صنعتی انقلاب آیا تو اس وقت مردوں کی تعداد کم تھی اور ہم پورے صنعتی توازن کو سنبھال نہیں سکتے تھے۔ اس لیے افرادی قوت کی کمی کو دُور کرنے کے لیےہم عورت کو کام پر لگانے کے لیے مجبور تھے۔

r  السباعی :

مطلب یہ کہ  جس چیز کی طرف آپ لوگوں نے مجبوراً قدم اٹھایا ہے، اب ہم کو اس کی آپ بن مانگے کیوں دعوت دے رہے ہیں؟ حالاںکہ ہمارے یہاں مردوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور ہم عورت کو کارخانوں میں لگانے کے لیے ابھی مجبور نہیں ہوئے ہیں۔ تاہم، میری راے یہ ہے کہ مغرب میں عورت کو گھر سے باہر نکالنے کے دو سبب ہیں:

ایک تو یہ کہ آپ لوگ یہ بات پسند کرتے ہیں کہ ہر وقت عورت آپ کی نظروں کے سامنے رہے، اور دوسری بات یہ ہے کہ آپ لوگ عورت کو بیوی ، ماں یا بیٹی بنا کر اس کا خرچ برداشت کرنا پسند نہیں کرتے، اوریہ دراصل ہوشیاری وکام چوری اور اپنی فرض شناسی سے فرار ہے۔ اس لیے بے چاری عورت کو کام کرنے پر آپ لوگوں نے اُبھارا تا کہ اس طرح اپنی روزی کما سکے۔

اس کے برعکس ان دونوں چیزوں کا وجود ہمارے اسلامی معاشرے میں نہیں ۔ کیوںکہ اولاً تو اسلام میں اختلاط مرد و زن کو پسند نہیںکیا گیا، اور دوم یہ کہ ہمارے یہاں کے مرد ہر جگہ عورتوں کو دیکھنے کے مشتاق نہیں، اور اسلام میں نفقہ (عورت کے خرچ )کاقانون ایسا سلیم الفطرت ہے کہ اس میں ہر شخص پر اپنی بیوی ، ماں یا غیر شادی شدہ بیٹی کا خرچ واجب ہے۔

اس لیے عورت کو اپنے فرائضی منصبی کی طرف پوری طرح متوجہ رہنے کا وقت ملتا ہے اور وہ اپنے بچوں اور گھر کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ اس لیے یہ ممکن ہے کہ ہم آپ سے سائنسی ترقی لیں لیکن اپنی گھریلو زندگی کو نہ بگاڑیں اور اپنے اخلاق کو نہ بگاڑیں ۔ آپ کے مشہور جرمن ہفت روزہ Stren  کی حالیہ رپورٹ کے مطابق جرمنی میں کام کرنے والی اکثر لڑکیوں نے بتایا کہ وہ کام اس لیے کرتی ہیں کہ اگر وہ کام نہ کریں تو ان پر خرچ کرنے والا کوئی نہیں، یا پھر اس لیے کام کرتی ہیں کہ اپنے لیے شوہر تلاش کریں، اور عورت کو ان دونوں چیزوں کی ضرور ت ہماری مسلم سوسائٹی میں بالکل نہیں۔

w  فشر :

مجھے یقین ہے کہ آپ لوگ ہماری مغربی تہدیب کے بُرے پہلوئوں سے بچ نہیں سکتے ہیں۔

r  السباعی :

مجھے یقین ہے کہ ہم بچ سکتے ہیں، مگر اس کے لیے شرط یہ ہے کہ ہماری مسلم حکومتیں اسلامی اقدار کی محافظ ہوں، اور ہماری اس مادی ترقی کی صحیح توجیہ ونگرانی کریں اور اپنے تشخص کی حفاظت کے معاملے میں فکرمند ہوں اور مغرب کی کورانہ تقلید سے باز آ جائیں۔

w  فشر :

چلیے ، دوسرے موضوع پر بات کرتے ہیں۔ یہ تو واضح ہے کہ یورپ میں کیتھولک گرجاگھروں نے دلوں میں اپنی جگہ باقی رکھی ہے،کیوں کہ اس نے زمانے کے ساتھ ساتھ چلنا شروع کردیا ہے، تو کیا اسلام میں ا س کی کوئی گنجایش ہے کہ وہ زمانے کے تقاضوں کا ساتھ دے؟

r  السباعی :

پہلے آزادی اور زمانے کے تقاضوں کا صحیح مفہوم متعین کر لیں تو بہتر ہے۔ مغربی گرجاگھروں نے تو یہاں تک زمانے کا ساتھ دیا کہ لڑکوں اور لڑکیوں کے مخلوط کلبوں کاافتتاح کیا جس میں رقص وشراب کا ہنگامہ ہو اور یہ سب پادری کی زیر نگرانی ہو، بلکہ وہ خود ہی اس ’ترقی پسندانہ‘ کام کی ابتدا بھی کرے۔ اسی طرح جوان عورتوں اور مردوں کے مخلوط تفریحی سفر (tours) وغیرہ بھی کرائے، جن کے ساتھ ان اخلاقی گناہوں سے بچنانا ممکن ہے جن کو تمام مذاہب نے منع کیا ہے۔ اس لیے اگر آپ کا خیال ہے کہ اسلام اس حد تک ، زمانے کا ساتھ دے سکتا ہے تو یہ بالکل خام خیالی ہے کیوںکہ اسلام کے اپنے آداب ، اخلاق اور قوانین ہیں اور ان سے نکلنے کے بعد انسان اسلام سے گویا خارج ہو جاتا ہے ۔ اور اس مذہب و عقیدے کا کیا فائدہ جو شہوات وخواہشات کے اژدھے کو نظم و ضبط کا پابند نہ بنا سکے اور گناہ وفسق کے ارادوں کی حدبندی کو نہ پامال کر سکے۔ 

w  فشر :

ایسی صورت میں تو آپ لوگوں کو ہی بڑی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا کیوںکہ گرجے نے تو بہت سی چیزوں سے چشم پوشی کر لی۔

r  السباعی :

یہ بات بتائیے : زنا کاری اور شراب نوشی آپ کی نظر میں بُری چیز ہے یا نہیں ؟

w  فشر :

صرف بُری چیز ہی نہیں بلکہ دونوں حرام ہیں۔

r  السباعی :

لیکن گرجا نے اس ضمن میں پسپائی اور لاتعلقی کا رویہ اختیار کیا ہے۔ جرمنی کا مشہور جشن ’کارنیوال‘ (Carnival)جو شہر مانیر میں تین دن تک جاری رہتا ہے اور بڑے روزے سے قبل تین دن تک اس میں ہرانسان ہر اخلاقی ودینی قید سے باہر رہتا ہے، اور اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ ہر سال دوسرے سال کے مقابلے میں اس جشن کے بعد کنواری لڑکیوں کے حاملہ ہونے کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔ اب بتائیے کہ اس کے بعد گرجا کا کیا اثر دلوں میں باقی رہ گیا؟  کیا آپ چاہتے ہیں کہ اسلام بھی اسی طرح زمانے کے ساتھ چلنے لگے؟

یہ بات آپ کو معلوم ہو گی کہ آپ کے یورپ میں عوام گرجے کی پیروی اس طرح نہیں کرتے جس طرح گرجا چاہتا ہے اور باوجود یہ کہ حکومتیں گرجے کا خیال رکھتی ہیں اور اس کے نام سے ایک ٹیکس لیا جاتا ہے، لیکن اس سب کے بعد بھی عوام الناس گرجے سے بدظن اور متنفر ہوتے جارہے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض لوگوں نے بدھ مت قبول کر لیا ہے اور یہ آپ کو معلوم ہو گا کہ   بدھ مت ایک بت پرست مذہب ہے ۔انسانی عقل نے ظلمت وجہالت کے دور میں اسے قبول کیا تھا ۔ لیکن جرمنی اور یورپ کی عقل اسے بیسویں صدی میں کیوں کر قبول کرتی ہے۔ اس لیے آپ ہی بتائیے کہ مغربی معاشرت میں اس پسپائی پسند گرجے کے اثرات کہاں ہیں؟ بہرحال، اسلام اس قسم کی کوئی نرمی نہیں برت سکتا جس کی رو سے شہوات وخواہشات کو جائز کر دیا جائے۔ اسلام زمانے کا ساتھ اس حد تک دیتا ہے کہ ہرمفید اور نفع بخش چیز سے استفادہ کرتا ہے اور علم کو وسائل اخذ کرنے کے بعد فکری ترقی کا ساتھ دیتا ہے۔ الحمدللہ ہمارے مسلم نوجوان یورپ وامریکا کی یونی ورسٹیوں میں جا کر اعلیٰ تعلیم بھی پاتے ہیں اور آپ کے تمدن کے بیچ میں رہ کر بھی اپنے اخلاق و کردار کی حفاظت کرتے ہیں اور اسی وجہ سے ان کے پڑوسی اور اساتذہ سب ان کا احترام کرتے ہیں۔ میں نے جرمنی میں خود یہ بات اپنے کانوں سے سنی کہ لوگ ان کے حُسنِ کردار پر حیران ہوتے ہیں اور بعض نے مجھ سے انھی چند با اخلاق وبا عصمت نوجوانوں کے متعلق کہا کہ ’’یہ فرشتے ہیں اور ہم چیلنج کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ دنیا میں ایسے با اخلاق، پاک باز اور اچھے نوجوان نہیں مل سکتے‘‘۔

یہ ہے اسلام میں نرمی اور زمانے کے ساتھ چلنے کی مثال کہ کسی بھی دوسرے کی تعلیمی، فکری اور تعمیری صلاحیتوں سے پورا استفادہ کرنے، اور شر کی دوزخ میں رہ کر بھی شعلۂ شر سے محفوظ رہنا اور اخلاقی سیلاب بلا سے اس طرح پار ہوجانا کہ سردامن بھی تر نہ ہو جائے۔یہ واضح مثال اس بات کی ہے کہ مغربی تمدن کی خرابیوں سے اگر مسلمان چاہیں اور پختہ عزم وارادے کے ساتھ چاہیں تو بچ سکتے ہیں۔

w  فشر :

یہ بات درست ہے ۔ مجھے بھی جرمنی میں بعض ایسے نوجوانوں سے ملنے کا اتفاق ہوا جو مسلمان ہیں اور وہ ہر قسم کی گندگی سے محفوظ ہیں اور تہذیب جدید کی دل لبھانے والی جنّت کی تباہ کن رعنائیوں سے بہت دُور ہیں۔ اس ضمن میں جب مَیں نے اپنی ایک ریڈیائی تقریر میں یہ کہا تھا کہ بعض ایسے نوجوان بھی جرمنی میں رہتے ہیں جو اپنی عمر کی پچیس بہاریںطے کر چکے ہیں، لیکن جنسی اتصال و تجربے سے اب تک قطعاً محروم اور کنارہ کش ہیں، تو میری اس بات کو سچ ماننے سے لوگوں نے انکار کر دیا، بلکہ میری اس بات کو سرے سے جھٹلا ہی دیا گیا، حالاں کہ یہ ایک واقعاتی حقیقت ہے۔۲ آپ نے کارنیوال کے جشن کا جو تذکرہ کیا ہے، اس کا سبب کیتھولک گرجا میں ’اعتراف‘ (Confession) ہے۳  اور اسلام میں اس قسم کا کوئی عقیدہ نہیں پایا جاتا، اور اسی وجہ سے وہ جنسی بے راہ روی سے بڑی حد تک کنارہ کش رہتے ہیں۔

r  السباعی :

میں یہی بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہم آپ کے ملک میں کسی اجتماعی یا اخلاقی فضیلت تلاش کرنے نہیں جاتے کیونکہ اس کی کامل قدریں ہمارے پاس موجود ہیں، بلکہ ہم صرف سائنس اور علمی ترقی کے تجربوں سے استفادہ کرنے جاتے ہیں اور اس بات کا خیال رکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ غلطیوں میں نہ پڑیں۔

w  فشر :

آپ کا بہت شکریہ ، آپ نے مجھے ہماری سوسائٹی کی بعض اجتماعی خامیوں سے آگاہ کیا اور اس حقیقت کا پتا بھی دیا کہ آپ لوگ اس سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میں اس بات کا شکریہ بھی ادا کرتا ہوں کہ آپ نے مجھے اسلام کی اصولی آراسے متعلق ایسی معلومات دیں کہ میرا سابق نظریہ بدل گیا ۔ میں یہ سمجھتا تھا کہ اسلام اور اسلامی تمدن، نیز مسلم ملکوں کی تہذیبی مشکلات کے بارے میں ، میں سب سے زیادہ جانتا ہوں ۔ لیکن اب مجھے اندازہ ہوا کہ میں بہت سی چیزوں سے ناواقف ہوں۔

حواشی

  1. مغربی دُنیا میں گرجا کی سرپرستی میں عصمت فروشی کے واقعات، تاریخ کا ہر پڑھا لکھا شخص جانتا ہے۔ اس مناسبت سے علّامہ محمد اقبال کا شعر کتنا موزوں ہے:

حاضر ہیں کلیسا میں کباب ومئے گُلگلُوں

مسجد میں دھرا کیا ہے بجز مَوعظہ وپند 

 یہ ایک عجیب وغریب حقیقت ہے کہ اسلام کے سوا دنیا کے تمام قدیم عبادت خانوں کے زیر سایہ عصمت فروشی اور حرام کاری کا دھندہ جاری رہا۔ جب دنیا نے ذرا ترقی کر لی تو یہ کام ذرا چھپ کر ہونے لگے ۔ کبھی یہ  حرام کاری کا جشن ، معبود وتمو زیااو ڈیون کے معبودہ عشٹروٹ سے اتصال کے وقت جب زمین پر بہار آئی تھی تو منایا جاتا، یا مصر کے معبود آبیس (جو بچھڑا تھا ) کے سامنے دین کا جزو سمجھ کر باہمی جنسی اتصال کیا جاتا تھا۔ اس حرام کاری کو گناہ نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ ایک مقدس ومحبوب فریضہ سمجھ کر اس کو ادا کیا جاتا تھا ۔ پروفیسر فلپ کے ہٹی[م: دسمبر ۱۹۷۸ء] کے بیان کے مطابق یہ قدیم قوموں میں سے بابل ، قبرص، یونان، سسلی، کارتھیج وغیرہ میں عام تھا۔ گستائو لی بان [م: دسمبر ۱۹۳۱ء]اپنی کتاب ’آشور وبابل کا تمدن ‘ میں اس رسم کے سلسلے میں عظیم یونانی مؤرخ ہیروڈٹ کے حوالے سے رقم طراز ہیں: ’’ بابلی عورت پر ایک عجیب وغربب شرمناک چیز واجب تھی اور وہ یہ کہ زندگی میں ایک بار وینس (زہرہ ) کے مندر میں جا کر اپنا جسم کسی بھی اجنبی مرد کے حوالے کر دے اور اکثر ایسی لڑکیاں جو سمجھ دار اور حیا دار ہوتی تھیں اس عادت سے ان کو نفرت ہوتی تھی، تو وہ معبد تک زبردستی کرکے سواری میں بٹھا کر لے جائی جاتی تھیں اور معبد کے مقدس احاطے میں ان کو بٹھایا جاتا تھا اور جو شخص بھی ان کی جھولی میں کچھ رقم ڈال دے، ان کو اس کے ساتھ جنسی اتصال کرنا ضروری ہوتا تھا اور یہ رسم گویا ایک مذہبی جزو تھی‘‘۔

 اس عادت کے مطابق کتاب مقدس نبی ؑ بنی اسرائیل حزقی ایل ؑ کو جب یروشلم کی سیر کرائی گئی اور یہ بتایا گیا کہ وہاں کے لوگ دین سے کس طرح پھر چلے ہیں اور باطل عادتوں میں مشغول ہیں تو وہیں اس عادت کی طرف اشارہ کیا گیا: ’’پھر وہ مجھے خدا وند کے گھر کے شمالی پھاٹک پر لایا اور کیا دیکھتا ہوں کہ وہاں کی عورتیں بیٹھیں تموز پر نوحہ کر رہی ہیں (حزقی ایل ۸:۱۴)۔ اور اس عادت کے پیش نظر ہی سفراستثناء میں حضرت موسیٰ ؑ نے اعلان کر دیا تھا کہ ’’کسی فاحشہ کی آمدن یا کتے کی اُجرت کسی منت کے لیے، حتیٰ کہ  اپنے خدا کے گھر میں نہ لانا۔ کیوںکہ یہ دونوں تیرے خدا کے نزدیک مکروہ ہیں (۲۳:۱۸)۔ لیکن ان تمام ممانعتوں کے باوجود تاریخ انسانیت میں ہمیشہ معبدوں کے زیر سایہ اس حرام کاری کو فروغ دیا گیا اور اکثر مسیحی گرجے تاریخی طور پر زمانۂ وسطیٰ میں اخلاقی انحطاط کے اڈے سمجھے جاتے تھے، حتیٰ کہ تاریخ پاپائیت میں بعض پوپوں کی غیر شرعی اولاد تک پائی جاتی ہے جو پاپائیت کے لیے باعث ِ شرمندگی ہے۔خصوصی طور پر مسیحیت میں جب سے گریگوری ہفتم [زمانہ: ۵مئی ۱۰۴۵ء-۲۰دسمبر۱۰۴۶ء] نے گیارھویں صدی میں راہبوں اور پادریوں کی شادی بالکل بند کردی تو اس فطری تقاضے کو پورا کرنے کے لیے ہر قسم کی بندشوں کو گرجا والوں نے توڑڈالا اور گرجا اس اخلاقی فساد میں پڑ گیا، جس کو دیکھ کر مارٹن لوتھر [م: نومبر ۱۴۸۳ء] جیسا مذہبی شخص شمشیر برہنہ ہو گیا ۔

  1. بہرحال، کارنیوال وغیرہ قسم کے جشن اس جاہلیت قدیمہ کی تقلید ہے اور گرجے نے زمانے کا ساتھ دیتے ہوئے اسے بھی جائز کر دیا ہے ۔ لیکن اسلام کا اجتماعی نظام اتنا متوازن ہے کہ اس نے شروع ہی سے فرد کے فطری تقاضوں کا پورا خیال رکھا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسلام نے پہلے دن سے اخلاقی زندگی کی دعوت دی، حرام کا ری کو ہر جگہ منع کیا ، چاہے وہ تنہائی میںہو یا سب کے سامنے ، معبد کے اندر ہو یا کلب کے زیر سایہ ، غنڈوں کی سرپرستی میں ہو یا کاہن، راہب اور عالم کی نگرانی میں ہو۔ اسلام میں حرام وحلال کا معیار صرف کتاب الٰہی او ر سنت رسولؐ اللہ ہے۔ کسی کمیٹی ، کسی گرجا ، کسی عالم وفقیہ کو کسی ایسی بدعت ایجاد کرنے کی اجازت نہیں ہے، جو حکمِ الٰہی کے خلاف ہو۔ اسی لیے اسلام میں نہ گرجا ہے اور نہ پاپائیت اور نہ معبد کا وہ گھٹیا تصور جو قدیم تہذیبوں میں ملتا ہے۔ جو لوگ اسلام کے نام پر مردوں اور عورتوں کے مخلوط اجتماع کرتے ہیں اور بدعتوں کو رواج دیتے ہیں اور اسلام کے نام پر اس نوعیت کے جشن مناتے ہیں جہاں محارم شریعت چیزیں رُونما ہوتی ہیں، اسلام ان سب سے بری ہے۔ دراصل یہ بدعتیں، رعایتیں اور خباثتیں قدیم پاپائی مزاج کی پیدا کردہ ہیں ۔ اسلام کا معمولی سا شعور رکھنے والے خواتین و حضرات ان سے کوسوں دُور بھاگتے ہیں۔
  2. اور یہ انکار کرنے والے جرمن عوام وہ ہیں کہ جو بداخلاقی اور عریانی وبرہنگی اور شہوت رانی کے درجۂ اسفلی پر پہنچ چکے ہیں، اور حرام کاری ان کی سوسائٹی میں اس درجہ عام ہو چکی ہے کہ اگر کسی کے متعلق ان سے یہ کہا جائے کہ وہ گناہ نہیں کرتا تو وہ اس کو اپنے آئینہ کردار میں دیکھ کر جھٹلاتے ہیں اور اس بات پر ان کو یقین ہی نہیں آتا۔ یہ مسیحی امت جو کسی کو اخلاقی بد کردار ی سے محفوظ نہیں سمجھتی ، وہ ہے جس کے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے زندگی بھر حرام کاری جیسے گناہ کی بات تو ایک طرف رہی، جائز طور پر شادی کے ذریعے بھی جنسی اتصال نہ کیا۔ بہرحال، ترقی وتہذیب نے کہاں جا کر دم توڑا ہے کہ وہ قوم اور معاشرہ اور مذہب جس کو ہر ہر جگہ زنا اور حرام کاری سے روکا گیا تھا، وہ اب اس بات کی تصدیق کرنے سے بھی انکار کردیتا ہے کہ روے زمین پر کوئی سوسائٹی اس حیوانی کردار سے محفوظ ہو گی ۔ گرجے کی تعلیم کس طرح عام ہوتی، جب کہ اس کے پاسبانوں نے اپنے اعمال کے ذریعے تعلیم موسیٰ وعیسیٰ علیہما السلام سے رُو گردانی کی۔ یہ اس اُمت کا حالِ زار اور اخلاقی دیوالیہ پن ہے، جس کو بائبل میں حضرت موسٰی نے ’وصاے عشرہ‘ میں سے ایک اہم وصیت یہ کی تھی کہ ’تو زنا نہ کرنا‘(خروج ۲۰:۱۴)، اور انبیا   بنی اسرائیل نے بار بار اس ممانعت کو دہرایا تھا ، اور حضرت مسیح علیہ السلام کہ جن کے نام پر ہر مسیحی بظاہر قربان ہو جاتا ہے کن واضح الفاظ میں زنا کی لعنت کے متعلق ارشاد فرمایا تھا: ’’ تم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ زنانہ کرنا۔ لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ جس کسی نے بُری خواہش سے کسی عورت پر نگاہ کی وہ اپنے دل میں اس کے ساتھ زنا کر چکا ۔ پس، اگر تیری داہنی آنکھ تجھے ٹھوکر لگائے تو اسے نکال کر اپنے پاس سے پھینک دے کیونکہ تیرے لیے یہی بہتر ہے کہ تیرے اعضامیں سے ایک جاتا رہے اور تیرا بدن جہنم میں نہ ڈالا جائے‘‘ (متی۵:۲۷تا ۲۹)۔ حضرت مسیحg کے ماننے والوں نے ترقی وتہذیب اور تمدن کے نام پر بداخلاقی وحیا سوزی، عریانی وبرہنگی اور شہوت رانی اور لذت جسمانی کے جو نئے نئے طریقے ایجاد کیے ہیں، ان پر شرم وحیا ہی نہیں بلکہ وحشی درندگی بھی اپنا منہ چھپا لیتی ہے اور ایسے ہی انسانوں کے متعلق شاید اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’’ وہ تو جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گم کردہ راہ ‘‘۔
  3. ’اعتراف‘ (Confession ) کے معنی ’اقرار‘ کے ہیں، لیکن مشرقی ومغربی گرجا، یعنی کیتھولک اور آر تھو ڈوکس کے نزدیک یہ گرجا کے ’سات رازوں‘ میں سے ایک ہے۔ صرف پروٹسٹنٹ نے اس کو رازوں میں شمار نہیں کیا ۔ اور اس سے مراد یہ ہے کہ معافی کے تصوّر سے اپنے گناہوں کا اعتراف سرکاری کاہن یا پادری کے سامنے کرنا کہ اس اقرار ہی کے ذریعے گناہ معاف ہو سکتے ہیں۔ کیتھولک گرجا کی تعلیم کے مطابق یہ ’اعتراف واقرار‘ ہر اس شخص پر واجب ہے جس نے معمودیت (یہ بھی سات رازوں میںسے ایک ہے جس کا ماحصل یہ ہے کہ کاہن سر پر تیل مل کر گویا مسیحیت میں داخل کرے ) کے بعد کوئی گناہ کبیرہ کیا ہو، اور چھوٹی غلطیوں کے سلسلے میں ’اعتراف‘ ایک مفید چیزہے ۔ مجمع لاٹران نے ۱۲۱۵ء کے قانون میں کہا ہے کہ: ’’جو لوگ بھی بڑے گناہوں کے خطا کار ہیں، ان پر سال میں ایک بار اعتراف واجب ہے اور مرنے والے شخص پر بھی، یا وہ جو کسی ایسے کام پر جا رہا ہو جس میں مرجانے کا امکان ہو۔ کاہن کسی صورت میں بھی اعتراف کرنے والے کے راز کو فاش نہیں کر سکتا، اگرچہ عدالت بھی اس سے پوچھے اور اگر اس نے ایسا کیا تو گرجا اس کو سخت تادیبی سزا دے گا‘‘۔ یہی اعتراف مغفرت کے پروانوں کا سبب بنا اور ’پوپ‘ پیسے لے کر جنت کے ٹکٹ تقسیم کرنے لگے۔ اس تحریک کے تاریخی اُتار چڑھائو سے مسیحیت کو نقصان پہنچا اور یورپ کی وحدت جس طرح ختم ہوئی اس سے سب ہی واقف ہیں۔ اس اعتراف کے سلسلے میں پادریوں کے حوالے سے عقیدہ ہے کہ وہ علمِ غیب اور پردے کی چیزیں بھی جاننے کی طاقت رکھتے ہیں۔ اس ضمن میں خبر ملاحظہ ہو: ’’پادری صاحب نے گرجا میں جماعت کو مخاطب کرکے کہا کہ ہمارے اس مجمعے میں ایک شخص ایسا موجود ہے جو دوسرے کی بیوی سے چھیڑ چھاڑ رکھتا ہے۔ اسے چاہیے کہ گرجا کے امدادی بکس میں فوراً پانچ ڈالر کی رقم ڈال دے، ورنہ اس کا نام میں اسپیکر پر سے پکار دوں گا ۔ کچھ دیر بعد جب وہ بکس کھولا گیا تو      کُل ۲۰کلیسائوں کے مجمعے سے ۱۹ کی طرف سے ۵،۵ ڈالر کے نوٹ نکلے اور ایک طرف سے دو ڈالر کا نوٹ مع اس پرچی کے ساتھ نکلا کہ بقیہ ۳ ڈالر پہلی کو تنخواہ ملنے پر ‘‘(صدق جدید، ۱۲نومبر ۱۹۶۵ء، مدیر: مولانا عبدالماجد دریابادی)۔ یعنی گرجا کے پجاریوں میں سو فی صدی ضمیر فروش اور بد باطن ثابت ہوئے اور گناہ سے اس لیے نہیں بچتے کہ وہ گناہ ہے، بلکہ پادری کے خوف سے اس کا اقرار کرتے ہیں او ر صرف پانچ ڈالر ادا کرنے کے بعد ان کے گناہ سے چشم پوشی بھی ہو جاتی ہے اور گویا اس کی اجازت بھی ۔

اس کے برخلاف اسلام نے صرف خدا سے توبہ واستغفار کا مطالبہ کیا اور کسی بھی انسان کے سامنے  اعتراف گناہ وغیرہ کا ناقص ومضر عقیدہ نہیں رکھا اور نہ اس سے گناہ معاف ہوں گے ۔ گناہ کا کفارہ صرف اچھے اعمال اور اللہ سے توبہ ہے۔ جو شخص بھی بلا کسی وسیلے کے اللہ ہی کی جناب سے تائب ہو گا اور دل کی تڑپ کے ساتھ اللہ ہی سے مانگے، اس کے لیے توبہ کا دَر کھلا ہے اور اس کی تعلیم انسانوں کو حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہو کر اس طرح دعا کی:’’اگر میرے بندے آپ سے میرے بارے میں پوچھیں تو میں قریب ہوں۔ پکارنے والے کی پکا رکو سنتا ہوں جب وہ پکارے ، تو مجھ سے ہی مانگو اور مجھ ہی پر ایمان لائو‘‘ (البقرہ ۲:۱۸۵ )۔ اس بات کا یقین کہ خدا شہ رگ سے زیادہ قریب ہیں اور سننے والے، معاف کرنے والے ، قدرت والے ہیں، ہر قسم کے باطل عقیدوں ، اعتراف واقرار کے افسانوں اور مغفرت کے پروانوں سے مسلمان کو محفوظ رکھتا ہے۔

امریکی سفارت خانے کی بیت المقدس منتقلی کے سلسلے میں جنوری ۲۰۱۸ء کے ’اشارات‘ میں پروفیسر خورشیداحمد صاحب نے فکرانگیز خیالات پیش کیے ہیں۔ انھوں نے امریکی اور اسرائیلی ملی بھگت سے تیارکردہ جارحانہ پالیسی کو بے نقاب کیا ہے اور مسلم حکومتوں اور عوام کے ردعمل کا جائزہ بھی پیش کیا ہے۔ اس سلسلے میں جو مثبت اقدام کیے جاسکتے ہیں ان کی نشان دہی بھی فرمائی ہے۔ اگرچہ مسئلۂ فلسطین ہم سب کے نزدیک نہایت اہم ہے لیکن صرف یہی اس اُمت کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ یہ اور بہت سارے مسائل کے ساتھ اُلجھا ہوا ہے۔ جب تک اُمت کی صورت حال میں مثبت انداز میں تبدیلی نہیں آتی، کسی بھی مسئلے کا حل ممکن نظر نہیں آتا۔ اس حوالے سے چند گزارشات پیش ہیں:

دُنیا میں ہر چوتھا آدمی مسلمان ہے۔ اس وقت ۵۷ خودمختار مسلم ممالک ہیں جن کے پاس بے انتہا قدرتی اور انسانی وسائل موجود ہیں۔ دُنیا میں مسلمانوں کی آبادی ایک ارب ۸۰کروڑ ہے۔ اگر یہ سب متحد ہوجائیں تو ایک ناقابلِ شکست قوت بن سکتے ہیں اور ان شاء اللہ اس اُمت کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلم ممالک ایک دوسرے سے دست و گریبان ہیں۔ اس طرح اُمت قومیت اور گروہی اختلافات میں گرفتار ہے۔

صرف پچھلے چند برسوں کا جائزہ لیں کہ کس وسیع پیمانے پر فلسطین،مصر، لیبیا، شام، عراق، لبنان، یمن، افغانستان، پاکستان، الجزائر، میانمار (برما)، بنگلہ دیش، ترکی میں خوں ریزی اور بربادی ہوئی ہے۔ بھارت اور کشمیر میں مسلمان سخت کسمپرسی کے حالات سے گزر رہے ہیں۔   ان خانہ جنگیوں میں القاعدہ، داعش اور دیگر بزعمِ خود جہادی جماعتیں بھی شامل ہیں، جو اپنے دشمنوں کے خلاف متحد ہونے کے بجاے مسلمانوں کے قتل کے درپے ہیں۔ اپنے ملکوں کو خود ہی تباہ و برباد کررہے ہیں۔ ان کے سفاکانہ حملوں میں مساجد اور ماہِ رمضان کا بھی احترام نہیں کیا جاتا۔

پانچویں صدی ہجری جو سنہ عیسوی کی گیارھویں صدی سے مطابقت رکھتی ہے، کا منظر یہ تھا: بروز جمعہ ۲۳ شعبان ۴۹۲ہجری (۵جولائی ۱۰۹۹ء) کو مسیحی جنگجو (Crusaders) یروشلم پر حملہ کرکے شہر میں داخل ہوگئے۔ ۷۰ہزار مسلمانوں کو جن میں مردوں کے علاوہ عورتیں اور بچے بھی شامل تھے تہِ تیغ کردیا۔ انھوں نے بیت المقدس کی قیمتی اشیا کو لوٹ لیا۔

امام ابن کثیرؒ (۱۳۰۱ء-۱۳۷۵ء) نے مسلمانوں کی شکست کے اسباب بیان کیے ہیں کہ فاطمی خلیفۂ وقت داخلی ریشہ دوانیوں سے کمزور ہوگیا تھا۔ اعلیٰ سوسائٹی میں رشوت کا بازار گرم تھا اور دربار سازشوں اور سازبازوں میں گِھرا ہوا تھا، اس لیے یہ ممکن نہ تھا کہ باہر کے حملہ آوروں کا مقابلہ کیا جاسکے۔

ان گمبھیر حالات میںصلاح الدین ایوبی (۱۱۳۸ء-۱۱۹۳ء) ایک چھوٹی سی ریاست میں برسرِاقتدار آیا۔ اس نے سیاسی صورتِ حال کا جائزہ لیا اور اپنی حکمت عملی سے ان کو حل کرنے کی کوشش کی۔ سب سے پہلے اپنی حکومت ختم کر کے اُمت کو اپنی قیادت پر مجتمع کیا ۔ چنانچہ دوسری صلیبی جنگ جولائی ۱۱۸۷ء میں ہوئی تو صلاح الدین ایوبی نے عیسائیوں کو شکست فاش دی اور یروشلم دوبارہ فتح کرلیا۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے امام ابن کثیر ؒ لکھتے ہیں کہ: آیندہ کوئی بھی جنگ جُو قوم جو مسلمانوں سے نبرد آزما ہوئی تو وہ شکست کھائے گی کیوں کہ اس اُمت نے سبق سیکھ لیا ہے۔

واے افسوس! کہ اس اُمت نے یروشلم پھر اپنے ہاتھوں سے گنوا دیا۔فاطمی خلیفہ کی طرح ترک عثمانی خلیفہ بھی کمزور تھا۔ ترک خلافت میں بھی رشوت ستانی گرم اور آپس میں نااتفاقی تھی۔ مغرب نے اپنے جاسوس لارنس آف عربیہ اور گلب پاشا کے ذریعے عربوں اورترکوں کو آپس میں لڑا دیا۔

قرآن نے اکثر تاریخی واقعات سے ہمیں سبق سکھانے کی کوشش کی ہے اور بتایا ہے کہ واقعات یونہی رُونما نہیں ہوتے۔ کوئی اندھی قوت انسانوں کے معاملات طے نہیں کرتی بلکہ قانونِ خداوندی انسانوں کے معاملات کی نگہداشت کرتا ہے:

وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ ۝۰ۭ بِيَدِكَ الْخَيْرُ ۝۰ۭ  اِنَّكَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝۲۶    (اٰلِ عمرٰن ۳:۲۶) جسے چاہے عزّت بخشے اور جس کو چاہے ذلیل کردے۔ بھلائی تیرے اختیار میں ہے۔ بے شک تو ہرچیز پر قادر ہے۔

پھر قرآنِ کریم بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ منصف اور عادل ہے، جو انصاف اور عدل کو پسند کرتا ہے اور دُنیا میں انصاف کو قائم دیکھنا چاہتا ہے۔ وہ فساد فی الارض کو ناپسند کرتاہے:

وَيَسْعَوْنَ فِي الْاَرْضِ فَسَادًا۝۰ۭ  وَاللہُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِيْنَ۝۶۴(المائدہ ۵:۶۴)       یہ زمین میں فساد پھیلانے کی سعی کر رہے ہیں مگر اللہ فساد برپا کرنے والوں کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔

لہٰذا کوئی بددیانت حکومت کبھی پنپ نہیں سکتی اور اس کی جگہ وہ قوم لیتی ہے جو نسبتاً بہتر ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں ؑ کو بھیجنے کی غایت سورئہ حدید میں یوں بیان کی ہے:

لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْكِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ۝۰ۚ (الحدید ۵۷:۲۵) ہم نے اپنے رسولوں ؑ کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا، اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔

اس آیت کی تشریح کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تین چیزیں لے کر آئے:

  1. بینات، یعنی کھلی کھلی نشانیاں جو واضح کریں کہ وہ اللہ کے رسولؐ ہیں۔
  2. کتاب، یعنی انسان کی ہدایت کے لیے تعلیمات۔
  3. میزان، وہ معیارِ حق و باطل کہ انصاف کی بات کیا ہے۔

ان تینوں چیزوں کا مقصد یہ تھا کہ دنیا میں انسان کا رویہ اور انسانی زندگی کا نظام فرداً فرداً اور اجتماعی طور پر بھی عدل پر قائم ہو۔ (تفہیم القرآن، ج۵، ص ۳۲۱-۳۲۲)

کیا ہم دیانت داری سے کہہ سکتے ہیں کہ ہماری مسلم حکومتیں اور عوام اس معیارِ حق پر پورے اُترتے ہیں؟ یہی وجہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ہیں اور جو واقعات بھی ہورہے ہیں یہ سب ہمارے لیے عبرت کا تازیانہ ہیں کہ شاید ہم اپنے حالات کو بدلنے کی کوشش کریں۔  تو پھر صلاح الدین ایوبی جیسی شخصیت کیسے پیدا ہوگی؟ اس کے آثار کچھ اُمیدافزا تو نہیں ہیں لیکن ہمیں نااُمید بھی نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا دوٹوک فیصلہ ہے:

اِنَّ اللہَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ ۝۰ۭ(الرعد ۱۳:۱۱) حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا، جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔

آج کی صورتِ حال میں ہمیں یہودی لابی کو غیرمؤثر بنانے کے لیے مسلم لابی کو مضبوط اور مؤثر کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام مغرب میں مقیم مسلمانوں کی قیادت کا ہے جو مسلکی اور فرقہ وارانہ اختلافات سے پاک ہوکر یہاں کے مختلف جمہوری اداروں میں نفوذ کریں۔ اگر یہودی اپنی قلیل آبادی کے باوجود کامیاب ہوسکتے ہیں تو مسلمان کیوں ان کا اس میدان میں مقابلہ نہیں کرسکتے؟

عرب ممالک کی مسلسل ناکامی کے بعد یہ ذمہ داری پاکستان ، ترکی، انڈونیشیا اور ملایشیا کی بنتی ہے کہ وہ اُمت مسلمہ کے حالات کا جائزہ لیں اور جس طرح مدیرمحترم نے تجویز کیا ہے کہ تمام ہم خیال مسلم ممالک کو مشاورت میں شریک کر کے اجتماعی پالیسی تشکیل دیں اور اس کو بروے کار لائیں۔

یہ تمام چیزیں اپنی جگہ نہایت اہم ہیں اور ان پر فوری توجہ اور قابلِ عمل حکمت عملی کے ساتھ پیش رفت کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن اُمت کے لیے نہایت اہم مسئلہ جس کے بغیر وہ  کبھی بھی ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتی وہ اس کا زوالِ علم ہے، جس کی طرف توجہ متعدد اہلِ علم دلاچکے ہیں۔ صرف ایک اقتباس پیش کر رہا ہوں جس کا اظہار علّامہ اقبالؒ نے اپنی آخری علالت کے دوران کیا تھا۔ یہ قابلِ توجہ ہے جس سے ان کی اس اُمت کی بہبود کے لیے بے چینی اور تشویش کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ یادداشت ۱۹مارچ ۱۹۳۸ء کی ہے جو سیّد نذیر نیازی مرحوم نے درج کی ہے:

عالمِ اسلام میں تجربہ و تحقیق کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ نہ استعجابِ علم ہے، نہ علم کے لیے کوئی سعی و کاوش۔ یورپ کی حالت ا س سے کسی قدر مختلف ہے۔ وہاں تحقیق ہے، تجربہ ہے، علم سے دلی شغف، شب و روز کی محنت، شب و روز انہماک، حالاں کہ ایک زمانے میں وہاں تجربہ و تحقیق تو درکنار علم کا نام لینا بھی گناہ میں داخل تھا۔

مسلمانوں میں علمی تجسس کا فقدان ہے۔ عالمِ اسلام کا ذہنی انحطاط حددرجہ اندوہناک ہے۔ مسلمانوں میں علمی روح باقی ہے نہ علم و حکمت سے کوئی دلی شغف… اگرہے تو تقلید یا پھر یورپ سے چند ایک مستعار لیے ہوئے خیالات کا اعادہ۔

مسلمانوں کے زوالِ علم کی ذمہ داری محض سیاسی و معاشی حالات پر عائد نہیں ہوتی۔ مسلمانوں کا علمی زوال تو ان کے دورِ محکومیت سے بھی کہیں زیادہ مقدم ہے۔ لہٰذا سوچنے کی بات یہ ہے کہ اسے زوال ہوا تو کیسے اور کیوں؟

مسلمانوں نے بھی کبھی اِردگرد کی دُنیا سے علم و حکمت کا اکتساب کیا تھا، مگر پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس شان سے آگے بڑھے کہ علم و حکمت کی کائنات بدل دی۔ علم کو صحیح معنوں میں علم کا درجہ عطا کیا۔ مسلمان آج پھر ایسا کیوں نہیں کرسکتے؟مسلمانوں میں دم کیوں نہیں؟ اور یہ کہتے کہتے افسردۂ خاطر ہوگئے۔(اقبال کے مضمون، نشستیں اور گفتگوئیں، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور،۱۹۷۱ء، ص ۳۷۲-۳۷۴)

یہ تبصرہ آج سے ۸۰برس  پہلے کا ہے لیکن افسوس ہے کہ حالات میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں آئی۔ نہ جانے یہ حالات کب تک اس طرح برقرار رہیں گے! اس میں تبدیلی کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے؟ یہ اس اُمت کی بقا و فلاح کے لیے ازحد ضروری ہے۔ یہ ہم سب کے لیے مشکل چیلنج ہے، تاہم اس عرصے میں جو تبدیلی ہوئی ہے وہ یہ کہ کافی آزاد مسلم حکومتیں قائم ہوگئی ہیں۔

اس سلسلے میں ایک پہلو جس پر غور کیا جاسکتا ہے وہ یہ کہ مسلم حکومتیں اپنے بجٹ کا وافر حصہ تعلیم اور تحقیق (research & development)پر خرچ کریں۔

دوسری تجویز جس پر غور کیا جاسکتا ہے وہ یہ کہ مسلم ممالک سے کافی سائنس دان، ڈاکٹر اور انجینیر مغربی ملکوں میں مقیم ہیں۔ یہ فرارِ ذہانت ہے۔ اس کو روکنے کے لیے تعلیم یافتہ لوگوں کے لیے خود مسلم ممالک میں ان کی صلاحیتوں کے لحاظ سے ملازمت اور تحقیق کی سہولتیں بہم پہنچائی جائیں۔

اللہ تعالیٰ ہی مسبب الاسباب ہے، اگر ہم واقعی اس اُمت کی خیرخواہی کی طرف قدم اُٹھائیں گے تو وہ ہمارے لیے راہیں کھول دے گا، ان شاء اللہ!

قضا نماز کی ادایگی

سوال :

  1. کیا قضا نمازوں کا لوٹانا ضروری ہے؟ جواہر الحدیث (جلد۳،ص ۲۷۲) میں تحریر ہے: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یاد رکھو! نیند میں تفریط نہیں ہوتی۔ تفریط تو یہ ہوتی ہے کہ انسان اس وقت تک نماز نہ پڑھے جب تک دوسری نماز کا وقت نہ آجائے۔ آپؐ نے یہ نہیں فرمایا کہ جان بوجھ کر نماز کی قضا لازمی ہے۔ چند احباب کا خیال ہے کہ اس کے لیے توبہ اور استغفار کافی ہے‘‘۔
  2. کیا امام کے لیے ضروری ہے کہ ظہر کی نماز سے پہلے وہ چار سنتیں پڑھے؟

جواب :

  1. اللہ تعالیٰ نے جو احکام فرض فرمائے ہیں ان کے ساقط ہونے کی دو ہی صورتیں ہیں: ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ معاف فرما دیں ، دوسری یہ کہ انسان ان کو ادا کرے۔ معافی کا تو اس دنیا میں تصور نہیں ہے کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو اس دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں اور وحی کا دروازہ بند ہوگیا ہے۔ اب صرف دوسری صورت باقی ہے۔ البتہ اگر جان بوجھ کر نماز قضا کی ہو تو اتنا بڑا گناہ ہے کہ ادا کرنے کے باوجود آدمی کو مطمئن ہوکر نہیں بیٹھنا چاہیے بلکہ استغفار کرتے رہنا چاہیے۔ یہ کہنا کہ محض استغفار کافی ہے، جرم کو ہلکا کردیتا ہے۔ اس طرح تو ایک آدمی جان بوجھ کر نمازیں قضا کرے گا، قضا نماز بھی ادا نہ کرے گا اور چند دن بعد استغفار بھی چھوڑ دے گا۔
  2. سنتیں چھوڑنے والے امام کی امامت جائز ہے۔ وہ سنتیں بعد میں ادا کر لے۔ چاہے ظہر کی سنتیں ہوں یا کسی اور نماز کی سنتیں ہوں۔ البتہ سُستی اور چھوڑ دینے کو عادت بنانا بڑی بُری بات ہے۔ اس پر شریعت میں عتاب آیا ہے۔ واللہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)

دینی کتب کی تقسیم قرضِ حسن

سوال :

قلمی و زبانی اشاعت و تبلیغ اور اسلامی تعلیمات کو رواج دینے اور عام کرنے کے لیے ذاتی سطح پر اور اجتماعی طور پر عملی جدوجہد کرنا تو سمجھ میں آتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ    اس کارِخیر میں، کیا مالی طور پر دینی کتب خریدنا اور پھیلانا بھی اللہ تعالیٰ کو قرض دینے کے زمرے میں آتا ہے؟ یا راہِ حق میں جہادکرنے کی تعریف میں؟براہ کرم رہنمائی فرمائیں؟

جواب :

دین کی اشاعت و تبلیغ، اور دین کی اقامت و غلبے کی کوششوں میں اپنی صلاحیت اور قوت کے مطابق جو بندئہ مومن ذہنی، فکری، جسمانی، مالی، کوشش و کاوش کرے گا، وہ راہِ حق میں بلاشبہہ جہاد ہی ہے۔ قلم سے بھی جہاد ہوتا ہے اور جان کھپاکر بھی اور جان دے کر بھی جہاد ہوتا ہے۔

اس وقت، جب کہ ہر طرف باطل کا غلبہ ہے، خدا کا دین مغلوب ہے، لوگ دین سے ناواقف بھی ہیں اور دین کے خلاف ہر طرح کی فکری اور عملی مخالف کوششیں بھی ہورہی ہیں ۔ ایسے حالات میں جس بندے کو جو پونجی میسر ہے، خواہ وہ مال ہو یا صلاحیتیں، زبان کی طاقت ہو یا قلم کی، بندہ جس طرح بھی دین کی اشاعت و اقامت میں لگے گا، ان شاء اللہ وہ سب کچھ جہاد میں شمار ہوگا۔

دین کا تعارف کرانے، اور دین کو لوگوں میں مقبول بنانے اور اسلام کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنے کے لیے، جو شخص اپنا مال خرچ کرکے دینی کتب خرید کر تقسیم کرے اور لوگوں تک پہنچائے، وہ یقینا بارگاہِ الٰہی میں قرضِ حسن دے رہا ہے اور بلاشبہہ یہ اس دور میں ایک بہترین قرضِ حسن ہے، جس پر اللہ سے اُمیدیں وابستہ کرنا چاہییں۔ خالق ارض و سما ہم سب کو اپنی    جان اور مال سے اپنی راہ میں جدوجہد کرنے کی توفیق بخشے، آمین!

دورِ حاضر کتابوں کا بھی ہے۔ کتابوں کے ذریعے دعوت و تبلیغ اور اللہ تعالیٰ کے دین کی اقامت کے جو مواقع آج پیدا ہوگئے ہیں، اس سے پہلے کبھی نہیں تھے۔ طباعت اور اشاعت کی جو سہولتیں اور ذرائع اس وقت میسر ہیں، ان سے فائدہ اُٹھانا اور ان میں دین کی اشاعت اور دین کی اقامت کی خاطر اپنا دل پسند مال لگانا، یقینا اللہ کو قرضِ حسن دینا بھی ہے اور جہاد بالمال بھی ۔ یقینا اس مہم میں شرکت کی سعادت پر اللہ سے اجروصلے کی توقع رکھنا چاہیے۔ (مولانا محمد یوسف اصلاحی)

مسجد یا مدرسہ کے لیے وقف کی نوعیت میں تبدیلی

سوال :

  1. کیا دینی مدرسے اور مسجد کے لیے ریاست کی عطا کردہ زمین کو عام دُنیوی تعلیم کے ادارے میں تبدیل کرنا: اسلامی، اخلاقی اور قانونی اعتبار سے جائز ہے؟ اگر جائز ہے تو کس بنیاد پر اور اگر ناجائز ہے تو اس بارے میں آثارِشریعت کیا رہنمائی دیتے ہیں؟
  2. کیا مسجد یا دینی مدرسے کے لیے ریاست کی جانب سے عطا کردہ زمین کا مجموعی رقبہ کسی دوسری غرض کے لیے کرایے پر دیا جاسکتا ہے؟ اس کی کس قدر گنجایش ہے یا اس کے ردّ میں اسلامی شریعت کے احکام اور نظائر کیا کہتے ہیں ؟
  3. اگر یہ غیرقانونی ہے تو مدرسہ و مسجد کی انتظامی انجمن کے ذمہ داران اور کرایے پر حاصل کرنے والے ساہوکاروں کے درمیان معاہدے کی فی الواقع قانونی پوزیشن کیا ہے؟
  4. کیا مسجد و دینی مدرسے کے لیے ایک مرتبہ اعلان کردہ زمین، دوسرے کاروباری مقاصد اور ’منڈی کی معیشت‘ کے لیے استعمال کرنے کی غرض سے نیلام بھی کی جاسکتی ہے؟یا وہ ہمیشہ کے لیے اسی دینی غرض کے لیے مخصوص رہے گی؟
  5. ایسی مشق (لین دین) میں ملوث افراد کے بارے شریعت کیا حکم لگاتی ہے؟

جواب :

آپ کے گراں قدر سوالات کا جواب یہ ہے کہ ریاست یا ادارے یا کسی شخص نے جو قطعۂ زمین کسی خاص غرض کے لیے عطیہ کیا یا وقف کیا ہو، مثلاً مسجد اور دینی جامعہ کے لیے،  تو اسے کسی بھی دوسری غرض اور دُنیوی تعلیم کے لیے استعمال کرنا امانت میں خیانت ہے۔

  1. نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چار خصلتیں جس آدمی میں ہوں وہ پورا منافق ہے اور جس میں ان چاروں خصلتوں میں سے کوئی ایک خصلت ہو تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہوگی: ۱- جب بات کرے تو جھوٹ بولے ۲- جب وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے۳- جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے، اور ۴- جب جھگڑا کرے تو گالیاں دے۔ (بخاری، حدیث :۳۴) بیان کردہ صورتِ حال کے مطابق ریاست نے جو قطعۂ زمین دیا، وہ مسجد اور دینی جامعہ کے لیے دیا۔ اس لیے وہ مسجد اور دینی جامعہ کی امانت ہے۔ اسے کسی دوسرے ادارے کو دینا یا کسی دوسرے ادارے کو کرایے پر دینا، امانت میں خیانت ہے۔ جب یہ پلاٹ لیا تھا، تب معاہدہ کیا گیا تھا کہ اس پر مسجد اور دینی جامعہ تعمیر کی جائے گی، تو اس لحاظ سے یہ معاہدے کی بھی خلاف ورزی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں، نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’جس نے زمین کا کچھ بھی حصہ ناحق لیا ہو، اسے قیامت کے روز سات زمینوں میں دھنسایا جائے گا‘‘۔ (بخاری، حدیث :۲۴۵۴ ) حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان خطبہ دینے کھڑے ہوئے تو مالِ غنیمت اور سرکاری خزانے میں خیانت کو بہت بڑا جرم قرار دیا اور فرمایا: ’’اُس کا نتیجہ بھی بہت سخت ہوگا‘‘۔ پھر فرمایا: ’’میں نہ پائوں کہ تم میں سے کسی ایک کو کہ وہ میرے پاس قیامت کے روز اس حال میں آئے کہ اس کی گردن پر بکری سوار ہو اور وہ منمنا رہی ہو۔ وہ کہے: یارسولؐ اللہ! میری مدد کیجیے، تو میں کہوں گا میں تمھیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتا۔ میں نے تو تمھیں بات پہنچا دی تھی۔ اس کی گردن پر گھوڑا سوار ہو، اور وہ ہنہنا رہا ہو، تو میرے پاس آئے اور کہے: یارسولؐ اللہ! میری فریاد رسی فرمایئے، تو میں کہوں گا: میں تیری کوئی مدد نہیں کرسکتا۔میں نے تو تمھیں بات پہنچا دی تھی۔ اس کی گردن پر سونا چاندی کا بوجھ ہو اور وہ کہے :یارسولؐ اللہ! میری مدد فرمایئے، تو میں کہوں گا: آج میں تمھاری کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ میں نے تو تمھیں بات پہنچا دی تھی۔ اس کی گردن پر اُونٹ بڑبڑا رہا ہو اور وہ کہے یارسولؐ اللہ! میری مدد فرمایئے، تو میں کہوں گا: میں تمھاری کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ میں نے تو بات پہنچا دی تھی۔ اس کی گردن پر کیڑا حرکت کر رہا ہو گا، وہ بوجھ بنا ہوا ہوگا اور تذلیل کر رہا ہوگا، تو میں کہوں گا: آج میں تمھاری کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ میں نے تو بات پہنچا دی تھی۔ (بخاری، حدیث: ۳۰۷۳) حضرت عبداللہ بن عمروؓ سےروایت ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامان پر ایک آدمی کی ڈیوٹی تھی۔ اسے ’کرکرۃ‘ کہا جاتا تھا۔ وہ فوت ہوگیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ دوزخ میں ہے۔ لوگوں نے دیکھا کہ کیا وجہ ہے تو پتا چلا کہ اس کے سامان میں ایک چادر ہے جو اس نے خیبر کے دن مالِ غنیمت سے چوری کی تھی۔ (بخاری، حدیث ۳۰۷۴، باب القلیل من الغلول) اسی طرح ایک موقعے پر آپؐ نے اعلان فرمایا کہ: ’’جس نے مالِ غنیمت میں سے کوئی چیز چوری کی ہوگی تو وہ چیز اس کے لیے آگ ہوگی۔ پھر کوئی جوتے کا ایک تسمہ لے آیا تو آپؐ نے فرمایا: ’’آگ کا ایک تسمہ ہے‘‘۔ کوئی دو تسمے لے آیا تو آپؐ نے فرمایا: ’’آگ کے دو تسمے ہیں‘‘۔ (بخاری:۴۰۰۶) امانت میں خیانت کا اسلامی حکم تو مذکورہ احادیث مبارکہ کی روشنی میں سامنے آگیا۔ اسی طرح اخلاقی لحاظ سے دنیا بھر میں خیانت کاری کو بڑا قابلِ نفرت جرم قرار دیا جاتا ہے۔ عدالتیں خائنوں کو قیادت کے مناصب کی اہلیت سے نااہل قرار دیتی ہیں، حتیٰ کہ وہ لوگ قومی، صوبائی اور سینیٹ کی رکنیت تک کے لیے اہل نہیں رہتے۔ قانونی لحاظ سے آئین پاکستان کی دفعہ ۶۲اور دفعہ۶۳ میں واضح کیا گیا ہے کہ پاکستان کے کسی بھی ادارے خصوصاً قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلی اور سینیٹ کے لیے صرف ایسا شخص اہلیت رکھتا ہے، جو صادق اور امین ہو۔
  2. مسجد اور مدرسے کے لیے دیے گئے قطعۂ اراضی کو، کسی بھی دوسرے مقصد کے لیے استعمال کرنا: اسلامی، قانونی اور اخلاقی لحاظ سے کھلی خیانت ہے۔
  3. اس سلسلے میں جو بھی معاہدہ، انجمن کے نمایندوں نے کسی بھی ساہوکار کے ساتھ کیا ہوگا، وہ کالعدم قرار پائے گا، جسے کوئی قانونی اور اخلاقی تحفظ حاصل نہیں ہوگا۔اس لیے اسے عدالت میں چیلنج کرکے ختم کرایا جانا چاہیے۔
  4. مسجد کے لیے ایک زمین کا اعلان ہوجائے تو اس زمین کو نیلام نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ جس نے ایسا اعلان کیا ہو، اسے اگر کوئی غیرمعمولی صورتِ حال درپیش ہو کہ وہ اس اعلان کو واپس لے رہا ہے، تو اسے اس کے بدلے میں اس قدر وقیمت کی دوسری موزوں اور مناسب جگہ وقف کرنا ہوگی۔ یہاں پر یہ بات بالوضاحت کہنا ضروری ہے کہ یہ ’غیرمعمولی صورتِ حال‘ واقعی اُمت کے کسی بڑے اجتماعی مفاد سے وابستہ ہونی چاہیے اور اس صورتِ حال کی نزاکت کا تعین علمِ دین سے متصف افراد اور احترام کے اعلیٰ درجے پر فائز مقتدر ادارہ، آخرت کی جواب دہی کے احساس کے تحت کرے تو اس کا کوئی وزن ہوسکتا ہے ، وگرنہ ’منڈی کی معیشت‘ کے تابع کیا جانے والا ایسا فیصلہ شریعت کی نظر میں قطعاً ناقابلِ قبول ہوگا۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ایسی رعایت اور مداہنت کا دروازہ کھولنے کا مطلب اوقاف و عطایا کے پورے نظام کے تقدس اور نزاکت کو ملیامیٹ کرنے کی بنیاد بن سکتا ہے، جس سے بچنا اور دوسروں کو بچانا ایمان کا تقاضا ہے۔
  5. ایسے لوگ جو مسجد اور مدرسے کی زمین کو دوسرے مقاصد کے لیے استعمال کریں، آگے بڑھ کر انھیں روکنا ضروری ہے۔ اگر وہ، لوگوں کی بات نہیں سنتے اور اپنے فیصلے سے باز نہیں آتے، تو بذریعہ عدالت انھیں اس سے روکنا ہوگا۔ واللہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)

شہیدوں کے سردار (سیّد الشہداء سیدّنا حضرت حمزہؓ ) ،مرتبہ: محمد متین خالد۔ ناشر: علم وعرفان پبلشرز، الحمد مارکیٹ ، ۴۰ - اُردو بازار لاہور۔ صفحات : ۳۹۷۔ قیمت : ۸۰۰ روپے۔

زیر نظر کتاب میں جناب متین خالد نے تحفظ ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے اوّلین مجاہد حضرت حمزہ ؓکی داستان حیات کو عام فہم اور دل نشین اسلوب میں پیش کیا ہے۔ یوں تو تاریخ اسلام اَن گنت شہدا کی قربانیوں سے عبارت ہے مگر حضرت حمزہؓ کی شہادت ان سب میں منفرد ہے۔  حضرت حمزہ ؓ کے مشرف بہ اسلام ہونے کا واقعہ بھی دل چسپ ہے کہ کس طرح ابو جہل نے آںحضور ؐ کے ساتھ گستاخی کی تو حضرت حمزہؓ نے نہ صرف اس کا بدلہ لیا بلکہ ابو جہل کی گستاخی ان کے اسلام لانے کا فوری سبب بن گئی۔ اسی طرح جنگ اُحد میں آپ کی شہادت کے واقعے کو بڑی جامعیت اور زیادہ تفصیل سے پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

 کتاب کے آخری حصے میں عرب وعجم کے شعرا (حضرت حسان بن ثابتؓ، مولانا روم،   حفیظ جالندھری )کے علاوہ زمانۂ حال کے بیسیوں شعرا نے حضرت حمزہؓ کو خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔

اوریا مقبول جان کے بقول: ’’[فاضل مرتب] کی خوبی ہے کہ وہ اپنی کتابوں میں تحقیق کا رنگ بھرتے ہوئے اُسے اِس قدر دل چسپ بنا دیتے ہیں کہ پڑھتے ہوئے کتاب ہاتھ سے چھوڑنے کو دل نہیں چاہتا بلکہ قاری خود کو اَنوار ِ رحمت کے ایک ہالے میں محسوس کرتا ہے‘‘۔ اللہ پاک اس مقدس کام کو شرف قبولیت عطا فرمائے، آمین۔ (ادارہ) 


Shariah، [ربّانی ضابطۂ حیات] عبدالرشید صدیقی۔ ناشر: دی اسلامک فائونڈیشن، مارک فیلڈ، رٹبی لین، لسٹرشائر، 9SY, LE-67، برطانیہ۔ صفحات:۱۴۳۔ قیمت: ۱۴ء۹۵ ڈالر۔ ای میل: publication@islamic-foundation.com 

دینِ اسلام کے دشمنوں نے کم و بیش تمام ہی اسلامی اصطلاحات، ماخذِ دین اور شعائرِ اسلام کو بدنما اور نفرت انگیز علامات کے طور پر پیش کرنے کا طریقہ اختیار کر رکھا ہے، جیسے جہاد، قرآن، حدیث، شریعت، عورت کا مقام، دینی مدرسہ، نکاح و طلاق، وراثت و ترکہ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اصل ہدف یہ اصطلاحات نہیں ہیں، بلکہ خود اسلام اور مسلمان ہیں۔ موجودہ زمانے میں جہاد کے علاوہ جس چیز کو مغربی دُنیا میں ایک ’خوفناک‘ حوالہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے، وہ ہے: ’اسلامی شریعت‘۔ گذشتہ چندبرسوں سے امریکا کے طول و عرض میں شریعت کے خلاف مہم زوروں پر ہے۔ یہی معاملہ متعدد یورپی ممالک میں دیکھا جاسکتا ہے اور دبے دبے لفظوں میں خود مسلم ممالک میں بھی مخصوص طرزِ فکر کے حاملین اس سمت قدم بڑھاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

عبدالرشید صدیقی صاحب نے ’اسلامی شریعت‘ کے نہایت اہم موضوع پر اختصار، جامعیت، اعلیٰ اسلوب اور پوری جرأت کے ساتھ یہ مختصر اور مؤثر دستاویزی نثرپارہ تحریر کیا ہے۔ اتنے پھیلے ہوئے اور اس قدر شدید ہدفِ تنقید موضوع کو جس خوب صورتی سے اس کتاب میں   پیش کیا گیا ہے، اس پر فاضل مؤلف اور اسلامک فائونڈیشن مبارک باد کے مستحق ہیں۔

اس کتاب کی خوب صورتی یہ ہے کہ قاری محض دو نشستوں میں اسلام کا تعارف اور الزامی مہم کا مثبت جواب حاصل کرلیتا ہے۔ یہ چھے ابواب پر مشتمل ہے، جس میں: شریعت کی ماہیت، مطلب اور ماخذ، شریعت کے بنیادی مقاصد، شریعت کا مقصود ایک عادل معاشرے کا قیام، شریعت پر وارد کر دہ اعتراضات کی حقیقت، شریعت کے نفاذ کی حکمت عملی اور اقلیتوں کے حقوق وغیرہ کو زیربحث لایا گیا ہے۔

ضخامت میں مختصر مگر مقصد و موضوع کے اعتبار سے وزنی و قیمتی اس کتاب کو مختلف زبانوں میں منتقل کرنا، تعلیم اور مقصدیت کے لحاظ سے مفید تر ہوگا۔ (سلیم منصور خالد)


دید اُمید کا موسم (سفر نامۂ حج ) ، میاں محمد آصف۔ ناشر: باب حرم پبلی کیشنز، سٹریٹ ۱۸،بلاک ایکس، نیو سٹیلائٹ ٹائون ، سرگودھا۔فون:۲۲۲۶۶۶ ۳-۰۴۸ ۔ صفحات:۳۱۰۔ قیمت : ۵۰۰ روپے۔

زیر نظر سفر نامۂ حج کے بارے میں مولانا عبدالمالک نے فرمایا ہے : ’’کتاب ہر لحاظ سے موضوع کا حق ادا کرتی ہے اور حج کے موضوع پر لٹریچر میںبہترین اضافہ ہے ‘‘۔ مولانا کی یہ راے نہایت جامع ہے کیوںکہ ’’اس کتاب میں مقاماتِ مقدّس کی تاریخ بھی ملے گی اور احکاماتِ حج کی تفصیل بھی___ حج کے حوالے سے بعض غلطیوں اور غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ حج کے احکامات قرآن وحدیث سے لیے گئے ہیں۔ مشاہدات اور تبصرے زائر کے اپنے ہیں۔ اس طرح یہ سفر نامہ احکامات ، مشاہدات،تاَثرات اور توجہات پر مشتمل ہے‘‘۔

مصنف محکمہ پولیس کے اعلیٰ منصب سے ریٹائر ہوئے ہیں۔ ان کا اسلوب ایک پختہ فکر اہل قلم کا سا ہے۔ مشاہدات، تاَثرات اور احکامات وغیرہ کو پانچ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے: خیال ، جلال، جمال ،کمال اور استقلال ___ سفر نامے کی ندرت کے کچھ اور پہلو بھی ہیں۔ مثلاً :’مقاماتِ مقد سہ  و مناسک حج‘ کے ’البم ‘میں ۳۳ تصاویر اور دیگر ممالک کے حجاج سے ملاقاتوں کے تذکرے کے ساتھ ان کے تحریری تاثرات کے عکس ، شریکِ سفر احباب کی فہرست، اور آخر میں حج اور عمرے کے ۲۵۰ سفر ناموں کی فہرست بھی شامل ہے۔ اُردو میں حج کے سفرناموں کی تعداد سیکڑوں تک پہنچتی ہے، مگر متعلقات و لوازماتِ حج کی ایسی یک جائی اور ایسا اہتمام، شاید ہی کسی سفرنامے میں ملے___ بلاشبہہ یہ ایک منفرد اور بہترین سفرنامۂ حج ہے۔ طباعت واشاعت معیاری ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی) 


جنگ ِستمبر کی یادیں، الطاف حسن قریشی۔ ناشر: جمہوری پبلی کیشنز، ایوانِ تجارت روڈ، لاہور۔ فون: ۳۶۳۱۴۱۴۶-۰۴۲۳۔ صفحات (بڑا سائز، مجلد): ۳۷۴ ۔ قیمت: ۱۰۰۰ روپے۔

پاکستان کا قیام ان حالات میں عمل میں آیا کہ اس نئی مملکت کے پاس نہ مالی وسائل تھے، نہ ریاستی ہیکل اساسی اور نہ افرادی قوت کی تربیت کا بنیادی ڈھانچا ہی میسر تھا۔ دوسرا یہ کہ کانگریس کے گہرے اثرات کے باعث مشرقی پاکستان [موجودہ بنگلہ دیش] اور صوبہ سرحد (خیبرپختونخوا) میں مقامی سطح پر ایسی سیاسی قیادت موجود تھی، جو قیامِ پاکستان کے خلاف تھی ، جس نے پہلے ہی چھے ماہ میں پاکستان کی بنیادوں پر ضربیں لگانا شروع کر دی تھیں۔ کانگریس کو توقع تھی کہ پاکستان محض گنتی کے چند برسوں میں ناکام ہوجائے گا۔ اسی طرح انگریز ہندو گٹھ جوڑ نے غیرمنصفانہ تقسیم ہند کے علاوہ جموں و کشمیر کے الحاقِ پاکستان کو روک کر بارود، خون اور جنگ کی فصل بو دی۔ ستمبر ۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ کے پس منظر میں یہی مسئلہ کشمیر کارفرما تھا۔

یہ کتاب بنیادی طور پر پاکستانی صحافت کی زندہ تاریخ الطاف حسن قریشی کی ان تحریروں پر مشتمل ہے، جو انھوں نے جنگ ِ ستمبر کی مناسبت سے ذاتی مشاہدات اور جنگ میں حصہ لینے والے سرفروشوں سے تفصیلات معلوم کرکے ۱۹۶۵ء سے ۱۹۶۶ءکے زمانے میں ماہ نامہ اُردو ڈائجسٹ کے لیے لکھی تھیں۔ستمبر ۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ، پاکستانی نیشنل ازم کی بازیافت کا ذریعہ بنی۔ اس جنگ نے پاکستان کی اسلامی شناخت کو پختہ کیا اور خود پاکستانی ادب کے خدوخال کو گہرے نقوش کے ساتھ واضح کیا۔ اس طرح یہ جنگ پاکستان کی تاریخ کا ایک یادگار سنگ میل ثابت ہوئی۔

الطاف صاحب نے درست لکھا ہے: ’’ان تحریروں میں وہ فضا پائی جاتی ہے، جو آج بھی ہمارے اندر ایک اُمنگ اور عزم پیدا کرتی ہے۔ وہ فضا تین روح پرور کیفیتوں کا مرقع تھی: ہماری مسلح افواج کا عظیم جذبۂ جہاد ، فوج اور عوام کے مابین اعتماد کے گہرے رشتے ،اور قومی یک جہتی کے ناقابلِ فراموش مناظر‘‘ (ص۷)۔ان مناظر کو مصنف نے۲۱مضامین (رپورتاژوں اور مصاحبوں وغیرہ) میں بھرپور انداز سے پیش کیا ہے۔ محاذ جنگ پر موجود اور اگلے مورچوں پر ڈٹے پاکستانی فوجی جوانوں کے جذبات و کیفیات کو دم بخود کرنے والے اسلوب میں اس خوب صورتی اور تفصیل سے پیش کیا ہے کہ قاری اپنے آپ کو منظر کا ایک حصہ سمجھنے لگتا ہے۔ ہرمضمو ن کا پلاٹ الگ ہے، مگر بنیادی روح ایک ہے اور وہ ہے پاکستانی مسلح افواج کا جذبۂ جہاد اور جذبہ دفاعِ پاکستان، جس میں پاکستانی عوام، دانش ور اور ادیب، تمام گروہی تفریقوں سے بالاتر ہوکر یک جان و یک جہت ہوکر، دشمن کے مقابلے میں ڈٹے دکھائی دیتے ہیں۔

کتاب کے آغاز میں الطاف صاحب نے ’تصادم کے بنیادی محرکات‘ (ص ۱۵-۶۵) کے عنوان سے ایک تحقیقی و تجزیاتی مقالہ تحریر کیا ہے، جو نہ صرف اُس زمانے میں بھارتی توسیع پسندانہ سامراجی عزائم کی تاریخ پر مشتمل ہے، بلکہ آج بھی بھارت کی وہی ذہنیت پاکستان کو ہدف بنائے ہوئے ہے۔ روحِ جہاد اور مسلم اُمت کی روح وجود کو نئی نسلوں تک منتقل کرنے کے لیے یہ کتاب امتیازی اہمیت رکھتی ہے۔ خوب صورت پیش کش کے لیے ناشر فرخ سہیل گویندی مبارک باد کے مستحق ہیں۔ (س  م   خ)


تین علمی مجلّات (تعارف و اشاریہ)، مرتبہ: محمد شاہد حنیف۔ ناشر: اوراقِ پارینہ پبلشرز، لاہور۔ فون: ۴۱۲۸۷۴۳-۰۳۳۳۔ صفحات: [مجلاتی سائز]: ۱۱۲۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

اخبارات و جرائد میں عام طور پر جن موضوعات پر مضامین لکھے جاتے ہیں، یونی ورسٹیوں کے علمی مجلّات، ان سے قدرے مختلف موضوعات کو زیربحث لاتے ہیں۔ پیش کش کے اعتبار سے ان مجلوں کا اسلوب زیادہ تر تحقیقی اور تجزیاتی ہوتا ہے، اسی لیے یونی ورسٹی مجلّے اپنا منفرد مقام رکھتے ہیں۔ زیرنظر اشاریہ سندھ یونی ورسٹی، جام شورو کے شعبۂ اُردو کے تین مجلوں: (صریرخامہ ۱۹۶۱ء تا ۱۹۷۸ء ، پرکھ ۱۹۷۸ء، تحقیق ۱۹۸۷ء تا ۲۰۱۶ء)کے مندرجات کے حوالوں پر مشتمل ہے، جس میں چھے سو سے زیادہ قلمی معاونین کی ۱۲۰۰ نگارشات کی مہ و سال کے ساتھ نشان دہی کی گئی ہے۔

رسائل و جرائد کی اشاریہ سازی کے ماہر محمد شاہد حنیف نے اُردو خواں طبقے کو سندھ یونی ورسٹی کی علمی و ادبی خدمات سے آگاہ کرنے کے لیے یہ مفید خدمت انجام دی ہے، جسے وابستگانِ تحقیق قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے۔ (ادارہ)


تعارف کتب

  • اسلامی تصورِ جہاں اور جدید سائنس ، پروفیسر سیّد محمد حسین نصر۔ مترجم: انجینیراطہر وقار عظیم۔ ناشر: ادارہ مطبوعات طلبہ، ۱-اے ذیلدار پارک، اچھرہ، لاہور- فون: ۳۷۹۲۸۳۰۷-۰۴۲۔ صفحات: ۲۶۴۔ قیمت:۴۰۰ روپے۔[سیّد حسین نصر مسلم دنیا کے ایک معروف اسکالر ہیں، جو فلسفے اور تصوف کے میدان میں گہری دسترس رکھتے ہیں۔ زیر نظر کتا ب جدید سائنس اور اس کے انسانی فکروخیال اور کردار و مستقبل پر اثرات کو زیربحث لاتی ہے۔ سیّد حسین نصر نے ایمان اور اسلامی عقیدے کی بنیاد پر اس موضوع پر سیرحاصل بحث کی ہے۔ جزوی اختلاف کو نظرانداز کرتے ہوئے مجموعی طور پر یہ ایک مفید مطالعہ ہے۔ اطہروقار عظیم نے اُردو ترجمہ کرکے ایک خدمت انجام دی ہے۔]
  • خطاباتِ سیّد مودودی ،مرتبہ: نور ور جان۔ ناشر: ادارہ معارفِ اسلامی، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۲۴۷۶-۰۴۲۔ صفحات: ۴۸۰۔ قیمت:۵۲۵ روپے۔ [اس کتاب میں مولانا مودودی کی ان تقریروں کو جمع کرکے شائع کیا گیا ہے، جو انھوں نے مختلف اوقات میں طالب علموں کے اجتماعات میں کی تھیں۔ ]
  • علما کی تنخواہیں سب سے کم کیوں ہیں؟ ، سیّد خالد جامعی۔ ناشر: کتاب محل ، دربار مارکیٹ، لاہور۔ فون:۸۸۳۶۹۳۲- ۰۳۲۱۔ صفحات: ۱۶۰۔ قیمت: ۱۶۰ روپے۔[اس کتاب میں فاضل مصنف نے خادمانِ دین کی معاشی و معاشرتی زندگی پر نظر ڈالی ہے اور ہمارے معاشرے کی سنگ دلی اور نفاق کو موضوعِ سخن بنایا ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر لبرلزم، سیکولرزم اور ہمارے مداہنت پسند بیانیہ سازوں کی بھی خبر لی ہے۔ اور یہ پہلو کتاب کے زیادہ حصے پر پھیلا ہوا ہے۔ اس طرح ایک کتاب میں مختلف اور مفید موضوعات پر بحث موجود ہے۔]

رضیہ حسین  ، اسلام آباد / احمد کمال  ، پشاور/اکبر علی  ، کھاریاں

ڈاکٹر صفدر محمود صاحب نے ’شیخ مجیب، محب ِ وطن یا غدار‘ (فروری ۲۰۱۸ء)میں بڑے مدلل انداز سے غداری کے قافلہ سالار مجیب اور ہمارے تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے ’صاحب‘ کی تاریخ سے بے خبری کو بے نقاب کیا ہے۔ہم اسی نوعیت کی بے خبر قیادت کے ہاتھوں میں کب تک اپنا مستقبل دیے رکھیں گے۔


دانش یار  ، لاہور

ہوش و خرد کے ہفت افلاک کی وسعتوں میں علم و حکمت کا متلاشی شب و روز کی ذہنی کاوش کے بعد اپنا حاصل ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن کی صورت میں پیش کرے تو وہ ماہِ فروری ۲۰۱۸ء کا شمارہ بن جاتا ہے۔ اس کے جملہ مضامین دل و دماغ کے حظ و سُرور کا خوب سامان لیے ہوئے ہیں۔ اس شمارے میں ملک خدا بخش بُچہ کا مضمون تقاضا کرتا ہے کہ اسلامی اور تعمیری فکر کے حامل تعلیمی سلسلوں کے ڈائرکٹر متوجہ ہوں اور یہ مضمون ان کے اداروں میں اسٹڈی سرکل کی طرز پر پڑھا جائے۔ سال چھے مہینے بعد جب وہ ان کا اجلاس بلاتے ہیں تو انھیں دیکھنا چاہیے کہ ترجمان القرآن  کی خریداری کو اپنے سلسلۂ مدارس میں کس حد تک لازم کرسکے ہیں۔ جو حضرات اس مجلے کا باقاعدہ مطالعہ کرتے ہیں وہ کیسے اس کے لیے وسیع حلقۂ مطالعہ پیداکرنے سے غافل ہوسکتے ہیں؟ بدقسمتی سے لکھ رہا ہوں کہ میں اپنے اردگرد وابستگانِ جماعت میں اس رسالے کے لیے کوئی پیاس اور بھوک نہیں پاتا، بامہر و ارادت بے کنار۔


حفصہ بانو  ، ملتان / سلیمہ کاظمی  ، کراچی /  راشد حسین   ، کوہاٹ

’بچوں پر طلاق کے اثرات‘ (فروری ۲۰۱۸ء) ڈاکٹر نازنین سعادت حقیقت پر مبنی ایک دردناک مقالہ ہے۔ کاش! ہمارے ہاں ڈراموں کی شراب پلاپلا کر گھروں کو توڑنے والے سفاک دلوں پر اس کا اثر ہو۔


احمد حسین لغاری ، ریاض، سعودی عرب / محمد نعمان  ، سیالکوٹ

افتخار گیلانی اور ایس پیرزادہ کی تحریروں سے مسئلہ کشمیر کا نہ صرف فہم حاصل ہوتا ہے، بلکہ شہدا کے لہو کی مہک بھی آتی ہے۔ ادارہ ان کی تحریروں کی اشاعت پر خراجِ تحسین کا مستحق ہے۔


علی فراز   ، سرگودھا /  رفیق احمد   ، ڈیرہ غازی خاں

ڈاکٹر انیس احمد اور مجتبیٰ فاروق نے اخلاقی بے راہ روی کے اسباب (فروری ۲۰۱۸ء)کی بہت مناسب نشان دہی کی ہے اور ساتھ اس کا حل بھی تجویز کیا ہے۔


احمد کلیم راٹھو ر  ، مظفرآباد

’فرائضی تحریک‘ پر مضمون (فروری ۲۰۱۸ء) قیمتی معلومات کا خزینہ ہے۔ افسوس کہ ہمارے ہاں تاریخ کا باب بند ہے اور لوگ ماضی سے بے خبر ہیں۔ کاش! ہمارے اہلِ خبرونظر، ہمیں ہمارے ماضی سے جوڑیں۔


پروفیسر احمد سعید ، لاہور

فروری کے ترجمان میں ایک قاری کا مکتوب شائع ہوا ہے کہ گنتی کے اُردو ہندسوں کے بجاے انگریزی ہندسوں کو عبارتوں میں استعمال کیا جائے۔ گزارش ہے کہ اگر آپ بھی ان ہندسوں کو چھوڑ گئے تو کسی اور سے کیا اُمید کی جاسکے گی، سو اُردو ہندسوں کے استعمال پر کسی نوعیت کی پسپائی اختیار نہ کی جائے۔


ڈاکٹر عبدالرزاق   ،کالاگوجراں، جہلم

ترجمان القرآن (جنوری ۲۰۱۸ء) کے ’اشارات‘ میں محترم پروفیسر خورشیداحمد نے اُمت مسلمہ کو درپیش مسائل کا جائزہ لیتے ہوئے ، پاکستان اور ترکی کو تمام حالات کا گہری نظر سے جائزہ لینے اور ہمہ گیر پالیسی بنانے کا مشورہ دیا ہے۔ اللہ کرے ہمارے حکمرانوں اور سیاست دانوں کی سمجھ میں یہ بات آجائے کہ قرآن و سنت کی پیروی کے بغیر دشمنانِ اسلام سے نبٹنے کا اور کوئی ذریعہ نہیں۔ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ اگر ان کی کوئی اہمیت ہے تو صرف ’پاکستان‘ کی وجہ سے ہے۔


بشیراحمد کانجو ،ڈھرکی، ضلع گھوٹکی

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کا مضمون ’آپ بھی کچھ لکھیے!‘ (جنوری ۲۰۱۸ء) نظر سے گزرا۔ موصوف کا یہ جذبہ نہایت ہی قابلِ قدر ہے کہ وہ اسلام پسند لکھاریوں کی ایک بڑی تعداد ملک میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ جس شدت کے ساتھ تمام میڈیا پر لبرل اور سیکولر لوگ چھائے ہوئے ہیں اس کا تقاضا بھی تو یہی ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بھی ہم خود ہی ہیں، جو حوصلہ افزائی نہیں کرتے۔


عرفان اشرف سندھو   ، واہنڈو، گوجرانوالہ

عالمی ترجمان القرآن میں اعلیٰ پاے کی دینی اور علمی تحریریں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ علم و فہم میں شاعری کو اہم مقام حاصل ہے۔ اس لیے میری گزارش ہے کہ ترجمان میں اس پہلو پر غور کرلیا جائے کہ دوصفحات میں منتخب شاعری کے نمونے پیش کیے جایا کریں، تاکہ قاری بہ سہولت ان کا مطالعہ کرسکیں۔ شعرا میں علّامہ محمد اقبال، اکبر الٰہ آبادی، نعیم صدیقی، ماہرالقادری وغیرہ کا کلام ہوسکتا ہے۔


 

ایک مسلمان جس تاریخ سے عام طور پر واقف ہے اُس کا انداز بڑا ہی عجیب و غریب ہے۔ سب سے پہلے سرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کے عظیم المرتبت ساتھیوں کی زندگیاں اور ان کے کارنامے پیش کیے جاتےہیں۔ اس دور کے بارے میں مسلمانوں کے ذہن میں کوئی زیادہ اُلجھن پیدا نہیں ہوتی۔ یہ مقتدر ہستیاں اُمت مسلمہ کی ایک بہت بڑی اکثریت کی نظر میں ایسی ہیں، جن کی عظمت کے نہ صرف مسلمانوں کے دماغ قائل ہیں، بلکہ جن کی محبت سے اُن کے دل بھی معمور ہیں۔ مگر ان بزرگ و برتر شخصیتوں کے دُنیا سے تشریف لے جانے کے بعد ہماری تاریخ کا محور و مرکز وہ حضرات بنتے ہیں، جو بادشاہ تھے یا بادشاہ گر۔ ان حضرات میں بہت تھوڑی تعداد کو چھوڑ کر ایسے لوگ پیدا ہوئے جن کی شمشیر زنی، وجاہت، قوت و اختیار کو تو بلاشبہہ ایک دُنیا مانتی اور تسلیم کرتی ہے مگر مسلمانوں کے دلوں میں اُن کا وہ عزت و احترام نہیں جو ایک قوم کے دل میں اسلاف کا ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان مستقل اقدار کا حامل ہے، اُس کا ایک مخصوص اسلوبِ حیات ہے اور اس کا ایک الگ نصب العین ہے۔ وہ زندگی کے سارے واقعات و حوادث کو، اس دُنیا کی چھوٹی بڑی، تمام شخصیتوں کو ، اپنے ماضی، حال اور مستقبل کو اسی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اس بناپر اُس کے لیے یہ چیز قطعاً کوئی اہمیت نہیں رکھتی کہ کوئی شخص بوریا نشین ہے یا بادشاہ۔ اُس کی محبت اور عقیدت کا معیار صرف ایک ہے:’’کوئی شخص کس حد تک اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا متبع اور فرماں بردار ہے۔ اور جو شخص جس نسبت سے بھی اس معیارپر پورا اُترتا ہو، اُس کی دنیاوی حیثیت خواہ کچھ ہی ہو، وہ اسی تناسب سے محبت اور احترام کے لائق ہے‘‘۔

یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے بادشاہوں کے بجاے عالموں، درویشوں اور’فقیروں‘ سے محبت کی ہے۔ دربار و ایوان میں رہنے والوں کے بجاے اُن لوگوں کا احترام کیا ہے جو جھونپڑوں اور خانقاہوں میں رہتے تھے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے مسلمانوں کے لیے یہ چیز سرے سے کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتی کہ کسی شخص کا دُنیاوی مرتبہ اور مقام کیا ہے۔ اُس کے لیے بس ایک ہی ترازو ہے اور ایک ہی پیمانہ، اور وہ ہے اسلام۔ اور اسی کے مطابق وہ ہرشخص کو تولتا اور اس کے اعمال کو جانچتا ہے۔ (’مطبوعات‘، پروفیسر عبدالحمید صدیقی،ماہنامہ ترجمان القرآن، جلد۴۹، عدد۶، جمادی الاخریٰ ۱۳۷۷ھ، مارچ ۱۹۵۸ء،ص ۵۵-۵۶)

دو مختلف نظاموں میں کچھ چیزیں مشترک ہوتے ہوئے بھی، وہ الگ الگ نظام ہوتے ہیں۔ ان دونوں نظاموں کی تفصیلات کا جائزہ لیتے ہوئے ان میں بیش تر چیزیں ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہوں، مگر اس کے باوجود ہم انھیں ایک نظام نہیں کہہ سکتے۔ دو مختلف نظاموں کا کسی ایک یا چند اُمور میں ایک دوسرے سے متفق ہو جانا بھی کبھی اُن کے ایک ہونے کی دلیل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہی حال اسلام اور مغربی جمہوریت کا ہے۔

اس ضمن میں یہ چیز ذہن نشین رہے کہ کسی نظام کا اصل جوہر طریق نہیں بلکہ وہ اصولی و مقصدی روح ہوتی ہے، جو اُس کے اندر جاری و ساری رہتی ہے اور اسی روح کے متعلق ہم حکم لگاسکتے ہیں۔

ان گزارشات کے بعد اب آپ مغربی جمہوریت اور اسلامی جمہوریت کے فرق پر غور فرمائیں:

  1. مغربی جمہوریت میں حاکمیت جمہور کی ہوتی ہے اور اسلام میں حاکمیت اللہ تعالیٰ کی تسلیم کی جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مغربی جمہوریت میں کسی چیز کے حق و ناحق کا فیصلہ کرنے کا آخری اختیار اکثریت کو حاصل ہے ، مگر اسلام میں یہ حق صرف باری تعالیٰ کو پہنچتا ہے، جس نے اپنا آخری منشا    نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے دنیا پر واضح فرما دیا۔ یہ اختلاف کوئی معمولی نہیں بلکہ اس کی بنا پر یہ دونوں نظام بنیادوں سے لے کر کاخ و ایوان تک ایک دوسرے سے مختلف ہوجاتے ہیں۔
  2. اسلامی جمہوریت میں خلافت ایک امانت ہے، جو ہرمسلمان کو سونپی جاتی ہے، اور تمام مسلمان محض انتظامی سہولت کے لیے اُسے ارباب حل و عقد کے سپرد کردیتے ہیں۔ مغربی جمہوریت میں اصحابِ اقتدار صرف اپنی پارٹی [یا منتخب ایوان] کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس اسلامی ریاست میں عوام کے نمایندے خدا اور خلق دونوں کے سامنے جواب دہ ہیں۔
  3. یہ عرض کر دینا بھی ضروری ہے کہ اسلامی نظام صرف ایک طریق انتخاب تک محدود نہیں ہے بلکہ زندگی کے سارے معاملات میں اپنا ایک مخصوص نقطۂ نظر اور زاویۂ نگاہ پیش کرتا ہے۔ اس کا مطالبہ یہ ہے کہ کتاب اللہ اور سنت رسولؐ اللہ کو آخری سند مان کر اپنی پوری انفرادی اور اجتماعی زندگی کو ان کے مطابق ڈھالا جائے___ پاکستان میں ’قراردادِ مقاصد‘ کے ذریعے اس اصول کو تسلیم تو کیا گیا ہے، مگر افسوس کہ  اس کے نفاذ کے راستے میں ہرطرح کی رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں۔ (’رسائل و مسائل‘ [پروفیسر عبدالحمید صدیقی]، ترجمان القرآن، جلد۴۹، عدد۳، ربیع الاوّل ۱۳۷۷ھ، دسمبر ۱۹۵۷ء،ص ۱۸۳-۱۸۴)

دِل توڑ گئی ان کا دوصدیوں کی غلامی

دارُو  کوئی سوچ اُن کی پریشاں نظری کا

اللہ رکھے تیرے جوانوں کو سلامت!

دے اُن کو سبق خودشکنی ، خودنِگری کا

ظلم و استبداد اور تخریب و فساد کی داستان بڑی عبرت انگیز ہے۔ تاریکی کے علَم بردار ہمیشہ ’خیروصلاح‘اور’ہمدردی‘ کا لبادہ اُوڑھ کر آتے ہیں۔ ظلم اپنے کریہہ چہرے پر نیکی ہی کا پردہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ بدی نے نیکی کا پہلا استحصال اس دن کیا تھا، جب شیطان نے آدم ؑ و حواؑ کو خیرخواہی کے پردے میں گمراہ کیا اور ملکیت اور اَبدیت کے نام پر عدمِ اطاعت کے لیے اُکسایا۔ یہ نیکی اور حق کا اعتراف بھی تھا اور شیطنت و گمراہی کےطریقِ کار کا اظہار بھی۔

نیکی پر بدی کی اس دست درازی ہی کا نتیجہ دھوکا اور نفاق ہیں، جو آغازِ تاریخ سے     آج تک ظلم و گمراہی کے بہترین رفیق کار بھی رہے ہیں اور آزمائے ہوئے ہتھیار بھی۔ظلم و استبداد  انھی بیساکھیوں کے سہارے کھڑے ہوتے ہیں۔ کسی ملک، کسی دور، کسی قوم اور کسی دائرۂ کار کو بھی لے لیجیے، شکلیں بدلی ہوئی ہوسکتی ہیں لیکن ظلم و باطل کے حربے ہمیشہ یہی رہے ہیں اور رہیں گے  ع   

شراب ایک ہے بدلے ہوئے ہیں پیمانے 

1

مغربی سامراج تجارتی سرگرمیوں کا بھیس بدل کر برصغیر پاک و ہند میں داخل ہوا اور دوسو سال کی پیچ در پیچ ریشہ دوانیوں کے ذریعے پورے ملک پر قابض اور حکمران ہوگیا۔ استعمار نے یہ سارا کھکیڑ اس دعوے کے ساتھ کیا تھا کہ وہ یہاں کے باشندوں کو ’تہذیب کادرس دے‘۔اس مقصد کے لیے Civilising Mission اور White-Man's Burden جیسے پُرکشش نعرے وضع کیے گئے اور نصف دنیاکو اپنا محکوم بنا لیا گیا۔ بُرے کاموں کے لیے اچھے ناموں کا استعمال، مذموم مقاصد کے لیے حسِین اصطلاحات کی تراش خراش، ظلم و استبداد کے لیے لطیف سے لطیف وجۂ جواز، دوسروں کو غلام بناکر انھی کے مفاد کے تحفظ کا ڈھونگ رچانا، سامراجی اور استبدادی قوتوں کا شعار رہا ہے۔

آزادی کے نام پر دوسروں کو آزادی سے محروم کرنا، تہذیب و تمدن کے فروغ کے نام پر تہذیب کی تمام اَقدار کو پامال کرنا، تعلیم کے نام پر علم کی شمعیں گُل کرنا، ترقی کے نام پر سرمایۂ حیات کو لوٹ لینا، امن و آشتی کے نام پر قوموں اور ملکوں کو تاراج کرنا، جمہوریت کے فروغ کی خاطر جمہور کاخون چُوس لینا، مضبوط حکومت کی ضرورت کے نام پر انسانی حقوق کو روند ڈالنا___ یہ ہے سامراجی استبداد کی پوری تاریخ اور اس کے اندازِ کار کا خلاصہ۔ ہرملک میں مغربی سامراج نے یہی کیا، اور برعظیم پاک و ہند کی سرزمین بھی اسی ظلم و فساد، دھوکے اور بے رحمانہ نفاق کی آماج گاہ بنی اور ہر دیکھنے والی آنکھ نے دیکھا کہ:

یہ صحن و روش، یہ لالہ و گُل ، ہونے دو جو ویراں ہوتے ہیں

تعمیر جنوں کے پردے میں، تخریب کے ساماں ہوتے ہیں

استبدادی نفسیات

یہی وہ ذہن ہے جس کی عکاسی مشہور برطانوی ادیب جارج برنارڈشا [م: ۲نومبر ۱۹۵۰ء] نے اپنے مشہور ناول The Man of Destiny  (۱۸۹۶ء) میں ایک مقام پر اس طرح کی ہے:

ہر انگریز پیدایشی طور پر خزانۂ اَبد سے دُنیا کا حاکم اور آقا بننے کی معجزانہ قوت لے کر آتا ہے۔ جب وہ کسی چیز کو حاصل کرنا چاہتا ہے تو کبھی یہ نہیں کہتا کہ میں اس کو چاہتا ہوں، بلکہ وہ خاموشی سے صبر کرتا اور پورے اطمینان کے ساتھ انتظار کرتا ہے۔ حتیٰ کہ اس کے دل میں یہ یقین کامل القا ہوتا ہے [یہ کوئی نہیں جانتا کہ یہ نازل کہاں سے ہوتا ہے؟] کہ: ’یہ اس کی اخلاقی اور مذہبی ذمہ داری ہے، اِن لوگوں کو فتح کرے، جن کے پاس وہ شے ہے‘۔ یہ احساس شدید تر ہوتا ہے اور بالآخر ناقابلِ ضبط ہوجاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مفید مطلب اور اخلاقی رویے کے باب میں وہ کبھی کوتاہ دامن نہیں رہتا۔آزادی اور قومی حُریت کے علَم بردار ہونے کی حیثیت سے وہ آدھی دُنیا کو ہڑپ کر جاتا ہے اور اس کا نا م رکھتا ہے ’نئی آبادی‘۔ جب اسے اپنی مانچسٹر کی ملاوٹ زدہ مصنوعات کے لیے ایک نئی منڈی کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ اس سرزمین کے باسیوں کو صحیفۂ امن کے اسرارورُموز سکھانے کے لیے مشنریوں کو بھیج دیتا ہے۔وہاں کے باشندے مشنری کو قتل کردیتے ہیں۔ نتیجتاً مذہب خطرے میں پڑ جاتا ہے اور عیسائیت کی حفاظت و مدافعت کے لیے فوجیں دوڑ پڑتی ہیں، اُس کی خاطر جنگ ہوتی ہے اور ملک فتح کیا جاتا ہے۔ رہی تجارتی منڈی تو وہ تو عطیۂ خداوندی کی حیثیت سے آپ اس کی جھولی میں آپڑتی ہے۔

پھر مذکورہ بالا ’اعلیٰ مقاصد‘ ہی کے لیے اس تسلط کو برقرار، مستحکم اور مضبوط کیا جاتا ہے۔ ملک کے اصلی باشندوں کی خیرخواہی میں بیرونی راج کو طویل سے طویل تر کیا جاتا ہے۔ آزادی کی تحریکوں کو ’بغاوت‘ کا نام دے کر کچلا جاتا ہے۔ عوام کو سیاسی نابالغی کے نام پر بنیادی حقوق سے محروم کیا جاتا ہے۔ تعلیم و تربیت کے نام پر ذہنی، فکری اور تمدنی غلامی کی زنجیروں کو مضبوط تر کیا جاتا ہے، اور اگر مجبور ہوکر کچھ مطالبات ماننے پڑتے ہیں تو اس ’مجبوری‘ کو انسانیت پرستی، حُریت پسندی، وسعت ِ قلبی اور بالغ نظری کے خوب صورت ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔کل کا انگریزی استعمار ہو یا فرانسیسی یا روسی اور اطالوی یا پھر آج کا امریکی استعمار___ سب کا کردار، مقاصد اور اندازِ کار ایک ہی جیسا ہے۔

استبداد کا دریا ہمیشہ اسی رُخ پر بہتا ہے!

ظلم اور اُس کے ہتھیار

انسان کی فطرت راستی اور نیکی پر قائم ہے۔ ایک ہی قانون ہے جو فرد کی پوری زندگی میں اور کائنات کے سارے نظام میں جاری و ساری ہے۔ ہر وہ راستہ جو اس فطرت کے مطابق ہے، خیروفلاح کا راستہ ہے۔ اسے اختیار کرنا آسان اور سہل ہے اور اس کے نتائج سب کے لیے نافع اور اطمینان بخش ہیں۔ ظلم، اس فطرت سے انحراف اور اس کے خلاف بغاوت کا نام ہے۔ چونکہ یہ انحراف دل و دماغ اور انسان کی فطری کیفیت اور طبیعت کے خلاف ہے، اس لیے اسے بروے کار لانے کے لیے وہ ذرائع اختیار کرنے پڑتے ہیں جو فطرت کو مسخ کریں۔ بنیادی طور پر یہ ذرائع دو قسم کے ہیں: وہ جو دھوکے اور جھوٹ سے عبارت ہیں، اور دوسرے وہ جن کا سرچشمہ جبر اور تشدد ہیں۔

جھوٹ اور دھوکے کے ذرائع سے عقل و ذہن کو غلط راستے پر ڈالا جاتا ہے، قلب و روح کو مسخ کیا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو اختیار و ارادہ دیا ہے، اس کے ناروا ، غلط اور ناجائز استعمال کی راہ پیدا کی جاتی ہے۔ اگر جھوٹ اور دھوکے کے حربے کامیاب نہ ہوں تو پھر جبروتشدد کے ہتھیاروں سے فطرت کو انحراف پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ترغیب و ترہیب، غلط بیانی، جھوٹ، دھوکا، فریب، ظلم و زیادتی، جبروتشدد اور شقاوت و استبداد ہی وہ ہتھیار ہیں، جو اہلِ باطل نے ہمیشہ ، ہر دور میں، اور ہر مقام پر استعمال کیے ہیں۔ یہی کچھ ماضی میں کیا جاتا رہا، یہی حال میں کیا جارہا ہے، اور یہی مستقبل میں کیا جاتا رہے گا۔ انھی ہتھیاروں کو برطانوی سامراج اور اس کی تہذیبی اور سیاسی ذُریت نے حکومت اور اقتدار کے نشے میں اس برصغیر کے باشندوں کے خلاف استعمال کیا اور یہی ہتھیار آج کی استعماری قوتیں استعمال کر رہی ہیں، خصوصیت سے ’امریکا سب سے پہلے‘ اور ’دہشت گردی‘ کو نیست و نابود کرنے کے نام پر مغربی اقوام اور مسلح افواج کی خونیں کارگزاریاں۔

2

استعمار کے خطرناک کھیل کو سمجھنے کے لیے برطانیہ کی برصغیر پاک و ہند میں سامراجی حکمت عملی کو سمجھنا بہت ضروری اور چشم کشا ہے۔

برطانیہ کے اربابِ اختیار جس طریقے سے اس ملک پر غالب آئے، اس کی داستان بڑی شرم ناک ہے۔ انھیں اس ملک کے باشندوں نے دعوت نہ دی تھی،خود منتخب نہ کیا تھا، بلکہ پسند تک نہ کیا تھا۔ ہاں، البتہ ان سے جو عظیم گناہ سرزد ہوا ،وہ یہ تھا کہ سامراجیوں کی چکنی چپڑی باتوں میں آکر چند بدیسیوں کو کچھ حقوق اور تحفظات دے دیے تھے ___ اور یہ حقوق اور تحفظات بھی بڑی حد تک تجارت اور تجارتی اثاثے کی حفاظت سے متعلق تھے، مگر وہ ایسا دروازہ بن گئے، جن سے استعماری قوتیں داخل ہوکر دو صدیوں کے لیے قابض حکمران بن گئیں، اور جس ذہنیت کو انھوں نے پروان چڑھایا وہ استعمار کے سیاسی غلبے کے ختم ہوجانے کے باوجود ذہنی اور تہذیبی غلامی کا سبب بنی ہوئی ہے۔ آج ’گلوبلائزیشن‘ (عالم گیریت) اور ’معاشی امداد‘ کے حسین ناموں سے یہی کھیل کھیلا جارہا ہے۔

عیارانہ چالوں سے آمد

بس یہی وہ چیز تھی، جس نے ہمارے دروازوں کو غیروں کے لیے کھول دیا۔ ان کی تجارتی کوٹھیوں [یعنی سامراجی تجارتی کمپنیوں]کا اثرونفوذ بڑھنا شروع ہوا، اور سیاسی چالوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اہلِ ملک کے ایک طبقے کو دوسرے کے خلاف صف آرا کیا جانے لگا۔ غداروں کو چھانٹ چھانٹ کر بلندمناصب پر بٹھایا گیا۔ مقامی افواج میں بغاوت اور بے وفائی کی سرنگیں لگائی گئیں۔ یہ کھیل تقریباً دو سو سال تک کھیلا گیا اور بالآخر لومڑی کی یہ عیّارانہ چالیں  شیر کو چاروں شانے چِت گرانے میں کامیاب ہوگئیں۔

ظلم اور تشدد

اربابِ ظلم کی ہمیشہ سے یہ روش رہی ہے کہ وہ فوج کے غلط استعمال اور بالواسطہ قسم کے ہتھکنڈوں کے استعمال سے اپنے اقتدار کا تخت بچھاتے ہیں۔ بہادر انسانوں کی طرح میدان میں مقابلہ کرنے کے بجاے محلاتی سازشوں کے ذریعے اپنا تسلط قائم کرتے ہیں۔

اقتدار پر متمکن ہوجانے کے بعد سامراجی حکمرانوں کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ اپنے اہم ترین مخالف کی کمر توڑنا تھا۔ ظاہر ہے یہ مخالف مسلمان تھا، جو اس ملک پر تقریباً آٹھ سو سال سے حکمران تھا اور جو غلامی کے ساتھ خود کو سازگار بنانے کے لیے کسی قیمت پر تیار نظر نہ آتا تھا۔    رہ رہ کربغاوت اور مہم جوئی کے ذریعے کھوئی ہوئی عظمت کو دوبارہ حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اس قسم کی تمام کوششوں کو جبروقوت اور چالاکی اور عیاری کے ذریعے کچلا گیا۔ سیّداحمد شہید[م: ۶مئی ۱۸۳۱ء] کی سربراہی میں ’تحریک ِ مجاہدین‘ ، حاجی شریعت اللہ [م: ۱۸۴۰ء] کی قیادت میں ’فرائضی تحریک‘، ۱۸۵۷ء کی جنگ ِ آزادی، خیبرپختونخوا میں ۱۸۶۳ء میں امبیلا کی سرفروشانہ جنگیں،موپلوں کی بغاوت اور بے شمار مقامی نوعیت کی لہوگرمانے والی لڑائیاں اس جدوجہد کا عنوان ہیں۔ ان سب کو قوت و تشدد کے ساتھ کچل کر مسلمانوں کی کمر توڑ دی گئی۔ آزادی و حُریت کی شاہراہ پر گام زن لاکھوں جاںبازوں کو بے دردی کے ساتھ قتل کر دیا گیا۔ ان کے پورے کے پورے خاندانوں کو تہِ تیغ کیا گیا۔ پورے ملک پر خوف اور دہشت کی ایک فضا قائم کرنے کے بعد، اس زخم خوردہ شیر کے دست و بازو بھی کاٹ دیے، تاکہ اسے مقابلے کے لائق ہی نہ چھوڑا جائے۔

یہ بھی اربابِ ظلم کا دائمی طریقہ ہے کہ وہ فتح و کامیابی اور استحکامِ اقتدار کے بعد شریف انسانوں اور جواں مردوں کی طرح مخالفین کے ساتھ عزت اور احسان کا رویّہ اختیار نہیں کرتے بلکہ اُن کے نام و نشان کو مٹانے کی کوشش کرتے ہیں، اور جہاں کہیں اختلاف کی بُو بھی سونگھ لیتے ہیں وہاں تشدد کی انتہا کر دیتے ہیں۔

پیٹ کی مار

سامراجی قوتیں صرف اسی پر رضامند نہ ہوئیں بلکہ اپنے اس اہم حریف کو اجتماعی زندگی کے تمام شعبوں سے بے دخل کرنے اور اُس کی آنے والی نسلوں کو بے حیثیت اور غیرمؤثر کر دینے پر تُل گئیں۔ اُن تمام صنعتوں کو تباہ کیا گیا، جن کے ذریعے قوم کو معاشی استحکام حاصل تھا۔ ماہرین فن اور کاری گروں کے ہاتھ تک کاٹ دیے گئے۔ زرعی نظام کی قلب ِ ماہیت کی گئی اور اپنے اقتدار کو محفوظ کرنے کے لیے زمین داری کا دوامی [یعنی مستقل] نظام قائم کیا۔ اس طرح جاگیر داری نظام کو قائم کیا گیا،جو برطانوی راج کا ستون بن گیا۔

پھر مسلمانوں کو معاشی ، سیاسی، عدالتی، انتظامی، غرض زندگی کے ہرشعبے سے بےدخل کیا گیا۔ ان پر ملازمتوں کے دروازے بند کیے گئے۔ تجارت و صنعت کو تباہ کیا گیا، جو افراد پہلے سے اجتماعی زندگی میں ایک مقام رکھتے تھے، ان کو آہستہ آہستہ مٹا دیا گیا۔ مسلمانوں کے مقابلے میں غیرمسلم اقوام کو شہ دی گئی۔ آخرکار یہ حالت ہوگئی کہ ملک کی سرکاری مشینری میں مسلمانوں کا تناسب۵، ۶ فی صد سے بھی کم رہ گیااور وہاں بھی جو آسامیاں ان کے پاس تھیں، وہ اعلیٰ انتظامی عہدے نہیں تھے بلکہ وہ صرف کلرک، محرر، چپراسی اور خاکروب بن کر رہ گئے۔{ FR 649 }

گویا اس شکست کھائے ہوئے شیر کو صرف پنجرے میں بند ہی نہیں کیا، بلکہ اس کو پیٹ کی مار بھی دی گئی، تاکہ اس کے قویٰ دوبارہ مجتمع ہی نہ ہوسکیں۔ ظالم حکمرانوں کا یہ بھی طریقہ ہے کہ وہ سیاسی لڑائی کے لیے معاشی میدان میں بھی دندناتے ہوئے اُترتے ہیں اور اپنے مخالفین کے لیے  نہ صرف معاش کے دروازے بند کرتے ہیں بلکہ تجارت، صنعت، ملازمت، غرض ہرشعبے سے ان کو چُن چُن کر نکال باہر پھینکنے کی کوشش کرتے ہیں۔

دین سے محبت نکال دو

بات یہیں تک محدود نہیں رہی بلکہ اس ملک کے اصل مالکوں کے ذہن سے آزادی اور خودمختاری کے احساس ہی کو مٹانے کے لیے تعلیم وتربیت اور پروپیگنڈے اور نشرواشاعت کا ایک ہمہ گیر پروگرام اختیار کیا گیا۔ جس کا مقصد صرف یہ تھا کہ وہ فرد جو غلامی کو قبول نہیں کر رہا ہے، اسے زیر کرنے کے لیے اس کے ذہن کو غلام بنا لیا جائے، جو اُس کے جسم پر حکمرانی کرتا ہے۔ اس طرح نئی نسلوں کے فکرونظر کو بدل دیا جائے، تاکہ ’باغیوں‘ کی اولاد کو ’غلامی کے اسرار‘ سکھائے جاسکیں اور اُس سرچشمے کو گدلا کر دیا جائے، جس سے زندگی اور غیرت کے سوتے پھوٹتے ہیں۔

اس مقصد کے لیے تعلیم کے نظام کو بدلا گیا اور اس نئے ’تیزاب‘ میں مسلمان کی ’خودی‘ کو ڈال کر ایسا ملائم بنادیا گیا کہ اسے جدھر چاہیں موڑ لیں۔ یہ تھی وہ تدبیر جس سے ’سونے کا ہمالہ‘ مٹی کا ایک ڈھیر بن گیا۔ اقبال نے اس چال کو ان الفاظ میں فاش کیا ہے:

تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو

ہوجائے ملائم تو جدھر چاہے ، اسے پھیر

تاثیر میں اِکسیر سے بڑھ کر ہے یہ تیزاب

سونے کا ہمالہ ہو تو مٹّی کا ہے اک ڈھیر

پھر معاشرت، سماجی طور طریقے، تمدنی ادارے، غرض پوری ثقافت کو بدلنے کی کوشش کی گئی اور دینی برتری،تمدنی روایات اور عسکری روح کی جگہ آدابِ غلامی میں طاق کرنے کی کوشش کی گئی کہ:

محکوم کے حق میں ہے یہی تربیت اچھی

موسیقی و صُورت گری و علمِ نباتات

اصول پرستی کی جگہ موقع پرستی اور عسکریت کی جگہ بزدلی اور ’آرٹ پرستی‘ پیدا کی گئی۔ خارہ شگافی کی جگہ ’فنِ شیشہ گری‘ سکھایا گیا اور پروپیگنڈے اور نشرواشاعت کے سارے دروازے اس مقصد کے لیے استعمال کیے گئے کہ:

وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا

رُوحِ محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو

غرض غلامی کی نفسیات کو اس کی رگ و پے میں سرایت کر دینے کی ہرممکن کوشش کی گئی:

بہتر ہے کہ شیروں کو سِکھا دیں رمِ آہُو

باقی نہ رہے شیر کی شیری کا فسانہ

کرتے ہیں غلاموں کو غلامی پہ رضامند

تاویلِ مسائل کو بناتے ہیں بہانہ

یعنی یہ شیر، شیر ہی نہ رہے بلکہ اس میں بکری کا ذہن پیدا ہوجائے اور یہ اُسی کی طرح ممیانے لگے۔ ظالم حکمرانوں کی یہ بھی روش ہے کہ وہ اپنے اقتدار کو اپنے خیال میں مستقل اور   دائمی کرنے کے لیے قوم کے ’نفسیاتی قتل‘ کی کوشش کرتے ہیں۔ اس میں سے بہادری، شجاعت، اصول پرستی، عزت نفس، خودداری، حق پسندی، جفاکشی اور جذبۂ جہاد کو مٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسے غلط تعلیم اور اخلاق باختہ ثقافت کے ذریعے لذت پرستی، مفاد پرستی، بزدلی اور خوشامد کی راہ پر ڈال دیتے ہیں۔ یہ امراض پوری قوم کو گھن کی طرح کھا جاتے ہیں اور سیرت کی وہ بنیادیں ہی ختم ہوجاتی ہیں، جن سے قوم میں وہ افراد پیداہوسکیں جو بلند کردار، وفاشعار، اصولوں کے پرستار اور  حق کے فداکار ہوں اور جو ان کے ظالمانہ اقتدارکے لیے خطرہ ثابت ہوسکیں۔

من پسند تاویلیں

پھر چوں کہ سامراجی حکمران یہ بات اچھی طرح سمجھ گئے تھے کہ مسلمانوں کی قوت کا اصل سرچشمہ ان کا دین اور اس دین سے والہانہ وابستگی ہے، اس لیے ایک طرف ان کو اس سرچشمے سے کاٹنے کی کوشش کی ، تو دوسری طرف یہ انتظام کیا کہ جس سے ایسے لوگ اُبھریں، جو قرآن و سنت کی تعلیمات کو مدافعت پسندوں (Apologists) کی معذرت خواہانہ تاویلات کے پھندے میں جکڑنے کی کوششیں کریں۔ تیسری جانب اسلام کے احکامات کو متجدّدین (Revisionists) کے ہاتھوں مسخ کرکے حکمرانوں کے لیے مفیدمطلب بنادیں، جہاد کو منسوخ بتائیں اور سود کے جواز کا فتویٰ دیں۔ ناچ رنگ، مصوری اور مجسمہ سازی کی گنجایش پیدا کریں اور سب سے بڑھ کر اُمت کی بنیادوں ہی کو منہدم کرڈالیں۔ یہی نہیں بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر ایک ’جعلی نبوت‘ کا بُت تراشیں___ اور جو اس مذہبی ’جعل سازی‘ کی مخالفت کرے اسے تنگ نظر، دقیانوس، مذہبی جنونی اور کٹھ مُلّا قرار دے کر نکّو بنا دیں۔

اس طرح ’دینِ شیری‘ محض ایک ’فلسفۂ روباہی‘ بن کر فرعونی قوت کا مرید ہوجائے:

دینِ شیری میں غلاموں کے امام اور شیوخ

دیکھتے ہیں فقط اک فلسفۂ رُوباہی

ہو اگر قُوّتِ فرعون کی درپردہ مُرید

قوم کے حق میں ہے لعنت وہ کلیم اللّٰہی

اہلِ ظلم کا یہ بھی ایک مخصوص حربہ ہے کہ وہ اپنے سیاسی مفاد کی خاطر محکوم قوم کے دین تک کو بچوں کا کھیل بنا دیتے ہیں اور سرکاری خزانے اور اثرو رسوخ کو استعمال کرکے احکامِ دین کو مسخ کراتے ہیں، من مانی تاویلات کراتے ہیں، اور اہلِ مذہب میں سے مفاد پرستوں کو اس مقصد کے لیے استعمال کرتے ہیں کہ وہ ان کے ہرغلط اقدام کے لیے دین کی ’سند‘ گھڑ کر پیش کریں۔

موقع پرستوں کی قیادت

ملک کی قیادت میں انتشارپیدا کرنے اور میدان کو اپنے لیے ہموار کرنے کے لیے برطانوی سامراج نے ایک طرف قوم کے جوہرِ قابل کو چُن چُن کر قتل کیا، جلاوطن کیا، یا جیلوں میں ڈال دیا۔ دوسری طرف اہلِ وطن ہی میں سے اُن عناصر کو، جو ذاتی مفاد کی خاطر سب کچھ، حتیٰ کہ اصولِ دین اور قوم کا مفاد تک قربان کرنے کو تیار ہوتے گئے، چھانٹ چھانٹ کر اُوپر لاناشروع کیا۔ زمین داروں اور جاگیرداروں کی کھیپ تیار کی گئی۔ خان بہادروں اور خاں صاحبوں کی ایک فوجِ ظفر موج میدان میں اُتاری گئی۔ وہ جنھوں نے اپنا ’سر‘ برطانوی سامراج کے ہاتھوں فروخت کردیا تھا، ان کو اعلیٰ سے اعلیٰ مناصب پر لایا گیا، تاکہ اصول کے لیے جان کی بازی لگادینے والوں کی جگہ ملک کی قیادت ایسے بے ضمیر موقع پرستوں کے ہاتھوں میں آجائے:

ترے بلند مناصب کی خیر ہو، یاربّ!

کہ ان کے واسطے تُو نے کیا خودی کو ہلاک

شریکِ حُکم غلاموں کو کر نہیں سکتے

خریدتے ہیں فقط اُن کا جوہر اِدراک!

نااہل موقع پرستوں کو قیادت کے مناصب پر فائز کرنے کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ  اپنے گرد خوشامدیوں کا ایک لشکر جمع کرلیتے ہیں۔ وہ گاڑی جو صلاحیت اور تدبیرسے نہیں چلائی جاتی اسے خوشامدی اور حاشیہ نشین کھینچ کھینچ کر آگے بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح قوم کا مزاج بگاڑ کی انتہائی پستیوں کو چھونے لگتا ہے:

کر تُو بھی حکومت کے وزیروں کی خوشامد

دستور نیا ، اور نئے دَور کا آغاز

معلوم نہیں ہے یہ خوشامد کہ حقیقت

کہہ دے کوئی اُلّو کو اگر ’رات کا شہباز!‘

اور یہ سب کچھ اس لیے کہ شیر کی ہر خوبو کو ختم کر کے اُسے لومڑی کے دربار کا دربان بنا دیا جائے۔ یہ بھی ظالم حکمرانوں کی فطرت ہے کہ وہ جوہرِخالص کو تو نشانۂ ستم بناتے ہیں اور مفاد پرستوں اور خوشامدیوں کو اپنے گرد جمع کرلیتے ہیں۔ انھیں اپنے مذموم مقاصد کے لیے آلۂ کار بناتے ہیں اور یہ زرپرست و زردار ہر بُرے سے بُرے مقصد کے لیے بھی آلۂ کار بننے میںفخر ہی محسوس کرتے ہیں۔

3

برطانوی سامراج نے اپنے اقتدار کو برصغیر میں قائم کرنے اور مستحکم کرنے کے لیے یہ طریقِ کار اختیار کیا۔ جھوٹ اوردھوکا، ترغیب اور پروپیگنڈے کا ہرحربہ استعمال کیا گیا۔ جب اور جہاں یہ ہتھیار غیرمؤثر ثابت ہوئے، وہاں جبر و تشدد اوراستبداد کے تمام ہتھکنڈے بے دریغ استعمال کیے گئے۔ عیاری اور ظلم کے باوجود جب آزادی اور حقوق کی تحریک نے قوت پکڑی اور وہ جنگل کی آگ کی طرح پھیلنے لگی، تو برصغیر کی سیاسی تاریخ کے ابواب، سامراج کی تلوار اور اہلِ وطن کے خون سے لکھے گئے۔

انتظامیہ کے غیرمحدود اختیارات

انگریز سامراج نے سول انتظامیہ کو غیرمعمولی اختیارات سے مسلح کیا اور اس سلسلے میں متعدد قوانین بغاوت (Sedition Laws) منظور کیے، جن کی وجہ سے جلسے اور جلوس ممنوع کیے گئے۔ تقریر و تحریر پر نئی نئی پابندیاں لگائی گئیں، انتظامیہ اور پولیس کو یہ اختیارات دیے گئے کہ وہ شبہے کی بنا پر گرفتاریاں کرسکتے ہیں۔ مجسٹریٹوں کو بغیر مقدمہ چلائے اور بغیر صفائی کا موقع دیے، املاک ضبط کرنے کے اختیارات تفویض کر دیے گئے، اور جب اس پر بھی دل خوش نہ ہوا تو ۱۹۰۸ء کا ’کرمنل ا مینڈمنٹ ایکٹ‘ لایا گیا، جس کے ذریعے جس تنظیم کو چاہیں غیرقانونی قرار دیں اور جب تک چاہیں پابند رکھیں۔ جس شخص کو چاہیں، غیرقانونی سرگرمیوں کے عنوان سے گرفتار کرلیں۔  جن املاک کو چاہیں، حکومت کے قبضے میں لے لیں۔ نیز دفعہ ۱۲۴-الف کا اضافہ کیا گیا جس کی رُو سے عملاًحکومت پر ہر تنقید ’بغاوت‘ (sedition)کے معنی میں داخل کر دی گئی۔

اخبارات کی زباں بند

بہ جبر اخبارات کی زباں بندی اور ان پر دہشت کی فضا مسلط کرنے کے لیے فوج داری قانون کے تحت بیوروکریسی، پولیس اور مجسٹریٹوں کو اخبارات کو بند کرنے ، اخبار نویسوں کو گرفتار کرنے، سیکورٹی طلب کرنے اور املاک ضبط کرنے کے اختیارات دیے گئے۔ جو کسر رہ گئی وہ ۸جون کو Newspaper (Incitement to offences) Act 1908 کے نفاذ نے پوری کر دی۔ جس کی رُو سے مجسٹریٹوں کو مقدمے کی سماعت سے قبل ہی پریس ضبط کرنے کا حق دیا گیا اور جس کے تحت ۱۴سال اور ۲۰سال تک کی قید رکھی گئی۔ پھر فروری ۱۹۱۹ء میں ’رولٹ ایکٹ‘پاس کیا گیا، جس نے صحافت کو اُلٹی چھری سے ذبح کر دیا اورجس کے خلاف بے مثال ملک گیر احتجاج ہوا۔

ان قوانین کو استعمال کر کے ہزاروں افراد پر مقدمے چلائے گئے اور بلاشبہہ لاکھوں افراد کو جیلوں میں ٹھونسا گیا۔ ایک ایک شہر کی جیلوں میں تین تین اور چار چار ہزار آدمی بند کیے گئے۔ گرفتاریاں اس پیمانے پر ہوئیں کہ جیل کی عمارتیں ناکافی ثابت ہوئیں اورخیمے لگا کر اور فوجی کیمپ قائم کر کے آزادی کے سپاہیوں کو محبوس کیا گیا۔

قتل کے کیا کیا سامان؟

اخبارات کو بند کرنے اور ان سے ضمانتیں طلب کرنے کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا اور بلاشبہہ سامراج نے آخری ۵۰برسوں میں سیکڑوں اخبارات اور رسائل کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا۔ اندازہ اس بات سے کیجیے کہ:

  • صرف ایک سال میں، یعنی ۱۹۳۴ء میں، صرف ایک صوبہ، یعنی بنگال میں دو ہزار ایک سو نظربند (detenus) تھے۔ یعنی وہ جو مقدمہ چلائے بغیر جیل کے باڑے میں بند کردیے گئے تھے۔ جن پر بغاوت اور قانون شکنی (بسلسلہ سول نافرمانی) وغیرہ کے مقدمات چلے تھے، وہ الگ رہے۔ تشدد اور عدم رواداری کی انتہا یہ ہے کہ رابندر ناتھ ٹیگور [۱۸۶۱ء-۱۹۴۱ء] جیسے شخص کو، ایک غیرسیاسی مضمون پر وارننگ دی گئی اور جس رسالے نے اُن کا وہ مضمون شائع کیا تھا، اُس کے خلاف فوج داری بنیاد پر کارروائی کی گئی۔
  • صرف پانچ سال، یعنی ۱۹۳۰ء سے ۱۹۳۵ء تک صرف مرکزی حکومت نے ۵۱۴ اخبارات (رسائل وغیرہ کو چھوڑیئے) سے ضمانتیں طلب کیں، ۳۴۸ کی اشاعت بند ہوئی اور  بطور زرِ ضمانت کے ۲لاکھ ۵۲ ہزار۸سو ۵۲ روپے حکومت نے وصول کیے۔
  • ’کرمنل امینڈمنٹ ایکٹ‘ کا بڑے پیمانے پر استعمال ہوا اور صرف ۱۹۳۲ء میں کئی سو تنظیموں کو اس کے تحت غیرقانونی قرار دیا گیا۔ کانگریس کے ساتھ جن اداروں کو خلافِ قانون قرار دیا گیا اُن کی فہرست کئی صفحات پر پھیلی ہوئی تھی اور ان کی تعداد کئی سو سے تجاوز تھی۔{ FR 847 }

یہ صرف چند برسوں کی داستان ہے۔ اسی پر پورے دورِ استبداد کا اندازہ کرلیجیے:

قیاس کن ز گلستان من بہار مرا

آرڈی ننس کا راج

قانون ساز اداروں میں سامراجی حکمرانوں کو قابلِ اعتماد اکثریت حاصل تھی اور اپنے  من مانے قوانین بلادقّت منظور کراسکتے تھے، لیکن اس کے باوجود پورے ملک پر آرڈی ننسوں کا راج تھا۔ زندگی کے ہر شعبے کو آرڈی ننسوں کے ذریعے جکڑ دیاگیا تھا اور اسمبلیوں کی حیثیت محض ربڑ کی مہر کی ہوگئی تھی۔ سر سیمویل ہور سیکرٹری آف اسٹیٹ براے ہند نے برطانوی پارلیمنٹ میں  کہا کہ: ’’میں اعتراف کرتا ہوں کہ جو آرڈی ننس ہم نے نافذ کیے ہیں، وہ نہایت سخت اور انتہا درجے کے جابرانہ ہیں۔ یہ آرڈی ننس اہلِ ہند کی زندگی کے تقریباً ہرپہلو پر حاوی ہیں‘‘۔

چودھری خلیق الزماں آرڈی ننسوں کے اس حربے کے بارے میں رقم طراز ہیں کہ: ’’گاندھی جی [۱۸۶۹ء-۱۹۴۸ء] کی گرفتاری کے بعد وائسراے نے ایک آرڈی ننس نکال کر، کانگریس کے تمام دفتروں کو ناجائز قرار دے دیا اور انھیں بند کرا دیا۔ سول نافرمانی کرنے والوں کو اب صرف جیل کی سزا ہی نہیں دی جاتی تھی، بلکہ ان کی جایداد بھی ضبط کرلی جاتی… وائسراے کا یہ نیا نسخہ بہت کڑوا تھا‘‘۔

خون کی ہولی

بے رحم ظالموں نے اس ملک میں کیا کچھ کیا، اس کا اندازہ اُن سیکڑوں واقعات سے ہوسکتا ہے، جن میں انسانوں کے خون سے بے رحمی کے ساتھ ہولی کھیلی گئی۔ ایسے ہی واقعات میں سے ایک جلیانوالہ باغ کا واقعہ [۱۳؍اپریل ۱۹۱۹ء]ہے۔

فروری ۱۹۱۹ء میں منظور شدہ ’رولٹ ایکٹ‘ ۱۸مارچ کو نافذکر دیا گیا۔ جس پر ملک بھر میں احتجاج شروع ہوگیا۔ تحریک ِ خلافت اور ستیہ گرہ کی تحریک، دونوں کا اثر پورے ملک میں اپنے شباب پر تھا۔ اُسی دور کے اُبھرتے ہوئے مسلمان لیڈر ڈاکٹر سیف الدین کچلو [۱۵جنوری ۱۸۸۸ء- ۹؍اکتوبر ۱۹۶۳ء] نے امرتسر میں جلسے کا اعلان کیا، لیکن انھیں جلسے کے منعقد ہونے سے پہلے ہی گرفتار کرلیا گیا۔ احتجاجی جلوس نکلا تو پولیس نے دخل اندازی کرکے بات پتھرائو، لاٹھی چارج  اور گولیوں تک پہنچا دی۔ اہلِ ہند تو خدا جانے کتنے رزقِ خاک بن گئے اور جوابی طور پر پانچ انگریز بھی اس میں کام آئے۔

پھر کیا تھا، شہر کو پولیس کے حوالے کر دیا گیا اور فوج کرنل ڈائرکی قیادت میں نہتے شہریوں کے خلاف صف آرا ہوگئی۔ جلیانوالہ باغ میں احتجاجی جلسہ ہورہا تھا۔ باغ چاروں طرف سے بند تھا، صرف ایک دروازہ کھلا تھا اور اس سے کرنل ڈائر رائفلوں سے مسلح سپاہیوں کے ساتھ دندناتا ہوا داخل ہوا۔ وارننگ کے نتائج واثرات کا بھی انتظار نہ کیا اور اندھادھند فائرنگ شروع کر دی گئی۔ اُس کے اپنے اعتراف کے مطابق ۱۶۹۹ گولیاں چلائی گئیں اور فائرنگ اس وقت بند کی گئی جب اسلحہ ختم ہوگیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ۴۰۰ لاشیں تڑپنے لگیں اور ہزار سے زیادہ افراد زخمی ہوئے۔ شاید کرنل ڈائر کی ایک بھی گولی خالی نہ گئی۔

بات جلسے تک نہ رہی، پورے شہر کو ظلم و استبداد اور وحشت و درندگی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ لوگوں کا گھروں سے نکلنا دوبھر ہوگیا۔ ایک پوری بارات کو جس میں دولہا بھی شامل تھا، بلاوجہ پکڑ کر کوڑوں سے پٹوا ڈالا گیا۔ ریل گاڑی میں ہندستانی باشندوں کے سفر کی ممانعت کر دی گئی۔ عورتوں کی کھلے منہ بے حُرمتی کی گئی۔ امرتسر میں ایک گلی مقرر کی گئی، جس میں سے ہر شخص کو پیٹ کے بل رینگتے ہوئے گزرنا پڑتا تھا۔جس شخص کو جو گورا نظر آئے، لازم کیا گیا کہ اس کو سلام کرے، ورنہ کوڑے مارے جائیں گے۔ فوج کی طرف سے جو اشتہار لگائے گئے اُن کی حفاظت انھی اہلِ خانہ کے سپرد کی گئی، جن کے گھر کی چہاردیواری پر انھیں آویزاں کیا گیا تھا۔ اشتہار پھٹنے کی صورت میں اہلِ خانہ کے لیے سزا مقرر کی گئی۔ سر فضل حسین [۱۸۷۷ء-۱۹۳۶ء]، خلیفہ شجاع الدین [۱۸۸۷ء-۱۹۵۵ء] اور پیر تاج الدین [۱۸۷۸ء-۱۹۵۴ء] جیسے معززین کے مکانوں پر بھی اس قسم کے اشتہار چسپاں کیے جاتے تھے اور انھیں تمام دن مکان سے باہر کھڑے رہنے کی ذلّت برداشت کرنا پڑتی تھی۔

اس سب پر مستزاد، فوجی عدالتیں تھیں، جنھوں نے پلک جھپکتے ہی۲۹۸ مقدمات کا فیصلہ سنادیا۔ ۵۱ کو سزاے موت، ۴۶ کوعمرقید، دو کو ۱۰سال کی قید، ۶۹ کو سات سال کی، ۱۰ کو پانچ سال کی قیدبامشقت اور ۱۳۰ کو تین برس سزا دی گئی۔ پھر ’عدالت‘ کا جو ڈھونگ رچایا گیا،اس میں یہ جدت بھی کی گئی کہ ملزموں کو وکیل کے ذریعے اپنے دفاع کا حق نہ تھا۔

جباروں کی یہ فطرت رہی ہے کہ وہ عدالت کے ذریعے بھی انصاف کے دروازے بند کیا کرتے ہیں۔ انصاف سے ان کی ازلی دشمنی ہوتی ہے! اور یہ بھی ایک دل خراش حقیقت ہے کہ بقول چودھری خلیق الزماں، جلیانوالہ باغ، امرتسر پر حملہ آور جنرل ڈائر کی یہ ’فوج‘ ۵۰؍ انگریز سپاہیوں اور ۱۰۰ ہندستانی جوانوں پر مشتمل تھی۔

ظالم ظلم کے لیے بھی مظلوموں ہی کے اپنوں میں سے کچھ کو استعمال کرتے ہیں اور ان کو ایسی ذلّت آمیز مدد کرنے والے مل ہی جاتے ہیں۔ اہلِ ہند کے خون سے یہ ہولی صرف امرتسر میں نہیں، پورے ملک میں کھیلی گئی۔ ہم نے صرف ایک واقعے کا تذکرہ کیا ہے۔ ورنہ یہی خونیں کہانی، مسجد شہید گنج، مسجد کانپور، قصہ خوانی بازار، موپلوں کی پوری پوری بستیوں اور بیسیوں جگہ دُہرائی گئی۔

ظالمانہ اقتدار کی ’برکتیں‘

پنجاب میں اس خونیں ڈرامے کے علاوہ جو مظالم ہو رہے تھے، ان کے بارے میں  نیشنل کانگریس کی ایک کمیٹی نے مفصل رپورٹ تیار کی تھی، جس کا ایک اقتباس یہاں دیاجاتا ہے:

اوڈوائر { FR 760 } نے قانون تحفظ ہند سے ناجائزفائدہ اُٹھا کر حددرجہ معمولی اور پیش پا افتادہ عُذر تراش کرکے سیکڑوں آدمیوں کو جیل میں بند کر دیا۔ اُردو اخبارات کا گلا گھونٹ دینے میں کوئی کسر باقی نہ رہی اور بیرونِ پنجاب چھپنے والے قومی اخبارات کی پنجاب میں آمد روک دی گئی۔ حد یہ ہے کہ اُردو کے وہ اخبار جو چھپنے سے پہلے حکومت کے ہاتھوں باقاعدہ سنسر کیے جاتے تھے، اُن کی اشاعت بھی بند کردی گئی۔ اب پنجاب میں نہ تقریر کی آزادی باقی تھی اور نہ تحریر کی آزادی کا وجود تھا۔ اس قسم کا سکوتِ مرگ طاری کرکے اور اس طرح لوگوں کے قلم اور زبان پر پہرے بٹھا دینے کے بعد اوڈوائر نے گویا یہ سمجھ لیا تھا کہ پنجاب کے باشندے اس کے زیرسایہ بالکل مطمئن اور خوش حال زندگی بسر کر رہے ہیں۔{ FR 854 }

یہ تھا وہ سلوک جو اس ملک کے باشندوں کے ساتھ سامراجی حکمران کر رہے تھے۔ ظلم کا  یہ خونیں ڈراما پورے ملک میں کھیلا جارہا تھا۔ غم کسی ایک غنچے کا نہیں، رونا پورے گلستان کا تھا۔   ظلم و استبداد کی آکاس بیل پورے چمنِ ہند پر چھا گئی تھی اور اہلِ نظر خون کے آنسو رو رہے تھے۔

4

ظلم و استبداد کی یہ خوں چکاں داستان بڑی دل خراش بھی ہے اور نہایت عبرت انگیزبھی۔ لیکن اس کا ایک پہلو اتنا شرم ناک ہے کہ شیطان بھی اس پر عش عش کر اُٹھا ہوگا۔ ہم پہلے دیکھ چکے ہیں کہ استبداد اور ظلم تاویلات کے ریشمی لبادے اُوڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ظالم ہمیشہ لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں :جو کچھ ہم کر رہے ہیں، وہ عوام ہی کے فائدے اور بھلائی کی خاطر کر رہے ہیں۔ جو طریقِ حکمرانی انھوں نے اختیار کیا ہے وہ ملک کے حالات اور لوگوں کے مزاج کے بالکل مطابق ہے۔ صرف انھی کا بنایا ہوا نظام حقائق سے مطابقت رکھتا ہے اور جو کوئی ان کے ظلم و زیادتی کے خلاف آواز اُٹھاتا ہے یا ان کے طریقے سے اختلاف کرتا ہے، وہ شرپسند، فسادی، ملک دشمن اور سولی چڑھا دینے کے لائق ہے۔ آزادیوں پر پابندی  بے حد ضروری ہے۔ جمہوریت کے لیے فضا سازگار نہیں ہے، حقوق کی بحث محض مفاد پرستوں کی اُٹھائی ہوئی ہے۔ انتخابات اور عوام کے حق راے دہی کے مطالبے محض سیاسی ڈھکوسلے ہیں۔ نمایندہ اداروں میں عوام کے منتخب اور معتمدعلیہ لوگوں کو لیے جانے کے مطالبے محض خودغرضی پر مبنی ہیں اور سیاسی انتشار پیدا کرنے کے لیے ہیں اور ان سب باتوں کا مقصد حکومت کے وقار اور  حقِ حکمرانی کو مجروح کرنا ہے۔ اصل مسئلہ نہ آزادی سے متعلق ہے اور نہ حقوق، نمایندگی، انتخابات یا جمہوریت سے کچھ تعلق رکھتا ہے۔ اصل ضرورت تو بس مضبوط حکومت اور معاشی ترقی اور خوش حالی کی ہے، اور ساری سیاسی فتنہ انگیزی صرف اس لیے ہے کہ توجہ ان اصل اُمور سے ہٹ کر آزادی اور سیاسی حقوق جیسے لایعنی نعروں پہ لگ جائے اور انتشار رُونما ہو!

ظالم اپنے ظلم کے لیے ایسی ہی تاویلیں تراشتے ہیں، جن کی بنیاد پر ان کا اقتدار استبداد پر قائم ہو۔ اپنی ہر زیادتی کے لیے وہ ایسے ہی جوازپیش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ہرذلیل سے ذلیل حرکت کو خوش نما بنا کر پیش کرنے ہی کی کوشش کرتے ہیں۔ دوسروں کی نیتوں پر بے دریغ حملے کرتے ہیں اور آزادی، جمہوریت اور عوامی اصلاح کی ہر تحریک کی مخالفت کرتے ہیں، اس کا مذاق اُڑاتے ہیں، اس کا راستہ روکتے ہیں، اسے نقصان دہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور نظامِ ظلم ہی میں عوام کے لیے ’خیروفلاح‘ کے پہلو نکال نکال کر دکھاتے ہیں۔

یہ ہے وہ ذہن، جس سے سامراجی حکمرانوں نے اس ملک پر ۱۸۵۷ء سے ۱۹۴۷ء تک حکومت کی، اور جب حالات سے تنگ آکر انھیں اقتدار چھوڑنا پڑا، تب بھی وہ ملک پر احسان رکھ کر رخصت ہوئے۔ آیئے، سامراجیوں، جباروں اور ظالموں کے ذہن کے اس پہلو پر بھی ایک سرسری نگاہ ڈالیں، تاکہ تاریخ برعظیم کا یہ گوشہ بھی ہمارے سامنے آجائے۔

’ظلم نہیں، محض اداے فرض‘

سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ ظالم جو کچھ بھی کرتا ہے،وہ یہ باور کرانے پر زور لگاتا ہے کہ  وہ یہ سب کچھ ’احساسِ فرض‘ سے مجبور ہوکر کرتا ہے، جو بالکل صحیح ہوتا ہے۔ اس سے غلطی سرزد نہیں ہوتی۔ وہ پورے اعتماد کے ساتھ سارا کھیل کھیلتا ہے اور اسی میں دوسروں کی فلاح سمجھتا ہے۔ دیکھیے جنرل ڈائر، جلیانوالہ باغ کے خونیں ہنگامے کی تحقیقات کرنے والی ’ہنٹر کمیٹی‘ کے سامنے شہادت دیتے ہوئے کیا کہتا ہے؟

سوال: مسٹر جسٹس رنکن: معاف کیجیے جنرل، اگر میں آپ سے یہ کہوں کہ آپ کی جلیانوالہ باغ میں کل کارروائی خوف و ہراس پھیلانے کے لیے کی گئی تھی، تو؟

جواب:جنرل ڈائر: نہیں، بالکل ایسا نہیں تھا۔ مجھے ایک بہت اندوہناک فرض (duty) ادا کرنا تھا۔میرا خیال یہ ہے کہ جوکچھ میں نے کیا وہ ایک رحم دلانہ اقدام (merciful thing) تھا۔ کیوں کہ مَیں سمجھتا تھا کہ مجھ کو گولی چلانی ہے اور سخت گولی چلانی ہے تاکہ میرے بعد کسی اور کو گولی چلانے کی ضرورت نہ پڑے۔یہ بالکل ممکن ہے کہ میں مجمعے کو گولی چلائے بغیر منتشر کردیتا، لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ وہ تھوڑی دیر بعد دوبارہ جمع ہوجاتے اور ٹھٹھے لگاتے اور میں بے وقوف بن کر رہ گیا ہوتا۔

واقعی لوگوں کو ہنسنے کا موقع دینے سے بڑا ’جرم‘ اور کیا ہوسکتا ہے؟ جو کام خون کی ایک بوند بھی بہائے بغیر ہوجائے، اس سے بھلا شانِ حکمرانی کا اظہار کہاں ہوسکتا ہے؟ اور پھر کمزور اور    بے وقوف عوام، صاحب ِ اختیار حکمرانوں کا مذاق اُڑائیں، یوں انھیں بے وقوف بنائیں؟ ان کا تو علاج ہی یہ ہے کہ ان کو توپ سے اُڑا دیا جائے، گولیوں کی بوچھاڑ سے بھون ڈالا جائے تاکہ یہ سراُٹھانے کے لائق ہی نہ رہیں، اور یہ ’رحم دلانہ‘ کام احساسِ فرض کے ساتھ انجام دو، کہ خون میں  تڑپتی ہوئی لاشوں کا رقص، نہتے اور پُرامن انسانوں کی ہنسی ٹھٹھے سے زیادہ خوش کن ہوتا ہے۔ جب تک پانی کی جگہ خون نہ بہالیا جائے، ظالم کی پیاس نہیں بجھتی!

’جمہوریت کے لیے ناموزوں‘

پھر سامراجی حکمران اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ ملک جمہوریت کے لیے قطعاً ناسازگار ہے۔ عوام میں اتنا شعور نہیں کہ اپنا مفاد خود سمجھ سکیں۔ اس لیے انھیں ’سیاسی مائی باپ‘ کی ضرورت ہے، جو ان ناپختہ ، ناسمجھ، نابالغ اور آسانی سے گمراہ ہوجانے والے عوام کو ان کا ’بھلا‘ سمجھائے اور یہ سمجھیں یہ نہ سمجھیں، مگر حکمران انھی کے ’بھلے ‘کے لیے سرگرمِ عمل ہوجائیں اور زبردستی ان سے وہ کچھ کرائیں، جسے یہ اپنی نادانی میں بُرا سمجھ رہے ہیں۔ اصل ’خیرخواہ‘ تو وہی ہے، جو نادانوں کی بات کو نظرانداز کرکے وہی کرے، جو اس کے خیال میں ان کے لیے بہترہے۔

یہی ہے وہ راگ جو سامراجی دورِ استبداد کے حکمران برابر الاپتے رہے، ملک اور ملک سے باہر ان کے ہم نوا دانش ور، مفکر، مصلح،معلم اور صحافی سب اس آواز میں آواز ملاتے رہے۔ یہاں صرف چند نمایندہ مثالیں دی جاتی ہیں، ورنہ اس پہلو سے تو اتنا مواد ہے کہ اس سے متعدد کتابیں تیار ہوسکتی ہیں۔

برطانیہ کے مشہور آزاد خیال مدبر جان مورلے [۱۸۳۸ء-۱۹۲۳ء] نے بیان دیا: ’’ہندستان کے لیے جمہوریت قطعاً مفید نہیں، صرف مستقبل قریب ہی میں نہیں بلکہ میں تو صاف دیکھتا ہوں کہ مستقبل بعید میں بھی اس کا کوئی امکان نہیں کہ یہ خطّۂ زمین جمہوریت کے لیے سازگار ہوسکے‘‘۔

برطانیہ کے استعماری اور آمرانہ ذہن کا بہترین ترجمان پنجاب کا لیفٹیننٹ گورنر سر مائیکل اوڈوائر تھا۔ اس کی تمام تقاریر و تحریریں ایک استبدادی ذہن کی آئینہ دار ہیں۔ ہم چند اہم قومی مواقع پر اس کی تقاریر سے بطورِ نمونہ دو چار اقتباس پیش کرتے ہیں، تاکہ ظالم سامراجی حکمرانوں کا ذہن پوری طرح بے نقاب ہوجائے۔ اس سے ان کے استدلال کے طریقے، عوامی تحریکات اور مطالبات پر ان کا ردعمل اور لوگوں کو مطمئن کرنے (یعنی بے وقوف بنانے یا دراصل خود بے وقوف بننے) کے حربے بے نقاب ہوتے ہیں۔

’استحکام‘ نہ کہ ، عوامی نمایندگی

گورنری کے عہدے پر متمکن ہونے کے بعد اوڈوائر نے حالات کا جائزہ لیا، تو آزادی اور جمہوری اختیارات کی تحریک اس کے دل میں کانٹے کی طرح چبھی اور اس نے طے کرلیا کہ    وہ حکومتی استحکام اور عوام کی فلاح کا ایک فلسفہ گھڑ کر تحریک ِ آزادی کے چہرے پر کالک مل کر رہے گا۔ ایسی کسی چیز کوبرداشت کرنا نظامِ ظلم کی فطرت کے خلاف ہے لیکن ظالموں اور فرعونوں میں اتنی اخلاقی جرأت کہاں کہ صاف صاف  اس کا اعتراف کریں۔ اب یہاں دیکھیے انگریز گورنر اوڈوائر کی نکتہ آفرینیاں:

مجھے صوبائی حکومت کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ابھی کچھ زیادہ وقت نہیں گزرا کہ میرے پاس بعض لوگوں نے ایسی تجاویز بھیجنا شروع کر دی ہیں، جن کا مقصد یہ ہے کہ آیندہ اس صوبے کے نظم و نسق میں کیا کیا اصلاحات ہونی چاہییں۔ علاوہ ازیں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ حکومت ِ خود اختیاری کے حصول کے لیے عوام جو اُمیدیں اور آرزوئیں قائم کیے بیٹھے ہیں، مجھے ان کی پذیرائی کیونکر کرنی چاہیے۔ عدالتی اور انتظامی اُمور کو ایک دوسرے سے الگ کر دینے کی بھی تحریک ہورہی ہے۔ میں یہ بتادینا چاہتا ہوں کہ اس قسم کی خیالی اور غیرحقیقی باتیں اپنی جگہ کتنی ہی دل کش اور جاذبِ نظر کیوں نہ ہوں، اَمرِواقعہ یہ ہے کہ حکومت کا اصل مقصد صرف یہ ہے کہ عوام کے جان و مال کی حفاظت کی جائے۔ اگر یہ مختلف تجویزیں [یعنی جمہوری تقاضوں کی تجاویز] بھیجنے والے لوگ مجھے یہ بتاتے کہ حکومت کو اپنے اصل مقصد سے عہدہ برآ ہونے کے لیے کون سے بہتر ذرائع اختیار کرنے چاہییں، تو وہ اپنی قوم اور صوبے پر زیادہ احسان کرتے۔

’تنہا حاکمِ اعلٰی‘

جب اس ’قیمتی نصیحت‘ کا کوئی خاص اثر نہ ہوا اور جمہوری اداروں کا مطالبہ بڑھتا چلا گیا، عوام کی نمایندگی کے لیے ہر طرف سے آوازیں اُٹھنے لگیں اور گورنر سے نمایندہ انتظامی کو نسل کی ضرورت پر شدت سے اصرار کیاجانے لگا، تو اوڈوائر صاحب کو سخت غصہ آیا اور وہ ’استحکام‘ اور ’ترقی‘ کا سہارا لے کر عوام پر یوں برسے:

مجھے یہ تجویز سن کر بے حد تعجب ہوا ہے۔ اس صوبے کے لوگ ابتدا سے لیفٹیننٹ گورنر کو صوبے کا تنہا حاکمِ اعلیٰ اور یہاں کے نظم و نسق کا بلاشرکت غیرے واحد ذمہ دار سمجھنے کے عادی ہیں۔ اس نظام کے تحت پنجاب نے خوب ترقی کی ہے اور مَیں فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ اس ضمن میں پنجاب، ہندستان کے کسی صوبے سے پیچھے نہیں رہا۔ پھر بتایئے کہ انتظامی کونسل کی کیا ضرورت ہے؟ 

گویا کہ فی الحقیقت ایسے ’استحکام‘ اور ایسی ’ترقی‘ کی موجودگی میں نمایندہ کونسلوں ، اور جواب دہ اداروں کے مطالبے کا مقصد بجز ’انتشار‘ پھیلانے کے اور کیا ہوسکتا ہے!

آہ! دیہاتی! سیاست چھوڑ

بات انتظامی کونسل ہی کے مطالبے پر نہ رُکی، بلکہ نمایندہ قانون ساز اسمبلی، آزاد انتخابات اور عوام کے حق راے دہی تک پہنچی۔ اب تو تنہا حاکمِ اعلیٰ اور بلاشرکت غیرے واحد ذمہ دار صاحب کا پارہ ہی چڑھ گیا۔ گویا ہوئے:

آج کل یہ عالم ہے کہ چاروں طرف سے سیاسی تقریروں کا شور سن کر ہمارے کان بہرے ہوئے جارہے ہیں اور سیاسی دستاویزوں اور یادداشتوں کی بھرمار دیکھ دیکھ کر ہماری آنکھیں چندھیائی جارہی ہیں۔ کیا اس شوروشغب میں میرا یہ کہنا مناسب نہیں کہ اس طوفانِ بدتمیزی کو ختم کر کے ہمیں اپنے دل و دماغ کو لایعنی تصورات اور بے مصرف توہمات سے پاک کر دینا چاہیے، اور لمحے بھر کے لیے سوچنا چاہیے کہ آخر اس ساری سیاسی شعبدہ بازی کا ان غریب دیہاتیوں کو کیا فائدہ پہنچے گا، جن کی زندگیاں ہل چلانے، فصلیں بونے اور پھر ان فصلوں کو آفاتِ ارضی و سماوی سے محفوظ رکھنے کے لیے وقف ہوچکی ہیں۔

اللہ اللہ ، دیہاتیوں کی قسمت کہ کون ان کے حقوق، قوم کو یاد دلارہاہے!

کمیشن رپورٹیں دریا برد کردو!

لیکن اسے کیا کہیے کہ ’سیاسی شعبدہ بازوں‘ کے ’لایعنی تصورات‘ برابر مقبول ہوتے گئے اور سیاسی اصلاحات کے لیے حکومت کو کمیٹی پر کمیٹی اور کمیشن پر کمیشن بٹھانے پڑے۔ ’مانٹی گوچیمس فورڈ کمیشن‘  قائم ہوا اور اوڈوائر بھی اس کا معزز رکن تھا۔ تمام حالات کا جائزہ لے کر کمیشن اس نتیجے پر پہنچا کہ عوام کو کچھ نہ کچھ حقوق دینے پڑیںگے اور کسی نہ کسی درجے میںعوامی نمایندگی کا اہتمام کرنا ہوگا۔ کمیشن ہزار سرکاری سہی، اور سرکار ہی کے نامزد افراد پر مشتمل سہی، لیکن حقائق سے کہاں تک چشم پوشی کرسکتا ہے؟

مگر واہ رَے ’دیہاتیوں کی فلاح‘ اور ’عوام کے مفاد‘ کا محافظ! کمیشن کچھ بھی کہے گورنر اوڈوائر اپنی بات پر قائم ہے۔اختلافی نوٹ میں اوڈوائر نے نام لے لے کر مسٹر محمدعلی جناح ، ڈاکٹر اینی بیسنٹ [م:۲۰ستمبر ۱۹۳۳ء] اور راجا صاحب محمود آباد [م:۲۳مارچ ۱۹۳۱ء]کوبُرا بھلا کہا۔ اس نے ان لیڈروں کی نیتوں پر حملہ کرکے انھیں خودغرض اور شورش پسند قرار دیا۔ ہوم رول تحریک کی جی بھر کر مذمت کی اور ملک کے تعلیم یافتہ طبقے کو عوام کا بدخواہ ظاہر کیا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کو اس نے ایک نہایت غیرنمایندہ جماعت قرار دے کر حکومت کو متنبہ کیا کہ مسلم لیگ نے مسلمان عوام کی نمایندگی کا جو دعویٰ کیا ہے، وہ سراسر غلط اور بے بنیاد ہے۔ اور آخر میں لکھا: 

یہ امر بالکل واضح ہے کہ اصلاحات کا تقاضا ملک کے عوام نے بالکل نہیں کیا۔ حالاںکہ عوام ہی کے مفاد کی نگہداشت حکومت کا فرض اوّلین ہونا چاہیے۔ یہ مطالبہ ہندستان کے باشندوں کی ایک نہایت قلیل تعداد کی طرف سے پیش ہوا ہے، جو محض اپنی ذاتی اغراض کی وجہ سے اقتدار کی خواہاں اور عہدوں کی بھوکی ہے۔ اگر ہمیں اپنے اس عہد کا کچھ پاس ہے، جو ہم نے ہندستان کی بے زبان مخلوق کی حفاظت کے لیے کیا تھا تو بلاشبہہ ہمارا یہ فرض ہونا چاہیے کہ ہم اس بے زبان رعایا کے مفاد کو مقدم درجہ عطا کریں، اور سیاسی لیڈروں کے شوروشغب کی کچھ پروا نہ کریں، خواہ وہ اس شور سے قیامت ہی کیوں نہ برپا کردیں۔ میں یہاں[ایڈمنڈ] برک [م: ۹جولائی ۱۷۹۷ء]کے وہ یادگار الفاظ درج کرنے پر مجبور ہوں کہ: اگر میدان کے کسی گوشے میں جھاڑی کے نیچے نصف درجن ٹڈے جمع ہوکر اپنی ٹیں ٹیں کے مکروہ شور سے آسمان سر پر اُٹھا لیں اور اسی میدان میںشاہِ بلوط کے اُونچے اُونچے سایہ دار درختوں کے نیچے سیکڑوں گائے، بھینسیں اطمینان سے بیٹھی جگالی کر رہی ہوں، تو ہمیں اس غلط فہمی میں ہرگز مبتلا نہیں ہونا چاہیے کہ میدان میںصرف چیخ پکار کرنے والے ٹڈے ہی آباد ہیں۔ اس سارے قضیے میں جو چیز بالکل عیاں اور واضح ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ ان مجوزہ اصلاحات کا خاکہ تیار کرنے میں ہمارے سامنے صرف تعلیم یافتہ جماعت کے ایک محدود طبقےکی خوش نودی تھی۔ کیا ہمارا یہ فعل کسی اعتبار سے عقل مندی یا دانائی کی دلیل سمجھا جاسکتا ہے؟تعلیم یافتہ جماعت کا یہ محدود طبقہ، جس کی خوش نودی کو ہم نے ہرحال میں مقدم سمجھ رکھا ہے، یہ دیہات کے عوام کی نمایندگی کا بھی دعوے دار ہے، حالاں کہ یہ دعویٰ قطعاً غلط اور بے بنیاد ہے۔

میرے اس قول کی صداقت کو آزمانے کے لیے آپ جو معیار چاہیں مقرر کرلیں، اس میں: مذہبی فسادات کی روک تھام کا سوال ہو یا فرقہ وارانہ اختلافات کو مٹانے کا مسئلہ درپیش ہو، فوجی بھرتی کے لیے رنگروٹوں کی فراہمی کا معاملہ ہو یا ملک کے دفاع کا سوال پیش نظر ہو، ہرحال اور ہرصورت میں شہروں کے تعلیم یافتہ سیاسی لیڈر آگے آنے کے بجاے گھروں میں بیٹھ جاتے ہیں۔ ملک وقوم کے لیے مفید اور نفع بخش تحریکوں میں شرکت کرنا یہ لوگ گناہ سمجھتے ہیں۔ ہاں، جہاں فتنہ و فسادبرپا کرنے یا شرانگیزی کی آگ بھڑکانے کی گنجایش ہوگی، آپ ان کو ہمیشہ آگے آگے پائیں گے۔

کیا آپ سمجھے کہ یہ ’فتنہ و فساد اور شرانگیزی کی آگ بھڑکانے والے‘ کون ہیں؟ تاجِ برطانیہ کے سرخیل سر مائیکل اوڈوائر، مسلم قائدین کی نیتوں پر حملے کرتے ہیں۔ ظالم حکمرانوں کا خاصا ہے کہ وہ صرف تعمیری اور اصلاحی تحریکوںکی مخالفت ہی نہیں کرتے بلکہ اپنے معزز مخالفین کو بدنیت اور بدقماش بھی کہتے ہیں۔ وہ اپنی آنکھ کے بڑے بڑے شہتیروں کو نظرانداز کردیتے ہیں اور دوسروں کی آنکھ میں کوئی تنکا نہ بھی ہوتو وہاں ان کو شہتیر ہی شہتیر نظر آنے لگتے ہیں اور ظالم حکمرانوں کو چبھتے بھی ہیں۔

اس ڈھٹائی کی انتہا ہـے کوئی

اوڈوائر ہر بے ہودہ سے بے ہودہ اور ظالمانہ سے ظالمانہ قانون کی مدافعت کے لیے سینہ سپر ہوجاتا ہے۔ رولٹ ایکٹ جو انتہائی سفاکانہ قانون تھا، جس کے متعلق سارا ملک چیخ اُٹھا تھا اور جسے وائسراے ہند کو اپنے خصوصی اختیارات سے نافذ کرنا پڑا تھا کہ انگریزوں کے اپنے ادارے (قانون ساز اسمبلی) کے غیرسرکاری ارکان میں سے ایک بھی تائید کے لیے تیار نہ تھا (کم از کم اس وقت اتنی غیرت تو تھی)۔ جس کے استبدادی انداز سے (arbitrarily) نافذ کرنے پر قائداعظم نے مرکزی اسمبلی سے بطورِ احتجاج استعفا دے دیا تھا اور جس کے ظالمانہ ہونے کا احساس خود گورنمنٹ کوبھی اس درجہ تھا کہ ’راج ہٹ‘ میں اسے منظور تو کرلیا، لیکن عالم گیر احتجاج کے پیش نظر اس کی پوری مدتِ عمر جو تین برس تھی، اس میں ایک بھی اقدام نہ کیا۔اس گھنائونے قانون کی مدافعت کے لیے عوام کے ’مفاد کا محافظ‘ سر مائیکل اوڈوائر اس نفرت بھرے ذہن کے ساتھ کلام کرتاہے:

آپ نے گذشتہ ہفتوں کے واقعات [اشارہ ہے ’رولٹ ایکٹ‘ کے خلاف ملک گیر احتجاج اور اس کےبعد پیدا ہونے والی صورتِ حال کی طرف جس میں جلیانوالہ باغ کا خونیں واقعہ بھی شامل ہے] اپنی آنکھوں سے دیکھ لیے ہیں کہ ایک ایسے قانون کو، جو لوگوں کے جان و مال کی حفاظت کے لیے وضع کیا گیا تھا اور جس کا تنہا مقصد یہ تھا کہ بدامنی اور بغاوت کے طوفان کا سدباب کیا جائے، کس کس انداز سے توڑ مروڑ کر اور  مسخ شدہ صورت میں عوام کے سامنے پیش کیا جارہا ہے، تاکہ جھوٹ پر مبنی ان ہتھکنڈوں سے لوگوں کو گمراہ کرنے میں آسانی ہو۔ یہ سب کچھ ایک ایسے طبقے کے افراد کر رہے ہیں، جن کی تعداد بے حد قلیل ہے، لیکن شور مچانے اور چیخ پکار کرنے میں بہت ماہر ہیں۔ یہ لوگ اس قانون کو ایک خطرناک ہوّا بناکر عوام کو خوف زدہ کرنا چاہتے ہیں، حالاں کہ اس قانون کا مقصد صرف یہ ہے کہ غیرمعمولی حالات میں عوام کے جان و مال کی حفاظت کیوں کر کی جاسکے۔ موجودہ تحریک بے معنی اور غلط ہے۔ تحریک چلانے والوں کا مقصد یہ ہے کہ حکومت کے خلاف بددلی پھیلائی جائے اور سرکار[برطانیہ] کے نمک خواروں کو ذلیل کیا جائے۔ حکومت کے وفادار باشندوں کا فرض ہے کہ وہ اس شرانگیز تحریک کا مقابلہ کریں۔ آپ کے سیاسی خیالات کچھ بھی ہوں، آپ کا فرض ہے کہ حکومت کے دست و بازو بن کر موجودہ تحریک کو کچلنے میں ہماری مدد کریں۔{ FR 871 }

افسوس اس کا نہیں کہ اوڈوائر نے ایسی لچر،پوچ اور خیانت سے لبریز بات کہی۔ افسوس اس کا ہے کہ اہلِ ملک ہی میں سے اسے استبداد کے ہاتھ مضبوط کرنے والے مل گئے۔

راج ہٹ

جب حالات قابو میں آتے دکھائی نہیں دیتے ہیں تو سامراج کا گلِ سرسبد اور ظلم کا پیکر سرمائیکل اوڈوائر خون کی ندیاں بہانے کے لیے بھی آمادہ ہوجاتا ہے اور اس ’کارِخیر‘ کے لیے بھی اہلِ وطن ہی کی مدد حاصل کرتا ہے۔ اسی طویل تقریر میں آگے جاکر کہتا ہے:

حالات نازک صورت اختیار کرتے جارہے ہیں اور فوری اقدام کے محتاج ہیں۔ اب آپ مزید تامل نہ کیجیے اور فوراً کمرہمت باندھ لیجیے۔ حکومت نے تو گومگو کی پالیسی  ترک کر دی ہے۔ آپ بھی اُٹھ کھڑے ہوں ، حکومت اس مہم میں ہرلمحہ آپ کے لیے پشت پناہ ثابت ہوگی۔ حکومت نے قانون کے نفاذ کا مصمم ارادہ کرلیا ہے، خواہ اس کام میں خون کی ندیاں کیوں نہ بہہ جائیں۔ لیکن اگر ایسا ہوا تو یاد رکھنا چاہیے کہ اس تمام خون خرابے کی ذمہ داری ہم پر نہیں، بلکہ ان پر عائد ہوگی جو قانون شکنی کی تلقین کررہے ہیں[یعنی جو رولٹ ایکٹ کی مخالفت کی تحریک چلا رہے ہیں]۔

سرمائیکل اوڈوائر ایک فرد نہیں، بلکہ وہ استعمار کی زبان ہے، ظلم کا نمایندہ ہے، نظامِ استبداد کا ترجمان ہے اور اس کا ذہن آمریت کے ذہن کا آئینہ دار ہے۔ اس کی تقاریر میں وہ پوری فکر موجود ہے، جس کی حکمرانی برعظیم پاک و ہند پر رہی ہے اور جو ہمیشہ سے اربابِ ظلم کی ذہنیت رہی ہے۔ ایک ہی طرز پر سوچنے اور کام کرنے سے یہ ذہن اتنا پختہ ہوجاتاہے کہ صرف دوسروں ہی کے سامنے جھوٹ کو سچ، ظلم کو رحم اور استبداد کو استحکام بناکر پیش نہیں کرتا، بلکہ اپنے کو بھی دھوکا دینے لگتاہے اور یہ سمجھنے لگتا ہے کہ: ’’غلام اپنی زنجیروں سے محبت کرنے لگے ہیں اور ان کا قائم کردہ آمرانہ نظام دراصل ایک جمہوری اور نمایندہ نظام ہے اور عام انسانوں کی خواہش کےعین مطابق ہے‘‘۔

لارڈ لیٹن جو بڑے جمہوریت پسند اور برطانوی لبرل پارٹی کے ایک لیڈر تھے۔ وہ ہندستان میں ایک صوبے کے گورنر کے فرائض بھی انجام دے چکےتھے۔ ۱۹۳۵ء کے ’قانونِ ہند‘ کے آنے سے کچھ ہی قبل، اس وقت جب پورے ملک میں سیاسی بیداری کا غلغلہ تھا اور نمایندہ حکومت اور جمہوری اصلاحات کا مطالبہ ہورہا تھا، ہائوس آف لارڈز میں نہایت ڈھٹائی کے ساتھ فرماتے ہیں:

ہندستان کے سیاست دانوں اور کانگریس کے مقابلے میں حکومت ِ ہند کہیں زیادہ نمایندہ ہے۔ یہ حکومت سرکاری حکام، فوج، پولیس، نوابوں اور مہاراجوں اور ہندوئوں اور مسلمانوں کی فوجی یونٹوں کے نام پر اور ان کی طرف سے گفتگو کرسکتی ہے۔ مَیں جب ہندستان کی راے عامہ کی بات کرتا ہوں تو میری مراد وہ لوگ ہوتے ہیں، جن کے تعاون پر مجھے بھروسا کرنا ہوتا ہے اور جن کے تعاون پر آیندہ کے وائسراے اور گورنروں کو اعتماد کرنا ہوگا۔

یہ ہے وہ فلسفۂ حاکمیت جو استعماری حکمرانوں نے وضع کیا، ظلم و استبداد اور آمریت کے انتہائی گھنائونے نظام کا نام ’جمہوریت‘ اور ’نمایندہ حکومت‘ رکھا، اور عوام کے نام پر ان کے مفاد کا  نعرہ لگاکر انھی کا گلا گھونٹنے اور ان کو اُلٹی چھری سے ذبح کرنے کی سعی کی۔

5

یہ سامراجی دورِ اقتدار، نفاق، سیاسی دھوکے بازی اور بین الاقوامی غنڈا گردی کی بدترین مثال پیش کرتا ہے۔ اس کے ریکارڈ پر ایک نگاہ ڈالنے سے انسانیت شرم سے پانی پانی ہوجاتی ہے، ضمیر بغاوت کرتا ہے اور روح کانپ اُٹھتی ہے کہ انسان شیطان کا اتنا بڑا حلیف بھی بن سکتا ہے بلکہ اس سے دوچار ہاتھ آگے بھی نکل سکتا ہے۔

اس گھر کو آگ لگ گئی…

اس شرم ناک داستان کا ابھی ایک باب اور بھی ہے، جو انتہائی کریہہ اور گھنائونا ہے اور جس کے ذکر پر آنکھیں شرم سے جھک جاتی اور خون کے آنسو بہاتی ہیں۔ یہ ہے انگریزوں کے ہندستانی وفاداروں کا کردار!

اگر ظالم حکمران ہماری ہڈی پسلی ایک کر دیتے اور ایک ایک فرد کو ذبح کرڈالتے تو انسانیت خواہ اس پر کتنا ہی ماتم کرتی، لیکن اہلِ وطن کے لیے شرم و ندامت کا کوئی موقع نہ ہوتا___ اپنا سر فخر سے بلند کرکے کہہ سکتے کہ: ’’غیروں نے ہمارے اُوپر ظلم کیا اور ہم نے سینہ سپر ہوکر اس کا مقابلہ کیا‘‘۔

باعث ِ افتخار ہیں وہ مظلوم جنھوں نے اپنی جانیں دے دیں لیکن اپنے ضمیر نہیں بیچے۔ لیکن افسوس کہ خاکِ وطن ہی سے کچھ ایسے بے ضمیر بھی نکل آئے، جو ظالموں کا آلۂ کار بنے اور اس وقت جب استعمار اور استبداد کے نمایندے ابناے وطن کا گلا گھونٹ رہے تھے، انھوں نے فیصلہ کیا کہ ان ظالموں کے ہاتھ مضبوط کریں گے، تاکہ وہ مظلوموں کا گلا اور بھی قوت کے ساتھ گھونٹ سکیں، آہ!

جعفر از بنگال و صادق از دکن

ننگِ آدم و ننگِ دیں، ننگِ وطن

ملک کے غدار، سامراج کے وفادار

سامراجیوں کو آخری وقت تک ’میرجعفروں‘ اور ’میرصادقوں‘ کی بِس بھری فصل ملتی رہی اور انھوں نے ملک و ملّت کے ساتھ غداری ہی نہیں کی، بلکہ اپنی اس وفادار ذُریت کو بھی زندگی کے ہرشعبے پر مسلط کرنے اور آگے بڑھانے کی منظم اور مربوط کوشش کی۔ سفاک رومی شہنشاہ نیرو [م:۶۸ء] کا صرف یہ جرم تھا کہ جب روم جل رہا تھا تو وہ بانسری بجا رہا تھا، مگر پاک و ہند کے نیرو صرف بانسری ہی نہیں بجا رہے تھے بلکہ آگ پر تیل بھی چھڑک رہے تھے اور شعلوں کے اُٹھنے اور مظلوموں کے کراہنے اور چیخنے سے جو خوف ناک منظر رُونما ہورہا تھا، اس کے ’حُسن و جمال‘ کی تعریف میں تقریریں بھی کر رہے تھے۔ دل پر جبر کرکے اپنی تاریخ کے اس سیاہ باب سے بھی چند منتشر اوراق یہاں پیش کیے جارہے ہیں، تاکہ اس طبقے کا رُخِ کردار بھی سامنے رہے۔

اگر ملکی غدار انگریزوں کا ساتھ نہ دیتے تو وہ ہندستان کو کبھی فتح نہ کرسکتے تھے۔ ان کو یہاں سے مخبر اور فوجی ہی نہ ملے بلکہ اعلیٰ سرکاری افسر بھی مل گئے، جنھوں نے ملک اور حکومت سے غداری کی اور وطن کے دروازے غیروں کے لیے کھول دیے۔ نواب سراج الدولہ اور فتح علی ٹیپو سلطان [۱۷۵۰ء-۴مئی ۱۷۹۹ء] کو انگریزوں کی قوت نے زیر نہیں کیا، ان کی چالاکی اور عیاری اور اپنوں کی بے وفائی اور غداری نے شکست سے دوچار کیا، اور جب حفاظت و دفاع کی یہ دونوں مضبوط فصیلیں ٹوٹ گئیں تو انگریز پورے ملک پر حکمران ہوگیا   ع

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

انگریز کے پورے دورِ اقتدار میں ’سرکار پرستوں‘ کا ایک طبقہ تھا، جو استعماری حکمرانوں کے آگے پیچھے پھرتا رہا اور زندگی کے ہر شعبے میں ان کے اقتدار کو مستحکم کرنے میں مصروف رہا۔

سامراج کے خلاف خفیہ سرگرمیوں کا آغاز ہوا، تو اپنوں نے مخبری کی۔ مولانا محمودحسن صاحب [۱۸۵۱ء-۱۹۲۰ء] کی انقلابی سرگرمیوں سے دیوبند ہی کے چند طلبہ نے انگریزی حکومت کو مطلع کیا۔ مولانا عبیداللہ سندھی [۱۸۷۲ء-۱۹۴۴ء]کو جو رقوم مولانا شوکت علی [۱۸۷۳ء- ۱۹۳۸ء] نے افغانستان اور عرب دنیا میں کام کرنے کے لیے بھیجی تھیں، ان کا راز انھی کے ایک بدبخت شاگرد نے فاش کیا۔ آزادی کے حصول کی کم و بیش تمام قومی تحریکوں میں انگریزوں کے جاسوس گھسے ہوئے تھے اور ان سرفروشوں کی سرگرمیوں سے ان کو باخبر رکھتے تھے۔ پھر انگریز کی وفاداری اور اس کے راج کی ’برکات‘ کو بیان کرنے کے لیے سیکڑوں افراد نے اپنی خدمات پیش کر رکھی تھیں اور عوام کو افیون کی یہ گولی کھلائی گئی کہ: ’’مزے سے زندگی گزارو، آزادی اور غلامی کے چکّر میں پڑکر اپنی دُنیا کیوں خراب کرتے ہو؟‘‘

باطل نظام میں حصہ ڈالنے اور معمولی سے معمولی مناصب کے لیے بھاگ دوڑ کرنے اور ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر خدمت اور وفاداری کا یقین دلانے کا کام بھی ایک طبقے نے انجام دیا اور اس طبقے کے لیے: خان صاحب، خان بہادر، راے بہادر، سردار بہادر اور نائٹ ہوڈ کے اعزازات وضع کیے گئے۔ اگر انگریز حاکم، اہلِ ہند کو انتظامیہ میں لینے پر مجبور ہوا تو یہی لوگ اس کے خدمت گزار بن کر سامنے آئے اور انگریز کے نمک خوار کی حیثیت سے ہمیشہ پیش پیش رہے۔ آزادی اور جمہوریت کی تحریک کو کچلنے، اس کی راہ میں روڑے اٹکانے اور لوگوں کو یہ یقین دلانے کے لیے کہ ’’انگریز کے راج میں ہرقسم کی آزادی ہے‘‘، اس طبقے نے وہ وہ باتیں گھڑ لیں کہ ان کو پڑھ کر آدمی شرم سے پانی پانی ہوجاتا ہے، مثال کے طور پر:

  • جب مطالبہ کیا گیا کہ ’ہندستان کی فوج کا کمانڈر ہندستانی کو ہونا چاہیے‘ تو ایک سرصاحب نے ارشاد فرمایا: ’’ہندستان میں کوئی اس کا اہل بھی ہے کہ کمانڈر انچیف ہوسکے‘‘۔ اور  اسی بنیاد پر رام پور کے نواب سر رضا علی خاں{ FR 876 } [۱۹۰۸ء-۱۹۶۶ء] نے ۱۹۳۱ء کے  کُل ہند مسلم لیگ سیشن میں حصولِ آزادی کی قرارداد کی کھل کر مخالفت بھی کی۔
  • خدا بخش [۱۸۴۲ء-۱۹۰۸ء] ، سر امیر علی [۱۸۴۹ء-۱۹۲۸ء] اور سرآغا خان [۱۸۷۷ء- ۱۹۵۷ء]کی حیثیت کے لوگ بھی انگریزی اقتدار اور اس کے فوائد و برکات کے قصیدہ خواں رہے اور زیادہ سے زیادہ جو بات سوچ سکے، وہ انگریزوں کی حکومت میں کچھ مراعات کا حصول تھی۔اس سے زیادہ سوچنا ان کی نگاہ میں بغاوت تھا۔
  • ریاستوں میں جمہوری اداروںکے قیام کا سوال اُٹھایا گیا تو برطانوی مقبوضہ پنجاب کے گورنر سر میلکم ہیلے [۱۸۷۲ء-۱۹۶۹ء] نے اس کا مذاق اُڑایا اور ریاستوں میں مطلق العنان حاکمیت کا دفاع کیا۔ راجوں اور مہاراجوں نے بڑا شور مچایا، کانفرنسیں کیں اور اس رجحان کی مخالفت کی تو اس موقعے پر ایک سر مرزا محمد اسماعیل [۱۸۸۳ء- ۱۹۵۹ء] نے ۲۱جون ۱۹۲۴ء کو ارشاد فرمایا: ’’مجھے ریاستوں میں غیرمعمولی اصلاحات کے مطالبے نے اچنبھے میں ڈال دیا ہے۔ تعجب ہے کہ یہاں جمہوریت کا مطالبہ کیا جارہا ہے، جب کہ پارلیمانی جمہوریت ساری دنیا میں رُوبہ زوال ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ریاست کا ضمیر اس پر مطمئن ہےکہ جو اساسی دستور یہاں رائج ہے، وہ تمام عملی مقاصد کے حصول کے لیے خاطرخواہ حدتک جمہوری ہے‘‘۔
  • اور وہ اعلان تو ابھی تک بہت سے لوگوں کے کانوں میں گونج رہا ہے، جو صوبہ پنجاب کے ایک اور بڑے مشہور ، سر فیروز خان نون [۱۸۹۳ء-۱۹۷۰ء]نے خود اقوامِ متحدہ میں کیا تھا کہ: ’’ہندستان کی آزادی کا سوال مضحکہ خیزہے۔ ہم تو آزاد ہیں، اور دیکھو، مَیں ایک ہندستانی، ہندستان کے نمایندے کی حیثیت سے اس اجلاس میں شرکت کر رہا ہوں‘‘۔

یہ ہے وہ طبقہ، جس کا کردار برعظیم کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔ اس نے آزادی کی جنگ کو کمزورکرنے کی ہرممکن کوشش کی۔ اس کی وجہ سے آزادی کی جدوجہد غیر ضروری طور پر طویل اور صبرآزما ہوئی۔ اس کی بنا پر انگریز اپنے اقتدار کو ایک طویل مدت تک کھینچ سکا اور اہلِ وطن پر مظالم و شدائد کے پہاڑ توڑ سکا۔ سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ، جب آخرکار انگریز کا اقتدار ختم ہوتا نظر آیا اور قومی حکومتیں بننے لگیں، تو یہی طبقہ پوری بے شرمی اور عیاری کے ساتھ انھی تحریکوں میں شامل بھی ہوگیا۔ اسے اپنا مسلک بدلنے میں اتنی دیر بھی نہ لگی جتنی کوٹ بدلنے میں لگتی ہے۔ اس نے یہ سب کچھ کیا اور ضمیر کی کوئی چبھن محسوس نہ کی:

یہ مسجد ہے، یہ میخانہ ، تعجب اس پہ آتا ہے

جناب شیخ کا نقش قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی

اس طبقے کے کردار پر بہترین تبصرہ خود اسی کے ایک ولیِ نعمت مسٹر لائیڈ جارج [۱۸۶۳ء-۱۹۴۵ء] سابق وزیراعظم برطانیہ [۱۹۱۶ء-۱۹۲۲ء] کا یہ جملہ ہے:

Specimens of these changable reptiles who adopt  their hue to their enviroments.

زمین پر رینگنے والے تغیر پذیر جانوروں کی وہ طرفہ مخلوق جو ہرماحول کے مطابق اپنے رنگ بد ل لیتی ہے۔

اقتدار کے سورج کو نئے محور پر گردش کرتے دیکھ کر اس طبقے نے بلاشبہہ اپنا رنگ بدل لیا۔ لیکن کیا اس کے سوچنے کا انداز،گفتگو کا طریقہ اور کام کرنے کے آداب بھی بدل گئے یا وہی پرانا ذہن باقی رہا؟ دورِ سامراج کی تربیت بڑی پختہ تھی اور جو طبقہ برطانیہ کی استعماری مشینری کا کُل پُرزہ تھا اس نے اپنا قبلہ تو ضرور بدلا مگر دل نہ بدلا۔اس میں وہی لات و منات موجود رہے اور اسی سامراجی ذہن نے اظہار کے لیے نئے نئے میدان تلاش کرلیے۔

یہاں پر صرف ایک مثال، پاکستان کے پہلے صدر [مارچ ۱۹۵۶ء-اکتوبر ۱۹۵۸ء] اسکندر مرزا  کی تقریر سے پیش کی جارہی ہے، جس سے اس طبقے کی اصل ذہنی کیفیت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ یہ ہے اُس شخص کی تقریر کا اقتباس، جو ملکِ عزیز کے اہم ترین منصب ِ صدارت پر فائز رہا۔اکتوبر ۱۹۵۸ء میں جس کو اقتدار سے ہٹائے جانے پر نہ صرف یہ کہ ایک آنکھ بھی نہ روئی اور ایک زبان بھی شکوہ سنج نہ ہوئی، بلکہ پوری قوم نے اطمینان کا سانس لیا۔ اسکندر مرزا ایک فرد نہیں ایک ذہن کے ترجمان تھے بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ آج کل بڑے فخر سے استعمال کی جانے والی ایک اصطلاح میں ’ایک نظریہ‘ تھے۔ ذرا یہ بھی دیکھیے کہ ان کے سوچنے کے انداز اور بولنے کے طریقے میں اور جنرل اوڈوائر کے فکروگفتار میں کتنی یک رنگی اور مماثلت پائی جاتی ہے۔ جناب اسکندر مرزا کا ارشاد (۳۱؍اکتوبر ۱۹۵۴ء) ہے:

اس ملک کے عوام کی عظیم اکثریت جاہل اور اَن پڑھ ہے۔ ان کو سیاست سے کوئی حقیقی دل چسپی نہیں ہے۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ یہ کبھی کبھی نہایت احمقانہ رویہ اختیار کرتے ہیں، جیساکہ مشرقی پاکستان کے حالیہ انتخابات [۱۹۵۴ء] میں انھوں نے اختیار کیا۔ اور پھر جیسا ان کے منتخب نمایندوں نے دستور ساز اسمبلی میں اختیار کیا۔ اس ملک کے عوام کی اصل ضرورت مضبوط اور مستحکم حکومت ہے، اسی لیے ابھی ایک مدت تک ان کو پابند اور محدود جمہوریت (Controlled Democracy) دی جانی چاہیے۔ 

دیکھیے، وہی ذہن کس طرح کام کر رہا ہے۔ جنرل اوڈوائر کی تقریر ہٹایئے اور اسکندر مرزا کی تقریر سامنے رکھیے، کوئی فرق آپ محسو س کرتے ہیں؟ ایک ہی ذہن ایک ہی زبان ہے، ایک ہی انداز ہے، ایک ہی قسم کے وعدے ہیں اور ایک ہی طرح استحکام، مضبوط حکومت اور عوام کے مفاد کا رونا ہے   ع

انھی کے مطلب کی کہہ رہا ہوں، زبان میری ہے بات اُن کی

6

سامراج کے وحشیانہ استبداداور وطن کے چند ناخلف فرزندوں کی غداری نے حالات کو اتنا ابتر اور تاریک کر دیا تھا کہ ظلم و استعمار کی اس طویل رات کے ختم ہونے کا امکان نظر نہ آتا تھا۔ لیکن اللہ کی رحمتیں ہوں اُن مجاہدوں اور جان فروشوں پر، جنھوں نے ظلمت کے ان طوفانوں میں حق پرستی اور آزادی و جمہوریت کے چراغ روشن کیے اور اپنے خون سے ان کو تابندہ تر کیا۔ چمگادڑیں تو یہ منصوبہ بناچکی تھیں کہ یہ رات کبھی ختم نہ ہو، لیکن روشنی و نور کے علَم بردار اپنی جانوں پر کھیل کر بھی   فضا کو منور کرنے میں مصروف رہے۔بالآخر مزاحمت کی ہوائیں چلیں جو تاریک بادلوں کو اُڑا کر لے گئیں اور آفتابِ آزادی ضوفشاں ہوا۔

ظلم کے اندھیروں میں روشنی کے مینار

ذرا چشمِ تصوّر سے ماضی کے تاریک دھندلکے میں دیکھیے، کیسے کیسے حسین جگنو چمکتے دکھائی دیتے ہیں اور کیسی کیسی شمعیں فضا کو منور کرنے کے لیے اپنے کو جلاتی نظر آتی ہیں:

  • امپریلزم کے ایجنٹ مکر و سازش کے اسلحے سے مسلح جنوب کی طرف بڑھ رہے ہیں اور سلطان حیدر علی خان [۱۷۲۰ء-۱۷۸۲ء] اور ٹیپو سلطان آہنی دیوار بن کر ان کا راستہ روک لیتے ہیں۔ آزادیِ وطن کی خاطر ہروار اپنے سینے پر برداشت کر لیتے ہیں، حتیٰ کہ یہ کہتے ہوئے آخر کار جان بھی دے دیتے ہیں کہ: ’’شیر کی ایک دن کی زندگی، گیدڑ کی سوسال کی زندگی سے بہتر ہے‘‘۔
  •  تحریک ِ مجاہدین کے جاں باز ملک کے گوشے گوشے سے کھنچ کر سرحدی صوبہ (موجودہ خیبرپختونخوا) میں جمع ہوتے ہیں اور دینِ حق اور آزادیِ وطن کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کردیتے ہیں۔ ۱۸۵۷ء کا معرکۂ آزادی گرم ہوتا ہے اور ہزاروں انسان آزادی کی خاطر پروانہ وار فدا ہوجاتے ہیں۔
  • استعمار کے خلاف آزادی کی کھلی اور خفیہ تحریکیں اُبھرتی ہیں اور سیکڑوں نہیں ہزاروں نوجوان اس جدوجہد کی کامیابی کے لیے اپنی زندگیاں تج دیتے ہیں۔ شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب، مولانا محمد جعفر تھانیسری[۱۸۳۸ء-۱۹۰۵ء]، مولانا سیّد حسین احمد مدنی [۱۸۷۹ء-۱۹۵۷ء] اور سیکڑوں جاں باز اس انقلابی کام کے لیے قیمتی قربانیاں دیتے ہیں۔

ایسی چنگاری بھی یارب …

مولانا محمد علی جوہر [۱۸۷۸ء-۴جنوری ۱۹۳۱ء] کی قیادت میں تحریک ِ خلافت اور تحریک ِ عدم تعاون اُٹھتی ہے تو سارے ملک میں ایک تہلکہ مچ جاتا ہے۔ اوکسفرڈ اور کیمبرج   یونی ورسٹیوں کے پڑھے ہوئے نوجوان ڈاڑھیاں رکھ لیتے ہیں۔ پوری قوم انگریزی لباس ترک کر دیتی ہے، سرکاری اسکولوں اور کالجوں کا بائیکاٹ کر دیتی ہے، ملازمتیں چھوڑ دیتی ہے۔ جذبۂ سرفروشی سے سرشار جوانانِ وطن جیلوں کو بھر دیتے ہیں اور اہلِ دولت اس فراخ دلی کے ساتھ ان تحریکوں کی مالی مدد کرتے ہیں کہ تقریباً ۲۰ہزار خاندانوں کی کئی سال تک مالی دست گیری کی جاتی ہے۔ ملک و قوم پر دولت نثار کرنے والوں میں ایسے بھی ہیں جو روپیہ لٹاکر لکھ پتی سے کنگال ہوگئے۔

  • تحریک ِ خلافت کے روحِ رواں محمدعلی جوہر تھے لیکن ان کا کردار کیا ہے؟ مولانا محمدعلی جوہر کے سامنے ایک طرف ایک ریاست کی وزارتِ عظمیٰ کی پیش کش کا خط ہے اور دوسری طرف بھیک مانگ مانگ کر قوم کی خدمت کا سودا ___ دو دن تک خط جیب میں پڑا رہتا ہے اور بالآخر اس خط کو پھاڑ کر اخبار  Comradeنکال لیا جاتا ہے۔
  • مولانا جوہر، ترکی کے خلاف انگریزوں کی جنگ کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اس جنگ میں مسلمان فوجیوں کی شرکت کو حرام قرار دے رہے ہیں۔ اس حق گوئی پر حکومت گرفتار کرلیتی ہے۔ خالق دینا ہال، کراچی میں بغاوت کا مقدمہ چلتا ہے لیکن قوم کا عزم ملاحظہ ہو کہ مولانا کی ۶جولائی ۱۹۲۱ء والی تقریر ، جس پرستمبر۱۹۲۱ء میں سات سال کی قید سنا دی گئی۔ ۱۶؍اکتوبر ۱۹۲۱ء کو ملک کے ہر گوشے میں اسی عزم کو دُہرایا جاتا ہے کہ:

گر اِک چراغِ حقیقت کو گل کیا تم نے

تو موجِ دود سے صد آفتاب اُبھریں گے

  •  خلافت اور عدم تعاون کی تحریک میں لاکھوں افراد جیلوں میں جاتے ہیں اور کروڑوں روپے کی املاک ضبط کی جاتی ہیں۔
  •  ترکِ موالات کی تحریک اُٹھتی ہے تو ۲۰ہزار مسلمان بے سروسامانی کے عالم میں ہندستان کو چھوڑ کر افغانستان ہجرت کرتے ہیں۔
  •  ’رولٹ ایکٹ‘ پاس ہوتا ہے تو ملک کے گوشے گوشے سے اس کی مخالفت کا اعلان ہوتا ہے اور لوگ اپنے خون سے اس اعلانِ بغاوت پر دستخط کرتے ہیں۔
  •  ’سائمن کمیشن‘ آتا ہے{ FR 879 } تو سارے ملک میں کالی جھنڈیوں سے اور ’سائمن گوبیک‘ کے نعروں سے اس کا استقبال ہوتا ہے۔

ایک وہ بھی اسپیکر تھے!

سرکار پرستوں میں سے بھی کچھ کا ضمیر جاگتا ہے، ان کو بے چین کردیتا ہے اور وہ اپنے خطابات واپس کردیتے ہیں، عہدے چھوڑ دیتے ہیں اور میدانِ عمل میں نکل آتے ہیں۔ صرف ایک مثال دیکھیے کہ مرکزی اسمبلی کے پہلے غیرسرکاری اسپیکرو ٹھل بھائی پٹیل نے ۱۹۳۰ء میں مستعفی ہوکر وائسراے کو لکھا:

میرے ہم وطن اس وقت موت اور زندگی کی کش مکش میں مبتلا ہیں۔ ملک کے سیکڑوں نام وَر لوگ جیلوں میں قید ہیں۔ ہزاروں اپنی جانیں قربان کرنے کو تیار بیٹھے ہیں اور لاکھوں ایسے ہیں جو اس زبردست تحریک کی خاطر زندان کی کال کوٹھڑی میں جانے کو بخوشی آمادہ ہیں۔ جہادِ حُریت کی تاریخ کے اس نازک موقعے پر میرا یہ کام نہیں کہ اسمبلی کی کرسیِ صدارت پر بیٹھا رہوں، بلکہ میرا فرض یہ ہے کہ اپنے بھائیوں کے پہلو بہ پہلو آزادیِ وطن کی جنگ میں حصہ لوں۔

بھگت سنگھ [۱۹۰۷ء-۲۳ مارچ ۱۹۳۱ء] اور اس کے ساتھی سنٹرل جیل لاہور میں جس وقت مقدمے کی کارروائی کے دوران خوش الحانی کے ساتھ یہ ترانہ گاتے تھے کہ:

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے

دیکھنا ہے زور کتنا بازوے قاتل میں ہے

تو اس ترانے سے کمرئہ عدالت ہی نہیں، پوری جیل کی فضا بدل جاتی تھی۔ جوش، تہور اور ایثار و سرفروشی کی چنگاریاں سنٹرل جیل کی دیواروں کو چیر کر نوجوانوں کو آتش بجاں اور شعلۂ بداماں کر دیتی تھیں۔ کونے کونے سے آزادی کے ترانے سنائی دیتے تھے ، کوڑے پڑتے تھے ،   بَید لگتے تھے لیکن زبان سے یہی نغمے ارتعاش پیدا کرتے تھے۔

مَیں جیل اور گولی کے لیے تیار ہوں!

علّامہ محمد اقبال جن کی امن پسندی اور طبیعت کی خاموشی ضرب المثل تھی، وہ بھی ان حالات میں سرفروشی کے جذبے سے اس قدر سرشار تھے کہ قائداعظم کو ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’ذاتی طور پر مَیں ایک ایسے مسئلے کی خاطر جس کا تعلق اسلام اور ہندستان سے ہے، جیل جانے کو تیار ہوں۔

علّامہ اقبال دوسال سے صاحب ِ فراش تھے، سرگرم سماجی زندگی معطل تھی اورعملاً ہل جل نہیں سکتے تھے۔ لیکن مسجد شہید گنج کے واقعے پر ان کی طبیعت میں شدید بے چینی اور اشتعال تھا۔  وفات سے تین ماہ قبل ۲۶جنوری ۱۹۳۸ء کو ہائی کورٹ کے فل بنچ نے مسجد شہید گنج کی اپیل خارج کر دی تو مسلمانوں میں سخت ہیجان پیدا ہوگیا۔ اسی شام غلام رسول خاں نے ڈاکٹر محمداقبال کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ: ’’اب کیا کرنا چاہیے تو ڈاکٹرصاحب رو پڑے اور کہنے لگے:

مجھ سے کیا پوچھتے ہو میری چارپائی کو اپنے کندھوں پر اُٹھائو اور اس طرف لے چلو جدھر مسلمان جارہے ہیں۔ اگر گولی چلی تو میں ان کے ساتھ مروں گا۔{

اندھیرا چھٹتا ہـے!

انھی جاں فروشوں کے جہد ِ مسلسل، قربانیوں اور خون سے تحریک ِ آزادی اور تحریک ِ پاکستان کے چراغ روشن ہوئے، اور دُنیا کے نقشے پر ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان وجود میں آیا۔ خلوص اور جذبۂ قربانی کے ان چراغوں کی گرمی نے غلامی اور استبداد کی زنجیروں کو پگھلا دیا۔ ظلم کی تلوار کو حق کے لیے جاں بازی کے اخلاقی ہتھیار نے کاٹ کر رکھ دیا۔

ظلم و استبداد بظاہر کتنے ہی مرعوب کن کیوں نہ ہوں، بہ باطن بہت کمزور ہوتے ہیں اور اہلِ حق جب مقابلے پر ڈٹ جاتے ہیں تو اربابِ ظلم بہت جلد ہمت چھوڑ دیتے ہیں۔ آہنی حصار تارِ عنکبوت ثابت ہوتے ہیں اور بظاہر کمزور اہلِ حق کے خلوص، عزم اور قربانی کے ریلے میں اس طرح بہہ جاتے ہیں، جس طرح سیلاب میں خس و خاشاک۔ یہی فطرت کا قانون ہے، یہی اللہ کی سنت ہے، یہی تاریخ کا سبق ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو اللہ کی زمین ظلم و فساد سے بھر جائے:

کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃً م بِاِذْنِ اللّٰہِ ط وَاللّٰہُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ O وَ لَمَّا بَرَزُوْا لِجَالُوْتَ وَ جُنُوْدِہٖ قَالُوْا رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّ ثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ O فَھَزَمُوْھُمْ بِاِذْنِ اللّٰہِ قف وَ قَتَلَ دَاوٗدُ جَالُوْتَ وَ اٰتٰہُ اللّٰہُ الْمُلْکَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ عَلَّمَہٗ مِمَّا یَشَآئُ ط وَ لَوْ لَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لا  لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ  O (البقرہ ۲:۲۴۹-۲۵۱) بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیا ہے۔ اللہ صبر کرنےوالوں کا ساتھی ہے۔ اور جب وہ جالوت اور اُس کے لشکروں کے مقابلے پر نکلے، تو انھوں نے دُعا کی: ’’اے ہمارے ربّ! ہم پر صبر کا فیضان کر، ہمارے قدم جما دے اور اس کافر گروہ پر ہمیں فتح نصیب کر‘‘۔ آخرکار   اللہ کے اذن سے اُنھوں نے کافروں کو مار بھگایا اور داوٗد نے جالوت کو قتل کر دیا اور اللہ نے اُسے سلطنت اور حکمت سے نوازا اور جن جن چیزوں کا چاہا، اُس کو علم دیا___ اگر اس طرح اللہ انسانوں کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے ذریعے سے ہٹاتا نہ رہتا تو زمین کا نظام بگڑجاتا، لیکن دُنیا کے لوگوں پر اللہ کا بڑا فضل ہے (کہ وہ اس طرح دفعِ فساد کا انتظام کرتا رہتا ہے)۔