عالم اسلام کو ایک بار پھر اپنی تاریخ کی سنگین تر آزمایشوں کا سامنا ہے۔ دشمنوں کی عیارانہ سازشیں بھی انتہا پر ہیں اور اپنوں کی غلطیاں اور جرائم بھی آخری حدوں کو چھورہے ہیں۔ سامراجی چالیں عالم اسلام کو مزید ٹکڑوں میں تقسیم کررہی ہیں اور کئی مسلم حکمرانوں اور گروہوں کے مظالم کے سامنے ہلاکو اور چنگیز بھی بونے نظر آ رہے ہیں۔ رب ذو الجلال کی ذات کا سہارا نہ ہوتا، اس کی طرف سے لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ ط ، وَ لَا تَایْئَسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ (اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں) جیسی تلقین اور اِِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا (یقینا تنگی کے ساتھ ہی آسانی ہے) جیسے مسلمہ اصول نہ ہوتے، تو لگتا کہ پانی سر سے گزر چکا، عالم اسلام کا اختتام قریب آن لگا اور اُمت پھر زوال پذیر ہوگئی۔
مسلم ممالک اور اپنے معاشرے پر نگاہ دوڑائیں تو ہم ان سب نافرمانیوں پر تلے ہوئے ہیں جن کے انجام بد سے خالق کائنات نے خبردار کیا تھا۔ واضح طور پر بتادیا گیا تھا کہ: وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَ تَذْھَبَ رِیْحُکُمْ (الانفال۸: ۴۶)’’اور آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمھارے اندر کمزوری پیدا ہوجائے گی اور تمھاری ہوااکھڑ جائے گی‘‘۔ لیکن ہم ایک نہیں کئی کئی اختلافات و تنازعات میں دھنسے ہوئے ہیں۔ ظلم کرنے سے بار بار منع کرتے ہوئے ہمیں خبردار کردیا گیا تھا کہ: وَمَنْ یَّظْلِمْ مِّنْکُمْ نُذِقْہُ عَذَابًا کَبِیْرًاo (الفرقان۲۵: ۱۹) ’’اور جو بھی تم میں سے ظلم کرے اُسے ہم سخت عذاب کا مزا چکھائیں گے‘‘۔ لیکن آج ہم میں سے کسی فرد کا داؤ چلے یا کسی حکومت کے ذاتی مفادات خطرے میں پڑیں، ہم ظلم کے وہ پہاڑ توڑ دیتے ہیں کہ الأمان الحفیظ!ہمیں کسی بھی ظالم کا ساتھ دینے سے خبردار کرتے ہوئے دو ٹوک انداز میں بتا دیا گیا تھا کہ:وَ لَا تَرْکَنُوْٓا اِلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ لا وَ مَا لَکُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ مِنْ اَوْلِیَآئَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ o (ھود۱۱: ۱۱۳)’’اِن ظالموں کی طرف ذرا نہ جھکنا ورنہ جہنم کی لپیٹ میں آجاؤ گے اور تمھیں کوئی ایسا ولی و سرپرست نہ ملے گا جو خدا سے تمھیں بچا سکے اور کہیں سے تم کو مدد نہ پہنچے گی‘‘۔ لیکن ہم اپنے عارضی اور محدود مفادات کی خاطر، سفاک ترین ظالم کے حق میں بھی دلیلوں کے انبار لگانے لگتے ہیں۔ ہمیں بدکاری کرنے سے ہی نہیں، بدکاری کے قریب بھی پھٹکنے سے منع کرتے ہوئے بتادیا گیا تھا کہ: وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓی اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً ط وَ سَآئَ سَبِیْلًاo(بنی اسرائیل ۱۷:۳۲)’’اور زنا کے قریب نہ پھٹکو۔ وہ بہت بُرا فعل ہے اور بڑا ہی بُرا راستہ‘‘۔ ہم ضرورت کی ادنیٰ ترین چیز کو بھی فحش اشتہارات کے بغیر بازار میں نہیں لاتے۔
ایک ایک کرکے خالق کے تمام احکامات کو سامنے رکھ کر دیکھ لیں۔ ہم بحیثیت فرد ہی نہیں بحیثیت اُمت و ملت انھیں پامال کرنے میں جتے ہوئے ہیں۔ ہماری ان تمام نافرمانیوں کو خالق نے ایک لفظ میں سمو کر اور اس سے خبردار کرتے ہوئے، راہ نجات کی طرف بھی نشان دہی کر دی ہے۔ وہ لفظ ہے: ’ظلم‘۔ جو کبھی دشمنوں کی طرف سے ہوتا ہے اور کبھی اپنوں ہی کے ہاتھوں۔ کبھی دوسروں پر کیا جاتا ہے اور کبھی خود اپنی ہی جان پر۔ ظلم کی ان تمام اقسام سے نجات حاصل کرنے کا اولین قدم، ظلم کو ظلم سمجھنا اور اسے ظلم کہنا ہے۔ آدم علیہ السلام کو جیسے ہی احساس ہوا تو وہ فوراً پکار اُٹھے: رَبَّنَا ظَلَمْنَـآ اَنْفُسَنَا وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَo (اعراف۷:۲۳)’’اے ہمارے پروردگار ہم خود پر ظلم کربیٹھے ہیں، آپ نے معاف نہ فرمایا تو خسارہ پانے والوں میں شمار ہوں گے‘‘، جب کہ ابلیس سراسر نافرمانی کے بعد بھی بولا: رَبِّ بِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ لَاُزَیِّنَنَّ لَھُمْ فِی الْاَرْضِ وَلَاُغْوِیَنَّھُمْ اَجْمَعِیْنَo (الحجر۱۵: ۳۹) ’’اے اللہ جیسا تو نے مجھے بہکایا اسی طرح اب میں بھی (ان بندوں کے سامنے) گناہوں کو خوش نما بناکر پیش کروں گا اور ان سب کو گمراہ کرکے چھوڑوں گا‘‘۔ اسی لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ دُعا فرمایا کرتے تھے کہ: و أرنا الباطل باطلاً و ارزقنا اجتنابہ، ’’اور ہمیں باطل کو باطل ہی دکھا اور اس سے اجتناب کی توفیق عطا فرما‘‘۔
پانچ برس گزر گئے جب عالم اسلام میں اُمید ِبہار دکھائی دی تھی۔ ۳۰،۳۰ ؍ ۴۰،۴۰ سال سے اپنی قوم پر مسلط ظالم ڈکٹیٹر شپ کے بت گرنے لگے۔ صہیونی عزائم اور عالمی نقشہ گروں کو اپنے منصوبے خاک میں ملتے دکھائی دیے، تو پہلے شام پھر مصر، لیبیا اور یمن میں انھی ’اپنوں‘ ہی کو اپنے عوام پر بدترین مظالم ڈھانے کی راہ دکھا دی۔ آج صرف شام میں ۳ لاکھ سے زائد شہید، اور ڈیڑھ کروڑ سے زائد انسان بے گھر ہوچکے ہیں۔ پورا ملک کھنڈرات کا ڈھیر بن چکا ہے۔ منفی ۲۰ درجے کی سردی ہو یا جھلسا دینے والی گرمی، تیزی سے رزق خاک بنتے یہ انسان مہاجر کیمپوں ہی میں مقید رہنے پر مجبور ہیں۔ کیمپوں کی یہ زندگی اس قدر جان لیوا ہے کہ اس سے نجات پانے کے لیے مہاجرین کی بڑی تعداد آئے دن وہاں سے نکلنے کی کوششوں کے دوران موت کے منہ میں چلی جاتی ہے۔ابھی ۲۱جنوری کو بھی یونان کے قریب ۲۲ بچوں سمیت ۴۵ افراد سمندر کے برفیلے پانیوں میں ڈوب کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ مہاجر کیمپوں میں خوراک ناپید ہونے کا یہ عالم ہے کہ حالت اضطرار میں بلیاں اور کتے تک کھانے کے فتوے جاری ہوجاتے ہیں۔ سفاکی کا عالم یہ ہے کہ حکومت مخالف کسی ایک قصبے کو فتح کرنے کے لیے اس کا مکمل محاصرہ کرلیا جاتا ہے، یہاں تک کہ بڑی تعداد میں بچے اور بوڑھے بھوک کے ہاتھوں موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں لیکن بشارالاسد اور اس کی مددگار افواج کا دل موم نہیں ہوپاتا۔ گذشتہ دسمبر اور جنوری میں شام کے قصبے ’مضایا‘ پر گزرنے والی قیامت نے کئی عالمی اداروں تک کو جھنجھوڑ ڈالا، لیکن ہم مسلمان، ہمارے ذرائع ابلاغ اور حکمران تو شاید اس قصبے کانام تک بھی نہیں جانتے۔ جانتے بھی ہیں تو اسے کسی نہ کسی مذہبی، علاقائی یا قومیتی تعصب کی چادر میں چھپا کر مطمئن ہوجاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق صرف شام میں ایسے محصور علاقوں کی تعداد ۱۵ ہے جن میں ساڑھے چار لاکھ سے زائد انسان حشرات الارض سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
عراق کے علاقے ’المِقدادیۃ‘ اور یمن کے شہر’تَعِز‘ میں بھی یہی صورت حال ہے۔ عراق کے سابق نائب صدر طارق الہاشمی کے مطابق’المقدادیۃ‘ کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ وہاں کی مساجد کئی روز سے اذان کی آواز سے محروم ہیں۔ مذہبی اختلاف و تعصب اور شیعہ و سُنّی کی تقسیم یقینا وہ زہرِ قاتل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس سے اسلامی تحریکوں کو محفوظ رکھا ہے، اور وہ پوری اُمت کو اس زہر سے محفوظ کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ تاہم، یہاں مرض کی تشخیص و شدت بیان کرنے کے لیے مجبوراً یہ اصطلاحات ہی استعمال کرنا پڑرہی ہیں۔ گذشتہ دو ماہ کے دوران المقدادیۃ میں اہلسنت کی اتنی مساجد شہید کردی گئیں کہ خود عراق کے اعلیٰ ترین شیعہ رہنما آیت اللہ السیستانی نے ۱۵جنوری کو اپنے خطبہء جمعہ میں عراقی حکومت کو اس مجرمانہ غفلت کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے یہ سلسلہ رُکوانے کا مطالبہ کیا۔ ضلع ’دیالا‘ ایران کے ساتھ جس کی سرحد ۲۴۰ کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہے اور جس کی آبادی کا ۸۵ فی صد اہل سنت پر مشتمل تھا، بھی ایسی ہی بربادی کا شکار ہے۔
چند علاقوں کے یہ نام تو محض ایک مثال ہیں وگرنہ ۲۰۰۳ میں امریکی افواج کی آمد کے بعد سے پورا عراق، اور اپنے بنیادی حقوق کا مطالبہ کرنے والے شامی عوام کے خلاف بشار الاسد کی فوجی کارروائیاں شروع ہونے کے بعد سے پورا شام، خون آشام ہے۔ ان دونوں ملکو ںمیں اب تک بلامبالغہ لاکھوں انسان اور ہزاروں مساجد اور امام بارگاہیں شہید کی جاچکی ہیں۔ صد افسوس کہ دونوں ملک اب کبھی شاید پہلے والے ممالک نہ بن سکیں گے۔ عراق تین ملکوں میں تقسیم کیا جاچکا ہے اور شام کئی ٹکڑیوںمیں۔ یہ بندگان خدا ان ٹکڑیوں میں بٹ کر ہی کوئی نئی زندگی شروع کرلیتے تو شاید غنیمت ہوتا، لیکن صہیونی ریاست اور عالمی طاقتوں کا ایجنڈا ابھی مکمل نہیں ہوا۔ ابھی ان کا خون مزید بہایا جانا ہے۔ لڑانے اور لڑنے والوں کے خوں ریز جبڑوں سے مسلسل ایک ہی جہنمی آواز سنائی دے رہی ہے: ھل من مزید...؟ ھل من مزید...؟
مذہبی تعصب کے ساتھ ساتھ اب یہ تنازعات ایک مہیب علاقائی جنگ میں بھی بدل گئے ہیں۔ پہلے تو اظہار نہیں ہوتا تھا لیکن اب مسلسل اعتراف و اعلان کیے جارہے ہیں۔شام اور عراق سے آئے روز ایران اور لبنان (حزب اللہ) کے عسکری ذمہ داران اور سپاہیوں کے تابوت و جنازے واپس آتے ہیں۔ ان کے اعلیٰ عسکری منصوبہ ساز وہاں مستقلاً موجود ہیں۔ ایرانی ملیشیا القدس بریگیڈ کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی وہاں کے اصل حکمران قرار دیے جاتے ہیں۔ گذشتہ ماہ شام میں ایرانی پاس داران انقلاب کے ایک اہم ذمہ دار حمید رضا اسد اللہی مارے گئے، تو جنازے کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے پاس داران کے سربراہ محمد علی جعفری نے ایک تہلکہ خیز بیان دے دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ہم نے گذشتہ عرصے میں شام، عراق، یمن، افغانستان اور پاکستان کے ۲ لاکھ نوجوانوں کو فوجی تربیت دی ہے‘‘۔ سوال یہ ہے کہ ان نوجوانوں کو عسکری تربیت دینے کا مقصد کیا ہے؟
برادر مسلم ممالک کے مابین یہ کھلی جنگ کس حد تک سنگین ہوچکی ہے اس کا اندازہ اسی مثال سے لگا لیجیے کہ گذشتہ مہینے شام میں حزب اللہ کے ایک بڑے کمانڈر سمیر قنطار قتل ہوگئے۔ سَمیرِ قنطار اُمت مسلمہ کے وہ ہیرو تھے کہ ۲۸ سال تک اسرائیل کی قید میں رہے۔ رہائی کی کئی ناکام کوششوں کے بعد بالآخر حماس کے ہاتھوں اغوا ہونے والے صہیونی فوجی کے بدلے میں رہائی پانے والوں میں درجنوں فلسطینی قیدیوں کے علاوہ لبنانی سَمِیْر القنطار بھی شامل تھے۔ ان کی رہائی لبنان میں ایک قومی جشن میں بدل گئی اور دنیا بھر کے ٹی وی سکرینوں پر براہِ راست دکھائی گئی۔ لیکن صہیونی ریاست کے خلاف اتنی طویل جدوجہد کی تاریخ رکھنے والا سَمِیْر مسجد اقصیٰ پر قابض یہودی سے لڑائی میں شہید نہیں ہوا، گذشتہ ماہ بشار الاسد کے فوجیوں کے ساتھ مل کر مظلوم شامی عوام کے خلاف لڑتے ہوئے مارا گیا۔ شام میں ان کا مارا جانا خطے کے عوام میں مزید تنازعے اور اختلافات کا باعث بنا۔ شامی عوام اور ان کے حامیوں نے اس قتل پر مبارک بادوں کا تبادلہ کیا، جب کہ بشارانتظامیہ اور حزب اللہ نے اس پر گہرے صدمے اور دکھ کا اظہا ر کیا۔ یہ اختلاف اتنا بڑھا کہ اسرائیل کے خلاف مزاحمت کی طویل تاریخ رکھنے کی وجہ سے تحریک حماس نے سمیر کے لیے چند سطری تعزیتی بیان جاری کردیا، تو اس پر شامی اور خلیجی عوام نے سخت احتجاج کرتے ہوئے حماس کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔
معاملہ یہیں ختم نہیں ہوا، چند ہی روز بعد بشار الاسد کے خلاف مزاحمت کی ایک بڑی علامت اور ۴۰ مختلف شامی مسلح گروہوں کے اتحاد ’جیش الاسلام‘ کے سربراہ زھران علوش قتل ہوگئے۔ ان پر روسی جہازوں نے بمباری کی تھی۔ ان کی شہادت پر الاخوان المسلمون شام سمیت بشار مخالف تمام اطراف نے سوگ منایا، لیکن ایران و حزب اللہ سمیت بشار کے حامی تمام عناصر نے اس پر خوشی کا جشن منایا۔ اس موقعے پر صرف ایک ملک ایسا تھا جس نے ان دونوں قائدین کے قتل پر سُکھ کا سانس لیا اور وہ تھا اسرائیل۔ تیسری جانب اسی عرصے میں ترکی، عراق، لیبیا، یمن، نائیجیریا اور سعودی عرب میں کئی ایسے خوں ریز بم دھماکے ہوئے، جن میں سیکڑوں بے گناہ شہری شہید و زخمی ہوئے۔ ان دھماکوں میں سے اکثر کی ذمہ داری سرکاری طور پر داعش نے قبول کرتے ہوئے اپنی ان کارروائیوں میں تیزی لانے کا اعلان کیا۔
اب ان جھلکیوں کی مدد سے آج مشرق وسطیٰ کا نقشہ دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ ترکی کا اپنی فضائی حدود میں گھس آنے والا روسی جنگی جہاز مار گرانا، روس کا ترکی کو سنگین دھمکیاں دینا یا سعودی عرب میں سزاے موت پانے والے ۴۷ افراد میں ایک شیعہ رہنما بھی شامل ہونے پر ایران کا شدید مشتعل ہوجانااو رتہران میں سعودی عرب کا سفارت خانہ اور مشہد میں اس کا قونصل خانہ جلاڈالنا، اصل تنازع نہیں، بلکہ یہ خطے میں جاری ایک بڑی جنگ کے چند خوف ناک شعلے ہیں۔ عالم اسلام کے سب دشمن ان شعلوں کو مزید ہوا دینے کے لیے سرگرم ہیں۔
امریکا، اسرائیل اور دیگر مغربی ممالک کے فکری مراکز تجزیے کررہے ہیں کہ:what would a Saudi - Iran war look like? dont look now, but it is already here (ایران و سعودی عرب کی جنگ کیسی ہوگی؟ اگرچہ یہ اس وقت دکھائی نہیں دیتی لیکن یہ عملاً جاری ہے)۔ اعداد و شمار شائع کیے جارہے ہیں کہ افواج اور عسکری سازوسامان کے اعتبار سے سعودی عرب ۲۸ ویں، جب کہ ایران ۲۳ ویں نمبر پر ہے۔ سعودی عرب کی افواج ۲ لاکھ ۳۳ ہزار، جب کہ ایران کے ۵لاکھ ۴۵ہزار ہیں۔ سعودی عرب کے پاس ۱۲۱۰ ٹینک ہیں اور ایران کے پاس ۱۶۵۸۔ سعودی عرب کے پاس ۱۵۵ جنگی جہاز ہیں اور ایران کے پاس ۱۳۷ (Globe Fire Power)۔ اس طرح کے اعداد و شمار شائع کرنے کا ایک مقصد یقینا یہ بھی ہے کہ جنگ کا ماحول اور خوف کی فضا بنا کر مزید اسلحہ بیچا جائے۔ اسی ماحول میں ۱۳ جنوری کو کویتی پارلیمنٹ نے اپنے محفوظ مالی ذخائر میں سے اضافی ۱۰؍ ارب ڈالر منظور کیے تاکہ ان سے مزید اسلحہ خریدا جاسکے۔ یہی عالم خطے کے دیگر کئی ممالک کی طرف سے کیے جانے والے کئی بڑے عسکری معاہدوں کا ہے۔
داعش کے خلاف امریکی جنگ بھی خود اعلیٰ امریکی ذمہ داران کے بقول آیندہ ۳۰ برس تک جاری رہنا اور اس پر ۵۵۰؍ ارب ڈالر کا بجٹ آنا ہے۔ اس بجٹ کا بڑا حصہ بھی خطے کے مسلم ممالک ہی سے لیا جانا ہے۔ یہ دونوں پہلو (۳۰ سالہ جنگ اور ۵۵۰؍ ارب ڈالر کا بجٹ) ذہن میں رکھیں تو پھر یہ راز کوئی راز نہیں رہتا کہ تمام تر فوجی کارروائیوں اور بمباری کے باوجود بھی داعش کیوںکر ایک کے بعد دوسرا میدان سر کرتی جارہی ہے۔
امریکی کونسل براے اُمور خارجہ کے سینئرمحقق میکازنکو (Micah Zenko) ۷جنوری کو اپنی ایک تحریر میں گذشتہ ایک سال میں امریکا کی طرف سے مسلمان ملکوں پر گرائے گئے بموں کے اعداد و شمار بتاتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اوباما انتظامیہ نے صرف ۲۰۱۵ میں عراق، شام، افغانستان، پاکستان، یمن اور صومالیہ پر ۲۳ہزار ایک سو۴۴ بم برسائے‘‘۔ (حقیقی تعداد یقینا اس سے زیادہ ہوسکتی ہے کہ اس میں پاکستان پر برسائے گئے بموں کی تعداد صرف ۱۱ لکھی ہے)۔ لیکن خود زنکو اس امر پر تمسخر خیز حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ ’’امریکی وزارت دفاع کے ذمہ داران کے مطابق اس بمباری سے داعش کے ۲۵ ہزار مسلح عناصر مار ے گئے۔ ۲۰۱۴ میں سی آئی اے کا کہنا تھا کہ داعش کے مسلح عناصر کی تعداد ۲۰ سے ۳۱ ہزار تک ہے۔ ان میں سے ۲۵ ہزار مارے جانے کے بعد اب ان سے پوچھیں کہ داعش کے ان عناصر کی تعداد کیا ہے تو اَب بھی جوا ب یہی ملتا ہے: ۳۰ ہزار‘‘۔ زنکو کے بقول اس نئے امریکی حسابی فارمولے کے مطابق اب ۳۰ ہزار منفی ۲۵ ہزار ۳۰ ہزار کے مساوی ہوا کریں گے۔ زنکو نے اس پر بھی حیرت کا اظہار کیا کہ افغانستان میں ۱۶ سالہ جنگ کے بعد بھی فارن پالیسی جیسے وقیع رسالے یہ لکھ رہے ہیں کہ طالبان افغانستان میں پہلے سے کسی بھی وقت سے زیادہ علاقے پر قابض ہیں۔
جملۂ معترضہ کے طور پر یہاں یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ داعش کے ساتھ جاملنے والوں کی ایک تعداد مخلص اور دین دار نوجوانوں پر بھی مشتمل ہے۔ یہ لوگ بظاہر اسلامی ریاست اور اسلامی خلافت کا قیام او رجنت کا حصول چاہتے ہیں۔ نیتوں کا حال تو اللہ جانتا ہے لیکن نیک نیتی کے ساتھ ساتھ ظاہری عمل بھی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل تعلیمات کے مطابق ہونا ضرور ی ہے۔یہ نہ ہو کہ صرف ذرائع ابلاغ اور ظاہری اعلانات سے متاثر ہو کر کوئی ایسی راہ اختیار کرلی جائے کہ یہ قرآنی وصف صادق آنے لگے:قُلْ ھَلْ نُنَبِّئُکُمْ بِالْاَخْسَرِیْنَ اَعْمَالًا o اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُھُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ ھُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّھُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا o (الکہف ۱۸:۱۰۳-۱۰۴) ’’اے نبیؐ ان سے کہو، کیا ہم تمھیں بتائیں کہ اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام و نامراد لوگ کون ہیں؟ وہ کہ دنیا کی زندگی میں جن کی ساری سعی و جہد راہِ راست سے بھٹکی رہی اور وہ یہ سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں‘‘۔ جو کچھ وہاں ہورہا ہے اس کے بارے میں خود شام اور عراق کے جلیل القدر اور مخلص علماے کرام کی راے بھی سن لیجیے۔ شام کے معروف عالم دین اور رابطۂ علماے شام کے ذمہ دار علامہ مجد مکی کا کہنا ہے کہ: ما فعلتہ داعش في صد الناس عن دین اللّٰہ لم تفعلہ جیوش جرارۃ قوامہا ملایین الجنود،’’ لوگوں کو اللہ کے دین سے متنفر کرنے کے لیے جو خدمت داعش نے انجام دی ہے وہ لاکھوں سپاہیوں پر مشتمل بڑے بڑے عالمی لشکر بھی نہیں دے سکتے تھے‘‘۔
یہ درست ہے کہ نظریۂ سازش بنیادی طور پر انسان کو مایوس اور بے دست و پا کردیتا ہے، لیکن یہ بھی کسی طورممکن نہیں کہ بندہ اپنے سامنے وقوع پذیر حقائق سے آنکھیں بند کرلے۔ شام میں اپنے پورے لاؤلشکر سمیت آکودنے والے روس ہی کو دیکھ لیجیے کہ اس کی تمام تر کارروائیوں کا نشانہ مظلوم شامی عوام بن رہے ہیں۔ شامی عوام ہی کا ساتھ دینے پر وہ ترکی کو سبق سکھانے اور اسے عبرت کا نشان بنادینے کا اعلان کررہا ہے۔ لیکن بظاہر اعلان اس کا بھی یہی ہے کہ وہ داعش سے جنگ کرنے اور دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے لیے آیا ہے۔ اپنی اس آمد کو سیاسی اور عوامی حمایت دلوانے کے لیے اس نے مصر کے صحراے سینا میں مار گرائے جانے والے روسی مسافر جہاز کو بھی خوب پراپیگنڈے کی بنیاد بنایا۔ اس نے بھی اسے داعش کی کارروائی قرار دیا، اور خود داعش نے بھی ذمہ داری قبول کی۔
روسی مسافر جہاز میں مارے جانے والے بے گناہ شہری یقینا ظلم کا شکار ہوئے۔ لیکن ذرا ایک نظر برطانوی اخبار ڈیلی میل میں ۲۶ دسمبر ۲۰۱۵ء کو شائع شدہ روسی خفیہ ایجنسی کے ایک سابق افسر پورس کارپشکوف کا وہ تفصیلی انٹرویو بھی دیکھ لیجیے جس میں اس نے تہلکہ خیز انکشافات کیے ہیں۔ روس سے اپنے اہل خانہ کے ساتھ فرار ہوکر برطانیہ میں پناہ لینے والے اس سابق روسی افسر کا پُرزور دعویٰ ہے کہ صحراے سینا میں تباہ ہونے والا جہاز روس نے خود گرایا تھا۔ اس کے بقول روسی خفیہ ادارے کے خصوصی شعبے GRU میں یہ منصوبہ خود روسی صدر کی منظوری سے تیار ہوا، تاکہ اس کے نتیجے میں ایک طرف داعش کا ہوّا مزید مستحکم ہو اور دوسری طرف روس خطے میں اپنے اثر و نفوذ کے دیگر منصوبوں کو رُوبہ عمل لاسکے۔ اس روسی افسر نے منصوبے پر عمل در آمد کی جزئیات تک بیان کرتے ہوئے ان تمام افراد کے نام، ان کا منصوبہ، جہاز میں ٹائم بم پہنچانے کا طریق کار، دھوکے سے استعمال ہونے والی روسی سیاح خاتون اور اس کی سیٹ نمبر وغیرہ سمیت سب کچھ تفصیلاً بتادیا ہے۔ اب اگر فرض کرلیا جائے کہ یہ ساری کہانی جھوٹی اور دعویٰ غلط ہے تو روسی ذمہ داران، برطانوی قانون کے مطابق اخبار اور انٹرویو دینے والے پر کروڑوں روپے ہرجانے کا دعویٰ کرسکتے تھے۔ ہرجانے کا کوئی دعویٰ یا کوئی تردید تو نہیں ہوئی، البتہ ۲۱ جنوری کو برطانوی عدالت کے ایک فیصلے سے کارپشکوف کے اس دعوے کو تقویت ضرور ملی۔ عدالت نے ۲۰۰۶ء میں لندن میں ایک روسی جاسوس الگزنڈر لیٹفینکو کے قتل کا فیصلہ سنایا ہے۔ اس فیصلے کے مطابق سابق روسی جاسوس کو روسی خفیہ ایجنسی نے زہر دے کر قتل کیا تھا۔ قصور اس کا یہ تھا کہ اس نے اپنی ایک کتاب میں کئی خوف ناک انکشافات کر دیے تھے۔ ان میں یہ بات بھی شامل تھی کہ چیچنیا میں اپنی فوجیں اُتارنے سے پہلے، راے عامہ ہموار کرنے کے لیے کئی روسی شہری آبادیوں میں چیچن ’باغیوں‘ سے منسوب بم دھماکے، دراصل روس نے خود کروائے تھے، اور پوٹن نے ان کی سرپرستی کی تھی۔
یہ خبریں بھی ساری دنیا جانتی ہے کہ شام میں روسی افواج کی آمد کے موقع پر روسی صدر پوٹن اور صہیونی وزیراعظم نیتن یاہو کے مابین تفصیلی تبادلۂ خیال ہوا۔ بشار الاسد کی حمایت کے لیے روس کی آمد بظاہر اسرائیل کے اہداف سے متصادم ہے، لیکن دونوں ملکوں نے باہم تعاون اور مفاہمت کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ باہم قریبی روابط رکھیں گے تاکہ دونوں کسی غلط فہمی کی بناپر ایک دوسرے کو نقصان نہ پہنچا بیٹھیں۔
شاید اس سے بھی زیادہ حیرت آپ کو امریکی صدر اوباما کے حالیہ سالانہ خطاب سے متصل واشنگٹن کے وڈرو ویلسن ریسرچ سنٹر (Woodrow Wilson International Center for Scholars) میں اسرائیلی وزارت خارجہ کے ڈائریکٹر جنرل ڈوری گولڈ کے خطاب سے ہوگی۔ یہ ریسرچ سنٹر واشنگٹن میں ایرانی نفوذ کا اہم ذریعہ، اور ڈوری گولڈ اسرائیل کے حقیقی وزیر خارجہ سمجھے جاتے ہیں۔ شام کے بارے میں بات کرتے ہوئے ڈوری گولڈ نے بعینہٖ وہ بات کہی جو کویت پر حملے کا سبز اشارہ دیتے ہوئے امریکی سفیر نے صدام حسین سے کہی تھی۔ اس نے کہا : ’’اسرائیل شام کے اندرونی معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کرنا چاہتا‘‘۔ دوسری اہم بات جو اس نے کہی، اس کا خلاصہ یہ تھا کہ گولان (مقبوضہ شامی علاقہ) کے گردونواح میں ایرانی اثرونفوذ میں اضافہ اسرائیل کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھا جائے گا اور اسرائیل کسی صورت اس کی اجازت نہیں دے گا۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ دمشق پر آپ کا قبضہ ہمیں قبول اور گولان پر ہمارے قبضے کو آپ کسی صورت چیلنج نہ کریں۔
یہ امر بھی ہر شک سے بالاتر ہے کہ اس علانیہ اور خفیہ سفارت کاری، امریکا ایران ایٹمی معاہدے، ایران سے اقتصادی پابندیاں ہٹنے کامطلب ہرگز یہ نہیں لیا جاسکتا کہ اسرائیل اور امریکا ایران، سعودی عرب یا کسی اور مسلم ملک کے حقیقی خیر خواہ اور دوست بن گئے ہیں۔ امریکا اپنے قوانین اور معاہدوں کی روشنی میں اس بات کا پابند ہے کہ مشرق وسطیٰ کے کسی بھی ملک کو فوجی سازوسامان فروخت کرتے ہوئے یہ بات یقینی بنائے کہ اس سے خطے میں اسرائیل کی عسکری بالادستی متاثر نہیں ہوگی۔ امریکی پالیسی ساز اداروں میں صہیونی نفوذ ان سے خود امریکی مفادات کے منافی فیصلے تو کرواسکتا ہے، اسرائیل کو ناگوار محسوس ہونے والے کسی اقدام کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ دہشت گردی کے نام پر اس کی جنگ اور اس کی پالیسیوں کا مرکز و محور، مسلم ممالک کی مشکیں کسنا اور اسرائیلی ریاست کا دفاع یقینی بنانا ہے۔ اسی مقصد کی خاطر تباہ کن اسلحہ رکھنے کا جھوٹا پروپیگنڈا کرکے عراق کو نشان عبرت بنایا گیا تھا اور یہ قتل و غارت ہنوز جاری ہے۔ اسرائیل ہو یا کوئی بھی عالمی سامراجی قوت، اس وقت سب کا مشترک ہدف ایک ہی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں اختلافات کی یہ آگ کسی صورت بجھنے نہ دی جائے۔ جو فریق بھی کمزور ہونے لگے گا، وہ اسے کسی نہ کسی طور آکسیجن دیتے رہیں گے۔ اگر کہیں اقتصادی پابندیاں ہٹائیں گے تو بھی تیل کی قیمت میں تاریخی کمی کرتے ہوئے اسے عملاً بے وقعت کردیں گے۔ داعش اور دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر ہزاروں بم برسائے جاتے رہیں گے، لیکن وہ ایک کے بعد دوسرے ملک میں نمودار ہوتی رہے گی۔
ایسے میں اصل امتحان مسلم ممالک اور ان کی قیادت کا ہے۔ اگر جانتے بوجھتے بھی کسی نہ کسی تعصب، ضد یا نفرت و عداوت کا شکار ہو کر اور صرف اپنے اپنے موقف کو درست قرار دیتے ہوئے دشمن کے بچھائے جال میں پھنستے رہے، تو شاید زیادہ وقت نہ گزرے گا کہ سب ہی ندامت و شکست سے دوچار ہوں گے۔ لیکن اگر اس وقت کھلے ذہن، اعلیٰ ظرفی اور تمام تعصبات سے بالاتر ہوکر فیصلے کیے گئے تو یقینا دوجہاں کی سرفرازی قدم چومے گی۔ بصورت دیگر ظلم اور ظالموں کے بارے میں قرآن کے اس خطاب کا مخاطب ہر ظالم اور اس کا ہر مددگار ہوگا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’یہ ظالم لوگ جو کچھ کررہے ہیں ، اللہ کو تم اس سے غافل نہ سمجھو۔ اللہ تو انھیں ٹال رہا ہے۔ اس دن کے لیے جب حال یہ ہوگا کہ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی ہیں، سر اُٹھائے بھاگے چلے جارہے ہیں، نظریں اُوپر جمی ہیں اور دل اُڑے جاتے ہیں۔ اے نبیؐ، اُس دن سے تم انھیں ڈرادو، جب کہ عذاب انھیں آلے گا۔ اس وقت یہ ظالم کہیں گے کہ ’’اے ہمارے رب، ہمیں تھوڑی سی مہلت اور دے دے، ہم تیری دعوت پر لبیک کہیں گے اور رسولوں کی پیروی کریں گے۔‘‘ (مگر انھیں صاف جواب دیا جائے گا) کہ ’’کیا تم وہی لوگ نہیں ہو جو اس سے پہلے قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ ہم پر تو کبھی زوال آنا ہی نہیں ہے؟ حالانکہ تم ان قوموں کی بستیوں میں رہ بس چکے تھے جنھوں نے اپنے اوپر آپ ظلم کیا تھا او ردیکھ چکے تھے کہ ہم نے اُن سے کیا سلوک کیا اور اُن کی مثالیں دے دے کر ہم تمھیں سمجھا بھی چکے تھے۔ انھوں نے اپنی ساری ہی چالیں چل دیکھیں، مگر اُن کی ہر چال کا توڑ اللہ کے پاس تھا اگرچہ اُن کی چالیں ایسی غضب کی تھیں کہ پہاڑ اُن سے ٹل جائیں۔ ’’پس اے نبیؐ، تم ہرگز یہ گمان نہ کرو کہ اللہ کبھی اپنے رسولوں سے کیے ہوئے وعدوں کے خلاف کرے گا۔ اللہ زبردست ہے اور انتقام لینے والا ہے‘‘۔(ابراہیم ۱۴:۴۲-۴۷)
ہمارا ایمان ہے کہ اگر ہم خلوص کے ساتھ جدوجہد کرتے رہیں گے تو اللہ پاک ہمیں کامیابی سے ہم کنار فرمائیں گے۔
توجہ فرمایئے
ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن ، انتظامی دفتر کا نیا فون نمبر:042-3525212
اہلِ پاکستان ۱۹۹۰ء سے،۵فروری کا یوم اہلِ کشمیر کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کے طو رپر مناتے چلے آرہے ہیں ۔ دراصل یہ قاضی حسین احمد رحمتہ اﷲ علیہ کا ایسا صدقۂ جاریہ ہے جو ہرسال پوری قوم کو اہلِ کشمیر کی پشت پر لا کھڑا کرتا ہے ۔ پاکستان کے مختلف المزاج حکمرانوں کے بدلتے ہوئے رحجانات اور کمزور پالیسیوں کی وجہ سے بعض اوقات شکوک و شبہات بھی پیدا ہو تے رہتے ہیں۔ تاہم ہرسال ۵فروری کا دن قوم کے اندر ایسی لہر اٹھا دیتا ہے کہ سازشیں دَم توڑ دیتی ہیں اور پوری قوم اہل کشمیرکو یہ پیغام پہنچاتی ہے کہ قوم کا بچہ بچہ اہلِ کشمیر کی پشت پر ہے۔ یوں تحریکِ آزادیِ کشمیر کو ایک نئی تقویت ملتی ہے ۔
امسال یک جہتی کشمیر ایسے عالم میں منایا جا رہا ہے،جب میدانِ کارزار میں اہلِ کشمیر مشکلات کے باوجود منزل کے حصول کے لیے پُرعزم ہیں۔ وہ بھارتی استبداد کا بے جگری سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ یہ بھی اُن کے پُرعزم ہونے کا ثبوت ہے کہ گذشتہ سیلاب میں ۵۵لاکھ کشمیریوں نے بُری طرح متاثر ہونے کے باوجود بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں ریلیف لینے سے انکار کردیا تھا۔ ان کی قومی غیرت نے قبول نہ کیا کہ وہ ان مشکل ترین لمحات میں بھی ظالموں اور غاصبوں سے کسی طرح کی امداد و اعانت وصول کریں۔ وہ اﷲ کی تائید و نصرت اور باہم اتحاد و یک جہتی سے بھارت کے ہر وار کا مقابلہ کر رہے ہیں ۔اس عرصے میں گونا گوں چیلنج اُبھرکر سامنے آئے ہیں۔
نریندر مودی نے اپنے انتخابی منشور میں بھارتی آئین کی دفعہ ۳۷۰کے خاتمے کے ذریعے مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے بھارت میں اس کے مکمل انضمام کا اعلان کیا تھا اور مقبوضہ ریاست کی اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل کر نے کے لیے بھرپور مہم چلائی تھی۔ پھر پے در پے کئی دورے کر کے بڑے بڑے معاشی پیکیجز کا اعلان کیا لیکن مسلم اکثریتی نشستوں میں سے بی جے پی ایک بھی نشست حاصل نہ کر سکی۔ یوں اسے مجبوراً مفتی سعید کے ساتھ ایک جونیئر پارٹنر کی حیثیت سے سرینگر میں مخلوط حکومت میں شامل ہونا پڑا۔مرکزی سرکار کی آشیر باد سے بی جے پی نے ریاست کا مسلم اکثریتی تشخص ختم کرنے کے لیے کئی ہتھکنڈے استعمال کیے لیکن قائدِ حریت سید علی گیلانی اور دیگر قائدین حریت نے بر وقت اقدام کرتے ہوئے پوری کشمیری قوم کو سیسہ پلائی ہوئی دیوار میں بدل دیا ، شہدا کے جنازے ریفرنڈم کی حیثیت اختیار کرگئے۔ حالات نے قائدین حریت کو کندھے سے کندھا ملا کر چلنے پر مجبور کر دیا۔ جناب شبیر احمد شاہ اور دیگر حریت تنظیمیں سید علی گیلانی کی قیادت میں منظم اور یکجہت ہو گئیں۔
نامساعد حالات کے باوجود، اپنے ذرائع کی بنیاد پر اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں نے ایک مرتبہ پھر قابض افواج کو پیغام دیا کہ جب تک استعماری قبضہ ختم نہیں ہوتا، مجاہدین اپنی جدوجہد ترک نہیںکر سکتے۔یہ نوخیز نوجوان قوم کے ہیرو قرار پائے۔ ان کا سرخیل حزب المجاہدین کا ایک کمانڈر برہان مظفر وانی وہاں آج کے نوجوانوں کا آئیڈیل ہے ۔ گذشتہ چند ماہ میں کئی عسکری معرکوں میں بھارتی فوج کو شدید ہزیمت اور نقصان کاسامنا رہا ۔ اس عرصے میں نریندر مودی کے مقبوضہ کشمیر کے دوروں کے موقعے پر تاریخی ہڑتالوں نے ثابت کیا کہ کشمیری خوف اور لالچ کے کسی ہتھکنڈے کو خاطر میں لائے بغیر آزادی کے حصول تک اپنے مشن پر گامزن رہیں گے۔
نریندر مودی کی حکومت کے بر سراقتدار آتے ہی بھارت نے پاکستان سے بات چیت کا سلسلہ منقطع کر دیا اور لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری پر بلا اشتعال فائرنگ کا سلسلہ روز افزوں ہوگیا جس کے نتیجے میں سویلین اور فوجی شہادتیں ہوئیں لیکن افواج پاکستان نے بھی دندان شکن جواب دیا ۔ ادھر آزاد جموں وکشمیر کی تمام سیاسی اور دینی جماعتوں نے کل جماعتی کشمیر رابطہ کونسل کے پلیٹ فارم سے حقِ خود ارادیت کے ایک نکاتی ایجنڈے پر اتحاد کرتے ہوئے قومی اور بین الاقوامی سرگرمیوں کا اہتمام کیا ۔ برطانیہ اور امریکا میں بڑے بڑے مارچ کیے گئے ، بالخصوص برطانیہ میں نریندر مودی کی آمد کے موقعے پر تحریک کشمیر برطانیہ اور دیگر جماعتوں نے ایک جھنڈے اور ایک نعرے کے ساتھ بھرپور احتجاج کیا ۔ کل جماعتی رابطہ کونسل کے کنوینر کی حیثیت سے راقم ساری جماعتوں کی نمایندگی کرتے ہوئے ان سارے پروگراموں میں شریک رہا۔ برطانوی میڈیا اور ممبران پارلیمنٹ نے بھی ان سرگرمیوں سے متاثر ہو کر کشمیر میں انسانی حقوق کی بد ترین پامالی کے ریکارڈ پر نریندر مودی اور بھارتی حکومت کی سخت مذمت کی، اور اپنی حکومت اور بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا کہ خطّے اور دنیا کے امن کو کسی بڑے حادثے سے بچانے کی خاطر کشمیر جیسے دیرینہ مسئلے کو حل کرنے کے لیے بھارتی حکومت پر دبائو بڑھایا جائے ۔
اسی عرصے میں وزیر اعظم پاکستان نے جنرل اسمبلی میں اپنے قومی موقف کا اعادہ کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر پر دو ٹوک موقف اختیار کیا ۔اسی طرح چیف آف آرمی سٹاف نے بھی ملکی اور بین الاقوامی سطح پر مختلف کانفرنسوں میں مسئلہ کشمیر کو تقسیم برعظیم کے ایجنڈے کا حصہ قرار دیتے ہوئے عالمی برادری پر واضح کیا کہ پاکستان کشمیریوں کی برحق جدوجہد سے کسی طور پر پیچھے نہیں ہٹ سکتا ۔ ان سارے عوامل، یعنی مقبوضہ ریاست میں عوامی و عسکری مزاحمت ، پاکستان کا دو ٹوک موقف اور بین الاقوامی دبائو نے نریندر مودی کی حکومت کو پاکستان سے ’ کُٹی‘ کرنے کی پالیسی ختم کرنے پر مجبور کیا جس کے نتیجے میں پہلے ان کی وزیر خارجہ شسما سوراج اور پھر نریندر مودی پاکستان وارد ہوئے اور دو طرفہ بات چیت کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیاگیا ۔ پاکستان اور اہل کشمیر نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ مسئلہ کشمیر بات چیت سے حل ہو۔ اس سلسلے میں ۱۰۰ سے زیادہ اَدوار ہو چکے ہیں لیکن شومیِ قسمت سے مسئلے کے حل کی طرف بھارتی ہٹ دھرمی کی وجہ سے کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔ جب بھی بین الاقوامی دبائو بڑھا بھارت بات چیت کا ڈول ڈالتے ہوئے محض وقت حاصل کرتا رہا۔ اس لیے قائد حریت سید علی گیلانی سمیت تحریکِ آزادی سے وابستہ تمام حلقے یہ موقف پیش کرتے رہے ہیں کہ اگر بات چیت ہو تو محض آلو پیاز پر اور اسی طرح کے جزوی مسائل پر نہ ہو بلکہ مسئلہ کشمیر پر ہو اور ان شرائط کے ساتھ ہو کہ :
۱- بھارت اٹوٹ انگ کی رٹ ترک کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو حل طلب تسلیم کرے۔
۲-مقبوضہ کشمیر سے فوجی انخلا کرے ، کم از کم پہلے مرحلے پر آبادیوں سے فوج واپس بلائے ۔
۳- کالے قوانین واپس لے۔
۴-ہزاروں گرفتار شدگان کو جو سال ہا سال سے جیلوں میں پڑے ہیں ، رہا کیا جائے۔
۵-قائد حریت سید علی گیلانی اور دیگر قائدین حریت کی حراستوں کو ختم کرتے ہوئے شہری آزادیاں بحال کرے اور انھیں اپنا مقدمہ بین الاقوامی برادری کے سامنے پیش کرنے کا موقع دے ۔ اس سلسلے میں انھیں سفری دستاویزات فراہم کرے۔
۶-۵۵لاکھ متاثرین سیلاب کے لیے بین الاقوامی این جی اوز اور آزادکشمیر و پاکستان میں مقیم کشمیریوں کو کشمیری بھائیوں تک امداد پہنچانے کا موقع فراہم کرے۔
ان شرائط پر عمل پیرا ہوئے بغیر، بات چیت ماضی کے تجربات کی روشنی میں محض بھارتی ہتھکنڈا ہے، اسے سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے اور بھارت پر بین الاقوامی دبائو بڑھانے اور تحریکِ آزادی کی تقویت کا اہتمام جاری رکھنا چاہیے ۔کوئی اورایسا قدم نہ اٹھایا جائے جس سے تقسیم کشمیر کی راہ ہموار ہو یا کم از کم ہندستان کو ایسا کرنے کا جواز فراہم ہو۔ خصوصاً گلگت اور بلتستان جو تاریخی اعتبار سے ریاست جموں وکشمیر کا حصہ ہیں ، انھیں تمام بنیادی حقوق دیے جائیں جو پاکستان کے تمام شہریوں کو حاصل ہیں۔ تاہم آئینی لحاظ سے مسئلہ کشمیر کے پس منظر کو نظر انداز کر کے انھیں پاکستان کا صوبہ بنانا ایسی بے تدبیری ہوگا جس کے نتیجے میں کشمیریوں اور پاکستان کے درمیان بے اعتمادی کی فضا جنم لے گی ۔حالات کا تقاضا ہے کہ وزیر اعظم پاکستان کشمیری قیادت کی مشاورت سے ایک واضح حکمت عملی طے کریں تاکہ آزادی کی منزل قریب تر ہو سکے۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اِِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ o اٰخِذِیْنَ مَآ اٰتٰھُمْ رَبُّھُمْ ط اِِنَّھُمْ کَانُوْا قَبْلَ ذٰلِکَ مُحْسِنِیْنَ o(الذٰریٰت۵۱ :۱۵-۱۶) البتہ متقی لوگ اس روز باغوں اور چشموں میں ہوں گے، جو کچھ ان کا رب انھیں دے گا اسے خوشی خوشی لے رہے ہوں گے۔ وہ اس دن کے آنے سے پہلے نیکوکار تھے۔
یہ سورئہ ذاریات کے پہلے رکوع کی آیات ہیں۔ سورئہ ذاریات منکرینِ آخرت کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمائی گئی ہے اور آخرت کے متعلق جو ان کے شبہات اور اعتراضات تھے اور اس کے انکار پر وہ اصرار کر رہے تھے، اس کے اُوپر استدلال بھی کیا گیا ہے اور ان کو تنبیہہ بھی کی گئی ہے۔
اس سے پہلے جو آیات گزر چکی ہیں ان کے اندر سب سے پہلے ہوائوں کے انتظام کو بطورِ دلیل کے پیش کیا گیا ہے۔ ہوائوں کا چلنا اور ان سے بارشوں کا آنا اور بارشوں کا ایک قاعدے کے مطابق اور ایک تنظیم کے ساتھ زمین کے مختلف حصوں پر تقسیم ہونا، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ کائنات کا یہ نظام ایک حکیمانہ نظام ہے۔ یہ حکمت اور دانائی پر مبنی ہے، کسی بچے کا کھیل نہیں ہے۔ جب یہ حکیمانہ نظام ہے تو اس کے متعلق کسی شخص کا یہ خیال کرنا کہ اس زمین پر انسان کو پیدا کرنے کے بعد، اس کو طرح طرح کے اختیارات دینے کے بعد، اس کے اندر اخلاقی حس پیدا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ اس کو مرنے کے بعد خاک میں ملا دے گا اور معدوم کردے گا اور پھر کبھی اس کو اُٹھا کر یہ نہ پوچھے گا کہ اس نے دنیا کی زندگی میں کیا کام کیا اور کس طرح کیا، درست نہیں۔ اگر یہ کسی بچے کا کھلونا ہوتا تو وہ اس سے کچھ دیر کھیلنے اور اس سے دل بہلانے کے بعد پھر خود ہی اپنے ہاتھوں سے اسے توڑ ڈالتا اور پھر پلٹ کر نہ دیکھتا۔
درحقیقت اس کائنات کا نظام کسی بچے کا کھلونا نہیں ہے بلکہ ایک حکیمانہ نظام ہے۔ اس میں ہزارہا برس سے حق اور باطل کی کش مکش چل رہی ہے۔ ہزارہا آدمیوں نے حق کا ساتھ دیا اور لاکھوں آدمیوں نے باطل کو سربلند کرنے کے لیے کوشش کی ہے۔ لوگوں نے حق اور باطل کی اس کش مکش میں اپنی زندگیاں کھپائی ہیں۔ لاکھوں کروڑوں آدمیوں نے ظلم سہے اور لاکھوں کروڑوں آدمیوں نے ظلم کیے۔ یہ سب کچھ برپا ہونے کے بعد آخرکار دونوں کا ہی ایک جیسا انجام ہوجائے، ظلم کرنے والے سے کبھی نہ پوچھا جائے کہ تم نے کیوں ظلم کیا تھا اور مظلوم کی کبھی کوئی داد رسی نہ کی جائے، یہ حکمت اور انصاف کے خلاف ہے۔
استدلال یہ تھا کہ اس کائنات کا نظام ایک حکیمانہ نظام ہے اور اس کے اندر کسی شخص کا یہ تصور کرنا کہ یہ یونہی ختم کردیا جائے گا، بغیر اس کے کہ اس میں انصاف ہو، اس میں کوئی عدالت ہو، جس میں اعمال کی بازپُرس ہو، یہ ایک احمقانہ خیال ہے۔
اس کے بعد دوسری بات یہ فرمائی گئی کہ محض گمان اور اٹکل سے یوں ہی الل ٹپ فیصلے کر دینا کہ اس کائنات میں انسان کا انجام کیا ہوگا؟ یہ ایک غلط بات ہے۔ اتنا بڑا اور اہم مسئلہ ہو اور اس چیز کو انسان محض اپنے گمان سے حل کردے درآں حالیکہ اس کے بارے میں انسان کے گمان مختلف بھی ہیں۔ کوئی گمان کرتا ہے کہ تناسخ ہوگا۔ کوئی یہ گمان کرتا ہے کہ مرکر یوں ہی مٹی ہوجائیں گے۔ کوئی گمان کرتا ہے کہ مرکر اُٹھیں گے تو سہی لیکن کچھ لوگ سفارش کرکے اپنے متوسلین کو اور ان لوگوں کو جنھیں وہ نذرانے دیتے ہیں ان کے گناہ معاف کروا لیں گے۔ اس طرح آخرت کے متعلق لوگ مختلف گمان کرتے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ یہ سارے گمان تو صحیح نہیں ہوسکتے۔ صحیح چیز یہ ہے کہ یہ اعتقاد علم پر مبنی ہونا چاہیے نہ کہ محض قیاس اور گمان پر۔
تیسری بات یہ فرمائی گئی کہ تمھارے گمانوں سے کچھ نہیں ہوگا۔ تم بار بار چیلنج کے انداز میں پوچھتے ہو کہ کہاں ہے وہ آخرت اور وہ کیو ں نہیں آتی؟ وہ آخرت آئے گی اور آکر رہے گی اور جب وہ آئے گی تو تم آگ پر تپائے جائو گے۔ جن لوگوں نے بھی آخرت کا انکار کیا اور اپنے آپ کو غیرذمہ دار اور غیر جواب دہ سمجھا اور دنیا میں بے نتھے بیل کی طرح رہ رہے ہیں، آخرکار ان کا جو انجام ہونا ہے وہ یہ ہے کہ وہ آگ پر تپائے جائیں گے۔ اور ان سے یہ پوچھا جائے گا کہ یہ وہی چیز تو ہے نا جس کا تم دنیا میں انکار کرتے تھے اور جس کو تم جھٹلاتے تھے۔
اس سلسلے میں مزید یہ فرمایا گیا ہے کہ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو دنیا میں آخرت کا انکار کرکے شتربے مہار کی طرح رہ رہے ہیں اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو آخرت کا اقرار کرکے تقویٰ اختیار کرتے ہیں۔ تقویٰ اختیار کرنے والوں میں سے کوئی بھی شخص آخرت کا انکاری نہیں ہوتا۔ آخرت کا اقرار کر کے ہی آدمی کے اندر تقویٰ پیدا ہوتا ہے، لہٰذا جن لوگوں نے آخرت کا اقرار کر کے تقویٰ اختیار کیا وہ اُس وقت اللہ کی جنتوں اور چشموں میں ہوں گے۔ جنت عربی زبان میں باغ کو کہتے ہیں، یعنی وہ وہاں باغوں میں ہوں گے۔ گویا ایک طرف آخرت کا انکار کرنے والے ہوں گے جنھیں وہاں آگ پر تپایا جائے گا، اور دوسری طرف آخرت کا اقرار کرنے والے ہوں گے اور وہ باغوں اور چشموں میں ہوں گے۔
اٰخِذِیْنَ مَآ اٰتٰھُمْ رَبُّھُمْ ط اِِنَّھُمْ کَانُوْا قَبْلَ ذٰلِکَ مُحْسِنِیْنَ o (۵۱ :۱۶) جوکچھ ان کا رب انھیں دے گا وہ خوشی خوشی لے رہے ہوں گے۔ وہ اس دن کے آنے سے قبل نیکوکار تھے۔
گویا یہ لوگ اپنے اعمال کے اعتبار سے نیک تھے۔ انھوں نے نیکوکاری اختیار کی تھی۔ اس لیے یہ لوگ جنت کے مستحق ٹھیرے ہیں۔
اب ان کی مزید صفات بیان کی گئی ہیں کہ ان کی نیکی کیا تھی:
کَانُوْا قَلِیْلًا مِّنَ الَّیْلِ مَا یَہْجَعُوْنَ o وَبِالْاَسْحَارِ ھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ o وَفِیْٓ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ o (۵۱:۱۷-۱۹) وہ اس دن کے آنے سے پہلے نیکوکار تھے، راتوں کو کم ہی سوتے تھے، پھر وہی رات کے پچھلے پہروں میں معافی مانگتے تھے، اور ان کے مالوں میں حق تھا سائل اور محروم کے لیے۔
یہ ایسے لوگ تھے جو راتوں کو کم ہی سوتے تھے۔ رات کے آخری حصے میں استغفار کرتے، اللہ تعالیٰ سے درگزر اور مغفرت کی دعائیں مانگتے تھے، اور ان کے مالوں میں سائل اور مسکین کا حق تھا۔
ایک بات اچھی طرح ذہن نشین کرلیجیے کہ قرآنِ پاک میں ایک جگہ پر نیک کاموں کی فہرست بناکر یک جا پیش نہیں کی گئی۔ نیکی کس کو کہتے ہیں؟ یہ پورے قرآن میں پھیلا ہوا ہے۔ بدی کسے کہتے ہیں؟یہ بھی قرآن کے اول سے لے کر آخر تک لکھا ہوا ہے۔ مختلف مقامات پرجہاں کسی چیز کا کوئی بیان آتا ہے کہ نیک کون ہے اور بد کون، تو وہاں ایک دو نمونے کی چیزیں لے کر چند صفات بیان کردی جاتی ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہاں نیکی کے تمام کاموں کی فہرست موجود ہے۔ ایسا نہیں ہے بلکہ نمونے کی چند صفات کا ذکر کیا جاتا ہے جن سے اصولی بات کی جاسکتی ہو۔ اسی طرح سے بدی ہے۔ مختلف مقامات پر اللہ تعالیٰ بدی کی مختلف چیزوں کی مذمت فرماتے ہیں۔ کسی ایک جگہ ان تمام صفات کو بیان نہیں کردیا گیا ہے جو بُری ہیں۔ موقع محل کے لحاظ سے ایک دو چیزیں بیان کی جاتی ہیں جن سے آدمی سمجھ سکتا ہے کہ بُرائی کیا ہے؟
یہاں بھی احسان اور تقویٰ کا ذکر کرنے کے بعد یہ بتایا گیا ہے کہ جس چیز کی وجہ سے یہ لوگ جنت میں جائیں گے وہ ان کا تقویٰ اور احسان ہے۔
تقویٰ اس چیز کا نام ہے کہ آدمی بُرائی سے اس بنا پر ڈرے کہ اللہ تعالیٰ کو وہ ناپسندہے۔ اللہ تعالیٰ کا غضب اس کی وجہ سے ہوگا۔ اس لیے وہ بُرائی سے بچنے کی کوشش کرے گا۔
احسان اس چیز کا نام ہے کہ آدمی بہتر سے بہتر رویہ اختیارکرنے کی کوشش کرے۔
آگے چل کر ان لوگوں کی بطورِ نمونہ دو صفات پیش کی گئی ہیں جن کے اندر تقویٰ اور احسان پایا جاتا ہے۔ وہ یہ کہ وہ راتوں کو کم ہی سوتے ہیں اور رات کے آخری حصے میں استغفار کرتے ہیں۔ یہاں بطورِ نمونہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ان کا کیا کام پسند ہے۔ ظاہر بات ہے کہ اس دنیا میں انسان کے تعلقات کو اگر آپ تقسیم کریں تو وہ دو حصوں میں تقسیم ہوں گے۔ ایک یہ کہ آدمی کا خدا سے کیسا تعلق ہے اور دوسرے یہ کہ بندوں سے آدمی کا کیسا تعلق ہے۔
یہاں پہلی چیز یہ بتائی گئی کہ خدا سے ان کا کیا تعلق ہے۔ خدا سے ان کا تعلق یہ ہے کہ وہ رات کو کم سوتے ہیں اور رات کے آخری حصے میں اُٹھ کر اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے ہیں۔ اگر ایک شخص استغفراللہ، استغفراللہ پڑھ رہا ہو تو اس میں اس بات کا امکان ہے کہ وہ ریاکاری کررہا ہو اور اس میں خلوص نہ ہو۔ رات کے آخری حصے میں اگر کوئی شخص استغفار کرتا ہے تو اس وقت وہ اور اس کا رب ہوتا ہے اور درمیان میں کوئی اور نہیں ہوتا۔ اس وقت اگر کوئی آدمی استغفار کرتا ہے تو اس کے معنی ہیں کہ وہ خلوص کی بنا پر یہ کر رہا ہے ۔ اس کے دل کو لگی ہوئی ہے۔ وہ ریاکاری نہیں کررہا۔ اپنے رب سے پُرخلوص تعلق کی وجہ سے وہ اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ رات کے آخری حصے میں جب کوئی دیکھنے اور سننے والا نہیں ہے، اس کے اور اس کے رب کے درمیان یہ تعلق اس کے خلوص کا نتیجہ ہے۔
دوسری چیز یہ ہے کہ وہ استغفار کرتا ہے۔ ایک طرف وہ شخص ہے جو دنیا میں ظلم کرتا ہے، زیادتیاں کرتا ہے، حرام خوریاں کرتا ہے، لوگوں کے حقوق مارتا ہے لیکن پھر بھی اس کو استغفار کا خیال نہیں آتا۔ اللہ سے معافی مانگنے کا خیال تک اس کے دل میں نہیں آتا۔
دوسرا آدمی وہ ہے جو تقویٰ کی زندگی بسر کر رہا ہے۔ کسی چیز کے بارے میں اسے خیال ہوتا ہے کہ اس میں میرے رب کی ناراضی ہوگی، اس سے وہ پرہیز کرتا ہے۔ جن جن بھلائیوں کے متعلق اسے علم ہے کہ وہ اس کے رب کو پسند ہیں، ان کو وہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس سب کے باوجود وہ استغفار کرتا ہے۔ اسے اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ میرے رب کا میرے اُوپر جو حق تھا مَیں اس کو پوری طرح ادا نہیں کرسکا۔ اس کو یہ غلط فہمی نہیں ہوتی کہ میں نے اپنے رب کے سارے حقوق ادا کر دیے ہیں۔ میں تمام بُرائیوں سے بچ گیا ہوں اور کبھی مجھ سے کوئی بُرائی سرزد نہیں ہوئی۔ ساری نیکیاں اور بھلائیاں میں نے کرلی ہیں اور کوئی نیکی اور بھلائی مجھ سے نہیں چھوٹی۔ اس غلط فہمی میں وہ کبھی مبتلا نہیں ہوتا۔ سارے نیک عمل جو وہ کرسکتا ہے ان کو کرنے کے بعد اور ساری وہ بُرائیاں جن کو وہ کرسکتا ہے ان سے بچنے کے بعد بھی وہ اپنے رب سے درگزر ہی کی درخواست کرتا ہے، اور معافی ہی مانگتا ہے۔ یہ پہلی صفت ہے کہ خدا کے ساتھ اس بندے کا کیا تعلق ہے۔
وَفِیْٓ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ o(۵۱:۱۹) ان کے مالوں میں حق ہے سائل اور محروم کا۔
یہاں اس بات کو ملحوظ رکھیے کہ ایک وہ آدمی ہے جس پر دوسرے لوگوں کے قانونی حقوق عائد ہوتے ہیں اور وہ ان کو ادا کرتا ہے۔ شرعاً اس پر جو حقوق عائد ہوتے ہیں وہ ان کو ادا کرتا ہے۔ یہ بھی نیکی ہے ۔ لیکن اس سے آگے بڑے درجے کی نیکی یہ ہے کہ بظاہر کسی کا کوئی حق آپ پر نہیں آرہا۔ کسی قانون میں نہیں لکھا ہے کہ ایک آدمی آپ سے مدد مانگنے کے لیے آئے تو آپ پر لازم ہے کہ اس کی مدد کریں۔کسی قانون میں یہ نہیں لکھا ہے کہ فلاں آدمی اپنی روزی پانے سے محروم رہ گیا ہے تو آپ پر لازم ہے کہ آپ جا کر اس کو پہنچائیں۔ کوئی فریضہ آپ پر اس طرح کا عائد نہیں ہوتا لیکن باوجود اس کے ایک آدمی ان لوگوں کے حق کو محسوس کرتاہے کہ جن کا حق اس پر ازروے قانون عائد نہیں کیا گیا۔ اس کے اُوپر کوئی فریضہ عائد نہیں ہے لیکن وہ اپنی جگہ یہ احساس رکھتا ہے کہ جو بندہ مدد کا محتاج ہے اور میرے پاس آکر اپنی حاجت ظاہر کرتا ہے، مجھ سے درخواست کرتا ہے کہ میں مدد کا محتاج ہوں،اس آدمی کا حق وہ اپنے اندر خود محسوس کرتا ہے۔ آپ خود یہ محسوس کرتے ہیں کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے جو مال دیا ہے اس میں اس آدمی کا بھی حق ہے درآں حالیکہ قانون نے وہ حق آپ پر عائد نہیں کیا۔ یہ ایک اخلاقی حق ہے لیکن ازروے قانون آپ پر لازم نہیں ہے۔
اسی طرح اس سے بھی آگے بڑھ کر ایک آدمی آپ کے پاس آکر کہتا ہے کہ میں حاجت مند ہوں اور میری مدد کیجیے۔ ایک دوسرا شخص ہے کہ جس کے علم میں ہے کہ یہ شخص اپنی روزی پانے سے محروم رہ گیا ہے۔ اس کے گھر آج کھانے کو نہیں ہے۔ اس کے پاس کپڑے نہیں ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو پہنا سکے۔ غرض کسی نہ کسی طرح آپ کے علم میں یہ بات آجائے کہ ایک آدمی اپنی ضروریات پوری کرنے کے ذرائع سے محروم رہ گیا ہے۔ محروم اسی آدمی کو کہیں گے جو مدد مانگنے کے لیے مجبور ہے لیکن مدد مانگنے کے لیے نہیں آتا، اور جو آکر مدد مانگے وہ سائل ہے۔ جب آپ محسوس کریں کہ میرے پاس جو مال ہے اس میں اس کا بھی حق ہے۔ یہ صرف میرا مال ہی نہیں ہے کہ مَیں نے اسے کمایا ہے ۔ میرے بال بچوں کا ہی حق نہیں ہے کہ وہ میرے بال بچے ہیں۔ نہیں، بلکہ اس میں اس آدمی کا بھی حق ہے جو اپنی روزی پانے سے محروم رہ گیا ہے اور ان حقوق کو وہ محسوس کر کے ادا کردے۔اللہ کے بندوں کے ساتھ جو بہترین تعلق آپ محسوس کرسکتے ہیں وہ اس کے اندر آگیا۔
ظاہر بات ہے کہ جو آدمی بندوں کے حقوق کو اس طرح سے محسوس کرتا ہو، اس سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ بندوں کے حقوق کو اس طرح سے محسوس کرے اور پھر انھیں ستائے بھی۔ ان کے ساتھ شرارتیں بھی کرے، ان پر طنز بھی کرے اور ان کے ساتھ زیادتیاں بھی کرے اور ان کے حقوق بھی مارے۔ اس کا آپ تصور نہیں کرسکتے۔ بندوں کے ساتھ بہترین تعلق کی جو صورت ہوسکتی ہے، یہاں اس کا ایک نمونہ بیان کر دیا گیا ہے جس سے آپ تصور کرسکتے ہیں کہ بحیثیت مجموعی اس کا خدا کے بندوں کے ساتھ کیا رویہ ہوگا۔
خدا اور اس کے بندوں کے ساتھ یہ تعلق رکھنے والے ہی محسن اور متقی ہیں اور اس طرح کے لوگ لازماً جنت میں جائیں گے۔ اس کے برعکس وہ لوگ جو آخرت کا انکار کرتے ہیں اور آخرت کے انکار کی وجہ سے اپنے آپ کو غیرذمہ دار سمجھتے ہیں اور دنیا میں اس طرح سے زندگی بسر کرتے ہیں کہ گویا ان کو کسی کے سامنے جاکر اپنا حساب نہیں دینا ہے، وہ آگ کے اُوپر تپائے جائیں گے۔
یہ جنت کے حق میں تیسری نوعیت کا استدلال ہے۔ ایک استدلال یہ ہے کہ اس کائنات کا نظام حکیمانہ ہے۔ دوسرا استدلال یہ ہے کہ تمھارے لیے یہ بات صحیح نہیں ہے کہ تم اتنے بڑے اہم معاملے کا فیصلہ اٹکل پچو اور محض اپنے قیاسات و گمان کی بنیاد پر کرلو۔ تیسرا استدلال یہ ہے کہ خود اخلاق کا تقاضا کیا ہے۔ انسان کے اندر جو اخلاقی حس رکھی گئی ہے کہ یہ نیکی ہے اور یہ بدی، تو کون سا آدمی ایسا ہے جو نیکی اور بدی میں تمیز نہ کرسکے اور کون سا آدمی ایسا ہے جو نیکی اور بدی کو مکینیکل سمجھتا ہے۔
ایک آدمی کو اگر گدھا لات مار دیتا ہے تو اس کو کبھی غصہ اس حیثیت میں نہیں آتا کہ اس گدھے نے جان بوجھ کر مجھے لات ماری ہے۔ ایک آدمی دوسرے کو لات مار دیتا ہے تو اس کو فوراً غصہ آجاتا ہے اور وہ اس سے لڑنے کے لیے آمادہ ہوجاتا ہے۔ یہ اس لیے کہ وہ سوچے سمجھے افعال اور بے سوچے سمجھے افعال کے درمیان فرق کر رہا ہے۔ اس کے بعد وہ یہ بھی فیصلہ کرتا ہے کہ گدھے کے عمل میں نیکی اور بدی کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا، لیکن انسان کے عمل میں نیکی اور بدی کا سوال پیدا ہوتا ہے۔ اگر کوئی چھوٹا سا بچہ کسی کو گالی دے دیتا ہے تو کوئی بھی یہ نہیں سمجھتا کہ یہ اپنی اس گالی کے لیے ذمہ دار ہے۔ بڑا آدمی اگر گالی دے تو دوسرا شخص لڑنے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ آدمی نیکی اور بدی میں تمیز کر رہا ہے۔ ایک ایک آدمی اس فرق کو محسوس کر رہا ہے۔
دنیا میں کوئی آدمی ایسا نہیں جو اس بات کو محسوس نہ کر رہا ہو کہ نیکی کس کو کہتے ہیں اور بدی کس کو کہتے ہیں، اور نیکی اور بدی میں فرق کیا ہے۔ لہٰذا انسان میں نیکی اور بدی کی تمیز موجود ہو اور اس کی پوری زندگی میں نیکی اور بدی کا امتیاز پایا جاتا ہو۔ اس کے بعد کوئی جواب دہی نہ کرنی پڑے تو اس کے کیا معنی! انسان میں اخلاقی حِس کا پیدا ہونا خود بخود اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اس کی کہیں نہ کہیں جواب دہی ہونی چاہیے، اور وہ جواب دہی اس دنیا میں نہیں ہوسکتی۔
اس دنیا میں جواب دہی اس طرح ہوتی ہے کہ جو جوتے مارتے ہیں وہ بعض اوقات قوموں کے حکمران بن جاتے ہیں اور کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ ان کے آگے سلامیاں پیش کی جاتی ہیں، ان کی تعریفوں کے لیے گیت گائے جاتے ہیں درآں حالیکہ ساری دنیا دیکھ رہی ہوتی ہے کہ وہ کیسا آدمی ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ کہیں کوئی ایسی جگہ ہونی چاہیے جہاں لازماً ٹھیک ٹھیک انصاف ہو۔یہ تیسری نوعیت کا استدلال ہے۔
وَفِی الْاَرْضِ اٰیٰتٌ لِّلْمُوْقِنِیْنَ o وَفِیْٓ اَنْفُسِکُمْط اَفَلَا تُبْصِرُوْنo (۵۱:۲۰-۲۱) زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں یقین لانے والوں کے لیے ، اور خود تمھارے اپنے وجود میں ہیں۔ کیا تم کو سُوجھتا نہیں؟
قرآنِ مجید حقیقت کی تلاش کا جو راستہ بتاتا ہے وہ یہ نہیں ہے کہ آدمی آنکھیں بند کرکے ایک تاریک کمرے میں بیٹھ کر منطقی دلیلوں اور قیاسات کی بنا پر راے قائم کرے کہ اس دنیا کا کوئی خدا ہے یا نہیں؟ کوئی آخرت ہے یا نہیں اور اس دنیا میں میری کیا حیثیت ہے؟ انسان کی کوئی جواب دہی ہے یا نہیں؟ اور ان کی بنیاد پر انسان اپنی زندگی کے بارے میں کیا فیصلہ کرے۔
قرآن جو راستہ بتاتا ہے وہ یہ ہے کہ اتنے بڑے اہم معاملات کے متعلق آدمی کو کوئی عقیدہ علم کے بغیر اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ اس کو علم ہونا چاہیے نہ کہ قیاس اور گمان ہو۔ اسے علم ہونا چاہیے کہ حقیقت کیا ہے؟ اور یہ علم بغیر وحی کے کسی دوسرے ذریعے سے حاصل نہیں ہوسکتا۔ کیوںکہ غیب کی جو حقیقتیں آپ کی نگاہوں سے پوشیدہ ہیں ان کے متعلق براہِ راست جاننے کا آپ کے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ آپ صرف ان چیزوں کو جان سکتے ہیں جنھیں آنکھوں سے دیکھ سکیں، جن کی آواز اپنے کانوں سے سنیں، یا چھو کر دیکھ لیں، یا جسے آپ اپنی ناک سے سونگھ کر دیکھ لیں، یا زبان سے چکھ کر دیکھ لیں۔ ان کے متعلق تو آپ کسی نہ کسی حد تک ایک فیصلہ کرسکتے ہیں۔ یہ وہ علم ہے جو آپ کو اپنے تجربے اور مشاہدے سے حاصل ہوا۔ جو چیزیں آپ کی حس سے ماورا ہیں، جو کسی بھی طرح آپ کے مشاہدے میں نہیں آسکتیں، لامحالہ ان کے بارے میں کسی ایسے ذریعے ہی سے علم حاصل ہوسکتا ہے جس کو حقیقت کا براہِ راست علم ہو، اور حقیقت کا براہِ راست علم سواے خدا کے کسی کو نہیں۔
اسی طرح جو چیز آگے آنے والی ہے، یعنی آخرت، اس کے متعلق آپ کے پاس جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ آخرت آئے گی یا نہیں آئے گی؟ اگر آپ قیاسات کی بنا پر راے قائم کریں گے تو وہ اٹکل پچو بات کریں گے۔ وہ ایسا ہی ہے کہ آدمی اندھیرے میں چلے۔ کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کہاں ٹھوکر کھائے گا۔ آخرت کے متعلق بھی جاننے کا ذریعہ سواے اس کے کہ اللہ تعالیٰ ہی بتائے کہ تم کو مرنے کے بعد اُٹھنا ہے اور آخرت ہوگی اور ایسا اور ایسا ہوگا، او ر کوئی ذریعہ اس چیز کے جاننے کا نہیں ہے۔ بس وہی ایک ذریعہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خود اپنے نبی ؑ کو علم دیتا ہے۔ اب انسان کے پاس اس حقیقت کو جاننے کا اور اپنا یہ اطمینان کرنے کا کہ یہ شخص جو کہہ رہا ہے کہ میں نبی ہوں اور جو معلومات وہ دے رہا ہے ان کے متعلق آپ آنکھیں کھول کر چاروں طرف اس کائنات کو دیکھیں اور پھر خود اپنے وجود کو بھی دیکھیں، اور اس کے بعد یہ سوچیں کہ جو حقیقتیں نبی بتا رہا ہے، کیا واقعی وہ حقیقت ہیں اور دل کو لگتی ہیں؟ کیا واقعی وہ معقول ہیں؟ اس کائنات اور میرے اپنے وجود میں کچھ نشانیاں ہیں جو پتا دیتی ہیں کہ نبی جو خبر دے رہا ہے وہی بات زیادہ صحیح ہے۔ یہ آپ کے پاس ایک ذریعہ ہے۔
اللہ تعالیٰ حقیقت کا راستہ ہی دوسرا بتاتا ہے اور وہ قیاس کا راستہ نہیں بتاتا۔ اسی طرح وہ یہ بھی نہیں کہتا کہ آپ سائنٹی فک معلومات کے ذریعے حقیقت کے علم تک پہنچ جائیں گے۔ وہ یہ کہتا ہے کہ آپ سائنٹی فک معلومات کے ذریعے سے جانچ سکتے ہیں کہ نبی جو اطلاع آپ کو دے رہے ہیں، وہ زیادہ معقول ہے، یا جو دوسرے مختلف قیاسات قائم کر رکھے ہیں وہ زیادہ معقول ہیں؟
ایک آدمی یہ کہتا ہے کہ کائنات کا کوئی خدا نہیں ہے۔ نبی یہ کہتے ہیں کہ خدا ہے۔ کائنات کو دیکھیے۔ ایک عظیم الشان کائنات سے لے کر کرئہ زمین تک دیکھیے اور راے قائم کیجیے کہ کیا یہ سب کچھ ایک خدا کے بغیر قائم ہوسکتا ہے، یا یہ سب کچھ قائم کرنے کے لیے خدا درکار ہے؟ اگر ایک آدمی اندھے تعصب میں مبتلا نہیں ہے تو وہ کہے گا کہ کائنات کا یہ explaination کہ اس کا کوئی خدا نہیں ہے یہ نہایت نامعقول ہے، اور یہ explaination کہ ایک حکیم قادرِ مطلق نے اس کو بنایا ہے اور وہ اس کو چلا رہا ہے، یہ زیادہ معقول ہے۔
اسی طرح آخرت کا معاملہ ہے۔ انبیا ؑ خبر دیتے ہیں کہ آخرت ہوگی، تم کو مرنے کے بعد اُٹھنا ہے اور جواب دہی کرنی ہے، اور تمھارے اعمال جیسے ہوں گے اس کے لحاظ سے تمھارا مستقبل بنے گا۔ دوسری طرف ایک آدمی کہتا ہے کہ نہیں، کوئی آخرت نہیں ہوگی، مرکر مٹی ہوجانا ہے، بالکل معدوم ہوجانا ہے۔ کائنات کو دیکھیے اور خود اپنے وجود کو دیکھیے اور اس کے بعد راے قائم کیجیے کہ ان دونوں میں سے کون سی بات زیادہ معقول ہے۔
اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ زمین میں بے شمار نشانیاں ہیں اور خود تمھارے اپنے نفس میں نشانیاں ہیں۔ کیا تم کو نظر نہیں آتیں؟ لیکن یہ نشانیاں کن لوگوں کے لیے ہیں، لِّلْمُوْقِنِیْنَ، جو یقین لانے کو تیار ہوں۔ایک آدمی جو قسم کھا کر بیٹھ گیا ہے کہ مجھ کو نہیں ماننا، اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ اس کو کچھ نظر نہیں آئے گا۔ وہ سب کچھ دیکھ کر بھی اس حال میں ہوگا کہ جیسے اسے کچھ نظر نہیں آیا۔ لیکن جو آدمی یقین لانے کے لیے تیار ہے اور اس نے اپنے دل کے دروازے یقین کے لیے بند نہیں کرلیے ہیں، اس کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔
زمین میں جس طرف بھی آپ نگاہ اُٹھا کر دیکھیں، آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ پورا نظام سراسر حکیمانہ ہے۔ اس نظام میں اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ کسی آدمی کو اس زمین کے اُوپر وسیع اختیارات دے دیے گئے ہوں، بے شمار ذرائع اس کے قبضے میں دے دیے گئے ہوں، من مانی کرنے کے مواقع اس کو دے دیے گئے ہوں، جانوروں پر، انسانوں پر، تمام موجودات پر مختلف طرح کی چیزوں پر اس کو قدرت عطا کر دی گئی ہو، لیکن اس سے یہ نہ پوچھا جائے کہ تو نے ان ساری چیزوں کو کس طرح استعمال کیا ہے؟ جو اختیارات تجھ کو دیے گئے تھے تو نے ان کو کیسے استعمال کیا؟ اس زمین کے نظام پر جو آدمی بھی غور کرے گا وہ ضرور محسوس کرے گا کہ اس کو کسی اندھے راجا نے نہیں بنایا ہے۔ یہ کوئی چوپٹ راج یا اندھیر نگری نہیں ہے کہ اتنی بڑی عظیم الشان زمین اور اس کے بے شمارے ذرائع اور اس کے اندر تصرف کے اختیارات کسی کو دے دیے جائیں اور پھر پلٹ کر اسے پوچھا ہی نہ جائے کہ تو نے اس سب کا کیا کیا؟ ایسا کوئی اندھا راجا ہی کرسکتا ہے جو پلٹ کر پوچھے ہی نہ کہ تم نے کیا کیا؟ اگر آپ اپنے نوکر کو پانچ روپے دیتے ہیں تو اس سے بھی حساب لیتے ہیں کہ تو نے انھیں کہاں خرچ کیا۔ اس زمین پر انسان کو بے شمار اختیارات دے دیے جائیں، وسائل دے دیے جائیں اور پھر اس سے پلٹ کر نہ پوچھا جائے کہ تم نے ان چیزوں پر کیسے تصرف کیا اور انھیں کیسے استعمال کیا، تو یہ اندھیر نگری اور اندھا راج نہ ہوا تو اور کیا ہے؟ اسی طرح فرمایا گیا:
وَفِیْٓ اَنْفُسِکُمْ ط(۵۱:۲۱) تمھارے اپنے نفس کے اندر نشانیاں ہیں۔
یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تمھارے اپنے نفس کے اندر نیکی اور بدی کا امتیاز موجود ہے۔ تمھارے اپنے نفس کے اندر یہ تصور موجود ہے کہ مختارانہ فعل کو ن سا ہے اور غیرمختارانہ فعل کون سا ہے۔ آدمی اگر پلک جھپکاتا ہے تو وہ غیرمختارانہ فعل ہے اور اگر وہ کسی کو آنکھ مارتا ہے تو یہ مختارانہ فعل ہے۔ دونوں میں فرق ہے اور ہر آدمی اس فرق کو جانتا ہے۔ کوئی آدمی ایسا نہیں ہے جو ان دونوں چیزوں میں امتیاز نہ کرسکتا ہو۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ انسان کے نفس میں یہ حِس موجود ہے۔ جب تمھارے نفس میں یہ حِس موجود ہے تو یہ خود اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ تمھارے اختیاری افعال اور غیراختیاری افعال کے درمیان کسی وقت فرق کیا جائے اور جو اختیاری افعال ہیں ان کے متعلق تم سے پوچھا جائے کہ تم نے یہ کام کیوں کیا؟ اگر تم نے اپنے اختیارات سے نیکی کی ہے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ تم کو تمام نیکیوں کا بدلہ نہ ملے۔ جن لوگوں نے ساری عمر حق پھیلانے کے لیے کام کیا ہو، ساری عمر خلقِ خدا کے ساتھ بھلائی کی ہو، جن لوگوں نے لوگوں کو ایسی روشنی دکھائی ہو کہ صدیوں تک خلقِ خدا ان سے فائدہ اُٹھاتی رہے، کیا وہ اس کے مستحق نہیں ہیں کہ ان کو اس کا بھرپور انعام دیا جائے؟ کیا دنیا میں سبھی اس طرح کے لوگوں کو ان کا انعام ملا ہے؟ اگر انعام ملا بھی تو کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ان کی تمام نیکیوں کا پورا پورا انعام تھا؟
اگر وہ اس کا پورا پورا انعام نہیں پاسکے اور نہیں پاسکتے۔ اس دنیا میں اس کا امکان نہیں ہے۔ اگر ایک آدمی نے دنیا میں حق کی روشنی پھیلائی ہے اور دوہزار برس یا چار ہزار برس تک لاکھوں اور کروڑوں انسان اس کا فائدہ اُٹھاتے رہے ہیں اور اس دنیا میں اس کی نیکی کا پورا پورا اجر اس کو مل جائے، کیا اس بات کا کوئی امکان ہے؟ اگر اس کا کوئی امکان نہیں ہے، تو لامحالہ ایک وقت ایسا ہونا چاہیے کہ جب اس آدمی کو اس کی اس طرح کی نیکیوں کا بھرپور اجر مل سکے۔
اسی طرح اگر کسی نے اس دنیا کے اندر بدی کے بیج بوئے اور ہزارہا برس تک خلقِ خدا کے اندر وہ بدی کے بیج اپنے کانٹے بکھیرتے رہے، تو کس طرح یہ ممکن ہے کہ اس کو اس دنیا میں اس کی پوری سزا مل سکے۔ اوّل تو بہت سے لوگ سزا پائے بغیر ہی چلے گئے۔ انھوں نے جو کچھ بُرے کام دنیا میں کیے لیکن ان کو اس کا کوئی نقصان نہ پہنچا۔ اسٹالن مرتے مر گیا اور دنیا کے اندر ظلم و ستم کرتا رہا، بتایئے اس کو کیا سزا ملی؟ آخر وقت تک اس کی ڈکٹیٹرشپ چلتی رہی۔ لامحالہ اس طرح کا وقت ہونا چاہیے جب اس طرح کے لوگوں کی بھرپور گرفت ہو ، جنھوں نے لاکھوں انسانوں پر ظلم ڈھایا ہو اور جن کے مظالم کے اثرات و نتائج نہ معلوم کتنی صدیوں تک خلقِ خدا بھگتے گی اور کروڑوں آدمی اس سے متاثر ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آخرت کی نشانیاں تو تمھارے اپنے نفس میں موجود ہیں۔ جس طرف زمین میں نگاہ اُٹھا کر دیکھیں آخرت کی نشانیاں موجود ہیں۔ اگر تم اپنے نفس پر غور کرو گے تو اسی طرح آخرت کی نشانیاں پائو گے۔ لیکن تم کو اس لیے نہیں سوجھتا کہ تم آخرت پر ایمان لانے کے لیے تیار نہیں ہو۔ آخرت پر ایمان لانے کے لیے اس پر یقین لانا ضروری ہے۔
آخرت کو تسلیم نہ کرنے کے لیے انسان خواہ کتنی ہی حجتیں کرلے،درحقیقت آخرت پر ایمان لانے کے لیے انسان صرف اس لیے تیار نہیں ہوتا ہے کہ اگر آخرت کو مان لے گا تو پھر دنیا میں بے نتھے بیل کی طرح نہیں رہ سکے گا۔ اس کی یہ آزادی کہ جس کھیت میں چاہے منہ مارے، اور جہاں چاہے دوڑتا پھرے، اور جو کچھ چاہے کرتا پھرے، یہ آزادی، آخرت پر یقین رکھ کر کوئی شخص برت ہی نہیں سکتا۔ آدمی اپنی اس آزادی کی خاطر اور اپنے آپ کو اخلاقی بندھنوں میں پھنسانے سے بچانے کے لیے آخرت کا انکار کرتا ہے۔ جو آدمی یہ یقین لانے کے لیے تیار نہیں ہے، اس کے لیے کوئی نشانیاں نہیں ہیں۔ وہ صرف اس وقت مانے گا جب آخرت میں فرشتے اس کو پکڑے ہوئے ہوں گے اور جہنم کی طرف لے جارہے ہوں گے۔ اس سے پہلے وہ ماننے کے لیے کسی طرح تیار نہیں ہوگا۔
وَفِی السَّمَآئِ رِزْقُکُمْ وَمَا تُوْعَدُوْنَ o فَوَرَبِّ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ اِِنَّہٗ لَحَقٌّ مِّثْلَ مَآ اَنَّکُمْ تَنْطِقُوْنَo (۵۱:۲۲-۲۳) آسمان ہی میں ہے تمھارا رزق بھی اور وہ چیز بھی جس کا تم سے وعدہ کیا جارہا ہے۔ پس قسم ہے آسمان اور زمین کے مالک کی، یہ بات حق ہے، ایسی ہی یقینی جیسے تم بول رہے ہو۔
یعنی جس طرح تمھارا بولنا یہ امر واقعہ اور حقیقت ہے کہ تم بول رہے ہو۔ اسی طرح یہ بھی امرِواقعہ ہے کہ آخرت ہونی ہے اور یہ یقینا حق ہے۔ آسمان اور زمین کے رب کی قسم کھا کر کہا گیا ہے کہ یہ امرِ حق ہے۔ کیا چیز امرِ حق ہے؟ وَفِی السَّمَآئِ رِزْقُکُمْ وَمَا تُوْعَدُوْنَ ، یعنی آسمان میں تمھارا رزق ہے اور وہ چیز ، یعنی آخرت بھی جس کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے۔ آسمان میں رزق ہونے سے مراد یہ نہیں ہے کہ آسمان میں کہیں رزق رکھا ہوا ہے اور وہ لاکر پھینک دیا جائے گا، اور آسمان میں کہیں آخرت رُکی پڑی ہوئی ہے اور یک دم اسے کھول دیا جائے گا۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے۔
اس سے مراد یہ ہے کہ آدمی نے جب کبھی خدا سے دُعا مانگنی ہوتی ہے تو ہمیشہ اُوپر کی طرف دیکھتا ہے۔ جب کبھی انسان اللہ تعالیٰ کے ذکر کے دوران میں کوئی اشارہ کرتا ہے تو آسمان کی طرف کرتا ہے۔ معلوم ہوا کہ آدمی کی فطرت میں یہ ہے کہ وہ اپنے رب کو عالمِ بالا میں محسوس کرتا ہے۔ اسی چیز کا یہاں ذکر کیا گیا ہے کہ عالمِ بالا ہی میں تمھارا رزق مقدر ہے اور عالمِ بالا ہی میں آخرت کا آنا بھی مقدر ہے۔
پہلی چیز رزق کا بیان اس وجہ سے کیا گیا ہے کہ اس دنیا میں اگر آپ غور کرکے دیکھیں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ انسان کو اس دنیا میں جو کچھ ملتا ہے وہ لازماً اس کی اپنی کوششوں اور تدبیروں کا نتیجہ نہیں ہے۔
ایک شخص ایک رئیس کے ہاں پیدا ہوگیا۔ اس رئیس کے ہاں اسے جو عیش و آرام حاصل ہوا اور جو وراثت ملی، یہ بجز اس کے کہ کسی نے اس کو وہاں پیدا کر دیا تھا اور اس وجہ سے اسے یہ سب کچھ ملا، ورنہ ایسا نہیں ہے کہ وہ خود اپنی کوشش سے آیا ہے۔ اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ ماں باپ کچھ خاص بچوں کو چھانٹ کر لے آئے ہوں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ کوئی اور شخص کسی نفس کو چھانٹ کر وہاں پیدا کردے۔ معلوم ہوا کہ نہ وہ شخص خود اپنے انتخاب سے اس گھر میں آیا تھا اور نہ اس کے ماں باپ اسے چھانٹ کر لائے تھے، اور نہ کسی ڈاکٹر نے یہ تجزیہ کیا تھا کہ اس شخص کے ہاں فلاں شخص نے پیدا ہونا ہے۔
اسی طرح سے انسان کو اس دنیا میں جو کچھ حاصل ہوتا ہے اس پر اگر غور کیا جائے، اور ہروقت انسان کو اس کا تجربہ ہوتا ہے کہ آپ کسی چیز کے لیے کوششیں کرتے اور اس کے لیے اپنا پورا سر مار لیتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی آپ کو وہ چیز حاصل نہیں ہوتی۔ بعض اوقات آپ کی کوششوں کے بغیر ہی ایک ایسی چیز آپ کو حاصل ہوجاتی ہے جو آپ کے لیے مفید ہوتی ہے۔
معلوم ہوا کہ اس دنیا میں کوئی ایسی ہستی ہے جو فیصلہ کرنے والی ہے اور وہ فیصلہ بھی بڑی باقاعدگی سے ہو رہا ہے اور الل ٹپ نہیں ہو رہا۔ وہ فیصلہ کسی حکیمانہ طریقے سے ہو رہا ہے۔ اسی طرح جب انسان غور کرے گا تو اسے معلوم ہوگاکہ رزق کی تقسیم بڑے حکیمانہ طریقے سے ہو رہی ہے۔ جس طرح سے تمھاری قسمت کا فیصلہ اس دنیا کی زندگی میں ہو رہا ہے اور کوئی حکیم اور قادرِمطلق کر رہا ہے، اُسی حکیم اور قادرِ مطلق کا یہ فیصلہ ہے کہ تمھارے اُوپر آخرت بھی آئے۔
فَوَ رَبِّ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ اِِنَّہٗ لَحَقٌّ مِّثْلَ مَآ اَنَّکُمْ تَنْطِقُوْنَo (۵۱:۲۳) آسمان اور زمین کے رب کی قسم وہ آکر رہے گی اور وہ امرحق ہے۔
رَبِّ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ کی قسم کھا کر کہنے کا مدعا یہ ہے کہ کائنات کے خدا کے متعلق تم اگر کوئی صحیح تصور قائم کرو گے تو لامحالہ تمھارا دل یہ گواہی دے گا کہ وہ اندھا راجا نہیں ہے اور اس کی نگری چوپٹ نگری نہیں ہے۔ اس کے اندر لازماً یہ ضروری ہے کہ آخرت ہو اور اس کے اندر حساب کتاب ہو۔ (جاری)(ریکارڈنگ: حفیظ الرحمٰن احسن، مرتب: امجد عباسی)
حضرت ابی بن کعبؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں قیامت کے روز تمام انبیاؑ کا امام و خطیب اور شفیع ہوں گا اور اس پر مَیں فخر نہیں کرتا ۔(ترمذی)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ مرتبہ اللہ تعالیٰ نے عنایت فرمایا ہے۔ اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انبیا ؑ سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی بندگی کی اور اللہ تعالیٰ کے دین کو دنیا میں غالب فرمایا۔ ’اظہارِدین‘ کا یہ فریضہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کی اُمت نے ادا کیا۔ اس لیے آپؐ تمام انبیا ؑ سے افضل اور آپؐ کی اُمت تمام اُمتوں سے افضل ہے۔ قیامت کے روز شفاعت کبریٰ اور مقامِ محمود اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو عطا فرمایا ہے۔ اُمت مسلمہ کو اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اسے اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت بنایا اور تمام اُمتوں سے افضل بنایا۔ پھر اس کا تقاضا ہے کہ مسلمان اللہ تعالیٰ کی اطاعت و بندگی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی پوری طرح پیروی کریں اور دین اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوں۔ اپنی زندگیوں کو تقسیم نہ کریں کہ مسجد میں اللہ کے بندے ہوں اور مسجد سے باہر غیراللہ کے بندے بن کر زندگی گزاریں۔ بازاروں میں، کھیتوں میں، عدالت میں، ایوانِ حکومت میں، ہر جگہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کو لازمی سمجھ کر اور سعادت سمجھ کر اپنائیں۔ اسی کو ذریعۂ نجات سمجھیں اور اسی کو عزت کا راستہ سمجھیں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا تھا کہ ہم وہ قوم ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کی بدولت عزت عطا فرمائی ہے۔ جب ہم کسی دوسرے ذریعے سے عزت حاصل کرنا چاہیں گے تو اللہ تعالیٰ ہمیں ذلیل کر کے رکھ دے گا۔ آج ہم نے یہ راستہ چھوڑ دیا ہے اس لیے ہم عزت کھو چکے ہیں۔ عزت کی بحالی کا راستہ یہی ہے کہ اسلام کو پوری زندگی کا دین بنا دیں۔ اللہ توفیق عطا فرمائے، آمین!
o
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تورات میںجو پیشن گوئی کی گئی ہے، حضرت کعب بن احبارؓ اُسے یوں بیان فرماتے ہیں: ’’ہم تورات میں لکھا ہوا پاتے ہیں، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پسندیدہ بندے ہیں، نہ سخت گو، نہ سخت دل، نہ بازاروں میں شور کرنے والے اور بُرائی کا بدلہ بُرائی سے نہیں دیتے بلکہ معاف کر دیتے اور بخش دیتے ہیں۔ ان کی پیدایش مکہ میں ہوئی، ان کا مقامِ ہجرت مدینہ طیبہ ہے اور ان کا اقتدار شام میں ہوگا اور آپؐ کی اُمت اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کرنے والی ہوگی۔ وہ خوشی اور تکلیف دونوں حالتوں میں اللہ تعالیٰ کی حمد کریں گے۔ اللہ تعالیٰ کی ہرمقام پر حمد کریں گے، اللہ کی کبریائی ہربلندی پر بیان کریں گے، سورج کا خیال رکھیں گے، نماز پڑھیں گے۔ جب نماز کا وقت آئے گا اپنی چادریں آدھی پنڈلی تک اُونچی رکھیں گے اور وضو میں اپنے دونوں طرف کے اعضا کو دھوئیں گے (دونوں ہاتھ، چہرے کے دونوں طرف، پائوں کے دونوں طرف اور سر کا مسح)۔ ان کا منادی جو ندا دے گا وہ آسمان کی فضائوں میں گونجے گی۔ میدانِ جنگ میں ان کی صفیں اسی طرح سیدھی ہوں گی جس طرح نماز میں سیدھی ہوں گی۔ راتوں کو قرآن پڑھنے کی گنگناہٹ ایسی ہوگی جیسے شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ ہوتی ہے۔(مصابیح السنۃ، دارمی)
ایمان والوں کے لیے بڑی سعادت ہے کہ تورات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صفاتِ عالیہ کی طرح ان کی صفات کا بھی بیان ہے۔ آپؐ کی جاے پیداش، جاے ہجرت اور اقتدار کی توسیع کا آغاز جس ملک سے ہوتا ہے، اس کا تذکرہ ہے۔ آپؐ کی شانِ کریمی اور اسوئہ حسنہ کا بیان ہے۔ آپؐ کی اُمت کی حمدوثنا، ان کی تلاوت،ان کی دعائوں، ان کی صف بندیوں کا تذکرہ ہے۔ یہ چیز ہم سے تقاضا کرتی ہے کہ ہم ان صفات کو اپنائیں، اپنا لباس اور وضع قطع کو اس کے مطابق درست کریں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کے لباس کو اپنا لباس بنانے سے نہ شرمائیں بلکہ اسے اپنے لیے عزت کا لباس سمجھیں۔ مغرب زدگی کی بیماری سے نکل آنے کی کوشش کریں۔
o
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ مجھے حضرت عمرؓ نے یہ واقعہ سنایا کہ جب خیبر کی جنگ ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چند صحابہ آئے اور کہنے لگے: فلاں آدمی شہید ہے، فلاں آدمی شہید ہے (مختلف آدمیوں کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار کیا)۔ یہاں تک کہ ایک آدمی پر گزر ہوا تو کہا: یہ فلاں بھی شہید ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ بات سنی تو فرمایا: ہرگز نہیں ، میں نے اسے ایک چادر میں جلتے ہوئے دیکھا ہے جسے اس نے خیبر کے دن چرایا تھا۔ پھر آپؐ نے حضرت عمرؓ سے فرمایا: خطّاب کے بیٹے! جائو لوگوں میں تین دفعہ اعلان کرو کہ جنت میں نہیں داخل ہوں گے مگر ایمان والے۔ تب میں نکلا اور لوگوں میں تین دفعہ اعلان کیا کہ جنت میں نہیں داخل ہوں گے مگر ایمان والے۔(مسلم)
ایک آدمی جو اللہ کی راہ میں جان لڑا رہا ہے، جان قربان کر دیتا ہے، اس کے بارے میں ہم کوئی قطعی حکم نہیں لگا سکتے، یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ جنتی ہے۔ اس نے اللہ کی راہ میں جامِ شہادت نوش کر لیا ہے۔ اگرچہ ظاہراً وہ شہید ہے لیکن کیا عنداللہ بھی وہ شہید ہے؟ اس بارے میں کوئی آدمی بھی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ ہاں، اللہ تعالیٰ کا نبیؐ اللہ تعالیٰ سے خبر پاکر فرما سکتے ہیں کہ فلاں شہید ہے لیکن دوسرا کوئی ایسی بات کرنے کا مجاز نہیں ہے۔ نیز اگر اللہ کی راہ میں جان قربان کرنے کے ساتھ بندوں کے حقوق میں سے کوئی حق کسی نے مارا ہو تو اسے بندوں کا حق ادا کرنا پڑے گا یا ان سے حق معاف کرانا پڑے گا۔ لیکن ایک حق ایسا ہے جسے معاف کرانا بڑا مشکل ہے وہ مشترکہ مال میں خیانت ہے، جیسے مالِ غنیمت یا دوسرا کوئی مال جو سرکاری خزانے سے کسی نے چرایا ہو، خیانت کی ہو، کرپشن کی ہو۔ اس حق میں بے شمار لوگ شریک ہوتے ہیں۔ اسی لیے اسے معاف کرانا بڑا مشکل ہے۔ سرکاری خزانے میں کرپشن کرنے والے اس دنیا میں کرپشن واپس کر کے معافی حاصل کرسکتے ہیں لیکن آخرت میں ان کے لیے معافی پانا ناممکن ہوگا، الا یہ کہ اللہ تعالیٰ کسی آدمی کے کسی عمل سے خوش ہوجائیں اور اس نے جو بندوں کا حق مارا ہے اللہ تعالیٰ بندوں سے معاف کرا لیں اور انھیں اپنے پاس سے ان کا حق ادا کردیں۔ لیکن ایسا پارسا اور ایسی نیکی کرنے والا کون ہوسکتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ یہ مہربانی کرے۔ لہٰذا کرپٹ لوگ خوف کریں، بندوں کی حق تلفی کا ازالہ اپنی زندگی میں جس قدر جلدی کرسکتے ہوں کرلیں۔ اللہ توفیق عطا فرمائے۔
o
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کرنے سے پہلے ایک کتاب (تحریر) لکھی ہے: ان رحمتی سبقت غضبی ’’یقینا میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے‘‘۔ اور وہ تحریر اللہ تعالیٰ کے پاس اس کے عرش پر ہے۔(متفق علیہ)
اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق پر مہربان ہے، وہ رحمن ہے۔ اس نے اپنی مخلوق کو ہر طرح کی نعمتوں اور ضروریات سے نوازا ہے، وہ ان کا پالنے والا ہے۔ ہر ایک کو رزق دیتا ہے۔ صحت و عافیت سے نوازتا ہے، زندگی عطا فرماتاہے۔ وہ تکوینی اور طبعی دائرے میں بھی رحمن ہے اور انسانوں پر تشریعی دائرے میں بھی رحمن ہے۔اس نے انبیا علیہم السلام کے ذریعے جو نظام بھیجا ہے، وہ نظامِ رحمت ہے۔ اس نظام کے عقائد، افکار و نظریات، عبادات، معاشرت، معیشت، سیاست، حکومت، عدالت وغیرہ زندگی کے تمام شعبوں کے بارے میں اس کے تمام احکام رحمت ہیں۔ اس کے ہاں نیک و بد برابر نہیں ہیں، نیکی اور بدی برابر نہیں ہے۔ وہ عبادت گزاروں اور فرماں برداروں کی قدر کرتا ہے اور شرپسندوں، مجرموں، چوروں اور ڈاکوئوں کو سزائیں دیتا ہے۔ ان کو سزائیں نہ دی جائیں، قید نہ کیا جائے، کوڑے نہ لگائے جائیں، سنگسار نہ کیا جائے تو معاشرہ فتنے اور مصیبت سے دوچار ہوجائے۔ قتل و غارت گری سے دوچار ہوجائے۔ اس لیے جہا ں نیکوں کے لیے ثواب ہے وہاں فساق و فجار کے لیے سزائیں بھی ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق شر و فساد اور ظلم و جور سے محفوظ ہوجائے۔ بہت سے لوگ سزائوں کی حقیقت کو نہ سمجھنے کی بنا پر جرائم اور مجرموں کی مذمت کے بجاے مجرموں کے لیے شرعی سزائوں کی مذمت کرتے ہیں۔ شعوری یا غیرشعوری طور پر اللہ تعالیٰ اور اس کے نظام کی توہین کرتے ہیں۔ ایسے لوگ معاشرے کے لیے بہت بڑا ناسور ہیں۔ ان کی ہدایت کے لیے منظم انداز میں جدوجہد کرنا چاہیے۔
o
حضرت معاذ بن جبلؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: معاذ! میں تجھ سے محبت رکھتا ہوں۔ اس پر میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میں بھی آپ سے محبت رکھتا ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی بھی نماز کے بعد ان کلمات کو نہ چھوڑو۔ اَللّٰھُمَّ اَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ ،’’اے اللہ! میری مدد فرما کہ میں تیرا ذکر کروں، تیرا شکر ادا کروں اور تیری خوب صورت عبادت کروں‘‘۔ (ابوداؤد ، نسائی)
نبی کریمؐ کو اپنے تمام صحابہ سے محبت تھی اور صحابہ کرامؓ کو بھی آپؐ سے محبت تھی۔ نبی کریمؐ نے اپنے تمام صحابہؓ سے اپنی محبت کا اظہاروقتاً فوقتاً کیا اور بعض صحابہؓ سے انفرادی طور پر اپنی محبت کا اظہار فرمایا ہے۔ اس موقعے پر نبی کریم ؐ نے حضرت معاذ بن جبلؓ سے محبت کا اظہار فرمایا۔ اس محبت کا تقاضا تھا کہ آپؐ حضرت معاذؓ کو کوئی خاص تحفہ عنایت فرمائیں۔ چنانچہ آپؐ نے ایسا تحفہ عنایت فرمایا جو اللہ تعالیٰ کی بندگی اور جملہ احکام کی پیروی اور قربِ الٰہی کی منزلیں طے کرنے میں نسخۂ کیمیا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا چاہے وہ اس ذکر کو اپنی زندگی کا وظیفہ بنا لے۔
صحابہ کرامؓ کی ایک مجلس میں، جہاں بہت سے صاحب ِ علم جوان اور معمراصحاب حاضر تھے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف فرما تھے۔ اپنے ساتھیوں سے گفتگو فرماتے ہوئے آپؐ نے پوچھا: بھلا وہ کون سا درخت ہے، جس کے پتّے جھڑتے نہیں، اور جو مومن سے مشابہت رکھتا ہے؟ مجلس میں جتنے لوگ بیٹھے تھے، وہ مختلف جنگلی درختوں کے بارے میں سوچنے لگے، کسی نے کوئی درخت بتلایا، اور کسی نے دوسرا، مگر آپؐ نے ان سب سے انکار کیا۔ حاضرین مجلس میں حضرت عمرؓ کے کمسن صاحب زادے حضرت عبداللہؓ بھی بیٹھے تھے۔ اس واقعے کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ میرے ذہن میں آیا کہ یہ کھجور کا درخت ہوگا۔ لیکن میری عمر بہت کم تھی، اس لیے مجھے بڑی عمر کے بزرگوں کے سامنے بولنے کی جرأت نہ ہوئی، اور میں خاموش رہا۔جب کوئی اس سوال کا صحیح جواب نہ دے سکا ، تو لوگوں نے عرض کیا کہ حضوؐر ہی بتا دیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ وہ کھجور کا درخت ہے۔
اس تمثیلی سوال سے آپؐ یہ بتلانا چاہتے تھے کہ کھجور کا درخت ایک ایسا درخت ہے ، جس میں سراسر بھلائی ہی بھلائی ہے۔ وہ سایہ بھی دیتا ہے اور اس کا پھل بھی کھایا جاتا ہے، گٹھلیاں اُونٹوں کے کام آتی ہیں، پتّیوں سے چٹائیاں بنائی جاتی ہیں، تنے اور شاخیں مکان کی تعمیر وغیرہ کے کام آتی ہیں، اور انھیں ایندھن کے طور پر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ غرض یہ درخت ہرپہلو سے نفع ہی کا باعث ہے، اور اس کی کوئی چیز بے کار نہیں۔ پھر اس کی ضروریات بھی محدود ہیں۔ نسبتاً ناموافق آب و ہوا اور نامساعد حالات میں بھی نشوونما پاتا اور پھلتا پھولتا ہے، اور کبھی عریاں نہیں ہوتا۔
یہی حال مسلمان کا ہے۔ اس کی زندگی اور شخصیت، اس کے اقوال اور افعال، کوئی بے کار اور بے معنی نہیں۔ وہ دوسروں کا مددگار اور ان کے دُکھ سُکھ میں شریک ہوتا ہے۔ دنیا کے لیے اس کا وجود سراسر رحمت کا باعث ہوتا ہے، زحمت کا نہیں۔ دوسروں کو اس سے نفع ہی پہنچتا ہے۔ جو ہدایت اُسے مل چکی ہے، وہ دوسروں کو بھی اس سے ہم کنار دیکھنا چاہتا ہے،اور مرنے کے بعد بھی اس کا فیض جاری رہتا ہے، کیوں کہ اس نے دنیا میں جو اچھے کام کیے ، لوگوں کو کوئی اچھی بات بتائی یا کسی کے کام آیا، اس کے اچھے نتائج جاری رہتے ہیں۔ نیک لوگوں اور بھلائی کے کام کرنے والوں کی مثال قرآنِ مجید میں کلمۂ طیّبہ، یعنی پاکیزہ بات سے دی گئی ہے۔ گویا وہ ایک پاکیزہ درخت ہے، جس کی جڑ مضبوط ہے، اور شاخیں آسمان میں پھیلی ہوتی ہیں، اور وہ ہمیشہ پھل دیتا رہتا ہے، یعنی اس کی فیض رسانی جاری ہے اور کبھی منقطع نہیں ہوتی۔ کھجور کے درخت کی طرح مسلمان کی دُنیوی ضروریات بھی بڑی محدود ہیں۔ وہ نامساعد حالات میں زندگی گزار لیتا ہے۔ تو یہ ایک تمثیل تھی، جو صحابہ کی ایک مجلس میں حضور اکرمؐ نے بیان کی۔ ابن عمرؓ جو اس واقعے کے راوی ہیں، تمام عمر افسوس کرتے رہے کہ وہ خاموش کیوں رہے ، اور اپنے خیال کو ظاہر کیوں نہ کر دیا۔
تعلیم کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے ہمارا ذہن اس کے تین بنیادی مباحث کی طرف منتقل ہوتا ہے، اور وہ ہیں: مقاصد تعلیم، طریق تعلیم اور نظامِ تعلیم۔ ابھی جس تمثیل کا ذکر کیا گیا ہے، اس سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقصد ِ تعلیم، طریقِ تعلیم اور نظامِ تعلیم تینوں پر روشنی پڑتی ہے۔ یہاں تعلیم کا مقصد اپنے مخاطبین میں ایک مفید اور بامقصد زندگی کا شعور پیدا کرنا ہے، چاہے حالات اس کے لیے نامساعد ہی کیوں نہ ہوں۔ طریق تعلیم ایسا ہے کہ تلامذہ میں دل چسپی پیدا ہوجائے، اور وہ معلومات کے منفعل وصول کنندہ نہ بن جائیں۔ مجرد تصورات کے بجاے محسوس اور مانوس مثال سے مطلوبہ پیغام پہنچا دیا گیا۔ جہاں تک نظامِ تعلیم کا تعلق ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ وہ غیررسمی ہے۔ یہاں کوئی کمرئہ جماعت، مقررہ نصاب اور عمر کے لحاظ سے شاگردوں کی درجہ بندی نہیں ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نہ صرف طریق تعلیم آپؐ کے عہد کے تعلیمی طریقوں سے مختلف تھا، بلکہ آپؐ کی تعلیم کے مقاصد بھی عام مقاصد سے قطعی مختلف تھے، اور اس لیے یہ بات بھی بالکل فطری ہے کہ آپؐ کا نظامِ تعلیم اور نصابِ تعلیم بھی مروجہ تعلیمی ڈھانچے سے ہٹ کر تھا۔ اگرچہ آپؐ کی ذات ہمہ پہلو اور ہمہ صفات تھی تاہم آپؐ کی بنیادی حیثیت ایک معلّم کی تھی۔ اِسی حقیقت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: اِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّمًا ’’میں تو دراصل معلّم بناکر بھیجا گیا ہوں‘‘۔
یہ حیثیت حضراتِ ابراہیم ؑ و اسماعیل ؑ کی دُعا کے عین مطابق تھی کہ: ’’اے آقا، ان لوگوں میں انھی میں سے ایک رسول مبعو ث فرما جو انھیں تیری آیات سنائے، اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے، اور اُن کا تزکیہ کرے۔ تو ہی طاقت ور اور عقل مند ہے‘‘۔ (البقرہ۲:۱۲۹)
اس تناظر میں عرب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا واقعہ تاریخ انسانی کا ایک عجیب واقعہ ہے۔ عرب اس وقت کی معلوم اور معروف دنیا کا پس ماندہ ترین خطہ تھا۔ یہاں کے باشندے زیادہ تر جاہل اور خواندگی سے ناآشنا تھے۔ پھر انسانوں کو علم و حکمت سے بہرہ ور کرنے کے اس عظیم اعزاز کے لیے جس ذات کو منتخب کیا گیا، اس نے کسی بھی انسان کے سامنے زانوے تلمذ تہہ نہ کیا تھا، نہ کسی سے کچھ سیکھا ہی تھا۔ محمد رسولؐ اللہ کے بڑے معجزوں میں سے ایک یہ ہے کہ آپؐ ’اُمّی‘ تھے، یعنی ناخواندہ لیکن آپؐ نے دنیا کا عظیم ترین علمی، فکری اور تمدنی انقلاب برپا کیا، جس کے آگے سیاسی اور عسکری فتوحات ثانوی حیثیت اختیار کرجاتی ہیں، اور پھر آپؐ سے کسب ِ فیض کرنے والوں، آپ کے متعلّموں نے بھی علم و تہذیب کی دنیا پر نہ مٹنے والے نقوش ثبت کیے۔
قرآنِ مجید میں اسے اللہ کے انعام کے طور پر گنوایا گیا ہے کہ اس نے جاہلوں کی تعلیم و تربیت کے لیے ایک ایسے رسولؐ کو مبعوث کیا، جو ان تک اس کے احکام پہنچاتا ہے۔ ان کی زندگی کو پاکیزہ بناتا ہے، اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ تعلیم کا مقصد یا مقاصد، کیا ہیں؟
مقاصد ِ تعلیم کو ہم دو خانوں میں تقسیم کرسکتے ہیں: فوری مقاصد، جیسے کسی حرفت یا مہارت کا حصول، کسب ِ معاش کے لیے افراد کو تیار کرنا یا قومی سطح پر مادی اور تمدنی ضروریات کی تکمیل۔ دوسری طرف تعلیم کے کچھ اصل اور بنیادی مقاصد بھی ہوسکتے ہیں، جن میں ہم فرد کی فلاح و بہبود اور معاشرے میں امن و ہم آہنگی اور خیر کی ترویج کو شامل کرسکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا تعلق فوری مقاصد سے نہیں بلکہ بنیادی مقاصد سے تھا۔ اس سلسلے میں آپؐ کے فلسفۂ تعلیم کو حکما کے قدیم و جدید تعلیمی نظریات کے تناظر میں دیکھنا ہوگا۔
حکماے قدیم میں افلاطون نے مقصد اور طریق تعلیم کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے۔ اس کے نزدیک تعلیم کا بنیادی مقصد ریاست کے لیے محافظین تلاش کرنا اور انھیں کاروبارِ مملکت چلانے کے لیے تیار کرنا ہے۔ اس کی مثالی ریاست ایک اشرافیہ تھی۔ اشراف کے اس طبقے کی پرورش و پرداخت اس کی تصنیف جمہوریہ کا بنیادی موضوع ہے۔ ارسطو کے نزدیک، ریاست اور فرد دونوں کی تعلیم و تربیت کا بنیادی مقصد حصولِ مسرت ہے۔ ظاہر ہے کہ تعلیم کے یہ مقاصد بہت محدود ہیں۔ ساری کی ساری آبادی کو محض حکمران اشراف کی تلاش میں کھنگال ڈالنا اور سارے نظامِ تعلیم کی اسی ایک محور کے گرد گردش، معاشرے کے سارے طبقوں کے ساتھ انصاف کا تصور نہیں دیتی۔ پھر حصولِ مسرت، اس میں شک نہیں کہ انسانی زندگی کے بنیادی داعیوں میں سے ہے، لیکن اس پر ضرورت سے زیادہ اصرار اور اسے ساری مساعی کا مرکز بنادینے سے نہ صرف ایک غیرمتوازن معاشرہ وجود میں آئے گا بلکہ وہ سارے سوال بھی پیدا ہوجائیں گے جو فلسفۂ مسرت کے ضمن میں عام طور پر اُٹھائے جاتے ہیں، مثلاً کس کی مسرت کا حصول مقصد ہونا چاہیے، اور پھر یہ کہ مسرت کی بھی اعلیٰ اور اسفل کئی اقسام ہوتی ہیں، کون سی مسرت کا حصول مطلوب ہے؟ وغیرہ۔
عہدِ جدید کے مشہور فلسفیِ تعلیم جان ڈیوی نے تعلیم کے مقصد کو عملی قرار دیا ہے۔ اس کے خیال میں تعلیم کا مقصد فرد کی نشوونما کے سوا کچھ اور نہیں مگر سوال یہ ہے کہ نشوونما کس سمت میں؟ نشوونما براے حصولِ مقاصد۔ یہ ٹھیک ہے مگر مقاصد اچھے، بُرے اور بے رنگ بھی ہوسکتے ہیں۔ دراصل ڈیوی کا نقطۂ نظر انیسویں صدی کی اس اندھی رجائیت کی پیداوار ہے، جس کے مطابق ارتقا (evolution) اور ترقی (progress) خود ’قدر‘ کی حیثیت رکھتے ہیں، اور اُنھیں مزید کسی اور پیمانے سے ناپنے کی ضرورت نہیں۔ تعلیم کے اس تصور نے مغربی ملکوں میں بے مقصد ترقی اور اس سے پیدا ہونے والی اُکتاہٹ، خلفشار اور تباہی کو جنم دیا ہے۔ دوسری طرف تعلیم کے اس تصور سے پس ماندہ ملکوں اور معاشروں میں ایک بے اطمینانی اور احساسِ محرومی کا دریچہ بھی کھل گیا ہے۔
تعلیم کے اس نام نہاد ’آزاد‘ تصور کے مقابلے میں اشتراکی فلسفۂ تعلیم کا مقصد انسان، سماج اور کائنات کے سلسلے میں مادی جدلیت کے نقطۂ نظر کا فروغ اور ایک ایسے معاشرے کا قیام ہے، جہاں فرد اپنی شخصی آزادی اور ارتقا ے ذات کے بجاے معاشرے میں معاشی اور مادی اقدار کے خالق کی حیثیت سے پروان چڑھے۔ یہاں بھی تعلیم کی کامیابی یہ ہے کہ کوئی فرد مادی تصور میں اضافے کے لیے اپنا کردار کتنے بہتر انداز میں ادا کرسکتا ہے۔ جدید سرمایہ داری سے اس کا کوئی نقطۂ تصادم ہے تو یہ کہ معاشرے میں فرد کے مقام اور کردار کے تعین کے سلسلے میں سرمایہ دار معاشرے میں جو یک گونہ آزادی نظر آئی ہے، وہ یہاں مفقود ہے۔ بہرحال دونوں نظام، فرد کی تعلیم و تربیت میں اس کے معاشی کردار کو بنیادی اہمیت دیتے ہیں۔ ان دونوں کے نزدیک اچھی تعلیم وہ ہے جو مفید شہری پیدا کرے، اور وہ معاشی اقدار کے خالق کی حیثیت سے اپنا بھرپور کردار ادا کرے۔ دونوں، انسانوں کو بنیادی طور پر ایک ’معاشی حیوان‘ قرار دیتے ہیں، اشیا اور خدمات کا پیدا کنندہ اور صَرف کنندہ۔پھر اشیا اور خدمات میں بھی ضروری اور غیرضروری کے درمیان کوئی واضح خطِ امتیازنہیں، کیوں کہ ایک ترقی پذیر معاشرہ وہ بتلایا جاتا ہے، جہاں نت نئی اشیا اور خدمات کی ’ضرورت‘ پیدا کردی جائے (چاہے وہ کتنی ہی مصنوعی ہو)، اور پھر ان کی تسکین کا اہتمام ہو۔
اسلام مادی اقدار اور اشیا سے الرجک نہیں، اور نہ عالمِ مادّی کو فی نفسہٖ شر پر مبنی ہی قرار دیتا ہے۔ دوسرے مذاہب کے برخلاف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا، اس کی متاع اور لذات سے بھاگنے کی تعلیم نہیں دی۔ تاہم متاعِ دنیا کی ہوس کو ضرور قابلِ مذمت ٹھیرایا ہے اور غیرضروری ’ضروریات‘ سے نفرت پیدا کی ہے۔ حضور اکرمؐ کا یہ ارشاد اس سمت اشارہ کرتا ہے کہ ابن آدم کو کوئی چیز مطمئن نہیں کرسکتی، اگر اس کے پاس دو وادیوں جتنا مال و دولت ہو، تو وہ خواہش کرے گا کہ کاش مال سے بھری ہوئی ایک اور وادی ہوتی۔ ہاں، اس کا پیٹ اگر کوئی چیز بھر سکتی ہے، تو وہ مٹھی بھر خاک ہے۔ نیز یہ کہ اللہ کے نزدیک دنیا کی وقعت مچھر کے ایک پَر جتنی بھی نہیں۔ حضور اکرمؐ فطرتِ انسانی کی گہری بصیرت رکھتے تھے۔ مناسب تعلیم و تربیت کے بغیر انسان کو لذت کوش معاشی حیوان بننے سے نہیں روکا جاسکتا۔ آپؐ اس کا پورا پورا شعور رکھتے تھے اور معاشرے پر اس کے مضمرات آپؐ پر عیاں تھے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا کہ دو بھوکے بھیڑیے جن کو بکریوں پر چھوڑ دیا جائے اتنا نقصان نہیں پہنچاتے، جتنا انسان کی طلب ِ دولت و جاہ اس کے دین کو نقصان پہنچاتی ہے۔
ہوس اور افراط و تفریط سے قطع نظر اسلام نے پاک چیزوں اور اللہ کی بنائی ہوئی نعمتوں سے فرار کو زندگی کا نصب العین کبھی قرار نہیں دیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان قابلِ غور ہے کہ ساری دنیا میرے لیے مسجد بنائی گئی ہے۔ گویا پہلے بعض مذاہب کے ماننے والوں کے لیے جس طرح عبادت گاہ ’پاک‘ اور اس سے باہر کی فتنہ پرور دنیا ’ناپاک‘ تھی، اسلام نے اس دوئی کو ختم کرکے ساری دنیا کو اللہ کی عبادت گاہ بنا دیا۔ اس طرح دین و دنیا کی تفریق ختم کر کے، یہاں بھی وحدت کا ایک تصور پیش کیا گیا، جو تصورِ توحید الٰہیہ کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ تاہم، جیساکہ ہم دیکھ چکے ہیں، دنیا اور متاعِ دنیا کو مقصود نہیں بنایا گیا، بلکہ انھیں مقصود کے تابع کر دیا گیا۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ مقصود کیا ہے ، اور کس طرح فرد اور معاشرے کی تعلیم و تربیت اس مقصود کے محور پر گردش کرتی ہے۔
قرآنِ مجید، انسان کو زمین پر اللہ کا خلیفہ اور نائب قرار دیتا ہے۔ اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ انسان کے ذمے یہ فریضہ عائد کیا گیا ہے کہ وہ اللہ کی منشا اور اس کی مرضی کے مطابق اس دنیا اور کائنات پر حکمرانی کرے۔ یوں تعلیم کا مقصد یہ قرار پاتا ہے کہ وہ انسان کو اللہ کی نیابت اور کائنات پر تصرف کے لیے تیار کرتی ہے۔ اب چوں کہ نیابت اور خلافت ِ الٰہی کسی فرد یا گروہ تک محدود نہیں کی گئی، بلکہ پوری نسلِ انسانی کو یہ اعزاز بخشا گیا ہے، اس لیے تعلیم کا پہلا کام یہ ہوگا کہ افراد، اور پوری نسلِ انسانی میں نیابت و خلافت کا شعور، اس کی ذمہ داریاں، فرائض اور مطلوبات کا واضح تصور پیدا کیا جائے۔ سادہ الفاظ میں یوں کہیے کہ تعلیم،انسان کو کائنات میں اپنا صحیح مقام متعین کرنے اور اُسے اپنے کردار سے آگاہی حاصل کرنے میں مدد دے گی۔ انسان کے اس کردار کا تعین خود قرآن کردیتا ہے، جس کے مطابق اپنی مرضی کو منشاے الٰہی کے تابع کرلینا ہی اسلام ہے، جس کی ضد کفر و گمراہی ہے: اور جو اللہ کے نازل کردہ احکام و ہدایت کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں۔
کائنات میں اپنے مقام کا شعور تعلیم کا بنیادی مقصد ہے۔ نہ صرف قرآن میں جگہ جگہ اس بنیادی مسئلے کی طرف مختلف انداز میں توجہ دلائی گئی ہے ، بلکہ حضور اکرمؐ، آغازِ دعوت سے آخری وقت تک بار بار اس تصور کا اعادہ فرماتے رہے۔ آپؐ کی یہ غالباً پہلی ہی تقریر ہے، جس میں آپؐ نے ایک مجمعے میں نہایت اختصار اور وضاحت کے ساتھ تعلیم و تربیت کی اس اساس کو بیان فرما دیا: ’’تمام تعریف اللہ کے لیے ہے، میں اس کی تعریف بیان کرتا ہوں، اس سے مدد کا طالب ہوں، اُس کی پناہ لیتا ہوں، اور اُس پر بھروسا کرتا ہوں۔ میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ ایک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔
’’اس میں شک نہیں کہ قافلے کا پیش رو اپنے ساتھیوں سے جھوٹ نہیں بولتا۔ اور خدا کی قسم! اگر میں تمام انسانوں سے جھوٹ بولتا بھی ہوتا، تو تم سے جھوٹ نہ بولتا۔ اور اگر میں تمام انسانوں کو دھوکا دیتا بھی ہوتا، تو تمھیں دھوکا نہ دیتا۔
’’قسم ہے اس خدا کی! جس کے سوا کوئی معبود نہیں، میں تمھاری طرف خصوصاً اور دوسرے تمام انسانوں کی طرف اللہ کا پیغام پہنچانے والا ہوں۔
’’خدا کی قسم! جس طرح تمھیں نیند آتی ہے، اُسی طرح [ایک دن] تم ضرور مرو گے، اور جس طرح [نیند کے بعد] تم جاگ اُٹھتے ہو، اُسی طرح تم دوبارہ ضرور اُٹھائے جائو گے۔ تم جو کام کرتے ہو، ان کا تم سے حساب ضرور لیا جائے گا، اور تمھیں اچھے کاموں کا اچھا بدلہ اور بُرائی کا بُرا بدلہ ضرور ملے گا۔ اور یہ بدلہ یا تو ہمیشہ رہنے والی جنت ہوگا، یا ہمیشہ کی آگ…‘‘۔
کائنات اور انسانی زندگی کی حقیقت سے آگاہی اگر تعلیم کا بنیادی مقصد ہے تو انسان کو اس مقام کے مناسب عمل کے لیے تیار کرنا، فطری طور پر، تعلیم کا دوسرا بنیادی مقصد قرار پائے گا۔ اپنے پیروکاروں کے سلسلے میں حضورِ اکرم ؐ کی کاوش و کوشش کا ہدف یہی نظر آتا ہے۔ تعلیم کا یہ عملی اور اخلاقی پہلو سرمایہ دارانہ جمہوری فلسفۂ تعلیم کے خلاف پڑتا ہے، جس کی نمایندہ فکر جان ڈیوی کے ہاں ملتی ہے۔ جان ڈیوی کے نزدیک جمہوری رہنمائی، تعلیم کا جوہر ہے، جب کہ حضور اکرمؐ نے الہامی رہ نمائی کو معیارِ عمل قرار دیا۔ غیرمذہبی جمہوری معاشرے میں ایک فرد، یا معاشرے کا دوسرے فرد کے رویّے اور طرزِ حیات کو کنٹرول کرنا نامناسب خیال کیا جاتا ہے۔ وہاں مثالی معاشرہ وہ ہے ،جہاں ہرشخص اپنے لیے غایتیں متعین کرسکتا ہے، ان کے حصول کے لیے ذرائع منتخب کرسکتا ہے، اور اپنے افعال کی خود ہی رہ نمائی کرسکتا ہے۔ آزادی کا یہ تصور بظاہر بڑا خوش نما معلوم ہوتا ہے، لیکن اس کی کمزوری اس وقت واضح ہوجاتی ہے، جب ہم دیکھتے ہیں کہ اپنی جائز و ناجائز خواہشات کے درمیان خط ِ امتیاز کھینچنا ہر انسان کے بس کی بات نہیں۔ آپؐ کا قول ہے کہ عاقل اور محتاط وہ شخص ہے ، جو اپنے نفس کو بے حقیقت جانے [اور اُسے اپنے قابو میں رکھے] اور عاجز و درماندہ وہ ہے، جو اپنے نفس کی خواہشات کا غلام ہو، اور اس کے باوجود اللہ سے بھلائی کی آرزو کرے۔
اس لیے حضور اکرمؐ کی تعلیم کا تیسرا اہم مقصد تزکیۂ نفس تھا۔ تزکیۂ نفس کسی چیز کو صاف ستھرا کردینے اور نکھار دینے کو کہتے ہیں۔ قرآنِ مجید کے مطابق انسان میں خیر اور شر دونوں کی صلاحیت اور رجحان موجود ہے۔ چنانچہ کہا گیا ہے کہ ’’ہم نے انسان کو بہترین اندازے پر پیدا کیا، پھر اُسے پست ترین نشیبوں کی طرف لوٹا دیا، سواے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک کام کیے‘‘(التین ۹۵: ۴-۶)۔ ایک دوسری جگہ انسان کو ’دو راستوں کی طرف‘ لے جانے کا ذکر ہے، ان میں سے ایک راستہ فلاح اور کامرانی کا ہے، اور دوسرا خُسران اور بربادی کا۔ دراصل انسان کے سارے محرکات اور جبلّتیں ہی اس کے رُتبے کی بلندی کا باعث ہیں، بشرطے کہ وہ اس کے قابو میں ہوں۔ سچ تو یہ ہے کہ کردار کی پختگی اور شرفِ انسانی، محرکات اور جبلّتوں کو قابو میں رکھنے اور انھیں حدود کو عبور کرنے سے روکنے ہی کا نام ہے۔ اس کے برخلاف کردار کی کمزوری جبلّتوں اور حیوانی خواہشات کے غلبے کا نام ہے۔ جب انسان ان کے ہاتھوں ایک بے بس کھلونا بن جاتاہے، تو انسانیت کے رُتبے سے گر کر اسفل حیوانات کی صف میں شامل ہوجاتا ہے۔ حضور اکرمؐ کے مقاصد ِ تعلیم میں حیوانی محرکات پر قابو پانے کو بڑی اہمیت دی گئی۔ چنانچہ آپؐ نے خواہشات کی اندھی پیروی، ظلم، قتلِ نفس، تکبر، غرور، دوسروں کی تحقیر اور استہزا، بسیارخوری، بے لگام جنسی تسکین، بے حیائی، فضول خرچی، بخل، غصے اور بزدلی کی بار بار مذمت کی، اور ان سے بچنے کی ہدایت فرمائی۔
تزکیۂ نفس، دراصل زبانی ہدایت اور تلقین کے بجاے ایک عملی پروگرام کا تقاضا کرتا ہے۔ تعلیم و تربیت کے وسیع مفہوم میں دیکھیں تو ساری اسلامی عبادات کسی نہ کسی طرح نفس، جبلّتوں یا محرکات پر قابو پانے کی مشقیں ہیں۔ فجر کو جب نیند کا غلبہ ہوتا ہے، تو نماز کے لیے بیدار کردیا جاتا ہے، اور اس کے لیے رغبت یوں دلائی جاتی ہے کہ جس نے عشاء اور فجر کی نماز جماعت سے ادا کرلی، اس نے گویا ساری رات عبادت میں گزاری۔ اسی طرح ظہر، عصر اور مغرب کی نمازیں ہیں، کہ ان اوقات میں لوگ اکثر اپنے کاروبار یا تفریح میں مصروف ہوتے ہیں، اور معاً نماز کا وقت ہوجاتا ہے اور اللہ کے ذکر کی طرف بلا لیا جاتا ہے، اگرچہ یہ نفس کے داعیات کو کتنا ہی نامرغوب ہو۔ ماہِ رمضان میں نہ صرف بھوکا پیاسا رکھا جاتا ہے، بلکہ اس دوران نفس کے تمام داعیات پر بھی پابندی ہوتی ہے۔ حج تو سراسر جسمانی مشقت اور راحت و آرام کی قربانی کا نام ہے۔ زکوٰۃ کی ادایگی فرض کر کے مال کی محبت کا امتحان لیا گیا، اور خیرات و صدقات کے فضائل بتلا کر بخل کا علاج کیا گیا۔ جہاد کے ذریعے نہ صرف آرام و راحت تج دینے بلکہ تکلیف و مشقت برداشت کرکے صبر کرنے، حتیٰ کہ جان تک قربان کردینے پر آمادہ کیا گیا۔ ان تمام عبادات میں سے کوئی ایسی نہیں، جس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کی کثیر تعداد کے ساتھ خود حصہ نہ لیا ہو۔ اس طرح عملی تعلیم و تربیت کے نتیجے میں انسانوں کا جو گروہ تیار ہوا اس کے سبھی افراد اپنی جگہ نہایت پختہ کردار کے مالک اور نکھری ہوئی شخصیت رکھنے والے لوگ تھے، جن کا کردار خود دوسروں کے لیے نمونہ تھا۔
حضور اکرمؐ کی تعلیم کا ایک اہم مقصد فرد کی تمام صلاحیتوں کا بھرپور نشوونما تھا۔ ہر انسان میں تمام صلاحیتیں یکساں نہیں ہوتیں۔ کوئی مردِ میدان اور اچھا سپاہی ہوتا ہے، اور کوئی علم و قلم کا دھنی۔ کوئی اچھا منتظم ہوتا ہے اور کوئی اچھا مُبلّغ اور استاد۔ تاہم، آپؐ نے صحابہ کی سبھی بنیادی صلاحیتوں کی نشوونما کا اہتمام فرمایا۔ جنگوں میں اکثر کوئی استثنا نہ ہوتا تھا، اور سبھی بالغ اور صحت مند مرد شریکِ جہاد کیے جاتے تھے۔ بغیر کسی عذر کے شریکِ جنگ نہ ہونے والوں سے سختی سے بازپُرس کی گئی۔ مقصد یہ تھا کہ بنیادی جنگی مہارت و کارکردگی سے کوئی محروم نہ رہے۔ اس طرح پیشہ ور سپہ گروں سے قطع نظر پوری قوم کی عسکری تربیت کا اہتمام کیا گیا۔ اسی طرح طلب ِ علم اور حصولِ علم میں بھی کوئی استثنا نہ برتا گیا، جب ارشاد ہوا کہ علم حاصل کرنا ہرمسلمان پر فرض ہے۔ چوں کہ نماز میں قرآن کی کچھ نہ کچھ تلاوت کی جاتی ہے، اس لیے کسی نہ کسی حد تک تعلیم کتاب بھی سبھی مسلمانوں پر فرض قرار پائی۔ ہرشخص کو اپنے زیردستوں کا ذمہ دار منتظم (راعی) قرار دے کر سبھی پر یہ فرض عائد کیا کہ اپنی رعایا، حکومتوں، سپاہ، زیرکفالت افراد، بیوی بچوں وغیرہ کی دیکھ بھال اور فلاح و بہبود کا خیال رکھیں۔ اسی طرح ہرشخص پر دین کی تبلیغ فرض کی گئی، چاہے وہ ایک آیت جیسا فقرہ ہی کیوں نہ ہو۔ افراد میں قابلیت و صلاحیت کے اختلاف کے باوجود ان کی شخصیت کی ہمہ گیر تعمیر کا یہ پروگرام دراصل ایک نادر مقصد اور طریق کی پیداوار ہے، جس کی دنیا کے کسی اور نظامِ تعلیم میں مثال نہیں ملتی۔
کائنات اور انسان کا واضح شعور رکھنے والے، نفس پر قابو یافتہ، صاف ستھرے اور پاک باز لوگ،جو علم کے طالب اور جہل سے گریزاں ہوں، جن کا مقصد ِ زندگی ان کی فطرت میں واضح طور پر متعین ہو، ان کی صلاحیتوں کو مناسب انداز میں سینچا گیا ہو اور ان کی جبلّتوں اور خواہشوں کی احتیاط سے تراش خراش کی گئی ہو۔ ایسے ہی لوگ ایک مناسب اور ہم آہنگ معاشرے کی تعمیر کرسکتے ہیں۔ یہ معاشرہ مجموعی طور پر تناقض اور تضادات سے پاک ہونا چاہیے۔ اور اگر ایسے معاشرے کی تعمیر کو بھی ہم تعلیم کے مقاصد میں سے ایک مقصد شمار کرلیں، تو ہم دیکھیں گے کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم کا یہ مقصد بھی نہایت خوش اسلوبی سے حاصل کرلیا تھا۔
مدینہ میں آپؐ نے جو معاشرہ تشکیل دیا،اس میں سبھی درجاتِ زندگی سے تعلق رکھنے والے مختلف قبیلوں، اور مختلف معاشی اور مالی حیثیتوں کے افراد شامل تھے۔ یہاں کاشت کار بھی تھے، اور صنّاع بھی، تاجر بھی تھے اور استاد بھی، غریب الدیار بے زر طلبہ بھی تھے اور امرا بھی، محنت کش مزدور بھی تھے اور آجر بھی۔ لیکن یہاں کوئی طبقاتی، لسانی، قبائلی کش مکش نظر نہیں آتی ۔ نہ آجر، مزدور کا حق مارتا ہے اور نہ مزدور آجر کے خلاف سرکشی پر آمادہ ہے۔ غریب اپنی محنت میں مگن ہیں، تو امرا اپنی دولت پر سانپ بن کر نہیں بیٹھے، بلکہ راہِ خدا میں بے دریغ خرچ کرتے ہیں: ’’اور ان کے مال و دولت میں سائل اور محروم کے لیے حق ہے‘‘ جسے وہ دل میں تنگی محسوس کیے بغیر ادا کرتے ہیں۔ یہاں دولت مند کی عزت اس کے مال کی بنا پر نہیں کی جاتی اور نہ غریب بے زری کی بنا پر بے وقعت ہے، بلکہ معیارِ عزت و تکریم، اللہ سے تعلق اور حُسنِ اخلاق ہے۔ عملاً ایک بلند اور پاکیزہ معاشرہ قائم کرکے دراصل حضور اکرمؐ نے مقصد ِ تعلیم کی اس بلندی کو چھو لیا، جو افلاطون سے لے کر آج تک کے فلاسفہ، معلمینِ اخلاق اور مفکرینِ سیاست کے لیے خوابِ گریزاں ہی رہی ہے۔ شاہ ولی اللہؒ اسے ’حصولِ سعادت‘ کا نام دیتے ہیں اور ایسے مثالی معاشرے کو مفید معاشرہ قرار دیتے ہیں۔
اسلام دین فطرت ہے ۔ فطرت خواہ انسان سے متعلق ہو یا کائنات سے ، اس میں حُسن و توازن اور تناسب و اعتدال کا نقش بہت واضح اور نمایاں ہے۔ عدل صفاتِ الٰہیہ میں ایک ممتاز صفت ہے جس کا اظہار حیات اور آفرینش کے تمام تر مظاہر میں دکھائی دیتا ہے ۔ اس کائنات کی مختلف مخلوقات اور مظاہر فطرت ، عدل کے باعث موجود و برقرار ہیں۔ انسان چونکہ اشرف المخلوقات ہے، لہٰذا اسے عدل کو سمجھنے اور اختیار کرنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ انبیا علیہم السلام کی دعوت میں بھی عدل کا پہلو نمایاں ہے۔ انسان کو اس جہانِ رنگ و بو میں جو تمیز اور ارادے کی قوتیں اور اختیارات بخشے گئے ہیں، عدل کا تقاضا ہے کہ اس کائنات کی صفوں کو لپیٹ کر ایک ایسا دن برپا کیا جائے جہاں انسانی اعمال کی جز اوسزا کا فیصلہ عدل کے ساتھ کیا جا سکے۔
اسلامی شریعت میں عدل کا تصور دو اجزا سے عبارت ہے۔ ایک یہ کہ بنی نوع انسان کے درمیان مختلف حقوق و رعایات میں توازن و تناسب قائم کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ ہر کسی کو اس کا استحقاق دیا جائے اور اس کے حق کی ادایگی کو یقینی بنایا جائے۔اس تصور عدل کے بغیر فرد ہو یا معاشرہ یا ریاست، ہلاکت خیز اور سنگین نتائج کا سامنا کرتے ہیں۔
عَدَل عربی گرامر کی رو سے مصدر ہے۔ یہ لفظ قرآن مجید میں ۲۶ مقامات پر بیان ہوا ہے۔ قرآن مجید میں عدل کو مزید برابری، نیک نیت، قیمت، مردِ صالح اور حق و انصاف کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ اردو زبان میں ’عدل‘ کے لیے عموماً ’انصاف‘ کا لفظ مترادف کے طور پر استعمال ہوتا ہے جو علمی اور لغوی اعتبار سے چنداں درست نہیں ہے۔ انصاف کے معنی ’’تنصیف یا نصف نصف کرنے‘‘ کے ہیں۔ یوں اس سے مراد حقوق کو محض برابر تقسیم کر دینا ہے لیکن عدل کی قرآنی اصطلاح محض مساویانہ تقسیمِ حقوق کا نام نہیں ہے کیونکہ محض مساوات خلافِ فطرت امر ہے۔ حقیقت میں عدل کا تقاضا یہ ہے کہ مساوات کے بجاے توازن و تناسب قائم کیا جائے۔ مساوات اگرچہ عدل کی روح میں شامل ہے جیسا کہ مدنی حقوق اور شہری آزادیوں میں یہ تصور موجود ہے مگر جہاں تک والدین اور اولاد کے درمیان معاشرتی مساوات کا تعلق ہے ، یہ اخلاقاً درست نہیں ہے۔ شریعت کی رو سے عدل کا تقاضا ہے کہ ہر فرد کے قانونی، آئینی ، تمدنی ، سیاسی، معاشی ، معاشرتی اور اخلاقی حقوق کو پوری ذمہ داری اور آخرت کی جواب دہی کے احساس کے ساتھ ادا کیا جائے۔ (دیکھیے: ابن منظور، لسان العرب، ج۱۱، ص ۴۳۰۔ راغب اصفہانی: مفردات القرآن، ص ۲۳۵)
اللہ نے خود اس بات کی شہاد ت دی ہے کہ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے، اور (یہی شہادت) فرشتوں اور سب اہل علم نے بھی دی ہے۔ وہ انصاف پر قائم ہے۔ اُس زبردست حکیم کے سوا فی الواقع کوئی خدا نہیں۔ (اٰلِ عمرٰن ۳:۱۸)
قسط کا لفظ بھی عدل ہی کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن مجید میں عدل کی اس مترادف اصطلاح کو ۲۲ مرتبہ استعمال کیا گیا ہے ۔ قرآ ن مجید میں مومنوں کی صفات میں عدل گستری کو ایک اہم مقام دیا ہے۔ فرمایا:’’ہماری مخلوق میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جو ٹھیک ٹھیک حق کے مطابق ہدایت اور حق کے مطابق انصاف کرتا ہے‘‘۔(اعراف ۷:۱۸۱)
آخرت میں اعمال کے لیے جو ترازولگائی جائے گی ، اس کو بھی عربی زبان میں قسطاس کہتے ہیں۔ بعثت انبیا ؑکے ساتھ جن فرائض اور ذمہ داریوں کو وابستہ رکھا گیا ہے ، ان میں بھی عدل کا قیام بنیادی امور میں شا مل ہے۔ پیغمبر آخر الزماںؐ کو فرائض نبوت کے سلسلے میں یوں خطاب کیا گیا ہے:
مجھے حکم دیا گیا ہے میں تمھارے درمیان انصاف کروں ۔ اللہ ہی ہمارا رب بھی ہے اور تمھارا رب بھی۔ ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمھارے اعمال تمھارے لیے۔ ہمارے درمیان کوئی جھگڑا نہیں ۔ اللہ ایک روز ہم سب کو جمع کرے گا اور اسی کی طرف سب کو جانا ہے۔ (الشوریٰ ۴۲:۱۵)
سورۂ شوریٰ کی اس آیت میں نظام عدل کے ساتھ قیام عدل کی بات کی گئی ہے ۔ یہاں حضوؐر کو ایک قاضی اور جج کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے اور آ پ کو ضوابط ِ شریعت کے مطابق عدل قائم کرنے کا فریضہ سونپا جا رہا ہے ۔ وقائع سیرت سے پتا چلتا ہے کہ آپ نے مکی زندگی میں عقائد میں عدل کرنے کی تلقین کی اور پھر مدنی زندگی میں جب ابتداً چھے مربع کلومیٹر کی اسلامی ریاست وجود میں آگئی تو اس میں قیام حق اور نفاذِ عدل کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں۔ تا آنکہ اسلامی ریاست کا رقبہ آپؐ کی حیات طیبہ میں ۱۸ لاکھ مربع کلومیٹر تک پھیل گیا۔ اس وسیع سلطنت میں آپؐ نے قیام عدل کی ذمہ داریوں کے لیے بعض دوسرے صحابہ کرام ؓ کو بھی امورِ عدل اور فرائضِ انصاف تفویض کیے اور یوں ان حضرات کے فیصلوں کے بعد آپؐ کی حیثیت ایک اپیلیٹ کورٹ کی اختیار کر گئی ۔(نعیم صدیقی، محسنِ انسانیتؐ، ص ۶۰۳)
حضور سرور کائنات نے عدل کے قیام میں سب لوگوں کے ساتھ یک جہتی کا اسلوب اختیار فرمایا، اپنوں اور بیگانوں کے درمیان تفریق کو ختم کر دیا۔ انصاف میں عربی عجمی ، گورے کالے، امیر اور غریب ، اعلیٰ اور ادنیٰ نسب کے تمام تر تعصبات کو ختم کر دیا۔ یوں عدل کے قیام میں نئے نظائر اور جدید دنیا کے شواہد سامنے آئے جن سے انسانیت اس سے قبل محروم تصور کی جاتی تھی۔
مکی زندگی میں اگرچہ نفاذ عدل کے مواقع موجود نہ تھے مگر دین حق کی پیش کش میں کوئی امتیاز روا نہ رکھا ۔ یہ دعوت سب کے لیے یکساں تھی۔ حلال سب کے لیے حلال تھا اور حرام سب کے لیے حرام تھا۔ شریعت کے ضابطے رنگ و نسل ، علاقے اور زبان کے تصورات سے ماورا تھے اور سب کے لیے یکساں لائق تعمیل تھے ۔ پیغمبر آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری دنیا میں عدل قائم کرنے کی دعوت دی۔ لوگوں کے درمیان انصاف کرنے کی نہ صرف دعوت دی بلکہ قیام امن کی تمام صورتوں کو بروے کار لائے اور مختلف طبقات کے درمیان پائی جانے والی بے اعتدالیوں کا مداوا کیا ۔ بچوں ، عورتوں ، ضعیفوں، غلاموں ، مزدوروں، حتیٰ کہ جانوروں، درختوں اور فصلوں تک کے ساتھ حق و انصاف کی ایک اصولی تعلیم دی گئی ہے۔ دوست تو کجا دشمن کے ساتھ بھی انصاف کا رویہ اختیار کرنے کی تعلیم دی گئی ہے ۔ اسلامی شریعت میں عدل کی اہمیت قرآنی آیات اور اسوۂ رسولؐ سے واضح ہو جاتی ہے ۔ عدل چونکہ صفات الٰہیہ میں شامل ہے اس لیے قرآن مجید میں حق تعالیٰ نے اسے اپنی کائنات اور اپنی سر زمین پر قائم کرنے کا بھی حکم دیا ہے:
اللہ عدل اور احسان اور صلۂ رحمی کا حکم دیتا ہے اور بدی و بے حیائی اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمھیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم سبق لو۔(النحل ۱۶:۹۰)
عدل کی سب سے اہم نوعیت قانونی عدل ہے ۔ شریعت معاشرے میں ہر نوعیت کے ظلم اور حق تلفی کا ازالہ کرتی ہے ۔ اسلام، کسی فرد /ادارے یا ریاست تک کو بھی اس امر کی اجازت نہیں دیتاکہ وہ کسی کی حق تلفی کرے یا نا حق مال ہڑپ کرے یا کسی کی عزتِ نفس کو مجروح کرے۔ شریعت ہر فرد کے جان و مال اور مسلمہ بنیادی حقوق کی حفاظت کرتی ہے۔ لیکن بعض وہ حقوق بھی فرد کو عطا کرتی ہے جن کا تصور آج کے جدید اور مہذب معاشروں میں موجود نہیں۔
اسلام نے عدل و انصاف کے ضوابط متعین کر دیے ہیں۔ حدود کا نظام واضح اور تعزیرات کو جرائم کی نوعیت کے مطابق اختیار کرنے کی حدود بتا دی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جس معاشرے میں اسلامی قوانین کا اطلاق اور نفاذ ہوتا ہے وہاں بد امنی ،ظلم اور لوٹ کھسوٹ کا خاتمہ ہوجاتا ہے ۔ فرد کے جان و مال اور عزت و ناموس کو تحفظ ملتا ہے۔ ہر فرد کی معاشی کفالت کی ذمہ دارریاست ہے۔
اسلامی قانون میں حلال و حرام واضح اور حدود وتعزیرات متعین ہیں۔ مگر انفرادی ، اجتماعی ، معاشرتی ، سیاسی، معاشی اور قانونی عدل اسی وقت قائم ہو سکتا ہے، جب کہ اسلامی ریاست اپنے تمام اداروں سمیت قائم ہو، احتساب کا عمل پختہ ہو اور مناصب پر خدا ترس، مستحق اور ایمان دار لوگ فائز ہوں ۔ اسی لیے قرآن نے ہمیں حکم دیا ہے :
اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا لا وَ اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ ط (النساء ۴:۵۸) مسلمانو! اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو۔
قیام عدل کے بغیر شرف انسانی کا تحفظ ممکن نہیں۔ اس کے لیے انفرادی اور اجتماعی ہر دو سطح پر کوششیں ہونا چاہیے۔ اگر وحی الٰہی کے مطابق عدل گستری نہ کی جائے تو یہ مشرکانہ، فاسقانہ اور کافرانہ طرزِ عمل ہے۔ قیام عدل کے بغیر امن ممکن نہیں جو ایک مہذب ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ تاریخ انسانی، خلافت علی منہاج النبوۃ سے بہتر عادلانہ معاشرے کی آج تک کوئی دوسری مثال پیش نہیں کر سکی۔ جس کی پیروی میں تاریخ اسلام نے ہر دور میں عدل کی روشن ، حکمت آموز اور بصیرت افروز مثالیں قائم کی ہیں۔
عدل و انصاف کی ضرورت عدالتی امور میں خاص طور پر ہوتی ہے ۔ اسلام نے عدالتی کاروبار کے ہر پہلو میں عدل و انصاف کو ملحوظ رکھا ہے ۔ اس سلسلے میں چار باتیں اہم ہیں جن پر روشنی ڈالی جائے گی:
اس آیت میں لکھنے والے کو عدل و انصاف سے لکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اسی آیت میں لکھوانے والے کو بھی یہی حکم دیا گیا ہے۔
lفیصلہ کرنے میں عدل: وَ اِنْ حَکَمْتَ فَاحْکُمْ بَیْنَھُمْ بِالْقِسْطِ ط اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَo (المائدہ ۵:۴۲)’’اور اگر فیصلہ کرو تو ان کے درمیان انصاف سے فیصلہ کرنا۔ بے شک اللہ عدل کرنے والوں کوپسند کرتا ہے‘‘۔
سورئہ نحل میں فرمایا: اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ (النحل ۱۶:۹۰)’’ بے شک اللہ عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے‘‘۔
فیصلہ حاکم کے پاس ایک قسم کی امانت ہے۔ اگر اس نے فیصلہ ٹھیک کیا ہے تو اس نے امانت کواس کے حق دار تک پہنچا دیا ورنہ اس نے خیانت کی۔
ارشاد نبویؐہے’’جو شخص مسلمانوں کا حاکم بنا اس نے اس کے ساتھ خیانت کی، یعنی عدل و انصاف سے کام نہ لیا اور وہ اسی حالت میں مر گیا تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت حرام کر دے گا‘‘۔ اور عادل بادشاہ کے لیے یہ مژدہ ہے کہ وہ جنتی ہے اور اللہ تعالیٰ قیامت میں اس کو اپنے عرش کے سایے میں جگہ دے گا۔
جب فریق مقدمہ والدین یا رشتہ دارہوں تو یہاں پر حق بات کہناجوے شیر لانا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ اگر صحیح بات کی تو والدین اور رشتہ داروں سے تعلقات کشیدہ ہو جائیں گے مگر قرآن پاک یہاں بھی یہی مطالبہ کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے سچ بات کی گواہی دو۔
اسلام نے عدل و انصاف کا ایساا علیٰ معیار قائم کیا ہے کہ اس میں بادشاہ و فقیر،آقا و غلام ، رنگ و نسل، حسب و نسب، قبیلہ و خاندان اور دین و مذہب کی کوئی قید نہیں۔ قانون کی نگاہ میں سب مساوی اور برابر ہیں۔ کسی کا بڑا ہونا اس کو سزا سے نہیں بچا سکتا۔
سورۂ نساء کی آیت ۱۳۵میں عدل و انصاف کے اعلیٰ معیار کا اندازہ لگائیے۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآئَ لِلّٰہِ وَ لَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ ج اِنْ یَّکُنْ غَنِیًّا اَوْ فَقِیْرًا فَاللّٰہُ اَوْلٰی بِھِمَا قف فَلَا تَتَّبِعُوا الْھَوٰٓی اَنْ تَعْدِلُوْا ج وَ اِنْ تَلْوٗٓا اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا o (النساء ۴:۱۳۵) اے ایمان والو! انصاف پر قائم رہواللہ تعالیٰ کی طرف کی گواہی دو اگرچہ اپنی ذات کے خلا ف ہو یا ماں باپ اور رشتہ داروں کے خلاف ہو۔ اگر کوئی مال دار ہے یا فقیر ہے اللہ تعالیٰ ان کا تم سے زیادہ خیر خواہ ہے۔ تم انصا ف کرنے میں دل کی خواہش کی پیروی نہ کرو۔ اگر تم دبی زبان سے گواہی دو گے یا منہ موڑو گے تو بلاشبہہ اللہ تعالیٰ تمھارے سب اعمال سے باخبر ہے۔
عدل و انصاف ایک ایسی چیز ہے جس نے دنیا کے نظام کو قائم رکھا ہے ۔ اگر دنیا سے عدل و انصاف اٹھ جائے تو یہ کارخانہ عالم درہم برہم ہو جائے۔ یہاں پر افرا تفری عام ہوجائے۔ ہرطرف لاقانونیت اور فتنہ و فساد کا دور دورہ ہو جائے۔ اس بد امنی کو ختم کرنے کا واحد ذریعہ قانونِ عدل کا نفاذ اور اس پر عمل ہے۔ گویا کہ کسی معاشرے کے امن و سکون اور استحکام کا ضامن صرف عدل ہے۔
عدل و انصاف پر قائم رہنے والوں کو خوش خبریاں سنائی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ امام عادل کو قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اپنے سایے میں جگہ دے گا، جب کہ اس کے سایے کے علاوہ اور کوئی سایہ نہیں ہو گا۔ ایک جگہ ارشاد ہے کہ قیامت کے دن امام عادل کا درجہ سب سے بلند ہوگا۔
عدل کی مختلف اقسام اور نوعیتوں میں ایک نازک تر پہلو معاشی عدل کا ہے ۔ آج پوری دنیا معاشی لوٹ کھسوٹ ، سود ، ذخیرہ اندوزی، نفع خور ی اور اسراف و تبذیر کے شکنجوں میں جکڑی نظر آتی ہے۔ اسلام معاشی ظلم کی ہر شکل کو مٹانا چاہتا ہے اور معاشی لحاظ سے ایک عادلانہ معاشرے کا تمنائی ہے ۔
قرآن مجید میں سورئہ بقرہ میں مسلمانوں کو تعلیم دی گئی ہے :
وَ لَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا بِھَآ اِلَی الْحُکَّامِ لِتَاْکُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنo (۲:۱۸۸) اور آپس میں ایک دوسرے کے اموال باطل طریقوں سے نہ کھائو اور نہ حاکموں کے آگے ان کو اس غرض کے لیے پیش کرو کہ تمھیں دوسروں کے مال کا کوئی حصہ قصداً ظالمانہ طریقے سے کھانے کا موقع مل جائے۔
شریعت نے معاشی عدل کے لحاظ سے یتیموں کے اموال کے بارے میں احتیاط ملحوظ رکھنے کی تعلیم دی ہے ۔ بیع کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔ کم تولنے والوں کے لیے تباہی اور اسراف و تبذیر سے بچنے کی تلقین کی ہے ۔ مال و دولت پر سانپ بن کر بیٹھنے اور ارتکازِ دولت کو ممنوع قرار دیا ہے۔ یوں اسلام معاشی عدل کے ایک ایسے پہلو کو پیش کرتا ہے جس سے اسلامی معاشرہ ہر قسم کی لوٹ کھسوٹ سے اور معاشی ناہمواریوں کی تباہ کاریوں سے محفوظ ہوتاہے۔
اسلام نے اپنی ذات کے ساتھ بھی عدل کرنے کا حکم دیا ہے۔ انسان اپنی ذات کو بھی ایسی مشقتوں اور ریاضتوں میں نہ ڈالے جن کا حکم شریعت نے نہیں دیا، یا جہاں اس کی جان خطرے میں پڑ سکتی ہو۔ مشقت میں ڈال کر چلہ کشی کرنا، مسلسل روزے رکھنا اس میں شامل ہیں۔ اپنے حقوق سے خواہ مخواہ دستبردار ہو جانا، اپنے حق کے لیے جدو جہد نہ کرنا اپنی ذات سے عدل کے خلاف ہے ۔
معاشرتی زندگی میں عدل و انصاف کی بڑی اہمیت ہے ۔ عدل دراصل کا میاب معاشرے کی جان ہے ۔ اگر یہ معاشرتی زندگی سے نکل جائے تو پھر انسانی زندگی جہنم بن جاتی ہے۔ گھر، عزیزو اقارب اور معاشرے میں ہر کسی کو اس کا متعینہ مقام و احترام دیا جائے۔ والدین ، قریبی رشتے دار، محلہ دار، اساتذہ،معاشرے کے کمزور لوگ اور غربا، عمر میں چھوٹے ، غرض سب کے حقوق شریعت اور معاشرتی روایات میں متعین ہیں۔ معاشرتی عدل یہ ہے کہ ہر ایک کو اس کے حقوق دیے جائیں۔
اگر عائلی زندگی میں عدل و انصاف نہ ہوتو میاں بیوی زندگی کے دن آرام و سکون سے نہیں گزار سکتے۔ اس عدل و انصاف کی ضرورت اس وقت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے جب کسی کے نکاح میں ایک سے زائد بیویاں ہوں ۔ اسلام نے دوسرے نکاح کو عدل کے ساتھ مشروط کر دیا۔ ارشاد ہے :
فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً (النساء ۴:۳) ’’ اگر تمھیں خوف ہو کہ تم انصاف نہ کر سکو گے تو ایک ہی پر اکتفا کرو‘‘۔ سورئہ نساء میں فرمایا: ’’اگر تمھاری ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو ان میں سے کسی ایک ہی کی طرف جھک نہ جائو کہ دوسری بیوی معلق حالت میں رہ جائے‘‘۔
نبی اکرم ؐ نے اپنی بیویوں کے ہاں باری مقرر کر رکھی تھی اور تمام بیویوں کو عدل کے مطابق وقت دیتے تھے۔
اولاد کے درمیان عدل و انصاف بھی ضروری ہے۔ وگرنہ ان کے درمیان بغض اور عناد کے جذبات پیدا ہوں گے۔ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری اولاد کے ساتھ ایک سا سلوک کرنے کی تعلیم دی ہے۔ خانگی معاملات میں سکون پیدا کرنے کے لیے یہ ایک زریں اصول ہے جسے کسی وقت بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ ایک صحابی نے اپنے ایک بیٹے کو کچھ مال دیا اور حضوؐر کو اس میں ضامن بنایا۔ آپؐ نے پوچھا کہ کیا تم نے اپنے دوسرے بچوں کو بھی یہ کچھ دیا ہے ؟تو انھوں نے نفی میں جواب دیا۔ اس پر آپؐ نے فرمایا کہ پھر اس ظلم کے کام میں میں گواہ نہیں بنوں گا۔
ہماری معاشرتی زندگی کے بہت سے مسائل اور گھریلو جھگڑے اس لیے پیدا ہوتے ہیں کہ ہمارے گھروں کے سربراہ اور ذمہ دار اپنے سے چھوٹوں سے عدل نہیں کرتے ۔ بیٹیوں کو وراثت میں حصہ نہ دینا، بیٹوں کو بیٹیوں پر ترجیح دینا، اولاد میں کسی ایک کو زیادہ اختیارات دے دینا، جایداد برابر تقسیم نہ کرنا، جایداد سے محروم کرنے کے لیے کسی ایک بچے کو عاق کر دینا___ یہ سب عدل کے منافی کام ہیں۔ گھر کی بہوئوں سے مساوی سلوک نہ کرنے سے گھروں کی زندگی اجیرن بن کر رہ جاتی ہے۔ گھروں کے اندر پائی جانے والی یہ کشیدگی عدل کے ذریعے دُور ہو سکتی ہے۔
معاشرے کے کمزور ترین افراد یتیم ہوتے ہیں۔ ان کے حقوق کی حفاظت کے لیے قرآنِ مجید میں تفصیلی طور پر احکامات دیے گئے ہیں۔ حدیث میں ہے، آپؐ نے فرمایا:میں یتیموں کا کفیل ہوں۔
قرآن مجید اور نبی اکرم ؐ نے ان تمام لوگوں کے لیے عدل کا خصوصی حکم دیا ہے جنھیں لوگ کمزور سمجھ کر ان کے حقوق پامال کرتے ہیں۔ آپؐ نے اپنی وفات سے قبل جن لوگوںکے حقوق کی طرف خصوصاً متوجہ فرمایا ان میں ملازم ، عورتیں اور ماتحت لوگ ہیں۔
قرض اور اُدھار کے معاملات میں نا انصافی کا بڑا امکان ہوتا ہے۔ اس لیے سورئہ بقرہ کی آیت ۲۸۲ میں قرض کے معاملات کو عدل و انصاف کے ساتھ لکھ لینے کا حکم دیا۔ پھر لکھنے والے (کاتب) کو انصاف کے ساتھ لکھنے ، مقروض کو انصاف کے ساتھ لکھوانے اور گواہ کو انصاف کے ساتھ گواہی دینے کی ہدایات دے کر قرض کے معاملات میں نا انصافی کی جڑوں کو کاٹ کر رکھ دیا ہے ۔ پھر اس تحریر کے متعلق ارشاد ہے:ذٰلکم اقسط عند اللّٰہ (یہ لکھنا) اللہ تعالیٰ کے نزدیک انصاف کو زیادہ قائم رکھنے والا ہے ۔
نبی پاکؐ نے فرمایا : صاحب استطاعت کا قرض کی ادائیگی میں تاخیر ظلم ہے ۔
مذاہب ِ عالم کا مطالعہ کیا جائے تو اُن کی تعلیمات میں سائلین، محرومین، مستضعفین اور کسی بھی انداز کی معذوری اور محتاجی کے سدباب کے اشارے یا واضح اسلوب موجود ہیں۔ قبل مسیح کے دیگر مختلف افکار اور مذاہب کے راہ نما اپنے اپنے صحائف اور اخبارات کے ذریعے معاشرے کے محروم اور ضرورت مند لوگوں کی بھلائی کے بارے مقتدر حضرات کو آگاہ کرتے رہے۔ بعدازاں ان کی سرداری اپنے ہاتھ میں لے کر ظلم و جبر کا کاروبار عام کرنے والے کامیاب ہوگئے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہونے والی آسمانی کتابوں زبور اور انجیل میں اِن طبقات کی فلاح اور بھلائی کے باب موجود ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا اللہ کے اذن سے اندھوں کو بینائی بخشنا اور کوڑھ کے مریضوں کو شفایاب کرنا، اُن کی تعلیمات کا عملی نمونہ ہے۔ حتیٰ کہ یہ سلسلۂ ادیان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت مطہرہ تک آن پہنچا اور اللہ تعالیٰ نے قرآن مقدس میں معذور افراد کے بارے واضح اور کھلے احکامات کا ذکر کرتے ہوئے آںحضوؐر کی زندگی میں ہی عملی اقدامات کا بندوبست فرمایا۔
لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍo (التین ۹۵: ۴)ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا۔
وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ (بنی اسرائیل ۱۷: ۷۰)اور یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی۔
متذکرہ بالا آیاتِ مقدسہ کے اسباق میں یہ امر واضح ہو رہا ہے کہ خالقِ کائنات نے نفس انسانی کو بہت عزت و تکریم اور احترام و احتشام سے نوازا ہے۔
اے بنی نوع انسان! تمھارے خون، تمھارے اموال اور تمھاری عزتیں تم پر اِسی طرح حرام ہیں جس طرح اِس ماہ (ذوالحجہ) اِس شہر (مکہ) میں تمھارے لیے اِس دن (یومِ عرفہ) کی عزت ہے۔(السیرۃ النبویہ، ابن ہشام)
آں حضوؐر نے انسان کی عزت، جان اور مال کو ایک دوسرے پر حرام قراردیا ہے۔ گویا عزت اور جان و مال کے سلسلے میں ساری انسانیت برابر ہے۔ آپؐ کا ذاتی کردار تکریمِ انسانیت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ ایک مرتبہ آں حضوؐر کے سامنے سے ایک جنازہ گزرا۔ آپؐ کھڑے ہوگئے۔ صحابہؓ نے عرض کیا: یا رسولؐ اللہ! یہ یہودی کا جنازہ تھا۔ ارشاد فرمایا: میں نفسِ انسانی کے احترام میں کھڑا ہوا ہوں۔
تکریمِ انسانیت کی بلند ترین سطح یہ ہے کہ انسان دوسرے انسان کی دِل آزاری نہ کرے، اِس کا مذاق نہ اُڑائے، اسے اس کے عیبوں کا طعنہ نہ دے، اسے بُرے ناموں یا القاب سے نہ پکارے، اسے اپنے سے کم تر یا گھٹیا محسوس نہ کرے۔ قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے تکریم انسانیت کا یہ درس دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اُڑائیں ، ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اُڑائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو بُرے القاب سے یاد رکھو۔(الحجرات۴۹ : ۱۱)
دینِ اسلام نے زندگی کے معاملات میں ہر انسان کو بلا تمیز رنگ و نسل یا سماجی مرتبہ مساوی حیثیت عطا کی ہے۔ یہ عام سماجی رویہ ہے کہ معذور افراد کو زندگی کے عام معاملات اور میل جول میں نظرانداز کرنے کی روش اختیار کی جاتی ہے۔ قرآنی تعلیمات نے اِس روش اور عادت کی سختی سے مذمت کرتے ہوئے ہر انسان کو لائقِ عزت و وقار قرار دیا ہے۔
عَبَسَ وَتَوَلّٰیٓ o اَنْ جَآئَہُ الْاَعْمٰی o وَمَا یُدْرِیْکَ لَعَلَّہٗ یَزَّکّٰیٓ o اَوْ یَذَّکَّرُ فَتَنْفَعَہُ الذِّکْرٰیo (عبس۸۰: ۱- ۴) تُرش رُو ہوا اور بے رُخی برتی اس بات پر کہ وہ اندھا اس کے پاس آگیا۔ تمھیں کیا خبر، شاید وہ سُدھر جائے یا نصیحت پر دھیان دے اور نصیحت کرنا اس کے لیے نافع ہو؟
۱- معذور افراد دیگر افرادِ معاشرہ کی نسبت زیادہ توجہ کے مستحق ہیں۔ دوسرے افراد کو اِن پر ترجیح دیتے ہوئے انھیں نظر انداز نہ کیا جائے۔
۲- عزت و وقار کے مرتبے کا تعین سماجی یا معاشرتی حیثیت کو دیکھ کر نہ کیا جائے بلکہ اس کے لیے ذاتی کردار، تقویٰ، اصلاح طلبی اور نیکی کے جذبے کو معیار بنایا جائے۔
۳- معذور افراد کو تعلیم سے بہرہ مند کیا جائے کیونکہ وہ دیگر انسانوں کی طرح مفید اور کارآمد ثابت ہوسکتے ہیں۔
دین اسلام نے کسی شخص کے جسمانی نقص یا کمزوری کی بنا پر اُس کی عزت و توقیر اور معاشرتی رُتبہ کو کم کرنے کی ہرگز اجازت نہ دی ہے، بلکہ جا بجا ایسے واقعات اور احکامات موجود ہیں جن کی بنیاد پر اللہ اور اس کے رسولؐ نے ایسے لوگوں کو دوسرے انسانوں کی نسبت زیادہ عزت بخشی ہے۔
حضرت عبداللہ بن اُمِ مکتوم نابینا تھے۔وہ حضوؐر کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنا کچھ مدعا بیان کرنا چاہتے ہیں اور تعلیماتِ رسولؐ سے بہرہ مند ہونے کی خواہش رکھتے ہیں۔ بینائی نہ ہونے کی وجہ سے اُنھوں نے حاضرِ خدمت ہو کر اپنا مدعا بیان کرنا شروع کر دیا، عین اُسی وقت کچھ اشرافِ قریش بھی آپؐ کے پاس بیٹھے تھے جنھیں آپؐ دین حق کی تبلیغ فرما رہے تھے۔ دعوتِ حق کی حکمت عملی اور محویت کے باعث آپؐ عبداللہ ابن مکتوم کی طرف توجہ نہ دے سکے اور اُن کے سوالات کا جواب بھی نہ دیا، بلکہ ابن مکتوم کی بار بار نِدا اَور مداخلت سے سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو قدرے ناگواری ہوئی۔ مگر باری تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرمؐ کو متوجہ فرماتے ہوئے اُن کی مخلصانہ طلب اور راہِ حق کی سچی جستجو کو زیادہ اہمیت دینے کی نشان دہی فرمائی۔
ایک اور واقعہ جو بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ حضرت عمرؓ لوگوں کو کھانا کھلا رہے تھے۔ آپؓ نے دیکھا ایک شخص بائیں ہاتھ سے کھانا کھا رہا ہے۔ آپؓ نے فرمایا کہ اے بندۂ خدا! دائیں ہاتھ سے کھا۔ اُس نے جواب دیا کہ ’’وہ مشغول ہے‘‘۔ آپؓ آگے بڑھ گئے جب دوبارہ گزرے تو پھر وہی فرمایا اور اُس شخص نے پھر وہی جواب دیا۔ جب تیسری بار آپؓ نے اُس کو ٹوکا تو اُس نے جواب دیا کہ ’’موتہ کی لڑائی میں میرا دایاں ہاتھ کٹ گیا تھا۔‘‘ یہ سن کر آپؓ رونے لگے اور پاس بیٹھ کر اُس سے پوچھنے لگے کہ: تمھارے کپڑے کون دھوتا ہے اور تمھاری دیگر ضروریات کیسے پوری ہوتی ہیں؟ تفصیلات معلوم ہونے پر آپؓ نے اس کے لیے ایک ملازم لگوا دیا۔ اسے ایک سواری دلوائی اور دیگر ضروریاتِ زندگی بھی دِلوائیں۔ (کتاب الآثار از یوسف ۱:۲۰۸ رقم ۹۲۷ھ)
اِس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومتِ اسلامیہ کا فرض ہے کہ وہ معذور افراد کی ضروریات کا خیال رکھنے میں کوتاہی اور سستی کی مرتکب نہ ہو۔
ایک پگلی عورت کا واقعہ بھی حدیث میں نقل ہوا ہے جسے متعدد محدثین مثلاً امام مسلمؒ، ابودائودؒ، قاضی عیاضؒ، قسطلانیؒ، ابولیلیؒ اور ذہبیؒ نے حضرت انسؓ کی زبانی تحریر کیا ہے کہ مسجد نبویؐ میں آںحضورؐ صحابہ کرام کے پاس بیٹھے کچھ اہم موضوعات پر گفتگو فرما رہے تھے کہ پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس ایک بڑھیا مجمع کے آخر میں کھڑے ہو کر کچھ کہنا چاہ رہی تھی۔ آپؐ اُس کی طرف متوجہ ہوئے۔ اُس نے عرض کیا کہ حضورؐ میں کچھ عرض کرنا چاہتی ہوں مگر سب کے سامنے نہیں۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! یہ عورت پاگل ہے اور ایسے ہی آپؐ کا وقت ضائع کرے گی۔ آپؐ کا چہرۂ اقدس متغیر ہوا فرمایا کہ: ’’پاگل ہے تو کیا انسان نہیں ۔ کیا اِس کی خواہشات اور تمنائیں نہیں ہیں۔ یہ کچھ کہنے آئی ہے‘‘۔ لہٰذا آپؐ مسجد نبوی سے نکل کر اُس کے ساتھ چل پڑے۔ آپؐ نے اُس سے اُس کی ضرورت پوچھی اور ساتھ ہی فرمایا کہ تیری ہر بات تسلیم کی جائے گی۔ بڑھیا آگے آگے چلتی رہی اور سرکار دو عالمؐ اُس کے پیچھے پیچھے چلتے رہے۔ مدینے کی ایک گلی کی نکڑ پر بڑھیا نے آپؐ سے کہا کہ آپ زمین پر تشریف رکھیں۔ آپؐ بیٹھ گئے۔ بڑھیا نے اپنی پوری داستان سنائی اور رحمتِ دوعالمؐ نے اُس کی ساری ضروریات پوری کر دیں۔ اِس طرح بے سہاروں کو سہارا دینا بھی ایک بڑی عبادت ہے۔
کوئی حرج نہیں اگر کوئی اندھا، یا لنگڑا، یا مریض (کسی کے گھر سے کھالے) اور نہ تمھارے اُوپر اس میں کوئی مضائقہ ہے کہ اپنے گھروں سے کھائو یا اپنے باپ دادا کے گھروں سے، یا اپنی ماں نانی کے گھروں سے، یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے، یا اپنی بہنوں کے گھروں سے، یا اپنے چچائوں کے گھروں سے، یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے، یا اپنے ماموئوں کے گھروں سے، یا اپنی خالائوں کے گھروں سے، یا اُن کے گھروں سے جن کی کنجیاں تمھاری سپردگی میں ہوں، یا اپنے دوستوں کے گھروں سے۔ اس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ تم لوگ مل کر کھائو یا الگ الگ۔(النور۲۴: ۶۱)
یہاں بے بصر اور جسمانی طور پر معذور افراد کے لیے ایک نعمت اور عطیۂ خداوندی کا اعلان کرتے ہوئے اُنھیں فاقہ کشی اور بھوک و ننگ سے محفوظ کر دیا ہے کہ اہلِ قرابت اُن کی ضروریات اور حقوق سے جان چھڑاتے نہ پھریں اور نہ خصوصی افراد اپنی بے بسی اور اپنوں کی بے مروتی کے باعث خودکشیاں کرتے پھریں۔ دیکھیے کتنے عظیم اور بنیادی چارٹر کا اعلان :
۱- اندھے، بیمار اور جسمانی طور پر معذور (لولے لنگڑے) افراد چونکہ جنگ میں شریک نہ ہو سکتے تھے، لہٰذا اُنھیں قریبی رشتہ داروں کے گھروں سے کھانا کھانے کی اجازت دی گئی۔
۲- قریش اور سردارانِ مکہ معذور افراد کو منحوس اور قابل نفرت خیال کرتے تھے۔ لہٰذا اللہ نے اُن کی تکریم کرتے ہوئے ، اُن کے حقوق اور عزتِ نفس کا اعلان کیا اور جاہلانہ رسوم کا قلع قمع کر دیا۔
۳- ماں باپ اور بہن بھائی معذور افراد کو کراہتاً رشتہ داروں کے گھر چھوڑ آتے تھے تاکہ وہ خود تو خوب سیر ہو کر کھالیں اور یہ کہیں سے روکھی سوکھی کھا لیں۔ رب العزت کو یہ بات پسند نہ تھی لہٰذا ترغیباً والدین اور بہن بھائیوں یا قریبی رشتہ داروں کے گھر سے کھانے کی اجازت دی۔
۴- بہن بھائیوں، چچائوں، پھوپھیوں، ماموئوں، خالائوں کے گھروں سے یا اُن کی عدم موجودگی میں بھی اُن کے ہاں کھانا کھانے کی اجازت اور رخصت دی گئی۔
۵- رشتہ داروں کے بعد جن گھروں کی کنجیاں اُن کے حوالے کی گئیں وہاں سے بھی کھانے کی اجازت دی گئی۔ دوست احباب کے گھر کو بھی رشتہ داروں کے گھروں سے تشبیہہ دی گئی تاکہ یہ قربت بھی عظمت کی علامت رہے اور خصوصی افراد کے حقوق یہاں بھی محفوظ رہیں۔
۶- بعض لوگ معذور لوگوں کو حقیر سمجھ کر الگ تھلگ بٹھاکر کھانا دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے تنہا خوری کی کراہت کو ختم کرتے ہوئے اپنے رسولؐ کے ذریعے اکٹھے کھانے کی ترغیب دی۔
حضرت عمرؓ کا گزر کسی کے دروازے پر سے ہوا جہاں ایک سائل بھیک مانگ رہا تھا۔ وہ ایک بوڑھا آدمی تھا جس کی بصارت زائل ہو چکی تھی۔ آپؓ نے پوچھا: تم اہلِ کتاب کے کس گروہ سے ہو؟ اُس نے کہا :یہودی۔ آپؓ نے اس سے پوچھا: تمھیں کس چیز نے بھیک مانگنے پر مجبور کیا ہے؟ اُس نے جواب دیا: میں بڑھاپے، ضرورت مندی اور جزیہ کی وجہ سے بھیک مانگ رہا ہوں۔ حضرت عمرؓ اُس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے گئے اور گھر میں سے اُسے کچھ لا کر دیا اور پھر آپؓ نے بیت المال کے نگران کو بلایا اور فرمایا: اِس کا اور اِس جیسے دوسرے لوگوں کا خیال رکھو۔ (کتاب الخراج، اَز ابو یوسف،ص ۱۳۶ )
مدینہ کے اطراف میں ایک نابینا بڑھیا رہتی تھی۔ حضرت عمر فاروقؓ روزانہ علی الصبح اِس کے جھونپڑے میں جا کر اس کے لیے پانی اور دیگر ضروری خدمات انجام دیتے تھے۔ کچھ عرصے بعد آپ کو محسوس ہوا کہ کوئی شخص اِن سے پہلے آکر یہ کام کر جاتا ہے۔ ایک روز تحقیق کی غرض سے آپ ؓ کچھ رات گزرنے کے بعد وہاں تشریف لے گئے تو دیکھا خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیقؓ اِس ضعیفہ کی خدمت گزاری سے فارغ ہو کر اس کے جھونپڑے سے نکل رہے تھے۔
حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے دورِ خلافت میں اِس بات کا خاص اہتمام کر رکھا تھا کہ ممالک محروسہ میں کوئی شخص فقر و فاقہ میں مبتلا نہ ہو۔ آپؓ نے حکم جاری کر رکھا تھا کہ ہر مفلوج اور اپاہج فرد کو بیت المال سے ماہانہ وظیفہ دیا جائے۔ (ہندی، کنزالعمال، اسلام اور کفالت عامہ،ص ۷۷)
ہاں اگر اندھا اور لنگڑا اور مریض جہاد کے لیے نہ آئے تو کوئی حرج نہیں۔ جو کوئی اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرے گا اللہ اُسے اُن جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی، اور جو منہ پھیرے گا اسے وہ دردناک عذاب دے گا۔(الفتح ۴۸:۱۷)
گویا قانونِ اسلام نے معذور افراد کو ناقابل برداشت ذمہ داریوں سے مستثنیٰ قرار دیے جانے کو اُن کا بنیادی حق قرار دیا اور مزید برآں اِس استثنا سے اِس بات کی نفی کی گئی کہ اِن افراد کو کم تر نہ سمجھا جائے کہ وہ جہاد میں شریک نہیں ہوئے۔ اسلام کی تعلیمات سے یہ امر واضح ہے کہ:
۱- اسلام معذور افراد کو معاشرے کا قابلِ احترام اور باوقار حصہ بنانے کی تلقین کرتا ہے۔
۲- اسلام اِس امر کی تعلیم دیتا ہے کہ معذور افراد کو خصوصی توجہ دی جائے اور اُنھیں یہ احساس قطعاً نہ ہونے دیا جائے کہ اُنھیں زندگی کے کسی شعبے میں نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
۳- معاشرتی اور قومی زندگی میں ان پر کسی بھی ایسی ذمہ داری کا بوجھ نہ ڈالا جائے جو اِن کے لیے ناقابلِ برداشت ہو۔
۴- اسلام کے عطا کردہ جملہ حقوق کی ادایگی میں معذوروں کو ترجیحی مقام دیا جائے تاکہ معاشرے میں اِن کے اِستحصال یا محرومی کی ہر راہ مسدود ہو جائے۔
غزوۂ احد کا واقعہ ہے کہ حضرت عمرو بن جموعؓ جو سب انصارکے بعد اسلام لائے۔ وہ ایک پائوں سے لنگڑے تھے۔ جب آپؐ نے صحابہ کرام کو غزوۂ بدر میں شریک ہونے اور اللہ کی راہ میں جہاد کی تبلیغ فرمائی، وہ جنگ میں شامل ہونے کے لیے تیار ہو گئے۔ اُنھیں اُن کے بیٹوں نے جانے سے منع کر دیا۔ پھر جنگ ِاُحد کا موقع آیا، اُنھوں نے اس بار جہاد میں شرکت کا قوی ارادہ کر لیا۔ مگر اُن کے بیٹوں نے اس بار بھی انھیں بوجہ عذر جنگ میں شمولیت سے منع کیا اور ارادہ ترک کرنے کی ترغیب دی۔ اُنھوں نے اپنے بیٹوں کی بات نہ مانی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسولؐ اللہ! اگر میرے بیٹے جنگ میں شریک ہوسکتے ہیں تو میں بھی ضرور جائوں گا۔ خدا کی قسم میں امید رکھتا ہوں کہ میں شہید ہو کر اپنے لنگڑے پن کے ساتھ جنت میں جائوں گا۔آپؐ نے فرمایا کہ تمھاری معذوری کی وجہ سے تم پر جہاد فرض نہیں ہے ۔یہ اللہ کی طرف سے تمھارے لیے چُھوٹ ہے مگر حضرت عمرو بن جموعؓ نے کہا کہ میں جہاد میں ضرور جائوں گا۔ آپؐ نے انھیں جہاد میں شریک ہونے کی اجازت مرحمت فرما دی اور وہ اُسی جنگ میں شہید ہو گئے۔ (اسد الغابہ، حصہ ہفتم، ص ۶۷۸)
البتہ متقی لوگ اُس روز باغوں اور چشموں میں ہوں گے، جو کچھ اُن کا رب اُنھیں دے گا اِسے خوشی خوشی لے رہے ہوں گے۔ وہ اُس دِن کے آنے سے پہلے نیکو کار تھے، راتوںکو کم ہی سوتے تھے، پھر وہی رات کے پچھلے پہروںمیں معافی مانگتے تھے، اور اُن کے مالوں میں حق تھا سائل اور محروم کے لیے۔(الذّٰریٰت۵۱: ۱۵-۱۹)
۱- متقی لوگ اللہ کی نعمتوں پر خوش ہوں گے اور اِس راحت کے عوض وہ مخلوق میں سے محتاج اور معذور لوگوں کے خیر خواہ اور مددگار ہیں، خواہ وہ اُن سے طلب نہ کریں۔
۲- مالِ صدقات، خیرات اور زکوٰۃ کے علاوہ بھی محروم لوگوں پر اپنے رزق اور مال سے خرچ کرتے رہتے ہیں۔
۳- محروم لوگوں پر رحم کرنے کے بجاے اپنے فرائض کی بجاآوری خیال کرتے ہوئے ضرورت مند لوگوں کو تلاش کر کے اُن کی معاونت کرتے ہیں۔
۴- ضرورت مند افراد کو تلاش کر کے اُن کی ضروریات کو پورا کرنا ہی کافی نہیں سمجھتے بلکہ یہ عمل کرنے کے بعد اللہ کا شکر بھی ادا کرتے ہیں۔
یہ بات جان لینی چاہیے کہ اہل ایمان کے مال و دولت میں سائل اور محروم کے جس حق کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے اُس سے مراد زکوٰۃ نہیں ہے جو شرعاً اُن پر فرض کی گئی ہے، بلکہ یہ وہ حق ہے جو زکوٰۃ ادا کرنے کے بعد بھی ایک صاحب ِاستطاعت مومن اپنے مال میں خود محسوس کرتا ہے۔
معذور افراد کی زندگی کو باسہولت بنانے کے لیے مناسب سہاروں کو مہیا کرنا اسلامی معاشرے اور حکومت کا فرض ہے۔موجودہ دور میں معذور اور خصوصی افراد کو وہیل چیئرز، ٹرائی سائیکل، بیساکھیاں، آلۂ سماعت، خصوصی موٹر بائیک، گاڑی، مصنوعی اعضا وغیرہ کی فراہمی کے علاوہ اُن کے لیے تعلیمی سکول، ٹیکنیکل ٹریننگ سنٹر اور دیگر ضروری ادارہ جات کا قیام اسلامی روایات کی روشنی میں صاحبِ استطاعت لوگوں اور حکومت پر فرض ہے۔
کتنے خسارے کی بات ہوگی کہ اگر ہم مسلمان اور مومن بھی کہلوائیں اور اللہ کے بندوں سے تحقیر کا رویہ بھی اختیار کریں۔ زبانیں حمد و نعت سے مزین ہوں اور ان پر طعنے اور بدزبانی بھی رہے۔ رب کو راضی کرنے کا دعویٰ بھی ہو، اور اُس کے بندوں کو ستائیں بھی۔ لوگ ہماری عزت ہمارے شر کے خوف سے کریں۔ ایسے کردار کے حامل لوگوں کے بارے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہماری راہ نمائی اور آخرت کی بہتری کے لیے کافی و شافی ہے:
قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ: یَحْسَبُ اَمْرِیْ مِنَ الشَّرِّ اَنْ یَّحْقِرُ اَخَاہُ الْمُسْلِمِ (مسلم،کتاب البرواصلۃ ولادب ج۴، رقم ۲۵۲۴) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی مسلمان کے لیے اتنی برائی ہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔
بدقسمتی سے تخفیف آبادی کے مسئلے کا جائزہ بھی ہم مغرب کی دی ہوئی عینک لگا کر ہی لیتے ہیں۔ اس لیے اس کا اصلی رنگ اور حقیقی اہداف ہماری نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ تخفیف آبادی مہم بھی اسی کوشش کی ایک شکل ہے جسے بڑے مغالطہ کن (deceptive) معاشی نعروں کے ساتھ جنگی بنیادوں پر سر کرنے کے عزائم کا اظہار کیا گیا ہے۔یہ درحقیقت مسلم معاشرے کی بنیاد ’خاندان‘ اور اسلامی اقدارو روایات اور تشخص کو درہم برہم کرنے کی سازش ہے۔ جن معاشی مقاصدکی دہائی دے کر یہ کام کیا جا رہا ہے وہ محض ایک دھوکا اور واہمہ ہیں اور یہ مہم حقیقتاً مغربی اقوام کے باقی دنیا پر سیاسی غلبے اور تہذیبی تسلط کا ایک پروگرام ہے۔ مسئلے کی نوعیت کو جاننے کے لیے اس کا پس منظر جاننا ضروری ہے۔
تھامس مالتھس (۱۷۶۶ئ-۱۸۳۴ئ) نے ۱۷۹۸ء میں اپنے رسالے آبادی پر مقالہ میں آبادی اور زمینی وسائل کے عدم تناسب کا نظریہ پیش کیا اور انگلستان کے گرتے ہوئے معیارِ زندگی کا سبب تین عوامل کو ٹھیرایا تھا: l کثرتِ آبادی l بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے وسائل کی کم یابی lنچلے طبقوں کی غیر ذمہ داری۔
اس نظریے میں اس نے وضاحت کی تھی کہ انسانوں کی آبادی جیومیٹریکل تناسب سے، جب کہ پیداوار کی شرح ریاضیاتی تناسب سے بڑھتی ہے۔ اس کے خیال میں آسمانی آفات اور وبائی بیماریوں سے اموات آبادی کو کنٹرول کرنے کا قدرتی ذریعہ ہیں۔
آیندہ نسلوں کی بقا اور مسائل کا جو حل مالتھس نے پیش کیا وہ علمی اور تحقیقی بحث سے قطع نظر بیسویں صدی کے امریکی اور یورپی پالیسی سازوں کے لیے اپنے استعماری اور نسل پرستانہ عزائم کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کا ایک اہم ذریعہ اور جواز بن گیا۔
ریاست ہاے متحدہ امریکا کو نصف صدی سے زیادہ عرصے سے اس فکر نے پریشان کر رکھا ہے کہ آبادی کے حجم اور تقسیم میں واقع ہونے والے فرق کی وجہ سے وہ بالآخر دنیا کی سوپرطاقت کی حیثیت سے معزول ہوجائے گا۔ لہٰذا کوئی تعجب کی بات نہیں کہ اثرورسوخ کے جو بھی ذرائع میسر ہوں ان سے ایسے اقدامات کیے جائیں جن کا براہِ راست اثر زیادہ بارآور معاشروں کی آبادی کے رجحانات پر ہو۔
جنوری ۱۹۹۳ء میں واشنگٹن پوسٹ نے چارلر کوتھمر کا ایک مضمون شائع کیا جس میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کو روسی امپریلزم سے زیادہ خطرناک قرار دیا، اور کہا کہ اس معرکے میں حصہ لینے والے ہرشخص اور ہرحکومت کی مالی مدد کی جائے اور مسلمانوں کی صفوں میں گھس کر ان کی آبادی کو کم کرنے کے لیے کام کیا جائے، حتیٰ کہ ان کی شرح آبادی میں اضافہ صفر تک پہنچ جائے۔
دوسری طرف امریکا روس کی پسپائی کے بعد ’یونی پولرقوت‘ کے طور پر باقی رہ گیا ہے۔ مادی ترقی کے ثمرات نے جہاں ہرطرح کی آسایشیں بہم پہنچائی ہیں وہیں اس ترقی نے مغربی معاشرے کے خاندانی نظام کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ۱۹۹۳ء میں امریکی حکومت کے سروے کے مطابق تمام تر احتیاطی تدابیر جن میں کنڈوم کا استعمال سرفہرست ہے، ۶۵ فی صد بچے ناجائز پیدا ہوئے جن کی کفالت حکومت کو کرنا پڑتی ہے اور وہ حکومتی خزانے پر بوجھ ہوتے ہیں، جب کہ ۱۹۷۷ء تا ۱۹۹۹ء جرائم میں ۶۰ فی صد اضافہ ہوا۔ (دی اکانومسٹ، اکتوبر ۱۹۹۴ئ)
۱۹۷۴ء میں اقوامِ متحدہ کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ آبادی کے بارے میں بین الاقوامی پالیسی تشکیل دے اور طے کیا گیا کہ ہر ۱۰ سال بعد آبادی اور ترقی کے بارے میں خصوصی بین الاقوامی کانفرنس ہوگی۔ ۱۹۷۴ء میں پہلی کانفرنس بخارسٹ میں، ۱۹۸۴ء میں دوسری کانفرنس میکسیکو میں، ۱۹۹۴ء میں مشہور قاہرہ کانفرنس جسے ICPP کا نام دیا گیا، اور ۱۹۹۵ء میں بیجنگ کانفرنس، ۲۰۰۰ء میں بیجنگ پلس فائیو کانفرنس منعقد ہوئی۔ دنیا کے رہنمائوں نے ان کانفرنسوں کی سفارشات پر دستخط کیے او ر عمل درآمد کا وعدہ کیا۔ اس وقت اقوام متحدہ کے ۱۷ بڑے ادارے اس مقصد کے لیے سرگرمِ عمل ہیں۔ دنیا بھر میں ۱۳۵ سے زائد بین الاقوامی غیرحکومتی انجمنیں (این جی اوز) اس کام میں لگی ہوئی ہیں۔ ان کا طریقۂ کار یہ ہے کہ پہلے اقوام متحدہ کی آبادی سے متعلق تنظیم کسی بھی ملک کو فنڈ فراہم کرتی ہے اور حکومتیں ان کی من مانی شرائط تسلیم کرتی ہیں۔ جب امریکا اور عالمی ادارے ان ملکوں کی معاشی حالت کا حلیہ بگاڑ لیتے ہیں تو ایک ہی حل پیش کرتے ہیں: ’’گرتی ہوئی معیشت کو سہارا دینے کے لیے اپنی آبادی کو یکسر کم کریں تاکہ ان کے وسائل و ذرائع پر بوجھ کم ہو‘‘۔ امریکی پالیسی سازوں نے اپنی منظم تدریجی پروپیگنڈا مہم کے ذریعے ان ملکوں کی حکومتوں کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا ہے۔
شروع شروع میں کہیں مزاحمت کی جاتی ہے جیسے اسلامی ملکوں میں انڈونیشیا میں ایک کانفرنس کے شرکا نے آبادی کم کرنے کی پالیسی کی زبردست مخالفت کی، تو حکمت عملی یہ اختیار کی گئی کہ دینی اداروں کے ذریعے تحدید نسل کی پالیسی کو رائج کیا جائے تاکہ مخالف سمتوں سے اُٹھنے والی تحریکوں کا سدباب کیا جاسکے۔ رباط کانفرنس میں عالمِ اسلام کے نمایندوں کو اقوام متحدہ کے تحدید آبادی فنڈ کی طرف سے ایک مراسلہ سنایا گیا کہ وہ ضرورت کا احساس کریں کہ الازہر یونی ورسٹی میں ایک مطالعہ و تحقیق آبادی مرکز قائم ہو۔ چنانچہ اقوام متحدہ کے فنڈ براے آبادی نے ایک اسلامی مرکز کے قیام اور اس کے لیے کئی پروگراموں کی منصوبہ بندی کی جس کا مقصد طلبہ کی عملی تربیت ہو، تاکہ وہ تحدیدنسل کے لیے مخصوص مواد شائع اور تقسیم کرنے کا کام کرسکیں۔ چنانچہ ازہر یونی ورسٹی میں یہ مرکز قائم ہوگیا۔ ۱۹۸۰ء میں اس مرکز نے اعلان کیا کہ مصری عورتوں کی تولیدی صلاحیت کو مصری ذرائع ابلاغ سے منظم پروپیگنڈے کے ذریعے کنٹرول کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ تب امریکا نے اس سینٹر کی سرگرمیوں کے لیے فراخ دلی سے امداد دی۔ چنانچہ استعماری ایجنڈے کو ’فکرِاسلامی‘ کا لیبل لگ گیا۔
الازہر نے پانچ سالہ منصوبہ بنایا۔ ۱۹۹۱ئ-۱۹۹۲ء میں الازہر نے جو تحریریں شائع کیں ان میں کہا گیا کہ عالمِ اسلام کی بڑھتی ہوئی آبادی کی روک تھام کے لیے اس امر کی شدید ضرورت محسوس کی جارہی ہے کہ الازہر کے نصاب میں خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں تعلیمی پروگرام شامل کیے جائیں، تاکہ فارغ التحصیل طلبہ کثرتِ آبادی کے خطرات سے آگاہ ہوجائیں۔ اس مرکز نے اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لیے ۴ لاکھ ڈالر طلب کیے۔
اقوامِ متحدہ کا فنڈ براے آبادی اپنے منصوبوں کی تکمیل کے لیے متعدد تنظیموں سے مدد لیتا ہے۔ اسی طرح کی ایک تنظیم ’پاتھ فائنڈر ‘ ہے۔ یہ تحدید نسل کی فعال ترین تنظیم ہے۔ سی آئی اے اس کی بھرپور مدد کرتی ہے۔ یہ تنظیم انڈونیشیا کے ۱۲۰ مسلمان علما کو اپنا نشانہ بنانے میں کامیاب ہوچکی ہے۔ اس نے بنگلہ دیش میں تحدید نسل پر ۲۰ کتابیں شائع کی ہیں۔ یہ تنظیم متعلقہ ملک کے عوام کی ذہنی و جذباتی سطح کو مدنظر رکھ کر اپنا پروپیگنڈا مرتب کرتی ہے، مثلاً فلاں فلاں ملک میں کون سا ٹی وی پروگرام پسند کیا جاتا ہے جس میں خاندانی منصوبہ بندی کے اشتہارات دیے جائیں۔ فلسطین میں بچوں کے تعلیمی نصاب میں مانع حمل تعلیمات کے فروغ کے لیے ۷۰۲ ملین ڈالر مختص کیے گئے ہیں۔ ۸۰ ہزار ڈالر ہنگامی حالات کے لیے رکھے گئے۔ لبنان میں ۳۰۱ ملین ڈالر کی رقم مختص کی گئی ہے۔ دوسری طرف اسرائیلی عورتوں کی پیداواری صلاحیت میں اضافے کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں۔ بنگلہ دیش میں نس بندی عام کی گئی۔ پاکستان میں گلی گلی، محلہ محلہ، شہرشہر، گائوں گائوں بہبود آبادی کے دفتر کھل گئے ہیں۔ پاکستان میں صحت کے کُل بجٹ سے زیادہ بجٹ بہبود آبادی کا ہے۔ دوائیاں مفت فراہم کی جاتی ہیں۔ کئی ہزار لیڈی ہیلتھ ورکر (LHW) (جن کے لیے مڈل تک تعلیم شرط ہے) بھرتی کی جاچکی ہیں۔ رات دن الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا اس کی تشہیر کر رہا ہے۔ دوسری طرف اسکولوں کی درسی کتب میں اس طرح کے مضامین شامل کیے گئے ہیں: ’خوش حال گھرانہ‘، ’آبادی کے مسائل‘ وغیرہ۔ یہ پرائمری جماعتوں کے مضامین ہیں۔ یہ وہ سازش ہے جس کے تحت چھوٹی عمرسے ہی ذہن سازی کی جارہی ہے۔
نتیجہ یہ ہے کہ عالمی بنک جب قرض کو ’ترغیب‘ کے طور پر استعمال کرتا ہے اور ترقیاتی فنڈ کو روک کر بہ طور دبائو کام میں لاتا ہے تو وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ سربراہانِ مملکت اور اہم سرکاری وزارتوں کا نیم دلانہ تعاون تحدید آبادی کے ایک باقاعدہ منصوبے کے لیے حاصل کرے۔ اس طرح یہ ممکن ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں شرح آبادی کافی گھٹ جائے اور مغرب کی کمزور پڑتی ہوئی آبادیاتی کیفیت کو سنبھالا مل جائے۔
ادھر اقوام متحدہ کے زیراہتمام خواتین کی عالمی کانفرنسیں کبھی میکسیکو، کبھی قاہرہ، کبھی بیجنگ میں منعقد کی گئیں۔ ان کے واضح اہداف یہ تھے:
o صاحب ِ اولاد ہونے یا نہ ہونے کا معاملہ انسانی حقوق میں سے ایک ہے۔
o عوام کو صاحب ِ اولاد ہونے کے بارے میں معلومات سے جلد از جلد آگاہ کرناچاہیے۔
o دنیا کی حکومتوں سے مطالبہ کہ آبادی کنٹرول کریں اور خاندانی منصوبہ بندی کی حمایت کریں۔
o مردوں اور عورتوں کو مانع حمل ادویات، ذرائع و آلات مہیا کرنا۔
o غریب عورتوں کو بانجھ پن کی ادویات مفت فراہم کرنا۔
o اسکولوں کے لڑکوں اور لڑکیوں کو بچوں کی پیدایش کے بارے میں مکمل معلومات اور لٹریچر کی فراہمی۔
o مردوں کو نس بندی کے لیے قائل کرنا۔
o پبلک مقامات پر مشینوں کے ذریعے منع حمل ادویات و آلات کی وافر فراہمی۔
اس منصوبے پر اکثر ممالک میں ترجیحاً کام ہو رہا ہے اور مطلوبہ نتائج سامنے آرہے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی تحدید نسل کمیٹی نے اعلان کیا ہے کہ عرب اور مسلم ممالک میں بچوں کی تعداد میں قابلِ لحاظ کمی ہوئی ہے۔ الجزائر، تیونس، مصر اور ترکی کی رپورٹیں تسلی بخش ہیں۔ اُردن اور یمن میں بھی مطلوبہ نتائج ملے ہیں۔ فلسطین میں مانع حمل فکر کے فروغ کے لیے ۷۰۲ ملین ڈالر مختص کیے گئے ہیں۔ عراق میں برتھ کنٹرول کے ۶۲ کلینک قائم ہیں۔ لبنان میں دو بچے فی گھرانہ اوسط رہ گیا ہے۔ درج بالا حقائق بیان کرتے ہیں کہ خاندانی منصوبہ بندی مسلمانوں کے خلاف مغرب کی ایک زبردست جنگی سازش ہے۔
بیجنگ کانفرنس میں فیصلہ ہوا تھا کہ ایشیائی ممالک میں فیملی پلاننگ کی وسیع پیمانے پر تشہیری مہم چلائی جائے گی۔ جنسیات کے حوالے سے اسباق کو اسکولوں کے نصاب میں شامل کیا جائے گا۔ آج ٹی وی پر سبز ستارہ، چابی والی گولی، کنڈوم کے بے ہودہ اشتہارات کی بھرمار، بیجنگ اور قاہرہ کے انھی فیصلوں کا بھرپور نفاذ ہیں کہ ان اشیا اور اصطلاحات کو الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے اتنا عام کر دیا جائے کہ نابالغ بچے بھی ذہنی بلوغت کو پہنچ جائیں۔ مغرب کی طرح اسکولوں میں بھی کنڈوم کلچر عام ہوجائے، اور پھر خدانخواستہ مغرب کی طرح اسکولوں کے ساتھ بے باپ کے بچوں کی نرسریاں قائم کی جائیں تاکہ کنواری مائیں سکون سے اسکول کی تعلیم مکمل کرسکیں۔
امریکی مصنفہ الزبتھ لیاگن کی کتاب Excessive force: Power Politics, and Popultion Control ۱۹۹۵ء میں واشنگٹن سے شائع ہوئی ہے۔ اس کا مطالعہ اس باب میں دل چسپی سے خالی نہ ہوگا جس نے قطعاً غیرنظریاتی انداز میں اقوام متحدہ اور امریکا کی ایجنسیوں کی تیارکردہ ہزاروں رپورٹوں اور دستاویزات کی بنیاد پر تخفیف آبادی کی مہنگی مہمات اور پروگراموں کو ایک سوچی سمجھی سیاسی اور جنگی حکمت عملی اور بنیادی انسانی حقوق کی سنگین ترین خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ اس کے خیال میں آبادی کی بہبود اور انسانیت کی بھلائی کے نام پر امریکا اور اقوامِ متحدہ کی طرف سے جو کروڑوں ڈالر پس ماندہ اقوام اور ترقی پذیر ممالک پر خرچ کیے جارہے ہیں ان کا مقصد صرف اور صرف اپنا سیاسی تفوق اور معاشی بالادستی قائم رکھنا ہے۔ لیاگن نے ثابت کیا کہ بیسیویں صدی کے نصف اوّل میں امریکا میں آبادی کی اوسط شرحِ نمو ۳ فی صد سالانہ تھی۔ یہ وہ عرصہ ہے جب امریکا نے پیداواریت اور دنیا میں اپنا مقام و مرتبہ بنانے میں مؤثر اضافہ کیا۔
امریکا اور یورپی اقوام مالتھسی نظریے کے تحت خود اپنی آبادی کی شرح خطرناک حد تک کم کرچکی ہیں۔ چنانچہ مغربی پالیسی سازوں کو اب یہی حل نظر آتا ہے کہ دوسرے خطے کے لوگوں کی آبادیاں بھی اس حد تک کم کردی جائیں کہ کہیں ان کے مقابل آنے کا خطرہ پیدا نہ ہوسکے۔ اسی لیے گذشتہ کئی دہائیوں سے ایک ہمہ پہلو مہم چلائی جارہی ہے اور حکمت عملی یہ ہے کہ براہِ راست اور بالواسطہ عالمی اداروں کے ذریعے ’غربت کے خاتمے‘،’اقتصادی ترقی‘ اور ’ماں اور بچے کی صحت‘ جیسے پروگراموں کے پردے میں تخفیف آبادی کی مہم کو کامیاب بنایا جائے۔ اس ضمن میں اگر ترغیب و تحریص سے کام نہ نکلے تو جنگ و جبراور زبردستی، حتیٰ کہ ایٹمی اور کیمیائی جنگ تک کے لیے تیار رہا جائے۔ الزبتھ لیاگن لکھتی ہیں: ’’بیرونی امداد کا اس سے زیادہ اہم پروگرام کیا ہوسکتا ہے کہ ہربالغ انسان تک مانعات حمل کی رسائی یقینی بنادی جائے۔ امریکی حکومت کا اصرار ہے کہ بنیادی انسانی ضرورتوں (خوراک، علاج، پناہ گاہ یا رہایش) پر تحدید آبادی کے پروگراموں کو فوقیت دی جائے‘‘۔
وہ مزید لکھتی ہیں:کسی نے کہا کہ چونکہ بالآخر ہم سب نے اس دنیا سے رخصت ہونا ہے اس لیے تولید ہی قوموں کے مستقبل کا فیصلہ کرے گی۔ دراصل یہی وجہ ہے کہ مغرب کے پالیسی ساز اس سوال میں اتنی غیرمعمولی دل چسپی لے رہے ہیں۔ اگر تحدید آبادی کے موجودہ پروگرام آج کے جاری جغرافیائی اور سیاسی ارتقائی نمو کو لگام دینے میں ناکام ہوجائیں تو کسی مرحلے میں قتل عام، منظم طور پر ایک حقیقی امکان کی صورت میں سامنے آسکتا ہے۔ یہی آخری چارئہ کار ہے جسے مغربی منصوبہ ساز اختیار کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ موجودہ جغرافیائی صورت حال میں ’دہشت گردی‘ کے نعرے کی آڑ میں امریکا اسی عالمی بالادستی کے خواب کی تعبیر ڈھونڈ رہا ہے۔
اسلامی معاشرے کی بنیاد مسلمان فرد اور خاندان ہے۔ اسلام نے انسانی اجتماعیت کے دونوں بڑے مسائل: (۱) مرد اور عورت کا رشتہ (۲) فرد اور اجتماع کے تعلق کو بڑی خوش اسلوبی سے حل کیا ہے۔ اسلام نے اپنی دعوت کا اوّلین مخاطب فرد کو بنایا ہے اور اس کے قلب و نظر کو ایمان کا گہوارا قرار دیتا ہے۔ فرد کی سیرت سازی اس کا پہلا ہدف ہے۔ فرد کو سنوارنے کے ساتھ ساتھ اسلام اس کا رشتہ معاشر ے سے جوڑتا ہے، اور اس کے لیے ایسے ادارے قائم کرتا ہے جو زندگی میں استحکام پیدا کرسکیں، اور تمام انسانوں کی قوت و صلاحیت کو تعمیرو ترقی کے لیے استعمال کرسکیں۔ خاندان کا نظام محض انسانی تجربے کا حاصل اور ٹھوکریں کھانے کے بعد کسی موہوم معاشی مفاد کے حصول کا ذریعہ نہیں (جیساکہ مارکس اور اینجلزنے اپنے اپنے انداز میں ثابت کیا ہے)، بلکہ یہ پہلا انسانی ادارہ ہے جسے وحی کے تحت قائم کیا گیا اور جس سے انسانی تاریخ کا آغاز ہوتا ہے۔ اسلامی تہذیب و ثقافت کا تناور اور پھل دار درخت اسی بیج کی پیداوار ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ’’اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں دنیا میں پھیلا دیے‘‘ (النساء ۴:۱)۔ یہاں زوجی رشتے اور تناسل کے تخلیقی عمل کے تعلق کو واضح کر کے خالق کائنات نے اس ادارے کی ایک ابدی حکمت کی طرف انسان کو متوجہ کیا اور بعدازاں خاندان کے دوسرے وظیفے، یعنی محبت، مودت اور سکینت کو نمایاں کیا۔
اسلام نے خاندان کو جو تقدس عطا کیا وہ منفرد ہے۔ قرآنِ پاک میں جو قانونی احکام ہیں ان کا دو تہائی صرف خاندان کے مسائل کے بارے میں ہے، اور قرآن و سنت کی موجودگی کے بعد خاندان ہی ہمارا اصل قلعہ اور پناہ گاہ ہے جس کے حصار میں اُمت نے بڑے سے بڑے فتنے کے مقابلے میں پناہ لی ہے۔ قرآن نے اس خاندانی نظام کو محفوظ ترین بنانے کے لیے اسے عزت و عظمت کا محافظ بنانے کے لیے اس کی پایداری کے لیے تفصیل سے احکام دیے ہیں اور ہراس معمولی سی دراڑ کو بھی بند کیا ہے جس سے اس محفوظ پناہ گاہ میں فتنہ یا شر داخل ہوسکتا ہے۔
یورپ اور امریکا میں زوجی تعلقات نہایت ضعیف ہوتے چلے جارہے ہیں اور ضبط ِ ولادت کی تحریک کے ساتھ ساتھ طلاق کا رواج اس تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے کہ دراصل وہاں عائلی زندگی اور خاندانی نظام درہم برہم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ ڈاکٹر ویسٹر مارک اپنی مشہور کتاب: ’’مغربی ممالک میں نکاح کا مستقبل‘‘ میں اس امر کا اعتراف کرتا ہے کہ ’’مانع حمل ذرائع کا علم بغیر نکاح جنسی تعلق کے مواقع کو بھی عام کردیتا ہے جس کا عام چلن خود ہمارے اپنے زمانے میں شادی کے تنگ و تاریک مستقبل کا ایک اور مظہر سمجھا جاتا ہے‘‘۔
نہ صرف یہ بلکہ ضبط ِ ولادت سے بچوں کی اخلاقی تربیت نامکمل رہ جاتی ہے۔ جس بچے کو چھوٹے اور بڑے بہن بھائیوں کے ساتھ کھیلنے کودنے اور معاملات کرنے کا موقع نہیں ملتا وہ بہت سے اعلیٰ اخلاقی خصائص سے محروم رہ جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ماہرین نفسیات وعمرانیات کا ایک گروہ تو یہ راے بھی رکھتا ہے کہ اس کی وجہ سے بچے کا ذہنی اور نفسی ارتقا متاثر ہوتا ہے۔ اور اگر دو بچوں کے درمیان عمر کا فرق بہت زیادہ ہو تو بڑے بچے میں قریب العمر ساتھی کے نہ ہونے کی وجہ سے ذہنی خلل تک واقع ہوجاتا ہے (دیکھیے: ڈیوڈ ایم لیوی، Maternal over Protection) ۔ پروفیسرکولن کلارک کا روزنامہ ٹائمز،لندن میں مضمون ’چھوٹے خاندان‘ شائع ہوا جس میں وہ لکھتا ہے: ’’اگرچہ ایک بڑے خاندان کو تعلیم دینے کے مسائل بلاشبہہ خاصے گراں بار ہیں لیکن یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ ایک نئے بچے کا اضافہ کر کے ماں باپ اپنے موجود بچوں کے مفاد کو مجروح کرتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب خود والدین بھی وجدانی طور پر اس حقیقت کو محسوس کرنے لگے ہیں جو فرانس کے Mr. Bresard نے بڑی تحقیق کے بعد دریافت کی ہے۔ موصوف نے اعلیٰ پیشوں والے بے شمار کثیر الاولاد خاندانوں کے نشوونما، ارتقا اور ذرائع معاش کا جائزہ لیا اور وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ کثیر الاولاد خاندانوں کے بچے مختصر خاندانوں والے بچوں کے مقابلے میں آخرکار زندگی کے میدان میں کہیں زیادہ کامیاب رہے ہیں۔
اور تم اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو اور ان کو رزق دینے والے بھی ہم ہیں اور تم کو بھی، ان کو قتل کرنا ایک بڑی خطا ہے‘‘۔(بنی اسرائیل ۱۷:۳۱)
زمین میں چلنے پھرنے والی کوئی چیز ایسی نہیں جس کے رزق کا انتظام خدا کے ذمہ نہ ہو اور وہی زمین میں ان کے ٹھکانے اور ان کے سونپے جانے کی جگہ کو جانتا ہے۔ یہ سب کچھ ایک کتابِ روشن میں لکھا ہوا موجود ہے۔(ھود ۱۱:۶)
پاکستان میں مرکزی حکومت کے استفسار پر دستور کی دفعہ۲۲۷ کے تحت قائم اسلامی نظریاتی کونسل جو تمام مکاتب ِ فکر کے علما، قانونی اور معاشی ماہرین اور خواتین نمایندوں پر مشتمل ہے، اس راے کا اظہار کرتی ہے:’’طلاق کو ، گو جائز قرار دیا گیا ہے لیکن اسے کبھی پسند نہیں کیا گیا، یعنی طلاق جائز ہے لیکن اس کو قومی پیمانے پر رواج دینے کی پالیسی اسلام میں ناپسندیدہ اور معاشرے کے لیے ضرر رسا ں ہے، لہٰذا ممنوع ہے۔ اسی طرح مانع حمل کی تدابیر کو قومی پیمانے پر رواج دینے اور اس طرح فحاشی کو فروغ دینے کی پالیسی اسلام میں ناپسندیدہ اور معاشرے کے لیے ضرررساں ہے، لہٰذا ممنوع ہے۔ البتہ انفرادی سطح پر اگر کسی شادی شدہ عورت کو حمل سے یا بچہ پیدا کرنے سے جان کا خطرہ ہو تو اسے خاص اس کے اپنے حالات کے لیے اجازت دیتا ہے، اس کا تعلق بھی غیرمعمولی انفرادی ضرورت سے ہے۔ تاہم قومی پیمانے پر ملک و ملّت کا کروڑوں روپے کا قیمتی سرمایہ خرچ کرکے مانع حمل تدابیر کو فروغ دینا اور اس طرح براہِ راست فحاشی کو عام کرنا اسلام میں کسی طرح جائز قرار نہیں دیا جاسکتا‘‘۔ (اسلامی نظریاتی کونسل رپورٹ، اسلام آباد، اپریل ۱۹۸۴ئ، ص ۱۰)
اسلام جس خاندان کو تقدس عطا کرتا ہے، یورپ اس خاندان کو اخلاقی بگاڑ کی بناپر کھو کر آج مسلم معاشروں میں خاندانی نظام کا شیرازہ بکھیرنے کے درپے ہے۔ یو این او کے عالمی پروگراموں سے لے کر غیرملکی این جی اوز تک اسی ’مقدس فریضے کی ادایگی‘ میں مصروف ہیں۔
تخفیف آبادی یا مانع حمل ادویات تک ہر خاص و عام کی پہنچ کس طرح اخلاقی بگاڑ، جرائم اور خاندانی نظام کا شیرازہ بکھیرنے کی موجب ہے، اس کا تذکرہ جاپانی نژاد امریکی دانش ور فوکویاما نے اپنی تحقیق میں کیا جو انھوں نے مغربی معاشروں کی اخلاقی تباہی سے متاثر ہوکر لکھی۔ فوکویاما اپنی کتاب The End of Order میں کہتا ہے: ’’ان تبدیلیوں کی ابتدا ۲۰ویں صدی کی ساتویں دہائی میں ہوئی جب مغربی معاشروں میں عورتوں کو جنسی آزادی کے نام پر کھلی چھوٹ دے دی گئی۔ انھیں فراوانی کے ساتھ مانع حمل ادویات ریاست کی طرف سے مفت فراہم کی گئیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شادی کا ادارہ سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ طلاق کی شرح بڑھتی گئی اور بن بیاہے اکٹھے رہنے والے جوڑے خاندان کی جگہ لیتے گئے اور اب مستحکم خاندانوں کے بجاے ٹوٹے پھوٹے گھرانوں سے نکلنے والے بچوں کی ایک فوج محلوں اور گلیوں میں جرائم کرتی پھرتی ہے۔ یہ بچے ریاست کے لیے بوجھ ہیں‘‘۔
حال ہی میں فرانس میں ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے جو عالمی کانفرنس ہوئی اس کا ایک بڑا مقصد ہمارے توانائی کے منصوبوں پر قدغن لگانا بھی ہے، مثلاً کوئلے سے بجلی پیدا کرنے سے فضائی آلودگی پیدا ہوگی، لہٰذا پاکستان نظرثانی کرے۔ بالخصوص اس کا مقصد تیسری دنیا کے ممالک کا گھیرا تنگ کرنا ہے۔ اور پھر قرضوں کے ساتھ یہ شرائط منوائی جائیں گی کہ بڑھتی ہوئی ضروریات کو روکنے اور تخفیف ِ آبادی کے لیے فیملی پلاننگ کی مہم بھرپور انداز میں چلائی جائے۔
حضرت حذیفہؓ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے شر اور فتنوں کے بارے میں سوال کیا کرتے تھے اور اصحابِ رسولؐ ان کے ایمان کو خود سے معتبر سمجھتے تھے کہ وہ فتنوں سے آگاہ ہیں۔ ہمارے لیے بھی اپنے دشمن کے منصوبوں سے آگہی وقت کی ضرورت ہے۔
میاں طفیل محمد سابق امیر جماعت اسلامی سے میری پہلی ملاقات ۱۹۵۰ء کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں محترم ملک نصراللہ خان عزیز، مدیر ایشیا کی وساطت سے ہوئی۔ ملک صاحب اور ہم پارک لین لاہور میں ہمسایے تھے۔ ایک دن میاں طفیل محمد صاحب، ملک صاحب کے گھر آئے ہوئے تھے۔ جب وہ میاں صاحب کو الوداع کرنے گھر سے باہر سڑک پر آئے تو میں بھی وکالت کی وردی پہنے سائیکل پکڑے اپنے گھر سے باہر نکل رہا تھا۔ ملک صاحب نے محترم میاں طفیل محمد صاحب سے میرا تعارف کرواتے ہوئے جہاں مجھے ’ہونہار وکیل‘ کہا، وہاں میرے والدمحترم کشفی شاہ نظام کا خصوصی ذکر کیا کہ: ’’ان کا مولانا ابوالاعلیٰ مودودی سے بذریعہ خط کتابت رابطہ رہا ہے‘‘۔ نہ معلوم میری وکالت کی ’وردی‘ نے (یاد رہے ابتدائی زندگی میں میاں صاحب بھی پیشۂ وکالت سے منسلک تھے)یا پھر میرے والد صاحب اور مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کے درمیان رابطے کے حوالے نے ان کو میری جانب متوجہ کیا اور نہایت مشفقانہ انداز میں دریافت کیا : ’’وکالت کیسی چل رہی ہے؟‘‘
میں نے کہا: ’’محنت کر رہا ہوں‘‘۔
ایک مسکراہٹ کے ساتھ میاں صاحب کہنے لگے: ’’کبھی کبھار مل لیا کریں‘‘۔
یہ خوب صورت ابتدا تھی۔ اس کے بعد مجھے ان سے کئی بار مختصر اور طویل ملاقاتوں کا شرف حاصل ہوا۔ میاں صاحب سے ایک طویل ملاقات اس وقت ہوئی تھی، جب میں شاہ جمال کالونی میں رہایش پذیر ہوا، اور مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کی رہایش گاہ بھی میرے گھر کے قریب واقع تھی۔ میں ان سے ملنے اور ان کے خیالات سے مستفید ہونے کے لیے چلا جایا کرتا تھا۔ وہاں اکثر میاں صاحب کو تشریف فرما دیکھا کرتا تھا۔ اب میرا شمار اچھے وکلا میں ہونے لگا تھا اور میاں صاحب نے مولانامودودی سے ایک بار کہا: ’’آج تو یہ بڑے کامیاب وکیل بن گئے ہیں، لیکن میں نے ان کو اس وقت دیکھا تھا، جب یہ سائیکل پر سوار قانون کی کتابیں اُٹھائے عدالت کے لیے روانہ ہو رہے تھے‘‘۔
ان ملاقاتوں کے دوران میں میرے ذہن میں یہ تاثر اُبھرا کہ میاں طفیل محمد صاحب نہ صرف جماعت اسلامی کے کارکن ہیں، بلکہ وہ مولانا مودودی سے اتنی قربت اور عقیدت رکھتے ہیں کہ کئی بار ان کے درمیان مرشد اور مرید والی کیفیت دکھائی دیتی۔ یہ تاثر کچھ غلط بھی نہ تھا کیونکہ جیسا انھوں نے خود کہا ہے کہ: ’’میرا یہ غالب احساس رہا کہ جماعت اسلامی میں آیا نہیں بلکہ مجھے کوئی قوت گھسیٹ کر اس طرف لائی ہے‘‘۔ وہ جماعت کی طرف کیا آئے، جماعت کی خدمت میں ساری زندگی صرف کردی۔ انھیں جماعت کے مختلف مناصب تفویض ہوئے، تین بار جماعت اسلامی پاکستان کے امیر [۱۹۷۲ئ-۱۹۸۷ئ] بنے اور پھر خرابی صحت کی وجہ سے ازخود دست بردار ہوکر جماعت کے ایک معزز رکن بن کر زندگی [۱۹۸۷ئ-۲۰۰۹ء ] بسر کی۔
مولانا مودودی کی وفات پر حسرت سے، لیکن اپنے عزم کی ترجمانی کرتے ہوئے فرمایا: ’’مولانا آپ ہی مجھے چھوڑ گئے ہیں، میں نے آپ کو نہیں چھوڑا‘‘۔
یہ ۱۹۶۴ء کی بات ہے، جب [صدر ایوب خاں مرحوم کی حکومت نے] جماعت اسلامی کو ’غیرقانونی جماعت‘ قرار دے کر اس کی کارروائیوں پر انتظامیہ کی جانب سے پابندی عائد کردی تھی۔ مجھے محترم چودھری رحمت الٰہی نے مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی صاحب کا پیغام دیا کہ میں بطور وکیل اپنی راے دوں کہ:’’ کیا ہم عدالت سے داد رسی لے سکتے ہیں؟‘‘
میں نے ایک رٹ درخواست تیار کر کے چودھری رحمت الٰہی صاحب کے حوالے کی، جس کا خلاصہ یہ تھا کہ کسی جماعت کے بطور جماعت حقوق پر انتظامیہ اپنے حکم سے پابندی عائد نہیں کرسکتی۔ کیونکہ کوئی سیاسی جماعت سیاسی جماعت نہیں رہتی، اگر اسے اپنی پالیسی کے مطابق فعال رہنے سے روک دیا جائے۔ معاملہ آخرکار سپریم کورٹ میں گیا اور ہم سرخرو ہوئے۔ وکلا کی ٹیم جوڈھاکہ، مشرقی پاکستان مقدمے کے سلسلے میں گئی ہوئی تھی، جب واپس لاہور ایئرپورٹ پر اُتری تو میاں طفیل محمدصاحب مع دیگر کارکنانِ جماعت اسلامی وہاں موجود تھے۔ان کی خوشی ان کے چہرے اور آنکھوں کی چمک سے عیاں تھی۔
میاں طفیل محمد صاحب کی محنت نے جماعت کو نظم و ضبط اور ڈسپلن مہیا کر دیا۔ اگر مولانا ابوالاعلیٰ مودودی جماعت اسلامی کے بانی اور رہبر تھے، تو میاں طفیل محمد اس جماعت کے کامیاب کمانڈر تھے۔ میاں طفیل محمدکی وفات کے بعد بین الاقوامی طور پر ایک مشترکہ راے تسلیم کی گئی کہ وہ ایک ایمان دار کارکن، ایمان دار قائد، سچائی اور ایمان داری کے ساتھ مشورہ دینے والے انسان تھے۔ وہ اپنی پارٹی اور ملک و قوم کے ساتھ ایمان دار ہونے کے ساتھ ساتھ نہ صرف مالی طور پر ایمان دار تھے بلکہ ہمیشہ اپنے مؤقف کے ساتھ بھی honest رہے۔
میاں صاحب کی ثابت قدمی، لگائو اور اجتماعی نظم و ضبط کی نشان دہی سے سیاسی کارکنوں کو یہ علم [ہوتا ہے] کہ کارکن کیسے کام کرتے ہیں اور سیاسی جماعت میں ان کی کتنی اہمیت ہوتی ہے، بلکہ سیاسی جماعت بنتی ہی تب ہے کہ اس میں میاں طفیل محمد جیسے کارکن موجود ہوں، جو بغیر کسی خواہش کے درجہ بدرجہ ترقی کرتے ہوئے امیر جماعت بھی منتخب ہوں اور پھر ازخود مزید قیادت سے معذرت کرکے بطورِ کارکن جماعت کی خدمت میں مصروف ہوجائیں
دھریت اور تشکیک کا چیلنج:ایک اہم موضوع جس کی طرف توجہ کی ضرورت ہے وہ دہریت (Atheism) اور تشکیک (Agnosticism) ہیں۔ ان نظریات کے رد میں بہت کم لکھا گیا ہے۔ جو چیزیں لٹریچر میں موجود ہیں وہ ناکافی ہیں۔ خاص طور سے نئے چیلنج جو مغربی مفکرین نے بڑی شدومد سے اُٹھائے ہیں اور انھوں نے باقاعدہ دہریت کے پرچار کی تحریک چلائی ہے۔ ان کا مؤثر دلائل سے جواب نہیں دیا گیا ہے۔
دہریت کی ترویج و تبلیغ میں چند شخصیات کاخاصا نمایاں حصہ ہے۔ ان میں سب سے زیادہ پُرزور مبلغ رچرڈڈوکنس (Richard Dawkins)ہے جو اوکسفرڈ یونی ورسٹی میں پروفیسر رہ چکا ہے، اور مذہب کو دنیا کی سب سے بڑی بُرائی تصور کرتا ہے۔ اس کی کتاب The God Delusion (خدا کا واہمہ) جو ۲۰۰۶ء میں شائع ہوئی اور سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب بن گئی اور نئی دہریت کی تحریک کی محرک بھی ثابت ہوئی۔ رچرڈ ڈوکنس بذاتِ خود اس تحریک کے فروغ میں سرگرم ہے۔ اس نے ۲۰۰۸ء میں لندن میں بسوں پر اشتہارات کے ذریعے دہریت کے پرچار کی مہم شروع کی تھی۔
اس سلسلے میں دوسرا اہم شخص کرسٹوفر ہٹ چنس(Christopher Hitchens) تھا جو اپنے آپ کو atheist (دہریہ) کہنے کے بجاے anti-theism کا مخالف کہتا تھا۔ اس لیے کہ theism (خدا پرستی) کے لیے کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اس کا کہنا تھا:’’جو چیز بغیر ثبوت کے مان لی جائے، وہ بغیر ثبوت کے رد کی جاسکتی ہے‘‘۔ اس کی کتاب God is not Great (خدا بالاتر نہیں ہے) جو ۲۰۰۷ء میں شائع ہوئی تھی کافی مقبول ہوئی جس میں اگرچہ تمام ہی مذاہب کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھالیکن خاص طور پر ابراہیمی مذاہب اس کا ہدف تھے۔ اس کی نظر میں یہ Axis of Evil (بُرائی کا محور) ہیں۔ اُس نے دہریت کے فروغ کے لیے جارحانہ رویہ اختیار کیا اور چیلنج کیا کہ وہ کسی بھی مذہبی اسکالر سے مناظرہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ ۲۰۰۶ء میں جب ڈنمارک کے ایک اخبار نے نازیبا خاکے شائع کیے تھے تو اس نے ان کی حمایت میں ریلی نکالی تھی۔
دہریت کا تیسرا حامی مشہور سائنس دان اسٹیفن ہاکنگ(Stephen Hawking) ہے جو پہلے تشکیک کا شکار تھا لیکن اب علانیہ دہریت کو قبول کرلیا ہے۔ اس کی ۲۰۱۰ء میں شائع ہونے والی کتاب The Grand Design(اعلیٰ ڈیزائن) میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کائنات کی تخلیق کے نظریے میں خدا کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے کیونکہ خدا کا کوئی وجود نہیں ہے اور نہ کائنات کو ہی کسی نے پیدا کیا ہے اور نہ کوئی ہماری تقدیر ہی بنارہا ہے اور مرنے کے بعد کوئی اور زندگی نہیں ہے۔
ان خیالات کی اشاعت کا نتیجہ یہ ہے کہ برطانیہ میں دہریت تیزی سے پھیل رہی ہے۔ اس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ ۲۰۱۱ء کی مردم شماری میں وہ لوگ جنھوں نے اپنا کوئی مذہب نہیں بتایا ان کی تعداد ۱۰سال میں دگنی ہوگئی ہے۔ اب یہ لوگ ۱۴ملین سے زیادہ ہیں۔ اس طرح کُل آبادی کا ۱ئ۲۵، یعنی چوتھائی سے زیادہ تعداد میں ہیں۔ تقریباً اس طرح کی صورتِ حال دوسرے مغربی ممالک میں بھی ہے، لہٰذا یہ مسئلہ بڑی سنگین صورت اختیار کر رہا ہے۔
یہ مسئلہ اس لیے اور بھی ہمارے لیے قابلِ توجہ ہے کہ خود مسلمان نوجوانوں میں اس کے اثرات تیزی سے پھیل رہے ہیں اور وہ علانیہ یا خفیہ طور پر مرتد ہوکر اسلامی عقائد کے خلاف متحرک ہو رہے ہیں۔ برطانیہ میں چند سال قبل Council of Ex-Muslims (کونسل براے سابق مسلمان) قائم ہوئی تھی۔ اس کی ممبرشپ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ برطانیہ کے اخبارات اور ٹی وی پروگراموں سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمان نوجوان اپنے خاندان کے دبائو کی وجہ سے علی الاعلان دہریت کا اظہار نہیں کر رہے ہیں۔ سائمن کوٹ(Simon Cottee) کی حالیہ کتاب The Apostates: When Muslims Leave Islam (مرتدین: جب مسلمان اسلام ترک کردیتے ہیں) میں ان مشکلات کا تجزیہ کیا گیا ہے جو انھیں پیش آتی ہیں۔ اس ضمن میں اسلام میں مرتد کی سزا کا مسئلہ بھی زیربحث رہتا ہے۔ کونسل آف ایکس مسلمز کا اثر زیادہ تر یونی ورسٹی کے طلبہ میں ہے اور اب یہ وبا یورپ کے دیگر ممالک میں بھی پھیل رہی ہے، اور بہت سے ملکوں میں اس طرح کی کونسلیں بن گئی ہیں۔ اب ایک متحدہ ادارہ Central Council of Ex-Muslims کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے۔ برطانوی کونسل کا ایک منشور (Manifesto) بھی ہے جس میں ۱۰نکات پر مشتمل اپنے حقوق کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ ان کا کلمہ یہ ہے: There is no God and Muhammad is not the Messenger of God (کوئی خدا نہیں ہے اور محمد اللہ کے رسول نہیں ہیں)۔ افسوس کہ مسلمان دانش وروں (بشمول تحریکِ اسلامی کے زعما) کی طرف سے ان نظریات پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا اور نہ دہریت کی تردید ہی میں کچھ لکھا گیا ہے اور ارتداد کا مسئلہ بھی اسی طرح نظرانداز کیا جا رہا ہے۔
یہ سب ہی ادارے بیرونی طاقتوں کے آلۂ کار بنتے رہے ہیں اور مسلم حکمران اپنے اقتدار کے تحفظ کے لیے ان ہی پر انحصار کرتے ہیں۔ حالیہ واقعات سے جو چیز سامنے آئی ہے وہ یہ کہ کم از کم تین عرب ممالک کی حکومتوں نے کھلم کھلا تحریکِ اسلامی کو کچلنے کا التزام کیا ۔ نہ صرف خود اپنے ملکوں میں بلکہ مغربی ممالک میں بھی تحریک کو ختم کرنے کے لیے وہاں کی حکومتوں پر زور ڈالا جس کے نتیجے میں وہاں اسلامی جماعتوں اور اداروں کے لیے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔
اس صورتِ حال میں تحریک کی حکمت عملی کیا ہو؟ ایک اہم سوال ہے۔ یہ بات ظاہرہے کہ سیاست دان اور حکمران ہر جائز اور ناجائز طریقے سے اقتدار پر قابض رہنا چاہتے ہیں اور اگر بعض لوگ اسلام کا نام لیتے بھی ہیں تو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ایسا کرتے ہیں۔ ان حالات میں کیا ساری قوت براہِ راست تبدیلی پر صرف کی جائے یا دوسرے ذرائع کے بارے میں بھی سوچ بچار اور نئے تجربات کی کوشش کی جائے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ براہِ راست ان سے اقتدار کی کش مکش کے بجاے ایسے ذرائع استعمال کیے جائیں جن سے وہ اصلاحات اور نتائج کسی نہ کسی حد تک حاصل کیے جاسکیں جو مطلوب ہیں؟ ان کے مصاحبین اور بااثر اشخاص کے ذریعے ان پر اثرانداز ہوکر وہ تبدیلیاں لائی جاسکیں۔ اصطلاحاً ان کو Hidden Persuders (خفیہ ترغیب دینے والے) کہہ سکتے ہیں جن کو ہم پس پردہ اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے بروے کار لاسکتے ہیں۔ اس طرح کی کامیاب کوشش مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ نے اکبر کے دربار میں بارسوخ افراد کے ذریعے کی تھی جس سے دین الٰہی کا خاتمہ عمل میں آیا۔ اس امر پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ سیاسی تبدیلی کے لیے جس قسم کی تنظیم کار اور مہم جوئی کی ضرورت ہے اسے کہاں تک اسلامی قوتوں نے اختیار کیا ہے۔
ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ دنیا میں مسلمانوں کی تقریباً آدھی سے زیادہ آبادی غیرمسلم ممالک میں آباد ہے۔ ان کی ایک بہت بڑی تعداد ہندستان میں ہے، تاہم وہاں کے مسلمان حکومتوں کے امتیازی اور ناروا رویے اور شدت پسندقوتوں کے جارحانہ اقدامات کے باوجود کچھ بہتر پوزیشن میں ہیں کہ تاریخی طور پر ان کے حقوق کا تحفظ کسی نہ کسی حد تک برطانوی دور سے چلا آرہا ہے اور وہاں مساجد اور دیگر تعلیمی اور سماجی ادارے قائم ہیں۔ افسوس کہ اب انھیں بھی بڑھتی ہوئی ہندو جارحیت کا سامنا درپیش ہے لیکن مغربی ممالک میں آباد مسلمانوں کو جن مشکلات اور مسائل کا سامنا ہے، وہ کہیں زیادہ سنگین ہیں۔ اگرچہ فقہ الاقلیات میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے خاص طور سے ہندستان میں اسلامک فقہ اکیڈمی اور یورپ میں Europeon Council for Fatwa & Research جو غیرمسلم معاشرے میں مسلمانوں کے مسائل پر رہنمائی کر رہے ہیں، تاہم تحریکی کام کے لیے ان کی حکمت عملی اور رول ماڈل کیا ہو؟ اس میں کوئی خاص رہنمائی مہیا نہیں کی گئی ہے۔ وہ اب بھی اپنے دیرینہ ملکی مسائل میں دل چسپی لیتے ہیں۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر یوسف القرضاوی کی کتاب Priorities of the Islamic Movement in the Coming Phase(عصرِحاضر میں اسلامی تحریک کی ترجیحات) میں مختصراً کچھ باتوں کا ذکر کیا گیا ہے لیکن کوئی قابلِ عمل تجاویز نہیں پیش کی گئی ہیں۔ اس شعبے میں مزید تحقیق اور راہ نمائی کی ضرورت ہے۔
یہ چند اُمور ہیں جن میں تحریکی لٹریچر کی تشنگی محسوس ہوتی ہے۔ امید ہے ارباب حل و عقد ان کا نوٹس لیں گے اور اپنے مفید مشوروں سے راہ نمائی فرمائیں گے۔
کتابیات
1. Richard Dawkins: The God Delusion, Boston: Houghton Mifflin, 2006.
2. Chrostopher Hitchen: God is Great: The Case Against Religion, Atlantic Books, 2007.
3. Stephen Hawking and Leonard Mlodinow: The Grand Design, Bantam Books, 2010.
4. Cottee, Simon: The Apostates: When Muslims Leave Islam, London: C. Hurst & Co, 2015.
5. http://ex-muslim.org.uk/manifesto
.6 خرم مراد، مسائل اور افکار، لاہور، منشورات، لاہور۔
.7 سیّدابوالاعلیٰ مودودی، دنیاے اسلام کی موجودہ حالت، ترجمان القرآن، جون ۱۹۶۳ئ۔
8. Sheikh Yusuf Al-Qaradawi: Priorities of the Islamic Movement in the Coming Phase, Swansea: Awakening Publications, 2000, pp. 179-185.
سوال : اتفاقاً نمازِ مغرب میں امام صاحب سے سہواً قعدۂ اولیٰ ترک ہوگیا اور وہ سیدھے قیام میں چلے گئے۔ پھر کسی مقتدی کے سبحان اللہ کہنے پر وہ قیام سے قعدۂ اولیٰ کی طرف لوٹ گئے۔ نماز کے بعد بعضوں نے کہا کہ بغیر لوٹے سجدئہ سہو سے نماز کی تکمیل ہوجاتی ہے، مگر بعض حضرات نے نماز کو قطعی طور پر فاسد بتایا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ نماز دوبارہ پڑھی گئی۔ اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ:
۱- قعدۂ اولیٰ سہواً ترک کر کے اگر امام سیدھا کھڑا ہوجائے اس کے بعد اسے خود یاد آجائے یا مقتدی تنبیہہ کرے تو اس کو کیا کرنا چاہیے؟
۲- نبی ؐسے نماز میں کن مواقع پر سہو ہوا ہے اور ان مواقع پر آپؐ نے کیا عمل فرمایا ہے؟
۳- اگر امام سیدھا کھڑا ہوجانے کے بعد پھر بیٹھ جائے تو کیا اس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے اور اس کو دُہرانا ضروری ہے؟
جواب: ۱-کوئی شخص تنہا نماز پڑھ رہا ہو یا کسی جماعت کا امام ہو، دونوں صورتوں میں اگر وہ قعدۂ اولیٰ سہواً ترک کرکے سیدھاکھڑا ہوجائے تو اب اس کو بیٹھنا نہیں چاہیے بلکہ قعدۂ اخیرہ کے بعد سجدئہ سہو کر کے نماز پوری کرلینی چاہیے۔ یہی طریقہ سنت کے مطابق ہے جس کی تفصیل سوال نمبر۲ کے جواب میں آرہی ہے۔ ہاں، اگر وہ پوری طرح کھڑا نہ ہوا ہو اور اسی اثنا میں اسے خود یاد آجائے یا مقتدی تنبیہہ کرے تو بیٹھ جانا چاہیے۔ اس صورت میں سجدئہ سہو کی ضرورت نہیں ہے۔
۲- نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے چارمواقع پر نماز میں سہو ہوا ہے:
پہلا موقع: عبداللہ بن بحینہؓ سے روایت ہے کہ ایک بار ظہر کی نماز میں آپؐ سے قعدۂ اولیٰ سہواً ترک ہوگیا اور آپؐ تیسری رکعت میں کھڑے ہوگئے۔ جب پوری نماز پڑھ چکے تو سہو کے دو سجدے کر کے اس کمی کی تلافی فرما دی۔ علامہ ابن قیم نے زادالمعاد میں لکھا ہے کہ اس حدیث کے بعض طرق میں یہ بات بھی ہے کہ جب آپؐ کھڑے ہوگئے تو مقتدی صحابہؓ نے سبحان اللہ کہہ کر یاد دلایا، لیکن حضوؐر نہ بیٹھے بلکہ اشارے سے فرمایا کہ تم بھی کھڑے ہوجائو ۔ اس کی تاکید مزید دو روایتوں سے ہوتی ہے۔ مسند اور ترمذی میں ہے کہ ایک بار حضرت مغیرہ بن شعبہؓ نے نماز پڑھائی اور قعدۂ اولیٰ ترک ہوگیا۔ مقتدیوں نے سبحان اللہ کہہ کر ان کو متنبہ کیا تو انھوں نے اشارے سے کہا کہ تم لوگ بھی کھڑے ہوجائو۔ نماز پوری کر کے انھوں نے سہو کے دو سجدے کیے اور کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک بار اسی طرح عمل فرمایا تھا۔ دوسری روایت بیہقی کی ہے: ایک بار حضرت عقبہ بن عامر جہنیؓ کے ساتھ بھی یہی واقعہ پیش آیا اور مقتدیوں نے سبحان اللہ کہہ کر تنبیہہ کی لیکن انھوں نے نماز جاری رکھی اور آخر میں سجدئہ سہو کے بعد جب فارغ ہوئے تو کہا: ’’تمھاری تسبیح (سبحان اللہ) میں نے سنی تھی۔ تم چاہتے تھے کہ میں بیٹھ جائوں لیکن سنت وہی ہے جو میں نے کیا۔
دوسرا موقع: ایک بار عصر کی نماز میں آپؐ نے دو رکعتوں کے بعد ہی سلام پھیر دیا۔ پھر حضرت ذوالیدینؓ کے توجہ دلانے پر آپؐ نے باقی دو رکعتیں ادا فرمائیں اور سجدئہ سہو کیا۔
تیسرا موقع: حضرت عمران بن حصینؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک بار آپؐ نے عصر کی نماز میں تین رکعتوں کے بعد سلام پھیر دیا۔ پھر توجہ دلانے پر ایک رکعت ادا کر کے سجدئہ سہو کیا۔
چوتھا موقع: حضرت عبداللہ بن مسعودؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک بار آپؐ نے پانچ رکعتیں پڑھ لیں، پھر توجہ دلانے پر سہو کے دو سجدے کیے۔
یہی چار مواقع ہیں جن میں حضوؐر سے نماز میں سہو ہوا ہے۔ میں نے ان صحیح احادیث کی تفصیلات چھوڑ کر مختصراً اصل بات یہاں لکھ دی ہے۔
۳- تیسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ سیدھا کھڑا ہوکر بیٹھ جانے سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔ سجدئہ سہو کرلینے سے مکمل ہوجاتی ہے۔ فقہ حنفی کا صحیح قول یہی ہے اور جمہور فقہا کا مسلک بھی یہی ہے۔ فقہاے احناف کی ایک جماعت کا قول یہ ہے کہ اس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے لیکن اس قول کی کوئی تشفی بخش دلیل نہیں ہے۔ تیسری رکعت میں کھڑے ہونے کے بعد پھر بیٹھ جانا خلافِ سنت ضرور ہے لیکن اس سے نماز فاسد و باطل ہوجانے کی کوئی وجہ نہیں۔ (مولانا سیّد احمد عروج قادری، احکام و مسائل، اوّل، ص ۲۰۶-۲۰۷)
س : زندگی کی مصروفیات میں مجھے اِدھر اُدھر سفر کرنے کی نوبت اکثر آتی رہتی ہے۔ میں کار، ریل گاڑی، بس اور ہوائی جہاز میں فرض نمازیں ادا کرتا رہتا ہوں۔ میرے چند دوستوں کو اس پر اعتراض ہے۔ چنانچہ میرے ایک دوست نے مجھے ایک خط لکھا ہے اور انھوں نے چند احادیث اپنے موقف کی تائید میں تحریر کی ہیں۔ ان کا موقف یہ ہے کہ فرض نمازیں سواری پر ادا نہیں کی جاسکتیں۔ انھوں نے اپنی تائید میں یہ بھی لکھا ہے کہ میں نے کسی عالم دین کو دورانِ سفر گاڑی میں چلتے ہوئے فرض نماز پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا ہے اور نہ کسی سے سنا ہے۔ جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے، سواری پر نماز فرض بھی ادا کی جاسکتی ہے۔ آپ اس کے بارے میں اپنی تحقیق سے مطلع کریں۔
ج:احادیث میں صرف جانور، یعنی اُونٹ پر نوافل اور وتر ادا کرنے کی صراحت ملتی ہے۔ آپ کے دوست نے وہی حدیثیں آپ کو لکھی ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جانور پر کبھی کوئی فرض نمازادا نہیں کی۔ فقہ کی کتابوں میں کشتی پر نماز فرض ادا کرنے کی تفصیلات بکثرت موجود ہیں۔ ائمہ مذاہب اربعہ کے زمانے میں موجودہ دور کی جدید سواریاں موجود نہ تھیں۔ اس لیے فقہ کی قدیم کتابوں میں ان کے بارے میں کوئی جزئیہ نہیں مل سکتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے۔
آپ کے دوست نے چلتی ہوئی ریل گاڑی میں کسی عالم کو فرض نماز ادا کرتے ہوئے نہیں دیکھا، لیکن میں نے بہت سے علما کو چلتی ہوئی گاڑی میں فرض نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ چلتی ہوئی ریل گاڑی میں نماز کی ایک شکل تو یہ ہوتی ہے کہ پوری نماز کھڑے ہوکر رکوع و سجود کے ساتھ ادا کی جائے۔ اس کو ناجائز کہنے کی کوئی وجہ ہی نہیں ہے۔ اگر کھڑے ہوکر رکوع و سجود کے ساتھ نماز ادا کرسکتا ہو تو اسے بیٹھ کر نماز ادا نہیں کرنی چاہیے۔لیکن اگر ایسا نہ ہو اور نماز قضا ہو رہی ہو تو اس کو ریل گاڑی میں بیٹھ کر فرض نماز ادا کرلینی چاہیے۔ کسی نماز کے قضا ہوجانے اور اس کا وقت نکل جانے کا عذر سب سے بڑا عذر ہے۔ دوسرے تمام اعذار کا اعتبار اسی وقت کیا جاسکتا ہے جب نماز کے قضا ہوجانے کا اندیشہ ہو، ورنہ کوئی عذر، عذر نہیں ہے۔
فقہاے احناف کے نزدیک جانورپر بلاعذر فرض نماز ادا کرنا جائز نہیں ہے اور عذر کے ساتھ جائز ہے۔ فقہ کی کتابوں میں ان اعذار کی ایک فہرست دی گئی ہے جن کی بنا پر فرض نماز جانور کی پیٹھ پر ادا کی جاسکتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک عذر یہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر جانور سرکش ہو اور سوار اس سے اُتر کر کسی کی مدد کے بغیر دوبارہ اس پر سوار نہ ہوسکتا ہو اور کوئی مددگار موجود نہ ہو تو وہ فرض نماز جانور پر ہی ادا کرسکتا ہے۔ یہ عذر اسی وقت عذر بنے گا جب اس وقت کی نماز قضا ہوجانے کا اندیشہ ہو۔ اور وقت کے اندر منزل پر پہنچ کر نماز پڑھی جاسکتی ہو تو وہ عذر، عذر ہی نہیں۔
وَکَیْفِیَّۃُ الصَّلٰوۃِ عَلٰی الدَّآبَّۃِ اَنْ یُّصَلِّیَ بِالْاِیْمَائِ (فتاویٰ عالم گیری، ج۱) جانور پر نماز ادا کرنے کی کیفیت یہ ہے کہ سوار اشارے سے نماز ادا کرے گا۔
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک پانی پر چلتی ہوئی کشتی میں بلاعذر بیٹھ کر نماز ادا کرنا بھی جائز ہے لیکن امام ابویوسف اور امام محمد کے مسلک میں کشتی میں بلاعذر بیٹھ کر نماز ادا کرنا جائز نہیں ہے، البتہ اگر عذر ہو تو بالاتفاق جائز ہے۔ مثال کے طور پر اگر کھڑے ہوکر نماز پڑھنے میں دورانِ سر کی شکایت پیدا ہوتی ہو تو بیٹھ کر نماز پڑھی جاسکتی ہے:
اَجْمَعُوا عَلٰی اَنَّہٗ لَوْ کَانَ بِحَالٍ یَدُوْرُ رَاْسُہٗ لَوْ قَامَ تَجُوْزُ الصَّلٰوۃُ فِیْھَا قَاعِدًا کَذَا فِی الْخَلَاصَۃ (فتاویٰ عالم گیری، ج۱) اس پر اتفاق ہے کہ کھڑے ہوکر نماز پڑھنے کی صورت میں دورانِ سر ہوتا ہو تو کشتی میں بیٹھ کر نماز پڑھنا جائز ہے۔
الجامع الصغیر جو امام محمد کی تصنیف اور فقہ حنفی کی مستند ترین کتاب ہے، اس میں لکھا ہے:
رَجُلٌ فِی السَّفِیْنَۃِ قَاعِدًا مِنْ غَیْرِ عِلَّۃٍ اَجزَاہٗ وَالْقِیَامُ اَفْضَلُ وَقَالَ اَبُویُوْسفَ وَمُحَمَّد رَحِمَھُمَا اللّٰہُ لَا یُجْزِیْہِ اِلَّا مِنْ عُذْرٍ،کسی شخص نے کشتی میں بغیر کسی عذر کے بیٹھ کر نماز پڑھی تو یہ اس کے لیے کافی ہے اور قیام افضل ہے۔ ابویوسف و محمد رحمہما اللہ نے کہا کہ یہ اس کے لیے کافی نہ ہوگا الا یہ کہ کوئی عذر ہو۔
کشتی میں اگر قبلہ رُو ہوکر نماز پڑھی جاسکتی ہو تو استقبال قبلہ ضروری ہے۔ لیکن اگر استقبالِ قبلہ سے عاجز ہو تو جدھر رُخ کر کے نماز پڑھنے پر قادر ہو اُدھر ہی رُخ کر کے نماز ادا کرے گا:
وَ اِنْ عَجِزَ عَنْ اِسْتِقْبَالِھَا صَلَّی اِلٰی جِھَۃِ قُدْرَتِہٖ (الفقہ علی المذاہب الاربعہ) اگروہ استقبال قبلہ سے عاجز ہو تو جس سمت پر قدرت ہو اُدھر ہی رُخ کر کے نماز پڑھے گا۔
اسی طرح اگر رکوع و سجود پر قدرت ہو تو اس کے بغیر نماز جائز نہ ہوگی۔ اشارے سے نماز اس وقت جائز ہوگی جب رکوع و سجود پر قدرت نہ ہو:
وَلَوْ صَلَّی فِیْھَا بِالْاِیْمَائِ وَھُوَ قَادِرٌ عَلَی الرُکُوعِ وَالسُّجُودِ لَا یُجْزِیْہِ فِی قَوْلِھِمْ جَمِیْعًا (فتاویٰ عالم گیری، ج۱) اگر رکوع و سجود پر قدرت کے باوجود کسی نے کشتی میں اشارے سے نماز پڑھی تو بالاتفاق یہ اس کے لیے کافی نہ ہوگا۔
وَیَسْقُطُ عَنْہُ السُّجُوْدُ اَیْضًا اِذَا عَجِزَ عَنْہٗ (الفقہ علی المذاھب الاربعہ) اور سجدہ کرنا بھی ساقط ہوجائے گا اگر وہ اس سے عاجز ہو۔
فقہ کے یہی وہ مسائل ہیں جن پر قیاس کر کے موجودہ دور کی جدید سواریوں پر فرض نماز کے مسائل مستنبط کیے گئے ہیں۔ جب چلتی ہوئی کشتی پر مختلف حالتوں میں کھڑے ہوکر یا بیٹھ کر یا اشارے سے فرض نماز ادا کرنا جائز ہے تو چلتی ہوئی ریل گاڑی پر بدرجہ اولیٰ جائز ہونا چاہیے، کیوں کہ کشتی پانی پر چلتی ہے اور ریل زمین پر۔ موجودہ دور کے فقہا نے اسی قیاس پر ہوائی جہاز میں فرض نماز ادا کرنے کو بھی جائز قرار دیا ہے:
وَمِثْلُ السَّفِیْنَۃ اَلقُطُرُ البُخَارِیَّۃُ الْبَرِّیَۃُ وَالطَّائِرَاتُ الْجَوَّیَۃُ (الفقہ علی المذاھب الاربعہ) کشتی ہی کے مثل، ریل گاڑیاں، ہوائی جہاز، اور اس طرح کی دوسری سواریاں ہیں۔
اشارے کے ساتھ نماز ادا کرنے کی صورت و کیفیت یہ ہے کہ بیٹھ کر ہر رکعت میں وہ سب کچھ پڑھنا ہے جو نماز میں پڑھا جاتا ہے اور پھر دونوں طرف سلام پھیرنا ہے۔ البتہ رکوع میں کچھ جھک جانا چاہیے اور سجدے میں اپنی پیشانی کسی چیز پر رکھے بغیر، رکوع کے مقابلے میں کچھ زیادہ جھک جائے۔ (سید احمد عروج قادری، احکام و مسائل، اوّل، ص ۱۸۷-۱۹۰)
س : ہمارے یہاں نمازِ جنازہ پڑھنے کے مسئلے پر اختلاف پیدا ہوگیا ہے۔ بعض لوگ کہتے تھے کہ غائبانہ نمازِ جنازہ مسنون ہے اور بعض کہتے تھے کہ جائز نہیں ہے۔ مہربانی کرکے وضاحت کر دیجیے؟
ج:غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھنے کے بارے میں فقہا کے درمیان اختلاف ہے۔ امام ابوحنیفہؒ کا مسلک یہ ہے کہ نمازِ جنازہ غائبانہ نہیں پڑھنی چاہیے۔ امام شافعیؒ اور دوسرے ائمہ کے نزدیک نمازِ جنازہ غائبانہ پڑھی جاسکتی ہے۔ احادیث میں آتا ہے کہ حبشہ کے بادشاہ نجاشی (جو مسلمان ہوگئے تھے) کا انتقال ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ہوئی تو آپؐ نے ان کی غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھی تھی۔ امام شافعیؒ اور دوسرے لوگ اسی حدیث کو اپنی دلیل میں پیش کرتے ہیں۔
حنفی فقہا اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ یہ حضوؐر کی خصوصیت تھی اور بادشاہ حبشہ کی بھی خصوصیت تھی۔ حضوؐر نے غائبانہ نمازِ جنازہ کا نہ کوئی حکم دیا ہے اور نہ خود بادشاہ نجاشی کے علاوہ کسی اور کی نمازِ جنازہ غائبانہ پڑھی ہے۔ حالانکہ متعدد صحابہ کرامؓ نے دوسرے مقام پر وفات پائی تھی لیکن حضوؐر نے ان کی نمازِ جنازہ غائبانہ نہیں پڑھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ کوئی عام حکم نہیں ہے۔ ایک بات یہ بھی سمجھ میں آتی ہے کہ جس وقت بادشاہِ حبشہ کا انتقال ہوا تھا اس وقت وہاں اسلامی طریقے پر نمازِ جنازہ ادا کرنے والے لوگ موجود نہ تھے۔ اس لیے حضوؐر نے غائبانہ ان کی نمازِ جنازہ پڑھی ہوگی۔ لیکن یہ کوئی لڑنے جھگڑنے کی بات نہیں ہے۔ اگر کچھ لوگ کسی کی نمازِ جنازہ غائبانہ پڑھنی چاہتے ہوں تو رکاوٹ ڈالنا صحیح نہیںہے۔ البتہ جس شخص کا یہ خیال ہوکہ غائبانہ نمازِ جنازہ نہیں پڑھنا چاہیے وہ اس میں شریک نہ ہو۔(سیّد احمد عروج قادری، احکام و مسائل، ص ۲۴۵)
س : کچھ لوگ سختی کے بغیر بُرائی سے باز نہیں آتے تو ایسے لوگوں کے ساتھ کیا سلوک ہونا چاہیے؟
ج: کچھ لوگ سختی کے بغیر باز نہیں آتے لیکن ایسی سختی جو مصلحت کے خلاف ہو، یا جس کا نتیجہ اس سے بھی بُرا نکلتا ہو تو وہ جائز نہیں ہے، کیونکہ واجب یہ ہے کہ حکمت و دانش کو اختیار کیا جائے۔ سختی، یعنی مارنا، ادب سکھانا اور قید کرنا تو حکمرانوں کا کام ہے۔ عام لوگوں کا فرض یہ ہے کہ وہ حق کو بیان کردیں اور بُرے کاموں کی تردید کردیں، باقی رہا بُرائی کو ہاتھ سے مٹانا تو یہ حکمرانوں کا منصب ہے۔ یہ ان پر فرض ہے کہ وہ بقدر استطاعت بُرائی کو ختم کریں کیونکہ وہ اس کے ذمہ دار ہیں۔
اگر انسان اپنے ہاتھ سے اس بُرائی کو مٹانا چاہے جو وہ دیکھے تو اس سے ایسی خرابی پیدا ہوسکتی ہے، جو اس بُرائی سے بھی بڑھ کر ہو، لہٰذا اس معاملے میں حکمت و دانش سے کام لینا چاہیے۔ آپ بُرائی کو اپنے ہاتھ سے اپنے گھر میں تو مٹا سکتے ہیں لیکن اگر اس بُرائی کو بازار میں اپنے ہاتھ سے روکنے کی کوشش کریں تو ہوسکتا ہے کہ اس کا نتیجہ اس بُرائی سے بھی زیادہ بُرا ثابت ہو۔ اس صورت میں آپ کے لیے واجب یہ ہے کہ بات اس شخص تک پہنچا دیں، جسے بازار میں اپنے ہاتھ سے بُرائی ختم کر دینے کی قدرت حاصل ہو۔(محمد بن صالح عثیمین، فتاویٰ اسلامیہ، چہارم، ص۳۱۰-۳۱۱)
س : جناب کی ان بعض نوجوانوں کے بارے میں کیا راے ہے، جن کا شیوہ ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ بعض علما پر تنقید کرتے، لوگوں کو ان سے متنفر کرتے اور ان سے الگ تھلگ رکھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں؟ کیا یہ عمل شرعی طور پر درست ہے؟
ج:میری راے میں ایسا کرنا حرام ہے کیونکہ کسی انسان کے لیے جب یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے کسی مسلمان بھائی کی غیبت کرے خواہ وہ عالم نہ بھی ہو، تو یہ کیسے جائز ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے ان مسلمان بھائیوں کی غیبت کرے جو علما ہیں۔ لہٰذا ہر مسلمان کے لیے یہ واجب ہے کہ وہ اپنی زبان کو اپنے مسلمان بھائیوں کی غیبت سے روکے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یٰٓاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ ز اِِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِِثْمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًا ط اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِہْتُمُوْہُ ط وَاتَّقُوا اللّٰہَ ط اِِنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌo (الحجرات ۴۹:۱۲) اے اہلِ ایمان! بہت گمان کرنے سے احتراز کرو کہ بعض گمان گناہ ہیں اور ایک دوسرے کے حال کا تجسس نہ کیا کرو اور نہ کوئی کسی کی غیبت کرے۔ کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے؟ اس سے تو تم ضرور نفرت کرو گے (تو غیبت نہ کرو) اور اللہ سے ڈرو بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا رحم کرنے والا ہے۔
اس مصیبت میں مبتلا انسان کو معلوم ہونا چاہیے کہ جب وہ کسی عالم کو تنقید کا نشانہ بنائے گا تو وہ گویا اس عالم کی حق باتوں کی تردید کا بھی سبب بنے گا ،تو حق کی تردید اور اس کی عدم قبولیت کا گناہ بھی اس کے ذمہ ہوگا، کیونکہ ایک عالم پر تنقید ایک شخص پر تنقید نہیں بلکہ یہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی میراث پر تنقید ہے۔
علماے کرام انبیاے کرام علیہم السلام کے وارث ہیں۔ لہٰذا جب علما پر طعن و تشنیع کی جائے تو لوگ اس علم پر بھی اعتماد نہیں کریں گے، جو ان کے پاس ہے حالانکہ وہ علم تو رسولؐ اللہ کی میراث ہے اور اس طرح وہ گویا شریعت کی کسی بھی ایسی چیز کو قابلِ اعتماد نہیں سمجھیں گے جس کو یہ عالم بیان کرتا ہو، جسے طعن و تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہو۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہرعالم معصوم ہے، بلکہ ہر انسان خطا کا پتلا ہے۔ اگر آپ زَعم میں کسی عالم کو غلطی پر دیکھیں تو اس سے ملیں اور تبادلۂ خیال کریں۔اگر یہ بات واضح ہوجائے کہ اس عالم کا موقف حق پر مبنی ہے، تو آپ پر واجب ہے کہ اس کی اتباع کریں۔ اگر یہ واضح نہ ہو کہ اس کا موقف حق پر مبنی ہے لیکن اس کی بات کی بھی گنجایش ہو تو آپ کے لیے واجب ہے کہ رُک جائیں، اور اگر اس کی بات کی کوئی گنجایش ہی نہ ہو تو پھر اس کی بات کو قبول کرنے سے اجتناب کریں کیونکہ غلطی کو برقرار رکھنا جائز نہیں ہے لیکن آپ اس پر جرح نہ کریں، خصوصاً، جب کہ وہ عالم حُسنِ نیت میں معروف ہو۔ اگر ہم حُسنِ نیت میں معروف علما پر مسائل فقہ میں کسی غلطی کی وجہ سے جرح کرنے لگیں گے تو ہم بڑے بڑے علما پر جرح کربیٹھیں گے، لہٰذا واجب وہی ہے، جو میں نے ذکر کر دیا ہے۔ اگر آپ کسی عالم کی کوئی غلطی محسوس کریں اور گفتگو اور افہام و تفہیم سے واضح ہوجائے کہ ان کا موقف درست ہے تو آپ کو ان کی بات مان لینی چاہیے اور اگر آپ کا موقف درست ثابت ہو تو پھر اُنھیں آپ کی بات تسلیم کرلینی چاہیے، اور اگر بات واضح نہ ہو اور اختلاف کی گنجایش موجود ہو تو پھر آپ ان کو نظرانداز کر دیں کہ وہ اپنی بات کہتے رہیں اور آپ اپنی بات کہتے رہیں۔
اختلاف صرف اسی زمانے میں نہیں ہے بلکہ اختلاف تو حضرات صحابہ کرامؓ کے زمانے سے آج تک چلا آرہا ہے۔ اگر غلطی واضح ہونے کے بعد بھی کوئی عالم اپنی ہی بات پر اصرار کرے تو آپ کے لیے واجب ہے کہ آپ غلطی کو واضح کریں اور اس سے الگ ہوجائیں مگر توہین و تذلیل اور ارادئہ انتقام کی بنیاد پر نہیں۔ کیونکہ ہوسکتا ہے کہ اس اختلافی مسئلے کے سوا دیگر مسائل میں وہ حق بات کہتا ہو۔
بہرحال میں اپنے بھائیوں کو اس مصیبت اور اس بیماری سے بچنے کی تلقین کرتا ہوں اور میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے اور انھیں ہر اس چیز سے شفا عطا فرمائے جو ہمارے لیے دین و دنیا کے اعتبار سے باعث ِ عار اور موجب ِ نقصان ہو۔(محمد بن صالح عثیمین، فتاویٰ اسلامیہ، چہارم، ص۳۱۰-۳۱۱)
۱۲؍مختصر ابواب پر مشتمل یہ کتاب ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم کے خطبات سیر ت کا خلاصہ ہے، جسے مرتب نے بہت محنت کے ساتھ احادیث کی تخریج اور جامع حواشی کے ساتھ ترتیب دیا ہے۔
مرتب نے مقدمے میں بعض معروف نکات اٹھائے ہیں جن کا تعلق تاریخ کے نفس مضمون اور سیر ت کے عمومی تصور سے ہے ۔ باب اوّل میں مطالعہ سیرت کی ضرورت و واہمیت پر غازی صاحب کے مطالعہ سیرت کے نتیجے میں بیان کردہ خطاب کے اہم پہلو تحریر کیے گئے ہیں ۔ ان کی یہ بات درست ہے کہ مطالعۂ سیرت کی اہمیت مسلمانوں اورغیر مسلموں دونوں کے لیے ہے (ص۲۷)۔ اگلے باب میں سیرت اور علوم سیرت کا تعارف کرایا گیا ہے۔ اس سے وابستہ تیسرا باب ہے جس میں بعض باتیں مکرر اور بعض اضافی بیان کی گئی ہیں ۔اس باب میں تاریخی جائزے میں اہم سیرت نگاروں کا اختصار سے تعارف شامل ہے ۔مستشرقین نے نہ صرف واقدی بلکہ ایسی کتب کو بھی اپنا ذریعۂ معلومات بنایا ہے جو تاریخی اصول تنقید کی روشنی میں تحریر نہیں کی گئیں، جیسے کتاب الاغانی۔ مصنف نے واقدی کے حوالے سے اس عام تصور کی وضاحت کر دی ہے کہ تمام تر احتیاط کے باوجود اس کی تاریخی معلومات میں تاریخیت پائی جاتی ہے۔(ص ۷۸-۸۰)
مصنف نے مدینہ کی اسلامی ریاست کی معاشرت و معیشت کے حوالے سے ساتویں باب میں قیمتی معلومات کا خلاصہ پیش کیا ہے ۔ کلامیاتِ سیرت، فقہاتِ سیرت، دو ایسے موضوع بھی اٹھائے گئے ہیں جو عموماً کتب سیرت میں زیر بحث نہیں لائے جاتے۔ پھر برعظیم میں مطالعۂ سیرت کا تاریخی جائزہ پیش کیا گیا ہے جو اسلامی تاریخ اور عام تاریخ کے طلبہ کے لیے بھی مفید ہے ۔ دورِ جدید میں مطالعۂ سیرت کا جائزہ بھی معلومات افزا ہے۔ آخری باب میں تجویز کیا گیا ہے کہ عمرانی علوم کی علمی و تحقیقی حکمت عملی (Research Methodology) سے مدد لیتے ہوئے سیرت پاک سلسلے کے بعض ایسے پہلو زیر تحقیق آنے چاہییں جن پر ابھی تک زیادہ توجہ نہیں دی گئی ۔ سیرتِ پاکؐ پر یہ ایک مفید کتاب ہے، جسے عمومی سطح پر زیرمطالعہ لانے کا اہتمام ہونا چاہیے۔(ڈاکٹر انیس احمد)
پاکستان کے علمی اور ادبی حلقوں میں ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر ،پروفیسر شعبۂ اسلامی تاریخ، جامعہ کراچی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔علمی تحقیق ،شعر و ادب اور خود نوشت، غرض ہر شعبے میں ڈاکٹر صا حبہ نے اعلیٰ معیاری تصانیف پیش کی ہیں ۔ زیر نظر کتاب ایک ایسی شخصیت سے تعلق رکھتی ہے، جس کے عقائد نے امت مسلمہ کے ایک محدود حصے کو متاثر کیا اور اپنی قدیم یا جدید شکل میں ان میں سے بعض عقائد کے آثار آج تک مشاہدے میں آتے ہیں ۔
مؤرخ کا قلم غیر جانب دار ،حقائق کا متلاشی اور بے باک نہ ہوتو غیر محسوس طور پر ذاتی وابستگی اور بعض اوقات تعصب کا شکار ہو جاتا ہے۔ ہاں، اگر وہ اپنے تعصبات سے خود آگاہ ہو تو توازن و اعتدال کا دامن نہیں چھوڑتا ۔مغرب زدہ مسلم مؤرخین تاریخ کی تاریخ کے بیان میں جرمن تاریخ دان Rankeکو حقائق پرست ،تاریخ نگاری کا علَم بردار سمجھتے ہیں، جب کہ تصور تاریخ، جدلیاتی فکر سے متاثر ہو یا ما دیت یا سرمایہ دارنہ طرز فکر کاا سیر ہو،حتیٰ کہ نام نہاد سائنٹی فک طریق تحقیق سے وابستہ ہو ، داخلی وابستگی سے آزاد نہیں ہو سکتا۔ مؤرخ حقائق کا مطالعہ اور تجزیہ کرتے وقت یہ بھول جاتا ہے کہ اس نے جو عینک زیب ناک کر رکھی ہے وہ حقائق کی صداقت تک پہنچنے میں اس کی راے پر غیرمحسوس طور پر اثر انداز ہو رہی ہے ۔آج اردو زبان جس مقام پر پہنچ گئی ہے اس میں سلیس اردو کی ہر تحریر پڑھ کر تقویت ہوتی ہے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)
جناب عنایت علی خاں کی شہرت تو طنزومزاح کے شاعر کی ہے اور یہ ہے بھی سچ۔ وہ مشاعروں میں اسی مزاحیہ کلام سے دھوم مچاتے ہیں مگر ان کے کسی مجموعے کو دیکھ کر اور بالخصوص کلیات کو دیکھ کر یہ واضح احساس ہوتا ہے کہ ان کو محض طنزومزاح کا شاعر سمجھنا ان کے ساتھ انصاف نہیں ہوگا۔ وہ ایک دردمند ، محب ِ وطن اور حالاتِ حاضرہ سے باخبر شاعر ہیں۔
انھیں ہر صنف میں اپنی بات کہنے کا ہنر آتا ہے۔ بحرِبیکراں، افراد ہو یا راج کہانی یا ’ورلڈکپ‘ جو ان کی سب سے زیادہ مشہور نظم ہے، کسی کو بھی دیکھیے آپ کو محسوس ہوگا کہ اُن کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے اور پیش کرنے کا سلیقہ بھی۔ صرف ایک نظم کا ایک بند دیکھیے:
ہم ہیں صاحب، ہم کو ورثے میں ملی یہ صاحبی
ایک پی او ، ایک شوفر ، گیٹ پر دو سنتری
ہے شہنشاہی جسے سمجھا ہے تم نے نوکری
قوم کے افراد سارے ہیں ہمارے خدمتی
ان کی شہرت تو ضرور ایک شاعر کی ہے مگر وہ مصنف ہیں، محقق ہیں ،مترجم ہیں اور مذہب پر کامل اعتقاد رکھنے والے عالم باعمل ہیں۔ تمام زندگی پڑھتے پڑھاتے گزری ہے۔ ان کی نظم ’ٹیوٹر‘ پڑھیے تو علم کی ناقدری کا بھرپور احساس ہوتا ہے۔
کلیات کی اشاعت پر ان کو مبار کباد تو دی جاسکتی ہے مگر ابھی ان سے اور بھی بہت سی توقعات ہیںجو ان شاء اللہ پوری ہوں گی۔
۶۷۲ صفحات کی اس کتاب میں ۱۵۰ سے زائد صفحات پر شاعرِ خوش کلام کے بارے میں نامی گرامی شخصیات کا اظہار خیال ہے۔ یہ تحریریں شاعر کی شخصیت ، ان کے مقام، ان کے کلام ، ان کی ذاتی زندگی، اخلاق و کردار، رویوں اور سوچ و فکر سب کے بارے میں گواہی پیش کرتی ہیں۔ جو تحریریں بعد میں لکھی جاتی ہیںعنایت صاحب نے سامنے ہی لکھوا لی ہیں۔
گواہی دینے والوں میں نعیم صدیقی، ضمیرجعفری، مشفق خواجہ، تابش دہلوی، انورمسعود، افتخار عارف، ڈاکٹر طاہر مسعود، ابونثر اور دیگر شامل ہیں۔ عطاء الحق قاسمی نے انھیں شاعروں کا پطرس قرار دیا ہے۔ عنایت صاحب نے خود اپنے حالات بھی لکھ دیے ہیں کہ سند رہے۔ ایک تحریر ہمزاد خاں کی بھی ہے۔ کلیات، عنایت علی خاں کی یادگار ہے اور اللہ انھیں زندگی اور صحت دے اور سلسلۂ عنایت از راہِ عنایت جاری رہے اور اہلِ ذوق کو کلیات کے دوسرے تیسرا ایڈیشن نصیب ہوں۔(وقار احمد زبیری)
اُردو میں اہلِ علم و ادب اور اکابرِ ملک و ملّت کی خدمات کے اعتراف میں اَرمغان یا یادگاری کتاب پیش کرنے کی ایک روایت برسوں سے چلی آرہی ہے۔ مسلّمہ روایت میں تو ’ارمغانِ علمی‘ متعلقہ شخصیت کی دل چسپی کے موضوعات پر غیرمطبوعہ علمی مضامین پر مبنی ہوتی ہے۔ اُردو میں ایسے ارمغانوں کی تعداد تقریباً دو درجن ہے( ’انگشت شمار‘ نہیں جیساکہ زیرنظر مجموعے میں بتایا گیا ہے)۔ زیرتبصرہ کتاب ان معنوں میں تو ’ارمغانِ علمی‘ نہیں مگر پروفیسر ڈاکٹر سیّد محمد خورشیدالحسن رضوی (ولادت: ۱۹مئی ۱۹۴۲ئ) کی شخصیت، حالاتِ زندگی، تصانیف و تالیفات، شاعری وغیرہ پر مطبوعہ مضامین اور تبصروں کا ایک خوب صورت مجموعہ ہے جسے ان کے شاگرد ڈاکٹر زاہد منیر عامرنے (جو خود بھی ایک بڑے نام وَر استاد، محقق، مصنف اور شاعر ہیں) بڑی محنت اور محبت سے تیار کر کے پیش کیا ہے۔
خورشید رضوی اُن ’پراگندا طبع‘ لوگوں میں سے ہیں جن کی تعداد ہمارے معاشرے سے روز بروز گھٹتی جارہی ہے۔ صاحبانِ علمیت و ذہانت تو مل جاتے ہیں مگر بے غرض، بے ریا اور نام و نمود کی خواہش سے بے نیاز (خورشید رضوی ایسے)کم ہی ملتے ہیں۔ اس کتاب میں رضوی صاحب کے بارے میں ان کے بعض اساتذہ کی آرا بھی شامل ہیں، مثلاً: ڈاکٹر سیّد عبداللہ، ان کی ’دانش ورانہ صلاحیتوں‘ کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’خورشید رضوی کے عربی زبان و ادب کے غیرمعمولی علم نے مجھے نمایاں طور پر متاثر کیا‘‘۔ ڈاکٹر ایس ایم زمان فرماتے ہیں: ’’ڈاکٹر خورشیدرضوی کے تحقیقی مضامین پر نظر ڈالیں تو یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ وہ ایک سنجیدہ، محتاط، ذہین وطباع، محقق و مفکر ہیں یا صاحب ِ طرز ادیب…؟ وہ یہ سبھی کچھ ہیں‘‘۔ اسی طرح ڈاکٹر صوفی محمد ضیاء الحق کو ہزاروں طالب علموں میں سے ’’صرف ایک ہونہار نوجوان [خورشید رضوی] میں علماے سلف رحمہم اللہ کے اوصافِ عالیہ کی کچھ جھلک نظر آئی‘‘۔
اساتذہ کی ان آرا کے ساتھ رضوی صاحب پر اُردو کے نام وَر ادیبوں، شاعروں، صحافیوں اور نقادوں کے مختصر اور طویل مضامین بھی شامل ہیں۔یہ مضامین خورشیدصاحب کی شخصیت کے مختلف پہلوئوں (بطور شاعر، بطور محقق، بطور نقاد، بطور مترجم) کا ا حاطہ کرتے ہیں۔ مؤلّف نے مجموعے کو مزید وقیع اور روشن کرنے کے لیے خود خورشیدصاحب کے تین خطباتِ صدارت، مصاحبے (انٹرویو) اور مکاتیب بھی (مع چھے انگریزی تحریرات) شامل کردیے ہیں۔
یہ بہت خوش آیند بات ہے کہ ایک ایسے شخص پر، جس کا ادب میں کوئی دھڑا نہیں ہے اور وہ ترقی پسند بھی نہیں ہے اور شہرت کا طلب گار بھی نہیں، اتنی بڑی تعداد میں لکھنے والوں نے ازخود لکھا ہے، لیکن دوسری طرف یہ بات افسوس اور تشویش کی ہے کہ ہماری جامعات اور علمی و تحقیقی اداروں نے خورشید رضوی ایسے نادر ِ روزگار عالم سے فائدہ نہیں اُٹھایا۔ یہ الگ بات ہے کہ انھوں نے ستایش کی تمنا اور صلے کی پروا کیے بغیر، اپنی دُھن میں عربی ادب پر بے مثال تحقیقی و تنقیدی کام کیا ہے۔
مرتب کا ذوقِ تالیف و ترتیب بھی قابلِ داد ہے۔ انھوں نے مجموعے کو دل چسپ بنانے اور پیش کش کو نہایت خوب صورتی سے سامنے لانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ لیکن اگر وہ زیرنظر نسبتاً آسان کام کے بجاے اصل ’ارمغانِ علمی‘ تیار کرتے تو اور زیادہ مبارک باد کے مستحق اور ’مرداں چنیں کنند‘ کا مصداق ہوتے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
زیرنظر کتاب غالباً مصنف کا ایم فل اُردو کا تحقیقی مقالہ ہے۔ اشاعت کے موقعے پر ممکن ہے اس میں ترامیم اور تبدیلیاں کی گئی ہوں۔ مصنف نے ایم فل اُردو کے لیے ’اُردو قاعدہ، تحقیقی و تنقیدی مطالعہ‘ کے عنوان سے تحقیقی مقالہ لکھا جس میں اِملا اور رسم الخط کے مسائل بھی زیربحث آئے تھے۔ انھی مسائل کی وضاحت اور حل کے سلسلے میں انھوں نے زیرنظر کتاب تصنیف کی ہے۔ اس میں ان کے تحقیقی مقالے کا ایک حصہ بھی شامل ہے۔
اُردو زبان بالعموم خط ِ نستعلیق میں لکھی جاتی ہے جو ہمارے نزدیک دنیا کا سب سے خوب صورت رسم الخط یہی ہے۔ لیکن جہاں اِملا درست نہ ہو اور اِملا میں یکسانیت کا فقدان ہو، وہاں اُردو کی خوب صورتی ماند پڑ جاتی ہے۔ مصنف کی خواہش بجا ہے کہ اُردو لکھنے والا ہرشخص درست اِملا لکھے۔ اس کے لیے انھوں نے درست اِملا کے اصول بھی بتائے ہیں، مثالیں بھی دی ہیں اور ۲۱صفحات کا ایک لغت بھی شاملِ کتاب کیا ہے۔ اس میں درست اِملا میں ۵۰۰ سے زائد الفاظ دینے کے ساتھ ان کے لغوی معنی بھی دیے گئے ہیں۔
درست اِملا کی اہمیت اپنی جگہ مگر زبان کی خوب صورتی اِملا کے علاوہ الفاظ کی آلودگی سے بھی متاثر ہوتی ہے بلکہ زبان بگڑ جاتی ہے۔ ہمارے اخبارات،ریڈیو، ٹیلی وژن اور مقررین مل جل کر اس بگاڑ میں اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں، مثلاً: انگریزی الفاظ کا بے جا اور غیرضروری استعمال ۔ اسی طرح اُردو الفاظ کے جمع بنانے میں اُردو کے بجاے انگریزی اصولوں اور قاعدوں کو اپنانا وغیرہ۔ مصنف کو اِملا کے ساتھ ساتھ اس پہلو پر بھی توجہ دینی چاہیے تھی۔
اُردو اِملا کا المیہ یہ ہے کہ نہ صرف افراد (مصنف، خوش نویس، پروف خواں) بلکہ ادارے (علمی و ادبی انجمنیں ، جامعات کے اشاعتی شعبے، ناشر وغیرہ) بھی اِملا کے مسلّمہ اصولوں کی پاس داری نہیں کرتے۔ یوں وہ بھی زبان کی آلودگی بڑھانے میں شامل ہیں۔
زیرنظر کتاب میں لیے کو لئے، دیے کو دیئے، رشید حسن خاں کو رشید حسن خان اور ہیئت کو ہیت لکھا گیا ہے، جو ان الفاظ کا درست اِملا نہیں ہے۔ کتاب میں رُموزِ اوقاف پر بھی بحث ہے مگر مصنف کے اپنے دیباچے میں رُموزِ اوقاف کا اہتمام نہیں ملتا۔ کتابت کی اَغلاط بھی کم نہیں اور پروف ریڈنگ بھی احتیاط سے نہیں کی گئی۔ ان خامیوںکے باوجود مصنف کی کاوش قابلِ قدر ہے۔ اُمید ہے آیندہ ایڈیشن میں وہ کتاب کو بہتر اور مفید تر بنائیں گے۔(رفیع الدین ہاشمی)
علامہ اقبال کے افکار جس طرح شاعری میں اپنی ندرت اور تاثیر کے باعث قبولِ خاطر ہیں، اسی طرح نثر میں بھی ان کے نظریات واضح ہیں۔ ان کے خطوط کے ۱۰،۱۲ مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔
زیرنظر مجموعۂ مکاتیب سیّد نذیرنیازی کے نام ۱۷۸ خطوط پر مشتمل ہے۔ دو خطوط نذیر نیازی کے نام نہیں، تاہم وہ بھی اس مجموعے میں شامل ہیں۔ سید نذیر نیازی نے ۱۹۵۷ء میں یہ خطوط مکتوباتِ اقبال کے عنوان سے شائع کیے تھے۔ اب یہ مکاتیب متن کی تصحیح کے بعد شائع کیے گئے ہیں۔ ان خطوط کی عکسی نقول مرتب کو اقبال اکادمی سے حاصل ہوگئی تھیں۔ سیّد نذیرنیازی کے شائع کردہ مکتوباتِ اقبال میں سیکڑوں اغلاط تھیں اور غیرضروری طویل حواشی تھے جو زیرنظر مجموعے میں حذف کردیے گئے ہیں۔ سیّد نذیر نیازی کے نام یہ خطوط ۱۹۲۹ء سے ۱۹۳۷ء تک کے عرصے میں تحر یر کیے گئے۔ علامہ اقبال نے ان خطوط میں اپنی تصنیفات، بعض شخصیات، اپنے اسفار، علمی کانفرنسوں میں شرکت،اور اپنی بیماری وغیرہ کا ذکر کیا ہے اور بعض خطوں میں علمی مسائل پر کلام کیا ہے۔
مرتب نے سیّد نذیر نیازی کی کتاب مکتوباتِ اقبال کی تصحیح کرتے ہوئے اگرچہ بہت سی اغلاط کی درستی کی ہے جس کے باعث زیرنظر مجموعہ پہلے مطبوعہ نسخے مکتوباتِ اقبالکی نسبت بہتر حالت میں ہے۔ تاہم زیرنظر تصحیح کردہ نسخے میں بھی متعدد اغلاط موجود ہیں۔ بعض خطوط کے عکس دے دیے جاتے تو بہتر ہوتا۔ مرتب نے مکاتیب کے متن کی صحت کا خیال رکھنے کی کوشش کی ہے، تاہم پروف عجلت کے بجاے ذمہ دارانہ احساس کے ساتھ احتیاط سے پڑھے جاتے تو یہ اغلاط نہ رہتیں۔ (ظفر حجازی)
o زندگی اسوئہ رسولؐ کے سنگ ، علامہ محمد علی بِکری صدیقی شافعیؒ، ترجمہ: غلام مصطفی القادری۔ ناشر: ساگرپبلشرز، فرسٹ فلور، ۳۰- الحمدمارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۲۳۰۴۲۳-۰۴۲۔ صفحات: ۲۰۰۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔ [شمائلِ نبویؐ اور گیارھویں صدی ہجری کے محدث علامہ محمدعلی بن علان بن ابراہیم بِکری صدیقی شافعی کی عربی تصنیف کا اُردو ترجمہ ہے۔ علامہ علی بِکری نے روایاتِ احادیث کی صورت میں محسنِ انسانیت ؐ اور ہادیِ عالم ؐ کے شمائل وخصائل، عادات و معمولات، طبع و مزاج گرامی اور رسولِ کریمؐ کے استعمال میں رہنے والی اشیا، سواریوں، لباس و بستر وغیرہ کا تذکرہ مرتب کیا ہے۔ سیرتِ پاکؐ کے یہ پہلو بھی لائقِ اتباع ہیں۔]
o شرح اربعین امام حسینؓ، عبداللہ دانش۔ ناشر: العاصم اسلامک بُکس۔ ۲۸-الفضل مارکیٹ، ۱۷-اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۱۲۲۴۲۳-۰۴۲۔صفحات: ۴۷۵۔ قیمت: درج نہیں۔ [مرتب نے چند برس قبل امام حسینؓ کے فضائل و مناقب اور شہادت سے متعلق احادیث ِ رسولؐ اور تاریخی روایات کا ایک مجموعہ اربعین امام حسینؓ کے نام سے شائع کیا تھا۔ اب اسی مجموعے کی شرح، تخریج اور کتاب کے نام میں ایک لفظ کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔ اربعین امام حسینؓ عنوان سے تاثر ملتا ہے کہ یہ امام حسینؓ کی جمع کردہ احادیث ِ رسولؐ کا مجموعہ ہے لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ یہ ان سے متعلق روایات ہیں جن کو مرتب نے صحت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ طباعت معیاری ہے۔]
o ادب: کس کا، کیوں اور کیسے؟ ، مولانا حکیم محمد ادریس فاروقی، محمد نعمان فاروقی۔ ناشر: مسلم پبلی کیشنز، ۲۵-ہادیہ حلیمہ سنٹر، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۳۱۰۰۲۲-۰۴۲۔ صفحات: ۲۷۲۔ قیمت ( مجلد): ۳۹۰ روپے۔ [اللہ تعالیٰ، رسولؐ اللہ، قرآنِ مجید، احادیث ِ رسولؐ ، صحابہؓ و اہلِ بیتؓ ، حرمین شریفین و دیگر مساجد، ائمہ محدثین و فقہا، اولیاے کرام، والدین، اساتذہ اور بڑوں کے ادب و احترام پر قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی فراہم کی گئی ہے۔ اسلوب عام فہم اور واقعات مستند۔ مصنف کا زاویۂ نظر درست ہے۔]
o تربیت اولاد میں ماں کا کردار، عائشہ کرامت شیخ۔ ناشر: اسلامک سروسز سوسائٹی، ۱۷۹-اے ، احمدبلاک، نیو گارڈن ٹائون، لاہور۔ فون: ۳۵۸۶۳۱۹۹-۰۴۲۔ صفحات: ۴۷۔ قیمت: درج نہیں۔[معاشرتی بگاڑ کا بنیادی سبب اخلاق اور دین سے دُوری ہے اور نوجوان نسل بالخصوص اس کا ہدف ہے۔ اس انحطاط کو روکنے اور نوجوان نسل کی صحیح خطوط پر تربیت کے لیے ایک ماں کا مطلوبہ کردار اور راہ نمائی کے اصول اس کتابچے میں ایک مختلف اسلوب میں بیان کیے گئے ہیں۔ بچوں کی تربیت کے لیے ایک مختصر اور جامع کتاب۔]
نیا سرورق بامعنی اور سادہ ہے، تاہم مزید جدت کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ مولانا مودودیؒ کا سورئہ ذاریات کا درسِ قرآن (جنوری ۲۰۱۶ئ) بہت مفید ہے۔ بڑے مؤثر اسلوب میں آخرت کے برپا ہونے کے لیے عقلی دلائل فراہم کیے گئے ہیں اور انسانی ذہن میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دُور کیا گیا ہے۔ ’عہدنبویؐ میںا مدینہ کا شہری نظام‘ میں نبی کریمؐ کے اسوہ کا منفرد پہلو سامنے آیا۔ شہروں و بلدیاتی سطح پر درپیش مسائل کے حل کے لیے اہم خطوط کی طرف راہ نمائی کی گئی ہے۔
’تحریکِ اسلامی اور علم دوست معاشرہ‘ (جنوری ۲۰۱۶ئ) عمدہ اور جامع تحریر ہے۔ اس موضوع پر مزید تحریریں دینا مفید ہوگا۔ ماضی میں جس طرح تحریک اسلامی نے اسلامی مکتبوں کے قیام اور گھر گھر پہنچ کر انفرادی رابطوں ، گفتگوئوں اور دعوتی کتابچوں کے ذریعے اسلامی تعلیمات کو عام کیا اور لوگوں میں ذوقِ مطالعہ کو پروان چڑھایا، آج بھی اسی جذبے سے اسلام کی روایت ِعلم کو آگے بڑھانے اور مطالعے کے رجحان کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔
’لبرل ازم ، کیا ہے اور کیا نہیں؟‘ (جنوری ۲۰۱۶ئ) کے تحت لبرل ازم کے اصول و مبادی کا محاکمانہ و تنقیدی جائزہ پیش کیا گیا ہے اور اس کے اثرات و مضمرات کا احاطہ کیا گیا ہے جو وقت کی اہم ضرورت کو پورا کرتا ہے۔
’لبرل ازم ، کیا ہے اور کیا نہیں؟‘ (جنوری ۲۰۱۶ئ) اپنے موضوع پر جامع تحریر ہے اور لبرل ازم اور سیکولرازم ، نیزاس کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کو اُجاگر کیا گیا ہے۔ تاہم اسلوب فلسفیانہ ہے، اسے مزید سہل بنانے کی ضرورت تھی۔
اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صاف صاف ہدایات کو دیکھ لینے کے بعد ایک مومن انسان کے لیے دو ہی صورتیں رہ جاتی ہیں: یا تو وہ ان کی پیروی کرے اور اپنی، اپنے گھر کی اور اپنے معاشرے کی زندگی کو اُن اخلاقی فتنوں سے پاک کردے، جن کے سدباب کے لیے اللہ نے قرآن میں اور اس کے رسولؐ نے سنت میں تفصیلی احکام دیے ہیں۔ یا پھر اگر وہ اپنے نفس کی کمزوری کے باعث اِن کی یا ان میں سے کسی کی خلاف ورزی کرتا ہے تو کم از کم اسے گناہ سمجھتے ہوئے کرے اور اس کو گناہ مانے، اور خواہ مخواہ کی تاویلوں سے گناہ کو صواب بنانے کی کوشش نہ کرے۔
اِن دونوں صورتوں کو چھوڑ کر جو لوگ قرآن و سنت کے صریح احکام کے خلاف، مغربی معاشرت کے طورطریقے اختیار کرلینے ہی پر اکتفا نہیں کرتے، بلکہ پھر انھی کو عین ’اسلام‘ ثابت کرنے کی کوشش شروع کردیتے ہیں اور علانیہ دعوے کرتے پھرتے ہیں کہ :’’اسلام میں سرے سے [فلاں] حکم موجود ہی نہیں ہے‘‘، وہ گناہ اور نافرمانی پر جہالت اور منافقانہ ڈھٹائی کا اور اضافہ کرلیتے ہیں، جس کی قدر نہ دنیا میں کوئی شریف آدمی کرسکتا ہے، نہ آخرت میں خدا سے اس کی اُمید کی جاسکتی ہے۔ مسلمانوں میں تو منافقوں سے بھی چار قدم آگے بڑھ کر ایسے لوگ بھی موجود ہیں، جواللہ اور رسولؐ کے ان احکام کو غلط اور اُن طور طریقوں کو صحیح و برحق سمجھتے ہیں، جو انھوں نے غیرمسلم قوموں سے سیکھے ہیں۔ یہ لوگ درحقیقت مسلمان نہیں ہیں، کیونکہ اس کے بعد بھی اگر وہ مسلمان ہوں تو پھر اسلام اور کفر کے الفاظ قطعاً بے معنی ہوجاتے ہیں۔ اگر یہ لوگ اپنے نام بدل دیتے اور علانیہ اسلام سے نکل جاتے تو ہم کم از کم ان کی اخلاقی جرأت کا اعتراف کرتے۔ لیکن ان کا حال یہ ہے کہ [اللہ اور رسولؐ کی ہدایات کے خلاف]یہ خیالات رکھتے ہوئے بھی وہ مسلمان بنے پھرتے ہیں۔ انسانیت کی اس سے زیادہ ذلیل قسم غالباً دنیا میں اور کوئی نہیں پائی جاتی۔ اس سیرت و اخلاق کے لوگوں سے کوئی جعل سازی، کوئی فریب، کوئی دغابازی اور کوئی خیانت بھی خلافِ توقع نہیں ہے۔ (’تفہیم القرآن ‘ ، سیّدابولااعلیٰ مودودی ، ترجمان القرآن،جلد۴۵، عدد۶، جمادی الاخریٰ ۱۳۷۵ھ، فروری ۱۹۵۶ئ، ص ۳۰-۳۱)
_______________