اُمت مسلمہ تاریخ کے جس نازک دور سے گزر رہی ہے۔ اس ماحول میں استعماری قوتیں اور مسلم دُنیا کے غاصب طبقے، مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کے مستقبل کی صورت گری کا اختیار اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں۔ اس کے لیے وہ سیاسی، فکری، معاشی، تعلیمی، عسکری، ابلاغی، ثقافتی اور سفارتی قوتیں بروئے کار لارہے ہیں۔ ان قوتوں کے نزدیک مسلمانوں کی عمومی، مذہبی اور رواجی زندگی کو تو کسی حد تک برداشت بھی کیا جاسکتاہے، لیکن کسی مسلمان کی جانب سے اسلامی تہذیب اور اسلامی نظامِ زندگی کی جانب ایک قدم بڑھانا بھی ناقابلِ برداشت ہے۔ دوسری طرف مسلم اُمہ بہت سے تضادات اور فکری انتشار کی شکار نظر آتی ہے۔ اس کش مکش میں یہ سوال نمایاں ہوکر سامنے آتا ہے:
عصرحاضر میں ایک جانب مسلم اکثریتی ملکوں میں اور دوسری طرف مسلم اقلیتی ممالک میں اسلامی احیاء کے لیے کون کون سے فکری اور عملی اقدامات کیے جانے چاہئیں؟
اس سوال کے جواب میں جن اہلِ علم کی تحریریں اگست ۲۰۲۴ء میں شائع کی گئیں، ان کے اسمائے گرامی ہیں:lفتح محمد ملک
ڈاکٹر محمد ذکی کرمانی۔ اب اس سلسلے کی دوسری قسط شائع کی جارہی ہے اور آیندہ شمارے میں تیسری قسط۔ یہ جوابات اور تجزیے مختلف نقطہ ہائے نظر پیش کرتے ہیں، جن سے ادارہ ترجمان کا اتفاق ضروری نہیں ہے۔ تاہم، اس طرح قارئین مختلف افکار و خیالات سے مستفید ہوکر بہتر نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں۔(ادارہ)
اُمت مسلمہ تاریخ کے ایک نازک دور سے گزر رہی ہے۔ اس ماحول میں استعماری قوتیں اور مسلم دُنیا کے غاصب طبقے، مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کے مستقبل کی صورت گری کا اختیار اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں۔ اس کے لیے شعوری طور پر وہ سیاسی، فکری، معاشی، تعلیمی، عسکری، ابلاغی، ثقافتی اور سفارتی قوتیں بروئے کار لارہے ہیں۔ ان قوتوں کے نزدیک مسلمانوں کی عمومی، مذہبی اور رواجی زندگی کو تو کسی حد تک برداشت بھی کیا جاسکتاہے، لیکن کسی مسلمان کی جانب سے اسلامی تہذیب اور اسلامی نظامِ زندگی کی جانب ایک قدم بڑھانا بھی ناقابلِ برداشت ہے۔ اس فسطائی سوچ کی علَم بردار یہ قوتیں بنیادی انسانی حقوق کی پامالی اور وحشیانہ جارحیت سے بھی گریز نہیں کرتیں۔ گذشتہ دو صدیاں خاص طور پر اس رویے کا قدم قدم پر ثبوت پیش کرتی ہیں۔ دوسری طرف مسلم اُمہ بہت سے انتظامی، اداراتی اور اخلاقی تضادات اور فکری انتشار کی شکار چلی آرہی ہے، پھر اخلاص، وفاداری اور احساسِ ذمہ داری کا بحران اس پر حاوی ہے۔ اس کش مکش میں سوال یہ اُبھرتا ہے:
اس سوال کے جواب میں اہل علم کی تحریریں آئندہ صفحات میں پیش کی جارہی ہیں،جب کہ ستمبر کے شمارے میں:l مفتی منیب الرحمانl مختار شنقیطی l ڈاکٹر اسعدزماں l سیّدامین الحسن lبازغہ تبسم lطارق جانlعبدالملک مجاہد l عبداللہ احسن lمبشرہ فردوس اور دیگر حضرات کے مضامین شائع ہوں گے۔ یہ جوابات اور تجزیے، مختلف پہلو اور مختلف نقطہ ہائے نظر پیش کرتے ہیں، جن میں بعض نکات سے ادارہ ترجمان کا اتفاق ضروری نہیں ہے۔ تاہم، اس طرح قارئین گوناگوں افکار و خیالات سے مستفید ہوکر بہتر نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں۔(ادارہ)
اگر دنیا کا ہر انسان اور دنیا کی ہر قوم، ظلم و استبداد کو ایک ہی انداز سے دیکھتی، اور اس پر ایک ہی طرح کا ردّعمل ظاہر کرتی، تو شاید انسانیت کبھی اتنی پریشان نہ ہوتی۔ ظلم سے بھی بڑھ کر انسانیت کو اُس وقت پریشانی ہوتی ہے، جب وہ تہذیب و تمدن کی دعوے دار قوموں کے اقوال و اَفعال میں شدید تضاد دیکھتی ہے، بالخصوص جب وہ انصاف کے علَم برداروں کو انصاف کا خون کرتے دیکھتی ہے۔
اگر انسانیت کو اس بات کا پوری طرح یقین ہوتا کہ انسان اب انسان نہیں رہا، بلکہ خوں خوار درندہ بن گیا ہے اور اس بنا پر اُس سے کسی خیر، بھلائی، شرافت اور انصاف کی توقع بیکار ہے تو وہ انسان سے، اُس کے مستقبل سے، اُس کے جذبۂ رحم اور انصاف سے یکسر مایوس ہوکر بیٹھ جاتی۔ مگر اسے کیا کہیے کہ مغربی قومیں؛ مسلم دُنیا اور مشرقی اقوام کو وہ سکون بھی نصیب نہیں ہونے دیتیں، جو انسان کو انتہائی مایوسی کے عالم میں ملتا ہے۔ اِن مظلوم اور مجبور اقوام کی حالت اہلِ مغرب نے اُس پیاسے کی سی بنا رکھی ہے، جو لق و دق صحرا میں پانی کی تلاش میں نکلتا ہے، مگر سواے سراب کے اُسے کوئی ایسی چیز ہاتھ نہیں آتی جو اُسے تسکین عطا کرسکے۔
آپ ذرا اُس بدقسمت انسان کی حالت کا خود اندازہ لگائیں، جو پیاس سے نڈھال چلچلاتی دھوپ اور تپتی ہوئی ریت کے اندر طویل مسافت اس اُمید پر طے کرتا ہے کہ اُسے پانی کا ٹھنڈا چشمہ ملے گا، لیکن وہ سفر کی ساری دشواریاں برداشت کرنے کے بعد جب وہاں پہنچتا ہے تو اُسے یہ کرب ناک احساس ہوتا ہے کہ یہ تو محض فریب ِنظر تھا۔ کیا اس شخص کے حق میں یہ اچھا نہ تھا کہ اسے اس فریب میں مبتلا ہی نہ کیا جاتا اور وہ ایک غلط اُمید پر جینے کے بجاے سکون کے ساتھ موت کی آغوش میں چلا جاتا؟
انسان کو دو بڑی چیزیں ذہنی سکون اور قلبی اطمینان بخش سکتی ہیں: یہ اطمینان کہ وہ جس سمت بھی خلوص اور تدبر کے ساتھ قدم اُٹھا رہا ہے، اُس پر چل کر وہ گوہرِمقصود پا لے گا اور جن افراد اور اداروں پر وہ بھروسا کررہا ہے وہ اُسے کبھی دھوکا نہ دیں گے۔یا پھر یہ احساس کہ دنیا سراسر دھوکا ہے، یہاں کسی شخص یا قوم پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا، عدل و انصاف یہاں کسی چیز کا نام نہیں ہے اور آزادی و حُریت محض بے معنی الفاظ ہیں۔ اس دوسری صورت میں کم از کم یہ تو ہوگا کہ آدمی کو کامل مایوسی ہوجائے گی، وہ اپنے عزائم اور ارادوں کے مدفن خود تیار کر کے ان کے گرد بیٹھ جائے گا اور اُمیدوں کا کوئی دیا جلاکر اپنے سکونِ خاطر کو درہم برہم کرنے کا سامان نہ کرے گا۔
مغربی اقوام نے مشرقی قوموں ، اور خصوصاً مسلمانوں پر، مختلف زمانوں میں جو گوناگوں مظالم کیے ہیں، اُن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ جب ان کی طرف سے یکسر مایوس ہونے لگتے ہیں، تو یہ ’آزادی‘ اور ’حُریت‘ کے سراب دکھا کر انھیں پھر اس فریب میں مبتلا کر دیتی ہیں کہ عدل و انصاف کی متاعِ گراں مایہ اُن کے ہاں سے ضرور حاصل ہوگی۔ وہ بے چارے پھر ان کی رکاب تھام کر ان کے ساتھ بھاگنا شروع کر دیتے ہیں اور ایک طویل سفر کی کلفتیں برداشت کرنے کے بعد جب حقائق ان کے سامنے آتے ہیں تو پھر ہمت ہار کر بیٹھ جاتے ہیں۔
آپ کو اگر مسلمانوں کی اس حکایت ِ تشنہ و سراب کا دردانگیز منظر دیکھنا ہو تو ذرا مغربی برقی ذرائع ابلاغ کے اس طرزِعمل کو دیکھیں، جو اس نے مسلم ممالک کے معاملے میں اختیار کررکھا ہے۔
یہ ذرائع ابلاغ ایک طرف آزادی ، جمہوریت، رواداری، انسانی حقوق کے احترام اور عدل و انصاف کے اصولوں کی حمایت کے بلند بانگ دعوے کرتے ہیں۔ دوسری طرف ان کا حال یہ ہے کہ اگر کسی مسلمان ملک میں کوئی ایسی حکومت قائم ہوجائے، جو اسلام کی براے نام بھی پاس داری کرتی نظر آتی ہو، تو اس کی ذرا ذرا سی غلطیوں کو یہ خوب اُچھالتے ہیں۔ اور یہ شور مچامچا کر زمین و آسمان سر پر اُٹھا لیتے ہیں: ’’وہاں آزادیاں کچلی جارہی ہیں اور انصاف کا خون کیا جارہا ہے اور جمہوریت کا گلا گھونٹا جارہا ہے‘‘۔
دوسری طرف جب کسی مسلمان ملک میں خود مسلمانوں کے ہاتھوں اسلام کی بیخ کنی ہوتی نظر آئے اور اسلام کے لیے کام کرنے والوں پر ظلم توڑنے میں عدل و انصاف اور آزادی و جمہوریت کے سارے اصول پامال کر ڈالے جائیں ، تو یہی پریس اور جملہ ذرائع ابلاغ اپنے ان تمام دعوئوں کو قطعی فراموش کر دیتے ہیں اور اُلٹا ان لوگوں کی پیٹھ ٹھونکنے میں لگ جاتے ہیں، جو ان کی یہ منہ مانگی مراد پوری کررہے ہوں۔ اُس وقت انصاف اور انسانی حقوق کی کوئی مٹی پلید ہوتی ان کو نظر نہیں آتی، بلکہ مسلمان حکمرانوں کے اِن کارناموں پر ان کی باچھیں کھِلی پڑتی ہیں۔ حد یہ ہے کہ اگر کسی ملک میں اخلاق باختگی زور پکڑرہی ہو تو یہ لوگ ایسی حالت کو بطور ’روشن خیالی‘ بخوشی گوارا کرتے ہیں۔
یہ ہے وہ عام رجحان، جو مغرب اور مغرب کے زیراثر ذرائع ابلاغ میں نظر آتا ہے۔ ان کے ہاں انسانی آزادی، قانون کی برتری ، جمہوری اقدار اور انسانی حقوق کے بڑے شان دار تذکرے اور فیچر ملیں گے، اور یوں محسوس ہوگا کہ پوری دنیاے مغرب ان کی محافظ اور پاسبان ہے اور ان پر جب ذرا سی آنچ بھی آئے تو وہ سخت مضطرب ہوکر فوراً اُن قوتوں کے خلاف صف آرا ہوجاتی ہے، جو انھیں پامال کرنے کا ناپاک عزم رکھتے ہوں۔ ممکن ہے اپنے دائرے میں وہ انسانی بنیادی حقوق کے متعلق اتنی ہی حساس ہو جتنی وہ اس کی نمایش کرتی ہے۔لیکن یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ مسلمانوں کے بارے میں اُس کی روش انتہائی جانب دارانہ، افسوس ناک بلکہ شرم ناک ہے۔
اگر اسلام کو دبانے اور مسلمانوں کو تباہ کرنے کے لیے انھی میں سے کوئی سفاک آمر یا سامراج نواز رجواڑہ قدم بڑھائے اور اِس مذموم مقصد کی تکمیل میں ایسی تمام اقدار کو روند ڈالے، جن کے یہ بظاہر پرستار ہیں، تو جمہوری اقدار کے اِن علَم برداروں کے ضمیر میں قطعاً کوئی خلش پیدا نہیں ہوتی، بلکہ مغربی مراکز ِ دانش (Think Tanks)، مغربی ذرائع ابلاغ اور مغربی ممالک اس کے مظالم پر تحسین و آفرین کے نعرے بلند کرنے لگتے ہیں اور مظلوموں کے حق میں کوئی کلمۂ خیر تو درکنار، کلمۂ انصاف بھی ان کی زبان سے نہیں نکلتا۔
جب کسی مسلم ملک میں کوئی دین پسند تحریک، احیاے اسلام کا پاک اور مقدس عزم لے کر جدوجہد شروع کرے ، تو مغربی قوموں کو سخت ’خطرہ‘ لاحق ہوجاتا ہے، اور وہ ہر طرح سے اسے بدنام اور رُسوا کرنے اور اس کا راستہ روکنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس تحریک کے متعلق مغربی ذرائع ابلاغ طرح طرح کی بدگمانیاں پھیلاتے ہیں، اور اُن ملکوں میں برسرِاقتدار طبقوں کو اس بات پر اُکساتے ہیں کہ وہ اسے ختم کرنے میں پوری قوت سے کام لیں اور اس وقت تک چین نہیں لیا جاتا جب تک کہ اس تحریک اور اس کے خادموں کی بربادی کا پوری طرح سامان نہ ہوجائے۔
اگر محض حُسنِ اتفاق سے کسی جگہ کوئی ایسا فرد یا طبقہ برسرِاقتدار آجائے، جو اسلام کا علَم بردار نہ سہی، محض اس ضمن میں اچھے جذبات ہی رکھتا ہو، تو مغربی ذرائع ابلاغ اُس کے پیچھے پنجے جھاڑ کر پڑجاتے ہیں۔ اس کی معمولی کوتاہیوں اور لغزشوں کو بڑی شدومد کے ساتھ اُچھالتے، اُسے ذلیل و خوار کرنے کے لیے طرح طرح کی خبریں گھڑتے ہیں اور اُس وقت تک دم نہیں لیتے، جب تک کہ غیراسلامی قوتیں اُس پر پوری طرح غالب آکر اُسے برباد نہیں کردیتیں۔
مغربی ذرائع ابلاغ کے اس طرزِعمل کا اندازہ کرنے کے لیے عقل کی کوئی زیادہ مقدار درکار نہیں۔ آپ صرف گذشتہ چند عشروں کے واقعات پر نظر ڈالیں تو آپ کو حقیقت ِ حال معلوم ہوجائے گی۔
ایسے تمام واقعات اس حقیقت پر شاہد ہیں کہ مغربی قوموں کو جمہوریت، آزادی راے اور بنیادی انسانی حقوق کا غم بس اُسی وقت لاحق ہوتا ہے، جب دنیا میں کہیں اسلام کے لیے کوئی کام ہوتا نظر آئے۔ اسلام کی سربلندی کا ’خطرہ‘ سامنے آتے ہی ان کے پیٹ میں ’جمہوریت‘ اور ’انسانی حقوق‘ کے مروڑ اُٹھنے شروع ہوجاتے ہیں اور وہ اُن قوتوں کے خلاف مکروہ پراپیگنڈے کی ناپاک مہم شروع کردیتی ہیں، جو اس ’خطرے‘ کے پیچھے کام کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ لیکن اسلام کا راستہ روکنے اور اس کی اقدارِحیات کو پامال کرنے کے لیے خواہ کتنے ہی مظالم کیے جائیں، کتنی ہی صریح بے انصافیوں کا ارتکاب کیا جائے، کیسے ہی غیر جمہوری اور غیراخلاقی طریقے اختیار کیے جائیں، ان کے ضمیر پر جوں تک نہیں رینگتی، نہ ان کے دلوں میں کوئی معمولی ارتعاش تک پیدا ہوتا ہے۔
اب اگر محض چند حالیہ سال ذہن میں تازہ کر لیے جائیں، کہ مصر میں کیا کچھ ہورہا ہے؟ مغرب نے قال اور حال سے اس ظلم، دھاندلی اور وحشیانہ طرزِعمل پر آفرین و صد آفرین کی صدائیں ہی بلند کی ہیں۔ اہلِ مغرب کے ہاں کوئی آنکھ اس اندوہناک صورتِ حال پر نم نہیں ہوئی۔ کسی دل میں یہ احساس پیدا نہیں ہوا کہ متاعِ حیات سے محروم ہونے والے اور مصری حکام کے ہاتھوں دردناک عذاب کی سختیاں جھیلنے والے الاخوان المسلمون کے مظلوم طرف دار، انسانی برادری ہی کے معزز ارکان ہیں، اور اُن کے لیے بھی آزادی اور انصاف کے تقاضے اتنی ہی اہمیت رکھتے ہیں جتنے کہ خود اِن کے لیے۔ لیکن چوں کہ الاخوان المسلمون کے ختم ہونے سے اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچتا ہے، اس لیے مغربی قومیں جمال ناصر سے لے کر انورالسادات تک اور پھر حسنی مبارک سے لے کر غاصب جنرل سیسی کے اُن ظالمانہ اقدام پر بڑی مسرور ہیں، اور اس بات پر مطمئن ہیں کہ یہ سفاک اور غاصب حکمران ان کی ناپاک خواہشات کی تکمیل میں دانستہ یا نادانستہ طور پر ممدومعاون ثابت ہوتے رہے ہیں۔
بلاشبہہ عراق پر صدام حسین کی شکل میں ایک فوجی آمر برسرِ اقتدار تھا، جس نے اپنے ملک میں جبر کا ماحول تسلسل سے قائم کیے رکھا۔ لیکن اہلِ مغرب کے دل کبھی اس بات پر نہیں دُکھے تھے۔ البتہ جب انھیں یہ معلوم ہوا کہ وہ مسلم دُنیا کی ایک ناقابلِ تسخیر فوجی قوت بن چکا ہے اور خصوصاً مقبوضہ فلسطین پر غاصب صہیونیوں کے لیے خطرہ ہے تو پھر بہانے تراشے گئے۔ جھوٹی خبریں گھڑی اور پھیلائی گئیں، اور اسی جھوٹ کے بل پر پورے عراق کو تہس نہس کرکے رکھ دیا۔ لاکھوں بے گناہوںکو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ آج صورتِ حال یہ ہے کہ عملاً عراق دوتین ٹکڑوں میں تقسیم ہوچکا ہے اور بدامنی اور تباہی اس کا مقدر بنا دی گئی ہے۔ عبرت ناک پہلو یہ ہے کہ امریکی حملہ آوروں کی تائید اور عملاً جنگ میں تباہی مچانے والے برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیر اب یہ کہتے پھرتے ہیں: ’’ہم نے غلط معلومات کی بنیاد پر عراق پر حملہ کیا تھا، جس پر مَیں معذرت خواہ ہوں‘‘۔ یہ ہے وہ ’مہذب‘ مغرب کہ جو خود جھوٹ گھڑتا، اسی جھوٹ پہ کارروائی کرتا اور پھر ٹسوے بہاکر ’معذرت‘ کا ڈراما رچاتا ہے۔
’مہذب مغرب‘ کے دامن کولہو سے تر کرتی تین مثالیں یہ بھی پیش نظر رکھیے: اب سے ۲۵برس پیش تر روسی سلطنت نے جس طرح چیچنیا کے مسلمانوں کی آواز کو کچلا۔ پھر مشرقی یورپ میں بوسنیا اور کوسووا کے مسلمانوں کی نسل کشی کی اور غلامی کی بےرحم زنجیروں میں جکڑا، تو اس پر کہیں آہٹ نہ سنائی دی۔ مغرب اس کے باوجود ’مہذب‘ ہی رہا، جب کہ مسلم دنیا کی قابض مقتدرہ نے اسے تسلیم کرلیا۔
اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں مغرب کی یہ روش کوئی ایسا حادثہ نہیں ہے، جسے محض حادثاتی اتفاق پر محمول کرکے نظرانداز کیا جائے۔ اس کے اسلام دشمن طرزِعمل میں اتنی استواری، پایداری اور تسلسل ہے جس میں انسان یہی محسوس کرتا ہے کہ مغرب یہ سب کچھ ایک سوچے سمجھے اندازِ فکر، لگے بندھے منصوبے اور متعین مقاصد کی تکمیل میں کر رہا ہے۔ اس کا یہ طرزِعمل چند حکمرانوں، کچھ صحافیوں اور خبر رسانوں کے ذاتی ذوق یا رجحان کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ پوری پوری قوموں اور سلطنتوں کی پالیسی یہی ہے۔ یہ اہلِ مغرب کی مشترک بین الاقوامی پالیسی ہے، جس کے نفاذ کے لیے ذرائع ابلاغ ایک بڑے مؤثر آلۂ کار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کم از کم اسلام اور مسلمانوں کے معاملے میں پریس ایک خودمختار ادارہ نہیں ہے جو اپنی قوموں کی پالیسی سے ہٹ کر اپنی کوئی الگ پالیسی چلاتا ہو۔
یہ ہوسکتا ہے کہ مغربی پریس کے مختلف مکاتب ِ فکر ہوں اور مختلف مفادات کے محافظ و نگراں اور مختلف افکار و نظریات کے ترجمان کی حیثیت سے یہ پریس متعدد کیمپوں میں بٹا ہوا ہو۔ ان میں باہمی سرپھٹول اور چپقلش بھی ہوسکتی ہے، لیکن مسلمانوں کے معاملے میں اس سارے پریس کے قریب قریب یکساں طرزِعمل کو دیکھتے ہوئے یہ حقیقت نہایت واضح طور پر کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ خواہ اس کے اپنے اندر کتنے ہی اختلافات پائے جائیں، مگر اس ایک معاملے میں اس کے اندر مکمل یک جہتی اور اتحاد ہے، کہ وہ مسلمانوں کو مسلمان نہیں دیکھ سکتا۔ وہ اسلام کو سر اُٹھاتے نہیں دیکھ سکتا۔ وہ اسلام کے رشتے کی بنا پر مسلمانوں کو متحد ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔ وہ کسی مسلمان قوم کو طاقت پکڑتے نہیں دیکھ سکتا۔ جہاں بھی اسے اسلام کے ایک زندہ طاقت کی حیثیت سے اُبھرنے کا ’اندیشہ‘ ہوتا ہے ، یہ پورا پریس اس کا راستہ روکنے کی جاں توڑ کوشش کرتا ہے۔ کبھی کبھی مغربی پریس میں کوئی نحیف سی آواز مسلمانوں کے حق میں اُٹھتی ہے، مگر حکمرانوں اور پریس کے مجموعی طرزِعمل میں کوئی تبدیلی رُونما نہیں ہوتی۔
جب تک مغربی اقوام مسلمانوں پر براہِ راست مسلط رہیں، اُس وقت تک تو وہ خود اپنے ہاتھ سے آزادی، حُریت، انسانی بنیادی حقوق اور انصاف کا خون کرتی رہیں۔ اسلام اور اسلامی تحریکات اور مسلمانوں کی تحاریک ِ آزادی کو دبانے میں ہرقسم کے ظلم سے کام لیتی رہیں۔ اتنے پاپڑ بیلنے کے باوجود انھیں پوری طرح احساس تھا کہ وہ ان ممالک پر خود زیادہ دیر تک مسلط نہیں رہ سکیں گی، اور ایک نہ ایک دن ان ممالک کو آزاد ہی کرنا پڑے گا۔ اس لیے انھوں نے شروع ہی سے اس امر کا پوری طرح اہتمام کیا کہ اگرچہ اُن کے جسم تو بامر مجبوری یہاں سے نکل جائیں، اُن کی روح یہاں سے رخصت نہ ہونے پائے، بلکہ وہ مسلمانوں کے ایک طبقے کے اندر حلول کر کے اسے مغربی قوموں کے مقاصد کی تکمیل کا ایک مؤثر ذریعہ بنا دے۔
چنانچہ ان جارح قوموں نے اپنی ’بد روح‘ کا وارث بنانے کے لیے مسلمانوں کے اندر ایک ایسے طبقے کا انتخاب کیا، جسے وطن، دین، ایمان، اخلاق، الغرض دنیا کی ہرچیز کے مقابلے میں اپنے گھٹیا مادی مفادات عزیز تر تھے۔ اس بے ضمیر طبقے کو اپنا صحیح طور پر جانشین بنانے کے لیے اس کی بڑی تربیت اور سرپرستی کی گئی اور قوم کے اندر اس کے اثرورسوخ کو بڑھانے کے لیے مختلف چالیں چلی گئیں۔
سب سے پہلے اس مراعات یافتہ طبقے کے بلند درجاتی مقام کو تحفظ دینے کے لیے تعلیم و تربیت کے خاص انتظامات کیے گئے، تاکہ مسلم معاشرے اور اُن کے درمیان زیادہ سے زیادہ امتیاز اور بیگانگی پیدا ہو۔ وہ رنگ و نسل کے اعتبار سے مسلم معاشرے سے تعلق رکھنے کے باوجود افکار و نظریات اور احساسات و جذبات کے اعتبار سے غیرملکی ہوں، اور مغربی فرماں روائوں کے رخصت ہوجانے کے بعد وہ انھی جیسے جابرانہ طرزِفکر کے ساتھ مسلمانوں پر اپنی گرفت مضبوط رکھ کر انھیں اُسی طرح ستائیں، جس طرح کہ مغربی قومیں اُنھیں دواڑھائی سو سال سے ستاتی چلی آرہی ہیں۔
تعلیم و تربیت کے ان ابتدائی مراحل سے گزارنے کے بعد اس مخصوص نسل کو مسلم عوام کی گردنوں پر اس طرح مسلط کیا گیا کہ وہ اپنے بھائی بند سے الگ تھلگ رہے اور اپنے آپ کو برتر اور اپنے بھائیوں کو کم تر مخلوق سمجھتے ہوئے اُن سے معاملہ کرے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلم معاشرے کے بطن سے ایک ایسا طبقہ پیدا ہوگیا، جسے مسلم قوم، اُس کے مسائل، اُس کی تہذیب و تمدن، اس کی روایات، اور اُس کی قوت کے اصل محرکات سے قطعاً کوئی تعلق نہ تھا۔
حکمرانوں اور عوام میں کش مکش
یہ طبقہ عام مسلم معاشرے کے احساسات سے یکسر بیگانہ ہی رہا۔ اس کا تعلق خاطر اپنی ملّت سے زیادہ دوسری جارح اور حاکم قوموں سے تھا۔ اس طبقے کو بدیسی حاکموں کے مقاصد ِ حیات، اُن کے افکار و نظریات، اور اُن کے طرزِ زندگی زیادہ عزیز تھے۔ فکرواحساس کے اس غیرفطری نشوونما نے اس طبقے کے اندر بہت سے نفسیاتی عارضے پیدا کر دیے۔ ان بیماریوں میں سب سے بڑی بیماری احساسِ کہتری ہے۔ عام مسلم سوسائٹی چوںکہ انھیں اپنے ہاں عزت و احترام کا کوئی مقام دینے پر آماد ہ نہ تھی اور غیرملکی حکمران ایسے بے ضمیر طالع آزمائوں کو اپنے ناپاک مقاصد کی تکمیل کے سوا اور کسی دوسرے مصرف کے لیے مفید نہ سمجھتے تھے، اس لیے اس طبقے کے اندر بڑی شدت کے ساتھ یہ احساس پیدا ہوا کہ اُسے اگر دنیا میں عزت کے ساتھ رہنا ہے تو اس کے لیے بس ایک ہی راستہ ہے۔ وہ یہ کہ وہ کسی طرح مسند ِاقتدار کے ساتھ چمٹا رہے اور اقتدار کی قوت سے بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہوئے ایک طرف اپنے لیے زیادہ سے زیادہ مادّی منافع حاصل کرے، اور دوسری طرف اپنی قوم کو کچلنے کے لیے ہرممکن تدابیر اختیار کرے، تاکہ پوری قوم مفلوج ہوکر رہ جائے اور کوئی چیز بھی اس کی تکمیلِ ہوس کی راہ میں مزاحم نہ ہوسکے۔
اسی مقصد کے لیے مغربی سامراجی قومیں ان طبقوں کو ہرجائز و ناجائز طریقے سے مسلم ممالک میں مسلّط رکھنے پر مُصر تھیں اور آج بھی اسی نسل پر اعتمار کرتی ہیں۔ جہاں اِن مغربیوں کے قائم مقام حاکموں کے تسلّط پر کوئی سوال پیدا اور تنازع اُٹھ کھڑا ہوتا ہے، وہاں وہ جمہوریت، آزادیِ راے اور انسانی بنیادی حقوق کے سارے مواعظ و نصائح بھول جاتی ہیں، جو ان کے ہاں ’ایمان‘ کی حیثیت رکھتے ہیں، جنھیں اپنے ہاں تسلیم کروانے کے لیے وہ خود ایک طویل اور خونیں کش مکش سے گزر چکی ہیں۔
یہ مغربی اقوام اپنے اپنے ملکوں میں اِن حقوق کی زبردست حامی ہیں، مگر مسلم ممالک میں ان کی ساری ہمدردیاں اِن حقوق کے علَم برداروں کے ساتھ نہیں بلکہ ان حقوق کو پامال کرنے والوں کے ساتھ ہیں۔ ان ملکوں کے لیے وہ جمہوریت کے بجاے آمرانہ راجواڑہ کریسی کو زیادہ موزوں سمجھتی ہیں۔ ان ملکوں کے معاملے میں وہ اکثریت کی حکومت کا اصول ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں، کیوںکہ جمہور کی حکمرانی لامحالہ مسلم قوم کے عزائم، اُمنگوں اور ارادوں کی ترجمان ہوگی۔
اس کے برعکس مغرب زدہ اقلیت کے تسلط کے قیام کے لیے ناپاک کوششیں ہوتی ہیں۔ ذہنی غلامی اور سامراجی چاکری پر خوش رہنے والی اس اقلیت کو آزادیِ راے کا خون کرنے اور عوامی احساسات و جذبات کو کچلنے پر اُکسایا جاتا ہے۔ جو بندگانِ زر اِس کام میں زیادہ جری اور بے باک ہوں اور زیادہ سفاکی کا مظاہرہ کریں، ان کی مدح و ستایش کے قصیدے پڑھے جاتے ہیں۔ مغربی دانش، مغربی قیادت اورمغربی ذرائع ابلاغ ان کی پیٹھ ٹھونکتے ہیں۔ اس کے برعکس قوم کے حقیقی بہی خواہوں اور اس کی اُمنگوں کی ترجمانی کرنے والے مخلص خادموں کو دُنیا میں رُسوا اور بدنام کرنے کے لیے ہرطریقہ اور حربہ استعمال کیا جاتا ہے۔
مغربی قوموں کا یہ طرزِعمل سامراج پرستوں کے لیے بے شمار فوائد کا حامل ثابت ہوا ہے۔ مسلمان حکمرانوں اور عوام کے درمیان، اور پھر گاہے خود ان میں بھی باہم اتحاد کی جگہ زبردست سرپھٹول شروع ہوگئی۔ بھائی نے بھائی کے دُکھ درد میں شریک ہونے اور دست ِ تعاون بڑھانے کے بجاے اس کا گلا کاٹنا شروع کر دیا۔ اس طرح مسلم اقوام کے ذرائع و وسائل تعمیروترقی کی راہ پر صرف ہونے کے بجاے ایک دوسرے کو مٹانے اور برباد کرنے میں صرف ہونے لگے۔
مشرق سے مغرب تک اکثر و بیش تر مسلم ریاستوں کو اس باہمی نزاع نے جو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے وہ بیان سے باہر ہے۔ لاکھوں نہیں اربوں ڈالر، ریال، درہم، دینار، روپے، خود اپنے ہم وطنوں کو دھول چٹانے اور کچلنے میں لگ گئے ہیں اور یہ سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آرہا۔
عرب دُنیا کے معاشی منصوبوں اور قدرتی معدنی وسائل کے بارے میں اتنے بلندبانگ دعوے کیے جاتے تھے،مگر آج صورت یہ ہے کہ اُس کی معیشت بالکل برباد ہوکر رہ گئی ہے۔ اُن کے میزانیے کا ایک بہت بڑا حصہ حکمران طبقوں کی برتری کا نقش دلوں پر بٹھانے اور اُن کی غلط پالیسیوں کو حق بجانب ثابت کرنے اور اُن کی شخصیتوں کو مصنوعی طور پر اُبھارنے میں صرف ہورہا ہے۔
اس کے علاوہ ان حکمرانوں کو اکثر اوقات خود ایسے جھگڑے کھڑے کرنے پڑتے ہیں، جن سے قوم کی توجہ اُن کے اعمال و افعال اور اُن کے غلط طرزِعمل کے خطرناک نتائج سے ہٹ کر بعض دوسرے مسائل میں اُلجھ کر رہ جائے اور حکمران بے خوفی کے ساتھ عوام کو اپنی پالیسیوں کا تختۂ مشق بناتے رہیں۔ ایسی خودشکنی پر مشتمل مہم جوئی نے ’خوب بخت‘ (Prosperous) عرب ممالک کی معیشت کی کمرتوڑ کر رکھ دی ہے اور انھیں مالی اور فوجی لحاظ سے اس قابل نہیں چھوڑا ہے کہ وہ اسرائیل جیسی ناجائز ریاست کی دست درازی کی مزاحمت کرسکیں، بلکہ سات عشرے گزرنے کے بعد یہ حکمران طبقے حیلوں بہانوں سے مسلم اقوام کو مجبور کررہے ہیں کہ غاصب اور جارح اسرائیل کے ناجائز وجود کو تسلیم کرلیا جائے۔ تسلیم و رضاکے اس قمارخانے میں ایک سے بڑھ کر ایک بدمست لپکا چلا آرہا ہے۔ ’کیمپ ڈیوڈ‘ سے شروع ہونے والا اور ’اوسلو‘ کی طرف رواں سفر کہیں تھمتا دکھائی نہیں دیتا۔ اِن حالات میں آئے دن داخلی سازشوں کے جو نت نئے افسانے گھڑے جاتےہیں اور ناکردہ گناہوں کی پاداش میں ہم وطنوں پر ظلم کے جو پہاڑ توڑے جاتے ہیں، اِس کے پیچھے یہ بیمار حاکمانہ ذہنیت کام کررہی ہے،کہ روز ایک نیا ہوّا دکھا کر لوگوں کو ان تباہ کن پالیسیوں کے نتائج سے غافل کیا جائے اور قومی احساسات کے برعکس محض قوت کے بل پر لوگوں کی گردنوں پر مرتے دم تک مسلط رہا جائے۔
اُردو شاعری کے زبانِ زدعام مصرعے ’اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے‘ کو اگر مجسم دیکھنا ہو تو اسے صرف مسلم ممالک کے موجودہ حالات پر ایک نگاہ ڈال کر دیکھا جاسکتا ہے۔ معلوم ہوجائے گا کہ گھر کے چراغوں سے جب متاع زندگی جلتی ہے تو وہ منظر کتنا کرب ناک اور اس کے اثرات کتنے تباہ کن ہوتے ہیں۔ مغربی سامراج نے بڑی چالاکی اور عیاری سے اس امرکا انتظام کر دیا ہے کہ مسلمانوں کو برباد کرنے کے لیے خود انھیں کوئی سامان نہ کرنا پڑے، بلکہ ان کے اپنے ’چراغوں‘ سے یہ کام لیا جائے اور وہ خود اپنے ہاتھوں سے اپنے ہی گھر کو پھونک دینے کا تماشا دُنیا کو دکھائیں۔ آہ! ہم بدھو پن میں انھی چراغوں سے روشنی کی توقع رکھتے ہیں، لیکن یہ مسلمانوں کی شب ِ تاریک کو منور کرنے کی جگہ اُن کی متاعِ حیات کو ہی خاکستر کیے دے رہے ہیں۔
غور کیجیے کہ قدرتِ حق کا کون سا ایسا عطیہ ہے، جو مسلمانوں کے پاس نہیں ہے۔ قدرتی وسائل کے اعتبار سے یہ دُنیا کی قوموں میں ممیز اور ممتاز ہیں۔ تعداد کے لحاظ سے یہ کسی دوسری قوم سے پیچھے نہیں۔ جغرافیائی اعتبار سے سواے بنگلہ دیش، مالدیپ، ملایشیا، برونائی اور انڈونیشیا کے، تمام کے تمام مسلم ممالک آپس میں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ پھر ان کے درمیان ایک ایسا رشتۂ اخوت موجود ہے، جس کی نظیر دُنیا کی دیگر اقوام میں نہیں ملتی۔ اس کے علاوہ یہ اپنا ایک شان دار اور تابناک ماضی رکھتے ہیں۔ ان کی ملّی روایات نے ان کے اندر یگانگت اور یک جہتی کے احساسات پیدا کر رکھے ہیں۔
یہ اپنے سامنے ایک ایسا اُونچا اور مقدس نصب العین رکھتے ہیں، جس کی مقناطیسی کشش نے انھیں ماضی اور حال ہر عہد میں سرگرمِ عمل کیا ہے۔ جب بھی انھوں نے اس پاکیزہ مقصد کے حصول کے لیے کوئی کوشش کی تو اس کے حیرت انگیز نتائج ظاہر ہوئے۔ انتشار کی جگہ اتحاد و اتفاق نے لے لی۔ ملّت کے مضمحل اعضا میں آناً فاناً زندگی بخشنے والا لہو دوڑنے لگا۔ قوم کی خفتہ صلاحیتیں فوراً بیدار ہوئیں اور اس ملّت نے اس مقصد کی خاطر ایسے کارہاے نمایاں سرانجام دیے، جس پر پوری دُنیا حیران رہ گئی۔ یوں معلوم ہوتا کہ اسلام نے پارس کی طرح اس مسِ خاک کو کندن بناکر رکھ دیا۔
سوال یہ ہے کہ آخر یہ اُمت اس انقلاب انگیز نصب العین کو کیوں نہیں اپناتی؟ اس کے متعدد اسباب ہیں، لیکن اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ مغرب کی غلامی نے ہمارے اندر ایک ایسے طبقے کو بااختیار بنادیا ہے، جو پولیس، خفیہ ایجنسیوں اور ذرائع ابلاغ، عسکری مراکز کی مدد سے مسلم عوام کی راے عامہ کو اُبھرنے نہیں دیتا۔ وہ ابھی تک اُسے کسی ایسی قیادت سے محروم رکھنے میں کامیاب ہے، جو اس کی دلی تمنائوں اور آرزوئوں کی ترجمان ہو۔ اسی بنا پر ہمارے ہاں کش مکش اور اضطراب ہے، مختلف طبقوں کے درمیان منافرت اور کشیدگی ہے، اور اسی بنا پر ہماری قومی صلاحیتیں تعمیروترقی کی راہ پر لگنے کے بجاے، باہمی آویزش میں صرف ہورہی ہیں۔ یہ قوم قدرت کی طرف سے بانجھ بناکر نہیں بھیجی گئی، بلکہ اس کی اس سرپھٹول نے اسے تخلیقی قوت سے محروم کرکے رکھ دیا ہے۔
اس احساسِ زیاں کو بیدار کرنا اور اس صدمے سے نکلنے کی اُمنگ پیدا کرنا، پہلا قدم ہے۔ اگرسستی نعرے بازی کی فصل کو آگ لگا کر، مسئلے کی حقیقی جڑوں کو تلاش کرنے کی کوشش کی جائے، تو بہت تیزی سے زندگی میں روح پھونکی جاسکتی ہے۔ ان کانٹوں کو پہچاننے اور جھاڑ جھنکار سے نجات پانے کے لیے قرآن و سنت قدم قدم پر ہماری دست گیری کرتے ہیں، لیکن افسوس کہ قرآن و سنت کو محض مقدس علامت سے زیادہ کچھ اہمیت نہیں دی جاتی، اور نہ اسلام کی مطلوب اُمت بنانے اور مطلوب شخصیت تعمیر کرنے کی فکر ہی کی جاتی ہے!
دَربرگِ لالہ وگُل، [کلامِ اقبال میں مطالعۂ نباتات]دوم، ڈاکٹر افضل رضوی۔ ناشر: بقائی یونی ورسٹی پریس، سپر ہائی وے، کراچی۔ فون:۳۴۴۱۰۲۹۳-۰۲۱۔ صفحات: ۳۴۹۔ قیمت (مجلد ): ۹۵۰ روپے ۔
اقبالیات کے ایک نادر موضوع پر زیرنظر کتاب کی پہلی جلد دسمبر ۲۰۱۶ء میں شائع ہوئی تھی، اور اب اس کی دوسری جلد سامنے آئی ہے۔ پہلی جلد میں ۱۸نباتات کا ذکر تھا اور دوسری جلد میں ۲۴نباتات کا تذکرہ ہے۔ مصنف تیسری جلد پر بھی کام کر رہے ہیں۔
جیساکہ ہم نے جلداوّل پر تبصرے (ترجمان: اگست ۲۰۱۷ء) میں بتایا تھا: ’’مصنف بنیادی طور پر نباتیاتی سائنس دان ہیں اور آج کل آسٹریلیا کے محکمۂ تعلیم میں خدمات انجام دے رہے ہیں‘‘۔ وہ کہتے ہیں کہ اقبال نے شاعری کو احیاے ملّت کے ابلاغ کا ذریعہ بنایا۔ قوم کو اُمیدوارتقا کا پیغام دیا اور جہد ِ مسلسل کی ترغیب دلائی۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے عناصرِ فطرت اور برسرِزمین اور زیرِزمین جمادات کے ذکر سے بھی کام لیا۔
زیرنظر جلد کا آغاز ’پھول‘ سے ہوتا ہے اور پھر اسی تسلسل میں: تاک، جھاڑی، چوب، حنظل، حشیش، حنا، خیابان، ریاض، غنچہ، فصل، کلی، گلاب، گلستان،گلزار، مرغزار، نیستان اور نخل وغیرہ کو موضوعِ بحث بنایا گیا ہے۔افضل رضوی صاحب کا مطالعہ عمیق اور فکر راست ہے۔ ان کی یہ کتاب ایک اعتبار سے اقبال کے فارسی اور اُردو کلام کی نہایت عمدہ شرح بھی ہے۔ اس کتاب کے ایک تقریظ نگار ڈاکٹر عابد خورشید کی نظر میں: ’’یہ غیرمعمولی کارنامہ ہے، جسے افضل رضوی نے بخوبی انجام دیا ہے‘‘۔(رفیع الدین ہاشمی)
سفینۂ حجاج کے دو مسافر، میاں محمد اسلم۔ ناشر: جمال الدین سنز اینڈ کمپنی، ۴۴-عمرمارکیٹ، لنک ریلوے روڈ،لاہور۔ فون: ۳۷۶۵۷۲۵۲-۰۴۲۔ صفحات:۳۵۵ ۔ قیمت(مجلد): ۷۰۰ روپے
سفرِ حج بیت اللہ ، سفرِ شوق ہے اور سفرِسعادت بھی جس کے لیے ہزاروں برسوں سے پروانے لپک لپک کر خانہ کعبہ حاضری کے لیے رواں دواں رہتے ہیں۔
ماضی میں سب سے بڑا اور مشکل مرحلہ خود مکہ مکرمہ پہنچنا تھا اور اس مقصد کے لیے زائرین چھے چھے مہینے پیدل یا قدیمی روایتی سواریوں پر روانہ ہوتے، اور پھر اسی طرح واپس آتے تھے، یا پھر بحری جہازوں کے ذریعے سفر کرتے تھے۔آج حجاج ہوائی جہازوں میں اُڑان بھرتے اور چند گھنٹوں میں جدہ یا مدینہ منورہ پہنچتے اور سُرعت سے فریضۂ حج ادا کرکے دنوں میں واپس آجاتے ہیں۔
زیرنظر کتاب ۵۵برس پہلے، حج کے ایک سفر کی رُوداد ہے، جب حاجی بحری جہاز سے جدہ جایا کرتے تھے۔ میاں محمداسلم ایڈووکیٹ نے ۱۹۶۸ء میں حج کی سعادت حاصل کی۔ مصنف نے سفر کے دوران مختلف کیفیات اور دل چسپ معلومات کے ساتھ یہ بھی بتایا ہے کہ ۵۵برس پہلے حرمِ کعبہ کے نواح میں کس طرح کا ماحول تھا اور اُس مشکل دور میں حجاج کی مصروفیات و مشکلات کیا ہوتی تھیں۔ اس رُوداد میں ایمان کی حلاوت ہرصفحے پر ثبت نظر آتی ہے۔ یاد رہے فاضل مصنف اس سے پہلے طفیل قبیلہ لکھ چکے ہیں، جو جماعت اسلامی پاکستان کے دوسرے امیر [۱۹۷۲ء- ۱۹۸۷ء] محترم میاں طفیل محمدؒ کے بارے میں ہے۔ (س م خ)
اسلام کا خاندانی نظام، ایک تقابلی مطالعہ، زہرہ جبین۔ ناشر: مکان نمبر۴، گلی نمبر۹، بلال ٹائون، ایبٹ آباد۔ فون: ۰۹۵۳۸۸۹-۰۳۳۵۔ صفحات:۲۲۲۔ قیمت: درج نہیں۔
مصنفہ قانون کی استاد ہیں۔ انھوں نے پاکستان میں عائلی نظام سے متعلقہ قوانین کا تفصیلی جائزہ پیش کیا ہے۔ فقہ، قانون اور سماجیات کے مطالعے کی بنیاد پر رہنمائی دی ہے کہ اسلام کس طرح کا خانگی نظام قائم کرتا ہے؟ اس میں کن راہوں سے رخنہ اندازی پیدا ہوتی ہے؟ پھر ہمارا قانون کس انداز سے معاملات کو سلجھانے کی کوشش کرتا ہے۔
یہ درحقیقت خواتین کے لیے مددگار کتاب کا درجہ رکھتی ہے، جو یہ معلوم کرسکتی ہیں کہ دیگر تہذیبوں میں خواتین کس انداز سے زندگی گزار رہی ہیں اور ایک مسلمان خاتون کو زندگی کن راہوں پر چلتے ہوئے گزارنی چاہیے؟(س م خ)
مریم جمیلہ، نقاد تہذیب مغرب ، روبینہ مجید۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور۔ فون: ۳۵۲۵۲۴۷۶-۰۴۲۔ صفحات: ۲۵۶۔ قیمت (مجلد): ۲۶۵ روپے۔
مریم جمیلہ (سابقہ مارگریٹ مارکوس: ۲۲ مئی ۱۹۳۴ء ، ریاست نیویارک۔ ۳۱/اکتوبر ۲۰۱۲ء، لاہور) ایک خوش نصیب روح تھیں، جنھیں اللہ تعالیٰ نے توفیق بخشی کہ وہ یہودیت ترک کرکے ۲۴مئی ۱۹۶۱ء کو دائرۂ اسلام میں داخل ہوئیں۔ ۲۶برس کی عمر میں ۲۴جون ۱۹۶۲ء کو اپنا وطن امریکا چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے پاکستان آگئیں۔ یہاں ۸؍اگست ۱۹۶۳ء کو مولانا مودودی کے رفیق محمدیوسف خان صاحب سے ان کی شادی ہوئی، جو پہلے سے شادی شدہ اور صاحب ِ اولاد تھے۔
محترمہ مریم جمیلہ کی نجی اور علمی زندگی، اسلام سے وابستگی اور اسلام کے لیے زندگی گزارنے کی اُمنگ وہ پہلو ہیں کہ انھیں جتنا جاننا، سمجھنا اور پڑھنا شروع کر یں، اسی قدر ان کی قدرومنزلت بڑھتی اور اپنے دائرۂ اثر میں لیتی جاتی ہے۔ انھوں نے مغرب میں پروان چڑھ کر مغربی تہذیب کی انسانیت کش بنیادوں اور مادی تہذیب کی سفاکیوں کو جس گہری نظر سے دیکھا اور پھر آزادانہ فیصلے سے اسے مسترد کیا، وہ سب ایک روحانی، تہذیبی اور علمی سفر کا دبستان ہے۔
مصنفہ نے بڑی خوبی سے محترمہ مریم جمیلہ کی زندگی کے ان پہلوئوں پر تحقیق اور تجزیات پر مبنی مقالات مرتب کیے ہیں۔ ان میں مرکزی مضامین ’اسلام اور مغربی تہذیب و تمدن‘ اور ’مریم جمیلہ بحیثیت نقاد تہذیب ِ مغرب‘ ہیں۔کتاب میں تقریباً تمام ضروری معلومات ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ کتاب پڑھتے ہوئے قاری اس شرمندگی اور کم مائیگی کے احساس کی گرفت محسوس کرتا ہے ع ’پیش کر غافل، عمل کوئی اگر دفتر میں ہے‘ ۔ ہم نے مسلم گھرانوں میں پیدا ہوکر وہ کچھ نہ سیکھا اور وہ کچھ نہ کرسکے، جو ہزاروں کلومیٹر دُور سے ہجرت کر کے آنے والی قابلِ رشک خاتون نے کردکھایا۔ (س م خ)
اقبال کا ایوانِ دل، محمد الیاس کھوکھر۔ ناشر: نگارشات، ۲۴ مزنگ روڈ، لاہور۔ فون: ۹۴۱۴۴۴۲-۰۳۲۱۔ صفحات:۵۴۴۔ قیمت: ۱۰۰۰ روپے۔
اقبال سوتے ہوئوں کو جگانے اور عمل پر اُبھارنے والی شخصیت ہیں۔ انھوں نے اپنے پیغام کو قرآن، سیرتِ نبویؐ اور تاریخِ اسلام کے گہرے مطالعے کے علاوہ عصرِحاضر کے مشاہدے سے اخذ کیا اور بستی بستی اس کو پھیلایا۔ کتنے بدقسمت ہیں وہ لوگ جنھوں نے اس حیات بخش پیغام کو محض مغنیوں کی آوا ز سے سنا، چند نظموں اور کچھ اشعار کو زمانۂ طالب علمی میں درسی جبر کے ساتھ ہی پڑھا، مگر اس مطالعے اور سماعت نے ان کی زندگی اور زندگی کے چلن پر کچھ اثر نہ ڈالا۔
مصنف نے بجاطور پر کلامِ اقبال اور حیاتِ اقبال میں خاص کشش محسوس کی ہے۔ پھر اپنے دل پر گزرنے والی اس فکری اور روحانی واردات کو ۱۸ مضامین کی شکل میں مرتب کرکے، قوم کو متوجہ کیا ہے۔ یہ مضامین گہرے مطالعے، فہم اقبال کی وسعت، اور بے پایاں لگن کے مظہر ہیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ یہ کتاب کسی محکمانہ ترقی کی ضرورت کے تحت نہیں لکھی گئی بلکہ تعلیم و تربیت کی غرض سے تحریر کی گئی ہے۔ زبان سادہ اور عام فہم ہے۔(س م خ)
خدمات علماءِ سندھ اور جمعیت العلما، مولانا محمد رمضان پھلپوٹو۔ ناشر: جمعیت علماءِ اسلام، کریم پاک ، راوی روڈ، لاہور۔ صفحات:۴۴۸۔ قیمت: ۴۵۰ روپے۔
علماے کرام نے دعوتِ دین کے چراغ روشن کرنے کے لیے، بے پناہ ایثار اور یکسوئی کے ساتھ پوری پوری زندگیاں اللہ کی راہ میں لگادی ہیں۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں، وہ عقائد کی دنیا ہو یا عمل کا میدان، افراط و تفریط کا مشاہدہ قدم قدم پر دکھائی دیتا ہے۔ کہیں عصبیت اور کہیں غلو۔ یہ کتاب ان دونوں پہلوئوں پر بحث کرتی ہے۔
زیرنظر کتاب میں فاضل مرتب نے خدماتِ علما کا ریکارڈ مرتب کیا ہے: خطۂ سندھ میں جمعیت علماے اسلام اور دارالعلوم دیوبند کی دینی، تعلیمی اور تربیتی روایت نے کون کون سے کارہاے نمایاں انجام دیے؟ ایک جگہ فرمایا ہے کہ ’’جمعیت علماے اسلام کو چھوڑ کر کسی دوسری سیاسی یا مذہبی جماعت میں شامل ہونے کو مَیں سیاسی کفر سمجھتا ہوں،کیونکہ موجودہ دور میں جمعیت، قرآن و سنت میں بیان کردہ الجماعۃ کی مصداق ہے‘‘(ص ۲۴۹)۔ بڑے احترام سے عرض ہے کہ اس عقیدے پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ ہماری دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ دینی تعلیم و تربیت کے لیے علماے کرام کی کاوشوں کو برگ و بار اور وسعت عطا فرمائے۔ مجموعی طور پر یہ کتاب معلومات افزا ہے۔ (س م خ)
ستمبر کے شمارے میں کشمیر پر برہمنی مظالم کی مناسبت سے بہت قیمتی تحریریں مطالعے کے لیے ملیں۔ سچی بات ہے کہ اس مرحلے پر سیّد علی گیلانی صاحب کی تحریر اور پکار کو ’اشارات‘ میں پیش کرکے، آپ نے کشمیری بھائیوں سے یک جہتی اور مسئلے کی مرکزیت کو نمایاں کرنے میں ایک شان دار مثال قائم کی ہے۔ مولانا مودودی مرحوم نے ’ جنگ ِ ستمبر‘ کے حوالے سے ۵۵برس پہلے جو باتیں کی تھیں، وہ آج حرف بہ حرف توجہ اور ترجیح کے لائق ہیں۔ افتخار گیلانی تو کشمیر کی جدوجہد پر انسائیکلوپیڈیا کی سی حیثیت رکھتے ہیں اور ہر شمارہ ان کے ذریعے ہمیں کشمیر اور بھارت لے جاتا ہے۔ پروفیسر فتح محمد ملک صاحب کی ایمان افروز تحریر اور پطرس بخاری مرحوم کے احساس ذمہ داری اور کشمیر سے وابستگی نے معلومات میں بے پناہ اضافہ کیا۔ پروفیسر ڈاکٹر صفدر محمود صاحب، قومی پریس میں غالباً واحد دانش ور ہیں جو سیکولر لہر کا مدلل انداز سے مقابلہ کر رہے ہیں اور جواب دے رہے ہیں۔
تازہ شمارے میں ایچ عبدالرقیب صاحب نے زکوٰۃ کی عالمی سطح پر قدر و منزلت ، قبولیت اور معنویت کا نقشہ پیش فرمایا ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر محمد واسع ظفر صاحب نے ایک دینی اور عملی مضمون کو مکمل کر کے کاروبار میں اسلام کی رہنمائی سے آگاہ کیا ہے۔ ڈاکٹر حسن مدنی صاحب نے دینی مدارس پر ریاستی شب خون مارنے کی حرکت کو بے نقاب کیا ہے اور مراد علوی صاحب نے تجدد پسند گروہ کو آئینہ دکھایا ہے۔ یہ سب تحریریں علم میں اضافے کا باعث ہیں۔
محترم مفتی منیب الرحمٰن صاحب کے مضمون: ’’کیا حفظ ِ قرآن ایک ’بدعت‘ ہے؟‘‘ (ستمبر۲۰۱۹ء) پڑھا۔ اسلام کے دورِ اوّل اور بہت بعد تک یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا کہ کوئی بغیرسمجھے بھی قرآنِ مجیدکو پڑھے گا۔ حیرت اس بات پر ہے کہ خود ہمارے یہاں عربی مدارس میں بھی طلبہ کی بڑی تعداد کو عربی نہیں پڑھائی جاتی۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ ابتدائی جماعتوں میں عربی پڑھائی جاتی اور پھر حفظ ِ قرآن اور باقی علوم اسلامیہ کی تعلیم دی جاتی؟ تلاوتِ قرآن کا مطلب معانی سمجھے بغیر تلاوت کیسے ہوسکتا ہے؟ قرآن کے ابتدائی قاری تو وہ تھے، جنھیں عربی زبان آتی تھی۔ قرآن کا اصل مقصد اُس کے الفاظ کے معانی سمجھنا ہے۔ ہرمسلمان پر لازم ہے کہ وہ قرآن کا مفہوم (سیدھاسادہ مفہوم) سمجھے۔ [مفتی صاحب نے کہیں یہ نہیں کہا کہ قرآن فہمی کی ضرورت نہیں اور نہ ہم کہتے ہیں کہ محض تلاوت مقصود و مطلوب ہے۔ قرآن کریم کا یاد ہونا اور پھر ایک قدم آگے بڑھ کر اس کا فہم اور تفقہ فی الدین ہونا اور اس پر عمل کرنا ہی مطلوب ہے۔ مگر حفظ کو ’بدعت‘ قرار دینا نامناسب بیان ہے۔ ادارہ]
شمارہ اگست ۲۰۱۹ء میں مقالہ بعنوان ’تحفظ حقوق ماوراے صنف قانون‘ از محترم مفتی منیب الرحمٰن صاحب میں مفتی صاحب نے صنفی لحاظ سے متنوع اقسام کے بارے تحقیق کرکے پاکستان کی پارلیمان کے منظور کردہ قانون کا محاکمہ کیا ہے۔ ان کی دو باتوں سے کُلی اتفاق ہے: اوّل، یہ کہ منظور کردہ قانون میں ماوراے صنف افرادکے لیے سہولتوں، فوائد، استحقاق یا مواقع کے ضمن میں متضاد سہولتوں کی منظوری دی گئی ہے۔ ایک جگہ ان کو ان کی متعین شدہ جنس کے مطابق سہولتوں کا حق دار قرار دیا گیا ہے۔ گویا نارمل افراد کی متعلقہ جنس کے مطابق یا مساوی۔ دوسری جگہ ان کے لیے الگ جیل خانے یا حفاظتی حراستی مراکز بنانے کو کہا گیا ہے۔ لہٰذا، اس تضاد کو دُور کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسرا یہ کہ وراثت کے معاملے میں منظورکردہ قانون میں ان افراد کے حصے کے لیے ۱۸سال سے پہلے اور ۱۸سال کی عمر کے بعد میں فرق رکھا گیا ہے، جو قرآن و سنت کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ مفتی صاحب کی دلیل کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے (اگرچہ اس کا انھوں نے ذکر نہیں کیا ہے) کہ پارلیمان اس قانون میں ضروری ترمیمات کروا کر اسے اسلامی تعلیمات کی روح کے مطابق ڈھالے۔
مفتی صاحب نے مضمون میں جس ’فتوے‘ کو رد کیا ہے، میری راے میں یہ فتویٰ بنیادی طور پرشریعت کے تقاضوں کے خلاف نہیں ہے۔ البتہ، اس کی زبان و بیان میں اصلاح کی ضرورت ہے۔ دوم، نفسیاتی اصطلاح Gender Dysphoria کا ترجمہ ’صنفی احساسِ ملامت‘ کے بجاے ’صنفی احساسِ عدم اطمینان یا احساسِ ناگواری‘ زیادہ مناسب ہے۔
مفتی سیّد عدنان کاکاخیل صاحب نے اپنے قابلِ قدر مضمون: ’چائلڈ میرج بل، مسئلہ یا مغالطہ!‘ (جون ۲۰۱۹ء) میں بہت مفید باتیں بیان کی ہیں۔ البتہ، بعض پہلو توجہ طلب ہیں، مثلاً قرآنِ کریم میاں بیوی کے رشتے کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے بتاتا ہے: رفاقت، مؤدت، رحمت اور سکینت وغیرہ ، جو کہ بالغ افراد ہی کے درمیان ممکن ہے، نابالغ کے درمیان نہیں۔اسی شمارے میں ڈاکٹر نازنین سعادت نے بصیرت افروز مضمون: ’شادی سے قبل رہنمائی اور مشاورت‘ میں لکھا ہے: ’’اسلام نے شادی میں لڑکے اور لڑکی کی راے کو بہت اہمیت دی ہے کہ ایجاب و قبول انھی میں ہوتا ہے‘‘۔ ظاہر ہے کہ ایجاب و قبول بالغ افراد کے درمیان ہی ممکن ہے۔ اس لیے نابالغ بچی کی شادی کے مسئلے اور پاکستان کے قوانین پر علمی بحث اور عملی تجاویز کو پیش کیا جانا چاہیے۔
آسان بیان القرآن مع تفسیر عثمانی، مؤلفین: مولانا محمد حسن، مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا شبیر احمد عثمانی [مرتبہ: عمرانور بدخشانی]۔جامعہ علومِ اسلامیہ، علامہ بنوری ٹائون، کراچی۔ فون: ۳۹۰۰۴۴۱-۰۳۳۳۔ جلداوّل، سورۃ الفاتحہ تا توبہ، صفحات:۱۱۲۸؛ جلد دوم، سورئہ یونس تا القصص، صفحات: ۹۸۰؛جلد سوم،سورۃ العنکبوت تا الناس، صفحات: ۱۰۶۴۔سائز مجلاتی۔ قیمت: درج نہیں۔
بیسویں صدی کے دوران قرآنی علوم میں ایک سے بڑھ کر ایک تفسیری خزانہ، اہلِ حق کے لیے معرضِ وجود میں آیا۔ اس ضمن میں اُردو کا دامن غالباً دوسری تمام زبانوں سے زیادہ مالا مال ہوا۔ ’’تفسیر بیان القرآن مولانااشرف علی تھانویؒ کی قرآنی فکر کا شاہ کار ہے، جو ۱۳۲۵ھ میں شائع ہوئی، جب کہ ۱۳۳۶ھ مولانا محمودحسنؒ نے موضح فرقان کے نام سے کام مکمل کیا، اور اس ضمن میں کام کی تکمیل مولانا شبیراحمد عثمانی ؒنے ۱۳۵۰ھ میں کی‘‘۔ (ص۵)
زیرنظر مجموعہ تفاسیر کی امتیازی خصوصیات یہ ہیں:’’lقرآنی آیات کا ترجمہ مولانا محمودحسنؒ کا ہے lترجمے کے بعد تفسیر مولانا اشرف علی تھانویؒ کی ہے lتفسیری فوائد مولانا شبیراحمد عثمانی ؒکے تحریر کردہ ہیں‘‘۔ (ص۷، ۸)
استادِ گرامی عمر انور بدخشانی نے سالہا سال کی محنت سے مذکورہ بالا مستند تفسیری سرچشموں کو، نہایت سلیقے، حد درجہ خوب صورتی اور عالمانہ شان کے ساتھ مرتب کرکے، دین کی قابلِ قدر خدمت انجام دی ہے۔ امرواقعہ ہے کہ اساتذہ اور طلبہ، یہ خبر پانے کے بعد اس تفسیر سے بے نیاز نہیں رہ سکتے۔ بیش قیمت کریم رنگ میں کاغذ اور دو رنگوں میں طباعت، فکر اور نظر کو سکون اور شوقِ مطالعہ کو فراوانی عطا کرتی ہیں۔ (س م خ)
بز مِ خردمنداں ، از محمد اسحاق بھٹی۔ ناشر : محمد اسحاق بھٹی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ۔ ۲۰۵۱۳-جناح سٹریٹ، اسلامیہ کالونی ، ساندہ، لاہور۔ فون: ۴۷۶۸۹۱۸-۰۳۰۱۔ صفحات: ۳۱۲مجلد۔ قیمت: درج نہیں۔
اللہ تعالیٰ کا یہ نظام خاص ہے کہ اُس کی ذاتِ واحد کے علاوہ سب فانی ہے۔ انسان اس کائنات کی سب سے قیمتی مخلوق ہے۔پھر ان میں جنھوں نے تقویٰ کی زندگی گزاری یا انسانی خدمت اور علم و فضل کے باب میں اضافے کا ذریعہ بنے، ان کی اپنی ہی قدرومنزلت ہے۔
محمد اسحاق بھٹی ایک عالم اور محقق تھے، خوش گوار انسان اور خوش رنگ نثرنگار تھے۔ انھوں نے تحقیق و تالیف کی منزلیں سر کرنے کے علاوہ اپنی طویل زندگی بہت سے قیمتی لوگوں کے ساتھ گزاری۔ یہ کتاب ایسے ہی ممتاز لوگوں کے ساتھ اُن کے شخصی ربط اور یادوں پر مبنی مضامین پہ مشتمل ہے۔ علم کی دنیا سے تعلق رکھنے والے جن متعدد رجالِ کار کے بارے میں لوگ جاننا چاہتے ہیں، ان میں سے چند خوش خصال نام اس کتاب میں شامل ہیں، جیسے: شیخ محمد اکرام، پروفیسرحمید احمد خان، پروفیسر محمد سعید شیخ، مولانا امتیاز علی عرشی، یوسف سلیم چشتی، سراج منیر، مولانا عبدالستار خان نیازی، عبدالجبار شاکر، علیم ناصری وغیرہ کے علاوہ پندرہ مزید حضراتِ گرامی بھی۔
بھٹی صاحب نے شخصی معلومات کے علاوہ ، دل چسپ واقعات اور گہرے مشاہدات کو ان یادداشتوں کا حصہ بنایا ہے، جن میں سبق بھی ہے اور جذبہ بھی۔(س م خ)
ترجمان کے شماروں (جولائی، اگست) میں مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی کا مضمون: ’قرآن، سنت اور قربانی‘ اپنے دلائل، اسلوب اور توجہ دلانے کے حوالے سے نہایت قیمتی تحفہ ہے۔ مجھے احساس ہوتا ہے کہ اتنی قیمتی تحریریں عام لوگوں کی پہنچ میں کیوں نہیں آتیں،جو بہت بڑا ملّی نقصان ہے۔
اگست کے شمارے میں محترم میاں طفیل محمد صاحب اور جناب سیّد منور حسن کی مختصر تقریروں یا تحریروں میں مجھے جماعت اسلامی کے پیغام کو سمجھنے اور اس پر غور کرنے کی جو سہولت اور مدد ملی، اس کے لیے ان بزرگواروں کے لیے دُعائوں کے ساتھ ترجمان کی شکرگزار ہوں۔
الحمدللہ، ترجمان القرآن اُمت مسلمہ کا ترجمان ہے اور اصلاحِ معاشرہ کا نقیب بھی۔ اگست کا شمارہ قیمتی تحریروں سے مزین ہے۔ ڈاکٹر انیس احمد نے اُمت کے مسائل اور حل کی طرف عمدگی سے توجہ دلائی ہے۔ یہ مضمون توجہ سے پڑھنا اور سمجھنا اور اجتماعات میں زیربحث لانا چاہیے اور عام لوگوں تک پہنچانا چاہیے، بالخصوص توحید باری تعالیٰ کا یہ جامع تصور عام کرنا، بہت بڑی نیکی اور اصل دعوت الی اللہ ہے۔
سیّد علی گیلانی صاحب نے اپنے خط میں درحقیقت ہرمسلمان بچّے اور بچی کو مخاطب کیا ہے۔ کاش! کوئی صاحب ِ خیر اس خط کو دیدہ زیب طریقے سے چھاپ کر پاکستان کے لاکھوں طالب علموں میں پھیلائے۔
تازہ شمارے میں محترم مفتی منیب الرحمٰن صاحب کے تحقیقی مضمون نے احساس دلایا کہ آزاد خیال لوگ تو اپنے کام میں مگن ہیں، لیکن تعمیری قوتیں اپنے محاذ پر لاتعلقی اور بے عملی کی شکار ہیں۔
محترم ڈاکٹر ظفرالاسلام اصلاحی نے، قرآن میں ہرشخص کو اس کا تذکرہ پڑھاکر، قرآن سے ہمارے تعلق کو تازہ اور مضبوط کیا ہے۔ اتنا جامع مضمون ایک محقق ہی پیش کرسکتا ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر محمدواسع ظفر نے تجارت میں اسلام کی رہنمائی پیش کر کے، ہر تاجر اور دکان دار کو اسلامی زندگی گزارنے کا ڈھنگ سکھایا ہے۔
محترم ظہور احمد نیازی نے ’پاکستان: ماضی اور حال___ ایک تاثر‘ میں قوم کی اخلاقی حالت پر آنکھیں کھول دینے والے تلخ حقائق بیان کیے، اور بجا طور پر اس اخلاقی زوال کی ذمہ داری قوم پر ڈالی ہے۔ حلال رزق کمانے اور کھانے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ اس کی بڑی وجہ دین اور دنیا کی تقسیم ہے۔ لوگ نماز، روزہ، حج وغیرہ کی ادایگی کے بعد زندگی کے معاملات میں اپنے آپ کو آزاد سمجھتے ہیں۔
جناب ظہور نیازی (اگست ۲۰۱۹ء) بجا طور پر وطن کے حال پر دل گرفتہ ہیں، لیکن وہ اپنی نئی جاے سکونت، یعنی مغرب کی تحسین میں کچھ زیادہ ہی بڑھ گئے ہیں، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مغربی اقوام صرف اپنے مفادات کی اسیر ہیں۔ یہ جب دوسری اقوام پر حکمران تھیں تو براہِ راست ظلم کرتی تھیں، اور اب بالواسطہ ظلم کرتی ہیں اور ظالم کا دست و بازو بھی ہیں۔ کشمیر و فلسطین کے مجرموں کو اپنے ہاں پناہ دینے سے متعلق ان کی پالیسیاں، فوجی حکومتوں کی حمایت، آمریت و کرپٹ سیاست دانوں کی سرپرستی اس کی واضح مثالیں ہیں۔
’تکفیر کے شرعی اصولوں پر نظر‘ از ڈاکٹر عصمت اللہ (ماہ جون و جولائی ۲۰۱۹ء )قرآن و سنت کے نصوص و دلائل پر مشتمل بڑی اہم تحریر ہے۔ کسی کے بارے میں لب کشائی سے قبل کاش! ان اصولوں پر کوئی نظر رکھے۔حُب ِ رسولؐ و صحابہ کرامؓ کی آڑ میں بلاشرعی ضابطہ و تحقیق اپنی زبان قینچی کی طرح چلانے والے کل بروزِ قیامت اللہ تعالیٰ کو کیا جواب دیں گے؟ زبان کی آفت تو تمام آفات سے بڑھ کرشدید ہے، جو لوگوں کے درمیان نفرتوں کو ہوا دیتی ہے اور معاشرے کے اندر بگاڑ و فساد کا سبب بنتی ہے۔
سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اولین کتاب: مغازیِ رسولؐ اللّٰہ ہے جسے حضرت عروہ بن زبیرؓ (م:۹۴ھ) نے لکھا۔ سیرتِ نبویؐ کا ذخیرہ آج دنیا میں کم و بیش ۱۰۰ زبانوں میں ہزاروں کتب و تراجم کی شکل میں دستیاب ہے۔ اُردو زبان میں ذخیرۂ سیرت ۳ہزار سے متجاوز نظم ونثر کی چھوٹی بڑی مطبوعات کی صورت میں موجود ہے۔ یہ سلسلہ مزید آگے بڑھتا نظر آرہا ہے اور حکومت پاکستان کی سرپرستی میں سیرتِ رسولؐ پر کتب پر سیرت اوارڈ سے بھی اس کی مزید حوصلہ افزائی ہورہی ہے۔ پھر مستشرقین نے نبی اکرمؐ کی سیرتِ مبارکہ پر اعتراضات اُٹھائے تو اس کے رد میں کتب سیرت کا ایک سلسلہ موجود ہے۔ اسی طرح بعض غیرمسلموں نے بھی نبی اکرمؐ کی شان میں کتب لکھی ہیں جو اپنی جگہ لائق مطالعہ ہیں۔ غرض سیرتِ رسولؐ کے ذخیرے پر نگاہ ڈالی جائے تو ایک عظیم الشان ذخیرہ ہے جو اہلِ ایمان کا علمی ورثہ ہے اور اسے نئی نسلوں تک سیرتِ رسولؐ کے شایانِ شان اور عصرِحاضر کے جدید تقاضوں کے پیش نظر منتقل کرنے کی ضرورت ہے۔ نیز یہ میدان اہلِ علم و تحقیق کو غوروفکر کی دعوت بھی دے رہا ہے۔
ذخیرۂ سیرتِ نبویؐ کو محفوظ کرنے اور نئی نسل تک جدید تقاضوں کے پیش نظر منتقل کرنے کی ضرورت کو محسو س کرتے ہوئے ادارہ نشریات نے کتب ِ سیرت کی اشاعت کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ حیات سرورِ کائناتؐجو ماضی قریب میں علمی وادبی حلقے کے ایک معروف نام مُلّا واحدی دہلوی کے قلم سے سامنے آئی، کی اشاعت ِ نو اسی غرض سے کی گئی ہے۔
کتاب کی علمی حیثیت اور مقام کے بارے میں پروفیسر عبدالجبار شاکر مرحوم تقریظ میں لکھتے ہیں:’’سیرت النبیؐ کے موضوع پر اُردو میں ہزاروں چھوٹی بڑی کتابیں اور رسائل لکھے گئے ہیں مگر مُلّاواحدی کی کتاب حیاتِ سرورِکائناتؐ اس تمام پاکیزہ ذخیرے میں اپنے مضامین، اسلوب، حسنِ ترتیب، زبان و بیان اور طرزِانشاء کے لحاظ سے یگانہ و ممتاز ہے۔ ہرچند اس تصنیف میں سیرت النبیؐ از شبلی نعمانی، سید سلیمان ندوی، رحمۃ للعالمینؐ از قاضی محمد سلیمان، سلمان منصور پوری اور سیدابوالاعلیٰ مودودی، نیز مولانا سعید احمد اکبرآبادی کی متعدد تحریروں سے بھرپور استفادہ کیا ہے۔ اس طرح جو تصویر سامنے آئی ہے وہ نہ صرف نبی اکرمؐ کی حیاتِ طیبہ کے سوانحی پہلو کی کامل تصویر پیش کرتی ہے بلکہ اس میں کارنامۂ نبوت کی تمام تر تفصیلات، اسوئہ حسنہ کی پاکیزگی اور تابندگی، معمولاتِ نبویؐ کی جزئیات اور دین و شریعت کی تمام تر تعلیمات کا عکس بھی دکھا دیا گیا ہے....مصنف نے کہیں کہیں مغربی دانش وروں کے ایسے اقوال اور تحریریں بھی درج کی ہیں جن سے عظمت ِ مصطفویؐ اور اعترافِ رسالت کے پہلو نمایاں ہوتے ہیں۔ یہ کتاب سیرت، نبوت و رسالت کی رواں تفسیر دکھائی دیتی ہے‘‘۔ (ص ۳۱)
سیرتِ نبویؐ کے ذخیرے سے استفادے کا یہ اقدام مبارک باد کا مستحق ہے اور اس سلسلے کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اربابِ علم و دانش کو طباعت و تحقیق کی جدید سہولیات سے استفادہ کرتے ہوئے ترجیحی بنیادوں پر اس پہلو پر توجہ دینا چاہیے۔ یہ جہاں حب ِ رسولؐ کا تقاضا ہے وہاں علمی ضرورت بھی ہے۔(امجد عباسی)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر عربی، اُردو، فارسی، انگریزی، فرانسیسی اور جرمن میں اتنی کثیر تعداد میں کتابیں تحریر کی گئی ہیں کہ تاریخ میں کسی بھی انسان پر اتنی بڑی تعداد میں کتابیں تحریر نہیں ہوئیں۔ حضور اکرمؐ کے متعلق ہر مصنف نے اپنے نقطۂ نظر کے مطابق قلم اُٹھایا، مثلاً تصوف کے حوالے سے یا حضور اکرمؐ بطور ایک عظیم سپہ سالار یا بطور ایک انقلابی رہنما یا بطور ایک کامیاب حکمران اور ماہر سیاست دان وغیرہ۔
مصنف نے حضور اکرمؐ کی عملی زندگی میں عدل و انصاف اور معاشی مساوات کے پہلو کو نمایاں کیا ہے۔ مصنف کے خیال میں لوگ حقوق العباد کو بھول چکے ہیں، انھیں حضور اکرمؐ کی سیرت کے حوالے سے اس طرف توجہ دلائی جائے تو یقینا وہ راہِ راست کی طرف پلٹیں گے۔
مصنف نے سیرت النبیؐ کی معتبر و مستند کتابوں اور قرآنِ مجید کے حوالوں سے اپنی کتاب مرتب کی ہے (اگرچہ حوالے کہیں مبہم، کہیں ناقص اور ادھورے ہیں)۔ پہلے ۱۷؍ابواب حضور اکرمؐ کی ولادت سے لے کر آپؐ کی وفات تک کے واقعات زمانی ترتیب سے مرتب کیے گئے ہیں۔ باقی حصے میں مختلف موضوعات پر اسوئہ حسنہ کی روشنی میں اسلامی تعلیمات و ہدایات پیش کی گئی ہیں۔ اکیسویں باب میں حضور اکرمؐ کی حیاتِ مبارکہ میں سے ، جسے مصنف نے عملی قرآن لکھا ہے (ص ۲۹۱) چند ایسے واقعات لکھے ہیں جن سے حضور اکرمؐ کے حُسنِ اخلاق اور حُسنِ معاملہ کا پہلو اُجاگر ہوتا ہے۔
مصنف نے عام فہم زبان میں اللہ کے آخری نبیؐ کی زندگی کو محبت و عقیدت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ یہاں چند ایک اُمور کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے تاکہ نقشِ ثانی میں تصحیح ہوسکے۔ غار، مذکر ہے، اسے مؤنث لکھا گیا ہے (۲۹۸)۔ حضور اکرمؐ کی رضاعی والدہ کا نام ثویبہ ہے، ثوبیہ لکھا گیا ہے (ص ۴۴)۔ حضوراکرمؐ کی سیرت کا سب سے بڑا مآخذ قرآنِ مجید ہے۔ پوری کتاب میں قرآنی حوالوں کے لیے عربی متن کے بجاے صرف اُردو ترجمہ دیا گیا ہے، قرآن کی آیات کا ترجمہ کسی مستند ترجمے سے دیا جائے تو مناسب ہے۔ یہی حال احادیث کی کتاب کے حوالوں میں ہے، یعنی حدیث کی کتاب کا نام دیا ہے، صفحہ نمبر نہیں دیا۔ بعض اشعار بھی غلط نقل ہوئے ہیں۔ بعض حوالے نامکمل ہیں ص ۱۲۶ پر، حوالہ نمبر۲۸ کے تحت صرف پیرکرم شاہ لکھا گیا ہے۔ کتاب کا نام اور صفحہ نمبر مفقود ہے۔ طائف فتح نہیں ہوا (۱۸۴)، حضور اکرمؐ نے چند روز محاصرہ کیا پھر لوٹ آئے۔ اسلوبِ بیان واضح، صاف اور سلیس ہے، کہیں ابہام نہیں۔ اُمید ہے کہ قارئین اس کتاب کے مطالعے سے حضور اکرمؐ کے اسوئہ حسنہ کے مطابق عمل کا داعیہ محسوس کریں گے۔(ظفرحجازی)
قرآنِ مجید کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت اس کے عجائب کے نہ ختم ہونے کا سلسلہ ہے۔ قرآنِ مجید سے ہدایت و رہنمائی اور اس کے مفہوم کو جاننے کے لیے وقتاً فوقتاً مختلف تفاسیر لکھی جاتی رہی ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ قرآن کا فہم و شعور ایک مختصر اور جامع تفسیر ہے جو انفرادیت کی حامل ہے۔
نبی اکرمؐ کے طریق تعلیم میں ایک پہلو استفہامی انداز بھی تھا۔ آپؐ صحابہ کرامؓ کو متوجہ کرنے کے لیے سوال پوچھتے تھے اور پھر جواب بھی دیتے تھے۔ اس طرح سے جہاں بات پوری طرح سمجھ میں آجاتی تھی وہاں ذہن نشین بھی ہوجاتی تھی۔ راجا محمد شریف قاضی نے جو کئی کتب کے مصنف ہیں اور دعوت و تدریس کے میدان سے وابستہ ہیں، تفسیرقرآن کے لیے اس طریق تعلیم کو پیش نظر رکھتے ہوئے سورئہ فاتحہ، سورئہ بقرہ اور آخری پارے کی تفسیر کی ہے۔
آغاز میں سورہ کا مختصر تعارف دیا گیا ہے جو کہ سوال و جواب کی شکل میں ہی ہے۔ عربی متن اور ترجمے کے بعد ’لغت‘ کے عنوان سے اہم عربی الفاظ کے معنی، قواعد و ضوابط اور مآخذ و مصادر بیان کیے گئے ہیں۔ اس کے بعد آیاتِ قرآنی کی مختلف عنوانات کے تحت سوالاً جواباً تشریح دی گئی ہے۔ آیات میں بیان کردہ مضامینِ قرآن کو واضح کرنے کے لیے مختلف ابواب کا تعین کیا گیا ہے اور ہرباب کے آخر میں ’مشق‘ دی گئی ہے تاکہ اہم موضوعات ذہن نشین ہوجائیں۔ تفسیرقرآن کے لیے سیدمودودیؒ کی تفسیر تفہیم القرآن کو بنیاد بنایا گیا ہے اور سیدقطب شہیدؒ کی فی ظلال القرآن اور مولانا امین احسن اصلاحیؒ کی تدبرقرآن سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔
استفہامی انداز میں یہ مختصر تفسیر جہاں قرآنِ مجید کے اہم مضامین کو جاننے کا ذریعہ ہے وہاں قرآنی عربی سیکھنے کی رغبت بھی دلاتی ہے۔ اگر قرآنی عربی کا کورس بھی کرلیا جائے تو آیات کے ترجمے کی استعداد بھی حاصل ہوسکتی ہے۔ فہم قرآن اور مدرسین قرآن کے لیے ایک مفید تفسیر ہے۔ اگر اس سلسلۂ تفسیر کو مکمل کرلیا جائے تو قرآن فہمی کے لیے یقینا ایک مفید خدمت ہوگی۔(امجد عباسی)
یہ کتاب مصر میں حسنی مبارک کے بعد، صدر مرسی کے مختصر دور اور پھر جنرل سیسی کے فوجی انقلاب کی صورت حال کے تناظر میں لکھی گئی ہے۔ اس کتاب نے مصر کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال کا پس منظر فراہم کر کے ایک اہم ضرورت پوری کی ہے۔
مصنف نے اس کتاب کے ایک باب میں حسن البنا سے محمد بدیع تک تمام مرشدین عام اور دوسرے باب میں ’اخوان اہلِ قلم کا قافلہ‘ کے عنوان سے ۱۴شخصیات پر ضروری معلومات فراہم کی ہیں۔ دوتہائی سے زیادہ کتاب گذشتہ دو تین سال کے حالات پر مشتمل ہے۔ اس دوران جو تجزیے اور رپورٹیں اُردو یا عربی میں شائع ہوئیں ان کا ایک مربوط انتخاب صورتِ حال کی مکمل تصویرکشی کردیتا ہے۔ صدرمرسی کے انٹرویو، ان کی کارکردگی کے بارے میں رپورٹیں، اسی طرح فوجی بغاوت کے بارے میں ضروری معلومات، سب جمع کردی گئی ہیں۔ ریفرنڈم میں منظورشدہ دستور کا مکمل متن بھی شامل ہے۔ ابتدا میں ہی رابعہ العدویہ، شہدا، بچوں اور بڑے بڑے اجتماعات کی تصاویر سے تحریکِ مزاحمت کی بھرپور جھلکیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ نعیم صدیقی کی مشہور نظمیں ’پھر ایک کارواں لٹا‘ ، ’یہ کون تھا کس کا خون بہا؟‘ بھی شاملِ اشاعت ہیں۔
اس کتاب کی حیثیت ایک مستند دستاویز کی ہوگئی ہے۔ اگر سب منتخب تحریرات کے حوالے بھی دیے جاتے تو کتاب زیادہ مستند ہوتی۔ مصنف اس کتاب کی بروقت طباعت پر مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے مستقبل کے مؤرخ کے لیے لوازمہ ایک جگہ فراہم کردیا ہے۔ (طاہر آفاقی)
سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد مرحوم کے انتقال (۵جنوری ۲۰۱۳ء) پر جس طرح سے عالمی سطح پر اور اندرونِ ملک حلقوں نے ان سے اظہارِ عقیدت کیا، اس سے ان کی شخصیت اور مقبولیت کا بھرپور اندازہ ہوتا ہے۔ قاضی حسین احمد مرحوم کی شخصیت، جدوجہد، خدمات اور درپیش اہم چیلنجوں کا زیرتبصرہ اشاعت ِ خاص میں احاطہ کیا گیا ہے۔ عالمی اسلامی تحریک کے قائدین، علماے کرام، معروف سیاست دان، جماعت اسلامی کے قائدین اور وابستگان اورمعروف اہلِ قلم، دانش وروں اور کالم نگاروں کے افکار و آرا اور انٹرویو اس اشاعت خاص میں یک جا کردیے گئے ہیں۔ قاضی صاحب کا جہادِافغانستان میں اہم کردار تھا، حکمت یار گلبدین نے ان کی خدمات کا تذکرہ کیا ہے۔ مسئلۂ کشمیر اور جہادِ کشمیر سے قاضی صاحب کی وابستگی پر الیف الدین ترابی اور عبدالرشید ترابی اظہارِ خیال اور خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔ اہلِ خانہ اور احباب کے تاثرات بھی شاملِ اشاعت ہیں۔ مضامین کے ساتھ منظوم خراجِ عقیدت بھی پیش کیا گیا ہے۔ مجاہد ملت قاضی حسین احمد کی یاد میں ایک ضخیم اشاعت خاص۔(امجد عباسی)
’قتلِ غیرت‘ ایک ایسی اصطلاح ہے جس سے بہت سی غلط فہمیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔ بظاہر اس کے معنی ’غیرت کو قتل کردینا‘ ہوں گے، لیکن مصنف کی مراد اس سے بالکل برعکس یہ ہے کہ غیرت کو باقی رکھنے یا ’پاسِ غیرت‘ میں قتل کرنا۔ انگریزی میں اس کے لیے عام اصطلاح Honour Killing ہے۔
مغرب میں، اور ہمارے ملک میں بھی، عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ ’غیرت‘ کی بناپر عورتوں پر تشدد، جو اُن کی ہلاکت پر بھی منتج ہوسکتا ہے، صرف مسلم معاشروں میں پایا جاتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ بقول مصنف: ’’غیرت مغرب کا مسئلہ بھی ہے اور مشرق کا بھی۔ یہ ایک انسانی تقاضا ہے کہ انسان اپنے نسلی و خاندانی کردار پر اُٹھنے والی ہرانگلی کو اپنی عزت و آبرو پر اُٹھنے والا اشارہ تصور کرتا ہے۔ اس تصور کے بعد عمل کیا ہے یہ ایک اور رویّہ ہے، جو مختلف ہوسکتا ہے۔’غیرت‘ قتل ہوجائے تو قتل کا سبب بھی بن جاتی ہے۔ غیرت رُسوا کرے تو بے حیائی کی نئی تعبیر بھی بن جاتی ہے۔(ص ۱۱)
نام نہاد غیرت کی بنا پر کسی کو قتل کردینا، عام طور پر مردوں کا ہی فعل ہوتا ہے، جس کا شکار کوئی عورت ہوتی ہے، خواہ وہ بیوی ہو، بیٹی، بہو یا ماں، یا خاندان کی کوئی اور عورت۔ پاکستان میں کسی عورت کے جنسی جرم کے نتیجے میں اُسے نظربندی، زبردستی کسی سے نکاح، جسمانی تشدد، بدہیئت بناد ینا (ناک، کان کاٹ دینا، تیزاب سے چہرہ مسخ کردینا) بھی بہت شاذ نہیں۔ مگر اس طرح کے جرائم، نام نہاد ’مہذب مغرب‘ میں بھی عام ہیں اور انھیں ’گھریلو تشدد‘ کا نام دے کر نسبتاً ایک ہلکا سا جرم قرار دے دیا جاتا ہے۔ امریکا میں خواتین پر تشدد کے ایک جائزے پر مبنی رپورٹ (۲۰۰۴ء) کے مطابق، ہر چھے میں سے ایک امریکی عورت اپنی زندگی میں عصمت دری یا مجرمانہ حملے کا نشانہ بنتی ہے۔ لیکن ان کے نصف سے بھی کم واقعات کی رپورٹ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کی جاتی ہے۔ (ص ۱۰۱)
مصنف نے ’جنسی غلامی‘ پر طویل بحث کی ہے۔ بیسویں اور اکیسویں صدی کی نام نہاد ’مہذب دنیا‘ میں عورتوں کے ساتھ کیا سلوک ہوا، اور ہو رہا ہے، اس کی داستان بڑی دل گداز اور شرم ناک ہے۔ دوسری جنگ ِ عظیم کے دوران جاپانیوں نے اپنے مقبوضہ علاقوں میں، روسیوں نے جرمن شکست خوردہ قوم کی عورتوں کے ساتھ، گوئٹے مالا کی خانہ جنگی، کانگو، لائبیریا، چیچنیا، کویت، کشمیر اورسری لنکا، بوسنیا اور خدا جانے دنیا کے کون کون سے گوشے ہیں، جہاں عورتوں پر تشدد اور بدترین سلوک کی داستانیں بکھری پڑی ہیں۔ بعض ملکوں میں تو انھیں پانچ فٹ کے ڈربوں میں بند رکھا جاتا رہا۔ اس طرح کے سلوک سے کم ہی عورتیں زندہ بچ پائیں (ص ۲۴۷)۔ اس بات کا غالب امکان ہے کہ فوجیوں کے اس اجتماعی آبروریزی جیسے اقدام میں اعلیٰ فوجی کمان کے فیصلے اور حمایت بھی شامل تھی، جہاں عصمت دری کو بطورِ ہتھیار اور اپنے فوجیوں کی آسایش اور آسودگی (relief/comfort) کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
صنف ِ نازک کے ساتھ انسانوں کا ایسا سلوک، اسفل ترین حیوانات بھی نہیں کرتے۔ کیا کیا جائے؟ اس عقدۂ مشکل کی کشود، انسانی ساختہ قوانین سے نہیں ہوسکتی۔ صرف علیم و خبیر ہستی پر حقیقی ایمان اور جزا و سزا پر اعتقاد ہی سے اس شرم ناک، بلکہ دہشت انگیز طرزِعمل کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ تاریخ میں اس کی مثالیں بھی موجود ہیں۔ ایک اکیلی عورت صحرائوں کو عبور کرتے ہوئے ہزاروں میل کا سفر طے کرتی ہے، اور اُسے سواے خدا کے کسی کا خوف نہیں ہوتا۔ کاش مصنف ایک باب میں یہ شہادت بھی پیش کردیتے۔(پروفیسر عبدالقدیرسلیم)
[تزکیۂ نفس کے لیے جہاں نیکی کے لیے ترغیب کی اہمیت ہے وہاں بُرائیوں سے بچنے کی ممانعت میں بھی حکمت ہے۔ مینارۂ نورکے تحت ان احادیث کو جمع کیا گیا ہے جن میں نبی کریمؐ نے بُرے اور ناپسندیدہ کاموں سے منع فرمایا ہے۔ اس میں کبیرہ و صغیرہ گناہ اور نازیبا حرکات کا تذکرہ ہے۔ مؤلف نے احایث کو ایمانیات، اخلاقیات، سماجیات اور معاملات کے عنوانات کے تحت مرتب کیا ہے۔ چند عنوانات: تعلق باللہ میں حائل رکاوٹیں، باوقار شخصیت کے لیے ضروری پابندیاں، ماحولیات کی بہتری کے لیے ضروری پابندیاں۔]
[قرآنِ مجید کے موضوعات کا پانچ عنوانات: عقائد (توحید، رسالت اور آخرت)، عبادات، معاملات، اخلاقیات اور تاریخ کے تحت اختصار اور جامعیت سے بیان۔]
[قانتہ رابعہ ادبی حلقوں میں ادیب اور افسانہ نگار کی شہرت رکھتی ہیں لیکن اسے زندہ کر دوبارہ میں اقبال کے مصرعے ع دل مُردہ دل نہیں ہے اسے زندہ کر دوبارہ کے مصداق مختلف سماجی اور معاشرتی مسائل کی نشان دہی کرتے ہوئے تزکیہ وتربیت اور فکری رہنمائی کا سامان کرتی نظر آتی ہیں۔ مختصر ، فکرانگیز اور اثرپذیر نثرپاروں کا مجموعہ۔]
[رزق میں کشادگی کے لیے ۳۰ اُمور کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ قرآن و حدیث،اقوال ائمہ اور واقعات سے افادیت بیان کی گئی ہے۔ رزق کی ان کنجیوں میں بیان کردہ اُمور پر تھوڑی سی توجہ سے بآسانی عمل کیا جاسکتا ہے، مثلاً: اللہ کا ذکر کرنا، استغفار، تقویٰ، گھر میں داخل ہوتے ہوئے سلام کہنا، غیبت سے اجتناب، نمازکی ادایگی اور اہلِ خانہ کو توجہ دلانا، مسنون دعائیں، صلۂ رحمی، حصولِ رزق کے لیے منہ اندھیرے اُٹھنا۔ کشادگی رزق کے لیے اقامت حدود، یعنی بدی کا مٹانا بھی ناگزیر ہے۔]
[مسلمانانِ پاکستان اور صاحبانِ اقتدار گذشتہ ۶۶سال سے سودی نظام کے ساتھ سمجھوتا کیے ہوئے ہیں، اس کو عالمی استعمار کی پوری آشیرباد حاصل ہے۔ اس کتابچے میںوطن عزیز میں سود کے خاتمے کے لیے ہونے والی کوششوں کا اجمالی جائزہ سامنے آگیا ہے جو عوامی سطح پر تفہیم اور ابلاغ کی ایک عمدہ کوشش ہے۔]
[سیّد جلال الدین عمری کی اس کتاب میںقرآن کی فضیلت، عظمت، آداب، علمی اعجاز، عالمی اثرات اور اقوامِ عالم کے عروج و زوال کا قرآنی اصول بیان کیے گئے ہیں۔اب یہ پاکستان سے بھی شائع ہوگئی ہے۔ بھارتی اڈیشن پر ڈاکٹر انیس احمد کا تبصرہ عالمی ترجمان القرآن (ستمبر ۲۰۱۳ء) میں شائع ہوچکا ہے۔]
[تعلیم و تربیت، روزگار کے مواقع کہاں ہیں؟ شوق و رجحان کے مطابق کیریئر کا انتخاب کیسے ہو؟ کامیاب اور خوش حال زندگی کیسے بسر کی جاسکتی ہے؟ یہ اور اس طرح کی مہارتوں اور معلومات سے معمور یہ کتاب کیریئر گائیڈنس اور کیریئر پلاننگ پر اُردو میں پہلی کتاب ہے۔ اس ضمن میں ’زندگی کے راستے‘ کا بلاگ (carieer.org.pk) بھی سودمند ہے۔ جس میں کیریئر پلاننگ کے ساتھ ساتھ نوجوان نسل کی دل چسپی کی دوسری معلومات بھی موجود ہیں۔]
[کیا پاکستان حادثاتی طور پر وجود میں آیا تھا؟ قائداعظمؒ پاکستان کو اسلامی ریاست بنانا چاہتے تھے یا سیکولر؟ موقع پرست عناصر نے نظریۂ پاکستان پر کیا کیا حملے کیے اور پاکستان کو سیکولر ریاست بنانے میں کیا کردارادا کیا؟ علامہ اقبالؒ نے پاکستان بنانے اور مسلمانوں کو بیدار کرنے میں کیا کردار ادا کیا؟ قومی زندگی میں ادب کی کیا اہمیت ہے اور قوم کی تعمیر میں ادب کیا کردار ادا کرتا ہے؟ عظیم تر پاکستان کیسے وجود میں آسکتا ہے؟ یہ کتاب ان سوالات کا جواب دیتی ہے۔]
عالمی ترجمان القرآن الحمدللہ ہرماہ موقع محل اور حالات کی مناسبت سے فکری رہنمائی کا قابلِ تعریف فریضہ ادا کرتا ہے۔ دسمبر۲۰۱۳ء کا مجلہ نظرنواز ہوا تو پرچے کی جامعیت کو دیکھ کر ضروری محسوس ہوا کہ اپنا تاثر پہنچایا جائے۔ محترم مدیر کے ’اشارات‘ اور ’شذرات‘ دونوں ہی بروقت اور بہت معیاری تھے۔ ’حکمت مودودی‘ سے انتخاب بھی حالات کی ضرورت تھا۔ ’نماز اور صحت‘، ایک ڈاکٹر کی طبی تحقیق نے بہت اچھا تاثر قائم کیا ہے۔ ’میڈیا کا کردار- اسلامی نقطۂ نظر‘ میں ڈاکٹر توقیرعالم فلاحی نے قرآن و حدیث کی روشنی میں ایمان افروز تحریر قلم بند کرکے ذرائع ابلاغ سے وابستہ افراد کے لیے تذکیر کا حق ادا کردیا ہے۔ ’اخباراُمت‘ میں عبدالغفار عزیز عالمِ اسلام کے مختلف ممالک کے حالات پر جان دار تجزیہ کرتے ہیں۔ مصر میں آج کل کیا ہو رہا ہے؟ سوڈان کی صورت حال کیا ہے؟ برما میں تباہی کے بعد مسلم اقلیت کا حال کیسا ہے؟ اور دیگر ممالک کے بارے میںگاہے گاہے معلومات آتی رہیں تو بہت اچھا ہو۔
محمود احمد خان ، میاں چنوں
دہشت گردی اور فرقہ واریت کے حوالے سے پروفیسر خورشیداحمد نے بجا توجہ دلائی ہے۔ آج فی الواقع پاکستان کو دہشت گردی اور فرقہ واریت نے آتش فشاں کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں عادلانہ حکمت عملی اپنانا ہی مسئلے کا حل ہے۔ علماے کرام کو حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے فرقہ واریت کی نفی اور اتحادِ اُمت پر زور دینا چاہیے۔’حکمت مودودی‘ کے تحت اتحادِ ملت کے لیے جن پانچ بنیادوں کی نشان دہی کی گئی ہے ، ان کے لیے فضا ہموار کرنا وقت کا تقاضا ہے۔
’قرآن کی درست تلاوت‘ (دسمبر ۲۰۱۳ء) میں قرآن کے حقِ تلاوت کی طرف نہ صرف بجا توجہ دلائی گئی ہے بلکہ عملاً رہنمائی بھی د ی گئی ہے کہ تلاوتِ قرآن کے دوران کن اُمور کو ملحوظ رکھا جائے۔ لہٰذا ہر مسلمان کو جہاں درست تلاوت کا اہتمام کرنا چاہیے وہاں قرآنی عربی بھی سیکھنی چاہیے جو بآسانی سیکھی جاسکتی ہے تاکہ فہم قرآن اور لذتِ قرآن سے بھی آشنا ہوا جاسکے۔
’نماز اور صحت‘ کے زیرعنوان ڈاکٹر نبیلہ ظہیربھٹی نے معلومات افزا تحریر پیش کی۔ اس سے جہاں نماز کی افادیت واضح ہوئی وہاں انسانی صحت کو درپیش مسائل کے لیے رہنمائی بھی ملی۔ اگر نماز کی ادایگی کے دوران ان اُمور کو بھی پیش نظر رکھا جائے تو تزکیہ و خشیت کے ساتھ ساتھ بہت سے جسمانی امراض سے بھی محفوظ رہا جاسکتا ہے۔
’سوشل میڈیا-ا بلاغ عام کی نئی جہتیں‘ (نومبر ۲۰۱۳ء) نظر سے گزرا۔ اس مضمون میں سوشل میڈیا سے متعلق اہم اُمور کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ نئی نسل سے رابطے اور فکری رہنمائی کے لیے یہ اہم ذریعہ ہے۔ مختلف دینی جماعتیں اس حوالے سے کام کر رہی ہیں۔ جماعت اسلامی کو ترجیحاً اس کے لیے حکمت عملی اپنانی چاہیے۔
ڈاکٹر یوسف القرضاوی کی تحریریں وقتاً فوقتاً ترجمان میں شائع ہورہی ہیں۔ جناب ارشاد الرحمن بھی خوب ترجمانی کر رہے ہیں۔ یہ ایک مفید سلسلہ ہے، اسے جاری رکھا جائے۔ دعوتِ دین اور اُمت مسلمہ کو درپیش فکری چیلنج کے لیے مدلل رہنمائی دی جاتی ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ملکی تاریخ کے بدترین سیلاب نے کروڑوں انسانوں کو متأثرکیا ہے۔ لاکھوں گھر ڈھے گئے، ہزاروں ایکڑ فصلیں تباہ ہوگئیں، سیکڑوں پل بہ گئے اور کئی ہفتے کئی کئی فٹ اونچے پانی میں ڈوبے رہنے سے کوئی بھی سامان زیست استعمال کے قابل نہ رہا۔ نئی نئی بیماریاں پھوٹ رہی ہیں، علاج معالجے کی سہولتیں ناپید ہوگئی ہیں۔ چاروں اطراف سے پانی میں گھرے ہونے کے باوجود، جان بچانے کے لیے ایک گھونٹ بھی میسر نہیں۔ کئی کئی روز سے فاقوں کا سامنا ہے، اور چند ہفتے جاری رہنے والی تباہی کے اثرات کئی سال جاری رہنے کا خدشہ ہے۔ ایسے میں جو جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، لگتا ہے وہی امان پاگئے۔ پیچھے رہ جانے والے تو مسلسل کڑے امتحان کا سامنا کررہے ہیں۔ قیامت خیز تباہی کی ان گھڑیوں میں سب دنیاوی سہارے ناکارہ ہوگئے بس ایک در کھلا رہ گیا اور بس اسے ہی کھلا رہنا ہے ۔۔ الأمان الحفیظ ۔۔ یا حی یا قیوم برحمتک نستغیث۔
ساون کے دن شروع ہوئے تو لُو کے تھپیڑے سہنے والوں نے سکھ کا سانس لیا۔ بادل جھوم اُٹھے، ہریالی اور پھولوں کے رنگ نظروں میں لہلہانے لگے۔ قرآن کریم کے الفاظ میں لوگوں نے کہا: ہٰذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا (الاحقاف ۴۶:۲۴)’’یہ بادل ہمیں خوب سیراب کردیں گے‘‘۔ پھر اچانک وہی بادل اور بارشیں عذاب کا روپ دھار گئے۔ رسالت مآبؐ کے زمانے میں تیز ہوائیں چلتیں، بارشیں طوالت اختیار کرنے لگتیں تو، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بے تاب ہوجاتے اور انھیں یہ فکرمندی بے چین کر دیتی کہ رحمت کہیں زحمت میں نہ بدل دی جائے، فوراً اپنے رب کے سامنے جھک جاتے--- دُعائیں شروع کردیتے: پروردگار! ہم پر مزید مینہ نہ برسا۔ ہمارے اردگرد کھلے میدانوں پر، ٹیلوں پر، درختوں کے جھنڈ پر، چٹیل پہاڑوں اور جنگلوں پر بارش برسا۔ بادل گرجتے، بجلی کڑکتی تو فرماتے: اے اللہ! اپنے غضب سے ہمیں قتل نہ کردیجیے، اور نہ عذاب کے ذریعے ہلاک کیجیے، عذاب سے پہلے ہی ہمیں معاف فرمادیجیے ۔
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلٰٓی اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِکَ فَاَخَذْنٰھُمْ بِالْبَاْسَآئِ وَ الضَّرَّآئِ لَعَلَّھُمْ یَتَضَرَّعُوْنَo فَلَوْ لَآ اِذْ جَآئَ ھُمْ بَاْسُنَا تَضَرَّعُوْا وَ لٰکِنْ قَسَتْ قُلُوْبُھُمْ وَزَیَّنَ لَھُمُ الشَّیْطٰنُ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ o (الانعام ۶:۴۲-۴۳ ) تم سے پہلی بہت سی قوموں کی طرف ہم نے رسول بھیجے اور ان قوموں کو مصیبتوں اور آلام میں مبتلا کیا تاکہ وہ عاجزی کے ساتھ ہمارے سامنے جھک جائیں۔ پس جب ہماری طرف سے ان پر سختی آئی تو کیوں نہ انھوں نے عاجزی اختیار کی مگر ان کے دل تو اور سخت ہوگئے اور شیطان نے انھیں اطمینان دلایا کہ جو کچھ تم کررہے ہو خوب کررہے ہو۔
وَ مَآ اَرْسَلْنَا فِیْ قَرْیَۃٍ مِّنْ نَّبِیٍّ اِلَّآ اَخَذْنَآ اَھْلَھَا بِالْبَاْسَآئِ وَ الضَّرَّآئِ لَعَلَّھُمْ یَضَّرَّعُوْنَo (الاعراف ۷:۹۴) کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہم نے کسی بستی میں نبی بھیجا ہو اور اس بستی کے لوگوں کو پہلے تنگی اور سختی میں مبتلا نہ کیا ہو، اس خیال سے کہ شاید وہ عاجزی اختیار کریں۔
سید مودودیؒ ان آیات کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’اب وہ جامع ضابطہ بیان کیا جارہا ہے جو ہر زمانے میں اللہ تعالی نے انبیا ؑ کی بعثت کے موقع پر اختیار فرمایا ہے، اور وہ یہ ہے کہ جب کسی قوم میں کوئی نبی بھیجا گیا تو پہلے اس قوم کے خارجی ماحول کو قبول دعوت کے لیے نہایت سازگار بنایا گیا، یعنی اس کو مصائب اور آفات میں مبتلا کیا گیا۔ قحط، وبا، تجارتی خسارے، جنگی شکست اور اسی طرح کی تکلیفیں اس پر ڈالی گئیں تاکہ اس کا دل نرم پڑے، شیخی اور تکبر سے اس کی اکڑی ہوئی گردن ڈھیلی ہو، اس کا غرورِ طاقت اور نشۂ دولت ٹوٹ جائے، اپنے ذرائع و وسائل اور اپنی قوتوں اور قابلیتوں پر اس کا اعتماد متزلزل ہوجائے، اسے محسوس ہو کہ اوپر کوئی اور طاقت بھی ہے جس کے ہاتھ میں اس کی قسمت کی باگیں ہیں، اور اس طرح اس کے کان نصیحت کے لیے کُھل جائیں اور وہ اپنے خدا کے سامنے عاجزی کے ساتھ جھک جانے پر آمادہ ہوجائے‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج ۲، ص۵۹)
مصیبت اور آزمایش کے ان لمحات میں بہت سے لوگ اپنے رب کی رحمتوں کی آغوش میں پناہ پاتے ہیں، لیکن کتنے ہی بدقسمت ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان پر آنے والی آزمایشیں بھی بے اثر رہتی ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں اقسام کے لوگوں کی وضاحت ایک حدیث میں یوں فرماتے ہیں:
لا یزال البلاء بالمؤمن حتی یخرج نقیاً من ذنوبہ و المنافق مثلہ کمثل الحمار لا یدری فیم ربطہ أھلہ و لا فیم أرسلوہ، مصیبت مومن کی تو اصلاح کرتی چلی جاتی ہے، یہاں تک کہ جب وہ اس بھٹی سے نکلتا ہے، تو ساری کھوٹ سے صاف ہوکر نکلتا ہے۔ لیکن منافق کی حالت بالکل گدھے کی سی ہوتی ہے جو کچھ نہیں سمجھتاکہ اس کے مالک نے کیوں اسے باندھا تھا اور کیوں اسے چھوڑ دیا۔
رجوع الی اللہ کے لیے اس سازگار ماحول میں بھی جو بدقسمت انسان دلوں کے گداز سے محروم رہ جائیں ان کے لیے رب کی طرف سے ایک اور آزمایش نازل ہوتی ہے اور اس میں وہ مزید بری طرح ناکام و نامراد ہوجاتے ہیں۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:
ثُمَّ بَدَّلْنَا مَکَانَ السَّیِّئَۃِ الْحَسَنَۃَ حَتّٰی عَفَوْا وَّ قَالُوْا قَدْ مَسَّ اٰبَآئَ نَا الضَّرَّآئُ وَ السَّرَّآئُ فَاَخَذْنٰھُمْ بَغْتَۃً وَّ ھُمْ لَا یَشْعُرُوْنo (الاعراف ۷:۹۵) پھر ہم نے ان کی بدحالی کو خوش حالی سے بدل دیا، یہاں تک کہ وہ خوب پھلے پھولے اور کہنے لگے کہ ’’ہمارے اسلاف پر بھی اچھے اور بُرے دن آتے ہی رہے ہیں۔آخر کار ہم نے انھیں اچانک پکڑ لیا اور انھیں خبر تک نہ ہوئی‘‘۔
صاحب ِتفہیم القرآن اس کی وضاحت یوں کرتے ہیں: ’’پھر جب اس سازگار ماحول میں بھی اس [قوم] کا دل قبولِ حق کی طرف مائل نہیں ہوتا تو اس کو خوش حالی کے فتنے میں مبتلا کردیا جاتا ہے اور یہاں سے اس کی بربادی کی تمہید شروع ہوجاتی ہے۔ جب وہ نعمتوں سے مالامال ہونے لگتی ہے، تو اپنے بُرے دن بھول جاتی ہے اور اس کے کج فہم رہنما اس کے ذہن میں تاریخ کا یہ احمقانہ تصور بٹھاتے ہیں کہ حالات کا اتار چڑھاؤ اور قسمت کا بناؤ اور بگاڑ کسی حکیم کے انتظام میں اخلاقی بنیادوں پر نہیں ہورہا ہے، بلکہ ایک اندھی طبیعت، بالکل غیر اخلاقی اسباب سے کبھی اچھے اور کبھی برے دن لاتی ہی رہتی ہے۔ لہٰذا مصائب اور آفات کے نزول سے کوئی اخلاقی سبق لینا اور کسی ناصح کی نصیحت قبول کرکے خدا کے آگے زاری و تضرُّع کرنے لگنا، بجز ایک طرح کی نفسی کمزوری کے اور کچھ نہیں ہے‘‘۔ (ایضاً، ص ۵۹-۶۰)
قرآن کریم کی متعدد آیات میں مختلف اقوام و واقعات کا ذکر کرتے ہوئے خالق کائنات نے یہ حقیقت واضح طور پر آشکار کردی کہ کسی قوم یا فرد کو حاصل ہونے والی نعمتیں اور راحتیں، اچھا کھانا، اچھا لباس، اچھا گھر، مال و اولاد، معاشرے میں نام و نمود، اثر و رسوخ اس قوم یا فرد کی کامیابی، سربلندی اور فلاح و نجات کی علامت نہیں اور نہ ان نعمتوں سے محرومی اس کی ناکامی اور رب کی اس سے ناراضی کا مظہر ہے۔ سید مودودیؒ کے الفاظ میں: ’’ایک طالب ِحقیقت کو اول قدم پر یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ دنیا دراصل ایک امتحان گاہ ہے اور یہاں بے شمار مختلف صورتوں سے افراد کا، قوموں کا اور تمام انسانوں کا امتحان ہورہا ہے۔ اس امتحان کے دوران میں جو مختلف حالات لوگوں کو پیش آتے ہیں، وہ جزا و سزا کے آخری فیصلے نہیں ہیں‘‘… ’’جب کوئی شخص یا قوم ایک طرف تو حق سے منحرف اور فسق و فجور اور ظلم و طغیان میں مبتلا ہو اور دوسری طرف اس پر نعمتوں کی بارش ہورہی ہو تو عقل اور قرآن دونوں کی رُو سے یہ اس بات کی کھلی علامت ہے کہ خدا نے اس کو شدید تر آزمایش میں ڈال دیا ہے، اور اس پر خدا کی رحمت نہیں بلکہ اس کا غضب مسلط ہوگیا ہے۔ اسے غلطی پر چوٹ لگتی تو اس کے معنی یہ ہوتے کہ ابھی خدا اس پر مہربان ہے، اسے تنبیہ کررہا ہے اور سنبھلنے کا موقع دے رہا ہے۔ لیکن غلطی پر ’انعام‘ یہ معنی رکھتا ہے کہ اسے سخت سزا دینے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے اور اس کی کشتی اس لیے تیر رہی ہے کہ خوب بھر کر ڈوبے۔
اس کے برعکس جہاں ایک طرف سچی خداپرستی ہو، اخلاق کی پاکیزگی ہو، معاملات میں راست بازی ہو، خلق خدا کے ساتھ حسن سلوک اور رحمت و شفقت ہو، اور دوسری طرف مصائب اور شدائد اس پر موسلا دھار برس رہے ہوں اور چوٹوں پر چوٹیں اسے لگ رہی ہوں، تو یہ خدا کے غضب کی نہیں، اس کی رحمت ہی کی علامت ہے۔ سُنار اِس سونے کو تپا رہا ہے تاکہ خوب نکھر جائے اور دنیا پر اس کا کامل العیار ہونا ثابت ہوجائے۔ دنیا کے بازار میں اس کی قیمت نہ بھی اٹھے تو پروا نہیں، سنار خود اس کی قیمت دے گا، بلکہ اپنے فضل سے مزید عطا کرے گا‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج۳،ص ۲۸۴-۲۸۵)
اس قرآنی اصول اور الٰہی سنت کے تناظر میں حالیہ سیلابی ریلوں کو دیکھیں تو یہ رب ذوالجلال کی طرف سے بندوں کو کھلی تنبیہ اور اس کی رحمت کی آغوش میں پناہ لینے کا ایک سنہری موقع ہے۔ اگر اہل پاکستان نے اپنا سب کچھ کھوکر بھی اپنے خالق کو پھر سے پالیا تو اس سے بڑی کامیابی اور کوئی نہیں۔ لیکن اگر خدانخواستہ ہمارا حال حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں مذکور اس گدھے کا سا رہا کہ جسے نہ باندھے جانے کا سبب معلوم ہو اور نہ لگام چھوڑ دیے جانے کا راز، تو دنیا خواہ اسے کوئی بھی نام و مقام عطا کرے، رہے گا وہ گدھے کا گدھا، بلکہ اس سے بھی بدتر اُولٰٓئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ(اعراف ۷:۱۷۹) ’’وہ لوگ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے‘‘۔
پاکستان اس وقت صرف تباہ کن سیلاب ہی کے عذاب سے دوچار نہیں، مختلف فتنے، آزمایشیں اور بلائیں چہار جانب سے منہ پھاڑے اس پر اُمڈ پڑی ہیں۔ سیلاب زدہ علاقے میں سارا بنیادی ڈھانچا خاک میں مل گیا ہے۔ ان علاقوں میں نہ عمارتیں محفوظ رہیں نہ جھونپڑیاں، نہ راستے بچے نہ کھیت، سڑکوں، ندی نالوں، دریاؤں اور ان پر بنے پلوں کا سارا تانا بانا بکھر کر رہ گیا ہے۔ اس تباہی اور ہلاکت سے بچ نکلنے کے لیے قوم کو کئی سال کی محنت شاقہ، بے تحاشا وسائل اور تعمیرِ نو کے ناقابل شکست حقیقی جذبے سے سرشار ہونے کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے اس وقت نہ صرف یہ تمام عناصر ناپید ہیں بلکہ ہم ایک قوم کی تعریف پر پورا اترنے میں بھی ناکام ہورہے ہیں۔ سیلاب کا تباہ کن طوفانی ریلا ایک ایک کرکے چاروں صوبوں میں جاپہنچا، مگر ہر جگہ لوگ دوسروں پر اس تباہی کا الزام لگاتے ہوئے مزید تباہی سے دوچار ہوتے رہے۔ ایک کہتا تھا فلاں نے اپنی زمینیں اور اپنا علاقہ بچانے کے لیے پانی کا رخ ادھر موڑ دیا، تو دوسرا کہتا تھا کہ فلاں نے اپنا گھر بچانے کے لیے پانی کو وہاں سے گزرنے کا راستہ نہ دیا، حالانکہ تباہی کی زد میں سب ہی آئے۔ حکمرانوںنے اس الزام اور جوابی الزام کی سیاست کو مزید ہوا دی۔ ایک صوبے کا دوسرے صوبے کو، صوبوں کا مرکز کو، اور ایک حلیف جماعت کا اپنی دوسری حلیف جماعت کو الزام، سیلاب کی تباہ کاری کے ساتھ ہی ساتھ باہم نفرتوں کی آب یاری کا سبب بھی بنتا رہا۔
رہے کراچی اور بلوچستان تو بدقسمتی سے سیلاب کی ان تباہ کاریوں کے دوران بھی وہاں خون کی ہولی کھیلی جاتی رہی۔ سیلاب کے عروج میں کراچی کی سڑکوں پر دن دہاڑے ٹارگٹ کلنگ بھی عروج پر جاپہنچی۔ ادھر بلوچستان سے بھی اپنے بھائی پنجاب کو درجن بھر لاشوں کا تحفہ بھیجا گیا۔ نہ تو قاتلوں کو قتل کی وجہ معلوم تھی اور نہ مقتولوں یا ان کے زندہ درگور وارثوں ہی کو معلوم ہوا کہ ان کے پیارے کیوں خون میں نہلا دیے گئے۔ صوبہ خیبر میں تو کراچی سے آنے والی لاشوں کو وصول کرنے والا بھی کوئی نہ تھا۔ رہی بے چاری حکومت تو اسے اپنے یورپی دوروں سے ہی فراغت نہ تھی۔ ان دوروں بالخصوص برطانیہ کے دورے کا اصل ہدف مستقبل کے حکمران بلاول زرداری کو میدان سیاست میں متعارف کروانا (تاج پوشی کرانا) بتایا گیا۔ ساتھ ہی ساتھ اپنے محلات کے سودے بھی جاری رہے۔ یہاں تک کہ یورپی ذرائع ابلاغ میں واویلا مچ گیا کہ سیلاب میں ڈوبے ملک کے صدر صاحب! واپس جاؤ اور اپنے گھر کی خبر لو۔ رہی سہی کسر برمنگھم کی تقریب میں اپنے ہی ہم وطن کی طرف سے ’جوتا پاشی‘ نے پوری کردی۔ اس عزت افزائی کے جلو میں جو ملک واپسی ہوئی تو سیلاب زدہ علاقوں میں عارضی اور جعلی امدادی کیمپوں میں منہ دکھائی شروع کردی گئی---رہے سیلاب زدہ لوگ اور ان کے مصائب تو۔۔۔ آخر وقت کا مرہم کب کام آئے گا؟ چند روز میں نہ سہی چند ہفتوں میں تو پانی کسی نہ کسی طرح اتر ہی جائے گا۔
ذرا ظرف کی وسعت اور ترجیحات کی فہرست بھی ملاحظہ ہو، ادھر پورا ملک سیلاب میں ڈوبا ہوا تھا اور دوسری طرف حکومت کا سارا زور چند ٹی وی چینلوں کی بندش پر صرف ہو رہا تھا۔ ان چینلوں کے قصور کئی ہوسکتے ہیں لیکن جو قصور بندش کا سبب بنا، وہ ’جوتاپاشی‘ کی خبر پر اصرار تھا۔ ذرائع ابلاغ یقینا غیر جانب دار نہیں ہیں۔ ان کی ترجیح اوّل بھی سیلاب کی تباہ کاری اور تباہی کی سنگینی واضح کرنا نہ رہی۔ انھوں نے بھی قوم کے اندر انفاق اور فداکاری کی روح بیدار کرنے میں بہت کوتاہی برتی۔ انھوں نے بھی صرف اپنی مرضی کی امدادی کارروائیوں اور صرف چنیدہ افراد اور اداروں کی خدمات کو سراہا لیکن کاش! ذرائع ابلاغ کا یہ جرم ان کے قانون اور ضابطے کے دائرے میں شفاف اور عادلانہ مؤاخذے اور احتساب کا سبب بنتا۔ کاش! کوئی سرکاری ادارہ یا ذمہ دارانِ حکومت تمام ابلاغیاتی بڑوں کو لے کر بیٹھتے، قوم و ملک پر ٹوٹنے والی قیامت میں مشترک حکمت عملی وضع کرتے اور جو بھی حکومتی اثرورسوخ یا آشیرباد ہوسکتی تھی، اسے ایک تعمیری ابلاغیاتی مہم کے لیے وقف کردیتے تو آج صورت حال یقینا مختلف ہوتی۔ اس ضمن میں کوتاہی کے مرتکب حکومت اور ذرائع ابلاغ ہی نہیں وہ مختلف افراد اور امدادی ادارے بھی ہیں جنھوں نے اپنے ایک کو سو اور سو کو ہزار بناکر پیش کیا۔ اس بے بنیاد مبالغہ آمیزی سے جہاں ان اداروں پر اعتماد مجروح ہوا وہیں مزید مالی اعانتوں کی ضرورت کا احساس بھی ماند پڑا۔ اس سب کچھ سے بڑھ کر یہ کہ نیک کام میں بھی جھوٹ کی آمیزش سے برکت معدوم ہوگئی۔ آفات و آلام سے نجات کے لیے درکار رب کی رحمت روٹھ گئی۔
اس وقت تباہی اس قدر ہمہ گیر ہے کہ ہر صاحب ِ خیر کو اپنا سب کچھ لے کر میدان میں آجانا چاہیے۔ سب کو ایک دوسرے سے بڑھ کر خدمت انجام دینا چاہیے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ حقیقت بھی ہرلمحے ذہن میں تازہ رہنا چاہیے کہ کامیابی کا معیار کوئی دنیاوی پیمانہ نہیں، رب کے دربار میں قبولیت ہے۔ اخلاص و دیانت سے خدمت کرنے والے قابلِ مبارک باد ہیں کہ یہ گنج گراں مایہ انھیں وافر عطا ہوا ہے۔ امریکی بازار کا طواف کرنے والے مغربی تجزیہ نگاروں کو اصل تشویش بھی یہی ہے۔ وسیع تر اشاعت رکھنے والے عالمی اخبارات و رسائل اور ٹی وی چینل یہی دہائیاں دے رہے ہیں کہ خدمت کے میدان میں نہ حکومت نظر آرہی ہے اور نہ ان کی تخلیق کردہ ہزاروں کاغذی غیرسرکاری تنظیمیں (این جی او)۔ خدمت کا میدان، ان کے نزدیک ’شدت پسند‘ تنظیموں نے مار لیا ہے۔ کاغذی تنظیموں یا نری سرکاری ڈیوٹی کا بوجھ سمجھ کر کام کرنے والے اگر ہیں بھی، تو صرف چند مخصوص علاقوں تک محدود۔ ہزاروں میل پر پھیلے پانی میں گھرے بے نوا لوگوں تک پہنچنے کا نہ ان کے دل میں داعیہ ہے اور نہ کوئی ارادہ۔ مصیبت اور آزمایش نے ہر چہرہ بے نقاب اور ہر دل کا حال کھول کر رکھ دیا ہے۔ دوست دشمن نکھر کر سامنے آگئے ہیں۔ عرب شاعر کے الفاظ میں ؎
جَزَی اللّٰہُ الشَّدائِدَ کُلَّ خَیْرٍ
عَرَفْتُ بِھَا عَدُوِّی مِنْ صَدِیْقِی
(اللہ سختیوں کو جزاے خیر دے، میں نے ان کے ذریعے اپنے دوست اور دشمن کو پہچانا ہے۔)
ہمارے حکمرانوں کے لیے اگر مدرسۂ رسالتؐ سے کچھ سیکھنا ممکن ہو، تو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ واقعہ ضرور پڑھیں کہ ایک بار صبح صبح، منہ اندھیرے ریاست مدینہ کے باہر شورو غوغا بلند ہوا۔ لوگ گھبرا کر آواز کی جانب دوڑے، شہر سے تھوڑا سا باہر نکلے تو سامنے سے ریاست کے سربراہ، تاج دار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے پر سوار واپس تشریف لارہے تھے۔ تلوار گلے میں لٹکی ہوئی تھی اور آپؐ پکار پکار کر فرما رہے تھے: لَم تُراعُوا۔۔ لَم تُراعُوا (گھبرانے کی کوئی بات نہیں ---سب خیریت ہے۔ یہ سمندر کی جانب سے آنے والا شور تھا)، یعنی آپؐ اپنے سب ساتھیوں سے پہلے جاکر صورت احوال معلوم کر آئے تھے اور اب تسلی دے رہے تھے کہ پریشان نہ ہوں کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔
مدرسۂ رسالتؐ ہی سے یہ سبق بھی سیکھنا چاہیے کہ اپنے رب سے آزمایشوں سے بچنے اور عافیت کی درخواست کیا کرو۔ کہا کرو: اَللّٰہُمَّ عَافِنِیْ فِیْمَنْ عَافَیْت، اے میرے اللہ! مجھے بھی عافیت پانے والوں کے ساتھ عافیت عطا فرما۔ دُعا کیا کرو: اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ تَحَوَّلِ عَافِیَتِکَ: اے میرے اللہ! میں تیری عافیت اٹھ جانے سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور کہا کرو: رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَآ اِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہٗ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا ج رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖج وَاعْفُ عَنَّا وَ اغْفِرْلَنَا وَ ارْحَمْنَا اَنْتَ مَوْلٰـنَا (البقرہ ۲:۲۸۶) اے ہمارے رب ہم پر اس طرح آزمایشیں نازل نہ فرما جس طرح ہم سے پہلی اقوام پر نازل کیں۔ ہم پر اتنا بوجھ نہ ڈال کہ جو ہم برداشت ہی نہ کرسکیں، ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما تو ہی ہمارا آقا و مولا ہے۔
حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں: رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی صبح و شام کے وقت یہ کلمات کہنے نہ چھوڑے: اے میرے اللہ! میں تجھ سے اپنے دین، اپنی دنیا، اپنے اہل و عیال اور مال و متاع کے حوالے سے تیری عافیت کا سوال کرتا ہوں۔ اے اللہ! میری کمزوریوں کا پردہ رکھ لے اور میرے خدشات کو امن و سکون میں بدل دے۔ تو میرے سامنے سے بھی میری حفاظت فرما اور میرے پیچھے سے بھی، میرے دائیں سے، میرے بائیں سے اور میرے اُوپر سے میری حفاظت فرما۔ اے اللہ! میں تیری عظمت کی پناہ چاہتا ہوں کہ میں نیچے سے ہلاک کر دیا جائوں۔
ان دُعاؤں کے ساتھ ہی ساتھ یہ تلقین بھی فرمائی کہ اگر کوئی آزمایش یا مصیبت آجائے تو پھر صبر کرتے ہوئے رب ہی سے استعانت طلب کیا کرو: وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ (البقرہ ۲:۴۵) ’’صبر اور نمازوں کا اہتمام کرتے ہوئے، اللہ کی مدد حاصل کیا کرو‘‘۔ پھر ایک جامع ہدایت یہ دے دی کہ آزمایشوں سے نجات کے لیے، انسانی بس میں جتنی کوششیں ممکن ہیں وہ سب بروے کار لایا کرو۔ مَا اسْتَطَعْتُمْ،یعنی جتنی بھی تم میں استطاعت ہے، سعی و تیاری کیا کرو۔ جو بھی کام کرو اسے بہترین انداز سے کیا کرو: ان اللّٰہ یحب اذا عمل أحدکم عملا أن یتقنہ، اللہ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ تم جو کام بھی کرو اسے بہترین طریقے سے کرو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف زبانی تعلیمات ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنے عمل سے ان تعلیمات کا بہترین نمونہ پیش کیا۔ ایک مثال کے طور پر آپؐ کے سفر ہجرت ہی کو لے لیجیے، انسانی ذہن میں جتنی تدابیر آسکتی تھیں آپؐ نے ان پر عمل کیا۔ سفر سے کئی روز پہلے ہی رفیق سفر کا انتخاب، بہترین سواری کا انتظام، راستہ بتانے کے لیے راستے کے تمام نشیب و فراز سے آگاہ شخص کی خدمات کا اہتمام۔ پھر گھر سے نکلتے ہوئے اپنے عم زاد اور جاں نثار صحابی، حضرت علیؓ کو اپنے بستر پر سلانے کا اہتمام تاکہ دیکھنے والے سمجھیں کہ آپؐ ابھی بستر پر ہی ہیں۔ وہاں سے چلے جانے کے بعد امانتوں کی ادایگی کا حکم۔ سفراگرچہ شمال کی جانب کرنا تھا، لیکن مکہ سے نکلے تو رخ جنوب کی طرف تھا، نقوش پا بھی اسی جانب لے جا رہے تھے۔ فوراً ہی اصل سفر شروع کردینے کے بجاے غارِ ثور میں قیام۔ اس قیام کے لیے بھی ایسے پہاڑ اور ایسے غار کا انتخاب کہ دشوار گزار ہونے کی وجہ سے کسی کا دھیان ہی ادھر نہ جائے۔ وہاں قیام کے دوران بھی اہل مکہ کی نقل و حرکت سے آگاہی کے لیے پسرِ صدیقؓ کی ڈیوٹی کہ وہ روزانہ آکر خبریں پہنچانے کا اہتمام کریں۔ بنتِ صدیقؓ کی ذمہ داری لگی کہ وہ کھانا پہنچائے اور غلامِ صدیقؓ کی ذمہ داری یہ تھی کہ بکریاں چرانے وہاں آئے، تاکہ ان سے دودھ بھی حاصل کیا جاسکے اور پھر ریوڑ واپس جائے تو غار کی طرف آنے جانے والے قدموں کے تمام نشانات ختم ہوجائیں۔ غار ثور سے اس وقت کوچ کیا جب مشرکین مکہ مایوس ہو کر بیٹھ گئے۔ پھر آپؐ کو راستے میں بھی اگر کوئی ملا، تو اسے اپنا تعارف نہ کروایا۔ یار غار سے ایک راہگیر نے پوچھ ہی لیا کہ یہ ساتھ کون ہے تو انھوں نے کہا:ھاد یہدینی، رہنما ہے مجھے سیدھی راہ دکھاتا ہے۔ کون سی انسانی کوشش رہ گئی کہ جس کا آپؐ نے اہتمام نہ کیا ہو؟ حالانکہ آپؐ تو سید الانبیا اور محبوبِ خدا تھے۔ اللہ کی طرف سے آپ کو یثرب ہجرت کرجانے کا حکم مل جانے کے بعد آپ مکہ سے رخصت ہوئے تھے ۔ منزل پر پہنچ جانے کا یقین اس حد تک پختہ تھا کہ دشمن سر پر پہنچ جانے کے بعد بھی یارِ غار کو ان الفاظ میں تسلی دی کہ ’’ان دو کے بارے میں تمھارا کیا خیال ہے جن کا تیسرا خود اللہ تبارک و تعالیٰ ہے۔ لا تحزن ان اللّٰہ معنا، پریشان نہ ہوں، اللہ یقینا ہمارے ساتھ ہے۔ لیکن اس یقین و اعتماد نے احتیاطی تدابیر کے ادنیٰ سے ادنیٰ جز و کو بھی چھوڑ دینے کا خیال پیدا نہ کیا۔
اس نبوی انتظام و اہتمام کی روشنی میں ہم اہل پاکستان بھی قوم، افراد، عوام اور حکومت کی حیثیت سے اپنا اپنا جائزہ لیں، ہم نے کیا احتیاطی تدابیر اختیار کیں۔ ٹھیک ہے اس پیمانے کا سیلاب اور اس درجے کی آزمایش پہلے کبھی نہیں آئی، لیکن کسی نہ کسی سطح پر سیلاب اور بارشوں کا سامنا تو ہمیں تقریبا ہر سال کرنا پڑتا ہے۔ ملک میں توانائی کا بحران روز بروز سنگین ہورہا ہے۔ پانی کی کمیابی چیلنج کی صورت اختیار کرتی جارہی ہے۔ ہر سال بارشوں کے پانی ہی کو سنبھال لینے سے تینوں بحران ٹالے جاسکتے ہیں۔ توانائی و پانی کے حصول اور سیلاب و طوفان سے بچاؤ کا انتظام کیا جاسکتا ہے۔ لیکن یہاں تو مسئلہ اپنی اپنی ڈفلی بجانے کا بھی ہے ۔۔ کالا باغ ڈیم ہر قیمت پر بنائیں گے--- کالاباغ ڈیم ہماری لاشوں پر ہی تعمیر ہوسکے گا۔ ڈیم بنے گا تو سندھ بنجر ہوجائے گا--- ڈیم بنے گا تو پنجاب--- غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔ لیکن اب حالیہ سیلاب نے تینوں بلکہ چاروں صوبوں کو یکساں کردیا ہے۔ اگر اپنی آیندہ نسلوں کو بھی یونہی ڈبو کر ہلاک کردینے کا ارادہ نہیں ہے، تو ہمیں ایک قومی اتفاق راے کے ذریعے ضرور ایک جامع منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔ سب اختلافات کو بھلا کر جسد واحد کی طرح کام کرنا ہوگا۔ آج کی سائنسی ترقی تو سمندر کے کڑوے پانی سے فصلیں اگا رہی ہے، گوبر اور کوڑے کرکٹ سے بجلی حاصل کررہی ہے، خلا میں چہل قدمی کررہی ہے، چاند کی سیاحت شروع کرنے جارہی ہے، زیر زمین ترقی یافتہ شہر اور ناقابل تسخیر قلعے تعمیر کررہی ہے۔ جاپان جیسے زلزلہ بار ملک میں آواز سے تیز رفتار ٹرینیں چل رہی ہیں اور زیرِزمین بھی ٹرینوں کا جال پھیلا ہوا ہے۔ وہاں تقریباً ہرسال زلزلے آنے کے باوجود پورے ملک میں فلک بوس عمارتیں تعمیر کررہی ہے۔ یہ سائنسی علوم ہمیں قدرتی آفات سے نجات کیوں نہیں دلاسکتے، معلّمِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ میں تو علم و حکمت مومن کی متاع گم گشتہ ہے، جہاں سے بھی ملے وہ اس کا سب سے زیادہ حق دار ہے۔ آخر جاپان بھی تو وہی ملک ہے جہاں اب تک کی انسانی تاریخ کا اکلوتا ایٹمی حملہ ہوا تھا، اور پورے کے پورے شہر راکھ کا ڈھیر اور لاکھوں انسان قبرستان میں بدل گئے تھے۔
راکھ سے افلاک تک پہنچنے کے لیے، کوئی بھی قوم اگر ایک قوم کی حیثیت سے جینے کا فیصلہ کرلے، خود کو ان تھک محنت کا خوگر بنا لے، ایمان داری کو شعار بنا لے ، سب باہمی اختلافات کو پس پشت ڈال دے، تو یقینا دنیا کے سامنے کامیابی کے نئے معیار قائم کیے جاسکتے ہیں۔ کامیابی کے لیے درکار ان رہنما اصولوں میں سے آخر کون سی بات ایسی ہے جس کی جانب قرآن کریم اور سنت نبویؐ نے رہنمائی نہ کردی ہو؟۔ ایک لفظ ’جہاد‘ ہی ان تمام مطلوبہ صفات کا احاطہ کرلیتا ہے۔ جہاد ہی نے میدان بدر میں صفوں کو ترتیب دیا اور پانی کا کنٹرول سنبھالا۔ جہاد ہی نے میدان احد میں لشکر کی پشت میں واقع ٹیلوں کی نگہبانی کروائی۔ جہاد ہی نے عالم عرب میں پہلی بار مدینہ کو طویل و عریض خندق کے ذریعے محفوظ کروایا۔ جہاد ہی نے صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کے موقع پر عفو و درگزر اور اپنی راے کی قربانی کو حقیقت میں ڈھالا۔ جہاد ہی نے مال و دولت کی محبت کو دلوں سے یوں کھرچ دیا کہ مسجد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صحن میں مال و اسباب کے ڈھیر لگ گئے۔ آج بھی پوری قوم کو ایمان اور جذبۂ جہاد سے سرشار کردینے کی ضرورت ہے۔ تعمیری جہاد، تعلیمی و علمی جہاد، ذاتی شہرت و اقتدار سے نجات کا جہاد، خدمت، ایثار اور ایمان داری کا جہاد، حقیقی دشمن کو پہچانتے ہوئے، پوری قوم کو ایک کنبہ اور ایک گھرانا بناتے ہوئے وحدت و اتحاد کا جہاد۔ دیر تو صرف ارادے اور آغاز عمل کی ہے۔ آئیے ہم میں سے ہر شخص ایک ایک فرد کے دل میں عمل کی شمع روشن کرنے کا آغاز کردے۔ قطرے قطرے سے دریا اور ایک ایک شمع روشن کرنے سے یقینا روشن و تاب ناک کہکشاں ترتیب پاجائے گی۔