کسی اِسلامی تحریک یا نظامِ جماعت کو چلانے کے لیے ذرا مختلف قسم کے اوصاف درکار ہیں۔ اس معاملے میں سرکارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت مقدسہ اور ان کے مسلکِ پاکیزہ کا مطالعہ اوّلین ضرورت ہے۔ بعد ازاں حضوؐر کی پیروی میں حضوؐر کے پروگرام کے مطابق اقامت ِ دین کا کام کرنے والوں کا جائزہ لینا مفید ہوسکتا ہے۔ اِس نقطۂ نظر سے جب مولانا مودودیؒ کے حُسنِ گفتار اور حسنِ کردار کو دیکھتا ہوں تو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ شخص اپنے نبیؐ کی مشعل کو بلند کرنے اور اس کے گرد لوگوں کو جمع کرنے کے لیے خاص صلاحیتوں سے نوازا گیا تھا۔
وہ مرکز کے کارکنوں یا جماعت کے رفیقوں یا آنے والے مہمانوں سے ہمیشہ محبت و اعتماد کا معاملہ کرتے تھے۔ یہ کسی کو کبھی محسوس نہ ہوا کہ مولانا اس پر کوئی شک رکھتے ہیں، اس کو ناپسند کرتے ہیں، کسی اور کو ترجیح دے کر اسے محسوس کراتے ہیں کہ ہمارے پاس تو تم سے بہتر لوگ موجود ہیں اور تم بھی اگر اِن جیسا بننا چاہو تو ہماری پسند کی ترازو پر پورے اُترو۔
وہ ہر سوال یا اعتراض یا اختلاف پر تندوتیز بحث کرکے آدمی کو دبوچ نہیں لیتے تھے کہ اس کی جرأت ِ اظہار ہی کچل جائے۔ وہ کبھی اتھارٹی اور اختیار نہیں جتاتے تھے۔ وہ کسی سوال کا جواب یہ نہیں دیتے تھے کہ ’بس یہ ہمارا فیصلہ ہے‘۔ نہیں، وہ بار بار مختلف لوگوں سے مختلف طرز پر استدلال کرتے رہتے، اہلِ علم سے، اہلِ اخلاص سے، اختلاف کرنے والوں سے، دفتر کے کارکنوں سے، معترضین سے۔ اس طرح وہ دلیل کی قوت سے آہستہ آہستہ میدان فتح کرتے چلے جاتے۔ بات کرنے والے کی بات کو کبھی کاٹ کر نہ رکھ دیتے۔ یہ نہ محسوس کراتے کہ یہ ہم پہلے سے جانتے ہیں یا اس پر ہم پہلے بات کرچکے ہیں یا بیان دے چکے ہیں۔
کسی کو یہ بھی نہ کہتے کہ تم کسی سازش کا شکار ہو، تم پر کسی غلط قوت کا اثر ہے، بلکہ ان کا بنیادی طریقِ کار محبت سے تبادلۂ خیال کرنا ہوتا۔ پھر اگر کوئی شخص ساتھی بنتا تو وہ اس پر پورا اعتماد کرتے اور اس کو ایسی ذمہ داری یا ایسا مقام تفویض کرتے کہ وہ ہکّا بکّا نہیں، بلکہ کانپتا رہ جاتا اور درخواست کرتا کہ مجھ سے بہتر آدمی مل سکتے ہیں۔ وہ فرماتے کہ آپ یہ کام کریں تو سہی، شاید آپ ہی موزوں آدمی ثابت ہوں۔ چنانچہ مولانا مودودی کا اعتماد میرے جیسے چھوٹے چھوٹے آدمیوں کو بڑے بڑے کام کرنے کے قابل بنا دیتا۔
اُن کی بڑائی یہی تھی کہ جو اِن کے قریب ہوا، اُس کو انھوں نے احساس دلایا کہ ’تم ایک اہم آدمی ہو‘ اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ آہستہ آہستہ وہ آدمی بلند تر ہوتا چلا جاتا۔
مشاورتوں اور مجالسِ شوریٰ میں وہ نہ تو پہلے سے طے شدہ فیصلہ یا اسکیم یا منصوبہ لے کر آتے اور نہ جملہ ارکان سے الگ پہلے کسی گروپ کو کسی خاص امر کے لیے تیار کرتے، بلکہ صورت ِ حالات کا نقشہ سب سے سننے کے بعد کوئی ایک سوال سامنے رکھ دیتے۔ مثلاً انتخاب میں حصہ لینا چاہیے یا نہیں اور پہلے سے اپنی طرف سے کوئی رجحان سامنے لائے بغیر تمام رفقا کو آزادانہ اظہارِ خیال کا موقع دیتے، یہاں تک کہ بات نتھر کر کسی ایک رُخ پر آجاتی۔ پھر وہ پھیلے ہوئے الفاظ اور خیالات کو سمیٹ کر سب سے یہ دریافت کرتے کہ کیا آپ کا نقطۂ نظر، یہ اور یہ ہے؟‘ اگر محسوس ہوتا کہ فیصلے کا مرحلہ نہیں آیا ، بلکہ اختلافی رجحانات موجود ہیں تو اجماع و اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے بحث کے خاص خاص پہلوؤں پر توجہ دلا دیتے کہ یہ اور یہ باتیں بھی زیرِ غور لاکر سوچیں۔ تاآنکہ دو تین دَور گفتگو کے چل کر کوئی ایسا فیصلہ طے پاتا ، جس پر پوری مجلس متفق الرائے ہوجاتی اور بالعموم کسی کے دل میں گھٹن نہ رہ جاتی کہ میری بات کو دبایا گیا ہے۔ اگر کسی فرد کو ایسی شکایت ہوتی تو ایک آدمی کے لیے ساری بات کے اجزا پھر سامنے لاتے۔
بہت ہی کم مواقع پر معمولی اقلیت کے استثنا کے ساتھ اکثریتی فیصلے بھی کرنے پڑے، مگر ایسے انداز میں کہ اختلافی اقلیت کو یہ محسوس نہیں ہوا کہ ہمارے خلاف کوئی خاص دباؤ ہے یا محاذ ہے۔ ایسے حضرات اپنی آراء کو ایک طرف رکھ کر بخوشی اکثریتی فیصلے کی علَم برداری میں تعاون کرتے۔
اسلامی نظام کی امارت اور اس کی تنظیم و تربیت کے بھاری کام کے لیے موجودہ دَور کے لحاظ سے بہترین نمونہ سیّد مودودیؒ نے نہ صرف عملاً پیش کیا بلکہ تحریری طور پر اپنے طریقِ کار کا ریکارڈ بھی چھوڑا اور عملی کردار کے گواہ بھی۔
مولانا کی صحت ِ قیادت اور ان کی روشن محبت و اعتماد کا راز یہ تھا کہ وہ تحریک کے کام کو اصلاً اقامت ِ دین کا کام اور اس کام کے ہر ضروری جز کو خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ انھوں نے سیاست کو کاملاً تابع دین رکھا۔ دین سے آزاد سیاست، دین سے آزاد جمہوریت یا دین سے آزاد انتخابات کا کوئی تصور دُور دُور تک اُن کے ہاں نہ تھا۔ دین کی رہنمائی، مقاصد اور سرگرمیوں اور رابطوں میں بھی کار فرما رہتی۔ انھوں نے ووٹوں یا سیٹوں کی زیادہ تعداد حاصل کرنے کے لیے ایسے طریقے یا ایسے رابطے کبھی اختیار نہیں کیے، جو دینی اُصولوںکے خلاف ہوں۔
مولانا مودودیؒ کی ایک عظیم خوبی یہ تھی کہ وہ اونچے سے اونچے مرتبے پر ہوتے ہوئے بھی نچلی سے نچلی سطح کے کارکن تک برادرانہ یک جہتی کا گہرا رابطہ رکھتے۔ خط کتابت کے ذریعے، گفتگوؤں کے ذریعے، اپنی شام کی مجلسِ عام کے ذریعے، دَوروں میں ایک ایک کارکن سے ملاقات کے ذریعے، وہ اپنے رابطے کو گہرا کرتے رہتے تھے۔ وہ کارکنوں کا ذہن جس طرح کئی سال میں تشکیل کرتے تھے، پھر اس بات کا لحاظ کرتے تھے کہ وہ کوئی ایسا فیصلہ و اقدام محض منصب، امارت یا مجلسِ شوریٰ کے اختیارات کی بنا پر نہ نافذ کردیں ، جو خود اُن کی بنائی ہوئی ذہنیت سے ٹکرائے اور ان کی اپنی ہی دی ہوئی تربیت کی فصل کو ویران کر دے۔
مولانا مودودیؒ کی خاص صلاحیت یہ تھی کہ وہ تحریک کے اُصول و مقاصد کو ، جماعت کی روایات و اقدار کو، کارکنوں کے ذہن و مزاج کو پوری طرح نگاہ میں رکھتے تھے اور یہ اندازہ کر لیتے تھے کہ کس معاملے میں کس وقت جماعت اور اس کے کارکنوں کے جذبات و احساسات کیا ہیں اور ان کی مانگ کیا ہے اور ان کی بے زاری کا رُخ کدھر ہے اور ان کی محبت کی سمت کدھر ہے ، کس بات پر وہ جمع ہوں گے، کون سی چیز ان کو بحثا بحثی میں ڈال دے گی یا بکھیر دے گی۔ نتیجہ یہ کہ وہ کسی مسئلہ خاص کو بھی اُصولِ دین اور مصالحِ شرعیہ کے تحت خوب جانچتے اور پھر کارکنوں کے ذہن کی تحریکی ساخت کا بھی صحیح ناپ تول کرتے۔ اور جب وہ کوئی بات کہتے تو لوگوں کے چہرے روشن ہوجاتے اور دل کِھل اُٹھتے اور ان میں کام کرنے اور آگے بڑھنے اور قربانیاں دینے کی سپرٹ جاگ اُٹھتی۔ سب کے دل جمع ہوجاتے۔ بہت ہی کم کبھی ایسا ہوا کہ کچھ جزئی اُمور پر کارکنوں کا فوری طور پر پورا پورا اطمینان نہیں ہوا۔ لیکن پھر بھی وہ تھوڑی بہت افہام و تفہیم ہوجانے پر جادۂ فرض پر خوش خوش متحرک ہوگئے، یعنی اُوپر سے نیچے تک رشتۂ اعتماد بحال رہا۔
اندریں صورت تمام کارکن یہ سمجھتے تھے کہ مولانا مودودیؒ خود کوئی بیان دیں، فیصلہ ہو یا مجلسِ شوریٰ میں کوئی بات طے ہو، ہم سب کا لحاظ رکھا جاتا ہے اور ہمیں اہمیت دی جاتی ہے۔ کم سے کم یہ تو بالکل طور طریق نہ تھا کہ کارکنوں کی تحقیر کرکے انھیں کوئی ادنیٰ درجے کی چیز سمجھا جائے یا یہ ظاہر کیا جائے کہ کارکنوں کا ذہن یا نقطۂ نظر کچھ بھی ہوا کرے، فیصلہ کرنے والے تو ہم ہی ہیں، جس پر انھیں لازماً عمل کرنا ہوگا۔ سوچنے اور بات کہنے کا یہ انداز ہی خطرناک ہے۔ یہ ہماری خاص طرز کی تنظیم کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔ ہم تو اپنے ہر کمزور ساتھی کو بھی احساس دلانا چاہتے ہیں کہ تم بہت اہم ہو اور ہم تمھیں ساتھ لے کے چلیں گے اور تم جو جذبات و احساسات رکھتے ہو اور جو کچھ تم نے لٹریچر اور تنظیم سے حاصل کرکے اپنا ذہن بنایا ہے، اس کا ہم پورا لحاظ رکھیں گے۔ تم اس مشینری کا لازمی حصہ ہو۔ تم سوال بھی کرو، مشورے بھی دو، اعتراض بھی اُٹھاؤ، پریشانی بھی ظاہر کرو، ہمیں تمھارے اس تعاون کی ضرورت ہے۔ یہ طرزِ عمل تھا جو مولانا مودودیؒ نے اختیار کیا۔ ہم سب جنھوں نے ان کے ساتھ کام کیا، وہ اس کے گواہ ہیں۔
ایسی بہت سی باتیں ہیں مولانا مودودیؒ کے متعلق جاننے کی اور پوچھنے اور بتانے کی۔ تاہم، ان گزارشات پر اگر اخلاص کے ساتھ غور کیا جائے تو ہر رفیق روشنی حاصل کرسکتا ہے۔ دوسری طرف ناراض ہونے والے مہربان زجروتوبیخ بھی کرسکتے ہیں ع
(میں تو ایک مسکین سا دل ہوں جو موجودہ کش مکش میں گھِر گیا ہے)۔[اکتوبر ۱۹۸۸ء]
تعلیم کیا ہے ؟ وہ عمل جس کے ذریعے ایک نسل اپنی حاصل کردہ معلومات ، تجربات ،عملی مہارتوں اور اپنے عقیدہ واطوار کو نو خیز نسل کی طرف منتقل کرتی ہے۔ پہلے ا س عمل کا زیادہ تر حصہ گھروں کے دائروں میں تکمیل پاتا تھا۔ ماں کی گود اور باپ کے فیضانِ نظر کا مکتب اکتفا کرتا تھا ۔ پھریہ عمل قبیلے یا دیہی کمیونٹی تک وسیع ہو گیا۔ بعد میںجب انسانی معلومات اور تجربات کا پھیلائو بڑھ گیا تو باقاعدہ مکتب ومدرسہ کے ادارے وجود میں آئے۔ اور اب، جب کہ شاخ در شاخ علوم کی پہنائی اتنی بڑھ گئی ہے کہ ہر شاخ بجاے خود چمن بد اماں ہے، تعلیم کاعمل یونی ورسٹیوں اور جامعات وکلیات کے بھاری بھر کم نظام کا منت کش ہو گیا ہے۔
اسی بنیادی سرمایۂ شعور سے ہر معاشرے کا کلچر بنتا ہے اور اسی کے مطابق اس کی ساری تہذیب تشکیل پاتی ہے ۔اس کلچر یا تہذیب کو تعلیم کے ذریعے ہر نسل دوسری نسل کی طرف بڑی احتیاط اور بڑی سر گرمی سے منتقل کرتی ہے۔ اسی تہذیب کے مطابق اس کی اجتماعیت بنتی ہے۔ اسی کے مطابق اس کا نیشنل ٹائپ بنتا ہے۔ اسی کے مطابق اس کا نظامِ اقدار ، اس کا سلسلۂ اطوار اور اس کا تصور کردار نمودار ہوتا ہے ۔ پس اگر وہ اپنے امتیازی تہذیبی شعور کو آیندہ نسلوں تک پہنچانے میں کوتاہی کرے تو اس کا نتیجہ بجز اس کے کیا ہو سکتا ہے کہ اخلاف اپنے تہذیبی وجود کو کھو بیٹھیں، اپنا مقصد گم کر دیں ، اپنے تصورِ کردار سے محروم ہو جائیں، اپنے معتقدات کی عمل انگیز روح کو ضائع کر دیں، اور اپنی اجتماعیت کی شکست وریخت کا تماشا کریں۔
پس میں جس تہذیبی نظریۂ تعلیم پر گفتگو کر رہا ہوں ، اس کے لحاظ سے اوّلیت اس امر کو حاصل ہے کہ پورے نظام تعلیم میں اس تہذیبی شعور اور تجربے کو اوّلیت اور غلبہ حاصل ہونا چاہیے جس کے بل پر کوئی قوم قائم ہے اور جس کی تحریک ہی سے وہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو کر مزاحم قوتوں کے ہر چیلنج کا جواب دینے کے قابل ہوتی ہے۔ تہذیبی نظریۂ تعلیم پر غور کرتے ہوئے ہمیں خود اپنے بارے میں سوچنا چاہیے کہ ہمارا امتیازی تہذیبی وجود کیا ہے ، کیسے بنتا ہے اور اس کی بنا کیا ہے ؟
پس ہم ملت اسلامیہ سے وابستہ لوگ کائنات وحیات کا خدا پرستانہ اعتقاد رکھتے ہیں۔ ہم تمام نظریات وافکار کی آخری کسوٹی علمِ وحی کو مانتے ہیں۔ ہم خدا کے رسولوں کے اسوہ کو انسانی کرداروں کے لیے معیار سمجھتے ہیں۔ ہم حق وباطل اور خیر وشر کی ایک خاص تقسیم کے قائل ہیں۔ ہم پائیدار اخلاقی بنیادوں کے مطابق انسانِ مطلوب کا خاکہ سامنے رکھتے ہیں۔ ہماری نگاہ میں انسانی مراتب اور رابطوں اور باہمی حقوق وفرائض کا ایک متعین ومخصوص معاشرتی ڈھانچا وقعت رکھتا ہے۔ ہم دولت ومحنت کا تعاون عدل واحسان کے ذریعے قائم کرتے ہیں۔ ہم مرد وزن کے دو طرفہ مساویانہ حقوق کی حفاظت کرنے کے ساتھ ساتھ گھر کے ادارے کو مستحکم رکھنے کے لیے مرد کو ادارے کی لیڈر شپ پر فائز کرتے ہیں۔ اسی طرح جنگ وصلح کے حدود ، مجلسی آداب وشعائر، اور ایک مخصوص قسم کا ذوق جمال و زیبائی ہمارے تہذیبی سرمایے کے لازمی اجزا ہیں۔ ہمارے اساسی عقائد کے مطابق جو خدا پرستانہ تہذیب نمودار ہوتی ہے ، اس میں ایک خاص نہج کی ہیئت اجتماعیہ جگہ پا سکتی ہے۔
ہم پر مصیبت یہ آئی کہ ایک بیرونی قوم نے ہمیں غلامی میں جکڑ کر نظامِ تعلیم کے ذریعے اپنی مادّہ پرستانہ تہذیب کو ہم پر ٹھونسنے کا عمل جاری رکھا۔ اس عرصے میں ہمارے عقیدے، ہمارے مقصد اور معیارِ انسان مطلوب ، یعنی ہمارے اساسی تہذیبی شعور کو بری طرح تباہ کیا گیا۔ ہمارا پورا نیشنل ٹائپ غارت ہونے لگا۔ ہمارے امتیازی تہذیبی وجود کے تمام اجزا پراگندا ہونے لگے۔ ہمارا تصورِ اجتماعیت نگاہوں سے گم ہونے لگا، اور ہماری ملّی خودی جوتجدید واحیا کے لیے قوتِ محرکہ تھی، تعلیم کے تیزاب میں پڑ کر راکھ ہونے لگی۔ ہمیں اگر بچایا ہے تو قرآن وحدیث کے اس علم نے جو ایک مشعل کی طرح ہمارے ساتھ ساتھ رہا۔ اور جس سے بہرہ مند کرنے کے لیے ہمارے ان علما ، لیڈروں، ادیبوں، مصنفوں اور صحافیوں نے اپنی محنتیں صرف کیں جو مغربی سامراج کی غلامی کے قفس میں بھی اپنی ایمانی روح کو سلامت رکھ سکے۔
ایک کے بعددوسری اور تیسری تعلیمی پالیسی پچھلی کوششوں سے بہت بہتر ہے، مگر اس کا بھی مطلوب صرف یہ ہے کہ ہر مضمون میں اسلام کے عناصر کو شامل کر دیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ مغرب سے مستعار علوم اور افکار اور نصابیات میں جو مادّہ پرستانہ تصورِ کائنات وحیات ، نظریۂ ارتقا کے تحت انسان کا جو حیوانی تصور، نفسیاتی اور تاریخی جبریت کا جو فلسفہ ، اخلاق کا جو افادی نظریہ، ادب، سائنس اور ٹکنالوجی کا جو دیوتائی مرتبہ ، اور تحلیل وتحریم اور قانون سازی میں عوامی جذبات وخواہشات کی برتری کی جو فکر شامل ہے ، اسے تبدیل کیے بغیر آخر یہ کیسے ممکن ہو گا کہ اس مقصد کے لیے وہ انسان پیدا ہوں جن کا تقاضا اسلام کا تہذیبی نظام کرتا ہے۔
ہمیں تو ایسی یونی ورسٹیاں اور کالج درکار ہیں جن سے پڑھ کر نکلنے والے نوجوان اسلامی انقلاب کے سپاہی بن کر نکلیں ۔ وہ اپنے دین اور اپنے نظریات وتصورات اور اپنی تہذیب کے اطوار واقدار کی برتری کا یقین رکھتے ہوئے دنیا بھر کی اقوام کے سامنے ان کے نقیب بنیں۔ یہ اصل مطلوب اگر حاصل ہو تو علمِ ماحول اور علمِ اشیا کا جو ذخیرہ جہاں سے بھی ملے اَزخود اپنی جگہ پر نصب ہو جائے گا، لیکن اگر تہذیبی شعور اور ملّی خودی ہی زندہ وتوانا نہ ہو تو آپ اس کی کمر سے اگر سائنس یا ٹکنالوجی کی تلوار باندھ بھی دیں تو آخر بقاو ارتقا کا جہاد کیسے عمل میں آجائے گا؟ خالی سائنس اور ٹکنالوجی تو محض بے مقصد خدمت گزار فراہم کرتی ہے جنھیں کسی بھی قوم اور کسی بھی تہذیب کی گاڑی میں قلی بنا کر جوتا جا سکتا ہے۔
آج سے ہمیں فیصلہ کر لینا چاہیے کہ ہمار ا مقصد محض اسلامیات پڑھانے سے پورا نہیں ہوسکتا ، خواہ اسے ہر مضمون میں شامل کر دیا جائے، بلکہ اسلامی نظام تعلیم وہ ہو گا جو غیر اسلامی اور مادّہ پرستانہ تہذیبوں کے افکار ونظریات کے خلاف نوجوانوں کو ایمانی جہاد لڑنے کے قابل بنا سکے اور انھیں اسلام کے مکمل تہذیبی شعور سے مسلح کر سکے۔
بہت سے مسلمان ایسے ہیں، جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے مطالعے سے ساری دل چسپی محض حصولِ ثواب کے لیے رکھتے ہیں (اس سعادت سے انکار نہیں کہ حضوؐر سے قربت کی ہرکوشش اللہ کی بارگاہ میں پسندیدہ ہے اور اجر کا باعث ہے۔ لیکن ایسی کوشش کا اوّلین مدعا اپنی زندگی کو سنوارنا بھی تو ہو )۔ دھوم دھام سے میلاد کی محفلیں منعقد کی جاتی ہیں اور اس اعتقاد سے کی جاتی ہیں کہ ان مجالس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی روح پر نور جلوہ گر ہوتی ہے اور اپنے پیروئوں کی محبت کے مظاہر کو دیکھ کر خوشنود ہوتی ہے۔ شیر ینی کے طشت ، پھولوں کے گجرے اور ہار، قوالی اور نعت خوانی کے اہتمام، اگر بتیوں اور لوبانوں کی خوشبوئوں کے مرغولے ، قمقموں اور فانوس کی لمعہ پاشیاں یہ سب کچھ اسی جذبے کے ترجمان ہیں۔
سیرت نبویؐ سے اس انداز کی عقیدت جو نقشہ سامنے لاتی ہے، اس سے ہم کسی آدم زاد شخصیت سے نہیں بلکہ ایک فوق الانسان ہستی سے متعارف ہوتے ہیں، جس کا پیکر نور سے ڈھلا ہے۔ جس کے کارنامے میں سارا کردار صرف معجزوں کا ہے، جو عالم اسباب کے قوانین سے بالا تر ہے، جس کے سارے کام فرشتے انجام دیتے ہیں اور جس کی ہر بات ہر چیز انسانی فہم کے دائرے سے باہر ہے۔
اس بنیادی حقیقت سے کوئی صاحب ِ ایمان انکار نہیں کرسکتا کہ ابناے نوع کے مقابلے میں حضوؐر کاروحانی اور اخلاقی پایۂ مرتبت ان انتہائوں پر ہے کہ وہاں بہت سی فوق العادت چیزیں بھی ملتی ہیں، وہاں معجزے بھی ہیں اور وہاں فرشتے بھی حرکت کرتے نظر آتے ہیں مگر بہرحال وہ پاک زندگی ایک انسان کی ہے جو افضل البشر ہیں اور ان کی عظمت کا اساس ہی یہ ہے کہ ایسی لامثال زندگی ایک انسان نے پیش کی۔ وہاں قوانین فطرت اور نو امیسی تاریخ وحدیث ہی کے دائرے میں سارا کام ہوتا ہے اور کامیابی کی راہ کے ایک ایک چپے پر انسانوں کو سبق دینے کے لیے انسانوں ہی کی طرح قربانیاں پیش کی جاتی ہیں۔
وہ ایک انسان کی زندگی ہو کر ہمارے لیے اسوہ بنتی ہے اور اسی کے تصور کے ساتھ ہم اس حیاتِ مقدسہ سے اکتساب کر سکتے ہیں۔ اس سے عزم وہمت کا درس لے سکتے ہیں۔ اس کے اصول کی پابندی اور فرض شناسی کا سبق سیکھ سکتے ہیں۔ اس سے انسانیت کی خدمت کا جذبہ اخذ کر سکتے ہیں اور اس سے بدی کی طاقتوں کے خلاف معرکہ آرا ہونے کے لیے اپنے اندر ایک تڑپ پید ا کرسکتے ہیں۔
اور اگر سیرت نبوی ؐ کو محض معجزہ بناکر اسے فوق الانسان کے طور پر ہی دیکھا جائے تو پھر مٹی کے بنے ہوئے انسانوں کے لیے اس میں نمونہ کیا رہے گا۔ ایسی ہستی کے سامنے ہم مرعوب اور حیرت زدہ تو ہو سکتے ہیں، اس سے ہم عقیدت تو رکھ سکتے ہیں، مگر اس کا اتباع نہیں کرسکتے ۔ چنانچہ جہاں عقیدت مندی کا ایسا خاص رنگ پہنچتا اور گہرا ہوتا جاتا ہے، عملی زندگیاں اتباع نبوت سے اتنی ہی آزاد ہوتی جاتی ہیں، بلکہ الٹی حالت یہ ہے کہ گھنائونے معاشی اور معاشرتی جرائم کے میکدے میں جو لوگ خم لنڈھاتے ہیں، وہ بھی اس سستے مظاہر ۂ عقیدت سے اپنے مضطرب ضمیر کو اطمینان دلاتے ہیں ع
کچھ بھی ہیں لیکن تیرے محبوب کے امت میں ہیں
دوسری طرف ایک مغربی رجحان اعاظم پرستی یا Hero Worship کی صورت میں حاوی نظر آتا ہے۔ یہ رجحان اپنی روح کے اعتبار سے قوم پرستانہ جذبات کا آئینہ دار ہے۔ ایک طرح کا قومی تفاخر ہے جو دوسروں کے سامنے گویا یہ کہتا ہے کہ دیکھو ہمارے پاس ایسی اور ایسی ہستیاں ہیں۔ ہماری تاریخ میں اتنے اتنے بڑے پائے کے بزرگ ہو گزرے ہیں اوران کے یہ یاد گار کارنامے ہیں، جن کے ہم وارث ہیں اور جو ہمارے لیے سرمایۂ افتخار ہیں۔ اس رجحان کی علامت یہ ہے کہ یہ ہمیشہ کھوکھلا ہوتا ہے اور اس کے تحت ہر قوم متعدد شخصیات کے ایام پیدایش اور دوسرے یادگاری دن بڑے ٹھاٹ باٹ سے مناتی ہے مگر یہ ایام کہیں بھی ان شخصیتوں سے استفادے کا ذریعہ نہیں بنتے۔ انسانیت کے جن نمونوں کو بصد تفاخر دوسروں کے سامنے پیش کیا جاتا ہے ان کا کوئی پرتو، انھیں پیش کرنے والوں کی اپنی زندگی میں دکھائی نہیں دیتا اور نہ کبھی اس پر تو کو اخذ کرنے پر توجہ دی جاتی ہے۔ اس رجحان کے تحت حضوؐر کی یاد تازہ کرنے کے لیے جو تقاریب منعقد ہوتی ہیں، کہنے کو تو ایک خاص طرح کی باتیں کہی جاتی ہیں مگر زندگی پر ان کا کوئی اثر نمودار نہیں ہوتا۔
تیسراغلط نقطۂ نظر وہ ہے جو حضوؐر کے پیغام کو ایک نظام حیات کا پیغام نہیں سمجھتا بلکہ ایک مذہب کا پیغام قرار دیتا ہے۔ اس نقطۂ نظر سے جو لوگ متاثر ہیں ان کا تصور یہ ہے کہ حضوؐر بس چند اعتقادات، چند رسوم، چند عبادات، چند اورادووظائف، چند اخلاقی سفارشیں اور چند فقہی احکام پہنچانے آئے تھے۔ ایسا عنصر حضوؐر سے بس طہارت ، نماز روزے ، نوافل واذکار اور انفرادی اخلاق کی حد تک اکتسابِ فیض کرتا ہے، لیکن تمدنی زندگی کے وسیع تر معاملات میں وہ پوری شانِ بے حسی کے ساتھ ہر باطل کے کام آتا ہے اور ہر جاہلیت کے ساتھ سازگاری کرلیتا ہے۔ اس عنصر نے گویا سیرت نبوی ؐ کی مقدس کتاب کے بے شمار زریں ابواب کو فراموشی کی سرزمین میں دفن کر دیا ہے اور بس ایک مقدمے کی نقل کو لے کر اسی میں کھو گئے ہیں۔ اس عنصر نے اب تک حضوؐر کی جو ترجمانی کی ہے، اس سے متاثر ہو کر دورِ حاضر کی کوئی غیر قوم تو کجا خود تعلیم یافتہ نوجوان مسلم تک یہ تصور بھی نہیں کرسکتے کہ حضوؐر ان کے لیے قافلۂ سالار تمدن بھی ہوسکتے ہیں اور ان کی بار گاہ سے تازہ ترین کٹھن مسائل کا کوئی حل بھی مل سکتا ہے۔
یہ غلط نقطۂ ہاے نظر پنپ اس لیے رہے ہیں کہ فضا ان کے لیے سازگار ہے۔ فضا یوں سازگار ہے کہ جس نظام سیاست وتمدن اور جس ہیئت معیشت ومعاشرت سے ہم دوچار ہیں اسے خاص نقشے کا انسان درکار ہے۔ وہ بالکل دوسری ہی سیرت افراد میں دیکھنا چاہتا ہے۔ اس کا کام ایک اور ہی طرز کے ذہن وکردار سے چلتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہاں عملی زندگی کو سرے سے اُس نمونۂ زندگی کی ضرورت ہی نہیں جسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پیش کرتی ہے۔ اس منڈی میں اُس متاع فکرو عمل کی مانگ ہی نہیں ہے جو آںحضوؐر کی زندگی سے اخذ کیا جا سکتا ہے۔ موجودہ زندگی کا اجتماعی نظام جس طرز کے وزیر، افسر، جج، وکیل ، لیڈر، صحافی ، سپہ سالار، سپاہی اور پٹواری، زمین دار ، ادیب، عام مزودر اور سرمایہ دار مانگتا ہے، ان کا نقشۂ انسانیت اس سے بالکل متضاد قسم کا ہے جس کا مظاہرہ سرور عالمؐ نے تاریخ کےاوراق پر پیش فرمایا۔
چھائے ہوئے نظام کی مانگ کے مطابق گھر گھر میں مائوں کی محبت کی گودیں اور باپوں کی شفقت کی نگاہیں اولادوں کو پال رہی ہیں۔ اس نظام کی ضروریات کا لحاظ رکھ کر ادارہ ہاے تعلیم وتربیت بیس بیس سال ایک ایک فرد پر صرف کرکے کام کے پُرزے بنا رہے ہیں اور اسی کے تقاضوں کے تحت ہر صاحب ِشعور خود اپنے ذہن وکردار کو ایک خاص شکل دینے میں ساری عمر مصروف رہتا ہے۔ یہ نظام جن جن چیزوں کو حقارت اور کراہت سے دیکھتا ہے، ماحول کی پوری طاقت ان کو مٹانے کے در پے رہتی ہے۔ یہ نظام جس بولی کو پسند کرتا ہے، زبانیں آپ سے آپ اسی بولی کو بولنے لگتی ہیں۔ یہ جس لباس کو پسند کرتا ہے، وہ لباس از خود زیب بدن ہونے لگتے ہیں۔ یہ ایک اشارہ کرتا ہے اور قدیمی حیادار گھرانوں کی بہوبیٹیوں کے چہروں سے نقابیں اُلٹ جاتی ہیں۔ عزت کی روش وہ ٹھیرتی ہے جسے مروجہ نظام رائج کرنا چاہے اور ذلت کا طرز وہ قرار پاتا ہے جسے چلتا ہوا تمدن نا پسند کرے۔ جن فنون کو یہ پسند کرتا ہے وہ ذریعۂ مقبولیت بنتے ہیں اور جن جن مشاغل کو یہ مسترد کرتا ہے وہ نذر تغافل ہو جاتے ہیں۔ یہ اپنی اقدار خود بناتا ہے اور تمام افراد سے منواتا ہے اور دوسری تمام روایات، اقدار اور شعائر کو مر جانا پڑتا ہے۔
کچھ حمیت دار افراد اور خاندان، اس ماحول کے جبری دھارے کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں مگر معاشی محرومی، ثقافتی پس ماندگی اور احساس برتری کا دبائو اتنا سخت ہوتا ہے کہ وقت گزر نے کے ساتھ ساتھ یہ سب اپنے آپ کو ماحول کے حوالے کرتے جاتے ہیں۔اس ماحول میں سرور عالم ؐ کی سیرت پر کتابیں اگر کوئی لکھے اور پڑھے بھی اور وعظ سنے اور سنائے بھی تو اسوۂ حسنہ کا ذوق لوگوں کے اندر آئے کہاں سے ؟
سچی بات یہ ہے کہ سیرت نبوی ؐ میں ان لوگوں کے لیے پیغام ہے ہی نہیں جو کسی غیراسلامی نظام سے بھی یہ بات بنائے رکھنا چاہتے ہوں اور جن کے مفاد کے سودے کسی باطل سے چمک رہے ہوں۔ یہ لوگ سیرت پڑ ھ کر سر دھنتے ہوں گے، ان کو ذہنی لطف و سرور ملتا ہوگا ،ان کی معلومات میں بھی کچھ اضافہ ہوتا ہوگا، لیکن ان میں یہ تحریک کہاں سے آئے گی کہ وہ اس سیرت کے سانچے میں زندگی کو ڈھالیں؟
لیکن ہم کہتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی داستانِ حیات کوئی خیالی کردار نہیں۔ اس کا مقام ہرگز یہ نہیں ہے کہ اسے ہم علم وادب کے تفریحی چوپال کا محض ایک سرمایۂ رونق بنائیں۔ اس کی قدر وقیمت اجازت نہیں دیتی کہ اسے ہم محض ذہنی لذت حاصل کرنے کے لیے استعمال کریں۔ اس کا احترام روکتا ہے کہ ہم اسے محض قومی فخر کے جذبے کی تسکین کا سامان بنائیں۔
افسوس کہ یہ غلط نقطہ ہاے نظر ہمارے ہاں مل جل کر کام کر رہے ہیں اور یہی اصل مقصد میں رکاوٹ بن گئے ہیں۔ کون شمار کرسکتا ہے کہ ہرسال کتنی مجالس میلاد اور جلسہ ہاے سیرت، ہمارے ملک میں منعقد ہوتے ہوں گے؟ ایک ربیع الاوّل کے مہینے میں کتنے وعظ اور کتنی تقریریں ہوا میں لہریں اُٹھا دیتی ہوں گی؟ کتنے مقالے اور کتابیں لکھی جاتی ہوں گی؟ کتنے رسالوں کے خاص نمبر اس موضوع پر شائع ہوتے ہوں گے؟ شعرا کتنی نعتیں لکھتے ہوں گے؟ اور قوال ان کو کہاں کہاں گاتے پھرتے ہوں گے؟ دعوتوں اور ضیافتوں کی کیسی کچھ بہاریںدسترخوانوں پر آتی ہوں گی؟ بازاروں کو سجانے، پہاڑیوں کو کھڑا کرنے اور محرابیں بنانے میں کتنا روپیہ کھپا دیا جاتا ہوگا؟
لیکن دوسری طرف ذرا یہ بھی سوچیے کہ ایک اچھے مقصد پر قوتوں اور روپے کے اس صرف کا واقعی نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ جائزے کی ترازو کے ایک پلڑے میں اپنی ایک سال کی ان سرگرمیوں کو رکھیے اور دوسرے پلڑے میں حاصل شدہ نتائج کو رکھ کر جانچ کر دیکھیے کہ کیا وز ن نکلتا ہے؟کتنے افراد ہوں گے جو ان نیک مساعی کی بدولت سیرتِ نبویؐ کے سانچے میں اپنی زندگیاں ڈھالنے کی مہم میں ہرسال لگ جاتے ہوں گے؟ اگر ایک جلسے اور ایک مقالے اور ایک نعت کے ذریعے صرف ایک ہی آدمی بدلا ہوتا تو اندازہ کیجیے کہ گذشتہ دو سو سال کا کیا حاصل ہونا چاہیے تھا، اور اگر عملاً وہ حاصل نہیں ہے تو کہیں ہماری مساعی میں کوئی کوتاہی تو موجود نہیں ہے؟
رونا اس کا نہیں کہ وہ کچھ حاصل نہیں ہوا جو مطلوب ہے ،بلکہ اس سے بڑھ کر ماتم اس کا ہے کہ ہمارے پلّے وہ کچھ پڑ رہا ہے، جو محسنِ انسانیت کے پیغام اور کارنامے سے کھلم کھلا ٹکراتا ہے۔ ہمارے اندر آج ایسے عناصر پروان چڑ ھ رہے ہیں جو حضوؐر کے عطا کردہ نظامِ زندگی کو ناقابلِ عمل قرار دیتے ہیں۔ ایسے عناصر جو حضوؐر کی تعلیمات کا مذاق اُڑاتے ہیں۔ ایسے عناصر جو سیرت اور سنت اور حدیث کا سارا ریکارڈ دریابرد کردینا چاہتے ہیں۔ ایسے عناصر جو قرآن کو قرآن پیش کرنے والی ہستی کی ۲۳سالہ جدوجہد سے بے تعلق کر دینا چاہتے ہیں،اور حضوؐر کی ہستی کو بطور عملی نمونہ انسانیت کی نگاہوں سے گم کردینے کی خاطر کوشاں ہیں۔ پھر ستم بالاے ستم یہ کہ تعبیر و تاویل کے نام پر حضوؐر کی شخصیت، پیغام اور کارنامے کو موجودہ فاسد تہذیب کے فکری سانچے میں ڈھال کر پیش کرنے کی کوششیں بھی ساتھ ساتھ نظر آتی ہیں کہ جس میں محسنِ انسانیتؐ کی بالکل نئی تصویر عالمی طاقتوں کے ذوق کے مطابق تیار کر دی جائے۔
یہی وجہ ہے کہ سرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و عقیدت کے بے شمار مظاہر موجود ہونے کے باوجود اور سیرت پر دماغی کاوشیں صرف ہونے کے باوجود ہماری تاریخ کے اُفق سے وہ نیا انسان طلوع نہیں ہو رہا جس کا نمونۂ کامل حضوؐر نے پیش فرمایا تھا۔ حضوؐر کی سیرت ہمارے اندر بجز اس کے کسی طرح جلوہ گر نہیں ہوسکتی کہ ہم اُس نصب العین کے لیے ویسی ہی جدوجہد کرنے اُٹھیں، جس کے لیے حضوؐر کی پوری زندگی کو ہم وقف پاتے ہیں۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ایک فرد کی سیرت نہیں ہے بلکہ وہ ایک تاریخی طاقت کی داستان ہے، جو انسانی پیکر میں جلوہ گر ہوئی۔ وہ زندگی سے کٹے ہوئے ایک درویش کی سرگزشت نہیں ہے جو کنارے بیٹھ کر محض اپنی انفرادی تعمیر میں مصرو ف رہا ہو، بلکہ وہ ایک ایسی ہستی کی آپ بیتی ہے جو ایک اجتماعی تحریک کی روح رواں تھی۔ وہ محض ایک انسان کی نہیں بلکہ ایک انسان ساز کی آواز ہے۔ وہ عالمِ نو کے معمار کے کارنامے پر مشتمل ہے۔ ایک پوری جماعت، ایک انقلابی تحریک اور ایک ہیئت اجتماعیہ اس کارنامے کی تفصیل اپنے اندر لیے ہوئے ہے۔
سرورعالمؐ کی سیرت غارِحرا سے غارِثور تک، حرمِ کعبہ سے لے کر طائف کے بازاروں تک، اُمہات المومنینؓ کےحجروں سے لے کر میدان ہاے جنگ تک چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے۔ اس کے نقوش بے شمار افراد کی کتابِ حیات کے اَوراق کی زینت ہیں۔ ابوبکر و عمر، عثمان و علی، عماریاسرو خالد و خویلد اور بلال و صہیب رضوان اللہ علیہم اجمعین، سب کے سب ایک ہی کتابِ سیرت کے چمکتے دمکتے زندہ اوراق ہیں۔ ایک چمن کا چمن ہے کہ جس کے لالہ و گل اور نرگس و نسترن کی ایک ایک پتی پر اس چمن کے مالیؐ کی مقدس زندگی مرقوم ہے۔ وہ قافلۂ بہاراں وقت کی جس سرزمین سے گزرا ہے ، اس کے ذرّے ذرّے پر نگہت کی مہریں ثبت کرگیاہے۔ دنیا کی اس بلند ترین شخصیت کو اگر سیرت نگاری میں محض ایک فرد بنا کر پیش کیا جائے اور سوانح نگاری کے مروّجہ طرز پر اس کی زندگی کے بڑے بڑے کاموں، اس کی نمایاں مہمات اور اس کے اخلاق و عادات کو بیان کر دیا جائے، کچھ تاریخوں کی چھان بین اور واقعات کی کھوج کرید کر دی جائے، تو ایسی سیرت نگاری سے صحیح منشاء ہرگز پورا نہ ہوگا۔
پھر سرورعالمؐ کی زندگی کی مثال کسی ایک تالاب میں کھڑے پانی کی سی نہیں کہ جس کے ایک کنارے کھڑے ہوکر ہم بیک نظر اس کا جائزہ لے ڈالیں۔ وہ تو ایک بہتا ہوا دریا ہے کہ جس میں حرکت ہے، روانی ہے، کش مکش ہے، موج و حباب ہیں، سیپیاں اور موتی ہیں، اور جس کے پانی سے مُردہ کھیتیاں مسلسل زندگی پا رہی ہیں۔ اس دریا کا رمز آشنا ہونے کے لیے، اس کے ساتھ ساتھ رواں ہونا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے سیرت کی بہت سی کتابیں پڑھ کر نادر معلومات تو ملتی ہیں، لیکن ہمارے اندر تحریک پیدا نہیں ہوتی۔ جذبے انگڑائی نہیں لیتے، عزم و ہمت کی رگوں میں نیا خون نہیں دوڑتا، ذوقِ عمل میں نئی حرارت نہیں آتی،ہماری زندگیوں کا جمود نہیں ٹوٹتا، وہ شرارِ آرزو ہم اخذ نہیں کرپاتے کہ جس کی گرمی نے ایک یکہ و تنہا اور بے سروسامان فرد کو قرنوں کے جمے ہوئے فاسد نظام کے خلاف معرکہ آرا کر دیا۔
اصل میں آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم معروف اصطلاح کے محدود تصور کے مطابق فقط ایک ’بڑے آدمی‘ نہ تھے۔ آپؐ کی سیرت ایک ایسے’بڑے‘ یا مشہور آدمی کی داستانِ زندگی نہیں ہے، جسے لوگوں کو مشاہیر کے سوانحی سلسلوں میں گنوایا جاتا ہے۔ یہ ہستی ’بڑے‘ اور ’مشہور‘ آدمیوں کی سوانح سے بہت اُوپر کی نعمت ِ الٰہی ہے۔
دنیا میں بڑے آدمی بہت پیدا ہوئے اور ہوتے رہیں گے۔ بڑے لوگ وہ بھی ہیں جنھوں نے کوئی اچھی تعلیم اور کوئی تعمیری فکر پیش کر دی۔ وہ بھی ہیں جنھوں نے اخلاق و قانون کے نظام سوچے۔ وہ بھی ہیں جنھوں نے اصلاحِ معاشرہ کے کام کیے۔ وہ بھی ہیں جنھوں نے ملک فتح کیے اور بہادری سے منسوب کاموں کی میراث چھوڑی۔ وہ بھی ہیں جنھوں نے عظیم الشان سلطنتیں چلائیںاور وہ بھی ہیں جنھوں نے فقرودرویشی کے حیرت انگیز نمونے ہمارے سامنے پیش کیے۔ وہ بھی ہیں جنھوں نے دنیا کے سامنے انفرادی اخلاق کا اُونچے سے اُونچا معیار قائم کر دکھایا___ مگر ایسے بڑے آدمیوں کی زندگی کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو بالعموم یہی دیکھتے ہیں کہ ان کی قوتوں کا سارا رس اُس زندگی کی کسی ایک شاخ نے چُوس لیا اور باقی ٹہنیاں سوکھی رہ گئیں۔ ایک پہلو اگر بہت زیادہ روشن ملتا ہے تو کوئی دوسرا پہلو تاریک دکھائی دیتا ہے۔ ایک طرف افراط ہے تو دوسری طرف تفریط۔
لیکن، ان سب کے برعکس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ہر گوشہ دوسرے گوشوں کے ساتھ پوری طرح متوازن بھی ہے اور پھر ہرگوشہ ایک ہی طرح کے کمال کا نمونہ ہے۔ جلال ہے تو جمال بھی ہے، روحانیت ہے تو مادیت بھی ہے،معاد ہے تو معاش بھی ہے، دین ہے تو دنیا بھی ہے، اک گونہ بے خودی بھی ہے مگر اس کے اندر خودی بھی کارفرما ہے۔ اللہ کی عبادت ہے تو اس کے بندوں کے لیے محبت و شفقت بھی ہے۔ کڑا اجتماعی نظم ہے تو فرد کے حقوق کا احترام بھی ہے۔ گہری مذہبیت ہے تو دوسری طرف ہمہ گیر سیاست اور کارِ ریاست بھی ہے۔ قوم کی قیادت میں انہماک ہے مگر ساتھ ساتھ اَزدواجی زندگی کا دھارا بھی خوب صورتی سے چل رہا ہے۔ مظلوموں کی داد رسی ہے تو ظالموں کا ہاتھ پکڑنے کا اہتمام بھی ہے۔
آپؐ کی سیرت کے مدرسے سے ایک حاکم، ایک امیر، ایک وزیر، ایک افسر،ایک ملازم، ایک آقا، ایک سپاہی، ایک تاجر، ایک مزدور، ایک جج، ایک معلّم، ایک واعظ، ایک لیڈر، ایک ریفارمر، ایک فلسفی، ایک ادیب، یعنی ہر کوئی یکساں درس عمل لے سکتا ہے۔ وہاں ایک باپ کے لیے، ایک ہم سفر کے لیے اور ایک پڑوسی کے لیے یکساں مثالی نمونہ موجود ہے۔ ایک بار جو اس درس گاہ تک آپہنچاہے پھر اسے کسی دوسرے دروازے کو کھٹکھٹانے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ انسانیت جس آخری کمال تک پہنچ سکتی تھی وہ اس ایک ہستی میں جلوہ گر ہے۔ اس لیے دنیا کے منصف مزاج لوگوں کے نزدیک اس ہستی کو ’انسانِ اعظم‘ کے لقب سے پکارنے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ تاریخ کے پاس ’انسان اعظم‘ صرف یہی ایک ہے جس کو چراغ بناکر ہردور میں ہم ایوانِ حیات روشن کرسکتے ہیں۔ کروڑوں افراد نے اس سے روشنی لی، لاکھوں بزرگوں نے اپنے علم و عمل کے دیئے اسی کی لو سے جلائے، دنیا کے گوشے گوشے میں اس کا پیغام گونج رہا ہے اور دیس دیس کے تمدن پر گہرے اثرات اس کی دی ہوئی تعلیم کے پڑے ہیں۔ کوئی انسان نہیں جو اس ’انسانِ اعظم‘ کا کسی نہ کسی پہلو سے زیراحسان نہ ہو۔ لیکن کتنے رنج و اَلم کا مقام ہے کہ اس کے احسان مند اس کو جانتے نہیں، اس سے تعارف نہیں رکھتے۔
اس کی ہستی کے تعارف اور اس کے پیغام کے فروغ کی ذمہ داری اس کی قائم کردہ اُمت پر تھی، لیکن وہ اُمت خود ہی اُس سے اور اُس کے پیغام سے دُور جاپڑی ہے۔ اس کے پاس کتابوں کے اَوراق میں کیا کچھ موجود نہیں ہے، لیکن اس کی کھلی ہوئی کتابِ عمل کے اَوراق پر ’انسانِ اعظم‘ کی سیرت کی کوئی تصویر دکھائی نہیں دیتی۔ اس کی اُمت اور قوم کی مذہبیت ، اس کی سیاست، اس کی معاشرت، اس کے اخلاق، اس کے قانونی نظام اور اس کے کلچر پر اس سیرت کے بہت ہی دھندلے نشانات باقی رہ گئے ہیں، اور و ہ بھی بے شمار نت نئے نقوش میں خلط ملط ہوکر مسخ ہورہے ہیں۔ اس اُمت یا قوم کا اجتماعی ماحول زمین کے کسی ایک چپے پر بھی یہ گواہی نہیں دیتا کہ میں محمدؐ کے دیے ہوئے اصولوں اور اس کی قائم کردہ روایات و اقدار کا آئینہ دار ہوں، بلکہ اُلٹا یہ اُمت اور یہ قوم دنیا کے مختلف فاسد نظاموں کے دروازوں پر بھیک مانگتی بھٹکتی پھرتی ہے اور ہرقائم شدہ طاقت سے مرعوب ہوکر اپنے سرمایۂ افتخار پر شرمسار دکھائی دیتی ہے۔ اس نے قرآن کو غلافوں میں لپیٹ دیا ہے اور ’انسانِ اعظم‘ کی سیرت کا گلدستہ بنا کر طاق نسیاں پر رکھ دیا۔
دوسرا غضب یہ ڈھایا کہ اپنے آپ کو ایک مذہبی اور قومی جتھے میں بدل کر محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو محض اپنے قومی و مذہبی رہنما کی حیثیت دے دی اور اس بین الاقوامی ہستی کے پیغام اور نمونۂ حیات کو گروہی اجارہ دار بنالیا۔ حالاں کہ آپؐ ساری انسانیت کے رہنما بن کر آئے اور ساری انسانیت کے لیے پیغام اور نمونہ لائے تھے۔ سیرت کو اس انداز سے پیش کرنے کی ضرورت تھی کہ انسانیت کا یہ ایک نمونہ ہے کہ جس کے سانچے میں ڈھل کر انسان اپنے اور ابناے نوع کی فلاح کا ذریعہ بن سکتا ہے اور مسائل کے گوناگوں خارزاروں سے نجات پاکر ایک پاکیزہ نظامِ زندگی حاصل کرسکتا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام اور اسوہ درحقیقت سورج کی روشنی اور بارش کے پانی اور ہوا کے جھونکوں کی طرح کا فیضان عام تھا، لیکن اسے ہم نے اپنی نااہلی سے گروہی خول میں بند کر دیا۔ آج سقراط و افلاطون، ڈارون و میکیاولی ، مارکس و فرائڈ اور آئن سٹائن سے تو ہر ملک و مذہب کے لوگ تھوڑا یا بہت استفادہ کرتے نظرآتے ہیں، اور ان میں سے کسی کے خلاف کسی گروہ میں اندھا تعصب کا رونا نہیں ہے، لیکن محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے نوادرِ علم اور رہنمائی سے استفادہ کرنے میں بے شمار تعصبات حائل ہوجاتے ہیں۔ لوگ یوں سوچتے ہیں کہ: ’’محمدؐ تو مسلمانوں کے ہیں اور مسلمان ہم سے الگ اور ہم مسلمانوں سے الگ ہیں۔ لہٰذا، مسلمانوں کے ہادی اور رہبر سے ہمارا کیا واسطہ!‘‘ افسوس ہے کہ اس تاثر کے پیدا ہونے اور غیرمعمولی حد تک جاپہنچنے میں ہم مسلمانوں کے طرزِعمل کا بھی بہت بڑا حصہ ہے۔ یہ خود ہم ہی ہیں کہ جنھوں نے اپنے قول اور عمل سے، محسنِ انسانیتؐ کی نہایت غلط نمایندگی کی ہے۔
قرآن کو جس کسی نے بھی توجہ سے پڑھاہو، وہ اس کی ایک خصوصیت سے ضرور حیرت زدہ ہوگا اور یہی خصوصیت اسے دنیا بھر کی لاکھوں کروڑوں کتابوں سے الگ ایک مقام امتیازی عطا کرتی ہے۔
ہمارے سامنے یہ واحد کتاب ایسی ہے جس میں کہیں کسی مقام پر کوئی بات شبہے کے انداز میں نہیں کہی گئی۔ کوئی اصول ، کوئی حکم، کوئی تجزیہ اور کوئی تبصرہ اس میں ایسا دکھائی نہ دے گا جس کے پیچھے تذبذب کار فرما ہو۔ ہر بات یقین وتحدّی کے ساتھ کہی گئی ہے۔ اس کا ایک ایک فقرہ یہ بتاتا ہے کہ اس کے مصنف کو اس بات کا قطعاً کوئی اندیشہ لاحق نہیں ہے کہ اس کی کسی بات کو جھٹلایا بھی جا سکتا ہے۔ کہیں کسی سطر میں کوئی ایسی کمزوری نہیں جھلکتی ، جیسی بالعموم انسانی تصانیف میں پائی جاتی ہے۔ کوئی ایسا موقع نہیں آتا ، جہاں یہ محسوس ہو کہ مصنف نے خوب صورت لفظوں اور نگارش کا پردہ ڈال کر اپنی کسی کوتاہی کو چھپانے کی کوشش کی ہے۔ یہ کتاب ، کتابِ حق اور کتابِ یقین ہے، اِنَّہٗ لَحَقُّ الْیَقِیْنِ(الحاقۃ ۶۹:۵۱)، اور آغاز ہی میں کتاب کا تعارف کراتے ہوئے کہہ دیا گیا ہے کہلَا رَیْبَ فِیْہِ (البقرہ ۲:۲)۔
اس میںکہیں کوئی تضاد نہیں ملتا۔ ہر بات جو اس میں درج ہے وہ دوسری باتوں کی مؤیّد ہے اور دوسری باتیں اس کی مؤیّد ہیں۔ حالانکہ بہترین مفکرین ومحققین اور ادبا وشعرا کے مرتب کردہ جو دفتر ہمارے سامنے ہیں ان میں سے کوئی اعلیٰ ترین نگارش بھی اس عیب سے پوری طرح منزہ ومبرّا نہیں ہے۔ کہیں نہ کہیں کوئی مقامِ تضاد ضرور آئے گا، جب کہ قرآن میں کہیں ایسی ذہنی اُلجھنیں منعکس نہیں ہوتیں ۔ کہیں کوئی ابہام نہیں ملتا ،کسی مقام پر فراریت کا رجحان نہیں پایا جاتا ۔
یہ کتاب تفریحی لٹریچر سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ زندگی کے ٹھوس حقائق ومعاملات سے بحث کرتی ہے اور وہ بھی سنجیدہ اور باوقار انداز سے ، مگر اس کے باوجود یہ ادب پارہ اور انتہائی مؤثر دل نشین کلام بھی ہے جو اپنے نفسِ مضمون کے لحاظ سے تمام تر نصیحت ہونے کے باوجود اس خشک روی سے مبرّا ہے جو ناصحین کی تحریر وتقریر کا خاصہ ہے۔ ایک ایک لفظ موتیوں کی طرح جڑا ہوا ہے ۔ ایک ایک سطر شاخِ گل ہے اور ایک ایک سورت خیابانِ بہار ! مگر حُسنِ بیاںکے اتنے ضخیم مجموعے میں کوئی مثال ایسی نہیں ملتی کہ نگارش اصل مقصد کی راہ سے ذرّہ برابر ادھر اُدھر ہو جائے اور آرٹ کی لذت وکشش قاریِ کتاب کو اپنی رو میں بہا لے جائے۔ کوئی ایک جملہ تو کجا،ایک لفظ نہیں جسے ’ادب براے ادب‘ قرار دے کے مقصدی ضرورت سے زائد قرار دیا جا سکے۔
اس کتاب کی شان یہ بھی ہے کہ اگرچہ اس کا مرکزی موضوع اور اس کے تفصیلی مباحث نہایت سنجیدہ نوعیت رکھتے ہیں اور انھی مباحث پر جب کبھی انسانی قلم حرکت میں آتا ہے تو وہ اندازِبیان پیدا ہوتا ہے جو فلسفہ وقانون کی کتابوں میں پایا جاتا ہے، مگر عجیب بات ہے کہ اس کتاب کے اسلوب میں حلاوت ہے کہ اسے پڑھتے ہوئے آدمی پر سوز وگداز اور رقت کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے ۔ یہاں تک کہ قاری نے اگر دل کے دروازے بند نہ کر رکھے ہوں تو وہ اس کلام کی مرعوبیت اپنے اوپر طاری ہوتی محسوس کرتا ہے، بالآخر اس کی روح بالکل سربسجود ہو کر رہ جاتی ہے۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ جو لوگ اس کے معانی سمجھے بغیر پڑھتے ہیں، وہ بھی اس کی نثر کا حُسن، عبارت کی موزونیت ، الفاظ کی نشست اورصوتی نغمگی میں ڈوب کر بے اختیار گریاں ہوجاتے ہیں۔ حقیقت یہ کہ اس کتاب میں معافی ومطالب کے ساتھ مرتب الفاظ واصوات کا معجزانہ امتزاج ہے جس کی نظیر کہیں اور نہیں مل سکتی۔
چنانچہ اس کتاب نے اپنے مخالفین و منکرین کو ایک سے زیادہ بار چیلنج کیا کہ ایسی کوئی سورت یا چند آیتیں ہی مرتب کر کے دکھادو۔ ایک آدمی نہیں بہت سے آدمی مل کر اپنی کاوشیں مجتمع کرلیں اور قرآنی ادب کاجواب پیش کر دکھائیں ۔ یہ چیلنج جس کو چودہ سو سال میں کوئی بھی قبول نہ کرسکا آج بھی اپنی جگہ پر قائم ہے اور آج بھی دنیا بھر کے انسان اپنی مجموعی قابلیتوں اور تخلیقی قوتوں کو جمع کر کے قرآنی اندازِ نگارش اور معیارِ کلام کا جواب نہیں دے سکتے۔
اس کتاب کی یہ ایسی خصوصیات ہیں جو اس کے دعوے کو برحق ماننے پر ہر معقول اور خوش ذوق آدمی کو مجبور کر دیتی ہیں، کہ اس کتاب کا مصنف کوئی انسان نہیں بلکہ خداوند تبارک وتعالیٰ ہے۔
قرآن ان معنوں میں مسلمانوں کی مذہبی کتاب نہیں ہے جن معنوں میں عیسائیوں، یہودیوں، ہندوئوں اور دوسرے مذہبی گرہوں نے مذہب کی اصطلاح کو استعمال کیا ہے ۔ فی الحقیقت قرآن ایک مکمل دین پیش کرتا ہے۔ یہ گویا زندگی کی کتابِ ہدایت (Guide Book ) ہے۔ اس میں ایک نظامِ تہذیب کا خاکہ دیا گیا ہے۔ اس نظامِ تہذیب کو چلانے کے لیے جیسی حکومت کی، اور اسے قائم کرنے کے لیے جیسی تحریک کی ضرورت ہے، اس کی رہنمائی موجود ہے۔ پھر مطلوبہ ریاست اور تحریک کے لیے جیسی جماعت وتنظیم اور جیسے انسانوں کی ضرورت ہے، ان کا معیار پیش کیا گیا ہے۔
اس کتاب کا موضوع انسان ہے اور یہ انسان کی زندگی کے ہر پہلو سے بحث کرتی ہے۔ اس میں زندگی کو ایک وحدت اور ایک کُل مان کر گفتگو کی گئی ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ کتاب ایک مخصوص طرز کی سو شیالوجی (سماجیات ) کی کتاب ہے اور ایک مکمل سوشل سسٹم یا نظامِ اجتماعی ہمارے سامنے رکھتی ہے، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ قرآن عدلِ اجتماعی کا ایک جامع فارمولا ہے۔ ایسی کتاب میں قدرتی طور پر ہر شعبۂ زندگی اور ہر علم کے بارے میں بحث ہونی چاہیے، لیکن یہ کتاب ہماری مروجہ تقسیم علوم کے مطابق کسی خاص جزوی علم کی کتاب نہیں ہے،بلکہ اس میں تمام علوم پر حاوی ہو جانے والا اور تمام علوم کو چند اٹل بنیادی حقائق اور اصولوں کے ذریعے منضبط اور ہم آہنگ کرنے والا علم پیش کیا گیا ہے، جسے اس کتاب نے اصطلاحاً ’العلم‘ ( The Knowledge) قرار دیا ہے، یعنی وہ علمِ ہدایت جو انسانی زندگی کی مجموعی فلاح کے لیے ناگزیر بنیادی علم ہے۔ وہ رہنما علم جو تمام علوم کواور انسانی قافلہ ہاے افکار کو درستی پر قائم رکھتا ہے اور انھیں بھٹکنے سے روکتا ہے۔
قرآن جس ’ العلم‘ پر مشتمل ہے اس میں ایک تو وہ اساسی صداقتیں شامل ہیں جن پر یہ کائنات چل رہی ہے اور جن کے تحت زندگی کا ظہور اور نشوونما ہوا ہے ، دوسرے وہ تاریخی اصول ہیں جن کے تحت قوموں کا عروج وزوال واقع ہوتا ہے، اور تیسرے وہ اخلاقی ضابطے ہیںجن سے فرد اور معاشرے کی زندگی سنورتی ہے اور جن کو ترک کرنے سے اس میں فساد واقع ہوتا ہے۔ وہ ضابطے جو اس کی زندگی کو کائنات کے حقائق سے ہم آہنگ اور اسے خدا کی رضا اور خوش نودی کا سزاوار بناتے ہیں ۔
اس کتاب کی ایک امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ یہ حق وباطل ، خیر وشر ، اچھے اور بُرے کے درمیان تمیز قائم کرنے والی ہے۔ چنانچہ خود اس نے اپنے آپ کو ’الفرقان ‘ کہا ہے ۔ سورۂ فرقان میں ارشاد ہے:
تَبٰرَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرَانِ (الفرقان ۲۵:۱) خداے عزوجل ، بہت ہی بابرکت ہے جس نے اپنے بندۂ خاص (محمدصلی اللہ علیہ وسلم ) پر فیصلے کی کتاب قرآن نازل کی تا کہ اہلِ عالم کو متنبہ کرے (ڈرائے) ۔
اسی حقیقت کو اس طرح بھی بیان کیا گیا ہے:
اِنَّہٗ لَقَوْلٌ فَصْلٌ o (الطارق ۸۶:۱۳ ) یہ ایک جچی تُلی بات ہے۔
قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ ج (البقرہ ۲: ۲۵۶)، صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے۔
قرآن اپنے دلائل کو اسی لیے (بیّنہ ) اور ’بینّات ‘ اور اپنے مندرجات کو ’آیاتِ بینّات‘ کہتا ہے اور ’تبیین ‘ کو اپنی غایت اور فریضۂ نبوت قرار دیتا ہے۔ وہ طریقۂ تلبیس کا سخت مخالف ہے۔ قرآن حق وباطل اور نیکی اور بدی کے درمیان کسی سمجھوتے اور سودے بازی کا قائل نہیں ۔ وہ اضداد کے مرکبات سے کوئی نظامِ علم وحکمت یا ضابطۂ مذہب واخلاق مرتب نہیں کرتا۔
انسان کم ہی خالص جھوٹ ، ظلم اور بدی محض کے لیے کھڑا ہوتا ہے اور کم ہی ایسا ہو گا کہ وہ خالص جھوٹ اور ظلم وشر کی دعوت قبول کرے۔ وہ ہمیشہ مرکبات بناتا ہے۔ مرکبات کی طرف بلاتا ہے، اور مرکبات ہی سے مغالطہ کھا کر انھیں دوسروں سے قبول کرتا ہے۔
قرآن کا جب نزول ہوا تو اس نے اپنے دور کے رائج الوقت فکری ، اعتقادی اور اخلاقی مرکبات واضداد کا تجزیہ کر کے خیر وشر کو الگ الگ نتھار دیا، مثلاً یہود کی مذہبی واخلاقی زندگی کے ہرگوشے میں اجتماع ضدّین کے جو تجربات معمول بن چکے تھے، ان کا اس نے بڑا تفصیلی تجزیہ کیا اور ان سے صاف صاف کہا تھا کہ :
وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ(البقرہ۲: ۴۲) باطل کا رنگ چڑھا کر حق کو مشتبہ نہ بنائو۔
الغرض قرآن حقائق کو نتھار دینے والی اور ضد کو چھانٹ کر الگ کر دینے والی کتابِ مبین اور کتابِ مہیمن ہے۔ اس مقصد کے لیے اس نے جا بجا تقابلی انداز اختیار کیا ہے ۔ ایمان اور کفر کو ، توحید اور شرک کو ، خلوص اور نفاق کو، بہادری اور بزدلی کو، آخرت پسندی اور دنیا پرستی کو، حق اور باطل کو، عدل اور انصاف کو، اطاعت اور انحراف کو، فحاشی اور حیا کو، سخاوت اور بخل کو، اسراف اور انفاق کو، نفسانیت اور ایثار کو، ایک دوسرے کے آمنے سامنے رکھ کر ان کے اثرات و نتائج پر بحث کی ہے۔
اعتقادی اور اخلاقی مسلکوں کے ساتھ ساتھ اس نے ان سے آراستہ تاریخی کرداروں کو بھی تقابلی انداز سے پیش کیا ہے اور پچھلی ساری انسانی تاریخ کا مطالعہ اسی انداز سے کرایا ہے کہ متضاد کردار ایک دوسرے کے آمنے سامنے نمایاں ہوں اور اچھے اور برے کو پہچانا جائے۔ آدم ؑ وابلیس ، ہابیل وقابیل ، نوحؑ اور فرزند ِ نوح، ابراہیم ؑ اور نمرود ، حضرت یوسف ؑ اوربرادرانِ یوسف ؑ ، اور ساتھ ہی عزیز مصر اور اس کی بیوی، حضرت لوط ؑ اور ان کی بیوی ، حضرت موسیٰ ؑ اور فرعون، حضرت عیسیٰ ؑ اور فقیہوں اور فریسیوں کے کردار تقابلی انداز سے لائے گئے ہیں۔ قرآن نے پسرِ نوح کے بالمقابل پسرِ ابراہیم اور امراۃِ لوط کے بالمقابل امراۃِ فرعون کا نمونہ اس طرح رکھا ہے کہ قاری کا دل ادھر بے اختیار جھک جاتا ہے جدھر خیرو خوبی پائی جاتی ہے۔ رشد وغنی کی راہیں سامنے آ جاتی ہیں، جن میں سے ایک کی لوح پر اسلام لکھا ہے اور دوسرے پر جاہلیت کا تختہ آویزاں ہے۔
اپنے اس اسلوب سے قرآن قاری کو اپنے انسانِ مطلوب سے متعارف کراتا ہے۔ اپنے انسانِ مطلوب کو مخالف عنصر کے بالمقابل مختلف زمانوں میں ایک مخصوص تاریخی پارٹ ادا کرتے ہوئے دکھاتا ہے۔ پھر وہ ان تمام اوصاف ِ حسنہ کے ایجابی خاکے جگہ جگہ بیان کرتا ہے جن سے اس کا انسانِ مطلوب بنتا ہے اور ان سٔیات کے خاکے بھی متقابلاً پیش کرتا ہے جن سے انسانیت کے نامطلوب کردار تیار ہوتے ہیں۔
قرآن کی خصوصیت میں سے ایک یہ ہے کہ دنیا کی بہترین ادبی کتاب ہے۔ اس کا بالکل جدا گانہ اور نرالا اسلوب ہے، جسے ’آسمانی ادب‘ یا ’الہامی ادب ‘ کا عنوان دیا جا سکتا ہے۔ قرآن کی ادبیت کا کمال یہ ہے کہ کلام کرنے والا خدا ہے اور حرفِ مدعا اسی کی طرف سے صادر ہوا ہے، مگر اندازِ کلام وہ ہے جو انسانی ذوق اور انسانی حسیّات ِ جمال اور انسانی معیارِ لطافت کے لحاظ سے ایسی بلندیوں کو چھو رہا ہے جس کی کوئی دوسری مثال نہیں۔ الفاظ اور اصطلاحات روایت کے دائرے سے لیے گئے ہیں۔ تشبیہیں اور استعارے جانے پہچانے ماحول سے اٹھائے گئے ہیں ۔ انسانی لٹریچر میں بلاغت وفصاحت کے جو راستے نکالے گئے ہیں ان کو مدِ نظر رکھا گیا ہے، لیکن بحیثیت ِ مجموعی جو ادب پارہ تیار ہوا ہے وہ منفرد اور یکتا ہے۔
قرآن اگرچہ اصلاً ایک کتاب اور ایک نوشتہ ہے، مگر اس میں لطفِ خطابت بھی شامل ہے جو اُسے دُہرا حسن بخشتا ہے اور اس میں ذہنی نفوذ اور دل میں سرایت کر جانے کی کیفیت بڑھا دیتا ہے۔پھر اسی مناسبت سے اس کی ایک شان تصریف وتکرار ہے ، یعنی ایک ہی مضمون کو سورنگ سے باندھا جاتا ہے۔ تصریف وتکرار میں اگر یکسانی ہو تو کلام دلنشین ہونے کے بجاے اکتاہٹ پیدا کرتا ہے مگر قرآن کا کوئی ایک مقام بھی ایسا نہیں جہاں قاری اکتاہٹ محسوس کرے ۔ کہیں بات اجمال میں چھوڑ دی گئی ۔کہیں ذہن کو حرکت دلانے کے لیے محض ہلکی سی اشاریت سے کام لیا گیا ہے۔ کہیں تمثیل واستعارہ سے اور کہیں واشگاف انداز سے، کہیں چھوٹے چھوٹے جملوں اور دھیمے دھیمے الفاظ میں معانی کا بہائو پایا جاتا ہے، اور کہیں پر زور الفاظ اور پر شکوہ جملوں کی صورت میں حرفِ مدعا ایک طوفانی ریلا بن جاتا ہے جو جامد پتھروں کو ان کی جگہ سے اکھیڑ کر بہا لے جاتا ہے۔ کہیں نصیحت ہے کہ نگہتِ گل کی مانند غیر محسوس سا اثر ڈالتی ہے۔ کہیں دعوت ہے دل سوزی کے ساتھ ، اور کہیں تنقید ہے بڑی قوت کے ساتھ ۔ پھر بار بار عبارت کا مزاج بدلتا ہے، ترنم کے پیرائے بدلتے ہیں اور اس ادل بدل سے ذوق کی لطیف سطح پر خوش گوار نقوش ثبت ہوتے ہیں۔
قرآنی ادب میں سارا استدلال اگرچہ عقلی ہے مگر جذبات کی قوتِ محرکہ کی اہمیت کو کسی مقام پر نظر انداز نہیں کیا گیا ۔ خالی عقل ، بے جان فلسفیت اور جامد تصورات کی طرف لے جاتی ہے۔ عملی انسان بنانے اور تاریخ کو حرکت میں رکھنے کے لیے جذبے کی قوت ناگزیر ہے۔ عقل اور جذبہ دونوں کے امتزاج ہی سے وہ کیفیت پیدا ہوتی ہے جسے ایمان کہتے ہیں۔ قرآن میں آپ دیکھیں گے کہ رُلا دینے والی ، حیرت میں ڈال دینے والی ، مبہوت کر دینے والی ، خوف طاری کرنے والی ، اطمینان دلانے والی ، عزم ویقین ابھارنے والی، جوش میں لانے والی ، آمادۂ پیکار کر دینے والی اور ایثار کی اسپرٹ پیدا کرنے والی عبارتوں کی رنگا رنگ کیاریاں جا بجا پھیلی ہوئی ہیں۔ انسانی فطرت کا ہر شعبہ ان سے اثر لیتا ہے اور انسانی نفسیات کا ہر گوشہ ان سے زندگی پاتا ہے۔ تمام کے تمام جذبات وحسّیات اس ایک کتاب کے مطالعے سے حرکت میں آتے ہیں اور ایک ہی مرکزی نصب العین کے گرد مجتمع ہو جاتے ہیں۔ قرآن پورے کے پورے انسان کو حرکت میں لے آتا ہے، اس کے شعور کو بھی ، اس کے جذبات کو بھی (جائز حدود میں )، اس کی دنیوی خواہشوں کو بھی اور اس کے اخلاقی میلانات کو بھی۔ دنیا بھر کے لٹریچر میں کوئی کتاب بھی یہ کرشمہ نہیں دکھا سکتی۔
اس کتاب کی ایک عظیم الشان خصوصیت یہ ہے کہ یہ اپنے قاری کو خدا سے قریب کر دیتی ہے اور خدا اس کے قریب آ جاتا ہے۔
خدا کا یہ تصور کہ وہ الگ تھلگ وجود ہے، جس سے انسان کا براے نام سا تعلق ہے، وہ بھی بس دُور پار کا ! قرآن پڑھتے ہی اس قسم کا محدود، کمزور اور باطل تصور مٹ جاتا ہے۔ قرآن کا خدا ایسا ہے کہ قرآن پڑھتے ہوئے آدمی کو وہ بالکل اپنے سامنے ، اپنے آس پاس بلکہ عین اپنے دل میں محسوس ہونے لگتا ہے۔ جہانِ قرآن میں داخل ہوتے ہی قاری محسوس کرتا ہے کہ خدا کو اس سے گہرا تعلق ہے، اس سے گہری محبت ہے۔ خدا کو اس سے دل چسپی اور ہمدردی ہے۔ وہ اس کے ہرخیال کے ساتھ ساتھ ہے۔ اس کے ہر کام میں حصہ لے رہا ہے۔ وہ اس کی دعائیں سنتا، اس کی پکاروں کا جواب دیتا ، اس کے کام سنوارتا، اسے خیر سے بہرہ ور کرتا اور شر سے بچاتا ہے۔ قرآن کا قاری اگر قرآن کی دعوت پر لبیک کہہ کر بدی اور ظلم کی طاقتوں کے خلاف راستی اور نیکی کی جنگ لڑنے کھڑا ہوتا ہے تو وہ یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہتا کہ اس جنگ میں خدا خود اس کا ساتھی ہے۔ وہ اس کے آگے پیچھے، دائیں اور بائیں اور سرپر اور سینے کی گہرائیوں میں موجود ہے۔ وہ اس کا خنجرِ جہاد ہے، وہ اس کے بچائو کی ڈھال ہے، وہ اس کے بازوئوں کی قوت ہے ۔
پھر قرآن کا قاری جب موسیٰ ؑ اور یوسف ؑ کی داستانیں پڑھتا ہے، نبی آخرالزماںصلی اللہ علیہ وسلم کی جدو جہد کا ریکارڈ دیکھتا ہے تو اس میں یہ ایمانِ محکم پیدا ہوتا ہے ، کہ تاریخ کی جنگاہ میں خیرو شر کا جو معرکہ مسلسل بر پا رہا ہے خدا اس سے بے تعلق نہیں ہے، بلکہ پس ِ پردہ بیٹھا وہ اپنے تصرفِ خاص سے ہر دور میں ایک خاص طرح کے نتائج پیدا کرتا ہے۔ مخالف طاقتوں کو ایک خاص انجام سے دوچار کرتا ہے۔
پھر قرآن کی نگارش کا کمال ہے کہ اس کے قاری کے سامنے حشرونشر کا نقشہ ایسی وضاحت سے آتا ہے کہ کوئی بڑے سے بڑا عرصۂ غفلت گزار کر اور فراریت کے صد ہا تجربے کر کے بھی اس کا انکار نہیں کر سکتا ۔ اسے آخرت کی عدالت دکھائی دینے لگتی ہے اور اس تک پہنچنے کے لیے موت کا دروازہ سامنے کھلا نظر آتا ہے۔ وہ عدالت جہاں نہ رشوت چلے گی، نہ سفارش کے زور سے اہل کاروں سے ساز باز کی جا سکے گی، نہ کوئی کسی کا فدیہ دے گا، نہ وکیلوں کی چرب زبانی کام آئے گی،نہ دوست اور رشتہ دار سہارا دے سکیںگے ، اور نہ رونا چیخنا ہی سود مند ہو گا بلکہ وہاں کا قانون تو بس یہ ہے کہ :
فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ o وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ o (الزلزال ۹۹:۷-۸) جس کسی نے رتی بھر بھی نیکی کی ہو گی و ہ اسے وہاں دیکھ لے گا۔ اور جس کسی نے رتی بھر بھی بدی کی ہو گی وہ بھی اسے وہاں دیکھ لے گا۔
میں نے خوب اچھی طرح چھانٹ پرکھ کر اپنی پوری زندگی جس مذہبِ انسانیت کے حوالے کی ہے اس کا نام ہے: امن و سلامتی کا مذہب۔
کسی بھی مذہب پر غور کرتے ہوئے سب سے پہلے دو ہی بنیادی حقیقتیں دیکھی جاتی ہیں۔ ایک یہ کہ اس نے خدا کا تصور کیا دیا ہے؟ دوسرے یہ کہ اس نے انسان کو کیا مقام دیا ہے؟ جہاں خدا کا تصور ناقص یا خلافِ حقیقت ہوگا وہاں انسان بھی اپنے اصل مرتبہ و مقام سے ہٹا ہوا ملے گا، اور جہاں انسان کو اس کے شایانِ شان درجہ نہ دیا گیا ہو، وہاں خدا کا تصور کبھی صحیح اور مطابقِ حقیقت نہیں ہوسکتا۔ کسی مذہب کے تصورِ خدا کی کسوٹی اس کا تصورِ انسان ہے۔ چونکہ مذہب کا مقصود انسانی زندگی کو بنانا سنوارنا ہے، اس لیے مذاہب کی جانچ میں یہ سوال بڑی اہمیت رکھتا ہے کہ وہ انسان اور انسانی زندگی کو کیا درجہ دیتے ہیں۔ آدمی کو جس نظامِ فکروعمل کی طرف پکاریے اس کی خودی یہ دریافت کیے بغیر نہیں رہ سکتی ہے کہ اس نظام میں میرا مقام کیا ہے؟ مادی کائنات کے اسٹیج پر زندگی کی تمثیل پیش کرنے میں میرے لیے کیا پارٹ تجویز کیا گیا ہے؟ آفرینش کی اس بھری مجلس میں میری نشست کہاں ہے؟
انسانی زندگی کی بہترین ساخت ہی کو نمایاں کرنے کے لیے میرے مذہب نے انسانِ اوّل کی سرگزشت بیان کی ہے۔ جنت میں ریہرسل کا دور گزارتے ہوئے اس سے جو لغزش ہوئی تھی، اس کے بارے میں میرے مذہب کا بیان یہ ہے کہ ایک تو وہ دیدہ دانستہ نہ تھی بلکہ غلط فہمی اور ناتجربہ کاری کی وجہ سے سرزد ہوئی۔ دوسرے اس کے اندر زیادہ اُونچے مراتب اور ابدی زندگی پانے کا اعلیٰ مقصد کارفرما تھا: فَوَسْوَسَ لَھُمَا الشَّیْطٰنُ لِیُبْدِیَ لَھُمَا مَا وٗرِیَ عَنْھُمَا مِنْ سَوْاٰتِھِمَا وَ قَالَ مَا نَھٰکُمَا رَبُّکُمَا عَنْ ھٰذِہِ الشَّجَرَۃِ اِلَّآ اَنْ تَکُوْنَا مَلَکَیْنِ اَوْ تَکُوْنَا مِنَ الْخٰلِدِیْنَ o (اعراف۷:۲۰)۔تیسرے یہ کہ اس لغزش پر باغیانہ اکڑ پیدا ہونے کے بجاے اس کے فوراً ہی بعد احساسِ ندامت ہوا اور آدم ؑ اپنی رفیقہ سمیت خدا کے سامنے معافی کے خواست گار بن کر حاضر ہوگئے: قَالاَ رَبَّنَا ظَلَمْنَـآ اَنْفُسَنَا وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَo (اعراف۷:۲۳)۔ اختیار کے استعمال کے ا س پہلے تلخ تجربے کے بعد اوّلین انسانی جوڑا بدی کی شیطانی طاقتوں کے بارے میں پوری طرح چوکنا ہوگیا اور ایک پاکیزہ زندگی کی تعمیر کا نیا عزم لے کر میدانِ مقابلہ میں اُتر گیا۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ ایک بااختیار مخلوق کے لیے اس سے زیادہ اُونچی فطرت کا تصور نہیں کیا جاسکتا کہ اپنا فرض ادا کرنے میں اگر کبھی اس سے بھول چوک ہوجائے تو وہ اس کا احساس کرے اور پھر اپنی اصلاح پر آمادہ ہوجائے۔
پھر دیکھیے کہ میرے مذہب کا خطاب کسی ایک گروہ اور نسل اور قوم کے لیے خاص نہیں ہوا بلکہ وہ ساری انسانیت کے لیے عام ہے۔ وہ کہتا ہے کہ بنی نوع انسان ایک گھرانا اور ایک برادری ہیں۔ اس نے کسی خاص عنصر کو اپنا چہیتا اور لاڈلا بنا کر نہیں پکارا بلکہ ’اے انسان‘: ٰٓیاََیُّھَا الْاِِنْسَانُo (الانفطار۸۲:۶، الانشقاق۸۴:۶)اور ’اے لوگو‘ : یٰٓاَیُّھَا النَّاسُo (البقرہ۲:۲۱-۱۶۸، النسائ۴:۱، ۱۷۰، ۱۷۴، یونس۱۰:۵۷،۱۰۴، ۱۰۸، الحج۲۲:۱، ۵، ۴۹، الفاطر۳۵:۳،۵، ۱۵، الحجرات۴۹:۱۳)کہہ کر ساری اولادِ آدم ؑ کو سچائی اور نیکی کا پیغام یکساں سنایا ہے۔ وہ سورج اور ہوا اور بارش کی طرح اپنا فیضانِ عام رکھتا ہے۔ وہ انسانیت کے مقابلے میں اور کسی چیز کو وجہِ احترام نہیں مانتا۔ وہ ان ساری تقسیموں سے انکار کرتا ہے جو انسان اور انسان کو آپس میں کاٹتی اور اُن میں جھوٹی اُونچ نیچ پیدا کرتی ہیں۔ وہ ایک ہی تقسیم کو مانتا ہے اور عزت و ذلت کا ایک ہی معیار تسلیم کرتا ہے، یعنی کون سچائی اور نیکی میں آگے ہے اور کون پیچھے ہے: اِِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ (الحجرات ۴۹:۱۳۔ لَیْسَ لِاَحَدٍ فَضْلٌ عَلٰی اَحَدٍ اِلَّا بِدِیْنٍ اَوْ عََمَلٍ صَالحٍ (مسند امام احمد)۔ حد یہ کہ وہ مذہبی جتھا بندیوں اور ان کے نمایشی سائن بورڈوں کو بھی کوئی وزن نہیں دیتا: اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ ھَادُوْا وَ النَّصٰرٰی وَ الصّٰبِئِیْنَ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ (البقرہ ۲:۲۵۶)، بلکہ جو لوگ خود اُس کا اپنا ٹھپہ ماتھے پر لگاکر آتے ہیں انھیں بھی وہ مجرد ظاہری ٹھپے کی بنا پر قابلِ قدر نہیں مانتا۔ وہ صرف یہ پوچھتا ہے کہ تم چاہے گورے ہو چاہے کالے، تم چاہے سامی ہو یا حامی، تم چاہے مرد ہو یا عورت، بتائو کہ سچا ایمان اور کھرا کردار کس کے پاس ہے۔ وہ یہاں تک کہتا ہے کہ جس نے انسانیت کو کاٹنے والی جاہلی عصبیتوں کا نعرہ بلند کیا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں: مَنْ قَاتَلَ تَحْتَ رَایَۃٍ عَمِیَّۃٍ یَغْضَبُ لِعَصَبِیَّۃٍ اَوْ یَدْعُوا اِلٰی عَصَبِیَّۃٍ اَوْ یَنْصُرُ عَصَبِیَّۃً فَقَتَلَ قِتْلَۃً جَاھِلِیَّۃً (مسلم، نسائی)
حضرات! ان چند مختصر اشارات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ میرے مذہب ، دینِ اسلام نے انسان کو کیا مقام دیا ہے۔ بس خاتمۂ کلام کے طور پر میں ایک جملہ کہنا چاہتا ہوں، اور وہ یہ ہے کہ میرا مذہب اُن محدود معنوں میں مذہب نہیں ہے جن میں یہ لفظ عام طور پر بولا جاتا ہے، بلکہ وہ ایک دین یا ایک نظامِ زندگی ہے۔ اس کی بنیاد پر کوئی جامد فرقہ نہیں پیدا ہوتا بلکہ ایک متحرک پارٹی تشکیل پاتی ہے۔ وہ کوئی مذہبی مشن نہیں کھڑا کرتا بلکہ ایک بین الاقوامی تحریک بپا کرتا ہے۔ وہ مجرد وعظ نہیں سناتا، عملی مسائل کو اپنے ہاتھ سے حل کرنا چاہتا ہے۔ وہ کسی سے تبدیلیِ مذہب نہیں چاہتا بلکہ ذہن و کردار کی مکمل تبدیلی مانگتا ہے۔ اس کا منتہا چند پاک باز افراد پیدا کردینا نہیں، وہ نیکی کا ایک جہانی نظامِ سیاست و تمدن وجود میں لانا چاہتا ہے۔
الحمدللہ! مسلمان بچے (اوّل)، قرآنی تعلیمات (دوم) اور اسلامی آداب و اخلاق کے نفیس ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔ دسمبر کے پہلے ہفتے سے احباب میں تحفتاً تقسیم شروع ہوجائے گی، ان شاء اللہ۔ مقامی حضرات دستی وصول کریں، جب کہ دیگر حضرات ۵۰روپے کے ڈاکٹ ٹکٹ ارسال کریں۔
شیخ عمر فاروق، -15 بی، وحدت کالونی، لاہور۔ فون: 042-37810845
حج کے مبارک سفرسے سعادتوں کے ساتھ واپس آنے والے خوش قسمت برادران کے لیے دیدہ و دل فرش راہ! محترم بزرگوار اور عزیز بھائیو! کیا آپ نے حج کو اچھی طرح جانا اور سمجھا بھی؟ اُس سے جو کچھ لینا تھا لیا؟ آپ اپنے ساتھ، اپنے اور دوسروں کے لیے کیا لے کر آئے؟ حج نے آپ سے کچھ باتیں کیں؟ اُس نے کوئی پیغام آپ کو ودیعت کیا؟ یا آپ صرف آبِ زم زم، کھجوریں، جانمازیں اور تسبیحیں لے کر آگئے؟
بہت سے حاجی ہیں جو اگرچہ ہمیشہ حاجی کہلائیں گے، مگر وہ اپنے حج سے دُور ہوتے جاتے ہیں۔ جس دنیا کے مفاد سے وہ کچھ دیر کے لیے الگ ہوئے تھے، وہ پہلے سے زیادہ زور اور پہلے سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ دبوچ لیتے ہیں۔
اصل میں بات بڑی نازک سی ہے۔ ایک حدیث شریف میں آتا ہے کہ: ’’شیطان کو اذان کی آواز سخت ناپسند ہے اور وہ کانوں میں انگلیاں ٹھونس کر اس سے بھاگتا ہے‘‘۔ دوسری حدیث میں ہے کہ ’’وہ جب کسی شخص کو خدا کے سامنے سربسجود دیکھتاہے تو اسے بہت ناگوار ہوتا ہے‘‘۔ خصوصاً حج جیسی عظیم عبادت سے جو شخص گزر کر آرہا ہے، اُس کا نام تو درخواست دینے کے دن سے ہی ابلیسی نظام کی لال کتاب میں درج ہوگیا۔ شیاطین جن سے زیادہ ذمہ داریاں انسانی شیاطین کے سر ہوتی ہیں اور یہ اپنا کام دن رات جاری رکھتے ہیں۔ کچھ محبوب اور عزیز لوگ، کچھ کاروبار کے ساتھی، کچھ دفتروں کے ہم نشین، کچھ گائوں اور محلے کے خیرخواہ، کچھ دنیوی معاملات میں مشورے دینے والے، کچھ دین میں نئے نئے شگوفے نکالنے والے، کچھ قصیدہ خوان، کچھ خوشامدی، کچھ خدمت کیش!
حج فی الواقع بہت بڑی عبادت ہے اور بہت سی عبادات کی جامع!
حج میں ہجرت کا رنگ بھی شامل ہے، اور جہاد کا اسلوب بھی۔ اس میں ذکر و دعا بھی ہے اور رکوع و سجود بھی۔ مزدلفہ کی رات کی خاموش عبادت بھی اور لاکھوں کے مجمع میں یومِ عرفہ کا خطبہ بھی۔ احرام کی کفن نما پوشش بھی ہے اور عید کا خوش آیند لباس بھی۔ وہاں آنسوئوں کی جھڑیاں بھی ہیں اور مسکراہٹوں کی کلیوں کی لڑیاں بھی۔ آدمی بیک وقت وہاں بے ہمہ بھی ہوتا ہے اور باہمہ بھی۔ تھوڑی دیر کے لیے تارکِ دنیا بھی ہوتا ہے اور پھر نئی شخصیت کے ساتھ فاتحانہ شان سے دنیا کے دروازے پر دستک بھی دیتا ہے۔بے شمار قبیلے اس کے اپنے بن جاتے ہیں، کتنے ممالک اسے اپنے ملک لگنے لگتے ہیں، مختلف بولیوں میں وہ ایک ہی جیسے معانی جھلملاتے دیکھتا ہے۔ تنگ عصبیتوں اور تالاب جیسی محدود قومیت سے آگے بڑھ کر وحدت کے ایک سمندر میں شامل ہوجاتا ہے۔
حاجی جب اللہ اکبر کہتا ہے تو وہ یہ اقرار کرتا ہے کہ میں نے دل سے مان لیا کہ خدا ساری قوتوں سے بڑی قوت ہے، اور اُس کا دین برتر ہے، اور اُس کا قانون سب سے فائق ہے، اُس کا اقتدار سب پر غالب ہے، اور اُس کا حکم ہر طرف جاری و ساری ہے۔ وہ جب لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ کہتا ہے تو دراصل اپنے آپ کو بارگاہِ الٰہی میں پیش کرتا ہے کہ میں آپ کی پکار پر حاضر ہوں اور عمل سے اقرار کرتا ہے کہ جدھر آپ بلائیں گے، اُدھر مجھے حاضر پائیں گے، جدھر سے آپ ہٹائیں گے میں اُدھر سے ہٹ جائوںگا۔ پھر اپنے احرام سے وہ یہ گواہی دیتا ہے کہ میں نے اپنے آپ کو موت کے اُس خط پر کھڑا کر دیا ہے جس سے مجھے ایک نہ ایک دن آگے جانا ہے اور زندگی کا حساب پیش کر کے جزاو سزا سے حصہ پانا ہے۔ وہ جب بیت اللہ نامی مکان کا طواف کر رہا ہوتا ہے تو دراصل اُس کی روح خداوند لامکانی کا طواف کر کے یہ ظاہر کرتی ہے کہ میرا مرکز و محور صرف ذاتِ الٰہی ہے، اُس کی طرف لپکنا، اُسی سے محبت، اُسی کے لیے فدائیت اور اُسی کی اطاعت! وہ جب حجر اسود کا استلام کرتا ہے تو دراصل اپنے رب و الٰہ کے سنگ ِ آستاں کو اُس کے جذبات چوم رہے ہوتے ہیں۔ وہ جب مقامِ ملتزم پر کھڑے ہوکر ایمان و بخشش کی دعائیں کرتا ہے اور اپنے والدین کی مغفرت کی درخواست کرتا ہے تو گویا وہ ایوانِ جاناں کی چوکھٹ کو تھامے ہوئے ہوتا ہے اور بے اختیار روتا ہے۔ وہ صفا و مروہ میں سعی کرتا ہے اور پھر لمبی پیاس کے ماروں کی طرح پیٹ بھر کر آبِ زم زم پیتا ہے۔ اگر جذبہ صحیح ہو تو یہ آبِ زم زم وجہ شفاء القلوب ہے اور قلوب اگر صحت مند ہوں تو بدن آسانی سے امراض کا شکار نہیں ہوتے۔
حضرت ہاجرہؓ اور حضرت اسماعیل ؑ کے احوال و جذبات سے حصہ پانے کے لیے صدیوں پہلے کی تاریخ کو کھینچ لاتا ہے۔ وہ جب عرفات کے بے پایاں ہجوم میں موجود ہوتا ہے تو اُس کے سامنے میدانِ حشر کا سا نقشہ آجاتا ہے۔ وہ قربانی کرتا ہے تو دراصل اس کا استعارہ یہ ہوتا ہے کہ میں اپنے آپ کو اسی طرح احکامِ الٰہی کے تحت قربانی کے لیے پیش کردوں گا جس طرح حضرت اسماعیل ؑنے برضا و رغبت پوری شانِ صبر کے ساتھ پیش کر دیا تھا۔ یہاں اسے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ حضرت اسماعیل ؑمیں جو آدابِ فرزندی ابراہیمی تعلیم و تربیت نے پیدا کیے تھے، وہی اسے اپنی اولاد میں پیدا کرنے ہیں۔ تب اُس کے دل میں حضرت ابراہیم ؑ کے اس ارشاد کا صحیح مفہوم نقش ہوجاتا ہے کہ میری نماز، میری قربانی، میرا جینا، میرا مرنا سب کچھ رب العالمین کے لیے ہے۔
حاجی جب مقامِ ابراہیم پر نوافل ادا کرتا ہے تو اس کے کانوں میں باپ بیٹے کی دعائیں گونجنے لگتی ہیں۔ قرآن میں ہے:
اور یاد کرو، ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ جب اس گھر کی دیواریں اُٹھا رہے تھے تو دعا کرتے جاتے تھے: اے ہمارے رب! ہم سے یہ خدمت قبول فرما لے، تو سب کی سننے اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ اے رب! ہم دونوں کو اپنا مسلم (مطیع فرمان) بنا۔ ہماری نسل سے ایک ایسی قوم اُٹھا جو تیری مسلم ہو، ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتا، اور ہماری کوتاہیوں سے درگزر فرما، تو بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ اور اے رب! ان لوگوں میں سے خود انھی کی قوم سے ایک رسول اُٹھائیو جو انھیں تیری آیات سنائے، ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیاں سنوارے، تو بڑا مقتدر اور حکیم ہے۔(البقرہ ۲:۱۳۷-۱۳۹)
حاجی اس دعا کی صداے بازگشت سنتے ہوئے یہ نکتہ پا لیتا ہے کہ جس گھر کی تعمیر کا ذکر ہے، وہ حرم ہے جو اس کے سامنے ہے۔ یہ توحید پر استوار ہوا ہے۔ یہ سچے خدا پرستوں کا ایک مرکز دل و نظر ہے، یہ امن کا ایک سرچشمہ ہے، انسانیت کی پناہ گاہ ہے اور اس کی یہ شان برقرار رکھنا اصلاً اللہ تعالیٰ کے اپنے اہتمام سے ہے، لیکن ظاہری طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پوری اُمت محمدیؐ کا فریضہ ہے کہ وہ خدا کے اس گھر کو طواف،اعتکاف اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے ہرقسم کے شرک کی آلایش اور ہرقسم کے فساد کی رکاوٹ سے پاک رکھیں۔
پھر اس دعا میں یہ آرزو کی گئی ہے کہ دعا کرنے والوں کو مسلم بنا۔ ایک حاجی کو بھی یہ جذبہ ان فضائوں سے نچوڑ کر لانا چاہیے کہ وہ مسلم بن کر رہے، وہ خدا کا مطیع فرمان ہو، وہ نہ بغاوت و سرکشی اختیار کرے، نہ شرک و نفاق کی راہیں نکالے۔ مسلم ہو تو حنیف ہو، یک سُو ہو، ایک ہی رب سے لو لگا لے اور ایک ہی الٰہ کے جلوئوں سے دل کے پنہاں خانے کو روشن کرلے۔
دعا کرنے والوں نے صرف اپنے لیے ہی نعمت ِ اسلام نہیں مانگی، بلکہ اپنی نسل سے بننے والی قوم کے لیے یہ درخواست بھی کی کہ اس کو اپنا مسلم و مطیع بنایئے گا اور اُس کے اندر سے اپنا رسول مبعوث فرما کر ان کو بھی صحیح راہِ عبادت اورطریقۂ اسلام بتایئے گا۔ معلوم ہوا کہ خدا کے رسولؐ کا دامن تھامے بغیر اور اُس کی لائی ہوئی الہامی تعلیم کو قبول کیے بغیر زندگی میں نہ عبادت کا رنگ پیدا کیا جاسکتا ہے، نہ مسلم بن کے جینا ممکن ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ رسولؐ آئے اور خدا کی آیات بندوں تک پہنچائے، ہدایت اُن کو پڑھ کر سنائے، خدا کی کتاب اور حکمت ِ دین کی اُن کو وسیع تر تعلیم دے۔ پھر اُن کی زندگیوں کو فکری و اعتقادی لحاظ سے اور اخلاقی، معاشی اور سیاسی لحاظ سے بھی سنوارے۔
اب تو سوال صرف یہ ہے کہ ہم سب مسلمان اس تعلیم کتاب و حکمت اور تزکیۂ حیات سے سبق لے کر اپنی اور معاشرے کی زندگی کو کیسے اسلامی زندگی بناتے ہیں؟
میرے محترم حجاج بھائیو! یہ فریضہ آپ سے دوسروں کے مقابلے میں زیادہ توجہ چاہتا ہے۔ کیا آپ اس فریضے کی ادایگی کے لیے تیار ہیں؟
شعائر حج کا ایک اہم موقع وہ ہے جو آپ شیطانوں کو کنکریاں مار رہے تھے۔ کیا اُس وقت آپ کے ذہن میں یہ بات تھی کہ شیطان بس یہ تین ہیں، جو بُرجیوں کی شکل میں آپ کے سامنے ہیں؟ آپ کو یہ مغالطہ تو نہیں ہوا کہ شیطان صرف خارج ہی خارج میں ہوسکتا ہے؟ کچھ آپ کو احساس ہوا کہ آپ کے گرد اور آپ کے اندر گھس کر شیاطین ساری عمر شرپسندانہ حرکات کرتے رہے ہیں؟ کیا آپ کو اندازہ ہے کہ آپ کی کچھ خواہشیں اور جذبے ہیں، جنھیں ضرورت سے زیادہ اُکسا کر وہ آپ کو ایسی کش مکش میں مبتلا کرتے رہے ہیں جو کبھی دانستہ اور کبھی نادانستہ طور پر آدمی کو غلط سمت میں لے جاتی ہے؟ کیا آپ کے تصور میں یہ بات بھی آئی کہ یہاں سے پلٹ کر آپ کا سابقہ پھر انھی شیاطین سے پڑے گا اور آپ کی پھینکی ہوئی کنکریاں اُس وقت تک ان کو سنگسار نہیں کرسکتیں جب تک کہ آپ کچھ کنکریاں اپنے دل و دماغ کے غلط رجحانات پر اور اپنے اعزہ و احباب کی غلط خواہشوں اور نظریات کو بھی نہ ماریں؟
اگر زندگی کی فاسد و مفسد قوتوں کے خلاف خواہ وہ قلبی و ذہنی ہوں یا خارجی، انفرادی ہوں یا اجتماعی، افکار کے میدان میں کام کریں یا اعمال کے دائرے میں___ آپ سنگ باری کا سبق وادیِ محشر سے سیکھ آئے ہیں تو آپ نے حج کی رُوح پالی۔
آپ جس معاشرے کو چھوڑ کر گئے تھے اور جس میں واپس لوٹے ہیں، اس کے احوال پر ذرا غور سے نگاہ ڈالیے۔
یہاں دین سے عملی وابستگی رکھنے والوں اور سچے خدا پرستوں کی بہت کم تعداد پائی جاتی ہے۔ یہاں عظیم معلّمِ توحید حضرت ابراہیم ؑ کے واضح کردہ مسلک کے مطابق ہر طرف سے منہ موڑ کر اور صرف خداے واحد کی عبادت و اطاعت میں لگ جانے والوں اور شرک اور نفاق اور تضاد اور دوعملی و دو رنگی سے پاک افراد آٹے میں نمک کی طرح ہیں۔ اسلامی تقریروں، اسلامی کتابوں، اسلامی تقریبوں، اسلامی میلوں، اسلامی عرسوں، اسلامی جلوسوں، اسلامی مشاعروں، اسلامی یوموں اور اسلامی نعروں کے خوش نما غلافوں کو دیکھ کر ہم سب کی طبیعتیں بہلتی ہیں، مگر غلافوں کو ہٹائیں تو نیچے تو کھلی لادینیت ملتی ہے۔ کہیں بے قید سیکولر زندگی، کہیں مختلف آلایشوں کے ساتھ پائی جانے والی مذہبیت، کہیں تعصب و تخریب کے مارے ہوئے فرقوں کے مناظرانہ محاذ!
مسئلہ صرف وطن عزیز ہی کا نہیں، سارے عالمِ اسلام کی حالت یکساں ہے۔ فرد افراد سے، خاندان خاندانوں سے، سیاسی گروہ سیاسی گروہوں سے، قائدین قائدین سے، مذہبی جتھے دوسرے مذہبی جتھوں سے، جمہور حکمرانوں سے اور حکمران جمہور سے برسرِ کش مکش ہیں۔ ہر کوئی اپنے آپ کو دوسروں پر ٹھونسنا چاہتا ہے۔ کوئی روحانیت کے زور سے، کوئی علم کے زور سے، کوئی دولت کے زور سے، کوئی جتھا بندی کے زور سے اور کوئی قانون اور عہدے کے زور سے! نتیجہ ہر سطح پر، ہر دائرے میں معاشرے کی شکست و ریخت ہے۔
آپ کا یہ معاشرہ دولت پرستی اور آسایش پسندی اور معیار پرستی میں اتنی دُور نکل گیا ہے کہ معاشرت کی اکثر و بیش تر پگڈنڈیاں اب حرام کی وادی سے گزرتی ہیں۔ آج رزقِ حلال کا حصول انتہائی مشکل ہوگیا ہے۔
امتحانات میں، تعلیم گاہوں کے داخلوں میں، ہسپتالوں میں جگہ کے حصول اور پھر عملے کی توجہ اور دوائوں کے حصول میں، مختلف بھرتیوں میں، بھرتیوں کے انٹرویو میں ، تبادلوں اور ترقیوں میں، مواقع مفاد تک رسائی میں، ہر جگہ خیانت کی چوکیاں قائم ہیں۔
آپ کے معاشرے میں بے پردگی کا رجحان بڑھ رہا ہے، فحاشی کے سرچشمے جاری ہیں۔ آپ کے معاشرے میں جرائم بڑھ رہے ہیں، نہایت وحشیانہ تشدد اور سیاسی قتل کے حوادث بار بار ہونے لگے ہیں۔ محافظ امن اداروں کی طرف سے جو تحفظ عوام کو حاصل تھا، روز بروز کم ہو رہا ہے۔ ہر آدمی کو خوف اپنے پنجوں میں دبوچ رہا ہے۔ان حالات میں زندگی کی اُلجھنیں بڑھ گئی ہیں، انسانی رابطوں میں کمی آرہی ہے اور ہر فرد تنہا ہوتا جا رہا ہے۔ اس تنہائی کے عالم میں اس کے اعصاب ذہنی اور معاشی بوجھ میں مسلسل اضافے سے چٹخنے لگے ہیں۔ ہرشخص پریشانیوں اور اضطرابات میں گھرا ہوا ہے۔
اب آپ اپنے اس مصیبت زدہ معاشرے پر رحم کھا کر کوشش کیجیے کہ یہاں خداپرستی، رزقِ حلال اور اطمینان قلب کا دور دورہ ہو۔ اس مقصد کے لیے آپ کام کرنے کی راہیں تلاش کریں۔ کچھ نور اگر آپ نے دورانِ حج حرم سے حاصل کیا ہے تو اب قوم کی تاریکیوں میں اسے پھیلانے کی فکر کیجیے۔ کچھ دوڑ دھوپ کیجیے، کچھ تگ و تاز کیجیے، دروازے کھٹکھٹایئے، نیک روحوں کو پکاریئے۔ الحاد اور لادینیت، حرام خوری اور تنگیِ معیشت، بے حجابی اور بدقمارگی کے خلاف ایک محاذ آراستہ کیجیے۔ پاکستان کی وحدت و سالمیت کے مخالفوں اور غایت ِ پاکستان کے دشمنوں کے ہاتھ پکڑ لیجیے۔
کیا حج سے حاصل کردہ اسپرٹ آپ کو اس جہادِ عظیم کے لیے نہیں پکارتی؟
کتنی عجیب بات ہے کہ کسی قوم کے کئی ہزار افراد ہر سال حج کرکے آتے ہوں اور پھر بھی اس کے اعتقادی اور اخلاقی احوال خراب رہیں۔ اگر ایک ہزار بیدار دل حاجی بھی ہرسال ہمارے معاشرے میں پوری روح کے ساتھ جلوہ گر ہوتے اور ہرسال ایک حاجی ۱۰؍افراد کے سینوں میں ایمانِ باعمل کی شمعیں فروزاں کردیتا تو خداپرست، محبت کیش، وفاشعار لوگوں کی ایسی صفیں کی صفیں تیار ہو جاتیں، جو اسلام کو ایک زندہ قوت میں بدل سکتی تھیں۔
اگر آپ ہمارے ذہنی احوال کو دیکھیں تو ہم میں بے حسی بھی ملے گی، جمود بھی ملے گا، بے روح اعتقادات ملیں گے، ان پر مناظرانہ بحثیں ملیں گی، رسمیات کی ایک مستقل شریعت ملے گی، شرک و بدعت کے مظاہر ملیں گے۔ اسی طرح معاشی زندگی میں ایک طرفہ فاقہ مستیاں اور دوسری طرف چیرہ دستیاں، ایک طرف بے روزگاری اور دوسری طرف اسراف و تبذیر، ایک طرف مجبوری و بے بسی اور دوسری طرف ظلم و تشدد، دفتری زندگی میں کام چوری اور رشوت، کاروبار میں چو ر بازاری اور ملاوٹ اور گراں فروشی، سماجی طور سے غلاظت و جہالت اور بیماری و بدکاری، امن کے پہلو سے جرائم اور لُوٹ مار۔ آخر اس فضا کو بدلنے کے لیے ہمارے لاکھوں حاجیوں کا حج انقلاب آفریں کیوں نہیں بنتا؟
کلمہ ایک انقلابی نور ہے، اذان انقلابی پکار ہے، نماز روزہ انتہائی انقلاب انگیز عبادتیں ہیں، صدقہ خدائی انقلاب کے علَم برداروں کی توانائی ہے___ اور حج جو بہت سی عبادات کا جامع ہے، وہ تو تاریخ میں بہت عظیم مدوجزر پیدا کرنے والی طاقت ہے۔ تبدیلی نہ کلمے میں آئی ہے، نہ اذان اور نماز میں، نہ روزہ و صدقے میں، اور نہ حج و قربانی میں، البتہ جمود آفریں تبدیلی خود ہمارے اندر آئی ہے۔ زندگی کے تمام خدوخال متحجر ہوگئے ہیں۔ تحریکیت کا سیلابی دریا یخ بستہ ہوگیا ہے۔
مگر یہاں اُجالا کیوں نہیں ہوتا اور ذرّے آفتاب کیوں نہیں بنتے!
آپ پوری سوچ بچار سے یہ عہد کرکے اپنے ہاں نئی زندگی کا آغاز کریں کہ ایک طرف آپ کو اپنی ساری سرگرمیوں کا جائزہ لے کر ان تمام چیزوں کو چھانٹ دینا ہے جو خلافِ دین ہیں یا مشتبہ ہیں۔ اپنے نئے مشاغل کا پورا نقشہ ازسرِنو تیار کرنا ہے۔ دوسری طرف آپ کو اپنے گھر کے ماحول کو بدلنا ہے۔ ایک حاجی کے گھر میں نماز اور قرآن کا دور دورہ ہونا چاہیے۔ ایک حاجی کے گھر میں پردے کا اہتمام ہونا چاہیے۔ایک حاجی کے گھر میں نہ حرام مال داخل ہونا چاہیے۔تیسری طرف آپ کو یہ فکر کرنی ہے کہ آپ اپنے محلے، اپنے علاقے یا شعبے، اپنے کاروباری یا دفتری حلقے میں خدا اور رسولؐ کے دین کی دعوت کس طرح پھیلائیں اور اس کام میں کس جماعت یا ادارے یا کن افراد کے ساتھ تعاون کریں۔
حج کے بعد آپ کو دعوتِ دین کا زبردست علَم بردار ہونا چاہیے۔ خدا آپ کو حج کے بعد کی زندگی میں مزید سعادتیں اور برکتیں عنایت فرمائے، آمین!
فلسفے کا دائرہ ہمیشہ فکر کا دائرہ ہے۔ فلسفی کو عملی زندگی اور تاریخ کے مدّوجزر سے براہِ راست واسطہ نہیں ہوتا۔ وہ واقعات و احوال سے نتائج تو نکالتا ہے لیکن واقعات و احوال کا رُخ بدلنے کے لیے کسی عملی جدوجہد میں حصہ نہیں لیتا۔ مذہب (مروجہ محدود معنوں میں) ذرا سا آگے بڑھتا ہے، وہ کچھ اعتقادات دینے کے ساتھ ساتھ فرد کو تمدّن سے الگ کر کے اسے ایک اخلاقی تعلیم بھی دیتا ہے۔ لیکن مذہب کا راستہ نظامِ اجتماعی سے باہر باہر ہوکے گزرتا ہے اور وہ نہ سیاسی ہیئت سے کوئی تعرض کرتا ہے، نہ معاشرے کے ادارات میں کوئی جامع تبدیلی چاہتا ہے، اور نہ وقت کی قیادت کو چیلنج کرتا ہے۔
مذہب کی دعوت ہمیشہ وعظ کے اسلوب پر ہوتی ہے۔ واعظ نے نرم و شیریں انداز سے کچھ نصیحتیں کیں اور اپنا رستہ لیا۔ اسے نہ اس کی فکر کہ اس کے مخاطب حالات کے کس قفس میں گرفتار ہیں، نہ اس کی پروا کہ کون سے طبقے اور عناصر کن اقدامات اور سرگرمیوں سے لوگوں کے ذہن و کردار کو کس رُخ پر لے جارہے ہیں، نہ اس طرف توجہ کہ روزمرہ حالات و واقعات کی رُو کیا اثرات چھوڑ رہی ہے، نہ یہی کاوش کہ میرے وعظ کے حق میں اور اس سے خلاف کیا کیا افکارونظریات کس کس جانب سے کتنا اثر ڈال رہے ہیں، نہ یہ پیشِ نظر کہ میرے مذہبی سانچے میں ڈھلنے والے متقی ترین افراد کیسے نظامِ تمدن کے پُرزے بنے ہوئے ہیں۔ کوئی اجتماعی نصب العین نہیں ہوتا۔ تبدیلی کا کوئی منصوبہ نہیں ہوتا۔ کسی سیاسی اور قائدانہ بصیرت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ زندگی کے ایک چھوٹے سے خانے میں جزوی نیکی پیدا کرنے کے لیے جو کچھ بن آیا کردیا اور بقیہ وسیع دائرے میں بدی اپنا جھنڈا اطمینان سے لہراتی رہے۔ کسی اللہ والے کو اس سے کیا مطلب!
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نہ تو ایک فلسفی تھے کہ محض چند اُونچے اور گہرے خیالات دے دیتے، اور واقعاتی احوال سے تعرض نہ کرتے، اور نہ ایک واعظ تھے جو اجتماعی فساد سے آنکھیں بند کر کے محض فرد کو مخاطب بناتے اور ٹھنڈے اور میٹھے وعظ سنایا کرتے اور نتائج پر سرے سے سوچا ہی نہ کرتے۔ انسانیت کے اس محسن نے پورے تمدنی شعور کے ساتھ حیاتِ انسانی کی کامل تبدیلی پیشِ نظر رکھی۔ ان قوتوں اور عناصر کو پہچانا جو نظامِ حیات پر حاوی تھیں۔ اس قیادت کو زیرنظر رکھا جو جاہلی تمدن کی گاڑی چلا رہی تھی۔ اسے دلائل کے ساتھ دعوت بھی دی، اس پر تنقید بھی کی اور اسے چیلنج بھی کیا۔ تاریخ کے دھارے پر نگاہ رکھی۔ حالات و واقعات کی ایک ایک لہر پر توجہ دی۔ ہرواقعے کو قائدانہ بصیرت اور سیاسی شعور کے ساتھی دیکھا کہ وہ کس پہلو سے اصلاح کی مہم کے لیے مفید ہے اور کس پہلو سے خلاف جاتاہے۔ معاشرے کے جملہ عناصر پر توجہ رکھی کہ دعوت کے لیے کس موقع پر کس سے کیا اُمیدیں کی جاسکتی ہیں۔ اپنی قوت اور رفتار کو حریفوں کی قوت و رفتار کے مقابل میں ملحوظ رکھا۔ ہراقدام کے لیے صحیح ترین وقت کا انتظار صبر سے کیا اور جب موزوں گھڑی آگئی تو جرأت سے قدم اُٹھا دیا۔ راے عام کے ہرمدّوجزر کا کامل فہم حاصل کیا اور مخالفین کے ہرپروپیگنڈے کا مقابلہ کرکے ان کے اثرات کو توڑا۔ شعر اور خطابت کے مخالفانہ محاذ قائم ہوئے تو ان کے جواب میں اپنے شعرا اور خطیبوں کو کھڑا کیا۔ اپنے اصولوں کی کڑی پابندی کی مگر آنکھیں بند کرکے نہیں، بلکہ احوال و ظروف کو دیکھا، وقت کی مصلحتوں کو سمجھا اور حکیمانہ نقطۂ نگاہ اختیار کیا۔ جہاں قدم آگے بڑھانے کا موقع ملا ، آگے بڑھایا۔ آگے بڑھنا جب موزوں نہ دیکھا تو قدم روک لیا۔ دو بلائیں سامنے آگئیں تو ایک سے بچ کر دوسری کا مقابلہ کیا۔ جنگی کارروائی کی ضرورت پڑی تو دریغ نہیں کیا۔ مصالحت کی راہ ملی تو دستِ صلح بڑھا دیا۔ اور پھر کمال یہ کہ اس ساری جدوجہد میں خداپرستی کی روح اور اخلاقی اقدار کا نہ صرف تحفظ کیا، بلکہ ان کو مسلسل نشوونما دی۔ اس پورے نقشۂ کار اور اس پورے طریق کار کو اگر قرآن اور سیرتِ پاک کے اوراق سے اخذ کر کے سامنے رکھیے تو وہ فرق بیّن طور پر معلوم ہوجائے گا جو مذہب اور دین میں، وعظ اور انقلابی دعوت میں، انفرادی تزکیے اور تمدنی تحریک میں ہوتا ہے۔
حضوؐر نے چونکہ ایک مکمل دین کو برپا کرنے کے لیے تحریک برپا کی تھی، اس لیے آپؐ نے ایک ایک کرکے سلیم الفطرت افراد کو تلاش کیا۔ پھر جس کے سینے میں بھی کلمۂ حق کی شمع روشن ہوگئی اسے ایک تنظیم میں پرو دیا۔ اس کی تربیت کی، اسے اپنے ساتھ کش مکش کی بھٹی میں ڈالا اور پھر جس مرحلے میں جتنی منظم قوت حاصل تھی، اُسے اپنی قیادت کے تحت جاہلی نظام کے خلاف معرکہ آرا کیا، فکری میدان میں بھی، سیاسی میدان میں بھی___ اور بالآخر جنگ کے میدان میں بھی!
جو لوگ حضوؐر کے گرد جمع ہوئے، ان کو آپؐ نے صوفی اور درویش نہیں بنایا، راہبوں اور جوگیوں کے نقشے پر نہیں ڈھالا، بدی سے بھاگنے اور غالب قوتوں سے خوف کھانے اور دولت و اقتدار سے مرعوب ہونے والی ذہنیت انھیں نہیں دی۔ وہ لوگ بھولے بھالے اور معذورانہ شان کے زہّاد نہیں تھے۔ وہ جر.ّی اور بے باک، باشعور اور بصیرت مند، خوددار اور غیور، ذہین اور زیرک، فعّال اور متحرک، پیش رُو اور تیزگام تھے۔ وہ پادریوں اور سادھوئوں کے سے انداز نہیں رکھتے تھے بلکہ کارفرما بننے کی صلاحیتوں سے آراستہ تھے۔
بہترین فطرت کے لوگ بہترین تربیت پاکر، بہترین تنظیمی رشتے سے بندھ کر اور بہترین قیادت کے ہاتھوں میں جاکر ایک ناقابلِ شکست قوت بن گئے۔ یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں نے ایک چھوٹی سی اقلیت میں ہونے کے باوجود سارے عرب کی عظیم ترین اکثریت کو اپنے سایے میں لے لیا۔ جب مکّہ میں جماعت اسلامی کی تعداد ۴۰ تھی، تو مکّہ اور اردگرد کی آبادیوں میں اس تعداد نے ایک ہمہ وقتی مدّوجزر پیدا کر دیا اور پھر برسوں تک گھرگھر اور کوچہ کوچہ اگر کوئی موضوعِ گفتگو تھا تو وہ حضوؐر کی دعوتِ اسلامی تھی۔ مدینہ میں جاکر ابھی تحریکِ اسلامی کے علَم برداروں کی تعداد چند سو سے زیادہ نہ تھی کہ غیرمسلم اکثریت کے علی الرغم اسلامی ریاست کی ِ نیو ڈال دی گئی۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور حضوؐر کی جماعت کا طرز یہ نہیں تھا کہ پہلے سارا عربی معاشرہ اسلام قبول کرلے، یا اس کی اکثریت کی اصلاح ہوجائے تو پھر جاکر نظامِ اجتماعی کی تاسیس کی جائے۔ نہ نقطۂ نظر یہ تھا کہ بس دعوت دیتے رہو، خیالات و اعتقادات کی اصلاح کرتے رہو، بالآخر ایک صالح نظام خودبخود برپا ہوجائے گا، یا بطورِ انعام اللہ تعالیٰ حق کو غلبہ دے دیں گے۔ وہاں تاریخ کی یہ حقیقت سامنے تھی، کہ عوام کی بھاری اکثریت حالت ِ جمود میں پڑی رہتی ہے، اور معاشرے کا ایک قلیل عنصر فعّال ہوتا ہے جس میں سے ایک حصہ اصلاح یا انقلاب کی دعوت کا علَم بردار بنتا ہے اور ایک حصہ مزاحمت کرتا ہے۔ اصل بازی اسی فعّال عناصر کی دونوں صفوں کے درمیان ہوتی ہے، اور اس کا جب فیصلہ ہوجاتا ہے تو پھر عوام خودبخود حرکت میں آتے ہیں۔ یہاں یہ شعور پوری طرح کارفرما تھا کہ عوام کے راستے میں جب تک ایک فاسد قیادت حائل رہتی ہے اور ان کی زندگیوں کو بگاڑنے کی مہم جاری رکھتی ہے، یا کم از کم ان کو جمود میں ڈالے رکھتی ہے، وہ نہ کسی دعوت کو بڑے پیمانے پر قبول کرسکتے ہیں، نہ اپنی عملی زندگیوں میں تبدیلی لاسکتے ہیں۔ خود دعوت پر لبیک کہنے والوں کے لیے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ فاسد قیادت کے بنائے ہوئے گندے ماحول میں اپنی زندگی کو حدِّکمال تک سنوار سکیں، بلکہ اُلٹا اگر تبدیلی برپا ہونے میں بہت زیادہ تاخیر ہو تو بسااوقات، اُس مقام کو برقرار رکھنا بھی کٹھن ہوجاتا ہے، جس پر داعیانِ حق لمبی محنت سے پہنچتے ہیں۔ کیونکہ مخالف حالات پیچھے دھکیلنے کے لیے پورا زور صرف کر رہے ہوتے ہیں۔ پس کسی اجتماعی تحریک کے لیے راہِ عمل یہی ہوتی ہے کہ وہ معاشرے کے فعّال عنصر میں سے سلیم الفطرت افراد کو چھانٹ کر جتنی زیادہ سے زیادہ قوت جمع کرسکتی ہو، اسے کش مکش میں ڈال کر مقابل کی قیادت کا محاذ توڑدے۔
تاریخ گواہ ہے کہ تمام انقلابات فعّال اقلیتوں کے ہاتھوں واقع ہوئے ہیں۔ معاشرے کے فعّال عنصر میں سے تعمیرواصلاح کی دعوت چونکہ نسبتاً زیادہ سلیم الفطرت افراد کو کھینچتی ہے، ان میں ایک مثبت جذبہ بیدار کرتی ہے، اور اُن کی تربیت کرکے ان کی اخلاقی قوت کو بڑھا دیتی ہے۔ اس لیے مقابل میں رہ جانے والا طبقہ اثرواقتدار، مال و جاہ اور کسی قدر عددی کثرت رکھنے کے باوجود مقابلے میں زک اُٹھاتا ہے۔ معرکۂ بدر اس کا ایک نمایاں ثبوت ہے۔ پس جب حضوؐر کے گرد عرب معاشرے کے فعّال عنصر میں سے سلیم الفطرت افراد کی اتنی تعداد جمع ہوگئی کہ وہ اخلاقی قوت سے سرشار ہوکر جاہلی قیادت اور اس کے حامیوں کا مقابلہ کرسکے، تو حضوؐر نے اپنے سیاسی نصب العین کی طرف کوئی ضروری قدم اُٹھانے میں ذرا بھی تامل نہیں کیا۔
فتح مکہ کا اصل مفہوم یہی ہے کہ اس موقع پر جاہلی قیادت کا پوری طرح خاتمہ ہو گیا اور اس رکاوٹ کے ہٹتے ہی عوام صدیوں پرانے [غلامی کے] جوئے سے آزاد ہوکر دعوتِ حق کو لبیک کہنے کے لیے ازخود آگے بڑھنے لگے۔
تاریخ میں کوئی ایک مثال بھی ایسی موجود نہیں ہے کہ فاسد قیادت کے زیرسایہ کوئی نظامِ فلاح پنپ سکا ہو اور بغیر سیاسی کش مکش کے محض وعظ و تبلیغ اور انفرادی اصلاح کے کام سے اجتماعی انقلاب نمودار ہوگیا ہو۔ ورنہ گذشتہ ۱۳ صدیوں میں خلافت ِ راشدہ کے بعد وعظ و ارشاد، تبلیغ و تذکیر، تعلیم و تزکیہ کے عنوان سے عظیم الشان مساعی، مساجد، مدارس اور خانقاہوں کے ادارات کے تحت عمل میں آتی رہی ہیں، اور آج بھی علما و صوفیہ، اصحابِ درس اور اربابِ تصانیف زبان و قلم سے جتنا کام کررہے ہیں، اس کی وسعت حیران کن ہے۔ لیکن اس کے باوجود نہ اس حدِ مطلوب تک افراد کا تزکیہ ہوسکا ہے اور نہ کبھی معاشرے کی اتنی اصلاح ہوسکی ہے جس کے نتیجے میں اجتماعی نظام بدل جائے اور محمد رسول اللہ کا انقلاب دوبارہ رونما ہوسکے۔ صاف ظاہر ہے کہ طرزِفکر اور نقشۂ کار اور نظریۂ انقلاب میں کوئی بڑا جھول ہے۔ وہ جھول یہی ہے کہ قیادت کی تبدیلی کے لیے سیاسی کش مکش کیے بغیر افراد کو نظامِ تمدّن سے منقطع کر کے دعوت کا مخاطب بنایا جاتا رہا ہے۔
لوگ جب یہ کہتے ہیں کہ دین کی اقامت اور اسلامی نظام کا برپا ہوجانا تو اصل مطلوب نہ تھا، اور یہ محض انعامِ خداوندی کے طور پر یکایک بیچ میں آنمودار ہوا، تو وہ حضوؐر کے کارنامے اور آپؐ کی جدوجہد کی سخت ناقدری کرتے ہیں اور حضوؐر کی قائدانہ بصیرت اور سیاسی عظمت پر غبار ڈال دیتے ہیں۔
ذرا غور کیجیے کہ اس ہستیؐ نے کتنی تگ و دو کرکے مدینہ کے مختلف عناصر کو چند ماہ کے اندر اندر دستوری معاہدے کے تحت جمع کیا۔ کس عرق ریزی سے اردگرد کے قبائل سے حلیفانہ تعلقات قائم کیے۔ کس مہارت سے مٹھی بھر مسلمانوں کے بل پر ایک مضبوط فوجی نظام اور طلایہ گردی کا سلسلہ قائم کیا۔ کس کاوش سے قریش کی تجارتی شاہراہ کی ناکہ بندی کرلی۔ کس عزیمت کے ساتھ قریش کے خنجربرّاں کا مقابلہ کیا۔ کس زیرکی سے یہود اور منافقین کی سازشوں کی کاٹ کی۔ کس مہارت سے حدیبیہ کا معاہدہ کیا۔ کس ہمت سے یہود کے مراکزِ فتنہ کی بیخ کنی کی۔ کس بیدار مغزی کے ساتھ بے شمار شرپسند قبائل کی علاقائی شورشوں کی سرکوبی کی۔ اس سارے کام میں قائدانہ بصیرت، سیاسی مہارت اور مضبوط حکمت عملی کے جو حیرت ناک شواہد پھیلے ہوئے ہیں، ان سے لوگ کس طرح صرفِ نظر کرلیتے ہیں۔ یہ کہنا کہ یہ سب کچھ خدا کا انعام تھا بالکل ٹھیک ہے لیکن اس معنی میں کہ ہربھلائی خدا کا عطیہ و انعام ہوتی ہے۔ تاہم انسانوں کو کوئی انعام ملتا جبھی ہے کہ وہ اس کے لیے ضروری محنت عقل و بصیرت کے ساتھ کردکھائیں۔ اقامت ِدین کو خدا کا انعام کہہ کر اگر کوئی شخص رسولِؐ خدا کی جدوجہد، جاں فشانی ، حکمت و بصیرت اور سیاسی شعور کی نفی کرنا چاہتا ہے توو ہ بڑا ظلم کرتا ہے۔
بدقسمتی سے حضوؐر کے کارنامے کا سیاسی پہلو اتنا اوجھل رہ گیا ہے کہ آج حضوؐر کی دعوت اور نصب العین کے صحیح تصور کا اِدراک مشکل ہوگیا ہے۔ اس پہلو کو جب تک پوری سیرت میں سامنے نہ رکھا جائے، وہ فرق سمجھ میں آہی نہیں سکتا، جو محدود مذہبیت اور دین کے وسیع تصور میں ہے۔ حضوؐر پورا دین لائے تھے۔ حق کی بنیادوں پر ساری زندگی کا نظام قائم کرنے آئے تھے۔ خدا کے قوانین کو عملاً جاری کرنے آئے تھے۔ اس لیے ہمیں یہ شعور ہونا چاہیے کہ حضوؐر جامع اور وسیع معنوں میں تمدنی اصلاح اور انسانیت کی تعمیرنو کی تحریک چلانے آئے تھے، اور اس تحریک کو چلانے کے لیے بہترین قائدانہ بصیرت اور اعلیٰ درجے کے سیاسی شعور سے آپؐ کی ہستی مالامال تھی۔ جس طرح کسی اور پہلو میں حضوؐر کا کوئی ہم سر نہیں ہوسکتا، اسی طرح سیاسی قیادت کی شان میں بھی آپؐ کا کوئی ہم سر نہیں ہے۔ جس طرح آپؐ زندگی کے ہرمعاملے میں اسوہ و نمونہ ہیں، اسی طرح سیاسی جدوجہد کے لیے بھی آپؐ ہی کی ذات ہمیشہ کے لیے اسوہ و نمونہ ہے۔
حضوؐر کا کارنامہ یہ ہے کہ آپؐ نے نیکی کی دعوت دی، نیکی کے غلبے کے لیے جدوجہد کی، اور ایک مکمل نظام قائم کر دیا۔ یہ کام مذہب کے محدود تصور کے دائرے میں سما نہیں سکتا۔ یہ دین تھا، یہ تحریک تھی!(محسنِ انسانیتؐ، ص ۳۹-۴۴)
حضور نبی پاک محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کوئی قصہ کہانی نہیں ہے،وہ محض ایک فرد کی داستان بھی نہیں ہے، بلکہ وہ فی الحقیقت ایک ایسے عظیم اور پاکیزہ انقلاب کی کہانی ہے جس کی کوئی مثال تاریخِ انسانی میں نہیں ملتی۔ اس انقلاب کی روداد کا مرکزی کردار نبی اکرمؐ کی شخصیت ہے۔ باقی تمام کردار، خواہ وہ ابوبکرؓ و عمرؓ ہوں یا عثمانؓ و علیؓ، جعفرؓ طیار ہوں یا سیدالشہدا جنابِ حمزہؓ، وہ حضرت بلالؓ ہوں یا یاسرؓو عمارؓ، اور اسی طرح دوسرے محاذ پر ابوجہل ہو یا ابولہب، عبداللہ بن اُبی ہو یا کعب بن اشرف، خواتین میں سے حضرت خدیجہؓ ہوں یا جنابِ فاطمہؓ، حضرت عائشہؓ ہوں یا جنابِ اُم المساکین اور ان کے مقابل میں زوجۂ ابولہب ہو یا ہندہ جگرخوار___ یہ سب کے سب مرکزی کردار کے یا تو معاون کردار ہیں، یا مخالف۔ ان مختلف کرداروں کے تعاون اور کش مکش کے نتیجے میں تاریخ کا وہ سنہری باب لکھا گیا جس کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک آنحضوؐر کی سیرتِ پاک رچی بسی ہوئی ہے اور مہاجرین و انصار میں اسی کا انعکاس دکھائی دیتا ہے۔ حضوؐر کی سیرت کو اس کش مکش سے الگ کر کے سمجھا ہی نہیں جاسکتا۔
نعوذ باللہ حضوؐر نہ تو تارک الدنیا راہب تھے اور نہ ایک محدود اور بے ضرر سا دھرم یا مَت سکھانے آئے تھے۔ آپؐ کے ذمّے محض پوجا پاٹ کے طریقے بتانے اور چند اخلاقی نصیحتیں اور سفارشیں کرنے کا کام نہ تھا، بلکہ قرآن کی توضیحات کے مطابق آپ کی بعثت کا مقصد یہ تھا کہ خداپرستانہ حکمت اور پاکیزہ اخلاق سے آراستہ کرکے آپؐ ایک ایسی جماعت کھڑی کریں جو آپ ؐ کی قیادت میں بھرپور جدوجہد کر کے دینِ برحق کو ہر دوسرے نظریے اور فلسفے اور مذہب کے مقابلے میں پوری انسانی زندگی پر غالب کردے: ویکون الدّین کلہٗ للّٰہِ!
بات کو سمجھنے کے لیے دو تین مواقع پر رسولِؐ برحق کے فرمائے ہوئے کلمات پر ہم نگاہ ڈالتے ہیں۔ ان کلمات کی شہادت یہ ہے کہ حضوؐر کو اپنے کام کے حوصلہ شکن ابتدائی دور میں پورا شعور تھا کہ کیا کرنے چلے ہیں۔ دعوت کا کام شروع کرنے کے جلد ہی بعد خاندانِ بنوہاشم کو کھانے پر جمع کیا اور اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے فرمایا: جو پیغام میں تم تک لایا ہوں اسے اگر تم قبول کرلو تو اس میں تمھاری دنیا کی بہتری بھی ہے اور آخرت کی بھلائی بھی‘‘۔ پھر ابتدائی دورِ کش مکش میں مخالفین سے آپؐ نے فرمایا کہ ’’بس یہ ایک کلمہ ہے‘‘، اسے اگر مجھ سے قبول کرلو تو اس کے ذریعے تم سارے عرب کو زیرنگین کرلو گے اور سارے عجم تمھارے پیچھے چلے گا‘‘۔ پھر ایک موقع پر رسولِ بشیرونذیر کعبے کی دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے، خباب ابن الارتؓ نے جو قریش کے تشدد کا نشانہ بن رہے تھے، عرض کیا: حضوؐر، ہمارے لیے خدا کی مدد کی دعا نہیں فرمائیں گے؟ حضوؐر نے جواب دیا کہ تم سے پہلے ایسے لوگ ہو گزرے ہیں کہ گڑھے کھود کر ان کے دھڑ مٹی میں داب دیے جاتے اور پھر ان کے سروں پر آرے چلا کر ان کو دوٹکڑے کر دیا جاتا۔ تیز لوہے کی بڑی بڑی کنگھیوں سے بحالت ِ زندگی ان کے گوشت اور کھالوں کی کترنیں ہڈیوں سے نوچ لی جاتیں لیکن یہ چیزیں ان کو دین و ایمان سے نہ پھیر سکیں۔ پھر فرمایا کہ ’’خدا کی قسم! اس کام کو اللہ تعالیٰ ایسی تکمیلِ منزل تک پہنچائے گا کہ ایک سوار صنعاء سے حضرموت تک تنہا سفر کرے گا، اور اسے سواے خدا کے کسی کا خوف لاحق نہیں ہوگا‘‘۔ مدنی دور میں عدی بن حاتم سے فرمایا کہ ’’بخدا وہ وقت قریب آرہا ہے جب تو سن لے گا کہ اکیلی عورت قادسیہ سے چلے گی اور مکہ کا حج کرے گی اور اسے کسی کا خوف ڈر نہ ہوگا‘‘۔ ان کلمات سے صاف ظاہر ہے کہ آپؐ کے سامنے اخوت و مساوات، عدل و انصاف اور امن وسلامتی کے ایک ایسے نظام کا نقشہ تھا جس میں کمزور اور تنہا فرد بھی ہر ضرر اور ظلم سے محفوظ ہوگا۔
یہ تھی منزل جہاں تک پوری انسانیت کے قائد صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب کے اس معاشرے کو پہنچانے کے لیے عمربھر جان ماری کی جو جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبا ہوا تھا، نظم سے محروم تھا، جرائم کی جولاں گاہ تھا، اور جس کے اُجڈ اور اکھڑ لوگ آپس میں لڑبھڑ کر قوتیں برباد کررہے تھے۔
محمدیؐ انقلاب کی اساس کلمہ طیبہ پر تھی، یعنی اس کائنات کا اور تمام نوعِ انسانی کا ایک ہی الٰہ ہے(البقرہ ۲:۱۶۳) اور وہ اللہ تعالیٰ ہے۔ پوجا صرف اُس کی ہوگی، حکم اور قانون صرف اس کا چلے گا (البقرہ ۲:۱۲۹)۔ حاجات اس سے مانگی جائیں گی، دعائیں اس سے کی جائیں گی، نذریں اس کے سامنے پیش کی جائیں گی، اعمال کا حساب کتاب لینے والا اور جزا سزا دینے والا وہ ہے۔ زندگی، موت اور صحت اور رزق اور امن اور عزت، سب کچھ اس کی طرف سے ہے۔ زندگی میں اور کوئی اِلٰہ نہیں ہوگا، کسی بادشاہ کی، کسی حکمران کی، کسی خاندان کی، کسی دولت مند کی، کسی پروہت اور پادری کی، کسی نمبردار اور چودھری کی اور خود کسی شخص کے اپنے نفس کی خدائی بھی نہ چلے گی۔ اللہ کے سوا دوسرا جو کوئی بھی خدا بنتا ہے یا اپنی مرضی ٹھونستا اور اپنا قانون چلاتا ہے، یا دوسروں کے سر اپنے سامنے یا کسی اور کے سامنے جھکواتا ہے، یا جو لوگوں کی حاجات پوری کرنے کا مدعی بنتا ہے، وہ طاغوت کا پارٹ ادا کرتا ہے۔
اس انقلابی کلمے کا دوسرا جز یہ بتاتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا نے اپنا رسول مقرر کیا ہے۔ ان کو وحی کے ذریعے ہدایت اور ضلالت، نیکی اور بدی، حلال اور حرام کا علم عطا کیا ہے۔ آپؐ خدا کی طرف سے قیامت تک تمام مسلمانوں کے پیشوا اور قائد، معلم اور مزکّی اور اسوہ اور نمونہ قرار دیے گئے ہیں۔
اس انقلابی کلمے کے بیج سے نظامِ عدل و رحمت کا وہ شجرۂ طیبہ ظہور میں آیا جس کی شاخیں فضائوں میں پھیل گئیں اور جڑیں زمین میں اُتر گئیں۔ جس کی چھائوں دُور دُور تک پھیل گئی اور جس کے فکری، تہذیبی اور اخلاقی برگ و بار کا کچھ حصہ ہرقوم اور معاشرے تک پہنچا۔
محمدی انقلاب کے حیرت انگیز پہلوئوں میں سے ایک یہ ہے کہ جس نے آپؐ کے پیغام کو قبول کیا اس کی ساری ہستی بدل گئی۔ اس کے ذہن کی ساخت، اس کے افکاروجذبات، اس کے ذوق اور دل چسپیاں، اس کی دوستیاں اور دُشمنیاں، اس کے اخلاقی معیارات سب کے سب بدل گئے۔ چور اور ڈاکو آئے اور دوسرے لوگوں کے اموال کے نگہبان بن گئے۔ زانی آئے اور دوسروں کی عصمتوں کے رکھوالے بن گئے۔ سود کھانے والے آئے اور وہ اپنی کمائیاں خدا کے دین اور بندوں کی خدمت کے لیے لٹانے لگ گئے۔ کبِر کے مجسمّے آئے اور عاجزی کا نمونہ بن گئے۔ خواہشوں کے غلام آئے اور پَل بھر میں دنیا نے دیکھا کہ وہ اپنی خواہشوں کو روندتے ہوئے ایک اعلیٰ نصب العین کی طرف لپکے جا رہے ہیں۔ جاہل آئے اور آسمانِ علم پر اُنھوں نے اس طرح کمندیں ڈالیں کہ دنیا حیرت زدہ رہ گئی۔ اُونٹوں کے چرواہے انسانوں کے شفیق گلّہ بان بن گئے۔ لونڈیوں، غلاموں کے پسے ہوئے طبقے سے وہ شجاع اور غیور ہستیاں نمودار ہوئیں جن پر دشمنوں نے ظلم و ستم کے سارے حربے آزما ڈالے، مگر ان کے ضمیروں کو بدلنے اور ان کے ایمان کو شکست دینے میں کامیاب نہ ہوئے۔
محمدیؐ انقلاب کے ان رضاکار سپاہیوں میں ڈسپلن اور ضبط و نظم ایسا بے مثال تھا کہ حالتِ نماز میں اُن کو تحویلِ قبلہ کا حکم ملا تو اُنھوں نے فوراً اپنے رُخ بیت المقدس سے کعبے کی طرف پھیر لیے، اُن کے لیے شراب حرام کی گئی تواُنھوں نے منہ کے ساتھ لگے ہوئے پیالے تک الگ کرکے پھینک دیے، ان کی خواتین نے جب رسولِ پاکؐ کی زبان سے حکمِ حجاب سنا تو اس میں مین میخ نکالنے کے بجاے فوراً اپنے سروں اور سینوں اور زینتوں کو ڈھانپ لیا۔ ان میں سے اگرکسی مرد یا عورت سے خدا ورسولؐ کے احکام کے خلاف کوئی جرم سرزد ہوگیا تو اپنے جرم کے اقراری بن کر خود پیش ہوئے اور اصرار کیا کہ ان پر سزا نافذ کر کے انھیں حضوؐر پاک کر دیں۔ اُن سے چندہ طلب کیا گیا تو کسی نے گھر کا سارا سامان لا کے مسجد میں ڈھیر کر دیا، کسی نے سامان سے لدے ہوئے اُونٹوں کی قطاریں کھڑی کر دیں، اور کسی مزدور نے دن بھر کی محنت کی کمائی ہوئی چند کھجوریں پیش کردیں۔
پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بڑا احسان تہذیب ِ انسانی پر یہ ہے کہ آپؐ نے انسانوں کے تمام رشتوں اور رابطوں کو محکم بنیادوں پر استوار کیا، ایک دوسرے کی باہمی ذمہ داریاں واضح کیں، سب کے حقوق و فرائض متعین کیے، اور اپنے نمونے کے معاشرے میں والدین اور اولاد، بھائی بہنوں، میاں بیوی، استاد اور شاگرد، امیر اور غریب، پڑوسی اور ہم سفر، حاکم اور رعیت کے ربط و تعلق کو احسن شکل دی۔
افراد کے اندر واقع ہونے والے اس انقلاب کے نتیجے میں عرب کے معاشرے میں جو انقلاب واقع ہوا، وہ حیرت انگیز ہے۔ حضوؐر نے اسلامی ریاست کی بنیاد جب مدینہ میں رکھی تو زیادہ سے زیادہ وہ علاقہ ۱۰۰ مربع میل ہوگا۔ آٹھ نو سال کے قلیل عرصے میں یہ ریاست پھیل کر ۱۰،۱۲ لاکھ مربع میل تک وسیع ہوگئی جس میں کوئی طبقاتی کش مکش نہ تھی، جس میں نسب کے فخر اور نسل کی عصبیت کا خاتمہ ہوگیا، جس میں امیروغریب اور عالم اور اَن پڑھ بھائی بھائی بن گئے، جس میں جرائم نہ ہونے کے برابر تھے، جس میں لوگ ایک دوسرے پر ظلم کرنے والے، سرکاری مال اور فرائض میں خیانت کرنے والے اور رشوتیں سمیٹنے والے نہ تھے، جس میں ہر کوئی دوسرے کے کام آتا تھا اور اپنے بھائی کو سہارا دیتا تھا۔ یہ بالکل ایک نئی دنیا کی تعمیر کی مہم تھی۔
یہ پاک اور پیارا محمدیؐ انقلاب اس طرح نہیں آیا کہ لوگوں پر جبروتشدد کیا جا رہا ہو۔ اس انقلاب کا پیغام قبول کرانے کے لیے کسی کوقتل نہیں کیا گیا۔ کسی کو جیل میں نہیں ڈالا گیا۔ کسی کی پیٹھ پر تازیانے نہیں برسائے گئے۔ اس کے لیے دہشت نہیں پھیلائی گئی بلکہ اس انقلاب کی روح محبت ِ انسانیت تھی اور حضوؐر نے بڑی شفقت سے معلّمانہ انداز پر پہلے مکہ میں ۱۳ سال تک اور پھر مدینہ میں ۱۰ برس تک کام کیا۔
مکہ کے دور میں آپؐ نے گالیاں سن کر، طعن و طنز کا ہدف بن کر، مارکھا کر اور تین سال تک شعب ِابی طالب میں خاندان سمیت نظربند رہنے کے باوجود نرمی اور پیار سے دعوت دی۔ آپؐ کے رفیق تپتی ریت پر لٹائے گئے، ان کے سینوں پر پتھر رکھے گئے، ان کی پیٹھوں کے نیچے دہکتے انگارے ٹھنڈے ہوگئے، کسی کے گلے میں رسّی ڈال کر گلیوں میں گھسیٹا گیا، کسی کو تازیانے مارمار کر ادھ موا کر دیا گیا اور کسی کو عذاب دے دے کر جان ہی لے لی گئی۔
پھر مدینہ میں آکر یہودیوں کی شرارتوں اور منافقین کی غداریوں کا سامنا کیا۔ یہاں تک کہ بار بار آپؐ کے قتل کی سازشیں کی گئیں جن سے حضوؐر بال بال بچ نکلے، مگر یہودیوں اور منافقوں کی ایک بڑی تعداد پوری آزادی کے ساتھ موجود رہی اور شرانگیزی کرتی رہی۔
میدانِ جنگ میں حضوؐر اگر مسلم قوت کو اُتارنے پر مجبور ہوئے تو اس وجہ سے کہ مخالف جاہلی قوت کے علَم بردار خود بار بار چڑھ کر آئے۔ بدر اور احزاب کی تین بڑی بڑی جنگیں مدینے کے دروازے پر لڑی گئیں۔ صرف ایک آخری جنگ جس کے پہلے مرحلے پر مکہ اور دوسرے میں حنین و طائف مفتوح ہوئے، اس وجہ سے ناگزیر تھی کہ دشمن کی جنگی قوت اور کارروائیوں کے یہ مراکز تھے۔ اگر انھیں قائم رہنے دیا جاتا، تو جنگوں کا یہ سلسلہ نہ جانے کب تک چلتا۔ اسی طرح غزوئہ بنومصطلق اور غزوئہ خیبر کا مقصد خوفناک قسم کی غدارانہ اور سازشی کارروائیوں کا سدِّباب کرنا تھا۔ باقی چھوٹے موٹے معرکے یا تو ڈاکوئوں کی سرکوبی کے لیے تھے یا سرحدی جھڑپوں کی نوعیت رکھتے تھے۔ کمال یہ ہے کہ جنگوں میں نبی ِؐ امن و رحمت نے ایک طرف ایسی تدبیریں اختیار کیں کہ دشمنوں کے کم سے کم افراد کو ہلاک کرنا پڑے، دوسرے عرصۂ پیکار کے لیے بھی اعلیٰ درجے کے ضابطے نافذ کرکے دکھایا کہ خدا پرستوں کے انداز کیا ہوتے ہیں۔ نو سال کی تمام جنگی کارروائیوں میں دشمن کے ۷۵۹افراد ہلاک ہوئے یعنی ۸۴ افراد فی سال،اور جنگوں میں مسلمانوں کا کل جانی نقصان ۲۵۹ ہے۔ ۸، ۹ سال کی مدت میں دو طرفہ جنگی اموات کی میزان ۱۰۱۸ ہے۔
کیا دنیا کا، اور خصوصاً آج کی مہذب دنیا کا کوئی انقلاب اتنے کم جانی نقصان کے ساتھ اتنے بڑے تغیر کی مثال پیش کرسکتا ہے؟ اس نام نہاد مہذب دنیا میں تو انقلاب ایک عفریت کی طرح آتا ہے اور ہزارہا انسانوں کو لقمہ بناتا ہے۔ پھر انقلابی حکومتیں جبریت کے تخت پر بیٹھ کر لوگوں کو مسلسل قتل کرتی رہتی ہیں، جیلوں میں ڈالتی ہیں، ان کو عذاب دیتی ہیں اور برسوں خوف اور دہشت کی فضا طاری رہتی ہے۔ ان جبری اور خون ریز انقلابوں نے تو انسان کی فطرت کو بالکل مسخ کردیا ہے۔
محمدیؐ انقلاب کی رحمت و برکت کو سامنے رکھ کر جب ہم دوسرے انقلابی نظریوں اور فلسفوں کو دیکھتے ہیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ باطل کے مختلف روپ ہیں۔
پس مطالعۂ سیرتِ نبویؐ سے ہمارا مقصود یہ ہونا چاہیے کہ ہم حضوؐر کے پیغام، حضوؐر کے ذکروعبادت، حضوؐر کے اخلاق، حضوؐر کی تنظیم، حضوؐر کے کارنامے، حضوؐر کے طریق کار اور حضوؐر کی حکمت عملی کو سمجھ کر اپنے آپ کو اس امر کے لیے تیار کریں کہ پہلے ہمارے اپنے اندر محمدیؐ انقلاب کا آغاز ہو اور پھر ہم نہ صرف اپنے ملک اور معاشرے کو، بلکہ پوری نوعِ انسانی کو محمدیؐ انقلاب کی برکتوں اور سعادتوں سے بہرہ مند کریں۔ ہمارے لیے حق کی راہ صرف یہ ہے کہ حضوؐر کو اپنی ساری انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لیے پیشوا، قائد اور اسوہ اور نمونہ تسلیم کریں اور کسی دوسرے فلسفی یا انقلابی یا مصلح یا سیاست کار یا قانون ساز کو اپنا مستقل رہنما بناکر اس کی پیروی نہ کرنے لگیں، ورنہ تمام زندگی خدا کے ہاں رائیگاں شمار ہوگی۔(سید ِ انسانیتؐ، ص ۷-۱۳)
پورا قرآن نصیحت ہے‘ پورا قرآن انسان کی تعلیم و تربیت کے لیے ہے اور پورے قرآن میں وہ اصول‘ مقاصد اور خطوطِ کار پھیلے ہوئے ہیں جن پر اسلامی معاشرے کا نظامِ تعلیم استوار ہونا چاہیے اور پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی اسلامی ریاست میںقرآن کے منشا کے مطابق بچوں‘ بالغوں‘ عورتوں اور قائدین ِعوام کی تعلیم و تربیت کا جو ہمہ گیر نظام عملاً نافذ کیا اور عوام کی ذہنی و اخلاقی تعمیر کے لیے جن ادارات کے نقوشِ اوّلین قائم کیے‘ اس پورے کام کو___ قرآن کے نکات کی اس جامع عملی توضیح و تفسیر کو___ زیرغور لائے بغیر اسلام کی حکمتِ تعلیم کو سمجھا جاسکتا ہے اور نہ اس حکمت کے مطابق کوئی تعلیمی منصوبہ عمل میں لایا جاسکتا ہے۔ قرآن‘ اسوۂ رسالت اور قرآن کے مطابق برسرِعمل آنے والے نظام کا تفصیلی و تحقیقی جائزہ لے کر اسلامی حکمتِ تعلیم کو قلم بند کرنے کے لیے تو بڑا وقت درکار ہے۔ فی الوقت پیشِ نظر یہ ہے کہ ہم اسلامی حکمتِ تعلیم کی ایک جھلک دیکھ سکیں۔
قرآن میں زندگی کے جو حقائق مذکور ہیں وہ ایک طرف تو پورے قرآن میں پھیلے ہوئے ملتے ہیں اور دوسری طرف بعض خاص مقامات ایسے ملتے ہیں جہاں کسی ایک حقیقت کو اجمال اور جامعیت سے یک جا بیان کردیا جاتاہے۔ حکمتِ تعلیم و تربیت کی کاوش میں پڑ کر جب ہم قرآن کھولتے ہیں تو سورۂ لقمان ہم سے خصوصی توجہ کا خراج وصول کرتی ہے۔ سورئہ لقمان تمام تر نصیحت ہے اور ازاوّل تا آخر حکمتِ تعلیم و تربیت کی آئینہ دار! اسی سورہ کے مطالب پر ہم اپنے تعلیمی تصورات کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔ یہ ہمارے فلسفۂ تعلیم کی سورہ ہے۔ یہ بتاتی ہے کہ گھروں میں ہم اولادوں کو کس نقشے پر اٹھائیں‘ درس گاہوں کا نظام کن بنیادوں پر کھڑا کریں‘ اور کس ذہن و کردار کا انسان اپنے ہاں تعمیر کریں۔
آئیے! سب سے پہلے ہم اس سورہ کے آئینے میں اسلام کے انسانِ مطلوب کی ایک جھلک دیکھیں۔ سورہ کے دیباچے ہی میں انسانیت کے اس بہترین کردار کا ذکر موجود ہے جسے ظہور دینے کے لیے الہامی حکمت تقاضا کرتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ کتاب حکیم کی آیات ہیں اور ان آیات میں جو ہدایت و رہنمائی ہے اور اس ہدایت و رہنمائی میں جو رحمت مضمر ہے وہ صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو احسان کیش ہوں۔ قرآن کا نظامِ فکروعمل صرف محسنین کے ذریعے چل سکتا ہے اور یہ نظام اسی طرز کے قائدین و کارکن مانگتا ہے (لقمان ۳۱: ۱-۳)۔ ان کے نقشۂ زندگی کے چند اہم آثار بھی بیان کر دیے کہ:
وہ نماز قائم کرنے والے ہوں‘ وہ زکوٰۃ دینے والے ہوں‘ وہ آخرت کو پیش نظر رکھنے والے ہوں۔(۳۱:۴)
بیان کی نوعیت احاطہ و احصار کی نہیں بلکہ مدّعا یہ ہے کہ ان ناگزیر اوصاف کے بغیر احسان کیش کردار پیدا نہیں ہوسکتا۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو اپنے رب کے دیے ہوئے نظامِ ہدایت پر چل سکتے ہیں اور ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ (۳۱:۵)
واضح رہے کہ محسن یا احسان کیش کا مفہوم اسلامی اصطلاح میں یہ ہے کہ آدمی اپنے ہر خیال‘ عمل اور سرگرمی میں حُسن و خوبی پیدا کرنے کا اہتمام کرے اور اپنی ساری کی ساری داستان حُسنِ اعتقاد اور حُسنِ کردار سے آراستہ کرے۔ پھر بات انفرادی اور نجی زندگی تک محدود نہیں ہے بلکہ مطلوب یہ ہے کہ ہمارا پورے کا پورا تمدنی نظام‘ اس کے سارے شعبے اور ادارے اور ہماری جملہ اجتماعی سرگرمیاں حسین ترین پیرایہ رکھتی ہیں۔ یعنی اسلام حُسنِ فکر اور حُسنِ عمل کا ایک مکمل نظام مانگتا ہے۔ وہی چیز جسے دوسری جگہ حیاتِ طیبہ کہا گیاہے۔ ایسے انسانی کردار اور ایسے نظامِ تمدّن کے ذریعے ہی انسان کو فلاح حاصل ہوتی ہے۔ زندگی اپنے تقاضوں کوصحیح طور سے پورا کرتی ہے اور انسانیت اپنے فطری مقاصد تک پہنچتی ہے۔ فلاح! اس دنیا میں بھی اور فلاح آخرت میں بھی۔ اس دنیا میں ’حیاتِ طیبہ‘ کا حصول بجاے خود فلاح کی آخری شکل ہے اور یہی حیاتِ طیبہ اُخروی فلاح کی ضامن ہوتی ہے۔ گویا ہمارے نظامِ تعلیم کا منتہا ایسے احسان کیش کرداروں کی تشکیل ہے جو نماز‘ زکوٰۃ اور فکرِ آخرت کے اوصاف کو بنیاد بناکر حیاتِ طیبہ پیدا کریں اور اپنی ذات سے لے کر بڑے بڑے تمدّنی ادارات تک ساری زندگی کو سنوار دیں۔
قرآن کا اسلوب بالعمُوم اضداد کو متقابلا ًدکھانے کا ہے۔ اب جہاں انسانِ مطلوب کا نقشہ بیان ہوا‘ وہاں نامطلوب کردار کی بھی ایک جھلک دکھانی لازم تھی۔ مطلوب کردار تو وہ ہے جو مسلکِ احسان کا متلاشی ہے‘ جو حیاتِ طیبہ کے حصول کے لیے مضطرب رہتا ہے‘ جو ہدایت ِرب کو جاننا چاہتا ہے‘ جو اس کی آیات کی روشنی کا پیاسا ہے جو فلاح کی جستجو میں ہے‘اور جس کے سامنے فوری مزے اور چسکے ہی نہیں ہیں بلکہ آخرت کے نتائج بھی ہیں۔
لیکن مقابل کا کردار وہ ہے جو ’لھو الحدیث‘ کا شائق ہے۔ بے مقصد اور لاحاصل قسم کے قصّے کہانیوں سے اسے رغبت ہوتی ہے۔ وہ زندگی کی حقیقتوں اور اس کے مسائل سے بھاگ کر یاوہ گوئی میں پناہ ڈھونڈتا ہے۔ اتنا ہی نہیں کہ خود پناہ ڈھونڈتا ہو بلکہ وہ تفریحی ادب کے افسوں کو کام میں لاکر دوسروں کو بھی خدا کی راہ سے ہٹا لے جانا چاہتا ہے۔ درآنحالیکہ اس کے پلّے کچھ بھی علمِ حقیقت نہیں ہوتا۔ اپنی جہالت کی وجہ سے وہ خدا کی راہ اور خدا کی ہدایت کا مذاق اڑاتا ہے‘ وہ عظیم اور اٹل حقائق کو تمسخر میں اڑا دینا چاہتا ہے (۳۱: ۶)۔ اس کے سامنے جب اللہ کی کتابِ حکیم کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ اپنے نشۂ پندار میں بہک کر اُن سے اس طرح روگردانی کرتا ہے گویا کہ اس نے کچھ سنا ہی نہیں‘ گویا کہ اس کے کان بہرے ہیں۔ (۳۱: ۷)
ہمیں اپنے نظامِ تعلیم کی حکمت متعین کرتے ہوئے خوب صراحت سے طے کر لینا چاہیے کہ ہمیں اپنے ہاں اس طرز کے کردار کو پروان نہیں چڑھنے دینا ہے۔ خصوصاً علوم میں‘ ادب میں اور فنونِ لطیفہ میں ہمیں ان رجحانات کو نشوونما نہیں دینی جن کا ماحصل لھو الحدیث ہو اور جن کی وجہ سے لھوالحدیث کا ذوق بڑھے۔وہ تمام فضولیات جو فراریت پسندوں کی پناہ گاہ ہوں‘ جو راہِ حق سے ہٹانے والی ہوں‘ جو آیاتِ الٰہی کے لیے کانوں کو بہرہ کردیں‘ جو خدا کے سامنے عبدیت کے بجاے اِستکبار کے مقام پر کھڑا کریں اور جن کی وجہ سے دلوں میں خدائی ہدایت کی تضحیک کا میلان پیدا ہو۔
اور جس نے اللہ کی بارگاہ میں اپنا سرِتسلیم خم کردیا اور وہ احسان کیش بن گیا تو بس اُس نے ایک مضبوط رشتے کو تھام لیا… الخ
یہاں پھر ’محسن‘ کی شان سامنے آتی ہے۔ کوئی شخص احسان کیش نہیں ہوسکتا اور زندگی کو حُسن و خوبی سے مالا مال نہیں کرسکتا جو اللہ کے وجود کی عظیم صداقت کو نہ تسلیم کرے اور اس کا حاکمانہ مقام پہچان کر اپنی باگ ڈور اس کے حوالے نہ کردے۔ خدا سے یہ تعلق وہ مضبوط ترین رشتہ ہے جسے تھام لینے کے بعد زندگی تباہ کن ٹھوکروں سے بچ جاتی ہے‘ خیالات کی آوارگی و پریشانی‘ جذبات کی بے راہ روی اور اعمال کی بے ربطی کا پوری طرح ازالہ ہوجاتا ہے۔ حقیقت کے اس مرکزی نکتے کے گرد فرد کی ساری قوتیں اور تمدّن کی جملہ سرگرمیاں منظم و مرتب ہوجاتی ہیں اور نظم و ترتیب کے فقدان میں کوئی حُسن نہیں پیدا ہوسکتا۔
ایک صحیح نظامِ تعلیم کا کام یہ ہے کہ وہ انسانیت کو اس عُروۃ الوثقیٰٰ تک لائے اور خدا پرستی کے رشتۂ محکم کو تھامنے کی صلاحیت دے۔ اسلامی نظامِ تعلیم کی یہ اساسی ذمہ داری ہے کہ وہ بندوں کو خدا کے سامنے سرِتسلیم پوری طرح خم کر دینا اور خم کیے رکھنا سکھائے۔ یہ حالت اس اِستکبار کی عین ضد ہے جو آیت ۶ میں بیان ہوا ہے۔
سورہ کی تمہید کے ساتھ مرکزی روحِ کلام کی آئینہ دار آیت کو ملا کر آپ دیکھ چکے۔ آیئے! اب اس مربوط ٹکڑے کو لیں جس میں چند اہم نکات تسلسل سے بیان ہوئے ہیں۔ اس ٹکڑے میں حضرت لقمان اپنے صاحبزادے کو ___بلکہ یوں کہیے کہ نئی نسل کو ___اساسیات کی تعلیم دیتے ہیں۔ ہم ایک ایک نکتے کو الگ الگ لیتے ہیں۔
حضرت لقمان کو جو حکمت اللہ تعالیٰ نے دی تھی‘اور جس کے تحت وہ اپنے فرزند کو تلقین کرتے ہیں وہ ہے اَنِ اشْکُرْ لِلّٰہِ (۳۱: ۱۲)‘یعنی خدا کا حق پہچانو‘ احسان شناسی کی روش اختیار کرو۔ اسلام نے خدا کا جو تصور دلایا ہے وہ بنیادی طور سے ایک رحیم‘ شفیق اور ودود ہستی کا تصور ہے (رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْ ئٍ)۔ اس کا قہر و غضب اس کی صفتِ عدل کی وجہ سے ہے اور اس کی صفتِ عدل خود صفتِ رحمت ہی کی مظہرہے۔ چنانچہ قرآن کا ایک بڑا حصہ یہی احساس دلانے کے لیے وقف ہے کہ انسان پر خدا کے احسانات و انعامات کس درجہ وسیع ہیں۔ احسان اور رحمت کا حق یہ ہے کہ شکر کا رویہ پیدا ہو۔ ہمارے دین میں تعلق باللہ کی اساس فی الحقیقت جذبۂ شکر پر ہے۔ تقویٰ اور خشیت شکر کے ساتھ ایک لازمی پہلو کی حیثیت سے ہے۔ نعمت اور رحمت کا شعور جہاں شکر کا جذبہ اُبھارتا ہے وہاں اس کے چھن جانے کا اندیشہ بیم و خشیت بھی پیدا کرتا ہے۔
بندوں کے شکر کی خدا کو کوئی احتیاج نہیں کہ اس کے بغیر اس کے کام اٹکے جاتے ہوں۔ خدا کے سامنے شکر کی روش کا اختیار کرنا خود ہمارے اپنے احسان کیش بننے اور اپنی زندگی سنوارنے کے لیے ضروری ہے۔ جو شخص خدا کے اَن گنت احسانات سے استفادہ کرکے اس کی عنایات کا احساس نہیں کرتا۔ ایسا احسان فراموش زندگی کی صحیح تعمیر کے لیے پھر کوئی بنیاد بھی نہیں پاسکتا۔ اس لیے حق تعالیٰ نے فرما دیا کہ وَمَنْ یَّشْکُرْ فَاِنَّمَا یَشْکُرْ لِنَفْسِہٖ (۳۱: ۱۲) ‘جو کوئی خدا کا حق پہچانے گا اس کا یہ رویّۂ احسان شناسی خود اسی کی ذات کے لیے نفع بخش ہے۔ یہ بہرحال محسن بننے کے لیے نقطۂ آغاز جذبۂ شکرہے۔
شکر کی روش کی ضد کفر ہے۔ واضح کردیا گیا کہ جو کوئی شکر کی راہ کو چھوڑ کر کفر کی روش اختیار کرے تواس کا وبال بھی خود اسی کو بھگتنا ہے‘ اللہ تو غنی و حمید ہے اور اسے نہ کسی کے شکر کی احتیاج ہے‘ نہ کسی کے کفر سے کوئی اندیشہ۔
معلوم ہوا کہ اسلامی نظامِ تعلیم کا کام یہ ہے کہ وہ ایک ایک فرد کو یہ پیغام دے کہ اَنِ اشْکُرْ لِلّٰہِ ، خدا کا حق پہچانو اور احسان شناسی کی روش اختیار کرو۔
اس نے زمین و آسمان کو ستونوں کے بغیر کھڑا کیا جیسے کہ تم دیکھتے ہواور زمین پر ایسے بوجھ جما دیے کہ تمھیں لیے ہوئے (اپنی گردش میں) کسی طرف ڈھلک نہ جائے اور اس میں سب طرح کے جانور پھیلا دیے اور آسمان سے بارش برسانے کا نظم مقرر کیا اور پھر اس کے ذریعے سے نباتات کے نہایت ہی خوب خوب جوڑے ہر طرح کے اگائے۔ (۳۱: ۱۰)
کیا یہ لوگ غور نہیں کرتے کہ سب کچھ جو کچھ زمین وآسمان میں ہے‘ اسے اللہ نے نفع رسانی میں لگا رکھا ہے اور تم پر ظاہری اور باطنی نعمتوں کی بوچھاڑ کردی ہے۔ (۳۱: ۲۰)
کیا تو نے غور نہیں کیا کہ خدا تعالیٰ رات کو دن میں سے اور دن کو رات میں سے پرو کر نکالتا ہے… الخ (۳۱:۲۹)
کیا تو نے غور نہیں کیا کہ سمندر میں اللہ تعالیٰ کی نعمت کے ساتھ کشتی چلتی ہے (۳۱: ۳۱)…اور جب اس کے مسافروں کے سروں پر کوئی لہر لکۂ ابر کی طرح چھا جاتی ہے تو (مصیبت میں گھِرکر) وہ اللہ کو پکارتے ہیں ___اس کے لیے جذبۂ عبودیت کو خالص کرکے!… (۳۱: ۳۲)
یعنی چاروں طرف سے خدا کی نعمتیں اُمڈی پڑ رہی ہیں۔ ایک وسیع خوان بچھ رہا ہے۔ قدرت کے اس ماحول میں ایک حقیقت پسند اور حق شناس انسان کے اندر لازماً جذبۂ شکر اُبھرنا چاہیے۔ نظامِ تعلیم کا یہ فرض ہے کہ وہ اس ماحول سے اس طرح طلبہ کو روشناس کرائے کہ انھیں خدا کے احسانات و انعامات کا شعور حاصل ہو اور عبدیت کے احساس کے ساتھ ان میں شکر کا جذبہ اُبھرے۔ ہمیں سائنس‘ جغرافیہ‘ تاریخ‘ ہیئت اور دوسرے تمام مادی و طبعی علوم کی تعلیم اس طرح دینی چاہیے کہ خدا پرستانہ شعور اس میں سمو دیا گیا ہو۔ ہر تجربہ‘ مشاہدہ‘ انکشاف‘ ایجاد و اختراع اور عملِ تسخیر ہمارے اندر خدا کے شکر کی اُکساہٹ پیدا کرے۔ حضوؐر کا یہ معمول تھا کہ سواری پر بیٹھتے تو جذبۂ شکر کے ساتھ خدا کی حمد کرتے اور اپنے عجز کا اقرار! (سُبْحٰنَ الَّذِیْ سَخَّرَلَنَا ھٰذَا…) ٹھیک اسی طرح ہمارے سائنس دان جب کسی رازِ فطرت کو سمجھ لیں‘ ہمارے موجد جب کوئی چیز ایجاد کریں‘ ہمارے کاریگر جب کسی مشین سے کام لیں اور ہمارے سپاہی جب کسی اسلحے کو ہاتھ میں لیں تو ان کی رُوحیں سُبْحٰنَ الَّذِیْ سَخَّرَلَنَا ھٰذَا وَمَا کُنَّا لَہٗ مُقْرِنِیْن پکار اُٹھیں۔ اسی خدا پرستانہ جذبۂ شکر کے فقدان نے مغربی تمدّن کو مادہ پرستی میں اتنا بہکا دیا ہے کہ قدرت کے عطیات رحمت ہونے کے بجاے عذاب بن گئے ہیں۔ ہمارے نظامِ تعلیم کو اس اندھی مادہ پرستی سے انسانیت کو بچانا ہے۔
لوگوں نے اس طرح کی آیات سے عموماً یہ بات ثابت کرنے کی کوشش توکی ہے کہ قرآن سائنس اور دوسرے علوم حاصل کرنے کی تلقین کرتا ہے مگر ہمارے جدید طبقے نے یہ کاوش نہیں کی کہ وہ کس اسپرٹ کے ساتھ اور کس نقطۂ نظر کے ساتھ علوم کی تحصیل و اشاعت چاہتا ہے۔ قرآن کا اوّلین منشا یہ ہے کہ خدا اور اس کی صفات اور اس کے حقوق کی معرفت‘ اس کے احسانات و عنایات کا شعور اور جذبۂ شکروسپاس کا سرمایہ‘ مطالعۂ انفس و آفاق سے حاصل کیا جائے اور کسی بھی علم کے دائرے میں کوئی قدم آگے بڑھاتے ہوئے ایمان باللہ کو مشعلِ راہ کی حیثیت دینی چاہیے۔ ورنہ تمام علوم غلط رُخ پر ڈھل جائیں گے اور ان سے جو عمل پیدا ہوگا وہ بھی فاسد ہوگا۔
اُوپر جن آیات کا حوالہ دیا گیا ہے ان کو اور ان کی بے شمار ہم مقصد آیات کوآپ دیکھیے‘ ان سب کا منشا یہ شعور دلانا ہے کہ یہ کائنات اگر کوئی نظم رکھتی ہے‘ اس کے عناصر اگر تمھارے لیے سازگاری رکھتے ہیں‘ اس کے قوانین اگر تمھارے لیے تسخیر کی راہیں کھولتے ہیں تو یہ نظامِ فطرت یوں ہی ازخود ایسے نہیں بن گیا۔ کسی بنانے والے نے حکمت کے ساتھ اسے ایسا بنایا ہے اور تمھیں پیشِ نظر رکھا ہے۔ ہمارے علوم کو بھی اسی شعور کی راہ پر جانا چاہیے اور ہمارے نظامِ تعلیم کو بھی یہی مقصد سامنے رکھنا چاہیے۔
اس نکتۂ معنی کو ہم آیت ۳۲ میں بہت ہی واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں انسان کو اس عالمِ نفسیات سے ایک کیفیت پیش کر کے عبرت دلائی گئی ہے۔ انسان جہاں اس کائنات کی وسیع نعمتوں سے بہرہ اندوز ہوتا ہے‘ وہاں اس کی مہیب قوتوں کے سامنے وہ اپنے آپ کو انتہائی بے بس بھی پاتا ہے۔ یہ بے بسی اسے ایک ایسے روحانی سہارے کا محتاج بناتی ہے جو تدابیر کی بازی ہارنے کے بعد بھی قائم رہے۔ سمندر کی موجیں بھی ایک ایسی قوت ہیں کہ جب کبھی انسان ان کی زد پر آتا ہے تو سارے سہارے کھو بیٹھنے کے بعد خدا کی طرف بڑے سچے والہانہ جذبے سے رجوع کرتا ہے۔ آج بھی جب جہاز تباہی کے طوفان میں گھِرجاتے ہیں تو جدید الحاد پسند انسان بھی خدا کو یاد کرتا ہے اور بارہا خدا اپنے بے بس بندوں کی دکھ بھری فریادیں سن کر ان کو بچا نکالتا ہے۔ لیکن بچ نکلنے کے بعد کم ہی ہیں جو راہِ حق پر ’’مقتصد‘‘بن کے چلتے رہیں‘ بقیہ پھر جُحود میں پڑجاتے ہیں۔ بلاشبہہ یہ علم النفس کا ایک باب ہے مگر اپنی ایک خاص غایت کے ساتھ۔ اسی غایت کو سامنے رکھ کر نفسیات کا علم مدوّن کرنے کی‘ نفسیات کا تعلیمی نقشہ بنانے کی اور نفسیات کا نصاب ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ اس غایت عبرت اندوزی اور خداشناسی کو مقصود بنائے بغیر نفسیات کا علم مدوّن کرنا یا اس کا سلسلۂ تعلیم و تعلّم جاری رکھنا اسلامی نقطۂ نظر سے قطعاً بے سود بلکہ اُلٹا مضر ہے۔
اسلامی نظامِ تعلیم کی اوّلین غایت خدا اور اس کی صفات اور اس کے حقوق کی معرفت دینا ہے۔ وہ خدا جس کا مقام یہ ہے کہ:
___اللہ ہی ہے جو قیامت (کی گھڑی) کا علم رکھتا ہے___وہی ہے جو مینہ برساتا ہے___ وہی ہے جو یہ جانتا ہے کہ رحموں کے پردے میں کیا کچھ ہے (۳۱:۳۴)۔ اور اس کے بالمقابل انسان___عقل کے اس پتلے ___ کاحال یہ ہے کہ:
___کسی جان کو نہیں معلوم کہ کل وہ کیا کرے گی___کسی جان کو نہیں معلوم کہ وہ زمین کے کس حصے میں دم توڑے گی۔ (۳۱: ۳۴)
کائنات اور زندگی کے سارے احوال کا مکمل علم صرف اللہ کو ہے۔ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ۔(۳۱: ۳۴)
یہ ہے وہ مزاج جس سے ہمارے نظامِ تعلیم کو آراستہ ہونا چاہیے۔ اس نقطۂ نظر سے معلومات مرتب ہونی چاہییں اور پھر بعد کی نسلوں کی طرف منتقل ہونی چاہییں۔
اسی سورت میں آتا ہے کہ اگر زمین کے سارے کے سارے درختوں سے بے شمار قلم بنا لیے جائیں اور ساتوں سمندر روشنائی میں بدل لیے جائیں اور لکھنے کے اس سامان کے ساتھ ’کلمات اللہ‘ یعنی خدا کی نعمتوں‘ اس کی قدرتوں‘ اس کی آیتوں‘ قوانین و نوامیس‘ اس کے احکام اور فیصلوں‘ اس کی مخلوقات کے احوال کو قلم بند کیا جانے لگے تو روشنائی کے سمندر ختم ہوجائیں گے اور قلم گھِس گھِس کر نابود ہوجائیں گے مگر خدا کے کلمات احاطۂ تحریر میں نہ آسکیں گے۔ ذکر تو اس کے مقامِ عظمت‘ اس کی قدرت کی لامحدود وسعتوں اور اس کی بے پایاں تخلیقات کا ہے۔ لیکن ایک واضح اشارہ یہ ہے کہ اصل کاوش کا میدان انسان کے لیے یہی ہے کہ وہ کلماتِ الٰہی سے اپنا دامنِ علم و ایمان بھرتا رہے۔ افراد اور قومیں اور نسلیں اپنی محنتیں اس مقصد پر کھپاتی چلی جائیں۔ ع
کیا اور جہاں میں رکھا ہے ‘ اُس جانِ جہاں کی بات کریں۔
اسلامی نظامِ تعلیم کا فرض یہ بھی ہے کہ وہ اپنے زیراثر ذہنوں میں تحریک پیدا کرے کہ وہ مطالعۂ آفاق و انفس کریں تو اس مقصد سے کریں کہ کلماتِ الٰہی کی جستجو کرنی ہے‘ ان کو سمجھنا ہے اور ان سے روشنی اور قوت حاصل کرنی ہے۔
ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ شُکر دین کا اگر ایک پہلو ہے تو دوسرا لازمی پہلو خشیت ہے۔ احسان کی قدر ازخود احسان کے چھن جانے کا اندیشہ پیدا کرتی ہے۔ سو جہاں خدا کی رحمت کے لیے تمناے بے تاب موجود رہنی چاہیے وہاں رحمت سے محرومی کی فکر بھی کارفرما ہونی چاہیے۔ آدمی رحمتِ الٰہی کے نشے میں پڑکر بعض اوقات اپنی ذمہ داریاں بھول جاتا ہے اور جب یکایک قہر کی بدلیاں چمکتی دیکھتا ہے تو حواس کھو بیٹھتا ہے۔ وَاِذَآ اَنْعَمْنَا عَلَی الْاِنْسَانِ اَعْرَضَ وَنَاٰ بِجَانِـبِـہٖ وَاِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ کَانَ یَئُوْساً۔(بنی اسرائیل ۱۷:۸۳)
معاملات کا آخری فیصلہ اللہ کی بارگاہ میں ہوگا۔ (۳۱: ۲۲)
اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو اور اندیشہ رکھو اس دن کا جس دن نہ کوئی باپ اپنے بیٹے کے کام آئے گا اور نہ بیٹا اپنے باپ کے لیے کچھ مفید ہوسکے گا۔ یقینا خدا کا وعدہ سچا ہے‘ سو تم کو دنیوی زندگی دھوکے میں نہ ڈالنے پائے اور تم کوا للہ کے بارے میں وہ دغاباز (شیطان) کسی فریب میں مبتلا نہ کر دے۔ (۳۱: ۳۳)
تم سب کو بنانا اور تم سب کو دوبارہ اُٹھا کھڑا کرنا اللہ تعالیٰ کے لیے بس ویسا ہی ہے جیسے ایک فرد کا! (۳۱: ۲۸)
اور حضرت لقمان بھی اپنے فرزند کو خدا کی مضبوط گرفت سے یوں آگاہ کرتے ہیں کہ: اے میرے بیٹے! اگر رائی برابر بھی کوئی چیز کسی پتھر کے اندر ہو یا آسمانوں میں یا زمین میں (کہیں) ہو تو اللہ (جب چاہے) اسے لاحاضر کرے۔ (۳۱: ۱۶)
اسلامی زندگی خدا کے محاسبے اور خدا کی گرفت کا خوف رکھے بغیر نہیں بنتی۔ اسلام کا انسانِ مطلوب وہی ہے جو محاسبۂ آخرت کو ذہن میں رکھ کر سوچتا‘ زبان کھولتا اور عملی سرگرمیاں جاری رکھتا ہے۔ وہ ادنیٰ ادنیٰ وقتی مفادات کے بجاے‘ خدا کی رضا جیسا اُونچا منتہا سامنے رکھتا ہے۔
اسلامی نظامِ تعلیم پر بھی واجب آتا ہے کہ وہ اس خشیت سے دلوں کو آراستہ کرے‘ محاسبۂ آخرت کا احساس تازہ کرے اور رضاے الٰہی پر نگاہوں کو مرتکز کرا دے۔ حکمت اور نیکی کے لیے یہ خشیت ایک لازمی بنیاد ہے۔
خدا کے احسانات کے جواب میں شکر اور احسان شناسی کا رویّہ صرف توحید کو تسلیم کرنے ہی سے پیدا ہوسکتا ہے۔ ورنہ اگر خدا کے عطیات سے استفادہ کرکے احساسِ شکر پورے کا پورا اس کے حضور پیش کرنے کے بجاے کچھ دوسری مفروضہ ہستیوں پر تقسیم کردیا جائے تو جس کا حق واجب تھا اس کا حق تو ادا نہ ہوا اور جن کا حق کچھ بھی نہ تھا ان تک بے جا طور پر جا پہنچا۔حضرت لقمان اپنے فرزند کو تعلیم دیتے ہیں کہ لَا تُشْرِکْ بِاللّٰہِ ط اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ (۳۱: ۱۳) ۔ظلم کہتے ہیں حق ماری کو۔ یہ خدا کی حق ماری ہے اور اس لیے بہت بڑی حق ماری ہے کہ اس کا کھاکر گُن دوسروں کے گائے جائیں۔
پس اسلامی نظامِ تعلیم کی ذمہ داری ہے کہ وہ نئی نسلوں کو توحید پر جما دے اور ان کو اس سے روکے کہ وہ ذات میں‘ صفات میں‘ حقوق میں یا حاکمانہ اقتدار میں خدا کے ساتھ دوسروں کو شریک کریں۔
خدا کا کُلی انکار بہ حیثیت مجموعی انسانیت نے شاید کبھی بھی نہیں کیا‘ نہ آج کا انسان تصورِ خدا سے ذہن کو خالی کرسکا ہے۔ مصیبت یہی رہی ہے کہ کسی نہ کسی نوع کا شرک اولادِ آدم کو لے ڈوبا ہے۔ کسی نے ذات میں شریک کیا‘ کسی نے صفات میں‘ کسی نے عبادات میں سے دوسروں کو حصہ دیا‘ کسی نے استعانت دوسری بارگاہوں سے کی اور کسی نے طاعت کے لیے دوسرے اقتدار سامنے رکھ لیے۔ اسلام نے عبادت‘ استعانت اور طاعت کے تینوں پہلوئوں سے انسان کو توحید پر جمایا ہے۔ اسلامی نظامِ تعلیم بھی وہی ہوسکتا ہے جو انسانیت کو یہی درسِ توحید دے۔
خدا کے احسانات کے شعور سے جس دل میں شکروسپاس کا جذبہ پیدا ہوتا ہے وہ انسانوں کے احسانات کا بھی بہترین قدردان ثابت ہوتا ہے اور انسانوں میں سب سے بڑھ کر احسان والدین کا ہے اور ان میں سے بھی والدہ کا احسان بہت بڑا ہے۔ چنانچہ حضرت لقمان اپنے بچے کو دوسری نصیحت والدین سے حسنِ سلوک کی کرتے ہیں۔ وہ خدا کا مطالبہ یوں بیان کرتے ہیں کہ:
میرا شکر ادا کر اور (میرے بعد) اپنے والدین کا بھی! (۳۱: ۱۴)
سماجی رابطوں میں دین حق نے والدین کو اوّلین مقام دیا ہے۔ خدا کے عظیم حق کے بعد جو شخص والدین کے حق کو بھی پہچان لیتا ہے‘ پھر وہ دوسرے تمام رابطوں کے حقوق کا احساس کرنے کے قابل ہوجاتا ہے۔ پھر اس کے کردار میں یہ جذبہ احسان شناسی اس اصل الاصول کی حیثیت سے پیوست ہوجاتا ہے کہ مجھے ہر بھلائی کا جواب بھلائی سے دینا ہے۔ مجھے جس سے فائدہ اٹھانا ہے اس کو فائدہ پہنچانا بھی ہے جس سے میں کچھ لیتا ہوں اسے دینا بھی ہے۔ گھر‘ خاندان‘ معاشرہ اور اس کے ادارات‘ حکومت‘ قوم اور انسانیت سبھی سے آدمی کو بے شمار فائدے پہنچتے ہیں اور اگر وہ احسان شناسی ہو تو وہ ہر استفادے کے جواب میں کوئی نہ کوئی خدمت پیش کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ والدین کا جس نے حق پہچانا‘ پھر وہ خاندان اور ذوی القربیٰ اور پڑوسیوں اور افسروں اور ماتحتوں‘ بلکہ جانوروں تک کے حقوق کا احساس کرنے لگتا ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے تمام سماجی روابط کی درستی کا دارومدار والدین کا حق پہچاننے پر ہے۔
لیکن والدین کی طاعت و خدمت خدا کی عبادت و اطاعت سے نچلے مرتبے پر ہے۔ مقدّم خدا کا حق ہے۔ خدا کا حق مار کر اگر والدین کا حق ادا کیا جائے تو شرک کی راہ کھل گئی۔ اس وجہ سے یہ وضاحت بھی کی گئی کہ وَاِنْ جَاھَدَاکَ عَلٰٓی اَنْ تُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْہُمَا (۳۱: ۱۵)‘ یعنی اگر والدین تم کو خدا کے ساتھ کسی اور کو شریک بنانے کے لیے مجبور کریں جو تمھارے علم و ایمان میں نہیں ہے تو ایسی صورت میں ان کی غلط بات کی اطاعت نہ کرو۔
یعنی والدین کی اطاعت اصولاً انسانی تعلقات کے تمدنی دائرے میں ہر دوسری اطاعت خدا کی اطاعت کی حدوں کے اندر کی جاسکتی ہے۔ ان حدوں کو توڑ کر نہیں۔ جو اطاعت سب سے بڑی اطاعت کی حدوں کو پھاندنا چاہے وہ ترک کر دی جائے گی۔ والدین کے کہنے سے شرک کی روش اختیار نہیں کی جا سکتی‘ ان کے ایسے حکم سے انکار لازم ہے۔ البتہ اس حالت میں بھی ان کا پاسِ ادب رہے گا۔ چاہا گیا ہے کہ وَصَاحِبْہُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا ، یعنی اس اصولی اختلاف کے باوجود ان سے دنیوی تعلقات خوش اسلوبی سے نبھائو۔ یہاں سے ضمناً یہ رہنمائی بھی ملتی ہے کہ سماجی رابطے___ حکمران سے‘ والدین اور اقربا سے‘ کاروباری شرکا سے‘ دفتری افسروں سے___ ایمان و مسلک کے شدید اورواضح اختلافات کے باوجود خوش اسلوبی سے نبھائے جاسکتے ہیں۔ اور ان رابطوں کا قائم رہنا اس لیے ضروری ہوتا ہے کہ دعوتِ حق پہنچانے کے دروازے بند نہ ہوجائیں۔
ساتھ ہی پھر تاکید کہ وَاتَّبِعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ (۳۱: ۱۵)۔ زندگی میں پیروی کرو تو صرف ایسے ہی رہنمائوں کی جو خداوندتعالیٰ کی طرف رجوع رکھنے والے ہوں۔ زندگی کے اصول و اقدار اُنھی سے لو۔ یہاں اشارہ یہ بھی ہے کہ اسلامی معاشرے میں سیاسی اور ذہنی قیادت کے مناصب ایسے افراد کوسونپے جائیں جن کی زندگیاں رجوع الی اللہ کی آئینہ دار ہوں۔ گویا معیارِ انتخاب بھی معین ہوگیا۔ علاوہ ازیں یہ اشارہ بھی یہاں سے اخذ ہوتا ہے کہ ہمیں درس گاہوں کے معلّمین بھی ایسے ہی لینے چاہییں جو رجوع الی اللہ کی صفت سے متصف ہوں‘ کیوں کہ طلبہ ان کے اتباع میں چلیں گے۔
اِن نکات پر ہماری سِوکس (Civics) کی ترتیب ہونی چاہیے۔
حضرت لقمان مزید فرماتے ہیں کہ اے بیٹے! نماز قائم کرو‘ معروف کا حکم دو اور منکر سے روکو اور (اس جدوجہد میں) جو کچھ بھی پیش آئے اسے حوصلہ مندی سے برداشت کرو! (۳۱:۱۷)
آخر میں یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ ’ہمت کے کام ہیں‘۔ درحقیقت دین کا بہت ہی بڑا تقاضا یہ ہے جو یہاں بیان ہوا ہے۔ اسلام اپنے انسانِ مطلوب کو اس مقصد کے لیے اٹھانا چاہتا ہے کہ وہ تمدن کے پورے دائرے میں منکر کا سدّباب کرے اور معروف کا سکّہ چلانے کی جدوجہد کرے۔ اسے نیکی کا نظام قائم کرنا ہے اور بدی کی جڑ کاٹنی ہے۔ وہ حق کا سپاہی ہے اور باطل کے خلاف جہاد میں اسے ساری قوتیں کھپانی ہیں۔ خیالات‘ نظریات‘ اخلاق‘ رسوم‘ قانون‘ معاشیات‘ کاروبار‘ سیاست‘ بین الاقوامی مسائل کے بے شمار دوائر ہیں جہاں جہاں بھی اسے قانونِ الٰہی اور فطرتِ انسانی اور عقلِ سلیم کے خلاف کوئی منکر دکھائی دے۔ اس کی ذمہ داری ہے کہ اسے ختم کرنے اور لوگوں کو اس سے باز رکھنے کی کوشش کرے۔ دوسری طرف قانونِ الٰہی‘ بے آمیز فطرتِ انسانی اور عقلِ سلیم جن امور کا تقاضا کرتی ہے ان کو نافذ کرنے کے لیے زور لگائے۔ اس کا فرض ہے کہ وہ غیراسلامی نظام اور ماحول میں تبدیلی لائے‘ انقلاب پیدا کرے۔
یہ تو ظاہر ہے کہ کوئی بھی تبدیلی تکلیف اٹھائے بغیر اور قربانیاں دیے بغیر اور مزاحمتوں کا سامنا کیے بغیر نہیں لائی جاسکتی۔ بدی کا زور توڑنے اور نیکی کا راج قائم کرنے کے لیے جو جہاد لازم آتاہے وہ کوئی کھیل تو ہے نہیں۔ اس لیے انتباہ دیا گیا ہے کہ اس مہم میں جو جو کچھ مزاحمتیں اور مصیبتیں پیش آئیں ان کو حوصلے سے سہارو۔
ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْر کہہ کر توجہ دلائی کہ یہ ہے بلند ہمت لوگوں کے کرنے کا کام! یہ ہے عظیم الشان معرکہ جس کے لیے بازیاں لگائی جانی چاہییں۔ یہ ہے نصب العین جس کے لیے جانیں لڑانا مردوں کے شایانِ شان ہوسکتا ہے۔ نوکری اور کاروبار اور عہدے اور ادنیٰ ادنیٰ خواہشات پر مرتے رہنا اہلِ دل کا کام نہیں۔
نماز قائم کرنے کی تلقین یہاں یوں مناسب تھی کہ خدا سے شکر کا تعلق قائم رکھنا تو اس کے بغیر ممکن ہے ہی نہیں‘ لیکن آگے جو مردافگن مہم سونپی جارہی ہے اس کا ایک ایک قدم اٹھانے کے لیے نماز سے مدد لینے کی ضرورت ہے۔ نماز ہی خدا سے تعلق کا ذریعہ ہے اور نماز ہی انسانی دائرے میں اداے فرض کے لیے ضروری ہے۔ نماز خدا کے حضور شکر کا اظہار ہے اور بندوں کے مقابلے میں صبرآموز اور ہمت افزا۔
اب یہ بات خودہی واضح ہوجاتی ہے کہ اسلامی تعلیم کو کیا نصب العین سامنے رکھنا چاہیے اور کس مقصد کے لیے نئی نسلوں کو تیار کرنا چاہیے۔ صحیح تعلیم وہ ہے جو ایک طرف بجاے خود امربالمعروف اور نہی عن المنکرکرے‘ معروف ومنکر کا فہم دلائے اور معروف کو قائم کرنے اور منکر سے روکنے کے لیے جہاد کا انقلابی جذبہ ودیعت کرے۔ پھر ہماری تعلیم گاہوں میں تربیت کا ایسا ماحول ہونا چاہیے جو طلبہ کو اقامتِ صلوٰۃ پر آمادہ کرسکے۔ وہ ان کو صبروہمت اور حوصلہ و عزم سے آراستہ کرکے نکالے۔
لوگوں کے مقابلے پر اپنے گال نہ پھلائو اور زمین میں گھمنڈ کی چال نہ چلو۔ خدا کسی شیخی باز‘ غلط کار کو پسند نہیں کرتا۔ (۳۱: ۱۸)
خداپرستی کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی دوسرے انسانوں کے لیے مساویانہ مرتبے کا احساس کرے کیوں کہ سب ایک ہی خالق کی مخلوق اور ایک ہی اللہ کے بندے ہیں۔ دوسروں کے مقابلے میں فخروغرور‘ اکڑفوں اور ان کی تحقیر کے لیے اسلامی زندگی میں گنجایش نہیں۔ جس شخص میں رتی بھر کبر بھی ہوگا وہ اُخروی کامرانی حاصل نہ کرسکے گا اور نہ وہ اس ارضی زندگی میں احسان کیش بن کر حیاتِ طیبہ سے بہرہ مند ہوسکتا ہے۔ غرورِ مال‘ غرورِ حُسن‘ غرورِ صحت‘ غرورِ نسل‘ غرورِ وطن‘ غرورِ آبا‘ غرورِ اولاد‘ غرورِ علم اور غرورِ اقتدار کے تمام دروازے یہاں بند ہیں۔ نہ انفرادی کبر کی رخصت ہے‘ نہ طبقاتی اور نہ جماعتی فخر کی۔
انسانی معاشرے کے فساد کی شاید سب سے وسیع الاثر بنیاد یہی ہے کہ کوئی فرد‘ کوئی خاندان‘ کوئی نسل‘ کوئی طبقہ یا کوئی جتھا اپنے متعلق یہ سوچتا ہے کہ میں بڑا ہوں اور دوسرے چھوٹے ہیں۔ میرے حقوق زیادہ ہیں‘ میرے مفادات اہم تر ہیں اور مجھے ترجیح حاصل ہے۔ پھر جس کا دائو چل جاتا ہے وہ اقتدار‘ قانون‘ روایات‘ معاشی تسلط‘ ذہنی تفوق‘ طبقاتی بالادستی کے زور سے زندگی کے توازن کو غارت کر دیتا ہے۔ جواباً دوسروں میں بھی ایسا ہی مقام حاصل کرنے کے لیے بے چینی پیدا ہوتی ہے اور پھر رسّہ کشی ہونے لگتی ہے۔
کبر ہی کے تحت ماضی کے کچھ سرپھرے انسانوں نے خدائی کے دعوے کیے۔ کبر ہی کے تحت چنگیزوں اور ہلاکوئوں نے مدنیت کو پیروں تلے روندا‘ کبر ہی کے تحت ہٹلر اور مسولینی کی آمریت اُبھری اور کبر ہی کے تحت آدمی آدمیوں کے خلاف گھنائونے جرائم کا مرتکب ہوتا ہے۔
اسلام انسانوں کے لیے مساوات کی تعلیم دیتا ہے اور ہماری درس گاہوں کو بھی طلبہ کے اندر یہی روح پھونکنی چاہیے۔ نظامِ تعلیم نئی نسلوں کو تلقین کرے کہ وہ انسانیت کے سامنے گال پھلائے اور تیوری چڑھائے ہوئے نہ آئیں اور زمین پر متکبرانہ روش کے ساتھ زندگی نہ گزاریں۔ ان کو مختالِ فخور نہیں بننا چاہیے۔
اس سورئہ تعلیمات میں ایک بیش قیمت نکتہ یہ بھی سکھایا گیا ہے کہ آدمی کو جادئہ ہستی پر ہرقدم علم___ یعنی علمِ حق___ کی روشنی میں بڑھانا چاہیے۔ جہالت کی اندھیاریوں میں کوئی قدم نہ رکھنا چاہیے۔
آیت ۶ میں اس فاسد کردار کو بیان کیا جو لھو الحدیث کے ذریعے مسافرانِ حیات کو اللہ کے راستے سے بھٹکاتا ہے اور یہ کارنامہ وہ بغیر علم سرانجام دیتا ہے۔
آیت ۱۵ میں حضرت لقمان کی نصیحت میں شرک سے منع کرتے ہوئے مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ کے الفاظ آئے ہیں یعنی جب تک تمھیں واضح طور پر علم نہ ہو کہ خدا کا کوئی ساجھی ہے___ تم نے دیکھا ہو یا دلیلِ قطعی سے جانا ہو‘ یا الہامی رہنمائی سے معلوم کیا ہو___ تو تمھارایہ کام نہیں کہ محض والدین کے کہنے یا کسی اور کے زور ڈالنے سے ایک نامعلوم بات کو واقعہ تسلیم کرلو۔
آیت ۲۰ میں ایک فاسد کردار کا ذکر ہے جو اللہ کے بارے میں اور اس کے دین کے بارے میں بغیر کسی علم کے بحثابحثی کرتے ہیں۔ مختلف دعوے پیش کرتے ہیں‘ حقیقتوں کی تردید کرتے ہیں۔ ان کو کوئی یقینی ہدایت حاصل نہیں ہوتی اور ان کے پاس کسی ثابت شدہ اور غیرمحرف الہامی نوشتے کی سند نہیں ہوتی۔ علم کے بغیر جو لوگ ٹامک ٹوئیاں مارنے کے عادی ہوجاتے ہیں‘ ان کو جب اللہ کے نازل کردہ ہدایت نامے کی طرف دعوت دی جاتی ہے تو وہ اس بنیاد پر اسے قبول نہیں کرتے کہ ہم تو اسی روش پر چلیں گے جس پر ہمارے باپ دادا چلتے آئے ہیں۔ ان کی اس جاہلانہ ذہنیت کو خود ان پر نمایاں کرنے کے لیے یہ استفہامی اشارہ فرما دیا کہ اَوَلَوْ کَانَ الشَّیْطٰنُ یَدْعُوْھُمْ اِلٰی عَذَابِ السَّعِیْر (۳۱:۲۱)___ یعنی یہ بھی سوچا ہوتا کہ کیا ہوگا نتیجہ اگر تمھارے باپ دادوں کو یا خود تم کو شیطان جہنم کے عذاب کی طرف لیے جا رہا ہو۔
ان آیات کی مدد سے سمجھا جاسکتا ہے کہ اسلامی نظامِ تعلیم کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ نئی نسلوں کو واضح قسم کے علمِ حقائق___ جو ثابت شدہ الہامی ہدایت پر مبنی ہو یا مشاہدے و تجربے کا یقینی ماحصل!___ کی روشنی میں سوچنے اور کلام کرنے اور عملی روش اختیار کرنے کی تربیت دے۔ عالمِ افکار ہو یا عالمِ کردار‘ ہمارے نظامِ تعلیم کے تربیت یافتہ ضمیر‘ انسان کو علم کی روشنی کے بغیر ظن و تخمین کے اندھیروں میں گامزن نہ ہونے دیں۔ اندھی آبا پرستی اور قوم پرستی اور ہر قسم کی ’پرستی‘ اور جھوٹے تعصبات سے طلبہ کو بچایا جائے۔ وہ بڑی بڑی قوموں‘ جابر و ظالم حکمرانوں اور غلط ماحول سے متاثر ہوکر حقائق کی راہ سے ہٹ کر کچے قیاسات اور ادھورے نظریات کے سامنے مرعوبانہ اور مقلدانہ شان سے سرخم نہ کریں۔ ان پر حقائق اور نظریات کا فرق واضح ہونا چاہیے۔ وہ قائل ہوجائیں کہ قیاسی نظریات پر اخلاق‘ کردار اور تمدن کی بنیاد ہرگز نہیں رکھی جاسکتی۔
میانہ روی کی چال چلو‘ اپنی آواز کو دھیما رکھو‘ کیوں کہ گدھے کی آواز بہت بُری آواز ہے۔ (۳۱: ۱۹)
یعنی چلو تو بہت باوقار طریقے سے چلو۔ نہ یوں کہ آدمی گھبرایا ہوا بھاگ رہا ہو‘ اور نہ یوں کہ مریل طریق سے چل رہا ہو۔ ویسے وَاقْصِدْ فِی مَشْیِکَ کا ایک جامع مطلب یہ ہے کہ ہرمعاملے میں اعتدال کا رنگ پیدا کرو۔ بولو تو دھیمی آواز سے بولو۔ گلا پھاڑ پھاڑ کر بولنے سے آدمی جانوروں سے مشابہت اختیار کرتا ہے۔ مزید تفصیلات قرآن میں بھی… اور حدیث میں بھی بڑے پیمانے پر مذکور ہیں۔
مطلب یہ ہوا کہ اسلامی زندگی چال ڈھال‘ گفتار رفتار‘ کھان پین [کھانے پینے] جیسے اُمور میں اعتدال اور وقار اور سلیقہ و شایستگی کی متقاضی ہے۔ سو ہمارے نظامِ تعلیم کو یہ غایت بھی سامنے رکھنی چاہیے کہ وہ اچھے آداب و اطوار سے طلبہ کی روزمرہ زندگی کو آراستہ کرے۔ ان کو میانہ روی سکھائے اور انتہاپسندی سے روکے۔
میں نے سورئہ لقمان کو جس طرح سے سمجھا ہے اجمالاً مطالعے کا ماحصل پیش کر دیا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس سورہ کے نکات اسلامی نظامِ تعلیم کی بنیادوں‘ اصولوں اور مقاصد کو بخوبی معین کردیتے ہیں۔ ان نکات کی شرح و تفصیل کے لیے نہ صرف پورے قرآن سے استفادہ کرنا لازم ہے بلکہ حضورؐ نے عملاً ایک نظامِ تعلیم و تربیت چلاکر قرآن کی جو شرح پیش فرمائی ہے نیز زبانِ مبارک سے حکمتِ قرآنی کو جس طرح واضح کیا ہے۔ اس سارے کارنامے کی مدد لے کر ہی ہم کسی تعلیمی خاکے میں صحیح رنگ بھرسکتے ہیں مگر بنیادی خاکہ ہمیں سورئہ لقمان میں یک جا ملتا ہے۔
خدا کرے کہ یہ کاوش مبنی برہدایت ہو‘ پڑھنے والوں کے لیے باعثِ افادہ ہو‘ اللہ کے کچھ بندوں کے سینوں میں اسلامی نظامِ تعلیم کو عملاً پوری طرح کارفرما کرنے کا جذبہ بیدار ہو اور لکھنے والے کے لیے ذریعۂ مغفرت ٹھیرے۔ [آمین]
بہت دُور سے ‘مگر درحقیقت بہت قریب سے---موت کے قافلے کی صداے جرس مجھے سنائی دے رہی ہے۔ یہ قافلہ مجھے لے جانے کے لیے آ رہا ہے۔ پیشتر اس کے کہ یہ مجھ تک پہنچے‘ میں اپنی قوتوں کی آخری پونجی اس پر صرف کرنا چاہتا ہوں کہ دل کی محبت کی باتیں جو بس اسی گھڑی کہنے کی تھیں ‘ان کو تم تک پہنچانے کی فکر کروں۔
O
یہ سربمہر وصّیت نامہ جسے لکھواتے ہوئے میرے ذہن میں سب سے پہلے حضرت سیدنا ابراہیم و اسمٰعیل علیہم السلام کی وہ پاکیزہ تمنّا ضوبار ہوئی جو تعمیر کعبہ کے دوران میں ان الفاظ میں نمودار ہوئی تھی: ’’اے ہمارے رب! ہم دونوں کو اپنا اطاعت گزار بنا اور ہماری نسل میں سے اپنی اطاعت کرنے والی ایک امت برپا کر‘‘ ، اور پھر وہ پاکیزہ وصیت کہ: ’’اے میرے بچو! اللہ نے تمھارے لیے ایک طریق زندگی منتخب کر دیا ہے سو اب تم کو موت نہ آئے بجز اس حال کے کہ تم مسلم ہو‘‘۔ اس کے ساتھ ساتھ میرے سینے میں یعقوب علیہ السلام کے دل کی وہ تڑپ بھی لہرائی جو بسترمرگ پر اولاد سے بالفاظ ذیل خطاب کرنے کی محرک ہوئی: ’’میرے بعد تم کس کی بندگی و طاعت کرو گے‘‘--- اور پھر ان الفاظ کا وہی جواب سننے کی آرزو مجھے اپنے اندر محسو س ہوئی جو یعقوب علیہ السلام کو ان کی اولاد کی طرف سے ملا تھا کہ: ’’ ہم تیرے اللہ کی اور تیرے آبا ابراہیم اور اسماعیل ؑاور اسحاقؑ کے اللہ کی بندگی و طاعت کریں گے جو واحد اللہ ہے اور ہم اس کے آگے سرتسلیم خم کرنے والے ہیں‘‘ ! اور پھر میرے ذہن میں لقمان کے وہ کلمات وصّیت بھی نمودار ہوئے جن کو قرآن میں جگہ پانے کی سعادت ملی۔ اور پھر سب سے آخر میں اپنے دور کے سب سے بڑے مسلم شاعر کا وہ جذبہ انگیز نتیجہء کاوش سامنے آیا جو اس نے ’’ سخنے بہ نژادِنو‘‘ کے نام سے قلم بند کیا ہے اور میرا جی چاہا کہ اس صاحبِ درد کے یہ معنی خیز الفاظ دہرا دوں کہ:
لاالہٰ گوئی؟ بگو از روے جاں
تا ز اندام تو آید بوے جاں!
مومن و پیشِ کساں بستن نطاق!
مومن و غدّاری و فقر و نفاق!
شیوۂ اخلاص را محکم بگیر
پاک شو از خوف سُلطان و امیر
عدل در قہر و رضا از کف مدہ
قصد در فقر و غناء از کف مدہ
سِّر دیں! صدق مقال‘ اکلِ حلال
خلوت و جلوت تماشاے جمال!
در رہِ دیں سخت چوں الماس زی
دل بحق بربند و بے وسواس زی!
دیں سراپا سوختن اندر طلب
انتہایش عشق و آغازش ادب!
سترِ زن! یا زوج یا خاک لحد
سترِ مرداں! حفظِ خویش از یارِ بد
گرچہ باشی از خداونداں دہ
فقر را از کف مدہ‘ از کف مدہ
درجہاں جز دردِ دل ساماں مخواہ
نعمت از حق خواہ و از سلطاں مخواہ!
سالہا اندر جہاں گردیدہ ام
نم بچشم منعماں کم دیدہ ام
لاالٰہ کہتا ہے‘ تو دل کی گہرائیوں سے کہہ تاکہ تیرے بدن سے بھی روح کی خوشبو آئے۔ مومن اور دوسروں کی غلامی کرے؟ مومن ہو اور غداری‘ نفاق اور فاقہ مستی اختیار کرے؟ اخلاص کے طریقے کو مضبوطی سے پکڑ اور سلطان و میر کے خوف سے آزاد ہو جا (صرف اللہ تعالیٰ کا ہو جا)۔ غصّے میں ہو یا خوشنودی میں‘ عدل کو ہاتھ سے نہ دے اور افلاس ہو یا امارت‘ میانہ روی نہ چھوڑ۔ دین کا راز سچ بولنے اور حلال کھانے اور خلوت و جلوت میں حق تعالیٰ کے جمال کا نظارہ کرنے میں ہے۔ دین کی راہ میں الماس کی طرح سخت زندگی بسر کر‘ اللہ تعالیٰ سے دل لگا اور ہر قسم کے وسوسہ سے آزاد ہو۔ دین کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ کی طلب میں اپنے آپ کو سوختہ کر دینا‘ اس کی ابتدا ادب ہے اور انتہا عشق ۔ عورت کا ستر اس کا خاوند ہے یا قبر‘ مرد کا ستر بُری صحبت سے اپنے آپ کو بچانا ہے۔خواہ تو کتنا بڑا جاگیردار ہو‘ پھر بھی فقر کو ہرگز ہاتھ سے نہ چھوڑ۔ دنیا میں درد دل کے علاوہ کسی اور سامان کی خواہش نہ رکھ‘ جو بھی نعمت چاہتا ہے اللہ تعالیٰ سے مانگ‘ کسی بادشا ہ سے نہ مانگ۔ میں برسوں دنیا میں پھرا ہوں‘ میں نے دولت مندوں کی آنکھوں میں نم بہت کم دیکھی ہے۔
مجھے اس سے زائد کچھ کہنا نہیں اور میرے دل میں جو کچھ ہے اسے مجھ سے پہلے مجھ سے بہتر لوگ کہہ گئے ہیں۔ لیکن آدمی اپنے دل کی بات اپنی زبان سے اور اپنے لفظوں میں کہہ کر ہی آسودگی پاتا ہے‘ سو میں کہتا ہوں تم سنو!
O
جب یہ وصّیت نامہ اول اول تمھارے ہاتھوں میں دیا جائے گا تو ایک طرف تو میری ہستی اور میری عمر رفتہ کی ساری جھلکیاں اور تمھارے اور میرے تعلقات کی دور تک پھیلی ہوئی یادیں سمٹ کر تمھاری آنکھوں کے سامنے آجائیں گی اور تمھیں وہ خلا بہ شدت محسوس ہو گا جو میری موت سے پیدا ہونے والا ہے اور جسے پُر کرنے کی ذمہ داری اب تمھارے اوپر عائد ہوتی ہے۔ دوسری طرف تم دھڑکتے ہوئے دلوں کے ساتھ مہریں توڑتے ہوئے یہ گمان بھی کرو گے کہ نہ معلوم تمھارے باپ نے تمھارے لیے کہیں کوئی خزانہ چھپا رکھا ہو‘ کہیں کوئی ترکہ محفوظ پڑا ہو‘ اور یہ وصیت نامہ اس کی اطلاع کے لیے قلم بند کرایا گیا ہو--- نہیں--- مگر غالباً تم ایسے پست خیالات سے بسا بلند نکلوگے۔ پر اگر تم ایسے خواب دیکھ سکتے ہو اور تمھاری توجہ تمھاری سطح سے نیچے کی چیزوں کی طرف جا سکتی ہے‘ تو پھر میں تم کو صاف صاف بتا دینا چاہتا ہوں کہ تمھارے باپ نے نہ کبھی ضرورت سے زیادہ کمایا‘ نہ کبھی کچھ بچایا‘ اور نہ وہ تمھارے لیے سونے چاندی کے ذخائر‘ قطعات اراضی‘ باغات اور محل چھوڑ مرنے کے پروگرام سامنے رکھ کر جیا تھا۔
O
مجھے خوشی ہے کہ میں نے تمھارے لیے کچھ نہیں چھوڑا--- اور مجھے خوشی ہے کہ میں نے تمھارے لیے بہت کچھ چھوڑا --- میں نے عمر بھر اس بات کی پوری پوری کوشش کی ہے کہ تمھارے دماغوں کو ایسے افکار‘تمھارے قُلوب کو ایسے عقائد‘ تمھاری سیرتوں کو ایسے اصول ‘اور تمھارے عمل کو ایسے محرکات سے مالا مال کر دوں کہ تمھارے پیکر نہ صرف تمھارے لیے بلکہ ساری دنیا کے لیے لازوال خزانے بن جائیں۔
ہم جس دور میں پیدا ہوئے وہ انسانیت کی انتہائی پستی کا دور تھا اور جو ماحول ہمیں نصیب ہوا وہ ’’کافر گر‘‘ ماحول تھا‘ ’’مسلم ساز‘‘ کسی لحاظ سے نہیں تھا--- اور اب یہی ماحول میں تمھارے لیے ترکے میں چھوڑ رہا ہوں۔ مگر اب اس ماحول میں ایک تبدیلی آ چکی ہے جس سے تم فائدہ اٹھا سکتے ہو۔
ایسے گندے دور اور ایسے پلید ماحول نے ہمارے دماغوں میں دنیا کے بد ترین خیالات کی کاشت کی اور پھر ان کی خوب خوب آبیاری کی۔ اس نے ہماری فطرتوں کو مسخ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی‘ اس نے ہمارے اخلاق کو روگ لگانے میں کسی پہلو سے کوتاہی نہیں کی۔ اس نے ہماری روحانی موت کے سامان کرنے میں کسی طرح کی کمزوری نہیں دکھائی۔ اس دور اور اس ماحول کی لپیٹ میں جو آیا‘ اس میں خواہش پرستی پیدا ہوئی‘ اس میں نفس کی غلامی پیدا ہوئی‘ اس میں نفاق پیدا ہوا‘ اس کے ذہن میں تضاد نے اپنے گل کھلائے‘ اس میں بے حیائی نے جڑیں پکڑیں‘ اس میں نفسانیت اور بہیمیت نے چھائونیاں ڈالیں اور اس میں نمایش اور ریانے اپنے اڈے جمائے۔ اُسے تعلیم‘ لٹریچر‘ صحافت اور دوسرے موثر ذرائع سے مجبور کر دیا گیا کہ وہ اپنے آپ کو ذلیل ترین سانچوں میں ڈھالنے پر تیار ہو جائے۔ چنانچہ وہ ذلیل ترین سانچوں میں ڈھل رہا ہے اور ہم بھی ان ہی سانچوں میں ڈھال دیے گئے‘بلکہ ہر طرف سے بہ بہا کر آئے اور خودبخود ان سانچوں کے اندر اتر گئے۔
O
تمھارا باپ‘ تاریکی اور طوفان اور غلاظت کے درمیان پیدا ہوا‘ تاریکی اور طوفان اور غلاظت میں پلا‘ اور تاریکی اور طوفان اور غلاظت کے سائے میں جواں ہوا۔
انھی حالات میں ہم نے اپنے خالق کی آواز سنی۔ یہ آواز تو ہمیشہ سے ہر ایک کے دل میں گونجتی رہی ہے‘ لیکن اس پر متوجہ ہونے کی سعادت جسے مل گئی‘ مل گئی--- اس آواز پر ہم نے لبّیک کہی اور ہمیں ہمارے مقام کا پتا چلا کہ وہ کتنا بلند ہے اور اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہوا کہ وہ کتنی بھاری ہیں۔
وہ ایک نئی دنیا پیدا کرنے کا فرض تھا جس پر ہم نے لبیک کہی’ ہم نے وہ کڑی اٹھالی جس سے بڑے بڑوں کے دل اِبا کرتے تھے۔ ہم اس قابل فخر مہم کو لے کر اٹھ کھڑے ہوئے جس کی طرف رُخ کرنا ایک ناپاک ماحول میں موجب صد شرم بن چکا تھا۔ ہم نے وہ نعرہ علی الاعلان بلند کردیا جسے زبان پر لاتے ہوئے خواص و عوام سبھی اپنے اندر احساس کمتری کی لہر اٹھتی دیکھتے تھے۔
O
تمھارے باپ نے جب ’’نظام باطل‘‘ کے خلاف کش مکش کر کے نظام حق کو بپا کرنے کا تہیہ کر لیا تو نظام باطل نے اس سے کہا کہ اس نیت کے ساتھ ایک انچ بھی حرکت کرو گے تو عزت‘ شرف‘ سر بلندی ‘ ترقی اور شہرت کے دروازے تمھارے اوپر بند کر دیے جائیں گے۔ عُہدوں کی کرسیاں تمھارے لیے حرام قرار دی جائیں گی‘ علم و ادب کے میدان میں کوئی خدمات انجام دو گے تو ان خدمات کو صحیح قدر و قیمت کا مقام کبھی حاصل نہ ہو گا‘ تم دن رات محنت کر کے بھی میرے خزانہ ہاے رزق سے پیٹ بھرروٹی نہ پاسکو گے۔
عزیز بچو! جانتے ہو کہ تمھارے باپ نے اس کا کیا جواب دیا؟ میرے خیال میں تم بہت اچھی طرح جانتے ہو۔ اس نے کہا کہ میں حق کے لیے ان سارے نقصانات کو قبول کرتا ہوں اور باطل کو راضی رکھ کر جو فوائد حاصل ہوتے ہوں ان سب پہ لات مارتا ہوں۔
جس دن نظام باطل کے خاموش چیلنج کا یہ جواب میں نے دے دیا‘ اس دن گویا میں نے اپنی دنیا بنانے اور تمھارے لیے لذتوں کے اسباب سمیٹنے اور بھاری ترکہ چھوڑ جانے کے سارے پروگرام دریا برُد کر دیے۔
پھر نظام باطل نے کہا کہ تم جس راہ پر گامزن ہونا چاہتے ہو‘ کچھ معلوم بھی ہے کہ یہ راہ کیسی پرخار راہ ہے۔ اس راستے کے چپے چپے پر بھوک اور فاقہ ہے‘ نفرتیں اور حقارتیں ہیں‘ گالیاں اور الزام تراشیاں ہیں‘ جیل اور پھانسیاں ہیں ‘ ظلم اور تشدد ہیں‘ اور یہاں موت ہر مرحلے پر رقص کرتی نظر آتی ہے‘ یہاں اپنے بیگانے بن کر ڈستے ہیں‘ یہاں رہبر غول بیابانی سے ساز باز کر کے حملہ آور ہوتے ہیں‘ یہاں دوستوں کو دشمنوں میں جا ملتے دیر نہیں لگتی‘ یہاں زہد و تقدس تک کفر و فسق کی حفاظت کے لیے کمر بستہ ملے گا۔ پھر کیا تمھیں اس وادی جانکاہ میں غبار بن کر پریشان ہو جانا منظور ہے؟
تب تمھارے غیور و جسّور باپ نے کہا کہ ہاں‘ میں ہزار مسّرتوں کے ساتھ ان سارے ممکن حوادث کا خیر مقدم کرتا ہوں۔
چنانچہ تمھارے باپ نے اور اس کے ساتھیوں نے اپنی قلت اور اپنی بے سروسامانیوں کے ساتھ دشمن کی کثرت اور اس کے سروسامان کی پرواہ کیے بغیر وہ کش مکش چھیڑ دی جو اب پرُزور معرکہ آرائیوں کے ساتھ تمھارے گردوپیش میں جاری ہے۔
اس کش مکش کے لیے اپنے دوسرے ساتھیوں کی طرح تمھارے باپ کو اپنی ساری سیرت کو ادھیڑ کر از سر نو بُننا پڑا ہے‘ اپنی عادتوں سے جنگ کرنی پڑی ہے‘ اپنے پرانے خیالات کی گہری جمی ہوئی جڑیں دماغ سے اکھڑتے ہوئے بہت ہی دور تک چبھنے والا درد محسوس کرنا پڑا ہے‘ روحانی لحاظ سے تحویل قبلہ کرنی پڑی ہے‘ اسے دوستیوں اور دشمنیوں کا رخ بدلنا پڑا ہے۔ اسے نیا جنم لینا پڑا ہے۔ تم کیا جانو کہ تمھارا باپ کن احوال سے گزرا ہے اور اس نے دوسروں کی چوٹیں کھانے سے پہلے اپنے آپ کو تیار کرنے کے لیے خود اپنے اوپر کتنی چوٹیں لگائی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ایسے باپ کی کوتاہیوں پر رنجیدہ ہونے کے بجاے تم اس پر رحم کھائو گے اور اس کے لیے دعاے مغفرت کرو گے۔
O
نظام باطل کے بنائے ہوئے ماحول کے انسان اپنے شعوری فیصلے کے تحت چاہے کتنی ہمہ گیر تبدیلیاں اپنے اندر بپا کر لیں‘ لیکن وہ کبھی بھی پوری طرح اپنے آپ کو آلودگیوں سے پاک نہیں کر سکتے۔ افسوس کہ تمھارا باپ اگرچہ ساری عمر اپنی ذہنی ساخت اور اپنی سیرت کی تعمیر کو درست کرنے میں مصروف رہا لیکن اسے بعض کمزوریاں ساری عمر چمٹی رہیں اور وہ ان سے پوری طرح نجات نہ پا سکا۔ اسے اس بات کا بہت ہی صدمہ ہے کہ اس کی ان کمزوریوں کا پرتو تم پر پڑکے رہا ہو گا۔
میں نے دراصل ساری عمر یہ چاہا کہ تم کو ایک ’’مسلم‘‘ کی اٹھان پر اٹھائوں۔ اس کے لیے میں نے گھر میں ایک ماحول بنایا‘ اس کے لیے میں نے اپنے اوپر کئی پہلوئوں سے جبر کیا‘ اپنے جذبات کی باگ مضبوطی سے تھامی‘ اپنی بہت سی خواہشوں کو پامال کیا ‘ اپنے بہت سے ارمان دل کے دل میں دبے رہنے دیے۔ پھر اپنی بے شمار کمزوریاں تھیں کہ جن کو تم سے پوری طرح چھپانے کی کوشش کی۔ پھر بھی میں مطمئن نہیں ہوں کہ میں اس مہم کو ٹھیک سے مکمل کر کے رخصت ہو رہا ہوں۔
O
میں تم سے اس بات پر بھی معافی چاہتا ہوں کہ میں نے تم کو تمھاری بہت سی خواہشات سے روک کے رکھا ہے۔ میں نے تم کو بے شمار دل چسپیوں سے محروم کیا ہے۔ میں نے بہت سی مروجہ تفریحات سے تمھیں لطف اندوز ہونے نہیں دیا۔ میں نے تمھیں بڑے بڑے عہدے حاصل کرنے اور وسیع کاروبار چلانے کے لیے نہ تربیت دی اور نہ وسائل مہیا کیے۔ میرے جگر کے ٹکڑو!--- میں نے تم پر زیادتی نہیں کی بلکہ میری یہ خدمت ایسی ہی ہے جیسے ایک باپ نباتاتی گھی کی مٹھائیوں سے‘ گندے سڑے پھلوں سے اور جراثیم ملے شربتوں سے اپنے بچوں کو بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ میں نے تمھارے اخلاق و سیرت کی صحت و قوت کو ہر خطرے سے بچانے کی پوری پوری کوشش کی ہے۔ میں اپنے گندے ماحول کی رگ رگ سے چونکہ واقف تھا‘ اس لیے میں اس کی یورشوں کے خلاف بالکل اسی طرح تمھارے بچائو کی سعی کرتا رہا جیسے ایک مرغی‘ اپنے چوزوں کو دشمن کی زد سے بچانے کے لیے خاص اہتمام کرتی ہے۔ میں نے تمھیں اس طرح سینت سینت کر رکھا ہے جیسے کوئی اپنی ساری عمر کی کمائی کو چوروں اچکوں سے بچا بچا کر رکھتا ہو۔ میں نے تمھاری حفاظت اس طرح کی ہے جیسے روپے سے بھری ہوئی جیب کی حفاظت جیب کتروں سے کی جاتی ہے۔ میں سائے کی طرح ہمیشہ تمھارے ساتھ رہا‘ میں نے تم کو کبھی اکیلا چھوڑنا گوارا نہیں کیا‘ میں تمھارے گردوپیش میں ہر طرف تمھارے خلاف سر اٹھانے والے خطروں کو سونگھتا پھرا ہوں۔
O
ہم نے جس جنگ کو شروع کیا تھا‘ وہ اگرچہ روزبروز گرم سے گرم تر ہوتی جا رہی ہے اور بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ عنقریب حق کی فتح اور باطل کی شکست پر اس کا خاتمہ ہونے والا ہے‘ لیکن اس کا امکان بھی موجود ہے کہ یہ جنگ کچھ اور طول پکڑے تو اس صورت میں تمھارا باپ تم سے --- اور حق پرستوں کی موجودہ نسل اپنے سلیم الفطرت اخلاف سے--- یہ توقعات رکھتی ہے کہ ان کے بعد تم سب اس جنگ کو لڑ کر فتح تک پہنچائو گے۔ یہی وہ مقصد تھا کہ جس کے لیے میں نے تمھیں ایک مسلم‘ ایک مجاہد‘ ایک سپاہی‘ ایک غیور و جسور اور با اصول انسان کی اٹھان پر اٹھایا ہے۔
یہ مقصد جو میرے سامنے تھا‘ اگر تم اس کو قبول کرتے ہو جیسے کہ مجھے تم سے توقع ہے تو ابھی اسی وقت خدا کے سامنے سر اطاعت کو زمین پر رکھ کر یہ عہد استوار کرو کہ ہم اس مقصدِ حق کی کامیابی کے لیے اپنے سارے دل‘ اپنی ساری روح اور اپنی ساری جان کے ساتھ جدوجہد کریں گے۔
اور اگر--- خدانخواستہ--- جس کی مجھے تم سے دُورپار کی کو ئی خفیف سے خفیف توقع بھی نہیں--- بہر حال خدانخواستہ اگر تم اپنے باپ کے مقصدِ حق کو اور اس کی ذمہ داریوں کو اٹھانے سے کترائو اور اپنی بُزدلی اور بے غیرتی کی وجہ سے میرے اس ترکے کو نظام باطل کے ہاتھ دنیوی فوائد کے لیے بیچ ڈالو تو پھر میں اور توکچھ نہیں کر سکتا‘ اور تمھارے فیصلوں کو بدلنے کی قدرت نہیں رکھتا‘ لیکن اتنی درخواست تم سے ضرور کروں گا کہ پھر مجھ سے اپنے آپ کو منسُوب کر کے میری روح کو تکلیف نہ پہنچانا۔ میرے لیے اس سے زیادہ مایوس کن حادثہ کوئی نہ ہوگا کہ گوشت کے جن لوتھڑوں کو پال پوس کر میں نے ایک ناپاک قوت کے خلاف لڑنے کے لیے تیار کیا ہو‘ وہ اداے فرض کا لمحہ آنے پر اپنے آپ کو‘ اپنے باپ کے اصولوں کو اور اس کے مقاصد کو‘ دشمنوں کے ہاتھ جاکے فروخت کر دیں۔
O
جائو! میرے خالی کیے ہوئے مورچوں پر کھڑے ہو جائو‘ لڑو‘ ٹکرائو‘ آگے ہی آگے بڑھتے چلے جائو‘ یہاں تک کہ یا تو باطل کا عَلَم قطعی طور پر سرنگوں ہو جائے‘ یا تمھاری لاشیں خاک و خون میں تڑپتی نظر آئیں۔ یاد رکھو! کہ میں نے تم کو دنیا کے عیش لوُٹنے کے لیے نہیں پالا ہے۔
ایک یہ کہ حق کا بول بالا کرنا وہ پاکیزہ نصب العین ہے جو تمھارے باپ کو خدا کے انبیا وصلحا سے ورثے میں ملا ہے اور اسی کو میں تمھارے لیے ترکے میں چھوڑ رہا ہوں۔ ہر لحظہ اس پر نگاہیں جمائے رکھو!
دوسرے یہ کہ مہلک ماحول تم کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔ اس سے خبردار رہو‘ اس کے خفیہ حملوں کی مدافعت کی فکر کرو‘ اور اس کے جادو کا توڑ فراہم کرو‘ اس کے دام کے ’دانوں‘ کی حقیقت پر نگاہ رکھو!
اگر نظام حق کا قیام تمھارے ہاتھوں ہو گیا اور اس کی پاکیزہ فضا میں ایک لمحہ بسر کرنے کی سعادت بھی تم کو مل گئی تو تم محسوس کرو گے کہ وہ ایک لمحہ ہزار سال سے زیادہ قیمتی‘ زیادہ میٹھا اور زیادہ دل چسپ ہے۔ لیکن اگر ایسا نہ ہو تو ہم اور تم اور وہ سارے لوگ جو اپنے سے بعد والوں کے لیے کسی آنے والے زمانے میں ایک جنت خیروفلاح کی بنیاد ڈال رہے ہیں‘ دنیا کی اس عظیم ترین نیکی کو قائم کرنے میں حصہ دار ہیں کہ جس کے فیضان کی وسعتوں کو سامنے رکھا جائے تو یہ اندازہ کرنا مشکل ہے کہ اس پاک مہم میں قوت کی جو ایک رمق‘ مال کا جو ایک حبّہ‘ خون کا جو ایک قطرہ‘ اور وقت کا جو ایک پل کسی نے خلوص سے صرف کیا ہوگا‘ عنداللہ اس کی جزا کیا ہو گی!
O
میرا مقصد تمھیں نہ اپنی ذات کی طرف بلانا ہے اور نہ کسی ذاتی عقیدہ و تصور کی طرف۔ نظریہ اور نظام اور طریق انقلاب صرف وہی برحق ہے جس کی تعلیم خدا کی کتاب اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ملتی ہے---میں چاہتا ہوں کہ تم نہ مجھے دیکھو‘ نہ کسی اور شخصیت کو--- بلکہ اپنا رشتہ سیدھا خدا و رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے استوار کرو۔ اُدھر سے جو اصول اور ہدایات ملیں ان پر سختی سے کاربند رہو۔ اپنے نفس یا دوسروں کی خاطر ان میں سے نہ کسی چیز کو چھوڑو‘ نہ اضافہ کرو‘ اور نہ ا حکام میں ترمیمیں کرو۔
اگر کتاب و سنت سے رشتہء وفا استوار کر لو تو وقت کے نت نئے نظریات اور باطل کے فتنہ آفریں اسالیب کار سے نہ تم مرعوب ہو گے اور نہ اقتدار‘ شان و شوکت اور دولت کے مظاہروں کا جادو تم پر چل سکے گا۔
خدا تمھیں قول و عمل کے تضاد سے بچائے اور تم ایمان اور مفاد پرستی میں جوڑ لگا کر منافقانہ طرز عمل اختیار کرنے سے مجتنب رہو!
اللہ کا کام کرتے ہوئے اللہ ہی تمھار حامی و ناصر ہو!
(ٹھنڈی آگ ‘مکتبہ چراغ راہ کراچی‘ ۱۹۵۷ ‘ ص ص ۲۹۴- ۳۰۴)