افتخار گیلانی


ریاست جموں و کشمیر کو تحلیل و تقسیم کرنے جیسے غیر آئینی اقدامات، مواصلاتی ناکہ بندی اور ملٹری آپریشنوں کے ذریعے مقامی آبادی کو ہراساں کرنے پر، جہاں دنیا بھر میں وزیراعظم نریندر مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومت پر لعن طعن ہو رہی ہے، وہیں بھارتی مسلمانوں کی قدیمی تنظیم جمعیۃ العلماء ہند کے دونوں دھڑوں نے سادگی میں یا دانستہ طور پر ایسے بیانات داغے کہ بھارتی حکومت کی باچھیں کھل گئیں۔ یہ پہلا موقع ہے کہ یورپ و امریکا میں سول سوسائٹی و میڈیاکو بھارت میں اُبھرتے ہوئے فاشزم کا ادراک ہوا اور ہندو انتہا پسندوں کی مربی تنظیم آرایس ایس (راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ) کی مقامی شاخوں کی سرگرمیوں پر قدغن لگانے کی مانگ زور پکڑتی جارہی ہے۔ چاہے بابری مسجد کی شہادت کا واقعہ ہو یا ’گھر واپسی‘ یا ہندو فرقہ پرستوں کی دیگر انتہاپسندانہ مہمات، اس کے لیے خاصی بڑی رقوم بیرون ملک بھارتیوں کی طرف سے ہی آتی رہی ہیں۔ 
پہلے جمعیۃ العلماء ہند کے ایک دھڑے کے رہنما مولانا ارشد مدنی صاحب نے آر ایس ایس کے سربراہ موہن سنگھ بھاگوت سے ملاقات کر کے اس کی خوب تشہیر کی۔ مسلم اور یورپی ممالک میں جہاں بھارتی سفیروں کوکشمیر میں یلغار اور فاشزم کے خلاف مہم کی وجہ سے کوئی جواب نہیں بن پا رہا تھا۔ اس پس منظر میں مولانا مدنی صاحب اور موہن بھاگوت کی ملاقات ان کے لیے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوئی۔ اگرچہ مدنی صاحب کا کہنا ہے کہ ’’یہ ملاقات فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھنے اور مسلمانوں کے خلاف ’ہجومی تشدد‘ کو قابو کرنے کے لیے رکھی گئی تھی‘‘، مگر اس کا انعقاد اس موقعے پر ہوا کہ یورپ و امریکا میں آر ایس ایس کی ذیلی تنظیموں نے سکون کا سانس لیا، جس سے برہمنی فاشزم کے خلاف مہم پر کاری ضرب لگ گئی۔ بھارتی سفار ت کاروں نے اس میٹنگ کی رپورٹ میڈیا میں پیش کرکے یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی کہ ’’آر ایس ایس تو ایک غیر سرکاری فلاحی تنظیم ہے، جو مسلمانوں کی بہبود کے لیے بھی کوشاں ہے ۔ اس لیے اس کو فاشزم کے ساتھ نتھی کرنا ایک پروپیگنڈا ہے‘‘۔ 

جمعیۃ العلماء ہند کی طرف سے آسام میں شہریت کے معاملے پر مسلمانوں کی رہنمائی اور جیلوں میں بند مسلم نوجوانوں کو مفت قانونی امداد کی فراہمی پر ہم نے ہمیشہ تحسین کی ہے۔ ان کے قدردان اور دینی خدمات کے معترف کے طور پر گزارش ہے کہ دشمنوں کے ساتھ ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھتے وقت کی نزاکت کو بھی سنجیدگی کے ساتھ لینے کی ضرورت ہے۔ اگر ملاقات ناگزیر ہی تھی، تو اس کو میڈیا کی تشہیر سے دُور رکھنا چاہیے تھا، مگر کیا کریں: ’ناداں گر گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا‘۔ 
جب چچا مولانا ارشد مدنی صاحب نے آرایس ایس کے سربراہ سے ملاقات کرکے بھارتی میڈیا اور حکومت کی واہ واہ لوٹی ، تو بھتیجا صاحب بھلا کیوں پیچھے رہتے۔مولانا محمود مدنی صاحب کی سربراہی میں جمعیۃ العلماء کے دوسرے دھڑے نے، کشمیر پر ایک قرارداد منظور کرکے اور بیانات داغ کر، مظلوم کشمیریوں کے زخموں پر نمک چھڑکا۔ پھر مغل بادشاہ اورنگ زیب عالم گیر (۱۶۱۸ء-۱۷۰۷ء) اور شیواجی مرہٹہ (۱۶۲۷ء-۱۶۸۰ء) کا موازنہ کرکے، اور شیواجی کو قابلِ تقلید بتا کر تاریخ کو ایسا مسخ کیا، کہ مسلم اُمت کی حُرمت اور تاریخ کا تقدس ایک طرف رہے، انھوں نے خود اپنے علم و فراست پر ہی سوالیہ نشان کھڑے کردیے۔ کاش! وہ امریکی محقق خاتون پروفیسر آڈری تروشکی (Audrey Truschke) کی کتابیں Aurangzeb:The Man and the Myth اور Aurangzeb: The Life and Legacy ،یا جواہر لال نہرو کی مشہور کتاب The Discovery of India  میں شیوا جی پر تبصرہ، یا مغربی اسکالر جیمس لاویا کی نگارشات پڑھ لیتے۔ 

بدقسمتی سے کشمیریوں کی جمہوری آواز کو دبانے کے لیے بھارتی حکومت نے کئی بار جمعیۃ العلماء اور دیگر مسلم لیڈران کو استعمال کیا ہے۔ مولانا محمود مدنی نے فرمایا ہے: ’’کشمیر، بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔ ہندستان کی وحدت ہمارے نزدیک بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اس لیے ہم کسی علیحدگی پسند تحریک کی ہرگز تائید نہیں کرسکتے اور میری نظر میں کشمیر کی فلاح ہندستان کے ساتھ جڑی ہوئی ہے‘‘۔ قرارداد میں پاکستان کا نام لیے بغیر اسے ’’تمام مسائل کی جڑ‘‘ بتایا گیا ہے۔ قرارداد کے مطابق: ’’ملک اور دشمن طاقتیں کشمیر کو برباد کرنے کے درپے ہیں۔ دشمن نے ہندستان کے خلاف کشمیر کو  محاذ بنار کھا ہے جو مظلوموں کی فریاد رسی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ‘‘۔ ستمبر میں محمود مدنی صاحب سوئٹزرلینڈ تشریف لے گئے اور جنیوا میں پریس کانفرنس سے خطاب میں فرمایا: ’’دفعہ ۳۷۰ اور ۳۵،اے کا خاتمہ بھارتی حکومت کا داخلی مسئلہ ہے اور ہم مودی حکومت کے ساتھ ہیں‘‘۔ 
اس پریس کانفرنس کے لیے جانے سے قبل جمعیت العلماء کے صدر محمد عثمان منصور پوری، مولانا محمود مدنی اور مولانا اصغر علی سلفی جنرل سیکرٹری مرکزی جمعیت اہلِ حدیث ہند نے مشترکہ طور پر بھارتی وزیرداخلہ امیت شا سے ملاقات کے بعد یہ اعلانات کیے۔ مولانا اصغرعلی سلفی نے کہا: ’’ہم ۳۷۰دفعہ میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کی حمایت کرتے ہیں‘‘۔ مولانا عثمان منصورپوری نے فرمایا: ’’ہم مودی حکومت کے اقدامات کی مکمل حمایت کا اعلان کرتے ہیں‘‘ اور محمود مدنی صاحب نے کہا: ’’ہم حکومت ِ ہند کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں‘‘۔ پھر اجمیرشریف کے مہتمم سلمان چشتی صاحب نے کہا: ’’کشمیر کے حوالے سے کوئی سوال جواب نہیں، وہ بھارت کا اٹوٹ انگ ہے‘‘۔

معروف بھارتی دینی ماہ نامہ الفرقان لکھنؤ میں مذکورہ علما کے موقف کا نوٹس لیتے ہوئے مدیر مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلی صاحب نے بجاطور پر لکھا ہے: ’’ [ہمارے علما کی] آج جو ’ملاقاتیں‘ ہورہی ہیں، اور جو قراردادیں اور بیانات صادر ہورہے ہیں یا کروائے جارہے ہیں، ان کا مقصد عالمی برادری میں [مودی حکومت کی] بُری طرح بگڑتی ہوئی شبیہوں کو درست کرنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں، اور افسوس ہے کہ ہمارے لوگ استعمال ہورہے ہیں‘‘۔(اکتوبر ۲۰۱۹ء، ص۱۰)
اب اگر کوئی نیازمند، ان محترم حضرات سے یہ پوچھے:’’کون اپنے اٹوٹ انگ پر تیر و نشتر چلاتا ہے؟‘‘ کشمیری پنڈتوں کے ساتھ بھارت کی طرف دار کشمیری مسلم قیادت نے جموں وکشمیر میں جمہوریت پر شب خون مارا، اور اپنے ہاتھ نہتے کشمیریوں کے خون سے رنگے ہیں۔ ۱۹۴۷ء سے ۱۹۹۰ء تک اگر بھارتی قیادت نے بار بار دغا بازیاں نہ کی ہوتیں، مہاتما گاندھی ،جواہر لال نہراور دیگر لیڈروں کے وعدوں کو نبھا کر بھارتی آئین کے اندر بھی جمہوری حقوق ملے ہوتے، انتخابات میں بے پناہ دھاندلیاں نہ کی گئی ہوتیں، تعصب نہ برتا گیاہوتا، تو شاید کشمیر میں جذبات اتنے شدید   نہ ہوتے۔یہ بھی شاید یا د دلانا پڑے گا کہ خاص طور پر ۱۹۷۱ءکے بعد اور پھر شیخ عبداللہ کے برسرِاقتدار آنے کے بعد تو تحریک آزادی کب کی ٹھنڈی پڑچکی تھی۔ کشمیریوں نے بھی لاچار، حالات سے سمجھوتہ کر لیا تھا۔ چاہے ۹؍اگست ۱۹۵۳ءمیں وزیر اعظم شیخ محمدعبداللہ کی گرفتاری اور برخاستگی ہو، یا جون۱۹۸۴ء میں وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی معزولی، یا ۱۹۸۷ء کے اسمبلی انتخابات میں بے پناہ دھاندلیاں ہوں، بھارتی مسلمان لیڈروں کو کشمیریوں کے سینوں میں خنجر گھونپنے کے لیے برابر استعمال کیا گیا۔ 
شیخ محمد عبداللہ کے انتقال (۸ستمبر ۱۹۸۲ء)کے اگلے برس ۱۹۸۳ء کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس پارٹی، نیشنل کانفرنس کے خلاف میدان میں اتری تھی۔ وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی طرف سے این ٹی راما رائو، جیوتی باسو ، جارج فرنانڈس کے ساتھ اتحاد و قربت پر بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی سخت ناراض تھیں۔ جموں خطے میں مسز اندرا گاندھی نے خود ہی نودن قیام کرکے انتخابی مہم کو خوب فرقہ وارانہ رنگ دیا۔ کشمیر میں ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور میرواعظ مولوی محمد فاروق کے اتحاد کا حوالہ دے کر ہندو ووٹروں کو خوب بڑھکایا۔ دوسری طرف کشمیر میں جمعیۃ العلما کے لیڈروں نے فاروق عبداللہ کے مذہبی رجحان وغیرہ کو ایشو بناکر عوام کو ان سے متنفر کرنے کی بھر پور کوشش کی۔ 

اگست ۱۹۵۳ءکو شیخ عبداللہ کی گرفتاری اور غیر آئینی معزولی میں بھی مولانا ابولکلام آزاد اور رفیع احمد قدوائی نے کردار ادا کیا۔ شیخ صاحب بھارت سے علیحدگی نہیں چاہتے تھے۔ ۱۹۴۷ء میں بھارتی فوج کشمیر وارد ہوئی، اور پھر نہرو نے ۳جون ۱۹۵۲ء کو ’دہلی ایگریمینٹ‘ پر دستخط کرکے کشمیر کی ’خودمختاری‘ مان لی۔ تب شیخ صاحب، نہرو سے ’دہلی ایگریمنٹ‘ کی بھارتی پارلیمنٹ سے توثیق چاہتے تھے، تاکہ آیندہ کوئی حکومت اس کو تحلیل نہ کرسکے۔ جموں کے مسلم کش فسادات، میں ۶۰فی صد سے زائد مسلم آبادی کو راتوں رات اقلیت میں تبدیل کرکے ۳۰فی صد کردیا گیا ، اور کپور تھلہ ، بھرت پور، اور آلوار جیسے علاقوں میں سے مسلمانوں کا نام و نشان مٹادیا گیا۔ شیخ عبداللہ کو خدشہ تھا کہ   ایسی سازش کسی وقت کشمیر میں بھی دہرائی جاسکتی ہے۔ اس لیے کشمیری مسلمانوں کی شناخت اور انفرادیت کو بچانے کے لیے کسی آئینی ضمانت کے وہ خواست گار تھے۔ 
بھارتی حکومت کی طرف سے اُٹھایا گیا ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کا قدم، فلسطین میں اسرائیلی کارروائیوں سے بھی کہیں زیادہ سنگین ترین ہے۔ پوری دنیا میں یہودی ایک کروڑ سے زیادہ نہیں ہیں۔ اس سے کچھ آدھے ہی اسرائیل میں رہتے ہیں۔ وہ اگر چاہیں تو بھی عرب ممالک یا پورے فلسطین کا آبادیاتی تناسب بگاڑنہیں سکتے۔ کشمیر میں تو مقابلہ ایک ارب ۲۵ کروڑ آبادی کے ساتھ ہے، جو چند ماہ میں ہی خطے کا آبادیاتی تناسب بگاڑ کر کشمیری عوام کو اپنے ہی گھروں میں اجنبی بنا دے گی۔
 ۲۰۱۴ء کے کشمیر اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے وادیِ کشمیر کے بجاے پوری توجہ جموں اور لداخ پر مرکوز کیے رکھی۔ امیت شا نے جموں کی ۱۳؍اور لداخ کی دو مسلم اکثریتی نشستوں پر مسلم ووٹ کو بے وقعت بنانے کے لیے زرکثیر خر چ کر کے مسلم امیدواروں کی فوج کھڑی کردی تھی۔ اس خطے کے مسلم علاقوں کا بھار ت کے مسلم اداروں خاص طور پر دارالعلوم دیوبند وغیرہ کے ساتھ نسبت اور رابطہ ہے، اس لیے کئی خیر خواہوں نے تجویز دی تھی: ’’اس علاقے میں بی جے پی کے رتھ کو روکنے کے لیے بھارتی مسلم زعما سے مدد لی جائے‘‘۔ دوسری جانب تشویش کی بات یہ بھی تھی کہ ’جماعت علما‘ کے نام کی ایک تنظیم ان علاقوں میں بی جے پی کے لیے ووٹ مانگ رہی تھی اور   عوام اس کو ’جمعیۃ العلماء‘ سے خلط ملط کر رہے تھے۔ خیرخواہوں نے دہلی میں جمعیۃ العلماء کے دروازوں پر دستک دے کر ان سے صورت حال کو واضح کرنے کی گزارش کی، مگر کسی کے کانوں پر جوں نہ رینگی۔ جب بہت خرابی ہوچکی تو جمعیۃ العلماء نے لاتعلقی کا ایک بیان جاری کیا، مگر تب تک انتخابی عمل ختم ہو چکا تھا۔ معلوم نہیں کہ یہ حرکت دانستہ تھی یا نادانستہ۔ بھارتی مسلمانوں کی اس تنظیم کے لیڈر نے بتایا ، کہ مشورہ کرنے کے بعد وہ اطلاع دیں گے کہ آیا وہ جموں اور لداخ کے مسلم علاقوں میں رہنمائی کے لیے کوئی ٹیم بھیجیں گے یا نہیں؟ بعد میں ان کا پیغام آیا کہ ’’مسلم لیڈران اپنے آپ کو کشمیر کی سیاست کے ساتھ نتھی نہیں کرنا چاہتے ہیں، اس لیے وہ دعا کے سوا کچھ نہیں کرپائیں گے‘‘۔ 
چند برس قبل کشمیر اسمبلی کے ایک رکن انجینئر عبدالرشید اور کچھ صحافیوں کے ہمراہ مولانا وحید الدین خان صاحب سے دہلی میں شرفِ نیاز حاصل ہوا۔ انجینیر صاحب رکن اسمبلی ہونے کے سبب کشمیر میں بھارتی جمہوریت کا چہرہ تھے۔ وہ بضد تھے کہ مولانا صاحب سے جموں وکشمیر کی صورتِ حال پر راے معلوم کر کے ان کے وسیع تجربے سے رہنمائی حاصل کی جائے۔ نمازِ ظہر تک مولانا کی تقریر اور سوال وجواب کا دلچسپ سلسلہ جاری رہا۔ ممبر اسمبلی نے مولانا کی توجہ کشمیر کی صورتِ حال خاص طور سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی جانب مبذول کراکے مسئلہ کشمیر کے پاے دار حل کے لیے مولانا کا نقطۂ نظر جاننا چاہا۔ 

مولانا وحید الدین خان صاحب نے مسئلہ کشمیر کا صرف ایک ہی حل بتایا: ’’کشمیری ’امن‘ کا راستہ اپنائیں، لیکن اس سے پہلے انھیں تسلیم کرناہوگاکہ ان کی گذشتہ کئی عشروں کی جدوجہد غلط تھی‘‘۔  رشید صاحب نے مولانا سے عرض کیا کہ امن کی خواہش کشمیریوں سے زیادہ کسی اور کو نہیں ہوسکتی، لیکن انصاف کے بغیر امن کاقیام کیسے ممکن ہے؟‘‘ تو مولانا نے فرمایا: ’’انصاف کو امن کے ساتھ جوڑنے والے لوگوں کی یہ ذہنی اختراع ہے۔ میرے نزدیک کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق حتمی ہے اور اس کو متنازع کہنے والے غیر حقیقت پسند ہیں‘‘۔جب ان سے پوچھا گیا: ’’جموںوکشمیر کے تنازعے کو تو خودہی بھارتی لیڈر اقوام متحدہ میں لے گئے تھے،اس میں کشمیریوں کا کیا قصور؟ وہ بے چارے تو صر ف وعدے کے ایفا ہونے کامطالبہ کرنے کے لیے جدوجہد کررہے ہیں‘‘۔ اس سوال پر مولانا غصّے سے لال پیلے ہوگئے اوروہاں سے اُٹھ کر دوسرے کمرے میں چلے گئے۔ کچھ منٹ انتظار کے بعدہم بھی وہاں سے واپس چلے آئے۔اس سے قبل میز پر ان کا لکھا ہوا ایک پمفلٹ دیکھا، جس میں انھوں نے کشمیری مسلمانوں کو ہدایت دی تھی، کہ اپنے کردار اور تبلیغ سے وہاں موجود ۷لاکھ بھارتی فوجیوں اور نیم فوجی دستو ں تک اسلام کا پیغام پہنچائیں، اور ان کے ساتھ دشمنی پر مبنی رویے کو بند کریں ۔سوال یہ ہے کہ کشمیریوں کو تبلیغ کا مشورہ دینے والے ہمارے یہ محترم مولانا صاحب پھر بھارت میں بسنے والے کروڑ ہندوؤں کو مسلمان کیوں نہیں بناتے۔ 
اگست ۲۰۱۹ء میں دہلی کے ’جنتر منتر چوراہے‘ پر بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں نے کشمیر پر ہونے والی آر ایس ایس کی فسطائی یلغار کے خلاف مظاہرے کا اہتمام کیا تھا، مگر وہاں بھارتی مسلمانوں کی کوئی تنظیم نہیں آئی۔ پچھلے ۲۶برسوں کے دوران کشمیر میں سیکورٹی ایجنسیوں اور اس کے حاشیہ برداروں کے ہاتھوں معصوم بچیو ں، لڑکیوں اور عورتوں کی عصمتیں پامال کی گئی ہیں، اس کا ہلکا سا اشارہ ایڈرین لیوی اور کیتھی اسکاٹ کلارک نے اپنی معرکہ آرا تصنیف The Meadows  [۱۹۹۵ء: ۵۷۶ صفحات] میں کیا ہے۔ ا ن برطانوی مصنّفین نے لکھا ہے: ’’کس طرح ایک سرکاری بندوق بردار نے ایک ماں کی گود سے اس کے شیرخوار بچے کو چھین کر اس کی آنکھوں کے سامنے ہی یخ بستہ پانی میں ڈبو دیا اور تڑپاتڑپا کر مارڈالا۔ اس کشمیری مسلمان خاتون کا قصور یہ تھا کہ اس نے اپنی عصمت اس بندوق بردار سرکاری اہلکار کے حوالے کرنے سے انکار کردیا تھا‘‘۔ کتاب کے مصنّفین نے ایک اور واقعے کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’راشٹریہ رائفلز کے زیرسایہ ایک اور سرکاری بندوق بردار نے ایک دیہاتی لڑکی نسیمہ کو اغوا کرکے اس وقت تک اسے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا، جب تک کہ وہ لڑکی حاملہ نہ ہوگئی۔ا سی دوران اس سرکاری بندوق بردار کی نگاہ نسیمہ کی بہن پر بھی پڑ گئی تو اسے بھی اغوا کرلیا۔ جب بدقسمت والدین نے پولیس میں شکایت کی تو دوسرے ہی دن بندوق بردار نے بھرے بازار میں پہلے تو اپنی بندوق کی نوک پر ہجوم کو اکٹھا کیا اور پھر آٹھ ماہ کی حاملہ نسیمہ کا لباس تار تار کرکے سب کے سامنے گولیاں اس کے پیٹ میں اتار دیں۔ نسیمہ نے وہیں دم  توڑ دیا اور اس کے پیٹ میں پلنے والا بچہ اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی موت کے آغوش میں چلاگیا۔ کشمیر کی موجودہ تاریخ ایسے اَن گنت واقعات سے بھری پڑی ہے! ‘‘
چند روزقبل دہلی کی شاہی جامع مسجدکے امام سید احمد بخاری صاحب نے شکوہ کیا: ’’کشمیری مسلمانوں نے کبھی ان کا ساتھ نہیں دیا‘‘۔ محترم بخاری صاحب کو معلوم ہونا چاہیے: ’’گذشتہ ۶۰برس میں جب بھی بھارت کے کسی کونے میں مسلمانوں کے ساتھ زیادتی ہوئی، تو کشمیریوں نے اپنے جلتے ہوئے گھروں کے شعلوں کو فوراًفراموش کرکے ان کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لیے کسی نہ کسی طرح سے اپنی آوازبلند کی۔ مراد آباد کے فسادات کے وقت کئی روز تک کشمیر بند رہا۔ سوپور میں تو مظاہروں کے دوران ایک شخص سرکاری فائرنگ کا نشانہ بن کر ہلاک بھی ہوگیا۔ یہ واقعی سخت شرم کی بات ہے کہ بھارت کے مسلم لیڈروں اور دانش وروں نے جموں وکشمیر میں روا رکھی جانے والی زیادتیوں کے متعلق اپنے منہ ایسے بند کیے ہیں، جیسے ان کی چابیاںہندو انتہا پسندوں کے پاس ہوں۔
ان بھارتی مسلمان لیڈروں کو کشمیرکے مسئلے کے حل کے حوالے سے کئی خدشات اور واہمے لاحق ہیں۔ سب سے پہلا وہم یہ ہے کہ اگر کشمیر الگ ہواتو ان کے بقول ملک کی اکثریتی آبادی پورے ملک کے مسلمانوں کو ملک دشمن اورعلیحدگی پسندوں کے طور پر دیکھے گی۔ غرض یہ کہ، مسلمان لیڈروں کی غالب اکثریت جموں و کشمیر کے سیاسی مسئلے کو عدل اور انصاف سے زیادہ اپنے اوپراس کے پڑنے والے اثرات کے نقطۂ نگاہ سے دیکھتی ہے اور اس مخصوص سوچ سے باہر نکلنے کے لیے وہ تیار نہیں۔ کوئی بھارتی مسلم دانش وَراورحساس طبقے سے یہ پوچھے کہ اگرآپ کشمیری مسلمانوں کو کسی بھی قیمت پر جدا نہیں کرنا چاہتے ہیں، تو پھرکم از کم جموں و کشمیر میں ہورہی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف کبھی اپنے لبوں کو معمولی سی جنبش دینے کی زحمت گوارا کیوں نہیں کرتے؟ آپ جموں وکشمیر میں روز ہونے والی زیادتیوں کے خلاف صرف اس لیے آواز اٹھانے سے گھبرارہے ہیں کہ کہیں آپ پر ملک دشمنی کا لیبل لگنے نہ پائے اور بھارتی انتہاپسندوں سے محفوظ رہیں۔

خوش آیند پہلو یہ ہے کہ بھارت میں مسلمان، عمومی طور پر کشمیر میں مسلمان بھائیوں کی حالت ِ زار پر خاصے اضطراب میں ہیں۔ پچھلے کئی برسوں کے دوران جب بھی مجھے بھارت کے اندرونی اور دُوردراز علاقوں کا دورہ کرنے کا موقع ملا ، تو عوام کو کشمیر کے سلسلے میں خاصا فکرمند پایا۔ چند برس قبل خواجہ معین الدین چشتی درگاہ کے دیوان زین العابدین اور خادم پیر نسیم میاں نے جب یہ اعلان کیا: ’’ہم اپنے حامیوں اور مریدوں کی فوج سرینگر لے جا کر ایک ہزار بھارتی پرچم لہرائیں گے‘‘ تو وہ خود اپنے ہی مریدوں کی ناراضی کا شکار ہوگئے۔ بریلی میں حضرت امام احمد رضا خاں بریلویؒ کے خانوادے کے ایک رہنما نے مجھے بتایا:’’ہماری گردن شرم سے جھک جاتی ہے کہ بے بس اور مظلوم کشمیری بھائیوں کی کوئی مدد کرنے سے قاصر ہیں، اس لیے خاموشی کو ترجیح دیتے ہیں‘‘۔ 
امیر جماعت اسلامی ہند، سیّد سعادت اللہ حسینی نے ۷؍اگست کو اپنے بیان میں کہا:  ’جموں و کشمیر سے متعلق بھارتی حکومت کے اقدامات، پارلیمانی جمہوریت کے مسلّمہ اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہیں۔ دفعہ۳۷۰ کے تحت ریاست کی خصوصی حیثیت کو وہاں کے عوام اور ان کے نمایندوں سے مشاورت کے بغیر یک طرفہ، محض صدارتی حکم نامے کے ذریعے یک لخت ختم کر دیا گیا ہے۔ اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا، بلکہ جموں و کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔کشمیر کے عوام کے بنیادی حقوق مجروح کیے جارہے ہیں۔ ریاست میں فوجی چوکیاں غیرمعمولی طور پر بڑھانا اور جبر کے اس ماحول میں یک طرفہ فیصلوں کو مسلط کرنا باعث تشویش ہے۔ ان یک طرفہ فیصلوں اور اقدامات کو واپس لیا جائے۔ گرفتار قائدین کو رہا کیا جائے، تعلیمی ادارے کھولےجائیں، عوام کی نقل و حرکت اور مواصلات پر پابندیاں ہٹائی جائیں اور خوف و دہشت کا ماحول ختم کیا جائے۔ جموں و کشمیر کے معاملات وہاں کے عوام اور ان کے نمایندوں کے ساتھ بات چیت اور ان کی مشاورت ہی سے طے ہونے چاہییں‘___ پھر  امیرجماعت اسلامی ہند، سیّد سعادت اللہ حسینی نے یکم اکتوبر کو پریس کانفرنس میں کہا: ’ہم چاہتے ہیں کہ حکومت کشمیری عوام پر سے سخت پابندیوں کو ہٹائے۔ وہاں کے لوگ تقریباً دو ماہ سے انٹرنیٹ اور مواصلاتی سہولیات سے محروم ہیں۔ ریاست کے سیاسی قائدین کو نظربند کرنا جمہوری اقدار کے خلاف ہے۔ تنظیم براے انسانی حقوق اور  سول سوسائٹی کی سربراہی میں فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے وادیِ کشمیر کے سلسلے میں جورپورٹیں پیش کی ہیں، وہ شدید تشویش کا باعث ہیں۔ ان میں کہا گیا ہے کہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر نوجوانوں کو قید کیا جارہا ہے، احتجاج پر قابو پانے کے لیے ضرورت سے زیادہ فوج تعینات کی گئی ہے اور طب و صحت کی سہولیات بھی بُری طرح متاثر ہیں‘۔
مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور حیدرآباد سے رکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی نے، جموں و کشمیر پر غیرآئینی حملہ کرنے کی مذمت کی اور اس کی خصوصی حیثیت ختم کرنے پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا: ’’گوڈسے کی اولاد کے ہاتھوں ناگالینڈ، میزورام، نئی پور اور آسام پر بھی ایسا وار ہوسکتا ہے‘‘۔ مولانا توقیر رضا خاں بریلوی نے کہا: ’’دفعہ ۳۷۰ کے خاتمے کے ساتھ کشمیر پر جو ظلم ہورہا ہے، وہ محض کشمیریت کا نہیں بلکہ انسانیت کا بھی نقصان ہورہا ہے۔ ہم خود کشمیر جاکر برسرِزمین، حالت ِ زار دیکھنا چاہتے ہیں۔ مسلمانوں کے بارے میں ہندستان کے عوام کو گمراہ کیا جارہا ہے ۔ کشمیر پر روا اس ظلم کا واحد سبب، اس علاقے کا مسلم اکثریتی علاقہ ہونا ہے‘‘۔

کتنی حیرت کا مقام ہے کہ اسیرانِ مالٹا مولانا محمودحسنؒ اور مولانا سیّد حسین احمد مدنیؒ کے جانشین، اپنے بیانات اور اقدامات سے کشمیری عوام کے زخموں کو مزید کریدکر ناسور بنار ہے ہیں۔ تاریخ خاصی بے رحم ہوتی ہے۔آئین کی دفعات اور ملک تحلیل ہو سکتے ہیں، مگر قانونِ قدرت تحلیل نہیں ہوسکتا۔ تاریخ کا پہیہ ساکت نہیں رہتا، اور اُس قوم کے لیے خاصا بے رحم ثابت ہوتا ہے، جو اکثریت اور طاقت کے بل بوتے پر کمزور اور ناتواں کی زندگیاں اجیرن بنادے۔ بے بسی پر ہنسنے والو، تاریخ سے سبق لے کر مستقبل کے آئینے میں اپنی بربادی کا منظر دیکھو۔ چلیے اگر درد کا علاج نہیں کرسکتے تو درد کی لاج رکھنے کے لیے خاموش ہی رہو   ع  ’شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات‘۔

بھارت کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی ، جب بھارتیہ جنتا پارٹی کے جنرل سیکرٹری تھے، تو ایک دن پارٹی صدر دفتر میں پریس بریفنگ کے دوران ’’بھارت کی روایتی مہمان نوازی ، ہندو کلچر کے بے پناہ برداشت اور تحمل‘‘ پر گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’’صدیوں سے بھارت نے غیر ملکیوں کو پناہ دی اور ان کو سر آنکھوں پر بٹھا کر بلندیوں تک پہنچایا‘‘۔ روزنامہ دی ہندو میں سیاسی اُمور کی ایڈیٹر نینا ویاس نے سوال کیا:’’آپ کی پارٹی نے پھر اس تاریخی ہندو کلچر کے برعکس ، بنگلہ دیشی پناہ گزینوں کو ملک بدر کرنے کے مطالبے کو انتخابی موضوع کیوں بنایا ہے؟‘‘ اس پر مودی کا پارہ چڑھ گیا اور انھوں نے پریس بریفنگ ختم کرنے کا اعلان کیا۔ اسی طرح ایک بار بی جے پی کی مجلس عاملہ کے اجلاس میں سیاسی قرارداد پر بحث کے دوران ایک مسلمان ممبر نے، جو اٹل بہاری واجپائی حکومت میں وزیر بھی تھے ، شکوہ کیا: ’’پارٹی کو دیگر فرقوں کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ قرار داد صرف مسلمانوں کی مخالفت کے ایشوز سے بھری پڑی ہے۔ قرارداد میں بنگلہ دیشیوں کی شناخت کرکے ان کو ملک بدر کرنا، جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنا، یونیفارم سول کوڈ نافذ کرنااور بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر وغیرہ، یہ سبھی ایشو تو مسلمانوں ہی کے متعلق ہیں‘‘۔

حال ہی میں شمال مشرقی صوبہ آسام میں غیر ملکیوں کو ملک بدر کرنے سے قبل ان کی شناخت کا مرحلہ اور اس کے نتائج حکمران بی جے پی کے لیے ایک طرح سے سانپ کے منہ میں چھچھوندر والا معاملہ بن گیا ہے  اور ’نیشنل رجسٹریشن آف سٹیزنز‘ یعنی NRC  کی لسٹ ، ان سے نگلتے نہ اُگلتے بنتی ہے۔ نگلے تو اندھا، اگلے تو کوڑھی والی مثال ہندو فرقہ پرستوں پر صادق آرہی ہے۔ سپریم کورٹ کی مانیٹرنگ اور سات سال کی عرق ریزی کے بعد صوبہ کی۹۰ لاکھ ۳۹ ہزار آبادی میں ۱۹لاکھ ۶ ہزار افراد ایسے پائے گئے، جو شہریت ثابت نہیں کرسکے۔ برسرِزمین کام کرنے والے رضا کاروں کے مطابق: ’’ان میں سے۱۱ لاکھ افراد ہندو ہیں اور صرف ۸لاکھ ہی مسلمان ہیں‘‘۔ اُن میں سے بھی بیش تر ایسے ہیں، جو فارم وغیرہ بھرنے میں غلطیاں کرگئے۔ خاندان کے متعدد افراد میں ناموں کے ہجے کا فرق ہے۔

۲۰۱۱ءکی مردم شماری کے مطابق آسام میں مسلمانوں کی آبادی ۳۴ء۲۲ فی صد ہے اور تناسب کے اعتبار سے بھارت میں جموں و کشمیر کے بعد مسلمانوں کی سب سے بڑی آبادی ہے۔  اس لیے۹؍اضلاع میں ان کی واضح اکثریت فرقہ پرستوں کی آنکھوں میں کھٹکتی آرہی ہے۔ گذشتہ سال این آرسی کی پہلی فہرست آئی تھی اُس میں تقریباً ۴۰ لاکھ افراد کے نام شامل نہیں تھے، فہرست میں بے شمار غلطیاں تھیں۔ بہت سے ایسے تھے جن کااپنا نام توشامل تھا، لیکن ان کے لڑکوں کا نہیں تھا۔ کسی لڑکے کا تھا تو اْس کے والدین میں دونوں یا کسی ایک کا نام شامل نہیں تھا۔ ایسا بھی تھا کہ ماں کی جگہ بیوی کا نام، بیوی کی جگہ بہن کا نام درج کیا گیا تھا۔

ابھجیت شرما ، جن کی درخواست پر سپریم کورٹ نے شہریوں کی شناخت کرنے کا آپریشن شروع کیا تھا، ان کا کہنا ہے کہ ’’نتائج ان کی توقع کے برعکس ہیں‘‘۔ گوہاٹی سے فون پر راقم سے ان کا کہنا تھا: ’’غیر ملکی افراد کی تعداد ۴۰سے ۵۰لاکھ کے قریب ہونی چاہیے تھی۔ فی الحال جن ۱۹لاکھ افراد کی شہریت پر سوالیہ نشان لگا ہے، ان میں بیش تر ایسے لوگ ہیں ، جو صدیوں سے آسام میں رہ رہے ہیں‘‘۔ شرما نے اب سپریم کورٹ میںشہریوں کی فہرست کی از سر نو تصدیق کی درخواست کی ہے، اور پوچھا ہے: ’’ اس پورے عمل پر ۱۳؍ارب روپے کیسے خرچ ہوئے ہیں؟‘‘ اسی طرح بھارتیہ گھورکھا پری سنگھ کی آسام شاخ کے سربراہ نیتیانند اوپادھیائے نے بتایا: ’’ہماری کمیونٹی کے تقریباً ایک لاکھ افراد شہریت کی فہرست میں نہیں ہیں، یعنی ان کو غیر ملکی قرار دیا گیا ہے‘‘۔ نیپال نژاد گھورکھا جوان، بھارتی فوج میں کام کرتے ہیں ۔ ان کی شہریت سے بے دخلی کے دورس نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ 

آل آسام اسٹوڈنٹس یونین (AASU)، جس نے ۸۰ء کے عشرے میں آسامی بمقابلہ غیرآسامی کے ایشو کو لے کر احتجاجی تحریک کی قیادت کی تھی، کا کہنا ہے: ’’این آر سی کی فہرست ہم کو منظور نہیں ہے۔ یہ تعداد حکومت کے اپنے اعداد و شمار سے بھی کم ہے‘‘۔ ۲۰۱۶ءمیں وزیرمملکت براے داخلہ نے پارلیمان کو بتایا تھا:’’ملک بھر میں تقریباً۲کروڑ غیرقانونی بنگلہ دیشی مقیم ہیں۔  اس سے قبل۲۰۰۴ء میں ایک اور وزیر داخلہ سری پرکاش جیسوال نے یہ تعداد ایک کروڑ ۲۰لاکھ  بتائی تھی اور ان کا کہنا تھا اس میں ۵۰ لاکھ آسام میں مقیم ہیں۔

جغرافیائی اعتبار سے صوبہ آسام تین حصوں میں بٹا ہوا ہے: نشیبی آسام مغربی علاقہ ہے، بالائی آسام مشرقی علاقہ ہے، اور بارک وادی جنوب میں واقع ہے۔آسام  بنیادی طور پر ایک قبائلی ریاست ہے، جہاں کی تقریباً۴۰ فی صد آبادی مختلف قبائل پر مشتمل ہے، مگر ان کو زبردستی ہندو بنا کر رکھا گیا ہے۔ دوسری طرف مسلمانوں اور بنگلہ دیشی پناہ گزینوں کے نام پر ان کو خوف کی نفسیات میں مبتلا کرکے بی جے پی صوبہ کی راے عامہ اپنے حق میں ہموارکر نے میں کامیاب ہوگئی۔

معروف تجزیہ کار کلیان بروا کے مطابق: ’’مسلم اکثریتی علاقوں میں نہایت کم افراد غیرملکیوں کی فہرست میں شامل کیے گئے ہیں‘‘۔ جب یہ مشق شروع ہوئی تو معلوم تھا کہ اس کا ہدف مسلمان ہی ہوں گے۔ اس لیے مسلم تنظیموں خاص طور پرجمعیۃ علما ہند ، اس کے مقامی لیڈر مولانا بدرالدین اجمل، ان کے رفقا اور کئی غیر سرکاری تنظیموں نے مسلمانوں کو دستاویزات تیار کرانے اور قانونی مدد فراہم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ مولانا اجمل آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ (AIUDF) کے سربراہ اور لوک سبھا کے ممبر بھی ہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی اور کئی دیگر اداروں سے مسلم طلبہ نے بھی رضاکارانہ طور پر ان سے تعاون کیا۔ دُور دراز کے علاقوں میں پہنچ کر ان نوجوانوں نے شہریت ثابت کرنے کے لیے مطلوب دستاویزات تیار کرنے میں لوگو ں کی مدد کی۔

کلیان بروا کے نزدیک: ’’چونکہ ہندو اس عمل سے زیادہ خائف نہیں تھے، انھوں نے اس کو سنجیدگی سے نہیں لیا، جس کی وجہ سے ان کی خاصی تعداد شہریت کی فہرست سے باہر ہوگئی ہے۔ اب،جب کہ بی جے پی کے ہی ووٹروں کی اچھی خاصی تعداد غیر ملکیوں کے زمرے میں آگئی ہے ، بی جے پی نے اس این آر سی کے پورے عمل پر سوالیہ نشان کھڑے کر دیے ہیں۔ آسام کے وزیرخزانہ اور بی جے پی کے مقتدر لیڈر ہیمنت بیسواسرما نے این آر سی کے عمل میں متعین افسران پر اپنا غصہ نکالتے ہوئے کہا ہے کہ: ’’ان افسران نے۱۹۷۱ءمیں بنگلہ دیش سے ہجرت کرکے آئے ہندو ؤں کو دی گئی ریفیوجی اسناد کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔اور بھگوان کرشنا، بھگوتی درگا کے ماننے والوں کو غیر بھارتیہ قرار دیا گیا ہے۔ آسام میں مقیم بنگلہ دیشی اب بھارت کے دیگر علاقوں میں   بس گئے ہیں۔ اس لیے آسام کی طرز کا آپریشن پورے ملک میں لاگو کیا جانا چاہیے، جس پر ۱۷کھرب روپے لگیں گے‘‘۔

’مہاجرین کے بحران‘ پر کام کرنے والے سہاس چکما کا کہنا ہے: ’’آسام میں آبادی کو یہ ثابت کرنا تھا کہ ۲۴مارچ۱۹۷۱ء سے قبل وہ اسی صوبے میں مقیم تھے، جو بہت مشکل کام ہے۔ ۱۹۷۱ءمیں آسام کی ۴۴فی صد آبادی خواندہ تھی۔ باقی آبادی آخر کہاں سے پیدایشی سند حاصل کرے؟ اس عمل میں اکثر بے زمین مزدور شہریت ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں‘‘۔ سہاس چکما کا کہنا ہے: ’’چائے کے باغات میں کام کرنے والے قبائلیوں کو چھوڑ کر کوئی بھی کمیونٹی آسام کی اصل رہایشی ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتی‘‘۔ آل انڈیا ڈیموکریٹک فرنٹ کے جنرل سیکرٹری امین الاسلام کا کہنا ہے: ’’پچھلے ۴۰برسوں سے مسلمانوں کے سروں پر شہریت کی جو تلوار لٹک رہی تھی،   وہ ہٹ گئی ہے، کیوں کہ سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق شہریت کا پیمانہ مذہب نہیں ، بلکہ ’آسام ایکارڈ‘ تھا، جس کی رُو سے ’’مارچ ۱۹۷۱ءتک آسام میں رہنے والوں کو شہری تسلیم کرنا تھا‘‘۔

سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق پہلا، یعنی شناخت کا مرحلہ ختم ہو گیا ہے۔ دوسرا مرحلہ  ووٹر اور شہریت کی فہرست سے ایسے افراد کا اخراج کرنا ہے۔ تیسرے مرحلے میں ملک بدر کرنا۔ حکومت پریشان ہے کہ ہندوؤں کی اتنی بڑی تعداد کو کہاں بھیجے؟ حکومت قانون میں ترمیم کرنا چاہتی ہے کہ: ’’بنگلہ دیش، پاکستان،ا ور افغانستان سے بھارت آنے والے ہندو، سکھ، جین اور پارسی بھارتی شہریت کے حق دار ہوں گے‘‘۔ اس کے لیے ان کو کوئی بھی دستاویز پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ لیکن دوسری طرف اگر ملک بدر یا نظر بند ہوں گے تو، صرف مسلمان ہی ہوںگے۔

تقسیم ہند ۱۹۴۷ء اور ۱۹۷۱ء میںسقوط مشرقی پاکستان کے عرصے کے دوران مجموعی طور پر دعوئوں کے مطابق تقریباً ایک کروڑ افراد ہجرت کرکے شمال مشرقی ریاستوں میں بس گئے تھے۔ ۱۹۷۱ء میں تو پاکستان کو سفارتی سطح پر زچ کرنے کے لیے سرحدیں کھول دی گئیں تھیں۔ لیکن جب بنگلہ دیش وجود میں آیا تو اکثر لوگ واپس اپنے گھروں میں چلے گئے۔۱۹۷۸ء سے ۱۹۸۵ء کے درمیان آل آسام اسٹوڈنٹس یونین سمیت کچھ تنظیموں نے پروپیگنڈا شروع کیا کہ ’’بہت سے پناہ گزین بنگلہ دیش جانے کے بجاے آسام میں بس گئے ہیں‘‘۔۱۹۷۸ء کے انتخابات میں ۱۷مسلمان اسمبلی کے لیے منتخب ہو گئے، جس پر آسمان سر پر اٹھا لیا گیا: ’’آسام کو ’اسلامی ریاست‘ میں تبدیل کرنے کے لیے بنگلہ دیشی مسلمانوں کا ریلا چلا آرہا ہے‘‘۔پہلے تو غیر آسامیوں، یعنی ہندی بولنے والوں کے خلاف تحریک شروع کی گئی، پھر اس کا رُخ خاص کر بنگلہ دیشیوں کے خلاف موڑدیا گیا۔ بعدازاں اسے آر ایس ایس اور دیگر فرقہ پرستوں کی شہ پر خوں ریز مسلم مخالف تحریک میں تبدیل کردیا گیا، جس میں ہزاروں بے گناہ مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کی جانیں لیں، مسلمان عورتوں کی بے حُرمتی اورکروڑوں روپے مالیت کی جایدادیں تباہ و برباد کی گئیں۔

آسام میں ’بنگلہ دیشی‘ کہہ کر مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی، جس میں ۱۶فروری ۱۹۸۳ءکو نیلی (Nillie: ضلع ناگائوں) اور چولکاوا میں قتل عام کے روح فرسا واقعات کبھی فراموش نہیں کیے جاسکتے، جن میں تقریباً ۳ ہزار (غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۱۰ ہزار) افراد کو محض چھے گھنٹوں میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیاتھا۔ اس المیے کی تحقیقات کے لیے ’تیواری کمیشن‘ نے ۶۰۰صفحوں پر پھیلی مفصل رپورٹ میں ظلم کی رُوداد کو مرتب کیا، جو فروری ۱۹۸۴ء میں شائع ہوئی۔ پھر ۱۵؍اگست ۱۹۸۵ء کو بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی کی مرکزی حکومت، آسام حکومت اور احتجاجی طلبہ لیڈروں کے درمیان معاہدہ ’آسام آکارڈ‘ وجود میں آیا۔پولیس نے نیلی قتل عام میں ملوث ۶۸۸؍ افراد کے خلاف فردِ جرم عائد کی، مگر ’آسام اکارڈ‘کی ایک شرط کے تحت معلوم قاتلوں اور فسادیوں کے خلاف قتل کے تمام مقدمات واپس لے لیے گئے۔ اس طرح آج تک مسلمانوں کی اس نسل کشی کے لیے کسی ایک قاتل اور فسادی کو سزا تک نہیں ملی۔

بنگالی مسلمانوں کے خلاف یہ مہم چلانے والی ’آل آسام سٹوڈنس یونین‘ کے بطن سے نکلی ’آسام گن پریشد‘ کو بطور انعام اقتدار سونپ دیا گیا۔معاہدے کے مطابق مارچ ۱۹۷۱ء (کو ایک حتمی تاریخ) بنیاد مان کر اس سے پہلے آسام آکر رہایش اختیار کرنے والوں کو شہری تسلیم کیا گیا تھا۔ چنانچہ اس معاہدے کے بعد مر کزی حکومت نے پارلیمنٹ میں ایک ترمیمی بل کے ذریعے ’’شہریت کے قانون مجریہ ۱۹۵۵ء‘‘ میں سیکشن ۶ (الف) داخل کر کے اسے منظور کیا،جس پر اس وقت کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ بشمول کانگریس، بی جے پی،کمیونسٹ جماعتوں، نیز تمام غیرسیاسی وسماجی تنظیموں نے بھی اسے تسلیم کیا تھا۔ چونکہ یہ مسئلہ ریاست میں مسلمانوں کو ایک سیاسی قوت بننے سے روکنے کی غرض سے کھڑا کیا گیا ہے۔ اس لیے پہلے ۲۰۰۹ء میں اور پھر ۲۰۱۲ء میں آسام سنمیلیٹا مہاسنگھـ سمیت مختلف فرقہ پرست اور مفاد پرست افراد اور تنظیموں نے سپریم کورٹ میں اس معاہدے کے خلاف مفاد عامہ کی ایک عرض داشت داخل کرکے ۵مارچ ۱۹۷۱ءکے بجاے، ۱۹۵۱ءکی ووٹرلسٹ بنیاد پر آسام میں شہریت کا فیصلہ کرنے کی استدعا کی۔ نیز اسی طرح مذکورہ معاہدے کی قانونی حیثیت اور پارلیمنٹ کے ذریعے’شہریت کے ترمیمی قانون ۱۹۵۵ء‘ کو بھی چیلنج کیا گیا۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے ۱۹۷۱ءکو بنیاد تسلیم کرتے ہوئے شہریوں کی ایک نئی فہرست تیار کرنے کا فرمان جاری کیا۔ ممبر پارلیمنٹ اجمل نے جو ریاست کی ڈھبری حلقے سے پارلیمنٹ میں نمایندگی کرتے ہیں، ان کی جماعت کے ریاستی اسمبلی میں ۱۳؍ ارکان ہیں۔ ان کے بقول: ’’سابق کانگریسی وزیر اعلیٰ ترون گو گوئی نے اپنے ۱۵سالہ دورِ حکومت (۲۰۰۱ء-۲۰۱۶ء) میں ریاست کی لسانی اور مذہبی اقلیتوں کو تین کاری ضربیں لگائیں: پہلے انھوں نے۲۰۰۵ء میں آئی ایم ڈی ٹی ایکٹ کا سپریم کورٹ میں کمزور دفاع کرکے اس کو منسوخ کرایا، جس کے تحت کسی شخص کو غیر ملکی ثابت کرنے کی ذمہ داری انتظامیہ پر تھی۔ بنگلہ دیش سے آنے والوں کا پتا لگانے اور شناخت کرنے کی غرض سے آئی ایم ڈی ٹی ایکٹ ۱۹۸۳ء میں پاس کیا گیا تھا۔ اس ایکٹ کے تحت کسی فرد کو غیر ملکی ثابت کرنے کی ذمہ داری استغاثہ پر تھی ۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اس کو ختم کردیا گیا ۔ اس کے بعد ان کی حکومت نے آسام میں ’بارڈر پولس ڈیپارٹمنٹ‘ تشکیل دے کر اسے اس بات کا مکمل اختیار دے دیا کہ وہ جسے چاہے غیر ملکی قرار دے کر گرفتار کرسکتا ہے۔ ہزاروں معصوم لوگ اس ڈیپارٹمنٹ کے ظلم و ستم کا شکار ہو چکے ہیں۔ واضح رہے کہ ملک کی دیگر ریاستوں میں اس طرح کا کوئی محکمہ نہیں ہے۔ مزید ستم یہ کیا گیا کہ گرفتار شدہ لوگوں سے راشن کار ڈ بھی چھین لیے گئے‘‘۔

 مسلمانوں کو کس حد تک پاور اسٹرکچر سے باہر رکھنے کا کام کیا گیا، اس کی واضح مثال بھارتی حکومت اور ’بوڈو لبریشن ٹائیگرز‘ (BLT) کے درمیان۲۰۰۵ء کا معاہدہ ہے، جس کی رُو سے   آسام کے کھوکھرا جار اور گوپال پاڑہ میں بوڈو علاقائی کونسل قائم کی گئی۔ یہ معاہدہ جنوبی افریقہ کی سفیدفام اقلیت کی نسلی حکمرانی (اپارتھیڈ رول) کی یاد دلاتا ہے۔ کیوں کہ جن اضلاع میں یہ کونسل قائم کی گئی، ان میں بوڈو قبائل کی تعداد محض ۲۸ فی صد ہے۔ بنگالی بولنے والی آبادی نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ۸۰ء کے عشرے میں ’یونائیٹڈ مائنارٹیز فرنٹ‘ (UMF) کے نام سے ایک سیاسی تنظیم بنائی تھی، لیکن یہ تجربہ باہمی اختلافات کی وجہ سے زیادہ کامیاب نہ ہو سکا، حالانکہ اسے اسمبلی اور پارلیمنٹ میں قابل ذکر کامیابی ملی تھی۔ فرنٹ سے منتخب ہونے والے رکن پارلیمان بیرسٹر ایف ایم غلام عثمانی اور دیگر لیڈر کانگریس میں چلے گئے۔ ریاست کے حالات اور کانگریسی حکومت کے رویے سے مایوس ہو کر اکتوبر ۲۰۰۵ء میں اس تجربے کا احیا کیا گیا۔ چنانچہ صوبے کی ۱۳ملّی تنظیموں نے ایک نیا سیاسی محاذ ’آل انڈیا ڈیموکریٹک فرنٹ‘ (AIDF)کے نام سے تشکیل دیا۔ اس کی تشکیل میں ایڈووکیٹ عبدالرشید چودھری کا اہم کردار رہا، لیکن وہ بے زری کے سبب قیادت نہ نبھاسکے۔ چنانچہ قرعہ فال عْود اور عطر کے بڑے تاجر مولانا بدرالدین اجمل قاسمی صاحب کے نام نکلا۔ ان کی قیادت میں فرنٹ ریاست میں حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت بن گئی۔

آسام کا دوسرا بڑا مذہب اسلام ہے، جہاں ۱۳ویں صدی میں سلطان بختیار خلجی کے دور میں مسلمانوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس وقت تک آہوم سلطنت وجود میں بھی نہیں آئی تھی۔جب برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی نے ۱۷۵۷ءمیں جنگ پلاسی کے بعد بنگال پر قبضہ کیا، تو اس کے زیر تسلط آسام کا علاقہ بھی آیا۔ کمپنی نے یہاں بڑے پیمانے پر بنگالیوں کو لاکر بسانا شروع کیا۔ چونکہ آسام میں زمینیں زرخیز تھیں اورمشرقی بنگال سے بڑی تعداد میں بے زمین کسان یہاں آکر آباد ہوگئے،ان میں ۸۵فی صد مسلمان تھے۔ آج تین صدیوں سے آباد انھی مسلمانوں کو ’غیر ملکی یا بنگلہ دیشی‘ قرار دے کر ان کے لیے زمین تنگ کی جارہی ہے۔ 

ریاست میں اکثر یت قبائلی فرقوں کی ہے، جو کل آبادی کا لگ بھگ ۴۰ فی صد ہیں۔ قبائلیوں کی کل ہند تنظیم راشٹریہ آدیواسی ایکتا پریشد کے نیشنل کو آرڈی نیٹر پریم کمار گیڈو کہتے ہیں: ’’آئین ہندکی رو سے قبائلی ہندو نہیں ہیں۔ پھر مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا فیصلہ بھی موجود ہے، جس نے قبائلیوں کو غیر ہندو قرار دیا ہے‘‘۔ چنانچہ ریاست میں ہندو حقیقی معنوں میں اکثریت میں نہیں ہیں۔یہ چیز بھی فرقہ پرستوں کو کھٹکتی ہے۔ انھوں نے مسلمانوں کی شہریت چھیننے اور ان کو بے حیثیت کر نے کی کوششیں شروع کی تھیں، اور یہ معاملہ برما کے اراکانی مسلمانوں سے بھی سنگین تر ہوتا جا رہا تھا۔ سرکار ی اعداد و شمار کے مطابق اگست ۲۰۱۷ءسے جاری اس کارروائی میں اب تک ۳۹ہزار ۵سو ۸۹؍ افراد کو غیر ملکی قرار دے کر حراستی کیمپوں میں نظر بند کیا جا چکا تھا۔

انصاف کے دہرے معیار کی اس سے بڑھ کر اور کیا مثال ہو سکتی ہے کہ ایک طرف آسام میں مذہب کی بنیاد پر شہریت میں تفریق کی جارہی ہے، تو دوسری طرف بھارت کی مرکزی حکومت لاکھوں غیرملکی ہندو پناہ گزینوں کو شہریت دلانے کے لیے قانون سازی کر رہی ہے۔اس سے بڑی اور کیا ستم ظریفی ہوسکتی ہے کہ آسام میں تو مقامی ہندو آبادی کی نسلی اور لسانی برتری قائم رکھنے کے لیے لاکھوں بنگالی نژاد مسلمانوں کو بنگلہ دیشی قرار دے کر شہریت سے محروم کر نے کی کوشش ہو رہی ہے، وہیں دوسری طرف جموں و کشمیر کی نسلی ، لسانی و مذہبی شناخت کو ختم کرنے کے لیے علانیہ دوہرے پیمانے صرف اس لیے اختیار کیے جا رہے ہیں کہ آسام کی ۳۵ فی صد اور جموں و کشمیر کی ۶۸ فی صد مسلم آبادی ہندو فرقہ پرستوں اور موجودہ بھارتی حکومت کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے۔ بھارتی حکومت کے حالیہ اقدامات کا مقصد یہ ہے کہ ہندو فرقہ پرست دیگر ریاستوں سے ہندو آبادی کو کشمیر میں بساکر مقامی کشمیری مسلمانوں کو اپنے ہی وطن میں اقلیت میں تبدیل کردیں۔

چاروں طرف پہاڑوں سے گھرے ازبکستان [آبادی: ایک کروڑ ۸۴ لاکھ اور رقبہ ۲۷ لاکھ ۲۴ہزار ۹۰۰ مربع کلومیٹر] کے درو دیوار خاصی حد تک کشمیر سے مماثلت رکھتے ہیں۔ اس علاقے کے سفر سے معلوم ہوتا ہے کہ کشمیر جنوبی ایشیا سے زیادہ وسطی ایشیا کے قریب ہے۔ فن تعمیر، رہن سہن، خوراک، غرض ہر چیز میں کشمیر کی پرچھائیں نظر آتی ہیں۔ تاشقند اور سمر قند کے درمیان ۴۵۰کلومیٹر طویل شاہراہ پر سڑک کے دونوں اطراف درختوں کی ایستادہ قطاریں سرینگر، بارہمولہ، مظفر آباد روڈ کی یاد تازہ کرتی ہیں۔

ایرانی نژاد میر سیّد علی ہمدانیؒ [۱۳۱۴ء-۱۳۸۴ء]نے بھی اسی خطے کو وطن بنایا۔ وہ  سات سو مبلغوں اور ہنرمندوں کے قافلے کے ساتھ وادیِ کشمیر میں تشریف لائے، جو جنوبی ایشیا کا خطہ ہے۔یہاں پر بڑی تعداد میں اونچی ذات کے ہندو یا برہمن سیّدعلی ہمدانیؒ کی تبلیغ سے اسلام کی پناہ میں آگئے۔ ان کی آخری آرام گاہ تاجکستان کے شہر کلوب میں ہے۔ پھر بخارا کے نواح میں سلسلۂ نقشبندیہ کے بانی محمد بہاؤالدین نقشبندیؒ [۱۳۲۷ء- ۱۳۹۰ء]کا مزار ہے۔ سمر قند اور بخارا میں خانقاہوں کی کثر ت ہے، جن کی حالت اس وقت بہت ناگفتہ بہ ہے۔ یہ کسی زمانے میں تلاشِ حق کے مسافروں، صوفیوں اور درویشوں کی پناہ گاہ ہوا کرتی تھیں۔ ایک معمر ازبک تیمور تیلیفوف کے مطابق: ’’انیسویں صدی تک یہ خانقاہیں ، ان درویشوں سے آباد رہتی تھیں، جو ترکی اور جنوبی ایشیا سے روحانی فیض حاصل کرنے کے لیے ازبکستان کا رخ کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا: ’’ہمارے بزرگ بتاتے تھے کہ درویشوں کی آمد ایک طرح سے جشن کا سا ماحول بنادیتی تھی اور ان کو کھانا وغیرہ پہنچانے کے لیے مقامی آبادی میں مقابلہ آرائی ہوتی تھی۔ اشتراکی روس کے استبدادی اور سامراجی دور میں خانقاہوں پر تالے لگائے گئے۔ سرحدیں بند ہوگئیں، لوگوں کا آنا جانا بند کردیاگیا ۔ اس طرح تمدن و تہذیب کے صدیوں پرانے رشتے ٹوٹ گئے۔

سکندر اعظم [م:۳۲۳ ق م]اور چنگیز خان [م: ۱۲۲۷ء]کے گھوڑوں کی ٹاپیں، امیرتیمور[۱۴۰۵ء] کی جلالی نگاہیں، محمد شیبانی خان [م: ۱۵۱۰ء]اور مغل شاہزادے ظہیرالدین بابر [م:۱۵۳۰ء]کی معرکہ آرائیاں اور پھر گذشتہ صدی عیسوی کے چوتھے  عشرے میں اشتراکی روسی فوج کی بمباری، ازبکستان کی تاریخ کے سنگ ِ میل ہیں۔ یہ ملک ایک طرح سے قدیم اور وسطی دور کی شاہراہ ریشم کا مرکز تھا۔ اناطولیہ (ترکی)اور بحر روم سے چین اور دوسری طرف جنوبی ایشیا سے یورپ و افریقہ کو ملانے والی شاہراہیں سمر قند کے ریگستانی چوراہے پر بغل گیر ہو جاتی تھیں۔ موجودہ ازبک صدر شوکت مرزیوف کے مطابق: ’’ازبکستان، چین کے ’بلٹ روڑ پروجیکٹ ‘ کے مکمل ہونے کے بعد ایک بار پھر تہذیب و تمدن کا گہوارہ بنے گا‘‘۔ ازبکستان ترکی کی قیادت میں ترک کونسل کا ممبر بھی بننے والا ہے۔ ترک نسل کے ملکوں پر مشتمل اس تنظیم میں آذربائیجان، قازقستان، کرغیزستان اور ترکی شامل ہیں، جو مشترکہ تہذیب، وراثت، شناخت اورکلچرکی پاسداری کے لیے یک جا ہوئے ہیں۔

ازبکستان کی فرغانہ وادی سے ہی نوجوان سردار ظہیر الدین بابر نے پامیر اور ہندو کش کے بلند و بالا پہاڑوں کو عبور کرکے پہلے کابل اور پھر درۂ خیبر کو عبور کرکے ۱۵۲۶ء میں دہلی پر قبضہ کرکے مغل سلطنت کی بنیاد ڈالی۔ اس سے قبل بابر کا پایۂ تخت سمر قند ہی تھا، مگر ازبک سردار شیبانی خان نے اس کو شکست دے کر کابل کی طرف بھاگنے پر مجبور کردیا۔ بابر کے جد امجد امیر تیمور کو ازبکستان میں قومی ہیرو کا درجہ حاصل ہے۔ تاشقند کی ایک خوب صورت سبز گنبد والی عمارت میں امیر تیمور میوزیم ہے۔ یہاں امیر تیمور سے متعلق پانچ ہزار نوادرات محفوظ کیے گئے ہیں۔ یہاں جس دوسرے مقام پر بہت زیادہ ہجوم ہوتا ہے، وہ خوست امام چوک کے پاس لائبریری میوزم ہے۔ یہاں وہ قرآن شریف کا نسخہ محفوظ ہے، جس کی حضرت عثمان غنیؓ شہادت کے وقت تلاوت کر رہے تھے۔ ہرن کی کھال پر تحریر قرآن شریف کے اس نادر نسخے کے اوراق پر خون کے دھبے نمایاں ہیں۔

میں شیشے میں بند اس نسخے کو دیکھنے میں محو تھا ، کہ میوزم کے ایک ملازم عظمت اکمتوف نے پوچھاکہ: ’کیا تم مسلمان ہو؟‘ میں نے سر ہلا کر ’ہاں‘ کہا، تو اس نے دوسرا سوال داغا، کہ: ’کس فرقے سے تعلق رکھتے ہو؟‘ پھر خود ہی ازبک لہجے میں ٹوٹی پھوٹی انگریزی میںپوچھا کہ: ’کیا تم حنفی ہو؟‘ میں نے جواب دیا کہ: ’میں حضرت عثمان غنیؓ کے مسلک سے ہوں‘۔ وہ شاید ابھی جواب تول ہی رہا تھا، کہ میں نے پوچھا کہ: ’حضرت عثمانؓ کس فرقے سے تعلق رکھتے تھے؟ آخر زچ ہوکر پوچھا کہ: ’تم کس ملک سے تعلق رکھتے ہو، ہندستان یا پاکستان؟‘ میں نے کہا: ’کشمیر سے ہوں‘۔ وہ پھر بغلیں جھانک کر کشمیر کے محل وقوع کے بارے میں استفسار کرنے لگا۔ افسوس کہ پچھلی ایک صدی میں جس طرح سرحدوں نے روابط کو محدود کرکے رکھ دیا ہے، اس سے یہ ازبک شخص کشمیر کے نام سے ہی واقف نہیں تھا۔ مجھے بتایا گیا کہ: ’’قرآن شریف کا یہ نسخہ امیر تیمور، سمرقند لے کر آگیا تھا۔ لیکن ۱۸۶۸ء میں روسیوں نے اس کو ماسکو منتقل کیا۔ پھر ۱۹۲۴ء میں لینن نے ترکستان کے مسلمانوں کو خوش کرنے کے لیے یہ نسخہ تاشقند بھیج دیا‘‘۔ اس میوزیم میں اور بھی نادر و نایاب کتب کا ذخیرہ ہے۔

تاشقند میں لال بہادر شاستری کا مجسمہ ،۱۹۶۵ءکی جنگ ستمبر کی یاد دلاتا ہے۔ جنوری ۱۹۶۶ء میں تاشقند معاہدے پر دستخط ہونے کے چند گھنٹوں بعد ہی بھارت کے وزیر اعظم لال بہادر شاستری کا انتقال ہوگیا۔ اسی شہر میں صدر پاکستان ایوب خان اور وزیر خارجہ ذوالفقارعلی بھٹوکے درمیان اختلاف پیدا ہوگیا۔ پانچ ماہ بعد وہ وزارت سے الگ ہوگئے، اور دسمبر ۱۹۶۷ء میں پاکستان پیپلز پارٹی بنالی اور چند برسوں میں وزیراعظم بن گئے۔

جہاں تاشقند میں اشتراکی حکمرانی کے آثار ابھی تک نظر آتے ہیں، وہاں سمر قند میں    ان آثار کو اُکھاڑ کر پھینک دیا گیا ہے۔ مسجدوں اور میناروں کا ایک لامتناہی سلسلہ شہر کی تاریخ اور انفرادیت بیان کرتا ہے۔ حکومت نے ان قدیم تاریخی عمارتوں اور مقامات کو محفوظ بنانے، ان کی روایتی خوب صورتی کو برقرار رکھنے کے لیے بہت رقم خرچ کی ہے۔ صفائی ستھرائی کا معیار یورپ سے کم نہیں۔ پارکوں اور سیر گاہوں کاکوئی شمار نہیں۔شہر کی سیر کے دوران ایک پہاڑی پر موجود قلعے کے کھنڈرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہماری گائیڈ انارہ نے کہا کہ: ’’یہ وہ سمر قند ہے جس کو چنگیز خان نے تباہ کردیا تھا۔ اس ۲۶۵۰سالہ قدیم شہر کا اصل نام افراسیاب تھا‘‘۔ مسلم دنیا کے موتی کہلانے والے اس شہر نے متعدد حملہ آورں کو دیکھا ہے۔ ابن بطوطہ نے اس شہر کے نواح میں باغات اور ان کے میووں کی شیرینی کا خصوصی تذکرہ کیا ہے۔

سمرقند کے وسط میں امیر تیمور کا مزار ایرانی و ترک فن تعمیر کا شاہکار ہے۔ تاج محل کی طرح اصل قبریں مقبرے کے تہہ خانے میں ہیں، مگر اس کے دروازے پر سخت پہرا ہے۔ گائیڈ نے بتایا: ’’۱۹۴۱ء میں کمیونسٹ حکومت نے اس مقبرے کی کھدائی کرکے امیر تیمور کی باقیات کو ماسکو منتقل کیا۔ مقامی افراد نے ان کو بہت روکا، مگر وہ باز نہ آئے، اور باقیات کی ماسکو روانگی کے دو دن بعد ہی نازی جرمنی نے کمیونسٹ روس کے خلاف اعلانِ جنگ کیا اور وہ روسی فوجوں کو روندتے ہوئے ماسکو کے نواح میں پہنچ گئے۔ تین سال کے بعد روسی آمر اسٹالن نے کسی کے کہنے پر باقیات کو ماسکو سے سمرقند واپس لا کر سرکاری اعزاز کے ساتھ مقبرے میں دفن کرکے تہہ خانے کو سیل کردیا۔ اس کے ایک ماہ بعدہی کمیونسٹ فوجوں نے وولگو گراڈ کی فیصلہ کن جنگ میں نسل پرست جرمنوں کی کمر توڑ دی، اور پھر جرمن فوج مسلسل پیچھے ہٹتی رہی تاآنکہ روسی فوج برلن میں داخل ہوگئی‘‘۔

سمر قند،الجبرا کے موجد محمد ابن موسیٰ خوارزمی [م: ۸۵۰ء]اور مشہور سائنس دان بوعلی سینا [م: ۱۰۳۷ء] کی علمی مشغولیت کی سرزمین بھی ہے جس کے علم نے حساب کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا۔ مزارِ تیمور سے کچھ دُور، جو ریگستانی چوراہا ہے، وہ قدیم شاہراہ ریشم کا مرکز تھا۔ جہاں پر نہ صرف اشیا کا بلکہ افکار و خیالات کا بھی تبادلہ ہوتا تھا۔ اسی لیے اس چوراہے کے دونوں اطراف دو عظیم الشان مدرسے اور سامنے ایک وسیع وعریض مسجد ہے۔ سمر قند میں، امیر تیمور کے روحانی پیشوا  شیخ برہان الدین اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی قاسم بن عباس یا شاہ زندہ کی  آرام گاہیں بھی ہیں۔ شاہ زندہ کے مقبرے تک جانے کے لیے تقریباً ۴۰سیڑھیاں چڑھنی پڑتی ہیں۔ ہمیں اسی گائیڈ نے بتایا: ’’سیڑھیاں چڑھتے اور اترتے وقت اس کے پایہ گنتے ہوئے اگر کسی خواہش کا اظہار کیا جائے، تو وہ پوری ہو جاتی ہے۔ شرط ہے کہ اترتے اور چڑھتے وقت سیڑھیوں کے پایوں کے عدد یکساں آنے چاہییں‘‘۔ لگتا ہے کہ کسی نے یہ ایک طرح کی مائنڈ گیم ایجاد کی ہے۔ ایک طرف سیڑھیاں گننا اور ہرسیڑھی چڑھتے ہوئے خواہش کا اظہار کرنا بھی دماغی ورزش اور منفرد مصروفیت ہے۔

سمر قند کے نواح میں تقریباً ۲۵کلومیٹر کے فاصلے پر محدث امام بخاریؒ کاعالی شان روضہ  فنِ تعمیر کا عمدہ نمونہ ہے۔ اس سے ملحق مسجد، عجائب گھر، لائبریری اور یونی ورسٹی ہے۔ امام بخاریؒ نے احادیث جمع کرکے اور ان کو کتابی شکل دینے کا ایک بڑا کارنامہ انجام دیا۔ اشتراکی دورِ حکومت میں یہ روضہ بند کر دیا گیا تھا۔ ۱۹۵۴ء میں جب انڈونیشیا کے صدر [۶۷-۱۹۴۵ء] احمدسوکارنو [م:۱۹۷۰ء] ماسکو کے دورے پر آئے، تو انھوں نے امام بخاریؒ کے روضے پر جانے کو خواہش ظاہر کی۔ فی الفور ایک ٹیم روانہ کی گئی، جس نے صفائی کی۔ اس سے متصل مسجد ایک کھنڈر بن چکی تھی۔ اس کے بعد جب صومالیہ کے صدر نے بھی اپنے دورے کے دوران ، روٖضے پر جانے کی خواہش ظاہر کی، تو اشتراکی حکام نے اس مقبرے کی دیکھ بھال کے لیے ایک کمیٹی مقر رکی۔ ۱۹۹۸ء میں اسلام کریموف نے مزار کی تعمیر شروع کی ۔سرینگر کی جامع مسجد کی طرز پر صحن خاصاسرسبز ہے اور ایک حصے میں ایک تالاب ہے، جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اس کا پانی شفا بخش ہے۔

ہوٹل سے تاشقند ایرپورٹ واپس جاتے ہوئے میں نے بڑی عمر کے ڈرائیور رفیق کریموف سے پوچھا کہ: ’’اشتراکی دور حکومت کی زندگی کیسی تھی؟‘‘ تو اس نے کہا: ـ’’کہ ایک آہنی خول تھا،  ہم دنیا سے کٹے ہوئے تھے۔ جس کسی بھی چیز کے لیے کمیونسٹ پارٹی کی رضامندی نہیں ہوتی تھی وہ قابل تعزیر تھی، چاہے تحریر ، تقریر یا آپس میں ذاتی سطح پر گفتگو ہی کیوں نہ ہو۔ قطار میں کھڑے ہوکر زندگی گزارنا ہی زندگی کا مستقل حصہ تھا۔ راشن لینے سے لے کر ہر چیز حاصل کرنے کے لیے حکومت پر انحصار کرنا پڑتا تھا۔ بلاشبہہ اس زمانے میں بھونکنے، یعنی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانے پر تو پابندی تھی، مگر کھانے کے لیے کچھ نہ کچھ مل ہی جاتا تھا۔ بھوکے پیٹ سونے کاسوال ہی نہیں تھا،   نہ کوئی بھیک مانگتا تھا۔ صرف ۱۰۰روبل میں ماسکو کا ہوائی ٹکٹ مل جاتا تھا، مگر اس وقت سو روبل بچانا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ اب میرے پاس لاکھوں روبل ہیں، مگر میں ماسکو کا ہوائی ٹکٹ خریدنے کی طاقت نہیں رکھتا۔لیکن مجھے اس پر کوئی افسوس اور غم نہیں، کیوں کہ اب ہم آزاد تو ہیں۔ میں دل کھول کر آپ سے بات کرسکتا ہوں، رات کو بھوکے پیٹ سوؤں تو کیا ہوا۔ بس یہی فرق ہے‘‘۔ ڈرائیور کی باتیں سن کر مجھے پاکستان میں پہلے مارشل لا نافذ ہوتے و قت حکومتی پابندیوں کی مناسبت سے قدرت اللہ شہاب اور قرۃ العین حیدر کے درمیان مکالمہ یاد آرہا تھا۔ عینی نے بڑے کرب سے کہا تھا:’’تو گویا اب بھونکنے پر بھی پابندی عائد ہے؟‘‘ [شہاب نامہ، ص۵۱۳]۔ ازبک بزرگ ڈرائیور کے دہرائے ہوئے آخری الفاظ میرے کانوں کی گھنٹیاں بجا رہے تھے: ’آزادی ایک نعمت ہے، جو پیٹ بھر کر کھانے سے کئی گنا زیادہ آسودگی عطا کرتی ہے۔‘

مئی ۲۰۱۴ءکو جب پاکستانی وزیر اعظم محمد نواز شریف ،نئی دہلی کے صدارتی محل میں، بھارت کے نو منتخب وزیر اعظم نریندر مودی کی حلف برداری کی تقریب میں شریک ہونے کے بعد ہوٹل پہنچے، تو لابی میں مَیں نے ا ن سے گزارش کی تھی کہ: ’’چونکہ تاجکستان، اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکوکے تعاون سے معروف صوفی بزرگ میر سید علی ہمدانیؒ کی ۷۰۰سالہ تقریبات کا انعقاد کر رہا ہے ، کیا ہی اچھا ہوتا کہ دونوں ممالک بھارت اور پاکستان بھی اس کا حصہ بن جائیں‘‘۔ اگلے دن دونوں وزراے اعظم کی ملاقات طے تھی۔ میرے اندازے کے مطابق اس سے کشمیر کا وسط ایشیا کے ساتھ رشتہ استوار ہوجاتا۔ اس طرح اعتماد سازی کے طور پر عوامی سطح پر اچھے اثرات نمایاں ہوتے۔ تاہم، میں نے محسوس کیا کہ گفتگو میں میاں صاحب کے توجہ دینے کا دورانیہ نہایت ہی   کم ہے اور انھیں ایسی کسی تجویز کی افادیت یا اس کے محرکات گوش گزار کرانا نہایت ہی پیچیدہ عمل ہے۔ پاکستانی سیاست دان موقع و محل کا استعمال کرکے سیاسی یا سفارتی مراعات حاصل کرنے میں پس و پیش کا شکار رہتے ہیں۔
ایران کے شہر ہمدان میں پیدا ہونے والے میر سید علی ہمدانی ؒنے وسط ایشیا کو اپنا وطن بنایا اور یہیں سے انھوں نے کشمیر کا دورہ کرکے اسلام کی ترویج و تبلیغ کی۔ اقبال نے کہا ہے:

تنم گْلے ز خیابانِ جنتِ کشمیر
 دل از حریمِ حجاز و نوا ز شیراز است

[میرا بدن ، کشمیر کی جنّت میں کیاری کا ایک پھول ہے، دل حریم حجاز سے آباد ہے اور میری نوا، شیراز سے اثر لیتی ہے۔ پیامِ مشرق]

 مرا بنگر کہ در ہندوستاں دیگر نمے بینی
 برہمن زادۂ رمز آشنائے روم وتبریز است

[مجھے دیکھ کہ، ہندستان میں تجھے میرے سوا کوئی اور ایسا برہمن زادہ نہیں ملے گا، جو مولانا رومیؒ اور شمس تبریزیؒ کی رمز طریقت و تصوف سے باخبر ہو۔ زبورِعجم]

میر سید علی ہمدانیؒ تین بارکشمیر کے دورے پر آئے۔ دوسری بار انھوں نے ڈھائی سال کشمیر میں قیام کیا۔ ان کی قیام کی جگہوں پر آج بھی کشمیر میں خانقاہیں قائم ہیں، جو اس زمانے میں ایک طرح کے ’اسلامی مراکز تعلیم و تربیت‘ تھے۔ اقبال نے ہمدانی، جنھیںکشمیر میں عرف عام میں شاہ ہمدان کہتے ہیں، کے بارے میں کہا ہے:

 سیّد السادات ، سالار عجم
 دست او معمار تقدیر اُمم

[(سیّد علی ہمدانیؒ) عجم کے سردار اور سیّدوں کے قائد ہیں کہ جنھوں نے یہاں بسنے والی اُمتوں کی تقدیر بنا ڈالی۔ جاوید نامہ]

مجھے یقین تھا، چونکہ ۲۰۱۴ء میں نریندر مودی کو سفارتی سطح پر راستے نکالنے کی سخت ضرورت تھی، وہ نواز شریف کی اس تحویز کو ہاتھوں ہاتھ لے سکتے تھے۔ کیوںکہ چند ماہ قبل تک گجرات کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے ان کے خونیں پس منظر کے باعث کئی ممالک نے ان کے داخلے پر پابندی لگائی ہوئی تھی۔ چونکہ صوفی بزرگ سید ہمدانیؒ کی آرام گاہ تاجکستان کے صوبہ کلوب میں واقع ہے، اس لیے بھارت اور پاکستان کا تاجکستان اور یونیسکو کے ساتھ سال بھر کی تقریبات میں شرکت اور اس میں کشمیر کو شامل کرنا ، بین الاقوامی دانش وروں کی وادیِ کشمیر میں آمدورفت کا ذریعہ بن سکتا تھا۔ دونوں ممالک وسط ایشیا کے ساتھ صوفی بزرگ کی اس عظیم شخصیت کو علامت کے طور پر نمایاں کر سکتے تھے۔ 

اس صورت حال میں کشمیر کو وسط ایشیا کے ساتھ جوڑنے کا عمل ایک نئی جہت دے سکتا تھا۔معروف اسکالر اور سابق وائس چانسلر ڈاکٹر صدیق واحد کے بقول: ’’وسط ایشیا کے دورے کے دوران میں قائل ہو گیا تھاکہ کشمیر، جنوبی ایشیا کے بجاے وسط ایشیا کے زیادہ قریب ہے۔ کھانے پینے کی عادتیں، کلچر ، آرٹ، فن تعمیر، غرض قدم قدم پر وسط ایشیا میں کشمیر ہی کی جھلک نظر آتی تھی۔ ایک عشرہ قبل کشمیر کے دورے پر آئے یورپی یونین کے ایک رکن جان والز کوشانن نے اس خطے کو دنیا کی ’خوب صورت ترین جیل‘ قرار دیاتھا۔ شایدفوجی جمائو اور حالات کی وجہ سے ان کو یہ خطہ قید خانہ لگا ہوگا، مگر اس کی اور بھی کئی وجوہ ہیں۔ بیسویں صدی کے دوسرے نصف نے بیرون دنیا کے ساتھ کشمیر کے روابط مکمل طور پر سلب کر لیے۔ اشتراکی روسی اقتدار میں تاجکستان، کشمیریوں سے دُور ہوگیا۔ میر سید علی ہمدانی ؒکی آرام گاہ تک ان کی رسائی بند ہوگئی۔ بعد میں کاشغر  تک آنا جانا بھی بند ہوگیا ، جہاں سے کشمیری قالین اور شالوں کے لیے خام مال فراہم ہوتا تھا۔ اکتوبر ۱۹۴۷ء کے بعد ایسا قہر ڈھایا گیا، کہ لائن آف کنٹرول نے زمین پر بلکہ کشمیریوں کے سینوں پر ایک خونیں لکیر کھینچ ڈالی۔ بلاشبہہ پچھلی چار صدیوں سے ہی اس خطے کے باسی مجبور و مقہور رہے ہیں، مگر وسطی اور جنوبی ایشیا کی رہ گزر پر ہونے کی وجہ سے باقی دنیا کے ساتھ روابط کی وجہ سے ان میں طمانیت کا کچھ احساس تھا۔ لیکن لائن آف کنٹرول نے وہ سبھی روابط منقطع کر دیے۔
اس سامراجی جبر واستبداد سے شمالی کشمیر اور پیرپنچال کے وسیع علاقے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ یہاں تقسیم شدہ خاندان حسرت و یاس سے آج بھی دوسری طرف دیکھ کر آہیں بھرتے ہیں۔ اس گھیرا بندی اور بھارتی فوجی ارتکاز نے خوف کی نفسیات کے ساتھ ساتھ prison mindset یا اسیرانہ ذہنیت کو پروان چڑھایا ہے۔ اس ذہنیت کے شکار لوگوں کا حکمران کے ساتھ رشتہ وہی ہوتا ہے، جو ایک قیدی اور جیل سپرنٹنڈنٹ کا ہوتا ہے۔ بھارتی حکمرانوں اور دانش وررں سے میں یہ بات ہمیشہ کہتا ہوں کہ: ’’اگر آپ کشمیر کی سڑکوں پر سونا بھی بچھا دیں، مگر اس اسیرانہ ذہنیت کا علاج     نہ کریں، تو شاید ہی کبھی حالات بہتر ہوں‘‘۔ کشمیر کے بھارت نواز سیاستدان بھی کہتے ہیں کہ: ’’اگر بھارت کو آزادی کے نعرے کا توڑ کرنا ہے تو اسے ایسے حالات پیدا کرنے پڑیں گے، جہاں عوام نفسیاتی طور پر کشادگی محسوس کریں‘‘۔بھارت اور پاکستان کے درمیان جب بھی حالات معمول پر آجائیں، تو دونوں ممالک کو وادیِ کشمیر کے وسط ایشیا کے ساتھ روابط کو بحال کرنے میں بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔ قازقستان سے بذریعہ کشمیر گیس پائپ لائن کا منصوبہ ابھی فائلوں میں پڑا ہوا ہے، جس کو میز پر لانے کی ضرورت ہے۔

آج خلیجی ممالک میں توانائی اور ایندھن کے ذرائع تیزی سے سکڑ رہے ہیں، جب کہ  وسط ایشیائی ممالک توانائی کے حصول کے متبادل ذریعہ بن سکتے ہیں۔ ازبکستان میں دنیا کے بڑے گیس کے ذخائر ہیں اور یہ بجلی برآمد کرنے والے ممالک میں سے ہے۔ اس صدی کے اواخر تک پانی کی وافر مقدار ہونے کی وجہ سے تاجکستان ایک طاقت ور ملک کے طور پر ابھرے گا۔ جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک میں تب تک پانی کے ذرائع خشک ہو چکے ہوں گے، اور سبھی کو تاجکستان پر انحصار کرنا پڑے گا۔ اس لیے وسط ایشیا کے ساتھ تاریخی اور تہذیبی روابط کو استوار کرنا سبھی کے مفاد میں ہے اور اگر ان روابط کے لیے کشمیر کو ذریعہ بنایا جائے، تو یہ خطے کے لیے ایک صدر دروازہ ثابت ہوگا۔

قتل و غارت اور دہشت گردی کے الزامات میں ملوث پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو جب حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے بھوپال سے انتخابی میدان میں اتارا، تو ایک ساتھی نے ازراہِ مذاق جملہ اُچھالا کہ: ’’بھارت کے لیے ایک نیا وزیر داخلہ تیار ہو رہا ہے‘‘۔ درحقیقت وہ ایسے بھارت کی منظر کشی کر رہے تھے، جس میں اتر پردیش کے حالیہ وزیر اعلیٰ اجے سنگھ بشٹ (یعنی یوگی آدتیہ ناتھ) کو مستقبل میں بھارت کا وزیر اعظم اور پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو وزارت داخلہ سنبھالے دیکھ رہے تھے۔  اسی طرح یاد آرہا ہے کہ محض چند برس قبل ہم نیوز روم میں ازراہِ تفنن امیت شا(موجودہ بی جے پی صدر، جو ان دنوں جیل میں تھے)کے وزیر داخلہ بننے کی پیش گوئی کرتے اور اسے ہنسی میں اُڑاتے تھے۔ کسے معلوم تھا کہ ۲۰۱۹ء میں یہ مذاق بالکل حقیقت کا رُوپ دھار لے گا۔ 
اپنی دوسری مدت میں بھاری اکثریت حاصل کرنے کے بعد وزیر اعظم مودی نے وزارتِ داخلہ کا اہم قلم دان اپنے دست راست امیت شا کے سپرد کرکے پیغام دیا ، کہ نہ صرف و ہ حکومت میں دوسرے اہم ترین فرد ہیں، بلکہ ان کے جانشین بھی ہیں۔ اگرچہ بظاہر پارٹی کے سینیر لیڈر راج ناتھ سنگھ کی نمبر دو پوزیشن سرکار ی طور پر برقرار رہے گی، مگر وزارت دفاع ان کو منتقل کرنے کا مطلب یہی لیا جا رہا ہے کہ ان کی پوزیشن کمزور کر دی گئی ہے۔
کابینہ کے ۲۶؍اراکین میں سے ۲۱؍ارکان اُونچی ذاتوں سے تعلق رکھتے ہیں، جن کی بھارت میں مجموعی آبادی ۱۵ فی صد سے بھی کم ہے۔سینیر وزیروں میں ۱۳ برہمن ہیں،تین نچلی ذاتوں سے  اور ایک سکھ ہے۔ بطور مسلم وزیر بی جے پی لیڈر مختار عباس نقوی کو شامل کیا گیا ہے، جنھوں نے برسوں پہلے ایک بار رام پور سے انتخاب میں کامیابی حاصل کی تھی۔ حکمران اتحاد نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (NDA) میں بہار سے ’لوک جن شکتی پارٹی‘ کی ٹکٹ پر واحد مسلمان محبوب علی قیصر دوسر ی بار منتخب ہوکر ایوان میں آتو گئے ہیں، لیکن حیر ت کا مقام ہے کہ ان کو وزارت کے قابل نہیں سمجھا گیا۔    بی جے پی کے ایک لیڈر نے اس کی وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ: ’’مودی جی تو ان کو وزیر بنانا چاہتے تھے ، مگر ان کی پارٹی نے پارٹی صدر رام ولاس پاسوان کو وزیر بنانے کی سفارش کی ہے۔ چونکہ سبھی اتحادیوں کو صرف ایک ہی وزارت دی گئی ہے، اس لیے لوک جن شکتی پارٹی سے دو ارکان کو وزارت میں شامل کرنے سے توازن بگڑ سکتا تھا‘‘۔ اس ضمن میں رام ولاس پاسوان کی ذہنیت پر افسوس کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ ایک مسلم ممبر پارلیمنٹ کو وزیر بنانے کے بجاے، وہ خود ہی وزارت کے دعوے دار بن گئے۔ حالانکہ رام پاسوان، پچھلے ۲۰برسوں کے دوران چاہے کانگریس کی حکومت تھی یا بی جے پی کی، مسلسل وزارت میں شامل رہے۔ 
بھارت میں وزارت داخلہ کا قلم دان انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔ اس لیے وزراے اعظم اکثر اس عہدے پر یاتو اپنے انتہائی قریبی یا نہایت کمزور افراد کا تعین کرتے آئے ہیں، جو ان کے لیے خطرے کا باعث نہ بن سکیں۔ بی جے پی کی پچھلی حکومت میں راج ناتھ سنگھ اوروزارت عظمیٰ کے دفتر کے درمیان کشمیر کی صورت حال سے نمٹنے کے معاملے پر کئی دفعہ اختلافات سامنے آئے۔ جون۲۰۱۸ء کو جب راج ناتھ سنگھ، جموں و کشمیر کی حلیف وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کے ہاتھ مضبوط کرنے پر زور دے رہے تھے، تو دوسری طرف امیت شا کی رہایش گاہ کے باہر پارٹی جنرل سیکرٹری رام مادھو صحافیوں کو بتا رہے تھے کہ: ’میری پارٹی نے محبوبہ مفتی حکومت سے حمایت واپس لے کر گورنر راج لاگو کرنے کی سفارش کی ہے‘۔ بتایا جاتا ہے کہ راج ناتھ سنگھ کو یہ معلومات ٹی وی چینل سے موصول ہورہی تھیں۔ نجی گفتگو میں کئی بار انھوں نے اشار ے دیے کہ کشمیر اور شمال مشرقی صوبوں کے لیے پالیسی ترتیب دیتے ہوئے ان کی راے کو اہمیت نہیں دی جاتی ہے۔ سابق وزیر خزانہ یشونت سنہا اور ایک ریٹائرڈ ہائی کورٹ جج کو انھوں نے کشمیر میں بیک چینل کھولنے کی ترغیب دی تھی، مگر اس کوشش کو بُر ی طرح سبوتاژ کیا گیا۔ سنہا سے وزیر اعظم نے ملنے سے انکار کرتے ہوئے ان کو قومی سلامتی مشیر  اجیت دوول سے ملنے کے لیے کہا، جس نے شکایت کی کہ: ’سنہا کے مشن سے حریت پسندوں کے حوصلے بلند ہوگئے ہیں‘۔ مذکورہ جج کے خلاف کشمیر واپسی پر ہی مرکزی تفتیشی بیورو نے ایک کیس کی فائل کھول کر اس کو جیل میں پہنچادیا۔ 
مودی اور امیت شا کی رفاقت کا رشتہ ۳۰سال پرانا ہے۔ ۲۰۰۱ء میں مودی کے گجرا ت کے وزیر اعلیٰ بننے کی راہ کو آسان کرنے کے لیے ’شا‘ نے پارٹی میں ان کے مخالفوں، یعنی ہرین پانڈیا اور کیشو بائی پاٹل کو ٹھکانے لگانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ہرین پانڈیا کو تو قتل کیا گیا۔ گجرات میں  ’شا‘ کو وزارتِ داخلہ کا قلم دان دیا گیا تھا اور ان کا دورِ وزارت کئی جعلی پولیس مقابلوں کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔ قومی تفتیشی بیورو نے تو ان کو سہراب الدین اور ان کی اہلیہ کوثر کے قتل کیس میں ایک کلیدی ملزم ٹھیرایا تھا۔ اس کے علاوہ ۱۹سالہ عشرت جہاں کے اغوا اور بعد میں قتل کے الزام میں بھی ان کے خلاف تفتیش جاری تھی۔ ۲۰۱۳ء میں ان کی ایک ریکارڈنگ میڈیا میں آئی تھی ، جس میں وہ ایک دوشیزہ کا فون ٹیپ کرنے اور اس کی نگرانی کرنے کی ہدایت دے رہے تھے۔ یاد رہے کہ   وہ دوشیزہ ان کے باس کو پسند آگئی تھی۔۲۰۱۴ء کے عام انتخابات میں مودی نے ’شا‘ کو سب سے اہم صوبہ اتر پردیش کا انچارج بنایا تھا، جہاں موصوف نے بی جے پی کوسب سے زیادہ سیٹیں دلا کر پارٹی کے لیے اقتدار کی راہ ہموار کر دی تھی۔ اس کامیابی کے بعد ان کو پارٹی کا صدر بنایا گیا۔
 بطور وزیر داخلہ کشمیر کی صورت حال تو امیت شا کے لیے چیلنج ہوگی، مگر کشمیریوں کے لیے بھی ان سے نمٹنا ایک بڑے امتحان سے کم نہیں ہوگا۔ افواہیں گردش کررہی ہیں کہ جس طرح ۱۹۷۳ء کے شملہ سمجھوتے میں بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی نے اس مسئلے کی بین الا قوامی نوعیت کو بھارت اور پاکستان کے درمیان دوطرفہ معاملے میں تبدیل کرواکے تاریخ میں اپنا نام درج کروایا تھا، اسی طرح اب نریندر مودی بھی اپنا نام امرکروانے کے لیے کشمیر کو پوری طرح بھارت میں ضم کروانا چاہتے ہیں۔
کشمیرکی بین الاقوامی حیثیت کو چیلنج کرنے کے ساتھ ساتھ امیت شا ایک اور پلان پر بھی کام کررہے ہیں۔ اس پلان کا کوڈ نام ’مشن ۴۴‘ ہے اور اس کے تحت کشمیر میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں ہندو اکثریتی خطے جموں اور بودھ اکثریتی ضلع لیہہ کی تمام نشستوں پر بی جے پی کے اُمیدواروں کو کامیاب بنانا ہے۔ اس کے علاوہ وادیِ کشمیر کی ایسی نشستوں کی بھی نشان دہی کی گئی ہے جہاں حریت کانفرنس کی بائیکاٹ کال کا سب سے زیادہ اثر ہوتا ہے۔ ان نشستوں پر جموں اور دہلی میں مقیم کشمیری پنڈتوںکے ووٹوں کی زیادہ سے زیادہ رجسٹریشن کرواکر ان کے پوسٹل بیلٹوں کے ذریعے ان علاقوں میں بھی بی جے پی کے امیدواروں کی کامیابی یقینی بنائی جائے۔ امیت شا کی حکمت عملی کا مقصد ریاست میں مسلمان ووٹوںکو بے اثرکرناہے۔ کشمیر اسمبلی کی ۸۷منتخب نشستیں ہیں جن میں سے ۳۷جموں، ۴۶ وادیِ کشمیر اور۴ لداخ خطے سے ہیں۔ بی جے پی جموں،کٹھوعہ، یعنی خالص ہندو پٹی کی سبھی نشستوں پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اس طرح بی جے پی متنازعہ خطے کی اسمبلی میں بڑی پارٹی کے طورپر ابھر سکتی ہے اور بعد میں ہم خیال ارکان اورکانگریس کے ہندوارکان کی مدد سے بھارتی آئین کی دفعہ ۳۷۰کو ختم یا اس میں ترمیم کروائی جاسکتی ہے۔۱۹۵۴ء اور۱۹۶۰ء میںکشمیر اسمبلی نے اس شق میں ترمیم کی سفارش کی تھی، جس کے بعد بھارتی صدر نے ایک حکم نامے کے ذریعے بھارتی سپریم کورٹ، الیکشن کمیشن اور دوسرے اداروں کا دائرہ کشمیر تک بڑھادیاتھا اور ریاست کے صدراور وزیر اعظم کے عہدوںکے نام تبدیل کرکے انھیں دوسرے بھارتی صوبوں کے مساوی بنادیا تھا۔ 
جموں وکشمیر کے انتخابی نقشے پر اگر ایک نگاہ ڈالی جائے ، توجموں ریجن کی ۳۷نشستوں میں ۱۸ حلقے ہندو اکثریتی علاقوںمیں ہیں۔ یہ سیٹیں اکثر کانگریس کے پاس ہوتی تھیں۔ اس کے علاوہ اسی ریجن میں نو ایسی سیٹیں ہیں جہاں ہندو مسلم تناسب تقریباً یکساں ہے۔ یہاں پرامیت شا وہی فارمولا اپنانے کے لیے کوشاں ہے ،جو اس نے حالیہ لوک سبھا انتخابات میں ریاست اترپردیش اور بہار کی مسلم اکثریتی سیٹوں میں اپنایا کہ مسلم ووٹوں کو تقسیم کرکے ان کو بے اثر بنایا جائے، جب کہ ہندوووٹروں کو خوف میں مبتلا کر کے ان کو پارٹی کے پیچھے یک جا کیا جائے۔دوسری طرف لداخ کے بودھ اکثریتی لیہہ ضلع کی دو اسمبلی نشستوں پر بھی بی جے پی آس لگائے ہوئے ہے، تاکہ آیندہ اسمبلی میںزیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرکے وادیِ کشمیر اور مسلم اکثریت کے سیاسی اثر و رسوخ کو ختم کرکے مسئلہ کشمیر کو ایک نئی جہت دے۔ 
حالیہ الیکشن سے قبل جب بھارت بھر میں مودی لہر شروع ہوئی تو ریاست کے سیاسی پنڈتوں اور بھارت نواز لیڈروں کے ساتھ ساتھ مزاحمتی قیادت نے بھی پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی طرح یہ کہنا شروع کیا تھاکہ:’ کشمیر کے بارے میں اگر کوئی روایت سے ہٹ کر اقدام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو وہ بی جے پی ہی ہے‘۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ اس سے قبل بھی کشمیر کے سلسلے میں  اٹل بہاری واجپائی کی سرکارہی نے بولڈ فیصلے لینے کی جرأت کی تھی۔ ’لاہور اعلامیہ‘، ’اسلام آباد ڈیکلریشن‘ اور انسانیت کے دائرے میں بات کرنے کا اعلان اور اس کے بعدمزاحمتی کیمپ سے  لے کر پاکستان تک کے ساتھ بات چیت کی شروعات بی جے پی نے ہی کی تھی۔ تاہم، جو لوگ   اِس اُمید کے ساتھ جی رہے ہیں کہ ’انسانیت کے دائرے ‘میں بات ہوگی، انھیں جان لینا چاہیے کہ اٹل بہاری واجپائی اور نریندر مودی میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ پاکستان اور کشمیر کی زمینی صورت حال ۱۹۹۹ء اور ۲۰۰۴ء کے مقابلے میں خاصی مختلف ہے۔ایسے حالات میں کشمیر کے مسئلے کے حل میں کسی پیش رفت کی اُمید رکھنا بے معنی ہے ۔ 
امیت شا کے وزار ت داخلہ کا قلم دان سنبھالنے کے بعد تو کشمیر کی شناخت اور تشخص ہی خطرے میں پڑ گیا ہے۔ کشمیر کی مختلف الخیال پارٹیوں کو فی الحال اس کے بچائو کے لیے قابل عمل اور فوری اقدامات کرنے میں کوئی تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ بد قسمتی سے ایسا نظر آ رہا ہے کہ کشمیرکی  سیاسی جماعتیں نہ صرف اپنی اصل قومی وعوامی ذمہ داریوں سے دامن چھڑا کر بھاگ رہی ہیں،بلکہ ان میں سے بعض لوگ تو نریندرمودی کا نام سن کر ہی گویا مرعوب ہو جاتے ہیں۔
بات واضح ہے کہ قوم کے وسیع تر مفا دمیں سوچنے کے بجاے اقتدار کی شدید ہوس اور اقتدار کے لیے رسہ کشی نے کشمیر کی سب سے بڑی قوم پرست پارٹی ’نیشنل کانفرنس‘ کو نہ صرف بزدل بنایا ہے بلکہ اس کی نفسیاتی صورت حال کی بھاری قیمت سادہ لوح کشمیریوں کو چکانی پڑ رہی ہے۔ فی الحال اس جماعت کا محور اقتدار کی نیلم پری سے ربط وتعلق رکھنے کے لیے کس سے رشتہ جوڑا جائے اور کس سے ناتا توڑا جائے کا سوال اہم ہے۔ اگر واقعی اس جماعت میں کشمیریوں کے حوالے سے ذرہ بھر بھی ہمدردی ہے تواسے دیگر کشمیر ی جماعتوں کے ساتھ گفت و شنید کے دروازے کھول کر آگے کے تمام خطرات کی پیش بینی کر کے، ریاست میں بی جے پی کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنا ہوگا۔ 
اٹانومی (خودمختاری) اور سیلف رول ___ کے ایجنڈوں کے خواب دیکھنا دُور کی بات ہے، فی الحال جس تیز رفتار ی سے مودی سرکار کشمیریوں کے تشخص اور انفرادیت کو پامال کرنے کے حوالے سے جنگ آزمائی کے راستے پر چل نکلی ہے، اس کا توڑ کرنے میں نیشنل کانفرنس، پیپلزڈیموکریٹک پارٹی اور دیگر جماعتوں کو باہمی تعاون کرنے میں ہر گز ہچکچانا نہیں چاہیے۔ کشمیریوں کے وکیل اور غم خوار، پاکستان کی داخلی صورت حال بھی نئی دہلی سرکار کے عزائم کا ٹمپر یچر بڑھارہی ہے۔ ایسے میں صاف لگتا ہے کہ کشمیر کے سلسلے میں ہندو انتہا پسند وں کے دیرینہ خوابوں کے پورا ہونے کے لیے شاید راستہ ہموار کیا جارہا ہے۔
مودی کی کابینہ میں ایک اور اہم وزیر سبرامنیم جے شنکر ہیں، جن کو وزیر خارجہ بنایا گیا ہے۔ بھارتی محکمہ خارجہ میں امریکی ڈیسک کے سربراہ کے طور پر وہ سابق وزیر اعظم من موہن سنگھ (کانگریس) کے چہیتے افسر تھے۔ آخر کیوں نہ ہوتے، انھوں نے ’بھارت-امریکا جوہری معاہدہ‘ کو حتمی شکل دینے اور اس کو امریکی کانگریس سے منظوری دلوانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ ۲۰۱۳ء میں   من موہن سنگھ نے ان کا نام خارجہ سیکرٹری کے لیے تجویز کیا، مگر کانگریس پارٹی نے سخت مخالفت کی جس پر سجاتا سنگھ کو خارجہ سیکرٹری بنایا گیا۔ تاہم، جنوری ۲۰۱۵ءکو امریکی صدر بارک اوباما کے بھارتی دورے کے بعد نریندر مودی نے سجاتا سنگھ کو معزول کرکے جے شنکر کو سیکرٹری خارجہ بنایا دیا، تب جے شنکر امریکا میں بھارت کے سفیر تھے اور اوباما کے دورے کے سلسلے میں نئی دہلی آئے ہوئے تھے۔
 اس طرح غیر رسمی طور پر یا اکھڑ پن سے خارجہ سیکرٹری کو معزول کرنے کا بھارت میں یہ دوسرا واقعہ تھا۔ اس سے قبل۱۹۸۷ء میں اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی نے ایک پریس کانفرنس کے دوران ہی اپنے سیکرٹری خارجہ اے پی وینکٹ شورن کو معزول کیاتھا۔ اس کی کہانی کچھ یوں ہے ۔ نئی دہلی میں مقیم پاکستانی صحافی عبدالوحید حسینی نے پریس کانفرنس کے دوران راجیوگاندھی سے ان کے پاکستان کے دورے کے بارے میں سوال کیا۔ راجیو نے کہا کہ: ’’میرا پاکستان کے دورے کا کوئی پروگرام نہیں ہے‘‘۔ مگر حسینی نے دوسرا سوال داغا کہ: ’’سر،آپ کے خارجہ سیکرٹری تو صحافیوں کو بتار ہے ہیں کہ وزیر اعظم کا دورہ پائپ لائن میں ہے؟‘‘راجیو نے جواب دیا کہ: ’’خارجہ سیکرٹری اب اپنے عہدے پر نہیں ہیں۔ جلد ہی نئے فارن سیکرٹری کا تعین کیا جا رہا ہے‘‘۔ وینکٹے شوارن نے جو پریس کانفرنس ہال میں ہی بیٹھے تھے، چپکے سے اپنا استعفا تحریرکرکے وزیراعظم کو ہال میں ہی تھمادیا۔ 
جے شنکر کو خارجہ سیکرٹری کے عہدے پر فائز کرنے کی کانگریسی لیڈروں نے اس لیے مخالفت کی تھی کہ ان کے مطابق ایک امریکا نواز افسر کو اس اہم عہدے پر فائز کرانے سے بھارت کی غیر جانب دارانہ تصویر متاثر ہوگی۔ وکی لیکس فائلز نے جے شنکر کی امریکا کے ساتھ قربت کو طشت از بام کردیا تھا۔ بتایا گیا کہ جے شنکر کی تعیناتی سے ہمسایہ ممالک سے تعلقات خراب ہونے کا بھی اندیشہ ہے۔ ۲۰۰۴ء سے۲۰۰۷ء تک جے شنکر دفترخارجہ میں امریکی ڈیسک کے انچارج تھے۔ ان کا نام بار بار امریکی سفارتی کیبلز میں آیا ہے۔
۱۹دسمبر۲۰۰۵ء کو ایک کیبل میں امریکی سفارت خانے کا کہنا ہے کہ جے شنکر نے ان کو خارجہ سیکرٹری شیام سرن کے دورۂ امریکا کے ایجنڈے کے بارے میں معلومات دی ہیں۔ امریکی عہدے داروں کے ساتھ ملاقاتوں میں بھارتی موقف سے واقفیت خارجہ سیکرٹری کے واشنگٹن پہنچنے سے قبل ہی امریکی انتظامیہ کو مل چکی تھی، مگر سب سے زیادہ ہوش ربا معلومات بیجنگ میں امریکی سفارت خانے نے واشنگٹن بھیجی۔ اس میں بتایا گیا کہ چین میں بھارت کے سفیر جے شنکر نے چین کے ہمسایہ ممالک کے تئیں جارحارنہ رویے کو لگام دینے کے لیے امریکا کی معاونت کرنے کی   پیش کش کی ہے۔ گویا ایک طرح سے وہ نئی دہلی میں حکومت کی رضامندی کے بغیر امریکا کے   ایک معاون کے طور پر کام کر رہے تھے۔ ایک اور کیبل میں اپریل۲۰۰۵ء میں رابرٹ بلیک لکھتے ہیں کہ گوانتانامو بے کے معاملے پر بھارت ، جنوبی ایشیائی ممالک کاسا تھ نہیں دے گا، جنھوں نے اقوام متحدہ میں ووٹنگ میں حصہ نہ لینے کا مشترکہ فیصلہ کیا تھا۔ اس کےعلاوہ جے شنکر نے ایک نان پیپر امریکی انتظامیہ کو تھما دیا تھا ، جس میں تھائی لینڈ کے ایک سیٹلائٹ کی اطلاع تھی، جو بھارتی راکٹ کے ذریعے مدار میں جانے والا تھا۔ 
جے شنکر بھارت کے مشہور اسٹرے ٹیجک امور کے ماہر آنجہانی آر سبرامنیم کے صاحبزادے ہیں۔ انھوں نے ۱۹۷۷ءمیں دفترخارجہ میں ملازمت شروع کی۔ معروف دفاعی تجزیہ کار بھارت کرناڈ کے مطابق جے شنکر کی کابینہ میں شمولیت سے بھارت کا امریکی پٹھو ہونے کا آخری پردہ بھی چاک ہو گیا ہے۔ ان کی تعیناتی بھارت کی اسٹرے ٹیجک آٹونامی کے حوالے سے خاصی اہم ہے۔ ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد ہی جے شنکر نے کارپوریٹ گروپ ٹاٹا کے بیرون ملک مفادات کے ڈویژن کے سرابراہ کا عہدہ سنبھالا۔ اس حوالے سے بھارتی فضائیہ کے لیے ایف-۱۶طیاروں کی خریداری کے لیے امریکی فرم لاک ہیڈ مارٹن کے لیے وکالت کا کام کر رہے تھے۔ لاک ہیڈ مارٹن کو کنٹریکٹ ملنے سے ٹاٹا کو ان کی دیکھ بھال ،پرزے سپلائی کرنے، اور بھارت میں ان طیاروں کو تیار کرنے کا کام مل جاتا۔ 
بتایا جاتا ہے کہ ۱۹۸۰ء میں واشنگٹن میں بھارتی سفارت خانے میں تعیناتی کے دوران ہی امریکی انتظامیہ نے ان پر نظر کرم کی بارش کر کے ان کی ایک دوست کے رُوپ میںشناخت کی تھی، اور بعد میں ان کے کیریر کو آگے بڑھانے میں بلاواسط طور پر خاصی مدد کی۔ امریکا میں   بطور بھارتی سفیر ، انھوں نے مقامی بھارتی نژاد افراد کو جمع کرکے نئے وزیر اعظم مودی کا استقبال کرکے ان کا دل جیت لیا۔ ان کے دور میں بھارت نے امریکا کے ساتھ دو اہم معاہدوں پر دستخط کیے، جن میں امریکی افواج کو خطے میں رسل و رسائل کی سہولتیں فراہم کرنا اور فوجی اطلاعات کا تبادلہ شامل ہیں۔ ان معاہدوں کے مسودات بھارتی دفترخارجہ کے بجاے واشنگٹن سے ہی تیار ہوکر آئے تھے۔ 
تجزیہ کاروں کے مطابق جے شنکر کی تعیناتی کا ایک اور مقصد قومی سلامتی مشیر اجیت دوول کو قابو میں رکھنا ہے۔ خفیہ ایجنسیوں کی کمان ان کے ہاتھوں میں ہوتے ہوئے وہ مودی کے رفقا میں خاصے طاقت ور ہوگئے تھے۔گذشتہ حکومت میں دوول، قومی سلامتی کے مشیر تھے اور اب وزیر ہیں۔ 
جے شنکر کے لیے سب سے بڑا امتحان ایران سے تیل، چاہ بہار بندرگاہ، اور روس سے ایس-۴۰۰  میزائل شیلڈخریداری کے سلسلے میں امریکا سے مراعات حاصل کروانا ہے۔ صدر ٹرمپ نے بھارت کو ایران سے تیل کی خریداری کے متعلق خبردار کیا ہے۔ جس پر بھارت ایرا ن کے تیل کی قربانی دینے کے لیے تیار ہے، مگر چاہ بہار بندر گاہ اور میزائل شیلڈ کے سلسلے میں امریکی معاونت کا خواست گار ہے۔ 
 

مشرق وسطیٰ میں جہاں اس وقت امریکا اور ایران کے مابین کشیدگی عروج پر ہے، وہیں فلسطین کے حوالے سے امریکی صدر ٹرمپ، یورپی یونین، ان کے عرب حکمران اور اسرائیل ایک فارمولے کو حتمی شکل دینے میں مصروف ہیں، جس کو ’ڈیل آف سنچری‘ کا نام دیا جا رہا ہے۔  چند ماہ قبل دہلی کے دورے پر آئے ایک یہودی عالم ڈیوڈ روزن نے عندیہ دیا تھا کہ: ’’سابق امریکی صدر بارک اوباما جس خاکے کو تیار کرنے میں ناکام ہو گئے تھے، ٹرمپ، سعودی عرب و دیگر عرب ممالک کے تعاون سے فلسطین کے حتمی حل کے قریب پہنچ گئے ہیں‘‘۔ 
آئر لینڈ کے چیف ربی ڈیوڈ روزن، اسرائیل کی چیف ربائیٹ، یعنی مذہبی امورکے رکن ہیں اور امریکی جیوش کونسل (AJC) کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔یہ واشنگٹن میں طاقت ور ترین لابی ہے، جس نے ’بھارت -امریکا‘ جوہری معاہدے کو کانگریس اور سینیٹ سے منظوری دلوانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ مشرق وسطیٰ میں خصوصاً اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیا ن بیک چینل تعلقات کے حوالے سے وہ خاصے سرگرم چلے آرہے ہیں۔ وہ سابق سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ کی ایما پر قائم کنگ عبدالعزیز انٹرنیشنل سینٹر فار انٹر ریلیجنز اینڈ کلچر ڈائیلاگ کے بورڈ ممبر بھی ہیں۔ میں نے جب ان سے پوچھا کہ: ’’جہاں ایک طرف اسرائیل نے فلسطینیوں کا ناطقہ بند کر رکھا ہے، آئے دن ان پر حملے ہو رہے ہیں، آخر امن آئے گا تو کیسے؟‘‘تو ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی تمام تر جارحانہ کارروائیوں کے باوجود ایک حقیقت کا ادراک یہودیوں اور اسرائیلی حکام کو ہو گیا ہے کہ وہ ناقابلِ تسخیر نہیں ہیں۔ ویسے تو اس بات کا اندازہ ۱۹۷۳ء کی جنگِ مصر اور بعد میں ۲۰۰۶ء میں جنگ ِلبنان کے موقعے پر ہی ہوگیا تھا ، مگر حالیہ کچھ عرصے سے یہ بات شدت کے ساتھ محسوس کی جارہی ہے۔اس لیے دنیا بھر کے یہودی چاہتے ہیں کہ اس سے پہلے کہ تاریخ کا پہیہ کوئی اور رخ اختیار کرے، اسرائیل کی سرحدوں کا تعین کرکے، پڑوسی ممالک سے اس کا وجود تسلیم کرایا جائے‘‘۔روزن کا کہنا تھا کہ: ’’توسیع پسندی اب کسی بھی صورت میں اسرائیل کے مفاد میں نہیں ہے۔ فوجی اعتبار سے اسرائیل چاہے تو سرحدوں کو وسیع کرنے کی قوت رکھتا ہے، مگر پھر مقبوضہ علاقوںکی آبادی کو بھی ملک میں شامل کرنا پڑے گا، جس سے ظاہر ہے کہ یہودیوں کے اقلیت میں تبدیل ہونے کا خدشہ لاحق ہوگا۔ دنیا بھر میں یہودی محض ایک کروڑ ہیں ، جن میں ۶۰لاکھ کے قریب اسرائیل میں رہتے ہیں۔ اس لیے فلسطینیوں سے زیادہ اسرائیلیوں کے لیے بھی اپنی بقا کے لیے سرحدوں کا تعین کرنا ضروری ہے۔ ٹرمپ کے لیے شاید اس لیے بھی ضروری ہے کہ شام کے بحران میں اگر کسی کو سب سے زیادہ فائدہ حاصل ہوا ہے تو وہ روسی صدر ولادی میر پوتن ہیں۔  اس سے قبل شاید ہی روس کا مشرقِ وسطیٰ میں اس قدر مفاد وابستہ تھا۔ 
جب میں نے ربی ڈیوڈ روزن سے پوچھا کہ: ’’اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو تو خود کئی بار د و ریاستی فارمولے کو مسترد کر چکے ہیں؟‘‘، تو ان کا کہنا تھا کہ حکومتوں کے رویے میں اُتار چڑھائو آتے رہتے ہیں، مگر یک ریاستی حل کسی بھی طور پر اسرائیل کے مفاد میں نہیں ہے۔ ایک اسٹیٹ کا مطلب ہے کہ مستقبل میں عرب اسٹیٹ کا قیام اور یہودی اسٹیٹ کا خاتمہ‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ: ’’اسرائیلی علاقوں میں مسلمانوں کی افزایش نسل یہودیو ں سے کئی گنا زیا دہ ہے۔ ۱۹۶۷ءمیں عرب، اسرائیل کی آبادی کا ۱۴ فی صد تھے ، جو اب لگ بھگ ۲۲ فی صد ہو چکے ہیں۔یہ وہ مسلمان ہیں جنھوں نے اسرائیل کی شہریت اختیار کی ہوئی ہے اور وطنی طور پر اسرائیلی-عرب کہلاتے ہیں۔ اس حقیقت کے پیش نظر اسرائیل کسی بھی صورت میں ۵۰لاکھ فلسطینی مہاجروں کو واپس لانے کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔ جن ممالک میں و ہ پناہ گزین ہیں ، انھی کو ان کی مستقل رہایش کا بندوبست کرنا پڑے گا ،کیوںکہ مغربی کنارہ اور غزہ بھی شاید ان کو بسا نہیں پائے گا‘‘۔
ربی ڈیوڈ روزن کا مزید کہنا تھا کہ: ’’القاعدہ اور داعش جیسی تنظیمیں اسرائیل کی نسبت  عرب ممالک کے لیے زیادہ خطرہ ہیں۔ اس لیے اسرائیل کے ساتھ معاہد ہ کرنا ان عربوں کے مفاد میں ہے۔ اس وقت خلیجی ممالک سعودی عرب، اردن، مصر وغیرہ سبھی مسئلہ فلسطین کا حل چاہتے ہیں، کیونکہ فلسطین کے نام پر ہی دہشت گر د تنظیمیں مسلم نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کرتی ہیں اور تشدد کا جواز فراہم کراتی ہیں‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ اس مسئلے کے حل کی صورت میں مسلمانوں اور یہودیوں کے مابین مکالمے کا دروازہ بھی کھل سکتا ہے‘‘۔ انھوں نے یاد دلایا کہ: ’’یہودی ، اسلام سے زیادہ عیسائیت سے خائف رہتے تھے اور مختلف ادوار میں عیسائیوں نے ان پر خوب ظلم ڈھائے ہیں۔ لیکن اس کے برعکس میں یہ بھی کہوں گاکہ مسلم حکومتوں کے اَدوار میں یہودی پکنک تونہیں منا تے تھے، مگر بہترحالات میں تھے۔اگر اس قدر خوں ریز تاریخ کے ہوتے ہوئے بھی عیسائی اور یہودی ایک دوسرے کو معاف کرکے مفاہت کا راستہ اختیار کر سکتے ہیں ، تو آخر اسلام اور یہودی کیوں نہیں‘‘۔
 صدر ٹرمپ اور ان کے معاونین کی طرف سے فلسطینی مسئلے کا جو فارمولا فی الحال منظرعام پر آیا ہے، اس سے شاید ہی امن کی امید بندھ سکتی ہے۔ خدشہ ہے کہ یہ اس خطے کے لیے مزید پیچیدگیاں پیدا نہ کردے۔ اس کے اہم نکات یہ ہیں کہ مغربی کنارہ و غزہ پر مشتمل علاقے کو نئی فلسطینی اسٹیٹ قرار دینا ہے۔ فلسطینی مہاجرین کی اپنے گھروں کو واپسی کا معاملہ ہمیشہ کے لیے بند ہوجائے گا۔یا تو ان کو اس نئی فلسطینی اسٹیٹ میں رہنا ہوگا یا جس ملک میں مقیم ہیں وہیں ضم ہونا پڑے گا۔ 
۱۹۹۳ء میںاوسلو میں اسرائیلی اور فلسطینی قیادت کے درمیان طے پائے گئے سمجھوتے میں ایک فلسطینی اتھارٹی کا قیام عمل میں آیا تھا اور ۴۰ لاکھ کی آبادی کو دو خطوں مشرق میں غزہ اور اُردن کی سرحد سے متصل مغربی کنارے میں تقسیم کیا گیا تھا۔ نسبتاً وسیع مغربی کنارے کا انتظام الفتح کی قیادت کی حامل فلسطین لبریشن آرگنائزیشن، یعنی پی ایل او کے پاس ہے اور غزہ میں اسلامک گروپ حماس برسرِ اقتدار ہے۔ جہاں پی ایل او اسرائیل کو تسلیم کرتا ہے، وہاں حماس فلسطینی بستیوں میں بسائی گئی یہودی ریاست کے وجود سے انکاری ہے۔ چونکہ مغربی کنارہ اور غزہ کے درمیان کوئی زمینی رابطہ نہیں ہے، اس لیے ان کو منسلک کرنے کے لیے اسرائیلی علاقوں سے ۳۰میٹر اُوپر ایک ۱۰۰کلومیٹر طویل فلائی اوور بنایا جائے گا، جس کے لیے چین سے رابطہ کیا جا رہا ہے۔
متوقع معاہدے کی رُو سے اسرائیل مرحلہ وار فلسطینی قیدیوں کی رہائی عمل میںلائے گا اور اس میں تین سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ القدس یا یروشلم شہر کو تقسیم نہیں کیا جائے گا، بلکہ اس کا کنٹرول اسرائیل کے پاس ہی رہے گا۔ شہر میں مکین عرب مسلمان اسرائیل کے بجاے فلسطین کے شہری ہوں گے۔ ان کی بہبود ،تعلیم و صحت کے لیے نئی فلسطینی اسٹیٹ اسرائیلی بلدیہ کو رقوم فراہم کرے گی۔ الاقصیٰ حرم پر جو ں کی توں پوزیشن برقرار رہے گی، یعنی یہ بدستور اردن کے اوقاف کے زیرنگرانی رہے گا۔ ویسے سعودی عرب اس کے کنٹرول کا متمنی تھا، تاکہ ریاض میں موجود فرماںروا سبھی تین حرمین، یعنی مکہ ، مدینہ و مسجد اقصیٰ کے متولی یا خادم قرار پائیں۔ 
اسرائیل، مسجد اقصیٰ کے تہہ خانے تک رسائی کا خواہش مند ہے۔ جس کے لیے اس نے مغربی سرے پر کھدائی بھی کی ہے ، تاکہ وہاں تک پہنچنے کے لیے مسجدکی دیواروں کے نیچے سے ایک سرنگ بنا سکے۔ یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ تہہ خانے میں ہی معبد سلیمان کے کھنڈرات موجود ہیں۔  اس کے علاوہ مصر ، فلسطینی ریاست کے لیے ایر پورٹ، کارخانہ لگانے اور زراعت کے لیے زمین فراہم کرے گا، مگر اس زمین پر فلسطین کے مالکانہ حقوق نہیں ہوں گے، نہ وہ اس پر بس سکیں گے۔ امریکا، پورپی یونین اور خلیجی ممالک اگلے پانچ سال تک فلسطینی ریاست کو انتظام و انصرام کے لیے ۳۰؍ارب ڈالر کی رقم فراہم کریں گے۔ اس میں ۷۰ فی صد خلیجی ممالک ،۲۰ فی صد امریکا اور ۱۰ فی صد یورپی ممالک دیں گے۔ یہ رقم ہرسال ۶؍ارب ڈالر کی صورت میں خرچ کی جائے گی۔نئی فلسطینی حکومت فوج نہیں رکھ سکے گی،مگر ایک پولیس فورس تشکیل دے سکے گی۔ اس کی سرحدوں کی حفاظت اسرائیل کی ذمہ داریوں میں شامل ہوگی ۔ صدی کی اس ڈیل پر دستخط ہونے کے بعد حماس اپنے تمام ہتھیار مصر کو سونپ دے گا۔ ایک سال کے اندر انتخابات ہوں گے۔ غزہ کے راستے اسرائیل اورمصر کی سرحدیں نقل و حمل اور تجارت کے لیے کھول دی جائیں گی۔ اسی طرح اردن اور مغربی کنارے کی سرحدکی تین چیک پوسٹیں فلسطینی حکام کے حوالے کی جائیں گی۔ 
اس پورے معاہدے میں ترکی کے کردار کا کوئی ذکر نہیں ہے ، جس نے پچھلے سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں القدس یا یروشلم کو اسرائیلی دارلحکومت قرار دیے جانے کے فیصلے کے خلاف ووٹ ڈلوانے میں قائدانہ کردار ادا کرکے امریکا کے فیصلے کی سینہ تان کرمخالفت کی تھی۔چند برس قبل امریکی صدر بارک اوباما کی حوصلہ افزائی پر مسلم ممالک سعودی عرب ، مصر اور ترکی نے مصالحت کا کردار ادا کرکے حماس کو قائل کرلیا تھاکہ وہ مغربی کنارے کی محمود عباس کی قیادت والی فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان کسی بھی مجوزہ براہِ راست بات چیت میں روڑے نہیں اٹکائے گا اور نہ بات چیت میں شریک افراد کو غداری وغیرہ کے القابات سے نوازے گا۔ تاہم، اس سعی سے اگر معاہدے کی صور ت میں کوئی نتیجہ برآمد ہوتا ہے تو درحقیقت یہ طے ہوا تھا کہ فلسطینی علاقوں میں ریفرنڈم کرایا جائے گا اور عوامی قبولیت کی صورت میں سبھی فریقوں کو منظور ہوگا۔ 
دوسال قبل دوحہ میں راقم کو مقتدر فلسطینی لیڈر خالد مشعل سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ جب میں نے ان سے پوچھا کہ: ’’آپ تو دو ریاستی فارمولے کو رد کرتے ہیں اور اسرائیل کے وجود سے ہی انکاری ہیں، تو مفاہمت کیسے ہو؟‘‘ انھوں نے کہا:’’حماس کا رویہ کسی بھی طرح امن مساعی میں رکاوٹ نہیں ہے۔ یاسر عرفات اور محمود عباس نے تو اسرائیل کو تسلیم کیا، مگر ان کے ساتھ کیا سلوک ہوا؟ تحریک میں شارٹ کٹ کی گنجایش نہیں ہوتی۔ اس کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے استقامت ضروری ہے۔ اپنے آپ کو مضبوط بنانا اور زیادہ سے زیادہ حلیف بنانا بھی تحریک کی کامیابی کے لیے ضروری ہے۔ تاریخ کا پہیہ سست ہی سہی مگر گھومتا رہتا ہے‘‘۔ تاہم، اس کے ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا کہ: ’’حماس ۲۰۰۶ء کے ’نیشنل فلسطین اکارڈ‘ پر کار بند ہے، جس کی رُو سے وہ دیگر گروپوں کے ذریعے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے گی، مگر مجھے یہ بھی یقین ہے کہ ان مذاکرات کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ کمزور اور طاقت ور کے درمیان کوئی معاہدہ ہو ہی نہیں سکتا۔ سیاسی لحاظ سے ہمیں طاقت ور بننے کی ضرورت ہے‘‘۔ 
 چند برس قبل ان علاقوں کا دورہ کرکے میں نے محسوس کیا کہ عرب ممالک اور امریکی امداد کے بدولت غزہ کے مقابلے میں مغربی کنارے میں خاصی خوش حالی اور ترقی نظر آتی ہے۔ جریکو قصبے میںایک عالی شان کیسینو (جواخانہ) کے علاوہ مختلف شہروں رملہ، حبرون (الخلیل)، بیت اللحم میں نئے تھیٹرکھل گئے ہیں، جہاں تازہ ترین ہالی وڈ فلمیں دیکھنے کے لیے بھیڑ لگی ہوتی ہے۔ جریکو کے کیسینو میں اسرائیلی علاقوں سے جوئے کے شوقین یہودی بھی داؤ لگانے کے لیے ہر رات پہنچ جاتے ہیں۔ حضرت عیسیٰؑ کی جاے پیدایش بیت اللحم کے چرچ آف نیٹیوٹی یا کنیستہ المھد اور یروشلم کے درمیان مشکل سے ۱۰کلومیٹر کا فاصلہ ہے، مگر وہاں کے مکینوں کے لیے یہ صدیوں پر محیط ہے۔ وہ اسرائیلیوں کی اجازت کے بغیر یروشلم نہیں جاسکتے ہیں۔ وہ صرف دُور سے اس شہر کو دیکھ سکتے ہیں۔ 
اقوام متحدہ کے زیر انتظام ایک اسکول کے استاد نے بتایا کہ: ’’چودہ سال قبل، میں ایک بار یروشلم گیا تھا اور مسجد اقصیٰ میں نماز ادا کی تھی‘‘۔ اسرائیلی حکومت نے فلسطینی علاقوں کو محصور کرکے ایک مضبوط دیوار کھڑی کی ہے۔ یروشلم سے بحرمُردار (Dead Sea) جانے کے لیے یہودیوں اور فلسطینیوں کے لیے دو الگ راستہ بنائے گئے ہیں اوران کے بیچ میں اونچی دیوار ہے۔ یہ نسل پرستی کا ایک بد ترین مظاہرہ ہے۔ اردن اور فلسطین کے درمیان بحرمُردار میں نمک کی مقدار ۳۰ فی صد سے زیادہ ہے، اس لیے اس میںکوئی ذی روح زندہ نہیں رہ سکتا۔یہ وہی سمندر ہے جس میں حضرت لوط ؑ کی قوم تباہ و برباد ہوگئی تھی۔ یہ علاقہ سطح سمندر سے۴۰۰میٹر نیچے ہے۔ چونکہ اس سمندر میں کوئی ڈوب نہیں سکتا، یہاں سیاح آرام سے پانی کی سطح پر لیٹ کر اخبار وغیرہ کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ اسرائیل کی ایک کثیر ملکی کمپنی اس سمندر سے کان کنی کرکے دنیا بھر میں جلدکی خوب صورتی اور علاج کے لیے Dead Sea Products سپلائی کرتی ہے۔ اس بحر کی تہہ کو جلدی امراض کے علاج کے لیے استعمال کرنے کا سہرا کراچی سے منتقل ہونے والے پاکستانی یہودی سائنس دان زیوا گلاڈ کے سر ہے۔ 
اسرائیلی علاقوں کے رکھ رکھائو اور تر قی دیکھ کر جہاں یورپ اور امریکا بھی شرما جاتا ہے، وہیں چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہی فلسطینی علاقوںکی کسمپرسی دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ سیاحو ں کو دیکھ کر بھکاری لپک رہے ہیں، نو عمر فلسطینی بچے سگریٹ، لائیٹر وغیرہ کچھ ایسی چیزیں بیچنے کے لیے آوازیں لگا رہے ہیں۔ ایک جم غفیر نے پانی کے ایک ٹینکر کے آس پاس حشر برپا کیا ہوا تھا۔ پھول جیسے بچے کتابوں کے بستوں کے بجاے پینے کے پانی کے حصول کے لیے دھینگا مشتی کر رہے تھے۔ شہر کے گورنر صالح التماری سے جب استفسار کیا، تو ان کا کہنا تھا، کہ: ’’پانی کے سبھی ذرائع پر اسرائیل کا قبضہ ہے اور وہ صرف ایک مقدار تک فلسطینی علاقوں میں پانی فراہم کرتے ہیں۔ کبھی کبھی ہفتوں تک ٹینکر نہیں آتا ہے‘‘۔ ان کے مطابق: ’’اسرائیل نے کربلا جیسی کیفیت برپا کی ہوئی ہے‘‘۔
گورنر سے ملاقات کے بعد جب ہمارے وفد کے دیگر اراکین مارکیٹ میں خریدوفروخت کر رہے تھے، میں چند فلسطینی نوجوانوں سے گفتگو کر رہا تھا۔ ان میں سے ایک نوجوان گورنر کے ساتھ ہماری بریفنگ میں بھی موجود تھا۔ اس نے کہا ، کہ: ’’کیا آپ جاننا چاہتے ہیں کہ پانی آخر کہاں جاتا ہے اور عوام تک کیوں نہیں پہنچتا ہے؟‘‘ جب میں نے ہاں کہا، تو اس نے مجھے اپنے موٹر سائیکل پر بیٹھنے کے لیے کہا۔ چند لمحوں کے تذبذب کے بعد میں اللہ کا نام لے کر سوار ہوگیا۔بعد میں اس جرأت کا خمیازہ مجھے واپسی پر تل ابیب ایئر پورٹ پر بھگتنا پڑا۔ جب وہاں سیکورٹی اہلکار نے یہ کہہ کر مجھے چونکا دیا، کہ: ’’تم اپنے ساتھیوں کو چھوڑ کر ایک فلسطینی کے موٹر سائیکل پر کہاں گئے تھے؟ ‘‘
خیر چند گلیوں سے گزرنے کے بعد ہم ایک پوش علاقے میں وارد ہوگئے تو اس نوجوان نے کہا کہ: ’’فلسطینی اتھارٹی کے عہدے داران اسی علاقے میں رہتے ہیں‘‘۔ ایک عالی شان مکان کے گیٹ کے باہر موٹر سائیکل روک کر اس نے گھنٹی کا بٹن دبایااور عربی میں آواز بھی لگائی۔ خیر کسی نے دروازہ کھول کر علیک سلیک کے بعد اندر جانے دیا۔ مکان کے مالک شاید موجود نہیں تھے۔ جس نے بھی دروازہ کھولا تھا، وہ ملازم ہی لگ رہا تھا۔ مکان کے ارد گرد وسیع باغیچہ اور ایک وسیع سوئمنگ پول بنا تھا۔ ایک اور مکان کا بھی یہی حال تھا۔ معلوم ہوا کہ مکین یا تو رملہ میں یا بیرون ملک دورے پر گئے ہیں۔کربلا جیسے حالات میں جہان عام فلسطینی العطش کی صدائیں بلند کر رہا تھا، لیڈروں کے ذریعے پانی کا یہ ضیاع تکلیف دہ مشاہدہ تھا! 

کئی تجزیہ کار بھارت کی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو یورپ کی قدامت مگر غیر فرقہ پرست جماعتوں، یعنی جرمنی کی ’کرسچن ڈیموکریٹ‘ یا برطانیہ کی ’ٹوری پارٹی‘ سے تشبیہہ دے کر دھوکا کھا جاتے ہیں۔ ان یورپی سیاسی جماعتوں کے برعکس بی جے پی کی کمان اس کے اپنے ہاتھوں میں نہیں ہے۔ اس کی طاقت کا اصل سرچشمہ اور نکیل ہندو نسل پرستوں کی تنظیم راشٹریہ سیویم سنگھ (آرایس ایس)کے پاس ہے، جو بلاشبہہ فی الوقت دنیا کی سب سے بڑی خفیہ تنظیم ہے۔ جس کے مالی وانتظامی معاملات کے بارے میں بہت ہی کم معلومات ابھی تک منظر عام پر آئی ہیں۔ اگرچہ آر ایس ایس اپنے آپ کو ایک ’ثقافتی تنظیم ‘کے طور پر متعارف کرواتی ہے، مگر حال ہی میں اس کے سربراہ موہن بھاگوت نے یہ کہہ کر چونکا دیا کہ: ’ہنگامی صورت حا ل میں ہماری تنظیم صرف تین دن سے بھی کم وقفے میں ۲۰لاکھ سیوم سیوکوں (کارکنوں) کو اکٹھا کر کے میدان جنگ میں لا سکتی ہے، جب کہ فوج کو ’لام بندی‘ (اپنے سپاہیوں کی تیاری) میں کئی ما ہ درکار ہوتے ہیں‘‘۔ دراصل وہ یہ بتا رہے تھے، کہ آرایس ایس کی تنظیمی صلاحیت اور نظم و ضبط فوج سے بدرجہا بہتر ہے۔ 
معروف مصنف اور قانون دان اے جی نورانی نے حال ہی میں اپنی ۵۰۰صفحات پر مشتمل جامع، تحقیقی اور گہری تصنیف A Menace to India  The RSS:میں اس تنظیم کے حوالے سے کئی انکشافات کیے ہیں۔ اس کتاب کو لیفٹ ورڈبکس نے مارچ ۲۰۱۹ء میں شائع کیا ہے۔اگرچہ بی جے پی کے لیڈر روز مرہ کے فیصلے کرنے میں آزاد ہوتے ہیں، مگر اہم فیصلوں کے لیے ان کوآرایس ایس سے اجازت کی ضرورت ہوتی ہے۔ بی جے پی میں سب سے طاقت ور آرگنائزنگ جنرل سیکرٹری آر ایس ایس ہی کا نمایندہ ہوتا ہے۔ آر ایس ایس کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ ایک خاص پوزیشن کے بعد صرف غیر شادی شدہ کارکنان کو ہی اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے بھارت کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی اہلیہ جسودھا بن کو شادی کے چند سا ل بعد ہی چھوڑ دیاتھا، یعنی آر ایس ایس کی پوری لیڈرشپ ’کنواروں‘ پر مشتمل ہے۔ 
آر ایس ایس کے سب سے نچلے یونٹ کو ’شاکھا‘ کہتے ہیں۔ ایک شہر یا قصبے میں کئی ’شاکھائیں‘ ہوسکتی ہیں۔ ہفتہ میں کئی روز دہلی کے پارکوں میں یہ ’شاکھائیں‘ دفاعی اور جارحانہ مشقوں کے ساتھ ساتھ لاٹھی ، جوڈو، کراٹے اور یوگا کا اہتمام کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ورزش کے ساتھ ساتھ یونٹ کا انچارج ذہن سازی کا کام بھی کرتا ہے۔آر ایس ایس کے سربراہ کو ’سرسنگھ چالک‘ کہتے ہیں اور اس کی مدد کے لیے چار ’راشٹریہ سہکرواہ‘ یعنی سیکرٹری ہوتے ہیں۔ اس کے بعد یہ چھے تنظیمی ڈھانچوں پر مشتمل ہے۔ جن میں: کیندریہ کاریہ کاری منڈل، اکھل بھارتیہ پرتیندی سبھا، پرانت یا ضلع سنگھ چالک، پرچارک، پرانت یا ضلع کاری کاری منڈل اور پرانت پرتیندی سبھا شامل ہیں۔ پرانت پرچارک علاقے یا ضلع کا منتظم ہوتا ہے، اس کا غیرشادی شدہ یا گھریلو مصروفیات سے آزاد ہونا لازم ہوتا ہے۔ بی جے پی کی اعلیٰ لیڈرشپ میں فی الوقت وزیراعظم مودی اور صدر امیت شاہ آرایس ایس کے کارکنان رہے ہیں۔ 
اے جی نورانی کے بقول: ’’اس تنظیم کی فلاسفی ہی فرقہ واریت، جمہوریت مخالف اور فاشزم پر استوار ہے ۔ سیاست میں چونکہ کئی بار سمجھوتوں اور مصالحت سے کام لینا پڑتا ہے، اس لیے اس میدان میں براہ راست کودنے کے بجاے، آر ایس ایس نے ۱۹۵۱ء میں جَن سنگھ اور پھر ۱۹۸۰ء میں بی جے پی تشکیل دی‘‘۔ بی جے پی پر اس کی گرفت کے حوالے سے نورانی کا کہنا ہے کہ: ’’آر ایس ایس کے ایما پر اس کے تین نہایت طاقت ور صدور ماولی چندر ا شرما، بلراج مدھوک اور ایل کے ایڈوانی کو برخاست کیا گیا۔ ایڈوانی کا قصور تھا کہ ۲۰۰۵ء میں کراچی میں اس نے بانیِ پاکستان محمد علی جناح کو ایک عظیم شخصیت قرار دیا تھا‘‘۔
نورانی صاحب کے بقول: ’’آر ایس ایس کے تقریباً ۱۰۰سے زائد شعبہ جات الگ الگ میدانوں میں سرگرمِ عمل ہیں۔ جیسا کہ سیاسی میدان میں بی جے پی، حفاظت یا سکیورٹی کے لیے (بالفاظ دیگر غنڈا گردی کے لیے) بجرنگ دل، مزدورں یا ورکروں کے لیے بھارتیہ مزدور سنگھ، دانش وروں کے لیے وچار منچ، غرض یہ کہ سوسائٹی کے ہر طبقے کی رہنمائی کے لیے کوئی نہ کوئی تنظیم ہے۔ حتی ٰکہ پچھلے کچھ عرصے سے آر ایس ایس نے ’مسلم راشٹریہ منچ‘ اور جماعت علما نامی دو تنظیمیں قائم کرکے انھیں مسلمانوں میں کام کرنے کے لیے مختص کیا ہے۔ گذشتہ انتخابات کے دوران یہ تنظیمیں کشمیر میں خاصی سرگرم تھیں۔ان سبھی تنظیموں کے لیے آر ایس ایس کیڈر بنانے کا کام کرتی ہے، اور ان کے لیے اسکولوں اور کالجوں ہی سے طالب علموں کی مقامی شاخوں کے ذریعے ذہن سازی کی جاتی ہے۔ اس وقت کُل شاخوں کی تعداد کم وبیش۸۷۷ ۸۴, ہے۔ گذشتہ برس ۲۰سے ۳۵سال کی عمر کے ایک لاکھ افراد تنظیم میں شامل ہوئے۔ بھارت کے ۸۸ فی صد بلاک میں یہ تنظیمیں پھیل چکی ہیں، جو ملک اور بیرون ملک کے مختلف مقامات پر ہندوؤں کو انتہاپسندانہ نظریاتی بنیاد پر جوڑنے کا کام کررہی ہیں۔ 
’’بھارت سے باہر کے ممالک میں ان کی ۳۹ممالک میں شاخیں ہیں۔ یہ شاخیں ’ہندو سوئم سیوک سنگھ‘ (HSS)کے نام سے کام رہی ہیں۔بھارت سے باہر آر ایس ایس کی سب سے زیادہ شاخیں نیپال میں ہیں۔ پھر امریکا میں اس کی شاخوں کی تعداد۱۴۶ ہے اور برطانیہ میں ۸۴شاخیں ہیں۔ یہ کینیا کے اندر بھی کافی مضبوط پوزیشن میں ہے اور ان کا دائرۂ کار پڑوسی ممالک تنزانیہ، یوگنڈا، موریشس اور جنوبی افریقا تک پھیلا ہوا ہے۔دل چسپ بات یہ ہے کہ ان کی پانچ شاخیں مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک میں بھی ہیں۔ چوں کہ عرب ممالک میں جماعتی اور گروہی سرگرمیوں کی کھلی اجازت نہیں ہے، اس لیے وہاں کی شاخیں خفیہ طریقے سے گھروں تک محدود ہیں۔ بتایا جاتا ہے، کہ بابری مسجد کی مسماری اور رام مندر کی تعمیر کے لیے سب سے زیادہ چندا خودعرب ممالک ہی سے آیا تھا۔ فن لینڈ میں ایک الیکٹرانک شاخ ہے، جہاں ویڈیو کیمرے کے ذریعے ۲۰ممالک کے افراد جمع ہوتے ہیں، حالاں کہ ان ممالک میں آر ایس ایس کی باضابطہ شاخ موجود نہیں ہے۔ بیرون ملک آر ایس ایس کی سرگرمیوں کے انچارج رام مادھو اس وقت بی جے پی کے قومی جنرل سیکریٹری بھی ہیں۔ وہی کشمیر امور کو بھی دیکھتے ہیں، اور وزیراعظم مودی کے بیرونی دوروں کے دوران بیرون ملک مقیم بھارتیوں کی تقاریب منعقد کراتے ہیں‘‘۔
آر ایس ایس کے ایک مرکزی لیڈر سے گفتگو کے دوران مَیں نے پوچھا کہ: ’مسلمان، جو بھارت کے صدیوں سے رہنے والے شہری ہیں، ان کے بارے میں آپ کی کیا راے ہے‘؟ تو ان کا کہنا تھا کہ: ’مسلمانوں سے ان کو کوئی شکایت نہیں ہے، اگر وہ ہندو جذبات کا خیال رکھیں‘۔ میں نے پوچھا کہ: ’ہندو جذبات سے آپ کی کیا مراد ہے؟‘ توان کا کہنا تھاکہ: ’ہندو کم و بیش ۳۲کروڑدیو ی دیوتائوں پر یقین رکھتے ہیں۔ ہمارے لیے یہ کوئی ناک کا مسئلہ نہیں کہ ہم پیغمبرؐاسلام کی بھی اسی طرح عزت افزائی کرنا چاہتے ہیں، مگر مسلمان اس کی اجازت نہیں دیتے، اور نہ اپنے یہاں کسی ہندو دیوی دیوتا کی تصویر یا مورتی رکھتے ہیں‘۔ اپنے دفتر کی دیوار پربابا گورو نانک اور گورو گوبند سنگھ کی لٹکتی تصویر اور کونے میں مہاتما بدھ اور مہاویر کی مورتیوںکی طرف اشارہ کرتے ہوئے، انھوںنے کہا کہ: ’دیگر مذاہب، یعنی سکھوں، بدھوں اور جینیوں نے ہندوئوں کے ساتھ رہنے کا سلیقہ سیکھا ہے، جو مسلمانوں کو بھی سیکھنا پڑے گا‘۔
’گجرات فسادات کے بعد ۲۰۰۲ء میں ایک مسلم وفد آر ایس ایس کے اُس وقت کے سربراہ کے سدرشن جی سے ملنے ان کے صدر دفتر ناگ پور چلا گیا جس میں اعلیٰ پایہ کے مسلم دانش ور شامل تھے۔ ملاقات کا مقصد ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی کو کم کرنے کے لیے انھیں قائل کرنا تھا۔ اس وفد کے ایک رکن نے بتایا: ’’جب ہم نے سدرشن جی سے پوچھا کہ کیا مسلمانوں اور ہندوؤں میں مفاہمت نہیں ہوسکتی ہے؟ کیا دوستانہ ماحول میں نہیں رہا جاسکتا ہے؟‘‘ جواب میں سدرشن نے مسلم وفد کو بتایا کہ: ’آر ایس ایس جیسی شدت پسند تنظیم، مسلمانوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرسکتی ہے، لیکن اس کے لیے شرط ہے۔ آپ لوگ(مسلمان)کہتے ہیں کہ اسلام ہی برحق اور سچا دین ہے، آپ یہ بات کہنا چھوڑ دیجیے اور کہیے کہ اسلام بھی سچا دین ہے تو ہماری آپ کے ساتھ مفاہمت ہوسکتی ہے‘۔ ’اسلام ہی حق‘ ہے، کے بجاے ’اسلام بھی حق‘ ہے، کا مطالبہ کرنا بظاہر ایک معمولی بات ہے اور یہ مطالبہ اب فرقہ پرست ہی نہیں ، بلکہ خود ساختہ لبرل مسلمانوں کی طرف سے بھی کیا جاتاہے۔ تاہم، آرایس ایس اُس وفد کواس بات پر قائل نہیں کرسکی کہ وفد کے تمام لوگ دینی علوم سے واقفیت رکھتے اور یہ جانتے تھے کہ ا س مطالبے کو ماننے سے ان کے ایمان کا کیا حشر ہوگا۔ 

گذشتہ دنوں خبر آئی کہ ’’پاکستانی پنجاب میں گوردوارہ کرتار پور کے درشن کی خاطر، سکھ عقیدت مندوں کے لیے ایک راہداری کی منظوری کے بعد اب پاکستانی حکومت، جموں و کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے پاس ہندو زائرین کے لیے ’شاردا پیٹھ مندر‘ جانے کے لیے بھی ایک کوریڈور کھولنے پر غور کر رہی ہے‘‘۔ اس کے مضمرات کا جائزہ لیے بغیر، لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف، خصوصاً آزاد کشمیرمیں اپنی روشن خیالی ثابت کروانے والوں کی باچھیں کھل گئیں۔ نئی دہلی اور اسلام آباد میں بھی کریڈٹ لینے کے لیے ماحول خاصا گرم ہوا۔ بھارتی وزارت خارجہ نے ذرائع کے حوالے سے بیان داغا کہ: ’’کرتار پور اور شاردا کو زائرین کے لیے کھولنے کی تجویز تو بھارت نے کئی عشرے قبل پیش کی تھی، مگر اسلام آباد ہی ٹالتا رہا تھا‘‘۔
کرتار پور سکھوں کے لیے ایک مقدس مقام ہے۔ مگر پچھلے ایک ماہ سے بھارت اصرار کررہا تھا کہ گوردوارہ کرتار پور جانے کے لیے سبھی بھارتی شہریوں کو راہداری ملنی چاہیے۔ آخری اطلاعات کے مطابق پاکستان نے اس شرط کو منظور کرلیا ہے۔ ان سے نہیں پوچھا کہ آخر کیرالا میں گورو دہار، اڑیسہ میں جگن ناتھ، اتر پردیش میں کاشی وشواناتھ جیسے بے شمار مندروں میں غیرہندوؤں کا داخلہ کیوں ممنوع ہے؟
پھر بھارتی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ: ’’جب شاردا پر بات چیت کا عمل شروع ہوجائے گا، تو نہ صرف جموں و کشمیر کے پنڈتوں، بلکہ سبھی بھارتی شہریوں کے لیے راہداری کھلنی چاہیے‘‘۔ 
 چند برس قبل ہندو قوم پرستوںکی مربی تنظیم راشٹریہ سیویم سنگھ(RSS) کی ایک شاخ کی طرف سے دہلی اور جموں میں ایک تقریب میں آزاد کشمیر کے کسی فارسٹ کنزویٹر رئیس احمدکی طرف سے بذریعہ ڈاک ارسال کی گئی، ’شاردا پیٹھ مند ر‘ کی مٹی کی پوجا کی گئی۔ اس موقعے پر کشمیریوں اور پاکستان کے خلاف جارحانہ تقریریں بھی ہوئیں۔ مقررین نے لائن آف کنٹرول کو کھولنے کا مطالبہ کیا، تاکہ بھارت سے ہندو زائرین جوق در جوق اس مندر کی زیارت کرسکیں۔  (ویسے تو اس کنزویٹر کے خلاف قانونی چارہ جوئی ہونی چاہیے کہ آثارِ قدیمہ کی ایک یادگار کی اس نے غیرقانونی طور پر کھدائی کر کے مٹی کیوں نکالی)۔ مظفر آباد سے ۱۵۰کلومیٹر اور سری نگر سے ۱۳۰کلومیٹر دُور شمال میں اٹھ مقام اور دودنیال کے درمیان، شاردا کھنڈرات کو، کشمیر کی مبینہ طور پر پانچ ہزار سال پرانی تہذیب کا گواہ قرار دیا جارہا ہے، جو نیلم اور مدھومتی کے سنگم پر واقع ہے۔ چارلس الیسن بیٹس نے ۱۸۷۲ء میں جب ’گزیٹئر  آف   کشمیر‘ ترتیب دیا، تو اس مقام پر   ایک قلعے کی موجودگی کا ذکر کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ قلعہ سے ۴۰۰گز کی دُوری پر ایک مندر کے کھنڈرات ملے۔ بیٹس اور والٹر لارنس ، جنھوں نے کشمیر کے قریہ قریہ گھو م کر معمولی سے واقعات تک قلم بند کیے ہیں، انھوں نے کہیں بھی ’شاردا مندر کی یاترا ‘کا ذکر نہیں کیا ہے۔ 
بھارت میں ہندو قوم پرست آرایس ایس کی طرح پاکستان میں بھی آج کل تاریخ کو توڑ مروڑ کر اَز سرِ نو لکھنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ بھارت میں یہ کام ہندو انتہا پسندو ں کا خاصہ ہے، لیکن پاکستان میں یہ کام وہ افراد کررہے ہیں ، جن پر اپنے آپ کو اعتدال پسند اور روشن خیال کہلوانے کا خبط سوار ہے۔ ان افراد کا کہنا ہے کہ: ’۱۹۴۷ءسے قبل امر ناتھ کی طرز پر اس علاقے میں بھی ہندو یاترا ہوتی تھی‘۔ اگر ایسا ہوتا تو لارنس اور بیٹس کے گزیٹئر میں اس کا ضرور ذکر ہوتا۔ 
۱۳۷۲ء میں میر سید علی ہمدانی کے آمد تک کشمیر میں وقتاً فوقتاً بدھ مت اور ہندو شیوازم کے درمیان انتہائی کشیدگی جاری تھی۔ اور وہ ایک دوسرے کی عبادت گاہوں کو مسمار کرتے رہتے تھے۔ اس خطے میں اسلام کی عوامی پذیرائی کی ایک وجہ شاید یہ بھی تھی۔ کشمیر میں ۱۲۶۰  قبل مسیح میں سریندرا پہلا بدھ بادشاہ تھا۔ ۲۳۲قبل مسیح اشوکا کی حکومت کے خاتمے کے بعد راجا جالو نے ہندو شیوازم قبول کیا، تو اس نے بدھ مت پر ایک قیامت توڑ دی۔ بدھ اسٹوپوں اور دانش گاہوں کو تاراج کرکے شیو مندر بنائے گئے۔ ۶۳ء میں دوبارہ بدھ مت کو عروج حاصل ہوا۔ راجہ کنشک کے عہد میں بارہمولہ کے کانس پورہ میں چوتھی بدھ کونسل منعقد ہوئی اور بدھ مت کے ایک لبرل مہایانہ فرقہ کی بنیاد ڈالی گئی، جو چین اور کوریا میں آج بھی رائج ہے۔ ساتویں صدی میں چینی سیاح اور بھکشو ہیون سانگ جب یہاں سیر کے لیے آیا تو اس کے مطابق: ’سرینگر سے وادی نیلم کے علاقے میں سو بدھ عبادت گاہیںاور پانچ ہزار بھکشو موجود تھے‘۔ بد ھ مت کو چیلنج دینے کے لیے آٹھویں صدی میں کیرالا کے ایک ہندو برہمن آدی شنکر نے بیڑا اٹھایا۔ پورے خطے میں گھوم پھر کر اس نے ہندو ازم کا احیا کرایا۔ جہاں اس نے بدھ بھکشو وں کے ساتھ مکالمہ کرکے ان کو ہرایا، وہاں اس نے ’شاردا‘ یعنی ’علم کی دیوی‘ کے نام پر چند مندر تعمیر کروائے، جن میں سب سے بڑا مندر کرناٹک میں دریاے تنگ کے کنارے سرنگری میں واقع ہے۔ 
اگرچہ اس علاقے کو ہندو زائرین کے لیے کھولنے اور انھیں اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرنے کا موقع فراہم کرنے میں بظاہر اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ مگر جو لوگ اس کی وکالت کر رہے ہیں، انھیں چند منٹ جنوبی کشمیر میں امرناتھ اور شمالی بھارت کے صوبہ اترا کھنڈ کے چار مقدس مذہبی مقامات بدری ناتھ ،کیدارناتھ، گنگوتری اوریمنوتری کی مذہبی یاترا کو سیاست اور معیشت کے ساتھ جوڑنے کے مضمرات پر بھی غور کرنا چاہیے۔
ایک عشرہ قبل تک امرناتھ یاترا میں محدودتعداد میں لوگ شریک ہوتے تھے، لیکن اب ہندو قوم پرستوں کی طرف سے چلائی گئی مہم کے نتیجے میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ آتے ہیں۔ سال بہ سال ان کی تعداد میں اضافہ ہورہاہے۔ اس یاتراکو فروغ دینے کے پیچھے کشمیر کو دراصل ہندوئوں کے لیے ایک مذہبی علامت کے طور پر بھی ابھار نا ہے، تاکہ کشمیر پر بھارت کے دعوے کو مزید مستحکم بنانے کا جواز پیدا کیا جاسکے۔بھارت کے موجودہ قومی سلامتی مشیر اجیت دوبال نے تو کشمیر کو سیاسی مسئلےکے بجاے تہذیبی جنگ قرار دیتے ہوئے کہا ہے: ’’اس مسئلے کا حل ہی تہذیبی جارحیت اور اس علاقے میں ہندو ازم کے احیا میں مضمر ہے‘‘۔ 
ایک باضابطہ منصوبہ کے تحت کشمیر کی پچھلی ۶۴۷ سال کی مسلم تاریخ کو ایک ’تاریک دور‘ کے بطور پیش کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں کشمیری زبان کے اسکرپٹ کو فارسی سے دوبارہ ’قدیمی شاردا‘ میں تبدیل کرنے کی تیاریا ں ہو رہی ہیں۔ اب ان سے کوئی پوچھے کہ: ’’اگر کشمیری کا اسکرپٹ واپس شاردا میں لانا ہے، تو سنسکرت اور دیگر زبانوں کا اسکرپٹ بھی تبدیل کرو۔ کشمیر ی کی طرح سنسکرت بھی قد یم زمانے میں شاردا اسکرپٹ میں ہی تحریری کی جاتی تھی‘‘۔
امرناتھ علاقے میں ۱۹۹۶ء میں برفانی طوفا ن کی وجہ سے ۲۰۰ سے زائد ہندو یاتریوں کی موت ہوگئی تھی۔ اس حادثے کی انکوائری کے لیے بھارتی حکومت کی وزارت داخلہ کی طرف سے مقرر کردہ ’ڈاکٹر نتیش سین گپتا کی قیادت میں ‘ ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں یاتریوں کو ایک محدود تعداد میںکرنے کی سفارش کی تھی۔اس کمیٹی کی سفارش کی بنیاد پر ریاستی حکومت نے یاتریوں کی تعداد کو ضابطے کا پابند بنانے کی جب کوشش کی، تو بزعم خود ہندو دھرم کے محافظ بعض ہندو رہنمائوں نے اسے مذہبی رنگ دے کر ان کوششوں کو ناکام بنادیا۔ حدتو اس وقت ہوگئی جب ۲۰۰۵ء میں کشمیر کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ مرحوم مفتی محمد سعید نے اپنے دور میں  گورنر ایس کے سنہا کی طرف سے یاترا کی مدت میں اضافے کی تجویز پر اعتراض کیا ،تو ان کی کابینہ کے تمام ہندو وزیروں نے استعفے پیش کر دیے۔ دوسری طرف ہندو شدت پسند لیڈروں نے بھی پورے ملک میںمہم شروع کرکے بڑے پیمانے پر ہندووں کو امرناتھ یاترا کے لیے راغب کرنا شروع کردیا۔اتراکھنڈ کے چار دھام کی طرح آج امر ناتھ کو بھی سیا حت اور بھارت کی شدت پسند قومی سیاست کے ساتھ جوڑنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ تاکہ ماحولیات کے لحاظ سے اس نازک خطے میںلاکھوںیاتریوں کی یاترا کو ممکن بنانے کے لیے سڑکیںاور دیگر سہولیات فراہم کی جاسکیں۔ حتیٰ کہ بھارت کی سپریم کورٹ نے بھی یہاں پر یاتریوں کے لیے ایک ٹریک بنانے کا حکم دے ڈالا، مگر دوسری جانب یہی عدالت دیگر مقدمات میں ماحولیات کو بچانے کے لیے سخت موقف اختیار کرتی ہے۔
 سابق گورنر ایس کے سنہا تو ہر تقریب میں اعلان کرتے تھے کہ: ’’مَیں اس علاقے میں ہندوئوں کے لیے مخصوص 'شاردایونیورسٹی‘ قائم کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں‘‘۔ اسی لیے انھوں نے جنگل والی زمین کا ایک وسیع قطعہ ’امرناتھ شرائن بورڈ‘ کے سپرد کیا تھا۔ اس فیصلے نے ۲۰۰۸ء میں کشمیر کے طول وعرض میں آگ لگادی۔ ’امرناتھ مندر بورڈ‘ کے خلاف، وادی کے عوام کا جو غصہ پھوٹا اس کا تعلق ہندومسلم مسئلے سے قطعی نہیں تھا۔ ۱۸۶۰ء سے ہی جب امرناتھ کی یاترا کا آغاز ہوا، مسلمان اس کے نظم و نسق اور اسے حسن و خوبی کے ساتھ تکمیل تک پہنچانے میں اہم رول ادا کرتے آرہے ہیں۔لیکن گورنر سنہا نے امرناتھ مندر بورڈ کے چیئرمین کا عہدہ سنبھالتے ہی سب سے پہلاکام بٹ گنڈ گائوں کے مسلمان چرواہوں کے پیٹ پر لات مارنے کا کیا۔ حالاںکہ پچھلے تقریباً ڈیڑھ سو سال سے یہی چرواہے ہندوئوں کے اس مقدس مقام کی نگرانی کرتے آرہے تھے۔ جنرل سنہا کے پرنسپل سکریٹری اور ’امرناتھ شرائن بورڈ‘ کے سربراہ ارون کمار نے یہاں چھوٹی چھوٹی دکانیں لگا کر اپنی روزی کمانے والوںسے ان کا روزگار بھی چھین لیا۔ جس زمین کے وہ بے چارے مالک تھے، انھی سے’جزیہ‘ وصول کرنا شروع کردیا۔ اس علاقے کی مقامی آبادی کا امرناتھ مندر سے کتنا گہرا تعلق ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ۱۹۹۵ء میں جب حرکت الانصار نامی تنظیم نے امرناتھ یاترا کے نظم و نسق میں مسلمانوں کی شمولیت پر پابندی لگانے کا اعلان کیا تو مسلمانوں نے ہی بڑے پیمانے پر اس کی مخالفت کی اور اسے ۱۲دن کے اندر ہی اپنا حکم واپس لینا پڑا۔ اب تو مقامی مسلمانوں اور تاجروں کو اس یاترا کے انتظام سے پوری طرح بے دخل کردیا گیا ہے۔
 بہر حال ہر سال لاکھوں یاتریوں کے امرناتھ آنے کی وجہ سے ماحولیات پر بھی خاصا بُرا اثر پڑ رہا ہے۔۲۰۰۵ء میں مشہور ماہر ماحولیات پروفیسر ایم این کول کی قیادت میں ملک کے چوٹی کے ماہرین ماحولیات نے اپنی ایک رپورٹ پیش کی، جس میں کہا کہ: ’’اگر بال تل کے راستے امر ناتھ کے مقدس گپھا تک ہزاروں یاتریوں کی آمدورفت کا سلسلہ یوں ہی جاری رہا، تو ماحولیات اور گلیشیر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا‘‘۔لیکن اس مشورے پر کان دھرنے کے بجاے بھارتی حکومت زیادہ سے زیادہ یاتریوں کو بال تل کے راستے ہی امرناتھ بھیج رہی ہے۔ بھارتی حکومت نے اگرچہ بیشتردریائوں اورندیوں کے منبعے یعنی گنگا کے گلیشیرو ں کی حفاظت کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں، لیکن وادی کشمیر اور پاکستان کو پانی فراہم کرنے والے سند ھ طاس گلیشیر کی تباہی پر وہ ذرا بھی فکر مند نہیںنظر آتی ہے۔ ۲۰۰۸ء میں ہی اتراکھنڈ صوبے میں ماحولیات کے تحفظ کے لیے وہاں پر اس وقت ہندو قوم پرست بی جے پی حکومت نے ایک حکم نامہ جاری کیا، جس کی رو سے ہر روز صرف ۲۵۰ سیاح اور زائرین دریائے گنگا کے منبعے گومکھ گلیشیر جا سکتے ہیں۔اس کے برعکس    سندھ طاس کو پانی فراہم کرنے والے کشمیر کے کولہائی گلیشیر کے ساتھ موازنہ کریں، تو وہاں ہر روز امرناتھ یاترا کے نام پر اوسطاً۲۰ہزار افراد مئی اور اگست کے درمیان اسے روندتے ہوئے نظر آئیں گے۔
نتیش سین گپتا کمیٹی نے ۱۹۹۶ء میں اپنی سفارشات میں یہ بھی کہا تھا کہ: ’’امرناتھ کی ایک مہینے کی یاترا کے دوران صرف ایک لاکھ یاتریوں کو جانے کی اجازت دی جائے‘‘۔ لیکن حکومت نے پہلے تو یاترا کی مدت ایک ماہ سے بڑھا کر دو ماہ کردی۔اس کے بعد یاتریوں کی تعداد کو محدود کرنے سے انکار کردیا۔۲۰۱۸ء میں تقریباًساڑھے چھے لاکھ یاتریوں نے امرناتھ کی یاترا کی تھی۔ آیندہ برسوں میں یہ تعداد ۱۰لاکھ تک پہنچ جانے کا اندازہ ہے۔گپتا کا کہنا تھا کہ: ’’یاترا کے دوران ایک وقت میں ایک جگہ صرف ۳ہزاریاتریوں کو ٹھیرانے کی اجازت ہونی چاہیے‘‘۔ مگر آج حالت یہ ہے کہ پہلگام جیسی چھوٹی سی جگہ پر ، جو یاترا کا ایک بیس کیمپ بھی ہے، ۲۰ہزار سے ۵۰ہزار تک یاتری جمع ہوجاتے ہیں۔ ماہرین ماحولیات کہتے ہیں کہ: ’’ایسے وقت میں جب کہ دنیا موسمیاتی تبدیلیوںکی وجہ سے ایک نئی آفت سے دوچار ہونے والی ہے اور اس مصیبت کو ٹالنے کے لیے دنیا کے بیش تر ممالک پہاڑی علاقوں میں سیاحوں کی آمد کو بھی ریگولیٹ کررہے ہیں۔ حکومت بھارت کو بھی چاہیے تھا کہ کشمیر کے قدرتی ماحول کو برقرار رکھنے کے لیے امرناتھ میں یاتریوں کی تعدادکو ریگولیٹ کرنے کی تجویز پر مذہبی نقطۂ نگاہ کے بجاے سائنسی نقطۂ نگاہ سے غور کرے‘‘۔ آزادکشمیر اور پاکستان میں مقیم ان دانش وروں اور زعما سے بھی گزارش ہے کہ جو’ شاردا پیٹھ‘ کو زائرین کے لیے کھولنے کی وکالت کر رہے ہیں: ’’کہیں اٹھ مقام اور دودنیال کی سرسبز چراگاہیں دوسرا پہلگام اور بال تل نہ بن جائیںاور حریص طاقتیںان کو سیاست ومعیشت کے ساتھ جوڑ کر  کسی سانحے کا سامان پیدا نہ کریں‘‘۔ روشن خیالی تو ٹھیک ہے، مگر اس کے ساتھ شرارت کی نیت سے اگر بے ضمیری شامل ہوجائے تو یہ زہر ہلاہل بن جاتی ہے! 

۷۰ءکے عشرے میں میرے چچا ڈاکٹر مشتاق گیلانی نے ہمارے آبائی قصبہ سوپور میں ایک تختی اور بستہ میرے کاندھوں پر لاد کر، ہاتھ پکڑتے ہوئے مرکزی درس گاہ، محلہ مسلم پیر میں پہلی جماعت میں داخل کرا دیا۔ یہ درس گاہ، براہِ راست جماعت اسلامی کے شعبۂ تعلیم کے تحت تھی۔ مدت گزرنے کے باعث اکثر یادیں دھندلی ہوچکی ہیں، مگر جن مشفق اساتذہ نے ہاتھ تھام کر تعلیم کا آغاز کرایا، ان محسنوں کی یادیں ابھی تک ذہن میں نقش ہیں۔
 لیکن پھر ہوا یہ کہ بس د و ہی سال بعد اندرا گاندھی اور شیخ عبداللہ کے درمیان ہونے والے فروری ۱۹۷۵ء میں معاہدے کے نتیجے میں شیخ عبداللہ صاحب وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے۔اپوزیشن کے دبائو اور اعلیٰ عدالت کے ایک فیصلے سے پریشان وزیر اعظم اندرا گاندھی نے جون ۱۹۷۵ءکو پورے ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کر دیا۔ اقتدار کی دیوی کی آغوش میں تازہ تازہ آئے شیخ صاحب نے بھی دیکھا دیکھی کشمیر میں ایمرجنسی نافذ کی اور جماعت اسلامی اور اس سے ہمدردی رکھنے والے تعلیمی، معالجی اور رفاہی اداروں کو بھی مقفل کردیا۔ اس ایک فیصلے سے جموں و کشمیر میں، ہم ۲۰ ہزار طلبہ و طالبات پر اسکولوں کے دروازے بند ہوگئے، اور انھیں پریشانیوں میں دھکے کھاتے ہوئے سرکاری اسکولوں میں پناہ لینا پڑی۔ جماعت اسلامی تو ان دنوں جموں و کشمیر کی انتخابی سیاست میں پیش پیش تھی اور اسمبلی میں اس کی نمایندگی بھی تھی۔ ’اندراعبداللہ ایکارڈ‘ کی مخالف جماعت اسلامی نے گاندر بل حلقے سے شیخ عبداللہ کے مقابل محمداشرف صحرائی کو بطور اُمیدوار میدان میں اتارا تھا۔ یہ ایک طرح سے ہاتھی اور چیونٹی کا مقابلہ تھا ، مگر نیشنل کانفرنس معمولی سا اختلاف راے برداشت کرنے کی بھی متحمل نہیں تھی۔ صحرائی صاحب کے الیکشن ایجنٹ ڈوڈہ کے سعداللہ تانترے کو سید پورہ آلسٹینگ کے مقام پر کھیتوں میں نہ صرف زدوکوب کیا گیا، بلکہ ان کی ایک آنکھ بھی نکال دی گئی۔ طرفہ تماشہ دیکھیے کہ چند ہفتے پیش تر یہاں پر جماعت اسلامی پہ جو پابندی عائد کی گئی ہے، اس میں ایک ’جرم‘ یہ بھی ہے کہ یہ انتخابی سیاست میں یقین نہیں رکھتی ہے۔ اب اس سادگی پر مر نہ جائے کوئی!
۱۴فروری کو پلوامہ میں بھارتی فوجی دستوں کے قافلے پر ایک خود کش حملے کے جوا ب میں پاکستان پر ہوائی حملوں کے بعد کھسیانی بلی کھمبا نوچنے کے مصداق بھارتی وزیرا عظم نریندر مودی نے اپنی انتخابی حکمت عملی کا رخ دوبارہ کشمیر کی طرف موڑ دیاہے۔ حُریت کے لیڈورں کو نظربند رکھنے اور فوجی آپریشن وغیرہ کی ناکامی کے بعداب بتایا جا رہا تھا کہ حریت کانفرنس پر پابندی عائد کرکے لیڈروں کو پابند سلاسل کیا جائے گا۔ 
سید علی گیلانی پچھلے نو سالوں سے مسلسل گھر پہ نظربند ہیں۔ پچھلے دنوں سرینگر سے دہلی واپس آتے ہوئے ایرپورٹ روڈ پر جب ان کی رہایش گاہ پر پہنچا، تو دیکھا کہ گلی میں تین بکتر بند گاڑیاں ان کے گیٹ کو بلاک کیے ہوئے ہیں۔ سخت سردی میں د و درجن کے قریب سیکورٹی کے اہل کار باہر کھڑے ، اندر جانے کے لیے نام وغیرہ کا اندراج کر رہے تھے۔اندر جانے کی اجازت دینا ان کے موڈپر منحصر ہے۔ گیلانی صاحب خاصے کمزور نظر آرہے تھے ۔ اگرچہ اخبارات و غیرہ کا مطالعہ کر رہے تھے، مگر بتایا کہ کمزوری اور نقاہت کے باعث اب کچھ تحریر نہیں کر پاتا۔ پہلی بار ڈائری سے ساتھ چھوٹ گیا ہے۔ ان کے دفتر کے افراد اور رفقا زیر حراست ہیں۔ گھر کا ملازم چند ماہ قبل گائوں گیا تھا، واپسی پر اس کو اندر جانے کی اجازت ہی نہیں ملی۔ مجھے بٹھا کر خود ہی اندر اطلاع کرنے چلے گئے۔
اسی سلسلے میں جماعت اسلامی جموں وکشمیرپر پانچ سال تک پابندی عائد کرکے اس کے امیر ڈاکٹر عبدالحمید فیاض، ترجمان ایڈووکیٹ زاہد علی سمیت ۴۰۰ کے قریب اراکین کو اب تک گرفتار کیا جا چکا ہے۔ اور یہ سطور لکھنے تک روزانہ کہیں نہ کہیں سے، جماعت کے کسی کارکن کی گرفتاری کی خبر موصول ہوتی ہے۔جماعت کے دفاتر اور تعلیمی ادارے بھی سیل کر دیے گئے ہیں۔  کئی جگہوں سے اطلاعات ہیں کہ ارکان کے ذاتی رہایشی گھر بھی سیل کر دیے گئے ہیں۔ شدیدسردی اور برف باری کے موسم اور رات کے اندھیرے میں گھر کی عورتوں، بچوں اور بزرگوں کو بے دخل کرکے گھر سیل کیے گئے ہیں۔ ان بے قصور افراد سے آشیانہ چھین کر مبتلاے عذاب کرنا انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہے، جب کہ گھر کے مرد یا تو پہلے سے حراست میں ہیں، یا پھر روپوش۔ 
۱۹۷۷ء میں جب جماعت اسلامی پر پابندی اٹھائی گئی تو تعلیمی اداروں کے انتظام و انصرام کے لیے اس نے ’فلاح عام ٹرسٹ‘ قائم کیا۔ اس وقت اس ٹرسٹ کے تحت براہ راست ۳۵۰؍ اسکولوں میں ایک لاکھ سے زائد طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ پھر بالواسطہ طور پر تقریباً اتنے ہی اسکول ’فلاح عام ٹرسٹ‘ کی تعلیمی کاوشوں کے ساتھ منسلک ہیں۔ پابندی کے فوراً بعد جب دنیا کے دور دراز خطوں سے، ان اداروں سے فارغ التحصل طلبہ، یعنی ایلومنائی کے پیغامات آنا شروع ہوئے، تو پہلی بار معلوم ہوا کہ ان اداروں سے اٹھا ہوا ابر تو سارے جہاں پر برس رہا ہے۔ تقریباً ۳۰۰؍ایلومنائی نے ایک مشترکہ یادداشت میں حکومت کو بتانے کی کوشش کی ہے کہ یہ ادارے غریب اور دُور دراز کے دیہات میں تعلیمی معیار کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ اس لسٹ میں ایسے محقق اور پروفیسر شامل ہیں، جو فی الوقت نام ور اداروں، یعنی ہارورڈ یونی ورسٹی، امپیریل کالج، سوئزرلینڈ ، ویسٹ منسٹر، امریکا کے طبی تحقیق کے اعلیٰ اداروں، بھارت کے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی، جواہر لال نہرو یونی ورسٹی، علی گڑھ و جامعہ ملیہ اسلامیہ وغیرہ میں کام کر رہے ہیں۔ 
ان ماہرین، اسکالرز اور سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ان کی کامیابی میں ان اسکولوں اور وہاں کے اساتذہ کی محنت، لگن اور خلوص بھی شامل ہے۔اس یادداشت پر دستخط کرنے والوں میں ایک کشمیری پنڈت خاتون نتاشا کول بھی ہیں ، جو اس وقت یونی ورسٹی آف ویسٹ منسٹر، لندن[تاسیس: ۱۸۳۸ء] میں پڑھاتی ہیں۔ ایک طرف حکومت تو خود معیاری تعلیم دینے سے عاری ہے، دوسری طرف جو ادارے اس طرف عوامی خدمت، محنت اور لگن سے دن رات مگن ہیں، ان کا گلہ گھونٹے سے نہیں کتراتی ہے۔جموں و کشمیر میں اعلیٰ عہدوں پر برا جمان، خو د گورنر کے دفتر میں افسران کی ایک بڑی تعداد انھی اسکولوں سے فارغ التحصیل ہے۔ اس یادداشت میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ۱۹۹۰ء میں بھی اس وقت کے گورنر جگ موہن نے ان اداروں پر پابندی عائد کی تھی، مگر بعد میں سپریم کورٹ نے اس غیرمنصفانہ پابندی کو ختم کر دیا تھا۔ ان ایلومنائی کا کہنا ہے کہ: ’’آخر سیاسی صورت حال سے نمٹنے میں ناکامی کا نزلہ ان تعلیمی اداروں پر کیوں اتارا جاتا ہے؟‘‘ ۱۹۹۷ء سے جماعت عسکری جدوجہد سے لاتعلق ہے۔ ایسے حالات میں، جب کہ جماعت اسلامی کشمیر، عسکریت میں براہِ راست یا بالواسطہ شریک بھی نہیں ہے اور تعلیمی ، تبلیغی او ررفاہی کاموں میں مشغول ہے، اس پر پابندی لگاناسمجھ سے باہر ہے۔ ایسی کارروائی ا ور پکڑ دھکڑ سے کشمیر میں حالات مزید خراب ہونے کااحتمال ہے۔ بھارت نواز نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی بھی اس پابندی کو غلط اقدام قراردے رہی ہے۔ 
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی لیڈر اور جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے سوال اٹھایا ہے: ’’حکومت ِدہلی کو آ خر جماعت اسلامی کشمیر سے اتنی پریشانی کیوں ہے؟ ہندو انتہا پسند  گروپوں کو جھوٹ پھیلانے اور ماحول خراب کرنے کی پوری آزادی ہے، جب کہ ایک ایسی تنظیم پر پابندی لگائی جارہی ہے، جس نے کشمیریوں کی تعلیمی، سماجی اور فلاحی محاذوں پر لوگوں کی اَن تھک مدد کی ہے‘‘۔ کوئی سیاسی نظریہ جب میدان عمل میں پوری طرح ناکام ہوجاتا ہے، تو اس کے حاملین زور زبردستی پر اُتر آتے ہیں۔ بی جے پی جب فکری سطح پر اشترا کی دانش وروں کا مقابلہ نہیں کرسکی تو اس نے ’شہری نکسل واد‘ کی اصطلاح گھڑکر اپنے خلاف اْٹھنے والی آوازوں کو دبانے کی خاطر حقوق انسانی کا کام کرنے والوں کو’ باغی اور دہشت گردوں کے حامی ‘قرار دے دیا۔ ملک بھر میں ’شہری نکسل واد‘ کے نام پر جو کارروائی کی گئی،اب اسی کا اعادہ جموں وکشمیر میں جماعت اسلامی پر پابندی لگا کر   کیا گیا ہے۔ 
نئی دہلی میں وزارتِ داخلہ کے ایک سینیر اہل کار سے جب میں نے جماعت پر پابندی کے پیچھے حقائق جاننے کی کوشش کی، تو انھوں نے فرمایا:’’جماعت اسلامی کشمیر سوسائٹی کو انتہا پسندی کی طرف لے جاکر ان کو ’سلفیت‘ کی طرف مائل کرکے مقامی خانقاہوں اور حنفیت سے متنفر کرواتی ہے‘‘۔ جب میں نے کہا: ’’اگر واقعی یہ بنیاد ہے تو خود اہل حدیث اور سلفی گروپوں پر پابندی کیوں نہیں  لگائی گئی ؟ اگر سلفی واقعی اتنے ہی خطرناک ہیں ،تو جہاں تک مجھے یاد ہے کشمیر میں ۱۹۹۰ء میں صرف دو اہل حدیث مساجد تھیں ، جو اب حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ۴۰۰ سے تجاوز کر گئی ہیں۔  کون اس کی پشت پر ہے؟ اکتوبر۲۰۰۳ء میں ڈاکٹر ذاکر نائیک کشمیر تشریف لائے تھے اور شہر کے وسط میں پولوگراؤنڈ میں، اننت ناگ کے اسٹیڈیم  میں ان کی تقاریر ہوئی تھیں۔ اس کے علاوہ خود گورنر ہائوس میں بھی ان کے اعزاز میں ایک تقریب منعقد ہوئی تھی‘‘۔میں نے ان سے کہا کہ: ’’شیخ نورالدین ولیؒ [۱۳۷۷ء-۱۴۴۰ء] المعروف ’نندہ رشی‘ { FR 648 }کے کشمیری زبان میں کلام کا اردو ترجمہ کرنے کا سہرا جماعت اسلامی کے رہنما قاری سیف الدین کے سر ہے۔ اسی طرح میرسید علی ہمدانی ؒ [۱۳۱۴ء-۱۳۸۴ء]کا کشمیری مسلمانوں کو دیے گئے وظیفہ ’اوراد الفتیحہ‘ کا ترجمہ اور تفسیر بھی جماعت اسلامی کی مرہونِ منت ہے‘‘۔یہ سن کر مذکورہ افسر بغلیں جھانکنے لگا اور کہا کہ: ’’کوئی پرانی فائل جماعت کے متعلق بنی ہوگی ، جو ایسے مواقع پر نکالی جاتی ہوگی‘‘۔ ایک عشرہ قبل حکومت کو یہ باور کرایا گیا تھا کہ: ’’کشمیر میں حریت اور تحریک آزادی کے خلاف فکری رہنمائی کے لیے سلفی حضرات کو استعمال کیا جائے‘‘۔ اب کچھ عرصے سے یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ: ’’صوفی ازم کا دامن تھا م کر اس تحریک کو دبایا جائے‘‘۔ تین سال قبل دہلی میں بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کی صدارت میں منعقدہ ایک صوفی کانفرنس میں ایک صاحب کو تو یہ بھی کہتے سنا ، کہ: ’’اب ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم آر ایس ایس کے کارکنان اور مشائخ، مشترکہ طور پر وہابیوں اور دیوبندیوں کے خلاف شانہ بہ شانہ لڑیں گے‘‘۔
۱۴فروری کو پلوامہ واقعے میں مبینہ خود کش حملہ آور عادل احمد ڈار کا تعلق ایک بریلوی یا صوفی طرزِفکر رکھنے والے گھرانے سے تھا۔ پلوامہ کے گونڈی باغ گاؤں میں اس کے والد غلام حسن ڈار صاحب کے بقول: ’’عادل ڈار، مقامی درگاہ میں نعت خوانی اور امام صاحب کی عدم موجودگی میں امامت کے فرائض بھی انجام دیتا تھا۔ قرآن کے چند پار ے حفظ کرنے اور نعت خوانی کی مشق کے لیے اس نے چند ماہ ایک بریلوی دارالعلوم میں گزارے تھے اور حنفی اعتقاد سے اختلاف رکھنے والوں کے ساتھ بحث و مباحثہ کرنے سے چُوکتا نہیں تھا‘‘۔ 
یہ امرواقعہ، حکومتی پالیسی سازی کرنے والوں کے لیے ایک تازیانہ ہے ، جو کشمیری تحریک کو مذہبی انتہاپسندی اور فرقہ پرستی سے جوڑ تے ہیں۔ یہ لوگ بھول جاتے ہیں، کہ مغربی طاقتوں نے اپنے مفاد کے لیے پہلے طالبان، القاعدہ اور داعش جیسی تنظیموں کی پرورش کی۔ عراق میں تو داعش کو ہتھیار اور پھر ان کے خلاف لڑنے والی تنظیموں کو فوجی تربیت بھی دی۔پھر یہ نعرے بلند کیے، کہ: ’’مسلمانوں میں شدت پسندی آرہی ہے‘‘ جسے لگام دینے کی ضرورت ہےاور اس کے لیے تصوف کی تشہیر کی جانے لگی۔ یہ لوگ جان بوجھ کر اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہیں، کہ شدت پسند اور اعتدال پسند ہرفرقہ اور مسلک میں موجود ہوتے ہیں۔ 
بھارت میں توہمیشہ سے ہی حکومتیں مسلمانوں کو مولانا ابولکلام آزاد اور مولانا حسین احمد مدنی کی تقلید کی تاکید کرتی آئی ہیں، کیوںکہ ان دونوں رہنمائوں نے آل انڈیا مسلم لیگ اور نظریۂ پاکستان کے خلاف انڈین نیشنل کانگریس کو ایک متبادل نظریاتی اساس فراہم کی تھی، مگر کیا بھارت میں ان کے ارادت مندوں کو سکون مل سکا؟
یہ سچ ہے کہ دہشت گردی کی اسلام میں کوئی گنجایش نہیں ہے، نہ کوئی فرقہ یامسلک ہی اس کی اجازت دیتا ہے۔ مظلوم علاقوں کے عوام اگر جبری قبضوں اور ظلم کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں، تو اس کو دہشت گردی کے ساتھ منسلک نہیں کیا جاسکتا۔ مغربی طاقتوں نے تصوف کی حوصلہ افزائی صرف اس وجہ سے کی، کہ اپنی سلگائی ہوئی آگ کے شعلے اس کے قابو میں نہیں آرہے تھے۔ ان کے یہاں ’تصوف کے نظریے‘ کا یہ پیغام ہونا چاہیے کہ مسلمان ہر حالت میں مہر بہ لب رہنے کی عادت بناڈالے۔ حالات سازگار ہوں تو شکر کے ساتھ خاموش رہے، اور اگر ظلم و ستم اور عزت و آبرو کا خون ہوتا ہوا دیکھے، تب بھی خاموشی اور بے حسی کو شعار بناڈالے۔ بس ایسی صوفیانہ پروڈکشن کی مغرب کو ضرورت ہے، نہ کہ سید سالار مسعود غازی کی طرح ظلم کے خلاف آواز بلند کرے۔تصوف کا مقصد انسانیت سے پیار ، محبت ، شفقت سے پیش آنا اور کردار سازی کرنا ہے، تاکہ نہ صرف گفتار، بلکہ اپنے کردار سے بھی ایک مسلمان دیگر مذاہب کے ساتھ مکالمہ کرے، جو صوفی بزرگوں کا خاصا رہا ہے، چاہے، کشمیر میں میر سیّد علی ہمدانی، نورالدین ولی ہوں یا بھارت میں خواجہ معین الدین چشتی یا نظام الدین اولیا ہوں!

جموں و کشمیر کی تاریخ خون سے نہائی ہوئی ہے۔دُور دُور تک ،خون کی اس بارش کے رُکنے کے آثار دکھائی نہیں دے رہے۔ اسی دوران جنوبی کشمیر کے پلوامہ ضلع کے لیتہ پورہ۔ اونتی پورہ علاقے میں ۱۴فروری۲۰۱۹ء کو عسکریت پسندوں کے خودکش حملے سے ۴۰سیکورٹی اہل کاروں کی ہلاکت کی خبر نے جنوبی ایشیا میں کہرام کی صورت پیدا کر دی ہے۔ 
اس واقعے کے ایک دن بعد دارلحکومت دہلی کے ویمن پریس کلب میں مَیں اپنے صحافی دوست کی الوداعی تقریب میں شرکت کرنے کے بعد باہر نکلا، تو دیکھا کہ اسکولوں کے نو خیز بچے ہاتھوں میں پرچم لیے پاکستان اور کشمیریوں کے خلاف نفرت انگیز نعرے لگاتے ہوئے انڈیا گیٹ کی طرف رواں تھے۔میڈیا کے ایک حلقے کی جانب سے، جس میں الیکٹرانک میڈیا پیش پیش ہے، کشمیر کی تاریخ، جغرافیہ ،سیاسی تاریخ اور سیاست کے حوالے سے متواتر زہر افشانی کرکے کچے ذہنوں کو آلودہ کرکے کشمیر دشمنی پر کس قدر آمادہ کر دیا گیا ہے، اس کا اندازہ ایسے جلوسوں سے لگایا جاسکتا ہے۔
انڈیا گیٹ کے پاس حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اراکین پارلیمنٹ کی معیت میں ایک جم غفیر پر جنگی جنون سوار تھا۔ وہ اپنی شعلہ بار تقریروں میں لاہور اور مظفر آباد پر بھارتی پرچم لہرانے کے لیے بے تاب ہو رہے تھے اور کشمیری مسلمانوں کو سبق سکھانے کا مطالبہ کررہے تھے۔چوںکہ ایسے وقت میں بھارتی مسلمانوں کے رہنمائوں کو بھی حب الوطنی کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے، ان کی نمایندگی کرتے ہوئے ایک باریش مولوی صاحب پاکستانی سفیر کو ملک بدر کرنے اور پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا مشورہ دے رہے تھے۔
آفس پہنچ کر معلوم ہوا کہ پٹنہ، چھتیس گڑھ، دہرا دون اور بھارت کے دیگر علاقوں سے کشمیری تاجروں اور طالب علموں پر حملوں اور ان کو بے عزت کرنے کی خبریں متواتر موصول ہورہی ہیں۔ رات گئے گھر واپس پہنچ کر دیکھا کہ ہماری کالونی کے دیگر حصوں میں رہنے والے چندکشمیری خاندان ہمارے یہاں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ بتایا گیا کہ شام ہوتے ہی علاقے میں بجرنگ دل کے کارکنوں نے مکینوں کو باہر نکالا اور ہاتھوں میں موم بتیاں لیے مارچ کرتے ہوئے کشمیریوں اور پاکستان کے خلاف نعرے بلند کرتے ہوئے خوب ہڑ بونگ مچائی تھی۔اتوار کی رات جس وقت میں یہ تحریر لکھ رہا تھا، کہ باہر سے کالونی میں ہمارے بلاک کا گارڈ دوڑتا ہو ا آیا اور ہمیں گھر کے اندر رہنے ، دروازے اور کھڑکیاں بند کرنے کی ہدایت دے کر چلا گیا۔
 معلوم ہوا کہ بیرونی گیٹ کے پاس ایک ہجوم جمع ہے اور پر جوش نعرے لگا رہا ہے۔ ان کی آوازیں دل دہلا رہی تھیں۔ کچھ دیر کے لیے مَیں سمجھا کہ غالباً میری زندگی کی آخری تحریر ہے۔ کیوں کہ ہجوم جنوبی دہلی میں واقع اس عمارت کے گرد جمع ہوچکا تھا، جہاں میں اپنے کم سن بچوں کے ساتھ رہتا ہوں۔ ہجوم نے پہلی بار تو ہمارے گھر کا دروازہ توڑنے کی کوشش کی۔ بلندآواز میں گالیوں کی بوچھاڑ اور دل دہلا دینے والے انتقامی نعروں کی یلغار جاری رکھی۔ ان کی قیادت کرنے والے ہمیں ’بھارت چھوڑ کر واپس کشمیر جائو‘ کا کہہ رہے تھے۔ مجھے یقین ہوچلا تھا کہ اب میرا آخری وقت ہے، لیکن سیکورٹی گارڈاور شریف النفس ہمسایوں نے پولیس کے پہنچنے تک ہجوم کو قدرے فاصلے پر روکے رکھا۔میں نے دہلی پولیس اور وزارت داخلہ میں جہاں جہاں ممکن ہوسکتا تھا، رابطہ کر نے کی کوشش کی۔ ان لمحوں میں میری بیوی، بچّے، خاندان کے دیگر لوگ اور وہ کشمیری جنھوں نے ہمارے گھر پناہ لے رکھی تھی، پوری توجہ سے صرف ایک کام کر رہے تھے: تلاوتِ قرآن! ان لمحوں میں مجھے ۲۰۰۲ء کے گجرات فسادات میں ہلاک ہوئے کانگریس کے سابق ممبر پارلیمنٹ احسان جعفری یاد آرہے تھے، جو کم و بیش اسی طرح کے حالات کا شکار ہوگئے تھے۔ آدھے گھنٹے کے بعد دہلی پولیس کی ایک ٹیم آئی اور انھوں نے ہجوم کو پارک میں جلسہ کرنے کا مشورہ دیا۔ لیکن قریباً ایک گھنٹے کے بعد ہجوم پھر واپس آیا اور گیٹ کے پاس اشتعال انگیز نعرے بلند کرنے شروع کیے۔ آدھی رات کو میں نے اپنی فیملی کو ایک مسلم اکثریتی علاقے میں ایک رشتے دار کے ہاں منتقل کیا اور خود تحریر مکمل کرنے کے بعد دفتر میں جاکر پناہ لی۔ 
دہلی میں اپنے صحافتی کیریئر کے دوران میں نے کئی اتار چڑھائو دیکھے ہیں۔بد نامِ زمانہ تہاڑ جیل میں بھی آٹھ ماہ گزار چکا ہوں۔ جنگ کرگل ،پارلیمنٹ پر حملہ کے بعد آپریشن پراکرم     یا ۲۰۰۸ء میںممبئی حملوں کی رپورٹنگ بھی کی ہے ، مگر یہ لکھنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ اس قدر    جنگی جنون جو پچھلے پانچ سال میں عوام پر طاری کر دیا گیا ہے، اس سے قبل کبھی نہیں دیکھا تھا، اور نہ حالات اس قدر دگرگوں ہوئے تھے۔ ایک اعلیٰ افسر نے ایس ایم ایس کے ذریعے مجھے بتانے کی کوشش کی آر یا پار کا وقت آچکا ہے ۔
 کانگریس کے ایک سینیرجنرل سیکرٹری کا کہنا تھا کہ: یہ حملہ ایسے وقت ہوا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں چھوڑیں گے۔ انھوں نے اپنے وزیروں اور پارٹی لیڈروں کو پہلے ہی حکم نامہ جاری کر رکھا ہے کہ وہ پلوامہ میں ہلاک شدگان کے دیہات اور محلوں میں جاکر ان کی آخری رسومات میں شرکت کے ساتھ ساتھ ان علاقوں میں ڈیرا ڈالیں۔ مودی کے برسرِاقتدار آنے کے بعد چونکہ معیشت کی بحالی اور دیگر وعدے ہوا میں بکھر چکے ہیں،رام مندر کی تعمیر کے نام پر کوئی تحریک برپا نہیں ہو پا رہی ہے۔ 
پھر دسمبر ۲۰۱۸ء کے حالیہ صوبائی انتخابات میں کسانوں ، دلتوں، دوسرے پس ماندہ طبقوں اور اقلیتوں نے مل کر ان کو شکست دی ہے۔ اس تجربے اور انجام کو سامنے رکھتے ہوئے آیندہ دوماہ میںعام انتخابات کے پیش نظر ہندو قوم پرست آخری ترپ کا پتا، یعنی نیشنلزم کی بحث بھڑکا کر اور ہندوئوںکو خوف کی نفسیات میں مبتلا کرکے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں۔ 
تاریخ گواہ ہے کہ کسی بھی ملک کے لیے یہ ایک سنگین صورت حال ہوتی ہے کہ جب معاشرے کے کچھ طبقوں کو ’محب وطن‘ اور کچھ کو ’ملک دشمن‘ قرار دیا جانے لگے۔ بھارتی برسرِاقتدار پارٹی کے قائدین، مرکزی وزرا اور اعلیٰ سیکورٹی افسران کی جانب سے بار بار کی بیان بازیوں سے اس پروپیگنڈا مہم کو دست و بازو فراہم ہو رہے ہیں۔ چنانچہ بھارت بھر میں اس وقت جو سیاسی صف آرائیاں ہورہی ہیں، اس میں کشمیر اور کشمیریوں کو ایک ایشو بنا کر سیاسی عزائم کی تکمیل کے لیے ہاتھ پائوں مارنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کشمیر میں حالات کی مسلسل خرابی کے ساتھ کئی حلقوں کے سیاسی اور اقتصادی مفادات وابستہ ہو رہے ہیں۔حالیہ عرصے میں، حتیٰ کہ جنوبی صوبوں کرناٹک اور آندھرا میں بھی کشمیریوںکو ہراساں کرنے اور بے عزت کرنے کے واقعات پیش آئے ہیں، جب کہ مہاراشٹر کے شہر پونا میں بھی کشمیری تاجروں، طلبہ اور محنت کشوں کو پولیس سے رابطہ قائم کرکے دہشت کی اس فضا سے حفاظت کے لیے امداد و اعانت طلب کرنا پڑی۔ ایک طرف حکومت اور مختلف سیکورٹی ایجنسیاں آپریشن سدبھاونا وغیرہ کے نام پر کھیل کود، ادب و ثقافت اور تفریح کی غرض سے کشمیری طلبہ و نوجوانوں کو بھارت کی دیگر ریاستوں میں لے جاکر وہاں کے تمدن اور سوچ سے ہم آہنگ کرنے کے پروگراموں پر روپے خرچ کرتی ہیں، وہیں دوسری طرف ان کی بھرپور تذلیل کی جاتی ہے۔ 
جو واقعہ پلوامہ میں پیش آیا، میں ایک عرصے سے اپنی تحریروں میں ایسی صورت حال کے برپا ہونے کے بارے میں خبردار کرتا آیا ہوں۔ہر قیمتی انسانی جان کے تلف ہونے پر انتہائی دکھ اور افسوس ہوتا ہے۔ جو لوگ روز اپنے عزیزوں اور جوانوں کے جنازے اپنے کندھوں پر اٹھاتے ہیں، اِس دکھ اور درد کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں ۔۲۰۱۴ء میں ایک نجی تقریب کے دوران انڈین قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوبال نے کہا تھا کہ ’’یہ پہلا اور آخری موقع ہے کہ پاکستان اور کشمیریوں کو بتایا جائے کہ ان کی منزل ناقابل حصول ہے‘‘۔ اجیت دوبال کو اندازہ نہیں ہے کہ ان کی اس پالیسی کے تحت نہ صرف حُریت کانفرنس بلکہ بھارت نواز کشمیری سیاسی قیادت کو بھی نئی دہلی نے بے وقعت اور بے وزن کر کے رکھ دیا ہے۔ یہ شاید آخری قیادت ہے ، جو مکالمے اور افہام و تفہیم کے مفہوم سے واقف ہے۔ جموں وکشمیر کے عوام کی اُمنگوں اور خواہشات کو سمجھنے کے بجاے ایک سیاسی اور انسانی مسئلے کو صرف فوجی ذرائع اور طاقت کے بل پر دبانے کی پالیسی نے کشمیر میں ایک نہایت خطرناک صورتِ حال کو جنم دیا ہے ۔ اگر موت اور تباہی کے اس رقص کو روکنا ہے ،تو انسانیت اور انصاف کی بنیاد پر مسئلہ کشمیر کو مستقل بنیادوں پر حل کرنا ہوگا۔مگر اس حملے کے بعد ٹی وی اور دوسرے ذرائع ابلاغ میں ہونے والے بحث و مباحثے کے گمراہ کن رویے اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ بھارتی قیادت مسائل کی طرف صحیح طریقے سے نہیں دیکھ رہی۔
     بھارتی فوج کے ایک سابق افسر کرنل (ریٹائرڈ) آلوک استھانا کے بقول : ’’خودکش حملہ آور پاس ہی کے گائوں کا عادل احمد تھا اور وہ پاکستانی علاقے سے نہیں آیا تھا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ حملہ جنوبی کشمیر میں ہوا، جو شمالی کشمیر کے برعکس لائن آف کنٹرول سے کوسو ں دُور ہے۔  اس علاقے تک پہنچنے کے لیے سری نگر شہر سمیت کئی سخت سیکورٹی والے علاقوں سے گزر نا پڑتا ہے‘‘۔ کرنل استھانا کے مطابق: ’’عادل کے خودکش دھماکے سے ایک اہم سوال جو سامنے آیا ، وہ یہ کہ آخر مقامی کشمیری، جن میں سے کئی پڑھے لکھے اور کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں، اس طرح سے اپنی جان دینے کے لیے کیوں تیار ہیں؟‘‘
اگر اس سوال کا تھوڑا ہی صحیح، جواب دے دیا جاتا ہے، تو باقی ساری چیزوں کا بھی حل نکل آئے گا، مگر اس جنگی جنوں میں کس کو ہوش ہے کہ اس اصل مسئلے پربات کرے۔ علاوہ ازیںگذشتہ تین عشروں کے دوران میں جو نسل کشمیر میں پروان چڑھی ہے، اس کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجاے ان کو مزید کچوکے دیے جا رہے ہیں۔ میں نے چند سال قبل خبردار کیا تھا، ’’اگرچہ کشمیر میں عسکریت میں بظاہر وہ قوت نہیں جو ۹۰ کے اوائل میں ہوتی تھی، مگر یہ خیال کرنا کہ اس تبدیلی سے وہاں امن و امان ہوگیا ہے خود کو دھوکا دینے کے سوا کچھ نہیں۔ مسئلہ کشمیرکو حل کرنے کے لیے سنجیدہ ہونا پڑے گا‘‘۔ اس کے لیے رحم دلی اور مفاہمت پر مبنی ایک ماحول تیار کرنا ہوگا۔ علاقے، یعنی رئیل اسٹیٹ کے بجاے  رئیل پبلک کے بارے میں سوچنا ہوگا۔ کشمیر میں ایک ایک دل زخمی ہے ، اور یہ زخم مندمل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں۔ جب تک بنیادی مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے اقدامات نہیں کریں گے تب تک پلوامہ جیسے واقعات کو روکنا ممکن نہیں ہے ۔ لہٰذا، بہتری اسی میں ہے کہ حقائق سے انکار کے بجاے اس مسئلے کے حل کی سبیل کی جائے۔کوئی ایسا حل جو تمام فریقوں کے لیے قابلِ قبول ہو، تاکہ برصغیر میں امن و خوش حالی کے دن لوٹ سکیں۔
وہ لوگ جو پاکستان میں رہتے ہیں، اگر وہ بھارت میں کشمیری طالب علموں، تاجروں اور مزدوروں کے ساتھ روا رکھے جانے والے حالیہ واقعات، اذیت ناک دبائو اور ناقابلِ تصور بے عزتی کو ذہن میں رکھیں تو ان میں ان کے لیے بے شمار سبق موجود ہیں۔ سب سے بڑا سبق یہ کہ آزادی واقعی بہت بڑی نعمت ہے، اس لیے آزادی کی قدر کریں۔ ممکن ہے کہ آپ کا کوئی حکمران کرپٹ ہو، کوئی ظالم ہو اور یا کوئی نااہل۔ لیکن اس سب کے باوجود اپنے وطن میں آپ کی وہ تذلیل اور توہین نہیں ہوگی، اور نہ ہجوم کے ہاتھوں یوں بے گناہ اور بے جواز قتل کیے جائیں گے۔ جموں و کشمیر کے رہنے والوں کے حوالے سے ذرا سوچیے، جو کہتے ہیں کہ آپ کتنے خوش نصیب ہیں اور ہم کتنے قابلِ رحم!

یوں تو کشمیر میں ماہ جنوری ہر سال کئی خونچکاں یادوں کے ساتھ وارد ہوتا ہے، جس میں گاؤکدل، مگھرمل باغ، ہندوارہ اور برسہلا (ڈوڈہ) میں ہوئے قتل عام شامل ہیں، مگر ۶جنوری ۱۹۹۳ء کا دن تجارتی مرکز سوپور کے لیے ایک ایسی قیامت کے ساتھ طلوع ہوا کہ جو بھلائے بھی نہیں بھلایا جاسکتا۔ 
اس سے ٹھیک ایک ماہ قبل دسمبر۱۹۹۲ء کو ایودھیا میں بابری مسجد کے انہدام کے بعد بھارت میں فرقہ وارانہ فسادات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ بھارتی دارالحکومت دہلی کے کئی علاقے بھی فسادات کی زد میں آگئے تھے۔ صحافت کی دنیا میں میرے ابتدائی دن تھے۔ سوچا کہ سوپور میں اپنے والدین کے ساتھ چند روز گذار کر آوٗں ، تاآنکہ حالات کسی حدتک بہتر ہوجائیں۔ دہلی سے جموں تک بذریعہ ٹرین، پھر موسم سرما میں برف باری اور رکاوٹوں سے اَٹے راستے، جموں سرینگر ہائی وے کا تکلیف دہ سفر اور پھر سرینگر سے سوپور تک سیکورٹی چک پوسٹوں پر تلاشیاںوغیرہ عبور کرتے ہوئے گھر پہنچا تو خاصی رات ہوچکی تھی۔اگلے روز شاید صبح نو بجے کا وقت ہوگا، جب کہیں دُور سے دھماکے کی آواز سنائی دی۔ اس ہولناک دن یخ بستہ ہوائیں چل رہی تھیں اور آسمان اَبر آلود تھا۔ معلوم ہوا کہ نیوکالونی کے قریب ایک بارودی سرنگ پھٹ گئی ہے۔ پھر کہیں قریب سے ہی ایک فائر کی آوازبھی سنائی دی۔ ۱۹۹۰ء میں جموں و کشمیر میں عسکریت کے آغاز کے بعد سوپور اور اس کے اطراف خاصے متاثر تھے، اس لیے اس طرح کے واقعات عام تھے ۔ میں نے دیکھا کہ اس دھماکے کے باوجود تاجر حضرات دکانیں کھولنے اور ڈیوٹیاں دینے والے دفتروں یا بس اڈے کی طرف رواں دواں تھے۔ 
اسی دورا ن دریاے جہلم کی دوسری طرف فائرئنگ کی متواتر آوازوں کے ساتھ چیخ پکار بھی سنائی دینے لگی۔ چند ساعتوں کے بعد آگ کے بلند ہوتے شعلے جلد ہی آسمان سے باتیں کرنے لگے۔ ان کی تپش دریاے جہلم کے دوسری طرف بھی اب محسوس ہو رہی تھی۔ معلوم ہوا کہ نیم فوجی تنظیم بارڈر سکیورٹی فورس(بی ایس ایف) کی ۹۴ ویں بٹالین، شہر کے مرکز میں آگ و خون کی ہولی کھیل رہی ہے۔ آرم پورہ، مسلم پیر، کرالہ ٹینگ، شالہ پورہ اور شاہ آباد کے علاقے آگ کے حوالے کر دیے گئے ہیں۔ کئی گھنٹوں تک قتل و غارت کا بازار گرم رہا۔ رات گئے قصبے کو فوج کے حوالے کردیا گیا۔ 
اگلے روز معلوم ہوا کہ ۷۵ معصوم افراد کو گولیوں سے اُڑا دیا گیا، اور کئی افراد کو زندہ جلادیا گیا تھا، جب کہ ۴۰۰ سے زائد رہایشی و تجارتی عمارات اور زنانہ کالج کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا گیا۔ جاں بحق ہونے والوں میں ہمارے محلے کے آس پاس کے ایک درجن افراد شامل تھے۔ لاشوں کی شناخت، ان کو گھروں تک لاتے اور نماز جنازہ ادا کرتے ہوئے بازو شل ہوگئے ۔ شہر کو دیکھ کر لگتا تھا کہ جیسے نسیم حجازی [م:۲مارچ ۱۹۹۶ء] کے ناول آخری چٹان  میں تاتاریوں کی درندگی کی داستان صفحۂ قرطاس سے نکل کر حقیقت کا رُوپ دھار گئی ہو۔ سنگینوں کے سایے میں لوگ بکھری ہوئی لاشوں کو اکٹھا کررہے تھے۔ بین کرتی ہوئی خواتین اپنے پیاروں کی باقیات، گرم راکھ سے ڈھونڈ رہی تھیں۔ ایک دوست عبدالحمید اپنے ایک ٹیلر دوست کو ڈھونڈ رہا تھا۔ جلی ہوئی دکان کے اندر اس کو بس چند ہڈیاں ہی مل گئیں، جنھیں اس نے اپنے فرن میں باندھ کر لپیٹ لیا۔ ہسپتال میں قیامت کا منظر تھا۔ کلمے کا ورد کرتے ہوئے شدید زخمی افراد زندگی کی آخری سانسیں لے رہے تھے۔ 
جھیل وولر کے دھانے پر دریاے جہلم کے دونوں کناروں پر واقع اس شہر کو غالباً۸۸۰ء  میں راجا اونتی ورمن کے ایک وزیر سویہ نے بسایا اور نام سویہ پور دیا، جو بعد میں سوپور ہوگیا۔ کشمیر کے لیے اس قصبے کی وہی اہمیت رہی ہے، جو بھارت کے لیے ممبئی یا پاکستان کے لیے کراچی کی ہے۔ یہ نہ صرف شمالی کشمیر کے لیے راہداری ہے، بلکہ خطے کے اکثر متمول گھرانوں اور معروف کاروباری شخصیات کا تعلق بھی اسی قصبے سے رہا ہے۔ جب آس پاس کی زمینیں زرخیز ہوں اور باشندوں کی گھٹی میں تجارتی فراست اور محنت شامل ہو، تو اس علاقے کا فی کس آمدنی کی شرح میں اوّل آنا فطری امر تھا۔ اسی لیے سوپورکو ’چھوٹے لندن‘ کی عرفیت اور اعلیٰ سیبوں کے مرکز کے نام سے بھی یاد کیا جاتا رہا ہے۔۱۹۸۹ء کے اواخر میں جب بھارتی حکومت نے جگموہن کو گورنر بنا کر بھیجا، تاکہ عسکری تحریک، جو ابھی ابتدا میں ہی تھی کو لگام دی جاسکے۔ اس کی تجویز تھی کہ سب سے پہلے آزادی پسند حلقوں اور تحریک حُریت کو ملنے والی فنڈنگ کی روک تھام ہونی چاہیے۔
 جگموہن جو بعد میں مرکز میں وزیر بھی رہے، ان کا خیال تھا کہ اگر سوپور میں تجارتی سرگرمیوں کو نشانہ بنایا جائے، یا ان کی کڑی نگرانی کی جائے تو یہ قصبہ تحریک کی مالی معاونت کے قابل نہیں رہے گا۔ اس سلسلے میں جگموہن نے بھارتی وزارت داخلہ کو یہ بھی مشورہ دیا کہ دہلی کی آزادپور فروٹ منڈی کے آڑھتیوں کو قائل کیا جائے کہ وہ اس علاقے سے سیبوں کی خرید بند یا کم کر دیں۔ دہلی میں بھی پالیسی سازوں کا خیال تھا کہ اگر سیاسی آگہی کے اس مرکز کو صدیوں پہلے چانکیہ کی تجویزکی ہوئی پالیسی سام (گفتگو) دھام (لالچ)، ڈھنڈ ( سزا) اور بھید (بلیک میل) سے قابو کر لیا جائے، تو بقیہ ریاست سے بھی تحریک کا آسانی سے صفایا ہو سکتا ہے۔ابھی تک آٹھ بار اس شہر کے مختلف علاقوں کو جلا کر اقتصادی لحاظ سے اس کو بے دست و پا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ 
جب آگ و خون کا کھیل شروع ہوا تو بانڈی پورہ جانے والی ایک مسافر بس اس وقت وہاں سے گزر رہی تھی، مگر افسوس کہ یہ بس مسافروں کے لیے تابوت بن گئی۔ جموں و کشمیر سول سوسائٹی کے ذریعے جمع کی گئی تفصیلات کے مطابق اس واقعے سے کئی روز قبل نیشنل کانفرنس سے تعلق رکھنے والے ایک کارکن عبد الاحد کنجوال کے گھر جاکر چند فوجیوں نے ان کو ہدایت کی تھی کہ وہ اس علاقے کو چھوڑ کر کسی اور جگہ منتقل ہوجائیں۔ جس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ قتل عام کی پہلے سے ہی منصوبہ بندی کرلی گئی تھی اور یہ کوئی وقتی اشتعال کے نتیجے میں قتل و غارت گری نہیں تھی۔ بانڈی پورہ سے آنے والی موٹر کار میں ایک فیملی سفر کر رہی تھی۔ ایک بھارتی اہل کار نے ان کے شیرخوار بچے کو   ہوا میں اُچھال کر آگ میں پھینک دیا۔جب بچے کی ماں بین کرنے لگی، تو انھوں نے بقیہ افراد کو بھی گولیوں سے بھون دیا اور ان مظلوموں کی تڑپتی لاشیں آگ میں ڈال دیں۔
 خون کی اس ہولی کے اگلے روز بی ایس ایف کے اس وقت کے سربراہ پرکاش سنگھ قصبے میں وارد ہوئے اور معززین شہر کو اپنے دربار میں طلب کیا۔ قتل گاہ کا معائنہ کرتے ہوئے اس نے پنجابی میں اہل کاروں سے مخاطب ہوکر کہا کہ: ’’کس کس پنجابی شیر نے بازو آزمانے میں پوری طاقت لگائی ہے؟‘‘ ایک اوباش اہل کار نے فخریہ انداز میں بتایا کہ: ’’سر، میں نے کئی افراد کو ہلاک کیا ہے‘‘۔ پرکاش سنگھ نے سب کے سامنے اس کی پیٹھ تھپتھپائی۔ قرون وسطیٰ کی وہ تاریخ شاید دہرائی جارہی تھی، جب منگول حکمران چنگیز خان جنگ کے میدا ن کا معائنہ کرتے ہوئے لاشوں کے مینار دیکھ کر جرنیلوں کو شاباش دیتا تھا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ پرکاش سنگھ آج کل بھارت میں پولیس میں ’اصلاحات‘ اور فورسز میں ’انسانی حقوق کی بیداری‘ لانے کے بڑے نقیب بن بیٹھے ہیں۔ 
کئی روز بعد دلّی سے مرکزی وزرا مکھن لال فوطیدار،غلام نبی آزاد، کانگریس کی ریاستی شاخ  کے صدر مرحوم غلام رسول کارکی معیت میں وارد ہوئے اور ہر ممکن امداد فراہم کرنے کاوعدہ کیا۔ لیکن سوپور کے باشندوں نے حکومتی امداد قبول نہیں کی، بلکہ عوامی سطح جو ریلیف جمع کیا گیا تھا، وہی متاثرین میں تقسیم ہوا۔ انشورنس کمپنیوں نے بھی منہ موڑ لیا، جس کے بعد اس وقت کے مرکزی وزیرخزانہ من موہن سنگھ کی مداخلت کے بعد انشورنس کمپنیوں نے معاوضہ واگزار کرنے کا یقین دلایا، تاہم یہ وعدہ کبھی ایفا نہ ہو سکا۔ مقامی تجارتی انجمن نے عدالت سے رجوع کرکے انشورنس کمپنیوں سے معاوضہ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی، مگر چند ہی دکان دار معاوضہ حاصل کرسکے۔ عوامی دبائوکے تحت حکومت نے ۹۴ بٹالین بی ایس ایف کے کمانڈنٹ کو پانچ دیگر اہل کاروں سمیت معطل کیا۔ 
۹جنوری کو واقعے کی جوڈیشل انکوائری کے احکامات بھی صادرکیے اور ۳۰جنوری کو  جسٹس امر سنگھ چودھری کو تحقیقاتی افسر مقرر کیا۔ اس تحقیقاتی عمل کو کبھی آگے بڑھایا نہ جاسکا، بلکہ دوسال گزر جانے کے بعد کمیشن کو تحلیل کر دیاگیا۔ محکمہ قانون، جسٹس چودھری کو مسلسل لکھتا آیا کہ وہ ریاست بالخصوص سرینگر کا گرمیوں میں دورہ کریں تاکہ گواہ، جن میں سینئر افسران شامل ہیں،کے بیانات قلم بند کیے جاسکیں۔ وہ سرینگر آنے سے گریزاں رہا، تاہم جموں آنے پر آمادگی ظاہر کی اور گواہوں کے بیانات قلم بند کرنے کے لیے ۱۵سے۱۷دسمبر ۱۹۹۳ء کا وقت دیا۔کمیشن کی میعاد جو پہلے ہی ختم ہوچکی تھی، ۳۰جنوری ۱۹۹۴ء تک بڑھا دی گئی۔ کمیشن کی میعاد بڑھتے ہی جسٹس چودھری نے مجوزہ دورہ پھر منسوخ کردیا۔ اس کے بعد کمیشن نے مطلع کیا کہ وہ اپنی کارروائی ۲۱سے ۲۵مارچ تک جموں میں چلائے گا اور خواہش ظاہر کی کہ گواہوں کی شرکت کو یقینی بنانے کے علاوہ کمیشن کے عملے کی سکیورٹی کا معقول بندوبست کیاجائے۔ لیکن یہ دورہ بھی منسوخ کرکے اطلاع دی گئی کہ اب سماعت مارچ ۱۹۹۴ء کے دوسرے ہفتے میں ہوگی۔ وہ اس کے بعد بھی وعدے سے مکر گیا اور یوں اپریل ۱۹۹۴ء میں کمیشن کی میعاد پھر ختم ہوگئی۔ چیف سیکرٹری نے فائل میں اپنے تاثرات کچھ یوں لکھے:’’ہمیں یہ ڈراما ختم کرنا چاہیے کہ گذشتہ ۱۵ماہ سے کوئی سماعت نہیں ہوئی‘‘۔ 
ریاستی چیف سیکرٹری بی کے گوسوامی نے ۱۸؍اپریل ۱۹۹۵ء کومرکزی داخلہ سیکرٹری   پدمنا بھیا کو لکھا: ’’کمیشن کی جانب سے جموں میں سماعت کا انعقاد عوامی مفاد میں پہلے ہی نہیں تھا لیکن اس کے بعد کمیشن کا رویہ سراسر حوصلہ شکن رہا اور تین ماہ میں انکوائری مکمل نہ کرنے سے لوگوں میں حکومت کے اعتبارکو شدید زک پہنچی ہے۔ کمیشن کے قیام کا مقصد فوت ہو چکا ہے اور اب اسے تحلیل کر دینا چاہیے، لیکن کوئی کارروائی کرنے سے قبل ہم سارا ماجرا حکومت ہند کے نوٹس میںلانا چاہتے ہیں‘‘۔ اس مکتوب کے بعد مذکورہ کمیشن کا باب بند کردیا گیااور ہمیشہ کے لیے انصاف کو دفن کردیا گیا۔ 
بتایا جاتا ہے کہ بعد میں ایک سب انسپکٹر اور دو اسسٹنٹ سب انسپکٹروں کو معطل کیا گیا، جب کہ۹۴ بٹالین کو سوپور سے ہٹاکر پلوامہ تبدیل کیا گیا، جہاں انھوں نے لوگوں کو سوپور سانحے کو دُہرانے کی دھمکیاں دیں۔ اس سانحے سے متعلق دو کیس پولیس اسٹیشن سوپور میں درج کیے گئے تھے اور وہاں سے ۲۳جنوری کو انھیں تحقیقات کے لیے مرکزی تفتیشی ایجنسی سی بی آئی کو سونپا گیا۔ سی بی آئی کی رپورٹ کے مطابق: ’’دوران تحقیقات انھوں نے عینی گواہوں اور مقامی لوگوں کے بیانات لینے کی از حد کوشش کی، تاہم کسی بھی زخمی یا کسی گواہ نے بی ایس ایف اہل کاروں کی شناخت نہیں کی اور نہ مطلوبہ معلومات فراہم کیں،جس کے نتیجے میں اس سانحے میں ملوث لوگوں کی نشان دہی ناممکن بن گئی اور یہ پتا نہ چل سکا کہ کس نے عام لوگوں کی جان لی اور آتش زدگی کے لیے کون ذمہ دار ہے‘‘۔ 
تقریباً چوتھائی صدی بیت چکی ہے مگر دل پر لگے زخم آج بھی تازہ ہیں۔ آخر کب تک سوپور جیسے قتل عام ہوتے رہیں گے؟ یہ حقیقت بہرحال تسلیم کرنا پڑے گی کہ ان تمام المیوں کا ماخذ کشمیرکا حل طلب مسئلہ ہے۔ لہٰذا، بہتری اسی میں ہے کہ حقائق سے انکار کی بجاے اس مسئلے کے حل کی سبیل پیدا کی جائے۔کوئی ایسا حل نکالا جائے جو تمام فریقوں کے لیے قابل قبول ہو، تاکہ برصغیر میں امن و خوش حالی کے دن لوٹ سکیں۔ سوپور کے شہیدوںکے لیے بھی یہ ایک طرح سے خراجِ عقیدت ہوگا۔ اس ہنگامہ خیز بستی کی رونقیں بھی لوٹ آئیں گی اور بعید نہیں کہ یہ شہر تہذیب، ترقی اور تجارت کا ایک قابلِ رشک محور بن جائے۔

بھارت میں دسمبر۲۰۱۸ء کے دوران پانچ صوبائی اسمبلی انتخابات میں جس طرح حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو سخت انتخابی نتائج کا سامنا کرنا پڑا ہے، بالخصوص تین بڑی ریاستوں میں کانگریس کی پیش قدمی دیکھنے میں آئی ہے۔ اس سے لگتا ہے کہ بگڑتی معیشت، کسانوں کی بدحالی اور دو سال قبل نوٹ بندی اور نئے ٹیکس نظام کی وجہ سے بنیا اور تاجر طبقے میں موجود اس کا روایتی ووٹ بنک ٹوٹ رہا ہے۔ اوربی جے پی، جسے ’بنیا پارٹی‘ بھی کہتے ہیں، اس کی ریڑھ کی ہڈی ’بنیاکمیونٹی‘ سخت تذبذب کا شکار ہے۔ ممکن ہے کہ آنے والے انتخابات میں پوزیشن بہتر بنانے کے لیے اگلے چند مہینوں میںکسانوں اور تاجروں کے لیے وزیر اعظم نریندرا مودی مراعات کی بارش کردیں اور اس کے لیے پارلیمنٹ کا بجٹ اجلاس بھی جنوری کے آخری ہفتہ میں ہی بلانے کی تجویز پیش کر دی گئی ہے۔ تاہم، تجزیہ یہی ہے کہ مئی ۲۰۱۹ء میں ہونے والے عام انتخابات تک اب شاید ہی عام ووٹر تک ان مراعات کا فیض پہنچ پائے گا۔ اس لیے پارٹی لیڈروں کا خیال ہے کہ معیشت کے بجاے جذباتی اور قوم پرستانہ ایشوز کی کشتی پر سوار ہوکر عام انتخابات کا پُرشور دریا عبور کیا جائے۔
اس سلسلے میں ذرائع کے مطابق فتح حاصل کرنے کے لیے بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی اور ان کے دست راست بی جے پی کے صدر امیت شاہ نے تین ایشوز پر مشتمل ایک نقشۂ کار ترتیب دیا ہے۔ اس میں اوّلین ترجیح اترپردیش کے شہر ایودھیامیں مسمار شدہ بابری مسجد کی جگہ پر ایک عالی شان رام مندر کی تعمیر کا ہوّا کھڑا کرنا ہے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق دیکھا جارہا ہے کہ ہندو انتہاپسندوں کی سرپرست تنظیم راشٹریہ سیویم سنگھ ( آر ایس ایس) اور اس کی ذیلی تنظیم ویشوا ہندو پریشد    (وی ایچ پی) رام مندر کو اگلے ایک دو ماہ میں ایک عوامی مہم میں تبدیل کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ جموں و کشمیر میںمزید کشت و خون و غیرمستحکم حالات قائم رکھے جائیں اور اس خون سے تلک لگاکر ملک بھر میں ووٹ حاصل کیے جائیں۔ اگر یہ دو ایشوزعوامی جذبات ابھارنے میں ناکام ہوتے ہیں ، تو انتخابات سے قبل آخری حربے کے طور پر پاکستان کے خلاف کسی طرح کی جارحانہ کارروائی کے نتیجے میں ہندو ووٹروں کو بی جے پی کے حق میں موڑنا، تاکہ دفاعی سودوں اور بنکوں میں بد عنوانیوں اور دیگر ایشوز کو لے کر، حزب اختلاف پارٹیاں اورمیڈیا، مودی حکومت کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا نہ کرسکیں۔یاد رہے ۱۶دسمبر کو نریندرا مودی نے راے بریلی میں سونیا گاندھی کے حلقے میں تقریر کے دوران یہ کہا کہ: ’’کانگریس کے جیتنے پر پاکستان میں تالیاں کیوں بجتی ہیں؟‘‘ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بی جے پی حکومت اپنے ووٹوں کو اکٹھا کرنے کے لیے ’مسلمان کارڈ‘ کے ساتھ ساتھ ’پاکستان کارڈ‘ بھی کھیلے گی۔ 
۱۵دسمبر کو ضلع پلوامہ میں جس طرح کشمیری نوجوانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی، وہ ظاہر کرتا ہے کہ مودی حکومت نے آخرالذکر روڑ میپ پر کام کرنا شروع کر دیا ہے۔ جس کے تحت کشمیریوں اور پاکستان کو مشتعل کرکے کشیدگی کو ہوا دی جائے اور ملٹری آپریشنز کی راہ ہموار کرائی جائے۔ 
پلوامہ میں جس طرح نہتے شہریوں کو نشانہ بنایا گیا او ر ان کے سینوں اور سر وں میں گولیاں داغی گئیں، کسی بھی مہذ ب اور جمہوری معاشرے کا خاصہ نہیں ہوسکتا۔ جان سے گزرنے والوں میں آٹھویں جماعت کا طالب علم، شیر خوار بچے کے لیے دودھ خریدنے کی تگ و دو میں راستے میں کھڑا باپ، ایک دکان دار، پریکٹس سے واپس آرہا ایک کھلاڑی اور کئی راہگیر شامل تھے۔مقامی لوگوں کے مطابق پلوامہ کے ایک گائوں سرنو میں صبح ساڑھے آٹھ بجے کے قریب فوج اور عسکریت پسندوں کے درمیان تصادم ختم ہوگیا تھا۔ لوگ سڑکوں پر تھے، مگر مظاہرے ہو رہے تھے، تاہم پتھر باری نہیں ہورہی تھی۔بتایا جاتا ہے کہ جب فورسز کی ٹکڑی آپریشن ختم کرکے واپس جارہی تھی کہ کھار پورہ محلہ میں تنگ راستے کی وجہ سے ان کی بھاری بھرکم فوجی گاڑی کو موڑنے میں مشکل پیش آرہی تھی۔  عوام کو سڑکوں سے ہٹانے اور راستہ بنانے کے لیے فورسز اہلکاروں نے بندوقوں کے دہانے کھول دیے۔ دیکھتے ہی دیکھتے پیدل چلنے والے افراد زمین پر گرتے گئے۔اسی طرح کی صورتِ حال پلوامہ اسٹیڈیم کے پیچھے برپورہ میں بھی پیش آئی اور وہاں بھی ایک بھارتی فوجی گاڑ ی پھنس گئی تھی۔ یہاں بھی فورسز نے بندوقوں کے دہانے کھول کر اندھا دھند فائرنگ کی۔ ہلاک شدگان میں انڈونیشیا سے ایم بی اے ڈگری یافتہ عابد حسین لون بھی شامل ہے ، جو حال ہی میں اپنی انڈونیشین اہلیہ اور شیر خوار بچے کے ساتھ کشمیر منتقل ہوا تھا ۔ اسی طرح آٹھویں جماعت کے طالب علم عاقب بشیر کو گولیوں سے بھوننے کا الم ناک واقعہ ہے۔
شمالی آئر لینڈ، عراق، افغانستان ، کوریا اور فلسطین کا دورہ کرنے اور ان تنازعات کا مشاہد ہ کرنے کے بعد میرا خیال ہے کہ دنیا کے دیگر جنگ زدہ خطوں کے برعکس عالمی میڈیا نے بڑی حد تک اور شاید مکمل طور پر کشمیرکو نظر اندازکر رکھا ہے۔ حال ہی میں استنبول میں فلسطین پر منعقدہ بین الاقوامی میڈیا کانفرنس کے متعدد اجلاسوں میں جب شورش زدہ خطوں میں رپورٹنگ کے حوالے سے میں اپنے تجربات بیان کر رہا تھا، تو میری بات پر کسی کو یقین ہی نہیں آرہا تھا۔
کئی عشروں سے فلسطین و مغربی ایشیا میں جنگی رپورٹنگ کرنے والے معروف صحافی جونانتھن اسٹیل حیران تھے، کہ وہ کیسے ان واقعات سے بے خبر اور ناواقف ہیں۔ وہ پوچھ رہے تھے کہ: ’’نئی دہلی میں مقیم بین الاقوامی میڈیا ان واقعات کا نوٹس کیوں نہیں لیتا ہے؟‘‘ جب میں نے ان سے کہا کہ: ’’بین الاقوامی میڈیا کو کشمیر جانے کے لیے سرکاری اجازت کی ضرورت ہوتی ہے‘‘۔ اس پر متعدد صحافیوں نے بھی کہا، کہ: ’’اس طرح کی کسی پابندی کا سامنا ان کو فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں کبھی نہیں کرنا پڑا ہے‘‘۔ 
کشمیر پر اگر رپورٹنگ ہوئی ہے تو بھی دور دراز علاقوں تک رسائی نہ ہوسکی ہے۔ حتیٰ کہ سرینگر کا  مقامی میڈیا بھی بیش تر علاقوں میں جانے سے قاصر ہے۔ چند برس قبل بھارت کے ایک معروف کالم نویس اور قانون دان اے جی نورانی کے ہمراہ میں نے شمالی کشمیر میں لنگیٹ تحصیل کے ایک خوب صورت مقام ریشی واری کا دورہ کیا تھا۔ سرسبز جنگلوں اور پہاڑی نالوں سے پُر اس وادی میں داخل ہوتے ہی تقریباً  ۳۰کلومیٹر تک سڑک سے ملحق سبھی گھروں کی دوسری منزل پر ہمیں بھارتی فوجی جوان نظر آئے۔ معلوم ہوا کہ: ’’گھروں کے مکین تو پہلی منزل پر رہتے ہیں اور دوسر ی منزل فوج کے لیے مخصوص ہے۔ یہاں دیہاتی کشمیریوں نے پہلی بار میڈیا سے وابستہ افراد کو  دیکھا تھا۔ اسی طرح اگر سرینگر کے شیرِکشمیر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسزکے آرکائیوزکو کھنگالا جائے، تو وہاں ایسے ہوش ربا زخمیوں کی تفصیلات ملیں گی، جو بقول کئی ڈاکٹروں کے: ’’میڈیکل ہسٹری میں آخری بار صرف جنگ عظیم دوم کے دوران جرمن انٹیلی جنس کے ادارے گسٹاپو کے انٹروگیشن سنٹروں میں رپورٹ ہوئے ہیں‘‘۔کشمیر میں پیلٹ [چھرے] لگنے سے زخمی ہونے والے افراد کی آنکھیں بچانے میں مصروف، باہر سے آئے ڈاکٹر تک ذہنی تنائو کا شکار نظر آتے ہیں، کیوںکہ ان کے بقول: ’’ہم نے اپنی پوری میڈیکل زندگی میں ایسی جنگ زدہ صورتِ حال کبھی نہیں دیکھی تھی‘‘۔  
قوم پرست بھارتی وزیر اعظم اور ان کی حکومت کے دیگر لیڈروں کے رویے سے ظاہر ہے کہ وہ کشمیری عوام اور پاکستان کو پیغام پہنچانا چاہ رہے ہیں کہ ان کی منزل ناقابلِ حصول ہے اور کسی عالمی اور بیرونی دبائو کی عدم موجودگی میں ریاست کا وسیع دائرہ بالآخر تحریک کشمیر کو تحلیل کردے گا۔ ان کو یقین ہے کہ ۲۰۱۹ء کے انتخابات میں یہ طریقۂ کار ان کو فائدہ پہنچائے گا۔ بھارتی فوجی سربراہ جنرل بیپن راوت نے حالیہ بیان میں کہا کہ: ’’فوج، کشمیر میں ڈرون حملے کرسکتی ہے، لوگ اجتماعی نقصان کے لیے تیار رہیں اور ہم پتھر کا جواب گولی سے دیں گے ‘‘۔وہ اس حقیقت کو نظرانداز کر رہے ہیں کہ کشمیر میں بھارتی فوج کا مقابلہ کسی منظم عسکری گروہ سے نہیں بلکہ ناراض نوجوانوں اور عوام سے ہے۔
 مجھے یاد ہے کہ ۲۰۱۰ء میں کشمیر میں ایسی ہی صورت حال تھی کہ اس دوران بھارت کے سینیر صحافیوں کے ہمراہ مجھے اسرائیل اور فلسطین کے دورے کا موقع ملا۔ تل ابیب میں اسرائیلی وزیر اعظم کے مشیر ڈیوڈ رائزنر بریفنگ دے رہے تھے۔ وہ اسرائیلی فوج میں اہم عہدے دار رہ چکے تھے، لبنان کی جنگ میں ایک بریگیڈ کی کمان بھی کی تھی، اس کے علاوہ انتفاضہ کے دوران بھی فوج اور پولیس میں اہم عہدوں پر براجمان رہے تھے۔ اس اسرائیلی افسر نے بھارتی صحافیوں کو ششدر اور رنجیدہ کردیا، جب اس نے کشمیر میں تعینات بھارتی فوج کے افسروںکے ’کارنامے‘ سنانے شروع کیے۔ اس نے کہا: ’’بھارتی افسر اس بات پر حیران ہو جاتے ہیںکہ شورش زدہ علاقوں میں مسلح اور غیرمسلح کی تفریق کیوںکی جائے؟‘‘ انھوں نے کہا کہ: ’’حال ہی میں اسرائیل کے دورے پر آئے ہوئے ایک بھارتی جنرل نے مجھے بتایا کہ کشمیر میں ہم پوری آبادی کوگھیرکرگھروں میںگھس کر تلاشیاں لیتے ہیں کیوںکہ ہمارے نزدیک کشمیرکا ہر دروازہ دہشت گردکی پناہ گاہ ہے‘‘۔ اس واقعے کو بیان کرنے کا مقصد کسی بھی طور پر اسرائیلی جرائم کا دفاع کرنا نہیں بلکہ صرف یہ باورکرانا ہے کہ کشمیرکس حد تک عالمی ذرائع ابلاغ میں اور سفارتی سطح پر انڈر رپورٹنگ [صحافتی نظراندازی]کا شکار چلا آرہا ہے اور وہاں ہونے والے مظالم کی تشہیرکس قدر کم ہوئی ہے۔ ڈیوڈ رائزنرنے جنرل کا نام تو نہیں بتایا، مگر یہ ضرور کہا کہ: ’’ہم نے بھارتی فوجی وفد کو مشورہ دیا کہ عسکری اور غیر عسکری میں تفریق نہ کرکے وہ کشمیر میں صورت حال کو پیچیدہ بنا رہے ہیں‘‘۔
کشمیر میں پلوامہ جیسے بہت سے خونیں المیے منظر عام پر لانے کے لیے تفتیشی صحافیوں، تحقیق کاروں اور مصنّفین کے منتظر ہیں۔ ان رُودادوں کی محض ایک جھلک بھارتی فلم ’حیدر‘ میں اور ایڈرین لیوی اورکیتھی اسکاٹ کی کتاب دی میڈوز  میں ملے گی۔ کشمیر پر چار صدیوں سے زائد طاقت اور خوف کے ذریعے حکمرانی کی جا رہی ہے۔خوف کی نفسیات بڑی حد تک ختم ہوچکی ہے، یہاں کہیں امن و سکون نہیں، مگراس کے باوجود اہل کشمیر آلام و مشکلات کی شدت برداشت کر کے بھی حالات کے سامنے سپر انداز ہونے کو تیار نہیں۔ اسی حقیقت کا اظہار بارھویں صدی کے مشہور مؤرخ کلہن پنڈت نے کیا تھاکہ: ’’اہل کشمیرکو محض زورِ بازو سے زیر نہیں کیا جاسکتا‘‘۔
 اگلے مالی سال کے دوران تعمیر و ترقی و سرکاری تنخواہوں کے نام پر بھارتی حکومت، جموں و کشمیر میں ۸۸ہزار ۹سو۱۱ کروڑ روپے صرف کررہی ہے۔بھارتی حکومت کے سالانہ۵ء۳ لاکھ کروڑ روپے کے دفاعی بجٹ کا نصف، یعنی تقریباً ۷ء۱  لاکھ کروڑ روپے بھی کشمیر ہی میں خرچ ہوتا ہے۔  اس حساب کے مطابق بھارتی حکومت کشمیر پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لیے روزانہ ۷۳۷ کروڑ، یعنی سات ارب روپے خرچ کرتی ہے۔کیا ہی اچھا ہو کہ بھارتی ٹیکس دہندگان کے خون پسینے کی   یہ کمائی کسی مثبت اور تعمیری کام میں خرچ ہو ،جس سے جنوبی ایشیا میں غربت کا خاتمہ ممکن ہو۔ درحقیقت کشمیر میں ترقی کے نام پر فنڈ فراہم کرنا ایسا ہی ہے جیسے کسی جیل کا بجٹ بنانا۔ جیلر بھی قیدیوںکے کھانے پینے کا خیال تو رکھتا ہی ہے ۔ اگرچہ وہ کتنا ہی نرم دل کیوں نہ ہو ، اس کا اور قیدیوں کے درمیان تنائو کا رشتہ ہی رہتا ہے۔ اگر اب بھی حکومتیں اس نکتے کو سمجھنے سے قاصر رہیں گی تو یہ خطہ بدترین عدم استحکام کا شکار رہے گا۔ مسئلہ کشمیرکو حل کرنے کے لیے سنجیدہ راستہ اختیار کرنا پڑے گا۔

ایک امریکی تھنک ٹینک بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کے ایک حالیہ تجزیے کے مطابق: ’بھارت میں مئی ۲۰۱۹ء کے عام انتخابات کے دوران موجودہ وزیر اعظم نریندرا مودی کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)، ۵۴۳ رکنی لوک سبھا میں ۱۷۹نشستوں تک سمٹ جائے گی‘۔ گویا اگر موجودہ عوامی رجحان برقرار رہتا ہے ، تو۲۰۱۴ء کے مقابلے اس کی ۱۰۷نشستیں کم ہوجائیں گی۔ اسی لیے بھارتی حکمران پارٹی ۲۰۱۹ء میں اقتدار میں اعتماد کے واضح ووٹ (مینڈیٹ) کے ساتھ واپسی کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔ پانچ ریاستی انتخابات کے تلخ نتائج کے بعد اس انتہاپسند قیادت کے بیانات میں یہ پیغام واضح انداز میں سامنے آرہا ہے کہ: ’’اب تعمیر و ترقی کے بجاے پاکستان کے نام پر ہندو ووٹروں کو خوف کی نفسیات میں مبتلا کرکے ووٹ بٹورنے ہیں‘‘۔
 فی الحال بی جے پی ، اس کی ذیلی اور مربی تنظیمیں اتر پردیش کے ایودھیا شہر میں مسمار شدہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کے حوالے سے ایک عوامی تحریک برپا کرنے کی سوچ بچار میں اُلجھی ہوئی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس طرح بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور معیشت کی بے حالی سے توجہ ہٹاکر ہندو ووٹروں کو ایک بار پھر جذباتی نعروں میں الجھا کر کامیابی کے جھنڈے گاڑے جاسکتے ہیں۔ پارلیمان کے موجودہ اجلاس سے قبل بی جے پی کے اراکین خم ٹھونک کر اعلان کر رہے تھے کہ: ’’اس سیشن میں قانون پاس کرواکر رام مندر کی تعمیر کا کام شروع کروایا جائے گا، کیوںکہ سپریم کورٹ نے اس معاملے کی فوری سماعت کرنے سے انکار کر دیا ہے‘‘۔ شواہد واضح طور پر بتاتے ہیں کہ بی جے پی بھی اس قضیے کو سلجھانے کے بجاے عوامی جذبات کی بھٹی تپائے رکھنا چاہتی ہے۔ 
ہندی کے ایک معروف صحافی شتیلا سنگھ نے اپنی کتاب ایودھیا- رام جنم بھومی اور بابری مسجد  تنازعے  کا سچ میں انکشاف کیا ہے کہ: تین عشرے قبل ان کی موجودگی میں پرم ہنس رام چندر داس کی قیادت میں فریقین نے ایک فارمولے پر اتفاق کیا تھا۔ انتہا پسند تحریک ’ویشوا ہندو پریشد‘(VHP) کے سربراہ اشوک سنگھل جب اس فارمولے پر مہر لگانے کے لیے ہندو انتہا پسندو ں کی مربی اور سرپرست تنظیم آرایس ایس کے سربراہ بالا صاحب دیورس کے پاس پہنچے ، تو دیورس کا کہنا تھا:’’ رام مندر تو ملک میں بہت ہیں، اس لیے اس کی تعمیر کی فکر چھوڑ کر اس کے ذریعے ہندوؤں میں اُبھار پکڑتی بیداری کا فائدہ اٹھانا ہی مفید ہوگا‘‘۔ یعنی اگر معاملہ سلجھ جاتا ہے تو پھر فرقہ وارانہ سیاست کی آگ سلگا کر اقتدار تک پہنچنے کا راستہ بند ہوجائے گا۔
جہاں دیدہ تجزیہ کاروں کے مطابق بابری مسجدکا سانحہ اس خطے کی جدید تاریخ کے     چھے بڑے واقعات میں سے ایک ہے۔ پہلا ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی، دوسرا ۱۹۲۰ء میں گاندھی جی کی قیادت میں کانگریس کا نیا آئین اور ’سوراج‘ [آزادی] کا مطالبہ، تیسرا ۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند اور آزادی، چوتھا ۱۹۷۱ء میں بنگلہ دیش کا وجود میں آنا‘ اور پانچواں ۱۹۸۴ء میں سکھوں کی مقدس عبادت گاہ گولڈن ٹمپل پرحملہ، اور چھٹا ۱۹۹۲ء میں بابری مسجد کا انہدام، جو دراصل اعتماد کا انہدام تھا۔
سچی بات ہے کہ بابری مسجدکی شہادت میں بھارتی عدلیہ اور انتظامیہ نے بھرپور کردار ادا کرکے اپنی فرقہ وارانہ ذہنیت کا پول کھول دیا، مگر اس کے باوجود آج تک بھارت کو ایک سیکولر اور لبرل ملک کے طور پر مغرب میں پذیرائی حاصل ہے۔ اعتبار کی رہی سہی کسر ۳۰ دسمبر ۲۰۱۰ء کو الٰہ آباد ہائی کورٹ کے تین ججوں کے بنچ نے اس وقت پوری کر دی، جب برسوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد اس نے قانون اور شواہد کو بالاے طاق رکھ کر، ایک فریق کے عقیدے اور یقین کو بنیاد بنا کر بابری مسجد پر حق ملکیت کا فیصلہ ہندوئوں کے حق میں سنا دیا۔ بنچ کے ایک جج نے زمین کے بٹوارے کی تجویز دی۔ پھر بنچ نے آگے بڑھ کر ان نکات پر بھی فیصلہ دیا جو بحث میں شامل ہی نہ تھے۔ 
یہ ایک سیدھا سادا سا ملکیتی معاملہ تھا۔ ۱۹۴۹ء میں جب چند فتنہ پرور افراد نے مسجد کے منبر پر مورتی رکھ دی اور مقامی انتظامیہ نے تالہ لگا کر مسجد میں مسلمانوںکے عبادت کرنے پر پابندی لگادی، تو مقامی ’وقف بورڈ‘ اور ایک ذمہ دار فرد ہاشم انصاری نے اس کے خلاف عدالت میں فریاد کی کہ: ’’اس جگہ کی ملکیت طے کی جائے‘‘۔ جج صاحبان نے برسوں کی عرق ریزی کے بعد قانون اور آئین کی پروا کیے بغیرکہا کہ:’’ Law of Limitations  [قانونِ تحدید]کا اطلاق ہندو دیوی دیوتائوں پر نہیں ہوتا ہے اور نہ ان جگہوں پر ہوتا ہے جہاں ان کی نشانیاں موجود ہوں‘‘۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہنا کہ کسی بھی جگہ پر اگر کوئی شخص کوئی مورتی، چاہے وہ پتھرکا ٹکڑا یا کسی درخت کی شاخ یا پتا ہی کیوں نہ ہو، رکھ کر اس پر مالکانہ حقوق جتلا سکتا ہے، چاہے اس جگہ کا مالک وہاں کیوں نہ صدیوں سے مقیم ہو۔ 
اس فیصلے کا اعتبار اس وقت اور بھی زیادہ مضحکہ خیز ہو جاتا ہے، جب جج صاحبان نے یہ تسلیم کرلیا کہ: ’’بھگوان رام کا جنم اسی مقام پر ہوا تھا، جہاں بابری مسجدکا منبر واقع تھا‘‘ اور یہ بھی کہا کہ: ’’ان کے مطابق رام آٹھ لاکھ سال قبل مسیح، اسی جگہ پر موجود تھے‘‘۔ دنیا بھر کے تاریخ دان اور آثارِ قدیمہ کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ جنوبی ایشیا میں اتنی پرانی آبادی کے کوئی آثار  ابھی تک نہیں ملے ہیں۔ پھر ہائی کورٹ کے جج صاحبان نے اپنے طویل فیصلے میں سیاق و سباق کے برعکس مسلم حکمرانوں کے خلاف ایک لمبا چوڑا تبصرہ بھی تحریر کر ڈالا ہے اور ان کے دور میں ہندو عبادت گاہوں کو نقصان پہنچانے کے عمل کو بھی اپنے فیصلے کی بنیاد بنایا ہے۔
 اگر یہ بات درست مان لی جاتی ہے تو پھر ہندو حکمرانوں کے ہاتھوں لاتعداد بدھ خانقاہوں کی بے حرمتی اور ان کی مسماری کس کے کھاتے میں ڈالی جائے گی؟ کشمیر کے ایک ہندو بادشاہ  ہرش دیو نے اپنے خالی خزانوں کو بھرنے کے لیے جنوبی کشمیر کے مندروں کو لوٹا اور جب پجاریوں نے مزاحمت کی تو ان کو بے دریغ تہہ تیغ کر دیا (جب کہ اس سے قبل ہندوئوں نے بڑے پیمانے پر جین مت اور بدھ مت کے مندروں کو توڑا، برباد کیا تھا)۔ اگر ان تاریخی واقعات کا انتقام موجودہ دور میں لینے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، تو اس کا اختتام کہیں نہیں ہو گا، کیوںکہ ہر قوم نے، ماضی میں جب وہ غالب رہی، کوئی نہ کوئی ایسی حرکت ضرور کی ہوگی، جو کسی نہ کسی کو تکلیف پہنچانے کا سبب بنی (ہم یہاں ان کہاوتوں، قصوں اور کہانیوں کی تصدیق کی بات نہیں کر رہے، محض انھیں دُہراتے رہنے کی بات کر رہے ہیں)، مگر اب آباواجداد کے گناہوںکی سزا سیکڑوں برس بعد ان کی اولادوں کو تو نہیں دی جا سکتی۔

  • مسجد شہید گنج: بابری مسجد کے قضیے کا لاہورکی مسجد شہید گنج [قائم شدہ: ۱۶۵۳ء] المیے کے ساتھ موازنہ کرنا بے جا نہ ہو گا۔ یہ کیس اور اس پر پاکستانی معاشرے کا رویہ، بھارتی سیکولرازم او ر اس کی لبرل اقدار پر ایک زوردار طمانچہ ہے۔ ۱۷۶۲ء میں لاہور پر سکھوں نے قبضے کے بعد اس مسجد کو فوجیوں کے ڈیرے میں تبدیل کر ڈالا اور بعد میں اس کوگوردوارہ کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا۔ ۱۸۴۹ء میں جب پنجاب برطانوی سامراج کی عملداری میں شامل ہوا، تو مسلمانوں نے اس مسجد کی بحالی اور واگزار کرنے کا مطالبہ کیا۔ پریوی کونسل نے ’قانونِ محدودیت‘ کو بنیاد بنا کر اس کا فیصلہ سکھوں کے حق میں دے ڈالا۔ ۱۷؍اپریل۱۸۵۰ء کو مسجد کے متولی نوراحمد نے بالاتر عدالت میں دادرسی کے لیے فریاد کی اور پھر ۱۸۸۳ء تک کے مختلف دروازوں پر دستک دیتے رہے، مگر ہر بار ’قانونِ محدودیت‘ کا حوالہ دے کر عدالتیں ان کی اپیلوں کو خارج کرتی رہیں۔ 

۱۹۳۵ء میں انگریز گورنر نے اس عمارت کو محکمہ آثار قدیمہ کے سپرد کرنے کی تجویز دی، جس پر ابھی راے عامہ ہموار ہو ہی رہی تھی کہ ۷جولائی کو سکھوں نے رات کے اندھیرے میں مسجد کی عمارت ڈھا دی۔ جب اس جارحانہ اور حددرجہ اشتعال انگیز اقدام پر تاریخی بادشاہی مسجد لاہور سے مسلمانوں نے ۲۰جولائی احتجاجی جلوس نکالا تو ایک درجن سے زیادہ مسلمان مظاہرین کو پولیس نے گولیوں کی بوچھاڑ سے شہید کردیا۔ پورے لاہور میں کرفیو نافذکرنا پڑا۔ عدالتی فیصلے کو رد کرنے کے لیے مسلم لیگ کے ارکان نے پنجاب اسمبلی میں قانون سازی کے ذریعے یہ جگہ مسلمانوں کے سپرد کرنے کی تجویز پیش کی۔ معروف قانون دان اے جی نورانی کے بقول: ’قائد اعظم محمد علی جناح نے اس تجویز کو رد کر دیا ‘۔ قائد اعظم کے شدید ناقد ہونے کے باوجود نورانی صاحب کا کہناہے کہ: ’’انھوں نے اس قضیے کو کبھی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیںکیا، بلکہ قانون کی عمل داری کا پاس کیا‘‘۔ 
پاکستان بننے کے ۷۲سال بعد آج بھی یہ گوردوارہ لنڈا بازار میں موجود ہے،جب کہ شاید ہی اب کوئی سکھ اسے عبادت کے لیے استعمال کرتا ہو۔ لاہور میں جس طرح اس مسئلے نے جذباتی رخ اختیار کیا تھا، آزادی کے بعداندیشہ تھاکہ اس کو دوبارہ مسجد میں تبدیل کیا جاسکتا ہے، مگر کسی پاکستانی سیاست دان یا پاکستان کی کسی مذہبی شخصیت نے عدالت کا فیصلہ رد کرنے کی کوشش نہیں کی [طرفہ تماشا دیکھیے کہ سیکولر، لبرل مخلوق پاکستان ہی کو عدم برداشت کا طعنہ دیتی ہے]۔ اس کے برعکس بھارتی عدلیہ کی جانب داری کا عالم یہ ہے کہ ایک سابق چیف جسٹس جے ایس ورما نے ’ہندوتوا‘ کو مذہبی علامت کے بجاے بھارتی کلچرکی علامت اور ایک نظریہ زندگی قرار دے ڈالا ہے۔ انھوں نے ہندو انتہا پسندوںکے گورو ویر ساورکر اور گولوالکر کی تصانیف کے بجاے ’روشن خیال‘ مولانا وحیدالدین خان کی تحریروںپر تکیہ کر کے ہندو انتہا پسندی کو جواز فراہم کردیا۔ ۱۹۹۲ء میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس وینکٹ چلیا کے طریق کار نے بھی بابری مسجد مسمارکرنے کی راہ ہموارکی۔ وہ مسجد کو بچانے اور آئین و قانون کی عمل داری کو یقینی بنانے کے بجاے کار سیوکوں (مسجد کو مسمار کرنے والے) کی صحت کے بارے میں زیادہ فکرمند نظر آئے۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ ۱۹۹۸ء میں بی جے پی حکومت نے ان کی فکری خدمات کے اعتراف میں انھیں ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیشن کا سربراہ مقرر کر دیا۔
اے جی نورانی صاحب نے اس موضوع پر اپنی کتابDestruction of Babri Masjid:A National Dishonour (بابری مسجد کا انہدام: قومی روسیاہی)میں کئی حقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ: ’’کانگریس کے اندرا گاندھی دورِ اقتدارمیں ہی  بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کی راہ ہموار کرنے کے لیے ویشوا ہندو پریشد کے ساتھ سازباز ہوگئی تھی۔اگرچہ پریشد نے اندرا گاندھی کی ہلاکت کے بعد اپنی تحریک روک دی، مگر راجیو گاندھی نے اس کو پھر زندہ کیا۔تاہم ، اس سے پہلے وہ مسلمانوں پر کوئی احسان کرنا چاہتے تھے۔اس کے لیے ان کے حواریوں نے ایک مسلم مطلقہ خاتون شاہ بانو کا قضیہ کھڑا کیا اور پارلیمنٹ سے ایک قانون پاس کروایا کہ مسلم پرسنل لا میں عدالت کوئی ترمیم نہیں کر سکتی‘‘۔
مصنف کے بقول: ’’انھوں نے راجیو گاندھی کو مشورہ دیا تھا کہ اس قضیے کو کھینچنے کا کو ئی فائدہ نہیں ہے، اور اس کو اینگلو محمڈن قانون کے بجاے شرعی قانون کے مطابق حل کیا جاسکتا ہے ،مگر وہ مسلمانوںکو سیاسی بے وقوف بنانے پر تلے ہوئے تھے، تاکہ پریشد کے ساتھ معاملہ فہمی کو آگے بڑھایا جاسکے، اور پھر یہی ہوا۔کانگریس کے علاوہ دیگر سیکولر جماعتوں سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی، جن کی سانسیں ہی مسلمانوں کے دم سے ٹکی ہیں، ان سبھی کا رویہ افسوس ناک رہا ہے۔  ان دونوں پارٹیوں نے ،جو پچھلے ۲۰برسوں سے اتر پردیش میں حکومت کر رہی ہیں ،بابری مسجد کی مسماری کے ملزمان کے خلاف کارروائی کرنے میں کوئی دل چسپی نہیں دکھائی۔حتیٰ کہ ایک معمولی نوٹیفکیشن تک کا اجرا نہیں کرسکیں، جس سے خصوصی عدالت میں ان افراد کے خلاف مقدمہ چلایا جا سکتا‘‘۔