آذربائیجان کی فوجیں ۱۷نومبر ۲۰۲۰ء کو جب نگورنوقاراباغ کے اہم شہر شوشا میں داخل ہوگئیں ، تو ترکی کے دارلحکومت انقرہ کے نواح میں رہنے والی ایک ضعیف العمر آذربائیجانی خاتون زلیخا شاناراوف نے گھر کے اسٹور سے ایک پرانا زنگ آلود صندوق نکالا، جس کو اس کی فیملی نے ماضی میں کئی بار کوڑے میں پھینکنے کی کوشش تھی۔مگر بڑی بی کا اس صندوق کے ساتھ ایسا جذباتی رشتہ تھا کہ و ہ آسمان سر پر اٹھا کر ہرایسی کوشش کو ناکام بنا دیتی تھی۔ شوشا شہر کے آزاد ہونے کی خبر نے اس عمر رسیدہ خاتون کو گویا پھر سے جوان کردیا ، اوراس نے پورے خاندان کو جمع کرکے اس صندوق کو کھولنے کا حکم دیا۔ اس چھوٹے سے بکس میں اس نے شوشا میں واقع اپنے مکان کی چابی حفاظت کے ساتھ رکھی ہوئی تھی، جہاں سے اس کو ۱۹۹۲ء میں آرمینیائی قبضے کے بعد بے سرو سامانی کی حالت میں بچوں کے ساتھ نکالا گیا تھا۔
ترکی کے شہر انقرہ، عدبر اور آذربائیجان کے باکو اور دیگر علاقوں میں ہجرت کی زندگی بسر کرنے والے ایسے ہزاروں مہاجر خاندان اب اپنے آبائی گھرو ں کو جانے کے لیے بے تاب ہیں۔ فی الحال دسمبر تک علاقوں سے آرمینیائی افواج کا انخلا طے پایا ہے اور آذر بائیجانی افواج مفتوحہ علاقوں میں بارودی سرنگیں ہٹانے کا کام کر رہی ہیں۔ اس کے بعد ہی شہریوں کو واپس آنے کی اجازت دی جائے گی۔ تقریباً ڈیڑھ ماہ پر پھیلی اس جنگ کے بعد آرمینیا نے جب اعتراف شکست کیا، تو یہ گذشتہ سو سالوں میں کسی مسلم ملک کی پہلی مکمل فوجی فتح تھی۔ گذشتہ ۲۷ برسوں کے بعد پہلی بار اعدام اور دیگر شہروں کی مسجدوں کے منارے اور منبر آباد ہوگئے، جہاں آذری افواج نے داخل ہوکر اذانیں دیں اور شکرانے کے نوافل پڑھے۔ پچھلی تین دہائیوں سے یہ مسجدیں جانوروں کے باڑوں یا موٹر گاڑی گیراج کا کام دے رہی تھیں۔ صرف اعدام کے علاقے سے ہی گذشتہ صدی کے آخری عشرے کے اوائل میں ۲لاکھ کے قریب آذری اپنے آبائی علاقے سے نقل مکانی پر مجبور کر دیے گئے تھے۔ آرمینیوں نے قبضے کے دوران علاقے میں کافی لوٹ مار مچائی اور شہر کے مرکزی علاقوں کو تباہ کر دیا تھا۔
جنگ بندی اور آرمینیا کے وزیرا عظم نکول پاشہینان کے اعتراف شکست کے بعد جو معاہدہ طے پایا ہے، اس کے مطابق مفتوحہ علاقوں ، جن میں پانچ اہم شہر، چار قصبے اور ۲۸۶دیہات شامل ہیں، پر آذر بائیجان کا قبضہ تسلیم کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ دسمبر تک مزید سات علاقو ں سے آرمینیائی افواج کے انخلا کے بعد آذر بائیجان کے حوالے کر دیے جائیں گے۔ قاراباغ علاقے سے ۱۹۹۰ء میں آرمینیا نے جس مسلمان آذری آبادی کو بے دخل کرکے، اس علاقے کاآبادیاتی تناسب تبدیل کر دیا تھا، ان سب افراد کو واپس اپنے علاقوں میں جانے اور بسنے کی نہ صرف اجازت ہوگی، بلکہ ان کی حفاظت کی ذمہ داری مقامی حکمرانوں پر عائد ہوگی۔ آرمینیا سے آذربائیجان کے راستے ترکی جانے والے سبھی ٹرانزٹ راستوں کو کھولا جائے گا اور ترک افواج ان کی نگرانی کریں گی۔ ان میں سب سے اہم ترکی اور آذر بائیجا ن کے درمیان قدیم سلک روٹ، یعنی ناچیوان کوریڈو ر کی بحالی ہے۔ اس سے ترکی کو براہِ راست چین تک رسائی حاصل ہوجائے گی اور یہ جلد ہی ’بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹ‘ کا حصہ بن جائے گا۔ اس راستے کی عدم دستیابی کے نتیجے میں آذر بائیجان تک پہنچنے کے لیے ترکی کو ایران یا جارجیا کا راستہ اختیار کرنا پڑتا تھا۔ اگرچہ لنچن علاقے کو بھی آذربائیجان کا حصہ تسلیم کیا گیا ہے، مگر آرمینیا کو قاراباغ کے دارالحکومت اسٹیپن کرت تک رسائی کے لیے لنچن میں ایک کوریڈور کے ذریعے رسائی دی گئی ہے، جس کی حفاظت روسی افواج کریں گی۔
بلاشبہہ آذربائیجانی صدر الحام علی یوف پر سخت دباؤ تھا کہ جنگ جاری رکھ کے شوشا شہر کے بعد ۱۰کلومیٹر دور دارلحکومت اسٹیپن کرت پر بھی فوج کشی کرکے آزاد کروائیں، مگر جس طرح آرمینیائی افواج آذربائیجان کے اند ر شہری علاقوں پر میزائلوں اور راکٹوں کی بارش کرکے سول آبادی کو نشانہ بنارہی تھی، اس میں بڑی طاقتوں کی طرف سے جنگ بندی کی اپیل کے بعد الگ تھلگ پڑنے کے خوف سے علی یوف نے امن کے دامن کو تھام لیا۔
کہتے ہیں کہ جنگ مسائل کا حل نہیں ہے، یہ خود مسائل کو جنم دیتی ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب بار بار تاکید کے بعد بھی مذاکرات مسائل حل کرانے میں ناکام ہوجاتے ہیں، تو جوں کی توں صورتِ حال (اسٹیٹس کو) بدلنے کا واحد حل جنگ ہی رہ جاتا ہے۔ ۱۹۹۴ء سے قاراباغ پر بھی اقوام متحدہ نے چاربار قرار دادیں منظور کرکے آرمینیا کو یہ علاقے خالی کرکے آذربائیجان کے حوالے کرنے کی اپیل کی تھی، مگر طاقت کے زعم کے ساتھ روس اور فرانس کی پشت پناہی کی وجہ سے آرمینیا نے ان قراردادوں پر کوئی کان نہ دھرا۔ اس دوران آرمینیا نے ان علاقوں کو مکمل طور پر آذری مسلم آبادی سے خالی کرواکے وہاں آرمینیائی نسل کی حکومت قائم کردی۔ جس نے اس علاقے کے اصل باشندوں، یعنی آذری مسلم آبادی کی عدم موجودگی میں نام نہاد ریفرنڈم کروایا، اور قاراباغ کا الحاق آرمینیا سے کرنے کا اعلان کیا۔ تاہم، بین الاقوامی برادری نے اس ریفرنڈم کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ آذربائیجانی صحافی جیحون علییوف کے مطابق ۱۹۹۰ء سے مذاکرات اور بین الاقوامی برادری کے توسل سے متواتر آذر بائیجان بتانے کی کوشش کررہا تھا ، کہ اگر آرمینیا ٹرانزٹ کوریڈورز میں آمد و رفت بحال کرنے، مہاجرین کی واپسی اور قاراباغ کے نچلے علاقوں کو واپس کرنے پر آمادہ ہوتا ہے ، تو وہ اس کو بطور حتمی حل ماننے کے لیے آمادہ ہے، مگر آرمینیا ہمیشہ اس پیش کش کو ٹھکراتا آیا ہے۔
اب جنگ کے بعد روس اور ترکی کی ایما پر ایسا ہی معاہدہ عمل میں آیا ہے۔ اب نچلے تمام علاقوں سے ہاتھ دھونے کے ساتھ ساتھ آرمینیا کو بالائی قاراباغ کے اہم شہر شوشا سے بھی ہاتھ دھونا پڑا ہے، جو اس علاقے کا ثقافتی اور تجارتی قلب ہے۔ تزویراتی لحاظ سے بھی اس کی اہمیت دوچند ہے، کیونکہ یہ اونچائی پر واقع ہے، اور اس کو حاصل کرنے کے لیے آذری افواج کو خاصی محنت کرنی پڑی ۔ یہاں آرمینیائیوں کا آپوسٹولک چرچ بھی واقع ہے۔
شمالی قفقاز ( North Caucasus) میں نگورنو قاراباغ کو ۱۹۲۳ء میں آذربائیجان کا علاقہ بنادیا گیا تھا۔ سوویت یونین کے آخری زمانے اور پھر تحلیل و انہدام کے بعد سے اس علاقے کے کنٹرول کے سوال پر آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان ۱۹۸۸ء سے ۱۹۹۴ءتک چھے سال طویل جنگ ہوئی، جس میں ۳۰ہزار افراد ہلاک ہوئے، جب کہ لاکھوں افراد کو وہاں سے ہجرت کرنا پڑی۔ اس وسیع پیمانے کی جنگ کو ختم کرنے کے لیے روس نے ثالث کا کردار ادا کیا ، لیکن کوئی معاہدہ نہیں ہوسکا۔ اس جنگ کی وجہ سے لاکھوںآذریوں کو ہجرت کرنا پڑی، جس کے نتیجے میں یہاں آرمینیائی باشندوں کی اکثریت ہوگئی، جب کہ حکومت بھی آرمینیا کی حمایت یافتہ بن گئی۔
۲۰۱۶ءمیں بھی اس علاقے میں پانچ روز تک دونوں ممالک کے درمیان جنگ جاری رہی، جس کی وجہ سے سیکڑوں افراد ہلاک ہوگئے اور پھر روس کی مداخلت کی وجہ سے جنگ پھر رک گئی۔ مگر حال ہی میں اختتام پذیر جنگ ۹۰ء کے عشرے کے بعد چھڑنے والی سب سے بڑی جنگ تھی۔ اس میں خاص بات آذر بائیجان کو ترکی کی حمایت کا حاصل ہونا اور ڈرون طیاروں کا حصول، جس نے آرمینیا کی فضائی قوت کو تباہ کردیا۔ مزید یہ کہ آرمینیا کے اتحادیوں روس اور ایران کا اس دورا ن غیر جانب دار رہنا بھی آذربائیجان کے حق میں گیا۔ تاہم روس نے خبردار کیا تھا کہ ’’آرمینیا کی سرحدوں کے اندر کسی بھی فوجی کارروائی کی صورت میں وہ مداخلت کرنے پر مجبور ہوگا‘‘۔ آذربائیجان نے اسی لیے جنگ کو قاراباغ تک ہی محدود رکھا ۔ آرمینیا نے اگرچہ آذر بائیجان کے شہری علاقوں پر راکٹوں کی بارش کی، مگر روس کی مداخلت کے خوف سے آذر بائیجان نے ان کا جواب نہیں دیا،اور فوج کشی قاراباغ تک ہی محدود رکھی۔
معاہدے کی رُو سے جو علاقے اب آرمینیا خالی کر رہا ہے ، اس کی فوج اور لوگ مکانات، سرکاری عمارات اور جنگلاتی اراضی کو نذرِ آتش کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا اور روسی نیوز سائٹ سے نشر ہونے والے ویڈیو مناظر میں کیل بیجیر کے مختلف علاقوں میں مقیم آرمینیوں کو نکلنے سے پہلے عمارتوں کو نذرِ آتش کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ خاص طور پر ۲۷سال قبل آذریوں کے پیچھے چھوڑے ہوئے گھروں کی کھڑکیاں اور دروازے توڑ کر انھیں آگ لگاتے ہوئے نظر آئے۔ صرف گھروں کو نہیں اسکولوں اور درختوں تک کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ قارا باغ کے شمال مغربی علاقے کیل بیجیر پر ۱۹۹۳ء کو آرمینیا نے جب قبضہ کیا تھا تو اس علاقے میں مقیم تقریباً ۶۰ہزار آذری اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ ۱۰ نومبر کو طے پانے والے سمجھوتے کی رُو سے آرمینی فوج کو ۱۵ نومبر تک کیل بیجیر کو خالی کرنا تھا۔
آذربائیجان کی خاص بات یہ ہے کہ اس کے پہاڑی علاقوں میں ازخود آگ بھڑک اٹھتی تھی۔ اس مناسبت سے زرتشت اس کو ایک مقدس جگہ مانتے تھے۔ مگر ماہرین کے مطابق اَزخود بھڑک اٹھنے والی آگ کا موجب علاقے میں پائے جانے والے تیل اور گیس کے ذخائر ہیں۔ بحرگیلان یا بحرکیسپین سی کے کنارے آباد اس علاقے میں ہمہ وقت چلنے والی تیز ہوائیں بھی ا س آگ کو بھڑکاتی رہتی ہیں۔
عالمی جریدے کونسل آن فارن ریلیشنز کے مطابق آذربائیجان روزانہ آٹھ لاکھ بیرل تیل کی پیداوار کرتا ہے، جو یورپ اور وسطی ایشیا کو تیل برآمد کرنے والا بڑا ملک ہے۔ اس تیل اور گیس کو یورپ پہنچانے کے لیے دوراستے ہیں، ایک شمال مغربی روس اور دوسرا جنوب مغربی قفقاز یا کاکیشیائی ریاستوں سے ہوکر ترکی سے گزرتا ہے۔ یورپ اپنی گیس کی ضروریات کو یہاں سے پورا کرنے کے لیے مستقبل میں یہاں سے مزید پائپ لائنوں کی تعمیر کا خواہش مند ہے۔گو کہ قاراباغ کا پہاڑی علاقہ خود گیس یا تیل کی پیداوار نہیں کرتا، مگر اس کے کیل بیجیر ، لاچن، زنگی لان اور تار تار اضلاع میں سونے، چاندی، پارے، تانبے، جست اور کوئلہ کے وافر ذخائر موجود ہیں۔
اس جنگ سے ایک بات تو طے ہے کہ شرق اوسط کے بعد قفقاز میں بھی ترکی کا قد خاصا بلند ہوا ہے۔ ایک طرح سے اس کا سفارتی اور عسکری رتبہ روس کے ہم پلہ ہوگیا ہے۔آذر بائیجان ، آرمینیا کی یہ جنگ شاید نئے ورلڈ آرڈر کی نوید ہے، جس میں ترکی، روس اور چین ایک اہم رول ادا کرنے والے ہیں۔جنگی برتری حاصل کرنے بعد ترکی اور آذر بائیجا ن کے لیے بھی لازم ہے کہ آرمینیا کی اشک شوئی کرکے اس کو بھی اتحاد میں شامل کرکے اقتصادی طور پر اس کی مدد کرکے اسے مغربی ممالک کا کھلونا نہ بننے دیںاور مفتوحہ علاقوں میں آرمینیائی مذہبی علامتوں کی حفاظت کی جائے۔ شاید اسی لیے ترکی کی ایما پر آذربائیجان کی افواج نے اسٹیپن کرت پر فوج کشی نہ کرکے مفاہمانہ پالیسی کی گنجایش رکھ دی ہے۔
۶دسمبر۱۹۹۲ءکی رات ، بی بی سی نے نشریات روک کر اعلان کیا:’’ اترپردیش کے شہر فیض آباد سے سنڈے آبزرور کے نمایندے قربان علی لائن پر ہیں اور وہ ابھی ابھی ایودھیا سے وہاں پہنچے ہیں‘‘۔ اگلی پاٹ دار آواز قربان علی کی تھی۔ جس میں انھوں نے دنیا کو بتایا کہ ’’مغل فرماںروا ظہیرالدین بابر کی ایما پر تعمیر کی گئی بابری مسجد اب نہیں رہی‘‘۔ جس وقت و ہ ایودھیا سے روانہ ہوئے، وہ ملبہ کے ایک ڈھیر میں تبدیل ہوچکی تھی۔اس دن کسی بھی ابلاغی ادارے کا ایودھیا میںموجود اپنے رپورٹروں سے رابطہ نہیں ہو رہا تھا۔ بھارتی حکومت دعویٰ کر رہی تھی کہ ’’ایک ہجوم نے مسجد پر حملہ کرکے اس کو معمولی نقصان پہنچایا اور سکیورٹی دستوں نے ان کو پیچھے دھکیل دیا ہے‘‘۔
ہندو نسل پرست تنظیموں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور ویشوا ہندو پریشد (وی ایچ پی) نے جب رام مندر تحریک شروع کی، تو میں انھی دنوں دہلی میں صحافت کی تعلیم مکمل کر رہا تھا۔ بی جے پی کے مرکزی لیڈر ایل کے ایڈوانی کی ’رتھ یاترا‘ جب چاندنی چوک سے گزر رہی تھی، تو میںسڑک کے کنارے، ہوا میں تلواریں اوربھالے لہراتے ہجوم کو ’جے شری رام‘ ،’ مندر وہیں بنائیں گے‘ اور مغل فرماں روا ظہیرالدین بابر کی اولاد کے نام لے کر گالیوں ملے نعرے بلند کرتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ اگرچہ آنجہانی پرمود مہاجن اس یاترا کے چیف آرگنائزر تھے، مگر دہلی میں بی جے پی کے دفتر میں موجودہ وزیر اعظم نریندرا مودی اس کے متعلق پروگرام وغیرہ کی بریفنگ دیتے تھے۔
نومبر ۲۰۱۹ء میں بھارتی سپریم کورٹ کے عجیب و غریب فیصلے کے بعد بابری مسجد ایک قصۂ پارینہ بن ہی گئی تھی۔ پھر ۳۰ستمبر ۲۰۲۰ء کے روز مسجد مسمار کرنے والوں کو بھی اتر پردیش صوبہ کے شہر لکھنؤ کی خصوصی عدالت نے ’بے گناہ‘ قرار دے کر، انصاف کو دفن کر نے کا مزید سامان مہیا کردیا۔
پچھلے ۲۸ برسوں کے دوران عدالت کے رویے کو دیکھ کرکچھ زیادہ امید یں نہیں بندھی تھیں۔ سپریم کورٹ نے ایک طرف مسجد کی زمین ہندو بھگوان رام للا کے سپرد کی۔ دوسری طرف مسلم فریق کے تین اہم دلائل کو بھی تسلیم کرکے فیصلہ میں شامل کردیا۔ یہ بھی تسلیم کیا کہ ’’۱۹۴۹ء کو رات کے اندھیرے میں مسجد کے محراب میں بھگوان رام کی مورتی رکھنا اور پھر دسمبر ۱۹۹۲ء کو مسجد کی مسماری مجرمانہ فعل تھے‘‘۔ پھر عدالت نے آثار قدیمہ کی تحقیق کا بھی حوالہ دے کر بتایا: ’’۱۵۲۸ء میں جس وقت مسجد کی تعمیر شروع ہوئی، اس وقت کی کسی عبادت گاہ کے آثار نہیں ملے۔ ہاں، کھدائی کے دوران، جو کچھ آثار پائے گئے، ان سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے ، کہ اس جگہ پر ۱۱ویں صدی میں کوئی عمارت موجود تھی، جو تباہ ہوچکی تھی‘‘ (یعنی اگلے ۵۰۰برسوں تک اس جگہ پر کوئی عمارت موجود نہیں تھی)۔
فیصلے میں شامل ان دلائل سے ایک موہوم سی امید جاگ اٹھی تھی، کہ چاہے مسجد کی زمین پر ایک پرشکوہ مندر کی تعمیر شروع ہو چکی ہے، مگر اس عبادت گاہ کو مسمار کرنے والوں کو قرا ر واقعی سزا دے کر ایک مثال قائم کی جائے گی۔ مگر ۲ہزارصفحات سے بھی زائد اپنے ۳۰ستمبر ۲۰۲۰ء کے فیصلے میںخصوصی عدالت کے جج سریندر کمار یادو نے سپریم کورٹ کی ہدایت اور تمام ثبوتوں کو نظرانداز کرتے ہوئے تمام ۳۲ملزمان کو بری کر دیا۔ اس مقدمے کی کارروائی کا مَیں خود گواہ ہوں۔ استغاثہ نے جن ۳۵۱گواہوں کی فہرست کورٹ میں دی تھی، اس میں سے تین شخص میر ے قریبی رفیق تھے، جن سے مسلسل معلومات ملتی رہتی تھیں۔ نریندرا مودی کی دہلی میں آمد تو ۲۰۱۴ءمیں ہوئی، اس سے قبل سیکولر جماعتوں سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی، جن کی سیاست کا کاروبار مسلمان ووٹوں کو سبزباغ دکھانے پر چل رہا تھا، انھوں نے بھی بابری مسجد کی مسماری کے ملزمان کے خلاف کارروائی کرنے میں کوئی دل چسپی نہیں دکھائی۔حتیٰ کہ ایک معمولی نوٹیفکیشن تک کا اجرا نہیں کرسکیں جس سے خصوصی عدالت میں ان افراد کے خلاف مقدمہ چلایا جاسکتا۔ اور پھر خود نوٹیفکیشن میں تکنیکی خامیاں تھیں، جن کو ۲۰۱۰ء میں الٰہ آباد ہائی کورٹ کے کہنے پر دُور کیا گیا اور سبھی مقدمو ں کو یک جا کرکے لکھنؤ کی خصوصی عدالت میں سماعت شروع ہوئی۔
معروف فوٹو جرنلسٹ پروین جین نے نہ صرف ۶دسمبر کے دن بابری مسجد کی مسماری کی تصاویر لیں تھیں، بلکہ اس سے کئی روز قبل ایودھیا کے نواح میں کارسیوکوں کے گروپ میں شمولیت کرکے ریہر سہل میں حصہ لیا، اور ان سرگرمیوں کی تصویریں بھی کیمرے میں محفوظ کرلی تھیں۔ ان کے اخبار دی پائینیر نے مسجد کے مسمار ہونے پر ان کو شائع کیا تھا۔ استغاثہ نے پروین جین کو گواہ بنایا تھا۔ اس دوران ان کو کس طرح ہراساں و پریشان کیا جاتا تھا اور کورٹ میں حاضری کے دن ان کو وکیلوں و عدالتی اسٹاف کے اذیت ناک رویے کا کس طرح سامنا کرنا پڑتا تھا؟ یہ خود ایک دردبھری داستان ہے۔
سمن آنے پر مقررہ تاریخ سے ایک روز قبل وہ دہلی سے بذریعہ ٹرین لکھنوٗ کے لیے روانہ ہوتے تھے: ’’دن بھر عدالت کے باہر، عدالتی ہرکارے کی آوا ز کا انتظار کرنے کے بعد بتایا جاتا تھاکہ آج گواہی نہیں ہوگی، کیونکہ یا تو جج موجود نہیں ہے، یا استغاثہ یا وکیل دفاع موجود نہیں ہے‘‘۔ جین کے بقول: ’’کئی برسوں تک اس طرح کی گردشوں کے بعد جب ایک دن مجھے گواہوں کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا، اورابھی بیان ریکارڈ ہونے ہی والا تھا، کہ ایک معمر وکیل نے کٹہرے کے پاس آکر اپنا منہ میرے کے کان کے پاس لاکر ماں ، بہن کی گندی گالی دے کر دھمکی بھی دے ڈالی‘‘۔اس پر جین نے بلند آواز میں جج کو متوجہ کرتے ہوئے شکایت کی، کہ ’’مجھ کو بھری عدالت میں دھمکیاں دی جا رہی ہیں‘‘۔ جج نے حکم دیا کہ ’’پروین کو ایک سفید کاغذ دیا جائے، تاکہ یہ اپنی شکایت تحریری طور پر دیں‘‘۔ شکایت جج کے پاس پہنچتے ہی ، وکیل دفاع نے دلیل دی،کہ ’’اب پہلے اس کیس کا فیصلہ ہونا چاہیے کہ گواہ کو کس نے گالی اور دھمکی دی؟ اس دوران کورٹ میں ہنگامہ مچ گیا اور گواہی اگلی تاریخ تک ٹل گئی اور بتایا گیا کہ ’’تم اپنا وکیل مقرر کرو ، کیونکہ اب پہلے تمھیں عدالت میں دھمکانے کا کیس طے ہوگا‘‘۔
تنگ آکر جین نے یہ کیس واپس لیا اور اصل کیس، یعنی بابری مسجد کی مسماری سے متعلق اپنا بیان درج کروانے کی درخواست کی۔ اس طرح کئی تاریخوں کے بعد جب گواہی درج ہوگئی تو ان کو بتایا گیا ، کہ ’’بس تصویریں کافی نہیں ہیں، ۶دسمبر کے دن ایودھیا میں اپنی موجودگی ثابت کرو‘‘۔ خیر کسی طرح کئی ماہ کی تگ ودو کے بعد انھوں نے ایودھیا کے ضلعی صدر مقام فیض آباد کے ایک ہوٹل سے پرانا ریکارڈ نکالا اور اپنے ادارے پائینیر کا ایک سرٹیفکیٹ بھی حاصل کیا۔ مگر اب کورٹ میں ان کو بتایا گیا کہ ’’یہ کاغذات بھی ناکافی ہیں‘‘۔ آخرکئی عشرے قبل کا ٹرین ٹکٹ ان کو مل گیا اور اب کئی برسوں کے بعد یہ طے ہو گیا کہ وہ اس دن واقعی ایودھیا میں تھے، مگر اب ان کو بتایا گیا کہ ’’تمھاری تصویریں قابلِ اعتبار نہیں ہیں، اس لیے ا ن کے نگیٹو پرنٹ کورٹ میں پیش کرنے ہوںگے‘‘۔
اسی دوران دہلی میں پروین جین کی عدم موجودگی میں ان کے فلیٹ پر ’چوروں‘ نے دھاوا بول دیا اور پورے گھر کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ۔ گھر کی جو حالت تھی، اس سے معلوم ہوتا تھا کہ درانداز کس چیز کو تلاش کر رہے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ نقدی، زیورات اور دیگر قیمتی سامان غائب تھا، مگر خوش قسمتی سے تصویروں کے نگیٹو بچ گئے تھے، کیونکہ وہ انھوں نے کسی دوسری جگہ حفاظت سے رکھے ہوئے تھے۔ کورٹ میں مسجد کی شہادت کی تیاری اور باضابط ریہر سہل کرنے کی تصویریں پیش کی گئیں۔ معلوم ہوا کہ دو سول انجینیر اور ایک آرکیٹیکٹ مسجد کی عمارت گرانے کے لیے کارسیوکوں کو باضابطہ ٹریننگ دے رہے تھے۔ ان سبھی کے چہرے تصویروں میں واضح تھے۔
اسی طرح میرے کشمیری پنڈت دوست سنجے کاوٗ بھی ایک گواہ تھے۔ انھوں نے مسجد کی شہادت سے قبل ایک اسٹنگ آپریشن کے ذریعے انکشاف کیا تھا کہ ۶دسمبر کو بابری مسجد کو مسمار کر دیا جائے گا۔ ان دنوں خفیہ کیمرہ سے اسٹنگ کا رواج نہیں تھا۔ اخبار اسٹیٹسمین کے دفتر سے رات گئے جب وہ آفس کی گاڑی میں گھر جا رہے تھے، تو ڈرائیور نے ان کو بتایا کہ ایودھیا میں اس بار کچھ بڑا ہونے جا رہا ہے۔ ایڈیٹر نے اگلے دن ان کو ایودھیا جانے کی اجازت دے دی۔
مگر کاوٗ نے صحافی کے بجائے ایک کارسیوک کے طور پر جانے کی ٹھانی اور دہلی میں بی جے پی کے دفترمیں سنجے کول کے نام سے اندراج کرواکے کار سیوک کا کارڈ حاصل کیا۔ ہندو اور کشمیری پنڈت ہونے کے باوجود نہ صرف ٹرین میں بلکہ فیض آباد میں بھی کئی بار ان کی پوچھ گچھ کی گئی۔ ’’شاید میں نیا چہرہ تھا، و ہ بار بار شک کی نگاہ سے مجھے دیکھتے تھے۔ میں نے اپنے آپ کو ایک انجینیرنگ اسٹوڈنٹ بتایا ، جس کو کشمیر میں حالات کی خرابی کی وجہ سے تعلیم ادھوری چھوڑنی پڑی ہے‘‘۔ ایودھیا پہنچنے پر ایک بار پھر ۶،۷افراد نے باقاعدہ تفتیش کی۔ کشمیری پنڈت ہونے کی دہائی دے کر آخر کار مجھ کو کارسیوکوں کے ایک گروپ میں شامل کرکے خیمہ میں رہنے کے لیے کہا گیا۔ واکی ٹاکی ہاتھ میں لیے ایک سادھو اس گروپ کا سربراہ تھا، جس نے اگلے دن ایک قبرستان میں لے جاکر ہم کو قبریں منہدم کرنے کا حکم دے دیا۔ وہ بار بار ان کو تاکید کر رہا تھا کہ ہاتھ چلانا سیکھو۔ کارسیوک آپس میں گفتگو کر رہے تھے کہ اسی طرح مسجد کو بھی توڑنا ہے‘‘۔ سادھو نے سنجے کاوٗ کو خبردار کیا تھا کہ ’’صحافی یا خفیہ محکمہ کا کوئی فرد ان کے آس پاس نہ پھٹکنے پائے ۔ بار بار کے انٹروگیشن، ریہرسہل اور صحافیوں کے بارے کارسیوکوں کے رویے نے کاوٗ کو کافی ڈرا دیا۔ رات کے اندھیرے میں وہ خیمہ سے بھاگ کر پہلے فیض آباد اور پھر دہلی روانہ ہوگیا، جہاں اس نے اسٹیٹسمین میں کئی قسطوں میں چھپی رپورٹوں میں بتایا کہ مسجدکی مسماری کی تیاریاں پوری طرح مکمل ہیں۔
دنیا کو مسجد کی شہادت کی خبر دینے والے صحافی قربان علی کے مطابق شام چھے بجے تک تاریخی شاہی مسجد کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کردیا گیا تھا۔ وہ بی بی سی کے جنوبی ایشیا کے بیورو چیف مارک ٹیلی کے ساتھ کئی روز سے ایودھیا میں مقیم تھے۔ ان کا کہنا ہے،اگرچہ افواہوں کا بازار گرم تھا، مگر مسجد کی مسماری کا اندازہ نہیں تھا۔ بھارتی وقت کے مطابق۳۰:۱۱ بجے صبح کارسیوکوں نے مسجد پر دھاوا بول دیا، جب کہ ایک گروپ صحافیوں کو ڈھونڈکر ان کو پیٹ پیٹ کر کمروں میں بند کر رہا تھا۔مارک ٹیلی اور علی ان کو غچہ دے کر کسی طرح ایودھیا سے نکل کر فیض آباد پہنچے ، اور وہاں کے ٹیلیگراف آفس سے دہلی خبر بھیجی۔ اس وقت فیض آباد میں مقیم سینٹرل ریزور پولیس فورس کے دستوں نے ایودھیا کی طرف مارچ کرنا شروع کر دیا تھا۔ یہی آخری خبر تھی، جو دہلی تک پہنچ سکی تھی۔ واپسی پر ان دونوں صحافیوں نے دیکھا کہ سینٹرل فورس کو ایودھیا کے باہر ہی روک لیا گیا ہے۔
خیر وہ دوسرے راستے سے ایودھیا شہر میں داخل ہوئے اور ایک ہجوم نے مارک ٹیلی کو پہچان کر ان دونوں کو ایک بوسیدہ مندر کے کمرے میں بند کردیا۔ ’’وہ پہلے ہمارے قتل کے لیے آپس میں مشورہ کررہے تھے ۔ پھر ان کے سربراہ نے ان کو بتایا کہ پہلے مسجد کے قضیہ سے نپٹ لیں، یعنی پوری طرح مسمار ہو، پھر ان کی تقدیر کا فیصلہ کریں گے‘‘۔ شام کو کسی دوسرے گروپ نے تالا کھولا اور ان کو وی ایچ پی کے سربراہ اشوک سنگھل کے دربار میں پیش کیا، جو قربان علی اور مارک ٹیلی سے واقف تھے۔ انھوں نے ان کو رہا کرادیا۔ مگر شہر سے جانا ابھی تک جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا۔ قربان علی کا کہنا ہے کہ ایودھیا سے فیض آباد کی محض ۱۰ کلومیٹر کی دُوری، اس دن کئی سو کلومیٹر کا فاصلہ لگ رہا تھا اور جب وہ فیض آباد کے ہوٹل میں داخل ہو رہے تھے تو اس وقت بی بی سی اردو کی رات کی نشریات جاری تھیں، جس نے ان سے فون پر بات کرکے دنیا تک خبر پہنچائی۔
معروف قانون دان اور مصنف اے جی نورانی نے اپنی کتاب Destruction of Babri Masjid:A National Dishonour کی تیسری جلد میں بابری مسجد کو شہید کرنے کی سازش پر خوب بحث کی ہے۔ ان کے بقول: ’’مسجد کی شہادت میں بھارتی عدلیہ اور انتظامیہ نے بھر پور کردار ادا کرکے اپنی فرقہ وارانہ ذہنیت کا پول کھول دیا ہے۔نہ صرف نچلی عدالتوں کے لیت و لعل سے بلکہ اس وقت کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس وینکٹ چلیا کے طریق کار نے بھی مسجد کی مسماری کی راہ ہموار کردی‘‘۔نورانی صاحب نے انکشاف کیا کہ ’’جسٹس چلیا مسجد کو بچانے اور آئین اور قانون کی عمل داری کو یقینی بنانے کے بجائے کار سیوکوںکی صحت سے متعلق فکر مند تھے۔غالباً یہی وجہ تھی کہ ۱۹۹۸ء میں بی جے پی کی قیادت والی مخلوط حکومت کے قیام کے بعد ان کو شاید انھی خدمات کے بدلے ایک اعلیٰ اختیاری کمیشن کا سربراہ مقرر کیا گیا‘‘۔
نورانی صاحب لکھتے ہیں: ’’سابق سیکرٹری داخلہ مادھو گوڈبولے کے مطابق ان کو بھی مسجدکی شہادت کی تیاری کی اطلاع تھی۔ اسی لیے ان کے محکمے نے ریاست اتر پردیش میں مرکزی راج نافذ کرنے کا مشورہ دیا تھا،مگر کانگریسی وزیراعظم نرسمہا راؤ نے اس کو نامنظور کر دیا‘‘۔ نورانی کا کہنا ہے کہ ’’راوٗ خود، مسجد کی شہادت میں بلا واسطہ ملوث تھے۔ کانگریس کے اندرا گاندھی کے دورِاقتدار میں ہی بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کی راہ ہموار کرنے کے لیے ویشوا ہندو پریشد کے ساتھ ایک معاملہ فہمی ہوئی تھی۔
بلاشبہہ پریشد نے اندرا گاندھی کی ہلاکت کے بعد اپنی تحریک روک دی مگر راجیو گاندھی نے اس معاملہ فہمی کو پھر زندہ کیا۔ تاہم، اس سے پہلے وہ مسلمانوں پر کوئی احسان کرنا چاہتے تھے۔ اس کے لیے ان کے حواریوں نے ایک مسلم مطلقہ خاتون شاہ بانو کا قضیہ کھڑا کیا اور پارلیمنٹ سے ایک قانون پاس کروایا کہ مسلم پرسنل لا میں عدالت کوئی ترمیم نہیں کر سکتی‘‘۔مصنف نے راجیوگاندھی کو مشورہ دیا تھا کہ اس قضیے کو اینگلومحمڈن قانون کے بجائے شرعی قانون کے مطابق حل کیا جاسکتا ہے، مگر وہ مسلمانوںکو سیاسی طور پر بے وقوف بناکر پریشد کے ساتھ ڈیل کو آگے بڑھا رہے تھے۔
بابری مسجد کی شہادت میں سیکولر جماعتوں کے دامن بھی خون سے آلودہ ہیں۔ بابری مسجد نے شہادت کے بعد ان سبھی چہروں سے نقاب اتار کر پھینک دیے ہیں اور اگر ابھی تک کسی کو یہ چہرے اصل رُوپ میں نظر نہ آتے ہوں، تو یقیناً ان کی دماغی حالت پر شبہے کے علاوہ اور کیا ہی کیا جاسکتا ہے!
ویسے تو خطہ جموں و کشمیر کی تاریخ میں سبھی مہینے بہت سی خونیں یادیں لے کر وارد ہوتے ہیں، مگر ۷۳ سال قبل اکتوبر کا مہینہ بدقسمتی کا ایک ایسا تازیانہ لے کرآیا، کہ اس سے چھٹکارے کی دور دور تک امید نظر نہیں آرہی ہے۔ برصغیر میں جب دو مملکتیں بھارت اور پاکستان وجود میں آکر آزاد فضاؤں میں سانسیں لینے کا آغاز کر رہی تھیں، امید تھی کی صدیوں سے غلامی اور مظالم کی چکی میں پسنے کے بعد اس خطے کے باسیوں کو بھی راحت ملے گی، مگر قسمت میں کچھ اور ہی لکھا تھا۔ کچھ اپنے لیڈروں کے خود غرض اور عاقبت نااندیش فیصلوں، اور کچھ قوم کی نادانی اور ان بے لگام اور احتساب سے بالاتر لیڈروں کے پیچھے پالتو جانوروں کی طرح چلنے کی روش نے کشمیری قوم پر آزمایش اور ابتلا کا ایک ایسا دور شروع کیا، جو آج ایک بدترین مرحلے میں داخل ہوگیا ہے۔
جب بھارت اور پاکستان صبح آزادی کا جشن منانے میں مصروف تھے، اس وقت جموں خطے میں دنیا کی بدترین نسل کشی ہو رہی تھی۔ کئی بر س قبل جب دہلی میں ایک پروگرام کے دوران میں نے دی ٹائمز لندن کی ۱۰؍اگست ۱۹۴۸ءکی ایک رپورٹ کا حوالہ دے کر بتایا کہ اس نسل کشی میں ۲ لاکھ۳۷ہزار افراد کو ہلاک کردیاگیا تھا، تو سبھی کا یہی سوال تھا، کہ اتنا بڑا قتل عام آخر تاریخ اور عام اخبارات سے کیسے یکسر غائب ہے ؟ کشمیر کے ایک سابق بیوروکریٹ خالد بشیر کی تحقیق کا حوالہ دے کر ٹائمز آف انڈیا کے کالم نویس سوامی انکلیشور ائیر اور معروف صحافی سعید نقوی نے بھی جب جموں قتل عام کو اپنے کالم کا موضوع بنایا، تو کئی تحقیقی اداروں میں تہلکہ مچ گیا۔ مگر جلد ہی اس پر مباحثے کو دبادیا گیا۔
جدید تاریخ کی اس بدترین نسل کشی پر تعصب اور بے حسی کی ایسی دبیز تہہ جم چکی ہے، کہ کوئی یقین ہی نہیں کر پارہا ہے۔اس نسل کشی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے، کہ ۱۹۴۱ میں جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی۳۲ لاکھ اور ہندؤوں کی آبادی آٹھ لاکھ تھی۔وادی کشمیر میں ۹۳فی صد جب کہ جمو ں میں ۶۹فی صد مسلم آبادی تھی۔ اگر ان علاقوں کو، جو تقسیم کے بعد آزادکشمیر کا حصہ بنے، انھیں شمار نہ کیا جائے تو موجودہ جموں و کشمیر میں مسلم آبادی ۷۷ء۱ فی صد تھی۔ ۱۹۶۱ءکی مردم شماری میں مسلم آبادی گھٹ کر۶۸ء۲۹ فی صد رہ گئی تھی۔ جموں خطے میں مسلمانوں کی اکثر یتی شناخت کو چند مہینوں میں ہی اقلیت میں تبدیل کیا گیا۔ ۲۰۱۱ء کی مردم شماری کے مطابق جموں کے خطے میں مسلم آباد ی کا تناسب ۳۳ء۴۵ فی صدہے۔
جموں کشمیر کی جدید صحافت اور مؤقر انگریزی اخبار کشمیر ٹائمز کے بانی آنجہانی وید بھسین ۱۹۴۷ء کے واقعات، اور جموں میں مسلمانوں کے قتل عام کے وہ چشم دید گواہ تھے۔ ان کے بقول: ’’ہندو انتہا پسندوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ نے اس علاقے میں باضابطہ ٹریننگ کیمپ کھولے تھے، جن میں نہ صرف ہتھیاروں کی مشق کرائی جاتی تھی، بلکہ مسلمانوں کے خلاف ذہن سازی بھی کی جاتی تھی‘‘۔ وہ کہتے تھے: ’’اور ہندو ساتھیوں کی دیکھا دیکھی میں بھی ٹریننگ کیمپ میں چلا گیا، مگر جلد ہی سڑکوں پر کشت و خون سے دلبرداشتہ ہو گیا۔ اس کو روکنے کے لیے، میں، بلراج پوری اور اوم صراف کے ہمراہ مہاراجا کے محل پہنچا۔ ہمیں جلد ہی وزیر اعظم مہرچند مہاجن کے روبرو لے جایا گیا۔ وہ الٹا ہمیں سمجھانے لگا کہ ہندو ہونے کے ناطے، ہمیں اسمبلی اور دیگر اداروں میں مسلمانوں کے برابر نشستوںکا مطالبہ کرنا چاہیے، کیونکہ اب جمہوری دور کا آغاز ہو چکا ہے۔ اور عددی قوت کے بل پر ہی اقتدار پر قبضہ برقرار رکھا جاسکتا ہے‘‘۔ اوم صراف نے جرأت کا مظاہر ہ کرتے ہوئے پوچھا کہ ’’یہ آخر کس طرح ممکن ہے، جموں و کشمیر تو ایک مسلم اکثریتی ریاست ہے‘‘۔ اس پر مہاجن نے محل کی دیوار سے متصل کھائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’بالکل اس طرح‘۔ جب ہم نے بغور دیکھا تو چند مسلم گوجروں کی بے گور و کفن لاشیں نظر آئی، جو شاید صبح سویرے محل میں دودھ دینے آئے تھے‘‘۔بقول وید بھسین، مہرچند مہاجن ریاست کی آبادی کا فرقہ وارانہ پروفائل تبدیل کرنے پر اڑا ہوا تھا۔ جب میں نے ایک دن ان سے پوچھا کہ وزیراعظم جواہر لال نہرو کی ایما پر جموں و کشمیر انتظامیہ کی لگام شیخ محمد عبداللہ کے ہاتھوں میں دی گئی تھی، تو انھوں نے اس قتل عام کو روکنے کی کوشش آخر کیوں نہیں کی؟ تو وید جی نے کہا: 'ہم نے کئی بار ان کی توجہ اس طرف مبذول کرانے کی کوشش کی۔ میں خود بھی نیشنل کانفرنس میں شامل تھا، مگر وہ ان سنی کرتے رہے۔ یا تو وہ معذور تھے، یا جان بوجھ کر جموں کے معاملات سے الگ رہنا چاہتے تھے۔ بعد میں بھی کئی بار میں نے شیخ صاحب کو کریدنے کی کوشش کی، مگر یہ ذکر چھڑتے ہی وہ لب سی لیتے تھے یا کہتے تھے کہ ’’جموں کے مسلمانوں نے ان کوکبھی لیڈر تسلیم ہی نہیں کیا تھا‘‘۔ ان کو شکوہ تھا کہ کشمیری مسلمانوں کے برعکس ۱۹۳۸ء میں جب انھوں نے مسلم کانفرنس سے کنارہ کرکے نیشنل کانفرنس کی بنیاد ڈالی، تو جموں کے مسلمانوں نے ان کے مقابلے میں چودھری غلام عباس کا دامن تھامے رکھا۔ محقق خالد بشیر لکھتے ہیں: مسلم کش فسادات کا سلسلہ کشمیر میں قبائلی پٹھانوں کے داخل ہونے سے قبل ہی شروع کردیا گیا تھا۔ اس لیے متعصب مؤرخین اور تاریخ سے نابلد اور عاقبت نااندیش صحافیوں کا یہ کہنا کہ ’’وادی میں قبائلیوں کے حملے کے ردعمل میں جموں میں فسادات ہوئے، درست بات نہیں ہے، کیونکہ واقعات ان کی نفی کرتے ہیں‘‘۔
اس خطے پر اب ایسی نئی افتاد آن پڑی ہے، کہ فرقہ پرستوں کی آنکھوں میں یہ ۳۳فی صد رہ جانے والی مسلم آبادی بھی کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے۔ ان کا الزام ہے کہ جموں خطے کے مسلم اکثریتی پیر پنچا ل اور چناب ویلی کے علاقوں سے مسلمان آکر جموں شہر اور اس کے آس پاس زمینیں خرید کر بس جاتے ہیں، جو کہ ’لینڈ جہاد ‘ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’اس سے جموں شہر اور اس کے آس پاس آباد ی کا تناسب بگڑ رہا ہے‘‘۔ کیا پونچھ، راجوری، ڈوڈہ، بھدرواہ کے اضلاع جموں خطے کا حصہ نہیں ہیں؟ اگر ان دُور دراز علاقوں سے تعلیم اور معاش کے لیے لوگ اس خطے کے واحد بڑے شہر جموں وارد ہوتے ہیں، تو اس سے آبادی کا تناسب کیسے بگڑ سکتا ہے؟ دوسال قبل ایک مہم کے تحت جموں میں مسلمان گوجروں اور بکر والوں کی بستیوں کو ٹھنڈی ، سنجواں ، چھنی ،گول گجرال ، سدھرا ، ریکا، گروڑا اور اس کے گرد و نواح سے جبری طور پر بے دخل کردیا گیا۔ حالانکہ یہ زمینیں مہاراجا ہری سنگھ کے حکم نامے کے تحت ۱۹۳۰ء میں ان لوگوں کو دی گئی تھیں۔ دراصل جموں کا پورا نیا شہر ہی جنگلاتی اراضی پر قائم ہے، لیکن صرف مسلم اکثریتی علاقوں کو نشانہ بنانے کا مطلب مسلمانوںکو اس خطے سے بے دخل کرنا تھا، جہاں وہ پچھلے ۷۰برسوں میں کم ہوتے ہوتے حاشیے پر چلے گئے ہیں۔اب حال میں یہ افسانہ بیچا جا رہا ہے کہ ’’پچھلے کئی برسوں سے ’جموں و کشمیر روشنی ایکٹ‘ کے تحت زمینوں کے وسیع و عریض قطعے مسلمانوں کے حوالے کیے جارہے ہیں‘‘۔ اس سلسلے میں بے لگام بھارتی ٹی وی چینلوں نے بھی بغیر کسی ثبوت اور دستاویز کے طوفان بدتمیزی کھڑا کر دیا ہے۔ برسوں کی عدالتی غلام گرد شوں سے تنگ آکر۲۰۰۱ء میں حکومت نے ’روشنی ایکٹ‘ کو اسمبلی میں پاس کروایا، جس کی رُو سے ۲۰لاکھ کنال کی حکومتی زمین پر لوگوں کے مالکانہ حقوق کو معاوضہ کے عوض تسلیم کیا گیا تھا، بشرطیکہ وہ اس زمین پر ۱۹۹۰ءسے قبل رہ رہے ہوں۔ اس سے حکومت کو ۲۵۰بلین روپے کی رقم کمانے کی امید تھی۔۲۰۰۵ء میں وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید نے ۱۹۹۰ءسے بڑھا کر یہ مدت ۲۰۰۵ء، اور بعد میں غلام نبی آزاد نے ۲۰۰۷ء کردی۔ معلوم ہوا چونکہ اس کا فائدہ سیاست دانوں اور نوکر شاہی نے ا ٹھایا تھا، اس لیے حکومت ۷۰کروڑ روپے کی رقم ہی اکٹھا کرپائی۔
معروف صحافی مزمل جلیل نے ایک تحقیقی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اس قانون کی رُو سے جموں میں۴۴۹۱۲ کنال زمین تقسیم ہوئی تھی، جس میں محض۱۱۸۰ کنال زمین یعنی۲ء۶۳ فی صد ہی مسلمانوں کے حصے میں آئی۔ مسلمانوں کو زمینوں کے مالکانہ حقوق دینا تو دُور کی بات، ان کی وقف زمینوں پر بے جا قبضے کر لیے گئے ہیں۔ چند برس قبل جلیل نے جب وقف زمینوں کو ہتھیانے پر تحقیق شروع کی، تو معلوم ہوا کہ نہ صرف فرقہ پرست، بلکہ حکومت کے مقتدر حلقے خود اس خرد برد میں ملوث تھے۔ اس خطے میں۳۱۴۴ کنال وقف زمین غیر قانونی قبضہ میں ہے، جس میں کئی قبرستان ، رنبیر سنگھ پورہ کی جامع مسجد، چاند نگر کی زیارت وغیرہ شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق مڑتحصیل میں وقف کونسل کی ۴۶۰کنال زمین ہے، جس کو محکمہ تعلیم نے ہتھیا یا ہے اور مسجد کو گوردوارے میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ مقامی افراد نے بقیہ زمیں پر آبادی کھڑی کر دی ہے۔ چاند نگر میں پیر بابا کی زیارت کے احاطے پر سبھاش نامی ایک شخص نے قبضہ جما لیا ہے۔ تحصیل سانبہ کے تھلوری گجران میں ۴۹کنال قبرستان پر ایک مندر اور اسکول بنایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ۶۵کنال زمین پر پولیس نے اپنا ٹریننگ اسکول تعمیر کیا ہے۔ ریہاری کی ۴۹کنال قبرستان کی زمین پر فوج کا قبضہ ہے۔ ’مسلم وقف کونسل‘ کی طرف سے بار بار نوٹس دینے کے باوجود فوج اس کو خالی نہیں کررہی ہے۔ اس قبرستان کا ایک قطعہ حکومت نے ایک بیوہ ایودھیا کماری کو ’عطیہ‘ کردیاہے۔ ’وقف کونسل‘ کی اجازت کے بغیر ہی ۶۰کنال کی زمین پولیس کو دی گئی ہے۔ جموں میونسپل کارپوریشن نے قبرستان کے ایک حصے پر بیت الخلا تعمیر کروائے ہیں۔ تحصیل سانبہ کے لیکی منڈا علاقے میں وقف کی۹۸کنال زمین ضلع سینک بورڈ کے حوالے کی گئی ہے۔ چنور گاؤں میں ۲۰کنال زمین بھی پولیس کے تصرف میں ہے۔ تحصیل اکھنور کے مہر جاگیر ۶۵کنال قبرستان پر مقامی افراد نے مکانات تعمیر کیے ہیں۔ اسی طرح پیر گجر میں بھی پولیس نے وقف کی ۳۷کنال زمین ہتھیا لی ہے۔
اگر موجودہ حالات اور کوائف پر نظر ڈالی جائے تو اس بات کا خدشہ محسوس ہوتا ہے کہ یہاں ۱۹۴۷ء کے واقعے کو پھر سے دہرایا جا سکتا ہے، جیسا کہ سابق وزیر چودھری لا ل سنگھ نے ایک مسلم وفد کو ۱۹۴۷ء یاد کرنے کا مشور ہ دیا تھا۔ اس سلسلے میں بھارت میں مسلم قائدین سے بھی گزارش ہے کہ کچھ ملّی حمیت کا ثبوت دے کر عمل سے نہ سہی ، کچھ زبانی ہی جموں کے مسلمانوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کا کام کریں۔ اگر لال سنگھ یا اس طرح کے افراد اپنی دھمکی کو عملی جامہ پہناتے ہیں، تو خون ان گونگے، بہرے، مسلم لیڈروں کی گردنوں پر بھی ہوگا۔ وزیر اعظم نریند ر مودی کی حکومت ،جو بیرونِ ہند گاندھی جی کی تعلیمات کو استعمال کرکے بھارت کو دنیا میں ایک اعتدال اور امن پسند ملک کے طور پر اجاگر کروانے کی کوشش کرتی ہے، کو اسی گاندھی کے ہی ایک قول کی یاد دہانی کرانا چاہتا ہوں: ــ’’ہندستان اگر رقبے میں چھوٹا ہو، لیکن اس کی روح پاکیزہ ہو تو یہ انصاف اور عدم تشدد کا گہوراہ بن سکتا ہے۔ یہاں کے بہادر لوگ ظلم و ستم سے بھری دنیا کی اخلاقی قیادت کرسکتے ہیں۔ لیکن صرف فوجی طاقت کے استعمال سے توسیع شدہ بھارت مغرب کی عسکری ریاستوں کا تیسرے درجے کا چربہ ہوگا، جو اخلاق اور آتما سے محروم رہے گا۔اگر بھارت جموں و کشمیر کے عوام کو راضی نہیں رکھ سکا، تو ساری دنیا میں اس کی شبیہہ مسخ ہو کر رہ جائے گی‘‘۔ بقول شیخ عبداللہ، گاندھی جی کہتے تھے، کہ ’’کشمیر کی مثال ایسی ہے، جیسی خشک گھاس کے انبار میں ایک دہکتے ہوئے انگارے کی۔ذرا بھی ناموافق ہوا چلی تو سارے کا سار ا برصغیر اس آگ کے شعلوں میں لپٹ جائے گا‘‘۔ مگر گاندھی کے نام لیوا تو اس کی تعلیمات کب کی بھول چکے ہیں، اور اس کا استعمال تو اب صرف سفارتی ڈگڈگی بجا کر دنیا کے سامنے بچے جمورے کا کھیل رچانے کے لیے کیا جاتا ہے۔
ویسے تو حقوق انسانی کی خلاف ورزیاں، زیادتیاں، گرفتاریاں اور ٹارچر کشمیر میں عام بات ہے اور وہاں کے مکین بھی ان مظالم کو سہنے کے عادی ہو چکے ہیں، مگر پچھلے سال اگست کے بعد سے بھارت نے جس طرح ریاست کو تحلیل اور ضم کردیا، اس نے بھارتی سیکورٹی اداروں کو اس حد تک بے لگام کر دیا ہے، کہ دیگر ادارے بشمول عدلیہ بھی ان کے سامنے بے بس نظر آتی ہے۔
۷؍اگست ۲۰۲۰ء کو ’پاکستان، انڈیا پیپلز فورم فار پیس اینڈ ڈیموکریسی‘ (PIPFPD) اور ’جموں و کشمیر سالیڈیریٹی گروپ‘ نے کشمیر کے زمینی حالات کا جائزہ لینے کے بعد ۱۹۶صفحات پر مشتمل ایک جامع رپورٹ The Siege میں کئی دل خراش واقعات قلم بند کیے ہیں ، جن کو پڑھیں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ بدقسمتی سے میڈیا میں اس رپورٹ کو خاطر خواہ تشہیر نہیں مل سکی ہے۔رپورٹ کے مصنّفین تپن کے بوس، ریتامن چندا، انورادھا بھاسین، راجا سری داس گپتا، جاشودرا داس گپتا، اشوکا اگروال، ایم جے وجین اور دیگر افراد نے دیہات اور قصبوں کا دورہ کرکے بجاطور پر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ خطے میں عدم تعاون کی ایک خاموش تحریک چل رہی ہے، جس سے بھارت نواز پارٹیاں اور حکومت خاصی خائف ہے اور سیکورٹی انتظامیہ کا رویہ خاصا ہتک آمیز اور بے لگام ہو گیا ہے۔
پلوامہ کے متمول تاجر اور ایک فیکٹری کے مالک کا ذکر کرتے ہوئے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح دیہی علاقوں میں عام افراد کو مخبر ی کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔ اس تاجر نے وفد کو بتایا کہ: چند ماہ قبل جب مَیں انڈسٹریل اسٹیٹ میں واقع اپنی فیکٹری کے سامنے کار پارک کر رہا تھا تو راشٹریہ رائفلز کے سپاہیوں نے مجھ کو سڑک پر سے اینٹیں اٹھا کر ایک ٹرالی میں ڈالنے کا حکم دے دیا۔ میں نے پہلے تو احتجاج کیا اور پھر یہ پیش کش کی کہ اپنی فیکٹری سے مزدور بلاکر یہ کام کروا دوں گا۔ مگر سپاہی یہ جواب سن کر اور بھی طیش میں آگئے اور کہا کہ ـ’’ کشمیریوں کو اب یہ جان لینا چاہیے کہ وہ ہمارے غلام ہیں اور ان کو غلامی کی زندگی گزارنا سیکھنا ہوگا اور غلام ہی کی طرح رہنا ہوگا‘‘۔ یہ کہتے ہوئے اس متمول اور درمیانی عمر کے تاجر کے سر پر وہ اینٹوں اور گارے کا ٹوکرا زبردستی لاد کر اگلے کئی گھنٹے تک بیگا ر لیتے رہے۔ سڑک کی دوسری طرف اس کی فیکٹری کے مزدور اپنے مالک کو سر پر اینٹیں اور گارا ڈھوتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔
اسی طرح رپورٹ میں درج ہے کہ پچھلے سال ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی کارروائی کے دوران جب پاکستانی وزیر اعظم عمران خان تقریر کررہے تھے ، تو اس علاقے میں سپاہیوں نے لوگوں کے دروازے کھٹکھٹائے اور جو بھی یہ تقریر دیکھ رہا تھا ،اس پر بدترین تشدد کیا۔
رپورٹ میں ایک ایسے شخص کی آپ بیتی درج ہے، جس کے والد انڈین ملٹری کی انجینیرنگ سروس اور اس کے حقیقی چچا بھارتی فضائیہ کے لیے کام کرتے تھے۔ ۲۰۱۴ء میں آئے سیلاب کے متاثرین کے لیے جب اس نے بڑھ چڑھ کر ریلیف کا کام کیا تو پولیس نے اس کو گرفتار کرکے پوچھ گچھ کی کہ ریلیف کے لیے رقوم کہا ں سے آرہی ہیںاور کس نے ریلیف میں حصہ لینے کی ترغیب دی؟ ۲۰۱۸ء میں راشٹریہ رائفلز کی ۵۵ویں بٹالین نے اس کے گھر پر دھاوا بول کر کار اور دیگر قیمتی اشیا اپنے قبضے میں لے لیں۔ اگلے دن کیمپ میں بٹالین کے کیپٹن نے اس مظلوم کو بلاکر کہا کہ وہ عسکری کمانڈرذاکر موسیٰ کی اہلیہ تک رسائی حاصل کرکے اس کی مخبری کرے۔ ان کو معلوم ہوگیا تھا کہ ذاکر موسیٰ [ذاکرراشدبٹ شہید - ۲۴مئی ۲۰۱۹ء]کی اہلیہ اس کے ایک قریبی دوست کی ہمشیرہ ہے۔ اس گھٹیا حرکت سے انکار کی صورت میں اس تاجر کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر خوب زد و کوب کیا گیا، جس سے اس کے ہاتھ کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ کئی دن حراست میں رکھنے کے بعد اس کے والد نے انڈین فوج کے کیپٹن کو ۳ لاکھ [یعنی پاکستانی ۵ لاکھ] روپے ادا کرکے اس کو چھڑوایا۔
اس شخص کا کہنا تھا کہ ’’میں نے اپنے والد اور چچا کی فوج کے ساتھ قربت کی وجہ سے فوج کو کافی قریب سے دیکھا اور پرکھا ہے، اور اس فوج کے اندر جس قدر کرپشن سرایت کر گئی ہے اس کا مَیں چشم دید گواہ ہوں‘‘۔ پچھلے سال ۵؍ اگست کا ذکر کرتے ہوئے اس تاجر کا کہنا ہے ’’کرفیو کی وجہ سے اس دن اپنی فیکٹری میں ہی رُکا رہا۔ مگر میرے گھر پر انڈین آرمی نے دھاوا بولا اور افراد خانہ کو زد و کوب کیا، حتیٰ کہ دماغی طور پر کمزور میرے ۱۵سالہ کزن کو بری طرح پیٹا۔ اس واقعہ کی اطلا ع ملنے پر میں کیمپ کی طرف روانہ ہوا، جہاں مجھ پر الزام لگایا گیا کہ میں احتجاج میں شریک تھا اور پھر چند دن کیمپ میں حراست میں رکھ کر مجھ کو پولیس کے حوالے کیا گیا۔ پولیس لائنز میں اس وقت ایک درجن کے قریب ۱۳سے ۱۵سال کی عمر کے بچے بند تھے۔ چار روز بعد تو مجھ کو چھوڑدیا گیا ، مگر ان بچوں پر بد نامِ زمانہ پبلک سیفٹی ایکٹ کا اطلاق کرکے انھیں جیلوں میں بھیج دیا گیا‘‘۔
دل دہلا دینے والی اس رپورٹ کے مطابق پچھلے ایک سال کے دوران ۱۲سے ۱۵ہزار افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ان گرفتار شدہ اور دیگر بہت سے زیرحراست افراد کا کوئی حساب کتاب، لواحقین اور سول سوسائٹی کو نہیں ہے۔ مصنّفین کے مطابق ایک شخص کو گرفتار کرکے آگرہ جیل میں محض اس وجہ سے پہنچا دیا گیا کہ کسی فوٹو میں اس کو ایک نماز جنازہ ادا کرتے ہو ئے دیکھا گیا تھا۔ پچھلے ایک سال کے دوران جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں حبس بے جا کی ۴۵۰ رٹ پٹیشن دائر کی گئیں، مگر صرف تین کی شنوائی کی گئی۔ کشمیر سے ہزاروں کلومیٹر دُور اسیروں کی حالت نہایت ناگفتہ بہ ہے۔ اسیروں سے ملاقات کے لیے اکثر افراد خانہ کو زمین و جایداد بیچنی پڑی ہے۔
کپواڑہ کا ایک طالب علم بلال احمد جو سرینگر میں امر سنگھ کالج میں زیر تعلیم تھا، اسے پولیس نے چند دیگر نوجوانوں کے ساتھ حراست میںلے لیا۔ ایس ایچ او نے طالب علم کے رشتہ داروں کو بتایا کہ چند روز میں اس کو رہا کر دیا جائے گا۔ دیگر نوجوانوں کو تو چند روز بعد بھاری رشوت کے عوض رہا کیا گیا، مگر بلال کے والد نے جب رقم دینے سے انکار کر دیا، تو اگلے ہی دن اس پر پبلک سیفٹی ایکٹ کا اطلاق کرکے ۱۶۰۰کلومیٹر دور اتر پردیش کے امیڈکر نگر ضلع کی جیل میں بھیج دیا گیا جہاں اس کو یرقان کی بیماری لاحق ہوگئی۔ یہ ضلع لکھنؤ سے ۲۰۰کلومیٹر دور فیض آباد ڈویژن میں آتا ہے۔ جب اس نوجوان کے والد صاحب کو پتا چلا تو وہ محض ۲۵ہزار روپے میں گائے بیچ کر امبیڈکر نگر پہنچ گئے، وہاں کسی ہندو تو دُور مسلم ہوٹل والے نے بھی ان کو رات بھر کرائے کے کمرے میں ٹھیرنے کی اجازت نہیں دی۔ جیل کے کمرئہ ملاقات میں بلال نے ان کو بتایا: ’’مجھ کو بُری طرح زدو کوب کیا جاتا رہا ہے۔ اس جیل میں دیگر ۲۵؍ایسے کشمیری لڑکے تھے، جن کے گھر والوں کو ابھی تک ان کا کوئی اتہ پتہ نہیں کہ وہ زندہ ہیں یا کہاں پر اور کس حالت میں ہیں؟‘‘ سرینگر واپسی پر بلال کے والد نے ہائی کورٹ میں فریا دکی ، میرے بیٹے کے امتحانات شروع ہونے والے ہیں۔ اس کو امتحان میں شرکت کی اجازت دی جائے‘‘۔ کورٹ نے دسمبرمیں حکم دیا کہ بلال کو سرینگر جیل میں منتقل کیا جائے، تاکہ وہ امتحانات دے سکے۔ مگر اس عدالتی حکم پر ذرہ برابر عمل نہیں ہوا۔ فروری میں دوبارہ بلال کے والد ہائی کورٹ کے دروازے پر پہنچے اور ایک یا دو پیشی کے بعد کورٹ نے دوبارہ حکم نامہ جاری کیا، مگر انتظامیہ کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ اب اس کے والد کو مشورہ دیا گیا کہ وہ توہین عدالت کا کیس دائر کرے۔ مگر اتنی مشقت کے بعد اب اس کے پاس عدالتی غلام گردشوں میں خوار ہونے کے لیے پیسے ہی نہیں بچے تھے۔
اسی طرح بارہ مولہ کے ۲۱ سالہ دیہاڑی مزدور نوید پرے کو اس کے گھر سے اٹھایا گیا۔ جب اس کے عمر رسیدہ والدین پولیس اسٹیشن پہنچے، تو اس کی بیمار اور بوڑھی والدہ کو زد وکوب کیا گیا، گالیاں دی گئیں، اور نوید کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت آگرہ جیل بھیج دیا گیا۔ آگرہ سفر اور ملاقات کے لیے والد نے ۳۵ہزار روپے میں اپنی ۱۰مرلہ زمین بیچی۔ یاد رہے نوید، خاندان کا اکیلا کفیل تھا۔ جب اس رپورٹ کے مصنّفین اس کے گھر پہنچے، تو معلوم ہوا کہ عمررسیدہ والدین پڑوس سے ادھار لے کر اس اُمید پر زندگی کاٹ رہے ہیں کہ بیٹا آکر قرض اُتارے گا۔ لیکن کیا بیٹا صحیح سلامت واپس آبھی سکے گا؟ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے، جب کہ گرفتاری کو چیلنج کرنے کے لیے ا ن کے پاس کوئی ذریعہ نہیں تھا۔
۲۸سالہ فیاض میر نے قرضہ پر ٹریکٹر خریدا تھا تاکہ بوڑھے ماں باپ اور چار جوان بہنوں کی کفالت کر سکے۔ اس کو بھی گرفتار کرکے اترپردیش کے شہر بریلی کی جیل میں بھیج دیا گیا۔ اس کے باپ نے ۲۵ہزار روپے اکٹھا کیے اور ملاقات کے لیے بریلی پہنچا۔ مگر سلاخوں کے پیچھے وہ اپنے بیٹے کو صرف دیکھ سکا اور کوئی بات نہیں کرسکا، کیونکہ جیل سپرنٹنڈنٹ کی سخت ہدایت تھی کہ گفتگو صرف ہندی زبان میں سپاہیوں کی موجودگی میں کی جائے گی، جب کہ اس کے والد کشمیر ی کے علاوہ اور کوئی زبان بولنے سے قاصر تھے۔ ۲۰منٹ تک باپ بیٹے بس ایک دوسرے کو دیکھتے رہے، تاآنکہ سپاہی فیاض کو دوبارہ گھسیٹتے ہوئے اندر لے کر گئے اور ملاقاتی کو زبردستی باہر نکال دیاگیا۔ بیٹے سے بات کیے بغیر عمررسیدہ باپ ۱۱۰۰کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد واپس سرینگر اپنے گھر لوٹا۔ صبر کرتی رہی بے چارگی، ظلم ہوتا رہا مظلوم پر! (ملاحظہ کیجیے ویب پیج: www.pipfpd.net)
امریکی صدر ٹرمپ کی ایما پر متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کرکے باضابطہ سفارتی تعلقات قائم کرکے بین الاقوامی سیاست میں دھماکا تو کردیا، مگر یہ سوال اپنی جگہ برقرار ہے کہ امارات کو اس طرح کا قدم اٹھانے کی آخر ضرورت کیوں پیش آئی؟ اسرائیلی اخبار ھاریٹز کے مدیر زیوی بارمل کے مطابق مصر او ر اردن کے برعکس امارات کو امریکی امداد کی اور نہ کسی ایسی ٹکنالوجی کی ضرورت تھی، کہ جسے وہ آزادانہ طور پر پیسوں سے خرید نہ سکتا تھا۔ حال ہی میں یمن کی جنگ سے تنگ آکر امارات نے سعودی اتحاد سے کنارہ کشی کرکے ایران کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی تھی۔ مگر اسی دوران اسرائیل کو تسلیم کرکے اس نے ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے والی پالیسی اختیار کرکے دوبارہ ایران کے ساتھ ایک طرح سے کشیدگی مول لے لی ہے۔
۱۳؍اگست کو اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان طے پائے گئے معاہدے کے بعد جو مشترکہ بیان جاری ہوا ہے، اس کا تجزیہ کرکے محسوس ہوتا ہے کہ اس کے خالق بڑی عجلت میں تھے۔ بیان میں مشرق وسطیٰ کے اصل تنازع فلسطین کا کہیں ذکر تک نہیں ہے۔ بس زبانی بتایا گیا ہے کہ اسرائیل مغربی کنارہ اور وادی اردن کو ضم کرنے کی پالیسی پر نظر ثانی کرے گا۔ یہ خوش فہمی چند گھنٹوں کے بعد ہی اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے یہ کہہ کر دور کردی: ’’اس طرح کی کوئی یقین دہانی نہیں دی گئی ہے‘‘۔ اس میں سابق سعودی فرماںروا کنگ عبداللہ کے فارمولے کا بھی ذکر نہیں ہے، جس کو عرب لیگ نے ۲۰۰۲ءمیں منظور کرکے رکن ممالک کو تاکید کی تھی کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے اس فارمولا کے اطلاق اور تعلقات کو اس کے ساتھ مشروط کیا جائے ۔ اس بیان میں فلسطینی اور اسرائیلی راہنماؤں کے درمیان طے پائے گئے اوسلو معاہدے کے مندرجات کو لاگو کرنے کی بھی کوئی یقین دہانی نہیں ہے۔ تاہم، بین السطور اسرائیل نے یہ وعدہ ضرور کیا ہے کہ یروشلم یا القدس شہر کی عبادت گاہوں ،بشمول مسجداقصیٰ اور گنبد صخرا کو دنیا بھر کے ’پُرامن‘مسلم زائرین کے لیے کھولا جائے گا‘‘۔ مگر چونکہ زائرین کو ا سرائیلی امیگریشن سے گزرنا ہوگا، اس لیے اسرائیلی ویزا اور اجازت کی بھی ضرورت پڑے گی اور صرف انھی ممالک کے مسلمان زیارت کے لیے آسکیں گے، جو اسرائیل کو تسلیم کرتے ہوں گے۔ اور پھر اسرائیلی سفارت خانے کو حق حاصل ہوگا کہ ’پُرامن‘ کی اصطلاح کی اپنی تشریح سے اجازت دے یا درخواست مسترد کر دے۔
باوثوق ذرائع کے مطابق امارات اور اسرائیل کے درمیان خفیہ تعلقات کا آغاز اصل میں ۲۰۰۸ء میں اس وقت ہوا تھا ، جب اقوام متحدہ نے بین الاقوامی تجدید توانائی ایجنسی کے صدر دفتر کو ابوظہبی کے پاس مصدر شہر میں قائم کرنے کی منظوری دے دی۔ اقوام متحدہ کی ذیلی ایجنسی کے بظاہر ایک بے ضرر سے دفتر نے ، جس کا سیاست کے ساتھ دو ر دور تک کا واسطہ بھی نہیں تھا، برسوں تک اسرائیل اور امارات کے افسران کو ملنے اور بیک چینل سفارت کاری کے لیے ایک نہایت عمدہ پردہ فراہم کیا۔ چونکہ اسرائیل بھی اس ایجنسی کا ممبر تھا، اس لیے تل ابیب کو انرجی کے حوالے سے اپنا ایک مستقل نمایندہ ابوظہبی میں تعینات کرناپڑا۔ ۲۰۱۵ء میں اسرائیلی وزارت خارجہ کے ڈائرکٹر جنرل ڈور گولڈ کی قیادت میں ایک اسرائیلی وفد نے دوبئی کا دورہ علانیہ طور پر کیا۔ اسی لیے دونوں ملکوں نے بیانات دیے کہ اس دورے کا دونوں ملکوں کی سیاسی پوزیشن کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔
یہ طے شدہ بات ہے کہ امارات کو اسرائیل اور امریکا میں یہودی لابی کی ضرورت کا احساس۲۰۰۶ء میں اس وقت ہوا تھا، جب امارات کی دوبئی عالمی بندرگاہ نے چھے امریکی بندرگاہوں کا انتظام و انصرام سنبھالنے کے لیے ٹینڈر بھرا تھا۔ اس پر امریکی کانگریس میں خاصا ہنگامہ برپا ہوا۔ کئی کانگریس اراکین نے نیویار ک ، بالٹی مور اور میامی جیسی حساس بندرگاہیں کسی عرب کمپنی کو دینے کی بھر پور مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس کے اتحادیوں کی سلامتی خطرے میں پڑ جانے کا اندیشہ ہے۔ گو کہ امارات نے ٹینڈر واپس لے لیا، مگر یہ اس کے حکمرانوں کے لیے لمحۂ فکریہ تھا کہ آخر امریکی اتحادی ہونے اور خلیج میں اس کو پوری سہولیات دینے کے باوجود امریکی کانگریس اور انتظامیہ میں اس قدر بدگمانی کیوں ہے؟ انھی دنوں امارات نے اقوام متحدہ کی نئی قائم شدہ قابلِ تجدید توانائی ایجنسی، یعنی IRENAکے صدر دفتر کو ابوظہبی میں قائم کرنے کی پیش کش کی تھی۔ مگر اب خدشہ لاحق ہو گیا تھا کہ امریکی کانگریس کے اراکین ایجنسی کے صدر دفتر کو امارات میں قائم کرنے کی بھی مخالفت کرسکتے ہیں۔ یوں طے پایا کہ واشنگٹن میں کسی لابی فرم کی خدمات حاصل کی جائیں، جس نے بعد میں امارتی حکمرانوں کا رابطہ امریکا میں طاقت وَر یہودی لابی، یعنی امریکین جیوش کمیٹی (AJC) سے کروایا۔
انھی دنوں بھارت نے بھی اسرائیل کی ایما پر اسی کمیٹی کی خدمات، امریکا کے ساتھ جوہری معاہدہ طے کرنے اور اس کو کانگریس کی رضامندی حاصل کرنے کے لیے حاصل کی تھیں۔۲۰۰۸ء میں امریکی کانگریس نے جوہری قانون میں ترمیم کرکے بھارت کے لیے جوہری ٹکنالوجی فراہم کرنے کے لیے راستہ ہموار کردیا۔ اے جے سی نے نہ صرف اقوام متحدہ کی ایجنسی کا صدر دفتر ابوظہبی میں کھولنے میں مدد کی، بلکہ ۲۰۰۹ء میںامریکی کانگریس سے امارات کو بھی جوہری ٹکنالوجی فراہم کروانے کے لیے ’بھارتی امریکی نیوکلیر ڈیل‘ کی طرز پر منظوری دلوانے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔ جس کے بعد جنوبی کوریا کی ایک فرم کے اشتراک سے امارات نے ۳۰؍ارب ڈالر کے نیوکلیر پروگرام کی داغ بیل ڈالی، جو اَب تکمیل کے قریب ہے۔
وکی لیکس میں تل ابیب میں امریکی سفارت خانے کے سیاسی مشیر مارک سیورز کی ۲۰۰۹ءکی ایک کیبل کا تذکرہ ہے، جس میں وہ خلیجی ممالک اور اسرائیل کے درمیان خفیہ روابط کا انکشاف کررہے ہیں۔ خاص طور پر اس کیبل میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی وزیر خارجہ زیپی لیونی اور امارت کے اس کے ہم منصب کی بند کمروں میں اکثر ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔ لیکن۲۰۱۰ء میں دونوں ممالک کے تعلقات کشیدہ ہوگئے، جب اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے دوبئی کے ایک ہوٹل میں حماس کے لیڈر محمود ال مابحوح کو قتل کردیا۔ اسرائیلی صحافی لوسی ملمین کے مطابق اماراتی حکمران اس لیے ناراض ہوگئے۔ ان دنوں اسرائیلی سفارت کار برلوس کاشدان ابوظہبی میں مذاکرات میں مصروف تھے اور اندازہ لگایا جا رہا تھا کہ موساد کا قاتل دستہ تلاشی وغیرہ سے بچنے کے لیے سفار ت کار وفدکے ساتھ ہی دوبئی وارد ہوا تھا۔ مگر امریکی کانگریس اراکین کی پذیرائی حاصل کرنے اور ٹکنالوجی کی خاطر اماراتی حکمرانوں نے یہ تلخ گھونٹ جلد پی لیا۔ ۲۰۱۶ء میں جب ڈونالڈ ٹرمپ کو ری پبلکن پارٹی نے صدارتی امیدوار نامزد کیا، تو ولی عہد محمد بن زید النہیان نے ٹرمپ کے یہودی داماد جیرالڈ کوشنر کے ساتھ انتخابات سے قبل ہی تعلقات استوار کر لیے تھے،حتیٰ کہ نیویارک میں کوشنر سے ملاقات کی خاطر ولی عہد اور ان کے بھائی عبداللہ بن زید نے امریکی صدر بارک اوباما کے ساتھ طے شدہ ملاقات منسوخ کردی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ امارتی ولی عہد نے ہی امریکیوں کو قائل کیا تھا کہ سعودی عرب میں محمد بن سلمان کی پشت پناہی کرکے محمد بن نائف کو ولی عہد کے عہدے سے معزول کرنے کے فیصلے کی حمایت کریں۔
اس طرح ۲۰۱۸ء تک اسرائیل کے کئی وزیروں نے امارات کے دورے کیے۔اسی سال اسرائیلی وزیر خارجہ یسرائیل کارٹز بغیر پیشگی اطلاع کے ابوظہبی پہنچ گئے اور ایران کے خطرات سے اماراتی حکمرانوں کو آگاہ کرکے تعاون کی پیش کش کی۔ اسرائیل کے عبرانی زبان کے اخبار یسرائیل حایوم کے مطابق خود نیتن یاہو بھی اسرائیلی سیکورٹی کونسل کے سربراہ میئر بن شابات کے ہمراہ دوبا ر امارات کا خفیہ دورہ کرچکے ہیں۔ اس دوران امارات نے تیل تنصیبات کی سیکورٹی کے لیے اسرائیل کی ایک فرم اے جی ٹی انٹرنیشنل کو ۸۰۰ملین ڈالر کا ٹھیکہ دے دیا۔ متحدہ امارات اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہونے سے اس خدشے کو تقویت پہنچتی ہے کہ عرب حکمران اپنے آپ کو کس قدر غیر محفوظ، غیرمستحکم اور کمزور محسوس کرتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ امریکا اور خطے میں اس کا قریب ترین اتحادی اسرائیل ہی ان کی بقا کا ضامن ہے۔ مگر بین الاقوامی سیاست اور تزویراتی حکمت عملی کے قواعد ہمیں یہی بتاتے ہیں کہ امریکا اور اسرائیل ان کی کمزوری کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا کر ان کو عوامی تحریکوں اور پڑوسیوں سے مزید خائف کرواکے اپنے مفادات کی تکمیل کریں گے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ عرب حکمران اپنے ضمیر اور عوام کی آواز پرلبیک کہہ کر پڑوسی اسلامی ممالک کے ساتھ اشتراک کی راہیں نکالتے۔ یوں اسرائیل اور امریکا کو مجبور کرکے فلسطینی مسئلے کا حل ڈھونڈ کر، خطے میں حقیقی اور دیرپا امن و امان قائم کروانے میں کردار ادا کرتے۔
۵؍اگست ۲۰۲۰ءکو بھارتی وزیر داخلہ امیت شا نے ایک طرح سے ’غیرآئینی سرجیکل اسٹرائیک‘ کرکے بھارتی آئین کی دفعہ ۳۷۰، اور دفعہ ۳۵-اے کالعدم کرکے جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کرنے کا تو اعلان کیا، مگر اس سے بھارت کو یا کشمیری عوام کو کیا حاصل ہوا؟ اس کا کوئی خاطرخواہ جواب آج ایک برس گزرنے کے باوجود بھارتی حکومت کو سوجھ نہیں رہا ہے۔ خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے علاوہ ریاست کو تقسیم کرکے لداخ کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنایا گیا اور بقیہ خطے، یعنی جموں اور کشمیرکو بھی براہِ راست نئی دہلی کے انتظام میں دیا گیا۔
اب پورے ایک سال کے بعد اس غیرآئینی حملے کی افادیت اور ’کامیابیوں‘ کی جو دستاویز بھارتی حکومت نے جاری کی ہے، اس کے مطابق ’’کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کے نتیجے میں حوائج ضروریہ کے لیے باہر نکلنے پر پابندی میں سو فی صد کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ اس طرح ایک سال کے دوران سو فی صد اوپن ڈیفی کیشن فری بنایا گیا ہے۔
۵؍اگست کو اٹھائے گئے اقدامات کا مقصد کشمیر میں دودھ اور شہد کی نہریں بہانا ، سڑکوں کو سونے سے مزین کرنا اور بھارت کے تئیں عوام میں نرم گوشہ پیدا کروانا بتایا گیا تھا، مگر مودی حکومت کے مذکورہ اوّلین اور شرمناک ’کارنامے‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے سینیر صحافی شاستری راما چندرن کا کہنا ہے: جب خطے میں ہر روز فوجی مقابلوں میں لوگ ہلاک ہو رہے ہوں، تو رفع حاجت کے لیے کون باہر نکلے گا؟ اس کے علاوہ جو باہر آنا بھی چاہتے ہیں، ان پر تشدد کرکے ایسی حالت کر دی گئی ہے ، کہ وہ رفع حاجت کے قابل ہی نہیں رہ گئے اور جب سال بھر لاک ڈاؤن میں رہنے کے بعد پیٹ خالی ہو ، تو رفع حاجت کیسے ہو؟
شاید مودی یا امیت شا کو دہلی سے کولکتہ تک ریل گاڑی میں سفر کرنا کبھی نصیب نہیں ہوا۔ رات دہلی سے جب ٹرین چل کرعلی الصبح پٹنہ یا بہار کے دوسرے شہر گیا پہنچتی ہے ، تو اسٹیشن سے متصل اور دیگر علاقوں میں نظارہ نہایت قابلِ نفرت ہوتا ہے ۔سخت گرمی کے باوجود مسافر فوراً کواڑ گرا لیتے ہیں۔ کیونکہ لمبی لائن میں ایک خلقت پٹڑی پر پانی کا لوٹا لیے مصروف دکھائی دیتی ہے، اور آپس میں ملکی و غیر ملکی حالات پر تبادلہ خیالات بھی کرتی نظر آتی ہے۔ ہونا تو چاہیے کہ امیت شا کشمیر میں تعینات پوری نو لاکھ فوج کو بہار بھیج کر اس کو اوپن ڈیفی کیشن فری بناکر، ریلوے پٹریوں کو غلاظت سے بچنے کا موقع فراہم کرواتے۔
گذشتہ ایک سال سے کشمیریوں نے بھی مودی حکومت کا ناطقہ بند کر کے رکھ دیا ہے۔ جب اس ’غیرآئینی اسٹرائیک‘ سے کشمیریوں کے جسم سے ان کے کپڑے چھین لیے گئے، تو کشمیر کے ایک لیڈر شاہ فیصل کے مطابق مودی حکومت کو یقین تھا کہ اس کے خلاف عوامی بغاوت برپا ہوگی اور اس کے نتیجے میں ۱۰ہزار افراد ہلاک کرکے تحریک کو کچل دیا جائے گا۔ مگر کشمیریوں کی پُراسرار خامشی اور لیڈر شپ کی عدم موجودگی کے باوجود عام آدمی کی سوچ اور ردعمل دیکھ کر نئی دہلی میں اربابِ اقتدار کا کلیجہ منہ کو آرہا ہے۔ ان کو یقین تھا کہ کچھ عرصہ تک سوگ و ماتم کی کیفیت کے بعد حالات معمول پر آجائیں گے۔ مگر بھارت نواز نیشنل کانفرنس اور پیپلز کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی بھی صدمے کی کیفیت سے باہر نہیں آرہے ہیں۔ ان کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کی کس منہ سے اپنے ووٹروں کا سامنا کریں۔
بھارت نے جب اگست میں کشمیر میں تاریخ کے طویل ترین لاک ڈاؤن نافذ کیا تو، لوگ لقمے لقمے کے محتاج ہونے لگے۔ دنیا نے زبانی ہمدردی کے سوا کچھ نہیں کیا، تو ہر کشمیری کے زبان پر تھا کہ یااللہ! اس لاک ڈاؤن کا مزا ساری دُنیا کو بھی چکھا دے۔ جنوری ۲۰۲۰ء میں جب بھارت میں مقیم یورپی یونین کے سفیروں کی ایک ٹیم کو کشمیر لے جایا گیا، تو ان کو کوّر کرنے کے لیے اکنامک ٹائمزکے معروف صحافی اروند مشرا بھی سرینگر پہنچ گئے تھے۔ وہ سیکورٹی حصار میں تھے۔ انھوں نے افسران سے اپنے ایک ساتھی بلال احمدڈارکے گھر جانے کی اجازت مانگی۔ بلال ماس کمیونی کیشن کی تعلیم کے دوران ان کا ہم جماعت تھا۔ مشرا کا کہنا ہے کہ جب وہ بلال کے گھر کی گلی سے گزر رہا تھا کہ کھڑکی سے ایک خاتون کی آواز آئی:’’اروند بھائی، آپ بلال کے دوست ہو دلی والے، میں نفیسہ عمر ہوں،بلال کی پھوپھی کی بیٹی‘‘۔ مشرا کا بیان ہے کہ نفیسہ کی باتیں سن کر وہ کئی رات سو نہ سکا۔ اس لڑکی نے پوچھا: کیا باہر کی دنیا میں کسی کو اندازہ ہے کہ سات مہینے سے جہاںکرفیو ہو، گھرسے نکلنا تو دُور جھانکنا بھی مشکل ہو، چپے چپے پر فوج تعینات ہو،انٹر نیٹ، موبائل، لینڈ لائن فون تک بند ہو، گھروں سے بچے،جوان اور بوڑھے ہزاروں بے قصوروں کی گرفتاریاں ہوئی ہوں، سکول، کالج، دفتر سب بندہوں، کسی نے سوچا کہ آخر لوگ کیسے سانس لیتے ہوںگے؟‘‘
مشرا کے مطابق بس پانچ منٹ میں اس خاتون نے حالا ت کا ایسا نقشہ کھنچا کہ یہ الفاظ دہلی میں کئی ماہ تک میرے ذہن پر دستک دیتے رہے۔ نفیسہ نے مزید کہا کہ: کیا آپ کو معلوم ہے کہ ـ ’’کیسے لوگوں کے کھانے پینے کا انتظام ہوتا ہے، بیماروں کا کیا ہو رہا ہے؟ آدھی سے زیادہ آبادی ڈپریشن اور ذہنی بیماریوں کی شکار ہوچکی ہے،بچے خوف زدہ ہیں،مستقبل اندھیرے میں ہے‘‘۔ـ نفیسہ نے روتے ہوئے کہا کہ ’’ظلم وستم کی انتہا ہے،روشنی کی کوئی کرن نہیں ہے، پوری دنیا خاموش تماشادیکھ رہی ہے، ہم نے سب سہہ لیا اور خوب سہہ رہے ہیں۔لیکن اس وقت دل تڑپتا ہے جب بھارت میں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اچھا ہوا ان کے ساتھ یہی ہوناچاہیے تھا۔ لیکن میں نے ان لوگوں یا کسی کے لیے بھی کبھی بدعا نہیں کی، بس ایک دعا ضرور کی ہے تاکہ پوری دنیاکوہمارا کچھ تو احساس ہو۔ اروند بھائی، آپ دیکھنا میری دعا بہت جلد قبول ہوگی‘‘ ۔
اروند مشرا نے جب دعا کی شکل کے بارے میں پوچھا، تو اس کے بقول نفیسہ نے پھوٹ پھوٹ کرروتے ہوئے کہا: ’’اے اللہ جو ہم پر گزری ہے کسی پر نہ گزرے، بس مولا تو کچھ ایسا کردینا اور اتنا کردیناکہ پوری دنیاکچھ دنوں کے لیے اپنے گھروں میں قید ہوکر رہنے پر مجبور ہوجائے، سب کچھ بندہوجائے ، رُک جائے!شاید دنیا کو یہ احساس ہوسکے کہ ہم کیسے جی رہے ہیں؟‘‘ کورونا وائرس کے بعد جب پوری دنیا لاک ڈاؤن کی زد میں آگئی ، جو ابھی تک کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے، مشرا کے مطابق نفیسہ کے یہ الفاظ میرے کانوں میں گونج رہے ہیں: ’’اروند بھائی آپ دیکھنا میری دعا بہت جلد قبول ہوگی‘‘۔
اگرچہ جموں و کشمیر اور فلسطین کے خطے جغرافیائی اعتبار سے کوسوں دور ہیں، مگر تاریخ کے پہیے نے ان کو ایک دوسرے کے قریب لاکر کھڑا کر دیا ہے۔ دونوں خطے تقریباً ایک ساتھ ۴۸-۱۹۴۷ء میں دنیا کے نقشہ پر متنازعہ علاقوں کے طور پر سامنے آئے ۔کئی جنگوں کے باعث بھی بنے اور پچھلے سات عشروں سے نہ صرف امن عالم کے لیے خطرہ ہیں، بلکہ ان کی محکومی مسلم دنیا کے لیے ناسور بنی ہوئی ہے۔
بھارت نے ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو جس طرح یک طرفہ کارروائی کرکے ریاست جموں و کشمیر کے دو ٹکڑے کرکے اس کی نیم داخلی خود مختاری کو کالعدم کردیا، کچھ اسی طرح اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو بھی یکم جولائی ۲۰۲۰ء کو فلسطین کے مغربی کنارہ کے ۳۰فی صد علاقے کو اسرائیل میں ضم کرنے کا عزم کیے بیٹھے تھے۔ فی الحال انھوں نے اس منصوبے کو التوا میں رکھا ہے، کیوںکہ بھارت کے برعکس اسرائیل میں ان کو فوج ، اپوزیشن اور بیرون ملک آباد یہودیوں کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ناروے کے شہر اوسلو میں ۱۹۹۳ء اور ۱۹۹۵ء میں اسرائیلی اور فلسطینی قیادت کے درمیان طے پائے گئے سمجھوتے میں، ایک فلسطینی اتھارٹی کا قیام عمل میں آیاتھا۔ جس سے ۱۶لاکھ کی آبادی کو دو خطوں مشرق میں غزہ اور اُردن کی سرحد سے متصل مغربی کنارہ میں تقسیم کیا گیا تھا۔ نسبتاً وسیع مغربی کنارے کا انتظام ’الفتح‘ کی قیادت میں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (PLO) کے پاس ہے، وہیں غزہ میں اسلامک گروپ حماس بر سرِ اقتدار ہے۔
جس طرح بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ۲۰۱۴ء اور۲۰۱۹ءکے انتخابات میں کشمیر کی آئینی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے اور علیحدہ شہریت کا قانون ختم کرنے کے نام پر ہندو قوم پرستوں کو لام بند کرکے ووٹ بٹورے، بالکل اسی طرح اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے بھی یہودی انتہاپسند طبقے کی حمایت حاصل کرنے کے لیے فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کا شوشہ چھوڑا۔ جس علاقے کو وہ اسرائیل میں ضم کروانا چاہتے ہیں، وہاں ۶۵ہزار فلسطینی اور ۱۱ہزار یہودی آباد ہیں۔ ’اوسلو معاہدے‘ کی رُو سے مغربی کنارے کو تین حصوں میں بانٹا گیا تھا۔ ایریا سی میں مغربی کنارے کا ۶۰فی صد علاقہ آتا ہے۔ اس میں تین لاکھ فلسطینی آباد ہیں اور یہی علاقہ اسرائیل کی نظروں میں کھٹکتا ہے۔
اکثر ماہرین کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو کے اس جوئے کا مثبت پہلو یہ نکلاہے کہ اسرائیلی سیاست میں فلسطین کو ایک بار پھر مرکزیت حاصل ہوئی ہے۔ عرصے سے اسرائیلی سیاسی جماعتیں مسئلۂ فلسطین پر بات کرنا بھی گوارا نہیں کرتی تھیں۔ بھارت کی کشمیر پر یلغار کے برعکس نیتن یاہو کے پلان پر اسرائیل کے اندر خاصی مزاحمت ہو رہی ہے۔ سب سے زیادہ مزاحمت تو اسرائیلی فوج کی طرف سے ہے۔ گذشتہ دنوں ۲۷۰سابق فوجی جرنیلوں، بشمول اسرائیلی خفیہ اداروں، موساد، شین بیٹ کے افسرا ن نے ایک مشترکہ خط میں نیتن یاہو کو اس پلان سے باز رہنے کی تلقین کی۔ ان کو خدشہ ہے کہ اس قدم سے کہیں محمود عباس کی زیر قیادت فلسطینی اتھارٹی تحلیل نہ ہوجائے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو فوج کا ایک بڑا حصہ اس کو کنٹرول کرنے میں مصروف رہے گا، اور یوں زیادہ تر وقت امن و امان کی بحالی کے لیے ڈیوٹیاں دینے سے اس کی جنگی کارکردگی متاثر ہوگی۔
اہم باخبر ذرائع نے راقم کو بتایا کہ اس حوالے سے امریکی انتظامیہ میں بھی گھمسان کا رَن پڑا ہے۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے داماد ااور مشیر جیرالڈ کوشنر اور اسرائیل میں امریکی سفیر ڈیوڈ فریڈمین کے درمیان اس مسئلے پر خاصے اختلافات پیدا ہوگئے ہیں۔ کوشنر جس نے ٹرمپ کا مڈل ایسٹ پلان، یعنی ’ڈیل آف دی سنچری‘ ترتیب دیا ہے، اس کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو کے فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کے فیصلے سے امریکی پلان کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔
اس سال جنوری میں جب صدر ٹرمپ ، نیتن یاہو کی معیت میں وائٹ ہاؤس میں اپنے پلان کو ریلیز کر رہے تھے، تو یہی مطلب لیا گیا تھا کہ اس پلان کو عرب ممالک کی حمایت حاصل ہے۔ حال ہی میں امریکا کی طاقت ور یہودی لابی نے اپنا ایک اعلیٰ سطحی وفد ان ممالک کے دورے پر بھیجا تھا، جہاں ان کو واضح طور پر بتایا گیا کہ مغربی کنارے کو ضم کرنے کے پلان کے بعد وہ ٹرمپ کے پلان کی حمایت نہیں کر سکیں گے۔ انھی ذرائع نے راقم کو بتایا کہ کوشنر فی الحال خلیجی ممالک کی ناراضی مول لینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ حال ہی میں امریکا میں متحدہ عرب امارات کے سفیر یوسف ال عتیبہ کا ایک مضمون اسرائیل کے ایک کثیر الاشاعت عبرانی روزنامے میں شائع ہوا، جس کی سرخی ہی یہ تھی کہ ’’تعلقات کو معمول پر لانے اور فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کی پالیسی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتی ‘‘۔مگر امریکی سفیر فریڈمین کے مطابق یہ عرب ممالک کی وقتی اُچھل کود ہے اور خطّے میں اپنی اقتصادیات اور سلامتی کے لیے ان کو اسرائیل کی اشدضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل ، جہاں کبھی پانی اور تیل کا فقدان ہوا کرتا تھا، اب خطے میں عرب ممالک کو پیچھے چھوڑ کر انرجی کا مرکز بننے والا ہے۔ پینے کے پانی کے لیے اردن کا اسرائیل پر انحصار ہے ۔ اس وقت مصر کو اسرائیل سے ۸۵لین کیوبک میٹر گیس فراہم ہورہی ہے، جس سے اسرائیل سالانہ۵؍ارب اور ۱۹کروڑ ڈالر کماتا ہے۔ فریڈ مین نے باور کرایا ہے کہ اگر ٹرمپ امریکی صدارتی انتخابات میں شکست سے دوچار ہوجاتے ہیں، تو ڈیموکریٹس کسی بھی صورت میں فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کے پلان کی حمایت نہیں کریں گے۔
دنیا بھر میں رہنے والے یہودی تارکین وطن ، جو ایک طرح سے اسرائیل کے بطورِ بازو کام کرتے ہیں، نیتن یاہو کے اس پلان میں خطرات دیکھتے ہیں۔ اسرائیل میں جہاں اس وقت ۶۷ لاکھ یہودی رہتے ہیں، وہاں ۵۴ لاکھ امریکا کے شہری ہیں۔ یہودی تارکین وطن امریکا میں ڈیموکریٹس اور یورپی ممالک کے رد عمل سے خائف ہیں۔ کئی یورپی ممالک نے فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کی صورت میں اسرائیل کے خلاف پابندیا ں لگانے کی دھمکی دی ہے اور کئی یورپی پارلیمنٹوں نے اس کی منظوری بھی دی ہے۔ چونکہ ’اوسلو معاہدے‘ کے پیچھے پورپی ممالک کی کاوشیں کار فرما تھیں اور اس میں دو ریاستی فارمولا کو تسلیم کیا گیا تھا، اس لیے یورپی ممالک اس کو دفن ہونا نہیں دینا چاہتے ہیں۔ تاہم، اسرائیل کو یقین ہے کہ یورپی ممالک شاید ہی دھمکیوں کو عملی جامہ پہنا پاسکیں گے۔ اس صورت میں ان کوبراہِ راست امریکا سے ٹکر لینی پڑے گی۔ امریکا کی ۲۷ریاستوں نے ایسے قوانین پاس کیے ہیں، جن کی رُو سے اسرائیل کے خلاف بائیکاٹ کی مہم چلانے والے اداروںو ممالک کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے۔ نیتن یاہو کے انتخابی حریف ریڈ اینڈ وائٹ پارٹی کے قائد بنی غانز جو اَب اقتدار میں ان کے حلیف ہیں، فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ حکومت بناتے وقت طے پائے گئے معاہدے کی رُو سے نیتن یاہو کو اگلے سال وزیر اعظم کی کرسی بنی غانز کے لیے خالی کرنی پڑے گی۔
جس طرح انتہا پسند ہندوں کو مودی کی شکل میں اپنا نجات دہندہ نظر آتا ہے ، اسی طرح انتہا پسندوں یہودیوں کے لیے بھی نیتن یاہو ایک عطیہ ہیں۔ فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کے پلان پر بات چیت کرنے کے لیے حال ہی میں جب ایک امریکی یہودی وفد نیتن یاہو سے ملاقات کرنے ان کے دفتر پہنچا، اور اس کے مضمرات پر ان کو آگاہ کروا رہا تھا، تو انھوں نے اپنے میز کی دراز سے ایک منقش بکس نکالا ۔ اس میں۵۰۰ قبل مسیح زمانے کا ایک سکہ تھا، جو ان کے بقول مسجد اقصیٰ سے متصل کھدائی کے دوران اسرائیلی محکمہ آثار قدیمہ کو ملا ہے اور اس پر عبرانی میں نیتن یاہو کھدا ہو ا تھا۔ اس سے انھوں نے یہ فال نکالی ہے کہ یہودیوں کو اعلیٰ مقام دلوانے اور اسرائیل کو مضبوط و مستحکم کروانے کی ذمہ داری ان پر خدا کی طرف سے عائد کی گئی ہے۔ مگر اسرائیل میں احتسابی عمل شاید بھارت سے زیادہ مضبوط ہے اور وہاں اپوزیشن اور دیگر ادارے حکومت کے ساتھ ٹکر لینے کی پوزیشن میں ہیں۔
اس کے علاوہ تمام تر جارحانہ کارروائیوں کے باوجود یہودیوںکو ادراک تو ہوگیا ہے کہ وہ ناقابل تسخیر نہیں ہیں۔ اس کا اندازہ تو ۱۹۷۳ءکی جنگ مصر کے وقت ہو گیا تھا،مگر ۲۰۰۶ء میں جنگ لبنان اور ۲۰۱۴ء میں غزہ کی جنگ کے بعد یہ بات اور شدت کے ساتھ محسوس کی جارہی ہے۔ اس لیے دنیا بھر کے یہودی اور اسرائیل کے مقتدر طبقے چاہتے ہیں کہ اس سے پہلے کہ تاریخ کا پہیہ کوئی اور رخ اختیار کرے، اسرائیل کی سرحدوں کا تعین کرکے، پڑوسی ممالک سے اس کا وجود تسلیم کرایا جائے۔ اسرائیل کی فوج اور دنیا بھر کے یہودیوں نے جس طرح نیتن یاہو کے پلان کے مضمرات کا ایک معروضی انداز میں جائزہ لیا ہے، وہ بھارت کے لیے بھی ایک سبق ہے، جہاں کے اداروں کے لیے کشمیر ی عوام کے حقوق سلب کرنا اور پاکستان کے ساتھ دشمنی کو حب الوطنی ا ور بھارتی نیشنلزم ثابت کرنے کاپہلا اور آخری ذریعہ بنا ہوا ہے۔
جموں و کشمیر کا دور افتادوہ اور پس ماندہ خِطّۂ لداخ، جہاں اس وقت چینی اور بھارتی فوج برسرِپیکار ہے، ایک صدی قبل تک خاصا متمول علاقہ تھا۔ متحدہ ہندستان ، تبت، چین ، ترکستان و وسط ایشیا کی ایک اہم گزرگاہ ہوا کرتا تھا۔ خوب صورت ارضیاتی خدو خال، حد نگاہ تک بلندوبالا پہاڑ، کھلے میدان۔ یہ خطہ بہت حد تک پاکستانی صوبہ بلوچستان سے مماثلت رکھتا ہے۔ اگست ۲۰۱۹ء میں بھارت نے اس خطے کو جموں و کشمیرسے الگ کرکے مرکز کے زیر انتظام ایک علاقہ قرار دے ڈالا۔
دو ضلعوں لہیہ اور کرگل پر مشتمل اس خطے کا رقبہ ۸۷ہزار ۲سو ۹۷ مربع کلومیٹر ہے۔ اکسائی چن علاقہ کے چین کے زیر انتظام ہونے کی وجہ سے اصل رقبہ صرف ۳۲ ہزار ایک سو ۸۵ مربع کلومیٹر ہی ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ پاکستان کے بھی اکثر صحافی اور دانش ور اس خطے کو بودھ مت کے ماننے والوں کا علاقہ قرار دیتے ہیں، حالانکہ ۲۰۱۱ء میں بھارتی حکومت کی مردم شماری کے مطابق اس خطے کی ۲لاکھ ۷۴ہزار ۲سو ۸۹ کی آبادی میں ۴۶ء۴۰ فی صد مسلمان اور ۳۶ء۶۵ فی صد بودھ مت کے پیروکار ہیں۔لہیہ ضلع میں بودھ آبادی ۶۶ء۳۹ فی صد ہے،مگر اس ضلعے میں بھی ۲۵مسلم اکثریتی گاؤں ہیں۔یعنی خطّۂ لداخ میں مجموعی طورپر مسلمان ۴۶ فی صد اور بودھ ۳۹ فی صد ہیں۔ ۲۰۱۱ء کی
اس خطے کے نام وَر تاریخ دان عبدالغنی شیخ کے مطابق، یہ علاقہ ایک صدی قبل تک دنیا سے اس قدر جڑا تھا کہ ترکی یہاں کی دوسری زبان تھی۔ ۱۹ویں صدی میں اور ۲۰ویں صدی کے اوائل تک یہ علاقہ برطانیہ، چین اور روس کی چپقلش کا مرکز رہا۔ تاجروں، سیاحوں، جاسوسوں اور سپاہیوں کے لیے ترکستان، یعنی سنکیانگ کے شہروں یارقند، خوتان اور کاشغر کے سفر کے لیے لداخ ایک اہم زمینی رابطہ تھا۔ لیہہ شہر میں بودھ خانقاہ نمگیال سیموگمپا، یا تاریخی جامع مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھے معمر افراد ترکستان کو یاد کرتے ہیں، اور یارقند، کاشغر یا تبت کے دارالحکومت لہاسہ، گلگت، بلتستان، ہنزہ و چترال کی بہت سی کہانیاں سنائے بغیر نہیں جانے دیتے۔ لہیہ کے بازار میں ایک معمر لداخی نے مجھے بتایا تھا کہ ہم عذابِ الٰہی کے شکار ہیں،کیونکہ ہمارے بزرگوں نے نعمتوں کی قدر نہیں کی۔
لداخی محقق ریچن ڈولما کے مطابق: ’’کشمیر کی طرح لداخ بھی ۲۰ویں صدی میں وقوع پذیر سیاسی واقعات کی وجہ سے دنیا سے الگ تھلگ ہو کر رہ گیا ہے۔ اس خطے کی بقا ، ترقی ، اور عظمت رفتہ کی بحالی کا دارومدار قراقرم کے بند درّوں کو دوبارہ تجارت اور راہداری کے لیے کھولنے میں ہی مضمر ہے‘‘۔ قدیم شاہراہ ریشم کی ایک شاخ اس خطے سے ہوکر گزرتی تھی۔ چین کے ہاتھوں ۱۹۴۹ء میں مشرقی ترکستان، یعنی سنکیانگ اور پھر ۱۹۵۰ءمیں تبت پر قبضے کے بعد آہنی دیوار کھڑی کرنے سے یہ راہداریاں بند ہوگئیں۔ مگر سب سے زیادہ نقصان ۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند اور تنازع کشمیر کی وجہ سے اس خطے میں پیدا ہوئی کشیدگی کی وجہ سے ہوا۔
۱۹۶۲ءکی بھارت چین جنگ سمیت، یہ خِطّہ پانچ جنگوں کے زخم کھا چکا ہے۔۔بھارت کی پاکستان اور چین کے ساتھ چپقلش نے اس پورے خطے کے تاریخی رابطے منقطع کرکے اس کو غربت اور افلاس کی گہرائی میں دھکیل دیا ہے۔ جمو ں و کشمیر کے ایک محقق سلیم بیگ کا کہنا ہے کہ: کشیدگی اور سیاسی واقعات نے اس خطے کو دنیا سے کاٹ کر رکھ دیا۔ اس خطے میں سرکاری ملازم اپنے تقرر کو سزا تصور کرتے ہیں۔ نویں صدی کی ا یک فارسی قلمی دستاویز حدود عالم کے مطابق وسط ایشیا کے حاجی لداخ کے راستے مقدس سفر پر جاتے تھے۔ ان روابط کی وجہ سے ترک زبان رابطے کے ایک ذریعے کے طور پر رائج ہوگئی تھی۔ خود لداخی زبان میں کئی ترک الفاظ داخل ہوگئے ۔ ترک تاجروں نے لداخ میں سکونت اختیار کرکے کشمیری اور لداخی عورتوں سے شادیا ں کی۔ ان کی نسل کو ’آرغون‘ کہتے ہیں۔ دیگر نسلوں میں یہاں مون، منگول اور درد (Dardic)قابلِ ذکر ہیں۔
گذشتہ صدی کے آخری عشرے تک لداخ میں مسلم اور بودھ آبادی میں خاصا باہمی میل جول تھا۔ مذہبی نفرت کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔مسلمان نام بھی مقامی رنگ لیے ہوتے تھے۔ مغل دور میں لداخ کے باج گزار نمگیال خاندان کے فرماں روا خطوط و سکوں پر محمود شاہ یا اسی طرح کے مسلمان ناموں سے اپنے آپ کو کہلوانا پسند کرتے تھے۔ لداخی بودھ البتہ ڈوگرہ ہندوؤں سے خلش رکھتے تھے۔ وہ یہ بھول نہیں سکتے تھے کہ جب ۱۸۴۱ءمیں ڈوگرہ جنرل زور آور سنگھ نے لداخ پر فوج کشی کی، تو ان کی عبادت گاہوں کو اصطبل بناکر ان کی بے حرمتی کی گئی۔ مگر جو ں جوں بھارتی سیاست کے عناصر لداخ میں جڑ پکڑتے گئے، دونوں مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان محاذ آرائی بھی شروع ہوگئی۔ بودھوں کو بتایا گیا کہ ان کی پس ماندگی کی وجہ سرینگر کے حکمران ہیں۔ چونکہ پوری ریاست میں ان کی آبادی سکھوں سے بھی کم تھی، تو ان کا مجموعی سیاسی وزن بھی کم تھا۔
۱۹۹۰ء کے اوائل میں یہاں کی بودھ آبادی نے اس خطے کو کشمیر سے الگ کرکے نئی دہلی کا زیر انتظام علاقہ بنانے کے لیے احتجاج بھی شروع کیا تھا، اور مسلمانوں نے اس کی جم کر مخالفت کی تھی۔ اس کے رد عمل میں بودھ تنظیموں نے مسلمانوں کے سوشل بائیکاٹ کی کال دی ، جو ۱۹۹۴ءتک جاری رہا۔ ۱۹۹۴ءمیں جب کشمیر میں گور نر راج نافذ تھا، تو گفت و شنید کے بعد لداخ پہاڑی ترقیاتی کونسل تشکیل دی گئی۔ اس کو بجٹ بنانے کا اختیار دے کر مقامی انتظامیہ کو اس کے ماتحت کردیا گیا۔ بعدازاں ۲۰۰۳ء میں بھارتی کنٹرول میں جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید نے قریب کے مسلم اکثریتی کرگل ضلع کے لیے بھی اسی طرح کی کونسل کی منظوری دے دی۔ ۲۰۱۲ء میں اس ضلع کے بودھ اکثریتی تحصیل زنسکار میں بودھ آبادی نے مسلمانوں کے مکانوں و دکانوں پر دھاوا بول دیا۔ وجہ یہ تھی کہ بودھ فرقہ کے ۲۲؍افراد مشرف بہ اسلام ہوگئے تھے۔ ہندو مت کی طرح لداخی بودھوں میں بھی ذات پات کا عنصر سرایت کر گیا ہے۔ اس لیے نچلی ذات کے بودھ خاصے نالاں رہتے ہیں۔ زنسکار بودھ ایسوسی ایشن نے اس واقعے کے بعد عرصے تک مسلمانوں کا سماجی بائیکاٹ کردیا۔ اگر کوئی بودھ کسی مسلم تاجر سے کوئی بھی چیز خریدتا ہو ا پایا جاتا تو اس پر باقاعدہ جرمانہ عائد ہوجاتا تھا۔
لداخ کا خِطہ کئی عجیب و غریب رسم و رواج کی وجہ سے بھی خاصا مشہور ہے، مگر آہستہ آہستہ وہ اب معدوم ہوتے جارہے ہیں۔ کئی مؤرخوں نے درد نسل کو اصل اور مستند ’ہندآرین نسل‘ قرار دیا ہے۔ ۱۹۷۹ءمیں دو جرمن خواتین کو اس خطے میں چند ممنوعہ علاقوں میں گھومنے کی پاداش میں گرفتار کیا گیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ خواتین مرد ساتھیوں کی تلاش میں تھیں، تاکہ اصیل آرین نسل پیدا کر سکیں۔ اس علاقے میں کئی دیہاتوں میں آج تک ایک عورت کے کئی شوہر ہوتے ہیں، اگرچہ اس رسم پر ۱۹۵۰ءسے قانونی طور پر پابندی لگائی جا چکی ہے۔ اکثر ایک خاندان میں دو بھائیوں کی مشترکہ بیوی ہوتی ہے، تاکہ زرعی زمین کی تقسیم روکی جاسکے۔ پورے خطے میں زرعی زمین کا رقبہ محض ۶۲۰مربع کلومیٹر ہے۔کئی دیگر رسوم بودھ کلچر کا حصہ ہیں۔ نوبرہ تحصیل کے نمبردار زیرنگ نمگیال کے مطابق: ’’اکثر خاندان سب سے چھوٹے بیٹے کو لاما بنانے کے لیے خانقاہ بھیجتے ہیں۔ لاما، لداخیوںکی زندگی کا اہم جز ہوتا ہے۔ تقریباً سبھی دیہاتوں میں ایک یا دو بودھ خانقاہیں موجود ہیں، جن کا انتظام و انصرام لاماؤں کے سپرد ہوتا ہے‘‘۔
خطے کے روابط منقطع ہونے کا سب سے زیادہ نقصان مسلم اکثریتی کرگل ضلع کو اٹھانا پڑا۔ اس کے علاوہ بھارت اورپاکستان جنگوں میں اس ضلع کے کئی دیہات کبھی ادھر تو کبھی ادھر چلے آتے تھے۔ ۱۹۹۹ءکی کرگل جنگ کے بعد جب لداخ کے پہلے کور کمانڈر جنرل ارجن رائے کی ایما پر دیہات کی سرکاری طور پر پیمایش وغیرہ کی گئی، تو معلوم ہوا کہ ترتک علاقے کے کئی دیہات تو سرکاری ریکارڈ ہی میں نہیں ہیں۔ اس لیے ۲۰۰۱ءکی مردم شماری میں پہلی بار معلوم ہوا کہ لداخ خطے میں مسلم آبادی کا تناسب ۴۷ فی صد ہے اور بودھ آبادی سے زیاد ہ ہے۔ ورنہ اس سے قبل اس خطے کو بودھ اکثریتی علاقہ مانا جاتا تھا اور اکثر لکھنے والے ابھی تک پرانے اعداد شمار کو ہی استعمال کرتے ہیں۔ کرگل اسکردو تحصیل کا حصہ ہوتا تھا۔ اس لیے یہاں کی زمینوں و جایداد کے ریکارڈ ابھی بھی اسکردو کے محافظ خانے میں موجود ہیں۔ کسی عدالتی مقدمے یا تنازع کی صورت میں ابھی بھی ریکارڈ اسکردو سے ہی منگوایا جاتا ہے۔
لداخ کو زمینی طور پر باقی دنیا سے ملانے والے دو راستے، سرینگر کی طرف زوجیلا درہ اور ہماچل پردیش کی طرف روہتانگ درہ چھے ماہ کے لیے بند ہوجاتے ہیں۔ کرگل اور اسکردو کے درمیان ۱۹۲کلومیٹر کا فاصلہ ہے اور یہ پورا سال کھلا رہتا تھا۔ نوبرہ میں کھردنگلہ کے مقام سے کاشغر ، خوتان اور یارقند کو جانے والے راستے بھی مسافروںاور قافلوں کا پچھلے کئی عشروں سے انتظار کر رہے ہیں۔ مقامی دانش ور حاجی عبدالرزاق کا کہنا ہے: ’’ان کے والد اکثر یارقند اور کاشغر تجارت کی غرض سے جاتے تھے۔ نوبرا وادی میں وسط ایشیا اور دشت گوبی کی پہچان، یعنی دو اُونٹ کوہان والے ملتے ہیں، گو کہ ان کی آبادی اب خاصی کم ہو گئی ہے‘‘۔ چند برس قبل سلیم بیگ ، عبدالغنی شیخ اور لیہہ میں مقیم کئی احباب نے تاریخی سا سوما مسجد کی تجدید و تزوین کرکے اس سے متصل تین منزلہ میوزیم بنایا۔ یہ میوزیم اس خطے کے ترکستان اور وسط ایشیا کے درمیان تاریخی روابط کا امین ہے۔ ترک آرغون خاندانوں نے نوادرات و مخطوطات کا ایک خاصا بڑا ذخیرہ اس میوزیم کی نذر کیا۔ قدیمی یارقندی قالین، اور کئی مخطوطات جامع مسجد سے یہاں منتقل کیے گئے۔ ۱۷ویں صدی میں جب اس مسجد کی تعمیر کی گئی تھی، تب بودھو ں کی سب سے مقدس خانقاہ ہمپس خانقاہ کے ہیڈ لاما ستساگ راسپا نے لکڑی کی ایک چھڑی مسجد کے امام صاحب کی نذر کی، جو مسجد کے اندر ہی ایک فریم میں رکھی گئی تھی۔ مسجد کا فرش ترک تاجروں نے فراہم کیاتھا۔
فی الوقت چینی اور بھارتی فوجوں کے درمیان کش مکش کا مرکز گلوان وادی بھی ایک ترک آرغون غلام رسول گلوان [م: ۱۳مارچ ۱۹۲۵ء] کے نام سے موسوم ہے، جو ۱۸۹۲ءمیں ایرل آف ڈیمور [مصنّف: The Pamir] کی قیادت میں سیاحوں کے قافلے کی رہنمائی کررہے تھے ،مگر یہ قافلہ برفانی طوفان میں بھٹک گیا تھا۔ اپنی کتاب لداخ: تہذیب و ثقافت [ناشر: کریسنٹ ہاؤس پبلی کیشنز، جموں، ۲۰۰۵ء، ضخامت:۵۱۴] میں عبدالغنی شیخ لکھتے ہیں کہ: گلوان نے متبادل راستے کو دریافت کرکے اس قافلہ کو صحیح وسلامت منزل تک پہنچایا۔ ایرل آف ڈیمور نے اس وادی کو گلوان کے نام سے موسوم کیا۔ اسی طرح دولت بیگ الدائی کا وسیع و عریض میدان ترک سردار سلطا ن سعید خان المعروف دولت بیگ کے نام سے موسوم ہے۔ ۱۶ویں صدی میں لداخ اور کشمیرپر فوج کشی کے بعد سعید خان کا قافلہ واپس یارقند جا رہا تھا، تو وہ برفانی طوفان میں گھر کر ہلاک ہوگیا۔ تین صدی بعد جب برطانوی زمین پیما اور نقشہ ساز جنرل والٹر رویر لارنس [م:۱۹۴۰ء] اس علاقے میں پہنچا ، تو وہا ں انسانی اور جانوروں کی ہڈیاں بکھری ہوئی دیکھیں۔ اس کو بتایا گیا کہ یہ اولدی قبیلہ کے دولت بیگ اور اس کے قافلہ کی باقیات ہیں، تو اس نے ریکارڈ میں اس میدان کا نام ’دولت بیگ اولدی‘ درج کردیا۔
افغانستان کی طرح یہ خطّہ بھی عالمی طاقتوں کی کش مکش یعنی ’گریٹ گیم‘ کا شکار رہا ہے۔ مغلوں اور پھر برطانوی حکومت نے لداخ پر بر اہِ راست عمل داری کے بجائے اس کو ایک بفرعلاقہ کے طور پر استعمال کیا۔ ۱۸۷۲ءکو ڈوگرہ مہاراجا رنبیر سنگھ نے گوالیار اور نیپال کے حکمرانوں کو ساتھ ملاکر زار روس الیگزنڈر دوم کو خط لکھ کر ہندستان پر حملہ کرنے کی دعوت دی، اور زار روس کو یقین دلایا کہ اس حملے کی صورت میں سبھی ریاستیں برطانوی راج کے خلاف روسی فوج کا ساتھ دیں گی۔ یہ خط فرغانہ کے روسی گورنر کے ذریعے سے زار روس کو بھیجا گیا تھا، مگر فرغانہ میں اس خط کی تفصیلات برطانوی جاسوسوں کے ہتھے چڑھ گئیں ۔ برطانوی حکومت نے مہاراجا رنبیر سنگھ کو سبق سکھاتے ہوئے، لداخ میں اپنا ایک مستقل نمایندہ مقرر کردیا۔ ساتھ ہی ریاستوں کے حکمرانوں پر بھی غیرممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات پر پابندی عائد کردی گئی۔ عبدالغنی شیخ کے بقول زار روس نے اپنے جواب میں لکھا تھا کہ وہ فی الحال ابھی ترکی کے ساتھ بر سر پیکار ہونے کی تیاری کر رہا ہے۔ استنبول فتح کرنے کے بعد وہ ہندستان کا رخ کرے گا۔ ۱۸۷۷ءمیں روس نے ترکی سے جنگ چھیڑدی، جس کے نتیجے میں بلغاریہ، رومانیہ، سربیا اور مونٹی نیگرو، عثمانی ترک سلطنت کے ہاتھ سے نکل گئے۔تاہم، زار کا استنبول پہنچنا خواب ہی رہا۔
خطے میں مسلمانوں اور بودھ مت کے پیروکاروں کے درمیان وہ اب پہلی سی اُلفت نہیں رہی، مگر ماضی اور عظمت رفتہ کی یادیں قدرے مشترک ہیں۔ یہاں کی پوری آبادی الگ تھلگ اور ایک کونے میں زندگی گزارنے سے عاجز آچکی ہے۔ چند ماہ قبل جب لداخ کو کشمیر سے بھارت نے الگ کیا ، تو سرکاری ملازمت اور پولیس میں لداخ کے مکینوں کو لیہہ اور کرگل پوسٹنگ کے لیے بھیجا گیا،لیکن تقریباً سبھی نے جانے سے انکار کردیا۔ انتظامیہ نے زبردستی کرکے انھیں مرکز کے زیرانتظام علاقے کے ملازمین میں شامل کیا ہے۔ لداخی محقق ڈولما کے مطابق بھارت، چین اور پاکستان لداخ کی تزویراتی افادیت کو تسلیم تو کرتے ہیں، مگر فوجی نقطۂ نظر سے آگے نہیں دیکھ پاتے۔ اللہ کرے کہ مسئلہ کشمیر کا کوئی پُرامن حل تلاش کیا جائے، تاکہ اس خطے کو کشیدگی سے نجات حاصل ہو اور یہ ایک بار پھر مسکراہٹوں اور آسودگی کا گہوارہ بنے۔
۲۹فروری ۲۰۲۰ءکو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان اور امریکا کے درمیان ہوئے معاہدے سے تقریباً دوہفتے قبل، بھارتی فضائیہ کا ایک طیارہ کابل ایئرپورٹ پر اُترا۔ اس طیارے میں بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی کا ایک دست راست، صدر اشرف غنی کے لیے خصوصی پیغام لے کر گیا تھا، جس نے اسی رات واپس دہلی پہنچ کر وزیر اعظم کو مشن کی کامیابی کی اطلا ع دے دی۔
امریکا و یورپ سمیت پڑوسی ممالک اور خود افغانستان کی سیاسی جماعتیں توقع کر رہی تھیں کہ طالبان اور امریکا کے درمیان امن معاہدے کے طے ہونے تک افغانستان کا الیکشن کمیشن انتخابات کے نتائج کا اعلان نہیں کرےگا۔ اس کو بھی ایک طرح سے پس پردہ معاملہ فہمی (Deal) کا حصہ سمجھا جا رہا تھا، تاکہ معاہدے کے بعد افغانستان میں ایک وسیع البنیاد حکومت قائم کرنے میں مدد مل سکے۔ نئی دہلی حکومت کو خدشہ تھا کہ دوحہ معاہدے کے بعد امریکا اور دیگر طاقتیں، یا تو افغانستان میں اَز سرنو انتخابات کروانے پر زور ڈالیں گی یا طالبان کو وسیع البنیاد حکومت میں حصہ لینے پر آمادہ کروالیں گی۔ لہٰذا، اس کو سبو تاژ کرنے کے لیے ضروری تھا کہ موجودہ صدر اشرف غنی کو قانونی حیثیت حاصل ہو۔ کیونکہ آثار بتارہے تھے کہ دوحہ معاہدے کے بعد کابل میں موجودہ حکومت، قانونی حیثیت کے بغیر عضو معطل اوربے معنی وجود بن کر رہ جائے گی۔
اس افسر کے کابل دورہ کے اگلے ہی دن، یعنی ۱۸فروری کو افغانستان کے الیکشن کمیشن نے پانچ ماہ کے بعد انتخابات کا اعلان کرکے اشرف غنی کو بطورصدر کامیاب قرار دے دیا۔ اس طرح ستمبر ۲۰۱۹ء میں ہوئے انتخابات میں اشرف غنی نے دوسری بار صدر کے عہدے پر قبضہ جمالیا۔
کابل میں سکھ گوردوارے پر بم دھماکا ، تشدد کے واقعات اور کابل انتظامیہ کی طرف سے طالبان قیدیوں کی رہائی میںٹال مٹول کرنے سے امریکا کو پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ افغانستان میں بھارتی مفادات کا خیال رکھے بغیر امن کی بحالی تقریباً ناممکن ہے اور بھارت اس وقت اشرف غنی کی حکومت اور اس کی انٹیلی جنس ایجنسی کے پیچھے پوری یکسوئی سے کھڑ ا ہے۔
بھارت نے بظاہر افغانستان کے سکیورٹی معاملات سے الگ رہ کر تعمیر و ترقی اور مالی امداد پر توجہ مرکوز کی ہے، تاکہ افغان عوام کی پذیرائی حاصل کرکے طالبان کو اقتدار سے دور رکھا جاسکے۔ ۲۰۰۱ء سے لے کر اب تک بھارت نے افغانستان میں تقریباً تین ارب ڈالر کی رقم صرف کی ہے۔ رواں مالی سال میں بھی بھارتی بجٹ میں افغانستان کے لیے بھارتی چار ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ لہٰذا، یہ تقریباً ناممکن ہے کہ بھارتی ادارے اتنی جلدی کابل حکومت کو طالبان یا کسی بھی پاکستان دوست حکومت کے ہاتھوں میں جاتے دیکھ کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ جائیں۔
اسی دوران امریکا کے ساتھ طالبان مذاکراتی ٹیم کے سربراہ شیرمحمد عباس استانگزئی نے بھارت کے حوالے سے طالبان کی پوزیشن کو ان الفاظ میں واضح کر دیا ہے: ’’افغانستان میں بھارت کا کردار ہمیشہ منفی رہا ہے۔ اس نے ہمیشہ غداروں کی مدد کی، گذشتہ ۴۰برسوں کے دوران افغانستان کے بدعنوان گروپ کے ساتھ بھارت نے تعلقات قائم رکھے ہیں۔ لیکن اگر بھارت، افغانستان میں مثبت کردار ادا کرنے کو تیار ہو تو افغان طالبان کو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا‘‘ (روزنامہ The News ، ۱۸مئی ۲۰۲۰ء)
ان سبھی ایشوز پر امریکا کو بھی تشویش لاحق ہے۔ اسی لیے اس وقت جب پوری دنیا ’کرونا لاک ڈاؤن‘ کی زد میں ہے اور بین الاقوامی پروازیں معطل ہیں کہ ایک خصوصی امریکی چارٹرڈجہاز کے ذریعے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ایلچی زلمے خلیل زاد ، نئی دہلی آن پہنچے۔ جہاں انھوں نے بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر اور سلامتی مشیر اجیت دوبال سے ملاقاتیں کیں۔ بتایا جاتا ہے کہ امریکی ایلچی نے بھارت کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ طالبان کے حوالے سے اپنے رویے میں نرمی لائےاور بتایا کہ ’’طالبان کا وجود، افغانستان کی ایک حقیقت ہے۔ ان سے بے زاری اور ان کو زبردستی کابل اقتدار سے دُور رکھناکوئی دانش مندی نہیں ہے‘‘۔ باوثوق ذرائع کے مطابق خلیل زاد نے مشورہ دیا کہ ’’پڑوسی ممالک روس، چین، ایران اور وسط ایشیائی ممالک کی طرح بھارت بھی طالبا ن کے ساتھ براہ راست تعلقات استوار کرکے اپنے خدشات براہِ راست ان کی قیادت کے گوش گزار کرے‘‘۔ ایک طرح سے خیل زاد نے طالبان اور بھارت کے مابین ثالثی اور ان کے درمیان سلسلۂ جنبانی شروع کرنے کی کوشش کی۔ نئی دہلی میں امریکی سفارت خانے نے کثیر الاشاعت روزنامہ دی ہندو کے ساتھ خلیل زاد کے انٹرویوکا بھی بندوبست کیا تھا۔ جس میں انھوں نے طالبان کے ساتھ معاہدے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’’موجودہ حالات میں اس کا کوئی متبادل نہیں تھا‘‘۔
بھارت کو خدشہ ہے کہ دوحہ معاہدے کی وجہ سے خطے اور بین الاقوامی برادری میں پاکستان کا وقار بحال ہوا ہے، اور پاکستان کو الگ تھلگ کرنے کی بھارتی کوششوں کو بھاری دھچکا لگا ہے۔
علاوہ ازیں بھارت ہمیشہ افغانستان کے معاملات کو کشمیر میں جاری جدوجہد کے ساتھ منسلک کرتا آیا ہے۔ نئی دہلی میں افسران کہتے ہیں: ’’ افغانستان میں جب بھی پاکستان کے لیے نرم گوشہ رکھنے والی حکومت مسندِ اقتدار پر آئی ہے، تو کشمیر میں اس کا براہِ راست اثر دیکھنے کو ملا ہے‘‘۔ کشمیر کے ایک سابق گورنر جگ موہن ۱۹۸۹ء میں برپا عوامی بغاوت اور بعد میں عسکری جدوجہد کے آغاز کو افغانستان میں سوویت افواج کی شکست سے منسلک کرتے آئے ہیں۔ اسی طرح ۱۹۹۶ء سے ۲۰۰۱ء کے درمیان طالبان دورِحکومت میں کشمیر میں عسکری کارروائیوں میں تیزی آگئی تھی اور اسی زمانے میں کرگل جنگ بھی برپا ہوئی۔
ان سبھی خدشات کے ساتھ بھارت کی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے سربراہ سامنت گوئل نے ۵جولائی ۲۰۱۹ء کو وزیراعظم نریندرا مودی سے ملاقا ت کی اور ان کو مشورہ دیا: ’’امریکا - طالبان معاہدے کے ظہور میں آنے سے قبل ہی جموں و کشمیر کے سلسلے میں سخت فیصلہ کرلیا جائے‘‘۔جس کے ایک ماہ بعد ہی بھارتی پارلیمنٹ نے جموں و کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرکے نہ صرف اس کی آئینی خصوصی حیثیت ہی ختم کردی، بلکہ ریاست کو ہی تحلیل کرکے اسے مرکزی انتظام والا علاقہ بنادیا۔ ان ذرائع کے مطابق ’را‘ کے سربراہ نے یہ دلیل دی تھی کہ ’’طالبان کے ساتھ معاہدے کے بعد کشمیر میں حالات کنٹرول سے باہر ہوسکتے ہیں اور اس کے علاوہ امریکا ، پاکستان کی اقتصادی اور ملٹری امداد بحال کر دےگا‘‘۔اُن دنوں خیال تھا کہ دوحہ مذاکرات ستمبر ۲۰۱۹ء میں مکمل ہوجائیں گے۔
افغانستان کے حوالے سے نئی دہلی کی بے چینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نئی دہلی میں کچھ بااثر حلقے اب طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات اور تعلقات استوار کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ مگر افغانستان میں بھارت کے سابق سفیر امر سنہا کے مطابق: ’’طالبان کے ساتھ تب تک گفت و شنید کا کوئی جواز نہیں بنتا ہے ، جب تک وہ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کا اَزسر نو جائزہ نہیں لیتے‘ ‘۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’طالبان کا جھکاؤ پاکستان کی طرف کافی زیادہ ہے، جس کی وجہ سے بھارت کو ان کے ساتھ کوئی بھی سلسلہ کھولنے میں اندیشے ہیں۔ مزید یہ کہ طالبان کے ساتھ تحفظات اپنی جگہ، مگر جب انٹرا افغان ڈائیلاگ شروع ہوتا ہے، تو بھارت کو اس میں اپنی پوزیشن بناکر اس کو یقینی کرلینا چاہیے کہ یہ مذاکرات غیرجانب دار جگہ پر ہوں‘‘۔
سابق بھارتی سیکرٹری خارجہ شیام سرن کا کہنا ہے کہ’’ بھارتی پالیسی، طالبا ن کو کلی طور پر کابل اقتدار سے دُور رکھنے اور ایک وسیع البنیاد حکومت میں ان کے اثر و نفوذ کو کم کرنے پر مرکوز ہونی چاہیے۔ یعنی طالبان اگر اقتدار میں شرکت کریں تو بھی ان کی کوئی فیصلہ کن پوزیشن نہ ہو۔ افغانستان میں طالبان مخالف عناصر کو یک جا کرکے یہ ہدف حاصل کیا جاسکتا ہے‘‘۔ امر سنہا اور شیام سرن کے یہ خیالات بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی اور اقدامات کا نچوڑ ہیں۔
دوسری طرف دیگر سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ ’’۱۹۹۶ء کے برعکس پاکستان اپنے دگرگوں مالی حالات کی وجہ سے متوقع طالبان حکومت کی کوئی بامعنی اقتصادی مددنہیں کر پائے گا۔ اور یہی کچھ حالات سعودی عرب اور متحدہ امارات کے بھی ہیں۔ اس لیے اپنی مالی پوزیشن پر بھروسا کرکے بھارت کو چاہیے کہ وہ طالبان کو شیشے میں اتار کر انھیں پاکستان کے خیمے سے باہر نکالنے کے جتن کرے‘‘۔
بھارت کی اس سوچ اور حکمت عملی کے نتیجے میں افغانستان میں شاید ہی امن بحال ہوسکے گا۔ چونکہ بھارت خود ہی افغانستان کے معاملات کو کشمیر کے ساتھ منسلک کرتا آیا ہے، اس لیے بین الاقوامی برادری کو بھی باور کرانے کی ضرورت ہے کہ ’’اس خطے میں امن و سلامتی تبھی ممکن ہے، جب کشمیر میں بھی سیاسی عمل کا آغاز کرکے اس مسئلے کا بھی کوئی حتمی حل تلاش کیا جائے‘‘۔ اور یہ کہ ’’کشمیری عوام کے حقوق کی بحالی اور افغانستان میں ایک حقیقی عوامی نمایندہ حکومت ہی خطے کی سلامتی کی ضامن ہے‘‘۔
ناروے کی سمندری حدود میں جب ۱۹۷۹ء میں پیٹرولیم کے ذخائر نکالنے کا کام شروع ہوا، تو یورپ و امریکا کے متعدد عیسائی اور یہودی اداروں نے ناروے حکومت پر دباؤ ڈالا کہ ’’یہ تیل اسرائیل کو ارزاں نرخ پر یا مفت مہیا کیا جائے‘‘۔ ان کی دلیل تھی: ’’چونکہ تیل کی دولت سے مالامال عرب ممالک اسرائیل کو تیل فراہم نہیں کرتے ہیں اور ایران میں مغرب نواز رضا شاہ پہلوی حکومت کا تختہ اُلٹنے سے پٹرولیم کی فراہمی اور زیادہ مشکل ہوگئی ہے، اس لیے ناروے کو اپنے وسائل یہودی ریاست کی بقا کے لیے وقف کردینے چاہییں‘‘۔ ناروے کی ۱۵۰رکنی پارلیمان میں اس وقت ۸۷ ’اراکین فرینڈز آف اسرائیل‘ تنظیم کے سرگرم رکن تھے۔ تاہم، کوئی فیصلہ کرنے سے قبل ناروے کے وزیر اعظم اوڈوار نورڈلی نے ’فلسطین لیبریشن آرگنائزیشن‘ (PLO: تاسیس ۱۹۶۴ء) کے رہنماؤں اور عرب ممالک کا موقف جاننے کی خواہش ظاہر کی۔
بیش تر عرب ممالک نے اسرائیل کو پٹرولیم مہیا کرنے کی پُرزور مخالفت کی ۔ ان کی دلیل تھی کہ ’’اس کے بعد اسرائیل اور بھی زیادہ شیر ہوجائے گا اور امن کے لیے کوششیں مزید دشوار ہوجائیں گی‘‘، مگر پی ایل او کے سربراہ یاسر عرفات [م: ۱۱نومبر۲۰۰۴ء]نے ناروے کے وزیراعظم کو بتایا کہ’’ چاہے آپ اسرائیل کو تیل فراہم کریں یا نہ کریں، وہ یہ تیل حاصل کرکے ہی رہے گا۔ براہِ راست نہ سہی بالواسطہ دنیا میں کئی ملک اور افراد ہیں، جو یہ خرید کر اسرائیل کو سپلائی کریں گے۔ لہٰذا، بہتر یہ ہے کہ ناروے، اسرائیل کے ساتھ اپنی خیرسگالی کا خاطر خواہ فائدہ اٹھاکر فلسطینی قیادت اور اسرائیل کے درمیان پس پردہ مذاکرات کا سلسلہ شروع کرواکے ثالث کا کردار نبھائے‘‘۔
ناروے کی انھی کاوشوں کی صورت میں ۱۴ سال بعد ’اوسلو اکارڈ‘ [معاہدۂ اوسلو: ۱۳ستمبر ۱۹۹۳ء] وجود میں آیا۔ جس کی رُو سے فریقین نے ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے دو ریاستی فارمولے پر مہر لگائی ۔ یاسر عرفات کو فلسطینی اتھارٹی کا سربراہ تسلیم کیا گیا اور مغربی کنارہ اور غزہ کی پٹی ان کے حوالے کی گئی۔فلسطین کو مکمل ریاست کا درجہ دینے، سرحدوں کا تعین، سکیورٹی، فلسطینی مہاجرین کا مسئلہ اور القدس یا یروشلم شہر کے مستقبل کے بارے میں فریقین نے مزید بات چیت کے لیے ہامی بھرلی۔ اندازہ تھا کہ اس دوران اعتماد ساز ی کے اقدامات ، ملاقاتوں کے سلسلے اور پھر فلسطینیوں اور عام یہودی آباد کاروں کے درمیان رابطے سے ایک اعتماد کی فضا قائم ہو جائے گی ، جس سے پیچیدہ مسائل کے حل کی گنجایش نکل آئے گی۔
اسرائیل نے فلسطینی ریاست کے قیام اور فلسطینی مہاجرین کی واپسی کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرکے ’اوسلو اکارڈ‘ کی روح نکال دی تھی، مگر اب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے فلسطین کا جو نقشۂ کار جاری کیا ہے، اس نے تو ’اوسلو کارڈ‘ کو مکمل طور پر دفنا دیا ہے۔ ’اوسلو اکارڈ‘ میں تو ایک فلسطینی ریاست قائم کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا، مگر ’ٹرمپ کے منصوبے‘ (ڈیل آف سنچری) کے مطابق: ’’فلسطین ، اب صرف مغربی کنارہ اور غزہ پر مشتمل ہوگا، مکمل ریاست کے بجاے اسرائیل کی زیرنگرانی اب محض ایک Protectrate (محافظت)کی شکل میں ہوگا، جس کی سلامتی اور دیگر امور اسرائیل طے کرے گا۔ یہ فلسطینی حکومت فوج نہیں رکھ سکے گی،تاہم ایک پولیس فورس تشکیل دے سکے گی۔ اس کی سرحدوں کی حفاظت اسرائیل کی ذمہ داریوں میں شامل ہوگی‘‘۔
یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ غزہ سے فلسطینیوں کا مکمل انخلا کرکے ان کو صحراے سینا میں بسایا جائے گا اور غزہ کا علاقہ مکمل طور پر اسرائیل کے حوالے کیا جائے گا۔۱۹۹۳ء میںاوسلو میں اسرائیلی اور فلسطینی قیادت کے درمیان طے پائے گئے سمجھوتے میں ایک فلسطینی اتھارٹی کا قیام عمل میں آیا تھا۔ جس سے ۴۰لاکھ کی آبادی کو دو خطوں: مشرق میں غزہ اور اُردن کی سرحد سے متصل مغربی کنارے میں تقسیم کیا گیاتھا۔ نسبتاً وسیع مغربی کنارے کا انتظام ’الفتح‘ کی قیادت فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کے پاس ہے ، وہیں غز ہ میں اسلامی تحریک ’حماس‘ [تاسیس: ۱۹۸۷ء، بانی شیخ احمد یاسین، ۱۹۳۷ء-۲۲مارچ ۲۰۰۴ء] بر سرِ اقتدار ہے۔ جہاں پی ایل او، اسرائیل کو تسلیم کرتا ہے، حماس یہودی ریاست کے وجود سے ہی انکاری ہے۔ چونکہ مغربی کنارہ اور غزہ کے درمیان کوئی زمینی رابطہ نہیں ہے، اس لیے ا مریکی صدر کے مطابق ان کو منسلک کرنے کے لیے اسرائیلی علاقوں سے ۳۰میٹراُوپر ۱۰۰کلومیٹر دنیا کا ایک طویل ترین فلائی اوور بنایا جائے گا۔ مغربی کنارے میں جو تقریباً ۱۵یہودی علاقے ایک طرح سے زمینی جزیروں کی صورت میں ہیں، ان کو اسرائیل کے ساتھ منسلک کرنے کے لیے مخصوص شاہرائیں تعمیر کی جائیں گی۔
ایک سال قبل دہلی کے دورے پر آئے ایک یہودی عالم ڈیوڈ روزن نے مجھے بتایا تھا کہ ’’سابق امریکی صدر بارک اوباما جس خاکے کو تیار کرنے میں ناکام ہو گئے تھے، ٹرمپ ، سعودی عرب و دیگر عرب ممالک کے تعاون سے فلسطین کے حتمی حل کے قریب پہنچ گئے ہیں‘‘۔
ایئر لینڈ کے چیف ربی ڈیوڈ روزن، اسرائیل کی چیف ربائیٹ، یعنی مذہبی امورکے رکن ہیں اور امریکی جیوش کونسل ( AJC) کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔مشرق وسطیٰ میں امن مساعی اور خصوصاً اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیا ن بیک چینل تعلقات کے حوالے سے وہ خاصے سرگرم ہیں۔ وہ سابق سعودی بادشاہ عبداللہ بن عبدالعزیز [م:۲۳جنوری ۲۰۱۵ء]کی ایما پر قائم ’کنگ عبدالعزیز انٹرنیشنل سینٹر فار انٹر ریلیجنز اینڈ کلچر ڈائیلاگ‘ کے بورڈ ممبر بھی ہیں۔
مشر ق وسطیٰ میں اس وقت یہ تین عوامل اسرائیل کو امن مساعی کے لیے مجبور کر رہے ہیں: ’’تمام تر جارحانہ کارروائیوں کے باوجود نسل پرست یہودیوں اور اسرائیلی حکام کو ادراک ہو گیا ہے کہ وہ ناقابلِ تسخیر نہیں ہیں۔ ویسے تو اس کا اندازہ ۱۹۷۳ء کی جنگ رمضان اور بعد میں ۲۰۰۶ءمیں جنگ لبنان کے موقعے پر ہی ہوگیا تھا ، مگر حالیہ کچھ عرصے سے یہ بات شدت کے ساتھ محسوس کی جا رہی ہے۔اس لیے دنیا بھر کے یہودی چاہتے ہیں کہ اس سے پہلے کہ تاریخ کا پہیہ کوئی اور رخ اختیار کرے، اسرائیل کی سرحدوں کا تعین کرکے، پڑوسی ممالک سے اس کا وجود تسلیم کرایا جائے۔ یہودی عالم کاکہنا تھا کہ توسیع پسندی اب کسی بھی صورت میں اسرائیل کے مفاد میں نہیں ہے۔ فوجی اعتبار سے اگرچہ اسرائیل سرحدوں کو وسیع کرنے کی قوت رکھتا ہے، مگر اس کے نتیجے میں مقبوضہ علاقوںکی آبادی کو بھی اس ناجائز قبضے کے ساتھ اسرائیل میں شامل کرنا پڑے گا، جس سے ظاہر ہے کہ یہودی اقلیت میں تبدیل ہوجائیں گے۔ دنیا بھر میں یہودی محض ایک کروڑ ہیں، جن میں ۶۰ لاکھ کے قریب اسرائیل میں رہتے ہیں۔ اس لیے فلسطینیوں سے زیادہ اسرائیلیوں کے لیے بھی اپنی بقا کے لیے سرحدوں کا تعین کرنا ضروری ہے۔
دوسرا یہ کہ اسرائیلی علاقوں میں مسلمانوں کی افزایش نسل یہودیوں سے کئی گنا زیا دہ ہے۔ ۱۹۶۷ء میں عرب ،اسرائیل کی آبادی کا ۱۴فی صد تھے ، جو اب لگ بھگ ۲۲ فی صد ہو چکے ہیں۔ یہ وہ مسلمان ہیں جنھوں نے اسرائیل کی شہریت تسلیم کی ہوئی ہے اور ’اسرائیلی عرب‘ کہلاتے ہیں۔
تیسرا اہم سبب یہ ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کے مشرقی ساحل پر حالیہ کچھ عرصے سے تیل اور گیس کے وسیع ذخائر دریافت ہو رہے ہیں۔ کہاں وہ اسرائیل ، جہاں پانی اور تیل کا فقدان تھا، اب وہ خطے میں عرب ممالک کو پیچھے چھوڑ کر پٹرولیم کا مرکز بننے والا ہے۔ اس لیے وہ اب ہرصورت میں امن کو یقینی بناتے ہوئے، پوری سمندری حدود پر کنٹرول کرنا چاہتا ہے۔
حیفا کے پاس سمندر سے صاف پانی کشید کرنے کا دنیا کا سب سے بڑا پلانٹ لگا کر پانی کے معاملے میں اسرائیل پہلے ہی خود کفالت اختیار کرکے اب اردن کو بھی پانی سپلائی کرتا ہے۔ اسرائیل نے اب اردن اور مصر کو گیس کی ترسیل شروع کر دی ہے۔ اس وقت مصر کو اسرائیل سے ۸۵ملین کیوبک میٹر گیس فراہم ہورہی ہے، جس سے اسرائیل سالانہ۱۹ء ۵ ارب ڈالر کماتا ہے۔ ستم ظریفی یہ کہ چند سال قبل تک اسرائیل ، مصر سے تیل و گیس خریدتا تھا۔ حیفا سے ۱۰۰کلومیٹر دُور سمندر میں تامار اور لیویاتھان کے مقام پر اسرائیل نے گیس کے وسیع ذخائر دریافت کیے ہیں۔
بحیرہ روم میں دیگر مقامات پر بھی پٹرول اور قدرتی گیس کے ’وسیع ذخائر‘ موجود ہیں، جن پر فلسطینیوں کا دعویٰ ہے، مگر اس سمندر کا ۹۰فی صد اقتصادی زون اسرائیل کی تحویل میں ہے۔ لیویاتھان کے مقام پر ہی ۲۱ ٹریلین کیوبک فیٹ گیس کے ذخائر اگلے ۴۰سال تک اسرائیل کی ضروریات کے لیے بہت کافی ہیں۔ پچھلے ماہ یونان کے دارالحکومت ایتھنز میں اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے ۶؍ارب ڈالر لاگت سے ’ایسٹ میڈ پائپ لائن‘ بچھانے کے معاہدے پر دستخط کیے، جو اسرائیل سے قبرص ہوتے ہوئے یونان اور اٹلی اور دیگر مغربی ممالک کو گیس کی ترسیل کرے گی۔ اس پائپ لائن سے یور پ کی توانائی کی ۱۰فی صد ضروریات پوری ہوسکیں گی۔
تاہم، امریکی صدر ٹرمپ کی طرف سے فلسطینی مسئلے کا جو فارمولا منظر عام پر آیا ہے، اس سے شاید ہی امن کی امید بندھ سکتی ہے۔ خدشہ ہے کہ یہ اس خطے کے لیے مزید پیچیدگیاں پیدا کرسکتا ہے۔ اس کے مطابق فلسطینی مہاجرین کی اپنے گھروں کو واپسی کا معاملہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا۔۱۸۱صفحات کے اس منصوبے میں عرب ممالک سے اپنی مرضی سے ہجرت کرنے والے یہودیوں اور بزور طاقت بے گھر ہوئے فلسطینی مہاجرین کو ایک ہی پلڑے میں رکھا گیا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ: ’’اگر اسرائیل، عرب ممالک سے آئے یہودی پناہ گرینوں کو اپنے یہاں ضم کرسکتا ہے، تو عرب ممالک کو بھی فلسطینیوں کو مکمل شہریت دے کر پناہ گزینوں کے باب کو بند کردینا چاہیے‘‘۔
دنیا بھر میں اس وقت ۷۰لاکھ فلسطینی مختلف ممالک میں وطن واپسی کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ منصوبے میں عرب ممالک سے یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے، کہ ۷۰سال قبل جو یہودی اپنے آبائی ممالک سے نقل مکانی کرکے اسرائیل میں بس گئے ہیں، ان کو پیچھے چھوڑی ہوئی جایدادوں کا معاوضہ دے دیا جائے۔ اسرائیل سے، تاہم یہ مطالبہ نہیں کیا گیا ہے کہ وہ بھی ان فلسطینی پناہ گزینوں کو ہرجانہ دے، جن کو اس نے اپنی جایدادوں سے زبردستی بے دخل کردیا ہے۔
اسی طرح کی بددیانتی قیدیوں کی رہائی کے سلسلے میں بھی اپنائی گئی ہے۔ فلسطینی مزاحمتی گروپوں کو بلاشرط تمام اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرنا ہوگا، مگر اسرائیلی تحویل میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے لیے شرطوں کی ایک لمبی فہرست درج کی گئی ہے۔ قتل، اقدام قتل، دہشت گردی، اسرائیلی شہریوں،فوج یا اس کے سیکورٹی دستوں پر حملوںمیں ملوث فلسطینیوں کو کسی بھی صورت میں رہائی نہیں ملے گی۔ آخر میں اسرائیلی حکا م کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنی صواب دید پر فلسطینی قیدیوں کو رہا کرسکتے ہیں۔
اس منصوبے کی رُو سے القدس یا یروشلم شہر کو تقسیم نہیں کیا جائے گا، بلکہ اس کا مکمل کنٹرول اسرائیل کے پاس ہی رہے گا۔ شہر میں مکینوں کو اختیار ہوگا کہ وہ اسرائیل یا فلسطین کے شہری ہوں گے۔ الاقصیٰ حرم پر جو ں کی توں پوزیشن برقرار رہے گی، یعنی یہ بدستور اُردن کے اوقاف کی زیرنگرانی رہے گا۔ اگرچہ سعودی عرب اس کے کنٹرول کا متمنی تھا، تاکہ ریاض میں موجود سعودی بادشاہ تینوں حرمین، یعنی مکہ ، مدینہ اور مسجد اقصیٰ کے ’متولی یا خادم‘ قرار پائیں۔
اسرائیل، مسجد اقصیٰ کے تہہ خانے تک رسائی کا خواہش مند ہے۔ جس کے لیے اس نے مغربی سرے پر کھدائی بھی کی ہے ، تاکہ وہاں تک پہنچنے کے لیے مسجدکی دیواروں کے نیچے سے ایک سرنگ بنا سکے۔ یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ تہہ خانے میں ہی معبد سلیمانی کے کھنڈرات یا قبلۂ اوّل موجود ہے۔
شہر کی مونسپل حدود کے باہر کفر عقاب اور سہانات کے علاقوں کو مشرقی یروشلم یا القدس کا نام دے کر اس کو فلسطین کا دارالحکومت تسلیم کیا جائے گا۔غزہ کے راستے اسرائیل اورمصر کی سرحدیں نقل و حمل اور تجارت کے لیے کھول دی جائیں گی۔ اسرائیلی بندر گاہیں حیفا اور اشدود کو فلسطینیوں کے لیے کھولا جائے گا۔ ’بحیرۂ مُردار‘ (Dead Sea) جو مغربی کنارے کے علاقے میں شامل ہے، اس کے وسائل پر اسرائیل اور اردن کا کنٹرول رہے گا۔ اسرائیل دنیا بھر میں ’بحیرئہ مُردار‘ کی مصنوعات برآمد کرتا ہے۔ ’بحیرۂ مُردار‘ میں کان کنی اور اس کی مصنوعات کو جلد کی حفاظت وغیرہ کی دوائیوں کے طور پر استعمال کرنے کی دریافت کا سہرا ایک پاکستانی نژاد یہودی کے سر ہے، جو کراچی سے اسرائیل منتقل ہو گیا تھا۔
اس پوری رُوداد کے بعد بھی بتایا گیا ہے کہ: ’’یہ منصوبہ تبھی عمل میں لایا جائے گا ، جب حالات اسرائیل کے موافق ہوں گے اور فلسطینی اگلے چار برسو ں تک تمام شرائط پر عمل درآمد کرکے اسرائیل کی سلامتی کو یقینی بنائیں گے۔ اس کے بعد ہی اسرائیل دیگر امور پر قدم اٹھائے گا‘‘۔ فلسطینی حکام کے لیے لازم قرار دیا گیا ہے کہ ا ن کو حماس اور دیگر تمام مزاحمتی گروپوں کو غیر مسلح کرنا ہوگا۔ اردن اور مغربی کنارے کی سرحدکی تین چیک پوسٹ فلسطینی حکام کے حوالے کی جائیں گی۔ اس پورے معاہدے میں ترکی کے کردار کا کوئی ذکر نہیں ہے ، جس نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں القدس یا یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت قرار دیے جانے کے فیصلے کے خلاف ووٹ دلوانے میں قائدانہ کردارکرکے امریکا کے فیصلے کی سینہ تان کرمخالفت کی تھی۔
چند برس قبل دوحہ میں راقم کو مقتدر فلسطینی لیڈر خالد مشعل سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا تھا۔ جب میں نے ان سے پوچھا کہ ’’آپ تو دو ریاستی فارمولے کو رد کرتے ہیں اور اسرائیل کے وجود سے ہی انکاری ہیں، تو مفاہمت کیسے ہو؟‘‘ انھوں نے کہا:’’حماس کا رویہ کسی بھی طرح امن مساعی میں رکاوٹ نہیں ہے۔ یاسر عرفات اور محمود عباس نے تو اسرائیل کو تسلیم کیا، مگر ان کے ساتھ کیا سلوک ہوا۔ تحریک میں شارٹ کٹ کی گنجایش نہیں ہوتی۔ اس کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے استقامت ضروری ہے۔ اپنے آپ کو مضبوط بنانا اور زیادہ سے زیادہ حلیف بنانا تحریک کی کامیابی کے لیے ضروری ہے۔ تاریخ کا پہیہ سست ہی سہی مگر گھومتا رہتا ہے‘‘۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ حماس ۲۰۰۶ء کے ’نیشنل فلسطین اکارڈ‘ پر کار بند ہے، جس کی رُو سے وہ دیگر گروپوں کے ذریعے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے گی‘‘۔
اس فارمولے میں فلسطینی علاقوں میں غربت و افلاس سے نبٹنے کے لیے ۵۰؍ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا بھی ذکر ہے۔ اس خیراتی سرمایہ کاری کے بجاے اگر فلسطینی اتھارٹی کو گیس کے ذخائر اور ’بحیرئہ مُردار‘ کے وسائل کا کنٹرول دیا جاتا تو یہ کئی گنا بہتر ہوتا ۔بہرحال، صدر ٹرمپ کی اس بدترین جانب داری پر مبنی نام نہاد ’ڈیل آف سینچری‘ نے ایک بار پھر ثابت کردیا ہے کہ کمزور اور طاقت ور کے درمیان کوئی معاہدہ ہو ہی نہیں سکتا۔فلسطینی لیڈرو ں ،عرب و دیگر اسلامی ممالک کے لیے لازم ہے کہ اتحاد کا راستہ اختیار کرکے، سیاسی لحاظ سے طاقت ور اور مستحکم بننے پر زور دےکر تاریخ میں اپنے آپ کو سرخ رو کروائیں، ورنہ تاریخ کے بے رحم اوراق ان کو کبھی نہیں بخشیں گے۔
بھارت میں وزیر اعظم نریندر مودی کے برسر اقتدار آنے سے قبل یا اس کے فوراً بعد کشمیر، بھارتی مسلمانوں اور پاکستان کے حوالے سے جو خدشات ظاہر کیے جا رہے تھے ، ایک ایک کرکے وہ سبھی درست ثابت ہو رہے ہیں۔ غالباً۲۰۱۴ء اور۲۰۱۵ء میں جب ان خطرات سے آگاہ کرانے کے لیے میں نے مودی کا کشمیر روڑ میپ ، کشمیر میں ڈوگرہ راج کی واپسی وغیرہ جیسے موضوعات پرکالم لکھے توکئی افراد نے ’قنوطیت پسندی‘ کا خطاب دے کر مجھے یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ کانگریس کی کمزور اور پس وپیش میں مبتلا سیکولر حکومت کے برعکس، بھارت میں ایک سخت گیر اور خبط عظمت کے شکار حکمران کو رام کرنا یا شیشے میں اتارنا زیادہ آسان ہوگا ۔ اس سلسلے میں بار بار ۱۹۷۷ء سے ۱۹۷۹ءکی مرارجی ڈیسائی کی جنتا پارٹی حکومت اور پھر۱۹۹۸ء سے۲۰۰۴ء تک بھارتیہ جنتا پارٹی کی زیر قیادت اٹل بہاری واجپائی کے دور کی یاد دلائی جاتی تھی۔ لیکن جب ’ڈوگرہ راج کی واپسی‘ مضمون لکھا تو آزاد کشمیرسے تعلق رکھنے والے چند دانش ور وں نے تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان مضامین کی بنیاد خیالی گھوڑے یا کوئی غیبی اشارہ نہ تھا، بلکہ مختلف لیڈروں کی بریفنگ پر مبنی معلومات ہی تھیں۔
مجھے یاد ہے ۲۰۱۴ء کے عام انتخابات سے قبل جب موجودہ وزیر داخلہ امیت شا کو اہم انتخابی صوبہ اتر پردیش کا انچارج بنایا گیا ، تو راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر آنجہانی ارون جیٹلی نے قومی میڈیا کے کچھ چنیدہ صحافیوں اور دہلی کے دیگر عمائدین سے ان کو متعارف کروانے اور ملاقات کے لیے اپنی رہایش گاہ پر ضیافت کا اہتمام کیا تھا۔ اس سے قبل امیت شا گجرات صوبہ کے وزیرداخلہ کی حیثیت سے فسادات، سہراب الدین اور ان کی اہلیہ کا پولیس انکاونٹر کروانے اور اس کی پاداش میں جیل کی ہوا کھانے اور پھر عدالت کی طرف سے تڑی پار ہونے کے لیے ہی مشہور تھے۔ اس تقریب میں وہ ہندستان ٹائمز کے ایک ایڈیٹر ونود شرما پر خوب برس پڑے کہ ’’تم ہر وقت ان کے خلاف ہی کیوں لکھتے رہتے ہو‘‘۔
ان کی گفتگو سے اندازہ ہوگیا تھا کہ مودی کا دور اقتدار، واجپائی حکومت سے مختلف ہوگا۔ واجپائی حکومت میں جارج فرنانڈیز ، جسونت سنگھ اور دیگر اتحادیوں کی شکل میں جو ایک طرح کا کشن تھا، اس کی عدم موجودگی میں ہندو انتہاپسندو ں کی مربی تنظیم آرایس ایس اپنے ایجنڈے کو لاگو کرنے میں اب کوئی پس و پیش نہیں کرے گی۔ انھوں نے گفتگو میں واضح کیا کہ ’’اکثریت ملتے ہی وہ کشمیر کے حوالے سے بھارتی آئین کی دفعہ ۳۷۰کو پہلی فرصت میں ختم کر واکے ہی دم لیں گے‘‘۔ ان کا ایک اور رونا تھا کہ جموں و کشمیر اسمبلی میں وادی کشمیر کو عددی برتری حاصل ہے۔ اس لیے اسمبلی حلقوں کی حد بندی کچھ اس طرح کروانے کی ضرورت ہے کہ جموں کے ہندو علاقوں کی سیٹیں بڑھ جائیں، جس سے ان کے مطابق سیاسی طور پر کشمیرپر لگام ڈالی جاسکے۔ اس کے علاوہ ان کا کہنا تھا کہ بھارتی مسلمانوں کو بھی سوچ بدلنی پڑے گی۔
اس سے قبل انڈین ایکسپریس سے وابستہ ایک رپورٹر نے مشرقی اتر پردیش میں امیت شا کے دورے کے دوران کارکنوں کے ساتھ ان کی ایک میٹنگ میں رسائی حاصل کی تھی۔ جہاں وہ ان کو بتا رہے تھے کہ ’’مظفر نگر اور اس کے نواح میں ہوئے فسادات کا کس طرح بھر پور فائدہ اٹھاکر ہندو ووٹروں کو بی جے پی کے حق میں لام بند کرایا جائے‘‘۔ بقول رپورٹر انیرودھ گھوشال، وہ کارکنوں کو خوب کھر ی کھری سنا رہے تھے، کہ مظفر نگر فسادات کا دائرہ دیگر ضلعوں تک کیوں نہیں بڑھایا گیا، تاکہ مزید انتخابی فائدہ حاصل ہوجاتا۔
جیٹلی کے گھر پر ہوئی اس ملاقات میں ان کے جس ارادے نے سب سے زیادہ میرے ذہن میں خطرے کی گھنٹی بجائی وہ ان کایہ بیان تھا کہ ’’بھارت کی سبھی زبانوں کو زندہ رہنے کا حق تو ہے ، مگر ان کا رسم الخط ہندی یا دیوناگری میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’اس سے بھارت کو مزید مضبوط بنانے میں مدد ملے گی۔ کشمیری زبان کا خاص طور پر ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’’کشمیری مسلمانوں کی منہ بھرائی کرکے اس زبان کو واپس شاردا یا دیوناگری اسکرپٹ میں لانے میں پچھلی حکومتیں لیت و لعل سے کا م لیتی آرہی ہیں‘‘۔
۲۶جنوری کو بھارت کے یوم جمہوریہ کے موقعے پر حکومت کی طرف سے اخباروں کو جاری ایک اشتہار پر نظر پڑی ۔ یہ اشتہار بھارتی آئین میں تسلیم سبھی۲۲ شیڈولڈ زبانوں میں شائع کیا گیا تھا۔ بغور دیکھنے پر بھی کشمیر ی یا کاشرٗ زبان نظر نہیں آئی۔ بعد میں دیکھا کہ کسی نامعلوم رسم الخط میں لکھی ایک سطر کے نیچے انگریزی میں لکھا تھا کہ یہ کشمیر ی زبان ہے۔ یعنی سرکاری طور پر باضابط کشمیری یا کاشرٗ کا رسم الخط شاردا میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اب اس میں شک و شبہے کی کوئی گنجایش ہی نہیں رہی کہ ریاست جموں و کشمیر کو تحلیل کرنے کے بعد کشمیری عوام کی غالب اکثریت کے تشخص ،تہذیب و کلچر پر بھارتی حکومت نے باضابط طور پر کاری ضرب لگانے کا بھی آغاز کر دیا ہے۔پچھلے سال اگست میں ریاست کو تحلیل کرکے اس کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ بناکر اس کے آئین کو بھی منسوخ کرنے کے ساتھ ریاست کی سرکاری اور قومی زبان اردو کا جنازہ نکال دیا گیا تھا۔ اردو اب کشمیر کی سرکاری زبان نہیں ہے۔ چونکہ اس علاقے پر اب بھارت کی مرکزی وزارت داخلہ کی براہ راست عمل داری ہے، اس لیے اب جموں ،کشمیر و لداخ کی سرکاری زبان ہندی ہے۔ پچھلے سال ہی بی جے پی کے چند عہدے داروں نے ایک عرض داشت میں مطالبہ کیا تھا کہ ’’علاقائی زبانوں کا رسم الخط ہندی میں تبدیل کرکے ملک کو جوڑا جائے‘‘۔ اس کی زد میں براہ راست کشمیری (کاشرٗ) اور اردو زبانیں ہی آتی ہیں، جو فارسی۔عربی یعنی نستعلیق رسم الخط کے ذریعے لکھی اور پڑھی جاتی ہیں۔ اسی طرح چند برس قبل ایک موقعے پر بھارتی قومی سلامتی مشیر اجیت دوبال نے کہا تھا کہ ’’کشمیر مسئلہ کا حل تہذیبی جارحیت اور اس خطہ میں ہندو ازم کے احیا میں مضمر ہے‘‘۔
یاد رہے کہ پچھلے سال کشمیر میں گورنر انتظامیہ نے کشمیری ثقافتی لباس پھیرن پر پابندی لگادی تھی۔ پہلے تو اسے سیکورٹی رسک قرار دیا گیا، جس کے بعدتعلیمی و سرکاری اداروں میں عام لوگوں اور صحافیوں کے پھیرن پہن کر داخل ہونے پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔حیرت تو اس بات پر ہے کہ وزیر اعظم مودی جب بھی کسی صوبہ کے دورہ پر ہوتے ہیں، تو وہاں کے مقامی لباس و روایتی پگڑی پہن کر عوامی جلسوں کو خطاب کرتے ہیں۔ کبھی کبھی مقامی زبان کے چند الفاظ ادا کرکے عوامی رابطہ بناتے ہیں۔ لیکن ان کے ہرقدم سے معلوم ہوتا ہے کہ کشمیر یوں کے لباس و زبان سے ان کو حددرجے کا بیر ہے۔ کشمیریوں کی نسل کشی کے ساتھ کشمیر کی ثقافت کو ختم کرنا ان کے منصوبے کا حصہ ہے۔
کشمیری زبان کے رسم الخط کو قدیمی شاردا اور پھر دیوناگری میں تبدیل کرنے کی تحویز اس سے قبل دو بار۲۰۰۳ء اور پھر ۲۰۱۶ء میں بھارت کی وزارت انسانی وسائل نے دی تھی مگر ریاستی حکومتوں نے اُس کو رد کردیا۔ بی جے پی کے لیڈر اور اس وقت کے مرکزی وزیر پروفیسر مرلی منوہر جوشی نے ۲۰۰۳ءمیں تجویز دی تھی کہ ’’کشمیری زبان کے لیے دیوناگری کو ایک متبادل رسم الخط کے طور پر سرکاری طور پر تسلیم کیا جائے اور اس رسم الخط میں لکھنے والوں کے لیے ایوارڈ وغیرہ تفویض کیے جائیں۔ اس طرح کشمیری زبان کا قدیمی شاردا اسکرپٹ بھی بحال کیا جائے گا۔ سوال ہے کہ اگر کشمیری زبان کا اسکرپٹ شاردا میں بحال کرنا ہے، تو سنسکرت اور دیگر زبانوں کا قدیمی رسم الخط بھی بحال کرو۔ یہ کرم صرف کشمیری زبان پر ہی کیوں؟
وزیر موصوف نے یہ دلیل بھی دی تھی، کہ چونکہ بیشتر کشمیری پنڈت پچھلے ۳۰برسوں سے کشمیر سے باہر رہ رہے ہیں، ان کی نئی جنریشن اردو یا فارسی رسم الخط سے ناآشنا ہے، اس لیے ان کی سہولیت کی خاطر ہندی رسم الخط کو کشمیر ی زبان کی ترویج کا ذریعہ بنایا جائے۔ اس میٹنگ میں مرحوم وزیرا علیٰ مفتی محمد سعید نے مرلی منوہر جوشی کو قائل کرلیا کہ ان کے فیصلہ سے پچھلے ۶۰۰برسوں سے وجود میں آیا کشمیری زبان و ادب بیک جنبش قلم نابود ہو جائے گا۔ مجھے یاد ہے کہ کشمیری زبان کے چند پنڈت اسکالروں نے بھی وزیر موصوف کو سمجھایا کہ ’’کشمیری زبان میں ایسی چند آوازیں ہیں ، جن کو دیو ناگری اسکرپٹ میں ادا نہیں جاسکتا ہے‘‘۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ان آوازوں کو فارسی اسکرپٹ کے ساتھ ہم آہنگ کرنے میں بھی خاصی تحقیق و مشقت کرنی پڑی ہے۔ ان کو قدیمی شاردا اسکرپٹ میں بھی اب ادا نہیں کیا جاسکتا ہے‘‘۔ کشمیری زبان میں ۱۶حروف علت یا واولز اور ۳۵حروف صحیح ہیںنیز چھے ڈیگراف یا Aspirated Consonents ہیں۔ وزیر موصوف ، جو خود بھی ایک اسکالر تھے، کسی حد تک قائل ہوگئے اور یہ تجویز داخل دفتر کی گئی۔مودی حکومت نے برسرِاقتدار آنے کے بعد جب شمال مشرقی صوبہ اڑیسہ میں بولی جانے والی اوڑیہ زبان کو کلاسک زبان کا درجہ دیا، تو کشمیر کی ادبی تنظیموں کی ایما پر ریاستی حکومت نے بھی کشمیر ی زبان کو یہ درجہ دلانے کے لیے ایک یادداشت مرکزی حکومت کو بھیجی۔ فی الحال تامل، سنسکرت، کنڑ، تیلگو، ملیالم اور اوڑیہ کو بھارت میں کلاسک زبانوں کا درجہ ملا ہے۔ کلاسک زبان قرار دیے جانے کا پیمانہ یہ ہے کہ زبان کی مستند تاریخ ہو اور اس کا ادب وتحریریں۱۵۰۰سے ۲۰۰۰سال قدیم ہوں۔ اس کے علاوہ اس کا ادب قیمتی ورثے کے زمرے میں آتا ہو۔ نیز اس کا ادب کسی اور زبان سے مستعار نہ لیا گیا ہو۔ چونکہ ان سبھی پیمانوں پر کشمیر ی یا کاشرٗ زبان بالکل فٹ بیٹھتی تھی، اس لیے خیال تھا کہ یہ عرض داشت کسی لیت و لعل کے بغیر ہی منظور کی جائے گی۔ عرض داشت میں بتایا گیا تھا کہ ’’کشمیر ی زبان سنسکرت کی ہم عصر رہی ہے نہ کہ اس سے ماخوذ ہے۔ بھارت میں جہاں آجکل تاریخ کو مسخ کیا جارہا ہے، وہیں مختلف زبانوں کے ماخذ بھی سنسکرت سے جوڑے جا رہے ہیں۔ تب، مرکزی حکومت نے بتایا کہ کشمیری و اقعی کلاسک زبان قرار دیے جانے کی اہل ہے، مگر شرط رکھی کہ اس کے لیے اس کا رسم الخط سرکاری طور پر دیوناگری یعنی ہندی تسلیم کرناہوگا‘‘۔
سوال یہ ہے کہ بھارتی حکومت کشمیری زبان کے رسم الخط کو تبدیل کرنے پر کیوں اصرار کررہی ہے؟ کشمیر کے آخری تاجدار یوسف شاہ چک کی ملکہ حبہ خاتون (زون) ہو یا محمود گامی یا عبدالاحد آزاد ، غلام احمد مہجور یا مشتاق کشمیری چونکہ عام طور پر سبھی کشمیری شاعروں نے اس خطے پر ہونے والے ظلم و ستم کو موضوع بنایا ہے اور تحریک آزادی کو ایک فکری مہمیز عطا کی ہے، اسی لیے شاید ان کے کلام کو بیگانہ کرنے کے لیے زبان کے لیے تابوت بنا جا رہا ہے۔ پچھلے ۷۰۰برسوں میں علَم دار کشمیر شیخ نورالدین ولی ہو یا لل دید، رسو ل میر، وہا ب کھار یا موجودہ دو ر میں دینا ناتھ نادم ، سوم ناتھ زتشی رگھناتھ کستور، واسدیو ریہہ ، وغیرہ ، غرض سبھی نے تو نستعلیق رسم الخط کو ہی اپنے اظہار کا ذریعہ بنایا ہے۔ ۲۰۱۱ءکی مردم شماری کے مطابق وادی کشمیر اور وادی چناب میں ۸ء۶ملین افراد کشمیری زبان بولنے والے رہتے ہیں۔ آزاد کشمیر کے نیلم اور لیپا کی وادیوں میں مزید ایک لاکھ ۳۰ہزار افراد کشمیری کو مادری زبان قرار دیتے ہیں۔ علاقوں کی مناسبت کے لحاظ سے کشمیری زبان کی پانچ بولیاں یا گفتار کے طریقے ہیں۔ کسی کشمیری کے گفتار سے ہی پتا چلتا ہے کہ وہ ریاست کے کس خطے سے تعلق رکھتا ہے۔ ان میں مرازی(جنوبی کشمیر) کمرازی (شمالی کشمیر) یمرازی (وسطی کشمیر)، کشتواڑی (چناب ویلی) اور پوگلی(رام بن ) ہیں۔ جرمنی کی لیپزیگ یونی ورسٹی کے ایک محقق جان کومر کے مطابق کشمیر ی زبان آرین زبانوں کی ایک مخصوص فیملی سے تعلق رکھتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قواعد اور تاریخی جائزوںکے مطابق اس کا ایرانی یا انڈین زبانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ چونکہ سنسکرت اور کشمیری زبانیں ہم عصر رہی ہیں، اس لیے ان میں لفظوں کی ادلا بدلی موجود ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیری کو انڈو۔ داردک فیملی کے ساتھ جوڑا جا سکتا ہے۔ اس گروپ میں چترالی، شینا، سراجی، کوہستانی، گاوی اور توروالی زبانیں آتی ہیں۔ اگرچہ کشمیر کی قدیم تاریخ راج ترنگنی سنسکرت میں لکھی گئی ہے، مگر اس میں کشمیری زبان بہ کثرت استعمال کی گئی ہے۔
کشمیری وازہ وان، یعنی انواع قسم کے پکوانوں کے ساتھ ساتھ کشمیر ی زبان اور اس کا ادب بھی کشمیر کے باسیوں کی ہنرمندی اور ان کے ذوق کی پہچان ہے ۔پاکستان اور آزاد کشمیر کی حکومتوں کو اس کا نوٹس لے کر کشمیری زبان و ثقافت کے بچاؤ کی تدبیریں کرنی چاہییں۔ کم سے کم یونیسکو کے ذمہ داروں کو باور کرائیں کہ ایک زندہ قوم سے اس کی ثقافت بزور طاقت چھینی جا رہی ہے۔ اس صورتِ حال کو اُجاگر کرنے کے لیے مؤثر اقدامات کی شدید ضرورت ہے۔ ہوسکے تو دنیا کے مختلف شہروں میں کشمیری ثقافت، آرٹ، فن تعمیر و زبان کی نمایش کا اہتمام کیا جائے۔ اگر اب بھی نہ جاگے تو بے رحم تاریخ پاکستان اور آزاد کشمیر کے حکمرانوں کو کبھی معاف نہیں کرے گی:
بادِ صبا اگر بہ جنیوا گزر کنی
حرفے ز ما بہ مجلسِ اقوام باز گوے
دہقان و کشت و جوے و خیابان فروختند
قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند
[بادِ صبا اگر جنیوا کی طرف تیرا گزر ہو تو مجلسِ اقوام تک ہماری یہ بات پہنچا دینا۔ دہقان، اس کی کھیتی، ندیاں، پھولوں کی کیاریاں سب کو فروخت کر دیا۔ ساری قوم کو فروخت کر دیا اور کس قدر ارزاں فروخت کر دیا۔
بھارت میں مسلمان، دیگر مذاہب کے ماننے والے اور پسی ہوئی اقوام برہمنی فسطائیت کا سامنا کر رہے ہیں۔ ۹دسمبر ۲۰۱۹ء کو بھارتی لوک سبھا اور پھر ۱۱دسمبر کو راجیہ سبھا نے ایک نسل پرستانہ قانون منظور کیا۔ یہاں اسی مناسبت سے چھے مختصر مضامین پیش ہیں، جن سے وہاں موجودہ عوامی اُبھار کے خدوخال کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ پاکستان کے رہنے والے، بھارت کے مظلوموں اور مسلمانوں کی مدد اسی صورت میں کرسکتے ہیں کہ وہ قیامِ پاکستان کے مقاصد کی روشنی میں مضبوط پاکستان بنائیں، خالق اور خلق سے جو عہد کیا تھا اس کے تقاضے پورے کریں۔(ادارہ)
بھارت کی مشرقی ریاست بہار میں ۲۰۱۵ء کے اسمبلی انتخابات کی کوریج کے دوران، میں دربھنگہ ضلع سے نیپال کی سرحد سے ملحق علاقے مدھوبنی کی طرف رواں تھا کہ راستے میں ایک پولیس ناکہ پر گاڑی کو رکنے کا اشارہ کیا گیا۔پولیس جب تک گاڑی کی تلاشی لے رہی تھی، میں سڑک کنارے چائے کے ایک کھوکھے کی طرف چل پڑا۔ چند لمحوں کے بعد پولیس سب انسپکٹر ، جو نیم پلیٹ سے مسلمان معلوم ہوتا تھا، میرے پاس آیا، اور پوچھا کہ ’’کیا دہلی میں ایسی کوئی بات ہورہی ہے کہ انتخابات کے بعد مسلمانوں کو بھارت چھوڑ کر پاکستان جانا ہوگا؟‘‘ اس سوال پر میں چکّرا گیا، اور پوچھا کہ ’’ایسا آپ کیوں سمجھتے ہیں اور کس نے یہ افواہ پھیلائی ہے؟‘‘ اس نے جواب دیاکہ ’’میں پاس ہی ملاحوں کے گاؤں میں چند آسودہ حال مسلم گھرانوں کے محلے میں رہتا ہوں، اور حال ہی میں ایک تین منزلہ مکان تعمیر کیا ہے۔ چند روز سے گاؤں کا نمبردار مسلسل گھر آکربتا رہا ہے کہ اپنا مکان جلد فروخت کرو، انتخابا ت کے بعد کوئی دام نہیں دے گا، کیونکہ ہم کو بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں کو جلد ہی پاکستان بھگا دیا جائے گا‘‘۔ پوچھاکہ ’’آپ کا گاؤں کتنا دُور ہے؟‘‘ مجھے اب ایک بڑی اسٹوری کی بُو آرہی تھی۔ معلوم ہوا کہ گاؤں قومی شاہراہ سے ہٹ کر چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس کی معیت میں گاؤ ں کی طرف چل پڑا۔
نمبردار سے ملا تو اس نے بتایا کہ ’’ایک ہفتہ قبل مجھ کو سمستی پور شہر میں بلایا گیا تھا، جہاں پٹنہ سے ایک لیڈر آئے تھے۔ انھوں نے ایک بند کمرے کی میٹنگ میں تمام نمبرداروں کو بتایا کہ انتخابات کے بعد جب بھارتیہ جنتا پارٹی صوبے میں اقتدار میں آئے گی، تو مسلمان پاکستان جائیں گے اور ان کی جایدادیں گاؤں والوں میں بانٹی جائیں گی‘‘۔ اس سے یہ گرہ کھلی کہ نمبردار اب اپنے طور پر ان مسلم گھرانوں کے ساتھ احسان کرکے یہ یقینی بنارہا تھا، کہ ان کی جایداد انتخابات سے پہلے فروخت ہو، تاکہ پاکستان جانے سے قبل ان کو ’مناسب دام‘ مل سکیں۔
میں نے اپنا صحافت کا چوغہ اتار کر گاؤ ں والوں کو بھارتی آئین، اور اس میں اقلیتوں کو دیے گئے حقوق، بھائی چارہ وغیرہ پر تفصیلی لیکچر دیا۔ اور یہ بھی بتایا کہ دہلی میں اس طرح کی کوئی بات نہیں ہو رہی ہے، بس کوئی آپ کو ورغلا کر اپنا سیاسی اُلو سیدھا کر رہا ہے۔ ان کو یہ بھی بتایا کہ۱۹۴۷ء میں جن لوگوں کو پاکستان اور بنگلہ دیش جانا تھا وہ چلے گئے اور اب جو مسلمان یہاں ہیں، و ہ تو بھارتی شہری ہیں اور ان کو ملک سے باہر نکالنے کا کوئی سوال ہی پید ا نہیں ہوسکتا۔
مجھے یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس واقعے کے محض چار سال بعد اتر پردیش کے مظفر نگر قصبے میں ۷۲سالہ حاجی حامد حسین کو پولیس کی لاٹھیوں اور بندوقوں کے بٹ کے وار سہتے ہوئے یہ سنناپڑے گا کہ ’’پاکستان ورنہ قبرستان جاؤ‘‘۔ کلکتہ کے ڈیلی ٹیلی گراف کے مطابق حاجی صاحب قصبے کی ایک معتبر شخصیت ہیں، اور انھی کی وجہ سے علاقے میں ایک روز قبل متنازعہ شہریت قانون کے خلاف ہونے والا مظاہر ہ پُرامن طور پر ختم ہو گیا تھا۔ ان کے گھر کا فرنیچر، باتھ روم ، کچن اور عنقریب بچوںکی شادی کے لیے خریدا ہو ا سامان توڑ پھوڑ دیا گیا تھا۔ اسی طرح میرٹھ شہر میں سینیر پولیس آفیسر اکھلیش سنگھ نے مظاہر ہ کرنے والے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ ’’پاکستان چلے جاؤ‘‘۔
اترپردیش کے متعدد شہروں، قصبوں اور دُور دراز دیہات سے آنے والی خبریں نہایت ہی پریشان کن ہیں۔ ان خبروں میں پولیس تشدد کی جو تصویر سامنے آئی ہے، وہ انتہائی متعصبانہ اور ہولناک ہے۔صوبے میں ۲۵ مسلمانوں کی جانیں چلی گئیں [اور ان اموات کا سبب اس طرح رپورٹ کیا گیا ہے: سینے میں گولی لگنے سے ۶، سر میں لگنے سے ۸، کمر میں لگنے سے ایک، ماتھے پر لگنے سے ایک، گردن پر لگنے سے ۲، اور پیٹ میں گولیاں لگنے سے ۴؍افراد جان سے گئے]۔ اس کے ساتھ ہی سول انتظامیہ مسلمانوں کو نوٹس جاری کر رہی ہے کہ احتجاج کے دوران سرکاری املاک کو پہنچنے والے نقصان کو پورا کریں۔ صوبہ اترپردیش کے متعصب وزیر اعلیٰ ادتیہ ناتھ یوگی تو یہ تک کہہ چکے ہیں کہ ’’ہم مظاہرین سے بدلہ لیں گے‘‘۔
عہد رفتہ کے نوابوں کے شہر رام پور میں پتنگ بنانے والے محمد عابد دن بھر گھرپر اپنے کام میں مصروف تھے۔ شام کو گھر سے نکلتے ہی گرفتار کر لیے گئے۔ وہ اس بات سے بے خبر تھے کہ دن بھر شہر میں کیا ہو رہا تھا۔ اگلے دن ان کے گھر پرنوٹس آیا کہ پولیس کی لاٹھی، ڈنڈے اور ہلمٹ کو جو نقصان پہنچا ہے، اس کے لیے خزانہ میں ۱۴ہزار روپے جمع کروائیں۔ سو روپے سے بھی کم یومیہ کمانے والے اور وہ بھی جب کمانے والا ہی جیل میں ہو، ۱۴ہزار روپے کہاں سے لائیں گے؟ اسی طرح ۳۶سالہ یومیہ مزدور اسلام الدین ۲۱دسمبر کو اپنے گھر کے باہر دوستوں کے ہمراہ گھاس پھونس جلا کر آگ تاپ رہا تھا کہ پولیس نے گرفتار کرلیا، اور کہا کہ شہر میں پولیس کی گاڑیوں اور بسوں کی جو توڑ پھوڑ ہوئی ہے اس کا جرمانہ ادا کریں، ورنہ ان کی جایداد ضبط کرکے نیلام کی جائے گی۔
سکرول انڈیا کے مطابق نہٹور کے نیزا سرائے میں ۵۵ سالہ رفیق احمدنے پولیس کے کہنے پر لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے عوام سے امن برقرار رکھنے اور گھر جانے کی اپیل کی۔ پُرامن لوگ واپس گھر جانے لگے تو آنسو گیس کے گولے اور لاٹھیاں ان کے سر سے ٹکرانی شروع ہوگئیں۔ حالانکہ کسی نے کوئی پتھر نہیں پھینکا تھا، اس کے باوجود پولیس نے لاٹھی چارج کیا۔ کیرانہ سے کانگریس کے سابق ممبر پارلیمنٹ سعید الزماں صدیقی کے بیٹے نے بتایا کہ ’’پولیس نے ہماری چارکاریں بلاجواز نذر آتش کر دیں۔ ٹی وی چینل این ڈی ٹی وی ہندی کے سوربھ شکلا کا کہنا ہے کہ مظفر نگر میں پولیس نے توڑ پھوڑ کرنے سے قبل سی سی ٹی وی کیمرے توڑ دیے۔ مگر اس کے باوجود بہت سی ویڈیوز ایسی بھی منظر عام پر آ رہی ہیں، جن میں نظرآرہا ہے کہ لوگ پُرسکون انداز میں چل رہے ہیں اور پولیس اچانک پیچھے سے لاٹھی چارج کرنے لگتی ہے۔ کہیں لوگ سڑک کے کنارے کھڑے ہیں اور پولیس انھیں پکڑ کر زدوکوب کررہی ہے۔ دو پولیس اہلکار ایک شخص کا ہاتھ پکڑے ہوئے ہیں، اور پولیس کے دو افراد اسے لاٹھیوں سے پیٹ رہے ہیں۔پولیس کی ایسی درندگی کی ویڈیوز واٹس ایپ میں گشت کر رہی ہیں، جنھوں نے خوف و ہراس پھیلا دیا ہے ۔ لکھنؤ سے گرفتار ہونے والوں میں دیپک کبیر تھیٹر اداکار بھی شامل ہیں۔ وہ اپنے دوستوں کے بارے میں پتا کرنے کے لیے تھانے گئے تو انھیں بھی گرفتار کرکے ان پر قتل اور فساد بھڑکانے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ سابق سینیر پولیس افسر ایس آر داراپوری اور ۷۶سالہ انسانی حقوق کے کارکن محمد شعیب کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔ کانگرسی رہنما صدف جعفرکو بھی پتھراؤ کے جرم میں گرفتار کیا گیا ہے۔ پولیس سپرنٹنڈنٹ، لکھنؤ ایسٹ کے بقول: ’’ہم نے انھیں فساد کرتے ہوئے موقع سے گرفتار کیا ہے ‘‘۔
لکھنؤ میں انگریزی اخبار دی ہندو کے صحافی عمر راشد کو پولیس نے ایک ریسٹورنٹ سے حراست میں لیا۔ نئے شہریت قانون کے خلاف مسلمانوں کے علاوہ شمال مشرق کے سبھی صوبے سراپا احتجا ج ہیں۔ وہاں کئی جگہوں پر حکمران بی جے پی کے دفاتر اور لیڈروں کے گھر بھی جلائے گئے، مگر سزا صرف مسلمانوں کو ہی دی گئی ہے۔ چند سال قبل دہلی کے متصل ہریانہ میںنوکریوں میں کوٹہ کے مسئلے پر جاٹوں نے ریلوے اسٹیشن، شاپنگ مال، پولیس اسٹیشن اور ایک وزیر کے گھر تک کو آگ لگاکر راکھ کر دیا۔ مگر کس کی ہمت تھی کہ ان کو گرفتار کرے، یا پیلٹ گن سے ہی ان کے ہجوم کو منشر کرے، یا ان سے معاوضہ طلب کرے ؟ تاہم، مسلمان کے لیے یہ سب تعزیریں موجود ہیں۔
آج بھارت کی شاہین صفت گھریلو اور پڑھی لکھی مسلم خواتین حجاب کی پاس داری کے ساتھ کچلی پسی قوم کا ہراول دستہ ہیں۔ دہلی کے شاہین باغ سے لے کر پٹنہ، ارریہ ، مدھوبنی، الٰہ آباد کے روشن باغ، سیلم پور، خوریجی، ذاکر نگر، کولکاتہ، کوٹہ، پونے، یعنی پورے بھارت میں مسلم خواتین سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے خلاف تحریک میں وہ تاریخی کردار اداکررہی ہیں، جس نے حکمران پارٹی کے کیمپ میں کھلبلی مچا دی ۔
یوں تو ان باہمت اور بہادر خواتین میں تمام ہی مذاہب کی خواتین شامل ہیں ، مگر سچی بات یہ ہے کہ مسلم خواتین کا حوالہ اس لیے زبان زدعام ہوا ہے کہ اس تحریک کی ابتدا انھوں نے ہی کی ہے۔ ان کے بیٹوں اور بیٹیوں کو جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں پیٹا گیا، مظفرنگر، کانپور، فیروز آباد، بجنور میں ان کے سروں میں گولیاں ماری گئیں اور داخلِ زنداں کیاگیا۔ پھر یہ ہوا کہ وہ ایک ایسے کالے قانون کے خلاف میدان میں ڈٹ گئیں، جو ان سے اور ان کی اولاد سے اس ملک میں، اور جہاں وہ پیدا ہوئے، شہریت چھیننے کا شیطانی منصوبہ ہے۔ _یہ شاہین صفت مسلم خواتین آج اسی مودی کے خلاف ہیں، جس نے ’طلاق ثلاثہ‘ کے معاملے پر کہا تھا: ’’مسلم خواتین کا استحصال بند ہونا چاہیے اور انھیں انصاف ملنا چاہیے‘‘۔ یہ مسلم خواتین آج مودی سے سوال کررہی ہیں کہ کیا ’استحصال‘ سے ’نجات‘ اور ’انصاف‘ دلانے کا مقصد ان پر اس ملک کے دروازے بند کرنا، انھیں یہاں سے دربدر کرنا تھا؟ اور وہ جواب بھی دے رہی ہیں کہ ’’ہم کاغذ نہیں دکھائیں گے‘‘۔
شاہین باغ دہلی سے شروع ہونے والی خواتین کی اس تحریک کا تاریخ میں ذکر سنہرے حروف میں کیا جائے گا۔ سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر کے خلاف تحریک طلبہ نے شروع کی، پھر خواتین سامنے آئیں، اور آج یہ تحریک جسے جمہوریت اور آئین کے تحفظ کی تحریک بھی کہاجاسکتا ہے، سارے ملک میں طلبہ اور خواتین ہی کے دم سے جاری ہے۔ مودی بوکھلائے ہوئے ہیں، اس لیے کہ انھوںنے اس سے پہلے خواتین کی طاقت نہیں دیکھی ہے۔ شاہین باغ کی شاہین صفت خواتین نے جو تحریک شروع کی ہے، اس نے ساری دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی ہے۔ شاہین باغ کی تحریک نے مودی کے فسطائی ایجنڈے کو اس طرح عیاں کردیا ہے کہ ساری دنیا اس پر نفرت بھیج رہی ہے۔
اب کوشش یہ ہے کہ شاہین باغ کی شاہین صفت خواتین کی تحریک کو کسی طرح سے کمزور کیا جائے بلکہ ختم کردیاجائے۔ اس کےلیے مسلمانوں میں جو نفاق پرور ہیں ان کی بھی مدد لی جارہی ہے۔ میناکشی لیکھی نے کھلے طو رپر دھمکی دی ہے، اور عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا جارہا ہے۔ آج ۱۴جنوری کو دہلی ہائی کورٹ نے پولیس سے کہہ دیا ہے کہ یہ قانون کا معاملہ ہے۔ وہ اپنے طورپر شاہین باغ کی خواتین کو ہٹائے۔ پولیس اس کی تیاری کررہی ہے۔ ممکن ہے کہ ان بہادر خواتین پر لاٹھی ڈنڈے برسائے جائیں۔ اب جو بھی ہو، یہ وہ باہمت خواتین ہیں، بقول اسرارالحق مجاز: جنھوں نے ’آنچل کو پرچم‘ بنالیا ہے اور مودی کے ’استحصال‘ اور ’انصاف‘ کے ’جھوٹ‘ کو ان کے منہ پر دے مارا ہے۔ اگر وہ جبراً ہٹائی گئیں تو بھی ’فاتح‘ وہی رہیں گی اور یہ زعفرانی سرکار ہمیشہ ہمیشہ تاریخ میں ظالم اور جابر کے طو رپر ہی جانی جائے گی۔
ہمارے ہاں کہا جارہا ہے کہ ابتدا میں انڈین نیشنل کانگریس میں شامل رہنے والے محمدعلی جناح پر ہندوؤں سے متعلق ایک بلاجواز خوف غالب ہوا۔ اس لیے ۱۹۲۸ء کے کل جماعتی اجلاس میں انھوں نے چودہ مطالبات پیش کیے۔ لیکن اب [۹۱برس گزرنے کے بعد] ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کا یہ خوف بڑی حد تک صحیح ثابت ہوا ہے۔ پھر گذشتہ ۷۲برسوں کے دوران بھارت میں ان مسلمانوں پر جو ۱۹۴۷ء سے یہیں پر مقیم ہیں، مسلسل دباؤ ڈالا گیا۔ بجاے اس کے کہ تحریک ِ آزادی میں انڈین نیشنل کانگریس کے وعدے کے مطابق مذہب کو ملک کے نظام سے علیحدہ رکھا جاتا، تاریخ کے اوراق پر بھارت قطعی طورمسلمانوں کے خلاف رہا۔
بھارتی دستور مملکت کی دفعہ ۴۸ میں ’’گائے، بچھڑے یا دودھ دینے والے دیگر جانوروں کے ذبیحے پر پابندی عائدہے‘‘ اور یہ پابندی جو بزعم خود ’جدید سائنس‘ کےمفاد میں قرار دی گئی تھی، لیکن اسے ہندو راشٹر کے لیے ایک ہتھیار کے طورپر استعمال کیا گیا۔ اس آئینی اختیار کی بنیاد پر کئی ریاستوں میں گائے کا گوشت (beef) بیچنے کی اجازت نہیں ہے اور اس طرح سے بیف کھانے والے لاکھوں بھارتیوں پر ان کے پسند کے کھانے پینے کی آزادی پر قدغن لگادی گئی ہے۔
وزیراعظم نہرو نے ایک اور قدم آگےبڑھایا۔ بجاے اس کےکہ شہریوں کے لیے ایک معیاری قانون لاگو کیا جاتا، انھوں نےہندو ایکٹ قائم کیا۔ مزیدیہ کہ مندروں کو حکومت کی تحویل میں دے دیا گیا جو ان کی دیکھ بھال کرتی اور بعض اوقات انھیں فنڈز بھی فراہم کرتی۔ اسی طرح بابری مسجد کا انہدام ممکن نہیں ہوتا اگر اس کے پس پردہ بالخصوص کانگریسی حکومتوں کی چشم پوشی نہ ہوتی۔ اس انہدام سے متعلق سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد کوئی شبہہ باقی نہیں رہا کہ ہندو راشٹر کے اہداف کو جواز بخشنے کے لیے املاک کے حقوق کو بدلا بھی جاسکتا ہے۔ سب سے زیادہ چشم کشا حقیقت تو بھارتی مسلمانوں کی معاشی ومعاشرتی صورت حال ہے۔ گویا کہ یہ ثابت کیا جارہا ہے کہ’’ تمام ہوشیار اور ذہین مسلمان تو پاکستان چلے گئے ہیں، اس لیے ہمارے ملک کے تمام اہم عہدوں کے لیے یہاں رہنے والے مسلمانوں کے لیے اب کوئی جگہ نہیں ہے‘‘۔ گویا بھارتی مسلمان غیر معیاری قرار دے دیے گئے ہیں۔ اس لیے وہ ملک کے بڑے عہدوں کے اہل نہیں ہیں۔ سچر کمیٹی نے انکشاف کیا ہے کہ انڈین افسر شاہی میں محض۲ اعشاریہ ۵ فی صد مسلمان ہیں۔ اسی طرح اگر جموں و کشمیر لائٹ انفنٹری کو الگ رکھا جائے تو دفاعی فورسز میں بھارتی مسلمانوں کی شمولیت محض ۲ فی صد ہے، جب کہ دفاعی فورس میں اعلیٰ مسلم افسران کی شرح تو اس سے بھی کم ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ’اکنامک ٹائمز انٹیلی جنس گروپ‘(ETIG) کے ایک جائزے کے مطابق بھارت کی سب سے بڑی ۵۰۰کمپنیوں میں ڈائریکٹروں اور سینئر ایگزیکٹوز کے عہدوں پر محض ۲ء۶ فی صد مسلمان فائز ہیں۔
اس ضمن میں مجھے وہ چار روزہ نیشنل ریفارم کانفرنس یاد آرہی ہے، جو میں نے بابا رام دیو کے پتن جالی ہیڈ کوارٹرز پر اپریل۲۰۱۳ ء میں منعقد کی تھی۔ اُس وقت ہم ایک نئی سیاسی جماعت (سورنا بھارت پارٹی) بنانے کے لیے مشترکہ طور کام کر رہے تھے۔ اس کانگریس میں ملک بھر کی ۱۰۰ معروف شخصیات بشمول سابق وائس چانسلر اورسابق جرنیل موجود تھے۔ اس کانگریس کے حوالے سے میرا مقصد مجوزہ پارٹی کے منشور کو پیش کرنا اور کچھ نئے تصورات حاصل کرنا تھا۔ اجلاس میں کئی آر ایس ایس اراکین اور حمایتی بھی موجود تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں کو دفاعی شعبے میں اعلیٰ عہدوں سے نکال باہر کیا جائے۔ کیونکہ ان کاخیال تھا کہ پاکستان کے ساتھ جنگ کی صورت میں دفاعی شعبے میں اعلیٰ عہدوں پر فائز مسلمان دغا کریں گے۔
میں نے اس خوف ناک تجویز کو مسترد کر دیا اور یہ اچھا ہی ہوا کہ رام دیو اور میں نے اپنی راہیں جدا کر لیں۔ مگر یہ صرف آرایس ایس نہیں بلکہ کئی ممتاز بھارتی ہندو اُن مسلمانوں کے حوالے سے جانب دار ہیں، جن کے زندگی میں آگے بڑھنے کے ذرا سے بھی امکانات ہیں۔ ویسے بھی پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی شرح ہمیشہ مسلم آبادیوں کے تناسب سے بہت کم رہی ہے۔ لیکن بی جے پی نے نیا ریکارڈ قائم کرلیا کہ اس کے ۳۰۳ ممبران پارلیمنٹ میں صرف ایک مسلم رکن ہے۔
یہ اعداد و شمار اپنے آپ میں بہت کچھ بیان کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ مجوزہ ہندو راشٹرمیں مسلمان واقعی دوسرے درجے کے شہری ہوں گے، لیکن ’شہریت ترمیمی ایکٹ‘ پاس کر کے اس کے لیے قانونی راہ ہموار کرلی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’شہریت ترمیمی ایکٹ‘ بھارت کی تاریخ میں ایک انتہائی اہم واقعہ بن گیا ہے اور یہ ایکٹ کئی لحاظ سے پریشان کن ہے۔ اس میں سماجی مہاجرین اور معاشی مہاجرین میں فرق ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔
سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ اس ایکٹ میں فوری شہریت کے حصول کے لیے مذہب کو اہمیت دی گئی ہے۔ شہریت دینے سے انکار کرنے کے لیے اتنا کافی ہے کہ ’’آپ مسلمان ہیں‘‘۔ بھارت کے قانون میں اسلام کو سرکاری طور پر تنزل یافتہ قرار دیا گیاہے۔ مسلمانوں کو سرکاری طور پر بتایا گیا ہے کہ ان کا مذہب بھارت میں قابل قبول نہیں ہے۔ پولیس انھیں احتجاج کے لیے جمع ہونے کی اجازت بھی نہیں دیتی۔ظاہر ہے کہ دوسرے درجے کے شہری جمہوری حقوق کی توقع کیسے رکھ سکتے ہیں؟ اتر پردیش میں جب وہ صداے احتجاج بلند کرتے ہیں تو ان پر گولی چلائی جاتی ہے اور ان کی املاک ضبط کی جاتی ہیں۔ وزیر اعظم مودی تو مظاہرین کے کپڑوں کو دیکھ کر ان کی شناخت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
صاف ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے حوالے سے یہی طے پایا گیا ہے کہ انھیں پہلے زخم دو اور پھر ان کی تذلیل بھی کرو۔ بھارتی مسلمانوں کے بارے میں مودی کا کھیل کیا ہے؟ وہ کیا چاہتے ہیں؟ اس بارے میں بی جے پی کے منشور سے تو کچھ زیادہ معلومات نہیں ملتی ہیں۔ لیکن ہمیں مسٹرمودی کی مادری تنظیم (آر ایس ایس) اور ان کے گورو گولوالکر سے صاف صاف جوابات ملتے ہیں، اور وہ مسلمانوں کو ملک دشمن تصور کرتے ہیں: ’’انھوں نے نہ صرف ہماری زمین کے دوبڑے ٹکڑے حاصل کیے ہیں جہاں وہ مکمل طور پر حکومت کر رہے ہیں اور ہمارے باقی ماندہ ملک کو فتح کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں، بلکہ وہ یہاں اچھی خاصی تعداد میں بطور چھپے دشمن کے رہ رہے ہیں‘‘۔
یہی گولوالکرجب جوان تھے تو وہ نازی طرزِ عمل کے گرویدہ تھے۔ ان کا کہنا ہے:’’اپنی نسل کی پاکیزگی اور اس کے کلچر کو برقرارکھتے ہوئے ملک کو سامی نسل، یعنی یہودیوں سے پاک کرکے جرمنی نے پوری دنیا کو جھٹکا دیا، تو ہندستان کے لیے اس سے سیکھنے اور استفادہ کرنے کا ایک اچھا سبق ہے‘‘۔ تاہم، جب انھیں احساس ہوا کہ نسل کشی کرنا آسان نہیں ہوگا، ان کے لیے دوسرے درجے کی شہریت کو قابل عمل سمجھا اور کہا: ’’ہندستان میں غیر ملکی نسل کو یا توہندو مذہب کا احترام کرنا سیکھنا ہوگا، یا ہندو نسل میں ضم ہو جانا ہوگا، یا پھر ملک میں ہندو قوم کا مکمل طور پر تابع دار بن کر رہنا ہوگا۔ وہ کسی چیزکا مطالبہ نہ کریں اور نہ کسی قسم کی مراعات کے مستحق ہوں گے۔ یہاں تک کہ انھیں شہریت کے حقوق بھی حاصل نہیں ہوں گے‘‘۔ مسلمانوں کے لیے گولوالکر کی ہدایات واضح تھیں: ’’واپس آجاؤ پہناوے اور رسومات کے حوالے سے اپنے اجداد کی شناخت اپناؤ‘‘۔ گویا مسلمان اگر بھارت میں رہنا چاہتے ہیں تو انھیں اپنے مذہب کو ترک کرنا ہوگا۔
مودی حکومت کے لیے اب صرف ایک ہی راستہ باقی رہ گیا ہے اور وہ یہ کہ مسلمانوں کو دبانا بند کر دے، ان کے مذہب میں ہر قسم کی مداخلت کو ختم کر دے (بشمول شہریت ترمیمی ایکٹ، مندر کے مالکانہ حقوق اور حج سبسڈی)، اور تمام بھارتیوں کوقانون کے مطابق یکساں حقوق فراہم کرے۔(ٹائمز آف انڈیا، ۲جنوری ۲۰۲۰ء)
۴۵ برس کے محمد ابراہیم علی کی آنکھیں نم ہیں۔ وہ بار بار اپنے ٹوٹے ہوئے مکان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ وہ آنکھوں سے آنسو پونچھتے ہوئے کہتے ہیں: ’’میں یہاں تیج پور سے ایک مسجد میں نماز پڑھانے کے لیے بطور امام آیا تھا اور یہیں بس گیا۔ میں یہاں کی مسجد میں نماز پڑھاتا ہوں۔ پچھلے سات، آٹھ برسوں سے مسلسل تھوڑی تھوڑی رقم جمع کرکے زمین خریدی اور یہ مکان تعمیر کیا۔ لیکن ۵ دسمبر۲۰۱۹ءکو میرے اس آشیانے کو یہ کہتے ہوئے کہ مسمار کر دیا گیا کہ ’’میں بنگلہ دیشی ہوں‘‘۔
یہ کہانی صرف ابراہیم علی کی نہیں ہے بلکہ کم و بیش یہی کہانی آسام کے سونت پور ضلع کے ۴۲۶ خاندانوں کی ہے، جن کے مکان یہی کہتے ہوئے زمیں بوس کر دیے گئے کہ وہ بنگلہ دیشی ہیں۔ اب ان خاندانوں کے تقریباً ڈھائی ہزار سے زیادہ افراد شدید سردی کے موسم میں کھلے آسمان تلے بنے عارضی کیمپوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔ سونت پور کے مکوا، سیرووانی اور بیہیا گاؤں کے کیمپ اس بے بسی اور تباہی کی گواہی دے رہے ہیں۔ ان کیمپوں میں زیادہ تر لوگ ڈیگولی چپوری، بالی چپوری، لالٹوپ، باٹی ماری بھیروی اور لنگی بازار گاؤں کے رہنے والے ہیں۔ ان کیمپوں میں رہنے پر مجبور کیے گئے شہریوں کا دعویٰ ہے کہ ’’ہمارے پاس اپنی اپنی زمینوں اور ہندستانی شہریت کو ثابت کرنے والی تمام دستاویزات موجود ہیں۔ اس کے باوجود مقامی بی جے پی کے رکن اسمبلی پدما ہزاریکا نے ہمارے گھروں کو اس لیے منہدم کروا دیا کہ اس بستی کے مسلمانوں نے بی جے پی کو ووٹ نہیں ڈالے تھے‘‘۔ ڈیگولی چپوری کے محمدابراہیم علی آنسو پونچھتے ہوئے کہتے ہیں: ’’ان لوگوں نے ہمارے کچّے مکانوں پر ہاتھی چلوا دیا، اور پکے مکانوں پر بلڈوزر چلائے گئے۔ ساتھ میں پولیس فورس کی ایک بڑی تعداد بھی موجود تھی۔ ہمیں کچھ بھی بولنے یا کاغذ دکھانے کا موقع نہیں دیا گیا‘‘۔ ابراہیم علی کہتے ہیں: ’’میں اور میرے باپ دادا سب یہیں آسام میں پیدا ہوئے ہیں۔ این آر سی لسٹ میں ہمارا نام تو پہلی مردم شماری۹۵۱ ۱ میں بھی تھا، اور اس بار کے بھی این آرسی میں موجود ہے۔ میرے پاس تمام دستاویز ہیں، پھر بھی نہ جانے کس بنیاد پر مجھے بنگلہ دیشی بتا رہے ہیں‘‘۔
۶۵ سالہ کسان اکاس علی نے گاؤں میں چھوٹے سے مکان کی تعمیر میں اپنی پوری زندگی کا سرمایہ لگا دیا۔ وہ اس پیرانہ سالی میں ایک عارضی کیمپ میں اپنے ساتھ ایک لال پوٹلی لیے پریشان پھر رہے ہیں۔ اس پوٹلی میں ان کے ہندستانی شہری ہونے کے تمام کاغذات موجود ہیں۔ انھوں نے خواہش ظاہر کی کہ ہم ایک بار چل کر ان کا بھی گھر دیکھ لیں۔ چنانچہ ہم اپنے دورۂ آسام کے بیچ ان کے ساتھ ان کے باٹی ماری بھیروی گاؤں پہنچے۔ جیسے ہی انھوں نے اپنا تباہ شدہ گھر دیکھا تو ڈبڈبائی آنکھوں کو پونچھتے ہوئے بولے: ’’میرا آبائی گاؤں سیلاب میں بہہ جانے کے بعد ۱۵سال سے زیادہ عرصہ ہوا، میں یہاں رہ رہا ہوں۔ میں آسام کا ایک حقیقی شہری ہوں اور این آر سی میں بھی میرا نام شامل ہے۔ میرا قصور یہ ہے کہ میں سوتیا اسمبلی حلقہ میں جہاں میرا گاؤں پڑتا ہے وہاں ایک ووٹر کے طور پر رجسٹرڈ نہیں ہوں۔ میرے ووٹ کا اندراج پڑوسی انتخابی حلقے میں ہے۔ ایم ایل اے پدما ہزاریکا نے انتظامیہ کی ملی بھگت سے مجھے اور ہم جیسے ۴۰۰ سے زیادہ خاندانوں کو صرف اس وجہ سے علاقے سے باہر نکال دیا کہ ہم نے انھیں ووٹ نہیں دیا۔ اس کارروائی کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ بی جے پی یہاں ہندو بنگالیوں کو آباد کرنا چاہتی ہے‘‘۔
طہورہ خاتون کی بھی یہی کہانی ہے۔ وہ چپ چاپ خاموشی سے اپنے تباہ کردہ گھر کی طرف نظریں ٹکائے ہوئی ہیں۔ کئی بار سوال کرنے کے بعد وہ آسامی زبان میں بتاتی ہیں کہ ’’میرا ووٹ سونت پور میں درج ہے۔ بی جے پی اُمیدوار کو ووٹ نہیں دیا تو اس نے میرا گھر اُجاڑ دیا‘‘۔ اسی کیمپ میں ۶۰ سالہ واحد علی نے بتایا کہ ان کا گھر اس سے قبل نوگاؤں میں تھا اور میں ۱۲ سال پہلے یہاں آیا تھا۔ اسمبلی حلقہ سے بی جے پی اُمیدوار نے میرا مکان گرا دیا ہے کیونکہ میں نے اس کو ووٹ نہیں دیا تھا‘‘۔ کھلے آسمان تلے کیمپ میں مقیم خواتین اور بچوں میں سخت غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ خواتین کا کہنا ہے کہ: ’’ہمیں ہمیشہ یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں ریاستی اسمبلی کے لوگ ان کیمپوں میں گھس کر ان کی عزت پر بھی حملہ نہ کردیں‘‘۔
ضیاء الرحمان سے جب پڑھائی کا پوچھا تو اس نوجوان نے سخت غصّے میں کہا: ’’ہم کیمپ میں کیسے تعلیم حاصل کریں گے؟ ہمیں بنگلہ دیشی کا ٹھپہ لگا کر بے گھر اور بے زمین کر دیا گیا ہے، ہم اسکول جانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ یہاں تو یہ بھی نہیں پتا کہ زندگی کیسے گزرے گی؟ ہم میں زیادہ تر لوگ خود کشی کے بارے میں سوچنے لگے ہیں۔ ہمارے گھر ہم سے چھین لیے گئے۔ پہلے قریب کے گاؤں میں کام مل جاتا تھا، لیکن جب سے حکومت این آر سی اور نیا قانون (شہریت ترمیمی ایکٹ) لے کر آئی ہے، ہم سب بیکار پڑے ہیں‘‘۔
آٹھویں میں پڑھتی سمون نشا ڈاکٹر بننا چاہتی ہے۔ لیکن اب اس کے لیے اسکول کی تعلیم ختم ہوگئی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ’’اسکول کیمپ سے بہت دور ہے۔ اب کیسے جا سکیں گے؟‘‘ اسی طرح نیہا آٹھویں جماعت میں پڑھتی ہے ، اس نے بتایا کہ: ’’اسکول میں سب مجھے بنگلہ دیشی سمجھتے ہیں‘‘۔ یوں ان بچوں پر تعلیم کے دروازے بند ہوگئے ہیں۔
دوسری جانب ان بچوں کے والدین کو وہاں سے بے گھر کر دیا گیا ہے، اگرچہ ان تمام لوگوں کے پاس اس زمین سے متعلق دستاویزات موجود ہیں۔ اس کی طرف متوجہ کرنے پر ڈپٹی کمشنر منویندر پرتاپ سنگھ کہتے ہیں: ’’اگر ان کے پاس دستاویز ہے تو انھوں نے یہ زمین غیر قانونی قبضہ کار سے خریدی ہے، کیونکہ یہ ایک سرکاری اراضی ہے‘‘۔ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا وجہ ہے کہ: ’’صرف چند منتخب مکانات کو چُن چُن کر منہدم کیا گیا ہے، جب کہ ان کے بالکل بازو کے مکانات محفوظ ہیں۔ کیا یہ سرکاری اراضی نہیں ہے؟‘‘ اس سوال کا کوئی مناسب جواب نہیں ملا۔
جماعت اسلامی ہند سے وابستہ سماجی کارکن اشفاق حسین کا کہنا ہے کہ ’’پہلے تو یہ بیچارے قدرتی آفات کا شکار ہوئے۔ جیا بھرولی ندی نے ان کی زمین اپنے اندر سمو لی اور اب حکومت کے کارندے ان سے ان کی زمینیں چھین رہے ہیں۔ کسی کے ساتھ اس سے زیادہ نا انصافی اور کیا ہوسکتی ہے۔ یہاں کا ہر فرد جانتا ہے کہ یہ جیا بھرولی ندی لوگوں کی زمین کس طرح چھینتی ہے‘‘۔ اشفاق حسین نے مزید بتایا کہ ’’اگر یہ لوگ واقعی بنگلہ دیشی ہیں تو حکومت کو فوری طور پر انھیں پکڑ کر بنگلہ دیش بھیجنا چاہیے۔ اور اگر وہ نہیں بھیج رہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہندستانی ہیں۔ ایسے میں حکومت کو ان کے لیے رہایش کا بندوبست کرنا چاہیے۔ جبری پناہ گزیں کیمپوں میں رہنے کی وجہ سے ان کے بچے تعلیم سے محروم ہورہے ہیں۔ پھر سوال یہ بھی ہے کہ وہ کب تک کیمپ میں قیام پذیر رہیں گے؟ ایک بار بارش شروع ہونے کے بعد تو وہ کیمپ میں رہنے کے لائق بھی نہیں رہیں گے‘‘۔
جماعت اسلامی ہند سے وابستہ ادارے یہاں کے تین کیمپوں میں لوگوں کو ریلیف کا سامان فراہم کر رہے ہیں۔سماجی کارکن عبدالقادر کہتے ہیں، ’’سونت پور ضلع کا سوتیا اسمبلی حلقہ ایک مثال ہے کہ کس طرح سے آسام میں مسلمانوں کو حکومت کے ذریعے دبایا جا رہا ہے؟ کس طرح سے مسلمانوں کے انسانی حقوق پامال کیے جارہے ہیں اور کس طرح سے حکومت ہندوتوا ذہنیت کو بڑھاوا دے رہی ہے؟‘‘ ۲۶ برس کے شاہ جمال کہتے ہیں: ’’اصل مسئلہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں اتحاد نہیں ہے۔ اس علاقے کے کچھ مسلمان یہاں کے رکن اسمبلی پدما ہزاریکا کے ساتھ بی جے پی میں ہیں۔ لیکن وہ یہ بھول گئے ہیں کہ آج ان کے گھروں کو گرایا گیا ہے، کل ان کا نمبر بھی آئے گا‘‘۔
مسلم بستیوں کو اجاڑنے کی اطلاع ملنے پر ۲۲ دسمبر کو جماعت اسلامی ہند کے مرکزی سکریٹری محمد احمد نے آسام کے ان علاقوں کا دورہ کیا، اور بے دخل کیے گئے سبھی خاندانوں سے ملاقات کی اور متاثرین کو ہرممکن مدد کی یقین دہانی کرائی۔ جماعت اسلامی ہند اَپر آسام ڈویژن کے اشفاق اللہ حسین اور بذل الباسط چودھری بھی ان کے ساتھ تھے۔ جماعت کی ٹیم نے ان علاقوں کا بھی دورہ کیا جہاں متاثرہ خاندان کے گھر تھے اور جنھیں منہدم کر دیا گیا ہے۔ ٹیم کی جمع کردہ معلومات سے پتا چلا کہ یہ لوگ آسام ہی کے شہری ہیں اور ان کے نام بھی این آر سی میں شامل ہیں۔ متاثرین نے بتایا کہ’’ صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے ہمارے ساتھ متعصبانہ رویہ اپنایا جا رہا ہے اور ہر طرح سے پریشان کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے‘‘۔
یہ غریب مسلمان قدرتی آفات اور نفرت کی مار ایک ساتھ جھیل رہے ہیں۔ یہ مجبور و بے کس کھلے آسمان تلے اپنے دن کاٹ رہے ہیں۔ سرپر منڈلاتے خطرات اور مستقبل کے اندیشے ان کی زندگیوں پر مہیب سایے بن کر چھائے ہوئے ہیں۔
این آر سی کے خلاف اور حمایت میں فی الحال پورے بھارت میں مہمات چل رہی ہیں۔ اسی کے ساتھ جواہر لال نہرو یونی ورسٹی (جے این یو) میں دہشت گردی اور اس میں آر ایس ایس کی فسطائی طلبہ تنظیم اے بی وی پی (ABVP:اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد) کے ملوث ہونے کے ثبوت ذرائع ابلاغ کی زینت بننےلگے ہیں۔ ان دونوں واقعات کے زیر اثر ملک میں سیاسی رجحان ایک خاص انداز میں بدل رہا ہے۔ اس کو وارانسی کی سنسکرت یونی ورسٹی کے انتخابات اور ممبئی میں گیٹ آف انڈیا پر ہونے والے غیر معمولی مظاہرے کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔
اترپردیش میں بی جے پی کا جلاد صفت یوگی اقتدار پر قابض ہے۔ جس نے ابھی حال میں مظاہروں کو کچلنے کی نا کام کوشش کی اور ہار گیا۔ ساتھ ہی ساتھ مودی، یوگی اور امیت شا ایسی قانون سازی سے ہندو عوام کا دل جیتنے میں جٹے ہوئے تھے۔ مہم اپنے شباب پر پہنچی تو وارانسی میںواقع سنسکرت یونی ورسٹی کے اندر طلبہ یونین کا انتخاب ہوا، جس میں اے بی وی پی کو منہ کی کھانی پڑی۔ کانگریس کی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس یونین آف انڈیا نے اے بی وی پی کو چاروںشانے چت کر دیا۔ ان انتخابات میں خود ہندو طلبہ نے سنگھیوں کی چتا جلائی کیونکہ سنسکرت تو شاید ہی کوئی مسلمان پڑھتا ہے۔
بنارس ہندو یونی ورسٹی میں پروفیسر فیروز خان کا تقرر زعفرانی طلبہ کو اس قدر ناگوار گزرا کہ وہ ہنگامے کرنے لگے۔ حالانکہ یونی ورسٹی انتظامیہ نے ضروری ٹیسٹ اور انٹرویو لینے کے بعدہی پروفیسر صاحب کو یہ عہدہ دیا تھا، جنھوں نے ۲۰۱۸ء میں سنسکرت میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔سنگھی طلبہ کا الزام تھا کہ ہماری تہذیب سے بیگانہ شخص ہمیں اور ہمارے مذہب کو کیسے سمجھے گا؟ راجستھان کے پروفیسر فیروز خان نے بتایا ’’جب میں نے سنسکرت کی تعلیم لینی شروع کی تو کسی نے اس پر انگلی نہیں اٹھائی۔ میرے محلے میں ۳۰ فی صد آبادی مسلمانوں کی ہے۔ خودمسلم مذہبی پیشواؤں نے بھی میری سنسکرت کی تعلیم پر کوئی اعتراض نہیں کیا اور نہ مسلم سماج نے بھی مجھے کبھی سنسکرت سے دُور رہنے کے لیے کہا‘‘۔ یعنی اپنی رواداری کا ڈھول پیٹنے والے ہندو سماج کے مقابلے میں کہیں زیا دہ مسلمان معاشرہ کشادہ دل، روشن خیال اور روادار ہے۔
سنسکرت یونی ورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے انتخابی نتائج میں اترپردیش کے اندر ٹھاکروں کی دادا گیری کے خلاف بیزاری کا اظہار ہے۔ اترپردیش کے یوگی راج میں خوف و دہشت کے ماحول کو سمجھنے کے لیے یہ بات کا فی ہے کہ انتخابی نتائج کے بعد یونی ورسٹی وائس چانسلر نے منتخب طلبہ کو کامیابی کا جلوس نکالنے سے اجتناب کرنے کا مشورہ دیا۔ یہی کامیابی اگر اے بی وی پی کے حصے میں آتی تو کیا وائس چانسلر یہ مشورہ دینے کی جرأت کرتے؟ اور اگر اعلان ہو بھی جاتا، تو کیا سنگھی طلبہ ان کی بات پر کان دھرتے؟
ہندستان کے اندر برہمنوں کی سب سے بڑی آبادی اترپردیش میں رہتی ہے۔ صوبے کے ۲۰ کروڑ باشندوں میں ۱۰ فی صد یعنی ۲ کروڑ برہمن ہیں۔ ایک عرصے تک یہ لوگ کانگریس میں رہ کر اقتدار میں رہے۔ بی جے پی بنیادی طور پر شہروں کی پارٹی ہے۔ گذشتہ انتخاب میں اس نے ممبئی، پونے، ناگپور، احمدآباد، سورت، بڑودہ اور دہلی کی ساری سیٹیں جیت لی تھیں۔ اس کی بڑی وجہ ان شہروں کا نوجوان طبقہ ہے جو مودی کے پیچھے ہلکان ہوا جا رہا تھا لیکن مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ اور دہلی کی جے این یو اور جامعہ ملیہ نے نقشہ بدل دیا۔ اس تشدد کے خلاف ملک بھر کے دیگر مقامات کے ساتھ ان شہروں میں بھی احتجاج ہوا ۔ ممبئی میں اگست کرانتی میدان پر ہونے والے مظاہرے کو غیرمعمولی کامیابی ملی۔ اس میں غیر مسلم نوجوانوں کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔ اس کے بعد آزاد میدان پر بھی نوجوانوں کا احتجاج بہت کامیاب ہوا۔ گیٹ آف انڈیا کا ۴۰گھنٹوں تک گھیراؤ تو ایک ناقابلِ تصور واقعہ تھا، اور اسی طرح باندرہ کے کارٹر روڈ پر ہزاروں لوگوں کا سڑک پر آجانا حیرت انگیز تھا۔ ان تمام مظاہروں کی قیادت نوجوان کر رہے تھے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اب یہ طبقہ بی جے پی کے نسل پرستانہ سحر سے نکل رہا ہے اور اس کو سبق بھی سکھانا چاہتا ہے۔
مہاراشٹر میں بی جے پی کے خلاف پس ماندہ طبقات میں بڑھتا اضطراب ایک بڑی لہر کا پتا دے رہا ہے۔ بی جے پی والوں نے پہلے مسلمانوں پر ہجومی تشدد کیا اور اس کے بعد یہ معاملہ دلتوں تک جاپہنچا ہے۔ آگے چل کر اشتراکیوں کو نشانہ بنایا گیا ہے اور اب یہ لڑائی پارٹی کے اندر پس ماندہ ذاتوں تک پہنچ گئی ہے۔ مہاراشٹر کے دیہات میں یہی طبقات بی جے پی کی قوت کا سرچشمہ ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اس فسطائی جماعت نے بیک وقت پورے سماج کے خلاف نسلی جنگ چھیڑ دی ہے۔
یہ ۱۹۷۸ء کی بات ہے کہ ایران میں اور پھر ۲۳برس بعد ۲۰۱۱ء میں عرب ملکوں، تیونس، مصر اور لیبیا کے عوام اپنے ہاں جابر حکومتوں کے خلاف انقلاب کے پرچم لے کر اُٹھ کھڑے ہوئے۔ انھوں نے حکومتوں کا تختہ اُلٹ دیا۔ کہیں یہ انقلاب کامیاب ہوا اور کہیں دنیا کی بڑی طاقتوں کی سازش اور خلیجی ملکوں کی پشت پناہی سے یہ انقلاب اپنے مقاصد حاصل نہ کرسکا۔ جو منظر ان عرب ممالک میں چند سال پہلے دیکھنے میں آیا تھا، وہی منظر اب بھارت میں دیکھنے میں آرہا ہے ، جس کے طول وعرض میں احتجاج کی لہر اُٹھ رہی ہے۔ یونی ورسٹیوں کے طلبہ اور خواتین کا اس میں قائدانہ کردار ہے۔
حدیث نبویؐ کی روشنی میں انسان کو نہ تو ظالم ہونا چاہیے اور نہ مظلوم۔ ظلم کا مقابلہ کرنا ایک دینی قدر ہے۔ جو نوجوان حکومت کے ظلم کو روکنے کے لیے کھڑے ہوئے ہیں، وہ قابل قدر ہیں۔ ہرخاص و عام میں یہ احساس پختہ تر ہے کہ اگر اس وقت مزاحمت نہ کی گئی، تو اس ملک میں اقلیتوں کو لوحِ ایام سے مٹا دیا جائے گا ۔ پھر نہ مسجدیں رہیں گی، نہ گرجے اور نہ مدرسوں کا وجود باقی رہے گا۔ ہجومی تشدد، جے شری رام کے نعرے، تین طلاق کا قانون ،دفعہ ۳۷۰ اور ۳۵-اےکی منسوخی، بابری مسجد، اور اب شہریت کے قانون میں ترمیم کا ایکٹ، یہ سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتاجارہا ہے۔ اگر ظلم کی اس سیاہ رات کے خلاف پوری طاقت سے عوام نہیں کھڑے ہوں گے تو اس ملک کو ایک نیا اسپین اور ہندو راشٹر بنانے کا خواب پورا ہو گا ۔
اس منظر نامے کی ایک قابلِ ذکر خاص بات یہ ہے کہ معروف علما یا مذہبی قیادت کا کردار اس میں قائدانہ نہیں ہے۔ جب پورا ملک احتجاج کے نعروں سے گونجنے لگا تو پھر کچھ علما جو پہلے بی جے پی کی بولی بول رہے تھے، وہ بھی نئے قوانین کے خلاف لب کشا ہوئے۔ حالانکہ ظلم اور ناانصافی کی مخالفت میں پہلی آواز تو انھی کی بلند ہونی چاہیے تھی۔ جیساکہ شاہ بانوکیس میں احتجاج منظم کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے تحریک خلافت اور بھارت چھوڑو تحریک میں علما نے بڑے بڑے احتجاج منظم کیے تھے۔ ایران اور پھر بہار عرب کی قیادت دینی شخصیات نے کی تھی۔ بعدازاں اس میں وہ لوگ بھی شامل ہوگئے ،جو اپنے ملکوں میںاستبدادی نظام کو پسند نہیں کرتے تھے۔ لیکن دنیا کی بڑی طاقتوں کو پسند نہیں تھا کہ عرب اور مسلم ملکوں میں جمہوریت آئے ،شریعت کا نفاذ ہو، اور استبدادی نظام کا خاتمہ ہو ۔ دولت مند خلیجی ملک بھی اپنی اپنی حکومتوں کو بچانے کے لیے ردِ انقلاب کی کوششوں کے ساتھی بن گئے۔ ہزاروں مسلمانوں کا خون بہا اور انقلاب کی کوشش ناکام ہوگئی ۔
بھارت کی موجودہ احتجاجی تحریک یونی ورسٹیوں کے طلبہ و طالبات جرأت مندانہ اور سرفروشانہ انداز میں چلارہے ہیں۔ اس سے حکومت کو اندازہ ہوا کہ مسلمانوں کا مذہبی طبقہ بھی حکومت کا ہم نوا نہیں ہے۔ مگر اس کے ساتھ یہ افسوس ناک آثار موجود ہیں کہ کچھ مؤثر علما اس احتجاج کو بھی محض ایک سیاسی کام سمجھتے ہیں۔یہ چیز اس بات کی علامت ہے کہ طبقۂ علما میں ایک تعداد ایسے لوگوں کی موجود ہے جو بصیرت اور اندیشۂ فردا سے محروم ہے۔ ظلم کے خلاف کھڑاہونا ایک دینی قدر ہے۔ ایک حدیث مبارکہ میں ہے: اِنَّ النَّاسَ ا ِذَا رَأَوْا الظَّالِمَ فَلَم یَأْخُذُوْا عَلٰی یَدَیْہِ اَوْشَکَ اَن یَّعُمَّہُمُ اللہُ بِعِقَابٍ مِنْہُ [الترمذی، ابواب الفتن، حدیث:۲۱۴۵] ’’ لوگ ظالم کو دیکھیں اور اس کا ہاتھ نہ پکڑیں، توقریب ہے کہ اللہ ان سب کو اپنے عذاب میں لپیٹ لے‘‘۔
بھارت میں ۷۰ ہزار کروڑخرچ کرکے این آر سی، یعنی رجسٹریشن کا قومی ترمیمی قانون لایا گیاہے۔ جس کے ذریعے بنگلہ دیش سے آئے ہوئے ۵ لاکھ ہندووں کو ہندوستانی شہریت دی جائے گی اور تقریباً اتنی ہی تعداد میں بنگلہ دیش سے آئے ہوئے مسلمانوں کو نظربند کیمپوں میں رکھا جائے گا یا ان کو ملک بدر کردیا جائے گا ۔ شہریت ثابت کرنے کے لیے وہ دستاویز طلب کی جائیں گے، جن کا مہیا کرنا تقریباً ۲۵ فی صدی آبادی کے لیے مشکل ہوگا۔ اگر وہ مسلمان نہیں ہیں تو ان کو شہریت مل جائے گی، اور مسلمان ہیں تو ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ جب قانون کا یہ طبلِ جنگ بجا تو کم نظر مسلم قیادت اپیل کرتی رہی،’’ مسلمان شہریت کا دستاویزی ثبوت تیار رکھیں‘‘۔ایسی تیرہ و تار فضا میں سب سے پہلے جامعہ ملیہ، پھر علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی اور ساتھ ہی جواہر لال نہرو یونی ورسٹی (جے این یو) اور دیگر یونی ورسٹیوں کے طلبہ نے بیداری اورزندگی کا ثبوت دیا ہے۔ اقبال نے کہا تھا ’’ جوانوں کو پیروں کا استادکر‘‘۔ ان شاہین صفت بچوںنے سال خورد عقابوں کو جینے کا سلیقہ سکھایا ہے، جن کو اپنا اور مسلمانوں کا مستقبل عزیز ہے ۔شاہین باغ کی مسلم خواتین نے بھی فسطائیت کے خلاف اس جنگ میں حصہ لیا ہے ۔
مسلمان نوجوان طلبہ، غیر مسلم قائدین کو بھی ساتھ لے کر میدان میں آگئے کہ اُمید کے چراغ بجھنے لگے تھے۔ انھوں نے نوجوانوںکی شیرازہ بندی کی، اور انصاف پسند ہم وطنوں کو ساتھ لیا۔ ایک طرف نوجوانوں کا عزم جواں ہے، دوسری طرف ظلم وستم کا کوہ گراں ہے۔ اس صورتِ حال میں ایمان، تقویٰ اور صبر، تینوں سے مل کر کامیابی کا راستہ نکلتا ہے۔
قرآن کریم سے اور سیرت نبویؐ کے مطالعے سے دین کا جومزاج سامنے آتا ہے، وہ یہ ہے کہ ’’صرف مسلمانوں کی اصلاح کی فکر نہیں ہونی چاہیے بلکہ تمام بنی نوع انسان کی عاقبت بخیر ہونے کی فکر کی جانی چاہیے‘‘۔ مسلمانوں کو خیر امت اس لیے کہا گیا تھا کہ ان کو تمام بنی نوع انسان کے لیے مبعوث کیا گیا تھا: اُخْرِجَتْ لِلْنَّاسِ۔ لیکن بیش تر علما نے اپنے خطبات میں معنوی اور عملی تحریف کرڈالی اور اسے اُخْرِجَتْ لِلْمُسْلِمِیْنَ کا مترادف سمجھ لیا ۔تمام انبیاے کرامؑ کے بارے میں آیا ہے: وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ لِيُبَيِّنَ لَہُمْ۰ۭ [ابراہیم ۱۴:۴، ہم نے اپنا پیغام دینے کے لیے جب کبھی کوئی رسول بھیجا ہے ، اس نے اپنی قوم ہی کی زبان میں پیغام دیا ہے، تاکہ وہ قوم کے سامنے حق واضح کریں]۔
آج، جب کہ ہزاروں مدارس سے بڑی تعداد میں علما تیار ہوتے ہیں، اور وہ صرف مسلمانوں کو خطاب کرنے کے لائق ہیں۔ مسلمانوں کی جماعتیں بھی صرف مسلمانوں کے درمیان کام کرتی ہیں اور ملک کے دوسرے لوگوں سے ان کا رابطہ ٹوٹا ہوا ہے ۔علما کو بھارت کے ۲۰ کروڑ مسلمانوں کی بہت فکر ہے مگر ۱۰۰کروڑ سے زیادہ اللہ کی مخلوق کی کچھ فکر نہیں۔ ایک شخص کے تین بیٹے ہوں: ایک صحت مند ہو (مسلمان کی تمثیل)،دو بیمار ہوں ( کافر اور مشرک)، تو کیا اس کے لیے درست ہوگا کہ وہ بیمار بیٹوں کے علاج کی فکر نہ کرے اور ان سے لاپروا ہوجائے۔ یقین کرنا چاہیے کہ آج جو حالات پیش آرہے ہیں، وہ ہماری صدیوں کی غلطیوں کاشاخسانہ ہیں۔ ہمارا انداز اور طرزِ فکر مزاج نبویؐ سے مطابقت نہیں رکھتا۔ علماے دین کی بڑی تعداد اس بنیادی طرزِ فکر سے دُور ہے۔اس وقت عام بھارتیوں تک دین کی دعوت پہنچانے سے پہلے ان کو خدمت خلق یا کسی اور عنوان سے اسلام اور مسلمانوں سے مانوس کرنے کی ضرورت ہے۔اس مقصد کے لیے عمومی رابطے اور حُسنِ سلوک کے ذریعے اِدْفَعْ بِالَّتِيْ ہِىَ اَحْسَنُ [المؤمنون ۲۳:۹۶] کا تصور جاگزیںکرنا چاہیے کہ مسلمان اچھا شہری ، اچھا پڑوسی، ایک اچھا انسان ہوتا ہے، شریف، خوش اخلاق اور مہذب۔ ہم نے یہ کام صدیوں سے نہیں کیا ہے۔ اس لیے دشمن عناصر کو یہ موقع مل گیا کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کازہر لوگوں کے رگ وپے میں اتار دے۔
شہریت ترمیم ایکٹ کے خلاف احتجاج بہت خوش آیند ہے۔ البتہ سب سے اہم کام یہی ہے کہ عام لوگوں کی غلط فہمیاں دُور کی جائیں۔ ہرمسلمان تنظیم کو چاہیے کہ اس مقصد کے لیے اپنے یہاں شعبہ قائم کرے۔ اگر یہ طویل مدتی منصوبہ دوسرے مختصر مدتی منصوبوں کے ساتھ اختیار نہیں کیا گیا، تو بھارت میں مسلمان دوسروںکے ظلم وستم ہی کا ماتم کرتے ر ہیں گے۔ جن ملکوں میں مسلمان ۸۰،۹۰ فی صدی اکثریت میں ہوں وہاں اس ناقابلِ فہم غفلت کے ساتھ گزارا ہوسکتا ہے، لیکن جہاں چاروں طرف غیر مسلموں کا عددی غلبہ ہو، وہاں غیرمسلموں کو نظرانداز کرنا انبیائی طریقۂ دعوت نہیں ہے ۔اگر یہ ضروری کام نہیں انجام پایا تو منزلِ مقصود حاصل نہ کی جاسکے گی ۔