افتخار گیلانی


ویسے تو جموں و کشمیر کو تقسیم کرنے والی خونی لکیر، یعنی لائن آف کنٹرول پر ۲۰۰۸ء کے بعد ہی سے توپوں اور مارٹرز کی گھن گرج جاری تھی، مگر ۲۰۱۹ء میں پلوامہ اور بالا کوٹ پر فضائی حملوں کے بعد اس میں خاصی شدت آگئی تھی۔ اب ۲۵فروری ۲۰۲۱ءکو جس طرح اچانک بھارت اور پاکستان کے ڈائرکٹر جنرل ملٹری آپریشنز لیفٹیننٹ جنرل پرم جیت سنگھ سانگھا اور میجر جنرل نعمان زکریا نے بندوقوں کو خاموش کرنے کا اعلان کیا۔ یہ اقدام خوش آیند، مگر حیران کن اور خدشات سے بھرا پڑاہے۔

اس سے قبل بھارت اور چین نے بھی لداخ خطے کی پنگانگ جھیل سے فوجیوں کا انخلا کرکے چھے ماہ سے جاری کشیدگی کو لگام دی۔ لائن آف کنٹرول کی خاموشی سے درہ حاجی پیر سے اکھنور تک کے علاقے میں رہنے والی ایک بڑی آبادی نے سکون کا سانس لیا ہے۔ پچھلے دوبرسوں سے شدید گولہ باری کی وجہ سے بیش تر کسان یاتو نقل مکانی یا بنکروں میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے تھے۔ یہ علاقے اکھنور، بشنہ، سانبہ، ہیرا نگراور کھٹوعہ، باسمتی چاول کی کاشت کے لیے مشہور ہیں۔ فائر بندی، تنازعے کو کنٹرول (Conflict Management ) کرنے میں کسی حد تک کارگر ہوسکتی ہے اور اگر اسے Conflict Resolution  (تنازعہ کو حل کرنے) کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا، تو ایسے اہتمام دیرپا ثابت نہیں ہوتے۔ پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب کبھی نئی دہلی کے حکمرانوں پر عالمی دبائو پڑتا ہے، تو وہ کسی ایسے اقدام کا اعلان کرکے سبزباغ دکھاتے ہیں، جو بعد میں سراب ثابت ہوتا ہے۔ پاکستانی اور کشمیری رہنما کئی بار اس سراب کے شکار ہو چکے ہیںاور گھڑی کی سوئیوں کی طرح واپس اسی مقام تک پہنچتے ہیں، جہاں سے سفر شروع کیا تھا۔

ملٹری افسران کی طرف سے فائربندی کے اعلان سے صرف ایک روز قبل بھارتی فوج کے سربراہ جنرل ایم ایم ناراوا نے دہلی میں ایک سیمی نار کے دوران بڑے اعتماد سے کہا تھا: ’’پاکستان کے ساتھ مسلسل رابطے سے ہی کسی افہام و تفہیم تک پہنچا جا سکتا ہے۔ کیونکہ غیرمتعین سرحدوں کا ہونا کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے۔ بھارت اپنی سرحدوں پر امن و سکون چاہتا ہے، چاہے و ہ مغربی سرحد ہو یا جنوبی سرحدیں ہوں یا میانمار سے لگی سرحد ہو‘‘۔ ان کے اس بیان سے ان افواہوں اور تجزیوں کو تقویت ملتی ہے کہ یہ فائر بندی کوئی اچانک فیصلہ نہیں تھا، بلکہ اس کے لیے اچھا خاصا   پس پردہ کام کیا گیا تھا۔ اگرچہ یہ بھی حقیقت ہے کہ دونوں ملکوں کے یہ فوجی افسران ہر ہفتے منگل کی دوپہر کو ہاٹ لائن پر بات کرتے ہیں۔

 ایک ما ہ قبل پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی کہا تھاکہ ’’وقت آگیا ہے کہ سبھی اطراف سے امن کے ہاتھ آگے بڑھائے جائیں‘‘۔ اسی کے ساتھ کورونا وائرس سے نپٹنے کے لیے سارک کے پلیٹ فارم پر ہونے والے آن لائن اجلاس میں پاکستانی مندوب نے بھی شرکت کی، جنھیں وزیر اعظم نریندر مودی نے مخاطب کیا۔ سکھوں کے لیے کرتار پور راہداری کھولنے کے علاوہ بھی پاکستانی فوج کے سربراہ کئی برسوں سے اس طرح کے پیغامات دے رہے تھے، مگر نئی دہلی کے حکمران ٹس سے مس نہیں ہو رہے تھے۔ پلوامہ اور بالاکوٹ کے بعد ایک قدم اور آگے جاکر انھوں نے بنیادی تنازعہ جموں و کشمیر ریاست کو ہی دولخت کرکے اس کی نہ صرف خصوصی آئینی پوزیشن کالعدم کردی، بلکہ کشمیری عوام کی زبان و کلچر کو ختم کرنے اور ان کی آبادیاتی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے بھرپور سامان بھی مہیا کرنے شروع کر دیے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پچھلے دوبرسوں کے دوران جنرل باجوہ کے سبھی بیانات کو نظرانداز کرکے ، اب اس وقت ان کی امن سعی کا جواب کیوں دیا گیا؟

کئی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ۲۰۱۶ء کے اوڑی اور بعد میں ۲۰۱۹ء کے پلوامہ حملوں کے بعد جس طرح بھار ت نے دنیا بھر میں پاکستان کو الگ تھلگ کرنے کی کوشش کی تھی، وہ ناکام ہوگئی ہے ۔ ۲۰۱۶ء میں پاکستان میں جنوبی ایشیا، یعنی سارک سربراہان مملکت کے ہونے والے اجلاس کا نہ صرف بھارت نے بائیکاٹ کیا، بلکہ بنگلہ دیش، افغانستان، بھوٹان، سری لنکا اور مالدیپ کو بھی تنبیہ کی گئی کہ وہ اس کانفرنس میں شرکت کے لیے یا پاکستان کے ساتھ یک جہتی دکھانے کے نام پر قطعی طور پر اسلام آباد نہ جائیں۔

پاکستان کو الگ تھلگ کرنے کے لیے سارک کے اندر کئی ذیلی گروپ بھی بنائے گئے۔ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے سری لنکا کے حالیہ دورہ نے بھارت کی اس پالیسی کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی ادارہ ایف اے ٹی ایف میں بھارت کی ایما پر گو کہ پاکستان کو ’گرے لسٹ‘ (مشکوک فہرست)میں رکھا گیا ہے۔ بڑی کوشش کے باوجود اس کو ’بلیک لسٹ‘ (مجرم فہرست)میں دھکیلنے میں بھارت ناکام رہا ہے۔ ابتدا میں جب بھارت نے پورا زور لگاکر ترکی اور ملائیشیا کو اس کے لیے معاف نہیں کیا تھا کہ وہ پاکستان کی حمایت میں آگے بڑھے تھے۔ دو سال قبل ایک اہم شخصیت نے مجھے دہلی میں کہا تھا کہ: ’’پاکستان کی حمایت پر ترک صدر رجب طیب اردوان کو معاف نہیں کیا جائے گا‘‘۔ اسی دوران چین کے ساتھ چپقلش کے بعد بھارت کو اندازہ ہو گیا ہے کہ وہ دومحاذوں پر جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔

دوسری طرف اگست ۲۰۱۹ءکو جموں و کشمیر میں کیے گئے بھارتی اقدامات کے خلاف پاکستان نے عالمی برادری سے جس طرح کی حمایت کی امید کی تھی، وہ پاکستان کی داخلی سیاسی کش مکش اور سفارتی حلقوں کی بے توجہی کے باعث پوری نہیں ہوسکی۔ بھارت کے ان اقدامات کے بعد پاکستان نے بھارتی سفیر کو اسلام آباد سے نکلنے کا حکم دے کراور دہلی سے اپنے سفیر کو واپس بلا کر سخت پیغام دے کر بھارت پر دبائو ڈالنے کی کوشش کی۔ دوسری طرف عالمی برادری دونوں ایٹمی ملکوں کے درمیان باضابطہ جنگ سے خوف زدہ تو ہے، مگر تنازعے کو سلجھانے کے بجائے جوں کی توں پوزیشن پر ہی گزارا کرنے کے لیے دونوں ملکوں کو آمادہ کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ اس دوران بھارت نے جو بریفنگ عالمی برادری کو یا دہلی میں مقیم سفیروں کو دی، اس میںاس موقف کا اعادہ کیا گیا کہ ’’وہ مسئلہ کشمیر کو گراس روٹ ڈیموکریسی اور ترقی کے ماڈل کے ذریعے حل کرنا چاہتا ہے اور اس میں پاکستان ایک رکاوٹ ہے‘‘۔ وہ ان ممالک کو یہ باور کروانے میں کامیاب نظر آتا ہے کہ کشمیر کو اگر کنٹرول نہ کیا گیا تو وہاں عالمی دہشت گرد تنظیمیں اپنا اثر بڑھا کر اس کو شام، یمن اور افغانستان کی راہ پر ڈال دیں گی۔

       ہوسکتا ہے کہ فائر بندی کے اس فیصلہ سے لائن آف کنٹرول کے آس پاس زندگی کی رونقیں معمول کی طرف لوٹ آئیں ۔ مگر خاص طور پر۲۰۰۸ء، ۲۰۱۰ء اور پھر ۲۰۱۶ء میں کشمیر کی سڑکیں یہ پیغام دے چکی ہیں کہ معمول کی زندگی یا سرحدوں پر خاموشی امن کا نام نہیں ہے۔ عوام اب زیا دہ دیر تک اس کیفیت کے ساتھ جینا نہیں چاہتے ہیں۔ ۲۰۰۳ء اور ۲۰۲۱ء کے سیز فائر میں ایک بنیادی فرق ہے۔ نومبر ۲۰۰۳ء میں جب دونوں ممالک سیز فائر پر آمادہ ہوگئے، تو سیاسی قیادت کے بیانات سے اتنا تو ادراک ہو رہا تھا کہ یہ ایک مثبت قدم کا آغاز ہے، جو مسئلے کو حل کرنے پر منتج ہوگا۔ دونوں ممالک نے اس کے بعد گفت و شنید کا سلسلہ بھی شروع کیا، اور اس کے نتیجے میں بھارتی وزیراعظم واجپائی، سارک کے سربراہ اجلاس میں اسلام آباد میں شریک ہوئے تھے۔ ان کا یہ دورہ صدر جنرل پرویز مشرف کے نو نکاتی فارمولا کی بنیاد بن گیااور اس کے نتیجے میں لائن آف کنٹرول کے آر پار بس سروس اور تجارت کے لیے راہداری کھل گئی۔ مگر حالیہ فائر بندی کے متعلق کشمیر میں خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ’’یہ کہیں بجائے خود ہی اختتا م تو نہیں ہے‘‘۔

ہوسکتا ہے کہ ۲۰۰۳ءکی ہی طرز پر یہ قدم بھی اسلام آباد میں اس سال سارک سربراہ کانفرنس منعقد کروانے میں معاون ثابت ہو۔ مگر واجپائی یا من موہن سنگھ کی طرح نریندرا مودی کا کشمیر پر کسی پیش رفت کرنے کی یقین دہانی بھی کرانا فی الحال ناممکن نظرآرہا ہے۔ اگر وہ ایسا کرتے بھی ہیں، تو کیا وہ اپنی پارٹی اور ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کو اس پر آمادہ کرواسکیں گے؟۲۰۱۴ء کہ جب سے مودی نے اقتدار سنبھالا ہے، انھوں نے پارٹی کے دیگر رہنماؤں و وزیروں کے لیے کسی بھی عہدے پر براجمان رہنے کے لیے ۷۰سال کی عمر کا پیمانہ بنایا اور چند ایک کو چھوڑ کر سختی کے ساتھ عمل بھی کروایا۔ اب ان کی اپنی عمر ۷۰سال سے تجاوز کررہی ہے۔ کیا آر ایس ایس اب ان کو برسر اقتدار رہنے دے سکتی ہے، جب کہ انھوں نے ایل کے ایڈوانی، مرلی منوہر جوشی ، سمترا مہاجن سمیت متعدد لیڈروں کو ان کی عمر کی وجہ سے ریٹائر کروایا ہے؟ کیا ان کا جانشین ان کے ذریعے کسی پیش رفت کے وعدے کا ایفا کر سکے گا؟

نئی دہلی میں اب یہ خبریں بھی گشت کر رہی ہیں کہ حالیہ ضلعی ترقیاتی کونسل کے انتخابات میں ناکامی کے بعد حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران اب ریاست کی ایک اور تقسیم کے خواہاں ہیں۔ اب جموں ڈویژن کو بھی الگ کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں۔ ان کا خیا ل ہے کہ جموں ڈویژن کے مسلم اکثریتی پیر پنچال اور وادی چناب میں بی جے پی کی شکست کی وجہ ان علاقوں کا وادیٔ کشمیر کے ساتھ رابطہ ہے۔ کرگل کو بھی اسی وجہ سے وادیٔ کشمیر سے الگ کرکے بودھ اکثریتی علاقہ لہیہ کے ساتھ نتھی کیا گیا۔ بی جے پی کے لیڈروں کا پہلے خیال تھا کہ حدبندی کمیشن کے ذریعے جموں کے ہندو علاقوں کی اسمبلی سیٹوں میں اضافہ کرکے ا ن کو وادیٔ کشمیر کے برابر کیا جائے۔ مگر جب اس کمیشن کی سربراہ جسٹس رنجنا ڈیسائی نے بتایا کہ ’’وادیٔ کشمیر کی آبادی جموں سے ۱۰لاکھ زیادہ ہے‘‘، تو یہ شوشہ چھوڑا گیا کہ ’’حد بندی آبادی کے حساب سے نہیں بلکہ رقبے کی بنیاد پر ہونی چاہیے‘‘۔ اسی وجہ سے فی الحال حد بندی کمیشن کی میعاد ایک سال اور بڑھادی گئی ہے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق وادیٔ کشمیر کی آبادی ۶۸لاکھ  ۸۸ہزار ۴ سو ۷۵ ہے، جب کہ جموں میں۵۳ لاکھ ۷۸ ہزار ۵سو۳۸  نفوس رہتے ہیں۔ جموں کا رقبہ ۲۶ہزار ۲سو ۹۳ مربع کلومیٹر ہے، جب کہ وادیٔ کشمیر کا رقبہ  ۱۵ہزار ۹ سو ۴۸ مربع کلومیٹر ہے۔

بھارت اور پاکستان کے درمیان جب بھی تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوتی ہے، اس کا خمیازہ ریاست جموں وکشمیر کے عوام بالخصوص سرحدی آبادیوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔کرگل سے حاجی پیر درہ تک کنٹرول لائن کے علاقے تو سرینگر میں مقیم صحافیوں اور سول سوسائٹی کی دسترس سے بھی دُور رہتے ہیں۔ اس لیے ان علاقوں میں عوام پر کیا بیتتی ہے، بہت کم ہی باہر کی دنیا کے علم میں آتا ہے۔ کیا کشمیر میں بھارت اور پاکستان کی سرحدوں میں بٹے عوام یک جا نہیں ہوسکتے ؟کیا یہ خونی لکیر مٹ نہیں سکتی؟ کیا یہ فوجیوںکے جمائو اور فائرنگ کے تبادلوں کے بدلے میں امن اور استحکام کی گزرگاہ نہیں بن سکتی ؟ کیا بھارت اور پاکستان بنیادی مسائل پر توجہ مرکوز کرکے ان کوعوام کی خواہشات کی بنا پر حل کرکے کیوں امن کی راہیں تلاش نہیں کرسکتے؟ امید ہے کہ یہ فائر بندی مسئلہ کشمیر کو سردخانے میں ڈالنے کے بجائے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اس مسئلے کو حل کروانے کی طرف ایک قدم ہوگا۔

جب نوّے کے عشرے میں مَیں نے صحافت کی وادی میں قدم رکھا تو دہلی سے سری نگر واپسی کے دوران جموں شہر میں اکثر رُک جاتا تھا، جس کی ایک بڑی وجہ کشمیر ٹائمز کے ایڈیٹر وید بھسین، دانش ور بلراج پوری، کرشن دیو سیٹھی اور اوم صراف سے ملاقات تھی۔ ان مشاہیر کے ساتھ چند منٹ کی ملاقات، تاریخ کے ایسے دریچے کھول دیتی، جو سیکڑوں کتابیں پڑھنے پر بھی نہیں کھل سکتے تھے۔ جی چاہتا یہ ملاقات جلد ختم نہ ہو۔ اس قافلے کے آخری فرد کرشن دیو سیٹھی اس سال فروری میں ۹۳سال کی عمر میں جموں میں انتقال کرگئے۔ وہ پہلی جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی کے واحد بقیدِ حیات رکن تھے۔ وید بھسین اور سیٹھی مصلحتوں کو خاطر میں نہیں لاتے تھے،اسی لیے وہ اکثر حکومت کے عتاب کا شکار رہتے تھے۔ دونوں بھارت نواز ہونے کے باوجود کشمیر میں استصواب رائے کے حامی تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’اگر استصواب ہوتا ہے تو ہم بھارت کے حق میں ووٹ ڈالیں گے، مگر صرف اس بنیاد پر کہ غالب آبادی بھارت کو تسلیم نہیں کرے گی، ان کے حق رائے دہی کو دبایا نہیں جاسکتا‘‘۔

سیٹھی صاحب ۱۹۲۸ء میں آزاد کشمیر کے شہر میر پور میں پیدا ہوئے۔ ۱۵سال کی عمر میں انھوں نے ڈوگرہ حکومت کے جاگیر دارانہ نظام کے خلاف علَم بغاوت بلند کیا۔ وہ اپنی تربیت کے حوالے سے سردار بدھ سنگھ، راجا محمد اکبر خان، مولانا عبداللہ ، حاجی عبدالرحمان اور حاجی وہاب الدین جیسے مقامی لیڈروں کے احسان مند تھے۔ وہ زمانہ جب جموں میں اور خاص طور پر آزاد کشمیر میں شعوری طور پر یہ کوشش کی جا رہی تھی کہ ریاست جموں و کشمیر کے نجات دہندہ کے طور پر ڈوگرہ حکمران مہاراجا گلاب سنگھ اوران کے جانشین راجوںکو تاریخ کا ہیرو بناکر پیش کیا جائے، تو کرشن سیٹھی   اس پر خاصے آزردہ تھے۔ انھوں نے اس روش کے خلاف آوازاٹھائی ۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ڈاکٹرکرن سنگھ اور ان کے کاسہ لیس متواتر یہ کوشش کرتے آئے ہیں، تاکہ ان کے آبائو اجداد کو ہیرو اور خود انھیں، ان کا وارث قراردے کر اس خطے میں جاگیر دارانہ نظریات کااحیا کیا جائے‘‘۔ سیٹھی کا کہنا تھا کہ ’’جب گلاب سنگھ نے جموں کے عوام سے بے وفائی کرکے جبر وتشدد کے ذریعے جموں و کشمیر کی ریاست میں اقتدار حاصل کیا اور ان کے لواحقین نے جانشین بن کر جاگیر دارانہ لوٹ کھسوٹ کی، تو بھلا ایسے بدنما اور سفاک پس منظر کے حامل راجے کو جموںکا ہیروکیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟ ‘‘

تواریخ بیان کرتے ہوئے وہ کہتے تھے کہ ’’جب راجا رنجیت سنگھ نے پیش قدمی کرکے جموں کو فتح کرنے کی کوشش کی تو یہاں اس کی زبر دست مزاحمت ہوئی اور لاہور دربار کے خلاف زبردست گوریلا جنگ لڑی گئی۔ گلاب سنگھ نے رنجیت سنگھ کی فوج میں ملازمت اختیار کرکے مزاحمتی لیڈر میاں ڈیڈو اوردوسرے کئی سرفروشوں کو قتل کیا اور اس غداری کے عوض ڈوگرہ گلاب سنگھ کو جموں کی باج گزار ریاست عطا ہوئی۔ جس نے سکھ دربار کو خوش کرنے کے لیے جسروٹہ، بلاور، بسوہلی،بھمبر، ٹکری، کرمچی،کشتواڑ، بھدرواہ، سراج، کوٹلی، راجوری، پونچھ ، میر پور اور دوسرے علاقوں کے راجگان کے سرقلم کیے یا انھیں ملک بدرکیا۔سبز علی خان اور مالی خان کی کھالوں میں بھوسہ بھرکر درختوں کے ساتھ لٹکایا گیا۔ تاہم، راجا رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد جب سکھ سلطنت کا زوال شروع ہوا اور انگریزوں نے پنجاب پر یلغار کی تو جموں کا یہ ’ہیرو‘ انگریزوں سے مل گیا۔   اس ’خدمت خاص‘ کے عوض اور ۷۵ لاکھ روپے نانک شاہی رقم، جو انگریزوںنے تاوانِ جنگ متعین کیا تھا، اس کی ادائیگی کرکے’ بیع نامہ امرتسر‘ کے ذریعے کشمیر کا صوبہ راجا گلاب سنگھ نے حاصل کیا۔ اس کے بعد جموں کے اس ڈوگرہ خانوادے نے جموں وکشمیر کے عوام کے ساتھ جو سلوک کیا، وہ تاریخ کے گھنائونے باب کی صورت میں رقم ہے‘‘۔ کرشن سیٹھی کا کہنا تھا کہ ’’جموں کے اصل ہیرو تو میاںڈیڈو، کیسری سنگھ، پونچھ کے راجا علی خان، سبز علی خان، شمس خان، بھمبرکے راجا  سلطان خان وغیرہ اَن گنت لوگ ہیں، جنھوں نے اپنی آزادی کی حفاظت کی خاطر جانیں دیں‘‘۔

کرشن سیٹھی، ۱۹۴۷ء کے خونیں واقعات کے چشم دید گواہ تھے ۔ وہ اس وقت میر پور جیل میں نظر بند تھے، کہ ایک ہجوم نے جیل پر حملہ کرکے قیدیوں کو آزاد کروایا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’جموں میں مسلم کش فسادات کروانے میں راجا ہری سنگھ اور اس کے وزیر اعظم مہر چند مہاجن نے بھر پور کردار ادا کیا‘‘۔ جموں کی سڑکوں پر قتل و غارت کو روکنے کے لیے وہ ، وید بھسین، بلراج پوری اور اوم صراف کے ہمراہ راجا کے محل پہنچے۔ جہاں ان کو مہرچند مہاجن کے روبرو لے جایا گیا۔ پڑھے لکھے نوجوانو ں کودیکھ کر مہاجن انھیں سمجھانے لگا کہ ’’آپ کو اسمبلی اور دیگر اداروں میں مسلمانوں کے برابر نشستوںکا مطالبہ کرنا چاہیے کیونکہ اب جمہوری دورکا آغاز ہو چکا ہے اور عددی قوت کے بل پر ہی اقتدار پر قبضہ برقرار رکھا جاسکتا ہے‘‘۔ اوم صراف نے جرأت کا مظاہر ہ کرتے ہوئے پوچھا کہ ’’یہ آخر کس طرح ممکن ہے، جب کہ جموں و کشمیر تو ایک مسلم اکثریتی ریاست ہے؟‘‘ ویدبھسین اور کرشن دیو سیٹھی کے بقول ’’اس پر مہاجن نے محل کی دیوار سے متصل کھائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’بالکل اس طرح‘۔ اورجب ہم نے بغور دیکھا تو وہاں متعدد مسلم گوجروں کی بے گور وکفن لاشیں نظر آئیں، جو شاید صبح سویرے محل میں دودھ فراہم کرنے آئے تھے۔ دراصل مہرچند مہاجن ریاست کی آبادی کا فرقہ وارانہ تناسب قتل و غارت سے تبدیل کرنے پر مصرتھا‘‘۔

ان فسادات کے دوران ہی شیخ محمد عبداللہ کو ’ایمرجنسی ایڈمنسٹریشن‘ کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا اور اسی حیثیت میں وہ جموں وارد ہوئے۔ سیٹھی صاحب کا کہنا تھا کہ ’’مَیں موتی لال بیگھڑا اور  مولوی محمدسعید مسعودی کے ہمراہ شیخ صاحب کے ساتھ مسلم مہاجر کیمپ پہنچا۔ بجائے اس کے کہ شیخ عبداللہ ان لٹے پٹے لوگوں کی ڈھارس بندھاتے، اور ان کی آباد کاری کے احکامات جاری کرتے، انھوں نے انھی بے خانماں مسلمانوں کو کوسنا شروع کیا‘‘۔ بقول سیٹھی: ’’شیخ کے یہ الفاظ کہ جموں کے مسلمانوں نے مجھے کبھی لیڈر تسلیم ہی نہیں کیا‘‘۔ ہمارے اور سبھی حاضرین کے لیے صدمے کا باعث بنا کہ اس وقت یہ شکوہ کرنے کا کوئی جواز ہی نہیں بنتا تھا۔ ’’ان کی آباد کاری کے بجائے مہاجن کی طرح شیخ عبداللہ بھی ان تباہ حال مسلمانوں کو پاکستان بھیجنے کی جلدی میں تھے‘‘۔

 سیٹھی صاحب اس کے بعد چودھری غلام عباس اور چودھری اللہ رکھا ساغر سے ملاقات کرنے کے لیے جیل چلے گئے اور ان کو ایک حد تک راضی کروایا کہ وہ جموں چھوڑ کر نہ جائیں، ورنہ یہ خطہ مسلمانوں سے پوری طرح صاف ہوجائے گا۔ ساغر نے ان کو کہا کہ شیخ کو اس ملاقات کے بارے میں نہیں بتانا ’’مگر میں نے بے وقوفی میں شیخ صاحب کو ملاقات کے بارے میں بتایا اور ان سے گزارش کی کہ جموں کی مسلم لیڈرشپ کو جانے نہ دیں۔ مگر اگلے ہی دن انھوں نے حکم جاری کرکے مجھے راجوری، پونچھ کے لیے آباد کاری افسر مقرر کیا اور پیچھے چودھری عباس اور اللہ رکھا ساغر کو میر پور پہنچا دیا گیا‘‘۔

راجوری،پونچھ میں بطور آبادکاری افسر کام کرنے کے چند ہفتوں کے بعد ہی بھارتی فوج نے سیٹھی کو اس الزام کے تحت گرفتار کرلیا کہ ’’ہمارے ہاتھ چینی حکومت کا ایک خط لگا ہے، جو تمھارے نام ہے اور جس میں اس علاقے میں مسلمانو ں کی مدد کرنے پر تمھاری تحسین کی گئی ہے‘‘۔ میجر جنرل مسری چند نے اس پر سیٹھی کو راجوری قلعے میں قید کر لیا۔ ان کے ایک ساتھی ترال کے عنایت اللہ نے پیدل سرینگر پہنچ کر شیخ عبداللہ کو خبر دی، جس نے وزیر اعظم جواہر لال نہرو سے مداخلت کی اپیل کی۔ نومبر ۱۹۴۷ء کی ایک رات، سیٹھی صاحب کو ایک سپاہی نے بتایا کہ آپ کو گولی مارنے کے احکامات موصول ہوئے ہیں۔ اسی دوران دہلی سے آنے والے سرکاری اہلکار  ان کو اپنے ساتھ جموں لے گئے اور اس پورے قضیے کی تفتیش کے احکامات کا اجرا ہوا۔ معلوم ہوا کہ خط جعلی تھا جسے بھارتی فوج اور خفیہ پولیس نے تیار کیا تھا۔

سیٹھی صاحب ایک ادیب، صحافی اور کمیونسٹ نظریات کے حامل دانش ور تھے۔ وہ ۱۹۶۲ء میں بھارت چین جنگ کے دوران ڈھائی سال تک قید میں رہے۔ وہ بھارتی پارلیمانی جمہوری نظام کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ ’’اس جمہوری نظام کے ستون، یعنی سیاسی پارٹیاں سرمایہ دارانہ نظام کی غلام ہیں، کیونکہ انتخابات لڑنے کے لیے کثیر سرمایہ کی ضرورت پیش آتی ہے‘‘۔ وہ بھی اُردو زبان کے دیرینہ محبوں اور بہی خواہوں میں شمار ہوتے تھے اور ریاست کی ایک چلتی پھرتی تاریخ تھے۔ منظور انجم نے درست لکھا: ’’جموں وکشمیر کی تاریخ اور سیاست کا یہ سرگرم کردا ر اپنے پیچھے دو بچوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں چھوڑ کر گیا ۔ نہ کوئی بنک بیلنس ، نہ کوئی مکان ، نہ گاڑی اور سامان۔اس کی موت پر آنسو بہانے والوں میں ایسے بے شمار لوگ تھے ،جوا س کے دھرم ، قبیلے اور لسانی و نسلی گروپ سے تعلق نہیں رکھتے تھے‘‘۔

سیٹھی صاحب نے ایک بار شیخ عبداللہ سے کہا تھا کہ ’’میں تو لادین ہوں، مگر آپ اسلام کے پیرو کار ہیں اور آپ کا مذہب بتاتا ہے کہ مسلمان ایک سوراخ سے بار بار نہیں ڈسا جاتا۔ آخر   آپ بار بار دہلی کے حکمرانوں پر اعتبار کیسے کرتے ہیں؟‘‘کرشن دیو سیٹھی صاحب، الوداع، شہر جموں اب درد مند دانش وروں سے خالی ہوگیا ہے۔

نریندر مودی کی بھارتی حکومت نے اپنے طور پر مسئلہ کشمیر ختم کرنے کے لیے آخری وار کردیا۔ ان کے وزیرداخلہ امیت شا نے پارلیمنٹ میں بھارتی آئین کی دفعہ ۳۷۰اور دفعہ ۳۵- اے کو ختم کردیا۔اس طرح ریاست کو تحلیل کرنے اور اس کو تقسیم کرکے مرکز کے زیر انتظام دوخطوں میں تبدیل کرنے کا قانون بھی پاس کیا۔ اب لداخ ، جو مسلم اکثریتی ضلع کرگل اور بودھ اکثریتی لیہ اضلاع پر مشتمل ہے، وہاں اسمبلی نہیں ہوگی۔ ۹۰کے عشرے میں اس خطے کی۶۵ء۳۹ فی صد بود ھ آبادی  نے لداخ کو مرکز کے زیر انتظا م علاقہ بنانے کا مطالبہ کیا تھا، مگر اس خطے میں آباد۴۰ء۴۶ فی صد مسلم آبادی نے اس کی شدید مخالفت کی۔ حیرت کا مقام ہے کہ جب دانش وَر حضرات اور میڈیا جس میں پاکستانی میڈیا بھی شامل ہے، بے خبری میں لداخ کو بودھ اکثریتی علاقہ تصور کرتے ہیں۔

 جموں و کشمیر بھی مرکز کے زیرانتظام ہوگا، جس میں اسمبلی تو ہوگی ،مگر وہ دہلی و پانڈیچری اسمبلی کی طرز پر ایک میونسپل کارپوریشن کی طرح کام کرے گی۔ تمام تر اختیارات مرکز کے نمایندے گورنر کے پاس ہوں گے۔ کشمیر ایڈمنسٹریٹو سروس کو معطل کر دیا گیا ہے۔ اور بیوروکریسی کا تعین مرکز حکومت کرے گا۔ معروف دانش ور مزمل جمیل کا کہنا ہے کہ: ’’کشمیر میں تاریخ کا پہیہ واپس ۱۸۴۶ء میں پہنچ گیا ہے، جب ’بیع نامہ امرتسر‘ کے بعد ڈوگرہ حکمران گلاب سنگھ نے سرینگر کی باگ ڈور سنبھالی‘‘۔ 
ریاست جموں و کشمیر کو تحلیل کرنے اور اس کو بھارتی یونین میں ضم کرنے کے حکم نامے کی سیاہی ابھی خشک بھی نہیں ہوئی تھی کہ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی ( بی جے پی) کے لیڈروں بشمو ل ہریانہ صوبہ کے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹرنے اعلان کیا: ’’بھارت کے کنوارے نوجوان اب کشمیر کی گوری لڑکیوں کے ساتھ شادیاں کرسکتے ہیں‘‘۔ اس طرح کے طنز آمیز آوارگی ، جنسی اور نسلی تعصب سے لتھڑے ہوئے جملے بھارت کے گلی کوچوں میں سنائی دے رہے ہیں۔ کئی ساہوکار اور بنیے تو فون پر گلمرگ اور سونہ مرگ کی وادیوںمیں زمینوں کے بھاؤ پوچھ رہے ہیں۔ 
۱۹۹۰ء کے عشرے کے شروع میں تعلیم اور روزگار کے لیے میں جب میں دہلی وارد ہوا،  تو ایک روز معلوم ہوا،کہ کانسٹی ٹیوشن کلب میں ہندو قوم پرستوں کی سرپرست تنظیم راشٹریہ سیویم  سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی طلبہ تنظیم ’اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد‘ (ABVP) کی طرف سے کشمیر پر مذاکرہ ہو رہا ہے۔ بطور سامع میں بھی وہاں چلاگیا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک اعتدال پسند لیڈر ارون جیٹلی خطاب کر رہے تھے۔ وہ ان دنوں ابھی بڑے لیڈروں کی صف میں نہیں پہنچے تھے اور تب تک سپریم کورٹ کے زیرک وکیلوں میں ہی شمار کیے جاتے تھے۔ چونکہ وہ مقتدر ڈوگرہ کانگریسی لیڈر گردھاری لال ڈوگرہ کے داماد ہیں، اس لیے جموں و کشمیر کے ساتھ ان کا تعلق ہے۔ اپنے خطاب میں جیٹلی صاحب کا شکوہ تھا کہ: ’’پچھلے ۵۰برسوں میں مرکزی حکومتوں نے کشمیر میں غیر ریاستی باشندوں کو بسانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ اگر ہندستان کے دیگر علاقوں سے لوگوں کو کشمیر میں بسنے کی ترغیب دی گئی ہوتی، اور اس کی راہ میں قانونی اور آئینی پیچیدگیوں کو دُور کیا جاتا، تو کشمیر کا مسئلہ کبھی بھی سر نہیں اٹھاتا۔ اسی طرح کشمیریت اور کشمیری تشخص کو بڑھاوادینے سے کشمیری نفسیاتی طور پر اپنے آپ کو برتر اور الگ سمجھتے ہیں اور ہندستان میں ضم نہیں ہو پاتے ہیں‘‘۔ 

اسی طرح مجھے یاد ہے کہ کانگریسی رہنما من موہن سنگھ کی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں ایک بار پارلیمنٹ میں کشمیر پر بحث ہو رہی تھی۔ تب بی جے پی نے اتر پردیش کے موجودہ وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو بطور مقرر میدا ن میں اتارا تھا۔ تقریر ختم کرنے کے بعد وہ پارلیمنٹ کمپلیکس کے سینٹرل ہال میں آکر سوپ نوش کررہے تھے، کہ میں نے جاکر ان سے کہا کہ: ’’آپ نے بڑی دھواں دھار تقریر کرکے حکومت کے چھکے تو چھڑائے، مگر کوئی حل پیش نہیں کیا‘‘۔
یوگی جی نے مسکرا کر مجھے کہا کہ: ’’اگر میں حل پیش کرتا تو ایوان میں آگ لگ جاتی‘‘۔

 میں نے پوچھا کہ ’’ایسا کون سے حل ہے کہ جس سے دیگر اراکین پارلیمان بھڑک جاتے؟‘‘  

آدتیہ ناتھ یوگی نے فلسفیانہ انداز میں اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے نتیجہ اخذ کیا کہ :’’مسلمان جہاں بھی اکثریت میں ہوتے ہیں یا ان کی آبادی کچھ زیادہ ہوتی ہے، تو جہادی، جھگڑالو اور امن عامہ کے لیے خطرہ ہوتے ہیں‘‘۔ ایک طویل تقریر کے بعد یوگی جی نے فیصلہ صاد ر کر دیا کہ: ’’مسلمانو ں کی آبادی کو کسی بھی معاشرے میں ۵ فی صد سے زیادہ نہیں بڑھنے دینا چاہیے۔ اس لیے ہندستان اور دیگر تمام ممالک کو مسلمانوں کی آبادی کو کنٹرول کرنے کے طریقے ڈھونڈنے چاہیے۔ ا ن کو مختلف علاقوں میں بکھرا کر اور ان کی افزایش نسل پر پابندی لگاکر ہی دینا میں امن و امان قائم ہوسکتا ہے۔ بس یہی مسئلہ کشمیر کا حل ہے۔وہاں کی آبادی کو پورے ملک میں بکھیر کر وہاں بھاری تعداد میں ہندو آبادی کو بسایا جائے‘‘۔
آج ان دو واقعات کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ معلوم ہو کہ کس ذہنیت کے افراد بھارت کے تخت پر برا جمان ہیں۔بھارت میں اس وقت کی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی جب سے وجود میں آئی ہے، وہ لگا تار تین نکاتی ایجنڈے پر انتخابات لڑتی آئی ہے:

بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر , یونیفارم سول کوڈ کا نفاذ اور کشمیر کی آئینی خصوصی حیثیت ختم کرنا۔ اگرچہ اس سے قبل    بی جے پی دوبار اقتدار میں رہی ہے، مگر اس نے عددی قوت کی کمی کے باعث ان تین ایشوز کو   عملی جامہ پہنانے سے گریز کیا۔ اب ۲۰۱۹ء میں اکثریت کے ساتھ اقتدار میں واپس آئی تو بی جے پی کے لیڈروں نے کہا کہ: ’’ہمارے کور ایجنڈے کو نافذ کرنے کا وقت آن پہنچا ہے‘‘۔ ۲۰۱۴ء میں جب کشمیر میں مقامی پیپلز ڈیموکریٹک فرنٹ اور بی جے پی کے اتحاد سے مفتی سعید کی حکومت بنی، تو کہا گیا تھا کہ: ’’بی جے پی آئین کی دفعہ ۳۷۰ کے تحت کشمیر کو دیے گئے خصوصی اختیارات کو موضوعِ بحث نہیں بنائے گی‘‘۔

اور پھر دفعہ ۳۷۰ کے ساتھ دفعہ ۳۵- اے کو نشانہ بنا دیا گیا۔ دفعہ ۳۵-اے کے تحت غیر ریاستی باشندوں کے نوکری حاصل کرنے، ووٹ دینے اور جایداد خریدنے پر پابندی عائد تھی۔ اس دفعہ کے ختم ہونے کے نتائج دفعہ ۳۷۰ کے خاتمے سے بھی زیادہ خطرناک ہوں گے۔
 مسلم دشمنی اور متعصب ذہنیت کے حامل افراد کوآئین کی اسی طرح کی اور شقیں نظر نہیں آتیں، جو بھارت کے دیگر علاقوں، یعنی ناگالینڈ، میزورام، سکم، اروناچل پردیش، آسام، منی پور، آندھرا پردیش اورگوا کو خاص اور منفرد حیثیت عطا کرتی ہیں۔ ان کے تحت وہاں بھی دیگر شہریوں کو غیر منقولہ جایدادیں خریدنے پر پابندی عائد ہے یا اس کے لیے خصوصی اجازت کی ضرورت ہوتی ہے۔

  • ایک پُراسرار کردار: ۳۷۰ اور ۳۵-اے کو دستور سے خارج کرنے کے موجودہ فیصلے سے قبل، آر ایس ایس نے ان دونوں دفعات کو الگ الگ ہائی کورٹوں میں چیلنج کیا تھا۔ بی جے پی کے جس عہدے دار نے جموں و کشمیر کے جموں بینچ کے سامنے دفعہ ۳۷۰کو چیلنج کیا تھا، وہ صاحب اس وقت گورنر جموں و کشمیر کے مشیر فاروق خان ہیں۔ موصوف نے پولیس سے ریٹائر ہونے کے بعد بی جے پی میں باقاعدہ شمولیت اختیار کی ہے۔ 

یاد رہے مارچ ۲۰۰۸ء میں جب امریکی صدر بل کلنٹن نے دہلی کی سرزمین پر قدم رکھا تو جنوبی کشمیر کے گائوں چھٹی سنگھ پورہ میں نامعلوم حملہ آوروں کے ہاتھوں ۳۶ سکھوں کا قتل عام ہوا تھا۔ فاروق خان ان دنوں پولیس کے اسپیشل آپریشنز گروپ میں ایس ایس پی تھے اور عمومی تاثر یہ تھا کہ  واردات کے ذمہ دار یہی صاحب ہیں۔ کلنٹن کی بھارت موجودگی کے دوران اعلان کر دیا کہ ’’اس قتل عام کے ذمے دار لشکر طیبہ کے چاروں حملہ آور مار دیے گئے ہیں‘‘۔ فاروق عبداللہ حکومت نے فاروق خان کو معطل کرکے جسٹس پانڈیان پر مشتمل عدالتی کمیشن کو سکھوں کے قتل کی تحقیقات کا حکم دیا۔مگر وہ اس بارے میں تو پوری طرح کام نہ کرسکے۔ تاہم جسٹس پانڈیان نے فاروق خان کو اُن چار افراد کے قتل کا حصہ دار بتایا، جنھیں ’دہشت گرد‘ قرار دے کر مار دیا گیا تھا۔مگر پانڈان کی ہدایت کے باوجود فاروق خان کو نہ تو الزام لگا کر قتل کیے جانے والے مقدمے میں ماخوذ کیا گیا، اور نہ سکھوں کے قتل عام کے ضمن میں تفتیش کی گئی۔۲۰۰۳ء میں مفتی سعید حکومت نے بھی ان کے خلاف چارہ جوئی کی کوشش کی، لیکن  جب ۲۰۰۸ء میں غلام نبی آزاد نے وزارتِ اعلیٰ سنبھالی، تو نئی دہلی کے حکم پر فاروق خان کو بحال کر دیا گیا۔ فاروق خان کے خلاف سکھوں میں آج بھی شدید ردعمل پایا جاتا ہے۔

دفعہ ۳۵- اے کا معاملہ

۱۹۴۷ء میں بھارت کی آزادی سے بہت پہلے کشمیرکے ہندوحکمران ہری سنگھ نے ایک  حکم نامے کے تحت: ’’شہریت اور غیرمنقولہ جایداد کی خرید کے علاوہ ریاستی حکومت میں ’غیرملکیوں‘ پر پابندی عائد کر دی تھی‘‘۔ ۲۰؍اپریل۱۹۲۷ء کے ایک نوٹیفیکیشن میں راجا ہری سنگھ نے ’ریاستی عوام‘ کی وضاحت کی تھی اور اسی قانون کو بعدازاں کشمیری اوربھارتی آئین میں شامل کر دیا گیا۔
کشمیری ہندو جنھیں ’پنڈت‘کہتے ہیں، یہ قانون ان کے احتجاج کے ردعمل میں منظور کیا گیا تھا۔ انھوں نے اس وقت ’کشمیر،کشمیریوں کا ہے‘کا نعرہ بلند کیا تھا، کیونکہ پنجابی مسلمان انتظامیہ میں رسوخ حاصل اور زمینیں خرید رہے تھے۔لیکن،ایک صدی گزرنے کے بعد کشمیری مسلمانوں کو وہی خدشات لاحق ہیں، جو۱۹۲۰ءکے عشرے میں ہندئووں کولاحق تھے۔۱۹۲۰ء ہی کے عشرے میں،ہندوؤںنے راجا ہری سنگھ کو اس قانون میں ایک اور دفعہ شامل کرنے پر زور دیا تھا کہ: ’’اگر ایک کشمیری خاتون،کسی غیرکشمیری سے شادی کرے تو وہ وراثت کے حق سے محروم ہو جائے گی‘‘۔ 
مؤرخ پنڈت پریم ناتھ بزاز نے اپنی کتاب Kashmir Saga (داستانِ کشمیر ) میں لکھا ہے:’’کشمیر کے اندر’غیرملکیوں کا داخلہ بند ہے‘ کا شوروغوغا بذات خود کشمیری پنڈتوں نے بلند کیا تھا۔مسلمانوں کی راے کی کوئی اہمیت نہیں تھی کیونکہ ہندوحکمران نے انھیںریاستی ملازمتوں سے بے دخل کر دیا تھا اور وہ اس قدرغریب تھے کہ اپنے ہی وطن میں زمین کا ٹکڑا بھی نہیںخرید سکتے تھے۔مسلمان اکثریت غربت میں ہولناک زندگی گزار رہی تھی۔ چیتھڑوں میں ملبوس،جن سے وہ بمشکل ہی اپنا بدن ڈھانپ سکتے تھے اور ننگے پائوں۔ ایک مسلم کسان کا حلیہ ،ریاستی خزانے کے بھرنے والے ایک فرد کے بجاے محض ایک فاقہ زدہ بھکاری ہی کا نظر آرہا تھا،جب کہ ہری سنگھ ہندونواز پالیسی کا علَم بردار تھا۔ جموں کے عوام، خاص طور پر راجپوت ہندووں نے زیادہ تر ملازمتیں حاصل کیں،جب کہ پنڈتوں کو پنجابیوں کی جگہ دفاتر میں کلرکوں کی حیثیت سے بھرتی کیاگیا۔ایک حکم نامے کے ذریعے پنجابیوں کی ہرسطح پر بھرتی روک دی گئی‘‘۔

پنڈت پریم ناتھ بزاز کا کہنا ہے کہ: ’’اس پورے قضیے میں کشمیر ی مسلمانوں کی کسی کو کوئی فکر نہیں تھی، اور نہ کوئی ان سے راے لی جاتی تھی، ملازمت کے دروازے کشمیری مسلمان پر بند تھے۔ انتہائی خستہ حال اور غریب کشمیری مسلمان زیادہ تر کاریگر یا زرعی مزدور تھے۔ سوسائٹی میں ہندو ہونا عزت و توقیر کی علامت تھی۔ مسلمان کوصرف اپنے مذہب کی بنیاد پر حقارت کی نظروں سے دیکھا جاتا تھا‘‘۔ جب ۳۵-اے کا یہ قانون بنایا گیا تھا، تو اس وقت کسی کو مسلم خواتین کے حقوق یاد نہیں تھے۔ ایک صدی بعد انھی کشمیری پنڈتوں نے اس قانون کو ہٹانے کا مطالبہ اس لیے کیا ہے کہ اب کشمیری مسلمان تعلیم یافتہ اور ترقی کی دوڑ میں ان کے ہم پلہ ہوگئے ہیں۔ یہ قانون جو ایک صدی قبل تک تو ٹھیک نظر آتا تھا ،مگر اب پنڈتوںکی آنکھوں میں کھٹکنے لگا‘‘۔ 
’بھارت کے تکثیری کلچر اور تنوع میں اتحاد‘ جیسے نعرے مہاتما گاندھی،پنڈت نہرو، اور   ان کے پیروکار، دنیا میںبھارت بیچا کرتے تھے۔ مرحوم شیخ محمد عبداللہ دفعہ ۳۷۰ کو کشمیری خواتین کے جسم پر موجود لباس سے تشبیہ دیتے تھے۔ ان کی نیشنل کانفرنس کا کشمیر میں مقبول انتخابی نعرہ ہوتا تھا :’’ازء ہوند عزت فضء ہوند عزت، ترہت ستت ترہت ستت‘‘ ۔ ازء اور فضء کشمیر میں خواتین کے مقبول نام ہیں۔ اس نعر ے کا مفہوم تھا کہ ’’خواتین کی عزت و آبرو ۳۷۰ میں ہے‘‘۔ شیخ عبداللہ صاحب سے تو میری ملاقات نہیں ہوسکی، تاہم ان کے فرزند اور سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ سے جب بھی مکالمہ ہوا تووہ آزادی پسند جماعتوں پر طنز یہ جملے کستے تھے کہ: ’’مسلم اکثریتی پاکستان میں ہم کشمیریوں کی انفرادیت کبھی کی ضم ہوگئی ہوتی، جب کہ بھارت کا جمہور ی اور آئینی تکثیری معاشرہ ہی ریاست جموں وکشمیر کی وحدت اور ہماری کشمیری انفرادیت کا ضامن ہے‘‘۔ ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو امیت شا نے پارلیمان کے ایوان بالا، یعنی راجیہ سبھا میں صبح ۱۱بجے کشمیریوں کے تن بدن سے یہ زیرجامہ اُتار کر ان کو سر عام برہنہ کردیا ہے۔ ہزاروں کلومیٹر دُور مجھے لگ رہا تھا کہ جیسے بھرے بازار میں میر ی عزت بھی تار تار کر دی گئی ہو۔

دفعہ ۳۷۰، ممتاز قانون دان کی نظر میں

ممتاز قانون دان اور اُمورِ کشمیر پر گہری نظر رکھنے والے دانش ور جناب اے جی نورانی کے بقول: ’’آرٹیکل ۳۷۰ اگرچہ ایک عبوری انتظام تھا، کیوںکہ حکومت ہند کی ۶۰ کے عشرے تک یہ پالیسی تھی کہ جموں و کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ استصواب راے سے کیا جائے گا۔ ۱۹۴۸ء میں جموں و کشمیر پر حکومت کے وائٹ پیپر میں سردار پٹیل کا یہ بیان موجود ہے: الحاق کو تسلیم کرتے ہوئے حکومت ہند نے یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ اسے بالکل عارضی مانتی ہے، جب تک کہ اس بارے میں ریاست کے لوگوں سے ان کی راے نہیں معلوم کی جائے گی‘‘۔
اے جی نورانی صاحب کے بقول:’’جن سنگھ کے بانی شیاما پرساد مکھرجی ’جن کا نام آرٹیکل ۳۷۰ کی مخالفت کرتے وقت بی جے پی اُچھالا کرتی ہے‘  انھوں نے اس کی مکمل حمایت کی تھی۔ بی جے پی اس وقت کے وزیر داخلہ سردار پٹیل کا نام بھی اس پروپیگنڈے کے لیے استعمال کرتی ہے کہ انھوں نے اس معاملے پر پنڈت جواہر لعل نہرو کی مخالفت کی تھی‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پٹیل نے بھی آئین کی اس دفعہ کی مکمل تائید کی تھی۔ اس خلط مبحث کے برعکس کشمیر واحد ریاست تھی، جس نے الحاق کے لیے اپنی شرائط پر حکومت سے مذاکرات کیے تھے۔ وہ ہندستان میں  ضم نہیں ہوئی تھی بلکہ اس نے الحاق کیا تھا۔ اس لیے بھارتی حکومت اور ریاست کے مطابق آرٹیکل ۳۷۰ دونوں کے درمیان ایک مقدس معاہدہ ہے۔ جس کی کسی شق میں کوئی بھی فریق یک طرفہ ترمیم نہیں کر سکتا۔ تاہم، ’’این گوپال سوامی نے ۱۶؍اکتوبر ۱۹۴۹ء کو اس سلسلے میں پہلی’خلاف ورزی‘ کرتے ہوئے یک طرفہ طور پر مسودے میں تبدیلی کو پارلیمنٹ کی لابی میں حتمی شکل دی۔ جیسے ہی  شیخ عبداللہ اور مرزا افضل بیگ کو اس تبدیلی کا علم ہوا، وہ دونوں ایوان کی طرف دوڑے، لیکن تب تک یہ ترمیمی بل پاس ہو چکا تھا، جو افسوس ناک اعتماد شکنی اور بداعتمادی کا معاملہ تھا۔ اگر اصل مسودہ پاس کیا جاتا تو ۱۹۵۳ء میں شیخ عبداللہ کو اقتدار سے بے دخل کیا جانا ممکن نہ تھا‘‘۔

ترکی کی نیوز ایجنسی سے بات کرتے ہوئے اے جی نورانی کا کہنا ہے کہ: ’’سپریم کورٹ میں اس اقدام کو چیلنج کرنے کا کام شروع ہو چکا ہے۔ لیکن حکومتی فیصلے کی قانونی حیثیت کے متعلق فیصلہ کرنے کے لیے دورانیے اور وقت کے لحاظ سے بھارتی اعلیٰ عدلیہ کی رفتارِ کار کے مشکوک ہونے کا خطرہ موجود ہے۔ مودی حکومت نے بھارتی آئین کی دفعہ ۳۷۰کی تمام دفعات کو منسوخ کرتے ہوئے دنیا کو حیران وششدر کر دیا تھا جو جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کاضامن ہونے کے علاوہ ہندواکثریت میں اس کی مسلم شناخت کی حفاظت کرنے کا تحفظ بھی کر رہا تھا۔ اس دفعہ کے تحت بھارت کے ساتھ خطے کے پیچیدہ تعلق کی بھی وضاحت کی گئی تھی۔ ان حالات میں اپنی اعتباریت اور شفافیت قائم رکھنے کی خاطر بادی النظر میں بھارتی سپریم کورٹ پر لازم ہے کہ اس فیصلے کو کالعدم قرار دے ‘‘۔
نورانی کے خیال کے مطابق: ’’ان دفعات کی منسوخی نے کشمیری آبادی کی بقا کے لیے خطرات پیدا کر دیے ہیں۔ دفعہ ۳۷۰کو منسوخ کرنے کابھارتی اختیار تو ۱۹۵۶ء میں کشمیر کی آئین سازاسمبلی کی تحلیل کے بعد ختم ہو گیا تھا۔خصوصی حالات میں دفعہ۳۷۰ سے مرادجموں وکشمیر کی شناخت کا اظہار تھا کہ جس میں اس کے بھارت سے الحاق کا دعویٰ کیا گیا تھا۔  اس دفعہ کو منسوخ کرنے کے ذریعے ہندوقوم پرست حکومت کا مقصد یہ نہیں کہ کشمیر کو بھارت کے ساتھ متحدکیا جائے بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ کشمیری عوام کی شناخت ختم کی جائے‘‘۔
نورانی نے کہا: ’’قانونی لحاظ سے بھارتی پارلیمان کو یہ دفعہ منسوخ کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں تھا۔ اس مقصد کی خاطرریاست جموںوکشمیر کی آئین سازاسمبلی کی منظوری ضروری تھی۔ریاستی حکومت کی طرف سے کوئی بھی منظوری ہمیشہ سے منتخب اسمبلی کی حتمی منظوری سے مشروط رہی ہے۔ جب ریاست گورنر یا صدر راج کے تحت ہو،کوئی بھی یہ رضامندی نہیں دے سکتا۔ اس لیے مرکزی حکومت اپنے کٹھ پتلی نامزدفرد کے ذریعے یہ منظوری حاصل نہیں کر سکتی اور زمینی حقائق یہ ہیں کہ اس وقت جموں و کشمیر پر صدر راج نافذ ہے۔ حالانکہ بھارتی آئین نے از خود یہ وضاحت کر دی ہے کہ ریاستی حکومت سے مراد ریاست میں وزرا کی ایک کونسل ہے۔اور اس وقت تو کشمیرکے وزیراعلیٰ کی سربراہی میں وزرا کی کسی بھی قسم کی کوئی کونسل بھی موجودنہیں‘‘۔
نورانی صاحب نے مزید بتایا: ’’کشمیر کی موجودہ صورت ِ حال پر سری لنکا کی سپریم کورٹ کے نومبر ۲۰۱۲ء کے فیصلے کا اطلاق ہوتا ہے، جس میں سری لنکا حکومت کا یہ فیصلہ مسترد کر دیاتھا، جسے صوبائی کونسل کی توثیق حاصل نہیں تھی۔ اُس وقت دو درخواستوں کے ذریعے Divineguma Bill کو سری لنکا سپریم کورٹ کے روبرو چیلنج کیا گیا تھا کہ شمالی سری لنکا میں کسی صوبائی کونسل کی غیرموجودگی میں،گورنر نے شمالی صوبے کی طرف سے قانون کی توثیق کی تھی۔ یہ درخواستیں ’تامل نیشنل الائنس‘ نے کی تھیں۔ یکم نومبر کو سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ گورنر، صوبائی کونسل کی جگہ اس قانون کی توثیق نہیں کر سکتا‘‘۔

اے جی نورانی کہتے ہیں کہ:’’ آئین کی دفعہ ۲۴۹ کے تحت جاری کردہ ’صدارتی حکم نامہ‘ جس کا اطلاق کشمیر پر بھی کیا گیا، اس کا تعلق ریاست کی فہرست سے تھا اور مرکز کے مقرر کردہ گورنر نے اس کی توثیق کی تھی۔ یہ چالاکی لا سکریٹری کی مخالفت اور ریاستی کابینہ کی عدم موجودگی میں انجام دی گئی تھی۔۱۹۵۱ء میں کشمیر اسمبلی کے بدترین دھاندلی زدہ انتخابات کے انعقاد سے کشمیر میں بھارت کے جمہوری دعووں کی قلعی کھل گئی۔ انتخابی دھاندلیوں کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے گئے۔ تمام امیدوار ’بلامقابلہ‘منتخب قرار پائے۔ یہ وہی اسمبلی تھی، جس نے ریاست کا دستور وضع کیا اور الحاق کے دستاویز کی ’توثیق‘ کی تھی۔ یہ اسمبلی ریاست کی مستقبل گری اور اس کی حیثیت طے کرنے کے سلسلے میں دستور ساز اسمبلی کا درجہ رکھتی تھی۔ کشمیر کی اس آئین ساز اسمبلی کی حقیقت اور حیثیت کی قلعی خود اس وقت کے انٹیلی جنس سربراہ بی این ملک نے یہ کہہ کر کھول دی:’’ان امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کو مسترد کر دیا گیا، جو حزب مخالف کا کردار ادا کرنے کی اہلیت رکھتے تھے‘‘۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ الحاق کی مبینہ دستاویز کی توثیق اور کشمیر کے آئین کی منظوری کو کوئی عوامی تائید حاصل نہیں تھی‘‘۔
یاد رہے امیت شا ایک اور منصوبے پر بھی کام کررہے ہیں۔اس کے تحت غالباً نومبر، دسمبر میں کشمیر میں ہونے والے براے نام اسمبلی کے لیے انتخابات میں ہندو اکثریتی خطے جموں کی تمام نشستوں پر بی جے پی کے امیدواروں کو کامیاب بنانا ہے، اور ساتھ ہی وادیِ کشمیر کی مطلوب نشستوں کی بھی نشان دہی کی گئی ہے، جن پر جموں اور دہلی میں مقیم کشمیری پنڈتوں کے ووٹوں کی رجسٹریشن کا کام سرعت سے جاری ہے، تاکہ ان کے پوسٹل بیلٹوں کے ذریعے ان علاقوں میں بھی بی جے پی کے امیدواروں کی کامیابی یقینی بنائی جائے۔ اس حکمت عملی کا مقصد ریاست میں مسلمان ووٹوں کو بے اثرکرناہے۔کشمیر اسمبلی کی اب ۸۲ نشستیں رہ گئی ہیں۔ امیت شا نے پارلیمنٹ میں بل پیش کرتے وقت بتایا ہے کہ: ’’اسمبلی حلقوں کی از سر نو حد بندی ہوگی‘‘۔فی الحال ۳۷ نشستیں جموں، ۴۵ نشستیں وادی کشمیر خطے سے ہیں۔ کشمیر اسمبلی میں ۲۴مزید نشستیں آزاد کشمیر و گلگت کے لیے مختص رکھی گئی ہیں، جو خالی رہیں گی۔ ان میں سے آٹھ نشستیں پاکستان سے ۱۹۴۷ء، ۱۹۶۵ء اور ۱۹۷۱ء میں آئے ہندو پناہ گزینوں کے لیے وقف کی جائیں گی، تاکہ اسمبلی میں ان کی نمایندگی ہو اور ہندو ممبرا ن کی تعداد میں بھی اضافہ ہو۔
کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت حکمران ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران کی نظروں میں برسوں سے کھٹک رہی تھی۔ اس پارٹی نے صوبوں و مرکز کے اختیارات کے تعین کرنے والے سرکاری کمیشن کے سامنے صوبوں کو انتہائی حساس سکیورٹی کے علاوہ بقیہ سبھی اختیارات تفویض کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ حال ہی میں جنیوا میں بھارت کے سفیر نے سر ی لنکا کو مشورہ دیا تھا کہ: ’’وہ اپنے آئین کی ۱۳ویں ترمیم کو جلد از جلد لاگو کرکے شمالی سری لنکا میں مقیم تامل ہندو اکثریت کو تحفظ اور پاور فراہم کرے‘‘۔یعنی اورں کو نصیحت ، خود میاں فضیحت ۔ کشمیر چونکہ مسلم اکثریتی خطہ ہے، اس لیے بھارتی حکمرانوں کے نزدیک انسانی حقوق وہاں لاگو نہیں ہوتے۔ 

چین سے بھارتی سفارت کاری

چین کے عالمی امور میں رویے اور بین الاقوامی میڈیا کی کوریج کی وجہ سے، اپنی تمام تر معاشی قوت کے باوجود سفارتی محاذ پر بھارت ایک طرح سے دبی دبی پوزیشن پر چلا گیا ہے۔ اس لیے اب بھارت کی کوشش ہے کہ ستمبر۲۰۱۹ء میں سرحدی تنازعے پر ہونے والے مذاکرات میں، چین کو کوئی بھاری پیش کش کرے۔ سرحدی تنازعے سے متعلق دونوں ممالک کے خصوصی نمایندوں اجیت دوبال اور چینی وزیر خارجہ وانگ ہی کے درمیان اس ملاقات میں، بھارت ، چین کو بتاسکتا ہے کہ: ’’ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت دینے والی دفعہ ۳۷۰کی وجہ سے ہی وہ لداخ خطے میں چین کے ساتھ سرحدی تنازعے کو سلجھا نہیں پارہا تھا ۔ جموں و کشمیر کی اس خصوصی حیثیت کے ختم ہونے کے بعد اب چونکہ بھارتی آئین کی سبھی دفعات کا اطلاق جموں و کشمیر پر ہوتا ہے، نیز لداخ اب براہِ راست نئی دہلی کے زیر انتظام آگیا ہے، اس لیے اب چین کے ساتھ سرحدی تنازعات کو سلجھانا بھارت کے لیے آسان ہو گیا ہے‘‘۔
 چین کے سابق خصوصی نمایندے دائی بینگو نے ایک عشرہ قبل تجویز پیش کی تھی:’’ بھارت اگر لداخ کے علاقے میں ’اکسائی چن‘ کے دعوے سے دست بردار ہوجائے، تو چین بھی مشرقی بھارت میں اروناچل پردیش پر اپنا دعویٰ واپس لے سکتا ہے‘‘۔ اس کے علاوہ بھارت، گلگت اور ’سی پیک‘ کے حوالے سے اپنے اعتراضات کو بھی ختم کرنے پر تیار ہوسکتا ہے، تاکہ اس تجارتی راستے کو چین بھارت تجارت کے لیے برتا جاسکے۔ اگر ایسا ہوجاتا ہے اور چین، کشمیر کے حوالے سے اپنے موقف کو لچک دار بناکر بھارت سے مادی مفادات کو دو تین گنا بڑھا لیتا ہے، تو پھر اس بات کا امکان بھی موجود ہے کہ پاکستان سے چینی تعلقات کا وہ بلند مقام متاثر ہو، جو گذشتہ ۶۰برسوں سے بلند معیار پر چلا آرہا ہے۔ اس لیے پاکستان کو سفارت کاری کے میدان میں بڑی محنت اور حددرجہ ہوشیاری سے کام لینا ہوگا، جب کہ بھارت پہلے ہی مسلم دنیا میں سفارتی اور مضبوط معاشی پیش رفت کرچکا ہے۔

کشمیر کا مستقبل

آج کشمیر ی قوم کا تشخص اور اس کی انفرادیت پامال ہو چکی ہے۔ امن عالم کے دعوے دار ایک طرف افغانستان میں امن قائم کرنے کے لیے کوشاں ہیں، دوسر ی طرف خطے میں افغانستان سے زیادہ خطرناک ماحول پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ اپنی اصل کے اعتبار سے، بھارتی حکومت کی طرف سے اٹھایا گیا یہ قدم ، فلسطین میں اسرائیلی جارحانہ کارروائیوں سے بھی کہیں زیادہ سنگین ترین ہے۔ پوری دنیا میں یہودی ایک کروڑ سے زیادہ نہیں ہیں۔ اس سے آدھے ہی اسرائیل میں رہتے ہیں۔ وہ اگر چاہیں تو بھی عرب ممالک یا پورے فلسطین کاآبادیاتی تناسب بگاڑنہیں سکتے۔  
ان کے برعکس کشمیر میں تو مقامی مسلمانوں کا مقابلہ ایک ارب ۱۰ کروڑ بھارتی غیرمسلموں کی آبادی کے ساتھ ہے، جو چند ماہ میں ہی خطے کا آبادیاتی تناسب بگاڑ کر کشمیری عوام کو اپنے ہی گھروں میں اجنبی بنا دیں گے۔ سابق بھارتی فوجیوں اور ریٹائرڈ بیوروکریٹوں اور ان کے اہل خانہ کو کشمیر میں بسانے کی مہم تو پہلے سے ہی جاری ہے۔ وزیر اعظم مودی نے ایک دلیل یہ بھی دی، کہ: ’’بیرون ریاست بیورکریٹ کشمیر جانے سے کتراتے ہیں، کیونکہ و ہ اور ان کے اہل خانہ وہاں زمین نہیں خرید سکتے ہیں‘‘۔ جب بھارت، برطانوی سامراجی تسلط سے آزادی مانگ رہا تھا، تو ایک بار برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل نے کانگریسی لیڈروں کو مخاطب کرکے کہا:’’ تم کو آزادی اس لیے چاہیے کہ دبے کچلے طبقوں اور مظلوموں پر حکومت کرکے ان کو دبادو‘‘۔
کشمیر ایک شدید صدمے سے دوچار ہے، اور ابھی شاید ویسے ردعمل کا اظہار نہیں کرپائے گا، جس کی بظاہر توقع کی جارہی ہے۔ یہ ایک پُرفریب آتش فشاں کی سی خاموشی ہے۔ ۱۹۸۷ء کے انتخابی دھاندلی زدہ انتخابات کا بدلہ کشمیریوں نے ۱۹۸۹ء میں چکایا۔ کشمیر میں نئے مزاحمتی کلچر کا آغاز تو ہوچکا ہے، جس میں فکری مزاحمت کا مرکز مظلومیت کے بجاے تخلیقی سطح پریادوں کو اُجاگر کرکے باوقار طور پر اُبھرنے کی صلاحیت حاصل کرنا ہے۔
بھارتی آئین کی دفعہ ۳۷۰  اور دفعہ ۳۵-اے کے خاتمے کے ساتھ بظاہر کاغذوں میں ریاست جموں و کشمیر تحلیل ہو گئی ہے، مگر قانونِ قدرت تحلیل نہیں ہوسکتا۔ تاریخ کا پہیہ ساکت نہیں رہتا، یہ گھومتا ہے اور اس قوم کے لیے خاصا بے رحم ثابت ہوتا ہے ، جو اکثریت اور طاقت کے بل بوتے پر کمزور اور ناتواں کی زندگیاں اجیرن بنادے۔ ۱۹۸۴ء میں تہاڑ جیل میں پھانسی سے قبل مقبول بٹ نے کہا تھا کہ: ’’میری بے بسی پر مت مسکرائو ، تم اپنی خیر منائو ، کہ ظلم کی سیاہ رات جاتی ہے‘‘۔ اور صرف چھے سال بعد ۱۹۸۹ء میں کشمیر نے کروٹ لی اور ایک نئے دور کا آغاز ہو گیا!

انعام یافتہ برطانوی صحافیوں ایڈریان لیوی اور کیتھی اسکاٹ کلارک نے کتاب The Meadow  میں بتایا ہے کہ جولائی ۱۹۹۵ء میںجنوبی کشمیر میں ایک غیر معروف عسکری تنظیم ’الفاران‘ کے ذریعے اغوا کیے گئے پانچ مغربی سیاحوں کو بچایا جا سکتا تھا،کیونکہ ’را‘ اور دیگر بھارتی سیکورٹی ایجنسیوں کے اہلکار اغوا کے پورے واقعے کے دوران نہ صرف سیاحوں ا ور اغواکاروں پر مسلسل نگاہ رکھے ہوئے تھے بلکہ ان کی تصویریں بھی لیتے رہے تھے۔دونوں برطانوی صحافیوں نے ٹھوس شواہد کی بنیاد پر لکھا ہے کہ ’’سرکاری اداروں نے چاروں سیاحوں کو مرنے کے لئے چھوڑ دیا تاکہ پاکستان کے خلاف ایک بڑی سرد جنگ جیتی جا سکے‘‘۔

اسی طرز پر ۲۶ نومبر ۲۰۰۸ء کو بھارت کے اقتصادی مرکز ممبئی پر ہونے والا دہشت گرد حملہ بھی اس لحاظ سے منفردتھاکہ امریکی سی آئی اے اور بھارتی خفیہ ایجنسیوں یعنی ’انٹیلی جنس بیورو‘، ’را‘ سمیت تقریباً سبھی خفیہ اداروں حتیٰ کہ ممبئی پولیس اور پانچ ستارہ ہوٹل تاج کی انتظامیہ کو بھی کسی نہ کسی شکل میں اس کی پیشگی اطلاع تھی۔ان دونوں مصنفین نے اپنی دوسری کتاب The Seige میں انکشاف کیا ہے کہ ’’اس حملے سے پہلے ایک سال کے دوران مختلف اوقات میں۲۶؍اطلاعات ان اداروںکوموصول ہوئیں، جن میں ایسے حملوں کی پیش گوئی کے علاوہ حملہ آوروں کے راستوں کی بھی نشان دہی کی گئی تھی۔ اتنی واضح خفیہ اطلاعات کے باوجود بھارتی سکیورٹی ایجنسیوں نے ان حملوں کو روکنے کی پیش بندی کیوں نہیں کی؟ یہ ایک بڑا سوال ہے جس سے پردہ اٹھنا باقی ہے۔ 

خفیہ معلومات اس حد تک واضح تھیں کہ اگست ۲۰۰۸ء میں جب ممبئی پولیس کے ایک افسر وشواس ناگرے پا ٹل نے شہر کے فیشن ایبل علاقے کے ڈپٹی کمشنر آف پولیس کا چارج سنبھالا تو ان کی نظر اس خفیہ فائل پر پڑی، جس میں نہ صرف حملوں کا ذکر تھا بلکہ اس کے طریق کار پر بھی معلومات در ج تھیں۔ اس افسر نے فوراً تاج ہوٹل کی انتظامیہ کو متنبہ کیا کہ وہ معقول حفاظتی انتظامات کا بندوبست کریں۔ستمبر ۲۰۰۸ء میں اسلام آبادکے میریٹ ہوٹل میں دھماکا اور اکتوبر میں دوبارہ اسی طرح کی خفیہ معلومات ملنے کے بعد پاٹل نے تاج ہوٹل کی سکیورٹی کے ساتھ گھنٹوں ریہرسل کی،کئی دروازے بند کروائے اور اس کے ٹاور کے پاس سکیورٹی پکٹ قائم کی۔ ان انتظامات کے بعد پاٹل چھٹی پر چلے گئے۔اس دوران حفاظتی بندشیں اورسکیورٹی پکٹ ہٹوا دی گئی ، تاکہ حملہ آوروں کو ہوٹل تک پہنچنے میں کوئی تکلیف نہ ہو‘‘۔

پچھلے دو عشروں سے زائد عرصے کے دوران ان سبھی واقعات کا مشاہدہ اور رپورٹنگ کرنے کے بعد جب یہ خبر آئی کہ بھارت کے ایک انتہائی قوم پرست ٹی وی چینل ری پبلک کے اینکر اور منیجنگ ڈائرکٹر ارناب گوسوامی کو فروری ۲۰۱۹ء میں کشمیر کے پلوامہ علاقے میں ہوئے خود کش حملے اور بعد میں پاکستان کے بالا کوٹ پر بھارتی فضائیہ کے حملوں کی پیشگی اطلاع تھی، تو مجھے کوئی حیرت نہیں ہوئی۔

دراصل ممبئی پولیس نے ٹی وی ریٹنگ، یعنی ٹی آر پی میں ہیرا پھیری کے الزام میں گوسوامی اور براڈکاسٹ آڈینس ریسرچ کمپنی کے سربراہ پارتھو داس گپتا کے خلاف ۴۰۰۳صفحات پر مشتمل چارج شیٹ کورٹ میں دائر کی ، جس میں ۱۰۰۰صفحات پر مشتمل ان دونوں کے درمیان ’وٹس ایپ‘ پر ہوئی گفتگو کی تفصیلات ہیں۔ ان ’پیغامات‘ سے گوسوامی کی وزیر اعظم مودی کے ساتھ اس قدر قربت ظاہر ہوتی ہے، کہ بالا کوٹ پر ہوئے فضائی حملوں سے سرینگر کی ۱۵ویں کور کے سربراہ کو لاعمل رکھا گیا تھا ، مگر گوسوامی کو ۲۳فروری ۲۰۱۹ء، یعنی تین دن قبل ہی بتایا گیا تھا۔ گوسوامی ’چیٹنگ‘ کے دوران داس گپتا کو بتا رہے ہیں کہ ’’پاکستان کے خلاف کچھ بہت ہی بڑا ہونے والا ہے، جس سے بڑے آدمی( مودی )کو انتخابات میں بڑا فائدہ ہوگا‘‘۔ اسی دن رات کو۱۰بجے وہ بتار ہے ہیں کہ ’’کشمیر پر مودی حکومت ایک بڑا قدم اٹھانے والی ہے‘‘۔ ۲۳فروری کو جب خود کش حملے میں ۴۰سیکورٹی اہلکاروں کے مارے جانے کی اطلاع آئی ، تو اس کے چند منٹ بعد گوسوامی ’وٹس ایپ‘ پر شادیانے بجا رہے ہیںاورگویا کہہ رہے ہیں کہ ’’ایک بڑا معرکہ سر ہوگیا‘‘۔ یہ موڈ اس کے برعکس تھا جو شام کو ری پبلک ٹی وی کے اسٹوڈیومیں تھا، جہاں سوگوارای کا عالم تھا اور لمحہ بہ لمحہ جنگی جنون طاری کیا جا رہا تھا۔

مجھے یاد ہے کہ ۲۰۰۱ء میں بھارتی پارلیمان پر حملہ کے بعد دہلی یونی ورسٹی کے مرحوم پروفیسر عبدالرحمٰن گیلانی کو سزائے موت صرف اس بنا پر سنائی گئی تھی کہ انھوں نے کشمیر ی زبان میں ٹیلی فون پر بات کرکے اپنے بھائی سے اس واقعے پر مبینہ طور پر خوشی کا اظہار کیا تھا اور پوچھا تھا ’’کہ دہلی میں آج کیا ہوگیا؟ ‘‘ جس کا ترجمہ ہندی میں کیا گیا تھا کہ ’’ دہلی میں آج آپ نے کیا کردیا؟ ‘‘ پروفیسر صاحب نے ہنستے ہوئے کشمیری میں جواب دیا ــ: ـ’چھایہ ضروری‘ یعنی کہ’’ کیا یہ ضروری تھا؟‘‘ پولیس نے اس کو لکھا ’یہ چھے ضروری‘ یعنی ’یہ ضروری تھا‘۔ یہ تو ہائی کورٹ کا بھلا ہوا کہ وہ بری ہوگئے۔ اوراگراسی روایت کو بنیاد بنایا جائے، تو گوسوامی کے لیے سزائے موت سے بھی بڑی سزا تجویز ہونی چاہیے۔

اس گفتگو کے تین ماہ بعد مودی نے انتخابات میں اپوزیشن کا صفایا کرکے واضح برتری حاصل کی۔ اس سے عیاں ہوتا ہے کہ بالا کوٹ پر فضائی حملے کسی فوجی یا اسٹرے ٹیجک نکتہ نگاہ سے نہیں بلکہ قومی تفریح اور ووٹ حاصل کرنے کے لیے کیے گئے تھے۔چنگیز خان اور ہلاکو خان کو فوت ہوئے صدیاں بیت چکی ہیں۔ مگر مُردہ جسموں پر خوشیاں منانا اور ان کو انتخابات میں بھنانا اور اس پر مستزاد اپنے آپ کو قوم پرست بھی جتلانا، مودی اور اس کے حواریوں ہی کا خاصّہ ہے۔ ان کے اس طرح کے رویوں سے چنگیز اور ہلاکو کی روحیں بھی شرم سے پانی پانی ہوتی ہوںگی۔

سری لنکا تامل ناڈواور کشمیر

یہ جولائی ۱۹۸۷ء کی بات ہے، جب سری لنکا کے صد جے آر جئے وردھنئے اوربھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی کے درمیان طے پائے گئے معاہدے کے بعد سری لنکا نے اپنے آئین میں ترمیم کرکے شمالی اور شمال مشرق میں تامل اکثریتی علاقوں کو متحد کرکے ایک علاقائی کونسل تشکیل دینے پر رضامندی ظاہر کی تھی اور یہ طے پایا تھا کہ ’’دفاع، خارجہ پالیسی اور مالی معاملات، یعنی کرنسی کے علاوہ بقیہ تمام معاملات میں یہ کونسل خود مختار ہوگی‘‘۔ اس کے بعد سری لنکا حکومت نے پارلیمنٹ میں باضابطہ قانون سازی کرکے آئین میں ۱۳ویں ترمیم کی مگر اس پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہوا۔  تامل ٹائیگرز، یعنی ایل ٹی ٹی ای اور سنہالا بدھ قیادتوں نے اس ترمیم کو مسترد کردیاتھا۔ تامل ٹائیگرز تو مکمل آزادی سے کم کسی بھی فارمولا پر راضی نہیں تھے، سنہالا بدھ ملک کے اندر تامل خود مختار علاقہ قائم کرنے کے مخالف تھے۔

 سری لنکا کے آئین میں اس۱۳ویں ترمیم کو وہی حیثیت حاصل ہے، جو بھارتی آئین میں دفعہ ۳۷۰اور ۳۵-اے کو حاصل تھی، جس کی رُو سے ریاست جموں و کشمیر کو چند آئینی تحفظات حاصل تھے۔ ان دفعات کو اگست ۲۰۱۹ء میں بھارتی حکومت نے نہ صرف منسوخ کرکے ریاست ہی تحلیل کردی۔ اب بھارتی حکومت کا سری لنکا حکومت کو تامل ہند و اقلیت کے سیاسی حقوق کی پاس داری کرنے کا وعدہ یاد دلانا حددرجے کا تضاد ہے۔

بنگلہ دیش میں مکتی باہنی کی طرز پر ہی بھارت نے سری لنکا میں تامل اقلیت کو شمالی صوبہ جافنا کو آزاد کروانے پر اُکسایا تھا، اور اس کے لیے بھارتی ریاست تامل ناڈوکو مستقر (بیس)بنا کر  تامل انتہا پسندوںکوگوریلا جنگ کے لیے تربیت دینی شروع کردی تھی۔ کانگریس کے ایک مقتدر لیڈراور ایک سابق وزیر نے ایک بار مجھے بتایا کہ ’’اگر ۱۹۸۴ء میںوزیر اعظم اندرا گاندھی کو سکھ باڈی گارڈ ہلاک نہ کرتے تو بنگلہ دیش کی طرز پر سری لنکا کے شمالی علاقے جافنا پر مشتمل ایک علیحدہ مملکت وجود میں آگئی ہوتی‘‘۔ تامل ناڈو کے سابق وزیرا علیٰ کے کرونا ندھی نے بھی ایک بار دہلی کی ایک نجی محفل میں بتایا کہ ’’مسزگاندھی نے سری لنکا کو۱۹۷۱ء کی جنگ میں پاکستان کی معاونت کرنے پر کبھی معاف نہیں کیاتھا‘‘۔ یاد رہے سری لنکا نے پاکستانی فضائیہ اور ڈھاکا جانے والے پاکستانی سویلین جہازوں کے لیے کولمبو میں ایندھن بھرنے کی سہولت فراہم کی تھی۔ بنگلہ دیش بننے کے فوراً بعد بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی اور ان کے رفقا نے تامل علیحدگی تحریک کا رخ سری لنکا کی طرف موڑدیا۔ کروناندھی یہ  بھی یاد دلاتے تھے کہ ’’۱۹۸۷ء میں دہلی کے اشوکا ہوٹل کے ایک کمرے میں وزیر اعظم راجیو گاندھی نے وزارت خارجہ کے ایک اعلیٰ عہدے دار کی موجودگی میں۴۰لاکھ روپوں سے بھرا ایک سوٹ کیس تامل ٹائیگرز کے کمانڈر ویلوپلائیپربھاکرن کے حوالے کیا تھا‘‘۔

جب بھارتی حکومت نے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کی، تو سری لنکا کے سنہالا بدھ لیڈروں اور سری لنکا کے موجودہ وزیرا عظم مہندا راجاپکشا نے خوشی کا اظہار کیا۔ ان کے مطابق اب بھارت، سری لنکا پر ۱۳ویں ترمیم کے نفاذ کے لیے زور نہیں ڈال سکے گا۔ تامل تجزیہ کار شاستری راما چندرن کے مطابق جموں و کشمیر پر آئینی سرجیکل اسٹرائیک کرنے کے بعد بھارتی حکومت کے پاس سری لنکا کو ۱۳ویں ترمیم کے نفاذ پر مجبور کرنے کے لیے کوئی اخلاقی جواز نہیں بچتا ہے۔ جنوبی صوبہ تامل ناڈو کے ایک بزرگ سیاست دان وی گوپال سوامی المعروف ویکو نے مودی حکومت کو خبردار کیا تھا کہ ’’کشمیر پر اس کے فیصلے کے مضمرات سفارتی سطح پر خاصے پیچیدہ ہوں گے اور سری لنکا کی تامل آبادی کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا‘‘۔ راما چندرن ، جنھوں نے سری لنکا پر ایک کتاب بھی تصنیف کی ہے ، ان کا کہنا ہے کہ ’’گوٹا بایا راجا پکشا اور ان کے بھائی مہندا راجا پکشا نے اکثریتی سنہالا بدھ آبادی کو تامل ہندو آبادی اور بھارت کا خوف دلا کر انتخابات میں اسی طرح لام بند کیا، جس طرح مودی نے بھارت میں مسلمانوں اور پاکستان سے، ہندو اکثریتی آبادی کو خوف زدہ کرکے ووٹ بٹورے‘‘۔

یاد رہے بھارت کے خفیہ اداروں کی نظر میں حساس صوبوں کی فہرست میں جموں و کشمیر کے بعد تامل ناڈو دوسرے نمبر پر ہے۔

بھارت میں ۱۹۹۸ء کے عام انتخابات کے موقعے پر جب بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) کی قیادت میں پارٹی اتحادی سطح پر انتخابی منشور تیار کیا جا رہا تھا ، تو اس کی ابتدائی ڈرافٹنگ کا کام ماہر اقتصادیات موہن گوروسوامی کو سونپا گیا تھا ۔ منشور کی تیاری کمیٹی میں اٹل بہاری واجپائی، لال کشن ایڈوانی، جارج فرنانڈیز، موجودہ نائب صدر وینکییا نائیڈو، پرمود مہاجن، شرد یادو اور چند دیگر لیڈران شامل تھے۔

گوروسوامی پر واجپائی صاحب نے زور دیا کہ ’’ملک کو جوہری طاقت بنانے اور تبدیلیٔ مذہب کو روکنے کے سلسلے میں قانون سازی کرنے کے وعدے منشور میں شامل ہونے چاہییں‘‘۔ جوہری دھماکا کرنے کے معاملے پر کمیٹی میں کچھ زیادہ بحث نہیں ہوئی، صرف اس بات پر اتفاق ہوا کہ اس کو مبہم انداز میں لکھا جائے گا۔ تبدیلی ٔمذہب کے مسئلے پر اجلاس کے شرکا تذبذب میں تھے، کیونکہ تبدیلی ٔمذہب پر پابندی لگانا، بھارتی آئین کے بنیادی ڈھانچے اور اس کی روح، یعنی مذہبی شخصی آزادی کے منافی تھا۔

بھارت اور پاکستان کے جو لوگ بے جا غلط فہمی کا شکار ہوکر واجپائی کو ’سیکولر رواداری‘ کا منبع اور ’امن کا دیوتا‘ سمجھتے ہیں، ان کو جان لینا چاہیے کہ آنجہانی وزیر اعظم واجپائی، لازمی طور پر اپنی دھوتی کے نیچے راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ، یعنی آر ایس ایس کی نیکر پہنتے تھے۔ واجپائی کا اصرار تھا کہ ’’اگر تبدیلیٔ مذہب پر مکمل طور پرپابندی عائد نہیں کی جاتی ہے، پھر بھی اس کو لازمی طور پر ڈسٹرکٹ کلکٹر یا مجسٹریٹ کی اجازت کے ساتھ نتھی کردینا چاہیے‘‘۔ گورو سوامی نے پاس میں بیٹھے لال کشن ایڈوانی کو کان میں بتایا کہ ’’یہ وعدہ آج کربیٹھنا ایک تنازعے کا باعث ہوگا، جب کہ بی جے پی اقتدار کے بالکل قریب ہے‘‘۔ ایڈوانی ، جنھوں نے بابری مسجد کو مسمار کرنے کے لیے رتھ یاترا کی قیادت کرکے، بی جے پی کو اقتدار کی دہلیز تک پہنچایا تھا، اب اپنا تاثر (Image) درست کروانے میں لگے ہوئے تھے۔ اپنی اسی انتہاپسندانہ مشکل کی وجہ سے اتحادیوں کے لیے وہ وزارت عظمیٰ کے اُمیدوار کی حیثیت سے قبول کیے جانے کی دوڑ سے نکال دیے گئے تھے، اور دُور رس نتائج پر نظررکھنے والے پارٹی کے شہ دماغوں نے واجپائی کو آگے کردیا تھا۔ گوروسوامی کے بقول ۱۹۹۸ءمیں ایڈوانی ہندو قوم پرستی کا جامہ اتار کر اپنے آپ کو سماجی اور اقتصادی قدامت پسند لیڈر کے بطور متعارف کروانا چاہتے تھے‘‘۔

مجھے یاد ہے کہ جس دن یہ منشور جاری ہو رہا تھا ، دہلی کے ہماچل پردیش بھون میں تقریب کے بعد ظہرانے کا اہتمام تھا۔ میں جس کھانے کی میز پر بیٹھا تھا، اسی پر ایڈوانی ، معروف صحافی راج دیپ ڈیسائی اور چند دیگر صحافی بھی تشریف فرما ہوئے تھے۔ چونکہ تب تک بی جے پی کے لیڈران کو حکومت کی ہوا نہیں لگی تھی، اس لیے ان تک رسائی آسان تھی۔ ڈیسائی نے کسی غیر ملکی مصنف کا حوالہ دے کر بتایا کہ ’’دنیا بی جے پی کے اقتدار میں آنے سے خائف ہے‘‘۔ تو ایڈوانی نے سوال کیا کہ ’’جرمنی میں کرسچن ڈیموکرٹیک پارٹی، امریکا میں ری پبلکن اور برطانیہ میں ٹوری پارٹی کام کررہی ہیں تو بطور کنزر ویٹو پارٹی کے بی جے پی سے خائف ہونے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘

اس اجلاس میں جب گوروسوامی نے آئین کے بنیادی ڈھانچے کا حوالہ دے کر تبدیلیٔ مذہب کے خلاف قانون بنانے کے وعدے کو منشور میں شامل کرنے سے انکار کردیا، تو ’امن کے دیوتا‘ واجپائی نے غصّے سے لال پیلا ہوکر کہا کہ ’’ہارورڈ اور اوکسفرڈ کے ڈگری یافتہ لوگ، تبدیلیٔ مذہب کی شدت اور ہندو سماج کے بچاؤ کے معاملات کو نہیں سمجھ سکتے ہیں‘‘۔ ایڈوانی نے مداخلت کرکے واجپائی کا غصّہ ٹھنڈا کرکے کہا کہ ’’اقتدار میں آنے کے بعد اس پر سوچا جاسکتا ہے‘‘۔ وزیراعظم بننے کے بعد واجپائی نے ایک عوامی جلسے میں اس ایشو کو اٹھایا اور کہا کہ ’’اس پر کھل کر بحث ہونی چاہیے‘‘۔ ان کی اس تقریر کے فوراً بعد مشرقی صوبہ اڑیسہ میں ایک آسٹریلین پادری گراہم اسٹین اور اس کے دو بچوں کو زندہ جلادیا گیا۔ اس واقعے میں ملوث ایک ملزم پرتاپ سارنگی آج کل مرکزی حکومت میں وزیر ہیں۔ گوروسوامی تب تک حکومت کے اقتصادی مشیر مقرر ہو چکے تھے۔ واجپائی کی تقریر اور پادری کی ہلاکت کے سانحے کے بعد انھوں نے انڈین ایکسپریس میں ایک مضمون لکھ کر وزیرا عظم واجپائی کا نام لیے بغیر تبدیلی ٔمذہب کی مخالفت کرنے والوں کی خوب خبر لی۔ چند روز بعد ہی واجپائی کی ایما پر انھیں حکومت کی پیش کردہ ذمہ داریوں سے فارغ کردیا گیا۔

آج اس واقعے کے تذکرہ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ تبدیلی ٔمذہب کے احق کو سخت مشکل بنانے کے ساتھ ساتھ اب ہندو قوم پرست بی جے پی کی قیادت والے صوبے یکے بعد دیگر ے بین المذہبی شادیوں کو روکنے کے لیے قانون سازی کر رہے ہیں۔ خاص طور پر اس صورتِ حال میں، جب کہ لڑکا مسلمان اور لڑکی ہندو ہو۔

 ۲۰۱۷ءمیں جب اتر پردیش کی صوبائی اسمبلی کے لیے انتخابات کا بگل بج گیا، تو موجودہ وزیرا علیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے انتخابی حلقہ گھورکھپور اور خوشی نگر کے دورے کے دوران مسلم خواتین کے اغوا اور پھر ان کو ہندو مذہب قبول کروانے کے کئی واقعات میرے علم میں آئے۔اس سے دو سال قبل لوک سبھا کے انتخابات کے موقع پر آدتیہ ناتھ نے واضح طور پر دھمکی دی تھی:’’اگر وہ (مسلمان) ہماری (ہندؤ) ایک لڑکی لے جائیں گے، تو ہم ان کی ۱۰۰ لڑکیاں لے جائیں گے‘‘۔ ان کا اشارہ اس پروپیگنڈا کی طرف تھا، جس میں مسلمان نوجوانوں پر الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ وہ ہندو لڑکیوں کو دامِ محبت میں پھنسا کر ان کے ساتھ شادیاں رچاتے ہیں‘ اور اس کو ’لو جہاد‘ کا نام دیا گیاہے۔

 اترپردیش کے مشرقی حصے میں تو معاملہ بالکل اُلٹ ہے۔ایک خاتون ساتھی رپورٹر شوئیٹا ڈیسائی کے ساتھ اس علاقے کے کئی دیہات خاک چھاننے کے بعد معلوم ہوا کہ مسلم لڑکیوں کے اغوا اور غائب کر دیے جانے کی سیکڑوں وارداتیں پولیس اسٹیشنوں کی فائلوں میں بند ہیں۔ معلوم ہوا کہ ان لڑکیوں کا’شُدھی کرن‘ کرکے ان کی شادیاں ہندو نوجوانوں کے ساتھ کرا دی جاتی ہیں۔وہیں پر ہمیں بنجاریہ گاؤں کی ۱۷ سالہ آسیمہ نے بتایا کہ اغواکرنے کے بعد اس پر ایک ہندو لڑکے کے ساتھ شادی کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا‘ مگر وہ کسی طرح ان کے چنگل سے بھاگ نکلی۔ صرف اس ایک گاؤں میں نو ایسے خاندان تھے، جن کی لڑکیوں کو اغوا کرکے بعد میں زبردستی شادیاں کر وا ئی گئی تھیں۔

چوپیہ رام پور گاؤں میں ’زبیدہ‘ اب ’امیشا ٹھاکر‘ کے نام سے ایک ہندو خاندان میں اروند ٹھاکر کی بیوی بن کر زندگی گزار رہی تھی۔ہلکےنیلے اور گلابی رنگ کی ساڑھی زیب تن کیے، ماتھے پر تلک اور مانگ میں سندور کو دیکھ کر یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ لڑکی کبھی زبیدہ رہی ہوگی۔ اس کو ۱۳سال کی ہی عمر میں اغوا کیا گیا تھا۔ سڑک کی دوسری طرف ہی اس کی ننھیال ہے، جن کے لیے زبیدہ مرچکی ہے۔ اس کے ماموں عبداللہ کا کہنا تھا کہ ’’اغوا کے کئی ہفتوں بعد ان کی بیٹی کو بھری پنچایت میں پیش کرکے زبردستی ہندو بنایا گیا اور اب وہ ایک زندہ لاش کی مانند زندگی گزارنے پر مجبور ہے‘‘۔ پولیس نے تو پہلے رامیشور ٹھاکر کے دو بیٹوں کے خلاف نابالغ لڑکی کو اغوکرنے کے الزام میں رپورٹ درج کی تھی مگر بعد میں اس پر کوئی کارروائی نہیں کی۔ عبداللہ کا کہنا تھا کہ ’’طاقت وَر ٹھاکر خاندان کے خلاف لڑنے کی مجھ میں ہمت نہیں تھی‘۔ اپنے تین سالہ بیٹے کو گود میں لیے زبیدہ یا امیشہ نے ہم کو بتایا کہ ’’میں اب زندگی کے ساتھ سمجھوتا کر چکی ہوں، کیونکہ واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے‘‘۔ پولیس ریکارڈ سے معلوم ہوا کہ اس علاقے میں ۳۸۹ نابالغ مسلمان لڑکیوں کے غائب ہونے کی وارداتیں ہوئی تھیں۔

دہلی واپس آکر ایک دن پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران میں نے آدتیہ ناتھ یوگی کو، جو ممبر پارلیمنٹ ہونے کے ساتھ ساتھ گھورکھ پور کے سب سے بڑے مندر کے مہنت بھی تھے ، سینٹرل ہال کے ایک کونے میں اکیلے سوپ نوش کرتے دیکھا۔ بیٹھنے کی اجازت مانگنے کے بعد ان سے اس ’ریورس لو جہاد‘ کے بارے میں جاننے کی کوشش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’مسلم لڑکیاں خود ہی ہندو لڑکوں سے شادیاں کرکے بہ رضاو رغبت مذہب تبدیل کرتی ہیں‘‘۔ میں نے پوچھا کہ ’’آپ آئے روز مسلمانوں کے خلاف بیانات داغتے رہتے ہیں۔ بھارت میں سرکاری ریکارڈ کے مطابق ۱۷کروڑ سےزیادہ مسلمان بستے ہیں۔ ان سبھی کو ختم کیا جا سکتا ہے اور نہ پاکستان کی طرف دھکیلا جاسکتا ہے اور نہ ہندو بنایا جا سکتا ہے۔ کیا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ اس ملک میں ہندو اور مسلمان  شانہ بشانہ پُرامن زندگی گزار سکیں؟‘‘یوگی صاحب کہنے لگے :’’ہندو حکمرانوں کے کبھی توسیع پسندانہ عزائم نہیں رہے ہیں‘ مگر اب وہ بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں، کیونکہ ان کا مذہب، تہذیب و تمدن مسلمانوں اور عیسائیوں کی زد میں ہیں، اور ان مذاہب کے پیشوا اور مبلغ‘ ہندوؤں کو آسان چارہ سمجھتے ہیں‘‘۔ ٹوسٹ کا آخری لقمہ حلق میں اتارتے ہوئے آدتیہ ناتھ نے کہا: ’’مسلمان، ہندو دھرم کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے اور ہماری رسوم پر ناک بھوں چڑھاتے ہیں۔ پھر ہر روز پانچ وقت مساجد سے اذان کی آوازیں آتی ہیں‘‘۔ لوک سبھا کی کارروائی کے لیے کورم کی گھنٹی بجائی جارہی تھی۔ وہ ایوان میں جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور جاتے جاتے کہا:’’مسلمانوں کو دیگر اقلیتوں سکھوں، جین فرقہ اور پارسیوں کی طرح ہندو دھرم کی برتری تسلیم کرتے ہوئے چین سے رہنا سیکھنا چاہیے‘‘۔

آج یہی ادتیہ ناتھ بھارت کے سب سے بڑے صوبہ کے وزیرا علیٰ ہیں، اور وزیراعظم نریندر مودی، وزیر داخلہ امیت شا کے بعد حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے تیسرے بڑے لیڈر ہیں، جو وزارت عظمیٰ کی کرسی حاصل کرسکتے ہیں۔

اتر پردیش کی بی جےپی حکومت نے ۲۶نومبر۲۰۲۰ء کو ایک آرڈی ننس منظور کیا اور پھر ۴۸گھنٹوں کے اندر اندر اس کا اطلاق کرکے لکھنؤ میں ایک ایسی شادی کو رکواتے ہوئے ایک مسلم نوجوان کو جیل بھیج دیا۔ اسی طرح ایک مسلم جوڑے کو نکاح کی تقریب کے دوران حراست میں لے کر ان کو پولیس اسٹیشن میں مبینہ طور پر اذیتیں دیں، اس سے ہلکا سا اندازہ ہوتا ہے کہ مستقبل میں اس قانون کی آڑ میں مسلم نوجوانوں کو کس طرح ہراساںکیا جائے گا۔ لگتا ہے کہ اب رفتہ رفتہ مسلمانوںکو شادی یا نکاح کی تقریب منعقد کرنے سے قبل مقامی پولیس سے باضابطہ اجازت لینی پڑے گی ، اور یہ یقین بھی دلانا پڑے گا ، کہ دلہن کسی دوسرے مذہب کی نہیں بلکہ پیدایشی اور نسلی مسلمان ہی ہے۔ جہاں ایک طرف اب حکومتی اداروں نے مسلمان لڑکوں کی دیگر مذاہب کی لڑکیوں کے ساتھ شادی پر سخت موقف اختیار کرکے قانون سازی تک کر ڈالی، وہیں دوسری طرف ہندو تنظیمیں باضابطہ مسلم لڑکیوں کے اغوا اور ہندو نوجوانوں کے ساتھ ان کی شادیاں کرنے کے واقعات سے صرفِ نظر کرتی آئی ہیں۔

بین المذہبی شادیوں میں مسلمانوں کو ’لوجہاد‘ کا نام دے کر مطعون کیا جارہا ہے۔ بڑے پیمانے پر پروپیگنڈا کرکے یہ بتایا جاتا ہے کہ ’’مسلمان لڑکے ہندوؤں کے بھیس میں دیہاتوں اور قصبوں میں گھومتے رہتے ہیں اور ہندو لڑکیوں کو محبت کے جا ل میں پھنساتے ہیں۔ شادی کے بعد جب پتہ چلتا ہے کہ لڑکا مسلمان ہے،تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے اور پھر لڑکی کا زبردستی مذہب تبدیل کیا جاتا ہے‘‘۔

اس بے بنیاد، مبالغہ آمیز اور لغو پروپیگنڈے کو نام نہاد تحقیقی رنگ دینے کی غرض سے ایک تنظیم کا دعویٰ ہے کہ ’’ہمارے ہاتھ توایک ریٹ لسٹ بھی لگی ہے، جس کے تحت ایک برہمن لڑکی کو بھگانے اورنکاح کرنے پر مسلم نوجوانوں کو سعودی عرب اور دیگر خلیجی ملکوں سے ۱۰ سے ۱۵ لاکھ روپے دلائے جاتے ہیں، جب کہ دیگر ذاتوں کی لڑکیوں کے لیے سات سے دس لاکھ اور نچلی ذات، یعنی دلت لڑکیوں کے لیے یہ ریٹ پانچ لاکھ ہے‘‘۔شکر ہے کہ اس میں ابھی تک پاکستان یا اس کی کسی ایجنسی کا نام شامل نہیں ہوا۔ ایسی پروپیگنڈا بریگیڈ کے مطابق ’’ایک سازش کے تحت ہندو اکثریتی آبادی کے تناسب کو بگاڑنے کی کوشش ہو رہی ہے‘‘۔

 اب ان کو کون بتائے کہ اگربھارت میں رہنے والے تقریباً ۲۰کروڑ مسلمان صرف  ہندو لڑکیوں سے ہی شادیا ں کرتے ہیں، تو اس کے باوجود ۹۸کروڑ ہندوؤں کو اقلیت میں تبدیل نہیں کرسکتے۔ اس نئے ’لو جہاد‘ کے نعرہ کے نام پر ہندو تنظیموں نیز کئی جگہوں پر مقامی انتظامیہ نے اترپردیش، راجستھان، کرناٹک میں مسلم نوجوانوں کی زندگیاں اجیرن بناکے رکھ دی ہیں۔اگر ان کو دہشت گردانہ واقعات کے ساتھ جوڑنے کے لیے ثبوت نہ مل رہے ہوں ، تو ’لو جہاد‘ کے نام پر یا کسی ہندو لڑکی کی طرف دیکھ لینے ہی کی پاداش میں انھیں نشانِ عبرت بنادیا جاتا ہے اوربنایا جاسکتاہے۔ ۲۰۱۳ء میں دہلی سے صرف ۱۰۰کلومیٹر دُور مظفر نگرکے خونیں فساد اسی طرح کی افواہ سے شروع ہوئے تھے۔ ان میں تقریباً ۶۰؍ افراد اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔

مغربی اتر پردیش اور ہریانہ میں ہندو جاٹوں کا سماجی تانا بانا خاصا پیچیدہ ہے۔ ایک تو ان علاقوں میں مردوںاور عورتوں کی آبادی کا تناسب سب سے کم ہے، دوسری طرف یہ ایک گوت اور ایک ہی گاؤں میں شادی نہیں کرتے۔ چچا زاد، ماموں زاد نیز گاؤںکی تمام لڑکیوں کو بہن کا درجہ دیا جاتا ہے، اور اس روایت کو اس حد تک سختی کے ساتھ نبھایا جاتا ہے، کہ خلاف ورزی کرنے والوں کو کئی موقعوں پر گاؤں کی جاتی پنچایت یا ان کے اعزا و اقارب ہی موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔ان علاقوں میں کئی مواقع پر لڑکیاںگاؤں کے مسلم یا نچلی ذات کے ہندو دلت نوجوانوں کو دل دے بیٹھتی ہیں۔ کیوںکہ صرف یہی دو گروہ بھائیوں کے زمرے میں نہیں آتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود اس علاقے میں ابھی تک کوئی ایسا مقدمہ سامنے نہیں آیا ہے، جہاں کسی ہندو لڑکی نے باضابطہ طور پر کسی مسلم لڑکے کے ساتھ شادی کی ہو یا مذہب تبدیل کیا ہو۔

چند برس قبل تک اسرائیل میں بھی ’اسرائیلی عربوں‘ (یہ اصطلاح ان فلسطینیوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے، جو اسرائیل کو اپنا وطن تسلیم کرتے ہیں) پر بھی یہودی لڑکیوں کو بہلا پھسلا کر اپنے آپ کو یہودی جتلا کر ان کے ساتھ شادیا ں کروانے کے الزام لگائے جاتے تھے۔ اس سارے پروپیگنڈے کا ماخذ۲۰۱۰ء میں عدالت میں ایک یہودی لڑکی کی طرف سے دائر کیا گیا مقدمہ تھا، جس میں اس نے اپنی شادی منسوخ کرنے کی درخواست دی تھی کیونکہ ’’اس کے شوہر نے اپنی شناخت چھپا کر اور اپنے آپ کو یہودی جتلا کر اس کے ساتھ شادی کی تھی۔ بعد میں اس کو پتہ چلا تھا کہ وہ ایک عرب نوجوان تھا‘‘۔اس واقعہ کے نتیجے میںتل ابیب، عسقلان، بحرلوط اور دیگر تفریحی ساحلی مقامات پر اسرائیلی عرب نوجوانوں کا داخلہ بند کردیاگیا تھا۔

دوسری عالمی جنگ سے پہلے کچھ اسی طرح کے حربے نازی جرمنی نے یہودیوں کے خلاف اپنائے ، تاکہ ملک گیر سطح پر ان کے خلاف نفرت کا ایک طوفان کھڑا کیا جائے۔تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ ہٹلر نے اس پروپیگنڈے کو عام کرنے میں خاصی دل چسپی دکھائی، کہ ’’یہودی نوجوان ایک پلاننگ کے تحت جرمن خواتین کی آبرو کے درپے ہیں‘‘، تاکہ بقول ہٹلر ’’اعلیٰ جرمن آرین نسل کو آلودہ کیا جائے‘‘۔ ایڈولف ہٹلر نے اپنی خود نوشت سوانح حیات مین  کیمف (Mein Kampf) میں لکھا ہے: ’’چہرے پر شیطانی مسکراہٹ سجائے کالے بالوں والے یہودی نوجوان، جرمن لڑکیوں کے لیے گھات لگائے بیٹھے ہیں ، تاکہ ان کے خون کو گندا کریں اور ان سے ان کی نسل چھین لیں‘‘۔ بالکل اسی طرح کا کھیل ۸۰برس کے بعد اب بھارت میں کھیلا جا رہا ہے۔

حیر ت کا مقام ہے کہ '’لو جہاد‘ کا یہ مفروضہ۲۰۰۶ء میں تعلیمی اور سماجی لحاظ سے ترقی یافتہ صوبہ کیرالا سے شروع ہوا، اور بعد میں یہ وبا پڑوسی صوبہ کرناٹک تک پہنچی۔حتیٰ کہ ۲۰۰۹ء میں کرناٹک کی ہائی کورٹ نے دونوں صوبوں کی پولیس سے رپورٹ طلب کی۔ پولیس نے بتایا کہ ’’محبت کا جھانسہ دے کر مسلمان بنانے کا کو ئی واقعہ ہمارے ریکارڈ پر نہیں ہے، تاہم ۲۵جون۲۰۱۴ء کو وزیراعلیٰ اومن چاندی نے اسمبلی میں انکشاف کیا کہ ان کے صوبہ میں ۲۰۰۶ء اور ۲۰۱۴ء کے درمیان ۲۶۶۷ہندو خواتین نے اسلام قبول کیا ہے۔ مگر پولیس تفتیش سے یہ بات سامنے آئی ہے، کہ ان خواتین کو کسی نے زبردستی یا لالچ دے کر تبدیلیٔ مذہب پر مجبور نہیں کیا۔ ان میں سے اکثر خواتین نے یہ بتایا کہ وہ ہندو مذہب کے ذات پات کے بندھنوں سے چھٹکارا پانا چاہتی تھیں، یا پھر شادی کے لیے ان کی اپنی ذات یا معاشی سطح کے ہندو لڑکوں نے انکار کردیا تھا‘‘۔

چونکہ رام مندر کی تعمیر ، کشمیر کی خصوصی آئینی پوزیشن ختم کرنے جیسے امور پر عمل درآمد ہوچکا ہے۔ ہندو انتہا پسند تنظیمیں جو اعلیٰ ذاتوں کی نمایندہ ہیں، انھیں مسلمانوں کو ہدف بنانے کے لیے  ایک اور ایشو کی ضرورت ہے، جس سے اکثریتی آبادی کی توجہ بنیادی ایشوز سے ہٹائی جائے اور  منافرانہ ماحول گرم رکھ کر ملک بھر میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز فضا برقرار رکھی جائے۔ مظلوم اور کمزور طبقات میں بڑھتی ہوئی سماجی بیداری نے نسل پرست بی جے پی کی فکر مندی کو دوچند کردیا ہے۔ لہٰذا وہ اپنے پس پردہ اہداف کے حصول کے لیے پسماندہ طبقات اور دلتوں کو  نشانہ بنانے کی جرأت نہیں کر سکتے ہیں۔ البتہ انتہاپسند ہندو تنظیمیں مسلمانوںکو نرم چارا تصور کرتی ہیں۔ ان تنظیموں کے لیے بہتر تھا کہ ہندو معاشرہ کی معاشرتی خرابیوں کی طرف توجہ د یتیں، جن کے سبب ہندو خاندانوں کی خانگی زندگیاں عذاب بن جاتی ہیں۔ ایسے ایسے سماجی بندھن اور قانونی شقیں ہیں کہ نہ آسانی سے طلاق لے سکتے ہیں اور نہ کسی مجبوری کی وجہ سے دوسری شادی کر سکتے ہیں۔ لیکن ان کے نزدیک یہ مسائل کوئی اہمیت نہیں رکھتے کیونکہ اس کی بنیاد پر سیاسی مفادات پورا کرنا ممکن نہیں ہے۔

بہرحال ضرورت اس بات کی ہے کہ بھارت میں مسلمان خود کو اس شر و فساد کی سیاست سے محفوظ رکھیں۔ جو نوجوان غیر اخلاقی حرکتوں میں ملوث ہوتے ہیں، غیر مذہب کی خواتین کے ساتھ راہ و رسم بڑھاتے ہیں، ان کی اصلاح کی کوشش کریں اور ان کی حوصلہ شکنی کریں۔ کہیں ان کی حرکتوں کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا نہ پڑے۔ کیوںکہ آثار و قرائن بتا رہے ہیں، کہ ہندو انتہا پسندوںکا سازشی ٹولہ اسی بہانے مسلمانوں کے سماجی بائیکاٹ کی سازش کر رہا ہے۔

آذربائیجان کی فوجیں ۱۷نومبر ۲۰۲۰ء کو جب نگورنوقاراباغ کے اہم شہر شوشا میں داخل ہوگئیں ، تو ترکی کے دارلحکومت انقرہ کے نواح میں رہنے والی ایک ضعیف العمر آذربائیجانی خاتون زلیخا شاناراوف نے گھر کے اسٹور سے ایک پرانا زنگ آلود صندوق نکالا، جس کو اس کی فیملی نے ماضی میں کئی بار کوڑے میں پھینکنے کی کوشش تھی۔مگر بڑی بی کا اس صندوق کے ساتھ ایسا جذباتی رشتہ تھا کہ و ہ آسمان سر پر اٹھا کر ہرایسی کوشش کو ناکام بنا دیتی تھی۔ شوشا شہر کے آزاد ہونے کی خبر نے اس عمر رسیدہ خاتون کو گویا پھر سے جوان کردیا ، اوراس نے پورے خاندان کو جمع کرکے اس صندوق کو کھولنے کا حکم دیا۔ اس چھوٹے سے بکس میں اس نے شوشا میں واقع اپنے مکان کی چابی حفاظت کے ساتھ رکھی ہوئی تھی، جہاں سے اس کو ۱۹۹۲ء میں آرمینیائی قبضے کے بعد بے سرو سامانی کی حالت میں بچوں کے ساتھ نکالا گیا تھا۔

ترکی کے شہر انقرہ، عدبر اور آذربائیجان کے باکو اور دیگر علاقوں میں ہجرت کی زندگی بسر کرنے والے ایسے ہزاروں مہاجر خاندان اب اپنے آبائی گھرو ں کو جانے کے لیے بے تاب ہیں۔ فی الحال دسمبر تک علاقوں سے آرمینیائی افواج کا انخلا طے پایا ہے اور آذر بائیجانی افواج مفتوحہ علاقوں میں بارودی سرنگیں ہٹانے کا کام کر رہی ہیں۔ اس کے بعد ہی شہریوں کو واپس آنے کی اجازت دی جائے گی۔ تقریباً ڈیڑھ ماہ پر پھیلی اس جنگ کے بعد آرمینیا نے جب اعتراف شکست کیا، تو یہ گذشتہ سو سالوں میں کسی مسلم ملک کی پہلی مکمل فوجی فتح تھی۔ گذشتہ ۲۷ برسوں کے بعد پہلی بار اعدام اور دیگر شہروں کی مسجدوں کے منارے اور منبر آباد ہوگئے، جہاں آذری افواج نے داخل ہوکر اذانیں دیں اور شکرانے کے نوافل پڑھے۔ پچھلی تین دہائیوں سے یہ مسجدیں جانوروں کے باڑوں یا موٹر گاڑی گیراج کا کام دے رہی تھیں۔ صرف اعدام کے علاقے سے ہی گذشتہ صدی کے آخری عشرے کے اوائل میں ۲لاکھ کے قریب آذری اپنے آبائی علاقے سے  نقل مکانی پر مجبور کر دیے گئے تھے۔ آرمینیوں نے قبضے کے دوران علاقے میں کافی لوٹ مار مچائی اور شہر کے مرکزی علاقوں کو تباہ کر دیا تھا۔

جنگ بندی اور آرمینیا کے وزیرا عظم نکول پاشہینان کے اعتراف شکست کے بعد جو معاہدہ طے پایا ہے، اس کے مطابق مفتوحہ علاقوں ، جن میں پانچ اہم شہر، چار قصبے اور ۲۸۶دیہات شامل ہیں، پر آذر بائیجان کا قبضہ تسلیم کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ دسمبر تک مزید سات علاقو ں سے آرمینیائی افواج کے انخلا کے بعد آذر بائیجان کے حوالے کر دیے جائیں گے۔ قاراباغ علاقے سے ۱۹۹۰ء میں آرمینیا نے جس مسلمان آذری آبادی کو بے دخل کرکے، اس علاقے کاآبادیاتی تناسب تبدیل کر دیا تھا، ان سب افراد کو واپس اپنے علاقوں میں جانے اور بسنے کی نہ صرف اجازت ہوگی، بلکہ ان کی حفاظت کی ذمہ داری مقامی حکمرانوں پر عائد ہوگی۔ آرمینیا سے آذربائیجان کے راستے ترکی جانے والے سبھی ٹرانزٹ راستوں کو کھولا جائے گا اور ترک افواج  ان کی نگرانی کریں گی۔ ان میں سب سے اہم ترکی اور آذر بائیجا ن کے درمیان قدیم سلک روٹ، یعنی ناچیوان کوریڈو ر کی بحالی ہے۔ اس سے ترکی کو براہِ راست چین تک رسائی حاصل ہوجائے گی اور یہ جلد ہی ’بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹ‘ کا حصہ بن جائے گا۔ اس راستے کی عدم دستیابی کے نتیجے میں آذر بائیجان تک پہنچنے کے لیے ترکی کو ایران یا جارجیا کا راستہ اختیار کرنا پڑتا تھا۔ اگرچہ لنچن علاقے کو بھی آذربائیجان کا حصہ تسلیم کیا گیا ہے، مگر آرمینیا کو قاراباغ کے دارالحکومت اسٹیپن کرت تک رسائی کے لیے لنچن میں ایک کوریڈور کے ذریعے رسائی دی گئی ہے، جس کی حفاظت روسی افواج کریں گی۔

بلاشبہہ آذربائیجانی صدر الحام علی یوف پر سخت دباؤ تھا کہ جنگ جاری رکھ کے شوشا شہر کے بعد ۱۰کلومیٹر دور دارلحکومت اسٹیپن کرت پر بھی فوج کشی کرکے آزاد کروائیں، مگر جس طرح آرمینیائی افواج آذربائیجان کے اند ر شہری علاقوں پر میزائلوں اور راکٹوں کی بارش کرکے سول آبادی کو نشانہ بنارہی تھی، اس میں بڑی طاقتوں کی طرف سے جنگ بندی کی اپیل کے بعد الگ تھلگ پڑنے کے خوف سے علی یوف نے امن کے دامن کو تھام لیا۔

کہتے ہیں کہ جنگ مسائل کا حل نہیں ہے، یہ خود مسائل کو جنم دیتی ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب بار بار تاکید کے بعد بھی مذاکرات مسائل حل کرانے میں ناکام ہوجاتے ہیں، تو جوں کی توں صورتِ حال (اسٹیٹس کو) بدلنے کا واحد حل جنگ ہی رہ جاتا ہے۔ ۱۹۹۴ء سے قاراباغ پر بھی اقوام متحدہ نے چاربار قرار دادیں منظور کرکے آرمینیا کو یہ علاقے خالی کرکے آذربائیجان کے حوالے کرنے کی اپیل کی تھی، مگر طاقت کے زعم کے ساتھ روس اور فرانس کی پشت پناہی کی وجہ سے آرمینیا نے ان قراردادوں پر کوئی کان نہ دھرا۔ اس دوران آرمینیا نے ان علاقوں کو مکمل طور پر آذری مسلم آبادی سے خالی کرواکے وہاں آرمینیائی نسل کی حکومت قائم کردی۔ جس نے اس علاقے کے اصل باشندوں، یعنی آذری مسلم آبادی کی عدم موجودگی میں نام نہاد ریفرنڈم کروایا، اور قاراباغ کا الحاق آرمینیا سے کرنے کا اعلان کیا۔ تاہم، بین الاقوامی برادری نے اس ریفرنڈم کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ آذربائیجانی صحافی جیحون علییوف کے مطابق ۱۹۹۰ء سے مذاکرات اور بین الاقوامی برادری کے توسل سے متواتر آذر بائیجان بتانے کی کوشش کررہا تھا ، کہ اگر آرمینیا ٹرانزٹ کوریڈورز میں آمد و رفت بحال کرنے، مہاجرین کی واپسی اور قاراباغ کے نچلے علاقوں کو واپس کرنے پر آمادہ ہوتا ہے ، تو وہ اس کو بطور حتمی حل ماننے کے لیے آمادہ ہے، مگر آرمینیا ہمیشہ اس پیش کش کو ٹھکراتا آیا ہے۔

اب جنگ کے بعد روس اور ترکی کی ایما پر ایسا ہی معاہدہ عمل میں آیا ہے۔ اب نچلے تمام علاقوں سے ہاتھ دھونے کے ساتھ ساتھ آرمینیا کو بالائی قاراباغ کے اہم شہر شوشا سے بھی ہاتھ دھونا پڑا ہے، جو اس علاقے کا ثقافتی اور تجارتی قلب ہے۔ تزویراتی لحاظ سے بھی اس کی اہمیت دوچند ہے، کیونکہ یہ اونچائی پر واقع ہے، اور اس کو حاصل کرنے کے لیے آذری افواج کو خاصی محنت کرنی پڑی ۔ یہاں آرمینیائیوں کا آپوسٹولک چرچ بھی واقع ہے۔

شمالی قفقاز ( North Caucasus) میں نگورنو قاراباغ کو ۱۹۲۳ء میں آذربائیجان کا علاقہ بنادیا گیا تھا۔ سوویت یونین کے آخری زمانے اور پھر تحلیل و انہدام کے بعد سے اس علاقے کے کنٹرول کے سوال پر آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان ۱۹۸۸ء سے ۱۹۹۴ءتک چھے سال طویل جنگ ہوئی، جس میں ۳۰ہزار افراد ہلاک ہوئے، جب کہ لاکھوں افراد کو وہاں سے ہجرت کرنا پڑی۔ اس وسیع پیمانے کی جنگ کو ختم کرنے کے لیے روس نے ثالث کا کردار ادا کیا ، لیکن کوئی معاہدہ نہیں ہوسکا۔ اس جنگ کی وجہ سے لاکھوںآذریوں کو ہجرت کرنا پڑی، جس کے نتیجے میں  یہاں آرمینیائی باشندوں کی اکثریت ہوگئی، جب کہ حکومت بھی آرمینیا کی حمایت یافتہ بن گئی۔

۲۰۱۶ءمیں بھی اس علاقے میں پانچ روز تک دونوں ممالک کے درمیان جنگ جاری رہی، جس کی وجہ سے سیکڑوں افراد ہلاک ہوگئے اور پھر روس کی مداخلت کی وجہ سے جنگ پھر رک گئی۔ مگر حال ہی میں اختتام پذیر جنگ ۹۰ء کے عشرے کے بعد چھڑنے والی سب سے بڑی جنگ تھی۔ اس میں خاص بات آذر بائیجان کو ترکی کی حمایت کا حاصل ہونا اور ڈرون طیاروں کا حصول، جس نے آرمینیا کی فضائی قوت کو تباہ کردیا۔ مزید یہ کہ آرمینیا کے اتحادیوں روس اور ایران کا  اس دورا ن غیر جانب دار رہنا بھی آذربائیجان کے حق میں گیا۔ تاہم روس نے خبردار کیا تھا کہ ’’آرمینیا کی سرحدوں کے اندر کسی بھی فوجی کارروائی کی صورت میں وہ مداخلت کرنے پر مجبور ہوگا‘‘۔ آذربائیجان نے اسی لیے جنگ کو قاراباغ تک ہی محدود رکھا ۔ آرمینیا نے اگرچہ آذر بائیجان کے شہری علاقوں پر راکٹوں کی بارش کی، مگر روس کی مداخلت کے خوف سے آذر بائیجان نے ان کا جواب نہیں دیا،اور فوج کشی قاراباغ تک ہی محدود رکھی۔

معاہدے کی رُو سے جو علاقے اب آرمینیا خالی کر رہا ہے ، اس کی فوج اور لوگ مکانات، سرکاری عمارات اور جنگلاتی اراضی کو نذرِ آتش کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا اور روسی نیوز سائٹ سے نشر ہونے والے ویڈیو مناظر میں کیل بیجیر کے مختلف علاقوں میں مقیم آرمینیوں کو نکلنے سے پہلے عمارتوں کو نذرِ آتش کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ خاص طور پر ۲۷سال قبل آذریوں کے پیچھے چھوڑے ہوئے گھروں کی کھڑکیاں اور دروازے توڑ کر انھیں آگ لگاتے ہوئے نظر آئے۔ صرف گھروں کو نہیں اسکولوں اور درختوں تک کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ قارا باغ  کے شمال مغربی علاقے کیل بیجیر پر ۱۹۹۳ء کو آرمینیا نے جب قبضہ کیا تھا تو اس علاقے میں مقیم تقریباً ۶۰ہزار آذری اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ ۱۰ نومبر کو طے پانے والے سمجھوتے کی رُو سے آرمینی فوج کو ۱۵ نومبر تک کیل بیجیر کو خالی کرنا تھا۔

آذربائیجان کی خاص بات یہ ہے کہ اس کے پہاڑی علاقوں میں ازخود آگ بھڑک اٹھتی تھی۔ اس مناسبت سے زرتشت اس کو ایک مقدس جگہ مانتے تھے۔ مگر ماہرین کے مطابق اَزخود بھڑک اٹھنے والی آگ کا موجب علاقے میں پائے جانے والے تیل اور گیس کے ذخائر ہیں۔ بحرگیلان یا بحرکیسپین سی کے کنارے آباد اس علاقے میں ہمہ وقت چلنے والی تیز ہوائیں بھی ا س آگ کو بھڑکاتی رہتی ہیں۔

عالمی جریدے کونسل آن فارن ریلیشنز کے مطابق آذربائیجان روزانہ آٹھ لاکھ بیرل تیل کی پیداوار کرتا ہے، جو یورپ اور وسطی ایشیا کو تیل برآمد کرنے والا بڑا ملک ہے۔  اس تیل اور گیس کو یورپ پہنچانے کے لیے دوراستے ہیں، ایک شمال مغربی روس اور دوسرا جنوب مغربی  قفقاز یا کاکیشیائی ریاستوں سے ہوکر ترکی سے گزرتا ہے۔ یورپ اپنی گیس کی ضروریات کو یہاں سے پورا کرنے کے لیے مستقبل میں یہاں سے مزید پائپ لائنوں کی تعمیر کا خواہش مند ہے۔گو کہ قاراباغ کا پہاڑی علاقہ خود گیس یا تیل کی پیداوار نہیں کرتا، مگر اس کے کیل بیجیر ، لاچن، زنگی لان اور تار تار اضلاع میں سونے، چاندی، پارے، تانبے، جست اور کوئلہ کے وافر ذخائر موجود ہیں۔

اس جنگ سے ایک بات تو طے ہے کہ شرق اوسط کے بعد قفقاز میں بھی ترکی کا قد خاصا بلند ہوا ہے۔ ایک طرح سے اس کا سفارتی اور عسکری رتبہ روس کے ہم پلہ ہوگیا ہے۔آذر بائیجان ، آرمینیا کی یہ جنگ شاید نئے ورلڈ آرڈر کی نوید ہے، جس میں ترکی، روس اور چین ایک اہم رول ادا کرنے والے ہیں۔جنگی برتری حاصل کرنے بعد ترکی اور آذر بائیجا ن کے لیے بھی لازم ہے کہ آرمینیا کی اشک شوئی کرکے اس کو بھی اتحاد میں شامل کرکے اقتصادی طور پر اس کی مدد کرکے اسے مغربی ممالک کا کھلونا نہ بننے دیںاور مفتوحہ علاقوں میں آرمینیائی مذہبی علامتوں کی حفاظت کی جائے۔ شاید اسی لیے ترکی کی ایما پر آذربائیجان کی افواج نے اسٹیپن کرت پر فوج کشی نہ کرکے مفاہمانہ پالیسی کی گنجایش رکھ دی ہے۔

۶دسمبر۱۹۹۲ءکی رات ، بی بی سی نے نشریات روک کر اعلان کیا:’’ اترپردیش کے شہر فیض آباد سے سنڈے آبزرور کے نمایندے قربان علی لائن پر ہیں اور وہ ابھی ابھی ایودھیا سے وہاں پہنچے ہیں‘‘۔ اگلی پاٹ دار آواز قربان علی کی تھی۔ جس میں انھوں نے دنیا کو بتایا کہ ’’مغل فرماںروا ظہیرالدین بابر کی ایما پر تعمیر کی گئی بابری مسجد اب نہیں رہی‘‘۔ جس وقت و ہ ایودھیا سے روانہ ہوئے، وہ ملبہ کے ایک ڈھیر میں تبدیل ہوچکی تھی۔اس دن کسی بھی ابلاغی ادارے کا ایودھیا میںموجود اپنے رپورٹروں سے رابطہ نہیں ہو رہا تھا۔ بھارتی حکومت دعویٰ کر رہی تھی کہ ’’ایک ہجوم نے مسجد پر حملہ کرکے اس کو معمولی نقصان پہنچایا اور سکیورٹی دستوں نے ان کو پیچھے دھکیل دیا ہے‘‘۔
ہندو نسل پرست تنظیموں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور ویشوا ہندو پریشد (وی ایچ پی) نے جب رام مندر تحریک شروع کی، تو میں انھی دنوں دہلی میں صحافت کی تعلیم مکمل کر رہا تھا۔ بی جے پی کے مرکزی لیڈر ایل کے ایڈوانی کی ’رتھ یاترا‘ جب چاندنی چوک سے گزر رہی تھی، تو میںسڑک کے کنارے، ہوا میں تلواریں اوربھالے لہراتے ہجوم کو ’جے شری رام‘ ،’ مندر وہیں بنائیں گے‘ اور مغل فرماں روا ظہیرالدین بابر کی اولاد کے نام لے کر گالیوں ملے نعرے بلند کرتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ اگرچہ آنجہانی پرمود مہاجن اس یاترا کے چیف آرگنائزر تھے، مگر دہلی میں بی جے پی کے دفتر میں موجودہ وزیر اعظم نریندرا مودی اس کے متعلق پروگرام وغیرہ کی بریفنگ دیتے تھے۔
نومبر ۲۰۱۹ء میں بھارتی سپریم کورٹ کے عجیب و غریب فیصلے کے بعد بابری مسجد ایک قصۂ پارینہ بن ہی گئی تھی۔ پھر ۳۰ستمبر ۲۰۲۰ء کے روز مسجد مسمار کرنے والوں کو بھی اتر پردیش صوبہ کے شہر لکھنؤ کی خصوصی عدالت نے ’بے گناہ‘ قرار دے کر، انصاف کو دفن کر نے کا مزید سامان مہیا کردیا۔
پچھلے ۲۸ برسوں کے دوران عدالت کے رویے کو دیکھ کرکچھ زیادہ امید یں نہیں بندھی تھیں۔ سپریم کورٹ نے ایک طرف مسجد کی زمین ہندو بھگوان رام للا کے سپرد کی۔ دوسری طرف مسلم فریق کے تین اہم دلائل کو بھی تسلیم کرکے فیصلہ میں شامل کردیا۔ یہ بھی تسلیم کیا کہ ’’۱۹۴۹ء کو رات کے اندھیرے میں مسجد کے محراب میں بھگوان رام کی مورتی رکھنا اور پھر دسمبر ۱۹۹۲ء کو مسجد کی مسماری مجرمانہ فعل تھے‘‘۔ پھر عدالت نے آثار قدیمہ کی تحقیق کا بھی حوالہ دے کر بتایا: ’’۱۵۲۸ء میں جس وقت مسجد کی تعمیر شروع ہوئی، اس وقت کی کسی عبادت گاہ کے آثار نہیں ملے۔ ہاں، کھدائی کے دوران، جو کچھ آثار پائے گئے، ان سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے ، کہ اس جگہ پر ۱۱ویں صدی میں کوئی عمارت موجود تھی، جو تباہ ہوچکی تھی‘‘ (یعنی اگلے ۵۰۰برسوں تک اس جگہ پر کوئی عمارت موجود نہیں تھی)۔
فیصلے میں شامل ان دلائل سے ایک موہوم سی امید جاگ اٹھی تھی، کہ چاہے مسجد کی زمین پر ایک پرشکوہ مندر کی تعمیر شروع ہو چکی ہے، مگر اس عبادت گاہ کو مسمار کرنے والوں کو قرا ر واقعی سزا دے کر ایک مثال قائم کی جائے گی۔ مگر ۲ہزارصفحات سے بھی زائد اپنے ۳۰ستمبر ۲۰۲۰ء کے فیصلے میںخصوصی عدالت کے جج سریندر کمار یادو نے سپریم کورٹ کی ہدایت اور تمام ثبوتوں کو نظرانداز کرتے ہوئے تمام ۳۲ملزمان کو بری کر دیا۔ اس مقدمے کی کارروائی کا مَیں خود گواہ ہوں۔ استغاثہ نے جن ۳۵۱گواہوں کی فہرست کورٹ میں دی تھی، اس میں سے تین شخص میر ے قریبی رفیق تھے، جن سے مسلسل معلومات ملتی رہتی تھیں۔ نریندرا مودی کی دہلی میں آمد تو ۲۰۱۴ءمیں ہوئی، اس سے قبل سیکولر جماعتوں سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی، جن کی سیاست کا کاروبار مسلمان ووٹوں کو سبزباغ دکھانے پر چل رہا تھا، انھوں نے بھی بابری مسجد کی مسماری کے ملزمان کے خلاف کارروائی کرنے میں کوئی دل چسپی نہیں دکھائی۔حتیٰ کہ ایک معمولی نوٹیفکیشن تک کا اجرا نہیں کرسکیں جس سے خصوصی عدالت میں ان افراد کے خلاف مقدمہ چلایا جاسکتا۔ اور پھر خود نوٹیفکیشن میں تکنیکی خامیاں تھیں، جن کو ۲۰۱۰ء میں الٰہ آباد ہائی کورٹ کے کہنے پر دُور کیا گیا اور سبھی مقدمو ں کو یک جا کرکے لکھنؤ کی خصوصی عدالت میں سماعت شروع ہوئی۔
معروف فوٹو جرنلسٹ پروین جین نے نہ صرف ۶دسمبر کے دن بابری مسجد کی مسماری کی تصاویر لیں تھیں، بلکہ اس سے کئی روز قبل ایودھیا کے نواح میں کارسیوکوں کے گروپ میں شمولیت کرکے ریہر سہل میں حصہ لیا، اور ان سرگرمیوں کی تصویریں بھی کیمرے میں محفوظ کرلی تھیں۔ ان کے اخبار دی پائینیر نے مسجد کے مسمار ہونے پر ان کو شائع کیا تھا۔ استغاثہ نے پروین جین کو گواہ بنایا تھا۔ اس دوران ان کو کس طرح ہراساں و پریشان کیا جاتا تھا اور کورٹ میں حاضری کے دن ان کو وکیلوں و عدالتی اسٹاف کے اذیت ناک رویے کا کس طرح سامنا کرنا پڑتا تھا؟ یہ خود ایک دردبھری داستان ہے۔
سمن آنے پر مقررہ تاریخ سے ایک روز قبل وہ دہلی سے بذریعہ ٹرین لکھنوٗ کے لیے روانہ ہوتے تھے: ’’دن بھر عدالت کے باہر، عدالتی ہرکارے کی آوا ز کا انتظار کرنے کے بعد بتایا جاتا تھاکہ آج گواہی نہیں ہوگی، کیونکہ یا تو جج موجود نہیں ہے، یا استغاثہ یا وکیل دفاع موجود نہیں ہے‘‘۔ جین کے بقول: ’’کئی برسوں تک اس طرح کی گردشوں کے بعد جب ایک دن مجھے گواہوں کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا، اورابھی بیان ریکارڈ ہونے ہی والا تھا، کہ ایک معمر وکیل نے کٹہرے کے پاس آکر اپنا منہ میرے کے کان کے پاس لاکر ماں ، بہن کی گندی گالی دے کر دھمکی بھی دے ڈالی‘‘۔اس پر جین نے بلند آواز میں جج کو متوجہ کرتے ہوئے شکایت کی، کہ ’’مجھ کو بھری عدالت میں دھمکیاں دی جا رہی ہیں‘‘۔ جج نے حکم دیا کہ ’’پروین کو ایک سفید کاغذ دیا جائے، تاکہ یہ اپنی شکایت تحریری طور پر دیں‘‘۔ شکایت جج کے پاس پہنچتے ہی ، وکیل دفاع نے دلیل دی،کہ    ’’اب پہلے اس کیس کا فیصلہ ہونا چاہیے کہ گواہ کو کس نے گالی اور دھمکی دی؟ اس دوران کورٹ میں ہنگامہ مچ گیا اور گواہی اگلی تاریخ تک ٹل گئی اور بتایا گیا کہ ’’تم اپنا وکیل مقرر کرو ، کیونکہ اب پہلے تمھیں عدالت میں دھمکانے کا کیس طے ہوگا‘‘۔
 تنگ آکر جین نے یہ کیس واپس لیا اور اصل کیس، یعنی بابری مسجد کی مسماری سے متعلق اپنا بیان درج کروانے کی درخواست کی۔ اس طرح کئی تاریخوں کے بعد جب گواہی درج ہوگئی تو ان کو بتایا گیا ، کہ ’’بس تصویریں کافی نہیں ہیں، ۶دسمبر کے دن ایودھیا میں اپنی موجودگی ثابت کرو‘‘۔ خیر کسی طرح کئی ماہ کی تگ ودو کے بعد انھوں نے ایودھیا کے ضلعی صدر مقام فیض آباد کے ایک ہوٹل سے پرانا ریکارڈ نکالا اور اپنے ادارے پائینیر کا ایک سرٹیفکیٹ بھی حاصل کیا۔ مگر اب کورٹ میں ان کو بتایا گیا کہ ’’یہ کاغذات بھی ناکافی ہیں‘‘۔ آخرکئی عشرے قبل کا ٹرین ٹکٹ ان کو مل گیا اور اب کئی برسوں کے بعد یہ طے ہو گیا کہ وہ اس دن واقعی ایودھیا میں تھے، مگر اب ان کو بتایا گیا کہ ’’تمھاری تصویریں قابلِ اعتبار نہیں ہیں، اس لیے ا ن کے نگیٹو پرنٹ کورٹ میں پیش کرنے ہوںگے‘‘۔
اسی دوران دہلی میں پروین جین کی عدم موجودگی میں ان کے فلیٹ پر ’چوروں‘ نے دھاوا بول دیا اور پورے گھر کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ۔ گھر کی جو حالت تھی، اس سے معلوم ہوتا تھا کہ درانداز کس چیز کو تلاش کر رہے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ نقدی، زیورات اور دیگر قیمتی سامان غائب تھا، مگر خوش قسمتی سے تصویروں کے نگیٹو بچ گئے تھے، کیونکہ وہ انھوں نے کسی دوسری جگہ حفاظت سے رکھے ہوئے تھے۔ کورٹ میں مسجد کی شہادت کی تیاری اور باضابط ریہر سہل کرنے کی تصویریں پیش کی گئیں۔ معلوم ہوا کہ دو سول انجینیر اور ایک آرکیٹیکٹ مسجد کی عمارت گرانے کے لیے کارسیوکوں کو باضابطہ ٹریننگ دے رہے تھے۔ ان سبھی کے چہرے تصویروں میں واضح تھے۔
اسی طرح میرے کشمیری پنڈت دوست سنجے کاوٗ بھی ایک گواہ تھے۔ انھوں نے مسجد کی شہادت سے قبل ایک اسٹنگ آپریشن کے ذریعے انکشاف کیا تھا کہ ۶دسمبر کو بابری مسجد کو مسمار کر دیا جائے گا۔ ان دنوں خفیہ کیمرہ سے اسٹنگ کا رواج نہیں تھا۔ اخبار اسٹیٹسمین کے دفتر سے رات گئے جب وہ آفس کی گاڑی میں گھر جا رہے تھے، تو ڈرائیور نے ان کو بتایا کہ ایودھیا میں اس بار کچھ بڑا ہونے جا رہا ہے۔ ایڈیٹر نے اگلے دن ان کو ایودھیا جانے کی اجازت دے دی۔
 مگر کاوٗ نے صحافی کے بجائے ایک کارسیوک کے طور پر جانے کی ٹھانی اور دہلی میں بی جے پی کے دفترمیں سنجے کول کے نام سے اندراج کرواکے کار سیوک کا کارڈ حاصل کیا۔ ہندو اور کشمیری پنڈت ہونے کے باوجود نہ صرف ٹرین میں بلکہ فیض آباد میں بھی کئی بار ان کی پوچھ گچھ کی گئی۔ ’’شاید میں نیا چہرہ تھا، و ہ بار بار شک کی نگاہ سے مجھے دیکھتے تھے۔ میں نے اپنے آپ کو ایک انجینیرنگ اسٹوڈنٹ بتایا ، جس کو کشمیر میں حالات کی خرابی کی وجہ سے تعلیم ادھوری چھوڑنی پڑی ہے‘‘۔ ایودھیا پہنچنے پر ایک بار پھر ۶،۷افراد نے باقاعدہ تفتیش کی۔ کشمیری پنڈت ہونے کی دہائی دے کر آخر کار مجھ کو کارسیوکوں کے ایک گروپ میں شامل کرکے خیمہ میں رہنے کے لیے کہا گیا۔ واکی ٹاکی ہاتھ میں لیے ایک سادھو اس گروپ کا سربراہ تھا، جس نے اگلے دن ایک قبرستان میں لے جاکر ہم کو قبریں منہدم کرنے کا حکم دے دیا۔ وہ بار بار ان کو تاکید کر رہا تھا کہ ہاتھ چلانا سیکھو۔ کارسیوک آپس میں گفتگو کر رہے تھے کہ اسی طرح مسجد کو بھی توڑنا ہے‘‘۔ سادھو نے سنجے کاوٗ کو خبردار کیا تھا کہ ’’صحافی یا خفیہ محکمہ کا کوئی فرد ان کے آس پاس نہ پھٹکنے پائے ۔ بار بار کے انٹروگیشن، ریہرسہل اور صحافیوں کے بارے کارسیوکوں کے رویے نے کاوٗ کو کافی ڈرا دیا۔ رات کے اندھیرے میں وہ خیمہ سے بھاگ کر پہلے فیض آباد اور پھر دہلی روانہ ہوگیا، جہاں اس نے اسٹیٹسمین میں کئی قسطوں میں چھپی رپورٹوں میں بتایا کہ مسجدکی مسماری کی تیاریاں پوری طرح مکمل ہیں۔
دنیا کو مسجد کی شہادت کی خبر دینے والے صحافی قربان علی کے مطابق شام چھے بجے تک تاریخی شاہی مسجد کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کردیا گیا تھا۔ وہ بی بی سی کے جنوبی ایشیا کے بیورو چیف مارک ٹیلی کے ساتھ کئی روز سے ایودھیا میں مقیم تھے۔ ان کا کہنا ہے،اگرچہ افواہوں کا بازار گرم تھا، مگر مسجد کی مسماری کا اندازہ نہیں تھا۔ بھارتی وقت کے مطابق۳۰:۱۱ بجے صبح کارسیوکوں نے مسجد پر دھاوا بول دیا، جب کہ ایک گروپ صحافیوں کو ڈھونڈکر ان کو پیٹ پیٹ کر کمروں میں بند کر رہا تھا۔مارک ٹیلی اور علی ان کو غچہ دے کر کسی طرح ایودھیا سے نکل کر فیض آباد پہنچے ، اور وہاں کے ٹیلیگراف آفس سے دہلی خبر بھیجی۔ اس وقت فیض آباد میں مقیم سینٹرل ریزور پولیس فورس کے دستوں نے ایودھیا کی طرف مارچ کرنا شروع کر دیا تھا۔ یہی آخری خبر تھی، جو دہلی تک پہنچ سکی تھی۔ واپسی پر ان دونوں صحافیوں نے دیکھا کہ سینٹرل فورس کو ایودھیا کے باہر ہی روک لیا گیا ہے۔
خیر وہ دوسرے راستے سے ایودھیا شہر میں داخل ہوئے اور ایک ہجوم نے مارک ٹیلی کو پہچان کر ان دونوں کو ایک بوسیدہ مندر کے کمرے میں بند کردیا۔ ’’وہ پہلے ہمارے قتل کے لیے آپس میں مشورہ کررہے تھے ۔ پھر ان کے سربراہ نے ان کو بتایا کہ پہلے مسجد کے قضیہ سے نپٹ لیں، یعنی پوری طرح مسمار ہو، پھر ان کی تقدیر کا فیصلہ کریں گے‘‘۔ شام کو کسی دوسرے گروپ نے تالا کھولا اور ان کو وی ایچ پی کے سربراہ اشوک سنگھل کے دربار میں پیش کیا، جو قربان علی اور مارک ٹیلی سے واقف تھے۔ انھوں نے ان کو رہا کرادیا۔ مگر شہر سے جانا ابھی تک جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا۔ قربان علی کا کہنا ہے کہ ایودھیا سے فیض آباد کی محض ۱۰ کلومیٹر کی دُوری، اس دن کئی سو کلومیٹر کا فاصلہ لگ رہا تھا اور جب وہ فیض آباد کے ہوٹل میں داخل ہو رہے تھے تو اس وقت بی بی سی اردو کی رات کی نشریات جاری تھیں، جس نے ان سے فون پر بات کرکے دنیا تک خبر پہنچائی۔
معروف قانون دان اور مصنف اے جی نورانی نے اپنی کتاب Destruction of Babri Masjid:A National Dishonour کی تیسری جلد میں بابری مسجد کو شہید کرنے کی سازش پر خوب بحث کی ہے۔ ان کے بقول: ’’مسجد کی شہادت میں بھارتی عدلیہ اور انتظامیہ نے بھر پور کردار ادا کرکے اپنی فرقہ وارانہ ذہنیت کا پول کھول دیا ہے۔نہ صرف نچلی عدالتوں کے لیت و لعل سے بلکہ اس وقت کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس وینکٹ چلیا کے طریق کار نے بھی مسجد کی مسماری کی راہ ہموار کردی‘‘۔نورانی صاحب نے انکشاف کیا کہ ’’جسٹس چلیا مسجد کو بچانے اور آئین اور قانون کی عمل داری کو یقینی بنانے کے بجائے کار سیوکوںکی صحت سے متعلق فکر مند تھے۔غالباً یہی وجہ تھی کہ ۱۹۹۸ء میں بی جے پی کی قیادت والی مخلوط حکومت کے قیام کے بعد ان کو شاید انھی خدمات کے بدلے ایک اعلیٰ اختیاری کمیشن کا سربراہ مقرر کیا گیا‘‘۔
نورانی صاحب لکھتے ہیں: ’’سابق سیکرٹری داخلہ مادھو گوڈبولے کے مطابق ان کو بھی مسجدکی شہادت کی تیاری کی اطلاع تھی۔ اسی لیے ان کے محکمے نے ریاست اتر پردیش میں مرکزی راج نافذ کرنے کا مشورہ دیا تھا،مگر کانگریسی وزیراعظم نرسمہا راؤ نے اس کو نامنظور کر دیا‘‘۔ نورانی کا کہنا ہے کہ ’’راوٗ خود، مسجد کی شہادت میں بلا واسطہ ملوث تھے۔ کانگریس کے اندرا گاندھی کے دورِاقتدار میں ہی بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کی راہ ہموار کرنے کے لیے ویشوا ہندو پریشد کے ساتھ ایک معاملہ فہمی ہوئی تھی۔
بلاشبہہ پریشد نے اندرا گاندھی کی ہلاکت کے بعد اپنی تحریک روک دی مگر راجیو گاندھی نے اس معاملہ فہمی کو پھر زندہ کیا۔ تاہم، اس سے پہلے وہ مسلمانوں پر کوئی احسان کرنا چاہتے تھے۔ اس کے لیے ان کے حواریوں نے ایک مسلم مطلقہ خاتون شاہ بانو کا قضیہ کھڑا کیا اور پارلیمنٹ سے ایک قانون پاس کروایا کہ مسلم پرسنل لا میں عدالت کوئی ترمیم نہیں کر سکتی‘‘۔مصنف نے راجیوگاندھی کو مشورہ دیا تھا کہ اس قضیے کو اینگلومحمڈن قانون کے بجائے شرعی قانون کے مطابق حل کیا جاسکتا ہے، مگر وہ مسلمانوںکو سیاسی طور پر بے وقوف بناکر پریشد کے ساتھ ڈیل کو آگے بڑھا رہے تھے۔
بابری مسجد کی شہادت میں سیکولر جماعتوں کے دامن بھی خون سے آلودہ ہیں۔ بابری مسجد نے شہادت کے بعد ان سبھی چہروں سے نقاب اتار کر پھینک دیے ہیں اور اگر ابھی تک کسی کو یہ چہرے اصل رُوپ میں نظر نہ آتے ہوں، تو یقیناً ان کی دماغی حالت پر شبہے کے علاوہ اور کیا ہی کیا جاسکتا ہے!

 

ویسے تو خطہ جموں و کشمیر کی تاریخ میں سبھی مہینے بہت سی خونیں یادیں لے کر وارد ہوتے ہیں، مگر ۷۳ سال قبل اکتوبر کا مہینہ بدقسمتی کا ایک ایسا تازیانہ لے کرآیا، کہ اس سے چھٹکارے کی دور دور تک امید نظر نہیں آرہی ہے۔ برصغیر میں جب دو مملکتیں بھارت اور پاکستان وجود میں آکر آزاد فضاؤں میں سانسیں لینے کا آغاز کر رہی تھیں، امید تھی کی صدیوں سے غلامی اور مظالم کی چکی میں پسنے کے بعد اس خطے کے باسیوں کو بھی راحت ملے گی، مگر قسمت میں کچھ اور ہی لکھا تھا۔  کچھ اپنے لیڈروں کے خود غرض اور عاقبت نااندیش فیصلوں، اور کچھ قوم کی نادانی اور ان بے لگام اور احتساب سے بالاتر لیڈروں کے پیچھے پالتو جانوروں کی طرح چلنے کی روش نے کشمیری قوم پر آزمایش اور ابتلا کا ایک ایسا دور شروع کیا، جو آج ایک بدترین مرحلے میں داخل ہوگیا ہے۔

جب بھارت اور پاکستان صبح آزادی کا جشن منانے میں مصروف تھے، اس وقت جموں خطے میں دنیا کی بدترین نسل کشی ہو رہی تھی۔ کئی بر س قبل جب دہلی میں ایک پروگرام کے دوران میں نے دی ٹائمز لندن کی ۱۰؍اگست ۱۹۴۸ءکی ایک رپورٹ کا حوالہ دے کر بتایا کہ اس نسل کشی میں ۲ لاکھ۳۷ہزار افراد کو ہلاک کردیاگیا تھا، تو سبھی کا یہی سوال تھا، کہ اتنا بڑا قتل عام آخر تاریخ اور عام اخبارات سے کیسے یکسر غائب ہے ؟ کشمیر کے ایک سابق بیوروکریٹ خالد بشیر کی تحقیق کا حوالہ دے کر ٹائمز آف انڈیا کے کالم نویس سوامی انکلیشور ائیر اور معروف صحافی سعید نقوی نے بھی جب جموں قتل عام کو اپنے کالم کا موضوع بنایا، تو کئی تحقیقی اداروں میں تہلکہ مچ گیا۔ مگر جلد ہی اس پر مباحثے کو دبادیا گیا۔

جدید تاریخ کی اس بدترین نسل کشی پر تعصب اور بے حسی کی ایسی دبیز تہہ جم چکی ہے، کہ کوئی یقین ہی نہیں کر پارہا ہے۔اس نسل کشی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے، کہ ۱۹۴۱ میں جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی۳۲ لاکھ اور ہندؤوں کی آبادی آٹھ لاکھ تھی۔وادی کشمیر میں ۹۳فی صد جب کہ جمو ں میں ۶۹فی صد مسلم آبادی تھی۔ اگر ان علاقوں کو، جو تقسیم کے بعد آزادکشمیر کا حصہ بنے، انھیں شمار نہ کیا جائے تو موجودہ جموں و کشمیر میں مسلم آبادی ۷۷ء۱  فی صد تھی۔ ۱۹۶۱ءکی مردم شماری میں مسلم آبادی گھٹ کر۶۸ء۲۹ فی صد رہ گئی تھی۔ جموں خطے میں مسلمانوں کی اکثر یتی شناخت کو چند مہینوں میں ہی اقلیت میں تبدیل کیا گیا۔ ۲۰۱۱ء کی مردم شماری کے مطابق جموں کے خطے میں مسلم آباد ی کا تناسب ۳۳ء۴۵  فی صدہے۔

جموں کشمیر کی جدید صحافت اور مؤقر انگریزی اخبار کشمیر ٹائمز کے بانی آنجہانی وید بھسین ۱۹۴۷ء کے واقعات، اور جموں میں مسلمانوں کے قتل عام کے وہ چشم دید گواہ تھے۔  ان کے بقول: ’’ہندو انتہا پسندوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ نے اس علاقے میں باضابطہ ٹریننگ کیمپ کھولے تھے، جن میں نہ صرف ہتھیاروں کی مشق کرائی جاتی تھی، بلکہ مسلمانوں کے خلاف ذہن سازی بھی کی جاتی تھی‘‘۔ وہ کہتے تھے: ’’اور ہندو ساتھیوں کی دیکھا دیکھی میں بھی ٹریننگ کیمپ میں چلا گیا، مگر جلد ہی سڑکوں پر کشت و خون سے دلبرداشتہ ہو گیا۔ اس کو روکنے کے لیے، میں، بلراج پوری اور اوم صراف کے ہمراہ مہاراجا کے محل پہنچا۔ ہمیں جلد ہی وزیر اعظم مہرچند مہاجن کے روبرو لے جایا گیا۔ وہ الٹا ہمیں سمجھانے لگا کہ ہندو ہونے کے ناطے، ہمیں اسمبلی اور دیگر اداروں میں مسلمانوں کے برابر نشستوںکا مطالبہ کرنا چاہیے، کیونکہ اب جمہوری دور کا آغاز ہو چکا ہے۔ اور عددی قوت کے بل پر ہی اقتدار پر قبضہ برقرار رکھا جاسکتا ہے‘‘۔ اوم صراف نے جرأت کا مظاہر ہ کرتے ہوئے پوچھا کہ ’’یہ آخر کس طرح ممکن ہے، جموں و کشمیر تو ایک مسلم اکثریتی ریاست ہے‘‘۔ اس پر مہاجن نے محل کی دیوار سے متصل کھائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’بالکل اس طرح‘۔ جب ہم نے بغور دیکھا تو چند مسلم گوجروں کی بے گور و کفن لاشیں نظر آئی، جو شاید صبح سویرے محل میں دودھ دینے آئے تھے‘‘۔بقول وید بھسین، مہرچند مہاجن ریاست کی آبادی کا فرقہ وارانہ پروفائل تبدیل کرنے پر اڑا ہوا تھا۔ جب میں نے ایک دن ان سے پوچھا کہ وزیراعظم جواہر لال نہرو کی ایما پر جموں و کشمیر انتظامیہ کی لگام شیخ محمد عبداللہ کے ہاتھوں میں دی گئی تھی، تو انھوں نے اس قتل عام کو روکنے کی کوشش آخر کیوں نہیں کی؟ تو وید جی نے کہا: 'ہم نے کئی بار ان کی توجہ اس طرف مبذول کرانے کی کوشش کی۔ میں خود بھی نیشنل کانفرنس میں شامل تھا، مگر وہ ان سنی کرتے رہے۔ یا تو وہ معذور تھے، یا جان بوجھ کر جموں کے معاملات سے الگ رہنا چاہتے تھے۔ بعد میں بھی کئی بار میں نے شیخ صاحب کو کریدنے کی کوشش کی، مگر یہ ذکر چھڑتے ہی وہ لب سی لیتے تھے یا کہتے تھے کہ ’’جموں کے مسلمانوں نے ان کوکبھی لیڈر تسلیم ہی نہیں کیا تھا‘‘۔ ان کو شکوہ تھا کہ کشمیری مسلمانوں کے برعکس ۱۹۳۸ء میں جب انھوں نے مسلم کانفرنس سے کنارہ کرکے نیشنل کانفرنس کی بنیاد ڈالی، تو جموں کے مسلمانوں نے ان کے مقابلے میں چودھری غلام عباس کا دامن تھامے رکھا۔ محقق خالد بشیر لکھتے ہیں: مسلم کش فسادات کا سلسلہ کشمیر میں قبائلی پٹھانوں کے داخل ہونے سے قبل ہی شروع کردیا گیا تھا۔ اس لیے متعصب مؤرخین اور تاریخ سے نابلد اور عاقبت نااندیش صحافیوں کا یہ کہنا کہ ’’وادی میں قبائلیوں کے حملے کے ردعمل میں جموں میں فسادات ہوئے، درست بات نہیں ہے، کیونکہ واقعات ان کی نفی کرتے ہیں‘‘۔

اس خطے پر اب ایسی نئی افتاد آن پڑی ہے، کہ فرقہ پرستوں کی آنکھوں میں یہ ۳۳فی صد رہ جانے والی مسلم آبادی بھی کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے۔ ان کا الزام ہے کہ جموں خطے کے مسلم اکثریتی پیر پنچا ل اور چناب ویلی کے علاقوں سے مسلمان آکر جموں شہر اور اس کے آس پاس زمینیں خرید کر بس جاتے ہیں، جو کہ ’لینڈ جہاد ‘ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’اس سے جموں شہر اور اس کے   آس پاس آباد ی کا تناسب بگڑ رہا ہے‘‘۔ کیا پونچھ، راجوری، ڈوڈہ، بھدرواہ کے اضلاع جموں خطے کا حصہ نہیں ہیں؟  اگر ان دُور دراز علاقوں سے تعلیم اور معاش کے لیے لوگ اس خطے کے واحد بڑے شہر جموں وارد ہوتے ہیں، تو اس سے آبادی کا تناسب کیسے بگڑ سکتا ہے؟ دوسال قبل ایک مہم کے تحت جموں میں مسلمان گوجروں اور بکر والوں کی بستیوں کو ٹھنڈی ، سنجواں ، چھنی ،گول گجرال ، سدھرا ، ریکا، گروڑا اور اس کے گرد و نواح سے جبری طور پر بے دخل کردیا گیا۔ حالانکہ یہ زمینیں مہاراجا ہری سنگھ کے حکم نامے کے تحت ۱۹۳۰ء میں ان لوگوں کو دی گئی تھیں۔ دراصل جموں کا پورا نیا شہر ہی جنگلاتی اراضی پر قائم ہے، لیکن صرف مسلم اکثریتی علاقوں کو نشانہ بنانے کا مطلب مسلمانوںکو اس خطے سے بے دخل کرنا تھا، جہاں وہ پچھلے ۷۰برسوں میں کم ہوتے ہوتے حاشیے پر چلے گئے ہیں۔اب حال میں یہ افسانہ بیچا جا رہا ہے کہ ’’پچھلے کئی برسوں سے ’جموں و کشمیر روشنی ایکٹ‘ کے تحت زمینوں کے وسیع و عریض قطعے مسلمانوں کے حوالے کیے جارہے ہیں‘‘۔ اس سلسلے میں بے لگام بھارتی ٹی وی چینلوں نے بھی بغیر کسی ثبوت اور دستاویز کے طوفان بدتمیزی کھڑا کر دیا ہے۔ برسوں کی عدالتی غلام گرد شوں سے تنگ آکر۲۰۰۱ء میں حکومت نے ’روشنی ایکٹ‘ کو اسمبلی میں پاس کروایا، جس کی رُو سے ۲۰لاکھ کنال کی حکومتی زمین پر لوگوں کے مالکانہ حقوق کو معاوضہ کے   عوض تسلیم کیا گیا تھا، بشرطیکہ وہ اس زمین پر ۱۹۹۰ءسے قبل رہ رہے ہوں۔ اس سے حکومت کو ۲۵۰بلین روپے کی رقم کمانے کی امید تھی۔۲۰۰۵ء میں وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید نے ۱۹۹۰ءسے بڑھا کر یہ مدت ۲۰۰۵ء، اور بعد میں غلام نبی آزاد نے ۲۰۰۷ء کردی۔ معلوم ہوا چونکہ اس کا فائدہ سیاست دانوں اور نوکر شاہی نے ا ٹھایا تھا، اس لیے حکومت ۷۰کروڑ روپے کی رقم ہی اکٹھا کرپائی۔

معروف صحافی مزمل جلیل نے ایک تحقیقی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اس قانون کی رُو سے جموں میں۴۴۹۱۲ کنال زمین تقسیم ہوئی تھی، جس میں محض۱۱۸۰ کنال زمین یعنی۲ء۶۳ فی صد ہی مسلمانوں کے حصے میں آئی۔ مسلمانوں کو زمینوں کے مالکانہ حقوق دینا تو دُور کی بات، ان کی وقف زمینوں پر بے جا قبضے کر لیے گئے ہیں۔ چند برس قبل جلیل نے جب وقف زمینوں کو ہتھیانے پر تحقیق شروع کی، تو معلوم ہوا کہ نہ صرف فرقہ پرست، بلکہ حکومت کے مقتدر حلقے خود اس خرد برد میں ملوث تھے۔ اس خطے میں۳۱۴۴  کنال وقف زمین غیر قانونی  قبضہ میں ہے، جس میں کئی قبرستان ، رنبیر سنگھ پورہ کی جامع مسجد، چاند نگر کی زیارت وغیرہ شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق مڑتحصیل میں وقف کونسل کی ۴۶۰کنال زمین ہے، جس کو محکمہ تعلیم نے ہتھیا یا ہے اور مسجد کو گوردوارے میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ مقامی افراد نے بقیہ زمیں پر آبادی کھڑی کر دی ہے۔ چاند نگر میں پیر بابا کی زیارت کے احاطے پر سبھاش نامی ایک شخص نے قبضہ جما لیا ہے۔ تحصیل سانبہ کے تھلوری گجران میں ۴۹کنال قبرستان پر ایک مندر اور اسکول بنایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ۶۵کنال زمین پر پولیس نے اپنا ٹریننگ اسکول تعمیر کیا ہے۔ ریہاری کی ۴۹کنال قبرستان کی زمین پر فوج کا قبضہ ہے۔ ’مسلم وقف کونسل‘ کی طرف سے بار بار نوٹس دینے کے باوجود فوج اس کو خالی نہیں کررہی ہے۔ اس قبرستان کا ایک قطعہ حکومت نے ایک بیوہ ایودھیا کماری کو ’عطیہ‘ کردیاہے۔ ’وقف کونسل‘ کی اجازت کے بغیر ہی ۶۰کنال کی زمین پولیس کو دی گئی ہے۔ جموں میونسپل کارپوریشن نے قبرستان کے ایک حصے پر بیت الخلا تعمیر کروائے ہیں۔ تحصیل سانبہ کے لیکی منڈا علاقے میں وقف کی۹۸کنال زمین ضلع سینک بورڈ کے حوالے کی گئی ہے۔ چنور گاؤں میں ۲۰کنال زمین بھی پولیس کے تصرف میں ہے۔ تحصیل اکھنور کے مہر جاگیر ۶۵کنال قبرستان پر مقامی افراد نے مکانات تعمیر کیے ہیں۔ اسی طرح پیر گجر میں بھی پولیس نے وقف کی ۳۷کنال زمین ہتھیا لی ہے۔

اگر موجودہ حالات اور کوائف پر نظر ڈالی جائے تو  اس بات کا خدشہ محسوس ہوتا ہے کہ یہاں ۱۹۴۷ء کے واقعے کو پھر سے دہرایا جا سکتا ہے، جیسا کہ سابق وزیر چودھری لا ل سنگھ نے ایک مسلم وفد کو ۱۹۴۷ء یاد کرنے کا مشور ہ دیا تھا۔ اس سلسلے میں بھارت میں مسلم قائدین سے بھی گزارش ہے کہ کچھ ملّی حمیت کا ثبوت دے کر عمل سے نہ سہی ، کچھ زبانی ہی جموں کے مسلمانوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کا کام کریں۔ اگر لال سنگھ یا اس طرح کے افراد اپنی دھمکی کو عملی جامہ پہناتے ہیں، تو خون ان گونگے، بہرے، مسلم لیڈروں کی گردنوں پر بھی ہوگا۔ وزیر اعظم نریند ر مودی کی حکومت ،جو بیرونِ ہند گاندھی جی کی تعلیمات کو استعمال کرکے بھارت کو دنیا میں ایک اعتدال اور امن پسند ملک کے طور پر اجاگر کروانے کی کوشش کرتی ہے، کو اسی گاندھی کے ہی ایک قول کی یاد دہانی کرانا چاہتا ہوں: ــ’’ہندستان اگر رقبے میں چھوٹا ہو، لیکن اس کی روح پاکیزہ ہو تو یہ انصاف اور عدم تشدد کا گہوراہ بن سکتا ہے۔ یہاں کے بہادر لوگ ظلم و ستم سے بھری دنیا کی اخلاقی قیادت کرسکتے ہیں۔ لیکن صرف فوجی طاقت کے استعمال سے توسیع شدہ بھارت مغرب کی عسکری ریاستوں کا تیسرے درجے کا چربہ ہوگا، جو اخلاق اور آتما سے محروم رہے گا۔اگر بھارت جموں و کشمیر کے عوام کو راضی نہیں رکھ سکا، تو ساری دنیا میں اس کی شبیہہ مسخ ہو کر رہ جائے گی‘‘۔ بقول شیخ عبداللہ، گاندھی جی کہتے تھے، کہ ’’کشمیر کی مثال ایسی ہے، جیسی خشک گھاس کے انبار میں ایک دہکتے ہوئے انگارے کی۔ذرا بھی ناموافق ہوا چلی تو سارے کا سار ا برصغیر اس آگ کے شعلوں میں لپٹ جائے گا‘‘۔ مگر گاندھی کے نام لیوا تو اس کی تعلیمات کب کی بھول چکے ہیں، اور اس کا استعمال تو اب صرف سفارتی ڈگڈگی بجا کر دنیا کے سامنے بچے جمورے کا کھیل رچانے کے لیے کیا جاتا ہے۔

ویسے تو حقوق انسانی کی خلاف ورزیاں، زیادتیاں، گرفتاریاں اور ٹارچر کشمیر میں عام بات ہے اور وہاں کے مکین بھی ان مظالم کو سہنے کے عادی ہو چکے ہیں، مگر پچھلے سال اگست کے بعد سے بھارت نے جس طرح ریاست کو تحلیل اور ضم کردیا، اس نے بھارتی سیکورٹی اداروں کو اس حد تک بے لگام کر دیا ہے، کہ دیگر ادارے بشمول عدلیہ بھی ان کے سامنے بے بس نظر آتی ہے۔

۷؍اگست ۲۰۲۰ء کو ’پاکستان، انڈیا پیپلز فورم فار پیس اینڈ ڈیموکریسی‘ (PIPFPD) اور ’جموں و کشمیر سالیڈیریٹی گروپ‘ نے کشمیر کے زمینی حالات کا جائزہ لینے کے بعد ۱۹۶صفحات پر مشتمل ایک جامع رپورٹ The Siege میں کئی دل خراش واقعات قلم بند کیے ہیں ، جن کو پڑھیں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ بدقسمتی سے میڈیا میں اس رپورٹ کو خاطر خواہ تشہیر نہیں مل سکی ہے۔رپورٹ کے مصنّفین تپن کے بوس، ریتامن چندا، انورادھا بھاسین، راجا سری داس گپتا، جاشودرا داس گپتا، اشوکا اگروال، ایم جے وجین اور دیگر افراد نے دیہات اور قصبوں کا دورہ کرکے بجاطور پر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ خطے میں عدم تعاون کی ایک خاموش تحریک چل رہی ہے، جس سے بھارت نواز پارٹیاں اور حکومت خاصی خائف ہے اور سیکورٹی انتظامیہ کا رویہ خاصا ہتک آمیز اور بے لگام ہو گیا ہے۔

پلوامہ کے متمول تاجر اور ایک فیکٹری کے مالک کا ذکر کرتے ہوئے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح دیہی علاقوں میں عام افراد کو مخبر ی کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔ اس تاجر نے وفد کو بتایا کہ: چند ماہ قبل جب مَیں انڈسٹریل اسٹیٹ میں واقع اپنی فیکٹری کے سامنے کار پارک کر رہا تھا تو راشٹریہ رائفلز کے سپاہیوں نے مجھ کو سڑک پر سے اینٹیں اٹھا کر ایک ٹرالی میں ڈالنے کا حکم دے دیا۔ میں نے پہلے تو احتجاج کیا اور پھر یہ پیش کش کی کہ اپنی فیکٹری سے مزدور بلاکر یہ کام کروا دوں گا۔ مگر سپاہی یہ جواب سن کر اور بھی طیش میں آگئے اور کہا کہ ـ’’ کشمیریوں کو اب یہ جان لینا چاہیے کہ وہ ہمارے غلام ہیں اور ان کو غلامی کی زندگی گزارنا سیکھنا ہوگا اور غلام ہی کی طرح رہنا ہوگا‘‘۔ یہ کہتے ہوئے اس متمول اور درمیانی عمر کے تاجر کے سر پر وہ اینٹوں اور گارے کا ٹوکرا زبردستی لاد کر اگلے کئی گھنٹے تک بیگا ر لیتے رہے۔ سڑک کی دوسری طرف اس کی فیکٹری کے مزدور اپنے مالک کو سر پر اینٹیں اور گارا ڈھوتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔

 اسی طرح رپورٹ میں درج ہے کہ پچھلے سال ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی کارروائی کے دوران جب پاکستانی وزیر اعظم عمران خان تقریر کررہے تھے ، تو اس علاقے میں سپاہیوں نے لوگوں کے دروازے کھٹکھٹائے اور جو بھی یہ تقریر دیکھ رہا تھا ،اس پر بدترین تشدد کیا۔

رپورٹ میں ایک ایسے شخص کی آپ بیتی درج ہے، جس کے والد انڈین ملٹری کی انجینیرنگ سروس اور اس کے حقیقی چچا بھارتی فضائیہ کے لیے کام کرتے تھے۔ ۲۰۱۴ء میں آئے سیلاب کے متاثرین کے لیے جب اس نے بڑھ چڑھ کر ریلیف کا کام کیا تو پولیس نے اس کو گرفتار کرکے پوچھ گچھ کی کہ ریلیف کے لیے رقوم کہا ں سے آرہی ہیںاور کس نے ریلیف میں حصہ لینے کی ترغیب دی؟ ۲۰۱۸ء میں راشٹریہ رائفلز کی ۵۵ویں بٹالین نے اس کے گھر پر دھاوا بول کر کار اور دیگر قیمتی اشیا اپنے قبضے میں لے لیں۔ اگلے دن کیمپ میں بٹالین کے کیپٹن نے اس مظلوم کو بلاکر کہا کہ وہ عسکری کمانڈرذاکر موسیٰ کی اہلیہ تک رسائی حاصل کرکے اس کی مخبری کرے۔ ان کو معلوم ہوگیا تھا کہ ذاکر موسیٰ [ذاکرراشدبٹ شہید - ۲۴مئی ۲۰۱۹ء]کی اہلیہ اس کے ایک قریبی دوست کی ہمشیرہ ہے۔ اس گھٹیا حرکت سے انکار کی صورت میں اس تاجر کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر خوب زد و کوب کیا گیا، جس سے اس کے ہاتھ کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ کئی دن حراست میں رکھنے کے بعد اس کے والد نے انڈین فوج کے کیپٹن کو ۳ لاکھ [یعنی پاکستانی ۵ لاکھ] روپے ادا کرکے اس کو چھڑوایا۔

اس شخص کا کہنا تھا کہ ’’میں نے اپنے والد اور چچا کی فوج کے ساتھ قربت کی وجہ سے فوج کو کافی قریب سے دیکھا اور پرکھا ہے، اور اس فوج کے اندر جس قدر کرپشن سرایت کر گئی ہے اس کا مَیں چشم دید گواہ ہوں‘‘۔ پچھلے سال ۵؍ اگست کا ذکر کرتے ہوئے اس تاجر کا کہنا ہے ’’کرفیو کی وجہ سے اس دن اپنی فیکٹری میں ہی رُکا رہا۔ مگر میرے گھر پر انڈین آرمی نے دھاوا بولا اور افراد خانہ کو زد و کوب کیا، حتیٰ کہ دماغی طور پر کمزور میرے ۱۵سالہ کزن کو بری طرح پیٹا۔ اس واقعہ کی اطلا ع ملنے پر میں کیمپ کی طرف روانہ ہوا، جہاں مجھ پر الزام لگایا گیا کہ میں احتجاج میں شریک تھا اور پھر چند دن کیمپ میں حراست میں رکھ کر مجھ کو پولیس کے حوالے کیا گیا۔ پولیس لائنز میں اس وقت ایک درجن کے قریب ۱۳سے ۱۵سال کی عمر کے بچے بند تھے۔ چار روز بعد تو مجھ کو چھوڑدیا گیا ، مگر ان بچوں پر بد نامِ زمانہ پبلک سیفٹی ایکٹ کا اطلاق کرکے انھیں جیلوں میں بھیج دیا گیا‘‘۔

دل دہلا دینے والی اس رپورٹ کے مطابق پچھلے ایک سال کے دوران ۱۲سے ۱۵ہزار افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ان گرفتار شدہ اور دیگر بہت سے زیرحراست افراد کا کوئی حساب کتاب، لواحقین اور سول سوسائٹی کو نہیں ہے۔ مصنّفین کے مطابق ایک شخص کو گرفتار کرکے آگرہ جیل میں محض اس وجہ سے پہنچا دیا گیا کہ کسی فوٹو میں اس کو ایک نماز جنازہ ادا کرتے ہو ئے دیکھا گیا تھا۔ پچھلے ایک سال کے دوران جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں حبس بے جا کی ۴۵۰ رٹ پٹیشن دائر کی گئیں، مگر صرف تین کی شنوائی کی گئی۔ کشمیر سے ہزاروں کلومیٹر دُور اسیروں کی حالت نہایت ناگفتہ بہ ہے۔ اسیروں سے ملاقات کے لیے اکثر افراد خانہ کو زمین و جایداد بیچنی پڑی ہے۔

کپواڑہ کا ایک طالب علم بلال احمد جو سرینگر میں امر سنگھ کالج میں زیر تعلیم تھا، اسے پولیس نے چند دیگر نوجوانوں کے ساتھ حراست میںلے لیا۔ ایس ایچ او نے طالب علم کے رشتہ داروں کو بتایا کہ چند روز میں اس کو رہا کر دیا جائے گا۔ دیگر نوجوانوں کو تو چند روز بعد بھاری رشوت کے عوض رہا کیا گیا، مگر بلال کے والد نے جب رقم دینے سے انکار کر دیا، تو اگلے ہی دن اس پر پبلک سیفٹی ایکٹ کا اطلاق کرکے ۱۶۰۰کلومیٹر دور اتر پردیش کے امیڈکر نگر ضلع کی جیل میں بھیج دیا گیا جہاں اس کو یرقان کی بیماری لاحق ہوگئی۔ یہ ضلع لکھنؤ سے ۲۰۰کلومیٹر دور فیض آباد ڈویژن میں آتا ہے۔ جب اس نوجوان کے والد صاحب کو پتا چلا تو وہ محض ۲۵ہزار روپے میں گائے بیچ کر امبیڈکر نگر پہنچ گئے، وہاں کسی ہندو تو دُور مسلم ہوٹل والے نے بھی ان کو رات بھر کرائے کے کمرے میں ٹھیرنے کی اجازت نہیں دی۔ جیل کے کمرئہ ملاقات میں بلال نے ان کو بتایا: ’’مجھ کو بُری طرح زدو کوب کیا جاتا رہا ہے۔ اس جیل میں دیگر ۲۵؍ایسے کشمیری لڑکے تھے، جن کے گھر والوں کو ابھی تک ان کا کوئی اتہ پتہ نہیں کہ وہ زندہ ہیں یا کہاں پر اور کس حالت میں ہیں؟‘‘ سرینگر واپسی پر بلال کے والد نے ہائی کورٹ میں فریا دکی ، میرے بیٹے کے امتحانات شروع ہونے والے ہیں۔ اس کو امتحان میں شرکت کی اجازت دی جائے‘‘۔ کورٹ نے دسمبرمیں حکم دیا کہ بلال کو سرینگر جیل میں منتقل کیا جائے، تاکہ وہ امتحانات دے سکے۔ مگر اس عدالتی حکم پر ذرہ برابر عمل نہیں ہوا۔ فروری میں دوبارہ بلال کے والد ہائی کورٹ کے دروازے پر پہنچے اور ایک یا دو پیشی کے بعد کورٹ نے دوبارہ حکم نامہ جاری کیا، مگر انتظامیہ کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ اب اس کے والد کو مشورہ دیا گیا کہ وہ توہین عدالت کا کیس دائر کرے۔ مگر اتنی مشقت کے بعد اب اس کے پاس عدالتی غلام گردشوں میں خوار ہونے کے لیے پیسے ہی نہیں بچے تھے۔

                  اسی طرح بارہ مولہ کے ۲۱ سالہ دیہاڑی مزدور نوید پرے کو اس کے گھر سے اٹھایا گیا۔ جب اس کے عمر رسیدہ والدین پولیس اسٹیشن پہنچے، تو اس کی بیمار اور بوڑھی والدہ کو زد وکوب کیا گیا،  گالیاں دی گئیں، اور نوید کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت آگرہ جیل بھیج دیا گیا۔ آگرہ سفر اور ملاقات کے لیے والد نے ۳۵ہزار روپے میں اپنی ۱۰مرلہ زمین بیچی۔ یاد رہے نوید، خاندان کا اکیلا کفیل تھا۔ جب اس رپورٹ کے مصنّفین اس کے گھر پہنچے، تو معلوم ہوا کہ عمررسیدہ والدین پڑوس سے ادھار لے کر اس اُمید پر زندگی کاٹ رہے ہیں کہ بیٹا آکر قرض اُتارے گا۔ لیکن کیا بیٹا صحیح سلامت واپس آبھی سکے گا؟ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے، جب کہ گرفتاری کو چیلنج کرنے کے لیے ا ن کے پاس کوئی ذریعہ نہیں تھا۔

 ۲۸سالہ فیاض میر نے قرضہ پر ٹریکٹر خریدا تھا تاکہ بوڑھے ماں باپ اور چار جوان بہنوں کی کفالت کر سکے۔ اس کو بھی گرفتار کرکے اترپردیش کے شہر بریلی کی جیل میں بھیج دیا گیا۔ اس کے باپ نے ۲۵ہزار روپے اکٹھا کیے اور ملاقات کے لیے بریلی پہنچا۔ مگر سلاخوں کے پیچھے وہ اپنے بیٹے کو صرف  دیکھ سکا اور کوئی بات نہیں کرسکا، کیونکہ جیل سپرنٹنڈنٹ کی سخت ہدایت تھی کہ گفتگو صرف ہندی زبان میں سپاہیوں کی موجودگی میں کی جائے گی، جب کہ اس کے والد کشمیر ی کے علاوہ اور کوئی زبان بولنے سے قاصر تھے۔ ۲۰منٹ تک باپ بیٹے بس ایک دوسرے کو دیکھتے رہے، تاآنکہ سپاہی فیاض کو دوبارہ گھسیٹتے ہوئے اندر لے کر گئے اور ملاقاتی کو زبردستی باہر نکال دیاگیا۔ بیٹے سے بات کیے بغیر عمررسیدہ باپ ۱۱۰۰کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد واپس سرینگر اپنے گھر لوٹا۔ صبر کرتی رہی بے چارگی، ظلم ہوتا رہا مظلوم پر! (ملاحظہ کیجیے ویب پیج: www.pipfpd.net)

امریکی صدر ٹرمپ کی ایما پر متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کرکے باضابطہ سفارتی تعلقات قائم کرکے بین الاقوامی سیاست میں دھماکا تو کردیا، مگر یہ سوال اپنی جگہ برقرار ہے  کہ امارات کو اس طرح کا قدم اٹھانے کی آخر ضرورت کیوں پیش آئی؟ اسرائیلی اخبار  ھاریٹز کے مدیر زیوی بارمل کے مطابق مصر او ر اردن کے برعکس امارات کو امریکی امداد کی اور نہ کسی ایسی ٹکنالوجی کی ضرورت تھی، کہ جسے وہ آزادانہ طور پر پیسوں سے خرید نہ سکتا تھا۔ حال ہی میں یمن کی جنگ سے تنگ آکر امارات نے سعودی اتحاد سے کنارہ کشی کرکے ایران کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی تھی۔ مگر اسی دوران اسرائیل کو تسلیم کرکے اس نے ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے والی پالیسی اختیار کرکے دوبارہ ایران کے ساتھ ایک طرح سے کشیدگی مول لے لی ہے۔

۱۳؍اگست کو اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان طے پائے گئے معاہدے کے بعد جو مشترکہ بیان جاری ہوا ہے، اس کا تجزیہ کرکے محسوس ہوتا ہے کہ اس کے خالق بڑی عجلت میں تھے۔ بیان میں مشرق وسطیٰ کے اصل تنازع فلسطین کا کہیں ذکر تک نہیں ہے۔ بس زبانی بتایا گیا ہے کہ اسرائیل مغربی کنارہ اور وادی اردن کو ضم کرنے کی پالیسی پر نظر ثانی کرے گا۔ یہ خوش فہمی چند گھنٹوں کے بعد ہی اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے یہ کہہ کر دور کردی: ’’اس طرح کی کوئی یقین دہانی نہیں دی گئی ہے‘‘۔ اس میں سابق سعودی فرماںروا کنگ عبداللہ کے فارمولے کا بھی ذکر نہیں ہے، جس کو عرب لیگ نے ۲۰۰۲ءمیں منظور کرکے رکن ممالک کو تاکید کی تھی کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے اس فارمولا کے اطلاق اور تعلقات کو اس کے ساتھ مشروط کیا جائے ۔ اس بیان میں فلسطینی اور اسرائیلی راہنماؤں کے درمیان طے پائے گئے اوسلو معاہدے کے مندرجات کو لاگو کرنے کی بھی کوئی یقین دہانی نہیں ہے۔ تاہم، بین السطور اسرائیل نے یہ وعدہ ضرور کیا ہے کہ یروشلم یا القدس شہر کی عبادت گاہوں ،بشمول مسجداقصیٰ اور گنبد صخرا کو دنیا بھر کے ’پُرامن‘مسلم زائرین کے لیے کھولا جائے گا‘‘۔ مگر چونکہ زائرین کو ا سرائیلی امیگریشن سے گزرنا ہوگا، اس لیے اسرائیلی ویزا اور اجازت کی بھی ضرورت پڑے گی اور صرف انھی ممالک کے مسلمان زیارت کے لیے آسکیں گے، جو اسرائیل کو تسلیم کرتے ہوں گے۔ اور پھر اسرائیلی سفارت خانے کو حق حاصل ہوگا کہ ’پُرامن‘ کی اصطلاح کی اپنی تشریح سے اجازت دے یا درخواست مسترد کر دے۔

باوثوق ذرائع کے مطابق امارات اور اسرائیل کے درمیان خفیہ تعلقات کا آغاز اصل میں  ۲۰۰۸ء میں اس وقت ہوا تھا ، جب اقوام متحدہ نے بین الاقوامی تجدید توانائی ایجنسی کے صدر دفتر کو ابوظہبی کے پاس مصدر شہر میں قائم کرنے کی منظوری دے دی۔ اقوام متحدہ کی ذیلی ایجنسی کے بظاہر ایک بے ضرر سے دفتر نے ، جس کا سیاست کے ساتھ دو ر دور تک کا واسطہ بھی نہیں تھا، برسوں تک اسرائیل اور امارات کے افسران کو ملنے اور بیک چینل سفارت کاری کے لیے ایک نہایت عمدہ پردہ فراہم کیا۔ چونکہ اسرائیل بھی اس ایجنسی کا ممبر تھا، اس لیے تل ابیب کو انرجی کے حوالے سے اپنا ایک مستقل نمایندہ ابوظہبی میں تعینات کرناپڑا۔ ۲۰۱۵ء میں اسرائیلی وزارت خارجہ کے  ڈائرکٹر جنرل ڈور گولڈ کی قیادت میں ایک اسرائیلی وفد نے دوبئی کا دورہ علانیہ طور پر کیا۔ اسی لیے دونوں ملکوں نے بیانات دیے کہ اس دورے کا دونوں ملکوں کی سیاسی پوزیشن کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔

یہ طے شدہ بات ہے کہ امارات کو اسرائیل اور امریکا میں یہودی لابی کی ضرورت کا احساس۲۰۰۶ء میں اس وقت ہوا تھا، جب امارات کی دوبئی عالمی بندرگاہ نے چھے امریکی بندرگاہوں کا انتظام و انصرام سنبھالنے کے لیے ٹینڈر بھرا تھا۔ اس پر امریکی کانگریس میں خاصا ہنگامہ برپا ہوا۔ کئی کانگریس اراکین نے نیویار ک ، بالٹی مور اور میامی جیسی حساس بندرگاہیں کسی عرب کمپنی کو دینے کی بھر پور مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس کے اتحادیوں کی سلامتی خطرے میں پڑ جانے کا اندیشہ ہے۔ گو کہ امارات نے ٹینڈر واپس لے لیا، مگر یہ اس کے حکمرانوں کے لیے لمحۂ فکریہ تھا کہ آخر امریکی اتحادی ہونے اور خلیج میں اس کو پوری سہولیات دینے کے باوجود امریکی کانگریس اور انتظامیہ میں اس قدر بدگمانی کیوں ہے؟ انھی دنوں امارات نے اقوام متحدہ کی نئی قائم شدہ قابلِ تجدید توانائی ایجنسی، یعنی IRENAکے صدر دفتر کو ابوظہبی میں قائم کرنے کی پیش کش کی تھی۔ مگر اب خدشہ لاحق ہو گیا تھا کہ امریکی کانگریس کے اراکین ایجنسی کے صدر دفتر کو امارات میں قائم کرنے کی بھی مخالفت کرسکتے ہیں۔ یوں طے پایا کہ واشنگٹن میں کسی لابی فرم کی خدمات حاصل کی جائیں، جس نے بعد میں امارتی حکمرانوں کا رابطہ امریکا میں طاقت وَر یہودی لابی، یعنی امریکین جیوش کمیٹی (AJC) سے کروایا۔

انھی دنوں بھارت نے بھی اسرائیل کی ایما پر اسی کمیٹی کی خدمات، امریکا کے ساتھ جوہری معاہدہ طے کرنے اور اس کو کانگریس کی رضامندی حاصل کرنے کے لیے حاصل کی تھیں۔۲۰۰۸ء میں امریکی کانگریس نے جوہری قانون میں ترمیم کرکے بھارت کے لیے جوہری ٹکنالوجی فراہم کرنے کے لیے راستہ ہموار کردیا۔ اے جے سی نے نہ صرف اقوام متحدہ کی ایجنسی کا صدر دفتر ابوظہبی میں کھولنے میں مدد کی، بلکہ ۲۰۰۹ء  میںامریکی کانگریس سے امارات کو بھی جوہری ٹکنالوجی فراہم کروانے کے لیے ’بھارتی امریکی نیوکلیر ڈیل‘ کی طرز پر منظوری دلوانے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔ جس کے بعد جنوبی کوریا کی ایک فرم کے اشتراک سے امارات نے ۳۰؍ارب ڈالر کے نیوکلیر پروگرام کی داغ بیل ڈالی، جو اَب تکمیل کے قریب ہے۔

وکی لیکس میں تل ابیب میں امریکی سفارت خانے کے سیاسی مشیر مارک سیورز کی ۲۰۰۹ءکی ایک کیبل کا تذکرہ ہے، جس میں وہ خلیجی ممالک اور اسرائیل کے درمیان خفیہ روابط کا انکشاف کررہے ہیں۔ خاص طور پر اس کیبل میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی وزیر خارجہ زیپی لیونی اور امارت کے اس کے ہم منصب کی بند کمروں میں اکثر ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔ لیکن۲۰۱۰ء میں دونوں ممالک کے تعلقات کشیدہ ہوگئے، جب اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے دوبئی کے ایک ہوٹل میں حماس کے لیڈر محمود ال مابحوح کو قتل کردیا۔ اسرائیلی صحافی لوسی ملمین کے مطابق اماراتی حکمران اس لیے ناراض ہوگئے۔ ان دنوں اسرائیلی سفارت کار برلوس کاشدان ابوظہبی میں مذاکرات میں مصروف تھے اور اندازہ لگایا جا رہا تھا کہ موساد کا قاتل دستہ تلاشی وغیرہ سے بچنے کے لیے سفار ت کار وفدکے ساتھ ہی دوبئی وارد ہوا تھا۔ مگر امریکی کانگریس اراکین کی پذیرائی حاصل کرنے اور ٹکنالوجی کی خاطر اماراتی حکمرانوں نے یہ تلخ گھونٹ جلد پی لیا۔ ۲۰۱۶ء میں جب ڈونالڈ ٹرمپ کو ری پبلکن پارٹی نے صدارتی امیدوار نامزد کیا، تو ولی عہد محمد بن زید النہیان نے ٹرمپ کے یہودی داماد جیرالڈ کوشنر کے ساتھ انتخابات سے قبل ہی تعلقات استوار کر لیے تھے،حتیٰ کہ نیویارک میں کوشنر سے ملاقات کی خاطر ولی عہد اور ان کے بھائی عبداللہ بن زید نے امریکی صدر بارک اوباما کے ساتھ طے شدہ ملاقات منسوخ کردی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ امارتی ولی عہد نے ہی امریکیوں کو قائل کیا تھا کہ سعودی عرب میں محمد بن سلمان کی پشت پناہی کرکے محمد بن نائف کو ولی عہد کے عہدے سے معزول کرنے کے فیصلے کی حمایت کریں۔

اس طرح ۲۰۱۸ء تک اسرائیل کے کئی وزیروں نے امارات کے دورے کیے۔اسی سال اسرائیلی وزیر خارجہ یسرائیل کارٹز بغیر پیشگی اطلاع کے ابوظہبی پہنچ گئے اور ایران کے خطرات سے اماراتی حکمرانوں کو آگاہ کرکے تعاون کی پیش کش کی۔ اسرائیل کے عبرانی زبان کے اخبار یسرائیل حایوم کے مطابق خود نیتن یاہو بھی اسرائیلی سیکورٹی کونسل کے سربراہ میئر بن شابات کے ہمراہ دوبا ر امارات کا خفیہ دورہ کرچکے ہیں۔ اس دوران امارات نے تیل تنصیبات کی سیکورٹی کے لیے اسرائیل کی ایک فرم اے جی ٹی انٹرنیشنل کو ۸۰۰ملین ڈالر کا ٹھیکہ دے دیا۔ متحدہ امارات اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہونے سے اس خدشے کو تقویت پہنچتی ہے کہ عرب حکمران اپنے آپ کو کس قدر غیر محفوظ، غیرمستحکم اور کمزور محسوس کرتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ امریکا اور خطے میں اس کا قریب ترین اتحادی اسرائیل ہی ان کی بقا کا ضامن ہے۔ مگر بین الاقوامی سیاست اور تزویراتی حکمت عملی کے قواعد ہمیں یہی بتاتے ہیں کہ امریکا اور اسرائیل ان کی کمزوری کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا کر ان کو عوامی تحریکوں اور پڑوسیوں سے مزید خائف کرواکے اپنے مفادات کی تکمیل کریں گے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ عرب حکمران اپنے ضمیر اور عوام کی آواز پرلبیک کہہ کر پڑوسی اسلامی ممالک کے ساتھ اشتراک کی راہیں نکالتے۔ یوں اسرائیل اور امریکا کو مجبور کرکے فلسطینی مسئلے کا حل ڈھونڈ کر، خطے میں حقیقی اور دیرپا امن و امان قائم کروانے میں کردار ادا کرتے۔

۵؍اگست ۲۰۲۰ءکو بھارتی وزیر داخلہ امیت شا نے ایک طرح سے ’غیرآئینی سرجیکل اسٹرائیک‘ کرکے بھارتی آئین کی دفعہ ۳۷۰، اور دفعہ ۳۵-اے کالعدم کرکے جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کرنے کا تو اعلان کیا، مگر اس سے بھارت کو یا کشمیری عوام کو کیا حاصل ہوا؟ اس کا کوئی خاطرخواہ جواب آج ایک برس گزرنے کے باوجود بھارتی حکومت کو سوجھ نہیں رہا ہے۔ خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے علاوہ ریاست کو تقسیم کرکے لداخ کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنایا گیا اور بقیہ خطے، یعنی جموں اور کشمیرکو بھی براہِ راست نئی دہلی کے انتظام میں دیا گیا۔

اب پورے ایک سال کے بعد اس غیرآئینی حملے کی افادیت اور ’کامیابیوں‘ کی جو دستاویز بھارتی حکومت نے جاری کی ہے، اس کے مطابق ’’کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کے نتیجے میں حوائج ضروریہ کے لیے باہر نکلنے پر پابندی میں سو فی صد کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ اس طرح ایک سال کے دوران سو فی صد اوپن ڈیفی کیشن فری بنایا گیا ہے۔

۵؍اگست کو اٹھائے گئے اقدامات کا مقصد کشمیر میں دودھ اور شہد کی نہریں بہانا ، سڑکوں کو سونے سے مزین کرنا اور بھارت کے تئیں عوام میں نرم گوشہ پیدا کروانا بتایا گیا تھا، مگر مودی حکومت کے مذکورہ اوّلین اور شرمناک ’کارنامے‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے سینیر صحافی شاستری راما چندرن کا کہنا ہے: جب خطے میں ہر روز فوجی مقابلوں میں لوگ ہلاک ہو رہے ہوں، تو رفع حاجت کے لیے کون باہر نکلے گا؟ اس کے علاوہ جو باہر آنا بھی چاہتے ہیں، ان پر تشدد کرکے ایسی حالت کر دی گئی ہے ، کہ وہ رفع حاجت کے قابل ہی نہیں رہ گئے اور جب سال بھر لاک ڈاؤن میں رہنے کے بعد پیٹ خالی ہو ، تو رفع حاجت کیسے ہو؟

شاید مودی یا امیت شا کو دہلی سے کولکتہ تک ریل گاڑی میں سفر کرنا کبھی نصیب نہیں ہوا۔ رات دہلی سے جب ٹرین چل کرعلی الصبح پٹنہ یا بہار کے دوسرے شہر گیا پہنچتی ہے ، تو اسٹیشن سے متصل اور دیگر علاقوں میں نظارہ نہایت قابلِ نفرت ہوتا ہے ۔سخت گرمی کے باوجود مسافر فوراً کواڑ گرا لیتے ہیں۔ کیونکہ لمبی لائن میں ایک خلقت پٹڑی پر پانی کا لوٹا لیے مصروف دکھائی دیتی ہے، اور آپس میں ملکی و غیر ملکی حالات پر تبادلہ خیالات بھی کرتی نظر آتی ہے۔ ہونا تو چاہیے کہ امیت شا کشمیر میں تعینات پوری نو لاکھ فوج کو بہار بھیج کر اس کو اوپن ڈیفی کیشن فری بناکر، ریلوے پٹریوں کو غلاظت سے بچنے کا موقع فراہم کرواتے۔

گذشتہ ایک سال سے کشمیریوں نے بھی مودی حکومت کا ناطقہ بند کر کے رکھ دیا ہے۔  جب اس ’غیرآئینی اسٹرائیک‘ سے کشمیریوں کے جسم سے ان کے کپڑے چھین لیے گئے، تو کشمیر کے ایک لیڈر شاہ فیصل کے مطابق مودی حکومت کو یقین تھا کہ اس کے خلاف عوامی بغاوت برپا ہوگی اور اس کے نتیجے میں ۱۰ہزار افراد ہلاک کرکے تحریک کو کچل دیا جائے گا۔ مگر کشمیریوں کی پُراسرار خامشی اور لیڈر شپ کی عدم موجودگی کے باوجود عام آدمی کی سوچ اور ردعمل دیکھ کر نئی دہلی میں اربابِ اقتدار کا کلیجہ منہ کو آرہا ہے۔ ان کو یقین تھا کہ کچھ عرصہ تک سوگ و ماتم کی کیفیت کے بعد حالات معمول پر آجائیں گے۔ مگر بھارت نواز نیشنل کانفرنس اور پیپلز کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی بھی صدمے کی کیفیت سے باہر نہیں آرہے ہیں۔ ان کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کی کس منہ سے اپنے ووٹروں کا سامنا کریں۔

بھارت نے جب اگست میں کشمیر میں تاریخ کے طویل ترین لاک ڈاؤن نافذ کیا تو، لوگ لقمے لقمے کے محتاج ہونے لگے۔ دنیا نے زبانی ہمدردی کے سوا کچھ نہیں کیا، تو ہر کشمیری کے زبان پر تھا کہ یااللہ! اس لاک ڈاؤن کا مزا ساری دُنیا کو بھی چکھا دے۔ جنوری ۲۰۲۰ء میں جب بھارت میں مقیم یورپی یونین کے سفیروں کی ایک ٹیم کو کشمیر لے جایا گیا، تو ان کو کوّر کرنے کے لیے اکنامک ٹائمزکے معروف صحافی اروند مشرا بھی سرینگر پہنچ گئے تھے۔ وہ سیکورٹی حصار میں تھے۔ انھوں نے افسران سے اپنے ایک ساتھی بلال احمدڈارکے گھر جانے کی اجازت مانگی۔ بلال ماس کمیونی کیشن کی تعلیم کے دوران ان کا ہم جماعت تھا۔ مشرا کا کہنا ہے کہ جب وہ بلال کے گھر کی گلی سے گزر رہا تھا کہ کھڑکی سے ایک خاتون کی آواز آئی:’’اروند بھائی، آپ بلال کے دوست ہو دلی والے، میں نفیسہ عمر ہوں،بلال کی پھوپھی کی بیٹی‘‘۔ مشرا کا بیان ہے کہ نفیسہ کی باتیں سن کر وہ کئی رات سو نہ سکا۔ اس لڑکی نے پوچھا: کیا باہر کی دنیا میں کسی کو اندازہ ہے کہ سات مہینے سے جہاںکرفیو ہو، گھرسے نکلنا تو دُور جھانکنا بھی مشکل ہو، چپے چپے پر فوج تعینات ہو،انٹر نیٹ، موبائل، لینڈ لائن فون تک بند ہو، گھروں سے بچے،جوان اور بوڑھے ہزاروں بے قصوروں کی گرفتاریاں ہوئی ہوں، سکول، کالج، دفتر سب بندہوں، کسی نے سوچا کہ آخر لوگ کیسے سانس لیتے ہوںگے؟‘‘

مشرا کے مطابق بس پانچ منٹ میں اس خاتون نے حالا ت کا ایسا نقشہ کھنچا کہ یہ الفاظ دہلی میں کئی ماہ تک میرے ذہن پر دستک دیتے رہے۔ نفیسہ نے مزید کہا کہ: کیا آپ کو معلوم ہے کہ ـ ’’کیسے لوگوں کے کھانے پینے کا انتظام ہوتا ہے، بیماروں کا کیا ہو رہا ہے؟ آدھی سے زیادہ آبادی ڈپریشن اور ذہنی بیماریوں کی شکار ہوچکی ہے،بچے خوف زدہ ہیں،مستقبل اندھیرے میں ہے‘‘۔ـ نفیسہ نے روتے ہوئے کہا کہ ’’ظلم وستم کی انتہا ہے،روشنی کی کوئی کرن نہیں ہے، پوری دنیا خاموش تماشادیکھ رہی ہے، ہم نے سب سہہ لیا اور خوب سہہ رہے ہیں۔لیکن اس وقت دل تڑپتا ہے جب  بھارت میں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اچھا ہوا ان کے ساتھ یہی ہوناچاہیے تھا۔ لیکن میں نے ان لوگوں یا کسی کے لیے بھی کبھی بدعا نہیں کی، بس ایک دعا ضرور کی ہے تاکہ پوری دنیاکوہمارا کچھ تو احساس ہو۔ اروند بھائی، آپ دیکھنا میری دعا بہت جلد قبول ہوگی‘‘ ۔

 اروند مشرا نے جب دعا کی شکل کے بارے میں پوچھا، تو اس کے بقول نفیسہ نے پھوٹ پھوٹ کرروتے ہوئے کہا: ’’اے اللہ جو ہم پر گزری ہے کسی پر نہ گزرے، بس مولا تو کچھ ایسا کردینا اور  اتنا کردیناکہ پوری دنیاکچھ دنوں کے لیے اپنے گھروں میں قید ہوکر رہنے پر مجبور ہوجائے، سب کچھ بندہوجائے ، رُک جائے!شاید دنیا کو یہ احساس ہوسکے کہ ہم کیسے جی رہے ہیں؟‘‘ کورونا وائرس کے بعد جب پوری دنیا لاک ڈاؤن کی زد میں آگئی ، جو ابھی تک کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے، مشرا کے مطابق نفیسہ کے یہ الفاظ میرے کانوں میں گونج رہے ہیں: ’’اروند بھائی آپ دیکھنا میری دعا بہت جلد قبول ہوگی‘‘۔ 

اگرچہ جموں و کشمیر اور فلسطین کے خطے جغرافیائی اعتبار سے کوسوں دور ہیں، مگر تاریخ کے پہیے نے ان کو ایک دوسرے کے قریب لاکر کھڑا کر دیا ہے۔ دونوں خطے تقریباً ایک ساتھ ۴۸-۱۹۴۷ء میں دنیا کے نقشہ پر متنازعہ علاقوں کے طور پر سامنے آئے ۔کئی جنگوں کے باعث بھی بنے اور پچھلے سات عشروں سے نہ صرف امن عالم کے لیے خطرہ ہیں، بلکہ ان کی محکومی مسلم دنیا کے لیے ناسور بنی ہوئی ہے۔

بھارت نے ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو جس طرح یک طرفہ کارروائی کرکے ریاست جموں و کشمیر کے دو ٹکڑے کرکے اس کی نیم داخلی خود مختاری کو کالعدم کردیا، کچھ اسی طرح اسرائیلی وزیر اعظم  نیتن یاہو بھی یکم جولائی ۲۰۲۰ء کو فلسطین کے مغربی کنارہ کے ۳۰فی صد علاقے کو اسرائیل میں ضم کرنے کا عزم کیے بیٹھے تھے۔ فی الحال انھوں نے اس منصوبے کو التوا میں رکھا ہے، کیوںکہ بھارت کے برعکس اسرائیل میں ان کو فوج ، اپوزیشن اور بیرون ملک آباد یہودیوں کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ناروے کے شہر اوسلو میں ۱۹۹۳ء اور ۱۹۹۵ء میں اسرائیلی اور فلسطینی قیادت کے درمیان طے پائے گئے سمجھوتے میں، ایک فلسطینی اتھارٹی کا قیام عمل میں آیاتھا۔ جس سے ۱۶لاکھ کی آبادی کو دو خطوں مشرق میں غزہ اور اُردن کی سرحد سے متصل مغربی کنارہ میں تقسیم کیا گیا تھا۔ نسبتاً وسیع مغربی کنارے کا انتظام ’الفتح‘ کی قیادت میں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (PLO) کے پاس ہے، وہیں غزہ میں اسلامک گروپ حماس بر سرِ اقتدار ہے۔

جس طرح بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ۲۰۱۴ء اور۲۰۱۹ءکے انتخابات میں کشمیر کی آئینی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے اور علیحدہ شہریت کا قانون ختم کرنے کے نام پر ہندو قوم پرستوں کو لام بند کرکے ووٹ بٹورے، بالکل اسی طرح اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے بھی یہودی انتہاپسند طبقے کی حمایت حاصل کرنے کے لیے فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کا شوشہ چھوڑا۔ جس علاقے کو وہ اسرائیل میں ضم کروانا چاہتے ہیں، وہاں ۶۵ہزار فلسطینی اور ۱۱ہزار یہودی آباد ہیں۔ ’اوسلو معاہدے‘ کی رُو سے مغربی کنارے کو تین حصوں میں بانٹا گیا تھا۔ ایریا سی میں مغربی کنارے کا ۶۰فی صد علاقہ آتا ہے۔ اس میں تین لاکھ فلسطینی آباد ہیں اور یہی علاقہ اسرائیل کی نظروں میں کھٹکتا ہے۔

اکثر ماہرین کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو کے اس جوئے کا مثبت پہلو یہ نکلاہے کہ اسرائیلی سیاست میں فلسطین کو ایک بار پھر مرکزیت حاصل ہوئی ہے۔ عرصے سے اسرائیلی سیاسی جماعتیں  مسئلۂ فلسطین پر بات کرنا بھی گوارا نہیں کرتی تھیں۔ بھارت کی کشمیر پر یلغار کے برعکس نیتن یاہو کے پلان پر اسرائیل کے اندر خاصی مزاحمت ہو رہی ہے۔ سب سے زیادہ مزاحمت تو اسرائیلی فوج کی طرف سے ہے۔ گذشتہ دنوں ۲۷۰سابق فوجی جرنیلوں، بشمول اسرائیلی خفیہ اداروں، موساد، شین بیٹ کے افسرا ن نے ایک مشترکہ خط میں نیتن یاہو کو اس پلان سے باز رہنے کی تلقین کی۔   ان کو خدشہ ہے کہ اس قدم سے کہیں محمود عباس کی زیر قیادت فلسطینی اتھارٹی تحلیل نہ ہوجائے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو فوج کا ایک بڑا حصہ اس کو کنٹرول کرنے میں مصروف رہے گا، اور یوں زیادہ تر وقت  امن و امان کی بحالی کے لیے ڈیوٹیاں دینے سے اس کی جنگی کارکردگی متاثر ہوگی۔

اہم باخبر ذرائع نے راقم کو بتایا کہ اس حوالے سے امریکی انتظامیہ میں بھی گھمسان کا  رَن پڑا ہے۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے داماد ااور مشیر جیرالڈ کوشنر اور اسرائیل میں امریکی سفیر ڈیوڈ فریڈمین کے درمیان اس مسئلے پر خاصے اختلافات پیدا ہوگئے ہیں۔ کوشنر جس نے ٹرمپ کا مڈل ایسٹ پلان، یعنی ’ڈیل آف دی سنچری‘ ترتیب دیا ہے، اس کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو کے فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کے فیصلے سے امریکی پلان کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔

اس سال جنوری میں جب صدر ٹرمپ ، نیتن یاہو کی معیت میں وائٹ ہاؤس میں اپنے پلان کو ریلیز کر رہے تھے، تو یہی مطلب لیا گیا تھا کہ اس پلان کو عرب ممالک کی حمایت حاصل ہے۔ حال ہی میں امریکا کی طاقت ور یہودی لابی نے اپنا ایک اعلیٰ سطحی وفد ان ممالک کے دورے پر بھیجا تھا، جہاں ان کو واضح طور پر بتایا گیا کہ مغربی کنارے کو ضم کرنے کے پلان کے بعد وہ ٹرمپ کے پلان کی حمایت نہیں کر سکیں گے۔ انھی ذرائع نے راقم کو بتایا کہ کوشنر فی الحال خلیجی ممالک کی ناراضی مول لینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ حال ہی میں امریکا میں متحدہ عرب امارات کے سفیر یوسف ال عتیبہ کا ایک مضمون اسرائیل کے ایک کثیر الاشاعت عبرانی روزنامے میں شائع ہوا، جس کی سرخی ہی یہ تھی کہ ’’تعلقات کو معمول پر لانے اور فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کی پالیسی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتی ‘‘۔مگر امریکی سفیر فریڈمین کے مطابق یہ عرب ممالک کی وقتی اُچھل کود ہے اور خطّے میں اپنی اقتصادیات اور سلامتی کے لیے ان کو اسرائیل کی اشدضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل ، جہاں کبھی پانی اور تیل کا فقدان ہوا کرتا تھا، اب خطے میں عرب ممالک کو پیچھے چھوڑ کر انرجی کا مرکز بننے والا ہے۔ پینے کے پانی کے لیے اردن کا اسرائیل پر انحصار ہے ۔ اس وقت مصر کو اسرائیل سے ۸۵لین کیوبک میٹر گیس فراہم ہورہی ہے، جس سے اسرائیل سالانہ۵؍ارب اور ۱۹کروڑ ڈالر کماتا ہے۔ فریڈ مین نے باور کرایا ہے کہ اگر ٹرمپ امریکی صدارتی انتخابات میں شکست سے دوچار ہوجاتے ہیں، تو ڈیموکریٹس کسی بھی صورت میں فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کے پلان کی حمایت نہیں کریں گے۔

دنیا بھر میں رہنے والے یہودی تارکین وطن ، جو ایک طرح سے اسرائیل کے بطورِ بازو کام کرتے ہیں، نیتن یاہو کے اس پلان میں خطرات دیکھتے ہیں۔ اسرائیل میں جہاں اس وقت ۶۷ لاکھ یہودی رہتے ہیں، وہاں ۵۴ لاکھ امریکا کے شہری ہیں۔ یہودی تارکین وطن امریکا میں ڈیموکریٹس اور یورپی ممالک کے رد عمل سے خائف ہیں۔ کئی یورپی ممالک نے فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کی صورت میں اسرائیل کے خلاف پابندیا ں لگانے کی دھمکی دی ہے اور کئی یورپی پارلیمنٹوں نے اس کی منظوری بھی دی ہے۔ چونکہ ’اوسلو معاہدے‘ کے پیچھے پورپی ممالک کی کاوشیں کار فرما تھیں اور اس میں دو ریاستی فارمولا کو تسلیم کیا گیا تھا، اس لیے یورپی ممالک اس کو دفن ہونا نہیں دینا چاہتے ہیں۔ تاہم، اسرائیل کو یقین ہے کہ یورپی ممالک شاید ہی دھمکیوں کو عملی جامہ پہنا پاسکیں گے۔ اس صورت میں ان کوبراہِ راست امریکا سے ٹکر لینی پڑے گی۔ امریکا کی ۲۷ریاستوں نے ایسے قوانین پاس کیے ہیں، جن کی رُو سے اسرائیل کے خلاف بائیکاٹ کی مہم چلانے والے اداروںو ممالک کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے۔ نیتن یاہو کے انتخابی حریف ریڈ اینڈ وائٹ پارٹی کے قائد بنی غانز جو اَب اقتدار میں ان کے حلیف ہیں، فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ حکومت بناتے وقت طے پائے گئے معاہدے کی رُو سے نیتن یاہو کو اگلے سال وزیر اعظم کی کرسی بنی غانز کے لیے خالی کرنی پڑے گی۔

جس طرح انتہا پسند ہندوں کو مودی کی شکل میں اپنا نجات دہندہ نظر آتا ہے ، اسی طرح  انتہا پسندوں یہودیوں کے لیے بھی نیتن یاہو ایک عطیہ ہیں۔ فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کے پلان پر بات چیت کرنے کے لیے حال ہی میں جب ایک امریکی یہودی وفد نیتن یاہو سے ملاقات کرنے ان کے دفتر پہنچا، اور اس کے مضمرات پر ان کو آگاہ کروا رہا تھا، تو انھوں نے اپنے میز کی دراز سے ایک منقش بکس نکالا ۔ اس میں۵۰۰ قبل مسیح زمانے کا ایک سکہ تھا، جو ان کے بقول مسجد اقصیٰ سے متصل کھدائی کے دوران اسرائیلی محکمہ آثار قدیمہ کو ملا ہے اور اس پر عبرانی میں نیتن یاہو کھدا ہو ا تھا۔ اس سے انھوں نے یہ فال نکالی ہے کہ یہودیوں کو اعلیٰ مقام دلوانے اور اسرائیل کو مضبوط و مستحکم کروانے کی ذمہ داری ان پر خدا کی طرف سے عائد کی گئی ہے۔ مگر اسرائیل میں احتسابی عمل شاید بھارت سے زیادہ مضبوط ہے اور وہاں اپوزیشن اور دیگر ادارے حکومت کے ساتھ ٹکر لینے کی پوزیشن میں ہیں۔

اس کے علاوہ تمام تر جارحانہ کارروائیوں کے باوجود یہودیوںکو ادراک تو ہوگیا ہے کہ وہ ناقابل تسخیر نہیں ہیں۔ اس کا اندازہ تو ۱۹۷۳ءکی جنگ مصر کے وقت ہو گیا تھا،مگر ۲۰۰۶ء میں جنگ لبنان اور ۲۰۱۴ء میں غزہ کی جنگ کے بعد یہ بات اور شدت کے ساتھ محسوس کی جارہی ہے۔ اس لیے دنیا بھر کے یہودی اور اسرائیل کے مقتدر طبقے چاہتے ہیں کہ اس سے پہلے کہ تاریخ کا پہیہ کوئی اور رخ اختیار کرے، اسرائیل کی سرحدوں کا تعین کرکے، پڑوسی ممالک سے اس کا وجود تسلیم کرایا جائے۔ اسرائیل کی فوج اور دنیا بھر کے یہودیوں نے جس طرح نیتن یاہو کے پلان کے مضمرات کا ایک معروضی انداز میں جائزہ لیا ہے، وہ بھارت کے لیے بھی ایک سبق ہے، جہاں کے اداروں کے لیے کشمیر ی عوام کے حقوق سلب کرنا اور پاکستان کے ساتھ دشمنی کو حب الوطنی ا ور بھارتی نیشنلزم ثابت کرنے کاپہلا اور آخری ذریعہ بنا ہوا ہے۔