مولانا عبد المالک


حضرت جریر بن عبداللہ بَجلیؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اُن لوگوں پر رحم نہیں کرے گا جو انسانوں پر رحم نہیں کرتے۔ (بخاری)

اللہ تعالیٰ کی انسانوں پر رحمت کی کیا شان ہے ! جو انسان، اللہ کی رحمت سمیٹنا چاہتا ہے، وہ انسانوں پر رحم کرے۔ اگر لوگوں پر رحم نہیں کرے گا تو اللہ بھی اس پر رحم نہیں فرمائے گا۔

ایک موقعے پر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو آپؐ کی بیٹی نے بلایا کہ ’’تشریف لائیں، میرا بیٹا جان کنی کے عالم میں ہے‘‘۔ آپؐ نے جواب میں فرمایا: بیٹی،  اِنَّ   لِلّٰہِ   مَا أَخَذَ    وَلَہُ   مَا  أَعْــطٰی  وَکُلُّ شَیْیءٍ   عِنْدَہٗ     بِأَجَلٍ    مُسَمًّی فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْسِبْ،’’اللہ ہی کی مِلک میں تھا، وہ جو اس نے دیا تھا، اور جو اس نے لے لیا وہ بھی اسی کی مِلک میں ہے۔ مالک جو چاہے کرے اورہر ایک کے لیے ایک وقت مقرر ہے۔ صبر کر اور ثواب حاصل کر۔

بیٹی کو جب یہ پیغام ملا تو انھوں نے آپؐ کو پھر بلایا کہ ’’ آپؐ ضرور آئیں‘‘۔ اس پر آپؐ اُٹھ کھڑے ہوئے۔اس وقت کچھ صحابہ کرامؓ بھی آپؐ کے ہمراہ تھے۔ جن میں حضرت سعد بن عبادہؓ، حضرت زیدبن ثابتؓ اور حضرت معاذ بن جبلؓ شامل تھے۔ آپؐ نے نئی چادر منگوائی، اُوڑھی اورچل پڑے۔

آپؐ بیٹی کے گھر پہنچے۔ نواسے کو گود میں لیا وہ آخری سانس لے رہا تھا۔ اس کا سینہ اس طرح کھڑکھڑ کر رہا تھاجس طرح خشک مشک کے اندر تھوڑا سا پانی ہواور اسے ہلایا جائے تو کھڑکھڑ کی آواز پیدا ہوتی ہے۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے۔ حضرت سعد بن عبادہؓ نے عرض کیا کہ ’’یارسولؐ اللہ! آپؐ بھی رورہے ہیں‘‘۔ آپؐ نے فرمایا: فَاِنَّمَا یَرْحَـمُ  اللہُ مِنْ  عِبَادِہِ   الرُّحْـمَاءَ،اللہ تعالیٰ اپنے ان بندوں پر رحم کرتے ہیں جو اس کے بندوں پر رحم کرنے والے ہوں۔ یہ بھی بخاری شریف کی روایت ہے۔

یعنی یہ تو رحمت ہے جو اللہ نے مومن کے دل میں رکھی ہے۔ یہ کوئی نوحہ تو نہیں ہے، نوحہ منع ہے۔ اگرقدرتی طور پر، غیراختیاری طور پر آنکھوں سے آنسو نکل آئیں، تو یہ ایک فطری چیز ہے اور جس کی ممانعت نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس آدمی کا دل سخت نہیں ہے بلکہ نرم ہے اور نرم دلی، اللہ کو پسند ہے۔ قساوت ِ قلب اور سنگ دلی اللہ کو پسند نہیں ہے۔

ہمارادین تو ہے ہی دین رحمت۔ اللہ تعالیٰ رحمٰن ہے اورمحمد مصطفےٰ، احمد مجتبیٰ، سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ للعالمین ہیں۔ ہرنبی ؑ اپنے زمانے میں رحمت لے کر آتا ہے۔ اللہ کا دین رحمت ہے۔ ہردور میں جو نبی آیا وہ رحمت لے کر آیا۔ وہ اپنے زمانے کے لیے رحمت تھا اور احمد مجتبیٰ، سرور عالم  صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیا ہیں۔ آپؐ کا وجود سراپا رحمت ہے، انسانوں کے لیے، جنوں کے لیے اور فرشتوں کے لیے۔ پوری کائنات کے لیے آپؐ رحمت ہیں۔

ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اور دین رحمت کو پیش نظر رکھتے ہوئے لوگوں تک پہنچنا ہے اور گھرگھر اس رحمت کو جو اللہ نے ہمار ے حوالے کی ہے، یعنی قرآن وسنت کی دعوت کو پھیلانا اور پہنچانا ہے۔ گھرگھر، بستی بستی اور شہرشہر اس دعوت کو لے کر پہنچنا ہے اور اس راہ میں آنے والی تکالیف اُٹھانی ہیں۔ اُس زمانے میں تو بہت زیادہ تکالیف اور اذیتیں دی جاتی تھیں۔ مبلّغین اور دین کے داعیوں کو قتل کر دیا جاتا تھا۔ آج تو اللہ کا فضل ہے اور ہمیں آسانیاں میسر ہیں۔ لہٰذا، ان آسانیوں سے فائدہ اُٹھا کر پہلے مرحلے پر پورے پاکستان کو اوردوسرے مرحلے پر پوری دُنیا کو دین کے لیے کھڑاکرنا ہے۔ تمام مسلم ممالک میں جب اسلامی نظام قائم ہوجائے گا تو پھر اسلام اور کفر کا آخری معرکہ برپا ہوگا اور کفر شکست سے دوچار ہوگا۔ جب اللہ کے بندے اللہ کے دین کو لے کر اُٹھ کھڑے ہوں گے اور ہرطرف سے دین کا جھنڈا سربلند ہوگا، تو کفر سرنگوں ہوجائے گا۔ ہم آخری مرحلے کی تمہید ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ اس تمہید کا حق ادا کریں۔


آسان حساب

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں پڑھتے ہوئے سنا کہ آپؐ یہ دُعا کر رہے ہیں:

اَللّٰهُمَّ حَاسِبْنِي حِسَابًا    يَّـسِيرًا، ’’اے اللہ! مجھ سے آسان حساب لے‘‘۔

جب آپؐ نے سلام پھیرا تو میں نے عرض کیا: ’’یارسولؐ اللہ! حسابِ یسیر کیا ہے؟‘‘

آپؐ نے فرمایا: حسابِ یسیر یہ ہے کہ انسان کا اعمال نامہ دیکھا جائے اور پھر اس سے درگزر کیا جائے۔ اس سے پوچھ گچھ نہ کی جائے اور کہا جائے کہ تمھارا اعمال نامہ دیکھ لیا ہے، تمھاری پیشی ہوگئی ہے، تم جنّت میں چلے جائو۔ اس دن جس آدمی سے پوچھ گچھ کی گئی تو اے عائشہؓ! وہ تو مارا گیا۔ پھر اس کی خیر نہیں ہے۔ (مسند احمد)

بخاری شریف میں ہے کہ جس کا حساب لیا جائے گا تو اسے عذاب دیا جائے گا۔

حضرت عائشہؓ نے پوچھا: یارسولؐ اللہ، کیا اللہ نے یہ نہیں فرمایا: فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَّسِیْرًا، ’’یعنی حساب یسیر لیا جائے گا؟‘‘ جس کا اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تواس کا حساب آسان ہوگا۔

آپؐ نے فرمایا: جس کے دائیں ہاتھ میں اعمال نامہ دیا جائے گا تو، اس سے آسان حساب لیا جائے گا۔ اِنَّمَا ذٰلِکَ عَرْضٌ ، یہ تو صرف پیشی ہے۔ وَمَنْ  نُوقِشَ الْحِسَابَ عُذِّبَ،یعنی جس سے مناقشہ کیا گیا، پوچھ گچھ کی گئی تو پھر اس کی خیر نہیں۔

اللہ تعالیٰ ہم سے آسان حساب لے۔ ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ فرائض ادا کریں اور منکرات سے بچیں۔ اپنی اولاد کوبھی نماز کی پابندی اور باقاعدگی سے نصیحت کریں اور مساجد میں ساتھ لائیں۔

حضرت جابرؓ سے روایت ہے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حاجی کبھی بھی محتاج نہیں ہوتا۔ (بزار، طبرانی)

حج پر اخراجات بہت زیادہ آتے ہیں۔ آج کی طرح پہلے اَدوار اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی دوسرے کاموں سے بڑھ کر دو کاموں میں مال خرچ ہوتا تھا: قتال فی سبیل اللہ اور حج۔ دونوں میں سفر بھی ہوتا، سواری کی بھی ضرورت ہوتی اور مال بھی خرچ ہوتا تھا۔ ایک عام مسلمان یہ سوچ سکتا تھا کہ جو رقم میرے پاس ہے اسے حج پر خرچ کردوں یا عمرے پر تو پھر دوسرے کام کیسے ہوسکیں گے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خدشے کو دُور فرمایا کہ حج و عمرہ پر خرچ ہونے والی رقم کے سبب آدمی محتاج اور فقیر نہیں ہوجاتا۔ اللہ تعالیٰ اس کے عوض مال عطا فرما دیتے ہیں۔ گویا خرچ مزید آمدنی کا باعث ہوجاتا ہے۔ تب مال دار لوگوں کے لیے حج پر جانے سے کوئی چیز مانع نہیں ہونی چاہیے۔

o

حضرت خلّاد بن سائب اپنے والد حضرت سائب بن یزید سے روایت کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس جبریل ؑ تشریف لائے اور مجھے حکم دیا کہ میں اپنے اصحاب کو حکم دوں کہ وہ بلند آواز سے تلبیہ کہیں۔ ابن ماجہ میں ہے کہ یہ حج کا شعار ہے۔ (سنن ترمذی)

لبیک دراصل حضرت ابراہیم ؑ کی حج کے لیے پکار کا جواب ہے۔جنھوں نے اس وقت جواب دیا تھا جب حضرت ابراہیم ؑ نے حج کے لیے اللہ تعالیٰ کے حکم سے پکاراتھا۔ وہ آج بھی جواب دیتے ہیں اور حج پر جاتے ہیں۔ ان حجاج کرام کے لیے یہ ہدایت ہے کہ تلبیہ بلندآواز سے پڑھا کریں کیوںکہ یہ تلبیہ حج کی خصوصی نشانی ہے۔ اس نشانی کو رضاے الٰہی کے حصول کے لیے بلندآواز سے پڑھنا چاہیے تاکہ اردگرد کے اہلِ علاقہ بھی لبیک کے گواہ بن جائے، اور وہ بھی حاضری کے اعلان کا لطف اُٹھائیں۔

o

حضرت انسؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حج میں مال خرچ کرنے کا ثواب جہاد فی سبیل اللہ میں مال خرچ کرنے کے مثل ہے۔ ایک درہم کا ثواب ۷۰۰ درہم کے برابر۔(بزار، طبرانی اوسط)

اللہ تعالیٰ کی ذات کس قدر مہربان ہے۔ اپنے بندوں کو جب کوئی مشکل حکم دیتے ہیں تو اس کا اجر بھی زیادہ عنایت فرماتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا: عائشہؓ! تجھے جو اجر ملے گا  وہ تمھاری مشقت اور خرچ کے اندازے کے مطابق ملے گا (مستدرک حاکم)۔ حج اور قتال فی سبیل اللہ جہاں مشکل کام ہیں اس کے ساتھ ہی ان میں خرچ بھی زیادہ آتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان میں اجر بھی عام نیکیوں میں خرچ کے مقابلے میں زیادہ رکھا ہے۔ عام نیکیوں میں خرچ کا اجر ایک اور ۱۰ کا ہے لیکن حج اور قتال فی سبیل اللہ میں ایک اور ۷۰۰ کا ہے۔

o      

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب آدمی حج کے لیے حلال اور پاکیزہ مال کے ساتھ نکلتا ہے اور رکاب میں پائوں رکھا اور لبیک اللّٰھم لبیک کی صدا لگاتا ہے، تو آسمان سے اس کی پکار کا جواب دینے والا جواب دیتا ہے: لبیک وسعدیک،  ہم بھی حاضر ہیں، بار بار مدد کریں گے، تیرا زادِ راہ حلال ہے۔، تیری اُونٹنی اور حج، پاکیزہ ہے اور مقبول ہے۔ اس پر تجھے کوئی گناہ نہ ہوگا۔ لیکن جب ناپاک خرچ کے ساتھ نکلتا ہے ، اُونٹنی کی رکاب میں پائوں رکھتا اور ندا دیتا ہے: لبیک اللّٰھم لبیک تو آسمان سے ندا دینے والا ندا دیتا ہے: کوئی لبیک نہیں ہے اور کوئی مدد نہیں ہے۔ تیرا زادِ راہ حرام اور تیرا خرچ حرام ہے اور تیرا حج گناہ ہے۔ کوئی نیکی نہیں اور مقبول نہیں ہے۔(طبرانی اوسط، اصفہانی عن سلمہ مولی عمر بن الخطاب)

رکاب میں پائوں رکھنے سے مراد سواری پر سوار ہونا ہے۔ پہلے زمانے میں سواریاں اُونٹ ، گھوڑے، خچر اور گدھے وغیرہ ہوتے تھے۔ آج کل ہوائی جہاز اور بحری جہاز ہیں، یا گاڑیاں ، بسیں اور کاریں ہیں۔ جو بھی سواری میسر ہو جب آدمی اس پر چڑھے تو اسے تلبیہ پڑھنا چاہیے۔ جب زادِ راہ اور خرچ حلال ہو تو آسمان سے قبولیت کی ندا آتی ہے اور جب حرام ہو تو اس کے مردود ہونے کی اطلاع دے دی جاتی ہے۔ اس لیے حرام مال سے حج و عمرہ سے سختی سے اجتناب کرنا چاہیے ورنہ ایک دفعہ مردودیت کا ٹھپہ لگ گیا تو پھر اسے دھونا بہت زیادہ مشکل ہوگا۔ حج اور عمرے اور جہاد میں حرام اور ناپاک مال کی نحوست کا دائرہ بہت زیادہ وسیع ہے جس طرح ان دونوں میں حلال مال کا دائرہ اور اس کی برکات کا دائرہ بہت زیادہ وسیع ہے۔ اللہ تعالیٰ رزقِ حلال عطا فرمائے اور رزقِ حرام سے محفوظ فرمائے۔آمین!

o

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کا ارادہ فرمایا تو ایک عورت نے اپنے شوہر سے کہا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کرائو۔ اس نے کہا کہ میرے پاس کوئی سواری نہیں ہے جس پر میں تمھیں رسولؐ اللہ کے ساتھ حج کرائوں۔ اس نے کہا کہ مجھے اپنے فلاں اُونٹ کے ذریعے حج کرائو۔ اس نے کہا کہ وہ تو قتال فی سبیل اللہ کے لیے وقف ہے۔ اس پر سوار ہوکر لڑائی میں جایا جاسکتا ہے، حج میں نہیں۔اس کے بعد وہ رسول ؐاللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپؐ سے اپنی بیوی کے ساتھ ہونے والی بات چیت کا تذکرہ کیا۔ آپؐ نے فرمایا: خبردار ہوجائو! اگر تم نے اپنی بیوی کو اسی اُونٹ پر حج کرایا تو وہ فی سبیل اللہ ہوگا، یعنی جہاد فی سبیل اللہ میں شمار ہوگا۔ اس نے کہا کہ بیوی نے مجھ سے کہا ہے کہ میں آپ ؐ سے سوال کروں کہ آپؐ کے ساتھ حج کے برابر حج کس طرح ہوجائے گا؟ اس پر آپؐ نے جواب دیا: اسے میری طرف سے السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہو ، پھر کہو کہ رمضان المبارک میں عمرہ میرے ساتھ حج کے برابر ہے۔ (ابوداؤد، ابن خزیمہ)۔ بخاری کی روایت میں ہے رمضان میں عمرہ حج کے برابر ہے۔

o

ابن حبان میں ہے کہ حضرت اُمِ سلیمؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئیںاور عرض کیا: ابوطلحہ اور اس کے بیٹے نے حج کرلیا اور مجھے اپنے ساتھ نہیں لے گئے تو آپؐ نے فرمایا: اے اُمِ سلیمؓ! رمضان میں عمرہ میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے۔ (مختصر الترغیب والترھیب)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت پر شفقت فرمانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اگر کوئی خاتون آپؐ کے ساتھ حج پر نہیں جاسکی تو اسے ایسے عمرہ کی طرف رہنمائی فرما دی جس کے ذریعے وہ آپؐ کے ساتھ حج کی فضیلت حاصل کرلے۔حضرت اُم سلیمؓ کے ساتھ اور ان کے ذریعے دوسری تمام صحابیات اور قیامت تک کے لیے مومنات و مسلمات کو رمضان المبارک میں عمرہ کی طرف متوجہ فرما کر حج کی فضیلت حاصل کرلینے کی راہ بتلا دی۔ فجزاہ اللّٰہ تعالٰی عنا وعن جمیع المسلمین۔ آپؐ کی اس شفقت سے فائدہ اُٹھانے والے بے شمار اہلِ ایمان دنیا بھر میں موجود ہیں جو رمضان المبارک میں عمرہ کر کے حج کی فضیلت حاصل کرلیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان میں شامل فرما دے۔ آمین!

o

حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی دن بھی اللہ تعالیٰ کے نزدیک ذوالحجہ کے دس دنوں سے افضل نہیں ہے اور کوئی دن بھی عرفہ کے دن سے افضل نہیں ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس دن آسمانِ دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور زمین والوں کے ذریعے آسمان والوں پر فخر فرماتے ہیں۔ فرماتے ہیں: دیکھو! میرے بندوں کی طرف ،وہ میری طرف آتے ہیں اس حال میں کہ بال پراگندا ہیں، چہرے اور جسم غبارآلود ہیں۔ ننگے سر دھوپ میں چل کر آئے ہیں اور دھوپ ہی میں کھڑے ہیں۔ دُوردراز علاقوں سے پہنچے ہیں۔ میری رحمت کے اُمیدوار ہیں اور انھوں نے میرے عذاب کو دیکھا نہیں پھر کوئی دن عرفہ کے دن کے مقابلے میں نہیں دیکھا گیا جس میں آگ سے زیادہ لوگوں کو آزادی ملے۔ (ابویعلٰی، بزار، ابن حبان)

ابن خزیمہ اور بیہقی میں ہے کہ میں تمھیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے انھیں بخش دیا ہے۔ فرشتے کہتے ہیں: ان میں ایک ایسا آدمی بھی ہے جو حرام کاموں کا مرتکب رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: میں نے ان سب کو اس مجرم سمیت بخش دیا ہے۔(مختصر الترغیب والترھیب)

o

اللہ کی مغفرت بڑی وسیع ہے۔ اس میں تعجب کی بات نہیں ہے۔ عبادت بھی بہت بڑی ہے اور ربِ کریم کی رحمت و کرم بھی بڑے وسیع ہیں۔ حدیث قدسی ہے: ان رحمتی سبقت غضبی ’’یقینا میری رحمت میری غضب پر غالب ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ اگر مغفرت فرمانا چاہے تو پھر کون ہے جو اس کی مغفرت کی راہ میں مانع ہوسکے۔ نہ کوئی آدمی اور نہ کوئی گناہ مانع ہوسکتا ہے۔ مانع اس کی مشیت اور ارادہ ہی ہوسکتا ہے۔ وہ چاہے تو معاف کرے اور چاہے تو معاف نہ کرے۔ اس کے بندے دنیا کے کونے کونے سے اس کی پکار پر جمع ہیں تو پھر بخشش کا اس سے بہتر اور مناسب اور اہم موقع کون سا ہوسکتا ہے۔ اس لیے اس موقعے پر اللہ تعالیٰ کی مغفرت عام ہوتی ہے اور تمام گناہ گار جو میدانِ عرفات اور میدانِ مزدلفہ میں جمع ہوتے ہیں سب کی مغفرت ہوجاتی ہے۔ کتنی بڑی شان ہے اس غفور و رحیم ذات کی۔ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلَنَا وَلِوَالِدِیْنَا وَلِجَمِیْعِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ الْاَحْیَائِ مِنْہُمْ وَالْاَمْوَاتِ۔

حضرت حذیفہؓ اور حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت میں لوگوں کو جمع کرے گا۔ مسلمان کھڑے ہوں گے اور جنت ان کے قریب کر دی جائے گی۔ وہ حضرت آدم ؑ کے پاس آئیں گے اور کہیں گے: اے والد بزرگوار! چلیے ہم لوگوں کے لیے جنت کا دروازہ کھول دیجیے۔ وہ کہیں گے: میں اس کام کے لائق کہاں؟ اپنے والد کی ایک غلطی ہی کی وجہ سے تم جنت سے باہر نکلے ہو۔ جائو میرے فرزند ابراہیم ؑ کے پاس جائو، وہ اللہ تعالیٰ کے خلیل ہیں۔ حضرت ابراہیم ؑ فرمائیں گے:میں اس خدمت کے قابل کہاں؟ میں تو بس دُور دُور ہی سے خلیل تھا۔ موسٰی ؑ کے پاس جائو، ان سے اللہ تعالیٰ نے بڑی خصوصیت سے باتیں کی ہیں۔ وہ ان کے پاس جائیں گے۔ یہ فرمائیں گے: میں اس خدمت کے لائق کہاں؟ عیسٰی ؑ کے پاس جائو،     وہ اللہ تعالیٰ کے ایک کلمہ کُن سے پیدا ہوئے ہیں اور روح اللہ کا لقب پایا۔ عیسٰی ؑ فرمائیں گے: میں اس لائق کہاں؟ اس کے بعد لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوں گے۔ آپؐ شفاعت کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں گے اور آپؐ کو اجازت مل جائے گی (اور حساب شروع ہوجائے گا)۔ اس دن صفت امانت اور صلۂ رحمی کو اتنی اہمیت دی جائے گی کہ ان کو ایک حسّی شکل دے دی جائے گی۔ یہ پُل صراط کے دائیں بائیں کھڑی ہوجائیں گی (تاکہ اپنی رعایت کرنے والوں کی سفارش اور رعایت نہ کرنے والوں کا شکوہ کریں)۔ پھر تمھارا پہلا قافلہ بجلی کی طرح تیزی سے گزر جائے گا۔

راوی کہتا ہے کہ میں نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ہوں! بجلی کی طرح گزرنے کا کیا مطلب ہوا؟ فرمایا: تم نے نہیں دیکھا کہ وہ کس طرح پل بھر میں گزر کر لوٹ بھی آتی ہے۔ اسی تیزی کے ساتھ تمھارا گزرنا ہوگا۔ پھر ہوا کی طرح، پھر تیز پرندے کی طرح، پھر انسانوں کی دوڑ کی طرح، غرض کہ جیسے ان کے اعمال ہوں گے اسی تیزی کے ساتھ وہ ان کو لے جائیں گے اور تمھارا نبیؐ کھڑا ہوکر یہ دُعا مانگ رہا ہوگا: میرے رب! ان کو سلامتی سے گزار۔ یہاں تک کہ اب ضعیف الاعمال اور گنہ گار لوگوں کی باری آئے گی۔ حتیٰ کہ ایک شخص وہ ہوگا جسے گھسٹ کر چلنے کے سوا طاقت نہ ہوگی۔ فرمایا کہ پل صراط کے دونوں طرف کانٹے ہوں گے اور جس کے متعلق حکم دیا جائے گا  وہ اس کو پکڑیں گے۔ پس جس کے صرف خراش آئے گی وہ تو نجات پاجائے گا اور جس کے ہاتھ پیر باندھ دیے جائیں گے وہ دوزخ میں جائے گا۔

حضرت ابوہریرہؓ قسم کھا کر کہتے ہیں: اس ذات کی قسم جس کے دست ِ قدرت میں ابوہریرہؓ کی جان ہے! جہنم کی گہرائی ۷۰سال کی مسافت ہے۔(مسلم)

حدیث ِشفاعت میں تفصیلات کا اختلاف ہے۔ بعض میں حضرت آدم ؑ کے بعد حضرت نوحؑ کا اور ان کے بعد حضرت ابراہیم ؑ کا ذکر ہے۔ بعض دیگرتفصیلات میں بھی کہیں اختصار ہے جیساکہ مذکورہ حدیث میں، اور کہیں تفصیل ہے جیساکہ بخاری اور مسلم اور دوسری کتب حدیث میں دیکھا جاسکتا ہے۔اس اختلاف سے ان احادیث میں تعارض اور اختلاف نہ سمجھا جائے۔ یہ تمام احادیث صحیح ہیں۔ تفصیل اور اختصارموقع محل کے لحاظ سے ہوجاتا ہے۔ اس حدیث سے انبیاء علیہم السلام کی تواضع اورعاجزی ہمارے سامنے آتی ہے اور اگر ان سے تھوڑی سی کوئی لغزش ہوجاتی ہے تو اس پر ان کو کتنا بڑا خوف لاحق ہوجاتا ہے اور وہ اللہ رب العالمین سے ہم کلامی اور سفارش سے کس قدرگھبرا جاتے ہیں۔

 اس سے ہمارے لیے ایک نمونہ سامنے آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے رحمت کی اُمید رکھنا چاہیے لیکن اس کے ساتھ اس کی نافرمانی کا خوف بھی کرنا چاہیے۔ اول تو نافرمانی سرزد ہی نہ ہواور اگر بشری کمزوری کی وجہ سے نافرمانی سرزد ہوجائے تو فوراً توبہ و استغفار کی طرف توجہ کرنا چاہیے ۔ پُل صراط سے گزرنے کی جو تفصیلات سامنے آتی ہیں ان کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے اور پُل صراط سے سلامتی کے ساتھ گزرنے کی تیاری کرتے رہنا چاہیے۔ جن نیک اعمال کا موقع ملے ان کو کر گزرنا چاہیے، اس میں کسی تذبذب اور سُستی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔بے شک ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارے نبی جناب محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام و مرتبہ تمام انبیا ؑ سے اُونچا ہے لیکن اس کے ساتھ اس بات کا بھی احساس بیدار رکھنا چاہیے کہ آنحضرتؐ کی نافرمانی بھی بہت بڑی نافرمانی ہوگی اور آپ کے دین کی بے قدری بھی بہت  بڑا جرم شمار ہوگا۔ آج یہ جرم بڑے پیمانے پر ہو رہا ہے۔ انفرادی زندگی میں بھی اور اجتماعی زندگی میں بھی۔ مسلمان ممالک جو نبی اکرمؐ اور صحابہ کرامؓ ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین اور مسلمانوں کے فتح کردہ ہیں، آج ان ممالک میں مسلمان تو ہیںلیکن اسلام نہیں ہے۔ اسلام کو تخت اقتدار سے معزول رکھا ہوا ہے۔ یہ اتنا بڑا ظلم ہے کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ کیا وہ لوگ جن کو اسلام نے یہ ممالک عطا کیے ہیں وہ اسلام کے ساتھ اس بدسلوکی کا جواب دے سکیں گے؟ اگر نہیں تو ابھی سے اس کے ازالے کی کوشش کریں اور تمام لادینی نظاموں اور لادینوں کو تخت ِ اقتدار سے معزول کرکے اسلام اور اسلام کے علَم برداروں کو تخت ِ اقتدار پر فائز کریں کہ اس سے اس ظلم کا ازالہ ہوگا  اور جواب دہی آسان ہوگی۔

o

حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک کے پہلے عشرے میں اعتکاف فرمایا اور پھر دوسرے عشرے میں بھی۔ پھر ترکی خیمے سے جس میں اعتکاف فرما رہے تھے سر باہر نکال کر ارشاد فرمایا کہ میں نے پہلے عشرے کا اعتکاف شب قدر کی تلاش کی وجہ سے کیا۔ پھر اسی وجہ سے دوسرے عشرے میں کیا۔ پھر مجھے کسی بتلانے والے نے بتایا کہ وہ رات اخیر عشرہ میں ہے، لہٰذا جو لوگ میرے ساتھ اعتکاف کر رہے ہیں وہ اخیر عشرہ کا بھی اعتکاف کریں۔ مجھے یہ رات دکھلائی گئی تھی پھر بھلا دی گئی۔ اس کی علامت یہ ہے کہ میں نے اپنے آپ کو اس رات کے بعد کی صبح کو کیچڑ میں سجدہ کرتے دیکھا۔ لہٰذا اب اس کو اخیرعشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ راوی کہتے ہیں کہ اس رات بارش ہوئی اور مسجد چھپر کی تھی وہ ٹپکی اور میں نے اپنی آنکھوں سے نبی اکرمؐ کی پیشانی مبارک پر کیچڑ کا نشان اکیس کی صبح کو دیکھا۔(مشکوٰۃ)

رمضان المبارک کا مہینہ نزولِ قرآنِ پاک کا مہینہ ہے۔ اسی لیے قرآن اسے تنفیذِ قرآن کا مہینہ قرار دیتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس ماہ کے آنے سے پہلے مسلمانوں کو اس مہینے کی عظمت سے آگاہ فرماتے تھے۔ اس کی برکات و حسنات اور فضائل بیان فرما کر متوجہ فرماتے تھے۔ آپؐ نے فرمایا: اس میں ایک رات ایسی ہے کہ جو اس سے محروم ہوگیا، وہ ہرخیر سے محروم ہوگیا۔ ظاہر بات ہے اس مہینے میں نفل عبادت کا ثواب فرض اور فرض کا ثواب ۷۰فرضوں کے برابر اور لیلۃ القدر کا ثواب ہزار راتوں سے بڑھ کر ہے۔  ہزار راتیں ۸۳سال چار ماہ بنتے ہیں۔اگر ایک رات میں کسی کاروباری کو ۸۳سال چار ماہ کی کمائی ملتی ہو تو وہ اس رات کاروبار کو کیسے چھوڑے گا اور کیوں سونے میں وقت لگائے گا ۔افسوس ہے ان پر جو آخرت کے کاروباری ہیں، یعنی اہلِ ایمان، ان کو اللہ تعالیٰ کی اس رحمت سے فیض یاب ہونے کا شوق، جذبہ اور فکر نہیں ہے اور جن کو ہے وہ بہت کم ہیں۔ آیئے اس مہینے اور اس مہینے کی اس عظیم رات میں اُخروی کمائی کی فکر کریں۔

اس حدیث سے اعتکاف کا ایک مقصد لیلۃ القدر کی تلاش سامنے آیااور اسی کی خاطر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ پورا ماہ رمضان اعتکاف فرمایا ہے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ لیلۃ القدر کی تلاش کا مقصد یہ ہے کہ رمضان المبارک کے آخیر عشرے میں اعتکاف کرنے والے کو وہ رات لازماً مل جائے، یعنی وہ ۸۳سال چار ماہ کی عبادت کا ثواب پالے۔

o

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معتکف کے بارے میں فرمایا: معتکف تمام گناہوں سے رُک جاتا ہے اور اس کے لیے وہ تمام نیکیاں اسی طرح لکھی جاتی ہیں جیسی ان لوگوں کے لیے لکھی جاتی ہیں جو وہ نیکیاں عملاً کرتے ہیں۔(مشکوٰۃ)

اگر ایک آدمی جو آخرت کا طلب گار ہے اس حدیث پر غور کرے تو اسے اعتکاف کا شوق پیدا ہوگا اور وہ دس دن اللہ کے گھر میں آکر سوالی بن کر بیٹھ جائے گا۔ تب ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ جو رحمن و رحیم ہے جو بندوں پر ان کے سوال کے بغیر بھی عنایات فرماتا ہے پورے دس دن اور رات اس کے دَر کا سائل بن کر بیٹھ جانے والے کو کیوں کر نہیں نوازے گا۔ پھر نبی اکرمؐ نے اس کا اہتمام فرمایا اور اہلِ ایمان آپؐ کے ساتھ اعتکاف بیٹھے تاکہ لیلۃ القدر مل جائے۔ اس لیے بارانِ رحمت سے سرفراز ہونے کے لیے ابھی سے تیاری شروع کر دی جائے۔

خواتین کے لیے تو اعتکاف مردوں کی بہ نسبت زیادہ آسان ہے ۔ وہ اپنے گھر کے کسی کونے کو مسجد بناکر اس میں اعتکاف کی نیت سے ۲۰رمضان المبارک کو سورج غروب ہونے سے پہلے بیٹھ جائیں، اور اپنی اعتکاف کی جگہ کو دن رات کسی وقت بھی ضروری بشری حاجات، مثلاًقضاے حاجت وغیرہ کے بغیر نہ چھوڑیں۔ اپنے معتکف (جاے اعتکاف) میں بیٹھے بیٹھے اپنے بچوں اور بچیوں کو مختلف کاموں کا حکم اور ہدایت دیتی رہیں لیکن خود کام کے لیے باہر نہ نکلیں تو ان کو بھی اسی طرح وہ تمام فضائل و برکات حاصل ہوں گی جو مردوں کو مسجدوں میں اعتکاف بیٹھنے سے حاصل ہوتی ہیں۔ احادیث میں عورتوں کے لیے ہدایت ہے کہ ان کی نماز گھر کے اندرونی حصے میں جس میں گھر والوں کے سوا کوئی داخل نہیں ہوتا زیادہ بہتر ہے، بہ نسبت گھر کے صحن کے اور بہ نسبت مسجد کے۔ البتہ تراویح میں خواتین مسجد میں جاسکتی ہیں، جب کہ ان کے لیے مسجد میں علیحدہ انتظام ہو تاکہ پورا قرآنِ پاک سن سکیں اور خلاصہ قرآن پاک جو تراویح کے بعد بیان کیا جاتا ہے کو سن کر اس مبارک مہینے میں اپنے دلوں کو نورِ قرآنِ پاک سے منور کرسکیں۔

حضرت ابوامامہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو بندہ کسی بندے سے اللہ تعالیٰ کی خاطر محبت کرتا ہے وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کا اِکرام کرتا ہے۔(مسند احمد)

اہلِ ایمان اپنے مسلمان بھائیوں سے ان کے ساتھ ایمانی رشتے کے سبب محبت کرتے ہیں۔ یہ محبت اللہ کی خاطر ہے اور اسی طرح اہلِ ایمان کے دُکھ کو اپنا دُکھ سمجھنا، ان کے نقصان اور تکلیف کو       اپنا نقصان اور اپنی تکلیف سمجھنا بھی اللہ تعالیٰ کی خاطر ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کا اکرام ہے۔ پھر وہ اہلِ ایمان جو علمِ دین اور تقویٰ اور پرہیزگاری میں دوسروں سے آگے ہوں اور قیادت اور رہنمائی کے مقام پر فائز ہوں، مسلمانوں کو تعلیم دے رہے ہوں، ان کی تربیت کر رہے ہوں، ان کی فلاح و بہبود میں مصروف ہوں، اسلامی نظام کے قیام کے لیے جدوجہد کر رہے ہوں، مسلمانوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت میں مصروف ہوں۔ جو حکمرانوں کو راہِ راست پر لانے اور ان کو کرپشن اور سرکاری خزانوں کو لوٹنے سے روک رہے ہوں، ملکی معیشت کو سودی نظام، جوئے، رشوت کی لعنت سے پاک کرنے میں لگے ہوں، اور ان سب کاموں سے بڑھ کر ملک کے اسلامی آئین، اس کی اسلامی دفعات اور قانونِ ناموسِ رسالتؐ کے تحفظ کے لیے تحریک برپا کریں اور اس کے لیے اُمت کو متحد کرکے پُرامن راے عامہ کے ذریعے ان نیک مقاصد کو حاصل کریں، وہ دوسروں سے بڑھ کر محبت کے مستحق ہیں۔ ان کے ساتھ ان کے کاموں اور کارناموں کے سبب زیادہ محبت کرنا چاہیے۔

o

حضرت انسؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے میری اُمت کے کسی آدمی کی کوئی حاجت پوری کرکے اسے خوش کرنا چاہا تو اس نے مجھے خوش کیا، اور جس نے مجھے خوش کیا تو اس نے اللہ کو خوش کیا۔ اور جس نے اللہ تعالیٰ کو خوش کیا اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کردے گا۔(بیہقی، شعب الایمان)

اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کی خوشی کے کام صرف نماز، روزہ ، حج اور زکوٰۃ نہیں ہیں بلکہ مسلمان بھائیوں کی حاجات اور ضروریات کو بھی پورا کرنا ہے۔مسلمانوں کی سب سے بڑی حاجت لادینی نظام اور لادین اور کرپٹ مافیا کے اقتدارسے نجات ہے۔ لادینی نظام اور لادین حکمرانوں اور کرپٹ مافیا کے سبب لوگ طرح طرح کی تکالیف سے دوچار ہیں۔ ان پر طرح طرح کے مظالم ہورہے ہیں اور ان سے بچانے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ حکومت اور اس کے ادارے اور عدالتیں ظلم سے بچانے کا ذریعہ ہوتے ہیں لیکن حکومت اور اس کے ادارے تو خود ظلم کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ ایسی صورت میں قوم کی ایک بڑی خدمت ظلم کے خاتمے کی جدوجہد ہے۔ اسلامی انقلاب برپا ہوگا تو پھر حکومت اور  اس کے تمام ادارے خلقِ خدا کی خدمت کریں گے۔ عہدے اور مناصب پر فائز ہونے والے، عہدوں اور مناصب سے ناجائز فائدے نہیں اُٹھائیں گے، کرپشن نہیں کریں گے، حق داروں تک ان کا حق ان کے گھر کی دہلیز تک پہنچائیں گے۔ عزت والوں کی عزت ہوگی، مظلوموں کی دادرسی ہوگی اور مجرموں کو ان کے جرم کی سزا ملے گی۔ تب چور، لٹیرے، ڈاکو، بدکار اور لوگوں کی عزت لوٹنے والے کرسیِ اقتدار پر نہیں بلکہ جیلوں میں ہوں گے۔ اس طرح معاشرہ بُرائیوں اور مظالم سے پاک اور نیکیوں اور عدل و انصاف سے منور ہوگا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی حاجات اور ضروریات کو پورا کرنے کی جو فضیلت بیان فرمائی ہے اس کے نتائج اس فضیلت کی حقانیت کی دلیل ہیں۔

o

حضرت خولہ انصاریہؓ کے مطابق میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: کچھ لوگ اللہ کے مال میں ناجائز تصرف کرتے ہیں ان کے لیے آگ ہے۔(بخاری)

جو آدمی آخرت پر عقیدہ رکھتا ہو، جنت اور دوزخ کا قائل ہو وہ جنت کے شوق اور دوزخ کے خوف سے نیک کام کرے گا اور بُرائی سے بچے گا۔ کبھی بھی حرام خوری نہیں کرے گا۔ ہمارے ملک میں بڑے پیمانے پر اللہ کے مال میں ناجائز تصرف ہو رہا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ایسے لوگ جنت اور دوزخ پر عقیدہ نہیں رکھتے۔ زبان سے اگرچہ انکار نہیں کرتے لیکن یہ عقیدہ ان کے دلوں میں راسخ نہیں ہے۔ اسی لیے وہ بے خوف ہیں۔ ملک ان کے ہاتھوں دیوالیہ ہوگیا ہے۔ غریب آدمی د و وقت کی روٹی کا محتاج ہوکر رہ گیا ہے۔ ایسے میں ملک کو کرپٹ لوگوں سے آزاد کرانا ہوگا اور جن لوگوں کا دامن صاف ہے، ملک کی باگ ڈور ان کے حوالے کرنا ہوگی۔ ایسا نہ کیا گیا تو ملک کی سلامتی اور آزادی کو محفوظ رکھنا مشکل ہوجائے گا۔

o

حضرت ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ ابن النواحہ اور ابن اثال مسیلمہ کذاب کے قاصد بن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ آپؐ نے ان سے پوچھا: کیا تم اس بات کی شہادت دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں تو انھوں نے کہا: ہم شہادت دیتے ہیں کہ مسیلمہ اللہ کا رسول ہے۔ آپؐ نے ان کی بات سن کر فرمایا: میں ایمان لایا اللہ اور اس کے رسول پر اور فرمایا: اگر میں نے کسی قاصد کو قتل کرنا ہوتا تو تمھیں ضرور قتل کردیتا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا کہ سنت اور اسلام کا ضابطہ یہی ہے کہ قاصد کو قتل نہیں کیا جائے گا۔(مسند احمد)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بردباری اور عدل و انصاف کی بے شمار مثالیں ہیں بلکہ آپؐ کی ساری مبارک زندگی اس کی دلیل ہے۔ آپؐ  کی یہی شان اُمت کو وراثت میں ملی ہے۔ صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین، ائمہ مجتہدین اور مجاہدین اسلام نے ہر دور میں اس کا نمونہ پیش کیا ہے۔ آج بھی جب کہ اُمت مسلمہ پر مظالم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں، بڑے پیمانے پر قتلِ عام ہو رہا ہے، دو عشروں سے دنیا کے مختلف خطوں میں مسلمانوں کی خوں ریزی ہورہی ہے لیکن اس کے باوجود مسلمان صبر کا دامن تھامے ہوئے ہیں۔ ظلم کے مقابلے میں ظلم سے احتراز کر رہے ہیں۔ اگرچہ بعض ناسمجھ افراد مظالم سے تنگ آکر ظالموں کی گولیوں کا جواب گولیوں سے دے رہے ہیں لیکن اُمت مسلمہ کی دینی قیادت نے اس ردعمل کی طرف داری نہیں کی۔ دنیا میں عدل و انصاف کے نظام کو قائم کرنے والے وہی لوگ ہوسکتے ہیں اور انھی کو اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت حاصل ہوسکتی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سلف صالحین کے راستے پر گام زن ہوں۔ ان کے ہاتھ سے کسی پر ظلم نہ ہو اور ہر کوئی ان کے بارے میں یہی تصور رکھے کہ ان سے ہمیں خیر ہی مل سکتی ہے، شر نہیں۔ پُرامن جدوجہد کے ذریعے بُرائی کو مٹانا اور ظلم سے نجات حاصل کرنا وہ نصب العین ہے جسے دنیا بھر کی اسلامی تحریکات نے اپنا طریق کار بنایا ہوا ہے۔ یہی طریق کار پُرامن انقلاب کا ذریعہ ہے۔ اس طریق کار کو اپنا کر ہم ہر بُرائی کا قلع قمع کرسکتے ہیں اور اسی طریق کار کے ذریعے عام مسلمانوں کی حمایت حاصل کرسکیں گے۔ جن لوگوں کے ذریعے کوئی بھی بے گناہ مارا جائے گا مسلمان انھیں اپنی نمایندگی کبھی نہیں دیں گے۔ جو لوگ اسلام دشمنوں اور ظالموں کے آلۂ کار بن کر اقتدار کی کرسی پر قابض ہیں وہ بہت جلد عوام کی تائید سے محروم ہوجائیں گے۔ آیندہ کے لیے عوام کبھی بھی ان کو اپنے سروں پر مسلط نہیں کریں گے۔

o

حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح ہوتی اور مالِ غنیمت حاصل ہوتا تو حضرت بلالؓ کو حکم دیتے تھے کہ لوگوں میں اعلان کریں کہ جس کے پاس جو کچھ ہے  وہ لے آئے۔ لوگوں کے پاس جو مالِ غنیمت ہوتا وہ اسے لے آتے۔ جب سب مال جمع ہوجاتا تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے اس میں سے خمس (پانچواں حصہ) الگ کرتے، پھر باقی مال کو  تمام مجاہدین میں تقسیم فرما دیتے۔ ایک دفعہ مالِ غنیمت تقسیم ہوجانے کے بعد ایک آدمی بالوں کی ایک لگام لے آیا اور کہا کہ یہ لگام بھی ہم نے مالِ غنیمت میں پائی تھی۔ آپؐ نے فرمایا: تم نے بلال کا اعلان جو اس نے تین دفعہ کیا تھا، سنا تھا۔ اس نے جواب دیا: ہاں۔ آپؐ نے فرمایا:پھر بروقت کیوں نہ لے کر آئے؟ اس نے جواب دیا: بس دیر ہوگئی۔ آپؐ نے فرمایا: پھر تو اسے قیامت کے دن لے کر آنا، میں اب تم سے قبول نہیں کرسکتا ۔(ابوداؤد)

اس حدیث پر غور کیجیے، اجتماعی مال کو بروقت پیش کرنا کتنا ضروری ہے۔ وقت پر اگر بالوں کی ایک رسّی بھی کسی کے پاس تھی اور اس نے پیش نہ کی ہو تو اس پر کتنی بڑی مصیبت آجاتی ہے۔ قیامت کے روز کسی چیز کو پیش کرنا اتنی بڑی مصیبت ہے کہ اس سے بڑی مصیبت کوئی نہیں ہے۔ ایک شخص مجاہد ہے، جہاد میں شرکت کرتا ہے، اپنی جان کو اللہ کی راہ میں قربان کر دینے کا جذبہ رکھتا ہے۔ اس جذبے کا مظاہرہ بھی کرتا ہے۔ اس نے میدانِ جنگ میں بھرپور حصہ لیا ہے، مالِ غنیمت بھی جمع کیا ہے اور وہ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا لیکن بالوں کی ایک رسّی رہ گئی ہے، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا کوئی لحاظ نہیں فرمایا۔ وہ رسّی پیش کر رہا ہے لیکن آپؐ اسے قبول کرنے سے انکار فرما دیتے ہیں۔ تب آج کے دور میں سرکاری خزانے میں سے اربوں، کھربوں لوٹ کر بیرونِ ملک مختلف ممالک کے بنکوں میں اپنے نام یا اپنے بیٹے، بیوی یا بھائی کے نام سے جمع کردینا کتنا بڑا جرم ہے اور پھر اس کی آخرت میں کتنی بڑی سزا ہوگی۔ اور وہاں کون طاقت رکھے گا کہ وہ اربوں کھربوں پیش کرسکے۔ جب ایک مخلص مسلمان اور مجاہد ایک رسّی پیش کرنے سے عاجز ہے تو ان کرپٹ حکمرانوں اورافسروں کا کیا حال ہوگا۔ انھیں آج اس کی فکر کرنا چاہیے اور چند روزہ دنیا کی خاطر اپنی آخرت کی دائمی زندگی کو برباد نہ کریں۔ اپنے آپ کو دوزخ کا ایندھن نہ بنائیں۔ اللہ ہدایت عطا فرمائے۔

حضرت ابی بن کعبؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں قیامت کے روز تمام انبیاؑ کا امام و خطیب اور شفیع ہوں گا اور اس پر مَیں فخر نہیں کرتا ۔(ترمذی)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ مرتبہ اللہ تعالیٰ نے عنایت فرمایا ہے۔ اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انبیا ؑ سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی بندگی کی اور اللہ تعالیٰ کے دین کو دنیا میں غالب فرمایا۔ ’اظہارِدین‘ کا    یہ فریضہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کی اُمت نے ادا کیا۔ اس لیے آپؐ تمام انبیا ؑ سے افضل اور آپؐ کی اُمت تمام اُمتوں سے افضل ہے۔ قیامت کے روز شفاعت کبریٰ اور مقامِ محمود اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو عطا فرمایا ہے۔ اُمت مسلمہ کو اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اسے اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت بنایا اور تمام اُمتوں سے افضل بنایا۔ پھر اس کا تقاضا ہے کہ مسلمان اللہ تعالیٰ کی اطاعت و بندگی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی پوری طرح پیروی کریں اور دین اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوں۔ اپنی زندگیوں کو تقسیم نہ کریں کہ مسجد میں اللہ کے بندے ہوں اور مسجد سے باہر غیراللہ کے بندے بن کر زندگی گزاریں۔ بازاروں میں، کھیتوں میں، عدالت میں، ایوانِ حکومت میں، ہر جگہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کو لازمی سمجھ کر اور سعادت سمجھ کر اپنائیں۔ اسی کو ذریعۂ نجات سمجھیں اور اسی کو عزت کا راستہ سمجھیں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا تھا کہ ہم وہ قوم ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کی بدولت عزت عطا فرمائی ہے۔ جب ہم کسی دوسرے ذریعے سے عزت حاصل کرنا چاہیں گے تو     اللہ تعالیٰ ہمیں ذلیل کر کے رکھ دے گا۔ آج ہم نے یہ راستہ چھوڑ دیا ہے اس لیے ہم عزت کھو چکے ہیں۔ عزت کی بحالی کا راستہ یہی ہے کہ اسلام کو پوری زندگی کا دین بنا دیں۔ اللہ توفیق عطا فرمائے، آمین!

o

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تورات میںجو پیشن گوئی کی گئی ہے، حضرت کعب  بن احبارؓ اُسے یوں بیان فرماتے ہیں: ’’ہم تورات میں لکھا ہوا پاتے ہیں، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پسندیدہ بندے ہیں، نہ سخت گو، نہ سخت دل، نہ بازاروں میں شور کرنے والے اور بُرائی کا بدلہ بُرائی سے نہیں دیتے بلکہ معاف کر دیتے اور بخش دیتے ہیں۔ ان کی پیدایش مکہ میں ہوئی، ان کا مقامِ ہجرت مدینہ طیبہ ہے اور ان کا اقتدار شام میں ہوگا اور آپؐ کی اُمت اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کرنے والی ہوگی۔ وہ خوشی اور تکلیف دونوں حالتوں میں اللہ تعالیٰ کی حمد کریں گے۔ اللہ تعالیٰ کی ہرمقام پر حمد کریں گے، اللہ کی کبریائی ہربلندی پر بیان کریں گے، سورج کا خیال رکھیں گے، نماز پڑھیں گے۔ جب نماز کا وقت آئے گا اپنی چادریں آدھی پنڈلی تک اُونچی رکھیں گے اور وضو میں اپنے دونوں طرف کے اعضا کو دھوئیں گے (دونوں ہاتھ، چہرے کے دونوں طرف، پائوں کے دونوں طرف اور سر کا مسح)۔ ان کا منادی جو ندا دے گا وہ آسمان کی فضائوں میں گونجے گی۔ میدانِ جنگ میں ان کی صفیں اسی طرح سیدھی ہوں گی جس طرح نماز میں سیدھی ہوں گی۔ راتوں کو قرآن پڑھنے کی گنگناہٹ ایسی ہوگی جیسے شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ ہوتی ہے۔(مصابیح السنۃ، دارمی)

ایمان والوں کے لیے بڑی سعادت ہے کہ تورات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صفاتِ عالیہ کی طرح ان کی صفات کا بھی بیان ہے۔ آپؐ کی جاے پیداش، جاے ہجرت اور اقتدار کی توسیع کا آغاز   جس ملک سے ہوتا ہے، اس کا تذکرہ ہے۔ آپؐ کی شانِ کریمی اور اسوئہ حسنہ کا بیان ہے۔ آپؐ کی اُمت کی حمدوثنا، ان کی تلاوت،ان کی دعائوں،  ان کی صف بندیوں کا تذکرہ ہے۔ یہ چیز ہم سے تقاضا کرتی ہے کہ ہم ان صفات کو اپنائیں، اپنا لباس اور وضع قطع کو اس کے مطابق درست کریں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کے لباس کو اپنا لباس بنانے سے نہ شرمائیں بلکہ اسے اپنے لیے عزت کا لباس سمجھیں۔ مغرب زدگی کی بیماری سے نکل آنے کی کوشش کریں۔

o

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ مجھے حضرت عمرؓ نے یہ واقعہ سنایا کہ جب خیبر کی جنگ ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چند صحابہ آئے اور کہنے لگے: فلاں آدمی شہید ہے، فلاں آدمی شہید ہے (مختلف آدمیوں کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار کیا)۔ یہاں تک کہ ایک آدمی پر گزر ہوا تو کہا: یہ فلاں بھی شہید ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ بات سنی تو فرمایا: ہرگز نہیں ، میں نے اسے ایک چادر میں جلتے ہوئے دیکھا ہے جسے اس نے خیبر کے دن چرایا تھا۔   پھر آپؐ نے حضرت عمرؓ سے فرمایا: خطّاب کے بیٹے! جائو لوگوں میں تین دفعہ اعلان کرو کہ جنت میں نہیں داخل ہوں گے مگر ایمان والے۔ تب میں نکلا اور لوگوں میں تین دفعہ اعلان کیا کہ جنت میں نہیں داخل ہوں گے مگر ایمان والے۔(مسلم)

ایک آدمی جو اللہ کی راہ میں جان لڑا رہا ہے، جان قربان کر دیتا ہے، اس کے بارے میں ہم کوئی قطعی حکم نہیں لگا سکتے، یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ جنتی ہے۔ اس نے اللہ کی راہ میں جامِ شہادت نوش کر لیا ہے۔ اگرچہ ظاہراً وہ شہید ہے لیکن کیا عنداللہ بھی وہ شہید ہے؟ اس بارے میں کوئی آدمی بھی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ ہاں، اللہ تعالیٰ کا نبیؐ اللہ تعالیٰ سے خبر پاکر فرما سکتے ہیں کہ فلاں شہید ہے لیکن دوسرا کوئی ایسی بات کرنے کا مجاز نہیں ہے۔ نیز اگر اللہ کی راہ میں جان قربان کرنے کے ساتھ بندوں کے حقوق میں سے کوئی حق کسی نے مارا ہو تو اسے بندوں کا حق ادا کرنا پڑے گا یا ان سے حق معاف کرانا پڑے گا۔ لیکن ایک حق ایسا ہے جسے معاف کرانا بڑا مشکل ہے وہ مشترکہ مال میں خیانت ہے، جیسے مالِ غنیمت یا دوسرا کوئی مال جو سرکاری خزانے سے کسی نے چرایا ہو، خیانت کی ہو، کرپشن کی ہو۔ اس حق میں بے شمار لوگ شریک ہوتے ہیں۔ اسی لیے اسے معاف کرانا بڑا مشکل ہے۔ سرکاری خزانے میں کرپشن کرنے والے اس دنیا میں کرپشن واپس کر کے معافی حاصل کرسکتے ہیں لیکن آخرت میں ان کے لیے معافی پانا ناممکن ہوگا، الا یہ کہ اللہ تعالیٰ کسی آدمی کے کسی عمل سے خوش ہوجائیں اور اس نے جو بندوں کا حق مارا ہے اللہ تعالیٰ بندوں سے معاف کرا لیں اور انھیں اپنے پاس سے ان کا حق ادا کردیں۔ لیکن ایسا پارسا اور ایسی نیکی کرنے والا کون ہوسکتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ یہ مہربانی کرے۔ لہٰذا کرپٹ لوگ خوف کریں، بندوں کی حق تلفی کا ازالہ اپنی زندگی میں جس قدر جلدی کرسکتے ہوں کرلیں۔ اللہ توفیق عطا فرمائے۔

o

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کرنے سے پہلے ایک کتاب (تحریر) لکھی ہے: ان رحمتی سبقت غضبی ’’یقینا میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے‘‘۔ اور وہ تحریر اللہ تعالیٰ کے پاس اس کے عرش پر ہے۔(متفق علیہ)

اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق پر مہربان ہے، وہ رحمن ہے۔ اس نے اپنی مخلوق کو ہر طرح کی نعمتوں اور ضروریات سے نوازا ہے، وہ ان کا پالنے والا ہے۔ ہر ایک کو رزق دیتا ہے۔ صحت و عافیت سے نوازتا ہے، زندگی عطا فرماتاہے۔ وہ تکوینی اور طبعی دائرے میں بھی رحمن ہے اور انسانوں پر تشریعی دائرے میں بھی رحمن ہے۔اس نے انبیا علیہم السلام کے ذریعے جو نظام بھیجا ہے، وہ نظامِ رحمت ہے۔ اس نظام کے عقائد، افکار و نظریات، عبادات، معاشرت، معیشت، سیاست، حکومت، عدالت وغیرہ زندگی کے تمام شعبوں کے بارے میں اس کے تمام احکام رحمت ہیں۔ اس کے ہاں نیک و بد برابر نہیں ہیں، نیکی اور بدی برابر نہیں ہے۔ وہ عبادت گزاروں اور فرماں برداروں کی قدر کرتا ہے اور شرپسندوں، مجرموں، چوروں اور ڈاکوئوں کو سزائیں دیتا ہے۔ ان کو سزائیں نہ دی جائیں، قید نہ کیا جائے، کوڑے نہ لگائے جائیں،  سنگسار نہ کیا جائے تو معاشرہ فتنے اور مصیبت سے دوچار ہوجائے۔ قتل و غارت گری سے دوچار ہوجائے۔ اس لیے جہا ں نیکوں کے لیے ثواب ہے وہاں فساق و فجار کے لیے سزائیں بھی ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق شر و فساد اور ظلم و جور سے محفوظ ہوجائے۔ بہت سے لوگ سزائوں کی حقیقت کو نہ سمجھنے کی بنا پر جرائم اور مجرموں کی مذمت کے بجاے مجرموں کے لیے شرعی سزائوں کی مذمت کرتے ہیں۔ شعوری یا غیرشعوری طور پر اللہ تعالیٰ اور اس کے نظام کی توہین کرتے ہیں۔ ایسے لوگ معاشرے کے لیے بہت بڑا ناسور ہیں۔ ان کی ہدایت کے لیے منظم انداز میں جدوجہد کرنا چاہیے۔

o

حضرت معاذ بن جبلؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: معاذ! میں تجھ سے محبت رکھتا ہوں۔ اس پر میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میں بھی آپ سے محبت رکھتا ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی بھی نماز کے بعد ان کلمات کو نہ چھوڑو۔ اَللّٰھُمَّ اَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ ،’’اے اللہ! میری مدد فرما کہ میں تیرا ذکر کروں،  تیرا شکر ادا کروں اور تیری خوب صورت عبادت کروں‘‘۔ (ابوداؤد ، نسائی)

نبی کریمؐ کو اپنے تمام صحابہ سے محبت تھی اور صحابہ کرامؓ کو بھی آپؐ سے محبت تھی۔ نبی کریمؐ نے اپنے تمام صحابہؓ سے اپنی محبت کا اظہاروقتاً فوقتاً کیا اور بعض صحابہؓ سے انفرادی طور پر اپنی محبت کا اظہار فرمایا ہے۔ اس موقعے پر نبی کریم ؐ نے حضرت معاذ بن جبلؓ سے محبت کا اظہار فرمایا۔ اس محبت کا تقاضا تھا کہ آپؐ حضرت معاذؓ کو کوئی خاص تحفہ عنایت فرمائیں۔ چنانچہ آپؐ نے ایسا تحفہ عنایت فرمایا جو اللہ تعالیٰ کی بندگی اور جملہ احکام کی پیروی اور قربِ الٰہی کی منزلیں طے کرنے میں نسخۂ کیمیا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا چاہے وہ اس ذکر کو اپنی زندگی کا وظیفہ بنا لے۔

حضرت انسؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی آدمی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اسے اس کے والدین، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجائوں۔(متفق علیہ)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت جزوِ ایمان ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے جلال و جمال کی مظہر ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی عبدیت میں تمام مخلوق سے بلندوبالا ہیں اور جِنّ و انس اور کائنات پر آپؐ  کی نوازشیں بھی سب سے بڑھ کر ہیں۔ آپؐ  کے ذریعے ہمیں اللہ تعالیٰ کا دین ملا جو اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی رحمت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو   رحمۃ للعالمینؐ بنا کر بھیجا ہے۔ آپؐ  سے توحید و سنت کا درس ملا۔ آپؐ  سے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا نظام ملا۔ آپؐ  نے بندوں کو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا راستہ بتلایا۔ آپؐ  نے انسانوں کو کفر اور شرک کی تاریکیوں سے نکال کر توحید کے روشن راستے پر ڈالا۔ دنیا لوٹ کھسوٹ، قتل و غارت گری اور دہشت گردی کا شکار تھی، لوگوں کے لیے دنیا جہنم بن چکی تھی، لوگ بیٹیوں کو زندہ درگور کرتے تھے۔ بھوک، ننگ اور ذہنی پستی میں ڈوبے ہوئے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔ آپؐ  نے فرمایا: یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ ، ’’اے انسانو! اپنے رب کی عبادت کرو‘‘۔ قولوا لا الٰہ الا اللّٰہ تفلحوا ، ’’لا الٰہ الا اللہ کہو، کامیاب ہوجائو گے‘‘۔آپؐ  نے یہ نسخۂ کیمیا انسانوں کے سامنے پیش کیا۔ لوگوں نے اس پر آمنا وصدقنا کہا تو ان کو زندگی مل گئی۔ وہ امن و سکون اور راحت سے سرفراز ہوئے۔ وہ ایک دوسرے کے بھائی بن گئے، ایک دوسرے کے غم گسار اور مددگار ہوگئے۔ ایک دوسرے کے جان و مال اور عزت و آبرو کے محافظ بن گئے۔ ایک دوسرے کے لیے ایثار کرنے والے بن گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ پاک ہرلحاظ سے محبت کی مستحق ہے، اور محب اپنے محبوب کی مرضی پورا کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شعوری محبت ہو تو مومن آپؐ  سے محبت کے ساتھ ساتھ آپؐ  کی اطاعت بھی کرے گا۔ آپؐ  کے دین سے بھی محبت کرے گا، آپؐ  کے مقصد ِ بعثت سے بھی محبت کرے گا۔ آپؐ  کو اللہ تعالیٰ نے اس لیے مبعوث فرمایا تھا کہ آپؐ  کے ذریعے اللہ تعالیٰ اپنے دین کو غالب کرے۔    اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ لا(التوبہ ۹:۳۳) ’’اللہ وہ ذات ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ اس لیے بھیجا ہے کہ اسے تمام ادیانِ باطلہ پر غالب کردے‘‘۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شعوری محبت رکھنے والا اسلامی احکام کا پابند ہوگا، فرائض و واجبات اور سنن کو ادا کرنے والا اور منکرات اور مکروہات سے بچنے والا ہوگا۔ اس کی زندگی ایک پاک باز انسان کی زندگی ہوگی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے دعوے داروں کو سوچنا چاہیے کہ آیا وہ آپؐ  کی محبت کے تقاضوں کو پورا کر رہے ہیں؟ کیا قرآن و سنت کے مطابق دن رات بسر کر رہے ہیں؟ کیا اس مشن کے لیے جس کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکی زندگی میں تکلیفیں اُٹھائیں، مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کی، بدرواُحد، اَحزاب اور حنین اور تبوک کے معرکوں میں جان کی بازی لگائی، اس کے لیے وہ پُرجوش اور پُرعزم ہیں اور اس کے لیے جدوجہد کررہے ہیں؟ کیا اپنے آپ  کو مکہ کی گلیوں، طائف کی وادیوں اور بدر و اُحد اور تبوک کے پُرمشقت راستوں میں پاتے ہیں؟ کیا اپنے ملک میں اسلامی نظام قائم کرنے کے لیے کوشش کر رہے ہیں؟ سود، جوے، شراب، فحاشی و عریانی اور دین کی تذلیل کے خلاف جہاد کر رہے ہیں؟ ناموسِ رسالتؐ کے تحفظ کے لیے منظم ہو رہے ہیں؟ یہ ہمارے سوچنے کی باتیں ہیں۔ اگر ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع کر رہے ہیں تو اس پر شکر بجا لانا چاہیے اور اتباع میں آگے بڑھنا چاہیے اور اگر کچھ کمی ہے تو اس کا ازالہ کرنا چاہیے اور اپنی اور اپنے اہل و عیال کی فکر کرنا چاہیے۔ اور اپنے ملک کو اسلامی بنانے کے لیے بھرپور جدوجہد کرنا چاہیے کہ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا حق ادا کرسکتے ہیں اور آپؐ  کے احسانات کی قدر اور شکرانہ ادا کرسکتے ہیں۔

o

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: آپؐ  مجھے ایسا عمل بتلا دیجیے کہ میں اس پر عمل کرکے جنت میں داخل ہوجائوں۔ آپؐ  نے فرمایا: اللہ کی عبادت کرو،اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ فرض نماز قائم کرو اور    زکوٰۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو۔ یہ سن کر اس نے کہا: اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے! اس پر میں کوئی اضافہ کروں گا اور نہ کمی کروں گا (یعنی اپنے طور پر اضافہ نہیں کروں گا، اگر اللہ تعالیٰ کوئی اور حکم دیں گے تو اس کی تعمیل کروں گا)۔ یہ کہہ کر جب وہ چلا گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس آدمی کو اس بات کی خواہش ہو کہ وہ جنتی آدمی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لے تو وہ اس شخص کو دیکھے۔ (متفق علیہ)

جس آدمی میں دین پر عمل کرنے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشِ قدم پر چلنے کا جذبہ ہو، وہ اس دنیا میں چلتا پھرتا جنتی ہے۔ ہم میں سے ہرشخص اپنے آپ کو اس دیہاتی جیسا بنا سکتا ہے۔ اس دیہاتی نے جس عزم کا اظہار کیا، اللہ تعالیٰ کی قسم اُٹھا کر دین حق کے احکام پر چلنے کا اعلان کیا،  اس عزم کا ہم بھی اظہار کریں۔ صرف نام کے مسلمان نہ رہیں، عملاً مسلمان بن جائیں تو یہ بڑا قیمتی سودا ہے، جنت کا سودا! اگر جنت کی قدروقیمت ذہن میں ہو تو پھر اس کا شوق بھی ہوگا۔ جنت کیا ہے؟   وہ قیمتی نعمتیں جن کی مثال دنیا میں نہیں ہے۔ دنیا کی چیزیںجنت کی نعمتوں کے ساتھ صرف نام کی حد تک شریک ہیں۔ رہی حقیقت تو جنت کی چیزوں کی حقیقت جنت میں پہنچ کر ہی واضح ہوگی۔ جنت میں ادنیٰ درجے کے مومن کو اتنی جگہ ملے گی جو پوری دنیا کے برابر ہوگی۔گویا اسے بادشاہت مل جائے گی، اورکیوں نہ ملے جس نے دنیا میں اللہ کی بادشاہت کو مانا، اسے قائم کرنے کے لیے جدوجہد کی،    اللہ تعالیٰ اسے بادشاہت عطا فرمائیں گے۔

o

حضرت جابرؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حمدوثنا کے بعد فرمایا: سب سے بہتر کلام اللہ کی کتاب ہے، اور سب سے بہتر سیرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہے، اور تمام کاموں سے بڑھ کر بُرا کام بدعات ہیں (جو اپنی خواہشِ نفس کی بنا پر ایجاد کی جاتی اور انھیں رواج دیا جاتا ہے، یعنی خواہش کی بنیاد پر انسانوں کے اپنے گھڑے ہوئے، قوانین اور رسوم و رواج)، اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ (مسلم)

قرآن و سنت کو اللہ تعالیٰ نے اس لیے اُتارا ہے کہ ان پر عمل کیا جائے، اس کے مطابق انفرادی اور اجتماعی زندگی بسر کی جائے، اور اس نظام کا بہترین نمونہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش فرمایا۔ اسی لیے آپؐ  کی سیرت کو تمام سیرتوں سے بہتر قرار دیا گیا ہے۔ ایک مسلمان کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ ماڈل ہے، اور آپؐ  کے بعد صحابہ کرامؓ ، تابعین، تبع تابعین، ائمہ مجتہدین ، اولیا عظام اور مجددین اُمت کی زندگیاں جو آپؐ  کی سیرتِ پاک کے رنگ میں رنگی ہوئی ہیں، نمونہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ  کے دین سے آزاد زندگی بدعت کی زندگی ہے اور اللہ تعالیٰ کے دین سے آزادنظام بدعت کے نظام ہیں جنھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شرالامور، ’’تمام کاموں سے بڑھ کر بُرے کام‘‘ قرار دیا ہے۔  وہ ہمارے لیے ماڈل نہیں ہیں۔ ان کو ماڈل سمجھنا ان کو اپنانا اور ان کو اپنے ملک میں درآمدکرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی رُو سے بدترین جرم ہے۔ آج ہمارے ملک میں نظریۂ پاکستان لا الٰہ الااللہ کے مقابلے میں ’لبرل ازم‘ کی آوازین بلند ہورہی ہیں اور ملک کو لبرل بنانے کے نعرے    لگ رہے ہیں۔ لبرل کا معنی دین سے آزادی، قرآن و سنت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے آزادی ہے، تو پھر ایسی صورت میں یہ لوگ کس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا دعویٰ کرسکتے ہیں۔ یہ عجیب بات ہے کہ دعویٰ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا کریں لیکن نظام وہ ہو جو دین سے اور   آپؐ  کی سیرت سے آزاد ہو۔ نظام مغرب یا مشرق سے درآمد ہو، سرمایہ دارانہ نظام ہو یاسوشلزم یا کوئی بھی ہو، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے دعوے کی تردید کرتاہے۔

o

حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی آدمی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک اس کی خواہش اس دین کے تابع نہ ہوجائے جسے میں لے کر آیا ہوں۔(شرح السنۃ، کتاب الحجۃ، نووی، اربعین نووی)

دنیا کے اندر جتنے ادیان ہیں ان کی دو ہی قسمیں ہیں: باطل ادیان، یعنی دینِ ھویٰ (خواہش نفسِ کے دین، اور دینِ حق ایک ہے اور وہ ہے دینِ ھدیٰ، دینِ حق، دینِ اسلام ۔ آدمی اسی وقت مومن ہوگا جب اپنی خواہشِ نفس کو دینِ حق کے مقابلے میں چھوڑ دے گا اور اسی وقت مسلمان شمار ہوگا جب باطل نظام کو دینِ حق کے مقابلے میں چھوڑ دے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس ارشاد میں جو رہنمائی فرمائی ہے وہ ہمیشہ کے لیے ہے لیکن آج کے دور میں اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ آج عالمِ اسلام اس ہدایت کا محتاج ہے۔ اس ہدایت پر عمل ہو تو اسلامی انقلاب برپا ہوجائے گا۔ دنیا میں اسلامی تحریک اس ارشاد کی تعمیل میں سرگرمِ عمل ہے۔ اس گروہ کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میری اُمت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا، ان کے مخالف ان کو کچھ بھی نقصان نہ پہنچا سکیں گے‘‘۔

جماعت اسلامی نے ’اسلامی پاکستان خوش حال پاکستان‘ کا نعرہ لگا کر یہ پیغام دیا ہے کہ خوش حالی اور اسلام کو اختیار کرنا یہ دونوں باتیں لازم و ملزوم ہیں۔ اسلام کے بغیر خوش حالی، خوش حالی نہیں۔اسلام اگر مکمل صورت میں آئے گا تو صرف خوش حالی نہیں، عروج کی داستانیں بھی ساتھ لائے گا۔ جب عرب کے بدو اسلام کی دعوت قبول کرکے دنیا میں نکلے تو قیصروکسریٰ کے  تخت و تاج گر گئے۔ مسلمانوں نے صدیوں تک اللہ کی زمین پر اللہ کا پیغام سربلند کیے رکھا۔

حکمرانوں کی تقریریں سن کر معلوم ہوتا ہے کہ ترقی میں سب سے اہم معیشت کا دائرہ ہے۔ گویا معاشی ترقی ہی اصل ترقی ہے اور سب سے اہم سالانہ ترقی کی رفتار ہے۔ اس وقت ۴ فی صد پر گزارا ہے اور ۶ سے۸ فی صد کے خواب دیکھتے ہیں، جیسے یہ حاصل ہوگیا تو سب کچھ حاصل ہوگیا۔

اس سے آگے بڑھیں تو ہر بات میں مثال مغربی ممالک کی دی جاتی ہے جیسے ترقی کی معراج یہی ہے۔ سیاسی لیڈر ہر بات میں برطانیہ، امریکا، یورپ کی مثالیں دیتے ہیں۔ بہت کم ذکر خلافت ِ راشدہ کا آتا ہے۔ یہ ساری ترقی سراسر سراب ہے، جس کے پیچھے پوری قوم کو دوڑایا جا رہا ہے۔ اس سے مراد جھوٹی خوش حالی ہے۔ گاڑیاں، کارخانے، سڑکیں تو ہیں لیکن انسان کی زندگی سکون سے محروم ہے۔ خاندان ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ خواتین کی عزت و عصمت محفوظ نہیں۔ پھر یہ کیسی ترقی ؟

جماعت اسلامی کی دعوت یہ ہے کہ انسان اس جھوٹے سحر سے نکلے، حقیقی دنیا میں آنکھ کھولے۔ قرآن کہتا ہے کہ اس طرح کے خوش حال لوگوں کو اللہ تباہی کے راستے پر ڈال دیتا ہے۔ حقیقی خوش حالی اس وقت حاصل ہوگی اور ترقی یافتہ معاشرہ وہ ہوگا جہاں لوگ خدا کو ماننے والے ہوں اور اس کے سامنے جواب دہ ہوں، آخرت پر یقین رکھتے ہوں، زمین پر رسولؐ اللہ کا لایا ہوا نظامِ شریعت نافذ ہو۔

ایمان کے بغیر، پاکستان کو خوش حال کرنے کی تدبیریں تباہی کی طرف لے جانا والا راستہ ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے ایسی قوموں کی مثالیں دی ہیںجو اپنے وقت کی ترقی یافتہ قومیں تھیں، لیکن جب انھوں نے اللہ کے رسولؐ کی دعوت کا انکار کیا تو اللہ کی گرفت میں آگئیں اور تباہ و برباد ہوگئیں۔ آیئے دیکھیے قرآن ہمیں کیا بتاتا ہے:

کفرانِ نعمت کرنے والی بستی کا حال

وَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَــلًا قَرْیَۃً کَانَتْ اٰمِنَۃً مُّطْمَئِنَّۃً یَّاْتِیْھَا رِزْقُھَا رَغَدًا مِّنْ کُلِّ مَکَانٍ فَکَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّٰہِ فَاَذَاقَھَا اللّٰہُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَ الْخَوْفِ بِمَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَ o وَ لَقَدْ جَآئَ ھُمْ رَسُوْلٌ مِّنْھُمْ فَکَذَّبُوْہُ فَاَخَذَھُمُ الْعَذَابُ وَھُمْ ظٰلِمُوْنَ o (النحل ۱۶: ۱۱۲ - ۱۱۳) اللہ ایک بستی کی مثال دیتا ہے۔ وہ امن و اطمینان کی زندگی بسر کررہی تھی اور ہر طرف سے اس کو بفراغت رزق پہنچ رہا تھا کہ اس نے اللہ کی نعمتوں کا کفران شروع کر دیا۔ تب اللہ نے اس کے باشندوں کو ان کے کرتوتوں کا یہ مزا چکھایا کہ بھوک اور خوف کی مصیبتیں ان پر چھا گئیں۔ ان کے پاس ان کی اپنی قوم میں سے ایک رسول آیا مگر انھوں نے اس کو جھٹلا دیا۔ آخرکار عذاب نے ان کو آلیا، جب کہ وہ ظالم ہوچکے تھے۔

اللّٰہ تعالٰی کی نعمتیں اور ان کے تقاضے

اللہ تعالیٰ نے انسان پر بے شمار احسانات فرمائے ہیں ، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَاط اِنَّ اللّٰہَ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ o (النحل۱۶: ۱۸) اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو کر نہیں سکتے، حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی درگزر کرنے والا اور رحیم ہے۔

وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَاط اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ کَفَّارٌ (ابراہیم۱۴:۳۴) اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو گن نہیں سکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑا ہی بے انصاف اور ناشکرا ہے۔

انسان پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا تذکرہ کہاں سے شروع کیا جائے، اللہ تعالیٰ نے انسان کو احسن تقویم، یعنی سب سے اچھی صورت پر پیدا فرمایا:

لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ (التین۹۵:۴)ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا۔

پھر انسان کو ساری مخلوق پر فضیلت دی:

وَ لَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ وَ حَمَلْنٰھُمْ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ رَزَقْنٰھُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَ فَضَّلْنٰھُمْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا (بنی اسرائیل۱۷: ۷۰)یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اور انھیں خشکی و تری میں سواریاں عطا کیں اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فوقیت بخشی۔

انسان کو وہ شعور اور وہ عقل دی جو باقی مخلوق کو نہیں دی۔ انسان مٹی کا پتلا ہے لیکن اسے  دل و دماغ کی نعمتیں دی گئیں۔ اسے پکڑنے کے لیے ہاتھ ، چلنے کے لیے پائوں، کھانے کے لیے منہ، بولنے کے لیے زبان، دیکھنے کے لیے آنکھیں، سننے کے لیے کان، سونگھنے کے لیے ناک، اور محسوس کرنے والا جسم عطا فرمایا۔ یہ وہ نعمتیں ہیں جن کی کوئی قیمت نہیں اور ان کی کوئی مارکیٹ نہیں۔ یہ نعمتیں اللہ تعالیٰ نے بغیر کسی درخواست کے عنایت فرمائیں۔ اس کی ذات جو کسی کی محتاج نہیں، محض بندے کے فائدے کے لیے چاہتی ہے کہ بندہ اپنے منعم کو پہچانے۔ جو نعمتیں اس نے دی ہیں ان نعمتوں کو اسی کی طرف سے سمجھے اور ان نعمتوں کی شکرگزاری کے طور پر اس کی بندگی کرے۔ اس کی غلامی اور اطاعت اور اس کی حکمرانی اپنے جسم و جان اور معاشرے پر قائم کرے۔ اس کے دین پر ایمان لائے اور اسے تمام ادیانِ باطلہ پر غالب کرے۔ اس کے نتیجے میں اس کی دنیا بھی سنور جائے گی اور آخرت میں بھی سرخرو ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَ ھُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً وَلَنَجْزِیَنَّھُمْ اَجْرَھُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (النحل ۱۶: ۹۷)جو شخص بھی نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مومن ہو، اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور آخرت میں ایسے لوگوں کو ان کے اجر، ان کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے۔

دنیا میں پاکیزہ زندگی میں روٹی، کپڑا، مکان اور بہترین نظم و نسق بھی شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر انعام فرماتے ہیں۔ انھیں شکرگزاری اور بندگی کے لیے مہلت عطا کرتے ہیں۔ جب مہلت کا مقررہ وقت ختم ہوجاتا ہے تو پھر تکالیف اور مصائب سے آزماتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَ مَآ اَرْسَلْنَا فِیْ قَرْیَۃٍ مِّنْ نَّبِیٍّ اِلَّآ اَخَذْنَآ اَھْلَھَا بِالْبَاْسَآئِ وَ الضَّرَّآئِ لَعَلَّھُمْ یَضَّرَّعُوْنَ(اعراف۷:۹۴) ہم نے کسی بستی میں نبی بھیجا ہو، اور اس بستی کے لوگوں کو پہلے تنگی سختی میں مبتلا نہ کیا اس خیال سے کہ شاید وہ عاجزی پر اُتر آئیں۔

اللہ تعالیٰ انبیاء علیہم السلام بھیج کر لوگوں کے شعور کو بیدار فرماتے ہیں۔ انھیں اللہ تعالیٰ اور اس کے دین کی معرفت دیتے ہیں۔ انھیں بتلاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی نعمتیں دینے والا ہے۔ اس نے تمھیں نعمتیں دی ہیں تاکہ تم اس کی بندگی کرو، اسے یاد کرو، اگر تم نے ایسا نہ کیا تو تکالیف اور مصائب سے دوچار ہوجائو گے۔ تکالیف اور مصائب بھی اس لیے آتے ہیں کہ تم اپنے مالک کی طرف رجوع کرو۔ پھر بھی سیدھے راستے پر نہ آئے تو تباہ و برباد کردیے جائو گے۔ جو نبی بھی آیا  اس نے اسی انداز سے لوگوں کو خبردار کیا۔ حضرت نوح علیہ السلام کو ۴۰سال بعد نبوت ملی۔ انھوں نے ساڑھے نوسوسال لوگوں کے سامنے دعوت پیش کی۔ انھوں نے فرمایا:

فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ط اِِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا o یُّرْسِلِ السَّمَآئَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا o وَّیُمْدِدْکُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ وَیَجْعَلْ لَّکُمْ جَنّٰتٍ وَّیَجْعَلْ لَّکُمْ اَنْہٰرًا o مَا لَکُمْ لاَ تَرْجُوْنَ لِلّٰہِ وَقَارًا o وَقَدْ خَلَقَکُمْ اَطْوَارًا o (نوح۷۱:۱۰-۱۴)

میں نے کہا: اپنے رب سے معافی مانگو، بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے۔ وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا، تمھیں مال اور اولاد سے نوازے گا، تمھارے لیے باغ پیدا کرے گا اور تمھارے لیے نہریں جاری کردے گا۔ تمھیں کیا ہوگیا ہے کہ اللہ کے لیے تم کسی وقار کی توقع نہیں رکھتے؟ حالانکہ اس نے طرح طرح سے تمھیں بنایا ہے۔

حضرت نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو سال دعوت و تبلیغ کی۔ جب قوم نہ مانی تو اللہ تعالیٰ نے زمین کو ان ناپاک لوگوں سے پاک کر دیا اور ساری زمین حضرت نوحؑ اور ان کے پیروکاروں (جو ۸۰ کی تعداد میں تھے) کے قبضے میں دے دی گئی۔ حضرت آدم ؑ کے بعد حضرت نوحؑ پہلے نبی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے دین کی حکمرانی قائم کرنے کے لیے مبعوث ہوئے۔ حضرت نوحؑ کو آدمِ ثانی کہا جاتا ہے۔ اس لیے کہ زمین میں ان کے بعد انھی کی اولاد آباد ہے۔ سورئہ بنی اسرائیل میں ہے:

ذُرِّیَّۃَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ ط اِنَّہٗ کَانَ عَبْدًا شَکُوْرًا (۱۷:۳)اے وہ لوگو جو ان لوگوں کی اولاد ہو جو نوحؑ کے ساتھ کشتی میں سوار تھے۔ نوحؑ تو اللہ تعالیٰ کے شکرگزار بندے تھے۔

دوسری دفعہ انسان کی آبادی اللہ تعالیٰ کی بندگی اور دین کی حکمرانی کا نتیجہ ہے جو انسان کو یاد دلاتا ہے کہ تمھارا تو وجودہی اللہ تعالیٰ کی بندگی کی برکت سے ہے۔ اب اگر تم اللہ کے دین کو چھوڑ کر تباہ ہوگے تو تمھارے پاس کوئی عذر نہ ہوگا۔ تمھیں اللہ کی نافرمانی اور جہالت کے بجاے اپنی اصل کو یاد رکھنا چاہیے۔تمھاری اصل یہ ہے کہ تم نیک لوگوں کی اولاد ہو، جو نیکی کی بدولت زندہ رہے۔

حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی اولاد کے ذریعے دنیا میں دوسری بڑی قوم ’عاد‘ کو وجود ملا۔ عاد کی طرف اللہ تعالیٰ نے حضرت ہود ؑ کو مبعوث فرمایا لیکن انھوں نے بھی وہی رویہ اختیار کیا جو قومِ نوحؑ نے اختیار کیا تھا ۔ چنانچہ یہ قوم بھی صفحۂ ہستی سے مٹا دی گئی۔ قومِ عاد کے بعد تیسری بڑی قوم ثمود ان لوگوں کی اولاد تھی جو ہود علیہ السلام کی پیروی کی برکت سے قومِ ثمود کے ساتھ تباہی سے بچ گئی۔ ان کی طرف اللہ تعالیٰ نے حضرت صالح علیہ السلام کو نبی بنا کر بھیجا لیکن اس قوم نے بھی اپنے ماضی کو بھلا دیا اور صالح علیہ السلام کی نصیحتوں اور معجزات کو ٹھکرا دیا جس کے نتیجے میں یہ قوم بھی تباہی سے دوچار ہوئی۔

قرآن ہمارے سامنے حضرت ابراہیم ؑ، حضرت اسماعیل ؑ، حضرت اسحاق ؑ، حضرت یعقوب ؑ اور حضرت یوسف ؑ کے حالات پیش کرتا ہے کہ کس طرح انبیا اور ان کی پیروی سے انسان کی دنیا بنتی ہے اور کس طرح وہ اللہ تعالیٰ کے قرب کا حق دار ٹھیرتا ہے اور کس طرح نمرود اور اس کے پیروکار تباہی سے دوچار ہوئے۔ حضرت موسٰی ؑ اور حضرت ہارون ؑ نے فرعون کے سامنے دعوت پیش کی، معجزات دکھائے اورعرصۂ درازتک اسے ہدایت دینے کی جدوجہد کرتے رہے۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے فرعون اور آلِ فرعون کو سمندر میں غرق کر دیا اور اس کی لاش کو عبرت کے لیے محفوظ کر دیا جو  آج بھی مصر میں محفوظ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور ان کے بھائی ہارون علیہ السلام اور ان کے ساتھ ۶ لاکھ بنی اسرائیل کو سمندر میں پانی کو روک کر اور ۱۲ راستے بناکر سمندرپار کرا دیا۔   یہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کی برکت تھی۔

نبی اکرمؐ اور کفار قریش

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد اللہ تعالیٰ نے آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کفارِقریش کے سامنے دین کی دعوت پیش کی۔ جو سعادت مند لوگ تھے انھوں نے اس دعوت پر لبیک کہا، ایمان لائے اور آپ کی اطاعت و فرماںبرداری کی، لیکن جو ضدی اور عنادی تھے، جاہ پرست تھے، اپنی بڑائی اور سرداری قائم رکھنا چاہتے تھے انھوں نے سخت مخالفت کی۔ آپؐ کو اور آپؐ  کے ساتھیوں کو طرح طرح کی اذیتیں پہنچائیں اور مٹانے کی کوشش کی۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں پہلے تو سخت ترین قحط کی آفت سے دوچار کیا۔ مکہ کی وہ بستی جہاں ہرچیز وافر تھی، دنیا بھر میں پیدا ہونے والے غلے اور پھل وہاں پہنچتے تھے۔ اس بستی میں امن تھا۔ لوگ اطمینان ، چین اور سکون کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ جب بستی والوں نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کی خصوصاً اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جو انھی کی قوم سے تھے، وہ ان کے خاندان کی شرافت اور آپؐ  کی سیرت سے واقف اور آپؐ  کی صداقت اور امانت و دیانت کے معترف تھے، تو اللہ تعالیٰ نے امن و چین اور دنیا بھر سے پہنچنے والا رزق روک دیا اور قحط کی وجہ سے بھوک اور خوف ان پر مسلط ہوگیا۔ اس آفت نے وقتی طور پر انھیں بیدار کیا۔ وہ آپؐ  کی خدمت میں حاضر ہوئے، درخواست کی کہ ہم ایمان لے آئیں گے۔آپؐ  اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ وہ ہمیں اس قحط کی ہلاکت سے بچالے۔

آپؐ  کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے قحط کو دُور کر دیا لیکن کچھ مہینے گزرنے کے بعد وہ پھر اپنی سابقہ کافرانہ روش پر واپس آگئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ تعالیٰ نے تھوڑے عرصے بعد غزوئہ بدر میں    ان کے ۷۰سرداروں کو قتل اور ۷۰ کو قید سے دوچار کر دیا۔ پھر چند ہی سال بعد انھوں نے صلح حدیبیہ کی، ہتھیار ڈال دیے۔ بالآخر آٹھ ہجری کو مکہ فتح ہوگیا اور سرزمین عرب دین اسلام کے لیے مسخر ہوگئی۔ اہلِ ایمان کو اللہ تعالیٰ نے عزت عطا فرما دی اور کفار ذلت و رُسوائی اور ہلاکت سے دوچار ہوئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے اس حال میں رخصت ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کا دین غالب ہوا اور سرزمینِ عرب سے نکل کر قیصر و کسریٰ کی سلطنتوں کو مسخر کرتا چلا گیا اور تھوڑے ہی عرصے میں آباد دنیا کو مسخر کرلیا۔ تمام عالمی طاقتیں ختم ہوگئیں اور اسلام اور اُمت مسلمہ عالمی طاقت کی حیثیت سے دنیا پر غالب ہوگئی۔

اُمت مسلمہ کی اس سوپرپاور نے دنیا کو امن اور خوش حالی دی، معاشی فراخی دی۔ زکوٰۃ دینے والے اپنی زکوٰۃ لے کر فقرا کی تلاش میں نکلتے لیکن کوئی زکوٰۃ لینے والا نہ ملتا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غلبۂ اسلام اور اس کے ذریعے امن و امان اور معاشی خوش حالی کی پیش گوئی فرما دی تھی۔

حضرت عدیؓ بن حاتم سے روایت ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ آپؐ  کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے فاقے کی شکایت کی۔ اس کے بعد ایک اور آدمی آیا اور اس نے ڈاکے کی شکایت کی۔ آپؐ  نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا: عدی! تم نے ’حیرہ‘ کا شہر دیکھا ہے۔ اگر تم نے لمبی زندگی پائی تو دیکھو گے کہ ایک عورت حیرہ سے سفر پر روانہ ہوگی۔ وہ کعبے کا طواف کرے گی اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرے گی (یعنی ڈاکے ختم ہوجائیں گے مکمل طور پر  امن و امان ہوگا)۔ اور اگر تم نے لمبی زندگی پائی تو تم کسریٰ کے خزانے خرچ کرو گے۔ اور اگر تُو نے لمبی زندگی پائی تو دیکھو گے کہ ایک آدمی اپنا ہاتھ سونے یا چاندی سے بھر کر نکلے گا، تلاش کرے گا کہ کوئی ملے جو اسے قبول کرلے لیکن کوئی نہیں ملے گا۔ تم میں سے ایک آدمی قیامت کے روز اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی ترجمان نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ پوچھیں گے: کیا میں نے تیری طرف رسول نہیں بھیجا تھا جو تجھے میرا دین پہنچاتا تو وہ جواب میں کہے گا: کیوں نہیں۔ اے میرے رب! وہ اپنے دائیں دیکھے گا تو جہنم ہوگا، بائیں دیکھے گا تو جہنم ہوگا۔ پس جہنم سے بچو اگرچہ کھجور کا ایک چھلکا خرچ کر کے بچ سکو۔ یہ بھی نہ پائے تو اچھی بات کرکے۔

عدی کہتے ہیں کہ میں نے اس عورت کو دیکھ لیا جو حیرہ سے چلتی ہے اور مکہ میں پہنچ کر طواف کرتی ہے، اسے اللہ کے سوا کسی کا خوف نہیں ہوتا۔ اور میں ان لوگوں میں شامل تھا جنھوں نے کسریٰ بن ہرمز کے خزانے فتح کیے۔ پھر انھوں نے کہا کہ اگر تم نے لمبی زندگی پائی تو وہ بھی دیکھ لو گے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ہاتھ کو سونے اور چاندی سے بھر کر نکلنے والے کو دیکھ لو گے کہ اس کے سونے اور چاندی کو قبول کرنے والا کوئی نہ ہوگا۔(بخاری)

اسلام کی بدولت دنیا میں امن بھی ہوگیا اور معاشی فراوانی بھی۔ حضرت عثمانؓ کے زمانے میں بیت المال اس قدر بھر گیا کہ حضرت عثمانؓ نے عوام سے کہا کہ اپنی زکوٰۃ خود تقسیم کریں، بیت المال کے پاس پہلے سے جو مال ہے وہ کافی ہے۔ چنانچہ اس کے بعد سونے اور چاندی کو اموالِ باطنہ  قرار دے کر لوگوں کو اس کی زکوٰۃ خود ہی دینا پڑی۔ اور اسلامی حکومتوں میں سونے اور چاندی کی زکوٰۃ کی تقسیم کا اسی طرح سے سلسلہ جاری رہا۔

اُمت مسلمہ اور دورِ حاضر

آج اُمت مسلمہ ہرجگہ دہشت گردی اور معاشی بدحالی کا شکار ہے۔ دیہات ہی نہیں شہروں میں بھی دن دہاڑے ڈاکے پڑتے ہیں۔ حکومتیں ڈاکوئوںاور دہشت گردی کو ختم کرنے میں ناکام ہوچکی ہیں اور معاشی پریشانیوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ مہنگائی بڑھ رہی ہے، ملکی سودی قرضوں کا بوجھ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ سودی قسط ادا کرنے کے لیے بھی قرض لینا پڑتا ہے۔ اس وقت پاکستان اربوں ڈالر کے قرضوں تلے دبا ہوا ہے اور آئی ایم ایف اور ورلڈبنک سودی قرضوں کے ذریعے ہماری دولت کو لوٹ رہے ہیں۔ پاکستان کے عوام شب و روز محنت کر کے جو سرمایہ حاصل کرتے ہیں وہ ان کے کام آنے کے بجاے یہ عالمی ادارے لے جاتے ہیں جو امریکا کے یہودیوں کی تجوریوں کو بھرتے ہیں۔

بھوک اور خوف کی ان پریشانیوں اور مشکلات کا حل قرآن پاک نے یہ دیا ہے:

فَلْیَعْبُدُوْا رَبَّ ہٰذَا الْبَیْتِ o الَّذِیْٓ اَطْعَمَھُمْ مِّنْ جُوْعٍ وَّاٰمَنَھُمْ مِّنْ خَوْفٍ o (قریش۱۰۶:۳-۴) پس عبادت کر اس گھر کے رب کی جس نے ان کی بھوک ختم کی، کھانا دیا اور خوف کو ختم کیا اور امن دیا۔

اسلامی تاریخ بھی گواہ ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی بھی دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لی ہے۔اگر آج اُمت مسلمہ دہشت گردی اور بھوک و افلاس اور معاشی بحران سے نجات چاہتی ہے تو ضروری ہے کہ وہ صحیح معنوں میں اللہ کی بندگی کی طرف لوٹے اور اپنے ملکوں میں اسلامی نظام نافذ کرے۔ پاکستان کے مسائل و مشکلات کا حل بھی اسلامی پاکستان میں ہے۔ پاکستان اسلامی ہوگا تو امن و امان ہوگا اور بھوک و افلاس کا خاتمہ ہوگا۔ اسلامی پاکستان اور خوش حال پاکستان کا ایجنڈا قرآن پاک اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے۔ جماعت اسلامی کی یہی دعوت ہے، اور یہی اُمت مسلمہ کے مسائل کا بنیادی حل ہے۔

ہمارے مسائل اور مشکلات کا حل اس میں نہیں ہے کہ ہمارے پاس مال و دولت زیادہ ہوجائے، مادی آسایش اور وسائل زیادہ ہوجائیں۔ کوٹھیاں ، بنگلے، گاڑیاں اور وسائل زیادہ ہوجائیں، بلکہ ہمارے مسائل کا حل یہ ہے کہ ہم دین کی طرف لوٹ آئیں۔ اسلام کی اخلاقی قدروں اور   اللہ تعالیٰ کے ہاں جواب دہی کے احساس کی طرف لوٹ آئیں۔

اُمتوں کے عروج و زوال میں مال و دولت کو نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کو دخل ہے۔   مال دار اور خوش حال لوگوں کو نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے اطاعت گزار بندوں کو دخل ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب مال دار اور خوش حال لوگ فسق و فجور میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور بستیوں والے انھیں راہِ راست پر نہیں لاتے بلکہ ان کو اپنا سربراہ بنا لیتے ہیں تو ہم ان بستیوں کو تباہ کردیتے ہیں۔ وَ اِذَآ اَرَدْنَآ اَنْ نُّھْلِکَ قَرْیَۃً اَمَرْنَا مُتْرَفِیْھَا فَفَسَقُوْا فِیْھَا فَحَقَّ عَلَیْھَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰھَا تَدْمِیْرًا o(بنی اسرائیل ۱۷:۱۶) ’’جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے خوش حال لوگوں کو حکم دیتے ہیں اور وہ اس میں نافرمانیاں کرنے لگتے ہیں، تب عذاب کا فیصلہ اس بستی پر چسپاں ہوجاتاہے اور ہم اسے برباد کرکے رکھ دیتے ہیں‘‘۔

مفکرِ اسلام مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’اس آیت میں حکم سے مراد حکمِ طبعی اور قانونِ فطری ہے، یعنی قدرتی طور پر ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے کہ جب کسی قوم کی شامت آنے والی ہوتی ہے تو اس کے مترفین فاسق ہوجاتے ہیں۔ ہلاک کرنے کے ارادے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ یونہی بے قصور کسی بستی کو ہلاک کرنے کا فیصلہ کرلیتا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی انسانی آبادی برائی کے راستے پر چل پڑتی ہے اور اللہ تعالیٰ فیصلہ کرلیتا ہے کہ اسے تباہ کرنا ہے تو اس فیصلے کا ظہور اس طریقے سے ہوتا ہے۔ درحقیقت اس آیت میں جس حقیقت پر متنبہ کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ ایک معاشرے کو آخرکار جو چیز تباہ کرتی ہے  وہ اس کے کھاتے پیتے خوش حال لوگوں اور اُونچے طبقوں کا بگاڑ ہے۔ جب کسی قوم کی شامت آنے کو ہوتی ہے تو اس کے دولت مند اور صاحب ِ اقتدار لوگ فسق و فجور پر اُتر آتے ہیں۔ ظلم و ستم، بدکاریاں اور شرارتیں کرنے لگتے ہیں اور آخر یہی فتنہ پوری قوم کو لے ڈوبتا ہے۔ لہٰذا جو معاشرہ آپ اپنا دشمن نہ ہو، اسے فکر ہونی چاہیے کہ اس کے ہاں اقتدار کی باگیں اور معاشی دولت کی کنجیاں کم ظرف اور بداخلاق لوگوں کے ہاتھ میں نہ جانے پائیں‘‘۔ (بنی اسرائیل کی آیت۳، حاشیہ ۱۸)

تاریخ گواہ ہے کہ جب ہم اخلاقی قدروں پر اپنی زندگیوں کو استوار کرتے تھے اور     فکرِ آخرت کو اپنے ہر کام کا محور بناتے تھے تو وسائل اور اسباب کی کمی کے باوجود ہمیں ذہنی اور قلبی سکون بھی حاصل تھا اور ہمارے تمام مسائل بھی حل ہوتے تھے۔ حکمران، عدلیہ، اصحاب مال و دولت، رؤسا، سب عدل کرتے تھے اور ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔ دینی رہنمائی کے لیے اہلِ علم کی طرف رجوع کرتے تھے۔ قرآن و سنت کے احکام کو سینے سے لگاتے تھے۔ عوام بھی دوسروں کے بجاے اپنی اصلاح کو اہمیت دیتے تھے اور حکمرانوں کو بھی اپنی فکر ہوتی تھی۔ تب حکمران اور عوام ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے اور ایک دوسرے کے ہمدرد تھے۔ جماعت اسلامی اسی طرح کا معاشرہ قائم کرنا چاہتی ہے جو اُمت مسلمہ کی ضرورت ہے اور ہماری خوش حالی کا ضامن بھی ہے۔

آیئے جماعت اسلامی کا ساتھ دیجیے۔ اپنی دنیا بھی بنایئے اور آخرت بھی سنوار لیجیے۔

رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ ، اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں خوش حالی عطا فرما دیجیے اور آخرت میں بھی اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے نجات عطا فرما دیجیے، آمین!

حضرت اسامہ بن زیدؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کسی کے ساتھ بھلائی کی گئی اور اس نے اس کے بدلے میں جزاک اللّٰہ خیرًا (اللہ تجھے جزاے خیر عطا فرمائے)  کہہ دیا تو اس نے اس کے شکریے کا حق ادا کر دیا اور اُونچے درجے کی تعریف کردی۔ (ترمذی)

اسلام مسلمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی اور غم گساری اور تعاون کی تعلیم دیتا ہے۔ ایک مسلمان اگر مال دار ہے، اثرورسوخ کا مالک ہے اور اس نے کسی مسلمان کے ساتھ مالی تعاون کیا ہے یا جائز سفارش کرکے اس کا کام کرا دیا تو اسے چاہیے کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق اس کا بدلہ دے۔ ہدیے کے بدلے میں ہدیہ دینے کی ہدایت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی ہدیہ پیش کرتا تھا تو آپؐ بھی اسے ہدیہ پیش کرتے تھے۔ اس حدیث میں تلقین کی گئی ہے کہ اگر ہدیہ پیش کرنے کی استطاعت نہیں ہے تو ہدیہ دینے والے کو دعا دے دے۔ وہ دعا جزاک اللّٰہ خیرًا ہے۔ اس دعا کے ذریعے آدمی یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ آپ نے میرے ساتھ اتنا بڑا احسان کیا ہے کہ میں اس کا بدلہ دینے سے قاصر ہوں۔ اس کا بدلہ اللہ رب العالمین ہی دے سکتے ہیں۔ چنانچہ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا بہترین بدلہ عنایت فرمائے۔ آپس میں اس طرح پیش آنے سے معاشرے میں بھائی چارے کو فروغ ملتا ہے۔ لوگوں کو سُکھ اور چین نصیب ہوتا ہے۔ ہر دور میں انسان کو اس کی ضرورت رہی ہے لیکن موجودہ دور میں جب انسان مختلف حادثات اور فتنوں کی وجہ سے پریشان ہے، اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ دو مسلمان جب ایک دوسرے سے اس طرح کی ہمدردی سے پیش آتے ہیں تو ان کی تمام پریشانیاں دُور ہوجاتی ہیں۔ اس طرح کا معاشرہ ہماری ضرورت ہے اور اسے قائم کرنے کی کوشش کرنا ملّی فریضہ ہے۔

o

حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو آدمی فوت ہوگیا اس حال میں کہ وہ تکبر اور خیانت اور قرض سے بری ہو، وہ جنت میں داخل ہوگا۔(ترمذی)

تکبر، خیانت، لوگوں کے تعلقات بگاڑ دیتے ہیں۔ متکبر سے لوگ بُغض، عداوت اور نفرت رکھتے ہیں۔ اسی طرح خیانت کار بھی لوگوں کی نظروں سے گر جاتا ہے۔ وہ اپنے علم اور ہنر کے باوجود کسی عزت کا مستحق نہیں رہتا۔ خائن لوگوں کے حقوق پر ڈاکا ڈالتا ہے۔ جس شخص کا حق مارا جائے گا وہ اپنا حق لینے کے لیے موقعے کی تلاش میں ہوگا۔ پھر بھی اپنا حق نہ پاسکا تو خائن کو نقصان پہنچانے کے درپے ہوگا۔

ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ خیانت ہے۔ سرکاری خزانے پر قابض لوگ اسے عوام تک پہنچانے کے بجاے چوری کرکے بیرونِ ملک لے جاتے ہیں۔ دوسرے ملکوں کے بنکوں میں جمع کرتے ہیں، بیرونِ ملک جایدادیں بناتے ہیں جس کے نتیجے میں خزانہ خالی ہوجاتا ہے اور ملک غیرملکی قرضوں کے بوجھ تلے دب جاتا ہے۔ اس وقت ملک کا جتنا سرمایہ بیرونِ ملک منتقل کیا گیا ہے اسے واپس لایا جائے تو ملک کے قرضے بھی ادا ہوجائیں اور ہم قرضے لینے کے بجاے قرضے دینے والے بن جائیں۔

قرض سے بَری ہونے کا ذکراس لیے کیا ہے کہ مقروض ایک دفعہ قرض کے بوجھ تلے دب جائے تو پھر اس سے نکلنا بڑا مشکل ہوجاتا ہے۔ وہ قرض ادا کرنا بھی چاہتا ہے۔ اس کے لیے کوشش بھی کرتا ہے لیکن پھر بعض اوقات حالات اس کا ساتھ نہیں دیتے۔ اس لیے قرض سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پناہ بھی مانگی ہے۔

تکبر، خیانت آدمی کی دنیا کو خراب کرنے کے ساتھ آخرت کے خراب کردینے کا بھی بڑا ذریعہ ہیں۔ اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اِن سے بَری ہوکر فوت ہوجائے تو وہ سیدھا جنت میں جاتا ہے۔ قرض بھی ایسی چیز ہے کہ وہ جنت کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ اس لیے کہ بندے کا حق اگر آدمی ادا   نہ کرسکا تو اس وقت تک جنت میں نہ جاسکے گا جب تک دوسرے کا حق اور قرض ادا نہ کر دے۔

o

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ایک زمین آباد کی جو کسی کی ملکیت میں نہیں ہے تو وہ اس کا زیادہ حق دار ہے۔ حضرت عروہ بن زبیرؓ کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے اپنے دورِ خلافت میں اس کے مطابق فیصلہ فرمایا تھا۔(بیہقی، شعب الایمان)

ملک کے عوام کی صلاحیتوں سے فائدہ اُٹھانے اور انھیں ان کی صلاحیتوں اور کارکردگی کے مطابق روزگار فراہم کرنے سے معاشی خوش حالی حاصل ہوتی ہے اور ترقی ملتی ہے۔ حکومت کے پاس عوام کو دینے کا سب سے بڑا سامان زمین ہے جو کسی کی ملکیت میں نہ ہو۔ حکومت اسے کسانوں میں تقسیم کردے تو وہ اس زمین کو آباد کریں گے اور ملک کی پیداوار میں اضافہ کریں گے۔ ہمارے ملک میں زمین کا بہت برا رقبہ بنجر پڑا ہے۔ حکومت اسے کسانوں میں تقسیم کرکے آباد کرنے کے بجاے دوسرے ممالک سے گندم اور دوسری اجناس درآمد کرتی ہے جس کے نتیجے میں کھانے پینے کی چیزیں مسلسل مہنگی ہورہی ہیں اور عوام دو وقت کی روٹی بھی بڑی مشکل سے حاصل کرپاتے ہیں۔ حکومت کو غیرآباد زمین کو آباد کرنے کے لیے اگر حکومتی خزانے سے کسانوں کے ساتھ مالی تعاون بھی کرنا پڑے اور وہ غیرسودی قرضے دے کر زمینوں کو آباد کرائے اور آبادکاروں کو مالکانہ حقوق دے دے تو پورا ملک آباد ہوجائے گا۔ سرسبز وشاداب بھی ہوجائے گا اور غلہ اور پھل بھی وافرہوگا اور ملک خوراک کے شعبے میں خودکفیل ہوجائے گا۔ حکومت اس نسخے کو استعمال کرکے ایک طرف اللہ تعالیٰ کو راضی کرے گی اور دوسری طرف اپنے عوام کی پریشان حالی کا بھی مداوا کرے گی۔ اپنی آخرت کے ساتھ اپنی دنیا کو بھی سنوارے گی۔

o

حضرت عبداللہ بن ربیعہؓ سے روایت ہے کہ مجھ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ۴۰ہزار قرض لیا۔ پھر آپؐ کے پاس مال آیا تو آپؐ نے مجھے ادا کر دیا اور دعا دیتے ہوئے فرمایا: بارک اللّٰہ فی اھلک ومالک، اللہ تعالیٰ تیرے گھر اور مال میں برکت عطا فرمائے۔ ساتھ ہی فرمایا: قرض کا بدلہ شکریہ اور قرض کی ادایگی ہے۔(نسائی)

بعض اوقات ذاتی ضرورت کے لیے اور بعض اوقات اجتماعی ضروریات اور ملکی معاملات کی خاطر قرض لینا پڑتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ذاتی ضرورت اور ملکی ضروریات دونوں کے لیے قرض لیا ہے اور پھر احسن طریقے پر ادایگی بھی فرما دی اورقرض دینے والوں کا شکریہ بھی ادا کیا، دعائیں بھی دیں۔ بروقت ادایگی اور احسان شناسی اور قدردانی تعلقات کو بہتر بناتے ہیں اور باہمی تعاون کے سلسلے کو جاری رکھنے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ آج کل قرضِ حسن کا سلسلہ انفرادی سطح پر تو اہلِ ایمان میں کچھ نہ کچھ جاری ہے لیکن اجتماعی معاملات میں تو ’سود‘ داخل ہوگیا ہے اور بُری طرح سرایت کرگیا ہے۔ سودی قرضوں کو تعاون کا نام دے دیا گیا ہے۔ بنکنگ سسٹم سودی ہے۔ چندبنک بے شک ایسے ہیں جو شرکت و مضاربت کی بنیاد پر جاری ہیں لیکن ان کا دائرہ محدود ہے۔ وسیع پیمانے پر جو کاروبار ہو رہا ہے وہ سودی ہے، اسی لیے ملکی معیشت تباہی سے دوچار ہے۔ سود کی مثال گھن کی ہے۔ گھن کی طرح وہ مال کو کھا جاتا ہے۔ ہماری معیشت کو گھن کھا گیا ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ حکومتی سطح پر بنکنگ نظام غیرسودی بنیادوں پر جاری کیا جائے جیساکہ دستورِ پاکستان میں اس کا وعدہ کیا گیا ہے۔ جب غیرسودی نظام جاری ہوگا تو قرضِ حسن کو بھی انفرادی اور اجتماعی سطح پر فروغ ملے گا اور اس کے نتیجے میں معاشرے میں خوش حالی کا دور دورہ ہوگا۔

o

حضرت سعد بن الاطولؓ سے روایت ہے کہ میرا بھائی فوت ہوگیا اور ۳۰۰ دینار ترکہ چھوڑا اور اپنے پیچھے چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑے۔ میں نے ارادہ کیا کہ میں اس رقم کو اُن پر خرچ کروںگا۔(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے عرض کیا) تو آپؐ نے فرمایا:تمھارا بھائی قرض کے سبب گرفتار ہے۔ اس لیے پہلے اس کا قرض ادا کرو۔ اس کے بعد جو بچے ، وہ بچوں پر خرچ کرو تو میں نے اپنے بھائی کے قرض خواہوں کو تلاش کر کے ان کے قرضوں کی ادایگی شروع کر دی اور تمام قرض خواہوں کے قرضے ادا کردیے۔ صرف ایک عورت رہ گئی جو دعویٰ کرتی تھی کہ تیرے بھائی نے میرے دو دینار دینے تھے لیکن اس کے پاس ثبوت کوئی نہ تھا۔ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا تو آپؐ نے فرمایا: اس عورت کو بھی دو دینار دے دو، یہ سچی ہے۔(مسند احمد)

آدمی جب فوت ہوجائے تو اس کے مال میں سب سے پہلے اس کے کفن دفن کا انتظام کیا جائے گا۔ اس کے بعد اس کے مال میں سے اس کے قرضے ادا کیے جائیں گے۔ پھر بھی مال بچ گیا تو اس میں سے ۳/۱ تک اس کی وصیت پوری کی جائے گی۔ اس کے بعد باقی مال ورثا میں تقسیم کیا جائے گا۔ اسی ضابطے کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن اطولؓ کو بھائی کے قرض خواہوں کے قرض ادا کرنے کی تلقین فرمائی جس کو انھوں نے پورا کر دیا۔

حدیث میں واضح کیا گیا کہ جب تک آدمی کا قرض ادا نہ ہو وہ قید ہوگا۔ وہ اپنے باقی اعمال کی وجہ سے جنت کا مستحق ہوگا تو پھر بھی قرض کے سبب جنت سے روک دیا جائے گا، جنت میںنہیں جاسکے گا۔ قرض ادا ہوگا تو رکاوٹ دُور ہوجائے گی۔ اس لیے آدمی کو چاہیے کہ اپنی زندگی میں قرض خواہ کے قرض اداکرنے کو اوّلیت دے اور ورثا کو بھی اس کی تلقین کرے اور قرضوں کی تفصیل اور وصیت لکھی ہوئی رکھی ہو اور ورثا کو بتلا دی گئی ہو کہ فلاں جگہ رکھی ہے۔

فائل کرپٹٹڈ ہے

 

کلام نبویؐ کی کرنیں

مولانا عبد المالک

فائل کرپٹ ہے

سوال : روایت ہے کہ حضرت ابوایوب انصاریؓ جب دنیا سے رخصت ہونے لگے تو فرمایا کہ میں نے ایک بات اب تک تم سے چھپا رکھی تھی۔ اب آخر وقت میں پیش کر رہا ہوں۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا تھا کہ اگر تم سب لوگ ملائکہ کی طرح بے گناہ ہوجائو اور تم سے کوئی گناہ سرزد نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اور مخلوق پیدا کردے گا جو گناہ کر کے توبہ کریں گے۔(مسلم)

اس حدیث کی وضاحت کے سلسلے میں ایک کھٹک سی ذہن میں پیدا ہوتی ہے۔ کیا اس سے مراد یہ ہے کہ گناہ کیا جائے تاکہ اللہ تعالیٰ معاف کردے ورنہ وہ کوئی دوسری مخلوق پیدا کردے گا؟ نیز اس کی صحت کے بارے میں بھی واضح کردیجیے۔

جواب:آپ نے جس حدیث کا حوالہ دیا ہے وہ مسلم، کتاب التوبہ باب سقوط الذنوب بالاستغفار والتوبہ میں دو سندوں کے ساتھ نقل ہوئی ہے۔ الفاظ یہ ہیں: لَوْلَا اَنَّکُمْ تُذْنِبُوْنَ لَخَلَقَ اللّٰہُ خَلْقًا یُذْنِبُوْنَ لِیَغْفِرَلَھُمْ۔ دوسری حدیث کے الفاظ یہ ہیں:  لَوْ اَنَّکُمْ لَمْ تَکُنْ لَکُمْ ذُنُوْبٌ یَغْفِرُاللّٰہُ لَکُمْ لَجَائَ اللّٰہُ بِقَوْمٍ لَہُمْ ذُنُوْبٌ یَغْفِرُھَا لَھُمْ۔ حضرت ابوایوب انصاریؓ کی اس روایت کے بعد حضرت ابوہریرہؓ کی ایک روایت بھی مسلم میں نقل ہوئی ہے   جس کے الفاظ یہ ہیں: وَالَّذِیْ نَفْسِی بِیَدِہٖ لَوْلَمْ تُذْنِبُوْا لَذَھَبَ اللّٰہُ بِکُمْ وَلَجَائَ بِقَوْمٍ یُذْنِبُوْنَ فَیَسْتَغْفِرُوْنَ اللّٰہَ فَیَغْفِرُلَہُمْ۔تینوں احادیث کا مفہوم یہ ہے کہ اگر تم گناہ نہ کرو یا تمھارے گناہ نہ ہوں تو اللہ دوسری ایسی قوم لے آئے گا یا ایسی مخلوق پیدا کردے گا جن کے گناہ ہوں گے اور وہ بخشش مانگیں گے تو اللہ ان کے گناہ معاف کردے گا۔

یہ حدیث سنداً تو بالکل صحیح حدیث ہے۔ اس لیے کہ مسلم  ان کتابوں میں شامل ہے جو صحیح احادیث ہی پر مشتمل ہوتی ہیں۔ لیکن اس کا صحیح مفہوم سمجھنے کے لیے آپ پہلے تین باتوں کو اپنے ذہن میں رکھیں تاکہ اُلجھن اور کھٹک کا ازالہ ہوجائے۔

۱- پہلی بات یہ ہے کہ کسی حدیث و آیت کی تشریح و تفسیر کے لیے اسی موضوع سے متعلق دوسری آیات و احادیث کو سامنے رکھنا چاہیے۔

۲- دوسری بات یہ ہے کہ بعض آیات و احادیث کا اسلوبِ بیان قانونی ہوتا ہے جس میں محدود و مخصوص الفاظ میں شریعت کے قانون اور ضابطے کی وضاحت مقصود ہوتی ہے، اور بعض   آیات و احادیث کا اسلوب خطیبانہ اور واعظانہ ہوتا ہے جس میں اصل حکم بیان کرنا مقصود نہیں ہوتا بلکہ ترغیب و ترہیب اصل مقصد ہوتا ہے۔ اس نوع کے واعظانہ، خطیبانہ اور ترغیبی یا ترہیبی کلام میں الفاظ کا لغوی مفہوم مراد نہیں ہوتا بلکہ جذبات کو اُبھارنا اور عمل پر آمادہ کرنا مقصود ہوتا ہے۔ اس قسم کے الفاظ میں مبالغہ اور فرضی قسم کی مثالیں بھی بیان ہوتی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معلمِ قانون بھی تھے اور واعظ بھی۔ اس لیے آپؐ کے کلام میں دونوں پہلو جلوہ گر ہوتے ہیں۔ سخن فہمی کا ذوقِ سلیم رکھنے والا شخص موقع و محل کی مناسبت سے اور دوسری احادیث کی روشنی میں رسولؐ اللہ کا منشا معلوم کرسکتا ہے۔

۳- تیسری بات یہ ہے کہ خلافت ِ ارضی کا منصب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو نہیں دیا بلکہ انسان کو دیا ہے۔ فرشتوں کے اندر گناہ کی سرے سے قوت ہی نہیں ہے۔ اگر ان کو زمین کی خلافت دی جاتی تو اللہ کی قہاریت، جباریت، عفو، تواب اور غفار کی صفات کا ظہور نہیں ہوسکتا تھا۔ انسان کے اندر شر کی قوت بھی رکھی گئی ہے۔ اس کا نفس امارہ بالسوء بھی ہے اور لوامہ یامطمئنہ بھی ہے۔ انسان کبھی عالمِ بالا اور ملکیت کی جانب متوجہ ہوتا ہے اور کبھی عالم سفلی اور بہیمیت کی جانب متوجہ ہوجاتا ہے۔ انسان کامل، یعنی نبی ؑ سے چونکہ اصلاح اور دعوت و ارشاد کا کام لیا جاتا ہے، اس لیے بشر ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ اس کو گناہوں اور بُرائیوں سے محفوظ و معصوم رکھتا ہے۔ لیکن باقی انسان اپنے اعمال کے اعتبار سے رحمت و مغفرت کا مظہر بھی ہوتے ہیں اور قہروغضب کا مظہر بھی ہوتے ہیں۔ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ۔

پہلے نمبر پر بیان کردہ قاعدے کی روشنی میں جب ہم اس حدیث پر غور کرتے ہیں تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ اس حدیث کا مقصد گناہوں پر آمادہ کرنا نہیں ہے بلکہ توبہ و استغفار کی ترغیب دلانا ہی اصل مقصد ہے اور مایوسی کے احساس کا ازالہ کرنا پیش نظر ہے۔ اس لیے کہ متعدد آیات و احادیث میں اللہ و رسولؐ کی نافرمانی سے اور گناہوں کے ارتکاب سے روکا گیا ہے اور گناہ کا ارتکاب کرنے والوں کو عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ انسانی و بشری کمزوریوں کی بناپر گناہوں کا صدور تو ہوتا رہے گا، اور اگر ان کو توبہ و استغفار کی فضیلت و اہمیت نہ بتائی جائے تو وہ مایوسی کا شکار ہوکر مزید گناہ کریں گے۔ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ ط اِِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا ط (اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجائو، یقینا اللہ سارے گناہ معاف کردیتا ہے۔ الزمر ۳۹:۵۳) کا بھی یہی مفہوم ہے کہ اگرچہ اللہ کی رحمت و مغفرت کے بھروسے پر گناہوں کا ارتکاب کرنا حماقت و بغاوت ہے لیکن گناہ سرزد ہوجانے کے بعد اللہ کی اس رحمت و مغفرت سے مایوس ہو جانا بھی حماقت و جہالت ہی کی ایک قسم ہے۔

یہی بات زیربحث حدیث میں بیان ہوئی ہے کہ مغفرت و رحمت اللہ کی صفت ہے۔ اس کا ظہور ہوکر رہے گا۔ اگر بالفرض تمھارے گناہ سرے سے موجود ہی نہ ہوں تو اللہ تعالیٰ کوئی دوسری مخلوق پیدا کرے گا جو گناہ کرنے کے بعد مایوس نہیں ہوگی بلکہ توبہ و استغفار کرے گی۔ لہٰذا تم سے بھی اگر کوئی گناہ صادر ہوجائے تو مایوس ہونے کے بجاے توبہ واستغفار کے حکم پر عمل کرو۔ نہ صرف یہ کہ توبہ واستغفار سے تمھارے گناہ معاف ہوجائیں گے بلکہ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِھِمْ حَسَنٰتٍ ط (ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ بھلائیوں سے بدل دے گا۔ الفرقان ۲۵:۷۰) سے معلوم ہوتا ہے کہ مزید حسنات و درجات سے بھی نوازے جائو گے۔

دوسرے قاعدے کی روشنی میں دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ زیربحث حدیث میں   اسلوبِ کلام خطیبانہ اور واعظانہ ہے۔ اور مقصد یہ نہیں ہے کہ تم گناہ کرو تاکہ اللہ تعالیٰ مغفرت کرے بلکہ مقصد یہ ہے کہ چونکہ تم سے گناہ صادر ہوتے ہیں اس لیے توبہ و استغفار کرو تاکہ اللہ تعالیٰ معاف کردے۔ گناہ کے صدور کی خبر دے کر توبہ کا حکم دیا گیا ہے۔ گناہ کا حکم دے کر توبہ کا حکم نہیں دیا گیا۔

تیسرے قاعدے کی رُو سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی خلافت انسانوں کے لیے ہے جو رحمت کا مظہر بھی ہیں اور غضب کا مظہر بھی۔ حدیث میں یہ نہیں کہا گیا کہ میں دوسری مخلوق پیدا کرتا ہوں بلکہ یوں کہا گیا ہے کہ اگر تم گناہ نہ کرتے تو میں دوسری مخلوق پیدا کردیتا لیکن چونکہ تم گناہ کرتے ہو تو صفت ِ غفاریت کے ظہور کے لیے دوسری مخلوق پیدا کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔

حاصل بحث یہ ہے کہ انسان گناہ کرتے رہیں گے لیکن اللہ بھی مغفرت فرماتے رہیں گے بشرطیکہ انسان توبہ و استغفار کرتا رہے۔ اس لیے مایوس نہیں ہونا چاہیے(مولانا گوہر رحمٰن)۔ (تفہیم المسائل، حصہ اوّل،ص ۳۹-۴۳)


خواتین اور جینز کا استعمال

س : میری خالہ کافی عرصے کے بعد امریکا سے اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ آئی ہیں۔ ان کی بیٹیاں جینز پہنتی ہیں، لیکن جب وہ گھر سے باہر نکلتی ہیں تو سارے کپڑے چادر سے چھپاکر نکلتی ہیں۔ میں نے بہت دفعہ اپنی کزن کو جینز پہننے سے منع کیا لیکن وہ کہتی ہیں کہ جینز پہننا کوئی گناہ نہیں ہے، نہ یہ مردوں کی مشابہت ہے اور نہ کافروں کی۔ وہ یہ جواز پیش کرتی ہیں کہ آج پوری دنیا میں عورتیں پینٹ پہن رہی ہیں۔ امریکا میں بھی مسلم عورتیں پہنتی ہیں۔ ایران، سعودی عرب، دبئی، ترکی اور خود پاکستان میں بھی عورتیں جینز پہنتی ہیں۔ اب یہ لباس مسلمانوں میں بھی رواج پاچکا ہے۔ کافروں کی مشابہت  یہ جب ہوتا جب اسے صرف کافر ہی پہنتے۔ اگر پینٹ چست نہ ہو، ڈھیلی ڈھالی ہو، قمیص پینٹ کے اندر نہ ہو بلکہ باہر ہو، ڈھیلی ڈھالی ہو اور کم از کم رانوں تک ہو اور ستر نمایاں نہ ہو تو پینٹ جائز ہے۔ دوسرے، یہ بات کہ یہ مردوں کی نقل ہے، تو یہ بھی ٹھیک نہیں ہے کیونکہ ہمارے ہاں جس طرح عورتوں اور مردوں کی شلواریں ایک جیسی ہوتی ہیں، اسی طرح سب جگہ پر پینٹ بھی مردوں اور عورتوں کی ایک جیسی ہیں۔ اگر کوئی لڑکی پینٹ کوٹ پہنے یا مردانہ قمیص شلوار پہنے، یا کوئی خاص مردوں کا لباس پہنے تو وہ مردوں کی نقل ہوگا، اور اسی طرح کوئی عورت خاص کافر عورتوں کا لباس پہنے تو وہ کافروں سے مشابہت ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں اس کی وضاحت فرما دیں۔

ج:لباس کے بارے میں اصولی ہدایات سورئہ اعراف، آیت ۲۶، ۲۷، ۲۸،۳۱، ۳۲ میں دی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک اصولی ہدایت یہ ہے کہ لباس تقویٰ کا ہو۔ مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ لباس التقوٰی کے متعلق تحریر فرماتے ہیں:’’انسان کے لیے لباس کا صرف ذریعۂ سترپوشی اور وسیلۂ زینت و حفاظت ہونا ہی کافی نہیں ہے، بلکہ فی الحقیقت اس معاملے میں جس بھلائی تک انسان کو پہنچنا چاہیے، وہ یہ ہے کہ اس کا لباس تقویٰ کا لباس ہو۔ یعنی پوری طرح ساتر بھی ہو، زینت میں بھی حد سے بڑھا ہوا یا آدمی کی حیثیت سے گرا ہوا نہ ہو، فخروغرور اور تکبر و ریا کی شان لیے ہوئے بھی نہ ہو اور پھر ان ذہنی امراض کی نمایندگی بھی نہ کرتا ہو جن کی بناپر مرد زنانہ پن اختیار کرتے ہیں، عورتیں مردانہ پن کی نمایش کرنے لگتی ہیں اور ایک قوم دوسری قوم کے مشابہ بننے کی کوشش کرکے خود اپنی ذلت کا اشتہار بن جاتی ہے‘‘۔(تفہیم القرآن، ج۲،ص ۲۰)

ایک قوم کا دوسری قوم کے مشابہ بننے سے یہی مراد نہیں ہے کہ ان کے شعار کو اپنائے بلکہ ان کے طور طریقوں، وضع قطع، تراش خراش کو اپنانا بھی ان کے مشابہ بننا ہے۔ پھر دوسری قوموں کے ساتھ مشابہت کے علاوہ مسلمانوں میں ایسے لوگ اور ایسے طبقات جو دوسروں کی تہذیب و روایات کو اپنائے ہوئے ہوں، ان کے رہن سہن، ان کے لباس کو پہنتے ہوں، ان کے ساتھ بھی مشابہت  نہ ہو، بلکہ صلحا اور متقین جو اسلامی تہذیب و اقتدار کو سینے سے لگائے ہوئے ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام اور سلف صالحین، مردوں اور عورتوں کے لباس کی یاد تازہ کرتے ہوں، ان کی پیروی اور نقالی کرنے والے ہوں۔ ان کے ساتھ مشابہت کرنے والے اہلِ تقویٰ اور اسلامی اقدار و روایات کو اپنانے والوں کی شکل اختیار کریں گے تو اللہ تعالیٰ ظاہر کا اثر باطن پر بھی ڈال دے گا۔ تواضع اور انکساری کا لباس آدمی میں تواضع اور انکساری پیدا کرتا ہے اور تکبر و غرور کا لباس آدمی میں تکبر و غرور پیدا کرتا ہے۔

مولانا مفتی محمد شفیعؒ اس موضوع پر اس آیت کی تفسیر لکھتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: ’’لباسِ تقویٰ کے لفظ سے اس طرف بھی اشارہ پایا جاتا ہے کہ ظاہری لباس کے ذریعے سترپوشی اور  زینت و تجمل سب کا اصل مقصد تقویٰ اور خوفِ خدا ہے جس کا ظہور اس کے لباس میں بھی اسی طرح ہونا چاہیے کہ اس میں پوری سترپوشی ہو، کہ قابلِ شرم اعضا کا پورا پردہ ہو، وہ ننگے بھی نہ رہیں، اور لباس بدن پر ایسا چست بھی نہ ہو جس میں یہ اعضا مثل ننگے کے نظر آئیں۔ نیز اس لباس میں فخروغرور کا انداز بھی نہ ہو بلکہ تواضع کے آثار ہوں، اسراف بے جا بھی نہ ہو، ضرورت کے موافق کپڑا استعمال کیا جائے۔ عورتوں کے لیے مردانہ اور مردوں کے لیے زنانہ لباس بھی نہ ہو، جو اللہ کے نزدیک مبغوض و مکروہ ہے۔ لباس میں کسی دوسری قوم کی نقالی بھی نہ ہو جو اپنی قوم و ملّت سے غداری اور اعراض کی علامت ہے۔ اس کے ساتھ اخلاق و اعمال کی درستی بھی ہو، جو لباس کا اصل مقصد ہے۔(معارف القرآن، ج۳،ص ۵۳۶)

آپ نے جیز کی جو صورت تحریر کی ہے، وہ بے شک وہی ہو جو آپ نے لکھی ہے کہ ساتر ہو، اس میں مردوں کے ساتھ مشابہت نہ ہو، لیکن یہ ہمارے معاشرے کی نہیں، بلکہ مغربی معاشرے کی ایجاد اور مغرب کا لباس ہے۔ آپ تو بے شک اسے اس طرح استعمال کریں گی جو ساتر ہوگی، لیکن اپنی اصل کے اعتبار سے تو یہ ساتر نہیں ہے بلکہ اصل میں یہ مغربی لباس کی نقالی ہے۔ اس کے بجاے آپ اسلامیت اور پاکستانیت کو پھیلائیں، پاک و ہند کے دینی گھرانوں کو پیش نظر رکھیں۔ آپ پاکستان اور عالمِ اسلام کی صالحات کی پیروی کریں۔ اس سے دینی اور اسلامی ذہنیت نشوونما پائے گی، آخرت کی فکر پیدا ہوگی اور نیک خواتین کی طرح آپ میں بھی نیکی کا جذبہ پیدا ہوگا۔

نیک لوگوں کا لباس نیکی اور بُرے لوگوں کا لباس بُرائی کی ذہنیت پیدا کرتا ہے۔ انسان کا لباس، انسان کی صحبت تو آدمی پر اثرانداز ہوتی ہی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بکریوں والوں میں مسکنت اور تواضع پائی جاتی ہے اور فخروغرور اُونٹوں کی دُموں کو پکڑ کر چلنے والوں میں پایا جاتا ہے۔ لباس دراصل ذہنی طور پر اہلِ لباس کی صحبت ہے اور اس پر وہی اثرات مرتب ہوتے ہیں جو صحبت پر مرتب ہوتے ہیں۔ اس لیے خواتین کو جینز کا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔

آپ کی کزن نے ایران، سعودی عرب اور پاکستان کے جن اُونچے گھرانوں کی خواتین کا حوالہ دیا ہے کہ وہ بھی پینٹ پہنتی ہیں، تو اس بارے میں عرض ہے کہ یہ وہ خواتین ہیں جو      مغربی تہذیب کی نقالی کرتی ہیں۔ اس لیے آپ ان سے کہہ دیجیے کہ ان کی نقالی کو چھوڑ دیجیے۔ ان کے بجاے دنیا کے اسلامی گھرانوں کی خواتین کو اپنے لیے نمونہ بنائیں جو مغربی تہذیب سے متاثر اور اس کی دل دادہ نہیں۔ وہ مغربی تہذیب کو باعث ِ عزت و فخر سمجھنے کے بجاے اسلامی تہذیب و روایات کی قدر کرتی ہیں اور اس میں شرف و وقار سمجھتی ہیں۔ (مولانا عبدالمالک)

حضرت ابوثعلبہ خشنیؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک غزوہ سے واپس تشریف لائے تو مسجدنبویؐ میں تشریف لے گئے اور دو رکعتیں پڑھیں۔آپؐ کو یہ طریقہ پسند تھا کہ سفر سے واپس آئیں تو مسجد جائیں اور اس میں دو رکعتیں پڑھیں۔ اس کے بعد حضرت فاطمہؓ سے ملنے جاتے، پھر اَزواجِ مطہراتؓ کے پاس چلے جاتے۔ چنانچہ ایک سفر سے واپس تشریف لائے تو مسجد کے بعد حضرت فاطمہؓ کے پاس تشریف لائے تو انھوں نے گھر کے دروازے پر آپؐ کا استقبال کیا، آپؐ کے چہرۂ انور کو بوسے دینے لگیں اور رونے لگیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم کیوں رو رہی ہو؟ انھوں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! اس لیے رو رہی ہوں کہ مشقت اُٹھانے کے سبب آپؐ کی رنگت بدل گئی ہے اور آپؐ کے کپڑے بوسیدہ ہوچکے ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فاطمہؓ! اللہ تعالیٰ نے تیرے والد کو ایسا دین دے کر بھیجا ہے کہ زمین پر کوئی مٹی کا گھر باقی رہے گا اور نہ خیمے مگر اللہ تعالیٰ اس میں عزت داخل کرے گا یا ذلت (ایمان والوں کے لیے عزت اور کافروں کے لیے ذلّت)۔ یہاں تک کہ یہ عزت اور ذلت وہاں وہاں پہنچ جائے جہاں دن اور رات پہنچتے ہیں (اس لیے کامیابی ہمارے لیے ہے۔ پوری دنیا میں اسلام کے لیے عزت ہے اور کفرکے لیے ذلّت ہے۔ جب نتیجہ بہتر ہے تو مشقت اور تکالیف کا احساس نہیں ہونا چاہیے)۔(کنزالعمال، طبرانی، حاکم)

اسلام کی دعوت دینے کے لیے پوری قوت صرف کرنا چاہیے۔ اس کام کے لیے دن رات ایک کردینا چاہیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دن رات ایک کیا۔ دعوت بھی دی اور قتال بھی کیا۔   اللہ تعالیٰ کے تمام انبیا نے دین کی سربلندی کے لیے جان کی بازی لگادی۔ حضرت نوحؑ نے ۱۴۰۰ سال عمرپائی اور دن رات ایک کیا۔ سورئہ نوح میں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے فریاد کررہے ہیں کہ   اے میرے رب! میں نے دن اور رات ان کو دعوت دی لیکن میری دعوت کے نتیجے میں یہ لوگ راہِ راست پر آنے کے بجاے مزید دُور ہوتے چلے گئے۔ جب میں انھیں دعوت دیتا یہ اپنے چہروں کو کپڑوں سے ڈھانپ لیتے اور کانوں میں انگلیاں ڈال لیتے اور کفر پر اصرار کرتے اور انتہائی تکبر اور غرور کا مظاہرہ کرتے۔ چنانچہ حضرت نوحؑ نے ان پر عذاب کے لیے دعا کی جس کے نتیجے میں روے زمین کو ان سے پاک و صاف کردیا گیا۔ اس طرح زمین اسلام کے لیے ہموار ہوگئی اور اسلام غالب ہوگیا۔ اس کے بعد پھر کفر وجود میں آیا تو پھر انبیاعلیہم السلام کو مبعوث کیا گیا اور اس وقت سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ اس کا آخری مرحلہ وہ ہے جس کی پیش گوئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی۔ اب یہ کام ہمیں کرنا ہے تاآنکہ یہ دین غالب ہوجائے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کا دنیا اپنی نگاہوں سے مشاہدہ کرلے۔

m

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خندق کی طرف نکلے تو دیکھا کہ مہاجرین اور انصار صبح کے وقت سخت سردی میں خندق کی کھدائی کر رہے ہیں۔ انصار اور مہاجرین خود یہ کام کر رہے تھے، ان کے خادم نہ تھے جو ان کی جگہ یہ کام کرتے۔ جب آپؐ نے ان کی مشقت اور بھوک کی حالت کو دیکھا تو دُعا کی: اے اللہ! اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے، پس انصار اور مہاجرین کی مغفرت فرما۔ انصار اور مہاجرین نے جواباً کہا: ہم وہ لوگ ہیں جنھوں نے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی جہاد پر بیعت کی ہے۔ ہم اس بیعت اور عہد پر ہمیشہ قائم رہیں گے۔(بخاری)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ نے کیسی غربت اور فاقہ کشی کے ساتھ محنت و مشقت اُٹھاتے ہوئے دین کو غالب کیا، اس کا ایک منظر غزوئہ خندق ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین اور یہود کی   متحدہ ۱۲ہزار فوج کا مقابلہ خندق کی کھدائی کے ذریعے کیا۔ مدینہ طیبہ کی جس جانب سے حملہ ہوسکتا تھا، اس طرف خندق کی کھدائی کرکے مدینہ میں داخلے کا راستہ روک دیا۔ چھے دن کے اندر ساڑھے تین میل لمبی خندق میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ نے مل کر حصہ لیا۔

منافقین مختلف قسم کے بہانے کرکے اپنے گھروں میں بیٹھ گئے۔ وہ اس انتظار میں تھے کہ اب ۱۲ہزار فوج مسلمانوں کو ختم کرکے  رکھ دے گی۔ دوسری طرف یہود بنی قریظہ نے بھی عہدشکنی کر کے متحدہ محاذ کا ساتھ دیا لیکن اللہ تعالیٰ نے بنوقریظہ کی سازش اور متحدہ محاذ کو ناکام و نامراد کر دیا۔ ۲۵دن متحدہ محاذ نے محاصرہ کیا تو اس کے بعد بے حوصلہ ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے آندھی بھی چلا دی جس نے ان کے کیمپ اور چولھوں پر چڑھی دیگیں اُلٹ دیں۔ بنوقریظہ ان کی کچھ بھی مدد نہ کرسکے اور یوں یہ دونوں گروہ خائب و خاسر ہوگئے۔ مشرکین بھاگ گئے اور بنوقریظہ بدعہدی کے انجام سے دوچار ہوئے۔ بنوقریظہ کی گڑھیوں کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے محاصرہ کیا۔ انھوں نے کچھ دیر تو مزاحمت کی لیکن بالآخر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہہ دیا کہ ہم ہتھیار ڈال دیتے ہیں اس شرط پر کہ ہمارا فیصلہ سعد بن معاذؓ کریں۔ چنانچہ سعد بن معاذؓ نے فیصلہ دیا کہ ان کے جنگی مردوںکو قتل کردیا جائے اور عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا جائے۔ یہ فیصلہ انھوں نے تورات کے مطابق کیا تھا۔ تورات میں آج بھی ’غدر عہد‘ کی یہی سزا لکھی ہوئی ہے۔ دوسرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فیصلے کو اللہ تعالیٰ کے فیصلے کے مطابق قرار دے کر اس پر عمل درآمد فرمایا۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کی کس مپرسی کی حالت کے موقعے پر انھیں یاد دلایا کہ اس مشقت کے عوض میں تمھیں جنت ملنے والی ہے اور وہی اصل زندگی ہے۔ رہی دنیاوی زندگی تو وہ فانی ہے اور اس دنیا میں جتنی بڑی نعمتیں مل جائیں وہ بالآخر زائل ہونے والی ہیں۔ اس لیے دنیوی عیش و عشرت کی طلب اور خواہش سے بے نیاز ہوکر اُخروی زندگی کو سنوارنے کے لیے کام کرنا چاہیے۔

m

محمد بن عبداللہ بن عمرو بن عثمان سے روایت ہے کہ خالد بن سعید بن العاص قدیم الاسلام ہیں۔ اپنے بھائیوں میں سب سے پہلے مسلمان ہیں۔ ان کے اسلام کا سبب ایک خواب ہوا جو انھوں نے دیکھا تھا کہ وہ جہنم کے کنارے پر کھڑے ہیں اور انھیں یوں محسوس ہو رہا ہے کہ ان کے والد انھیں دوزخ میں دھکیل رہے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں کمر سے پکڑ کر روک رہے ہیں اور دوزخ میں گرنے سے بچارہے ہیں۔ وہ نیندسے گھبرا کر بیدار ہوئے تو کہا: میں اللہ کی قسم اُٹھاتا ہوں کہ یہ برحق خواب ہے۔ اس کے بعد حضرت ابوبکرؓ سے ملے اور اپنا خواب سنایا تو انھوں نے کہا: دیکھو رسولؐ اللہ تو ہمارے پاس ہی ہیں، اللہ تعالیٰ نے تیرے ساتھ بھلائی کا فیصلہ فرمایا۔ رسولؐ اللہ کی اتباع کرو، رسولؐ اللہ کی اتباع کروگے تو اسلام میں داخل ہوکر آپؐ کے ساتھ چلو گے اور دوزخ سے بچ جائو گے۔ اسلام تجھے دوزخ سے بچالے گا اور تیرا والد دوزخ میں ہوگا۔

 خالدؓ بن سعید رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجیاد کے مقام پر ملے تو آپؐ سے پوچھا: آپؐ کس چیز کی دعوت دیتے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: میں تجھے اللہ وحدہٗ لاشریک کی طرف دعوت دیتا ہوں اور اس بات کی طرف کہ محمدؐ اس کے بندے اور اس کے رسولؐ ہیں۔اور میں دعوت دیتا ہوں کہ ان معبودوں کو چھوڑ دو جن کی عبادت میں تم مشغول ہو۔ تم پتھروں کی عبادت کر رہے ہو جو نہ تو نفع کے مالک ہیں نہ نقصان کے، جو نہ سنتے ہیں اور نہ دیکھتے ہیں۔ انھیں خبر ہی نہیں کہ ان کی عبادت کرنے والے کون ہیں۔ توخالد نے کہا: میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور آپ اللہ کے رسولؐ ہیں۔ ان سے یہ کلمۂ ایمان سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوگئے۔ (بیہقی)

اسلام کا اصل فائدہ تو لوگوں کو دوزخ سے بچاناہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو ان کی کمروں سے پکڑپکڑ کربچایا۔اس کے لیے دوڑ دھوپ کی۔ توحید ورسالت کی طرف دعوت دی۔ مشرکین کو ان کے باطل عقائد کے بے بنیاد ہونے سے آگاہ کیا۔ یہی کام آپؐ کے بعد صحابہ کرامؓ نے کیا۔ اب بھی یہ کام اسی جذبے اور جوش و خروش سے کرنے کی ضرورت ہے۔ بنیادی کام اور دعوت یہی ہے۔

m

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان اچانک حملے کی بیڑی ہے۔ مومن اچانک بے خبری میں حملہ نہیں کرتا (ابوداؤد)

ایمان کا تقاضا ہے کہ بے گناہوں پر حملہ نہ کیا جائے مومن جس سے برسرِپیکار نہیں ہوتا یا جن سے جنگ بندی کا معاہدہ ہوتا ہے، ان پر بھی حملہ نہیں کرتا۔ جن سے معاہدہ ہوتا ہے جب تک معاہدے کو توڑ دینے کا اعلان نہیں کرتا، ان پر حملہ نہیں کرتا۔ اس طرح مومن سے دنیا بے خوف ہوتی ہے ۔ دنیا کومومن سے یہ خطرہ نہیں ہوتا کہ وہ ان پر اچانک حملہ کر کے ان کی جان و مال کی حفاظت کو ختم کردے گا۔    نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مومن کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا: المومن من امنہ الناس علٰی دمائھم واموالھم، ’’مومن تو صرف وہ ہے جس سے لوگ اپنی جان اور مال کے معاملے میں بے خوف ہوں‘‘۔ اس وقت دنیا میں جو دہشت گردی کی کارروائیاں ہورہی ہیں وہ ایمانی تقاضوں کے منافی ہیں۔