اُمتِ مسلمہ اس اعتبار سے بڑی خوش نصیب ہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کے انعام و اکرام بے پایاں ہی نہیں، بڑی حد تک منفرد اور بے مثال بھی ہیں۔ قرآن اور اسوۂ رسولؐاگر الطاف و عنایات کی اس کہکشاں کے آفتاب و مہتاب ہیں، تو نماز، زکوٰۃ، روزہ، رمضان، لیلۃ القدر، حج، عمرہ اور جہاد اس کے روشن اور تابناک ستارے ہیں، جن سے نہ صرف یہ کہ حُسنِ کائنات اور جمالِ ہستی دوبالا ہے، بلکہ نور کے یہ مینار، دکھی انسانیت کی رہنمائی اور منزل مقصود کی طرف رہبری کی خدمت بھی انجام دے رہے ہیں۔
ماضی کے جھروکوں میں جھانکیں یا حال کے اداروں اور تجربات کا جائزہ لیں، صاف معلوم ہوتا ہے کہ انسانیت کی اور خود امت مسلمہ کی ہدایت اور اس کے ذریعے باقی انسانوں کی رہنمائی کے لیے جو انتظام زمین و آسمان کے خالق اور مالک نے مرتب فرمایا ہے، وہ اپنی نظیر آپ ہے۔ آقا کی ہر نعمت یکتا اور عظیم ہے اور اس کی ہر نوازش، نور کا منبع اور زندگی کی پیام بر ہے۔
اگر رب کریم و رحیم کے ان الطاف و عنایات کے باوجود اُمت کا حال پریشان ہے اور انسانیت کے ستارے گردش میں ہیں، تو یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے! سوچنے کی بات ہے کہ بگاڑ کہاں کہاں سے دَر آیا ہے؟ اور کوتاہی اور کمی کس کس مقام پر ہوئی ہے کہ آب حیات کی موجودگی کے باوجود یہ اُمت صحت مند اور باعزت زندگی، توانائی اور تابندگی سے محروم ہے۔ چاند اور سورج ضوفشاں ہیں، لیکن تاریکی چھٹنے کا نام نہیں لیتی۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حَاسِبُوْا قَبْلَ اَنْ تُحَاسَبُوْا (اپنا احتساب کر لو قبل اس کے تمھارا احتساب کیا جائے) کی روشنی میں احتساب کیا جائے۔ تجدید عہد اور خود احتسابی کے لیے تھوڑا سا وقت، امت کے سوچنے سمجھنے والے تمام افراد، مرد اور عورتیں، انفرادی اور اجتماعی طور پر نکالیں۔ پوری دیانت داری سے جائزہ لیں کہ نماز دن میں پانچ مرتبہ اور روزہ سال میں ایک ماہ اور پھر ہرذی استطاعت مسلمان مرد اور عورت پر حج زندگی میںکم از کم ایک بار فرض کیا گیا ہے۔ یہ سب اس لیے ہے کہ بندہ ہرلمحے اور ہرحال میں رب کو یاد رکھنے، اس کی معیت میں زندگی گزارنے کی سعی و جہد کرے، اور اس طرح دینی اور دنیاوی، روحانی اور جسمانی ہر قسم کے بے پناہ و بے شمار فوائد اور برکتوں سے اُمت اور اس کے ہر ہر فرد کا دامن بھر جائے۔
سوال یہ ہے کہ آخر اس کے وہ اثرات جو مطلوب و موعود ہیں، وہ ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی میں کیوں رونما نہیں ہو رہے؟
اسلام اور دوسرے مذاہب اور تہذیبوں کے موازنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں کے تصور عبادت میں بڑا بنیادی فرق ہے۔ دوسرے مذاہب اور تہذیبوں میں عبادت محض پوجا پاٹ کا ایک نظام بن کر رہ گئی ہے، یا دنیاوی زندگی سے کٹ کر اپنے اپنے خدا سے لو لگانے کے لیے مراقبہ، نفس کشی، مجاہدات وریاضات یا چند ذہنی اور بدنی التزامات کا نام ہے، جن سے دیوتا کو خوش کیا جاسکے اور اس طرح اخروی نجات حاصل ہو سکے۔
اس کے برعکس اسلام کا تصور یہ ہے کہ عبادت ہی دراصل وہ مقصد ہے، جس کے لیے انسانوں کو پیدا کیا گیا ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِo(ذاریات۵۱:۵۶) ’’میںنے جن اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں‘‘۔ عبادت ہی کی زندگی کی طرف ان کو بلایا گیا ہے: یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ o(البقرہ۲:۲۱)،’’ لوگو، بندگی اختیار کرو اپنے اس رب کی جو تمھارا اور تم سے پہلے جو لوگ ہو گزرے ہیں ان سب کا خالق ہے تاکہ تم تقویٰ کی زندگی حاصل کرسکو‘‘۔ رب کی اس بندگی کی طرف ساری انسانیت کو، خصوصاً پہلے انبیاؑ کی اُمتوں کو، دعوت دی گئی ہے: قُلْ یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآئٍم بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ اَلاَّ نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰہَ( اٰل عمرٰن۳:۶۴)،’’اے نبیؐ، کہو، اے اہل کتاب، آئو ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں ہے۔ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں‘‘۔
یہ عبادت محض چند مراسم عبادت تک محدود نہیں، اگرچہ متعین عبادات اس کے ستون اور مقصود بالذات سنگ میل ہیں۔ اسلام کا تصور عبادت یہ ہے کہ انسان کی ساری زندگی، اللہ کی بندگی میں بسر ہو۔ ہمارا اٹھنا بیٹھنا، سونا جاگنا، کھانا پینا، آرام اور محنت، حضرو سفر، غرض سب کچھ اللہ تعالیٰ کی بندگی اور اس کے قانون اور ہدایت کی پابندی میں ہو اور زندگی کا جو مشن اور شب و روز کے لیے جو ترجیحات ہمارے مالک اور آقا نے مقرر کی ہیں، پوری زندگی انھی کے مطابق بسر کی جائے۔
گویا اسلام اور عبادت ہم معنی اور ایک ہی طرز زندگی کے دو عنوان ہیں۔ اسلام انسان کی پوری زندگی کو عبادت میں تبدیل کردینا چاہتا ہے اور اس کا مطالبہ یہ ہے کہ انسان کی زندگی کا کوئی لمحہ بھی اللہ کی عبادت سے خالی نہ ہو۔ کلمہ شہادت کا اقرار کرنے کے ساتھ ہی یہ بات لازم آجاتی ہے کہ جس اللہ کو انسان نے اپنا رب اور معبود تسلیم کیا ہے، اس کا بندہ بن کر پوری زندگی گزارے۔ گویا کامیاب زندگی عبادت گزار بندہ بن کر رہنے ہی سے عبارت ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ بندہ نفس کی خواہشات پر قابو پائے اور اپنے جسم و جان اور قلب و نظر کی تمام صلاحیتیں زندگی کے اُن مقاصد کے حصول کے لیے صرف کرے، جو اللہ اور اس کے آخری رسولؐ نے متعین کر دیے ہیں۔
ہر مرد اور عورت جو بندگی کا راستہ اختیار کرے، اس کے اخلاق اور سیرت و کردار اُن سانچوں میں ڈھل جائیں، جو شریعت نے مقرر کیے ہیں۔ دنیوی زندگی میں، جہاں قدم قدم پر آزمایش اور راہ حق سے پھسل جانے کے مواقع پیش آتے ہیں، بندہ حیوانی اور شیطانی طرزِعمل سے بچتے ہوئے، اور پورے شعور اور ارادے سے بندگیِ رب کی راہ پر گام زن رہے۔ یہ ہے وہ چیز جو رب کو پسند ہے۔ یہ عبادت کی روح اور اس کا جوہر بھی ہے اور پوری زندگی میں اس کا مظہر اور مطلوب بھی۔
پوری زندگی کا اس طرح عبادت کا مظہر بن جانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لیے ایمان کی لازوال قوت کے ساتھ ساتھ بڑی زبردست اور ہمہ گیرذہنی، روحانی، بدنی، انفرادی اور اجتماعی تربیت کی ضرورت ہے، تاکہ فکر و نظر میں بھی یہ انقلاب مستحکم ہو جائے اور انفرادی اور اجتماعی سیرت و کردار بھی ایسے پیمانوں میں ڈھل جائیں، جو فرد اور ملت کو اس عبادت کے لیے تیار کرسکیں۔
منصوص عبادات: نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، عمرہ، ذکر، استغفار اور دعا ایسا ہی انسان مطلوب اور امت بنانے کا ذریعہ ہیں۔ مراد یہ ہے کہ یہ خود بھی عبادت ہیں اور پوری زندگی کو عبادت بنانے کا ذریعہ بھی۔ یہ خود بھی مالک کو پسند اور محبوب ہیں اور انسان کو مالک کا پسندیدہ اور محبوب بندہ بنانے کا ذریعہ بھی ہیں، تاکہ وہ مالک کے بتائے ہوئے محبوب اور مطلوب مشن___ دعوت الیٰ الخیر، شہادت حق، امربالمعروف، نہی عن المنکر، قیام قسط اور نصرت دین کے لیے سرگرم عمل ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ان عبادات کو ارکان اسلام کہا گیا ہے، یعنی یہ وہ ستون ہیں، جن پر اسلامی زندگی کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ ہم نے ان ربّانی ستونوں کا تعلق اس رحمانی عمارت سے منقطع کر دیا ہے اور سمجھ یہ رہے ہیں کہ ستون ہی عمارت ہیں اور بس ؎
تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا
ورنہ گُلشن میں علاجِ تنگیِ داماں بھی ہے
عبادت اور شریعت کا تعلق
دوسری چیز عبادات کا شریعت کے پورے نظام سے ربط اور تعلق ہے، جہاں: ایمان، احتساب اور تقویٰ عبادات کے جسم میں جان ڈالنے کا وظیفہ انجام دیتے ہیں اور ان کے بغیر وہ بس ایک رسم اور ایک عادت رہ جاتے ہیں۔ اسی طرح اگر ان عبادات کا ربط و تعلق پوری شریعت اور اسلامی نظام زندگی سے کٹ جائے، تو یہ اس پرزہ کی مانند ہو جاتی ہیں، جو خواہ خود حرکت کر لے مگر پوری مشین کو چلانے میں اس کا کردار غیر مؤثر ہو جاتا ہے۔ نیز پوری مشینری سے جو تقویت ان اجزا کو ملتی ہے، وہ بھی مفقود رہتی ہے۔
اس وقت امت مسلمہ کا المیہ ہی یہ ہے کہ عبادات کے ستون تو موجود ہیں، لیکن ان ستونوں کو جس عمارت کو اٹھانا اور سنبھالنا ہے، وہ موجود نہیں ہے۔ جب تک وہ عمارت وجود میں نہیں آتی یہ ستون ان درختوں کی مانند ہیں، جن کا تنا تو موجود ہے، مگر پتے، پھول اور پھل ناپید ہیں۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج انسان کو جس کش مکش اور جدوجہد کے لیے تیار کرتے ہیں، وہ انفرادی سطح پر سیرت سازی کے ساتھ ساتھ اجتماعی زندگی کی تنظیم و تشکیل اور زندگی کے ہر شعبے میں شریعت کے مطابق حالات کی صورت گری کے بغیر اپنے اصل اہداف کو نہیں پا سکتے۔ نظام زندگی کی تصویر ان کے بغیر نامکمل ہے۔ شریعت کے کتنے ہی احکام اور قوانین ہیں، جو اجتماعی زندگی کی اصلاح اور معاشرت، معیشت، عدالت اور حکومت پر اسلامی شریعت کی بالادستی کے بغیر نافذ العمل نہیں ہوسکتے، جس کے نتیجے میں زندگی دوئی اور تضاد کا شکار اور شترگر بگی کا نمونہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ امت اس بگاڑ کی آماج گاہ بنی ہوئی ہے، جو کچھ معاملات میں اللہ کی ہدایت کی پیروی اور کچھ میں اس سے اغماض بلکہ بغاوت کے نتیجے میں ہوتا ہے اور جس پر اللہ رب العزت نے بندوں پر یہ چارج شیٹ لگائی تھی:
اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَتَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ ج فَمَا جَزَآئُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِکَ مِنْکُمْ اِلاَّ خِزْیٌ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ج وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرَدُّوْنَ اِلٰٓی اَشَدِّ الْعَذَابِ ط وَمَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ (البقرہ۲:۸۵)،تو کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو؟ پھر تم میں سے جو لوگ ایسا کریں، ان کی سزا اس کے سوا اور کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں ذلیل و خوار ہو کر رہیں اورآخرت میں شدید ترین عذاب کی طرف پھیردیے جائیں؟ اللہ ان حرکات سے بے خبر نہیں ہے، جو تم کر رہے ہو۔
یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بڑی سخت وعید ہے۔ اُمت کی کمزوریوں، تضادات اور تباہ حالیوں میں بڑا دخل ان تضادات کا ہے جن میں یہ مبتلا ہے اور جو بیک وقت اللہ اور اہرمن، ایمان اور کفر، دین اور سیکولرزم سے رشتہ استوار کرنے سے عبارت ہے۔
عبادتوں کے غیر مؤثر ہونے کی ایک اور وجہ نظام احتساب کا فقدان اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر سے مجرمانہ غفلت کا چلن ہے۔ قرآن پاک میں اس امت کی جو امتیازی خصوصیات بیان ہوئی ہیں، ان میں تین بہت نمایاں ہیں: یہ اُمت ایک اُمت ہے، یہ امت وسط ہے اور یہ اُمت ایک مشن اور دعوت کی علم بردار ہے، جو صاحب شریعت امت اور اس شریعت اور پیغام کی تمام انسانیت کے لیے گواہ اور شاہد اور اس کی نصرت اور غلبے کے لیے جدوجہد کی ذمہ دار ہے۔
یہی وہ تین خصوصیات ہیں جو اس اُمت کے امت ابراہیمی سے تسلسل کی ضامن ہیں۔
قرآن کہتا ہے کہ وَاِنَّ ہٰذِہٖٓ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّاَنَا رَبُّکُمْ فَاتَّقُوْنِ (المومنون ۲۳:۵۲) ’’اور یہ تمھاری امت ایک ہی امت ہے اور میں تمھارا رب ہوں، پس مجھی سے تم ڈرو‘‘ ۔
دوسری اور تیسری خصوصیت کو قرآن اس طرح بیان کرتا ہے: وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الْرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا o (البقرہ ۲:۱۴۳)، ’’اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’اُمتِ وسط‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسولؐ تم پر گواہ ہو۔‘‘
وَجَاھِدُوْا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِھَادِہٖ ط ھُوَ اجْتَبٰکُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَج ٍط مِلَّۃَ اَبِیْکُمْ اِبْرٰھِیْمَ ط ھُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ لا مِنْ قَبْلُ وَفِیْ ھٰذَا لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَھِیْدًا عَلَیْکُمْ وَ تَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ ج فَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَاعْتَصِمُوْا بِاللّٰہِ ط ھُوَ مَوْلٰکُمْج فَنِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ النَّصِیْرُ o (الحج۲۲:۷۸)اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے۔ اس نے تمھیں اپنے کام کے لیے چُن لیا ہے اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔ قائم ہو جائو اپنے باپ ابراہیمؑ کی ملت پر۔ اللہ نے پہلے بھی تمھارا نام ’مسلم‘ رکھا تھا، اور اس (قرآن) میں بھی (تمھارا یہی نام ہے)۔ تاکہ رسولؐ تم پرگواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ۔ پس نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو اور اللہ سے وابستہ ہوجائو۔ وہ ہے تمھارا مولیٰ، بہت ہی اچھا ہے وہ مولیٰ اور بہت ہی اچھا ہے وہ مددگار۔
اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ (اٰل عمران۳:۱۱۰، مزید ملاحظہ ہو ۳:۱۰۶)
اُمت کے اس مشن اور کردار کے تعین کے ساتھ ساتھ یہ بھی صاف لفظوں میں بتا دیا کہ نیکی محض دین داری کے نام پر ایک خاص طرح کی وضع قطع اور طاعت اور بندگی کے محدود اعمال میں نہیں، بلکہ پوری زندگی کو اللہ کی ہدایت کے مطابق ڈھالنے، اللہ کے بندوں کے حقوق ادا کرنے اور اللہ کی راہ میں جان اور مال سے جہاد کرنے میں ہے۔ صرف اسی راستے کو اختیار کرنے سے ہماری عبادتیں حقیقی معنی میں ثمر آور ہو سکیں گی اور دنیا خوف اور بھوک کے عفریتوں سے محفوظ ہو کر حقیقی امن گاہ بن سکے گی:
لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰکِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَلٰٓئِکَۃِ وَالْکِتٰبِ وَالنَّبِیّٖنَ ج وَاٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ لا وَالسَّآئِلِیْنَ وَفِی الرِّقَابِ ج وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ واٰتَی الزَّکٰوۃَ ج وَالْمُوْفُوْنَ بِعَھْدِھِمْ اِذَا عٰھَدُوْا ج وَالصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآئِ وَالضَّرَّآئِ وَحِیْنَ الْبَاْسِ ط اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا ط وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَo(البقرہ۲:۱۷۷)نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کر لیے یامغرب کی طرف، بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یوم آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں اور یتیموں پر، مسکینوں اور مسافروں پر، مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے، نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے۔ اور نیک وہ لوگ ہیں،کہ جب عہد کریں تو اسے وفا کریں، اور تنگی و مصیبت کے وقت میں اور حق و باطل کی جنگ میں صبر کریں۔ یہ ہیں راست بازلوگ اور یہی لوگ متقی ہیں۔
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَجٰھَدُوْا بِاَمْوَالِھِمْ وَاَنْفُسِھِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ط اُولٰٓئِکَ ھُمُ الصّٰدِقُوْنَ o (الحجرات۴۹:۱۵) حقیقت میں تو مومن وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے، پھر انھوں نے کوئی شک نہ کیا اور اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ وہی سچے لوگ ہیں۔
لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْم بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ عَلٰی لِسَانِ دَاوٗدَ وَ عِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ ط ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّ کَانُوْا یَعْتَدُوْنَ o کَانُوْا لَا یَتَنَاھَوْنَ عَنْ مُّنْکَرٍ فَعَلُوْہُ ط لَبِئْسَ مَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنَo (المائدہ ۵:۷۷-۷۸)بنی اسرائیل میں جن لوگوںنے کفر کی راہ اختیار کی ان پر دائودؑ اور عیسیٰ ابن مریمؑ کی زبان سے لعنت کی گئی کیونکہ وہ سرکش ہو گئے تھے اور زیادتیاں کرنے لگے تھے، انھوں نے ایک دوسرے کو بُرے افعال کے ارتکاب سے روکنا چھوڑ دیا تھا، برا طرز عمل تھا جو انھوں نے اختیار کیا۔
اور حضور اکرمؐ نے تنبیہ فرمائی کہ:’’قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، تم امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرتے رہو اور اگر ایسا نہیں کرو گے تو ضرور ایسا ہو گا کہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنی طرف سے کوئی عذاب بھیجے۔ پھر تم اس سے دعائیں کرو گے اور تمھاری دعائیں قبول نہ ہوں گی‘‘۔ (ترمذی)
اسی طرح حضوؐرنے فرمایا:’’جو شخص کسی قوم میں رہتا ہو اور ان کے اندر رہ کر اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں کرتا ہو، اور وہ لوگ اس کے اس طرز عمل کے بدلنے کی قدرت رکھتے ہوں، لیکن اس کے باوجود نہ بدلیں تو اللہ تعالیٰ مرنے سے پہلے دنیا ہی میں ان کو عذاب میں مبتلا کرے گا‘‘۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ)
اور قرآن میں اس امت کو مخاطب کرکے صاف لفظوں میں متنبہ کر دیا گیا کہ اگر برائی کا مقابلہ نہ کرو گے، تو محض تمھاری نیکی اور تمھاری عبادتیں تم کو تباہی سے نہ بچا سکیں گی:
وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَآصَّۃً ج وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِo (انفال۸:۲۵)’’اور بچو اس فنتے سے جس کی شامت مخصوص طور پر صرف انھی لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنھوں نے تم سے گناہ کیا ہو۔ اور جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔
قرآن و حدیث کے ان واضح ارشادات،ا حکام اور تنبیہات سے یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ ہماری عبادتیں، ہماری دعائیں اور ہماری نیکیاں اسی وقت دنیا میں اپنے ثمرات اورحسنات سے زندگی کا دامن بھر سکیں گی، جب ہم فرداً فرداً اور اجتماعی طور پر امت کے سپرد کردہ مشن دعوت الیٰ الخیر، شہادت حق، امر بالمعروف، نہی عن المنکر، جان اور مال سے جہاد اور اداے حقوق کی ذمہ داری کو کماحقہ ادا کریں گے۔اگر اس میں ہم کوتاہی برتتے ہیں تو پھر انفرادی نیکیوں کے باوجود ہم فتنے کا شکار ہونے اوراللہ کے عذاب کی مار سے نہیں بچ سکیں گے اور ہماری دعائیں بے اثر ہوجائیں گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے حالات سے بچائے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ امت اور اس کے برسرِاختیار طبقے بڑی غفلت اور بڑی نادانی سے ان خطرات کی طرف بڑھ رہے ہیں جن سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے متنبہ کیا تھا۔ ان حالات میں امت کو تباہی سے بچانے کا راستہ عبادتوں کے ساتھ احقاق حق، ابطال باطل اور اقامت دین کی جدوجہد میں جان اورمال کی بازی لگا دینا ہے۔
اس خلفشار کا ایک پہلو نظام اقتدار کا سند جواز (Legitimacy)سے محروم ہونا اور مسلم ممالک میں بنیادی حقوق کی پامالی، آزادی کا فقدان اور نظام شوریٰ کا عدم وجود ہے۔ اسلام میں اقتدار کے لیے سند جواز دو ہی چیزوں سے حاصل ہوتا ہے، یعنی: شریعت کی بالادستی اور ارباب اقتدار کا امت کا امین اور معتمد علیہ ہونا، جو شوریٰ کے ذریعے وجود میں آئے اور نظام زندگی کواللہ کی ہدایت کی روشنی میں چلائے۔ آج مسلم دنیا میں سیاسی آزادی کے حصول کے بعد بھی بیش تر ممالک میں جواز کی یہ دونوں بنیادیں ناپید ہیں۔ پھر اجتماعی زندگی اسلام کی برکتوں اور نعمتوں سے کیسے شادکام ہو اور دشمن کے مقابلے کے لیے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کیسے بنے؟ ؎
آج بھی ہو جو براہیمؑ کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے انداز گُلستاں پیدا
عبادت کے اسلامی تصور کی تفہیم اور انسانی زندگی میں اس کے گہرے اور ہمہ گیر انقلابی کردار کو سمجھنے کے لیے حج کی حقیقت اور اس کے پیغام پر تدبر کی نگاہ ڈالنا ضروری ہے۔ ویسے تو جتنی بار بھی انسان کو حج بیت اللہ اور عمرہ کی سعادت حاصل ہو، وہ اس کی خوش نصیبی ہے۔ لیکن صرف ایک بار ہرصاحب استطاعت پر اسے فرض کرنے میں غوروفکر کا یہ پہلو بھی پایا جاتا ہے کہ زندگی میں ایک بار بھی ایمان اور احتساب کے ساتھ اس تجربے سے گزرنے سے عبودیت کے سارے ہی پہلوئوں سے انسان ہم آغوش ہو سکتا ہے اور اس سے اس کی زندگی میں وہ تبدیلیاں رُونما ہوسکتی ہیں جو اسے پوری زندگی راہِ حق پر قائم رکھ سکیں۔
حج ایک جامع ہے: عبادت کے جملہ مراسم و آداب کا، اور اسلام کی عالم گیر اور ازلی دعوت کے نمایاں ترین تاریخی پہلوئوں کا۔ یہی وجہ ہے کہ زندگی کے دھارے کو عبدیت کی راہ پر رواں دواں کرنے کے لیے یہ تجربہ اگر اپنے پورے آداب کے ساتھ ایک بار بھی ہو جائے، تو یہ اتنا قوی اور جان دار ہے کہ پھر عیدالاضحی کی تجدید کے ساتھ ساری زندگی اس رخ پر بسر ہو سکتی ہے۔
حج کے لغوی معنی ’زیارت کا ارادہ‘ کرنے کے ہیں۔ حج کو ’حج‘ اس لیے کہا گیا ہے کہ اس میں انسان ان متعین دنوں میں (۸تا۱۳ذوالحجہ) جو اس کے لیے مقرر کیے گئے ہیں (عمرہ یا زیارت کسی وقت بھی ہو سکتی ہے) کعبۃ اللہ کی زیارت کا ارادہ کرتا ہے اور مناسک حج ادا کرتا ہے۔ حج ہربالغ اور صاحب ِاستطاعت مسلمان پر زندگی میں ایک بارفرض کیا گیا ہے اور جو شخص حج کی طاقت (جسمانی اور مالی) رکھنے کے باوجود حج نہیں کرتا، وہ ایک عظیم ترین سعادت ہی سے محروم نہیں رہتا، بلکہ اپنے مسلمان ہونے کو بھی عملاً جھٹلاتا ہے:وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا ط وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَo(اٰل عمرٰن۳:۹۷)‘ ’’لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو، وہ اس کا حج کرے، اورجو کوئی اس حکم کی پیروی سے انکار کرے، تو اسے معلوم ہو جانا چاہیے کہ اللہ تمام دنیا والوں سے بے نیاز ہے‘‘۔ اس آیت کریمہ میں قدرت رکھنے کے باوجود قصداً حج نہ کرنے کو کفر کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
آں حضوؐر نے بھی یہی بات صراحت سے فرمائی ہے:’’جو شخص زاد راہ اور سواری رکھتا ہو جس سے بیت اللہ تک پہنچ سکتا ہو اور پھر حج نہ کرے، تو اس کا اس حالت پر مرنا اور یہودی یا نصرانی ہو کر مرنا یکساں ہے‘‘۔ (متفق علیہ)
وہ مسلمان عورت یا مرد جو تمام احکام اور آداب کے ساتھ حج کا فریضہ انجام دیتا ہے، اس کے بارے میں شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ’’حج اور عمرہ گناہوں کو اس طرح صاف کر دیتے ہیں، جس طرح بھٹی لوہے، سونے اور چاندی کے میل اور کھوٹ کو صاف کر دیتی ہے، اورجو مومن اس دن (یعنی عرفہ کا دن) احرام کی حالت میں گزارتا ہے، اس کا سورج جب ڈوبتا ہے تو اس کے گناہوں کو لے کر ڈوبتا ہے‘‘۔ (نسائی و ترمذی)
سرور کائناتؐ نے فرمایا: ’’جس نے صرف اللہ کے لیے حج کیا، اور اس میں ہوس رانی اور گناہ نہ کیا، تو وہ ایسا ہو کر لوٹا، جیسے اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اس کو جنا۔‘‘
غور کرنے کی بات ہے کہ حج کی وہ کیا اہمیت اور خصوصیت ہے، کہ جس کی بنا پر ایک طرف قصداً اس کے کرنے کے انکار کو کفر کے مترادف قرار دیا گیا ہے اور دوسری طرف ایمان اور احتساب کے ساتھ اس کی ادایگی کو پچھلے گناہوں سے پاکی کاضامن قرار دیا گیا ہے اور اس کے بعد بالکل ایک نئی پاک و صاف زندگی کا باب کھول دیا گیا ہے؟
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ حج کا کعبہ سے تعلق ہے، جو زمین پر اللہ کا گھر، امت مسلمہ اورانسانیت کا مرکزومحور اور رب کعبہ سے خصوصی نسبت رکھتا ہے۔ حج کی اصل بیت اللہ کی زیارت اور اسوۂ ابراہیمی کا تجربہ اور تجدید ہے۔ اس پورے عمل میں ایک طرف دعوت اسلامی کے سارے تاریخی مراحل سے انسان کو گزار دیا جاتا ہے، تو دوسری طرف تمام منصوص عبادات کی روح اور ان کے خلاصے کو بھی اس میں سمو دیا گیاہے۔ اس طرح یہ مراسم عبادات کا جامع اور ایک جلوے میں ہزار جلوں کی تجلی گاہ بن جاتا ہے۔
کعبہ، اللہ تعالیٰ کا پہلا گھر اور بندوں کی پہلی عبادت گاہ ہے، جو توحید کی علامت اور رب کے حضور بندگی کے لیے پہلی سجدہ گاہ ہے۔ زمین پر انسان کے سفر عبودیت اور شمال و جنوب سب اطراف کے رہنے والے اسی کی طرف رخ کرکے اپنے مالک کو پکارتے اور اس کے آگے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جس نے اسے بندگی کا محور اور ملت اسلامیہ کا مرکز بنا دیاہے۔ اس گھر کی زیارت حج کا مقصودو مطلوب ہے تاکہ بیت اللہ کی زیارت سے رب بیت اللہ سے رشتہ استوار کیا جائے اور حقیقت یہ ہے کہ خدا کی زمین پر اس سادہ تعمیر سے زیادہ حسین، دیدہ زیب اور ایمان افروز مقام کوئی دوسرا نہیں۔
دوسرا قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ کعبہ بیت اللہ ہی نہیں ہے، اس کے ساتھ اللہ کے برگزیدہ نبی ابوالانبیا حضرت ابراہیمؑ اور ان کے فرزند حضرت اسماعیلؑ کی دعوت حق، شانِ اطاعت و فدائیت اور یکسوئی اور قربانی کے مثالی نمونوں کی یادیں وابستہ ہیں۔ اللہ کے حکم سے انھی برگزیدہ انبیاؑ نے بیت اللہ کی موجودہ تعمیر مکمل کی تھی۔ اس پر بیت عتیق اور مکہ کے گردونواح کے چپے چپے پر اسوۂ ابراہیمی کے نقوش ثبت ہیں۔ دعوت اسلامی کی تاریخ میں حضرت ابراہیمؑ کی زندگی اور عالمی مساعی ایک فیصلہ کن موڑ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ آپ نے ایمان و یقین، اطاعت و سپردگی، عبودیت و فدویت، ایثار وقربانی اور جہد مسلسل کا وہ نمونہ پیش کیا، جو ہمیشہ کے لیے روشنی کا مینار ہے۔
اللہ سے آپ کی محبت اور اللہ کا آپ کو اپنا ’خلیل‘[دوست] کہنا وہ شرف ہے، جس نے آپ کو پوری انسانیت کا محبوب بنا دیا۔ یہی وجہ ہے کہ جس انسان کامل پر نبوت کے سلسلۃ الذہب کا خاتمہ اور تکمیل ہوئی وہ اور آپ شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور حضوؐر پر درود وسلام کے ساتھ اگر کسی نبی کی طرف مسلسل درود وسلام کی سوغات بھیجی جاتی ہے، وہ حضرت ابراہیمؑ ہیں:
اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی ٰالِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی ٰالِ اِبْرَاہِیْمَ
حضرت ابراہیمؑ کو یہ مقام ان کے مثالی کردار کی وجہ سے حاصل ہوا۔ ان کو آزمایشوں کی کسوٹی پر بار بار پرکھا گیا، اور وہ ہر بار آزمایش کی کٹھالی سے کامیاب و کامران نکلے۔ انھوں نے عین عالم جوانی میں اپنے رب کے حکم کی تعمیل میں اپنی قوم کے بت کدے میں اذان دی اور ان بتوں کو پاش پاش کر دیا، جن کو انھوں نے معبود بنا رکھا تھا۔
جب حضرت ابراہیمؑ کو دین آبا کی توہین کی پاداش میں آگ میں ڈالا گیا تو ’’بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق‘‘۔ فرعون نے جب اپنے جبرواقتدار کا سہارا لے کر اپنی الوہیت کا دعویٰ کیا، تو انھوں نے برہان قاطع سے اس کو لاجواب کر دیا اور اپنی جان کی کوئی پرواتک نہ کی۔ جب انھیں دعوت حق پھیلانے کے لیے اپنے خاندان، قوم اور وطن سب کچھ چھوڑنے اور اللہ کے لیے ہجرت کرنے کا حکم ہوا تو سب کچھ چھوڑ کر کمربستہ ہو گئے اور چار دانگ عالم میں اللہ کے کلمے کو پہنچانے کے لیے مصروف دعوت و جہاد ہو گئے۔ اور پھر جب ان کو اپنے محبوب لخت جگر کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کا حکم ملا، تو بلاتوقف اس کی جان کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔ حکم الٰہی کی تعمیل، دعوت حق کی تشریح و توضیح اور آقا کی مرضی اور محبوب کے اشارۂ چشم و ابرو پر سب کچھ قربان کردینے کی یہی وہ ادا ہے، جس نے جاں بازی، جاں نثاری اور جاں سپاری کی وہ روشن مثال قائم کی، جو اسوۂ ابراہیمی ؑ کی اصل اور انسانیت کے لیے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نمونہ اورمعیار بنا دی گئی۔
حج اسی تاریخ دعوت وعزیمت کی یاد دہانی اور اس تاریخ کو از سر نورقم کرنے کی دعوت اور اس کے لیے تیاری کی مشق ہے۔ حج کا مقصد اللہ کے حکم کے مطابق حضرت ابراہیمؑ کے حقیقی حج کے ساتھ تشبہ اختیار کرکے ان کے نمونۂ ایمان و للہیت، جذبۂ عبدیت اور کمال فدویت و فدائیت کو یاد کرنا اور ان کی روشن مثال سے خود اپنے اندر ایمان، اطاعت اور ایثار و قربانی کے جذبے کی آبیاری کرنا ہے۔ مالک کی پکار پر لبیک کہنا اور ساری زندگی کو پوری آمادگی شوق اور وارفتگی سے اس کی رضا طلبی کے لیے وقف کر دینا ہے:
لَبَّیْکَ اَللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ، لَبَّیْکَ لَاشَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ، اِنَّ الْحَمْدَ وَالْنِعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ لَاشَرِیْکَ لَکَ ،اے اللہ! میں حاضر ہوں، میرے اللہ، میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، اس میں کوئی شک نہیں کہ حمد تیری ہی ہے، نعمتیں تیری ہی دین ہیں اور بادشاہی اور اقتدار صرف تیرا ہی ہے، اور ان سب میں تیرا کوئی شریک نہیں۔
یہ صرف ایام حج کا تلبیہ اور ترانہ ہی نہیں ہے،بلکہ اللہ کے بندوں کے لیے پوری زندگی کا وظیفہ ہے۔ یہ مالک کے حضور مکمل سپردگی کاعہد ہے۔ اپنے اللہ کے سامنے خود جس کی مثال اورنمونہ حضرت ابراہیمؑ، حضرت اسماعیلؑ اور حضور اکرمؐ نے انسانیت کے سامنے رکھا۔ حج کا اصل سبق اور پیغام اپنے اللہ کے سامنے یہی خود سپردگی ہے۔ ستم ہے کہ ہم زبان سے یہ تلبیہ ادا کرتے ہیں لیکن اللہ کی وحدانیت کی گواہی کے ساتھ اس میں جن تین صفاتِ الٰہی پر توجہ کو مرکوز کیا ہے ان پر غور نہیں کرتے، یعنی حمد کا مستحق صرف اللہ ہے، ہرنعمت اللہ کی طرف سے ہے، اور اقتدار اور بادشاہی اللہ اور صرف اللہ کی ہے۔ لہُ الملک کا اس تلبیہ کا آخری اعلان ہونا اپنے اندر جو معنویت رکھتا ہے افسوس آج وہ آنکھوں سے اوجھل رہتی ہے۔
حج کے مناسک پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ گھر بار اور کاروبار کو چھوڑنے، سفر کی صعوبتیں انگیز کرنے اور روایتی لباس ترک کرکے احرام کے فقیرانہ لباس زیب تن کرنے سے لے کر طواف، سعی، وقوف عرفات، مزدلفہ کی شب باشی، منیٰ کا قیام، قربانی، رمی جمار اور حلق (سر کے بال منڈوانا) تک ہر چیز سے بندگی کی تصویر ابھرتی ہے۔ ان میں سے ہر عمل کی اسوۂ ابراہیمی کے کسی نہ کسی پہلو سے نسبت ہے۔ للہیت، سپردگی، اطاعت اور فداکاری کی شان ہر ہر عمل سے نمایاں ہے اور یہی حج کی اصل رمز ہے اور اس پورے تجربے میں تعلیم و تربیت کا بڑا مؤثر سامان ہے، تاکہ بندہ یہاں سے یہ سبق لے جائے کہ حضرت ابراہیمؑ، حضرت اسماعیلؑ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ ہی ہمارا راستہ، ان کا نمونہ ہی ہمارے لیے نمونہ، اور اس راستے پر چلنا اور اس نمونے کا اتباع ہی ہماری زندگی کا مقصود ہوگا اور اس راہ میں ہمارے قدم کبھی سُست نہیں پڑیں گے۔
حج پر غور وفکر کا تیسرا پہلو اس کی جامعیت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حج تمام ہی مراسم عبادت کا جامع ہے۔ نماز کا آغاز اگر نیت کی درستی، قبلے کے استقبال اور بدن کی طہارت سے ہوتا ہے اور اس کی روح ذکر الٰہی ہے، تو حج پہلے ہی مرحلے سے ان سب کو اپنے اندر لیے ہوئے ہے۔ بیت اللہ کی طرف رخ ہی نہیں اس کا قصد اور اس کی طرف سفر،اور پھر اس کا طواف اور اس کی طرف سجدے ہی سجدے، احرام اور جسم اور روح کی طہارت اور حج کی نیت سے لے کر طواف وداع تک ذکر ہی ذکر۔ نماز اگر فحش اور منکرات سے روکنے کا ہتھیار ہے، تو احرام بھی فحش اورمنکرات کے باب میں ایک حصار ہے۔
حج کے پورے عمل کو خواہش نفس سے پاک کرنا اور گناہوں سے بچانا، آداب حج کا حصہ ہے۔ زکوٰۃ مالی عبادت ہے، جو ایک طرف حب دنیا اور حبِ دولت سے انسان کو بچاتی ہے تو دوسری طرف معاشرے سے بھوک اور غربت کو مٹانے اور معاشی عدم مساوات کو کم کرنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ حج میں بھی انسان کو کثیر مالی قربانی کرنا پڑتی ہے۔ صرف زاد راہ اور قربانی ہی کے لیے نہیں بلکہ ایک عرصے کے لیے ترکِ معاش اور اہل خاندان کے لیے معاش کے انتظام کی شکل میں۔
احرام پوری امت کے لیے مساوات کا اعلیٰ ترین نمونہ پیش کرتا ہے اور امیرغریب، بادشاہ فقیر، سب ایک ہی لباس میں آجاتے ہیں۔ روزے کا مقصد بھی تقویٰ پیدا کرنا، ضبط نفس کی تربیت دینا، جسمانی مشقت انگیز کرنے کے لیے تیار کرنا، تعلقات زن و شو سے احتراز (صرف دن ہی میں نہیں، حج کی راتوں میں بھی)، بے آرامی اور ذکر کی کثرت کی فضا بنانا ہے۔ حج میں یہ سب اپنے اپنے انداز میں موجود ہیں۔
روزے کو قرآن سے خصوصی نسبت ہے۔ حج میںبھی قرآن کی تلاوت اور مقاماتِ نزول قرآن کی زیارت، روزے کے ان پہلوئوں کا لطف پیدا کر دیتے ہیں۔ نماز کی باجماعت ادایگی، زکوٰۃ کی بیت المال کے نظام کے ذریعے منظم تقسیم اور روزے کو ایک ہی مبارک مہینے میں تمام اُمت کے لیے فرض کرنے میں اجتماعیت کی جو شان ہے، حج اس کی معراج ہے۔ غرض اس ایک عبادت میں، جو بالعموم کئی مہینوں پر پھیلی ہوئی ہے اور سفر کی جدید سہولتوں کے باوجود کئی ہفتوں کا اعتکاف اور انہماک تو لازماً چاہتی ہے۔ عبادت کے تمام ہی مراسم اور ان کے اہداف کسی نہ کسی شکل میں جمع کردیے گئے ہیں، جو اپنی نوعیت کا ایک منفرد اوریادگار تجربہ ہے۔
حج کا ایک اور منفرد پہلو امت کی وحدت اور انسانیت کے ایک خاندان اور برادری ہونے کو نمایاں کرنا ہے۔ رنگ، نسل، وطن، زبان، مرزبوم، سماجی تنوع، معاشی تفاوت، غرض ہر فرق ختم ہو جاتا ہے۔ ایک اللہ کے ماننے والے بیت اللہ کی زیارت اور طواف کے لیے دنیا کے گوشتے گوشے سے ایک مرکز پر جمع ہوتے ہیں اور ایک خاندان کی طرح ایک امام کی قیادت میں ایک ہی تلبیہ کا ورد کرتے ہوئے دن رات ساتھ گزارتے ہیں۔
تہذیب وتمدن کے سارے خول اتر جاتے ہیں اور صرف للہیت اور انسانیت کا نمونہ پیش کرتے ہیں اور ان سب کا آخری ہدف اللہ کی رضا کا حصول، زمین پر اس کی مرضی پوری کرنے کا عزم، استخلاف فی الارض کے مشن کی تنفیذ کے جذبے کو تازہ کرنا اور دین کی دعوت اور نصرت کی جدوجہد میں زندگی وقف کرنے کا داعیہ اجاگر کرنا بن جاتا ہے۔ یہ وہ انقلابی مقصد ہے، جس کے لیے اس امت کو برپا کیا گیا اور اس کی تذکیر حج کا اصل وظیفہ ہے۔
’’خانہ کعبہ اس دنیا میں عرش الٰہی کا سایہ اور اس کی رحمتوں اور برکتوں کا نقطۂ قدم ہے… یہ وہ منبع ہے، جہاں سے حق پرستی کا چشمہ ابلا، اور اس نے تمام دنیا کو سیراب کیا۔ یہ روحانی علم و معرفت کا وہ مطلع ہے، جس کی کرنوں نے زمین کے ذرے ذرے کو درخشاں کیا۔ یہ وہ جغرافیائی شیرازہ ہے، جس میں ملت کے وہ تمام افراد بندھے ہوئے ہیں، جو مختلف ملکوں اور اقلیتوں میں بستے ہیں، مختلف زبانیں بولتے ہیں، مختلف لباس پہنتے ہیں، مختلف تمدنوں میں زندگی بسر کرتے ہیں، مگر وہ سب کے سب، باوجود ان فطری اختلافات اور طبعی امتیازات کے، ایک ہی خانہ کعبہ کے گرد چکر لگاتے ہیں، اور ایک ہی قبلے کو اپنا مرکز سمجھتے ہیں اور ایک ہی مقام کو اُم القریٰ مان کر وطنیت، قومیت، تمدن ومعاشرت، رنگ روپ اور دوسرے تمام امتیازات کو مٹا کر، ایک ہی وطن، ایک ہی قومیت (آلِ ابراہیمؑ) ایک ہی تمدن و معاشرت (ملت ابراہیمی) اور ایک ہی زبان (عربی) میں متحد ہو جاتے ہیں۔
’’لوگ آج یہ خواب دیکھتے ہیں کہ قومیت وو طنیت کی تنگ نائیوں سے نکل کر وہ انسانی برادری کے وسعت آباد میں داخل ہوں، مگر ملت ابراہیمی کی ابتدائی دعوت اور ملت محمدیؐ کی تجدیدی پکارنے سیکڑوں ہزاروں برس پہلے اس خواب کو دیکھا اور دنیا کے سامنے اس کی تعبیر پیش کی۔ لوگ آج تمام دنیا کے لیے ایک واحد زبان کے ایجادوکوشش میں مصروف ہیں، مگر خانہ کعبہ کی مرکزیت کے فیصلے نے آلِ ابراہیمؑ کے لیے مدت دراز سے اس مشکل کو حل کر دیا ہے۔ لوگ آج دنیا کی قوموں میں اتحاد پیدا کرنے کے لیے ایک ورلڈ کانفرنس یا عالم گیر مجلس کے انعقاد کے درپے ہیں، لیکن جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے، ساڑھے [چودہ صدیوں] سے یہ مجلس دنیا میں قائم ہے اور اسلام کے علم، تمدن، مذہب اور اخلاق کی وحدت کی علم بردار ہے۔
’’مسلمان ڈیڑھ سو برس تک جب تک ایک نظم حکومت یا خلافت کے ماتحت رہے، یہ حج کا موسم ان کے سیاسی اور تنظیمی ادارے کا سب سے بڑا عنصر رہا۔ یہ وہ زمانہ ہوتا تھا، جس میں اُمور خلافت کے تمام اہم معاملات طے پاتے تھے۔ اسپین سے لے کر سندھ تک مختلف ملکوںکے حکام اور والی جمع ہوتے تھے، اور خلیفہ کے سامنے مسائل پر بحث کرتے تھے اور طریق عمل طے کرتے تھے، اور مختلف ملکوں کی رعایا آکر اگر اپنے والیوں اور حاکموں سے کچھ شکایتیں ہوتی تھیں، تو ان کو خلیفہ کی عدالت میں پیش کرتی تھیں، اور انصاف پاتی تھیں۔
’’اسلام کے احکام اور مسائل جودم کے دم میں اور سال ہا سال دُور دراز اقلیموں، ملکوں اور شہروں میں اس وقت پھیل سکے، جب سفر اور آمدورفت کا مسئلہ آسان نہ تھا۔ اس کا اصل راز یہ سالانہ حج کا اجتماع ہے اور خود رسولؐ اللہ نے اپنا آخری حج جو حجۃ الوداع کہلاتا ہے، اسی اصول پر کیا۔ وہ انسان جو تیرہ برس تک مکہ میں یکہ و تنہا رہا، ۲۳برس کے بعد وہ موقع آیا جب اس نے تقریباً ایک لاکھ کے مجمع کو بیک وقت خطاب کیا اور سب نے سَمْعاً وَ طَاعَۃً کہا۔ آپؐ کے بعد خلفاے راشدینؓ اور دوسرے خلفا کے زمانے میں صحابہ کرامؓ اور ائمہ اعلام نے اسی طرح سال بہ سال جمع ہو کر احکام اسلام کی تلقین و تبلیغ کی خدمت ادا کی، اس کا نتیجہ تھا کہ نت نئے واقعات اور مسائل کے متعلق، دنیا کے مختلف گوشوں میں اسلام کے جوابی احکام اور فتوے پہنچتے رہے اور پہنچتے رہتے ہیں‘‘۔(سیدسلیمان ندوی، سیرت النبیؐ، پنجم، ص۲۱۹،۳۲۱)
ہم نے مولانا سید سلیمان ندویؒ کی تحریر سے یہ طویل اقتباس اس لیے دیا ہے کہ حج کے اس منفرد پہلو کو ایک روایتی عالم دین کے الفاظ میں اجاگر کریں۔ ورنہ محدود مذہبی ذہن رکھنے والے تو اس پر ’دین کی سیاسی تعبیر‘یا ’سیاسی اسلام‘ کی پھبتی کستے نہیں تھکتے۔ حالانکہ یہ اسلام کا ایک ایسا اعجاز اور تاریخی کارنامہ ہے، جس پر مخالف بھی ششدر رہ جاتے ہیں۔ کچھ ہی عرصہ پیش تر شائع ہونے والی اوکسفرڈ انسائی کلوپیڈیامیں مقالہ نگار رابرٹ بیانشی (Robert Bianchi) کے یہ جملے قابلِ غور ہیں(انگریزی سے ترجمہ):
دنیا کی تمام زیارتوں میں حج منفرد بھی ہے اور اہم ترین بھی۔ عیسائیت اور ہندومت کے قدیم اور اعلیٰ ترقی یافتہ بین الاقوامی زیارت کے نظاموں سے مقابلہ کیا جائے تو عقیدے کی مرکزیت، جغرافیائی ارتکاز اور تاریخی تسلسل کے لحاظ سے نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔(اوکسفرڈ انسائی کلوپیڈیا آف ماڈرن اسلامک ورلڈ ( اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس، ۱۹۹۵ئ، جلد۲،ص۱۸۸)، ’حج‘)
اس پہلو سے اگر غور کیا جائے تو جس طرح حفظِ قرآن، کتابت وتعلیم قرآن اور رمضان المبارک میں قرآن سے تجدید تعلق نے اللہ کی کتاب کو محفوظ رکھا ہے، اسی طرح حج نے اسلام کی اصل روح…للہیت، عبدیت اور امت کی وحدت اور اخوت کو اس طرح ایک تاریخی نظام میں پرو دیا ہے۔ ایک ادارے کے طور پر یہ روایت اپنے مرکز سے پوری دنیا میں اور ایک نسل سے دوسری نسل اورایک دور سے دوسرے دور کی طرف برابر منتقل ہو رہی ہے اور ان شاء اللہ تاابد ہوتی رہے گی۔
پس اگر میں یہ کہوں تو بے جانہ ہوگا کہ جس طرح رمضان کا مہینہ تمام اسلامی دنیا میں تقویٰ کا موسم ہے، اسی طرح حج کا زمانہ تمام روے زمین میں اسلام کی زندگی اور بیداری کا زمانہ ہے۔ اس طریقے سے شریعت بنانے والے حکیم ودانا نے ایسا بے نظیر انتظام کر دیا ہے کہ ان شاء اللہ قیامت تک اسلام کی عالم گیر تحریک مٹ نہیں سکتی۔ دنیا کے حالات خواہ کتنے ہی بگڑ جائیں اور زمانہ کتنا ہی خراب ہو جائے، مگر یہ کعبے کامرکز اسلامی دنیا کے جسم میں کچھ اس طرح رکھ دیا گیا ہے، جیسے انسان کے جسم میں دل ہوتا ہے۔ جب تک دل حرکت کرتا رہے، آدمی مر نہیں سکتا، چاہے بیماریوں کی وجہ سے وہ ہلنے تک کی طاقت نہ رکھتا ہو۔ بالکل اسی طرح اسلامی دنیا کا یہ دل بھی ہر سال اس کی دُور دراز رگوں سے خون کھینچتا رہتا ہے اور پھر اس کو رگ رگ تک پھیلادیتا ہے۔ جب تک اس دل کی یہ حرکت جاری ہے اور جب تک خون کے کھینچنے اور پھیلنے کا سلسلہ چل رہا ہے، اس وقت تک یہ بالکل محال ہے کہ اس جسم کی زندگی ختم ہو جائے، خواہ بیماریوں سے یہ کتنا ہی زار ونزار ہو۔(خطبات،چہارم،ص۲۴۵-۲۴۶)
حج کی یہ برکتیں اورمنافع ہیں کہ ساری خرابیوں کے باوجود اس امت میں زندگی اور حرارت ہے۔ اگر شر کی قوتیں ہر طرف سے حملہ آور ہیں تو حق کی قوتیں بھی مدافعت، مزاحمت اور پیش رفت میں سرگرمِ عمل ہیں، اور یہ سب اس کے باوجود ہے کہ حج اور تمام ہی عبادات، مختلف وجوہ سے اپنے اثرات بکمال و تمام پیدا نہیں کر پا رہیں اور اسلام نے تجدید واصلاح کا جو نظام بنایا ہے وہ بڑی حد تک مفلوج ہے۔
بلاشبہہ امت میں نیک نفوس بھی موجود ہیں اور چند متحرک گروہ بھی، جو دین کو اس کی اصل اسپرٹ میں قائم کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں، لیکن بحیثیت مجموعی امت غفلت اور دین کے بارے میں بے توجہی کا شکار ہے۔ خصوصیت سے بااثر طبقات، جدید تعلیم یافتہ لوگ اوربرسرِاقتدار عناصر اپنی ذمہ داریوں سے غافل، نفس پرستی اور دنیا داری میں مگن اور قیامِ دین اور احیاے شریعت سے کنارہ کش ہیں۔
عبادتیں بڑی حد تک اپنی اصل روح سے عاری اور محض رسم اور عادت بن گئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن و سنت اور شریعت کی موجودگی، نماز روزہ، زکوٰۃ اور حج کی پاس داری، مسجدوں اور مدرسوں کے قیام و انصرام اور دعوتی اور تبلیغی اجتماعات کی ریل پیل کے باوجود نمازیں اثر سے خالی ہیں، روزے تقویٰ کی فصل بہار پیدا نہیں کر پا رہے، زکوٰۃ معاشی اور سماجی انصاف کے قیام پر منتج نہیں ہو رہی، اور حج میں لاکھوں کے اجتماع کے باوجود ملت کے جسم میں تازہ خون نہیں آ رہا اور بدن فساد خون کا شکار ہے۔
تمام خرابیوں اور کمزوریوں کے باوجود جو مثبت اثرات حج اور دوسری عبادات کے رونما ہورہے ہیں، ان کے اعتراف اور ان پر اللہ تعالیٰ کے شکر کے ساتھ ہم امت کے تمام ہی ارکان کو، اور خصوصیت سے اس کے سوچنے سمجھنے والے عناصر اور دینی اجتماعی قیادت کو ان اسباب کی طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں، جن کی وجہ سے پوری عبادتیں پوری طرح اپنے ثمرات پیدا نہیں کر پا رہیں۔
سب سے پہلی چیز عبادات کی ظاہری ادایگی اور ان کی اصل روح اور دین کی تعلیمات اور اصلاح کی مجموعی اسکیم میں ان کا رول اور کردار ہے۔ مذہب اور ثقافت کی تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک انقلابی تصور اس وقت تک انقلابی رہتا ہے، جب تک اس کی اصل روح بیدار رہتی ہے اور وہ محض ایک رسم اور بے جان جسم نہیں بن جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن و سنت نے نیت کی اصلاح اور ہر عبادت کے ایمان اور احتساب کے ساتھ انجام دینے کو بڑی اہمیت دی ہے۔
آج مسلمانوں کا بڑا بنیادی مسئلہ دین سے ناواقفیت، عمومی جہالت اور تعلیم کی پستی ہے، حالانکہ اسلام تو آیا ہی ایک تعلیمی انقلاب برپا کرنے کے لیے تھا اور حصول علم کو ہر مسلمان مرد اورعورت کے لیے واجب قرار دیا گیا تھا۔ عبادات اور خصوصیت سے حج کے غیر مؤثر ہونے میں بڑا دخل ان عبادات کو بلا سمجھے ادا کرنے کا مرض ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ قرآن کی تعلیم، دین و شریعت سے واقفیت اور نظام زندگی میں ان کے کردار کا پورا پورا فہم و ادراک پیدا کیا جائے۔ محض حفظ کرکے چند سورتوں کو نہ دہرا لیا جائے،بلکہ ہر عبادت کو پوری طرح سمجھ کر، الفاظ کے معنی کا پورا پورا ادراک کرکے اور ہر عبادت کو اس کے مقصد اور منشا کے مکمل شعور کے ساتھ اس کو ادا کیا جائے۔ علم کا یہ حصول ہر فرد کی ذمہ داری بھی ہے اور معاشرے کے تمام بااثر افراد کی بھی(یہاں ہم حفظ کرنے کی فضیلت اور کلماتِ قرآنی کے دہرانے کی فضیلت اور اعزازکا درجہ کم تر نہیں کر رہے بلکہ اس کی تاثیر اور اثر پذیری میں اضافے کے لیے مفہوم اور معانی تک رسائی کی اہمیت واضح کر رہے ہیں)۔
حضوؐرنے فرمایا ہے کہ: کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلَّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتَہِ (بخاری، ۸۹۳)، تم میں سے ہر ایک چرواہے کے مانند ہے اور ہر ایک اپنے اپنے ریوڑ کے بارے میں جواب دہ ہے۔ جس کے معانی یہ ہیں کہ ماں، باپ، استاد، گھر کے بزرگ، محلے کے پنچ، معاشرے کے لیڈر، مملکت کے ذمہ دار سب کی ذمہ داری ہے کہ جہالت کی اس وبا سے قوم کو نجات دلائیں۔ تعلیمی انقلاب، اصلاحِ احوال کی طرف پہلا قدم ہے۔
اس تعلیمی انقلاب کے تین پہلو ہیں:
عبادات سکڑ کر اگر صرف رسوم و رواج بن جائیں اور جنھیں اللہ سے ملاقات کا ذریعہ اورمناجات کا وسیلہ ہونا چاہیے، وہ محض ایک بے روح اور بے جان عادت کی شکل اختیار کر لے، تو وہ زندگی میں کوئی تبدیلی کیسے لا سکتی ہے۔ آج ہماری نمازیں، ہمارے روزے اور ہمارے حج اس وجہ سے بے اثر ہو گئے ہیں کہ ہم نے ان کو بس ایک رسم، ایک عادت، ایک جسدِ بے روح بنادیا ہے اور سمجھ رہے ہیں کہ ہم عبادات کا حق ادا کر رہے ہیں۔
شیخ عثمان بن علی ہجویریؒ [م:۲۵ستمبر۱۰۷۲ئ]کشف المحجوب میں فرماتے ہیں کہ: ’’ایک صاحب حضرت جنید بغدادی[م:۹۱۰ئ] کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے پوچھا: کہاں سے آرہے ہو؟ جواب ملا: حج سے واپس آ رہا ہوں۔ پوچھا: حج کر چکے؟ عرض کیا: کر چکا۔ پوچھا: جس وقت گھر سے روانہ ہوئے اور عزیزوں سے جدا ہوئے تھے، اپنے تمام گناہوں سے بھی مفارقت کی نیت کرلی تھی؟ کہا: نہیں یہ تو نہیں کیا تھا۔ فرمایا: بس سفر پر روانہ ہی نہیں ہوئے! پھر فرمایا:کیا راہ میں جوں جوں تمھارا جسم منزلیں طے کر رہا تھا، تمھارا قلب بھی قربِ حق کی منازل طے کرنے میں مصروف تھا؟ جواب دیا: یہ تو نہیں ہوا… ارشاد ہوا: پھر تم نے سفرِ حج کی منزلیں طے ہی نہیں کیں۔ پھر یہ پوچھا کہ جس وقت احرام کے لیے اپنے جسم کو کپڑوں سے خالی کیا تھا، اس وقت اپنے نفس سے بھی صفات بشریہ کا لباس اتارا تھا؟ کہا: یہ تو نہیں کیا تھا۔ ارشاد ہوا: پھر تم نے احرام باندھا ہی نہیں۔ پھر پوچھا: جب عرفات کے وقوف اور مزدلفہ کے قیام میں اپنی مراد کو پہنچ چکے تو خواہشات نفسانی کے ترک کا بھی عہد کیا تھا؟ کہا: یہ تو نہیںکیا۔ ارشاد ہوا: پھر عرفات اور مزدلفہ میں تم حاضر ہی نہیں ہوئے۔ پھر پوچھا: قربانی کے وقت اپنے نفس کی گردن پر بھی چھری چلائی تھی؟ کہا: یہ تو نہیں کیا۔ ارشاد ہوا: تم نے قربانی نہیں کی۔ اسی طرح سارے سوال پوچھنے کے بعد شیخ نے آخر میں فرمایا کہ ’’تمھارا حج کرنا، نہ کرنا برابر رہا، اب پھر جائو اور صحیح طریقے پر حج کرو‘‘۔
دین کی تعلیم، عبادات کی تعلیم اور ان کی حقیقی روح کا شعور پیدا کرنا ہی تعلیم کی اصل ہے۔ ضروری ہے کہ امت کے تمام افراد کو تعلیم وتعلّم کے تمام قدیم اور جدید ذرائع استعمال کرکے دین کی بنیادی تعلیمات اور ان کی حقیقی روح اور مطلوبہ نتائج سے روشناس کیا جائے۔ تب ہی ہماری عبادات پوری طرح ثمر آور ہو سکتی ہیں۔ ورنہ خدشہ ہے کہ عبادات ہی نہیں ہر دینی عمل، ایمان، احتساب اور تقویٰ کے بغیر بے جان اور غیر مؤثر رہے گا، اور حج جیسی جامع بھی غیرمؤثر ہوکر رہ جاتی ہے۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ وَ الدَّمُ وَ لَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَ مَآ اُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ وَ الْمُنْخَنِقَۃُ وَ الْمَوْقُوْذَۃُ وَ الْمُتَرَدِّیَۃُ وَ النَّطِیْحَۃُ وَ مَآ اَکَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَکَّیْتُمْ وَ مَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ وَ اَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ ذٰلِکُمْ فِسْقٌ اَلْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِیْنِکُمْ فَلَا تَخْشَوْھُمْ وَ اخْشَوْنِ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَۃٍ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo(المائدہ ۵:۳) تم پر حرام کیا گیا ہے مُردار، خون، سور کا گوشت، وہ جانور جو خدا کے سوا کسی اور نام پر ذبح کیا گیا ہو، وہ جو گلا گھٹ کر ، یا چوٹ کھاکر، یا بلندی سے گر کر، یا ٹکرکھا کر مرا ہو، یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو___ سواے اس کے جسے تم نے زندہ پاکر ذبح کرلیا___اوروہ جو کسی آستانے پر ذبح کیا گیا ہو۔ نیز یہ بھی تمھارے لیے ناجائز ہے کہ پانسوں کے ذریعے سے اپنی قسمت معلوم کرو۔ یہ سب افعال فسق ہیں۔ آج کافروں کو تمھارے دین کی طرف سے پوری مایوسی ہوچکی ہے، لہٰذا تم ان سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو۔ آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے (لہٰذا حرام و حلال کی جو قیود تم پر عائد کردی گئی ہیں ان کی پابندی کرو)۔ البتہ جو شخص بھوک سے مجبور ہوکر ان میں سے کوئی چیز کھالے، بغیر اس کے گناہ کی طرف اس کا میلان ہو تو بے شک اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔
آج کے درس کے لیے میں نے ان آیات کو اس لیے منتخب کیا ہے کہ قریب کے زمانے میں ایک نیا فتنہ ہمارے ملک میں اُٹھا ہے۔ ہمارے دیے ہوئے ٹیکسوں سے خزانۂ سرکار میں جو رقم جمع ہوتی ہے اُس سے وہ ادارہ قائم کیا گیا ہے جس کی غرض یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ ملک کی مجالس قانون ساز کو اور ملک کی حکومتوں کو، اور حکومتوں سے مراد صوبائی اور مرکزی حکومتیں ہیں، دینی معاملات میں قانون سازی کے حوالے سے مشورہ دے گا کہ ان میں کوئی چیز خلافِ اسلام اور خلافِ قرآن و سنت تو نہیں ہے۔ اس کا نام مشاورتی کونسل رکھا گیا ہے، یعنی مسلمانوں کو اسلامی معاملات میں مشورہ دینے والی کونسل۔ اس کے ساتھ ایک اور ادارہ تحقیقاتِ اسلامی کے نام سے قائم کیا گیا ہے، یعنی اسلامی مسائل پر وہ تحقیقات کرکے اس کونسل اور حکومت کو یہ بتائے گا کہ شریعت اسلامی کے واقعی احکام کیا ہیں۔
اس تحقیقاتی ادارے میں جو نرالی تحقیقات ہورہی ہیں، وقتاً فوقتاً اس کے کچھ مسائل ہمارے سامنے بھی آتے رہتے ہیں۔ مثلاً اس کے اندر یہ تحقیقات کی گئی ہیں کہ قرآنِ مجید کی عبارت اور اس کے الفاظ اصل میں حجت نہیں ہیں، اور علمِ ہدایت نہیں ہیں، بلکہ قرآن کے مقاصد کو سمجھ کر ان کو عملی جامہ پہنانے کا حکم ہے نہ کہ بجاے خود قرآن کے الفاظ میں جو حکم دیا گیاہے اس کی پابندی کی جائے۔
اس میں حدیث کے متعلق بھی نرالی نرالی باتیں کہی جارہی ہیں۔ اس میں سنت کا بھی ایک عجیب مفہوم قرار دیا جا رہا ہے۔ اس میں زکوٰۃ سے متعلق ہمیں یہ خبر سنائی جاتی ہے کہ جب چاہے ایک مجلس قانون ساز اس کی نئی شرح مقرر کردے۔ اس کے نصاب میں تبدیلی کرے، اس کی شرح تبدیل کرے، اس کے اختیارات اسے حاصل ہیں۔ اس میں زکوٰۃ کا تصور یہ پیش کیا گیا ہے کہ جس طرح حکومت کے اور ٹیکس ہیں ویسا ہی یہ ایک ٹیکس ہے۔
اسی سلسلے میں نئی تحقیقات ہمارے سامنے آئی ہیں کہ ایک ایسا جانور جس کو خواہ مسلمان ذبح کرے یا غیرمسلم، اور اس کو خواہ باقاعدہ اس طریقے سے ذبح کیا جائے جو اسلام میں مقرر ہے، یا کسی مشین، یا کسی آلے سے دفعتاً اس کی گردن اُڑا دی جائے، اور اس کے اُوپر اللہ کا نام لیا جائے یا نہ لیا جائے، بہرحال وہ حلال ہے۔
مسئلہ محض گوشت کی حلت و حُرمت کا نہیں ہے۔ معاملہ اس سے بہت آگے جارہا ہے۔ رفتہ رفتہ مسلمانوں کو دینی معاملات میں بے حس بنانے کی ایک اسکیم ہے کہ آہستہ آہستہ ایک ایک چیزلائی جائے اور ایک ایک چیز کے متعلق جو مسلمانوں کے صدیوں کے عقائد اور تصورات اور مسلّمات ہیں، ان کو ایک مرتبہ ہلا ڈالا جائے۔ جب ان کو ہلا ڈالا جائے گا تو اس کے بعد حرام و حلال کی قیود ختم ہوجائیں گی۔ پھر حلال وہ ہوگا جسے ہم حلال کہیں اور حرام وہ ہوگا جسے ہم حرام کہیں۔
اس وجہ سے اس بات کی ضرورت ہے کہ اس سارے مسئلے کو خوب اچھی طرح سمجھ لیا جائے۔ اگرچہ میں اپنے مضامین میں بھی ان کی وضاحت کرتا رہا ہوں مگر بہت سی چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو ایک مضمون لکھتے وقت آدمی کے ذہن میں نہیں ہوتیں۔ اس وجہ سے ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ بار بار اس کی توضیح کی جائے تاکہ ایک ایک پہلو سامنے آجائے۔
یہ آیات جو میں نے آپ کے سامنے پڑھی ہیں ان میں ابتدائی بنیادی حکم صرف یہ ہے کہ مُردار، خون، لحم، خنزیر اور جو کچھ اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو وہ حرام ہے۔ اس چیز کو قرآنِ مجید میں اس سورہ کے نزول سے پہلے سورۂ انعام میں بھی ان چاروں چیزوں کو حرام کیا گیا ہے۔ سورئہ نحل میں بھی ان کی حُرمت بیان کی گئی ہے اور سورئہ بقرہ میں بھی ان کی حُرمت بیان کی گئی ہے لیکن یہاں سورئہ مائدہ میں اس حکم کی زیادہ واضح تفصیلات بیان کی گئی ہیں اور زیادہ کھول کر بیان کیا گیا ہے۔ اس وجہ سے میں نے اُن آیات کے بجاے اِن آیات کو لیا ہے کیونکہ ان میں زیادہ تفصیل دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اس سلسلۂ بیان میں جو آیات آگے آرہی ہیں ان میں اس پورے مسئلے کو جو چھیڑا گیا ہے اس کا پورا پورا اور مکمل بیان ہے۔فرمایا گیا:
حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ وَ الدَّمُ وَ لَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَ مَآ اُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ (المائدہ ۵:۳) حرام کیا گیا تمھارے اُوپر مُردار، خون اور سُور کا گوشت اور جو کچھ اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔
اس سلسلے میں اس بات کو بھی سمجھ لیجیے کہ قرآنِ مجید میں حرام کی کوئی مخصوص اصطلاح نہیں ہے۔ یہ اصطلاحیں بعد میں فقہا نے استنباط کر کے وضع کی ہیں۔ قرآنِ مجید کے متعلق یہ بات نہیں ہے کہ جس چیز کو وہ قطعی ممنوع ٹھیرائے اس کے لیے لازماً حرام کا لفظ استعمال کرے، اور اگر وہ حرام کا لفظ استعمال نہ کرے تو قطعی ممنوع ہونے کا حکم نہیں ہے۔ ایسی بات نہیں ہے۔
اس کی وضاحت میں نے اس لیے کر دی کہ آج کل کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ بتائو شراب کے لیے حرام کا لفظ قرآن میں کہاں ہے؟ حالانکہ ترکہ کے لیے بھی حرام کا لفظ قرآن میں نہیں آیا۔ جھوٹ کے لیے بھی حرام کا لفظ قرآن میں نہیں آیا، حتیٰ کہ عملِ قومِ لوطؑ کے لیے بھی حرام کا لفظ قرآن میں نہیں آیا، تو پھر اس کی حُرمت کا بھی انکار کرو۔ کہو کہ جس جس کے لیے حرام کا لفظ استعمال نہ ہوا ہو وہ سب حرام نہیں ہیں۔ حرام وہ ہے جس کے لیے لفظ حرام استعمال کیا گیا ہے۔ اس زمانے میں یہ نرالے انداز ہیں لوگوں کے اجتہاد کرنے کے!
اس جگہ یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے حُرمت و حلّت کے جو احکام کھانے پینے کی چیزوں کے بارے میں دیے ہیں ان کی بنیاد طبی نہیں ہے۔ اگر طبی بنیاد ہو تو اُس صورت میں جتنی چیزیں انسان کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں، ان سب کی حُرمت کے احکام قرآنِ مجید میں آتے یا حدیث میں آتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا قاعدہ یہ ہے کہ جن چیزوں کو جاننے کے ذرائع اس نے انسان کو عطا کردیے ہیں، جن چیزوں کا علم حاصل کرنے کی صلاحیت اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہے، ان کے بارے میں وہ براہِ راست ہدایت نہیں دیتا۔ ان کے بارے میں انسان کا کام ہے کہ خود تحقیقات کرے اور خود معلومات حاصل کرے۔ اللہ تعالیٰ اُن چیزوں کے متعلق ہدایت دیتا ہے جن کے جاننے کے ذرائع ہمارے پاس نہیں ہیں۔ انسان جن چیزوں کو نہیں جان سکتا ان کے بارے میں وہ ہدایت دیتا ہے۔ کیونکہ ان کے بارے میں اگر ہدایت نہ دی جائے تو انسان غلطی کربیٹھتا ہے۔ اگر حُرمت و حلّت کی بنیاد صحت کے لیے نقصان دن ہونا ہوتا تو میرے خیال میں ان چار چیزوں سے پہلے سنکھیا کا ذکر کیا جاتا کیونکہ وہ تو مہلک ہے۔ان چار چیزوں سے پہلے ان زہروں کی تفصیل بھی دی جاتی جو آدمی کو ہلاک کردینے والے ہیں۔
اس چیز پر آپ غور کریںگے تو آپ کی سمجھ میں خود یہ بات آجائے گی کہ ان چار چیزوں کی حُرمت کو واضح الفاظ میں قرآن میں چار چار مقامات پر بیان کرنا یہ معنی رکھتا ہے کہ یہ چیزیں ایسی ہیں جن کی حُرمت کا سبب آدمی کی سمجھ میں پوری طرح نہیں آسکتا۔ وہ ان کے بارے میں خود تحقیقات نہیں کرسکتا ہے۔ حُرمت کا اصل سبب وہ نقصانات ہیں جو آدمی کے اخلاق اور اس کی روح کو پہنچتے ہیں۔ وہ نقصانات نہیں ہیں جو آدمی کے جسم کو پہنچتے ہیں، اگرچہ یہ آدمی کے جسم کے لیے بھی نقصان دہ ہیں۔ لیکن حُرمت کی اصل بنیاد جسم کے لیے نقصان دہ ہونا نہیں ہے بلکہ حُرمت کی اصل بنیاد اخلاق کے لیے نقصان دہ ہونا ہے۔ آدمی کی روح کے لیے ان کا نقصان دہ ہونا ہے۔ ان کے اندر کچھ ایسے اسباب ہیں کہ ان سے وہ بُری صفات انسان کے اندر پیدا ہوتی ہیں جو انسان کے لیے موزوں نہیں ہیں۔ قرآنِ مجید کا یہ حکم آنے کے بعد اگرچہ ہم اس کی حکمت کو سمجھنے کی کوشش کریں، ہم ٹٹولیں تو کچھ چیزیں ہماری سمجھ میں آتی ہیں لیکن ہم قطعیت کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ حلت ِحُرمت وہی ہے۔
مثال کے طور پر میں عرض کرتا ہوں کہ مُردار ہے۔ مُردار کے متعلق یہ بات بالکل واضح معلوم ہوتی ہے کہ سلیم الطبع انسان، پاکیزہ انسان کی فطرت اس سے نفرت کرتی ہے، ایبا کرتی ہے، انکار کرتی ہے۔ اس کے استعمال کرنے کے لیے انسان کی طبیعت نفرت کرتی ہے۔
مثال کے طور پر خون ہے۔ خون کا استعمال کرنا لازماً انسان کے اندر خون خواری پیدا کرے گا۔ ایسی وحشی قومیں جو خون کو استعمال کرتی ہیں، جانور کو ذبح کرتی ہیں یا ہلاک کرتے ہی جس جگہ سے اس کا خون بہہ رہا ہو اس کو فوراً منہ لگا لیتی ہیں اور خون پی لیتی ہیں۔ یہ بہت طاقت بخشنے والی چیز ہے۔ کیونکہ انسان ہو یا جانور ، جو بھی ہو اس کے اندر جو قوت آتی ہے وہ خون ہی کے ذریعے سے آتی ہے۔ غذا کی تمام خصوصیات اور اس کی جو قوت بخش چیزیں ہیں وہ خون کے ذریعے سے آتی ہیں۔ اس لیے آدمی یہ سمجھے گا کہ خون بڑی مقوی چیز ہے۔ حالانکہ خون میں جو چیزیں قوت بخشنے والی ہیں اور اس کے اندر سے غذا دینے والی ہیں وہ ساری وہ ہیں جو آگے جاکر گوشت میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ خون کا مواد گوشت کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ خون کا جو حصہ گوشت میں تبدیل ہوجائے وہ اصل میں مقوی چیز ہے۔ وہ اصل میں انسان کی تقویت کا سبب ہے۔ بہت سے دوسرے اجزا جو خون میں شامل ہوتے ہیں، انھی میں سے گروہ ان کو چھان کر پیشاب کی صورت میں باہر نکال دیتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ خون میں کچھ ایسے اجزا تھے جب خون انسانی جسم کی ساخت تیار کرنے سے فارغ ہوگیا تو گردے نے انھیں چھانٹ کر پیشاب کی شکل میں باہر نکال دیا۔ نامعلوم اور کون کون سی چیزیں ایسی ہیں جو کسی اور شکل میں نکل آتی ہیں، مثلاً: انسانی پسینے میں سے میل نکلتا ہے۔ وہ بھی خون ہی کے اندر وہ اجزا ہوتے ہیں جنھیں پسینے کی صورت میں جسم سے نکالا جاتا ہے اور وہ میل باہر نکلتا ہے۔ کچھ چیزیں ایسی ہیں جو ہماری سمجھ میں آتی ہیں لیکن جو بنیادی وجہ ہے وہ انسان کی روح اور اس کے اخلاق پر بُرے اثرات ڈالنے والی ہے۔
مثال کے طور پر لحم خنزیر ہے۔ لحم خنزیر کے متعلق آج کل کی طبی تحقیقات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اندر بُرائیاں ہیں۔ اس کے اندر کچھ ایسے جراثیم ہوتے ہیں جو بیماریاں پیدا کرتے ہیں۔ لیکن جیساکہ ابھی مَیں نے عرض کیا کہ اگر بیماری پیدا کرنا ہی حُرمت کا اصل سبب ہوتا تو پہلے سنکھیا کی حُرمت بیان کی جاتی۔ ہمارے پاس یہ جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ سور کے گوشت کا انسان کے اخلاق اور روح پر کیا اثر پڑتا ہے۔ آج تک انسان کی علمی تحقیقات اس طرف مائل نہیں ہوئی ہیں کہ یہ معلوم کریں کہ غذائوں کے استعمال کا انسان کے اخلاق، اس کی روحانیات اور اس کی نفسیات پر کیا اثر پڑتا ہے۔ جسم پر اثرات پڑنے پر تو بہت سی تحقیقات ہوگئی ہیں لیکن اخلاق پر غذائوں کا کیا اثر پڑتا ہے، اس کی تحقیقات آج تک بالکل ابتدائی مراحل میں ہیں۔ انسان ان کے بارے میں نہیں جانتا۔
تاہم ایک بات ایسی ہے جو واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ سور ایک ایسا جانور ہے جو انتہائی بے حیا واقع ہوا ہے۔وہ انتہائی بے غیرت اور بے شرم واقع ہوا ہے۔ وہ ایک ایسا جانور ہے کہ اس کے سامنے اس کی مادہ کے پاس اگر کوئی دوسرا نر جائے تو اس کے اندر غیرت کے نام پر کوئی حرکت پیدا نہیں ہوتی کہ وہ اس سے لڑ جائے۔
یہی چیز سور کھانے والی قوموں میں پیدا ہوجاتی ہے۔ سور کھانے والی قومیں جہاں بھی پائی جاتی ہیں، ان کی تہذیب کے اندر یہ بے غیرتی شامل ہوگئی ہے۔ ہم جس چیز کو غیرت کہتے ہیں وہ اس کو حسد (jeliousy) کہتے ہیں۔ ہمارے نزدیک غیرت ایک بہترین جذبہ ہے۔ ہم اس کے لیے غیرت کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ وہ اس کے لیے حسد اور jeliousy کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ جو آدمی کے اندر ایک عیب ہے۔ ہماری تہذیب تو یہ ہے کہ آدمی کی بیوی اس کے پاس بیٹھے اور دوسرے آدمی کی بیوی اس کے پاس بیٹھے۔ ان کی تہذیب یہ ہے کہ جب مل کر بیٹھیں گے تو ایک کی بیوی دوسرے کے پاس بیٹھے گی اور دوسرے کی بیوی پہلے کے پاس بیٹھے گی۔ اگر آدمی ایسا نہیں کرتا تو ان کی نظر میں وہ حاسد اور jelious واقع ہوا ہے۔ وہ کیو ں نہیں اپنی بیوی کے پاس دوسرے آدمی کو بیٹھنے دیتا؟ ان کے اندر اس بات کی کوئی شرم نہیں ہے کہ مجموعی ناچ میں ایک آدمی کی بیوی کسی دوسرے آدمی کے ساتھ ناچے۔ ان کے اندر اس کے بارے میں کوئی شرم نہیں ہے بلکہ وہ اس کو براخوفتگی اور وسیع القلبی سمجھتے ہیں۔ ہمارے نزدک جو عین بے غیرتی ہے وہ ان کے ہاں وسیع القلبی ہے۔ یہ کس چیز کا نتیجہ ہے؟ اسی غذا کا کہ وہ ایک ایسا جانور استعمال کرتے ہیں، اور نہایت کثرت سے استعمال کرتے ہیں، جو نہایت بے غیرت واقع ہوا ہے۔
یہ چند چیزیں ہیں جو مَیں اس غرض سے بیان کر رہا ہوں کہ آپ کو یہ بات سمجھ میں آجائے کہ اللہ تعالیٰ کے جو احکام ہیں ان کی بعض حکمتیں ہماری سمجھ میں آتی ہیں، بعض سمجھ میں نہیں آتیں، اور بعض حکمتیں ایسی ہیں جو ہماری سمجھ میں آہی نہیں سکتیں۔ اگر انھیں بیان کیا جائے توو ہ ہمارے لیے اس وجہ سے بے کار ہیں کہ حکمت وہ بیان کرنی چاہیے جس کو دوسرا مخاطب جانچ کر دیکھ سکے کہ ہاں، واقعی یہ حکمت اس میں پائی جاتی ہے۔ اگر اس کے پاس جانچنے کے ذرائع نہیں ہیں تو اس کا بیان کرنا یا نہ کرنا برابر ہے۔ مثلاً اگر یہ کہا جاتا کہ میاں! یہ تمھاری روح کو خراب کرنے والی چیز ہے۔ اگر آپ کے پاس وہ ذرائع نہیں ہیں کہ آپ یہ ناپ سکیں کہ اس سے روح کے اندر کیا خرابی اور کتنی خرابی پیدا ہوگی ، تو آپ کا اس سے یہ کہنا کہ آپ کی روح میں اس سے خرابی پیدا ہوگی اور یہ نہ کہنا کہ تمھاری روح کے اندر خرابی پیدا ہوگی، یکساں ہے۔ کیونکہ آپ کے پاس اس کے جانچنے کے ذرائع نہیں ہیں۔ آپ تحقیق نہیں کرسکتے کہ جو بات آپ کو کہی گئی ہے وہ واقعی ٹھیک ہے، کس حد تک ٹھیک ہے، اور کس طرح اس کے اثرات مترتب ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے بہت سے ایسے احکامات ہیں جن کی حکمتیں اور مصلحتیں نہیں بتائی ہیں بلکہ صاف صاف کہا ہے کہ فلاں چیز تمھارے لیے ممنوع ہے۔
اس کے ساتھ اس میں انسان کے ایمان کی آزمایش ہے۔ اگر ایک آدمی ایمان رکھتا ہے تو اس کے رب نے جس چیز سے منع کردیا وہ رُک جائے گا قطع نظر اس کے کہ ممانعت کی وجہ اسے سمجھ آئے یا نہ آئے۔ اگر وہ ممانعت کے جواب میں پلٹ کر یہ کہتا ہے کہ جناب اس کی حکمت مجھے بتایئے اگر اس کی حکمت مجھے سمجھ میں آئے گی تو میں آپ کا حکم مانوں گا اور نہ آئے گی تو نہ مانوں گا۔ وہ دراصل اپنی سمجھ کی اطاعت کر رہا ہے، اللہ تعالیٰ کی اطاعت نہیں کر رہا۔ مومن کا یہ کام نہیں ہے کہ حکم کی دلیل مانگے۔ مومن کا کام یہ ہے کہ اس کا رب جب اسے حکم دے تو سر جھکا دے قطع نظر اس کے کہ اس کی وجہ اسے سمجھ آئے یا نہ آئے۔ اس کا پورا اعتماد اپنے رب پر ہونا چاہیے۔ اس اعتبار سے کہ وہی علیم ہے۔ ہر چیز کی حقیقت کو وہ جانتا ہے۔ وہی حکیم ہے جو حکم بھی دے رہا ہے دانائی کی بنا پر دے رہا ہے، اور وہ رب ہے اس کو حق پہنچتا ہے کہ جس چیز سے چاہے آپ کو منع کردے۔ کیونکہ دنیا کی تمام چیزیں اس کی ملکیت ہیں، آپ کی ملکیت نہیں ۔
مثال کے طور پر آپ اپنے گھر کے مالک ہوں اور کوئی دوسرا شخص باہر سے آئے۔ آپ کو حق پہنچتا ہے کہ آپ اس کو یہ کہیں کہ میری فلاں فلاں چیزیں تو آپ استعمال کرسکتے ہیں اور فلاں فلاں چیزیں آپ استعمال نہیں کرسکتے۔ آپ کو اس کا حق پہنچتا ہے۔ اس کو یہ مطالبہ کرنے کا حق نہیں پہنچتا کہ آپ مجھے فلاں فلاں چیزوں کے استعمال کی بھی اجازت دیجیے اور آپ مجھے اجازت کیوں نہیں دیتے؟ اس لیے کہ مال آپ کا ہے، اس کا نہیں۔ آپ کو پورا حق پہنچتا ہے کہ اپنی چیزوں میں سے جس چیز کے استعمال کی چاہیں اجازت دیں اور جس چیز کی چاہیں اجازت نہ دیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ جناب میرے گھر کے ہر حصے میں آپ جاسکتے ہیں لیکن فلاں کمرے میں آپ نہ جایئے گا۔ اس میں آپ قفل لگا دیں اور کہیں کہ اس میں جانے کا آپ حق نہیں رکھتے۔
وہ چونکہ رب ہے، تمام چیزیں اس کی ملکیت ہیں، آپ اس کے بندے ہیں۔ لہٰذا مالک کو یہ حق پہنچتا ہے کہ اپنے نوکر سے، اپنے غلام سے یہ کہے کہ میری فلاں فلاں چیزیں وہ استعمال کرسکتا ہے اور فلاں فلاں چیزیں استعمال کرنے کا وہ حق نہیں رکھتا۔ میں تم کو منع کردیتا ہوں کہ میری ان چیزوں کو تم استعمال نہ کرو۔
اگر آپ اللہ کو رب مانتے ہیں تو رب کہتا ہے کہ سور کو تم نہ کھانا تو آپ کو رُ ک جانا چاہیے۔ وہ کہتا ہے کہ جس جانور کو مَیں خود ماروں اسے نہ کھانا، تو آپ کو رُک جانا چاہیے۔ مُردار کے متعلق اس نے یہ حکم دے دیا کہ یہ میرا مارا ہوا ہے، لہٰذا جسے مَیں خود ماروں اس کو تم نہ کھائو۔ جس کو آپ خود ماریں اُس طریقے کے مطابق جیسے اس نے بتایا ہے، تو اسے آپ کھاسکتے ہیں۔
ان چار چیزوں کی حُرمت بیان کرنے کے بعد اللہ تعالی نے مُردار کی وضاحت فرمائی ہے۔ دوسری چیزیں تو واضح ہیں لیکن مُردار کی وضاحت فرمائی ہے۔
وَ الْمُنْخَنِقَۃُ وَ الْمَوْقُوْذَۃُ وَ الْمُتَرَدِّیَۃُ وَ النَّطِیْحَۃُ وَ مَآ اَکَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَکَّیْتُمْ(المائدہ۵:۳) وہ جو گلا گھٹ کر، یا چوٹ کھا کر، یا بلندی سے گرکر، یا ٹکر کھاکر مرا ہو، یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو___ سواے اس کے جسے تم نے زندہ پاکر ذبح کرلیا۔
ایک تو مُردار وہ ہے جو طبعی موت لیٹ کر مر گیا۔ اس کے علاوہ مزید مُردار وہ ہیں، مثلاً جو گلاگھٹ کر مرا، یا چوٹ کھا کر مرا، یا کسی بلندی پر سے گر کر مرا، یا دو جانوروں میں ٹکر ہوئی اور ٹکر کھا کے ایک جانور مر گیا، یا جس کو درندے نے پھاڑا۔ ان سب کی ممانعت فرمائی۔بنیاد کیا ہے؟ وہی مُردار، یعنی یہ سارے کے سارے مُردار ہیں اگر ان میں سے کسی شکل میں مرجائیں۔ کیوں؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ خون جس کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے، وہ خون ان شکلوں میں سے کسی شکل میں بھی نہیں نکلتا۔ چوٹ لگ گئی تو چوٹ کا قاعدہ یہ ہوتا ہے کہ جس جگہ چوٹ لگتی ہے اس کے آس پاس کا خون نکل جاتا ہے لیکن اس سے پورے جسم کا خون خارج نہیں ہوتا۔ ایسے ہی گر کر مرنے سے ہوتا ہے۔ اگر خون نکلے گا بھی، مثلاً سر پھٹ گیا ہے تو جس مقام پر چوٹ لگی ہے اس کے آس پاس کا نکل جائے گا۔ موت کسی صدمے سے واقع ہوگی یا کسی اور وجہ سے واقع ہوگی۔ اس وجہ سے واقع نہیں ہوگی کہ چونکہ جسم کا پورا خاندان نکل گیا ہے، اس لیے جان دار مر گیا ہے۔ یہ کسی صدمے سے واقع ہوگی۔ ایسے ہی دوسری شکلیں ہیں۔ ان ساری شکلوں میں چونکہ خون پوری طرح سے نہیں نکلتا ہے۔ موت کی وجہ کوئی اور ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ مرتا ہے۔ خون آس پاس کا نکل کر رہ جاتا ہے یا بالکل نہیں نکلتا۔ اس وجہ سے یہ سب بھی مُردار کی تعریف میں آتے ہیں قطع نظر اس کے کہ خون بہا ہو یا نہ بہا ہو۔ خون بہا بھی ہو تو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ پورے کا پورا خون اس کے اندر سے نکل گیا ہے۔
اِلَّا مَا ذَکَّیْتُمْ(المائدہ۵:۳) بجز اس کے جس کو تم نے ذبح کر لیا۔
تزکیہ کا لفظ زکاۃ سے نکلا ہے۔ زکاۃ کہتے ہیں اس بات کو، مثلاً اگر آگ راکھ میں دبی ہوئی ہے تو آپ کرید کر انگارے اُوپر نکال لائیں۔ اس کو کہیں گے کہ آگ کا تزکیہ ہوگیا، یعنی آگ کی حرارت کو آپ اُبھار کر اُوپر لے آئے۔ اس کو آگ کا تزکیہ کہیں گے۔
عربی زبان میں جانور کو ذبح کرنے کے لیے تزکیہ کا لفظ اس لیے استعمال کیا جاتا ہے کہ اس کا خون، اس کی روح، اس کے جسم کی حرارت، آپ ذبح کر کے اس کو اُبھار لاتے ہیں تاکہ وہ بالکل خارج ہوجائے۔ اس کے اندر کچھ باقی نہ رہے۔
یہاں اِلَّا مَا ذَکَّیْتُمْ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اس سے خود بخود یہ بات نکل آئی کہ جس کا تزکیہ نہیں کیا گیا وہ مُردار کی تعریف میں ہے۔ کسی مجموعے کے اندر سے جب استثنیٰ ہوگا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اگر یہ استثنیٰ موجود نہیں ہے تو وہ اس مجموعے میں شامل ہے۔ جب یہ کہا گیا کہ فلاں فلاں چیزیں حرام ہیں سواے ان کے جن کا تم نے تزکیہ کرلیا۔ مطلب یہ ہے کہ صرف یہی حلال ہے۔ اگر تزکیہ نہیں کیا گیا تو یہ حرام ہے۔
تزکیہ کی وضاحت چونکہ قرآنِ مجید میں نہیں کی گئی ہے، اس لیے اس کے معنی یہ ہوئے کہ اس کی وضاحت کرنے کا کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد تھا۔ یہ بات واضح ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نماز پڑھنے کا حکم دیتا ہے اور بار بار اس کی فرضیت کا حکم دیتا ہے لیکن یہ نہیں بتاتا کہ کتنی رکعتیں پڑھو؟ اس کی کیا شکل ہو؟ کیا شرائط ہیں؟ کیا اس کے ارکان ہیں؟ کیا اس میں فرائض ہیں؟ یہ ساری چیزیں قرآنِ مجید میں بیان نہیں کی گئیں۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ جس کو لوگوں کی رہنمائی کے لیے قرآن دے کر بھیجا گیا تھا اس کا یہ کام تھا کہ وہ لوگوں کو یہ بتائے کہ اس حکم پر عمل کیسے کیا جائے؟ ایسا ہی معاملہ تزکیہ کا ہے۔
جب یہ فرما دیا گیا اور اتنا اہم حکم ہے کہ آپ جو غذا استعمال کر رہے ہیں اس کی حُرمت اور حلّت کے درمیان فرق اس تزکیے سے واقع ہوگا۔ یہ بڑا اہم حکم ہے جس کا روزمرہ زندگی میں سابقہ پیش آنے والا ہے۔ اس لیے احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بالکل واضح طور پر یہ بتایا ہے کہ تزکیے کی جگہ ٹھوڑی اور لبلبے کے درمیان والی جگہ ہے جسے لبّہ کہتے ہیں۔ یہ تزکیے کا مقام ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ حضوؐر نے اس بات کو اور زیادہ واضح کر دیا کہ جانور کو گردن کے پیچھے سے ذبح نہ کیا جائے۔ اس وجہ سے کہ اگر گردن کی پشت کی طرف سے ذبح کیا جائے گا تو سب سے پہلے حرام مغز جو دماغ سے جسم کا تعلق جوڑتا ہے، یہ پہلے کٹ جائے گا۔ جب یہ پہلے کٹ گیا تو اس صورت میں چونکہ جسم کے اندر جان ہی باقی نہیں رہے گی، موت فوراً واقع ہوجائے گی۔ اس لیے خون کھچ کر باہر نہیں آئے گا۔ یعنی مُنْخَنِقَۃُ (گلاگھٹ کر)، موقوذہ (چوٹ کھاکر)، متردیۃ (بلندی سے گرکر)اور نطیعۃ (ٹکر کھاکر) وغیرہ کی مُردار ہونے کی جو حلت بیان کی گئی ہے کہ تزکیے کے بغیر وہ سارے کے سارے حرام ہوجائیں گے کیونکہ وہ مُردار کے حکم میں ہیں۔
اس شکل میں بھی تزکیہ نہیں ہوتا جب پیچھے سے جانور کو ذبح کر دیا جائے۔ لکات جس کو حرام مغز کہتے ہیں جو جسم سے دماغ کا تعلق جوڑتا ہے۔ جب تک اس کے ذریعے سے جسم اور دماغ کا تعلق جڑا رہے تو اس صورت میں موت فوراً واقع نہیں ہوسکتی۔
دوسرا یہ کہ اس صورت میں جانور دیر تک تڑپے گا، حرکت کرے گا اور پھڑپھڑائے گا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ سامنے سے ذبح کرنے کی صورت میں جو دروازہ کھل گیا ہے، اس سے خون تیزی سے نکلے گا اور اس کے باربارحرکت کرنے یا پھڑپھڑانے سے ایک ایک قطرہ نکل کر باہر آجائے گا اور گوشت پوری طرح سے خون سے صاف ہوجائے گا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جیسا کہ بتایا، احادیث میں تصریحات ہیں اور جن کی بنا پر فقہاے کرام نے نتائج اخذ کیے ہیں۔ ان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حلقوم (حلق) اور مری جس میں سے جانور اور انسان کی غذا گزرتی ہے، اور وہ دو رگیں جو حلقوم اور مری کو درمیان میں لیے ہوئے ہیں، جسے شہ رگ (jubler vain) کہتے ہیں، یہ چاروں کی چاروں کٹنی چاہییں۔ حرام مغز جڑا رہے اور یہ چاروں کی چار جب کٹ جائیں گی، تب پوری طرح سے خون کھچ کر باہر آئے گا۔ اگر یہ چاروں نہ کٹیں تو مری اور حلقوم کٹنے کے بعد ایک شہ رگ کٹ جائے، اگر دونوں نہ بھی کٹیں تو کم از کم ایک شہ رگ کٹ جائے۔ اس کے بغیر خون چونکہ باہر نہیں آسکتا اس لیے تزکیہ مکمل نہیں ہوسکتا۔
اب آپ یہ بات سمجھ سکتے ہیں کہ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے اِلَّا مَا ذَکَّیْتُمْ کے الفاظ بیان فرما کر ان تمام جانوروں کو حرام قرار دے دیا جن کا باقاعدہ تزکیہ نہ کیا گیا ہو۔ اس لیے اگر کوئی ایسی چیز یا ایسا ذریعہ جانور کو ذبح کرنے کا اختیار کیا جائے جس سے تزکیہ نہیں ہوتا تو وہ مُردار کے حکم میں آئے گا۔ یک لخت اگر جانور کو ذبح کیا جائے گا، یعنی ایک ہی وار میں اس کی گردن کٹ کر الگ ہوجائے گی، تو وہ تزکیے کے بغیر چونکہ مرے گا اس وجہ سے وہ حرام ہے۔
اس کے بعد فرمایا:
وَ مَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ(المائدہ ۵:۳) اور جو ذبح کیا استھانوں پر۔
نُصب کسی ایسے پتھر، لکڑی یا کسی ایسی چیز کو کہتے ہیں جو کسی جگہ اس غرض کے لیے نصب کر دی گئی ہو کہ غیراللہ کے نام پر ذبح کیا جائے۔ بتوں کے استھان، یعنی مشرکین اپنی مشرکانہ قربانیوں کے لیے جو قربان گاہیں بنا لیا کرتے تھے وہ سب نُصب تھیں، قطع نظر اس کے کہ وہاں کوئی قبر ہو، یا وہاں کوئی لکڑی یا پتھر گاڑ دیا جائے،یا وہاں کوئی بت ہو یا کوئی اور چیز ہو۔
یہ گویا تشریح ہے۔ وَ مَآ اُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ کی۔ اس سے آدمی یہ بات سمجھے گا کہ ذبح کرتے ہوئے اللہ کے نام کے سوا کسی اور کا نام لیا جائے، تب وہ حرام ہوگا۔ گویا غیراللہ کا نام نہ لیا جائے۔ یہاں واضح کردیا گیا ہے کہ اگر استھان پر لے جاکر ذبح کیا گیا ہے تو خواہ کسی دوسرے کا نام نہ بھی لیا گیا ہو، تب بھی یہ حرام ہوگا۔ یعنی ذبح کرنے کی ایک شکل یہ ہے کہ اللہ کا نام لیا اور اس کے ساتھ کسی اور کا نام لیا۔ ایک شکل اس کی یہ ہے کہ اللہ کا نام بھی نہیں لیا اور کسی اور کا بھی نہیں لیا۔ ایک شکل یہ ہے کہ صرف غیراللہ کانام لیا۔ شریعت اس شکل کو بھی حرام کرتی ہے جس میں اللہ کے ساتھ کسی اور کا نام لے لیا جائے جو کہ صریح شرک ہے۔ شریعت اس کو بھی حرام کرتی ہے جس میں اللہ کا نام نہ لیا جائے۔ اس کی وضاحت آگے آرہی ہے۔ شریعت اس کو بھی حرام کرتی ہے جس میں اللہ کا نام نہیں لیا گیا، غیراللہ کا نام بھی نہیں لیا گیا مگر اسے ایک آستانے پر لے جاکر ذبح کیا جائے۔آستانے پر لے جاکر ذبح کرنا خود اس بات کو واضح کردیتا ہے کہ نیت غیراللہ کے نام پر ذبح کرنے کی ہے چاہے غیراللہ کا نام نہیں لیا گیا۔
اس چیز پر اللہ تعالیٰ نے اتنا زور کیوں دیا ہے؟ یہاں میں اس بات کو واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس بات کو کیوں اہمیت دیتا ہے کہ جانور کو ذبح کرتے ہوئے اسی کا نام لیا جائے، کسی اور کا نام نہ لیا جائے اور اس کا نام ضرور لیا جائے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام چیزوں کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ جب ایک غلام اپنے مالک کے مال میں تصرف کرنے لگے اور کوئی اس سے پوچھے کہ میاں یہ تم کس اختیار کی بنا پر تصرف کر رہے ہو تو وہ کیا کہے گا؟ میرے مالک نے مجھے اس کی اجازت دی ہے۔ اس کے نام پر مَیں تصرف کر رہا ہوں اور اس کی طرف سے کر رہا ہوں۔ اس نے چونکہ اجازت دی ہے اس لیے کر رہا ہوں۔ گویا ملکیت ِ حق کو تسلیم کرنا ہے یہ کہنا کہ مَیں مالک کی اجازت سے یہ کر رہا ہوں۔ ورنہ اس کے بغیر یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ خود مالک بنے ہوئے ہیں۔ آپ مالک کے حقِ مالکانہ کا اعتراف نہیں کرتے۔
جانوروں کے بارے میں خاص طور پر کیوں کہا گیا ہے کہ ان کو ذبح کرتے ہوئے اللہ کا نام لو؟ اسی وجہ سے کہ اگر آپ تزکیہ کریں تو آپ کو معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ کا یہ احسانِ عظیم ہے کہ آپ جیسی دوسری جان دار مخلوق کے اُوپر اس نے آپ کو تصرف کے اختیارات دیے ہیں۔ باقی جتنی چیزوں پر آپ تصرف کر رہے ہیں وہ بے جان ہیں لیکن آپ ہی کی طرح دوسری جان دار مخلوق موجود ہے جس کے اندر آپ ہی جیسی جان ہے، اس کے اُوپر تصرف کا اختیار اس نے دیا ہے۔ یہ اس کا احسانِ عظیم ہے۔
دنیا میں جو تہذیب پھیلی ہے اس میں اس کا کتنا بڑا عمل دخل ہے۔ وہ آپ کے لیے سواری کا ذریعہ بنے۔ وہ آپ کے لیے پوشش کا ذریعہ بنے۔ وہ آپ کے لیے غذا کا ذریعہ بنے۔ ان کا گوشت اور دودھ غذا کا ذریعہ ہے اور ان سے نامعلوم کتنی چیزیں آپ بناتے ہیں۔ وہ ساری کی ساری آپ کے لیے غذا کا ذریعہ بنتی ہیں۔ ان کے بال آپ کی ضروریات کا ذریعہ ہیں۔ ان کی ایک ایک چیز آپ کی غذا اور ضروریات کا ذریعہ بنائی گئی اور آپ کی ضروریات اس سے پوری کی گئیں، آپ کی پوشش کا ذریعہ اسے بنایا گیا۔ حالانکہ یہ وہ جانور ہیں جن کی ایک ٹکر آپ نہیں سہہ سکتے۔ بیل، گائے، ہاتھی اور اُونٹ کو آپ دیکھیے، ان کی ایک ٹکر آپ نہیں سہہ سکتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ اختیارات دیے اور طاقتیں عطا فرمائیں کہ آپ ان پر تصرف کر رہے ہیں۔ وہ آپ کے سامنے بے بس ہیں۔ جب چاہتے ہیں آپ ان کی پیٹھ پر سوار ہوجاتے ہیں اور وہ ہل نہیں سکتے۔ جس طرح سے چاہیں ان کو پکڑ کر ان کا دودھ نکال لیتے ہیں۔ ذرا بھینس کو دیکھیے، اس کی طاقت کو ملاحظہ کیجیے، اور آپ کے آگے اس کے اس طرح سے بے بس ہوجانے کو دیکھیے کہ آپ اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے بچے کو محروم کر کے اس کا دودھ نچوڑتے ہیں اور وہ نچوڑواتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اتنا بڑا احسان جو کیا ہے، اس کا تقاضا ہے کہ جب آپ اسے ذبح کرنے لگیں تو اللہ کا نام لے کر، اس کی اجازت سے ذبح کریں کہ اس مالک کا یہ احسان ہے کہ اس نے ہمیں یہ عطا کی ہے اور اس کی اجازت سے ہم اسے ذبح کر رہے ہیں۔
اگر آپ ذبح کرتے ہوئے اس کا نام نہیں لیں گے تو آپ کو یہ غفلت لاحق ہوگی اور رفتہ رفتہ آپ اس غلط فہمی میں پڑجائیں گے کہ آپ ہی مالک ہیں اور آپ ہی کو یہ اختیار ہے کہ جس کو چاہیں زندہ رکھیں اور جس کو چاہیں کاٹ دیں۔ جس کو چاہیں آپ قتل کریں اور جس کو چاہیں زندہ رہنے دیں۔ جیساکہ نمرود نے کہا تھا کہ انا ابی وامی۔اس کا خدشہ ہے کہ آپ اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوجائیں۔ اس وجہ سے آپ کے عقیدے کو بچانے کے لیے یہ ناگزیر ہے کہ ذبح کرتے وقت آپ اللہ کا نام لیں۔ غیراللہ کا اگر آپ نام لیتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ اپنے مالک کو بھول کر جو مالک نہیں ہے اس کا نام لے رہے ہیں۔ اگر آپ اس کا نام نہیں لے رہے تو آپ اپنے مالک سے غافل ہیں اور خود اپنے آپ کو مالک سمجھ بیٹھے ہیں۔ اس کا نام آپ لیں گے تو آپ کا عقیدہ صحیح ہوگا اور صحیح طور پر ایک موحد انسان اور اللہ تعالیٰ کے تابع فرمان اور مطیع انسان بن کر رہیں گے۔
اس کے ساتھ فرمایا: وَ اَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ (۵:۳) ’’تمھارے لیے یہ بات حرام کی گئی کہ تم پانسوں کے ذریعے سے قسمت معلوم کرو‘‘۔
پانسوں کے ذریعے قسمت معلوم کرنے کی مختلف شکلیں ہیں۔ عرب میں اس کی مختلف شکلیں رائج تھیں۔ ایک شکل یہ تھی کہ بت سے معلوم کیا جائے کہ ہم میں سے کس کا کیا حصہ ہونا چاہیے؟ ہماری قسمت کیا ہے؟ اور ہم کیا کریں اور کیا نہ کریں۔ کعبہ میں ہبل کے پاس تیر رکھے ہوئے تھے اور ان پر لکھا ہوا تھا کہ یہ کام کرو اور یہ نہ کرو۔ اس طرح کی مختلف عبادتیں ان پر لکھی ہوئی تھیں۔ جو تیر نکل آتا تھا اس کے معنی یہ تھے کہ ہبل کا یہ فیصلہ ہے کہ آپ یہ کام کریں۔ہبل نے آپ کو اس کی اجازت دی ہے کہ آپ یہ کام کریں یا اس کی اجازت نہیں دی ہے کہ آپ یہ کام نہ کریں۔
اَلْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِیْنِکُمْ فَلَا تَخْشَوْھُمْ وَ اخْشَوْنِ(۵:۳) آج کفار تمھارے دین کی طرف سے مایوس ہوگئے ہیں، لہٰذا اب تم ان سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو۔
پہلے لفظ الیوم کا مفہوم سمجھ لیجیے۔
کبھیالیوم کے معنی واقعی یہ ہوتے ہیں کہ آج کے دن یہ بات ہوئی اور کبھی اس کے معنی ’اب‘ کے ہوتے ہیں، یعنی جس زمانے میں، یا یہ وہ وقت ہے جب یہ واقعہ پیش آیا۔ آپ کہتے ہیں کہ آج حالات یہ ہیں۔ آج دنیا کا رنگ بگڑا ہوا ہے۔ آج لوگوں کی اخلاقی حالت خراب ہو رہی ہے۔ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ آج کے روز یہ واقعات پیش آئے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ زمانۂ ماضی کا ذکر نہیں ہے بلکہ زمانۂ حال کا ذکر ہے۔ اب وہ حالات ہیں کہ جن میں یہ واقعات پیش آئے ہیں۔
اس کے بعد یہ فرمایا گیا کہ آج کفار تمھارے دین کی طرف سے مایوس ہوگئے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ اس سے مراد کوئی خاص دن نہیں ہے کہ جب کفار مسلمانوں کے دین سے مایوس ہوگئے۔ دراصل یہ تاریخ کا ایک خاص اور مرحلہ اور stage تھا جس میں کفّار مسلمانوں سے مایوس ہوئے۔
ایک وہ وقت تھا کہ کفّار یہ اُمید لگائے بیٹھے تھے کہ ہم لالچ سے، یا دھوکا دے کر، یا دبائو ڈال کر، یا دھمکیاں دے کر کسی نہ کسی طرح سے مسلمانوں کو ان کے دین سے پھیر لیں گے۔ اس اُمید کے اُوپر وہ لڑ رہے تھے۔اپنی چالیں چل رہے تھے اور اپنی ساری تدبیریں کر رہے تھے اس اُمید پر وہ ظلم و ستم بھی ڈھا رہے تھے۔ اس اُمید پر وہ مسلمانوں کو طرح طرح کے لالچ بھی دے رہے تھے، فریب بھی دے رہے تھے۔ یہ سارے کام وہ کر رہے تھے۔
ایک مرحلہ وہ آیا جب کفار کو معلوم ہوگیا کہ یہ اب ہلائے ہلنے والے نہیں۔ یہ دین جو محمدصلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ہیں، یہ اب ٹلنے والا نہیں ہے۔ یہ اب قائم ہوگیا ہے اور یہ ہمارے مٹائے مٹ نہیں سکتا۔ مسلمان بھی اسلام پر ثابت قدم ہیں۔ اب ان کو ہٹایا نہیں جاسکتا، اور دین اسلام کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ہماری طاقت سے اب باہر ہوگیا ہے۔
روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سورئہ مائدہ کا بڑا حصہ صلح حدیبیہ کے بعد نازل ہوا ہے۔ صلح حدیبیہ وہ ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے سورئہ فتح میں صاف الفاظ میں فتح مبین کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ یہ فتح مبین تھی جس سے یہ فیصلہ ہوگیا، پورے عرب کو یہ معلوم ہوگیا، کفار کو بھی معلوم ہوگیا اور مسلمانوں کو بھی معلوم ہوگیا کہ اب کفار کا زور ٹوٹ گیا ہے۔ اب مسلمانوں کی چڑھ بن آئی ہے۔ اب مسلمانوں کے چڑھائو کا وقت ہے اور کفار کے اُتار کا وقت ہے۔ اس موقع کے اُوپر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دیکھو اب وہ وقت آگیا ہے کہ کفّار تمھارے دین سے متعلق اس بات سے مایوس ہوچکے ہیں کہ وہ اس کو مٹا سکیں۔ تمھارے دین کو اب یہ طاقت حاصل ہوچکی ہے کہ اب یہ کفار کے مٹائے نہیں مٹے گا۔ اب کوئی وجہ نہیں ہے کہ تم ان سے خوف کھائو۔ پہلے توایک آدمی کے لیے اس بات کا خطرہ تھا کہ وہ صاف صاف اور کھلم کھلا اگر احکامِ الٰہی کی پابندی کرے گا تو اس کی پٹائی ہوگی۔ اس کو گھر سے نکال باہر کیا جائے گا۔اس کا مال چھین لیا جائے گا۔ اس کے اُوپر ظلم وستم ڈھائے جائیں گے۔ اس وجہ سے آدمی کے لیے یہ بھی مشکل تھا کہ اگر وہ اسلام قبول کرلے اور کھلم کھلانماز پڑھ سکے۔ ایک وقت ہمارے ملک میں ایسا آچکا ہے کہ ایک مسلمان کو پارکوں میں نماز پڑھتے ہوئے شرم آتی تھی کہ مذاق اُڑایا جائے گا کہ لیجیے مُلّاجی نماز پڑھ رہے ہیں۔ اس سے زیادہ وہاں حالات خراب تھے۔
جب اسلام کی طاقت اتنی زبردست ہوگئی کہ کفار کو معلوم ہوگیا کہ اب یہ ہلاے نہیں ہلتے۔ اب ان کی ایک مضبوط آیات قائم ہوگئی ہے۔ اب ان کے پاس وہ طاقت ہے کہ اگر ہم لڑیں گے تو ہمیں یہ شکست دے ڈالیں گے۔ جنگ ِ اَحزاب میں جس وقت کفار اپنا پورا زور لگاکر ناکام ہوکر چلے گئے تو اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ اب وہ وقت آگیا کہ یہ تم پر چڑھ چڑھ کر آرہے تھے۔ اب وہ وقت آگیا ہے کہ اب ہم ان پر چڑھائی کریں گے۔ پہلے ہم defenceive تھے، اب یہ defencive پوزیشن میں ہیں۔ اب ان کو دفاع کرنا پڑے گا۔ ان کے چڑھائو کا وقت گزر گیا۔
یہ وہی چیز ہے جب مسلمانوں کو یہ مقام حاصل ہوگیا تو اللہ نے کہا کہ اب تمھارے لیے میرے احکام کی پوری پوری اور کھلم کھلا تعمیل کرنے کا کوئی عذر باقی نہیں ہے۔ پہلے وقت تھا خطرے کا اور خوف کا، لیکن اب یہ حالت نہیں ہے۔ اب اگر تم پیچھے ہٹے، اب اگر تم نے میرے احکام کی پوری پوری تعمیل کرنے میں تامّل کیا، تو اس کے بعد تم پکڑے جائو گے۔ اب ان سے ڈرنے کی تمھاری کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔
اس سے یہ بات آپ کی سمجھ میں آسکتی ہے کہ اگر مسلمان کسی مقام پر ، کسی علاقے میں، دنیاکے کسی ملک میں محکوم ہوں، غلام ہوں، ان کے پاس طاقت نہ ہو۔ دوسرے کے احکام ان پر جاری ہو رہے ہوں، ان کے احکام دوسروں پر جاری نہ ہو رہے ہوں۔ ان کے پاس خود اپنے احکام جاری کرنے کی طاقت نہیں ہے۔ اس وقت مسلمانوں کے لیے اس بات کا عذر ہے اگر وہ کسی حکم کی تعمیل نہ کرسکیں کہ ہم بے بس ہیں۔ ہمیں کفّار کا خطرہ تھا۔ اب بھی ہندستان میں مسلمانوں کی یہ حالت ہے کہ ایک مقام پر اگر وہ اذان دیں تو اس بات کا خطرہ ہے کہ ان پر حملہ کردیا جائے گا۔ رانچی میں یہ واقعہ پیش آچکا ہے۔ چنانچہ جن حالات میں مسلمان دبے ہوئے ہوں، مغلوب ہوں، کفار چیرہ دست ہوں اور اسلام کی دشمنی پر تلے ہوئے ہوں، ان حالات میں اگر کچھ احکام پر مسلمان عمل نہ کرسکیں، اپنی پوری کوشش کے باوجود کچھ احکام پر عمل کرنے میں ناکام رہ جائیں تو ان کے لیے عذر ہے۔
لیکن ایک وہ حالت ہوتی ہے کہ کوئی خطرہ نہیں ہے۔ کوئی بیرونی یا اندرونی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ آپ کے پاس وہ طاقتیں موجود ہیں جن سے آپ اپنے معاشرے میں پورے پورے اسلامی احکام نافذ کرسکیں۔ کفّارِ ہند یا کفّار انگریز جن سے آپ کل مغلوب تھے، وہ اب اس بات سے مایوس ہوچکے ہیں کہ پاکستان ختم ہوجائے گا۔ بیرونی دنیا بھی یہ سمجھتی ہے کہ یہ ریاست قائم رہنے کے لیے بنی ہے، اب یہ ختم نہیں ہوسکتی۔ اب مسلمانوں کے پاس اپنی طات ہے۔ یہ وہ حالت ہے جس کے بارے میں یہاں یہ بات فرمائی گئی ہے۔
فَلَا تَخْشَوْھُمْ وَ اخْشَوْنِ(۵:۳) اب تمھارے لیے کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ تم کسی سے ڈرو، اب مجھ سے ڈرو۔
’مجھ سے ڈرو‘ کا مطلب یہ ہے کہ میرے احکام کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تمھیں مجھ سے ڈرنا چاہیے۔ اب تمھارے لیے عذر کا کوئی موقع باقی نہیں رہا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مسلمانوں کے پاس وہ طاقت آجائے کہ کسی سے خدا کے سوا ڈرنے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہی۔ اس صورت میں اگر وہ دنیا کو دیکھ دیکھ کر یا ان سے متاثر ہوکر احکامِ الٰہی میں ترمیمات کرنے لگیں اور احکامِ الٰہی کی پابندی نہ کریں، تو اس کے بعد دنیا میں بھی خدا کے عذاب کا خوف ہے اور آخرت میں بھی۔
اب کون سی معقول وجہ ہے کہ آپ یہ روش اپنائیں۔ میں آپ کو مثال دے کر بتاتا ہوں کہ یہیودی تمام دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ دنیا میں جہاں بھی وہ رہتے ہیں، اپنی بستیاں الگ بساتے ہیں، اپنے محلے الگ بساتے ہیں، ان کی آبادیاں الگ ہوتی ہیں۔ وہ جہاں رہتے ہیں، اپنے لیے ذبیحہ کا پورا انتظام کرتے ہیں جس طرح کہ آپ اس ملک میں کرتے ہیں۔ یورپ کا کوئی ملک ایسا نہیں ہے، امریکا کا کوئی حصہ ایسا نہیں ہے کہ جس جگہ انھوں نے اپنے ذبیحہ کے خود انتظامات نہ کیے ہوں۔
butcher meat مشہور ہے، جسے چاہیے وہ حاصل کرسکتا ہے۔ یعنی جس ذبیحہ کو وہ حلال نہیں سمجھتے اسے وہ استعمال نہیں کرتے۔ جس ذبیحہ کو وہ حلال سمجھتے ہیں، ذبیحہ کے جو احکام ہیں اس کے مطابق دنیا کے ہر حصے میں انھوں نے ذبیحہ کا انتظام کیا ہوا ہے۔
مسلمانوں کا حال کیا ہے؟ مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ اس وقت انگلستان میں تین لاکھ مسلمان ہیں۔ صرف پیرس میں پانچ لاکھ مسلمان آباد ہیں۔ بحیثیت مجموعی اس وقت فرانس میں مسلمانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔صرف پیرس شہر میں پانچ لاکھ مسلمان ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ یورپین ممالک میں تو ہمارے حلال کھانے کا حصول بڑا مشکل ہے۔ ہم کیسے کھانا کھائیں؟ ہمارے لیے اس کے سوا کیا چارہ ہے کہ ہم مشینوں کے کٹے ہوئے ذبیحہ کو کھائیں۔ حلال ذبیحہ ہمیں کہاں میسر ہے۔ نتیجہ کیا ہوا کہ علماے کرام بالخصوص مصر اور شام کے علماے کرام نے بے تکلف فتویٰ دے دیا کہ خدا کا نام لیا جائے یا نہ لیا جائے، مشینوں سے ذبح ہو یا ہاتھ سے ذبح ہو، مسلمان ذبح کرے یا غیرمسلم ذبح کرے، کھائو۔
یہ وہ صورتِ حال ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے وارننگ دی تھی کہ اب تمھارے لیے خوف کا کوئی مقام نہیں ہے۔ اب اگر تم نے میرے احکام کی تعمیل کرنے مین کوئی تعامل کیا تو پھر ڈرو مجھ سے۔ دوسرے الفاظ میں دنیا میں بھی میرے عذاب سے ڈرو اور آخر ت میں بھی میرے عذاب سے ڈرو۔
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا(۵:۳) آج میں نے تمھارے لیے تمھارے دین کو مکمل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی اور تمھارے لیے دین اسلام کو پسند کرلیا۔
یہ ’آج‘ بھی اسی معنی میں ہے جو میں نے پہلے کیا تھا۔ اس سے مراد کوئی خاص دن نہیں ہے بلکہ تاریخ کا خاص مرحلہ اور ایک خاص دور ہے۔
یہ بھی سمجھ لیجیے کہ یہ آیت دو مرتبہ نازل ہوئی ہے۔ ایک مرتبہ اس سورہ کے نزول کے وقت نازل ہوئی اور دوسرا اس موقع پر جب ۱۰ہجری میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کام مکمل ہوگیا۔ تو اس موقع پر یہ نازل ہوئی تھی۔ یہ وقت تھا جب آپؐ آخری حج کر کے مکہ معظمہ سے واپس جارہے تھے۔ صلح حدیبیہ کے بعد لوگوں کی سمجھ میں بات پوری طرح سے نہیں آئی تھی کہ کیا کہا جا ہا ہے۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن پوری طرح سے اپنی تکمیل کو پہنچ گیا اور اندھوں کو بھی نظر آنے لگا کہ اب آپؐ کا مشن تکمیل کو پہنچ گیا ہے۔ اس وقت اس آیت کو پھر دہرایا گیا کہ یہ وہ دور ہے جب اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے تمھارے دین کو مکمل کر دیا۔
دین کو مکمل کرنے کے معنی یہ ہیں کہ تم کو دنیا میں جس جس چیز کی ہدایت کی ضرورت تھی وہ پوری کی پوری ہدایت دے دی گئی ہے۔ جہاں مفصل قوانین بتانے کی ضرورت تھی وہاں مفصل قوانین بتادیے گئے ہیں، جہاں اصول دینے کی ضرورت تھی وہاں اصول دے دیے گئے۔ بہرحال اب تمھارا دین مکمل ہوگیا ہے۔
وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ(۵:۳) اور میں اپنی نعمت تم پر تمام کردی۔
اتمامِ نعمت کے دونوں معنی ہیں: ہدایت کی نعمت بھی تمام کردی، اور تم کو وہ اقتدار بھی بخش دیا جس سے تم میرے احکام کی تعمیل خود کرسکو اور دنیا میں میرے احکام کو نافذ کرسکو۔ اس میں دونوں نعمتیں ہیں، یعنی نعمت ِ ہدایت کی تکمیل بھی، اور اس نعمت کی تکمیل بھی کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو مغلوب نہیں رہنے دیا۔ مسلمانوں کو وہ طاقت عطا فرما دی کہ جس سے ان کو اس حالت سے نکال دیا کہ جس سے وہ اس کے احکام کی تعمیل کرنا چاہتے بھی تو نہیں کرسکتے تھے، اور اس حالت کو پہنچا دیا جس میں وہ اس کے احکام کی تعمیل پوری طرح سے کرسکتے تھے اور دنیا میں اس کے احکام کو نافذ کرنے اور اس کے احکام کو غالب کرنے کے لیے جہاد کرسکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو وہ طاقت عطا کر دی تب فرمایا کہ میں نے تم پر اپنی نعمت تمام کردی اور تمھارے لیے دین اسلام کو پسند کرلیا۔
فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَۃٍ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo (۵:۳) پھر اگر کوئی شخص مضطر ہو، مخصمے کی حالت میں ہو، بغیر اس کے کہ وہ گناہ کی طرف مائل ہو، تو اللہ غفور و رحیم ہے۔
معلوم ہوا کہ جو چار چیزیں اُوپر بیان کی گئی ہیں، یعنی مُردار، خون، لحم، خنزیر اور جو اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو، یا جو اللہ کے نام کے بغیر کسی استھان پر ذبح کیا گیا ہو۔ ان چاروں چیزوں کو جو چیز حلال کرنے والی ہے تو وہ وہ حالت ہے جس میں اضطرار لاحق ہو، مخمصے کی حالت ہو، اور آدمی گناہ کی طرف مائل نہ ہو۔ اس صورت میں ان میں سے کوئی ایک چیز اگر آدمی استعمال کرے تو پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے۔
یہاں یہ بات بھی سمجھ لیجیے کہ کچھ چیزیں ایسی ہیں جو قطعی طور پر حرام ہیں، کسی حالت میں ان میں اباحت کی گنجایش نہیں نکلتی، جیسے زنا۔ کسی حالت میں اس کے جواز کی کوئی گنجایش نہیں نکلتی۔ کسی حالت میں وہ مباح نہیں ہے۔
بعض چیزیں ایسی ہیں کہ اضطرار کی حالت لاحق ہوجائے تو اس صورت میں ان کی حُرمت میں اباحت ہے۔ حُرمت کا حکم باقی رہے گا لیکن اضطرار کی وجہ سے عارضی طور پر وہ حُرمت ختم ہوجائے گی اور وہ مباح ہوجائے گی جب تک کہ وہ حالت باقی ہے۔ اضطرار اگر لاحق نہ ہو تو حرام چیز کی طرف جانے والا سخت گناہ گار ہے کیوں کہ اس چیز کو اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہوا ہے۔
اضطرار کی حالت میں اگر وہ کوئی حرام چیز کھائے تو اس کے ساتھ شرط کیا ہے؟ فِیْ مَخْمَصَۃٍ ،یعنی ایسا سخت اضطرار ہے کہ جس میں آدمی کے لیے صبر کرنا اور برداشت کرنا ممکن نہ ہو۔ اس کی جان کو خطرہ ہو۔ کوئی ایسی شدید تکلیف ہو کہ وہ برداشت سے باہر ہے۔ اور اس تکلیف کو رفع کرنے کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں ہے کہ حرام شے کو استعمال کیا جائے۔ اس صورت میں آدمی جس قدر ضرورت ہو اس کو استعمال کرسکتا ہے۔
یہاں غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ کی شرط لگائی گئی، یعنی یہ کہ اس وقت بھی آدمی کا دل گناہ کی طرف مائل نہ ہو۔ آدمی یہ خیال نہ کرے کہ چلو اچھا ہوا پانی نہیں مل رہا ہے، سخت پیاس کی حالت ہے، اب اس وقت موقع تو ملا ہے ذرا شراب چکھنے کا۔ اگریہ جذبہ پیدا ہوگیا تو وہ چیز حرام ہوگئی کیونکہ آدمی گناہ کی طرف مائل ہوگیا۔ اس سے نفرت باقی رہے، آدمی اس کو گناہ سمجھتا رہے کہ یہ حرام ہے، اور یہ سمجھے کہ اللہ تعالیٰ نے جو اجازت دی ہے مجبوراً اس اجازت سے فائدہ اُٹھا رہا ہوں ورنہ ہے تو حرام۔ لیکن گناہ کی طرف اگر مائل ہے تو پھر اجازت نہیں۔ مثلاً ایک آدمی کو شدید بھوک لاحق ہوگئی اور اس کو کوئی چیز کھانے کے لیے نہیں مل رہی سواے سور کے گوشت کے۔ اب اس صورت میں وہ اتنا کھائے گا جتنا اس کی جان بچانے کے لیے ناگزیر ہے۔ یہ نہیں کرے گا کہ ……… سور کا گوشت اچھی طرح سے حاصل کیا۔ اس کے کچھ کباب بنائے، کچھ شامی کباب بنائے، اس کے ساتھ کچھ پراٹھے تیار کرنے کی فکر کرے اور یہ سوچے کہ ان کے ساتھ کھائوں۔ یہ جائز نہیں ہے۔ گناہ کی طرف اس کی ذرہ برابر رغبت نہیں ہونی چاہیے۔ وہ یہ سمجھے کہ یہ حرام چیز ہے اور مجبوراً اسے کھا رہا ہوں۔
اب اگر ان میں سے کوئی چیز آدمی بغیر کسی اضطرار کے استعمال کرتا ہے، خود انتخاب کرتا ہے کہ میں اب ایسے طریقے سے ذبیحہ کروں گا جس میں تزکیہ نہ ہو، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ کوئی اضطرار لاحق نہیں ہے، کوئی مخمصہ لاحق نہیں ہے، صرف گناہ کی طرف جانے کا جذبہ باقی رہ گیا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی اور جذبہ نہیں ہے۔ ورنہ ایک آدمی ہزار مرتبہ سوچے گا کہ میں اگر کوئی ایسا کام کررہا ہوں جس کے اندر حرام ہونے کا امکان ہو کجا کہ حرام ہونے کا یقین ہو، تو وہ کبھی نہ کرے گا۔
اگر کوئی شخص یا حکمران حلال و حرام کے اتنے واضح احکامات کے بعد بھی حرام کے ارتکاب کی کوشش کرتا ہے۔ اب تو ہم انگریز یا ہندو سے مغلوب نہیں ہیں۔ اب تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں غلبہ عطا کردیا ہے۔ اب تو ہمیں وہ طاقت اور وسائل دے دیے ہیں کہ ہم اللہ کے احکامات پر عمل کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں۔ اب تو ہمیں دنیا میں اللہ کے احکامات کے نفاذ اور اللہ کے دین کے غلبے کے لیے جہاد کرنا چاہیے نہ کہ ہم حرام کو حلال کرنے کے لیے بہانے تلاش کرتے پھریں۔مضبوط دلائل تو موجود ہیں۔
ایسی صورت میں کسی آدمی کا یہ تلاش کرتے پھرنا کہ فلاں چیز کو کسی نہ کسی طرح حلال کرلیا جائے۔ یہ اس آدمی کا کام ہے جو اللہ تعالیٰ کی بندشوں سے نکل بھاگنے کی سوچ رہا ہو۔ اس شخص کا کام نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے والا ہو۔
اب اگر وہ دنیا کو دیکھ دیکھ کر اور ان سے متاثر ہوکر احکام الٰہی میں ترمیم کرنے لگیں اور احکامِ الٰہی کی پابندی نہ کریں تو پھر اللہ تعالیٰ نے متنبہ کیا ہے کہ اس کے بعد وہ دنیا میں بھی خدا کے عذاب سے دوچار ہوں گے اور آخرت میں بھی خدا کے عذاب کا سامنا کریں گے۔ لہٰذا اب تمھارے پاس کوئی عذر باقی نہیں ہے۔ دانش مندی اور ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ دنیاوالوں سے ڈرنے کے بجاے اللہ سے ڈرو۔ مسلمانوں کی عظمت و سربلندی اور غلبہ دین کی راہ بھی یہی ہے۔
’’کیا بنگلہ دیش ایک آزاد مسلم ریاست ہے؟‘‘ اس اہم سوال کا جواب قدم قدم پر نفی میںملتا ہے۔ بنگلہ دیشی حکومت کے انسانیت سوز اقدامات سے ہر آن یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ بنگلہ دیش، بھارت کی ایک مقبوضہ ریاست کی سی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اگر مقبوضہ کشمیر پر حکمران محبوبہ مفتی ہے تو بنگلہ دیش کی حاکم حسینہ واجد ہے۔ دونوں جگہوں پر مسلمانوں کے قتل عام اور انسانی حقوق کی پامالی کرنے والی ان حکومتوں کی سرپرست نئی دہلی سرکار ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں تو لوگوں کو براہِ راست بھارتی کنٹرول نظر آتا ہے، تاہم ہر آنے والا دن اس حقیقت کو بے نقاب کرتا ہے کہ بنگلہ دیش کی آزادی و خودمختاری بھی ایک ڈھونگ سے زیادہ کچھ حیثیت نہیں رکھتی کہ جہاں ہروہ معاہدہ اور ہر وہ حکم مانا اور نافذ کیا جا رہا ہے، جو نئی دہلی حکومت کے نزدیک ’بھارتی سلامتی‘ کا ضامن ہے۔ اس تناظر میں کون کہتا ہے کہ بنگلہ دیش ایک آزاد، جمہوری، مسلم ریاست ہے؟
اس مضمون میں بنگلہ دیش کی افسوس ناک اور ناقابلِ بیان صورت حال مختلف حوالوں سے پیش کی جارہی ہے، جس سے کسی حد تک معروضی حالات کا اندازہ لگانا ممکن ہو سکے گا۔
حسینہ واجد حکومت نے بنگلہ دیش کی مساجد سے لائوڈ اسپیکر سے اذان دینے پر پابندی عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ: ’’صرف مسجد کے اندر ہی اذان دی جائے، کیونکہ اس سے معاشرتی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوتا ہے‘‘۔ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) اور جماعت اسلامی نے اس حکم کی مذمت کرتے ہوئے کہا: ’’اس جاہلانہ قدم کا تعلق لوگوں کی نہیں بلکہ حسینہ کی سلامتی سے ہے۔ ملک میں نہ صرف یہ کہ مسلمان، حکومتی وحشت کا شکار ہیں بلکہ خود ہندو بھی اس کی یک جماعتی آمریت سے عاجز ہیں، جس میں اسٹوڈنٹس لیگ کی غنڈا گردی عروج پر ہے‘‘۔ (۲۹جون کے بنگلہ دیشی اخبارات)
پھر ۱۳ روز بعدحسینہ واجد حکومت نے طے کیا کہ: ’’۱۵جولائی۲۰۱۶ء سے تمام مساجد میں خطباتِ جمعہ اور دروس قرآن کی محفلوں کے وعظوں کو مانیٹر کیا جائے گا۔ اسلامک فائونڈیشن بنگلہ دیش کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت بنگلہ دیش کی ۲ لاکھ ۵۰ہزار مساجد میں نمازِ جمعہ کے خطبات دیے جاتے ہیں۔ اسلامک فائونڈیشن کے ڈائریکٹر صمیم افضل نے کہا کہ ہمارے ۷۰ہزار کارکن ان خطبوں کا ریکارڈ رکھا کریں گے،جب کہ حکومتی وزیر امیر حسین کے مطابق اتنی بڑی تعداد میں خطبوں کی نگرانی اور رپورٹنگ کے لیے ہم جن لوگوں کی مدد لیں گے، ان میں سماجی کارکن اور سیاسی پارٹیوں کے کارندے شامل ہوں گے‘‘۔ (ڈیلی اتفاق، ۱۳جولائی۲۰۱۶ئ)
جماعت اسلامی کے قائم مقام سیکرٹری جنرل ڈاکٹر شفیق الرحمن نے عوامی لیگی کابینہ کے اس فیصلے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ: ’’حکومت عام لوگوں کے مذہبی حقوق پر ڈاکا زنی پر اتر آئی ہے، اور نام نہاد سماجی و سیاسی کارکنوں کی مدد سے ایک بدترین آمریت قائم کرنے کی راہ پر گامزن ہے، جسے قوم کا کوئی بھی باشعور فرد برداشت نہیں کرے گا‘‘۔ (بی ڈی جماعت ویب، ۱۳جولائی)
رائٹر نیوز ایجنسی کے مطابق: ۱۰ نقاب پوشوں کے گروپ نے ضلع چواڈانگا میں عبادت گزار آٹھ مسلمانوں پر حملہ کرکے ان کے سر اور داڑھی کے بال کاٹ دیے۔ غالباً ان نقاب پوشوں کا تعلق آزاد خیال اور لبرل عناصر سے ہے‘‘۔ (رائٹر، ۳۱جولائی۲۰۱۶ئ)، جب کہ جماعت اسلامی اور بی این پی کے ذرائع کو یقین ہے کہ ان دہشت گردوں میں اسٹوڈنٹس لیگ کے کارکن شامل تھے۔
حکومتی پارٹی عوامی لیگ کی حمایت یافتہ اسٹوڈنٹس لیگ کے ظلم و تشدد کی داستانیں تو ہر جگہ پھیلی ہوئی ہیں، تاہم انھوںنے ایک قدم آگے بڑھ کر ڈھاکا یونی ورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر عارفین صدیقی کو ان کے گھر میں قید کرکے مرکزی دروازے پر تالہ ڈال دیا اور گھیراائو کرکے زبردستی استعفا لکھنے کے لیے دبائو ڈالا اور ہاتھوں میں جوتے اٹھا کر وائس چانسلر کے خلاف نعرے بلند کیے۔ ان کا جرم یہ بتایا گیا کہ یونی ورسٹی کے سووینیر میں صدر ضیاء الرحمن کو بنگلہ دیش کا پہلا صدر لکھ دیا گیا تھا۔ یہ گھیرائو پانچ گھنٹے تک جاری رہا (بی ڈی نیوز۲۴، ۲جولائی۲۰۱۶ئ)۔ یہ لوگ جب کسی استاد کا احترام کرنے کی صلاحیت سے عاری ہیں، تو ان کے نزدیک کسی مخالف کے لیے کیا جذبۂ ہمدردی ہوسکتا ہے!
جماعت اسلامی کو گھیرنے کے لیے بھارتی لابی کس کس انداز سے کام کر رہی ہے، اس کا اندازہ ان مختلف کوششوں سے لگایا جا سکتا ہے، جن کے زور سے بی این پی کو دھکیلا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر خالدہ ضیا کی پارٹی کے لیڈر ظفراللہ چودھری نے ایک کانفرنس کے دوران میں اپنی سربراہ سے کہا کہ: ’’جماعت اسلامی کو وہ سیاسی پارٹیوں کے اتحاد سے نکال دیں‘‘ مگر خالدہ ضیا نے جوابی تقریر میں اس مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ: ’’ملک کو محفوظ بنانے اور قانون کی حکمرانی لانے کے لیے ہم اور جماعت اسلامی مل کر جدوجہد کریں گے‘‘۔ (بی ڈی نیوز،۲۴ کام، ۲جولائی۲۰۱۶ئ)
اس کے چند روز بعد بی این پی کے حامی انجینیروں اور ڈاکٹروں کے ایک گروپ نے خالدہ ضیا سے مطالبہ کیا کہ: ’’۱۹۷۱ء کے حوالے سے جماعت اسلامی قوم سے معافی مانگے تو اس کے ساتھ چلا جائے‘‘ (ڈیلی اسٹار، ۱۶؍جولائی)۔ دوسری جانب بی این پی کی سٹینڈنگ کمیٹی کے رکن حنان شاہ نے کہا: ’’بی این پی شدید دبائو میں ہے کہ وہ جماعت اسلامی کو اتحاد سے الگ کرے، مگر ہماری سربراہ کا موقف ہے کہ ہم قوم کو متحد رکھنا چاہتے ہیں، منتشر نہیں کرنا چاہتے‘‘ (ڈیلی اسٹار، ۱۶جولائی)۔ انھی حنان شاہ نے کہا: ’’جماعت اسلامی کی بطور سیاسی انتخابی پارٹی رجسٹریشن منسوخ ہو چکی ہے۔ عوامی لیگ نے گذشتہ بجٹ سیشن (جون) میںکہا تھا کہ وہ جماعت اسلامی پر پابندی عائد کر دیں گے، مگر ابھی تک کیوں پابندی نہیں لگائی گئی؟ حکومت ہم سے جماعت کی علیحدگی کی خواہش رکھنے کے بجاے، خود ہی اس پر پابندی عائد کرے‘‘۔ (یونائیٹڈ نیوز آف بنگلہ دیش UNB، ۳۱جولائی۲۰۱۶ئ)
بی ڈی نیوز کی خصوصی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ: ’’خالدہ ضیا کو جماعت اسلامی سے الگ کرنے کے لیے بی این پی کے مؤثر افراد کا گروپ مسلسل کوشش کر رہا ہے، اور اب یوں لگتا ہے کہ کمیونسٹ پارٹی اور اس سے منسلک گروپوں کے تعاون کو حاصل کرنے کے لیے خالدہ ضیا مجبور ہوجائیں گی کہ جماعت کو ۲۰پارٹی اتحاد سے الگ کر دیا جائے‘‘ (بی ڈی نیوز۲۴، ۲۶جولائی)۔ بی این پی کے مرکزی دفتر میں امریکی، برطانوی، سعودی، ہسپانوی، ناروین، آسٹریلوی، جاپانی، انڈونیشی، جرمن اور اقوام متحدہ کے سفارت کاروںنے خالدہ ضیا سے ملاقات میں بنگلہ دیش میں انتہا پسندی کے حوالے سے بریفنگ کے دوران سوال اٹھایا کہ: ’’آپ جماعت اسلامی سے اپنے ربط و تعلق کہ وضاحت کریں؟‘‘ بیگم خالدہ ضیا نے جواب میں کہا کہ: ’’جماعت ایک اسلامی پارٹی ہے اور ہمارا ان سے اتحاد انتخابی تعاون، ملک میں جمہوری عمل اور عدل کی حکمرانی کی بحالی کے لیے ہے‘‘۔ (ڈیلی اسٹار،۲۸جولائی ۲۰۱۶ئ)
داخلی اور خارجی سطح پر بی این پی پر اس نوعیت دبائو کے باوجود: ’’بیگم خالدہ ضیا، جماعت اسلامی سے علیحدہ راستے اختیار کرنے میں مزاحمت کر رہی ہیں، کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ پارلیمنٹ کی ۱۰۰ سے زیادہ نشستوں پر وہ جماعت اسلامی ہی کے ووٹ بنک سے کامیاب ہو سکتی ہیں‘‘ (ڈیلی سٹار، ۱۷جولائی۲۰۱۶ئ)۔ مگر حکومتی ذرائع اور بھارتی اثرات کے تابع ایک لابی اس مقصد کے لیے بی این پی میںمسلسل متحرک ہے، جس کی ایک مثال درج ذیل واقعہ ہے:
بی این پی کے ایک لیڈر اور ڈھاکا یونی ورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر عمادالدین احمد نے یکم اگست کو بطور پارٹی ترجمان بیان دیا تھا: ’’ہم نے یہ طے کر لیا ہے کہ جماعت کو اتحاد سے الگ کر دیا جائے گا، کیونکہ ہم یہ بوجھ نہیں اٹھا سکتے‘‘۔ اس سے اگلے روز جماعتِ اسلامی کے مرکز نے بی این پی سے وضاحت طلب کی، جس پر، پارٹی کے سیکرٹری جنرل مرزا فخرالاسلام عالم گیر نے کہا: ’’یہ ان کے ذاتی خیالات تھے۔ نہ وہ پارٹی کے ترجمان ہیں اور نہ یہ پارٹی کا موقف ہے۔ ہم قوم کو متحد کرنا چاہتے ہیں، تقسیم کرنا نہیں چاہتے، جماعت اسلامی اتحاد کا ایک اہم حصہ ہے اور رہے گا‘‘۔ (روزنامہ اتفاق، ڈھاکا، ۴؍اگست۲۰۱۶ئ)
یاد رہے کہ جماعت اسلامی اور بی این پی کا اتحاد حکومت کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے، جس نے مشترکہ طور پر اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ: ’’حسینہ واجد حکومت، بھارت کے ساتھ مل کر بنگلہ دیش کو سیاسی، معاشی اور سفارتی سطح پر اس سطح تک دھکیلنے کے لیے تیزی سے کام کر رہی ہے کہ جس کے نتیجے میں بنگلہ دیش ’سکم‘ جیسے بے مایہ اور بے حیثیت ملک کی سطح پر آگرے گا۔ دنیا بھر کے ممالک بنگلہ دیش میں جمہوریت بحال کرنے کے لیے کسی نہ کسی درجے میں بات کررہے ہیں، مگر دنیا کے صرف دو ممالک بھارت اور روس نے آج تک یہاں جمہوریت کے تحفظ اور بحالی کا رسمی تذکرہ تک نہیں کیا‘‘۔ (روزنامہ نیا دگنتا ، ڈھاکا، ۱۲جولائی۲۰۱۶ئ)
ایک ماہ بعد بنگلہ دیش کی وزارت خارجہ نے اعلان کیا کہ: ’’ہم نے بھارتی ریاستوں آسام، میگھالایا اور تری پورہ وغیرہ کو بھارت سے براہِ راست تیل اور مال برداری کی خاطر بنگلہ دیش کی سرزمین سے راہداری کی سہولت دے دی ہے‘‘ (انڈی پنڈنٹ، ۹؍اگست۲۰۱۶ئ)۔ اس پر بنگلہ دیش کے صحافتی، سیاسی اور دانش ور حلقوں نے احتجاج کیا کہ:’’ دوستی یک طرفہ مفادات کی بنیاد پر نہیں ہونی چاہیے۔ اس معاہدے میں بنگلہ دیش کے مفادات کا خون کیا گیا ہے‘‘۔ مگر حکومت نے تمام سیاسی اور اخباری حلقوں کے احتجاج کو مسترد کردیا۔ (دی نیوایج، ۲۱؍اگست ۲۰۱۶ئ)
یکم جولائی کی رات ڈھاکا کی ایک بیکری میںکچھ مسلح حملہ آوروں نے گھس کر ۲۴؍افراد کو قتل کردیا، جوابی کارروائی میں چھے حملہ آور مارے گئے۔ مگر حکومت کی پراپیگنڈا مشینری نے فوراً اس واقعے میں جماعت اسلامی اور اسلامی چھاتروشبر کو ملوث قرار دے دیا۔ بعدازاں بنگلہ دیشی وزیر داخلہ نے پاکستان کو بھی اس بہیمانہ واقعے کا ذمہ دار قرار دے ڈالا، لیکن ایک ہی روز بعد جب مارے جانے والے حملہ آوروں کی لاشوں کی شناخت کی گئی تو معلوم ہوا کہ ایک حملہ آور رومین امتیاز، خود ڈھاکا عوامی لیگی لیڈر امتیاز خان بابل کا بیٹا ہے، جو داعش سے وابستہ تھا۔ (بی ڈی نیوز، ۴؍جولائی)۔ اس سب کے باوجود عوامی لیگی حکومت نے جماعت اسلامی کو مسلسل الزامی حملوں کا نشانہ بنائے رکھا، حالانکہ اس نوعیت کا کوئی اشارہ تک موجود نہیں پایا گیا۔ البتہ اس حکومتی آواز میں کشور گنج کے سرکاری مولوی فریدالدین مسعود نے آواز ملائی اور جماعت کو موردِ الزام قرار دیا۔ جس کی جماعت اسلامی کی قیادت نے سخت الفاظ میں مذمت کی (بی ڈی جماعت، ۱۱؍جولائی)۔ ازاں بعد ایک مہینہ گزرا تو اسلام آباد میں بنگلہ دیشی ہائی کمشنر طارق احسن نے کہا: ’’بیکری حملے میں کوئی پاکستانی ملوث نہیں پایا گیا‘‘۔ (روزنامہ ڈیلی ٹائمز، ۳۱جولائی۲۰۱۶ئ)
ایک طرف یہ منظر ہے تو دوسری جانب امریکا کی اسسٹنٹ سیکرٹری براے جنوبی و مرکزی ایشیا نشاڈیسائی نے ڈھاکا پہنچ کر کہا کہ: ’’امریکا، بنگلہ دیش کو دہشت گردی اور انتہا پسندی سے بچانے کے لیے مدد فراہم کرنے پر تیار ہے‘‘(بی ڈی نیوز۲۴،۱۰جولائی۲۰۱۶ئ)۔ اور اس سے اگلے ہی روز ڈھاکا میں امریکا، بھارت اور بنگلہ دیش نے اس مسئلے پر باہم تعاون کے لیے سیرحاصل گفتگو کی (ایضاً، ۱۱جولائی۲۰۱۶ئ)۔ ہمارا خیال ہے کہ بنگلہ دیش میں تشدد کے مختلف واقعات کے ایک سلسلے کو پھیلا کر بھارت یہ چاہتا ہے کہ عوامی لیگ کے ذریعے بنگلہ دیش کو مختلف نوعیت کے ایسے دو طرفہ معاہدوں میں جکڑ دے، جن کی بنیاد پر وقت بے وقت بنگلہ دیش میں دراندازی کا بڑا دروازہ کھل جائے۔یکم جولائی کے اندوہ ناک واقعے کے کرداروں کو جاننے کے باوجود عوامی لیگی مشینری اور وزارتی ٹیم نے جماعت اسلامی کو اس میںملوث کرنے کی روش برقرار رکھی، جس کے خلاف ۲۶جولائی کو جماعت نے تفصیلی جواب دیا۔ اسی عرصے میں روزنامہ اتفاق (بنگلہ) اور ڈیلی انڈی پنڈنٹ نے اپنی اشاعتوں میں جماعت اسلامی کے خلاف زہر اگلا، جسے جماعت نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ: ’’اگر اس حوالے سے حکومت اور ان اخبارات کے پاس کوئی ثبوت ہے تو وہ عدالت میں پیش کرے‘‘۔ (بی ڈی جماعت، ۲۶جولائی ۲۰۱۶ئ)
مثال کے طور پر بیکری کے واقعے کے فوراً بعد نئی دہلی سے یہ تجویز پیش کی گئی کہ: ’’بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان دہشت گردی کے خاتمے کا معاہدہ ہونا چاہیے‘‘۔ اس مقصد کے لیے بھارت نے خالدہ ضیا حکومت پر بھی دبائو ڈالا تھا، مگر ان کی حکومت نے داخلی خود مختاری کے تحفظ کی خاطر اسے ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ تاہم اب دوبارہ نئی دہلی سرکار اس معاہدے کے لیے سرگرم ہے کہ بھارت اور بھارت کی دوست حکومت کے لیے ایسا کرنے کی غرض سے حالات سازگار ہیں۔ (روزنامہ دکن ہیرالڈ، ۱۰جولائی۲۰۱۶ئ)۔ آخر کار بھارت نے بنگلہ دیش کے ساتھ عوامی لیگی حکومت ہی کے ۲۸ جنوری ۲۰۱۳ء کے معاہدے میں ترمیم کرکے اس شق کا اضافہ کرا لیا کہ: ’’اگر ایک جج، مجسٹریٹ یا کوئی ٹربیونل یا کوئی اتھارٹی کسی فرد کے بارے میں وارنٹ جاری کرے، اور ان دونوں ملکوں کا کوئی فرد، ان میں سے کسی ملک میں موجود ہو، تو اس فرد کو اس کے ملک کے سپرد کیا جائے گا، تاکہ اس پر مقدمہ چلایا جا سکے‘‘۔(ڈیلی اسٹار، ۱۹جولائی۲۰۱۶ئ)
ایک بھارتی مضمون نگار، چرانمے کارلیکر نے بنگلہ دیش کے حوالے سے جہاں بہت سی بے ربط اور بے جواز باتیںلکھی ہیں، وہیں جماعت اسلامی بنگلہ دیش کو بدترین تنقید کا نشانہ بنایا ہے (دیکھیے: دی پانیر، نئی دہلی، ۶؍اگست ۲۰۱۶ئ)۔ بھارت سے اس نوعیت کی پراپیگنڈا مہم کا صاف مطلب یہی ہے کہ بنگلہ دیش اور بھارت ایک ہی نوعیت کے ہدف پر اور ایک ہی لب و لہجے میں کام کررہے ہیں۔
ٹائمز آف انڈیا نے جماعت اسلامی کے خلاف ایک تفصیلی مضمون میں امریکی ماہرین سماجیات و سیاسیات کے حوالے سے لکھا ہے کہ: ’’بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے نظریے کو جاننے والے اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ یہ جماعت ایک متوازن اور ماڈریٹ سیاسی پارٹی ہے، یہ ایسی سیاسی تحریک نہیں جو خلافت نافذ کرنے کی داعی ہو‘‘۔ (۱۲جولائی۲۰۱۶ئ)
۶؍اگست ۲۰۱۶ء بنگلہ روزنامہ امادرشوموئی نے وزیر داخلہ اسدالزماں کے حوالے سے بیکری سانحے میں جماعت اسلامی کے رہنما پروفیسر غلام اعظم مرحوم، میر قاسم علی اور مولانا دلاور حسین سعیدی کے بیٹوں کو ملوث قرار دینے کی خبر شائع کی۔ جماعت کے مرکزی سیکرٹری نشرو اشاعت تسنیم عالم نے اس بیان کو گمراہ کن اور بدترین جھوٹ قرار دیتے ہوئے کہا، کہ اگر حکومت کے پاس ایسا کوئی ثبوت ہے تو وہ میڈیا اور عدالت میں پیش کرے۔ (بی ڈی جماعت:۷؍اگست ۲۰۱۶ئ)
۱۵؍اگست، جماعت اسلامی کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل غلام پروار میاںنے حکومتی وزیر مزمل الحق کے اس بیان پر شدید ردِ عمل کا اظہار کیا، جس میں موصوف نے ۱۴؍اگست کو پریس کلب میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ: ’’جماعت اسلامی پر عنقریب پابندی عائد کر کے اس کے تمام منقولہ اور غیر منقولہ اثاثہ جات ضبط کر لیے جائیں گے۔ وزیر کا یہ بیان مکمل طور پر غیر قانونی، غیرمنطقی اور غیر اخلاقی ہے۔ جماعت اسلامی ایک ذمہ دار پارٹی کی حیثیت سے ملک کے قوانین کا احترام اور جمہوری جدوجہد پر یقین رکھتی ہے، تو اس کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کرنے کا کوئی جمہوری اور قانونی جواز نہیں‘‘۔ (بی ڈی جماعت:۱۶؍اگست ۲۰۱۶ئ)
اسلامی بنک بنگلہ دیش جسے عوامی لیگ صرف اس لیے تباہ کرنے اور اس کے اثاثے لوٹنے میںمصروف ہے کہ اس کا آغاز کرنے والے لوگوں میں سے کچھ کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا۔ اس کے بارے میں ویکلی ہالی ڈے نے رپورٹ کیا ہے: ’’اسلامی بنک بنگلہ دیش کی سرمایہ کاری اور محفوظ رقم (ڈپازٹ) ۶لاکھ ۵۰ ہزار ملین ٹکا ہے، جو ۳۰جون تک ۵لاکھ۷۰ ہزار ملین ٹکا تھی۔ بنک نے زرمبادلہ میںکاروبار ۴لاکھ ۵۰ہزار ملین ٹکا میں کیا۔ جس کے برآمدات میں ایک لاکھ ۷۰ہزار ملین ٹکا اور درآمدات میں ایک لاکھ ۲۵ہزار ملین ٹکا تھے۔ بیرون ملک سے ایک لاکھ ۵۵ہزار ملین ٹکا کی ترسیلات بطور زرمبادلہ وصول کرکے قومی معیشت کا حصہ بنانے میںمعاونت کی۔ بنک کے کھاتہ داروں کی تعداد ۵ئ۱۱ ملین ہے، یہ تعداد ملک کے مجموعی کھاتہ داروں کا ۱۴فی صد ہے، اور دنیا میں اسلامی بنکوں کے کھاتہ داروں میں یہ تعداد ۲۵فی صد ہے۔ یہ معلومات صرف گذشتہ چھے ماہ کی ہیں‘‘۔ (Weekly Holiday، ۲۹جولائی ۲۰۱۶ئ)۔ اسی بنک کو برباد کرنے میں عوامی لیگ کے مقامی لیڈر، صحافی اور وزیر پیش پیش ہیں۔
۹؍اگست، ضلع بھاگر گھاٹ کے مقام مورول گنج میں، گورنمنٹ اسکول کے سابق پرنسپل ظہیرالحق کو جماعت اسلامی سے وابستگی کے جرم میں بری طرح مجروح کیا گیا اور اب وہ ہسپتال میں بہت خراب حالت میں داخل ہیں۔ جماعت اسلامی کے ذرائع کے مطابق انھیں عوامی لیگی غنڈوں نے تشدد کا نشانہ بنایا ہے، جو بلا روک ٹوک ظلم و تشدد کیے جا رہے ہیں اور کوئی انھیں روکنے والا نہیں‘‘۔ (بی ڈی جماعت:۱۰؍اگست ۲۰۱۶ئ)
جماعت کے گرفتار شدہ حامیوں میں کئی افراد کے بارے میں حکومت اس امرکا اعتراف ہی نہیں کرتی کہ انھیں گرفتار کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما اور سابق رکن پارلیمنٹ حامد الرحمان نے بیان دیا ہے کہ: ’کشور گنج سے جماعت کی شوریٰ کے رکن پروفیسر مصدق علی کو ایک عرصے سے پولیس نے گرفتار کر رکھا ہے، مگر وہ ان کی تحویل سے مسلسل انکار کیے جارہی ہے، جس پر ہمیں خدشہ ہے کہ انھیں ماوراے عدالت شہید کر دیا جائے گا۔ اسی طرح بیناپل (جیسور) سے اسلامی چھاتروشبر کے رہنما رضوان احمد کی گرفتاری کا ریکارڈ دینے سے انکار کیا جا رہا ہے، جس پر ان کے والدین اور ہم سب محسوس کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ کوئی المیہ ہوجائے گا۔ ‘‘ (بی ڈی جماعت، ۹؍اگست ۲۰۱۶ئ)
یہ کیسی سفاک حکمران عورت ہے کہ جو انسانوں کا خون پینے کے بعد بھی انھیں بخشنے کو تیار نہیں۔ اس چیز کا ایک ثبوت وہ تہمت ہے، جو ۲۱؍اگست کو تقریر کرتے ہوئے لگائی: ’’۲۱؍اگست ۲۰۰۴ء کو عوامی لیگ کے جلسے میں پھٹنے والا گرنیڈ حملہ علی احسن مجاہد نے کرایا تھا‘‘۔ (بنگلہ دیش ٹربیون، ۲۲؍اگست)۔ جماعت کے ترجمان حامد الرحمان نے اس افسوس ناک الزام کی سختی سے تردید کی ، اور کہاکہ جھوٹے مقدمات میں علی احسن مجاہد کی جان لینے کے بعد تو انھیں جھوٹی الزام تراشیوں سے معاف کر دو۔
انسانی حقوق کے گروپ اس امر پر متفق ہیں کہ بنگلہ دیشی حفاظتی مشینری، خاص طور پر ’ریپڈ ایکشن بٹالین‘ (RAB)ظالمانہ طریقے سے لوگوں کو اٹھاتی، تشدد کرتی اور آخر کار اپنی تحویل میں قتل کر دیتی ہے۔ اقوام متحدہ کے یومِ یکجہتی مظلوماں کے موقعے پر ڈھاکا میں انسانی حقوق کی تنظیم ’ادھیکار‘ نے بتایا کہ: گذشتہ چند برسوں کے دوران میں ۱۱۶۹؍افراد کو بنگلہ دیش کی سرکاری ایجنسیوں نے ماوراے عدالت قتل کیا ہے، جب کہ اس سال صرف جون کے مہینے میں ۲۴؍افراد کو اس بہیمانہ طریقے سے مارا گیا ہے۔ ’ادھیکار‘ کے سیکرٹری عدیل الرحمان خاں کے بقول: قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سیاسی رنگ میں رنگنے کے عمل نے عدل و انصاف کا خون کرکے رکھ دیا ہے اور مزید یہ کہ قانون نافذ کرنے والے سرکاری افسران بالفعل مجرمانہ ذہنیت اور اقدامات کے مہرے بن چکے ہیں۔ ماوراے عدالتی قتل و غارت گری حکومت کی پہچان بن چکی ہے جس کے نتیجے میں بنگلہ دیش، مہذب دنیا کے سامنے ایک بدنما داغ سے زیادہ کچھ پہچان نہیں رکھتا‘‘۔ انسانی حقوق کے علَم بردار اشرف الزماں کے بقول: ’’قانون کی حکمرانی کی جگہ بندوق کی حکمرانی کا دوسرا نام بنگلہ دیش ہے، جہاں نظر بندوں اور قیدیوں کو حکومت ماوراے عدالت قتل کرتی اور اسے پولیس مقابلے کا نام دیتی ہے‘‘۔ ایشیا ہیومن رائٹس واچ کے ڈپٹی ڈائریکٹر فل رابرٹسن نے اپنامشاہدہ بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ: ’’سیاسی مخالفین کو دہشت زدہ اور گرفتار کرنے کے علاوہ غائب کرنے اور عدالتی کارروائی کے بغیر مار دینے کی بہت سی مثالیں بنگلہ دیش میں پائی جاتی ہیں۔ عوامی لیگ حکومت ’ریب‘ کو اپنے سیاسی مخالفین کچلنے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ ہماری تحقیق کے مطابق ’ریب‘ کی صورت میں عوامی لیگی حکومت نے ایک منظم ’ڈیتھ اسکواڈ‘ بنا رکھا ہے، جسے عدل و انسانیت سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ اس لیے ’ریب‘ کو لگام دینے کے ساتھ انسانی حقوق کی پامالی کے اس پورے کھیل کو ختم کرنا ہوگا‘‘۔ (VOA، ۲۸جون۲۰۱۶ئ)
اسی موضوع پر جارج ٹائون یونی ورسٹی کے اسکول آف فارن سروس کی پروفیسر کرسٹین فیر (Chritine Fair) نے ایک نشریے میں کہا ہے: ’’حسینہ حکومت: بی این پی اور جماعت اسلامی کی کمر توڑنے میں زیادہ دل چسپی رکھتی ہے اور اپنی اس یلغار پر کسی بھی تنقید و تبصرے کو سننے کی ہرگز روادار نہیں۔ اس حکومت کو حزب اختلاف کے ۱۲ہزار سے زیادہ کارکنوں کو پکڑنے اور جیلوںمیں بند کرنے میں زیادہ دل چسپی ہے، مگر حقیقی معنوں میں انتہا پسندوں کو گرفت میں لانے کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں۔ میں سوال کرتی ہوں کہ کیا واقعی حسینہ واجد، دہشت گردی کے اژدہے سے نمٹنا چاہتی ہے یا اپنا پورا زور اپنے سیاسی مخالفین کو کچلنے میں لگا دینا چاہتی ہے؟ یہ امر ذہن نشین رہے کہ بنگلہ دیش میں بہرحال جماعت اسلامی کے لیے حمایت بلند سطح پر ہے۔ (Support for Jamaat e Islami is actually realy high in Bangladesh)۔ مگر [حسینہ واجد] اس سوچ کی اسیر ہے کہ اس عوامی حمایت یافتہ پارٹی [یعنی جماعت اسلامی] کی ملک سے آنتیں تک نکال کے (eviscelate) رکھ دے۔ جماعت اسلامی کو کسی دہشت گردی میں شامل سمجھنا، یا اسے جنگی جرائم میں قصور وار قرار دینا، ایک بے ہودہ (absurd) مفروضے سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا‘‘۔ (پروگرام، ایشیا ویکلی‘ وائس آف امریکا، ۹جولائی۲۰۱۶ئ)
انٹر نیشنل کرائسز گروپ (ICG) نے اس الزامی مہم پر برملا کہا: ’’بنگلہ دیش کو اس دلدل سے نکالنے کے لیے لازم ہے کہ عوامی لیگ کی حکومت ملک سے بی این پی اور جماعت اسلامی کو بے جواز الزام تراشی، پولیس کے سیاسی استعمال، ماوراے عدالتی قتل، غنڈا گردی کا نشانہ بنانے اور ختم کردینے کے خبط سے نکلے۔ اگر حکومت اس راستے پر نہیں چلے گی تو ملک یقینی طور پر بدامنی بلکہ تباہی کی جانب لڑھکتا جائے گا‘‘۔ (انٹرنیشنل کرائسز گروپ،۱۰جولائی۲۰۱۶ئ)
۱۰؍اگست، ہیومن رائٹس واچ (HRW) نے بنگلہ دیش میں سیاسی کارکنوں کے اغوا، گرفتاریوں، قتل اور ان کے لواحقین کو معلومات نہ دینے کے ظالمانہ اقدامات پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ (پروگریس بنگلہ دیش، ۱۱؍اگست)
۱۷؍اگست،دی بار کونسل اور بار ہیومن رائٹس کمیٹی آف انگلینڈ (BHRC) نے بیرسٹر احمد بن قاسم کی گرفتاری کے خلاف بنگلہ دیشی حکومت کو مشترکہ احتجاجی مراسلہ ارسال کرتے ہوئے لکھاہے:’’بیرسٹر احمد اپنے والد میر قاسم علی کے وکیل بھی ہیں، جنھیں ایک متنازع عدالت سے عدل و انصاف کے منافی کارروائی کرکے سزاے موت سنائی گئی ہے۔ بیرسٹر احمد کی گرفتاری انصاف و عدالت کے عمل میں رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش ہے، اس لیے ان کو فوراً رہا کیا جائے۔ (پالی ٹیکس ہوم، ۱۸؍اگست۲۰۱۶ئ)
اقوامِ متحدہ انسانی حقوق (UNHR) کے ماہرین نے بنگلہ دیش میں سزاے موت پر عمل درآمد کے منتظر قیدی میرقاسم علی کے مقدمے کو دوبارہ انصاف کے عالمی معیار کے مطابق چلانے کا مطالبہ کیا ہے۔ (UNHR) کا خط، ۲۳؍اگست ۲۰۱۶ئ)
آئی سی ٹی ٹربیونل نمبر۱ نے ۱۹۷۱ء میں اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستگی کے ’جرم‘ میں ۱۷جولائی کو ضلع میمن سنگھ کے ناظم محمد اشرف حسین (۶۴سال) محمد عبدالمنان (۶۶سال) محمدعبدالباری(۶۲ سال) کو عدالت میں عدم موجودگی کے دوران سزاے موت سنائی ہے، جب کہ محمدشمس الحق(۷۵ سال)، ایس ایم یوسف علی (۸۳سال)، شریف احمد(۷۱سال)، ہارون (۵۸سال) اور محمد عبدالہاشم(۶۵ سال) کو موت واقع ہونے تک جیل ہی میں قید رکھنے کا حکم سنایا گیا ہے۔ (ڈیلی نیوایج، ڈیلی اسٹار، ۱۸جولائی۲۰۱۶ئ)
۹؍اگست سابق رکن پارلیمنٹ شوکت حسین (جوماضی میں جماعت اسلامی اور پھر بی این پی سے وابستہ رہے) کو جنگی جرائم کی عدالت نے موت تک جیل میں رکھنے کی سزا سنا دی۔ (ڈیلی اسٹار، ۱۰؍اگست ۲۰۱۶ئ)
سات مزید لوگوں پر جنگی جرائم کا مقدمہ چلانے کا آغاز کیا گیا ہے، جن میں حسب ذیل حضرات شامل ہیں: ممبر پارلیمنٹ ایم اے حنان(۸۰سال)، رفیق سجاد(۶۲سال)، غلام شبیر احمد (۶۹سال) میزان الرحمان(۶۳سال)، ہرمز علی(۷۳ سال)، عبدالستار(۶۴ سال)، فخرالزمان (۶۱ سال)، غلام ربّانی(۶۳ سال) ۔ان میں سے آخری دونوں افراد گرفتار نہیں ہو سکے، جب کہ باقی جیل میں قید ہیں۔ (ڈیلی سٹار، ۱۲جولائی۲۰۱۶ئ)
بنگلہ دیش کی نام نہاد خصوصی عدالت نے سندر گنج سے جماعت اسلامی کے جن لیڈروں پر جنگی جرائم کے مقدمے چلانے کا اعلان کیا، ان میں یہ حضرات شامل ہیں: ابو صالح محمد عبدالعزیز (۶۵سال)، روح الامین الیاس(۶۱سال)، عبداللطیف(۶۱ سال)، ابومسلم محمد علی (۶۱سال) نجم الہدیٰ(۶۰سال)، عبدالرحیم میاں(۶۲سال) ۔(ڈھاکا ٹریبیون، ۲۹جون۲۰۱۶ئ)
۲؍اگست کو یہ پہلی بار ہوا کہ پاکستانی فوج سے وابستہ ایک سابق بنگالی آفیسر محمد شاہد اللہ (عمر۷۲سال) کو ’جنگی جرائم‘ کے نام پر گرفتار کر کے خصوصی ٹربیونل (ICT) میںمقدمہ چلا جا رہا ہے۔ شاہد اللہ ۱۹۷۱ء میں کومیلا چھائونی میں بطور پاکستانی فوجی خدمات انجام دے رہے تھے۔ (ڈیلی اسٹار، ۳؍اگست۲۰۱۶ئ)
نواکھالی سے تعلق رکھنے والے قیدیوں: امیر علی(۷۰سال)، محمد زین العابدین (۷۳سال)، ابوالکلام منصور(۶۷سال) اور محمد عبدالقدوس(۸۴سال) پر ۱۹۷۱ء میں پاکستان کا ساتھ دینے کے الزام میں جنگی جرائم کے مقدمے کی کارروائی شروع کر دی گئی۔ (ڈیلی اسٹار، ۸؍اگست ۲۰۱۶ئ)
میمن سنگھ سے عبدالرحیم(۸۰سال)، جمال الدین(۷۵سال)، عبدالسلام منشی (۷۱سال)، راج علی فقیر(۶۵سال) کو ۱۹۷۱ء میں پاکستان کا ساتھ دینے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ (ڈیلی اسٹار، ۹؍اگست ۲۰۱۶ئ)
یکم جولائی کو پولیس نے اسلامی چھاتروشبر کے دو رہنمائوں کو اپنی تحویل کے دوران گولی مار کر شہید کر دیا۔ یاد رہے ضلع جیندسے اسلامی چھاترو شبر کے صدر شاہد المحمود اور اسی ضلع میں پولی ٹکنیک کالج یونٹ کے نظام انیس الرحمان کو بالترتیب ۱۳ اور ۱۶جون کو بلاجواز گرفتار کیا گیا تھا۔ مگر پولیس اور انتظامیہ مسلسل انکار کرتی رہی کہ انھیں گرفتار کیا گیا ہے، لیکن ۳۰جون اور یکم جولائی کی درمیانی شب اچانک تھانہ تل باڑیاں میں ان طالب علموں کی میتوں کو رکھ کر یہ کہانی مشہور کردی کہ: ’’یہ پولیس مقابلے میں مارے گئے ہیں‘‘۔ (بی ڈی جماعت، ۲جولائی۲۰۱۶ئ)
اسلامی چھاتروشبر جیندہ کے رہنما اور اسلامک یونی ورسٹی کشتیا میں عربی لٹریچر کے طالب علم ۲۲ سالہ سیف الاسلام کو پولیس نے ۱۰روز قبل گرفتار کیا اور پھر ۱۸جولائی کو ایک جعلی پولیس مقابلے میں گولی مارکر شہید کر دیا۔ (بی ڈی جماعت، ۱۹جولائی۲۰۱۶ئ)
۱۲؍اگست کو ’’جماعت اسلامی ہاریناکنڈا (ضلع جنیدہ) کے امیر مولانا ادریس علی کو آٹھ روز قبل پولیس گرفتار کرکے لے گئی تھی، لیکن بار بار پوچھنے پر ان کے بارے میں کوئی جواب نہ دیا گیا اور آج مضافات میں گولیوں سے چھلنی ان کی لاش ملی۔ قائم مقام امیر جماعت اسلامی بنگلہ دیش مقبول احمد نے اس سفاکانہ قتل کی شدید لفظوں میںمذمت کی‘‘۔ (بی ڈی جماعت، ۱۳؍اگست)
مندرجہ بالا تاریخ وار چند خبروں کے مطالعے سے معلوم ہوگا کہ پورے بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے وابستگان کے لیے دہشت اور ریاستی فسطائیت کی ہولناک فضا قائم ہے۔ جس کا شکار بزرگ، نوجوان، خواتین اور طالبات ہیں۔ یہ ایسی فضا ہے، جس میں ہرکارکن اس دبائو میں ہے کہ شاید اگلے لمحے مجھے بھی گرفتار نہ کرلیا جائے، یا اس کارکن کے وابستگان یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا عزیز شاید آج گھر آہی نہ سکے۔
۲۸جون، بینی پور گائوں سے جماعت اسلامی اور اسلامی چھاتروشبر کے ۱۵کارکنوں کو خفیہ پولیس اٹھا کر نامعلوم مقام پر لے گئی، تاحال ان کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہو سکا۔
۳۰جون، چپائی نواب گنج سے جماعت، شبر کے ۱۵کارکنوں کو پولیس گرفتار کرکے لے گئی۔
راجشاہی شہر سے جماعت اسلامی کے ۱۱کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا (۱۲جولائی۲۰۱۶ئ)
۲۵جولائی کو راج شاہی یونی ورسٹی سے اسلامی چھاترو شبر کے لیڈر جسیم الدین کو پولیس نے اٹھایا، لیکن دو دن گزر جانے کے باوجود کسی جگہ اعتراف نہیں کیا کہ وہ پولیس کی قید میں ہیں۔ اس پر جماعت نے سخت تشویش کا اظہار کیا، مگر کہیں شنوائی نہیں ہوئی۔ (روزنامہ پروتھم آلو، ۲۷جولائی)
جماعت اسلامی لکشم پور سے وابستہ ۱۱خواتین کو گھروں سے گرفتار کرکے جیل میں بند کردیا گیا ۔(ڈیلی سن، ۲۳جولائی۲۰۱۶ئ)
۲۶جولائی کو سلہٹ کے مختلف مقامات سے اسلامی جمعیت طالبات (اسلامی چھاتری شنگھستا) سے منسلک طالبات کو گھروں سے گرفتار کر کے حوالات میں بند کر دیا گیا، اور ان کے اہل خانہ کو ملنے کی اجازت نہیں دی گئی، جس پر شہریوں نے گہری تشویش کا اظہار کیا (بی ڈی جماعت، ۲۷جولائی)
۲۷جولائی کو وکٹوریہ گورنمنٹ کالج کومیلا سے اسلامی جمعیت طالبات سے وابستہ تین طالبات کو گرفتار کر لیا۔ (روزنامہ فنانشل ایکسپریس، ۲۸جولائی ۲۰۱۶ئ)
۱۴ جولائی کو تنگائل سے جماعت اسلامی کی بزرگ خاتون حمیرا بیگم اور ان کے بیٹے امان اللہ سرکار (صدر اسلامی چھاتر و شبر شمالی دیناج پور) کو گرفتار کر لیا گیا۔
کبیر ہاٹ، نواکھالی کے امام حافظ بلال حسین کو جمعے کے خطبے کے دوران اس وقت گرفتار کر لیاگیا جب انھوںنے حکومت کی تعلیمی پالیسی پر تنقید کی۔ (ڈھاکا ٹریبیون، ۲۴جولائی۲۰۱۶ئ)
۲۹جولائی کو ماگورا ضلعی جماعت اسلامی کے نائب امیر لیاقت علی اور اسلامی چھاتروشبر کے مقامی صدر الامین کو گرفتار کر لیا گیا۔ (بی ڈی جماعت، ۳۰جولائی)
یکم اگست کو ضلع چاپیا نواب گنج سے جماعت اسلامی اور اسلامی چھاتروشبر کے ۲۱لیڈروں اور کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔ (ڈیلی اسٹار، ۲؍اگست)
۲؍اگست کو ڈھاکا کے مدھو باغ علاقے سے اسلامی چھاتروشبر کے ۱۴کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔ (روزنامہ پروتھم آلو، ۳؍اگست)
۳؍اگست کو جماعت اسلامی راج شاہی کے امیر عبدالہاشم سمیت جماعت اسلامی کے آٹھ کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔ (ڈیلی اسٹار، ۴؍اگست)
۵؍اگست کو ست کانیا (ضلع چٹاگانگ) سے جماعت کے امیر محمد واجد علی اور جماعت کے آٹھ بزرگ کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔ اسی روز ضلع جیسور اسلامی چھاتروشبر کے سیکرٹری اسرائیل حسین اور روح الامین کے ہمراہ چھے کارکنوں کو بھی گرفتار کیا گیا۔ کچھ ہی دیر بعد اسرائیل حسین اور روح الامین کو گولی مار کر زخمی کر دیا، جنھیں زخمی حالت میں ہسپتال داخل کرایا گیا۔ (بی ڈی جماعت، ۶؍اگست)
۵؍اگست کو جماعت اسلامی اور چھاتروشبر کے مزید ۱۸کارکنوں کو ٹھاکر گائوں، چاندی پور، نعمت پور سے گرفتار کیا گیا۔ (ڈیلی اسٹار، ۶؍اگست)
۶؍اگست کو جماعت اسلامی جے پور ہاٹ کے امیر عطاء الرحمان (۶۸سال)،آفس سیکرٹری فرید حسین اور گانجا چھارا سے جماعت کی شوریٰ کے رکن محمد مصلح الدین (۵۲سال) کو بھی گرفتار کرکے حوالات میں بند کر دیا۔ (ڈیلی اسٹار، ۷؍اگست)
۷؍اگست کو جماعت اسلامی کے چھے کارکن گرفتار کر لیے گئے۔ (ڈیلی سن، ۸؍اگست)
۹؍اگست کو پولیس نے جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما، اسلامی چھاتروشبر کے تاسیسی ناظم اعلیٰ اور موت کی سزا سنائے جانے والے میر قاسم علی کے بیٹے بیرسٹر میر احمد بن قاسم کو گرفتار کرلیا۔ اس حوالے سے ان کی اہلیہ تہمینہ اخترنے بتایا کہ: ’’پانچ افراد نے رات کے پچھلے پہر دروازہ کھٹکھٹایا اور دروازہ کھولتے ہی انھیں دبوچ کر سفید رنگ کی گاڑی میں دھکیلا او رلے گئے‘‘۔ (بی ڈی نیوز۲۴، ۱۰؍اگست)
۱۰؍اگست کو ست خیرا سے جماعت اسلامی اور اسلامی چھاتروشبر کے تین کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔ (ڈیلی سن، ۱۱؍اگست)
۱۴؍اگست کو ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بیرسٹر میرقاسم علی اور بی این پی کے لیڈر ہمام قادر چودھری کی غیر قانونی گرفتاری پر شدید احتجاج کیا ہے۔ (نیا دگنتا، ۱۵؍اگست)
۱۲؍اگست کو سراج گنج سے جماعت کے پانچ کارکنوں اور جماعت اسلامی ہی کی ایک بزرگ خاتون کو گرفتار کیا گیا۔ (بی ڈی جماعت، ۱۳؍اگست)
۱۴؍اگست کو شاہ جہان پور کے امیر جماعت مولانا عبدالسلام اور چاندپور کے امیر جماعت عبدالرشید کو گرفتار کیا گیا۔ (بی ڈی جماعت:۱۵؍اگست)
۱۵؍اگست کو ست خیرا سے جماعت اور چھاترو شبر کے تین کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ (ڈیلی سن، ۱۶؍اگست)
خوف اور دہشت کی اس فضا کے باوجود ۱۶؍اگست، بیرسٹر میر احمد بن قاسم اور جماعت وشبر کے دیگر معلوم اور نا معلوم قیدیوں کے بارے میں بنگلہ دیش میں پُرامن احتجاج کیا گیا۔ جس میں ڈھاکا، چٹاگانگ، کھلنا، سلہٹ، راج شاہی، رنگ پور، باری سال، غازپور، اور کومیلا میں بڑی بڑی ریلیاں نکلیں۔ (بی ڈی جماعت،۱۷؍اگست)
۲۰؍اگستکو ڈھاکا میں جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر کے ۱۸ کارکنوں پر سپیشل پاور ایکٹ، کے تحت مقدمے قائم کرکے انھیں حوالات میں بند کر دیا گیا۔ (دی اسٹار، ۲۱؍اگست)
۲۰؍اگست کو راج شاہی یونی ورسٹی سے اسلامی چھاتروشبر کے ۱۳کارکنوں: عبدالحق مانک، شریف الاسلام، مہدی حسن، انصار الحق، مشتاق احمد، عبدالصبور، فہد عالم، ابوالخیر، یوسف علی، سراج الاسلام، لقمان حسین، ریحان حسین اور ساجد کو دہشت گردی کی دفعات کے تحت قید کر لیا گیا۔ ان کے ساتھ ہاسٹل کے امام مسجد ثناء اللہ بھی قیدکر لیے گئے۔ (دی اسٹار، ۲۱؍اگست)
۲۰؍اگست کو جنیدہ ضلع کے مختلف مقامات سے اسلامی چھاتروشبر اور جماعت اسلامی کے ۲۱کارکن گرفتار ہوئے۔ (ڈیلی سن، ۲۱؍اگست)
۲۲؍اگست کی رات پونے بارہ بجے پروفیسر غلام اعظم مرحوم کے بیٹے (ریٹائرڈ) بریگیڈیر جنرل عبداللہ الامان اعظمی کو خفیہ پولیس نے گرفتار کر لیا۔ (روزنامہ نیادگنتا، ۲۳؍اگست)
۵؍اگست کو حکومت نے جماعت اسلامی اور شبر کے کارکنوں کے ۳۵’نیوزپورٹل‘ بلاک کر دیے۔ یاد رہیکہ اس سے قبل عوامی لیگی حکومت ’چینل ون‘ دگنتا ٹیلی ویژن، اسلامک ٹیلی ویژن اور روزنامہ امارادیش پر پابندی عائد کر چکی ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ نام نہاد آمرانہ حکومت، کوئی بھی اختلافی نقطۂ نظر سننے کی تاب نہیں لا سکتی۔ (بی ڈی جماعت، ۶؍اگست)
۸؍اگست کو پولیس نے بنگلہ میل۲۴ ڈاٹ کام، ویب سائٹ کے دفتر پر دھاوا بول دیا اور موجود صحافیوں کو گرفتار کر کے نظر بند اور ویب سائٹ کو بند کرا دیا۔ (ڈیلی میل، لندن، ۹؍اگست)
۱۹؍اگست کو ۸۱ سالہ بزرگ برطانوی صحافی شفیق رحمان، جنھیں حسینہ واجد کے بیٹے کو قتل کرنے کی سازش کا کردار قرار دیتے ہوئے سزاے موت سنائی گئی ہے۔ جیل میں ان کی صحت نہایت خراب ہے۔ ان کے بیٹے نے کہا ہے کہ میرے والد ایک بے بنیاد مقدمے کے نتیجے میں پھانسی گھاٹ پر پہنچنے سے پہلے ہی موت سے دوچار ہونے کی سرحد پر ہیں‘‘۔ (دی انڈی پنڈنٹ، ۲۰؍اگست)
۱۶؍اگست کو چٹاگانگ یونی ورسٹی کے شعبہ اسلامیات اور شعبہ عربی کی لائبریریوں سے مولانا مودودی اور ذاکر نائیک کی تمام کتب اور پمفلٹ ضبط کر کے، ریکارڈ سے خارج کردیے گئے۔ (بی ڈی نیوز۲۴، ۱۷؍اگست)
۲؍اگست کو بنگلہ دیشی حکومت نے طے کیا ہے کہ پورے بنگلہ دیش میں ڈاکٹر ذاکر نائیک سے منسوب ’پیس انٹرنیشنل اسکول سسٹم‘ کو بند کر دیا جائے۔ (روزنامہ ڈھاکا ٹریبیون، ۳؍اگست)
۱۹؍اگست شہید مطیع الرحمان نظامی کی اہلیہ شمس النہار نظامی کے زیر انتظام چلنے والے اسلامک انٹرنیشنل اسکول سے جماعت اسلامی کے ۱۸ کارکنوں کو گرفتار کر لیا، جو مذکورہ اسکول میں شعبہ تدریس اور انتظامات سے وابستہ تھے۔ (بی ڈی نیوز۲۴، ۲۰؍اگست)
بنگلہ دیش کی حکومت کس درجے اپنے سے اختلاف رکھنے والوں کا گلا گھونٹنے پر تلی ہوئی ہے، اس کا اندازہ اس خبر سے لگایا جاسکتا ہے کہ وزیر اطلاعات حسن الحق کے بقول: ’’ہم ملک کی بڑی یونی ورسٹیوں میں جماعت اسلامی کے حامی استادوں اور طرف دار طالب علموں پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں‘‘۔ [پاکستان کے خلاف بدترین پراپیگنڈا کرنے والے بدنام زمانہ کردار] شہریار کبیر نے کہا: ’’بی این پی اور جماعت اسلامی کے حامی اہل ثروت نے نارتھ سائوتھ یونی ورسٹی (NSU)قائم کی تھی، جس کا وجود ناقابلِ برداشت ہے۔ پھر سوال یہ ہے کہ اس یونی ورسٹی میں پروفیسر غلام اعظم کے دو بیٹے کیوں پڑھا رہے ہیں؟ جب کہ مطیع الرحمن نظامی کی اہلیہ کی سربراہی میں مینار یونی ورسٹی کیسے چل رہی ہے‘‘؟ (ڈیلی سٹار، ۲۴جولائی۲۰۱۶ئ)
اسی طرح بنگلہ دیش حکومت نے اس فیصلے کا اعلان کیا ہے کہ جن جن لوگوں کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمات چل رہے ہیں، یا جن افراد پر مقدمات چلنے کے بعد سزائیں نافذ ہو چکی ہیں، ان کے نام فلیٹوں یا پلاٹوں کی ملکیت منسوخ کر دی گئی ہے۔ اس فیصلے سے کئی رہنمائوں کے پس ماندگان و لواحقین براہ راست متاثر اور بے گھر کیے جا رہے ہیں (روزنامہ ڈھاکا ٹریبیون، ۱۴جولائی)۔اس اعلان پر قمر الزمان شہید کے بیٹے حسن اقبال نے کہا: ’’میرے والدِ محترم نے پلاٹ ایک صحافی اور مناب زمین کے ایڈیٹر مطیع الرحمان سے خریدا تھا، حالانکہ وہ خود ماہ نامہ سنار بنگلہ کے ایڈیٹر اور نیشنل پریس کلب کے سنیئر ممبر تھے‘‘۔ (بی ڈی نیوز۲۴، ۱۸جولائی۲۰۱۶ئ)
یہ بہیمانہ اعلان تو ہے سرکاری سطح کا، مگر بنگلہ دیش میں اور خود ڈھاکا میں بھی جماعت اسلامی کے کئی کارکنوں کے گھروں پر یہ پوسٹر لگائے گئے ہیں کہ: ’’یہ گھر اور ملک چھوڑ کر چلے جائو، ہم تمھاری زندگی کی ضمانت نہیں دیتے‘‘۔ اور جب جماعت کے ایسے متاثرین نے سول انتظامیہ اور پولیس کو رپورٹ درج کرنے کے لیے کہا تو جواب ملا: ’’ہم کیا کریں‘‘۔ یہ ہے وہ صورتِ حال جس میں جماعت کے فعال کارکنوں پر عرصۂ حیات تنگ کیا جا رہا ہے۔
۲۵جولائی کو حسینہ واجد نے عمومی دہشت پھیلانے اور نفرت پیدا کرنے کے لیے براہِ راست ایک بیان میںکہا کہ: ’’اگست میں جماعت اسلامی کے حامی افراد کچھ مشہور تعلیمی اداروں پر حملے کرکے میر قاسم علی کو رہا کرانے کی کوشش کریں گے‘‘(ڈیلی اسٹار، ۲۶جولائی۲۰۱۶ئ)۔ جماعت اسلامی نے اس احمقانہ بیان کو فوراً مسترد کردیا۔
۲۲؍اگست کو بنگلہ دیش کی کابینہ نے ایک قانون کی منظوری دی، جس کے تحت بنگلہ دیش کی ’جنگ ۱۹۷۱ئ‘ یا شیخ مجیب الرحمان کے بارے میں کوئی مخالفانہ یا تنقیدی بات لکھنے، چھاپنے یا بولنے کی سزا عمرقید اور ایک کروڑ ٹکا جرمانہ ہوگا (ڈیلی اسٹار، ۲۳؍اگست ۲۰۱۶ئ)۔ اس قانون کا واضح مقصد ۱۹۷۱ء میں مکتی باہنی کے مظالم، لُوٹ مار اور شیخ مجیب کے فیصلوں پر ہرقسم کے نقدوتبصرے کا باب بند کرنا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا آج کا زمانہ ایسے فسطائی قانون کو قبول کرسکتا ہے؟
برطانوی رکن پارلیمنٹ سائمن ڈنکزک (Simon Danczuk) نے بڑی دردمندی سے کہا: ’’اس بات کے ناقابل تردید ثبوت قدم قدم پر پھیلے نظر آتے ہیں کہ بنگلہ دیش میں جمہوریت کی کمر توڑ کے رکھ دی گئی ہے‘‘۔ ویسٹ منسٹر ہال، لندن میں خطاب کرتے ہوئے انھوںنے مزید کہا: ’’میں گذشتہ دنوں بنگلہ دیش میں تھا، جہاںمعلوم ہوا کہ مقامی حکومتوں کے انتخابات میں بیلٹ بکس پہلے ہی سے حکومتی پارٹی کے حق میں ووٹوں سے بھرے دیکھے گئے، اور اس سے زیادہ صدمہ انگیز بات یہ تھی کہ مخالف پارٹیوں کے امیدواروں کے نام ہی بہت سی جگہوں پر بیلٹ پہ طبع نہیں کیے گئے تھے، اور پھر انھیں انتخابی مہم چلانے کی اجازت بھی نہیں دی گئی تھی‘‘۔ (یو این بی، ۳۰جون۲۰۱۶ئ)
نیویارک ٹائمز نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ حسینہ واجد کی حکومت اپنے سیاسی مخالفین کو قید کرنے، بلاجواز نظربند رکھنے، حتیٰ کہ انھیں دنیا سے غائب تک کردینے کا شرم ناک ریکارڈ رکھتی ہے۔ بیرسٹر میر احمد بن قاسم اور ہمام قادر چودھری کی گرفتاری اس کی تازہ ترین مثال ہے جن کے بارے میں حکومت کسی قسم کی اطلاع دینے سے انکاری ہے۔ اس چیز سے یہ خطرہ پیدا ہوگیا ہے کہ ان قیدیوں کی جان کو خطرہ ہے، کیونکہ حسینہ واجد حکومت کا اس ضمن میں بہت بُرا ریکارڈ ہے‘‘۔(اداریہ، نیویارک ٹائمز، ۲۴؍اگست ۲۰۱۶ئ)
o
جیسا کہ اس سے پہلے بھی ہم نے اہلِ پاکستان کے سامنے باربار یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بھارت، بنگلہ دیش کو اپنے بہیمانہ سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرے گا اور پاکستان کے خلاف نفرت پھیلانے کا مسلسل کام کرے گا۔ بنگلہ دیش حکومت کی طرف سے تھوڑے عرصے بعد پاکستانی فوج کے ۱۹۵؍ افسروں اور جوانوں کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمے چلانے کا اعلان ، ہمارے خدشے کی تصدیق کرتا ہے۔ ابھی گذشتہ ماہ جولائی میں ایک بار پھر وزیرقانون انیس الحق نے پارلیمنٹ میں اعلان کیا کہ: ’’ہم نے ایک کمیٹی بنادی ہے، جو پاکستانی فوج کے ۱۹۵؍ افسروں کے خلاف جنگی جرائم کے ثبوت اکٹھے کرے گی۔ پھر ان کا جائزہ لے گی اور اس کے بعد ان پرمقدمہ چلائے گی‘‘۔ (ڈیلی اسٹار، ۲۸جولائی۲۰۱۶ئ)
یہ کیسی مضحکہ خیز بات ہے کہ ’جرائم‘ ۱۹۷۱ء میں ہوئے اور ثبوت ۲۰۱۶ء میں اکٹھے کرنے کی مہم شروع ہورہی ہے۔ یہ بات بذات خود ایک دلیل ہے، کہ ان کے پاس ثبوت موجود نہیں بلکہ ثبوت گھڑنے ہوں گے۔ یہی کام جماعت اسلامی کے ان مظلومین کے مقدمات میںکیا جا رہا ہے، جنھیں ۴۲سال بعد ’مقدموں کے ثبوت جمع‘ کرکے پھانسیوں پر لٹکایا جا رہا ہے۔ جماعت اسلامی کے مسئلے پر پاکستانی حکومت اور مقتدر قوتوں کی بے حسی، لاتعلقی یا مجرمانہ غفلت کے سبب، اب آہستہ آہستہ خود انھی کو ایسے ’ڈراما مقدمات‘ کا کردار بنایا جا رہا ہے۔ پورا امکان ہے کہ اس بے ہودگی میں بنگلہ دیشی اور بھارتی کاذبین کا ساتھ دینے کے لیے پاکستان سے ’روشن خیال‘ اور ’انسانی حقوق‘ کے نام نہاد علَم بردار شعبدہ بازوں اور میڈیا پر تاریخ کا قتلِ عام کرنے والوں کا تعاون بھی حاصل ہوگا (اور وہ تائید کنندگان اسی طرح اے گریڈ درجات کا مزے لوٹیں گے، جس طرح ایم کیو ایم لطف اندوز ہوتی چلی آرہی ہے)۔
السلام علیکم کے معنی ہیں تم پر سلامتی ہو ۔ایک مسلمان جب دوسرے مسلمان کو سلام کرتا ہے اور السلام علیکم کہتا ہے تو یہ صرف اظہارِمحبت ہی نہیں دعا بھی ہے۔ دُعا کے معنوں میں یہ ایک بہترین دُعا ہے کہ تم میری طرف سے ہر طرح محفوظ رہو۔ ’السلام‘ ہر طرح کی سلامتی ، ظاہری سلامتی بھی اور باطنی سلامتی بھی، یعنی تمھاری زندگی، صحت، جان و مال ، اولاد، ایمان اور اخلاق ہر چیز سلامتی میں رہیں، کیوںکہ صرف سلام نہیں السلام ہے۔ ’ال‘ استغراق کے لیے ہے ، یعنی مکمل سلامتی۔ پھر دنیا کی نہیں آخرت کی بھی۔ اس اعتبار سے السلام علیکم بہت جامع الفاظ ہیں ۔
عربوں میں یہ رواج تھا صباح الخیر (اچھی صبح ہو)، صباح النور (روشن صبح ہو)۔ انگریزی الفاظ گڈمارننگ، گڈ ایوننگ کا مفہوم بھی وقتی سلامتی کو ظاہر کرتا ہے۔ اس میں دعا کا پہلو نہیں بلکہ توقع ظاہر کی گئی ہے کہ تمھاری صبح و شام اچھی ہو لیکن اسلام ’السلام‘ کہنے کی ہدایت کرتا ہے جو صبح و شام تک محدود نہیں مکمل سلامتی کی بات ہے اور اگر وسیع معنوں میں لیا جائے تو آخرت کی سلامتی بھی۔
ایک مسلمان مفکر کا قول ہے: وہ پوچھتے ہیں کہ تم جانتے ہو سلام کس چیز کا نام ہے؟ پھر وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ سلام کرنے والا دراصل یہ کہتا ہے کہ تم میری طرف سے بالکل مطمئن رہو، بے خوف رہو، یعنی مجھ سے تمھیں کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔
غور کریں کہ جب ہم کسی سے ملنے جاتے ہیں اور السلام علیکم کہتے ہیں اور پھر اس کو طعنے دینے لگیں، اس کو بُرا بھلا کہیں تو یوں اس کے اور اپنے اعمال کو برباد کرنے لگتے ہیں۔ اگر اس کے ساتھ جھوٹ، دھوکا اور فریب کا معاملہ کرنے لگیں تو ہمارے قول و فعل میں تضاد ہوجاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سلام ایک ایسی یاد دہانی ہے جو ہمیں احساس دلاتا ہے کہ تم جس سے مل رہے ہو نہ تو اس کو تکلیف دینا مقصود ہے اور نہ اس کی جانب سے تکلیف کا امکان ہی ہے۔ شاید ہم نے سلام کی روح کو نہیں سمجھا اور کبھی شعوری طور پر سلام نہیں کیا۔ صرف ایک روایت کی طرح اظہار کرتے ہیں۔
ہم سب مسلمان ہیں مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض علاقوں میں سلام کے بجاے آداب کہنے کا رواج ہے۔ یہ ہی نہیں اس کی ادایگی کے لیے بھی مختلف طریقے اپنائے جاتے ہیں۔ سیدھی ہتھیلی کو کچھ گولائی میں خم دے کر جھک کر آداب کیا جاتا ہے۔ جتنی محترم بزرگ اور عمررسیدہ ہستی کو آداب کرنا ہو اس قدر جھکتے ہیں۔ کہیں آداب عرض کیا جاتا ہے تو اس کے جواب میں جیتے رہو کی دُعا دی جاتی ہے۔ اسی طرح جوڈوکراٹے کی ابتدا میں ایک دوسرے کو جھک کر سلام کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات جلدی میں سام علیکم کہہ دیتے ہیں جس میں ’لام‘ کی ادایگی نہیں ہوتی تو معنی بدل کر موت کے ہوجاتے ہیں۔ بعض علاقوں میں سلام کرتے ہوئے پائوں چھوتے ہیں۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو اسے بدتہذیبی سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح پگڑی اُتار کر پیروں میں رکھنا، پیروں اور گھٹنوں کو چھونا، زبان سے سلام کرنے کے بعد مصافحہ پھر ہاتھوں کو چومنا بھی لازمی سمجھا جاتا ہے۔
نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ نے جب حضرت آدم ؑ کو پیدا کیا تو فرمایا: جائو سلام کرو فرشتوں کے ان گروہوں کو جو بیٹھے ہوئے ہیں۔ پھر غور سے سننا جو وہ تم کو کہیں گے۔ وہ تمھارا اور تمھاری اولاد کا سلام ہوگا۔حضرت آدم ؑ نے جاکر کہا: السلام علیکم تو انھوں نے کہا: وعلیک السلام ورحمۃ اللہ۔ جواب میں السلام علیکم سے بڑھ کر ورحمۃ اللہ اضافی کہا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جب تمھیں کوئی سلام کرے تو اُسے اس سے کچھ زائد دعا دو ورنہ اس کے برابر جواب تو ضرور دو۔ روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض باتوں کا حکم دیا۔ بیمار کی مزاج پُرسی کا، جنازے کے پیچھے چلنے کا، یعنی اس میں شریک ہونے کا، چھینکنے والے کی چھینک کا جواب دینے کا، یعنی یرحمک اللہ کہنے کا، کمزور کی مدد کرنے کا، مظلوم کی فریاد رسی کرنے کا، سلام پھیلانے کا اور قسم دلانے والے کی قسم پوری کرنے کا۔ ایک روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے بڑا بخیل وہ ہے جو سلام کرنے میں بخل کرے۔
حضرت ابویوسف عبداللہ بن سلامؓ سے روایت ہے کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے سنا: اے لوگو! سلام کو پھیلائو، لوگوں کو کھانا کھلائو، رشتوں کو ملائو، صلہ رحمی کرو، اور اس وقت نماز پڑھو جب لوگ سوئے ہوں۔ تم جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہوجائو گے۔
نبی کریمؐ نے فرمایا: وہ آدمی اللہ کے زیادہ قریب ہے جو سلام میں پہل کرتا ہے۔ ایک روایت میں ہے: ’’اس شخص کا دل کبر اور تکبر سے خالی ہوتا ہے جو سلام کرنے میں پہل کرتا ہے‘‘۔ ہم انتظار کرتے رہتے ہیں کہ کوئی ہمیں سلام کرے۔ اگر ایسا خیال دل میں آئے تو اسے تکبر سمجھتے ہوئے سلام میں پہل کرنی چاہیے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ اسلام کی کون سی بات سب سے زیادہ بہتر ہے؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: تم بھوکے کو کھانا کھلائو اور ہرشخص کو سلام کرو چاہے تم اسے پہچانو نہ پہچانو۔
ہمارا عمل یہ ہے کہ ہم صرف ان کو سلام کرتے ہیں جنھیں پہچانتے ہیں بلکہ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ مجلس میں جاکر نام لے کر سلام کرتے ہیں، جب کہ ایسے موقع پر سب کو سلام کرنا چاہیے۔ ممکن ہے آپ کسی اجنبی کو اس لیے سلام نہیں کر رہے کہ آپ اسے نہیں جانتے لیکن ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ سلام کرنے سے اجنبیت دُور ہوجائے، اور ہم ایک دوسرے کے شناسا بن جائیں۔ بظاہر سلام کرنا چھوٹی سی چیز ہے مگر اس کے ذریعے محبت کی پہلی اینٹ رکھی جاتی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اے لوگو، جو ایمان لائے ہو اپنے گھر کے سوا کسی دوسرے کے گھر میں داخل نہ ہو یہاں تک کہ تم اجازت لے لو اور اس گھر میں رہنے والوں کو سلام نہ کرلو‘‘ (النور۲۴:۲۱)۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے کہا: ’’اے بیٹے! جب تم اپنے گھر والوں کے پاس جائو تو سلام کرو، تمھارے گھر والوں پر برکت ہوگی‘‘۔ مذکورہ حکم سے ظاہر ہوا کہ گھر میں داخل ہوتے وقت سلام کرنے سے گھر میں برکت ہوتی ہے۔ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ شکایت کرتے ہیں کہ اللہ کا دیا سب کچھ ہے مگر گھر میں برکت نہیں۔ ذرا غور کریں تو ممکن ہے گھر میں داخل ہوتے اور نکلتے وقت سلام نہ کرنے اور اہلِ خانہ کے جواب نہ دینے کی وجہ سے یہ صورتِ حال پیدا ہوئی ہو۔ اسی طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’جب کسی مجلس میں جائو تو سلام کرو اور جب رخصت ہونے لگو تو بھی سلام کرو‘‘۔ اور فرمایا: پہلا اور دوسرا ہردو سلام ضروری اور اجر کے حساب سے برابر ہیں۔
ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ کتنی بار سلام کریں۔ احادیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرامؓ کا طریقہ تو یہ تھا کہ کسی درخت کی اُوٹ سے دوبارہ ظاہر ہونے پر ایک بار پھر سلام کرتے تھے۔اس سلسلے میں نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’جب کوئی اپنے بھائی سے ملے تو اسے سلام کرے۔ اگر درخت یا دیوار یا پتھر کی اُوٹ سے دوبارہ سامنے آئے تو پھر سلام کرے‘‘۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ جب کسی کو سلام کرو تو اپنا سلام اس کو سنائو۔ اس لیے کہ سلام اللہ کی طرف سے نہایت پاکیزہ اور برکت والی دُعا ہے۔ حضرت مقدادؓ فرماتے ہیں: ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ان کے حصے کا دودھ اُٹھا کر رکھ دیا کرتے تھے۔ جب حضور اکرمؐ تشریف لاتے تو اس طرح سلام کرتے کہ سویا ہوا بیدار نہ ہو اور جاگتا ہوا جواب دے۔
حضوؐر کسی ایسے شخص کو سلام کرنا چاہتے جو آپؐ سے فاصلے پرہوتا اور آواز پہنچنا مشکل ہوتا تو ہاتھ کے اشارے سے بھی سلام کرلیتے تھے۔ حضرت اسماء بنت یزیدؓ سے روایت ہے کہ آپؐ ایک دن مسجد سے گزرے تو مسجد میں خواتین کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی تھی۔ اس موقعے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ کے اشارے سے سلام کیا۔ ایک بات سلام کرتے وقت یہ اپنانی چاہیے کہ خندہ پیشانی اور مسکراتے ہوئے خوش دلی کے ساتھ سلام کیا جائے۔ حضرت عبداللہ بن حارثؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرمؐ سے زیادہ کسی کو مسکراتے ہوئے نہیں پایا۔
ایک جگہ سے دوسری جگہ، یعنی کسی دوسرے شہر یا ملک جانے والوں کے ذریعے بھی اپنے جاننے والوں کو سلام بھیجنا چاہیے۔ اسی طرح خطوط، ایس ایم ایس اور دوسرے ذرائع سے بھی سلام لکھنا چاہیے۔ خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب خطوط لکھے تو ان میں اس طرح السلام لکھا کہ سلامتی ہو اس پر جو ہدایت کو اپنا لے۔ یہ طریقہ ایسے لوگوں کے لیے ہے جو دائرۂ اسلام میں نہ ہوں، جب کہ کسی بھی مسلمان کو مخاطب کرتے ہوئے السلام علیکم یا احسن طریقے پر ورحمۃ اللہ وبرکاتہ بھی لکھنا چاہیے۔ اسی طرح ٹیلی فون پر جب مخاطب سامنے نہ ہو تو گفتگو کا آغاز السلام علیکم سے کرنا چاہیے۔
حضور اکرمؐ نے فرمایا: کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ تین دن سے زیادہ اپنے مسلمان بھائی سے قطع تعلق کیے رکھے، یعنی ایک ادھر منہ پھیرے ہوئے ہو تو دوسرا دوسری جانب۔ ان میں افضل وہ ہے جو سلام میں پہل کرلے۔نبی کریمؐ سے پوچھا گیا جب دو آدمی ایک دوسرے سے ملیں تو ان میں کون پہلے سلام کرے؟ آپؐ نے فرمایا: جو ان دونوں میں اللہ کے نزدیک ہو۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سلام کرنے میں اتنی پہل کرتے کہ کوئی دوسرا ان پر سبقت نہ لے پاتا۔ چھوٹے بچوں کو سلام سکھانے کے لیے ان کو سلام کرنے میں پہل کرنی چاہیے۔ جو بچہ بولنا سیکھ رہا ہو اس کو سلام کیا جائے اور مصافحہ کرنے کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا جائے، تو آپ دیکھیں گے وہ بچہ زبان سے سلام تو ادا نہ کرپائے گا مگر آپ کو دیکھتے ہی ہاتھ آگے بڑھا دے گا۔ سلام کی عادت ڈالنے کے لیے سلام میں پہل کی جانی چاہیے۔ حضرت انسؓ چھوٹے بچوں کے پاس سے گزرے تو انھیں سلام کیا اور کہا کہ حضور اکرمؐ بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ خط میں بھی بچوں کو سلام لکھا کرتے تھے۔ عام حالت میں چھوٹوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ آگے بڑھ کر سلام کریں۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: چھوٹا بڑے کو، چلنے والا بیٹھے ہوئے کو، اور تھوڑے افراد زیادہ کو سلام میں پہل کریں۔ اسی طرح سوار پیدل چلنے والوں کو سلام کرے۔ اس سے ظاہر ہوا کہ اُوپر والا نیچے والے کو سلام کرے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ تکبر کا خاتمہ ہو۔
یہود و نصاریٰ اور دیگر مذاہب کے لوگوں کو بھی سلام کرنے میں پہل نہ کریں۔ ہاں، اگر مختلف مذاہب کے لوگ مشترک بیٹھے ہوں تو سلام میں پہل کرسکتے ہیں۔ روایت ہے کہ حضور اکرمؐ نے فرمایا: جب اہلِ کتاب تمھیں سلام کریں تو وعلیکم کہہ دیا کرو۔
حضرت عباسؓ نے فرمایا کہ سلام برکت پر مکمل ہوجاتا ہے۔ اس سے آگے کچھ نہ بولو۔ کیوںکہ ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ جنت حلال اور دوزخ حرام وغیرہ نہ جانے کیا کیا سلام کے ساتھ ملاتے ہیں۔
مصافحہ اور معانقہ: سلام کے علاوہ مصافحہ اور معانقہ بھی ہے۔ مصافحہ صفح سے نکلا ہے جس کا معنی ہے ہتھیلی کو ہتھیلی سے ملانا۔ ارشادرسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے: جب تک دو بھائی ہاتھ ملائے رکھتے ہیں گناہ جھڑتے رہتے ہیں۔ ایک اور موقعے پر ارشاد فرمایا: تم مصافحہ کیا کرو اس سے دلوں کا کینہ ختم ہوجاتا ہے۔ تاہم، یہاں بھی اعتدال ہونا چاہیے۔ سلام کریں اور ہاتھ ملائیں۔ یہ نہیں کہ ہاتھ پکڑ لیں تو چھوڑنا بھول جائیں ، اور یہ بھی نہیں کہ ہاتھ ملائیں تو اس زور سے دبائیں کہ دوسرے کی چیخ ہی نکل جائے۔ایک روایت ہے کہ فرشتے اس مسلمان پر تعجب کرتے ہیں جو دوسرے مسلمان کے پاس سے گزرتا ہے اور سلام نہیں کرتا۔
معانقہ کا مطلب ہے گردن سے گردن ملانا، یعنی گلے ملنا۔ یہ لفظ عُنق سے بنا ہے۔ حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دوڑتے ہوئے آتے تو آپؐ فرطِ محبت سے ان دونوں کو گلے سے لگا لیا کرتے۔ اس سے ظاہر ہوا کہ بچوں سے سلام کریں تو پیار کرتے ہوئے انھیں گلے سے لگائیں۔
سلام صرف زندوں کو نہیں ہے بلکہ حکم ہے کہ جب قبرستان میں داخل ہوں تو اہلِ قبور کو سلام کریں اور اگر قبرستان کے پاس سے گزریں تو بھی ان کے لیے دعا کریں۔
ناموس رسالتؐ کا قانون قرآن پاک میں اللہ نے بیان فرمایا ہے:ـ اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ لَعَنَھُمُ اللّٰہُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ اَعَدَّ لَھُمْ عَذَابًا مُّھِیْنًاo (احزاب ۳۳:۵۷) ’’ جو لوگ اللہ اور اس کے رسولؐ کو اذیت دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ نے لعنت فرمائی ہے۔ اور ان کے لیے رُسواکن عذاب مہیا کردیا ہے‘‘۔
نبی پاکؐ کو ایذا پہنچانے والے ملعونوں کی سزا بھی قرآن میں بیان کی گئی ہے: مَّلْعُوْنِیْنَ اَیْنَمَا ثُقِفُوْٓا اُخِذُوْا وَ قُـتِّلُوْا تَقْتِیْلًاo(احزاب۳۳:۶۱) ’’ ان پر ہرطرف سے لعنت کی بوچھاڑ ہوگی جہاں کہیں پائے جائیں گے پکڑے جائیں گے اور بُری طرح مارے جائیں گے‘‘۔
ان دونوں آیات کو پڑھا جائے تو آسانی سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ توہین رسالت کرنے والے کی سزا صرف سزاے موت ہے۔
واضح رہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کو نہ ماننے کی کوئی سزا نہیں ہے بلکہ جنھوں نے نبی پاک ؐ کو ذاتی طور پر اذیت دی تھی، مثلاً راستے میں کانٹے بچھائے یا سجدہ کی حالت میں اوجھڑی ڈال دی یا دیگر قسم کی حرکتیں کیں ان کو معاف کردیا گیا۔ لیکن جو مقامِ رسالت کی کسی انداز میں توہین کرکے اللہ اور اس کے رسول ؐ کو اذیت پہنچائے گا تو امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ اس کو سزاے موت دی جائے گی ۔ یہ وہ سزا ہے جو رسولؐ اللہ کے دورِ مبارک میں نافذ کی گئی۔ احادیث و سیرت النبی ؐ اور تاریخ و مغازی کی کتابوں میں ایسے بے شمار واقعات بیان کیے گئے ہیں، جن میں سے کچھ واقعات اختصارکے ساتھ یہاں پیش ہیں:
احادیث اور مغازی کی کتب میں کچھ ایسے واقعات بھی ملتے ہیں کہ بعض صحابہ کرام ؓنے توہین رسالت کرنے والوں کو ازخود قتل کردیا اور پھر یہ مقدمہ نبی پاک ؐ کی خدمت میں پیش ہوا لیکن رسولؐ اللہ نے توہین رسالتؐ کے مجرمین کو قتل کرنے والے صحابہ کرام ؓ کو بری کردیا ۔ چند واقعات یہاں نقل کیے جارہے ہیں:
نبی پاکؐ کے زمانے کے مذکورہ واقعات سے یہ بات آسانی سے واضح ہوتی ہے کہ توہین رسالت کرنے والے کی سزا صرف سزاے موت ہے۔ اس کی روشنی میں قرون اولیٰ کے مشہور فقہا و محدثین کی آرا پیش کرنا بھی ضروری ہیں:
ناموسِ رسالت ؐ پر قربان ہونے والے پروانوں کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو سرکار مدینہ ؐ کے بابرکت دور سے لے کر عاشق رسول ؐ ممتاز قادری شہید تک ایک طویل قطار نظر آئے گی۔ جب تک دنیا قائم ہے نبی پاک ؐ کا کوئی ادنیٰ امتی بھی ناموسِ رسالت ؐ پر جان قربان کرنے سے دریغ نہیں کرے گا۔
آج کی دنیا میں انسان کی عزت کے تحفظ کیلئے فوجداری قوانین موجود ہیں ۔ برصغیر ہند پر انگریز کے دورِ حکومت میں تعزیراتِ ہند ۱۸۶۰کا قانون نافذ تھا ۔ پاکستان میں تعزیراتِ پاکستان ۱۸۶۰ کے نام سے ہی فوجداری قانون نافذالعمل ہے جس میںدرج ذیل ابواب اور دفعات موجود ہیں:
پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہتک عزت کرنے والے سے ہرجانہ بھروانے یا وصول کرنے کے لیے سول (دیوانی) قوانین موجود ہیں۔
جب عام آدمی کی توہین کرنے والے کے لیے سزا کا قانون موجود ہے تو محمد رسولؐ اللہ کی توہین کرنے والے کے خلاف قانون کاہونا زیادہ ضروری ہے۔
پاکستان میں توہین رسالت کے قانون کے ارتقائی مراحل کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ تعزیراتِ ہند میں پہلے مذہبی منافرت کے جرم کے لیے دفعہ ۲۹۵ موجود تھی ۔ عاشق رسول ؐ غازی علم الدین کی شہادت (۱۹۲۹ئ) کے بعد تعزیراتِ ہند میں اے-۲۹۵ کا اضافہ کیا گیا، جس کے مطابق کسی کے معتقدات مذہبی کی توہین پردو سال قید یا جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جاسکتی تھیں۔
پاکستان میں تحفظ ناموسِ رسالت کی تحریک کے نتیجے میں تعزیراتِ پاکستان میں ایک دفعہ ۲۹۵-سی کا اضافہ کیا گیا۔ اس کے لیے پارلیمنٹ سے فوجداری قانون (ترمیمات ) ایکٹ نمبر ۳، سال ۱۹۸۶ منظور ہوا ۔ اس وقت دفعہ ۲۹۵-سی میں توہین رسالت کے جرم کی سزا عمر قید یا سزاے موت تھی لیکن ملک کے نامور وکیل اور عاشق رسول محمد اسماعیل قریشی نے وفاقی شرعی عدالت میں اس کے خلاف ایک شرعی پٹیشن داخل کی کہ توہین رسالت کی سزا ،یعنی دفعہ ۲۹۵-سی مجموعہ تعزیرات پاکستان میں صرف سزاے موت کو درج کیا جائے، جو کہ شرعی سزا ہے اور’عمر قید‘کی سزا کو حذف کیا جائے ۔وفاقی شرعی عدالت نے مکمل اورکھلی سماعت کے بعد شریعت پٹیشن Fsc-6-L سال ۱۹۸۷ء محمد اسماعیل بنام حکومت پاکستان کا فیصلہ ۳۰؍ اکتوبر ۱۹۹۰ء کو دیا جس کے مطابق حکومت پاکستان کو ہدایت دی گئی کہ ۳۰؍اپریل ۱۹۹۱ء تک اس قانون کی اصلاح کرکے الفاظ ’یا عمر قید‘ حذف کردیے جائیں ۔ نیز حکومت کی طرف سے اصلاح نہ کرنے کی صورت میں مذکورہ الفاظ خود بخود دفعہ ۲۹۵-سی مجموعہ تعزیرات پاکستان سے حذف ہوجائیں گے۔
وفاقی شرعی عدالت کے اس واضح فیصلے کے بعد حکومت نے قانون میں مذکورہ اصلاح نہ کی، لہٰذا وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے مطابق ۳۰؍اپریل ۱۹۹۱ء کے بعد الفاظ ’یا عمر قید‘ دفعہ ۲۹۵-سی مجموعہ تعزیرات پاکستان خود بخود حذف ہوگئے اور اس کے بعد توہین رسالت کی واحد سزا دفعہ ۲۹۵-سی مجموعہ تعزیرات پاکستان کے مطابق صرف’سزاے موت‘ ہے۔ قومی اسمبلی میں ۲جون ۱۹۹۲ء کو ایک قرارداد کی منظوری کے بعد فوجداری قانون میں تیسری ترمیم کا قانون منظور ہوا جس کے مطابق توہین رسالت کی سزا دفعہ ۲۹۵-سی مجموعہ تعزیرات پاکستان میں سزاے موت کی واحد سزا کو بیان کیا گیا ہے۔
پاکستان کے بعض نام نہاد دانش ور، بے دین عناصر اور مغرب زدہ ذہنیت رکھنے والے لوگ توہین رسالت کے اس قانون کے خلاف طرح طرح کے بودے دلائل اور بے وقعت باتیں کرتے رہے ہیں اور توہین رسالت کے قانون کو کُلی یا جزوی ختم کروانے یا غیر مؤثر کرنے کی لاحاصل کوششیں کرتے رہے ہیں ۔ لیکن بے مثال ملک گیر ہڑتالوں اور شدید عوامی رد عمل نے ان کے ناپاک عزائم کو ناکام بنا دیا ۔
توہین رسالت ؐ یا توہین مقدس ہستیوں یا توہین مقدسات کا قانون پوری دنیا میں موجود ہے۔ برطانیہ میں قدیم دور سے حضرت عیسیٰ ؑکی توہین پر سزاے موت کا قانون موجود ہے۔ قدیم قانون کو برطانیہ میں Common Law کہا جاتا ہے اور توہین رسالت کا قانون اس کا حصہ ہے۔ برطانیہ میں سزاے موت کی منسوخی کے بعد دیگر برطانوی قوانین کی طرح توہین رسالت کی سزا کو بھی تبدیل کردیا گیا ہے لیکن توہین رسالت (حضرت عیسیٰ ؑکی توہین ) کا قانون اب بھی موجود ہے۔ اسی طرح یورپ سمیت دنیا کے بعض ممالک میں یہودیوں پر ہٹلر کے مظالم کے حوالے سے المعروف ’ہولوکاسٹ‘ کا قانون موجود ہے۔ جس کی رُو سے ہٹلر کے یہودیوں پر مظالم کا انکارکرنے یا غلط کہنے پر سزا مقرر کی گئی ہے۔ اسی طرح برطانیہ میں’ تاج‘ (Crown) اور بھارت میں گئو ماتا وغیرہ کے خلاف بات نہیں ہوسکتی ہے کیونکہ یہ ان قوموں کے مقدسات یا مقدس ہستیاں ہیں۔ جب وہ قوانین موجود ہیں اور ان پر عمل ہوتا ہے تو پاکستان میں سرکار مدینہ ؐکے ناموس کے تحفظ کے لیے توہین رسالت ؐ کا قانون بھی برقرار رہے گا اور کوئی اس کو تبدیل یا ختم یا غیر مؤثر نہیں بنا سکے گا۔
جرم و سزا کے حوالے سے مقدمے میں Grave Sudden Provocation، یعنی شدیداور فوری اشتعال کی کیفیت کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔ نبی مہربان ؐ کے دور بابرکت میں جب کسی نے توہین رسالت ؐ کی بات سنی تو اس نے فوری اور شدید اشتعال کی کیفیت میں توہین رسالت ؐ کے مجرم مرد یا عورت کو قتل کردیا اور سرکار مدینہ ؐ نے اس کو بری کردیا۔ اس کی کچھ مثالیں مضمون کی ابتدا میں پیش کی گئی ہیں ۔ انگریز کے جوڈیشل سسٹم میں بھی Grave Sudden Provocation کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ لہٰذا قیامِ پاکستان سے پہلے اور بعد کے عدالتی فیصلوں میں اس کی نظیریں (Rulings)ملتی ہیں۔
٭سپریم کورٹ آف پاکستان میں حیدر شاہ بنام سرکار اپیل کی سماعت کرنے والے تین معزز ججوں پر مشتمل بینچ نے ملزم کی سزاے موت کو عمر قید میں تبدیل کیا اور ایک لاکھ جرمانہ عائد کیا کیونکہ تحصیل دار نے ثالث کے فیصلہ سنانے سے پہلے متنازع درختوں کو کاٹنا شروع کیا تھا۔جس پر ملزم نے مشتعل ہوکر اس کو قتل کردیا تھا ۔ معزز عدالت نے اپنے فیصلے کے آخری پیرا میں لکھا ہے کہ :
مذکورہ بالا بیان کردہ احوال کے مطابق ہم سمجھتے ہیں کہ انصاف کے تقاضے تب پورے ہوں گے جب درخواست گزار کی سزا، سزاے موت سے کم کر کے عمرقید کردی جائے، نیز دفعہ ۳۸۲-بی، سی پی سی کے تحت مقتول کے قانونی وارثوں کی تلافی کے لیے ایک لاکھ روپے بطورِ جرمانہ ادا کیے جائیں۔ اسی کے مطابق اور جزوی طور پر اپیل منظور کرنے کا حکم مذکورہ شرائط کے ساتھ جاری کیا جارہا ہے۔(حوالہ 1999 SCMR، ص۹۸۳ تا ۹۸۵)
٭سپریم کورٹ آف پاکستان کے معزز دو رکنی بینچ نے مقدمہ عظمت اللہ بنام سرکار میں قاتل کی سزا ۲۵ سال سے کم کرکے ۱۰ سال کردی کیونکہ قاتل نے جھگڑے کے بعد قتل کردیا تھا ۔ معزز عدالت نے فیصلے میں لکھا ہے کہ :
ایف آئی آرپر ایک نظراور فاضل ٹرائل کورٹ کے سامنے عینی شاہدوں کے بیانات اور فاضل ماتحت عدالتوں نے تفتیش سے جو نتائج مرتب کیے ہیں، واضح طور پر بتاتے ہیں کہ اپیل کنندہ اور اس کے مرحوم بھائی کے درمیان بدنیتی یا کسی تلخی کا کوئی پس منظر نہیں ہے اور واقعہ بغیر کسی پیش بینی کے اچانک وقوع پذیر ہوا ہے۔
زیرسماعت مقدمہ یقینا بغیر کسی پیش بینی اقدام کا مقدمہ تھا۔ وقوعہ اچانک لڑائی کا نتیجہ تھا جوشدت جذبات سے اچانک لڑ پڑنے کی وجہ سے ہوئی تھی اوراپیل کنندہ نے کوئی نامناسب فائدہ نہیں اُٹھایا اور نہ کوئی ظالمانہ یا خلافِ معمول پر عمل پیرا ہوا۔
ان حالات میں دفعہ ۳۰۰ پی پی سی کی استثنا ۴ زیربحث مقدمہ میں مکمل طورپر لاگو ہوتی ہے۔ لہٰذااپیل کنندہ کے خلاف مقدمے پر دفعہ ۳۰۲ (سی) پی پی سی کا اطلاق ہوتا ہے۔…لہٰذا نتیجتاً اس ۲۵سالہ قیدبامشقت کو کم کر کے ۱۰سالہ قیدبامشقت کیا جاتا ہے۔(حوالہ SCMR.2014،ص ۱۱۷۸ تا ۱۱۸۱)
٭سپریم کورٹ آف پاکستان کے معزز تین رکنی بینچ نے مقدمہ محمد جاوید و دیگر بنام سرکار و دیگر میں سزاے موت کو ’ عمر قید‘ میں تبدیل کیا ہے جس کی وجہ اچانک اشتعال کی کیفیت میں قتل کا جرم سرزدہونا ہے ۔ فیصلے میں قانونی کہاوت یا قانونی جملہ Phrase بیان کیا گیا ہے (Extenuating and mitigating circumstances)’’جرم یا معصیت کی اہمیت کو کم یا ہلکا کرنے اورتخفیف کرنے والے حالات‘‘۔ عدالتی فیصلے کے مطابق:
ہمارے سامنے واحد سوال یہ ہے کہ آیا جرم کی تخفیف کرنے والے حالات اس طرح کے تھے کہ جس کے جواز کے پیش نظرمعزز عدالت عالیہ نے اپیل کنندہ ملزمان کی سزاے موت کوسزاے عمرقید میں تخفیف کی؟ قانونی کہاوت ’جرم کی تخفیف کرنے والے حالات کی تشریح ‘ محمد شریف بنام محمد جاوید الیاس جید اٹیڈی (پی ایل ڈی ۱۹۷۶ئ، ایس سی ۴۵۲) کے مقدمے میں کی گئی ہے، جہاں جناب والا (جج حضرات) نے نوعمری، اچانک اشتعال انگیزی، کسی بزرگ کا اثرورسوخ اور خاندان کی عزت کے سوال وغیرہ کو قانونی کہاوت ’جرم کی تخفیف والے حالات‘ کے تحت شمار کیا ہے۔ اگر ایک مقدمہ مذکورہ بالا حالات سے مطابقت رکھتا ہے تو ایک عدالت، قانون کے مطابق، سزاکو کم کرنے میں حق بجانب ہے۔
ہم یہ قرار دینے پر آمادہ ہوئے ہیں کہ گو کہ جرم میں تخفیف کرنے والے موجود حالات اور معزز عدالت ِ عالیہ نے اپنے زیر اعتراض فیصلے میں اپیل کنندہ ملزمان کی سزا میں تخفیف کے وجوہات کی توضیح نہیں کی ہے،تب بھی اپیل کنندہ ملزمان کی سزاے موت کو بجاطور پر تخفیف کرکے عمرقید میں تبدیل کردیا ۔ ( حوالہ SCMR 2011،ص۱۴۶۲ تا ۱۴۶۹)
یہ امرِواقعہ ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے احترام کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے بھی اہل علم اور قانون دانوں اور وکلا کی بڑی تعداد ممتاز قادری کو پھانسی کی سزا دینے کے فیصلے سے اختلاف رکھتی ہے اور اسے قانونی طور پر درست فیصلہ نہیں سمجھتی ۔ اختلاف کے کئی نکات میں سے ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ ممتاز قادری شہید ایک سچا عاشق رسول ؐ اور مومن تھا۔ اس نے مقتول گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے منہ سے ناموسِ رسالت ؐ کے تحفظ کے قانون کو ’کالا قانون‘ اور دیگر گستاخانہ کلمات سن کر فوری شدید اشتعال کی کیفیت میں آکر اس کو قتل کیا تھا ۔ اس پہلو کو بھی فیصلے میں پیش نظر رکھا جانا چاہیے تھا۔
مغرب میںاسلام اور مسلمانوں سے علمی دل چسپی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ مستشرقین، مؤرخین، ماہرین علوم انسانی اور ماہرین عمرانیات ڈیڑھ سو سال سے زائدمدت سے دنیا کے مختلف خطوں کے اسلامی معاشروں کے اندرونی محرکات کا فہم حاصل کرنے کے لیے کوشاں رہے ہیں۔البتہ کچھ حالیہ بلکہ نا خوش گوار واقعات نے اہل مغرب کومسلم ذہن پر ایک تازہ نظر ڈالنے اور مسلم دُنیا میں پیش آنے والی تبدیلیوں کے عمل سے اسلامی روایات کا تعلق دریافت کرنے کی ضرورت اور طلب میں مزید شدت پیدا کر دی ہے۔
برطانیہ اور یورپ میں ’اسلامو فوبیا‘ کے ظہور کے بعد سے اور امریکا میں ’دہشت گردی کا خبط‘ پیدا ہوجانے کے نتیجے میں ریڈیکل اسلام (انقلابی اسلام)، خانہ ساز دہشت گرد،مسلم بنیاد پرست، قدامت پسند سلفی اورجہادیوں جیسے موضوعات پر تصنیفات کا ایک سیلاب اُمڈ آیاہے۔ اس امر کی حقیقی ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ نہ صرف مسلم دنیاکی تازہ ترین تبدیلیوں پر، بلکہ اسلام اور سیاست، اسلام اور خواتین اور اسلام اور سماجی تغیرات وغیرہ کے باہمی تعلق پر بھی علمی، معروضی اور مستند مآخذ سے استفادہ کرتے ہوئے کام کیا جائے۔
دو جلدوں پر مشتمل زیر نظر تحقیقی کام’اسلام اور سیاست‘ جس میں ۴۱۲ مقالات ہیں، اس ضرورت کی تکمیل کی طرف ایک سنجیدہ کوشش ہے۔اس میں ۲۰۰ سے زائدمقالات نئے ہیں،جب کہ بقیہ تمام مقالات اوکسفرڈ انسائی کلو پیڈیا آف دی اسلامک ورلڈ ۲۰۰۹ء (مدیر:جان ایل ایسپوزیٹو) سے ماخوذ ہیں، جن پر مزید تنقیح کرکے انکی ترتیب نو کی گئی ہے۔مدیر اعلیٰ عماد الدین شاہین نے تمام معلومات کو جس پُرمعنی انداز سے باہم مربوط کرنے کابھاری بھرکم اور کٹھن کام کیا ہے اس پر وہ داد وتحسین کے مستحق ہیں۔
مضمون نگاروں میں مغربی اور مسلم دُنیا کے معروف محققین شامل ہیں۔اس قسم کے منصوبوں میں جس بڑے مسئلے کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ یہ ہے کہ کسی ایسے صاحبِ علم کو تلاش کیا جائے جو مطلوبہ معلومات تک راست رسائی رکھتا ہو۔ مستشرقین کا ایک بڑا کمال یہ رہاہے کہ وہ اپنے زیرتحقیق افراد کی زبان و تہذیب کا علم رکھتے تھے۔ آج کے دور میں اسلام اور مسلمانوں پر کیے جانے والے جدید علمی کاموں میں بالعموم اس بنیادی شرط کا فقدان پایا جاتاہے۔حتیٰ کہ اِس قابل توجہ کاوش میں بھی بیش تر انگریزی اور دیگر یورپی زبانوں ہی کے مآخذ پرانحصار کیا گیا ہے۔ صرف چند مصنّفین نے اُردو، عربی، فارسی،ملائی، انڈونیشی، ترکی، سواحلی اور مسلم دنیا کی دیگر زبانوں میں پائے جانے والے اصل مآخذ پر نظر ڈالی ہے۔ یہ پہلوخاص توجہ کا مستحق ہے۔ اِس مفید کام کی آیندہ طباعتوں کی تیاری کے وقت،اس کا خیال رکھنا چاہیے۔
موضوعات کا تنوع باعث دل چسپی ہے اورنظریات کے وسیع سلسلے کا احاطہ کرتاہے۔ چند روایتی موضوعات، مثلاً خلافت، فقہ، اُصولِ فقہ، اجتہاد اورمتعدد جدید مسائل، جیسے اقتدار اور قانونی جواز، آئین اور اُصولِ آئین،تعلیم، حکمرانی،علم کی اسلامی تشکیل اور القاعدہ جیسے موضوعات پر ان دونوں جلدوں میں پیش کیا جانے والا تحقیقی کام اہلِ مغرب کے لیے ایک حوالہ بن گیا ہے، اور اس کا مطالعہ اسلام اور موجودہ اسلامی دنیا کا علم حاصل کرنے والے ہر مغربی طالب علم کے لیے مفید ہے۔ گو، مضامین عموماً اسلام اور سیاست ہی کے گرد گھومتے ہیں۔
انسانی کوشش ہونے کے سبب ہرانسانی کام کی طرح اس تحقیقی کام میں بھی مزید بہتری اورتازہ ترین معلومات شامل کرنے کی گنجایش موجود ہے۔ بے شمار اعلیٰ درجے کی تصنیفات میں بھی تحقیقِ مزیدکا دریچہ کھلا رکھا جاتا رہا ہے۔ چناں چہ چند ایسے گوشے نشان دہی کے لایق ہیں، جن میں مزید بہتری لانے کی ضرورت ہے۔
پہلے خلیفۂ راشد سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہٗ(م: ۶۳۴ئ) پر مضمون میں’رِدّہ‘(ارتداد) کو ’سیاسی بغاوت‘ کے طور پر پیش کیا گیا ہے (جلد:۱، ص:۱۶)۔ لفظ’رِدّہ‘ایک دینی اصطلاح ہے، سیاسی نہیں۔اس کا سادہ مطلب ہے مرتد ہو جانا،یعنی کچھ قبائل کی طرف سے اسلام کے پانچ بنیادی عقاید میں سے ایک کا انکار کر دینا۔ زکوٰۃ دینے سے انکار کردینا جو فرض ہے، اسلام کے پانچ ستونوں میں سے ایک ستون اور عبادت ہے۔ عبادت کو مسئلہ کہنا نفس مضمون سے گمراہ کن حد تک ناواقفیت کا نتیجہ ہے ۔
احمدیت پر مضمون اگرچہ خوش اسلوبی سے لکھا گیا ہے، مگر نقائص اور سنگین اغلاط نے اس کا ناس مار دیا ہے۔مصنف کی یہ حجت کہ یہ معاملہ …’احمدیت اور سوادِ اعظم کے سنی اسلام کے مابین تنازع‘ … تھا، یا …’مذہبی مقتدرین سے تنازع‘… تھا(ص ۵۰-۵۱)۔ یا علماے دین سے تنازع تھا___ حقیقی صورتِ حال کی عکاسی نہیں کرتا۔
یہ بھی درست نہیں کہ …’’تنازع میں اشتعال انگیزی اس حقیقت کا نتیجہ تھی کہ علما نے احمدیت کی مخالفت میں محمد[صلی اللہ علیہ وسلّم] کے ناموس کے جذباتی مسئلے پر ساری توجہ مرکوز کردی‘‘(ص۵۱)۔مزید برآں یہ تبصرہ بھی گمراہ کن اور بعید از حقیقت ہے کہ …’’احمدیت اُن علما سے تصادُم پر مجبور تھی، جو محسوس کرنے لگے تھے کہ اسلام کے متولی کی حیثیت سے اوراسلامی تعلیمات اور اسلامی قوانین کے شارح و ترجمان کی حیثیت سے انھیں جو مقام اور منصب حاصل ہے اُس کی جڑیں کھودی جارہی ہیں‘‘-(ص۵۱)
حقیقت میںتنازع احمدیت اور ’سنی سوادِ اعظم کے اسلام‘ میں نہیں ہے، جیسا کہ خیال ظاہر کیا گیا ہے۔احمدیت کو اسلام کے تمام مکاتب فکر شیعہ، سنی ، سلفی، ہر ایک دائرۂ اسلام سے خارج تسلیم کرتا ہے۔ اس کی وجہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلّم کی ختم نبوت کے معاملے میں احمدیوںکا ایسامؤقف ہے۔یہ ایسا مسئلہ ہے جس پر تمام مسلم علما اور پوری امت مسلمہ کا اجماع ہے۔ دعواے نبوت کرنے والا ، خواہ اس کے دعوے کی کوئی بھی شکل ہواور ایسے کسی شخص کے دعوے کی تصدیق کرنے والا،خواہ وہ کوئی بھی ہو، خود بخود دائرئہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔اس مسئلے کا تعلق نہ کبھی علماکے کردار سے رہا ہے، نہ اس میں کسی ایک آیت یا کسی حکم کی تعبیر و تشریح کا سوال پیدا ہوتا ہے۔ یہ موقف مسلم اُمہ کا غیر مبہم اجماعی مؤقف ہے اور متفق علیہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کی ۱۰۰فی صد مسلم آبادی احمدیوں کو مسلمان تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہے۔
اپنے طور پر وہ جو بھی تعبیر پیش کرتے ہوںاس سے سنیوں یا شیعوں کی قانونی تعبیر پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ شاید اس پہلو کو سب سے زیادہ نظر انداز کیا گیا ہے کہ خود احمدی اُس ۱۰۰فی صدمسلم آبادی کے متعلق، جو دنیا بھر میں ۶ئ۱؍ارب سے زائد ہے، کیا نقطۂ نگاہ رکھتے ہیں؟احمدیت کے حقیقی نمایندے، یعنی اُن کے خلیفہ سے پاکستان کی پارلیمان میں سوال کیا گیا کہ احمدیوں کے نزدیک غیر احمدی کیا ہیں؟ اُس کا جواب بڑا سادہ ساتھا: ’غیر مسلم‘۔ بہ الفاظ دیگر احمدیوں کو اسلام کا ایک ’فرقہ‘ کہنا اس لیے مضحکہ خیز بات ہے کہ وہ دنیا کی پوری غیر احمدی آبادی کو جس میں دنیاکے تمام مسلمان شامل ہیں’غیر مسلم‘ گردانتے ہیں۔احمدیوں کے نزدیک پوری مسلم اُمہ ہی ’غیر مسلم‘ ہے۔انھیں امت مسلمہ کا ایک ’فرقہ‘ کیسے تصور کیا جا سکتا ہے؟
یہ بات بھی صاف طور پر سمجھ لینی چاہیے کہ علما کی بالادستی کبھی اصل مسئلہ نہیں رہی ۔ یہ بنیادی مسئلہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی ختم نبوت پر ایمان کا مسئلہ ہے اور اصل تنازع مرزا غلام احمد کا یہ باطل دعویٰ ہے کہ وہ مسیح ہے، مصلح ہے اور غیر قانون ساز (غیر تشریعی) نبی ہے، جس کی بنا پر مرزا نے جہاد کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ان دو بنیادی مختلف فیہ عقاید کے سبب دنیا بھر کے تمام شیعہ اور سنی علما نے احمدیت کو ایک نیا مذہب قراردیا جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
دیوبند تحریک پر مضمون (جلد اوّل، ص:۲۶۱-۲۶۴) میں اس تعلیمی تحریک اور مسلک کی تعریف یوں بیان کی گئی ہے …’’برصغیر کے علما کے مسالک میں سے ایک بڑا مسلک جو دیگر فرقہ وارانہ مسالک شیعہ، احمدی،جماعت اسلامی،علی گڑھ اوردوسرے معتدل حریف سنی گروہوں، مثلاً بریلوی (اہل سنت و الجماعت) اور اہل حدیث سمیت متعدد مسالک کی صف میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے‘‘ (ص:۲۶۲)۔یہاں ’مسلکی تقسیم‘ کی اصطلاح نے بات کو الجھا دیا ہے اور مسالک اور غیراسلام میں کوئی فرق نہیں کیا گیا ہے۔ اس میں وہ بھی شامل کر دیے گئے ہیںجو اپنے آپ کو’فرقہ‘ قرار دیتے ہیں نہ انھیں ’فرقہ‘ کہا جاسکتا ہے۔علی گڑھ سے مراد علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی ہے جو ایک تعلیمی ادارہ ہے، مسلک نہیں۔جماعت اسلامی ایک سماجی-سیاسی تحریکِ احیاے دین ہے۔ اس میں شمولیت کے دروازے تمام مسالک پرکھلے ہوئے ہیں اوراس کے ارکان میں مختلف مسالک کے لوگ شامل ہیں۔یہ جماعت کسی خاص مسلک سے وابستہ ہے نہ اس کا اپنا کوئی فقہی مسلک ہے۔دوسری طرف احمدیت کوئی مسلک یا فرقہ نہیں ہے۔ یہ ایک مذہب ہے جس کا اپنا الگ پیغمبر ہے اور اس کے الگ پیروکار ہیںجو اسے ایک علاحدہ مذہب اور ایک جداگانہ اُمت بناتے ہیں۔یہ غلط مبحث مقالات کے علمی مقام کو بہت گرا دیتا ہے۔
جماعت اسلامی پر مضمون (جلد اوّل، ص۶۲۷- ۶۲۹) میں اس جماعت کی تاریخ کا خلاصہ پیش کیا گیا ہے۔ تاہم، مصنف نے کسی ایک بھی اصل اُردو ماخذ کا حوالہ نہیں دیا۔ مزیدبرآںمصنف کے کچھ بیانات متضاد ہیںاور کچھ بے بنیاد۔مثلاً یہ کہا گیا ہے کہ: ’’پاکستانی حکام نے جماعت پر بھارت نواز جذبات رکھنے اور پاکستان دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا‘‘(ص۶۲۷)۔ ایک نام نہاد اعلیٰ تعلیمی ادارے کے اشاعتی مرکز سے طبع ہونے والے دائرۃ المعارف میں یہ بے بنیاد الزام، اور ایک نیک نام تحریک کو بدنام کرنے والے غیر مصدقہ بیان پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ جماعت اسلامی ۱۹۴۱ء میں اپنی ابتدا ہی سے ایک نظریاتی تحریک کے طور پر کام کر رہی ہے اوراس نے برطانوی حکومت کے دور میں سیاست میں حصہ نہیں لیا۔پاکستان میں جب ۱۹۴۹ء میں قراردادِ مقاصد منظور کر لی گئی تو جماعت نے ایک دینی سیاسی جماعت کی حیثیت سے اپنی تنظیم نو کی، فرقہ وارانہ فکر سے اس کی وابستگی کبھی نہیں رہی۔ برعظیم پاک و ہند کے باقی حصوں میں جماعت اسلامی کے نام سے چار قطعاً آزاد جماعتیں بھارت، بنگلہ دیش،نیپال اور سری لنکا میں کام کر رہی ہیں، مگر ان میں سے ہر ایک کا اپنا الگ الگ دستور ہے، علاحدہ قیادت ہے، اور جداگانہ نظریاتی، سماجی اور معاشی لائحہ عمل ہے۔
لشکر جہاد پر مضمون(جلد دوم، ص ۱)ہمیں قیمتی معلومات فراہم کرتاہے، اگرچہ درست املا Laskar Jihad نہیں Lashkar-i-Jihad ہے۔ مصنف اس کے بانی جعفر عمر طالب کے حوالے سے کہتا ہے:’’اس کی تعلیم سلفی/ وہابی فکر رکھنے والے تعلیمی ادارے میں ہوئی ۔پھراس نے سید مودودی انسٹیٹیوٹ لاہور، پاکستان جاکراپنی تعلیم جاری رکھی جہاں سلفی فکر سے اُس کی وابستگی برقرار رہی‘‘(جلد دوم، ص ۱)۔مضمون نگار نے ان دو متضاد باتوں کو خلط ملط کرکے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے سنگین غلطی کی ہے۔ سلفی مکتبۂ فکرمحمد بن عبدالوہاب کے افکار پر مبنی ایک مذہبی اور عملی تشکیل ہے۔سید مودودی انسٹی ٹیوٹ، لاہور کا کسی طرح سے بھی اس مکتبۂ فکر سے کوئی تعلق نہیں۔دونوں کو ایک دوسرے سے نتھی کرنا بالکل گمراہ کن ہے۔
ایک اور سازشی قسم کا تضاد مولانا مودودی پر مضمون (جلد دوم، ص:۴۳-۴۷) میں پایا جاتا ہے۔اس میں بیان کیا گیا ہے کہ: ’’مودودی کا مجددانہ مؤقف جامد فرقہ واریت تھا۔ مسلمانوں کے حقوق پر زور دیتا تھا،ان کی سلامتی اور ترقی کے لیے لائحہ عمل تجویز کرتا تھا، اوراسلام کو خالص رکھنے کے مفاد میں ہندوؤں سے ہرقسم کے تہذیبی، سماجی اور سیاسی تعلقات کے مقاطعہ کا مطالبہ کرتا تھا۔ یہاں تک کہ ہندستانی مسلمانوں کے لیے ایک علاحدہ تہذیبی وطن کی وکالت بھی وہ بہت بڑھ چڑھ کر کرتا رہا‘‘۔(جلد دوم،ص۴۵، خط کشیدگی از مبصر)
اس بیان کے بعد اسی مضمون میںاس امر کی نشان دہی بھی کی گئی ہے کہ:’’جلد ہی اُسے ریاست کے دشمن کی حیثیت سے شناخت کر لیا گیا۔ اُس پر پاکستان کی مخالفت کرنے کا اوربھارت کا تخریبی آلۂ کار ہونے کا الزام لگایا گیا‘‘(جلد دوم، ص ۴۶)۔ یہاں مولانا مودودی کے نقطۂ نظر کو خطرناک حدتک الجھاکر اورسراسر غلط پیش کیا گیا ہے۔ مولانا مودودی نے اس نظریے کی تشریح کی تھی کہ مسلمان اپنے عقیدے، اپنے دین اور اپنی ثقافت کی بنیاد پرایک قوم کی تشکیل کرتے ہیں۔علاحدہ وطن کا سوال اسی دینی اور ثقافتی شناخت کے تناظر میں اُٹھا تھاتاکہ ہندستان کے اُن خطوں میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، انھیں سیاسی اقتدار حاصل ہو سکے۔ہندوؤں کے ساتھ سماجی و سیاسی تعلقات کا سوال اصل مسئلہ ہی نہیں تھا،کیوں کہ یہ دونوں فریق بڑے دوستانہ اور پُرامن طریقے سے ایک ہزار سال تک مسلم دورِ حکمرانی میں دو جداگانہ تہذیبی دھاروں کی حیثیت سے ساتھ رہ چکے تھے، اور توقع تھی کہ دو آزاد ریاستوں کی حیثیت سے بھی پُرامن بقاے باہمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور اقلیتوں کے حقوق کا احترام کرتے ہوئے ساتھ رہیں گے۔ بدقسمتی سے مصنف اصل صورتِ حال کو اس کے درست ، نظریاتی اور تاریخی پس منظرمیں پیش کرنے میں ناکام رہا ہے۔اس مضمون کے تضادات کو دیکھ کر اس کا قاری الجھ کر رہ جانے کے سوا کچھ نہیں کرسکتا۔ پاکستان میں جماعت اسلامی کی حیثیت کو بھی درست طریقے سے پیش نہیں کیا گیا۔حقیقت یہ ہے کہ جماعت اسلامی ایک دینی تحریک ہونے کے سبب سیاسی جماعت ہے۔ملک کی پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں اس کی نمایندگی ہے اوراس کے ارکان وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں اہم وزارتی مناصب پر فائز رہے ہیں۔
پاکستان پر مضمون (جلد دوم، ص: ۲۲۵-۲۳۲) میں ۱۹۴۷ء سے ۲۰۰۹ء تک پاکستان میں ہونے والی سیاسی پیش رفت کا ایک جائزہ لیا گیا ہے۔تاہم، یہ موضوع مزید عمیق تجزیہ پیش کرنے کا متقاضی تھا۔اس میں اُن اسباب پر روشنی ڈالنے کی ضرورت تھی، جنھوں نے برعظیم کے مسلمانوں کو اقبال اور قائد اعظم کے تصورات سے تحریک حاصل کرکے قیام پاکستان کا مطالبہ کرنے پر مجبور کیا۔پاکستان کی انفرادیت اس دعوے میں مضمر ہے کہ یہ ملک ایک ایسے نظریے کی بنیاد پر وجود میں آیا ہے، جس نے قومیت کا ایک نیا تصور پیش کیا ہے۔ اس تصور قومیت کی بنیاد دین اور ملت اسلامیہ کے تصور پر ہے ،یہ محض کسی خطۂ ارضی پر نہیں بلکہ نظریے اور اجتماعیت پر،رنگ، نسل،اور زبان کا امتیاز کیے بغیر تمام شہریوں کے حقوق کے تحفظ پر ہے۔
پاکستان میں رہنے والے چھوٹے فرقوں کا حوالہ دیتے ہوئے مصنف نے اسماعیلیوں کا ذکر کیا ہے… ’جو اثناعشری فرقے کا ایک ذیلی فرقہ ہیں‘ (جلد دوم، ص:۲۲۵)۔ان معلومات کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔اسماعیلی اپنا روحانی تعلق امام جعفر کے بعد امام اسماعیل سے جوڑتے ہیں،جب کہ ۱۲؍ اماموں کو ماننے والے یا اثناعشری یہ پختہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ امام موسیٰ الکاظم بن جعفر الصادق امامت کے جائز حق دار ہیںاور اُن کی پیروی اُس وقت تک کی جاتی رہے گی جب تک کہ بارھویں امام محمد (قائم آلِ محمدؐ) کا انتظار باقی ہے۔ (دیکھیے: محمد بن عبدالکریم شہرستانی، کتاب الملل و النحل، ترجمہ:A.K. Kazi and J.G. Flynn, London, Kegan Paul International, 1984, pp.144-145)۔ اسماعیلی اور اثناعشری دو علاحدہ وجود ہیں اور اوّل الذکرکواثنا عشریوں کا ذیلی فرقہ نہیں کہا جاسکتا۔
دو جلدوں پر مشتمل یہ تحقیقی کام مسلم دنیا پر عصری محققین کے سیاسی جائزوں پر مبنی معلومات کا ایک ذخیرہ ہے لیکن واضح طور پر مضامین مغربی زاویۂ نظر کی نمایندگی کرتے ہیں ۔مصنّفین نے بیش تر مغربی ذرائع علم پر بھروسا کیا ہے،جب کہ ان موضوعات پر عربی ،فارسی، ترکی،اُردو اور دیگر مسلم زبانوں میں اعلیٰ تصنیفات موجود ہیں۔
(اوکسفرڈ انسائی کلوپیڈیا آف اسلام اینڈ پالیٹکس، مدیر اعلیٰ: عماد الدین شاہین۔ ناشر: اوکسفرڈ، اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس، ۲۰۱۴ئ۔ صفحات: جلد اوّل: ۷۱۴،جلد دوم:۶۹۵۔)
ڈاکٹر حسن الترابی کا شمار عالمِ عرب اور اُمت مسلمہ کے مردانِ جری میں ہوتا ہے۔ وہ فکروتربیت اور میدانِ سیاست کے بھی ممتاز فرد تھے۔ وہ سیاسی و دینی رہنما اور صاحب ِ دانش انسان تھے۔ اُن کا شمار اسلامی سیاست کے قائدینِ تجدید میں بھی ہوتا ہے۔ عالم، مفکر، داعی، مجاہد اور عزم و جزم سے لبریز یہ شخصیت ۵مارچ ۲۰۱۶ء کو ۸۴برس کی عمر میں ہم سے جدا ہوگئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔
وہ سوڈان اور عالمِ اسلام کی چند بڑی اور نمایاں فکری و سیاسی شخصیات میں سے ایک تھے۔ ۱۹۹۶ء میں نجات انقلاب کے زمانے میں سوڈانی پارلیمنٹ کے صدر منتخب ہوئے۔ ۱۹۹۸ء میں حکمران جماعت قومی کانفرنس کے سیکرٹری جنرل چُنے گئے۔ خرطوم یونی ورسٹی میں پہلے بحیثیت استاد اور پھر انسانی حقوق کالج کے پرنسپل کے طور پر کام کیا۔ جولائی ۱۹۷۹ء میں دستور پر نظرثانی کرنے والی کمیٹی کے سربراہ بنے۔ پھر وزیرعدل بنائے گئے۔ ۱۹۸۸ء میں سوڈان کے نائب وزیراعظم اور صادق المہدی کی حکومت میں وزیرخارجہ مقرر ہوئے۔ بعدازاں ان کے اور صدر عمرالبشیر کے درمیان اختلاف ہوگیا۔ یہ اختلاف اس قدر بڑھا کہ ۱۹۹۹ء میں حکومت میں دراڑیں پڑگئیں۔ حسن الترابی حکومتی اور جماعتی مناصب سے برطرف کر دیے گئے۔ ۲۰۰۱ء میں انھوں نے اپنی جماعت قومی کانفرنس کی بنیاد رکھی۔
حسن الترابی اخوانی تاریخ کے تیسرے ’حسن‘ ہیں۔ حسنِ اوّل: حسن البنا شہید، حسنِ ثانی: حسن الہضیبی اور حسنِ ثالث: حسن الترابی ہیں، یعنی خالص اور اصل سوڈانی حسن الترابی!
ڈاکٹر حسن الترابی نے قرآنِ مجید بچپن ہی میں حفظ کرلیا تھا۔ انھوں نے عربی زبان اور شرعی علوم کی تعلیم بھی حاصل کی۔ مغرب میں اعلیٰ تعلیم پائی مگر اس کے باوجود اُن کی اصل اسلامی فکر اپنی نہاد پر قائم رہی۔ انھوں نے اوکسفرڈ یونی ورسٹی سے ایم اے کیا۔ پھر سوربون یونی ورسٹی فرانس سے ڈاکٹریٹ کی۔ انگریزی ، فرانسیسی، جرمن اور عربی زبانوں پر انھیں کامل عبور حاصل تھا۔ اس جدت کے باوجود وہ عمربھر سوڈانی عرب مسلمان کی شناخت کے ساتھ زندہ رہے۔
حسن الترابی متحرک شخصیت تھے۔ سُستی و کاہلی اور تھکان کا اُن کی زندگی میں گزر نہیں تھا۔ وہ طویل نیند اور آرام کے عادی نہ تھے۔ وہ آزاد مرد تھے۔ اُن کی فکر آزاد تھی، اُن کے ارادے آزاد تھے۔ اُن کے فیصلے آزاد ہوتے تھے۔ وہ روشن عقل کے مالک تھے۔ اُن کی زبان فصیح تھی۔ اُن کا چہرہ اصل سوڈانی چہرہ تھا۔ کسی تکلف کے بغیر ہمیشہ، مسکراتا چہرہ!
صادق المہدی کی ہمشیرہ سے اُن کی شادی ہوئی۔ وہ اُن کی بہترین شریکِ حیات ثابت ہوئیں۔ اخوان کے ساتھ حکمت عملی کی سطح پر اُن کا اختلاف رہا۔ دراصل حسن الترابی کا تحریک کے مقابلے میں اپنا ایک فلسفہ تھا جو اخوان کی تحریک کے عمومی لائحہ عمل سے مکمل طور پر ہم آہنگ نہیں تھا۔ انھوں نے اخوان کی عالمی تنظیم سے کہا کہ ہمیں ہمارے اُن بعض اقدامات اور فیصلوں میں معذور سمجھا جائے جو بسااوقات مقامی، علاقائی اور سیاسی حالات سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ہمیں مجبور نہ کیا جائے کہ ہم طے شدہ پالیسی کے مطابق اُن کو قائم رکھیں، اُس پالیسی کے پابند ہوں، یا اس کے مطابق فیصلہ کریں۔ پھر برسوں اسی طرز پر معاملات چلتے رہے۔
حسن الترابی نے سوڈانی جماعت کی قیادت اچھے وقتوں میں بھی کی اور مشکل حالات میں بھی وہی سرخیل رہے۔ اُن کے ساتھ بس ایک گروہ تھا۔ اگرچہ اُن میں سے بھی بعض لوگ اُن مخالفتوں کا سامنا نہ کرسکے جن کا اخوان کی روایات پر چلنے کے معاملے میں حسن الترابی کو اپنے اجتہاد کی بنیاد پر کرنا پڑا۔ دراصل ان معاملات میں لوگوں کی طبائع اور رجحانات ایک جیسے نہیں ہوتے۔ بعض لوگ سیاست اور فکر میں روایت سے ہٹنے کی اپنے اندر ہمت نہیں پاتے۔
شیخ الترابی کو میں نے فہم وفراست میں نہایت باریک بین پایا۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں نہایت حساس طبیعت عطا کی تھی۔ اُن کا ایمان گہرا اور علم پختہ تھا۔ ہماری گفتگو کا موضوع اُمت کے حالات، مسائل اور اُن کا سدباب ہوتا۔ مسلمانوں کے حالات، اُن کی بیداری اور اُن کی دعوت میں ترقی اور بہتری کے طریقوں اور راستوں پر بحث و تمحیص ہوتی۔
۱۹۸۵ء میں پہلی مرتبہ مَیں ترابی صاحب سے بیروت میں ملا۔ اُس وقت وہ بھرپور جوان تھے۔ اس سے پہلے وہ قومی تحریک کی قیادت کرچکے تھے جس کے نتیجے میں عبود کی صدارت میں قائم فوجی حکوت کا خاتمہ ہوا تھا اور سوڈان میں سول حکومت قائم ہوئی۔
ڈاکٹر حسن الترابی اور اُن کے متعدد ساتھیوں کو النمیری کے دورِ حکومت میں ایک عرصہ پابند سلاسل رکھا گیا۔ پھر حکومت کی اُن کے ساتھ یہ بات چیت طے پائی کہ حکومت اور وہ مل کر کام کریں تاکہ ایک دوسرے سے استفادہ ممکن ہوسکے۔ حکومت نے انھیں بعض مناصب قبول کرنے کی تجویز پیش کی جو انھوں نے مان لی۔ دراصل وہ مرحلہ وار کام کرنے پر یقین رکھتے تھے۔
ہم سوڈان کے اُس قومی اجتماع میں شریک تھے جس کا اعلان النمیری نے اسلامی قانون سازی کی غرض سے کیا تھا۔ ڈاکٹر حسن الترابی اور اُن کی جماعت پوری قوت کے ساتھ اس بہت بڑے مارچ میں شریک تھے۔ اس اجتماع کو ’ملین مارچ‘ کا نام دیا گیا تھا۔ میں اور شیخ صلاح ابواسماعیلؒ ایک بلندعمارت سے اس مارچ کا مشاہدہ کر رہے تھے۔ انسانوں کا جمِ غفیر تھا۔ لوگ شریعت، اسلام اور قرآن کے لیے پوری طاقت اور گرم جوشی کے ساتھ نعرے لگا رہے تھے۔ ہمارے آنسو جاری تھے اور ہم کہہ رہے تھے: کیا ہمارے لیے بھی قاہرہ میں ایسا دن آئے گا؟
پھر سوڈان میں حالات بہت جلد بدل گئے۔ دراصل عسکری انقلاب کے پاس کوئی فکری، تربیتی اور اخلاقی لائحہ عمل نہیں تھا، لہٰذا تبدیلی ناگزیر تھی۔ اس کے جواب میں پھر ایک عسکری انقلاب آیا لیکن یہ صاف شفاف اور پُرامن انقلاب تھا۔ اس کی قیادت جنرل عبدالرحمن سوارالذہب کررہے تھے۔ وہ صاحب ِ اخلاق اور امن پسند انسان تھے۔ تقویٰ و پرہیزگاری اور حکومت و سلطنت میں ایثار و قربانی میں ضرب المثل تھے۔ وہ ایک سال بعد ہی مشترک حکومت کے قیام پر اُتر آئے۔
سیاسی بساط لپیٹ دیے جانے کے بعد ضروری تھا کہ اب ملک میں حکومتی اُمور پر مضبوط گرفت رکھنے والا کوئی طاقت ور فرد سامنے آتا۔ ڈاکٹر حسن الترابی اپنے وژن اور دُوراندیشی کے اعتبار سے ایسی صفات کے حامل لوگوں میں سرفہرست تھے۔ لہٰذا انھوں نے قد م آگے بڑھایا اور فوجیوں کے ایک گروہ کو منتخب کیا جن میں عمرالبشیر سب سے نمایاں تھے۔ اس نازک موقعے پر اگر حسن الترابی قدم نہ اُٹھاتے تو اشتراکی اور بعثی پہل کر جاتے۔ آغاز میں ان لوگوں نے مسلح انقلاب کی کوشش کی تھی لیکن اُن کی یہ کوشش کچل دی گئی تھی۔
حسن الترابی ماضی جیسی عزیمت کے حامل مرد تھے۔ وہ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّل عَلَی اللّٰہِ کی عملی تصویر تھے۔ انھیں کسی شاعر کا یہ قول بہت پسند تھا:
اِذَا کُنْتَ ذَا رَأیٍ فَکُنْ ذَا عَزِیْمَۃٍ
فَاِنَّ فَسَادَ الرَّأْیِ أَنْ تَتَرَدَّدَا
وَاِنْ کُنْتَ ذَا عَزْمٍ فَانْفِذْہُ عَاجِلًا
فَاِنَّ فَسَادَ الْعَزْمِ أَنْ یَتَقَیَّدَا
(اگر تم صاحب راے ہو تو صاحب ِ عزم بھی بنو، کیونکہ تمھارا متردد رہنا تمھاری راے کو تباہ کردے گا۔ اگر تم صاحب ِ عزم ہو تو جتنا جلد ہوسکے اسے نافذ کرو، کیونکہ التوا عزم کو تباہ کردیتا ہے)۔
سوڈان کے مسلم نوجوان حسن الترابی کے گرد جمع ہوئے اور پورے سوڈان میں اُن کو اسلامی تحریک کے لیے اپنا قائد منتخب کرلیا۔ جب وہ انقلاب برپا ہوا جس کے اسباب اسی شخص نے پیدا کیے تھے اور خود ہی پوری حکمت کے ساتھ اس کی قیادت کی تھی اور اس میں سرخ روئی بھی نصیب ہوگئی تھی، اس وقت انھوں نے جیل جانا گوارا کرلیا اور جیل کے اندر سے ہی تحریری ذریعے سے معاملات چلاتے رہے۔ اس کے بعد ترابی صاحب نمودار ہوئے اور جیل سے باہر آگئے۔ یہی وہ موقع ہے جب ترابی صاحب، عالمِ عرب اور عالمِ اسلام میں نمایاں ہوکر سامنے آئے۔ انھوں نے باہر کے لوگوں کو سوڈان بلایا۔ میں بھی اُن لوگوں میں شامل تھا۔
۱- اس بات پر پختہ ایمان کہ اللہ ہمارا رب ہے۔ اسلام ہمارا دین ہے۔ شریعت اور تربیت ہمارا عمومی منہج ہے۔
۲- یہ یقین کہ ’قوموں کی آزادی‘ اسلامی فرائض میں سے ایک فریضہ ہے جس کے لیے ہم مصروفِ جہاد ہیں۔
۳- فکروتعبیر کی آزادی اور ظلم و استبداد کی مزاحمت بنیادی فرائض ہیں۔
۴- مسئلۂ فلسطین اصل مسئلہ ہے۔ اس میں کسی کمزوری کا مظاہرہ جائز نہیں۔ اس کا دفاع فرض ہے۔
۵- عدلِ اجتماعی کے قیام اور بدعنوانی اور مظالم کے خاتمے کے لیے لڑنا اسلام کا جزولاینفک ہے۔
۶- مشرق و مغرب میں پھیلی اُمت مسلمہ اُمت واحدہ ہے۔ اس کا انتشار جائز نہیں۔
۷- ہر امن پسند کے لیے ہم امن پسند ہیں۔ ہمارا ہاتھ اُس کے ہاتھوں میں ہوگا، مگر اُس کے ہم دشمن ہیں جو ہم سے دشمنی کرے۔
۸- تمام تر انسانیت اولادِ آدم ہے۔ سب کے سب بھائی بھائی ہیں۔ ان کے اُوپر فرض ہے کہ وہ ایک دوسرے سے محبت اور تعاون کریں۔
ڈاکٹر حسن الترابی وہ شخصیت ہیں جن کے مقام و مرتبے اور احیاے اسلام کے لیے اُن کی مساعی کا ہم انکار نہیں کرسکتے۔ سوڈان میں اسلامی تحریک کے لیے اُن کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ صہیونی اور صلیبی ریشہ دوانیوں کے خلاف اُن کی مزاحمت قابلِ ذکر ہے۔ سیکولرزم اور لادینیت کے خلاف اُن کی جدوجہد سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ہاں، اس تمام تر کے باوجود وہ معصوم عن الخطا نہیں تھے۔ بعض مسائل میں اُن کے تفردات ضرور تھے ؎
وَمَنْ ذَا الَّذِیْ تُرضٰی سَجَایَاہُ کُلُّھَا
کَفَی الْمَرْئُ فَضْلًا أَنْ تُعَدَّ مَعَائِبُہُ
(کون ہے جس کی تمام صفات و عادات قابلِ قبول ہوں۔ کسی آدمی کے بلند مقام و مرتبے کے لیے یہی کافی ہے کہ اُس کے معائب گنے جاسکتے ہوں، بے شمار نہ ہوں)۔
میں نے متعدد مسائل میں ترابی صاحب سے اختلاف کیا۔ اپنے فتاویٰ کی پانچویں جلد میں اُن مسائل کو میں نے شامل کیا ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ڈاکٹر ترابی کو کوئی وقعت نہ دی جائے اور اُن کے اجتہادات کو نظرانداز کردیا جائے۔ وہ مسلمانوں اور عربوں کے بطلِ حُریت رہے۔ لوگ اُن کے حلقے میں آتے جاتے رہے مگر وہ عالمِ عرب اور عالمِ اسلام کے فکری، دعوتی، تربیتی اور جہادی و سیاسی سطح پر صفِ اوّل کی قیادت میں شامل تھے۔ اُن کی وہ تالیفات، افکار و معارف اور توجیہات جن سے اُن کے شاگردوں اور ساتھیوں نے استفادہ کیا وہ مرتب و مطبوعہ شکل میں موجود ہیں۔ انھوں نے اپنی زندگی اسلام کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ اسی کے لیے وہ مصروفِ عمل تھے۔ اُسی کے لیے اجتہاد کیا اور مجتہد کے لیے تو درستی پر دو اجر ہیں، اور غلطی پر ایک۔ اُن کی رحلت اسلام اور مسلمانوں کے لیے بہرحال ایک نقصان ہے۔
حسن الترابی کے اندر ایک خوبی اور خصوصیت تھی جو اُن کے علاوہ کسی اور سیاست دان میں نہیں تھی۔ وہ یہ کہ وہ محض سیاسی لیڈر نہیں تھے بلکہ فقہ و دعوت کے غیرمعمولی عالم بھی تھے۔ اُن کے تمام اعمال اور نقطہ ہاے نظر میں ایک فکر نظر آتی تھی۔ اُن کی فکر کا سرچشمہ اسلام تھا، یعنی قرآن و سنت اور انھی دو سرچشموں سے بننے والے اصول، مقاصد اور قواعد ان کی فکر کا ماخذ اور مصدر ہوتے تھے۔
حسن الترابی کی متعدد تصانیف، مقالات اور مختلف موضوعات پر لیکچر موجود ہیں۔ اُن کی چند تصانیف کے نام:m قضایا الوحدۃ والحریۃ (۱۹۸۰ئ) m تجدید اُصول الفقہ (۱۹۸۱ئ) m تجدید الفکر الاسلامی (۱۹۸۲ئ) m الاشکال الناظمۃ لدولۃ اسلامیۃ معاصرۃ (۱۹۸۲ئ) m تجدید الدین(۱۹۸۴ئ) m منھجیۃ التشریع (۱۹۸۷ئ) mالمصطلحات السیاسیۃ فی الاسلام (۲۰۰۰ئ)
ڈاکٹر حسن الترابی علم و ایمان سے لبریز شخصیت، فساد و بدعنوانی اور سرکشی کے خلاف مزاحمت کے جذبے سے سرشار تھے۔ وہ صلیبی اور مادی جابروں اور متکبروں کے سامنے ڈٹ جانے کے عزم و ہمت کا نام تھے۔ اُنھوں نے ہر طرح کے ظلم و استبداد سے ٹکر لی خواہ وہ اشتراکیت کی صورت میں تھا یا سرمایہ داری کے رنگ میں۔ ان بڑے بڑے ظالم اور استبدادی نظاموں اور قوتوں کی مزاحمت انھوں نے معمول کی زندگی کے ذریعے کرنا پسند کی۔ بلندوبالا محلات میں رہنا انھوں نے گوارا نہ کیا، نہ شاہانہ اور امیرانہ گاڑیوں میں گھومنا ان کی خواہش رہی۔ وہ سہولتوں بھری زندگی گزارنے کے بھی متمنی نہ رہے۔ وہ عام آدمی کی طرح زندگی گزارنا چاہتے تھے۔ وہ نرم گرم سے اسی طرح متاثر ہونا پسند کرتے تھے جس طرح عام لوگ ہوتے ہیں۔
اسی بنا پر تو کش مکش کو انھوں نے خندہ پیشانی سے قبول کیا اور جس بات کو حق سمجھا بلاخوف و خطر کہہ دیا۔ باطل سے صرف تصادم اُن کا ہدف نہ تھا بلکہ اُسے مغلوب کرنا اُن کا عزم ہوتا تھا۔ اُن کی اس خاصیت نے انھیں اپنے اُن ساتھیوں اور شاگردوں کے ساتھ بھی متصادم رکھا جن کو اُنھوں نے کٹیا سے محلات تک اور فرش سے عرش پر پہنچایا۔وہ زندگی بھر حراست سے جیل اور جیل سے حراست میں منتقل ہوتے رہے یہاں تک کہ اُنھیں اپنے گھر میں زندگی گزارنے کی فرصت ہی نہ دی گئی۔ اُن کی عمر ۸۰سال ہوچکی تھی اور وہ مسلسل جیل میں بند تھے۔
ڈاکٹر حسن الترابی دل کے غنی تھے۔ جیساکہ حدیث میں آیا ہے: لَیْسَ الْغِنَی عَنْ کَثْرَۃِ الْعَرْضِ ، اِنَّمَا الغِنَی غِنَی النَّفْسِ’’امیری مال و دولت کی کثرت کا نام نہیں، یہ تو دل کی بے نیازی کا نام ہے‘‘۔ میں نے دوحہ میں سوڈان کے سفیر سے سنا کہ خرطوم میں حسن الترابی کا اپنا مکان نہیں تھا۔ اللہ اکبر! ___رہنما، عالم، متعدد کتب کا مصنف حسن الترابی سادہ سے مکان کا بھی مالک نہیں۔ انھوں نے کئی بار ہمیں اپنے گھر بلایا اور ہم نے وہاں سوڈان کے مشہور و معروف کھانے کھائے۔ اُن کے نمکین و شیریں ماکولات سے ہم شکم سیر ہوئے۔ اس کے باوجود واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ اُن کے پاس اتنی دولت نہیں تھی کہ وہ بنک میں رکھواتے۔ شہر سے باہر بھی کوئی زمینی جایداد نہ تھی حالانکہ یہ چیزیں تو عموماً لوگوں کے پاس ہوتی ہیں۔
برادرم حسن! تم پر اللہ تعالیٰ کی سلامتی ہو۔ اس سرزمین کو سلام جس نے تجھے جنم دیا۔ اللہ تمھیں، تمھارے بیٹوں، بھائیوں اور ساتھیوں کو بھی برکت سے نوازے۔ زندگی میں انھوں نے تمھارے ساتھ اتفاق کیا ہو یا تمھاری مخالفت کی ہو، یہ سب تمھارے ساتھ شاہراہِ مستقیم پر تھے۔ اللہ برادرم ابراہیم السنوسی کا بھی حامی و ناصر ہو جو اَب جماعت کی قیادت کر رہے ہیں۔
ہم اپنے عزیز بھائی حسن الترابی کے لیے دعاگو ہیں کہ انھوں نے اللہ کے دین اور اُمت محمدی کے لیے جو جدوجہد کی اُس پر اللہ تعالیٰ انھیں بہترین جزا عطا فرمائے۔ اُن کی مغفرت فرمائے، اُن پر رحم فرمائے۔ انھیں اپنے پاس صالحین میں قبول فرما لے۔ اُن کی اجتہادی لغزشوں کو معاف فرمائے۔ اللہ اُن کی آل اولاد اور رفقا کے اندر سے اُن کا بہترین جانشین اُٹھائے۔
(ماخذ: www.qaradawi.net)
۱۹۴۲ء کا زمانہ تھا، میں زمیندارہ کالج گجرات (پنجاب) میں ایف اے کا طالب علم تھا۔ ایک روز اعلان ہوا کہ ہندستان کے ایک بہت بڑے مسلمان اسکالر کالج کے سر فضل علی ہال میں طلبہ سے خطاب کریں گے۔ اسکالر آئے، تعارف جناب ڈاکٹر محمد جہانگیر خان صاحب پرنسپل (مشہور کرکٹر) نے کرایا اور نام علامہ سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ بتایا۔ نام عجیب سا محسوس ہوا اور خطاب اس سے بھی زیادہ عجیب۔ مقرر نے طلبہ سے کہا کہ آپ میرے کچھ سوالوں کے جواب دیں گے؟ کبھی آپ نے غور کیا کہ آپ کیا ہیں؟ دنیا میں آپ کی حیثیت کیا ہے؟ کیا آپ خودمختار ہیں کہ جو چاہیں کریں یا آپ کے پیدا کرنے والے نے آپ کو کسی خاص مقصد کے لیے دنیا میں بھیجا ہے؟ وہ مقصد کیا ہے؟ اگر انسان اپنے مقصد ِ زندگی سے واقف نہ ہو تو کیا وہ ایک کامیاب زندگی گزار سکتا ہے؟ وغیرہ۔ یہ اور ایسے ہی تھے وہ سوالات جن کا جواب د یے بغیر مقرر نے اپنی تقریر ختم کر دی، اور کہا کہ آپ ان سوالات کے جوابات سوچ رکھیں، میں پھر کبھی آیا تو آپ سے ان کے جوابات معلوم کروں گا۔
اِس مقرر کی سب سے پہلی تحریر جو میری نظر سے گزری وہ ایک پمفلٹ تھا ’کلمۂ طیبہ کے معنی‘ جسے پڑھ کر میرے دماغ میں مذہب کا جو ڈھانچا عام مذہبی ماحول کو دیکھ کر بنا تھا وہ ٹوٹ پھوٹ گیا۔ مجھے کچھ ایسے سوالوں کا جواب ملا جو اکثر میرے ذہن میں بے چینی پیدا کیے رکھتے تھے ۔ میں نے یہ پمفلٹ واپس کرنے کے بجاے اس کی قیمت ادا کردی۔ جس دوست نے یہ پمفلٹ لاکر دیا تھا اس سے اس حقیقتِ اسلام سیٹ کے دوسرے حصے طلب کیے جن کا مطالعہ کرنے سے دل ایمان و ایقان کی دولت سے مالا مال ہوگیا۔ مدلل طرزِ بیان، سلیس و نفیس زبان اور سائنٹفک اپروچ نے مجھ جیسے گرے پڑے انسان کو اُٹھا کر کھڑا کر دیا اور دعوتِ دین کے کام پر لگادیا۔
o پاکستان بننے کے بعد بالکل ابتدائی ایام میں آپ راولپنڈی تشریف لائے تو میں نے آپ سے دریافت کیا کہ میرے ایک دوست کانگرسی ہیں، اکثر کہتے ہیں کہ مودودیؒ نے کون سا تیر مارا ہے۔ وہی باتیں ہیں جو مولانا ابوالکلام آزاد کئی بار اِس سے اچھے انداز میں کہہ چکے ہیں۔ مولانا مودودی نے فرمایا کہ:
آپ کے دوست ٹھیک کہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب ہم سب سو رہے تھے تو اِسی شخص نے ہمیں جگایا تھا لیکن آپ اُس شخص کو کیا کہیں گے جو صبح سویرے اُٹھ کر مسجد میں اذان دے اور جب لوگ اس کی اذان سن کر نماز کے لیے مسجد میں آئیں تو وہ خود گھر جاکر سو رہے۔ اب ہم تو جیسی کیسی نماز ہمیں آتی ہے پڑھیں گے۔ اگر جگانے والا گھر جاکر سوگیا ہے تو ہمارے پاس اس کا کیا علاج ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جاگے ہم انھی کی اذان سے تھے۔
o ایک دفعہ آپ سیالکوٹ ڈاکٹر اللہ رکھا مرحوم (ہومیو) کے پاس دوا لینے کے لیے تشریف لائے۔ آپ نے فرمایا: ’’ہومیوپیتھی طریق علاجِ طب کا تصوف ہے۔ لگ جائے تو چودہ طبق روشن اور نہ لگے تو کوئی نقصان نہیں‘‘۔
اس تبصرے کا لطف وہی لوگ اُٹھا سکتے ہیں جنھیں اس طریقۂ علاج کی خصوصیات سے کچھ واقفیت ہے۔
o جس زمانے میں مولانا امین احسن اصلاحی گروپ کی وجہ سے جماعت کے اندر سخت قسم کا خلفشار برپا تھا اور مولانا کی ہدایت کے خلاف جائزہ کمیٹی کے ارکان نے مرکزی شوریٰ کی رکنیت سے مستعفی ہونے سے انکار کر دیا تھا، جن کا دعویٰ تھا کہ جماعت کی اکثریت موجودہ پالیسی سے غیرمطمئن ہے، مولانا مودودیؒ نے جماعت کی امارت سے استعفا دے دیا۔ اُس وقت تحریک ِ اسلامی کے بہی خواہ سخت اضطراب اور پریشانی کے عالم میں تھے۔ مولانا کے امارت سے مستعفی ہوجانے کے بعد حالات اور سنگین صورت اختیار کرگئے تھے۔ چنانچہ ایک رفیق نے سخت پریشانی کے عالم میں مولانا مغفور سے کہا کہ تاریخِ اسلام میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی سربراہِ حکومت یا جماعت کے امیر نے محض چند افراد کے دبائو پر اپنے منصب سے استعفا دے دیا ہو، حتیٰ کہ حضرت عثمانؓ نے تو شہادت قبول کرلی مگر خلافت سے مستعفی نہیں ہوئے! مولانا نے مسکراتے ہوئے برجستہ یہ فقرہ کہا:
’’اچھا تو آپ مجھے شہید کروانا چاہتے ہیں؟‘‘ اور ساری محفل کشت ِ زعفران بن گئی۔
o خاندانی منصوبہ بندی پر اظہار راے کرتے ہوئے ایک مرتبہ فرمایا کہ: آج کے مغرب زدہ انسان کی مثال تھرڈ کلاس کے اُس مسافر کی سی ہے جو خود تو ریل گاڑی کے اندر داخل ہوجاتاہے مگر دوسرے مسافروں کے لیے دروازہ بند کردیتا ہے کہ اب اور کسی کی یہاں گنجایش نہیں ہے‘‘۔
o ماچھی گوٹھ کے پانچ روزہ اجتماع میں جماعتی پالیسی پر کھلے عام بحث کے بعد جب ارکان کو دوبارہ اپنی پسند کا امیر منتخب کرنے کا موقع دیا گیا تو مولانا کو ۹۸ فی صد ووٹ ملے۔ صرف ۱۵؍افراد نے متفرق حضرات کے حق میں اپنی راے کا استعمال کیا۔ ارکان نے ایک زبردست اضطراب اور ذہنی کوفت سے نجات حاصل کی۔ سیالکوت کے شیخ محمد فاضل صاحب مجھے ساتھ لے کر مولانا محترم کے پاس پہنچے اور بے تکلفی سے کہا: ’’مولانا ایک بہت بڑی کوفت سے ہم سب کو نجات ملی ہے، میری درخواست یہ ہے کہ آپ ایک دن کے لیے سیالکوٹ تشریف لائیں، صرف پکنک کا پروگرام ہوگا، کوئی جلسہ وغیرہ نہیں رکھا جائے گا‘‘۔ مولانا نے ہاں کردی۔ ہم نے سیالکوٹ پہنچ کر مولانا محترم کو مقررہ تاریخ سے آگاہ کردیا۔پکنک کے موقعے پر ہم ہیڈمرالہ گئے۔ بہت پُرلطف موسم تھا اور مولانا کی ہمراہی میں یہ لطف دوبالا ہوگیا۔ مولانا سے ہرموضوع پر کھل کر گفتگو رہی۔ ایک صاحب نے سوال کیا: مولانا آپ کی والدہ محترمہ زندہ ہیں؟ مولانا نے فرمایا:
خدا کے فضل سے زندہ ہیں اور فرماتی ہیں کہ میرے منّے کو جماعت والوں نے خراب کر دیا ہے۔ گویا کوئی ماں یہ ماننے کو تیار نہیں ہوسکتی کہ اُس کا اپنا بچہ بھی خراب ہوسکتا ہے، جب کہ حال یہ ہے کہ جماعت والوں کی مائیں مجھے روتی ہیں کہ مودودی نے ہمارے بچوں کا ستیاناس مار دیا ہے۔
o مولانا ایک دفعہ راولپنڈی تشریف لائے۔ سوال و جواب کی محفل میں ایک صاحب نے دریافت کیا: مولانا کیا آپ نے کبھی ولی اللہ دیکھا ہے؟ ولی اللہ کی پہچان کیا ہے؟ مولانا نے فرمایا: میں نے تو کل ہی ایک ولی اللہ کو دیکھاہے، فرمانے لگے:
جب مَیں ریل کے ذریعے راولپنڈی اسٹیشن پر پہنچا، گاڑی رُکی اور مسافر اُترنا شروع ہوگئے تو قُلی مسافروں کا سامان اُٹھانے کے لیے چھیناجھپٹی کر رہے تھے لیکن میں نے دیکھا کہ ایک قُلی نہایت اطمینان کے ساتھ نماز ادا کر رہا تھا۔ اس نے سکون کے ساتھ نماز ختم کی اور کسی سامان والے مسافر کی تلاش میں ہمارے ڈبے میں آگیا۔ اُس نے مجھ سے دریافت کیا کہ سامان اُٹھوائیں گے؟ میں نے ہاں کہا اور وہ میرے سامان کے دو نگ اُٹھا کر اسٹیشن سے باہر لے آیا۔ میں نے اُسے ایک روپیہ دیا۔ اُس نے مجھے اٹھنّی واپس کردی۔ میں نے کہا کہ یہ آپ رکھ لیں۔ مگر اُس نے کہا کہ میرا حق فی نگ چار آنے ہے، وہ میں نے لے لیا ہے۔ مزید اٹھنّی مجھے نہیں چاہیے۔
o فرقہ پرستی سے بالا تر شخصیت:ایک دفعہ آپ سیالکوٹ تشریف لائے۔ اُن دنوں جماعت اسلامی کا دفتر دو بڑی جامع مسجد کے درمیان واقع تھا۔ شمال میں دو مکانات چھوڑ کر جامعہ ابراہیمیہ تھی جہاں مشہور اہلِ حدیث عالمِ دین مولانا محمد ابراہیم میر خطیب تھے اور جنوب میں بالکل متصل عمارت جامعہ حنفیہ کی تھی جہاں اُس وقت کے سیالکوٹ کے بریلوی مکتب ِ فکر کے ممتاز عالم دین مولانا محمد یوسف صاحب خطبۂ جمعہ دیتے تھے۔ ہم نے یہ طے کیا کہ ظہر کی نماز مولانا کو اہلِ حدیث مسجد میں اور عصر کی مسجد حنفیہ میں پڑھوائیں گے۔ چنانچہ مولانا سے اس فیصلے کا ذکر کیا تو آپ نے کمال خندہ پیشانی سے فرمایا کہ آپ مجھے جس مسجد میں چاہیں لے جائیں میری نماز ہرمسجد میں ہوجاتی ہے۔
o بے ریا انسان: ایک اور مرتبہ آپ سیالکوٹ تشریف لائے تو آپ کو ایک ایسے مکان میں ٹھیرایا گیا جس سے ۲۰۰گز کے فاصلے پر سڑک سے پار مسجد تھی۔مولانا کی صحت ٹھیک نہیں تھی۔ وہ نماز اپنی رہایش گاہ پر ہی پڑھتے تھے۔ کارکنوں نے عرض کیا: مولانا مسجد قریب ہی ہے اور اس مسجد کے خطیب تو پہلے ہی ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتے اگر آپ نے مسجد میں جاکر نماز نہ پڑھی تو یہ ہمارا ناک میں دم کردیں گے۔ مولانا نے فرمایا کہ میں بیمار بھی ہوں اور مسافر بھی۔ شریعت نے مجھے مسجد جانے کا مکلّف نہیں کیا ہے۔ مجھے نماز خدا کی پڑھنی ہے کسی انسان کو دکھانے کے لیے نہیں۔
o صبرو استقامت:شیریں خان صاحب مرحوم ایک بڑے پُرجوش پٹھان تھے۔ کچھ عرصہ وہ مرکز میں مولانا کے ہاں دفتر کے قاصد کے طور پر رہے تھے۔ انھوں نے بتایاکہ مولانا محترم جمعہ کی نماز عام طور پر جامعہ اشرفیہ میں جاکر ادا کیا کرتے تھے۔ البتہ جب کبھی کسی وجہ سے دیر ہوجاتی تو اچھرہ میں مولانا محمدعمرصاحب اچھروی مرحوم کی مسجد میں بھی چلے جاتے۔ ایک دفعہ ایسا ہی اتفاق ہوا۔ مولانا محمد عمر، مولانا مودودی کے شدید مخالفین میں سے تھے۔ انھوں نے جونہی مودودی صاحب کو مسجد میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا خطبہ کا رُخ فوراً ان کی طرف پھیر دیا اور نہایت تندوتیز لہجے میں مولانا مودودی صاحب پر برسنے لگے۔ میں بہت حیران ہوا کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ اِدھر مولانا مودودی صاحب کے چہرے پر نظر ڈالتا تو وہ بالکل پُرسکون تھا اور ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے خطیب صاحب مودودی صاحب کے بارے میں نہیں کسی اور کے بارے میں کف در دہان ہیں۔ میں پٹھان آدمی تھا غصے کو ضبط کرنا مشکل ہو رہا تھا مگر مودودی صاحب کو دیکھ کر چپکا ہو رہا۔ نماز کے بعد مسجد سے باہر آئے تو میں نے مولانا سے کہا کہ آپ بھی عجیب آدمی ہیں، اطمینان سے بیٹھے گالیاں سنتے رہے۔ آپ کو فوراً اُٹھ کر چلے جانا چاہیے تھا۔
مولانا نے ارشاد فرمایا: خان صاحب کیا ہم جمعہ کی نماز ضائع کر دیتے، ہمارا کیا گیا ہے، مولانا محمدعمر صاحب کے دل کا غبار تو نکل گیا۔
oایک بھادر انسان:۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ چھڑی تو مولانا محترم راولپنڈی میں تھے۔ مولانا جنگ کی خبر سنتے ہی واپسی کے لیے تیار ہوگئے۔ ہوائی سروس بھی بند ہوگئی تھی اور لاہور کا سارا راستہ مخدوش تھا۔ لاہور پر حملے کا بھی خطرہ یقینی تھا۔ راولپنڈی کے رفقا نے مولانا سے گزارش کی کہ آپ راولپنڈی ہی میں ٹھیریں، ہم آپ کے اہل و عیال کو یہاں بلوا لیتے ہیں، لاہور اس وقت سخت خطرے کی زد میں ہے۔ مولانا نے فرمایا: مجھے جلد از جلد لاہور میں موجود ہونا چاہیے۔ ان شاء اللہ دشمن لاہور کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ چنانچہ مولانا کی واپسی کے لیے دو گاڑیوں کا بندوبست کیا گیا اور آپ لاہور روانہ ہوگئے۔ لیکن ابھی گوجرانوالہ کے قریب پہنچے تھے کہ صدرایوب نے ملاقات کے لیے راستے ہی سے واپس راولپنڈی بلالیا، جہاں سے آپ واپس لاہور کے لیے روانہ ہوگئے۔
o مالی ایثار کی مثال:مولانا مودودیؒ نے جہاں اپنی ساری صلاحیتیں تحریک کے حوالے کر دی تھیں وہاں مالی طور پر بھی زبردست ایثار کیا۔ اس پہلو پر روشنی ڈالنے کے لیے اگرچہ میری معلومات براہِ راست نہیں ہیں لیکن مُشتے نمونہ از خروارے کے طور پر یہاں جماعت اسلامی کی رُودادوں سے فراہم شدہ چند معلومات پیش کی جاتی ہیں جن سے مولانا کے اس پہلو کی تابناکی کا ایک ہلکا سا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
اگست ۱۹۴۱ء میں جماعت اسلامی کا قیام عمل میں آیا تو آپ نے نہ صرف اپنی ساری تصانیف کے حقوق بلکہ مکتبے میں موجود مبلغ ۶ہزار ۷۴ روپے کی کتب اور واجب الوصول رقم مبلغ ۱۷۲۰ روپے جماعت اسلامی کے بیت المال کے حوالے کردیں، اور اپنے گزارے کے لیے صرف الجہاد فی الاسلام اور رسالہ دینیات دو کتابیں اپنے پاس رکھیں یا رسالہ ترجمان القرآن آپ کی ملکیت میں رہا۔ قیامِ پاکستان تک بیت المال کے اکثر اخراجات مولانا کی کتابوں کی آمدن سے پورے ہوتے رہے۔ فروری ۱۹۴۷ء تک کتب کی فروخت سے ایک لاکھ ۱۶ہزار روپے کی آمدن ہوئی اور اس وقت مبلغ ۴ہزار ۳سو روپے کی کتب کا اسٹاک مکتبہ میں موجود تھا اور تقریباً ۱۴ہزار ۷سو روپے کی رقم واجب الوصول تھی۔ یہ سلسلہ ۱۹۵۸ء تک چلتا رہا۔ جب جماعت مالی طور پر اپنے پائوں پر کھڑی ہوگئی تو مولانا نے یہ کتابیں اسلامک پبلی کیشنز لمیٹڈ کو دے دیں جن کی رائلٹی ادارہ معارف اسلامی کراچی کو منتقل کردی گئی۔ یہ ادارہ مولانا محترم نے اسلام کی تحقیق کے لیے قائم کیا تھا۔ مولانا نے یہ ایثار اس حال میں کیا کہ آپ کے پاس رہایش کے لیے اپنا مکان تک نہیں تھا اور آپ کے بچے عام کارپوریشنوں کے اسکولوں میں زیرتعلیم تھے۔ گھر کے اخراجات انتہائی سادگی اور کفایت شعاری کے ساتھ چلاتے، حتیٰ کہ قید کے ایام میں جو پانچ سال کے قریب ہوتے ہیں جماعت کی طرف سے آپ کے گھر میں اخراجات کے لیے جو رقم دی جاتی باہر آکر آپ اُسے بھی اپنے قرض کے کھاتہ میں ڈال کر لوٹا دیتے۔
oعظمت اور بے نفسی کا امتزاج:مولانا محترم کی عظیم شخصیت کا لوہا اُن کی اوائلِ عمر ہی میں مانا جاچکا تھا۔ ۱۹۱۹ء میں، جب کہ آپ کی عمر ابھی صرف ۱۶برس تھی۔ آپ نے ہفت روزہ تاج، جبل پورکی ادارت سنبھالی اور دو سال تک اُسے چلایا تاآنکہ آ پ کے ایک مضمون پر انگریز سرکار برہم ہوگئی اور یہ اخبار بند کرنا پڑا۔ ۱۹۲۱ء میں جناب مفتی کفایت اللہ مرحوم صدر جمعیت العلما ہند اور مولانا احمد سعید ناظم جماعت العلما ہند کے ایما پر آپ نے جمعیت العلما ہند کے آرگن مسلم اور الجمعیت کی ادارت سنبھالی اور کئی سال تک اِس سے منسلک رہے۔ ۱۹۲۷ء میں آپ کی معرکہ آرا کتاب الجہاد فی الاسلام منظرعام پر آئی جسے مسلم دنیا کے بڑے بڑے مفکرین اور راہنمائوں نے خراجِ عقیدت پیش کیا۔ ۱۹۲۹ء میں آپ نے حیدرآباد دکن میں ابومحمدمصلح مرحوم کے جریدہ ترجمان القرآن میں لکھنا شروع کیا۔
ڈاکٹر احمد توفیق جو فخر یار جنگ مرحوم سابق وزیرمالیات حیدرآباد دکن کے صاحب زادے ہیں، اپنے مضمون مطبوعہ نواے وقت میں لکھتے ہیں: یہ اس زمانے کی باتیں ہیں جب قرآن پڑھنا پڑھانا تو ضروری خیال کیا جاتا تھا مگر تفسیر قرآن پر زیادہ زور نہیں دیا جاتا تھا۔ تفاسیر موجود ضرور تھیں مگر وہ عام لوگوں کے لیے نہیں تھیں۔ مولانا نے جس آسان اور سلیس طریقے سے ترجمان القرآن میں استشہاد کیا، وہ باتیں لوگوں کے دل کو لگیں اور اِن کا جریدہ بہت مقبول ہوا۔ حیدرآباد تو خیر ایک طرف، پورے ہندستان میں تہلکہ مچ گیا اور اس کی مانگ بڑھ گئی۔
۱۹۳۶ء میں آپ کے مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ میں زیرتعلیم طلبہ میں بے دینی کے رجحانات پر دو مضامین چھپے۔ جس کے بعد یونی ورسٹی نے اِن کی روشنی میں بہت سے اصلاحی اقدامات کیے۔ ۱۹۳۷ء میں لاہور میں آپ کی علامہ اقبالؒ سے ملاقات ہوئی اور حیدرآباد دکن سے پنجاب منتقل ہونے کا پروگرام بنا۔ ۱۹۳۷ء اور ۱۹۳۸ء میں آپ نے متحدہ قومیت کے فتنے کے خلاف اور مسلمانوں کے سیاسی مسائل کے حل کے سلسلے میں اپنے رسالے ترجمان القرآن میں پُرجوش اور انتہائی مدلل مضامین سپردِ قلم کیے جن کے زبردست اثر سے مسلمانانِ ہند کے تمام علمی اور سیاسی حلقوں میں آپ کے زورِ قلم اور طریق استدلال کی دھوم مچ گئی۔ یوں مولانا مودودیؒ کی شخصیت نہایت خاموشی اور وقار کے ساتھ پورے ہندستان کی دینی اور سیاسی فضا پر چھاتی چلی گئی۔ پورے ملک کے مسلم تعلیمی اداروں کی طرف سے آپ کو خطاب کرنے کے لیے بلایا جانے لگا۔ انٹرکالجیٹ برادرہڈ لاہور ، انجمن تاریخ و تمدن مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ، ندوۃ العلما لکھنؤ، جامعہ ملّیہ دہلی، اسلامیہ کالج لاہور، ایم اے او کالج امرتسر، اسلامیہ کالج پشاور اور زمیندارہ کالج گجرات میں آپ نے جو خطبے دیے وہ آج بھی اپنے موضوع پر حرفِ آخر ہیں۔ ۱۹۴۰ء میں ایم اے او کالج امرتسر کی تقریب تقسیم اسناد سے آپ کے خطاب کا پس منظر آپ کے مقام پر روشنی ڈالتا ہے۔ مسلمانوں کا یہ ادارہ پنجابن میں علی گڑھ یونی ورسٹی کا متبادل خیال کیا جاتا تھا اور اس کی مجلس انتظامیہ میں اُس وقت کے ہندستان کے متمول اور اہلِ علم مسلمان شریک تھے۔ تقسیمِ اسناد کے موقعہ پر مہمانِ خصوصی کے مسئلے پر بحث ہوئی، جس میں دو نقطۂ نظر سامنے آئے ۔ بعض حضرات کا کہنا یہ تھا کہ اس موقعے پر مسلمانوں کے سیاسی لحاظ سے اہم ترین فرد کو مدعو کیا جانا چاہیے۔چنانچہ اس سلسلے میں اس وقت کے وزیراعظم سردار سکندر حیات کا نام لیا گیا۔ دوسرے حضرات کی راے یہ تھی کہ ہمیں مسلمانوں کی کسی نمایاں ترین علمی شخصیت کو بلانا چاہیے اور اس کے لیے مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا نام پیش کیاگیا اور بالآخر فیصلہ انھی کے حق میں ہوا۔
۱۹۴۱ء میں جماعت اسلامی کی تشکیل کے بعد آپ کی تمام سرگرمیاں جماعت کو مضبوط بنیادوں پر قائم کرنے اور اس کے لیے نئے نئے راستے نکالنے پر صرف ہونے لگیں، اور پاکستان بننے کے بعد اسلامی ریاست کے مقتضیات اور تفصیلات اور اسلامی دستور کی تدوین اور اسلامی قانون کے نفاذ کی طرف مڑگئیں۔ آپ نے جس میدان کا رُخ کیاوہاںاپنی صلاحیتوںکا لوہا منوایا۔ خطابت کے میدان میں آئے تو ایک منفرد آہنگ تھا۔ تنظیم و تربیت کی وادی میں پہنچے تو وہاں بھی نرالی شان تھی۔ بین الاقوامی دنیا میں قدم رکھا تو وہاں سے بھی خراجِ تحسین حاصل کیا۔ لیکن اتنی عظیم شخصیت اور اتنی ہی سادہ، نہ فخر کا شائبہ نہ علم کا غرور، نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو___ حال یہ تھا کہ مجھ جیسا ایک ادنیٰ سا کارکن نہایت بے تکلفی کے ساتھ ان سے مخاطب ہوسکتا تھا۔ وہ میرے ہرقسم کے الّم غلّم سوالات کا جواب بغیر کسی ناگواری کے دیتے۔ آپ کے اندر کبھی بڑاپن محسوس نہ ہوا۔ ایسا عظمت اور بے نفسی کا حسین امتزاج کہیں ڈھونڈے مل سکتا ہے؟(تذکرہ سیّد مودودی، جلداوّل، ص ۴۶۹-۴۷۹)
۲۰ویںصدی کی اردو اسلامی مجلاتی صحافت نے اسلامی فکر کے تشکیلی عمل میں گہرے نقوش مرتب کیے ہیں۔ مئی۱۹۳۳ء سے مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی زیرادارت ماہ نامہ ترجمان القرآن، حیدرآباد دکن [۱۹۳۸ء کے بعد سے لاہور] کے نئے آہنگ اور منفرد لہجے نے ایک ہی عشرے میں اہلِ دین و دانش کی توجہ کھینچ لی۔
اگست۱۹۴۷ء کے بعد جب برطانوی ہند دو ممالک، یعنی بھارت اور پاکستان میں تقسیم ہوا، تو سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی پاکستان ہجرت کے باعث اُس وقت سے ترجمان القرآن لاہور سے شائع ہورہا ہے۔ البتہ دعوتِ حق کی یک تخمی بہار کے وہ سفیر جو بھارت میں رہ کر چراغ ہدایت کا عَلم تھام کر نکلے تھے، انھوںنے نومبر۱۹۴۸ء میں رام پور سے ماہ نامہ زندگی کا اجرا کیا۔ گویا کہ ماہ نامہ زندگی بھارت کے معروضی حالات میں ماہ نامہ ترجمان القرآن کی صداے بازگشت لیے، علم وفضل کی منفرد علامت بن کر طلوع ہوا۔ اس کے اوّلین مدیر مولانا سید حامد علی تھے۔ بعدازاں مختلف اہل علم اس کی ادارت سے وابستہ رہے، جن میں مولانا سید احمد عروج قادری (م:۱۷مئی۱۹۸۶ئ) سب سے زیادہ عرصے تک مدیر رہے۔
زیرنظر کتاب اسی تاریخی رسالے ماہ نامہ زندگی، رام پور، اور بعد ازاں ماہ نامہ زندگی نو، نئی دہلی کے نہایت مفصل اور سائنٹی فک اشاریے پر مشتمل ہے۔ ماہ ناموں میں بہت سے قیمتی مباحث و مقالات جگہ پاتے ہیں اور ان میں سے ایک قابلِ لحاظ تعداد کتابی مجموعوں میں جگہ پانے سے محروم رہتی ہے۔ رسائل و جرائد کے اشاریے (Index) ان قیمتی اور بھولی بسری تحریروں کی نشان دہی کرکے، علم کے شیدائیوں کو استفادے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔
اشاریہ سازی ایک فنی اور فی نفسہٖ ایک علمی کاوش کا نام ہے۔ یہ محض مضامین کی نمبر شماری کا میکانکی عمل نہیں ہے۔ اس لیے ایک اچھے اشاریے کی تدوین میں اگر کوئی صاحب علم اپنی توجہ مرکوز کرے تو وہ اشاریہ، علم کا قطب نما بن سکتا ہے۔ الحمدللہ، زیر نظر اشاریہ ایک سنجیدہ محقق، صاحب ِ نظر عالم اور متین و شفیق استاد جناب ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی کی محنت شاقہ کا نتیجہ ہے۔ جنھوںنے ہمیں ماہ نامہ زندگی/ زندگی نو کے دامن میں سمٹے خزانے تک پہنچنے میں مدد دی ہے، اور نومبر۱۹۴۸ء سے دسمبر۲۰۱۵ء تک تقریباً ۶۷برس پر پھیلے ہوئے علمی سفر کا شریکِ سفر بنایا ہے۔
اشاریے کے آئینے میں یہ صورت سامنے آتی ہے کہ: اس پورے عرصے میں کل ۵۰۶۳ تحریریں اس ماہ نامے میں شائع ہوئیں اور ۱۲۱۳ کتب رسائل پر تبصرے چھپے۔ (یعنی اوسطاً سالانہ صرف ۱۸ تبصروں کی اشاعت کا مطلب یہ ہے کہ انتخاب ونقد کا ایک معیار رکھا گیا)۔ اسی طرح ۹۲۶ اہل قلم نے پرچے کی قلمی معاونت کی، جب کہ ۱۱۶ مترجمین (عربی، فارسی، ہندی، انگریزی) نے تعاون کیا۔ اہل قلم میں سے ۲۷اصلاحی، ۴۱فلاحی اور ۴۶ندوی پہچان رکھنے والے مضمون نگار ہیں۔ محترم رضی الاسلام نے عرضِ مرتب میں پرچے کا جامع تعارف کرایا ہے۔
بایں ہمہ مؤلف کے اس علمی فیض نے ہمیں ان بیسیوں اصحابِ علم سے واقفیت بہم پہنچائی ہے، جنھوںنے مختلف علمی معرکوں میں حق کی گواہی دی اور اپنا اپنا حصہ ادا کیا۔ اسلامی فکر و دعوت سے روشناسی کے لیے یہ خوب صورت اشاریہ، اصحابِ علم کی ضرورت ہے۔ (سلیم منصورخالد)
زیرنظر کتاب میں مؤلف نے اس امر کا اہتمام کیا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت صرف صحیح احادیث سے مرتب کی جائے۔ صحیح ترین احادیث کی بنیاد پر حضور اکرمؐ کی سیرت کا مطالعہ ایک قابلِ تحسین کارنامہ ہے۔ سیرت النبیؐ پر بعض کتابوں میں ہر طرح کی غلط اور صحیح روایات جمع کردی گئی ہیں۔ سیرت النبیؐ پر ایسی کتاب کی ضرورت تھی جس کا ہرجز پوری صحت کے ساتھ پیش کیا جائے۔ فاضل مؤلف مبارک باد کے مستحق ہیں۔ مسلمانوں کو حضور اکرمؐ کا صحیح اسوئہ حسنہ ہمیشہ مطالعے میں رکھنا چاہیے تاکہ آپؐ کی صحیح سیرتِ مبارکہ اپنی تمام جزئیات کے ساتھ سامنے رہے۔ قرآنِ مجید نے یہ حکم دیا ہے کہ وَاِِنْ تُطِیعُوْہُ تَہْتَدُوْا (النور ۲۴:۵۴) ’’اس کی اطاعت کرو گے تو خود ہی ہدایت پائو گے‘‘۔
زیرتبصرہ کتاب میں حضور اکرمؐ کی ولادت سے لے کر آپؐ کے وصال تک تمام چھوٹے بڑے واقعات ترتیب سے بیان کیے گئے ہیں۔ غزواتِ نبویؐ، وفود کی آمد، حجۃ الوداع، آپؐ کی بیماری کے حالات اور وفات حسرت آیات کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔(ظفرحجازی)
علامہ اقبال کی شاعری اور افکار و تصورات کی تشریح و توضیح اور تنقید و تجزیہ ایک سدابہار موضوع ہے۔ اس کا سبب علامہ اقبال کی شخصیت اور شاعری کی دل کشی ہے جو ہر لکھنے والے کو اپنی جانب کھینچتی ہے۔ مصنف کی اقبالیات سے وابستگی دیرینہ ہے۔ ایم فل انھوں نے اقبالیات میں کیا تھا مگر اس کے بعد بھی انھوں نے اقبال کا مطالعہ جاری رکھا۔ کئی برس پہلے اس کا نتیجہ کتاب: اقبال، علامہ اقبال کیسے بنے؟ کی صورت میں سامنے آیا۔ زیرنظر، اقبال پر ان کی دوسری کتاب ہے (تیسری کتاب اقبال کی فکری جہتیں عن قریب شائع ہوگی)۔
یہ کتاب ۱۶ مضامین کا مجموعہ ہے۔ عنوانات مختلف ہیں: (شعائر اسلام اور اقبال، علامہ اقبال اور مثالی معاشرہ، اقبال اور ثقافت ِ اسلامیہ، اقبال کا تصورِ تقدیر وغیرہ) مگر سب مضامین اقبال کی بنیادی تعلیمات کو اُجاگر کرتے ہیں اور بقول مصنف: ’’اسلامی روح کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں‘‘۔ آخری پانچ مقالات رسولِ کریمؐ اور بعض انبیا ؑ (حضرت آدم ؑ، حضرت ابراہیم ؑ، حضرت موسٰی ؑ) کے حوالے سے ہیں۔ آخری مقالے کا عنوان ہے: ’کلامِ اقبال میں انوارِ قرآن کریم‘۔ مصنف نے اشعارِ اقبال اور آیاتِ قرآنی میں مطابقت دکھاتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ’’کلامِ اقبال کا بیش تر حصہ قرآنِ کریم کے نکات کی تصریح و تشریح کا آئینہ دار ہے‘‘۔ اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف اقبال کے ساتھ قرآن و حدیث اور سیرتِ پاکؐ کا بھی بہ خوبی مطالعہ رکھتے ہیں۔ پروفیسر ہارون الرشید تبسم نے دیباچے میں بتایا ہے کہ ’’کتاب کے پہلے نو مضامین ایم فل اقبالیات کے تحقیقی انداز میں تحریر کیے گئے ہیں‘‘ اور یہ ’’آنے والے محققین کے لیے انتہائی مفید ثابت‘‘ ہوں گے۔ جملہ مضامین اصولِ تحقیق کے مطابق حوالوں سے مزین ہیں۔(رفیع الدین ہاشمی)
مصنف کہتے ہیں: ’’کوشش یہ رہی کہ ۴۰برسوں [صحافت ۱۰ سال+ریڈیو ۳۰سال]کے ان یادگار لمحات کو صفحۂ قرطاس پر دیانت داری کے ساتھ یک جا کردیا جائے‘‘۔ بلاشبہہ انھوں نے یہ کام بخوبی انجام دیا ہے۔ کتاب میں ریڈیو پاکستان کے ساتھ خود مصنف کی اپنی کہانی بھی آگئی ہے۔ انورسعید نے ۱۰ برس متعدد اخبارات بشمول مشرق اور جسارت میں کام کیا۔ پھر ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوگئے اور نیوزکنٹرولر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ دیباچہ نگار رفیع الزمان زبیری کا خیال ہے کہ اگر ان کے ساتھ انصاف ہوتا تو وہ ریڈیو کے سب سے بڑے عہدے (ڈائرکٹر نیوز) سے ریٹائر ہوتے۔ جہاں تک [پاکستان میں] انصاف کا تعلق ہے انورسعید نے بتایا ہے کہ ایک مرتبہ ریڈیو سے کسی ایک فرد کی خدمات بی بی سی لندن کو مستعار دینی تھیں۔ میرا نام سرفہرست تھا۔ دوسرے نمبر پر ایک اور ساتھی (انیس صدیقی) اور تیسرے نمبر پر کوئی خاتون تھیں۔ روانگی کا وقت آیا تو خاتونِ محترم تشریف لے گئیں اور ہم دونوں منہ تکتے رہ گئے۔
انورسعید نے بھٹو کے دور کی بے انصافیوں، بے اعتدالیوں، غلط بخشیوں اور قانون شکنیوں کا تذکرہ کیا ہے۔ پھر ضیاء الحق کا دور بھی دیکھا، بطور شخص ان کی تعریف کی ہے مگر وہ ان کے ریفرنڈم کو بناوٹ سمجھتے ہیں۔ یہ کتاب بقولِ مصنف: ’’ صرف میرے مشاہدات، تصورات، تجربات اور واقعات پر مبنی ہے‘‘۔ کرنل اشفاق حسین کے الفاظ میں: ’’یہ کتاب پاکستان کا خوب صورت معلومات سے پُر تعارف بھی ہے اور ۳۰سال کی تاریخ بھی اپنے اندر سموئے ہوئے ہے، جب کہ جگہ جگہ خوب صورت شعروں کا برمحل استعمال کیا گیا ہے‘‘۔
انورسعید کو بیرونِ ملک جانے کے مواقع بھی ملے۔ ان میں سب سے قیمتی موقع وہ تھا جب وہ صدرمشرف کے ساتھ سعودی عرب گئے۔ سات مرتبہ حجراسود کو بوسہ دیا اور خانہ کعبہ کے اندر نوافل پڑھے۔ بعض شخصیات (جیسے محمد خان جونیجو، حکیم محمد سعید شہید، محمد صلاح الدین شہید، خالداسحاق اور ملک معراج خالد وغیرہ) کی تعریف کی ہے۔ صلاح الدین شہید پر پورا ایک باب ہے۔ کتاب بے حد دل چسپ اور لائقِ مطالعہ ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)
زیرنظر کتاب ایک ڈائری ہے جو مولانا سمیع الحق نے ۱۹۵۰ء سے ۱۹۸۳ء تک بعض سنین کے حذف کے ساتھ ۲۸برسوں میں تحریر کی۔ ڈائری میں کُل ۹۲۴؍ اندراجات کے تحت گھر، محلے، اپنے مدرسے، شہر، ملکی اور بین الاقوامی اُمور سے متعلق اپنی دل چسپی کی یادداشتیں قلم بند کی ہیں۔ سیاسی، مذہبی، علمی، ادبی اور درس و تدریس سے متعلق ایسے اُمور بھی زیرتحریر آئے ہیں جو مصنف کی ذہنی او ر فکری شناخت کا مظہر ہیں۔
ڈائری کے اندراجات میں تنوع ہے۔ مصنف علما سے عقیدت مندانہ وابستگی پر اور سیاسی اُمور پر بات کرتے ہیں۔ میرزاہد، صدرا اور قطبی کے بارے میں ریمارکس اور بعض شخصیتوں، (سیّد سلیمان ندویؒ، مناظر احسن گیلانی ؒ، حضر ت مدنی ؒ ، حضرت لاہوریؒ )کا ذکر ہے۔اس بات کا بھی تذکرہ ہے کہ پاکستان کی پارلیمنٹ میں یہ بحث بھی ہوتی رہی کہ پاکستان کا سرکاری مذہب اسلام ہو یا کچھ اور؟ (ص ۷۸)۔
ڈائری میں علمی و ادبی شہ پاروں کا انتخاب بھی دیا گیا ہے۔ یہ علمی نکات ۳۶۳ عنوانات کے تحت دیے گئے ہیں۔ ان سے مصنف کے علمی و ادبی ذوق کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ انھیں مولانا ابوالکلام آزاد کا اسلوبِ انشا پردازی مقابلتاً زیادہ پسند ہے۔ مولانا آزاد کے مجموعۂ خطوط کا نام نقشِ آزاد ہے جسے کمپوزر نے ’نقشِ آغاز‘ بنا دیا ہے۔ (ظفرحجازی)
تحریکِ اسلامی کا وہ قافلہ جو جماعت اسلامی کے نام سے معروف ہے، گذشتہ پون صدی سے دعوتِ دین اور تزکیۂ نفوس کے نہایت قابلِ قدر کام میں مشغول ہے۔ جماعت اسلامی یقینا دفاتر اور کتابوں کا نام نہیں بلکہ اُن سعید روحوں سے تشکیل پانے والے قافلے کا نام ہے، جس میں ہرعمر کے شیدائیانِ حق، اپنی زندگی کے بہترین لمحوں اور برسوں کو تحریک کے لیے تج دیتے ہیں اور اس طرح حق شناسی سے حق بیانی کا سفر کرتے ہوئے خالقِ حقیقی کے حضور پیش ہوجاتے ہیں۔
زیرنظر کتاب ایسے ہی متلاشیانِ حق اور پھر علَم بردارانِ حق کی زندگیوں کے مختصر مگر دل چسپ، سبق آموز اور جذبہ انگیز تذکرے پر مشتمل ہے، جس کو تعلیمی انتظامیات کے ایک اعلیٰ آفیسر جناب مہر محمد بخش نول نے ترتیب دیا ہے۔ تقریباً ایک سو افراد کی ایک کہکشاں میں مولانا مودودیؒ سے لے کر بنگلہ دیش میں تختۂ دار کو چومنے والے جاں نثاروں کا تذکرہ ہے۔ (ان میں سے چند افراد ایسے بھی ہیں جو بقید ِ حیات ہیں)۔ اس تذکرے میں ایمان کی چاشنی اور قافلۂ حق کی خوشبو موجود ہے۔ اہم تر بات یہ ہے کہ بہت سے ایسے رفقا کا تذکرہ ہے جو عام طور پر معروف و مشہور لوگوں میں شمار نہیں ہوتے، لیکن ان کی زندگیوں کے تذکرے کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ اس قافلے کی روشنی کو دوچند کرنے میں ان پروانوں نے کس لگن سے ایثار اور عزم و ہمت سے کام لیا۔(سلیم منصور خالد)
کہانی میں دل چسپی انسانی فطرت کا خاصا ہے ، خصوصاً بچپن او ر کہانی کا تو چولی دامن کا ساتھ ہے۔ کہنے کو تو کہانی نویسی کی روایت اب بھی ہمارے ادب کا حصہ ہے، لیکن فی زمانہ جہاں بچوں کی تعلیمی ضروریات اور سماجی، نفسیاتی اور اخلاقی تربیت کے تقاضوں سے ہم آہنگ ادب کی کمی ہے، وہاں سائنسی موضوعات بالخصوص توجہ سے محروم ہیں۔ شاید اسی ضرورت کے پیش نظر مصنفہ نے سائنسی ادب کو اپنا موضوع بنایا ہے۔
زیرنظر کتاب ۱۱ کہانیوں اور افسانوں پر مشتمل ہے۔ یہ کہانیاں اس سے پہلے اُردو سائنس میگزین اور دیگر رسائل میں شائع ہوچکی ہیں۔ سائنسی کہانیوں کا بنیادی مقصد سائنس اور ٹکنالوجی کے بارے میں معلومات دینے کے ساتھ ساتھ مستقبل میں سائنسی دریافتوں اور ایجادات کے امکانات کے خواب دکھا کر بچوں کے ذوق تجسس کو پروان چڑھانا ہے۔ دیباچے میں درست لکھا گیا ہے کہ ’’جب تک تخیلاتی دنیا میں تسخیر کائنات کو بیان نہیں کیا جائے گا، عملی دنیا میں اس کا ذوق پیدا نہیں کیا جاسکتا‘‘۔ (ص ۷)
مصنفہ نے مفید سائنسی معلومات کو پُرتجسس، عام فہم، رواں دواں اور دل چسپ انداز میں پیش کر کے قابلِ قدر کاوش کی ہے۔ کہانیوں میں ادبی محاسن کے ساتھ ساتھ سماجی اور اَخلاقی اقدار کا بھی بطورِ خاص خیال رکھا گیا ہے۔ تاہم، حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستانی بچوں کے لیے لکھی گئی ان کہانیوں کے کردار اور ماحول، ترقی یافتہ ممالک سے مستعار لیے گئے ہیں اور وہ بھی طبقہ اشرافیہ کے، جس سے یہ تاثر اُبھرتا ہے کہ شاید سائنسی انکشافات ترقی یافتہ ممالک کے متمول خاندانوں کے بچوں کے چونچلے ہیں جن کا پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کا عام بچہ متحمل نہیں ہوسکتا۔ (حمید اللّٰہ خٹک)
ادب، دل و دماغ کو متاثر کرکے نئی طرز پر استوار کرنے کا نام ہے۔ جو ادب دل و دماغ کی اصلاح کا کام کرے، نیکی اور خیر کے جذبات کو فروغ دے اور پروان چڑھائے وہی اعلیٰ اور تعمیری ادب ہے۔ صرف معاش اور جذبات و خیالات کی تسکین، آسودگی اور انگیخت کے لیے تخلیق کیا جانے والا ادب تعمیری اور اعلیٰ ادب قرار نہیں پاسکتا۔
انتظار، نجمہ ثاقب کے ۱۴ افسانوں کا مجموعہ ہے۔ ہرافسانہ اپنی جگہ دل چسپی کا سامان لیے ہوئے ہے۔ بعض افسانے تقسیم برعظیم سے پہلے ہندومسلم فسادات، بعض خالص دیہاتی ماحول و معاشرے اور بعض سماجی و معاشرتی رہن سہن میں پائی جانے والی خرابیوں کو اُجاگر کرتے نظر آتے ہیں۔
مصنفہ کا اندازِ بیان گرفت میں لے لینے والا، مربوط اور گہرائی پر مبنی ہے۔ افسانوں کے عنوانات، زبان و بیان، اسلوب، محاوروں کا استعمال ، گہرے اور جان دار انداز و مشاہدے کا آئینہ دار ہے۔ آنکھوں سے کیے گئے مشاہدے کو الفاظ کا ایسا جامہ پہنایا گیا ہے کہ دل چسپی اور تجسّس آخر تک برقرار رہتا ہے اور نہ افسانہ چھوڑنے کو جی چاہتا ہے اور نہ کتاب۔ ’گیارھواں کمّی‘ ہو یا ’اُدھوری کہانی‘، ’کنگن‘ ہو یا ’ابابیلیں‘ ، تمام کہانیاں فنی و تکنیکی اعتبار سے عمدہ ہیں جن کے مطالعے سے یہ احساس ہوتا ہے کہ اچھا ادب اور تخلیق، نیکی و خیر کے جذبات کو کیسے پروان چڑھاتا ہے۔ اسلامی ادبی محاذ پر ان افسانوں کو تازہ اور خوش گوار ہوا کا جھونکا قرار دیا جاسکتا ہے۔(عمران ظہور غازی)
اس مختصر کتابچے میں پیش لفظ کے بعد ۳۶ عنوانات کے تحت ۱۹۱۷ء سے ۲۰۰۵ء تک زینب الغزالی کی بھرپور زندگی کا عکس پیش کیا گیا ہے۔ پیش لفظ میں مصنفہ نے لکھا ہے: ان کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں۔ وہ ایک طرف ایک عبادت گزار، پرہیزگار، پابند شریعت خاتون ہیں تو دوسری طرف اسلام کی داعیہ و مبلغہ بھی ہیں۔ وہ ایک جانب بہترین شعلہ بیان خطیبہ و مقررہ ہیں تو دوسری جانب نمایاں سماجی خدمت گار اور یتیم بچیوں اور بے سہارا خواتین کی ہمدرد و غم گسار ہیں۔ وہ خواتین کو مسجد سے جوڑنے والی رہبر ہیں تو دین کی نشرواشاعت کے لیے انھیں آگے بڑھ کر کام کے لیے اُبھارنے والی ہیں۔ وہ اگر میدانِ جہاد میں کھڑی نظر آتی ہیں تو علماے دین سے فیضِ علم حاصل کرتے ہوئے بھی نظر آتی ہیں۔ وہ خواتین کی اصلاح و تربیت کے لیے بے چین رہنے والی ہیں تو ان کے گھروں کو ہمہ گیر، دین کی روشنی سے منور کرنے والی بھی ہیں‘‘۔ کیا اچھا ہو کہ یہ مختصر کتاب یہاں شائع ہو اور بڑی تعداد میں نہ صرف خواتین بلکہ مرد بھی پڑھیں۔(مسلم سجاد)
o الاصلاح ، مدیراعلیٰ: عزیرصالح۔ ملنے کا پتا: اصلاح انٹرنیشنل، ۱۸- وحدت روڈ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۱۶۶۹۴-۰۴۲۔
[سیّد مودودی ایجوکیشنل ٹرسٹ کے تحت ادارہ اصلاح انٹرنیشنل (انسٹی ٹیوٹ آف سائنسز لینگویجز اینڈ ہیومینیٹیز) کا یہ ترجمان ڈاکٹر شبیراحمد منصوری کی سرپرستی میں عربی اور انگریزی میں شائع ہوتا ہے۔ آیندہ اسے ادارے کے تحقیقی مجلے کی صورت دے دی جائے گی۔ مدیر مجلہ رشیداحمد اشرفی رقم طراز ہیں کہ ٹرسٹ کے تحت چار ادارے تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں: ۱-سیّد مودودی انٹرنیشنل، انسٹی ٹیوٹ براے علوم اسلامیہ ۲-دارالقرآن الکریم (حفظ، قرأت و تجوید اور فہم قرآن) ۳- منصورہ ڈگری کالج ۴-اصلاح انٹرنیشنل۔ مستقبل کے عزائم کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اصلاح انٹرنیشنل میں oکلیۃ الشریعہ والقانون oکلیۃ التعلیم وتدریب المعلمینoکلیۃ الاقتصاد الاسلامی oکلیۃ اللغات (عربی، انگریزی، فارسی، چینی وغیرہ) oکلیۃ التراجم والتصنیفoکلیۃ الدراسات الاسلامیہ کے شعبہ جات کا جلد آغاز کیا جارہا ہے۔ سیّد مودودی کے افکار کی روشنی میں یہ یقینا ڈائرکٹر ڈاکٹر شبیراحمد منصوری اور ان کے رفقا کی مخلصانہ کاوشوں کا مرہونِ منت ہے۔]
’خانہ کعبہ اور مسجد حرام‘ (اگست ۲۰۱۶ئ) از خرم مراد قابلِ قدر کاوش ہے۔ اس سے ایمان کی حرارت میں اضافہ ہوگا اور علم بھی ملے گا۔ عبدالغفار عزیز صاحب نے ترکی میں حالیہ بغاوت پر معلوماتی اور تاریخی حوالوں سے مضمون لکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی سعی و جہد کو قبول فرمائے۔
محترم عبدالغفار عزیز کا مضمون ’ترکی میں بغاوت، حقائق و اثرات‘ (اگست ۲۰۱۶ئ) بروقت اور چشم کشا ہے۔ اس کی اشاعت نے اس بغاوت کے بارے میں ملکی سطح پر پرنٹ /الیکٹرانک میڈیا سے پھیلائے گئے شکوک و شبہات کا کافی حد تک ازالہ کر دیا ہے۔
’ترکی میں بغاوت: حقائق و اثرات‘ (اگست ۲۰۱۶ئ)میں بغاوت کے پس پردہ حقائق کو اُجاگر کیا گیا ہے۔ نیز جمہوریت مخالف قوتوں کو بھی بے نقاب کیا گیا ہے۔
’زندان کے شب و روز‘ (اگست ۲۰۱۶ئ) میں ان الفاظ نے جھنجھوڑ کر رکھ دیا: ’’یاد رکھیے کہ خد ا اب بھی وہی ایک خدا ہے جو ابراہیم ؑ کا خدا تھا، موسٰی ؑ اور مسیح ؑ کا خدا تھا اور جو محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا خدا تھا۔ وہ نہیں بدلا اور نہیں بدلتا ، بندے خود بدل جاتے ہیں۔ اس لیے اسے بدلا ہوا پاتے ہیں‘‘(ص۴۶)۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ہم ہی ہیں جو اپنے خالق و مالک سے اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے دُور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ یک سُو ہوکر اسی کی طرف رجوع کیا جائے۔
عالمی ترجمان القرآن قومی اور بین الاقوامی مسائل پر بیش قیمت رہنمائی کے ساتھ ساتھ تزکیہ و تربیت اور فریضہ اقامت ِ دین کے تقاضوں سے روشناس کرواتا ہے۔ اس سے علم و آگہی کے ساتھ ساتھ اسلامی نظام کے غلبے کے لیے تحریک بھی ملتی ہے۔
یہ سنت ہی ہے جس کی برکت سے شریعت اسلامیہ کے شجرئہ طیّبہ کے سارے اجزا ایک ہم آہنگ نظام میں مربوط رہ کر کام کرتے ہیں۔ ان لوگوں کی جہالت پر سر دھنیے جنھوں نے اس کے بالکل برعکس یہ پروپیگنڈا شروع کر رکھا ہے کہ سنت ہمارے قانونی نظام میں اختلاف افتراق کا باعث بنی ہے۔ ان حضرات کو یہ موٹی سی حقیقت سجھائی نہ دے سکی کہ سنّت ماضی و مستقبل کا رشتہ ملاتی ہے اور تاریخ کے سارے اَدوار کو جوڑ کر ایک کُل بناتی ہے اور سنت ہی ہے جو زمین کے گوشے گوشے میں پھیلے ہوئے مسلمانوں میں فکری وحدت اور تمدنی ہم آہنگی برقرار رکھتی ہے۔۱؎ اسی کوتاہ فہمی کے ساتھ یہ حضرات اسلامی قانون کی اس ریڑھ کی ہڈی کو چُور چُور کرنے اُٹھے ہیں۔
اس حقیقت کو جدید طبقے کے اندر سب سے بڑھ کر اور شاید سب سے پہلے اقبال نے سمجھا۔ وہ مثنوی اسرار و رُموز میں واضح کرتا ہے کہ ملّت کا اجتماعی وجود قائم ہی نبوت کے فیضان سے ہے۔ فرد کی زندگی تو خدا پر ایمان لانے سے بن سکتی ہے لیکن ملّت کا ظہور نبوت کے وسیلے سے ہوتا ہے۔ نبی ؑ کی تربیت، نبی ؑ کا اسوہ، نبی ؑ کی سنت افراد کو باہم دگر مربوط کر کے اجتماعیت کے پیکر میں لاتی ہے۔ خدا کا رسول وہ مرکز ہے جس کے گرد اشخاص اور طبقے اور قومیں اور نسلیں سمٹ کر ایک وحدت کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ:
___________
معنیٔ دیدارِ آں ’آخر زماںؐ،
حکمِ اُو برخویشتن کردن رواں
در جہاں زی چوں رسولِؐ انس و جاں
تاچو او باشی قبولِ انس و جاں
بازخود را بیں ہمیں دیدارِ اوست
سنتِ او مبر از اسرار اوست
وہ ’فلسفہ زدہ سیّدزادے‘ کو نصیحت کرتا ہے کہ ’دل در سخنِ محمدی بند‘ ۔ وہ حضرت میاں میر کی تعریف میں کہتا ہے کہ ’برطریق مصطفی محکم پئے!‘ وہ حضوؐر کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ ’آنکہ بے اوطے نمی گرد دسبل‘۔ وہ ایک عالمِ دین کو ناقدانہ خطاب میں کہتا ہے کہ ’بہ مصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست‘ اور ساتھ ہی انتباہ کرتا ہے کہ اگر یہ نہیں تو پھر جو کچھ ہے ’بولہبی‘ ہے۔ اب یہ پرلے درجے کی ستم ظریفی ہے کہ اس اقبال کو منکرِحدیث اور مخالفِ سنت بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
(’اشارات‘ ، نعیم صدیقی، (عائلی کمیشن کی رپورٹ)، ترجمان القرآن، جلد۴۶، عدد۶،ذی الحجہ ۱۳۷۵ھ، ستمبر۱۹۵۶ئ، ص۳۶۷-۳۶۹ )
مگسل از ختم الرسل ایامِ خویش
تکیہ کم کن برفن و بر گامِ خویش
از ’مقامِ اُو‘ اگر دور ایستی
از میانِ معشرِ ما نیستی
دل بہ محبوب حجازی بستہ ایم
زیں جہت بایک دیگر پیوستہ ایم
رشتۂ مایک تولایش بس است
چشم ما را کیف صہبائش بس است
شکوہ سنجِ سختی آئیں مشو
از ’حدودِمصطفی‘ بیروں مرو
عاشقی! محکم شو ’از تقلیدِ یارؐ،
تا کمندِ تو کند یزداں شکار
___________
معنیٔ دیدارِ آں ’آخر زماںؐ،
حکمِ اُو برخویشتن کردن رواں
در جہاں زی چوں رسولِؐ انس و جاں
تاچو او باشی قبولِ انس و جاں
بازخود را بیں ہمیں دیدارِ اوست
سنتِ او مبر از اسرار اوست
وہ ’فلسفہ زدہ سیّدزادے‘ کو نصیحت کرتا ہے کہ ’دل در سخنِ محمدی بند‘ ۔ وہ حضرت میاں میر کی تعریف میں کہتا ہے کہ ’برطریق مصطفی محکم پئے!‘ وہ حضوؐر کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ ’آنکہ بے اوطے نمی گرد دسبل‘۔ وہ ایک عالمِ دین کو ناقدانہ خطاب میں کہتا ہے کہ ’بہ مصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست‘ اور ساتھ ہی انتباہ کرتا ہے کہ اگر یہ نہیں تو پھر جو کچھ ہے ’بولہبی‘ ہے۔ اب یہ پرلے درجے کی ستم ظریفی ہے کہ اس اقبال کو منکرِحدیث اور مخالفِ سنت بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
(’اشارات‘ ، نعیم صدیقی، (عائلی کمیشن کی رپورٹ)، ترجمان القران، جلد۴۶، عدد۶،ذی الحجہ ۱۳۷۵ھ، ستمبر۱۹۵۶ئ، ص۳۶۷-۳۶۹ )