سلطنت ِ روما کی داستانِ زوال میں ہرقوم کے لیے عبرت کا وافر سامان موجود ہے۔ ایک طرف عوام ناقابلِ برداشت مصائب و آلام میں گرفتار تھے اور دوسری طرف حکمران غفلت، بے وفائی، مفاد پرستی، ذاتی عیش و عشرت اور نام و نمود میں ایسے منہمک تھے، جیسے ملک و قوم کے اصل مسائل، مصائب اور مشکلات سے ان کو کوئی دل چسپی ہی نہ ہو۔ اس المیے کو ایک ضرب المثل میں اس طرح سمو دیا گیا ہے کہ ’’روم جل رہا تھا اور نیرو بانسری بجا رہا تھا‘‘۔
قائداعظمؒ کی ولولہ انگیز اور بے داغ قیادت میں اور ملت اسلامیہ پاک و ہند کی بیش بہا قربانیوں کے نتیجے میں قائم ہونے والے پاکستان کو صرف ۶۵سال کے عرصے میں خودغرض اور ناکام قیادتوں کے طفیل آج ایسی ہی کرب ناک صورت حال سے سابقہ ہے۔ ۲۰۰۸ء میں جمہوریت کے نام پر وجود میں آنے والی حکومت تو پاکستان پیپلزپارٹی کی ہے۔ لیکن اس کو سہارا دینے اور بیساکھیاں فراہم کرنے والوں میں عوامی نیشنل پارٹی، متحدہ قومی محاذ اور مسلم لیگ (ق) کا کردار بھی کچھ کم مجرمانہ نہیں۔ ستم ظریفی ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) بڑی حزبِ اختلاف ہونے کے باوجود محض ’جمہوریت کے تسلسل‘ کے نام پر حقیقی اور جان دار حزبِ اختلاف کا کردار ادا نہ کرسکی اور عوام کے حقوق کے دفاع، دستور اور قانون کی حکمرانی کے سلسلے میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے سے قاصر رہی۔ پھر ایسی دینی قوتیں بھی ذمہ داری سے بری قرار نہیں دی جاسکتیں جو کبھی اندر اور کبھی باہر، اور جب مرکز سے باہر ہوں تب بھی صوبے میں شریکِ کار اور جہاں ممکن ہوسکے وہاں اقتدار کی کرسیوں پر براجمان۔
یہ منظر نامہ بڑا دل خراش اور عوام کو سیاسی قیادت سے مایوس کرنے والا ہے لیکن قوموں کی زندگی میں یہی وہ فیصلہ کن لمحہ ہوتا ہے جب مایوسی اور بے عملی، جو دراصل تباہی اور موت کا راستہ ہے، کے بادلوں کو چھانٹ کر تبدیلی، نئی زندگی اور مقصد کے حصول کے لیے نئی پُرعزم جدوجہد وقت کی ضرورت بن جاتے ہیں۔ مایوسی اور بے عملی تباہی کے گڑھے میں لے جاتے ہیں اور بیداری اور جدوجہد نئی صبح کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ پاکستانی قوم اس وقت ایک ایسے ہی فیصلہ کن دوراہے پر کھڑی ہے۔
موجودہ حکومت کو بڑا تاریخی موقع ملا تھا۔ فوج کی قیادت نے ماضی کے تلخ تجربات اور فوجی مداخلت کے بار بار کے تجربات کی ناکامی کی روشنی میں بڑی حد تک اپنی دل چسپیوں کو اپنے ہی دستور میں طے کردہ اور منصبی دائروں تک محدود رکھا۔ اعلیٰ عدلیہ جو جسٹس محمد منیر کے چیف جسٹس بن جانے کے دور سے ہرآمر اور ظالم حکمران کی پشت پناہی کرتی رہی تھی، پہلی بار بڑی حد تک آزاد ہوئی اور اس نے دستور اور قانون کی بالادستی کے قیام کے بارے میں اپنی ذمہ داری کو ایک حد تک ادا کرنے کی کوشش مستعدی اور تسلسل کے ساتھ انجام دی جس پر اسے عدالتی فعالیت (Judicial activism)، حتیٰ کہ دوسرے اداروں کے معاملات میں مداخلت تک کا نام دیا گیا اور ان حلقوں کی طرف سے دیا گیا جنھیں اپنے لبرل اور جمہوری ہونے کا اِدعا ہے۔ ان میں سے کچھ بائیں بازوسے وابستہ اورترقی پسند ہونے کے بھی مدعی ہیں، حالانکہ اہلِ علم جانتے ہیں کہ بنیادی حقوق اور دستور پر عمل درآمد، دونوں کی آخری ذمہ داری عدلیہ پر ہے۔ دستور میں دفعہ ۱۸۴ شامل ہی اس لیے کی گئی ہے کہ جب دستوری حقوق کو پامال کیا جائے تو عدالت مداخلت کرے، خواہ یہ مداخلت اسے کسی ستم زدہ کی فریاد پر کرنی پڑے یا ازخود توجہ کی بنیاد پر اسے انجام دیا جائے۔یہ وہ نازک مقام ہے جہاں ایک سیاسی مسئلہ دستور کے طے کردہ اصول کے نتیجے میں بنیادی حقوق کا مسئلہ بن جاتا ہے اور عدالت کے دائرۂ کار میں آجاتا ہے۔ اسی طرح پریس کی جزوی آزادی بھی ایک نعمت تھی جس کے نتیجے میں عوام کے مسائل اور مشکلات کے اخفا میں رہنے کے امکانات کم ہوگئے اور وہ سیاسی منظرنامے میں ایک مرکزی حیثیت اختیار کرگئے۔
ان سارے مثبت پہلوئوں کو اس حکومت نے خیر اور اصلاح احوال کے لیے مددگار عناصر سمجھنے کے بجاے اپنا مخالف اور ان دونوں ہی اداروں کو عملاً گردن زدنی سمجھا، اور ایک منفی رویہ اختیار کیا جسے مزید تباہ کاری کا ذریعہ بنانے میں بڑا دخل خود ان کی اپنی ٹیم کی نااہلی (جس کی بڑی وجہ دوست نوازی، اقربا پروری اور جیالا پرستی تھی)، وسیع تر پیمانے پر بدعنوانی (corruption) اور مفاد پرستی کی بلاروک ٹوک پرستش کا رہا جس کے نتیجے میں ملک تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے ۵۰ سے زیادہ احکام کی کھلی کھلی خلاف ورزی کی گئی ہے اور توہین عدالت کی باربار کی وارننگ اور چند مواقع پر سزائوں کے باوجود اسی روش کو جاری رکھا گیا ہے۔ انتظامی مشینری کو سیاسی اور ذاتی مقاصد کے لیے بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے۔ معیشت کو اگر ایک طرف لوٹ کھسوٹ کے ذریعے تباہ کردیا گیا ہے تو دوسری طرف غلط پالیسیاں، توانائی کا فقدان، پیداوار میں کمی، تجارتی اور ادایگیوں کے خسارے میں بیش بہا اضافہ، مہنگائی کا طوفان، بے روزگاری کا سیلاب اور اس پر مستزاد حکمرانوں کی شاہ خرچیاں اور دل پسند عناصر کو لُوٹ مار کی کھلی چھوٹ نے کہیں کا نہیں چھوڑا۔ خود نیب کے سربراہ کے بقول روزانہ کرپشن ۱۰ سے ۱۲؍ارب روپے کی ہورہی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ ملک کے سالانہ بجٹ سے بھی کچھ زیادہ قومی دولت کرپشن کی نذر ہورہی ہے۔ ملک کے عوام اپنی ہی دولت سے محروم کیے جارہے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک دیوالیہ ہونے کے کنارے پر کھڑا ہے۔ سارا کاروبارِ حکومت قرضوں پر چل رہا ہے جن کا حال یہ ہے کہ قیامِ پاکستان سے ۲۰۰۸ء تک ملکی اور بیرونی قرضوں کا جو مجموعی بوجھ ملک و قوم پر تھا وہ ۶ ٹریلین روپے کے لگ بھگ تھا جو ان پونے پانچ سالوں میں بڑھ کر اب ۱۴ٹریلین کی حدیں چھو رہا ہے۔
ملک میں امن و امان کی زبوں حالی ہے اور جان، مال اور آبرو کا تحفظ کسی بھی علاقے میں حاصل نہیں لیکن سب سے زیادہ بُرا حال صوبہ خیبرپختونخوا، فاٹا، بلوچستان اور عروس البلاد کراچی کا ہے، جو پاکستانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ کراچی کا عالم یہ ہے کہ کوئی دن نہیں جاتا کہ دسیوں افراد لقمۂ اجل نہ بن جاتے ہوں۔ کروڑوں روپے کا روزانہ بھتہ وصول کیا جاتا ہے اور اربوں کا روزانہ نقصان معیشت کو پہنچ رہا ہے۔ Conflict Monitoring Centre کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق صرف ۲۰۱۲ء میں ملک میں تشدد اور دہشت گردی کے ۱۳۴۶ واقعات میں ۲۴۹۳؍افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ نیز صرف اس سال میں امریکی ڈرون حملوں سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد ۳۸۸ ہے (دی نیوز، ۲۸دسمبر ۲۰۱۲ء)۔ ایک اور آزاد ادارہ (FAFEEN) حالات کو باقاعدگی سے مانٹیر کر رہا ہے۔ اس کی تازہ ترین رپورٹ بتاتی ہے کہ صرف دسمبر ۲۰۱۲ء کے تیسرے ہفتے میں ملک میں لاقانونیت کے رپورٹ ہونے والے واقعات ۲۴۱ ہیں جن میں ۷۵؍افراد ہلاک ہوئے اور ۱۶۶ زخمی (ایکسپریس ٹربیون، ۲۶دسمبر ۲۰۱۲ء)۔ اناللّٰہ وانا الیہ راجعون۔
ان تمام ناگفتہ بہ حالات کے ساتھ ملک کی سیاسی آزادی کی مخدوش صورت حال، ملک کے اندرونی معاملات میں امریکا کی بڑھتی ہوئی مداخلت اور پالیسی سازی پر فیصلہ کن اثراندازی نے محکومی اور غلامی کی ایک نئی مصیبت میں ملک کو جھونک دیا ہے۔ جمہوری حکومت کے کرنے کا پہلا کام مشرف دور میں اختیار کی جانے والی امریکی دہشت گردی کی جنگ سے نکلنا تھا، اور پارلیمنٹ نے اکتوبر ۲۰۰۸ء میں حکومت کے قیام کے چھے مہینے کے اندر واضح قرار داد کے ذریعے جنگ سے نکلنے، آزاد خارجہ پالیسی اختیار کرنے اور سیاسی مسائل کے سیاسی حل کے راستے کو اختیار کرنا کا حکم دیا تھا، لیکن حکومت نے پارلیمنٹ کے فیصلے اور عوام کے مطالبے کو درخور اعتنا نہ سمجھا اور امریکی غلامی کے جال میں اور بھی پھنستی چلی گئی۔ آج یہ کیفیت ہے کہ ۴۵ہزار سے زیادہ جانوں کی قربانی دینے ، ایک لاکھ سے زیادہ کے زخمی ہونے اور ۳۰ لاکھ کے اپنے ملک میں بے گھر ہوجانے اور ۱۰۰؍ارب ڈالر سے زیادہ کے نقصانات اُٹھانے کے باوجود پاکستان امریکا کا ناقابلِ اعتماد دوست اورعلاقے کے دگرگوں حالات کے باب میں اس کا شمار بطور ’مسئلہ‘ (problem) کیا جارہا ہے، ’حل‘ (solution) میں معاون کے طور پر نہیں ۔ جس طرح خارجہ پالیسی ناکام ہے اسی طرح دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے عسکری حکمت عملی بھی بُری طرح ناکام رہی ہے اور عالم یہ ہے کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی!
یہ وہ حالات ہیں جن کا تقاضا ہے کہ کسی تاخیر کے بغیر عوام کو نئی قیادت منتخب کرنے کا موقع دیا جائے تاکہ دلدل سے نکلنے کی کوئی راہ ہو اور جمہوری عمل آگے بڑھ سکے۔ ان حالات میں پانچ سال کی مدت پوری کرنے کی رَٹ ناقابلِ فہم ہے۔ دستور میں پانچ سال کی مدت محض مدت پوری کرنے کے لیے نہیں ہوتی، اچھی حکمرانی کے لیے ہوتی ہے۔ دنیا کے جمہوری ممالک کی تاریخ گواہ ہے کہ اصل مسئلہ اچھی حکمرانی ہے، مدت پوری کرنا نہیں۔ یہ کوئی ’عدت‘ کا مسئلہ نہیں ہے کہ شرعی اور قانونی اعتبار سے دن پورے کیے جائیں۔ دستور ہی میں لکھا ہے کہ وزیراعظم یا وزیراعلیٰ جب چاہیں نیا انتخاب کراسکتے ہیں۔ اسی طرح اگر ایوان اس پوزیشن میں نہ ہو کہ اکثریت سے قائد منتخب کرسکے تو اسمبلی تحلیل ہوجاتی ہے۔ برطانیہ میں گذشتہ ۶۵برس میں نو مواقع ایسے ہیں جب پارلیمنٹ کا انتخاب دستوری مدت پوری کرنے سے پہلے کیا گیا ہے۔ اٹلی اور یونان میں اس وقت بھی یہ مسئلہ درپیش ہے۔ خود بھارت میں آزادی کے بعد سے اب تک ۱۱ بار میعاد سے پہلے انتخابات ہوئے ہیں اور ہمارے ملک میں تو اب پونے پانچ سال ہوچکے ہیں۔ ۱۶مارچ ۲۰۱۳ء کو یہ مدت بھی ختم ہونے والی ہے جس کے بعد ۶۰دن میں انتخاب لازمی ہیں۔ مئی کا مہینہ موسم کے اعتبار سے انتخاب کے لیے ناموزوں ہے۔ سیاسی اور معاشی اعتبار سے بھی یہ وقت اس لیے نامناسب ہے کہ ملک کا بجٹ ۳۰ جون سے پہلے منظور ہوجانا چاہیے اور اگر مئی میں انتخابات ہوتے ہیں تو جون کے وسط تک حکومت بنے گی۔ اتنے کم وقت میں بجٹ سازی ممکن نہیں۔ اس لیے وقت کی ضرورت ہے کہ جنوری میں اسمبلیاں تحلیل کرکے ۶۰دن کے اندر انتخابات کا انعقاد کیا جائے۔ اس کے سوا کوئی راستہ نہیں۔
ہم اس بات کا بھی واضح اعلان کرنا چاہتے ہیں کہ بنگلہ دیش یا اٹلی کے ماڈل کے طرز کی کوئی عبوری حکومت یا احتساب یا اصلاحات کے نام پر کوئی نام نہاد ٹیکنوکریٹ سیٹ اَپ مسئلے کا کوئی حل نہیں۔ یہ عوام کے لیے ہرگز قابلِ قبول نہیں۔ یہ صرف مزید تباہی کا راستہ ہے۔ ماضی میں بھی انتخاب سے پہلے احتساب کا نعرہ آمروں نے لگایا ہے اور آج بھی یہی کھیل کھیلنے کی کوشش ہورہی ہے جو بہت خطرناک ہے۔ اس لیے صحیح سیاسی لائحہ عمل وہی ہوسکتا ہے جو مندرجہ ذیل خطوط پر مرتب کیا جائے:
۱- اسمبلی کی مدت میں توسیع یا سال دو سال کے لیے عبوری انتظام کے فتنے کو سر اُٹھانے سے پہلے ہی کچل دینا چاہیے۔اس پر غور بھی اپنے اندر بڑے خطرات رکھتا ہے۔ اس لیے یہ باب بالکل بند ہونا چاہیے۔
۲- جنوری میں پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر کے، دستور کے مطابق، صرف انتخابات کے انعقاد کے لیے غیر جانب دار اور سب کے مشورے سے عبوری حکومتیں قائم کی جائیں جو ملک کو نئی سمت دینے کے لیے نہیں ،صرف جلد از جلد آزادانہ طور پر شفاف انتخابات منعقد کرانے کے لیے ہوں۔ جو انتخابی اصلاحات ازبس ضروری ہیں، وہ باہم مشورے سے کسی تاخیر کے بغیر کردی جائیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں الیکشن کمیشن جو الحمدللہ قابلِ بھروسا ہے، اپنی دستوری ذمہ داری ادا کرے اور عدلیہ اور فوج کی ضروری مدد سے انتخابی عمل کو مکمل کرے۔ اس سلسلے میں سیاسی جماعتیں بھی ذمہ داری کا ثبوت دیں اور دستور کی دفعہ ۶۲ اور ۶۳ کا خود بھی احترام کریں اور وہ راستہ اختیار کریں کہ ان کی کھلی کھلی خلاف ورزی کرنے والے افراد کی اُمیدواری کے مرحلے ہی پر تطہیر ہوسکے۔ انتخابی قواعد پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے، انتظامیہ مکمل طور پر غیر جانب دار ہو اور عدلیہ اس بارے میں پوری طرح چوکس رہے۔ الیکشن کمیشن کا کردار اس سلسلے میں سب سے اہم ہے۔
۳- فوج کی یا خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت کسی صورت میں بھی قابلِ قبول نہیں۔ یہ نہ تو ملک کے مفاد میں ہے اور نہ خود فوج کے۔ البتہ دستور کے تحت انتخابی عمل کو شفاف بنانے کے لیے الیکشن کمیشن جس حد تک فوج یا دوسری سیکورٹی ایجنسیوں سے مدد لینا چاہے، اس کا دیانت داری سے اہتمام کیا جائے، اور پولنگ کے دن امن و امان کے قیام اور پولنگ اسٹیشنوں کو بدعنوانی سے محفوظ رکھنے کے لیے واضح اور کھلاکردار ادا کرے۔
۴- سیاسی جماعتیں قوم کے سامنے اپنا منشور، پروگرام واضح کریں، وہ ٹیم لائیں جو اس پروگرام پر عمل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو، تاکہ محض برادری اور جنبہ داری کی بنیاد پر سیاسی نقشہ نہ بنے بلکہ اصول، پروگرام، کردار اور صلاحیت اصل معیار بنیں۔ میڈیا کو بھی اس سلسلے میں دیانت اور غیرجانب داری کے ساتھ اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ میڈیا کے لیے جو ضابطہ اخلاق اختیار کیا جائے اس میں اس پہلو کو بھی مرکزی اہمیت دی جائے۔ الیکشن مہم کے سلسلے میں الیکشن کمیشن نے جو ضابطہ کار مرتب کیا ہے، اس پر اگر ٹھیک ٹھیک عمل ہو تو میڈیا کی اور اُمیدواروں کی گھرگھر جاکر ووٹروں سے رابطے کی مہم کو فیصلہ کن حیثیت حاصل ہوگی جس میں بڑا خیر ہے۔ اس طرح دولت کی اس نمایش کو ختم کیا جاسکتا ہے جو سیاسی بدعنوانی کا عنوان بن چکی ہے۔
۵- ترقی پذیر ممالک میں اور خاص طور پر پاکستان میں بیرونی ممالک اور ان کی پروردہ این جی اوز کا کردار روزافزوں ہے۔ ان کے عمل دخل کے بارے میں صحیح پالیسی بنانے اور پھر مناسب اقدام کرنا ضروری ہیں۔ بیرونی سرمایہ اور بیرونی کارپرداز اپنے مقامی کارندوں کے ذریعے اپنا اپنا کھیل کھیل رہے ہیں۔ پاکستان کے مستقبل کو محفوظ کرنے کے لیے ان پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس میدان میں بھی ہرقسم کی مداخلت اور اثراندازی کو آہنی ہاتھوں کے ساتھ روکنے کا انتظام ضروری ہے۔
۶- ہم قوم اور تمام دینی اور سیاسی قوتوں سے آخری بات یہ کہنا چاہتے ہیں کہ وہ اپنے ملک اور اپنے بچوں کے مستقبل کی خاطر، ذاتیات اور مفادات سے بالا ہوکر اپنا فرض اداکریں۔ ووٹ ایک امانت ہے اور ایک ذمہ داری۔ اگر ہم ووٹ دینے کے لیے گھروں سے باہر نہیں نکلتے اور اپنی ذمہ داری کو خود ادا نہیں کرتے تو پھر غلط لوگوں کے مسلط ہوجانے کا گلہ کس کام کا۔ یہ سب خود ہمارا کیا دھرا ہے کہ اچھے لوگ گھروں میں بیٹھے رہتے ہیں اور طالع آزما اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ اس لیے عوام کو سمجھنا چاہیے کہ ان کو اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے اور اپنے دین و ایمان، نظریاتی شناخت، آزادی اور خودمختاری کے تحفظ اور سماجی اور معاشی انصاف کے حصول کے لیے جدوجہد کرنا ہوگی اور انتخابات میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اس کے بغیر تبدیلی ممکن نہیں۔ تبدیلی کے لیے پہلا قدم خود اپنے کو تبدیل کرنا اور اپنی ذمہ داریوں کو دیانت داری سے ادا کرنا ہے۔
اس وقت ملک جن نازک حالات سے دوچار ہے، ان میں ضرورت ہے کہ اہلِ خیر زیادہ سے زیادہ متحد ہوں۔ اچھے، دیانت دار لوگوں، گروہوں اور جماعتوں کے درمیان تعاون ہو اور اچھے لوگ اپنی قوتوں کو بٹ جانے سے روکیں۔ اس کے لیے اتحاد ہی واحد راستہ نہیں۔ تعاون اور اشتراک کے ہزار طریقے ہیں۔ تعاونِ باہمی کا کوئی بھی راستہ اختیار کریں تاکہ قوم کے بہترین عناصر ایک دوسرے کا سہارا بن کر مفاد پرستوں کے منصوبوں کو خاک میں ملا سکیں۔ آنے والے چند مہینے بڑے فیصلہ کن ہیں اور فیصلے کا انحصار ہماری اپنی سعی و کاوش اور جدوجہد پر ہوگا۔ منزل اور اہداف کا ٹھیک ٹھیک تعین کیجیے اور پھر ان کے حصول کے لیے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر سرگرم ہوجایئے۔ تبدیلی اور اصلاح کا بس یہی راستہ ہے کہ ’’جو بڑھ کر خود اُٹھا لے ہاتھ میں، مینااسی کا ہے‘‘۔ آپ یہ راستہ اختیار کریں، پھر اللہ کی مدد بھی آپ کے ساتھ ہوگی کہ اس کا وعدہ ہے:
وَ الَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا ط (العنکبوت ۲۹:۶۹)،جو لوگ ہمارے راستے میں جدوجہد کرتے ہیں ہم انھیں اپنے راستوں کی طرف ضرور ہدایت دیں گے۔
ہمارا ملک بھی خوب ہے۔ یہاں وہ کام جو حب ِ وطن کا تقاضا ہیں، ان میں رکاوٹیں پڑتی ہیں اور جو حب ِ وطن کے منافی ہیں ان کو ہر طرح کی سرپرستی اور حمایت ملتی ہے۔
تعلیم کا شعبہ اجتماعی زندگی کا اہم ترین شعبہ ہے۔ کوئی بھی غیرت مند ملک اپنی نئی نسل کو غیروں کے حوالے نہیں کرتا لیکن ہم نے ۶۵سال میں بھی غیروں کے اس نظامِ تعلیم کواپنا نہیں بنایا جو ’ہمارے آقا‘ ہمیں دے گئے تھے۔ اسے پاکستان کے مقاصد اور یہاں کے رہنے والوں کی آرزوئوں کے مطابق نہیں ڈھالا۔ پہلی تعلیمی کانفرنس میں آزادی کے تقاضوں کا کوئی لحاظ ملتا ہے۔ وزارت کا نام بھی وزارت تعلیم و تربیت تھا۔ لیکن ہم اُلٹی سمت میں چلتے رہے اور اپنے طالب علموں کو برطانیہ کی تاریخ پڑھاتے رہے۔
حالیہ ۱۸ویں ترمیم میں صوبوں کو جو خودمختاری دی گئی ہے اس کے مطابق تعلیم کا شعبہ مکمل طور پر صوبائی حکومتوں کے حوالے کردیا گیا ہے۔ محب ِ وطن عناصر نے بہت کوشش کی کہ نصاب سازی مرکز کے سپرد رہے لیکن ان کی نہ سنی گئی اور اب خاص طور پر پاکستان کے صوبوں کے جو حالات ہیں، ان میں یہ اندیشہ ہے کہ ہرصوبے کے طالب علم اپنا اپنا نصاب پڑھیں گے ۔ ان کا اپنا نصاب ہوگا، اپنے قومی ہیرو ہوں گے۔ پاکستان اور اسلام معلوم نہیں کوئی جگہ پاسکیں یا نہیں گے اس لیے کہ ان کے خلاف لابیزکا دبائو، معاشرے کا انتشار اور اصحابِ اقتدار موجود ہیں۔
نائن الیون کے بعد امریکا میں جو کمیشن بنایا گیا اس نے ایک بڑی تفصیلی رپورٹ پیش کی کہ مسلم ممالک کے لوگوں کے دل و دماغ کو کیسے بدلا جائے اور کیسے ان پر قابو پایا جائے۔ اس حوالے سے بہت تفصیل سے لائحہ عمل پیش کیا گیا۔ اس پر بہت سے مسلم ممالک میں بخوشی عمل کیا جارہا ہے۔
پاکستان تو امریکا کے پلان میں زیادہ ہی اہمیت رکھتا ہے۔ اس لیے یہاں یہ کام ہرسطح پر شروع ہوگیا۔ تعلیم کو اس کی اہمیت کے لحاظ سے مقام دیا گیا ہے۔ خیبرپختونخوا، سندھ اور بلوچستان میں بھی تعلیمی صورت حال اطمینان بخش نہیں، بلکہ غیراطمینان بخش ہے۔ لیکن پنجاب میں جو صورت حال ہے وہ نہایت خطرناک بلکہ alarming ہے جس پر پاکستان کا درد رکھنے والے اور اس کے مستقبل کے لیے فکرمند تشویش میں مبتلا ہیں کہ آخر یہ حکومت ملک کی نئی نسل کو کس منزل تک پہنچانا چاہتی ہے؟
باغیرت قومیں کم از کم اپنے تعلیمی اداروں کے لیے غیرملکی امداد قبول نہیں کرتیں۔لیکن ہم علاقے میں وڈیروں اور بہت سے صاحبانِ مال ہونے کے باوجود پرائمری سکول کی چار دیواریوں اور واش روم کے لیے بھی باہر ہاتھ پھیلاتے ہیں (ابھی بھی ۴۰ فی صد اداروں میں چار دیواری اور ٹائیلٹ نہیں ہیں۔ روزنامہ دنیا، ۲۴دسمبر ۲۰۱۲ء)۔ ہمارا حال تو یہ ہے کہ ہمیں امداد یا ڈالر دے کر جو چاہے ہم سے کروا لو، اپنے گلے پر چھری پھروا لو، بچوں کو قتل کروا لو، بلکہ آیندہ نسلوں کو بھی قتل کروا لو ع
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
صوبائی حکومت کو ان دنوں ایک انگریز مائیکل باربر اور ایک امریکی ماہر تعلیم ریمنڈ کی خدمات حاصل ہیں (معلوم نہیں کتنے مشاہرے اور مراعات پر)۔ پنجاب کے نظامِ تعلیم میں جو تبدیلیاں لائی جارہی ہیں وہ انھی مشیروں کی ہدایات پر لائی جارہی ہیں جن کی ہربات پر دینی اور قومی تقاضے پس پشت ڈال کر آمنا وصدقنا کہنا پنجاب حکومت کا شعار محسوس ہوتا ہے۔ یہ مشیر کھلے عام پریس کانفرنس میں شہبازشریف کا قصیدہ پڑھتے ہیں۔ (جنگ، ۲۳ نومبر ۲۰۱۲ء)
۱- ۲۲ جولائی کو مائیکل باربر اور ریمنڈ کے ساتھ بیٹھ کر وزیراعلیٰ پنجاب نے تعلیمی اصطلاحات کے روڈمیپ پر باہمی معاہدہ کیا۔(نیوز لیٹر ڈی ایس ڈی، ۲۲جولائی ۲۰۱۲ء)
۲- حکومت پنجاب کے ایک فیصلے کے تحت پہلی جماعت سے ہی انگریزی کو بطور ذریعۂ تعلیم لازمی کردیا گیا۔ اس سے قطع نظر کہ یہ تجویز کتنی قابلِ عمل ہے۔ اس کے پیچھے جو ذہنیت کارفرما ہے، وہ مذمت کی مستحق ہے۔
اس کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ پرائمری کے بعد ہی تعلیم ترک کرنے والوں کی شرح (ڈراپ آئوٹ ریٹ) جو ۲۰۱۱ء میں ہی تشویش ناک تھی، ۲۰۱۲ء میں مزید تشویش ناک ہوگئی ہے۔ اس کا واضح سبب انگریزی کا لازمی کیا جانا ہے۔ آیندہ اضافے کی بھی توقع کی جاسکتی ہے۔
انگریزی کی تعلیم کا کوئی بھی مخالف نہیں لیکن انگریزی ذریعۂ تعلیم کا ہر صاحب ِ دانش اور محب ِ وطن مخالف ہے۔ اسے یوں بھی کہا جاتا ہے کہ ہم انگریزی کی تعلیم کے مخالف نہیں، انگریزی میں تعلیم کے مخالف ہیں۔ ہمارے حکمران اس معمولی بات کو نہیں سمجھتے کہ محض غیرملکی زبان اپنانے سے ترقی نہیں ہوجاتی۔ جرمنی جرمن،جاپان جاپانی اور چین چینی زبان میں ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں۔ ہم بھی اپنی قومی زبان اُردو میں ہی ترقی کریں گے نہ کہ غیرملکی زبان انگریزی میں۔ فنکشنل انگریزی کے لیے خصوصی کورس چلائے جاسکتے ہیں۔
۳- پنجاب حکومت کے ۳۱مئی ۲۰۱۲ء کے ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے ۵۰۰میٹر کے اندر واقع بچوں اور بچیوں کے اسکولوں کو ضم کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس پر عمل درآمد بھی شروع ہوگیا ہے۔ انھیں ’ماڈل پرائمری سکول‘ کا نام دیا گیا۔ نیز اب نیا جو بھی پرائمری اسکول کھولا جائے گا اس میں مخلوط تعلیم دی جائے گی، یعنی مخلوط تعلیم روزِ اوّل سے، جب کہ اس کی قباحتیں، اس کے نتائج، اس کے معاشرے پر اثرات، علاوہ خدا اور رسولؐ کے حکم کی خلاف ورزی کے، ساری دنیا میں کھلی آنکھوں والے دیکھ رہے ہیں۔ ہمارے معاشرے کے گئے گزرے حال میں بھی جو بچی کھچی اقدار رہ گئی ہیں، پنجاب حکومت ان کے بھی درپے ہے۔
۴- اب طالبات کے تعلیمی اداروں میں مرد اساتذہ کی تقرریوں کا اور مردانہ کالجوں میں خواتین اساتذہ کے تقرر کا سلسلہ بھی شروع کر دیا گیا ہے۔ اسے ناگزیر مجبوری کے اقدام کے بجاے معمول کی بات بنایا گیا ہے اور کالجوں میں ہی نہیں اسکولوں میں بھی اس پر عمل ہوگا۔ آپ خود ہی سوچیں کہ سکول کے نویں دسویں کے طلبہ کو جب استانیاں تعلیم دیں گی تو ان کے ناپختہ ذہن ان کو کہاں کہاں لے جائیں گے۔
۵- نصاب پر بھی پوری توجہ ہے۔ ۲۰۱۲ء میں تیار ہونے والی درسی کتب میں سے قرآنی آیات اور سورتوں کو نکال دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی نبی اکرمؐ کی سیرت، حضرت خالد بن ولیدؓ کا اسوہ، جہاد پر مضامین، نام ور مسلم شخصیات کی خدمات کا تذکرہ بھی خارج از نصاب کردیا گیا ہے۔ دوسری طرف گاندھی کو مسلم دوست راہ نما بنا کر پیش کیا گیا ہے۔
۵- پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن کے زیراہتمام اداروں میں مطالعہ پاکستان یا اسلامیات کا امتحان نہیں لیا جاتا۔ اس لیے اس فائونڈیشن کے تحت تعلیمی اداروں میں یا تو مذکورہ مضامین پڑھائے نہیں جاتے یا اگر پڑھائے جاتے ہیں تو بے دلی سے اور براے نام۔ توجہ ان مضامین پر ہوتی ہے جن کا امتحان فائونڈیشن لیتی ہے۔
۶- تعلیمی اداروں میں اخبارات کے تعاون سے میوزیکل شو اور ناچ گانے کے دیگر پروگرامات کے انعقاد میں اضافہ ہوا ہے۔ پھر ان کی متعلقہ اخبارات میں بھرپور تصویری اشاعت ہوتی ہے۔
۷- لڑکیوں کے کالجوں میں کیٹ واک بھی ہونے لگی ہے، یعنی نوجوان طالبات طرح طرح کے ڈیزائن کردہ ملبوسات ،جو ضروری نہیں کہ ساتر ہوں، بلکہ غیرساتر ہونا ضروری ہے، پہن کر مہمانوں کے سامنے اندازِ خاص سے گزرتی ہیں۔
ضروری ہوگیا ہے کہ ان اقدامات کی جو ایک خوف ناک مستقبل کی نشان دہی کر رہے ہیں، کھل کر مزاحمت کی جائے اور ان کو روکا جائے، لیکن ابھی تک تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پنجاب حکومت کو کوئی مزاحمت پیش نہیں آئی ہے اور وہ اپنے امریکی و برطانوی مشیروں کے مشوروں سے یہاں کے نوجوانوں کو، یعنی پاکستان کے مستقبل کو تباہ کرنے کے پروگرام پر عمل پیرا رہیں گے۔
ہمارے میڈیا کو بھی ان اقدامات کے خلاف مؤثر آواز اٹھانا چاہیے ( مگر ان کی اکثریت تو تہذیب و معاشرت بدلنے کے اس کام میں چار قدم آگے ہے)۔ پنجاب اسمبلی نے کالجوں میں رقص پر پابندی لگائی تو انھوں نے ایسا طوفان اُٹھایا کہ چند گھنٹوں میں ہی حکومت پنجاب نے گھٹنے ٹیک دیے اور اعلانِ برأت کردیا، جب کہ اسمبلی میں ان کی پارٹی نے حمایت میں ووٹ دیا تھا (آپ کسی غلط حکم کے خلاف کتنی ہی آواز اُٹھائیں، حکومت کے کان پر جوں بھی نہیں رینگتی)۔
آج ضرورت یہ ہے کہ تعلیم کے شعبے کو اغیار کی ریشہ دوانیوں سے پاک کیا جائے۔ پاکستان کی منزل کا شعور رکھنے والے مخلص تعلیمی ماہرین کے مشورے سے اور ان کی نگرانی میں پورے سسٹم کو اوورہال کیا جائے۔ نہ صرف پنجاب بلکہ دوسرے تین صوبوں میں بھی یہ اقدامات کیے جائیں۔
_______________
مضمون نگار ماہنامہ شاہراہِ تعلیم، لاہور کے مدیر ہیں
قرآن پاک نے انسانی جان کی حُرمت کو ایک ابدی اور عالمی اصول کی حیثیت سے پیش کیا ہے اور اس سلسلے میں انسانوں کے درمیان مکمل مساوات کا بھی حکم دیاہے۔ مذہب، رنگ، نسل، قومیت، قبیلہ، برادری، رشتہ داری غرض کسی بنیاد پر بھی امتیازی سلوک کے لیے کوئی گنجایش نہیں چھوڑی گئی ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
مَنْ قَتَلَ نَفْسًام بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا ط وَ مَنْ اَحْیَاھَا فَکَاَنَّمَآ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا ط (المائدہ۵:۳۲) جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین پر فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کردیا، اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔
قانون کی حکمرانی کا نفاذ، قانون کے باب میں مکمل مساوات اور انسانوں کے درمیان عدل و انصاف کا قیام ہی وہ اصل بنیاد ہے جس پر ایک پُرامن، صحت مند اور ترقی پذیر معاشرہ تعمیر ہوسکتا ہے۔ دولت کی فراوانی، سامانِ عیش و عشرت کی ارزانی اور سیاسی، معاشی اور عسکری قوت کی چمک دمک سب اپنی جگہ، لیکن جمہوریت اور ترقی کا اصل پیمانہ انسانیت کا احترام ہے، مال و متاع کی فراوانی نہیں___ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انسان کو قدم قدم پر اِدراک ہوتا ہے، لیکن جس طرح صحت سے محرومی کے بعد ہی صحت کی قدرو منزلت کا احساس ہوتا ہے، اسی طرح معصوم جانوں کے اتلاف اور دلوں کو ہلا دینے والے اندوہ ناک واقعات کے بعد ہی زندگی اور امن کی اہمیت اور قیمت کا احساس ہوتا ہے اور انسان کو سوچنے پر بھی مجبور کرتا ہے کہ ظلم، دہشت گردی اور سفاکیت کے ہاتھوں بہنے والے خون کے ہرقطرے سے جو آواز بلند ہو رہی ہے: بِاَیِّ ذَنْبٍ م قُتِلَتْo(التکویر ۸۱:۹)، یعنی ’’کس قصور میں مجھے ذبح کیا گیا ہے‘‘۔ اس کا جواب بھی سوچ لے۔
۱۴ دسمبر ۲۰۱۲ء کو امریکا کی ریاست کینیکٹی کٹ کے ایک چھوٹے مگر خوش حال شہر نیوٹائون کے سینڈی ہک ایلیمنٹری اسکول میں ایک ۲۰ سالہ نوجوان ایڈم لانز کے ہاتھوں ۲۰ کم سن بچوں اور بچیوں (۱۲لڑکیاں اور ۸لڑکے جن کی عمریں ۵ اور ۷سال کے درمیان تھیں) اور ان کے چھے اساتذہ کا بہیمانہ قتل ایک ایسا واقعہ ہے جس نے امریکا ہی نہیں، پوری دنیا کے انسانوں کو اشک بار کردیا ہے اور سوچنے سمجھنے والے تمام ہی افراد کے دل و دماغ میں ایک طوفان برپا کردیا ہے کہ دنیا کے امیرترین اور خوش حال ترین ملک میں، جو مغربی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھی شمار کیا جاتا ہے، ایسا اندوہ ناک واقعہ کیسے رُونما ہوگیا ؟ایسا کیوں ہے کہ یہ اور ایسے ہی دوسرے واقعات طاقت اور ترقی کے نشے میں مست انسانوں کی آنکھیں کھولنے کا ذریعہ نہیں بن پارہے؟ ان واقعات کے آئینے میں آج کا انسان معاشرے اور تہذیب کے اصل بگاڑ، بیماری اور فساد کی حقیقی تصویر کیوں نہیں دیکھ رہا ہے؟ اور کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ انسان خود احتسابی کا راستہ اختیار کرے اور ان بنیادی اسباب کو سمجھنے کی کوشش کرے جو بگاڑ کی اصل جڑ ہیں؟
اقبال نے بہت پہلے اس ضرورت کی طرف مغرب اور مشرق کے سوچنے والوں کو متوجہ اور متنبہ کیا تھا کہ:
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کرنہ سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شبِ تاریک سحر کرنہ سکا
سینڈی ہک اسکول کے معصوم بچوں کو وحشیانہ دہشت گردی کا نشانہ بنانے والا نوجوان ایک متمول گھرانے کا فرد تھا جس نے پہلے اپنی ماں کے خودکار ہتھیاروں سے خود اس کو قتل کیا، اور پھر ننھے بچوں کے اس اسکول میں اس طرح گولیوںکی بارش کی کہ ایک ایک بچے کے جسم میں آٹھ سے دس گولیاں پیوست کردیں۔ ۲۶؍افراد کا خون بہاکر اس نے خود اپنے کو بھی مارلیا اور پولیس کے آنے سے پہلے ہی ایک قیامت صغریٰ برپا کر کے اس خونیں کہانی کے باب کو مکمل کردیا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق جس بنگلے میں وہ اپنی ماں کے ساتھ رہتا تھا، وہ ڈھائی لاکھ ڈالر کی مالیت کا تھا اور زندگی کی ہرسہولت اس کو حاصل تھی۔ اس کی ماں کو اسلحہ جمع کرنے کا شوق تھا اور اس کے اسلحہ خانے سے اس کا یہ چشم و چراغ ایک خود کار رائفل، دو پستول اور سو سے زیادہ گولیاں لے کر اس خونیں کھیل پر نکلا تھا۔ یہ دہشت گردی بظاہر کسی ذاتی رنجش کا نتیجہ نہ تھی۔ امریکی صدر، پالیسی سازوں، دانش وروں اور میڈیا سے لے کر عام افراد ششدر ہیں اور سوال کر رہے ہیں کہ اس نوجوان نے یہ اقدام کیوں کیا؟ بحث کا محور دو نکات بنے ہوئے ہیں: ۱- امریکی معاشرے میں اسلحے کی ریل پیل، اور ۲- مردو زن کا ذہنی انتشار جو کج روی کی طرف لے جائے۔
امریکی معاشرے میں اسلحے کی فراوانی اس دہشت گردی کا سب سے اہم سبب قرار دیا جارہاہے۔ اسلحہ ساز کمپنیوں اور اسلحہ کے شوقین افراد کی بااثر تنظیم نیشنل رائفل ایسوسی ایشن کا کردار بھی بڑا مرکزی ہے جو ہرشہری کے اسلحہ رکھنے اور اسے آزادانہ لے کر گھومنے کے حق کو آزادیِ راے (دستوری ترمیم نمبر۱) کی طرح ایک بنیادی حق قرار دیتی ہے۔ یہ یہودی لابی کی طرح کی ایک مضبوط لابی کا کردار ادا کرتی ہے جس کے اثر کو دو ڈھائی سو سال میں بھی کم نہیں کیا جاسکا، حتیٰ کہ سپریم کورٹ نے بھی دو بار ہرشہری کے اسلحہ رکھنے کے اس حق کو تسلیم کیاہے اور اس پر ہرپابندی کا راستہ روکا ہے جس کا نتیجہ ہے کہ ۳۲کروڑ آبادی والے امریکا میں ۳۰ کروڑ کی تعداد میں مہلک ترین اسلحہ عام لوگوں کے پاس موجود ہے، اور تحقیقی اداروں کی رپورٹوں کے مطابق آبادی کے ہر۱۰۰؍افراد میں سے ۸۹ کے پاس اسلحہ موجود ہے۔ یوں امریکا دنیا کا سب سے زیادہ مہلک ہتھیاروں سے بھرا پڑا (weaponized) ملک ہے۔ چونکہ ایسے گھرانے بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں جن میں کئی کئی ہتھیار ہیں، اس لیے یہ بات کہی جارہی ہے کہ عملاً آبادی کے ۴۰ فی صد گھرانے پوری طرح مسلح ہیں اور امریکا کی ۵۰ میں سے ۴۷ ریاستوں میں اسلحہ لے کر کھلے عام پھرنے کی آزادی بھی ہے۔ رائفل، بندوق اور پستول کے استعمال سے سال میں اوسطاً ایک لاکھ افراد زخمی ہوتے ہیں اور نجی دائرے میں استعمال ہونے والے اسلحے کے ذریعے مرنے والوں کی تعداد اوسطاً سالانہ ۱۲ہزار سے زیادہ ہے۔ گویا نائن الیون میں جتنے افراد ہلاک ہوئے ان سے چار گنا زیادہ ہرسال امریکا میں عام انسانوں کے درمیان اسلحے کے استعمال سے ہلاک ہوتے ہیں۔ اور اگر اس تعداد کا موازنہ افغانستان میں امریکی اور ناٹو افواج کی ہلاکتوں سے کیا جائے تو ۱۲سال میں مارے جانے والے فوجیوں سے بھی یہ سالانہ اوسط چار گنا زیادہ ہے۔ نیز ترقی یافتہ ممالک میں اسلحے سے ہلاک ہونے والوں کا جو اوسط ہے، امریکا میں یہ شرح اس سے ۱۵گنا زیادہ ہے۔ امریکا کے ایک تحقیقی ادارے Brady Campaign To Prevent Gun Violence کے مطابق اسلحے کے آزادانہ استعمال سے صرف اِکّا دکّا افراد ہی کو لقمۂ اجل نہیں بنایا جاتا بلکہ بیک وقت متعدد افراد کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے جسے multiple victim shooting اورmass-killing کہا جاتا ہے اور اس کی بہتات کا بھی یہ عالم ہے کہ ایسے اجتماعی قتل ہر۹ء۵ دن میں ایک بار وقوع پذیر ہورہے ہیں۔
روزنامہ دی گارڈین نے نیوٹائون کے اس سکول میں کھیلی جانے والی خونیں ہولی پر اپنے اداریے میں تبصرہ کرتے ہوئے امریکا کے اسلحے کے بارے میں رویے اور اس کے آزادانہ استعمال کے ذکر کو اس ملک کی پہلی خصوصیت قرار دیا ہے اور اجتماعی قتل و غارت گری کی اس روایت کا اس طرح ذکر کیا ہے:
درحقیقت جن تین باتوں میں امریکا واقعی مختلف ہے ان میں سے ایک گولی مارنے کی بڑھتی ہوئی لہر ہے۔ جمعہ کے دن ریاست کینیکٹی کٹ کے شہر نیوٹائون میں بڑے پیمانے پر گولی چلانے کے واقعے میں ۲۷؍افراد ہلاک ہوگئے جن میں ۲۰ کم عمر بچے تھے۔ اس سے کچھ ہی پہلے کولوریڈو کے سینما میں جو گولی چلائی گئی تھی، ۱۲ زندگیاں اس کی نذر ہوگئی تھیں۔ لیکن یہ سال اس طرح کے واقعات سے بھرا ہوا ہے۔ امریکا کی بہت سی ریاستوں میں اس طرح کے واقعات ہوئے ہیں۔ ۲۰۱۲ء میں جارجیا، اوہائیو، پٹس برگ، اوک لینڈ، اوکلوہاما، سی ایٹل، وسکنسن، مینا پولس اور ٹیکساس میں بڑے پیمانے پر ایسے واقعات ہوئے ہیں۔ نیوٹائون کے واقعے سے صرف تین دن پہلے ایک نوجوان نے امریکا کے ایک شاپنگ سنٹر میں اندھادھند گولی چلائی جس میں خود کو مارنے سے پہلے دو افراد کو قتل کردیا۔ امریکی تاریخ کے گولی مارنے کے سب سے زیادہ مہلک ۱۲ واقعات میں سے چھے جن میں بڑے پیمانے پر لوگ مارے گئے، گذشتہ پانچ برسوں میں رُونما ہوئے۔(Americans and Gun: The Shots Heard Round the World دی گارڈین، ۱۶ دسمبر ۲۰۱۲ء)
اس پس منظر میں نیوٹائون کے اسکول میں کی جانے والی ہلاکتوں نے ملک کو ہلا دیا ہے اور اسلحے کی فراہمی (جو اس وقت اسلحے کی دکانوں کے علاوہ اسپورٹس کی دکانوں، حتیٰ کہ سپرمارکیٹوں تک میں بہ آسانی مل جاتا ہے) کو کسی ضابطے میں لانے کے لیے قانون سازی کی ضرورت پر بحث کا آغاز ہوگیا ہے۔ اسلحے کی لابی کی مزاحمت کے باوجود راے عامہ اور پارلیمنٹ کے مؤثر افراد اب اس سارے کاروبار کو قانون کی گرفت میں لانے کے بارے میں کم از کم سوچ بچار اور بحث و مباحثہ پر آمادگی کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک بڑی اہم اور دُوررس نتائج کی بحث کا آغاز ہوگیا ہے، یعنی اس امر کو متعین کیا جائے کہ اسلحہ رکھنا ایک بنیادی حق ہے یا محض ایک سہولت، استحقاق اور ضرورت۔ نیز اس سلسلے میں اب یہ بنیادی بحث بھی ہورہی ہے کہ دستور کے دیے ہوئے ایک حق پر قانون اور مفادعامہ کی روشنی میں پابندی لگائی جاسکتی ہے یا نہیں؟ آزادی راے کا حق جو دستور کی پہلی ترمیم کے ذریعے حاصل ہوا تھا، اس کے بارے میں بھی یہی بحث ہوتی رہی ہے اور اس بگ ٹٹ آزادی کا سہارا لے کر توہین رسالتؐ اور دین و مذہب کا تمسخر اُڑانے کی جسارت بھی کھلے عام کی جاتی رہی ہے۔ اس کا مسلسل اندھا دفاع کیا گیا ہے حالانکہ کچھ مقدس گائیں (Holy Cows) ہیں جن پر بات کرنا ممنوع بلکہ ’جرم‘ ہے، جیسے یہودیت، اسرائیل، ہالوکاسٹ اور سامیت مخالف (Anti Semitism)۔لیکن یہی وہ عناصر جو اسلام، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور دینی شخصیات کے بارے میں دریدہ دہنی اور تضحیک و تحقیر کو آزادیِ راے کا حصہ قرار دیتے ہیں، اب یہ کہنے پر مجبور ہورہے ہیں کہ ایک دستوری حق کے استعمال کے لیے ذمہ داری کا مظاہرہ بھی ضروری ہے۔نیز ایک انفرادی حق کو اجتماعی مصالح سے مشروط اور محدود کیا جاسکتا ہے، اور کیا جانا چاہیے۔ نیویارک ٹائمز کا اداریہ اس سلسلے میں بڑا دل چسپ ہے:
گولی چلانے کے سابقہ واقعات کی طرح نیوٹائون میں گذشتہ جمعہ کو ۲۰بچوں اور سات بالغوں کے قتل نے امریکا میں آتشیں اسلحے کے بارے میں قومی دُھن (fixation) کو ایک بار پھر بیدار کردیا ہے۔ اسلحے کی فی کس موجودگی کے لحاظ سے کوئی بھی ملک امریکا سے آگے نہیں ہے۔ ۳۰۰ ملین آتشیں ہتھیار عوام الناس کے پاس موجود ہیں۔ گویا کہ ہربالغ فرد کے لیے ایک ہتھیار دستیاب ہے۔ہارورڈ اسکول آف پبلک ہیلتھ کے ماہرین نے ۲۶ترقی یافتہ ممالک کے اعداد و شمار کی بنیاد پر یہ بتایا ہے کہ جہاں زیادہ اسلحہ ہوتا ہے وہیں زیادہ قتل ہوتے ہیں۔ امریکا کی صورت اور بھی زیادہ تشویش ناک ہے۔ امریکا میں قتل کی شرح دوسرے خوش حال ممالک کی شرح کے مقابلے میں، جن کے ہاں اسلحے کی نجی ملکیت کو کنٹرول کرنے کے سخت قوانین موجود ہیں، ۱۵گنا زیادہ ہے۔
اداریے میں اس امر پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے کہ اس سے پہلے کے خونیں واقعات کے موقع پر بھی صدراوباما نے اسلحے کی ملکیت اور انھیں کھلے بندوں لیے پھرنے پر قانونی گرفت بڑھانے کے اعلانات کیے ہیں لیکن عملاً کوئی پیش قدمی نہیں ہوئی۔ اس اداریے میں ایک سابق رکن کانگریس جوے اسکاربرو کی کے قلب ماہیت پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے یہ کڑوی گولی نگلنے کا اعلان کیا ہے:
وہ لوگ جو ہماری طرح یقین رکھتے ہیں کہ دوسری ترمیم امریکی شہریوں کو اسلحہ رکھنے کا مطلق اختیار نہیں دیتی، ان کو یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ ان کا یہ موقف ہمدردی سے ان کی بات سننے والوں کو ان سے دُور کردے گا اور اس نقطۂ نظر کے کسی وقت رائج ہونے کا جلدی امکان نہیں ۔ ہمیں قانون کے پابند اور تحفظ کی ضرورت محسوس کرنے والے اسلحے کے مالکوں کی جائز تشویش کا احترام کرنا چاہیے، تاکہ لچک نہ رکھنے والے نظریاتی لوگوں کے ساتھ کوئی مشترک دائرہ تلاش کیا جاسکے۔ اسکاربرو نے اسلحے پر پابندی کے مخالفوں کے لیے چیلنج بہت اچھی طرح پیش کیا۔ انھوں نے کہا کہ انھوں نے اسلحے کی بحث میں اپنا نقطۂ نظر تبدیل کرلیا ہے۔ اب وہ اسے حکومتی کنٹرول کے مقابلے میں فرد کے حقوق کے بجاے اسے عوام کے تحفظ کے مسئلے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک کے بعد ایک راے شماری نے یہ ظاہر کیا ہے کہ رائفل ایسوسی ایشن کے ممبران خود بھی ایسے اقدامات کے مخالف نہیں ہیں جن سے اسلحہ خریدنے اور بیچنے والے ان افراد کی جو مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے ہوں، نگرانی کی جاسکے۔ دستور نے کوئی ایسے مطلق حقوق نہیں دیے ہیں کہ ان کی خاطر عوام کے تحفظ اور بہبود کے متعلق تشویش کو نظرانداز کردیا جائے۔(انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون، ۱۹دسمبر ۲۰۱۲ء)
توقع ہے کہ جس طرح اسلحے کے حصول اور اس کی کسی نمایش (display) کی آزادی کے بارے میں اجتماعی مصالح اور انسانی معاشرے کی فلاح اور امن و آشتی کی ضمانت کے لیے ایک بظاہر مطلق حق (absolute right) کو قانون اور اخلاق کے ضابطہ کار کا پابند کرنے کی بات کی جارہی ہے، اسی طرح آزادیِ راے کے تحفظ کے ساتھ اس آزادی کے غیرذمہ دارانہ استعمال کو بھی کسی ضابطے کا پابند کرنے کا صحت مند راستہ اختیار کرنے پر غورو مباحثے کا آغاز کیا جائے گا۔
دوسرا پہلو جس پر کھل کر بات کی جارہی ہے وہ اسلحے کا استعمال کرنے والوں، خاص طور پر وہ افراد جو قتل عام کے مرتکب ہورہے ہیں، ان کی ذہنی کیفیت اور اس کیفیت کو پیدا کرنے والے عوامل کا ادراک ہے جو ایسے مخبوط الحواس (deranged ) رویے کا باعث بن رہے ہیں۔ اس سلسلے میں عمومی صحت ِ ذہنی (mental health) کے مسائل اور معاشرے میں صحت کی دیکھ بھال (health care) اور خصوصیت سے نفسیاتی مریضوں کی دیکھ بھال کی کمی پر توجہ مرکوز کرائی جارہی ہے۔ مائیک راجر نے (جو ایف بی آئی کا ایک سابق افسر اور اب ایوانِ نمایندگان کا رکن ہے) کہا ہے کہ اس وقت ہماری اصل ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ ان لوگوں تک اسلحے کی رسائی کو روکیں جو ذہنی امراض کا شکار ہیں۔ ایک اور مشہور کالم نگار ٹموتھی اسٹینلے نے امریکا میں ( جسے آزادی اور دولت کی جنت کہا جاتا ہے) ذہنی امراض کی کثرت اور اس کے مناسب علاج کے باب میں کوتاہی کو حالات کی خرابی کا سبب قرار دیا ہے۔ اس کے خیال میں:
ذہنی صحت کے اداروں کے لیے کم وسائل کی فراہمی ہی ذہنی امراض کی خطرناک کثرت کا سبب ہے، خواہ وسائل کی فراہمی میں یہ غفلت غیرارادی ہی کیوں نہ ہو۔ اس کی طرف ضرور توجہ کرنا چاہیے ۔(دی گارڈین، ۱۸ دسمبر ۲۰۱۲ء، After the Newtown Shooting It is Time to Talk about Mental Health and Crime)
اس سلسلے میں کانگرس سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ:
براہِ مہربانی صحت کے بہتر قوانین ترتیب دیجیے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ٹک ٹک کرتے کسی بھی وقت پھٹ جانے والے بم کو غیرمؤثر کیا جاسکے اس سے قبل کہ بہت تاخیر ہوجائے۔ ایک خاندان کے لیے اس بات کو زیادہ آسان بنادیا جائے کہ ممکنہ خطرے کے حامل افراد کا لازمی علاج کروایا جاسکے۔
واضح رہے کہ امریکا کی آبادی کا تقریباً ۵۰ فی صد صحت کی سہولت سے محروم ہے اور صدراوباما کے سارے وعدوں اور دعوئوں کے باوجود اس سمت میں پیش رفت بے حد سُست ہے، بلکہ امریکا کے ایک بڑے علاقے میں اس کی مزاحمت ہورہی ہے۔
جہاں تک امریکی آبادی اور خصوصیت سے نوجوانوں میں پائے جانے والے نفسیاتی امراض، جذباتی ہیجان اور تشدد کے رجحان کا تعلق ہے وہ ایک حقیقت ہے اور ٹائم بم کی حیثیت رکھتا ہے۔ نیوٹائون اسکول کے واقعے کے بعد اس مسئلے کی طرف توجہ وقت کی ایک ضرورت ہے لیکن مسئلہ صرف افراد کی ایک بڑی تعداد کی نفسیاتی الجھنوں کا نہیں، اس سے کہیں زیادہ بنیادی ہے اور اس کا تعلق مادیت پرستی اور یک رُخی انفرادیت پر مبنی معاشرے سے ہے جو ذہنی امراض اور معاشرتی انتشار کا اصل سبب ہے۔ جس معاشرے اور تہذیب میں اخلاق اور انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تعلق کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت منقطع کردیا گیا ہو، جہاں خاندان کا نظام درہم برہم ہو، جہاں تعلیم کو تربیت اور سیرت سازی سے بے تعلق کردیا گیا ہو، جہاں نفس کی پرستش زندگی کا محور ہو، جہاں خیروشر کے ابدی پیمانے توڑ دیے گئے ہوں اور لذت اور ذاتی مفاد ساری تگ و دو کا محور ہوں وہاں انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں بگاڑ اور معاشرے میں فساد کا رُونما ہونا ایک فطری امر ہے۔ معاملہ محض طبی سہولتوں کی فراہمی اور نفسیاتی علاج کی فکر کرنے کا نہیں (یہ تو ہونا ہی چاہیے)، اصل مسئلہ فرد کے تصورِ حیات اور معاشرے کی اجتماعی اخلاقیات کا ہے جہاں تعلیم، کھیل، میڈیا، فلم، تفریح، ہر میدان میں لذت پرستی اور نفسانفسی عام ہو، اور ہرچیز کو روندتے ہوئے اپنے مفادات کے حصول کے لیے جدوجہد انسان کی معراج قرار پائے، وہاں انسانیت کی پامالی اور معاشرے میں تصادم اور تشدد کی فراوانی سے کیسے بچاجاسکتا ہے۔
اقبال کو اس تہذیبی فساد کا پورا احساس تھا اور اس نے بہت پہلے تمام انسانوں کومتنبہ کردیا تھا کہ مادی تہذیب کا فطری ثمرہ کیا ہوگا:
یورپ میں بہت روشنیِ علم و ہُنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمۂ حیواں ہے یہ ظُلمات
ظاہر میں تجارت ہے، حقیقت میں جُوا ہے
سُود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگِ مفاجات
یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیمِ مساوات
بے کاری و عریانی ومے خواری و اِفلاس
کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کے فتوحات
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
نیوٹائون سکول کا واقعہ محض ایک منفرد واقعہ نہیں، امریکی اور مغربی معاشرے اور تہذیب کی اصل کیفیت کی عکاسی کرنے والا ایک آئینہ ہے۔ اہلِ نظر کا ایک گروہ پورے دُکھ اور کرب کے ساتھ نہ صرف اس واقعے پر آنسو بہارہا ہے بلکہ اصل خرابی اور بگاڑ کی جڑ کی طرف بھی متوجہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ابھی یہ آواز بظاہر صدا بہ صحرا ہی معلوم ہوتی ہے لیکن کم از کم یہ آوازیں اُٹھنا تو شروع ہوگئی ہیں۔
یونی ورسٹی کالج کا استاد مائیک کنگ بڑے دردبھرے انداز میں لکھتا ہے کہ:
امریکی کلچر ایک پُرتشدد کلچر ہے۔ یہ ہمیشہ سے ایک پُرتشدد کلچر چلا آرہا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس ’کیوں‘ کے جواب میں جزوی وضاحتوں کا ایک مجموعہ پیش کیا جاسکتا ہے۔ مَیں اسلحے پر کنٹرول اور ذہنی صحت پر آیندہ سطور میں بات کروں گا، لیکن یہ لوگ تشدد کے کلچر میں جس طرح ہمہ تن ڈوبے ہوئے ہیں، اس پر سنجیدہ بحث سے ہمیشہ پہلوتہی کی جاتی ہے۔ ایک بیمار معاشرہ بیمار افراد پیداکرتا ہے۔ جس معاشرے میں تشدد کی بہت سی قسموں کو بہادری کا نمونہ بناکر پیش کیا جاتا ہو، اس میں تشدد کے ایسے بہت سے مظاہرے سامنے آئیں گے، جو تشدد کی تعریف میں نہیں آتے۔ اس سے قاتل کے افعال کی توجیہہ نہیں ہوتی، نہ اس کے ارادے کے لیے عقلی بنیاد تلاش کی جاتی ہے، لیکن ان عناصر کا ایک دیانت دارانہ جائزہ یہ واضح کر دیتا ہے کہ ان کے نتیجے میں ایسے رویے پیدا ہوکر رہتے ہیں اور انھیں قانون سازی یا محض مسلسل ’علاج‘ کے ذریعے دبایا نہیں جاسکتا… اگر ہم یہ کر رہے ہوں، اور اس کے باوجود اس طرح کے سانحات برابر ہوتے رہیں، تو کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے وہ سب کچھ کیا جو کرسکتے تھے؟ ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ ایک ایسے مسئلے کو حل کرنا مشکل ہے جس کے اسباب تک بیش تر لوگ نہیں پہنچ پاتے۔ لیکن مزید قانون سازی، نگرانی، علاج معالجہ اور مجرم قرار دینے سے نامناسب ضمنی اثرات پیدا ہوتے ہیں اور مسئلے کی صحیح تشخیص بھی نہیں ہوتی، اور نہ صورتِ حال کو درست کرنے کے لیے ہی جو کچھ ضروری ہے اس کے لیے سنجیدگی سے اندازہ لگایا جاتا ہے۔
جس طرح کسی مرض کے لیے کھائی جانے والی دوائوں کے ضمنی اثرات کو دُور کرنے کے لیے دوسری دوائیں دی جاتی ہیں، اسی طرح اسلحے پر کنٹرول اور علاج کے مطالبے علامات میں چھپی بیماری کی تشخیص میں ناکام ہیں۔ ہمارا ایک صحت مند حقیقی معنوں میں مستحکم اور منصفانہ معاشرے کا تصور کرنا اور اس کے لیے لڑنے کی اہلیت نہ رکھنا، اور ہمارا (knee jerk) جیسے ردعمل کی طرح حکومت سے مسئلہ حل کرنے کی توقع رکھنا، جیسے کہ کوئی سادہ حل موجود ہو، جیسے حکومت بجاے استحصال کرنے کے اس کو حل کرنا چاہے، جیسے کہ وہ اتنی صلاحیت رکھتی ہو کہ اسے حل کرے اور وہ اس کا حل رکھتی بھی ہو، (ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ) اس وقت تک قتل و غارت جاری رہے گی، جب تک کہ ہم اپنے نیک ارادوں کے ذریعے ریاست کی حمایت کردہ قتل و غارت برپا کرتے رہیں گے۔ (Misdiagnosing the Culture of Violence،کاؤنٹرپنچ، ۱۸دسمبر ۲۰۱۲ء)
ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ مسئلہ محض اسلحے کے حصول اور اس کی نمایش کی آزادی کی تحدید اور ذہنی امراض کے علاج معالجے تک محدود نہیں۔ بگاڑ کے اسباب گہرے ہیں جن کا تعلق اصلاً عقیدہ، تصورِحیات، محرکاتِ عمل اور کامیاب اور ناکام زندگی کے تصورات سے متعلق ہے اور اصلاحِ احوال کے لیے جو بھی حکمت عملی وضع کی جائے، وہ اسی وقت کامیاب ہوسکتی ہے جب اس میں ان تمام پہلوئوں کا خاطرخواہ لحاظ کیا گیا ہو۔ اصلاحِ احوال اسی وقت ممکن ہے جب اصل اسباب کا ادراک ہو اور ان اسباب کو دُور کرنے کے لیے حقیقت پسندانہ انداز میں ایک ہمہ گیر تبدیلی کا راستہ اختیار کیا جائے۔
پھر مسئلہ محض امریکا میں داخلی طور پر جان، مال اور آبرو کی بے توقیری تک محدود نہیں، عالمی سطح پر احترامِ انسانیت اور عدل و انصاف کے باب میں امریکا اور مغربی اقوام، جو آج کی کارفرما قوتیں ہیں، ان کا کردار بھی ہے۔جو مثال وہ خود دنیا کے سامنے قائم کر رہی ہیں اور دنیا کے گوشے گوشے میں خود اُن کی سرزمین پر ان کے حکمران قوتوں کے اپنے ہی سپوت اگر قتل و غارت گری اور دہشت گردی کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں، تو اس عالمی کردار کی موجودگی میں امریکا میں محض جھنڈے پست کرنے اور سوگ منانے سے حالات تبدیل نہیں ہوسکتے۔ اور پھر معاملہ محض امریکا اور مغربی اقوام کا نہیں، دنیا کے بیش تر ممالک میں ان کی اپنی حکومتوں اور برسرِاقتدار قوتوں کے رویے کا بھی ہے۔ اگرچہ خود پاکستان کی سرزمین پر روز و شب خون خرابا ہو رہا ہے اور جس طرح سرکاری اور غیرسرکاری سطح پر تشدد اور دہشت گردی میں اضافہ ہو رہا ہے، وہ بھی اس سے غیرمتعلق نہیں، بلکہ اس عالمی منظرنامے کا ایک حصہ ہے۔ ہرمعصوم انسان کا خون پوری انسانیت کا خون ہے اور ہربچے اور بوڑھے اور مردوزن پر جو گزر رہی ہے وہ ہم سب کا مشترک المیہ ہے۔ ہم پاکستان میں نیوٹائون کے معصوم بچوں اور اساتذہ کی ہلاکت پر خون کے آنسو رو رہے ہیں لیکن خود ہمارے ملک کے گوشے گوشے میں خصوصیت سے پشاور، شمالی علاقہ جات، کوئٹہ، بلوچستان اور کراچی میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے صرفِ نظر کیسے کرسکتے ہیں اور اس کا جو تعلق امریکا کی عالمی دہشت کے نام پر جنگ سے ہے ، اس کو کیسے نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔
بدقسمتی سے یہ سب کچھ عالمی دہشت گردی کے ایک منصوبے کا حصہ ہے۔ اس وقت جب ہم نیوٹائون سکول کے ۲۰بچوں کا نوحہ کر رہے ہیں، کیا ہم ان ۳۵بچوں کو بھول سکتے ہیں جو اسی سال نومبر میں صرف چند دن پہلے اسرائیل کی بم باری سے موت کے گھاٹ اُتار دیے گئے؟ کیا ہم ان ۱۶۸ بچوں کو بھول سکتے ہیں جن کی امریکا کے ڈرون حملوں سے پاکستان میں ہلاکت کا اعتراف امریکی جامعات کررہی ہیں؟ گو ہماری اطلاعات کے مطابق شہید ہونے والے معصوم بچوں، عورتوں اور عام شہریوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ اور کیا ان ۲۳۱ بچوں کو بھلایا جاسکتا ہے جو خود افغانستان میں اسی سال صرف چھے ماہ میں شہید کیے گئے ہیں؟ اور کیا ان ۹۲۱ بچوں کی ہلاکت کو بھی بھلایا جاسکتا ہے جو سرکاری اعدادوشمار کے مطابق امریکا کے حیوانی حملوں سے عراق میں شہید کیے گئے۔ یہ سب تو صرف اس سال کی خونیں داستان ہے۔ کینوس کو ذرا وسیع کیا جائے تو کیا ان ۶لاکھ بچوں کو بھلایا جاسکتا ہے جو عراق میں امریکی پابندیوں کے نتیجے میں ۱۹۹۰ء کے بعد سے اب تک جان کی بازی ہارگئے ہیں اور جن کی موت کو امریکا کی ایک سابق سیکرٹری خارجہ میڈلین آل برائٹ نے جنگ کی ناگزیر قیمت (inevitable cost of war) قرار دے کر چٹکیوں میں اڑا دیا تھا۔۱؎
عالمی میڈیا اور دانش وروں کے ایک گروہ نے جس طرح امریکی اسکول کے بچوں کا سوگ منانے کے ساتھ دہشت گردی کے واقعات کو روکنے کی حکمت عملی کو محض عسکری حکمت عملی تک محدود
نہ رکھنے اور ایک ہمہ جہتی حکمت عملی بنانے کی ضرورت کا اظہار کیا ہے، اگر وہ صرف امریکا کے لیے درست ہے، تو کیا باقی تمام دنیا کے بارے میں اس کو نظرانداز کیا جاسکتا ہے؟ کیا تمام دنیا سے دہشت گردی کے خاتمے اور خاص طور سے ان ممالک کو دہشت گردی کی آگ سے نکالنے کے لیے بھی ایک ہمہ جہتی اور حقیقت پر مبنی حکمت عملی کی ضرورت نہیں جن کو خود امریکا کی مسلط کردہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘کی وجہ سے ان انسان کش اور تباہ کن حالات میں دھکیل دیا گیا ہے۔ کیا شرفِ انسانیت صرف امریکی بچوں کے لیے خاص ہے اور پاکستانی، کشمیری، فلسطینی، یمنی،
۱- ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد تو اس سے کہیں زیادہ ہے لیکن ہم نے یہاں مثال کے لیے صرف وہ اعداد و شمار دیے ہیں جو مغرب کے معتبر اداروں نے دیے ہیں۔ ملاحظہ ہو: بل کیونگلے(پروفیسر آف لا، لائے لوٹا یونی ورسٹی، نیو آرینز، یو ایس اے)، Remeber All the Childrens, Mr. President ، کاؤنٹر پنچ، ۱۷دسمبر ۲۰۱۲ء)
افغانی بچے اس شرف سے محروم ہیں اور وہ صرف استعماری قوتوں کے لیے خس و خاشاک کی مانند ہیں اور ان کے استعماری کھیل کے لیے صرف توپ کے چارے (canon-fodder) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جب ہم نیوٹائون کے معصوم بچوں کا نوحہ کررہے ہیں تو دوسرے بچوں کو کیسے بھول سکتے ہیں؟ اور اگر ہمارے ممالک کی قیادتیں خود اپنے بچوں کی ہلاکت پر بے چین نہیں ہوتیں اور ان پھول سی ہستیوں کو بچانے کے لیے ہاتھ پائوں نہیں مارتیں تو کیا ان کو اس قوم کا وفادار سمجھا جاسکتا ہے؟ یہ بڑا اہم سوال ہے جس پر سب سے پہلے پاکستان کے عوام اور اُمت مسلمہ اور خاص طور سے اس کی قیادتوں کو غور کرنا چاہیے اور اس باب میں عوام کو اپنی اپنی قیادت کا محاسبہ کرنا چاہیے۔ دیکھیے، خود عالمی برادری کی کچھ حساس روحیں اس تضاد کو کس طرح محسوس کررہی ہیں اور انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کررہی ہیں۔ کاش یہ آواز مغرب سے پہلے خود مشرق سے اُٹھتی اور عالمِ اسلام، عرب دنیا اور پاکستان کی قوم، پارلیمنٹ اور قیادتیں اس آواز کو اُٹھاتیں اور اپنے عوام کے حقوق کے لیے عملی اقدام کرتیں۔ ہم صرف چند اہلِ دل کے کرب کی کچھ جھلکیاں اپنی قوم اور اس کی قیادت کو شرم دلانے کے لیے پیش کرتے ہیں:
برطانیہ کے مشہور دانش ور اور دی گارڈین کے مضمون نگار جارج مون بیوٹ بڑے دردبھرے انداز میں اپنے مضمون میں امریکا اور مغربی اقوام کے دوغلے پن اور تضادات کا پردہ چاک کرتے ہیں۔ مضمون کا عنوان ہی مغرب کی تہذیبی اور سیاسی قیادت پر ایک چارج شیٹ کی حیثیت رکھتا ہے: In the US, Mass Child Killings are Tragedies, In Pakistan, Mere Bug Splats. (امریکا میں بچوں کے قتل عام ایسے ہیں، پاکستان میں محض مچھر مکھی مارنا)۔
وہ صدر اوباما کے ان الفاظ کو اپنے مضمون کا مرکزی خیال بناتا ہے جو موصوف نے نیوٹائون سکول کے بچوں کے سفاکانہ قتل پر چشم پُرنم کے ساتھ ادا کیے تھے، یعنی:
محض الفاظ تمھارے غم کا کوئی مداوا نہیں، نہ وہ تمھارے دلوں کے زخم بھر سکتے ہیں… ایسے المیے ختم ہونے چاہییں، اور انھیں ختم کرنے کے لیے ہمیں لازماً تبدیل ہونا چاہیے۔
پھر وہ یہ چبھتا ہوا سوال اُٹھاتا ہے کہ:
اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا میں ایک پاگل نوجوان کے بچوں کو قتل کرنے پر جس چیز کا اطلاق ہوتا ہے، اسی طرح اس کا اطلاق پاکستان میں ان بچوں کے قتل پر بھی ہوتا ہے، جو ایک اداس امریکن صدر کر رہا ہے۔ یہ بچے اتنے ہی اہم، اتنے ہی حقیقی، اور دنیا کی توجہ کا اتنا ہی استحقاق رکھتے ہیں۔ لیکن ان کے لیے نہ صدارتی تقاریر ہیں، نہ صدارتی آنسو، نہ عالمی اخباروں کے صفحۂ اوّل پر ان کی تصاویر، نہ ان کے غم زدہ رشتے داروں کے انٹرویو ، نہ اس کا باریک بینی سے تجزیہ ہے کہ کیا ہوا اور کیوں ہوا؟
اگر اوباما کے ڈرون حملوں سے مرنے والوں کا ریاست کی طرف سے ذکر کیا جاتا ہے تو اس طرح کیا جاتا ہے کہ وہ جیسے انسانوں سے کم درجے کی چیز ہوں۔ وہ لوگ جو ڈرون کے پورے عمل کو چلاتے ہیں، رولنگ سٹون میگزین کی رپورٹ کے مطابق اِن ہلاک شدگان کا تذکرہ یوں کرتے ہیں گویا محض مچھر مکھی مارنا ہو۔ اس لیے کہ ایک سبزدھندلے ویڈیو پر ان کے جسم کا عکس یہ تاثر دیتا ہے کہ کیڑا کچلا گیا ہے، یا ان کی اتنی وقعت ہے کہ جیسے بس ایک خس و خاشاک ہوں۔ ڈرون جنگ کا دفاع کرتے ہوئے اوباما کے دہشت گردی کے مشیر بروس رڈل نے کہا: آپ کو لان کو ہروقت کاٹنا پڑتا ہے۔ جیسے ہی آپ کاٹنا بند کرتے ہیں تو گھاس کا دوبارہ اُگ آنا یقینی ہے۔
عراق میں جارج بش کی حکومت کی طرح اوباما انتظامیہ بھی شمال مغربی پاکستان میں سی آئی اے کے ڈرون حملوں کے نتیجے میں شہریوں کی ہلاکتوں کو نہ تسلیم کرتی ہے، نہ اس کا ریکارڈ رکھتی ہے، لیکن اسٹین فورڈ اور نیویارک یونی ورسٹیوں کے قانون کے اسکولوں کی رپورٹ کے مطابق : اوباما کے پہلے تین برسوں میں ۲۵۹ حملے ہوئے جس کے لیے وہ ذمہ دار ہیں۔ اس میں ۲۹۷ اور ۵۶۹ کے درمیان شہری ہلاک ہوئے جن میں کم سے کم ۶۴بچے تھے۔ یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو قابلِ اعتماد رپورٹوں سے اخذ کیے گئے ہیں۔ یہ اس سے زیادہ بھی ہوسکتے ہیں جن کا مکمل ثبوت نہیں رکھا گیا ہے۔
علاقے کے بچوں پر اس کے دور رس اثرات تباہ کن ہیں۔ بہت سے بچے اسکولوں سے اُٹھا لیے گئے ہیں،اس خوف سے کہ کسی بھی قسم کے بڑے مجمعوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ جب سے بش نے ڈرون حملوں کا آغاز کیا تھا اسکولوں پر متعدد حملے ہوئے ہیں۔ لیکن اوباما نے اس عمل کو بہت جوش و خروش سے پھیلا دیا ہے۔ بش کی ایک فاش غلطی سے ۶۹بچے مارے گئے۔ مطالعے میں بتایا گیا ہے کہ جب بچے ڈرون کی آواز سنتے ہیں تو وہ دہشت سے چھپنے لگتے ہیں۔ ایک مقامی ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ ان کا خوف اور جو ہولناک مناظر وہ دیکھتے ہیں اس سے ان کے دماغ کو مسلسل نقصان پہنچ رہا ہے۔ ڈرون حملوں میں زخمی ہونے والے بچوں نے تحقیق کاروں کو بتایا کہ وہ اتنے زیادہ خوف زدہ ہیں کہ سکول نہیں جاسکتے، اور انھوں نے اپنے مستقبل کی ساری اُمیدوں کو ختم کردیا ہے۔ ان کے جسم ہی نہیں ان کے خواب بھی بکھر گئے ہیں۔
کہنے کو اوباما بچوں کو جان بوجھ کر قتل نہیں کرتا لیکن اُس کے حکم پر جس طرح سے ڈرون حملے کیے جاتے ہیں، ان کی ہلاکت اس کا لازمی نتیجہ ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ان اموات کے اس پر کیا جذباتی اثرات ہوتے ہیں، اس لیے کہ نہ وہ، نہ اس کے افسر اس کو زیربحث لاتے ہیں۔ پاکستان میں سی آئی اے کے ذریعے ماوراے عدالت قتل سے متعلق تقریباً ہرچیز خفیہ رکھی جاتی ہے، لیکن آپ کو تاثر یہ ملتا ہے کہ جیسے انتظامیہ کے کسی فرد کی نیند تک خراب نہیں ہوئی۔
افسوس اور شرم کا مقام ہے کہ ان پاکستانی بچوں کے غم میں اور اس خونِ ناحق کی فراوانی پر امریکی قیادت اور ڈرون برسانے والوں کی نیندیں تو اُچاٹ نہ ہوئیں، لیکن کیا پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت بھی کسی کرب میں مبتلا ہوئی اور کیا ان معصوم بچوں کی اس دردناک پکار بِاَیِّ ذَنْبٍ م قُتِلَتْ کی کوئی کسک اپنے مجرم ضمیر میں محسوس کی؟
جارج مون بیوٹ اپنے مضمون کا اختتام ان الفاظ پر کرتا ہے جو ہم سب کے لیے لمحۂ فکریہ فراہم کرتے ہیں:
عالمی میڈیا کا بیش تر حصہ جس نے نیوٹائون کے بچوں کو بجاطور پر یاد رکھا ہے لیکن اوباما نے جو قتل کیے ہیں ان کو نظرانداز کرتا ہے یا سرکاری بیان کو درست تسلیم کرتا ہے کہ جو مارے گئے وہ سب ’جنگ جُو‘ تھے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شمال مغربی پاکستان کے بچے ہمارے بچوں کی طرح نہیں ہیں۔ ان کا کوئی نام نہیں ہے، نہ ان کی یاد میں شمعیں روشن کی جاتی ہیں، نہ پھول ہیں اور نہ ٹیڈی بیئر کی یادگاریں۔ جیسے کہ وہ کسی غیرانسانی دنیا کے کیڑے مکوڑے اور گھاس پھوس کی طرح ہوں۔ اوباما نے اتوار کو کہا: کیا ہم یہ کہنے کے لیے تیار ہیں کہ ہمارے بچوں کو سال بہ سال جس تشدد کا سامنا ہے وہ کسی نہ کسی طرح ہماری آزادی کی قیمت ہے؟ یہ ایک جائز سوال ہے۔ اسے اس کا اطلاق اس تشدد پر بھی کرنا چاہیے جو پاکستان کے بچوں پر وہ کررہا ہے۔
دی گارڈین کے ایک اور کالم نگار گلین گرین ورلڈ نے اپنے مضمون New Town Kids vs Yemenis and Pakistanis: What Explains the Disparate Reaction? میں اس مسئلے کی طرف متوجہ کیا ہے:
اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہی لوگ جو نیوٹائون میں ہلاک ہونے والے بچوں پر صدمے اور افسوس کا اظہار کر رہے ہیں، وہ اسی تشدد سے یمنی اور پاکستانی بچوں کو ہلاک کیے جانے کی کھلی حمایت تو نہیں کرتے لیکن مسلسل نظرانداز کرتے ہیں۔ یہ ستم ظریفی دیکھیے: پیر کے دن تین سال قبل صدر اوباما کے جنوبی یمن کے المجالہ قصبے پر کروز میزائل اور کلسٹر بم حملے سے ۱۴ خواتین اور ۲۱ بچے ہلاک ہوئے، یعنی اس روز نیوٹائون میں دیوانے نے جتنے بچے مارے اس سے ایک زیادہ۔ امریکا میں اس قتلِ عام کو اس توجہ کا ذرا سا حصہ بھی نہیں ملا جو نیوٹائون کے واقعے کو ملا، اور نہ اس پر کوئی اعتراض، احتجاج یا واویلا ہوا (بس چند بڑے مسلم ممالک میں کچھ غصہ اور توجہ اس کے حصے میں آئی)۔
اس سوال کا جواب ملنا چاہیے کہ بچوں اور دوسرے معصوموں کے قتل پرردِعمل میں اس اختلاف کی وجہ کیا ہے؟ امریکا کا میڈیا نیوٹائون میں قتل ہونے والے بچوں کی تفصیلات گہرائی میں جاکر آخری جزئیات سمیت مسلسل فراہم کرتا ہے لیکن جو بچے امریکا کی اپنی حکومت دوسرے علاقوں میں قتل کر رہی ہے اس سے وہ یکسر بے نیاز ہے۔
گلین گرین ورلڈ جرمن رسالے Der Spiegel میں امریکی ڈرون پائلٹ بران ڈون برائینٹ کا ایک مکالمہ نقل کرتا ہے جسے پڑھ کر انسان انگشت بدنداں رہ جاتا ہے لیکن اس سے سامراجی فوج کے خون آشام سورمائوں کا ذہن سامنے آتا ہے۔ بران نے ڈرون سے میزائل داغا اور آگ کا ایک شعلہ بلند ہوا، بلڈنگ زمین بوس ہوئی اور ایک ننھا بچہ جس کی ایک جھلک دکھائی دی تھی، موت کی آغوش میں جاپہنچا۔ اس نے پاس بیٹھے ہوئے اپنے ساتھی سے پوچھا: ’’کیا ہم نے ایک بچے کو ہلاک کردیا ہے؟‘‘ ساتھی نے جواب دیا: ’’ہاں میرا خیال ہے کہ مرنے والا ایک بچہ تھا‘‘۔ ڈرون سے میزائل چلانے والے ابھی اس فکر میں غلطاں و پیچاں تھے کہ امریکا کی ملٹری کمانڈ سنٹر کے ایک افسر نے مداخلت کی اور کہا:No, That was a dog (نہیں، وہ ایک کتا تھا)۔ جس پر ویڈیو پر اس منظر کو دیکھنے والے ایک اور سورما نے گرہ لگائی کہ A dog on two legs (دو ٹانگوں والا کتا)۔
گلین گرین والڈ اس ذہنیت اور اس کے نتیجے میں رُونما ہونے والی تباہی اور امریکا بے زاری کے طوفان کو دو اور دو چار کی طرح مغربی اقوام کی قیادت کے سامنے رکھنے کی جسارت کرتا ہے:
مسلمانوں کے بچوں کو محض کتا سمجھنا امریکا کی جارحیت اور گذشتہ عشرے میں فوجی اقدامات میں مسلسل اضافے کے نتیجے میں انسانیت کی تذلیل کا اظہار ہے۔ ایک فوجی سلطنت کے شہری اپنے فوجیوں کی ذہنیت کو اختیار کرلیتے ہیں۔ اوباما کا دفاع کرنے والے ترقی پسندوں کو سنیے جب وہ تمغے سجائے،سگار پیتے فوجیوں کی طرح کہتے ہیں کہ جنگ دوزخ ہے اور ضمنی نقصان (collateral damage)کا جواز پیش کرتے ہیں۔ یہ مسلمانوں کو دشمن اور ان کو انسان نہ سمجھنے کی مہم ہے جو اپنا زہریلا سر نکال رہی ہے۔ ایک دوسرا مسئلہ بھی ردعمل کے مختلف ہونے سے سامنے آیا ہے: کس کے ذریعے ہورہا ہے، اور کون قصوروار ہے؟ نیوٹائون میں گولی مارنے کے واقعے پر غم و غصے کا اظہار آسان ہے اس لیے کہ ہم میں سے بہت کم پر اس کی ذمہ داری آتی ہے۔ گو کہ ہم ایسے اقدامات کرسکتے ہیں کہ اس کے اثرات کم ہوں اور آیندہ ایسے واقعات کا امکان کم ہوجائے۔ لیکن ہم بہت کم ایسا کرسکے کہ نفسیاتی مریضوں کو روک سکیں۔ غم و غصہ آسان ہے، اس لیے کہ ہمیں اپنے آپ کو یہ بتانا آسان ہے کہ گولی مارنے والے کا ہم سے اور ہمارے افعال سے کوئی تعلق نہیں۔ (بقیہ ص ۱۰۵)
(بقیہ مقالہ خصوصی ، ص ۲۹)
اس کے برعکس مسلم دنیا میں بچوں اور بے گناہ لوگوں کو مسلسل قتل کرنے والا تشدد درست ہے۔ ہم میں سے بہت سے اس شخص کے لیے جو اس کا ذمہ دار ہے، طاقت فراہم کرتے ہیں اور نعرے لگاتے ہیں۔ امریکی شہری اس کے اخراجات برداشت کرتے ہیں، اس کو ممکن بناتے ہیں، اور اب اوباما کے تحت اگر ہم اس کی حمایت تو نہیں کرتے لیکن اس پر خاموش رہتے ہیں۔ ہمیشہ یہ زیادہ ہی مشکل ہوتا ہے کہ جن ہلاکتوں کے وقوع پذیر ہونے میں ہمارا حصہ ہے، ہم ان کو تسلیم کریں، بہ نسبت اس پر احتجاج کرنے کے، جب کہ ہمیں یقین ہے کہ ہمارا اس میں کوئی ہاتھ نہیں۔یہ بھی ردعمل میں اختلاف کی وضاحت میں ایک اہم عنصر ہے ۔
یہ اس ذہنیت کا تقاضا ہے کہ مدمقابل کو شرفِ انسانیت سے محروم (dehumanization) کردیا جائے اور پھر اسے نرم نوالہ بناکر نیست و نابود کرنے کی کوشش کی جائے اور اسے انسانیت کی خدمت قرار دیا جائے۔ امریکا میں جو بھی دہشت گردی ہو، اس میں ساری ذمہ داری دہشت گردوں پر ہے، اور امریکا دنیا بھر میں جو بھی دہشت گردی کرے، اس میں ساری ذمہ داری ان پر ہے جو اس دہشت گردی کا نشانہ بنتے ہیں۔ یہ ہے وہ مہذب کھیل جو نیوٹائون کے معصوم بچوں کی ہلاکت کے دل خراش واقعے کے بعد پوری انسانیت کے لیے لمحۂ فکریہ فراہم کر رہا ہے۔
گلین ورلڈ اس جنگی حکمت عملی کو یوں بیان کرتا ہے:
ہرجنگ، خاص طور پر دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ تقاضا کرتی ہے کہ تشدد کے اہداف کے انسان نہ ہونے کی مہم مسلسل چلائی جائے۔ بہت کم آبادیاں ایسی مسلسل ہلاکتوں کی روادار ہوں گی، اگر انھیں، جو لوگ ہلاک ہورہے ہیں، ان کے انسان ہونے کے احساس کا سامنا ہو۔ مقتولوں کے انسان ہونے کو چھپانا چاہیے اور اس کی تردید کرنا چاہیے۔ یہی ایک راستہ ہے جس کے ذریعے ان کی حکومت کو زندگی کے چراغ مسلسل بجھانے کا جواز دیا جاسکے یا نظرانداز کیا جاسکے۔ یہ وہ کلیدی نکتہ ہے جس کا اظہار MSNBC کی رپورٹر ایشلے بن فیلڈ نے ۲۰۰۳ء میں عراق سے واپسی پر اپنی تنزلی اور برخاستگی سے پہلے غیرمعمولی جرأت مندانہ تقریر میں کیا کہ امریکا کا میڈیا امریکا کے تشدد کی رپورٹنگ اس طرح کرتا ہے کہ اس کا نشانہ بننے والوں کی شناخت اور ان کے انجام کو چھپاتا ہے۔
تشدد اور حقوق کے کم کرنے کا اطلاق بش اور اوباما دونوں کی انتظامیہ نے خاص طور پر صرف مسلمانوں پر کیا ہے۔ لہٰذا یہ مسلمان ہیں جن کی ایک منصوبے کے تحت انسانیت کے لحاظ سے تذلیل کی گئی۔ امریکا کے عوام عملاً ہرگز نہیں سنتے کہ ان کی حکومت کے تشدد سے مسلمان ہلاک ہوئے ہیں۔ ان کو کبھی اس طرح بیان نہیں کیا جاتا۔ نیویارک ٹائمز اپنے صفحہ اوّل پر کبھی بھی ان کی عمریں اور نام مؤثر طور پر نمایاں کر کے نہیں دکھاتا۔ ان کے جنازے کبھی نہیں دکھائے جاتے۔ اوباما کبھی آنسوئوں بھری تقاریر نہیں کرتا کہ کس طرح مسلمانوں کے بچوں کی آیندہ پوری زندگی باقی تھی: ان کی تعلیم، روزگار، شادیاں اور ان کے بچے۔ شرفِ انسانیت سے محروم کرنے سے (dehumanistion) ان کا انسان ہونا نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے،اسی لیے ہمیں اس کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔(دی گارڈین، ۱۹ دسمبر ۲۰۱۲ء)
نیوٹائون اسکول کے بچوں کی ہلاکت کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے لیکن یہ اندوہناک واقعہ دہشت گردوں کے تمام واقعات کی حقیقت کو سمجھنے اور دہشت گردی سے نجات پانے کے لیے مطلوبہ حکمت عملی اختیار کرنے کے باب میں سب کے لیے چشم کشا ثابت ہونا چاہیے، اور جس طرح امریکا میں دہشت گردی کو قابو میں کرکے اور تشدد کے طرزِ زندگی سے نجات پانے کے لیے نئی حکمت عملی کے خطوطِ کار سوچے جارہے ہیں، اسی طرح ساری دنیا کو اس لعنت سے پاک کرنے کے لیے صحیح حکمت عملی کا تعین ضروری ہے۔ جہاں تک مسلم دنیا کا تعلق ہے ہمارا مسئلہ دوگونہ ہے___ ایک طرف امریکا اور مغربی اقوام کی یورش اور ان کے اپنے سیاسی اور معاشی ایجنڈے کے مطابق ہمارے وسائل پر قبضے ہیں ۔ امن، انصاف اور خودمختاری سے محروم رکھنے کی سیاسی، معاشی اور عسکری لشکرکشی ہے تو دوسری طرف اپنوں کی غفلت یا دشمن سے معاونت۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس وقت جب ہماری مظلومی پر کچھ غیر بھی آنسو بہارہے ہیں، ہمارے اپنے ملکوں کی قیادتیں خوابِ خرگوش میں مگن ہیں یا دوسروں کی آلۂ کار بن رہی ہیں۔
ٹوم میک نامرا نے جو فرانس کے ESC Renus School of Business میں پروفیسر ہے اور فرانس کی نیشنل ملٹری اکیڈمی میں بھی پڑھا رہا ہے، کاؤنٹرپنچ میں اپنے ایک مضمون میں اس استعجاب کا اظہار کیا ہے کہ جب دنیا میں یہ کچھ ہورہا ہے اور امریکا اپنے بچوں کی ہلاکت پر چلّا رہا ہے، عالمِ عرب کیوں سو رہا ہے؟ اس کے مضمون کا عنوان ہی بول رہا ہے: کیا عرب بھی اپنے بچوں کے لیے روتے ہیں؟
عراق، فلسطین اور یمن کے حالات پر نگاہ ڈال کر وہ ان الفاظ میں ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑنے اور ہماری غیرت کو بیدار کرنے کی جسارت کرتا ہے:
نیوٹائون پر جو تکلیف اور اذیت گزری اسے عرب دنیا کے لیے ہزارگنا بڑھایا جاسکتا ہے۔ امریکی پالیسی اور اقدامات کی وجہ سے لاکھوں نہیں تو ہزاروں معصوم بچے ہلاک ہوئے (یعنی قتل کیے گئے)۔ ان بچوں کی اموات کو جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف (شدید ترین نوعیت کے) جرائم قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس کا ہمیں صدمہ ہونا چاہیے۔ ہمیں اس پر غصہ آنا چاہیے جو ہمیں مجبور کرے کہ امریکی خارجہ پالیسی میں فوری تبدیلی کا مطالبہ کریں، لیکن ایسا ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہمیں پہلے یہ یقین ہو، کہ عرب بھی اپنے بچوں کے لیے روتے ہیں۔(Do Arabs Cry for Their Children Too? by Tom Mcnamara, Renus, France، کاؤنٹرپنچ، ۱۸دسمبر۲۰۱۲ء)
سوال صرف عربوں کا نہیں ہمارا اپنا بھی ہے۔ کیا پاکستانی قیادت، پارلیمنٹ اور قوم اپنی ذمہ داری ادا کر رہے ہیں؟ اور کیا وہ وقت نہیں آگیا کہ دنیا میں جہاں بھی دہشت گردی، ظلم اور ناانصافی ہو، اس پر آواز اُٹھائی جائے۔ لیکن سب سے پہلے ہمارے گھر میں جو آگ لگی ہوئی ہے اور جو اس کے ذمہ دار ہیں ان کے خلاف علَمِ بغاوت بلند کیا جائے۔ اگر ہماری قیادتیں اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام ہیں تو ایسی قیادتوں سے جلد از جلد نجات حاصل کی جائے، اور اپنی آزادی، عزت، اپنے بچوں، بوڑھوں اور خواتین کی زندگی اور آبرو کی حفاظت کے لیے کمربستہ ہوجایا جائے۔ کیا تاریخ کی اس صدا پر ہم لبیک کہنے کو تیار ہیں کہ ___ اَلَیْسَ مِنْکُمْ رَجُلٌ رَّشِیْدٌ ؟
بِسْمِ اللّٰہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
یاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ عَلَیْھَا مَلٰٓئِکَۃٌ غِلاَظٌ شِدَادٌ لّاَیَعْصُونَ اللّٰہَ مَآ اَمَرَھُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ o ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لاَ تَعْتَذِرُوا الْیَوْمَ انَّمَا تُجْزَوْنَ مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ o (التحریم ۶۶:۶-۷) اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوںگے، جس پر نہایت تندخُو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہوںگے، جو کبھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے، اور جو حکم بھی انھیںد یا جاتا ہے اُسے بجا لاتے ہیں۔ (اُس وقت کہا جائے گا کہ) اے کافرو! آج معذرتیں پیش نہ کرو، تمھیں تو ایسا ہی بدلہ دیا جا رہا ہے جیسے تم عمل کررہے تھے۔
واقعۂ تحریم اور ازواجِ مطہراتؓ کے واقعات بیان کرنے کے بعد اب تمام مسلمانوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ ہرشخص کو اپنی ذات ہی کی نہیں بلکہ اپنے گھروالوںکی بھی فکر کرنی چاہیے۔ آگے چل کر جو بات فرمائی گئی ہے اُس سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ ان واقعات کوبیان کرنے سے مقصود ازواجِ مطہراتؓ کو لوگوں کی نگاہ سے گرانا نہیں ہے، بلکہ ان واقعات کے بیان سے مسلمانوں کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ کوئی شخص بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں اس وجہ سے معافی نہیںپاسکتا کہ اس کی نسبت کسی بڑے آدمی کے ساتھ ہے۔گویا جو اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑھ کر محبوب ہوتا ہے، اس کی اولاد بھی ہو، اس کی بیوی بھی یا ماں بہن بھی ہو، صرف اس وجہ سے معاف نہیں کردی جائے گی کہ اس کا رشتہ نبی کے ساتھ تھا۔ میزانِ آخرت میں اس کے اپنے اعمال ہی اس کے حق میں یا اس کے خلاف فیصلے کرنے والے ہوں گے اور اس کے اعمال ہی پر اس کے مستقبل کا انحصار ہوگا۔ اس کے مستقبل کا انحصار اس بات پر نہیں ہے کہ اس کا رشتہ کس کے ساتھ ہے۔ یہ بات ذہن نشین کرنے کے لیے یہاں صاف صاف فرمایا گیا کہ جو لوگ ایمان رکھنے والے ہیں ان کا یہ کام ہے کہ وہ نہ صرف اپنی فکر کریں بلکہ وہ اپنے گھروالوں کی بھی فکر کریں، نیز اپنی اولاد،بیویوں اور بیٹے بیٹیوں اور قریبی رشتہ داروں کی بھی فکر کریں کہ کہیں وہ آگ کے مستحق نہ ہوجائیں۔ اہلِ ایمان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اہل وعیال کو خدا کے غضب سے بچانے کی کوشش کریں۔
یہ جو فرمایا کہ اس آگ کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے، یہ بات سورئہ بقرہ میں بھی کہی گئی ہے۔ بعض لوگوں نے پتھروں سے مراد بت لیے ہیں لیکن بظاہر ایسامحسوس ہوتا ہے کہ اس مقام پر پتھروں سے مراد بت نہیں ہوسکتے۔
سورئہ بقرہ کے اندر جو سلسلۂ بیان آیا ہے اس میں اس سے مراد بت بھی لیے جاسکتے ہیں لیکن یہاں چونکہ مشرکین کا ذکر نہیں ہے بلکہ اہلِ ایمان کو مخاطب کر کے کہا گیا ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنی اولاد اور گھروالوںکو آگ سے بچائو، تو ظاہر بات ہے کہ وہ پتھروں کو پوجنے والے نہیں ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جہنم کا ایندھن پتھروں کی نوعیت کا ہوگا، جیسے آپ کے ہاں پتھر کا کوئلہ ہوتا ہے جو عام لکڑی کے کوئلے کے مقابلے میں زیادہ دیر تک جلتا ہے اور آگ کو زیادہ تیز کرنے والا ہوتا ہے۔ پھر فرمایا:
عَلَیْھَا مَلٰٓئِکَۃٌ غِلاَظٌ شِدَادٌ ، دوزخ پر ایسے ملائکہ مامور ہیں جو نہایت تندخُو اور سخت مزاج ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے جس کو جس کام کے لیے پیدا کیا ہے اُسے اس کام کے لیے موزوں ترین ساخت عطا فرمائی ہے۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ تمام ملائکہ چونکہ نوری ہیں اس لیے وہ تمام یکساں صفات کے حامل ہوںگے، لیکن ایسا نہیں ہے۔ جس قسم کی خدمات جس فرشتے کے سپرد ہیں، اس کے اندر ویسی ہی صفات اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہیں۔ مثال کے طور پر جو فرشتے جنت کے لیے مقرر ہیں وہ نہایت متواضع، نرم مزاج اور بہت ادب اور لحاظ کرنے والے ہوں گے۔ اس کے برعکس جو فرشتے دوزخ کے لیے مقرر ہوں گے وہ جلّاد قسم کے فرشتے ہوں گے۔ ان کے ہاں رحم کا کوئی کام نہیں ہے۔ یہ نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص آگ میں جل رہا ہو تو اس کے دل میں رحم آجائے کہ مَیں ذرا اس کی آگ کو ہلکا کردوں۔ نہیں، ان فرشتوں کے ہاں رحم کا کوئی گزر نہیں۔ اسی طرح، مثلاً جو فرشتے لوگوں کو موت دینے کے لیے مقرر ہیں ان کے اندر یہ نفسیات اور یہ جذبات پیدا نہیں کیے گئے کہ کسی آدمی کی روح قبض کرتے وقت وہ یہ دیکھیں کہ اس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، اس کی جوان بیوی ہے، یا اس کے جوان والدین ہیں، ان کا دل صدمے سے پھٹ جائے گا۔ ان فرشتوں کے ہاں ایسی کسی بات کا کوئی سوال نہیں۔ ان کو حکم ہوتا ہے کہ فلاں کی روح قبض کرو، وہ فرشتہ جائے گا اور اس کی روح قبض کرے گا۔ اس کو اس بات کی کچھ پروا نہیں ہوگی کہ اس کے پس ماندگان پر کیا گزرے گی۔
اس بات کو اس طرح فرمایا کہ: لّاَیَعْصُونَ اللّٰہَ مَآ اَمَرَھُمْ، ’’اللہ ان کو جس بات کا حکم دے وہ اس کی حکم عدولی کبھی نہیں کرتے‘‘۔ اگر اللہ کا حکم ہے کہ فلاں پر رحم نہ کھائو، اس پر سختی کرو تو وہ ایسا ہی کرے گا کیونکہ اس کے سپردکام ہی یہ کیا گیا ہے۔ مزید فرمایا: وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ، ’’جو کچھ حکم اُن کو دیا جاتا ہے وہی کچھ وہ کرتے ہیں‘‘۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اِبلیس بھی فرشتہ تھا تو یہ بات غلط ہے۔ اس لیے کہ فرشتوں کی توفطرت ہی یہ ہے کہ ان کو جو حکم دیا جائے اس کی تعمیل کی جائے۔ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنا اُن کی فطرت ہی میں نہیں ہے لیکن ابلیس نے اللہ کے حکم کی نافرمانی کی۔ قرآنِ مجیدہی میںبیان کیا گیا ہے، اس لیے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ ابلیس پہلے فرشتوں میں سے تھا۔
پھر فرمایا:
یاَیُّھَا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لاَ تَعْتَذِرُوا الْیَوْمَ اِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ o (اس وقت کہا جائے گاکہ) اے کافرو! آج معذرتیں پیش نہ کرو، تمھیں تو ویسا ہی بدلہ دیا جا رہا ہے جیسے تم عمل کر رہے تھے۔
جب کافروں کو جہنم میں داخل کیا جائے گا اس وقت ان سے یہ بات فرمائی جائے گی ۔ یہ اس لیے کہ عُذر کرنے کے جتنے مواقع تھے وہ دنیا میں موت آنے سے یا خدا کا عذاب آنے سے پہلے پہلے تھے۔ اب اس کے بعد جب جزا کا دور شروع ہورہا ہے، اس وقت معذرت کا کوئی سوال نہیں۔ اب تمھیں اپنے اعمال کی جزا کا سامنا ہے۔ اب عُذرخواہی کا کوئی موقع نہیں۔
یایُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْٓا اِلَی اللّٰہِ تَوْبَۃً نَّصُوْحًا ط عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یُّکَفِّرَ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَیُدْخِلَکُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ لا یَوْمَ لاَ یُخْزِی اللّٰہُ النَّبِیَّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ ج نُوْرُھُمْ یَسْعٰی بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَبِاَیْمَانِھِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَاغْفِرْ لَنَا ج اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌo (۶۶:۸)، اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے توبہ کرو، خالص توبہ، بعید نہیں کہ اللہ تمھاری بُرائیاں تم سے دُور کردے اور تمھیں ایسی جنتوں میں داخل فرما دے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ یہ وہ دن ہوگا جب اللہ اپنے نبیؐ کو اور اُن لوگوں کو جو اُس کے ساتھ ایمان لائے ہیں رُسوا نہ کرے گا۔ اُن کا نور اُن کے آگے آگے اور اُن کے دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا، اور وہ کہہ رہے ہوں گے کہ ہمارے رب! ہمارا نور ہمارے لیے مکمل کردے اور ہم سے درگزر فرما، تو ہرچیز پر قدرت رکھتا ہے۔
یہ جو فرمایا کہ توبۃ النصوح کرو، اس سے مراد ہے خالص توبہ، ایسی توبہ جو سچے دل کے ساتھ کی جائے۔ یہ لفظ نصیحت سے ماخوذ ہے جو عربی زبان میں خیرخواہی اور اِخلاص کے معنی میں استعمال ہوتا ہے (اُردو میں اس کا استعمال مختلف ہے)۔
نصوح وہ شخص ہے جو اپنا خیرخواہ ہے، اپنا بدخواہ نہیں ہے۔ لیکن اگر ایک شخص سے کوئی قصور سرزد ہو، اور اس کے بعد وہ اللہ کے سامنے شرمندہ نہیں ہوتا، اُس سے معافی نہیں مانگتا، توبہ نہیں کرتا تو اس کے معنی یہ ہیںکہ وہ خود اپنا بدخواہ ہے۔ پہلے اس نے گناہ کیا، جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک تو اس نے اپنے ساتھ بدخواہی کی۔ دوسری طرف وہ اپنے رب کے سامنے توبہ بھی نہیں کرتا، ا س سے معافی بھی نہیں مانگتا، یہ اپنے ساتھ اس کی گناہ کے ارتکاب سے بھی بڑی بدخواہی ہے، کیونکہ اس طرح وہ اپنے آپ کو خود خدا کے عذاب کا مستحق بنا رہا ہے۔
اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کوئی شخص قصور کرتا ہے اور پھر اس پر ڈٹ جاتا ہے تو جس کا وہ قصور کرتا ہے وہ لامحالہ اس کو اس کے قصور کی سزا دے گا۔ اس طرح وہ شخص خود اپنی شامت کو بلاتا ہے۔ چنانچہ توبۃ النصوح کے معنی یہ ہوئے کہ جو شخص اپنا خیرخواہ ہو اور اپنی شامت نہ بلانا چاہتا ہو، بلکہ اپنی بھلائی چاہتا ہو،اس کا رویہ یہ ہونا چاہیے کہ وہ خطا سرزد ہوجانے کے بعد اس پر نادم ہو، اور سچے دل سے اللہ کے حضور توبہ کرے، اس سے معافی چاہے۔
حضرت علیؓ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ اس طرح توبہ و استغفار کر رہا ہے کہ جلدی جلدی اپنی زبان چلا رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ ’’الٰہی مجھے معاف کر، الٰہی مجھے معاف کر‘‘۔ حضرت علیؓ نے اس سے فرمایا کہ یہ توبۂ کذابین ہے کیونکہ ایک آدمی، جس کو واقعی اپنے گناہ کا احساس ہو، اور وہ اپنے قصور کا اعتراف کر رہا ہو تو وہ اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کر دعا مانگے گا، نہ یہ کہ مارا مار زبان ہلاتا جائے۔ یہ تو توبۂ کذابین ہے۔ ایسے شخص کے دل میں نہ کوئی شرمندگی اور ندامت کا احساس ہے اور نہ وہ سچے دل سے توبہ کر رہا ہے۔اس طرح ایک آدمی کا لہجہ بتا دیتا ہے کہ وہ کس قسم کی توبہ کر رہا ہے۔
اس طرح جب نماز میں لوگ جلدی جلدی اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ o مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ کہتے ہیں تواس کے معنی یہ ہیں کہ ان کو معلوم ہی نہیں کہ وہ کیا عرض کر رہے ہیں اور کس ہستی کے سامنے کھڑے ہیں۔ بس چند الفاظ ہیں جو وہ بے سوچے سمجھے بولتے چلے جارہے ہیں۔ ایسے ہی توبۃ النصوح میں یہ بات بھی شامل ہے کہ آدمی کا لہجہ، اس کا چہرہ، اس کا اندازِ بیان، یہ ساری چیزیں یہ بتارہی ہوں کہ وہ واقعی اپنے خدا کے سامنے شرمندہ ہے اور اس سے معافی مانگ رہا ہے۔ ایسا نہیں کہ وہ بس کچھ لگے بندھے الفاظ اپنی زبان سے ادا کرکے یہ سمجھ لے کہ اس نے سچ مچ توبہ کرلی ہے۔
اس کے بعد یہ جو بات فرمائی گئی کہ اگر تم ایسا کرو گے تو اللہ تعالیٰ تم سے تمھاری بُرائیاں دُور کرے گا، اس کے معنی یہ ہیں کہ توبہ کرنے سے آدمی کے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں، حتیٰ کہ شرک جس سے بڑا تو کوئی گناہ نہیں ہے اس سے بھی آدمی سچے دل سے توبہ کرے اور توحید پر کاربند ہوجائے تو اگر اس نے ساری عمر بھی شرک کیا ہو تو اللہ تعالیٰ اسے معاف کردیتا ہے___ توبہ کرنے کے بعد اگر آدمی کو گھنٹہ بھر بھی زندہ رہنے کا موقع نہ ملا ہو، تب بھی جو کچھ اس نے کیا ہوگا وہ سب معاف ہوجائے گا۔ قرآن مجید میں توبہ کی یہ خاصیت بیان کی گئی ہے کہ وہ آدمی کے سارے گناہوں کو ساقط کردیتی ہے۔اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں سے کوئی ضد نہیں ہے کہ ضرور اُن کو سزا دے کر ہی چھوڑنا ہے۔ اگر ایک شخص کو اپنے غلط رویّے کا احساس ہوگیا ہے اور وہ آیندہ ٹھیک چلنے کا عہد کر رہا ہے تو جس وقت بھی وہ ایسا کرے گا، اسی وقت اللہ تعالیٰ اس کو معاف کردے گا کیونکہ اللہ سے بڑھ کر اپنی مخلوق کے ساتھ محبت کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ اُسی کے تو پیدا کیے ہوئے اور اُسی کے تو پالے ہوئے ہیں۔ وہی ان سے محبت نہ کرے گا تو اور کون کرے گا۔ چنانچہ یہ فرمایا کہ اگر تم سچے دل سے توبہ کرلو گے تو میں تمھاری تمام بُرائیاں تم سے دُور کردوں گا، ان کو تمھارے حساب سے ساقط کردوں گا، وہ تمھارے نامۂ اعمال میں موجود ہی نہیں رہیں گی بلکہ مٹادی جائیں گی۔
اس کے بعد فرمایا کہ جو لوگ جنت میں داخل کیے جائیں گے (اور جن کی توبہ قبول ہوجائے گی)، اس روز اُن کا نور اُن کے آگے آگے دوڑ رہا ہوگا۔ قرآنِ مجید میں دوسرے مقامات پر اس بات کی جو تفصیلات ملتی ہیں اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے روز میدانِ حشر میں کامل تاریکی ہوگی، روشنی صرف ان لوگوں کو ملے گی جن کے پاس ایمان اور ایمان کے مطابق ڈھالے ہوئے اعمال اور اخلاق ہوں گے۔ اُس روز سایہ بھی ملے گا تو اُن لوگوں کو جن کو اللہ اپنے سایے میں پناہ دے، اور روشنی بھی ملے گی تو ان لوگوں کو ملے گی جو اللہ کے پاس ایمان کا سرمایہ لے کر آئیں گے۔ وہی ایمان اُن کے لیے وہ نور بن جائے گا جس کے ذریعے سے وہ اپنے گردوپیش دیکھیں گے اور اپنا راستہ پائیں گے۔ جب ایک طرف اہلِ ایمان جنت میں جارہے ہوں گے تو دوسری طرف کفار اور مشرکین اور منافقین کامل تاریکی میں ٹھوکریں کھاتے ہوئے جہنم کی طرف جارہے ہوں گے۔
احادیث میں یہ بات بتائی گئی ہے کہ میدانِ حشر میں کسی آدمی کی روشنی کا انحصار وہاں اس بات پر ہوگا کہ کیسا کچھ مخلصانہ ایمان اور کیسا کچھ مخلصانہ عمل اس کے پاس تھا۔ نیز یہ کہ اُس نے دنیا میں اللہ کے دین کو پھیلانے کے لیے کیا کچھ کام کیا تھا۔ اِسی پر اس بات کا فیصلہ ہوگا کہ وہاں جاکر اس کو کیسی روشنی ملے گی، یعنی کتنی طاقت کا بلب اس کی ٹارچ میں لگا ہوا ہوگا اور یہاں دنیا میں اس نے اعمالِ صالحہ کے ذریعے سے کتنی بجلی پیدا کی تھی جس کی طاقت کے مطابق اُتنا نور اس کو ملے گا۔
احادیث میں یہ بھی آتا ہے کہ کسی شخص کا نور وہاں اتنا پھیلے گا کہ جیسے مدینہ سے صنعا تک کا فاصلہ ہے، یعنی ہزار میل کے لگ بھگ فاصلے تک اس کا نور پھیلے گا۔ گویا وہ کسی زبردست سرچ لائٹ کی طرح ہوگا جس کی روشنی دُور تک پھیلتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کوئی شخص ایسا ہوگا کہ اس کا نور اس کے قدموں سے آگے نہیں جائے گا، لیکن بہرحال وہ نور سے محروم نہیں ہوگا۔ جس درجے کے ایمان اور اعمالِ صالحہ کے سرمایے کے ساتھ وہ میدانِ حشر میں پہنچے گا، اس کے پاس اسی درجے کا نور ہوگا، خواہ اپنے قدموں تک ہو اور خواہ ہزار میل تک ہو۔ پھر فرمایا کہ جب اہلِ ایمان کا نور اُن کے آگے آگے دوڑ رہا ہوگا تو وہ کہہ رہے ہوں گے:
رَبَّنَآ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَاغْفِرْ لَنَا ، اے ہمارے رب ہمارے نور کو ہمارے لیے مکمل کردے اور ہم سے درگزر فرما۔
یعنی اگر یہاں ہم سے کوئی کوتاہی ہوئی ہے جس کی وجہ سے ہمیں کم نور ملا ہے تو اے پروردگار! ہمارے نور کو بڑھا دے، ہم سے درگزر فرما اور ہماری کوتاہیاں معاف کردے۔ گویا ہرآدمی یہ دیکھے گا کہ میرے پاس کتنا کم نور ہے اور مجھے کتنا زیادہ نور درکار ہے، اور اس کے لحاظ سے وہ اپنے رب سے اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا کی درخواست کرے گا، اور یہ بھی دعا کرے گا کہ: وَاغْفِرْلَنَا، ’’ہمیں بخش دے‘‘۔
یہ بات وہ اس وجہ سے کہے گا کہ اس کے نور میں جو کچھ بھی کمی ہے وہ دراصل اس وجہ سے ہے کہ اس کے عمل میں کمی تھی۔ اسی لیے وہ اللہ تعالیٰ سے التجا کرے گا کہ تو مجھ سے درگزر فرما اور اس کمی کی تلافی فرما کر میرے نور کو میرے لیے مکمل کردے۔
یاَیُّھَا النَّبِیُّ جَاہِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنٰفِقِیْنَ وَاغْلُظْ عَلَیْھِمْ وَمَاْوٰھُمْ جَھَنَّمُ ط وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ o (۶۶:۹)، اے نبیؐ! کفار اور منافقین سے جہاد کرو اور اُن کے ساتھ سختی سے پیش آئو۔ اُن کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بہت بُرا ٹھکانا ہے۔
یہاں کفار کے ساتھ منافقین کو بھی شامل کیا گیا ہے اور ان دونوں کے خلاف جہاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہاں لازماً جہاد کو قتال کے معنی میں نہ لیا جائے۔ قتال اور چیز ہے اور جہاد اور چیز ہے۔ منافقین سے قتال اُس وقت تک نہیں ہوگا جب تک کہ وہ حربی کافروں سے نہ جاکر مل جائیں، یعنی ان کافروں کے ساتھ جو برسرِ جنگ ہوں۔ چنانچہ جب تک قتال کی ضرورت نہ پیش آجائے۔ ان کے خلاف صرف جہاد کیا جائے گا۔
منافقین کے ساتھ جہاد کے معنی یہ ہیں کہ ان کا زور توڑا جائے گا۔ اُن کو ذلیل و خوار اور بے وقعت کرنے کی کوشش کی جائے گی، اُن کی بات نہ چلنے دی جائے گی، اور اگر اُن کی کوئی مالی یا اخلاقی طاقت ہے تو اس کو توڑا جائے گا۔ اگر معاشرے میں ان کی دولت و امارت اور ریاست و سیادت کے اثرات پائے جاتے ہیں تو وہ توڑے جائیں گے۔ غرض یہ ہے کہ منافقین کے مقابلے میں مسلسل جدوجہد کی جائے گی تاکہ ان کا زور ٹوٹ جائے اور وہ بے حیثیت ہوکر رہ جائیں۔ اگر کسی معاشرے میں منافقین کا اثرورسوخ پایا جاتا ہو تو وہ اس معاشرے کو خراب کر کے رہتے ہیں۔ منافقین کی یہ خاصیت ہوتی ہے کہ ان کو بُرائی سے محبت اور بھلائی سے نفرت ہوتی ہے۔ اگر کہیں بھلائی کو فروغ حاصل ہو رہا ہوتو منافقین کے حلقے میں ایک کہرام مچ جاتا ہے کہ کیا اب ہمارے ہوتے ہوئے اس معاشرے میں بھلائی بھی پھیلے گی! کیا اب لوگ نمازیں پڑھیں گے، زکوٰۃ دیں گے، مردوں عورتوں کے آزادانہ میل جول کو روکیں گے۔ کاروبار میں دیانت داری اور ایمان داری اختیار کریں گے۔ اس کے برعکس اگر کہیں برائی کا کوئی کام ہورہا ہو تو ان کو بڑی مسرت ہوتی ہے کہ لوگوں میں ’روشن خیالی‘ عام ہورہی ہے، آرٹ سوسائٹیاں قائم ہورہی ہیں، مصوری اور موسیقی کا چرچا ہو رہا ہے۔ اس طرح ان کے دل کھِل جاتے ہیں اور ان کی ساری طاقتیں بُرائی کو پھیلانے اور بھلائی کو دبانے میں صرف ہوتی ہیں۔ اگر کہیں کوئی بھلائی پنپ رہی ہو تو بیٹھ بیٹھ کر کانفرنسیں کریں گے، باہمی مشورے کریں گے کہ اس بھلائی کا کیسے سدّباب کیا جائے۔ آغاز ہی میں اس کی سرکوبی کیسے کی جاسکتی ہے۔ یہ منافقین کا خاصہ ہوتا ہے۔ اس لیے ان کے خلاف جہاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
اس جہاد سے مراد یہ بھی ہے کہ ان کے مقابلے میں کوئی ایسا رویّہ اختیار نہ کیا جائے جس سے اُن کی حوصلہ افزائی ہو اور اُن کی ہمتیں بڑھیں۔ ان کے مقابلے میں اگر کوئی سخت کارروائی کرنا ضروری ہے تو اس سخت کارروائی سے اپنی نرم مزاجی کی بنا پر گریز نہ کیا جائے۔ جو وقت سختی کرنے کا ہے اس میں سختی ہی کرنی چاہیے۔ اس وقت اگر آدمی نرمی اختیار کرتا ہے تو یہ اسلامی اخلاق نہیں ہے۔ اسلامی اخلاق یہ ہے کہ جو مقام نرمی کرنے کا ہے وہاں نرمی کی جائے اور جو مقام سختی کرنے کا ہے وہاں سختی ہی کی جائے۔ جس مقام پر اللہ کے رسولؐ نے سختی کی ہے وہاں ہماری طرف سے نرمی کا مظاہرہ کرنے کا کیا جواز ہے؟ جب اللہ تعالیٰ نے حکم دے دیا کہ منافقین کے ساتھ سخت برتائو کرو وہاں نرمی کیسے برتی جاسکتی ہے۔
آپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقین کی تعمیرکردہ مسجد ’مسجدِضرار‘ کیسے گرا دی تھی اور منافقین کو کس طرح سے مسجدوں سے نکال دیا گیا تھا۔ اس لیے یہ بات فرمائی گئی ہے کہ منافقین کا زور توڑنے کے لیے جو سختی کرنی ضروری ہے اس میں کمی نہ کرو۔ منافقین کا انجام یہ ہے کہ: وَمَاْوٰھُمْ جَھَنَّمُ ط وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ ، ’’اُن کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بہت بُرا ٹھکانا ہے‘‘۔
ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَــلًا لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا امْرَاَتَ نُوْحٍ وَّامْرَاَتَ لُوْطٍ ط کَانَتَا تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَیْنِ فَخَانَتٰہُمَا فَلَمْ یُغْنِیَا عَنْہُمَا مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا وَّقِیْلَ ادْخُلاَ النَّارَ مَعَ الدّٰخِلِیْنَo (۶۶:۱۰)، اللہ کافروں کے معاملے میں نوحؑ اور لوطؑ کی بیویوں کو بطور مثال پیش کرتا ہے کہ وہ ہمارے دو صالح بندوں کی زوجیت میں تھیں، مگر انھوں نے اپنے اِن شوہروں سے خیانت کی، اور وہ اللہ کے مقابلے میں اُن کے کچھ بھی نہ کام آسکے۔ دونوں سے کہہ دیا گیا کہ جائو آگ میں جانے والوں کے ساتھ تم بھی چلی جائو۔
یہاں جو چیز ذہن نشین کرائی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کسی شخص کے لیے یہ بات ذرّہ برابر بھی نافع نہیں ہے کہ اس کا رشتہ داری کا تعلق اللہ کے کسی نبی ؑسے یا کسی دوسرے نیک بندے سے ہے۔ یہاں جو چیز بھی نافع ہے وہ انسان کا اپنا عمل اور اس کا اپنا ایمان ہے۔ اگر کوئی شخص ایمان اور عمل سے خالی ہو، اور اللہ تعالیٰ کے عذاب کا مستحق بن جائے، تو اس کے بعد وہ صرف اس لیے نہیں چھوڑ دیا جائے گا کہ وہ کسی نبی کا بیٹا ہے، یا کسی نبی سے اس کی رشتہ داری ہے۔ اس گرفت سے نبی کی بیویاں بھی نہیں بچ سکتیں۔ اس چیز کو قرآنِ مجید میں متعدد مقامات پر بیان کیا گیا ہے۔ یہاں حضرت نوح اور حضرت لوط علیہما السلام کی بیویوں کا ذکر ہے، اور سورئہ ہود میں حضرت نوحؑ کے بیٹے کا ذکر ہے۔ وہاں اس سے زیادہ وضاحت کے ساتھ یہ بتایاگیا ہے کہ جب حضرت نوحؑ نے اپنے بیٹے کو طوفان میں ڈوبتے ہوئے دیکھ لیا تو کشتی کنارے پر جالگنے کے بعد اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی کہ تو میرے بیٹے کو بچا لے کیوں کہ وہ میرے اہل میں سے ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ناراضی کا اظہار کیا گیا۔ بجاے اس کے کہ اُن کی دعا قبول کر کے ان کے بیٹے کو بچالیا جاتا، اس بات پر سرزنش فرمائی گئی کہ وہ تیرا اہل نہیں ہے، وہ ایک بگڑا ہوا کام ہے، اُس کے لیے بخشش نہیں ہے، کیونکہ یہ موقع فیصلے کا ہے۔ جو موقع کفر اور ایمان کے فیصلے کا ہو اس وقت یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کون کس کا رشتہ دار ہے۔
سورئہ بقرہ میں جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے فرمایا کہ: اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا (البقرہ ۲:۱۲۴)، ’’میں تمھیں تمام دنیا کے انسانوں کا امام بناتا ہوں‘‘۔ اس پر انھوں نے عرض کیا: وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ ط (۲:۱۲۴)، ’’میری نسل کے متعلق کیا حکم ہے؟‘‘ فرمایا کہ: لَا یَنَالُ عَھْدِی الظّٰلِمِیْنَ o (۲:۱۲۴)، ’’میرا عہد ظالموں سے نہیں ہے‘‘۔تمھاری اولاد ہے تو ہو، لیکن جو ظالم ہوگا اس کے لیے میرا عہد نہیں۔
قریشِ مکہ اس بات پر فخر کرتے تھے کہ وہ ابراہیم علیہ السلام سے نسبت رکھتے ہیں۔ عرب میں قریش کی پیری اور مشیخت چل ہی اس بل پر رہی تھی کہ وہ حضرت ابراہیم ؑکی اولاد ہیں۔ لیکن سورئہ بقرہ میں دراصل قریش کو یہ سنایا گیا ہے کہ ابراہیم ؑکے ساتھ تمھاری نسبت اللہ تعالیٰ کے ہاں تمھارے لیے فخر اور عزت کا کوئی مقام پیدا نہیں کرتی، جب تک کہ تم خود ایمان پر قائم نہ ہوجائو۔
اسی طرح اہلِ کتاب، یعنی یہود اور نصاریٰ، حضرت ابراہیم ؑ اور دوسرے انبیاؑ کے ساتھ اپنی نسبت پر فخر کرتے تھے۔ یہودیوں کا یہ فخر تھا کہ ہم انبیا کی اولاد ہیں۔ ان سے صاف طور پر فرما دیا گیا کہ: تِلْکَ اُمَّۃٌ قَدْ خَلَتْ ج لَھَا مَا کَسَبَتْ وَ لَکُمْ مَّا کَسَبْتُمْ (البقرہ ۲:۱۳۴)، ’’یہ ایک اُمت تھی جو گزر گئی جو کچھ اُس نے کمایا وہ اس کے لیے ہے اور جو کچھ تم کمائو گے وہ تمھارے لیے ہے‘‘۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ ان کی کمائی کا کوئی فائدہ تمھیں پہنچے۔ تمھیں جو کچھ بھی فائدہ پہنچ سکتا ہے وہ اپنی کمائی کا ہوگا۔
احادیث میں یہ بات آتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر اپنے خاندان والوں کو پکار پکار کر فرمایا کہ ’’اے فاطمہؓ بنت محمدؐ ،اپنی عاقبت کی فکر کرلے، میں تیرے کسی کام نہیں آئوں گا‘‘۔ اپنی پھوپھی کو مخاطب کر کے فرمایا: اے صفیہ بنت عبدالمطلب، اپنی عاقبت کی فکر کرو، میں تمھارے کسی کام نہیں آسکوں گا۔
اسی مضمون کو یہاں بیان کیا گیا کہ نوح اور لوط علیہما السلام دونوں کی بیویاں اگرچہ نبی ؑکی بیویاں تھیں لیکن چونکہ اُنھوں نے خیانت کی اس لیے اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ان کو کوئی چیز بچانے والی نہ تھی۔ خیانت سے مراد یہ نہیں ہے کہ انھوں نے نعوذباللہ کوئی بدکاری کی تھی۔ نہیں، بلکہ خیانت سے مراد یہ ہے کہ وہ نبی کی بیویاں ہوکر، نبی کے گھر میں بیٹھ کر نبی کے مشن کی مخالفت کرتی تھیں۔ لوط علیہ السلام کی بیوی کے متعلق قرآن مجید میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ وہ اپنی کافر قوم سے ملی ہوئی تھی۔ اسی وجہ سے جب اللہ تعالیٰ نے لوط علیہ السلام کو حکم دیا کہ تم اس بستی سے نکل جائو، تو صاف طور پر ہدایت کردی کہ اپنی بیوی کو ساتھ لے کر نہ جانا۔ اور وہ اس طرح اپنی قوم کے ساتھ عذاب میں مبتلا ہوئی جس طرح ساری قوم مبتلا ہوئی۔ حضرت نوحؑ کی بیوی کا بھی یہی معاملہ ہے کہ اس نے ساری عمر اُن کے ساتھ رہتے ہوئے بھی ان کا ساتھ نہیں دیا اور نبی ؑکے اُس مشن کی مخالفت کی جس کے لیے انھوں نے اپنی ساری زندگی کھپا دی تھی۔
پھر یہ جو فرمایا کہ: وَّقِیْلَ ادْخُلاَ النَّارَ مَعَ الدّٰخِلِیْنَ، ’’دوزخ میں داخل ہونے والوں کے ساتھ تم بھی دوزخ میں جائو‘‘۔ یہ مَعَ الدّٰخِلِیْنَ کے الفاظ غیرضروری نہیں ہیں بلکہ ان میں واضح طور پر اس طرف اشارہ ہے کہ جس طرح دوسرے لوگ جہنم میں جارہے ہیں، اُسی طرح سے تم بھی چلی جائو۔ دوسرے لوگوں سے اللہ کی کوئی ذاتی عداوت نہیں ہے، اور تم سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ دوسروں کو جہنم میں دھکیلا جا رہا ہو لیکن تمھیں اس وجہ سے بچالیا جائے، جب کہ تم نبی ؑ کی بیویاں ہو۔ نہیں، بلکہ جس طرح دوسرے لوگ جہنم میں جارہے ہیں اسی طرح تم بھی جہنم میں داخل ہوجائو۔ [العیاذ باللّٰہ]
وَضَرَبَ اللّٰہُ مَثَــلًا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا امْرَاَتَ فِرْعَوْنَم اِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَکَ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ وَنَجِّنِیْ مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِہٖ وَنَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَo (۶۶:۱۱)، اور اہلِ ایمان کے معاملے میں اللہ فرعون کی بیوی کی مثال پیش کرتا ہے، جب کہ اُس نے دعا کی:’’اے میرے رب، میرے لیے اپنے ہاں جنت میں ایک گھر بنادے اور مجھے فرعون اور اُس کے عمل سے بچا لے، اور ظالم قوم سے مجھ کو نجات دے‘‘۔
اُوپر پہلے کافروں کی مثال دی گئی تھی، اب یہاں ایمان لانے والوں کے لیے مثال دی گئی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نیک لوگوں کے لیے مثال کے طور پر فرعون کی بیوی کو پیش کرتا ہے، جب کہ اس نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ ’’خدایا میرے لیے جنت میں ایک گھر بنا دے اور مجھے فرعون اور اس کے عمل سے، اور ظالم قوم سے نجات عطا فرما‘‘۔
فرعون جیسا دشمنِ دین اور دشمنِ خدا تھا، اس پر قرآنِ مجید میں نہایت سخت الفاظ میں لعنت بھیجی گئی ہے اور اس کو مردود قرار دیا گیا ہے۔ حضرت آسیہ فرعون کے گھر میں تھیں لیکن چونکہ ایمان لائی ہوئی تھیں اور اُس قوم کے عمل سے بیزار تھیں اس لیے اللہ تعالیٰ ان کی مثال دیتا ہے کہ ان کو دیکھو کہ وہ کس گھر میں تھیں۔ لیکن ان کے لیے فرعون کی بیوی ہونا کسی نقصان کا مُوجب نہیں ہوا کیونکہ وہ ایمان لائی ہوئی تھیں۔ اس طرح اس بات کی پوری طرح صراحت کردی گئی کہ اگر کوئی عورت غلط راستے پر جائے تو نبی ؑ کی بیوی ہوتے ہوئے بھی سزا سے نہیں بچ سکتی لیکن اس کے برعکس ایک عورت کسی بدترین کافر اور دشمنِ خدا کے گھر میں رہتے ہوئے بھی مبتلاے عذاب نہیں ہوسکتی۔ مزیدبرآں ایمان کی وجہ سے اور اپنے عمل کی وجہ سے وہ ظالموں کے عمل سے بھی محفوظ رہے گی۔
پھر ارشاد فرمایا گیا:
وَمَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِیْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَھَا فَنَفَخْنَا فِیْہِ مِنْ رُّوْحِنَا وَصَدَّقَتْ بِکَلِمٰتِ رَبِّھَا وَکُتُبِہٖ وَکَانَتْ مِنَ الْقٰنِتِیْنَ o (۶۶:۱۲)، اور [اللہ] عمران کی بیٹی مریمؑ کی مثال دیتا ہے جس نے اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی تھی، پھر ہم نے اُس کے اندر اپنی طرف سے روح پھونک دی، اور اُس نے اپنے رب کے ارشادات اور اُس کی کتابوں کی تصدیق کی اور وہ اطاعت گزار لوگوں میں سے تھی۔
حضرت مریم علیہا السلام کو یہاں کس وجہ سے بطورِ مثال پیش کیا گیا ہے؟ حضرت مریم ؑ کو اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی شدید آزمایش میں ڈالا تھا جس میں دنیا کی کسی دوسری عورت کو نہیں ڈالا گیا۔ حضرت مریم ؑکا قصہ سورۂ آلِ عمران میں بھی گزرچکا ہے، اور سورئہ مریم ؑمیں بھی بیان ہوا ہے۔اس میں جو بات بتائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ان کی والدہ نے ان کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے وقف کردیا تھا۔ وہ جوانی کی عمر کو اس حال میں پہنچیں کہ ان کی زندگی نہایت پاکیزہ تھی۔ ہروقت اللہ کی یاد میں مصروف رہتی تھیں۔ غیرشادی شدہ اور کنواری تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ اُن کے بطن سے حضرت عیسٰی ؑکو پیدا کرے۔
یہاں بھی اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ہم نے ان کے رحم پر اپنی خاص روح پھونکی۔ بغیر اس کے کہ ان کی شادی ہو، اُن کے ہاں اولاد پیدا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ایک روح ان کے اندر پھونک دی اس طرح حضرت عیسٰی ؑپیدا ہوئے۔
سورئہ مریمؑ میں یہ قصہ آتا ہے کہ جس وقت وہ حاملہ ہوئیں تو ان کی جان اِس وجہ سے گھلی جاتی تھی کہ میں یہاں اس عبادت گاہ کے اندر رات دن عبادت میں مشغول ہوں۔ کنواری لڑکی ہوں، شادی میری ہوئی نہیں ہے۔ اب یکایک میرا حمل ظاہر ہوا تو مجھ پر کیا گزرے گی، اور میری قوم کیا کہے گی۔ چنانچہ قرآنِ مجید میں بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس بات سے باخبر کردیا تھاکہ ہم تمھیں ایک عظیم آزمایش میں ڈالنے والے ہیں۔ تمھارے بطن سے ایک لڑکا پیدا کریں گے جو ایسا اور ایسا ہوگا۔ انھوں نے عرض کیا کہ میری تو شادی ہی نہیں ہوئی، میرے ہاں بچہ کیسے پیدا ہوگا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اِسی طرح ہوگا۔ اللہ کی طرف سے جب یہ فیصلہ اُن کو سنایا گیا تو انھوں نے سرتسلیم خم کردیا۔یہ نہیں کہا کہ میں اپنے آپ کو اس آزمایش میں ڈالنے کے لیے تیار نہیں ہوں، بلکہ عرض کیا کہ اگر میرے رب نے مجھے اس آزمایش میں ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے تو مجھے منظور ہے۔
اس کے بعد سورئہ مریم ؑمیں یہ سارا قصہ آیا ہے کہ جب انھوں نے دیکھا کہ حمل کے آثار ظاہرہو رہے ہیں تو وہ اپنا ٹھکانا چھوڑ کر نکل گئیں اور بیت المقدس میں جاکر پناہ ڈھونڈ لی۔ وہاں جب ان پر زچگی کا وقت آیا تو اُن کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں تھا، بالکل تن تنہا تھیں، نہ کوئی پانی پلانے والا تھا اور نہ کوئی غذا دینے والا۔ اس حالت میں اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے پانی کا یہ انتظام کیا کہ ایک چشمہ جاری کیا، اور ان کے بالکل سر کے اُوپر جو کھجور کا درخت اُگا ہوا تھا، اس کے بارے میں ان سے کہا گیا کہ اس درخت کو ہلائو، تمھارے لیے تازہ کھجوریں گریں گی۔ یہ اس طرف اشارہ ہے کہ ایک مومنہ عورت کو اتنا بڑا مقام صرف اس وجہ سے ملا کہ اُس نے اپنے آپ کو اللہ کے حکم کے سامنے submit کردیا۔ وہ اللہ کی رضا کے سامنے بالکل سپرانداز ہوگئیں کہ میرا رب مجھ سے جو کام لینا چاہتا ہے میں اس کے لیے حاضر ہوں۔ یہ وہ چیز تھی جو اُن کے لیے اتنے بلند مرتبے پر پہنچنے کا باعث بنی۔
اس سے پہلے آغاز میں جو مضمون گزرا ہے اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اَزواجِ مطہراتؓ کی بعض غلطیوں پر تنبیہہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے انھیں بتایا کہ یہ تین قسم کی عورتیں تمھارے سامنے بطور مثال ہیں۔ دو عورتیں نبی ؑ کی بیویاں تھیں لیکن غلط راستے پر گامزن ہوگئیں اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نبی ؑ کی بیوی ہونا اُن کے لیے کچھ بھی نافع نہ ہوا۔ دوسری طرف ایک عورت جو بدترین دشمنِ دین کے گھر میں تھیں لیکن جب انھوں نے ایمان اور عملِ صالح کا راستہ اختیار کیا تو ان کے لیے جنت میں مکان بنایا گیا۔ ان تین عورتوں کے ساتھ ایک یہ حضرت مریمؑ ہیں جنھوں نے اللہ کی مرضی کے آگے سرجھکا دیا اور سخت ترین آزمایش سے گزرتے ہوئے بھی اُن کے قدم نہ ڈگمگائے۔ اس کا ثمر اُن کو یہ ملا کہ اُن کو وہ مقام حاصل ہوا جو دنیا کی کسی عورت کو حاصل نہیں ہوا۔
یہاں یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ اگرچہ اس سارے بیان میں بعض عورتوں کو بطور مثال پیش کیا گیا ہے لیکن اس لحاظ سے عورتوں اور مردوں میں کوئی فرق نہیں ہے کہ ایمان اور عملِ صالح کے نتائج دونوں کے حق میں ایک جیسے ہیں۔ عورتوں کی طرح یہ اصول مردوں کے لیے بھی ہے کہ کسی نبی ؑ یا کسی اور برگزیدہ ہستی کے ساتھ ان کا کوئی رشتہ اور تعلق بجاے خود نافع نہیں ہے، بلکہ دراصل جو چیز فیصلہ کن ہے وہ آدمی کا اپنا ایمان اور اس کا اپنا عمل ہے۔(کیسٹ سے تدوین: حفیظ الرحمٰن احسن)
اس وقت پوری دنیا کو کسی ایسی ہستی کی اشد ضرورت ہے جو انسانیت کو ظالمانہ مادی طوفان سے نجات دلا سکے، جو اسے اخلاقی تباہی، روحانی خلا، معاشرتی ظلم اور نسلی امتیاز کی دلدل سے باہر نکال سکے، جو انسانیت کو اصول و قانون اور اقدار و روایات کی پامالی سے روک سکے۔ اس پامالی نے انسان کو تھکا ڈالا ہے، اُس کو حقوق سے محروم کر رکھا ہے اور عزتِ نفس کو مجروح کرکے رکھ دیا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ یہ سلسلہ انسان کو تعذیب و تشدد سے دوچار رکھنے تک جا پہنچا ہے۔ حتیٰ کہ دین، اخلاق اور ضمیر کی آواز کو خاطر میں لائے بغیر بے گناہ بچوں اور عورتوں کا خون بہانا اور انھیں قتل کرنا معمول بن گیاہے۔
برباد ہوتی انسانیت کو اس بدترین صورت حال سے وحی الٰہی اور اللہ تعالیٰ کے فرستادہ رسول کی ہدایت کے سوا کوئی نجات نہیں دلا سکتا، اور یہ رسول حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی نہیں کیونکہ آپؐ ہی نبی آخرالزماںؐ اور رحمت للعالمینؐ ہیں۔
نزولِ وحی اور بعثت ِ انبیا و رسل کا سلسلہ تخلیقِ آدم اور حضرت آدم ؑ و حواؑ کے زمین پر آباد ہونے کے ساتھ ہی شروع ہوگیاتھا، تاکہ انسانیت کو اللہ تعالیٰ کے وضع کردہ طریق زندگی سے آگاہ کیا جا سکے۔ یہ مخلوق پر اللہ تعالیٰ کی رحمت تھی کہ انبیا و رسل کی تعداد اچھی خاصی رہی، حتیٰ کہ بعض اوقات تو ایک سے زائد نبی ایک ہی زمانے میں بھیجے گئے۔ حضرت ابراہیم ؑ، حضرت اسماعیل ؑ، حضرت اسحاقؑ اور حضرت لوطؑ کا زمانۂ نبوت ایک ہی ہے۔ اسی طرح حضرت یعقوب ؑ اور حضرت یوسف ؑ کا زمانہ بھی ایک ہے۔ پھر حضرت موسٰی ؑاور حضرت ہارون ؑ ہیں۔ حضرت زکریاؑ، حضرت یحییٰ ؑ اور حضرت عیسٰی ؑبھی ایک ہی عہد کے نبی گزرے۔ یہ تمام نبی صرف اپنی اپنی اقوام کی طرف بھیجے گئے۔ حضرت عیسٰی ؑانبیاے بنی اسرائیل میں آخری نبی ہیں۔ آپ ؑ نے حضرت موسٰی ؑکی شریعت کی تصدیق فرمائی اور بنی اسرائیل پر سے اُن پابندیوں کو ہٹایا جو اُن کے اپنے ظلم کی بناپر تھیں۔ نبوتِ موسٰی ؑ کی تصدیق کے ساتھ حضرت عیسٰی ؑنے نبی آخرالزماں حضرت محمدؐ کی بعثت کی بشارت بھی دی۔ حضرت عیسٰی ؑنے واضح کیا کہ حضرت محمدؐ پوری انسانیت کے لیے بشیر و نذیر ہوں گے۔ قرآن کے بیان کے مطابق: وَاِذْ قَالَ عِیْسٰی ابْنُ مَرْیَمَ یٰـبَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰئۃِ وَمُبَشِّرًام بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْم بَعْدِی اسْمُہٗٓ اَحْمَدُط (الصف ۶۱:۶) ’’اور یاد کرو عیسٰی ؑابن مریمؑ کی وہ بات جو اس نے کہی تھی کہ ’’اے بنی اسرائیل ! میں تمھاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں، تصدیق کرنے والا ہوں اُس تورات کی، جو مجھ سے پہلے آئی ہوئی موجود ہے، اور بشارت دینے والا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا جس کا نام احمد ہوگا‘‘۔
یہ توقرآنِ مجید کا بیان ہے۔ خود لفظ ’انجیل‘کا سریانی زبان میں مفہوم ’بشارت‘ اور’خوش خبری‘ ہے۔انجیل یوحنا میں حضرت عیسٰی ؑکے بقول: ’’جب یہ روحِ حق [کا داعی نبی] آجائے گا تو وہ مکمل حق کی طرف تمھاری رہنمائی فرمائے گا۔ کیونکہ وہ اپنی طرف سے نہیں بولے گا بلکہ وہی کہے گا جو وہ سنے گا، اور وہ آیندہ کے امور کے بارے میں بھی تمھیں خبر دے گا‘‘ (یوحنا ۱۶:۱۲)۔ انجیل برناباس میں ہے: ’’عنقریب اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا نمایندہ (رسول) آئے گا جو پوری دنیا کے لیے رسول ہوگا… پھر اُس وقت پوری دنیا میں اللہ کو سجدہ کیا جائے گا اور دنیا پر رحمت سایہ فگن ہوگی‘‘ (۸۲:۱۶-۱۸)
حضرت عیسٰی ؑاور حضرت محمدؐ کی نبوت کے درمیان ۵۷۶ سال کا طویل وقفہ ہے۔ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نبی آخر الزماں بن کر تشریف لائے۔ آپؐ کی بعثت و رسالت کو چودہ صدیاں گزر چکی ہیں لیکن کوئی اور نبی نہیں آیا۔ یہ بات اس عقیدے کو قطعی و حتمی اور وحیِ الٰہی کو حق ثابت کرتی ہے کہ حضرت محمدؐ ہی آخری نبی ہیں۔ آپؐ ہی قیامت تک آخری نبی ہوں گے۔ آپؐ اپنی رسالت کے دائمی اور عالم گیر ہونے کے اسباب ساتھ لے کر آئے۔ آج دنیا کے ایک حصے کا دوسرے حصے کے ساتھ رابطہ نہایت آسان ہوچکا ہے، لہٰذا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیش گوئی میں آپؐ کی رسالت کے عالم گیر پھیلائو کی خبر سچ ثابت ہوچکی ہے: ’’یہ دین وہاں تک پہنچ کر رہے گا جہاں رات دن کا سلسلہ قائم ہے‘‘۔ اور فرمایا: ’’یہ دین کسی شہری، دیہاتی اور پتھر کے عہد کے گھر میں داخل ہوئے بغیر نہیں رہے گا‘‘۔
رسول کریم حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو ۴۰برس کی عمرمیں نبوت عطا ہوئی۔ آپؐ نے عمرکے اگلے ۲۳برس اس طرح گزارے کہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ طریق زندگی کو سب سے پہلے اپنی ذات پر نافذ کیا۔ پھر اپنے اہلِ خانہ پر، پھر اپنے صحابہؓ پر اور پھر تمام لوگوں پر اس کا نفاذ فرمایا۔ آپؐ لوگوں کے درمیان رہتے اور انھیں یہ تعلیم دیتے رہے کہ آسمانی طریق کے مطابق زمین پر زندگی کیسے گزاری جائے۔ آپؐ لوگوں کے عقیدے کو درست کرتے رہے، عبادات کی وضاحت کرتے رہے، اخلاقی رویو ں کی اصلاح کرتے رہے، اور لوگوں کے کردار کو بہتر بناتے رہے۔ آپؐ شریعت نافذ کرتے اور معاملات کو سدھارتے رہے۔ اس ساری جدوجہد کا مقصد پوری انسانیت کے لیے عدل و مساوات کو ممکن بنانا تھا تاکہ انسان بیک وقت دنیا و آخرت کی کامیابی حاصل کرسکیں۔ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَ ھُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃًج وَلَنَجْزِیَنَّھُمْ اَجْرَھُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَo (النحل ۱۶:۹۷)، ’’جو شخص بھی نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یاعورت، بشرطیکہ ہو وہ مومن ، اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور (آخرت میں) ایسے لوگوں کو اُن کے اجر، اُن کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے‘‘۔
آپؐ واحد نبی ہیں جن کے ہر قول و عمل بلکہ خاموشی پر مبنی کیفیت کو بھی محفوظ کرلیا گیا۔یہ عمل آپؐ کی حیاتِ مبارکہ کے پورے ۶۳برس کے طویل عرصے پر محیط ہے۔ اس کا مقصد اللہ کی کتاب قرآنِ مجید کے ساتھ آپؐ کی سنت کو بھی تمام انسانیت کے لیے قیامت تک دائمی ہدایت کے طور پر باقی رکھنا تھا۔
نبی آخر الزماں حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے اُمت کو عدم سے وجود میں لاکر اور اُسے کمال کے درجوں پر پہنچا کر دکھایا۔ پھر اس اُمت کی روشنی پھیل گئی۔ اس کے اصولوں نے دنیا کی قیادت کی اور تین براعظموں پر اس کی حکمرانی کا دور دورہ رہا۔ یہ سب کچھ صرف ۳۰برس سے بھی کم عرصے میں ہوا۔ اس کے بعد اس اُمت کا نور مزید پھیلااور مشرق و مغرب کی تمام تر انسانیت کو منور کرتا رہا۔ یہ نور یورپ پہنچا تاکہ اُسے قرونِ وسطیٰ کے اندھیروں سے نکال کر تہذیب و تمدن کی روشنی میں کھڑا کردے۔ تہذیب و تمدن کی یہ روشنی اسلامی تہذیب کے گہوارے اندلس کے توسط سے بلادِغرب کو نصیب ہوئی۔ اس بات کی شہادت مشرق و مغرب کے تمام انصاف پسندوں نے دی ہے۔ رسول کریم حضرت محمدؐ نے روح اور جسم کے درمیان عادلانہ توازن قائم فرمایا، تاکہ انسان کو نفسیاتی سکون مہیا ہوسکے۔ عین اس وقت جب آپؐ نے لوگوں کو آخرت کے لیے عمل کرنے کی ترغیب دی، انھیں یہ حکم بھی دیا کہ وہ دنیا سے اپنا حصہ وصول کرنا نہ بھول جائیں۔وَابْتَغِ فِیْمَآ اٰتٰکَ اللّٰہُ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ وَلَا تَنْسَ نَصِیْبَکَ مِنَ الدُّنْیَا (القصص ۲۸:۷۷)، ’’جو مال اللہ نے تجھے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر بنانے کی فکر کر اور دنیا میں سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کر‘‘۔
رسول کریم حضرت محمدؐ نے انسان کے لیے گھریلو امن و سکون کو ممکن بنا دیا۔ آپؐ نے انسان کے فطری تقاضے کی تکمیل، نفس کی پاکیزگی اور معاشرے کی تطہیر کے ساتھ زمینی آبادی کی غرض کو پورا کرنے کے لیے شادی کا حکم دیا۔ آپؐ نے شادی کے بندھن کو اس قدر اعلیٰ تقدس عطا کیا کہ اسے پختہ معاہدے (میثاقاً غلیظًا) کا نام دیا۔ آپؐ نے میاں بیوی کے تعلقات کو گھر کی سربراہی، اخراجات، بچوں کی نگہداشت اور وراثت کے اُمور کی صورت میں باقاعدہ قانونی نظام کا پابند کردیا۔ آپؐ نے انسان اور اس کے ماحول کے درمیان بھی ایک توازن قائم کیا۔ یہ توازن انسان کو کائنات کے وسائل سے استفادے کے مواقع بھی فراہم کرتا ہے اور ساتھ ہی ماحول کو آلودہ ہونے سے بچنے اور اُسے صاف ستھرا رکھنے کی ذمہ داری بھی سونپتاہے۔ کیونکہ اس ماحول میں صرف ایک ہی انسان کے حقوق نہیں ہیں بلکہ کئی نسلیں اس سے مستفید ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زمین میں خرابی پیدا کرنے سے منع کیا گیا ہے: وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِھَا (اعراف ۷:۵۶) ’’زمین میں فساد برپا نہ کرو جب کہ اس کی اصلاح ہوچکی ہے‘‘،بلکہ زمین کی آبادکاری اور اس کی بہتری وترقی کا حکم فرمایا گیا۔ آپؐ نے کاشت کاری کی ترغیب اور بنجر زمینوں کو آباد کرنے کا حکم دیا۔ آپؐ نے یہ عمل اس وقت بھی انجام دینے کا حکم فرمایا جب قیامت قائم ہوجائے۔ فرمایا: ’’جب قیامت قائم ہوجائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں شجرکاری کے لیے ایک کھجور کا پودا ہو تو بھی وہ اسے لگا دے‘‘۔
آپؐ نے حالت ِ جنگ میں بھی آبادی کی حفاظت اور اس کے اُوپر رحم کا حکم دیا ہے۔ فرمایا: ’’اللہ کے نام پر لشکرکشی کرو، کسی بچے، عورت اور عمررسیدہ بوڑھے کو قتل نہ کرو، کسی مکان کو مسمار نہ کرو اور کسی درخت کو نہ کاٹو‘‘۔ رسول کریمؐ کی یہ رحمت و شفقت انسان سے شروع ہوئی اور حیوان تک کے لیے عام ہوگئی۔ آپؐ نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ نے اُس آدمی کو بخش دیا جس نے ایک کتے کو پانی پلایا تھا جو پیاس کی شدت سے کیچڑ کھا رہا تھا‘‘۔آپؐ کا یہ بھی ارشاد ہے: ’’ہرزندہ چیز (کے ساتھ اچھا برتائو کرنے) پر تمھارے لیے اجر ہے‘‘۔
اسی بنا پر انگریز مؤرخ ولیم میور نے اپنی کتاب Life of Muhammad میں کہا ہے: ’’محمدؐ اپنی بات کے واضح ہونے اور دین کے آسان ہونے کے اعتبار سے ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ آپؐ نے کاموں کو ایسے مکمل کر دکھایا کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ تاریخ نے کوئی ایسا مصلح نہیں دیکھا جس نے اتنے مختصر عرصے میں اس طرز پر دلوں کو بیدار کیا ہو، اخلاق کو زندگی بخشی ہو اور اخلاقی قدروں کو بلندتر کردیا ہو۔ جس طرح پیغمبراسلام [حضرت] محمدؐ نے کرکے دکھایا‘‘۔
عظیم روسی فلسفی ٹالسٹائی نے کہا: ’’محمدؐ تو ایک بانی اور رسول ہیں۔ آپؐ اُن عظیم ترین افراد میں سے ہیں جنھوں نے انسانی معاشرے کے لیے جلیل القدر خدمات انجام دیں۔ آپؐ کے فخر کے لیے یہی کافی ہے کہ آپؐ نے پوری انسانیت کی نورحق کی طرف رہنمائی کی، اسے سکون و سلامتی سے ہم کنار کردیا، اور اس کے لیے تہذیب و ترقی کی شاہراہ کھول دی‘‘۔
امریکی دانش ور مائیکل ہارٹ کہتا ہے: ’’محمدؐ تاریخ انسانی میں واحد انسان ہیں جنھوں نے دینی اور دنیاوی دونوں میدانوں میں کامل کامیابی حاصل کی اور سیاسی و عسکری قائد قرار پائے‘‘۔
فرانسیسی فلسفی والٹر کہتا ہے: ’’محمدؐ جتنے طریقے بھی لائے وہ تمام نفس کو مطیع کرنے اور اُسے مہذب بنانے والے ہیں۔ آپؐ نے حیرت انگیز حدتک ان طریقوں کا حُسن و جمال دین اسلام میں پیدا کیا۔ اسی لیے تو دنیا کی متعدد قومیں اسلام لے آئیں، حتیٰ کہ وسط افریقہ کے زنگی اور جزائر بحرالکاہل کے باشندوں نے بھی اسلام کے سایے تلے سکون محسوس کیا‘‘۔
معروف انگریز مصنف برنارڈشا کہتا ہے: ’’آج دنیا کو محمدؐ جیسی شخصیت کی شدید ضرورت ہے تاکہ وہ دنیا کے پیچیدہ مسائل کو اتنی دیر میں حل کردے جتنی دیر چائے کی ایک پیالی پینے میں لگتی ہے‘‘۔ وہ کہتا ہے: ’’یورپ اب محمدؐ کی حکمت و دانائی کو محسوس کرنے اور اُن کے دین کی طرف کھنچنے لگا ہے۔ اسی طرح یورپ اسلامی عقیدے کو ان الزامات سے بھی جلد پاک کردے گا جو قرونِ وسطیٰ میں یورپ کے دروغ گو افراد نے لگائے۔ محمدؐ کا دین ہی وہ نظام ہوگا جس کے اُوپر امن و خوش حالی کے ستون استوار ہوسکیں گے۔ پیچیدہ مشکلات کے حل اور گنجلک اُمور کی عقدہ کشائی کے لیے فلسفۂ اسلام ہی کا سہارا لیا جائے گا‘‘___برنارڈشا نے تو خوش خبری میں یہاں تک مبالغے سے کام لیا ہے: ’’میرے ہم وطن اور دیگر یورپی کثیرتعداد میں اسلام کی تعلیمات کو مقدس جانیں گے۔ اسی لیے تو میرے لیے یہ ممکن ہوا ہے کہ میں یہ خوش خبری دوں کہ اسلامی عہد کی ابتدا قریب ہے‘‘۔
دنیا ے مغرب کو چاہیے کہ وہ اپنے دانش وروں کی آواز اور فلسفیوں کے اقرار و اعتراف کو سُنے اور رسولِ خداحضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو بُرا بھلا کہنے کے بجاے علمی اور شائستہ انداز میں آپؐ کا تعارف حاصل کرے۔ تاکہ، اُسے معلوم ہوسکے کہ حضرت محمدؐ ہی کی رسالت واحد رسالت ہے، جو اُن کی مادی تہذیب کو روحانی ترقی اور اخلاقی بلندی سے ہم کنار کرسکتی ہے۔ یہی انھیں آخرت کی سعادت، دنیا کی فلاح اور قلب و ضمیر کا اطمینان و سکون فراہم کرسکتی ہے۔
ہر محب ِرسولؐ پر یہ بھی واجب ہے کہ وہ حقیقتاً آپؐ کا پیغام بردار بنے اور پوری امانت داری کے ساتھ آپؐ کی دعوت کو حقیقت کے متلاشیوں تک پہنچائے اور دنیا میں پھیلا دے۔ دنیا آج ایک گائوں بن گئی ہے، جس میں انفرادی و اجتماعی ربط و تعلق کے ذرائع اپنے عروج کو پہنچ چکے ہیں۔ اس بناپر ہمارے لیے ممکن ہے کہ ہم رسولِؐ خدا کی ہدایت کو دنیا کے تمام گوشوں میں پھیلادیں تاکہ آپؐ کا یہ نور تمام دنیا میں پھیل جائے۔قُلْ ھٰذِہٖ سَبِیْلِیْٓ اَدْعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ قف عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ ط وَ سُبْحٰنَ اللّٰہِ وَ مَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ o (یوسف ۱۲:۱۰۸)، ’’کہہ دو کہ میرا راستہ تو یہ ہے، میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے ساتھی بھی، اور اللہ پاک ہے اور شرک کرنے والوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں۔‘‘ (ترجمہ: ارشاد الرحمٰن، بحوالہ ikhwanonline.net)
سوال: امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، یعنی ’نیکی کا حکم دینا‘ اور ’برائی کو روکنا‘ دینی طبقات کے نزدیک ایک بہت اہم مسئلہ ہے۔ اس میں بھی برائی [منکر] کو بزورِ قوت روکنے کا مسئلہ زیادہ اہم ہے، اور اسی طرح یہ بات بھی کہ برائی کو روکنے کا یہ حق کسے حاصل ہے اور یہ کب جائز ہوتا ہے؟
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ حق فقط اہل اقتدار کو حاصل ہے، یعنی یہ حکومت کی ذمہ داری میں شامل ہے، افراد کی ذمہ داری نہیں ہے، کیونکہ اگر یہ حق افراد کے پاس ہو تو معاشرے میں فساد رُونما ہو سکتا ہے۔کچھ دوسرے لوگوں کا خیال یہ ہے کہ برائی کو روکنا ہر مسلمان کے فرائض میں شامل ہے۔ ان کی دلیل یہ صحیح حدیث رسولؐ ہے: ’’تم میں سے کوئی منکر کو دیکھے تو اُسے اپنے ہاتھ کی طاقت سے بدل دے۔ اگر کوئی یہ طاقت اپنے اندر نہ رکھتا ہو تو وہ اپنی زبان سے کام لے۔ اور اگر کوئی اس کی طاقت بھی نہ رکھتا ہو تو وہ اپنے دل میں اسے برا سمجھے اور یہ ضعیف ترین ایمان ہے۔‘‘ (مسلم، عن ابی سعید الخدریؓ)
سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص قوی ترین ایمان پر قادر ہے تو وہ اس کے ضعیف ترین درجے پر کیوں راضی ہو جائے؟یہ وہ رجحان ہے جو انجام اور نتائج کی پروا کیے بغیر برائی کو روکنے کے حوالے سے بعض جذباتی نوجوانوں میں پایا جاتا ہے۔ اُن کا خیال ہے کہ چونکہ اہل اقتدار اور حکومت خود برائی کا ارتکاب کرتی ہے، یا اس کی پشت پناہی کرتی ہے، حرام کو حلال اور حلال کو حرام ٹھیراتی ہے، یا فرائض کو ساقط کرتی ہے، یا حدود سے تجاوز کرتی ہے، یا حق سے دشمنی رکھتی ہے اور باطل کو رواج دیتی ہے، تو ایسی صورتِ حال میں افراد پر فرض ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی طاقت کے مطابق اس کی اصلاح کی کوشش کریں۔ اس کوشش میں اگر افراد کوئی نقصان اٹھاتے ہیں تو وہ اللہ کی خاطر ہوگا، اگر قتل کر دیے جائیں گے تو فی سبیل اللہ شہادت ہو گی اور حدیث رسولؐ کے مطابق وہ سید الشہداء حضرت حمزہؓ بن عبدالمطلب کی ہمسایگی میں جگہ پائیں گے۔
دونوں طرف کے ان دلائل کی بنا پر بہت سے لوگوں خصوصاً غیرت مند دین پسند نوجوانوں کے لیے یہ معاملہ کچھ الجھ سا گیا ہے۔ جو لوگ پہلے موقف کے قائل ہیں کہ برائی کو روکنے کا اختیار اہل اقتدار کے پاس ہے،عموماً وہ لوگ ہیں جن کو ’سرکاری علما‘ کہا جاتا ہے اور عوام میں اُن کی بات کو کوئی اہمیت اور وزن حاصل نہیں ہوتا، جب کہ دوسرا گروہ جو برائی کو بزورِ قوت روکنے کا قائل ہے، یہ سب وہ نوجوان ہیں جن کو انتہا پسند، جذباتی اور شریعت کا ظاہری مفہوم لینے کا الزام دیا جاتا ہے۔
گزارش ہے کہ صحیح راے کی نشان دہی کریں۔ ہو سکتا ہے دونوں ہی درست ہوں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دونوں درست نہ ہوں، بلکہ تیسری راے درست ہو جو اِن کے علاوہ ہو۔
جواب: نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کا فریضہ اسلام کے بنیادی فرائض میں سے ہے۔ یہ وہ فریضہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اُمت مسلمہ کی فضلیت کے دو بڑے اسباب میں سے ایک قرار دیا ہے:
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ (اٰلِ عمرٰن۳:۱۱۰)، اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
قرآنِ مجید کی نظر میں مؤمنوں کی اساسی صفات یہ ہیں:
اَلتَّآئِبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآئِحُوْنَ الرّٰکِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّاھُوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ الْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰہِ (التوبہ ۹:۱۱۲) اللہ کی طرف بار بار پلٹنے والے، اس کی بندگی بجا لانے والے، اس کی تعریف کے گن گانے والے، اس کی خاطر زمین میں گردش کرنے والے، اس کے آگے رکوع اور سجدے کرنے والے، نیکی کا حکم دینے والے، بدی سے روکنے والے اور اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے۔
قرآنِ مجید نے جس طرح نیکی کا حکم دینے والوں اور برائی سے روکنے والوں کی تعریف کی ہے، اسی طرح اُن لوگوں کی مذمت بھی کی ہے جو نیکی کا حکم نہیں دیتے اور برائی سے نہیں روکتے :
لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْم بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ عَلٰی لِسَانِ دَاوٗدَ وَ عِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ ط ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّ کَانُوْا یَعْتَدُوْنَo کَانُوْا لَا یَتَنَاھَوْنَ عَنْ مُّنْکَرٍ فَعَلُوْہُ ط لَبِئْسَ مَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنَ o (المائدہ۵: ۷۸- ۷۹)، بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی اُن پر دائودؑ اور عیسیٰؑ ابن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی کیونکہ وہ سرکش ہو گئے تھے اور زیادتیاں کرنے لگے تھے، انھوں نے ایک دوسرے کو برے افعال کے ارتکاب سے روکنا چھوڑ دیا تھا، برا طرزِ عمل تھا جو انھوں نے اختیار کیا۔
مذکورہ آیت کے مطالعے کی روشنی میں مسلمان صرف انفرادی حیثیت ہی میں صالح انسان نہیں ہوتا جو اچھے کام کرتا ہے، برائی سے بچتا ہے اور اپنے ایک خاص دائرے میں زندگی گزارتا ہے، نہ اُسے یہ فکر ہو کہ خیر کا دائرہ سمٹ رہاہے اور اُسے بے وقعت بنایا جا رہا ہے، نہ اُسے یہ پریشانی ہو کہ برائی اُس کے اردگرد پھیل رہی ہے اور پرپرزے نکال رہی ہے___ بلکہ ہرمسلمان اپنی ذات میں ایسا صالح انسان ہوتا ہے جس کی یہ تمنا ہوتی ہے کہ وہ اوروں کی بھی اصلاح کرے۔ اسی بات کو قرآنِ مجید کی مختصر سورت سورۂ عصر میں بیان کیا گیا ہے: ’’زمانے کی قسم، انسان درحقیقت خسارے میں ہے، سواے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے‘‘(العصر۱۰۳:۱-۳)۔ جو مسلمان دنیا و آخرت میں خسارے سے دوچار ہو جائے اس کے لیے نجات ممکن نہیں۔ نجات اگر مسلمان کا مقدر بن سکتی ہے تو صرف اسی صورت میں جب وہ حق اور صبر کی تلقین کا فریضہ ادا کرے اور یہی وہ چیز ہے جس کو ’امر بالمعروف اور نہی عن المنکر‘ کا بھی نام دیا گیا ہے۔ مسلمان اُمت مسلمہ میں حق و خیر کا محافظ اور نگران ہے۔
مسلم معاشرے میں برائی صرف اِسی صورت میں ہوتی ہے، جب معاشرہ غفلت کا شکار ہوجائے یا ضعف اور انتشار سے دوچار ہو جائے۔ ایسی صورتِ حال میں یہ معاشرہ نہ قائم رہ سکتا ہے اور نہ آگے بڑھ سکتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو محفوظ بھی خیال نہیں کر سکتااور اپنے ان دگرگوں حالات کی بنا پر کسی قانون کے نفاذ سے بھی فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔
برائی، مسلم معاشرے میں غیر مقبول عنصر کے طور پر ہی زندہ رہ سکتی ہے۔ جیسے پھانسی یا عمر قید کے سزا یافتہ مجرم کی کیفیت ہوتی ہے۔ وہ ماوراے عدالت اور معاشرے سے چھپ چھپا کر زندگی گزارتا اور نقل و حرکت کرتا ہے۔ لہٰذا مسلمان سے یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ برائی کے سامنے اس وقت تک مزاحمت کرے اور اُسے روکے، جب تک اس کا ایسے علاقے سے خاتمہ نہیں ہو جاتا جو علاقہ برائی کو پسند کرنے والوں کا نہیں بلکہ مسلمانوں کی سرزمین ہے۔
مذکورہ حدیثِ رسولؐ کا مطلب بالکل واضح ہے کہ برائی کو روکنا ہر اُس مسلمان کا حق بلکہ فریضہ ہے جو اُسے دیکھ لے۔ اس بات کے فرض اور واجب ہونے کی دلیل حدیث میں مذکور لفظ ’مَن‘ ہے یعنی مَنْ رَأیٰ ’’جو بھی دیکھے‘‘ عام الفاظ ہیں۔ یہ الفاظ ہر اُس شخص کے لیے ہیں جو برائی کو دیکھے، وہ شخص حاکم ہو یامحکوم۔ رسول ؐاللہ نے تو تمام مسلمانوں کو مخاطب کر کے یہ بات فرمائی ہے، یعنی مَنْ رَأیٰ منکم ’’تم میں سے جو شخص بھی برائی کو دیکھے‘‘۔ آپؐ نے اس میں سے کسی کو مستثنیٰ نہیں کیا، صحابہ کرامؓ سے لے کر قیامت تک آنے والی امت مسلمہ کی تمام نسلیں اس میں شامل ہیں۔ یہ ’برائی کو دیکھنے والا‘ امت کا رہنما، سربراہ اور حاکم بھی ہو سکتا ہے اور عوام میں سے کوئی فرد بھی ہو سکتا ہے۔ ان میں سے جو بھی برائی کو دیکھے وہ طاقت کے مطابق اسے روکنے کی کوشش کرے۔
برائی کو روکنے کے حوالے سے مسلم فرد یا مسلم جماعت کو جن لازمی شرائط کا خیال رکھنا واجب ہے اور جن کی طرف حدیث کے الفاظ اشارہ کرتے ہیں وہ شرائط حسب ذیل ہیں:
اِنْ تَجْتَنِبُوْا کَبَآئِرَ مَا تُنْھَوْنَ عَنْہُ نُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَ نُدْخِلْکُمْ مُّدْخَلًا کَرِیْمًا(النساء۴:۳۱)، اگر تم اُن بڑے بڑے گناہوں سے پرہیز کرتے رہو جن سے تمھیں منع کیا جا رہا ہے تو تمھاری چھوٹی موٹی برائیوں کو ہم تمھارے حساب سے ساقط کر دیں گے اور تم کو عزت کی جگہ داخل کریں گے۔
رسولِ کریمؐ نے فرمایا: پانچ نمازیں، جمعہ سے اگلے جمعہ تک اور رمضان سے اگلے رمضان تک کے درمیانی عرصے کے گناہوں کو محو کر دیتی ہیں، اگر تم کسی کبیرہ گناہ کا ارتکاب نہ کرو تو (مسلم، عن ابی ہریرہؓ)۔ لہٰذا مکروہ افعال کا ارتکاب اور مسنون اور مستحب اعمال کو ترک کر دینے کا فعل ’منکر‘ میں داخل نہیں ہے۔ ایک سے زیادہ صحیح احادیث میں بیان ہوا ہے کہ ایک شخص نے نبیؐ سے فرائضِ اسلام کے بارے میں پوچھا تو آپؐ نے اس کے سامنے نماز، روزہ، زکوٰۃ کے فرائض بیان کیے۔ یہ شخص ہر فرض کے ذکر کے بعد آپؐ سے پوچھتا تھا کہ کیا اس کے علاوہ بھی کچھ میرے اوپر فرض ہے؟ آپؐ اُسے جواب دیتے: ’’اگر تم نفلی طور پر کچھ کرنا چاہو تو کر سکتے ہو‘‘… رسولؐ اللہ اپنی بات سے فارغ ہوئے تو اُس شخص نے کہا: اللہ کی قسم یا رسول اللہ! میں نہ اس سے کچھ زیادہ کروں گا اور نہ اس میں کوئی کمی کروں گا۔ اس پر آپؐ نے فرمایا: ’’اگر اس نے سچ کہا ہے تو یہ نجات پا گیا‘‘۔ یا آپؐ کے الفاظ تھے: ’’اگر اس نے سچ کہا ہے تو یہ جنت میں داخل ہو گیا‘‘ (بخاری، مسلم، عن طلحہ بن عبید اللہؓ)۔ایک دوسری حدیث کے الفاظ ہیں: ’’جو شخص کسی جنتی آدمی کو دیکھ کر خوش ہونا چاہے وہ اس آدمی کو دیکھ لے‘‘(بخاری ، مسلم، عن ابی ہریرہؓ)۔ لہٰذا ضروری ہے کہ یہ ’منکر‘ جس کو روکنے کا مسئلہ درپیش ہو، وہ حرام کے درجے میں آتا ہو اور شریعت کی رو سے حقیقتاً ’منکر‘ ہو۔ شریعت کے ٹھوس اور واضح الفاظ یا قطعی قواعد و ضوابط سے اس کا ’منکر‘ ہونا ثابت ہو۔ اس ’منکر‘ کا منکر ہونا محض راے اور اجتہاد سے ثابت نہ ہوتا ہو کیونکہ راے اور اجتہاد درست بھی ہوسکتے ہیں اور غلط بھی۔ یہ زمانے، مقام، اور حالات و رواج کے بدلنے سے بدل جاتے ہیں۔
اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ اس برائی کے ’منکر‘ ہونے پر سب کا اتفاق ہو۔ ایسے امور جن کے بارے میں قدیم یا جدید علماے اجتہاد کا اختلاف ہو، یعنی اس امر کے جائز ہونے اور ممنوع ہونے کے بارے میں علما متفق نہ ہوں، تو یہ اُس ’منکر‘ کے دائرے میں داخل نہیں جس کو ہاتھ کی قوت سے روکنا، خصوصاًانفرادی سطح پر روکنا واجب ہے۔
تصویر، آلات یا غیر آلات کی موسیقی، عورت کا چہرے اور ہتھیلیوں کو نہ چھپانا، عورت کا عدالتی امور کے مناصب پر تقرر، ایک ہی دن روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کا معاملہ جو مطالع کے اختلاف کی وجہ سے سامنے آتا ہے، چاند کو آنکھ سے مشاہدہ کرنا یا ریڈار اور کیلنڈر وغیرہ کی مدد سے یہ حساب قائم کرنا وغیرہ ایسے امور اور مسائل ہیں جن کے بارے میں قدیم اور جدید فقہا کا طول طویل اختلاف موجود ہے۔ ان امور میں کسی مسلمان فرد یا مسلمان جماعت کے لیے یہ روا نہیں کہ وہ کسی ایک راے کو اختیار کر کے دوسروں کو سختی کے ساتھ اس پر مجبور کرے۔
یہاں تک کہ جمہور اکثریت کی راے اقلیت کی راے کو ساقط اور بے اعتبار نہیں کر سکتی خواہ مخالفت میں صرف ایک فرد ہی کیوں نہ ہو۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ وہ فرد اہل اجتہاد میں سے ہو، یعنی اس کے اندر مجتہدانہ صفات اور صلاحیتیں موجود ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک زمانے اور عہد میں ایک راے متروک ہوتی ہے، لیکن کسی دوسرے عہد میں اس کا رواج ہو جاتا ہے۔ اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی فقیہ کی راے کو اس کے دور میں ضعیف قرار دیا گیا اور بعد میں کوئی پیدا ہوا جس نے اس راے پر دلائل قائم کیے اور اس کو صحیح اور قوی کے مقام پر لا کھڑا کیا۔ پھر یہی راے قابل اعتماد قرار پائی اور اسی کی بنیاد پر فتوے دیے جانے لگے۔
طلاق اور خاندانی معاملات میں امام ابن تیمیہؒ کی آرا کا معاملہ ایسا ہی ہے۔ انھیں زندگی بھر ان آرا کی وجہ سے قید و بند کی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ وفات کے بعد بھی صدیوں اُن کی راے کے خلاف مزاحمت ہوتی رہی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اُن کے پھیلنے کے اسباب پیدا فرمائے اور یہی آرا بہت سے اسلامی ممالک میں فتویٰ، عدالت اور قانون سازی کے شعبوں میں سند قرار پائیں۔
وہ ’منکر‘ جس کو طاقت سے روکنا واجب ہے، اس کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ ثابت اور بین ’منکر‘ ہو۔ مسلمان ائمہ کا اس کے ’منکر‘ ہونے پر اتفاق ہو۔ یہ بھی ضروری ہے کہ اس کا روکنا شر کے لامتناہی سلسلے کا باعث نہ بن جائے۔ لہٰذا جو شخص بھی برائی کو روکنے کے بارے میں راے رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ لوگوں کو آمادہ کرے کہ وہ اس برائی کو طاقت سے روک دیں۔
بعض اسلامی ممالک میں جوشیلے اور جذباتی نوجوانوں کے گروپ بنے ہوئے ہیں تاکہ اُن دکانوں کی توڑ پھوڑ کریں جو بچوں کے کھلونے اور گڑیائیں فروخت کرتی ہیں۔ ان نوجوانوں کا خیال ہے کہ یہ کھلونے اور گڑیائیں بت ہیں اور مجسمے کی شکلیں ہیں جو کبائر میں بھی سب سے اُوپر کا درجہ رکھتے ہیں۔
جب ان نوجوانوں سے کہا جاتا ہے کہ قدیم علما نے بچوں کے کھلونوں کی اجازت دی ہے کیونکہ ان میں تو ’صورت‘ [تصویر] کی توہین اور اس کی تعظیم کی نفی ہے___ اس پر نوجوانوں کا جواب ہوتا ہے کہ یہ راے تو قدیم کھلونوں کے بارے میں تھی۔ اب تو تصویر کی کامل تر صورت سامنے آ گئی ہے، جس میں کھلونا آنکھیں کھول سکتا اور بند کر سکتا ہے۔جب ان نوجوانوں سے یہ کہا گیا کہ بچہ تو ان کھلونوں کو دائیں، بائیں پھینکتا ہے، ان کا بازو توڑ دیتا ہے، ٹانگ الگ کر دیتا ہے، وہ تو انھیں تعظیم و احترام یا تقدس نہیں دیتا، تو ان نوجوانوں کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔
اسی طرح کئی اسلامی ممالک میں بعض نوجوانوں نے رمضان کا چاند نظر آ جانے پر ہوٹلوں، جوس کی دکانوں اور قہوہ خانوں کو جبراً بند کرانے کی کوشش کی۔ ان جذباتی نوجوانوں کا خیال تھا کہ رمضان شروع ہو چکا لہٰذا اب کھلے عام کھانا پینا جائز نہیں۔
ایسا ہی واقعہ مصر میں بھی عیدالفطر کے موقع پر پیش آیا تھا، جب دینی حلقوں نے مختلف دلائل کی بنیاد پر یہ کہا تھا کہ شوال شروع نہیں ہوا۔ مطلع ابرآلود ہونے کے سبب اس رات چاند کی رئویت ممکن نہیں تھی، لہٰذا مصر میں چاند دکھائی نہ دیا۔ مگر بعض حلقوں نے چاند نظر آ جانے کا اعلان کر دیا، تو کچھ نوجوانوں نے اصرار کیا کہ وہ روزہ چھوڑ دیں گے اور قوم کی اکثریت اور حکومت کے علی الرغم عیدمنائیں گے۔ اس موقع پر امن فورسز کے ساتھ تصادم ہو گیا جس کا کوئی جواز نہیں تھا۔
میری راے میں یہ لوگ درج ذیل وجوہات کی بنا پر خطا کے مرتکب ہوئے ہیں:
۱- فقہا کی آرا چاند کی رئویت پر اعتماد کرنے کے حوالے سے مختلف ہیں۔ ان میں سے کسی نے ایک شہادت کو کافی سمجھا ہے، کسی نے دو شہادتوں کا مطالبہ کیا ہے اور کسی نے صاف مطلع میں جم غفیر کی شہادت کی شرط عائد کی ہے۔ ان میں سے ہر کسی کے اپنے دلائل اور اپنا زاویۂ نظر ہے۔ لہٰذا لوگوں کو بغیر کسی قوت نافذہ کے ایک طریقے پر مجبور کرنا جائز نہیں۔
۲-اسی طرح ان فقہا کا اختلافِ مطالع کے اعتبار اور عدم اعتبار کے مسئلے میں بھی اختلاف ہے۔ متعدد فقہی مذاہب کی راے یہ ہے کہ ہر علاقے کی رئویت اپنی ہے۔ کسی ایک علاقے کے لیے کسی دوسرے علاقے کی رئویت پر عمل کرنا لازمی نہیں ہے۔ یہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ اور ان کے موافقین کا مذہب ہے۔ جیسا کہ یہ مسلم میں حضرت کریبؓ کی حدیث سے معروف ہے۔
۳- اختلافی امور میں حکمران یا قاضی کا حکم اختلاف کا خاتمہ کر دیتا ہے اور قوم کے لیے اس کا حکم ماننا لازمی ہوتا ہے۔ لہٰذا اس طرح کے مسائل میں جب مقتدر قانونی قوتیں کسی امام کے قول یا اجتہاد کو اختیار کر لیں تو ان کی پیروی فرض اور قوم کے اندر فرقہ بازی ممنوع ہو جاتی ہے۔
میں نے اپنے بعض فتاویٰ میں کہا ہے کہ اگر ہم رمضان کا روزہ شروع کرنے اور عید منانے کے معاملے میں تمام مسلمانوں کی وحدت کو ممکن نہیں بنا سکتے تو کم سے کم ایک علاقے یا ملک کے لوگ تو اپنے شعائر میں اتحاد کا مظاہرہ کریں۔ اُن کے لیے یہ صورتِ حال قابل قبول نہیں ہونی چاہیے کہ ایک ملک کے لوگ دو حصوں میں بٹے رہیں۔ ایک حصہ روزے سے ہو اور دوسرا روزے کے بغیر۔ لیکن مخلص نوجوانوں کی اس اجتہادی غلطی کا علاج گولی نہیں ہے، بلکہ صبر و تحمل کے ساتھ اُنھیں بات سمجھانا ہے۔
یہ وہ نکات ہیں جن کی نشان دہی حدیث کے یہ الفاظ کرتے ہیں: مَنْ رَأی مِنْکُم مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہٗ… ’’جو تم میں سے کسی منکر کو دیکھے وہ اُسے بدل دے…‘‘ یعنی روکنے کا حکم منکر کے دکھائی دینے اور مشاہدے میں آ سکنے سے مشروط ہے۔ منکر کے بارے میں کسی سے صرف سن لینے کی شرط نہیں لگائی گئی۔
ایسا کیوں ہے؟ اس لیے کہ اسلام اس شخص پر سزا کو نافذ نہیں کرتا جو ’منکر‘ کا ارتکاب چھپ چھپا کر کرے، علی الاعلان نہ کرے۔ اسلام اس کا حساب آخرت میں اللہ پر چھوڑ دیتا ہے۔ دنیا میں اس کے اُوپر کسی کو کوئی اختیار نہیں، سواے یہ کہ وہ خود اپنے جرم کو ننگا کر دے اور اپنا پردہ ظاہر کردے۔
عذابِ الٰہی کے بارے میں تو یہاں تک ہے کہ جس شخص کے جرم پر اللہ کی طرف سے پردہ پڑا ہوا ہے اور وہ خود بھی اُسے ظاہر نہیں کرتا تو ایسے مجرمین کی سزا میں تخفیف کر دی جائے گی۔ جیسا کہ صحیح حدیث میں آیا ہے: ’’میری پوری امت کو معاف کیا جا سکتا ہے مگر معصیت کا علی الاعلان ارتکاب کرنے والوں کو معاف نہیں کیا جائے گا‘‘۔
یہی وجہ ہے کہ خفیہ منکرات کے بارے میں کسی کو کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ خفیہ منکرات میں سرفہرست قلبی معصیات: ریاکاری، نفاق، کبر، حسد، بخل اور غرور وغیرہ ہیں۔ اگرچہ دین نے ان گناہوں کو کبیرہ قرار دیا ہے، لیکن یہ اُس وقت کبیرہ بنتے ہیں جب ظاہری عمل میں ڈھل کر سامنے آ جائیں، اور ایسا اس لیے ہے کہ ہمیں ظاہری صورتِ حال پر راے دینے اور خفیہ صورتِ حال کو اللہ پر چھوڑ دینے کا حکم ہے۔
حضرت عمرؓ کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ اس سلسلے کے عمدہ واقعات میں سے ہے۔ یہ واقعہ امام غزالیؒ نے احیاء علوم الدین میں ’الامر بالمعروف و النہی عن المنکر‘ کے تحت بیان کیا ہے۔
حضرت عمرؓ دیوار پھلانگ کر ایک آدمی کے گھر میں چلے گئے اور اُس آدمی کو ناپسندیدہ حالت میں دیکھاتو اسے ڈانٹ ڈپٹ کی۔ آدمی نے کہا: امیر المومنین! اگر میں نے ایک پہلو سے اللہ کی نافرمانی کی ہے، تو آپ نے تین پہلوئوں سے نافرمانی کی ہے۔ امیر المومنین نے پوچھا: وہ کیسے؟ آدمی نے کہا: اللہ نے فرمایا ہے: وَلَا تَجَسَّسُوا (الحجرات۴۹:۱۲) ’’تجسس نہ کرو‘‘، جب کہ آپ نے تجسس کیا ہے… اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: وَاْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ اَبْوَابِھَا (البقرہ ۲:۱۸۹) ’’گھروں میں اُن کے دروازوں سے داخل ہو‘‘،جب کہ آپ دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہوئے ہیں… اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: لَا تَدْخُلُوْا بُیُوتًا غَیْرَ بُیُوتِکُمْ حَتّٰی تَسْتَاْنِسُوا وَتُسَلِّمُوْا عَلٰٓی اَہْلِہَا (النور۲۴:۲۷) ’’اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو جب تک کہ گھروالوں کی رضا نہ لے لو اور گھروالوں پر سلام نہ بھیج لو، جب کہ آپ نے سلام نہیں کیا… آدمی کے اس جواب پر حضرت عمرؓ نے آدمی کو توبہ کرنے کی شرط پر چھوڑ دیا۔ (احیا علوم الدین،ج۷، ص ۱۲۱۸،طبع الشعب، القاہرہ)
یہ شرط بھی زیر بحث حدیث کے ان الفاظ سے ماخوذ ہے فَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانہٖ ’’جو طاقت نہ رکھتا ہو وہ زبان سے روکے‘‘ یعنی جو شخص برائی کو اپنے ہاتھ کی قوت سے نہیں روک سکتا وہ اس کام کو ان لوگوں کے لیے چھوڑ دے جو اس کی طاقت رکھتے ہیں۔ وہ خود صرف زبان و بیان پر ہی اکتفا کرے اور وہ بھی اگر اس کے بس میں ہو تو۔
یہ کام غالباً ہر صاحب ِاختیار اپنے دائرۂ اختیار میں کر سکتا ہے۔ خاوند اپنی بیوی، باپ اپنی اولاد، سرپرست اپنے زیر سرپرستی افراد، کسی ادارے کا سربراہ اپنے ادارے کے اندر اور امورِحکومت کے ذمہ داران اپنی ذمہ داری اور اتھارٹی کے حدود اور اپنے اختیار کے حدود میں رہتے ہوئے کر سکتے ہیں۔ کیونکہ بعض اشیا و امور کا فیصلہ ذمہ دارانِ حکومت کے بس میں بھی نہیں ہوتا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ کا معاملہ اس مسئلے میں بہت واضح مثال ہے، یعنی وہ موروثی نظام سے ہٹ کر عنانِ حکومت کو مسلمانوں کی شوریٰ میں نہیں لوٹا سکے۔
ہم نے اس شرط کے آغاز میں ’مادی و معنوی‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ خاوند کا اپنی بیوی پر یا باپ کا اپنی اولاد پر اختیار اس لیے نہیں ہے کہ وہ مادی قوت کا مالک ہوتا ہے، بلکہ اس بنا پر ہے کہ اس کا ایک احترام اور ہیبت ہوتی ہے جو اس کی بات کو منواتی اور اس کے حکم کو نافذ کرتی ہے۔
علما نے اسی بنا پر اس ’منکر‘ پر خاموشی کو جائز ٹھیرایا ہے جس کو روکنے کے نتیجے میں اُس سے بھی بڑی برائی پیدا ہونے کا ڈر ہو۔ یہاں کم تر ضرر کے ارتکاب اور کم تر شر کے اختیار کا اصول نافذ ہوتا ہے۔ اس بارے میں صحیح حدیث بھی موجود ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا: ’’اگر تمھاری قوم سے تمھیں پہنچنے والے شر کا مجھے خوف نہ ہو تو میں کعبہ کو ابراہیمی بنیادوں پر استوار کر دوں‘‘۔
قرآنِ مجید میں بھی اس نکتے کی تائید میں واقعہ موجود ہے۔ حضرت موسیٰؑ جب اپنے رب سے وعدے کے مطابق ۴۰ راتیں گزارنے کے لیے قوم سے دور چلے گئے تو اُن کی غیر موجودگی میں یہودی جادوگر سامری نے قوم کو سنہری بچھڑے کے فتنے میں مبتلا کر دیا۔ حضرت موسیٰؑ کے شریک نبوت بھائی حضرت ہارون ؑنے قوم کو وعظ و نصیحت کی مگر وہ باز نہ آئے اور سامری کے پیچھے چل پڑے۔ کہنے لگے: لَنْ نَّبْرَحَ عَلَیْہِ عٰکِفِیْنَ حتّٰی یَرْجِعَ اِلَیْنَا مُوْسٰی(طٰہٰ۲۰:۹۱)، ’’ہم تو اِسی کی پرستش کرتے رہیں گے جب تک کہ موسٰی ؑ ہمارے پاس واپس نہ آ جائے۔‘‘
جب حضرت موسٰی ؑمیعاد پوری کر کے واپس آئے اور قوم کو اس ’بچھڑے کی عبادت‘ جیسی بدترین برائی میں مبتلا دیکھا تو بھائی کو اُن کی سستی اور عدم توجہی پر زَدوکوب کرنے لگے۔ اُن کی داڑھی پکڑ لی اور شدت غضب میں کہا:
قَالَ یٰھٰرُوْنُ مَا مَنَعَکَ اِذْ رَاَیْتَھُمْ ضَلُّوْٓا۔ اَلَّا تَتَّبِعَنِ اَفَعَصَیْتَ اَمْرِیْ۔ قَالَ یَبْنَؤُمَّ لَا تَاْخُذْ بِلِحْیَتِیْ وَ لَا بِرَاْسِیْ اِنِّیْ خَشِیْتُ اَنْ تَقُوْلَ فَرَّقْتَ بَیْنَ بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ وَ لَمْ تَرْقُبْ قَوْلِیْ(طٰہٰ۲۰: ۹۲-۹۴)، ’’موسٰی ؑ (قوم کو ڈانٹنے کے بعد ہارون کی طرف پلٹا اور) بولا ’’ہارونؑ، تم نے جب دیکھا تھا کہ یہ گمراہ ہو رہے ہیں تو کس چیز نے تمھارا ہاتھ پکڑا تھا کہ میرے طریقے پر عمل نہ کرو؟ کیا تم نے میرے حکم کی خلاف ورزی کی‘‘؟ ہارونؑ نے جواب دیا ’’اے میری ماں کے بیٹے، میری داڑھی نہ پکڑ، نہ میرے سر کے بال کھینچ، مجھے اس بات کا ڈر تھا کہ تو آ کر کہے گا: تم نے بنی اسرائیل میں پھوٹ ڈال دی اور میری بات کا پاس نہ کیا‘‘۔
اس واقعے میں حضرت ہارون ؑ کے عمل سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ انھوں نے اپنے بڑے بھائی حضرت موسٰی ؑ کی غیر موجودگی میں قوم کی وحدت اور یک جہتی کو محفوظ رکھنا مقدم سمجھا اور خیال کیا کہ بھائی کے آ جانے پر باہمی سوچ بچار کے بعد دیکھیں گے کہ حزم و احتیاط اور حکمت و دانائی کے متقاضی اس خطرناک موقف سے کس طرح نپٹنا ہے۔
یہ چار شرائط ہیں___ جو شخص بھی برائی کو ہاتھ کی قوت سے یا دوسرے الفاظ میں ناگزیر مادی قوت سے روکنا چاہتا ہو اس پر ان شرائط کو پورا کرنا فرض ہے۔
جب منکر کا ارتکاب حکومت کر رھی ھو
منکر کو روکنے کے مسئلے میں ایک مشکل یہ بھی کھڑی ہو جاتی ہے کہ جب صاحب ِقوت اور صاحب ِاختیار، یعنی حکومت ہی برائی کی مرتکب ہو تو پھر افراد اور جماعتیں اُس منکر کو کیسے روکیں جس میں حکومت ملوث ہو یا حکومت اس کی پشت پناہی کر رہی ہو؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ افراد اور جماعتیں پہلے اتنی قوت کی مالک بنیں جو برائی کو روک سکے۔ عہد حاضر میں تین طاقتوں میں سے ایک کے ذریعے ہی یہ ممکن ہے۔ وہ حسب ذیل ہیں:
۱- مسلح افواج: یہ وہ طاقت ہے جس کا سہارا عہد حاضر کے بہت سے ملک لیتے ہیں۔ خصوصاً تیسری دنیا میں اپنے حکم نافذ کرنے، سیاست کا سکہ بٹھانے اور اپنے مخالفین کو آتش و آہن کے ذریعے خاموش کرنے کے لیے اسی قوت سے کام لیتے ہیں۔ ان حکومتوں کے نزدیک مناسب، محفوظ اور معقول راستہ دلیل و منطق اور بات چیت کا نہیں بلکہ قوت کا ہے۔ یہ قوتیں جس کے ساتھ ہوں گی اس کے لیے قومی دھارے کے رخ کو بدلنا یا روک دینا ممکن ہو گا۔ اس کا مظاہرہ ماضی قریب میں بہت سے ممالک میں کیا گیا اور آئے روز کہیں نہ کہیں ہوتا رہتا ہے۔
۲- پارلیمنٹ: مروّجہ جمہوری نظام حکومت میں غالب اکثریت رکھنے والی پارلیمنٹ کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ قانون بنا بھی سکتی ہے اور تبدیل بھی کر سکتی ہے۔ خالص حقیقی جمہوری نظام کے تحت یہ اکثریت جس کو بھی حاصل ہو جائے اس کے لیے ممکن ہے کہ وہ قانون سازی کے بعد اس کو نافذ کر کے اُن تمام منکرات کو روک سکتی ہے جو اُسے نظر آئیں۔ پھر کسی وزیر، سربراہِ حکومت، یا سربراہِ ریاست کے بس میں نہیں ہوتا کہ وہ پارلیمنٹ کے سامنے ’نہ‘ کہے۔
۳- قومی سطح کی فیصلہ کن عوامی قوت: یہ عوام کی ملکی سطح کی ایسی فیصلہ کن قوت ہوتی ہے جسے اجتماع سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ جب یہ قوت حرکت میں آ جائے تو کسی میں ہمت نہیں ہوتی کہ اس کا سامنا کرے یا اس کا راستہ روکے۔ یہ قوت اپنی تندی اور تیزی میں ٹھاٹھیںمارتے سمندر یا سب کچھ بہالے جانے والے سیلاب کی مانند ہوتی ہے کہ کوئی شے، حتیٰ کہ مسلح قوتیں بھی اس کے سامنے ٹھیر نہیں سکتیں۔ یہ مسلح قوتیں بھی تو اسی کا حصہ ہوتی ہیں اور یہ عوام ان قوتوں کے افرادِ خاندان، باپ، بیٹے اور بھائی ہی تو ہوتے ہیں۔
جس کے پاس ان تینوں قوتوں میں سے کوئی بھی نہ ہو، اس کے لیے لازم ہے کہ صبر سے کام لے، دوسروں کو بھی صبر کی تلقین کرے، اور روابط کو بڑھانے پر توجہ دے۔ یہاں تک کہ وہ ان قوتوں میں سے کسی ایک کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ جب تک اُسے یہ طاقت حاصل نہیں ہو جاتی وہ اپنی زبان اور قلم، دعوت اور تعلیم، رہنمائی و توجہ اور نصیحت و مشورے کے ذریعے منکر کی روک تھام کا فریضہ ادا کرے، اور اس وقت تک یہ فریضہ ادا کرتا رہے جب تک کہ راے عامہ کو برائی کے انسداد پر یکسو اور یک زبان نہ کر لے جو برائی کے خاتمے کا مطالبہ کرے۔ پھر وہ صاحب ِایمان آیندہ نسل کی ایسی تربیت کرے کہ وہ برائی کے انسداد کی اس ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے کے قابل ہو جائے۔ اس نکتے کی طرف حضرت ابو ثعلبہ خشنیؓ کی روایت کردہ حدیث میں اشارہ موجود ہے۔ حضرت ابو ثعلبہ خشنیؓ نے رسولؐ اللہ سے قرآنِ مجید کی اس آیت کے بارے میں پوچھا:
یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْ لَا یَضُرُّکُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اھْتَدَیْتُمْ (المائدہ۵:۱۰۵) ،اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنی فکر کرو، کسی دوسرے کی گمراہی سے تمھارا کچھ نہیں بگڑتا اگر تم خود راہِ راست پر ہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں جواب دیا: تم ایک دوسرے کو اس وقت تک نیکی کی طرف بلاتے اور برائی سے منع کرتے رہو جب تک تم طمع و لالچ کی پیروی، خواہشات کا اتباع، دنیا ہی کو سب کی ترجیح، اور صاحب ِراے کو اپنی راے کے فریب میں مبتلا نہ دیکھ لو۔ اس وقت تم اپنے اوپر ہی توجہ مرکوز رکھو اور عوام کو چھوڑ دو۔ تمھارے بعد ایسے حالات آنے والے ہیں جن میں صبر کرنے والے کی مثال انگارے کو ہتھیلی میں پکڑنے والے شخص کی مانند ہوگی۔ ان حالات میں دین پر عمل کرنے والے کے لیے ۵۰ آدمیوں جتنا اجر ہے جو تمھارے جیسے عمل کریں‘‘۔ (ترمذی)
یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔ ابودائود نے بھی اسے ابن مبارک کے حوالے سے روایت کیا ہے۔ ابن ماجہ، ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے عتبہ بن ابی حکیم سے روایت کیا ہے۔ بعض روایات میں ’’تم ایسے امور دیکھو جن کو روکنے کی طاقت نہ ہو‘‘ کے الفاظ بھی ہیں۔
یہاں ایک اور مسئلہ بھی ہے جس کو ہم فراموش نہیں کر سکتے، اور وہ یہ ہے کہ منکر کے ازالے میں نرمی، اور اس کے مرتکب لوگوں کو معروف کی دعوت دینے کی ضرورت ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس نرمی کی وصیت کر رکھی ہے اور ساتھ ہی یہ وضاحت بھی کر دی کہ اللہ تعالیٰ ہرمعاملے میں اس کو پسند کرتا ہے، اور یہ نرمی جس معاملے میں بھی آ جائے اُسے حسن عطا کر دیتی ہے اور جس معاملے سے نکل جائے اُسے بدنما بنا دیتی ہے۔
اس سلسلے میں بیان کیا گیا ایک واقعہ امام غزالیؒ نے احیاء علوم الدین میں ذکر کیا ہے کہ ایک آدمی مامون الرشید کے پاس آیا تاکہ اسے نیکی بدی کے بارے میں وعظ و نصیحت کرے۔ آدمی نے بات شروع کی تو اس کی گفتگو میں شدت آتی گئی اور اس نے مامون کو ’اے ظالم‘، ’اے فاجر‘ کے الفاظ کہہ کر مخاطب کیا۔ مامون بڑا سمجھ دار اور حلیم الطبع تھا۔ اس نے آدمی کا جواب اُسے سزا کی صورت میں نہ دیا جیساکہ حکمرانوں کا وتیرہ ہوتا ہے، بلکہ کہا: کچھ نرمی سے کام لو۔ اللہ تعالیٰ نے تجھ سے بہتر شخص کو نبی بنا کر مجھ سے بدتر لوگوں کی طرف بھیجا، اور اُسے نرمی کا حکم دیا۔ حضرت موسٰی ؑ اور ہارون ؑ کو جو دونوں تجھ سے بہتر ہیں، فرعون کی طرف مبعوث کیا جو مجھ سے بدتر ہے۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے دونوں پیغمبروں سے کہا:
اِذْھَبَآ اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰی o فَقُوْلَا لَہٗ قَوْلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّہٗ یَتَذَکَّرُ اَوْ یَخْشٰی (طٰہٰ۲۰:۴۳،۴۴) ، جائو تم دونوں فرعون کے پاس کہ وہ سرکش ہو گیا ہے۔ اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا، شاید کہ وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے۔
غور کیجیے کہ اس آیت میں حرف امید (لَّعَلَّہٗ یَتَذَکَّرُ اَوْ یَخْشٰی) شاید کہ وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے، اس کے باوجود استعمال کیے کہ فرعون کی سرکشی اور باغیانہ روش کا بھی دوسری جگہ تذکرہ بھی کیا (اِنَّـہٗ طَغٰی اُس نے سرکشی کی)۔ ان حروف امید کا یہاں استعمال اس بات کی دلیل ہے کہ داعی کے شایانِ شان نہیں کہ وہ اپنے مخاطبین کے بارے میں امید کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دے، خواہ وہ کفر و ظلم کے راستے پر ہی چل رہے ہوں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ مسلسل نرمی اور شائستگی کے ساتھ دعوت دے نہ کہ سختی و شدت کے ساتھ لوگوں کو حق کی طرف بلائے۔
میں یہاں اس بات سے آگاہ کرناضروری سمجھتا ہوں جو مسلمانوں کی اصلاح کے عمل میں مصروف لوگوں کے لیے نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے پسماندگی، مغربی استعمار، آمروں اور سیکولر حکومتوں کے ادوار میں جس ٹوٹ پھوٹ سے دوچار ہوئے ہیں، اس تخریب کے اثرات بہت گہرے ہیں۔ ان اثرات کو ختم کرنے کے لیے جزوی برائیوں کا ازالہ کافی نہیں ہے۔ مثلاً رقص و سرود کی محفلیں، عورتوں کا راستوں میں اظہار زینت کے ساتھ آنا جانا، آڈیو ویڈیو کیسٹوں کی فروخت وغیرہ اگرچہ نامناسب ہیں، جائز نہیں ہیں، مگر صرف انھی برائیوں کے خاتمے سے معاشرے کی اصلاح ناممکن ہے۔ معاملہ ان سے بھی بڑا اور عظیم ہے جو کامل، وسیع تر اور گہری بنیادوں پر تبدیلی کا تقاضا کرتا ہے___ ایسی تبدیلی جو افکار و تصورات، اقدار و معیارات، اخلاق و اعمال، آداب و روایات اور قوانین و ادارہ جات سب کا احاطہ کرتی ہو۔
اس سے پہلے مسلسل تعلیم، دائمی تربیت اور بہترین نمونوں کے ذریعے لوگوں کا اندر سے تبدیل ہونا ضروری ہے۔ جب لوگ اپنے آپ کو تبدیل کر لیں گے تو اس کے اہل قرار پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اپنے مسلّمہ قانون کے مطابق انھیں تبدیل کر دے، یعنی: اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ (الرعد۱۳:۱۱) ’’ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی‘‘۔ (ترجمہ: ارشاد الرحمٰن، بحوالہ qaradawi.net)
میں اکتوبر کے مہینے میں لسٹر، انگلستان میں زیرعلاج تھا کہ ۳۱؍اکتوبر۲۰۱۲ء کو یہ غم ناک اطلاع ملی کہ ہماری محترم بہن اور دورِحاضر میں اسلام کی بے باک ترجمان محترمہ مریم جمیلہ صاحبہ کا انتقال ہوگیا ہے___ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔ اللہ تعالیٰ ان کی نصف صدی سے زیادہ پر پھیلی ہوئی دینی، علمی اور دعوتی خدمات کو قبول فرمائے اور ان کواپنے جوارِرحمت میں اعلیٰ مقامات سے نوازے۔
محترمہ مریم جمیلہ سے میرا تعارف وائس آف اسلام کے ایڈیٹر کی حیثیت سے ان کے امریکا کے قیام کے دوران ہی ہوچکا تھا اور ہم ان کے مضامین شائع کر رہے تھے۔ پھر جون ۱۹۶۲ء میں پاکستان آمد کے موقع پر جن تین افراد نے کیماڑی کی بندرگاہ پر ان کا استقبال کیا، ان میں مَیں بھی شامل تھا۔ میرے ساتھ محترم چودھری غلام محمد صاحب اور برادر غلام حسین عباسی ایڈووکیٹ بھی تھے۔ ہم محترم مولانا مودودی کی ہدایت کے مطابق ان کو خوش آمدید کہنے کے لیے مامور تھے اور کراچی میں ان کے قیام اور پروگرام کے ذمہ دار تھے۔ انھوں نے نیویارک سے پاکستان کی ہجرت کا یہ سفر ایک مال بردار جہاز (cargo ship) میں طے کیا تھا اور غالباً کسٹم اور امیگریشن کی وجہ سے پہلے دن انھیں اترنے نہیں دیا گیا جس کے نتیجے میں انھیں ایک رات مزید جہاز پر ہی گزارنا پڑی۔ اگلے دن ہم انھیں گھر لے آئے۔ ان کے قیام کا انتظام برادرم غلام حسین عباسی کے بنگلے پر کیا گیا تھا اور اسی رات کا کھانا میرے گھر پر تھا۔ پھر مرحوم ابراہیم باوانی صاحب اور عباسی صاحب کے گھر پر کئی محفلیں ہوئیں۔ اس طرح ان سے وہ ربط جو علمی تعاون کے ذریعے قائم ہوا تھا، اب ذاتی واقفیت اور بالمشافہ تبادلۂ خیال اور ربط اور ملاقات کے دائرے میں داخل ہوگیا۔
کراچی میں ان کا قیام مختصر رہا اور وہ چند ہی دن میں لاہور منتقل ہوگئیں۔ جب تک وہ مولانا محترم کے گھر میں مقیم رہیں، لاہور کے ہرسفر کے دوران ان سے بات چیت ہوتی رہی۔ پھر عملاً ملاقات کا سلسلہ ٹوٹ گیا مگر علمی تعلق قائم رہا، اور ان کے انتقال سے چند ماہ قبل تک خط و کتابت کا سلسلہ رہا جس کا بڑا تعلق اسلامک فائونڈیشن لسٹر اور اس کے مجلے مسلم ورلڈ بک ریویو (MWBR) کے سلسلے میں ان کے قلمی تعاون سے رہا۔۵۰برس پر محیط ان تعلقات میں ذاتی سطح پر کبھی کوئی کشیدگی رُونما نہیں ہوئی۔ البتہ علمی امور پر ہمارے درمیان وسیع تر اتفاق راے کے ساتھ بڑا مفید اختلاف بھی رہا حتیٰ کہ اسلامک فائونڈیشن کے مجلے Encounter میں میرے ایک مضمون Man and Civilization in Islam پر انھوں نے ایک تنقیدی مقالہ لکھا جس کا مَیں نے اسی شمارے میں جواب بھی تحریر کیا۔ یہ سب بڑے دوستانہ ماحول میں ہوا اور الحمدللہ ہمارے باہمی اعتماد او ر تعاون کا رشتہ مضبوط اور خوش گوار رہا جو ہمارے پُرخلوص اور خالصتاً لِلّٰہ تعلق کی ایک روشن مثال ہے اور اُمت کے درمیان اختلاف کے رحمت ہونے کی نبوی بشارت کا ایک ادنیٰ مظہر ہے۔ ان کی آخری تحریر جو امریکا سے شائع ہونے والی ایک کتاب Children of Dust: A Portrait of a Muslim Youngman، از علی اعتراز (Ali Eteraz) پر ان کا تبصرہ ہے جو MWBR کے جنوری ۲۰۱۳ء کے شمارے میں شائع ہونے والا ہے اور جس کا آخری جملہ یہ ہے: "The semi - fiction of this story will certainly give the reader a negative picture of Pakistani youth today. (یہ نیم افسانوی کہانی یقینا قاری کو آج کی پاکستانی نوجوان نسل کی منفی تصویر دکھائے گی)۔
اسی طرح ان کے شوہر برادرم محترم محمد یوسف خان صاحب سے بھی میرا تعلق ۱۹۵۱ء سے ہے جب میں جمعیت میں تھا اور وہ جماعت کے سرگرم رکن تھے۔ الحمدللہ یہ رشتہ بھی بڑا مستحکم رہا اور اس طرح شوہر اور بیوی دونوں ہی سے میرا تعلق خاطر رہا۔ محترمہ مریم جمیلہ صاحبہ میرے نام اپنے خطوط میں اپنے شوہر کا ذکر "My Khan Sahab" [میرے خان صاحب] سے کیا کرتی تھیں جو محبت اور مودّت کے جذبات کے ترجمان ہیں۔ ان خطوط میں ترجمان القرآن کے ’اشارات‘ کے بارے میں یوسف خان صاحب کے احساسات سے مجھے مطلع کرتی تھیں۔ یوسف خان صاحب کو ٹیلی فون پر تعزیتی جذبات پہنچانے کی کوشش کی لیکن وہ غم میں ایسے نڈھال تھے کہ بات نہ ہوسکی، البتہ ان کے صاحب زادے تک اپنے غم و اندوہ کے جذبات پہنچا دیے اور آج ان صفحات میں اس عظیم خاتون کے بارے میں اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار کررہا ہوں۔
مریم جمیلہ جن کا ماں باپ کا دیا ہوا نام مارگریٹ مارکس تھا، نیویارک کے ایک سیکولر یہودی گھرانے میں ۲۳ مئی ۱۹۳۴ء میں پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم کے بعد انھوں نے روچسٹر یونی ورسٹی میں ۱۹۵۱ء میں داخلہ لیا۔ علم و ادب اور میوزک اور تصویرکشی (painting)سے طبعی شغف تھا۔ فلسفہ اور مذہب بڑی کم عمری ہی سے ان کے دل چسپی کے موضوعات تھے، بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ حق کی تلاش اور زندگی کی معنویت کی تفہیم ان کی فکری جستجو کا محور رہے۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ اسلام سے ان کا اولین تعارف یونی ورسٹی کے کورس کے ایک ابتدائی مضمون Judaism in Islam کے ذریعے ہوا، جو ایک یہودی استاد ابراہم اسحق کاٹش پڑھاتا تھا۔ اس کی کوشش تھی کہ اسلام کو یہودیت کا چربہ ثابت کرے لیکن تعلیم و تدریس کے اس عمل میں موت اور زندگی بعد موت کے مسئلے پر مریم جمیلہ اس کے خیالات سے خصوصی طور پر متاثر ہوئیں۔ اپنے ایک انٹرویو میں اس کا ذکر اس طرح کیا:
نومبر ۱۹۵۴ء کی ایک صبح، پروفیسر کاٹش نے اپنے لیکچر کے دوران ناقابلِ تردید دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حضرت موسٰی ؑنے توحید کی جو تعلیمات دی ہیں اور جو الوہی قانون ان پر نازل ہوا ہے ناگزیر ہے۔ اگر اخلاقی قوانین خالصتاً انسان کے بنائے ہوئے ہوں، جیساکہ اخلاقی کلچر اور دیگر الحادی اور دہریت پر مبنی فلسفوں میں بیان کیا جاتا ہے، تو وہ محض ذاتی راے اور ذوق، متلون مزاجی ، سہولت اور ماحول کی بنا پر تبدیل ہوسکتے ہیں۔ اس کا نتیجہ مکمل انتشار ہوگا جس کے نتیجے میں انفرادی اور اجتماعی زوال برپا ہوسکتا ہے۔ آخرت پر ایمان، جیساکہ ربی تلمود میں بیان کرتے ہیں، پروفیسر کاٹش نے دلائل دیتے ہوئے کہا، کہ محض ایک خوش گمانی نہیں ہے بلکہ ایک اخلاقی تقاضا ہے۔ اس نے کہا کہ صرف وہ لوگ جو پختگی سے اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک کو روزِ قیامت خدا کے حضور پیش ہونا ہے، اور زمین پر اپنی زندگی کے تمام اعمال کی جواب دہی کرنا ہوگی اور اس کے مطابق جزا و سزا کا سامنا کرنا ہوگا، صرف وہی اپنی ذات پر اتنا قابو رکھیں گے کہ اُخروی خوشنودی کے حصول کے لیے عارضی خوشیوں کو قربان اور مصائب کو برداشت کرسکیں۔
یہ بھی ایک دل چسپ حقیقت ہے کہ جس طرح یہودی پروفیسر کے یہ الفاظ نوعمر مارگریٹ مارکس کے دل و دماغ پر مرتسم ہوگئے اور زندگی کا رُخ متعین کرنے میں ایک فیصلہ کن کردار ادا کیا، اسی طرح مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کے جس پہلے مضمون نے ان کے قلب و نظر کو روشن کیا وہ ’زندگی بعد موت‘ کا میرا کیا ہوا ترجمہ تھا، جو جنوبی افریقہ کے مجلے Muslim Digest میں شائع ہوا تھا۔ مریم جمیلہ کی شخصیت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان چیزوں کو اچھی طرح سمجھا جائے جو ان کی زندگی کا رُخ متعین کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی نظر آتی ہیں۔ ان کی اپنی بے تاب روح اور تلاشِ حق کی جستجو، اور حقیقت کی وہ تفہیم جو توحید اور آخرت کے تصور پر مبنی ہے، جس میں زندگی کو خانوں میں بانٹنے کی کوئی گنجایش نہیں اور جس کے نتیجے میں انسان ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً (تم پورے کے پورے اسلام میں آجائو۔البقرہ ۲:۲۰۸)کا نمونہ اور زمین پر اللہ کے خلیفہ کا کردار ادا کرنے میں زندگی کا لطف اور آخرت کی کامیابی تلاش کرتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو زندگی میں یکسوئی پیدا کرتی ہے۔ تبدیلی کے لیے انسان کو آمادہ ہی نہیں کرتی بلکہ مطلوب کو موجود بنانے ہی کو زندگی کا مشغلہ بنا دیتی ہے اور بڑی سے بڑی آزمایش میں اس کا سہارا بن جاتی ہے۔ مریم جمیلہ نے امریکا کی پُرآسایش زندگی کو چھوڑ کر پاکستان کی طرف ہجرت، اور بڑی سادہ اور مشکلات سے بھرپور لیکن دل کو اطمینان اور روح کو شادمانی دینے والے راستے کو اختیار کیا اور پوری مستعدی، استقامت اور خوش دلی کے ساتھ سفر حیات کو طے کیا۔ یہ سب اسی ایمان، آخرت کی کامیابی کے شوق، اور انسانی زندگی کو اللہ کے حوالے تصور کرنے کے جذبے کا کرشمہ ہے۔
محترمہ مریم جمیلہ ۱۹۶۰ء کی دہائی میں بڑی کم عمری کے عالم میں مسلم دنیا کے علمی اُفق پر رُونما ہوئیں اور بہت جلد انھوں نے ایک معتبر مقام حاصل کرلیا۔ انھوں نے اسلام کے اس تصور کو جو قرآن و سنت کی اصل تعلیمات پر مبنی ہے اور جو زندگی کے ہرپہلو کی الہامی ہدایت کی روشنی میں تعمیروتشکیل کا داعی ہے، بڑے مدلل انداز میں پیش کیا اور وقت کے موضوعات اور اس دور کے فکری چیلنجوں کی روشنی میں کسی مداہنت کے بغیر اسلام کی دعوت کو پیش کیا ۔ اس باب میں ان کو یہ منفرد حیثیت حاصل تھی کہ وہ نہ صرف ایک مسلمان صاحب ِ علم خاتون اور داعیہ تھیں، بلکہ امریکی ہونے کے ناتے مغربی تہذیب سے پوری طرح آشنا تھیں اور ان کی حیثیت Insider یعنی شاہدُ مِنھم کی تھی۔
ان کو موضوع اور زبان دونوں پر قدرت حاصل تھی اور وہ اپنی بات بڑے جچے تلے انداز میں مسکت دلائل کے ساتھ بڑی جرأت سے پیش کرتی تھیں۔ ۳۰ سے زیادہ کتابوں کی مصنفہ تھیں اور ان کے علاوہ بیسیوں مضامین اور تبصرے ان کے قلم سے نکلے۔ سیدولی نصر نے دی اوکسفرڈ انسائی کلوپیڈیا آف اسلامک ورلڈ میں ان پر اپنے مقالے میں بجا طور پر یہ لکھا ہے کہ اپنے پاکستان کے قیام کے دوران انھوں نے دورِجدید میں اسلام کے تحریکی تصور کی بڑی عمدگی کے ساتھ ترجمانی کی۔ خصوصیت سے اسلام اور مغربی تہذیب کے بنیادی فرق اور جداگانہ نقطہ ہاے نظر کو انھوں نے بڑی وضاحت کے ساتھ موضوع بنایا اور جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کے افکارونظریات کو متاثر کیا۔ ان کے الفاظ میں :
مریم جمیلہ نے ۱۹۶۲ء میں پاکستان کا سفر کیا اور لاہور میں مولانا مودودی کے گھرانے میں شامل ہوگئیں۔ جلد ہی انھوں نے جماعت اسلامی کے ایک رکن محمد یوسف خان سے بطور ان کی دوسری بیوی کے شادی کرلی۔ پاکستان میں سکونت اختیار کرنے کے بعد انھوں نے اپنی پوری زندگی میں بہت سی مؤثر کتابیں لکھیں جن میں جماعت اسلامی کے نظریے کو ایک منظم انداز سے بیان کیا۔ مریم جمیلہ کو اسلام اور مغرب کے درمیان بحث سے خصوصی دل چسپی تھی جو مولانا مودودی کی فکر کا مرکزی تصور نہ ہوتے ہوئے بھی اس کا ایک اہم پہلو ہے۔ انھوں نے مغرب کے خلاف اسلامی استدلال کو مزید اُجاگر کیا اور عیسائیت، یہودیت، اور سیکولر مغربی فکر پر احیائی تنقید کو منظم انداز سے بیان کیا۔ مریم جمیلہ کی اہمیت ان کے مشاہدات کے زور میں نہیں ہے بلکہ اس اسلوبِ بیان میں ہے جس میں وہ اندرونی طور پر ایک مربوط مثالیے کو مغرب کے احیائی استرداد کے لیے پیش کرتی ہیں۔ اس حوالے سے ان کے اثرات جماعت اسلامی کے دائرے سے بہت آگے تک جاتے ہیں۔پوری مسلم دنیا میں احیائی فکر کے ارتقا میں ان کا کردار بہت اہم رہا ہے۔
محترمہ مریم جمیلہ کی چند تعبیرات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے اور خود انھوں نے بھی اُن اہلِ علم سے کہیں کہیں اختلاف کیا ہے جن کے افکار و نظریات نے خود ان کے ذہن اور فکر کی تعمیر میں اہم حصہ لیا ہے، لیکن مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ بحیثیت مجموعی ان کی ۵۰سالہ علمی کاوش ہماری فکری تاریخ کا ایک روشن باب ہے، اور خصویت سے مغربی تہذیب پر ان کی تنقید ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان کے قلم میں بڑی جان تھی اور انھوں نے ایمان اور یقین کے ساتھ دین کے پیغام کو پیش کیا اور تمام انسانوں کو کفر، الحاد، بے یقینی، اخلاقی بے راہ روی اور سماجی انتشار اور ظلم و طغیان کی تباہ کاریوں سے بچانے کے گہرے جذبۂ خیرخواہی کے ساتھ اس کام کو انجام دیا جو کارِرسالت کا طرئہ امتیاز ہے۔ قرآن نے رجال کے بارے میں جو شہادت دی ہے وہ نساء کے باب میں بھی اتنی ہی سچی ہے کہ :
مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ ج فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ وَ مَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًا o (الاحزاب ۳۳:۲۳)، ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ انھوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔
محترمہ مریم جمیلہ کی زندگی کے دو پہلو ہیں جن کو سمجھنا مفید ہوگا۔ ایک ان کی علمی شخصیت ہے جس میں بلاشبہہ انھوں نے اپنی مسلسل محنت اور سلاست فکر کے باعث ایک نمایاں مقام حاصل کیا۔ انھوں نے مغربی فکروتہذیب پر بڑے علمی انداز میں محاکمہ کیا اور اس کے طلسم کو توڑنے میں اہم کردار ادا کیا۔ فلسفہ، مذہبیات اور عمرانیات کے اہم ترین موضوعات کے ساتھ انفرادی زندگی اور اجتماعی معاملات میں اسلام کی رہنمائی کو بڑے صاف الفاظ میں بیان کیا اور فکرِاسلامی کی ترویج و تبلیغ کے باب میں اہم خدمات انجام دیں۔ اس کے ساتھ ان کی کوشش تھی کہ اسلام کے پیغام کو ہرانسان تک پہنچائیں، اور اسے دنیا اور آخرت کی کامیابی کے راستے پر لانے کی کوشش کریں۔ اس طرح علمی اور فکری خدمات کے ساتھ ان کا دامن دعوتی اور تبلیغی مساعی سے بھی بھرا ہوا ہے۔ اس سلسلے میں ان کا شاہکار وہ خط ہے جو انھوں نے اپنے والدین کو لکھا اور جس کا ایک ایک لفظ صداقت پر مبنی، دعوتِ حق کی تڑپ کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ ان کی شخصیت اور مقصدحیات کو سمجھنے کے لیے یہ خط بہترین کلید ہے۔ اس کا بڑا خوب صورت ترجمہ کرنل (ریٹائرڈ) اشفاق حسین نے مریم جمیلہ کے خطوط پر مبنی ایک طرح کی خودونوشت کے ترجمے امریکا سے ہجرت میں کیا ہے اور اس سے چند اقتباس ایک آئینہ ہے جن میں مریم جمیلہ کے فکروفن اور جذبے اور اخلاص کی حقیقی تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔
مریم جمیلہ لکھتی ہیں:’’آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ معاشرہ جس میں آپ کی پرورش ہوئی ہے اور جس میں آپ نے اپنی پوری زندگی گزار دی ہے، بڑی تیزی سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور مکمل تباہی کے قریب ہے۔ درحقیقت ہماری تہذیب کا زوال بھی جنگ ِ عظیم کے وقت ہی ظاہر ہوناشروع ہوگیا تھا لیکن دانش وروں اور ماہرین عمرانیات کے سوا کسی کو احساس نہیں ہوا کہ کیا ہو رہا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے اختتام کے بعد اور خاص طور پر پچھلے دوعشروں میں یہ اتنی تیزی سے زوال کے اس مرحلے پر پہنچ چکی ہے کہ کوئی شخص اسے مزید نظرانداز نہیں کرسکتا۔
’’زندگی کے معاملات اور رویوں میں کسی قابلِ احترام اور قابلِ قبول معیار کے نہ ہونے کی وجہ سے اخلاقی بے راہ روی،تفریحی ذرائع ابلاغ پر مبنی کج روی، بوڑھوں سے ناروا سلوک، طلاق کی روزافزوں شرح جو اتنی بڑھ چکی ہے کہ نئی نسل کے لیے پایدار اور خوش گوار ازدواجی زندگی ایک خواب بن کر رہ گئی ہے۔ معصوم بچوں کے ساتھ غلط کاریاں، فطری ماحول کی تباہی، نایاب اور قیمتی وسائل کا بے محابا ضیاع، امراضِ خبیثہ اور ذہنی بیماریوں کی وبائیں، منشیات کی لت، شراب نوشی، خودکشی کا بڑھتا ہوا رجحان، جرائم، لُوٹ مار، حکومتی اداروں میں بے ایمانی اور قانون کا عدم احترام___ ان تمام خرابیوں کی ایک ہی وجہ ہے۔
’’اور وہ وجہ ہے لامذہبیت اور مادیت پر مبنی نظام کی ناکامی___، نیک ماورائی، اعلیٰ و ارفع مذہبی نظام سے دُوری اور اخلاقی قدروں کا ناپیدا ہونا___ اعمال کا دارومدار عقیدوں پر ہوتا ہے کیونکہ نیت ہی درست نہ ہو توعمل ہمیشہ ناکام ہوتا ہے.....
’’اگر زندگی ایک سفر ہے تو کیا یہ حماقت نہیں ہوگی کہ بندہ راستے میں آنے والی منزلوں پر آرام دہ ایام اور خوش گوار ٹھکانوں کی فکر تو کرے، لیکن سفر کے اختتام کے بارے میں کچھ نہ سوچے؟ آخر ہم کیوں پیدا ہوئے تھے؟ اس زندگی کا کیا مطلب ہے؟ کیا مقصد ہے؟ آخر ہمیں مرنا ہے اور ہم میں سے ہر ایک کے ساتھ موت کے بعد کیا معاملہ ہونا ہے؟
’’ابو! آپ نے ایک سے زائد بار مجھے بتایا ہے کہ آپ کسی روایتی مذہب کو اس لیے قبول نہیں کرسکتے کیونکہ آپ کو یقین ہے کہ الہامی مذہب جدید سائنس سے متضاد چیز ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سائنس اور ٹکنالوجی نے ہمیں ساری دنیا کے بارے میں بہت معلومات فراہم کی ہیں، ہمیں آرام و آسایشات اور سہولتیں فراہم کی ہیں، اس نے ہماری کارکردگی میں اضافہ کیا ہے اور ان بیماریوں کے علاج دریافت کیے ہیں جو جان لیوا ثابت ہوتی تھیں، لیکن سائنس ہمیں یہ نہیں بتاتی اور نہیں بتا سکتی کہ زندگی اور موت کا کیا مطلب ہے۔ سائنس ہمیں ’کیا اور کیسے‘ کا جواب تو دیتی ہے لیکن ’کیوں‘ کے سوال کاکبھی کوئی جواب نہیں دیتی۔ کیا سائنس کبھی یہ بتا سکتی ہے کہ کیا درست ہے اور کیا غلط؟ کیا نیکی ہے، کیا برائی؟ کیا خوب صورت ہے اور کیا بدصورت؟ ہم جو کچھ کرتے ہیں اس کے لیے کس کو جواب دہ ہیں؟ مذہب ان سارے سوالوں کے جواب دیتا ہے۔
’’آج امریکا کئی لحاظ سے قدیم روم کے زوال و شکست کے آخری مرحلوں سے گزر رہا ہے۔ سوچ اور فکر رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ لامذہبیت ہمارے معاشرتی نظام کی مستحکم بنیاد ثابت نہیں ہوسکی۔ وہ مضطرب ہوکر مختلف سمتوں میں اس بحران کا حل تلاش کر رہے ہیں لیکن انھیں ابھی تک نہیں پتا کہ یہ حل انھیں کہاں سے ملے گا۔ یہ تشویش چند ماہرین عمرانیات تک محدود نہیں ہے۔ قومی یک جہتی کی ٹوٹ پھوٹ کی بیماری براہِ راست آپ کو، مجھے اور ہم میں سے ہر ایک کو متاثر کررہی ہے.....
’’آج امریکی باشندے، جوان ہوں یا بوڑھے بڑی تندہی سے رہنمائی کی تلاش میں ہیں۔ تلخ تجربوں کے بعد انھیں پتا چلا ہے کہ زندگی کے کسی مقصد اور صراطِ مستقیم کی طرف قابلِ اعتماد رہنمائی کے بغیر شخصی آزادیاں اور وہ ساری سہولتیں جو امریکیوں کو حاصل ہیں، لایعنی اور اپنی ذات کی تباہی کے مترادف ہیں۔سیکولرازم اور مادیت امریکیوں کو ان کی انفرادی یا اجتماعی زندگی میں کسی طرح کی مثبت اور تعمیری، اخلاقی قدریں فراہم نہیں کرسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ عیسائیت اور صہیونیت کے ہاتھوں ناکامی کے بعد امریکا میں زیادہ سے زیادہ لوگ اسلام کی طرف مائل ہورہے ہیں۔ نومسلم اسلام میں ایک پاکیزہ، صحت مند، صاف ستھری اور دیانت دار زندگی کا سراغ پاتے ہیں۔ مسلمانوں کے نزدیک موت سے ہرچیز ختم نہیں ہوجاتی بلکہ وہ اس کے بعد آخرت میں ہمیشہ رہنے والی نعمتوں، پایدار ذہنی سکون اور دائمی خوشیوں کی توقع رکھتے ہیں۔
’’قرآن مقدس اور رسولِ خدا محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی مستند احادیث میں پائی جانے والی یہ ہدایت و رہنمائی صدیوں سے مشرق کے دُورافتادہ علاقوں کی نسلوں تک محدود نہیں تھی، بلکہ آج مغرب کو جو معاشی، معاشرتی، اخلاقی اور سیاسی مسائل درپیش ہیں، ان کا حل بھی ہدایت کے انھی سرچشموں میں موجود ہے۔ علاوہ ازیں اسلام میں سردمہری، خالق سے دُوری یا خالق کی بے نیازی کے احساسات نہیں پائے جاتے۔ مسلمان ایک ایسے خدا پر یقین رکھتے ہیں جس میں اپنائیت ہے۔ جس نے نہ صرف اس کائنات کو پیدا کیا بلکہ وہ اس کے نظم و نسق کا بھی ذمہ دار ہے اور وہی اس کا حکمران ہے۔ وہ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے اور ہم میں سے ہر ایک کا بہت خیال رکھتا ہے۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ ہم سب سے ہر ایک کی شہ رگ سے بھی قریب ہے.....
’’آپ دونوںکافی طویل عمر پاچکے ہیں اور بہت کم مہلت باقی رہ گئی ہے۔ اگر آپ فوراً عمل کریں تو زیادہ تاخیر نہیں ہوگی۔ اگر آپ کا فیصلہ مثبت ہو تو پاکستان میں اپنے پیارے لوگوں سے آپ کا نہ صرف خونی رشتہ ہوگا بلکہ ایمان کا رشتہ بھی قائم ہوجائے گا۔ آپ نہ صرف اس دنیا میں ان سے محبت کرسکیں گے بلکہ ہمیشہ رہنے والی زندگی میں بھی آپ ہمارے ساتھ ہوں گے.....
’’میں ایک بیٹی کی حیثیت سے، جسے آپ سے محبت ہے، آخروقت تک چاہوں گی کہ آپ اس بُرے نصیب سے بچ جائیں لیکن فیصلہ صرف آپ کے ہاتھ میں ہے۔ آپ کو مکمل اختیار ہے کہ آپ اس دعوت کو قبول کریں یا مسترد کردیں۔ آپ کے مستقبل کا انحصار اس انتخاب پر ہے جو آپ نے اب کرنا ہے۔
اپنی ساری محبتوں اور نیک خواہشات کے ساتھ۔
آپ کی وفادار بیٹی، مریم جمیلہ‘‘۔ (امریکا سے ہجرت، ص ۲۰-۲۵)
محترمہ مریم جمیلہ کی زندگی کا دوسرا پہلو ان کی شخصی زندگی ہے جو خود ایک روشن مثال کی حیثیت رکھتی ہے۔ جب انھوں نے اسلام کی حقانیت کو پالیا اور اپنے آپ کو اس کے سانچے میں ڈھالنے کا عزم کرلیا تو پھر انھوں نے اپنے کو خود اپنوں کے درمیان اجنبی محسوس کیا۔ امریکا میں وہ اپنے کو انمل بے جوڑ محسوس کرنے لگیں اور مسلمان سوسائٹی اور اسلامی زندگی کی تلاش میں انھوں نے پاکستان ہجرت اسی جذبے سے کی جس جذبے سے مکہ کے مسلمانوں نے مدینہ کے لیے ہجرت کی تھی اور پھر مدینہ ہی کے ہوکر رہ گئے تھے۔ گو ان کی تمام توقعات پوری نہیں ہوئیں لیکن انھوں نے پاکستان کو اپنا گھر بنالیااور مڑ کر امریکا جانے کے بارے میں کبھی ایک بار بھی نہ سوچا، بلکہ برادرم یوسف خان صاحب نے ان کو بار بار مشورہ دیا مگر انھوں نے اس طرف ذرا بھی رغبت ظاہر نہ کی۔ امریکا میں ان کے رہن سہن کا معیار امریکی معیار سے بھی اوسط سے کچھ بہتر ہی تھا لیکن پاکستان میں جس عسرت اور سادگی سے انھوں نے زندگی گزاری اور صبروثبات کا جو مظاہرہ کیا وہ قرونِ اولیٰ کے لوگوں کی یاد تازہ کرتا ہے۔ ایک شادی شدہ شخص سے بخوشی رشتۂ ازدواج استوار کیا، اپنی ’سوکن‘ کے ساتھ اس طرح مل جل کر رہیں کہ یک جان اور دو قالب کا نمونہ پیش کیا۔ دونوں کے غالباً چودہ پندرہ بچے بھی ایک دوسرے سے شیروشکر رہے اور سب ہی بچے بڑی ماں (محترمہ شفیقہ صاحبہ) کو اماں اور چھوٹی ماں (محترمہ مریم جمیلہ) کو آپا کہتے تھے اور مریم جمیلہ نے وصیت کی کہ ان کی قبر بھی محترمہ شفیقہ صاحبہ، جن کا انتقال چند برس ہی قبل ہوا تھا، کی قبر کے پاس ہو۔ مادہ پرستی اور نام و نمود کی فراوانی کے اس دور میں درویشی اور اسلامی صلۂ رحمی کی ایسی مثال اسلام ہی کا ایک معجزہ ہے، جس کی نظیر آج کے دور میں بھی دیکھنے کی توفیق اللہ تعالیٰ کی اس نیک بی بی کے طفیل ہم سب کو حاصل ہوئی ع
آسماں اس کی لحد پر شبنم افشانی کرے
ماں اپنے جوان بیٹے کے سرہانے کھڑی اس کے ساتھ ہونے والا اپنا آخری مکالمہ دہرا رہی تھی: ’’خالد دفتر سے آتے ہی ہمیں خدا حافظ کہہ کر گھر سے نکلنے لگا تو میں نے پوچھا اتنی کیا جلدی ہے۔۔؟ کہاں جارہے ہو۔۔؟ جاتے جاتے مسکراتے ہوئے شوخی سے کہنے لگا: ’’ماں تم مجھے شادی کرنے کا کہتی رہتی ہو، آج میں خود ہی حوروں سے منگنی کرنے جارہا ہوں‘‘۔ پھر کہنے لگا کل رات صدر محمد مرسی کے خلاف اپوزیشن نے ایوانِ صدر کے باہر احتجاج کرتے ہوئے بہت توڑ پھوڑ کی تھی___ آج اخوان کی طرف سے صدر کی حمایت میں، ایوانِ صدر کے باہر مظاہرے کا اعلان کیا گیا ہے، میں بھی وہیں جارہا ہوں۔ رات گئے اچانک معلوم ہوا کہ اپوزیشن نے نہ صرف دوبارہ ہنگامہ کیا ہے بلکہ اخوان کے مظاہرے پر حملہ کرتے ہوئے کئی افراد کو شہید و زخمی کردیا ہے۔ میرا خالد بھی زخمی ہوگیا تھا اور گذشتہ تین روز سے بے ہوشی کے عالم میں ہسپتال میں داخل تھا۔ آج جب وہ چلاگیا ہے تو مجھے بار بار اس کا وہی جملہ سنائی دے رہا ہے ’’ماں! حوروں سے منگنی کرنے جارہا ہوں۔ ماں! حوروں سے___ ‘‘ شہید کا غم زدہ باپ اور بھائی بھی قریب کھڑے تھے۔ والد نے ہاتھ میں خالد کا پیشہ ورانہ شناختی کارڈ تھام رکھا تھا۔ وہ وزارتِ داخلہ میں قانونی مشیر کی حیثیت سے ملازمت کرتا تھا۔ کارڈ پر تفصیلات درج تھیں: خالد طٰہٰ عبد المنعم رکن پروفیشنل کلب۔ کارڈ نمبر ۳۳۸۰۔ کارآمد: ۲۰۱۲ء کے اختتام تک۔ چند سال پہلے بننے والے اس کارڈ کا اندراج کرنے والوں کو کیا معلوم تھا کہ ۲۰۱۲ء کا اختتام صرف کارڈ کی مدت ختم ہونے کی نہیں، خود خالد طٰہٰ کی مہلت حیات کا اختتام بھی ہوگا۔ خالد ٹھیک ۱۲/۱۲/۱۲ کو ’حوروں سے منگنی‘ کرنے چلا گیا وہ یقینا وہاں خوش و خرم ہوگا۔
احتجاج، مظاہرے، اعتراضات، تنقید ۔۔۔ یقینا اس حق سے کسی کو محروم نہیں کیا جاسکتا۔۔ لیکن دنگا فساد، گالم گلوچ اور قتل و غارت بے دلیل لوگوں کے ہتھیار ہیں۔ مصر میں حسنی مبارک کی ۳۰سالہ آمریت کے خاتمے کے بعد اس کی باقیات کو عوامی نمایندگی کے ہر پلیٹ فارم پر ناکامی ہوئی۔ اب وہ جلاؤ گھیراؤ کی راہ اختیار کررہے ہیں۔ بظاہر تو حالیہ بحران کا آغاز ۲۲ نومبر سے ہوا جب صدر محمد مرسی نے دستوری اعلان کے ذریعے استثنائی اختیارات حاصل کرلیے۔ یہ اختیارات دستور کی منظوری تک کی مختصر، محدود اور متعین مدت کے لیے تھے۔اس اعلان کو فرعونیت، نئی آمریت اور نہ جانے کیا کیا نام دیے گئے، لیکن دو اسرائیلی ذرائع کچھ اور خبر دیتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ اُمور کے اسرائیلی ماہر بنحاس عنباری نے غزہ پر اسرائیل کی حالیہ جارحیت پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک روسی ٹی وی چینل رشیا ٹوڈے (Russia Today) پر کہا: ’’صدر مرسی نے غزہ پر اسرائیلی حملہ، شروع ہونے سے پہلے ہی ناکام بنادیا تھا‘‘۔ سننے والوں کو یہ بات پوری طرح سمجھ میں نہ آئی۔ ہرایک نے اپنی اپنی تاویل کی۔ چند روز بعد ایک معروف اسرائیلی ویب سائٹ نے اصل راز سے پردہ اُٹھادیا کہ غزہ پر اسرائیل کا حملہ شروع ہونے سے دو ہفتے قبل ۴ نومبر ۲۰۱۲ء کو حسنی مبارک کے سابق وزیرخارجہ عمروموسیٰ نے مقبوضہ فلسطین کا ایک خفیہ دورہ کیا تھا، جس میں وہ سابق اسرائیلی وزیر خارجہ سیپی لیفنی سے ملے۔ لیفنی نے انھیں اسرائیلی قیادت کا پیغام پہنچایا: ’’صدر مرسی کو اندرونی سیاسی خلفشار میں الجھایا جائے‘‘۔ عمروموسیٰ اس ۱۰۰ رکنی دستوری کونسل کے رکن تھے جو دستوری مسودہ تیار کررہی تھی۔ انھوں نے مصر واپس آتے ہی دستور کی بعض شقوں پر اعتراض جڑدیا۔ اتفاق سے یہ وہی شقیں تھیں جو خود موصوف ہی نے تجویز کی تھیں۔ پھر کونسل کے سربراہ بیرسٹر غریانی سے ’توتو مَیں مَیں‘ کرتے ہوئے دستوری کونسل سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا۔ ذرائع ابلاغ نے اس استعفے اور معترض علیہ شقوں کو بنیاد بناکر ملک میں ایک مناقشت شروع کردی۔ اسی اثنا میں غزہ پر حملہ شروع ہوگیا۔ لیکن صدر مرسی نے کسی اندرونی سیاسی تنازے کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے، پوری قوت سے اہل غزہ کا ساتھ دیا اور بالآخر آٹھ روز کی جنگ کے بعد اسرائیل کو خود، فلسطینی شرطیں مانتے ہوئے جنگ بندی کا معاہدہ کرنا پڑا۔
انھی دنوں قاہرہ کے ایک بڑے بنگلے میں ایک خفیہ اجلاس ہوا، جس میں حسنی مبارک کی باقیات میں سے اس کی وفادار جج تہانی الجبالی، جوڈیشل کلب کے صدر احمد الزند، حسنی مبارک کے وزیر خارجہ عمروموسیٰ اور محمد البرادعی جیسے افراد شریک ہوئے۔ انھوں نے منصوبہ تیار کیا کہ دستوری عدالت کے ذریعے دستور ساز کونسل کو کالعدم قرار دے دیا جائے اور پھر قومی اسمبلی کی طرح ایوان بالا، یعنی سینیٹ کو بھی توڑ دیا جائے۔ باقی رہ جائے گا صدارتی عہدہ تو اسے بھی عدالت میں چیلنج کردیا جائے۔ اس اجلاس کی پوری کارروائی صدر محمد مرسی تک پہنچ گئی۔ دستوری مسودہ تقریباً تیار تھا، جو ۱۰دسمبر سے پہلے پہلے صدر کو پیش کیا جانا تھا اور پھر ۱۵ روز کے اندر اندر اس پر ریفرنڈم ہونا تھا۔ صدرمرسی نے احتیاطی پیش رفت کرتے ہوئے ۲۲نومبر کا مشہور عالم (اپوزیشن کے بقول فرعونیت پر مبنی) صدارتی آرڈی ننس جاری کیا۔ اس کے چار نکات اہم ترین تھے: lدستور کی منظوری تک سینیٹ کو نہیں توڑا جاسکتا، نہ دستوری کونسل ہی کو کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے۔l حسنی مبارک اور اس کے آلۂ کاروں پر انقلابی تحریک کے دوران شہید کیے جانے والے افراد کے مقدمے کی دوبارہ سماعت کی جائے گی l حسنی مبارک کے متعین کردہ اٹارنی جنرل عبد المجید محمود کو برطرف کیا جاتا ہے کیونکہ اس نے حسنی مبارک اور اس کے آلۂ کاروں کی جان بچانے کے لیے مقدمے کی قانونی بنیاد ہی کھوکھلی رکھی۔ lدستور منظور ہونے تک صدر کے کسی فیصلے کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکے گا۔
’خفیہ اجلاس‘ میں شریک افراد، تمام اسلام بیزار قوتوں اور عالمی ذرائع ابلاغ نے اس صدارتی اعلان کی مخالفت اور تنقید کا طوفان برپا کردیا۔ پہلے ہی روز سے مار دھاڑ اور جلاؤ گھیراؤ کا آغاز کردیا۔ خالد طٰہٰ جیسے ۱۱نوجوان شہید کردیے۔ اخوان کے ہیڈ کوارٹر سمیت مختلف شہروں میں اخوان اور اس کی سیاسی پارٹی، حریت و عدالت کے ۴۸ دفاتر نذر آتش کردیے اور پورے ملک کو انتشار کا شکار کردیا۔
اخوان نے کسی تشدد کا جواب تشدد سے نہیں دیا۔ الشہادۃ أسمی امانینا، ’’شہادت ہماری بلند ترین آرزو ہے‘‘، جیسے نعروں کی آغوش میں پلے خالد طٰہٰ جیسے لاکھوں نوجوان بھی تشدد پر اُتر آتے، تو ملک ایک ہمہ گیر خانہ جنگی کا شکار ہوجاتا۔ اخوان نے کمال صبر و حکمت سے کام لیتے ہوئے تشدد کا جواب پُرامن لیکن عظیم الشان مظاہروں سے دیا۔ مظاہروں کا ایک روز تو ایسا بھی تھا کہ خود مغربی ذرائع کے مطابق، ۱۵ ملین، یعنی ڈیڑھ کروڑ افراد نے بیک وقت مختلف شہروں میں مظاہرے کرتے ہوئے دستور اور صدر مملکت کی تائید و حمایت کا اعلان کیا۔ لیکن ہمارے میڈیا نے اسے تقریباً نظر انداز کیا۔
صدر مرسی نے بھی بیک وقت دوٹوک موقف، لیکن لچکدار رویے کی پالیسی اپنائی۔ انھوں نے ایک طرف تو دستوری عمل کو تیز تر کرنے کا کہا۔ ۱۰ دسمبر کا انتظار کیے بغیر ہی مسودہ مکمل کرنے کا کہا جس کے نتیجے میں دستوری کونسل نے ایک ایک شق پر ووٹنگ کرتے ہوئے ۲۳۶ شقوں پر مشتمل دستوری مسودہ، ۳۰ نومبر کو صدر کی خدمت میں پیش کردیا۔ انھوں نے دستوری تقاضے کے مطابق ۱۵دسمبر کو اس پر ریفرنڈم کا اعلان کردیا۔ اس اعلان کے بعد قانونی طور پر کسی کے لیے اسے منسوخ یا معطل کرنا ممکن نہ تھا۔ ساتھ ہی صدر نے اپوزیشن، جج حضرات، دستوری ماہرین اور اہم دانشوروں کو مذاکرات کی دعوت دی۔ بعض نمایاں اپوزیشن لیڈروں سمیت ۵۰ کے لگ بھگ دستوری ماہرین نے دعوت قبول کی، لیکن ’خفیہ ملاقات‘ میں شریک تمام افراد نے دعوت مسترد کردی۔ صدر مرسی نے خیر سگالی کا ایک اور مظاہرہ کرتے ہوئے مذاکرات کا افتتاح کرنے کے بعد کہا: اب آپ سب سیاسی رہنما اور قانونی ماہرین باہم مشورے سے جو فیصلہ کریں گے مجھے منظور ہوگا‘‘۔ یہ کہہ کر وہ اجلاس کی صدارت نائب صدر جسٹس محمود مکی کے سپرد کرتے ہوئے رخصت ہوگئے۔ طویل مشاورت کے بعد مجلس نے اتفاق راے سے فیصلہ کیا کہ ۲۲ نومبر کا صدارتی فرمان منسوخ کردیا جائے، ریفرنڈم اپنے مقرہ وقت پر ہو، صدارتی فرمان کی روح برقرار رہے اور اس کے نتیجے میں واقع ہونے والی تبدیلیاں برقرار رہیں۔ ریفرنڈم کا فیصلہ مخالفت میں آئے تو صدر مملکت نئی دستوری کونسل تشکیل دیں جو دوبارہ چھے ماہ کا عرصہ لیتے ہوئے نیا دستوری مسودہ تیار کرے۔ فرعونیت کا طعنہ دینے والوں نے دیکھا کہ اگرچہ صدر اپنا صدارتی فرمان منسوخ کرنے کے حق میں نہیں تھے، خود اخوان کے بعض رہنماؤں نے بھی یہ بیان دیا تھا، لیکن جب مذاکراتی مجلس نے منسوخی کا فیصلہ کرلیا تو صدر نے و أمرھم شوری بینہم کہتے ہوئے اسے منظور کرلیا۔
اپوزیشن نے ماردھاڑ کی سیاست پھر بھی بدستور جاری رکھی، لیکن یہ صرف اپوزیشن کی پالیسی نہیں تھی۔ اخوان، صدر مرسی بلکہ اسلام اور شریعت نبوی کے تمام اندرونی و بیرونی مخالفین یک جان ہوگئے تھے۔ سیپی لیفنی کی بات تو میڈیا میں آگئی، مزید نہ جانے کس کس دشمن نے جلتی پر تیل ڈالا۔ ذرائع ابلاغ نے بھی خوب خوب حق نمک ادا کیا۔ ایسی ایسی خبریں گھڑیں اور دنیا بھر میں پھیلائیں کہ صفحہء ہستی پر جن کا وجود تک نہ تھا۔ پاکستان سمیت اکثر ممالک میں یہ خبریں بلا تحقیق شائع ہوئیں اور ایک جھوٹ، اربوں جھوٹ کی شکل اختیار کرتے ہوئے، جھوٹ گھڑنے اور پھیلانے والوں کے نامہء اعمال میں ثبت ہوگئے۔ مثال کے طور پر پاکستانی ذرائع ابلاغ ہی کو دیکھ لیجیے کہ کیا کیا نشر فرمایا: ’’صدر مرسی مسجد میں محصور‘‘۔ حالانکہ اس طرح کا کوئی واقعہ سرے سے ہوا ہی نہیں۔ کہا گیا: ’’مصر میں فوج سڑکوں پر آگئی‘‘۔ اس کی اصل حقیقت یہ ہے کہ جب قصر صدارت کے باہر اخوان کے نو افراد شہید کردیے گئے، تو حامی اور مخالفین دونوں سے میدان خالی کرواتے ہوئے قصر صدارت کے باہر صدارتی گارڈز کے چار ٹینک اور تین بکتر بند گاڑیاں کھڑی کردی گئیں۔ اسی ایک واقعے کو ’’فوج آگئی‘‘ کی سرخی دے کر گویا اپنی کسی خواہش کا اظہار کیا جارہا تھا۔ ایک سرخی تھی: ’’مصر میں اسلامی دستور کے خلاف ہنگامے، کئی ہلاک، اپوزیشن کا احتجاج‘‘۔ گویا اسلامی دستور کے خلاف احتجاج میں اپوزیشن کے کارکنان ہلاک کردیے گئے جس پر مزید احتجاج ہورہا ہے، حالانکہ قتل کیے جانے والے تمام افراد اخوان ہی سے تعلق رکھتے تھے۔ اخوان نے سب کے نام پتے اور تنظیمی تعلق اور تعارف شائع کیا۔ اخوان نے ہی ان کے بڑے بڑے جنازے ادا کیے۔ قاتلوں نے قتل بھی کیے اور پھر ’خون کا بدلہ لیں گے‘ کہتے ہوئے مزید مظاہروں کا اعلان بھی کیا۔ اس ابلاغیاتی یلغار کی تفصیل طویل ہوسکتی ہے لیکن صرف مزید جھلکیوں سے ہی اس کی شدت و دنائت کا اندازہ لگا لیجیے: ’’اخوان نے نہر سویز فروخت کرنے کا فیصلہ کرلیا‘‘ ،’’اسلام پسندوں نے اہرامِ مصر کو مزار قرار دیتے ہوئے انھیں ڈھانے کا مطالبہ کردیا‘‘، ’’نئے دستور میں فوت شدہ بیوی کے ساتھ، تدفین سے پہلے ازدواجی تعلق قائم کرنے کی اجازت کا فیصلہ‘‘، ’’صحراے سینا فلسطینیوں کے سپرد کرنے کا فیصلہ ہوگیا‘‘، ’’لونڈیاں رکھ سکنے کا قانون بنایا جارہا ہے، ’’دستور میں ہولو کاسٹ کی نفی‘‘۔
الزامات و تحریفات کا یہ سلسلہ ریفرنڈم کے آخری روز تک جاری رہا۔ اخوان کے مرشد عام ہر جمعرات کو اخوان کے نام ہفت روزہ پیغام جاری کرتے ہیں۔ عموماً دعوتی و تربیتی موضوعات زیر بحث ہوتے ہیں۔ جمعرات ۲۰ دسمبر کو مرشد عام نے مصر کی اہمیت بیان کرتے ہوئے وہ قرآنی آیات اور احادیث نبویہ بیان کیں جن میں مصر کا ذکر آتا ہے۔ انھوں نے لکھا کہ قرآن کریم میں ۲۴مقامات پر مصر کا ذکر کیا گیا ہے، کہیں صراحتاً اور کہیں کنایتاً۔ پھر انھوںنے آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی متعدد احادیث بیان کیں جن میں مصر اور اہل مصر کا ذکر خیر کیا گیا ہے۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے انھوں نے ایک جملہ یہ بھی لکھا: ’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قیمتی نصیحت میںاہل مصر کو روے زمین کے بہترین سپاہی فرمایا ہے۔ گویا یہ لوگ فطرتاً تیار فوجیں ہیں جنھیں صالح قیادت کی ضرورت ہے لیکن جب قیادت ہی فاسد تھی تو اس کے سپاہیوں نے بھی اسی کی پیروی کی۔ اس وقت مصر کو بھی حکیمانہ قیادت کی ضرورت ہے اور اس کے سپاہیوں کو بھی بہتر رہنمائی اور تربیت کی ‘‘۔ جمعرات ۲۰ دسمبر کی شام یہ بیان جاری ہوا اور پھر ریفرنڈم سے ایک روز قبل جمعہ ۲۱دسمبر سے ہر طرف پروپیگنڈا شروع ہوگیا: ’’مصری فوج کی قیادت فاسد ہے: مرشد عام‘‘۔
الحمد للہ گذشتہ ہر بحران کی طرح اس مرتبہ بھی دشمن کی سازشیں مصر کی منتخب قیادت کے لیے سرخروئی کا ذریعہ بنیں۔ دیگر کئی اُمور کے علاوہ ایک خیر یہ برآمد ہوا کہ عام انتخابات میں دوسرے نمبر پر آنے والی سلفی تحریک ’النور‘ اور اخوان سے علیحدہ ہوکر الگ پارٹی (الوسط) بنانے والوں سمیت، تمام محب وطن عناصر نئے دستور کے پشتیبان بن گئے۔ اگرچہ مسیحیوں کی اکثریت نے حسنی مبارک کی باقیات کا ساتھ دیا، لیکن ان کی بڑی تعداد نے بھی دستور کے حق میں ووٹ دیا اور اس طرح دونوں مرحلوں کے نتائج ملا کر ۶۴ فی صد ووٹروں نے ملک کا پہلا جمہوری دستور منظور کرلیا۔ اس دستور کی تیاری کے لیے چھے ماہ کی مدت طے کی گئی تھی۔ ۱۰۰ رکنی منتخب دستوری کونسل میں معاشرے کے تمام طبقات اور نقطہ ہاے نظر کی نمایندگی تھی۔ عوام سے بھی تجاویز مانگی گئیں۔ ۴۰ ہزار تجاویز موصول ہوئیں۔ کونسل کو مختلف کمیٹیوں میں تقسیم کرتے ہوئے سب کا جائزہ لیا گیا۔ ان کمیٹیوں اور کونسل کے ۶۰۰ اجلاس ہوئے۔ مصر کے سابق دستور اور دساتیر عالم سے استفادہ کیا گیا اور ایک ایسا دستور پیش کیا گیا جو نہ صرف مصر بلکہ پوری دنیا کے لیے مثال بنے گا۔ (ان شاء اللہ)
دستور کے حق اور مخالفت میں بہت کچھ کہا اور لکھا گیا ہے لیکن تجزیہ کریں تو کہیں کوئی سنجیدہ اور حقیقی اعتراض نظر نہیں آتا۔ کوئی اعتراض ہوتا بھی تو یہ ایک فطری امر ہوتا۔ بہرحال یہ دستور کوئی وحی تو نہیں، ایک انسانی کاوش ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ مزید بہتر بنائی جاسکتی ہے۔ دستور پر سب سے بڑا اعتراض یہ کیا گیا کہ یہ ایک اسلامی دستور ہے، جب کہ مصر میں قبطی مسیحیوں کی بڑی تعداد بھی آباد ہے۔ قبطی آبادی ۱۰فی صد ہے۔ اگر ۹۰ فی صد آبادی والے ملک کا دستور اسلامی ہو تو اس پر اعتراض بے جا ہے، لیکن دستور ساز کونسل، اسلامی یا غیر اسلامی کی بحث میں الجھی ہی نہیں ہے۔ ملک کو خودمختاری، تعمیر و ترقی، خوش حالی اور کامیابی کی جانب لے جانے والا ایک دستور تیار کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ تمام اہداف اسلامی تعلیمات پر عمل کا منطقی نتیجہ ہیں۔
اسلام کے حوالے سے جو چند بنیادی نکات اس میں شامل ہیں وہ درج ذیل ہیں۔ شق (۱) میں پہلے صرف مصر کی عرب شناخت کا ذکر تھا، اب لکھا گیا ہے کہ ’’عرب جمہوریہ مصر ایک آزاد، خودمختار، متحدہ اور ناقابلِ تقسیم ریاست ہے، اس کا نظام جمہوری ہوگا۔ ’’مصری عوام اُمت عربی و اسلامی کا اہم جزو ہیں جنھیں وادی نیل اور براعظم افریقا سے اپنی نسبت اور ایشیا تک اپنی وسعت پر فخر ہے۔ وہ تہذیب انسانی کی تعمیر میں مثبت شرکت چاہتے ہیں‘‘۔ یہاں اعتراض یہ کیا گیا ہے کہ عربی کے ساتھ اُمت اسلامیہ کا اضافہ کیوں کیا گیا ہے۔شق (۲) ’’ریاست کا مذہب اسلام اور سرکاری زبان عربی ہے۔ شریعت اسلامی قانون سازی کا بنیادی مصدر ہے‘‘۔ جس شق پر سب سے زیادہ اعتراض کیا اور اودھم مچایا گیا وہ شق ۴ ہے جس میں تاریخی جامعہ الازھر کو باقاعدہ سرکاری اور دستوری حیثیت دیتے ہوئے ایک خود مختار ادارے کا مقام دیا گیا ہے، اور کہا گیا ہے کہ ’’اسلامی شریعت سے متعلق معاملات میں جامعۃ الازھر کی اعلیٰ علما کونسل سے راے لی جائے گی‘‘۔ پاکستان میں تو الحمد للہ اسلامی نظریاتی کونسل کی صورت میں ایک مستقل بالذات قومی ادارہ رہنمائی کرتا ہے۔ مصر میں جامعۃ الازھر کی علما کونسل سے راے لینے پر آسمان سر پر اٹھایا جارہا ہے۔ اسی ضمن میں شق ۲۱۹ کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس میں شریعت اسلامی کے اصول و مبادی کی وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس سے مراد ’’اسلامی شریعت کے کلی دلائل، فقہی اور اصولی قواعد اور مذاہب اہل سنت و الجماعت کے معتبر مصادر ہیں‘‘۔ اعتراض کرنے والے کہتے ہیں کہ یہ شق مبہم ہے، جب کہ دستور وضع کرنے والے کہتے ہیں کہ ہم نے اسلامی شریعت کے مآخذ متعین کردیے ہیں۔ لفظ ’مذاہب اہل سنت و الجماعت‘ پر اعتراض کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ مصر میں شیعہ آبادی براے نام سے بھی کم ہے، اس لیے یہ تعین کردیا گیا۔
ایک بہت بڑا اعتراض یہ کیا جارہا ہے کہ دستور میں خواتین کے حقوق کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ حالانکہ دستور کے دیباچے میں ہی واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ ’’فرد کی عزت و تکریم ریاست کی عزت و تکریم ہے۔ اُس ریاست کا کوئی عزت و مقام نہیں، جس میں خواتین کی تکریم نہیں کی جاتی۔ خواتین مردوں کی مثل ہیں اور وہ تمام قومی ذمہ داریوں اور حقوق میں برابر کی شریک ہیں‘‘۔ یہی نہیں دستور میں کئی مقامات پر مصری شہری کے حقوق، اس کی آزادیوں، اس کی حفاظت، اس کی کفالت اور اس کی ترقی و بہتری کے لیے جامع شقیں شامل کی گئی ہیں۔ ہر جگہ ’تمام شہری‘ کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے جس میں یقینا مرد و زن دونوں شامل ہیں، لیکن نہ جانے کیوں خواتین کا نام الگ سے لکھنے پر اصرار ہے۔
نئے مصری دستور کے مطابق ریاست ان تمام شہریوں کی کفالت کرے گی جو خود کوئی کام کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ دستور میں خاندان کی بہبود و بہتری کے لیے خصوصی شقیں شامل کی گئیں ہیں۔ ایک جمیل و جامع عبارت شق ۱۰ میں لکھی گئی ہے: ’’خاندان معاشرے کی بنیاد ہے۔ دین، اخلاق اور قومی وابستگی اس کے اہم عناصر ہیں۔ ریاست اور معاشرہ مصری خاندان کی بنیادی ساخت، اس کی مضبوطی، استحکام اور اخلاقی اقدار کی حفاظت کریں گے۔ ریاست بچے اور ماں کی بنیادی ضروریات کی کفالت کرے گی اور خاتون خانہ کی گھریلو ذمہ داریوں اور عمومی سرگرمیوں میں توافق پیدا کرے گی۔ ریاست ملک کی بیواؤں، مطلقہ خواتین اور اپنے خاندان کی کفیل خواتین کی حفاظت و دیکھ بھال کا خصوصی اہتمام کرے گی‘‘۔ اس شق پر بہت تفصیل سے روشنی ڈالی جاسکتی ہے۔ ایک اسی بات کی اہمیت دیکھ لیجیے کہ’ریاست اور معاشرہ‘ مل کر استحکام خاندان اور اخلاقی اقدار کی حفاظت کریں گے۔
مصر کے پہلے جمہوری دستور کا ایک انقلابی کارنامہ یہ بھی ہے کہ اجیر کی اجرت کو پیداوار سے منسلک کردیا گیا ہے۔ یہ نہیں کہ مالک تو پیداوار کے آسمانوں کو جا چھوئے اور کارکن محدود تنخواہ کی دلدل میں دھنستا چلا جائے۔ اسی طرح یہ بھی یقینی بنایا جائے گا کہ مزدور کی کم ازکم اور زیادہ سے زیادہ تنخواہ کا تعین ریاست کیا کرے گی، تاکہ غریب غریب تر اور امیر امیر تر نہ ہوتا چلا جائے۔
جمہوری اقدار کی ترویج کے ضمن میں وہ تمام شقیں ملاحظہ کرلیجیے، جن میں واضح کیا گیا ہے کہ آیندہ کوئی سربراہ تاحیات نہیں رہ سکے گا،زیادہ سے زیادہ دو بار منتخب ہوسکے گا۔ صدر مرسی چاہتے تھے کہ ملک میں پارلیمانی نظام حکومت ہو، لیکن دستوری کونسل نے صدارتی نظام ہی کو باقی رکھا ہے، البتہ صدر کے اختیارات ۴۰ فی صد کم کردیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر دفعہ ۲۰۲ ملاحظہ کیجیے، لکھا ہے: ’’صدر مملکت مجلس شوریٰ (سینیٹ) کی منظوری کے بعد خود مختار اداروں اور نگران ایجنسیوں کے سربراہ مقرر کرے گا۔ یہ تعیناتی چار سال کے لیے ہوگی، جس کی ایک بار تجدید ہوسکے گی۔ ان سربراہوں کو مجلس شوریٰ کی اکثریت کی منظوری کے بغیر معزول بھی نہیں کیا جاسکے گا‘‘۔ ۱۹۵۳ء سے ۱۹۷۰ء تک جمال عبد الناصر، ۱۹۷۰ء سے ۱۹۸۱ء تک انور السادات، اور ۱۹۸۱ء سے ۲۰۱۱ء تک حسنی مبارک کے ظالمانہ، کرپٹ اور شخصی اقتدار کی ہوش ربا داستانیں دیکھیں، اور ہاتھ آئے اختیارات کو ایک ضابطے میں ڈھالنے والے حافظ قرآن، پی ایچ ڈی انجینیر اور تحریک اسلامی کے تربیت یافتہ صدرِ مملکت کو دیکھیں، تو اصل فرق اور احتجاج کی وجوہات واضح ہوجائیں گی۔
تمام تر ماردھاڑ اور قتل و غارت کے باوجود عوام کی اکثریت نے مصر کا پہلا حقیقی جمہوری دستور منظور کرلیا۔ اب نئے دستور کے مطابق تین ماہ کے اندر اندر قومی اسمبلی کے انتخابات ہونا ہیں جس کے بعد اکثریتی پارٹی حکومت تشکیل دے گی۔ صدر محمد مرسی نے ریفرنڈم میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد خیرسگالی کا ایک اور پیغام دیا ہے۔ صدرِ مملکت سینیٹ میں ۹۰؍ارکان کو خود نامزد کرتا ہے۔ صدرمرسی نے تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے ان کا تقرر کر دیا ہے۔ تقریباً ۷۵فی صد ارکان دیگر پارٹیوں سے لیے گئے ہیں۔ ملک کے اہم قانونی ماہرین، قبطی مسیحیوں اور خواتین کو بھی نمایندگی دی گئی ہے۔ اب فوری طور پر اپوزیشن کے پاس مخالفت کا کوئی جواز یا بہانہ نہیں۔ اللہ کرے کہ صدارتی الیکشن اور دستوری ریفرنڈم میں اکٹھے رہنے والے سب محب وطن قومی اسمبلی کے انتخابات میں بھی یک جا رہ سکیں، لیکن ایسا نہ بھی ہوسکا تو ملک بہرصورت جمہوریت کی پٹڑی پر چڑھ جائے گا۔ نئے دستور میں دستوری عدالت کے ۱۹ ججوں کی تعداد کم کر کے ۱۱ کردی گئی ہے۔ ۱۱ بھی دنیا کی دستوری عدالتوں میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔ تعداد کم ہونے سے صدر مرسی اور جمہوریت کے کھلے دشمن تہانی جبالی جیسے افراد سے نجات مل گئی ہے۔ اب تمام اداروں کو اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا ہوگا۔
آج کا بنگلہ دیش سنگین صورتِ حال سے دوچار ہے۔ بھارت اور اس کے زیرسایہ عوامی لیگ کی حکومت، بنگلہ دیش کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ دیگر مظاہر کے علاوہ وزیراعظم حسینہ واجد کا ۲۱دسمبر کو دیا جانے والا یہ بیان بڑی اہمیت کا حامل ہے : ’’فوج، انتظامیہ اور عوام سے مَیں یہ کہتی ہوں کہ جو لوگ ’جنگی جرائم‘ کے ٹربیونل کو ناکام بنانا چاہتے ہیں، آپ آگے بڑھ کر انھیں عبرت کی مثال بنا دیں‘‘۔
کیا کوئی جمہوری حکومت: فوج اور انتظامیہ اور عوام کو اس اشتعال انگیز انداز سے اُبھارکر، اپنے ہی شہریوں پر حملہ آور ہونے کی دعوت دے سکتی ہے؟ لیکن سیکولر، جمہوری، ترقی پسند اور بھارت کے زیرسایہ قوت حاصل کرنے کی خواہش مند عوامی لیگی حکومت اسی راستے پر چل رہی ہے۔ انتقام کی آگ میں وہ اس سے بھی عبرت حاصل نہیں کر رہی کہ ایسی ہی غیرجمہوری، آمرانہ اور بھارت کی تابع مہمل ریاست بنانے کی خواہش میں ان کے والد شیخ مجیب الرحمن، ہم وطنوں کے ہاتھوں عبرت کا نشان بنے تھے۔
سوال یہ ہے کہ اس تلخ نوائی کا سبب کیا ہے؟ عوامی لیگی حکومت کی ہمالیائی ناکامیاں، بدعنوانی کا سیلاب اور اگلے سال عام انتخابات کا سر پر آنا سبب تو ہے ہی، لیکن فوری وجہ نام نہاد جنگی جرائم کے ٹربیونل (ICT) کی پے درپے ناکامی اور جگ ہنسائی ہے۔ ذرا چند ماہ پیچھے مڑ کر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ اس عجیب الخلقت ٹربیونل کے بارے میں یورپی یونین کی انسانی حقوق کی کمیٹی اور برطانیہ کے نمایاں قانون دانوں کی انجمن یہ کہہ چکے ہیں کہ: ’’بنگلہ دیش کا یہ ٹربیونل، عدل کے بین الاقوامی اور مسلّمہ تقاضوں سے یک سر عاری ہے‘‘۔ یہی بات ترکی اور امریکا کے وکلا کہہ چکے ہیں، بلکہ خود بھارت میں انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی اسے مسترد کیا ہے۔
دوسری جانب بنگلہ دیش میں نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کے چیئرمین میزان الرحمن نے ۱۵؍اگست ۲۰۱۲ء کو جوابی طور پر کہا: ’’جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ’انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل‘ آزادانہ اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق کام نہیں کر رہا، وہ بھیانک غلطی کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ پھر یہی صاحب ۱۳؍اکتوبر کو کہتے ہیں: ’’یہ ٹربیونل منفرد شان کا حامل ہے اور قومی پشت پناہی کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ ٹربیونل عالمی عدالت انصاف کے متبادل کی حیثیت سے کارِنمایاںانجام دے رہا ہے، تاہم قوم اس کی رفتارِکار سے مطمئن نہیں، کہ فوری نتائج سامنے نہیں آرہے‘‘۔ (ڈیلی اسٹار، ڈھاکہ)
انسانی حقوق کے ان بنگلہ دیشی علَم برداروں کی بے چینی اگر ایک جانب دیدنی تھی تو دوسری جانب عوامی لیگ حکومت کا یہ پروگرام تھا کہ کسی نہ کسی طریقے سے ۱۶دسمبر ۲۰۱۲ء تک جماعت اسلامی کے دو تین رہنمائوں کے لیے سزاے موت کا اعلان حاصل کرلیا جائے۔ مگر صورت یہ بنی کہ حکومت کے وکلا اور خانہ ساز گواہوں کو جماعت اسلامی کے وکلاے صفائی کی جانب سے شدید قانونی دفاعی حکمت عملی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور ان کے گواہ بھی منحرف ہورہے ہیں۔ خود ٹربیونل کے سربراہ جسٹس محمد نظام الحق اس اعتبار سے ایک متنازع شخصیت ہیں کہ اب سے ۲۰سال قبل جب وہ ابھی وکیل تھے، تو انھوں نے ’عوامی عدالت‘ لگاکر جماعت اسلامی کے رہنمائوں کو سزاے موت دینے کا اعلان کیا تھا، مگر اب تو وہ ’ترقی‘ کر کے جج بن بیٹھے ہیں اور اعلیٰ عدالتی مسند پر تشریف فرما ہیں۔
لیکن ان کی ساری کاوش اور بدنیتی کا بھانڈا اس وقت بیچ چوراہے پھوٹا، جب انٹرنیٹ اسکایپ (skype) پر ان کی ۱۷گھنٹے کی گفتگو اور ۲۳۰برقی خطوط(ای میل) قوم کے سامنے آگئے۔ حادثہ یہ ہوا کہ جسٹس محمد نظام الحق نے بریسلز میں ایک بنگالی قانون دان محمد ضیاء الدین سے اس طویل گفتگو اور خط کتابت میں یہ بات بڑی ڈھٹائی سے کہی: ’’حسینہ واجد حکومت تو چاہتی ہے کہ میں جلد سے جلد فیصلہ دوں، اور اس خواہش میں یہ لوگ پاگل لگتے ہیں۔ تم ہی بتائو، جب استغاثہ نالائقوں پر مشتمل ہے، اور ان سے صحیح طریقے سے کیس پیش نہیں ہورہا، تو اس میں مَیں کیا کروں؟ مَیں انھیں کمرئہ عدالت میں ڈانٹتا ہوں، مگر ساتھ ہی پرائیویٹ چیمبر میں بلا کر کہتا ہوں، بھائی ناراض نہ ہوں، یہ سب ڈراما ہے تاکہ غیر جانب داری کا کچھ تو بھرم باقی رہے۔ پھر انھیں یہ بتانا پڑتا ہے کہ وہ کیا کہیں۔ اب تم ہی رہنمائی دو میں کس طرح معاملے کو انجام تک پہنچائوں‘‘۔
یہ گفتگو ثبوتوں کے ساتھ اکانومسٹ لندن کے خصوصی نمایندے نے رسالے کو چھپنے کے لیے دی، تو اکانومسٹ نے فون کر کے جسٹس نظام صاحب سے پوچھا کہ ہمارے پاس یہ رپورٹ ہے، مگر وہ جواب میں کہنے لگے: ’’ایسا نہیں ہوسکتا، ہم تو عدالتی معاملات اپنی بیوی کے سامنے بھی زیربحث نہیں لاتے‘‘۔ لیکن اکانومسٹ نے ڈنکے کی چوٹ ڈرامے کا پول کھول دیا، اور دسمبر ۲۰۱۲ء کے ابتدائی شمارے میں خلافِ معمول رسالے کے مدیر نے اپنے ادارتی نوٹ کے ساتھ ساری کہانی شائع کردی جس نے بنگلہ دیش میں بالخصوص اور اہلِ دانش میں بالعموم تہلکہ مچادیا۔ اس پر جماعت اسلامی اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) نے اپنے بیانات میں کہا: ’’ہم پہلے سے یہ کہتے آئے ہیں کہ یہ جج نہیں قاتل ہیں۔ یہ انصاف دینے والے نہیں انصاف کے قتل کرنے والے ہیں اور ان کی سرپرستی کرنے والی حکومت بھی انصاف اور انسانیت کی قاتل ہے‘‘۔ اس پر جسٹس محمدنظام الحق نے ۶دسمبر ۲۰۱۲ء کو حکم دیا کہ اکانومسٹ کے دو ارکان ان کے ٹربیونل کے سامنے پیش ہوکر توہین عدالت کا سامنا کریں۔ دوسری جانب بنگالی اخبار اماردیش (ہمارا وطن)، ڈھاکا نے وہ ساری بنگلہ گفتگو حرف بہ حرف شائع کردی۔ انجامِ کار جسٹس نظام الحق نے جو اس ڈرامے کا مرکزی کردار ہیں، ۱۱دسمبر ۲۰۱۲ء کو ٹربیونل کی سربراہی سے استعفا دے دیا۔
اس خبر نے حسینہ واجد کو شدید صدمہ پہنچایا، لیکن شرمندگی کا کوئی احساس کرنے کے بجاے، انھوں نے پلٹ کر جماعت اسلامی اور بی این پی کے کارکنوں کو بے رحمانہ انداز سے ریاستی جبر کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔
اس وقت بھی اگرچہ جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر کے ۶ہزار سے زائد کارکن جیلوں میں بند ہیں لیکن حکومت نے ۱۷دسمبر کو سیاہ کاری کا وہ نشان بھی عبور کرلیا کہ جس کا آج تک پاکستان کی کسی بدترین حکومت نے بھی ارتکاب نہیں کیا تھا۔ اس روز سہ پہر کے وقت ڈھاکہ میں اسلامی جمعیت طالبات (اسلامی چھاتری شنگھستا) کے دفتر پر چھاپا مار کر، جمعیت طالبات کی ۲۰باپردہ کارکنوں اور ۵۵سالہ محترمہ ثروت جہاں (جن کے شوہر عبدالقادر گذشتہ ڈیڑھ سال سے مذکورہ ٹربیونل کے سامنے گرفتاری کے بعد مقدمے کا سامنا کررہے ہیں) کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا، اور الزام لگایا کہ: ’’جمعیت طالبات کے دفتر میں جہاد پر مبنی لٹریچر تھا‘‘۔حیرت کا مقام ہے کہ پاکستان میں کسی اخبار اور ٹیلی ویژن نیٹ ورک نے اس واقعے کا نوٹس تک نہیں لیا۔
دوسری طرف نظر دوڑائیں تو ڈھٹائی اپنے عروج پر نظر آتی ہے۔ مثالیں تو بہت سی ہیں، لیکن ۲۳دسمبر ۲۰۱۲ء کے اخبار ڈیلی اسٹار کی یہ رپورٹ کس درجہ شرم ناک مثال پیش کرتی ہے: ’’فورم فار سیکولر بنگلہ دیش اینڈ ٹرائل آف وار کریمنلز ۱۹۷۱ء کے صدر شہریار کبیر نے مطالبہ کیا ہے کہ: ان لوگوں کے خلاف عبرت ناک کارروائی کی جائے، جنھوں نے جسٹس نظام الحق کی گفتگو اسکایپ سے پکڑی (ڈائون لوڈ کی) ہے۔ اماردیش نے یہ گفتگو چھاپ کر جرمِ عظیم کیا ہے۔ ان تمام ذمہ داران کو سخت ترین سزا دی جائے‘‘۔
’ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہیے‘ بجاے اس کے کہ یہ لوگ شرمندگی سے اپنا منہ نوچتے اور ایک بے معنی مقدمے کے ڈرامے کی بساط لپیٹتے، وہ کہہ رہے ہیں کہ: ’’ہاں، ہمیں انصاف اور عدل سے بددیانتی کرنے کا حق حاصل ہے۔ ہم جو چاہیں کریں، کوئی ہم سے پوچھ ہی نہیں سکتا‘‘۔ یاد رہے یہ شہریار کبیر ۲۰۱۲ء کے اوائل میں پاکستان آئے تھے، تاکہ پروفیسر غلام اعظم، مطیع الرحمن نظامی اور جماعت اسلامی کے دیگر رہنمائوں کے خلاف پروپیگنڈا مہم چلا کر، یہاں کی سیکولر شخصیات کے بیان حاصل کریں۔ ان کا استقبال کرنے کے لیے عاصمہ جہانگیر اور اقبال حیدر گروپ کا نام نہاد ہیومن رائٹس کمیشن پیش پیش تھا۔ لیکن جب یہ امر سامنے آیا کہ شہریار کبیر تو بھارتی ایجنسی ’را‘ (RAW) کا بدنامِ زمانہ آلۂ کار ہے، تو یہ مہم دھیمے سُروں میں چلی گئی اور یہ صاحب لاہور، اسلام آباد آنے کے بجاے کراچی ہی سے رفوچکر ہوگئے۔
مسئلے کی سنگینی کو نمایاں کرنے کے لیے دیگر اُمور بھی پیش نظر رہنے چاہییں۔آنے والے عام انتخابات کے بارے میں ستمبر ۲۰۱۲ء کو ٹائمز آف انڈیا یہ خبر دے چکا ہے کہ: ’’حسینہ واجد کی نااہل اور بھارت نواز حکومت اگلے عام انتخابات میں بدترین شکست سے دوچار ہوگی‘‘۔ اس چیز نے بھی بھارتی حکمرانوں کی نیند حرام کر رکھی ہے۔ اسی لیے ۱۸دسمبر ۲۰۱۲ء کو ڈھاکہ میں بھارتی ہائی کمشنر نے خلافِ معمول یہ کہا: ’’ہماری حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ جنھوں نے ۱۹۷۱ء میں بنگلہ دیش بننے کی حمایت نہیں کی تھی، ہماری حکومت ان کے ساتھ نہیں چل سکے گی۔ اس طرح دوطرفہ لین دین کے سارے معاہدے غیرمؤثر ہوجائیں گے‘‘۔ یاد رہے بنگلہ دیش کا بال بال بھارتی معاہدوں میں بندھا ہوا ہے۔ اس تناظر میں یہ بیان دراصل بلیک میلنگ کا حربہ اور جماعت اسلامی کی اس متوقع گرفت کو کمزور کرنے کا بھارتی ردعمل ہے کہ جس حقیقت کو وہ دیوار پر لکھا دیکھ رہے ہیں۔ ذہن میں رہے کہ ستمبر ۲۰۱۱ء کو بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے ڈھاکا جانے سے قبل بنگلہ دیش کے ایڈیٹروں کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا: ’’بنگلہ دیش ایک غیریقینی ملک ہے، جہاں کسی بھی وقت کوئی حکومت تبدیل ہوسکتی ہے، اور سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ وہاں پر جماعت اسلامی کو ۲۵ فی صد لوگوں کی حمایت حاصل ہے، جو کوئی بھی ناپسندیدہ صورت حال پیدا کرسکتے ہیں‘‘۔
چونکہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش گذشتہ دو ماہ سے پورے ملک میں بڑے پیمانے پر کامیاب عوامی رابطے کی مہم چلا رہی ہے، جس میں کامیاب ہڑتالوں اور نوجوانوں کے زبردست مظاہروں نے حکومت کو ہلا دیا ہے۔ اسی لیے پولیس نے عوامی لیگ کے کارکنوں سے مل کر جماعت اور جمعیت کے کارکنوں کو نہ صرف تشدد کا نشانہ بنایا، گرفتار کیا بلکہ کھلے عام گولیاں مار کر شہید بھی کیا۔ اسی طرح خالدہ ضیا کی پارٹی بی این پی کے ساتھ جماعت اسلامی کا اتحاد عوام کو متحرک کرنے میں کامیابی حاصل کر رہا ہے، جس سے بوکھلا کر وزیراطلاعات حسن الحق نے کہا ہے: ’’بی این پی اور خالدہ ضیا براہِ راست جماعت اسلامی کا ساتھ دے رہی ہیں تاکہ جنگی جرائم کے مقدمے کو ناکام بنادیا جائے۔ ان کا یہ عمل جمہوریت کے لیے خطرہ ہے۔ بنگلہ دیش کے محب وطن اور ترقی پسند لوگ متحدہوکر مقدمے کو تکمیل تک پہنچائیں۔ اسی طرح بی این پی کو چاہیے کہ جماعت اسلامی کو اپنے اتحاد سے نکال باہر پھینکے‘‘۔ (ڈیلی اسٹار، ڈھاکہ، ۲۳ دسمبر۲۰۱۲ء)
یہ ہے وہ خوف، جو بھارتی حکمرانوں اور ان کی طفیلی حسینہ واجد حکومت کو کھائے جا رہا ہے۔ اس لیے وہ جماعت اسلامی کی درجہ اوّل کی قیادت پروفیسر غلام اعظم، مطیع الرحمن نظامی، علی احسن مجاہد، علامہ دلاور حسین سعیدی، میرقاسم علی، قمرالزمان، عبدالقادر اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے سیکرٹری جنرل صلاح الدین قادر (جو فضل القادرچودھری کے بیٹے ہیں) کو پھانسی گھاٹ میں پہنچانے اور ملک کو خانہ جنگی کی آگ میں دھکیلنے پر مائل ہے۔
1 اشاریہ شمس الاسلام مع فہرست مخطوطات، مرتب: ڈاکٹر صاحب زادہ انواراحمد بگوی۔ ناشر:مکتبہ حزب الانصار، جامعہ مسجد بگویہ، بھیرہ، ضلع سرگودھا (لاہور میں الفیصل، اُردوبازار، لاہور سے دستیاب ہے)۔ صفحات:۴۱۱۔ قیمت: ۴۵۰ روپے۔ 2 اشاریہ السیرۃ عالمی، مرتب: محمد سعیدشیخ۔ ناشر: زوّار اکیڈمی پبلی کیشنز، اے-۴/۱۷، ناظم آباد نمبر۴، کراچی۔ صفحات: ۱۴۴۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔ 3 سیرت ایوارڈ یافتہ اُردو کتب سیرت، مرتبین: حافظ محمد عارف گھانچی،محمد جنید انور۔ کتب خانہ سیرت، کھتری مسجد، ٹھٹھہ بس سٹاپ،لی مارکیٹ، کراچی۔ فون: ۲۸۳۴۲۴۹-۰۳۲۱۔ صفحات: ۱۶۰۔ قیمت: درج نہیں۔ 4 پاکستان میں اُردو سیرت نگاری، ایک تعارفی مطالعہ، سیّد عزیز الرحمن۔ ناشر: زوّار اکیڈمی پبلی کیشنز، اے،۴/۱۷، ناظم آباد نمبر۴، کراچی۔ فون: ۳۶۶۸۴۷۹۰-۰۲۱۔ صفحات: ۱۷۳۔ قیمت: ۱۵۰روپے۔
علمی تحقیق کے لیے اشاریہ (index) ایک مفید بلکہ ناگزیر معاون (tool) کی حیثیت رکھتا ہے۔ اشاریہ کئی قسموں کا ہوتا ہے ۔اُردو میں اشاریہ سازی کی روایت بہت قدیم نہیں ہے۔ اس کی طرف زیادہ توجہ حالیہ برسوں میں ہوئی ہے۔ ایک تو علمی کتابوں میں اشاریے کی ضرورت کا احساس بڑھنے لگاہے۔ دوسرے رسائل و جرائد کی اشاریہ سازی نے قریبی زمانے میں خاصی پیش رفت کی ہے اور یہ زیادہ تر جامعاتی تحقیق اور امتحانی مقالات کی مرہونِ منت ہے۔فی الوقت چار اشاریے ہمارے پیش نظر ہیں:
زیرنظر اشاریے کے شروع میں بگوی صاحب نے ایک عالمانہ اور مختصر مگر جامع مقدمہ بھی شامل کیا ہے۔ انھوں نے اشاریہ بڑی کاوش، محنت اور توجہ کے ساتھ بلکہ کہناچاہیے کہ ڈوب کر تیار کیا ہے۔ اس کا اندازہ حسب ذیل وضاحت سے ہوگا۔ وہ لکھتے ہیں: ’’انڈیکس کے لیے کسی پروفیشنل (ماہرانڈیکس) کی خدمات کے بجاے راقم نے رسالے کی ہرجلد اور ہرشمارہ خود دیکھا۔ مضامین کو ان کے موضوعات کے مطابق یک جا کیا۔ شذرات عام طور پر بلاعنوان چھپتے رہتے ہیں، ان میں ہرشذرے کو اس کے موضوع کے تحت الگ کیا۔ بعض سادہ اور مختصر سی معلومات جن کا تعلق اہم تحریکوں، نظریوں اور شخصیتوں سے تھا، ان کو اہتمام سے الگ کر کے متعلقہ موضوع کے تحت درج کیا۔ اس میں ہرصفحے اور مضمون کو بغور دیکھا گیا ہے۔ جہاں عنوان ناکافی پایا، وہاں بریکٹ میں اسے واضح کردیا گیا ہے۔ اس دِقّت نظر کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب اشاریہ علمی، تحقیقی اور تحریکی کاموں کے لیے ایک نہایت مفید رہنما بن گیا ہے‘‘۔
جون ۱۹۲۵ء میں شمس الاسلام کے اجرا سے قبل بھیرہ ہی سے مئی ۱۹۲۰ء سے ۱۹۲۵ء تک ماہ نامہ ضیاے حقیقت شائع ہوتا رہا۔ اس کے دستیاب (معدودے چند) شماروں کا اشاریہ بھی شامل کردیا گیا ہے۔ ہر اندراج یا ہرحوالہ چار چیزوں پر مشتمل ہے۔ تحریر (نظم یا نثر) کا عنوان، مصنف یا مؤلف کا نام، شمارے کا ماہ سال اور تحریر کا صفحہ اوّل و آخر۔ مجموعی طور پر اشاریہ موضوعاتی ہے مگر اسے رسالے کے اشاعتی اَدوار کو چار پانچ حصوں میں تقسیم کر کے مرتب کیا گیا ہے۔ ہمارے خیال میں اگر چاروں اَدوار کایک جا اشاریہ مرتب کیا جاتا تو قاری کواور زیادہ سہولت ہوتی اور وہ ایک ہی موضوع پر حوالوں کو چار مقامات پر دیکھنے کے بجاے ایک ہی جگہ دیکھ لیتا۔ آخری حصے میں اُن مخطوطات اور قدیم قلمی مسودات کی فہرست بھی شامل ہے جو بھیرہ کے کتب خانۂ عزیزیہ بگویہ حزب الانصار میں محفوظ ہیں۔ ہمارے خیال میں زیرنظر اشاریہ تحقیقی اعتبار سے ایک اہم دستاویز ہے اور حوالے کی یہ کتاب مرتب کر کے ڈاکٹر انوار احمد بگوی صاحب نے ایک بڑا علمی کارنامہ انجام دیا ہے۔
محمدمظفر عالم جاوید صدیقی کے تحقیقی مقالے اُردو میں میلاد النبیؐ کے تعارف میں مؤلف کی ’محنت، کاوش اور تگ و دو‘ اور ان کی تحقیق کے ’اعلیٰ معیار‘ کی تعریف کی گئی ہے (ص ۱۶۸-۱۶۹)۔ غالباً سیّد عزیز الرحمن صاحب کی نظر سے ماہنامہ نعت لاہور کا شمارہ اکتوبر ۲۰۰۰ء نہیں گزرا جس میں ڈاکٹر محمد سلطان شاہ نے بہ دلائل اور بہ ثبوت بتایا تھا کہ یہ مقالہ ’سرقے‘ کی ایک عمدہ مثال ہے۔ مظفرعالم نے جن کتابوں سے جہاں جہاں چوری کی، شاہ صاحب نے نام اور عنوانات اور صفحات کے تعین کے ساتھ ان کی نشان دہی کرنے کے بعد قرار دیا تھا کہ: ’’یہ مقالہ سرقہ و بددیانتی کے ارتکاب کا منہ بولتا ثبوت ہے‘‘ ہے (ص ۶۴) ___ بہرحال یہ معلومات افزا کتاب موضوعاتِ سیرت پر تحقیق کرنے والوں کے لیے بہت معاون ثابت ہوگی۔ (رفیع الدین ہاشمی)
مقالات سیرتِ طیبہ، مرتبہ: جامعہ سلفیہ بنارس، بھارت۔ ملنے کا پتا: کتاب سراے، الحمدمارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات:۴۶۴۔ قیمت: ۵۰۰ روپے۔
ہمارے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم فداہ ابی وامی کی سیرتِ طیبہ کا موضوع ایک ایسا بحربے کراں ہے جس کی کوئی اتھاہ نہیں۔ ۱۴سوسال سے غواص اس کے اندر جاتے ہیں اور اپنی پسند کے سیپ اور موتی نکال کے لاتے ہیں ، جن میں سے یقینا کچھ آنکھوں کو خیرہ کردیتے ہیں۔
۱۴۱۲ہجری میں بنگلور میں جامعہ سلفیہ نے سیرت کانفرنس کا انعقاد کیا جس کے اُردو مقالات (یعنی انگریزی اور عربی کے علاوہ) وہاں سے شائع کیے گئے اور اب کتاب سراے نے پاکستان میں شائع کیے ہیں۔یہ ۳۷ مقالات کا مجموعہ ہے، آخر میں کچھ منظومات بھی ہیں۔ مقالات مختصر اور جامع ہیں اور تدوین کاروں نے بڑی محنت سے ذیلی سرخیاں لگائی ہیں۔
دوسرا پہلو مضامین کی وسعت اور ان کا تنوع ہے۔ میں صرف اشارے کروں گا۔ اتباع اور اطاعت رسولؐ کے موضوع پر چار مقالات ہیں۔ اخلاق نبویؐ پر دو، دعوت پر چار، سیرت کی اہم کتابوں: ابن جوزی کی الوفاباحوال المصطفٰی، سلیمان منصورپوری کی رحمۃ للعالمینؐ، شبلی نعمانی کیسیرت النبیؐ، مصطفی سباعی کی دروس وعبر، علامہ مقریزی کی امتاع الاسماع کے تعارف اور جائزے ہیں۔ سرسیّد، طٰہٰ حسین اور محمد بن عبدالوہاب اور سلف میں سے بعض پر سیرت نگار کی حیثیت سے مضمون ہیں۔ سیرت کے حوالے سے: حقوقِ نسواں، اولاد کی تربیت، طبقاتی کش مکش کا حل، اور حقوقِ انسانی جیسے موضوعات ہیں۔ دو اہم موضوعات بشریت اور علمِ غیب کچھ زیادہ ہی اختصار سے نبٹا دیے گئے ہیں۔ سیرت کے واقعات، یعنی صلح حدیبیہ، معجزات، آپؐ کی تعلیم اور عمل میں تزکیۂ نفس ، تدبیر اور تنظیم، حب ِ رسولؐ، شاید مَیں مکمل احاطہ نہیں کرسکا۔آخر میں شامل چار منظومات میں سے دو نعتیں ہیں اور دو میں کانفرنس کا ذکر ہے۔
ان مقالات کو تعلیمی اداروں کے مجلات ، اخبارات کے خصوصی نمبروں اور رسائل و جرائد میں نقل کیا جاسکتا ہے۔مشتاقانِ سیرت اسے حاصل کریں تو مایوس نہیں ہوں گے۔(مسلم سجاد)
عالمی تہذیب و ثقافت پر اسلام کے اثرات، محمود احمد شرقاوی، ترجمہ: صہیب عالم، نجم السحر ثاقب۔ ناشر: مکتبہ قاسم العلوم، رحمن مارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۱۴۲۔ قیمت: درج نہیں۔
اسلام جزیرئہ عرب سے نکلا تو اس نے ایک طرف روما کی سلطنت کو اُلٹ دیا اور دوسری طرف شکوہِ فارس کو پارہ پارہ کردیا۔ سلطنت ِ اسلامی کی سرحدیں بحراوقیانوس سے لے کر چین کے صوبہ سنکیانگ (کاشغر) تک پھیل چکی تھیں۔ اس کے نتیجے میں تمام مفتوحہ علاقوں پر اسلامی تہذیب و ثقافت کے وسیع اثرات مرتب ہوئے۔ زیرنظر کتاب میں محمود علی شرقاوی نے انھی اثرات کا جائزہ لیا ہے۔
ابتدا میں مصنف نے اسلام میں علم کی اہمیت ، مسلمانوں کے طرزِ تعلیم اور مراکز تعلیم (مساجد، مکاتب، مدارس، علما کی مجالس اور کتب خانوں) پر تفصیلی بحث کی ہے۔ بعدازاں مغربی اور عجمی تہذیب و ثقافت کے خدوخال بیان کرکے ان پر اسلامی فتوحات کے اثرات کا جائزہ لیا ہے اور عالمی ثقافت کے فروغ میں مسلم علما کی مساعی کو سراہا ہے۔ انھوں نے بتایا ہے کہ مسلم علما جس مفتوحہ علاقے میں گئے، وہاں کے علوم و فنون کا باریک بینی سے مطالعہ کیا اور اس مقصد کے لیے تراجم کو اہمیت دی گئی اور عربی تراجم کے ذریعے مختلف علوم سے کماحقہٗ فائدہ اُٹھایا۔ اسی طرح اسلامی علوم کو بھی دوسری زبانوں میں منتقل کرکے وہاں کے باشندوں کو اسلام کی حقیقی روح سے آگاہ کیاگیا۔
تہذیب و ثقافت کے مختلف عناصر اور شعبوں (ادب، فلسفہ، طب، شفاخانے، علمِ کیمیا، علمِ طبیعیات، علمِ فلکیات، علمِ ریاضیات، علمِ نباتات، علمِ حیوان، علمِ جغرافیہ، علمِاجتماعیات، ایجادات اور فنون و کاریگر) کی مناسبت سے ذیلی عنوانات قائم کر کے مصنف نے ان علوم کی ترویج و ترقی پر مسلم تہذیب و ثقافت کے اثرات کا جائزہ بھی لیا ہے۔ مسلمانوں کی سائنسی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ انھوں نے اندلس، سسلی اور مشرق میں علوم کے مراکز قائم کیے جن میں جابر بن حیان، ابن الہیثم اور ابوالقاسم زہراوی جیسے لوگوں نے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ اندلس کی یونی ورسٹیوں میں یورپی طلبہ بھی تعلیم حاصل کرتے تھے۔آخری باب میں مصنف نے اسلام کے سیاسی نظام، قوانین، حدود، ریاست، خلافت اور معاشیات پر بحث کی ہے۔
کتاب عربی زبان میں تھی۔ ترجمہ رواں اور اسلوب نہایت عمدہ ہے۔ کہیں ترجمے کا احساس نہیں ہوتا۔ مجموعی طور پر کتاب نہایت معلومات افزا ہے، اور عبرت خیز بھی۔ اس کے مطالعے سے اقبال کا مصرع شدت سے یاد آتا ہے: ع تھے تو آبا وہ تمھارے ہی مگر تم کیا ہو۔(قاسم محمود احمد)
Tears for Pakistan [پاکستان کے لیے آنسو]،اقبال سیّد حسین۔ ملنے کا پتا: گلی ۱۴، کرشن نگر، گوجرانوالہ۔ فون: ۷۷۹۲۴۵۲-۰۳۰۰۔ صفحات: ۵۳۶۔ قیمت: ۷۰۰ روپے۔
اقبال سیّد حسین نے اس کتاب میں پاکستان کے حوالے سے اپنے گہرے احساسات قلم بند کیے ہیں۔ اُنھوں نے زندگی کا طویل عرصہ بیرونِ ملک گزارا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو اقوامِ عالم میں وہ مقام نہ مل سکا جس کا وہ حق دار ہے۔
۱۹۷۷ء سے اب تک انگریزی زبان میں اُن کی ۱۲ کتابیں منظرعام پر آچکی ہیں۔ ۵۳۶صفحات پر پھیلے ہوئے ۲۶ مضامین کی اس کتاب میں مصنف کم و بیش ہر اُس پہلو کی نشان دہی کرتا ہے جو پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کر رہا ہے یا پاکستان کو زوال کی طرف لے جا رہا ہے ۔ اُن کی واضح راے یہ ہے کہ تعلیم سے دُوری نے پاکستانی قوم کے لیے بے انتہا مسائل کھڑے کیے ہیں۔ اُنھوں نے غیرملکی مفکرین دانش وروں اور قائدین کی آرا بھی فراخ دلی سے درج کی ہیں۔
اقبال سیّد حسین نے خلیل جبران سے لے کر ولیم بلیک اور نوم چومسکی اور کیرن آرمسٹرانگ تک، اور قرآن کریم سے لے کر روزمرہ پاکستانی اخبارات تک سے بھرپور استفادہ کیا ہے۔ چند مضامین یا پیراگراف ایسے ہیں کہ جنھیں مصنف نے دیگر دانش وروں کی تحریروں میں اہم سمجھا اور شکریے کے ساتھ اپنی کتاب میں شامل کیا۔ یونانی فلسفہ اور جدید مفکرین کی آرا سے وہ دل کھول کر استفادہ کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان میں ’رہنمائی‘ موجود ہے۔ مُلّا، آرتھوڈوکسی اور قدامت پرستی پر بھی اپنے نقطۂ نظر سے کھل کر تنقید کی ہے۔
مصنف نے کئی درجن تصاویر بھی شامل کی ہیں۔ ان میں دکھایا گیا ہے کہ کوڑے کے ڈھیر پر سے بچے خوراک تلاش کر رہے ہیں یا وہ عورتیں جن کے چہرے پر تیزاب پھینک دیا گیا، یا وہ معصوم بچے جو زندگی کی گاڑی دھکیلنے کے عمل میں ۶،۷ سال کی عمر ہی سے شریک ہوچکے ہیں۔
آج پاکستان اور اسلام اور اسلامی تحریکات کے حوالے سے جس قدر ہرزہ سرائی ہورہی ہے، خصوصاً انگریزی زبان میں شائع شدہ کتابیں اور مضامین اور تجزیے جس طرح وطن عزیز کو بدنام کررہے ہیں، ان حالات میں اقبال حسین کے مضامین اور کتابیں کسی نعمت غیرمترقبہ سے کم نہیں۔ کہا جاسکتا ہے کہ قومیت، علاقائیت اور دولت پرستی نے پاکستان کو نقصان پہنچایا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ تعالیٰ سے بغاوت اور اُس کے احکامات نہ تسلیم کرنے نے پاکستان کو بے وقعت کیا ہے۔ اُمید ہے پاکستان سے محبت کرنے والوں کے لیے یہ کتاب خوب صورت تحفہ ثابت ہوگی۔ (محمد ایوب منیر)
اس ماہ کے ترجمان میں پروفیسر خورشید احمد کے اشارات: ’غزہ میں اسرائیل کی جارحیت اور مسئلہ فلسطین‘ کے علاوہ دیگر مضامین بھی بہت اہم اور قابلِ غوروفکر ہیں، مگر ’حکمت مودودی‘، ’اسلام: وجودِ پاکستان کے لیے ناگزیر‘ بہت ہی اہم اور قابلِ مطالعہ ہے۔سید مودودی نے صحیح تجزیہ کیا ہے کہ: ’’اگر مسلمانوں میں مسلمان ہونے کا احساس تمام دوسرے احساسات پر غالب نہ ہوتا، اگر مسلمان اس بات کو بھول نہ گئے ہوتے کہ ہم مدراسی ہیں، پنجابی ہیں، بنگالی ہیں، گجراتی ہیں، پٹھان ہیں اور سندھی ہیں اور صرف ایک تصور ان کے اُوپر غالب نہ ہوتا کہ ہم مسلمان ہیں اور مسلمان کی حیثیت سے اس سرزمین پر جینا چاہتے ہیں، تو پاکستان کبھی وجود میں نہیں آسکتا تھا بلکہ پاکستان کا تخیل سرے سے پیدا ہی نہیں ہوسکتا تھا‘‘۔
’ترکی میں سیاسی تبدیلی اور معاشرتی انقلاب‘ (دسمبر ۲۰۱۲ء) کے عنوان سے ڈاکٹر انیس احمد کا مضمون فکرانگیز اور چشم کشا ہے۔ یقینا ترکی کے اس ماڈل میں پاکستان کی تحریک اسلامی کے لیے غوروفکر کے متعدد پہلو ہیں۔ گذشتہ سال مجھے بھی ترکی کے تین شہروں، استنبول، انقرہ اور قونیہ میں مختلف تعلیمی اداروں کے مطالعاتی دورے کا موقع ملا۔ یہ وہ ادارے تھے جنھیں فتح اللہ گولن کی تحریک کے لوگ چلا رہے ہیں۔ ان اداروں سے اعلیٰ اخلاق و کردار اور بہترین صلاحیتوں کے حامل نوجوان نکل رہے ہیں جو اس وقت ترکی کی معاشی اور معاشرتی پیش رفت میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں پاکستان میں بھی ایسے تعلیمی اداروں کا جال بچھانے کی ضرورت ہے جہاں سے ایسے نوجوانوں کی کھیپ نکلے جو اعلیٰ اخلاق و کردار کے جوہر کے ساتھ ساتھ حب الوطنی کے اسلامی جذبے سے بھی سرشار ہوں۔ اس پہلو پر تحریک نے ابھی تک کماحقہ ٗ توجہ نہیں دی مگر طویل المیعاد منصوبے کے تحت اسے ترجیحات میں سرفہرست رکھنے کی ضرورت ہے۔
غزہ میں اسرائیل کی جارحیت کا حماس کے مجاہدوں کی طرف سے بھرپور جواب اور مصر میں صدر مُرسی کے خلاف اختیارات کے بارے میں پروپیگنڈے کی اصلیت جان کر معلومات میں اضافہ ہوا۔
حکمت مودودی کے زیرعنوان سقوطِ ڈھاکہ کی مناسبت سے مولانا مرحوم کی تقریر کا اقتباس پسند آیا۔ سقوطِ ڈھاکہ کے حوالے سے کچھ مزید کی بھی توقع تھی مگر… بلوچستان کے حالات کے پیش نظر، ہمیں سقوطِ ڈھاکہ کے المیے سے بہت زیادہ سیکھنے کی ضرورت ہے، مگر اے بساآرزو کہ خاک شدہ۔
’سیاسی تبدیلی اور معاشرتی انقلاب: چند غورطلب پہلو‘ (نومبر ۲۰۱۲ء) جامع اور عام فہم ہے۔ ساری باتوں کا نچوڑ یہی ہے کہ اصل معاملہ میدان میں ہے، یعنی فرد اور تحریک کا افراد اور مؤثر طبقات تک پہنچ کر دعوت دینا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دعوت جامع ہو اور یہ کہ ’آج کے تناظر‘ میں سوال رکھا جائے۔سفر کی طوالت اور منزل بظاہر دُور اور آخر ایسا کیوں؟ کا سوال اگرچہ غیرفطری نہیں لیکن جائزہ و احتساب میں خدمت ِ خلق کا ایمانی تقاضا خوب سمجھ آیا۔
’اقبال اور سیکولرزم‘ (نومبر ۲۰۱۲ء) میں یہ کہنا کہ اقبال کے نزدیک ’’اسلام کی رُو سے خدا اور کائنات، روح اور مادہ ایک ہی کُل کے مختلف اجزا ہیں‘‘ (ص ۵۸)، درست نہیں۔ یہ صوفیانہ نقطۂ نظر کی ترجمانی ہے۔
ارشاد الرحمن صاحب کا مضمون: ’شام:اسد خاندان کا مجرمانہ دورِ حکومت‘ (نومبر ۲۰۱۲ء) نظر سے گزرا۔ مضمون میں تین باتیں قابلِ توجہ ہیں: ۱- مضمون نگار نے تمام تر انحصار اُن ذرائع پر کیا ہے جو اسد حکومت کے واضح مخالفین میں سے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان سے کسی معروضی تجزیے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔۲-مضمون نگار نے بجاطور پر اپنے مضمون میں وہ ساری تفصیلات دی ہیں جن کا تعلق اسدحکومت کی بہیمانہ کارروائیوں اور قتل و غارت کی کارروائیوں سے ہے لیکن اُنھوں نے اُن تفصیلات کا ذکر نہیں کیا جن کا تعلق اسدمخالف عناصر کی جانب سے قتل و غارت کی کارروائیوں سے ہے جن کے واضح ثبوت مہیا ہوچکے ہیں۔ ۳-مضمون نگار نے یہ تو بتادیا کہ اس حکومت کو روس اور ایران سے اسلحہ مل رہا ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ اسد مخالف عناصر کی پشت پر وہ کون سی طاقتیں ہیں جو اُنھیں فنڈز، ٹریننگ اور اسلحہ فراہم کر رہی ہیں اور اُن کے مقاصد کیا ہیں؟ کیا یہ دل چسپ بات نہیں ہے کہ پورے مضمون میں امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، قطر اور سعودی عرب کا ذکر تک نہیں کیا گیا جو اسدمخالف عناصر کی پشت پر کھڑے ہیں؟ واضح رہے کہ میں اس حکومت کا حامی نہیں ہوں۔
وضاحت: ’رسائل و مسائل‘ (دسمبر۲۰۱۲ء) میں خنزیر کی کھال کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ دباغت کے بعد اس کا استعمال جائز ہے۔ ہمارے ایک قاری ڈاکٹر ضیاء الرحمن قریشی (آزاد کشمیر) نے درست توجہ دلائی ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ گائے کی جو مثال دی گئی ہے وہ قیاس مع الفارق ہے۔ اس لیے کہ اس کا اطلاق خنزیر کی کھال پر نہیں ہوتا، کیونکہ وہ فی نفسہٖ حرام ہے۔ اُمت کا اس پر اجماع ہے۔ (ادارہ)
’جنسی بے راہ روی: ایک چیلنج‘ (دسمبر ۲۰۱۲ء) جنسیت پر ایک طائرانہ تاریخی جائزہ اور انسانی زندگی میں جنس کی اہمیت و ضرورت کے حوالے سے عمدہ تحریر ہے۔ اسلام نے جنسی زندگی کے حوالے سے جن ہدایات و رہنمائی کا اہتمام کیا ہے، اس کا مضمون کے آخر میں سرسری ذکر کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے مفصل تحریر شائع کی جائے تو یقینا موجودہ دور میں سب کے لیے ہی مفید ہوگی۔
ملک میں نئے انتخابات کا وقت قریب آرہا ہے۔ شفاف انتخابات کے پیش نظر ضرورت اس بات کی ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سوموٹونوٹس لیتے ہوئے الیکشن کمشنر اور حکومت کو پابند کریں کہ وہ آئین کی دفعہ ۶۲، ۶۳ کے تحت انتخاب لڑنے والے نمایندوں کی جانچ پڑتال کریں اور ایسے نمایندوں کو الیکشن لڑنے سے روک دیں جو آئین کے مقرر کردہ اصولوں پر پورا نہ اُترتے ہوں۔ نیز پاکستان کے دستور کی اِن دفعات کو عملہ جامہ پہنانے کے لیے مناسب طریقہ کار وضع کریں۔ اس کے علاوہ قرارداد مقاصد حکومت کو پابند کرتی ہے کہ پاکستانی عوام کو اسلام کے احکام سے روشناس کرائے اور اُن کے لیے اسلام پر عمل کرنے کو آسان بنائے۔ پاکستان کے دستور کی ان دفعات پر عمل کرنے پر حکومت کو حکم جاری کیا جائے۔
’جنسی تعلیم اسلامی اقدار کی تناظر میں‘(جون ۲۰۱۲ء) بہت ہی اچھا لکھا۔ مگر اس میں بھی ڈاکٹرصاحب کی شانِ اجتہادی نمایاں ہے۔ دو مثالیں ملاحظہ ہوں۔ قرآن کریم جنسی جذبے کو حلال و حرام اور پاکیزگی اور نجاست کے تناظر میں بیان کرتا ہے تاکہ حصولِ لذت ایک اخلاقی ضابطے کے تحت ہو نہ کہ فکری اور جسمانی آوارگی کے ذریعے۔ چنانچہ عقیدۂ نکاح کو ایمان کی تکمیل اور انکارِ نکاح کو اُمت مسلمہ سے بغاوت کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے (ص ۶۴)۔ پتا نہیں یہ کسی آیت کا ترجمہ ہے یا حدیث کا، یا کوئی اجماعی قانون ہے؟ ایک اور جگہ وعن شبا بہ فیما ابلاہ سے درج ذیل نتیجہ اخذ کیا ہے۔ احادیث بار بار اس طرف متوجہ کرتی ہیں کہ یوم الحساب میں جو سوالات پوچھے جائیں گے، ان میں سے ایک کا تعلق جوانی سے ہے اور دوسرے کا معاشی معاملات سے۔ گویا جنسی زندگی کا آغاز شادی کے بعد ہے، اس سے قبل نہیں (ص ۶۶)۔ ایک تو یہ کہ الفاظِ حدیث عام ہیں۔ دوسرے یہ کہ جوانی اور شادی میں کیا نسبتِ مساوات ہے؟
’اسلام کے اقتصادی نظام کے نفاذ کا پہلا قدم___ بیع سلم‘ (جون ۲۰۱۲ء) میں نجی سطح پر سود کے خاتمے کے قانون (۲۰۰۷ء) کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ اسی قانون کو صوبہ سرحد میں بھی نافذ کیا گیا تھا اور اے این پی کی موجودہ حکومت نے اسے غیرمؤثر کردیا ہے۔ (ص ۵۴)
ریکارڈ کی درستی کے لیے میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ راقم اُس ٹیم کا حصہ تھا جس نے پروفیسر خورشید احمد صاحب کی قیادت میں صوبہ سرحد میں ایم ایم اے کی حکومت کے دوران معیشت سے سود کے خاتمے کی جدوجہد میں حصہ لیا تھا۔ ایم ایم اے کی صوبائی حکومت نے پنجاب اسمبلی کے مذکورہ بالا قانون کو اختیار /نافذ (adopt) نہیں کیا تھا بلکہ ایک الگ اور مربوط منصوبہ بندی کے تحت بنک آف خیبر ایکٹ کا ترمیمی بل ۲۰۰۴ء صوبائی اسمبلی سے منظور کروا کر بنک آف خیبر کی تمام سودی شاخوںکو اسلامی بنکاری کی برانچوں میں تبدیل کرنے کی راہ ہموار کی تھی۔ اس ایکٹ کا پنجاب اسمبلی کے منظورکردہ ایکٹ کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں۔ تاہم صوبائی معیشت کو اسلامیانے کے لیے ایک الگ کمیشن جسٹس فدا محمد خان ، جج شریعہ کورٹ، سپریم کورٹ آف پاکستان کی صدارت میں قائم کیا گیا تھا جس کا راقم بھی رُکن تھا۔ اِس کمیشن نے بڑی محنت کے ساتھ رپورٹ مرتب کی کہ کس طرح صوبائی معیشت کو سود سے پاک کیا جاسکتا ہے۔ افسوس کہ کچھ بیوروکریٹک کوتاہیوں اور اعلیٰ سیاسی قیادت کی عدم دل چسپی کے باعث کمیشن کی سفارشات حتمی شکل اختیار نہ کرسکیں اور ایم ایم اے کی حکومت کا دورانیہ مکمل ہوگیا۔
واضح رہے کہ اے این پی کی حکومت نے مکمل طور پر بنک آف خیبر کو دوبارہ سودی کاروبار میں تبدیل نہیں کیا بلکہ بنک کی پرانی سودی برانچوں کو اسلامی برانچیں بننے سے روکنے کے لیے بنک آف خیبرایکٹ میں دوبارہ ترمیم کر کے اللہ کے غضب کو دعوت دی ہے۔ لیکن اس کے باجود وہ بنک آف خیبر میں اسلامی برانچوں کو غیرمؤثر کرنے یا نقصان پہنچانے میں (کوشش کے باوجود) کامیاب نہ ہوسکے۔ لہٰذا ایم ایم اے دور کا کام محفوظ اور intact ہے اور ان شاء اللہ جب دوبارہ ہمیں اقتدار ملے گا تو اسلامی بنکاری اور اسلامی معیشت کے کام کا آغاز وہیں سے ہوگا جہاں اِسے اے این پی اور پیپلزپارٹی کی مخلوط صوبائی حکومت نے پھیلنے سے روکا ہے۔
پہلا ایڈیشن ختم ہوکر دوسرے ایڈیشن کی ترسیل شروع ہوچکی ہے۔ ا س دوسرے ایڈیشن میں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی صاحب نے نظرثانی فرما کر کئی مقامات پر ترمیم و اضافے کردیے ہیں۔ فہرست موضوعات بھی دوبارہ نئی ترتیب سے ترمیم و تنسیخ کے بعد شائع کی گئی ہے۔ طبع اوّل کی غلطیوں کی تصحیح بھی کردی گئی ہے۔
متوسط طبقے کی خواہش کے پیش نظر قسم سوم بھی طبع ہوچکی ہے۔
محصول ڈاک تقریباً -/۴/۱ دیگر اخراجات بذمہ خریدار
قسم اوّل و دوم میں حسب ِ سابق خصوصی جلدیں بھی مل سکیں گی جو فرمایش کے مطابق فراہم کی جائیں گی۔
مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی پاکستان - اچھرہ، لاہور
تحریک اسلامی کو سمجھنے کے لیے
کامطالعہ کیجیے
مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی پاکستان، اچھرہ، لاہور، پاکستان
یا ___ اپنے شہر کے کتب فروشوں سے طلب کریں
(ترجمان القرآن، جلد ۳۹، عدد۴، ربیع الثانی ۱۳۷۲ھ ، جنوری۱۹۵۳ء، اشتہار اندرونِ سرورق و پشت)