مضامین کی فہرست


مارچ ۲۰۱۳

بات بہت واضح ہے۔ تاریخ کا لمحہ لمحہ گواہ ہے کہ مسئلہ آزادی، ایمان اور عزت کی حفاظت کا ہو یا ظلم و استبداد کے نظام سے نجات اور اعلیٰ مقاصد حیات کے حصول کا___ یہ بازی صرف ایک ہی طریقے سے سر کی جاسکتی ہے اور وہ عبارت ہے مسلسل اور پیہم جدوجہد، ایثار اور قربانی سے۔ اس حیات آفریں عمل ہی کو شریعت نے جہاد کا نام دیا ہے اور اس کے مقاصد و اہداف، اصول و آداب اور قواعد و ضوابط کار کا بھی پوری وضاحت سے تعین کردیا ہے۔ یہ جدوجہد نیت اور سمت کی درستی کے ساتھ وقت، جان اور مال، غرض ہر چیز کی قربانی کا تقاضا کرتی ہے اور اگر اس جدوجہد میں نوبت جان کو جانِ آفریں کے سپرد کرنے کی آجائے تو اسے کامیابی کی معراج قرار دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس طرح جان دینے والے کی موت کو عرفِ عام کی موت سے یہ کہہ کر ممیز کردیا گیا ہے کہ یہی اصل حیات ہے:

  • وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌ بَلْ اَحْیَآئٌ وَّ لٰکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ o (البقرہ ۲:۱۵۴) اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں انھیں مُردہ نہ کہو، ایسے لوگ تو حقیقت میں زندہ ہیں، مگر تمھیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ہوتا۔

ایک اور پہلو اس مقام کو حاصل کرنے والوں کی زندگی کا یہ بھی ہے کہ وہ دوسروں کے لیے روشن مثال قائم کرتے ہیں، انسان کو موت کے خوف سے بے نیاز کرتے ہیں، زندگی کو ان مقاصد کے لیے قربان کرنے کا داعیہ پیدا کرتے ہیں جو محض ایک فرد نہیں بلکہ پوری اُمت اور تمام انسانوں کو زندگی کے اس مفہوم سے آشنا کرتے ہیں جس سے زندگی زندہ رہنے کے لائق بنتی ہے (what makes life worth living)۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کا اظہار اس طرح کیا گیا ہے کہ  ع

شہید کی جو موت ہے ، وہ قوم کی حیات ہے

آج ایک خاص طبقہ کچھ مخصوص بلکہ مذموم مقاصد کے لیے ’جہاد‘ اور ’شہادت‘ کو ناپسندیدہ الفاظ بنانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن چاند پر تھوکنے سے چاند کی روشنی اور پُرکیف ٹھنڈک میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ ہر دور میں شہادت کا ہر واقعہ ایمان کی تازگی اور حق اور صداقت کی جدوجہد کرنے والوں کے لیے مہمیز دینے کا ذریعہ رہا ہے۔ یہی وہ عمل ہے جس کے نتیجے میں بالآخر ظلم و استبداد کا ہرنظام سرنگوں ہوتا ہے اور آزادی، عزت، غلبۂ حق اور عدل و انصاف کی صبح طلوع ہوتی ہے۔  تاریخ کے در ودیوار سے یہ گونج مسلسل سنائی دیتی ہے کہ   ؎

یہ خون جو ہے مظلوموں کا، ضائع تو نہ جائے گا لیکن
کتنے وہ مبارک قطرے ہیں، جو صرف بہاراں ہوتے ہیں

بھارتی غلبے اور استبداد کے خلاف جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی جدوجہد ہمارے دور کی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ اس جدوجہد میں جو سعید روحیں جان کا نذرانہ پیش کرتی ہیں، وہ دراصل اُمید کا ایک چراغ روشن کرتی ہیں۔ بھارتی ظلم و استبداد کا نشانہ بننے والی ہر روح تاریکیوں کو چیلنج کرنے والے ایک چراغ کی مانند ہے۔ اس سلسلے کی تازہ ترین مثال ۹فروری ۲۰۱۳ء کو دہلی کی تہاڑ جیل میں ایک بے گناہ مجاہد محمد افضل گورو کو تختۂ دار پر چڑھانے کے ظالمانہ اقدام کی شکل میں دیکھی جاسکتی ہے جس نے بھارت کی نام نہاد جمہوریت اور اس کے عدالتی نظام کا اصل چہرہ ہی بے نقاب نہیں کیا، بلکہ عالمی قیادت کے اس مدعی ملک کی ریاستی دہشت گردی کی بدترین مثال بھی پوری دنیا کے سامنے پیش کردی ہے۔ یہ اس کے سیاسی اور اخلاقی دیوالیہ پن کا ثبوت اور اس کی کشمیر پالیسی کی ناکامی کی علامت ہے۔

شھادت کا پس منظر

اس امر میں ذرا بھی شبہہ نہیں کہ یہ اقدام ایک مکروہ سیاسی چال ہے اور تحریکِ آزادیِ کشمیر کو نہ صرف یہ کہ اس سے ان شاء اللہ کوئی نقصان نہیں ہوگا بلکہ اس کے نتیجے میں اس جدوجہد کو نئی جِلا ملے گی اور نئی قوت میسر آئے گی۔ ذرا تصور کیجیے کہ ایک مظلوم انسان جسے ایک سازش کے تحت دہشت گردی کے ایک واقعے میں ملوث کیا گیا، اسے تین بار عمرقید اور دو بار پھانسی کی سزا دی گئی، جس کی (افسوس ہے کہ ) ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے کھلے بندوں، قانون اور عدل کی بنیاد پر نہیں، علانیہ طور پر سیاسی وجوہ سے توثیق بھی فرما دی۔ وہ ۱۳سال سے قید تنہائی میں تھا اور سات سال سے پھانسی کے تختے کا انتظارکررہا تھا۔ اسے اور اس کی اہلیہ کو قانون کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے اطلاع دیے بغیر اور آخری وقت میں بیوی اور بچے سے بھی ملنے سے محروم رکھ کر تختۂ دار پر چڑھا دیا جاتا ہے۔ جموں و کشمیر میں کرفیو لگا دیا جاتا ہے اور اخبارات، میڈیا، اور سیل فون تک کو خاموش کردیا جاتا ہے، اس کے باوجود مظلوم مجاہد کی جبیں پر کوئی شکن نہیں آتی۔ وہ فجر کی نماز پڑھ کر پورے اعتماد کے ساتھ تختۂ دار کی طرف شانِ استغنا کے ساتھ بڑھ جاتا ہے۔ اپنے خاندان اور تمام مسلمانوں کو پیغام دیتا ہے کہ ’’اللہ پاک کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے مجھے اس مقام کے لیے چنا۔ باقی میری طرف سے آپ اہلِ ایمان کو مبارک ہو کہ ہم سب سچائی اور حق کے ساتھ رہے اور حق و سچائی کی خاطر آخرت میں ہمارا اختتام ہو۔ اہلِ خانہ کو میری طرف سے گزارش ہے کہ میرے مرنے پر افسوس کے بجاے اس مقام کا احترام کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کا حامی و ناصر ہو، اللہ حافظ!‘‘۔

یہ الفاظ کسی مجرم یا باطل سے دب جانے والے انسان کے نہیں ہوسکتے۔ یہ خطاب صرف اہلِ خانہ سے نہیں، تمام اہلِ ایمان سے ہے جو دلوں میں نیا ولولہ پیدا کریں گے اور اس جدوجہد کو نئی زندگی دیں گے۔ اس کا ایک ہلکا سا نظارہ ان واقعات میں بھی دیکھا جاسکتا ہے جو اس شہادت کے بعد رُونما ہوئے۔ ایک طرف خائف سوپر پاور ہے اور دوسری طرف بے سروسامان عوام___ لیکن وہ ہررکاوٹ کے باوجود احتجاج کر رہے ہیں۔ کرفیو ان کا راستہ نہیں روک سکتا اور گولی اور لاٹھی کی بوچھاڑ انھیں گھروں میں قید نہیں رکھ سکتی۔ بوڑھا سید علی شاہ گیلانی زیرحراست ہے لیکن اس کی آواز پر کشمیر کے مظلوم شہری ظالموں کے خلاف کمربستہ ہیں۔ دہلی تک میں مظاہرے ہوتے ہیں   جن کی قیادت دہلی کالج کا وہی پروفیسر ڈاکٹر عبدالرحمن گیلانی کر رہا ہے جس پر اس مقدمے میں شریکِ جرم ہونے کا الزام تھا، اسے بھی افضل گورو کے ساتھ سزاے موت ملی تھی جو بعد میں   سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دے دی اور اسے بے گناہ قرار دیا۔ وہ نہ صر ف ا س احتجاج کی قیادت کر رہا ہے بلکہ برملا شہادت دے رہا ہے کہ محمد افضل گورو بے گناہ تھا اور اسے صرف اس لیے پھانسی کے تختے پر چڑھایا گیا ہے کہ وہ تحریکِ آزادیِ کشمیر کا ایک مجاہد تھا اور اسے اس کے سیاسی خیالات کی وجہ سے موت کے گھاٹ اُتارا گیا ہے۔ مظاہرے میں شریک ہر نوجوان یہ عہد کر رہا ہے کہ  تحریکِ آزادیِ کشمیر کو جاری رکھے گا۔ بلاشبہہ افضل گورو کی شہادت سے اس تحریک کو ان شاء اللہ    نیا ولولہ ملے گا۔

جہاں تک کشمیر کا تعلق ہے، ۹فروری کی شہادت کی خبر سارے کرفیو اور تمام پابندیوں کے باوجود جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی ۔ کرفیو کے علی الرغم عوامی احتجاج ہرسُو رُونما ہوا اور قربانیوں اور شہادتوں کی نئی تاریخ رقم ہونے لگی۔ ہڑتالوں کا سلسلہ ان سطور کے لکھنے تک جاری ہے اور  کشمیر ہی نہیں، دنیا بھر میں کشمیری نوجوان، وہ بھی جو پہلے اس جدوجہد میں شریک نہیں تھے، اب نئے جذبے کے ساتھ مزاحمت کی تحریک میں شرکت کے لیے بے تاب ہیں۔ نیویارک ٹائمز کی نامہ نگار برمنگھم یونی ورسٹی کی ایم فل کی ایک طالبہ عارفہ غنی کے اس عزم کا اظہار کچھ ان الفاظ میں کرتی ہے:

جب مقبول بٹ کو پھانسی دی گئی تو میں پیدا نہیں ہوئی تھی۔ جب میں نے اس کے بارے میں کچھ پڑھا تو پھر وہ ہمارا ہیرو ہوگیا۔ گورو کی پھانسی کے بعد میں جس طرح محسوس کررہی ہوں اس طرح کبھی بھی محسوس نہیں کیا۔ مگر ہم اپنے بڑوں کی طرح ہتھیار نہیں اُٹھائیں گے۔ ہم زیادہ ذہانت سے ردعمل دیں گے۔

(نیویارک ٹائمز کے نمایندے کی رپورٹ جو دی نیشن کی ۱۸فروری ۲۰۱۳ء کی اشاعت میں شائع کی گئی ہے)۔

یہ کیسی جمہوریت ہے اور یہ کیسی اُبھرتی ہوئی عالمی طاقت ہے جو مجاہدین کی لاشوں سے بھی خائف ہے اور جس نے نہ مقبول بٹ شہید کی لاش اس کے لواحقین کو دی اور نہ اب افضل گورو کی لاش دینے کے لیے تیار ہے؟ لندن کے اخبار دی گارڈین کے کالم نگار نے کس طنز سے لکھا ہے کہ:

یہ بات ضرور پوچھی جانی چاہیے کہ بھارتی ریاست کیا کہنے کی کوشش کر رہی تھی؟ یقینا اس کی وضاحت سادگی سے اس طرح نہیں کی جاسکتی تھی جیساکہ بعض تجزیہ نگاروں نے کی ہے کہ یہ محض انتخابی سیاست کی مجبوریوں کا ایک مکروہ اظہار ہے۔ بلاشبہہ یہ وہ عمل ہے جس میں بھارت کی سیاسی پارٹیاں اپنے حریفوں سے آگے بڑھنے کے لیے     نئی اخلاقی پستیوں میں ڈوبنے کے لیے بے چین ہیں لیکن یہ اقدام دراصل کشمیری عوام کے لیے ایک پیغام ہے کہ ایک قابض طاقت بے اختیار عوام کو پوری گھن گرج کے ساتھ کہہ رہی ہے کہ تمھیں لازماً تعظیماً جھکنا پڑے گا۔ اس مقدمے کے اثرات پھانسی کے تختے سے بہت آگے بھی جاسکتے ہیں۔ اس کا تاریک سایہ ان کے بچوں کے لیے دودھ اور بزرگوں کے لیے دوائوں تک بھی پہنچ سکتا ہے۔دو لمحات تاریخ کا حصہ بنتے نظر آرہے ہیں۔ کشمیری، بھارت کی مزاحمت کی یاد میں گہری قبر کھود کر مقبرہ تعمیر کر رہے ہیں، اور بھارت بزدلانہ اعتراف کر رہا ہے کہ ایک کشمیری لاش بھی باغی ہوسکتی ہے، لہٰذا اسے جیل ہی میں ہمیشہ کے لیے مقید رہنا چاہیے۔

بھارتی قیادت کے عزائم اور اہلِ کشمیر کے لیے اس کا پیغام تو بہت واضح ہے۔ شہیدوں کی لاشوں تک سے ان کا خوف بھی الم نشرح ہے لیکن دی گارڈین کے مضمون نگار کا یہ خیال کہ جو قبریں سری نگر کے شہدا کے تاریخی قبرستان میں ان دو شہدا کے لیے بنائی گئی ہیں، وہ اپنے مکینوں کا انتظار کر رہی ہیں اور بس یادوں اور مزاحمتوں کا مقبرہ ہوں گی، شدید غلط فہمی پر مبنی ہیں۔ یہ قبریں تحریکِ مزاحمت کی علامت اور آزادی کی ناتمام جدوجہد کا عنوان ہیں۔ یہ آزادی کے کارواں اور اس راہ میں مزید قربانیوں کے لیے ایک تکبیرمسلسل کی حیثیت رکھتی ہیں اور اس آرزو اور عزم کا اظہار بھی ہیں کہ ایک دن ان شاء اللہ جموں و کشمیر کے مسلمان بھارت کے قبضے اور استبدادی نظام سے نجات پائیں گے، اپنی آزاد مرضی سے اپنا مستقبل طے کریں گے اور پھر شہدا کی وہ لاشیں،   جن سے آج وہ محروم کر دیے گئے ہیں، وہ انھیں حاصل کرسکیں گے اور وہ وقت دُور نہیں جب یہ خالی قبریں اپنے اصل مکینوں کو خوش آمدید کہہ سکیں گی۔

بلاشبہہ محمد افضل گورو کی شہادت کا واقعہ اس جدوجہد میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے لیکن اس پہلو کے ساتھ یہ واقعہ کئی اور حیثیتوں سے بھی بڑے غوروفکر کا مواد فراہم کر رہا ہے۔  ہم ان میں سے چند پہلوئوں پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں تاکہ حالات کو ان کے صحیح تناظر میں دیکھا جاسکے اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے صحیح پالیسیاں اور مناسب حکمت عملیاں تیار کی جاسکیں۔

 ریاستی دھشت گردی کی بدترین مثال

بھارت نے پہلے دن سے کشمیر کو صرف قوت کے ذریعے اور بدترین سامراجی حربوں کے بے محابا استعمال کے بل بوتے پر اپنی گرفت میں رکھا ہوا ہے اور وہ ظلم و استبداد کے مکروہ سے مکروہ تر اقدام کا ارتکاب کررہا ہے۔ ۱۹۴۷ء سے ۱۹۵۱ء کی جنگ بندی تک اپنے قدم جمانے اور جنگِ آزادی کو  کچلنے کے لیے بھارتی اور ڈوگرہ افواج نے چار لاکھ افراد کا خون بہایا اور ۱۹۸۹ء سے رُونما ہونے والے تحریکِ آزادی کے دوسرے دور میں اب تک ایک لاکھ سے زیادہ افراد کو شہید کیا جاچکا ہے۔ لاکھوں زخمی ہوئے ہیں، ہزاروں لاپتا ہیں، ہزاروں جیلوں میں سڑرہے ہیں اور خاص و عام آبادی کے انسانی حقوق کو پوری بے دردی کے ساتھ پامال کیا جا رہا ہے۔ پاک باز خواتین کی آبروریزی بڑے پیمانے پر کی جارہی ہے اور جنسی زیادتی کو ایک جنگی حربے (military strategy) کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ جموں و کشمیر میں ۷لاکھ سے زیادہ بھارتی فوجی ظلم کی یہ داستان رقم کررہے ہیں اور ان کو ایک مہذب معاشرے کے ہر قانون سے، حتیٰ کہ جنگی قانون تک سے مستثنیٰ کردیا گیا ہے۔ Armed Forces Special Powers Act ایک ایسا جنگل کا قانون ہے جس نے بھارتی فوج اور سیکورٹی ایجنسیوں کو دستور، قانون، جنگی قواعد و ضوابط اور سماجی روایات، ہرضابطے اور قاعدے سے آزاد کردیا ہے۔

 جموں و کشمیر میں جو خونی کھیل کھیلا جارہا ہے اسے تمام دنیا کے میڈیا اور عالمی مبصرین کے لیے ’نوگو ایریا‘ بنادیا گیا ہے تاکہ دنیا اس سے بے خبر رہے جو کچھ مجبوروں کی اس بستی میں کیا جا رہا ہے۔ اس پس منظر میں محمدافضل گورو کی گرفتاری کا مقدمہ، اس کی قیدتنہائی، اس پر تعذیب کی    دل خراش داستان، اس کی سزا، اس کی رحم کی درخواستوں پر کیا جانے والا معاملہ، اس کی پھانسی، پھانسی کی اطلاع سے خود اس کو اور اس کے اہلِ خانہ تک کو بے خبر رکھنا، اس کی میت سے بھی اس کے خاندان کو محروم رکھنا، اس کی پھانسی کی خبر تک کا گلا گھونٹنے کی کوشش___ یہ سب کشمیر کی حقیقی  صورت حال کا ایک آئینہ ہے جس میں بھارت کے سیاسی اور عدالتی نظام کا اصل چہرہ بھی دیکھا جاسکتا ہے اور جسے اب دنیا سے چھپانے کی کوئی تدبیر کامیاب نہیں ہوسکتی۔ بھارت کے جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے تمام دعووں کی قلعی صرف اس ایک واقعے کے ذریعے کھل جاتی ہے۔ کس طرح ہرسطح پر اور ہرہرقدم پر دستور، قانون، سیاسی آداب اور مسلّمہ اخلاقی اصول و ضوابط کو پامال کیا جاتا ہے اور کس ڈھٹائی سے انصاف کا خون کرکے ریاستی دہشت گردی کی بدترین مثال قائم کی گئی ہے۔ اس کیس کے حقائق کو ان کی اصل ترتیب میں دیکھنے سے بھارت کی سیاست اور عدل و انصاف کی زبوں حالی کی مکمل تصویر سامنے آجاتی ہے۔

  • … بدنامِ زمانہ نائن الیون کے دو ہی مہینے کے بعددسمبر ۲۰۰۱ء دہلی میں پارلیمنٹ پر حملے کا واقعہ رُونما ہوتا ہے جس کے پانچوں کردار کچھ دوسرے افراد کے ساتھ موت کے گھاٹ اُتار دیے جاتے ہیں اور کسی کو بھی کوئی ثبوت اس کا نہیں مل سکا کہ حملہ کرنے والے کون تھے اور ان کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا۔ اس وقت کے وزیرداخلہ کے ایل ایڈوانی کا یہ ارشاد سارے ڈرامے کا عنوان بنا کہ ’’شکل و صورت سے حملہ آور پاکستانی معلوم ہوتے ہیں‘‘۔
  • …دو دن کے اندر دہلی کے تین افراد، جن میں پروفیسر عبدالرحمن گیلانی کو مرکزی شخصیت (master mind ) قرار دیا جاتا ہے، گرفتار کرلیے جاتے ہیں اور بظاہر ان کی دی ہوئی معلومات کی بنیاد پر محمد افضل گورو اور ان کی اہلیہ کو شاملِ تفتیش کیا جاتا ہے اور افضل گورو کے ایک ایسے بیان کی بنیاد پر جو تشدد اور تعذیب کے ذریعے لیا گیا تھا اور جس سے افضل گورو نے عدالت میں صاف انکار کیا ، ان کا پاکستان سے رشتہ جوڑا گیا اور ایک لیپ ٹاپ اور سیل فون کا ڈراما رچایا گیا جن کا ڈھونگ ہونا مقدمے کے دوران ہی ثابت ہوگیا۔
  • …محمد افضل گورو کی ابتدائی تعلیم کشمیر میں اسلامی ٹرسٹ کے ایک اسکول میں ہوئی۔ پھر اس نے میڈیکل کالج میں داخلہ لیا جسے جاری نہ رکھ سکا۔ بھارتی افواج کے مظالم اور خصوصیت سے مسلمان خواتین سے زیادتی نے اسے کشمیر کی آزادی کی تحریک میںشرکت پر مجبور کیا۔ جے کے ایل ایف سے اس نے وابستگی اختیار کی، پاکستان بھی آیا مگر یہاں سے مایوس ہوکر واپس چلا گیا اور بھارتی افواج اور ایجنسیوں کے آگے سرنڈر کا مرتکب ہوا اور پھر ان کے ہتھے چڑھ گیا۔ انھوں نے بار بار اسے ذلیل و خوار کیا، تشدد کا نشانہ بنایا، اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی اور  عدم تعاون پر بدترین تعذیب سے نوازا۔ اس اثنا میں اس نے ایم بی اے کیا، شادی کی، غیرسیاسی زندگی اختیار کرنے کی کوشش کی مگر جو ایک بار بھارتی ایجنسیوں کے ہتھے چڑھ گیا وہ ان کی گرفت سے کیسے نکل سکتا ہے۔ دسمبر۲۰۰۱ء کے واقعے میں بھی اسے انھی ایجنسیوں نے ملوث کرنے کی کوشش کی اور اس کی پوری تفصیل افضل گورو نے عدالت کے سامنے حلفیہ پیش کی مگر بے سود۔ آخر انھیں کسی نہ کسی کو تو قربانی کا بکرا بنانا تھا اور انھوں نے پوری بے دردی اور بے شرمی سے محمد افضل گورو کو اس کی بھینٹ چڑھا دیا۔
  • …مقدمے کے دوران اسے قیدتنہائی میں رکھا گیا، تفتیش کے دور میں اسے بدترین  تعذیب کا نشانہ بنایا گیا۔ مقدمے میں اسے اپنا وکیل تک نہیں کرنے دیا گیا۔ ایک دوسرے درجے کے وکیل کو سرکار نے مقرر کیا جس نے افضل گورو سے کبھی ملاقات نہ کی اور دفاع کے بجاے عملاً سرکار کے وکیل کا کردار ادا کیا۔ جن دوسرے افراد کو اس جھوٹے مقدمے میں ملوث کیا گیا تھا    اعلیٰ عدالت کی سطح پر کوئی شہادت اور ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے ان کی سزائوں کو ختم کردیا گیا لیکن   افضل گوروکو سزا دینا ان کی سیاسی ضرورت بن گئی اور اس طرح وہ سیاسی انتقام دراصل سیاسی  دہشت گردی کا ہدف بن گیا۔

انصاف کا خون

یہ ستم ظریفی بھی قابلِ غور ہے کہ جس اصل نام نہاد ماسٹر مائنڈ، یعنی پروفیسر عبدالرحمن گیلانی کو محمد افضل تک رسائی کا ذریعہ ظاہر کیا گیا تھا، وہ تو اعلیٰ عدالت کے حکم سے بے گناہ ثابت ہوئے اور جو ان کے لیے بھی ایک بالواسطہ ذریعہ قرار دیا گیا تھا وہ اصل مجرم بن گیا اور سولی پر چڑھا دیا گیا۔

  • …سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں تین باتوں کا صاف الفاظ میں اعتراف کیا ہے:

۱- اس کیس میں محمد افضل گورو کے ملوث ہونے کا کوئی واقعاتی یا شہادت پر مبنی ثبوت موجود نہیں۔

۲- کسی دہشت گرد تنظیم سے کسی سطح پر بھی محمد افضل گورو کا کوئی باقاعدہ تعلق ثابت نہیں۔

۳- جو بالواسطہ موادپولیس/تفتیشی عملے نے دیا ہے اس میں شفافیت نہیں بلکہ وہ تہ در تہ تضادات سے بھرا پڑا ہے، مثلاً پروفیسر عبدالرحمن گیلانی کے بارے میں کہا گیا کہ ان کے ذریعے محمدافضل گورو کا نام ملا، مگر محمد افضل گورو کو عبدالرحمن گیلانی کی گرفتاری سے پہلے ہی سری نگر میں گرفتار کرلیا گیا تھا۔ جس لیپ ٹاپ کا ذکر ہے وہ محفوظ (protected) نہیں تھا اور ایسی شہادت جو محفوظ نہ ہو قابلِ قبول نہیں ہوتی۔ نیز جو معلومات اس پر تھیں وہ خود یہ ظاہر کرتی تھیں کہ کمپیوٹر سے بہت سی معلومات نکال دی گئی ہیں اور جو معلومات باقی ہیں، ان میں ہیرپھیر کردیا گیا ہے۔ سیل فون کے بارے میں سم کے حاصل کرنے کی جو تاریخ دی گئی ہے، وہ بے معنی ہے اس لیے کہ وہ سم اس تاریخ سے کم از کم تین ہفتے پہلے سے کسی کے زیراستعمال تھی اور بدیہی طور پر محمد افضل گورو نہیں تھا۔ یہ صرف چند مثالیں ہیں، ورنہ کیس میں کسی سطح پر بھی کوئی جان نہیں تھی۔

ان تمام حقائق کو تسلیم کرنے کے بعد عدالت عالیہ نے جس بنیاد پر موت کی سزا کی توثیق کی ہے وہ عدل کی تاریخ میں ایک عجوبہ اور بھارت کے عدالتی نظام کے چہرے پر کلنک کا ٹیکا ہے۔ سپریم کورٹ ہی کے الفاظ میں عدل کے قتل اور قانونی دہشت گردی پر مبنی اس فیصلے کو ملاحظہ فرمائیں:

افضل گورو ان دہشت گردوں میں سے نہیں تھا جنھوں نے ۱۳دسمبر۲۰۰۱ء کو    پارلیمنٹ ہائوس پر حملہ کیا۔ وہ ان لوگوں میں سے بھی نہ تھا جنھوں نے سیکورٹی اہل کاروں پر گولی چلائی اور چھے میں سے تین کو گولی مار کر ہلاک کردیا۔جیساکہ بیش تر سازشوں کے ساتھ ہوتا ہے، یہاں بھی کوئی ایسی براہِ راست شہادت نہ ملی ہے اور نہ مل سکتی ہے جسے مجرمانہ سازش قرار دیا جاسکے۔اس واقعے نے جس میں ایک تعداد میں لوگ ہلاک ہوئے پوری قوم کو ہلا دیا ہے اور معاشرے کا اجتماعی ضمیر اسی صورت میں مطمئن ہوسکتا ہے کہ مجرم کو سزاے موت دی جائے۔

یعنی ایک شخص کو صرف اس لیے سولی پر چڑھا دو تاکہ اس سے جس شے کو سوسائٹی کا  ’اجتماعی ضمیر ‘کہا جا رہا ہے اس کی تسکین ہوسکے۔ عدل و انصاف کے قتل کی اس سے زیادہ قبیح اور اندوہناک صورت کیا ہوسکتی ہے؟

پھر یہی نہیں، قانونی اور دستوری نقطۂ نظر سے دستور اور قانون کے مسلّمہ اصولوں اور   خود بھارت کی عدالت ِ عالیہ کے ایک درجن سے زیادہ فیصلوں کی بھی اس مقدمے اور سزا میں کھلی  خلاف ورزی کی گئی ہے۔

  • …صدرمملکت کو اگست ۲۰۰۵ء کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد خاندان کی طرف سے دستور کی دفعہ ۷۲ کے تحت رحم کی اپیل کی گئی جسے بھارت کے دو صدور نے مسترد کرنا صحیح نہ سمجھا اور حکومت کو غور کے لیے بھیجا۔ حکومت نے خاموشی اختیار کی۔ ۲۰۱۳ء میں تیسری بار ایوانِ صدر سے درخواست کو وزارتِ داخلہ کو بھیجا گیا اور موجودہ وزیرداخلہ نے اسے رد کرنے کی سفارش کی جس پر صدر نے صاد کردیااور اس طرح رحم کی اپیل رد ہوگئی اور پھانسی کے لیے زمین ہموار کی گئی، حالانکہ دسیوں قتل کے مقدمات میں رحم کی اپیلیں مدت دراز سے زیرغور ہیں اور اس طرح پھانسی کی سزا  عملاً ایک طرح کی عمرقید میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ راجیو گاندھی کے تینوں قاتل بھی آج تک رحم کی اپیل کے التوا ہی کی بنیاد پر زندہ ہیں اور اس کو ۲۱سال گزر چکے ہیں۔
  • …سپریم کورٹ کا فیصلہ اور رحم کی اپیل کے سلسلے میں طے شدہ ضابطہ یہ ہے کہ دستور کی دفعہ۷۲ کے تحت رحم کی اپیل کے منظور کیے جانے یا رد کیے جانے کی سفارش مرکزی کابینہ کرتی ہے، مگر افضل گورو کے معاملے میں وزارتِ داخلہ نے کابینہ سے رجوع کیے بغیر اپیل رد کرنے کی سفارش کی جسے صدر نے قبول کرلیا جو خود قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
  • …پھر سب سے زیادہ نقصان دہ الزام (damaging indictment)  وہ ہے   جو بھارت کی سپریم کورٹ کے سینیر ایڈووکیٹ اور ایک سابق سالیسٹر جنرل ٹی آر اندودھیارو جنا نے اپنے مضمون An Execution Most Foul (بہت غلط پھانسی) میں کیا ہے جو بھارت  کے روزنامہ دی ہندو میں ۱۹فروری ۲۰۱۳ء کی اشاعت میں شائع ہوا ہے۔ اس میں اس نے بڑے اہم قانونی نکات اُٹھائے ہیں جن کی روشنی میں افضل گورو کی پھانسی ایک مجرمانہ فعل (criminal offence) بن گیا ہے۔ بھارت کی حکومت نہ صرف سیاسی شعبدے بازی کی مرتکب قرار پاتی ہے بلکہ اس نے عدالت عالیہ کے فیصلوں کی بھی خلاف ورزی کی ہے اور سب سے بڑھ کر توہین عدالت تک کی مرتکب ہوئی ہے کہ افضل گورو کا معاملہ ایک دوسرے مقدمے میں عدالت عالیہ کے سامنے زیرغور تھا اور اس معاملے کے فیصلے کے اعلان کیے جانے سے پہلے ہی افضل گورو کو پھانسی دے دی گئی:

۹فروری کو افضل گورو کی پھانسی بھارتی حکومت کا ایک غیرانسانی فعل تھا۔ افضل گورو کو ۴؍اگست ۲۰۰۵ء کو سپریم کورٹ کی طرف سے سزاے موت کے فیصلے کے سات سال بعد اور صدرِ بھارت کو ۸نومبر ۲۰۰۶ء کو دی گئی رحم کی اپیل کے چھے سے زیادہ سال بعد پھانسی دی گئی۔ اس عرصے میں اُس نے اور اس کے اہلِ خانہ نے اس کی قسمت کے بارے میں ہردن تکلیف و پریشانی میں گزارا۔ یہ ایک ایسی صورت حال ہے جس کی تمام مہذب ممالک اور ہماری سپریم کورٹ بھی مذمت کرتی ہے۔ صدرِ بھارت کی طرف سے اس کی رحم کی درخواست کو چھے سال کے بعد ۳فروری ۲۰۱۳ء کو مسترد کیا گیا ہے جسے ارادتاً خفیہ رکھا گیا اور اس کے اہلِ خانہ کو بھی اطلاع نہیں دی گئی کہ کہیں یہ عدالتی درخواست کی بنیاد نہ بن جائے۔ ۹فروری ۲۰۱۳ء کو اس کے اہلِ خانہ کو بتائے بغیر خفیہ طور پر اسے پھانسی دی گئی اور اتنی ہی خفیہ طور پر تہاڑجیل نئی دہلی میں ایک قبر میں اسے دفن کردیا گیا۔

۱۹۸۳ء میں شیرسنگھ بمقابلہ ریاست پنجاب کے مقدمے میں عدالت نے انھی باتوں کو دہرایا جو ایک اور مقدمہ تری وینی بن بمقابلہ ریاست گجرات میں وسیع تر دستوری بنچ نے طے کرنا چاہا، اور سپریم کورٹ نے دوبارہ انھیں دہرایا کہ پھانسی دینے میں تاخیر غیرمنصفانہ اور غیرمعقول ہوگی۔ عدالت نے یہ فیصلہ دیا کہ رحم کی اپیلوں کے فیصلوں میں پوری دنیا میں یہ بات تسلیم کی جاتی ہے کہ متعلقہ شخص ایک ذہنی ٹارچر میں مبتلا رہتا ہے بلالحاظ اس کے کہ اس کے ساتھ کوئی جسمانی بدسلوکی نہیں کی جاتی۔ اس لیے رحم کی اپیل کے استرداد کی اطلاع دینا لازمی تھا۔ جگدیش بمقابلہ ریاست مدھیہ پردیش مقدمہ ۲۰۱۲ء سپریم کورٹ نے نہ صرف ملزم کی اس اذیت کو نمایاں کیا جو اسے سزا ملنے میں تاخیر سے ہوتی ہے بلکہ اس تکلیف اور اذیت کو بھی جو اس کے قریبی رشتے داروں کو ہوتی ہے۔ ۱۹۹۴ء میں پرائیوی کونسل نے بھارتی سپریم کورٹ کی راے کو درست قراردیا اور اپنے فیصلے کے ایک پُرتاثیر حصے میں لکھا کہ پھانسی پانے کے احکامات کے خلاف ایک جبلی کراہت ہوتی ہے۔ یہ جبلی کراہت کس وجہ سے ہوتی ہے؟ جواب یہ ہے کہ  ہم اس کو غیرانسانی فعل قرار دیتے ہیں کہ ایک آدمی کو پھانسی کی اذیت میں طویل عرصے تک رکھا جائے۔ کئی برس تک اپنی تحویل میں رکھنے کے بعد ان لوگوں کو پھانسی دینا ایک غیرانسانی سزا ہوگی۔ یورپی یونین کی انسانی حقوق کی عدالت نے ۱۹۸۹ء میں اور کینیڈا کی سپریم کورٹ نے بھی یہی موقف اختیار کیا۔ افضل گورو کو پھانسی دینے میں حکومت نے جان بوجھ کر سپریم کورٹ کے موقف کو نظرانداز کیا اور دوسری عدالتوں کے موقف کو بھی۔

ایک زیرالتوا مقدمہ خود افضل گورو کا تھا۔ عدالت نے مجھے اپنا مشیر مقرر کیا تاکہ غیرمعمولی تاخیر کے بعد سزا دینے کے مسئلے کو صحیح پس منظر میں دیکھا جائے۔ عدالت کے سامنے مَیں نے اپنے دلائل دیتے ہوئے خاص طور پر افضل گورو مقدمے کے حقائق کا حوالہ دیا۔ سماعت ۱۹؍اپریل ۲۰۱۲ء کو ختم ہوگئی۔ عدالت نے فیصلہ محفوظ رکھا (جس کا ابھی تک اعلان نہیں ہوا ہے)۔ حکومت اس بات سے پوری طرح آگاہ تھی کہ مجرموں کی پھانسی کی سزا میں طویل تاخیر کا مسئلہ قانونی طور پر سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہے۔ حکومت کے لیے لازم تھا کہ زیرالتوا فیصلوں پر سپریم کورٹ کے مستند فیصلے کا انتظار کرتی۔ لیکن حکومت نے ۹؍فروری کو افضل گورو کو پھانسی کی سزا دے دی۔ افضل گورو کی پھانسی بھارتی حکومت کے سزاے موت کے کیے ہوئے فیصلوں میں سب سے زیادہ بے رحمانہ فیصلہ سمجھا جائے گا۔

اس مضمون میں اُٹھائے گئے سوالات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایک طرف عدالت عالیہ کا موت کا فیصلہ ہی کسی قانونی جواز کے بغیر تھا۔ یہ فیصلہ محض سیاسی وجوہ سے سوسائٹی کے اجتماعی ضمیر کا سہارا لے کر دیا گیا تھا لیکن اس کے علاوہ بھی کم از کم مندرجہ ذیل شکلوں میں دستور اور قانون کی دھجیاں بکھیردی گئیں:

۱- چھے سال تک رحم کی اپیل کو لٹکانا انسانی حقوق اور انصاف کے تقاضوں سے متصادم تھا اور ایسی صورت میں موت کی سزا کا ساقط کیا جانا قانون اور انصاف سے اقرب ہے جس پر بھارتی  سپریم کورٹ تک کی متعدد آبزرویشن موجود ہیں۔

۲- رحم کی اپیل کے فیصلے میں تاخیر کے خلافِ انصاف ہونے کا مسئلہ بھارتی سپریم کورٹ میں زیرسماعت تھا۔ مقدمے کی سماعت مکمل ہوگئی تھی اور اس مقدمے میں افضل گورو کا کیس بھی شامل تھا۔ مقدمے کا فیصلہ ابھی آنا تھا جس میں اس کا امکان بھی تھا کہ کیس کے تمام متعلقہ افراد کی موت کی سزا کو ختم کیا جاسکتا تھا۔ فیصلہ آنے سے پہلے افضل گورو کو پھانسی دینا غیرقانونی فعل تھا اور اس طرح کا ایک اقدام قتل بن جاتا ہے۔

۳-اگر رحم کی اپیل رد کردی گئی تھی جب بھی یہ سزا پانے والے کا حق تھا کہ اسے اپیل کے رد کیے جانے کی اطلاع بروقت دی جاتی۔ اس لیے کہ سپریم کورٹ کے باربار کے فیصلے موجود ہیں کہ دستور کی دفعہ ۷۲ کے تحت موت کی سزا کے بارے میں رحم کی اپیل رد کرنے کے صدارتی فیصلے پر عدالتی محاکمہ (Judicial Review) ممکن ہے اور اس طرح رحم کی اپیل رد ہونے کے بعد بھی افضل گورو کی اہلیہ کو یہ حق تھا کہ عدالت سے ایک بار پھر رجوع کرے اور اپیل کے روکے جانے کے مبنی برحق و قانون ہونے کے بارے میں عدالت کی راے حاصل کرے، لیکن اپیل رد کیے جانے کے بعد افضل گورو اور اس کے اہلِ خانہ کو بروقت اطلاع تک نہ دی گئی اور انھیں اپنے اس حق سے محروم کر دیا گیا کہ وہ عدالتی اپیل کرسکیں۔ یہ ملک کے دستور اور قانون کی صریح خلاف ورزی تھی۔

اس طرح افضل گورو کو پھانسی کی شکل ہی میں ایک بار نہیں، چار بار عدل و انصاف کا   خون ہوا اور بھارت کے جمہوری نظام ہی نہیں، پورے عدالتی نظام کے کھوکھلے ہونے اور سیاسی مصلحتوں کا اسیر ہونے کا تماشا تمام دنیا نے دیکھ لیا۔ نیز یہ بھی ثابت ہوگیا کہ اس ملک میں انصاف  خاص لوگوں کے لیے (selective) اور امتیازی (discriminatory) ہے اور انصاف اور قانون کو سیاست اور مصلحت کے تابع کردیا گیا ہے۔ کیا ایسے نظام کو دستوری اور جمہوری نظام کہا جاسکتا ہے؟ دیکھیے بھارت اور عالمی سطح پر انصاف کے اس اسقاط (miscarriage of justice) کا کیسے اعتراف کیا جارہا ہے۔

عالمی ضمیر کے چبہتے سوال

بھارت کی مشہور ادیبہ اور سماجی کارکن ارون دھتی راے اپنے دو مضامین میں جو لندن کے اخبار دی گارڈین میں شائع ہوئے ہیں، افضل گورو کی پھانسی کے آئینے میں بھارت کا اصل چہرہ کس طرح پیش کرتی ہے۔ پہلا مضمون ۱۰فروری کو شائع ہوا ہے اور دوسرا ۱۸فروری کو۔ اپنے پہلے مضمون میں وہ لکھتی ہیں:

۲۰۰۱ء کے پارلیمنٹ کے حملے کے ملزم افضل گورو کو صبح خفیہ طور پر پھانسی دی گئی اور   اس کے جسم کو تہاڑجیل میں دفن کر دیاگیا۔ کیا اسے مقبول بٹ کے ساتھ ہی دفن کیا گیا؟ (وہ دوسرا کشمیری جس کو تہاڑجیل میں ۱۹۸۴ء میں پھانسی دی گئی)۔ افضل گورو کی اہلیہ اور بیٹے کو اطلاع نہ دی گئی(کیا ستم ظریفی ہے کہ اس الم ناک واقعے نے پوری سیاسی قیادت کو متحد کردیا ہے)۔ اتحاد کے ایک شاذ لمحے میں قوم اور کم از کم اس کی بڑی سیاسی جماعتیں کانگریس، بی جے پی اور سی پی ایم، سواے ان چند کمزور آوازوں کے جو اس پھانسی میں تاخیر کے خلاف اُٹھیں، قانون کی بالادستی کا جشن منانے کے لیے متحد ہوگئیں۔ رہا معاملہ قوم کے ضمیر کا___ وہ تو وہی ہے جو ٹی وی سے براہِ راست ہرپروگرام میں نشر ہوتا ہے اور جس کی اجتماعی ذہانت نے سیاسیات کے جذبوں پر اپنی گرفت قائم کی ہوئی ہے اور حقائق تک کی صورت گری کرتی ہے۔ ان دنوں سیاسیات کے جذبے اور حقائق پر گرفت اور اپنی اجتماعی ذہانت کو چھوڑ دیا۔ حیف کہ ایک آدمی جو مرچکا تھا اور جابھی چکا تھا لیکن پھر بھی اس پر طاری تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بزدلوں کی طرح انھیں اپنے حوصلے کو قائم رکھنے کے لیے ایک دوسرے کی مدد کی ضرورت تھی۔  کیا یہ سب اس کا غماز نہیں کہ وہ بخوبی اپنے دل میں اس بات کو جانتے تھے کہ وہ لوگ ایک انتہائی غلط کام میں تعاون کر رہے تھے۔

وہ سینیرصحافی جو بہتر طور پر جانتے ہوں گے کہ ان کے بتائے ہوئے جھوٹے بیانات کے برعکس افضل گورو ان دہشت گردوں میں شامل نہیں تھا جنھوں نے ۱۳دسمبر ۲۰۰۱ء کو پارلیمنٹ پر حملہ کیا تھا اور جنھوں نے سیکورٹی اہل کاروں پر گولی چلائی تھی جس میں  چھے ہلاک ہونے والوں میں سے تین کو اس نے گولی ماری (یہ بات بی جے پی کے راجیہ سبھا کے ایم پی چندن مترا نے ۷؍اکتوبر ۲۰۰۶ء کے دی پانیر میں کہی)۔حتیٰ کہ پولیس کی چارج شیٹ بھی اس پر یہ الزام نہیں لگاتی۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ شہادتیں صرف قرائن پر ہیں۔ اس طرح کی سازشوں میں عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ مجرمانہ سازش کے لیے کوئی براہِ راست ثبوت فراہم نہیں ہوتا۔ آگے چل کر کہا گیا ہے کہ اس واقعے نے جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں اموات ہوئیں، پوری قوم کو ہلاکر رکھ دیا اور معاشرے کا اجتماعی ضمیر اسی صورت میں مطمئن ہوگا، جب کہ مجرم کو سزاے موت دی جائے۔ پارلیمنٹ پر حملے کے مقدمے میں کس نے اجتماعی ضمیر کو بنایا؟ کیا یہ صرف اخبارات کی خبریں ہیں؟کیا یہ ہوسکتا ہے کہ ہم نے یہ حقائق اخبارات سے اخذ کیے یا ان فلموں سے جو ہم ٹی وی پر دیکھتے تھے؟

 پھر اس کا ایک پس منظر ہے۔ دوسرے بہت سے ہتھیار ڈالنے والے جنگ جوئوں کی طرح افضل گورو کے ساتھ کشمیر میں تعذیب، بلیک میل یا استحصال کرنا آسان تھا۔  وسیع تر اسکیم میں وہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا تھا۔ اگر کوئی پارلیمنٹ کے حملے کے راز کو واقعی  حل کرانے میں دل چسپی رکھتا تھا تو اس کے لیے شہادتوں کی بڑی تعداد ایک سراغ کی طرح تھی جس کی پیروی کی ضرورت تھی، یہ کسی نے نہ کیا۔ اس طرح یہ یقینی ہوگیا کہ سازش کے اصل کردار شناخت نہ کیے جاسکیں گے اور ان کے خلاف تفتیش بھی نہیں ہوگی۔ اب، جب کہ افضل گورو کو پھانسی دی جاچکی ہے، مجھے اُمید ہے کہ ہمارا ’اجتماعی ضمیر‘ مطمئن ہوچکا ہے یا ہمارے اجتماعی ضمیر کا پیالہ ابھی تک خون سے صرف آدھا ہی بھرا ہے؟

بھارت کے روزنامہ دی ہندو نے افضل گورو کی پھانسی کو ’انصاف نہیں انتقام‘ قرار دیا ہے۔ ادارتی کالم میں ۱۰فروری ۲۰۱۳ء کے شمارے میں کہا گیا ہے کہ:

آٹھ سال گزرنے کے بعد سپریم کورٹ نے محمد افضل گورو کو ۲۰۰۱ء کے پارلیمنٹ کے حملے کے کردار کی بنیاد پر پارلیمنٹ ہائوس حیرت ناک طور پر یہ کہتے ہوئے کہ: معاشرے کے اجتماعی ضمیر کو صرف اسی صورت میں مطمئن کیا جاسکتا ہے کہ ملزموں کو سزاے موت دی جائے، پھانسی کی سزا دی۔ گورو کو اس ہولناک رسم کی ادایگی کے لیے ہفتے کی صبح پھانسی کے تختے تک لے جایا گیا جو حکومتیں وقتاً فوقتاً روایتی دیوتائوں کے غیض و غضب کی تسکین کے لیے ادا کرتی ہیں اور آج یہ دیوتا انتقام کے طالب عوام بن گئے ہیں۔ اس وحشت ناک اور خفیہ حرکت کے نتیجے میں بھارت کا قد دُنیا میں بہت زیادہ چھوٹا کردیا گیا ہے۔ اس سزا کی وجوہات صرف وہ نہیں جو بظاہر نظر آتی ہیں بشمول اس کے کہ گورو پارلیمنٹ پر حملے میں ایک بالکل معمولی سا کردار تھا جس کا مقدمہ ضابطے کی خلاف ورزیوں اور جوہری اہمیت کی حامل غلطیوں کی وجہ سے خراب ہوگیا ہو۔ سزاے موت کے لیے دیے جانے والے دلائل کا ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ نے جائزہ لیا اور ان کو معیار سے کم تر پایا۔ لیکن ایک دلیل جس کا کھل کر جائزہ نہیں لیا گیا(اور جو فیصلہ کن دلیل بنی) وہ وہی تھی جس کی بنا پر گورو اور دیگر بھارتی شہریوں کو تختۂ دار پر لے جایا جاتا ہے اور وہ ہے مصلحت۔ گویا پھانسی کی سزا کو ترجیح دیے جانے کے سوال کے جواب کا تعلق بڑی حد تک مصلحت سے ہے، اور انصاف سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔

بھارت کا سب سے سنجیدہ رسالہ اکانومک اینڈ پولیٹیکل ویکلیہے، جو اپنے ۲۳فروری ۲۰۱۳ء کے شمارے میں ادارتی کالم میں افضل گورو کی پھانسی کو انصاف کا خون اور بھارتی حکومت کے دامن پر بدنما دھبا قرار دیتا ہے۔ پھانسی کے فیصلے، پھانسی دیے جانے کے ڈرامے اور پھانسی کے بعد جس طرح حالات کو سیاسی مصلحتوں کا کھیل بنایا گیا، اس پر مؤثر احتساب کرتا ہے:

۹فروری کی صبح افضل گورو کی پھانسی موجودہ حکومت کے خراب ٹریک ریکارڈ پر شاید تاریک ترین دھبا ہے۔ افضل گورو کا قتل غیرقانونی اور ملکی قوانین کی رُو سے رُسوا کن تھا۔ افضل گورو کی ہلاکت غیرقانونی ہے اور اس جمہوری حکومت کے قوانین کے لیے بھی رُسوا کن ہے۔ صدر سے رحم کی اپیل کے مسترد ہونے کو خفیہ رکھا گیا، اس کے خاندان اور وکلا کو آگاہ نہ کیا گیا اور ایک مجرم کی حیثیت سے اسے جو حقوق حاصل تھے انھیں استعمال کرنے کی اجازت نہ دی گئی، رحم کی اپیل مسترد ہونے پر اپیل کا حق نہ دیا گیا، اپنے اہلِ خانہ سے ملنے نہ دیا گیا اور آخری خواہش کے اظہار کا موقع بھی نہ دیا گیا۔ حکومت نے حیران کن مکارانہ اقدام کے تحت اس کی پھانسی کی اطلاع سپیڈ پوسٹ کے ذریعے اس طرح سے دی کہ وہ اس کے خاندان کو پھانسی کے بعد اس وقت ملے جب وہ ٹیلی ویژن پر اس کی خبر سن چکے ہوں۔ یہ محض ہیومن رائٹس کے علَم بردار ہی نہیں بلکہ گوپال سبرامینم، سرکاری وکیل جس نے گورو کے خلاف مقدمہ لڑا، کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق اور قانون کی بالادستی کے حوالے سے یہ حکومت کی ’بہت بڑی فروگزاشت‘ ہے۔

گورو کی پھانسی کے مسئلے کو اگرایک طرف رکھ بھی دیا جائے تب بھی کیسے نظرانداز کیا جاسکتا ہے کہ حکومت نے وادیِ کشمیر کی پوری آبادی کو اجتماعی سزا کا نشانہ بنایا اور اس کی پھانسی کے نتیجے میں لگنے والے کرفیو کی وجہ سے عوام ضروری اشیا، دوائوں اور خبروں سے بھی محروم ہوگئے جو شہریوں کے ان حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے جن کی ضمانت دستور نے شہریوں کو دی ہے۔ حد یہ ہے کہ خود دارالحکومت (یعنی دہلی) میں بھی پولیس نے غیرقانونی طور پر اس (یعنی افضل گورو) کے بہت سے حمایتیوں اور ان کے بچوں تک کو کسی متعین الزام کے بغیر گرفتار کیا۔ گویا حکومت نے نمایشی طور پر قانون کے پردے (fig leaf) کو نظرانداز کردیا اور عوام سے بالکل اس طرح معاملہ کیا جس طرح کوئی غنڈا کرتا ہے۔

ایسے اقدام کا لازمی نتیجہ ہے کہ لوگ دُور سے دُور ہوتے جائیں اور ان کے اور حکومت کے درمیان مغائرت ہی میں اضافہ ہو، اور یہ دُوری صرف کشمیر کے لوگوں تک ہی  محدود نہیں بلکہ وہ لوگ بھی اس کا شکار ہوں گے جن کو اس حکومت سے یہ توقع تھی کہ وہ  روشن خیالی پر کاربند ہے خواہ یہ روشن خیالی کتنی ہی جزوی اور کچی پکّی ہی کیوں نہ ہو۔

امریکی روزنامہ انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون میں بھارت کے ایک صحافی مانو جوزیف نے پورے مسئلے پر بڑا بھرپور تبصرہ کیا ہے اور افضل گورو کے مقدمے اور حکومت کی کارکردگی اور اس کے تضادات پر جچی تلی تنقید کی ہے لیکن سب سے اہم سوال جو اس نے اُٹھایا ہے وہ بھارت کے نظامِ عدالت کے قابلِ بھروسا ہونے سے متعلق ہے'

افضل گورو کی پھانسی جس نے اس کے خاندان کو صدمے سے دوچار کیا ہے اس نے پوری قوم کو بھی حیرت میں مبتلا کردیا ہے۔ ہاں، اس پر مختلف پارٹیوں کے سیاست دانوں نے خوشی کا اظہار کیا ہے اور عام شہریوں نے بھی۔ یہ کیسی دنیا ہے جو ایک طرف افضل کے بارے میں فتویٰ دیتی ہے کہ وہ اس زمین پر زندہ رہنے کے لیے موزوں نہیں، وہیں یہ ایک انسان کی موت پر جشن تک منانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایسے لوگ بھی بہت بڑی تعداد میں تھے جو اس پر نالاں اور متنفر تھے اور انھوں نے احتجاج بھی کیا۔ اور ان لوگوں کا تعلق محض وادیِ کشمیر سے نہ تھا جو افضل کی جاے پیدایش ہے اور جہاں کرفیو لگا ہوا تھا۔ اس پھانسی نے بڑے بنیادی سوالات  اُٹھا دیے ہیں جو ایک بڑی تعداد کے لیے وجہِ تشویش بن گئے ہیں۔ اگر ان تمام سوالات کو ایک جملے میں سمو دیا جائے تو ان کا حاصل یہ تشویش ناک صورت ہے کہ:

کیا بھارت کا نظامِ انصاف معیاری ہے، اور یہ کہ کیا اس کی اخلاقی سند (moral authority) اس امر کے لیے تسلیم کی جاسکتی ہے کہ اس کے حکم پر ایک انسانی جان کو ختم کیا جاسکے؟

محمد افضل گورو کی شہادت نے بھارت کے جمہوریت اور انصاف اور قانون کی بالادستی کے دعووں کی قلعی کھول دی ہے اور اس پالیسی کو بے نقاب کردیا ہے جسے ریاستی دہشت گردی کے علاوہ کوئی اور نام نہیں دیا جاسکتا۔بظاہر اس پھانسی پر بھارت کے سیاسی حلقوں میں خوشی کے شادیانے بجائے جارہے ہیں لیکن فی الحقیقت یہ اس کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا ہے اور ان لوگوں کی آنکھیں کھولنے کا ذریعہ بن سکتا ہے جو بھارت سے خیر کی توقع رکھتے ہیں۔

جس طرح افضل گورو کو پھانسی دی گئی ہے اس پر دنیا میں بھارت کے عالمی شہرت کے ایک ماہرقانون فالی ایس نریمان نے برملا کہا ہے: ہمارا بدترین دشمن بھی اس سے بہتر نہیں کرسکتا تھا جس طرح یہ کیا گیا۔ یہ بعض کے لیے ایک بدقسمتی تھا اور اس کے نتیجے میں بھارتی ریاست نے اپنے کو چھوٹا کرلیا ہے اور اُمیدوں کے کم ترین معیار کو اختیار کرنے میں بھی ناکام رہی ہے۔

کشمیر: خارجہ پالیسی پر نظرثانی کی ضرورت

جہاں تک کشمیر کی تحریکِ آزادی کا تعلق ہے ہمیں یقین ہے کہ اس قسم کے ہتھکنڈوں سے نہ ماضی میں اسے دبا یا جاسکا ہے اور نہ مستقبل میں اسے کوئی نقصان پہنچانا ممکن ہوگا۔ اس لیے کہ  ظلم اور استبداد کی چیرہ دستیاں حق پرستوں کا راستہ کبھی نہیں روک سکی ہیں اور آزادی کی تحریکیں خون کے ایسے ہی سمندروں کو عبور کر کے اپنی منزل کا سراغ پاتی رہی ہیں۔ ان شاء اللہ یہ خونیں واقعہ کشمیر کے مسئلے کو عالمی سطح پر ایک بار پھر توجہ کا مرکز بنانے کا ذریعہ بن سکتا ہے بشرط کہ پاکستان کی حکومت اور اُمت مسلمہ کی قیادتیں اپنے کشمیر ی بھائیوں کی اس مبنی برحق جدوجہد میں اپنا کردار ادا کریں۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ بھارت نے اس خاص موقعے پر یہ اقدام کیوں کیا؟ ہماری نگاہ میں اس کی وجہ بھارت کی وہ بوکھلاہٹ ہے اور آنے والے حالات کے باب میں اس کا وہ اِدراک ہے جو پاکستان اور علاقے کی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں کی بنا پر وہ محسوس کر رہا ہے۔ پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کے دور میں کشمیر کے سلسلے میں جو قلابازیاں کھائی گئیں اور بھارت کے سلسلے میں جس پسپائی کا رویہ اختیار کیا گیا اور جسے زرداری دور میں زیادہ بھونڈے انداز میں جاری رکھا گیا ہے، صاف نظرآرہا ہے کہ اب اس سلسلے کا جاری رہنا محال ہے۔

چند مہینوں میں نئے انتخابات کے نتیجے میں نئی سیاسی قیادت برسرِکار آئے گی اور وہ امریکا اور بھارت دونوں کے بارے میں موجودہ پالیسیوں پر بنیادی نظرثانی کرے گی۔ افغانستان سے امریکا اور ناٹو کی افواج کی واپسی کی وجہ سے بھی علاقے کے حالات میں بڑی تبدیلیاں آنے والی ہیں۔ عالمِ اسلام کے حالات بھی بدل رہے ہیں۔ ترکی، مصر، تیونس اور دوسرے ممالک میں ہونے والی تبدیلیوں نے پورے علاقے کے زمینی حکمت عملی (geo-strategic) کے نقشے کو بدل ڈالا ہے۔ مصر میں فروری ۲۰۱۳ء میں منعقد ہونے والی اوآئی سی کانفرنس میں عالمِ اسلام کے مسائل کے ساتھ کشمیر کو نمایاں حیثیت دی گئی ہے۔ خود پاکستان میں اس سال ۵فروری کو جس جوش اور ولولے سے ’کشمیر سے یک جہتی کے دن‘ کے طور پر منایا گیا ہے وہ آنے والے دور کی ایک جھلک پیش کرتا ہے۔ افغانستان میں امریکا نے بھارت کو جو رول دیا تھا، وہ بھی اب معرضِ خطر میں ہے اور پاکستان کی موجودہ ناکام کشمیر پالیسی میں بھی تبدیلی ناگزیر ہے۔ نیز بھارت کے اپنے اندرونی سیاسی حالات جن میں اگلے سال ہونے والے انتخابات اور بی جے پی کی نئی سیاست اہم ہیں، کانگریس حکومت کی بوکھلاہٹ کا سبب بنے ہوئے ہیں۔

ان حالات میں بھارت نے ایک بار پھر قوت سے آزادیِ کشمیر کی تحریک کو دبانے کا اشارہ دیا ہے، لیکن اس کی حیثیت ایک ناکام پالیسی کو ایک بار پھر آزمانے کی حماقت سے زیادہ نہیں ہے ۔ تاریخ کا ایک تلخ سبق یہ ہے جن کو طاقت کا گھمنڈ ہوجاتا ہے وہ تاریخ سے کم ہی سبق سیکھتے ہیں اور وہی غلطیاں بار بار کرتے ہیں جو ماضی میں اقوام کی تباہی کا سبب بنی ہیں۔ ہم پاکستان اور مسلم اُمت کی قیادت کو دعوت دیتے ہیں کہ بھارت کے اس اقدام کے پس منظر میں غور کریں اور مقابلے کی حکمت عملی بنانے پر توجہ دیں۔

یہ بہت ہی افسوس ناک ہے کہ افضل گورو کی شہادت پر جو ردعمل پاکستان کی قیادت کی طرف سے آنا چاہیے تھا وہ نہیں آیا۔ بلاشبہہ عوام اور اسلامی قوتوں نے اس کی بھرپور مذمت کی ہے لیکن افسوس کا مقام ہے کہ صدر، وزیراعظم اور وزیرخارجہ کو یہ توفیق بھی نصیب نہ ہوئی کہ واضح الفاظ میں اور پوری شدت کے ساتھ اس کی مذمت کرتے اور کشمیر ی عوام سے یک جہتی کا اظہار کرتے۔ وزارتِ خارجہ کا بھی ایک کمزور ردعمل واقعہ سے ۴۸گھنٹے کے بعد آیا ہے جو لمحۂ فکریہ ہے۔

پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس کشمیر پالیسی پر فوری نظرثانی کرے جس پر حکومت گذشتہ ۱۲سال سے عمل پیرا ہے۔ ۲۰۰۳ء میں سیزفائر کے نام پر جو قلابازی کھائی گئی تھی اس نے تحریکِ آزادیِ کشمیر کو بے پناہ نقصان پہنچایا ہے۔ بھارت نے اسرائیل کی مدد سے بارڈر کو سیل کردیا ہے اور ایسی الیکٹرانک دیوار بنا دی ہے جس نے کشمیری عوام کی مشکلات میں اضافہ اور پاکستان کی حکمت کاری کے وزن (strategic leverage) کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔ پھر جنگ ِ آزادی اور دہشت گردی کے جوہری فرق کو نظرانداز کرکے پاکستان نے اس کشمیر پالیسی کا شیرازہ منتشر کردیا ہے جس پر قائداعظم کے وقت سے لے کر آج تک قومی اتفاق راے تھا۔ جنوری ۲۰۰۴ء کا مشرف واجپائی معاہدہ ہماری قومی کشمیر پالیسی کو صحیح رُخ سے ہٹانے (derail) کا ذریعہ بنا اور پھر اقوام متحدہ کی قراردادوں کو نظرانداز (by-pass) کرنے اور روایت سے ہٹ کر حل ( out of box solution) کی تلاش میں ہماری سیاسی قیادت نے وہ بھیانک غلطیاں کی ہیں جس نے پاکستان کی سلامتی خطرے میں ڈال دی ہے اور ہمارے اسٹرے ٹیجک مفادات بُری طرح متاثر ہورہے ہیں ۔

ان حالات میں وقت کی اہم ترین ضرورت ہے کہ مشرف اور زرداری دور کی خارجہ پالیسی کو ترک کر کے پاکستان کے مقاصد اور مفادات کی روشنی میں حقیقی طور پر آزاد خارجہ پالیسی تشکیل دی جائے جس میں ملک کے نظریاتی، سیاسی، معاشی، تہذیبی اور سیکورٹی کے حساس پہلوئوں کا ٹھیک ٹھیک احاطہ کیا جاسکے۔ یہ پالیسی پاکستان کی خارجہ پالیسی ہو، پاکستان کے لیے ایسی خارجہ پالیسی نہ ہو جس کی تشکیل پر واشنگٹن، لندن اور دبئی کا سایہ ہو۔ ہماری پالیسی پاکستان میں اور وہ بھی اسلام آباد میں عوام کی مرضی اور خواہشات کے مطابق پارلیمنٹ کے ذریعے بنائی جائے۔ ملک عزیز کو دوسروں پر محتاجی کی دلدل سے نکلا جائے اور خودانحصاری کا راستہ اختیار کیا جائے۔ اس کا مقصد پاکستان کو حقیقی معنوں میں ایک اسلامی، جمہوری، فلاحی اور وفاقی ریاست بنانا ہو۔ فطری طور پر اس میں کشمیر کی بھارت کے قبضے سے آزادی اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیر کے مستقبل کے حل کو ایک مرکزی مقام حاصل ہوگا۔ نائن الیون کے بعد اختیار کی جانے والی کشمیر پالیسی جنرل پرویز مشرف کی اُلٹی زقند اور ژولیدہ فکری کانتیجہ ہے جس کی وجہ سے ہم اپنی منزل سے کوسوں دُور جاپڑے ہیں۔

کشمیر کے عوام پاکستان سے دلی لگائو رکھنے کے باوجود پاکستان کی حکومت اور اس کی پالیسیوں سے مایوس ہورہے ہیں اور خصوصیت سے نئی نسل پریشان اور سرگرداں ہے۔ یہ وقت ہے کہ پاکستان کی نئی قیادت کشمیر پالیسی کی تشکیلِ نو کرے اور اس پالیسی کو بروے کار لائے جو پاکستان اور کشمیری عوام کی اُمنگوں سے مطابقت رکھتی ہے۔ مسئلۂ کشمیر کے تین فریق ہیں، پاکستان، بھارت اور کشمیر کے عوام___ اور اصل فیصلہ کشمیر کے عوام کو کرنا ہے، اور یہ سامنے رکھ کر کرنا ہے کہ ان کے مفادات کا بہتر حصول کس انتظام میں ممکن ہے اور ان کا مستقبل کس صورت میں روشن ہوسکتا ہے۔ اس کے لیے پاکستان کی کشمیر پالیسی کو جموں اور کشمیر کے عوام کے جذبات، احساسات اور عزائم کی روشنی میں مرتب ہونا چاہیے جو مشترک سوچ پر مبنی اور مشترک جدوجہد سے عبارت ہو۔

کشمیر کو اب کسی طور پس پشت نہیں ڈالا جاسکتا۔ حالات میں جیسے کہ اُبال آرہا ہے اور پھٹ پڑنے کو تیار ہیں۔ موجودہ چیلنج کا مقابلہ بالغ نظری کے ساتھ باہم مشاورت ہی سے کرنا ہوگا تاکہ ایک بہتر مستقل انتظام کی راہ ہموار ہوسکے۔ محمدافضل گورو کی شہادت نے ایک تاریخی موقع فراہم کیا ہے۔

 کیا پاکستان اور کشمیر کے عوام اس موقعے سے فائدہ اُٹھائیں گے، اور کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کو ایک ایسا آہنگ دینے کی کوشش کریں گے جو مجاہدین کی قربانیوں کے شایانِ شان ہو؟


(’افضل گورو کی شہادت‘، منشورات سے دستیاب ہے۔ فون: ۳۵۴۳۴۹۰۹-۰۴۲)

 

آج ۲۸فروری اور پاکستان میں صبح سوا بارہ بجے کا وقت ہے۔ بنگلہ دیش میں ’جنگی جرائم‘ کے ٹربیونل کا ایک جج فضلِ کبیر اپنے دوساتھیوں کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا ہے، سامنے کٹہرے میں مفسرِقرآن، بنگلہ دیش میں لاکھوں دلوں کی دھڑکن ، جماعت اسلامی کے نائب امیر دلاور حسین سعیدی کھڑے ہیں، جن کا چہرہ مطمئن اور دائیں ہاتھ میں قرآن کریم ہے۔

جج کے رُوپ میں انصاف کا قاتل ۱۲۰ صفحے کا فیصلہ پڑھتے ہوئے کہتا ہے: ’’دلاور حسین  کے خلاف ۲۷،اور حمایت میں ۱۷ گواہ پیش ہوئے۔ چونکہ ۲۰ الزامات میں سے آٹھ الزامات  ثابت ہوئے ہیں، اس لیے:He will be hanged by neck till he is dead.  (انھیں پھانسی کے پھندے پر اس وقت تک لٹکا رہنے دیا جائے جب تک یہ مر نہیں جاتے)۔

اگلے ہی لمحے ڈھاکا میں کمیونسٹوں کا اخبار ڈیلی سٹار انٹرنیٹ ایڈیشن میں سرخی جماتا ہے:  Sayeed to be hanged ۔ اور انڈین ٹیلی ویژن NDTV مسرت بھرے لہجے میں بار بار یہ سرخی نشر کرتا ہے: Senior Jamaat leader gets death sentence۔

علامہ دلاور حسین سعیدی دعا کے لیے ہاتھ اُٹھاتے ہیں اور چپ چاپ، جلادوں کے جلو میں پھانسی گھاٹ جانے والی گاڑی کی طرف مضبوط قدموں کے ساتھ چل پڑتے ہیں۔

۱۹۷۶ء سے دلاور حسین سعیدی، اسلامیانِ بنگلہ دیش کے دلوں پر راج کرنے اور قرآن کا پیغام سنانے والے ہر دل عزیز خطیب ہیں، جو متعدد بار پارلیمنٹ کے رکن بھی منتخب ہوچکے ہیں۔ انھیں ۲۹ جون ۲۰۱۰ء کو حسینہ واجد کی حکومت نے گرفتار کیا۔ ڈھائی برس کے عدالتی ڈرامے کے بعد آج سیاہ فیصلہ اس حال میں سنایا کہ پورا ڈھاکا شہر اور دوسرے بڑے شہر ’بارڈر گارڈ بنگلہ دیش‘    (بی جی بی) اور ’ریپڈ ایکشن بٹالین‘(آر اے بی) کی سنگینوں تلے کرفیو کا منظر پیش کر رہے تھے۔ دوسری طرف شاہ باغ میں بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے زیراہتمام مظاہرہ پروگرام چل رہا ہے کہ ’’مارچ میں جماعت کے لیڈروں کو پھانسی دو‘‘۔ فیصلے کے اعلان کے بعد احتجاجی مظاہرہ کرنے والے اسلامی جمعیت طلبہ کے ۳۰ کارکنوں کو گولی مار کر شہید کر دیا، سیکڑوں کو زخمی اور ہزاروں کو گرفتار کرلیا گیا۔

 

دنیا کے سب سے بڑے جمہوری اور سیکولر ملک بھارت میںگذشتہ دنوں ایک اہم واقعہ   یہ ہوا کہ بھارت کے مرکزی وزیرداخلہ سشیل کمار شندے نے یہ بیان دیا کہ ہندو انتہاپسند تنظیم   آر ایس ایس اور اس کی سیاسی پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی ملک میں ہندو دہشت گردی کو ہوا دے رہی ہے۔ دہشت گردوں کے تربیتی کیمپوں کی حمایت کرتی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ دہشت گردی کے بیش تر واقعات کی یہی دو پارٹیاں ذمہ دار ہیں۔ سمجھوتہ ایکسپریس اور مالیگائوں کے واقعات میں بھی یہی ملوث ہیں۔

بھارتی وزیر داخلہ نے یہ بیان کسی جلسہ عام یا پریس کانفرنس میں نہیں دیا بلکہ ملک کی برسرِاقتدار پارٹی آل انڈیا کانگریس کی مرکزی کمیٹی کے اجلاس میں دیا جو ۲۰فروری کو جے پور میں ہورہا تھا۔ یہ کوئی سیاسی بیان بھی نہیں تھا بلکہ ملکی امن و امان کے صورت حال پر مباحثے کے دوران پارٹی کی قیادت کو مطلع کرنے کے لیے ایک حقیقت کے طور پر بیان کیا گیا تھا ۔ ہو سکتا ہے کہ بھارتی وزیر داخلہ مسٹر شندے کو یہ معلوم نہ ہو کہ یہ بیان پبلک میں بھی جا سکتا ہے ۔ لیکن آج کے میڈیا کے دور میں یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی بڑی سیاسی پارٹی اور وہ بھی حکمران کانگریس پارٹی کے اجلاس کی ایسی اہم بات باہر نہ آئے، اور ایسا ہی ہوا۔ اس پر فوری رد عمل سامنے آیا جس نے کانگریس پارٹی کو دفاعی پوزیشن میںڈال دیا ۔ بی جے پی اور اس کے حمایتی سیاسی گروپوں نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا اور اسے ہندوئوں کے خلاف حکومتی پروپیگنڈے سے تعبیر کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ حکمران پارٹی معافی مانگے، بلکہ اس سے آگے بڑھتے ہوئے حکومت سے استعفے کا بھی مطالبہ کر دیا ۔ ہندو پریس نے بھی اس پر خاصے جارحانہ تبصرے کیے۔ حکومت پر ’ہندومخالف‘ اور مسلمانوں کے حامی ہونے کے الزامات لگائے گئے ۔ مسلم تنظیموں اور صحافتی حلقوں نے اس بیان پر محتاط ردعمل کااظہار کیا ۔ ۲فروری کو جماعت اسلامی ہند کے امیر مولانا سید جلال الدین عمری نے جماعت کے مرکزی دفتر میںپریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر داخلہ کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ حکومت اس معاملے میں ضروری اور عملی اقدامات اٹھائے ۔ انھوں نے کہا کہ حا ل ہی میں بھارت کے مختلف شہروں میں جو مسلم کش فسادات ہوئے ہیں اور ا س میں بھارتی پولیس کا جو متعصبانہ کردار رہا ہے، اس بیان سے اس کی سنگینی کم نہیں ہو سکتی ۔

مہاراشٹر میں دہشت گردی کے خلاف مہم کے نام پر جس بے دردی سے چھے مسلم نوجوانوں کو بھارتی پولیس نے موت کے گھاٹ اتارا ہے وہ مسلمانوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ صوبائی وزیر اعلیٰ نے دہلی پولیس کی اس کارروائی پر گہرے صدمے کا اظہار کیا لیکن، یہ ناکافی ہے۔

سہ روز ہ مسلم اخبار دعوت (نئی دہلی) نے مرکزی وزیر داخلہ کے بیان پر دل چسپ تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے : ’’کیا وزیر داخلہ نے یہ بیان سوچ سمجھ کر دیا ہے یا ان کے منہ سے یہ سچی اور راز کی بات اچانک نکل گئی ہے ؟ دراصل شندے کے ان ریمارکس کا جائزہ نفسیاتی پہلو سے لینے کی ضرورت ہے ۔ شندے اس وقت مرکزی وزیر داخلہ ہیں۔ اندرونی سلامتی اور لا اینڈ آرڈر کی ذمہ داری براہِ راست ان کی ہے ۔ پولیس اور خفیہ ایجنسیاں ان ہی کی ماتحت ہیں اور پل پل کی خبریں ان تک پہنچاتی ہیں‘‘ ۔ دعوت نے مزید لکھا ہے کہ ’’ان اطلاعات کی بنیاد پر کارروائی کرنا یا نہ کرنا ،اور کرنا تو کس نوعیت کی کرنا ،یہ سب سرکار کی طے شدہ پالیسی پر منحصر ہوتا ہے اور سرکار کی پالیسی اس سلسلے میں وہی ہے جو بی جے پی کی ہے ۔فرق صرف طریقوں میں ہے‘‘ ۔(دعوت، دہلی، ۲۹ جنوری ۲۰۱۳ء)

دراصل حکومت ِہند کا سارا زور فرضی مسلم دہشت گردی کو حقیقت ثابت کرنے پر ہے اور اس کے لیے پولیس اور سیکیورٹی ایجنسیاں مسلسل بے گناہ مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرنے اور ان کے خلاف خونی کارروائیاں کر کے یہ کام سرانجام دے رہی ہیں۔ ملّی گزٹ آن لائن میں ممتاز قلم کار   اعجاز ذکا سید لکھتے ہیںکہ وزیر داخلہ سشیل کمار شندے نے ہندو دہشت گردی کے بارے میں   بیان دے کر ’’بلی کو کبوتروں کے ڈربے میں بند کرنے کی کوشش کی ہے‘‘۔ کانگریس پارٹی کی     اعلیٰ قیادت کے سامنے یہ بیان دے کر شندے نے ہندواتا بریگیڈاور اس کے حمایتی صحافتی گروہوں کو مبارزت [جنگ] کی دعوت دی ہے ۔ کانگریس کو ہندو اور مسلم ووٹ دونوں درکار ہیں۔ اس کے حصول کے لیے اس کا ایک مخصوص طریقۂ کار ہے ۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہندستان میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کا پسندیدہ شکار مسلم آبادی ہے اور وہ دونوںاس پر پنجہ آزمائی کررہے ہیں، جب کہ عام طور پر کسی جمہوری نظام میں اپوزیشن جماعتیں حکومت کو ایک توازن رکھنے پر مجبور کرتی ہیں۔

ہندستان میں مسلم آبادی کروڑوں کی تعداد میں ہونے کے باوجود وہ کسی قابل ذکر مسلمان قیادت یا سیاسی پارٹی سے محروم نظر آتی ہے، اور مسلمان بی جے پی اور کانگریس کے درمیان کسی کا انتخاب کرنے پر مجبور ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ کسی ایک مسلم پارٹی کو منتخب کر کے اپنا وزن اس کے پلڑے میں ڈالیں تو ایک موثر اپوزیشن پارٹی وجود میں آسکتی ہے جو ہندو اکثریت کے ملک میں ایک بڑی مسلم اقلیت کے مفادات کی نگہبانی کر سکے ۔

ہماری یہ جماعت جس غرض کے لیے اُٹھی ہے وہ یہ ہے کہ پوری دنیا میں، اور آغازِ کار کے طور پر اس ملک میں، ایک ایسی سوسائٹی منظم کی جائے جو اسلام کے اصلی اصولوں پر شعور و اخلاص کے ساتھ خود عامل ہو، دنیا کے سامنے اپنے قول و عمل سے اس کی صحیح نمایندگی کرے، اور بالآخر جہاں جہاں بھی اس کی طاقت جڑ پکڑ جائے وہاں کے افکار، اخلاق، تمدن، معاشرت، سیاست اور معیشت کے نظام کو موجودہ دہریت اور مادہ پرستی کی بنیادوں سے اُکھاڑ کر سچی خداپرستی ، یعنی توحید کی بنیاد پر قائم کردے۔ اس جماعت کو یہ یقین ہے کہ موجودہ تہذیب اور اس کا پورا نظامِ زندگی     جن اصولوں پر قائم ہے وہ قطعاً فاسد ہیں اور اگر دنیا کا انتظام انھی اصولوں پر چلتا رہے تو وہ   بڑے ہولناک نتائج سے دوچار ہوگی۔ اس کے جو نتائج اب تک نکل چکے ہیں وہ بھی کچھ کم ہولناک نہیں ہیں، مگر انھیں کوئی نسبت انجام کی اس ہولناکی سے نہیں ہے جس کی طرف یہ تہذیب دنیا کو لیے جارہی ہے اور یہ ظاہر ہے کہ ہم اس دنیا سے کہیں باہر نہیں جی رہے ہیں بلکہ اس کے اندر ہی سانس لے رہے ہیں۔ لہٰذا اگر ہم ان اصولوں کو فاسد اور بدانجام سمجھتے ہوئے بھی منفعلانہ طریقے سے (passively) اسی نظام کے تحت زندگی بسر کیے چلے جائیں اور تہذیب حاضر کے مغربی اماموں اور مشرقی مقلدوں کی پیشوائی و سربراہ کاری کے آگے سپر ڈالے رہیں، تو جس تباہی     کے گڑھے میں یہ دنیا گرے گی اسی میں اس کے ساتھ ساتھ ہم بھی جاگریں گے اور اس انجام کے ہم مستحق ہوں گے۔

ہم پوری بصیرت کے ساتھ یہ جانتے ہیں ، اور اپنے اس علم پر یقین رکھتے ہیں کہ خدا نے انسان کی رہنمائی کے لیے اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے جو ہدایت نازل کی ہے اسی کی پیروی میں ہماری اور سب انسانوں کی فلاح مضمر ہے اور انسانی زندگی کا پورا نظام اسی وقت صحیح چل سکتا ہے، جب کہ  اسے ان اصولوں پر قائم کیا جائے جو انسانوں کے خالق کی دی ہوئی ہدایت میں ہم کو ملتے ہیں۔ ہمارے اس علم و یقین سے یہ فرض خود بخود ہم پر عائد ہوجاتا ہے___ اور یہی فرض خدا نے بھی اپنے مطیع فرماں بندوں پر عائد کیا ہے___ کہ ہم اُس نظامِ زندگی کے خلاف جنگ کریں جو فاسد اصولوں پر چل رہا ہے اور وہ صالح نظام قائم کرنے کے لیے جدوجہد کریں جو خدائی ہدایت کے دیے ہوئے اصولوں پر مبنی ہو۔

یہ کوشش ہمیں صرف اسی لیے نہیں کرنی چاہیے کہ دنیا کی خیرخواہی ہم سے اس کا مطالبہ کرتی ہے۔ نہیں، ہم خود اپنے بھی سخت بدخواہ ہوں گے اگر اس سعی و جہد میں اپنی جان نہ لڑائیں، کیونکہ جب اجتماعی زندگی کا سارا نظام فاسد اصولوں پر چل رہا ہو، جب باطل نظریات و افکار ساری دنیا پر چھائے ہوئے ہوں، جب خیالات کو ڈھالنے اور اخلاق و سیرت کو بنانے کی عالم گیر طاقتوں پر فاسد نظامِ تعلیم، گمراہ کن ادبیات، فتنہ انگیز صحافت اور شیطنت سے لبریز ریڈیو اور سینما کا تسلط ہو، جب رزق کے تمام وسائل پر ایک ایسے معاشی نظام کا قبضہ ہو جو حرام و حلال کی قیود سے ناآشنا ہے، جب تمدن کی صورت گری کرنے اور اس کو ایک خاص راہ پر لے چلنے کی ساری طاقت ایسے قوانین اور ایسی قانون ساز مشینری کے ہاتھ میں ہو جو اخلاق و تمدن کے سراسر مادہ پرستانہ تصورات پر مبنی ہیں، اور جب قوموں کی امامت اور انتظام دنیا کی پوری زمامِ کار ان لیڈروں اور حکمرانوں کے ہاتھ میں ہو جو خدا کے خوف سے خالی اور اس کی رضا سے بے نیاز ہیں اور اپنے کسی معاملے میں بھی یہ دریافت کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتے کہ ان کے خالق کی ہدایت اس معاملے میں کیا ہے___ تو ایسے نظام کی ہمہ گیر گرفت میں رہتے ہوئے ہم خود اپنے آپ کو ہی اس کے بُرے اثرات اور بدتر نتائج سے کب بچا سکتے ہیں۔ یہ نظام جس جہنم کی طرف جا رہا ہے اسی کی طرف وہ دنیا کے ساتھ ہمیں بھی تو گھسیٹے لیے جارہا ہے۔ اگر ہم اس کی مزاحمت نہ کریں اور اس کو بدلنے کی کوشش میں ایڑی چوٹی کا زور نہ لگائیں، تو یہ ہماری اور ہماری آیندی نسلوں کی دنیا خراب اور عاقبت خراب تر کرکے چھوڑے گا۔ لہٰذا محض دنیا کی اصلاح ہی کے لیے نہیں، بلکہ خود اپنے بچائو کے لیے بھی یہ فرض ہم پر عائد ہوتا ہے___ اور یہ سب فرضوں سے بڑا فرض ہے___ کہ ہم جس نظامِ زندگی کو پوری بصیرت کے ساتھ فاسد و مہلک جانتے ہیں اسے بدلنے کی سعی کریں اور جس نظام کے برحق اور واحد ذریعۂ فلاح و نجات ہونے پر ایمان رکھتے ہیں اسے عملاً قائم کرنے کی جدوجہد کریں۔

اس مختصر گزارش سے آپ یہ بات پاگئے ہوں گے کہ ہمارا اصل مدعا موجودہ نظام کے چلانے والے ہاتھوں کابدلنا نہیں ہے بلکہ خود نظام کا بدلنا ہے۔ ہماری کوششوں کا مقصود یہ نہیں ہے کہ نظام تو یہی رہے اور انھی اصولوں پر چلتا رہے مگر اس کو مغربی نہ چلائے، مشرقی چلائے، یا انگریز نہ چلائے، ہندستانی چلائے، یا ہندو نہ چلائے، ’مسلمان‘ چلائے۔ ہمارے نزدیک محض ہاتھوں کے بدل جانے سے کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ سُور تو بہرحال سُور ہی ہے اور اپنی ذات میں ناپاک ہے، خواہ اسے کافر باورچی پکائے یا مسلمان باورچی، بلکہ مسلمان باورچی کا سُور پکانا اور بھی زیادہ  افسوس ناک ہے اور گمراہ کن بھی۔ بہت سے بندگانِ خدا، حتیٰ کہ اچھے خاصے پرہیزگار لوگ بھی اس ظالم کے ہاتھ کا پکا ہوا سُور اس اطمینان کی بنا پر کھا جائیں گے کہ یہ مسلمان کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا ہے، اور اگر پُخت و پُز کے دوران میں چمچے کی ہرگردش پر بآوازِ بلند بسم اللہ پڑھتا رہے، اور اس کے چُنے ہوئے دسترخوان پر مسلمانوں کو کافر کے دسترخوان کی بہ نسبت تناولِ ماحضر کی زیادہ آسانیاں اور آزادیاں میسر ہوں، اور محفلِ طعام کے گردوپیش کچھ ایسے لوازم بھی فراہم کردیے جائیں جو عام طور پر اسلامی لوازم سمجھے جاتے ہیں، تو یہ اور بھی زیادہ سخت دھوکا دینے والی چیز ہوگی۔ اس قسم کی نمایشی اسلامیت اگر موجود ہو تو وہ اس حرام خوراک کو قبول کرلینے کے لیے کوئی سفارش نہیں ہے، بلکہ یہ  ظاہر فریبیاں اس معاملے کو اور بھی زیادہ پُرخطر بنادیتی ہیں۔ لہٰذا ہم کسی ایسی ظاہر تبدیلی پر نہ خود مطمئن ہوسکتے ہیں اور نہ کسی کو مطمئن ہوتے دیکھ سکتے ہیں جس میں یہ فاسد نظام تو جُوں کا تُوں قائم رہے اور صرف اس کے چلانے والے ہاتھ بدل جائیں۔ ہماری نظر ہاتھوں پر نہیں بلکہ ان اصولوں پر ہے جن پر زندگی کا نظام چلایا جاتا ہے۔ وہ اصول اگر فاسد ہوں تو ہم ان کے خلاف جنگ جاری رکھیں گے اور انھیں صالح اصولوں سے بدلنے کی کوشش کریں گے۔ (جماعت اسلامی کی دعوت، ص ۷-۱۰)

 

تفہیم القرآن کا دنیا بھر کی بڑی بڑی زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے اور چاردانگ عالم میں بیسویں صدی کی اس فقیدالمثال کتاب کا مطالعہ ہورہا ہے۔ برعظیم پاک و ہند کی تو تمام چھوٹی بڑی زبانوں، مثلاً ہندی، بنگالی، گجراتی، مرہٹی اور اب سندھی وغیرہ میں یہ تفسیر منتقل ہوچکی ہے۔  اس کے علاوہ انگریزی، فرانسیسی، روسی، ترکی، فارسی، پشتو زبانیں بھی اپنا دامن تفہیم کے ترجمے سے بھرچکی ہیں۔ قرآنِ حکیم کا گہرا مطالعہ انسان کو خدا کے قریب لاتا ہے اور تفہیم القرآن کا  بغور مطالعہ پڑھنے والے کو قرآن آشنا بناکر اسے اسلام کے دامن میں پناہ لینے پر مجبور کردیتا ہے۔ آج بھی دنیا میں سیکڑوں ایسے نومسلم آپ کو ملیں گے جو تفہیم القرآن ہی کو پڑھ کر مسلمان ہوئے ہیں۔ اس کتاب نے ہزاروں نہیں لاکھوں انسانوں کی زندگیاں بدل دیں ہیں۔ اصل تو یہ معجزہ قرآن کا ہے لیکن اس کا کریڈٹ تفہیم القرآن کے ذریعے قرآن سمجھانے والے اس عبقری انسان کو جاتا ہے جسے دنیا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کے نام سے جانتی ہے۔ سید مودودیؒ اس صدی کے عظیم ترین انسان تھے اور ان کی تالیف تفہیم القرآن بیسویں صدی کی بے مثال تفسیر سمجھی جائے گی۔ اس صدی میں کئی ایسی کتابیںلکھی گئی ہیں جن کو دنیا عظیم کتابیں کہتی ہے اور جن کے مصنفین و مؤلفین کو نوبیل پرائز اور دوسرے انعامات ملے ہیں، لیکن ان میں سے اکثر کتابیں صرف چالیس پچاس سال ہی کے اندر بھلا دی گئی ہیں لیکن تفہیم القرآن ہے کہ دن بدن اُبھر رہی ہے اور آئے دن اس کی چمک دمک اور اس کے قارئین میں اضافہ ہورہا ہے۔

کسی بھی کتاب کی اصل اہمیت کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب وقت گزرنے کے  ساتھ ساتھ وہ اپنا سکّہ لوگوں کے دلوں پر بٹھاتی چلی جائے۔ کوئی بھی کتاب اگر ایک صدی گزر جانے کے بعد اتنی ہی توانا اور مقبول رہتی ہے جتنی کہ اپنی اشاعت کے وقت تھی تو ایسی کتاب کو اکثر نقاد ورلڈ کلاسیک (World Classic) گردانتے ہیں۔ تفہیم القرآن نے ابھی تو اپنی زندگی کی ایک صدی کی مدت بھی پوری نہیں کی لیکن جس تواتر سے یہ چھپ رہی ہے اور جس تیزی سے دنیا کی مختلف زبانوں میں اس کے ترجمے ہورہے ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کتاب اکیسویں صدی میں اور چمکے گی۔ بعض حلقوں کی طرف سے تفہیم القرآن کے مؤلف کی اہمیت گھٹانے کی کوششیں کی گئیں لیکن کتاب اور اس کا مؤلف مزید چمکے اور اُبھرے گا اور یہ سلسلہ ان شاء اللہ جاری رہے گا    ؎

ہرگر نمیرد آں کہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است بر جریدۂ عالم دوام ما

تفہیم القرآن اور اس کا مرحوم و مغفور مفسر حافظ شیرازیؒ کے اس شعر کی منہ بولتی تصویر ہیں۔ تفہیم القرآن کا مرحوم و مغفور مفسر علوم جدید و قدیم کا ایک بحرِذخّار تھا۔ اس نے کتابوں کی الماریاں نہیں، لائبریریاں پڑھی اور ہضم کی تھیں۔ یہ عبقری انسان چونکہ اللہ والا تھا اس لیے اپنے علم کو اس نے دین اسلام کی سچائی ثابت کرنے کے لیے استعمال کیا۔ علم کے ہتھیار سے لیس ہوکر اس نے اپنے دور کے تمام جاہلی افکار کو للکارا۔ مسلمانوں کے مغرب گزیدہ طبقوں کے ذہن سے مرعوبیت کھرچ کھرچ کر نکالنے کے ساتھ ساتھ اس نے فتنۂ انکارِ سنت اور فتنۂ انکار ختم نبوت کو پاکستان سے دیس نکالا دینے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ سید مودودیؒ ایک ترتیب کے ساتھ مطالعہ کرتے تھے۔ جدید انسان کے ذہن میں دین اسلام کی سچائی سے متعلق جو شبہات موجود ہوتے، سید مرحوم ان سے بخوبی آگاہ رہتے اور ان شبہات کو ذہن میں رکھ کر اپنے تئیں کچھ سوالات قائم کرلیتے۔ ممکن ہے کہ ایسے سوالات ان کی کسی نوٹ بک میں موجود ہوتے ہوں۔ پھر مطالعے کے دوران میں ان سوالات کے جوابات تلاش کرتے اور سوچتے رہتے۔ سیدمودودیؒ چوں کہ خود پورے کے پورے اسلام میں داخل ہوچکے تھے، اس لیے ان کا مطالعہ بھی اسلام کے لیے تھا اور ایسے ہربامقصد مطالعے اور علم کے متعلق مولانا رومیؒ فرماتے ہیں    ؎

علم را برتن زنی مارے بود
علم را بر دل زنی یارے بود

سید مودودیؒ جہاں جہاں ضرورت پڑتی ہے جدید علوم سے قرآن کی تفہیم کی خدمت لیتے ہیں۔ تفہیم القرآن کے اوراق میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں۔ اس مختصر تحریر میں چند مثالوں ہی پر اکتفا کروں گا۔

سورئہ طارق میں ارشاد ہوتا ہے: ’’ پھر ذرا انسان یہی دیکھ لے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے۔ ایک اُچھلنے والے پانی سے پیدا کیا گیا ہے جو پیٹھ اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلتا ہے‘‘ (آیات ۵تا۷)۔ اس سورہ کے حاشیے میں مولانا فرماتے ہیں: ’’اصل صُلب اور ترائب کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ صُلب ریڑھ کی ہڈی کو کہتے ہیں اور ترائب کے معنی ہیں: سینے کی ہڈیاں، یعنی پسلیاں۔ چونکہ عورت اور مرد دونوں کے مادئہ تولید انسان کے اس دھڑ سے خارج ہوتے ہیں جو صُلب اور سینے کے درمیان واقع ہے، اس لیے فرمایا گیا کہ انسان اس پانی سے پیدا کیا گیا ہے جو پیٹھ اور سینے کے درمیان سے نکلتا ہے۔ یہ مادہ اُس صورت میں بھی پیدا ہوتا ہے، جب کہ ہاتھ اور پائوں کٹ جائیں۔ اس لیے یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ یہ انسان کے پورے جسم سے خارج ہوتا ہے‘‘۔(تفہیم القرآن، ج۶،ص ۳۰۴)

 اس حاشیے کو پڑھنے کے بعد ایک ڈاکٹر نے مولانا کو لکھا کہ آپ کی تشریح مَیں نے بغور کافی دفعہ پڑھی ہے لیکن مَیں نہ سمجھ سکا۔ یہ مادہ فوطے میں پیدا ہوتا ہے اور باریک باریک نالیوں کے ذریعے بڑی نالیوں میں گزرتا ہوا پیٹ کی دیوار پر کولہے کی ہڈی کے عین متوازی ایک نالی میں سے گزر کر قریب ہی ایک غدود میں داخل ہوجاتا ہے اور پھر وہاں سے رطوبت لے کر اس کا اخراج ہوتا ہے۔ سینے کی ہڈی اور ریڑھ کی ہڈی کے درمیان سے اس کے گزرنے کو مَیں نہ سمجھ سکا۔ میری درخواست ہے کہ آپ مجھے مفصل لکھیں کہ اس کی تفسیر کیا ہے۔

اس کے جواب میں مولانا مودودیؒ نے نومبر ۱۹۷۱ء کے ترجمان القرآن میں لکھا: اگرچہ جسم کے مختلف حصوں کے اعمال (functions) الگ الگ ہیں لیکن کوئی حصہ بھی بجاے خود تنہا کوئی فعل نہیں کرتا بلکہ دوسرے اعضا کے تعامل (co-ordination) سے اپنا کام کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ اسی لیے قرآنِ مجید میں یہ نہیں فرمایا گیا کہ یہ مادہ ریڑھ کی ہڈی اور سینے کی ہڈیوں میں سے نکلتا ہے بلکہ یہ فرمایا گیا ہے کہ ان دونوں کے درمیان جسم کا جو حصہ واقع ہے، اس سے یہ مادہ خارج ہوتا ہے۔ یہ اس بات کی نفی نہیں ہے کہ مادہ منویہ کے بننے اور اس کے اخراج کا ایک خاص نظامِ عمل (mechanism) ہے جسے جسم کے کچھ خاص حصے انجام دیتے ہیں، بلکہ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ نظامِ عمل مستقل بالذات نہیں ہے۔ یہ اپنا کام اس پورے نظامِ اعضا کے مجموعی عمل کی بدولت انجام دیتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے صلب اور ترائب کے درمیان رکھ دیا ہے۔ اس سوال و جواب کو پڑھنے کے بعد دو مختلف مقامات سے دو ڈاکٹروں نے مولانا کے موقف کی حمایت کی اور ان کو لکھا۔ علاوہ بریں مادئہ منویہ اگرچہ انثیین پیدا کرتے ہیں اور وہ کیئسہ منویہ (seminal vesicles) میں جمع ہوجاتا ہے مگر اس کے اخراج کا مرکز تحریک بین الصلب والترائب ہی ہوتا ہے اور دماغ سے اعصابی روجب اس مرکز کو پہنچتی ہے تب اس مرکز کی تحریک (trigger action) سے کیئسہ منویہ سکڑتا ہے اور اس سے ماء دافق پچکاری کی طرح نکلتا ہے۔ اس لیے قرآن کا بیان ٹھیک ٹھیک     علم طب کی جدید تحقیقات کے مطابق ہے۔ اس حوالے سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ مولانا مودودیؒ نے عضویات اور انسانی ساخت کی تشریح کے متعلق علوم کا مطالعہ اس حد تک تو ضرور کیا ہے کہ  ڈاکٹر حضرات بھی ان کے اس علم کو ناقص نہیں کہہ سکتے، اور اس سے بھی اہم تر بات یہ ہے کہ مولانا نے یہ علم قرآن سمجھنے اور سمجھانے کے لیے حاصل کیا اور پھر اپنی بے پناہ زبان دانی کی مدد سے اسے استعمال کیا۔ بہت ہی کم لوگوں کو ایسے بامقصد اور بانظام (systematic) علم حاصل کرنے کی سعادت نصیب ہوتی ہے۔

مولانا نے کائنات کے عمل کو سمجھنے اور قرآن کی روشنی میں اسے سمجھانے کے لیے فلکیات کا گہرا مطالعہ کیا۔ تفہیم القرآن میں اس علم کے جدید ترین نظریات کے حوالے بھی ملتے ہیں۔ مولانا نے پروفیسر عبدالحمید صدیقی کی انگریزی سے ترجمہ کردہ کتاب خدا موجود ہے کے تعارف میں ایک ایسے نظریے (super dense state theory) کا ذکر کیا ہے جس سے دنیا اس وقت آگاہ نہیں تھی۔ جب انھوں نے سورئہ انبیا کا حاشیہ نمبر۲۸ تحریر فرمایا تھا تو اس حاشیے میں    بیان کردہ حقائق کو بعد میں حاصل شدہ علمی معلومات کی مدد سے نہیں جھٹلایا جاسکتا۔ سورئہ انبیامیں  اللہ پاک کا ارشاد ہے: کیا وہ لوگ جنھوں نے (نبیؐ کی بات ماننے سے) انکار کردیا ہے غور نہیں کرتے کہ یہ سب آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے، پھر ہم نے انھیں جدا کیا۔

اس پر مولاناؒ مذکورہ بالا حاشیہ نمبر۲۸ میں لکھتے ہیں: ’’اصل میں لفظ ’رتق‘ اور ’فتق‘ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ ’رتق‘ کے معنی ہیں یک جا ہونا، اکٹھا ہونا اور ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہونا، متصل اور متلاحق ہونا، اور فتق کے معنٰی پھاڑنے اور جدا کرنے کے ہیں۔ بظاہر ان الفاظ سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ کائنات کی ابتدائی شکل ایک تودے کی سی تھی۔ بعد میں اس کو الگ الگ حصوں میں تقسیم کرکے زمین اور دوسرے اجرامِ فلکی جدا جدا دنیائوں کی شکل میں بنائے گئے۔ (نوٹ) سپر ڈینس اسٹیٹ نظریہ بھی یہی کہتا ہے۔

حم السجدہ میں ارشاد ہوتا ہے: پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا، جو اس وقت محض دھواں تھا (آیت ۱۱)۔ یہاں پر وَھِیَ دُخَانٌ کی تشریح کرتے ہوئے مولاناؒ لکھتے ہیں: ’’دھوئیں سے مراد مادے کی وہ ابتدائی حالت ہے جس میں وہ کائنات کی صورت گری سے پہلے ایک بے شکل منتشر الاجزا غبار کی طرح فضا میں پھیلا ہوا تھا۔ موجودہ زمانے کے سائنس دان اسی چیز کو سحابیے (Nebula) سے تعبیر کرتے ہیں اور آغازِ کائنات کے متعلق ان کا تصور بھی یہی ہے کہ تخلیق سے پہلے وہ مادہ جس سے کائنات بنی ہے اسی دخان یا سحابی شکل میں منتشر تھا‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج۴،ص ۴۴۵)

آپ دیکھ سکتے ہیں کہ صاحب تفہیم القرآن سے اشارہ پاکر جدید علوم قرآن کی خدمت کے لیے کس طرح حاضر ہوجاتے ہیں۔ حجاز اور مشرق وسطیٰ کی تاریخ اور جغرافیے کے متعلق تو مولاناؒ اس میدان کے کسی بھی بڑے سے بڑے ماہر (specialist) سے کم نہیں ہیں۔ ایسے علاقے اور مقامات جہاں پر انبیاے علیہم السلام نے اپنے فرائض مذہبی اور فرائض منصبی سرانجام دیے، ان کے تو چپے چپے سے مولاناؒ واقف ہیں۔ وہ شاید اچھرہ سے اتنے واقف نہ ہوں جتنے انبیاے علیہم السلام کے علاقوں سے واقف تھے۔ مکہ، مدینہ، طائف اور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں موجود حجاز کے دوسرے شہر، قصبے اور مختلف قبائل کے ٹھکانوں سے تو وہ اتنے آشنا تھے کہ یوں لگتا ہے جیسے انھوں نے اپنی زندگی وہیں گزاری ہو۔ محب کو محبوب کا گھر اپنے گھر سے زیادہ عزیز ہوتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ حجاز مولانا مودودیؒ کا روحانی وطن تھا۔ مولاناؒ کا طریقِ تفسیر یہ ہے کہ وہ ہر سورت کا تاریخی پس منظر بیان کرنے کے بعد اس کا ترجمہ اور تفسیر بیان کرتے ہیں۔ تاریخی پس منظر اس قدر واضح اور شفاف ہوتا ہے کہ متعلقہ سورہ میں بیان کردہ واقعہ نکھر کر سامنے آجاتا ہے۔ اقوام اور تہذیبوں کی تاریخ اس قدر جامع لیکن مختصر ہوتی ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ دریا کو کوزے میں بند کردیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں سورئہ فیل کا پس منظر اور سورئہ بروج کا حاشیہ بطور مثال پیش کیے جاسکتے ہیں۔ مکہ پر ہاتھیوں سے چڑھائی کرنے والے یمن کے حبشی حاکم اَبرھہ اور اس کی سلطنت کی تاریخ  سورئہ فیل کے پس منظر میں بیان کی گئی ہے اور واقعات کی ترتیب انتہائی مؤثر انداز میں ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج کر جب حملہ آور فوج پر پکی ہوئی مٹی کے پتھر پھنکوائے تو پوری فوج میں بھگدڑ مچ گئی۔

مولاناؒ فرماتے ہیں: اس بھگدڑ میں یہ لوگ گرگر کر مرتے رہے۔ عطا بن یسار کی روایت ہے کہ سب کے سب اسی وقت ہلاک نہیں ہوئے بلکہ کچھ تو وہیں ہلاک ہوئے اور کچھ بھاگتے ہوئے راستے بھر گرتے چلے گئے۔ اَبرھہ بھی بلادِ خثعم پہنچ کر مرا۔ اللہ تعالیٰ نے حبشیوں کو صرف یہی سزا دینے پر اکتفانہیں کیا بلکہ تین چار سال کے اندر یمن سے حبشی اقتدار ہمیشہ کے لیے ختم کردیا۔ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ واقعۂ فیل کے بعد یمن میں اُن کی طاقت بالکل ٹوٹ گئی، جگہ جگہ یمنی سردار علَمِ بغاوت لے کر اُٹھ کھڑے ہوئے۔ آپ اس بیان سے اندازہ کرسکتے ہیں کہ صاحب ِتفہیم نے واقعات ایسے مؤثرانداز میں پیش کیے ہیں کہ ساری صورتِ حال کا نقشہ آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ اس طرح یہودیوں، رومیوں، عاد و ثمود اور دوسری اقوام کا جب تذکرہ کرتے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ حالات و واقعات کا آنکھوں دیکھا حال بیان فرما رہے ہیں۔ غزواتِ النبیؐ کی تو پوری تاریخ تفہیم القرآن سے مرتب کی جاسکتی ہے بلکہ نعیم صدیقی صاحب نے تو حضوؐر کی سیرت کا کافی حصہ تفہیم القرآن کی مدد سے مرتب کیا ہے۔ اس طرح عبدالوکیل علوی صاحب ِتفہیم الاحادیث  کے عنوان سے ایک کتاب تالیف کر رہے ہیں جوکئی جِلدوں پر پھیلی ہوئی ہوگی اور ان میں اکثر وہ احادیث ہیں جن کا متن اور جن کی تشریح تفہیم القرآن میں ملتی ہے۔

اگر کوئی صاحب چاہیں بیسیوں فقہی مسائل تفہیم القرآن سے نکال کر ایک کتاب ترتیب دے سکتے ہیں۔ نکاح و طلاق، جنگ و صلح، وراثت کا قانون اور دوسرے کئی ایسے مسائل ہیں جو پوری تفصیل کے ساتھ نہ صرف بیان کیے گئے ہیں بلکہ مغربی اور دوسرے غیراسلامی قوانین سے ان کا موازنہ کرتے ہوئے قرآنی قانون کو واضح برتری اور اس کی افادیت ناقابلِ تردید استدلال سے ثابت بھی کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ جہاں جہاں ضرورت محسوس کی گئی ہے وہاں ڈارون ازم، مارکسزم اور دوسرے ملحدانہ فلسفوں پر کاری ضربیں لگائی گئی ہیں۔ ایسے مواقع پر مولاناؒ کی اُردو    ادبی معراج کی حدوں کو چھو رہی ہوتی ہے۔ غرضیکہ تفہیم القرآن میں حدیث، سیرت، تاریخ، اقوام، فقہ اور جدید و قدیم فلسفوں اور قوانین پر ایک علمی ذخیرہ موجود ہے اور منطق و استدلال کے ساتھ زبان کی چاشنی ایسی کہ بقول انگریزی ادب کے معروف پروفیسر ڈاکٹر احسن فاروقی مرحوم کہ مولانا مودودیؒ محض خشک واعظ نہیں ہیں، بلکہ ایک ایسے نثرنویس ہیں کہ دنیا کے بڑے بڑے ادیبوں کی تحریروں کے مقابلے میں ان کی اُردونثر پیش کی جاسکتی ہے۔

 بعض حاسد اور نیم خواندہ حضرات مولانا مودودیؒ پر یہ الزام دھرتے ہیں کہ انھوں نے تفہیم القرآن میں اسلاف کی آرا کو نظرانداز کرتے ہوئے قرآنِ پاک کی من مانی تشریح پیش کی ہے۔ تفہیم القرآن کا ایک ایک حاشیہ اس بہتان اور اتہام کی تردید کرتا ہے۔ میں عرض کروں گا کہ آپ صرف سورئہ نور کا حاشیہ نمبر۲ اور ۶ دیکھ لیجیے۔ معلوم ہوگا کہ مملکت اسلامیہ کا قاضی القضاۃ اپنا فیصلہ (judgement) سنا رہا ہے، اور تمام قانونی پہلوئوں پر مستند حوالوں کے ساتھ بحث کر رہا ہے۔ مولاناؒ کا طریق تفسیر یہ ہے کہ کسی مقام کی تفسیر کرتے وقت پہلے وہ قرآن کے دوسرے مقامات سے اس کی وضاحت پیش کرتے ہیں۔ اس کے بعد متعلقہ احادیث کا ایک ذخیرہ      اپنے قاری کے سامنے پیش کردیتے ہیں۔ پھر صحابہؓ کے اقوال اور اس کے بعد تابعین، تبع تابعین ، ائمہ اربعہ اور سلف اور خلف کے علماے دین اور صلحاے اُمت کی آرا ترتیب کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں ختمِ نبوت کے مسئلے پر کی گئی بحث کا حوالہ دے کر اپنی بات ختم کرتا ہوں۔

مولانا مودودیؒ نے تفہیم القرآن جلد چہارم میں سورۃ الاحزاب کے حاشیہ ۷۷ کے سلسلے میں ایک ضمیمہ بھی دیا ہے۔ یہ حاشیہ سورئہ احزاب کی آیت ۴۰ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے   لکھا گیا، آیت کا ترجمہ ہے:

(لوگو) محمدؐ تمھارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں مگر وہ اللہ کے رسولؐ اور خاتم النبیین ہیں اور اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔

چونکہ اس آیت میں آپؐ کو خاتم النبیین فرمایا گیا ہے، اس لیے آیت کی تفسیر بیان کرنے کے بعد مولانا مرحوم نے ردِ قادیانیت کی خاطر ختم نبوت کے موضوع پر ضمیمہ لکھ کر سیرحاصل بحث کی ہے۔ ضمیمہ ایک علمی شاہکار ہے۔ سب سے پہلے مولانا مرحوم نے لغت کی رُو سے خاتم النبیینؐ کے معنی اور مفہوم بیان فرماتے ہیں۔ اس کے بعد ختم نبوت کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات دیتے ہیں۔ حضوؐر کے یہ کُل ۱۴ ارشادات ہیں۔ اس کے بعد یہ بتاتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ کا اس بات پر اجماع ہے کہ حضوؐر کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ آخر میں یہ بات آئی ہے کہ تمام علماے اُمت کا متفقہ طور پر یہ ایمان (اجماع) ہے کہ محمدؐ ہی آخری نبی ہیں اور ان کے بعد اب قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا، اور کوئی خبیث اگر ایسا دعویٰ کرتا ہے تو وہ کذاب ہے اور دجال ہے اور اپنے تمام پیروکاروں سمیت واجب القتل ہے۔ اس سلسلے میں مولانا مودودیؒ سب سے پہلے امام اعظم ابوحنیفہؒ کا قول نقل کرتے ہیں۔ اس کے بعد علامہ ابن جریر طبریؒ، امام طحاویؒ، علامہ ابن حزم ؒ، علامہ شہرستانیؒ، امام غزالیؒ، محی السنۃ بغویؒ، علامہ زمخشریؒ، قاضی عیاضؒ، امام رازیؒ، علامہ بیضاویؒ، علامہ علائوالدین بغدادیؒ، علامہ ابن کثیرؒ، علامہ جلال الدین سیوطیؒ، علامہ ابن نجیمؒ، مُلاعلی قاری، شیخ اسماعیل حقیؒ، فتاویٰ عالم گیری، علامہ شوکانیؒ، علامہ آلوسیؒ کے اقوال دیتے ہیں۔ ان بزرگوں کے اقوال نقل کرنے کے بعد مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں کہ یہ ہندستان سے لے کر مراکش اور اندلس تک اور ترکی سے  لے کر یمن تک ہرمسلمان ملک کے اکابر علما و فقہا، محدثین و مفسرین کی تصریحات ہیں۔ہم عرض کرتے ہیں کہ اگر وقت اور زمانے کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ان حضرات کا دور پہلی صدی ہجری (امام اعظمؒ، پیدایش:۸۰ ہجری) سے لے کر تیرھویں صدی ہجری تک (علامہ آلوسی، متوفی: ۱۲۷۰ھ) پھیلا ہوا ہے۔ اس انداز سے قرآن سمجھانے والے کے متعلق کوئی شخص اگر یہ کہے کہ وہ تفسیر بالراے کا مجرم ہے تو ایسی بات کہنے والے کی نیت میں فتور ہے، یا دماغ میں خلل۔ وہ بدنیت ہے یا اس نے تفہیم القرآن پڑھی ہی نہیں۔

آخر میں عصرحاضر کے تمام لوگوں سے عرض کروں گا کہ جس نے مولانا مودودیؒ کا لٹریچر اور خصوصاً تفہیم القرآن نہیں پڑھی، تو ایسا شخص بیسویں صدی کے فتنوں کا مقابلہ کرنا تو درکنار  ان کو سمجھنے کے قابل بھی نہیں ہے۔

 

سوال: ہم قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا یہ اِرشاد پڑھتے ہیں: وَ کَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ (الروم۳۰:۴۷) ’’اور ہم پر یہ حق تھا کہ ہم مومنوں کی مدد کریں‘‘، جب کہ زمینی صورتِ حال میں مومنوں کو خواری اور زبوں حالی سے دوچار پاتے ہیں۔ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بھی پڑھتے ہیں: وَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ (المنافقون۶۳:۸) ’’عزت تو اللہ اور اس کے رسولؐ اور مومنین کے لیے ہے‘‘، لیکن مومن رسوائی اور غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ قرآنِ مجید کہتا ہے: وَلَنْ یَّجْعَلَ اللّٰہُ لِلْکٰفِرِیْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ سَبِیْلًا (النساء۴:۱۴۱) ’’اور اللہ نے کافروں کے لیے مسلمانوں پر غالب آنے کی ہرگز کوئی سبیل نہیں رکھی ہے‘‘،مگر ہم اپنے اردگرد دیکھتے ہیں تو کافروں کو مومنوں پر ہزار حوالوں سے حاوی پاتے ہیں۔ اسی طرح اور آیات بھی ہیں، مثلاً: اِنَّ اللّٰہَ یُدٰفِعُ عَنِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا(الحج۲۲:۳۸) ’’یقینا اللہ مدافعت کرتا ہے ان لوگوں کی طرف سے جو ایمان لائے ہیں‘‘۔ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ مَوْلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا(محمد۴۷:۱۱) ’’یہ اس لیے کہ ایمان لانے والوں کا حامی و ناصر اللہ ہے‘‘۔ وَ اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الْمُؤْمِنِیْنَ(الانفال۸:۱۹) ’’اللہ مومنوں کے ساتھ ہے‘‘۔ اس کے باوجود صورتِ حال یہ ہے کہ قوت و سیادت اور سربلندی کافروں اور ملحدوں کو حاصل ہے، جب کہ کمزوری و پس ماندگی اور ذلت و رسوائی مومنوں کے حصے میں آئی ہے۔ اس کی کیا توضیح ہو سکتی ہے اور کیا سبب بیان کیا جا سکتا ہے؟

جواب: آیات تو بہت ہی صاف ہیں۔ آپ عزت و نصرت اور قوت و سیادت اور   تائید الٰہی کی تمام آیات کو مومنوں سے تو جوڑ سکتے ہیں، لیکن ایمان کے ہر دعوے دار اور اہل اسلام جیسے نام رکھ لینے والوں سے متعلق قرار نہیں دے سکتے، کیونکہ اعتبار اور اہمیت ناموں کی نہیں ہوتی بلکہ اُن چیزوں کی ہوتی ہے جن کے یہ نام ہوتے ہیں۔

اگر ایمان سے مراد اللہ و رسولؐ کو ماننے کا زبانی اقرار لیا جائے اور اسلام کے بعض شعائر کو قائم رکھنے کی حد تک سمجھا جائے تو ہم مومن ہیں اور اگر ایمان اُن اوصاف کے حصول کا نام ہو جن کو قرآنِ مجید نے مومنین کے لیے بیان کیا ہے تو ہمارے اور قرآن کے بیان کردہ ایمان کے درمیان کئی اور مراحل بھی آتے ہیں۔وہ مومن جن کی نصرت و تائید کا ذمہ قرآنِ مجید کی آیات کے مطابق اللہ تعالیٰ لیتا ہے۔ اُن مومنوں کی کچھ صفات ہیں جنھیں خود قرآنِ مجید نے ہی بیان کر دیا ہے۔ ان صفات کے ذریعے ان مومنوں کے ایسے عقائد، اعمال اور اخلاق کو واضح کر دیا گیا ہے جن کی بنا پر مومن اللہ تعالیٰ کی طرف سے تکریم و توقیر کے مستحق قرار پاتے ہیں۔ یہ انصاف نہیں کہ ہم مومنوں کے لیے قرآنِ مجید میں بیان کیے گئے اللہ تعالیٰ کے وعدوں کا تو ذکر کریں مگر مومنوں کی تعریف اور وضاحت کے لیے قرآن کے بجائے کہیں اور رجوع کریں۔

ہمیں قرآنِ مجید کی یہ روشن آیات بھی پڑھنی چاہییں:

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْھِمْ اٰیٰتُہٗ زَادَتْھُمْ اِیْمَانًا وَّ عَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ۔الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ۔اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا (الانفال۸:۲،۳،۴)’’سچے اہل ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سن کر لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے، اور وہ اپنے رب پر اعتماد رکھتے ہیں۔ جو نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے (ہماری راہ میں) خرچ کرتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ حقیقی مومن ہیں‘‘۔ قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ۔الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلاَتِہِمْ خَاشِعُوْنَ (المومنون ۲۳:۱،۲) ’’یقینا فلاح پائی ہے ایمان لانے والوں نے جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں‘‘۔ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ (التوبہ۹:۷۱) ’’مومن مرد اور مومن عورتیں، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں، بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں‘‘۔ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ (الحجرات۴۹:۱۰) ’’مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں، لہٰذا اپنے بھائیوں کے درمیان تعلقات کو درست کرو‘‘۔ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَجٰہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوْنَo (الحجرات۴۹:۱۵) ’’حقیقت میں تو مومن وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لائے پھر انھوں نے کوئی شک نہ کیا اور اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ وہی سچے لوگ ہیں‘‘۔ اِنَّمَا کَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ لِیَحْکُمَ بَیْنَہُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا وَاُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ o (النور۲۴:۵۱) ’’ایمان لانے والوں کا کام تو یہ ہے کہ جب وہ اللہ اور رسولؐ کی طرف بلائے جائیں تاکہ رسولؐ ان کے مقدمے کا فیصلہ کرے تو وہ کہیں کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی۔ ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں‘‘۔

یہ آیات اور ایسی دیگر بہت سی آیات بھی پڑھنی چاہییں جو قرآنِ مجید میں ہی ہیں۔ پھر ہمیں اربوں مسلمانوں کو دیکھنا چاہیے جو خود کو اسلام کے ساتھ منسوب کرتے ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں اپنے رب کی قسم کھا کر کہیے کہ کیا مسلمان ایسی قوم نہیں بن گئے جنھوں نے نماز کو ضائع کر دیا ہے، خواہشات کے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔ ان کے دل اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل ہیں، اللہ سے ان کا تعلق کٹ چکا ہے۔ گویا قرآن ہی کی زبان میں: بَاْسُہُمْ بَیْنَہُمْ شَدِیْدٌ تَحْسَبُہُمْ جَمِیْعًا وَّقُلُوْبُہُمْ شَتّٰی(الحشر۵۹:۱۴)’’یہ آپس کی مخالفت میں بڑے سخت ہیں۔ تم انھیں اکٹھا سمجھتے ہو مگر ان کے دل ایک دوسرے سے پھٹے ہوئے ہیں‘‘۔ برائی اُن میں عام اور علانیہ ہو گئی ہے، جب کہ نیکی دَب کر رہ گئی ہے، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ نیکی برائی بن گئی ہے اور برائی نے نیکی کی جگہ لے لی ہے۔ یہاں اب نیکی کا پرچار کرنے والوں کی جگہ برائی کا پرچار کرنے والے آ گئے ہیں بلکہ نیکی کو روکنے والے موجود ہیں۔

آپ اِن اربوں اہل ایمان کو دیکھیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ ان میں سے لاکھوں کو گروہی تعصب اور فرقہ ورانہ گمراہ کاری نے تباہ کر کے رکھ دیا ہے اور لاکھوں کو سیاسی استبداد نے بے کار بنادیا ہے۔ لاکھوں کو اجنبی فکری یلغار نے اعتقادی طور پر کمزور کر دیا ہے۔ لاکھوں کو سیکولر استعمار نے علیحدگی پسند بنا دیا ہے۔ اسی طرح لاکھوں کو صلیبی استعمار نے جہالت میں دھکیل دیا ہے اور لاکھوں ایسے ہیں جو کسی شمار قطار میں ہی نہیں۔ وہ غفلت میں بے سدھ اور مدہوشی میں بے حس پڑے ہیں: اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَآئٍ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ(النحل۱۶:۲۱) ’’مردہ ہیں نہ کہ زندہ۔ اور ان کو کچھ معلوم نہیں ہے کہ انھیں کب (دوبارہ زندہ کر کے) اٹھایا جائے گا‘‘۔

سوال ہے کہ کیا ہم یہودیوں کے مقابلے میں بھی مخلص مومن نہیں؟ یہودی کیوں غالب ہیں، اور غالب بھی ہمارے اوپر ہیں؟

عرض ہے کہ یہودی کائنات میں اللہ تعالیٰ کے قوانین قدرت کو اہمیت دینے کی بنا پر غالب آئے ہیں۔ قوانین قدرت کو اہمیت دینا ایمان کا ایک اہم جز ہے۔ ہم نے اس جز کو ضائع کردیا لیکن انھوں نے اس کی حفاظت کی ہے۔ دراصل وہ بیدار رہے، جب کہ ہم خواب کے مزے لیتے رہے۔ انھوں نے علم حاصل کیا، جب کہ ہم جہالت میں پڑے رہے۔ انھوں نے محنت و کوشش کو شعار بنایا، جب کہ ہم نے سستی و پس ماندگی کو گلے لگایا۔ انھوں نے اپنی باہمی قوت کو معاونت کے ذریعے بڑھایا، جب کہ ہم باہمی چپقلشوں میں کمزور ہوتے رہے۔ انھوں نے کل کے لیے تیاری کی، جب کہ ہم تو اپنا آج کاکام بھی فراموش کیے رہے۔ اُس قوم نے اپنا خون پسینہ بہا ڈالا، جب کہ ہم نے آنسو بہانے کے علاوہ کچھ نہ کیا۔

ترقی و زوال اور نصرت و ہزیمت کے الٰہی قوانین کسی سے ظلم نہیں کرتے اور نہ بے جا کسی کی حمایت میں آتے ہیں۔ جو بھی نصرت کے اسباب و وجوہ کو اختیار اور استعمال کرے گا وہ کامیابی سے ہمکنار ہو گا خواہ وہ یہودی ہی ہو۔ اور جو ہزیمت و شکست کی طرف چل پڑے گاوہ اس سے دوچار ہو کر رہے گا خواہ وہ اسلام کے ساتھہ ہی منسوب ہو۔ معرکہ اُحد میں مسلمانوں کے ساتھ پیش آنے والے حادثے پر نظر ڈالیے! اس معرکے میں مسلمانوں نے ایک غلطی کی تو ۷۰ شہدا کی صورت میں اس کی قیمت ادا کی، جن میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہؓ اور حضرت معصبؓ بن عمیر اور سعدؓ بن ربیع اور انسؓ بن نضر جیسے جواں مرد مومن شامل تھے۔ اس موقع پر یہ بات بھی مسلمانوں کے کام نہ آئی کہ اُن کے قائد حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور دشمنوں کی صف میں بتوں کے پجاری ہیں۔ قرآنِ مجید نے اس صورتِ حال کو یوں محفوظ کیا ہے اور قرآن سے بڑھ کر مبنی برعدل فیصلہ اور بیان کس کا ہو سکتا ہے۔ فرمایا: اَوَ لَمَّآ اَصَابَتْکُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَدْ اَصَبْتُمْ مِّثْلَیْھَا قُلْتُمْ اَنّٰی ھٰذَا قُلْ ھُوَ مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِکُمْ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌo(اٰلِ عمرٰن۳:۱۶۵) ’’اور یہ تمھارا کیا حال ہے کہ جب تم پر مصیبت آ پڑی تو تم کہنے لگے یہ کہاں سے آئی؟ حالانکہ (جنگ بدر میں) اس سے دوگنی مصیبت تمھارے ہاتھوں (فریق مخالف پر) پڑ چکی ہے۔ اے نبیؐ! ان سے کہو، یہ مصیبت تمھاری اپنی لائی ہوئی ہے۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔

اس مسئلے کو مزید سمجھنے کے لیے قرآنِ مجید کی درج ذیل آیات بھی پڑھ لیجیے:یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا خُذُوْا حِذْرَکُمْ فَانْفِرُوْا ثُبَاتٍ اَوِ انْفِرُوْا جَمِیْعًا (النساء ۴:۷۱) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، مقابلے کے لیے تیار ہو جائو، پھر جیسا موقع ہو الگ الگ دستوں کی شکل میں نکلو یا اکٹھے ہو کر‘‘۔ وَ اَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَ عَدُوَّکُمْ وَ اٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِھِمْ لَا تَعْلَمُوْنَھُمْ اَللّٰہُ یَعْلَمُھُمْ (الانفال۸:۶۰) ’’اور تم لوگ، جہاں تک تمھارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے اُن کے مقابلے کے لیے تیار رکھو تاکہ اس کے ذریعے سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور اُن دوسرے اعداء کو خوف زدہ کر دو جنھیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے‘‘۔ یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَۃً فَاثْبُتُوْا وَ اذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَ لَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَ تَذْھَبَ رِیْحُکُمْ وَ اصْبِرُوْا اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَo (الانفال۸:۴۵،۴۶)’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب کسی گروہ سے تمھارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو، توقع ہے کہ تمھیں کامیابی نصیب ہو گی۔ اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑو نہیں، ورنہ تمھارے اندر کمزوری پیدا ہوجائے گی اور تمھاری ہوا اکھڑ جائے گی۔ صبر سے کام لو، یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔

کیا ہم نے ان آیات پر عمل کیا؟ ہم نے تو اپنا دفاع بھی نہ کیا بلکہ فریب میں ہی مبتلا تھے کہ اچانک صہیونی چالوں کا شکار ہو گئے اور آج بھی اُن کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ہم ہمیشہ غفلت میں پڑے رہے اور اپنی بساط بھر تیاری کی، نہ قوت حاصل کی۔ ہاں، بے کار اسلحہ خرید لیا جو نشانے پر لگنے کے بجاے نشانہ لینے والے ہی پر واپس آ لگتا ہے۔ اسلحہ اور ساز و سامان سے یہی غفلت بھری صورت حال تھی جس کی بنیاد پر دشمن نے یکبارگی ہمارے اوپر حملہ کر دیا۔ قرآنِ مجید نے اس حقیقت کو بھی بیان کیا ہوا ہے: وَدَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْ تَغْفُلُوْنَ عَنْ اَسْلِحَتِکُمْ وَاَمْتِعَتِکُمْ فَیَمِیْلُوْنَ عَلَیْکُمْ مَّیْلَۃً وَّاحِدَۃً(النساء۴:۱۰۲) ’’کفار اس تاک میں ہیں کہ تم اپنے ہتھیاروں اور سامان کی طرف سے ذرا غافل ہو تو وہ تم پر یک بارگی ٹوٹ پڑیں‘‘۔

یہی وجہ ہے کہ جب ہم دشمن کے سامنے آئے تو اس طرح نہ ٹھیر سکے جس طرح ٹھیرنے کا اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو حکم دیا تھا۔ نہ بہت زیادہ اللہ تعالیٰ کو یاد ہی کیا بلکہ تھوڑا بھی نہ کیا اور نہ    اللہ و رسولؐ کی اطاعت کی۔ ہم نے تو لشکر سازی اور میدانِ جنگ سے منہ موڑ کر رقص و سرود کی طرف رُخ کر لیا۔ ہم اس باہمی آویزش اور چپقلش سے باز نہ آئے جس سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں منع کیا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہم ناکام ہوئے اور ہمارے غبارے سے ہوا نکل گئی۔

اس صورتِ حال کے بعد کیسے ہم اپنے آپ کو مومنوں کے اس گروہ میں شمار کر سکتے ہیں جس کو قرآنِ مجید نے بیان کیا ہے۔ اسی طرح ہم اُن وعدوں کے منتظر بھی کیسے ہو سکتے ہیں جو   اللہ نے کیے ہیں، جب کہ ہم اُن شرائط کو پورا نہیں کر رہے جو اللہ تعالیٰ نے مقرر کی ہیں۔ یہ تو بڑی بے شرمی کی بات ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی نصرت کے تو طلب گار ہوں مگر خود اللہ تعالیٰ کی مدد کے لیے کچھ نہ کریں۔ اللہ سے ہم مومنوں جیسا بدلہ چاہیں مگر اپنے اندر مومنوں جیسے اوصاف پیدا نہ کریں۔ ہمارے اوپر فرض ہے کہ ہم اللہ کے لیے مخلص ہو جائیں۔ پھر اللہ بھی ہمارے ساتھ مخلصوں جیسا سلوک کرے گا۔ میرا مقصد یہ ہے کہ ہم حقیقی مومن بن جائیں، اللہ وحدہٗ کے رب ہونے پر، اسلام کے طریق زندگی ہونے پر، رسولِ کریمؐ کے مقتدا و پیشوا ہونے پر اور قرآن کے رہنما ہونے پر تہہ دل سے راضی ہو جائیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے عقائد و افکار، اخلاق و کردار اور قانون و نظامِ زندگی، غرض ہر چیز میں غیر اللہ کی بندگی سے بیزاری کا اظہار کریں۔

صرف اور صرف اسی ایمان کی بنیاد پر ہم اس خوشی و راحت اور عزت و نصرت کو حاصل کر سکتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے دنیا میں مومنوں کے لیے مقدر فرما دیا ہے، جب کہ آخرت کی رضا و خوشی اور ثواب و اجر اس کے علاوہ ہے۔

یہاں سوال یہ اُٹھتا ہے کہ کیا صالح مومن بھی کہیں موجود نہیں ہیں؟ گزارش یہ ہے کہ یہ اُمت تو گمراہی پر یک جا نہیں ہو سکتی۔ مگر ایسے صالح مومن بہت تھوڑے ہیں اور وہ تھوڑے ہونے کے ساتھ اُن بکھرے ہوئے دانوں کی طرح منتشر بھی ہیں جو کسی دھاگے میں منسلک نہ ہوں اور ان میں سے کثیر تعداد کو تو اس مایوسی نے گھیر رکھا ہے کہ اصلاح اور تبدیلی ممکن نہیں۔ لہٰذا انھوں نے ہتھیار ڈال دیے ہیں اور میدان منکرِ خدا، فاجر اور چال باز فکری یلغار کے لیے کھلا چھوڑ دیا ہے۔ ان صالح مومنوں میں سے کچھ تو آہ و زاری، واویلے اور ماضی کی طرف پلٹنے کو کافی سمجھ بیٹھے ہیں اور کوئی سنجیدہ و مثبت لائحہ عمل پیش نہیں کرتے اور کچھ اللہ کی راہ میں پہنچنے والی تکلیف سے ہی خوف زدہ ہو کر کمزور و بے کار ہو گئے ہیں۔ اسی طرح کے درجنوں اور اسباب بھی ہیں جو ایسے مومنوں کی موجودہ صورتِ حال کو واضح کرتے ہیں۔

اس تمام تر صورتِ حال میں مسائل کا حل کیا ہو سکتا ہے؟ حل یہ ہے کہ اہل ایمان ایک دوسرے کو صحیح اسلام کی طرف رجوع کی دعوت دیں کہ عقیدہ و شریعت اور اخلاق و کردار میں وہ صحیح اسلام کو اختیار کریں۔ وہ قوم کو بھی اسی یاد دہانی کے ذریعے امیدیں و عیدیں سنائیں۔ وہ صرف اسلام ہی کے ذریعے غالب آ سکتے اور قیادت کر سکتے ہیں۔ اُن کی وحدت و قوت اسی اسلام میں پوشیدہ ہے اور دنیا کی عزت اور آخرت کی سعادت اسی اسلام میں ہے، کہیں اور نہیں ۔

یہ صالح مومن امت کو قدیم جمود، جدید انتشاراور کبھی کھل کر اور کبھی چھپ کر حملہ کرنے والے کفر سے بچانے کے لیے اپنی کوششوں کو متحد کریں۔ ان غیرت مند مومنوں کو اپنے عہد کے حالات کا بخوبی علم ہونا چاہیے، زمانے کے تقاضوں سے آگاہ ہونا چاہیے، اپنے اپنے معاشروں اور ممالک کے احوال سے باخبر ہونا چاہیے۔ اجنبی یلغاروں اور مشکلات سے بھی چوکنا ہونا چاہیے اور ان سے نمٹنے کا سامان بھی کرنا چاہیے۔ انھیں یہ کام ماہر و متخصّص علما کے طرز پر کرنا چاہیے، مقلدوں اور نقالوں کی طرح نہیں۔ اس کے ساتھ وہ اس سرکش مادی یلغار کا مقابلہ کرنے کے لیے صبر و یقین کے ہتھیار سے لیس ہوں جس یلغار نے اُن کے گھروں کو تباہ کر ڈالا ہے اور اُن کے   دل و دماغ کو بھی مائوف کر کے رکھ دیا ہے۔ اس صورتِ حال کو ایک بڑے اسلامی مفکر نے ایک جملے میں بیان کیا کہ ’’اِرتداد بڑھ رہا ہے مگر اس کے خاتمے کے لیے ابوبکر نہیں ہے‘‘۔

جب مومن حق و باطل کے درمیان گرم ہو چکے معرکے میں صبر کا مظاہرہ کر لیں گے اور انھیں اپنے بارے میں اللہ تعالیٰ کی آیات کی صداقت کا یقین ہو چکے گا اور وہ اللہ، رسولؐ اور جہاد کو ہر اُس چیز پر ترجیح دے چکے ہوں گے جس کی خواہش اور تمنا انسانوں کو ہر دور میں رہی ہے۔ جب وہ ایسی پامردی اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کر لیں گے تو وہ خود کو اس کا حقدار بنا لیں گے کہ اللہ اُن کو دنیا کی امامت و قیادت عطا فرما دے، زمین کا وارث بنا دے، اور زمین کی حکمرانی و سلطنت اُن کے پاس آ جائے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: وَجَعَلْنَا مِنْھُمْ اَئِمَّۃً یَّھْدُوْنَ بِاَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوْا وَ کَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یُوْقِنُوْنَo(السجدہ۳۲:۲۴)’’اور جب انھوں نے صبر کیا اور ہماری آیات پر یقین لاتے رہے تو ان کے اندر ہم نے ایسے پیشوا پیدا کیے جو ہمارے حکم سے رہنمائی کرتے تھے‘‘۔

لیکن اگر یہ صالح مومن اس فرض کو پورا کرنے سے پہلو بچائیں گے تو اس کا انجام کیا ہو گا؟… یہ انجام تو بڑا خوف ناک اور دہلا دینے والا ہے۔ قرآنِ مجید کی ایک آیت نے اس کی علامات کو متعین کر کے اور ایک دوسری آیت نے اسے متعین کیے بغیر بیان کیا ہے۔

پہلی آیت یہ ہے: اِلَّا تَنْفِرُوْا یُعَذِّبْکُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا وَّ یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ وَلَا تَضُرُّوْہُ شَیْئًا وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرo(التوبہ۹:۳۹) ’’تم نہ اٹھو گے تو خدا تمھیں دردناک سزا دے گا، اور تمھاری جگہ کسی اور گروہ کو اٹھائے گا، اور تم خدا کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکو گے،    وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے‘‘۔ دوسری آیت ہے: قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَـآؤُکُمْ وَ اَبْنَـآؤُکُمْ وَ اِخْوَانُکُمْ وَ اَزْوَاجُکُمْ وَ عَشِیْرَتُکُمْ وَ اَمْوَالُ نِ اقْتَرَفْتُمُوْھَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا وَ مَسٰکِنُ تَرْضَوْنَھَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ جِھَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖ وَ اللّٰہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ(التوبہ۹:۲۴) ’’اے نبی کہہ دو کہ اگر تمھارے باپ اور تمھارے بیٹے اور تمھارے بھائی، اور تمھاری بیویاں، اور تمھارے عزیز و اقارب اوروہ مال جو تم نے کمائے ہیں، اور تمھارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑ جانے کا تم کو خوف ہے، اور تمھارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں، تم کو اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمھارے سامنے لے آئے، اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا‘‘۔ [مأخذ:www.qaradawi.net]

 دنیاے اسلام میں عیسائی مشنریوں کی سرگرمیاں نئی نہیں ہیں۔ پچھلے کئی سوسال سے ان کی سرگرمیاں جاری ہیں۔ جب دنیاے اسلام میں نوآبادکاری ، یعنی colonization کا سلسلہ شروع ہوا تو اس سے پہلے مسیحی سرگرمیاں شروع ہوچکی تھیں۔ جہانگیر کے زمانے میں ہندستان میں بڑی تعداد میںمشنری آچکے تھے ۔ کسی وجہ سے اکبر اور جہانگیر جیسے حکمرانوں نے عیسائی مشنری کو اجازت دے دی کہ وہ ہندستان میں اپنی سرگرمیاں منظم کریں۔ اس زمانے میں تاجر اور مسیحی مشنریوں دونوں اس طرح مل جل کر کام کررہے تھے کہ دونوں ایک دوسرے کے مقاصدکو آگے بڑھا رہے تھے۔ تاجرجب پیش رفت کرتے تھے تو عیسائی مشنریوں کے کام میں مدد ملتی تھی۔ عیسائی مشنری اپنے کام کو جتنا منظم کرتے تھے، اس سے تاجروں کے کام میںمدد ملتی تھی۔ اس طرح ہوتے ہوتے تقریباً دو سو ڈھائی سو سال کا زمانہ ایسا گزرا کہ تجارت اور مشنری سرگرمیاں دونوں ایک ساتھ چلیں اور جہاں جہاں انگریزوں کی تجارت منظم ہوتی گئی وہاں وہاں عیسائی مشنریاں بھی بہت زیادہ فعال اور مضبوط ہوگئیں۔

اس دور میں عیسائی مشنریوں اور کمپنیوں کی تجارتی سرگرمیوں کی تاریخ دیکھی جائے تو اندازہ ہوگا کہ انھوں نے اپنی سرگرمیوں کا دائرہ ساحلی علاقوںمیں پھیلایا۔ ساحلی علاقوں میں ان کے پاس بڑی مضبوط بحری طاقت تھی۔ پوری دنیا پر ان کا کنٹرول اسی بحری طاقت کے ذریعے تھا۔ اسی کے بل پر ان کے لیے یہ بات بڑی آسان تھی کہ وہ ساحلی علاقوں میں جاسکیں، اور اگر انھیں وہاں کوئی خطرہ درپیش ہوتووہاں سے فرار بھی ہوسکیں۔ چنانچہ انھوںنے ممبئی میں، سورت میں، مدراس ، کلکتے، کراچی، سنگاپور، ملایشیا اور گانامیں اپنی سرگرمیاں منظم کیں۔ آپ پوری دنیاے اسلام کا نقشہ سامنے رکھیں تو سب سے زیادہ مسیحی سرگرمیوں کی تنظیم آپ کو اُن ساحلی علاقوں میںملے گی جو بڑے تجارتی مراکز تھے ،یا بعد میں بڑے تجارتی مراکز بن گئے۔ مسلمان حکمرانوں نے اپنی سادہ لوحی، عاقبت نااندیشی ،بے وقوفی، مفادات یا کسی اور سبب سے عیسائی مشنری سرگرمیوں سے غفلت برتی، جیسے آج بہت سی چیزوں سے وقتی مفاد کی خاطر ہمارے ہاںغفلت برتی جارہی ہے ۔ فوری، چند ٹکے کے مفاد کی خاطر وہ مراعات عیسائی مشنریوں کو دی گئیں جن کے نتائج آج ہم سب بھگت رہے ہیں۔

ہندستان میں سب سے پہلے اورنگ زیب عالم گیر کو اس کا احساس ہوا کہ یہ سلسلہ بڑا غلط ہے۔ اس نے ان کی تجارتی کوٹھیاں چھین لیں۔ فرنگی محل لکھنؤمیں ایک بہت بڑی حویلی تھی، جوانگریزوں کو جہانگیر نے دی تھی، اور اسی لیے فرنگی محل کہلاتی تھی۔ اورنگزیب نے وہ حویلی ان سے چھین لی اور بعض علما کو دے دی کہ آپ یہاں دینی مدرسہ قائم کرلیں۔ چنانچہ فرنگی محل کے نام سے علما کا جوطویل سلسلہ ہے یہ اسی تجارتی کوٹھی میں قائم ہواتھا۔ اس میں سو ، سوا سوسال تک ایک بڑا دارالعلوم قائم رہا۔ مولانا عبدالحلیم فرنگی محلی، عبدالحئی فرنگی محلی سمیت علما کا طویل سلسلہ اس سے پیدا ہوا۔

عالم اسلام میں مسیحی سرگرمیاں

 صرف ہندستان میںنہیںبلکہ دنیاے اسلام کے ہر گوشے میںایساہی ہوا۔ یہاں تک کہ افریقہ میںایک لطیفہ مشہورہے کہ جب انگریز یہاں آیا تو زمین ہمارے ہاتھ میں تھی اور کتاب اس کے ہاتھ میں تھی، یعنی بائبل، اور جب انگریز یہاں سے گیا تو کتاب ہمارے ہاتھ میں تھی اور زمین انگریز کے ہاتھ میں تھی۔گویا انھوںنے ہمیں عیسائی بنادیا اور ہماری زمینوں پر اور جایداد وںاور مال ودولت پر قبضہ کرلیا۔ یہ پورے افریقہ میں ہوا۔ افریقہ کے بیش تر حصوں پر کئی کئی سو سال انگریز قابض رہے ،اور بعض علاقے تو ایسے تھے کہ انھوںنے اس کو تقریباًگوروں کا ملک تصور کرکے کالوں کو وہاں سے نکال دینے کی کوشش کی، یا کالوں کو انھوں نے اس طرح سے مٹا دینا چاہا کہ وہ کبھی بھی ان کے مقابلے میں کھڑے نہ ہوسکیں۔ چنانچہ جنوبی افریقہ، زمبابوے وغیرہ یہ سب علاقے وہ تھے جہاں پر انگریزوں یا گوروں کی لاکھوں کی آبادیاں ہیں اور ان کے ذہن میںیہ تھا کہ ہم یہاں مستقل حکمران رہیں گے۔ چنانچہ ۴۰۰سال وہ جنوبی افریقہ پرحکمران رہے۔ ساڑھے تین سو پونے چار سو سال روڈیشیا میں حکمران رہے جس کا نام اب بدل کر زمبابوے کردیا گیا ہے۔اس کا نتیجہ یہ ضرور نکلا کہ اس پورے علاقے میں اکثریت کو انھوں نے عیسائی بنالیا۔ جہاں جہاں عیسائی حکمران ہوئے وہاں افریقی اکثریت عیسائی ہوگئی، اس لیے کہ ان کا کوئی مذہب نہیں تھا۔ ان کے سابقہ مذاہب میں کوئی جان نہیں تھی، کوئی تہذیب نہیں تھی، تمد ن نہیں تھا، تعلیم نہیں تھی۔ اس لیے بہت جلد ہی عیسائی مشنریوں نے ان کو اپنے دام میں لے لیا اوروہ عیسائی ہوگئے۔

مسلم ممالک میں انھیں کام یابی نہیں ہوئی۔ انڈونیشیا سے لے کر مراکش تک کوئی بھی مسلم ملک ایسا نہیں تھا، جہاں انھیں ایک فی صد یا ایک فی ہزار بھی کام یابی ہوئی ہو ۔ ان پورے ۳۰۰سال میں ایسا نہیں ہوا کہ مسلمانوں میں سے انھوںنے کسی کو عیسائی بنایا ہو۔ اس بارے میں جتنے دعوے ہیں وہ سب کے سب یاتو مبالغے پر مبنی ہیں یا جھوٹ پرمبنی ہیں یا مسلمانوں کے خوف کی پیداوار ہیں کہ سندھ میں انھوں نے ۱۰ لاکھ مسلمانوں کو عیسائی کرلیا۔ وہ سب غلط ہے۔ اِکَّا دُکَّا واقعات کہیں ہوئے ہوں گے لیکن اکثر وبیش تر نہیں ہوئے، نہ ان کے ذہن میں مسلمانوں کو عیسائی بنانا ہے۔ یہ ان کے ذہن میں واضح ہے کہ مسلمانوں کو بڑی تعداد میں عیسائی نہیں بناسکتے ۔ کم از کم اب تک مسلمانوں کی تعلیم اور دینی حمیت کی وجہ سے صورت حال یہی ہے، آیندہ کیا ہوگا ،ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔

مسیحیوں کی حکمت عملی اور ترجیحات

عیسائی کیوں اتنے تسلسل اور ارتکاز کے ساتھ کام کررہے ہیں؟ اس پر غور کریں۔ ان کی تحریریں دیکھیں جووقتاً فوقتاً چھپتی رہی ہیں، تواس کے دو بڑے اسباب معلوم ہوتے ہیں۔ اس کا ایک بڑا سبب تو یہ ہے کہ دنیاے اسلام میں بسنے والے ان غیر مسلموں کو جو معاشی اور معاشرتی اعتبار سے زیادہ اُونچا مقام نہیں رکھتے عیسائی بنایا جائے، اور عیسائی بنانے کے لیے ان کو یہ تاثر دیا جائے کہ ان کا معاشرتی مقام عیسائی بن کر بلند ہوجائے گا، کم از کم وہ عیسائیوں کے ساتھ برابر کی سطح پر سمجھے جانے لگیں گے ۔ اس طرح سے ان کو عیسائیت کے دائرے میںداخل کیا جائے۔ یہ چیز بڑی کام یابی کے ساتھ ہندستان میں، پاکستان میں، بنگلہ دیش میںعیسائیوں نے کی ہے۔

ہندوؤں میں طبقاتی نظام تھا اور چار بڑے طبقات تھے جن کو تمام حقوق حاصل تھے۔ ان چار طبقات سے نیچے جو لوگ تھے جنھیں اچھوت کہتے ہیںان کا کوئی طبقہ نہیں تھا۔ افسوس یہ ہے کہ مسلمانوں نے ایک ہزار سالہ دور حکومت میںبھی اس طبقے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی اور اس طبقے میںقبولِ اسلام کے لیے کوئی کام نہیں کیا،اوراگر کیا تو وہ قابل ذکر نہیں تھا۔اس لیے نتیجہ خیز نہیں ہوااوروہ طبقہ اسی طرح ایک ہزار سال تک پستا رہا۔مسلمانوں نے بھی اسے پیسنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔اس لیے اس طبقے میں اسلام اور مسلمانوں کے لیے کوئی ہم درد ی کا جذبہ نہیں پایا جاتا تھا، لیکن جب عیسائی مشنری آئے تو انھوں نے سب سے زیادہ اس طبقے پر کام کیا۔ آپ دیکھیے پاکستان میں آج جتنا بھی خاک روبوں کا طبقہ کہلاتا ہے، یہ سارے کا سارا وہی ہے جو اچھوت ہے اورجسے ہندوؤںنے دباکر رکھا تھا۔ عیسائیوں نے ان کو عیسائیت میں داخل کرلیا ۔

دنیاے اسلام کے بیش تر علاقوں میں یہی حکمت عملی نظر آئے گی کہ غیر مسلموں کا وہ طبقہ جو معاشرتی اعتبار سے کم زور تھا اس کو انگریزوں نے سر پرستی فراہم کی اور اس سرپرستی کے نتیجے میں ایک قابل ذکر تعداد عیسائیوں کی پیداہوگئی۔ یہ کام بڑی آسانی سے خاموشی کے ساتھ کئی سو سال میں ہواہے۔ آج عیسائیت کی آبادی پاکستان میں تین چار فی صد سے زیادہ نہیں ہے، لیکن بہ تدریج ان کا اجتماعی اور سیاسی کردار تیزی کے ساتھ بڑھایا جارہاہے۔ صرف پاکستان میں نہیں بلکہ پاکستان، سوڈان، لبنان ، عراق ،وسط ایشیا، بنگلہ دیش، انڈونیشیا، ان علاقوں میں عیسائی اقلیت کو بڑی تیزی کے ساتھ ترقی دی جارہی ہے، اور بڑی تعداد میں اس پر وسائل صرف کیے جارہے ہیں۔

لبنان: ایک مثال

تاریخ عبرت کے لیے ہے۔ لو گ تاریخ پڑھتے ہیںلیکن سبق نہیں لیتے۔ قرآن مجیدمیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَعِبْرَۃً لِّاُ ولِی الْاَبْصَارِ (اٰل عمرٰن ۳:۱۳) ،’’دیدۂ بینا رکھنے والوں کے لیے اس میں بڑا سبق پوشیدہ ہے‘‘۔ فِیْ قَصَصِھِمْ عِبْرَۃٌ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ (یوسف ۱۲:۱۱۱)، ’’اگلے لوگوں کے ان قصوں میں عقل و ہوش رکھنے والوں کے لیے عبرت ہے‘‘۔ اس کی ایک مثال لبنان ہے۔

 لبنان ایک چھوٹا سا ملک ہے اور اتنا چھوٹا کہ اگر چھوٹا نقشہ ہوتو روے زمین پرنظر بھی نہ آئے لیکن دنیا کے خوب صورت ترین مقامات میں سے ایک ہے۔ یہ روایتی طور پر شام کا ایک حصہ تھا، اور کبھی بھی الگ ملک نہیں تھا۔ شام میںایک پہاڑ کانام لبنان تھا،لیکن عیسائی مشنریوں نے وہاں تقریباً ڈھائی سوسال پہلے سے کام کرنا شروع کیا۔ اس وقت یہ مسلم اکثریت کا علاقہ تھا۔ شام میں ہمیشہ مسلمانوں کی اکثریت رہی ہے۔ شامی مسلمانوں کی دینی حمیت اور دینی روایات پر پختگی ہمیشہ سے مشہور ہے۔ بڑے بڑے اہل علم، علماو صلحا اور بڑے بڑے محدثین سب شام میں پیدا ہوئے۔ ڈھائی تین سو سال پہلے وہاں عیسائی مشنریوں نے کام کرنا شروع کیا اور آہستہ آہستہ ایسے طبقات جومسلمانوں میں برابر کی سطح پر نہیں مانے جاتے تھے، ان کو عیسائیت میں داخل کرنا شروع کیا۔ اس دوران باہر کے عیسائی بھی وہاں آکر بستے گئے۔ وہاں بسنا اس لیے آسان تھا کہ لبنانی باشندے بھی خوب صورت گورے ہوتے ہیں اور عیسائی یورپ سے آنے والے بھی گورے ہوتے ہیں، تو رنگ کی اس یکسانیت کی وجہ سے باہر سے آنے والوں کا پتا نہیں چل سکتا ۔ پاکستان میں، سندھ میں اگرباہر سے لاکر سو انگریزوں کو بسادیں تو سب کومعلوم ہو جائے گا کہ یہ انگریز ہیں۔ البتہ لبنان جیسے علاقے میں ۲۵، ۳۰ سال کے بعد بھی پتا نہیں چلے گا کہ فلاں کون ہے اورکہاں سے آیا ہے۔

 اس طرح عیسائی مشنریوں نے عیسائیوں کو باہر سے آہستہ آہستہ لاکر یہاں بسانا شروع کیا۔ آس پاس کے قرب وجوار سے، مصر سے، شام سے، عراق سے، ترکی سے، جو عیسائی ہوتا گیا اسے لاکر بساتے گئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لبنان میں عیسائیوں کی آبادی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ۲۵،۳۰ فی صد ہوگئی۔ جب یہ ہوگیا تو انھوں نے لبنان کو ایک الگ ملک بنادیا اور اس ملک میں اختیارات کی تقسیم یہ کی کہ اس میںاتنے فی صد عیسائی ہوںگے، اتنے فی صد شیعہ ہوںگے، اوراتنے فی صد سنی مسلمان ہوں گے۔ ان کے درمیان تقسیم کار یہ ہوگی کہ صدرمملکت ہمیشہ عیسائی ہوگا، وزیر اعظم شیعہ ہوا کرے گا یاسنی مسلمان ، اور پارلیمنٹ کا اسپیکر فلاں مسلمان ہواکرے گا ۔ اس طرح عملاً انھوں نے لبنان کو ایک عیسائی مملکت بنادیا ۔

 اس کے بعد عیسائیوں کی جتنی بھی مشنری سرگرمیاں عرب دنیا میں ہیں، وہ ساری کی ساری لبنان سے منظم ہوتی ہیں۔امریکن یونی ورسٹی بیروت وہاں ہے، جتنے عیسائی یونی ورسٹی ،کالج اور اسکول لبنان میںبنے اتنے عرب دنیا میںنہیں بنے، اور وہاں سے بیٹھ کر انھوںنے پوری دنیا میں مسلم دنیا میں،عرب دنیا میںسیکولر ازم اورلامذہبیت اور عرب نیشنل ازم کو فروغ دیا۔ عرب نیشنل ازم پر اور مسلم امت کے تصور کے خلاف سب سے زیادہ جو لٹریچر چھپا ،وہ ۹۰ فی صد لبنان سے چھپا، عربی ادب اور صحافت کے نام پر جتنے بڑے صحافی اور ادیب عرب دنیا میںسیکولر ازم کے علَم بردار پیدا ہوئے وہ لبنان سے پیدا ہوئے۔ اب اندازہ ہوتا ہے کہ لبنان کو کس کام کے لیے تیار کیا جارہاتھا، کیوں ایسا ہورہاتھا۔ اس سے پتا چلا کہ جو کام وہ کرنا چاہتے ہیں اس کی وہ کئی سو سال پہلے منصوبہ بندی کرتے ہیں، اور ان کے ذہن میںکام کا مکمل نقشہ کام شروع کرنے سے پہلے موجود ہوتا ہے۔

کمزور طبقات: خصوصی ھدف

گذشتہ دو ڈھائی سوسال ہندستان میں عیسائیت کی تبلیغ کے لیے اسی طرح منظم محنت کی گئی۔ کم زور طبقات کے بارے میں یہ کوشش ہوئی کہ انھیں عیسائیت کی طرف لایا جائے۔ ہندوؤں  کے اچھوتوں اور کم زور طبقات کوعیسائیت میںداخل کیا گیا۔ وہ اسی طرح بھنگی اور خاک روبی کا کام کرتے رہے۔مسلمانوں نے کہا کہ پہلے ہندو تھے، اب عیسائی ہوگئے، ہمیں کیا فرق پڑتاہے۔ کسی مسلمان نے اس پر سنجیدگی سے توجہ نہیں دی کہ اس کے نتائج کیا ہوںگے۔ اس کے بعد جب ایک بڑاطبقہ بن گیا اور تین چار نسلیں اس پر گزر گئیں۔ دو تین نسلیں گزرنے کے بعد ان میںپختگی آتی ہے، ورنہ وقتی طور پر آدمی نہیں سوچ سکتا کہ ہمیں کوئی کسی اور مقصد کے لیے استعمال کررہاہے۔ دو تین نسلوں کے بعد پختگی آگئی تو انھوں نے اس طبقے میں سے افراد کو چھانٹنا شروع کیا اور آہستہ آہستہ انھیں انگلستان اور امریکامیں اعلیٰ تعلیم دینا شروع کی۔ اس کے بعد انھیں اہم مناصب پر عدلیہ میں، سول سروس میں ، پولیس میں لاکر بٹھا رہے ہیں۔ ہمارا مزاج یہ ہے کہ انگلستان کا پڑھاہوا تعلیم یافتہ اور انگریزوں کی طرح سے فرفر انگریزی بولتاہوا ہمارے ہاں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتاہے۔

عیسائیوں کے مسلمانوں جیسے نام رکہنا

یہ کوشش جب کی گئی تو معلوم ہوا کہ مسلمان ممالک میںجن کے نام میں بھی بشیر مسیح، فلپ یاپیٹر ہو تو پتا چلتاہے کہ یہ عیسائی ہے۔ عرب دنیا میں انھوں نے بڑی کامیابی کے ساتھ اس کو  آزمایا تھا ۔ اب یہاں بھی اس کو آزمارہے ہیں۔ عرب دنیا میں آج سے ۵۰، ۶۰ سال پہلے یہ طے کیا کہ جو شخص عیسائی ہو وہ نام انگریزی یا یورپین زبان کا اختیار نہ کرے، بلکہ عربی نام ہی اپنائے۔ آپ کو وہاں الیاس، ابراہیم اور موسٰی عیسٰی بہت ملیں گے۔ دنیاے عرب میں، بے شمار عربی نام رکھنے والے ملیں گے۔ آپ کو کوئی اندازہ ان کے لب ولہجے سے نہیں ہوگاکہ یہ عیسائی ہے۔

پاکستان میں آپ کو عبدالقیوم اور بشیر الدین کے نام سے بہت سے عیسائی ملیں گے۔ اگر آپ عیسائیوں کے جو رسالے نکلتے ہیں ان کو پڑھیں تو آپ کو عیسائیت کی تبلیغ کرنے والے مسلمان نام رکھنے والے سیکڑوں کی تعداد میں ملیں گے۔ کچھ اندازہ نہیں ہوسکتا۔ معاشرے میں رہتے ہوں گے، میڈیکل ڈاکٹر کے طور پر پریکٹس کرتے ہوں گے ،عبدالقیوم نام ہوگا، ڈاکٹر عبدالقیوم سیالکوٹی۔ آپ کو ساری عمر پتا نہیں چلے گا کہ یہ عیسائی ہے لیکن وہ ہوگا عیسائی اور عیسائیت کی تبلیغ کر رہاہوگا۔

گرجے کی مسجد سے مشابھت

عیسائیت کی تبلیغ کے حوالے سے ایک مسئلہ یہ پیش آیا کہ آدمی جب مسلمان سے عیسائی ہوتا ہے تو مسلم معاشرے سے کٹ جاتا ہے اور مسلم معاشرے سے کٹ جانے کے خوف سے عیسائیت قبول نہیں کرتا۔ اس کا حل انھوں نے یہ نکالا کہ وہ تمام تدابیر اختیار کی جائیں کہ ایک نیا عیسائی مسلم معاشرے سے کٹنے نہ پائے، بلکہ اسی معاشرے کا حصہ رہے، اور اس معاشرے کے نسبتاً جو زیادہ سیکولر لوگ ہیں ان میں گھل مل جائے اور اس سیکولر طبقے کو اپنے قریب لانے کی کوشش کرے۔

مسلم معاشرے میں عیسائی جب ایک خاص تعداد میں ہوجاتے ہیں اور وہ اپنے مذہبی مراسم کے لیے کوئی گرجا گھر بناتے ہیں تو مسلم معاشرے میں بڑا ردعمل پیدا ہوتاہے۔ کسی مسلم شہر میں گرجا بنائیں تو ردعمل ہوتا ہے، لوگ نکیر کرتے ہیں اعتراض کرتے ہیں کہ گرجا بنایا جارہاہے۔ اب انھوں نے یہ طے کیا ہے کہ جو گرجا بنایا جائے گاوہ ایک خاص طرز کا ہوگا۔ بعض مسلم ممالک میںقوانین ایسے موجود ہیں، جیسے پاکستان میںہیں کہ جو مسلم امتیازی شعائرہیں، ان کو غیر مسلم اختیار نہیں کرسکتا۔ اسی طرح اور ممالک میںبھی یہ قوانین ہیں۔ اس کا حل انھوںنے یہ نکالا ہے کہ ہم  آپ کو اس طرح کا ڈیزائن بنا کر دیں گے کہ جو سو فی صد مسلمانوں کی مسجد کا نمونہ تو نہ ہو لیکن درمیانے طورپر بین بین اس طرح کی چیز ہو کہ انجان آدمی اس کو گرجا نہ سمجھے ۔مسجد تو شاید سمجھ لے لیکن گرجا پر کسی کا گمان نہ ہو۔ اسلام آباد میں لقمان حکیم روڈپر ایسا ہی ایک گرجا موجود ہے۔

 پھر ایک تجویز ان کو یہ دی گئی کہ گرجاکو گرجا یا چرچ نہ کہا جائے بلکہ اس کو مسیحی مسجد کہا جائے۔ اور یہ کہا گیا کہ دیہاتیوں کو، جاہلوں کواس طرح کا تاثر دیا جائے کہ جیسے مسلمانوں میں وہابیوں کی مسجد اور غیرمقلدوں کی مسجد اور سنیوں کی مسجد اور بریلویوں کی مسجد اور فلاںفلاں مسجد کے نام ہیں، اسی طرح سے مسیحیوں کی مسجد کے نام سے اسے مشہورکردیا جائے اور عیسائی وہاں آنے جانے میں کوئی جھجک اور تامل محسوس نہ کریں۔ پاکستان میں یہ سلسلہ شروع ہوا ہے۔

 یہ چند مثالیں تو میں نے آپ کو دی ہیں کہ کس طرح سے نئے انداز سے عیسائیت کی تبلیغ کا کام ہورہاہے۔یہ تفصیلات ایک رپورٹ سے ماخوذ ہیں۔ جب ہم نے دعوہ اکیڈمی، اسلام آباد میں عیسائیت کے بارے میں یہ کورس شروع کیا تو اس رپورٹ کا ترجمہ کروایا تھا، جو مطبوعہ بھی تھا۔ ممکن ہے کہ اس کی ایک کاپی دعوۃ اکیڈمی، اسلام آباد کی لائبریری میں محفوظ ہو۔ یہ سیمی نار غالباً ۱۹۷۸ء یا ۸۰ء میں امریکا میں ہوا تھا، اور بڑاقابلِ ذکر سیمی نار تھا جو چھے مہینے جاری رہا تھا۔ اس میں دنیاے اسلام کے ہر بڑے ملک کے ایک ایک یادو دو ایسے پادریوں کو بلایا گیا تھا جنھوں نے  ۴۰،۵۰ سال عیسائیت کی تبلیغ کی تھی۔ ان کے تجربات کی روشنی میں مسیحیت کے فروغ کے لیے تجاویز دی گئی تھیں۔ اس سیمی نار کے  مقالہ جات خفیہ طورپر شائع کیے گئے، لیکن کسی مسلمان کے ہاتھ لگ گئے، اس نے بڑی تعدادمیں شائع کرکے اہل علم کو فراہم کردیے۔ اس میں مختلف مضامین غور وفکر کے لائق ہیں، خاص طور پر پاکستان کے بارے میں جو مضمون ہے وہ واقعی ایسا ہے کہ اگر کوئی پڑھے تو اس کو کئی دن تک نیند نہ آئے اور پریشان رہے۔ اس رپورٹ کو پڑھ کر ہماری کیفیت ایسی معلوم ہوتی ہے کہ جیسے بالکل آپ دشمن کے سامنے کھلی پلیٹ کے طور پر رکھے ہوں اور آپ کی طرف سے کوئی مدافعانہ کارروائی نہ ہورہی ہو، اور دشمن ہماری ایک ایک چیز سے باخبر ہو۔

عالمی غلبے کی حکمت عملی

یہ تو وہ چیزیں ہیں جس میں عیسائیت کی تبلیغ کی رکاوٹیں اور مشکلات پرغور کیا گیاکہ انھیں کس طرح دور کیاجائے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک طویل منصوبہ بندی اور حکمت عملی بھی بنائی گئی کہ پوری دنیا میں عیسائیت کی تبلیغ کے لیے کیا کرنا چاہیے اور کیسے اس کام کو آگے بڑھایا جائے۔ آج سے کچھ عرصے پہلے ۱۹۷۵ ء میں ایک اجلاس غالباً ویٹی کن میں ہواتھا ۔ یہ ورلڈکونسل آف چرچز کا اجلاس تھا، یعنی آپ اسے مجلس کلیساے عالم کہہ سکتے ہیں یا مجلس کنیساے عالم۔ اس میں اسی طرح سے کئی مہینے کے غور وفکر کے بعد دنیاے اسلام میں عیسائیت کی تبلیغ کا ایک نقشہ بنایا گیا تھا کہ کس طرح کام کیا جائے۔ گویا آیندہ ۲۵سالہ کام کا وہ نقشہ تھا جو آخر بیسویں صدی کے ۲۵ سال ہیں۔ خاص طور پر تین ممالک اس کا بڑا ہدف تھے: سوڈان، بنگلہ دیش اور انڈونیشیا ۔

ان تین ممالک کو کیوں منتخب کیا گیا؟ ان تین ممالک میں جو چیز قدر مشترک تھی وہ یہ تھی کہ یہاں غیر مسلموں کی ایک بڑی قابل ذکر آبادی موجود تھی۔ بنگلہ دیش میں تو ۲۵ فی صد ہندو ہیں، جنوبی سوڈان میں اکثریت غیرمسلموں کی ہے، اور انڈونیشیا میں ۲۰،۲۲ فی صد کے قریب غیر مسلم ہیں۔ دوسری قدر مشترک یہ تھی کہ ان ممالک میں مسلمانوں کی بڑی تعداد دین سے ناواقف اور دینی تعلیم سے عاری تھی۔ تیسری بڑی قدر مشترک ان سب میں یہ تھی کہ یہ تینوں علاقے دنیاے اسلام کے تین کونوں پر واقع تھے۔ سوڈان ایک ایسے محل وقوع پرواقع ہے کہ اس کے ایک طرف ساری غیرمسلم آبادیاں ہیں اور ایک طرف سے مسلم آبادیوں سے ملا ہوا ہے۔ مسلم آبادیوںکو ہدف بنانے کے لیے اس راستے کو اختیار کیا جاسکتاہے، اور ان کا جو حصہ غیر مسلموں سے ملاہوا ہے، وہاں سے غیرمسلموں کو مدد فراہم کی جاسکتی ہے۔ ایسا ہی محل وقوع انڈونیشیا اور بنگلہ دیش کا ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے ان تینوں ممالک کاتقریباً ایک جیسا محل وقوع ہے۔

 ایک قدر مشترک یہ تھی کہ یہاں جو مسلمان ہیں وہ اپنی تعلیم کی کمی کے باوجود بڑے پُرجوش اور جذباتی مسلمان ہیں، اور ان کے جوش و جذبے کو اسلام کے بجاے عیسائیت کے مفاد میں استعمال کیا جاسکتاہے۔ اس اجلاس میں یہ طے کیا گیا تھا کہ آیندہ ۲۵ سال میں یہاں عیسائیت کاارتکاز اتنا کیا جائے کہ ان علاقوں کی ۲۰،۲۵فی صد آبادی کو عیسائی بنالیا جائے، اور وہ۲۵ فی صد آبادی تعلیم میں ، تمدن میں، ملازمت میں، تجارت میں، مال ودولت میں اتنی مضبوط ہوکہ بقیہ ۷۰ فی صد سے آگے ہو۔ اس ہدف کے حصول کے لیے انھوں نے انڈونیشیا، بنگلہ دیش اور سوڈان میںکام کا آغاز کیا۔

انڈونیشیا، سوڈان اور بنگلہ دیش خصوصی ھدف

عیسائیت کے عالمی غلبے کی حکمت عملی کے تحت انڈونیشیا، سوڈان اور بنگلہ دیش خصوصی ہدف کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس ہدف کے حصول کے لیے کیا حکمت عملی بنائی گئی ہے، اس کا اندازہ انڈونیشیا میں عیسائیت کے فروغ کے لیے کوششوں سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔

انڈونیشیا دنیاے اسلام کا سب سے بڑا ملک ہے اور ساڑھے سات ہزار جزائر پر مشتمل ہے ،اور آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑا مسلم ملک ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ۲۰ کروڑ کے لگ بھگ اس کی آبادی ہوگئی ہے۔ موجودہ دنیا کے تین چار بڑے بڑے خطوںتک  اس کی رسائی ہے۔ اگر دنیا کا نقشہ آپ کے سامنے ہوتو دنیا کا سب سے بڑا سمندر بحرالکاہل ہے۔ اس کے ایک طرف چین ہے اور ایک طرف امریکا ۔ گویا بحرالکاہل ایک ایسا سمندر ہے جس میں دو بڑی طاقتوں کاارتکاز ہے اور دنیا کی دو بڑی نیویاں بحرالکاہل میں ہیں ۔ اس سے آگے منجمدشمالی ہے جو کہ منجمد ہے۔ جنوب کی طرف آسٹریلیا ہے جہاں کئی سوسال پہلے مقامی آبادی کو مارپیٹ کے ختم کردیا گیا تھا اور اب وہ گوروں کا ملک ہے۔ گویا ایک طرف وہاں آسٹریلیا بیٹھا ہے، ایک طرف امریکااور ایک طرف چین ہے اور یہ پورا علاقہ ان کے کنٹرول میںہے ۔

اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ڈاکٹر سکار نو نے یہ محسوس کیا کہ جب تک انڈونیشیا کی بحریہ بہت مضبوط نہ ہو، اس وقت تک انڈونیشیاکواوراس کے پیچھے جو مسلم ممالک ہیں انھیں خطرہ رہے گا۔ چنانچہ سکارنو نے چین کے تعاون سے بہت بڑی بحریہ بنائی۔ سوئیکارنو نے اس بحریہ کو بہت مضبوطی سے تیار کیا کہ اس علاقے میں اگر انڈونیشیا کے مفاد کے خلاف خطرہ ہوتو بحریہ وہاں کام دے۔ لیکن عیسائیوں نے بھی یہ محسوس کیا ہوا تھاکہ جب تک جزیروں کا یہ سلسلہ ان کے کنٹرول میں نہ آئے اس وقت تک انڈونیشیا سے ان کو خطرہ رہے گا اور پورے بحرالکاہل پر ان کا مکمل کنٹرول نہیں ہوسکے گا۔ اس لیے کہ چین تو بالآخر ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا، جیسے اب نکل گیا ہے۔ اگر چین اور انڈونیشیا کی بحریہ کے درمیان اتحاد ہوجائے تو یہ اس پورے علاقے پر عیسائیت کی بالادستی کے لیے بڑاخطرہ ہے ۔ اس لیے انھوںنے انڈونیشیا کی قوت کو توڑنا چاہا، اور انڈونیشیا کی بحریہ کو ختم کرنا چاہا اور انڈونیشیا میں عیسائیوں کی ایک بڑی طاقت پیدا کرنی چاہی۔ انڈونیشیا کی بحریہ کو کمزور کرنے کے لیے انھوں نے بڑی تعداد میں عیسائیوں کی فوج میں بھرتی کروایا۔ ایک سازش کے تحت ۱۹۸۰ء میں پنگابیان نامی عیسائی کو مسلح افواج کا سپریم کمانڈر تک بنا دیا گیا۔ اس طرح اس نے بحریہ کو کمزور کرنا چاہا۔یہ کچھ اختصار کے ساتھ اس معاملے کاپس منظر ہے کہ انڈونیشیا کو اتنی اہمیت انھوںنے کیوں دی۔

انڈونیشیا کے ان ساڑھے سات ہزار جزائر میں تین ساڑھے تین ہزار جزائر غیرآباد ہیں۔ وہاںکوئی رہتا ہی نہیں۔ اس لیے نہیں رہتا کہ تھوڑا دُور ہیں اور عام آدمی کے پاس کشتی رانی کے وسائل اتنے نہیں کہ وہاں آجاسکے، یا وہاں اس جگہ کو آباد کرنے کے لیے وسائل کی ضرورت ہے اور وسائل موجود نہیں ہیں، ٹریکٹر نہیں ہے۔ اب ایک آدمی ایک ٹریکٹر چھوٹی سی کشتی میں رکھ کر کیسے لے جائے۔ وہ جزائرعیسائی پادریوں نے خریدے کہ ہم ان جزائر کو آباد کریں گے، ان کو قابل کاشت بنائیںگے اور غریب کسانوں کو دیں گے۔ گورنمنٹ نے اجازت دے دی۔ انھوںنے اس طرح کئی سو جزیرے آباد کیے اور عیسائیوں کو لابسایا۔ ان میں ہیلی پیڈ بنائے، ان کو کشتیوں کے ایک نظام سے منسلک کیا اور انڈونیشیا کے بڑے جزائر تھے، جیسے جاوا، سماٹرا وہاں عیسائیت کی تبلیغ شروع کی۔ دوسری طرف یہ طے کیا کہ جو آدمی عیسائیت قبول کرے گا اس کو اتنی زمین قابل کاشت مفت ملے گی، اور اس کو وہاں مفت لے جائیں گے ، اور زمین اس کے حوالے کریں گے، مکان بنا ہوگا، سب کچھ بنا ہوگا۔ انڈونیشیا میںمکان بنانا مشکل نہیں۔لکڑی اور بانس سے بآسانی مکان بن جاتا ہے۔ وہاں کی قیادت نے نہیں سوچا کہ یہ ایک خاص سمت میں جزائر میں عیسائی آبادیاں کیوں بن رہی ہیں؟

ہمارے ہاںبھی کسی نے نہیں سوچا کہ سیالکوٹ ، گوجرانوالہ اور تھرپار کرجیسے سرحدی علاقوں میں عیسائیوں کی مشنریاں کیوں پھیل رہی ہیں؟ یہاں عیسائیت کیوں پنپ رہی ہے؟ پاکستان میںکسی نے نہیں سوچا کہ یہ ملک مذہب کے نام پر بنا تھا۔ یہ طے ہواتھا کہ مسلم اکثریت پاکستان میں اور غیرمسلم اکثریت ہندستان میں جائے گی۔یہاں ایک غیر مسلم اقلیت ملک کے خاص حصے میں اپنی آبادی جمع کر رہی ہے۔ اگر کل وہ مطالبہ کریں کہ جس بنیاد پر کل آپ الگ ہوئے تھے اس بنیاد پر آج ہم الگ ہونا چاہتے ہیں اور دنیا ان کا ساتھ دے تو آپ کیا کریں گے؟ آج اس پہلو پر غور کرنے والا کوئی نہیں ہے، اور جب مسئلہ اُٹھ جائے گا تو سوچیں گے کہ کیا کریں؟ یہی انڈونیشیا میں ہورہاہے کہ جزائر انھوںنے بنادیے ہیں اور لگتاہے کہ کسی موقع پر انڈونیشیا کو وہ دوحصوں میںتقسیم کریں گے: ایک عیسائی اکثریت والا انڈونیشیا، اور دوسرا مسلم اکثریت والا انڈونیشیا۔۱؎

مسلم حکمرانوں کی غفلت اور لمحۂ فکریہ

 آج کل دنیا میں بہ ظاہرسیکولرازم کا بڑا چرچا ہے اور ہمارے نااہل حکمران اور بااثر لوگوں

۱-            مقالہ نگار نے یہ بات آج سے ۱۴ برس قبل کہی تھی۔ آج یہ پیشین گوئی مشرقی تیمور کی شکل میں حقیقت کا روپ دھار چکی ہے۔ سوڈان کو بھی تقسیم کر کے جنوبی سوڈان کو عیسائی ریاست بنایا جاچکا ہے۔

کاطبقہ جنھیں حالات کا کچھ پتا نہیں ،جنھوں نے کبھی دنیا کے معاملات کو آنکھیں کھول کر نہیں دیکھا ،وہ یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا میںواقعی سیکولرازم کا بڑا چرچاہے اور واقعتامغربی دنیا سیکولرازم کی علَم بردار ہے، اور مذہبی معاملات میں وہ غیر جانب دار ہے۔ لہٰذا ایک جدید انسان کو مذہبی طور پر غیرجانب دار ہونا چاہیے، حال آں کہ اس کا یہ مفہوم کبھی تھا، لیکن اگر آج یہ مفہوم مان لیا جائے تومغرب ایک منٹ کے لیے بھی غیر جانب دار نہیں ہے۔ وہ انتہائی تعصب کے ساتھ عیسائیت کے معاملے میں جانب دار ہے، اور انتہائی متعصبانہ انداز سے اسلام سے دشمنی کے وہ تمام مظاہر اور شرائط وعناصر اس میں موجود ہیں جو ایک انتہائی متعصب انسان میںہوسکتے ہیں۔

اس کا اگر آپ تجربہ کرنا چاہیں تو کسی عیسائی کے خلاف پولیس میںرپورٹ درج کروائیں کہ اس نے توہین رسالتؐ کا ارتکاب کیا ہے۔ صرف آپ سادہ سی شکایت درج کروائیں، آپ کواندازہ ہوجائے گا کہ یہاں کے بااثر طبقوں کا رویہ آپ کے بارے میں کیا ہے۔ پوری حکومت، آپ کی پولیس، آپ کی عدالت، آپ کے جتنے بھی ادارے ہیں وہ اُس کا ساتھ دیں گے اور آپ کو مجرم سمجھیں گے۔ آپ کو جان بچانا، عزت بچانا مشکل ہوجائے گی۔ اگلے دن پوری دنیا اس طرح ہلتی ہوئے نظر آئے گی کہ جیسے پتا نہیں کیا ہوگیا۔ لیکن عیسائی، مسلمانوں کا قتل عام بھی کردیں تو کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی، کسی اخبارمیں، کسی معروف چینل پر پوری طرح خبر بھی نہیں دی جاتی۔

حقیقت یہ ہے کہ سیکولرازم اور مذہبی غیر جانب داری اور سب کو برابر کے مواقع ملنے کی باتیں عالمِ اسلام کے لیے ہیں، مگر برابری کا سوال امریکا میں پیدا نہیں ہوتا۔ امریکا میں کبھی مسلمان فوج کا جنرل نہیں ہوتا ،حال آںکہ وہاں بھی ۶۰لاکھ مسلمان ہیں۔ فرانس میں ۶۰لاکھ مسلمان ہیں، مگر وہاں کسی مسلمان کو اس بنا پر وزیر نہیں بنایا گیا کہ سب برابرہیں۔ ان کے ہاں اس قسم کی برابری نہیںچلتی۔ لیکن ہمارے ہاں پتا نہیں کس نے حکمرانوں کے دماغ میں بٹھادیا ہے کہ ہر وہ چیز جس کا ان کی طرف سے مطالبہ بھی نہیں ہوتا وہ از خود دینے کو تیار ہوتے ہیں اور جب بات کی جائے تو سننے کو بھی تیار نہیں ہوتے۔ جیساکہ پاکستان میں وزارت مذہبی امور کو دوحصوں میںتقسیم کردیاگیا ہے: وزارتِ مذہبی امور اور وزارتِ اقلیتی امور ۔ گویا ہمیشہ کے لیے اس بات کا بندوبست کردیاگیا ہے کہ کابینہ میںایک غیرمسلم ضرور بیٹھا ہو۔ لہٰذا اقلیت کی وزارت موجود ہے، اور اس میں ہمارے مختلف عیسائی وزیر بھی ہوتے رہے ہیں اور وہ وقتاً فوقتاً طرح طرح کے مطالبات کرتے رہتے ہیں۔ چناںچہ انھوںنے یہ کہا کہ مذہب کا خانہ شناختی کارڈ میں نہیں آنے دیں گے۔ قادیانیوں کے خلاف آرڈی ننس پر، حالانکہ وہ صرف قادیانیوں کے بارے میں ہے، عیسائی سب سے زیادہ معترض ہیں۔ حدود قوانین میں جو مسلم اور غیرمسلم کی تخصیص ہے، اس پر معترض ہیں۔ عیسائیوں کے جورسالے پاکستان میں چھپتے ہیں ان میں اس طرح کے مطالبے بڑی جارحانہ اور فاش زبان میں ہوتے ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایک بہت بڑی طاقت ہے جس کے پیچھے ایک بہت بڑی قوت ہے جو اپنے اندر بڑا اعتماد رکھتی ہے اور اس اعتماد کی بنیاد پر پوری مسلم امت سے ٹکرانے کے لیے تیار ہے۔ اس لیے کہ اسے معلوم ہے کہ حکومتوں میںجان نہیں ہے، حکمران کم زور ہیں یا مغرب کی طاقت سے خائف ہیں، اس لیے ہرمعاملے میں غیر مسلموں کا ساتھ دیں گے۔

اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ عیسائی مشنریاں جو بڑی خدمت کرتے ہوئے نظر آتی ہیں، ہسپتال کھولتے ہیں، لوگوں کا علاج کرتے ہیں، اس کے پیچھے بہت بڑے عزائم ہیں اور ان عزائم کا مقابلہ آپ محض انھیں برا کہہ کر نہیں کرسکتے۔ لوگ اس طرح آپ کی بات نہیں مانیں گے۔ اس طرح کی کوئی چیز آپ اس وقت کرسکتے ہیں جب دینی شعور پیدا ہو۔ اس کے بعد دینی شعور کے ساتھ خدمت خلق کا وہ رویہ بھی موجود ہو، جو اس طرح کے لوگوں کو متاثر کرسکے۔ اس کے بغیر محض یہ کہنے سے کہ ہمارے دین اورعقیدے کے خلاف ایک سازش ہے، یہ چیز کام یاب نہیں ہوسکتی۔ اس صورت حال میں علماے کرام کی ذمے داری سب سے نمایاںہے۔ اس لیے کہ ان کامعاشرے سے ہروقت رابطہ رہتاہے۔ ان کو جو مقام حاصل ہے وہ کسی اور کو حاصل نہیں ہے۔ اگر علما مسئلے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے خلوصِ دل سے عوام کو توجہ دلائیں اور ان کا کوئی ذاتی مفاد بھی نہ ہو، تودینی شعور بھی بیدار ہوگا اور مسیحیت کے عزائم کو بھی ناکام بنایا جاسکے گا۔(کیسٹ سے تدوین: سیّد عزیز الرحمٰن)


(مفصل مضمون کے لیے کتابچہ دستیاب ہے، زوار اکیڈمی پبلی کیشنز، اے-۴/۱۷، ناظم آباد نمبر۴، کراچی۔ فون: ۳۶۶۸۴۷۹۰-۰۲۱)

بیسویں صدی میں اُبھرنے والی تحریکاتِ اسلامی اور تحریکاتِ حریت کی دعوت کا ایک اہم پہلو نفاذِ شریعت یا نظامِ اسلامی کی خواہش رہا ہے۔ یہ تحریکات شمالی افریقہ میں ہوں یا مشرق وسطیٰ میں یا جنوب مشرقی ایشیا میں، ان کے منشور مغربی لادینیت اور آمرانہ نظاموں کی جگہ اسلام کے اصولِ عدل پر مبنی سیاسی نظام کے نفاذ کو اپنا مقصد وحید قرار دیتے ہیں۔ دوسری جانب ان تحریکات کے نقاد انھیں یہ الزام دیتے ہیں کہ یہ تحریکات ماضی کی طرف سفر کرنا چاہتی ہیں اور اسلامی شریعت کو جو ان کے اندازے کے مطابق نیم مہذب بدویانہ روایات پر مبنی ہے، سائنس اور ٹکنالوجی کے دور میں، کم فہم انسانوں پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔

اسلامی شریعت کی قدامت پسندی، انتہا پسندی اور انسانی حقوق کے تصور سے متصادم ہونے کے مفروضے کو اتنی شدت اور تکرار سے بیان کیا گیا ہے کہ آج بہت سے پڑھے لکھے مسلمان بھی اپنی سادہ لوحی میں اسلامی شریعت کو محض چند ’جابرانہ سزائوں‘ کا مجموعہ سمجھنے لگے ہیں۔ ضرورت پہلے بھی تھی لیکن جتنی شدت سے آج ہے، شاید پہلے کبھی نہیں تھی کہ اسلامی شریعت کے صحیح خدوخال کو براہِ راست اس کے مصادر کی روشنی میں اہلِ علم اور عام قارئین کے سامنے سادہ الفاظ میں رکھا جائے۔

قرآن کریم کا یہ خصوصی اسلوب ہے کہ وہ اکثر احکامِ الٰہی کے تذکرے کے ساتھ ان کی  حکمت و علّت کو بھی سمجھاتا جاتا ہے۔ بعض اوقات یہ علّت بہت واضح ہوتی ہے اور بعض اوقات غوروفکر کے بعد علّت کا پتا چلتا ہے۔ یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ قرآن کریم انسان کی تخلیق کا سبب اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی بندگی و عبادت کو قرار دیتا ہے۔ انبیاے کرام کی بعثت اور نزولِ کتب ِ سماوی کی غایت انسانوں کو نظامِ عدل اور تحفظ فراہم کرنا قرار دیتا ہے لیکن بعض اوقات نص میں غایت کی صراحت نہیں ہوتی اور ایک طالب علم غوروفکر کے نتیجے میں غایت اور سبب تک پہنچتا ہے۔ قرآن کریم اپنے بارے میں کہتا ہے کہ یہ ایک موعظہ، نصیحت اور سینوں کے امراض کے لیے شفا ہے (یونس ۱۰:۵۷)۔ اسی طرح وہ کہتا ہے کہ یہ بصیرت کی روشنیاں ہیں تمام انسانوں کے لیے، اور ہدایت و رحمت ہے ان لوگوں کے لیے جو یقین لائیں۔ (الجاثیہ ۴۵:۲۰)

یہ آیات واضح کرتی ہیں کہ قرآن کریم دلوں کے امراض کی شفا اور رحمت ہے۔ اس میں کوئی بھی حکم ایسا نہیں ہے جس میں کوئی دقت، مشکل، سختی، یا شدت پائی جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اللہ تمھارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے، سختی کرنا نہیں چاہتا‘‘ (البقرہ ۲:۱۸۵)۔ اس کے برخلاف شیطان اور اس کی ذُریت اپنی ہرہر چال سے انسان کو گمراہی، شدت پسندی، بُغض و عداوت، دشمنی اور قتل و غارت کی طرف للچا کر لے جانا چاہتی ہے۔ ’’شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے سے تمھارے درمیان عداوت اور بُغض ڈال دے اور تمھیں خدا کی یاد سے اور نماز سے روک دے۔ پھر کیا تم ان چیزوں سے باز رہو گے؟‘‘ (المائدہ ۵:۹۱) ۔ ان آیات پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ شارع اپنے احکام کے اسباب و علل بھی بیان فرماتا ہے تاکہ انسان شریعت پر بربناے تحقیق عمل کرے اور اس کی حکمتوں سے براہِ راست آگاہ ہو۔

شریعت لغت میں پانی کے چشمے کو جانے والے راستے کو کہتے ہیں۔ جس طرح پانی انسان کو زندگی دیتا ہے، اسی طرح شریعت انسان کو زندگی گزارنے کا طریقہ اور ادب سکھاتی ہے۔ جس طرح پانی انسان کے جسم سے گندگی کو دُور کردیتا ہے، شریعت کی آبیاری انسان کی معاشی، معاشرتی، سیاسی اور دیگر سرگرمیوں کو فساد سے پاک کر کے اللہ کی مرضی کے تابع بنا دیتی ہے۔

شریعت کے احکام کس نوعیت کے ہوتے ہیں اور ان کی نوعیت کا تعین کس طرح کیا جائے گا، مزید یہ کہ حکمِ شرعی کی تطبیق کن کن حالات میں ہوئی، اس کے لیے کون سی حکمت عملی اختیار کی جائے گی___ یہ اور اس سے ملتے جلتے بے شمار سوالات کا جواب علم مقاصد و مصالح کا موضوع ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مقاصد ِشریعت اور مصالحِ عامہ ایسے اہم علمی شعبے ہیں جن کے بغیر ایک مسلمان زندگی میں ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اُمت مسلمہ کی     ایک بڑی تعداد نے محض سنی سنائی پر اعتماد کر کے شریعت کو ایک انتہائی مشکل اور ناقابلِ عمل ضابطہ سمجھ لیا ہے، جب کہ شریعت کی آفاقیت اور عملیت اس کے ہرہر حکم سے واضح ہوتی ہے۔

مقاصد شریعت ایک انتہائی اہم تدریسی مضمون ہے لیکن بہت کم دینی مدارس اس پر اتنی توجہ دیتے ہیں جس کا یہ مستحق ہے۔ عموماً پانچ معروف مقاصد کا تذکرہ اور چند مثالوں سے ان کی وضاحت کو کافی سمجھا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس شعبۂ علم پر سالہا سال غوروفکر کرنے کے باوجود یہ کہنا مشکل ہے کہ ایک شخص اس علم کا احاطہ کرسکا ہے۔

سوڈان کے نام ور فقیہ ڈاکٹر یوسف حامد العالم نے عصرحاصر میں مقاصدِ شریعت اور مصالح کی اسی اہمیت کے پیش نظر اس موضوع پر قلم اُٹھایا ہے اور زیرتبصرہ کتاب تحریر کی ہے۔ یہ تصنیف  ان کے ڈاکٹریٹ کے مقالے پر مبنی ہے جسے جامعہ الازہر میں پیش کیا گیا۔ راقم الحروف کو ان سے دو تین کانفرنسوں میں ذاتی طور پر ملاقات کا موقع بھی ملا اور ان کے علم اور خلوص نے بہت متاثر کیا۔ اللہ تعالیٰ انھیں اس خدمت پر اعلیٰ درجات سے نوازے، آمین! مقاصد شریعت پر عصرِحاضر میں جو علمی کام ہوا ہے یہ کتاب اس میں ایک اہم علمی اضافہ ہے۔

زیرتبصرہ کتاب پانچ فصول میں منقسم ہے۔ فصل اوّل اہداف سے بحث کرتی ہے جس میں ہدف کی لغوی اور شرعی تعریف، شارع کے مقصد کے منافی عمل کرنے کے نتائج، اور مقاصد ِ شارع کی معرفت کے لیے اجتہاد کی ضرورت سے بحث کی گئی ہے۔

فصل دوم مصلحت سے بحث کرتی ہے جسے ہمارے ہاں مصلحت عامہ کہا جاتا ہے۔ باب دوم میں مصالح کا تفصیلی بیان ہے جس میں دین کی حفاظت، جان کی حفاظت، نسل کی حفاظت اور مال کی حفاظت شامل ہیں۔ خلاصۂ بحث، حواشی و تعلیقات اور مراجع و مصادر پر کتاب کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔

مقاصد اور مصالح کا تعین اور صحیح تطبیق ایک تحقیق طلب امر ہے۔ عام طور پر مصلحت کا استعمال کسی شر سے بچنے کے لیے کیا جاتا ہے اور اس کی اصل بنیاد، یعنی شارع کی منشا کا دریافت کرنا، اور پھر منشا سے مطابقت رکھتے ہوئے ایک حکمت عملی وضع کرنا علم الاصول کا مقصد ہے۔ اس حوالے سے مصنف بحث دوم کے زیرعنوان بہت قیمتی نکات زیربحث لاتے ہیں۔ مثلاً ’’کوئی بھی مکلف کسی جائز کام کو اس حیثیت سے کرتا ہے جو شارع کے مقصد کے خلاف ہے تو حقیقتاً یہ سمجھا جائے گا کہ    وہ ناجائز کام کر رہا ہے‘‘ (ص ۱۰۴)۔ اس طرح وہ تحریر کرتے ہیں: ’’جب مکلف کا ارادہ شارع کے ارادے کے خلاف ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مکلف نے شارع کے مقصد کو ناقابلِ اعتبار قرار دے دیا، اور جس امر کو شارع نے مقصد نہیں سمجھا تھا اسے مقصد قرار دے دیا‘‘ (ص ۱۰۴)۔     ان دونوں سادہ سے نکات پر اگر غور کیا جائے تو ایک عام شخص کے لیے بھی ان میں غیرمعمولی  حکمت و دانائی پائی جاتی ہے۔ ایسے ہی ان نکات کی اہمیت اسلامی تحریکوں کے کارکنوں کے لیے غیرمعمولی طور پر اہم ہے۔

ان اصولوں کی بنیاد قرآن کریم کا وہ حکم ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْم بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْھُدٰی وَ یَتَّبِــعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِہٖ جَھَنَّمَ ط وَ سَآئَ تْ مَصِیْرًاo (النساء ۴:۱۱۵) ’’مگر جو شخص رسولؐ کی مخالفت پر کمربستہ ہو اور اہلِ ایمان کی روش کے سوا کسی اور روش پر چلے، درآں حالے کہ اس پر راہِ راست واضح ہوچکی ہو، تو اس کو ہم اُسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا اور اسے جہنم میں جھونکیں گے  جو بدترین جاے قرار ہے‘‘۔اس قرآنی آیت سے استدلال کرتے ہوئے مصنف کہتے ہیں: ’’مصالح کے حصول اور مفاسد سے بچنے کے لیے ایسے اعمال کا سہارا لینا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیے آپؐ کی کھلی مخالفت ہے، اور آپؐ کی مخالفت درحقیقت اس وحی کی مخالفت ہے جو آپؐ اللہ کی طرف سے لے کر تشریف لائے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کا ارشاد ہے: رسول اکرمؐ اور آپؐ کے بعد خلفا نے کچھ طریقے چھوڑے ہیں، انھی کو اختیار کرنا کتاب اللہ کی تصدیق، اطاعت رسولؐ کی تکمیل اور دین کی قوت کا باعث ہے‘‘۔ (الموافقات ،ج۲، ص ۳۳۴)

شارع کے مقاصد کے خلاف جو عمل بھی کیا جائے گا وہ باطل ہوگا۔ مندرجہ بالا استدلال سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہرحکمت عملی کو اختیار کرنے سے پہلے اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ وہ کہاں تک مقاصد شریعت سے مطابقت رکھتی ہے۔ مشہور حدیث ہے کہ اعمال کی بنیاد نیت پر ہے۔ اقرارِ توحید و رسالت اور صلوٰۃ اور دیگر عبادات قربِ الٰہی کے حصول کے لیے ہیں اور یہی شارع کا مقصود ہے۔ لیکن ان اعمال سے کسی کی نیت دنیوی مفاد کا حصول ہو یا دنیوی نقصان سے بچنا مقصود ہو، تو اس کا یہ عمل شارع کے مقصد سے ہٹ جانے کے سبب باطل ہوجائے گا۔ زکوٰۃ کی فرضیت سے شارع کا مقصد مال داروں کو حرص اور دولت کی محبت و پرستش سے نکالنا ہے اور ہبہ کرنا ایک نیکی کا کام ہے، لیکن اگر ایک شخص زکوٰۃ کی ادایگی سے بچنے کے لیے اپنا مال عین واجب مدت سے قبل کسی اور کو ہبہ کردے تو شارع کے دونوں مقاصد کے خلاف عمل کرے گا۔

یہ دو مثالیں محض بات کو آسان کر کے سمجھانے کے لیے عرض کی گئی ہیں۔ مصنف نے کتاب میں ہر ہر نکتے کی وضاحت کے لیے مثالیں دے کر مقاصد و مصالح کے علم کو آسان بنا کر پیش کیا ہے۔ہم دوبارہ اپنی بات کو دہراتے ہیں کہ یہ فقہ کا ایک ایسا شعبہ ہے جو فقہ کا مصدر ہے اور اسی بنیاد پر فقہ وجود میں آتا ہے۔ اس لیے دین کو سمجھنے اور زندگی کے اہم معاملات میں اس کی تطبیق طے کرنے کے لیے مقاصد اور مصالح کا سمجھنا، اور حتی الامکان مقاصد و مصالح اور قواعد کو سامنے رکھتے ہوئے حکمت عملی وضع کرنا ہی دین کا تقاضا ہے۔

یہ کتاب تحریک اسلامی کی قیادت اور کارکنوں کے لیے ایک عمدہ فکری غذا فراہم کرتی ہے۔ مقاصد شریعت کا جاننا تحریکِ اسلامی کی قیادت کے لیے نہ صرف ضروری ہے بلکہ ان پر مسلسل غور اور ان کی ہمہ وقت تطبیق کے بغیر تحریک آگے نہیں بڑھ سکتی ۔ یہ طے کرنا کہ اس وقت تحریک کی ترجیح کیا ہو، کیا تمام قوت محض تربیت کے نظام کی اصلاح پر لگا دی جائے، تحقیق و تجزیے کو اولیت دی جائے، یا سیاسی محاذ پر تمام توجہ مرکوز کردی جائے، یا معاشرتی فلاح کے کاموں کو فوقیت دی جائے، خواتین کے کن مسائل کو ملک گیر تحریک کا موضوع بنایا جائے، عوام الناس کے کون سے مسائل ہیں جن پر مہم چلائی جائے، تعلیمی میدان میں ہماری اولیت کیا ہو، کاروبار و تجارت کرنے والوں سے تعلق کی نوعیت کیا ہو___ غرض تحریکی مسائل و معاملات میں جب تک مقاصد کا علم گہرائی کے ساتھ حاصل نہ کرلیا جائے یہ طے کرنا بہت مشکل ہے کہ تحریک کی حکمت عملی کہاں تک اصولِ شریعت کی پیروی کررہی ہے۔

تحریک کے نظامِ تربیت میں اس موضوع پر مستقلاً توجہ کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر یوسف حامدالعالم کی یہ تحقیقی کتاب سلاستِ بیان کی بنا پر تربیتی لٹریچر میں شامل ہونی چاہیے اور اسلامی فقہ سے گہری واقفیت رکھنے والے اساتذہ کے ذریعے اس کی تعلیم کا بندوبست کیا جانا چاہیے۔

(اسلامی شریعت مقاصد اور مصالح ، یوسف حامد العالم، مترجم: محمدطفیل ہاشمی۔ ناشر: ادارہ    تحقیقاتِ اسلامی، بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد۔ صفحات (بڑی تقطیع): ۶۴۵ ۔ ہدیہ: ۹۰۰ روپے)

 

جب سے عرب بہار کا آغاز ہوا، پورے عالمِ اسلام میں جیسے زندگی کی لہر دوڑ گئی۔ عرب ممالک ہی نہیں، مختلف خطوں میں تاریخ رقم کی جانے لگی۔ ہم یہاں ۱۲ ممالک کا تذکرہ کر کے حالات کی ایک تصویر پیش کر رہے ہیں۔ ادارہ

  •  مراکش: مراکش میں دعوتی، تربیتی سرگرمیاں جماعۃ التوحید و الاخلاص کے نام سے، جب کہ سیاسی سرگرمیاں حزب العدالۃ و التنمیۃ (جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی) کے نام سے ہورہی ہیں۔ عرب بہار شروع ہوئی تو بادشاہ سلامت محمد السادس نے حالات کا رخ دیکھتے ہوئے خودہی دستوری اصلاحات کردیں اور انتخابات کروادیے۔ جسٹس پارٹی سب سے بڑی پارٹی کی حیثیت سے اقتدار میں آگئی۔ پارٹی کے سربراہ عبد الالہ بنکیران وزیر اعظم بن گئے اور اصلاح کی کوششیں شروع کردیں۔ فی الحال بادشاہت اور سابق نظام کی باقیات کے سایے باقی ہیں لیکن عوام پُراُمید ہیں۔
  •   تیونس: تیونس کی النہضۃ پارٹی بھی سب سے بڑی پارٹی کی حیثیت سے مقتدر ہے۔ ۱۶ سال قید میں رہنے والے علی العُرَیض حال ہی میں وزیر اعظم مقرر کیے گئے ہیں۔ ملکی معاملات میں سدھار آنے لگا تو ایک اپوزیشن رہنما شکری بلعید کو قتل کرکے احتجاج کے الاؤ بھڑکا دیے گئے ہیں، لیکن اُمید ہے ان پر جلد قابو پالیا جائے گا۔ دستور سازی کا عمل تقریباً مکمل ہے جس کے بعد جولائی اگست میں پارلیمانی انتخاب ہوں گے۔
  •  لیبیا: لیبیا میں کرنل قذافی کے خاتمے کے بعد اخوان کی سیاسی پارٹی عدل و تعمیر پارٹی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھر رہی تھی۔ قذافی دور میں اخوان ہی کو سب سے زیادہ تشدد اور عقوبتوں کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ ڈکٹیٹرشپ کے خاتمے کے بعد ہر طرف تحریک اسلامی کی کامیابیوں سے خوف زدہ ہو کر لیبیا میں بیرونی مداخلت اپنے عروج پر جا پہنچی اور اس کے نتیجے میں ملک کی ۴۹سیاسی جماعتوں اور قبائلی و مسلح تنظیموں کا اتحاد بنا اور سرمایے کا سیلاب آگیا۔ اخوان کو ۲۰۰ کے ایوان میں صرف ۱۸نشستیں مل سکیں۔ لیکن جب حکومت سازی کا مرحلہ آیا تو عوامی تائید کے حامل اخوان کا شریک اقتدار ہونا ناگزیر دکھائی دیا۔ اخوان میں شرکت اور عدم شرکت پر مختلف آرا تھیں، بالآخر شرکت کا فیصلہ ہوا اور وزارت پٹرولیم، وزارت اقتصاد جیسی اہم وزارتوں سمیت چھے وزارتیں اخوان کو دی گئیں۔
  •  مصر: مصر میں اخوان المسلمون کو گذشتہ دو سال میں ایک دو نہیں پانچ مرتبہ الیکشن میں جانا پڑا اور الحمدللہ ہر بار سرخرو ہوئے۔ سب سے پہلے حسنی مبارک کے سقوط کے چند ہفتے بعد عبوری دستور پر ریفرنڈم کے لیے۔ پھر بالترتیب قومی اسمبلی، سینیٹ اور صدر کے انتخابات کے لیے اور پھر ملک کے پہلے جمہوری دستور پر ریفرنڈم کے لیے۔ اسمبلی، سینیٹ اور صدر کے انتخابات میں ۵۱ فی صد ووٹ حاصل کرنے کی شرط کی وجہ سے انتخابات کے دو دو دَور ہوئے، اس طرح عملاً آٹھ مرتبہ عوام نے اخوان پر اپنے بھرپور اعتماد کا اظہار کیا۔ مصر کی اہمیت اور مرکزی حیثیت کی وجہ سے، اسرائیل ہی نہیں بعض عرب ممالک نے بھی مخالفین کو بلامبالغہ اربوں ڈالر، ذرائع ابلاغ کے خوف ناک طوفان، اور ملک کے ہر اہم ادارے میں براجمان حسنی دور کے کرپٹ ذمہ داران کے ذریعے اخوان کو ناکام کرنا چاہا، لیکن پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جاسکا۔ اب بھی حالانکہ دستور منظور ہوگیا اور ملک میں خدا خوف، محنتی اور باصلاحیت قیادت آچکی ہے، جسے سکون سے کام کرنے دیا جائے تو مصر تعمیر و ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کی نئی تاریخ رقم کردے۔ لیکن بدقسمتی سے مخالفین اور ملک دشمن عناصر اسی اصلاح احوال سے خوف زدہ ہیں۔ اب ان کے پاس کوئی ایشو نہیں رہ گیا تو بلاوجہ جلاؤ گھیراؤ اور مار دھاڑ کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ حکومت نے ۲۲؍ اپریل سے ملک میں عام انتخابات کروانے کا اعلان کیا ہے۔ چار مراحل اور دو دو اَدوار میں یہ انتخابی عمل جون کے اختتام تک مکمل ہوگا۔ اپوزیشن اور ڈکٹیٹر کی باقیات ایک بار پھر آگ اور خون کا بازار گرم کرنا چاہتی ہیں لیکن صدر مرسی اور ان کے ساتھیوں کو یقین ہے کہ اللہ کی نصرت انھیں آیندہ بھی ہر مرحلے میں سرخ رُو کرے گی۔
  •   سوڈان: سوڈان میں بھی اسلامی تحریک برسراقتدار ہے۔ اسے بھی ہر طرف سے اقتصادی پابندیوں، فضائی حصار، پانچ پانچ ملکوں کی طرف سے مشترکہ جنگوں، جنوبی سوڈان کے باغیوں کی ۵۰ سال سے جاری بغاوت اور پھر جنوب کی علیحدگی، دار فور میں قبائل کی باہم لڑائی اور بدقسمتی سے خود تحریک کے اندرونی اختلافات کا سامنا کرنا پڑا، لیکن الحمدللہ کامیابی سے اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔ جنوبی سوڈان کی علیحدگی سے پٹرول کے کنویں بھی چلے گئے، لیکن تیل کے نئے ذخائر کے علاوہ حال ہی میں پروردگار نے سونے کی بڑی مقدار سے نوازا ہے۔ اپنے پرائے سب مانتے ہیں کہ جب یہ حکومت آئی تھی اس وقت اور آج کے سوڈان میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ مسائل اب بھی بہت ہیں، لیکن یک سوئی اور اللہ پر ایمان کے بھروسے مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں۔
  •  یمن: یمن میں ۳۳ سال کے شخصی اقتدار کے بعد جنرل علی عبد اللہ صالح کو بھی طویل عوامی جدوجہد کے بعد رخصت ہونا پڑا۔ اس وقت وہاں عبوری حکومت قائم ہے اور التجمع الیمنی للاصلاح کے نام سے تحریک اسلامی شریک اقتدار ہے۔ پانچ وزارتیں اور صدارتی کونسل میںنمایندگی ہے۔دو سال کے اندر اندر انتخابات ہونا ہیں۔ پاکستان کی طرح یمن پر بھی امریکی ڈرون حملوں کا زور ہے۔ حوثی قبیلے کے جو باغی سابق صدر علی عبد اللہ صالح کے ساتھ برسر جنگ رہتے تھے، اب علی صالح ان کا حلیف ہے اور حکومت سے لڑ رہا ہے۔ بدقسمتی سے بعض اسلامی ملک بھی جنگ اور اختلافات کی آگ پر ڈالروں اور اسلحے کا تیل چھڑک رہے ہیں۔
  •  ترکی: خلافت اسلامی کا آخری مرکز ترکی تو پوری دنیا کے سامنے رول ماڈل بن چکا ہے۔ ترک حکومت کے ذمہ داران کا کہنا ہے کہ وہ نظریاتی، معاشی اور سیاسی محاذوں پر اپنی توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہیں۔ حضرت عمر بن الخطابؓ کا یہ فرمان کہ ’’اگر راہ نہ پاکر فرات کنارے کوئی خچر بھی ٹھوکر کھانے سے مرگیا تو عمر اللہ کے ہاں جواب دہ ہوگا‘‘ ہمیشہ ترک ذمہ داران حکومت کی نگاہ میںرہتا ہے۔ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کو پہلی بار کامیابی میں ۳۷ فی صد ووٹ ملے تھے لیکن اپنی کارکردگی کی وجہ سے آخری پارلیمانی انتخابات میں ۶۴ فی صد سے زائد ووٹ لے چکے ہیں۔ حکمران پارٹی نے اپنے منشور میں اعلان کیا تھا کہ اس کا وزیراعظم تین بار سے زائد اُمیدوار نہیں بنے گا۔ اس کی رُو سے آیندہ انتخاب اردوگان کا آخری انتخاب ہوگا۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ ترکی میں یہ بحث بھی زوروں پر ہے کہ ملک میں پارلیمانی کے بجاے صدارتی نظام حکومت رائج کیا جائے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو عوام کا ایک طبقہ یہ راے رکھتا ہے کہ صدر عبد اللہ گل کی جگہ اردوگان صدر مملکت کی حیثیت سے نظام چلائیں۔
  •  انڈونیشیا: انڈونیشیا آبادی کے اعتبار سے عالم اسلامی کا سب سے بڑا ملک ہے۔ یہاں بھی اسلامی تحریک گذشتہ صدی کے وسط سے کوشاں تھی، لیکن ۱۹۹۹ میں پہلی بار جسٹس پارٹی کے نام سے اپنی سیاسی جماعت متعارف کرواتے ہوئے انتخابات میں حصہ لیا۔ صرف ۴ء۱ فی صد ووٹ ملے، دستور کے مطابق پارلیمنٹ میں آنے کے لیے کم از کم ۲فی صد ووٹ حاصل کرنا ضروری ہیں، کوئی بھی سیٹ نہ ملی۔ مایوسی کا شکار ہونے کے بجاے انھوں نے۲۰۰۲ء میں ’مستحکم جسٹس پارٹی‘ کے نام سے نئی پارٹی رجسٹر کروائی اور ۲۰۰۴ کے انتخاب میں ۵۵۰ کے ایوان میں ۴۵ نشستیں حاصل کرلیں۔ ۳ء۷ فی صد ووٹ ملے اور پارلیمنٹ میں موجود سیاسی پارٹیوں میں ساتویںنمبر پر آگئے۔ ۲۰۰۹ء کے انتخاب میں انھوں نے ۵۷ نشستیں حاصل کرلیں اور پارلیمانی پارٹیوں میں چوتھے نمبر پر آگئے۔ مستحکم جسٹس پارٹی، حکمران پارٹی کی حلیف اور حکومت میں شریک ہے۔ پانچ وزارتیں حاصل ہیں جن کی کارکردگی دیگرتمام وزرا سے نمایاں ہے۔۲۰۱۳ء میں وہاں پھر انتخاب ہونا ہیں۔
  •  صومالیہ: صومالیہ اگرچہ کئی عشروں سے خانہ جنگی کا شکار رہے۔ ہر دھڑے نے ایک علاقے پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ چھوٹا سا ملک ہزاروں کلومیٹر طویل ساحل رکھتا ہے۔ عالمی تجارت کے لیے شہ رگ کی حیثیت رکھنے والے بحیرہ احمر کے دروازے، باب المندب پر واقع ہونے کی وجہ سے عالمی بحری قزاقوں کا گڑھ بنا ہوا ہے۔ حالیہ انتخابات میں ایک اسلامی ذہن اور اچھی شہرت رکھنے والے حسن شیخ محمود صدر منتخب ہوئے ہیں۔ اسلامی تحریک نے بھی ان کا ساتھ دیا ہے اور قدرے استحکام کا دور شروع ہوگیا ہے۔ اسلامی تحریک ’تحریک اصلاح‘ کی اولین ترجیح ملک میں امن اور  قومی یک جہتی ہے۔ اس کے وزرا بھی اس عمل میں پوری طرح متحرک ہیں۔ تحریک کے مرکزی  ذمہ دار سے ایک بار پوچھا تھا کہ تباہ شدہ ملک میں مٹھی بھر جرائم پیشہ کیسے ساری دنیا کو چیلنج کرتے ہوئے ان کے جہاز اغوا کرلیتے ہیں؟ انھوںنے جواب دیا کہ جرائم پیشہ گروہ تو صرف استعمال ہوتے ہیں، اصل سرغنہ عالمی مافیا گروپ ہیں۔ بعض حکومتیں بھی تاوان کی رقوم میں سے حصہ لیتی ہیں۔

حالیہ حکومت نے قومی فوج کی تشکیل اور متحارب گروہوں میں مصالحت شروع کروادی ہے۔ جنگ میں جھونکے جانے والوں اربوں ڈالر کی نسبت تعمیر نو کے لیے درکار امداد کہیں کم ہے، لیکن عالمی ساہوکاروں کو اب بھی جنگ ہی زیادہ مرغوب ہے۔ ترک حکومت نے حالیہ صومالی حکومت سے قریبی تعلقات استوار کرنا شروع کیے ہیں۔ طیب اردوگان خود بھی اسی جنگ زدہ ملک سے ہو کر آئے ہیں۔ کئی تعمیری منصوبے شروع کروائے ہیں۔ عوام کو محسوس ہونا شروع ہوگیا ہے کہ تھوڑی سی کوشش کریںتو ان کا ملک بھی امن، اصلاح، تعمیر اور ترقی کے راستے پر گامزن ہوسکتا ہے۔

  •  مالدیپ:  بحر ہند کا مختصر سا جزیرہ بلکہ ۱۱۹۲ چھوٹے چھوٹے جزیروں کا مجموعہ مالدیپ بھی سالہا سال تک مامون عبد القیوم کے زیر اقتدار رہا۔ وہ اگرچہ جامعہ الازہر کے فارغ التحصیل تھے، لیکن دعوت دین کا کام کرنے والوں کے لیے بڑی قدغنیں لگا رکھی تھیں۔ گذشتہ انتخابات میں نوجوانوں نے مل کر انھیںشکست دے دی اور اب ایک مخلوط حکومت کے ذریعے ملک کو جمہوریت اور اصلاحات کی راہ پر چلانے کی کوشش کررہے ہیں۔ تحریک اسلامی کا سیاسی بازو جسٹس پارٹی بھی شریک اقتدار ہے، اور بالخصوص اپنی وزارتوں میں بہتر کارکردگی کے لیے دن رات کوشاں ہے۔
  •  ملایشیا: ملایشیا بھی سید ابو الاعلی مودودیؒ اور امام حسن البنا شہیدؒ کے لٹریچر سے فیض یاب ہونے والے حزب اسلامی (PAS) کے نام سے مصروف عمل ہیں۔ اس وقت ملایشیا کے ۱۳ صوبوں میں سے تین میں ان کی حکومت ہے۔ سابق وزیر خزانہ انور ابراہیم جو خود بھی دوران تعلیم تحریک سے روشنی و رہنمائی حاصل کرتے رہے ہیں، کراچی اور برطانیہ میں بھی حصول تعلیم کے لیے مقیم رہے اور اس دوران خرم مرادؒ اور پروفیسر خورشید احمد سے براہِ راست بھی کسب فیض کے مواقع ملے۔ پہلے حکمران پارٹی امنو (UMNO)میں مہاتیر محمد کے بعد دوسری اہم ترین شخصیت تھے ،لیکن مہاتیر نے سیاسی انتقام کا نشانہ بناتے ہوئے جھوٹے الزامات لگا کر پارٹی سے نکال دیا۔ بعد ازاں عدالت نے طویل سماعت کے بعد ان کی براء ت اور رہائی کا حکم دیا۔ انھوں نے اپنی الگ جماعت جسٹس پارٹی کے نام سے بنائی ہے، حزب اسلامی کے ساتھ اتحاد ہے۔

اس اتحاد کی حکومت جن تین صوبوں میں ہے وہاں باقی پورے ملک کی نسبت جرائم، رشوت اور کرپشن میں نمایاں کمی ہے۔ بالخصوص صوبہ کلنتان میں کہ جہاں مسلسل تین بار حزب اسلامی کی حکومت بنی ہے اور درویش صفت نک عبد العزیز وزیر اعلیٰ ہیں، حالات بہت بہتر ہیں۔ کئی بین الاقوامی تجارتی کمپنیاں اپنے دفاتر دار الحکومت کوالالمپور سے منتقل کرکے کلنتان جارہی ہیں کیوں کہ وہاں کرپشن نہیں ہے۔ملایشیا میں انتخابات کسی بھی وقت متوقع ہیں لیکن حکومت بلاوجہ لیت و لعل کررہی ہے۔ منصفانہ انتخاب ہوں تو اسلامی تحریک اور اتحادی یقینا پہلے سے بہتر نتائج دکھائیں گے۔

  •  فلسطین: غزہ (فلسطین) ۲۰۰۶ء میں حماس نے پہلی بار انتخابات میں حصہ لیا اور غزہ اور مغربی کنارے میں ۶۰ فی صد سے زائد نشستیں جیت لیں۔ حماس نے تنہا حکومت بنانے کے بجاے قومی حکومت بنانے پر اصرار کیا، لیکن چند ماہ بعد ہی الفتح کے وزرا نے حکومت سے نکلنے کا اعلان کردیا۔ اختلافات باہم لڑائی تک جاپہنچے اور الفتح کو غزہ سے بھاگنا پڑا۔ غزہ میں صرف حماس کی حکومت رہ گئی تو ۲۰۰۸ میں صہیونی افواج نے غزہ کا مکمل محاصرہ کرلیا۔ مصر کی جانب سے حسنی مبارک نے بھی ساتھ دیا اور غزہ کی ۱۷ لاکھ آبادی پانی کی ایک ایک بوند سے محروم کردی گئی۔ اس دوران اسرائیل کی جانب سے دوبا رمہلک جنگ بھی مسلط کی گئی۔ شدید مشکلات اور حصار کے باوجود  ایمان سے سرشار اہل غزہ نے صبرو ثبات کی شان دار مثال قائم کی۔ منتخب وزیر اعظم اسماعیل ھنیہ، وزرا اور حماس کے کارکنان نے قرون اولیٰ کی یاد تازہ کردی۔ پھراللہ تعالی نے مصر میں تبدیلی کی ٹھنڈی ہواؤں کے جھونکے عطاکیے۔ اب رفح بارڈر کھل گیا ہے۔ غزہ میں جہاد کی لہلہاتی کھیتی کے ساتھ ہی ساتھ ،تعمیر و ترقی کا آغاز بھی ہوگیا ہے۔ اسرائیل نے گذشتہ سال پھر جنگ مسلط کی لیکن ایک ہفتے بعد ہی خود صلح کی بھیک مانگنا شروع کردی۔ غزہ سے آنے والے حماس کے ذمہ دار ترین احباب بتارہے تھے کہ ایک مرحلے پر اسرائیل نے کہا کہ آپ جنگ بندی کا اعلان فوراً کردیں تو  ہم اس کے بعد مذاکرات کے ذریعے باہم معاہدہ بھی کرلیں گے، لیکن ہم نے انکار کردیا۔ بالآخر انھوں نے ہماری شرائط پر جنگ بندی کا معاہدہ کیا۔

بلاشبہہ عالمِ اسلام میں بیداری کی یہ لہر اُمت مسلمہ کے روشن مستقبل کی نوید ہے۔

 

پنڈت جواہر لال نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی اپنی مجلسوں میں کہا کرتی تھی: ’’میری زندگی کا   حسین ترین لمحہ وہ تھا، جب میں نے پاکستان میں مداخلت کر کے بنگلہ دیش بنایا‘‘۔ لیکن دوسری طرف عجب معاملہ ہے۔ سابق مشرقی پاکستان کی عوامی لیگ ۱۹۷۱ء کے المیے کو اپنا کارنامہ قرار دیتی ہے، ۴۰برس بعد  ان لوگوں کو قابلِ گردن زنی قرار دیتی ہے، جنھوں نے دشمن ملک کے حملوں کے خلاف اپنے وطن کا دفاع کیا۔ آج کے بنگلہ دیش میں اسی اندرا کے پرستار حکمران پاکستان کا نام لے کر اسلام اور اسلامیانِ بنگلہ دیش کے خلاف آگ اُگل رہے ہیں اور اسلامی سوچ کے حامل افراد کو  خون میں نہلا رہے ہیں۔ ۱۰ فی صد ہندو آبادی ان بلوائیوں کا مؤثر حصہ ہے اور دہلی نواز عوامی لیگ کے کارکن اور نیم فوجی تنظیمیں ان کی پشت پناہ ہیں۔ ہندستانی خارجہ پالیسی سے حرارت حاصل کرنے والے ذرائع ابلاغ اس صورتِ حال کو دہکتے الائو میں تبدیل کرنے کے لیے ہرلمحہ مستعد ہیں۔

نومبر ۲۰۱۲ء میں جب نام نہاد ’انٹرنیشنل وار کرائمز‘ ٹربیونل ( ICT) کے صدر جج نظام الدین کی غیراخلاقی، غیرقانونی اور دھاندلی آمیز گفتگو کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوٹا، اور اس نام نہاد ’جج‘ کو استعفا دے کر گھر کی راہ لینا پڑی تو نئی دہلی اور ڈھاکہ میں حکمران پارٹیوں نے بہ عجلت ِتمام ایک ڈراما اسٹیج کرنے کی ٹھانی۔

سب سے پہلا کام یہ کیا کہ وہ نام نہاد، ٹربیونل‘ جو بار بار سرکاری وکلا کی حماقتوں اور خانہ ساز گواہوں کے جعلی پن کے ہاتھوں دنیابھر میں رسوا ہو رہا تھا، اس نے جماعت اسلامی کے قائدین کے خلاف جعلی مقدموں کی کارروائی کو تیز تر کر دیا، تاکہ عوامی لیگ کے ’سیکولرانصاف‘ کی مزید دھجیوں کو بکھرنے سے بچایا جاسکے۔ یوں ۲۲جنوری ۲۰۱۳ء کو جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے ایک رہنما ابوالکلام آزاد کو سزاے موت دینے کا اعلان کردیا۔ اس فیصلے سے بنگلہ دیش کی سیاسی فضا میں بھونچال آگیا۔ ملک بھر میں اس فیصلے کے خلاف مظاہرے شروع ہوگئے۔ حکومت نے ان مظاہروں سے توجہ ہٹانے اور دہشت طاری کرنے کے لیے عوامی لیگ کے کارکنوں کو مسلح کر کے  گلی کوچوں میں پھیلانا شروع کر دیا، جن کی مدد کے لیے ’ریپڈ ایکشن بٹالین‘ (RAB) اور   ’بارڈر گارڈ بنگلہ دیش‘ (BGB) کے باقاعدہ دستے متعین کردیے۔

ابھی یہ کش مکش جاری تھی کہ جماعت اسلامی کے دوسرے رہنما عبدالقادر کو عمربھر قید بامشقت کی سزا سنا دی۔ سزاے موت کے برعکس عبدالقادر کو عمرقید سزا سنانے کا جو مقصد تھا وہ اگلے ہی روز بے نقاب ہوگیا۔ عوامی لیگیوں، کمیونسٹوں اور ہندوئوں نے فوراً یہ مطالبہ اُٹھا دیا کہ ’عبدالقادر کو سزاے موت دی جائے، اور اس مطالبے کے لیے ڈھاکہ کے ایک چوراہے ’شاہ باغ‘ کو ان مظاہروں کا مرکز بنانا شروع کر دیا۔ دوسری طرف سوشل میڈیا پر سیکولر قوم پرست بلاگروں نے: اسلام، قرآن، رسول کریمؐ اور اللہ تعالیٰ کے حوالے سے غلیظ ترین جملے لکھنا اور پھیلانا شروع کردیے ( راقم کے لیے ان میں سے ایک جملہ بھی نقل کرنا ممکن نہیں۔ ان جملوں کو پڑھ کر خون کھولتا اور آنکھیں اشک بار ہوتی ہیں)۔ یہ کارٹونسٹ اور بلاگر ’شاہ باغ‘ مظاہروں کے نمایاں لیڈروں کے طور پر سامنے آئے۔ انھی میں سے ایک اہم بلاگر طارق شنٹو دل کا دورہ پڑنے سے بے ہوش ہوگیا، جسے شیخ مجیب الرحمن میڈیکل یونی ورسٹی ہسپتال لے جایا گیا، مگر وہ ملعون جاں بر نہ ہوسکا ۔ طارق شنٹو سبھی لوگوں کے سامنے ایڑیاں رگڑتے ہوئے مرا، لیکن حسینہ واجد نے اس کی موت کو المیہ قرار دیا اور آخرت میں نجات کے لیے دعا مانگی (روزنامہ انڈی پنڈنٹ  ڈھاکہ، ۲۰فروری ۲۰۱۳ء)۔ اسی طارق شنٹو کے مرنے کو دینی جماعتوں پر قتل کے الزام کی صورت میں پھیلایا گیا۔

۱۹فروری کو کاکسس بازار میں جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کے تین کارکنوں کو سرِبازار گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔ ۱۸ فروری کو ’شاہِ باغ‘ چوک کو پُرونق بنانے کے لیے فلمی دنیا کے طائفے کو بھرپور تشہیر کے ساتھ لایا گیا جنھوں نے پاکستان اور بنگلہ دیش کی دینی جماعتوں کے خلاف زہرآلود تقریریں کیں۔ ۱۹ فروری ہی کو عوامی لیگ نے مطالبہ کر دیا کہ: ’’بنگلہ دیش کو جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ سے صاف کیا جائے‘‘۔ساتھ ہی یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ ’’مارچ ۲۰۱۳ء کے وسط تک مقدمے کو مکمل کرکے ملزموں کو پھانسی دی جائے‘‘۔

۲۰فروری کو عبدالقادر کو سزاے موت دینے کے لیے اپیل دائر کی گئی۔ اسی روز بنگلہ دیش حکومت کے وزیر بے محکمہ سرنجیت سین گپتا نے کہا: ’’ہمیں ۱۹۷۲ء کا اصل دستور بحال کرنا چاہیے (یاد رہے، اس دستور میں ایک پارٹی سسٹم اور غیرسرکاری اخبارات پر پابندی کا قانون ہے)۔ جماعت اسلامی پر ہرسطح پر پابندی لگانی چاہیے اور اس کے رہنمائوں کو موت کی سزا دی جائے‘‘۔ اسی وزیر نے شیخ مجیب کے سابق ساتھی قانون دان اور بنگلہ دیش کے اوّلین وزیرخارجہ ڈاکٹر کمال حسین اور نوبیل انعام یافتہ ڈاکٹر محمد یونس پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا: ’’یہ لوگ جماعت اسلامی کے رہنمائوں کے لیے سزاے موت کی تائید نہ کرکے قومی جرم کا ارتکاب کررہے ہیں‘‘۔ (روزنامہ  انڈی پنڈنٹ، ڈھاکہ، ۲۱فروری ۲۰۱۳ء)

۲۲فروری بروز جمعہ بنگلہ دیش کے شہر شہر اور قصبہ قصبہ اسلامی قوتوں نے اسلامی شعائر کی توہین اور اسلامی قوتوں کی کھلے عام جدوجہد پر پابندی لگانے کی حکومتی مہم کی مذمت کی تو عوامی لیگ کی قیادت میں جوابی حملہ آوروں نے کئی جگہوں پر مساجد کو گھیرے میں لے لیا۔ ڈھاکہ کی مشہور مسجد بیت المکرم کے سامنے باقاعدہ میدانِ جنگ بنا رہا اور چارکارکنوں کو گولی مار کر شہید اور سیکڑوں کو زخمی کر دیا۔

اسی طرح ۲۴فروری کو اسلامی قوتوں نے پورے بنگلہ دیش میں ہڑتال کی اپیل کی، جسے ناکام بنانے کے لیے پولیس، پیراملٹری فورس اور عوامی لیگ کے مسلح افراد نے صبح ہی سے مختلف جگہوں پر مظاہرین حملے شروع کردیے، جس میں ۱۰ کا رکن شہید ہوگئے۔

طرفہ تماشا یہ کہ خود مار بھی رہے ہیں اور ساتھ یہ مطالبہ بھی کرتے جارہے ہیں کہ   جماعت اسلامی پر پابندی لگائیں۔ اس سے بڑا مذاق یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کی تمام سیکولر قوتیں اور انسانی حقوق کی علَم بردار پارٹیاں اس ظلم پر خاموش ہیں۔ پاکستان کے دفترخارجہ کے  اہل کاروں کے منہ میں گویا کہ زبان ہی نہیں کہ جو اُس ہرزہ سرائی کا جواب دے، جو روزانہ پاکستان کو گالیوں کی صورت میں سنائی جارہی ہے۔

 

۱۱ جنوری ۲۰۱۳ء کو شمال مغربی افریقہ کے ملک ’مالی‘ کے شمالی علاقے میں فرانس نے اسلامی جہادی قوتوں کے خلاف اپنی زمینی فوجیں اُتار دیں اور بے تحاشا بم باری کی۔ گذشتہ سال، اپریل ۲۰۱۲ء میں مالی کے شمالی حصے میں جہادی قبائل جنوب کی مرکزی حکومت سے علیحدگی اختیار کرکے ملک کے ۶۰ فی صد حصے پر قابض ہوگئے اور ۶؍اپریل کو ’مملکت ازداد‘ کے قیام و آزادی کا اعلان کردیا۔ اس مملکت میں اہم شہر ٹمبکٹو،کدار اور مویٹی شامل ہیں۔ مجاہدین نے جنوب میں بھی مزید علاقے پر قبضہ کرلیا۔ اس طرح اہم شہر ’کونا‘ اور چاول کے کھیتوں اور ماہی گیروں کی کشتیوں سے گھرے شہر ڈایا بیلی پر بھی ۱۴جنوری کو قبضہ کرلیا۔ یہ شہر مرکزی محلِ وقوع کا حامل ہے اور ملک کے کئی اہم راستوں کے سنگم پر واقع ہے۔ بعض اطلاعات کے مطابق فرانس نے یہ علاقہ خالی کروا لیا ہے۔

مالی کسی زمانے میں اسلامی تہذیب کا ایک روشن ستارہ ہوا کرتا تھا۔ حالیہ مسلح کارروائیوں کے سبب باقاعدہ جنگ کا میدان بنا ہوا ہے۔شمالی مالی کا اہم جہادی گروپ ’انصارالدین‘ہے جو مالی کو ’اسلامی امارت‘ بنانا چاہتا ہے۔ مسلمانوں کا ایک اور گروپ ’لبرل گروپ‘ ہے جس نے مرکزی حکومت سے آزادی کے اعلان سے قطع تعلق کا اعلان کیا ہے۔ وہ پہلے اعلانِ آزادی میں اسلامی قوتوں کے ساتھ تھا۔ انصارالدین کے کمانڈر عمر نے اعلان کیا ہے کہ’ ’ہماری جنگ اسلامی اصولوں کے مطابق لڑی جائے گی۔ ہم بغاوت اور علیحدگی کی تحریک کے خلاف ہیں۔ ہم اس انقلاب کے خلاف ہیں جو اسلام کے مطابق نہ ہو۔ ہم اللہ کی رضا کے لیے سب کچھ کر رہے ہیں‘‘۔

مالی شمال مغربی افریقہ میں صحارا کے ریگستان میں ایک مسلمان مملکت ہے۔ اس کی آبادی ایک کروڑ ۴۵لاکھ ۱۸ہزار سے زائد ہے، جب کہ رقبہ ۱۲لاکھ ۴۰ہزارایک سو۹۲ مربع کلومیٹر ہے۔   ۸۰ فی صدآبادی مسلمان ہے جو مختلف قبائل پر مشتمل ہے۔ ۲ فی صد عیسائی ہیں، جب کہ ۱۸ فی صد مظاہرپرست ہیں۔ دارالحکومت ’باما کو‘ جنوبی علاقے کا بڑا شہر ہے۔ ملک معدنی ذخائر سے مالامال ہے، خصوصاً یورینیم کے ذخائر بڑے پیمانے پر موجود ہیں جن پر بیرونی قوتوں کی للچائی نگاہ ہے۔ ’اتحاد افریقی علما‘ نام کی ایک تنظیم کے مطابق ’حکومت مخالف مسلح تنظیمیں‘ دو طرح کی ہیں۔ ایک  قومی تحریک براے آزادیِ اَزداد ہے جو علاقے میں ایک خودمختار سیکولر ریاست قائم کرنا چاہتی ہے۔ دوسرے نقاذِ شریعت کا مطالبہ کرنے والی مسلح تحریکیں ہیں جن میں دو گروہ ہیں: ۱- انصار الدین نامی گروہ سب سے بڑا گروہ ہے، ۲-تحریک توحید و جہاد ہے، اس میں مالی کے علاوہ موریطانیہ اور الجزائر کے نوجوان بھی بڑی تعداد میں شامل ہیں۔ آخر الذکر کو القاعدہ سے منسلک سمجھا جاتا ہے۔

۱۹۶۰ء میں مالی کو فرانس کی استعماری حکومت سے آزادی ملی۔ جاتے جاتے فرانس نے اپنے گماشتوں کی حکومت قائم کردی۔ تب سے اب تک ملک میں کئی فوجی بغاوتیں ہوچکی ہیں اور اَزداد کی علیحدگی کی اب یہ چوتھی بڑی کاوش ہے جہاں آزاد حکومت قائم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔

جب سے مالی میں موجودہ صورت حال نے جنم لیا ہے، قدرتی طور پر فرانس پر وحشت طاری ہے کیونکہ وہاں اس کے مفادات خطرے میں ہیں، لہٰذا اس نے واویلا شروع کر دیا ہے۔ اپنے یورپی ہمسایوں، امریکا اور اقوامِ متحدہ کو دہائی دے رہا ہے۔انسانی حقوق کی انجمنوں کو توجہ دلارہا ہے۔ افریقی ممالک کی یونین (ECOWAS) سے مدد کی درخواست کی گئی ہے کہ اس ’خطرے‘ سے نبٹا جائے۔ افریقی ممالک کی یونین خصوصاً نائیجیریا نے اپنی فوجیں جلد بھیجنے کی حامی بھرلی ہے۔ ٹوگو اور نائیجیریا سے کچھ فوجی بھی پہنچ گئے ہیں۔ ۱۶۰۰ فوجی نائیجر میں موجود ہیں۔

فرانس نے گذشتہ سال اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل سے ایک قرارداد منظور کرائی جس کا مقصد مالی میں شمالی علاقوں سے باغیوں کا قبضہ ختم کرانا اور افریقی اتحاد کی افواج کو وہاں تعینات کرنا تھا۔ لیکن جب افریقی اتحاد کی فوج کو مالی میں کارروائی کے حوالے سے دیر ہوئی تو فرانس نے اپنی زمینی فوجیں اقوام متحدہ کی اجازت کے بغیر مالی کے شمالی حصے میں اُتار دی ہیں، تقریباً ۱۹۰۰ فوجی۔ ان فوجیوں نے فوجی کارروائی شروع کردی ہے اور فوجی طیاروں سے بم باری کی جارہی ہے۔   اس کے باوجود وہ اب تک کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کرسکا ہے۔ مغربی ذرائع کا کہنا ہے کہ    بڑی تعداد میں مجاہدین مارے گئے ہیں اور انھوں نے علاقے کو چھوڑ کر بھاگنا شروع کر دیا ہے۔ پھر یہ بھی اطلاع دی گئی ہے کہ قبائل نے فرانس کے فوجیوں کا ہاتھ ہلاہلا کر استقبال بھی کیا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی اطلاع ہے کہ بڑی سخت مزاحمت ہے اور مجاہدین اپنے محفوظ ٹھکانوں سے حملہ آورہورہے ہیں۔

فرانس نے امریکا اور دوسرے ممالک کو متوجہ کرنے کے لیے یہ شوشہ بھی چھوڑا ہے کہ القاعدہ کا ایک گروپ جو لیبیا میں برسرِپیکار تھا وہ وہاں سے فارغ ہوکر مالی مجاہدین کی مدد کو آپہنچا ہے۔ لیکن امریکا کے ڈیفنس سیکرٹری لیون ہرپینٹ نے کہا ہے کہ القاعدہ کے حوالے سے ہمارا اصل ہدف یمن اور صومالیہ ہیں جہاں القاعدہ کے مراکز ہیں۔ ابھی القاعدہ نے مالی یا شمالی افریقہ میں کوئی مرکزقائم نہیں کیا ہے۔ ہماری مدد فنی نوعیت کی ہی ہوگی۔ پھر یہ کوشش بھی ہے کہ نائیجیریا کے بوکوحرام نامی مسلمان مجاہدین کو اس قضیے میں ملوث قرار دیا جا رہا ہے۔

برطانیہ کے لیے مالی کے حالات پریشان کن ہیں۔ اس نے فرانس کی فوجی کارروائی کی حمایت کی ہے۔ حکومت برطانیہ نے کہا ہے کہ وہ اخلاقی مدد فراہم کرے گی، یعنی محدود پیمانے پر لاجسٹک مدد جو دو بڑے RAF C-17 جنگی ٹرانسپورٹ جہازوں پر مشتمل ہوگی اور چند تکنیکی فوجی ماہرین ان کی حفاظت کے لیے ساتھ ہوں گے۔ اسی طرح کی حمایت کا اعلان کناڈا کی حکومت نے بھی کیا ہے۔ یورپی یونین کئی ہزار فوجی جوانوں پر مشتمل قافلہ آیندہ چند ہفتوں میں روانہ کرے گا۔

فرانس کی فوجی مداخلت اور دوسری کارروائیوں کے باعث مالی کی حالت بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔ فرانس نے ناٹو سے بھی درخواست کی ہے کہ وہ مالی کے حالات کے پیش نظر وہاں فوجی کارروائی کرے، جب کہ خود فرانس ناٹو کی فوجوں سے علیحدہ ہوکر افغانستان سے بھاگ کھڑا ہوا ہے۔

فرانس اور مغربی دنیا مالی کے مجاہدین کو ’مسلم شدت پسند‘ اور ’دہشت گرد‘ قرار دیتے ہیں۔ یہ ’شدت پسند‘ اپنے زیرقبضہ علاقوں میں اسلامی قوانین نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ مجاہدین کی صفوں میں رخنہ ڈالنے کے لیے یہ حکمت عملی اختیار کی جارہی ہے کہ مالی کے مختلف مذہبی اور غیرمذہبی گروپوں کو آپس میں اُلجھا دیا جائے۔ لہٰذا آزاد خیال گروپ کو ان سے علیحدہ کرنے کی کوشش کی گئی۔    مغربی افریقہ میں چونکہ صوفیت کے بڑے اثرات ہیں، ان کی چھوٹی بڑی خانقاہیں، درگاہیں اور ذکروفکر کے مراکز ہیں، ان کو بھی ورغلایا جارہا ہے اور ساتھ ہی قدامت پسندوں کو بھی اُبھارا جا رہا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مغربی دنیا بنیادی طور پر صہیونیوں کے زیراثر ہے، اور صلیبی جنگ کے حوالے سے بھی پُرامن اسلامی شریعت کے نفاذ کو ہرحال میں روکنا چاہتی ہے۔ گویا یہ ساری کوششیں اپنے ذاتی مفاد کے پیش نظر اور اسلام کے غلبے کو روکنے کے لیے ہیں۔

جنوبی مالی کو بچانے اور مجاہدین کا زور توڑنے کے ابتدائی مقصد کے حوالے سے فرانسیسی فوجوں کی کارروائی اب تک کی اطلاعات کے مطابق کامیاب دکھائی دیتی ہے۔ افریقی ممالک، یورپی یونین، برطانیہ اور امریکا ، کناڈا، ڈنمارک سے مختلف نوعیت کی مدد پہنچنا شروع ہوچکی ہے۔ پھر فرانسیسیوں کا خیال ہے کہ چونکہ مالی کے دیہی علاقوں میں جہادیوں نے لوگوں کا جینا حرام کررکھا ہے اس لیے ممکن ہے کہ بہت سے شہری ان سے انتقام لینے کے معاملے میں فرانس کی فوجوں سے مدد لیں۔ ان حالات کے پیش نظر فرانس کے وزیرخارجہ لارینٹ جنیس کا کہنا ہے کہ مالی میں فرانسیسی فوجی کارروائی چند ہفتوں کامعاملہ ہے لیکن دی اکانومسٹ نے اپنے ۲۶جنوری کے شمارے میں راے ظاہر کی ہے ’’مگر ایسا لگتا نہیں ہے‘‘۔ ہوسکتا ہے کہ مالی میں حقیقی استحکام پیدا کرنے میں مزید کچھ وقت لگ جائے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ فرانس ناٹو افواج کی موجودگی کے باوجود افغانستان کے ’میدانِ جہاد‘ کو چھوڑ بھاگا تھا تو مالی کے میدان سے بھی رفوچکر ہوجائے۔

 

 

نورالقرآن [سات تراجم، نو تفاسیر]، مرتب: محمد صدیق بخاری۔ ناشر: سوے حرم پبلی کیشنز،  ۵۳- وسیم بلاک، حسن ٹائون، ملتان روڈ، لاہور- فون: ۴۰۲۱۷۱۳-۰۳۲۱۔ صفحات: اوّل:۵۲۰۔  دوم:۳۴۴۔ سوم:۳۵۰۔ چہارم:۳۰۴۔ ہدیہ (علی الترتیب):  اوّل: ۵۰۰ روپے، دوم: ۴۰۰ روپے، سوم و چہارم: ۵۰۰ روپے۔

محترم محمد صدیق بخاری نے اُردو کے معتبر تراجم (شاہ عبدالقادر، مولانا اشرف علی  تھانوی، مولانا احمد رضا خان، مولانا جونا گڑھی، سید ابوالاعلیٰ مودودی، مولانا امین احسن اصلاحی، محترم جاوید احمد غامدی)اور معتبر تفاسیر (معارف القرآن، خزائن العرفان، تفہیم القرآن، احسن البیان، ضیاء القرآن، تفسیرماجدی، تدبر قرآن، البیان)کے منتخب نکات نُورالقرآن میں جمع کردیے ہیں۔ یہ ایک بہترین کوشش اور کاوش ہے۔ اُردو تفاسیر کے مطالعے کا خواہش مند طالب علم اور عالم ایک مجموعے میں تمام تفاسیر کا مطالعہ کرلیتا ہے، اور اسے انتخاب کی دقت بھی نہیں اُٹھانا پڑتی۔ مترجمین اور مفسرین اپنے دور کی مشہور اور معروف بلندپایہ علمی شخصیات ہیں جو مرجع خلائق تھے اور ہیں۔ ان میں سے ہر ایک نے پوری عرق ریزی اور محنت سے    قرآنِ پاک کا گہرائی اور گیرائی سے مطالعہ کیا اور اہلِ ایمان کو قرآنِ پاک سے وابستہ کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔

آج بھی اہلِ علم ان تفاسیر سے استفادہ کر رہے ہیں۔ مرتب نے استفادہ کرنے والوں کا کام آسان کردیا ہے۔ اس کام کا طریق کار اور مقصد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’مرتب کے پیش نظر کسی خاص مکتب ِفکر کا ابلاغ یا ترویج نہیں بلکہ خالص علمی انداز میں تعلیم دینا ہے۔ اس لیے مرتب نے کہیں بھی اپنا نقطۂ نظر بیان کرنے کی کوشش نہیں کی۔ تمام مکاتب فکر کی آرا کا خلاصہ کم و بیش انھی کے الفاظ میں قاری تک پہنچانا پیش نظر ہے۔ لیکن یہ خیال رہے کہ تمام آرا کو بیان کرنے کا   یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مرتب کے نزدیک یہ سب صحیح ہیں۔ ان میں بہتر، غیربہتر یا صحیح یا غلط کا انتخاب قاری کے ذمے ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ نُورالقرآن کے قاری میں جستجو پیدا ہو اور وہ حق کی تلاش میں آگے بڑھے، اہلِ علم سے رجوع کرے اور مطالعہ و تحقیق کے ذوق کو ترقی دے تاکہ دینِ حق سے اس کا شعوری تعلق قائم ہو، نہ کہ وہ تعلق جو محض آباواجداد کی روایات اور سنی سنائی باتوں اور  چند تعصبات اور رسوم پر مشتمل ہوتا ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ معاشرے میں دوسروں کی بات سننے، پڑھنے اور اس پر غور کرنے کے ساتھ ساتھ وسعت اور برداشت کی روایت جنم لے۔ مسالک اور مکاتب فکر کے درمیان فاصلے کم ہوں، نفرت کی دیواریں کمزور ہونا شروع ہوں اور شخصیات کے بجاے دلیل کی حکمرانی قائم ہو۔ اُمیدواثق ہے کہ اس سلسلے میں نُورالقرآن معاون و مددگار ثابت ہوگا‘‘۔ (نُورالقرآنکا مقصد،ص ۳)

مرتب نے قرآن کے ایک طالب علم کے لیے تفاسیر کا تقابلی مطالعہ بالکل آسان کردیا ہے۔ کسی موضوع پر قرآن کا نقطۂ نظر معلوم کرنے کے لیے نو مفسرین کی معاونت ایک ہی جگہ حاصل ہوجاتی ہے۔ ہر طالب علم قرآن کے نو مفسروں کی راے بھی جان سکتا ہے۔

نُورالقرآن کے اب تک چار اجزا سورئہ بقرہ، آل عمران، نساء اور مائدہ مرتب ہوکر سامنے آئے ہیں۔تفسیری نکات سے پہلے مذکورہ بالا سورتوں کا پورا متنِ عربی نقل کیا گیا ہے تاکہ قاری تفسیری نکات سے پہلے قرآن پاک کی تلاوت کا شرف بھی حاصل کرسکے اور متن سے اس کا تعلق کمزور نہ ہو۔ اس کارِخیر پر محمد صدیق بخاری ہدیۂ تبریک کے مستحق ہیں۔ اس سلسلے میں ایک خصوصی گزارش یہ ہے کہ اگر وہ جناب جاوید احمد غامدی کے متنازعہ افکار کو اس تفسیر کا حصہ     نہ بناتے تو بہتر ہوتا۔ بے شک ان کے ایسے خیالات جو متنازعہ نہیں ، جو اختلاف کے باوجود گوارا ہوں، انھیں ضرور شامل کرلیں لیکن اجماع اُمت اور اسلامی نظام کے نظریے کو نقصان پہنچانے والے مضامین سے احتراز کریں تو اس مجموعے کی افادیت ہوگی اور تمام مکاتب ِ فکر اس سے کسی تحفظ کے بغیر استفادہ کریں گے اور عوام کو استفادے کی طرف متوجہ کریں گے۔ اسلامی تحریک کے کارکنان کے لیے بھی یہ قیمتی سرمایہ ہوگا۔(مولانا عبدالمالک)


بایبل، قرآن کی روشنی میں، انجینیرگلبدین حکمت یار (اُردو ترجمہ: ساجد افغانی)۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۲۴۷۶-۰۴۲۔ صفحات: ۸۲۸۔ قیمت:۷۵۰ روپے۔

گلبدین حکمت یار، افغانستان میں اسلامی تحریکِ انقلاب کے مشہور قائد کی حیثیت سے معروف ہیں۔ لیکن کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ وہ ایک دانش ور، محقق اور مصنف بھی ہیں۔ پیش نظر کتاب اپنے موضوع پر ایک منفرد دستاویز ہے۔ مصنف کہتے ہیں کہ افغانستان میں اشتراکی روس کی ناکامی کے بعد مغرب کی صلیبی طاقتوں نے یلغار شروع کی۔ خیراتی اداروں اور مشرقِ بعید سے سیاحت اور ’دوسرے کاموں‘ کی آڑ میں ہزاروں مبلغین کی غیرمسلح افواج اور طائفوں کے لشکر نے افغانستان اور ملحقہ ممالک پر حملہ کر دیا۔ ’افغانستان اور عراق پر صلیبی قوتوں کے مشترکہ حملے اور  مسلم ممالک کی حکومتوں کا انھیں برملا مدد اور خفیہ ساتھ دینے سے واضح ہوگیا کہ اُمت اسلامیہ کتنی مظلوم اور اسلام کتنا تنہا ہے۔ (ص۴)

امداد، خدمت اور تبلیغِ مسیحیت کے رُوپ میں مغربی استعمار کی اس یلغار نے گلبدین حکمت یار  کو اس طرف متوجہ کیا کہ وہ بایبل کا مطالعہ کریں، اور وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ عہدنامۂ قدیم اور عہدنامۂ جدید کوئی تحریف شدہ الہامی کتابیں نہیں، بلکہ یہ ساری انسانوں کی تصانیف ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ بایبل کی طرف یہ جاننے کے لیے رجوع کریں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے متعلق کیا کہتی ہے، اس کی تعریف کیسے کرتی ہے،اس کی صفات کیا ہیں اور اس کے وجود کے دلائل کیا ہیں، تو آپ کو کچھ بھی نہیں ملے گا۔ نہ صرف یہ کہ آپ خالی ہاتھ اُٹھیں گے، بلکہ دوسرے بہت سے نئے نئے سوالات آپ کے ذہن میں جنم لیں گے۔ بایبل میں آپ اللہ تعالیٰ کو اس طرح پائیں گے، جیسے وہ ایک کمزور انسان کی طرح ہے۔ اس نے انسان کو اپنی شکل میں پیدا کیا ہے،    وہ صرف بنی اسرائیل کا خدا ہے، ان کے ساتھ ہے، ان کے ساتھ رہتا ہے، وہ اس کی اپنی قوم ہیں، وہ اس کے بیٹے ہیں۔ کبھی کبھار انسان کے رُوپ میں بھی ظاہر ہوتا ہے۔ بنی اسرائیل کے جدِامجد حضرت یعقوب ؑ کے ساتھ اس نے کُشتی بھی لڑی ہے، مگر انھیں پچھاڑنے میں کامیاب نہیں ہوا۔ (ص۸)

پیش نظر کتاب میں عہدنامۂ قدیم کی ساری ’مقدس کتابوں‘ کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ہے۔ اِن میں پیدایش، خروج،، لاوی، گنتی، قضاۃ، سیموئیل، سلاطین، مزامیر اور غزل المغزلات‘ شامل ہیں۔ اِن کتابوں میں سے طویل اقتباسات دے کر مصنف نے ثابت کیا ہے کہ ان میں حضرت ابراہیم ؑ سے حضرت یونس ؑ تک انبیا ؑاور اقوام کے جو حالات بیان کیے گئے ہیں، اُن سے پڑھنے والے کے ذہن میں اُن کی تقدیس، عظمت اور عزت کے بجاے ان کے بارے میں نہایت منفی تصویریں سامنے آتی ہیں۔

عہدنامۂ جدید، حضرت عیسٰی ؑ کے حواریوں سے منسوب کچھ خطوط اور یادداشتوں پر مشتمل ہے جن میں متیٰ، مرقس اور یوحنا شامل ہیں۔ لوقا تو حضرت عیسٰی ؑکے حواریوں میں سے نہ تھے، مگر اُن کی ’انجیل‘ بھی اناجیل کے مجموعے میں شامل ہے۔ اِن اناجیل میں حضرت عیسٰی ؑ ایک نبی کے بجاے ایک کمزور سے مُصلح دکھائی دیتے ہیں، اپنے مشن میں ناکام ہوکر درجن بھر اصحاب بھی آخر وقت تک اُن کا ساتھ نہ دے سکے۔

بعض انبیاے کرام ؑ کا ذکر اور اُن سے متعلق واقعات قرآنِ مجید اور بایبل دونوں میں آتے ہیں، لیکن ان دونوں کے بیانات کا موازنہ کیا جائے تو الہام اور داستان کا فرق صاف نظر آتا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ، حضرت اسماعیل ؑ، حضرت اسحاقؑ، حضرت یعقوب ؑ اور حضرت یوسف ؑسبھی نعوذباللہ بشری کمزوریوں کا شکار نظر آتے ہیں۔ ایسے کردار کے حامل، جو کسی بھی باوقار اور معزز شخص کے ساتھ منسوب نہیں کیا جاسکتا۔ حضرت دائود ؑاور حضرت سلیمان ؑتو معاذاللہ عام سلاطین کی طرح عیش و عشرت کے دل دادہ معلوم ہوتے ہیں۔ اس طرح یہ ’الہامی کتابیں‘ کسی داستان گو کی کہانیاں نظر آتی ہیں، جس کا مذہب سے لگائو بس واجبی سا ہے۔

بایبل قرآن کی روشنی میں نہایت اہتمام سے طبع ہوئی ہے، تاہم ساجد افغانی  کے اُردو ترجمے پر نظرثانی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ ’’آتی ہے اُردو زبان آتے آتے‘‘۔(ڈاکٹر عبدالقدیر سلیم)


برزخ، ایک خواب، ایک حقیقت (حصہ اوّل)، دوزخ اور اس کے ہولناک مناظر، ملک عطامحمد۔ ملنے کا پتا: ۸۵-رحمت پارک، یونی ورسٹی روڈ، سرگودھا۔ فون: ۳۲۱۴۶۸۵۔ صفحات: ۴۸۰۔    قیمت: ۱۰۰۰ روپے۔

بڑی تقطیع پر ، عام کتابی سائز کے تقریباً ایک ہزار صفحات پر مشتمل یہ کتاب اس صنفِ ادب سے تعلق رکھتی ہے جس میں ہم موت کے بعد کا منظر، قبر میں کیا ہوگا؟ وغیرہ میں پڑھتے رہے ہیں اور حال ہی میں ابویحییٰ کی جب زندگی دوبارہ شروع ہوگی نے فروخت کے ریکارڈ قائم کردیے۔ زیرتبصرہ کتاب بھی عالمِ برزخ کے حوالے سے دوزخ اور اس کے ہولناک مناظر کو ایسے بیان کرتی ہے جیسے آپ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور سب کیرکٹر خود بول رہے ہیں۔ ملک عطامحمدکے سامنے ملک کے حالات ہیں کہ یہاں کام کرنے والے، تباہی لانے والے، غلط راہوں پر لے جانے والے اپنے لیے جہنم کما رہے ہیں۔ ان لوگوں کے انجام کے بارے میں انھیں قرآن و احادیث میں بیان کی ہوئی ساری تفصیلات کا علم ہے۔ شب معراج میں تو رسولؐ اللہ نے دوچار مناظر دیکھے تھے لیکن یہاں ایک مخصوص انداز سے فاضل مصنف ۵۰۰ صفحات کی داستان سے گزارتے ہیں۔  ان کا جدید دور اور عالمی طاقتوں کا علم بھی تازہ ہے۔ اس جامع پس منظر کے ساتھ جب وہ لکھتے ہیں تو ایک نہایت قابل عبرت دستاویز بنتی ہے جس میں آپ کو پہچاننا مشکل نہیں ہوتا کہ جو فحاشی پھیلاتے ہیں ان کے لیے عذابِ الیم کیا ہے؟ ٹی وی چینل کے مالک پر کیا گزر رہی ہے؟ دہریے، کافر اور مشرک اور منافق کا حشر دیکھیے۔ غیبت کرنے والے کی سزا، ڈپٹی کمشنر دوزخ میں،    مولوی دوزخ میں، ساس بہو جہنم میں، وزیر جہنم میں،اور آخری ہے صدر جہنم میں۔ آئینہ وہ رکھ دیتے ہیں، تصویر آپ کو پہچاننا ہوتی ہے۔

معلوم نہیں علماے کرام اس پر کیا فتویٰ دیں، لیکن اگر کوئی فلم ساز اس پوری کتاب پر ۳،۴ملین ڈالر خرچ کرکے کوئی اڑھائی گھنٹے کی فلم بنائے تو یہ ابلاغِ دین کی دورِحاضر کے لحاظ سے انذار کی ایک مؤثر شکل ہوگی۔ مصنف نے بتایا ہے کہ وہ اس کا دوسرا حصہ جنت کے حوالے سے تیار کر رہے ہیں۔ وہ بھی آجائے تووہ بشارت کے لحاظ سے کوشش ہوگی، اور دونوں ایک متوازن تصویر پیش کریں گے، کہ جو چاہے اہلِ جنت کے نقشِ قدم پر چلے، اور جو چاہے جانتے بوجھتے اہلِ جہنم کے راستے پر چلے اور عبرت نہ پکڑے۔طباعت معیاری بلکہ احسن ہے۔ (مسلم سجاد)


تعارف القرآن، عبدالرشید عراقی۔ ناشر: مکتبہ جمال، تیسری منزل، حسن مارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات:۴۰۰۔ قیمت: ۵۰۰ روپے۔

قرآنِ کریم دنیا کی واحد کتاب ہے جس کے حوالے سے ہرسال دنیا کی بے شمار زبانوں میں درجنوں کتب تحقیق کے ساتھ طبع ہوتی ہیں اور اس عظیم کتاب کے اسرار و رُموز کو مختلف زاویوں سے پیش کرتی ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب میں قرآن کریم کی سورتوں کے زمانۂ نزول اور ان کے مضامین کے خلاصے کے ساتھ ایک جدول کی مدد سے ترتیب ِ نزولی بھی درج کی گئی ہے۔ کالجوں اور مدارس کے طلبہ کے لیے یہ معلومات افزا کتاب بہت مفید رہے گی ۔ گو اکثر مقامات پر معلومات فراہم کرتے وقت سند کا ذکر بھی آگیا ہے لیکن کتاب کے آغاز میں ص ۲۳ تا ۴۵ جو معلومات درج کی گئی ہیں ان کی سند اور حوالے درج نہیں ہیں۔ اگر اگلی طباعت میں اس کمی کو پورا کرلیا جائے تو بہتر ہوگا۔کتاب سلیس زبان میں ہے اور قرآن کریم کے بارے میں ابتدائی معلومات بہت سلیقے کے ساتھ آگئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ مؤلف کو بہترین اجر سے نوازے، آمین!(ڈاکٹر انیس احمد)


لہو پکارے گا آستیں کا، طارق اسماعیل ساگر۔ ناشر: ساگر پبلی کیشنز، ۱۶-ای، ٹمپل روڈ،  مہتہ سٹریٹ، صفانوالہ چوک، لاہور۔ صفحات: ۱۳۶۔ قیمت، مجلد: ۲۵۰ روپے۔

بنگلہ دیش کے آج کل کے حالات میں شرمیلا بوس کی کتاب جو اوکسفرڈ یونی ورسٹی نے Dead Reckoning, Memories of 1971 Bangladesh War کے نام سے شائع  کی ہے، اس کتاب نے برعظیم کی علاقائی سیاست میں اس لحاظ سے کھلبلی مچادی کہ اُن سیکڑوں الزامات کو اس کتاب میں ردکیا گیا ہے جو مشرقی پاکستان کی مغربی پاکستان سے علیحدگی کے دوران ہزاروں بار اُٹھائے گئے۔ ان میں ۳۰لاکھ افراد کے ہلاک کیے جانے، اور ہزاروں بنگلہ عورتوں کی عصمت دری جیسے الزامات شامل ہیں۔ طارق اسماعیل ساگر نے پاکستانی ذرائع ابلاغ پر زبردست تنقید کرتے ہوئے شرمیلا بوس کی کتاب کے کم و بیش مکمل ترجمے کو لہو پکارے گا آستیں کا کے نام سے شائع کردیا ہے۔ شرمیلابوس نے پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش کی سرکردہ سیاسی و فوجی شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔ ان تین ممالک کے علاوہ امریکا و برطانیہ کے تحقیقی اداروں کی لائبریریوں کو کھنگالا اور یہ ثابت کر دیا کہ مجیب الرحمن نے نفرت و دشمنی کا جو ہمالیائی تلاطم کھڑا کیا تھا اُس نے افواہوں اور الزامات کا بحرالکاہل تخلیق کر دیا۔ ’ادھر ہم اُدھر تم‘ کے خالق نے ۹۰ہزار فوجیوں کو جنگی قیدی بننے پر مجبور کر دیا اور بنگلہ دیش کی ریاست الاماشاء اللہ وہی فاش غلطیاں کر رہی ہے جو مشترکہ پاکستان کے سیاست دان اور فوجی جرنیل کرتے رہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ جھوٹے الزامات کے ذریعے بی این پی، حساب باک کرنے کی کوشش کررہی ہے، جس سے بنگلہ دیش کسی الم ناک سانحے اور عدمِ استحکام کا شکار ہوسکتا ہے۔ بھارتی حکومت کی دیرینہ خواہش یہی ہے۔

اس کتاب کی سطر سطر حقیقی معلومات فراہم کر رہی ہے۔ مصنفہ کا کہنا ہے کہ مَیں نے درجنوں نہیں سیکڑوں بنگلہ دیشی قصبوں اور دیہاتوں کا دورہ کیا اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ مغربی پاکستان کی فوج نے جن ہزاروں لاکھوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اُتارا تھا اُن کی قبریں دیکھ سکے لیکن ایک دو دیہاتوں کے علاوہ کہیں اور اس کا ثبوت نہ مل سکا۔ شرمیلا نے اُن ’ہزاروں لاکھوں‘ عورتوں سے براہِ راست انٹرویو کرنے کی کوشش کی جن کے اعزہ و اقربا اُن کی ’آنکھوں کے سامنے‘ تہِ تیغ کردیے گئے تھے لیکن مصنفہ کو اس میں بھی ناکامی ہوئی۔ یہی معاملہ آبروریزی کے الزامات کے ساتھ پیش آیا۔

مصنفہ نے انگریزی کتاب میں کھل کر تسلیم کیا ہے کہ بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش میں اُس کے تحقیقی کام کی تحسین نہیں کی گئی، کیونکہ بساطِ سیاست کے کئی چہرے بے نقاب ہورہے تھے۔ اُس نے اپنی تحقیق جاری رکھی اور یہ ثابت کیا کہ بھارتی دشمنی ، امریکی سرپرستی اور پاکستانی   سیاست دانوں کی ہٹ دھرمی نے بنگلہ دیش کے قیام کو حتمی شکل دینے میں کتنا اہم کردار ادا کیا ہے۔ ۱۹۷۱ء میں شیخ مجیب الرحمن کو حکومت بنانے کی دعوت دے دی جاتی تو شیخ صاحب ایک ماہ میں اپنی ناکامی کا اعلان کرکے دوبارہ انتخاب کا انعقاد کرنے پر مجبور ہوتے۔ افسوس، ایک سیاسی شاطر کی ہوس نے سب سے بڑی اسلامی مملکت کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔

شرمیلا بوس نے غیربنگالیوں کے قتل عام کے حوالے سے بھی تفتیش کی ہے اور بھارت کے گھنائونے کردار کو بھی بے نقاب کیا ہے۔ لہو پکارے گا آستین کا، کا مطالعہ نہ صرف ماضی کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہوگا بلکہ پاکستان اور بنگلہ دیش کو بھی آیندہ حادثوں سے محفوظ کرنے کی سبیل پیدا کرے گا۔(محمد ایوب منیر)


حاجی گل شہیدؒ، ایک شخصیت، ایک کردار۔ مرتبین: ڈاکٹرمحمداقبال خلیل، نورالواحد جدون۔ ناشر: اسلامک پبلی کیشنز، منصورہ، لاہور۔ فون : ۳۵۴۱۷۰۷۴-۰۴۲۔ صفحات:۱۴۴۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔

حاجی دوست محمد حاجی گل شہیدؒ جماعت اسلامی پشاور کے روحِ رواں تھے۔ سانحۂ قصۂ خوانی میں شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئے۔ جماعتی و سیاسی حلقوں، ہرمکتبۂ فکر کے علماے کرام اور خدمت خلق کے حوالے سے معروف تھے۔ بلدیہ پشاور کے کونسلر منتخب ہونے پر اصلاحِ معاشرہ، منکرات کے خاتمے اور امن و امان کے لیے ’علما کمیٹی براے اصلاحِ معاشرہ‘ قائم کی اور مثالی جدوجہد کے ذریعے شاہی باغ یونین کونسل کو مثالی حلقہ بنا دیا۔ جماعت اسلامی کے ہفتہ وار اجتماع کے خصوصی اہتمام، محلے و مسجد کی سطح پر کام، دارالمطالعے، ڈسپنسریوں اور خدمت خلق، نیز علماے کرام اور مؤثر لوگوں سے خصوصی رابطہ و تعلق کی بنا پر جماعت کے کام کو وسیع پیمانے پر آگے بڑھایا۔ دینی مدارس کے قیام اور انفاق فی سبیل اللہ سے خصوصی شغف تھا اور بڑے مہمان نواز تھے۔ کتاب میں اہلِ خانہ، دوست احباب اور تحریکی رفقا کے تاثرات بھی دیے گئے ہیں جن سے ان کی شخصیت کے مختلف گوشے سامنے آتے ہیں۔ آخر میں غوث الرحمن شہید، مکرم صافی شہید، ملک حسام الدین شہید، گل نذیر شہید اور غلام سرور شہید کا تذکرہ ہے جو حاجی گل شہید کے ساتھ شہید ہوئے تھے۔ کتاب ایک مثالی کارکن کا تذکرہ ہے جو دوسروں کے لیے تحریک کا باعث ہے۔(امجد عباسی)

تعارف کتب

  •  قرآن کے کثیرالمعانی الفاظ ،  صابر شاہ فاروقی۔ ناشر: مکتبہ تطہیرافکار، مرکز اسلامی ، جی ٹی روڈ، پشاور۔ صفحات: ۵۸۸۔قیمت: ۵۷۰ روپے۔[قرآنِ مجید میں مستعمل اُن مادوں اور الفاظ کو حروفِ تہجی کے اعتبار سے زیربحث لایا گیا ہے جو کثیرالمعانی ہیں، اور ان کے متفرق اساسی معانی کو مختلف لُغات کی مدد سے اُجاگر کیا گیا ہے، نیز آیاتِ قرآنی دی گئی ہیں جن میں یہ الفاظ مختلف معانی کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔ حصہ اوّل ہمزہ سے شین تک کے الفاظ پر مشتمل ہے۔]
  • مجلہ نقطۂ نظر ، (اکتوبر۲۰۱۲ء-مارچ ۲۰۱۳ء)،مدیر: سفیراختر۔ ناشر: انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، گلی نمبر۸، سیکٹر۳/۶-ایف، اسلام آباد۔ فون: ۱-۸۴۳۸۳۹۰-۰۵۱۔صفحات:۶۳۔ قیمت: درج نہیں۔ [نقطۂ نظر، انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کا شش ماہی مجلہ ہے جس میں قرآن، حدیث، سیرت النبیؐ، اسلامی افکار وعقائد،  تصوف، اسلامی تحریکات، مغرب اور اسلام، تاریخ و سوانح، ادب، لسانیات جیسے متنوع موضوعات کے تحت  کتب پر تبصرے شائع کیے جاتے ہیں۔ زیرنظر شمارے میں mاندلس میں علمِ حدیث کا ارتقا از محمد احمد زبیری، mسیرت نگاری: آغاز و ارتقا، از نگار سجاد ظہیر، mعہدِنبویؐ کا بلدیاتی نظم و نسق، از نجمہ راجا یٰسین، mبرصغیر میں اہلِ حدیث کی سرگزشت، از محمد اسحاق بھٹی، mمقالاتِ جاوید از جاوید اقبال پر تبصرے ہیں۔ ’کتاب نامہ‘ کے تحت اندلس کے موضوع پر جامع مطالعہ بھی شاملِ اشاعت ہے۔]

عبدالرشید عراقی ، گوجرانوالہ

قاضی حسین احمدؒ اور پروفیسر عبدالغفور احمدؒ (فروری ۲۰۱۳ء)، دونوں رہنمائوں سے متعلق ان کی دینی،  علمی، قومی و ملّی اور سیاسی خدمات اور ان سے ذاتی تعلق اور روابط کی روشنی میں جس طرح تذکرہ کیا گیا ہے، وہ قابلِ قدر ہے۔ قاضی حسین احمد ؒ کے بارے میں آپ نے صحیح لکھا ہے کہ وہ جلال اور جمال کا مرقع تھے، اور پروفیسر غفور احمد ؒ ایک نفیس، باذوق، محبت کرنے والے اور راست باز انسان تھے۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ قاضی صاحب اور پروفیسرعبدالغفور صاحب رحمہم اللہ کی لغزشوں سے درگزر کرتے ہوئے علییّن میں جگہ دے، آمین!

سید مزمل حسین،راولپنڈی

قاضی حسین احمدؒ اور پروفیسر عبدالغفور احمدؒ (فروری ۲۰۱۳ء) دونوں پاکستان کے سنجیدہ اور مخلص رہنما تھے۔ پروفیسر عبدالغفور احمدؒ آئینی اُمور میں متخصص کا درجہ رکھتے تھے، جب کہ قاضی حسین احمدؒ تو چیز ہی دوسری تھے۔ وہ ایک سیاسی و مذہبی رہنما سے بڑھ کر ایک مربی اور ہمدرد رہنما تھے۔ اُن کی ایک عالمی سوچ تھی۔      وہ عالمی اسلامی تحریک کے ایک فرد تھے۔ وہ ایک فرد نہیں بلکہ ایک انجمن تھے۔ یہ پاکستان کے لیے اعزاز کی بات تھی کہ قاضی حسین احمد کی صورت میں اُسے ایک عالمی سطح کا رہنما مل گیا تھا۔ ہماری بدقسمتی یہ تھی کہ ہم نے انھیں مقامی اُلجھنوں میں اُلجھا دیا۔ قاضی حسین احمد نے تو سیّد جمال الدین افغانی مرحوم کا کردار ادا کرنا تھا اور بڑی حد تک ادا کیا بھی۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم نے اُن کی کماحقہ قدر نہ کی۔ ہم نے انھیں سیاسی رہنما سے  آگے کچھ نہ سمجھا۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ یہ سیدابوالاعلیٰ مودودی مرحوم کا فیضانِ نظر تھا کہ اُن کے تربیت یافتہ دونوں حضرات نے مثالی کردار ادا کیا اور اچھی مثالیں قائم کر کے چلے گئے۔ فروری ۲۰۱۳ء کے شمارے میں محمدشکیل، ٹوبہ ٹیک سنگھ اور خبیب انس، کراچی کے خطوط قابلِ توجہ ہیں۔ اُن پر غور کیا جانا چاہیے۔

ڈاکٹر طاہر سراج ،ساہیوال

’ملکی بحران : حل کے پانچ اصول‘ (فروری ۲۰۱۳ء) میں مولانا مودودیؒ کی درپیش مسائل کے حل کے لیے فکرانگیز اور اصولی و عملی رہنمائی ہے۔ کاش! ہمارے اہلِ فکرودانش اور اربابِ اقتدار آج ان اصولوں پر عمل پیرا ہوسکیں اور ملک مسائل کے گرداب سے نکل سکے۔ڈاکٹر خالد محمود ثاقب کا مضمون ’تزکیہ و تربیت،چند اہم پہلو‘ کارکن کو عمل پر اُبھارتا ہے، مسائل کا حل پیش کرتا ہے، نیز مایوسیوں میں اُمید اور روشنی کا پیغام ہے۔

دانش یار ،لاہور

مغربی تہذیب کی ساحری سے مسحور، قرآن و سیرت رسول کریمؐ کی ضرورت سے بے پروا طائفہ  دانش وراں نے پچھلے ایک عشرے میں اہلِ پاکستان کو ایک نظریاتی ریاست کے شعور سے بے بہرہ رکھنے    کے لیے جو خصوصی مہم چلائی ہوئی ہے اس کا نمایاں مظہر ’امن کی آشا…‘ کا ڈھنڈورا ہے۔ ایک سال ہوگیا  جب پاکستان کا مطلب کیا، لا الٰہ الا اللہ کے نصب العین سے پاکستان کی نوجوان نسل کو بے بہرہ اور لاتعلق کرنے کے لیے… ’لکھنے پڑھنے کے سوا پاکستان کا مطلب کیا‘ ایک اشتہاری فقرہ بنا کر معصوم بچوں کی آواز میں دن میں کوئی ۲۳مرتبہ الاپا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ عالم گیریت - گلوبلائزیشن کے عنوان سے بھی بہت سے مغالطے برپا کیے گئے ہیں۔ لیکن ڈاکٹر محمد عمرچھاپرا نے ’عالم گیریت: اسلام کی نگاہ میں‘ (فروری ۲۰۱۳ء)میں   اس مسئلے پر جو رہنمائی دی ہے، اس سے ہمارے تصورِ حیات پر اعتماد میں اضافہ ہوتا ہے۔

پروفیسر ارشد جاوید ، لاہور

خوشی کے حصول کے لیے کتاب (خوشیوں بھری زندگی،فروری ۲۰۱۳ء)میں بہت سے طریقے بتائے گئے ہیں ۔ ہم نے کتاب میں یہ بھی درج کیا ہے کہ ہر طریقہ ہر فرد کے لیے مؤثر نہیں۔ لہٰذا ہرفرد اپنی پسند کے چند طریقے منتخب کرے اور ان پر عمل کر کے اپنی زندگی کو خوشیوں سے بھر دے۔

پروفیسر حمیرا صدیقی ،گجرات

’امریکا میں دہشت گردی ، عالمی ضمیر کے لیے چند سوال‘ (جنوری ۲۰۱۳ء) سے امریکا کے اندورنی خلفشار اور بڑھتی ہوئی جنونی لہر سے آگاہی ہوئی۔ ع  تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی۔ یہاں مجھے مدیر ترجمان سے بھی گلہ ہے کہ عصرِحاضر کی بے باک ترجمانِ اسلام محترمہ مریم جمیلہؒ سے تعارف اس وقت کروایا جب ہم سواے غم کے آنسو بہانے کے کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ اللہ تعالیٰ ان کی سعیِ جمیلہ کو قبول فرمائے، آمین!

تاج محمد ، چترال

’امریکا میں دہشت گردی اور عالمی ضمیر کے لیے چند سوال‘ (جنوری ۲۰۱۳ء) میں تصویر کی صحیح عکاسی کی گئی ہے۔ پاکستان، افغانستان ، عراق پر ڈھائی گئی قیامت ِ صغریٰ جس میں ہزاروںبچے اپنی حیات سے محروم ہوگئے ہیں، لیکن عالمی طاقتیں ان بچوں کو انسانی فہرست میں شمار تک نہیں کرتیں۔ حقیقی موت تو احساس اور ضمیر کی موت ہوتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے مغربی استعمار ضمیر کی موت سے دوچار ہے۔ ’مصری تاریخ کا پہلا جمہوری دستور‘ میں مصری حکومت اور اخوان کی کامیاب کوششوں اور سیکولرلابی کی مخالف سرگرمیوں کو عمدگی سے بے نقاب کیا گیا ہے۔ افسوس کہ ہمارا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا بھی حقائق سے پردہ پوشی کرتا رہا۔

محمد  حمیر حیات ،پاکپتن

’جنسی بے راہ روی ایک چیلنج‘ (دسمبر ۲۰۱۲ء) کے تحت ایک اہم معاشرتی مسئلے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مغرب نے اپنی بے لگام خواہشات اور جذبات کی تکمیل کے لیے انسانی حقوق کی مادرپدر آزادی کا جو فلسفہ دیا وہ کسی بھی طرح انسان کے لیے درست نہیں۔ اس مادرپدر آزادی نے خاندانی نظام کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے اور معاشرہ معاشرتی انتشار سے دوچار ہوگیا ہے۔ آج وہ اپنے بنائے ہوئے قوانین پر پچھتا رہے ہیں۔ بدقسمتی سے اس بے راہ روی سے کوئی سبق سیکھنے کے بجاے ہمارا معاشرہ بھی متاثر ہورہا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ٹیلی وژن، کیبل اور انٹرنیٹ کے غلط استعمال سے نوجوان نسل جنسی بے راہ روی کا شکار ہورہی ہے اور اس کا خاندان پر بُرا اثر پڑ رہا ہے۔ اس کے لیے جہاں علمی و فکری انداز میں توجہ دلانے کی ضرورت ہے وہاں پی ٹی اے اور پیمرا کو ضابطہ اخلاق کا پابند کرنے کے لیے قانونی چارہ جوئی کی بھی ضرورت ہے۔

فرخ عابدی ، (برقی مراسلہ)

بیمار قوم یا کسی بھی بیمار شخص کا علاج اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک اس مرض کی صحیح تشخیص نہیں ہوجاتی۔ ہمارے ملک پاکستان میں برائیوں کی اصل ذمہ دار حکومت نہیں بلکہ خود پاکستانی قوم ہے۔ کیا امیر  کیا غریب، کیا پڑھے لکھے کیا اَن پڑھ، سواے چند کے ہرشخص اپنے ہرمسئلے اور ہر گناہ کی ذمہ داری حکومت پر ڈال کر خود مطمئن ہوجاتا ہے اور اپنے آپ کو بری الذمہ سمجھتا ہے۔اگر ہم اپنے آپ کو زندہ قوم سمجھتے ہیں تو    دن رات بُری حکومت کا رونا چھوڑ کر ہم اپنی ان برائیوں کی نشان دہی کریں جن کی وجہ سے اللہ ہم سے ناراض ہے، اور ان کو دُور کرنے کی جتنی اللہ نے ہم کو صلاحیت دی ہے، کوشش کی جائے۔

محمد احتشام الدین ، لاہور

ملک میں نئے انتخابات کا وقت قریب آرہا ہے۔ شفاف انتخابات کے پیش نظر ضرورت اس بات کی ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سوموٹونوٹس لیتے ہوئے الیکشن کمشنر اور حکومت کو پابند کریں کہ وہ آئین کی دفعہ ۶۲، ۶۳ کے تحت انتخاب لڑنے والے نمایندوں کی جانچ پڑتال کریں اور ایسے نمایندوں کو الیکشن لڑنے سے روک دیں جو آئین کے مقرر کردہ اصولوں پر پورا نہ اُترتے ہوں۔ نیز پاکستان کے دستور کی اِن دفعات کو عملہ جامہ پہنانے کے لیے مناسب طریقہ کار وضع کریں۔ اس کے علاوہ قرارداد مقاصد حکومت کو پابند کرتی ہے کہ پاکستانی عوام کو اسلام کے احکام سے روشناس کرائے اور اُن کے لیے اسلام پر عمل کرنے کو آسان بنائے۔ پاکستان کے دستور کی ان دفعات پر عمل کرنے پر حکومت کو حکم جاری کیا جائے۔

فقیر واصل واسطی ، لاہور

’جنسی تعلیم اسلامی اقدار کی تناظر میں‘(جون ۲۰۱۲ء) بہت ہی اچھا لکھا۔ مگر اس میں بھی ڈاکٹرصاحب کی شانِ اجتہادی نمایاں ہے۔ دو مثالیں ملاحظہ ہوں۔ قرآن کریم جنسی جذبے کو حلال و حرام اور پاکیزگی اور نجاست کے تناظر میں بیان کرتا ہے تاکہ حصولِ لذت ایک اخلاقی ضابطے کے تحت ہو نہ کہ فکری اور جسمانی آوارگی کے ذریعے۔ چنانچہ عقیدۂ نکاح کو ایمان کی تکمیل اور انکارِ نکاح کو اُمت مسلمہ سے بغاوت کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے (ص ۶۴)۔ پتا نہیں یہ کسی آیت کا ترجمہ ہے یا حدیث کا، یا کوئی اجماعی قانون ہے؟ ایک اور جگہ وعن شبا بہ فیما ابلاہ سے درج ذیل نتیجہ اخذ کیا ہے۔ احادیث بار بار اس طرف متوجہ کرتی ہیں کہ یوم الحساب میں جو سوالات پوچھے جائیں گے، ان میں سے ایک کا تعلق جوانی سے ہے اور دوسرے کا     معاشی معاملات سے۔ گویا جنسی زندگی کا آغاز شادی کے بعد ہے، اس سے قبل نہیں (ص ۶۶)۔ ایک تو یہ کہ الفاظِ حدیث عام ہیں۔ دوسرے یہ کہ جوانی اور شادی میں کیا نسبتِ مساوات ہے؟

محمد اصغر ، پشاور

’اسلام کے اقتصادی نظام کے نفاذ کا پہلا قدم___ بیع سلم‘ (جون ۲۰۱۲ء) میں نجی سطح پر سود کے خاتمے کے قانون (۲۰۰۷ء) کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ اسی قانون کو صوبہ سرحد میں بھی نافذ کیا گیا تھا اور اے این پی کی موجودہ حکومت نے اسے غیرمؤثر کردیا ہے۔ (ص ۵۴)

ریکارڈ کی درستی کے لیے میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ راقم اُس ٹیم کا حصہ تھا جس نے پروفیسر خورشید احمد صاحب کی قیادت میں صوبہ سرحد میں ایم ایم اے کی حکومت کے دوران معیشت سے سود کے خاتمے کی جدوجہد میں حصہ لیا تھا۔ ایم ایم اے کی صوبائی حکومت نے پنجاب اسمبلی کے مذکورہ بالا قانون کو اختیار /نافذ (adopt) نہیں کیا تھا بلکہ ایک الگ اور مربوط منصوبہ بندی کے تحت بنک آف خیبر ایکٹ کا ترمیمی بل ۲۰۰۴ء صوبائی اسمبلی سے منظور کروا کر بنک آف خیبر کی تمام سودی شاخوںکو اسلامی بنکاری کی برانچوں میں تبدیل کرنے کی راہ ہموار کی تھی۔ اس ایکٹ کا پنجاب اسمبلی کے منظورکردہ ایکٹ کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں۔ تاہم صوبائی معیشت کو اسلامیانے کے لیے ایک الگ کمیشن جسٹس  فدا محمد خان ، جج شریعہ کورٹ، سپریم کورٹ آف پاکستان کی صدارت میں قائم کیا گیا تھا جس کا راقم بھی رُکن تھا۔ اِس کمیشن نے بڑی محنت کے ساتھ رپورٹ مرتب کی کہ کس طرح صوبائی معیشت کو سود سے پاک کیا جاسکتا ہے۔ افسوس کہ کچھ بیوروکریٹک کوتاہیوں اور اعلیٰ سیاسی قیادت کی عدم دل چسپی کے باعث کمیشن کی سفارشات حتمی شکل اختیار نہ کرسکیں اور   ایم ایم اے کی حکومت کا دورانیہ مکمل ہوگیا۔

واضح رہے کہ اے این پی کی حکومت نے مکمل طور پر بنک آف خیبر کو دوبارہ سودی کاروبار میں تبدیل نہیں کیا بلکہ بنک کی پرانی سودی برانچوں کو اسلامی برانچیں بننے سے روکنے کے لیے بنک آف خیبرایکٹ میں دوبارہ ترمیم کر کے اللہ کے غضب کو دعوت دی ہے۔ لیکن اس کے باجود وہ بنک آف خیبر میں اسلامی برانچوں کو غیرمؤثر کرنے یا نقصان پہنچانے میں (کوشش کے باوجود) کامیاب نہ ہوسکے۔ لہٰذا ایم ایم اے دور کا کام محفوظ اور intact ہے اور ان شاء اللہ جب دوبارہ ہمیں اقتدار ملے گا تو اسلامی بنکاری اور اسلامی معیشت کے کام کا آغاز وہیں سے ہوگا جہاں اِسے اے این پی اور پیپلزپارٹی کی مخلوط صوبائی حکومت نے پھیلنے سے روکا ہے۔

تزکیے میں ایک آرٹ کی شان بھی پائی جاتی ہے کیونکہ تزکیے کا مطمح نظر صرف اسی قدر نہیں معلوم ہوتا کہ ہمارا نفس کسی نہ کسی شکل میں راہ پر لگ جائے، بلکہ تزکیہ اس سے آگے بڑھ کر نفس کو خوب سے خوب تر بنانے کی جدوجہد کرتا ہے۔ تزکیہ صرف اتنا ہی نہیں چاہتا ہے کہ ہمیں خدا اور اس کی شریعت کا کچھ علم حاصل ہوجائے، بلکہ وہ اس سے بڑھ کر یہ چاہتا ہے کہ ہمیں خدا اور اس کی صفات کی سچی اور پکّی معرفت حاصل ہوجائے۔ تزکیہ صرف یہ پیش نظر نہیں رکھتا ہے کہ ہماری عادتیں کسی حد تک سنور جائیں، بلکہ وہ چاہتا ہے کہ ہم تمام مکارمِ اخلاق کے پیکرِ مجسم بن جائیں۔ تزکیہ صرف اتنے پر قناعت نہیں کرتا کہ ہمارے جذبات میں ایک ہم آہنگی اور ربط پیدا ہوجائے، بلکہ وہ اس پر مزید ہمارے جذبات کے اندر رقت و لطافت اور سوز و گداز کی گھلاوٹ بھی دیکھنا چاہتا ہے۔ تزکیے کا مطالبہ صرف اسی قدر نہیں ہوتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح ہمارا نفس، احکامِ شریعت کے تحت آجائے، بلکہ اس کا اصلی مطالبہ یہ ہے کہ ہمارا نفس خدا اور اس کے رسولؐ کے ہرحکم کو   اس طرح بجا لائے جس طرح اس کے بجا لانے کا حق ہے۔ اس کا مطالبہ ہم سے صرف خدا کی بندگی ہی کے لیے نہیں ہوتا ہے، بلکہ اس بات کے لیے بھی ہوتا ہے کہ ہم خدا کی اس طرح بندگی کریں، گویا ہم اسے اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔

مختصر الفاظ میں اس کے معنی یہ ہوئے کہ تزکیہ ایمان، اسلام اور احسان تینوں کے تقاضے بیک وقت ہمارے سامنے پیش کرتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ہم اپنے خدا کو اس کی تمام صفتوں کے ساتھ مانیں، پھر اس کے تمام احکام کی زندگی کے ہرگوشے میں اطاعت کریں، اور یہ ماننا اور اطاعت کرنا محض رسمی اور ظاہری طریقے پر نہ ہو بلکہ پورے شعور اور گہری للہیت کے ساتھ ہو، جس میں ہمارے اعضا و جوارح کے ساتھ ہمارا دل بھی پورا پورا شریک ہو۔(’تزکیہ نفس‘، مولانا امین احسن اصلاحی، ترجمان القرآن، جلد۳۹، عدد۶، جمادی الثانی ، ۱۳۷۲ھ، مارچ ۱۹۵۳ء، ۱۳-۱۴)

پہلا ایڈیشن ختم ہوکر دوسرے ایڈیشن کی ترسیل شروع ہوچکی ہے۔ ا س دوسرے ایڈیشن میں     مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی صاحب نے نظرثانی فرما کر کئی مقامات پر ترمیم و اضافے کردیے ہیں۔ فہرست موضوعات بھی دوبارہ نئی ترتیب سے ترمیم و تنسیخ کے بعد شائع کی گئی ہے۔ طبع اوّل کی غلطیوں کی تصحیح بھی کردی گئی ہے۔

متوسط طبقے کی خواہش کے پیش نظر قسم سوم بھی طبع ہوچکی ہے۔

 ہدیہ قسم اوّل، مجلد مع بکس -/۱۲/۲۰                ہدیہ قسم دوم، مجلد مع بکس -/۴/۱۸

 ہدیہ قسم سوم مجلد بغیر بکس               -/۱۱     

محصول ڈاک تقریباً                -/۴/۱      دیگر اخراجات بذمہ خریدار

قسم اوّل و دوم میں حسب ِ سابق خصوصی جلدیں بھی مل سکیں گی جو فرمایش کے مطابق فراہم کی جائیں گی۔

مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی پاکستان - اچھرہ، لاہور

تحریک اسلامی کو سمجھنے کے لیے

 (جدید) دستور جماعت اسلامی             آٹھ آنے     روداد جماعت اسلامی حصہ اوّل          ایک روپیہ

 روداد جماعت اسلامی حصہ دوم          چودہ آنے  روداد جماعت اسلامی حصہ سوم         دو روپے

 روداد جماعت اسلامی حصہ چہارم      ایک روپیہ بارہ آنے                 روداد جماعت اسلامی حصہ پنجم        دو روپے

روداد جماعت اسلامی حلقہ خواتین       بارہ آنے  دعوت دین اور اس کا طریق کار           دوروپے بارہ آنے

منشور جماعت اسلامی          تین آنے، اور جماعت اسلامی، اس کا مقصد ، تاریخ اور لائحہ عمل  ایک روپیہ

کامطالعہ کیجیے

مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی پاکستان، اچھرہ، لاہور، پاکستان

یا ___ اپنے شہر کے کتب فروشوں سے طلب کریں

(ترجمان القرآن، جلد ۳۹، عدد۴، ربیع الثانی ۱۳۷۲ھ ، جنوری۱۹۵۳ء، اشتہار اندرونِ سرورق و پشت)