آج پاکستانی قوم ایک ایسی صورت حال سے دوچار ہے، جو اگرچہ الم ناک ہے، لیکن اپنے جلو میں ایک تاریخی موقعے کی حامل بھی ہے۔ پاکستان محض ایک ملک اور ایک خطۂ زمین کا نام نہیں___ یہ ایک تصور، ایک نظریہ، ایک آدرش ، ایک منزل اور ایک واضح وژن سے عبارت ہے جس کی شناخت اس کا اسلامی، جمہوری اور فلاحی کردار ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا ہے اور اسلام ہی میں اس کی بقا اور ترقی کا راز مضمر ہے۔ اسلام اور پاکستان ایک تصویر کے دو پہلو اور ایک سکّے کے دو رُخ ہیں۔ تحریکِ پاکستان کی بنیاد نظریاتی قومیت کے تصورپر تھی اور علاقے کا حصول اس لیے تھا کہ اس نظریے کے تقاضوں کو پورا کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ قائداعظم نے برملا کہا تھا کہ قیامِ پاکستان کی جدوجہد کا آغاز اس وقت ہوگیا تھا جب ہند میں پہلا شخص مسلمان ہوا تھا اور علامہ اقبال نے برعظیم پاک و ہند میں مسلمانوں کی ایک آزاد ریاست کی ضرورت کا جو اعلان ۱۹۳۰ء کے الٰہ آباد کے خطبۂ صدارت میں کیا تھا، اس میں اس مطالبے کے برحق ہونے کے لیے جو دلیل دی تھی وہ بڑی واضح تھی کہ اسلام کو بحیثیت ایک تمدنی قوت کے زندہ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک مخصوص علاقے میں اپنی مرکزیت قائم کرے۔
تحریکِ پاکستان کے اس مقصد کو قائداعظم نے قیامِ پاکستان سے قبل جدوجہد کے دوران کم از کم ۱۰۰ بار اور قیامِ پاکستان کے بعد ۱۴بار صاف الفاظ میں بیان کیا اور اس طرح پاکستان کی اساس اور نظریے کی حیثیت ایک معاہدئہ عمرانی (social contract) کی ہے جس کے نتیجے میں پاکستان اور اسلام لازم و ملزوم ہوجاتے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔ یہی وہ حقیقت ہے جو بالآخر دستور کی زبان میں قرارداد مقاصد کی شکل میں پہلے ۱۲ مارچ ۱۹۴۹ء کو دستور ساز اسمبلی کی قرارداد میں سامنے آئی، اور پھر پاکستان کے ہردستور کا حصہ بنی۔ اس وقت یہ دستور کے دیباچے کے علاوہ اس کے operational (تنفیذی) حصے میں بھی شامل ہے (دفعہ ۲-الف)۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی سپریم کورٹ نے اپنے ۱۹۷۳ء کے ایک فیصلے میں اس تاریخی اور دستوری حقیقت کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے:
پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ہے اور اس کا نظریہ ۱۹۴۹ء کی قرارداد مقاصد میں درج ہے، جسے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے منظور کیا ہے… مملکت پاکستان اسلامی نظریے کی بنیاد پر وجود میں لائی گئی تھی اور اسی نظریے کی بنیاد پر چلائی جائے گی۔ (پی ایل پی ۱۹۷۳ء، ص ۴۹ اور ص ۷۲-۷۳)
پاکستان کے اسلامی جمہوریہ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دیے ہوئے قانون اور رہنمائی کو زندگی کے بالاتر قانون کی حیثیت حاصل ہوگی۔ قانون سازی اور پالیسی سازی دونوں میں رہنمائی کا اولیں سرچشمہ قرآن و سنت ہوں گے۔ مسلمانوں کو قرآن و سنت کے مطابق انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تشکیل و تعمیر میں ریاست ہرممکن کردارادا کرے گی۔
اس کے ساتھ ہی یہ اصول بھی اسلام ہی کا طے کردہ ہے کہ نظامِ حکومت کو چلانے اور قیادت کو منصب ِ قیادت پر لانے اور ہٹانے کا اختیار ملک کے عوام کو حاصل ہوگا اور ریاست کا سارا نظام اَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ (ان کے معاملات باہم مشورے سے طے پاتے ہیں) کے قرآنی اصول کے مطابق انجام دیا جائے گا۔ تمام انسانوں کے بنیادی حقوق محترم اور مقدس ہوں گے اور اربابِ اختیار اللہ اور عوام دونوں کے سامنے جواب دہ ہوں گے، نیز ریاست کا کام انسانوں کے حقوق کی حفاظت کے ساتھ ان کو ان تمام سہولتوں کی فراہمی بھی ہوگا جن کے نتیجے میں وہ عزت اور سہولت کے ساتھ زندگی گزار سکیں، زندگی کے ہرشعبے میں انصاف قائم کیا جائے اور معاشرے میں ایثار، قربانی اور احسان کا دوردورہ ہو۔ یہ وہ لائحہ عمل ہے جس کے نتیجے میں ایک حقیقی جمہوری اور فلاحی معاشرہ اور ریاست وجود میں آئے گی۔ اس ریاست میں انسانی حقوق کے باب میں تمام انسان بلالحاظ مذہب، مسلک، زبان، نسل، خون، قبیلہ برابر ہوں گے اور ہرشخص اپنی انفرادی اور خاندانی زندگی استوار کرنے میں آزاد ہوگا اور اسے اجتماعی زندگی میں بھی قانون کے دائرے میں اپنا کردار ادا کرنے کے پورے مواقع ہوں گے۔ اسلام میں نہ شخصی آمریت کی گنجایش ہے اور نہ کسی بھی نوعیت کی پاپائیت کی۔ پاکستان کے لیے اصل ماڈل اور نمونہ صرف مدینہ منورہ کی وہ اسلامی ریاست اور معاشرہ ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں قائم ہوا اور ۱۴۰۰سال سے مسلمانوں کے لیے روشنی کا مینار اور اجتماعی زندگی کے لیے نمونہ ہے اور ہمیشہ رہے گا۔
پاکستان کے اس تصور کی روشنی میں جب ماضی کے ۶۶ برسوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ الم ناک حقیقت سامنے آتی ہے کہ قیامِ پاکستان کے چند سال کے بعد ہی ایک مفادپرست ٹولے نے اقتدار کو اپنی گرفت میں لے لیا اور اس میں سیاست دانوں کے ساتھ بیوروکریسی، فوجی جرنیل اعلیٰ سطح کی عدلیہ کے بعض عناصر، سرمایہ دار، وڈیرے اور جاگیردار سب ہی شریک تھے۔ ان سب نے مل کر ملک کی آزادی، نظریاتی تشخص اور تہذیبی شناخت سب کو پامال کیا، ملک کے وسائل کو ذاتی اور گروہی مقاصد کے لیے بے دردی سے استعمال کیا، کرپشن اور بدعنوانی کا بازار گرم کیا اور عوام کے لیے زندگی کو تلخ سے تلخ تر بنادیا۔ اعلیٰ ترین سیاسی دروبست میں پہلے بیوروکریسی اور پھر فوجی قیادت کی دراندازیوں نے جمہوریت، دستور اور قانون پر مبنی حکمرانی کے انتظام کو درہم برہم کردیا۔ دستورشکنی کو عدالتوں نے تحفظ فراہم کیا اور انتخابات کے نظام کو اس طرح اپنے مقاصد کے لیے استعمال ( manipulate) کیا گیا کہ عوام کی حکمرانی کا خواب چکناچور ہوگیا۔ ناانصافیوں کا دوردورہ ہوا اور حقوق کی پامالی اس مقام پر پہنچ گئی کہ دشمنوں کی مداخلت سے ملک کا ایک حصہ بدن سے جدا ہوگیا، جو بچا ہے وہ بھی لہولہان ہے۔
گذشتہ ۱۴برس ہماری تاریخ کے سیاہ ترین سال ہیں۔ پہلے نو سال ایک فوجی طالع آزما حکمراں رہا اور اسے ارباب سیاست، کارپردازانِ معیشت، سول اور فوجی انتظامیہ سب ہی میں سے مددگار میسر آگئے۔ بیرونی ممالک نے بھی اسے ہر طرح کی سرپرستی سے نوازا۔ ۲۰۰۸ء میں حالات نے کروٹ لی لیکن بدقسمتی سے پھر این آر او کے سایے میں وجود میں آنے والی حکومت نے نہ صرف وہی تباہ کن پالیسیاں جاری رکھیں بلکہ ان میں کچھ اور بھی رنگ بھرا جو فوجی حکمران کے دور میں امریکا کے اشارے پر ملک پر مسلط کی گئی تھیں۔ اس پر مستزاد، ان کے دور کی بُری حکمرانی (bad governance) ہے جس کے نتیجے میں کرپشن اور بدعنوانی میں ہوش ربا اضافہ، عوامی مسائل کو نظرانداز کرنا، توانائی کے بحران سے غفلت، تعلیم اور صحت کے باب میں مجرمانہ عدم توجہی کی لعنتوں کا اضافہ کردیا۔ ان پانچ سال میں ملک کو جو نقصان پہنچا ہے اور عوام جن مصائب سے دوچار ہوئے ہیں وہ پچھلے ۶۰برسوں سے بھی زیادہ ہیں۔ یہ دور ایسی حکومت کے اقتدار کا تھا جس میں حکمرانی ہی کا فقدان تھا۔ اس دور کی ناکامیوں اور غلط کاریوں کی فہرست بڑی طویل ہے لیکن اگر اہم ترین چیزوں کی نشان دہی کی جائے تو ان میں سرفہرست مندرجہ ذیل ہیں:
پاکستان اور اہلِ پاکستان کی اولیں قیمتی متاع ان کی آزادی اور خودمختاری ہے جو بڑی جدوجہد اور قربانی کے بعد حاصل کی گئی ہے۔ ایوب خان کے دور ہی میں اس آزادی پر امریکا، مغربی اقوام اور عالمی اداروں کا منحوس سایہ پڑنا شروع ہو گیا تھا اور آہستہ آہستہ آزادی اور خودمختاری میں کمی آرہی تھی۔ ہمارے قومی معاملات میں بیرونی مداخلت بڑھ رہی تھی اور ملک کی خارجہ اور داخلہ پالیسیاں، خاص طور پر معاشی پالیسیاں، ملک اور قوم کے مفاد سے کہیں زیادہ بیرونی قوتوں کے مفاد میں بننے لگی تھیں مگر کمانڈو صدر جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں محکومی اور امریکا کی غلامی کا جو دور شروع ہوا ہے، وہ سب سے زیادہ تباہ کن تھا اور بعد کے دور میں بھی وہ کم ہونے میں نہیں آرہا۔ ملک کی آزادی، عزت و وقار اور سالمیت پر تابڑ توڑ حملوں کے باوجود حکمرانوں کی روش میں عملاً کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے بلکہ انھوں نے بہ رضاورغبت یا بہ جبر و اِکراہ اپنے کاندھے بیرونی قوتوں کے استعمال کے لیے فراہم کر دیے ہیں۔ اب قوم کے سامنے سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ اپنی آزادی اور خودمختاری کو کس طرح دوبارہ حاصل کریں۔
۲۰۰۱ء میں نائن الیون کے بعد کولن پاول نے صدر جارج بش کی طرف سے جو دھمکی ’’ہمارے ساتھ ہو یا دہشت گردوں کے حامی ہو؟‘‘ کی شکل میں دی تھی اور جس پر مشرف صاحب چاروں شانے چت ہوگئے تھے، وہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ غلامی اور محکومی کی یہ کیفیت ہرغیور پاکستانی محسوس کرتا ہے اور بچشم سر دیکھ رہا ہے لیکن صرف ریکارڈ کی خاطر مشرف اور زرداری اور اس کے ساتھیوں کے اس مجرمانہ کردارکو ذہن میں تازہ کرنے کے لیے چند شواہد امریکا کے کارفرما عناصر کی زبان میں پیش کرنا مفید ہوگا تاکہ ۱۱مئی کے موقعے پر سابقہ قیادت کا اصل چہرہ سامنے رہے:
نیویارک ٹائمز کا نام وَر نمایندہ ڈیوڈ سانگر اپنی کتاب Confront and Conceal میں امریکی حکم اور پاکستانی قیادت کی نیازمندی کی یوں منظرکشی کرتا ہے:
جب امریکا نے افغانستان پر حملے کی تیاری کی تو اس نے پاکستان کو مجبور کیا کہ وہ طالبان اور القاعدہ کا ساتھ دینے یا واشنگٹن کا ساتھ دینے کے درمیان انتخاب کرے۔ پاکستان کے فوجی سربراہ پرویز مشرف کی کنپٹی پر بندوق تھی اور اس نے صرف وہی انتخاب کیا جو وہ کرسکتا تھا اور ملک افغانستان پر حملے کرنے کے لیے پلیٹ فارم بن گیا۔ (ص۱۲۹)
امریکا کی خارجہ سیکرٹری کونڈولیزا رائس نے اپنی سوانح عمری No Higher Honour میں بھی صاف لفظوں میں امریکا اور پاکستان کے حاکم اور محکوم والے تعلقات کو ستمبر۲۰۰۶ء میں مشرف اور بش کی ملاقات کے ذیل میں بیان کیا ہے۔ مشرف صاحب فاٹا میں امن کے معاہدوں کے باب میں امریکا کی اجازت چاہتے تھے مگر صدرِ امریکا نے ٹکاسا جواب دے دیا:
لیکن صدر نے اوول آفس کی میٹنگ میں ان پر یہ واضح کردیا کہ اگر ہمیں یہ معلوم ہوا کہ ہماری سرحدات کو کوئی خطرہ ہے، نیز اس صورت میں بھی کہ ہمیں یہ معلوم ہوا کہ القاعدہ کے کلیدی رہنما ئوں کو وہاں پناہ دی گئی ہے،امریکا خود اقدام کرے گا۔ مشرف کو دوٹوک انداز میں (point blank) بتا دیا گیا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ اقدام کسی کی اجازت کے بغیر اور ممکنہ طور پر اسلام آباد کے علم میں بھی لائے بغیر، ہمارا خصوصی استحقاق ہے۔
یہ ہے امریکا سے ہمارے تعلقاتِ غلامی کی اصل حقیقت۔ ۱۱مئی کو عوام کو یہ طے کرنا ہے کہ آیا وہ اپنی آزادی کی بازیافت کے بارے میں سنجیدہ ہیں اور کیا وہ وقت نہیں آگیا کہ یک سُو ہوکر ایسے لوگوں سے نجات پائیں جو اس ذلت کے ذمہ دار ہیں اور جو ایک بار پھر دھوکا دینے کے لیے میدان میں آگئے ہیں۔
امریکا کی غلامی اور اس کی بالادستی کے یوں تو دسیوں پہلو ہیں لیکن اس وقت ان میں سب سے اہم: ڈرون حملوں کا تسلسل ہے۔ یہ حملے پاکستان کی کی آزادی، حاکمیت اور خودمختاری پر حملہ اور ہمارے خلاف ایک طرح کا اعلانِ جنگ ہیں۔ امریکا نے پہلے کچھ پردہ رکھا مگر اب ایک سال سے اس نے کھل کر اعتراف کرلیا ہے کہ وہ حملے کر رہا ہے اور کرتا رہے گا___ تم جو چاہے کرلو۔ آج خود امریکا میں اور عالمی سطح پر ڈرون حملوں کے خلاف مؤثر آوازیں اُٹھ رہی ہیں۔ امریکا کے قانون دان امریکی قیادت کو چیلنج کر رہے ہیں کہ کانگریس کی واضح اجازت کے بغیر صدر یہ حملے نہیں کرسکتا۔ انھیں ٹارگٹ کِلنگ بھی قرار دیا جارہا ہے جو بین الاقوامی قانون اور امریکی قانون دونوں میں ممنوع ہیں۔ پھر یہ اعتراض بھی ہو رہا ہے___ اور صدرامریکا کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں___ کہ سی آئی اے جو ایک سول اور سراغ رسانی کا ادارہ ہے، اسے اس جنگی اقدام کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ اس کے نتیجے کے اعتبار سے نقصان دہ ہونے (counter productive) کا بھی اعتراف کیا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے رُوداد پیش کار (rapporteur) نے بھی انھیں اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
لیکن امریکا نے اپنی جارحیت جاری رکھی ہوئی ہے اور پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کوئی مؤثر کارروائی کرنے کے لیے تیار نہیں، بلکہ پرویز مشرف نے تو اب سی این این کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں اعتراف کیا ہے کہ اس نے ڈرون حملوں کی اجازت دی تھی۔ اس سے پہلے ایک انٹرویو میں اس وقت کے پرویز مشرف کے وزیرخارجہ اور آج کے تحریکِ انصاف کے ایک قائد جناب خورشید قصوری نے بھی اعتراف کیا ہے کہ حکومت وقت نے ان حملوں کی اجازت دی تھی۔ نیز شمسی ایئربیس کوئی خفیہ چیز نہیں تھی جس کو امریکا دھڑلے سے ان حملوں کے لیے استعمال کررہا تھا اور فوجی قیادت اور وزارتِ دفاع صرف غضِ بصر ہی نہیں کیے ہوئے تھی بلکہ پارلیمنٹ کی کمیٹیوں کے سامنے خود پاکستان کی سرزمین کے پاکستان کے خلاف استعمال ہونے پر لاعلمی کا اظہار کررہی تھی! جو کردار مشرف اور اس کی ٹیم کا تھا وہی زرداری، گیلانی اور کیانی کا ہے جن کے بارے میں امریکا کے سرکاری ذرائع کے بیانات کی روشنی میں لکھی جانے والی کتابوں اور مضامین میں کھلے الفاظ میں کہا جارہا ہے کہ سب کچھ ان کی مرضی سے ہورہا ہے۔
اب یہ بھی ثابت ہوچکا ہے کہ امریکی تحقیقی اداروں کے مطابق ڈرون حملوں سے مارے جانے والوں میں سے صرف ۳ فی صد کے بارے میں یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ ان کا تعلق القاعدہ یا دہشت پسندوں سے تھا اور تقریباً ۹۷ فی صد یقینی طور پر سویلین مرد، بچے اور عورتیں ہیں۔ خود پاکستان کے سینیٹ کی ڈیفنس کی کمیٹی کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مرنے اور زخمی ہونے والوں کی عظیم اکثریت سویلین ہے۔ اس سب کے باوجود ڈرون حملوں کا مقابلہ کرنے اور امریکا کو انھیں روکنے اور کم از کم راہداری کی تمام سہولتوں کو ختم کرنے اور ہرممکن ذریعے سے ان کو ناکام بنانے کے واضح اعلان کا دُور دُور پتا نہیں۔ ۱۱مئی کو یہ طے ہوجانا چاھیے کہ مستقبل کی قیادت وہ ہوگی جو ان شاء اللّٰہ ڈرون حملوں کو رکوانے کے لیے کوئی کمزوری نہیں دکھائے گی اور سفارت کاری اور عسکری دفاع کا ہر طریقہ اس کو روکنے کے لیے استعمال کرے گی۔
جس طرح آزادی، حاکمیت اور خودمختاری کا تحفظ جسمانی وجود کی حفاظت ہے، اسی طرح پاکستان کی شناخت، اسلام اور اسلامی تہذیب و ثقافت کی حفاظت اور ترقی روحانی وجود کی حفاظت کے لیے ضروری ہے۔ پرویز مشرف اور زرداری، گیلانی، پرویز اشرف اور ان کے حلیفوں کے دور میں پاکستان کی اسلامی اساس کو کمزور اور اس کی شناخت کو تحلیل اور مجروح کیا گیا ہے۔ اسلام اب ہماری قانون سازی اور پالیسی سازی کے لیے مرکزی حوالے (point of reference) کی حیثیت سے باقی نہیں رہا ہے۔ تعلیم میں جو تھوڑا بہت اسلام اور اسلامی تاریخی روایات اور ادب کا حصہ تھا، اسے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کم یا ختم کیا جارہا ہے۔ میڈیا پر اسلام اور اسلامی اقدار کے خلاف ایک جنگ برپا ہے اور جو اسلام اور اسلامی اقدار کے تحفظ کی بات کریں، ان پر ’غیرت بریگیڈ‘ کی پھبتی کَسی جارہی ہے۔ دستور کی دفعہ ۶۲ اور ۶۳ کو استہزا کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور صادق اور امین جیسے مقدس الفاظ تک کا مذاق اُڑایا جا رہا ہے۔ مغرب سے اسلام کے خلاف جو یلغار ہے، اور جہاد اور شریعت کو جس طرح ہدفِ تنقید بنایا جا رہا ہے، یہاں بھی اعتدال پسندی اور لبرلزم کے نام پر اسی کی بازگشت سنائی دے رہی ہے اور ’چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی‘ کی بزدلانہ اور منافقانہ روش کو عام کیا جا رہا ہے۔ معترضین کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسلام، اس کے اصولوں اور تعلیمات کے دفاع کی کوئی کوشش نظر نہیں آتی۔ اگر ایک طرف قوم کو سیاسی غلامی کی زنجیروں میں جکڑا جا رہا ہے تو دوسری طرف نظریاتی، تہذیبی اور اخلاقی غلامی کے طوق اس کی گردن میں ڈالنے کی کوشش ہورہی ہے اور حکمران طبقہ اور اشرافیہ اس میں عالمی استعماری قوتوں کے کارندوں کا کردار ادا کر رہا ہے۔ حالانکہ پاکستانی عوام امریکا سے بے زار، اس کی اسلام دشمن اور مسلم کش پالیسیوں پر آتش زیرپا اور اپنے دین اور اپنی اقدار کے تحفظ کے لیے جان کی بازی لگادینے کے لیے تیار ہیں۔ الحمدللہ، عوام اور اہلِ اقتدار میں سے بھی باضمیر افراد پاکستان کے اسلامی تشخص پر دل و جان سے یقین رکھتے ہیں اور حسب موقع اس کا اظہار بھی ہوتا ہے لیکن برسرِاقتدار طبقے کا عمومی رویہ وہی ہے جس کا ذکر ہم نے اُوپر کیا ہے۔ ۱۱مئی کو عوام کو اس بات کا بھی فیصلہ کرنا ہے کہ وہ ایک ایسی قیادت کو برسرِکار لائیں جو دین کے بارے میں مخلص اور یک سو ہو اور جو معذرت خواہانہ رویے کی جگہ پورے اعتماد سے اپنے دین اور اپنی اقدار کا تحفظ کرنے کا عزم اور صلاحیت رکھتی ہو۔
تیسرا اہم ترین مسئلہ ملک میں امن و امان کی ناگفتہ بہ حالت اور دہشت گردی کے دوردورے کا ہے۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے کہ امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ‘ نہ ہماری جنگ تھی، نہ ہے اور نہ ہوسکتی ہے۔ ہم اس دلدل میں اپنوں کی ہمالیہ سے بلند غلطیوں کی وجہ سے پھنس گئے ہیں اور جان، مال، آبرو اور آزادی ہر ایک کی پامالی کی شکل میں بیش بہا قیمت اداکررہے ہیں۔ ۵۰ہزار سے زیادہ افراد جان کی بازی ہارچکے ہیں۔ اس سے دوگنے زخمی ہوگئے ہیں،۲لاکھ سے زیادہ بے گھر ہوچکے ہیں۔ معاشی اعتبار سے ۱۰۰؍ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان اُٹھا چکے ہیں اور پورے ملک میں جرائم اور قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے۔ صرف کراچی میں گذشتہ چار سال میں ۷ ہزار سے زیادہ افراد قتل کیے جاچکے ہیں اور قاتل حکمران جماعتوں کی پناہ میں ہیں اور دندناتے پھر رہے ہیں۔
ملک کی فوج ملک کے دفاع کی جگہ خود اپنوں کے خلاف صف آرا ہے اور قوم اور فوج میں اعتماد اور محبت کا جو رشتہ ہے، وہ مجروح ہورہا ہے۔ اس سب کے باوجود امریکا کے عتاب کا بھی ہم ہی نشانہ ہیں اور ہمیں بے وفائی کے طعنے بھی سنائے جارہے ہیں۔ پارلیمنٹ نے تین بار متفقہ قراردادوں کے ذریعے فیصلہ دیا ہے کہ مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے اور ایک آزاد خارجہ پالیسی کے تحت مذاکرات، ترقی اور سدِّجارحیت (deterrence) کے سہ نکاتی فارمولے ہی کے ذریعے معاملات کو حل کیا جاسکتا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ۱۱مئی کو قوم دوٹوک الفاظ میں ان کو رد کردے جو امریکا کی دہشت گردی کی اس جنگ میں قوم کو جھونکنے کے ذمہ دار ہیں، اور قیادت ان کو سونپیں جو جنگ سے نکلنے اور علاقے کو امریکا کی گرفت سے نکال کر علاقے کے تمام ممالک کے تعاون سے مسئلے کا حل نکالنا چاہتے ہوں۔
چوتھا بنیادی مسئلہ معاش کا ہے۔ یہ پانچ سال معاشی اعتبار سے تباہ کن رہے ہیں ۔وہ ملک جو ماضی میں چھے اور سات فی صد سالانہ کی رفتار سے معاشی ترقی کی منزلیں طے کر رہا تھا، آج معاشی جمود، کسادبازاری، افراطِ زر، بے روزگاری اور غربت کے گرداب میں گرفتار ہوگیا ہے۔ گذشتہ برسوں میں مجموعی قومی پیداوار (GDP ) کی سالانہ نمو کی رفتار ۶۰سالہ تاریخ میں سب سے کم اوسطاً ۳ فی صد کے لگ بھگ ہے، حالانکہ ۱۹۴۷ء سے ۲۰۰۷ء تک اوسط ترقی کی رفتار پانچ اور ۶فی صد سالانہ کے درمیان رہی ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلسل پانچ برس تک ۳ فی صد یا اس سے بھی کم رفتارِ ترقی کا چکر ہماری تاریخ میں کبھی نہیں رہا۔ان پانچ برسوں میں افراطِ زر ۱۰ اور ۱۲فی صد کے درمیان رہا جو خود ایک ریکارڈ ہے۔ اشیاے خوردنی کی قیمتوں میں ان پانچ برسوں میں تقریباً ۱۰۰ فی صد اضافہ ہوا ہے، یعنی تقریباً ۲۰ فی صد سالانہ۔ غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ حکومت کی شاہ خرچیوں پر کوئی لگام دینے والا نہیں۔ کرپشن کا یہ عالم رہا ہے کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ان پانچ برسوں میں مجموعی کرپشن کا اندازہ ۸۰۰۰؍ارب روپے سے زیادہ کا ہے۔ تجارت میں خسارہ، بجٹ میں خسارہ اور سرکاری تحویل میں چلنے والے اداروں کا خسارہ ملکی معیشت پر تازیانہ بن کر گرتے رہے ہیں۔ عوام تڑپ رہے ہیں اور کوئی سننے والا نہیں۔ پاکستان میں ۱۹۴۷ء سے ۲۰۰۷ء تک جتنے قرضے حکومت نے لیے تھے وہ ۶ٹریلین روپے کے قریب تھے جو ان پانچ برسوں میں دگنے سے بڑھ کر ۱۲ اور ۱۳ٹریلین روپے کے درمیان ہیں اور ہر روز بڑھ رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ ۲۰۱۳ء جو اسی مہینے شائع ہوئی ہے اس کی رُو سے پاکستان میں ترقی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہمارا شمار کم ترقی کرنے والے ملکوں کے زمرے میں ہوتا ہے اور دنیا کے ۱۸۶ممالک میں ہمارا نمبر ۱۴۶ ہے۔ شدید اور انتہائی غربت میں ہمارا مقام نیپال، بنگلہ دیش اور بھوٹان سے بھی خراب اور نیچے ہے، یعنی آبادی کا ۴ء۲۷ فی صد شدید غربت کا شکار ہے۔ عمومی غربت کو اگر دو ڈالر فی کس یومیہ کی آمدنی کی بنیاد پر شمار کیا جائے تو آبادی کا ۷۰ فی صد اس عذاب میں مبتلا ہے۔ ایک طرف معیشت کا یہ حال ہے اور دوسری طرف حکمرانوں کی شاہ خرچیوں اور بدعنوانیوں کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ شرم و حیا کا کوئی وجود ہمارے معاشرے میں باقی نہیں رہا ہے۔
صدر اور وزیراعظم کے سرکاری محلوں کا خرچہ ایک سے دو لاکھ روپے یومیہ ہے۔ معاشی پالیسی سازی کے باب میں مجرمانہ رویے کی ایک مثال یہ ہے کہ پانچ سال میں پانچ بار وزیرخزانہ تبدیل ہوئے ہیں، چھے بار وزارتِ خزانہ کے سیکرٹری بدلے گئے ہیں اور چار باراسٹیٹ بنک کے گورنر کو تبدیل کیا گیا ہے۔ ستم یہ ہے کہ گذشتہ چار برسوں میں صرف ایس آر او کے ذریعے اپنے چہیتوں کو ٹیکس سے رعایت کی مد میں ۷۱۹؍ ارب روپے کی چھوٹ دے کر خزانے کو اس رقم سے محروم کیا گیا ہے، اور دوسری طرف سرکاری انتظام میں چلنے والے اداروں کو جن میں اپنی پسند کے ہزاروں افراد کو سیاسی بنیاد وں پر کھپایا گیا ہے اور جن کی قیادت اپنے من پسند کرپٹ اور نااہل افراد کو سونپی گئی ہے خسارے کے جہنم میں جھونک دیا گیا ہے۔ صرف ان پانچ سال میں سرکاری خزانے نے ان اداروں کو جو رقم مدد کے نام پر دی ہے وہ ۸ء۱ ٹریلین روپے ہے، انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔
ملک کو درپیش مسائل اور مصائب تو اور بھی ہیں لیکن ہم نے صرف اہم ترین چار مسائل کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ ان کا تعلق ملک کی آزادی، شناخت اور عوام کی زندگی کے سب سے اہم پہلو، یعنی امن و امان اور بنیادی معاشی ضروریات اور خوش حالی سے ہے۔ ان اور تمام دوسرے مسائل کی بڑی وجہ اربابِ اختیار اور زندگی کی ہرسطح پر خصوصیت سے مرکز اور صوبوں میں قیادت کی غفلت، نااہلی، وژن کی کمی، مفادپرستی اور بدعنوانی اور مؤثر احتساب کے نظام کے فقدان پر ہے۔ ملک کی آزادی اور خودمختاری کے باب میں غفلت اور بے وفائی، اسلام اور اس کے تقاضوں سے بے اعتنائی، عوام کے مفاد اور ضروریات سے لاپروائی اور اپنی ذات یا گروہ اور جماعت کے مفادات کی اندھی پرستش ہی بگاڑ کی اصل وجہ ہے۔ قیادت کی تبدیلی، اہل اور دیانت دار افراد کا ذمہ داری کے مناصب کے لیے انتخاب اور تقرر، اداروں کے درمیان تعاون اور باہمی احترام کا رشتہ، دستور اور قانون کی بالادستی، ہر حالات میں مکمل انصاف کا اہتمام اور ہرسطح پر جواب دہی کا مؤثر اور شفاف نظام ہی پاکستان کے استحکام اور ترقی کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ ان ۱۴برسوں کا اصل المیہ ہی یہ ہے کہ ان میں مسلسل تنزل کے باعث پاکستان میں آج پاکستان کا اصل تصور اور مقصد ہی نایاب ہوگیا ہے اور شاید یہ کہنا بھی غلط نہ ہو کہ آج سیاسی نقشے پر تو پاکستان موجود ہے مگر وہ تصور اور وہ وژن، جس سے پاکستان عبارت ہے، گم ہوگیا ہے۔ اب ملک کی بقا اور تعمیرنو کا انحصار تصورِپاکستان کی بازیافت پر منحصر ہے اور یہ عوام کی بیداری اور انتخاب کے موقع پر ان کے فیصلہ کن کردار ہی سے ممکن ہے۔ ۱۱مئی قوم کو ایک تاریخی موقع فراہم کررہی ہے کہ وہ اس اصل تصور اور وژن کو ایک بار پھر غالب وژن بنانے کے لیے ایک ایسی قیادت کے ہاتھوں میں ملک کی باگ ڈور دے جو اس ملک کی گاڑی کو اس کی اصل پٹڑی پر لے آئے اور اصل مقصد کی روشنی اور اس حقیقی وژن کے مطابق جو قیامِ پاکستان کا محرک تھا اس کی تعمیرنو کی خدمت انجام دے سکے۔
حال ہی میں برٹش کونسل نے نوجوانوں کے جذبات، احساسات اور خیالات کا ایک سروے کیا ہے جس میں ملک کے عوام اور خصوصیت سے نوجوان نسل کی مایوسیوں اور اُمیدوں کا عکس دیکھا جاسکتا ہے۔ ایک نوجوان نے ملک و قوم کی موجودہ کیفیت کی عکاسی بڑے دردبھرے الفاظ میں کچھ اس طرح کی ہے کہ ’’آزادی سے پہلے ہم ایک قوم تھے اور ایک ملک کی تلاش میں تھے لیکن آج ایک ملک ہے مگر قوم مفقود ہے‘‘۔ اسلام ہی نے کل ہمیں ایک قوم بنایا تھا اور اسلام سے غفلت اور بے وفائی نے قوم کو خود اپنے شعور اور وحدت سے محروم کردیا ہے۔ اسلام ہی کو مضبوطی سے تھامنے سے ہم ایک توانا قوم بن کر ایک توانا پاکستان کی تعمیر کی منزل طے کرسکتے ہیں۔
برٹش کونسل کے اس سروے سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ ملک کی بالغ آبادی کے ۸۷فی صد کی نگاہ میں ملک جس سمت میں جا رہا ہے، وہ غلط ہے لیکن نوجوانوں میں یہ احساس اور بھی زیادہ ہے، یعنی ۹۴ فی صد۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے ان نوجوانوں کا اعتماد اپنے ملک اور اس کے مستقبل پر غیرمتزلزل ہے اور وہ اس کی تعمیروترقی کا عزم رکھتے ہیں۔ ان کی عظیم اکثریت، یعنی ۶۷فی صد مرد اور ۷۵ فی صد خواتین اپنے کو روایت پسند (conservatives) کہنے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور سروے کے مرتبین یہ کہنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ : Conservatives seem dwarfing the number of moderates and liberals. (روایت پسند اعتدال پسندوں اور آزاد رووں (لبرل) پر تعداد میں چھائے ہوئے نظر آتے ہیں)۔
نوجوانوں میں سے ایک بڑی تعداد، یعنی ۳۸ فی صد یہ کہتی ہے کہ ملک کے لیے بہترین راستہ نظامِ شریعت کا نفاذ ہے اور ۲۹ فی صد جمہوریت کی بات کرتے ہیں۔ رپورٹ کے الفاظ میں:
اسلامی شریعت کو اس وجہ سے پسند کیا جا رہا ہے کہ یہ اخلاقی اور مذہبی اقدار کو آگے بڑھانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ شریعت کو عوام کے ان کے حقوق، آزادی، رواداری اور برداشت کے فروغ اور ملک کو ایک بہتر سرزمین بنانے کے لیے بہترین نظام بھی سمجھا جاتا ہے۔ (ص ۴۴۴)
نوجوان اس ملک میں کیسی قیادت دیکھنا چاہتے ہیں؟ اس کے جواب میں ان کا نقطۂ نظر بہت واضح ہے:
جب پوچھا گیا کہ وہ سب سے زیادہ اہم صفات کیا ہیں جو آپ اپنے لیڈر میں دیکھنا چاہتے ہیں تو (جواب دیا گیا کہ) وہ دیانت داری اور کرپشن سے پاک ہونا ہے۔ اس کے بعد پاکستان کو تبدیل کرنے کے لیے مضبوط خیالات۔ دوسرے الفاظ میں عملیت پسندی کافی نہیں ہے۔ نوجوان ووٹر اخلاقیات، شفافیت اور رواداری کے بارے میں سننا چاہتے ہیں۔ ممکن ہے کہ وہ کسی ایسے کی تلاش میں ہوں جو انھیں اُمید دے سکے۔
اس رپورٹ میں جن کو روایت پسند کہا گیا ہے ان کی سوچ اور عزائم کا اظہار رپورٹ میں کچھ اس طرح ہوتا ہے:
ان کی ایک امتیازی شناخت ہے جو انھی کی نسل کا خاصّا ہے۔ وہ اُمید کرتے ہیں کہ پاکستان کو بہتر بنائیں گے۔ ایسا ملک جہاں کے ۹۸ فی صد لوگ اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کے خواب کے مطابق زندگی گزاریں۔
حالات کتنے بھی خراب اور تشویش ناک ہوں، امید اور تبدیلی کا عزم رکھنے والے عوام اور نوجوان ہی ہمارا اصل سرمایہ ہیں۔ تاریخ کا سبق یہی ہے کہ ؎
طولِ شبِ فراق سے گھبرا نہ اے جگر
ایسی بھی کوئی شب ہے کہ جس کی سحر نہ ہو
۱۱مئی ہمیں اس سحر سے قریب لاسکتی ہے اگر ہم سب اس دن اپنی ذمہ داری خدا اور خلق دونوں کے سامنے جواب دہی کے احساس کے ساتھ ادا کریں۔
جماعت اسلامی پاکستان ملک کے تمام صوبوں سے مرکزی اور صوبائی، دونوں اسمبلیوں کے لیے انتخاب میں شرکت کر رہی ہے۔ جماعت اسلامی محض ایک سیاسی جماعت ہی نہیں، ایک نظریاتی تحریک ہے جو دین حق کی بنیاد پر زندگی کے تمام شعبوں کی دورِ جدید کے حالات، مسائل اور وسائل کی روشنی میں تشکیل نو کرنے کی جدوجہد ۱۹۴۱ء سے کر رہی ہے۔ اس نے فکری تشکیل نو، کردار سازی اور تعمیراخلاق، تعلیم و تربیت، سماجی خدمت، نوجوانوں اور طلبہ میں اسلامی احیا کی تنظیم، جدوجہد، مزدوروں، کسانوں، وکیلوں، سائنس دانوں، تجار، غرض زندگی کے ہر میدان میں بے لوث خدمت کی اعلیٰ مثالیں قائم کی ہیں۔ اس نے انتخابات کے ذریعے سیاسی تبدیلی کے لیے بھی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ ۱۹۶۲ء کی اسمبلی میں اس کے صرف چار ارکان تھے مگر الحمدللہ ان کی مساعی سے جنرل ایوب خان نے دستور سے قرارداد مقاصد کو خارج کرنے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان سے ’اسلامی‘ کا لفظ نکالنے کی جو جسارت کی تھی، وہ دوسال کے اندر اسے واپس لینی پڑیں اور دستور کی اسلامی دفعات بحال ہوئیں۔
۱۹۷۱ء کی اسمبلی میں ڈاکٹر نذیر احمد کی شہادت کے بعد جماعت اسلامی کے صرف تین ارکان تھے لیکن دوسری دینی جماعتوں کے تعاون سے پروفیسر عبدالغفوراحمد، مولانا مفتی محمود اور مولانا شاہ احمد نورانی کی مساعی کا نتیجہ تھا کہ ۱۹۷۳ء کے متفقہ دستور میں اسلام کو مرکزی حیثیت رہی۔ ۲۰۱۰ء کی اٹھارھویں دستوری ترمیم کے موقعے پر جماعت اسلامی کے سینیٹ میں صرف تین ارکان تھے لیکن جماعت اور جمعیت علماے اسلام کی مساعی سے اٹھارھویں ترمیم میں دستور کی تمام اسلامی دفعات کو نہ صرف مکمل تحفظ ملا بلکہ بہت سی کمزوریوں کو دُور کیا گیا، خصوصیت سے وفاقی شرعی عدالت کے نظام میں جو سقم تھے اور جس کی وجہ سے اس کی آزادی اور کارکردگی بُری طرح متاثر ہورہی تھی، ان کو دُور کرکے اس کے لیے اعلیٰ عدالت کو وہ تمام تحفظات فراہم کیے گئے جو عدالت کی آزادی کے لیے ضروری ہیں۔
پلڈاٹ (PILDAT) جو ایک آزاد ادارہ ہے، اس کی رپورٹیں گواہ ہیں کہ خواہ ۲۰۰۲ء کی قومی اسمبلی ہو یا ۲۰۰۳ء سے ۲۰۱۲ء تک کی سینیٹ، ہرجگہ جماعت کے ارکان نے پارلیمنٹ کی کارروائی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ان کی کارکردگی سب سے نمایاں رہی۔ سینیٹ کی ۲۰۱۲ء کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہرہرلحاظ سے ___ یعنی تقاریر میں سب سے زیادہ وقت، سب سے زیادہ سوالات، سب سے زیادہ قراردادیں، سب سے زیادہ نکتہ ہاے اعتراض___ گویا ہر معیار سے جماعت اسلامی کے ارکان کی کارکردگی سب سے اعلیٰ تھی۔
اسی طرح جب اور جس حد تک جماعت اسلامی کے نمایندوں کو لوکل باڈیز یا صوبہ خیبرپختونخوا میں ساڑھے چار سال خدمت کا موقع ملا، جماعت کی کارکردگی نمایاں رہی اور کرپشن کے ہرداغ سے پاک رہی۔ جماعت کے کارکن بھی انسان ہیں اور وہ ہرگز خطا سے پاک نہیں، لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور صرف تحدیث نعمت کے طور پر یہ بات کہی جارہی ہے کہ جماعت کے تمام کارکنوں نے اپنی ذمہ داریاں پوری دیانت، پوری محنت اور اپنے دامن کو ہر بدعنوانی اور ذاتی منفعت سے بچاکر انجام دیں۔ اس کا اعتراف دوست اور دشمن سب نے کیا ہے۔ جماعت اسلامی کوئی مسلکی جماعت نہیں، اس نے ہرتعصب سے بلند ہوکر اسلام اور پاکستان کی خدمت انجام دی ہے اور سب کو ساتھ لے کر چلی ہے۔ ۱۹۷۰ء سے اب تک مختلف اَدوار میں جماعت اسلامی کے مرد اور خواتین ممبران سینیٹ اور قومی و صوبائی اسمبلی کی تعداد ۱۸۶ رہی ہے ،لیکن الحمدللہ ان میں سے ہرایک نے مقدور بھر خدمت کا ایک ایسا معیار قائم کیا جو اپنی مثال آپ ہے۔
کراچی میں جناب عبدالستار افغانی (۱۹۷۹ء-۱۹۸۳ء) اور جناب نعمت اللہ خان (۲۰۰۱ء-۲۰۰۴ء) نے علی الترتیب کراچی کے میئر اور سٹی ناظم کے فرائض انجام دیے اور دیانت اور خدمت کا بہترین ریکارڈ قائم کیا۔ افغانی صاحب نے جب میئر کی ذمہ داری سنبھالی تو بلدیہ کراچی ۱۰کروڑ کی مقروض تھی اور جب ۱۹۸۳ء میں بلدیہ تحلیل کی گئی ہے اور ان کو فارغ کیا گیا، اس وقت ۱۵کروڑ کے اضافی فنڈ موجود تھے۔ ان کے دور میں بلدیہ کا بجٹ ۵۰ کروڑ سالانہ سے بڑھ کر ایک ارب ۷۰کروڑ تک پہنچ گیا تھا، نیز اس دور میں بیسیوں تعمیراتی منصوبے ہرشعبۂ زندگی میں شروع کیے گئے۔اسی طرح جب جناب نعمت اللہ خان صاحب نے ناظم کراچی کی ذمہ داری سنبھالی تو سٹی نظم کا بجٹ ۶؍ارب روپے تھا اور چار سال کے بعد جب وہ فارغ ہوئے تو یہ بجٹ ۴۲؍ارب روپے سے زائد تھا۔ دونوں اَدوار میں جو پراجیکٹس شروع ہوئے، وہ اپنی مثال آپ ہیں۔شہر کے انفراسٹرکچر میں غیرمعمولی ترقی ان اَدوار میں واقع ہوئی جسے ہرشخص نے بچشم سر دیکھا۔ اور سب سے بڑھ کر دونوں نے جس سادگی اور پروٹوکول کے بغیر اپنی ذمہ داریاں ادا کیں، وہ نفسانفسی کے اس دور میں تابناک مثالوں کی حیثیت رکھتی ہیں۔ افغانی صاحب ہوں یا نعمت اللہ صاحب، دونوں نے سرکاری مکان اور مراعات سے اپنا دامن بچایا۔ افغانی صاحب اپنے ۶۰گز کے فلیٹ ہی میں رہتے رہے اور نعمت اللہ خان نے سرکاری بنگلہ لینے سے انکار کر دیا۔ تنخواہ میں ملنے والی رقم ۴۰لاکھ روپے بھی الخدمت کے اکائونٹ میں جمع کرا دیے۔
ہم نے یہ چند باتیں صرف تحدیث نعمت کے طور پر عرض کی ہیں تاکہ قوم کے سامنے یہ بات آجائے کہ آج بھی اس قوم میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اعلیٰ صلاحیت کے ساتھ دیانت اور خدمت کے جذبے سے معمور ہیں۔ انھیں قوم نے جب بھی جو ذمہ داری دی، اسے انھوں نے وقت اور صلاحیت کے بہترین استعمال سے انجام دیا اور دیانت اور امانت کی روشن مثال قائم کی۔
ہم قوم سے صرف یہ اپیل کرتے ہیں کہ ۱۱مئی کے تاریخی موقعے پر اپنی ذمہ داری اللّٰہ کے سامنے جواب دہی کے احساس کے ساتھ انجام دیں۔ووٹ کے لیے لازماً گھر سے نکلیں اور دوسروں کو بھی ووٹ ڈالنے کی ترغیب دیں۔ ووٹ ایک امانت ہے اور اس امانت کو امانت دار افراد کے سپرد کریں۔ جمہوریت کی کامیابی کا انحصار صرف اس امر پر ہے کہ اپنے ووٹ کا ٹھیک ٹھیک استعمال کریں اور ایسی قیادت کو بروے کار لائیں جو دیانت اور صلاحیت، دونوں معیارات پر پوری اُترتی ہو۔ اگر اسمبلیوں میں اچھی قیادت کی اکثریت ہو تو ملک کی قسمت چند برسوں میں بدل سکتی ہے۔ اگر ایسے لوگوں کی اکثریت نہ بھی ہو مگر وہ ایک معقول تعداد میں موجود ہوں تو وہ حالات کو متاثر کرنے میں ایک بڑا اور مؤثر کردار ضرور ادا کرسکتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ان کے تعاون کے بغیر کوئی پایدار حکومت بن ہی نہ سکے، اور اگر ایسا نہ ہو جب بھی ایک جان دار، مؤثر اور اصول پرست اپوزیشن کی حیثیت سے وہ ملک کی پالیسیوں کو متاثر کرسکتے ہیں، احتساب کی خدمت انجام دے سکتے ہیں، عوام کی آواز کو اقتدار کے ایوانوں میں اُٹھا سکتے ہیں اور کم از کم بگاڑ کی قوتوں پر گرفت اور بگاڑ کی رفتار کو بریک لگاسکتے ہیں۔
۱۱مئی فیصلے کا دن ہے۔ اگر آپ نے صحیح فیصلہ کیا تو آپ ملک کی قسمت کو تبدیل کرسکتے ہیں اور اگر آپ نے اپنی ذمہ داری ہی ادا نہ کی تو پھر آپ نتائج کی ذمہ داری سے کیسے مبرا ہوسکتے ہیں۔ آیئے! اپنے آپ سے اور اپنے اللّٰہ سے عہد کریں کہ ۱۱مئی کو ہم پاکستان کے لیے ایسے لوگوں کو منتخب کریں گے جو اس کی آزادی، خودمختاری، حاکمیت، اسلامی شناخت اور فلاحی کردار کے حقیقی محافظ ہوسکیں، اور جو اپنی ذات کی خدمت کے لیے نہیں بلکہ ملک کی خدمت کے لیے اپنے جان اور مال کی بازی لگانے والے ہوں۔ اگر ہم اپنے اس عہد کو ٹھیک ٹھیک پورا کرتے ہیں تو پھر اُس پاکستان کی بازیافت اِن شاء اللّٰہ ہوکر رہے گی جس کے لیے قیامِ پاکستان کی تحریک برپا کی گئی تھی اور جس پر اس ملک کے مستقبل کا انحصار ہے۔
کتابچہ دستیاب ہے، قیمت: ۱۰ روپے۔ سیکڑے پر رعایت۔ منشورات، منصورہ، لاہور۔ فون:۳۵۴۳۴۹۰۹-۰۴۲
اللہ نے مسلمانوں کو خلافت عطا فرمانے کا جو وعدہ کیا ہے اُس کے مخاطب محض مردم شماری کے مسلمان نہیں ہیں بلکہ وہ مسلمان ہیں جو صادق الایمان ہوں، اخلاق اور اعمال کے اعتبار سے صالح ہوں، اللہ کے پسندیدہ دین کا اتباع کرنے والے ہوں، اور ہر طرح کے شرک سے پاک ہوکر خالص اللہ کی بندگی و غلامی کے پابند ہوں۔ اِن صفات سے عاری اور محض زبان سے ایمان کے مدعی لوگ نہ اِس وعدے کے اہل ہیں اور نہ یہ ان سے کیا ہی گیا ہے۔ لہٰذا وہ اس میں حصہ دار ہونے کی توقع نہ رکھیں۔
بعض لوگ خلافت کو محض حکومت و فرمانروائی اور غلبہ و تمکن کے معنی میںلے لیتے ہیں، پھر اس آیت سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ جس کو بھی دنیا میں یہ چیز حاصل ہے وہ مومن اور صالح اور اللہ کے پسندیدہ دین کا پیرو اور بندگیِ حق پر عامل اور شرک سے مجتنب ہے ، اور اس پر مزید ستم یہ ڈھاتے ہیںکہ اپنے اس غلط نتیجے کو ٹھیک بٹھانے کے لیے ایمان ، صلاح، دین حق، عبادت الٰہی اور شرک، ہرچیز کا مفہوم بدل کر وہ کچھ بنا ڈالتے ہیں جو اُن کے اِس نظریے کے مطابق ہو۔ یہ قرآن کی بدترین معنوی تحریف ہے جو یہود و نصاریٰ کی تحریفات سے بھی بازی لے گئی ہے۔ اِس نے قرآن کی ایک آیت۱؎ کو وہ معنی پہنا دیے ہیں جو پورے قرآن کی تعلیم کو مسخ کر ڈالتے ہیں اور اسلام کی
۱- ’’اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے اُن لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو اُسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح اُن سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بناچکا ہے، اُن کے لیے اُن کے اُس دین کو مضبوط بنیادوں پر قائم کردے گا جسے اللہ تعالیٰ نے ان کے حق میں پسند کیا ہے، اور ان کی (موجودہ) حالت ِ خوف کو امن سے بدل دے گا، بس وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔ اور جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں‘‘۔ (النور ۲۴:۵۵)
کسی ایک چیز کو بھی اس کی جگہ پر باقی نہیں رہنے دیتے۔ خلافت کی اس تعریف کے بعد لامحالہ وہ سب لوگ اس آیت کے مصداق بن جاتے ہیں جنھوں نے کبھی دنیا میں غلبہ و تمکن پایا ہے یا آج پائے ہوئے ہیں، خواہ وہ خدا، وحی، رسالت، آخرت ہر چیز کے منکر ہوں اور فسق وفجور کی ان تمام آلایشوں میں بری طرح لتھڑے ہوئے ہوں جنھیں قرآن نے کبائر قرار دیا ہے، جیسے سود، زنا، شراب اور جوا۔ اب اگر یہ سب لوگ مومن صالح ہیں اور اسی لیے خلافت کے منصب عالی پر سرفراز کیے گئے ہیں تو پھر ایمان کے معنی قوانین طبیعی کو ماننے، اور صلاح کے معنی ان قوانین کو کامیابی کے ساتھ استعمال کرنے کے سوا اور کیا ہو سکتے ہیں؟ اور اللہ کا پسندیدہ دین اِس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ علوم طبیعی میں کمال حاصل کر کے صنعت و حرفت اور تجارت وسیاست میں خوب ترقی کی جائے؟ اور اللہ کی بندگی کا مطلب پھر اس کے سوا اور کیا رہ جاتا ہے کہ ان قاعدوں اور ضابطوں کی پابندی کی جائے جو انفرادی اور اجتماعی سعی وجہد کی کامیابی کے لیے فطرتاً مفید اور ضروری ہیں؟ اور شرک پھر اس کے سوا اور کس چیز کا نام رہ جاتا ہے کہ ان مفید قواعد وضوابط کے ساتھ کوئی شخص یا قوم کچھ نقصان دہ طریقے بھی اختیار کر لے؟ مگر کیا کوئی شخص جس نے کھلے دل اور کھلی آنکھوں سے کبھی قرآن کو سمجھ کر پڑھا ہو، یہ مان سکتا ہے کہ قرآن میں واقعی ایمان اور عملِ صالح اور دین حق اور عبادتِ الٰہی اور توحید اور شرک کے یہی معنی ہیں؟
یہ معنی یا تو وہ شخص لے سکتاہے جس نے کبھی پورا قرآن سمجھ کر نہ پڑھا ہو اور صرف کوئی آیت کہیں سے اور کوئی کہیں سے لے کر اس کو اپنے نظریات و تصورات کے مطابق ڈھال لیا ہو، یا پھر وہ شخص یہ حرکت کر سکتا ہے جو قرآن کو پڑھتے ہوئے ان سب آیات کو اپنے زعم میں سراسر لغو اور غلط قرار دیتا چلا گیا ہو جن میں اللہ تعالیٰ کو واحد رب اور الٰہ، اور اس کی نازل کردہ وحی کو واحد ذریعۂ ہدایت ، اور اس کے مبعوث کردہ ہر پیغمبر کو حتمی طور پر واجب الاطاعت رہنما تسلیم کرنے کی دعوت دی گئی ہے اور موجودہ دنیوی زندگی کے خاتمے پر ایک دوسری زندگی کے محض مان لینے ہی کا مطالبہ نہیں کیا گیا ہے بلکہ یہ بھی صاف صاف کہا گیا ہے کہ جو لوگ اس زندگی میں اپنی جواب دہی کے تخیل سے منکر یا خالی الذہن ہو کر محض اس دنیا کی کامیابیوں کو مقصود سمجھتے ہوئے کام کریں گے، وہ فلاح سے محروم رہیں گے۔ قرآن میں ان مضامین کو اس قدر کثرت سے اور ایسے مختلف طریقوں سے اور ایسے صریح وصاف الفاظ میں بار بار دہرایا گیا ہے کہ ہمارے لیے یہ باور کرنا مشکل ہے کہ اس کتاب کو ایمان داری کے ساتھ پڑھنے والا کوئی شخص کبھی ان غلط فہمیوں میں بھی پڑسکتا ہے جن میں آیت ِ استخلاف کے یہ نئے مفسرین مبتلا ہوئے ہیں۔ حلانکہ لفظ خلافت و استخلاف کے جس معنی پر انھوں نے یہ ساری عمارت کھڑی کی ہے وہ ان کا اپنا گھڑا ہوا ہے،قرآن کا جاننے والا کوئی شخص اس آیت میں وہ معنی کبھی نہیں لے سکتا۔
قرآن دراصل خلافت اور استخلاف کو تین مختلف معنوں میں استعمال کرتا ہے اور ہر جگہ سیاق وسباق سے پتا چل جاتا ہے کہ کہاں کس معنی میں یہ لفظ بولا گیا ہے:
اس کے ایک معنی ہیں:’’ خدا کے دیے ہوئے اختیارات کا حامل ہونا‘‘۔ اس معنی میں پوری اولادِ آدم زمین میں خلیفہ ہے۔
دوسرے معنی ہیں:’’ خدا کے اقتدارِ اعلیٰ کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے امر شرعی ( نہ کہ محض امرتکوینی ) کے تحت اختیاراتِ خلافت کو استعمال کرنا‘‘۔ اس معنی میںصرف مومن صالح ہی خلیفہ قرار پاتا ہے، کیونکہ وہ صحیح طور پر خلافت کا حق ادا کرتا ہے۔ اور اس کے برعکس کافروفاسق خلیفہ نہیں بلکہ باغی ہے، کیونکہ وہ مالک کے ملک میں اس کے دیے ہوئے اختیارات کو نافرمانی کے طریقے پر استعمال کرتا ہے۔
تیسرے معنی ہیں: ’’ ایک دور کی غالب قوم کے بعد دوسری قوم کا اس کی جگہ لینا‘‘۔پہلے دونوں معنی خلافت بمعنی ’نیابت‘ سے ماخوذ ہیں، اور یہ آخری معنی خلافت بمعنی ’ جانشینی‘ سے ماخوذ۔ اور اس لفظ کے یہ دونوں معنی لغت ِعرب میں معلوم ومعروف ہیں۔
اب جو شخص بھی یہاں اس سیاق و سباق میں آیت ِاستخلاف کو پڑھے گا وہ ایک لمحے کے لیے بھی اس امر میں شک نہیں کر سکتا کہ اس جگہ خلافت کا لفظ اس حکومت کے معنی میں استعمال ہوا ہے جو اللہ کے امر شرعی کے مطابق ( نہ کہ محض قوانین فطرت کے مطابق) اس کی نیابت کا ٹھیک ٹھیک حق ادا کرنے والی ہو۔ اسی لیے کفار تو درکنار، اسلام کا دعویٰ کرنے والے منافقوں تک کو اس وعدے میں شریک کرنے سے انکار کیا جا رہا ہے۔ اسی لیے فرمایا جا رہا ہے کہ اس کے مستحق صرف ایمان اور عمل صالح کی صفات سے متصف لوگ ہیں۔ اسی لیے قیام خلافت کا ثمرہ یہ بتایا جا رہا ہے کہ اللہ کا پسند کردہ دین، یعنی اسلام ، مضبوط بنیادوں پر قائم ہو جائے گا۔ اور اسی لیے اس انعام کو عطا کرنے کی شرط یہ بتائی جارہی ہے کہ خالص اللہ کی بندگی پر قائم رہو جس میں شرک کی ذرہ برابر آمیزش نہ ہونے پائے۔ اس وعدے کو یہاں سے اٹھا کر بین الاقوامی چورا ہے پر لے پہنچنا اور امریکا سے لے کر روس تک جس کی کبریائی کا ڈنکا بھی دنیا میں بج رہا ہو،ا س کے حضور اسے نذر کر دینا جہالت کی طغیانی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ یہ سب طاقتیں بھی اگر خلافت کے منصب عالی پر سرفراز ہیں تو آخر فرعون اور نمرود ہی نے کیا قصور کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں لعنت کا مستحق قرار دیا ؟( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو، تفہیم القرآن، الانبیاء حاشیہ ۹۹)
اِس جگہ ایک اور بات بھی قابل ذکر ہے۔ یہ وعدہ بعد کے مسلمانوں کو تو بالواسطہ پہنچتا ہے۔ بلا واسطہ اس کے مخاطب وہ لوگ تھے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد میں موجودتھے۔ وعدہ جب کیا گیا تھا اس وقت واقعی مسلمانوں پر حالت ِ خوف طاری تھی اور دین اسلام نے ابھی حجاز کی زمین میں بھی مضبوط جڑ نہیں پکڑی تھی۔ اس کے چند سال بعد یہ حالت ِخوف نہ صرف امن سے بدل گئی بلکہ اسلام عرب سے نکل کر ایشیا اور افریقہ کے بڑے حصے پر چھا گیا اور اس کی جڑیں اپنی پیدایش کی زمین ہی میں نہیں، کرئہ زمین میں جم گئیں۔ یہ اس بات کا تاریخی ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ وعدہ ابوبکر صدیق، عمر فاروق، اور عثمان غنی رضی اللہ عنہم کے زمانے میں پورا کر دیا۔ اس کے بعد کوئی انصاف پسند آدمی مشکل ہی سے اس امر میں شک کر سکتا ہے کہ ان تینوں حضرات کی خلافت پر خود قرآن کی مہر تصدیق لگی ہوئی ہے اور ان کے مومن صالح ہونے کی شہادت اللہ تعالیٰ خود دے رہا ہے۔ اس میں اگر کسی کو شک ہو تو نہج البلاغہ میں سید نا علی کرم اللہ وجہہٗ کی وہ تقریر پڑھ لے جو انھوں نے حضرت عمرؓ کو ایرانیوں کے مقابلے پر خود جانے کے ارادے سے باز رکھنے کے لیے کی تھی۔ اس میں وہ فرماتے ہیں:
اس کام کا فروغ یا ضعف کثرت وقلت پر موقوف نہیں ہے۔ یہ توا للہ کا دین ہے جس کو اس نے فروغ دیا اور اللہ کا لشکر ہے جس کی اس نے تائیدو نصرت فرمائی، یہاں تک کہ یہ ترقی کر کے اِس منزل تک پہنچ گیا۔ ہم سے تو اللہ خود فرما چکا ہے: وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ… اللہ اس وعدے کو پوار کر کے رہے گا اور اپنے لشکر کی ضرور مدد کرے گا۔ اسلام میں قیّم کا مقام وہی ہے جو موتیوں کے ہار میں رشتے کا مقام ہے۔ رشتہ ٹوٹتے ہی موتی بکھر جاتے ہیں اور نظم درہم برہم ہو جاتا ہے، اور پراگندہ ہو جانے کے بعد پھر جمع ہونا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ عرب تعداد میں قلیل ہیں مگر اسلام نے ان کو کثیر اور اجتماع نے ان کو قوی بنا دیا ہے۔ آپ یہاں قطب بن کر جمے بیٹھے رہیں اور عرب کی چکی کو اپنے گرد گھماتے رہیں اور یہیں سے بیٹھے بیٹھے جنگ کی آگ بھڑکاتے رہیں۔ ورنہ آپ اگر ایک دفعہ یہاں سے ہٹ گئے تو ہر طرف سے عرب کا نظام ٹوٹنا شروع ہوجائے گا اور نوبت یہ آجائے گی کہ آپ کو سامنے کے دشمنوں کی بہ نسبت پیچھے کے خطرات کی زیادہ فکر لاحق ہوگی۔ اور ادھر ایرانی آپ ہی کے اوپر نظر جما دیں گے کہ یہ عرب کی جڑ ہے، اسے کاٹ دو تو بیڑا پار ہے، اس لیے وہ سارا زور آپ کو ختم کر دینے پر لگا دیں گے۔ رہی وہ بات جو آپ نے فرمائی ہے کہ اس وقت اہل عجم بڑی کثیر تعداد میں امنڈآئے ہیں، تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے پہلے بھی ہم جو ان سے لڑتے رہے ہیں تو کچھ کثرت تعداد کے بل پر نہیں لڑتے رہے ہیں، بلکہ اللہ کی تائید ونصرت ہی نے آج تک ہمیں کامیاب کرایا ہے۔
دیکھنے والا خود ہی دیکھ سکتا ہے کہ اس تقریر میں جناب امیر کس کو آیت ِاستخلاف کا مصداق ٹھیرا رہے ہیں۔(تفہیم القرآن، سوم، ص ۴۱۷-۴۲۰)
اللہ پرایمان اسلام کے نظامِ عقائد کا بنیادی عقیدہ ہے۔ اس پر یقین کے بغیر دعواے اسلام بے حقیقت ہے۔ اللہ پر ایمان یہ ہے کہ اللہ اس کائنات کی بدیہی حقیقت ہے۔ اللہ کہتا ہے ، اس کا کوئی ہمسر نہیں اور نہ کوئی اس کا شریک ہے۔ وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ وہ کسی سے پیدا ہوا ہے اور نہ کوئی اس سے پیدا ہوا ہے۔ کائنات اور اس میں پائی جانے والی ہرشے اللہ ہی نے تخلیق کی ہے اور انسان کو بھی خصوصیت سے اُسی نے پیدا کیا ہے۔
اللہ نے انسان کو برگزیدہ اور خاص انسانوں (پیغمبروں ؑ) کے ذریعے کرئہ ارض پر زندگی بسرکرنے کا طریقہ سکھایا ہے۔ اس عقیدے کا فطری تقاضا یہ ہے کہ اس کائنات اور اس کی تمام موجودات اور انسان کو اللہ اور صرف اللہ ہی کا تخلیق کردہ تسلیم کیا جائے۔ قرآن حکیم میں اس بات کو جگہ جگہ بڑی وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً سورئہ سجدہ آیات ۴-۵ میں فرمایا: ’’وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو اور ان ساری چیزوں کو جو ان کے درمیان ہیں چھے دنوں میں پیدا کیا اور اس کے بعد عرش پر جلوہ فرما ہوا‘‘۔ سورئہ روم آیت ۸ میں بیان ہے: ’’کیا انھوں نے کبھی اپنے آپ پر غوروفکر نہیں کیا؟ اللہ نے زمین اور آسمانوں کو اور ان ساری چیزوں کو جو ان کے درمیان ہیں برحق اور مدت مقررہ کے لیے پیدا کیا ہے‘‘۔
انسان کی تخلیق کے بارے میں خصوصیت سے سورئہ اعراف آیت ۱۰ میں بیان ہے: ’’ہم نے تمھاری (انسان کی) تخلیق کی ابتدا کی، پھر تمھاری صورت بنائی، پھر فرشتوں سے کہا: آدم کو سجدہ کرو‘‘۔ آگے آیت ۱۸۹ میں فرمایا : ’’وہ اللہ ہی ہے جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس کے پاس سکون حاصل کرسکے‘‘۔ سورئہ فاطر آیت ۱۱ میں وضاحت اس طرح کی گئی : ’’اللہ نے تم کو مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفے سے، پھر تمھارے جوڑے بنائے، کوئی عورت حاملہ نہیں ہوتی اور نہ بچہ جنتی ہے مگر یہ سب اللہ کے علم میں ہوتا ہے‘‘۔ بلاشبہہ اللہ رب العزت نے ہی انسان کو تخلیق کیا ہے۔
یہ سب آیات قطعی طور پر شاہد ہیں کہ پہلے انسانی جوڑے (آدم ؑ و حواؑ) کی تخلیق کا مقام جنت ہے۔ اس جنت میں مٹی بھی ہے اور پانی بھی، پھلواری اور پھل دار درخت بھی ہیں اور نہریں بھی، غرض انسان کی ضرورت کی ہرچیز بہترین صورت میں موجود ہے۔ یہی جگہ ہے جہاں مرنے کے بعد سعید روحیں اور اللہ کی راہ میں شہید ہونے والوں کی روحیں قیام کرتی ہیں۔ اس کا نام جنت الماویٰ ہے۔ یہ جنت سدرۃ المنتہیٰ پر واقع ہے۔ اس مقام تک معراج کی رات نبی کریمؐ تشریف لے گئے تھے اور آپؐ کو اس جنت کا مشاہدہ بھی کروایا گیا تھا۔ سورئہ نجم آیت ۱۳ تا۱۵ میں فرمایا گیا ہے: ’’اور ایک مرتبہ پھر اس (محمدؐ) نے سدرۃ المنتہیٰ (بیری کا وہ درخت جو انتہائی سرے پر واقع ہے) کے پاس اُس کو اُترتے دیکھا جہاں پاس ہی جنت الماویٰ ہے‘‘۔ اس جنت کے قریب ہی اللہ رب العزت کا عرش ہے۔ سورئہ سجدہ، آیت ۵ میں اس طرف اشارہ ہے: ’’آسمان سے زمین تک دنیا کے معاملات کی تدابیر کرتا ہے اور اس تدبیر کی روداد اس کے حضور جاتی ہے ایک ایسے دن جس کی مقدار ایک ہزار سال ہے‘‘۔سورئہ معراج، آیت۴ میں یہ مقدار ۵۰ ہزار سال بیان کی گئی ہے۔
قرآن میں انسانِ اوّل کے تخلیقی مادے کے لیے تُراب، طین، طین لازب، صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ، اور صلصال کالفخار کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ تراب اور طین کے معنی خاک، مٹی اور گارے کے ہیں، جب کہ طین لازب کے معنی لیس دار گارے یا چکنی مٹی ہیں۔ صلصال کالفخار کے معنی ’’ٹھیکرے جیسا سوکھا سڑا گارا یا ایسی مٹی جو ٹھیکرے کی طرح بجتی ہو‘‘ ہیں۔ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ،کا ترجمہ سید مودودی نے یوں کیا ہے: ’’سڑی ہوئی مٹی کا سوکھا گارا‘‘ اور تفسیری حاشیہ یوں ہے: ’’اُس (انسان) کی تخلیق کی ابتدا براہِ راست ارضی مادوں سے ہوئی ہے، جن کی کیفیت کو اللہ تعالیٰ نے صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ کے الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔ حَمَاء عربی زبان میں ایسی سیاہ کیچڑ کو کہتے ہیں جس کے اندر بو پیدا ہوچکی ہو، یا بہ الفاظ دیگر خمیر اُٹھ آیا ہو۔ مَسْنُوْن کے دومعنی ہیں۔ ایک معنی میں متغیر، منتِنٌ اور اِملس، یعنی ایسی سڑی ہوئی جس میں سڑنے کی وجہ سے چکنائی پیدا ہوگئی ہو۔ دوسرے معنی ہیں: مُصَوَّر، اور مصبوب، یعنی قالب میں ڈھلی ہوئی جس کو ایک خاص صورت دے دی گئی ہو۔ صلصال اس سوکھے گارے کو کہتے ہیں جو خشک ہوجانے کے بعد بجنے لگے‘‘۔(تفہیم القرآن، ج۲، ص۵۰۴)
ان تصریحات سے واضح ہوجاتا ہے کہ انسانِ اوّل کا تخلیقی مادہ ایسی مٹی ہے جس کے ذرّات انتہائی باریک اور باہم متصل ہوتے ہیں۔ ان کے درمیان ہوا نہیں ہوتی بلکہ پانی کی پَتلی تہہ ہوتی ہے جس کے باعث ذرّات آپس میں چپک جاتے ہیں۔ پھر اس مٹی میں نامیاتی کیمیاوی مادّے ہوتے ہیں۔ یہ مادے مُردہ حیوانی اور نباتی ذرائع سے حاصل ہوتے ہیں اور مٹی میں موجود زندہ بیکٹیریا کے باعث سڑتے اور گلتے ہیں۔ ان میں کیمیاوی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔ اس وجہ سے مٹی میں لیس، چپک، سڑاند، یعنی بو پیدا ہوجاتی ہے اور مٹی سیاہی مائل ہوجاتی ہے۔ یہ مٹی کسی بھی قالب میں ڈھالنے کے لیے عمدہ ہوتی ہے اور سوکھ کر ٹھیکرے کی طرح بجتی ہے۔ اس قسم کی مٹی کی عمدہ قسم کا اُس جنت میں پایا جانا جہاں انسانِ اوّل کی تخلیق کی گئی، زیادہ قرین قیاس ہے۔
اچھی صورت، متناسب جسم، اور بہترین ساخت پر پیدا کیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو اعلیٰ درجے کی ساخت پر تخلیق کیا گیا ہے جس پر کسی اور جان دار مخلوق کو نہیں بنایا گیا۔ اسے، یعنی انسان کو فکروفہم اور عقل کی وہ بلندپایہ قابلیتیں بخشی گئی ہیں جو کسی دوسری مخلوق کو نہیں دی گئیں۔ سیدھا قامت یا کھڑا قد اور اس کے ساتھ مناسب اور متناسب ترین پائوں اور ہاتھ دیے گئے ہیں جن کے باعث وہ سیدھاکھڑے ہوکر چلتا پھرتا ہے اور توازن قائم رکھتا ہے، جب کہ کوئی حیوان سیدھا دوقدم بھی نہیں چل سکتا۔ اس کو بولتی ہوئی زبان دی گئی ہے، جب کہ کوئی حیوان دو لفظ بھی نہیں بول سکتا۔ خوب صورت آنکھیں، ناک اور کان عطا ہوئے ہیں جو سب اسے ماحول سے ہم آہنگی پیدا کرنے، توازن قائم کرنے اور اپنی ضروریات تلاش کرنے میں مددگار ہیں۔ اس کو سوچنے، سمجھنے اور معلومات جمع کرنے، ان سے نتائج اخذ کرنے کے لیے ایک اعلیٰ دماغ دیا گیا ہے۔ اس کو ایک اخلاقی حِس اور قوتِ تمیز دی گئی ہے جس کی بنا پر وہ بھلائی اور بُرائی اور صحیح اور غلط میں فرق کرتا ہے۔ اس کو ایک قوتِ فیصلہ دی گئی ہے جس سے کام لے کر وہ اپنی راہِ عمل کا خود انتخاب کرتا ہے اور یہ طے کرتا ہے کہ اپنی کوششؤں کو کس راستے پر لگائے اور کس پر نہ لگائے۔ اس کو یہاں تک آزادی دی ہے کہ چاہے تو اپنے خالق کو مانے اور اس کی بندگی کرے ورنہ اس کا انکار کردے یا جن جن کو چاہے اپنا رب بنابیٹھے، یا جسے رب مانتا ہو اس کے خلاف بغاوت کرنا چاہے تو کرگزرے۔ ان ساری قوتوں اور سارے اختیارات کے ساتھ اُسے اللہ نے اپنی پیدا کردہ بے شمار مخلوقات پر تصرف کرنے کا اختیار دیا ہے اور وہ عملاً اس اختیار کو استعمال بھی کرتا ہے۔
انسانی جسم یا قالب عناصر کے آپ سے آپ جڑ جانے سے اتفاقاً نہیں بن گیا ہے بلکہ ایک خداے حکیم و دانا نے اسے مکمل صورت میں ترکیب دیا ہے یعنی ’نِک سُک‘ سے درست کیا، تناسب قائم کیا اور جس طرح چاہا جوڑ کر تیار کردیا۔ یہ جسم یا قالب دودھ پلانے والے (دودھیلے) جانور اور انسان سے کس قدر مشابہ، حیوانات مثلاً بندر، لنگور، گوریلا، بن مانس وغیرہ سے بڑی مماثلت رکھتا ہے۔ مثلاً جسم کے تمام حصے ڈھانچا، ہاضمہ، دورانِ خون کا نظام، عضلات، اعصاب اور نظام تولید وغیرہ___ سب حیوانات سے مماثل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ علمِ حیوانیات میں انسان دودھیلے حیوانات کی ہومو(Homo) نام کی ایک جنس (نوع) شمار ہوتا اور اس کا نام ہومو سیپینس (Homo Sepians) ہے۔ یہی نکتہ ہے جس کی بنا پر حامیین حیاتی ارتقا منطقی دلیل قائم کرتے ہوئے سوال کرتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے کہ انسان اور یہ دودھیلے حیوانات مماثل ہیں؟ پھر خود ہی جواب دیتے ہیں کہ اس مماثلت کی وجہ اس کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے کہ انسان حیاتی ارتقا کے اصول پر حیوانات سے ترقی پاکر بنا ہے۔
دل چسپ حقیقت یہ ہے کہ انسان اور حیوانات کی یہی مماثلت وہ نکتہ ہے جس پر غوروفکر کے نتیجے میں یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ انسان اور حیوانات دونوں ہی کو اللہ حکیم و علیم نے تخلیق کیا ہے۔ لہٰذا دونوں میں مماثلت اور مشابہت ہونا فطری اور لازمی ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح ایک ماہر سنگ تراش کے تراشے ہوئے مختلف مجسمے ایک دوسرے سے مختلف ہونے کے باوجود اپنے اندر ایسی بنیادی مشابہتیں رکھتے ہیں جس کی بنیاد پر مجسمہ سازی میں درک رکھنے والے پہچان لیتے ہیں کہ یہ سارے مجسمے کسی ایک ہی مجسمہ ساز کے تراشے ہوئے ہیں۔ یہ منطقی حقیقت اردگرد کے سارے ماحول میں رچی بسی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس سادہ سے منطقی حقیقت کو سمجھنے اور تسلیم کرنے میں کیا چیز مانع ہے؟ سواے اس بات کہ سائنس پرست وجودِ باریِ تعالیٰ کو تسلیم کرنے میں نفسیاتی اور روایتی مخالفت پر کمربستہ ہیں جو انسانی شرف کو قبول کرنے میں مانع ہے۔ اللہ تعالیٰ انسان کو انسان ہونے اور اُس کا خلیفہ فی الارض ہونے کے بہت بڑے شرف سے نوازتا ہے مگر یہ سائنسی بوجھ بجھکڑ اس کو اس شرف سے نیچے گرا کر ترقی یافتہ حیوان بنا دیتے ہیں۔
اس بارے میں مولانا مودودیؒ سورئہ سجدہ، حاشیہ ۱۶ میں رقم طراز ہیں: ’’روح سے مراد محض زندگی نہیں ہے جس کی بدولت ایک ذیِ حیات جسم کی مشین متحرک ہوتی ہے، بلکہ اس سے مراد وہ خاص جوہر ہے جو فکروشعور اور عقل و تمیز اور فیصلہ و اختیار کا حامل ہوتا ہے، جس کی بدولت انسان تمام دوسری مخلوقاتِ ارضی سے ممتاز ایک صاحب ِ شخصیت ہستی، صاحب اَنا پرستی اور حامل خلافت ہستی بنتاہے۔ اس روح کو اللہ تعالیٰ نے اپنی روح یا تو اس معنی میں فرمایا ہے کہ وہ اسی کی مِلک ہے اور اس کی ذات پاک کی طرف اس کا انتساب اسی طرح کا ہے جس طرح ایک چیز اپنے مالک کی طرف منسوب ہوکر اس کی چیز کہلاتی ہے۔ یا پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے اندر علم، فکر، شعور، ارادہ، فیصلہ، اختیار اور ایسے ہی دوسرے جو اوصاف پیدا ہوئے ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کی صفات کا پرتو ہیں۔ ان کا سرچشمہ مادے کی کوئی ترکیب نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اللہ کے علم سے اس کو علم ملا ہے۔ اللہ کی حکمت سے اس کو دانائی ملی ہے، اللہ کے اختیار سے اس کو اختیار ملا ہے‘‘۔(تفہیم القرآن، ج۴،ص ۴۱)
یہی وہ روح ہے جسے موت کے وقت فرشتے کسی انسان کے جسم سے نکال لے جاتے ہیں۔ یہ روح انسان کے قالب میں اللہ تعالیٰ نے پھونکی۔ اس کی تفصیلات کے بارے میں قرآنِ حکیم خاموش ہے۔ غالباً یہ کام بھی حکم ربی ’کن‘ کے تحت ہی انجام پایا۔ واللہ اعلم!
ابلیس نے اپنے آگ سے تخلیق ہونے پر بڑائی دکھائی اور نہ صرف اللہ رب العزت پر الزام تراشی بھی کی کہ ’’تو نے مجھے گمراہی میں مبتلا کیا ہے‘‘ حالانکہ وہ خود اپنے نفس کی گمراہی میں مبتلا ہوگیا تھا اور اللہ کی اطاعت سے نکل گیا اور ذلت میں گرگیا۔ اس بنا پر اللہ احکم الحاکمین نے اُس کو اور اس کے گروہ کو نیچے زمین پر اُتر جانے کا حکم دیا۔ اس انتباہ کے ساتھ کہ ’’یقین رکھ کہ ان (انسانوں) میں سے جو تیری پیروی کریں گے تجھ سمیت ان سب سے جہنم کو بھر دوں گا‘‘۔
جنات کون ہیں؟ کرۂ ارضی پر جنات بھی اللہ کی مخلوق ہیں۔ ان کو اللہ نے آگ کی لپٹ سے، انسان کی تخلیق سے بہت پہلے پیدا کیا۔ جِنّ انسانوں کو نظر نہیں آتے مگر وہ ان کو دیکھتے ہیں۔ یہ انسانی آبادیوں سے دُور سنسان جگہوں پر رہتے ہیں۔ بعض جنات اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور بعض اللہ اور اس کے احکامات سے رُوگردان بھی ہیں۔ یہ دوسرا گروہ ہے جو اللہ کے سیدھے راستے سے انسانوں کو روکتا ہے اور دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے۔ اس گروہ کے افراد شیطان کہلاتے ہیں۔
ابلیس، آدم ؑکی گھات میں تھا۔ اپنی چکنی چپڑی باتوں سے وہ آدم ؑ و حواؑ دونوں کو پھسلانے میں کامیاب ہوگیا کہ :’’تمھارے رب نے تمھیں جو اس درخت سے روکا ہے اس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جائو یا تمھیں ہمیشگی کی زندگی حاصل نہ ہوجائے اور اُس نے قَسم کھاکر ان سے کہا کہ میں تمھارا سچا خیرخواہ ہوں۔ آخرکار دونوں کو دھوکا دے کر اپنے ڈھب پر لے آیا۔ آخرکار جب انھوں نے اس درخت کا مزہ چکھا تو ان کے ستر ایک دوسرے کے سامنے کھل گئے اور وہ اپنے جسموں کو جنت کے پتوں سے ڈھانکے لگے۔ تب ان کے رب نے انھیں پکارا: ’’کیا میں نے تمھیں اس درخت سے نہ روکا تھا اور نہ کہا تھا کہ شیطان تمھارا کھلا دشمن ہے؟‘‘ دونوں بول اُٹھے: ’’اے رب! ہم نے اپنے اُوپر ستم کیا، اب اگر تو نے ہم سے درگزر نہ فرمایا اور رحم نہ کیا تو یقینا ہم تباہ ہوجائیں گے‘‘ (اعراف ۷:۲۰-۲۳)۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’تم ایک دوسرے کے دشمن ہو، تمھارے لیے ایک خاص مدت تک زمین میں ہی جاے قرار ہے اور سامانِ زیست ہے‘‘ اور فرمایا: ’’وہیں تم کو جینا اور وہیں مرنا ہے اور اس میں سے تم کو آخرکار نکالا جائے گا‘‘ (اعراف ۷:۲۴-۲۵)
lآدمؑ و حواؑ اور ابلیس کا زمین پر اُتارا جانا: اللہ احکم الحاکمین نے آدمؑ و حواؑ اور شیطان کو جنت سے کرئہ ارضی سے اُتر جانے کا حکم صادر کیا اور پھر وہ لوگ زمین پر اُتار دیے گئے اس تنبیہہ کے ساتھ ’’تمھارے بعض بعض کے دشمن ہیں (بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ) ،اور اس ہدایت کے ساتھ کہ ’’جب تمھیں میری طرف سے کوئی ہدایت پہنچے تو جو میری اس ہدایت پر چلا، نہ ان پر کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے اور جنھوں نے میری آیات کو جھٹلایا وہی دوزخ والے ہیں اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے‘‘۔ (البقرہ ۲:۲۸-۲۹)
حکم عدولی کے نتیجے میں، ان کے ستر ڈھانکنے کا جو انتظام کیا تھا وہ بکھر گیا۔ اب جنت کے درختوں کے پتوں سے انھوں نے اپنی سترپوشی کی۔ یہ واقعہ اس حقیقت کا غماز ہے کہ انسان جب بھی کسی معاملے میں اللہ رب العزت کے حکم کی نافرمانی کرے گا تو دیر یا سویر اس کا پردہ کھل کر رہے گا۔ انسان کے ساتھ اللہ کی تائید و حمایت اس وقت تک ہے جب تک وہ اللہ کا مطیع فرمان ہے۔ طاعت کی حدود سے قدم باہر نکالتے ہی اُسے اللہ کی تائید و حمایت ہرگز حاصل نہ ہوگی، بلکہ وہ اپنے نفس کے حوالے کردیا جائے گا۔ انسان نے شیطان سے پہلی شکست ستر کے برہنہ ہوجانے کے مسئلے پر کھائی اور آج بھی کارگاہِ حیات میں یہ بات بڑی اہم ہے کہ شیطان اور اس کی ذُریت کی پوری کوشش ہے کہ مختلف ذرائع استعمال کرکے مرد اور عورت کو ایک دوسرے کے سامنے برہنہ یا نیم برہنہ کردے اور اس کو ’روشن خیالی‘ یا ’تہذیب جدید‘ قرار دے کر انسان کو روشن خیال یا ترقی یافتہ ثابت کردے۔
آدمؑ و حواؑ کو جنت سے نکالا ضرور مگر سزا کے طور پر نہیں بلکہ مزید آزمایش و امتحان کے لیے، اس لیے کہ دونوں نے فوراً ہی اپنی غلطی تسلیم کرلی اور اللہ رب العزت سے معافی کے خواستگار ہوئے اور اللہ نے ان دونوں کو معاف بھی کردیا۔ آدمؑ و حواؑ اپنے رب کی فرماں برداری میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوسکے اور انسان کی یہ کمزوری ظاہر ہوگئی کہ وہ اپنے دوست نما دشمن کے فریب میں آکر اطاعت سے رُوگردانی کرسکتا ہے۔ پھر انسان نے عجزوانکسار اختیار کیا، اللہ کے حضور اپنی بڑائی اور گھمنڈ نہیں دکھایا۔ اس اعتبار سے انسان شیطان سے افضل قرار پایا، جب کہ شیطان نے اللہ کے مقابلے میں سرکشی اختیار کی اور اللہ رب العزت پر الزام تراشی بھی کی۔
lزمین کی آرایش و زیبایش:کرئہ ارض کو انسان کی رہایش کے قابل بنانا بھی انسان کی تخلیق کے منصوبے کا ایک حصہ ہے۔ انسان کی تخلیق سے بہت پہلے یہ کام شروع ہوچکا تھا۔ سورئہ حج آیت ۶۲ بتاتی ہے: ’’کیا تم دیکھتے نہیں کہ اس (اللہ) نے وہ سب کچھ تمھارے لیے مسخر کررکھا ہے جو زمین میں ہے‘‘۔ سورئہ طٰہٰ آیت ۵۳ بیان کرتی ہے: ’’ہم نے زمین کا فرش بچھایا اور اس میں تمھارے لیے راستے بنائے اور اُوپر سے پانی برسایا۔ پھر اس کے ذریعے قسم قسم کی پیداوار نکالی‘‘۔ سورئہ زمر آیت۶ بتاتی ہے: ’’اُس (اللہ) نے تمھارے لیے مویشیوں میں سے آٹھ نر اور مادہ پیدا کیے‘‘۔ اور سورئہ نمل آیت۶۱ میں کہا گیا ہے: ’’اور وہ کون ہے جس نے زمین کو جاے قرار بنایا اور اس کے اندر دریا رواں کیے اور اس میں (پہاڑوں کی) میخیں گاڑدیں؟‘‘
یہاں مولانا مودودیؒ کا یہ طویل اقتباس شافی ہوگا: ’’زمین کا اپنی بے حدوحساب مختلف النوع آبادی کے لیے جاے قرار ہونا بھی کوئی سادہ سی بات نہیں ہے۔ اس کرئہ خاکی کو جن حکیمانہ مناسبتوں کے ساتھ قائم کیا گیا ہے، ان کی تفصیلات پر آدمی غور کرے تو اس کی عقل دنگ رہ جاتی ہے اور اُسے محسوس ہوتا ہے کہ یہ مناسبتیں ایک حکیم و دانا قادرِ مطلق کی تدبیر کے بغیر قائم نہ ہوسکتی تھیں۔ یہ کرہ فضاے بسیط میں معلق ہے، کسی چیز پر ٹکا ہوا نہیں ہے، مگراس کے باوجود اس میں کوئی اضطراب اور اہتزاز نہیں ہے۔ اگر اس میں ذرا سا بھی اہتزاز ہوتا، جس کے خطرناک نتائج کا ہم کبھی زلزلہ آجانے سے بہ آسانی لگاسکتے ہیں، تو یہاں کوئی بھی آبادی ممکن نہ تھی۔ یہ کرہ باقاعدگی کے ساتھ سورج کے سامنے آتا اور چھپتا ہے جس سے رات اور دن کا اختلاف رُونما ہوتا ہے۔ اگر اس کا ایک ہی رُخ ہر وقت سورج کے سامنے رہتا اور دوسرا ہروقت چھپا رہتا تو یہاں کوئی آبادی ممکن نہ ہوتی کیونکہ ایک رُخ کو سردی اور بے نوری نباتات اور حیوانات کی پیدایش کے قابل نہ رکھتی اور دوسرے رُخ کو گرمی کی شدت بے آب و گیاہ اور غیرآباد بنا دیتی۔ اس کرہ پر ۵۰۰ میل کی بلندی تک ہوا کا ایک کثیف ردّا چڑھا دیا گیا ہے جو شہابوں کی خوف ناک بم باری سے اسے بچائے ہوئے ہے، ورنہ روزانہ ۲ کروڑ شہاب جو ۳۰میل فی سیکنڈ کی رفتار سے زمین کی طرف گرتے ہیں یہاں وہ تباہی مچاتے کہ کوئی انسان، حیوان یا درخت جیتا نہ رہ سکتا تھا۔ یہی ہوا درجۂ حرارت کو قابو میں رکھتی ہے۔ یہی سمندروں سے بادل اُٹھاتی اور زمین کے مختلف حصوں تک آب رسانی کی خدمت انجام دیتی ہے اور یہی انسان اور حیوان اور نباتات کی زندگی کو مطلوبہ گیسیں [آکسیجن، کاربن ڈائی آکسائیڈ] فراہم کرتی ہے۔ یہ نہ ہوتی تب بھی زمین کسی آبادی کے لیے جاے قرار نہ بن سکتی ۔
اس کُرے کی سطح سے بالکل متصل وہ معدنیات اور مختلف قسم کے کیمیاوی اجزا بڑے پیمانے پر فراہم کردیے گئے ہیں جو نباتی، حیوانی اور انسانی زندگی کے لیے مطلوب ہیں۔ جس جگہ بھی یہ سروسامان مفقود ہوتا ہے وہاں کی زمین کسی زندگی کو سہارنے کے لائق نہیں ہوتی۔ اس کُرے پر سمندروں، دریائوں، جھیلوں،چشموں اور زیرزمین سوتوں کی شکل میں پانی کا بڑا عظیم الشان ذخیرہ فراہم کردیا گیا ہے اور پہاڑوں پر بھی اس کے بڑے بڑے ذخائر کو منجمد کرنے اور پھر پگھلا کر بہانے کا انتظام کیا گیا ہے۔ اس تدبیر کے بغیر یہاں کسی زندگی کا امکان نہ تھا۔ پھر اس پانی، ہوا اور تمام اُن اشیا کو جو زمین پر پائی جاتی ہیں، سمیٹے رکھنے کے لیے اس کُرے میں نہایت ہی مناسب کشش رکھ دی گئی ہے۔ یہ کشش اگر کم ہوتی ہو تو ہوا اور پانی، دونوں کو نہ روک سکتی اور درجۂ حرارت اتنا زیادہ ہوتا کہ زندگی یہاں دشوار ہوجاتی۔یہ کشش اگر زیادہ ہوتی تو ہوا بہت کثیف ہوجاتی، اس کا دبائو بڑھ جاتا، بخارات آبی کا اُٹھنا مشکل ہوتا اور بارشیں نہ ہوسکتیں، سردی زیادہ ہوتی، زمین کے بہت کم رقبے آبادی کے قابل ہوتے بلکہ کشش ثقل بہت زیادہ ہونے کی صورت میں انسان اور حیوانات کی جسامت بہت کم ہوتی اور ان کا وزن اتنا زیادہ ہوتا کہ نقل و حرکت بھی ان کے لیے مشکل ہوتی۔ علاوہ بریں، اس کُرے کو سورج سے ایک خاص فاصلے پر رکھا گیا ہے جو [انسانی، حیوانی اور نباتاتی] آبادی کے لیے مناسب ترین ہے۔ اگر اس کا فاصلہ زیادہ ہوتا تو سورج سے اس کو حرارت کم ملتی، سردی بہت زیادہ ہوتی، موسم بہت لمبے ہوتے اور مشکل ہی سے یہ آبادی کے قابل ہوتا، اور اگر فاصلہ کم ہوتا اس کے برعکس گرمی کی زیادتی اور دوسری بہت سی چیزیں مل جل کر اسے انسان جیسی مخلوق کی سکونت کے قابل نہ رہنے دیتیں۔
یہ صرف چند وہ مناسبتیں ہیں جن کی بدولت زمین اپنی موجودہ آبادی کے لیے جاے قرار بنی ہے۔ کوئی شخص عقل رکھتا ہو اور ان اُمور کو نگاہ میں رکھ کر سوچے تو وہ ایک لمحے کے لیے بھی نہ یہ تصور کرسکتا ہے کہ کسی خالق حکیم کی منصوبہ سازی کے بغیر یہ مناسبتیں محض ایک حادثے کے نتیجے میں خودبخود قائم ہوگئی ہیں، اور نہ یہ گمان کرسکتا ہے کہ اس عظیم الشان تخلیقی منصوبے کو بنانے اور رُوبہ عمل لانے میں کسی دیوی، دیوتا، یا جن یا نبی و ولی ، یا فرشتے کا کوئی دخل ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج۳، ص۵۹۰-۵۹۲)
lکرۂ خاکی پر نسلِ انسانی کی تخلیق:آدمؑ اور حواؑ کو زمین پر اُتارنے کے بعد اور زمین کو ان کا مامن اور مسکن قرار دینے کے بعد مرد اور عورت کے نطفوں کے ملاپ کو انسان کی پیدایش کا طریقہ قرار دیا۔ یہ طریقہ نسلِ انسانی کو قائم رکھنے، ترقی دینے اور زمین پر پھیلانے اور بسانے کی غرض سے جاری فرمایا۔ سورئہ مومن آیت ۴ میں بیان ہے: ’’وہی تو ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر نطفے سے‘‘۔ اس کی مزید تشریح سورئہ دھر’ آیت۳ میں یوں کی گئی کہ: ’’ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا‘‘ اور ’’مزید یہ کہ ’’اور اللہ ہی ہے جس نے تمھارے لیے ہم جنس بیویاں بنائیں اور اسی نے ان بیویوں سے تمھیں بیٹے اور پوتے عطا کیے‘‘۔ (النحل ۱۶:۷۲)
اس عنوان پر بہت سی اور آیات ہیں مگر درج ذیل قابلِ غور ہیں: ۱-’’پھر اس کی (انسان کی) نسل ایک ایسے ست سے چلائی جو حقیر پانی کی طرح کا ہے‘‘ (السجدہ ۳۲:۷-۹)۔۲- ’’پھر جب مرد نے عورت کو ڈھانپ لیا تو اسے ایک خفیف ساحمل رہ گیاجسے لیے لیے وہ چلتی پھرتی رہی‘‘ (اعراف ۷:۱۸۹)۔۳-’’کیا وہ ایک حقیر پانی کا نطفہ نہ تھا جو (رحمِ مادر میں) ٹپکایا جاتا ہے؟ پھر وہ ایک لوتھڑا بنا، پھر اللہ نے اس کا جسم بنایا اور اس کے اعضا درست کیے، پھر اس سے مرد اور عورت کی دو قسمیں بنائیں‘‘ (القیامۃ ۷۵: ۳۷-۳۹)۔ مرد اور عورت کے ملنے والے نطفوں سے انسان کے بنانے کی تفصیل سورئہ حج، آیات ۵-۶ میں درج ہے۔
انسان کی تخلیق اوّل سے قبل اس کرئہ خاکی پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے دوسری اور بھی زندہ مخلوق، یعنی نباتات اور حیوانات پیدا کی۔ ان کی بعض انواع پیدا بھی کی گئیں اور معدوم بھی کردی گئیں، مگر نوع زوج زوج، یعنی نر اور مادہ کی صورت میں پیدا کی گئیں۔ اس لیے کہ ان سب کی نسلی افزایش مقصود تھی۔ قرآن حکیم میں اس بارے میں بیان ہے: ’’پاک ہے وہ ذات جس نے تمام اشیا کے جوڑے پیدا کیے خواہ وہ زمین کی نباتات میں سے ہوں یا خود ان کی اپنی جنس، یعنی نوعِ انسانی میں یا ان اشیا میں جن کو یہ جانتے تک نہیں‘‘ (یٰسٓ ۳۶:۳۶)
کرئہ خاکی پر ہر انسان ایک خاص مدت تک زندگی گزارے گا۔ زندگی گزارنے کے لیے اپنے اختیار سے یا تووہ طریقہ اختیار کرے گا جو اس کے رب نے پیغمبروں کے ذریعے اس تک پہنچایا ہے یا وہ طریقہ اختیار کرے گا جو رب کے بتائے ہوئے طریقے کے بجاے کوئی اور طریقہ ہے۔ بس یہی انسان کی مدت ہے اور ہر انسان کے امتحان کی مدت مختلف ہے۔ اس مدت کے اختتام پر ہرانسان پر موت واقع ہوگی اور اس کے جسم سے اللہ کی پھونکی جانے والی روح نکال لی جائے گی اور مُردہ جسم سپردِ خاک کر دیا جائے گا۔ دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ پھر ایک مدت بعد اسی خاک سے اس کو اپنی اصلی حالت میں اُٹھا کھڑا کیا جائے گا۔ فی الحقیقت یہ ہرانسان کی دوسری پیدایش ہے۔ اس وقت بھی اسے رب العزت ہی تخلیق فرمائے گا۔ اس بارے میں قرآنِ حکیم میں سورئہ نوح آیت ۱۷ میں یہ شہادت موجود ہے: ’’پھر وہ (اللہ) تمھیں اسی زمین میں واپس لے جائے گا اور اس سے یکایک تم کو نکال کھڑا کرے گا‘‘۔ سورئہ طٰہٰ، آیت ۵۵ میں اس طرح بیان ہوا ہے کہ ’’اسی زمین سے ہم نے تم کو پیدا کیا اور اسی میں ہم تمھیں واپس لے جائیں گے اور اسی سے تم کو دوبارہ نکال لیں گے‘‘۔
تعصب اُن انتہائی خطرناک چیزوں میں سے ہے جو معاشروں کو تباہ کردیتی ہیں، اُن کو ایک دوسرے کا دشمن بنادیتی ہیں۔ بلکہ یہاں تک ہوتا ہے کہ ان کے درمیان جنگ کی آگ بھڑکا دیتی ہیں۔ حتیٰ کہ ایک ہی معاشرے اور ایک ہی وطن کے باشندے آپس میں برسرِجنگ ہوجاتے ہیں۔ تعصب سے مراد یہ نہیں ہے کہ آدمی اپنی آزاد مرضی سے اختیار کیے ہوئے اپنے عقیدے اور افکار کے اُوپر فخر کرے۔ بلکہ تعصب کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنی فکر اور عقیدے کی محبت میں اس طرح اندھا ہوجائے کہ دوسروں کو اپنا مخالف اور دشمن قرار دے لے۔ اُن سے نقصان اور شر کا اُسے اندیشہ لاحق رہے۔ اُن کے لیے بُرا سوچے اور بُرا کرے۔ اُن کے خلاف ناپسندیدگی اور تشدد کی فضا پیدا کرے۔ جس کی وجہ سے لوگ امن و سکون کی زندگی نہ گزار سکیں۔ اور یہ امن و سکون انسانیت کے لیے اللہ رب العزت کی عظیم نعمت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب قریش کو اس نعمت سے نوازا تو فرمایا: فَلْیَعْبُدُوْا رَبَّ ہٰذَا الْبَیْتِ o الَّذِیْٓ اَطْعَمَھُمْ مِّنْ جُوْعٍ وَّاٰمَنَھُمْ مِّنْ خَوْفٍ o (قریش: ۱۰۶:۳-۴)، ’’لہٰذا اُن کو چاہیے کہ اس گھر کے رب کی عبادت کریں جس نے انھیں بھوک سے بچاکر کھانے کو دیا اور خوف سے بچاکر امن عطا کیا‘‘۔
قرآن مجید نے بھوک اور خوف کو معاشرے کے لیے بدترین مصیبت قرار دیتے ہوئے کہا: وَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا قَرْیَۃً کَانَتْ اٰمِنَۃً مُّطْمَئِنَّۃً یَّاْتِیْھَا رِزْقُھَا رَغَدًا مِّنْ کُلِّ مَکَانٍ فَکَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّٰہِ فَاَذَاقَھَا اللّٰہُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَ الْخَوْفِ بِمَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَo (النحل ۱۶:۱۱۲) ، ’’اللہ ایک بستی کی مثال دیتا ہے۔ وہ امن و اطمینان کی زندگی بسر کر رہی تھی اور ہرطرف سے اس کو بفراغت رزق پہنچ رہا تھا کہ اُس نے اللہ کی نعمتوں کا کُفران شروع کر دیا۔ تب اللہ نے اس کے باشندوں کو اُن کے کرتوتوں کا یہ مزا چکھایا کہ بھوک اور خوف کی مصیبتیں ان پر چھاگئیں‘‘۔
کچھ لوگ یہ تصور رکھتے ہیں کہ دینی ایمان اور تعصب لازم ملزوم ہیں۔ ایمان کسی حالت میں بھی تعصب سے جدا نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ مومن دینی اعتبار سے یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ وہ حق پر ہے اور اُس کے علاوہ سب باطل پر ہیں۔ اُس کا ایمان ہی راہِ نجات ہے۔ جو انسان اُس کے اس مضبوط سہارے کو نہیں پکڑے گا وہ نجات کے راستے کی طرف ہدایت نہیں پاسکتا۔ اور جو بھی اس کی کتاب قرآنِ مجید اور اس کے رسول حضرت محمدؐ پر ایمان نہیں لائے گا وہ جہنم رسید ہوگا۔ اُسے اُس کے اچھے اور بھلے کام کوئی فائدہ نہیں دے سکیں گے۔ کیونکہ اُن کی بنیاد ایمان پر نہیں تھی اس لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں اُن کاموں کی کوئی قدروقیمت نہیں ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَعْمَالُھُمْ کَسَرَابٍ م بِقِیعَۃٍ یَّحْسَبُہُ الظَّمْاٰنُ مَآئً حَتّٰیٓ اِِذَا جَآئَ ہٗ لَمْ یَجِدْہُ شَیْئًا (النور ۲۴:۳۹)،’’ جنھوں نے کفر کیا ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے دشت بے آب میں سراب کہ پیاسا اُس کو پانی سمجھے ہوئے تھا، مگر جب وہاں پہنچا تو کچھ نہ پایا‘‘۔ مَثَلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِرَبِّھِمْ اَعْمَالُھُمْ کَرَمَادِ نِ اشْتَدَّتْ بِہِ الرِّیْحُ فِیْ یَوْمٍ عَاصِفٍ لَا یَقْدِرُوْنَ مِمَّا کَسَبُوْا عَلٰی شَیْئٍ (ابراھیم ۱۴:۱۸)، ’’جن لوگوں نے اپنے رب سے کفر کیا ہے ان کے اعمال کی مثال اُس راکھ کی سی ہے جسے ایک طوفانی دن کی آندھی نے اڑا دیا ہو۔ وہ اپنے کیے کا کچھ بھی پھل نہ پاسکیں گے‘‘۔
محض تعصب کی بنیاد پر قائم کیے گئے اس طرح کے تصورات یقینا لوگوں کے درمیان بُغض اور عداوت پیدا کرتے ہیں۔ بہت سے مواقع پر تو یہ تصورات بعض گروہوں اور قوموں کے درمیان خوں ریز لڑائیوں کا سبب بن جاتے ہیں۔ تاریخ کے مختلف اَدوار میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ دومختلف ادیان کے لوگوں کے درمیان جنگیں برپا ہوئیں، مثلاً مسلمانوں اور مسیحیوں کے درمیان، بلکہ ایک ہی دین کے ماننے والے دینی مسالک اور گروہوں کے درمیان یہ لڑائیاں ہوتی رہیں۔ عیسائی فرقے کیتھولک اور پروٹسٹنٹ باہم جنگ آزما رہے۔ مسلمانوں کے شیعہ اور سُنّی گروہ باہم متحارب رہے۔
سوال یہ ہے کہ ان فکری اور عملی مشکلات کا حل کیا ہے جو واقعتا معاشروں کو درپیش ہیں۔ جو ایسے چیلنج بن کر سامنے کھڑی ہیں کہ اُن کا مقابلہ کیا جائے۔ ایسے سوالات بن کر سامنے آئی ہیں کہ اُن کا جواب فراہم کیا جائے؟
میں یہاں بلاتردد یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اسلام نے ان نظری تصورات اور عملی مشکلات کا حل ایسی روشن اور اصلی روایت کے ذریعے پیش کیا ہے جس روایت، رجحان اور کلچر کی بنیاد صرف اور صرف اسلام ہی نے رکھی ہے، اور اسلام ہی نے اپنے ماننے والوں کو اس کی تعلیم دی ہے۔ یہ وہ کلچر اور رجحان ہے جو رواداری اور برداشت کو جنم دیتا ہے، تعصب کو پنپنے نہیں دیتا۔ تعارف اور مانوسیت کا ماحول پیدا کرتا ہے، اجنبیت اور غیراُنسیت کو ختم کرتا ہے۔ محبت کے پھول کھلاتا ہے، نفرت کے بیج نہیں بوتا۔ مکالمے کی تعلیم دیتا ہے اور تصادم کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ نرمی اور ملاطفت کی فضا قائم کرتا ہے، سختی اور تشدد کے رویوں کا خاتمہ کرتا ہے۔ رحم دلی کے جذبات بیدار کرتا ہے ، سختی اور سنگ دلی انسانوں کے لیے روا نہیں سمجھتااور جنگ نہیں بلکہ امن سے انسانیت کو آشنا کرتا ہے۔
۱- مسلمانوں کو دی گئی رواداری کی تعلیم کے ماخذ کئی ہیں اور یہ سب اصلی اور بنیادی ماخذ ہیں۔ بلاشبہہ ان میں سب سے بڑا ماخذ قرآن کریم ہے جس نے رواداری کے اصولوں کی بنیاد رکھی ہے۔ اپنے معجزبیان اسلوب کے ذریعے مکی اور مدنی سورتوں میں ان اصولوں کو واضح کیا ہے۔ قرآن کریم کا یہ اسلوبِ بیان پورے انسانی وجود کو مخاطب کرتا ہے جس کے نتیجے میں عقل مطمئن ہوجاتی ہے، جذبات وجد میں آجاتے ہیں اور عزم بیدار ہوجاتا ہے۔ پڑھنے والا محسوس کرے گا کہ وہ شرعی اور منطقی دلائل جن کو ہم نے ’رواداری کی تعلیم‘ کے اس مضمون میں بنیاد بنایا ہے، اُن کی اساس اور بنیاد قرآن کریم ہی سے فراہم کی گئی ہے۔
۲- قرآن کے بعد سیرت و سنت ِ نبویؐ ہے جو قرآنِ مجید کی شرح، وضاحت اور تفصیل بیان کرتی ہے۔ سنت قرآن کریم کا نظری بیان اور عملی تطبیق ہے۔ جیسا قرآن کریم نے کہا ہے: وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ وَ لَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَo (النحل ۱۶:۴۴)، ’’اور ہم نے یہ ذکر تم پر نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اُس تعلیم کی شرح و توضیح کرتے جائو جو اُن کے لیے اُتاری گئی ہے، اور تاکہ لوگ (خود بھی) غوروفکر کریں‘‘۔
۳- عملِ صحابہؓ ، خصوصاً خلفاے راشدینؓ کا عمل، ان کا طریقہ نبی کریمؐ کی سنت کا تسلسل ہے۔ یہ مدرسۂ نبوت کے طالبانِ علم ہیں، انھوں نے اسی علمِ نبوت کی پیروی کی اور ہدایت پائی، اپنے قوانین اور فیصلے سنت ِ نبویؐ ہی کی روشنی میں تیار اور نافذ کیے۔ اور صراطِ مستقیم کی طرف رہنمائی پائی۔
۴- اس کے ساتھ ہم اَئمہ اُمت ، فقہا اور راسخ علما کے اقوال کو بھی بنیاد بناتے ہیں کیونکہ یہی لوگ نبوت کے وارث اور اس علم کے حامل ہیں جو اہلِ غلو کی تحریفات سے، باطل پسندوں کے نظریات سے،اور جاہلوں کی تاویلات سے دین کو صاف کرتے ہیں۔
۵- مسلم رواداری کی تعلیم کے ماخذ میں ’تاریخی حالات‘ بھی شامل ہیں کیونکہ اسلام کی اس تاریخ میں مخالفینِ اسلام کے ساتھ برداشت اور رواداری کا سلوک اور برتائو سامنے آیا۔ اس معاملے میں کسی خلیفہ، سلطان، رہنما یا وزیر نے مشرق و مغرب میں مخالفت نہیں کی۔ نہ عہدبنواُمیہ میں اور نہ عہد بنوعباس و بنوعثمان میں ایسا کوئی برتائو سامنے آیا جو اس تعلیم کی نفی کرتا ہو۔ اس بات کی شہادت تو مغرب کے انصاف پسند مؤرخین نے بھی دی ہے۔
اسلامی رواداری اور برداشت کی متعدد خصوصیات ہیں۔ تاہم ایک خصوصیت بہت اہم ہے۔ وہ یہ کہ اس کا دینی رنگ، ربانی ماخذ اور اصل منبع احکامِ الٰہی اور ہدایاتِ نبویؐ ہیں۔ یہ احکام و ہدایات اسے مسلمانوں کے اُوپر ایسی قوت عطا کرتے ہیں جو اُن کے دلوں اور ضمیروں سے ازخود پیدا ہوتی ہے اور وہ اس کے سامنے سرتسلیم جھکا دیتے ہیں۔ وہ اُس قوت کے احکام کو اپنے ایمانی جذبے اور خوفِ خدا کی بنا پر نافذ کرنے کے بے حد متمنی رہتے ہیں۔
الٰہی قوانین و احکام اور انسان کے وضع کردہ قوانین میں فرق یہ ہے کہ انسانی قوانین سے لوگ جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں، ان کوتوڑتے اور ان سے تجاویز کرتے ہیں، جب کہ قوانین الٰہی کے احترام و اتباع پر اہلِ ایمان کو بشارت دی گئی ہے کہ وہ اس سے اللہ کی رضامندی، آخرت کا اجروثواب، دنیا میں دل کا سکون اور ضمیر کا اطمینان پائیں گے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا: مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَ ھُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً وَ لَنَجْزِیَنَّھُمْ اَجْرَھُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَo (النحل ۱۶:۹۷) ’’جو شخص بھی نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ ہو وہ مومن، اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور (آخرت میں) ایسے لوگوں کو اُن کے اجر، اُن کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے‘‘۔
یہاں ایک چیز اور ہے جو اُن حقوق کے دائرے میں شامل نہیں ہے جو حقوق قوانین کے ذریعے متعین ہوتے ہیں، عدالتوں کے ذریعے قانونی قرار پاتے ہیں، اور حکومتیں اُن حقوق کے نفاذ کی ذمہ داری پوری کرتی ہیں۔ یہ چیز رواداری کی وہ روح ہے جو معاشرت میں احسان، معاملات میں نرمی اور ہمسایگی کے تقاضوں کو پورا کرنے میں نظر آتی ہے۔ یہ احسان، رحم دلی اور خیروفلاح کے انسانی جذبات میں کشادہ دلی کے مظاہروں میں سامنے آتی ہے۔ یہ وہ اُمور ہیں جن کی روزمرہ زندگی میں بہت ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں دستور و قانون اور عدلیہ کچھ نہیں کرسکتی۔ رواداری کی یہ روح ایسی ہے جو غیراسلامی معاشرے میں ملنا مشکل ہے۔
اسلام نے جن بنیادی اور مسلّمہ اصولوں کی تعلیم دی ہے اُن میں ایک اسلامی معاشرے میں غیرمسلموں کے ساتھ تعلقات و معاملات میں رواداری اور برداشت کا اصول ہے، یعنی غیرمسلموں کے ساتھ اعلیٰ انسانی اقدار پر مبنی برتائو کیا جائے۔ اسلام کے کسی مخالف کے ساتھ تعصب، بے جا عناد اور کینہ نہ رکھا جائے۔
یہ سلوک یوں تو ہر مخالف ِ اسلام کے ساتھ روا رکھنے کی تعلیم ہے مگر اہلِ کتاب، یعنی یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ خصوصی طور پر معاملہ کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ اس لیے کہ دراصل وہ بھی سماوی دین کے پیروکار ہیں۔ یہ اپنی نسبت اور تعلق جدالانبیا حضرت ابراہیم ؑ سے جوڑتے ہیں۔ قرآنِ مجید نے انھیں ’اہل الکتاب‘ کے نام سے یاد کیا ہے۔ ان کا ذبیحہ مسلمانوں کے لیے کھانا حلال قرار دیا ہے۔ ان کی عورتوں سے شادی کی اجازت دی ہے۔ فرمایا:
اہلِ کتاب کا کھانا تمھارے لیے حلال ہے اور تمھارا کھانا ان کے لیے۔ اور محفوظ عورتیں بھی تمھارے لیے حلال ہیں خواہ وہ اہلِ ایمان کے گروہ سے ہوں یا ان قوموں میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔(المائدہ ۵:۵)
دینی اعتبار سے اپنے مخالفین کے ساتھ جو رواداری اور برداشت اسلام کے اندر ہے اس سے زیادہ کشادہ اور وسیع رواداری ہمیں کسی دوسرے مذہب میں نہیں ملتی۔ قرآنِ مجید نے غیرمسلموں کے ساتھ معاملہ کرنے کے حوالے سے ایک واضح فرق اور امتیاز قائم کیا ہے۔
اسلام کے نزدیک غیرمسلموں کی دو قسمیں ہیں: ۱- مُحارِب (برسرِجنگ) جو دین کے معاملے میں مسلمانوں کے خلاف جنگ میں مصروف ہوں، یعنی مسلمانوں کو انھوں نے مسلمان ہونے کی بنا پر اُن کے گھروں سے بے دخل کردیا ہو، یا اُن کے بے دخل کیے جانے میں کسی کی مدد کی ہو۔ ۲- مُسالِم (امن پسند) جنھوں نے مذکورہ بالا اُمور میں سے کسی بھی معاملے میں مسلمانوں کے دشمنوں کا ساتھ نہ دیا ہو۔ یہ تقسیم اور تفریق قرآنِ مجید کی اُن آیات میں بیان کی گئی ہے جو غیرمسلموں کے ساتھ تعلقات کو متعین کرنے کے لحاظ سے ایک ٹھوس دستور قرار دی جاتی ہیں:
اللہ تمھیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم اُن لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتائو کرو جنھوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نہیں نکالا ہے۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ وہ تمھیں جس بات سے روکتا ہے وہ تو یہ ہے کہ تم اُن لوگوں سے دوستی کرو جنھوں نے تم سے دین کے معاملے میں جنگ کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نکالا ہے اور تمھارے اخراج میں ایک دوسرے کی مدد کی ہے۔ اُن سے جو لوگ دوستی کریں وہی ظالم ہیں۔(الممتحنہ ۶۰:۸-۹)
یاد رہے کہ یہ دونوں آیات مشرکوں اور بت پرستوں کے بارے میں نازل ہوئی ہیں کیونکہ اس سورت کے اسبابِ نزول سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جب مشرک اور بت پرست خیر اور انصاف کے حق دار قرار دیے گئے ہیں تو ’اہلِ کتاب‘ ان کی نسبت زیادہ حق رکھتے ہیں کہ ان کے ساتھ خیروانصاف کا معاملہ کیا جائے۔
مخالفینِ اسلام کی ایک تقسیم اُوپر ذکر ہوچکی اور دوسری تقسیم میں ’معاہدین‘ آتے ہیں۔ ان معاہدین کی بھی دواقسام ہیں: ۱-وہ معاہدین جن کے ساتھ ایک متعین مدت تک کے لیے معاہدہ ہوا ہو۔ ان کے ساتھ معاہدہ، اس کی مدت تک پورا کرنا فرض ہے۔ ۲- وہ معاہدین جن کے ساتھ دائمی اور غیرمتعینہ مدت کے لیے معاہدہ ہو۔ ان لوگوں کو اسلام نے ’اہل الذمۃ‘ (ذمی) کا نام دیا ہے۔ ’اہلِ ذمہ‘ ان معنوں میں کہ ان کے لیے اللہ تعالیٰ اور رسولؐ اللہ اور مسلم جماعت کی طرف سے ضمانت ہے۔ اسلامی فقہ میں ان کے وہی حقوق و فرائض بیان ہوئے ہیں جو مسلمانوں کے ہیں۔ گویا تمام حقوق و فرائض، سواے ان مطالبات اور تقاضوں کے جو دونوں ادیان کے مختلف ہونے کی بنا پرموجود ہیں۔ یہ ذمی ’دارالاسلام‘ یعنی (اسلامی ریاست) کی قومیت کے حامل ہیں۔بالفاظِ دیگر یہ اسلامی ریاست کے شہری ہیں۔
یہ ’اہل الذمہ‘ (ذمی) کے الفاظ کسی تحقیر اور تذلیل کی طرف اشارہ نہیں ہے جیساکہ کئی لوگوں کو غلط فہمی ہوجاتی ہے، بلکہ یہ الفاظ تو اللہ تعالیٰ کی شریعت کو مانتے ہوئے اللہ اور رسولؐ کی ضمانت کو پورا کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہیں، لیکن اگر ہمارے مسیحی بھائی اس اصطلاح کے استعمال سے تکلیف محسوس کریں تو اس کو تبدیل یا حذف کیا جاسکتا ہے۔ ہم اس کے ذریعے اللہ کی عبادت کا کوئی فریضہ ادا نہیں کرتے۔ سیدنا عمرؓ نے تو اس سے بھی اہم اصطلاح ’جزیہ‘ کو حذف کردیا تھا، حالانکہ یہ قرآن میں مذکور ہے۔ حضرت عمرؓ نے بنی تغلب جو مسیحی تھے اُن کے مطالبے پر یہ کام کیا تھا۔ بنی تغلب نے اس نام سے بے زاری کا اظہار کیا اور مطالبہ کیا کہ اُن سے جزیہ کے نام پر جو کچھ وصول کیا جاتا ہے وہ صدقہ کے نام پر وصول کرلیا جائے خواہ دگنا ہی ہو۔ حضرت عمرؓ نے اُن سے اتفاق کیا اور ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھا، البتہ یہ فرمایا: یہ احمق قوم ہے، نام کا انکار کر رہے ہیں اور معنی کو قبول کرلیا ہے۔ یہ حضرت عمرؓ کا ایک بہت اہم اصول کی طرف اشارہ ہے، یعنی مقاصد اور معانی پر نظر رکھنا ضروری ہے، نہ کہ الفاظ اور عبارتوں پر۔ اور یہ کہ اعتبار ناموں اور عنوانوں کا نہیں ہوتا بلکہ اُن چیزوں اور باتوں کا ہوتا ہے جن کے لیے یہ استعمال ہوتے ہیں۔
اس بنیاد پر ہم کہتے ہیں: لفظ ’جزیہ‘ کے ساتھ چمٹے رہنا کوئی ضروری نہیں ہے کیونکہ اس سے مصر اور دیگر اسلامی و عربی ممالک میں ہمارے مسیحی بھائی تکلیف محسوس کرتے ہیں۔ دراصل یہ لوگ مسلمانوں کے ساتھ گھل مل گئے ہیں۔ یہ مسلمانوں کے قومی دھارے میں پوری طرح شامل رہتے ہیں۔ اُن کے لیے کافی ہے کہ وہ ٹیکس کے نام پر کوئی رقم ادا کریں جس طرح مسلمان زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ پھر یہ لوگ بھی قوم اور ملک کے دفاع میں بذاتِ خود اسی طرح شریک رہیں جس طرح اُن کے مسلمان بھائی شریک رہے ہیں۔ لبنان میں عباسی امیر جو خلیفہ کے قریب تھا، امام اوزاعی نے اس کے خلاف اہلِ ذمہ (ذمیوں) کا ساتھ دیا۔ امام ابن تیمیہؒ نے تیمورلنگ کو قیدیوں کی رہائی کے لیے کہا تو اُس نے صرف مسلمان قیدیوں کو رہا کرنے کا عندیہ دیا، مگر امام ابن تیمیہؒ نے اس کی بات ماننے سے انکار کیا اور ذمیوں کو بھی رہا کرنے کے لیے اصرار کیا۔
رواداری کے بلند ترین درجات صرف مسلمانوں ہی کے ہاں پائے جاتے ہیں:
مسلمان جب رواداری کے اپنے بلند ترین درجے تک پہنچتے ہیں تو اپنے ذمی مخالفین کے ساتھ ایسا برتائو کرتے ہیں۔ مسلمانوں نے تو ہر اُس امر کو احترام دیا ہے جس کا غیرمسلم عقیدہ رکھتے ہوں کہ یہ اُن کے دین میں حلال ہے۔ اس معاملے میں مسلمانوں نے کشادہ دلی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اُنھوں نے اُن کے حلال کو حرام یا ممنوع بنانے پر اُن کو مجبور نہیں کیا۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ ملکی دستور و قانون کے پیش نظر وہ بھی ان چیزوں کو حرام سمجھ لیں اور کسی تعصب اور ہٹ دھرمی کی بنا پر اس کا اہتمام نہ کریں، کیونکہ اگر کسی چیز کو کسی دین نے حلال ٹھیرایاہے تو اُسے عمل میں لاکے رہنا اس کے ماننے والوں پر فرض نہیں ہے۔ اگر ایک عیسائی کا دین خنزیر کا گوشت کھانا حلال قرار دیتا ہے تو وہ اُسے کھائے بغیر بھی زندہ رہ سکتا ہے۔ گائے، بکری اور مرغی وغیرہ کا گوشت اس کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کافی ہے۔ اسی طرح شراب کا معاملہ ہے۔ اگرچہ بعض مسیحی کتب میں اس کی اباحت مذکور ہے، یا معدے کی اصلاح کے لیے بہت تھوڑی مقدار کی اباحت موجود ہے۔ تو یہ مسیحیت کا فرض قرار نہیں پاگیا کہ مسیحی لازمی طور پر شراب نوشی کرے، بلکہ بعض مسیحی تو اپنے دین کی رُو سے اس کو حرام سمجھتے ہیں۔
اگر اسلام ذمیوں سے کہے کہ اپنے مسلمان بھائیوں کی خاطر شراب نوشی اور خنزیرخوری نہ کرو تو اس بات میں دینی لحاظ سے کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ اگر وہ ان اشیا کو ترک کردیں گے تو اپنے دین میں کسی منکر (حرام اور ممنوع) کے مرتکب نہیں ہوں گے، اور نہ کسی مقدس واجب اور فرض ادا نہ کرنے کے مجرم ٹھیریں گے۔ لیکن اس کے باوجود اسلام نے ایسا کوئی مطالبہ نہیں کیا، اور نہ اسلام کا منشا یہ ہے کہ وہ حلال چیز کے بارے میں غیرمسلموں کو کسی ایسی تنگی میں مبتلا کرے۔ اسلام نے تو مسلمانوں سے یہ کہہ دیا ہے کہ انھیں چھوڑ دو، وہ جو چاہیں دینی عقیدہ اختیار کریں۔
اس طرح کی رواداری قرآنِ مجید میں مشرک والدین کے معاملے میں پوری وضاحت سے سامنے آئی ہے۔ جو والدین اپنے بیٹے کو توحید سے شرک کی طرف لانا چاہتے ہوں، ان کے بارے میں قرآن مجید کا یہ حکم ہے کہ: وَ صَاحِبْھُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا (لقمان ۳۱:۱۵) ’’دنیا میں ان کے ساتھ نیک برتائو کرتا رہ‘‘۔
یہ رواداری قرآنِ مجید کی اس ترغیب میں بھی نمایاں ہے جس میں مسلمانوں کو اپنے اُن مخالفین سے عدل و احسان اور مہربانی کا معاملہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے جو برسرِجنگ نہیں ہیں بلکہ امن پسند ہیں: ’’اللہ تمھیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتائو کرو جنھوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نہیں نکالا ہے۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے‘‘۔(الممتحنہ ۶۰:۸)
قرآنِ مجید اللہ کے نیک بندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے کہتا ہے: وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّاَسِیْرًا (الدھر ۷۶:۸)، ’’اور اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں‘‘۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تھی اس وقت اسیر(قیدی) تو مشرک ہی تھے مسلمان نہیں۔
قرآن مجید بعض مسلمانوں کے اس شبہے کا جواب بھی فراہم کرتا ہے کہ مشرک ہمسایوں اور رشتے داروں پر انفاق نہیں کیا جاسکتا۔ قرآن کا بیان ہے: ’’اے نبیؐ، لوگوں کو ہدایت بخش دینے کی ذمہ داری تم پر نہیں ہے۔ ہدایت تو اللہ ہی جسے چاہتا ہے بخشتا ہے، اور راہِ خیر میں جو مال تم لوگ خرچ کرتے ہو وہ تمھارے اپنے لیے بھلا ہے‘‘۔(البقرہ ۲:۲۷۲)
امام ابوحنیفہؒ کی فقہ کے مدوّن و مرتب اور اُن کے رفیق محمدبن حسن نے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں قحط کے زمانے میں اہلِ مکہ کے لیے کچھ مال بھیجا تاکہ وہ وہاں کے فقرا میں تقسیم کردیا جائے۔ رسولِؐ اکرم کا یہ رحم دلانہ اقدام اہلِ مکہ کے اُس تعذیب و تشدد اور ایذارسانی کے باوجود سامنے آیا جس سے آپؐ خود بھی اور آپؐ کے صحابہ بھی دوچار رہے۔
حضرت اسما بنت ابوبکرؓ کا بیان ہے کہ قریش سے مسلمانوں کے معاہدے کے دوران میری والدہ آئیں اور وہ مشرکہ تھیں تو میں نے رسولؐ اللہ سے پوچھا: اللہ کے رسولؐ میری والدہ آئی ہیں، اور مجھ سے ملنا چاہتی ہیں۔ کیا میں اُن سے مل سکتی ہوں؟ رسولؐ اللہ نے فرمایا: ہاں ہاں، اپنی والدہ سے ملو۔ (بخاری و مسلم)
یہ رواداری اہلِ کتاب یہود و نصاریٰ کے ساتھ رسولؐ اللہ کے ذاتی معاملات میں مزید کھل کر سامنے آتی ہے۔ آپؐ اُن سے ملا کرتے تھے، ان کی عزت و توقیر کیا کرتے تھے، اُن سے احسان کا معاملہ کرتے تھے، اُن کے بیماروں کی بیمارپُرسی کرتے تھے، اُن سے روپے پیسے کا لین دین بھی کرتے تھے۔ ابن اسحاق نے السیرۃ النبویۃ میں ذکر کیا ہے کہ جب وفدِ نجران(جوعیسائی تھے) رسولؐ اللہ کے پاس مدینہ آیا تو عصر کے بعد آپؐ سے مسجد میں ملاقات کی۔ اُن کی عبادت کا بھی وقت ہوگیا تو انھوں نے وہیں مسجد میں کھڑے ہوکر عبادت شروع کردی۔ لوگوں نے انھیں منع کرنا چاہا تو رسولِؐ اکرم نے فرمایا: انھیں مت روکو۔ پھر وفد کے لوگوں نے مشرق کی طرف قبلہ رُخ ہوکر عبادت کی۔
علامہ ابن قیمؒ نے اس واقعے پر زاد المعاد میں حاشیہ لکھتے ہوئے اس کے فقہی نکات میں یہ نکتہ بھی بیان کیا ہے: ’’اہلِ کتاب کے لیے اگر وہ مستقل معمول نہ بناسکتے ہوں اور عارضی طور پر مسلمانوں کی مساجد میں اور مسلمانوں کی موجودگی میں عبادت کرنا اور مساجد میں داخل ہونا جائز ہے!!
علامہ ابوعبید نے اپنی کتاب الاموال میں حضرت سعید بن مسیب سے روایت کیا ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی گھرانے پر صدقہ کیا تو پھر وہ صدقہ مستقل جاری رہا۔
بخاری کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی کی عیادت کی اور اس کے سامنے اسلام پیش کیا تو وہ اسلام لے آیا۔ آپؐ وہاں سے واپس ہوئے تو آپؐ کی زبانِ مبارک سے یہ کلمات جاری تھے: اُس اللہ کا شکر ہے جس نے میرے ذریعے اس کو جہنم سے بچالیا‘‘۔ بخاری ہی کی دوسری روایت ہے کہ جب رسولؐ اللہ کی رحلت ہوئی تو اُس وقت آپؐ کی زرہ ایک یہودی کے پاس رہن تھی۔ آپؐ نے اس سے اپنے اہلِ خانہ کے خرچ کے لیے قرض لے رکھا تھا‘‘۔ یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ رسولؐ اللہ کے لیے یہ کوئی مشکل نہ تھا کہآپؐ اپنے رفقا سے قرض لے لیتے اور وہ قطعاً کوئی چیز آپؐ سے نہ روکتے۔ مگر آپؐ نے اپنے اس عمل سے اپنی اُمت کو تعلیم دینا تھی اس لیے آپؐ نے ایسا نہ کیا۔ رسولؐ اللہ نے غیرمسلموں سے تحائف بھی قبول فرمائے۔ حالت ِ امن و جنگ میں غیرمسلموں سے تعاون بھی لیا جب انھوں نے آپؐ کا ساتھ دینے کی ضمانت دی۔ پھر آپؐ نے اُن کے کسی شر اور سازش کا خوف محسوس نہ کیا۔
غیرمسلموں کے ساتھ رواداری کا یہ اظہار اصحابِ رسولؐ اور تابعین کرامؒ کے معاملات میں بھی اسی طرح نمایاں نظر آتا ہے۔ حضرت عمرؓ نے ایک یہودی گھرانے کے لیے مسلمانوں کے بیت المال سے دائمی وظیفے کے اجرا کا حکم دیا۔ پھر کہا: اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسٰکِیْنِ (التوبۃ ۹:۶۰)، ’’صدقات تو دراصل فقیروں اور مسکینوں کے لیے ہیں‘‘۔ اور یہ اہلِ کتاب کے مسکینوں میں سے ایک مسکین گھرانہ ہے۔
سفرشام کے دوران میں حضرت عمرؓ کا گزر ایک مجذوم مسیحی قوم کے پاس سے ہو ا تو آپؓ نے مسلم بیت المال میں سے اُن کی اجتماعی امداد کاحکم دیا۔ حضرت عمرؓ کی شہادت جس حملے کے نتیجے میں ہوئی وہ حملہ اہلِ ذمہ کے ساتھ انھیں حُسنِ سلوک کی تلقین کرنے سے نہ روک سکا اور آپؓ نے بسترمرگ پر بھی فرمایا: میں اس کے معاملے میں اللہ اور اس کے رسولؐ کے ذمہ (ضمانت) کی تلقین کرتا ہوں کہ ان کے ساتھ کیے گئے معاہدے کو پورا کیا جائے، ان کی حفاظت کی خاطر دشمن سے جنگ کی جائے اور ان کی طاقت سے زیادہ ان پر کوئی بوجھ نہ ڈالا جائے۔
عبداللہ بن عمرو اپنے غلام کو وصیت کرتے ہیں۔ میرے یہودی ہمسائے کو قربانی کا گوشت دیا جائے۔ آپ نے یہ وصیت اتنی بار دہرائی کہ غلام خوف زدہ ہوگیا اور یہودی ہمسایے پر اِس عنایت کا راز پوچھا۔ ابن عمرو نے کہا: رسولؐ اللہ نے فرمایا ہے کہ جبرئیل ؑ مجھے اس تسلسل سے ہمسایے کے بارے میں وصیت کرتے رہے کہ مجھے یقین ہو رہا تھا کہ اس ہمسایے کو وراثت میں حق دار بنا دیا جائے گا۔ حارث بن ابوربیعہ کی والدہ نصرانی تھی، فوت ہوئی تو رسولؐ اللہ کے اصحاب اُس کے جنازے کے ساتھ گئے۔
بعض اجلّ تابعین اپنے صدقۂ فطر کا کچھ حصہ نصرانی راہبوں کو دیا کرتے تھے اور اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ بلکہ عکرمہ، ابن سیرین اور زہری تو زکوٰۃ میں سے بھی انھیں کچھ دینے کو جائز سمجھتے ہیں۔ ابن ابی شیبہ نے جابر بن زید سے روایت کیا ہے کہ اُن سے پوچھا گیا کہ صدقہ کن لوگوں کو دیا جائے؟ تو انھوں نے کہا: اپنی مسلمان ملت اور اہلِ ذمہ کے حق داروں کو!
قاضی عیاض نے ترتیب المدارک میں ذکر کیا ہے کہ دارقطنی نے بیان کیا کہ قاضی اسماعیل بن اسحاق کے پاس عباسی خلیفہ معتضدباللہ کا نصرانی وزیر عبدون بن صاعد آیا تو قاضی اس کے احترام میں کھڑے ہوگئے اور اسے خوش آمدید کہا۔ قاضی نے اپنے اس عمل پر حاضرین کی ناگواری دیکھی۔ جب وزیروہاں سے چلا گیاتو قاضی اسماعیل نے کہا:مجھے تمھاری ناگواری معلوم ہوگئی ہے، مگر اللہ تعالیٰ نے فرما رکھا ہے: لاَیَنْہٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْھُمْ وَتُقْسِطُوْا اِِلَیْھِمْ اِِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ o (الممتحنہ ۶۰:۸)، ’’اللہ تمھیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم اُن لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتائو کرو جنھوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نہیں نکالا ہے۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے‘‘۔
اور یہ آدمی یعنی وزیر مسلمانوں کی ضروریات پوری کرتا ہے اور خلیفہ معتضد اور ہمارے درمیان سفیر ہے، لہٰذا میں نے جو کچھ کیا ہے ، یہ بِّر (نیکی) کا حصہ ہے۔ (ماخذ: www.qaradawi.net)
کامیابی معین اہداف کے حصول کا نام ہے، چاہے وہ دینی ہوں یا دنیاوی۔ ان کا انسان کی انفرادی، خاندانی یا معاشرتی، غرض زندگی کے کسی بھی شعبے سے تعلق ہو سکتا ہے۔ انسان جب ان اہداف کو حاصل کرلیتا ہے تو اسے نہ صرف خوشی اور اطمینان کا احساس ہوتا ہے بلکہ وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ زندگی کی شاہراہ پر کافی آگے نکل گیا ہے۔
خوش بختی ایک نفسیاتی اطمینان اورخوشی کی کیفیت کا نام ہے جو خُدا کے دیے پر قناعت اور اس کی رضا پر راضی رہنے کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔خوش بختی کا سر بستہ راز خداے واحد پر ایمان، بندگی کے کلی مفہوم کی صحیح سمجھ اور اس کی عملی تطبیق میں مضمر ہے۔بندگی کا مفہوم ایک کلی مفہوم ہے جس میں ایک مسلمان کا ہر ہر شعبہ رنگا ہونا چاہیے۔کامیابی کا تصور اس وقت ایجابی اور صحیح سمت رواں ہو گا جب تک وہ بندگی کے تصور سے پیوستہ رہے گا اور اگر یہ تصور بندگی کے تصور سے مربوط نہیں تو لازماً منفی اور غلط نتیجے تک پہنچ کر رہے گا۔
کامیابی کا جوہر اور اس کا راز بعض اہم بنیادی اصولوں کے جان لینے اور ان کی مسلسل مشق کرنے میں مضمر ہے۔ذیل میں کامیابی کے سانچوں ، دائروں اور میدانوں کو ایک چارٹ کی صورت میں پیش کیا جارہاہے:
کامیابی کے دائرے اور سانچے
کامیابی کے میدان
رویے
عادات
صلاحیتیں
ٹکنالوجی، ٹولز اور فنی صلاحیت
ذاتی
تعلیمی
معاشی
خاندانی
معاشرتی
اس مضمون کے مطالعے کے بعد آپ اوپر دیے ہوئے خانوں کو اپنی ضرورت کے مطابق پنسل سے بھرنے کی کوشش کیجیے تاکہ آپ اپنی ذات کے متعلق فیصلہ کرسکیں کہ آپ کو کیا کرنا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ اس مضمون میں جو اشارات دیے گئے ہیں ان میں ہر ایک کے ساتھ ایک چیک بکس بناہوا ہے۔ اسے آپ اپنی ضرورت کے مطابق پنسل سے نشان لگائیں گے تو آپ کو اپنی بہتری کی منصوبہ بندی آسان ہوجائے گی۔
اخلاقی اقدار: ان بنیادی اخلاقی اقدار پر بھرپور توجہ دیجیے:
آج کل اُمت مسلمہ کو اگر چہ متعدد بحرانوں کا سامنا ہے، تا ہم ان میں سب سے زیادہ سنگین اور سب سے زیادہ دُورر س اثرات مرتب کرنے والا تعلیم کا بحران ہے۔ اگر ہر شعبۂ زندگی میں ہمارے معاملات صحیح طور پر نہیں چلائے جارہے ہیں تو بالآخر اس کی وجہ وہ نظام ہے جو اُمور زندگی کو چلانے کے لیے افرادِ کار تیار کرتا ہے۔ دوسری طرف اسی لیے اس مسئلہ کا حل مستقبل کے لیے یقینا اُمید کی سب سے بڑی کرن ثابت ہوسکتا ہے۔ اگر نظام تعلیم درست ہوجائے تو باقی تمام اداروں کے صحیح راستے پر آنے کی اُمید بھی کی جاسکتی ہے۔
یہ مسئلہ اس وجہ سے قابو سے باہر ہوگیا ہے کہ نہ صرف ہمارا نظامِ تعلیم بگڑ چکا ہے بلکہ تعلیم کے بارے میں ہمارے بنیادی تصورات بھی برباد کر دیے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر جگہ ہر قسم کے تعلیمی اداروں کی موجودگی کے باوجود مسئلے کا کوئی حل سامنے نہیں آرہا ہے۔ ہم خواندگی میں تو اضافہ کررہے ہیں لیکن تعلیم نہیں دے رہے ہیں۔ ہم معلومات کو تو عام کررہے ہیں لیکن علم میں کوئی اضافہ نہیں کررہے ہیں۔ ہم ہر قسم کے ہر ممکن سر ٹیفکیٹ، ڈپلومے، اور ڈگریاں تو جاری کررہے ہیں لیکن اُمّت مسلمہ کے معاملات کو چلانے اور بنی نوع انسانیت کے لیے رہ نمائی کے لیے درکار فہم وفراست رکھنے والے علمی ماہرین تیار نہیں کررہے ہیں۔
پورا عالمِ اسلام اس وقت دو قسم کے متوازی نظامِ تعلیم سے بھرا پڑا ہے۔ ایک طرف جدید اسکول، کالج، اور یونی ورسٹیاں ہیں، اور دوسری طرف دینی مدارس یا دارالعلوم ہیں۔ یہ دونوں نظام اقلیدس کی دو متوازی لکیروں کی طرح ہیں جو کبھی بھی ایک دوسرے کے ساتھ نہیں ملتیں۔ یہ دونوں نظام مل کر اسلامی معاشروں کے جامے کو مخالف سمت میں کھینچ کھینچ کر تار تار کررہے ہیں۔
یہ جاننے کے لیے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور کس جانب جا رہے ہیں؟ ہمیں یہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ہم جہاں ہیں اس مقام پر کیسے پہنچے؟اس وقت پورے عالمِ اسلام میں جو غالب نظامِ تعلیم رائج ہے وہ سامراجی طاقتوں کا رائج کردہ مغربی نظامِ تعلیم ہے۔ یہ سامراجی طاقتیں برعظیم پاک وہند، فلسطین، سوڈان، مصراور عراق میں برطانیہ، الجزائر، لبنان، شام، تیونس اور مراکش میں فرانس، اور لیبیا میں اٹلی تھیں۔ ان سامراجی طاقتوں نے باقاعدہ ایک منصوبے کے تحت اپنے مقبوضہ ممالک کے تعلیمی نظام کو تباہ و بربادکرنے کے لیے کام کیا، اور اس کی جگہ رائج کیے ہوئے اپنے تعلیمی نظام کو جاہ و منزلت کا مورد ٹھیرایا ۔
ان طاقتوں کا اصل مقصد یہ تھا کہ وہ اپنی غلام اقوام کے ذہنوں کو کنٹرول کریں۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ برعظیم پاک وہند پر برطانوی قبضے کے بعد کلکتہ،(ممبئی) اور مدراس میں قائم ہونے والی پہلی تین یونی ورسٹیوں میں کئی عشروں تک تدریس کا عمل شروع نہیں کیا گیا۔ ان کا قیام ۱۸۵۷ء میں عمل میں آیا اور ان کا کام صرف اپنے اپنے زیر انتظام علاقوں میں آنے والے طلبہ کا امتحان لینا تھا۔ اس طرح یہ تینوں یونی ورسٹیاں پورے ہندستان کی تعلیم کو کنٹرول کررہی تھیں۔ دوسرے الفاظ میں ان کی قدرومنزلت اور اعزاز تدریس کی وجہ سے نہیں تھی کیوں کہ پڑھائی کا عمل تو یہاں تھا ہی نہیں، بلکہ ان کی طرف سے سرٹیفکیٹ اور ڈگری جاری کرنے کی اجارہ داری کی وجہ سے تھا جن کو سرکاری ملازمتوں کے ذریعے کیش کرایا جاسکتا تھا۔
سامراجی حکومتوں نے جو اسکول اور کالج قائم کیے، ان کا فوری مقصد امور مملکت چلانے کے لیے ماتحت اہل کاروں کی تیاری تھا۔ ان اہل کاروں کو ان حکومتوں کی استحصالی اور ظالمانہ سامراجی مشینری کے لیے پہیوں کا کردار ادا کرنا تھا۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ وہ اپنے آقاوں کی برتری، اُن کے طور طریقوں، اُن کے علم، اُن کے طرزِ حکم رانی، اُن کی تہذیب اور اُن کی تاریخ کی فضیلت کے نہ صرف قائل ہوں،بلکہ اپنی تاریخ اور تہذیب سے نفرت کریں اور اپنے مذہب کی حقانیت پر سوالات بھی اٹھائیں۔ سامراج نے لیبیا کی درسی کتب میں دعاوں کے جو الفاظ شامل کیے، ان میں یہ الفاظ بھی تھے: ’’اے خدا، مجھے اچھا اطالوی شہری بننے میں مدد فرما۔ اے خدا، مجھے اٹلی سے محبت کرنے میں مدد دے جو میرامادرِ وطن ثانی ہے‘‘۔ دوسری نو آبادیوں میں اٹلی کی جگہ برطانیہ یا فرانس کے الفاظ شامل کیے جاسکتے ہیں۔
اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ان سامراجی طاقتوں نے مذہبی غیر جانب داری کے نام پر اسکولوں سے مذہبی تعلیم کا خاتمہ کردیا، اور اس کی جگہ سیکولر انسان پرستی (Humanism)کو شامل کیا۔ اس کے ساتھ ہی نظامِ تربیت کو بھی ختم کردیا گیا۔سا ئنس کی تعلیم اِس لیے رائج کی گئی کہ طلبہ ایٹم سے لے کر کہکشائوں تک کے مادّی زندگی کو چلانے والے قوانین کی دریافت کرنے والوں کے سحر میں گرفتاررہیں، اور کبھی اس کا خیال بھی دل میں نہ لائیں کہ اس کائنات کا اور اس کے قوانین کاکوئی خالق بھی ہے اور اُس کے بنائے ہوئے طبعی قوانین سے ما سوا کچھ اُس کی سنت ِ جاریہ بھی ہے! اس نظامِ تعلیم کے ذریعے طلبہ کو بتایا گیاکہ سچائی یا حقیقت کا فیصلہ کرنے کا اختیار صرف سائنس کے پاس ہے۔طلبہ کو اپنے قدیم کلچر اور رسم ورواج سے الگ کرنے، ان کی تعلیم میں والدین کی شرکت اور والدین کی سرپرستی کو کم کرنے، اور ان میں مستقل طور پر احساسِ کم تری پیدا کرنے کے لیے تعلیم کی زبان کو تبدیل کردیا گیا۔
اس نئے نظام کے تحت مفت عالم گیر تعلیم ختم ہوگئی۔ سرکاری امداد سے چلنے والے اسکولوں کے لیے لازمی قرار دیا گیا کہ کہ وہ طلبہ سے فیس وصول کریں۔ تعلیم دینا اب ایک مقصدحیات نہیں بلکہ تجارت بن گیا۔ اس کا مقصد ایک اچھا انسان پیدا کرنا نہیں بلکہ اچھی کمائی کرنے والا فرد تیار کرنا رہ گیا۔ ۱۹۴۵ء میں فلسطین کی متعدد عرب تنظیموں نےMANDATE Commision کو پیش کی گئی اپنی ایک پٹیشن میں (اس تلخ حقیقت کو )بیان کیاکہ برطانوی حکومت کی لازمی تعلیمی پالیسی کا مقصد تعلیم کے بجاے ’تجہیل‘ یعنی جہالت کا فروغ ہے۔ یہی بات تمام نو آبادیاتی ممالک کی سامراجی طاقتوں کے لیے کہی جا سکتی ہے۔
آج بہت سے لوگوں کے لیے اس بات کا تصور ہی محال ہوگا کہ ماضی میں ہمارے مدارس یا دارالعلوم کیسے رہے ہوں گے؟پورے برعظیم پاک وہند میں ہزاروں تاریخی مساجد اور مزار مل جائیں گے لیکن ہمیں کہیں بھی مدرسے کی تاریخی پرانی عمارت نہیں ملے گی۔ آخر یہ عمارتیں کہاں چلی گئیں؟یہ عمارتیں کبھی وجود میں آئی ہی نہیں تھیں۔ مدارس دراصل ان مساجد کے اندر، پڑوس کے کسی صاحبِ حیثیت شخص کے گھر کے کسی کمرے ،یا کسی استاد کے گھر میں، یا کسی درخت کے نیچے تھے۔ ان میں کوئی فیس اور کوئی درجہ بندی نہیں تھی۔ طلبہ ایک مخصوص کتاب پڑھنے کے لیے کسی استاد کا انتخاب کرلیتے تھے۔ طلبہ اور استاد کے درمیان بحث و تمحیص کا اس طرح کا معمول تھا کہ ایک طرح سے ہر روز امتحان ہوجاتا۔ سالانہ امتحان کا سرے سے کوئی تصوّر ہی نہیں تھا۔ طلبہ جس کتاب کو اپنے استاد سے سبقاً سبقاً پڑھا کرتے، ان میں اتنی صلاحیت پیدا ہو جاتی تھی کہ تکمیل کے بعد وہ فوری طور پر دوسروں کو اُس کتاب کی تعلیم دینا شروع کردیتے۔ اساتذہ کو یا تو حکمرانوں کی سر پرستی حاصل ہوتی، یا علاقے کے با اثر افراد ان کا خیال کرتے، یا وقف جایدادیں اور زمینیںہوتی تھیں، جن سے اُن کا گزارا ہوتا۔ نہ صرف یہ کہ طلبہ سے کوئی فیس وصول نہ کی جاتی بلکہ کئی صورتوں میں اساتذہ کی طرف سے انھیں کوئی وظیفہ یا مالی امداد بھی فراہم کی جاتی۔
انگریزوں کی برعظیم پاک وہند میں آمد کے وقت یہ نظامِ تعلیم زندگی کے ہر شعبے میں بڑے بڑے نام ور لوگ پیداکررہاتھا۔ ایک بڑے ملک کو جس کی آبادی کروڑوں میں ہو، ہر قسم کے لوگوں کی ضرورت ہو تی ہے جواُن کی ضروریاتِ زندگی کو پورا کرسکیںاور انھیں ہرقسم کی خدمات فراہم کرسکیں۔معاشرے کو کپڑے کی صنعت اور برتن سازی سے لے کراسلحہ سازی کے لیے ماہرین کی ضرورت ہوتی ہے ۔ عمارتوں کے لیے ماہرین تعمیر، مزدوروں کے لیے مناسب تربیت، بچوں کے لیے تعلیم و ادب ، اساتذہ کے لیے مہارتِ تعلیم و تدریس، تاجروں کے لیے اصول ہاے تجارت ، اُمور مملکت چلانے کے لیے علمِ انتظام (Administration)، فیصلہ کرنے کے لیے ججوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ سامراجی طاقتوں کے ان ممالک میں آنے سے پہلے مدارس ان تمام ضروریاتِ زندگی کے لیے ماہرین تیار کرتے تھے۔ استاد احمد لاہوری (م: ۱۶۵۰ء)تاج محل اور جامع مسجد دہلی کے چیف آرکیٹیکٹ تھے۔ وہ ایک مدرسے کے فارغ التحصیل تھے (ملا عبدالسلام لاہوری کا مدرسہ)۔ اسی طرح علی مردان خان (م:۱۶۵۷ء)لاہور کے مشہور شالیمار باغ کے معماراعلیٰ تھے۔ اسی طرح خیر اللہ خان دہلوی (م:۱۷۴۷ء) جنھوں نے دہلی کی مشہوررصد گاہ تعمیر کی۔ اسی طرح استاد رومی خان تھے جنھوں نے مغل بادشاہ ظہیرالدین بابر (م:۱۵۳۰ء)کے لیے توپیں تیار کیں۔ اسی طرح برعظیم کے وسیع عریض خطے میں ہزاروں معمار(آرکٹیکٹس) اور انجینیرتھے جنھوں نے بڑے حیرت انگیز کارنامے انجام دیے۔ یہ سب مدارس کے فارغ التحصیل تھے۔ ان مدارس ہی نے انھیں لکھنا، پڑھنا، حساب، جیومیٹری، طب،فارسی،عربی،قرآن اور حدیث، منطق اور فقہ کی تعلیم ایک ایسے ماحول میں دی کہ اس میں طور طریقوں اور اخلاق کی تعلیم کو برتری حاصل تھی۔ اس کے بعد انھوں نے شاگردی (apprenticeship)کے ذریعے مختلف ہنر سیکھے اور اپنے اساتذہ سے مختلف فنون کی تربیت حاصل کی۔
مغل دور میں یہ نظامِ تعلیم رائج تھا۔ اگر اس نظامِ تعلیم کو جاری رہنے دیا جاتا تو اس میں یہ صلاحیت موجود تھی کہ وہ پورے یورپ سے آنے والے علم کے نئے شعبوں کو اپنی بیش قیمت اور گراں بہا روایات میں کوئی خرابی پیداکیے بغیر سمو لیتا۔ لیکن یہ حالات سامراجی آقائوں کی آمد کے ساتھ رُونما ہوئے جن کا اس نئی مفتوحہ سرزمین میں اپنی جدیدیت کو مطیع بنانے کی اجازت دینے کا کوئی ارادہ نہیں تھا، کہ ہمارے مدارس صرف اِس سے مفید چیزوں کا انتخاب کرتے اور انھیں معاشرے کی اقدار اور روایات کے مطابق اختیار کر لیتے اور فضول چیزوں کو رد کردیتے۔
عام طور پر سمجھی جانے والی یہ بات حقیقت کے بالکل خلاف ہے کہ مدرسے کا یہ قدیم تعلیمی نظام اپنی کم زوریوں اور مسائل کی وجہ سے قدرتی وجوہ اور اسباب کی بنا پر ختم ہوگیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس کو مغرب نے اپنی علمی برتری اور اپنے نظامِ تعلیم سے پیچھے نہیں پھینکا بلکہ اُس نے اپنی بندوقوں اور سیاسی سازشوں کے ذریعے اِس کو کچل کر رکھ دیا۔ان طاقتوں نے مقبوضہ علاقوں اور ممالک میں رائج نظام تعلیم کو تباہ وبرباد کرنے کا کام بڑی مہارت اور بے رحمانہ طریقے سے دو محاذوں پر اچانک حملہ کر کے کیا۔ ایک طرف انھوں نے موجود مدارس کو ملنے والی مالی امداد کو ختم کیا۔ زمین داری نظام اور زرعی اصطلاحات کے ذریعے ان جاگیرداروں اور زمین داروں کو وسائل سے محروم بنا کر غریب کردیا گیا، جو مدارس کے اور نظامِ تعلیم کے سر پرست تھے۔ اس کوشش کی ایک مثال بدنام زمانہ قانون بازیافت (Resumption Act ۱۸۶۵ء-۱۸۲۸ء) ہے جس کے ذریعے بے شمار وہ زمینیں بحق سرکار ضبط کرلی گئیں جن کی آمدنی سے مدارس کا نظام صدیوں سے چل رہا تھا۔ اس پر عمل درآمد کے لیے ایک وحشیانہ محکمہ قائم کیا گیاجس کے بارے میں ولیم ہنٹر (م:۱۹۰۰ء) کوجو بعد میں گورنر جنرل کی کونسل کا رکن اورتعلیمی کمیشن کا سربراہ بھی رہا، کہنا پڑا کہ قانون بازیافت کے تحت کارروائیاں انتہائی سخت تھیں۔ اور وہ اس کو یوں بیان کرتا ہے کہ جاسوسوں، جھوٹے گواہوں، اور درشت طبع افسروں کی ایک فوج ظفر موج ہندستان کے کونے کونے میں پھیل گئی۔ یہ لوگ زمین کے کاغذات طلب کرتے اور معمولی معمولی غلطیوںپراُن کے ملکیتی کاغذات کو ناجائز قرار دیتے اور اس طرح وہ اُس زمین پر قبضہ کرلیتے۔انیسویں صدی کے نصف تک جب یہ مہم اپنے عروج پرتھی، ایک ایک ضلع میں ہرسال سیکڑوں مدارس بند ہورہے تھے۔
دوسرے محاذ پر سامراجی آمریتوں نے پرانے مدرسے کے نظامِ تعلیم سے فارغ ہونے والے گریجویٹس کے لیے ملازمتوں کے مواقع کو ختم کردیا جو تاریخی طور پر مغلیہ حکومتوں میں انتظامی اور عدالتی شعبوں میں ملازمتوں کی ضروریات کو پورا کرتے تھے۔ ان کے لیے صرف وہی ملازمتیں رہ گئی تھیں جن کا تعلق مساجد سے تھا اور اب جن کی حیثیت کم درجے کی ہو چلی تھی اور جن کی تنخواہیں بھی واجبی سی تھیں۔یہ مدرسے کی سخت جانی کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ مغرب کے اِن تمام جان لیوا حملوں کے باوجود وہ بالکل ختم نہیں ہوا بلکہ موجودہ مدارس کی شکل میں باقی رہ گیا ۔
یہ تباہ کن تعلیمی انقلاب عین اس وقت عمل میں لایا گیا جب جدیدیت کو غاصب طاقتوں کی شرائط پر اور ان کی سامراجی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے متعارف کرایا جا رہا تھا۔ اس کا آغاز لارڈ ڈلہوزی کے دور میں اس وقت ہواجب اُس نے مقبوضہ علاقوں کو متحد، محفوظ اور پیداواری کالونی بنانے کی خاطر بڑے بڑے عوامی منصوبے شروع کیے۔ ان میں زراعت، ریلوے،ٹیلی گراف، معدنیات، اور مختلف اشیا تیار کرنے کے ترقیاتی منصوبے شامل تھے۔ ان سب کا مقصد ان علاقوں میں سامراجی کنٹرول کو آسان اور مضبوط بنانا اور سامراجی آقائوں کے لیے نئی سرزمین کو زیادہ منافع بخش اور پیداواری بنانا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ انجینیرنگ کے ان درخشندہ منصوبوں سے مقصود مقبوضہ علاقوں کے غلام عوام کو اپنے آقائوں کی برتری کا قائل کرنا بھی تھا ۔ جیسا کہ سرسید احمد خان نے ۱۸۶۹ء میں، لندن کی سول انجینیرنگ سوسائٹی کے سامنے بصد عجز اس بات کا اقرار کیا تھا کہ ’’سلطنت ِ برطانیہ کااصل رعب و دبدبہ اس کے انجینیروں کے کارناموں کے باعث ہے‘‘۔ نہ صرف انجینیرنگ کے منصوبوں بلکہ جدیدیت کے دیگر عوامل نے بھی پرانے نظام تعلیم کو نئے معاشرے سے یکسر لاتعلق بنا کر رکھ دیا،بلکہ نئے نظام تعلیم کو ایک ضرورت بھی بنادیا۔ ظاہر ہے کہ مدرسوں کا نظام ایسا نہیں تھا کہ وہاں کے فارغ لوگ ان جدید اداروں کی ضروریات کو پورا کرتے جو اچانک ان پر مسلط کردیے گئے تھے۔
یقینی طور پر بعض کے نزدیک یہ صورت حال ایک ناگزیر برائی تھی جسے اختیار کرنا پڑ گیا تھا۔ سرسید احمد خان خود کھلا اعتراف کرتے ہیں کہ انھوں نے نئے نظام تعلیم کو غلامانہ ذہنیت کے ساتھ اختیار کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں:’’میں یقین کرتا ہوں کہ جس قدر یہ علوم پھیلیں گے___ اور ان کا پھیلنا ضروری ہے، اور میں خود بھی ان کے پھیلانے میں معین و مدد گار ہوں___ اسی قدر لوگوں کے دلوں میں مروجہ اسلام کی طرف سے بدظنی، بے پروائی بلکہ رُوگردانی پیدا ہوتی جائے گی‘‘۔(حیات جاوید، ص۲۳۵)
اب معاشرہ بدل چکا تھا ۔ اس کا اقتصادی ڈھانچا، سماجی تعلقات، طاقت کی بنیادیں اور وہ تمام ادارے جن کی وجہ سے یہ نظام تعلیم برقرار تھا،تباہ کردیے گئے تھے-
یہ تھی وہ جدیدیت جس کے پس ِمنظر میں دیوبنداُبھرا۔ سامراجی آمریت نے معاشرے پراپنی جابرانہ شرائط مسلط کی ہوئی تھیں۔ ان نامساعد حالات میں ہمیں دیو بند کے بانیوں کے جرأت مندانہ کام کی اہمیت و قدر و قیمت کو سمجھنا چاہیے۔ دیو بند برعظیم پاک و ہند میں پہلا مدرسہ تھا جس نے ایک ادارے کی شکل اختیار کی۔ یہ وہ بنیادی مدرسہ تھا جس کی مثال کو دوسرے تمام مکاتب فکر کے مدارس نے آیندہ برسوں میں اختیار کیا۔ یہ مدرسہ انار کے ایک درخت کے سایے میں شروع کیا گیا، جیسا کہ دیوبند کے مؤرخین بہت شوق سے بیان کرتے ہیں۔ لیکن اس میں کیا امتیازی بات ہے؟ آخر برعظیم میںہزاروں مدارس صدیوں سے درختوں کے سایے تلے چلتے ہی رہے تھے۔
دراصل اس عاجزانہ ابتدا کے پیچھے مستقبل کے لیے انقلابی تبدیلیاں چھپی ہوئی تھیں ۔ اس مدرسے کی باقاعدہ طور پر ایک عمارت تعمیر کی گئی جس میں کلاس کے کمرے ،انتظامی دفاتر، رہایش اور کھانے کی جگہیں اور دیگر سہولتیں تھیں۔نئے نظام میں مضامین کے علیحدہ شعبے ، درجہ بندی، ہرسال کامتعین نصاب، سالانہ امتحانات ، اور مدرسے کو چلانے کے لیے انتظامی ڈھانچا شامل تھا ۔ یہ سب نئی باتیں تھیں اور جب ان چیزوں کو متعارف کرایا جارہا تھا تو یہاں اندرونی طور پر بڑی مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اس کے بانیوں نے قدیم زمانے کے مدرسے سے اندھی محبت کے بجاے ایک ایسے جدید ادارے کی بنیاد رکھی جس نے مغلیہ دور کے بعد کے بدلتے ہوئے زمانے کے ان حالات میں بھی باقی اور جاری رہنا تھا جو ہندستان میں زبردستی مسلط کردیے گئے تھے۔ ان حالات میں اس دارالعلوم کا قیام ایک بہت بڑا کارنامہ تھا جس کو بدقسمتی سے دوستوں اور دشمنوں دونوں نے نظر انداز کر رکھا ہے۔
اگر چہ دارالعلوم دیوبند ،و ہ سب کچھ نہ تھاجس کی ضرورت تھی لیکن وہ تھاجو سامراجی آمریت کے مسلط کردہ نظام ِجبر میں ممکن تھا۔ اگر مدارس میں صدیوںسے پوری تعلیم دی جارہی تھی تو اب بھی اسی کو جاری رکھنا چاہیے تھا اور ضرورت اس بات کی تھی کہ وہ یورپ سے آنے والے نئے علوم اور ان کے مختلف شعبوں کو اپنے اندر جذب کر لیتے۔ لیکن اس کے لیے نہ صرف ایسے باصلاحیت عملے کی ضرورت تھی جو قدیم اور جدید مضامین میں مہارت رکھتے ہوں بلکہ اس سے بڑھ کر اس کے لیے یہ بھی ضروری تھا کہ مدارس کے پاس نو آبادیاتی حکومتوں کو شکست دینے کے لیے ایک فوج بھی موجود ہوتی۔ ہمیں اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ نو آبادیاتی طاقتیں ایسی کسی اسکیم یا منصوبے کی کبھی بھی اجازت نہ دیتیں جو ان کے حقیقی ارادوں کو ناکام بنادینے کی صلاحیت رکھیں۔ ان کا منصوبہ تو یہ تھا کہ مقبوضہ علاقوں کے معاشروں کو درہم برہم کر کے وہاں کی آبادی کو اپنی غلامی کے دائرۂ اثر میں لایا جائے۔ ان کے اس منصوبے کو کوئی بھی چیلنج ان کے لیے بڑا خطرہ تھا۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ انگریزوں نے سر سید احمد خان جیسے ’تابعِ فرمان‘ شخص کو بھی اپنے لیے یونی ورسٹی قائم کرنے کی اجازت نہیں دی۔ اور علی گڑھ یونی ورسٹی تو اُن کی وفات کے ایک چوتھائی صدی کے بعد قائم ہوپائی(اور وہ بھی اس شرط پر کہ اس پر حکومت برطانیہ کا مکمل کنٹرول رہے گا اور اسے دیگر تعلیمی اداروں کے الحاق کی اجازت نہیں ہو گی)۔ ان کاآزاد یونی ورسٹی کے قیام کا ساری زندگی کا خواب چکنا چور ہوا اور صرف ایم اے او کالج قائم کرنے پر ہی قنا عت کرنا پڑی اور وہ کالج بھی کلکتہ یونی ورسٹی کے کلی طور پر عملی کنٹرول میں تھا۔ اگر ایک ’وفادار ملازم‘ کو دی گئی آزادی کی یہ گنجایش تھی تو اندازہ کیجیے کہ اُن لوگوں کو آزادی کی کتنی اجازت مل سکتی تھی جو شروع ہی سے غیرملکی غاصبوں کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کرنے کے مجرم ر ہے۔
دیو بند اور دوسرے ان تمام مدارس نے جنھو ں نے اس کے انتظامی ڈھانچے کو اختیار کیا نوآبادیاتی نظام تعلیم کے ساتھ کسی بھی تصادم یا ٹکرائو سے گریز کیا، اور ان مضامین سے خود کو الگ رکھا جو وہاں پڑھائے جاتے تھے۔ انھوں نے صرف قدیمی تعلیم کے تحفظ کو اپنا مقصد بنالیا جس کو اب مکمل اور خالص مذہبی تعلیم تصور کیا جاتا ہے۔ یہ قدیمی نظام تعلیم ماضی کے زمانے میں ہرشعبۂ زندگی کے لیے سرکاری ملازمین، عدالتوں کے لیے قاضی دیگر اہل کار اور ہر قسم کے اسکالر اور ماہرین تیار کرتا تھا۔ لیکن اب اس کا دنیاوی حصہ ایک ایسی دنیا کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کررہا تھا جو دراصل اپنا وجود نہیں رکھتی تھی۔ اس تبدیل شدہ ماحول میں اس کا مقصد مساجد کے لیے صرف امام تیار کرنا ہی رہ گیا تھا۔
دیوبند اور اس کی طرح کے دیگر مدارس، جدیدیت کو اپنی مرضی کے مطابق تسخیرنہیں کرسکتے تھے۔ اس لیے انھوں نے اس کے ایک کونے میں ایک محفوظ جگہ تلاش کی مگر ایک ایسے وقت، جب کہ کونے میں یہ محفوظ جگہ بھی خطرے میں تھی۔ اس کام کی اہمیت کو کم نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ۱۸۵۶ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے تمام ملازمین کو پادری ایڈمنڈ کی طرف سے ایک خط بھیجا گیا۔ جس میں انھیں نصیحت کی گئی تھی کہ پورے ہندستان کے لیے وقت آگیا ہے کہ وہ عیسائیت اختیار کرلے۔ یہ خط ہندستان میں عیسائی مبلغین کی برسوں کی جارحانہ تبلیغ اور بڑھتے ہوئے دعوتی کام کے بعد لکھا گیا تھا، اور اس دعوتی کام کو ایسٹ انڈیا کمپنی کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ اگر یہ مدارس اُس وقت موجود نہ ہوتے تو برعظیم میں اسلام اور مسلمانوں کا کیا حشر ہوتا، اس کا صرف اندازہ ہی کیا جاسکتا ہے۔
بدقسمتی سے دیوبند کے بانیوں نے مجبوری کے تحت جو محدودکام شروع کیا تھا، وہ وقت کی تبدیلی کے باوجود ان کے جانشینوں نے بہ رضاو رغبت جاری رکھاہوا ہے اورسامراجی اقتدار کے خاتمے کے بعد بھی بڑی حد تک اپنے آپ کو اُن محدود مقاصد کے لیے وقف کر رکھا ہے جن سے جہاں بانی کرنے والے پیدا نہیں ہو سکتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ انھوں نے خود کو عوام کی روز مرہ کی زندگی سے رضاکارانہ طور پر علیحدہ کرلیا ۔مدارس، تعلیم کی دو حصوں میں بٹی ہوئی دنیا کے محض ایک چھوٹے اور کمزور کنارے بن کر رہ گئے ہیں جو صرف مساجد کے امام مہیا کر رہے ہیں،اور معاشرے کے دیگر تمام شعبہ ہاے زندگی کے لیے قائدین پیدا کرنے کا کام سامراج کے متعارف کردہ مغربی ماڈل کے اسکولوں اور کالجوں نے سنبھال لیا ہے۔
ملغوبہ تعلیم سے مراد تعلیم کا وہ تصور ہے جو دونوں دنیاؤں کے لیے بہترین، دینی اور دنیاوی تعلیم کا ملغوبہ ہو۔
دو بالکل مخالف نظام ہاے تعلیم سے پیدا ہونے والی بے چینی پرانی بات ہے۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ یہ دونوں نظام ہر مسلمان ملک میں چلائے جارہے ہیں۔ ان دونوں کے درمیان حائل خلیج کو کیسے دُور کیا جائے؟ یہ ہے وہ سوال جو ہمارے ذہنوں میں گذشتہ دو صدیوں سے گردش کررہا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم کسی ایک کے بغیر اپنی زندگی اور عقیدے دونوں کو لے کرنہیں چل سکتے، اور دونوں مختلف نظاموں کو ایک ساتھ لے کر بھی نہیں چل سکتے۔
اس کا جوحل فکرمند ماہرین ِتعلیم اور والدین نے حال ہی میں تلاش کیا ہے، وہ دینی اور سیکولر تعلیم کو ایک اسکول یا تعلیمی ادارے میں جمع کرنا ہے، جس کو ملغوبہ تعلیمی نظام (Hybrid System) کہا جاسکتا ہے۔ یہ اسکول یا تعلیمی ادارے سیکولر اسکولوں میں پڑھائے جانے والے مختلف علوم حساب، سائنس ،سماجیات اور انگریزی ادب کے مضامین کے ساتھ ساتھ قرآن کی تعلیم، حفظِ قرآن، اسلامی تعلیمات اور عربی کی تعلیم بھی دیتے ہیں۔ پاکستان میں او (O)اوراے (A) لیول کے امتحانات کی تیاری کرانے والے ’اسلامی‘اسکولوں کا رجحان اس ملغوبیت کی بڑی واضح مثالیں ہیں۔ ان اداروں کا بیان کیا گیا مقصد یہ ہے کہ ہم تمام شعبہ ہاے زندگی کے لیے ایسے مسلم ڈاکٹر، انجینیر، سائنس داں، مینیجر اور قائدین پیدا کرسکیں جو اعلیٰ درجے کی دنیاوی تعلیم کے ساتھ اسلامی علوم سے واقفیت و محبت کے ساتھ اسلامی سیرت و مزاج بھی رکھتے ہوں، اور اُن کی اسلام سے وابستگی اُن کے ہر دنیاوی اور پیشہ ورانہ کاموں میں اپنی شان دکھاتی ہو۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ اگر چہ یہ اسکول ہمارے پرانے روایتی اسکولوں سے بہتر ہیں جن میں اسلامی تعلیم نہ ہونے کے برابر تھی، پھر بھی وہ ہمارے تعلیمی بحران کا مشکل ہی سے کوئی حل پیش کرسکتے ہیں۔ اگر یہ دونوں نظام (دینی اور سیکولر) ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف جاتے ہیں، تو ان دونوں کو ایک چھت کے نیچے اکھٹا کرنے سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جاسکتے۔ ان ملغوبہ اسکولوں میں دی جانے والی سائنس، سماجی علوم، طب، انجینیرنگ، قانون، صحافت، انتظامی امور، کاروبار، یا کسی بھی دوسرے مضمون کی سیکولرتعلیم اور اُس کے نتیجے میں عقل پرستی اور انسان کی زمین پر خدائی کا جو ذہن نشوونما پاتا ہے،محدود اسلامی مضامین کی تعلیم اُس کا تریاق نہیں بن سکتی ۔
اگر ہم دوسرے اسکولوں کی طرح وہی سائنس انھی کتابوں کے ذریعے اور اسی طرح سے طلبہ کو پڑھاتے ہیں جو سیکولر اسکولوں اور کالجوں میں پڑھائی جاتی ہے، تو مسئلہ بھی ویسا ہی رہے گا۔سائنس میں ہم طلبہ کو کائنات کو ایک ایسے شخص کی آنکھوں سے دیکھناسکھا رہے ہیں جو اللہ تعالیٰ کو جانتا تک نہیں ہے۔ اس سائنسی تعلیم پر قرآن کی یہ آیت کتنی صادق آتی ہے’’زمین اور آسمان میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر سے یہ لوگ گزرتے رہتے ہیں اور ذرا توجہ نہیں کرتے‘‘ (یوسف ۱۲:۱۰۵)۔ سائنس کے مناسب طریقے سے مطالعے کا نتیجہ تو یہ ہونا چاہیے کہ ایک شخص خالق کے جاہ وجلال ، قدرت و عظمت اور دبدبے کا معترف ہو اور اپنے عجز کا احساس پا ئے، اس کے مقابلے میں سیکولر طریقِ تعلیم سے یہی سائنس اُسے انسان کی خدائی کا قائل کرتی ہے۔ ان دونوں نظاموں میں جو بُعدالمشرقین ہے اسے سمجھنے کے لیے چند مثالوں پر غور کریں۔
سیکولر تعلیم دنیا کے بارے میں سرمایہ دارانہ اور مادہ پرستی پر مبنی سوچ پیدا کرتی ہے اور یہ سوچ اس کے ہر مضمون کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔ اس میں اوراسلام کے آفاقی نقطۂ نظر میں موافقت کیسے پیدا کی جاسکتی ہے۔ اس تعلیم کا حاصل یہ ہے کہ طلبہ ع ’کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے‘ کی کیفیت میں گرفتار رہیں۔ اگر وہ ان معاملات پر سوچنا شروع کریں تو انھیں نہ ختم ہونے والے تضادات اور ذہنی خلفشار کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس امر کا زیادہ امکان ہے کہ وہ سیکولر نقطۂ نظرکو اپنی سوچ میں جذب کرلیں اور اسلام کو بس عبادت کے ارکان تک ہی محدود کرلیں۔ وہ غالباً اُن طلبہ کے مقابلے میں عبادت کے ارکان کی ادایگی میں بہتر ہوں گے جو دوسرے اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔ لیکن ان کا ایک اچھے مسلمان سائنس دان، انجینیر، مینیجر اور دوسرے پیشہ ورانہ ماہرین بننے کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔ یہ تعلیم اسلام سے ایک جذباتی عقیدت پیدا کرسکتی ہے جس کا حاصل یہ سوچ ہو کہ اسلام ایک خوب صورت مذہب ہے جو ہمیں دل سے عزیز ہے لیکن اس دنیا کو سمجھنے اور اس کے مسائل حل کرنے سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ ملغوبہ اسکولوں میں بھی جب آپ سیکولر نظام سے فیض یاب اساتذہ کے ذریعے اس دنیاوی زندگی کے بارے میں سنجیدہ، معروف موضوعات پر سیکولر اداروں کی طبع کردہ کتب سے مضامین پڑھیں گے یا پڑھائیں گے تو آپ اسلام کو ذرا فاصلے ہی پر رکھیں گے۔
یہ مسئلہ صرف سائنس اورٹکنالوجی تک ہی محدود نہیں ہے، یہ سیکولر نظام کے تمام مضامین کے طول و عرض کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ ہمارے دور کے بہترین ماسٹرز آف بزنس ایڈمنسٹریشن (MBAs) یہ سیکھتے ہیں کہ کاروبار کا مقصد منافع کو زیادہ سے زیادہ بڑھانا ہے،اور مارکیٹنگ کا حاصل لوگوں کی خواہشات کو بڑھاکر مانگ میں اضافہ کرنا ہے۔ جو بھی ان دواُمور میں کام یابی حاصل کرتے ہیں انھیں پیشہ ورانہ طور پر بہترین تصور کیا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں صحافت کے میدان کے بہترین گریجویٹ، صحافت کے اس ماڈل سے مختلف طرز عمل اختیار نہیں کرتے جو مغرب نے پیش کیا ہے۔ اُن کی خبر کی تعریف،اُس کو حاصل کرنے کا مقصد ان کا اپنا نہیں اور نہ اس میں ان کے سامنے کوئی اخلاقی معیار ہی ہوتا ہے جو خبر کی اشاعت کو کنٹرول کرے ۔ معاشیات کی تعلیم میں ہم طلبہ کو یہ پڑھاتے ہیں کہ انسان ایک ایسا جانور ہے جسے صرف اور صرف اپنی حاصل کردہ افادیت (utility)کو بڑھانے سے غرض ہے اور ہونی چاہیے- تاریخ کی تعلیم میں طلبہ یہ سیکھتے ہیں کہ تاریخ کے سفر کا کوئی تعلق کسی اخلاقی قانون سے نہیں ہے، اور نہ اقوام کے عروج وزوال میں اللہ کے قوانین اور ضابطے عمل پیرا ہیں۔ اگر آپ نفسیات یا سماجیات کو دیکھیں، طب یا انجینیرنگ کی طرف نگاہ دوڑائیں، علم شہریت یا جغرافیہ کا جائزہ لیں، تو ہمیں ایک ہی کہانی نظر آتی ہے۔
اس مسئلے کا حل ملغوبہ طریق تعلیم نہیں ہے ۔ اس ماڈل کے اسکولوں میں ہم زیادہ سے زیادہ جو اُمید کرسکتے ہیں وہ یہ ہے کہ طلبہ اسلامی عبادات پر عمل کرنے والے بن جائیں گے۔ لیکن اگر اُن کی تربیت اُن سیکولر نظریات پرتنقیدکی صلاحیت پیدا نہیں کرتی اور اُن کے حاملین کو چیلنج کرنے کی جرأت مہیا نہیں ہوتی ہے جو اُن کے تعلیمی نصاب میں سمو دیے گئے ہیں، تو وہ بھی اپنی زندگی میں وہی راستہ اختیار کریں گے جو اِن اسکولوں کے علاوہ دوسرے سیکولر اسکولوں اور تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل طلبہ اپنی عملی زندگیوں میں اختیار کرتے ہیں۔
پاکستان کے ملغوبہ طریق تعلیم پر مبنی اسکولوں کا جائزہ لیں تو ہمیں بعض اضافی سنجیدہ مسائل بھی نظر آئیں گے۔حتیٰ کہ یہ منظر بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ ایسا کوئی اسکول، کوئی مدرسہ چلارہا ہے اور اسی کیمپس کے احاطے میں ہے لیکن ان کی ہر چیزبتار ہی ہوگی کہ وہ مدرسہ اور سکول دو مختلف دنیاؤں سے تعلق رکھتے ہیں، اور یہ دو مساوی دنیائیں بھی نہیں ہیں۔پوری فضا میں یہ احساس بھرا ہوا ہے کہ قدیم طرز کا مدرسہ تیسرے درجہ کی تعلیم دیتا ہے، جب کہ اس کا اسکول اول درجے کی تعلیم دیتا ہے۔پہلا مفت ہے اور غریبوں کے لیے ایک خیراتی ادارہ ہے دوسرے کی بھا ری بھرکم فیسیں اس کے اعلیٰ معیار کا ثبوت ہیں ۔ پہلے میں ذریعۂ تعلیم اُردو ہے، جب کہ دوسرے میں انگریزی ۔انگریزی کو ایک غیر ملکی زبان کی حیثیت سے نہیں بلکہ ذریعۂ تعلیم کے طورپر اختیار کرکے ہر ایک کو یہ پیغام پہنچایا جاتا ہے کہ انگریزی کو اردو اور عربی پر فوقیت حاصل ہے۔ بعض ایسے اسکول اوکسفرڈ کی وہ کتابیں استعمال کرتے ہیں جن کے اندر بڑی ہوشیاری کے ساتھ حقائق کو توڑ مڑوڑ کر پیش کیا گیا ہوتا ہے۔ لارڈ میکالے اگر دوبارہ دنیا میں آکر اِن ’اسلامی‘ اسکولوں کو دیکھے تو خوشی کے مارے مر جائے؟
مسئلے کا اصل حل اسلام کے رنگ میں رنگا نصاب، کتب ، اساتذہ اور مکمل نظامِ تعلیم ہے۔ اصل حل تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے ذہنوں سے نو آبادیاتی نظام کی باقیات کو نکال باہر کریں۔ظاہرہے کہ یہ کوئی آسان بات نہیں ہے کہ اس ذہنی سانچے کو تبدیل کیا جائے جو اپنے اور پرایوں کے درمیان ابلیس کے حواریوں کی گذشتہ دو صدیوں کی محنت سے پیدا کیا اورپروان چڑھایا گیا ہے۔ لیکن مسئلے کا کوئی اور حل نہیں ہے-
آئیے فرض کریں کہ ہم اس وقت ہوتے جب یورپی اقوام نے علوم کے شعبوں میں آگے بڑھنا شروع کیاتو اگر ہم آزاد ہوتے تو پھرہم کیا کرتے؟ آسان اور سادہ جواب ہے کہ ہم وہی کرتے جو اپنی تاریخ کے مختلف ادوار میں کرتے چلے آئے تھے۔ ہم یورپی ممالک سے آنے والے علوم وفنون کی تمام مفید اور اچھی باتوں کا انتخاب کرتے اور اپنے طریقۂ تعلیم سے نئے علوم کو اپنے نوجوانوں میں منتقل کرتے۔ اِس طرح ان چیزوں کو اپنی اقدار،نقطۂ نظر اور اسلام کی عطا کردہ آفاقی سوچ میں ڈھال لیتے۔ ہم نے ہمیشہ دوسری اقوام ہندوؤں، اہلِ ایران، یونانیوں، رومیوں، یہودیوں اور عیسائیوں کے علوم سے استفادہ کیا اور انھیں اپنے نظام تعلیم میں داخل کیا تھا۔ لیکن اس طرح کہ ہم نے ان کے اچھے اجزا لیے اور انھیں اپنے نظام میں سمو لیا۔یہ صحیح رویہ ہمارے مسلم معاشروں میں تعلیم کی ترقی اور اس کے فروغ کا بنیادی سبب تھا۔ یہ کوئی جبری، غیر ملکی یا تخریبی پیوندکاری نہیں تھی۔
ہم آج بھی اپنی یہی با عزت گم گشتہ راہِ اعتدال اختیارکر کے ہر علم کو اسلام کے تصور اور نظریے کے مطابق سکھانے کا اہتمام کرسکتے ہیں۔ نصاب کی از سرِ نو تدوین اور اساتذہ کی تیاری کے بعد ہی ہمارے پورے نظام تعلیم کو اسلام کے سانچے میں ڈھالا جاسکتا ہے۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے تعلیمی نظام کو اسلامی مقاصد اور تعلیمات کے مطابق پوری طرح تبدیل کرنے کے بارے میں سوچیں۔ نچلی سطح سے لے کر اعلیٰ ترین یونی ورسٹی کی سطح تک کی درسی کتب دوبارہ لکھیں تاکہ طلبہ اسلام کے آفاقی نقطۂ نظر سے لیس ہو سکیں اور اس کی روشنی میں زندگی کی راہیں تراش سکیں۔ لازمی ہے کہ یہ کتابیں سائنسی اور سماجی علوم میں اسلامی نقطۂ نظر کو دوبارہ سموسکیں۔
ظاہر ہے کہ یقینی طور پر اس کے لیے بڑے وسائل درکار ہیں۔ لیکن بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے ابھی اس بات کو محسوس نہیں کیا ہے کہ اسکولوں کا ملغوبہ ماڈل (Hybrid Model) ہماری منزل ہرگز نہیں ہے۔ ہمیںاسلام سے ہم آہنگ نظام تعلیم پر اپنی نگاہیں مرتکز کرنا ہوں گی۔ اس کے لیے ہمیں عملی طور پر ایسے اساتذہ کی تیاری کے لیے تربیتی نظام وضع کرنا ہوگا جو ہم آہنگ نظام تعلیم کے مقاصد کا نہ صرف واضح ادراک رکھتے ہوں بلکہ نئے نظام تعلیم کے انقلابی عمل میں بھی مرکزی کردار ادا کرسکیں۔ وہ اپنے کلاس روم کے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے دوسرے قدم کے طور پر نئے سرے سے درسی کتب لکھنے کا کام بھی شروع کریں۔
کیا وہ وقت نہیں آیا کہ ہم اپنے ذہنوں کو غلامی سے پاک کرنے کی سوچ کا آغاز کریں؟
زبانیں ہمیں تہذیب کا سفر طے کراتی ہیں۔وہ اپنا آغاز ایک بالکل اجنبی اور نامانوس زبان کی حیثیت سے کرتی ہیں، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ،اور مختلف تہذیبوں کے ملتے جلتے رہنے کے باعث ایک بالکل ہی نئی اور شان دار حیثیت سے دنیا کے سامنے آتی ہیں۔ علم وادب کا ایک وسیع ذخیرہ اور الفاظ ومعانی کا ایک دریا ان کے اندر موجود ہوتا ہے۔ دنیا کی کسی بھی زبان کو دیکھیں۔ وہ اس زبان سے قطعی مختلف ہوگی، جو اپنی ابتدا میں تھی، حتیٰ کہ اکثر اوقات اس ابتدائی زبان کو خود اس کے اپنے ماہرین بھی سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ فرانسیسی، لاطینی، انگریزی، اردو اور فارسی وغیرہ نے تاریخ کے سفر میں اَن گنت شکلیں بدلی ہیں اور تب جاکر وہ آج کی موجودہ شکل میں ہمارے سامنے آئی ہیں۔
اصولاً یہ معاملہ قرآن پاک کی عربی زبان کے ساتھ بھی پیش آنا چاہیے تھا۔ اسے بھی تبدیل ہوکر کچھ سے کچھ ہوجانا چاہیے تھا۔ قرآن پاک آج سے ۱۵سو سال قبل نازل ہوا تھا، چنانچہ اُس وقت کی عربی زبان ، آج کی اس اکیسویں صدی میں ہمارے لیے بالکل اجنبی ہونا چاہیے تھی۔ اگر فی الحقیقت ایسا ہوا ہوتا، تو قرآن پاک سے ہمارا رشتہ آج ٹوٹ چکا ہوتا اور دین اسلام ہمارے لیے اجنبیت اختیار کرجاتا۔بالکل اسی طرح جیسے انجیل اور تورات کی اصلی زبانیں آج کہیں موجود نہیں ہیں او ر یہ دونوں کتابیں اب ہمارے ہاں غیر مستند سمجھی جاتی ہیں۔ لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ قرآن پاک کی عربی آج بھی اپنے اندر حُسن، کشش،ادبی ذخیرہ اور زبان وبیان کا اعلیٰ مقام لیے ہوئے ہے۔ اس عربی کا کوئی بھی لفظ آج تک نہ متروک ہوسکا ہے اور نہ اس سے برتر کوئی اور لفظ سامنے آسکا ہے۔
جیسے جیسے اسلام کی اشاعت کرّۂ ارض پر ہوتی چلی گئی ، اسے اسی قدر نت نئی زبانوں سے سابقہ بھی پیش آتا رہا۔ جب اسلام یورپ، ایشیا اور افریقہ جیسے دیگر براعظموں کے اندر داخل ہوا تو عربی سے واقف کوئی ایک فرد بھی وہاں موجود نہ تھا۔ اسلام نے وہاں بعض علاقوں میں ۵۰۰سے۶۰۰ برسوں سے زیادہ حکم رانی کی ہے ،مگر کسی جگہ کی کتنی ہی طاقت ور زبان، عربی زبان پر اثر انداز نہ ہوسکی۔ عراق، مصر ، ایران اور روم بڑی جان دار تہذیبوں کے مراکز تھے، لیکن ان میں سے کوئی بھی تہذیب عربی زبان کو مسخر نہ کرسکی، بلکہ اس کے برعکس الٹا عربی زبان ہی نے ان کی زبانوں میں بڑے بڑے ردّوبدل کردیے، حتیٰ کہ ان کی زبانیں اور طرز تحریر تک بدل کے رکھ دیے۔ جیسا کہ ہم اپنی مقامی سندھی زبان کو دیکھتے ہیں کہ سندھ کی عرب فتوحات کے بعد اس کا رسم الخط تبدیل ہوکر عربی ہوگیا۔
اس قرآنی زبان کو مٹانے کے لیے بڑی بڑی تدبیریں اختیار کی گئیں۔ ایرانی حکم رانوں نے عربی کے کتب خانوں کو جلایااور مدرسوں کو اجاڑدیا۔ انگریزوں اور فرانسیسیوں نے عربی زبان کے خلاف اپنی پوری قوت صَرف کردی اورتمام تعلیم انگریزی اور فرانسیسی زبان میں دینے لگے، لیکن اس کے باوجود تمام علاقوں میں عربی زبان بدستور اپنی اصل حالت میں موجود رہی ۔اس کی واحد وجہ یہ تھی کہ قرآن پا ک ایک زندۂ جاوید کلام کی حیثیت سے سدا سے موجود چلا آرہا ہے۔
قبل اسلام، عرب میں اچھے شعر کی ایک تعریف یہ بھی رائج تھی کہ اس میں زیادہ سے زیادہ جھوٹ شامل ہونا چاہیے، اور اس جھوٹ میں شدید مبالغہ آرائی ہونی چاہیے۔ لیکن قرآن پاک نے سورۂ رحمن میں حقائق کا اتنا خوب صورت بیان کیا کہ اس سے زیادہ خوب صورت بیان ممکن نہیں تھا۔اسی وجہ سے اسے عروس القرآن(قرآن کی دلہن) کا خطاب دیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن پاک کی عربی نے عربوں کو نت نئے الفاظ ہی نہیں دیے بلکہ ان کے وسیع مفا ہیم بھی دیے جن سے پہلے وہ خود بھی ناآشنا تھے۔
زبانوں کی ترقی وتبدیلی میں اُدبا اور شعر ا کا سب سے زیادہ کردار ہوتا ہے۔ہر بڑا شاعر اور ادیب زبان کو نئے زاویے اور نئی حیات عطا کرتا ہے۔ زبانیں اسی طرح بدلتی ہیں، یہاں تک کہ دوتین صدیوں کے بعد اوّلین زبان کو لوگ شرحوں اور لغتوں کے بغیر سمجھ بھی نہیں پاتے!۔ اس کلیے میں صرف ایک استثنا ہے اور وہ ہے عربی زبان کا استثنا۔ عربی آج بھی اسی آسانی اورفصاحت سے سمجھ میں آجاتی ہے، جیسی کہ وہ اپنے اوّلین دور میں سمجھی جاتی تھی۔ بے شک حالات کے حساب سے چند نئے الفاظ اور اصطلاحات بھی عربی میں رائج ہوئیں، لیکن قرآن کی عربی مبین پر وہ ہر گز اثر انداز نہ ہو سکیں۔ زندگی کے حقائق کو قرآن پاک نے اتنے فصیح وبلیغ عربی انداز میں بیان کیا ہے کہ دنیا میں کوئی شخص بھی اس سے بہتر زبان اور انداز میں انھیں بیان نہیں کرسکتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قرآن پاک کے الفاظ میں معنی کے لحاظ سے بے حد وسعت ہوئی اور اس کے جدید ترین مطالب سامنے آئے ہیں۔ یقینا مستقبل کی صدیوں میں ان کے مزید جدید مطالب سامنے آئیں گے جن کی مدد سے اس دور کا ماحول اوربھی بہتر انداز میں سمجھ میں آسکے گا۔ لیکن مطلب کی اس جدت نے عربی الفاظ اور اصطلاحوں کو متروک اور ناکارہ نہیں کیا،بلکہ آج بھی ان کی تازگی اور حُسن پہلے ہی کی طرح برقرار ہے۔ ابتدائی دور کا کوئی عرب زندہ ہوکر آج اگر عرب ممالک میں اپنی گفتگو کرے تو اس کی زبان صدیوں کے فاصلے کے باوجود اسی کے زمانے کے مطابق سمجھی اور سنی جائے گی۔
معروف انگریز مؤرخ فلپ کے حِتی اپنی کتاب ہسٹری آف دی عربسمیں اعتراف کرتا ہے کہ’’ قرآن پاک کی عربی اتنی ہمہ گیر اور مکمل ہے کہ مختلف عربی لب ولہجے کے باوجود عربی زبان کے ٹکڑے نہیں ہوئے حالانکہ خود رومی زبان بھی بعد میں کئی حصوں میں تقسیم ہوگئی تھی۔ بے شک ایک عراقی یمنی عربی کی زبان سمجھنے میںمشکل محسوس کرے گا لیکن وہ اسی کی لکھی ہوئی عربی کو بآسانی سمجھ لے گا‘‘ (ص ۱۲۷)۔عالم اسلام کے ممتاز مفسر سید قطب شہیدؒ کہتے ہیں کہ جو ممالک اسلام کے لیے مفتوح ہوئے اور جہاں بہت سے غیر معمولی عصری علوم وفنون اُبھر کے سامنے آئے، وہ ان کی اپنی اور اصل قدیم زبانوں میں نہیں بلکہ اس نئی زبان، اس دین کی زبان، اسلامی زبان (عربی) میں سامنے آئے۔ ان نئے حقائق، نئے فنون ،اور نئے افکار کو پیش کرتے وقت یہ بات بالکل ظاہر نہ ہوتی تھی کہ یہ اجنبی زبان میں ہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان علوم وفنون کے لیے عربی زبان گویا ان کی اپنی مادری زبان بن گئی تھی۔(فی ظلال القرآن،جلد سوم، ص۳۱۲)
تفسیر مذکورہ کے مترجم عالم دین سید حامد علیؒ اس تشریح کے ضمن میں مزید حیرت انگیز وضاحت کرتے ہیں کہ تفسیر ،فقہ، کلام، تصوف، فلسفہ، جغرافیہ، سائنس، عربی لغات اور تاریخ وغیرہ، تمام علوم وفنون میں چھوٹی بڑی بلکہ ضخیم مجلدات تصنیف کرنے والے لوگ ۹۰ فی صد عجمی تھے اور انھوں نے یہ سارا کام عربی زبان میں اس طرح کیا تھا کہ گویا وہ ان کی اپنی ہی زبان ہو۔ یہی نہیں بلکہ اس دور میں پوری متمدن(ومہذب) دنیا کی علمی زبان عربی تھی۔(ایضاً ص۳۱۲)۔ یہ جو آج ہم ماضی کے مسلم مفکرین و سائنسدان، مثلاً ابنَ فرناس، ابنِ سینا، ابنِ بطوطہ، ابنِ خلدون اور علامہ ابنِ کثیر وغیرہ کے کارنامے سنتے اور پڑھتے ہیں ، وہ سب کے سب عرب خطوںکے باشندے بہرحال نہیں تھے ۔ لیکن انھوںنے اپنی کثیر تصنیفات کا بیش تر حصہ عربی زبان ہی میں تیا ر کیا تھا۔
اپنی اصل میں عربی زبان محض ایک زبا ن ہی ثابت نہیں ہوئی بلکہ وہ ایک تہذیب ساز عامل بھی بن کے سامنے آئی۔ دنیا کے جس خطے میں بھی وہ گئی ، اس نے وہاں جا کر ایک بالکل ہی نئی تہذیب کی بنیاد رکھ دی۔دنیا کی موجودہ عالمی زبانوں کی لغت میں آج لاتعداد الفاظ عربی کے پائے جاتے ہیں کیونکہ دنیا کے ایک تہائی خطے پر کبھی اسلام کا پرچم لہرایا کرتا تھا۔ astrolobe, stable, camel, sugar, zenith, lick, rim, وغیرہ جیسے الفاظ دراصل عربی الاصل ہی ہیں۔
ایک مغربی مفکر نے۱۸۹۰ء میںکتنی اچھی بات کہی تھی کہ’’ عربی زبان کا نہ کوئی بچپن ہے نہ بڑھاپا۔ وہ اپنے ظہور کے پہلے دن جیسی تھی، ویسی ہی آج بھی ہے‘‘۔ گویا وہ شروع ہی سے ایک بالغ اور بھر پور زبان رہی ہے ۔واضح رہے کہ اس نے عربی کی یہ تعریف اٹھارھویں صدی کے آخری دور میں کی تھی ،جب کہ زمانہ آج اکیسویں صدی کا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی تمام زبانوں میں عربی زبان سے زیادہ کوئی اور زبان معجزاتی نہیں ہے اور نہ کسی اور زبان میں الفاظ کا اتنا ذخیرہ ہی موجود ہے جتنا عربی زبان میں ہے۔کیونکہ بعض اوقات صرف ایک اسم کے تعارف کے لیے اس میں ۵۰ سے زیادہ الفاظ پائے جاتے ہیں۔ اسی لیے اس کے بارے میں یہ کہنا بجا ہے کہ عربی وہ زبان ہے جسے وقت کی آندھیاں بوسیدہ نہ کر سکیں!
سید مودودیؒ کے بقول:’’۱۴ سو برس گزرنے کے بعد بھی آج تک یہ کتاب اپنی زبان کے ادب کا سب سے اعلیٰ نمونہ ہے جس کے برابر تو درکنار، جس کے قریب بھی عربی زبان کی کوئی کتاب اپنی ادبی قدروقیمت میں نہیں پہنچتی۔ یہی نہیں، بلکہ یہ کتاب عربی زبان کو اس طرح پکڑ کر بیٹھ گئی ہے کہ ۱۴ صدیاں گزر جانے پر بھی اِس زبان کا معیارِ فصاحت وہی ہے جو اس کتاب نے قائم کر دیا تھا، حالانکہ اتنی مدت میں زبانیں بدل کر کچھ سے کچھ ہو جاتی ہیں۔ دنیا کی کوئی زبان ایسی نہیں ہے جو اتنی طویل مدت تک املا، انشاء، محاورے، قواعدِزبان اور استعمالِ الفاظ میں ایک ہی شان پر باقی رہ گئی ہو۔ لیکن یہ صرف قرآن کی طاقت ہے جس نے عربی زبان کو اپنے مقام سے ہلنے نہ دیا۔ اُس کا ایک لفظ بھی آج تک متروک نہیں ہوا ہے۔ اُس کا ہر محاورہ آج تک عربی ادب میںمستعمل ہے۔ اُس کا ادب آج بھی عربی کا معیاری ادب ہے، اور تقریر و تحریر میں آج بھی فصیح زبان وہی مانی جاتی ہے جو ۱۴۰۰برس پہلے قرآن میں استعمال ہوئی تھی۔ کیا دنیا کی کسی زبان میں کوئی انسانی تصنیف اِس شان کی ہے؟‘‘(تفہیم القرآن، جلد۵، ص ۱۷۵-۱۷۶)
۲۰۱۲ء کے اواخر میں لبنان کے دارلحکومت بیروت میں عرب بہار کے پس منظر میں مسئلۂ فلسطین کا جائزہ لینے کے لیے ایک کانفرنس منعقد ہوئی۔اس موقع پر فلسطینی رہنما خالد مشعل نے مسئلہ فلسطین پر حماس کا موقف تفصیل کے ساتھ پیش کیا۔ اس اہم دستاویز کاخلاصہ پیش کیا جارہا ہے۔ادارہ
تحریک مزاحمت حماس محض ایک اسلامی تحریک نہیں، بلکہ یہ تحریک آزادی فلسطین کا ہراول دستہ بھی ہے۔ لہٰذا فلسطین کے بارے میں ہماری پالیسی دو اوردو چار کی طرح بالکل واضح ہے۔ ہم سرزمین فلسطین اوراپنی پالیسی کو درج ذیل نکات کی صورت میں پیش کرتے ہیں:
۱- فلسطین مشرق میں دریاے اردن سے لے کرمغرب میں بحیرہ روم تک اور شمال سے لے کر جنوب تک فلسطینی عوام کی سرزمین ہے ۔حالات کیسے بھی ہوں، دباؤ جتنا بھی ہو، حماس فلسطین کی ایک بالشت بھرزمین سے بھی کسی صورت دست بردار نہیں ہوگی۔
۲- ہم فلسطین پرکسی قسم کے قبضے کو تسلیم نہیں کرتے۔ فلسطین کے کسی بھی حصے میں نہ اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں، نہ اس کے کسی حق کو۔
۳- آزادیِ فلسطین ہمارا قومی، ملی اور دینی فریضہ ہے۔ یہ صرف عرب اور مسلم امہ کا ہی نہیں تمام انسانیت کا مسئلہ ہے۔
۴- جہاد اور مسلح جدوجہد ہی آزاد ی فلسطین کا حقیقی اور صحیح راستہ ہے۔ تاہم، ہم ہر قسم کے سیاسی، قانونی اورسفارتی ذرائع کو بھی استعمال کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔
۵- ہم یہودیت کے پیروکاروں کے خلاف ان کے یہودی ہونے کی وجہ سے نہیں لڑتے بلکہ ہمارا ہدف غاصبانہ قبضہ کرنے والے صہیونی ہیں ۔ ہم ہر اس ظالم کے خلاف لڑیں گے جو ہمارے حقوق غصب اور ہماری سرزمین پر قبضہ کرتا ہے ۔
۶- ہم تمام مقبوضہ علاقوں کے پناہ گزینوں اور مہاجرین کی وطن واپسی کے حق کی مکمل تائید کرتے ہیں۔ہم اس مطالبے سے کسی طور سے دست بردار نہیںہوسکتے۔ اسی طرح ہم فلسطینیوںکومتبادل وطن دینے کی بھی پُر زور مخالفت کرتے ہیں۔
۷- ہمارے نزدیک القدس سمیت پوری مغربی پٹی ، غزہ اور۱۹۴۸ء کے مقبوضہ تمام علاقے ایک ہی وطن کے حصے ہیں۔ ہم غزہ کو مغربی کنارے سے قطعاً الگ خیال نہیں کر تے۔
۸- ہم فلسطین میں یکساں سیاسی نظام اور ایک ہی قومی حکومت کے خواہاں ہیں ۔
۹- ریاست آزادی کا ثمر ہوتا ہے۔ لہٰذا فلسطین کو پہلے آزاد کراناپھر اس کے پورے رقبے پر مکمل اور خودمختارحکومت کا قیام ہمار ی پالیسی ہے۔
۱۰- ہم خود مختارقومی پالیسیاںتشکیل دینے کے خواہاں ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ فلسطین کسی دوسرے ملک کے دست نگر اور تابع نہ ہو۔
۱۱- جمہوریت کی بنیاد پرفلسطین میں قومی ادارے تشکیل دینا ہماری پالیسی ہے۔ پہلے صاف اور شفاف انتخابات منعقد کیے جائیں اور عوام کی راے کا احترام کیا جائے۔
۱۲- دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی سے اجتناب کرنااور تمام ممالک کے ساتھ متوازن تعلقات استوار کرنا حماس کی بنیادی پالیسی ہے۔
۱۳- ہم دینی ، نسلی اور مذہبی بنیاد پر تقسیم کی حوصلہ شکنی کرتے ہیںاور اختلاف کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے سب کو امت کے مشترکہ مفادات کے لیے مل کر کام کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔
جہاںتک غزہ کو الگ کرنے کی بات ہے تو بخدا ہم نے بخوشی یہ نہیںکیا ۔ یہ صورت حال ہمارے او پر مسلط کردی گئی ہے ۔ سب لوگ جانتے ہیں کہ ۲۰۰۶ء کے انتخابات کے نتائج کو علاقائی اور بین الاقوامی قوتوں نے تسلیم نہیں کیا اور ہمیں غزہ کو الگ کرنے پر مجبور کیا گیا۔ ہم پہلے دن سے اس تقسیم کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ قومی بنیادوںپر اتفاق راے سے فلسطینی اتھارٹی اور پی ایل او کے زیر نگرانی مصالحت ہو اورایسا قومی ایجنڈا ترتیب دیا جائے جو مستقل اقدارپر مبنی، تمام حقوق کا پاس داراور فلسطین کے قومی مفادکا ضامن ہو۔
عرب بہار نے اسرائیل کوبہت پریشان اور بدحواس کر دیا ہے ۔اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے اپنی پالیسی اور اسٹرے ٹیجی ہی تبدیل کردی ہے ۔ موجودہ صورت حال نے حماس کے سیاسی تعلقات کا روڈ میپ بھی تبدیل کردیا ہے۔ کہیں اس کے تعلقات میں اضافہ ہوا ہے تو کہیںتعلقات کی نوعیت بدل گئی ہے۔ گذشتہ دو عشروں سے مختلف عرب ممالک کے ساتھ حماس کے تعلقات مختلف نوعیت کے تھے۔لیکن عرب بہار نے ان تعلقات کو مضبوط کر دیا ہے۔
حماس کے شام کے ساتھ تعلقات میں جو تبدیلیاں آئی ہیں اور جو کچھ اس وقت شام میں ہو رہا ہے ہم ہرگزاس پر راضی نہیںہیں۔خدا گواہ ہے اور تاریخ اسے ثابت کرے گی کہ ہماری شروع ہی سے خواہش تھی کہ معاملات اس رخ پر نہ جائیں جس پر اب چل رہے ہیں۔ ہم چاہتے تھے کہ شام پرامن ،مضبوط اور طاقت ور رہے باوجود یکہ تحریک مقاومت کے خلاف اس کی پالیسی پچھلے کئی سال سے مخاصمت پر مبنی تھی جو کہ ایک تاریخی حقیقت ہے۔
مختلف ممالک اور تنظیموں کے ساتھ حماس کے تعلقات متاثر ہوئے ہیں لیکن فلسطین اور فلسطینی مزاحمت ہمیشہ اس کا نصب العین رہا ہے۔ جب حماس کی قیادت اردن میں تھی، اس وقت بھی اس نے اپنا مزاحمتی کام جاری رکھا۔ پھر جب ہم قطر اور شام میں منتقل ہو گئے اوراس کے بعد دوسرے ممالک جیسے مصر میں چلے گئے تب بھی حماس مزاحمتی تحریک ہی رہی،اور فلسطین کی آزادی تک ان شاء اللہ اس کا یہی طرز عمل رہے گا۔ عرب بہار اور عالم عرب میںواقع ہونے والی تبدیلیوں نے کچھ وقت کے لیے دنیا کی نظریں مسئلہ فلسطین سے ہٹادی ہیںجو یقینا ایک نقصان ہے لیکن یہ عارضی نقصان ہے۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ عرب عوام اگرچہ اپنی داخلی پریشانیوں میں مصروف ہیںمگر اس کے باوجود فلسطین ان کے دلوں اور نعروں میں موجود ہے۔
۱-داخلہ اور خارجہ پالیسی میں توازن قائم کرنا چاہیے اور صرف اپنے مفادات کے گرد نہیں گھومنا چاہیے۔ ملکی مسائل کو کامیابی کے ساتھ حل کرنے سے بین الاقوامی سطح پر ملک کی خارجہ پالیسی کو تقویت ملتی ہے اور اس میں ناکامی کی صورت میں موقف کمزور پڑ جاتا ہے ۔ ہمارا خیال ہے کہ بڑے بڑے مسائل کے لیے کوشش کرنا، نہ صرف علاقائی سطح پرآپ کی آواز کو مؤثر بنادیتا ہے بلکہ بین الاقوامی کردار پر بھی اثر انداز ہوتا ہے ۔
۲- اُمت کے مسائل کا حل صرف اپنے ممالک کی حد تک سوچنے میںنہیں بلکہ پوری اُمت مسلمہ اور عالمِ عرب کا ایک دوسرے سے تعاون اور اتحاد میں مضمرہے۔ عرب بہار کے ممالک اس وقت، جب کہ وہ اندرونی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں اور اپنے ممالک کو نئی بنیادوں پر قائم کرنے میں لگے ہیں، انھیں سوچنا چاہیے کہ وہ اس کے ساتھ ساتھ امت کے مسائل کے بارے میں کیا کرسکتے ہیں۔
۳-مغرب اور بڑے بڑے ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کرنا آج کی دنیا میں ایک طبعی امر ہے۔یہ ہماری سیاسی اور اقتصادی ضرورت ہے۔ لیکن اس کی قیمت مسئلہ فلسطین، اس میں عربوں کے کردا رکے خاتمے اور ان کی ذمہ داریوں سے جان چھڑانے کی صورت میں نہ ہو۔ ہماری راے میں مغرب کے ساتھ تعلقات محض مراعات کے بدلے میں استوار نہیں کرنے چاہییں، اس لیے کہ عرب بہار کے ممالک اپنے عوام کے ارادے سے چلتے ہیں نہ کہ بیرونی امداد سے۔
۴- عرب اسرائیل کی کش مکش کے حوالے سے عرب ممالک اور عرب لیگ کو اپنی سیاسی سوچ کو وسیع اورحکمت عملی کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔انھیں حماس کے بارے میںبھی اپنے موقف میںتبدیلی لانی چاہیے۔پہلے جو کچھ تحریک کے لیے ممنوع تھا جیسے اسلحہ کی فراہمی وغیرہ، اب اس کی اجازت ہونی چاہیے۔
اب، جب کہ فوجی جنگوں کا دور نہیں رہا ،امت مسلمہ کو اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے آگے آناچاہیے۔ ۱۹۶۷ء سے اب تک اسرائیل کوئی جنگ نہیں جیت سکا سواے ۱۹۸۲ء کے۔ وہ بھی صرف اس وجہ سے کہ لبنان سے فلسطینی تحریک کو نکال دیاگیا تھا۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بعدمجاہدین کوفراہم کردہ اسلحے سے ممکن ہوا۔
اسی طرح اب فلسطین کے نام سے دولت کمانے کے پراجیکٹ ختم ہونے چاہییں ۔ اب نئی حکمت عملیاں تلاش کرنے کی ضرورت ہے جن میں حقیقی طاقت کا حصول سرفہرست ہے ۔
۵-اسرائیل کے ساتھ تصفیہ کے معاہدات اوران معاہدات کے پشت پر کھڑے ممالک کی پالیسیوںپر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے ۔ اسرائیل کے ساتھ سیاسی سمجھوتے اور معاہدے، اُمت مسلمہ اور فلسطین کے حق میں نہیں ہیں۔اس لیے کہ اسرائیل نہ کبھی دوست تھا، نہ ہوگا۔عرب بہار کے بعداسرائیل سے دوستی بڑھانے کی باتیںبالکل میل نہیں کھاتیں۔
۶- فلسطین کو صرف اسلام پسندوںکی حمایت کی ضرورت نہیں ہے۔ حماس ،جہاد اسلامی اور دیگر جہادی تحریکوںکو پوری امت کی پشت پناہی کی ضرورت ہے ،جن میں اسلام پسند، قوم پرست، لبرل اور بائیں بازو کی طاقتیں سب شامل ہیں۔
عرب بہار کے نتیجے میںہماری خواہش ہے کہ امت مسلمہ امت واحدہ بن کر اُبھرے اور فلسطین پر ایک موقف اختیار کرے۔ان کی داخلہ پالیسی عوامی خواہشات کے مطابق ہواور خارجہ پالیسی مضبوط بنیادوں پراستوار ہو تاکہ صہیونی دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی جاسکے۔
سوال: یہ کہا جاتا ہے کہ جمہوریت سرے سے اسلام میں تھی ہی نہیں؟
جواب: یہ بات غلط ہے کہ جمہوریت اسلام میں سرے سے ہے ہی نہیں۔ سورئہ شوریٰ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: وَاَمْرُھُمْ شُوریٰ بَیْنَھُمْ(ان کے معاملات باہمی مشورے سے طے پاتے ہیں)۔ ظاہر ہے کہ خلافت و امارت، جو مسلمانوں کا اہم ترین معاملہ ہے، اُس پر بھی یہی اُصول لاگو ہوگا کہ خلیفہ مسلمانوں کی راے عام کے مطابق منتخب ہو اور مشورے سے حکومت کرے، لیکن عام رائج الوقت جمہوریت اور اسلام کی جمہوریت میں یہ فرق ہے کہ مغربی جمہوریت میں تو باشندوں کی مجرد اکثریت ہرشے کو جائزوناجائز اور واجب و ممنوع قرار دے سکتی ہے، مگر اسلام میں مسلمانوں کی اکثریت خدا اور رسولؐ کے حرام کردہ اُمور کو حلال اور حلال کردہ اُمور کو حرام نہیں کرسکتی۔ مثال کے طور پر مسلمانوں کی اکثریت اگر چاہے بھی تو وہ کسی قادیانی، کسی عیسائی بلکہ کسی فاسق و فاجر کو بھی اپنا امیر نہیں بناسکتی۔ اگر بنا لے تو اسلام کی نظر میں یہ امارت جائز نہ ہوگی۔ (ملک غلام علی، رسائل و مسائل، ہفتم بحوالہ ترجمان القرآن، مارچ ۱۹۷۷ء، ص ۱۱۸-۱۲۰)
س: خود کو ’روشن خیال‘ تصور کرنے والے بعض مسلم مفکرین نے ایک نئی اصطلاح ایجاد کی ہے جسے وہ ’سیاسی اسلام‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک سیاسی اسلام سے مراد ان لوگوں کا اسلام ہے، جو دین میں سیاست کو شامل قرار دیتے ہیں اور دینی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ سیاسی سرگرمیوں میں بھی شامل رہتے ہیں۔ دراصل ان لوگوں نے یہ نئی اصطلاح ان لوگوں پر تنقید کرنے کے لیے ایجاد کی ہے، جو اسلام کو مکمل نظامِ حیات کی حیثیت سے تسلیم کرتے ہیں۔ کیا واقعی اسلام کا سیاست سے کوئی رشتہ نہیں ہے؟
ج: بڑے افسوس کی بات ہے کہ مسلم دانش وروں میں ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو اسلام کے دشمنوں کے خطوط پر سوچتے ہیں اور انھی کی پالیسیوں کو نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ اسلام کو عملی زندگی سے بے دخل کرنے کے لیے انھوں نے کبھی اسے نجی زندگی تک محدود کردیا، تو کبھی اس کی صورت مسخ کرنے کے لیے اس کے مختلف ماڈل بناڈالے اور اسے مختلف نام عطا کردیے، مثلاً سیاسی اسلام، اقتصادی اسلام، روشن خیال اسلام، رجعت پسند اسلام، ہندستانی طرز کا اسلام، عربی طرز کا اسلام، ترکی طرز کا اسلام اور نہ جانے اسلام کے کون کون سے ماڈل انھوں نے وضع کر رکھے ہیں۔ حالانکہ اسلام ایک ہی ہے اور یہ وہ اسلام ہے جو قرآن و سنت میں پایا جاتا ہے، اور جسے حضوؐر، آپؐ کے صحابہ کرامؓ اور سلف صالحین نے اپنے عملی نمونوں سے پیش کیا ہے۔
قرآن و حدیث کی تعلیمات اور آں حضورصلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ کرامؓ کے عملی نمونوں پر غور کرنے کے بعد پورے وثوق کے ساتھ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اسلام سے سیاست کو بے دخل نہیں کیا جاسکتا۔ سیاست سے بے دخل ہونے کے بعد اسلام اسلام نہیں رہ سکتا۔ کوئی دوسرا ہی دین بن جائے گا، کیوں کہ:
۱- اسلامی شریعت کے بہت سارے واضح احکام عین سیاست سے متعلق ہیں۔ اسلام محض روحانی عقیدہ یا چند دینی رسم و رواج کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ عقیدہ بھی ہے اور عبادت بھی اور تمام دنیوی معاملات کو بہ حُسن و خوبی برتنے کا ایک بہترین نظام بھی۔ یہ دنیوی مسائل خواہ سیاسی ہوں یا معاشرتی اور اقتصادی یا ان کا تعلق معاملات سے ہو۔ یہ مسائل چاہے حالت امن سے تعلق رکھتے ہوں یا حالت ِ جنگ سے، ان تمام اُمور میں دین اسلام کے واضح قواعد و اصول ہیں۔ ان اُصول و قواعد سے رُوگردانی اور غیروں کے نظامِ حیات کی پیروی دراصل اس خالق کائنات سے بغاوت ہے، جس نے انسانوں کی بھلائی کے لیے یہ اصول و قواعد وضع کیے ہوں اور جن کی حقانیت کا زبانی دعویٰ کیا جاتا ہے۔
غور کیا جائے تو عقیدۂ توحید محض ایک روحانی عقیدہ ہی نہیں ہے بلکہ ایک انقلابی سیاسی نعرہ بھی ہے، جو انسان کو مساوات، آزادی اور اخوت و محبت کی دعوت دیتا ہے۔ انسان کو انسان کی بندگی سے نکال کر خالق کائنات کی بندگی میں لے جانا چاہتا ہے تاکہ کوئی بندہ مطلق العنان حاکم بن کر دوسرے بندوں کے سیاسی اور سماجی حقوق نہ چھین لے۔ یہی وجہ ہے کہ حضوؐر جب بادشاہوں کے نام خطوط ارسال کرتے اور انھیں اسلام کی دعوت دیتے تو آخر میں یہ آیت کریمہ ضرور نقل کرتے تھے:
قُلْ یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآئٍ م بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰہَ وَ لَا نُشْرِکَ بِہٖ شَیْئًا وَّ لَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ ط فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْھَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَo(اٰل عمرٰن ۳:۶۴)، اے اہلِ کتاب! آئو ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں ہے، یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی نہ کریں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرائیں، اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنا لے۔ اس دعوت کو قبول کرنے سے اگر وہ منہ موڑیں تو صاف کہہ دو کہ گواہ رہو، ہم تو مسلم (صرف خدا کی بندگی و اطاعت کرنے والے) ہیں۔
۲- خود کو سیاسی مسائل سے الگ تھلگ کرکے کوئی مسلمان مکمل مسلمان نہیں ہوسکتا۔ کیوں کہ اللہ اور اس کے رسولؐ نے قرآن و حدیث میں متعدد مقامات پر ہرمسلمان پر اس بات کی ذمہ داری عائد کی ہے کہ وہ امربالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے۔ اللہ اور اس کے رسولؐ کے اس حکم کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ ہرمسلم شخص معاشرے کی جملہ برائیوں کے خاتمے کے لیے جدوجہد کرے اور بھلی باتوں کو عام کرنے کے لیے سرگرم رہے۔ حضوؐر نے سب سے افضل جہاد اس عمل کو قرار دیا ہے کہ ظالم و جابر حکمران کے رُوبرو حق بات کہی جائے۔ اَفْضَلُ الْجِھَادِ کَلِمَۃُ حَقٍّ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ (ترمذی) ’’سب سے افضل جہاد ظالم حکمرانوں کے سامنے حق بات کہنا ہے‘‘۔
اسلام اس بات کا حکم دیتا ہے کہ معاشرے میں کمزور اور مظلوم انسانوں کی مدد کی جائے، اور ان کے حقوق کے لیے آواز بلند کی جائے۔ اللہ کا فرمان ہے:
وَ مَا لَکُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآئِ وَ الْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ اَھْلُھَاج (النساء ۴:۷۵)، آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں۔
اللہ ان لوگوں کے لیے سخت نفرت کا اظہار کرتا ہے جو ظلم سہتے ہیں اور خاموش رہتے ہیں اور کم از کم اتنا بھی نہیں کرتے کہ ظلم کی بستی سے ہجرت کرجائیں:
اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفّٰھُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ ظَالِمِیْٓ اَنْفُسِھِمْ قَالُوْا فِیْمَ کُنْتُمْ ط قَالُوْا کُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ فِی الْاَرْضِط قَالُوْٓا اَلَمْ تَکُنْ اَرْضُ اللّٰہِ وَاسِعَۃً فَتُھَاجِرُوْا فِیْھَا ط فَاُولٰٓئِکَ مَاْوٰھُمْ جَھَنَّمُ ط وَ سَآئَ تْ مَصِیْرًاo(النساء ۴:۹۷)، جو لوگ اپنے نفس پر ظلم کر رہے تھے ان کی روحیں جب فرشتوں نے قبض کیں تو ان سے پوچھا کہ یہ تم کس حال میں مبتلا تھے؟ انھوں نے جواب دیا کہ ہم زمین میں کمزور و مجبور تھے۔ فرشتوں نے کہا، کیا خدا کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے اور یہ بڑا ہی بُرا ٹھکانا ہے۔
اللہ لعنت بھیجتا ہے ایسے لوگوں پر جو معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں پر خاموشی اختیار کیے رہتے ہیں اور انھیں دُور کرنے کی ذرہ برابر فکر نہیں کرتے۔ اللہ فرماتا ہے:
لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْم بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ عَلٰی لِسَانِ دَاوٗدَ وَ عِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ ط ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّ کَانُوْا یَعْتَدُوْنَo کَانُوْا لَا یَتَنَاھَوْنَ عَنْ مُّنْکَرٍ فَعَلُوْہُط لَبِئْسَ مَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنo(المائدہ ۵:۷۸-۷۹)، بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ان پر دائود ؑ اور عیسٰی ؑ ابن مریمؑ کی زبان سے لعنت کی گئی کیوں کہ وہ سرکش ہوگئے تھے اور زیادتیاں کرنے لگے تھے، انھوں نے ایک دوسرے کو بُرے افعال کے ارتکاب سے روکنا چھوڑ دیا تھا، بُرا طرزِعمل تھا جو انھوں نے اختیار کیا۔
اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ بُرائیاں صرف چوری، شراب اور زنا وغیرہ کا نام ہے تو یہ بہت بڑی غلطی ہے۔ بُرائی یہ بھی ہے کہ معصوم اور بے گناہ افراد کو جیلوں میں ڈال دیا جائے اور ان پر سختی کی جائے۔ بُرائی یہ بھی ہے کہ الیکشن کے موقع پر ووٹوں کی دھاندلی کی جائے۔ بُرائی یہ بھی ہے کہ ووٹ ڈالنے سے پرہیز کیا جائے۔ بُرائی یہ بھی ہے کہ عوام کے پیسوں پر ناجائز قبضہ کرلیا جائے، جیساکہ آج کل کے سیاسی لیڈران کرتے ہیں، اور بُرائی یہ بھی ہے کہ اس مالی غبن پر خاموش رہا جائے اور اس کے خلاف آواز نہ اُٹھائی جائے۔ بُرائی یہ بھی ہے کہ سیاسی معاملات میں دل چسپی نہ لے کر سیاست اور حکومت کی مکمل باگ ڈور ظالموں اور کافروں کے ہاتھوں میں دے دی جائے۔ یہ اور اس طرح کی بے شمار بُرائیاں ہیں جن کا تعلق سیاسی اُمور سے ہے اور ناممکن ہے کہ کوئی غیرت مند دین دار اور مسلمان ان بُرائیوں پر خاموش رہے اور کچھ نہ کرے۔ حضوؐر کا فرمان ہے:
اِذَا رَأیْتَ اُمَّتِی تَھْابُ اَنْ تَقُوْلَ لِلظَّالِمِ یَاظَالِمُ فَقَدْ تُوُدِّعَ مِنْھُمْ (مسنداحمد) جب تم میری اُمت کو دیکھو کہ ظالم کو ظالم کہنے سے ڈر رہی ہو تو پھر اسے الوداع کہہ دو (یعنی ایسی اُمت کا خاتمہ قریب ہے)۔
بلاشبہہ یہ ایمان کا تقاضا ہے کہ مومن شخص معاشرے اور ملک میں پھیلی ہوئی بُرائیوں کو دُور کرنے کے لیے جدوجہد کرے، خواہ یہ بُرائیاں سماجی ہوں یا ثقافتی یا سیاسی۔ ناممکن ہے کہ کوئی شخص مومن ہونے کا دعویٰ کرے اور ان بُرائیوں کو پھلتا پھولتادیکھے اور مطمئن رہے۔ حضوؐر کا فرمان ہے:
مَنْ رَأی مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہٖ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ وَذٰلِکَ اَضْعَفُ الْاِیْمَانِ [مسلم] تم میں سے جو شخص بُرائی دیکھے تو چاہیے کہ اپنی قوت و طاقت سے اُسے دُور کرے۔ ایسا نہیں کرسکتا تو اپنی زبان سے دُور کرے۔ ایسا بھی نہیں کرسکتا تو اپنے دل سے دُور کرے (یعنی دل میں اُسے بُرا سمجھے) اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔
عین ممکن ہے کہ اکیلا شخص بُرائیوں کے اس طوفان کا مقابلہ نہ کرسکے خاص کر، جب کہ ملک کے سیاست دان اور ارباب حل و عقد ہی ان بُرائیوں میں ملوث ہوں۔ اس صورت حال میں صحیح طریقۂ کار یہ ہوگا کہ بہت سارے افراد مل کر اجتماعی طور پر ان بُرائیوںکا مقابلہ کریں۔ یہ اجتماعی کوشش کسی آزاد تنظیم یا کسی سیاسی پارٹی کی بنیاد ڈال کر بھی کی جاسکتی ہے۔ بلاشبہہ یہ سارے کام سیاسی کام ہیں اور مذکورہ حدیث کے مطابق ایمان کا عین تقاضا ہیں۔
آج کے جمہوری دور میں معاشرے میں پھیلتی ہوئی بُرائیوں کے خلاف مزاحمت کرنا یا حکومت کی غلط پالیسیوں پر تنقید کرنا اور ان کے خلاف آواز بلند کرنا کسی بھی شخص کا جمہوری حق تصور کیا جاتا ہے، جب کہ دین اسلام اس حق کو صرف حق ہی نہیں بلکہ واجب قرار دیتا ہے۔ اس فریضے کی ادایگی کے لیے ضروری ہے کہ مومن اپنے ملک کے سماجی اور سیاسی حالات سے مکمل اور مستقل باخبر رہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ مسلمانوں کے مسائل میں دل چسپی لے اور ان مسائل کے حل کے لیے ہمہ تن کوشاں رہے۔ ذرا حضوؐر کے اس فرمان پر غور کریں: مَنْ لَّمْ یَھْتَمَّ بِأَمْرِ الْمُسْلِمِیْنَ فَلَیْسَ مِنْھُمْ،’’جو شخص مسلمانوں کے معاملات میں دل چسپی نہیں لیتا اور ان کی فکر نہیں کرتا وہ مسلمانوں میں سے نہیں ہے‘‘۔
حضوؐر نے اس شخص کی موت کو جہالت کی موت قرار دیا ہے، جو سیاست سے کنارہ کش ہوجائے اور کسی قائد یا حکمران کی تائید و حمایت کے لیے کمربستہ نہ رہے۔ حضوؐر کا فرمان ہے: مَنْ مَاتَ وَلَیْسَ فِی عُنُقِہٖ بَیْعَۃٌ لِاِمَامٍ مَاتَ مَیْتَۃَ جَاھِلِیَّۃٍ (مسلم)، ’’جوشخص اس حالت میں وفات پائے کہ اس کی گردن میں کسی قائد کی بیعت نہ ہو (یعنی وہ کسی قائد کا حامی نہ ہو) تو وہ جہالت کی موت مرتا ہے‘‘۔
اس حدیث کی روشنی میں یہ بات بآسانی سمجھی جاسکتی ہے کہ سیاسی معاملات میں کسی ایسے حکمران، قائد یا لیڈر کی حمایت و نصرت ضروری ہے، جو مسلمانوں کے معاملات میں دل چسپی لیتا ہو، انھیں حل کرنے کے لیے کوشاں رہتا ہو، اور دین اسلام کے غلبے کے لیے فکرمند رہتا ہو۔ یہ نری جہالت و گم راہی ہے کہ انسان اپنے اِردگرد رُونما ہونے والے سیاسی اور سماجی معاملات سے بے خبر ہوکر زندگی گزارے اور اسی حالت میں مرجائے۔
جو لوگ اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ دین کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ کہ دین کو سیاست سے الگ کر کے رکھنا چاہیے، وہ دراصل قرآن و حدیث کی صریح اور واضح تعلیمات سے بے خبر ہیں۔ اگر وہ مذکورہ قرانی آیات و احادیث پر غور کریں گے تو انھیں معلوم ہوگا کہ دین سے سیاست کو الگ کرنا جہالت و گم راہی ہے، بلکہ سیاسی مسائل سے بے خبر رہنا اور سیاسی بُرائیوں کو دُور کرنے کے لیے کوئی کوشش نہ کرنا اُمت مسلمہ کے حق میں گناہ ہے۔
دین کا سیاست سے اس قدر گہرا تعلق ہے کہ عین نماز کی حالت میں قرآن کی ان آیتوں کی تلاوت کی جاتی ہے، جن میں سیاسی مسائل سے بحث کی گئی ہے، مثلاً وہ آیتیں جن میں مسلم دشمن حکمرانوں کی تائید و نصرت کی ممانعت ہے یا جن میں دنیوی معاملات کو اللہ کے قوانین کے مطابق حل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے یا جن میں جنگوں کا تذکرہ ہے وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح عین نماز کی حالت میں دعاے قنوت پڑھی جاتی ہے۔ یہ دعاے قنوت اس وقت پڑھی جاتی ہے، جب مسلمانوں پر کسی قسم کی دنیوی یا آسمانی مصیبت نازل ہوتی ہے، مثلاً جنگ کی حالت ہو یا مسلمانوں پر کسی قسم کا سیاسی عذاب مسلط ہوجائے یا قحط اور زلزلہ جیسی ناگہانی آفتیں ہوں۔ اس دعا میں ان مسائل کا تذکرہ کرکے ان سے عافیت کی دعا کی جاتی ہے۔
اس پوری تفصیل اور وضاحت کے بعد بھی اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ دین کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے تو یہ سراسر، ہٹ دھرمی ہے۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ جو لوگ دین کو سیاست سے الگ کرنے کی باتیں کرتے ہیں۔ وقت پڑنے پر یہی لوگ دین کا سہارا لے کر دین دار اور اسلام پسند لوگوں کے خلاف انتقامی کارروائیاں کرتے ہیں، مثلاً مصر کے حکمرانوں نے جب الاخوان المسلمون کے خلاف انتقامی کارروائی کرنی چاہی اور یہ وہ لوگ تھے جو دین اور سیاست کو الگ الگ شے تصور کرتے تھے، ان لوگوں نے بعض گمراہ قسم کے علما کا سہارا لیا اور ان سے اخوانیوں کے خلاف کارروائی کے لیے فتوے حاصل کیے۔ انھی علما سے اس بات کے فتوے حاصل کیے گئے کہ اسرائیل سے مصالحت جائز ہے۔
علمی اعتبار سے سیاست ایک ایسا موضوع ہے جس کی خاص اہمیت ہے، کیوں کہ یہ موضوع ملک و ملّت کی ذمہ داریوں کو بہ حُسن و خوبی نبھانے سے تعلق رکھتا ہے۔ علما نے سیاست کی یوں تعریف کی ہے کہ سیاست ان تدابیر کا نام ہے، جو معاشرے میں فلاح و بہبود لاتی ہے اور ظلم و فساد کو دُور کرتی ہیں۔
علامہ ابن قیمؒ فرماتے ہیں کہ عدل و انصاف پر مبنی سیاست اسلامی شریعت کے خلاف نہیں ہوسکتی، بلکہ یہ عین اسلامی شریعت کا جز ہے۔ اسے ہم سیاست کا نام اس لیے دیتے ہیں کہ لوگوں میں یہی نام رائج ہے، ورنہ اس کے لیے عدلِ الٰہی کا نام زیادہ موزوں ہے۔ امام غزالیؒ کہتے ہیں کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے اور دنیا کے بغیر دین مکمل نہیں ہوسکتا۔ دین ایک بنیاد ہے اور حکمران اس بنیاد کا محافظ ہوتا ہے۔ اسی لیے عادل حکمرانوں کو رسولؐ کا نائب کہا جاتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ حضوؐر مبلغ اور داعی ہونے کے ساتھ ساتھ زبردست سیاسی انسان بھی تھے اور یہی حال خلفاے راشدین کا تھا۔ ان سب کی سیاست عدل و انصاف پر مبنی اور فلاح و بہبود کی خاطر تھی۔ بُرا ہو ان سیاست دانوں کا جو جھوٹ، دھوکا، خیانت اور مکروفریب کے ذریعے سے اپنی سیاست کو چمکانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لفظ سیاست انھی کے گندے اعمال کا شکار ہوکر عوام الناس میں بدنام ہوکر رہ گیا ہے، اور سیاست ایک گندی شے تصورکی جانے لگی ہے۔
سیاست سے عوام الناس کی اس نفرت کو دیکھتے ہوئے مسلم دشمن عناصر کو بڑا اچھا موقع ہاتھ آگیا کہ انھوں نے ان مسلم تنظیموں کو جو مکمل دین کی طرف دعوت دیتی ہیں، انھیں سیاسی قرار دے دیا تاکہ عوام الناس ان سے بدک جائیں۔ اب تو یہ عام سی بات ہوگئی ہے کہ کسی دین دار شخص کو بدنام کرنے اور اس کی اہمیت و منزلت ختم کرنے کے لیے یہ کہنا کافی ہوتا ہے کہ یہ شخص سیاست کے چکر میں پڑ گیا ہے۔
اگر اسلام دشمنی کی یہی رفتار رہی تو وہ دن دُور نہیں جب ہمارا قرآن پڑھنا، مسجد میں جاکر باجماعت نماز ادا کرنا بلکہ اسلام پر چلنا سب کچھ سیاست سے تعبیر کیا جانے لگے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس دن کے آنے سے پہلے ہم ہوش کے ناخن لیں۔ (ڈاکٹر یوسف قرضاوی، فتاویٰ، ترجمہ: سید زاہد اصغر فلاحی، ناشر: دارالنوادر، اُردو بازار، لاہور، ص ۲۳۷-۲۴۴)
مولانا جلال الدین عمری برعظیم کے علمی حلقوں میں ایک معروف و معتبر شخصیت ہیں۔ اسلام کے مختلف پہلوئوں پر آپ کی نگارشات اُردو اور انگریزی زبانوں میں غیرمعمولی طور پر مقبولیت کی حامل ہیں۔
اس کتاب میں محترم مولانا نے ایک جدید اور اُچھوتے مضمون پر قلم اُٹھایا ہے۔ اسلام، دین کامل ہونے کے سبب، نہ صرف روایتی طور پر جن اُمور کو ’مذہب‘ سے وابستہ کیا جاتا ہے، ان کے ساتھ ساتھ جن اُمور کو دیگر مذاہب ِ دنیاوی، مادی یا ذاتی قرار دیتے ہیں، ان تمام پہلوئوں کو بھی ایک شخص کی دینی زندگی میں شامل تصور کرتا ہے۔ چنانچہ وہ نہ صرف عبادات اور عقائد، بلکہ انتہائی ذاتی نوعیت کے معاملات ہوں، یا معاشرتی اور سیاسی ضرورت، ہر ایک پر جہاں ضروری ہو اصولی اور جہاں ضرورت ہو خصوصی ہدایات ، قوانین اور اصول بیان کردیتا ہے۔ ’مذہب‘ کو عموماً روحانی بالیدگی کا ذریعہ کہا جاتا ہے، لیکن اسلام اپنی جامع دینی تعلیمات میں جسم و روح اور ذہن و دماغ کو یکساں اہمیت دیتے ہوئے متوازن انداز میں مخاطب کرتا ہے۔ گذشتہ دو عشروں میں ایک امریکی مفکر کی کتاب Emotional Intelligence اور اسی مصنف کی دوسری کتاب Social Intelligence علمی حلقوں میں گفتگو کا موضوع رہی ہے۔ بحث کا حاصل یہ ہے کہ مختلف کیس اسٹڈیز یہ بتاتی ہیں کہ انسانی دماغ میں ایک حصہ ہے جو ایک لمحے کے ۱۷۰۰۰/۱ حصے میں بعض پیش آنے والے واقعات کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لیے تحریک پیدا کرتا ہے اور اکثر انسان اتنے کم عرصے میں ایک کام کرگزرتا ہے۔ یہ ایک سُرعت کے ساتھ ہونے والا نفسیاتی عمل ہے جس میں بظاہر عقل کا کوئی دخل نہیں نظر آتا۔ اسلام اس کے برعکس انسان کے ہرہرعمل کو دل و دماغ کی یکسوئی کے لیے حلال و حرام کی اخلاقی کسوٹی پر پرکھنے کے بعد کرنے کا حکم دیتا ہے اور نفسِ امارہ اور نفسِ لوامہ کو نفسِ مطمئنہ میں تبدیل کر کے ہرفکر، ہر نظر، ہراحساس اور ہرعمل کو حلال و حرام کے اخلاقی اصول کی روشنی میں کرنے کا عادی بناتا ہے۔
اسلام جہاں ہر معاملے میں توازن اور عدل کا حکم دیتا ہے، وہیں ایسی شخصیت تعمیر کرتا ہے جو بُرائی اور صحت کے لیے نقصان دہ پہلوئوں سے بچائو کو اولیت دیتا ہے۔ شریعت میں سدِذرائع کا اصول اسی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اسلام نے شہروں میں کشادگی اور تازہ فضا کو برقرار رکھنے کے ساتھ یہ تعلیم دی ہے کہ جب ایک شہر ایک حد تک پہنچ جائے تو نیا شہر آباد کیا جائے تاکہ ماحولیاتی آلودگی نہ پیدا ہو جو صحت کی خرابی کا ایک بڑا سبب ہے۔
انسان کی غذا کے حوالے سے پانی کو صاف رکھنا، اس میں آلودگی نہ پیدا ہونے دینا، خصوصاً فضلہ کا دریائوں میں یا نہروں میں نہ ڈالنا دینی تعلیمات کا حصہ ہے۔ آج دنیا کے بے شمار شہروں کے لوگ پینے والے پانی میں کیمیاوی فضلہ کے پھینکے جانے کی بنا پر نت نئی بیماریوں کا شکار ہیں۔ غذا کے استعمال میں یہ حکم کہ کھائو اور پیو لیکن اسراف نہ کرو، صحت کا بنیادی اصول ہے۔
مولانا جلال الدین عمری نے ۲۰ عنوانات کے تحت صحت و توانائی کی اہمیت، طہارت و نظافت سے انسانی جسم و روح پر اثرات، غذا کے اہم پہلو اور صحیح استعمال، آدابِ طعام، کھانے سے قبل ہاتھوں کو دھونا اور وضو کا اہتمام، پینے کے آداب، جسم کو توانا رکھنے کے لیے سنت نبویؐ کی روشنی میں تیراندازی، گھڑسواری، دوڑنا اور مقابلوں اور ورزشوں کا کرنا، پھر مرض کی صورت میں علاج کی اہمیت اور احتیاطی تدابیر، شرعی طور پر متعدی بیماریوں کے بارے میں سنت اور بعض جدید طبی اخلاقی معاملات، مثلاً ایسے مریض کے بارے میں حکمِ شرعی جو بیماری کے ایسے مرحلے میں ہو جہاں کوئی اُمید نظر نہ آتی ہو۔ ایسے ہی قرآنی آیات سے دَم کرنا اور عیادت کی شرعی اہمیت جیسے بنیادی موضوعات پر مستند اور تحقیقی مواد کی مدد سے انتہائی سہل انداز میں اسلامی نقطۂ نظر کی وضاحت کی ہے۔
یہ کتاب میڈیکل کالج کے ہر طالب علم اور طالبہ علم کے لیے نصاب کا حصہ ہونا چاہیے۔ نہ صرف یہ، بلکہ جن جامعات میں عمرانی علوم کی تدریس کی جاتی ہے، وہاں کے اساتذہ اور طلبہ کو بھی اس کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ مصنف محترم کو اس خدمت پر عظیم اجر سے نوازے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)
راشد شاز صاحب نے علی گڑھ یونی ورسٹی سے انگریزی ادب میں ڈاکٹریٹ حاصل کی ہے۔ انھوں نے اسلامی علوم اور خصوصاً تہذیبی ترقی کے عمل کے مطالعے کا نچوڑ کتاب العروج کی شکل میں اُمت مسلمہ کے سامنے پیش کیا ہے۔ ایک عرصے کے بعد ایسی تحریر سامنے آئی ہے جس میں اُردو زبان کی چاشنی اور علمی ایجاز، ہرہرجملے سے جھلکتا ہے۔ مختلف مغربی اور مسلم مصادر کی مدد سے مسلم تہذیب، خصوصاً سائنسی اور فلسفیانہ اختراعات کا تذکرہ، دو مفصل ابواب جو ۲۰۰ صفحات پر پھیلے ہوئے ہیں، دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مثل پیش کردیا گیا ہے۔ آخری باب جو بظاہر کتاب کا اصل مقصد نظر آتا ہے ’ایک نئی یونی ورسٹی کا منصوبہ‘ کے زیرعنوان باندھا گیا ہے۔
مصنف نے انتہائی عرق ریزی سے مسلمانوں کے علمی اور سائنسی کارناموں کا جائزہ لیاہے اور جابجا علمی تصنیفات اور آلات کی تصاویر سے کتاب کو مزین کیا ہے۔ اپنے ماضی سے غیرآگاہ جدید نسل کے مسلمان نوجوانوں کے لیے اس میں غیرمعمولی اہم لوازمہ ہے۔ مصنف نے اپنی تحقیق کی بنیاد پر اس افسافے کی حقیقت بھی واضح کی ہے کہ یورپ میں جو نشاتِ ثانیہ سولھویں صدی میں واقع ہوئی، اس میں اٹلی کی تہذیب کا بڑا دخل تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اٹلی کی اپنی کوئی تہذیبی روایت نہ تھی بلکہ مسلمانوں سے ارتباط کے نتیجے میں وہاں جو علمی لوازمہ پہنچا، اور مسلمانوں کی ایجادات جو اندلس اور اٹلی کے راستے یورپ میں پہنچیں وہ اس نشاتِ ثانیہ کی اصل بنیاد تھیں۔
مصنف نے اس بات کا بھی جائزہ لیا ہے کہ مسلمان عظیم سائنسی روایت کے باوجود کیوں زوال کا شکار ہوئے اور اس زوال سے نکلنے کے لیے انھیں کیا کرنا ہوگا؟ مصنف کا کہنا ہے کہ تبدیلی کا انقلابی عمل ایک بہت جرأت مندانہ اقدام کا متقاضی ہے جس میں روایت پرستی سے نکل کر ایک نئے ذہن اور نقطۂ نظر کے ساتھ علم کی تدوین جدید کرنی ہوگی۔ یہ کام علمی پیوندکاری سے نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے مستقبل کے چیلنجوں کو سامنے رکھتے ہوئے ایک نئی علمی روایت کو قائم کرنا ہوگا۔
یہ کام اسی وقت ممکن ہے جب ایک نئی یونی ورسٹی وجود میں آئے۔ مصنف کے خیال میں ماضی کی تمام کوششیں، بشمول علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی، ندوۃ العلما اور دیگر مدارس کا قیام، وہ کام نہ کرسکیں جو مسلمانوں کو عروج کی طرف لے جاتا۔ مجوزہ یونی ورسٹی کا تصور لازمی طور پر ایک نہایت قابلِ قدر تصور ہے۔ مصنف نئی یونی ورسٹی کے ذریعے ان خامیوں کو دُور کرنا چاہتے ہیں جو موجودہ جامعات میں پائی جاتی ہیں، چاہے وہ دینی ہوں یا راویتی سیکولر جامعات۔
دورِ جدید میں تجدیدی کوششوں کے ضمن میں جہاں دیگر اداروں پر مصنف نے تنقیدی زاویے سے بات کی ہے، وہاں مولانا مودودیؒ کی فکر اور تجدیدی کوششوں کو صرف ایک تعارفی جملے میں بیان کیا ہے جو مولانا کے کام کے ساتھ ناانصافی ہے۔
ایک نئی یونی ورسٹی کی تجویز کا استقبال کرتے ہوئے، اس نوعیت کے علمی سفر سے وابستہ ایک فرد کی حیثیت سے مصنف محترم کی معلومات کے لیے چند نکات کی وضاحت ضروری ہے۔ ۱۹۶۲ء میں ادارہ معارف اسلامی کے قیام کے موقع پر مولانا مودودیؒ نے جو خطاب کیا تھا، اس میں علوم کی نئی تشکیل کا ایک نقشہ پیش کیا تھا۔ وہ شازصاحب کے تصور سے زیادہ مختلف نہ تھا۔ اسی طرح امریکا میں ۱۹۷۲ء میں مسلم ماہرین علومِ عمرانی کی تنظیم (Association of Muslim Social Scientists-AMSS) کے قیام کا محرک بھی یہی تصور تھا کہ ایک نئی روایت ِ علم کی ضرورت ہے اور اس کا آغاز علومِ عمرانی کی اسلامی تدوین جدید سے کیا جانا چاہیے۔ اس تنظیم کے بانی، سیکرٹری جنرل اور بعد میں صدر کی حیثیت سے میں نے اور دیگر رفقاے کار خصوصاً پروفیسر اسماعیل راجی الفاروقی شہید نے اپنے خطابات اور مقالات میں جس تصور کو پیش کیا وہ یہی تھا کہ ایک نئی جامعہ کا قیام عمل میں لایا جائے۔ ۱۹۸۱ء میں اسی تصور کی بنیاد پر بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد اور پھر ۱۹۸۳ء میں ملایشیا میں اسی نام سے ایک آزاد یونی ورسٹی کا قیام عمل میں آیا۔
راقم الحروف کو دونوں جامعات کے تاسیسی دور میں ان کے نصابات، مقاصد اور تعلیمی حکمت عملی سے براہِ راست وابستگی کا موقع ملا اور کم از کم اس حد تک یقین سے کہا جاسکتا ہے شازصاحب جس تصور کی طرف متوجہ کر رہے ہیں، اس کی شروعات ان دو جامعات میں نظری اور عملی طور پر عمل میں آچکی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ گذشتہ ۱۰سال کے عرصے میں سیاسی حالات کی بنا پر ان کی قیادت اور تدریسی ترجیحات کو تبدیل کیا گیا ہے۔ اگر ان دونوں جامعات کو آزادانہ طور پر کام کرنے کا موقع ملے تو وہ کمی پوری ہوسکتی ہے جس کی طرف شازصاحب نے متوجہ کیا ہے۔ یہ بیان تفصیل طلب ہے کہ ان جامعات میں نصاب بناتے وقت کیا تصور سامنے رکھا گیا کیونکہ اس کا محل یہ تبصرہ نہیں، بلکہ ایک الگ مقالہ ہی ہوسکتا ہے۔
کتاب العروج اوّل تا آخر توجہ کے ساتھ مطالعہ چاہتی ہے۔ مصنف نے قرآنی علمی سفر کو ادبی جاذبیت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اس کتاب کو ہرمسلم تعلیمی ادارے کے کتب خانے میں ہونا چاہیے اور علوم اسلامی کے طلبہ کے لیے اس کا مطالعہ لازمی ہونا چاہیے۔ اس کتاب کی پیش کاری جس اعلیٰ درجے کی ہے، بیان نہیں کی جاسکتی۔ دیکھ کر ہی یقین کیا جاسکتا ہے۔ دبیز آرٹ پیپر کے بڑے سائز(۲۰x۳۰/۸) کے ۲۴۴صفحات میں عروج کی داستان آلات، کتب، اور شخصیات کی تصاویر سے مزین پیش کی گئی ہے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)
اُردو زبان و ادب کا مزاج بنیادی طور پر دینی اور اخلاقی ہے (سیکولر نہیں)۔ ۱۹۳۶ء میں چند اشتراکیت پسند ادیبوں نے انجمن ترقی پسند مصنفین کے نام سے جو انجمن قائم کی اس کا بنیادی مقصد ’ادب براے زندگی‘ کے بجاے ادب براے ’تبلیغ و ترویجِ اشتراکیت‘ تھا۔ انجمن ترقی پسند مصنفین سے پہلے سرسید تحریک اور رومانوی تحریک باقاعدہ انجمنیں یا تنظیمیں نہیں تھیں، جب اشتراکیوں نے باقاعدہ انجمن کی بناڈالی تو چند سال بعد اسلامی، دینی اور اخلاقی فکر کا احساس رکھنے والے ادیبوں نے بھی انجمن قائم کرنے کا فیصلہ کیا، اور یوں چالیس کے عشرے (کے شروع) میں غالباً لکھنؤ میں ’حلقۂ ادب اسلامی‘ قائم ہوا۔ اسلام پسند مصنفین کی کوششوں سے تقسیم ہند کے بعد اسے ’ادارہ ادب اسلامی ہند‘ کا نام دیا گیا جو اب تک قائم ہے اور اپنا نمایندہ ادبی پرچہ ماہنامہ پیش رفت شائع کرتا ہے۔
پاکستان میں حلقۂ ادبِ اسلامی ۱۹۵۰ء کے لگ بھگ کراچی میں قائم ہوا اور مختلف شہروں میں اس کی شاخیں قائم ہوئیں اور حلقے کے باقاعدہ اجلاس ہونے لگے۔ جہانِ نو کراچی میں ان اجلاسوں کی رودادیں اور حلقے سے متعلق دیگر خبریں چھپتی تھیں۔
تاحال تحریکِ ادب اسلامی یا حلقۂ ادب اسلامی کی مبسوط تاریخ نہیں لکھی گئی، معدودے چند مضامین ملتے ہیں یا بعض لوگوں کی یادداشتوں میں یا اِکا دّکا ادبی تاریخوں میں اس کا ذکر ملتا ہے۔ ۱۹۸۴ء میں شعبہ اُردو اورینٹل کالج لاہور کے استاد جناب تحسین فراقی نے اس موضوع پر ایم اے کا ایک مقالہ لکھوایا تھا جسے مقالہ نگار نے تقریباً ربع صدی بعد زیرنظر کتاب کی صورت میں شائع کرایا ہے۔ اس کے بعد بھی اس موضوع پر کئی چیزیں سامنے آئی ہیں: مثلاً ادب اسلامی (نظریاتی مقالات) مرتبہ : محمد نجات اللہ صدیقی یا ایم اے اور پی ایچ ڈی کے مقالات از صائمہ ناز انصاری (کراچی یونی ورسٹی) جو ہنوز غیرمطبوعہ نہیں۔
تحقیقی مقالے عموماً تین درجوں کے ہوتے ہیں: ایم اے ایم فل اور پی ایچ ڈی۔ ایم اے کا مقالہ عموماًابتدائی اور نسبتاً کم تر درجے کا اور تعارفی نوعیت کا سمجھا جاتا ہے لیکن مہراختر وہاب کا ایم اے کا زیرنظر مقالہ بہت اچھا اور آج کل کے ایم فل کے مقالوں کے درجے کا ضرور ہے۔ انھوں نے اسلامی ادب کی روایت اور تحریک کی نظریاتی بنیادوں پر بات کی ہے۔ پھر اسلامی ادب کے شعری، افسانوی اور تنقیدی سرمایے کا جائزہ لیا ہے جو اگرچہ اجمالی ہے اور متعدد تخلیق کاروں کے نام اس میں نظر نہیں آتے، جیسے شاعری میں ابوالمجاہد زاہد، شبنم سبحانی، انورعزمی اور انور صدیقی وغیرہ۔ افسانے میں ابن فرید، نعیم صدیقی اور تنقید میں ابن فرید کے نام نہیں لیے گئے۔ناول کو انھوں نے سرے سے قابلِ اعتنا ہی نہیں سمجھا۔
دیباچے میں مہراختر وہاب کے بعض بیانات محلِ نظر ہیں۔ اسی طرح محمد حسن عسکری کی پاکستانی ادب کی تحریک اور اسلامی ادب کی تحریک میں خطِ امتیاز نہیں کھینچا گیا۔ مہرصاحب اِن دنوں گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج لیہ کے پرنسپل ہیں۔ کتنا اچھا تھا اگر وہ ان ۲۵ برسوں میں اپنے مقالے میں اضافے کرکے اسے تازہ (اَپ ڈیٹ) کر دیتے۔ اس طرح یہ اور زیادہ وقیع اور حوالے کی چیز بن جاتا۔ بحالت ِموجودہ بھی یہ افادیت سے خالی نہیں بلکہ اسلامی ادب کے موضوع پر تو یہ اب بھی ایک اہم حوالہ ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اشاعتی معیار بہت اچھا ہے۔ کتاب تین برس پہلے (اپریل ۲۰۱۰ء میں) طبع ہوئی، اس لحاظ سے قیمت زیادہ محسوس ہوتی ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)
پیکجنگ اور مارکیٹنگ کے اس دور میں کتاب کے مشتملات کے برابر یا زیادہ اہمیت اس کی پیش کاری کو دی جارہی ہے۔ نظروں کو بھلی نہ لگے تو کیسے پڑھی جائے۔ اس کتاب میں سب سے پہلے اس کا آئوٹ سائز ہونا نظر کو کھینچتا ہے۔ چوکور شکل، ۲۱ مربع سینٹی میٹر۔ اندر چاروں طرف سے سرمئی رنگ کا حاشیہ۔ یہ بھی اس طرح کے جیسے کسی موٹی کتاب کے صفحات سامنے کھلے ہوں، اطراف میں ڈھلتے ہوئے۔ ہرمضمون کے ساتھ دل چسپ، مؤثر خاکے، طباعت و کتابت واہ واہ، بس ہاتھ میں لیں تو نظر پھسلتی جائے اور آپ پڑھتے جائیں۔
یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے۔ ضیاء الاسلام انصاری اپنے دور کے نام وَر صحافی تھے۔ اسلامی فکر رکھنے والوں کے سرخیل تھے۔ ان کے بقول : ’’میں صحافتی زندگی میں وطن دشمن، تخریب کار اور غلط نظریات رکھنے والے افراد اور عناصر کے خلاف ربع صدی کی مسلسل محاذآرائی کے حوالے سے ایک انتہائی متنازعہ شخصیت ہوں‘‘۔ کتاب کے دوسرے حصے ’خصوصی گوشہ‘ (ص ۱۰۷، ۱۶۶) میں ان کی شخصیت پر اہلِ خاندان کے تحریروں اور ان کے انتقال پر ان کے بارے میں جو کچھ لکھا اور کہا گیا ___ بیانات، اداریے، تعزیتی اجلاس کے خطابات، سب جمع کر دیا گیا ہے،جنھیں پڑھ کر ان کی شخصیت، خدمات اور مقام سے آگہی حاصل ہوتی ہے۔ ساتھیوں کی تحریریں اس آگہی میں اضافہ کرتی ہیں۔ ساتھی بھی کون؟ مجیب الرحمن شامی، نذیرناجی، شمیم اختر، محبوب سبحانی۔ یہ سب کچھ کُل۵۹ صفحات میں۔
اب آئیں اصل کتاب کی طرف۔ ضیاء الاسلام انصاری نے اسٹیٹ لائف انشورنس آف پاکستان کے زیرتربیت افسران کی ورکشاپ میں دوگھنٹے کا ایک لیکچر دیا۔ برسوں بعد یہ مرتب ہوا، اور مزید برسوں بعد (مسودہ گم ہوجانے کی وجہ سے) یہ اب شائع ہو رہا ہے۔ ہرسبق میں آج کے ہرنوجوان بلکہ کارگاہِ حیات میں اپنا مقام بنانے یعنی ’منزلِ مراد‘ تک پہنچنے (منشورات نے خرم مراد کی تحریروں کے اقتباسات پر مشتمل ایک کتابچہ منزلِ مراد کے عنوان سے شائع کیا ہوا ہے۔ یہ توارد بھی خوب رہا!)کی کوشش کرنے والے ہر فرد کے لیے نہایت کام کی ضروری بات ہے۔ آدھے، ایک اور ڈیڑھ دو دو صفحات میں ۲۸ عنوانات (ص ۲۵-۱۰۲) کے تحت مثبت اور تعمیری بات آس پاس کی مثالوں سے پیش کی گئی ہے۔ پیش کش بہتر کرنے کے لیے کئی صفحات سادہ ہیں۔ چند عنوانات: ذہن کی طاقت، اَن پڑھ بھی کامیابی حاصل کرسکتے ہیں، مایوسی اور محرومی پروان نہ چڑھایئے، ناکامی سے کامیابی کی راہ نکلتی ہے،اپنی صلاحیت کو نئے محاذ پر استعمال کیجیے، منفی تبصروں پر کان نہ دھریے، دشمن کو دوست بنا کر مار ڈالیے، جسمانی صحت کی فکر کیجیے۔ احسان دانش، چودھری محمد حسین، مرارجی ڈیسائی، ابراہام لنکن اور ایسی ہی دوسری مثالیں دی گئی ہیں۔ ذاتی تجربات بھی بیان ہوئے ہیں۔
یہ کتاب ہر نوجوان خصوصاً زمانے سے شاکی ہر فرد کے لیے اکسیر ثابت ہوگی، بس پڑھنا شرط ہے۔ طلبہ و طالبات کو مقابلوں میں انعامات کے طور پر ایسی کتابیں دی جانی چاہییں۔ معاشرے میں تعلیمی اداروں کے دسیوں نیٹ ورک ہیں جن سے ہزاروں ادارے وابستہ ہیں۔ یہ داخلے کے وقت لاکھوں کروڑوں کے اشتہارات دیتے ہیں اور والدین سے اسلامی تعلیم و تربیت کے عنوان سے رقومات وصول کرتے ہیں ، لیکن کسی نیٹ ورک کا یہ نظام نہیں کہ اپنے ملحق اداروں کی لائبریریوں کو اچھی منتخب کتابیں فراہم کریں۔ ۵ہزار روپے سال کی ہی سہی۔ ایسا ہو تو ایسی کتابیں ہزار ہزار نہ چھپیں، ۱۰،۱۰ ہزار چھپیں اور فروخت ہوجائیں۔
مصنفہ، انصاری مرحوم کی بیٹی ہیں جن کی کتاب احکامِ حج و عمرہ پر ترجمان (جولائی۲۰۱۲ء) میں تبصرہ آچکا ہے۔(مسلم سجاد)
جب انگریز برعظیم میں آیا تو مسلمانوں میں کچھ لوگ ایسے پیدا ہوئے جو نہ صرف دنیا کو بلکہ اپنے دین کو بھی مغرب کی عینک سے دیکھنے لگے۔ انھیں اسلام کی ہر وہ چیز جو مغرب کی تصویر کے مطابق نہ ہو، اسلام سے باہر نظر آنے لگی۔ گذشتہ دو تین صدیوں میں مغرب کے غلبے اور اسلام کی مغلوبیت کی وجہ سے یہ عنصر برابر موجود رہا ہے اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا باوجود اہلِ دین کی ہر طرح کی مزاحمت کے، معاشرے میں مؤثر اور غالب رہا ہے۔ نثاراحمد خان فتحی نے اسی طبقے کو مخاطب کرکے ان کی مغرب زدگی کی وجوہات تلاش کرکے، ان کے بارے میں انھیں توجہ دلائی ہے کہ وہ اپنے دین کی طرف واپس آئیں۔ انھوں نے کفروارتدادد کی بحث اُٹھائی ہے۔ عقیدے کی اہمیت واضح کی ہے، عقل کے ناقص ہونے اور وحی کے اصل ذریعۂ علم ہونے پر بات کی ہے۔تعدد ازواج اور رجم بارے میں جو اعتراضات ہیں ان کے جواب دیے ہیں۔ مغربی تہذیب کی جو تصویر افغانستان اور عراق میں پیش کی جارہی ہے، (مثلاً لاشوں پر پیشاب کرنا) اس کے بھی حوالے آگئے ہیں۔
پوری کتاب بہت دردمندی سے اور ایمانی جذبے سے سرشار ہوکر لکھی گئی ہے۔ اس لیے پڑھی جاتی ہے۔ جو جتنا مغرب زدہ ہے آئینے میں اتنی اپنی تصویر دیکھ سکتا ہے۔ آخر میں موضوع سے متعلق مصنف کی کچھ پُرلطف نظمیں بھی ہیں۔(مسلم سجاد)
تعلیمی اداروں میں طلبہ و طالبات کے سالانہ مجلّوں کی اشاعت ایک دیرینہ روایت ہے ہرادارے کے طالب علموں کو اپنے ادارے کے رسالے سے خاص قسم کی وابستگی ہوتی ہے۔ یہ رسالے طالب علموں کی ذہنی و فکری تربیت اور تخلیقی قوتوں کے اظہار کا ذریعہ بھی ہوتے ہیں۔ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے لیے نجی شعبے میں خدمات انجام دینے والے بیش تر ادارے اپنے تئیں ’روشن خیال‘ ظاہر کرنے کے لیے ایسے رسالے شائع کرتے ہیں جن کے مندرجات اسلامی تہذیب سے بغاوت، تعمیری افکار سے نجات اور خود پاکستان کے وجود کے بارے میں تشکیک و تذبذب کے جرثومے موجود ہوتے ہیں۔
ذہنی شکست خوردگی اور تہذیبی شکست و ریخت کے اس ماحول میں نسٹیئن کا دوسرا شمارہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد اور پاکستانی مسلم تشخص کا نمایندہ محسوس ہوتا ہے، اور تعمیرِپاکستان کے ساتھ تخلیق و تہذیب کے باب میں پاکیزگی اور شائستگی کا حوالہ بن کر وطن عزیز کے ایسے مجلّوں کے لیے ایک روشن مثال کا درجہ رکھتا ہے۔ اس میں وہ سب کچھ ہے جو کسی اچھے ادارے کے معیاری رسالے میں ہونا چاہیے۔ نگارشاتِ نظم و نثر علمی، معلوماتی اور ادبی نوعیت کی ہیں۔ ادب کی جملہ اصناف کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے۔ انگریزی حصے میں بھی وقیع تحریریں شامل ہیں۔ نسٹیئن کی ترتیب و تیاری ممتازاقبال ملک نے کی ہے اور اس عمل میں نسٹ یونی ورسٹی کے ریکٹر انجینیرمحمداصغر کی رہنمائی اس دستاویز کا ذریعہ بنی ہے، جس پر وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔(سلیم منصور خالد)
’حصولِ مقصد کے لیے دینی حکمت اور انتخابات میں ہماری ذمہ داری‘ (اپریل ۲۰۱۳ء) کے تحت ڈاکٹر انیس احمد نے معاشرے کو حقیقی معنوں میں اسلامی بنانے کے لیے حکمت عملی پر عمدہ خامہ فرسائی فرمائی ہے۔ ایک جگہ سورئہ بقرہ کی آیت ۲۴۷ کا مصداق حضرت دائود ؑ کو قراردیا گیا ہے، جب کہ اس کا مصداق ’طالوت‘ کو کہا جائے تو درست ہوگا۔مولانا مودودیؒ کے حوالے سے مولانا امین احسن اصلاحیؒ کا انٹرویو دونوں شخصیات کی عظمت آشکار کرتا ہے۔ تمباکونوشی کے معاشرے پر نقصان دہ اثرات اور فقہی نقطۂ نظر سے جواز اور عدم جواز پر ڈاکٹر عطاء الرحمن کا مضمون اور ووٹ کی شرعی حیثیت پر مفتی محمد شفیعؒ کا مضمون بہت معلومات افزا ہیں۔
’تفہیم القرآن: عصرِحاضر کی بے مثال تفسیر‘ (مارچ ۲۰۱۳ء) عمدہ تحریر ہے اور اس کے مطالعے سے تفہیم القرآن کی قدروقیمت دوچند ہوجاتی ہے، نیز مطالعے کے لیے تحریک ملتی ہے۔ مضمون میں فارسی اشعار بھی بہت قیمتی ہیں۔ اگر ترجمے کا اہتمام ہوتا تو سب لوگ مستفید ہوتے۔
’مولانا مودودیؒ میری نظروں میں‘ (اپریل ۲۰۱۳ء) نے تاریخی یادیں تازہ کردیں اور مولانا مودودیؒ اور مولانا امین احسن اصلاحیؒ دونوں اکابر کے علمی اختلاف کا پہلو ایک منفرد انداز سے سامنے آیا۔ اکابرین کی قربانیاں، عزم اور ایمان بھری داستانیں اپنا ہی ایک سبق اور تاثیر رکھتی ہیں۔
اوورسیز پاکستانیوں کے بڑے احسان مانے جاتے ہیں۔ آج کل ووٹ کے حوالے سے ہم سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کا موضوع بنے ہوئے ہیں لیکن میری کہانی تو یہ ہے کہ پاسپورٹ تجدید کے لیے پانچ دن کا ارجنٹ کے لیے جمع کروایا، ۲۰ہزار رشوت بھی دی ہے۔ ابھی ساڑھے تین ماہ ہوئے ہیں، اور انتظار ہے!
ایک نشست میں شرکت کا موقع ملا جہاں میزبان نے یہ واقعہ سنایا کہ میرا بیٹا اپنی گاڑی ڈرائیو کرتا ہوا جا رہا تھا کہ سامنے سے ڈاکوئوں نے آکر روک لیا۔ اس کو والدہ کی نصیحت تھی کہ مشکل کے وقت آیت الکرسی پڑھا کرو۔ اس نے آیت الکرسی پڑھنا شروع کردی۔ ڈاکوئوں نے دائیں بائیں، پیچھے کی گاڑیوں کو سب کو لوٹا اسے چھوڑ دیا۔ یہ سامنے کھڑا ہے اس سے پوچھ لیں۔ دوسرا واقعہ انھوں نے اپنے ایک دوست کا سنایا کہ وہ گھر میں اہلیہ اور بچوں کو چھوڑ کر چلے گئے۔ بعد میں اہلیہ بھی ایک بیٹی کو لے کر کسی کام سے چلی گئی۔ان بچوں کو بھی والدہ نے یہ تعلیم دی تھی کہ مصیبت کے وقت ’آیت کرسی‘ پڑھا کرو۔ ڈاکو آگئے۔ یہ بچے کرسی کے نیچے چھپ کر ’آیت کرسی‘ کا ورد کرتے رہے۔ ڈاکوئوں نے آس پاس کے فلیٹوں کو لوٹا۔ ان بچوں تک نہ پہنچے۔ ڈاکو بعد میں پکڑے گئے تو پولیس نے پوچھا کہ کس کس فلیٹ سے کیا چرایا۔ جب اس فلیٹ کا ذکر آیا تو ڈاکوئوں نے کہا کہ یہ تو غیرآباد ہے۔ پولیس والے نے کہا کہ یہ ہماری beat (گشت کا علاقہ) اس فلیٹ میں فلاں صاحب رہتے ہیں۔ ڈاکوئوں کا کہنا تھا کہ ہم نے دروازہ کھولا تو پوراکمرہ کرسیوں سے بھرا ہوا تھا جیسے کسی ڈیکوریشن والے کا گودام ہو۔ جدید تعلیم کی وجہ سے ہمارے ذہین ان باتوں کو قبول نہیں کرتے، وزن نہیں دیتے، عمل کرتے ہیں تو آزمانے کے لیے کرتے ہیں۔ لیکن یہ حقیقی واقعات آج تک صدیوں سے سامنے آرہے ہیں اس لیے کہ اس کائنات کا فرماں روا اللہ تعالیٰ ہے جس کی پوری دنیا میں کارفرمائی ہرسطح پر جاری ہے۔
سوال: مجھے آپ کی تحریک سے ذاتی طور پر نقصان پہنچ رہا ہے۔ میری ایک بہن آپ کی جماعت میں شامل ہوگئی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کی جون بدل گئی۔ ہروقت نماز، تسبیح اور وعظ و نصیحت سے کام ہے۔ گھر کے افراد کو زبردستی آپ کا ترجمہ قرآن سناتی ہے۔ اگرچہ تعلیم یافتہ ہے لیکن خیالات کے اعتبار سے وہ موجودہ زمانے کی لڑکی نہیں رہی۔ لباس سادہ اور سفید پہننے لگی ہے۔ جس دن دل چاہے روزہ رکھ لیتی ہے۔ مَیں اس کے اِس طرز سے نہایت پریشان ہوں۔ رشتہ داروں میں جو سنتا ہے وہ اس لیے رشتہ کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا کہ دن رات وعظ کون سنے۔ پرسوں میری خالہ آئی تھیں اُن کو بھی یہی نصیحت کرنے لگیں۔ چند کتابیں اور ایک کیلنڈر آپ کے ہاں کا انھیں دے ہی دیا۔ کل اتوار تھا۔ ہم لوگ سیر کے لیے گئے تھے۔ اس سے بہت کہا لیکن وہ نہ گئی۔ بالکل ولیوں کی زندگی بسر کرنے کے لیے اس ماحول میں گنجایش آخر کس طرح پیدا کی جائے۔ نہ تو اس کی شادی اس طرح ہوسکتی ہے اور نہ اُس کے خیالات بدلنا میرے یا کسی کے بس میں ہے۔ اگر اس سے کچھ کہا سنا جائے تو وہ رنجیدہ ہوجاتی ہے۔ بتایئے میں کیا کروں؟
جواب: اس معاملے میں مَیں خود بھی بے بس ہوں۔ آپ اپنے طور پر ہی کوشش کریں کہ آپ کی ہمشیرہ اسلام سے توبہ کرلیں۔ (’رسائل و مسائل‘ ، سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، ترجمان القرآن، جلد ۴۰، عدد۲-۳ ،شعبان، رمضان، ۱۳۷۲ھ، مئی جون ۱۹۵۳ء، ص ۱۶-۱۷)