مضامین کی فہرست


ستمبر ۲۰۱۳

۱۹۶۳ء میں ماہنامہ چراغِ راہ کے ’تحریک اسلامی نمبر‘ میں مَیں نے ایک طالب علمانہ کوشش یہ کی تھی کہ مولانا مودودیؒکی ان تحریروں کو جو ترجمان القرآن میں جماعت اسلامی کے قیام سے پہلے شائع ہوئی تھیں، اور جو باقاعدہ لٹریچر کا حصہ نہیں تھیں، مگر تحریک، اس کی تاریخ، اس کے مزاج اور سب سے بڑھ کر داعی کے افکار و احساسات، جذبات و محرکات اور عزائم کی آئینہ دار تھیں، ان کو جمع کروں۔یہ تحریر تحریک اسلامی: ایک تاریخ، ایک داستان کے عنوان سے شائع ہوئی اور پھر کتابی شکل میں بھی اسے شائع کیا گیا۔ یہ داستان ہماری تاریخ کے ایک ایسے باب سے متعلق ہے جس سے بعد کے اَدوار میں تحریک سے وابستگی اختیار کرنے والے بالعموم واقف نہیں تھے، حالانکہ یہ تحریریں تحریک کے مزاج اور اس کی روح کو سمجھنے کے لیے شاہ کلید کی حیثیت رکھتی ہیں۔

’منشورات‘ اس کتاب کا نظرثانی شدہ دوسرا اڈیشن شائع کر رہا ہے۔ اس موقع پر مَیں نے ضروری سمجھا کہ اس تحریر کی شکل میں تحریک کے فراہم کردہ تصورِ دین کو جو قرآن و سنت پر مبنی ہے، اور منہجِ نبویؐ کی صحیح ترجمانی ہے، مختصر الفاظ میں پیش کردوں۔ یہ کتاب میںبطور ’مقدمہ‘ شامل ہے۔ مدیر

زندگی کی سب سے بڑی حقیقت اللہ اور اس کی عنایت کی ہوئی وہ نعمتیں ہیں جن کا شمار ممکن نہیں۔ دل گواہی دیتا ہے کہ اگر ہم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہیں تو انھیں گن نہیں سکتے۔ بلاشبہہ وہ بڑا درگزر کرنے والا اور رحیم ہے (وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَااِنَّ اللّٰہَ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo النحل ۱۶:۱۸)۔ یہ محض ایک معروضی سچ کا اعتراف ہی نہیں، ہرباشعور انسان کا ہرلمحے واقع ہونے والا تجربہ بھی ہے___ اور اس پر اللہ کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے ، کم ہے۔

اپنی زندگی پر غور کرتا ہوں تو دل شکر کے جذبات سے معمور ہوجاتا ہے کہ خالق کائنات نے اپنے کرم سے انسان بنایا، ورنہ جمادات، نباتات، حیوانات، کسی بھی دائرے میں وجود بخش سکتا تھا۔ پھر انسان ہی نہیں بنایا، مسلمان گھرانے میں پیدا کیا جس کی بدولت ایمان کی دولت شیرِمادر کے ساتھ میسر آئی۔ دنیا میں زندگی کے سفر کا آغاز کلمہ اور اذان کی آواز سے ہوا، اورایک اچھے دینی گھرانے میں پرورش کی سعادت حاصل ہوئی۔ پھر جس دور میں زندگی بخشی وہ بڑا انقلابی اور تبدیلیوں کا دور تھا۔ پیدایش برطانوی سامراج کے دور میں ہوئی۔ طالب علمی ہی کے زمانے میں آزادی کی جدوجہد میں شرکت نصیب ہوئی، اور پھر ایک آزاد مسلمان ملک میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے اور زندگی کے سفر کی اگلی منزلیں طے کرنے کا موقع ملا۔ پھر آزادی ہی کی نعمت سے نہیں نوازا بلکہ اُس دور میں شعور کی آنکھیں کھولنے کا موقع ملا جب برعظیم میں تحریکِ اسلامی بھی سرگرمِ عمل تھی ورنہ کتنی ہی نسلیں ہیں جو ایسے کسی دور کو نہ پاسکیں جب غلبۂ اسلام کی عملی جدوجہد ہورہی ہو۔ پھر طالب علمی ہی کے دور میں تحریکِ اسلامی سے واقفیت اور اس کی دعوت پر لبیک کہنے کی سعادت سے بھی نوازا، اور الحمدللہ زندگی کے لیے جو راستہ ۱۹۴۹ء کے آخر میں اختیار کیا تھا، اس پر اپنی ساری کمزوریوں اور حالات کے نشیب و فراز کے باوجود سرگرم رہنے کی توفیق بخشی۔ بلاشبہہ اللہ تعالیٰ  کے تمام ہی انعام و اکرام میں یہ نعمت سب سے قیمتی اور دنیا اور آخرت دونوں کی اعلیٰ ترین متاع ہے، فالحمدللّٰہ علٰی ذٰلِک۔

تحریکِ اسلامی اللہ تعالیٰ کا کتنا بڑا انعام ہے، اس پر جتنا بھی غور کرتا ہوں دل میں ایک تلاطم برپا ہوتا ہے، آنکھیں اَشک بار ہوجاتی ہیں اور سر سجدۂ شکر میں جھک جاتا ہے۔ ایمان اور اسلام کی دولت تو الحمدللہ مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے اور دینی ماحول والے گھر میں پرورش پانے سے حاصل ہوگئی تھی لیکن اس دولت کا اصل شعور صرف تحریک اسلامی کو سمجھنے اور اس کا حصہ بننے سے حاصل ہوا۔ یہی وہ چیز ہے جس نے زندگی کے اصل مقصد کا شعور بخشا اور جینے اور مرنے کے اُس اسلوب سے واقف کردیا جو ہمارے پیدا کرنے والے کو مطلوب اور اس کی رضا کے حصول کا ذریعہ ہے۔

تحریکِ اسلامی نے مجھے اور مجھ جیسے لاکھوں انسانوں کو غفلت، جہالت اور بغاوت کی تاریکیوں سے نکال کر اسلام کی روشن شاہراہ کی طرف رہنمائی کی، اور اپنی تمام کمزوریوں، کوتاہیوں، غلطیوں کے باوصف ہم اس قافلے کا حصہ ہیں اور اپنے رب کی رضا اور اس کی رحمتوں کے سائل اور طلب گار ہیں۔ تحریک نے ہمیں یہ سمجھنے کا موقع دیا کہ ہماری، تمام انسانوں کی، اور کم از کم ان تمام انسانوں کی جو اپنے رب کو پہچان لیں، اس زندگی میں اصل حیثیت اللہ کے خلیفہ اور نمایندہ کی ہے اور اس طرح، استخلاف ہی ہمارا اصل تشخص ہے جو ہمیں اپنے رب سے جوڑتا ہے۔ رب سے ہمارا رشتہ آقا، مالک اور معبود کا ہے، اور ہماری معراج اس کا عبد ہونے میں ہے۔  اللہ سے اس رشتے کے تقاضے کے طور پر انسان اس دنیا اور تمام انسانوں سے ایک نئے رشتے میں جڑ جاتا ہے۔ اللہ کو رب ماننے والوں کی اصل ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اللہ کی رضا کو جانیں، اس کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنے کی کوشش کریں، اور اللہ کی مرضی کو اس کی زمین پر پھیلانے اور قائم کرنے کی جدوجہد کریں۔ اس طرح تحریک نے ہمیں اپنے صحیح مقام کو سمجھنے اور اللہ، اللہ کے بندوں، دنیا کے تمام وسائل اور کائنات کے پورے نظام سے اپنے رشتے اور تعلق کو شعوری طور پر اس ہدایت کی روشنی میں استوار کرنے کا شعور، عزم اور موقع دیا جو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی رہنمائی کے لیے اپنے انبیاے کرام ؑ کے ذریعے فراہم کی ہے۔ اور جو اپنی آخری اورمکمل شکل میں قرآن اور سنت ِ رسولؐ کی شکل میں ہمارے پاس موجود ہے۔

اسلام کا جو وژن تحریک نے دیا ہے، اس کے پانچ پہلو ہیں جو ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ ان میں سے کسی کو بھی دوسروں سے جدا نہیں کیا جاسکتا کہ اللہ کا واضح حکم ہے کہ:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً ص وَ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِط اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌo(البقرہ۲:۲۰۸) ’’اے ایمان لانے والو، تم پورے کے پورے اسلام میں آجائو اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمھارا کھلا دشمن ہے‘‘۔ اور___ قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o لَا شَرِیْکَ لَـہٗ ج وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَo (الانعام ۶:۱۶۲-۱۶۳) ’’کہو، میری نماز، میرے تمام   مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سراطاعت جھکانے والا مَیں ہوں‘‘۔

اسلام کی پہلی اور سب سے اہم بنیاد ایمان ہے: اللہ پر، اللہ کے رسولؐ پر، اللہ کی کتاب پر، اللہ کے فرشتوں پر اور یومِ جزا و سزا پر ۔یہ ایمان صرف زبان کے اقرار ہی سے عبارت نہیں، بلکہ دل کی گہرائیوں سے تصدیق اور اس کے عملی تقاضوں کو پورا کرنے کا عزم اور کوشش اس کا لازمی حصہ ہے۔ اللہ ہی اوّل اور آخر ہے اور صرف اس کی رضا ہی اصل مقصود و مطلوب ہے۔ اللہ سے گہرا قلبی تعلق، اس سے محبت اور اس کا خوف ہی زندگی کی سب سے بڑی کارفرما قوتیں ہیں، اور ایمان کا لطف اور مزہ انسان اسی وقت حاصل کرسکتا ہے جب وہ صرف اللہ کو اپنا رب، اللہ کے رسول محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا آقا اور رہبر، اور اللہ کی دی ہوئی ہدایت اسلام کو اپنا نظامِ زندگی بنالے اور اس پر صرف قانع ہی نہ ہو، اس پر راضی اور مطمئن ہوجائے۔ اس کے سوا رہنمائی کے لیے کسی اور سمت نہ دیکھے جیساکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ذَاقَ طَعْمُ الْاِیْمَانِ مَنْ رَضِیَ بِاللّٰہِ رَبًّا وَبِالْاِسْلَامِ دِیْنًا وَبِمُحَمَّد رَسُوْلًا (بخاری،  مسلم)’’ایمان کا مزہ چکھا اس شخص نے جو اللہ کو اپنا رب ماننے اور اسلام کو اپنا دین ماننے اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رسول تسلیم کرنے پر راضی ہوگیا‘‘۔

جب انسان اللہ کے رنگ میں رنگ جاتا ہے تو پھر وہ اس مقام کو حاصل کرلیتا ہے جسے  اللہ سبحانہ وتعالیٰ خود اس کے بندے کا ولی اور دوست بن جانے کے اعلیٰ مقام سے تعبیر کرتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں بندے کی خواہشات اپنے مالک کی رضا سے اس طرح ہم آہنگ ہوجاتی ہیں کہ اس کی پوری زندگی اپنے آقا کی رضا کی مظہر بن جاتی ہے۔ پھر بندہ اللہ کی طرف ایک قدم بڑھتا ہے تو مالکِ حقیقی اس کی طرف دو قدم بڑھتا ہے ،جیساکہ حدیث قدسی میں آتا ہے:

 سُبْحَانَ اللّٰہِ عَلٰی ذٰلِکَ:عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: یَقُولُ اللّٰہُ اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ ، وَاَنَا مَعَہٗ اِذَا ذَکَرَنِیْ، فَاِنْ ذَکَرَنِیْ فِیْ نَفْسِہٖ، ذَکَرْتُہٗ فِی نَفْسِیْ ، وَ اِنْ ذَکَرَنِیْ فِیْ مَلَائٍ، ذَکَرْتُہٗ فِی مَلَاٍء خَیْرٍ مِنْہ، وَ اِنْ تَقَرَّبَ اِلَیَّ ذِرَاعاً  تَقَرَّبْتُ اِلَیْہِ بَاعاً ، وَ اِنْ أَتَانِیْ یَمْشِیْ، اَتَیْتُہٗ ھَرْوَلَۃً - (رواہ البخاری وکذٰلک مسلم و الترمذی و ابن ماجہ)

حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں، اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا: اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ ’’میرا بندہ مجھ سے جو توقع رکھتا ہے اور جیسا گمان اس نے میرے متعلق قائم کر رکھا ہے ویسا ہی مجھے پائے گا۔ جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ اگروہ مجھے تنہائی میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے تنہائی میں یاد کرتا ہوں، اور اگر وہ مجھے کسی جماعت کے ساتھ بیٹھ کر یاد کرتا ہے تو میں اس سے بہتر جماعت میں اس کو یاد کرتا ہوں۔ اگر وہ میری طرف ایک بالشت بھر بڑھتا ہے تو میں اس کی طرف ایک ہاتھ بڑھ جاتا ہوں، اور اگر وہ میری طرف ایک ہاتھ بڑھتا ہے تو میں اس کی طرف چار ہاتھ بڑھتا ہوں، اور اگر وہ میری طرف آہستہ آہستہ آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر جاتا ہوں۔

اللہ پر کامل ایمان اور اس کے سامنے مکمل سپردگی کا تقاضا ہے کہ بندہ اپنے آپ کو    اپنے رب اور محبوب کی مرضی کے مطابق ڈھالے اور وہ سیرت و کردار اختیار کرے جو مالک کے انسانِ مطلوب کا طرۂ امتیاز ہے۔ تزکیۂ نفس ایمان کا فطری مطالبہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسولؐ کی اولین ذمہ داری تلاوتِ کتاب اور تعلیمِ کتاب کے ساتھ تزکیۂ نفس ہے___ یعنی انسان سازی ۔ تزکیے کا یہ دائرہ محض ذاتی کردار تک محدود نہیں بلکہ زندگی کے ہرپہلو پر حاوی ہے جس میں انفرادی زندگی کے ساتھ اجتماعی زندگی کا ہرپہلو شامل ہے۔ البتہ ایمان کی بنیاد پر اور اس کے مطابق انفرادی اور اجتماعی تبدیلی میں مرکزی حیثیت فرد کی ہے اور دنیا اور آخرت میں آخری جواب دہی ہرہرفرد کی ہے۔ رہا معاملہ دنیا کا، تو یہاں بھی ’ہرفرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا‘۔ یہی وجہ ہے کہ  جن اینٹوں سے یہ عمارت تعمیر ہوتی ہے، ان میں ہراینٹ کا مضبوط ہونا ضروری ہے، اور یہی وجہ ہے کہ تحریکِ اسلامی نے اسلام کا جو وژن دیا ہے اس کی پہلی بنیاد ایمان ہے تو دوسری بنیاد فرد کی اصلاح اور تزکیہ ہے۔

فرد کی اصلاح اور سیرت سازی کو یہ مرکزی مقام دینے کے ساتھ اسلام یہ بھی واضح کرتا ہے کہ عملِ صالح اور صراطِ مستقیم کا دائرہ صرف انفرادی زندگی تک محدود نہیں بلکہ انسان کے تمام تعلقات___ سب انسانوں سے اور معاشرے اور اس کے تمام اداروں سے___  اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فراہم کردہ رہنمائی کے مطابق ہونے چاہییں اور اس میں کسی بھی پہلو کو اللہ کی حاکمیت اور اس کی ہدایت کی فرماں روائی سے باہر رکھنا اللہ سے بغاوت اور طاغوت سے سمجھوتے کے مترادف ہے۔ اسلام ایک مکمل نظامِ زندگی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسے روایتی مفہوم میں مذہب نہیں کہا گیا بلکہ الدین کہا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے صاف صاف الفاظ میں فیصلہ فرما دیا ہے:

اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ قف وَ مَا اخْتَلَفَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ اِلَّا مِنْم بَعْدِ مَا جَآئَ ھُمُ الْعِلْمُ بَغْیًام بَیْنَھُمْ م وَ مَنْ یَّکْفُرْ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ فَاِنَّ اللّٰہَ سَرِیْعُ الْحِسَابِo (اٰل عمرٰن ۳:۱۹) اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔ اس دین سے ہٹ کر جو مختلف طریقے ان لوگوں نے اختیار کیے جنھیں کتاب دی گئی تھی، ان کے اس طرزِعمل کی کوئی وجہ اس کے سوا نہ تھی کہ انھوں نے علم آجانے کے بعد آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنے کے لیے ایسا کیا، اور جو کوئی اللہ کے احکام اور ہدایات کی اطاعت سے انکار کردے، اللہ کو اس سے حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی۔

پھر یہ بھی صاف لفظوں میں انسان کو بتا دیا کہ اللہ کی ہدایت مکمل ہے اور اس میں نہ کسی کمی کی گنجایش ہے نہ کسی اضافے کی ضرورت۔ یہ بجاے خود مکمل (self-contained) ہے اور ہردور کے لیے اس میں وہ تمام گنجایشیں موجود ہیں جن کے باعث اہلِ ایمان اس دین کی حدود (frame work) میں رہتے ہوئے زمانے کی تبدیلیوں کا ساتھ دے سکتے ہیں۔ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ط (المائدہ ۵:۳) ’’آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے‘‘۔ اور ساتھ ہی یہ انتباہ (warning) بھی فرما دیا کہ: وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ ج وَ ھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَo (اٰل عمرٰن۳:۸۵) ’’اس فرماں برداری (اسلام) کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے اس کا وہ طریقہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ ناکام و نامراد رہے گا‘‘۔

پس اہلِ ایمان کے لیے کامیابی کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے مکمل اطاعت، سپردگی اور رب کی مرضی کے حصول کی پیہم جدوجہد کا راستہ ، فرمایا: اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَجٰہَدُوْا بِاَمْوَالِھِمْ وَاَنْفُسِھِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ط اُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الصّٰدِقُوْنَ o (الحجرات ۴۹:۱۵) ’’حقیقت میں تو مومن وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لائے، پھر اس میں کوئی شک نہ کیا اور اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ وہی سچے لوگ ہیں‘‘۔

ایمان کے استحکام اور اس کی افزایش، سیرت و کردار کی تعمیر اور پوری زندگی کو اللہ کی ہدایت اور اس کی مرضیات کے تابع کرنے کی جدوجہد کے ساتھ ایک چوتھا تقاضا اللہ کے دین کو  اللہ کے تمام بندوں تک پہنچانے کی سعی و جہد ہے۔ فرد اور اُمت دونوں کے لیے لازم کیا گیا ہے کہ شہادتِ حق کی ذمہ داری کو ادا کریں۔ اسلام ہماری زندگیوں ہی کو نورِ الٰہی سے منور کرنے پر قانع نہیں۔ وہ بلاشبہہ ہرصاحب ِ ایمان کو نور کا ایک مینار بنادینا چاہتا ہے تاکہ اس کے ذریعے یہ نور زمین و آسمان میں پھیلے اور پوری دنیا اس سے رہنمائی حاصل کرے اور پورا عالم اس سے منور ہوجائے۔

یہ ایک تاریخی جدوجہد ہے جس میں تمام ہی انبیاے کرام ؑ شامل رہے ہیں اور یہ آخری نبی حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کبریٰ کی حیثیت رکھتی ہے۔ سورئہ فاتحہ میں جس صراطِ مستقیم کی دعا کی تعلیم بندے کو دی گئی ہے اس میں یہ حقیقت بھی اُسے سمجھا دی گئی ہے کہ یہ سیدھا راستہ کوئی محض نظری چیز نہیں بلکہ ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتیں نازل فرمائیں اور جن کا شمار انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین میں ہوتا ہے:وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّھَدَآئِ وَ الصّٰلِحِیْنَ ج وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا o (النساء ۴:۶۹) ’’جو لوگ اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کریں گے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے، جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے، یعنی انبیا، صدیقین اور شہدا اور صالحین۔ کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آجائیں‘‘۔

معلوم ہوا کہ استخلاف کا چوتھا تقاضا یہ ہے کہ اہلِ ایمان کی زندگی، دعوت اور تحریک کی زندگی ہو۔ اللہ کے انعام یافتہ افراد کی رفاقت کے طلب گاروں کو اللہ کے دین کے قیام اور حق کی شہادت کی ذمہ داری کو اپنی زندگی کا مقصد اور اپنی تمام سعی و جہد کا آخری ہدف بنانا ہوگا۔ ہرمسلمان کو بحیثیت مسلمان اور اُمت مسلمہ کو بحیثیت قوم اور ایک منظم گروہ، یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ انسانوں کو خیر کی طرف بلانے والے، بدی سے روکنے والے، حق کی شہادت دینے والے اور دین کو قائم کرنے والے بنیں: وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا ط(البقرہ۲:۱۴۳)’’اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’اُمت وسط‘ بنایا تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسولؐ تم پر گواہ ہو‘‘۔

اور___ کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ط(اٰل عمرٰن۳:۱۱۰)’’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو،بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔

پھر واضح الفاظ میں اقامت ِ دین کو اُمت کا اصل نصب العین قرار دیا:

شَرَعَ لَکُمَ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِیْٓ اَوْحَیْنَا اِِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہٖٓ اِِبْرٰہِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسٰٓی اَنْ اَقِیْمُوْا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ ط(الشوریٰ۴۲:۱۳) ’’لوگو! اس نے تمھارے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوحؑ کو  دیا تھا، اور جسے (اے محمدؐ) اب تمھاری طرف ہم نے وحی کے ذریعے بھیجا ہے اور جس کی ہدایت ہم ابراہیم ؑ اورموسٰی ؑ اور عیسٰی ؑ کو دے چکے ہیں، اس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہوجائو‘‘۔

ایمان، اصلاحِ نفس، پورے نظامِ زندگی کی اللہ کی ہدایت کی روشنی میں صورت گری اوردین کی اس دعوت کو تمام انسانوں تک پہنچانے کی جدوجہد اور بالآخر اقامت ِ دین اور مال اور جان کی قربانی کے ساتھ غلبے کی جدوجہد___ یہ ہے وہ تصورِ دین جو قرآن و سنت سے ہمارے سامنے آتا ہے، جو اسوئہ نبویؐ اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے منہج انقلاب کا طرئہ امتیاز ہے۔  یہی وہ چار بنیادیں ہیں جن کے تقاضے کے طور پر پانچویں چیز رُونما ہوتی ہے اور وہ، وہ عملی اورمنظم جدوجہد ہے جو دین کے قیام اور غلبے کے لیے برپا کی جائے اور صرف اللہ کی رضا کے لیے برپا کی جائے___حالات خواہ کیسے بھی ہوں۔ البتہ یہ کام مقصد کے واضح شعور، اور ان اخلاقی حدود کی مکمل پاس داری کے ساتھ انجام دینا مطلوب ہے جن کا شریعت حکم دیتی ہے۔ اس کے لیے قلب و نظر اور جان و مال کے تمام وسائل کو اس اجتماعی اور منظم جدوجہد کے لیے بخوشی پیش کردینا شریعت کا تقاضا ہے۔ یہ کام ہر دور میں حکمت اور اپنے زمانے کی ضروریات اور تقاضوں کے اِدراک کے ساتھ انجام دینا مطلوب ہے۔

یہی وہ پانچ عناصر ہیں جن سے اسلام کا مفصل وژن عبارت ہے اور جن کا نام آج کے دور میں ’تحریکِ اسلامی‘ ہے۔جہاں یہ جدوجہد اپنے متعین مقاصد، اہداف، لائحۂ عمل، حکمت عملی اور پروگرام رکھتی ہے وہیں داعی کے لیے ضروری ہے کہ وہ صرف اللہ کی رضا کے لیے جدوجہد کرے اور اس راستے میں جو بھی مشکلات پیش آئیں، ان کا مقابلہ صبر اور استقامت کے ساتھ کرے۔

تحریکِ اسلامی کی پہچان یہ دعوت اور داعی کی وہ کیفیات ہیں جو اسے اللہ کے انعام پانے والوں کی صف میں شامل ہونے کی سعادت بخشتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تحریکِ اسلامی کے دونوں پہلو ایک تصویر کے دو رُخ ہیں___داعی کی عملی جدوجہد اور اس کی قلبی کیفیات اور محرکات۔

حضرت آدم ؑکے بعد قرآن حضرت نوح ؑکی دعوت کا تفصیل سے ذکر کرتا ہے___ اللہ کی بندگی کی دعوت، تقویٰ اور اللہ کے رسول کی اطاعت اور انسان کی پوری زندگی کو رب کی مرضی کے تابع کرنے کی دعوت___  سورئہ نوح میں اس کا بڑا ایمان افروز اور تاریخی حقائق پر مبنی احوال اللہ کے نبی ؑ ہی کے الفاظ میں کچھ اس طرح بیان کیا گیا ہے:

اس نے کہا: اے میری قوم کے لوگو، میں تمھارے لیے ایک صاف صاف خبردار کردینے والا (پیغمبر) ہوں۔ (تم کو آگاہ کرتا ہوں) کہ اللہ کی بندگی کرو اور اس سے ڈرو اور میری اطاعت کرو، اللہ تمھارے گناہوں سے درگزر فرمائے گا اور تمھیں ایک وقت ِ مقرر تک باقی رکھے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت جب آجاتا ہے تو پھر ٹالا نہیں جاتا، کاش تمھیں اس کا علم ہو۔ اس نے عرض کیا: اے میرے رب، میں نے اپنی قوم کے لوگوں کو شب و روز پکارا مگر میری پکار نے اُن کے فرار ہی میں اضافہ کیا۔ اور جب بھی مَیں نے اُن کو بلایا تاکہ تو انھیں معاف کردے، انھوں نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں اور اپنے کپڑوں سے منہ ڈھانک لیے اور اپنی رَوش پر اَڑ گئے اور بڑا تکبر کیا۔ پھر میں نے ان کو ہانکے پکارے دعوت دی۔ پھر میں نے علانیہ بھی ان کو تبلیغ کی اور چپکے چپکے بھی سمجھایا۔ میں نے کہا: اپنے رب سے معافی مانگو، بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے۔ وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا، تمھیں مال اور اولاد سے نوازے گا، تمھارے لیے باغ پیدا کرے گا اور تمھارے لیے نہریں جاری کردے گا۔ تمھیں کیا ہوگیا ہے کہ اللہ کے لیے تم کسی وقار کی توقع نہیں رکھتے؟ حالانکہ اُس نے طرح طرح سے تمھیں بنایا ہے۔ کیا دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے کس طرح سات آسمان تہ بر تہ بنائے اور اُن میں چاند کو نور اور سورج کو چراغ بنایا؟ اور اللہ نے تم کو زمین سے عجیب طرح اُگایا، پھر وہ تمھیں اِسی زمین میں واپس لے جائے گا اور اِس سے یکایک تم کو نکال کھڑا کرے گا۔ اور اللہ نے زمین کو تمھارے لیے فرش کی طرح بچھا دیا تاکہ تم اس کے اندر کھلے راستوں میں چلو۔ نوحؑ نے کہا: میرے رب، اُنھوں نے میری بات ردّ کردی اور اُن (رئیسوں) کی پیروی کی جو مال اور اولاد پاکر اور زیادہ نامراد ہوگئے ہیں۔ اِن لوگوں نے بڑا بھاری مکر کا جال پھیلا رکھا ہے۔(نوح ۷۱:۲-۲۲)

اللہ کے تمام انبیاے کرام ؑ نے یہی دعوت دی اور اسی تحریک کو برپا کیا بلالحاظ اس کے کہ ردعمل کیا ہو۔ اسی دعوت کا ایک منظر فرعون کے دربار میں نظر آتا ہے جب حضرت موسٰی ؑ کی دعوت کی تائید میں ایک صاحب ِ ایمان وقت کے فرعون اور اپنی قوم کو مخاطب کرکے کہتا ہے:

وہ شخص جو ایمان لایا تھا، بولا: ’’اے میری قوم کے لوگو، میری بات مانو، میں تمھیں صحیح راستہ بتاتا ہوں۔ اے قوم، یہ دنیا کی زندگی تو چند روزہ ہے، ہمیشہ کے قیام کی جگہ آخرت ہی ہے۔ جوبُرائی کرے گا اُس کو اتنا ہی بدلہ ملے گا جتنی اُس نے بُرائی کی ہوگی اور جو نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ ہو وہ مومن،ایسے سب لوگ جنت میں داخل ہوں گے جہاں ان کو بے حساب رزق دیا جائے گا۔ اے قوم، آخر یہ کیا ماجرا ہے کہ مَیں تو تم لوگوں کو نجات کی طرف بلاتا ہوں اور تم لوگ مجھے آگ کی طرف دعوت دیتے ہو! تم مجھے اس بات کی دعوت دیتے ہو کہ میں اللہ سے کفر کروں اور اس کے ساتھ اُن ہستیوں کو شریک ٹھیرائوں جنھیں میں نہیں جانتا، حالانکہ میں تمھیں اُس زبردست مغفرت کرنے والے خدا کی طرف بلا رہا ہوں۔ نہیں، حق یہ ہے اور اِس کے خلاف نہیں ہوسکتا کہ جن کی طرف تم مجھے بلا رہے ہو اُن کے لیے نہ دنیا میں کوئی دعوت ہے ، نہ آخرت میں، اور ہم سب کو پلٹنا اللہ ہی کی طرف ہے اور حد سے گزرنے والے آگ میں جانے والے ہیں۔ آج جو کچھ مَیں کہہ رہا ہوں، عنقریب وہ وقت آئے گا جب تم اُسے یاد کرو گے۔ اور اپنا معاملہ مَیں اللہ کے سپرد کرتا ہوں، وہ اپنے بندوں کا نگہبان ہے۔(المومن ۴۰:۳۸-۴۴)

اس انقلابی دعوت کو اللہ کے جن برگزیدہ بندوں نے پیش کیا وہ بے غرضی و بے لوثی کا مجسمہ تھے۔ وہ اپنی قوم سے کسی اجر کے طالب نہیں تھے ۔ وہ صرف اللہ کے بندوں کو جہنم کے عذاب سے بچانے اور زمین و آسمان کے خالق کے بتائے ہوئے راستے کو اختیار کر کے دنیا اور آخرت کی کامیابی کی شاہراہ دکھانے والے تھے۔ وہ خیرخواہی، دل سوزی اور درمندی کے ساتھ اللہ کے بندوں کو اللہ کی طرف بلاتے ہیں اور اس میں اپنی جان تک ہلکان کردیتے ہیں: وَیٰــقَوْمِ لَآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مَالًا طاِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ وَ مَآ اَنَا بِطَارِدِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا (ھود ۱۱:۲۹) ’’اے برادرانِ قوم، میں اس کام پر تم سے کوئی مال نہیں مانگتا، میرا اجر تو اللہ کے ذمے ہے اور میں ان لوگوں کو دھکے دینے سے بھی رہا جنھوں نے میری بات مانی ہے‘‘۔

داعی اپنے تمام مخاطبین کے لیے سراپا رحمت اور محبت ہوتا ہے اور تکلیف دینے والوں کے لیے بھی دوست اور بہی خواہ کا کردار ادا کرتا ہے۔

دیکھیے قرآن اس کا سراپا کس طرح بیان کرتا ہے:

لَقَدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ o فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِیَ اللّٰہُ ق لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ عَلَیْہِ ط تَوَکَّلْتُ وَ ھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِo (التوبہ ۹:۱۲۸-۱۲۹) ’’دیکھو! تم لوگوں کے پاس ایک رسولؐ آیا ہے جو خود تم ہی میں سے ہے، تمھارا نقصان میں پڑنا اس پر شاق ہے، تمھاری فلاح کا وہ حریص ہے، ایمان لانے والوں کے لیے وہ شفیق اور رحیم ہے___ اب اگر یہ لوگ تم سے منہ پھیرتے ہیں تو اے نبیؐ، ان سے کہہ دو کہ ’’میرے لیے اللہ بس کرتا ہے، کوئی معبود نہیں مگروہ، اُسی پر میں نے بھروسا کیا اور وہ مالک ہے عرشِ عظیم کا‘‘۔

اور اس دعوت میں وہ جس طرح اپنی جان کھپاتا ہے اور دوسروں کے لیے جس طرح فکرمند رہتا ہے اس کا بیان زبانِ حق نے یوں کیا ہے: فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلٰٓی اٰثَارِھِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِھٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا (الکھف ۱۸:۶)’’اچھا، تو اے نبیؐ! شاید تم ان کے پیچھے غم کے مارے اپنی جان کھو دینے والے ہو، اگر یہ اس تعلیم پر ایمان نہ لائے‘‘۔

تحریکِ اسلامی نے دین کا یہ وژن ہمیں دیا ہے اور اس کے مطابق عملی جدوجہد کے راستے پر بھی گامزن کردیا ہے۔ استخلاف کی زندگی حق و باطل کے درمیان کش مکش کی زندگی ہے اور زندگی کا اصل لطف حق کا ساتھ دینے اور غلبۂ حق کی جدوجہد میں مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کرنے اور اس جدوجہد کے درمیان لگنے والی ہرچوٹ کو اعزاز اور افتخار کے جذبات کے ساتھ انگیز کرنے میں ہے:

وَ مَا خَلَقْنَا السَّمَآئَ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَھُمَا لٰعِبِیْنَ o لَوْ اَرَدْنَآ اَنْ نَّتَّخِذَ لَھْوًا لَّاتَّخَذْنٰہُ مِنْ لَّدُنَّآ ق اِنْ کُنَّا فٰعِلِیْنَo بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَی الْبَاطِلِ فَیَدْمَغُہٗ فَاِذَا ھُوَ زَاھِقٌ وَ لَکُمُ الْوَیْلُ مِمَّا تَصِفُوْنَ o (الانبیاء۲۱:۱۶-۱۸) ’’ہم نے اس آسمان اور زمین کو اور جو کچھ ان میں ہے، کچھ کھیل کے طور پر نہیں بنایا ہے۔ اگر ہم کوئی کھلونا بنانا چاہتے اور بس یہی کچھ ہمیں کرنا ہوتا تو اپنے ہی پاس سے کرلیتے۔ مگر ہم تو باطل پر حق کی چوٹ لگاتے ہیں جو اس کا سرتوڑ دیتی ہے اور وہ دیکھتے دیکھتے مٹ جاتا ہے اورتمھارے لیے تباہی ہے اُن باتوں کی وجہ سے جو تم بناتے ہو‘‘۔

اس کش مکش میں اہلِ حق کی ذمہ داری ہے کہ وہ حق پر جمے رہیں: فَلِذٰلِکَ فَادْعُ وَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتَ وَلاَ تَتَّبِعْ اَہْوَآئَ ھُمْ وَقُلْ اٰمَنْتُ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنْ کِتٰبٍ وَّاُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَیْنَکُمُ اللّٰہُ رَبُّنَا وَرَبُّکُمْ لَنَـآ اَعْمَالُنَا وَلَکُمْ اَعْمَالُکُمْ لاَحُجَّۃَ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ اَللّٰہُ یَجْمَعُ بَیْنَنَا وَاِِلَیْہِ الْمَصِیْرُ o (الشورٰی۴۲:۱۵) ’’اے محمدؐ! تم اسی دین کی طرف دعوت دو اور جس طرح تمھیں حکم دیا گیا ہے اس پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہوجائو، اور ان لوگوں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو، اور ان سے کہہ دو کہ ’’اللہ نے جو کتاب بھی نازل کی ہے مَیں اس پر ایمان لایا۔ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمھارے درمیان انصاف کروں۔ اللہ ہی ہمارا رب بھی ہے اور تمھارا رب بھی۔ ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمھارے اعمال تمھارے لیے۔ ہمارے اور تمھارے درمیان کوئی جھگڑا نہیں۔ اللہ ایک روز ہم سب کو جمع کرے گا اور اس کی طرف سب کو جانا ہے‘‘۔

پھر اسی راہ پر استقامت دکھانے والوں کو اللہ کی مدد کی یقین دہانی ایمان افروز انداز میں کرائی جاتی ہے اور انھیں دعوت پر قائم رہنے اور بدی کو نیکی سے دفع کرنے کی تلقین کی جاتی ہے:

جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر اس پر ثابت قدم رہے ،یقینا ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ ’’نہ ڈرو نہ غم کرو اور خوش ہوجائو۔ اس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ ہم اس دنیا کی زندگی میں بھی تمھارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی۔ وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمھیں ملے گا اور ہرچیز جس کی تم تمنا کرو گے وہ تمھاری ہوگی، یہ ہے وہ سامانِ ضیافت اس ہستی کی طرف سے جو غفور و رحیم ہے‘‘ اور اس شخص کی بات سے اچھی بات اور کس کی ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا، اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں۔ اور اے نبیؐ، نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ تم دیکھو گے کہ تمھارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے۔ یہ صفت نصیب نہیں ہوتی مگر ان لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا مگر ان کو جو بڑے نصیبے والے ہیں۔(حٰمٓ السجدۃ ۴۱:۳۰-۳۵)

آخرت کی کامیابی کے ساتھ ان کو دنیا میں بھی عزت اور کامیابی کی نوید سنائی گئی ہے بشرطیکہ وہ اپنے ایمان میں سچے ہوں اور دعوت اور جدوجہد کا حق ادا کریں۔ وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(اٰل عمرٰن۳:۱۳۹)

دعوت اور جہاد کیسی نفع بخش تجارت ہے۔ اس کا صاف الفاظ میں اظہار کردیا گیا ہے:

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، میں بتائوںتم کو وہ تجارت جو تمھیں عذابِ الیم سے بچادے؟ ایمان لائو اللہ پر اور اس کے رسولؐ پر، اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے۔ یہی تمھارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔ اللہ تمھارے گناہ معاف کردے گا اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، اور ابدی قیام کی جنتوں میں بہترین گھر تمھیں عطا فرمائے گا۔ یہ ہے بڑی کامیابی۔ اور دوسری چیز جو تم چاہتے ہو وہ بھی تمھیں دے گا۔ اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی میں حاصل ہوجانے والی فتح۔ اے نبیؐ، اہلِ ایمان کو اس کی بشارت دے دو۔(الصّف ۶۱:۱۰-۱۳)

اور پھر لسانِ نبوتؐ سے دلوں میں طمانیت پیدا کرنے والی یہ خوش خبری بھی سنوا دی گئی کہ: وَ قُلْ جَآئَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ ط اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۸۱) ’’اور اعلان کردو کہ ’’حق آگیا اور باطل مٹ گیا اور باطل تو مٹنے ہی والا ہے‘‘۔

تحریکِ اسلامی نے اسلام کا جو فہم دیا ہے، اس نے زندگی کی اس حقیقت کو روزِ روشن کی طرح واضح کردیا ہے کہ زندگی نام ہے کش مکش کا اور قرآن وہ کتابِ ہدایت ہے جو حق و باطل کے درمیان کش مکش میں قدم قدم پر رہنمائی فرماتی ہے اور کش مکش کے ہرمرحلے میں راہِ صواب کی نشان دہی کرتی ہے۔ سیدمودودی نے تفہیم القرآن کے مقدمے میں جس مؤثر انداز میں اس حقیقت کو بیان کیا ہے اس کی نظیر دینی ادب میں مشکل سے ملے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ سوچ اور فکروعمل کی یہی وہ شاہراہ ہے جسے سامنے لانا تحریکِ اسلامی کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ مولانا مذکورہ مقدمے میں لکھتے ہیں: ’’لیکن فہم قرآن کی اِن ساری تدبیروں کے باوجود آدمی قرآن کی روح سے پوری طرح آشنا نہیں ہونے پاتا جب تک کہ عملاً وہ کام نہ کرے جس کے لیے قرآن آیا ہے۔ یہ محض نظریات اور خیالات کی کتاب نہیں ہے کہ آپ آرام کرسی پر بیٹھ کر اسے پڑھیں اور اس کی ساری باتیں سمجھ جائیں۔ یہ دنیا کے عام تصورِ مذہب کے مطابق ایک نری مذہبی کتاب بھی نہیں ہے کہ مدرسے اور خانقاہ میں اس کے سارے رموز حل کرلیے جائیں۔ یہ ایک دعوت اور تحریک کی کتاب ہے۔ اس نے آتے ہی ایک خاموش طبع اور نیک نہاد انسان کو گوشۂ عزلت سے نکال کر خدا سے پھِری ہوئی دنیا کے مقابلے میں لاکھڑا کیا۔ باطل کے خلاف اس سے آواز اُٹھوائی اوروقت کے علَم برداران کفروفسق و ضلالت سے اس کو لڑا دیا۔ گھرگھر سے ایک ایک سعید روح اور پاکیزہ نفس کو کھینچ کھینچ کر لائی اور داعیِ حق کے جھنڈے تلے ان سب کو اکٹھا کیا۔ گوشے گوشے سے ایک ایک فتنہ جُو اور فساد پرور کو بھڑکا کر اُٹھایا اور حامیانِ حق سے ان کی جنگ کرائی۔

ایک فردِ واحد کی پکار سے اپنا کام شروع کرکے خلافت ِ الٰہیہ کے قیام تک پورے ۲۳سال یہی کتاب اس عظیم الشان تحریک کی رہنمائی کرتی رہی، اور حق و باطل کی اس طویل و جاں گسل کش مکش کے دوران میں ایک ایک منزل اور ایک ایک مرحلے پر اسی نے تخریب کے ڈھنگ اور تعمیر کے نقشے بتائے۔ اب بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ سرے سے نزاعِ کفرودین اور معرکۂ اسلام و جاہلیت کے میدان میں قدم ہی نہ رکھیں اور اس کش مکش کی کسی منزل سے گزرنے کا آپ کو اتفاق ہی نہ ہوا ہو اور پھر محض قرآن کے الفاظ پڑھ پڑھ کر اس کی ساری حقیقتیں آپ کے سامنے بے نقاب ہوجائیں۔ اسے تو پوری طرح آپ اُسی وقت سمجھ سکتے ہیں جب اسے لے کر اُٹھیں اور دعوت الی اللہ کا کام شروع کریں اور جس جس طرح یہ کتاب ہدایت دیتی جائے، اُس طرح قدم اُٹھاتے چلے جائیں۔ تب وہ سارے تجربات آپ کو پیش آئیں گے جو نزولِ قرآن کے وقت پیش آئے تھے۔ مکہ اور حبش اور طائف کی منزلیں بھی آپ دیکھیں گے اور بدرو اُحد سے لے کر حُنین اور تبوک تک کے مراحل بھی آپ کے سامنے آئیں گے۔ ابوجہل اور ابولہب سے بھی آپ کو واسطہ پڑے گا، منافقین اور یہود بھی آپ کو ملیں گے ، اور سابقینِ اوّلین سے لے کر مؤلفۃ القلوب تک سبھی طرح کے انسانی نمونے آپ دیکھ بھی لیں گے اور برت بھی لیں گے۔

یہ ایک اور ہی قسم کا ’سُلوک‘ ہے جس کو مَیں ’سُلوکِ قرآنی‘ کہتا ہوں۔ اس سُلوک کی شان یہ ہے کہ اس کی جس جس منزل سے آپ گزرتے جائیںگے، قرآن کی کچھ آیتیں اور سورتیں خود سامنے آکر آپ کو بتاتی چلی جائیں گی کہ وہ اسی منزل میں اُتری تھیں اور یہ ہدایت لے کر آئی تھیں۔ اس وقت یہ تو ممکن ہے کہ لُغت اور نحو اور معانی اور بیان کے کچھ نکات سالک کی نگاہ سے چھپے رہ جائیں، لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ قرآن اپنی روح کو اس کے سامنے بے نقاب کرنے سے بُخل برت جائے‘‘۔ (تفہیم القرآن، جلداوّل، ص ۳۳-۳۴)

قرآن، اس کے پیغام اور اس کی دعوت کی صحیح صحیح تفہیم، اور خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلمکی قرآن کی روشنی میں ۲۳سالہ جدوجہد، جس نے تاریخ کے رُخ کو موڑ دیا اور رہتی دنیا تک انسانیت کی رہنمائی کا سامان فراہم کردیا، وہ ہردور میں اُس دور کے حالات کی روشنی میں انھی خطوط پر تبدیلی اور تعمیرنو کے لیے نمونہ فراہم کرتی ہے۔

بیسویں صدی میں اللہ تعالیٰ نے اپنے جن نیک بندوں کو اس توفیق سے نوازا کہ وہ اپنے اپنے حالات کے مطابق اسلام کو ایک تصورِ حیات اور مکمل نظامِ زندگی اور ایک دعوت اور تحریک کے طور پر پیش کریں اور اس دعوت پر لبیک کہنے والوں کو اس تاریخی جدوجہد میں لگادیں جو اقامت ِ دین کے لیے مطلوب ہے، مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ ان میں نمایاں ہیں۔ انھوں نے برعظیم پاک و ہند میں اس دعوت کا آغاز ۱۹۳۳ء میں ترجمان القرآن کے ذریعے کیا تھا۔یہ دعوت ایک فکری تحریک کی شکل میں آغاز کرنے کے بعد اجتماعی اصلاح کی ایک انقلابی تحریک کی شکل میں ۱۹۴۱ء میں منظم ہوسکی اور الحمدللہ، آج پاکستان ہی نہیں برعظیم کے تمام ہی ممالک میں اپنے اپنے آزاد نظم کے ساتھ سرگرمِ عمل ہے اور اس کے اثرات برعظیم تک محدود نہیں، دنیا کے گوشے گوشے میں پھیلے ہوئے ہیں۔

کئی صدیوں کے سامراجی دور، مغربی تہذیب کے غلبے، اور خود مسلمانوں کے ذہنی جمود کے نتیجے میں دین کے قرآنی تصور اور منہج نبویؐ پر جو پردے پڑگئے تھے یا ’تجدد‘ ، ’اصلاح‘ اورموڈرنٹی (modernity)کے نام پر جس قطع و بُرید کا ان کو نشانہ بنایا گیا تھا، الحمدللہ تحریکِ اسلامی نے   اس فکری انتشار اور خلفشار کا بھرپور مقابلہ کیا اور اسلام کی روشن شاہرا ہ کو ہرگردوغبار سے پاک کرکے اس کی اصل شکل میں پیش کیا اور قرآن و سنت کے محکم دلائل کے ساتھ پیش کیا اور پھر اس فکر کی روشنی میں انفرادی اور اجتماعی تبدیلی کی جدوجہد کو عملی طور پر برپا کیا جو آج پوری دنیا میں حق و باطل کی کش مکش کی بنیاد ہے۔

 

عربی لغت میں’ ترجمہ‘ کا لفظ دو معانی کے لیے بولا جاتا ہے: کلام کو ایک زبان سے دوسری زبان میں اس کے معنی کی وضاحت کے بغیر نقل کرنا، یا ایک کلام کا مطلوب و مقصود دوسری زبان میں پوری وضاحت کے ساتھ بیان کر دینا(پروفیسر غلام احمد حریری: تاریخ تفسیر و مفسرین،  فلک سنز فیصل آباد،۱۹۷۸ئء ص ۲۱)۔ گویا ترجمے کا بنیادی مقصد ایک زبان کے معنی و مفہوم کو  دوسری زبان میں اس طرح بیان کرنا ہے کہ معنی و مفہوم بھی درست ہو، ابلاغ کامل ہو اور کہیں ابہام نہ رہے۔

ترجمہ کرنا مشکل کام ہے اس لیے کہ تخلیق میں تو فکر آزاد ہوتی ہے لیکن ترجمے کی صورت میں اسے اصل کے ساتھ رشتہ استوار رکھنا پڑتا ہے، بلکہ اصل کا پابند ہونا پڑتا ہے اور اگر معاملہ قرآن پاک کے ترجمے کا ہو تو یہ معیار اور بھی سخت ہو جاتا ہے۔ اس کا ایک سبب تویہ ہے کہ قرآن پاک عربی زبان میں نازل ہوا ہے جس کی فصاحت و بلاغت اور فکر و معانی کی بلندی و ثروت کی تاب وہ عربی شعرا بھی نہ لا سکے جنھیں اپنی زبان دانی پر بڑاناز تھا۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ قرآن کا ہر لفظ اپنے سیاق و سباق میں خاص فکری معنویت رکھتا ہے اور مترجم کی ذرا سی لغزش پورے مفہوم کو متزلزل کرسکتی ہے۔ اس لیے ڈاکٹر سید حمید شطاری لکھتے ہیں: ’’ترجمے میں ایسے الفاظ کے انتخاب کی ضرورت ہے جو عقائد اور احکام کی پوری پوری ترجمانی کرتے ہوں اور ان الفاظ کا مفہوم منشاے قرآن و متن کی صحت کے ساتھ وضاحت کرتا ہو‘‘۔(قرآن مجید کے اُردو تراجم و تفاسیر کا تنقیدی مطالعہ، حیدرآباد ،س ۔ن، ص ۳۰)

ترجمہ قرآن اس لیے بھی نازک ترین فن ہے کہ کلام الٰہی کو کسی انسانی زبان میں اس انداز میں ڈھالنا کہ مفہوم ترجمے میں پورا منتقل ہو اور زبان بھی قرآن کے معیار کے مطابق ہو، بظاہر مشکل امر ہے۔ سید مودودی کہتے ہیں:’’کلام الٰہی کے الفاظ میں اس قدر وسیع معانی پوشیدہ ہیں جن پر کوئی انسانی کلام حاوی نہیں ہو سکتا۔ انسان خواہ کتنے ہی علم و فضل اور بصیرت کے ساتھ اس کا ترجمہ کرے، وہ ایسے الفاظ بہم نہیں پہنچا سکتا جو الفاظ قرآن کے تمام مفہومات کو ادا کرنے والے ہوں‘‘۔ (پروفیسر خورشید احمد، (مرتبہ) ادبیات مودودی،اسلامک پبلی کیشنز ،لاہور،۱۹۸۵ء، ص۳۷۵)۔  مترجم قرآن ڈپٹی نذیر احمدیہ کہتے تھے: ’’میرے مذہب میں قرآن کا ترجمہ گناہ ہے۔ کیونکہ ترجمے میں معجز بیانی نہیں آ سکتی‘‘۔(افتخار احمد صدیقی: مولوی نذیر احمد دہلوی، احوال و آثار، مجلس ترقی ادب لاہور ،۱۹۷۱ء، ص۲۶۴)

ترجمہ قرآن کی ان مشکلات کے سبب، ایک مدت تک قرآنی تعلیمات سے استفادہ کرنے کی خواہش کے باوجود، قرآن پاک کا فارسی یا اردو زبان میں ترجمہ نہیں کیا گیا۔ بنگال میں اسے تقدس و احترام کے منافی اور پشتون علاقے میں تحریف تصور کیا جاتا رہا۔ بالآخر شاہ ولی اللہ نے قرآن پاک کا فارسی ترجمہ کر کے صدیوں کی جھجک اور گومگو کی کیفیت کو ختم کیا۔ شاہ ولی اللہ کے بعد ان کے صاحب زادوں شاہ عبد القادر اور شاہ رفیع الدین نے اردو زبان میں قرآن پاک کے تراجم کیے۔ شاہ عبد القادر کا ترجمہ قرآن صرف دینی خدمت ہی نہ تھی بلکہ اردو نثر کی بھی ایک عظیم الشان خدمت تھی۔ انھوں نے، ’’عوامی زبان و محاورہ کو قرآن جیسی کتاب کے ترجمے کے لیے استعمال کرکے ایک نئی رفعت دی۔ ترجمے سے ایک طرف دینی مقاصد کو تقویت پہنچی تو دوسری طرف اردو زبان میں اظہار کی غیر معمولی قوت پیدا ہوئی‘‘۔(ڈاکٹر جمیل جالبی: تاریخ ادب اردو، ۲،مجلس ترقی ادب لاہور ، ص۱۰۵۵)

شاہ عبد القادر اور شاہ رفیع الدین کے تراجم کے بعد قابل ذکر ترجمہ قرآن ڈپٹی نذیر احمد کا ہے لیکن شان الحق حقی کہتے ہیں ’’نذیر احمد نے اپنے ترجمہ قرآن میں ایسے محاورات کو راہ دی ہے جو علمی تحریر سے میل نہیں کھاتے‘‘۔(ادبی ترجمہ کے مسائل ،مرتب: اعجاز راہی،مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد ،۱۹۸۶ء، ص۲۲۱)

قرآن پاک کے اردو تراجم میں مولانا محمود حسن اور مولانا اشرف علی تھانوی کے ترجمے قابل ذکر ہیں لیکن وہ اظہار بیان کی قدامت کے مظہر ہیں۔ حافظ فتح محمد جالندھری کا ترجمہ بامحاورہ اور رواں تو ضرور ہے لیکن بہ کثرت قوسین قاری کو آگے نہیں بڑھنے دیتیں۔ عبد الماجد دریابادی کے ہاں قدیم اسالیب اور فکر خاص کی الجھنیں مفہوم و مدعا کے ابلاغ میں رکاوٹ ہیں۔ مولانا ابوالکلام آزاد کا ترجمہ بہتر اور بامحاورہ تو ہے مگر مکمل نہیں۔ الغرض قرآن کریم کے تراجم کی ۲۰۰سالہ مشق اور بہترین علما و ادبا کی صلاحیتیں ’’ایسا ترجمہ نہ کر سکیں جس سے اصل کے زور بیان فصاحت و بلاغت او روحانی عظمت کا صحیح اندازہ ہو سکے‘‘۔( شیخ محمد اکرام ، رودِ کوثر،ادارہ ثقافت ِ اسلامیہ لاہور، ۱۹۹۱ء، ص۵۵۳)

یہ سوال بھی قابل غور ہے کہ ہر عہد میں قرآن کریم کے تراجم کے باوجود، آخر بار بار ترجمہ قرآن کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے اور قرآن کے پہلے سے کیے گئے تراجم میں ہر آنے والی نسل کی دلچسپی قدر ے کم کیوں ہو جاتی ہے؟ اس سوال کا جواب ڈاکٹر صالحہ عبد الحکیم شرف الدین کے خیال میں یہ ہے کہ ارتقاے لسانی کے اعتبار سے چالیس پچاس برس بعد ترجمہ قرآن کی زبان کی چاشنی  کم ہو جاتی ہے اور پھر الفاظ و اصطلاحات کے معنی بھی بدل جاتے ہیں۔ دوسری طرف ہر عہد کے علما کی کوشش رہی ہے کہ وہ اپنے عہد کے خیالات، افکارو فلسفہ کے پیش نظر قرآن کا عصری تناظر میں ترجمہ کریں۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ ہر عہد کا انسان اپنے خیالات کا اظہار اپنے مخصوص انداز میں کرنا چاہتا ہے۔(قرآن حکیم کے اُردو تراجم،قدیمی کتب خانہ کراچی،س۔ن، ص۶۷-۶۸)

گویا ہم کہہ سکتے ہیں ترجمہ قرآن کی ضرورت تو ہر عہد میں رہے گی لیکن اردو زبان میں قرآن کی ترجمانی بہترین انداز میں وہی شخص کر سکتا ہے جو اپنے عہد کی لسانی تبدیلیوں اور فکری میلانات سے آگاہ ہونے کے ساتھ اردو زبان کی معنوی وسعت، لسانی اکائیوں اور الفاظ و معنی کی ساری پر توں کے استعمال پر قدرت بھی رکھتا ہو۔

۱۹۴۲ء میں سید مودودی نے قرآن کی الوہیت، انداز خطابت، اور فکرو خیال کو قرآن کے بتائے گئے مفاہیم کی حدود میں رہتے ہوئے اردو زبان میں ترجمہ کرنا شروع کیا۔ ان کی زیر ادارت چھپنے والے رسالے ترجمان القرآن میں قرآن پاک کا یہ ترجمہ مع تفسیر مسلسل ۳۰ سال تک  شائع ہوتا رہا، قرآن کے اردو ترجمے کی اس انداز میںاشاعت اس لحاظ سے واحد مثال تھی کہ اسے اہل علم و ادب کے سامنے باقاعدگی سے پیش کیا جاتا رہا۔ یہی ترجمہ و تفسیر بعد ازاں تفہیم القرآن کے نام سے چھے مختلف جلدوں میں شائع ہوا البتہ ترجمہ قرآن کوترجمہ قرآن مجید مع مختصر حواشی کے نام سے نظر ثانی و ترمیم کے بعد جولائی ۱۹۷۶ء میں الگ سے شائع کیا گیا۔(ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی: تصانیف مودودی ایک اشاعتی اور کتابیاتی مطالعہ،مشمولہ تذکرہ سید مودودی- سوم،ادارہ معارف اسلامی لاہور،۱۹۹۸ء، ص۶۲۹)

ہندستان میں مسلمان آیت آیت اور لفظ لفظ کا ترجمہ الگ الگ پڑھنے کے عادی تھے، لیکن سید مودودی نے لفظی ترجمہ کے بجاے آزاد ترجمانی کا طریقہ اختیار کیا، حالانکہ یہ مشکل کام تھا۔ سید باقر حسین لکھتے ہیں: ’’الفاظ کا ترجمہ کرنا پھر بھی نسبتاً آسان کام ہے لیکن عبارت کا ترجمہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ مترجم کو دو متضاد تقاضوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ ایک طرف تو خیال رکھنا پڑتا ہے کہ ترجمہ تحت اللفظ ہو دوسری طرف ترجمے کی زبان کا محاورہ ہاتھ سے نہ جائے‘‘۔(ترجمے کے اصول، مشمولہ ترجمہ روایت اور فن ، مرتب: نثار احمد قریشی،مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد ،۱۹۸۵ء، ص ۶۰)

سید مودودی نے لفظی ترجمے کے بجاے قرآن کی ترجمانی کرتے ہوئے قرآنی عبارت کے مفہوم کو اُردو زبان میں ادبی شان کے ساتھ منتقل کر دیا اور جوتاثیر قرآن کو پڑھ کر ان کے دل میں پیدا ہوئی اسے حتیٰ الامکان عربی مبین سے اُردوے مبین میں منتقل کرنے کی کوشش کی۔ سید مودودی نے آزاد ترجمانی کا طریقہ اس لیے اختیار کیا تاکہ قاری ترجمہ قرآن پڑھتے ہوئے قرآن کے مفہوم و مدعا کو سمجھ کر وہی اثر قبول کرے جو قرآن اس پر ڈالنا چاہتا ہے۔ اس سے قبل اردو میں ترجمہ قرآن کی جو روایت چلی آ رہی تھی، اس میں ترجمہ لفظی ہوتا تھا اور لفظی ترجمے میں قرآن کی ہرسطر کے نیچے بے جان عبارت قاری کو پڑھنے کے لیے ملتی تھی، جس سے نہ قاری کی روح وجد میں آتی ، نہ اس کے رونگٹے کھڑے ہوتے تھے، نہ اس کے جذبات میں کوئی طوفان برپا ہوتا۔ لفظی ترجمے کی تاثیر میں ادب کی اس تیز و تند اسپرٹ کا فقدان تھاجو قرآن کی اصل عبارت میں بھری ہوئی ہے۔(ترجمہ قرآن مجید مع مختصر حواشی،سیّد مودودی، ادارہ ترجمان القرآن لاہور،۲۰۰۱ء، ص۵)

پھر قرآن کا طرز بیان تحریری کے بجاے تقریری ہے اور کوئی ترجمہ قرآن اس وقت تک گہرا تاثر نہیں چھوڑ سکتا، جب تک تحریر کی زبان کو مربوط تقریری زبان میں تبدیل نہ کیا جائے۔ یوں بھی قرآن کی زبان بہت بامحاورہ ہے اور بامحاورہ تراجم میں ابلاغ کو اہمیت دی جاتی ہے۔ اس لیے سید مودودی نے بامحاورہ ترجمے اور تقریری اسلوب کا طریقہ اختیار کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسا کرتے ہوئے : ’’میں اپنے با محاورہ ترجمے میں نہ تو قرآن کے الفاظ کی حرفاً حرفاً پابندی کرتا ہوں اور نہ ہی اسے بہت زیادہ آزاد بناتا ہوں بلکہ متنِ قرآن کے مفہوم کو بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں‘‘۔ (ابو طارق: مولانا مودودی کے انٹرویو، دوم،اسلامک پبلی کیشنز لاہور،۱۹۹۱ء، ص۵۲)

سید مودودی نے ترجمے میں ’ترجمانی‘ کرتے ہوئے بھی آزادی نہیں برتی اور کلام اللہ کو اس کے پس منظر اور حالات نزول کے ساتھ جوڑتے ہوئے با معنی بنا دیا ہے۔ ڈاکٹر صالحہ عبد الحکیم شرف الدین رقم طراز ہیں: ’’مولانا نے آزاد ترجمے کی اجازت لے کر بھی حدود کا ہمیشہ خیال رکھا، کلام الٰہی کی عظمت اور صحت کو قائم رکھ کر اس کی ترجمانی کرنا ان کا مقصد رہا‘‘۔ (قرآن حکیم کے اردو تراجم، ص ۳۵۸)

یہ درست ہے کہ قرآن پاک کے تراجم میں موضوع کی یکسانیت کے باوجود مترجمین کے ذوق، رجحان اور انداز فکر کے سبب تازگی کا احساس ملتا ہے۔ سید مودودی بھی یہ چاہتے تھے کہ قرآن کو ایسی زبان میں پیش کریں، جس سے جدید ذہن کو قرآن فہمی حاصل ہو اور قرآن کا انقلاب آفرین پیغام ان کی روحوں میں سرایت کرجائے، لیکن ساتھ ساتھ قرآن کی ادبیت بھی انھیں مسحور کرے اور ان کے جذبوں کو مہمیز کرے، وہ قرآن کے استدلال سے تو ضرور آگاہ ہوں لیکن مطالعہ قرآن میں دوسری زبان کی اجنبیت کو اپنے لیے رکاوٹ نہ سمجھیں۔ سید مودودی اس کوشش میں بڑی حد تک کامیاب رہے ہیں۔ ڈاکٹر عبد المغنی کے بقول: ’’ایسا جامع، واضح، مستند، سلیس، جان دار اور زور دار ترجمہ جس میں ساری توجہ اداے مفہوم پر مرکوز کی گئی ہو، اپنی مثال آپ ہے‘‘۔(مولانا مودودی کی ادبی خدمات،فاران نشریات لاہور،۱۹۹۲ء، ص ۴۳ )

  سید مودودی کا یہ ترجمہ فصاحت و بلاغت کی بھی مثال ہے۔ یہ اسی فصاحت و بلاغت کا کمال ہے کہ قرآن کی جادوئی تاثیر بھی اردو زبان میں منتقل ہو گئی ہے، اور اردو نثر کا بھی ایک  طاقت ور اسلوب قرآن کی ترجمانی کے لیے وجود میں آ گیا ہے۔ ’’سید مودودی اگر اپنے عہد کی بہترین زبان استعمال نہ کرتے تو آسمانی کتاب کا زورِ بلاغت اور حسن فصاحت کبھی اردو زبان میں منتقل نہ ہوسکتا‘‘۔(الطاف حسن قریشی، اردو ڈائجسٹ ،لاہور،اکتوبر۱۹۷۹ء، ص۲۳)

سید مودودی سے ما قبل تراجم قرآن میں جہاں زبان کی اجنبیت کا احساس ہوتا ہے، وہاں تاثیر، فصاحت، بلاغت اور روح قرآن کی کمی بھی کھٹکتی ہے۔ یہ تراجم عقل کو اپیل نہیں کرتے اور نہ قرآن کی معجزاتی زبان کو اس کی الہامی قوت کے ساتھ قاری تک منتقل کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم کو اس کے حسن و انشا، لسانی و ادبی بانکپن، لفظی طمطراق اور اس کی تاثیر کے ساتھ اگر کسی عالم نے سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے تو وہ سید مودودی ہیں۔ ( افضال حسین نقوی، جسارت، کراچی، سید مودودی نمبر، ص۳۰)

ترجمہ قرآن کے سلسلے میں سید مودودی کا اہم کارنامہ، ترجمے کی پیراگراف بندی ہے۔ یہ ایک انقلابی قدم ہے جس کی مدد سے نہ صرف قرآن کے مطالب کی تفہیم آسان ہو گئی ہے بلکہ قاری کو قرآن کے تقریری اسلوب سے یہ اندازہ بھی ہو جاتا ہے کہ تقریر کا ایک جزو دوسرے جزو سے کیا تعلق رکھتا ہے اور تحریک اسلامی کن کن مراحل سے گزرتی رہی ہے۔ پروفیسر خورشید احمد لکھتے ہیں: ’’قرآن کے قاری کو یہ رہنمائی فراہم کرنا کہ ایک بات کہاں ختم اور دوسری کہاں شروع ہوتی ہے، اس کے لیے پیراگراف بندی کی ضرورت تھی اور یہ کام اگر متن میں ہوتا تو حد ادب سے تجاوز تھا‘‘۔ (پروفیسر خورشید احمد،’دینی ادب‘ مشمولہ تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان و ہند، دسویں جلد،پنجاب یونی ورسٹی لاہور،۱۹۷۲ء، ص۳۳۰)

 سید مودودی کے مجتہدانہ ذہن نے یہ کام کر کے قاری کے لیے بہت آسانی پیدا کر دی ہے اور’’قرآن فہمی کی کنجی اپنے قاری کے ہاتھ میں دے دی ہے‘‘۔ (سید اسعد گیلانی، آئین،لاہور، تفہیم القرآن نمبر، ص ۱۷۳)

پیراگراف کے بعد قرآن کا یہ ترجمہ اس اعتبار سے بھی منفرد ہے کہ اگر صرف ترجمہ پڑھا جائے تو بھی مفہوم سمجھ میں آتا اور مطالب کا پورا اظہار ہوتا ہے۔ سید مودودی کے اس ’’الہامی ترجمے‘‘ (راشد شاذ، سیارہ لاہور، سالنامہ، ۲۰۰۱ء، ص۱۰۲) کی سلاست، فصاحت و بلاغت، ادبیت اور محاورہ بندی کے لیے دوسرے مترجمین کے تراجم سے ایک تقابلی مطالعہ پیش کیا جاتا ہے، اس مقصد کے لیے ’’سورۃ الضحیٰ‘‘ کا ترجمہ منتخب کیا گیا ہے۔

مولانا محمد اشرف علی تہانوی

’’قسم ہے، دن کی روشنی کی اور رات کی جب کہ وہ قرار پکڑے۔(آگے جواب قسم ہے) کہ آپ کے پروردگار نے نہ آپ کو چھوڑا اور نہ (آپ سے) دشمنی کی اور آخرت آپ کے لیے دنیا سے بدر جہا بہتر ہے (پس وہاں آپ کو اس سے زیادہ نعمتیں ملیں گی) اور عنقریب اللہ تعالیٰ آپ کو (آخرت میں بکثرت نعمتیں) دے گا۔ سو آپ خوش ہو جاؤ گے۔ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو یتیم نہیں پایا پھر آپ کو ٹھکانا دیا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو (شریعت سے)بے خبر پایا سو (آپ کو) شریعت کا رستہ بتلا دیا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو نادار پایا سو مال دار بنا دیا۔ تو آپ (اس کے شکریے میں) یتیم پر سختی نہ کیجیے اور سائل کو مت جھڑکیے۔ (یہ تو شکر فعلی ہے) اور اپنے رب کے انعامات (مذکور) کا تذکرہ کرتے رہا کیجیے۔ (یعنی زبان سے قولی شکر بھی کیجیے)‘‘۔ (بیان القرآن،مولانا اشرف علی تھانویؒ، تاج کمپنی لمیٹڈلاہور،س۔ن، ص ۵۴۴-۵۴۵)

مولانا مفتی محمد شفیع

’’قسم دھوپ چڑھتے وقت کی اور رات کی جب چھا جائے۔ نہ رخصت کر دیا تجھ کو تیرے رب نے اور نہ بے زار ہوا اور البتہ پچھلی بہتر ہے تجھ کو پہلی سے اور آگے دے گا تجھ کو تیرا رب پھر تو راضی ہو گا۔ بھلا نہیں پایا تجھ کو یتیم، پھر جگہ دی اور پایا تجھ کو بھٹکتاپھر راہ سمجھائی۔ اور پایا تجھ کو مفلس، پھر بے پرواہ کر دیا۔ سو جو یتیم ہو، اس کو مت دبا اور جو مانگتا ہو، اس کو مت جھڑک۔ اور جو احسان ہے تیرے رب کا اس کو بیان کر‘‘۔ (مفتی محمد شفیع، معارف القرآن،ہشتم ، ادارۃالمعارف، کراچی، ۱۹۹۹ء، ص ۷۶۴)

مولانا فتح محمد جالندہری

’’آفتاب کی روشنی کی قسم، اور رات (کی تاریکی) کی جب چھا جائے کہ (اے محمدؐ) تمھارے پروردگار نے نہ تو تم کو چھوڑا، اور نہ (تم سے ) ناراض ہوا۔ اور آخرت تمھارے لیے پہلی (حالت یعنی دنیا) سے کہیں بہتر ہے۔ اور تمھیں پروردگار عنقریب وہ کچھ عطا فرمائے گا کہ تم خوش ہو جاؤ گے۔ بھلا اس نے تمھیں یتیم پا کر جگہ نہیں دی۔ (بے شک دی) اور رستے سے نا واقف دیکھا، تو سید ھارستہ دکھایا۔ اور تنگ دست پایا تو غنی کر دیا، تو تم بھی یتیم پر ستم نہ کرنا اور مانگنے والے کو جھڑکی نہ دینا اور اپنے پروردگار کی نعمتوں کا بیان کرتے رہنا‘‘۔(القرآن الحکیمہ،تاج کمپنی لاہور، ص ۸۵۱)

عبد الماجد دریا بادی

’’قسم ہے دن کی روشنی کی، اور رات کی جب کہ وہ قرار پکڑے اور آپ کے پروردگار نے نہ آپ کو چھوڑا ہے اور نہ آپ سے بے زار ہوا ہے۔ اور آخرت آپ کے لیے دنیا سے (بدر جہا) بہتر ہے۔ عنقریب آپ کا پروردگار آپ کو اتنا عطا کرے گا کہ آپ خوش ہو جائیں گے۔ کیا اللہ نے آپ کو یتیم نہیں پایا، پھر (آپ کو) ٹھکانہ دیا۔ اور آپ کو بے خبر پایا، سو راستہ بتا دیا۔ اور آپ کو نادار پایا تو مال دار بنا دیا۔ تو آپ بھی یتیم پر سختی نہ کیجیے اور سائل کو مت جھڑکیے۔ اور اپنے پروردگار کی نعمتوں کا بھی تذکرہ کرتے رہا کیجیے‘‘۔(القرآن الحکیمہ مع ترجمہ و تفسیر،عبدالماجد دریابادی، ص ۱۱۹۹-۱۲۰۰)

سید مودودی

’’قسم ہے روزِ روشن کی، اور رات کی، جب کہ وہ سکون کے ساتھ طاری ہو جائے۔ (اے نبیؐ) تمھارے رب نے تم کو ہرگز نہیں چھوڑا اور نہ وہ ناراض ہوا۔ اور یقینا تمھارے لیے بعد کا دور پہلے دور سے بہتر ہے۔ اور عن قریب تمھارا رب تم کو اتنا دے گا کہ تم خوش ہو جاؤ گے۔ کیا اس نے تم کو یتیم نہیں پایا اور پھر ٹھکانا فراہم کیا؟ اور تمھیں ناواقف راہ پایا اور پھر ہدایت بخشی۔ اور تمھیں نادار پایا اور پھر مالدار کر دیا۔ لہٰذا یتیم پر سختی نہ کرو اور سائل کو نہ جھڑکو اور اپنے رب کی نعمت کا اظہار کرو‘‘۔(ترجمہ قرآن مع مختصر حواشی، ص ۱۵۴۹-۱۵۵۱)

سید مودودی کے علاوہ باقی تراجم پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ان تراجم سے اُردو ترجمے کی روایت تو ضرور آگے بڑھی ہے، لیکن ترجمے میں وہ سلاست، روانی، اور ادبیت نہیں، جو قرآن کا اعجاز ہے۔ اول الذکر تراجم سے وہ تاثر قائم نہیں ہوسکا جو قرآن کا مقصود ہے۔ ان تراجم میں اللہ کی ’نبی سے دشمنی‘ ہونا یا ’بے زار ہونا‘ مناسب حال ترجمہ نہیں۔ اسی طرح رات کی تاریکی کا چھا جانا رات کی معنویت میں وہ فصاحت پیدا نہیں کرتا جو رات کے سکون کے ساتھ طاری ہونے کے مفہوم میں پنہاں ہے۔ مولانا اشرف علی تھانوی کے ترجمے میں طوالت ہے اور بار بار قوسین کا استعمال، عبارت کے تسلسل اور بہاؤ کو توڑتا ہے۔ پھر ترجمے میں پرا نا پن موجود ہے۔ اس طرح ترجمہ ابلاغ کی خوبی سے بھی محروم ہے۔ مفتی محمد شفیع کے ترجمے سے قرآن کی معنویت پوری طرح قاری پر آشکار نہیں ہوتی۔ مولانا فتح محمد جالندھری کے ہاں با محاورہ ترجمے کی کوشش کی گئی ہے، لیکن یہاں بھی قوسین کا استعمال قاری کی توجہ منتشر کر دیتا ہے۔ مولانا عبد الماجد دریا بادی کے ہاں مولانا اشرف علی تھانوی کے ترجمے کی ہی تقلید کی گئی ہے، البتہ انھوں نے قوسین کم کر دیے ہیں، تاہم وہ اپنے ترجمے کو فصاحت، بلاغت اور ادبیت نہ دے سکے۔

سید مودودی کے ترجمے میں تسلسل، بہاؤ، روانی اور ربط ہے۔ ترجمہ پڑھتے ہوئے قاری کی توجہ ایک بار بھی نہیں ہٹتی۔ سید مودودی نے قرآن کے استفہامیہ لہجے کو ترجمے میں منتقل کرتے ہوئے ایجاز و اختصار سے کام لے کر قرآن کے مفہوم کو ترجمے میں ڈھال دیا ہے۔ بلاغت کا یہ عالم ہے کہ چھوٹے چھوٹے جملے زبان پر رواں ہو جاتے ہیں، ترجمہ با محاورہ، سلیس رواں اور سبک ہے۔ بات نہ صرف قوسین کے بغیر سمجھ آتی ہے بلکہ کسی لفظ کی وضاحت کے لیے حواشی کی ضرورت بھی نہیں پڑتی، نہ ترجمے میں کسی لفظ کا اضافہ کرنا پڑتا ہے۔ دن کی روشنی یا آفتاب کی روشنی یا دھوپ چڑھتے وقت سے کہیں زیادہ سبک ترکیب روز روشن کی ہے جس میں فصاحت اور ادبیت ہے۔

تقابلی مطالعے کے سلسلے میں ایک اور نمونہ سورۃ الحجر کی آیت نمبر ۷۲ کا ترجمہ ہے ۔ اس آیت کا پس منظر یہ ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام کے گھر فرشتے خوب رو لڑکوں کی شکل میں عذاب کی خبر لے کر آتے ہیں تو قوم لوط ان کے گھر پر چڑھ دوڑتی ہے۔ قرآن قوم لوط کی اس کیفیت کو بیان کرتا ہے۔ مترجمین نے یہ کیفیت ترجمے میں کیسے منتقل کی ہے؟ اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں:

آپؐ کی جان کی قسم وہ اپنی مستی میں مدہوش تھے ۔(بیان القرآن، مولانا اشرف علی تھانوی، ص۲۳۹)

اے محبوب ا! تمھاری جان کی قسم بے شک وہ اپنے نشے میں بھٹک رہے تھے۔( کنز الایمان، مولانا احمد رضا خاں بریلوی،تاج کمپنی لمیٹڈ لاہور، ص ۳۴۴)

آپؐکی جان کی قسم وہ اپنی مدہوشی میں بالکل بہکے ہوئے تھے۔(القرآن الحکیمہ، مولانا عبد الماجد دریا بادی، ص ۵۴۵)

(اے محمدؐ) تمھاری جان کی قسم وہ اپنی مستی میں مدہوش (ہو رہے ) تھے۔ (القرآن الحکیمہ،مولانا فتح محمد جالندھری، ص ۳۵۵)

تیری جان کی قسم اے نبیؐ اس وقت ان پر ایک نشہ سا چڑھا ہوا تھا جس میں وہ آپے سے باہر ہوئے جاتے تھے‘‘۔(ترجمہ قرآن مع مختصر حواشی، سید مودودی ، ص۶۷۷)

قرآن نے یہاں نشہ کا لفظ استعارتاً استعمال کیا ہے، مگر دیگر مترجمین نے اسے پھر حقیقت میں بدل دیاہے۔ نشے میں مدہوش ہونا، بھٹک جانا، بہک جانا، وہ کیفیات ہیں، جس میں فرد عمل کی قوت سے محروم ہو جاتاہے۔ لیکن سید مودودی نے لفظ نشے کے ساتھ آپے سے باہر ہونے کا محاورہ لاکر قومِ لوطؑ کی بداطواری اور بدمستی کی عملی کیفیت بیان کر دی ہے اور یہی سید مودودی کے اس ترجمے کی جدت ہے۔ پھر ’’تیری جان کی قسم اے نبیؐ ‘‘میں کتنی بے ساختگی، اخلاص، محبت، وارفتگی اور چاہت ہے۔

 سید مودودی کو الفاظ کے استعمال پر کچھ ایسی قدرت حاصل ہے کہ وہ لفظ کو اس کے   سیاق و سباق میں برتنے کے فن میں طاق نظر آتے ہیں۔ اس لیے سید مودودی نے سورۂ رحمن کی آیت فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ کا ترجمہ بھی آیت کے سیاق و سباق میں ہر بار مختلف کیا ہے، یعنی تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں، عجائب قدرت، کرشموں، کمالات، احسانات، صفات، اور اوصافِ حمیدہ کو جھٹلاؤ گے۔ سید مودودی نے قرآن میں استعمال ہونے والے الفاظ ’و‘ اور ’ف‘ کا ترجمہ بھی ’اور‘ اور ’پس‘ کے معنوں تک محدود نہیں رکھا۔ اورکہیں کہیں قرآن کے لہجے و تاثیر کو ہو بہو ترجمے میں منتقل کر دیا ہے۔ ’’اُف، تنگ کر دیا تم نے، کیا تم مجھے خوف دلاتے ہو کہ میں مرنے کے بعد قبر سے نکالا جاؤں گا‘‘۔(ایضاً، ص ۱۲۷۷)

ترجمہ میں بیسیوں مقامات پر زبان کی روانی، صوتی بہاؤ، سلاست، اور ادبیت کا دل نشین انداز نظر آتا ہے:

اے لوگو، جو ایمان لائے ہو اللہ سے ڈر و اور اس کی جناب میں بازیابی کا ذریعہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جدوجہد کروشاید کہ تمھیں کامیابی نصیب ہو جائے۔(ایضاً، ص ۲۹۷)

عربی اور اردو زبانیں اپنی لسانی ترکیب‘ لوچ‘ رچاؤاور تہذیبی پس منظر میں مختلف زبانیں ہیں، اس لیے عربی تراکیب کو اردو میں ترجمے کے ذریعے منتقل کرنا مشکل امر ہے، لیکن قرآن کے لہجے اور مفہوم کی مکمل منتقلی اس کے بغیر ممکن نہیںہے۔ سید مودودی نے قرآن کے لہجے اور تاثیر کو اردو میں منتقل کرنے کے لیے بہترین تراکیب اور موثر ترین الفاظ کا چناؤ کیا ہے جس سے بہت ساری نئی تراکیب وضع ہو گئی ہیں۔ چند تراکیب دیکھیے: فرستدگان الٰہی، گردش ایام، دیدہ بینا، گرم چراغ، دلیل روشن، پردہ شب، تیز گامی، لب گور، شعلہ زن، عقل سلیم، ملک یمین، اعیان سلطنت، کلمہ خبیثہ، کٹے کافر، کج بحثی، نیش زنی، پراگندہ خواب، پیروان ابلیس، فجر مشہود، خواہش نفس، تھڑدلا۔ سید مودودی نے بعض عربی تراکیب کو ویسے ہی لکھ دیا ہے کیونکہ اگر ان کا ترجمہ کیا جاتا تو یقینا وہ فصاحت اور بلاغت پیدا نہ ہوتی جو ان عربی تراکیب سے ہوئی ہے۔ جیسے: عادِ اولیٰ، عذاب الیم، عاد ارم، سواء السبیل، مہاجرین و انصار، شیطان رجیم، ملاء اعلیٰ، کتاب مبین، احسن الخالقین وغیرہ۔

اس ترجمے میں بہت سارے مرکب عطفی ترجمے میں زور، روانی اور جدت پیدا کرتے نظر آتے ہیں: حکیم و علیم، حکیم وحمید، ذلیل و حقیر، بے کم و کاست، دست و پابستہ، فریاد و فغاں، ملجا و ماویٰ، نیک و بد، صبح و شام، اطلس و دیبا، گمراہی و بد عملی، روسیاہی و ذلت۔

سید مودودی نے قرآن کی ترجمانی کے لیے با محاورہ ترجمہ کیا ہے۔ اس لیے بہت سارے محاورے بے کھٹکے چلے آئے ہیں، جو مفہوم میں بلاغت، فصاحت، دل کشی اور روانی پیدا کرتے ہیں لیکن قرآنی مضامین کے تقدس اور احترام سے بھی پوری طرح ہم آہنگ ہیں، اس لیے کہ سید مودودی کو ڈپٹی نذیر احمد کی طرح محاورے جڑنے کا شوق نہیں بلکہ محاورہ خود بخود آن کھڑا ہوتا ہے۔ چند محاورے یہ ہیں: ٹوٹ پڑنا، پیٹھ پھیر کر بھاگنا، عقل ماری جانا، ڈنڈی مارنا، الٹے پاؤں پھرنا، پھٹکار پڑنا، کانوں کا کچا ہونا، دل ٹھنڈا کرنا، افترا باندھنا، دل تنگ ہونا، آنکھیں سفید پڑنا، دل اڑنا، آپے سے باہرہونا، کلونس چھا جانا، خوشی سے کھل اٹھنا، آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جانا وغیرہ۔

سید مودودی کے ترجمے میں ایک ہی طرح کے املا والے الفاظ پر اعراب کا اہتمام بھی ملتا ہے۔ تشبیہ و استعارہ بھی رنگ جماتے ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو سید مودودی کا یہ ترجمہ نہ صرف ترجمہ کی ضروریات پوری کرتا ہے بلکہ ادبی معیارات پر بھی پورا اُترتا ہے۔ عطش درانی کے مطابق: ’’یہ ترجمہ قرآن با محاورہ ترجمے کی عمدہ مثال ہے‘‘۔ ( ادبی جائزے،نذر سنز لاہور، ۱۹۸۷ء، ص۱۲۳)

سید مودودی کے ترجمے میں ادبیت، علمیت، تاثیر، روانی، فصاحت وبلاغت کا بڑا سبب یہ ہے کہ سید مودودی نے قرآن کے اصطلاحی اور لغوی مفہوم کو اچھی طرح سمجھ کر بہترین الفاظ میں ترجمہ کیا ہے۔ سید مودودی اس بات کے قائل تھے کہ قرآن کے الفاظ سے مجازی اور ظاہری مفہوم اخذ کرنے کا فیصلہ اندھا دھند نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے قرآن کا سیاق و سباق اور زیر بحث مسئلہ ہی معیار قرار دیا جا سکتا ہے۔ (عاصم نعمانی (مرتب) مکاتیب سید ابوالاعلٰی مودودی، دوم، اسلامک پبلی کیشنز لاہور،۱۹۹۱ء، ص۳۱۵) 

سید مودودی کے ایک قریبی رفیق حکیم خواجہ اقبال ندوی لکھتے ہیں: ’’سید مودودی قرآن کے ایک لفظ کا مفہوم متعین کرنے کے لیے کبھی کبھی دس دس بارہ بارہ دن کلام عرب، لغت، تفاسیر اور احادیث کا مطالعہ کرتے رہتے‘‘۔ (جمیل احمد رانا، سلیم منصور خالد (مرتبین) تذکرہ سید مودودی، سوم، ص۸۳۳)

سید مودودی کے ہاں قرآنی الفاظ کو اس کے خاص سیاق و سباق میں ترجمہ کرنے کے سبب ان کے ترجمے میں تنوع، دل چسپی، اسلوب کی تازگی اور معنوی تسلسل ہے۔ ملک حسن اختر کے بقول: ’’یہ ترجمہ اردو نثر میں بلند مقام کا حامل ہے‘‘( ڈاکٹر جمیل جالبی،تاریخ ادب اردو، دوم ص۱۲۱۰)۔ تاہم، اس ترجمے میں بعض مقامات پر حفظ مراتب کو ملحوظ نہیں رکھا گیا۔ ایسے مقامات پر ترجمے میں ادبیت کا وہ رنگ نہیں جو اس کی مجموعی فضا پر چھایا ہوا ہے۔ مثلاً: ’’ان سے کہو میں کوئی نرالا رسول تو نہیں ہوں‘‘۔(ترجمہ قرآن مع مختصر حواشیسید مودودی: ص ۱۲۷۵)

’’اے نبیؐ ! ان سے رخ پھیر لو، پھر تم پر کچھ ملامت نہیں‘‘(ایضاً، ص۱۳۳۱)۔ سید مودودی کی اس آزاد ترجمانی کو مولانا امین احسن اصلاحی نے بھی اختیار کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ترجمے کی سلاست، روانی، ادبی چاشنی، اور ابلاغ کی خوبی ان کے ہاں اس درجہ پیدا نہ ہو سکی۔ عمر خالد   رقم طراز ہیں: ’’مولانا مودودی کا ضخیم ترجمہ قرآن اور تفسیر بلاشبہہ اردو ادب کا ایک شاہکار ہے۔   اُردو نثر میں مولانا کا زور دار انداز روایتی مذہبی دنیاے علم میں بے نظیر ہے۔(Islamic Studies، جلد۴۱، بہار،۲۰۰۲ء، ص ۳۵)

سید مودودی کے اس ترجمے نے اردو نثر کے امکانات کو وسعت دی ہے، اس لیے کہ یہ ترجمہ جہاں عوام کی دینی ضرورت پوری کرے گا وہاں سید مودودی کی اُردوے مبین ترجمہ پڑھنے والوں کے ادبی ذوق کی تسکین بھی کرتی رہے گی۔

 

عالم اسلام آج جس انتشار، بدنظمی اور جمود کا شکار ہے، اس کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ امراض کا علاج قرآن و سنت میں تدبر و تفکر، اجتہاد کی ضرورت، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور اعتدال پسندی میں مضمر ہے۔ ہر چند کہ ان مقاصد کے حصول میں وسائل، تنظیم، باہمی اتحاد اور سیاسی اقتدار کا فقدان ہے، مگر ان حوصلہ شکن حالات کے باوجود عالم اسلام کی بعض ہستیوں نے نشاتِ ثانیہ کے لیے علم و دانش اور امید و عمل کے چراغ روشن کیے۔ ایسی نابغۂ روزگار ہستیوں اور سحر انگیز شخصیتوں میں سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ بھی شامل ہیں۔ جنھوں نے قرآن و سنت کے ابدی پیغام، مسلمانوں کی زندگیوں میں عملی تبدیلی، اسلامی تہذیب کی تعبیر، جذبوں کی تنظیم اور عصر حاضر میں اسلامی اجتماعیت اور اقامت دین کے عظیم فریضے کی تفہیم اور نفاذ کی تحریک برپا کی۔

 سید مودودیؒ کا تذکرہ، درحقیقت فکر و عمل کے قافلۂ حق کے سفر کی روداد ہے۔ یہ روداد ہے ان کی انفرادی اور اجتماعی خدمات سے نمو پانے والے شعور کی، جس نے اپنے فکروعمل سے پورے عالم اسلام کو متاثر کیا۔ ان سے فکری اکتساب کرنے والوں میں عصر حاضر کی نوجوان نسل کے علاوہ ہر عمر اور ہر طبقے کے لوگ شامل ہیں۔ بلاشبہہ میری ذہنی تربیت، میرے کردار اور عمل کو ایک خاص سانچے میں ڈھالنے، سیدھی راہ دکھانے اور اسلام کا ایک ادنیٰ رضاکار بنانے میں مولانا مودودیؒ کی شخصیت کا بڑا دخل ہے۔

آزاد جموںوکشمیر کے ایک دور افتادہ اوراس وقت کے ایک نسبتاً چھوٹے سے شہر کھوئی رٹہ سے کراچی آکر ملازمت اور اس کے ساتھ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا خواب دیکھنے والے نوجوان نے ملازمت چھوڑنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ اس میں کن عوامل کو دخل حاصل تھا اور کیا یہ فیصلہ اس نے سوچے سمجھے بغیر ہی کر لیا تھا؟ اور اگر رشوت سے نفرت اس فیصلے کا محرک تھی تو یہ نفرت آخر کیسے پیدا ہوئی؟ سماجی و معاشی سوچ میں یہ انقلاب کیسے آیا؟ ان سارے سوالات کا بڑا ہی مختصر جواب یہ ہے کہ ناخواندہ مگر صوم وصلوٰۃ کے پابند والد صاحب کا عملی نمونہ تو سامنے تھا ہی، اس دینی گھریلو ماحول کے اثرات اپنی جگہ تھے، مگر جس ہستی نے مجھے مکمل طور پر بدل دیا تھا وہ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی سحر انگیز شخصیت تھی۔

مولانا مودودی کی کتابوں کا مطالعہ اسکول کے زمانے سے ہی کر رہا تھا۔ اصل میں ان کی مشہور کتاب رسالہ دینیاتہمارے میٹرک کے نصاب میں شامل تھی، جسے سبقاً سبقاً پڑھا تھا اور پھر ان کی دیگر کتب کا مطالعہ بھی بعد میں جاری رہا۔ مولانا محترم کی ان کتب نے میرے اندر ایک قسم کا شعوری انقلاب پیدا کردیا ۔مولانا محترم کا اللہ کے فضل سے مجھ پر یہ اتنا بڑا احسان ہے جس کا اجر انھیں اللہ تعالیٰ روز جزا دیں گے۔ بلاشبہہ اس لٹریچر نے پوری دنیا میں کروڑوں افراد کی زندگیاں بدل ڈالی ہیں اور ان کا مختلف زبانوں میں لٹریچر اور مشہور تفسیر تفہیم القرآن اس وقت بھی لاکھوں کروڑوں افراد کی زندگیوں پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔ یہ تھی وہ افراد سازی جو مولانا محترم کی کتب بتدریج کر رہی تھیں، اور اسی کردار نے مجھے کراچی پورٹ ٹرسٹ کی ملازمت سے استعفا جیسا اتنا بڑا فیصلہ کرنے پر نہ صرف آمادہ بلکہ مجبور کر دیا۔ یہ فیصلہ دراصل میرے دل کی آواز تھی۔

  •  مولانا مودودیؒ سے ملاقات: اس موقع پر چاہوں گا کہ مولانا مودودیؒ سے اپنی پہلی ملاقات کا بھی ذکر کروں۔ میں ۱۹۶۳ ء میں کالج کی چھٹیوں میں اپنے وطن آزاد کشمیر گیا ہوا تھا۔ واپسی پر لاہور آنے کا پروگرام بنایا۔ مقصد جہاں لاہور کے تاریخی مقامات اور شہر کی سیر تھی، وہیں ایک اہم مقصد مولانا مودودیؒ سے ملاقات بھی تھا۔ چنانچہ میں لاہور آنے کے دوسرے دن دوپہر کو پوچھتا ہوااچھرہ پہنچا۔ وہاں مولانا کی رہایش گاہ ۵-اے، ذیلدار پارک کا پتا معلوم کیا اور بالآخر منزلِ مقصود پر پہنچ گیا۔ وہاں موجود عملے سے اپنا مدعا بیان کیا اور بتایا کہ میرا تعلق آزاد کشمیر سے ہے اور کراچی میں بسلسلۂ ملازمت مقیم ہوں۔ مولانا مودودیؒ کی کتب زمانہ طالب علمی میں پڑھ چکا ہوں۔ اب کراچی میں جماعت کا کارکن ہوں۔ مولانا محترم کے لیے دن کا یہ وقت چونکہ تحقیق اور تصنیف و تالیف کے لیے وقف ہوتا تھا، اس لیے عموماً وہ اس وقت کسی سے بھی ملاقات نہیں کرتے تھے۔ تاہم میرا آزاد کشمیر سے تعلق غالباً وہاں پر موجود کارکنوں کو متاثر کرگیا، اس لیے انھوں نے ملاقات کی اجازت کے لیے چٹ لکھ کر مولانا کو بھیج دی۔تھوڑی ہی دیر بعد ملاقات کا پیغام آگیا اور میں عملے کی رہنمائی میں مولانا مودودیؒ کے کمرے کی طرف چل پڑا۔

میں بہت خوش تھا کہ میری ایک عرصے کی تمنا پوری ہورہی ہے اور ساتھ ہی مولانا محترم کی شخصیت کا رعب و دبدبہ بھی میرے حواس پر حاوی تھا کہ عالم اسلام کی اتنی بڑی شخصیت سے میں بالمشافہ ملاقات کا شرف حاصل کررہا ہوں۔ ان ملے جلے جذبات کے ساتھ میں کمرے میں داخل ہوا۔ سامنے سفید براق لباس میں ملبوس ایک نورانی شخصیت کو پایا، جو میری طرف متوجہ تھی۔ میں نے بڑی ہمت کرکے ’السلام علیکم‘ کہا۔ جس کا مولانا محترم نے بڑی محبت کے ساتھ ’وعلیکم السلام‘ جواب دیا اور مجھے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ میں بیٹھ تو گیا لیکن میری زبان گنگ تھی۔ میں خاموش بیٹھا تھا کہ مولانانے حوصلہ افزائی کرتے ہوئے خود گفتگو کا آغاز کیا اور پوچھا: ’آپ کیا کرتے ہیں اور کہاں سے تعلق ہے؟‘میں نے جب کشمیر کا ذکر کیا تو مولانا نے نہایت شفقت سے وہاں کے حالات دریافت کیے۔ جو کچھ میں بیان کرسکتا تھا وہ عرض کیا۔ جوں ہی مَیں نے بات مکمل کی تو مولانا کہنے لگے کہ: ’کشمیر میں پاکستان کے مقابلے میں شعور اور خواندگی زیادہ ہے، وہاں جماعت اسلامی کا کام ہر سطح پر منظم کرنا چاہیے‘۔ اس وقت تک آزاد کشمیر میں جماعت اسلامی قائم نہیں ہوئی تھی، مگر جماعت اسلامی اور مولانا محترم کی شخصیت اور ان کے لٹریچر سے آزاد کشمیر کا  تعلیم یافتہ طبقہ اچھی طرح متعارف تھا ۔ میں نے مولانا محترم سے عرض کیا کہ: ’وہاں جماعت اسلامی کا نظم قائم کرنا چاہیے جس کا جواب انھوں نے یہ دیا کہ: ’پہلے کچھ لوگ جماعت اسلامی کی دعوت کو پوری طرح سمجھ لیں اور یہ کام کرنے کو تیار ہوں تو اس پر کچھ سوچا جاسکتا ہے‘۔

پھر انھوں نے میری تعلیم کے بارے میں دریافت کیا۔ جب میں نے انھیں اپنے حالات اور مزید تعلیم حاصل کرنے کے شوق کا ذکر کیا تو انھوں نے تحسین آمیز الفاظ کے ساتھ کہا: ’اگر آپ کا یہ شوق اور جذبہ اسی طرح جاری رہاتو اللہ کے فضل سے وہ دن ضرور آئے گا جب آپ کوئی نہ کوئی اعلیٰ مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی محنت کو ضائع نہیں کرے گا‘۔ آج میں پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو مجھے مولانا محترم کے یہ الفاظ الہامی لگتے ہیں۔ اس ملاقات کے بعد ایک صحافی کی حیثیت سے مولانا محترم کو کئی بار دیکھنے اور ان سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ ان کی پریس کانفرنسوں اور تقریروں کی رپورٹنگ کا بھی موقع ملا او ر مختلف اجتماعات میں ان کی تقریریں سننے کا تو متعدد بار شرف حاصل ہوا۔ ان کی پریس کانفرنسیں اور تقریریں، ان کی تحریروں کی طرح بہت ہی  دل نشین اور پر اثراور اردو ے معلّٰی کا اعلیٰ نمونہ ہوتیں۔اگر ان کوبراہ راست لکھ لیا جاتا تو ان میں کہیں ترمیم و اضافے کی قطعاً ضرورت محسوس نہ ہوتی۔وہی روانی، وہی سلاست اور وہی منطقی استدلال تقریر میں بھی موجزن ہوتا جو ان کی تحریر کا خاصہ تھا۔

 مجھے ان کے ہمراہ ناشتے پر ایک ملاقات اچھی طرح یاد ہے۔ یہ ۱۹۶۷ء ہی کی بات ہے۔ مولانا محترم کراچی کے دورے پر تھے اور بعدازاں جماعت اسلامی پاکستان کے مایہ ناز رہنما پروفیسر غفور احمد کے گھر پر قیام پذیر تھے۔ان دنوں پروفیسر صاحب ناظم آباد نمبر۳ میں رہایش پذیر تھے۔ وہیں پر مولانا کے ساتھ ناشتے میں مختلف شخصیات کو شامل ہونے کی دعوت دی گئی تھی۔ مجھے روزنامہ جنگ کے دفترمیں اس ناشتے کی اطلاع مل گئی تھی۔ حافظ محمد اسلام صاحب جنگ میں چیف رپورٹر تھے اورسیاسی جماعتوں کی رپورٹنگ کرنا ان کی ذمہ داری تھی۔ وہ تمام سیاسی و مذہبی حلقوں میں احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ مولانا محترم بھی ان کو اچھی طرح جانتے تھے۔میں اور دیگر صحافی حضرات مقررہ وقت پر پروفیسرصاحب کے گھر پہنچ گئے۔ پروفیسر صاحب نے مولانا سے ناشتہ شروع کرنے کی درخواست کی، مگر مولانا نے یہ ذومعنی جملہ ادا کرکے سب کو حیران کردیا کہ: ’جب تک اسلام نہیں آئے گا میں ناشتہ نہیں کروں گا‘۔ اصل بات یہ تھی کہ حافظ محمد اسلام ابھی تک نہیں پہنچے تھے۔ تھوڑی دیر میں حافظ محمداسلام مسکراتے ہوئے داخل ہوئے اور دیر سے آنے کی معذرت کی، چنانچہ ان کے آتے ہی ناشتہ لگادیا گیا اور سب نے اس عبقری شخصیت کے ساتھ ناشتہ تناول کیا جس کے دوران ہلکی پھلکی خوش گوار بات چیت کا سلسلہ بھی جاری رہا۔

اس موقعے پر مجھے مولانا محترم سے ایک اور ملاقات بھی یاد آرہی ہے جو اسلامک ریسرچ اکیڈمی (ادارہ معارف اسلامی) کراچی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر ہوئی تھی۔ یہ بھی۱۹۶۸ء، ۱۹۶۹ء کی بات ہے۔ اُس وقت ادارہ معارف اسلامی کا دفتر ناظم آباد نمبر۱، کراچی میں عزیزیہ مسجد کے نزدیک تھا۔ مولانا اس اکیڈمی کے سربراہ تھے۔ سالانہ اجلاس صبح سے جاری تھا۔ میں اپنے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ پڑوس ہی میں قیام پذیر تھا۔ میرے دوسرے ساتھیوں میں ممتاز احمد اس لحاظ سے واقعی ممتاز تھے کہ وہ بھی اکیڈمی کے فیلوز میں شامل تھے۔ ان کے علاوہ پروفیسر خورشیداحمد،     ممتاز صحافی مصباح الاسلام فاروقی، ڈاکٹر نثار احمد، سید معروف شاہ شیرازی،سید منور حسن اکیڈمی کے ذمہ دار اور ریسرچ اسکالرتھے۔

مسجد عزیزیہ میں نماز ظہر ادا کی گئی، جس کی امامت مولانا نے کی۔ کھانے کا اہتمام اکیڈمی کے اندر تھا۔ پکوان میں مولانا کی پسند کا خیال رکھا گیا تھا، کچھ ہی دیر میں کھانا لگادیا گیا ۔ برنس روڈ کے وحید ہوٹل کے گولا کباب خاص طور پر منگوانے کے لیے ایک صاحب کو بھیجا گیا تھا جو ابھی تک پہنچے نہیں تھے۔ کافی انتظار کیا گیا مگر ان کے آنے میں تاخیر ہوگئی تو مولانا کی اجازت سے کھانا لگادیا گیا۔ جب مولانا کھانا تناول کرچکے تو کباب بھی آگئے۔ مولانا سے درخواست کی گئی کہ ان کی پسندکے کباب آچکے ہیں، مگر مولانا نے معذرت کر لی اور کہا: ’میں ایک بار جب کھانا کھالوں تو اس کے بعد اگر سونے کا نوالہ بھی آجائے تو کبھی نہیں کھاتا، میرے کھانے کے یہ اصول ہیں جن کی کبھی خلاف ورزی نہیں کرتا‘۔ وہاں موجود ہر شخص نے مولانا کے ان الفاظ کی اہمیت کو تسلیم کیا۔ اس اجلاس میں ملک کے ممتاز ڈینٹل سرجن ڈاکٹر الٰہی علوی بھی موجود تھے، جو مولانا محترم کے دہلی کے زمانے سے دوست اور اکیڈمی کی مجلس عاملہ کے رکن بھی تھے۔

  •  مولانا مودودی کا انتقال: سید مودودی کا انتقال ۲۲ ستمبر ۱۹۷۹ء کو امریکا کے شہر بفیلو میں ہوا، جہاں وہ علاج کی غرض سے اپنے بیٹے ڈاکٹر احمد فاروق کے ہاں گئے ہوئے تھے۔ ان کے انتقال کی خبر جنگل کی آگ کی طرح دنیا بھر میں پھیل گئی۔ان کے لاکھوں عقیدت مندوں نے یہ خبر بڑے صدمے کے ساتھ سنی۔ریڈیو اور ٹی وی کی خصوصی نشریات پیش کی گئیں۔جن میں مولانا مرحوم کی زندگی اور ان کی خدمات اور علمی کارناموں پر روشنی ڈالی گئی۔روزنامہ جنگ میں  ان کے انتقال اور تدفین کی خبر رپورٹ کرنے کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی۔

 سید مودودی کا جسد خاکی ۲۵ ستمبر کی صبح نیویارک سے لندن ہوتا ہوا ، پی آئی اے کی پرواز سے کراچی لایا گیا، جہاں ایئر پورٹ کے سامنے کھلے میدان میں ان کی نماز جنازہ کا اہتمام کیا گیاتھا۔ بعد ازاں ان کی میت کو طیارے کے ذریعے لاہور لے جایا گیا ۔ میں دوسری پرواز سے لاہور پہنچا۔ لاہور میں قذافی اسٹیڈیم میں ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔میں نے ائیرپورٹ سے قذافی اسٹیڈیم جاتے ہوئے پورے لاہور کو سوگوار دیکھا،واقعی احساس ہورہا تھا کہ عالِم کی موت عالَم کی موت ہوتی ہے۔ لوگ بسوں ، ویگنوں ، کاروں ، ٹیکسیوں ،موٹر سائیکلوں ، تانگوں کے ذریعے اور پیدل قذافی اسٹیڈیم کی طرف رواں دواں تھے۔جہاں مولانا محترم کی نماز جنازہ ادا ہونا تھی۔ قذافی اسٹیڈیم میں عوام کا جمِ غفیر نماز جنازہ کے لیے امڈا چلا آرہا تھا۔ ایک جانب لوگ میلوں قطار میں بڑے منظم انداز میں عالم اسلام کے اس عظیم مفکر کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہے تھے۔ بڑا ہی دل خراش منظر تھا! جنازے کے بعد جسد خاکی کو ان کی رہایش گاہ ، لاہور کے علاقے ۵- اے ذیلدارپارک اچھرہ لایا گیا۔ میں تدفین کے مقام تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ بڑے ہی رقت آمیز مناظر تھے۔وہاں موجود تمام افراد افسردہ تھے اور ان کے چہرے آنسوئوں سے تر تھے۔ میں مولانا کی تدفین کے بعددل شکستہ اسی رات ہی واپس کراچی پہنچا۔ ائیرپورٹ سے سیدھا دفتر آیا اور مولانا کی تدفین کی خبر اور تفصیل لکھی، جو میری افسردگی، شدید ذہنی اضطراب اور   رنج و غم کی عکاس تھی۔

  •  الطاف گوھر اور تفھیم القرآن: صدر جنرل آغا محمد یحییٰ خان کے دور حکومت (مارچ ۱۹۶۹ء- دسمبر ۱۹۷۱ء) میں بیورو کریسی سے تعلق رکھنے والے ۳۱۳اعلیٰ سرکاری ملازمین کو فارغ کیا گیا، جن میں الطاف گوہر بھی شامل تھے۔ جب سقوطِ ڈھاکہ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو برسراقتدار آئے توالطاف گوہر کراچی کے ممتاز انگریزی اخبار ڈان (Dawn)کے ایڈیٹر تھے۔     وہ اپنے اداریوں میں بھٹو حکومت کی پالیسیوں پر منفرد انداز میں تنقید کرتے تھے، جس پر بھٹو صاحب تلملاکر رہ جاتے تھے۔ مگر بعد میں معلوم ہوا کہ انھیں الطاف گوہر سے اور بھی شکوے تھے، جو ان کے خلاف مقدمے کی سماعت کے دوران منظر عام پر آئے ۔ چنانچہ بھٹو صاحب نے اقتدار میں آنے کے کچھ عرصے بعد الطاف گوہر کو گرفتار کرنے کا حکم دیا۔ذوالفقار علی بھٹو ویسے تو ایک بڑی سیاسی پارٹی، یعنی پیپلزپارٹی کے چیئرمین، جمہوریت کے علَم بردار اور آج کی اصطلاح میں ایک ’روشن خیال‘  لیڈر تھے، مگر بنیادی طور پر وہ جاگیردارانہ ذہنیت کے نمایندے بھی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے دورِحکومت میں ملک میں جمہوریت پنپ نہیں سکی اور ایسے تمام جمہوری عناصر کو چُن چُن کر جیلوں میں ٹھونس دیا گیا جن کے بارے میں بھٹو صاحب سمجھتے تھے کہ وہ ان کے مخالف ہیں۔ چنانچہ الطاف گوہر کی گرفتاری کے لیے بڑا ہی بھونڈا جواز پیدا کیا گیا۔ اس وقت سیکرٹری داخلہ حکومت سندھ نے ان کے ڈیفنس میں واقع بنگلے میں شراب کی بوتلیں رکھواکر اس الزام میں انھیں گرفتار کرلیا ۔ چنانچہ انھیں جیل بھیج دیا گیا، جہاں انھیں ایک تنگ و تاریک کمرے میں تنہا رکھا گیا۔ ان کی اس طرح نظر بندی کو کراچی ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا اور اس طرح ان کی ہائی کورٹ میں پیشی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔

میں اس وقت ہائی کورٹ میں اہم مقدمات کی رپورٹنگ کرتاتھا۔ میرا معمول تھا کہ صبح۹بجے کورٹ پہنچ جاتا اورجو بھی اہم نظربند رہنما پیشی کے لیے لایا جاتا، اس سے ملاقات بھی کرتا اور جیل میں پیش آنے والے واقعات معلوم کرنے کے ساتھ اہم مقدمات کی رپورٹنگ بھی کرتا۔ الطاف گوہر صاحب کی پیشی شروع ہوئی تو ان سے بھی ملاقاتیں شروع ہوگئیں۔ اس موقع پر ان کے اہل خانہ ، بھائی تجمل حسین اور بیٹے ہمایوں گوہر بھی روزانہ عدالت آتے تھے۔

الطاف گوہر بتایا کرتے کہ جیل میں ان کو کس طرح قید تنہائی میں رکھا گیا۔ کمرہ بہت چھوٹا تھا اورکسی طرح کی کوئی سہولت موجود نہیں تھی، جو الطاف گوہر جیسی بڑی شخصیت کے لیے بڑی تکلیف دہ بات تھی۔ اسی دوران ایک موقع پر انھوں نے بیان کیا کہ ساتھ والی کوٹھری سے ایک بار انھیں رات کے آخری پہر تلاوت قرآن پاک کی آوازیں آنا شروع ہوئیں۔ کھانا لانے والے مشقتی سے ایک چٹھی کے ذریعے انھوں نے معلوم کرایا تو پتا چلا کہ یہ آواز کراچی کے مشہور تاجراور سماجی شخصیت نقی نواب کی ہے جو روزانہ قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہیں۔ ان کو بھی بھٹو حکومت کے حکم پر کال کوٹھری میں رکھا گیا ہے۔ الطاف گوہر نے اسی مشقتی کے ذریعے ان سے قرآن مجید منگوایا، کیونکہ ان کے پاس پڑھنے کے لیے قرآن مجید تو کیا کوئی بھی دوسری کتاب موجود نہیں تھی۔ نقی نواب صاحب نے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی قرآن پاک کی مشہور تفسیر تفہیم القرآن کی پہلی جلد بھجوادی، جسے انھوں نے دو تین دن ہی میں پڑھ لیا۔الطاف گوہر کو اس کے مطالعے میں اتنا مزہ آیا کہ باری باری دوسری تیسری اور پھر پوری پانچ جلدیں مختصر عرصے میں ختم کرلیں (اس وقت تک چھٹی جِلد شائع نہیں ہوئی تھی)۔اس تفسیر کے ذریعے وہ پہلی بار مولانا مودودی کے علمی مرتبے سے آگاہ ہوئے ۔ الطاف صاحب کہتے تھے کہ مولانا محترم نے اس تفسیر میں دینی علوم اور مسائل کو جس طرح عام فہم اورآسان اردو زبان میں بیان کیا ہے، اس کی کسی دوسری تفسیر میں مثال نہیں ملتی۔ وہ خاص طور پر اس کے ’مقدمہ‘ کی بڑی تعریف کرتے اور کہتے تھے کہ: ’میرے نزدیک یہ مولانا محترم کی شاہکار تحریر ہے‘ ۔ ایک موقع پر انھوں نے کہا: ’میں نے اس مقدمے کو بار بار پڑھا مگر پھر بھی سیری نہیں ہوئی۔ یہ اُردو ادب کا شہ پارہ ہے جس کا اگر دنیا کی مختلف زبانوں کے بہترین نثر پاروں سے مقابلہ کیا جائے تو یہ مقدمہ ان میں اعلیٰ ترین مقام حاصل کر سکتا ہے‘۔ وہ مولانا مودودی کی تفہیم القرآن میں اُردو زبان کی تحریر کو اردو معلیٰ کا نام دیتے تھے۔

میں ان کی باتیں بڑے غور سے سنتا رہا کہ ایک دن اچانک میرے ذہن میں یہ تجویز آئی کہ کیوں نہ میں الطاف گوہر صاحب کوا س بات پر آمادہ کروں کہ وہ تفہیم القرآن کا انگریزی زبان میں ترجمہ کریں۔ ایک پیشی پر جب وہ عدالت آئے تو میں نے ان سے گزارش کی کہ:  ’آپ نے تفہیم القرآن کو ایک نہیں کئی بار پڑھا ہے۔ آپ اس کی تعریف بھی کرتے ہیں کہ یہ تفسیر اپنی تشریحات اور معلومات کے علاوہ اردو نثر نگاری کا بھی عمدہ نمونہ ہے۔ اس لیے آپ جیسا انگریزی کا بڑا ادیب اگر اس کا انگریزی میں ترجمہ کردے تو اس تفسیر سے انگریزی داں طبقہ بھی استفادہ کرسکے گا۔ اور آپ کا یہ کارنامہ نہ صرف یاد رکھا جائے گا بلکہ صدقہ جاریہ بھی ثابت ہوگا‘۔ انھوں نے میری بات خاموشی سے سن لی تاہم کوئی ردعمل ظاہرنہ کیا۔

 میں نے اگلی پیشی پر اپنی اس درخواست کا اصرار جاری رکھا۔ بالآخر ایک موقع پر انھوں نے کہا کہ: ’عارف میاں، میں تو یہ کام کرنے کو تیار ہوں، لیکن مولانا سے اجازت کیسے حاصل ہوگی اور کون لے کر دے گا۔ ہوسکتا ہے کہ مولانا مجھے پسند نہ کرتے ہوں اور اجازت نہ دیں ،کیوں کہ میں حکومت کے اعلیٰ عہدوں اور صدر ایوب خان کا سیکریٹری اطلاعات رہا ہوں، جنھوں نے مولانا کے ساتھ سخت رویہ اختیار کیے رکھا تھا‘۔میں نے ان کو تجویز پیش کی کہ آپ کچھ پسندیدہ حصوں کا ترجمہ کرکے مجھے دے دیں۔ میں اگرچہ ایک معمولی اخبار نویس اور ان کا قدردان ہوں، مگر ان شاء اللہ مولانا سے اجازت حاصل کرلوں گا۔ اس بات چیت کے بعد ان کو کافی عرصے تک عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔ اور میں اس موضوع پر ان سے مزید بات نہ کر سکا۔ لیکن پھرحکومت نے عدالتی حکم پر یا از خود ان کو اچانک رہا کرنے کا فیصلہ کردیا۔

مجھے الطاف گوہر کے جیل سے رہا ہونے کے وقت کی اطلاع مل گئی تھی، اس لیے میں ان کے استقبال اور رپورٹنگ کے لیے جیل کے گیٹ پر پہنچ گیا۔ جہاں ان کے اہلِ خانہ اور دیگر احباب بھی بڑی تعداد میں موجود تھے۔ جب وہ رہا ہوئے تو میں نے ان کا استقبال کیا۔ انھوں نے مجھے گلے لگاتے ہوئے میرے کان میں آہستہ سے کہا: ’مبارک ہو، اجازت مل گئی ہے‘۔ میرے پوچھنے پر صرف میجر جنرل (ریٹائرڈ) شیر علی خاں کا نام لیا اور پھر مجھ سے جدا ہوگئے۔ میں ان کے اس ایک جملے سے پوری بات سمجھ گیا کہ وہ تفہیم القرآن کے انگریزی ترجمے کی بات کررہے تھے کہ ان کو مولانا محترم نے ترجمے کی اجازت دے دی تھی۔ بعد میں پتا چلاکہ یہ اجازت والا کام جنرل شیر علی خان کے ذریعے ہوا تھا، جو ان کے ساتھ ہی سنٹرل جیل کراچی میں نظر بند تھے اور رہا ہونے والے تھے۔جنرل شیر علی ریاست پٹودی کے نواب خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور بڑے نستعلیق انسان تھے۔ وہ جنرل یحییٰ خان کی مرکزی کابینہ میں وزیر اطلاعات و نشریات بھی رہے تھے۔ دین اسلام سے گہری وابستگی کے سبب وہ سیکولر صحافیوں کے نشانے پر رہے۔

الطاف گوہر صاحب نے تفہیم القرآن کے منتخب حصوں کا ترجمہ کرکے جنرل صاحب کو دے دیا کہ وہ رہا ہونے پر لاہور جائیں تومولانا محترم کو پیش کریں اور پھر ان سے باقاعدہ اجازت لے لیں۔ جنرل شیر علی نے رہائی کے بعد لاہور میں مولانا کو وہ ترجمہ دکھایا اور مولانا نے بخوشی اجازت دی اور کہا کہ: ’الطاف گوہر صاحب کو میر اسلام کہیں‘ اور ان کی رہائی کے بعد لاہور آنے کی دعوت دی۔ میں نے دفتر آکر دو خبریں فائل کیں۔ ایک یہ کہ الطاف گوہر کو رہا کردیا گیا اور دوسری یہ کہ الطاف گوہر مولانا مودودی کی تفسیر تفہیم القرآن کا انگریزی میں ترجمہ کریں گے۔ روزنامہ جنگ میں یہ دونوں خبریں نمایاں طور پر شائع ہوئیں اور دوسرے دن الطاف گوہرکے گھر پر جماعت اسلامی کے متعدد کارکن خوشی سے جمع ہوکر ان کو مبارک باد دینے پہنچ گئے۔ وہ اپنی اس پذیرائی پر جہاں خوش ہوئے، وہیں پریشان بھی تھے۔ انھوں نے اسی دن شام مجھے فون کر کے کہا کہ: عارف میاں، آپ نے جنگ اخبار میں خبر شائع کرکے میرے ساتھ بڑی زیادتی کی‘۔میں نے کہا کہ آپ درست کہہ رہے ہیںلیکن میں نے بھی خبر لگاکر کوئی غلط کام نہیں کیا۔ میں اصل میں یہ چاہتا تھا کہ یہ بات ریکارڈ پر آجائے اور میں آپ کو تفہیم القرآن کے ترجمے کے احسن کام کے وعدے پر مستحکم رکھوں۔ جس پر وہ مطمئن ہوگئے۔رہائی کے بعد انھوں نے پھر سے روزنامہ ڈان کے ایڈیٹر کی ذمہ داریاں سنبھال لیں اور تفہیم القرآن کے منتخب حصوں کا ترجمہ اقساط میں ڈان  میں شائع کرنا شروع کردیا۔

 کچھ عرصے کے بعد الطاف گوہر صاحب کراچی سے لندن چلے گئے اور پھر ان کا وہاں برسوں قیام رہا۔ وہ تفہیم القرآن کا مکمل ترجمہ تونہ کرسکے، البتہ ڈان کی ادارت کے زمانے میں بعض منتخب حصوںکا ترجمہ کیا، جو کتابی شکل میں Translations from The Quranکے عنوان سے موجود ہے۔ایک عرصے کے بعد کراچی میں پیپلز پارٹی کے رہنما نفیس صدیقی نے اپنی قیام گاہ پر ان کے اعزاز میں ظہرانے کا اہتمام کیا جس میں مجھے بھی شرکت کی دعوت ملی۔ میں جب نفیس صاحب کے گھر پہنچا تو الطاف صاحب مجھ سے بڑی محبت سے ملے۔ میں نے انھیں تفہیم القرآن کے ترجمے کی بات یاد دلائی تو ان کا کہنا تھا کہ ’آپ نے ٹھیک کہا تھا کہ رہائی کے بعد دوسری مصروفیتیں مجھے یہ کام نہیں کرنے دیں گی۔ اس لیے خبر شائع کر کے آپ نے مجھے اپنے فیصلے پر  قائم رہنے کاپابند کیا تھا۔ لیکن مجھے افسوس ہے کہ اس اہم قومی و دینی فریضے کی انجام دہی میں  حسب ِپروگرام کامیابی نہ ہو سکی‘۔ تاہم مولانا سے ان کی محبت و عقیدت ہمیشہ قائم رہی ۔

 عرصے بعد مولانا سید ابواعلیٰ مودودی کا انتقال ہوا اور مرحوم کا جسد خاکی امریکا سے لندن پہنچ رہا تھا جہاں نماز جنازہ ادا کی جانی تھی۔ مولانا مودودی کے عقیدت مند برطانیہ کے مختلف شہروں سے ایئر پورٹ پہنچ رہے تھے۔ الطاف گوہر بھی ایک ٹیکسی میں لندن ایئر پورٹ کے لیے روانہ ہوئے۔

 الطاف گوہر نے ۲۴ ستمبر ۱۹۷۹ء کی شب بی بی سی سے مولانا مودودی کے جنازے میں شرکت کے اپنے سفرکا ذکر کیا۔ ان کی گفتگو علم و دانش کا مرقع اور خوب صورت طرز ادایگی کا امتزاج نظر آتی ہے، جس میں پاکستان میں دین اور سیاست کی ہم آہنگی اور اس ضمن میں پیدا ہونے والے باہمی اختلافات اور مولانا سے ان کی عقیدت کا اظہار ہوتا ہے۔

الطاف گوہرنے مولانا کو خراج عقیدت ان الفاظ میں پیش کیا: ’’مولانا مودودی کے انتقال کی اطلاع ۲۳ ستمبر کی رات کو مل گئی تھی۔۲۴ ستمبر کی صبح ان کی میت نیویارک سے لندن پہنچی۔ میں غم زدگی کی حالت میں ہیتھرو کے ہوائی اڈے پر گیا۔ مجھے بتایا گیا کہ نماز جنازہ کا اہتمام اس جگہ کیا گیا ہے جہاں جہازوں کی کھیپ رکھی جاتی ہے۔ لندن کے ٹیکسی ڈرائیوروں میں اب بھی کوئی شُستہ مزاج شخص مل جاتا ہے۔ جس ٹیکسی میں میرے بھائی اور میں بیٹھے اس کا ڈرائیور ہماری پریشانی کو بھانپ گیا اور یہ سن کر کہ ہمیں ایک نماز جنازہ میں شرکت کے لیے جانا ہے، وہ بڑی تیزی کے ساتھ منزل کی طرف روانہ ہوا، مگر جب تک ہم پہنچے تو پتا چلا کہ پہلی نماز جنازہ ادا ہوچکی ہے۔ ہم دوسری نماز جنازہ میں شامل ہوئے۔ سامنے لکڑی کا صندوق رکھا تھا، جس پر گلاب کے پھولوں کی چادر تھی۔ پیتل کے کنڈے مضبوطی سے بند تھے اور تابوت کے کنارے پر لکھا تھا:سرہانہ۔ مولانا کا دمکتا ہوا چہرہ میرے سامنے آگیا۔ وہی ملاحت، وہی شفقت، وہی مسکنت، وہی فضیلت۔

’’مولانا سے میری آخری ملاقات اس سال [۱۹۷۹ء] لندن میں ہوئی۔ وہ علاج کے لیے امریکا جارہے تھے۔ قیام گاہ پر معتقدین کا جمگھٹا لگا ہوا تھا۔ اس شام مولانا کی طبیعت قدرے بہتر تھی۔ انھوں نے مجھے رات کے کھانے کے لیے روک لیا۔ مولانا کی باتوں سے مجھے یوں لگا جیسے وہ ملک کے حالات سے نامطمئن اور ایک حد تک مایوس ہوچکے ہوں۔ کھانے کے بعد مولانا نے اللہ حافظ کہا اور آہستہ آہستہ قدم اٹھا کر اپنی خواب گاہ کی طرف چلے گئے۔ مولانا نے زندگی بھر دین کو سیاست سے جدا نہ کیا۔ تحریک خلافت اور تحریک ہجرت میں شامل ہوئے اور عمر بھر نوآبادیاتی نظام اور اشتراکی فکر و نظر کی مخالفت کرتے رہے۔۱۹۴۱ء میں مولانا نے جماعت اسلامی قائم کی اور ۳۰برس تک وہ جماعت کے امیر رہے۔ یہی ۳۰برس ان کی تخلیقی زندگی کی معراج تھے۔ پابند سلاسل رہے، زینت زنداں بنے اور۱۹۵۳ء میں معاملہ دار ورسن تک جاپہنچامگر اللہ کو ان کی زندگی    منظور تھی۔اسی زمانے میں مولانا نے قرآن کریم کا ترجمہ اور تفسیر مکمل کی جو چھے جلدوں میں تفہیم القرآن کے عنوان سے شائع ہوئی۔

’’پاکستان میں .... بہت سے دوست احباب جو مولانا کی فکری اور ذہنی صلاحیتوں کے معترف تھے، ان کی سیاسی فکر سے متفق نہ تھے.... مولانا سے میری عقیدت اور تعلق علمی سطح تک محدود تھا۔ ان کی جماعت کی سیاست سے میرا کوئی واسطہ نہیں رہا۔ اس لیے میں مولانا کی زندگی کے اس اختلافی پہلو پر آزادی سے بات کرسکتا ہوں۔ ہرمعاشرے میں دائرہ اثر اور دائرہ اقتدار میں ٹکرائو رہتا ہے۔ خود مولانا نے اپنی کتاب خلافت و ملوکیتمیں اسی ٹکرائو اور ستیزہ کاری کی وضاحت کی ہے۔ ایک عالم کی شخصیت جب تک دائرہ اثر تک محدود رہتی ہے، اس کی تحریر و تقریر کو ایک  معیار پر پرکھا جاتا ہے اور جوں ہی وہ دائرہ اثر سے نکل کر دائرہ اختیار یا اقتدار کی طرف بڑھتا ہے تو اس کے افعال اور کردار کے جانچنے اور پرکھنے کا معیار بدل جاتا ہے۔ سیاستدان مسند اقتدار تک پہنچنے کے لیے بہت سے مراحل سے باآسانی گزر جاتے ہیں۔ یہی مراحل ایک بااصول عالم کے لیے انتہائی ذہنی کش مکش کا باعث بن جاتے ہیں۔وہ اصول پر اڑتا ہے تو اقتدار سے کھسکتا ہے اور اصول سے کھسکتا ہے تو تضاد کا شکار ہوجاتا ہے۔ نظری اور بنیادی اصولوں کی تشریح اور تفسیر ایک بات ہے، اور حالات پر اطلاق الگ بات ہے۔ مفسر عملی سیاست میں شمولیت اختیار کرتا ہے تو اسے حالات سے نبرد آزمائی اور بالآخر مفاہمت کرنا پڑتی ہے۔ یہ سودا اسے ہمیشہ مہنگا پڑتا ہے۔

’’مولانا کو یقین تھا کہ لوگ ایک دفعہ قرآن تک پہنچ جائیں تو ان کی زندگی کی اُلجھنیں دور ہوجائیں گی۔ روحِ قرآن کیا ہے؟ خداوند عالم کی فرماںروائی، وہ سارے جہاں کا مالک، معبود اور حاکم ہے۔ انسان کی زندگی ایک امتحان ہے اور اس امتحان میں کامیابی کے لیے خداوند کریم کی ہدایت پر عمل لازم ہے اور جوں ہی یہ معاشرہ عادلانہ اصولِ اخلاق سے منحرف ہوتا ہے تو یہ زمین ظلم سے بھرجاتی ہے۔ قرآن کا مرکزی موضوع انسان ہے اور اس کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ انسان نے ظاہر بینی قیاس آرائی یا خواہش کی غلامی کے سبب جو نظریات بنالیے ہیں وہ اس کے لیے تباہ کن ہیں۔ قرآن کا مدعا اس ہدایت کی دعوت دینا ہے جسے انسان کھوچکا ہے۔ تفہیم القرآن کی چھے جلدیں قرآن کے اس موضوع ، مضمون اور مدعا کی تشریح ہیں۔

’’قرآن پڑھنے کی سعادت مجھے اس زمانے میں نصیب ہوئی، جب کسی اور کتاب تک میری دسترس نہ تھی۔ میری یہ مجبوری، میرے لیے ایک نعمت بن گئی۔ ہر مسلمان قرآن کی روح تک پہنچنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ اس کوشش میں تفہیم القرآن نے میری بڑی رہنمائی کی۔ تفہیم کیاہے، علم کا سرچشمہ ہے۔ مولانا کو احساس تھا کہ قرآن کے لفظی ترجمے کو پڑھتے وقت پہلی چیز جو محسوس ہوتی ہے وہ روانیِ عبارت، زورِ بیان، بلاغت ِزبان اور تاثیرِ کلام کا فقدان ہے۔ قرآن کی سطروں کے نیچے آدمی کو ایک ایسی بے جان عبارت ملتی ہے، جسے پڑھ کر نہ اس کی روح وجد میں آتی ہے، نہ اس کے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں، نہ اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے ہیں اور نہ  اس کے جذبات میں کوئی طوفان برپا ہوتا ہے۔ حالانکہ قرآن کی تاثیر میں اس کی پاکیزہ تعلیم اور اس کے عالی قدر مضامین کا جتنا حصہ ہے، اس کے ادب کا حصہ بھی اس سے کچھ کم نہیں ہے۔ یہی تو وہ چیز ہے جو سنگ دل آدمی کا بھی دل پگھلادیتی تھی اور جس نے بجلی کے کڑکے کی طرح عرب کی ساری زمین ہلادی تھی۔

’’مولانا نے تفہیم القرآن میں قرآن کا جو اردو ترجمہ کیا ہے، اس میں سادگی بھی ہے اور گداز بھی۔ ایک ایک لفظ نگینے کی طرح جڑا ہوا ہے۔ ایک ایک آیت جذبے میں ڈوبے ہوئے جملوں میں ڈھلتی چلی جاتی ہے۔ سورۃ الزخرف کی آخری آیات میں ہے: ’’وہی ایک آسمان میں بھی خدا ہے اور زمین میں بھی خدا ہے اور وہی حکیم اور علیم ہے۔ بہت برتر اور بالا ہے جس کے قبضے میں زمین اور آسمانوں اور اس چیز کی بادشاہی ہے جو زمین اور آسمان کے درمیان پائی جاتی ہیںاور وہی قیامت کی گھڑی کا علم رکھتا ہے اور اسی کی طرف تم سب پلٹائے جانے والے ہو‘‘۔ قرآن کریم کا مترجم، تفہیم القرآن کا مصنف اپنے رب کی طرف پلٹ گیا۔ اس کا جسد خاکی کاٹھ کے صندوق میں بند سمندروں، صحرائوں، پہاڑوں اور بستیوں پر پرواز کرتا ہوا ساری دنیا کو الوداع کہتا ہوا اپنے وطن کی مٹی کی طرف لوٹ گیا۔

ٹیکسی ڈرائیور ہمیں واپس لندن لے جارہا تھا۔ سڑکوں پر زندگی رواں دواں تھی۔ دھوپ میں ڈوبے ہوئے در و دیوار پر نظر پڑتی تو لاہور کی یاد تمتما اُٹھتی۔ ڈرائیور نے پوچھا:کوئی جواں سال تھا؟ ’نہیں، جواں فکر تھا‘۔ اس نے مڑ کر میری طرف دیکھا اور پوچھا: ’آپ کا عزیز تھا؟‘ میں نے کہا: ’عزیزِ جہاں تھا‘‘۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون!


مضمون نگار پاکستان کے معروف صحافی ہیں اور امریکا میں مقیم ہیں

امریکادنیا بھر میں قانون کی حکمرانی اورانسانی حقوق کی پاس داری کے سلسلے میں عالمی کوتوال کا کردار اداکرتا رہا ہے لیکن اس کا اپنا دامن اُن تمام جرائم کے ارتکاب سے داغ دار ہے جن کے بارے میں  وہ دوسروں کو نہ صرف تنقید کا نشانہ بناتا ہے، بلکہ تادیبی اقدامات کا ہدف بنانے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ قول اور فعل میں تضاد امریکا کے کردار کا ایک ناقابلِ انکار اور بہت شرم ناک پہلو ہے۔ ۱۱ستمبر۲۰۰۱ء کے افسوس ناک واقعے کے ردعمل کے طور پر، لیکن دراصل اپنے عالمی عزائم کی تکمیل کے لیے،   اس نے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کا آغاز کیا جو ۱۲سال سے جاری ہے۔ اس کے نتیجے میں   بین الاقوامی قانون کا ہر اصول اور ہرضابطہ پامال ہورہا ہے اور انسانی حقوق کا جس بے دردی سے  خون کیا جا رہا ہے وہ انسانی تاریخ کا ایک شرم ناک باب ہے۔ پھر اس سلسلے کے حقائق پر پردہ ڈالنا بھی آزادیِ اظہار اور آزادیِ صحافت کے تمام دعوئوں کے باوجود سرکاری پالیسی کا حصہ رہا ہے۔ نیز آزادیِ صحافت کے دعوے دار میڈیا نے بھی اس سلسلے میں امریکی حکمرانوں کے طفیلی کا کردار ادا کیا ہے۔ اب حالات کچھ بدل رہے ہیں اور مختلف ذرائع سے جن میں وکی لیکس شامل ہے، سرکاری حقائق سامنے آرہے ہیں۔ ان کی روشنی میں دنیا اور اس کے عوام امریکی جمہوریت کا اصل چہرہ دیکھ سکتے ہیں۔

اس سلسلے میں ایک بڑی اہم رپورٹ وہ ہے جو امریکا کی کانگریس اور آزاد اداروں کی ایک نمایندہ ٹاسک فورس کی جانب سے حال ہی میں شائع ہوئی۔اس رپورٹ میں بہت سے ان حقائق سے پردہ اُٹھایا گیا ہے جو اَب تک آنکھوں سے اوجھل تھے اور اصلاحِ احوال کے لیے اس نے کچھ سفارشات بھی پیش کی ہیں۔ یہ رپورٹ دو سال کی تحقیق و تفتیش کے بعد پیش کی گئی ہے اور اس کی اشاعت کے بعد کسی بھی حلقے سے اس میں دیے ہوئے حقائق کے بارے میں کسی شک و شبہے کا اظہار نہیں کیا گیا۔ یہ امریکی جمہوریت کا وہ اصل چہرہ ہے جسے دنیا بھر کے انسانوں اور خصوصیت سے مسلم دنیا کے لوگوں کو ایک مدت سے سابقہ ہے اور امریکا سے بے زاری کے بنیادی اسباب میں امریکی حکمرانوں کی یہی روش ہے۔ امریکا کی قیادت کو خود اپنی ایک آئینی کمیٹی کی اس رپورٹ پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے اور دنیابھر میں امریکا بے زاری کی لہر پر دوسروں کو دوش دینے کے بجاے اپنی پالیسیوں اور اپنے رویوں پر نظرثانی کرنی چاہیے۔  ٹاسک فورس نے اس رپورٹ کی تیاری کے لیے افغانستان، عراق کے دورے کیے، گوانتاناموبے گئے، دوسرے کئی ممالک میں امریکا کے زیرانتظام جیل خانوں کا معائنہ کیا۔سرکاری غیرسرکاری ہرطرح کے ذرائع سے شواہد اور معلومات جمع کیں جو ۶۰ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کا خلاصہ ۶ہزار صفحات میں تیار ہوا۔ اس کی بنیاد پر سفارشارت تیار کی گئیں ۔ انگریزی متن سے ترجمہ کرتے ہوئے  بھی تلخیص کی گئی۔ یہ عالمی ترجمان القرآن کے قارئین کی خدمت میں پیش کررہے ہیں۔  اصل رپورٹ انٹرنیٹ (www.constitutionproject.org)پر دستیاب ہے۔ (مدیر)

امریکا میں قیدیوں سے روا رکھنے جانے والے سلوک کے بارے میں آئینی پراجیکٹ (Constitution Project) نامی ادارے کی ٹاسک فورس کی یہ رپورٹ دو برس کے عمیق مطالعے، تحقیقات اور غور و خوض کا نتیجہ ہے۔ اس منصوبے کے پیچھے یہ سوچ کارفرما تھی کہ دہشت گردی کے عالمی خطرے کے خلاف امریکی افواج نے جن لوگوں کو گرفتار اور قید کیا،ان کے ساتھ امریکی سلوک کے بارے میں درست اور مستندراے حاصل کی جائے۔ یہ طویل رپورٹ ایک ایسے ادارے کی تیار کردہ ہے جو مختلف آئینی مسائل کے حل کے لیے متفقہ رپورٹیں اور سفارشات مرتب کرتا ہے۔ اسے دونوںامریکی پارٹیوں کی نمایندہ اور خودمختارکمیٹیوں کی سرپرستی حاصل ہے۔ تاہم ضروری نہیں کہ آئینی پراجیکٹ کی ان رپورٹوں میں پیش کی گئی آرا، اخذ کیے گئے نتائج، بیانات اور دوسر ے لوازمے سے بورڈ آف ڈائریکٹرز یا بورڈ آف ایڈوائزرز کو اتفاق بھی ہو۔

’آئینی پراجیکٹ‘نامی اس تنظیم نے حکومتی کارروائی کی غیر موجودگی میںغیر جماعتی انداز اور قانون کی حکمرانی کے اصولوں پر کاربندہو کرمفادِ عامہ کے پیش نظر اس کام کا بیڑا اٹھا یا۔ اس مقصد کے لیے ایک ٹاسک فورس جمع کی گئی جس میں عدلیہ، کانگرس، سفارتی محاذ، قانون نافذ کرنے والے اداروں، فوج اور انتظامیہ کے اعلیٰ عہدوں پر کام کرنے کا تجربہ رکھنے والے سابقہ اہل کار شامل تھے۔ اس ٹاسک فورس کو قانون ، طب اور اخلاقیات کے شعبوں میں تسلیم شدہ ماہرین کا تعاون بھی حاصل تھا، تاکہ حراستی پالیسیوں کا سنجیدہ اور منصفانہ جائزہ لیا جا سکے کہ ان کی تشکیل اور نفاذ کیسے ہوا۔ٹاسک فورس میں قدامت پسند ڈیموکریٹ اور روشن خیال گردانے جانے والے ری پبلکنز شامل تھے، ایسے افراد جو قومی سلامتی کے معاملات کا تجربہ رکھتے اور اس کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور وہ جو یہ جانتے ہیں کہ حکومت کی پہنچ اور اتھارٹی کس مناسب حد تک قانون اور روایات کی پابند ہے۔اس کے ساتھ ٹاسک فورس کے اراکین میں مجموعی طور پر یہ آگاہی بہت گہرائی کے ساتھ موجود تھی کہ حکومتی فیصلے کیسے کیے جاتے ہیں۔

اگرچہ رپورٹ میں درج کارروائیاں صدر کلنٹن سے باراک اوباما تک تین مختلف حکومتی ادوار پر محیط ہیں، لیکن ٹاسک فورس کے زیر مطالعہ اکثر سرگرمیاں صدر بش کے دور سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ ناگزیر بھی تھا کیوں کہ بش انتطامیہ کے دور میں۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کو امریکی سرزمین پر خوفناک حملے ہوئے اور اسے فوری اور فیصلہ کن ردعمل کا بوجھ سہارنا پڑا۔

فلپ ڈی۔ زیلیکو جو ورجینیا یونیورسٹی کے تاریخ دان ہیں، بش انتظامیہ کے دور میں اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے مشیر اور نائن الیون کمیشن کے ایگزیکٹو ڈائرکٹررہے ہیں، کہتے ہیں کہ مجموعی قومی صدمے کے بعد، ’’سرکاری اہل کاروں نے وہ سب کچھ کیا جس کے بارے میں وہ سوچ سکتے تھے، بے وقوفوں کی طرح ہاتھ پائوں مارے، کئی غلطیاں کیںاورکچھ چیزیں درست کر لیں‘‘۔

اس بات پر کسی کو اختلاف نہیں کہ امریکا ظلم وتشدد کے واقعات میں ملوث رہا ہے اور شاید یہ اس پینل کی سب سے اہم دریافت ہے جس کے بارے میں پینل کو کوئی تحفظ ہے نہ اس نے کوئی تاثراتی سوچ ہی قائم کی ہے۔ ٹاسک فورس کے کسی بھی رکن نے اس بنیاد پر نتائج اخذ نہیں کیے کہ (قیدیوں سے سلوک)کا یہ طریقہ ’’مجھے تشددجیسا لگا‘‘ یا ’’میں اسے تشدد سمجھتا ہوں‘‘، بلکہ تفصیلی اور عمیق تجزیے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ یہ سلوک مختلف پہلوئوں، خصوصاً تاریخی اور قانونی تناظر میں تشدد ہی تھا ۔ٹاسک فورس نے متعددعدالتی مقدموں کا تجزیہ کیا جن میں یہ خیال تھا کہ ملک کے اند اور باہر قیدیوں پر تشدد ہوا ہے اورجن واقعات پر خود امریکا نے دوسری حکومتوں پر تشدد کے الزامات عائد کیے تھے۔ امریکا کے لیے یہ مناسب نہ تھاکہ وہ دوسری قوموں پر تشدد میں ملوث ہونے کا الزام لگائے اور خود کو اس سے بری الذمہ قرار دے لے، حالانکہ اس کے ہاں بھی قیدیوں سے اس جیسا نہ سہی، اس سے ملتا جلتا سلوک روا رکھا گیا ....

اعلیٰ ترین امریکی افسران بھی کسی حد تک تشدد کی اجازت دینے اور اس کے پھیلائو کے ذمہ دار ہیں، جو ہمارے خیال میں اس ٹاسک فورس کی دوسری اہم دریافت ہے اور اس کے ثبوت اور حوالے ہماری رپورٹ میں جا بجا ملیں گے۔ اس حوالے سے سب سے اہم شاید یہ اعلان تھا کہ جنگ کے زمانے میں انسانی حقوق کے تحفظ کے ضامن جنیوا کنونشن کا اطلاق افغانستان اور گوانتاناموبے میں موجود القاعدہ اور طالبان قیدیوں پر نہیں ہوتا اور حکومت نے یہ بتانے کی زحمت بھی نہیں کی کہ اس کے بجاے ان پر کون سے قوانین لاگو ہوں گے۔

ایک اور اہم پہلو صدر بش کی جانب سے سی آئی اے کے لیے چنیدہ قیدیوں پر سفاکانہ تکنیک کے استعمال کا اجازت نامہ تھا۔ سی آئی اے نے افغانستان میں کئی ایک مقامات پر اپنے ذاتی حراستی اور تفتیشی مراکز بھی قائم کیے ہوئے تھے، بلکہ تھائی لینڈ، پولینڈ، رومانیہ اور لتھوانیہ میں ’بلیک سائیٹس‘ کے نام سے خفیہ مراکز بھی قائم کر رکھے تھے، جہاں اہم ترین قیدیوں سے تفتیش کی جاتی تھی۔ ان سرکاری اقدامات اور بیانات کے نتائج اب واضح ہو چکے ہیں۔ بہت سارے نچلے درجے کے فوجیوںنے بتایا کہ انھوں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ زیر حراست قیدیوں کے ساتھ سلوک کے حوالے سے پابندیاںباقی نہیں رہیں۔ ۲۰۰۲ء کے اختتام تک افغانستان کے بگرام ائر بیس پر قیدیوں کو  نیند سے محروم کرنے کے لیے بیڑیاں ڈال کر چھت سے لٹکانا تفتیش کاروں کا معمول بن چکا تھا۔ بعد میں سیکریٹری دفاع ڈونالڈرمزفیلڈ نے گوانتاناموبے میں بھی ان تفتیشی حربوں کی اجازت دے دی جن میں قیدیوں کو نیند سے محروم کیا جانا، تکلیف دہ آسن میں رکھنا، عریانی، حسی محرومی اور قیدیوں کو کتوں کے ذریعے دھمکانے جیسی تکنیکیں شامل ہیں۔ ان میں سے اکثر حربے بعد میں عراق میں بھی استعمال کیے گئے۔

ہماری تحقیق وسیع معلومات، جائزوں اور واقعات پر مبنی ہے، جغرافیائی اعتبار سے زیادہ تر واقعات تین مقامات پر پیش آئے جو براعظم امریکا سے باہر تھے اور ان میں دو مقامات جنگی علاقے تھے۔ ٹاسک فورس کے کارکنان نے خودتینوں مقامات پر جا کر براہ راست حقائق معلوم کیے۔ ان مقامات میں افغانستان، عراق اور گوانتاناموبے( کیوبا) شامل ہیں۔ ٹاسک فورس کے ممبران معلومات کے حصول کے عمل میں براہ راست شامل رہے۔ وہ خودبیرون ملک گئے اور قیدیوں کو تفتیش کے لیے دوسرے ممالک میں رکھنے کے غیر معمولی امریکی پروگرام (US Extraordinary Rendition Programme)کے حوالے سے سابق قیدیوں اور غیر ملکی اہل کاروں سے ملاقات اور تفصیلی بات چیت کی۔ ایک غیر سرکاری تنظیم ہونے کے ناتے ٹاسک فورس کوگواہی طلب کرنے کا اختیار (Subpoena) اور خفیہ سرکاری معلومات (Classified Information)تک رسائی جیسی سہولیات حاصل نہیں تھیں، تاہم اس حوالے سے بے تحاشا معلومات پہلے سے منظر عام پر آچکی تھیں۔ ٹاسک فورس نے گذشتہ چند ماہ کے دوران درجنوں افراد کے انٹرویو لیے۔ ان میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگ واقعات کے بارے میں زیادہ کھل کر بولنے لگے ہیں۔ ہم نے اس موضوع پر بڑی تعداد میں ایسی حکومتی، اخباری میڈیا، خودمختار ادیبوں اور غیر سرکاری تنظیموں کی رپورٹوں کا جائزہ بھی لیا جو دوسروں سے زیادہ  قابلِ اعتماد تھیں۔ ٹاسک فورس نے بہیمانہ تشدد کے الزامات کے مبنی بر حق ہونے کو پایہ ثبوت تک پہنچانے کے لیے ہر ممکن حد تک تحقیق و تفتیش کی کوشش کی ہے۔ حراستی اور تفتیشی نظام کے بانیوں نے اس سلسلے میں طب اور قانون کے شعبوں سے مدد طلب کی جو انھیں دی گئی۔

 محکمہ انصاف کے وکلا جو قانونی رہنمائی فراہم کرتے ہیں، نائن الیون کے حملوں کے بعد قیدیوں سے بد سلوکی رواکرنے میں اتنا آگے بڑھ گئے کہ اس نے تشدد کی شکل اختیار کرلی۔ ان وکلا نے تشدد کی روک تھام کے قوانین اور معاہدوں کی من مانی تشریحات کیں اور اس میں ایسے کرتب دکھائے کہ قیدیوں سے بدسلوکی کو قانونی تحفظ حاصل ہو گیا۔ یہ وہ ابتدائی قانونی یادداشتیں تھیں جہاں سے قیدیوں پر تشدد کو راہ ملی، لیکن جب یہ عوام کے سامنے آئیں تو شدید تنقید کا ایک سیلاب امڈ آیا اور ان وکلا کے جانشینوں کو ان قانونی یادداشتوں کو تبدیل کرنا پڑا۔ چاہے ان ابتدائی یادداشتوں کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا گیا، لیکن وہ زبان، جس میں تشدد صرف کسی انسانی عضو کے بے کار ہو جانے کوٹھیرا یا گیا، امریکی تشخص پر ایک دھبے کے سوا کچھ نہیں۔ مزید برآں مستقبل میں یہ یادداشتیںجابر حکومتوں کے لیے اپنے ظالمانہ اقدامات کی منظوری کاجواز بھی بن سکتی ہیں....

ابتدائی برسوں میں حکومت کے دوسرے محکمے بش انتظامیہ کی بنائی گئی پالیسیوں پر بہت کم اثرانداز ہوئے۔ عدلیہ کی ساخت ایسی ہے کہ کسی بھی معاملے میں اس کی مداخلت بہت سوچی سمجھی ہوتی ہے۔ آئینی طور پر عدالت کسی بھی پالیسی پر اس وقت تک کوئی فیصلہ نہیںدے سکتی جب تک اس سے متعلق کوئی ’مقدمہ یا تنازعہ ‘ اس کے سامنے نہ لایا جائے اور تب وہ اس پر کوئی فیصلہ دے کر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ لہٰذا پہلے چند برسوں کے دوران انتظامیہ کے قیدیوں سے سلوک کے حوالے سے اقدامات پر عملی طور پر کوئی روک ٹوک نہیں تھی۔ صورت حال اس وقت تبدیل ہوئی جب امریکی حراستی پالیسیوں سے متعلق مقدمات عدالتوں میں پہنچنے شروع ہوئے۔ مٹھی بھر ججوں نے انتظامیہ کے اقدامات کے خلاف مزاحمت شروع کر دی اور آخر کار سپریم کورٹ کے فیصلے نے انتظامیہ کی حراستی پالیسیوں کے بنیادی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا۔ حکام نے عدلیہ کو کسی ممکنہ فیصلے سے روکنے کے لیے یہ دلیل دی کہ گوانتاناموبے امریکی قانونی حدود سے باہر ہے اور یہ کہ وہاں موجود قیدی عدالت کے سامنے پیشی کا حق (Habeas Corpus)نہیں رکھتے۔ سپریم کورٹ نے دونوں مفروضوں کو تسلیم نہ کیا، تاہم عدلیہ کے اختیارات کی حدود کے حوالے سے بہت جلدتنازعات سامنے آگئے۔

ایک اور واضح رجحان یہ ہے کہ بش انتظامیہ کی حراستی پالیسیوں کو کسی حد تک ہم دو ادوار میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ ابتدائی برسوں کی پیش قدمی کرنے کی جارحانہ سوچ۰۶۔۲۰۰۵ء میں تبدیل ہوئی۔ اس کی کئی ایک وجوہ ہیں، جن میں ممکنہ طور پرایک وجہ عدلیہ کی جانب سے ایک محدود سا ردعمل بھی ہے.... ۲۰۰۴ء میں عراق کی ابو غریب جیل میں قیدیوں پر ڈھائے گئے مظالم کا افشا اور اس کے نتیجے میں ملک کے اندر اور بیرون ملک اس کی مذمت اور امریکیوں میں پیدا ہونے والا احساس شرمندگی بھی اس کا ایک اہم پہلو تھا۔

اس تحقیق کے دوران یہ واضح تر ہوتا چلا گیا کہ ابو غریب کے بارے میں انکشافات کا پالیسی سازی پر بہت گہرا اثر ہوا۔ ان انکشافات کے حوالے سے عوامی نفرت کے اظہار نے کئی محاذوں پرکام کی سمت ہی تبدیل کرڈالی۔

ٹاسک فورس کے خیال میں پالیسیوں میں تبدیلی کا ایک اور موقع اس وقت ضائع کر دیا گیا جب عالمی ریڈ کراس کمیٹی میں ایک اعلیٰ سطحی مباحثے کی ابتدا ہوئی کہ جنیوا میں قائم اس ادارے کا امریکی پالیسی سازوں کے خلاف کس قدر جارحانہ رویہ اپنانامناسب ہو گا۔ روایتی طور پر ریڈکراس قیدیوں کی حالت زارکے بارے میںدست یاب معلومات سامنے نہیں لایا کرتا، تاہم اس ادارے کے کچھ افسران گوانتاناموبے میں قیدیوں کی حالت زارسے اس قدر متاثر ہوئے تھے کہ انھوں نے مطالبہ کر دیا کہ ریڈ کراس امریکی محکمہ دفاع کے خلا ف مزیدشدت سے مزاحمت کرے۔ اس رپورٹ میں پہلی بار ریڈ کراس کے اس اندرونی مباحثے کی کچھ تفصیلات پیش کی جا رہی ہیں۔ تاہم ریڈ کراس کی اعلیٰ قیادت کو بالآخر یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہونا پڑا کہ وہ مزاحمت نہیں کریں گے، یوں ایک قیمتی موقع ضائع کر دیا گیا۔

ہمارے مشاہدے میں یہ بھی آیا کہ صدر اوباما نے بھی جلد ہی جان لیا کہ حراستی نظام میں وسیع اصلاحات کا وعدہ آسانی سے پورا ہونے والا نہیں۔ اس کی بڑی وجہ کانگرس کی جانب سے مزاحمت تھی، بلکہ جب گوانتاناموبے قیدخانے کو بند کرنے اور کچھ قیدیوں کو امریکی سرزمین پر لاکر مقدمات کی سماعت کی سفارش سامنے آئی تو دونوں پارٹیوں کی جانب سے صدر اوباما کے ارادوں کی مخالفت شروع ہو گئی۔

اس رپورٹ کاایک جزوی مقصدیہ بھی ہے کہ اپنی غلطیوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے مستقبل میں حراستی اور تفتیشی پالیسیوں کو بہتربنایا جائے۔ وقت تحریر بھی خطرناک سمجھے جانے والے کچھ افراد امریکی قید میں ہیں، لیکن کچھ جگہوں پر ’انتہائی اہم دشمنوں‘ سے روا رکھے جانے والے سلوک میں بھی واضح تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ اسی قدر اہم بات یہ ہے کہ تفتیشی اور حراستی نظام کی جگہ ٹکنالوجی نے لے لی ہے اور اب اس کی جگہ ڈرون کا ستعمال کیا جا رہا ہے۔ اگر مبینہ دشمن رہنما، جنھیں ’ہائی ویلیو‘ اہداف کہا جاتا ہے، ڈرون حملوں میں مارے جائیں تو ان کی حراست اور تفتیش کے عمل جیسے جھنجٹ سے چھٹکارا حاصل ہو جائے گا۔

تاہم امریکا کی جانب سے ڈرون کے استعمال کی مناسبت پر سوالیہ نشان باقی رہے گا اور یہ بحث کا ایک اہم موضوع بھی بنا رہے گا۔ ۲۰۱۲ء کا اختتام ہو چکا ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ آج بھی افغانستان میں موجود امریکی فوج ہر ماہ ایک سو کے قریب افراد کو بگرام (افغانستان)کے قیدخانے میںلے کر آتی ہے اور ان میں اکثر افراد ملک کے طول و عرض سے شبانہ چھاپوں کے دوران گرفتار ہوتے ہیں۔

کہانی شاید یہاں بھی مکمل نہ ہو، لیکن ٹاسک فورس نے اس رپورٹ میں کچھ سفارشات مرتب کی ہیں تاکہ قومی سلامتی کے معاملے پر لوگوں کی گرفتاری کے کاروبار میں تبدیلی لائی جا سکے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ہماری انتظامیہ اور عدلیہ ان پر ہمدردانہ غور کریں گی۔

انکشافات اورسفارشات

عمومی دریافت اور سفارشات

۱- امریکی افواج نے کئی مواقع پر ایسے تفتیشی حربے استعمال کیے جو دراصل تشدد تھا۔ جن امریکی اہل کاروں کو تحقیق و تفتیشی کا یہ کام دیا گیا انھوں نے اس تفتیش کو ظالمانہ، غیر انسانی اور  توہین آمیز سلوک میں بدل ڈالا۔ تحقیق و تفتیش کی یہ دونوں قسمیں خود امریکی قوانین کی خلاف ورزی اور عالمی معاہدات کی نفی کرتی تھیں۔ اس طرح کا سلوک براہ راست ہمارے آئین اور قومی اقدار سے متصادم تھا....

۲- قوم کے اعلیٰ ترین حکام کے اقدامات اور ناکامیوں نے ۱۱ستمبرکے حملوں کے بعد کے مہینوں اور برسوں میں غیر قانونی اور نامناسب تفتیشی طریقوں کی اجازت دی اور ان کے پھیلائو میں تعاون کیا، جو بعد میں امریکی اہل کاروں نے مختلف مقامات پر قیدیوں پر استعمال کیے۔ دوسرے حکومتی افسران اور کچھ فوجی رہنما بھی اس کے ذمہ دار ہیں۔

  •  سفارشات: ا- اس ملک کے تمام سیاسی رہنما سیاسی وابستگیوں سے ہٹ کر یہ تسلیم کریں کہ ۱۱ ستمبر کے بعد تشدد اور ظلم کی اجازت دینا ایک سنگین غلطی تھی اور ایسے اقدامات کریں کہ آیندہ یہ غلطی نہ دہرائی جا سکے۔ تشدد اور ’’ظالمانہ، غیر انسانی، یا توہین آمیز سلوک‘‘ نہ صرف امریکی قانون سے مطابقت نہیں رکھتے، بلکہ اس ملک کے قیام کی بنیادی اقدار کے منافی ہیں۔ کسی بھی حکومت کو یہ اختیار نہیں دیا جا سکتا کہ وہ قیدیوں پر مظالم ڈھائے۔

ب- امریکی انٹیلی جنس اور فوجی اہل کاروں کو قیدیوں سے سلوک کے بارے میں واضح ہدایات دی جانی چاہیں اور انھیں کم از کم جنیوا کنونشنز کی دفعہ ۳ کی پاسداری کرنے کا پابند کیا جانا چاہیے۔ سول اور فوجی لیڈر یقینی بنائیں کہ ان کے ماتحت افراد جنگی قوانین کی پابندی و پاس داری کرتے ہیں۔

ج- کانگرس اور صدر کو چاہیے کہ وہ تشدد، ظالمانہ، غیر انسانی، یا توہین آمیز سلوک کے خلاف موجود قوانین کو سخت تر بنائیں۔

۳- اس کا کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں کہ امریکی اہل کاروں کی جانب سے سخت تفتیشی حربوں کے استعمال سے کوئی اہم اور کارآمد معلومات حاصل ہوئی ہوں۔ البتہ اس بات کے کافی شواہد موجود ہیں کہ ان حربوں سے حاصل ہونے والی معلومات عموماً غیر اہم یا نا قابل اعتبار ہوتی تھیں۔

ٹاسک فورس تشدد کے موثر ہونے کے حوالے سے کوئی واضح پوزیشن نہیں لے سکتی کیوں کہ اسے خفیہ دستاویزات اور معلومات تک رسائی حاصل نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کہنا کہ ’تشدد غیر مؤثر ہوتا ہے‘ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ اس سے کبھی کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا، عین ممکن ہے کہ تشدد سے کوئی شخص بہتر طور پر اہم معلومات ظاہر کر دے۔ تفتیشی طریقہ کار کے طور پر تشدد کے غیر مؤثر ہونے کی دلیل کی بنیاد کچھ دوسرے عوامل ہیں۔ ان میں سے ایک یہ خیال ہے کہ اس سے غلط معلومات بھی حاصل ہوتی ہیں اور یہ تفتیش کاروں اور تجزیہ کاروں کے لیے ایک مشکل اور طویل عمل ہے کہ وہ درست اور قابل استعمال معلومات کو غلط اور گمراہ کن معلومات سے الگ شناخت کر سکیں۔

تشدد کے غیر مؤثر ہونے کی دلیل کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ تفتیش کے اس سے بہتر طریقے موجود ہیں جن کے ذریعے قیدی سے مفید معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں، خصوصاً قیدیوں سے تعلقات بڑھانے کے طریقوں (Rapport-Building Techniques) سے، کیوںکہ بہت سارے لوگ ان کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ قطعی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ تشدد سے درست معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں، ایسے ہی جیسے یہ کہنا ممکن نہیں کہ تشدد سے ہمیشہ غلط معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ تشدد کی صدیوں پرانی تاریخ میں دونوں مثالیں موجود ہیں، ایسا بھی ہواکہ تشدد کا شکار قیدی موت کو توگلے لگا لیتا ہے لیکن معلومات فراہم نہیں کرتا۔ ۲۰۰۱ء کے بعد امریکی تجربے میں بھی ایسی مثالیں موجود ہیں۔

  •  سفارشات: ا- چونکہ اس حوالے سے اکثر معلومات دس برس پرانی ہو چکی ہیں، صدرکو چاہیے کہ سی آئی اے کو ایسی تمام معلومات اور شواہد ظاہر کر دینے کا حکم دے جن سے امریکی عوام کو ان دعووں کی تصدیق میں مدد مل سکے۔ چونکہ ان طریقوں کا موثر ہونا ایک اہم معاملہ ہے، یہ ضروری ہے کہ اس قدرے امن کے دور میں اس بارے میں ہر ممکن تحقیق و تفتیش کر لی جائے، اس سے پہلے کہ کوئی دوسرا بڑا واقعہ یہ مسائل دوبارہ کھڑے کر دے۔

ب- اگر ایسی معلومات موجود ہیں جو یہ ظاہر کرتی ہوں کہ سخت تفتیشی طریقے واقعی مفید تھے، لیکن ان کا افشا قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہو تو ٹاسک فورس کے خیال میں یہ معلومات کسی سرکاری فورم یا تنظیم کے حوالے کی جائیں جو قابل اعتبار ہو اور اس دعوے کا غیر جانبدار جائزہ لینے کی اہلیت رکھتی بھی ہو اور ان معلومات اور ذرائع کی حساس نوعیت کاخیال بھی رکھ سکے۔ ان شرائط کو پورا کرنے کے لیے ٹاسک فورس ایک ایسے سرکاری سٹڈی گروپ یا کمیشن کی تشکیل کا حامی ہے جسے اعلیٰ سطحی اعتماد حاصل ہو اور اس کا معاشرے میںنام ہو تاکہ وہ اس سوال کے بارے میں حتمی فیصلہ دے سکے۔

ج- اگر سینیٹ انٹیلی جنس کمیٹی کے ممبران یہ سمجھتے ہیں کہ اس موضوع پر ان کے پاس موجود معلومات قومی سلامتی کے لیے خطرہ نہیں، تو انھیں چاہیے کہ وہ انھیں ظاہر کر دیں۔

۴- گوانتاناموبے میں بہت سارے قیدیوں کی مسلسل اور نہ ختم ہونے والی قید کے مسئلے کو حل کیا جائے۔

  •  سفارشات:ٹاسک فورس ممبران کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ لا متناہی قید کی صورتِ حال ناقابلِ قبول بلکہ ناقابل برداشت ہے اور سفارش کرتی ہے کہ:

ا- انتظامیہ اپنے موجودہ اختیارات استعمال کرتے ہوئے جلد از جلد گوانتاناموبے میں موجود ان قیدیوںکو فوراً رہا کردے یا دوسرے ممالک کو منتقل کردے جن کی رہائی یا منتقلی کا فیصلہ ہوچکا ہے۔

ب- گوانتاناموبے میں موجود باقی قیدیوں کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے کانگرس ان کے امریکی سرزمین پر لائے جانے پر عائد پابندی اٹھا لے۔ ٹاسک فورس کو پختہ یقین ہے کہ امریکی انتظامیہ انھیں بحفاظت اپنی حراست میں رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

۳- گوانتاناموبے سے قیدیوں کی رہائی یا منتقلی کے بعد بچ جانے والے قیدیوں کو:

۱- جہاں کہیں بھی ممکن ہوان پر دفعہ ۳ کے تحت قائم عدالتوں میں ترجیحی بنیادوں پر مقدمے چلائے جائیں۔ اگر کانگرس ان کے امریکی سرزمین پر لائے جانے کی اجازت نہیں دیتی تو امریکی ضلعی عدالت گوانتاناموبے میں بٹھائی جائے تاکہ ان قیدیوں کے مقدمات کو جلد از جلد نمٹایا جا سکے۔

۲- اگر درج بالا طریقے ناکام ہو جائیں یا بقیہ قیدیوں کے مقدمات کو نمٹانے کے لیے ناکافی ہوں تو باقی مقدموں کی سماعت کے لیے ایک فوجی کمیشن قائم کیا جائے جو، چاہے وہ دفعہ ۳ کے معیارات پر مکمل عمل پیرا نہ بھی ہو، ان سے مطابقت ضرور رکھتا ہو۔

۳- ایسے قیدی جنھیں امریکی سلامتی کے لیے خطرہ تصور کیا جاتا ہے اور ان پر درج بالا طریقوں سے مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا، کیوں کہ ان کے خلاف موجود شہادتیں ناکافی ہیں یا ان پر امریکا میں مقدمہ چلانے کے لیے کوئی قانونی بنیادمو جود نہیں تو ان کے مقدمے درج ذیل طریقوں سے نمٹائے جائیں:

ا- امریکی حکام ان قیدیوں کے خلاف مقدمہ چلانے کے لیے کوئی دوسرا ملک تلاش کریں جو انھیں (ٹاسک فورس کی مناسب سفارشات کے مطابق) یقین دہانی فراہم کر سکے کہ ان قیدیوں کے خلاف تشدد، ظالمانہ، غیر انسانی اور توہین آمیز سلوک روا نہیں رکھا ئے گا۔

ب- اگر ایسا کوئی ملک نہیں مل سکتا، تو قیدیوں کو کسی ایسے ملک کے حوالے کر دیا جائے جوانھیں لینے کے لیے راضی ہو اور امریکا کو (ٹاسک فورس کی مناسب سفارشات کی روشنی میں) یقین دہانی فراہم کرے کہ ان پر مقدمے چلائے بغیر تشدد یا قید نہیں کیا جائے گا۔ ضروری ہے کہ یہ ملک انھیں آزادانہ زندگی فراہم کرے اور بغیر مقدمہ چلائے ماضی کے کسی مصدقہ یاغیر مصدقہ عمل کی پاداشت میں ان پر گرفتاری کا خطرہ مسلط نہ کیا جائے جب تک کہ ان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت حاصل نہیں ہو جاتا۔

ج- اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو ایسے قیدیوں کو ان کے ممالک میں واپس بھیج دیا جائے اور (ٹاسک فورس کی مناسب سفارشات کی روشنی میں) ان ممالک سے یقین دہانی حاصل کی جائے کہ انھیں تشدد کا نشانہ بنایا جائے گا نہ مقدمہ چلائے بغیر قید ہی کیا جائے گا۔

د- اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو ایسے قیدیوں کو امریکی سرزمین پر لایا جائے اور مناسب امیگریشن سٹیٹس اور قوانین کے تحت محکمہ ہوم لینڈ سیکورٹی کی حراست میں رکھا جائے تاآں کہ ان کے امریکا سے اخراج کے لیے کوئی مناسب جگہ مل جائے۔ ان قیدیوں کے مقدموںکا سال میں دو مرتبہ جائزہ لیا جائے اور اس کے معیار اور حالات کا فیصلہ انتظامیہ کے اختیار میں ہو۔

امریکا ۲۰۱۴ء کے اختتام تک افغانستان کے حوالے سے جاری جنگ کے خاتمے کا اعلان کرے۔ اگر سرکاری اعلان نہ بھی کیا جائے تب بھی عدلیہ اس صورت حال کو ویسی ہی تصور کرے جیسی۲۰۱۱ء میں عراق سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد عدلیہ نے وہاں کی صورت حال کو جنگ کے خاتمے کے طور پر تسلیم کر لیا تھا۔

و- جنگ کے خاتمے اور گوانتاناموبے سے قیدیوں کی صفائی کے بعد اس قید خانے کو ہر صورت میں ۲۰۱۴ء سے قبل ختم کر دیا جائے۔

۵- امریکا نے نائن الیون کمیشن کی اس سفارش ’’اپنے دوستوں کے تعاون سے گرفتار شدہ دہشت گردوں کی حراست اور ان سے انسانی سلوک کے لیے کوئی مشترکہ ضابطہ بنایا جائے‘‘ پر مناسب طور پر عمل نہیں کیا۔ نائن الیون کمیشن رپورٹ کے جاری ہونے کے بعد کے ساڑھے آٹھ برسوں میں امریکا مشتبہ دہشت گروں کی حراست اور ان سے انسانی سلوک کے لیے مشترکہ ضابطے کی تیاری کے لیے بامعنی اور مستقل قدم نہیں اٹھا سکا۔

  •  سفارشات:ٹاسک فورس نائن الیون کمیشن کی مشتبہ دہشت گروں کی حراست اور ان سے انسانی سلوک کے لیے مشترکہ ضابطے کی تیاری کی سفارش کی بھرپور حمایت کرتی ہے کیوں کہ یہ قانون کی بالادستی اور ہماری اقدار سے مطابقت رکھتی ہے۔

قانونی دریافتیں اور سفارشات

۶- محکمہ انصاف کی قانونی کونسل (Office of Legal Council- OLC )کے وکلا نے بار ہا ایسی سرگرمیوں کی غلط منظوری دی جو تشدد، ظلم اور غیر انسانی سلوک کے مترادف تھیں۔

۷- ۱۱ ستمبر کے بعد محکمہ انصاف کی قانونی کونسل (OLC) نے بعض اوقات محکمہ دفاع،  ایف بی آئی اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے کئی ایسے اہل کاروں کی راے کو اہمیت نہیں دی جوقیدیوں سے سلوک کے حوالے سے قانونی معاملات میں ماہر تھے۔

  •  سفارشات: او ایل سی ایسے تمام اداروںاور ان اداروں کے معاملات کے ماہرین  کو مشورہ دے اور ان سے مشورہ لے جن اداروں کی کارکردگی کونسل کے قانونی مشورے سے متاثر ہو سکتی ہے۔ قانونی مشورہ دیتے وقت ادارے کے ماہرین کی راے کے برعکس، کونسل کو چاہیے کہ وہ اپنے مشورے میں اختلافی قانونی راے، قانونی امداد (اگر ضرورت ہو) اور اختلافی راے کی وجوہ کی وضاحت کرے اور یہ بھی بتائے کہ کونسل نے اس راے کو کیوں نہیں اپنایا۔

۸- کارٹر انتظامیہ کے زمانے سے او ایل سی نے کچھ آرا کو شائع کرنے کا سلسلہ شروع   کیا تھا جو آج بھی جاری ہے۔ شفافیت کسی بھی جمہوریت کی مؤثر کارکردگی کے لیے ناگزیر ہے۔ اسی طرح یہ بھی ناگزیر ہے کہ صدر اپنے دور صدارت میں قابل اعتماد قانونی راے پر انحصار کرنے کے قابل ہو۔

  •  سفارشات: ا- صدر کے لیے قابل اعتماد قانونی راے کی ضرورت اور اس میں شفافیت کو برقرار رکھنے کے لیے ایسی خفیہ آرا کے اجرا کے بارے میں امریکی عوام کو مطلع کیا جائے ۔ او ایل سی کو چاہیے کہ وقفے وقفے سے سابقہ خفیہ آرا کا جائزہ لے تاکہ ان کے عوام میں ظاہر کیے جانے کے امکان کا تعین کیا جا سکے۔ اگر او ایل سی کے جاری کردہ قانونی مشوروں کا کبھی نہ کبھی  عوام کے سامنے آنے کا امکان موجود رہے گا تو اس سے کونسل کے وکلا اپنی ذمہ داریوں کے بارے میں زیادہ محتاط رہیں گے، انھیں غیر جانب دارانہ انداز میں ادا کریں گے اور ان کی آرا کے آگے  چل کر گمراہ کن ثابت ہونے کے امکانات بھی کم ہو جائیں گے۔

ب- کانگرس کو چاہیے کہ 28 U.S.C. 530D میں درج اٹارنی جنرل کی کانگرس کومطلع کرنے کے فرائض میں ترمیم کرے اور اس کا دائرہ کار ان مقدمات تک بڑھائے جہاں انتظامیہ یہ تسلیم کرتی ہے کہ وہ کسی مخصوص قانون پر عمل درآمد نہیں کر رہی۔ اختیارات کی تقسیم پر خصوصی قانون سازی کی ضرورت ہے۔

قیدیوں کودوسرے ممالک کی تحویل میں دینے کے بارے میں معلومات اور سفارشات

۹- ٹاسک فورس کی راے میں امریکا نے مشتبہ دہشت گردوں کو لاپتا کر کے اور انھیں ملک سے باہر خفیہ جیلوں میں من مرضی سے قید کر کے اپنی عالمی قانونی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کی ہے۔

۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد زیرِ حراست قیدیوں کودوسرے ممالک کی تحویل میں دینے کے پروگرام (Extraordinary Rendition Program) کے تحت افراد کو ایک ملک سے گرفتارکر کے ماوراے عدالت دوسری جگہ منتقل کیا  جانے لگا، تاکہ ان سے تفتیش کی جا سکے نہ کہ ان کے خلاف عدالتی کارروائی عمل میں لائی جائے۔ اس میں ملوث امریکی اہل کاروں نے گرفتار شدگان کے خاندانوں کونہ تو ان ٹھکانے کے بارے میں بتایا نہ قیدیوں کو سی آئی اے کی قائم کردہ ’بلیک سائیٹس‘ یا پراکسی حراست کے دوران کسی قسم کی قانونی امداد ہی فراہم کی گئی۔ امریکا اس سول اور سیاسی حقوق (International Covenant on Civil and Political Rights)  کے عالمی معاہدے میں شریک ہے، جس کا آرٹیکل (۱)۹ کہتا ہے: ’’ہر ایک کو شخصی آزادی اور تحفظ کا حق حاصل ہے۔ کسی کو من مانے طور پر گرفتار یا قید نہیں کیا جا ئے گا۔ کسی کو بھی اس کی آزادی سے محروم نہیں کیا جائے گا، مگر ان وجوہ اور طریقوں سے جن کی قانون اجازت دیتا ہے‘‘۔ اس کے علاوہ پہلے اور چوتھے جنیوا کنونشن کے مطابق عالمی یا غیر عالمی جنگ کے دوران کسی کو لاپتا کر دینا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ امریکا تمام انسانوں کو لاپتا کیے جانے کے خلاف تحفظ کے عالمی کنونشن (International Convention for the Protection of  All Persons Against  Enforced Disappearances) کا حصہ نہیں، جو قرار دیتا ہے کہ ’’لوگوں کو منظم انداز میں اور بڑے پیمانے پر لاپتا کر دینا انسانیت کے خلاف جرم ہے‘‘۔

  •  سفارشات: ا- ٹاسک فورس سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ، محکمہ دفاع اور سی آئی اے سے درخواست کرتی ہے کہ وہ ملک سے باہر قائم پراکسی قید خانوں کے بارے میں (جو امریکی حکام نے قائم کیے یا ان کی درخواست پر قائم ہوئے) معلومات جلد از جلد جاری کر دیں۔ ٹاسک فورس یہ بھی سفارش کرتی ہے کہ یہ تینوں محکمے اس امر کو یقینی بنائیں کہ وہ تمام قیدی جو ان حالات میں قید ہیں، عالمی قانون کے مطابق عالمی ریڈ کراس کو ان تک رسائی حاصل ہو۔

ب- امریکی قید میں موجود افراد کے ساتھ یکساں سلوک اور ان کے حقوق کی ضمانت کے لیے امریکی حکومت کو چاہیے کہ وہ تشدد کے خلاف کنونشن (Convention Against Torture) کی دفعہ ۳ اور سول اور سیاسی حقوق کے عالمی معاہدے (International Covennt on Civil and Political Rights) کے آرٹیکل (۱)۲ کی تشریح کرتے ہوئے یہ بتائے کہ اس کے تحت آنے والے افراد میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو امریکی سرزمین پر موجود ہیں اور وہ لوگ بھی وہ جو امریکی سرزمین سے باہر امریکی اختیار میں ہیں۔ یہ وضاحت امریکی اہل کاروں کو امریکی سرزمین سے باہر من مانی گرفتاریوں اور حراست سے باز رکھے گی۔

۱۰-  ٹاسک فورس کے علم میں آیا ہے کہ قیدیوں کی تفتیش کے لیے دوسرے ممالک کو  حوالگی کے وقت جو’سفارتی یقین دہانیاں‘حاصل کی جاتی ہیں کہ ان قیدیوں پر تشدد نہیں کیا جائے گا، تاہم کئی اہم مقدموں میں یہ ناقابل بھروسا ثابت ہوئیں، البتہ ان سفارتی یقین دہانیوں کے بارے میں مکمل معلومات حاصل نہیں ہو سکیں۔ ٹاسک فورس کے خیال میں اس بات کے کافی شواہد موجود ہیں کہ ان قیدیوں کوتحویل میں لینے والے ممالک میں عملی طور پر جو کچھ ہوتا ہے اس سے زیادہ تر امکان یہی ہے کہ ان قیدیوں پر تشدد ہوا ہو گا۔

  •  سفارشات:ٹاسک فورس سفارش کرتی ہے کہ قیدیوں کی دوسرے ممالک کو حوالگی کے لیے محض سفارتی یقین دہانیاں سی اے ٹی کی دفعہ (۱)۳ کے تحت امریکی ذمہ داریوں کی تکمیل کے لیے کفایت نہیں کرتیں، اس لیے کہ یہ کنونشن کہتا ہے: ’’کوئی بھی ریاست کسی فرد کو کسی دوسری ریاست کی طرف واپس، بے دخل یا خارج نہیں کر سکتی اگر اس بات کا واضح امکان موجود ہو کہ اسے وہاں پر تشدد کا خطرہ ہے‘‘ بلکہ اس حوالے سے قانون سازی کی جائے، تاکہ حراست میںلینے اورسفارتی یقین دہانیاں کرانے والے ملک سے تشدد کا امکان  باقی نہ رہنے دے۔ دوسرے ملک کی یقین دہانی کوصرف ایک پہلو قرار دیتے ہوئے امریکی وزارت خارجہ انسانی حقوق کے حوالے سے رپورٹس کو اس حوالے سے مرکزی اہمیت دے۔ سفارتی یقین دہانیوں کے ساتھ ساتھ اس بات کی ضمانت بھی طلب کی جائے کہ امریکا قیدیوںکی صورت حال مانیٹر کرسکے گا، انھیں انٹرویو کرسکے گا اور اگر یہ سمجھا جائے کہ منتقل کیے گئے قیدی تشدد، ظلم، غیر انسانی یا توہین آمیز سلوک کا نشانہ بنائے گئے ہیں تو انھیں واپس لینے کا حق بھی اسے حاصل ہو گا۔ اگرمنتقل کیا جانے والا فرد کسی تیسری ریاست کا شہری یا مکین ہو تو ایسی صورت میں جہاں ممکن ہو سکے، امریکا اس تیسری ریاست سے مندرجہ بالا ضمانتوں کے حوالے سے مشترکہ مفادات پر مشورہ لے گا۔

۱۱- ٹاسک فورس کے علم میں آیا ہے کہ ’بلیک سائیٹس‘ میں رکھے گئے قیدیوں سے تفتیش کرنے والے امریکی افسران قیدیوں پر تشدد، ظلم،غیر انسانی اور توہین آمیز سلوک کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے سی آئی اے کے انسپکٹر جنرل کی انسداد دہشت گردی، حراست اور تفتیشی کارروائیوں پر رپورٹ اور سابق قیدیوں کی گواہیوں میںمضبوط شہادتیںموجود ہیں۔ تشدد، ظلم،غیر انسانی یا توہین آمیز سلوک کو بہت پہلے سے جنگی جرائم اور روایتی عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا جا چکا ہے۔ تشدد کے خلاف کنونشن بھی اس کی ممانعت کرتا ہے اور جب بھی کوئی ریاست ایسی کارروائیوں کا ارتکاب کرتی ہے تو امریکا اس کی مذمت کرتا ہے۔

  •  سفارش: سی آئی اے اور امریکی حکام نے پوری ذمے داری سے کہاہے کہ تفتیش کے لیے قیدیوں کی دوسرے ممالک کو حوالگی پروگرام اور اور خفیہ جیلوں کے نیٹ ورک کے دونوں پروگرام اب ختم کر دیے گئے ہیں۔ ٹاسک فورس یہ سفارش کرتی ہے کہ امریکا تشدد کے خلاف کنونشن کے حوالے سے اپنی قانونی ذمہ داریوں کو بھرپور طریقے سے پورا کرے اور ملک کے اندر اور باہر زیر التوا تفتیشی معاملات اور دیگر مقدموں میں تعاون کرے۔

طبی معلومات اور سفارشات

۱۲- ۱۱ ستمبر کے بعد امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں سے وابستہ ماہرین نفسیات نے قیدیوں سے سوالات کے لیے تفتیشی طریقوں کی تخلیق میں تعاون کیا۔ محکمہ انصاف کے ادارے او ایل سی نے ان طریقوں کو قانونی قرار دیا، لیکن ٹاسک فورس کے علم میں آیاہے کہ ان میں سے اکثر طریقے تشدد، ظلم، غیر انسانی یا توہین آمیز سلوک پر مبنی تھے۔

۱۳- طبی ماہرین، جن میں ڈاکٹر اور نفسیات دان دونوں شامل تھے، محکمہ دفاع اور ایجنسی کی پالیسیوں کے مطابق مختلف طریقوں سے تفتیشی عمل میں حصہ لیتے رہے، جس میں تفتیشی عمل کی نگرانی اور تفتیشی افسران کو قیدیوں کی صحت کے بارے میں معلومات کی فراہمی شامل ہیں، لیکن اس سارے عمل کے دوران انھوں نے قیدیوں سے بدسلوکی کے بارے میں حکام بالا کو کوئی رپورٹ نہیںدی۔

۱۴- ۱۱ ستمبر حملوں سے قبل امریکی ڈاکٹروں کو جنگی قیدیوں کے حوالے سے اس ضابطۂ اخلاق کا پابند بنایا گیا تھاکہ وہ نہ تو تشدد میں ملوث ہوں گے، نہ اس عمل کی نگرانی کریں گے، نہ ایسی کارروائی کے دوران موجود رہیں گے اور نہ تشدد میں تعاون کے لیے طبی امداد ہی فراہم کریں گے۔ ۲۰۰۶ ء سے ۲۰۰۸ء کے بعد جب قیدیوں سے سلوک کے بارے میں معلومات عام ہوئیں تو شعبہ طب کے حوالے سے اضافی ضابطۂ اخلاق وضع کیا گیا جس میں انھیں پابند کیا گیا کہ وہ قیدیوں سے بدسلوکی کی رپورٹ اعلیٰ حکام کو دیںگے، نہ خود تفتیش کریں گے، نہ اس میں شامل ہوں گے اور نہ اس دوران موجود ہی رہیں گے اور نہ تفتیشی افسران کو قیدیوں کے بارے میں طبی معلومات ہی فراہم کریں گے۔

۱۵- ۱۱ ستمبرکے حملوں کے بعد فوجی ماہرین نفسیات اور ڈاکٹروں کو ہدایت جاری کی گئی کہ انھیں غیر فوجی ضابطۂ اخلاق کی پابندی سے آزاد کر دیا گیا ہے، اور کچھ مقدموں میں تو ان کے فوجی کردار کی تشکیل نوکی گئی اور انھیں پیشہ ور جنگ جو قرار دے دیا گیا۔ ضابطے، قوانین اور طریقہ کار تبدیل کیے گئے تاکہ ڈاکٹروں کو حراست اور تفتیش کے عمل میں شامل کیا جا سکے۔ ان کو طبی ضابطۂ اخلاق سے مستثنا قرار دے دیا گیا، یعنی انھیںقیدیوں کی صحت کے بارے میں تفتیشی افسران کو معلومات کی فراہمی کی اجازت مل گئی، تفتیشی عمل کی نگرانی کرنے یا اس دوران موجود رہنے، بھوک ہڑتال ختم کرانے کے لیے طبی اور اخلاقی طور پر غلط طریقوں کے استعمال اور قیدیوں سے بدسلوکی کی اجازت مل گئی، نیز ان کے فرائض میں تفتیشی افسروں کی رپورٹ نہ دینا بھی شامل ہو گیا۔

  •  سفارشات:ا- محکمہ دفاع اور سی آئی اے کو چاہیے کہ طبی ماہرین کے ضابطۂ اخلاق کا احترام کریں اور اسی ضابطۂ اخلاق کے مطابق ان کے کام کے معیارات مقرر کریںجو ڈاکٹروں کو تفتیش کرنے، تفتیش کے دوران موجود رہنے، اس عمل کی نگرانی یا پھر اس میں حصہ لینے سے منع کرتاہے جس میں تفتیشی حکمت عملی مرتب کرنا یااس کا جائزہ لینا اور تفتیش کاروں کو طبی معلومات فراہم کرنا بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹروں کو پابند کیا جائے کہ وہ بدسلوکی کے واقعات کے بارے میں اعلیٰ حکام کوآگاہ کریں۔ محکمہ دفاع طبی ماہرین کی پیشہ ور جنگ جوکے طور پر درجہ بندی کو ختم کرے۔ محکمہ دفاع کو قیدیوں کی طبی اور نفسیاتی حالت کو خفیہ رکھنے کے حوالے سے بھی معیار مقرر کرنا چاہیے، کیوں کہ طبی شعبے کا ضابطۂ اخلاق قیدیوں کی طبی یا نفسیاتی صورت حال کے بارے میں معلومات(چاہے جیسے بھی حاصل کی گئی ہوں) کے استعمال اور اس کی تفتیش کاروں کو فراہمی کی  سختی سے ممانعت کرتا ہے۔

۱۶- قیدیوں کی بھوک ہڑتال ختم کرانے کے لیے محکمہ دفاع نے ایسے طریقوں کی اجازت دے دی تھی جن میں طبی ماہرین کو ایسے کام کرنے پڑتے تھے جو طبی اور پیشہ ورانہ ضابطۂ اخلاق کی صریح خلاف روزی تھے۔ ان میں بھوک ہڑتال کی ابتدا میں نامناسب اور تشدد آمیز طریقے سے قیدیوں کو زبردستی کھانا کھلایا جاتا اور جب اس پر مزاحمت کی جاتی تو انھیں مکمل طور پر جکڑ کر نالی کے ذریعے زبردستی خوراک دی جاتی تھی۔

  •  سفارشات:ا- قیدیوں کو زبردستی کھانا کھلانا بدسلوکی کی ایک شکل ہے، اسے فوراً ختم کر دیا جانا چاہیے۔

ب- امریکا کو بھوک ہڑتالی قیدیوں کی دیکھ بھال کے لیے معیار، پالیسی اور طریقہ کار وضع کرنا چاہیے جومیڈیکل شعبے کے بھوک ہڑتالی قیدیوں کی دیکھ بھال کے اس ضابطۂ اخلاق سے مطابقت رکھتے ہوں جو ۱۹۹۱ء میں عالمی میڈیکل ایسوسی ایشن کے بھوک ہڑتال پر مالٹا ڈیکلریشن (نظر ثانی ۱۹۹۲ء اور ۲۰۰۶ء) میں وضع کیا گیا تھا۔ امریکا کو تصدیق کرنا چاہیے کہ زبردستی کھانا کھلانا ممنوع ہے اور یہ ڈاکٹر کی ذمہ داری ہونی چاہیے کہ ایسے قیدی کی صور ت حال کا جائزہ لے، اس کی دیکھ بھال کرے اور اسے مشورہ دے۔

جرائم کی طرف واپسی کا رجحان اور سفارشات

۱۷- ٹاسک فورس نے حکومتی اداروں کی طرف سے شائع کیے گئے جرائم کی طرف واپسی کے رجحان (Recidivism) کے اعداد و شمار میں وسیع تضادات پائے ہیں، جیسے دفاع کی انٹیلی جنس ایجنسی اور افواج کی نگرانی اور تحقیقات کی ہائوس کمیٹی اور مختلف غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز)، مثلاً نیو امریکن فائونڈیشن کے جاری کردہ اعداد و شمار۔ ٹاسک فورس یہ تسلیم کرتی ہے کہ اس امر کے درست اعداد و شمار حاصل کرنا مشکل ہے کہ کوئی فرد دوبارہ (یا پہلی بار) دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہوا ہے، جب تک اس حوالے سے تفصیلی اور منظم معلومات موجود نہ ہو کہ کوئی فرد ’مصدقہ‘ طور پر ایسی کارروائیوں میں ملوث رہا ہے یا محض ’مشتبہ‘ ہے۔

  •  سفارش: ٹاسک فورس سفارش کرتی ہے کہ دفاعی انٹیلی جنس ایجنسی (Defense Intelligence Agency)وہ طریقہ کارظاہر کرے جس کے تحت کسی فرد کو ’مصدقہ‘ یا ’مشتبہ‘ کے زمرے میں ڈالا گیا ہے اور ساتھ ساتھ وہ تمام قواعد بھی فراہم کرے جن کی مدد سے ’مصدقہ‘ اور ’مشتبہ‘ کی درجہ بندی کی گئی ہے۔

اوباما انتظامیہ کے حوالے سے معلومات اور سفارشات

۱۸- ۱۱ ستمبر کے بعد قیدیوں کی دوسرے ممالک کو حوالگی اور تشدد پر قومی سلامتی کے نام پر جاری اعلیٰ سطحی رازداری کا اب کوئی جواز باقی نہیں۔ ’بلیک سائیٹس‘ اب بظاہر ختم ہو چکی ہیں اور ’افزوں شدہ تفتیشی طریقے‘ بھی ختم ہو چکے ہیں۔ ’افزوںشدہ‘ طریقوں کی اجازت کا معاملہ بھی عوام کے سامنے لایا جا چکا ہے اور سی آئی اے نے اپنے سابق ملازمین کی جانب سے ذاتی تفتیشوں پر مبنی تفصیلی بیانات کی تصدیق کر دی ہے۔ قیدیوں سے غیر قانونی اور اضافی بدسلوکی کی بے شمار تفصیلات اخبارات اور انسانی حقوق کے اداروں نے ظاہر کر دی ہیں۔ ان تفتیشی کارروائیوں کا ابھی تک خفیہ رکھا جانا صرف اور صرف غلط کاریوں کے ثبوت چھپانے کا مقصد پوراکر رہا ہے اور  ان کے دوبارہ استعمال کے امکان کو زندہ رکھنے کا باعث بن رہا ہے۔ یہ سوچ بھی موجود ہے کہ گوانتاناموبے میں قائم فوجی کمیشن کی موجودگی پہلی ترمیم (First Amendment)کے تحت عوام کو حاصل عدالتی کارروائی تک رسائی اورقانونی مشیر کے حصول کے حقوق، قیدیوں کو حاصل قانونی مشیر کے حصول کے حقوق کو خطرے میں ڈالنے کا باعث بن رہے ہیں۔

  •  سفارشات:ا- انتظامیہ کوکچھ مخصوص لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے اور سفارتی معاہدوں کی پاسداری سے ہٹ کر چاہیے کہ سی آئی اے اور فوج کی جانب سے قیدیوں پر تشدد اور بدسلوکی کے شواہد عوام کے سامنے لائے۔

۱۹- تشدد کے خلاف کنونشن (سی اے ٹی) تشدد کی تمام کارروائیوں کو منع کرنے کے علاوہ تمام ریاستوں کو پابند کرتا ہے کہ وہ اپنے نظام قانونی میں تشدد کے شکار فرد کی اصلاح کو یقینی بنائیںاور یہ کہ معاوضے کا حصول اس کا ناقابل تردید حق ہے‘‘۔ امریکا نے اس مطالبے پر ابھی تک عمل نہیں کیا۔

۲۰- تشدد کے خلاف کنونشن ہر ممبر ریاست کو پابند کرتا ہے کہ وہ ’’تشدد کے ہر عمل، اس کی کوشش، اس میں حصہ لینے اور ملوث ہونے کوجرم قرار دے‘‘ اور ’’اس بات کے کافی شواہد ہوں کہ اس کی ریاستی حدود میں کہیں بھی تشدد ہوا ہے تو ریاست فوری اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کرائے‘‘۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ امریکا نے اس پابندی پر عمل درآمد کیا ہے۔

سی آئی اے کے کسی بھی اہل کار کو ادارے کی حراست میں ہونے والی تشدد کی لاتعداد کارروائیوں پر سزا نہیں ہوئی، بلکہ آج تک کسی بھی اہل کار پر فردِ جرم بھی عائد نہیں کی گئی، اس میں وہ مقدمے بھی شامل ہیں جہاں تفتیش کار رواکی گئی حدودسے بھی آگے بڑھ گئے اور وہ مقدمہ بھی جہاں تشدد سے قیدی کی موت واقع ہو گئی۔ افواج کے ہاتھوں غیر قانونی تشدد کے بہت سارے واقعات میں بھی غیر مناسب تفتیش اور عدالتی کارروائی عمل میں لائی گئی۔

۲۱- حاصل شدہ شواہد یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اوباما انتظامیہ نے عالمی ریڈ کراس کمیٹی کو قیدیوں کے بارے میں معلومات کی فراہمی اور ان تک رسائی کی صورت حال کو ڈرامائی حد تک بہتر بنایا ہے۔ یہ یقینی بنانا کہ اب قیدیوں کو ’غائب‘ نہیںکیا جا سکتا، انھیں تشدد اور ظالمانہ سلوک سے بچانے کی کوششوں کا بہت اہم حصہ ہے۔ تاہم یہ تبدیلیاں اخبارات کو ایک نامعلوم ذرائع سے پہنچی ہیں، اس لیے یہ واضح نہیں ہو سکا کہ آیا یہ آیندہ صدور کی انتظامیہ کو بھی اس کا پابند رکھیںگی کہ نہیں۔

  •  سفارشات:ا- انتظامیہ ریڈ کراس کمیٹی کو معلومات کی فراہمی کے حوالے سے پابندیوں اور رسائی کا سرکاری اعلان کرے۔

ب- اگر پہلے سے ایسا نہیں کیا جا چکا، تو امریکا سرکاری طور پر ریڈ کراس کو معلومات کی فراہمی اور قیدیوں تک رسائی کے حوالے سے قواعد و ضوابط کو سرکاری طور پر تسلیم کرے۔

ج- امریکا تمام لوگوں کو لاپتا کر دیے جانے کے خلاف تحفظ کے عالمی کنونشن پردستخط کرے اور اسے تسلیم کرے۔(تلخیص در تلخیص: امجد عباسی)

 

ذرا مصری فوج کے سربراہ جنرل سیسی کا بیان ملاحظہ فرمائیے۔ انھوں نے یہ بیان گذشتہ مصری انتخابات میں ووٹ ڈالنے والے عوام کی لمبی لمبی لائنوں پر تبصرہ کرتے ہوئے دیا تھا۔ ارشاد فرماتے ہیں: ’’مصری عوام کو ووٹ ڈالنے کے لیے ۱۵،۱۵ گھنٹے بھی لائنوں میں لگنا پڑے تو یہ سیاست میں فوج کی مداخلت سے زیادہ بہتر ہے کہ جس سے مصر ایک بار پھر ۳۰ سے ۴۰ سال پیچھے چلا جائے‘‘۔ الجیش المصری أسد بجد و الأسد ما بیأکلش أولادہ، ’’مصری فوج حقیقی شیر ہے اور شیر کبھی اپنے بچے نہیں کھاتا‘‘۔ جمہوری نظام کی تعریف کرتے ہوئے مزید فرمایا: ’’مصری عوام کے سر پہ آج تک کسی نے شفقت کا ہاتھ ہی نہیں رکھا تھا___ ہم کبھی بدعہدی یا خیانت نہیں کریں گے‘‘۔ سچ فرمایا آقاے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ’’منافق کی تین نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ بولتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے‘‘۔

جنرل سیسی کے یہ ’ارشادات‘ اخوان المسلمون کے اس بیان میں بھی نقل کیے گئے ہیں جو ۱۴؍ اگست ۲۰۱۳ء کو قاہرہ کے النہضۃ اور رابعہ بصری میدان میں لاکھوں عوام کے پُرامن دھرنوں کے خلاف سفاکانہ فوجی کارروائی کے بعد جاری ہوا ہے۔ یہ دھرنے دورِحاضر کا ایک نیا ریکارڈ تھے۔ بلامبالغہ لاکھوں مردوزن مسلسل ۴۸ روز تک سخت گرمی اور حبس کے عالم میں، دن رات سڑکوں پر بیٹھے رہے۔ پورا ماہ رمضان یہیں بیٹھ کر اللہ سے مناجات کیں۔ عید بھی یہیں گزاری۔ اسی دوران جنرل سیسی کے شیر جوانوں نے فائرنگ کرکے سیکڑوں افراد شہید کردیے، جن میں کئی خواتین بھی شامل تھیں۔ کارتوسوں اور گولیوں سے دو ہزار سے زائد افراد زخمی ہوگئے، لیکن عوام نے دھرنا ختم نہیں کیا۔

اگر اس موقع پر فوجی ڈکٹیٹر کا تسلط قبول کرکے گھر بیٹھ جاتے تو ملک ایک بار پھر ۶۰،۷۰سال کے لیے فرعونی پنجوں میں چلا جاتا۔ مصری عوام نے عزیمت کا راستہ اختیار کیا اور صرف قاہرہ کے النہضۃ اور رابعہ بصری میدان ہی میں نہیں، پورے ملک میں کروڑوں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئے۔ دھرنا طویل، موسم دشوار تر اور جلاد حکمرانوں کی سفاکیت بڑھی تو کچھ افراد دھرنا چھوڑ کر گھروں کو بھی لوٹ گئے۔ اگلے ہی روز سیکورٹی فورسز نے انھیں گرفتار کرتے ہوئے اور ان پر قتل اور جلاؤ گھیراؤ کے مقدمات قائم کرتے ہوئے جیلوں اور عقوبت خانوں میں ٹھونس دیا۔ مقدمات اور گرفتاریوں کا سلسلہ ۳ جولائی کو منتخب صدر کا تختہ الٹنے کے فوراً بعد سے جاری ہے۔ صدر محمد مرسی، حریت و عدالت پارٹی کے سربراہ اور منتخب سپیکر ڈاکٹر سعد الکتاتنی، نائب مرشد عام انجینئر خیرت الشاطر اور دوسرے نائب مرشد عام ڈاکٹر رشاد البیومی سمیت بہت سے اسیر اسی روز سے گرفتار ہیں۔

دھرنے کے دوران بیرونی سفارت کاری کا ڈراما بھی رچایا گیا۔ امریکی وزیر خارجہ، یورپی یونین کی وزیر خارجہ اور بعض خلیجی ریاستوں کے ذمہ دار قاہرہ پہنچے۔ جان کیری قاہرہ جانے سے پہلے اسلام آباد میں ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران یہ بیان دے گئے تھے کہ مصری فوج نے ملک میں جمہوریت بحال کردی ہے۔ اسی بیان سے اندازہ لگا لیجیے کہ انھوں نے وہاں کیا سفارت کاری اور کیا مذاکرات کیے ہوں گے۔ واضح طور پر جانب دار مصالحت کاروں کا تمام تر زور اس بات پر تھا کہ مظاہرین دھرنا ختم کردیں اور فوجی انقلاب تسلیم کرلیں۔ رہے عوام کے یہ مطالبات کہ ۶۵ سالہ  فوجی اقتدار کے بعد منتخب ہونے والا صدر بحال ہو، ۶۴فی صد عوام کی تائید سے بنایا جانے والا دستور بحال کیا جائے، انقلاب کے وقت تحلیل کی جانے والی منتخب سینیٹ بحال کی جائے___ تو یہ تینوں مطالبات شاید اتنے ’نامعقول‘ تھے کہ فوجی جنرل اور مصالحت کار ان پر کوئی بات ہی کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ بالآخر بیرونی سفارت کار واپس چلے گئے اور فوجی حکومت نے اعلان کردیا کہ ’اخوان‘ کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے مذاکرات ناکام ہوگئے اور حکومت نے قوت استعمال کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ گویا یہ دھمکی دینے سے پہلے تو فوجی حکومت عوام پر پھول برسا رہی تھی اور اب قوت استعمال کی جائے گی۔

  •  درندگی و سفاکیت کی انتھا:۳ جولائی ۲۰۱۳ء کو تختہ الٹنے کے ۳ روز بعد ۶ جولائی کو جیسے ہی امام نے نماز فجر کی دوسری رکعت میں سمع اللّٰہ لمن حمدہ کہا، مظاہرین پر فائر کھولتے ہوئے ۱۲۰ نمازی شہید کردیے گئے۔ ایک ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے اور بڑی تعداد میں گرفتار۔ ۲۴ جولائی کو اسی طرح کی سفاکیت کا مظاہرہ دوبارہ کیا گیا۔ ایک بار پھر عین نماز فجر کے دوران فائرنگ کی گئی، ۲۵۰ سے زائد نمازیوں نے جام شہادت نوش کیا اور ہزاروں زخمی ہوئے۔ دوہفتے کے دوران میں یہی ۴۰۰ کے قریب نہیں، وسط جون سے مختلف شہروں میں اخوان اور حریت و عدالت پارٹی کے دفاتر پر حملوں کے دوران بھی درجنوں افراد شہید کیے جا چکے تھے۔ پھر ۱۴ اگست کو خوں ریزی کی بدترین تاریخ رقم کی گئی۔ لاکھوں کی تعداد میں جمع پُرامن مظاہرین پر جن کی اکثریت شوال کے روزے سے تھی اور رات بھر تلاوت و تہجد میں گزار کر ذرا سستا رہی تھی، صبح ۳۰:۶ بجے چاروں اطراف سے بلڈوزروں، بکتر بند گاڑیوں، ٹینکوں اور جنگی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے موت مسلط کردی گئی۔ گردونواح کی اُونچی اُونچی عمارتوں پر تعینات نشانہ بازوں نے دُوربین لگی گنوں (sniper guns) کے ذریعے گولیوں کی بارش کردی۔ تاک تاک کر لوگوں کے سینوں اور سروں کو نشانہ بنایا گیا، یعنی مظاہرین کو منتشر کرنا مقصود نہیں تھا، ہلاک کرنا ہی اصل ہدف تھا۔ حملہ ہونے پر خواتین اور معصوم بچوں کو میدان کے کنارے تنی چادروں اور چھولداریوں میں بھیج دیا گیا تو ہیلی کاپٹروں سے ان پر ایسا آتش گیر مادہ پھینکا گیا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے ان کے خیموں کو آگ کی لپیٹ میں لے لیا۔ بڑی تعداد میں بچے اور خواتین جل کر راکھ ہوگئے۔ میدان کے کونے میں اور رابعہ بصری مسجد میں قائم دوعارضی ہسپتالوں کا گھیراؤ کرکے انھیں جمع شدہ لاشوں اور زخموں سے چور زندہ انسانوں سمیت جلاکر راکھ کردیا۔ مسجد بھی اندر سے جل کر کوئلہ بن گئی اور سب اندرونی و بیرونی دیواریں جل کر سیاہ ہوگئیں۔

اس روز صرف رابعہ میدان کے ۲۶۰۰ شہدا کی فہرستیں بنیں، زخمیوں کی تعداد ۱۰ہزار سے متجاوز تھی، گرفتار شدگان بھی ہزاروں میں ہیں۔ اس قیامت صغریٰ کے خلاف دو ہی روز بعد ۱۶؍اگست کو پورے ملک میں پھر مظاہرے ہوئے۔ شہر کی ۲۸ مساجد سے عوامی جلوس آکر قاہرہ کے میدانِ رعمسیس میں جمع ہوئے۔سیسی حکومت کی طرف سے ایک بار پھر اسی فرعونیت کا مظاہرہ کیا گیا۔ مزید شہادیتں ہوئیں سیکڑوں مردو خواتین نے زخمی حالت میں لاشیں اٹھا کر قریبی تاریخی مسجد الفتح میں پناہ لی، تو انھیں ہر جانب سے محصور کردیا گیا۔ ۲۰ گھنٹے کے محاصرے کے بعد لال مسجد اسلام آباد جیسی کارروائی کرتے ہوئے مزید بے گناہوں کا خون سر لے لیا گیا۔ ۲۰ گھنٹے سے جن کے حلق سے پانی کا قطرہ تک نہیں اُترا تھا، انھیں وحشیانہ تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے خواتین سمیت بڑی تعداد میں گرفتار کرلیا گیا۔ پھر اگلی ہی صبح گرفتار شدگان سے بھری ایک پولیس بس پر گولیاں اور جلا دینے والی گیس پھینک کر ۳۸قیدیوں کو شہید کردیا گیا۔ کس قیامت در قیامت کا ذکر کیا جائے۔ مصر کی حالیہ تاریخ میں ایسی درندگی اور سفاکیت کی مثال نہیں ملتی۔

  •  انوکہے دھشت گرد: اس ساری سفاکیت اور قتل عام سے بھی بڑا ظلم یہ ہے کہ  مصر اور دیگر کئی ممالک کے ذرائع ابلاغ کے ذریعے قاتلوں کو ہیرو اور بے گناہ شہدا کو دہشت گرد قرار دیا جارہاہے۔ یہ کیسے دہشت گرد تھے کہ جو ۴۸ روز تک مسلسل ملک بھر کے میدانوں میں  بیٹھے تلاوت قرآن کرتے، تراویح اور تہجد پڑھتے رہے اور عین دوران سجود قتل ہوتے رہے۔ لاکھوں کی تعداد میں تھے، چاہتے تو اسلحہ اٹھا کر پورے ملک میں مخالفین کے خون کی نہریں بہادیتے، لیکن    ان کے ہاتھوں کسی کی نکسیر بھی نہیں پھوٹی۔ دہشت گری کا الزام لگانے والوں کو ان لاکھوں دہشت گردوں سے ایک بھی ہتھیار برآمد نہیںہوا۔ وزیر داخلہ نے اپنی پریس کانفرنس میں بہت بڑی دلیل یہ دی کہ ہیومن رائٹس واچ کی ٹیم نے رابعہ بصری میدان میں ’بھاری اسلحہ‘ ہونے کی گواہی دی ہے۔ اگلے ہی لمحے ان کی طرف سے پُرزور تردید آگئی کہ ہم نے اشارتاً بھی ایسی کوئی بات نہیں کہی۔ البتہ یہ توفیق اتنے بڑے عالمی ادارے کو بھی نہیں ہوئی کہ اتنا سنگین الزام لگانے والے وزیر داخلہ کو کسی عالمی عدالت کے کٹہرے میں لاکھڑا کرتی۔

ان انوکھے دہشت گردوں سے البتہ ایک خطرناک اسلحہ بڑی تعداد میں ضرور برآمد ہوا۔ ان میں سے ہر ایک نے سینے سے قرآن لگا رکھا تھا۔ کتنے ہی ایسے شہدا کی میتیںملیں کہ جان دے دی، لیکن قرآن سینوں سے الگ نہیں ہوا۔ انوکھے دہشت گرد تھے کہ جن کے نوجوان بیٹے ہنستے مسکراتے اپنے بازوؤں پر اپنے نام اور وارثوں کے فون نمبر لکھ رہے تھے، تاکہ شہادت کے بعد میت تلاش کرنے میں دشواری نہ ہو۔ کتنے ہی ایسے تھے کہ پورا رمضان میدان میں گزارا، ضروری سامان پر مشتمل ساتھ اٹھائے اپنے تھیلے میں اپنا کفن بھی اٹھا رکھا تھا۔ اس پر اپنامکمل نام پتا بھی لکھ رکھا تھا۔ یہی ان دہشت گردوں کی عید کی تیاری تھی۔ کتنی ہی مائیں ایسی ہیں کہ جیسے ہی اطلاع ملی’بیٹا شہادت کی مراد پاگیا‘ فوراً سجدے میں گرگئیں کہ پروردگار! اپنی سب سے قیمتی متاع پیش کردی، قبول فرمالے۔ عجیب دہشت گرد تھے کہ تحریک کے ساتھ وابستگی کے پہلے روز سے دہرانا شروع کردیتے تھے کہ : ’’اللہ ہمارا مقصود رسول ؐ ہمارے رہنما، قرآن ہمارا دستور، جہاد ہمارا راستہ، و الشہادۃ فی سبیل اللّٰہ أسمی أمانینا، اور اللہ کی راہ میں شہادت ہماری سب سے بلند پایہ آرزو ہے۔ رابعہ بصری اور مصر کے دیگر میدانوں میں ان دہشت گردوں نے ثابت کر دکھایا کہ وہ خالی خولی نعرے نہیں لگاتے، مخلصانہ عمل پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کا اور ان پر الزام لگانے والوں کا معاملہ اللہ کے سپرد کرتے ہوئے، آئیے بعض دیگر حقائق کا جائزہ لیتے ہیں۔

  •  صدر مرسی کا اصل قصور: اس ساری قتل و غارت اور تباہی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حسنی مبارک کا بت گرجانے کے باوجود بھی گذشتہ ۶۴ سال (۱۹۵۲ء) سے مصر پر مسلط فوجی ڈکٹیٹر شپ ہی ملک کی اصل حکمران رہی۔اس نے وعدہ تو کیا کہ وہ انتخابات کے بعد زمامِ اقتدار منتخب پارلیمنٹ اور حکومت کو سونپ دے گی لیکن عملاً ایک دن کے لیے بھی اقتدار نہیں چھوڑا۔ مجبوراً جو انتخابات اور ریفرنڈم کروانا بھی پڑے، تو اس کی راہ میں قدم قدم پر رکاوٹیں کھڑی کیں۔ ریفرنڈم کے ذریعے عبوری دستور منظور ہوا جس کے تحت پہلے قومی اسمبلی پھر سینیٹ اور پھر صدارتی انتخابات ہونا تھے۔ منتخب پارلیمنٹ کو دستور وضع کرنا تھا اور ریفرنڈم کے ذریعے منظوری کے بعد سب کو اپنے اپنے دائرہ کار میں زمام ریاست سنبھال لینا تھی۔ لیکن مارچ ۲۰۱۱ء میں عبوری دستور پر ریفرنڈم ہوتے ہی تحریک شروع کروادی گئی کہ انتخابات نہیں، پہلے دستور، یعنی گھوڑے کو تانگے کے پیچھے باندھا جائے۔ اس تحریک کے پیچھے اصل خوف یہ تھا کہ انتخابات پہلے ہوئے تو اخوان جیت جائیں گے اور پھر وہی دستور بنائیں گے۔ اخوان نے مسلسل میدان میں رہ کر فوج کو انتخابات پر مجبور کیا۔ کئی ماہ کے طویل انتخابی عمل اور بیش بہا وسائل صرف ہونے کے بعد اسمبلی اور سینیٹ کے انتخابات مکمل ہوئے، صدارتی انتخابات ہونے لگے تو اس سے ۱۲ گھنٹے قبل نومنتخب اسمبلی توڑ دی گئی۔ اخوان نے احتجاج کرنے یا مایوس ہونے کے بجاے مکمل یکسوئی سے صدارتی انتخاب میں حصہ لیا اور مخالفین کو کئی ممالک سے ملنے والی بھاری مالی اور ابلاغیاتی امداد کے باوجود اللہ کی توفیق سے کامیاب ہوئے۔

۳۰ جون ۲۰۱۲ء کو صدارتی حلف اٹھا لینے کے بعد مشکلات و مصائب کا ایک نیا دور شروع ہوگیا۔ پہلا جھٹکا تو حلف کے وقت ہی دیا گیا۔ منتخب صدر کو مجبور کیا گیا کہ وہ دستور کے مطابق پارلیمنٹ کے سامنے حلف اٹھانے کے بجاے، اسی دستوری عدالت کے سامنے جا کر حلف اٹھائے جس نے چند ہفتے قبل قومی اسمبلی توڑی تھی۔ ماہرین قانون چیختے رہے کہ قومی اسمبلی ناجائز طور پر تحلیل کردی گئی، لیکن سینیٹ تو موجود ہے، اس کے سامنے حلف ہوجائے۔ لیکن منتخب صدر کو اس کی حیثیت باور کروانا تھی۔ حلف اٹھانے کے لیے قاتل ججوں کے سامنے ہی لاکھڑا کیا گیا (صرف عدالت کے سربراہ نہیں تمام ۱۵ ججوں کے سامنے)۔ پھر آئے روز نئے سے نیا بحران سنگین ہوتا چلاگیا۔ مصر جہاں لوڈ شیڈنگ کا نام و نشان نہیں تھا، اچانک دار الحکومت سمیت پورے ملک میں کئی کئی گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ شروع ہوگئی۔ منتخب حکومت نوٹس لیتی تو جواباً وہی حساب کتاب سنایا جاتا کہ ملک میں ۲۲ہزار۳سو میگا واٹ بجلی بن رہی ہے، جب کہ کھپت ۲۴ہزار ایک سو میگاوٹ ہے اور اس طرح ۱۸۰۰میگاواٹ کی کمی ہے لوڈ شیڈنگ ختم نہیں ہوسکتی۔ لیکن پھر وہی انتظامیہ اور اسٹیبلشمنٹ تھی کہ جیسے ہی منتخب حکومت کا تختہ اُلٹا، تیسرے روز نہ صرف لوڈ شیڈنگ مکمل طور پر ختم ہوگئی بلکہ کہا جانے لگا ہمارے پاس ۲۱۰ میگا واٹ بجلی فالتو ہوگئی ہے۔ یہی عالم پٹرول اور گیس کا تھا۔ منتخب حکومت آنے کے چند ہفتے بعد ہی پٹرول پمپوں پر طویل طویل قطاریں لگنے لگیں اور پٹرول نہ ملتا۔ حکومت آئے روز چوری شدہ پٹرول پکڑتی۔ لاکھوں گیلن پٹرول برآمد کرکے بازار میں لاتی اور چند ہی روز بعد غائب ہوجاتا۔

اب خبریں چل رہی ہیں کہ پٹرول پمپ والے گاہکوں کا انتظار کرتے ہیں۔ امن و امان ناپید ہوتا چلا گیا۔ وزیر داخلہ خود ہی جرائم کے لیے تاویلیں ڈھونڈ کر لاتا، وہی پولیس اور خفیہ ادارے جو آج ملک بھر کے کونے کونے سے حکومت مخالفین کو گرفتار کرکرکے لارہے ہیں اس وقت کہیں ڈھونڈے سے بھی دکھائی نہ دیتے۔ ایک فٹ بال میچ کے دوران تماشائیوں کے مابین جھگڑا ہوگیا اور پھر حیرت انگیز طور پر دونوں طرف سے ۸۴ افراد جاں بحق ہوگئے، پھر اسی بنیاد پر پورے ملک میں ہنگامے شروع ہوگئے___ بعد ازاں انھی عدالتوں نے جن کے سامنے حسنی مبارک اور اس کے گماشتوں کے خلاف سیکڑوں مقدمات سماعت کے منتظر ہیں، چند ماہ میں میچ کے جھگڑے کا فیصلہ سناتے ہوئے ایک فریق کو پھانسی کی سزائیں سنادیں۔ کمرہء عدالت سے براہِ راست نشر ہونے والے فیصلے سے پہلے ہی تیاری مکمل تھی۔ جیسے ہی فیصلہ آیا، اس کے خلاف پہلے ایک شہر اور پھر پورے ملک میں خونی مظاہرے شروع کروادیے گئے۔ ملک کے رگ و ریشے پر گذشتہ ۶۴ سال سے قابض مقتدر قوتیں خود ہی یہ سب بحران پیدا کرتیں اور پھر اپنے درجنوں ٹی وی چینلوں سے پروپیگنڈا کرتیں کہ حکومت نااہل ہے، ملک نہیں چلاسکتی۔

ان خود ساختہ بحرانوں کی فہرست بہت طویل ہے۔ حکومت کو سازشی عناصر کا علم بھی تھا اور  اسے اس بات کا بھی بخوبی اندازہ تھا کہ ۶۴ سالہ اقتدار ہاتھ سے جاتا دیکھ کر یہ عناصر یہی کچھ کریں گے۔ صدرمحمد مرسی نے عوام کی مدد سے خرابیوں کا مداوا کرنے کی کوششوں کے ساتھ ساتھ شخصی اقتدار مستحکم کرنے کے بجاے اداروں کو مستحکم کرنے پر توجہ دی۔ تمام بحرانوں کے باوجودملک میں پہلا آزادانہ دستور بنوایا۔ دستور ساز اسمبلی میں خود اپنے ارکان اسمبلی کے ووٹوں سے اپنے مخالفین کو منتخب کروایا، تاکہ متفق علیہ دستور بنے جس میں فرد واحد کے بجاے ریاست کا اقتدار مستحکم کیاجائے۔ اس موقع پر بھی اصل حکمرانوں اور بیرونی آقاؤں کی ہلہ شیری سے کیا کیا اعتراضات اور احتجاج نہیں کیے گئے۔ قصر صدارت تک کو نذر آتش کرنے کی کوشش کی گئی لیکن بالآخر ریفرنڈم ہوا اور ۶۴ فی صد عوام نے دستور کے حق میں ووٹ دیتے ہوئے ملک کو پہلا جمہوری دستور قرار دے دیا۔ دستور بن گیا تو اُمید کی جارہی تھی کہ مشکلات کے باوجود سب بے مہار مقتدر طبقات کو دستوری دائرے میں لانا ممکن ہوجائے گا۔

منتخب حکومت نے اقتصادی بحران پر قابو پانے کے لیے بھی دور رس اقدامات اٹھائے۔ بحیرۂ احمر کو بحیرۂ روم سے ملانے والی اور عالمی اقتصادی نظام میں شہ رگ کی حیثیت اختیار کرجانے والی نہر سویز اور اس کے ملحق علاقوں کے لیے مختصر عرصے میں ایک ایسا جامع منصوبہ تیار کروایا گیا کہ آج بھی مکمل ہوجائے تو ملک کو سالانہ ۱۰۰ ارب ڈالر دینے کے علاوہ پورے علاقے کا تجارتی و مواصلاتی مرکز بن جائے۔ سوڈان کے ساتھ مل کر ایک ایسے زرعی منصوبے کی بنیاد رکھ دی کہ مکمل ہوجائے تو ۲۰لاکھ ایکڑ بے آباد سوڈانی زمین، مصر کے لیے غلہ اُگانے لگے۔ ۶ لاکھ ۶۰ہزار ایکڑ کا ایک اور ۳لاکھ ۶۶ ہزار ایکڑ کا دوسرا زرعی منصوبہ تیار کیا گیا، جس کے تحت بے زمین کاشت کاروں کو ۵ سے ۱۰ ایکڑ زمین مل جاتی۔ اس طرح کے درجنوں منصوبے ایسے تھے کہ جن کے لیے بیرونی سرمایہ کار بھی    آنا شروع ہوگئے تھے اور کئی ایک پر کام بھی شروع ہوگیا تھا لیکن مخالفین کے لیے شاید یہی امر  سوہان رُوح تھا کہ اگر چار سال کا عرصہ کام کرنے کے لیے مل گیا تو مصر اپنے عوام ہی نہیں خطے کے لیے ایک ایسی مثال بن جائے گا کہ پھر منتخب حکومت کو ہرانا یا ہٹانا ممکن نہ رہے گا۔

  •  بے بنیاد الزامات اور پروپیگنڈا: مار دھاڑ اور ایک کے بعد دوسرا خود ساختہ بحران ہی نہیں درجنوں ٹی وی چینل اور اخبارات منتخب حکومت کے لیے وہ پروپیگنڈا اور الزام تراشی  کرتے رہے کہ امام احمد بن حنبل کو لگنے والے کوڑے یاد آنے لگتے ہیں، جن کے بارے میں کہا گیا تھا کہ ایک بھی کوڑا کسی ہاتھی کی پشت پر لگتا تو بلبلا اٹھتا۔ ایسے ایسے الزامات اور بہتان کہ الامان الحفیظ،مثلاً یہ کہ حکومت نے صحراے سینا حماس کو دینے کا معاہدہ کرلیا۔ سوڈان سے متصل حلایب کی پوری پٹی سوڈان کو دے دی۔ اہرامات مصر اور ابو الہول کو مزار اوربُت قرار دے کر ڈھانے کا فیصلہ کرلیا۔ نہر سویز کو کرایے پر دے دیا۔ خیر یہ تو ایسے مضحکہ خیز الزامات تھے کہ ہر ذی شعور انھیں مسترد کردیتا لیکن کئی الزامات ایسے تھے کہ کئی دانا بھی لاعلمی اور پروپیگنڈے کی قوت کے باعث ان سے متاثر ہوجاتے۔

کہا گیا کہ حکومت نے حکمت کے بجاے ضرورت سے زیادہ عجلت برتی،ہر جگہ اپنے لوگ لا بٹھانے کی کوشش کی۔ عوامی مسائل حل کرنے کے بجاے ملک میں اخوانائزیشن شروع کردی۔  ویسے اگر منتخب صدر اپنے منشور کے نفاذ کی خاطر ہرجگہ اپنے لوگ لے بھی آتے تو انھیں اس کا حق تھا اور جمہوری معاشروں میں ایسا ہوتا ہے۔ لیکن حقائق بالکل برعکس ہیں۔ منتخب صدر نے قومی یکجہتی کی خاطر نائب صدر، وزیر اعظم اور صدارتی مشیروں سے لے کر وزیرداخلہ، وزیر خارجہ، وزیر دفاع، وزیر توانائی، ۲۷ صوبوں میں سے ۲۳ صوبوں کے گورنروں اور عدلیہ کے تمام ذمہ داران تک تمام افراد یا تو وہی رہنے دیے یا پھر ان معروف قومی شخصیات میں سے لیے جن کا اخوان سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں تھا۔ ذرا موجودہ حکومت کے پہلے دو ماہ بھی ملاحظہ ہوں۔ ۲۷ میں سے ۲۰ گورنر  تبدیل کردیے جن میں سے ۱۷ حسنی مبارک کے دور کے فوجی جنرل ہیں۔ یہ بھی واضح رہے کہ مصر میں اپنے صوبے کے تمام اُمور گورنر کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔اسی طرح جنرل سیسی کے بارے میں یہ غلط فہمی پھیلائی گئی کہ صدرمحمد مرسی سینیر افسروں کو نظرانداز کرتے ہوئے انھیں نیچے سے اُوپر لائے حالانکہ صدر نے صرف یہ کیا تھا کہ حسنی مبارک دور سے چلے آنے والے جرنیلوں کی توسیع ختم کر کے جس کی باری تھی، اسے فوج کی قیادت سونپ دی۔ لیکن بدقسمتی سے سیسی نے ’’ربِ عظیم کی قسم کھاکر اقرار کرتا ہوں کہ میں دستور کا پابند رہوںگا‘‘ والے اپنے عہد سے خیانت کی۔ آج پورا مصر اسے ’خائن‘ کے لقب سے جانتا ہے۔

الزام لگایا گیا کہ صدر مرسی نے ذرائع ابلاغ کی آزادی سلب کرلی۔ مصری قوانین کے مطابق تمام رسائل و جرائد کے مدیران کا تعین سینیٹ کی منظوری سے کیا جاتا ہے۔ اس بہانے حکومت ہمیشہ اپنی مرضی کے صحافی مسلط کردیتی ہے۔ اتفاق سے صدر محمد مرسی کے دور میں مدیران کا انتخاب کیا جانا تھا۔ انھوں نے سینیٹ کے ذریعے ۱۰۰ فی صد انھی افراد کو متعین کیا جن کی تجویز خود جرائد و رسائل کی طرف سے دی گئی تھی۔ اپنی مرضی یا پسند کا ایک بھی فرد مقرر نہیں کیا۔ صدر مرسی کے ایک سالہ عہد میں صرف ایک ٹی وی چینل کو عارضی طور پر بند کیا گیا اور تین صحافیوں پر مقدمات چلائے گئے جنھوں نے ٹی وی پر ننگی گالیاں دی تھیں اور صدر کو قتل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس چینل کو بھی جلد بحال اور صحافیوں کو جلد رہا کردیا گیا۔ لیکن اب جنرل سیسی نے آتے ہی ۱۲ ٹی وی چینل بند کردیے جن کا قصور صرف یہ بتایا گیا کہ وہ صدر محمد مرسی کے حامی تھے۔ صدر مرسی پر تنقید کرنے والے صحافی حضرات ذرا جگر تھام کر یہ واقعہ بھی سن لیں کہ میدان رابعہ کے قتل عام کے بعد سرکاری اخبارات الاھرام اور الجمہوریہ کے دو سینئر صحافی ایک راستے سے گزر رہے تھے۔ ایک جگہ فوجی چیک پوسٹ تھی۔ افسر نے دونوں کو گاڑی سے اتارا، شناختی کارڈ دیکھے اور حکم دیا کہ آگے نہیں جاسکتے واپس جاؤ۔دونوں صحافی ہزاروں افراد کا قتل عام دیکھ چکے تھے، ایک لفظ بولے بغیر واپس چل پڑے۔ ابھی چند قدم ہی گئے تھے کہ پیچھے سے فائرنگ کردی گئی، ایک صحافی شہید اور دوسرا شدید زخمی ہوگیا۔ بعد ازاں زخمی کو ہسپتال لے جایا گیا۔ اس نے ہوش آنے پر یہ داستان سنائی جو وہاں موجود ایک دوسرے صحافی نے ریکارڈ کرکے ایک عرب ٹی وی پر نشر کروادی۔ جیسے ہی اس کا یہ بیان نشر ہوا اسے ہسپتال سے گرفتار کرکے غائب کردیا گیا اور الزام لگا دیا گیا کہ اس نے حکومت پر جھوٹا الزام لگایا ہے۔ اب کسی کو آزادیِ اظہار یاد نہیں آتی۔ یہ تو دیگ کا صرف ایک چاول ہے۔

ایک طرف تو یہ زخمی صحافی ہزاروں قیدیوں کی طرح لاپتا ہوگیا لیکن دوسری طرف ۱۴؍اگست کی قیامت صغریٰ کے دوہفتے کے اندر اندر حسنی مبارک کو تمام الزامات سے بری الذمہ قرار دے کر رہا کردیا گیا۔ عدالت کے اس فیصلے کو کسی جگہ چیلنج نہیں کیا جاسکتا ہے۔ فی الحال حفاظتی نقطۂ نظر سے ایک پنج ستارہ ہسپتال میں نظر بند رکھا گیا ہے۔ جنرل سیسی اور ججوں نے حقِ نمک ادا کیا اور قدرت نے یہ حقیقت طشت ازبام کروا دی کہ حسنی مبارک دور اپنی تمام تر سفاکیت کے ساتھ دوبارہ لوٹ آیا ہے۔

الزامات کا شرم ناک سلسلہ بھی جاری ہے۔ ہزاروں بے گناہوں کے قتلِ عام کے بعد سینا کے ایک علاقے میں ۲۶ رضاکاروں کے قتل کا افسوس ناک واقعہ ہوا اور پھر ملک بھر میں درجنوں گرجاگھروں کو نذرِ آتش کردیا گیا۔ ان دونوں واقعات کا الزام بھی اخوان پر لگایا جا رہا ہے۔ رضاکاروں کے بارے میں خود وزیرداخلہ نے تین بیان بدلے ہیں۔ پہلے کہا کہ فوجی قتل ہوئے۔ یاد دلایا گیا کہ ایمرجنسی کے باعث فوجیوں کی تمام چھٹیاں منسوخ ہیں تو بیان دیا کہ نہیں، رضاکار تھے، چھٹی پر جارہے تھے۔ پوچھا گیا کہ رضاکاروں کو مکمل سیکورٹی میں رخصت کیا جاتا ہے، یہ اکیلی گاڑی میں کیسے سوار تھے؟ تو کہا کہ نہیں، چھٹیوں سے واپس آرہے تھے اور اتفاقاً سب ایک دن پہلے آگئے، اس لیے سیکورٹی کا انتظام نہیں ہوسکا۔ اس مسلسل جھوٹ سے آخر کیا فرق پڑتا ہے۔ اخوان پر الزام تو لگ گیا اور وہ واپس نہیں لیا جاسکتا۔ رہے گرجاگھر تو خودمسیحی لیڈر بیان دے رہے ہیں کہ اخوان کے کارکنان گرجاگھروں پر پہرے دے رہے ہیں۔

  •  آیندہ حکمت عملی: چند ہفتوں میں ہزاروں پاکیزہ نفوس کی قربانی دے کر بھی اخوان جرأت کے ساتھ میدان میںکھڑے ہیں۔ روزانہ اکثر شہروں میں بڑے بڑے مظاہرے ہورہے ہیں۔ اس یقین کے باوجود کہ اس وقت سڑکوں پر نکلنا شہادتوں کی وادی میں اُترنا ہے۔ ہرمظاہرے میں مردوخواتین اور پیروجوان سب نکلتے اور فوجی انقلاب مسترد کرتے ہوئے دستور کی بحالی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ تمام تر قتل و غارت کے باوجود اخوان نے پہلے روز سے پُرامن رہنے اور پُرامن جدوجہد جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ فوجی انقلاب کے دوسرے روز مرشد عام نے پوری تحریک کے دوران میں اپنے واحد خطاب میںاعلان کیا تھا: نظل سلمیین و سلمیتنا أقویٰ من الرصاص، ’’ہم پُرامن رہیں گے اور ہمارا پُرامن راستہ گولیوں سے زیادہ طاقت ور ہے‘‘۔تمام تر قتل عام کے بعد اور اپنی گرفتاری سے چار گھنٹے پہلے لکھے جانے والے اپنے ہفتہ وار پیغام میں بھی انھوں نے اسی مؤقف کا اعادہ کیا کہ: ’’سلمیتنا سر قوتنا ہماری قوت کا راز ہمارا پُرامن رہنا ہے‘‘۔ آیات و احادیث سے مرصع بیان میں اسی حقیقت پر زور دیا گیا ہے کہ ’’جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہنا افضل ترین جہاد ہے‘‘۔ ’’فرعون کے نقش قدم پر چلنے والے باغی حکمران نوجوانان اُمت کو بالعموم اور اسلامی تحریک کے نوجوانوں کو بالخصوص تشدد کے بھنور میں پھانسنا چاہتے ہیں۔ وہ انھیں پُرامن جدوجہد سے ہٹا کر تشدد اور جوابی تشددکے جوہڑ میں دھکیلنا چاہتے ہیں لیکن اے آزاد منش انقلابی نوجوانو! تمھارا تعلق کسی بھی دینی اور قومی گروہ سے ہو، ہمیں دشمن کی اس چال سے خبردار رہنا ہے۔ ہمیں پُرامن جدوجہد کے پرعزم راستے پر ہی آگے بڑھتے رہنا ہے۔ قربانیاں جتنی بھی زیادہ ہوجائیں ہمیں خونی حکمرانوں کے مقابلے میں اسی پُرامن راستے پر رواں دواں رہنا ہے۔ کسی مایوسی یا شک کو قریب نہ پھٹکنے دو۔ اللہ کی توفیق سے ہمارا پُرامن انقلاب ان کے ہر اسلحے کو شکست دے کر رہے گا کہ یہی پروردگار کا وعدہ ہے:  وَ کَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ (الروم ۳۰:۴۷)’’سچے اہل ایمان کی نصرت ہمارے ذمے ہے‘‘۔ یہ اور اس طرح کے پالیسی بیانات راہِ عمل بھی واضح کررہے ہیں اور قیادت و کارکنان کو شہادتوں اور گرفتاریوں کی باوجود میدان میں ثابت قدم بھی رکھے ہوئے ہیں۔

رب ذوالجلال کی حکمت دیکھیے کہ اخوان یہ تحریک اکیلے نہیں ایک قومی اتحاد کی صورت چلارہے ہیں۔ التحالف الوطنی لدعم الشرعیۃ (National Alliance to Support The Legitimacy) کے نام سے کئی اہم جماعتیں یک آواز تھیں۔ اب حسنی مبارک کی رہائی نے مزید عوام اور کئی گروپوں کو سیسی انقلاب کی حقیقت سے آشنا کردیا ہے۔ البرادعی جیسے مغرب کے گماشتے بھی ملک کو آگ و خون کی دلدل میں دھکیلنے کے بعد اپنا کردار کھوچکے اور اب فوجی حکومت کی انتقامی کارروائیوں کا سامنا کررہے ہیں۔ ملک سے فرار نہ ہوتے تو اب تک یقینا گرفتار ہوچکے ہوتے۔ فوجی سرپرستی میں صدرمرسی کے خلاف ’تمرد‘ (بغاوت) تحریک چلانے والا نوجوانوں کا اہم گروہ ’۶؍اپریل‘ بھی اب حکومت مخالف مظاہروں کا اعلان کرنے پر مجبور ہے۔ گویا ہر گزرنے والا دن مصری عوام کو فوجی انقلاب کے خلاف یک سُو کر رہا ہے۔

اسی ضمن میںایک اہم ترین اور جامع تجزیہ ایک ممتاز تحریکی عالمِ دین اور اسکالر ڈاکٹر محمداحمد الراشد کا بھی ہے۔ واضح رہے کہ انھوں نے اپنے ۱۰۴ صفحات پر مشتمل یہ تجزیہ ۲۰ رمضان کو کیا تھا، یعنی میدان رابعہ بصری میں وقوع پذیر قیامت سے دو ہفتے پہلے۔ لکھتے ہیں: ’’میں جنرل سیسی کے فوجی انقلاب کی فوری ناکامی کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ ہوسکتا ہے کہ وہ رابعہ میدان میں بیٹھے لاکھوں اہل ایمان کو کچل ڈالے، جیلوں میں ٹھونس دے، عوام کی مکمل زباں بندی کرنے میں کامیاب ہوجائے لیکن مجھے یہ یقین ہے کہ وہ اپنے پیش رو ڈکٹیٹروں کی طرح اپنے اقتدار کو ہرگز طول نہیں دے سکے گا۔ اب عوام نے عرب بہار کے ذریعے ایک بار آزادی کی جھلک دیکھ لی ہے‘‘۔ اسی تحریر میں وہ اپنے ایک سابقہ تجزیے کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’تحریف شدہ تلمود کے جو چند حصے اپنی اصل حالت میں باقی رہ گئے ہیں، ان کے مطابق اسرائیل کی ’ناجائز‘ ریاست اپنے قیام کے ۷۶قمری سال بعد زوال پذیر ہو جائے گی۔ اس حساب سے یہ تاریخ ۲۰۲۲ عیسوی بنتی ہے‘‘۔ انھوں نے اس ضمن میں بسام جرار کی کتاب زوالُ اسرائیل ( اسرائیل کا زوال) اور سفر الحوالی کی تحریروں کا حوالہ دیتے ہوئے خود اسرائیل میں کی جانے والی ان بحثوں کا ذکر بھی کیا ہے کہ کیا اسرائیل اپنا وجود باقی رکھ سکے گا؟ محمد الراشد نے غیب دانی کے دعوے کی بار بار نفی اور اللہ أعلم کی تکرار کے ساتھ بہت سے حقائق کا حوالہ دیتے ہوئے یقین ظاہر کیا ہے کہ مصر میں وقوع پذیر حالیہ واقعات پورے خطے میں بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ہیں۔ اس عرصے میں اہل فلسطین بالخصوص اہل غزہ پر بھی مصائب کے مزید پہاڑ ٹوٹ سکتے ہیں، لیکن وہ اپنے جہاد اور اہل مصر اپنی ملک گیر پُرامن تحریک اور قربانیوں کے ذریعے تھوڑے ہی عرصے میں دوبارہ سرخرو ہوں گے۔ معزول صدر محمدمرسی پر ابھی تک کوئی الزام نہیں لگایا جاسکا۔ الزام ہے تو صرف یہ کہ انھوں نے حماس کے ساتھ خفیہ بات چیت کی ہے۔ یہ الزام اور بات بے بات اہلِ غزہ پر الزامات، کیا اسی اسٹیج کی تیاری ہے؟

ایک اور مجاہد صفت عالم دین اور مصر کی سپریم کونسل براے دینی اُمور کے سابق سربراہ ڈاکٹر صلاح سلطان جن کا تعلق اخوان سے نہیں ہے، قرآن کریم کی اس آیت کی روشنی میں کہ حَتّٰیٓ اِذَا اسْتَیْئَسَ الرُّسُلُ وَ ظَنُّوْٓا اَنَّھُمْ قَدْ کُذِبُوْا جَآئَ ھُمْ نَصْرُنَا  (یہاں تک کہ جب پیغمبر لوگوں سے مایوس ہوگئے اور لوگوں نے بھی سمجھ لیا کہ ان سے جھوٹ بولا گیا تھا، تو یکایک ہماری مدد پیغمبروں کو پہنچ گئی۔یوسف ۱۲:۱۱۰)، اہل ایمان کو یاد دلارہے ہیں کہ بعض اوقات مصائب اور تکالیف اس درجے کی ہوتی ہیں کہ قرآن کریم کے مطابق خود رسول ؑ مایوس ہونے لگے اور سمجھے کہ وہ اور ان کی دعوت جھٹلا دی گئی، لیکن جب جبر و جور اور تکالیف عروج تک جا پہنچیں تو اللہ کی نصرت آن پہنچی۔

حریت و عدالت کے قائم مقام صدر محمد البلتاجی کی ۱۷ سالہ صاحبزادی اسماء بلتاجی بھی رابعہ میدان میں سینے پر گولی کھاکر شہید ہوگئی تھی۔ ڈاکٹر محمد بلتاجی خود اس وقت روپوش رہ کر قیادت کر رہے ہیں، ان کے جنازے میں شریک نہیں ہوسکے۔ تدفین کے بعد شہید بیٹی کے نام اپنے طویل خط میں لکھتے ہیں: ’’عزیز از جان بیٹی! میں تمھیںخدا حافظ نہیں کہتا بلکہ یہ کہتا ہوں کہ ان شاء اللہ کل جنت میں ملیں گے۔ بیٹی، تم طاغوت کے سامنے سربلند کھڑی رہیں اور بالآخر اس اُمت کے احیا کے لیے جان قربان کردی۔ بیٹی! تمھیںہمیشہ شکوہ رہا کہ میں تمھیں وقت نہیں دے سکا___ میدان رابعہ میں آخری ملاقات کے دوران بھی تم کہہ رہی تھیں:’’ بابا ہمارے ساتھ رہ کر بھی آپ ہمارے ساتھ نہیں ہیں‘‘۔ بیٹی یہ زندگی اتنی مختصر ہے کہ اس میں باہم ملاقاتوں سے ہم سیر ہوہی نہیںسکتے۔ دُعا کرو   ہم جنت میں اکٹھے ہوجائیں___ پھر جی بھر کے باتیں کریں گے۔ وہاں ہم کبھی نہیں بچھڑیں گے۔

جانِ پدر!میں نے تمھاری شہادت سے دو روز قبل خواب میں دیکھا تھا کہ تم نے دلہنوں کا لباس پہنا ہوا ہے، انتہائی نفیس اور انتہائی خوب صورت___ تم خاموشی سے آکر میرے پاس لیٹ گئیں۔ میں نے پوچھا کیا آج رات تمھاری شادی ہورہی ہے؟ تم نے جواب دیا: ’’نہیں بابا رات کو نہیں، دوپہر کو‘‘۔ پھر دو روز بعد جب مجھے تمھاری شہادت کی خبر دی گئی، تو معلوم ہوا تم ظہر کے وقت شہید ہوئی ہو۔ مجھے تمھاری شہادت کی قبولیت کا یقین ہوگیا اور میرا یہ یقین مزید راسخ ہوگیا کہ ہم حق پر ہیںاور ہمارے مخالفین باطل پر ہیں اور حق یقینا غالب ہوکر رہے گا‘‘۔

مصر کے خونی حکمرانو! اس کی سرپرستی اور پشتیبانی کرنے والو! کیا اس جذبۂ ایمانی اور  حق کی جدوجہد کو شکست دے سکو گے۔ پروردگار کا یہ فرمان بھی کان کھول کر سن لو: سَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْٓا اَیَّ مُنقَلَبٍ یَّنقَلِبُوْنَ o (الشعراء ۲۶:۲۲۷) ’’ظلم کرنے والے عنقریب جان لیں گے کہ وہ کس انجام کی طرف لوٹائے جائیں گے‘‘۔


مصر کے بارے میں تحریک مکمل ہوچکی تھی کہ شام میں بھی قتل عام کی نئی خبریں آنے لگیں۔ کیمیکل ہتھیاروں کے ذریعے ۲ہزار سے زائد بے گناہ شہری شہید کردیے گئے جن میں اکثریت بچوں کی ہے۔ شام کا خونی درندہ گذشتہ تقریباً اڑھائی سال میں ایک لاکھ سے زائد انسانی جانیں  تہِ خاک کرچکا ہے۔ مصر میں ہزاروں جانوں کے قتل عام پر زبانی جمع خرچ کرنے والی مسلم اور عالمی برادری خون کی اس ہولی پر بھی گونگا شیطان بنی ہوئی ہے۔ بشار اور سیسی جیسے خوں خوار ایک دوسرے کی پیٹھ ٹھونک رہے ہیں۔ بشار کا خاتمہ بہت پہلے ہوچکا ہوتا لیکن دنیا کو اصل خطرہ یہ ہے کہ ’اسرائیل‘ کے پڑوس میں اس کے وجود کے لیے خطرہ بننے والی کوئی حکومت نہ آجائے۔ قرآنی صدا بلندتر ہورہی ہے:

وَ اِذْ یَمْکُرُبِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْکَ اَوْ یَقْتُلُوْکَ اَوْ یُخْرِجُوْکَ ط وَیَمْکُرُوْنَ وَ یَمْکُرُ اللّٰہُ ط  وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَo(الانفال ۸:۳۰) وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے، جب کہ منکرین حق تیرے خلاف تدبیریں سوچ رہے تھے کہ تجھے قید کردیں یا قتل کرڈالیں یا جلاوطن کردیں۔ وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے۔

وَ مَا یَمْکُرُوْنَ اِلَّا بِاَنْفُسِھِمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ o(الانعام ۶:۱۲۳) دراصل وہ اپنے فریب کے جال میں آپ پھنستے ہیں، مگر انھیں اس کا شعور نہیں ہے۔

 

ایران میں جمہوریت کا تسلسل صدارتی انتخابات کی صورت میں جاری و ساری ہے۔ حالیہ صدارتی انتخاب میں ۳ کروڑ ۷۰لاکھ افراد نے ووٹ ڈالے اور ۵۱فی صد ووٹ حاصل کرنے کے بعد حسن رُوحانی صدر منتخب ہوگئے۔ خبررساں ایجنسی رائٹر کے نامہ نگار کے مطابق: ’’انتخابات حیران کن حد تک شفاف اور آزادانہ تھے اگرچہ ۱۰لاکھ لوگ ووٹ نہ ڈال سکے‘‘۔

صدارتی نتائج کی اطلاع آنے کے بعد برطانیہ کے دفترخارجہ نے نئے صدر کا خیرمقدم کیا اور اُمید ظاہر کی کہ ’’بین الاقوامی برادری کو ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں جو تحفظات ہیں، وہ اُس پر توجہ دیں گے، نیز ایرانی عوام کی انسانی حقوق اور سیاسی حقوق کے حوالے سے جو تمنائیں ہیں اُنھیں پورا کریں گے‘‘۔ برطانوی حکومت نے جس قدر ایرانی شہریوں کے سیاسی حقوق کی بات کی ہے کاش اِتنی ہی فکر شام، مصر ، افغانستان اور جموں و کشمیر کے عوام کی بھی کرتے۔

واشنگٹن پوسٹ میں جے سن رضاعیان نے اپنے مضمون ’ایران کے صدر کو درپیش ’اہم معرکے‘ میں تحریر کیا ہے کہ ’مُلائوں‘ سے لے کر روشن خیال طبقے تک نے حسن رُوحانی کوووٹ دیے ہیں۔ مختلف طبقات نے اُن سے مختلف اُمیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔ صدر حسن رُوحانی کے لیے سب سے بڑا مسئلہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری ہے اور منتخب ہونے سے پہلے وہ  اہم اقتصادی تبدیلیاں لانے کا اعلان کرچکے ہیں۔ اُن کے لیے دوسرا بڑا چیلنج سیاسی قیدیوں کی رہائی، ذرائع ابلاغ پر کنٹرول کی حدود کا تعین اور جدید و قدیم راے دہندگان میں بڑھتی ہوئی خلیج کو پاٹنا ہے۔

امریکا اور مغربی ممالک کی سب سے اہم خواہش یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران نئے صدر کی موجودگی میں اپنا جوہری پروگرام لپیٹ کر رکھ دے۔ اُنھیں کامل یقین ہے کہ امریکا، روس کے پاس سیکڑوں جوہری ہتھیار ہیں لیکن وہ ’محفوظ ہاتھوں‘ میں خیال کیے جاتے ہیں۔ ایسی ایرانی حکومت اُن کا خواب ہے کہ جو واشنگٹن و لندن سے موصول ہونے والی ہدایات پر خاموشی سے عمل درآمد کرے۔ عالمی طاقتوں کا چھوٹا سا مطالبہ یہ بھی ہے کہ ایرانی حکومت، علاقائی معاملات میں بھی مداخلت سے پرہیز کرے۔ نئے صدر نے کیا طرزِعمل اختیار کرنا ہے؟ اس کی عملی وضاحت کا سب کو انتظار ہے۔

امام انقلابِ ایران آیت اللہ روح اللہ خمینی کے قریبی ساتھیوں میں ہونے اور متعد بار   جیل جانے کے باوجود، حسن رُوحانی کی یہ پختہ سوچ ہے کہ کروڑوں کی آبادی والے بھرپور ملک کو    ’چند سرکردہ افراد‘ کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۔ اُن کی اس سوچ کی جو بھی تشریح کی جائے، راے دہندگان نے اسے تازہ ہوا کی لہر سمجھا ہے۔ طبقۂ علما اس کی جو بھی تعبیر کرے، موجودہ ایرانی قیادت کا نبض پر ہاتھ ہے، انتخابی نتائج سے تو یہی محسوس ہوتا ہے۔

ایران کے سپریم لیڈر رہبر آیت اللہ علی خامنہ ای نے ایک تقریب میں حسن رُوحانی سے حلف لیا (اہلِ مغرب اسے ایران کی سب سے بڑی خامی سمجھتے ہیں کہ منتخب صدر سے اُوپر ’رہبر‘ کی موجودگی جمہوریت، پارلیمان اور صدارتی نظام کی توہین ہیں، اہلِ ایران کو اس اعتراض کی ذرہ برابر بھی پروا نہیں ہے)۔ پارلیمنٹ کی منظوری اور رہبر خامنہ ای سے حلف برداری کے بعد کابینہ کا اجلاس ہوا۔ اپنے پہلے ہی خطاب میں حسن رُوحانی نے کہا کہ ہم سب نے مل کر ایران کو خوش حال بنانا ہے اور لوگوں کے معیارِ زندگی کو بلند کرنا ہے۔ کابینہ میں ۱۵؍افراد کو شامل کیا گیا ہے۔ سابقہ روایات کے برعکس اِن میں اپنے اپنے شعبے کے عملی ماہرین کو زیادہ ترجیح دی گئی ہے۔ اِن کی اکثریت، امریکا و یورپ میں زیرتعلیم رہی ہے۔ تاہم تین افراد کی نامزدگی مسترد کردی گئی۔ اُن کے بارے میں گمان کیا جاتا ہے کہ وہ ’زیادہ اصلاح پسند‘ ہیں۔

عالمی برادری کی طرف سے ایران پر اقتصادی پابندیاں جاری ہیں جس کی وجہ سے مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے، نیز جرائم کی شرح بھی بڑھی ہے۔ نوجوان نسل نے کھلم کھلا ’طبقۂ علما اور روایت پسندوں‘ کو تمام مشکلات کا سبب قرار دیتے ہوئے ہدفِ تنقید بنایا ہے۔   حسن رُوحانی کے بارے میں یہ گمان کیا جاتا ہے کہ وہ معتدل ہیں، تنقیدی ذہن رکھتے ہیں، تاہم اصلاح پسند بھی ہیں۔

اسرائیلی روزنامے ہآرٹز کا تجزیہ ہے کہ سابق صدر احمدی محمود نژاد کے مقابلے میں شیعہ عالم دین حسن رُوحانی کو جدت پسند سمجھا جاتا ہے۔ تاہم وہ کس قدر جدیدیت پسند ہیں اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ہیں۔ صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد حسن رُوحانی نے اپنے غیرمعمولی خطاب میں کہا کہ ’’جو ممالک ایران کے ساتھ مذاکرات چاہتے ہیں تو وہ برابری، اعتماد سازی، باہمی احترامِ اور دشمنی و جارحیت کو ختم کرنے کے اعلان کے ساتھ ہی کرسکتے ہیں۔ اگر آپ مثبت ردعمل چاہتے ہیں تو ایران کے ساتھ پابندیوں کی زبان میں بات نہ کریں بلکہ احترام کی زبان میں بات کریں‘‘۔

ایرانی صدر کے اس دوٹوک خطاب کے چند گھنٹے بعد ہی وائٹ ہائوس کے ترجمان Jay Carney کا ردعمل سامنے آگیا: ’’صدر رُوحانی کے صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ایران کو ایک اور موقع مل گیا ہے کہ وہ فوری اقدام کرے اور ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں عالمی برادری کے جو تحفظات ہیں اُس کے تدارک کی کوشش کرے۔ اگر یہ حکومت سنجیدگی کے ساتھ، ہمہ وقتی طور پر عالمی برادری کی توقعات پر پورا اُترتی ہے اور اس مسئلے کا حل تلاش کرتی ہے تو وہ امریکا کو ہرلمحے اپنا دوست و شریک پائے گی‘‘۔

حسن رُوحانی اور اُن کی کابینہ اس پیش کش کا کیا جواب دیتی ہے۔ اُس کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے، تاہم اس کے امکانات بڑھ گئے ہیں کہ امریکا ایران میں اور جوہری مسئلے سے متعلق ممالک میں مذاکرات میں بہتری آئے اور بیان بازی میں بھی شدت نہ رہے۔ یاد رہے اگر ایران نے جوہری پروگرام ترک کرنا ہوتا تو اقتصادی پابندیوں کو کیوں گلے لگاتا۔

موجودہ وزیرخارجہ محمد جواد ظریف، جوا قوامِ متحدہ میں ایران کے سفیر رہے ہیں، کے بارے میں گمان کیا جاتا ہے کہ امریکا میں زیرتعلیم رہنے، طویل سفارتی تجربے اور اقوامِ متحدہ میں طویل عرصے تک خدمات سرانجام دینے کے سبب وہ اقتصادی پابندیاں ختم کرانے اور جوہری پروگرام کے بارے میںبااعتماد اصولی معاہدہ کرانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔

حسن رُوحانی ۱۲نومبر ۱۹۴۸ء کو پیدا ہوئے۔ عرصۂ دراز سے اُن کی شناخت شیعہ مجتہد، مسلم عالم دین، اُستاد، سفارت کار اور آیت اللہ روح اللہ خمینی کے ابتدائی ساتھیوں کی ہے۔ اُنھوں نے سمنان اور قُم کے حوزۂ علمیہ سے دینی تعلیم حاصل کی اور تہران یونی ورسٹی سے قانون میں گریجویشن کی۔ نیشاپور میں اُنھوں نے ملٹری سروس شروع کی، بعدازاں اُنھوں نے اسکاٹ لینڈ کی کیلیڈونین یونی ورسٹی سے ایم فل اور قانون میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اُن کا ایم فل کا تحقیقی مقالہ: ’اسلامی قانون سازی اختیار اور ایرانی تجربہ‘ کے موضوع پر لکھا گیا۔ وہ Assembly of Experts، سپریم نیشنل سیکورٹی کونسل اور سنٹر فار اسٹرے ٹیجک ریسرچ کے ۱۹۹۲ء میں سربراہ رہے۔ وہ مجلس اسلامی مشاورتی اسمبلی میں دو بار ڈپٹی اسپیکر اور سیکورٹی کونسل کے سیکرٹری رہے۔

حسن رُوحانی کو بین الاقوامی سفارت کار کے طور پر غیرمعمولی شہرت حاصل ہے۔ عرب اختیارات ’سفارت کار شیخ‘ کے طور پر بھی اُن کا تذکرہ کرتے ہیں۔ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے نمایندوں سے وہ مذاکرات کرتے رہے۔ کہا جاتا ہے کہ آیت اللہ روح اللہ خمینی کے لیے ’امام‘ کا لفظ استعمال کرنے کی تجویز حسن رُوحانی کی تھی۔ کیونکہ شیعہ مذہب میں امام کا منصب اور لقب بہرحال مذہبی تقدیس کا حامل ہے اور امام عوام کے انتخاب پر منحصر نہیں ہوتا۔

برطانیہ، فرانس اور جرمنی سے جوہری پروگرام کے بارے میں جو ایرانی ٹیم مذاکرات کررہی ہے رُوحانی اس کے سربراہ رہے ہیں۔ اُن کو نرم خُو سفارت کار کی حیثیت سے جانا جاتا ہے جو دوسرے کی بات سننے میں قابلِ قدر برداشت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔امریکا اور مغربی دنیا نے عراق کے حصے بخرے کرنے، افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجانے، پاکستان میں آگ و خون کی بارش برسانے کے بعد ایران سے دو دو ہاتھ کرلینے کا فیصلہ کررکھا ہے۔ کئی برس سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ ایران اپنے پُرامن جوہری پروگرام کا معائنہ کرائے اور فوری طور پر اس کو ترک کردے۔

۱۴ جون ۲۰۱۳ء میں ہونے والے انتخابات میں حسن رُوحانی نے ’شہری حقوق چارٹر‘ اور ’مغرب سے تعلقات بہتر کرنے‘ کا نعرہ لگایا اور انتخابات میں کامیابی کے بعد نئے عزم سے اقتصادی پابندیوں کے باوجود معاشی خودمختاری پروگرام پر عمل درآمد کے لیے تیار ہیں۔

 

خدا اور قیاسات

سوال: کچھ عرصہ ہوا، ایک دوست کے ساتھ میری بحث ہوئی۔ سوال یہ تھا کہ خدا ہے یا نہیں؟ اور ہے تو وہ کہاں سے آیا؟ ہم دونوں اس معاملے میں علم نہیں رکھتے تھے، لیکن پھر بھی میں سوال کے پہلے جزو کی حد تک اپنے مخاطب کو مطمئن کرنے میں کامیاب ہوگیا، لیکن دوسرے جز کا کوئی جواب مجھ سے بن نہیں آیا۔ چنانچہ اب یہ سوال خود مجھے پریشان کر رہا ہے۔ایک موقع پر میری نظر سے یہ بات گزری ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہ سوال کیا گیا تھا، اور آپؐ نے اس کے جواب میں فرمایا تھا کہ کچھ باتیں انسان کے سوچنے اور سمجھنے سے باہر ہوتی ہیں ، اور یہ سوال بھی انھی میں شامل ہے۔میں بہت کوشش کرتا ہوں کہ آنحضرتؐ کے اس فرمودہ سے اطمینان حاصل کروں، لیکن کامیابی نہیں ہوتی۔ براہِ کرم آپ میری مدد فرمائیں۔

دوسرا سوال یہ ہے کہ انسان کو صحیح معنوں میں انسان بننے کے لیے کن اصولوں پر چلنا چاہیے؟

جواب: آپ کے ذہن کو جس سوال نے پریشان کر رکھا ہے، اس کا حل تو کسی طرح ممکن نہیں ہے، البتہ آپ کی پریشانی کا حل ضرور ممکن ہے۔ اور اس کی صورت یہ ہے کہ آپ اس قسم کے مسائل پر سوچنے کی تکلیف اُٹھانے سے پہلے اپنے علم کے حدود (limitations) کو اچھی طرح سمجھ لیں۔ جب آپ یہ جان لیں گے کہ انسان کیا کچھ جان سکتا ہے اور کیا کچھ نہیں جان سکتا تو پھر آپ    خواہ مخواہ ایسے امور کو جاننے کی کوشش میں نہ پڑیں گے جن کو جاننا آپ کے بس میں نہیں ہے۔ خدا کی ہستی کے متعلق زیادہ سے زیادہ جو کچھ آدمی کے امکان میں ہے وہ صرف اس قدر ہے کہ آثارِکائنات پر غور کر کے ایک نتیجہ اخذ کرسکے کہ خدا ہے، اور اس کے کام شہادت دیتے ہیں کہ اس کے اندر یہ اور یہ صفات ہونی چاہییں۔ یہ نتیجہ بھی ’علم‘ کی نوعیت نہیں رکھتا، بلکہ صرف ایک عقلی قیاس اور گمان غالب کی نوعیت رکھتا ہے۔ اس قیاس اور گمان کو جو چیز پختہ کرتی ہے وہ یقین اور ایمان ہے۔ لیکن کوئی ذریعہ ہمارے پاس ایسا نہیں ہے جو اس کو ’علم‘ کی حد تک پہنچا سکے۔

 اب آپ خود سوچ لیجیے کہ جب خدا کی ہستی کے بارے میں بھی ہم یہ دعویٰ نہیں کرسکتے کہ ہم کو اس کے ہونے کا ’علم‘ حاصل ہے تو آخر اس کی حقیقت کا تفصیلی علم کیوں کر ممکن ہے۔ خدا کی ذات تو خیر بہت بلندوبرتر ہے، ہم تو یہ بھی نہیں جانتے کہ ’زندگی‘ کی حقیقت اور اس کی اصل (origin) کیا ہے۔ یہ توانائی (energy) جس کے متعلق ہمارے سائنس دان کہتے ہیں کہ اسی نے مادہ کی شکل اختیار کی ہے اور اس سے یہ کائنات وجود میں آئی ہے، اس کی حقیقت ہمیں معلوم نہیں، اور نہ ہم یہ جانتے ہیں کہ یہ کہاں سے آئی اور کس طرح اس نے مادے کی گوناگوں شکلیں اختیار کیں۔ اس قسم کے معاملات میں ’کیوں‘ اور ’کیسے‘ کے سوالات پر غور کرنا اپنے ذہن کو اس کام کی تکلیف دینا ہے جن کے انجام دینے کی طاقت اور ذرائع اس کو حاصل ہی نہیں ہیں۔ اس لیے یہ غوروفکر نہ پہلے کبھی انسان کو کسی نتیجے پر پہنچا سکا ہے نہ اب آپ کو پہنچا سکتا ہے۔ اس کا حاصل بجز حیرانی کے اور کچھ نہیں۔ اس کے بجاے اپنے ذہن کو ان سوالات پر مرکوز کیجیے جن کا آپ کی زندگی سے تعلق ہے اور جن کا حل ممکن ہے۔ یہ سوال تو بے شک ہماری زندگی سے تعلق رکھتا ہے کہ خدا ہے یا نہیں، اور ہے تو اس کی صفات کیا ہیں، اور اس کے ساتھ ہمار ے تعلق کی نوعیت کیا ہے؟ اس معاملے میں کوئی نہ کوئی راے اختیار کرنا ضروری ہے۔کیونکہ بغیر اس کے ہم خود اپنی زندگی کی راہ متعین نہیں کرسکتے۔ اور اس معاملے میں ایک راے قائم کرنے کے لیے کافی ذرائع بھی ہمیں حاصل ہیں۔ لیکن یہ سوال کہ ’’خدا کہاں سے آیا‘‘ نہ ہماری زندگی کے مسائل سے کوئی تعلق رکھتا ہے اور نہ   اس کے متعلق کسی نتیجے پر پہنچنے کے ذرائع ہم کو حاصل ہیں۔

آپ کا دوسرا سوال کہ ’’انسان کو انسان بننے کے لیے کن اصولوں پر چلنا چاہیے‘‘ ایسا نہیں ہے کہ اس کا جواب ایک خط میں دیا جاسکے۔ میں اپنی کتابوں میں اس کے مختلف پہلوئوں پر مفصل لکھ چکا ہوں۔ آپ ان کو ملاحظہ فرمائیں۔ مثلاً اس کے لیے میرے مضامین سلامتی کا راستہ، اسلام اور جاہلیت، اسلام کا اخلاقی نقطۂ نظر اور دین حق کا مطالعہ مفید رہے گا۔ نیز رسالہ دینیات سے بھی آپ کو اس معاملے میں کافی رہنمائی حاصل ہوگی۔ (سیدابوالاعلیٰ مودودی، رسائل و مسائل، دوم، ص ۲۷۳-۲۷۴)

شادی کی عمر اور اسلام

س: اسلام میں بچیوں کی بروقت شادی کی کیا اہمیت ہے اور اس کا کیا حکم ہے؟ میری ایک سہیلی جس کی عمر ۲۸سال ہوچکی ہے لیکن اس کے والدین اس کی شادی کے بارے میں سنجیدہ نہیں دکھائی دیتے۔ ان کا کہنا ہے کہ شادی سنت ہے، خواہ اسے اپنایا جائے یا نہ اپنایا جائے، یہ فرض نہیں ہے۔ کبھی یہ کہتے ہیں کہ اچھا رشتہ نہیں ملتا۔ جب کوئی اچھا رشتہ ملتا ہے تو کہتے ہیں کہ ان کے پاس اتنا پیسہ نہیں ہے کہ وہ شادی کرسکیں، حالانکہ اس کے والد وفاقی حکومت کے گریڈ۱۸ کے ملازم ہیں۔ وہ مختلف اوقات میں مختلف بے بنیاد جواز پیش کرتے ہیں۔ دوسری طرف وہ اپنے آپ کو اچھا مسلمان بھی سمجھتے ہیں کہ وہ پانچ وقت نماز ادا کرتے ہیں، قرآنِ مجید کی تلاوت کرتے ہیں اور حرام سے بچتے ہیں۔ براہِ مہربانی قرآن و سنت کی روشنی میں مفصل جواب دیجیے، نیز یہ بھی واضح کریں کہ آیا شادی جیسے مذہبی فریضے کی ادایگی کے لیے پیسہ لازمی عنصر ہے؟

ج:  آپ نے اپنے سوال میں ہمارے معاشرے میں پائے جانے والے ایک اہم اور سنجیدہ مسئلے کی طرف متوجہ کیاہے۔ بعض اوقات لڑکیاں خود یہ رویہ اختیار کرتی ہیں کہ ابھی شادی کی جلدی ہی کیا ہے، بہت عمر پڑی ہے۔ پہلے تعلیم مکمل کی جائے، پھر ملازمت کی جائے اور جب کوئی مناسب رشتہ آئے تو اس پر بھی غور کرلیا جائے۔ ایسے ہی بعض والدین عاقبت نااندیشی اور بعض مادیت کے زیراثر یہ انتظار کرتے ہیں کہ کسی زیادہ مال دار فرد کی طرف سے رشتے کی پہل ہو تو اس پر غور کریں۔ ایک تیسرا زیادہ خطرناک تصور جو مغربی تہذیب اور ہندوازم کے ساتھ طویل عرصے کے تعامل (interaction) کے نتیجے میں بعض حضرات کے ذہنوں میں اُبھر آیا ہے وہ بجاے خود شادی اور خاندانی زندگی کی اہمیت کو محسوس نہ کرنا اور تجرد کی زندگی گزارنے میں کوئی حرج محسوس نہ کرنے کا ہے۔

جہاں تک قرآن و سنت کا تعلق ہے، قرآن کریم نے بہت واضح الفاظ میں حکم دیا ہے کہ:  وَاَنکِحُوْا الْاَیَامٰی مِنْکُمْ وَالصّٰلِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَاِِمَآئِکُمْ ط اِِنْ یَّکُوْنُوْا فُقَرَآئَ یُغْنِہِمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ط وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ o(النور ۲۴:۳۲)،’’تم میں سے جو لوگ مجرد ہوں، اور تمھارے لونڈی غلاموں میں سے جو صالح ہوں ان سے نکاح کردو۔ اگر وہ غریب ہوں تو اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کردے گا، اللہ بڑی وسعت والا اور علیم ہے‘‘۔

اس آیت مبارکہ میں دو انتہائی اہم اصول تعلیم کیے گئے ہیں۔ اوّلاً یہ حکم کہ مجرد افراد مرد ہوں یا عورت، ان کا نکاح کردیا جائے، کیونکہ نکاح ایک ایسا حصار ہے جو نہ صرف ایک فرد کو بلکہ پورے معاشرے کو بُرائی سے محفوظ رکھنے کا سب سے زیادہ مؤثر ذریعہ ہے۔ پھر یہ بات فرمائی گئی کہ نہ صرف مجرد افراد بلکہ اگر لونڈی غلام بھی شادی کی عمر کے ہوں تو ان کا بھی نکاح کردیا جائے۔ اس سلسلے میں مال کی کمی اور وسائل کا نہ ہونا بنیاد نہ بنائی جائے۔ چنانچہ فرمایا: اگر وہ تنگ دست ہوں گے تو ہم انھیں غنی کردیں گے۔ قرآن کریم نے اپنے اس حکم کے ذریعے ان تمام معاشی دلائل کو   رد کردیا ہے جن کی بناپر لوگ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی کو مؤخر کرتے رہتے ہیں۔

رہا سوال شادی کی فرضیت کا تو اُوپر درج کی گئی آیت مبارکہ سے بڑھ کر فرضیت کا حکم اور کون سا ہوسکتا ہے۔ اسی پہلو کو خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث صحیح میں یوں فرمایا گیا کہ ’’نکاح میری سنت ہے‘‘ اور دوسری حدیث میں فرمایا گیا: ’’نکاح میری سنت ہے، اور جس نے نکاح پسند نہ کیا وہ ہم میں سے نہیں ہے‘‘۔ اس حدیث نے اصولی طور پر یہ بات طے کردی کہ اگر ایک شخص نکاح کا انکار کرتا ہے تو وہ اپنے آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت سے اپنے عمل کی بناپر خارج کرلیتا ہے۔ ہاں، ایک فرد مسلسل کوشش کر رہا ہو اور باوجود کوشش کے نکاح نہ کرپائے تو اس پر کوئی گرفت نہیں۔

یہاں یہ سمجھ لیجیے کہ قرآن ہو یا سنت ِ رسولؐ دونوں کا نام شریعت ہے، ان میں فرق نہیں کیا جاسکتا۔ نکاح کے معاملے میں دونوں کے واضح احکام ہیں۔ اس لیے جان بوجھ کر اور محض مزید بہتر کا غیرمتعین انتظار کرنے کی بنا پر نکاح نہ کرنا شریعت کے منافی ہے۔ والدین کو بھی اور ان کی اولاد کو بھی اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی سے بچانے کے لیے جب شادی کی عمر ہوجائے تو تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ شادی ایک دینی فریضہ ہے اور اس کو بلاعذر شرعی مؤخر کرنا اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی کھلی خلاف ورزی ہے۔(ڈاکٹر انیس احمد)

نفلی حج اور عمرہ

س: میرے پاس کچھ زمین ہے۔ کچھ زمین مَیں نے بچوں کی تعلیم کے لیے فروخت کردی ہے اور باقی فروخت کر کے حج کرنا چاہتا ہوں۔ پنشن میں میری گزراوقات ہوجاتی ہے۔ میری اہلیہ کا اصرار ہے کہ وہ بھی حج پر ساتھ جائیں گی، جب کہ اتنی رقم نہیں ہے کہ انھیں ساتھ لے کر جائوں لیکن وہ بضد ہیں۔ میری رہنمائی فرمادیں۔

ج:  آپ پر حج فرض نہیں ہے اور عمرہ تو نفلی عبادت ہے۔ اس لیے آپ اپنی زمین فروخت کر کے حج یا عمرہ پر جانے کا پروگرام ترک کردیں۔ نفلی عبادات جو بآسانی اپنے گھر پر رہ کرکرسکتے ہیں کریں اور دعوتِ دین کا کام پورے جذبے اور شوق سے کریں اور اس میں اگر کچھ خرچ کرسکتے ہوں تو کریں۔ حسب ِ استطاعت لٹریچر خرید کر عوام میں تقسیم کریں کہ یہ کام تو فرض ہے۔ فرض کو   ادا کرنا زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اس کے بعد اگر اللہ تعالیٰ اتنے وسائل عطا فرما دیں کہ آپ اپنی بیوی کے ساتھ عمرہ کرسکیں تو پھر عمرہ کرنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہوگی۔ اس طرح آپ عمرہ بھی کرلیںگے اور اپنی بیوی کی خواہش کو بھی پورا کردیں گے۔(مولانا عبدالمالک)

مخلوط مجالس میں باپردہ شرکت؟

س: خاندان کے ایسے اجتماع میں شرکت کے بارے میں کیا حکم ہے جو مخلوط ہو اور مردوخواتین بآسانی مل جل رہے ہوں؟ کچھ لوگوں کی راے ہے کہ ہم صلۂ رحمی کے جذبے سے جاتے ہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ ہم باپردہ ہوتے ہیں، لہٰذا ہم دوسروں کے ذمہ دار نہیں۔ کیا گناہ پر مبنی یہ مجلس اللہ کے حکم کا مذاق اُڑانے کے مترادف نہیں ؟

ج:  ایسی مجلس میں جو مخلوط ہو ، مردو زن بآسانی مل سکتے ہوں، جانے سے احتراز کرنا چاہیے۔ محض اتنی بات وجۂ جواز نہیں ہوسکتی کہ آپ باپردہ ہوں۔ دوسرے بے پردہ لوگ مجلس میں ہوں اور آپ ان پر نکیر نہ کریں تو آپ باپردہ ہونے کے باوجود بے پردہ لوگوں کے گناہ میں شریک ہوں گی۔ اس لیے یا تو وہاں مناسب اور معقول انداز سے مجلس کو فحاشی اور عریانی سے پاک کرنے میں کردار ادا کریں ورنہ جانے سے معذرت کرلیں، اور دعوت دینے والے پر واضح کردیں کہ مجلس میں شرعی آداب کی خلاف ورزی کی جارہی ہے، اس لیے میں شرکت سے معذور ہوں۔ (مولانا عبدالمالک)

تجلیاتِ قرآن، مولانا سید جلال الدین عمری،ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی۔ ڈی-۳۰۷، دعوت نگر، ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، نئی دہلی-۱۱۰۰۲۵۔ صفحات: ۵۶۰۔ ہدیہ:۳۰۰ روپے۔

مولانا سید جلال الدین عمری برعظیم پاک و ہند کی ایک معروف دینی شخصیت ہیں اور اسلام کی جدید تفہیم قرآن و حدیث کی روشنی میں پیش کرنے والے اصحابِ علم میں ممتاز مقام کے حامل ہیں۔ تحریکاتِ اسلامی کی قیادت میں جس نوعیت کا علمی اور تحقیقی ذوق ہونا چاہیے اس کی ایک زندہ مثال ہیں۔ دین مطالبہ کرتا ہے کہ جو لوگ اس کی دعوت کو لے کر دنیاکو بدلنے کے لیے نکلیں، وہ  کم از کم دین کے بنیادی ماخذ: قرآن کریم اور سنت رسولؐ سے براہِ راست واقفیت رکھتے ہوں۔   یہ اس لیے ضروری ہے کہ دعوتِ دین ایک اجتہادی عمل ہے۔ یہ ایک میکانکی عمل نہیں ہے کہ چند تعلیمات کو یادداشت میں محفوظ کرلیا اور انھیں جہاں چاہا دہرا دیا، بلکہ یہ ہرہرصورت حال میں جائزہ لینے، تحقیق کرنے اور مرض کی جڑ تلاش کرنے کے بعد قلب و دماغ میں پائے جانے والے غیرصالح تصورات و عقائد کی اصلاح اور عمل کی تطہیر کا نام ہے۔ تحریکاتِ اسلامی کے کارکن ہوں یا قائدین، دعوتِ دین دیتے وقت انھیں اسلام کے ان دو بنیادی ذرائع سے اپنے آپ کو اس حد تک وابستہ کرنا ہوتا ہے کہ ان کی نگاہ قرآن و سنت کی نگاہ بن جائے اور ان کے معاملات صرف قرآن و سنت کی روشنی میں طے ہوں۔

تجلیاتِ قرآن مولانا عمری صاحب کے تحریکی لیکن تحقیقی مضامین کا ایک خوب صورت مجموعہ ہے جو ایک طویل عرصے میں مختلف علمی رسائل میں شائع ہوئے ہیں۔ کتاب کو تین ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ باب اوّل میں مضامین کا تعلق قرآن کریم کے نزول، عظمت، تلاوت     کے آداب، قرآن کریم کے علمی اعجاز اور اس کے عالمی طور پر اثرانگیزی (impact) سے ہے۔ اس حصے میں اقوامِ عالم کے عروج و زوال کا قرآنی اصول بھی پیش کیا گیا ہے۔ دوسرے باب میں قرآنِ مجید کی بنیادی اصطلاحات اور ان کے ذریعے قرآن کے نزول اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقصد ِ بعثت سے بحث کی گئی ہے۔ آخری باب میں قرآن کریم کے حوالے سے صحابہ کرامؓ کا تذکرہ ہے کہ وہ قرآن پر غور اور تدبر کرنے والے افراد کی پہلی جماعت کی حیثیت رکھتے ہیں۔

کتاب کا سب سے اہم حصہ باب دوم ہے جس میں قرآن کریم کے بنیادی تصورات کو جن کا تعلق براہِ راست فرد، معاشرے اور ریاست کے حوالے سے قرآن کی اہم اصلاحات کے ساتھ ہے۔ قرآن کریم پر اصطلاحات کے زاویے سے تحقیق اور ان کے مفہوم کا تعین ضمناً تو بے شمار علمی تحریرات میں کیا گیالیکن بقول علامہ محمد قطب، سید مودودی نے پہلی مرتبہ اس زاویے سے سوچنے کی مثال قرآن کی چار بنیادی اصطلاحات کی شکل میں ایک کتاب کے ذریعے  پیش کی جس نے قرآن کریم میں جستجو و تحقیق کا ایک نیا اسلوب دورِحاضر میں رکھا۔ یہ بات محمدقطب نے بذاتِ خود ایک نجی گفتگو میں میرے ایک سوال کرنے پر بطور مولانا مودودی کے اعترافِ عظمت کے فرمائی، جو میرے خیال میں خود محمد قطب کی علمی عظمت کو ظاہر کرتی ہے۔

اس باب میں قرآن کریم میں حکمت کا تصور، تصورِ تزکیہ، تقویٰ کی صفت، اللہ کے ذکر کا بلند کرنا، ذکر کے طریقے، انابت الی اللہ، دعوت الی اللہ، شہادت علی الناس، اقامت ِ دین اور قلب مرکزخیروشر ، کُل ۱۰ مختصر مگر جامع مضامین ہیں۔ ان میں سے ہر مضمون ایک مستقل کتاب کی شکل میں مناسب اضافوں کے ساتھ پھیلایا جاسکتا ہے۔ یہ ۱۰اصطلاحات اور مولانا مودودی کی    قرآن اور  چار بنیادی اصطلاحات، ایک حیثیت سے دین کے اُس تصور کی وضاحت کرتی ہیں جو نہ صرف قرآن و سنت سے قریب ترین بلکہ ایک حرکی تصور ہے۔ یہ دین کو  pro-active    سمجھتے ہوئے اس کی انقلابی تعلیمات کو مختصر طور پر پیش کرتا ہے۔ اس باب کا تحریکِ اسلامی کی قیادت اور کارکنوں کو خصوصاً مطالعہ کرنا چاہیے۔

ان مضامین کو تحریکِ اسلامی کے تربیتی نصاب میں شامل ہونا چاہیے اور قرآن اور چار بنیادی اصطلاحات کے ساتھ ملا کر مطالعہ کیا جانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ اس علمی اور تحریکی کاوش کو قبولیت عطا فرمائے اور محترم مولانا کو اس پر اجرعظیم سے نوازے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)


مسئلہ تکفیر و خروج، مرتب: محمد مجتبیٰ راٹھور۔ اہتمام: پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز، اسلام آباد۔ ناشر: Narratives ، پوسٹ بکس نمبر ۲۱۱۰، اسلام آباد۔فون: ۲۲۹۱۵۸۶-۰۵۱۔ صفحات: ۲۴۷۔ قیمت: ۵۰ روپے۔(انگریزی میں بھی دستیاب ہے)

تکفیر اور خروج کی دونوں اصطلاحیں بالعموم یک جا ذکر کی جاتی ہیں۔ عملی صورت حال کے لحاظ سے یہ ترتیب درست ہے مگر علمی اعتبار سے اوّل الذکر کا تعلق علم الاعتقاد اور دوسری کا تعلق   علمِ سیاست و حکومت کے ساتھ ہے۔ یہ دونوں قضیے اپنی نزاکت کے باعث اہلِ علم کے ہاں ہمیشہ توجہ کے قابل رہے ہیں۔ فی الاصل کفرپر قائم کسی شخص کو کافر کہنے میں کوئی کلام نہیں۔ اصل نزاع کلمہ گو مسلمان کو کافر قرار دینے میں ہے۔ یہی عمل علمی اصطلاح میں ’تکفیر‘ کہلاتا ہے۔ البتہ ’خروج‘ کا مرحلہ تکفیر کے بعد شروع ہوتا ہے۔

سیاست شرعیہ کی رُو سے ارباب حل و عقد کوکافر قرار دے کر اُن کی اطاعت سے دستکش ہونا اور اُن کے خلاف اعلانِ جنگ ، دراصل ’خروج‘ کہلاتا ہے۔ مسلمانوں کی عام اجتماعیت اس کا ہدف نہیں ہوتی بلکہ صرف حکمران یا اولی الامر ہی اس کی زد میں آتے ہیں۔ بات سمجھنے کے لیے یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ ہر خروج کے لیے تکفیر ضروری ہوتی ہے۔ اس کے برعکس تکفیر کے بعد خروج کا ہونا لازمی نہیں۔ اگرچہ اعتقادی حیثیت سے تکفیر کا تعلق نجاتِ اُخروی کے ساتھ ہے، مگر حیاتِ دنیوی میں سماجی حقوق اور اجتماعی رویوں کی تشکیل سے بھی اس کا بہت گہرا تعلق ہے۔ پھر معاشرے میں  پایا جانے والا کم علم غیرمعتدل مزاج اور تعصبات، ایمان و کفر کے اس نزاع کو منفی رُخ دے دیتے ہیں جس کا نتیجہ ایک دوسرے پر گمراہی یا کفر کے فتوئوں اور بالآخر خون خرابے کی صورت میں نمودار ہوتا ہے۔ آج کا مسلمان معاشرہ بالعموم، اور پاکستانی سماج بالخصوص، اس مرض میں گرفتار نظر آتا ہے، اور نفرت و ہیجان کا یہ عالم ہوگیا ہے کہ اس موضوع پر لب کشائی گوناگوں خطرات سے دوچار کرسکتی ہے۔ ایسی صورت حال میں یہ بات خوش آیند ہے کہ پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز نے مسئلہ تکفیر وخروج کے عنوان سے ۲۵۰ صفحات پر مشتمل ایک کتاب شائع کی ہے۔ یہ کتاب دراصل ادارے کے زیراہتمام اس موضوع پر ہونے والے تین مذاکروں کی رُوداد ہے جو ملک بھر کے جیّد اور مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے علما اور محققین کے درمیان منعقد ہوئے۔ مرتب نے ان رُودادوں کو کتابی شکل میں اشاعت کے لیے مرتب کیا ہے۔ تاہم ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فاضل مرتب نے تقاریر کو تحریری اور نثری اسلوب میں ڈھالنے سے گریز کیا ہے۔ اسی بنا پر کتاب کے لوازمے پر رُوبرو گفتگو کا رنگ زیادہ نمایاں معلوم ہوتا ہے۔

ان سیمی نارز کی علمی وقعت کا اندازہ ان میں شریک معروف علما اور معتبر اہلِ تحقیق سے لگایا جاسکتا ہے۔ ان شخصیات میں: مولانا زاہد الراشدی (مہتمم الشریعۃ اکیڈمی)، مفتی محمد ابراہیم قادری (رکن اسلامی نظریاتی کونسل)، ڈاکٹر قبلہ ایاز(وائس چانسلر پشاور یونی ورسٹی)، ڈاکٹر علی اکبر الازہری  (ڈائرکٹر ریسرچ منہاج القرآن،لاہور)، ڈاکٹر اعجاز صمدانی (دارالعلوم، کراچی)، علامہ عمار خان ناصر (نائب مدیر ماہنامہ الشریعۃ)، ڈاکٹر حافظ حسن مدنی (نائب مدیر ماہنامہ محدث)، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ (ڈائرکٹر علما اکیڈمی لاہور)، ڈاکٹر سید محمد نجفی (ڈائرکٹر تقریب مذاہب اسلامی، اسلام آباد)، ڈاکٹرخالد مسعود (سابق چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل) اور ممتاز صحافی خورشید ندیم شامل ہیں۔

کتاب میں تکفیر وخروج کی فقہی تعبیر کے ساتھ اس کے فرقہ وارانہ اور ریاست کے خلاف بغاوت کے پہلوئوں کا علمی جائزہ لیا گیا ہے۔ کتاب کے آغاز میں چند اہم اور بنیادی سوالات قائم کیے گئے ہیں لیکن شرکا کی گفتگو میں ان سوالات کا مکمل احاطہ نہیں کیا گیا۔ شاید ہرشریکِ گفتگو    ان سوالات پر اپنی پوری توجہ قائم نہیں رکھ سکا ہے۔ تاہم اس کے باوجود یہ کتاب اس موضوع پر بلامبالغہ سیکڑوں ضخیم صفحات کا نچوڑ ہے۔ کتاب میں تکفیروخروج کے تناظر میں حالیہ متشددانہ رویوں پر علمی محاکمہ اور تنقید تو موجود ہے مگر اُن عموماتِ شریعت کی متعین تشریح و توضیح نہیں ملتی جن سے استدلال کر کے آج کئی گروہ انتہاپسندی کو اختیار کرچکے ہیں۔ اسی طرح آج کی اسلامی ریاستوں میں حکمرانوں کا وہ طرزِ عمل بھی نقدو جرح سے بالکل رہ گیا ہے جس کے باعث کئی سخت گیر حلقے یہ سمجھنے لگے ہیں کہ ان حکمرانوں کی دین و انصاف سے دُوری اور خدا بیزاری کا علاج صرف ان کے خلاف جنگ ہے۔

یہ کتاب اس موضوع پر جمود اور خاموشی کو توڑنے، نئے زاویوں سے غوروفکر کرنے اور جدید مباحث پر دعوتِ تحقیق دینے کی ایک کامیاب کوشش قرار دی جاسکتی ہے۔حالاتِ حاضرہ سے دل چسپی رکھنے والے اور بالخصوص دینی مدارس کے طلبہ کو اس کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ کالج اور یونی ورسٹی کے طالب علموں اور اساتذہ کے لیے تو اس کا مفید ہونا بہت واضح ہے۔ (عبدالحق ہاشمی)


قصص الانبیاء،علامہ عبدالوہاب النجار المصری، مترجم: مولانا آصف نسیم ۔ ناشر: البیان، اُردوبازار، لاہور۔ ملنے کا پتا: المشرق، دکان نمبر۸، فرسٹ فلور، زبیدہ سنٹر، ۴۰-اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۸۸۳۶۹۳۲-۰۳۲۱۔ صفحات (بڑی تقطیع): ۶۵۰۔ قیمت: ۵۲۵ روپے۔

قرآن کے اہم موضوعات میں سے ایک انبیا کے واقعات ہیں جن میں عبرت کا بہت سامان اور سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ اُردو میں اس حوالے سے معروف نام اور کتاب مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کی قصص القرآن ہے۔ ترجمہ کار کے بیان کے مطابق زیرتبصرہ کتاب عبدالوہاب النجار المصری کی جس کتاب کا ترجمہ ہے، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کی کتاب بھی اسی پر مبنی تھی۔ غالباً اس لیے اس کتاب کا انتساب ان ہی کے نام کیا گیا ہے۔

حضرت آدم ؑ سے حضرت عیسٰی ؑ تک ۲۰ انبیاے کرام ؑ کے بارے میں قرآن و حدیث میں جو کچھ آیا ہے اسے مرتب کرکے پیش کردیا گیا ہے۔ ہرنبی ؑکے حال کے آغازمیں ایک جدول کی شکل میں متعلقہ سورتوں اور آیات کے نمبر دیے گئے ہیں۔ اسرائیلی روایات سے مکمل اجتناب کیا گیا ہے لیکن ان کا خرافات اور من گھڑت ہونا بتانے کے لیے تذکرہ ہوگیا ہے (یعنی قاری اس سے محروم نہیں رہتا)۔ عصرحاضر کے سائنسی انکشافات سے قرآن کی تصدیق و تائید کا بھی ذکر ہے۔ آخر میں عبرت و موعظت کے پہلو بیان کیے گئے ہیں۔

کتاب تفصیل سے تبصرے کی متقاضی ہے۔ حضرت آدم ؑ میں نظریۂ ارتقا کا بیان آگیا ہے۔ کیا آدم پہلے انسان تھے؟ اس پر بھی بحث ہے۔ قومِ ثمود میں ناقہ پر پوری بحث ہی تبصرہ نگار کے لیے انکشاف کا درجہ رکھتی تھی۔ غرض اس طرح ہرمقام پر متعلقہ اُمور پر علمی گفتگو کی گئی ہے۔

اصل تعریف تو مصری عالم کی،لیکن ترجمے کے لیے جن افراد نے، خصوصاً مولانا آصف نسیم نے جو محنت کی ہے ، اس کی جتنی بھی تحسین کی جائے کم ہے۔ چھے خصوصی صفحات رنگین تصاویر سے مزین ہیں، مثلاً ہابیل کا مزار، حضرت یحییٰ ؑ اور حضرت لوطؑ کے مزار، وہ جگہ جہاں حضرت موسٰی ؑ کو آگ نظر آئی تھی، وادیِ مدین، کوہِ طور وغیرہ وغیرہ۔ قیمت کے بارے میں یہ لکھا دیکھ کر   ’براے مہربانی قیمت پر بحث نہ کریں‘ بحث کرنے کو دل تو چاہتا ہے لیکن احتراماً نہیں کی جارہی۔ اتنی قیمتی کتاب کی جو بھی قیمت ہو، کم ہے۔ (مسلم سجاد)


عصرِحاضر کی نفسیاتی اُلجھنیں اور ان کا اسلامی حل، مولانا سلطان احمد اصلاحی۔ ناشر: مکتبہ قاسم العلوم، رحمن مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات:۳۰۰۔ قیمت:درج نہیں۔

انسانی جسم کو سہولتیں پہنچانے کے لیے دورِحاضر کی سائنس و ٹکنالوجی آج جتنی سرگرم ہے اتنی کبھی نہ تھی۔ دوسری طرف مغربی تہذیب کے تصورِ آزادی، مساوات اور ترقی نے انسانی خواہشات کو جتنا بے لگام کیا ہے ایسا پہلے کبھی نہ تھا۔ لیکن مغرب کی سائنسی فکر اور تہذیبی بالادستی کیا انسان کو واقعی روحانی و ذہنی لحاظ سے بھی آسودہ کرسکے گی؟ اس کا جواب اثبات میں دینا ناممکن ہے۔ انسان آج جتنا بے چین و مضطرب اور نفسیاتی لحاظ سے معذور ہے، اتنا کبھی نہ تھا۔ یورپ میں دماغی و نفسیاتی امراض کی جتنی کثرت آج ہے، پہلے کبھی نہ تھی۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ عصرحاضر کی بالادست تہذیب انسان کی جسمانی و ذہنی آسودگی کو تو اہمیت دیتی ہے لیکن اس کے روحانی و قلبی تقاضوں کا اِدراک کرنے سے قاصر ہے۔ جرائم و تشدد کی شرح آج مغرب میں کہیں زیادہ ہے۔ معاشی لحاظ سے فلاحی سیکنڈے نیوین ریاستیں ناروے، سویڈن اور ڈنمارک اور مشرق میں ترقی کی علامت جاپان میں خودکشی کی سب سے زیادہ شرح کا ہونا بقول اقبال  ع  تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی، کا منظر پیش کر رہی ہے۔

مولانا سلطان احمد اصلاحی ہندستان کے معروف اسکالر ہیں جن کی اسلامی معاشرت پر بیسیوں تحقیقی کتب شائع ہوچکی ہیں۔ زیرنظر کتاب میں انھوں نے مغربی تہذیب کے نتیجے میں پیدا ہونے والے نفسیاتی و اخلاقی بحران، بوڑھوں، نوجوانوں اور عورتوں کی اُلجھنیں،انفرادیت پسندی، تشددپسندی، نشہ، کرپشن اور تعیش پسندی جیسے مسائل کا ذکر کر کے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ان کا حل بتایا ہے۔ انھوں نے واضح کیا ہے کہ معاصر دنیا کی اخلاقی اساس کیا ہے اور اس کے برعکس اسلامی معاشرت کی اخلاقی اساس کس نوعیت کی ہے۔ نفسیاتی اُلجھنوں کا حل اسلام کے نزدیک ایک طرف ذکروتلاوت اور مراسمِ عبودیت کی بجاآوری ہے، اور دوسری طرف اسلام انسانی زندگی کا مقصود و مطلوب معاشی ترقی کے بجاے رضاے الٰہی کو ٹھیراتا ہے۔ اس طرح بندے کا خدا سے مخلصانہ اور پُرجوش تعلق قائم ہوجاتا ہے۔ صبروقناعت، صلہ رحمی، بروقت شادیوں کا انعقاد،   خاندانی نظام کا استحکام اور عورتوں مردوں کا مخلوط ماحول سے بچائو، وہ چیزیں ہیں جو افراد کو ذہنی و نفسیاتی عوارض سے بچانے میں ممدومعاون ہوتی ہیں۔ صاف ستھری کتابت اور دیدہ زیب سرورق کے ساتھ یہ ایک اچھی علمی و فکری کاوش ہے۔ (ڈاکٹر اختر حسین عزمی)


علم کا مسافر (اقبال کی علمی و فکری زندگی کی کہانی)، ڈاکٹر طالب حسین سیال۔ ناشر: ایمل مطبوعات، آفس نمبر۱۲، سیکنڈ فلور، مجاہد پلازا، بلیوایریا، اسلام آباد۔فون: ۲۸۰۳۰۹۶-۰۵۱۔ تقسیم کنندہ:   کتاب سرائے، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات:۱۴۰۔قیمت: ۵۸۰ روپے۔

اس کتاب میں علامہ اقبال کی علمی و فکری زندگی کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ کتاب کے  حرفِ اوّل میں ڈاکٹر ممتاز احمد نے لکھا ہے کہ اسلامی فکر کو عالم گیر تناظر میں پیش کرنے کی طرف سب سے پہلے علامہ اقبال نے توجہ مبذول کرائی تھی (ص۹)۔ آج فکرِاقبال کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ اقبال نے اسلام اور شریعت اسلامیہ کے نفاذ اور تحفظ اور اس کی عملی تشکیل کی خاطر مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کی ضرورت کا احساس دلایا تھا۔ مصنف نے متعدد مقامات پر اقبال کو مغرب کا مداح قرار دیا ہے اور ساتھ ہی صوفیت کا علَم بردار ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ غورطلب بات یہ ہے کہ اس طرزِفکر کے ساتھ پاکستان ترقی کی کس منزل تک پہنچے گا؟

اقبال اکیڈیمی کے ناظم محمدسہیل عمرنے پیش لفظ میں صحیح لکھا ہے کہ ’’علامہ کی علمی اور  فکری سطح بلند ہونے کے ساتھ ساتھ ان کا اسلامی تہذیب سے تعلق پختہ ہوتا گیا اور قرآنِ مجید کو  سرچشمۂ حیات قرار دینے کا میلان بڑھتا گیا‘‘۔ مصنف نے اقبال کی فکر کو نوجوانوں میں راسخ کرنے کی ضرورت کا لحاظ رکھتے ہوئے علامہ اقبال کی زندگی، ان کی تعلیمی سرگرمیوں، ان کی مغرب پر تنقید اوراسلامی افکارونظریات کی حیات افروز رہنمائی پر نہایت مؤثر انداز میں، اقبال کے اشعار اور نثر کے حوالوں سے ان کی زندگی کا خاکہ پیش کیا ہے۔ ان کا یہ جذبہ لائق تحسین ہے کہ پاکستان کی نوجوان نسل کو فکرِاقبال سے قریب کیا جائے تاکہ وہ پاکستان کی تعمیر ان افکارونظریات کے مطابق کرسکیں جو علامہ اقبال نے شریعت اسلامیہ کی روشنی میں پیش کیے۔ کتاب آٹھ ابواب پر مشتمل ہے۔ ان ابواب میں اقبال کے سوانحی حالات، ان کے افکارونظریات، ان کی تعلیمات اور نثرادِ نو کے لیے پیغام، عصرحاضر کے مسائل سے نبٹنے کے لیے ہدایات اور دیگر موضوعات پر شگفتہ انداز میں اظہارخیال کیا گیا ہے۔

یہ کتاب نوجوانوں کی فکری تطہیر کے لیے نہایت موزوں ہے۔ اسلوبِ بیان سادہ اور لفظی پیچیدگیوں سے پاک ہے۔ کتاب کی قیمت نوجوانوں کے لیے نہیں، بزرگوں کے لیے بھی ہوش ربا ہے۔ (ظفر حجازی)


قائد تحریک اسلامی سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، علی سفیان آفاقی۔ ناشر: اذان سحر پبلی کیشنز، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۵۶۶۷-۰۴۲۔ صفحات:۱۱۲۔ قیمت: ۸۰ روپے۔

سید مودودیؒ کی شخصیت ، سوانح اور خدمات پر بہت سی کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب کی انفرادیت یہ ہے کہ اسے مولانا مودودی پر پہلی تصنیف کی حیثیت حاصل ہے۔ اس کا پہلا اڈیشن ۱۹۵۳ء میں اس وقت سامنے آیا جب فوجی عدالت کی طرف سے مولانا کو سزاے موت سنائی گئی ۔

مصنف معروف صحافی ہیں اور وجۂ تالیف کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’مولانا مودودی کی عجیب و غریب شخصیت ہی تھی جس نے مجھے ان کی زندگی کے بارے میں جستجو پر اُکسایا۔ ایک مولوی جو مولویوں سے قطعی مختلف ہو، ایک لیڈر جو لیڈروں کی محفل میں نمایاں معلوم ہو، ایک پڑوسی جس پر اس کے ہمسایے فخر کریں، ایک باپ جو اپنی اولاد کے لیے باعث ِ رحمت ہو، ایک شوہر جو اپنی بیوی کے لیے مثالی حیثیت رکھتا ہو،ایک حاکم جو اپنے ماتحتوں کی آنکھ کا تارا ہو، یہ تمام خصوصیات مولانا مودودیؒ ہی میں پائی جاسکتی ہیں‘‘ (ص ۱۱)۔

مولانا کی شخصیت کے ان گوشوں کو مولانا کی اہلیہ، صاحب زادے عمرفاروق، پڑوسی اور رفقا کے تاثرات سے واضح کیا گیا ہے۔ ’حاشیے اور یادداشتیں‘ کے تحت مولانا کے مطالعے کا انداز، تقریر کی تیاری کے نوٹس دیے گئے ہیں۔ ’مکاتیب‘ کے تحت مولانا کی خطوط نویسی کو زیربحث لایا گیا ہے اور غیرمطبوعہ خطوط شائع کیے گئے ہیں۔ اسلوبِ بیان بہت دل چسپ ہے کہ قاری پڑھتا چلاجاتا ہے۔ مولانا مودودی کو جاننے کے لیے ایک مفید کتاب۔ (امجد عباسی)


جب خواب حقیقت بنتے ہیں، رفیع الزماں زبیری۔ ناشر:فضلی سنز(پرائیویٹ) لمیٹڈ، سپرمارکیٹ، اُردو بازار، کراچی۔صفحات: ۸۰۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

اندرونی سرورق پر ضمنی عنوان (ترکی کے تین سفر) سے مصنف کے خوابوں کا موضوع واضح ہوجاتا ہے۔ پہلا سفر ستمبر ۱۹۸۰ء میں، دوسرا جنوری ۱۹۸۱ء، اور تیسرا ۱۹۸۳ء میں پیش آیا۔  یہ سفر انھوں نے ریڈیو پاکستان کے نمایندے اور رپورٹر کی حیثیت سے اور سربراہانِ مملکت کے دوروں میں شامل رہ کر کیے۔ پہلی بار ترکی گئے تو چند روز پہلے جنرل ایورن کی سرکردگی میں فوج نے وزیراعظم سلیمان ڈیمرل کو برطرف کر کے حکومت پر انقرہ اور استنبول کے علاوہ قبضہ کرلیا تھا۔ اس دورے میں مصنف نے ترکی کے حالات، فوجی حکومت کے عزائم اور جنرل ایورن کی اعلان کردہ پالیسیوں کی تفصیل لکھ بھیجی۔ انقرہ کے بعد استنبول کی سیر بھی کی۔ دوسری اور تیسری مرتبہ وہ   صدرضیاء الحق کے ساتھ جانے والے صحافیوں میں شامل تھے۔ اس بار قونیہ اور ازمیر جانے کا موقع بھی ملا۔ رپورٹنگ کے بعد مصنف نے ہرمرتبہ بڑے ذوق و شوق سے تاریخی مقامات دیکھے اور بازاروں کی سیر کی۔ تیسری مرتبہ واپسی پر انھیں عمرہ ادا کرنے کی سعادت بھی میسر آئی۔

تین اسفار کی اس مختصر مگر جامع داستان میں زبیری صاحب نے بہت کچھ بتا دیا اور کہہ دیا ہے جو اُن کی حب الوطنی، اخوتِ اسلامی، ملّی دردمندی اور خلوص کا عکاس ہے۔ عراق کی فضائوں سے گزرتے ہوئے ایران عراق جنگ میں ۱۵ لاکھ جانوں کے ضیاع اور سات سو بلین ڈالر کے نقصان پر اُن کا دل بھر آتا ہے۔ سعودی عرب کی فضائوں میں اپنے رب سے دعا مانگتے ہیں کہ مقدس سرزمین پر قدم رکھنے کی سعادت بھی جلد نصیب ہو۔ استنبول میں جگہ جگہ انھیں مصطفی کمال کی مذہب دشمنی یاد آتی ہے۔ وہ اتاترک کے بعض اقدامات پر اپنی ناپسندیدگی ظاہر کرتے ہیں۔   ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’خلافت کا خاتمہ اگرچہ مصطفی کمال کے ہاتھوں ہوا لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اس کے پیچھے استعماری اور صہیونی عزائم کارفرما تھے اور اس کا مقصد عالمِ اسلام کی مرکزیت کو ختم کرنا تھا جس کی نشانی خلافت تھی‘‘ (ص۴۴)۔سادہ اسلوب میں یہ رُوداد ایک ہی نشست میں پڑھی جاسکتی ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


جدید ہتھیار، میربابر مشتاق۔ ملنے کا پتا: مکتبہ نورِحق، شاہراہِ قائدین، کراچی۔ فون: ۴۸۷۴۰۷۴-۰۳۶۴۔ صفحات:۲۹۴۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

جدید ہتھیار میربابرمشتاق کی تازہ کتاب ہے۔ اس میں سب کو اور بطور خاص نوجوانوں کو ان خطرات سے آگاہ کیا گیا ہے جو جدید ٹکنالوجی، یعنی موبائل فون، انٹرنیٹ، فیس بک، یوٹیوب کے ذریعے ہمارے معاشرے میں زہر گھولتے جارہے ہیں اور ہم یہ سمجھتے ہوئے کہ جدید ٹکنالوجی سے دُور نہیں رہا جاسکتا، اس سازش کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔ مصنف نے بالکل درست کہا کہ ہم پاکستان میں رہتے ہیں مگر مغرب کی ترقی اور چکاچوند کے اثرات ہمارے قلب و ذہن پر تیزی سے مرتب ہورہے ہیں۔ ان اثرات کی کہانیاں روز اخبارات اور دیگر ذرائع سے ہمارے سامنے آرہی ہیں۔ میربابر نے بھی بہت سی کہانیاں سنادی ہیں۔ اگر کوئی عبرت پکڑنا چاہے تو یہی بہت ہیں۔

کتاب کو کئی ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے اور وضاحت سے بتایا گیا ہے کہ ہماری اعلیٰ اقدار کو دھندلانے کے لیے کیا کیا سازشیں کی جارہی ہیں۔ مصنف نے بتایا ہے کہ صرف امریکا میں کتنے سو ریڈیو اسٹیشن محض عیسائیت کی تبلیغ کے لیے ۲۴گھنٹے کام کر رہے ہیں۔ صرف خطرات سے ہی آگاہ نہیں کیا گیا بلکہ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے بہتر استعمال اور دیکھ بھال کے طریقے بھی بتائے گئے ہیں۔ زبان رواں اور سادہ ہے۔ پروف خوانی مزید توجہ چاہتی ہے۔ (ڈاکٹر وقار احمد زبیری)


تفہیم الفرقان، اُردو ترجمہ القرآن الکریم از حافظ عمران ایوب لاہوری۔ ملنے کا پتا: نعمانی کتب خانہ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۴۲۰۶۱۹۹-۰۳۰۰۔ صفحات:۶۹۶۔ ہدیہ:۸۰۰ روپے، ۴۰۰ میں دستیاب ہے۔

قرآنِ پاک کا مکمل ترجمہ یقینا ایک نہایت گراں بار ذمہ داری کا نازک کام ہے۔    حافظ عمران ایوب لاہوری نے اس کی ضرورت سمجھ کر ہی اس جواں عمری میں یہ کام انجام دیا ہے۔ حافظ صلاح الدین یوسف، حافظ حسن مدنی، حافظ محمود اختر اور دیگر پانچ معروف اسکالروں کی راے میں: اس کی زبان سادہ، مفہوم کامل اور اسلوب دل نشین ہے۔ مختصر حواشی بھی ہیں جن کے لیے مستند کتب تفسیر جیسے: تفسیر طبری، ابن کثیر، قرطبی، فتح القدیر،جلالین، ایسرالتفاسیر اور تفسیر سعدی وغیرہ سے استفادہ کیا گیا ہے۔ ایک کالم میں عربی آیات، ہر آیت نئی سطر سے اور سامنے کالم میں اس کا ترجمہ درج ہے۔ خوب صورت معیاری پیش کش ہے۔ (مسلم سجاد)

تعارف کتب

  • قرآن مجید ایک تعارف ، ڈاکٹر محمود احمد غازی۔ ناشر: زوار اکیڈمی پبلی کیشنز،اے-۴/۱۷- ناظم آباد نمبر۴، کراچی۔صفحات:۱۲۰۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔[قرآنِ حکیم کے موضوع پر مصنف کے آٹھ دروس یک جا  اور مربوط انداز میں پیش کیے گئے ہیں۔ نظرثانی، حوالہ جات کے اضافوں اور قرآنی آیات کی تصحیح کا اہتمام سیدعزیزالرحمن صاحب نے کیا ہے۔ یہ آٹھ اہم عنوانات پر مصنف کی عام فہم گفتگو ہے۔ قرآنِ مجید کے  ناموں کی معنویت، موضوعاتِ قرآنی، قرآنِ حکیم تھوڑا تھوڑا کیوں نازل ہوا؟ نزولِ وحی کی کیفیت کیا تھی؟ حفاظت ِ قرآن کیونکر ممکن ہوئی؟ قرآنِ مجید کی ترتیب کس طرح ہوئی؟ اور تدوین قرآن کے مراحل کیا تھے؟ مصنف نے سب کچھ، قرآن اور حدیث کی اسناد کے ساتھ اور اس مختصر و جامع اور عمدہ انداز میں سمجھا یا ہے کہ قاری پوری طرح مطمئن ہوجاتا ہے۔]
  •   آسان لغات القرآن ،جمیل الرحمن۔ ناشر: صوت الایمان، ۶- نورچیمبر، بنگالی گلی، گنپت روڈ، لاہور۔ فون:۴۱۵۷۷۴۵-۰۳۴۴۔ صفحات: ۱۶۰۔ ہدیہ: ۲۰۰ روپے۔ [عام افراد کی قرآن فہمی کے لیے یہ لغت مرتب کی گئی ہے۔ قرآن کے الفاظ ’الف‘ سے ’ی‘ تک پارہ وار درج کیے گئے ہیں۔ قاری کو جب ضرورت ہو الفاظ کے معنی حروفِ تہجی کے مطابق بآسانی معلوم کرسکتا ہے۔ قرآن فہمی کے لیے عام فہم اور مختصرلغت۔]
  •  تحسین القرآن ،تالیف: ابوعبداللہ عارف علوی۔ ملنے کا پتا: طیبہ بک سنٹر، بڑا بازار، صدر راولپنڈی۔ فون:۵۵۶۳۷۰۵-۰۵۱۔صفحات:۷۸۔ ہدیہ: ۵۰ روپے۔[یہ قاعدہ حروفِ تہجی کے مخارج اور ان کی خصوصیات کے ساتھ قرآنِ مجید کی مثالوں کے ذریعے تلفظ کی درستی کی طرف رہنمائی کرتا ہے، تاکہ دورانِ تلاوت لحن جلی، یعنی واضح غلطی سے اجتناب کیا جاسکے۔تجوید کے ضروری قواعد کو اختصار سے مرتب کیا گیا ہے۔ ]
  •  المحصنات ، جامعۃ المحصنات کا شش ماہی نیوزلیٹر، مدیرہ: صائمہ افتخار۔ پتا: جامعۃ المحصنات،۸-R،بلاک۸،  ایف بی ایریا کراچی۔ [نیوزلیٹر بہت دیکھے ہیں لیکن اتنا جاذبِ نظر کم ہی دیکھا ہے۔ عہدے داروں کی تصاویر کی بھرمار بھی نہیں ہے جس سے تحریکی اداروں کے نیوزلیٹر بھی بچے ہوئے نہیں ہیں۔ ادارے کی سرگرمیوں کا متوازن تذکرہ۔ مختلف جامعات کا ذکر آجاتا ہے۔ تدریب المعلمات کی متاثر کرنے والے پروگرام کی رپورٹ، الیکٹرانک نیوزلیٹرکی خبر، غرض ۲۲صفحات میں المحصنات کی سرگرمیوں کا مکمل تعارف۔ تعاون کا جذبہ اُبھارنے والا۔ اداریے کے یہ الفاظ مدیرہ کی پختگی فکر کے آئینہ دار ہیں: ’’ہماری عقلی قوتیں معطل ہیں کیونکہ ہم تقلید کرتے ہیں اجتہاد نہیں کرتے، روایت سے کام لیتے ہیں تجدید نہیں کرتے، نقل کرتے ہیں ایجاد نہیں کرتے، حفظ کرکے رٹّے لگاتے ہیں تفکروتدبر نہیں کرتے، دوسروں کے افکار نافذ کرتے ہیں خود نہیں سوچتے۔ لہٰذا سوچیں، تفکروتدبر کریں۔ اپنے لیے عمل کی راہیں نکالیں، جو اُمت وسط کے لیے نوید انقلاب ہوں اور راہِ نجات بھی!‘‘]

عمران ظہورغازی ، لاہور

اگست کا ترجمان مجموعی لحاظ سے ایک جامع اور عالمی دستاویز کی صورت اختیار کرگیا ہے۔ پروفیسرخورشید احمد صاحب کا ’تبدیلی کے سفر کا آغاز اس طرح ہوتا ہے‘ پاکستان کے حالات کے عمدہ تجزیے اور جامع تبصرے پر مبنی ہے۔ڈاکٹر انیس احمد نے ’مصر میں جمہوریت کے قتل‘ کے عنوان سے ایک فکرانگیز اور    پُرمغز مقالہ پیش کیا ہے، جس میں مصر کے تازہ ترین حالات اور اسلامی تحریک کی جدوجہد کے مختلف پہلوئوں پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ مصر کے حالات اور اسلامی تحریک کی جدوجہد تقاضا کرتے ہیں کہ اس کے مختلف پہلو اُجاگر کیے جائیں کیونکہ مصری اسلامی تحریک کے تحت ہونے والا تجربہ___ اور جنرل سیسی کا شب خون صرف اخوان المسلمون کے لیے نہیں بلکہ دنیا کی دوسری اسلامی تحریکوں کو اپنی جدوجہد کے مراحل طے کرتے ہوئے سامنے رکھ کرتجربات اور پیش قدمی کرنے کا راستہ دکھاتا ہے۔ تیونس پر راشدغنوشی اور بنگلہ دیش کے حالات پر سلیم منصورخالد نے تازہ ترین حالات کا احاطہ کیا ہے۔ مصر سے لے کر بنگلہ دیش تک اسلامی تحریک جن حالات سے گزر رہی ہے وہ عالمی اسلامی تحریکوں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ ضرورت ہے کہ عالمی اسلامی تحریکات ان چیلنجوں سے عہدہ برا ہونے اور اپنی جدوجہد آگے بڑھانے میں ان پہلوئوں پر بھی نظر رکھتے ہوئے آگے بڑھیں۔ اللہ مصر اور بنگلہ دیش کے مظلوم مسلمانوں کی مدد فرمائے اور اسلامی تحریکوں کے لیے روشنی کا ذریعہ بنا دے،آمین!

عبداللّٰہ ، پتوکی

’جنوبی ایشیا: اسلامی تحریک کا احیا، چند آثار‘ (اگست ۲۰۱۳ء) ایک جاپانی محقق پروفیسر یامانے سو کے قلم سے اسلامی تحریک کے احیا اور مستقبل پر عمدہ تجزیہ ہے۔ افکارِ مودودی اور اقبال کا انھوں نے جس گہری نظر سے مطالعہ کیا ہے یہ جہاں قابلِ قدر ہے وہاں افکارِ مودودی کی عالمی سطح پر پذیرائی کا ثبوت بھی ہے۔

زید محمود ، لاہور

آپ کے قارئین کی دل چسپی کے لیے: ایک ایرانی اسکالر رضا اسلان نے حضرت عیسٰی ؑ کی سوانح عمری پر ایک کتاب Zealot کے نام سے لکھی ہے۔ فاکس نیوز نے اس کتاب پر مصنف سے انٹرویو میں پوچھا کہ تم مسلمان ہو، پھر تم نے عیسائیت کے بانی پر کتاب کیوں لکھی؟ اسلان نے جواب دیا کہ میں مذاہب کا اسکالر ہوں، میرے پاس چار ڈگریاں ہیں۔ میں دو عشروں سے عیسائیت کے مآخذ کا مطالعہ کر رہا ہوں اور بس اتفاق سے مسلمان ہوں۔ یہ ۱۰منٹ کی ویڈیو کلپ اگلے ہی دن انٹرنیٹ کی لہروں پر دنیا میں پھیل گئی اور ۴۰لاکھ دفعہ دیکھی گئی۔ اسلان کے ٹویٹر ساتھیوں میں ۵ہزار کا اضافہ ہوگیا۔ پبلشرز رینڈم ہائوس نے بتایا کہ دو ہی دن میں اس کی فروخت ۳۵فی صد بڑھ گئی۔ طلب پورا کرنے کے لیے ۵۰ہزار نئی کاپیوں کا آرڈر دیا ہے جس سے کُل تعداد اب ڈیڑھ لاکھ ہوگئی۔ میزان ڈاٹ کام پر اس کا نمبر۸ تھا، اب ایک ہوگیا ہے۔کتاب کی اشاعت کے بعد اسلان کو بہت شہرت ملی۔ کئی چینلوں پر انٹرویو دے چکے ہیں۔ اسلان ایران میں پیدا ہوئے۔ بچپن میں امریکا آگئے اور یہاں کیلی فورنیا، ہارورڈ اور آئیوا یونی ورسٹی سے ڈگریاں حاصل کیں۔ وہ کیلی فورنیا یونی ورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔

’انتخابی مرحلے کے بعد‘ (جون ۲۰۱۳ء) میں سیّد منور حسن صاحب نے حالیہ انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن کی خامیوں اور موجودہ نظامِ انتخاب کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ حالیہ انتخابات کے حوالے سے جماعت کی سیاسی حکمت عملی بظاہر ناکام معلوم ہوتی ہے۔ اس ضمن میں پہلے بڑی سیاسی جماعتوں سے ایڈجسٹمنٹ میں ناکامی،ایم ایم اے کا نہ بننا، ۲۰۰۸ء کے الیکشن کا بائیکاٹ، پی پی کے جیتنے کا خوف اور میڈیاوار میں نوازلیگ اور پی ٹی آئی کی اربوں روپے کی سرمایہ کاری چند بڑے بڑے اسباب ہیں۔ اب جماعت کو بہتر حکمت عملی کے ساتھ اگلے انتخابات کی تیاری شروع کرنی چاہیے۔

خالد محمود ، بھلوال

’تحریکِ اسلامی اور اجتماعی تبدیلی‘ (جون ۲۰۱۳ء) اہم مقالہ ہے جس میں اقامت ِ دین اور تبدیلی نظام کے لیے اسلامی تحریک کے پانچ مراحل کا تذکرہ کرنے کے ساتھ ساتھ حکمت عملی کے لیے اہم خطوط کی نشان دہی بھی کی گئی ہے۔ اسلامی تحریک کو منصوبۂ عمل اور حکمت عملی کی تیاری میں ان اُمور کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔

احمد علی محمودی ، حاصل پور

’کچھ حسن البناؒ کے بارے میں‘ (جون ۲۰۱۳ء) امام حسن البنا شہیدؒ کی بیٹی کا انٹرویو بہت پسند آیا۔ خاص طور پر خانگی معاملات، اولاد کی نگہداشت اور تربیت اور عوام الناس سے روابط کے پہلو ہر دور کی تحریکِ اسلامی کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔

خواجہ عبدالباری ، مینگورہ

’اسلام اور جنسیت‘ (جون ۲۰۱۳ء) میں عملِ قومِ لوطؑ کو لواطت تحریر کرنا ایک نہایت جلیل القدر پیغمبر کی شان میں نادانستہ طور پر گستاخی کے مترادف ہے۔ اگرچہ یہ غلط اصطلاح اب تک مستعمل ہے لیکن ہمیں اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اس کے بجاے ’ہم جنسیت‘ یا ’ہم جنس پرستی‘ کا لفظ استعمال کیا جاسکتا ہے۔

ڈاکٹر طاہر سراج ، ساہیوال

’مروجہ نظامِ تعلیم___ ایک دعوتِ فکر‘ (مئی ۲۰۱۳ء) میں ہمارے نظامِ تعلیم کی خامیوں کا احاطہ کیا گیا ہے بلکہ اس کا حل بھی تجویز کیا ہے۔ تحریک سے تعلق رکھنے والے ملغوبہ تعلیم پر مبنی سکول (hybrid school)  ہماری ذہنی غلامی کے عکاس ہیں۔ پنجاب میں انگلش بطور ذریعہ تعلیم اختیار کیے جانے سے طلبہ اور اساتذہ کرب کا شکار ہیں، اور تعلیم سے دل برداشتہ ہورہے ہیں۔ ہماری آیندہ نسل کو دانستہ جاہل رکھنے کا منصوبہ پورے صوبے میں جاری ہے۔ ماہرین تعلیم کی متفقہ راے ہے کہ بچہ غیرزبان میں تعلیم حاصل نہیں کرسکتا لیکن تحریکی  اور غیرتحریکی حلقے مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ آج لارڈ میکالے کی روح اپنی ۱۸۳۵ء کی خواہش کو  اہلِ پاکستان کے ہاتھوں پایۂ تکمیل پاتے دیکھ کر خوش ہورہی ہوگی۔ بقول ریاض زیدی    ؎

واے نادانی کہ اپنے ہاتھوں سے کھودی ہے قبر

ہم کہ ٹھیرے گورکن اور آپ ہی مدفن بھی ہیں

دانش یار ، لاہور

 مئی کے شمارے میں ’مروجہ نظامِ تعلیم___ ایک دعوتِ فکر‘ میں ایک جملے پر مَیں کھٹکا : مغل بادشاہ ظہیرالدین بابر کے لیے استاد رومی خاں (م:۱۵۳۰ء) نے توپیں تیار کیں (ص ۶۷)۔ظہیرالدین بابر مغل نہیں تھا (وقائع بابر از محمد ظہیرالدین بابر، مترجم فارسی: عبدالرحیم خان خاناں، مترجم اُردو: یونس جعفری، حواشی و جزیات حسن بیگ، مطبوعہ شہربانو پبلشرز، ۱۷-میتھیون روڈ کریکاڈی، برطانیہ، سال اشاعت ۲۰۰۷ء)۔ یہ کتاب جناب حسن بیگ کے سخن ہاے گفتنی سے مزین ہوکر نہایت خوب صورت انداز میں چھپی ہے۔ اس کے آغاز میں ص ۷، آخری پیراگراف میں لکھا ہے: بابری اخلاف کی حکومت عام طور پر خاندانِ مغلیہ کہلاتی ہے، یہ درست نہیں کیونکہ بابر ترک تھا، اور اپنے ترک ہونے پر فخر بھی کرتا تھا۔ اس حکومت کو خاندانِ بابری کہنا چاہیے۔

 

بدی کا مقابلہ کرنے والی جماعت

جس شخص کے دل میں ایمانِ راسخ موجود ہوگا اور جو اللہ سے ایسا ڈرنے والا ہوگا جیسا اُس سے ڈرنے کا حق ہے، اُس کے لیے تو یہ ممکن نہیں ہے کہ کسی کو گمراہی میں مبتلا دیکھے اور اُسے راہِ حق کی دعوت نہ دے۔ کہیں بدی کا وجود پائے اور اُس کو مٹانے کی کوشش نہ کرے۔ طبیعت ِ مومن کی مثال ایسی ہے جیسے مُشک، کہ رائحہ [خوشبو]ایمان اُس کے جِرمْ [جسم]تک محدود نہیں رہتی بلکہ پھیلتی ہے جہاں تک پھیلنے کا اُسے موقع ملے، یا چراغ کہ نورِ ایمان سے جہاں وہ منور ہوا، اور اُس نے آس پاس کی فضا میں اپنی شعائیں پھیلا دیں۔ مُشک میں جب تک خوشبو رہے گی، وہ مشامِ جان کو معطر کرتا رہے گا۔ چراغ جب تک روشن رہے گا، روشنی کرتا رہے گا۔ مگر جب مُشک کی خوشبو قریب سے قریب سونگھنے والے کو بھی محسوس نہ ہو، اور چراغ کی روشنی اپنے قریب ترین ماحول کو بھی روشن نہ کرے، تو ہر شخص یہی حکم لگائے گا کہ مُشک، مُشک نہیں رہا اور چراغ اپنی چراغیت کھو چکا ہے۔ یہی حال مومن کا ہے، کہ اگر وہ خیر کی طرف دعوت نہ دے، نیکی کا حکم نہ دے، بدی کو برداشت کرے اور اِس سے روکے نہیں، تو یہ اِس بات کی دلیل ہے کہ اُس میں خوف ِ خدا کی آگ سرد پڑ گئی ہے اور ایمان کی روشنی مدھم ہو گئی ہے....

ایک وقت وہ آئے گا کہ کروڑوں مسلمان دنیا میں موجود ہوں گے مگر اُن کی شمعِ ایمان میں اتنی روشنی بھی نہ ہو گی کہ اپنے قریبی ماحول ہی کو منور کرسکیں، بلکہ ظلمت ِ کفر کے غلبے سے خود اُن کے اپنے نور کے بجھ جانے کا خوف ہوگا۔ لہٰذا ایسی حالتوں کے لیے اُس نے فرمایا کہ تمھارے اندر کم از کم ایک ایسی جماعت تو ضرورہی موجود رہنی چاہیے جو خیر کی طرف دعوت دینے والی اور بدی کا مقابلہ کرنے والی ہو۔ کیونکہ اگر تمھارے اندر ایک ایسی جماعت بھی نہ رہے، تو پھر تم کو عذاب ِ الٰہی اور قطعی ہلاکت و تباہی سے کوئی چیز نہیں بچا سکتی۔(’اشارات‘، سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ، ترجمان القرآن، جلد۴۰، عدد۶، ذی الحجہ ۱۳۷۲ھ، ستمبر۱۹۵۳ء، ص ۷-۹)