قیادت کے لیے جن اوصاف کی ضرورت اولین اور ناگزیر حیثیت رکھتی ہے ان میں خلوص، دیانت اور صداقت کے ساتھ فراست اور معاملہ فہمی، صلاحیت کار اور قوم اور پارلیمنٹ کا اعتماد سب سے زیادہ اہم ہیں۔ قوتِ فیصلہ اور فیصلوں پر استقامت و جرأت سے کاربند ہونے کا وصف بھی قیادت کے لیے بدرجہ اتم مطلوب ہے۔ اقبال نے اپنے مخصوص انداز میں اس ضرورت کا اظہار کچھ اس طرح کیا تھا کہ ؎
سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
قرآن پاک نے ان تمام پہلوئوں کو ایک جامع اصول کی شکل میں اس طرح بیان فرما دیا ہے: اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا وَ اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ ط (النسائ۴:۵۸) ’’مسلمانو! اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہلِ امانت کے سپرد کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو‘‘۔
پاکستان نہ ایک ناکام ریاست تھا اور نہ ان شاء اللہ کبھی ہوگا، لیکن ملک کی اجتماعی زندگی میں سارے بگاڑ، فساد اور افراتفری کی بنیادی وجہ قیادت کی ناکامی اور صحیح قیادت کا فقدان ہے۔ اس قوم کو جب بھی اچھی قیادت میسر آئی ہے اس نے تاریخ کو نئی بلندیوں سے روشناس کیا ہے اور زوال اور انتشار کے ہر دور اور ہر پہلو میں قیادت ہی کے فساد کا پرتو دیکھا جاسکتا ہے۔ تحریکِ پاکستان کو قائداعظم محمد علی جناح جیسی قیادت میسر آئی تو سات سال کے مختصر عرصے میں ایک منتشر قوم ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی صورت میں سینہ سپر ہوگئی اور انگریزی سامراج اور ہندو کانگریس کی منظم قوت کا مقابلہ کر کے آزادی کی جدوجہد کو اللہ کے فضل اور اپنی حکیمانہ مساعی کے ذریعے کامیاب و کامران کیا۔ قائداعظم اور لیاقت علی خاں کی قیادت میں نوزائیدہ ملک کو تمام مصائب، مشکلات اور دشمنوں کی ریشہ دوانیوں کے باوجود مضبوط و مستحکم کیا۔ تباہ شدہ معیشت کو بحال کیا، ڈیڑھ کروڑ مہاجرین کو خوش اسلوبی کے ساتھ نئی ریاست میں بسایا اور ۱۰ سال کی مختصر مدت میں علاقے کی ایک اُبھرتی ہوئی قوت کی حیثیت حاصل کرلی۔ ملایشیا، سنگاپور اور جنوبی کوریا جو آج معاشی ترقی کے باب میں نمونے کی ریاستیں قرار دی جاتی ہیں، ان کے پالیسی ساز اعتراف کرتے ہیں کہ انھوں نے اُس دور کے پاکستان کے معاشی منصوبوں سے خوشہ چینی کی تھی، لیکن افسوس کہ جس قوم نے یہ چراغ جلائے تھے اور جس کے چراغوں سے دوسروں نے اپنے چراغ روشن کیے تھے، وہ مفاد پرست سیاست دانوں اور طالع آزما فوجی جرنیلوں کی ایسی گرفت میں آگئی کہ ع
پاکستان کے گذشتہ ۵۰ سال کے حالات کا جو بھی دیانت اور غیر جانب داری کے ساتھ جائزہ لے گا، یہ کہنے پر مجبور ہوگا کہ جس ملک کو اللہ تعالیٰ نے وسائل سے مالا مال کیا تھا، (قدرت کے وسائل سے وہ اب بھی مالا مال ہے) اور جس کی پوری اسلامی دنیا میں ایک ساکھ تھی، اسے ایک ایسی قیادت نے تباہ و برباد کردیا جو اخلاص اور دیانت سے محروم، صلاحیت کار سے عاری اور مفادات کی پرستش میں مگن رہی ہے۔ ہمارے بیش تر مسائل او ر مصائب کا سبب صحیح قیادت کا فقدان اور اقتدار پر ایسے افراد کا قبضہ رہا ہے، خواہ وہ وردی پوش ہوں یا جمہوری لبادے میں ملبوس، جن کی توجہ کا مرکز قومی مفادات اور مقاصد کے مقابلے میں اپنے ذاتی، گروہی یا زیادہ سے زیادہ جماعتی اور حزبی مفادات رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس پورے عرصے میں الا ماشاء اللہ ’گاؤآمد و خررفت‘ کا سا سماں رہا ہے جس کے نتیجے میں ملک ایک عذاب کے بعد دوسرے عذاب میں مبتلا ہوتا چلا آرہا ہے۔ یہ سلسلہ ختم ہونے کو نہیں آ رہا۔ جب تک کرسیوں کا یہ کھیل جاری رہے گا سیاسی گرداب سے نکلنا ممکن نظر نہیں آتا۔ ان حالات میں ایک نہیں ۱۰ وزراے اعظم تبدیل کرلیں، حالات میں کسی جوہری تبدیلی کا امکان نظر نہیں آتا۔ واحد راستہ عوام کو بیدار اور متحرک کرنا اور نئے انتخابات کے ذریعے ایک ایسی قیادت کو زمامِ اقتدار سپرد کرنا ہے جو مخلص، دیانت دار اور باصلاحیت ہو، جو پاکستان کی آزادی، حاکمیت اور خودمختاری کی حفاظت کرسکے اور جو اس کی اسلامی شناخت کی ترویج و ترقی کے ساتھ عوام کے دکھ درد کا مداوا کرنے اور قومی وسائل کو ملک و قوم کی تعمیروترقی پر صرف کرنے کی صلاحیت اور عزم و ارادہ رکھتی ہو، جو عوام میں سے ہو اور ان کے سامنے جواب دہ ہو اور جو دستور اور قانون کی پاس داری کرنے والی اور حقیقی جمہوری اقدار اور روایات کی امین ہو۔ اس بنیادی انقلابی تبدیلی کے بغیر قوم صرف کرسی کرسی (musical chairs) کے کھیل کی تماشائی تو ہوسکتی ہے، اپنی قسمت کی مالک اور اپنے مستقبل کی تعمیر کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتی۔
ہم پوری دردمندی کے ساتھ اس بنیادی حقیقت کی یاد دہانی کرانا چاہتے ہیں کہ جو ڈراما پچھلے چند ہفتوں میں جناب گیلانی کے سپریم کورٹ کے فیصلے کو تسلیم نہ کرنے اور عدالت عظمیٰ کی تضحیک و تحقیر کا رویہ اختیار کرنے پر سزا کے حکم سے شروع ہوا تھا اور جسے اربابِ سیاست نے عدلیہ اور پارلیمنٹ میں تصادم اور عدلیہ پر پارلیمنٹ کی بالادستی کی جنگ کا رنگ دے کر ایک خطرناک اداراتی بحران میں تبدیل کر دیا تھا، اس طرح کے ڈرامے اب مزید نہیں چل سکتے۔ افسوس ہے کہ قومی اسمبلی کی محترمہ اسپیکرصاحبہ نے بھی اپنے اب تک کے معتدل اور متوازن رویے کو بالاے طاق رکھ کر جناب زرداری اور جناب گیلانی کے اس کھیل میں شرکت اختیار کرکے پوری سیاسی بساط کو معرضِ خطر میں ڈال دیا۔اس نازک موقعے پر حکمران جماعت اور میڈیا کے کچھ عناصر کی ملی بھگت سے عدالت عظمیٰ کو، خاص طور پر چیف جسٹس افتخار چودھری صاحب پر ایک خطرناک حملہ کیا گیا جس سے مقصود یہ تھا کہ عدالت عظمیٰ پر پوری قوم کے وقار، احترام اور اعتماد کو پارہ پارہ کیا جاسکے اور اس طرح سیاسی قیادت اور اس کے سرکاری اور غیرسرکاری اعوان و انصار کی بدعنوانیوں اور دستور اور قانون کی کھلی کھلی خلاف ورزیوں پر احتساب اور گرفت کی جو تھوڑی بہت کوششیں ہورہی ہیں، وہ بھی ختم کی جاسکیں۔
ایک طرف ملک شدید معاشی بحران میں گرفتار ہے، بجلی اور گیس کی قلت نے ایسی تباہی مچادی ہے کہ لوگ گھروں سے نکل آئے ہیں اور گرمی کی اس شدت میں بے قابو ہوکر تشدد پر اُترآئے ہیں۔ بے روزگاری، مہنگائی اور کساد بازاری نے عام آدمی سے دو وقت کی روٹی بھی چھین لی ہے۔ ملک قرضوں کے پہاڑ جیسے بوجھ تلے دب کر رہ گیا ہے۔ امن و امان کی صورت حال خراب سے خراب تر ہورہی ہے۔ امریکا کی ننگی جارحیت نے ملک کی آزادی، خودمختاری، قومی وقار اور سرحدوں کی حفاظت ہر چیز کو پامال کردیا ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں کرپشن کا دور دورہ ہے اور ذی اثر اور برسرِاقتدار طبقے کے ۱۰ فی صد سے بھی کم لوگ، ہر طرح کی مراعات سے فیض یاب ہورہے ہیں اور ۹۰ فی صد سے زیادہ عوام محرومی اور زبوں حالی کے عذاب میں مبتلا ہیں۔ اچھی حکمرانی کا فقدان ہے۔ ارباب حکومت صرف اپنی ہوس کی پوجا میں مصروف ہیں اور میڈیا میں سارا کچا چٹھا کھل کر آنے کے باوجود پوری بے غیرتی کے ساتھ لُوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔
بات صرف پیپلزپارٹی ہی کی نہیں جو اپنے منشور، عوامی وعدوں اور اپنے تمام بلندبانگ دعوئوں کو بھول کر صرف اپنی قیادت کی دولت اور اقتدار کی ہوس کو پورا کرنے میں مصروف ہے، بلکہ اس کے اتحادی بھی( جن کے بغیر اس کی حکومت قائم نہیں رہ سکتی) اس بگاڑ میں برابر کے شریک ہیں۔ ہمیں اس عام تاثر کا اظہار کرنے میں کوئی باک نہیں کہ پارلیمنٹ اور حزبِ اختلاف بھی اپنا مثبت کردار ادا کرنے میں بُری طرح ناکام رہے ہیں۔ انگلیوں پر گنی جانے والی چند مثالوں کو چھوڑ کر، معلوم ہوتا ہے کہ اس تکلیف دہ کھیل میں سب ہی کسی نہ کسی درجے میں شریک ہیں۔ عوام کے اس احساس کو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے کہ گو فوج نے بظاہر سیاسی مداخلت سے احتراز کیا ہے جو دستور کا تقاضا ہے، لیکن عملاً فوج بھی پاکستان کی حاکمیت اور سرحدوں کے دفاع کی ذمہ داری کو پوری طرح ادا نہیں کر پا رہی ہے۔ امریکا کے ڈرون حملے اور دوسرے عسکری اقدامات بلاروک ٹوک جاری ہیں اور معصوم انسانوں کو بے دریغ ہلاک کر رہے ہیں اور ایٹمی اسلحے سے مسلح فوج ’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘ کا منظر پیش کر رہی ہے۔ ظلم بالاے ظلم یہ کہ فوج خود اپنے لوگوں ہی سے برسرِجنگ ہے اور خفیہ ایجنسیاں بھی وہ کردار ادا کر رہی ہیں جو حالات کو بگاڑنے کا ذریعہ بن رہا ہے۔ اعلیٰ عدلیہ بگاڑ کی ان تمام قوتوں پر ایک بریک کا کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہی ہے جس میں کچھ کامیابی بھی ہوئی ہے۔ اس کے باوجود بڑی بڑی مچھلیاں ہر کانٹے کو توڑ کر اپنا رقص جاری رکھے ہوئے ہیں۔ میڈیا نے بھی ایک حد تک خرابیوں کو واشگاف کرکے اور ظلم و زیادتی کو منظرعام پر لانے کی کوشش کی ہے مگر وہاں بھی کھلے اور درپردہ نہ معلوم کیسے کیسے کھیل کھیلے جارہے ہیں اور کون کون تار ہلا رہا ہے۔ اب یہ راز نہیں رہا۔
یہ ہے وہ پس منظر جس میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کے ۱۹ جون ۲۰۱۲ء کے فیصلے کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اصل مسئلہ محض ایک فرد جناب سید یوسف رضا گیلانی کے توہینِ عدالت کے جرم اور اس کے دُور رس اثرات اور نتائج کا نہیں، گو وہ بھی ایک اہم اور متعلقہ معاملہ ہے___ اصل مسئلہ اس سے زیادہ بنیادی ہے اور اسے سمجھے بغیر حالات کی اصلاح اور موجودہ بحران سے نکلنے کی کوئی حکمت عملی مؤثر نہیں ہوسکتی۔
قومی مفاھمت کی سیاست کی آڑ میں
قومی مفاہمت کے نام پر جس این آراو پر ستمبر۲۰۰۷ء میں پرویز مشرف کے وردی میں دوسری بار منتخب ہونے سے ایک دن پہلے دستخط ہوئے تھے، وہ فوجی آمر پرویز مشرف اور امریکی سامراج کے ایما پر محترمہ بے نظیر بھٹو کو اس دروبست میں شریک کرنے کی وہ معرکے کی تدبیر (master stroke ) تھی جو امریکا، برطانیہ اور پرویز مشرف نے پاکستان کو امریکا کے عالمی منصوبے میں ایک مستقل کردار ادا کرنے کے لیے تیار کی تھی۔ پرویز مشرف کے سامنے اپنے اقتدار کو دوام دینا، اور تبدیلی کے اس منظرنامے کو ناکام کرنا تھا جو میثاقِ جمہوریت کی شکل میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے مرتب کیا تھا اور اس سے متوازی کُل جماعتی جمہوری تحریک (APDM) نے جولائی ۲۰۰۷ء میں پاکستان میں اسلامی، جمہوری اور فلاحی انقلاب برپا کرنے کے لیے قوم کے سامنے پیش کیا تھا۔
معلوم ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی کی قیادت بیک وقت دو چالیں چل رہی تھی۔ ایک طرف وہ میثاقِ جمہوریت اور جولائی ڈیکلریشن میں شریک تھی، لیکن دوسری طرف اس عہدوپیمان کے ساتھ ساتھ کہ کوئی سیاسی جماعت فوجی حکمرانوں کے ساتھ شریکِ اقتدار نہیں ہوگی اور نہ ان سے کوئی معاملہ بندی کرے گی، وہ برطانیہ اور امریکا کے بنائے ہوئے منصوبے کے مطابق (جس کا کونڈولیزا رائس نے اپنی حال ہی میں شائع ہونے والی یادداشتوں پر مبنی کتاب میں کھل کر ذکر کیا ہے)، جنرل پرویز مشرف سے بھی سلسلہ جنبانی جاری رکھے ہوئے تھی۔ اس کا خیال تھا کہ اقتدار میں آنے کے لیے اس وقت کی فوجی حکومت اور امریکا دونوں کی سیڑھی کا سہارا ضروری ہے۔ مشرف کے ۳نومبر ۲۰۰۷ء کے اقدام نے پیپلزپارٹی کو ایک مخمصے میں ڈال دیا اور اس نے بحیثیت پارٹی کھل کر چیف جسٹس اور برطرف عدلیہ کی بحالی کا مطالبہ کر دیا اور پرویز مشرف کو وردی میں اپنی بلاواسطہ تائید سے صدر منتخب کرانے کے باوجود اس سے راستہ الگ کرنے کی کوشش کی جو بالآخر ۲۷دسمبر ۲۰۰۷ء کے خونیں حادثے پر منتج ہوئی۔ آصف علی زرداری نے موقع سے فائدہ اُٹھا کر ایک مشتبہ وصیت کا سہارا لے کر پیپلزپارٹی پر قبضہ کرلیا اور پورے سیاسی عمل کو اپنے مقاصد، عزائم اور مفادات کے لیے بڑی چابک دستی سے استعمال کیا۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے ایک طرف فوج سے رشتہ جوڑا، امریکا کو اس سے کہیں زیادہ دیا جس کی وہ توقع رکھتے تھے اور دوسری طرف برطرف عدلیہ کی بحالی سے منحرف ہوگئے اور عملاً ڈوگر عدالت سے مک مکا کرلیا۔ گیلانی صاحب نے وزارتِ عظمیٰ کے حلف سے بھی پہلے ججوں کی رہائی کا اعلان کردیا مگر عدلیہ کی بحالی کی طرف ایک قدم بھی نہ اُٹھایا بلکہ سارا وزن ڈوگر عدالت کو دوام بخشنے کے لیے استعمال کیا، حتیٰ کہ نئے ججوں کا تقرر بھی اسی نظام کے تحت کیا۔ ان حالات میں آزاد عدلیہ کی بحالی کی تحریک کا دوسرا دور شروع ہوا اور ۱۶؍مارچ ۲۰۰۹ء کو عدالت عالیہ کی بحالی کا جو کارنامہ انجام دیا گیا، اس کا کوئی کریڈٹ زرداری گیلانی حکومت کو نہیں جاتا۔ اس کا سہرا وکلا اورسول سوسائٹی کی تحریک، حکومت سے باہر سیاسی اور دینی جماعتوں کی سرتوڑ کوشش اور میڈیا کی مؤثر کوششوں کا رہینِ منت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عدلیہ کی بحالی کے باوجود آزاد عدلیہ کے کردار کو اس حکومت نے ایک دن کے لیے بھی دل سے تسلیم نہیں کیا، اور صرف نجی محفلوں میں عدلیہ اور اس کے ذمہ داروں کے خلاف زہرافشانیاں ہی نہیں عملاً اس کے ہر اس فیصلے کو تسلیم نہ کرنے یا غیرمؤثر بنا دینے کی سرگرم کوشش کی ہے جس کو وہ اپنے مفاد کے خلاف سمجھتی ہے۔
عدلیہ کے خلاف اس محاذ کے اصل سرخیل جناب آصف علی زرداری اور ان کی پیپلزپارٹی کی قیادت کا بڑا حصہ ہے لیکن اس محاذ کو تقویت دینے والوں میں ان کے وہ تمام اتحادی بھی شامل ہیں جو حکومتی ٹولے کا حصہ ہیں اور جن میں اب ایک عرصے سے مسلم لیگ (ق) بھی، جو پرویزمشرف کی اصل ساتھی اور اس کے ہر جرم میں برابر کی شریک تھی ، بھی کھل کر شامل ہوگئی ہے۔ گویا ع
پہنچی وہیں پہ خاک، جہاں کا خمیر تھا!
جمھوری روایات اور حکومتی روش
جمہوریت محض انتخابات اور نمایشی اداروں کا نام نہیں۔ انتخاب اور پارلیمنٹ تو ہٹلر، اسٹالن، مسولینی، جمال ناصر، حسنی مبارک، بورقیبہ، بن علی، حافظ الاسد اور بشارالاسد کے آمرانہ نظام میں بھی ہوتے رہے۔ جمہوریت نام ہے دستور اور قانون کی حکمرانی کا۔ جمہوریت نام ہے انسانی حقوق کے مکمل تحفظ اور آزادیِ اظہار و اجتماع کا۔ جمہوریت نام ہے آزاد اور غیر جانب دار عدلیہ کا، ایک ایسی عدلیہ جو انتظامیہ اور اس کے ہرشعبے کو، خواہ سول ہو یا عسکری، دستور اور قانون کے دائرے میں رکھ سکے اور ہر کوئی جو دستور اور قانون کی حدود کو پامال کرے، اس پر بھرپور گرفت کرسکے اور قانون شکن کو قرارواقعی سزا دے سکے۔ جمہوریت نام ہے آزاد میڈیا کا اور حکومت کے بنانے اور بدلنے میں عوام کے آزادانہ کردار کا۔ جمہوریت نام ہے ہر سطح پر قانون کے مطابق اربابِ اختیار کے احتساب اور جواب دہی کا۔ جمہوریت نام ہے ملک کے وسائل ملک کے عوام کے مفاد میں استعمال کیے جانے کا، اور عوام کے تصورات اور ضروریات کے مطابق معاشی، معاشرتی اور تعلیمی پالیسیوں کی تشکیل اور ان پر عمل درآمد کا۔ جمہوریت نام ہے ملک کے تمام شہریوں کے جان، مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کا، اور جمہوریت نام ہے ملک کی آزادی اور حاکمیت اور نظریاتی اور تہذیبی شناخت کے احترام اور ترویج کا۔
اگر اس کسوٹی پر پاکستان کی موجودہ حکومت کو جانچنے کی کوشش کی جائے تو بدقسمتی سے یہ حکومت ہماری تاریخ کی ناکام ترین حکومت نظر آتی ہے۔ ملک کی آزادی دائو پر لگی ہوئی ہے اور امریکا جس طرح چاہتا ہے ہماری اس آزادی اور حاکمیت کو مجروح کرتا ہے اور پھر طعنہ بھی دیتا ہے کہ تمھاری حاکمیت ہے کہاں؟ ہیلری کلنٹن صاحبہ نے اپنے تازہ ترین عتاب نامے میں ارشاد فرمایا ہے کہ جس حاکمیت کی تم بات کرتے ہو، اس کا وجود کہاں ہے؟ ہر روز امریکی ڈرون حملے ہماری حاکمیت کا مذاق اُڑا رہے ہیں اور ملک کے طول و عرض میں دہشت گرد، بھتہ خور، ٹارگٹ کلرز دندناتے پھرتے ہیں اور زرداری اور عبدالرحمن ملک جیسے لوگ چین کی بنسری بجا رہے ہیں۔ بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ میں ۲۰۰۸ء کے مقابلے میں تین سے چار گنا اضافہ ہوگیا ہے اور اگر ۰۷-۲۰۰۶ء میں تین یا چار گھنٹے بجلی کی لوڈشیڈنگ تھی تو آج وہ بڑھ کر ۱۸ سے ۲۰ گھنٹوں پر پہنچ گئی ہے۔ عوام بلبلارہے ہیں، صنعتیں بند ہورہی ہیں، سرمایہ ملک سے باہر منتقل ہورہا ہے، بے روزگاری بڑھ رہی ہے، قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، کاروبارِ مملکت قرض پر چل رہا ہے اور صرف ان چار برسوں میں قرضوں میں اتنا اضافہ ہوا ہے (ساڑھے چھے ٹریلین روپے) جو اس سے قبل کے ۶۰برسوں کے قرضوں سے زیادہ ہے۔ روپے کی قیمت ۴۵ فی صد کم ہوگئی ہے اور ملک میں نئی سرمایہ کاری براے نام رہ گئی ہے۔ افراطِ زر کا طوفان ہے، ہر روز ۲،۳؍ارب کے نوٹ چھاپے جارہے ہیں اور اگر بیرونِ ملک پاکستانیوں کی ترسیلات نہ ہوتیں (جو اس وقت ۱۲بلین ڈالر سالانہ سے زیادہ ہیں، یعنی کُل برآمدات کی آمدنی کا تقریباً ۵۵ فی صد ) تو ملک کب کا دیوالیہ ہوچکا ہوتا۔
یہ انتظامیہ اور سیاسی قیادت کی ناکامی ہے کہ عوام مجبور ہوکر ہرمسئلے کے حل کے لیے عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں اور عدلیہ بھی مجبور ہوکر ایسے معاملات میں مداخلت کر رہی ہے جن میں عام حالات میں اسے دخل دینے کی ضرورت نہیں۔ دستور بنانے والوں نے ایسے ہی غیرمعمولی حالات کے احتمال کے پیش نظر، آج نہیں ۱۹۷۳ء ہی سے، دستور میں دفعہ ۱۸۴ رکھی تھی جس کے تحت عدلیہ قومی اہمیت کے ایسے معاملات میں ازخود بھی مداخلت کرسکتی ہے جن کا تعلق انسانی حقوق سے ہو۔ آج یہی چیز عوام کے دُکھ درد کے، جزوی ہی سہی، مداوے کا ذریعہ بن رہی ہے۔ عدلیہ پر کام کا بوجھ غیرمعمولی طور پر بڑھ گیا ہے۔ کرپشن اور بدعنوانی کے اُمور ہوں، قانون اور ضابطوں کی پامالی کے معاملات ہوں، اقرباپروری اور ناجائز تقرریوں، تبدیلیوں اور تصرفات کے مسائل ہوں، قیمتوں میں اضافے اور سرکاری اداروں کے خسارے کا مسئلہ ہو، لاپتا افراد کی اندوہناک مظلومیت کی بات ہو یا سرکاری نیم سرکاری اور غیرسرکاری ایجنسیوں کی غیرقانونی حرکات اور چیرہ دستیوں اور ستم کاریوں کا___ اعلیٰ عدالتیں ہی عوام کی اُمید کی آخری کرن بن گئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انتظامیہ اور اس کی ایجنسیاں عدلیہ کو اپنے راستے کا کانٹا سمجھنے لگی ہیں اور ان کی حکم عدولی ہی نہیں، تحقیر اور تذلیل پر اُترآئی ہیں، اور آخری حملہ چیف جسٹس اور اعلیٰ عدلیہ کو بدنام کرنے کے لیے ایک بدنام ارب پتی کی ’سرمایہ کاری‘ اور اس کے ڈرامائی افشا کی شکل میں کیا گیا جو الحمدللہ کارگر نہ ہوا اور خود سازش کرنے والوں کے گلے پڑ گیا۔
موجودہ حکومت نے سپریم کورٹ کے کم از کم ۴۰ فیصلوں پر عمل نہیں کیا اور این آر او کے سلسلے میں تو عمل نہ کرنے کا برملا اعلان بھی کیا ہے۔ یہ اعلانِ جنگ ہی وہ اصل ایشو ہے جو اس وقت وجہِ نزاع بنا ہوا ہے۔ اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ بالکل کھل کر قوم کے سامنے یہ حقیقت رکھیں کہ اصل مسئلہ یوسف رضا گیلانی کا نہیں___ اصل مسئلہ دستور اور قانون کی حکمرانی کا ہے، دستور اور قانون کے باغیوں کو قانون کی گرفت میں لانے کا ہے، مسئلہ اداروں کے ٹکرائو کا نہیں، اداروں کو دستور اور قانون کے دائرے میں کام پر مجبور کرنے کا ہے۔ امیر اور غریب اور طاقتور اور کمزور سب کے لیے ایک قانون اور انصاف کے باب میں مساوات کا ہے۔
این آر او کیا ہے؟ یہ وہ کالا قانون ہے جس کے ذریعے ان تمام مجرموں کو جنھوں نے قتل سے لے کر قومی دولت کی لُوٹ مار تک، جو بھی جرم ۱۹۸۶ء سے لے کر اکتوبر ۱۹۹۹ء تک کیا ہے، اس سے بریت سے نوازا گیا ہے۔ اس کے تحت ۸ ہزار سے زیادہ قومی مجرموں کو نیک چلنی سے سرفراز کیاگیا بلکہ فرار کا دروازہ کھولا گیا ہے، اور اس گنگا میں اشنان کرنے والوں میں عزت مآب آصف علی زرداری، جناب عبدالرحمن ملک، جناب الطاف حسین، جناب فاروق ستار، اور ان جیسے دسیوں سیاسی لیڈر، بیورو کریٹ، تاجر اور بااثر افراد شامل ہیں۔ سپریم کورٹ نے دسمبر۲۰۰۹ء میں اس قانون کو اس کے نفاذ کے پہلے دن ہی سے کالعدم (null and void) اور غیرمؤثر قرار دیا ہے اور اس کے تحت سہولت لینے والے تمام افراد کو اس سہولت سے محروم کرکے صورتِ حال کو اس حیثیت پر بحال کردیا ہے جس پر وہ ستمبر ۲۰۰۷ء سے پہلے تھا۔ زرداری صاحب کے سوئٹزرلینڈ کے بنکوں میں۶کروڑ ڈالر کا معاملہ بھی اسی سلسلے کا حصہ ہے۔ سپریم کورٹ کا اصل ’جرم‘ یہ ہے کہ اس نے اس قومی دولت کو ملک میں لانے کا حکم جاری کیا ہے اور غیرقانونی طور پر پاکستان کے اس سرمایے سے این آر او کے تحت اس وقت کے اٹارنی جنرل ملک عبدالقیوم کے اس خط کو غیرمؤثر بنایا ہے جس کے ذریعے اس مقدمے کو واپس لیا گیا تھا جس میں حکومت پاکستان نے پاکستانی عوام کی اس دولت کو واپس لانے کا مطالبہ کیا تھا۔
سپریم کورٹ نے وزیراعظم سے کس بات کا مطالبہ کیا ہے؟ قانونی طور پر اس میں صدرزرداری کا نام کہیں نہیں آتا۔مطالبہ صرف یہ ہے کہ جو غلط اقدام این آر او کے کالے اور اب کالعدم قانون کے تحت کیا گیا، اسے واپس لیا جائے اور قانون کو اپنا عمل پورا کرنے کا موقع دیا جائے۔ وزیراعظم یا ان کے وکیل کو یہ جرأت نہیں ہوئی کہ عدالت سے دستور کی دفعہ ۲۴۸ کے تحت کسی استثنا کی درخواست کریں۔ اس لیے کہ ان کو پتا ہے کہ دفعہ ۲۴۸ کا اطلاق اس معاملے پر نہیں ہوتا۔ یہ صرف ان اُمور کے بارے میں ہے جو صدارت کے دوران ہوں۔ نیز صرف ایسے فوج داری معاملات اس کے دائرے میں آتے ہیں جو خواہ پہلے کے ہوں لیکن ان پر صرف عمل درآمد متعلقہ شخص پر اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک وہ اس عہدے پر فائز ہو۔ سوئس عدالتوں میں پاکستان کا مقدمہ سول مقدمہ (civil suit) کی حیثیت سے ہے، کریمنل نہیں۔ اور بات صرف زرداری صاحب کی نہیں ان تمام افراد سے متعلق ہے جو مقدمے میں فریق ہیں۔ استثنا کا اگر کہیں دعویٰ کیا جاسکتا ہے تو وہ سوئس عدالت میں ہی کیا جاسکتا ہے۔ جس خط کا مطالبہ سپریم کورٹ کر رہی ہے اس پر وہ لاگو ہی نہیں ہوتی۔یہی وجہ ہے کہ اسے زرداری صاحب اور ان کے حکمران ٹولے اور ان کے وکیلوں کی فوج نے سیاسی مسئلہ بنادیا ہے۔ محترمہ کی قبر کا نام استعمال کیا جا رہا ہے حالانکہ محترمہ اب اس جہاں میں جاچکی ہیں جہاں سے ان کا کوئی رشتہ اس دنیا کے معاملات سے باقی نہیں ہے۔ سوال قوم کی دولت واپس لانے کا ہے اور عدالت ہی نہیں پوری قوم کا مطالبہ ہے۔ قانونی عمل کے ذریعے اسے قوم کے مفاد میں حل کیا جائے۔ واضح رہے کہ اس مقدمے میں سوئس جج نے آصف علی زرداری اور دوسرے شریک افراد کو منی لانڈرنگ کے الزام میں چھے ماہ قید اور ۵۰ہزار ڈالر جرمانے کی سزا سنائی تھی اور انھیں حکم دیا تھا کہ وہ حکومت پاکستان کو ۱۱بلین ڈالر واپس کریں۔
یہ صرف ایک کیس کا معاملہ ہے ورنہ اگر نیویارک ٹائمز (جنوری ۱۹۸۸ئ) میں شائع ہونے والی تفصیلی رپورٹ کا تعاقب کیا جائے تو تقریباً ڈیڑھ ارب ڈالر حکومت کے سودوں میں رشوت کے ذریعے حاصل کرنے کی تفصیلات موجود ہیں جو سب پاکستانی خزانے کی رقم ہے اور اس لیے یہ پاکستان کے غریب عوام کا حق ہے۔ بدقسمتی ہے کہ ہمارے حکمران پوری ڈھٹائی کے ساتھ عدالت عظمیٰ کے حکم کو ماننے اور عوام کا حق ان کو واپس دلانے کی کوششوں کو سبوتاژ کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں حکمران پارٹی سے متعلق کچھ وکلا اور عہدے دار مقدمہ چلنے کی مدت ختم ہونے (law of limitation) کی باتیں بھی کر رہے ہیں۔ دوسری طرف خود سوئس حکومت کا معاملہ یہ ہے کہ اس نے ۲۰۱۱ء میں ایک نیا قانون نافذ کردیا ہے جس نے پاکستان اور ان تمام ممالک کے لیے جو اپنی لُوٹی ہوئی دولت کو غاصبوں سے واپس لینے کے لیے مستعد ہوں،نئے نئے امکانات کے دروازے کھول دیے ہیں۔ سوئٹزرلینڈ کے مشہور وکیل فرانسس مائیکل کے بقول اس قانون کے تحت اگر کوئی ریاست جس کا سرمایہ غیرقانونی طور پر سوئٹزرلینڈ میں موجود ہے اور کسی وجہ سے وہ خود اپنے ملک میں مقدمہ چلانے کی پوزیشن میں نہیں ہے، تو وہ اس قانون کی رُو سے یہ رقم حاصل کرسکتی ہے۔ (ملاحظہ ہو، دی نیوز ۲۳جون ۲۰۱۲ء کی اشاعت میں شائع ہونے والی رپورٹ۔ New Swiss law allows easy opening of black money cases’’یعنی سوئس قانون اب کالے دھن کے مقدمات کو کھولنے کا آسان راستہ فراہم کر رہا ہے‘‘۔
اب اس سے زیادہ شرم ناک بات اور ملک دشمنی اور عوام دشمنی اور کیا ہوگی کہ جہاں رقم موجود ہے وہ ملک کہہ رہا ہے کہ لے جاسکتے ہو، مگر ہم وہ رقم واپس یہاں لانے کی راہ میں روڑے اٹکا رہے ہیں۔
اس پس منظرمیں بات واضح ہوجاتی ہے کہ معاملہ بلاشبہہ توہین عدالت کا تو ہے ہی، لیکن صرف توہین عدالت کا نہیں ہے۔ سرکاری ذرائع اور بھارتی اور مغربی میڈیا، اپنی قانون اور انصاف پرستی کے تمام دعوئوں کو بھول کر اس طرح پیش کر رہے ہیں کہ پاکستان کی سپریم کورٹ نے ایک منتخب وزیراعظم کو بیک بینی و دوگوش اقتدار اور اسمبلی کی رکنیت تک سے محروم کر دیا ہے۔ اس کے لیے امریکی اور بھارتی اخبارات تسلسل کے ساتھ عدالتی ’کو‘ (coup) اور دوسرے ذرائع سے ’کو‘ کے الفاظ استعمال کر رہے ہیں۔ بھارت کا کوئی بھی بڑا اخبار ایسا نہیں ہے جس نے ایک ہی لَے میں سپریم کورٹ کے اس اقدام اور جمہوری عمل کو درہم برہم کرکے،اپنی حدود سے تجاوز کرنے، اور ایک ایسی حکومت کو کمزور کرنے کا مرتکب قرار نہ دیا ہو، جو پاک بھارت تعلقات کو بہتر بنانے میں سرگرم ہے۔ مغربی اور بھارتی میڈیا کی یلغار کا ذکر ہم بعد میں کریں گے لیکن پہلے اصل اعتراض کا جائزہ لینا ضروری ہے جو بیرونی میڈیا اور عناصر کے ساتھ حکمران جماعت کے قائدین، ان کے ہم نوا اہلِ قلم اور کالم نگار، حتیٰ کہ کچھ اداریہ نگار بھی کر رہے ہیں:
ہم چاہتے ہیں کہ آگے بڑھنے سے پہلے کیے جانے والے اعتراضات میں سے کچھ کو نمونے کے طور پر ریکارڈ کا حصہ بنا لیں تاکہ اندازہ ہوسکے کہ اس بارے میں کیا کیا گل افشانیاں ہورہی ہیں۔
سید یوسف رضا گیلانی صاحب نے بڑھ چڑھ کر دعوے کیے ہیں کہ وہ دستور کی دفعہ ۲۴۸ کا دفاع کر رہے ہیں اور اگر وہ ایسا نہ کرتے تو دفعہ ۶ ان پر لاگو ہوسکتی ہے جس کی سزا موت ہے۔ اس لیے وہ اپنے من پسند وکلا کی تائید سے اس جرم کا ارتکاب کررہے ہیں جس کی سزا چھے ماہ ہے، گو ان کو صرف ۳۰سیکنڈ کی سزا ملی۔ یہ دعویٰ کرتے وقت وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ دستور میں ایک دفعہ ۱۹۰ بھی ہے جو تمام انتظامی مشینری کو پابند کرتی ہے کہ عدالت کے فیصلوں پر عمل کرے۔کیا دفعہ ۱۹۰ کی خلاف ورزی دفعہ ۲۴۸ کی خلاف ورزی سے، جو مشتبہ ہے، مختلف امر ہے اور کیا ۱۹۰ کی خلاف ورزی پر دفعہ ۶ لاگو ہوتی ہے یا نہیں۔
پاکستان کے دستور پر حلف اُٹھانے والے ایک اور مہربان جناب صدرآصف علی زرداری فرماتے ہیں کہ پارٹی کا فیصلہ ہے کہ کوئی بھی سوئس عدالت کو خط نہیں لکھے گا ، خواہ اس کے نتائج کچھ بھی ہوں۔ اور یہ کہ خط کا مطالبہ دراصل محترمہ کی قبر کا مقدمہ ہے، حالانکہ اب محترمہ سے اس کا کوئی تعلق باقی نہیں رہا ہے۔ زرداری صاحب نے بار بار عدلیہ کا مذاق اُڑایا ہے اور اپنے تازہ ترین ارشاد میں تو یہاں تک کہہ گئے ہیں کہ ’’وزیراعظم کی نااہلی سے متعلق عدالتی فیصلے پر تحفظات ہیں، اسے احتجاجاً قبول کیا ہے۔ عدالتی فیصلے کو پارلیمنٹ میں زیربحث لائیں گے۔ جمہوریت کی خاطر دوسرا وزیراعظم لارہے ہیں۔ نیا قائدایوان بھی بے نظیر کی قبر کا ٹرائل نہیں ہونے دے گا۔ پیپلزپارٹی کو کمزور کرکے اس ادارے کا فردِ واحد بھی جلد چلا جائے گا‘‘۔ (ایوان صدر میں پیپلزپارٹی کی پارلیمانی پارٹی سے خطاب، جنگ، جسارت، نوائے وقت، نئی بات،۲۱ جون ۲۰۱۲ئ)
پارٹی کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں تو یہاں تک کہہ گئے ہیں کہ یہ سب ’بدمعاشی‘ ہے اور میں اس کے مقابلے میں بڑی بدمعاشی کر رہا ہوں ___ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ بڑے دُکھ کے ساتھ ایک اہم جملہ معترضہ کے طور پر جناب آصف علی زرداری صاحب کے اس کردار کا بھی یہاں ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے جو وہ دستور کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایوانِ صدر سے مسلسل کر رہے ہیں۔
صدر زرداری صاحب بعینہٖ وہی بات کہہ رہے ہیں جو گیلانی صاحب نے کہی تھی اور جس پر توہینِ عدالت کا اطلاق ہوا تھا۔ پھر وہ عدالت عظمیٰ اور اس کے فیصلوں کو پارلیمنٹ میں بحث کے لیے لانے کی دعوت دے رہے ہیں جو اسمبلی اور سینیٹ کے رولز آف بزنس کے خلاف ہے۔ نیز وہ پیپلزپارٹی کو کمزور کرنے والے ادارے کے لیے ’فردِ واحد‘ کے جلد چلے جانے کی بات بھی فرما رہے ہیں جو ایک خطرناک دھمکی اور خوف ناک عزائم کی غماز ہے۔ یہی وہ فسطائی ذہن ہے جو قانون اور عدل کی بالادستی کو گوارا نہیں کرتا اور جو تصادم اور انتقام کی آگ کو بھڑکانے کا ذریعہ بنتا ہے۔
صدرصاحب بھی تمام عدالتی فیصلوں کی خلاف ورزی کرکے توہینِ عدالت کے مرتکب ہورہے ہیں اور اس سے بھی زیادہ سنگین اس جرم کا مسلسل ارتکاب کر رہے ہیں کہ صدر ہوتے ہوئے ایک سیاسی پارٹی کے سربراہ کا کردار ادا کر رہے ہیں، اور ملک کی سیاست میں پاکستان اور فیڈریشن کی نہیں بلکہ ایک پارٹی کی وکالت کر رہے ہیں اور اس کے مفادات کے لیے سرکاری وسائل اور حیثیت کو استعمال کر رہے ہیں۔ اور تیسرا جرم یہ ہے کہ اٹھارھویں ترمیم کے بعد دستور نے حکمرانی کا جو نقشہ مقرر کیا ہے اس کے برعکس انھوں نے پارلیمانی نظام پر صدارتی نظام کو مسلط کردیا ہے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ جو پارلیمان کی بالادستی کی رٹ لگاتے نہیںتھکتے وہ وزیراعظم کے دستوری اور پارلیمانی اختیارات کو ایک ایسے شخص کو دینے کے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں جسے دستور نے صرف فیڈریشن کی علامت بنایا ہے۔ یہ اور بھی زیادہ تشویش ناک ہے کہ ایک مجرم وزیراعظم کی جگہ ایک اور بدنام شخص کے انتخاب سے پہلے انھوں نے فوج کے چیف آف سٹاف سے مشورہ کیا جو خود ان کے اور چیف آف سٹاف کے حلف کی صریح خلاف ورزی ہے۔ یہ خوش آیند ہے کہ انھوں نے مشورہ دینے سے انکار کیا لیکن اس سے مشورہ حاصل کرنے والے کے جرم میں کمی نہیں آتی۔
عدلیہ کی بحالی کے سلسلے میں محترمہ عاصمہ جہانگیر کی بڑی خدمات ہیں لیکن سپریم کورٹ بارکونسل کے سالِ گذشتہ کے انتخابات کے بعد سے ان کے تیور خاصے بدل گئے ہیں اور اپنے تازہ ترین انٹرویو میں ارسلان افتخار کے معاملے کے حوالے سے ان کے ارشادات ناقابلِ فہم ہوتے جارہے ہیں، ان کا ارشاد ہے کہ:
اس واقعے کے بعد سے عدالت عظمیٰ نے بڑی تیزی سے جمہوری نظام کی بساط لپیٹنے کا آغاز کیا ہے۔ انھوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ انتخابات نہیں ہوں گے۔ اب وہ زمانہ نہیں رہا جب کھلم کھلا مارشل لا لگا دیا جائے۔ لیکن ایک سویلین چہرے کے پیچھے فوجی بیٹھے ہوتے ہیں اور اب اس کی بدبو آنا شروع ہوگئی ہے۔ جب سے عدلیہ بحال ہوئی ہے اس نے اداروں کو بار بار دھچکا لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے لیکن حکومت کی بقا اس میں ہے کہ وہ عدالت عظمیٰ کے فیصلوں کو تسلیم کرے۔ انھوں نے کہا کہ عدالتی فیصلہ جمہوریت کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ افسوس کہ عدلیہ ، پارلیمان اور اپوزیشن ایک دوسرے کو کمزور کرنے کے لیے خود اپنے پائوں پر کلہاڑی مار رہے ہیں۔
بلاشبہہ ہرشخص کو اپنی راے کا حق ہے لیکن عدالت کے فیصلوں سے فوجی بوٹوں کی بو آرہی ہے یا نہیں،محترمہ کے بیان میں زرداری اور گیلانی صاحب کی آواز کی بازگشت صاف سنی جاسکتی ہے۔
روزنامہ ڈان کے نامہ نگار راجا اصغر نے اس پورے عمل کو A Judicial Blow to Politics (سیاست پر عدالتی ضرب)کا عنوان دیا ہے (ڈان، ۲۰ جون ۲۰۱۲ئ)، اور بالواسطہ طور پر جسٹس منیر کا ریفرنس دیتے ہوئے Constitutional Coup(دستوری ’کو‘)کی یاد تازہ کی ہے۔
یہ اشارے تو ’صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں‘ کے انداز کے ہیں لیکن امریکی میڈیا اور اس سے بھی بڑھ کر بھارتی میڈیا تو عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے پر بڑا چراغ پا ہے اور بھارت کی سپریم کورٹ کے سابق جج صاحب تو تلوار اور بھالا سنبھال کر حملہ آور ہوگئے ہیں اور تعجب ہے کہ ان کے اس وار کو عارف نظامی جیسے مدیر اور دانش ور نے بھی نیم تائیدی انداز میں اپنے مضمون میں شامل کرنا ضروری سمجھا ہے ۔ (ملاحظہ ہو پاکستان ٹوڈے، Exit Gilani ، ۲۳ جون ۲۰۱۲ئ)
ان حالات میں، جب کہ ایک منتخب حکومت اور نئی زندگی پانے والی سپریم کورٹ، دونوں یہ کوشش کر رہے ہیں کہ اپنی اداراتی حدود کا دوبارہ تعین کریں، تصادم ناگزیر تھا۔ پریشان کن سوال یہ ہے کہ کیا یہ محض جمہوری رسہ کشی سے زیادہ ہے؟ جس یکسوئی کے ساتھ سپریم کورٹ نے حکومت کے ساتھ اپنی لڑائیاں جاری رکھی ہیں، اس نے دوسرے ذریعے سے ’کو‘ کے الزامات کو راہ دی ہے۔(۲۰جون ۲۰۱۲ئ)
درحقیقت چیف جسٹس نے موجودہ حکومت اور ملک کی سیاست کو مزید اُلجھائو سے نکالنے کے بجاے قدم بہ قدم گرائے جانے کو ناگزیر بنا دیا ہے۔ یہ ایک کلاسیکل فوجی ’کو‘ نہیں ہے (اس لیے کہ فوج سے اقتدار سنبھالنے کی توقع نہیں ہے) بلکہ یہ پی پی پی کے زیرقیادت نظام کو جو فوج کا ناپسندیدہ ہے، قدم بہ قدم تباہ کرنا ہے۔ شاید ممکنہ طور پر میموگیٹ کے پس پردہ بھی یہی جذبہ کارفرما تھا، جس نے گذشتہ برس صدر کے قائم مقام نمایندوں کو امریکیوں کے سامنے فوجی انقلاب کا خوف بیان کرنے پر آمادہ کیا۔ یہ امراہم ہے کہ چیف جسٹس نے دوسرے سیاست دانوں کے خلاف مقدمات کا آغاز نہیں کیا ہے۔ اس طرح ہمارے سامنے پاکستان میںدوسرے ذرائع سے ’کو‘ آتا ہے جو بھارت اور پاکستان میں تعلقات کی سنجیدہ کوشش میں رکاوٹ ہے۔ جن انتخابات کے تار فوج ہلاتی ہے زیادہ دُور نہیں ہوسکتے۔
لگتا ہے کہ گھڑی کی سوئیاں پیچھے کر دی گئی ہیں۔ زرداری کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات کو دوبارہ زندہ کرنے سے انکار پر توہینِ عدالت کے مقدمے نے ۲۰۰۹ء کی یاد تازہ کردی ہے جب عدالت نے سابق صدر مشرف کی زرداری اور ان کے ساتھیوں کی معافی کو رد کر دیا تھا۔ لیکن سول حکومت کو کمزور کرنے والا حملہ پاکستان کے بڑھتے ہوئے سیاسی عدم استحکام کے لیے ناگزیر تھا، خاص طور پر اسامہ بن لادن کے قتل کے بعد۔ نہ یہ بات غیرمتوقع تھی کہ یہ عدلیہ کی طرف سے آسکتا تھا ۔ پاکستان کی فوج اور عدلیہ اکثر وقت کی سول حکومت کے خلاف ایک دوسرے سے مل گئے ہیں اور اس فیصلے کو بھی اس کے ظاہری مفہوم تک نہیں لینا چاہیے۔
مجھے یہ کہتے ہوئے افسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کی عدالت عظمیٰ اور خاص طور پر اس کے چیف جسٹس نے مکمل عدم برداشت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اعلیٰ عدالتوں سے اس کی توقع نہیں کی جاتی۔ درحقیقت عدلیہ اور س کے چیف جسٹس عوام کو خوش کرنے کے لیے عرصے سے کھیل رہے ہیں۔ یہ بالکل عیاں ہوگیا ہے اوراس نے تمام دستوری معیارات کو پامال کردیا۔ میں یہ سمجھنے سے بالکل قاصر ہوں کہ بدعنوانی کے الزامات جو واضح طور پر مجرمانہ نوعیت کے ہیں، پاکستانی صدر کے خلاف کس طرح شروع کیے یا جاری رکھے جاسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک عدالت وزیراعظم کو کس طرح نکال سکتی ہے؟ جمہوریت میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔ وزیراعظم اس وقت تک اپنے منصب پر رہتا ہے جب تک کہ اسے پارلیمنٹ کا ، نہ کہ عدالت عظمیٰ کا اعتماد حاصل رہتا ہے کہ دستور نے مملکت کے تین ستون، یعنی عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ کے درمیان ایک نازک توازن قائم کیا ہے۔ ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیے اور ایک دوسرے کے دائرۂ کار میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ دوسری صورت میں نظام نہیں چل سکتا۔ ایسا نظر آتا ہے کہ پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے اپنا توازن کھو دیا ہے اور جنونی (berserk) ہوگئی ہے۔ اگر یہ اب بھی ہوش میں نہیں آتی تو مجھے ڈر ہے کہ وہ دن دُور نہیں جب دستور ختم ہوجائے گا اور الزام پورے کا پوراعدالت پر ہوگا، اور خاص طور پر اس کے چیف جسٹس پر، (دی نیوز، پاکستان ٹوڈے، ۲۲ جون ۲۰۱۲ئ)
جناب زرداری صاحب کو بھارت کے ان ’ہمدردوں‘ کی شکل میں وہ ترجمان مل گئے جو ان کی اپنی لیگل ٹیم سے بھی بازی لے گئے ہیں۔
اس ساری شعلہ بیانی کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے اور ان تمام اعتراضات کے وزن کو بھی متعین کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مندرجہ ذیل حقائق پر کھلے دل سے غور کیا جائے اور پھر وقت کا قاضی جو فتویٰ بھی دے، قبول ہے۔
واضح رہے کہ حکومت این آر او کو پارلیمنٹ میں لانے کے بعد اسے واپس لینے پر مجبور ہوئی۔ حکومت کے وکیل نے عدالت عظمیٰ میں اس کے دفاع سے معذرت کرلی اور عدالت نے محکم دلائل کے ساتھ اسے ایک bad law قرار دے کر منسوخ کردیا۔ بعد از خرابی بسیار، حکومت کی طرف سے ریویو کی اپیل بھی مسترد ہوگئی جس نے بحث کے باب کو بند کر دیا۔ اب مسئلہ صرف اس فیصلے کے نفاذ کا ہے اور جن لوگوں نے، خواہ وہ کوئی بھی ہو، اس سے جو فائدے اُٹھائے ہیں ان کو اس سے محروم کرنے کا ہے۔ یہ حق و انصاف کا کم سے کم تقاضا ہے۔ نیز اس معاملے میں قانون کی نگاہ میں سب کی برابری اصل اصول ہے۔ کسی کے لیے بھی کوئی مراعات نہ دستورہی دیتا ہے اور نہ قانون اور اخلاق میں اس کی گنجایش ہے۔ رہا زرداری صاحب کے لیے دفعہ ۲۴۸ کا معاملہ تو جیسا ہم نے پہلے عرض کیا قانونی طور پر نہ اس کا سہارا لیا گیا ہے اور نہ بنتی ہے۔ معاملہ فوج داری کا نہیں، سول ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ کے سابق جج صاحب نے اصل حقائق معلوم کرنے کی زحمت کی ہوتی تو اپنے بیان میں ایسی فاش غلطی نہ کرتے۔ پاکستان کی حکومت کی جو درخواست سوئس عدالت کو گئی تھی وہ سول قانون کے تحت تھی، یعنی پاکستان کی دولت کی واپسی۔ فوج داری الزام سوئس پراسیکیوٹر کی طرف سے تھا، پاکستان کی طرف سے نہیں۔ جسٹس رمدے نے اس معاملے پر بڑی تفصیل سے اورفیصلہ کن روشنی ڈالی ہے، اس لیے دفعہ۲۴۸کو اس بحث میں لانا خلط مبحث ہے۔
موجودہ حکومت اعلیٰ عدالت سے مسلسل برسرِپیکار ہے اور ۴۰ سے زیادہ فیصلوں ( بشمول این آر او کے فیصلے) پر عمل پیرا ہونے سے گریزاں ہے۔ یہ ایک جرمِ عظیم ہے اور ایسے جرم کے مرتکبین اپنے حق حکمرانی سے محروم ہوجاتے ہیں۔ یہ دستور کی خلاف ورزی ہی نہیں، اس کے خلاف بغاوت ہے اور دفعہ۶ کی زد ایسے تمام اقدامات پر پڑتی ہے جس کی سزا موت تک ہوسکتی ہے۔
ہمیں تعجب ہے کہ بھارت کی سپریم کورٹ کے سابق جج اور ان کے بھارتی اور پاکستانی ہم نوا بڑی دیدہ دلیری بلکہ دریدہ دہنی سے کہہ رہے ہیں کہ ایک جمہوریت میں ایک منتخب وزیراعظم کو غیرمنتخب عدالت کیسے ہٹاسکتی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے بیش تر ممالک میں قانون کی نگاہ میں حاکم اور رعایا میں کوئی فرق نہیں اور جہاں کسی درجے کا استثنا دیا گیا ہے وہ غیرمحدود نہیں۔ خودبھارت میں ۱۲ جون ۱۹۷۵ء کو الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فاضل جج جگ موہن لعل سنہا نے الیکشن میں بدعنوانیوں کے الزام میں اس وقت کی وزیراعظم محترمہ اندراگاندھی کو سزا دی تھی اور انھیں پارلیمنٹ کی رکنیت سے محروم کردیا تھا۔ عدالت نے ان کو اپیل کا حق دیا تھا جس کا اندراگاندھی نے فائدہ نہ اُٹھایا اور پھر وہ دستوری ’کو‘ آیا جس کا خوف یہ بھارتی قانونی سورما پاکستان کو آج دلا رہے ہیں، یعنی بھارت میں چند ہی ہفتوں میں ایمرجنسی کا نفاذ، دستور کو معطل کرنا، اپوزیشن کے قائدین کی گرفتاریاں اور اندراگاندھی اور سنجے گاندھی کا آمرانہ اقتدار!
ایک جائزے کے مطابق صرف گذشتہ صدی میں دنیا میں ۲۰ صدور اور ۲۲ وزراے اعظم ایسے ہیں جن کو سزائیں ہوئی ہیں اور ان کے جرائم میں کرپشن کے علاوہ جنگی جرائم، بے حُرمتی، قتل اور دیگر سنگین الزامات شامل ہیں۔ اسلامی تاریخ کا مشہور واقعہ ہے کہ ساتویں صدی ہجری میں قاہرہ کے قاضی نے مملوک حکمران کو امارت سے معزول کردیا تھا۔
پروفیسر جان ایسپوزیٹو اسلام اور جمہوریت پر بحث کرتے ہوئے اپنی ایک کتاب میں لکھتے ہیں کہ عثمانیہ دور میں کم از کم چار ایسے خلیفہ تھے جن کو قاضی القضاۃ نے معزول کر دیا۔ پروفیسر محمود احمد غازی کی تحقیق یہ تھی کہ یہ تعداد چار نہیں نو ہے۔ تعداد جو بھی ہو، بات تعداد کی نہیں، اصول کی ہے اور ہمیں تعجب ہے کہ تحقیق کے بغیر بڑے بڑے قانون دان اور صحافی ایسے دعوے کر رہے ہیں اور پاکستان کی عدالت عظمیٰ کو دوش دے رہے ہیں کہ اس نے ایک منتخب وزیراعظم کو جرم کی سزا دے دی۔ حالانکہ عدالت نے جس صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اور جتنے مواقع حکومت کو قانون کی پاس داری اور دستور کے مطابق اپنی ذمہ داری ادا کرنے کے دیے، اس کی مثال مشکل ہے۔ عدالت نومبر۲۰۰۹ء سے خط لکھے جانے کا مطالبہ کر رہی ہے مگر حکمرانوں نے محض اپنی کرپشن کو بچانے کے لیے تین سال ضائع کردیے، بلکہ عدالت کا تمسخر اُڑایا جس پر عدالت کو گرفت کرنا پڑی۔ گیلانی صاحب اور ان کے لائق وکیل نے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق جان بوجھ کر استعمال نہیں کیا اور معاملے کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی۔ پھر پارلیمنٹ کو استعمال کرنے کی قبیح کوشش کی اور اسپیکر سے ایک ایسی رولنگ دلوائی گئی جس کی دستور، قانون اور سیاسی روایات میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس پر مستزاد، قومی اسمبلی سے رولنگ کے حق میں قرارداد پاس کرائی گئی جو خود ایوان کی بے حُرمتی اور اسپیکر کے اختیارات کو غصب (arrogate) کرنے کے مترادف تھا۔
عدالت نے ان تمام نازیبا حرکات سے صرفِ نظر کیا لیکن حکمران ٹولہ اور بھی جری ہوکر کھل کھیلنے میں مشغول رہا بلکہ عدالت اور خود چیف جسٹس کے خلاف ایک نہایت گھنائونا سازشی جال بُننے کی کوشش کی گئی جو اللہ کی حکمت سے خود ان کے اُوپر لوٹ آیا ۔ اربابِ دولت اور اصحابِ صحافت سب کو ملوث کرنے کی کوشش کی اور فوج اور خفیہ ایجنسیوں پر بھی چھینٹے اُڑائے گئے حالانکہ عدالت عظمیٰ لاپتا افراد اور بھتہ خوری اور لاقانونیت کے مسائل پر (عوامی درخواستوں پر یا خود اپنی صواب دید پر)، دستور کی دفعہ ۱۸۴ کے تحت گرفت کررہی ہے اور سیاست دانوں کے مقابلے میں بیوروکریسی کے ہر گرفت سے بالا (untouchable) افراد تک اور ایجنسیوں اور ایف سی کے ذمہ داروں پر قانون لاگو کرنے کی مہم میں مصروف ہے۔ بلاشبہہ عدل ہر حال میں ہونا چاہیے، ہرکسی کے باب میں ہونا چاہیے اور ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے۔ نیز احتساب سے کوئی بالا نہیں۔ نہ سیاست دان، نہ علما، نہ جج، نہ جرنیل، نہ صحافی، نہ تاجر اور نہ عام شہری۔ جس طرح امتیازی انصاف ناقابلِ قبول ہے اسی طرح عدلیہ کے فیصلوں کے باب میں کسی کو تسلیم کرنے اور کسی کو نہ کرنے کی بھی قطعاً کوئی گنجایش نہیں۔ عدالت نے بہت سے اہم فیصلوں میں وقت ضرور لیا ہے مگر کسی جانب داری کا کسی درجے میں بھی مظاہرہ نہیں کیا۔ عدالتی فعالیت کا اگر مظاہرہ ہوا تو وہ عوام کے حق کی حفاظت اور دستوراور قانون کا احترام کرانے کے لیے ہوا ہے، اور اس کے برعکس حکومتی افراد اور خصوصیت سے حکمران پارٹی کے افراد کے باب میں بار بار کے مواقع دے کر عدالتی تحمل (restraint) کا مظاہرہ کیا گیا ہے جس پر عوام مضطرب رہے ہیں۔
موجودہ حالات میں اعلیٰ عدالت نے دستور اور قانون کی پاس داری، عوام کو ان کے حقوق دلانے اور ملک سے بدعنوانی، کرپشن، بدحکمرانی اور اقرباپروری کے خاتمے کے لیے جو کوششیں کی ہیں وہ ہماری تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ بلاشبہہ حالات بہت خراب ہیں اور جو کچھ کیا جاسکا ، وہ بہت ہی محدود ہے مگر جو کچھ حاصل ہوا ہے وہ بہت قیمتی ہے۔ آزاد عدالت اور آزاد اور ذمہ دار صحافت پر ضرب لگانے کی جو کوششیں ہورہی ہیں وہ قابلِ مذمت ہیں۔ عدلیہ کو مضبوط کرنا اور عدلیہ کی پشت پر پوری عوامی تائید کو منظم کرنا جمہوریت کی بقا اور فروغ کے لیے نہایت ضروری ہے۔
ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جناب یوسف رضا گیلانی نے عدالت کے فیصلے کو قبول نہیں کیا اور شہید بننے کے شوق میں بے توقیر ہوکر ایوانِ اقتدار سے رخصت ہوئے۔ انھوں نے پاکستان کے وزیراعظم سے زیادہ جناب زرداری صاحب کے مفادات کے محافظ اور پارٹی کارکن کا کردار ادا کیا۔ زرداری صاحب نے بھی عدالت کے فیصلے کوتسلیم نہیں کیا، عدالت کا مذاق اُڑایا اور ان کی ساری تگ و دو عدالت کے فیصلوں کو ناکام کرنے کی ہے۔ راجا پرویز اشرف کا نئے وزیراعظم کے طور پر انتخاب بھی اسی مذموم کھیل کا حصہ ہے۔ سب معترف ہیں کہ موصوف میں ایسی کوئی خوبی نہیں کہ وہ اس عظیم ذمہ داری کے کم سے کم تقاضے بھی پورے کرسکیں۔ وہ ایک ناکام وزیر اور ایک بدنام سیاست دان ہونے کی شہرت رکھتے ہیں۔ ان کے اپنے ایک رفیق وزیر نے ان کے خلاف بدعنوانی اور کرپشن کا مقدمہ عدالت عظمیٰ میں دائر کیا اور وہ آج بھی اس پر قائم ہیں۔
خود عدالت نے رینٹل پاور کے مقدمے کے فیصلے میں دو بار ان کے خلاف تحقیق اور کارروائی کی ہدایت کی ہے۔ ایک ایسے شخص کو وزیراعظم بنانے اور برملا اس سے بھی وہی خدمت لینے کا اعلان جو یوسف رضا گیلانی صاحب کی برخاستگی کا سبب بنی، تصادم اور کش مکش بلکہ کھلی جنگ کی دعوت ہے۔ یہ تباہی کا راستہ ہے اور جمہوریت کو اصل خطرہ جمہوریت کے ان دعوے داروں سے ہے جن کے بارے میں یہ بھی کہنا مشکل ہے کہ وہ نادان دوست ہیں یا دانا دشمن؟ صاف نظر آرہا ہے کہ عدالت اپنے فیصلے پر عمل درآمد کا مطالبہ کرے گی اور اسے یہی کرنا چاہیے اور پوری مستعدی سے کرنا چاہیے۔ امکان یہی ہے کہ نئے وزیراعظم اس پرانی لن ترانی کا اعادہ کریں گے اور قانون اپنا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہوگا۔ ان حالات میں دو ہی راستے ہیں:
۱- حکمران اپنی روش کو بدلیں، عدالت کے فیصلے کو قبول کریں اور سوئس عدالت کو فوری طور پر خط لکھیں تاکہ یہ کش مکش ختم ہو، اور پھر مشاورت کے ذریعے جلد از جلد اور شفاف انتخابات کا انعقاد ہو جو ایک معتمدعلیہ اور غیر جانب دار الیکشن کمیشن کے تحت اور قابلِ قبول اور غیر جانب دار نگران حکومت کی نگرانی میں منعقد ہوں۔
۲- اگر حکومت یہ راستہ اختیار نہیں کرتی تو تمام اپوزیشن جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ سرجوڑ کر بیٹھیں اور ایک ایسا متفقہ لائحہ عمل تیار کریں جس کے نتیجے میں پُرامن عوامی تحریک کے ذریعے موجودہ حکومت کو دستور، قانون اور نظامِ عدل کے خلاف اس کی جنگ سے روکا جائے۔ اگر وہ نہ رُکے تو پھر اس کو اقتدار سے ہٹاکر ایک غیر جانب دار عبوری حکومت کے تحت جلد از جلد نئے انتخابات منعقد کیے جائیں، الیکشن کمیشن کو دستور کے مطابق تمام اختیارات دیے جائیں اور عبوری حکومت شفاف انتخابات کا اہتمام کرے تاکہ قوم اس دلدل سے نکلے اور ایک حقیقی اسلامی جمہوری اور فلاحی ریاست کے قیام اور اپنے حقیقی مقصد اور مشن کے حصول کے لیے سرگرم ہوسکے۔
بہت وقت اور بہت وسائل ضائع ہوچکے ہیں۔ اب مزیدنقصان کی گنجایش نہیں۔ تبدیلی دستک دے رہی ہے اور عوامی قوت کے ذریعے ایک صالح انقلاب ہی کے ذریعے حقیقی اور صحت مند تبدیلی آسکتی ہے۔ اس کے لیے سب کو ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر اسی طرح مشترک جدوجہد کرنا ہوگی جس طرح تحریکِ پاکستان میں سب نے مل کر انگریز اور ہندو قیادت دونوں کے کھیل کو ناکام بنانے کے لیے کی تھی اور اس کے نتیجے میں مسلمانوں کی ایک آزاد مملکت قائم ہوئی۔ اسی طرح آج اس مملکت کی بقا اور استحکام کے لیے اس کو اس کے اصل مقصد وجود کے حصول کے لیے سرگرم کرنے کے لیے اور اسے ان غاصبوں سے نجات دلانے کے لیے جو ایک عرصے سے اس پر قابض ہیں متحدہ ملّی جدوجہد کی ضرورت ہے۔
ہمیں یقین ہے کہ پاکستانی قوم، خصوصیت سے اس کے نوجوان اپنے وطن عزیز کو غاصبوں کے چنگل سے چھڑانے اور اسے ۱۸کروڑ انسانوں کے لیے خوشی، خوش حالی اور خودمختاری کا گہوارا بنانے کی جدوجہد میں ہرمفاد اور ذاتی پسند و ناپسند سے بلند ہوکر سردھڑ کی بازی لگا دیں گے ؎
نہیں ہے نااُمید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
اسلام کا تصورِ عبادت یہ ہے کہ آپ کی ساری زندگی خدا کی بندگی میں بسر ہو۔ آپ اپنے آپ کو دائمی اور ہمہ وقتی ملازم سمجھیں۔ آپ کی زندگی کا ایک لمحہ بھی خدا کی عبادت سے خالی نہ ہو۔ اس دنیا میں آپ جو کچھ بھی کریں، خدا کی شریعت کے مطابق کریں۔ آپ کا سونا اور جاگنا، آپ کا کھانا اور پینا، آپ کا چلنا اور پھرنا، غرض سب کچھ خدا کے قانونِ شرعی کی پابندی میں ہو۔ خدا نے جن تعلقات میں آپ کو باندھا ہے، ان سب میں آپ بندھیں، اور ان کو اس طریقے سے جوڑیں یا توڑیں جس طریقے سے خدا نے انھیں جوڑنے یا توڑنے کا حکم دیا ہے۔ خدا نے جو خدمات آپ کے سپرد کی ہیں اور دنیوی زندگی میں جو فرائض آپ سے متعلق کیے ہیں، ان سب کا بار آپ نفس کی پوری رضامندی کے ساتھ سنبھالیں اور ان کو اس طریقے سے ادا کریں جس کی طرف خدا نے اپنے رسولوں کے ذریعے سے آپ کی رہنمائی کی ہے۔ آپ ہروقت ہر کام میں خدا کے سامنے اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں، اور سمجھیں کہ آپ کو اپنی ایک ایک حرکت کا حساب دینا ہے۔ اپنے گھر میں بیوی بچوں کے ساتھ، اپنے محلے میں ہمسایوں کے ساتھ، اپنی سوسائٹی میں دوستوں کے ساتھ اور اپنے کاروبار میں اہلِ معاملہ کے ساتھ برتائو کرتے وقت ایک ایک بات اور ایک ایک کام میں خدا کی مقرر کردہ حدود کا آپ کو خیال رہے۔ جب آپ رات کے اندھیرے میں ہوں اور کوئی نافرمانی اس طرح کرسکتے ہوں کہ کوئی آپ کو دیکھنے والا نہ ہو، اس وقت بھی آپ کو یہ خیال رہے کہ خدا آپ کو دیکھ رہا ہے۔ جب آپ جنگل میں جارہے ہوں اور وہاں کوئی جرم اس طرح کرسکتے ہوں کہ کسی پکڑنے والے اور کسی گواہی دینے والے کا کھٹکا نہ ہو، اس وقت بھی آپ خدا کو یاد کر کے ڈر جائیں اور جرم سے باز رہیں۔ جب آپ جھوٹ، بے ایمانی اور ظلم سے بہت سا فائدہ حاصل کرسکتے ہوں اور کوئی آپ کو روکنے والا نہ ہو، اس وقت بھی آپ خدا سے ڈریں اور فائدے کو اس لیے چھوڑ دیں کہ خدا اس سے ناراض ہوگا۔ اور جب سچائی اور ایمان داری میں سراسر آپ کو نقصان پہنچتا ہو اس وقت بھی نقصان اُٹھانا قبول کرلیں، صرف اس لیے کہ خدا اس سے خوش ہوگا۔
پس دنیا کو چھوڑ کر کونوں اور گوشوں میں جا بیٹھنا اور اللہ اللہ کرنا عبادت نہیں ہے، بلکہ دنیا کے دھندوں میں پھنس کر اور دنیوی زندگی کی ساری ذمہ داریوں کو سنبھال کر خدا کے قانون کی پابندی کرنا عبادت ہے۔ ذکر الٰہی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ زبان پر اللہ اللہ جاری ہو، بلکہ اصلی ذکرالٰہی یہ ہے کہ جو چیزیں خدا سے غافل کرنے والی ہیںان میں پھنسو اور پھر خدا سے غافل نہ ہو۔ دنیا کی زندگی میں جہاں قانونِ الٰہی کو توڑنے کے بے شمارمواقع، بڑے بڑے نقصانوں کا خوف لیے ہوئے سامنے آتے ہیں، وہاں خدا کو یاد کرو اور اس کے قانون کی پیروی پر قائم رہو۔ حکومت کی کرسی پر بیٹھو اور وہاں یاد رکھو کہ مَیں بندوں کا خدا نہیں ہوں بلکہ خدا کا بندہ ہوں۔ عدالت کے منصب پر متمکن ہو اور وہاں ظلم پر قادر ہونے کے باوجود خیال رکھو کہ خدا کی طرف سے مَیں عدل قائم کرنے پر مامور ہوں۔ زمین کے خزانوں پر قابض و متصرف ہو اور پھر یاد رکھو کہ مَیں ان خزانوں کا مالک نہیں ہوں بلکہ امین ہوں اور پائی پائی کا حساب مجھے اصل مالک کو دینا ہے۔ فوجوں کے کمانڈر بنو اور پھر خوفِ خدا تمھیں طاقت کے نشے میں مدہوش ہونے سے بچاتا رہے۔ سیاست و جہاں بافی کا کٹھن کام ہاتھ میں لو اور پھر سچائی، انصاف اور حق پسندی کے مستقل اصولوں پر عمل کر کے دکھائو۔ تجارت اور مالیات اور صنعت کی باگیں سنبھالو اور پھر کامیابی کے ذرائع میں پاک اور ناپاک کا امتیاز کرتے ہوئے چلو۔ ایک ایک قدم پر حرام تمھارے سامنے ہزار خوش نمائیوں کے ساتھ آئے اور پھر تمھاری رفتار میں لغزش نہ آنے پائے۔ ہر طرف ظلم اور جھوٹ اور دغا اور فریب اور بدکاری کے راستے تمھارے سامنے کھلے ہوئے ہوں اور دنیوی کامیابیاں اور مادی لذتیں ہر راستے کے سرے پر جگمگاتے ہوئے تاج پہنے کھڑی نظر آئیں اور پھر خدا کی یاد اور آخرت کی بازپُرس کا خوف تمھارے لیے پابند ِ پا بن جائے۔ حدود اللہ میں سے ایک ایک حد قائم کرنے میں ہزاروں مشکلیں دکھائی دیں، حق کا دامن تھامنے اور عدل و صداقت پر قائم رہنے میں جان و مال کا زیاں نظر آئے، اور خدا کے قانون کی پیروی کرنا زمین و آسمان کو دشمن بنا لینے کا ہم معنی ہوجائے، پھر بھی تمھارا ارادہ متزلزل نہ ہو اور تمھاری جبیں عزم پر شکن نہ آئے۔ یہ ہے اصلی عبادت! اس کا نام ہے یادِ خدا! اِسی کو ذکر الٰہی کہتے ہیں، اور یہی وہ ذکر ہے جس کی طرف قرآن میں اشارہ فرمایا گیا ہے کہ: فَاِِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo (الجمعۃ ۶۲:۱۰) ’’پس جب نماز ختم ہوجائے تو پھیل جائو زمین میں اور تلاش کرو اللہ کے فضل میں سے اور یاد کرو اللہ کو بہت تاکہ تم فلاح پائو‘‘.....
کہنے کو تو یہ چھوٹی سی بات ہے اور بڑی آسانی کے ساتھ اسے زبان سے ادا کیا جاسکتا ہے، مگر عملاً آدمی کی ساری زندگی کا اپنے تمام گوشوں کے ساتھ عبادت بن جانا آسان کام نہیں، اس کے لیے بڑی زبردست ٹریننگ کی ضرورت ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ خاص طور پر ذہن کی تربیت کی جائے، مضبوط کیرکٹر پیدا کیا جائے۔ عادات اور خصائل کو ایک سانچے میں ڈھالا جائے، اور صرف انفرادی سیرت ہی کی تعمیر پر اکتفا نہ کرلیا جائے، بلکہ ایک ایسا اجتماعی نظام قائم کیا جائے جو بڑے پیمانے پر افراد کو اس عبادت کے لیے تیار کرنے والا ہو، اور جس میں جماعت کی طاقت فرد کی پشت پناہ، اس کی مددگار اور اس کی کمزوریوں کی تلافی کرنے والی ہو۔ یہی غرض ہے جس کے لیے اسلام میں نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کی عبادتیں فرض کی گئی ہیں۔
ان کو عبادت کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بس یہی عبادت ہیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اُس اصلی عبادت کے لیے آدمی کو تیار کرتی ہیں۔ یہ اس کے لیے لازمی ٹریننگ کورس ہیں۔ انھی سے وہ مخصوص ذہنیت بنتی ہے، اس خاص کیرکٹر کی تشکیل ہوتی ہے، منظم عادات و خصائل کا وہ پختہ سا پختہ بنتا ہے، اور اس اجتماعی نظام کی بنیادیں استوار ہوتی ہیں جس کے بغیر انسان کی زندگی کسی طرح عبادتِ الٰہی میں تبدیل نہیں ہوسکتی۔ ان چار چیزوں کے سوا اور کوئی ذریعہ ایسا نہیں ہے جس سے یہ مقصد حاصل ہوسکے۔ اسی بنا پر ان کو ارکانِ اسلام قرار دیا گیا ہے، یعنی یہ وہ ستون ہیں جن پر اسلامی زندگی کی عمارت قائم ہوتی اور قائم رہتی ہے۔ (اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر، ص ۱۱-۱۸)
أُعْطِیَتُ أُمَّتِی خَمَسُ خِصَالٍ لَمْ تُعْطَھَا أُمَّۃٌ مِنْ قَبْلِھِمْ: خَلُوْفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْیَبُ عِنْدَ اللّٰہِ مِنْ رِیْحِ المِسْکِ، وَتَسْتَغْفِرُ لَھُمْ المَلائِکۃُ حتٰی یُفْطِرُوْا، وَ یُزَیّنُ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کُلَّ یَوْمَ جَنَّتَہُ ثُمَّ یَقُوْلُ: یُوِشِکُ عِبَادِیَ الصَّالِحُوْنَ أَنْ یُلْقُوا عَنْھُمُ المَؤُنَۃَ وَاَلْأَذَیٰ وَیَصِیْرُوْا اِلَیْکَ، وَتُصْفَدُ فِیْہِ مَرَدَۃُ الشَّیَاطِیْن فَلَا یَخَلُصُوْا اِلٰی مَا کَانُوْا یَخْلُصُوْنَ اِلَیْہِ فِیْ غَیْرِہٖ، وَیَغْفَرُ لَھُمْ فِی آخِرِ لِیْلَۃٍ، قِیْلَ: یَارَسُولَ اللّٰہ ھِیَ لَیْلَۃُ القَدْرِ؟ قَالَ: لَا، وَلٰکِنَّ العَامِلَ اِنَّمَا یُوْفّیٰ أَجْرُہُ اِذَا قَضٰی عَمَلَہُ (مسند احمد، ج۲،ص۲۹۲)ماہِ رمضان میں میری امت کو پانچ انعامات سے نوازا گیا ہے، اور یہ شرف کسی دوسری امت کو نصیب نہیں ہوا۔ روزے دار کے منہ کی بو(خلوف)اللہ کو مشک کی خوشبو سے زیادہ پسند ہے۔ فرشتے افطارکے وقت تک روزہ داروں کے لیے استغفار کرتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ روزانہ جنت کی آرایش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:عنقریب میرے نیک بندے اپنی مشقتیںوتکالیف چھوڑکر تیرے پاس آنے والے ہیں۔ سرکش شیطانوں کو بیڑیاں ڈال دی جاتی ہیں، اور وہ بقیہ ایام کی طرح اثرانداز نہیں ہوپاتے۔ اللہ تعالیٰ اس ماہ کی آخری شب تمام روزہ داروںکی مغفرت فرما دیتے ہیں۔ سوال کیا گیا :کیا وہ آخری رات شبِ قدر ہے؟ آپؐ نے فرمایا:نہیں، بلکہ اس لیے کہ مزدور کو اس کی اُجرت کام ختم کرنے پر ملتی ہے۔
۱- روزے دار کے منہ کی بو اللہ رب العزت کو مشک کی خوشبو سے زیادہ عزیز ہوتی ہے۔ منہ کی یہ بو معدے کے غذا سے خالی ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اور عامۃ الناس میں اس کو ناپسندیدہ بھی خیال کیاجاتا ہے۔ اللہ کے نزدیک اس کی پسندیدگی کی وجہ یہ ہے کہ اس کا وجود اللہ کی طاعت وعبادت سے ترکیب پاتا ہے۔ کوئی بھی بظاہر معیوب چیز اگر عبادت وطاعت ِ الٰہی کے باعث وجود میں آتی ہے تواللہ کو محبوب ہوتی ہے۔ کثرتِ سجود کی وجہ سے پیشانی پر پڑ جانے والے سیاہ نشان کی تعریف وتوصیف کی گئی ہے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کو دو قطروں اور دو نشانوں سے بڑھ کر کوئی چیز محبوب نہیں ہے، ایک آنسو کا وہ قطرہ جو اللہ کی خشیت سے نکلے اور دوسرا خون کا وہ قطرہ جو اللہ کی راہ میں بہے۔ اور دو نشانوں میں سے ایک وہ نشان جو جہاد کے لیے جانے کی وجہ سے پیدا ہوا ہو۔ دوسرا وہ نشان جو اللہ کے فرائض میں سے کسی فریضہ کی ادایگی کی وجہ سے [جسم] پر پڑ جائے‘‘ (ترمذی:۱۶۶۹ مع تحسین البانیؒ۔کتاب الجہاد،ابن ابی عاصمؒ:۱۰۸)۔ روزِ قیامت شہداے اسلام کا خونِ شہادت سے شرابور میدانِ حشر میں آنے کا بیان کہ’’اس کے زخم سے خون رِس رہا ہوگا، اس کا رنگ خون کا ہوگا لیکن خوشبو مشک جیسی ہوگی‘‘ (بخاری، ۵۵۳۳، مسلم،۴۹۷۰)۔ نیز عرفہ کے دن اللہ تعالیٰ کا غبارآلود وپراگندہ حال حجاجِ کرام کو دیکھ کر ملائکہ کے سامنے اظہارِ فخر کرنا کہ ’’دیکھو میرے ان بندوں کو جو بکھرے بالوں اور غبارآلود قدموں کے ساتھ میرے پاس آئے ہیں‘‘۔ (مسند احمد،۷۰۸۹، ابنِ حبان،۱۸۸۷، ۳۸۵۲)۔ یہ سب اسی اصول کی توضیحی مثالیں ہیں۔
۲- ملائکہ کے محوِ استغفار رہنے کا مطلب ہے کہ چونکہ ملائکہ اللہ تعالیٰ کے معزز ومکرم اور ہرطرح کی سرتابی وعصیان سے معصوم ہوتے ہیں، اس لیے روزے داروں کے حق میں ان کی دعاے استغفار قبولیت کالازمی قرینہ ہے۔ مزید یہ کہ ملائکہ کا صائمین کے لیے استغفار پر مقرر کیا جانا روزے داروں کی بلندیِ درجات کی دلیل ہے۔ مغفرت کے معنی ہوتے ہیں دنیا وآخرت میں گناہوں کی پردہ پوشی۔ تمام بنی آدم چونکہ تھوڑے بہت خطاکار ضرور ہوتے ہیں، اس لیے سترِذنوب سے کسی متنفس کو استغناء نہیں ہو سکتا۔
۳- اللہ رب العزت کا روزانہ جنت کی آرایش کرنا اس لیے ہوتاہے کہ صالح نفوس میں اس جنت میں رسائی کا جذبہ ورغبت پیدا ہو۔ مشقتوں وتکالیف سے مراد دنیا کی مصائب و تکالیف اور مشاغل ومصروفیات ہیں، اور ان کے ترک سے مراد ایسے اعمالِ صالحہ کی طرف متوجہ ہوجانا ہے جو دنیا وآخرت کی سعادت کے ضامن اور دائمی عزت وسلامتی کے کفیل ہوتے ہیں۔
۴- شیاطین کو بیڑیاں پہنانے سے مراد یہ ہے کہ اس ماہ میں اللہ کی طرف سے خیر کی توفیق اور اس پر اعانت وتائید عام ہوجاتی ہے۔ اس کا عملی مشاہدہ صالحین کی حیات ومعمولات میں نمایاں طور سے دیکھنے کو ملتا ہے۔
۵- اس ماہ کی آخری شب میں تمام روزہ داروں کی مغفرت ہوجاتی ہے۔ دوسری روایت میں تمام اُمت ِ محمدیہؐ کی مغفرت کا تذکرہ وارد ہوا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ اس مہینے کی آخری رات میںاُمت محمدیہؐ کی مغفرت فرماتا ہے‘‘۔(اخبار مکۃ، الفاکہیؒ، ۱۵۷۵،سنن بیہقی،۱۱۸۷)۔ دونوں احادیث کے الفاظ کی تطبیق سے مترشح ہوتا ہے کہ ماہِ رمضان میں امتِ محمدیہؐ کا مکمل وجود صائمین کے دائرے میں داخل ہوتا ہے اور یہ غیر متصور ہے کہ کوئی شخص اس ماہ میں اسلام کا دعوے دار بھی ہو اور روزہ دار نہ ہو۔
بندگانِ خدا کی عمومی مغفرت کا یہ انعامِ خداوندی تین طرح سے ہوتا ہے۔ اولاً: اللہ رب العزت نے اس ماہِ مبارک میںایسے اعمالِ صالحہ مشروع فرمائے جو بندگانِ خدا کی مغفرت اور رفعِ درجات کا سبب بنتے ہیں۔ ثانیاً:عملِ صالح کی توفیق دینا خالصتاً اللہ رب العزت کے قبضۂ قدرت واختیار میں ہے، جس کی نوازش بذاتِ خود ایک بڑا احسان ہے۔ ثالثاً:نیک عمل پر کثیر اجر سے نوازنا، بایں طور کہ ایک نیکی ۱۰ سے لے کر ۷۰۰ گنا یا اس سے بھی زیادہ شمار کی جائے، صرف اور صرف فضلِ رحمن ورحیم ہے۔
۶-جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیںاور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیںاور دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیںاور شیاطین کو پابجولاں کر دیا جاتا ہے‘‘۔ (بخاری، ۱۸۹۹، مسلم، ۱۰۷۹)
۷-ایمان، اخلاص اور بہ نیتِ اجر و ثواب روزے رکھنے پر اللہ تعالیٰ سابقہ گناہ معاف فرما دیتے ہیں۔ آپؐ کاارشاد ہے: ’’جس نے رمضان کے روزے ایمان اوراجر و ثواب کی نیت سے رکھے تو اس کے گذشتہ گناہ بخش دیے گئے‘‘۔ (بخاری،۱۹۰۱، مسلم،۱۷۵)
۸- ایمان، اخلاص اور بہ نیتِ اجر و ثواب عبادت و قیامِ لیل کرنے پر اللہ تعالیٰ سابقہ گناہ معاف فرما دیتے ہیں۔ آپؐکاارشاد ہے:’’جس نے رمضان میںایمان اوراجر و ثواب کی نیت سے عبادت و قیامِ لیل کیا تو اس کے گذشتہ گناہ بخش دیے گئے‘‘۔ (بخاری،۳۷، مسلم،۱۷۴)
۹- اس ماہ میں وہ رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، جو لَیْلَۃِ الْقَدْرِ (القدر۹۷:۱) یا لَیْلَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ (الدخان۴۴:۳) کے نام سے موسوم کی گئی۔ شبِ قدر کی فضیلت کی تفصیل میں ایک مکمل سورت نازل ہوئی ہے۔چنانچہ اس رات کا حصول اور اس میں عملِ صالح کی توفیق پا لینا بڑی سعادت کی بات ہے۔ آپؐکا ارشاد ہے: ’’جس نے شبِ قدرمیںایمان اوراجر وثواب کی نیت سے عبادت و قیامِ لیل کیا تو اس کے گذشتہ گناہ بخش دیے گئے‘‘۔ (بخاری،۱۹۰۱، مسلم،۱۷۵)
۱۰-رمضان میں صدقہ کرنا افضل ترین ہے۔ حضرت ابنِ عباسؓ کہتے ہیں:’’اللہ کے رسولؐ لوگوں میں سب سے زیادہ فیاض تھے۔ اور آپؐ کی سخاوت اس وقت اپنے نقطۂ عروج پر ہوتی جب آپؐ رمضان میں حضرت جبریل ؑ سے ملاقات فرماتے تھے۔ آ پؐ کا رمضان میںمعمول ہوتا تھا کہ آپؐ روزانہ جبریل ؑ کے ساتھ قرآن کا دور فرماتے۔ ان ایام میں آپؐ کی جود و سخا وت، بارش لانے والی ہوائوں کو مات دیتی تھی‘‘ (بخاری،۶، مسلم،۵۰)۔ دوسری روایت میں ہے کہ ’’اس دوران آپؐ سے کچھ بھی مانگا جاتا، آپؐانکار نہ فرماتے‘‘۔ (مسند احمد،ج۱،ص ۲۳۱)
۱۱- اس ماہ میں ایک عمرہ کاثواب حج کے برابر ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے:’’رمضان کا عمرہ، حج کے برابر ہے‘‘۔ (بخاری،۱۷۸۲)۔ دوسری روایت میںاسے حج کے مانند بتایا گیا ہے جو خود آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت میں ادا کیا گیا ہو۔ (ابوداؤد،۱۹۹۰)
۱- اللہ تعالیٰ نے روزوں کو تمام سابقہ امتوں پر فرض رکھا ہے۔ ارشادِ باری ہے:یٰٓاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِن قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ o (البقرہ ۲:۱۸۳) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کردیے گئے، جس طرح تم سے پہلے کے انبیا ؑ کے پیرووں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی‘‘۔
ا- آیت میں ایمان والوں کو مخاطب کیا گیا ہے جو اعزاز و تکریم کی بات ہے، لیکن ساتھ ساتھ ا س طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ ایمان کی صفت سے متصف ہونے کا لازمی تقاضا ہے کہ دیے گئے حکم کو خوش دلی سے قبول کیا جائے اور حتی الامکان اس پرعمل پیرا ہونے کی کوشش کی جائے۔
ب- ’’روزہ سابقہ تمام امتوں پر بھی فرض تھا ‘‘بتانے سے اہلِ ایمان کی دل داری اور ان کو ترغیب دینا مقصود ہے۔ مشہور مفسرحضرت عبدالرحمن سعدی ؒ اس آیت کی تفسیر میںلکھتے ہیں: ’’اس جملے سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو بتانا چاہتے ہیںکہ روزہ اُن دینی اوامر میں سے ہے جو ابتداے آفرینش سے ہی خلقِ خدا کی اصلاح وتربیت کے لیے ناگزیر رہے ہیں۔ نیز اس کے ذریعے اُمت ِ مسلمہ میں دیگر امتوں کے بالمقابل نیک کاموں میں جذبۂ مسابقت کواُبھارا گیا ہے۔ مزید اس بات کا اشارہ ہے کہ فریضۂ صیام کی مشقت مخصوص تم پر ہی نہیں ڈالی گئی ہے‘‘۔ (تیسیر الکریم الرحمٰن فی تفسیر کلام المناّن، ص ۲۲۰)
ج- روزے کا مقصد تقویٰ کا حصول ہے۔ تقویٰ ایک جامع کلمہ ہے جس کے معنی لحاظ کرنے کے ہیں۔ اس کے مفہوم میںطاعات کی انجام دہی، منہیات سے اجتناب، نفسانی خواہشات پر قابواور شبہات سے بچنا شامل ہے۔ مختصرالفاظ میں، اللہ کے اوامر و نواہی کا لحاظ کرتے ہوئے مطلق خیر کا حصول تقویٰ کی روح ہے۔
۲-روزہ گناہوں کے کفارے اور کوتاہیوں کی مغفرت کا کارگر وسیلہ ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:’’پانچوں نمازیں، جمعہ(کی نماز) دوسرے جمعہ تک اور رمضان دوسرے رمضان تک درمیان میں (واقع ہونے والے گناہوں) کا کفارہ کرتے ہیں بشرطیکہ کبائر سے اجتناب کیا جائے‘‘ (مسلم، ۵۷۴)۔ مزیدآپؐ کاارشاد ہے: ’’جس نے رمضان کے روزے ایمان اوراجر و ثواب کی نیت سے رکھے تو اس کے گذشتہ گناہ بخش دیے گئے‘‘ (بخاری،۱۹۰۱۔ مسلم،۱۷۵) ۔ ایمان واحتساب کا مطلب ہے کہ اللہ پر ایمان رکھا جائے اور روزوںکی فرضیت پر رضامندی کا اظہارہو، بایں طور کہ فریضۂ صیام کودل سے ناپسند نہ کیا جائے اور نہ اس پرموعود اجروثواب کے تئیں ہی کسی قسم کیشک میں مبتلا ہوا جائے۔
۳-روزے کا اجر وثواب کسی مخصوص تعداد کے ساتھ مقید نہیں، بلکہ اس پر بے حد وحساب اجر کا وعدہ ہے۔ حدیثِ قدسی میں اللہ کے رسولؐ کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’آدم زاد کا ہر عمل اس کے لیے ہے سواے روزے کے، کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوںگا‘‘۔ روزہ ایک ڈھال ہے، جب تمھارے روزے کا دن ہو تو لازم ہے کہ تم گالم گلوچ اور شور شرابہ کرنے سے اجتناب کرو۔ اب اگر کوئی گالی دینے یا جھگڑا کرنے پر شدت سے اُکسائے توکہہ دینا چاہیے کہ میں روزہ دار ہوں۔ قسم اس ذاتِ پاک کی جس کے قبضۂ قدرت میں محمدؐ کی جان ہے! روزے دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کو مشک کی خوشبو سے زیادہ پیاری ہے۔ روزے دار کے لیے دو فرحتوں کا حصول طے ہے: ایک جب وہ افطار کرتا ہے تو اسے فرحت حاصل ہوتی ہے، دوسرے جب وہ اپنے رب کے حضور باریاب ہوگا تواسے روزے کی فرحت محسوس ہوگی‘‘۔ (بخاری،۱۹۰۴، مسلم،۲۷۶۰)
ا-روزے کو اللہ رب العزت نے اپنی ذات سے مخصوص کارِ ثواب بتایا جوروزے کی فضیلت پر دلیل ہے، کیونکہ اسلامی عبادات میں روزہ تنہا ایسی عبادت ہے جو صرف بندے اور رب کے مابین انجام پاتی ہے اورکسی تیسرے واسطے یا وسیلے کا اس میں دخل نہیں ہوتا۔ اس اختصاص کا فائدہ بقول حضرت سفیان بن عیینہؒ یہ ہے کہ روزِ قیامت جب بندے کا محاسبہ ہوگااور گناہوں کی پاداش میں اس کے نیک اعمال سلب ہوچکیںگے، تو بالآخر اللہ تعالیٰ روزے کا اجر اپنے ذمے لے کر سارے گناہوں کی مغفرت فرمادیں گے اور روزے ہی کے سبب بندے کو جنت میں داخلہ نصیب ہوجائے گا۔
ب-اللہ تعالیٰ نے روزے کی جزا کو اپنی ذات سے منسوب کیا ہے جو عزت وکرامت کی بات ہے۔ دیگر صالح اعمال کی جزاوثواب میں کمیت کا اعتبار کیا گیا ہے اگرچہ وہ ایک نیکی کے بدلے ۱۰ یا ۷۰۰ یا اس سے کئی گنا زیادہ کیوں نہ ہو۔ لیکن روزے اور صبر کو اس کلیے سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔ صبر کی تین اقسام ہوتی ہیں:اولاً:طاعات کی ادایگی پر صبر کرنا۔ ثانیاً:محرمات ومنہیات سے اجتناب پر صبر کرنا۔ ثالثاً:عسر ویسر، ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کی اقدار پر صبر کرنا۔ روزے میں صبر کی یہ تینوں قسمیں بہ تمام وکمال پائی جاتی ہیں۔ ارشادِ باری ہے: اِنَّمَا یُوَفَّی الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَہُم بِغَیْْرِ حِسَابٍ (الزمر۳۹: ۱۰)’’صبر کرنے والوں کو تو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا‘‘۔
ج-روزہ ڈھال ہے جو روزے دار کو لغویات وفواحش کے حملوں سے محفوظ ومامون رکھتی ہے۔ ارشادِ نبویؐ ہے: ’’روزہ ڈھال ہے جس کے ذریعے سے بندہ نارِ دوزخ سے بچتا ہے‘‘۔ (مسند احمد، ۱۵۲۹۹)
د-روزے دار کے لیے دو خوشیاں ہوتی ہیں۔ پہلی طیباتِ دنیا: کھانا، پینا اور مناکحت کے مباح ہونے سے، اور دوسری روزِ محشر میںصائمین کے داخلے کے لیے مخصوص باب الریان سے جنت میں داخل ہوتے ہوئے۔ (بخاری،۱۸۹۷، مسلم،۲۴۱۸)
ھ-حدیث میں اشارہ ہے کہ کسی کے برانگیختہ کیے جانے پر اسے بتا دے کہ میری طرف سے جوابی ردِ عمل نہ ہوناکمزوری یا خوف کی بنا پر نہیں، بلکہ صرف روزے کے احترام ووقار کی وجہ سے ہے۔ ارشادِ باری ہے: وَلاَ تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلاَ السَّیِّئَۃُ ادْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ o وَمَا یُلَقّٰھَآ اِِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَمَا یُلَقّٰھَآ اِِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ o (حم السجدہ ۴۱:۳۴-۳۵)’’اور نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ تم دیکھو گے کہ تمھارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے۔ یہ صفت نصیب نہیں ہوتی مگر ان لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا مگر ان لوگوں کو جوبڑے نصیبے والے ہیں‘‘۔
۴-روزہ قیامت کے دن روزے داروں کی شفاعت کرے گا۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’روزہ اور قرآن قیامت کے دن بندے کے لیے سفارش کریں گے۔ روزہ کہے گا: اے میرے رب! میں نے اس بندے کو غذا اور خواہشاتِ نفس سے دور رکھا تھا، تو آپ اس کے حق میں میری سفارش قبول فرمائیے۔ قرآن کہے گا: میں نے اس کو رات میں سونے سے باز رکھا تھا، تو آپ اس کے حق میں میری سفارش قبول فرمائیے۔ آپؐ نے فرمایا:تب ان دونوں کی شفاعت مان لی جائے گی‘‘۔ (مسند احمد، ۶۶۲۶، مستدرک حاکم،۲۰۳۶)
۱- روزے کی اولین و اعلیٰ ترین حکمت یہ ہے کہ بندہ اس عبادت کے ذریعے اپنے ایمان کی سچائی، عبودیت کا کمال اور محبتِ الٰہی کی پاسداری کا ثبوت بہم پہنچاتا ہے۔ حقیقتِ واقعہ بھی یہی ہے کہ حکمِ الٰہی کے تحت جائز طیبات سے منہ موڑ لینا اور جن چیزوں کی محبت فطرتِ انسانی میں پیوستہ رکھی گئی ہے ان کو بھی درخور اعتنا نہ سمجھنا، بندگی کی معراج اور کمالِ عبودیت ہے۔
۲-تقویٰ کا حصول بھی روزے کی مشروعیت کا اہم سبب ہے۔ ارشادِ باری ہے:یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ o (البقرہ۲:۱۸۳) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کردیے گئے، جس طرح تم سے پہلے کے انبیا ؑ کے پیرووں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی‘‘۔ روزے کا مقصد تقویٰ کا حصول ہے۔ تقویٰ ایک جامع کلمہ ہے جس کے معنی لحاظ کرنے کے ہیں۔ اس کے مفہوم میںطاعات کی انجام دہی، منہیات سے اجتناب، نفسانی خواہشات پر قابواور شبہات سے بچنا شامل ہے۔ مختصراً ،اللہ کے اوامر و نواہی کا لحاظ کرتے ہوئے مطلق خیر کا حصول تقویٰ کی روح ہے۔ اسی لیے روزے دار کو تلقین کی گئی ہے کہ کسی بھی ردِعمل سے پہلے سوچ لے کہ وہ روزے دار ہے۔
۳-روزے کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اس کی وجہ سے قلبِ انسانی کا رجحان ذکرِ الٰہی اور آیاتِ باری تعالیٰ میں تفکر وتدبر کی طرف مائل ہوجاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: ’’آدم زاد نے سب سے بُرا جو برتن بھرا، وہ اس کا پیٹ ہے۔ ابنِ آدم کے لیے چند ایسے چھوٹے لقمے کافی ہیں جو اس کی کمر کو سیدھا رکھ سکیں۔ اور اگر ناگزیر ہی ہے تو پھر(پیٹ کا) تہائی حصہ کھانے کے لیے ہو اور تہائی حصہ پینے کے لیے اور تہائی حصہ سانس لینے کے لیے‘‘ (مسند احمد،۱۷۲۲۵، ابن ماجہ، ۳۳۴۹)۔ مشہور تابعی حضرت ابو سلیمان دارانیؒ فرماتے ہیں: ’’نفس اگر بھوک پیاس میں مبتلا ہو تو دل میں رقت و خشیت پیدا ہوجاتی ہے، اور اگر شکم سیری وآسودگی ہوجائے تو قلبی بصیرت جاتی رہتی ہے۔ ‘‘
۴-روزے کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اس حکمِ شرعی کی بجاآوری کے نتیجے میں اللہ کے دولت مند بندوں کو مال کی نعمت کا کماحقہ احساس وادراک ہوتا ہے، جس کی وجہ سے دلوں میں شکروسپاس کا داعیہ پیدا ہوجاتا ہے۔ ساتھ ہی اہلِ ثروت وغنا کو اپنے مفلس وتنگ دست دینی بھائیوں کی زبوں حالی کس مپرسی سے بھی آگاہی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے اس ماہِ مبارک میں بالخصوص مسلم معاشرے کا عمومی مزاج ہمدردی وغم گساری کے سانچے میں ڈھل جاتا ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اللہ کے رسولؐ کی جود وسخاوت اس ماہ میں ابربردار ہوائوں کو مات دیتی تھی۔
۵-روزے کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اس فریضۂ خداوندی کی تعمیل کے نتیجے میں انسان کو نفس پر کامل ضبط اور بے مہار خواہشات وجذبات پر قابو حاصل ہوجاتا ہے۔ جہاں حال یہ ہوکہ نفس امارہ مسلسل برائی پر اکسارہا ہے اور شیطان کا عمل دخل انسانی شریانوں میں خون کی مانند جاری وساری ہے(بخاری،۲۰۳۸، مسلم،۸۵۰۷) ،اگر خوش نصیبی اور فضلِ خداوندی سے کچھ ایام کی بھوک پیاس کے بدلے میںایسا وسیلہ ہاتھ آجائے جس کی بدولت نفسِ امارہ اور شیطانِ لعین کو مغلوب کیا جا سکتا ہے، تو یہ سودا کسی طور پر بھی گھاٹے کا سودا نہیں ہو سکتا۔
۶-روزے کی حکمتوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعے سے نفسِ انسانی کا کبر وغرور پاش پاش ہو جاتا ہے اور اس کی جگہ اعترافِ حق اور تواضع جیسی صفاتِ حمیدہ لے لیتی ہیں۔ دراصل روزہ جن چیزوں (اکل، شرب، مناکحت)سے امتناع کا نام ہے، اگر غور کیا جائے تو عام انسانی تگ ودو اور جہد وجستجوکا مطمح ومقصود انھی چیزوں کاحصول ہوتا ہے۔ہوتا یہ ہے کہ کوشش وکاوش کے بعد ان کی حصولیابی نفسِ انسانی میں ایک قسم کی تعلّی واستکبار پیدا کر دیتی ہے، جو بڑھتے بڑھتے بسااوقات عصیان وسرکشی کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ روزے کا اصل وظیفہ یہی ہے کہ وہ نفسِ انسانی سے مباح طیبات کی محبت کو بھی کم یا ختم کر دیتا ہے۔
۷-روزے کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اس پر مداومت کی وجہ سے بھوک پیاس کے باعث انسانی جسم میں خون کی شریانیں سکڑ کر تنگ ہوجاتی ہیں جس کے نتیجے میں جسمِ انسانی میں شیطان کا عمل دخل کمزور ہوجاتا ہے۔ صحیحین میں اللہ کے رسولؐ سے مروی ہے کہ شیطان انسان کے اندر خون کے بہائو کی مانند موجود رہتا ہے (بخاری،۲۰۳۸، مسلم،۸۵۰۷)۔ چنانچہ روزے کی وجہ سے شیطانی وساوس اور شہوات وغضب کا زور ٹوٹ جاتا ہے۔ اسی لیے اللہ کے رسولؐ نے مناسب عمر میں مختلف مالی وخانگی اعذار کے باعث شادی نہ کر سکنے والے نوجوانوں کو روزے کا التزام کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے: ’’اے گروہِ نوجوانان! تم میں سے جو نکاح کی استطاعت رکھتا ہو اسے شادی کر لینی چاہیے کیونکہ شادی کی وجہ سے نگاہیں نیچی اور شرمگاہیں محفوظ ہوجاتی ہیں۔ البتہ جو شادی کی استطاعت نہیں رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ وہ روزوں کا التزام کرے کیونکہ روزہ شہوتِ نکاح کوکاٹ دیتا ہے‘‘۔ (بخاری،۵۰۶۵، مسلم، ۳۴۶۴)
۸-روزے کی حکمتوں میں سے وہ طبی فوائد اور صحت وتندرستی سے متعلق منفعتیںبھی ہیں جو ضمناً فریضۂ صوم کی ادایگی کی وجہ سے حاصل ہوجاتی ہیں۔ غذا کی مقدار کوحدِ اعتدال پر لانا، معدے کی قوتِ ہاضمہ کو ایک متعینہ مدت کے لیے آرام دینا، بعض مضرت رساں فضلات اور نقصان دہ رطوبتوں کو جسم میں سرایت ہونے سے روک دینا وغیرہ ،اسی حکمت کے ضمن میں آتے ہیں۔
آلاتِ لھو و لعب سے شغل کرنا: موسیقی کے جملہ وسائل وآلات بذاتِ خود تو حرام ہیں ہی ،لیکن ان کی حرمت اس وقت اور سنگینی ونحوست اختیار کر لیتی ہے جب ان کے ساتھ ہیجان انگیز وخوشنما آوازوں کے نغمات کو بھی شامل کر لیا جائے۔ حق تعالیٰ فرماتا ہے:وَمِنَ النَّاسِ مَن یَّشْتَرِیْ لَہْوَ الْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَن سَبِیْلِ اللَّہِ بِغَیْْرِ عِلْمٍ وَّیَتَّخِذَہَا ہُزُواً اُولٰٓئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ(لقمٰن ۳۱:۶)’’اور انسانوں ہی میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو کلامِ دلفریب خرید کر لاتا ہے تاکہ لوگوںکو اللہ کے راستے سے علم کے بغیر بھٹکادے اور اس راستے کی دعوت کو مذاق میں اُڑادے۔ ایسے لوگوں کے لیے سخت ذلیل کرنے والا عذاب ہے‘‘۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ، حضرت عبد اللہ بن عباسؓ، حضرت عبد اللہ بن عمرؓ، حضرت جابر بن عبد اللہؓ اور عکرمہؒ، سعید بن جبیرؒ، مجاہدؒ، حسن بصریؒ وغیرہ اعلام صحابہؓ وتابعین نے آیتِ بالا میں مذکور’’ لہو الحدیث ‘‘سے مراد غناوموسیقی ہی کو لیا ہے (ابنِ کثیر، ج۶، ص ۳۳۰-۳۳۱)۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: ’’میری امت میں ایسے لوگ رونما ہوں گے جو زنا، ریشمی لباس، شراب نوشی اور آلاتِ غنا کو حلال کرلیں گے‘‘(بخاری، ۵۵۹۰)۔آج ہمارے معاشرے کی صورت حال یہی ہو گئی ہے۔ غنا وموسیقی کا وہ طوفانِ بدتمیزی ہرآن وہر جہت جاری ہے کہ خاصے اہلِ علم حضرات بھی اس کی حرمت وشناعت سے واقفیت کے باوجود اس سے متاثر نظر آتے ہیں۔ واللّٰہ المستعان۔
۱- رات کے آخری پھر سحری کہانا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’ہمارے اور اہلِ کتاب کے روزوں میں حدِ فاصل سحری تناول کرنا ہے‘‘۔(مسلم،۲۶۰۴، نسائی،۲۱۶۶)۔آپ نے سحری میں کھجور تناول کرنے کی تعریف کی ہے اور فرمایا ہے: ’’مومن کی بہترین سحری کھجور ہے‘‘۔ (ابوداؤد،۲۳۴۷)۔سحری کی برکت کے حصول کی خاطر سحری ضرور کھائی جائے اگرچہ مقدار بے حد کم ہی کیوں نہ ہو۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’سحری برکت ہی برکت ہے، لہٰذا اسے ترک نہ کرو اگر چہ پانی کا ایک گھونٹ ہی کیوں نہ پیا جائے۔ دراصل اللہ تعالیٰ اور اس کے ملائکہ سحری کھانے والوں پر سلام ودرود بھیجتے ہیں‘‘ (مسند احمد،۱۱۱۰۱)۔ سحری کھانے میں حکمِ رسولؐ کی اتباع کا جذبہ رکھنا چاہیے نہ کہ روزے کے لیے حصولِ قوت وطاقت کا۔ سحری کھانے میں حتی الامکان تاخیر کرنی چاہیے۔ سحری اس وقت تک کھائی جا سکتی ہے جب تک کہ طلوعِ فجر کا براہِ راست اُفق میں مشاہدہ ہوجائے یا کسی قابلِ اعتماد وسیلہ، مثلاً اذان یا سائرن وغیرہ سے اعلان ہوجائے۔ سحری کے بعد دل میں روزے کی نیت کر لینی چاہیے، زبان سے روزے کی نیت کرنا شریعت میں ثابت نہیں۔
۲- افطار میں جلدی کرنا: غروبِ آفتاب کا علم براہِ راست مشاہدے سے یا کسی قابلِ اعتماد ذریعے (اذان، اعلان)سے حاصل ہوسکتا ہے۔ حدیثِ قدسی میں اللہ رب العزت فرماتا ہے: ’’میرے محبوب ترین بندے وہ ہیں جو افطار میں جلدی کریں‘‘ (مسند احمد، ۷۲۴۰، ترمذی، ۷۰۰)۔ افطار میں سنت یہ ہے کہ تازہ کھجوریں استعمال کی جائیں، وہ میسر نہ ہوں تو سوکھی کھجوریںاستعمال کی جائیں، اور اگر وہ بھی دستیاب نہ ہوں تو پانی سے روزہ افطار کیا جائے‘‘ (مسند احمد،۱۲۶۹۸،ابوداؤد،۲۳۵۸، ترمذی:۶۹۶)۔اگر مذکورہ بالا چیزیں نہ مل سکیں تو کسی بھی حلال قابلِ اکل شے سے روزہ افطار کیا جاسکتاہے۔
۳-افطار کے وقت دعا کا اھتمام: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: ’’روزے دار کی دعا افطار کے وقت رد نہیں کی جاتی‘‘ (ابن ماجہ، ۱۷۵۳)۔ روزے دار کو چاہیے کہ افطار کے وقت اپنے لیے، اہلِ خانہ کے لیے اور تمام امتِ مسلمہ کے لیے زیادہ سے زیادہ دعائوں کا اہتمام کرے۔
۴- کثرت سے تلاوتِ قرآن، اذکارِ مسنونہ اور خیرات کا اھتمام: اس ماہ میں کثرت سے تلاوتِ قرآن، مسنون اذکار واوراد، مأثور دعاؤں، مسنون نمازوں اور خیرات وصدقات کا اہتمام کرنا چاہیے۔ حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں: ’’اللہ کے رسولؐ نے پوچھا:تم میں سے آج کون روزے دار ہے؟حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا:میں اے اللہ کے رسولؐ۔ آپؐ نے پھر پوچھا: تم میں سے کون آج کسی جنازے کے ساتھ چلا؟ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا:میں نے ایسا کیا ہے۔ آپؐ نے پوچھا:تم میں سے آج کسی نے مسکین کو کھانا کھلایا؟حضرت ابوبکر ؓنے پھر فرمایا:میں نے ایسا کیا ہے۔ آپؐ نے پوچھا:تم میں سے کسی نے آج کسی مریض کی عیادت کی ہے؟حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا: میں نے ایسا کیا ہے اے اللہ کے رسولؐ۔ آپؐ نے فرمایا:یہ صفات کسی انسان میں جمع نہیں ہوتیں مگر اسی لیے کہ وہ جنت میں داخل ہوجائے‘‘ (مسلم،۲۴۲۱)۔ واضح رہے کہ روزے دار کی دعا رد نہیں ہوتی۔ (ابن ماجہ،۱۷۵۲)
۵-روزے کی توفیق ملنے پر شکرگزاری: روزے کی ادایگی کی توفیق پانے پر اللہ رب العزت کے احسانات و انعامات کا استحضار کرنا اور اس کے نتیجے میں شکرگزاری وکسر نفسی کا اظہار و اقرار کرنا چاہیے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: ’’میں نے(خواب میں) اپنی امت کے ایک فرد کو دیکھا کہ وہ مارے پیاس کے ہانپ رہا ہے اور جب بھی وہ کسی حوض کے پاس جاتا ہے اس کو روک کر کھدیڑ دیا جاتا ہے۔ تب رمضان کے روزے آتے ہیں اور اس کو پلاکر سیراب کرتے ہیں‘‘۔ (طبرانی،۱۲۵۶۳)
مقالہ نگار اسلامی یونی ورسٹی، مدینہ منورہ سے وابستہ ہیں
(یہ مضمون مقالے کے منتخب حصوں پر مشتمل ہے۔ مکمل مقالہ کتابچے کی صورت میں منشورات، منصورہ،لاہور سے دستیاب ہے۔ صفحات:۴۸۔ قیمت:۱۸ روپے، سیکڑے پر رعایت)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم پر رمضان کا مبارک مہینہ آیا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے تم پر روزے فرض کیے ہیں۔ اس میں آسمان (یعنی جنت) کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور سرکش شیاطین باندھ دیے جاتے ہیں۔ اس میں اللہ کی طرف سے ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے جو اس رات کی بھلائی سے محروم رہا وہ بس محروم ہی رہ گیا۔ (احمد، نسائی)
یہ حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ان خطبات میں سے ہے جو آپؐ رمضان المبارک کی آمد کے موقع پر صحابہ کرامؓ کو اس مبارک مہینے کی اہمیت اور برکات سے آگاہ فرمانے کے لیے دیا کرتے تھے۔ اس میں آپؐ نے پہلی بات یہ بتائی کہ رمضان بڑی ہی برکت والا مہینہ ہے اور اس کے روزے امت پر فرض کیے گئے ہیں۔
ماہِ رمضان کے بزرگ یا بابرکت ہونے کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ اس کے دنوں، گھنٹوں یا منٹوں میں فی نفسہٖ کوئی ایسی برکت شامل ہے جو لوگوں کو خود بخود حاصل ہوجاتی ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس مہینے میں اللہ تعالیٰ تمھارے لیے ایسے مواقع پیدا کردیتا ہے جن کی بدولت تم اس کی بے حدوحساب برکات سے فائدہ اُٹھا سکتے ہو۔ اس مہینے میں ایک آدمی اللہ تعالیٰ کی جتنی زیادہ عبادت کرے گا اور نیکیوں کے جتنے زیادہ کام کرے گا، وہ سب اس کے لیے زیادہ سے زیادہ روحانی ترقی کا وسیلہ بنیںگے۔ اس لیے اس مہینے کے بزرگ اور بابرکت ہونے کا مطلب درحقیقت یہ ہے کہ اس کے اندر تمھارے لیے برکتیں سمیٹنے کے بے شمار مواقع فراہم کردیے گئے ہیں۔ (ایضاً، ص ۵۲)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت، رحم دلی، نرمی، عطا، بخشش اور فیاضی کا جو حال عام دنوں میں تھا وہ تو تھا ہی، کہ یہ چیزیں آپؐ کے اخلاقِ کریمانہ کا حصہ تھیں، لیکن رمضان المبارک میں خاص طور پر ان میں اضافہ ہوجاتا تھا۔ اس زمانے میں چونکہ آپؐ معمول سے کہیں زیادہ گہرائی سے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتے اور اللہ کے ساتھ آپؐ کی محبت میں شدت آجاتی تھی، اس لیے آپؐ کی نیکیاں بھی عام دنوں کی بہ نسبت کہیں زیادہ بڑھ جاتی تھیں۔ جیساکہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ عام دنوں میں فرض ادا کرنے کا جو ثواب ملتا ہے، وہ رمضان میں نفل ادا کرنے پر ملتا ہے۔ اس لیے آپؐ رمضان کے زمانے میں بہت کثرت سے نیکیاں کرتے تھے۔ یہاں حضوؐر کے عمل میں دو چیزیں مثال کے طور پر بیان کی گئی ہیں۔ اسیروں کو رہا کرنا اور مانگنے والوں کو دینا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل کے بارے میں کہ آپؐ رمضان میں ہرقیدی کو رہا کردیتے تھے، محدثین کے درمیان بحثیں پیدا ہوئی ہیں۔ مثلاً ایک سوال یہ پیدا ہوا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی جرم کی پاداش میں قید ہے تو اس کو محض رمضان کے مہینے کی وجہ سے رہا کر دینا یا سزا نہ دینا کس طرح انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہوسکتا ہے؟ اس بنا پر اس قول کی مختلف توجیہات کی گئی ہیں۔ بعض محدثین کے نزدیک اس سے مراد جنگی قیدی ہیں۔ بعض کے نزدیک اس سے مراد وہ لوگ ہوسکتے ہیں جو اپنے ذمے کا قرض ادا نہ کرسکنے کی وجہ سے ماخوذ ہوں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف سے ان کا قرض ادا کر کے ان کو آزاد کردیتے تھے۔ اس طرح کی بعض دوسری توجیہات بھی اس قول کی کی گئی ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو اس کی ایک اور شکل بھی ہوسکتی ہے، مثلاً آج کل کے زمانے میں ایک طریقہ پیرول (parole) پر رہا کرنے کا ہے، یعنی قیدی کو قول لے کر رہا کر دینا۔ قیدی کو اس اُمید پر رہاکردیا جاتا ہے کہ وہ رہائی کی مدت ختم ہونے کے بعد خود واپس آجائے گا۔ وہ معاشرہ ایسا تھا کہ اس میں اس بات کا اندیشہ نہیں تھا کہ جس قیدی کو رہا کیا جا رہا ہے، وہ یہ خیال کر کے کہ اب مجھے کون پکڑتا ہے، کسی ایسی جگہ فرار ہوجائے گا، جہاں سے اس کو پکڑنا ممکن نہ رہے گا۔ وہ تو ایسے لوگ تھے کہ اگر ان سے کوئی قصور سرزد ہوجاتا تھا تو خود آکر اس کا اعتراف کرتے تھے تاکہ ان کو سزا دے کر پاک کر دیا جائے۔ اس لیے ہوسکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ عمل کی یہ شکل رہی ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایسے لوگوں کو، جن کی سزا معاف نہ ہوسکتی تھی، رمضان کے زمانے میں مشروط طور رہا کر دیتے ہوں تاکہ وہ رمضان کا مبارک زمانہ اپنے گھروں پر گزاریں۔ واللّٰہ اعلم بالصواب (ایضاً،ص ۶۰-۶۱)
اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ روزہ اور قرآن کوئی جان دار ہیں، جو کھڑے ہوکر یہ بات کہتے ہیں بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ ایک روزہ دار کا روزہ رکھنا اور قرآن پڑھنے والے کا قرآن پڑھنا دراصل خود اپنے اندر ایک شفاعت رکھتا ہے۔ جب روزہ دار اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے کہ اس بندے نے روزہ رکھا تو اس پیشی کے ساتھ ساتھ روزے کی یہ شفاعت بھی موجود ہوتی ہے کہ یہ بندہ آپ کی خاطر دن بھر بھوکا پیاسا رہا۔ یہ چھپ کر کھا پی سکتا تھا اور دوسری خواہشات بھی پوری کرسکتا تھا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ اس بندے نے چونکہ آپ کی خاطر دن بھر بھوک پیاس برداشت کی ہے اور اپنی دوسری خواہشات پر بھی پابندیاں عائد کیے رکھی ہیں، اس لیے اس کے قصور معاف فرما دیجیے۔ اسی طرح ایک شخص رات کو جو قرآن مجید پڑھتا ہے، جب وہ قرآن اللہ کے حضور پیش کیا جاتا ہے کہ آج اس بندے نے اتنا قرآن پڑھا ہے توقرآن کا وہ پیش کیا جانا ہی خود اپنے اندر ایک شفاعت رکھتا ہے، اور وہ شفاعت یہ ہے کہ اس بندے نے دن بھر کے روزے سے تھکاماندہ ہونے کے باوجود آپ کی رضاجوئی کی خاطر رات کو (نماز میں) کھڑے ہوکر قرآن پڑھا، اس لیے اس کے گناہ معاف کردیے جائیں۔
ظاہر بات ہے کہ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے روز مومنین صالحین کی شفاعت فرمائیں گے، اسی طرح خود آدمی کے اعمال بھی اس کے حق میں شفیع ہوتے ہیں۔ آدمی کے اعمال خدا کے حضور یہ شفاعت کرتے ہیں کہ یہ آدمی یہ یہ نیکیاں کرکے آیا ہے، اس لیے اسے بخش دیجیے اور اس سے درگزر فرمایئے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے مطابق: ’’اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے حق میں روزے اور قرآنِ مجید کی یہ شفاعتیں قبول فرما لیتا ہے‘‘۔ (ایضاً، ص ۴۵-۴۶)
اس آزادی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جب آخری روزے کی وجہ سے آپ کو دوزخ سے آزادی حاصل ہوگئی تو اب آپ آزاد ہیں کہ جو جی چاہے کرتے پھریں، اب آپ پر کوئی گرفت نہیں ہوگی۔ ستم ظریفی کی انتہا ہے کہ بعض لوگ رمضان کے ختم ہوتے ہی وہ سب پابندیاں توڑ ڈالتے ہیں جو اس مبارک مہینے میں انھوں نے اپنے اُوپر عائد کر رکھی ہوتی ہیں۔ بس رمضان ختم ہوا اور وہ عین عید کے دن (یعنی شوال کی پہلی ہی تاریخ کو) سینما دیکھنے چلے گئے اور پھر اس سے آگے بڑھ کر ناچ گانے کا شوق بھی کرلیا۔ پھر کہیں بیٹھ کر کچھ تھوڑا بہت جوا وغیرہ بھی کھیل لیا۔ یہ سب کچھ اگر ایک شخص نے کرڈالا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ادھر وہ دوزخ کے خطرے سے آزاد ہوا اور اِدھر اس نے پھر اس میں کودنے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ ظاہر بات ہے کہ کوئی بھلا آدمی، جس کے دل میں ایمان کی کچھ روشنی اور خوفِ خدا کی کوئی رمق موجود ہو یہ کھیل نہیں کھیل سکتا۔(ایضاً،ص ۵۸-۵۹)
ہماری ملاقات ایک بنک میں ہوئی۔ یہ ایک مصروف بنک ہے جس میں ہمیشہ ہجوم رہتا ہے۔ میری نگاہوں کو ایک خاتون نے اپنی طرف متوجہ کیا جو ۵۰سال سے زیادہ عمر کی تھیں۔ ان کے ہونٹ تسبیحات کے ساتھ آہستہ آہستہ حرکت کر رہے تھے۔ اﷲ کے بندوں کی یہ تسبیحات مجھے بہت اچھی لگتی ہیں۔ اس طرح کے لوگوں پر نظر پڑتی ہے تو میری سوچ بہت دُور چلی جاتی ہے۔ اُس بلند مقام کی طرف جہاں اﷲ کے فرشتے اس کے عرش کے گرد تسبیحات میں مصروف ہوتے ہیں۔ وہ اس خالق احد کی تسبیحات کرتے رہتے ہیں جو ساری چیزوں کو عدم سے وجود میں لایا۔
میں نے اس خاتون کو دیکھا تو ہمارے درمیان مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوا۔ میں چاہ رہی تھی کہ ان سے تعارف ہو‘ اس لیے کہ میں اور وہ دونوں اﷲ سے محبت کے رشتے میں شریک تھیں۔ ان خاتون کا کام مکمل ہوا تو وہ سلام کرتے ہوئے چل پڑیں۔ میں نے مخلصانہ دلی دعائوں سے ان کو الوداع کیا کہ اﷲ تعالیٰ ان کو استقامت عطافرمائے۔ پھر میں اپنے کام میں مصروف ہوگئی۔
ہماری مہمان کہنے لگیں کہ اﷲ کا شکر ہے کہ وہ ہم پر اپنا فضل کرتا رہتا ہے جس کا ہمیں علم نہیں ہوتا اور شاید احساس بھی نہیں۔ آج اﷲ نے مجھے اپنی اس رحمت سے نوازا ہے کہ اس نے آپ کے دل میں رحم ڈال دیا۔ ایک مرتبہ پہلے بھی میرے ساتھ ایسا ہی ہوا کہ اﷲ نے ایک ٹیکسی ڈرائیور کے دل میں میرے لیے رحم پیدا فرمایا۔میں نے ان کی طرف تفصیل طلب نگاہوں سے دیکھا تو وہ کہنے لگیں: میں شرم الشیخ میں تھی۔ ہمارا ایک رشتے دار بیمار پڑ گیا۔میں اور میرے میاں ان کی عیادت کے لیے جارہے تھے۔ ہم ایک ٹیکسی میں بیٹھے۔ ہسپتال کے قریب پہنچ کر مجھے یاد آیا کہ میں نے عصر کی نماز نہیں پڑھی۔میں نے اپنے میاں سے کہا کہ پہلے کسی قریبی مسجد میں جاکر نماز پڑھ لیتے ہیں۔ میرے میاں کو اس بات کی پریشانی تھی کہ ڈرائیور ہمارا انتظار نہیں کرے گا۔
اب ہم ہسپتال کے قریب پہنچ چکے تھے اور میں نماز پڑھنے پر اصرار کررہی تھی۔ ڈرائیور نے پوچھا: کیا آپ مسجد میں نماز پڑھنا چاہتی ہیں؟ میں نے کہا: ہاں۔ اس نے قسم کھا کر کہا کہ میں ضرور آپ لوگوں کو مسجد لے جائوں گا، مگر اضافی کرایہ نہیں لوںگا، تاکہ میں بھی آپ کے ساتھ ثواب میں شریک ہوجائوں۔ جب اس نے یہ بات کہی تو میں نے دل میں ارادہ کیا کہ اس کے نیک جذبات کا لحاظ کرتے ہوئے اس کو زیادہ کرایہ دوں گی۔ لیکن جب ہم نے اس کو اضافی کرایہ دینا چاہا تو اس نے صاف انکار کیا اور میرے میاں سے کہا کہ مجھے ثواب سے محروم نہ کریں۔
اس طرح میں نے وہ رقم ڈرائیور کے لیے صندوق میں ڈال دی۔ پھر ہم مریض کی عیادت کے لیے گئے۔ وہاں بہت سے لوگ مریض کو دیکھنے کے لیے آئے تھے۔ میں نے سب کو یہ واقعہ سنایا۔ ان میں سے ایک خاتون نے میرے ساتھ سرگوشی کی کہ میری والدہ بیمار ہے اور میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ میں اس کے لیے ضروری چیزیں ساتھ لے جاسکوں۔ لیکن اب تم نے بتایا کہ اﷲ تعالیٰ نے ایک ڈرائیور کے لیے تمھارے دل میں ڈال دیا کہ اس کے لیے صدقہ کروں۔ امید ہے کہ اﷲ تعالیٰ ڈرائیور کے اس ثواب کو کئی گنا بڑھادے گا اور وہ ایسے وقت میں اس کے کام آئے گا جب وہ اس کا بہت محتاج ہوگا۔ اس کو معلوم بھی نہیں ہوگا کہ اس کے لیے کسی نے یہ صدقہ کیا ہے۔ اس لیے میں اب اپنی والدہ کے پاس جائوں گی۔ ممکن ہے کہ اﷲ تعالیٰ مجھے بھی اسی طرح جذبۂ خیر سے نوازے جیسا کہ ڈرائیور کو نواز رکھا تھا اور اس نے ایک مسلمان خاتون کے ساتھ بروقت نماز کی ادایگی میں تعاون کیا اور اس پر نہ مزدوری لی اور نہ احسان کا طلب گار ہوا۔امید ہے کہ میں اپنی والدہ کو دیکھنے کے لیے جو خرچ کروں گی وہ ایسا ہی خرچ ہوگا جیسا آپ نے اس ڈرائیور کے لیے کیا ہے۔چنانچہ اس سے میرے اور میری اولاد کے رزق میں اضافہ ہوگا۔اس خاتون نے میرا شکریہ ادا کیا اور بہت زور دے کر کہا کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو میرے لیے ایک پیغام کے ساتھ بھیجا ہے۔ اﷲ کی شان دیکھیں کہ اﷲ کی طرف سے اس چھپے اشارے کو وہ معزز خاتون سمجھ گئیں۔ یہ سب کچھ اﷲ رازق و وہاب کی طرف سے ایک نعمت نہیں تو اور کیا ہے، اور یہ بھی رزق کی ایک شکل ہے۔
جب میرے ساتھ گاڑی میں سوار اس خاتون نے اپنا واقعہ سنایا تو اسی لمحے میرے ذہن میں وہ تمام نعمتیں اور وہ ساری چیزیں آگئیں جن کی ہم گنتی بھی نہیں کرسکتے، بلکہ جن کی حدود بھی معلوم نہیں کرسکتے۔ یہ اﷲ تعالیٰ ہی کا فضل واحسان ہے۔ میں نے اس خاتون کے ساتھ احسان کرنا چاہا تو میرے رب نے مجھ پر یہ کرم کیا کہ ایسے افکار وخیالات سے نوازا اور مجھ پر اس رزق کی فراوانی کی جو دُور دُور تک پھیلا ہوا ہے۔یہ رزق خالق کی پہچان کا ذریعہ ہے ۔ یہ ہمیں اس طرح حاصل ہوتا ہے کہ ہم یہ جانیں کہ پروردگار اپنے بندوں کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے۔ میں نے خوشی سے سرشار ہوکر اس خاتون سے کہا: اﷲ تعالیٰ نے آپ پر یہ بھی احسان فرمایا ہے کہ آپ نے ان واقعات کو آپس میں اس طرح جوڑ دیا ہے کہ ان کی ایک اچھی تصویر بن گئی ہے۔ اﷲ نے آپ کو فطرتِ سلیمہ سے نوازا ہے۔ وہ کہنے لگیں کہ: یہ سب اﷲ ہی کا فضل ہے۔ آئیں تھوڑا سا اﷲ کی نعمتوں کو بیان کریں، تاکہ اس کا شکر ادا ہوسکے۔ اس طرح کے چند واقعات پر نظر ڈالیے:
میں یہی سوچ رہی تھی کہ یہ سرمایہ میں نے محض اﷲ کی رضا کے لیے بطورِ قرض ان کو دے دیا ہے۔ اس سے میرا یہ مقصد ہرگز نہ تھا کہ اس میں مزید اضافہ ہوجائے، یا میرا سرمایہ ضائع ہوجائے۔ مجھے اﷲ کی مہربانی سے پورا یقین تھا کہ وہ میرے اس قرض کو قبول فرمائے گا۔ میرے ذہن میں یہ بالکل نہیں تھا کہ میرا یہ مال ضائع ہوجائے گا۔ یہ کیسے ضائع ہوسکتا تھا، جب کہ میں نے اس کو اﷲ کے ہاتھ قرض دیا تھا۔ مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضَاعِفَہٗ لَہٗ ٓاَضْعَافًا کَثِیْرَۃً (البقرہ۲:۲۴۵) ’’کون ہے جو اﷲ کو قرض دینا چاہے اور اﷲ اس کو کئی گنا بڑھا دے‘‘۔
اﷲ کی شان دیکھیں کہ مقررہ عرصے کے بعد انھوں نے مجھے میرا پورا سرمایہ واپس لوٹا دیا۔ حیرت کی بات یہ ہوئی کہ انھوں نے مجھ سے قرض ڈالر کی صورت میں لیا تھا اور ڈالر کی صورت میں ہی لوٹا دیا جس کی قیمت اس عرصے میں کئی گنا بڑھ چکی تھی۔ پھر اﷲ نے مجھے ایک اچھے علاقے میں ایک پلاٹ سے نوازا۔ میں یہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی، نہ میں نے کبھی اس کی خواہش کی تھی، کیوں کہ مجھے معلوم تھا کہ اس کے لیے جس بڑے سرمایے کی ضرورت ہے وہ میرے بس کی بات نہیں۔ اللہ کو قرضِ حسنہ دینے کے بعد جب اس نے مجھے قرض لوٹایا تو میں وہ پلاٹ خریدنے کے قابل ہوگئی۔
جب اس خاتون نے بات ختم کی اور میں نے ارد گرد پر نظر ڈالی تو معلوم ہوا کہ ہم نے ابھی زیادہ سفر طے نہیں کیا اور ابھی ہمارے سامنے بہت راستہ باقی ہے۔میں چاہ رہی تھی کہ اس سے کچھ مزید سنوں تاکہ دل خوش ہوئے اور اپنے پروردگار کا قرب نصیب ہو۔ اس طرح کے سچے واقعات میں اﷲ کی قدرت نمایاں ہوکر سامنے آجاتی ہے۔ اس طرح کے مواقع پر یہ بات پورے یقین کے ساتھ ثابت ہوتی ہے کہ اﷲ کا حکم ہرچیز پر چلتا ہے اور کوئی اس میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتا۔
میں خیالات کی دنیا سے سے اس وقت واپس لوٹی جب اس نے کہا: اﷲ کی قسم، میری بہن! اگر میں آپ کو اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ بیان کروں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ کہنا درست نہ ہوگا کہ ہماری یہ ملاقات ایک اتفاقی واقعہ ہے۔ ایک ایسی کائنات میں، جس کا کوئی خالق ہو، یہ بات درست نہیں ہے۔ اس نے کہا کہ میں چاہتی ہوں کہ کچھ مزید تفصیل آپ کے سامنے رکھوں۔ اس نے لوگوں کی طرف دیکھا جو راستے میں اِدھر اُدھر جارہے تھے اور کہنے لگی: سبحان اﷲ! ان لوگوں میں سے ہر ایک شخص کا ایک قصہ ہے جو بزبان حال کہہ رہا ہے کہ اے اﷲ! تو یکتا ہے۔
حج پر جانے سے پہلے میرے میاں کی بہن ہمیں ملنے آئیں۔ میرے شوہر مصر کے رہنے والے ہیں۔ ان کی بہن نے ایک بات بتائی جو مجھے بہت عجیب لگی۔ ان کے گھر کے چوکیدار کی بیٹی انتہائی خوب صورت ہے۔ جب سے اس کے والد کا انتقال ہوا ہے، بہت سے نوجوان اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے اس کے گھر کے باہر کھڑے رہتے ہیں۔ میں نے کہا: کیا اس کا کوئی بھائی نہیں جو اس کی حفاظت کرسکے؟اس نے بتایا کہ وہ اپنے ماں باپ کی بڑی بیٹی ہے۔ میں نے کہا: تو اس کی ماں کسی سے اس کی شادی کیوں نہیں کرتی۔ اس طرح بچی کی عزت بھی محفوظ ہوجائے گی اور ان کو ایک محافظ بھی مل جائے گا۔وہ کہنے لگی: شادی کیسے کریں؟ وہ بے چارے اتنے غریب ہیں کہ بمشکل دو وقت کا کھانا میسر آتا ہے۔
میں نے بلا تامل کہہ دیا کہ اس کی شادی کے سارے اخراجات میں برداشت کروں گی۔ میں اسی وقت اٹھی اور ہم نے حج کے سفر کے لیے جو پیسے رکھے تھے وہ سب اس کے ہاتھ پر رکھ دیے۔ یہ گویا میرے رب کی طرف سے میری سرگوشی کا جواب تھا، فوری جواب۔ اس پروردگار کی طرف سے جو انتہائی مہربان ہے، جو سنتا اور دیکھتا ہے ، جو کرم فرماتا اور آسانیاں پیدا کرتا ہے۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ اس بچی کی شادی ہوگئی۔ اس کی ماں کے گھر میں کوئی بسترتک نہیں تھا۔ اب ان کے پاس اتنا کچھ ہے کہ وہ لوگوں کے درمیان سر اُٹھا کر زندگی گزار سکتے ہیں۔
میں نے محسوس کیا کہ اس خاتون کے احساسات کتنے اچھے ہیں، اسے اپنے پروردگار پر کس قدر توکل ہے۔ مجھے حیرت ہوئی کہ اس کی زندگی کا ایک عرصہ اس حالت میں گزرا کہ اس کا اپنے رب سے کوئی تعلق نہیں تھا، یہاں تک کہ وہ نماز بھی نہ پڑھتی تھی۔ لیکن جب اس نے اپنے رب کو پہچان لیا تو ایسے پہچانا کہ اسے سعادت اور سرور نصیب ہوا ،اور اﷲ نے اس پر ایسا احسان کیا کہ اس کے لیے راستے کی ساری منزلیں آسان ہوئیں اور اسے ایمان ویقین کی دولت میسر آئی۔
حقیقت یہ ہے کہ ہدایت اور سیدھا راستہ اﷲ کا عظیم احسان ہے جو اسی کو نصیب ہوتا ہے جسے اﷲ دینا چاہے۔ ہم اﷲ سے یہی سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں بھی ہدایت نصیب فرمائے۔ مجھے اس خاتون کی باتوں سے بہت خوشی ہوئی۔ میں چاہتی تھی کہ کاش! راستہ کچھ اور لمبا ہوتا اور میں مزید اس طرح کی ایمان افروزباتیں سنتی جو نادر ہوتی جارہی ہیں۔ (ماخوذ: المجتمع، شمارہ ۱۹۹۲، ۹؍مارچ ۲۰۱۲ئ)
قوموں کے عروج و زوال میں ثقافت کا بڑا کلیدی کردار ہے۔ اقبال نے ایک ناقابلِ انکار تاریخی حقیقت کو ان الفاظ میں ادا کیا تھا ؎
میں تجھ کو بتاتا ہوں، تقدیرِ اُمم کیا ہے
شمشیر و سناں اول، طائوس و رباب آخر
آج پاکستانی معاشرہ ثقافتی انتشار اور اخلاقی انحطاط کے گرداب میں پھنسا ہوا ہے۔ بگاڑ کی قوتیں جری سے جری تر ہوتی جارہی ہیں اور سرکاری اور غیرسرکاری، ملکی اور بین الاقوامی ادارے بگاڑ کو بڑھانے کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ ان حالات میں قوم میڈیا، علما اور زندگی کے ہر شعبے کی قیادت کو جھنجھوڑنے اور غفلت اور لاپروائی کا رویہ ترک کر کے پوری ذمہ داری کے ساتھ معاشرتی فساد اور بگاڑ کو روکنے اور خیروصلاح اور تعلیم و تلقین کے بہترین ذرائع کو استعمال کر کے ملک و ملّت کو گرداب سے نکالنے اور حقیقی تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ مشہور صحافی اور تجزیہ نگار جناب انصار عباسی نے اس سلسلے میں بڑے دردبھرے انداز میں ان حقائق پر توجہ مرکوز کی ہے جو بگاڑ کو فروغ دینے کا باعث ہیں اور اصلاحِ احوال کے لیے دکھی دل سے قوم کو بیدار کرنے کا فرض انجام دیا ہے۔ ان کے یہ مضامین روزنامہ جنگ میں شائع ہوئے ہیں جسے ہم ان کے اور جنگ کے شکریے کے ساتھ یک جا پیش کر رہے ہیں۔ (مدیر)
بلاسوچے سمجھے، میڈیا ’میراثی کلچر‘ کا اس قدر بڑا حمایتی بن گیا کہ جنوری۲۰۱۲ء میںتعلیمی اداروں میں قابلِ اعتراض کنسرٹس (گانے بجانے کے پروگرام) پر پابندی کے متعلق پنجاب اسمبلی میں قرارداد کی منظوری کو اس انداز میں آڑے ہاتھوں لیا، جیسے کہ کوئی بہت بڑا ظلم ہوگیا ہو۔ قرارداد (ق) لیگ کی سیمل کامران نے پیش کی۔ (ن) لیگ اور پیپلزپارٹی کے اراکین نے بھی اس کی حمایت کی، مگر اس قرارداد کے منظور ہوتے ہی ٹی وی چینلوں نے ایک شور برپا کردیا، اور ’قابلِ اعتراض کنسرٹس‘ کی پابندی کو ’غیرقانونی‘ اور لوگوں بالخصوص نوجوانوں کے ’حقوق‘ کے خلاف گردانا۔ آناً فاناً میڈیا کی تنقید نے ایک مہم کا روپ اختیار کرلیا اور ہرسنائی جانے والی آواز پنجاب اسمبلی کے اس اقدام کو کوسنے لگی۔ نہ کسی نے قرارداد کو پڑھا نہ ’قابلِ اعتراض‘ کے الفاظ پر غور کیا، البتہ سب ایک ہی بولی بول رہے تھے: ’’یہ بڑا ظلم ہوگیا‘‘۔
گانے والے ایک ایک کر کے اپنا تجزیہ دے رہے تھے۔ میڈیا سرکس نے ایک ایسی ہیجان کی کیفیت پیدا کی کہ خود مسلم لیگ (ن) کی صوبائی حکومت پنجاب نے اس قرارداد سے لاتعلقی کا اظہار کردیا، جب کہ پیپلزپارٹی نے نئی قرارداد لانے کا اعلان کردیا۔ قرارداد کو پیش کرنے والی خاتون محترمہ سیمل کامران کو لینے کے دینے پڑ گئے، جب کہ کچھ علما حضرات نے میوزیکل کنسرٹس کے بارے میں ایسے بیان داغ دیے کہ ان کو سن اور پڑھ کر ہاتھ فوراً کانوں کی طرف اُٹھ گئے۔ چند گھنٹوں کی یہ جنگ ’میراثی کلچر‘ کے حامی جیت گئے۔ سچ گم ہوکر رہ گیا اور حقیقت چھپ گئی۔
جس معاشرے میں سوال اس بات پر اُٹھانا چاہیے کہ: ’موسیقی کی ایک اسلامی معاشرے میں کس حد تک اجازت ہے؟‘ وہاں اعتراض اس بات پر کردیا گیا کہ: ’قابلِ اعتراض کنسرٹس پر پابندی کی قرارداد کیوں پیش کی گئی؟ مسلم لیگ (ن) کی حکومت ِپنجاب کی طرف سے اس قرارداد سے لاتعلقی حیران کن تھی، تو عمران خان کی طرف سے اس قرارداد کے خلاف بات کرنا اُس سوچ کا مکمل تضاد ہے، جس کا انھوں نے اپنی کتاب میں پرچار کیا۔ ایک اُردو اخبار نے ایک ٹی وی چینل کو دیے گئے انٹرویوز کا حوالہ دیتے ہوئے ایک ’معروف عالم دین‘ سے کچھ اس طرح کا بیان منسوب کیا: ’’مفتی صاحب کا فرمانا تھا کہ پنجاب اسمبلی نے اگر مطلقاً میوزک پر پابندی لگائی ہے کہ طلبہ میوزیکل کنسرٹس نہیں دیکھ سکتے تو یہ غلط ہے۔ اسلام میں موسیقی حرام [ہونے کا حکم] واضح نہیں۔ عہد رسولؐ میں صحابہ میوزک کا اہتمام کرتے رہے۔ حضرت عائشہؓ کو دکھاتے رہے۔ مسجد میں میوزک کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے۔
’مفتی صاحب‘ کا یہ بیان (جس طرح اخبار میں شائع ہوا) کم از کم مجھ سے ہضم نہیں ہوسکا۔ معلوم نہیں کسی عالم دین اور اسلامی اسکالر نے اس بیان پر کوئی تبصرہ کیوں نہیں کیا۔ یہ کن مثالوں کی بات کی جارہی ہے اور ان مثالوں کے زور پر کس قسم کے میوزیکل کنسرٹس کو ’جائز قرار‘ دینے کے فتوے دیے جارہے ہیں؟ آج کل کے گانوں اور کنسرٹس کو، تمام تر بے ہودگیوں کے ساتھ اسلام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا حوالہ دے کر کس طرح جائز بنانے کی کوشش کی جارہی ہے؟ گانوں کے بول اور دوسرے اعتراضات اپنی جگہ، کنسرٹس میں نوجوان لڑکے لڑکیوں کا ایک ساتھ ناچنے کا ہمارے دین اور ثقافت سے کیا تعلق؟ خدارا، دین کو اتنا سستا مت بیچو، ٹی وی چینلوں میں آنے کے شوق میں، اللہ کی بات اور رسولؐ اللہ کی سنت کو توڑ مروڑ کر مت پیش کرو۔
ترمذی کی ایک حدیث کے مطابق کئی دوسری علامات کے علاوہ جب گانے والیاں اور موسیقی کے آلات عام ہوجائیں گے تو نبیؐ کی اُمت پر عذاب نازل ہوں گے۔ ہم پر پے درپے عذاب نازل ہو رہے ہیں۔ کبھی زلزلہ تو کبھی سیلاب، کبھی طوفانی بارشیں تو کبھی ڈینگی اور جعلی ادویات کے ذریعے اموات،مگر کوئی سوچنے سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔ غوروفکر کا ہمارے پاس وقت نہیں۔ ہم سب کچھ میڈیا کی آنکھوں سے ہی دیکھتے ہیں، اسی کی سنتے ہیں، اور جو میڈیا کہتا ہے اسی کی بولی بولنا شروع کردیتے ہیں۔ ہم میڈیا والے بھی پیسہ کمانے کے چکر میں سب کچھ بھول گئے۔ ہمیں کوئی احساس نہیں کہ اس میڈیا سرکس کے ذریعے عوام کو کیا دیا جا رہا ہے؟ اخلاقی اقدار کو کس تیزی سے تباہ کیا جا رہا ہے اور سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی ناراضی مول لے کر شیطانیت کو پھیلایا جا رہا ہے۔ کاش! ہم میڈیا والے یہ بات سمجھ سکیں کہ آج بلاسوچے سمجھے جو کھیل ہم کھیل رہے ہیں، اس کی ہم سے آخرت میں سخت بازپُرس ہوگی۔
سوال یہ اُٹھایا جاتا ہے کہ ’بے ہودگی‘ اور ’قابلِ اعتراض‘ ہونے کا پیمانہ کون طے کرے گا؟ اگر ہم مسلمان ہیں تو واضح رہے کہ حیا ہمارے دین کا شعار اور پہچان ہے، جب کہ بے ہودگی اور بے شرمی کے کاموں کی اسلام سخت ممانعت کرتا ہے۔ اسلامی طرزِ زندگی کی حدیں بہت پہلے متعین کی جاچکیں اور ان حدوں کو کوئی بدل نہیں سکتا۔ اگر یہ حق عوامی نمایندوں اور اسمبلیوں کو حاصل نہیں ہے تو یہ حق میڈیا کو بھی حاصل نہیں۔ میڈیا بھی وہ جو انٹرٹینمنٹ (تفریح) کے نام پر نیم عریاں ڈانس دکھاتا ہے، بے ہودہ گانے، قابلِ اعتراض اشتہارات اور فیشن شوز کے نام پر فحاشی و عریانی کو عام کر رہا ہے۔ ہم اپنے اور اپنی مائوں، بہنوں، بیٹیوں اور بیویوں کے لیے پسند نہیں کرتے کہ وہ قابلِ اعتراض کنسرٹس اور عام مخلوط گانے بجانے کے پروگراموں میں شرکت کریں، یا فیشن شوز کے نام پر پھیلائی جانے والی فحاشی کا حصہ بنیں، مگر دوسروں کی بیٹیوں اور بہنوں کو ایسے کاموں میں مشغول دکھا کر اسے خوب سراہتے ہیں۔ ہم میں سے کتنے لوگ اس بات کو پسند کریں گے کہ اُن کی بہن ، بیٹا یا بیٹی فیشن شوز کے ریمپ پر سیکڑوں لوگوں کی موجودگی میں نیم عریاں لباس زیب تن کیے کیٹ واک کریں؟ کتنے لوگ اپنی بہن اور بیٹی کو ساتھ لے جاکر مخلوط کنسرٹس سنتے ہیں؟ جو کچھ ہم اپنے لیے پسند نہیں کرتے، وہ دوسروں کے لیے کیسے اچھا ہوسکتا ہے؟ ہم پاکستانیوں کے پاس تو اب ماسواے خاندانی نظام اور بچی کھچی شرم و حیا کے علاوہ باقی کچھ بچا ہی نہیں۔ اگر یہ بھی ہم سے چھن گیا تو پھر ہم کہیںکے نہیں رہیں گے۔ مغرب سے مرعوب ایک محدود طبقہ ہمیں ہمارے اس فخر سے محروم کرنا چاہتا ہے، اور اس مقصد کے لیے میڈیا کو بھی استعمال کیا جا رہا ہے، جس کو روکنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
’میراثی کلچر‘ اور قابلِ اعتراض کنسرٹس کے فروغ کے لیے میڈیا کے کردار اور سیاسی و حکومتی ذمہ داروں کی بے فکری و بے بسی پر لکھے گئے میرے کالم پر مجھے بے پناہ عوامی ردعمل ملا۔ ایک آدھ کے سوا تقریباً ہر شخص نے اس بات کی تائید کی کہ اسلام کے نام پر بننے والے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بنیادوں کو فحاشی و عریانیت کے ذریعے تیزی سے کھوکھلا کیا جارہا ہے، جس میں میڈیا کا ایک اہم کردار ہے، جب کہ تمام تر ذمہ دار محض تماش بین کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
حکومت پنجاب کے ایک اعلیٰ افسر نے مجھے بتایا کہ کمرشل کنسرٹس کے نام پر انتہائی فحش اور بے ہودہ پروگرام پنجاب کے مختلف شہروں میں منعقد کیے جاتے ہیں، جس کی حکومت پنجاب کو مکمل اطلاع ہوتی ہے، مگر اس کے باوجود کوئی تادیبی کارروائی نہیں کی جاتی، محض اس لیے کہ کہیں آرٹ اور کلچر کے نام پر ایسے حکومتی اقدام کو ہدفِ تنقید نہ بنایا جائے۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ: ’’ان قابلِ اعتراض کنسرٹس میں تقریباً برہنہ (topless) خواتین ’فن کار‘ اپنے ’فن‘ کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ سینماگھروں میں بھی فلموں کے ساتھ ساتھ بے ہودہ ڈانس دکھائے جاتے ہیں اور یہ سب کچھ بلاروک ٹوک جاری ہے‘‘۔
عوامی ردعمل کے برعکس قومی وصوبائی اسمبلیاں، وفاقی و صوبائی حکومتیں، سرکاری ادارے اور مشترکہ عوامی مسائل پر سوموٹو لینے والی اعلیٰ عدلیہ بھی اس مسئلے پر خاموش ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق اس وقت پاکستان بھر میں کیبل نیٹ ورک کے ذریعے درجنوں غیرقانونی چینل (انڈین اور دوسرے) دکھائے جارہے ہیں، جن کے ذریعے انتہائی قابلِ اعتراض فلمیں اور گانے چلائے جاتے ہیں۔ ان بے ہودہ چینلوں کو دیکھنے والوں کی تعداد بھی کافی زیادہ ہے، جب کہ ’پیمرا‘ (PEMRA) اور دوسرے متعلقہ اداروں کی طرف سے کوئی خاص تادیبی کارروائی نہیں کی جارہی۔ میڈیا کی ایک اہم شخصیت سے جب میں نے پاکستانی چینلوں میں انٹرٹینمنٹ اور گانے بجانے کے نام پر فحاشی و عریانی کے فروغ کی وجہ پوچھی، تو اُن کا کہنا تھا: ’’انڈین اور دوسرے غیرقانونی چینلوں کے ذریعے دکھائی جانے والی بے ہودگی اور گندگی نے پاکستانی چینلوں کو بھی ایک حد تک ’کھلے ڈلے پن‘ کا اظہار کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ غیرقانونی چینلوں کو بند کر کے ہی پاکستانی چینلوں کو راہِ راست پر لایا جاسکتا ہے‘‘۔
یہ صرف حیلے بہانے ہیں، ورنہ جو غلط کام ہے وہ غلط ہی ہوتا ہے۔ غیرقانونی فحاشی کا مقابلہ قانونی چینلوں کے ذریعے دکھائی جانے والی فحاشی سے کرنے کا بھلا کیا مقصد؟ یہ بات طے ہے کہ جب تک حکومت اور متعلقہ حکومتی ادارے (’پیمرا‘ اور وزارتِ اطلاعات و نشریات) اپنی بنیادی ذمہ داری پوری نہیں کریں گے اور قانون کی عمل داری کو یقینی نہیں بنائیں گے، نمایش و عریانیت کا یہ سیلاب نہیں رُک سکتا۔ یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہمارے بچے اور نوجوان ایک ایسی بیماری میں مبتلا ہوتے جارہے ہیں، جو بحیثیت قوم ہمارے لیے مکمل تباہی و بربادی کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے، مگر تمام متعلقہ ادارے، حکومتیں، اسمبلیاں، عدالتیں اور میڈیا سب سو رہے ہیں۔
مثال کے طور پر پنجاب اسمبلی نے صرف ایک قرارداد پاس کی، مگر اس پر میڈیا نے ایسا دھاوابولا جیساکہ کوئی ظلم ہوگیا۔ سب ڈر کر سہم گئے اور کسی کو جرأت نہ ہوئی کہ میڈیا سے پوچھے کہ وہ کس کلچر کی وکالت اور کیسے پاکستان کا تصور پیش کر رہا ہے؟چند روز قبل وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف سے میری بات ہوئی، تو میں نے اُن سے پوچھا: ’’آپ نے کبھی سوچا کہ دوسری حکومتوں سے بہتر کارکردگی کے باوجود ڈینگی اور جعلی ادویات کے عذابوں نے اُن کی حکومت کو کیوں آن پکڑا؟‘‘ وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ: ’’یہ اللہ رب العزت کی آزمایش ہوسکتی ہے‘‘۔ میں نے عرض کیا کہ: ’’اگر آپ یہ سمجھتے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے پنجاب اسمبلی کی اُس قرارداد کا مکمل طور پر صوبے بھر میں نفاذ کیوں نہیں کرتے، جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ قابلِ اعتراض کنسرٹس منعقد نہ کیے جائیں؟‘‘ انھوں نے کہا: ’’میرے لیے دعا کی جائے، میں وعدہ کرتا ہوں کہ اس معاملے پر غور کروں گا‘‘۔
بے ہودگی، عریانیت اور فحاشی جیسی بیماریوں کا قلع قمع کرنا ہر حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب اس معاملے میں کیا کرتے ہیں؟ آنے والے دن یہ بات طے کردیں گے کہ آیا وہ اللہ تعالیٰ کے ڈر کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہیں یا کہ میڈیا کے خوف سے اپنی اس بنیادی ذمہ داری سے پہلوتہی کریں گے، جس کو پورا کرنے کے لیے وہ دینی، قانونی اور آئینی طور پر پابند ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ میاں شہباز شریف صاحب کا مثبت قدم دوسری حکومتوں کے لیے بھی مشعلِ راہ بن جائے۔ انتظار اس بات کا بھی ہے کہ وفاقی وزارتِ اطلاعات اور ’پیمرا‘ کب جاگیں گے تاکہ ٹیلی ویژن چینلوں کو فحاشی و عریانیت سے پاک کیا جاسکے۔ معلوم نہیں وفاقی وزارت انفارمیشن ٹکنالوجی اور پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی کیسے اور کب، انٹرنیٹ کے مثبت استعمال کے لیے چین، سعودی عرب اور دوسرے کئی ممالک کی طرح فحش سائٹس کو بلاک کریں گے؟
کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک پندرہ سالہ بچے عبداللہ نے، لبرل فاشسٹوں اور بے حیائی کے کلچر کو فروغ دینے والوں کے تمام پروپیگنڈے کے باوجود حال ہی میں پی ٹی اے کو ساڑھے سات لاکھ فحش سائٹس کے انٹرنیٹ ایڈریس بھجوائے ہیں، تاکہ ان سب کو بلاک کیا جاسکے اور انٹرنیٹ کے مثبت استعمال کو یہاں فروغ دیا جاسکے۔ عبداللہ نے ۲۰۱۱ء میں چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری صاحب کو اس بارے میں ایک خط بھی لکھا تھا۔ محترم چیف جسٹس نے پی ٹی اے کو اس سلسلے میں ضروری ہدایات بھی دیں، مگر ابھی تک کوئی خاطرخواہ کارروائی سامنے نہیں آسکی۔ عبداللہ پوچھتا ہے کہ کیا کرپشن کے دوسرے معاملات کی طرح چیف جسٹس آف پاکستان اس اخلاقی، سماجی اور معاشرتی کرپشن کے خلاف بھی سخت ترین اقدام اُٹھائیں گے؟
حال ہی میں پی ٹی اے چیئرمین سے بھی میری بات ہوئی۔ اُن کا کہنا تھا کہ: وہ فحش انٹرنیٹ سائٹس کو بند کرنے کے پراجیکٹ پر کام کر رہے ہیں۔ یہ پراجیکٹ کب شروع ہوتا ہے اور کب مکمل، یہ تو وقت ہی بتائے گا، مگر آثار ابھی تک کوئی حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ گذشتہ سال اپوزیشن لیڈر چودھری نثار علی خان صاحب نے بھی مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ قومی اسمبلی میں فحاشی و عریانی کے خلاف نہ صرف بات کریں گے، بلکہ کچھ عملی اقدامات بھی تجویز کریں گے، تاہم ابھی تک اُن کی طرف سے کوئی عملی اقدام نہ اُٹھایا جاسکا۔
حیرانی اس بات کی ہے کہ ماضی کے برعکس اسلامی جماعتوں نے ان مسائل پر مکمل خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ نہ کوئی احتجاج کیے جا رہے ہیں، نہ ان مسائل کو عدلیہ سمیت متعلقہ اداروں کے سامنے اُٹھایا جا رہا ہے۔اسلامی جماعتوں پر مشتمل پاکستان دفاع کونسل کی تمام تر توجہ پاکستان کی دفاعی سرحدوں اور ناٹو سپلائی لائن پر مرکوز ہے۔ مغرب اور ہندستان کی بے رحم ثقافتی یلغار کے سامنے سب نے عوام کو بے یارومددگار چھوڑ دیا ہے۔ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کا تحفظ کون کرے گا؟ آج کل ہر گھر میں نیوز چینل کو دیکھتے ہوئے بھی ٹی وی ریموٹ کو ہاتھ میں تھامنا پڑتا ہے، کیونکہ نجانے کس وقت انٹرٹینمنٹ (تفریح) کے نام پر قابلِ اعتراض ڈانس یا کوئی دوسرا سین اسکرین پر آجائے اور وہاں موجود خاندان کے افراد کو ایک دوسرے سے نظریں چرانی پڑ جائیں۔
مارچ ۲۰۱۲ء کے دوران کراچی میں جئے سندھ قومی محاذ کے جلسے میں عالمی طاقتوں سے اپیل کی گئی کہ سندھ اور بلوچستان کو پاکستان سے آزاد کرانے میں مدد اور تعاون کریں۔ پاکستان کے خلاف اس کھلی بغاوت کی نہ صرف سندھ حکومت نے اجازت دی بلکہ مادر پدر آزاد میڈیا نے بھی پاکستان توڑنے کے اس پیغام کو پوری دنیا تک پھیلانے کا فریضہ بڑی تندہی سے ادا کیا۔ یومِ پاکستان کے روز اس سازش کا کھلے عام اظہار کیا گیا، مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ اسی انداز میں امریکی کانگریس میں بلوچستان کی آزادی کے متعلق پیش کی گئی قرارداد کے پیچھے پاکستانیوں سے بھی کوئی پوچھ گچھ نہ ہوئی۔ اگر حکومت اور دوسرے ذمہ دار، پاکستان توڑنے والوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں تو کم از کم آزاد میڈیا کو قومی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیے۔ یہ کیسی آزادیِ صحافت ہے کہ فحاشی و عریانی کو پھیلانے کے بعد اب ملک توڑنے کی سازش کرنے والوں کی آواز کو دنیا بھر تک پھیلا دیا جائے! اللہ تعالیٰ پاکستان کو اس مادر پدر آزاد میڈیا کے شر سے بچائے۔
میرا ارادہ تھا کہ میں انجمن غلامانِ امریکا کی طرف سے ناٹوسپلائی کے لیے پاس کی گئی قرارداد پر کچھ لکھتا۔ مگر دی نیوز کے سینیر رپورٹر خالدمصطفی کی فون کال نے مجھے اُس موضوع پر لکھنے پر مجبور کردیا جو عمومی طور پر ہر پاکستانی کا مسئلہ ہے۔
قدرے غصے میں خالد نے ایک خاتون کی میزبانی میں چلنے والے ایک تفریحی شو کا حوالہ دیتے ہوئے استفسار کیا کہ: ’’آپ نے وہ شو دیکھا یا نہیں؟‘‘ میں نے جواب دیا :’’کبھی اُس شو کو دیکھنے کا موقع ملا اور نہ کبھی خواہش پیدا ہوئی۔ خالد کا کہنا تھا کہ :’’میں اپنی فیملی کے ساتھ شو دیکھ رہا تھا کہ پروگرام میں شامل ایک مہمان نے کہا کہ گذشتہ پانچ سال سے میں کسی عورت کے ساتھ نہیں سویا، جب کہ اسی پروگرام میں مدعو ایک فاحشہ نے کہا کہ میں اپنے ہندستانی مرد دوست سے بغل گیر بھی ہوتی ہوں اور اُسے ’کِس‘ بھی کرتی ہوں جس پر مجھے شرمندگی نہیں‘‘۔ اُس فاحشہ کا کہنا تھا کہ: ’’اس میں کیا برائی ہے؟ کسی دوسرے کو اس پر کیوں تکلیف ہے؟‘‘ خالدمصطفی کارونا تھا کہ انٹرٹینمنٹ کے نام پر میڈیا فحاشی و عریانیت کی تمام حدوں کو پھلانگ چکا ہے، مگر ’پیمرا‘، حکومت، عدالت، پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتیں سب اپنی اپنی ذمہ داری سے عاری آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں۔ اب تو حالات ایسے ہوچکے ہیں کہ گھر بیٹھ کر ہم پاکستانی چینلوں کو بھی نہیں دیکھ سکتے۔ نہیں معلوم کب کس قسم کی بے ہودگی ٹی وی اسکرین پر چل پڑے اور دیکھنے والے خاندان کے لوگ شرمندگی میں ایک دوسرے کے ساتھ آنکھیں ملانے کے بجاے کترانے کی کوشش کریں‘‘۔ میرے اس صحافی دوست نے بتایا کہ: ’’امریکا سے پاکستان منتقل ہونے والی میری ہمسائی خاتون نے بھی مجھ سے کیبل کے ذریعے فحاشی و عریانی کے فروغ پر بات کی اور بتایا: ’’میں اپنے بچوں کو امریکا چھوڑ کر پاکستان اس لیے لائی تاکہ ان بچوں کو اپنی اقدار سکھائی جائیں، اور اُنھیں اُس فحش ماحول سے دُور رکھا جائے جس کا سامنا مغربی دنیا کو ہے‘‘۔ مگر اس خاتون کا گلہ یہ ہے کہ پاکستان کا ماحول تو انتہائی ابتری کا شکار ہے اور اس میں کیبل ٹی وی نیٹ ورک کا بہت اہم کردار ہے۔
بات ختم کرنے کے بعد میں نے ’پیمرا‘ میں ایک افسرسے اس موضوع پر بات کی، جس نے مجھے بتایا کہ ’پیمرا‘ نہ صرف اس تمام صورت حال سے واقف ہے، بلکہ اس جرم میں برابر کا شریک ہے۔ پاکستانی ٹی وی چینلوں میں دکھائے جانے والے قابلِ اعتراض پروگرام، گانے، ڈانس وغیرہ کا اُس فحش مواد سے کوئی مقابلہ ہی نہیں جسے غیرقانونی طور پر پاکستان بھر میں کیبل آپریٹر بلاروک ٹوک دکھا کر اشتہارات کے ذریعے اربوں روپے بٹورتے ہیں۔ ’پیمرا‘ کو خوب معلوم ہے کہ درجنوں انڈین اور دوسرے غیرقانونی چینل دکھانے کے ساتھ ساتھ کیبل نیٹ ورک کے ذریعے غیرقانونی ان ہائوس سی ڈی چینلوں کی بھی بھرمار ہے، جو قابلِ اعتراض مواد دکھا کر خوب پیسہ بٹور رہے ہیں‘‘۔
مجھے بتایا گیا کہ: ’’اس حرام کاروبار سے کمائے جانے والی رقم مبینہ طور پر ’پیمرا‘ کے اعلیٰ افسروں کی جیبوں تک پہنچتی ہے، جس کی وجہ سے یہ بے ہودہ کاروبار، بلاروک ٹوک جاری و ساری ہے۔ ان فحش چینلوں کا مقابلہ کرنے کے لیے قانونی طور پر چلنے والے پرائیویٹ چینل بھی بے ہودگی کے سفر پر گامزن ہیں تاکہ ان کا کاروبار تباہ نہ ہو۔ معاشرے کی تباہی اور اپنی نسلوں کی اخلاقی اقدار کو تار تار کر کے پیسہ کمانے والوں کو ’پیمرا‘ اور دوسرے حکومتی اداروں نے کھلی چھٹی دے رکھی ہے کہ وہ ہیرامنڈی کلچر کو ملک کے کونے کونے بلکہ ہرگھر میں پھیلا دیں۔ ماضی میں برائی چھپ کر کی جاتی تھی، مگر اب بُرائی کو نہ صرف کھلے عام پیش کیا جاتا ہے بلکہ آزاد میڈیا کے نام پر اُس کا پُرزور دفاع بھی کیا جاتا ہے۔
چند روز قبل ایک قاری نے مجھے لکھا کہ ہم صحافیوں کو اس بات کی نہ فکر ہے اور نہ احساس کہ ایک مخصوص طبقہ پاکستان کے ہرگھر میں ہیرامنڈی کلچر پھیلانے میں مصروف ہے۔ اس قاری نے مزید لکھا کہ ایک فاحشہ کو ’نام ور‘ کا درجہ دے کر اور طوائفوں کو رول ماڈل بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ ناچ گانے اور طوائفوں کا شوق ہمیشہ سے مخصوص علاقوں تک محدود رہا، مگر کبھی اس کو اچھی نظر سے نہ دیکھا گیا۔ آج کیبل نیٹ ورک اور میڈیا کی وجہ سے اس گندے کاروبار میں شامل افراد کو نہ صرف عزت دی جا رہی ہے بلکہ اسے غیرمعمولی فروغ بھی مل رہا ہے، جس سے ہر خاندان متاثر ہو رہا ہے۔ حکومت کجا یہ کہ اس گندگی سے معاشرے کو صاف کرلے، وہ بھی ہیرامنڈی کلچر کے نمایندوں کو اعلیٰ قومی ایوارڈز سے نواز رہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اب کیا کیا جائے؟ ایک بہت بڑی تعداد میں پاکستانی اس صورت حال سے پریشان ہیں مگر کوئی کچھ کر نہیں رہا۔ چودھری نثار علی خان جیسے بااثر سیاست دان بھی اس پریشانی میں مبتلا ہیں، مگر وعدے کے باوجود ابھی تک کوئی عملی اقدام اُٹھانے سے قاصر ہیں۔ حال ہی میں کراچی میں پاکستان کے کچھ انتہائی محترم مفتی صاحبان سے بھی میری اس موضوع پر بات ہوئی اور میں نے ان سے درخواست کی کہ :’’اس بڑھتی ہوئی سماجی بُرائی کی روک تھام کے لیے علماے کرام کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے‘‘۔ اسی سلسلے میں میری ملاقات پاکستان کے ممتاز قانون دان اکرم شیخ صاحب سے ہوئی، جو خود بھی اس مسئلے میں انتہائی مضطرب نظر آئے۔ انھوں نے وعدہ کیا کہ وہ جلد ہی انٹرنیٹ، غیرقانونی انڈین چینلوں، اِن ہائوس سی ڈی چینلوں اور کیبل ٹی وی کے ذریعے پھیلائی جانے والی فحاشی و عریانی کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کریں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کارخیر میں اپنا حصہ ڈالنے کی توفیق عطا فرمائے۔
میرے کالم ’ہیرامنڈی کلچر کا فروغ اور ہماری ذمہ داری‘پر مجھے عام قارئین کی طرف سے بہت حوصلہ افزا ردعمل ملا، جب کہ میڈیا اور کیبل نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والے کئی لوگ مجھ پر سیخ پا ہوگئے۔ نہ صرف پاکستان بلکہ امریکا، جرمنی، کینیڈا، برطانیہ وغیرہ میں رہنے والے پاکستانیوں نے اسلام کے نام پر قائم ہونے والے اس ملک میں عریانی کلچر کے فروغ پر انتہائی رنج اور غم کا اظہار کیا اور عمومی طور پر میڈیا کو فحاشی و عریانیت کے پھیلائو کا ذمہ دار ٹھیرایا۔ اس امر پر بھی افسوس کا اظہار کیا گیا کہ حکومت، ’پیمرا‘، پارلیمنٹ، عدلیہ اور دوسرے ریاستی ذمہ دار اس تباہی پر خاموش ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں ماسواے جماعت اسلامی کے، کسی نے کوئی ردعمل ظاہر نہ کیا۔ سابق ایم این اے اور جماعت اسلامی خواتین کی رہنما ، سمیحہ راحیل قاضی صاحبہ نے فحاشی و عریانی کے خلاف جدوجہد کی تفصیل سے آگاہ کرتے ہوئے کہ وہ اس سماجی و مذہبی برائی کے خلاف سپریم کورٹ میں کیس دائر کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ:’’ لاہور ہائی کورٹ میں اسی نوعیت کا ایک کیس دائر کر رکھا ہے، مگر اس کیس کو سنا ہی نہیں جا رہا‘‘۔
ملک کے اہم ترین سیاسی رہنمائوں میں صدرزرداری، [سابق] وزیراعظم گیلانی، میاں نواز شریف، عمران خان، اسفندیارولی وغیرہ سب اس معاملے میں خاموش تھے، ہیں اور شاید رہیں گے، کیونکہ میڈیا چاہے کتنا ہی بُرا کیوں نہ کرے اس کو کوئی بُرا نہیں کہنا چاہتا کیوں کہ سیاست بھی تو کرنی ہے۔ امیر جماعت اسلامی سید منور حسن صاحب نے ۱۷؍اپریل کو بے حیائی کے فروغ کے خلاف حوصلہ افزا بیان دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس بیان کو عمومی طور پر میڈیا میں جگہ نہیں ملی، مگر امیرجماعت نے درست کہا کہ: ’’پاکستان میں عورت کی ترقی اور برابری کے نام پر مغربی تہذیب مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ عورت جسے ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کے مقدس رشتوں سے احترام حاصل تھا اسے بازار کی زینت بنا کر پاکستانی معاشرے میں بے حیائی کے کلچر کو پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ پرنٹ میڈیا کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک میڈیا بھی ہندو تہذیب کے غلبے کے لیے عریاں اور فحش بھارتی فلموں کی نمایش کر کے دو قومی نظریے کی دھجیاں اُڑا رہا ہے۔ معمولی اشیا کی فروخت کے لیے عورت کو سائن بورڈ اور ہورڈنگز پر تشہیر کا ذریعہ بنا کر نوجوان نسل کو تباہی کے راستے پر ڈالا جا رہا ہے، جس کا حکومت کوئی نوٹس نہیں لے رہی اور ’پیمرا‘ بھی مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے‘‘۔
منور حسن صاحب نے بلاشبہہ سچ کہا کہ: ’’عریانی اور فحاشی کا سیلاب گھروں کے اندر پہنچ چکا ہے۔ ایسے اشتہارات چینلوں پر دکھائے جاتے ہیں کہ خبرنامہ بھی فیملی کے ساتھ دیکھنا محال ہوگیا ہے‘‘۔ انھوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ: ’’ایسے بے ہودہ اشتہارات، فلموں اور پروگراموں کو بند کرنے کے لیے حکومت اپنی ذمہ داری پوری کرے‘‘۔ یہاں مَیں امیرجماعت سے اختلاف کرنے کی جسارت کروں گا، کیونکہ انھوں نے ایک ایسی حکومت کے سامنے اپنا یہ مطالبہ رکھا ہے، جسے لُوٹ کھسوٹ کے علاوہ کسی دوسرے کام سے کوئی سروکار نہیں۔ اس لیے مَیں اُمید کرتا ہوں کہ جماعت اسلامی اس گندگی سے معاشرے کو پاک کرنے کے لیے دوسری دینی و سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر انٹرنیٹ، غیرقانونی کیبل چینلوں اور پاکستانی چینلوں کے ذریعے پھیلائی جانے والی بے حیائی کے خلاف نہ صرف عوامی مہم چلائے گی، بلکہ سپریم کورٹ میں بھی اس بُرائی کے خلاف آواز اُٹھائے گی۔
اب ذرا میڈیا کے اندر کی بات کرلی جائے۔ ہم میڈیا والے آزادیِ راے کی تو بہت بات کرتے ہیں مگر میں نے جب بھی کوئی ایسا کالم لکھا جو فحاشی و عریانی کے خلاف ہو، یا جس میں اسلامی سزائوں کی بات کی گئی ہو، یا کسی دوسرے موضوع پر اسلامی نقطۂ نظر کو بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہو، یا میڈیا کے کردار پر اعتراض کیا گیا ہو، تو مجھے میڈیا کے اندر سے کوسا گیا۔ میرا مذاق اُڑانے کی کوشش کی گئی۔ میرے خلاف ادارے کی اعلیٰ انتظامیہ کے کان بھرے گئے اور یہ تک کہا گیا کہ میں ’جنگ گروپ‘ اور ’جیو‘ کے خلاف کام کر رہا ہوں، اور ان کا کاروبار تباہ کرنے کے در پے ہوں۔ اعتراض کرنے والوں میں کیبل آپریٹرز بھی شامل تھے۔ ادارے کی طرف سے جب اس قسم کے اعتراضات مجھے بھجوائے گئے تو میں نے یہ بات واضح کی کہ: ’’میرے لیے اللہ تعالیٰ اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے سامنے کسی شے کی کوئی حیثیت نہیں۔ چاہے میرا ادارہ ہو یا میرا کوئی قریبی رشتہ دار، جو غلط کرے گا اور اسلام کی روح کے مخالف چلے گا، میں اس پر ضرور بات کروں گا، نتیجہ چاہے جو بھی ہو‘‘۔
ایسا تو نہیں ہوسکتا کہ میں حکومت، اپوزیشن، عدلیہ، فوج، ایجنسیوں اور پارلیمنٹ کے متعلق اپنی راے کا کھل کر اظہار کروں، مگر میڈیا چاہے (وہ ادارہ جس سے مَیں منسلک ہوں) کچھ بھی کرلے اس پر محض اس لیے خاموش ہوجائوں کہ یہ ہماری برادری کا مسئلہ ہے، یا یہ کہ اس سے میرے ادارے کا کاروبار تباہ ہوگا ،یا یہ کہ میرا کوئی صحافی ساتھی یا میڈیا مالک ناراض ہوجائے گا۔ میں کیسے بے حیائی، بے شرمی اور عریانیت کے کلچر کو پھلتا پھولتا دیکھ کر اپنی آنکھیں بند کرلوں، اور وہ بھی اس لیے کہ کوئی دوسرا شخص مجھ سے ناراض نہ ہوجائے یا اس لیے کہ ایسی بات کرنے سے میرا مذاق اُڑایا جائے گا، اور مجھے ’دقیانوسی‘ اور ’طالبان‘ جیسے القابات سے نوازا جائے گا۔ اپنے اللہ کے کرم سے میں ایسی باتوں سے گھبرانے والا نہیں۔ مجھے اگر خوف ہے تو اپنی آخرت کا، مجھے ڈر ہے تو اپنے اللہ کا جو رازق ہے، اور جس کے ہاتھ میں عزت، ذلت، زندگی اور موت ہے۔ میں دنیا کے منافع، دوسروں کے کاروباری فائدے اور صحافی برادری کی ’عزت‘ کے لیے سورۃ النور میں اللہ تعالیٰ کی اس واضح وارننگ کو کیسے بھول جائوں:’’جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں فحش پھیلے، وہ دنیا اور آخرت میں دردناک سزا کے مستحق ہیں، اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے‘‘ (النور۲۴:۱۹)۔پھر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو، شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو۔اس کی پیروی کوئی کرے گا تو وہ تو اسے فحش اور بدی ہی کا حکم دے گا‘‘۔ (النور۲۴:۲۱)
سورئہ توبہ کی آیت۲۴ کا ترجمہ بھی پڑھ لیجیے: ’’اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، اپنے باپوں اور بھائیوں کو بھی اپنا رفیق نہ بنائو اگر وہ ایمان پر کفر کو ترجیح دیں۔ تم میں سے جو اُن کو رفیق بنائیں گے وہی ظالم ہوں گے۔ اے نبیؐ، کہہد و کہ اگر تمھارے باپ، اور تمھارے بیٹے ، اور تمھارے بھائی، اور تمھاری بیویاں، اور تمھارے عزیز واقارب، اور تمھارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں، اور تمھارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑجانے کا تم کو خوف ہے، اور تمھارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں، تم کو اللہ اور اس کے رسولؐ اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمھارے سامنے لے آئے، اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا‘‘۔
بے حیائی اور بے شرمی کے کاموں سے اللہ کے رسول محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی اُمت کو سختی سے منع فرمایا ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ’حیا‘ کو ایمان کا حصہ اور دین اسلام کا شعار بھی قرار دیا ہے۔ مجھے کوسنے والوں سے درخواست ہے کہ وہ فحاشی و عریانی کے متعلق اللہ اور اللہ کے رسولؐ کے واضح احکامات کو سامنے رکھتے ہوئے خوداحتسابی کریں، تاکہ ہم دنیا و آخرت میں رسوا ہونے سے بچ جائیں۔ میڈیا والے اور کیبل آپریٹر یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ کیا ہے وہ ہرحال میں پورا ہوکر رہے گا، جب کہ ہماری دولت، ہماری شان، ہمارا کاروبار، ہمارے ٹی وی شوز، ہماری شہرت،سب کچھ عارضی چیزیں اور دھوکے کے علاوہ کچھ نہیں۔
پاکستان کی بے شرم سیاست کی نہ ختم ہونے والی بے شرمیوں، اور جمہوریت کے نام پر عوام سے کیے جانے والے فراڈ اور دھوکوں پر لکھنے کو بہت کچھ ہے، مگر اس گندگی کے برعکس میں نے سوچا کہ اپنے معاشرے کی بربادی کا سبب بننے والی اس گندگی، فحاشی و عریانیت پر ہی مزید لکھا جائے۔ نجانے اس کا کیا سبب تھا، تاہم ’پیمرا‘ نے چند روز قبل اپنی کاغذی کارروائی ڈالتے ہوئے اخباری اشتہار کے ذریعے ٹی وی چینلوں اور کیبل آپریٹروں کو خبردار کیا کہ فحش اور بے ہودہ پروگرام چلانے پر سخت ترین کارروائی کی جائے گی۔ ’پیمرا‘ کی فائل کا پیٹ تو بھر گیا مگر زمینی حقائق ویسے کے ویسے ہی ہیں۔
یہ تو ایک معمول ہے بلکہ کارروائی ڈالنے کے لیے چند ایک کیبل آپریٹرز کے خلاف ایکشن بھی لے لیا جاتا ہے اور ٹی وی چینلوں کو بھی نوٹس جاری کیے جاتے ہیں، مگر یہ سب ڈراما اور دھوکے کے علاوہ کچھ نہیں کیوں کہ زمینی حقائق بدل نہیں رہے۔ ماضی کی طرح ’پیمرا‘ کی اس تازہ کارروائی کے بعد بھی کیبل پر غیرقانونی انڈین اور دوسرے فحش چینل چلانے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ کیا متعلقہ ذمہ دار اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ کیبل آپریٹرز اپنے سی ڈی چینلوں کے ذریعے غیراخلاقی مواد عوام کو دکھا کر اپنی ہی نسلوں کی تباہی کا سبب بن رہے ہیں؟
’پیمرا‘ کے اس نوٹس اور کاغذی کارروائی کے بعد کیا پاکستانی ٹی وی چینلوں میں دکھائے جانے والے غیراخلاقی ڈرامے، فحش گانے اور ڈانس، تفریح کے نام پر عریانیت اور دوسرا متنازع مواد دکھانا بند کردیا گیا ہے؟ کیا دنیا بھر میں مسلمانوں اور پاکستان کی بدنامی کا سبب بننے والی ایک ’نام ور‘ فاحشہ کو اس کی تمام تر گندگی کے ساتھ پاکستان کی ٹی وی اسکرین پر اب بھی نہیں دکھایا جا رہا؟ کیا غیرقانونی چینلوں پر غیرقانونی اشتہارات دکھا کر روز کے کروڑوں نہیں کمائے جارہے؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آج بھی کیبل نیٹ ورک غیرقانونی اور فحش چینلوں کے ذریعے سالانہ کروڑوں اور اربوں کی اپنی حرام کمائی میں سے رشوت کے طور پر متعلقہ حکام کی بھی جیبیں بھرتے ہیں اور اسی وجہ سے کارروائی محض کاغذی ہوتی ہے؟ اپنی نسلوں کو تباہ کر کے پیسہ کمانے کے نشے میں دھت ایسے کردار کیا اللہ تعالیٰ کے غضب سے بچ سکیں گے؟
افسوس کہ اس معاملے پر تمام سیاسی ذمہ دار بولنے سے قاصر ہیں۔ پی پی پی، اے این پی اور ایم کیو ایم چھوڑ یں، یہاں تو اسلامی فلاحی ریاست کا نعرہ بلند کرنے والے عمران خان اور ان کی تحریکِ انصاف، میاں محمد نواز شریف اور اُن کی مسلم لیگ (ن) اور حتیٰ کہ مولانا فضل الرحمن اور اُن کی جمعیت علماے اسلام اس انتہائی اہم معاملے پر آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ یہ بات قابلِ ستایش ہے کہ کم از کم جماعت اسلامی نے فحاشی و عریانیت کے خلاف ایک مہم کا بھی آغاز کردیا ہے۔ توقع ہے کہ سول سوسائٹی اور کچھ وکلا حضرات میڈیا، انٹرنیٹ اور کیبل نیٹ ورک کے ذریعے پھیلائی جانے والی فحاشی و عریانیت کے خلاف اس مہم میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ چوں کہ اس سنگین معاملے کو اعلیٰ عدلیہ کے سامنے اُٹھائے جانے کے واضح اشارے مل رہے ہیں، تو ایسے میں متعلقہ حکام کاغذی کارروائی ڈالنے میں مصروف ہیں تاکہ اگر کل کو عدالت بلائے تو وہ کہہ سکیں کہ تمام ممکنہ اقدامات اُٹھائے گئے۔ درجنوں کیبل آپریٹروں کے خلاف کارروائی کی گئی اور کتنے چینلوں کو نوٹس بھیجے گئے۔ پی ٹی اے اور وزارتِ انفارمیشن ٹکنالوجی کے پاس بھی انٹرنیٹ پر فحش سائٹس کو روکنے کی کارروائی ڈالنے کے لیے کئی کاغذی ثبوت ہوں گے، چاہے حقیقت اس کے کتنے ہی برعکس کیوں نہ ہو۔
یہ کسے معلوم نہیں کہ سپریم کورٹ گذشتہ سال پی ٹی اے کو فحش سائٹس کو روکنے کا حکم دے چکی ہے، مگر ایک سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود ابھی تک کوئی بہتری کے آثار نمودار نہیں ہوئے۔ سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں ’پیمرا‘ کو بھی پابند کیا تھا کہ کیبل پر دکھائے جانے والے غیرقانونی انڈین اور دوسرے فحش چینلوں کو بند کیا جائے، مگر پاکستان بھر میں ماسواے ایک دوشہروں کے ہرقسم کی گندگی بلاروک ٹوک دکھائی جارہی ہے۔ صوبائی حکومتیں اور خصوصاً پنجاب حکومت باقی معاملوں میں دوسروں سے بہتر ہونے کے باوجود فحش اسٹیج ڈراموں اور سینماگھروں میں دکھائی جانے والی بے ہودہ فلموں کو روکنے میں مکمل طور پر ناکام ہے۔
حال ہی میں ایک خاتون ڈاکٹر (گائناکالوجسٹ) نے جو پنجاب کے ایک انتہائی پس ماندہ علاقے میں اپنا فرض ادا کر رہی ہیں، مجھے ایک ای میل بھیجی جس میں ان کا کہنا تھا کہ: وہ ایک ایسے کرب سے گزر رہی ہیں، جس کی طرف کسی کی کوئی توجہ نہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ نے لکھا کہ یہ ای میل لکھتے ہوئے مَیں انتہائی افسردہ، رنجیدہ اور بے بسی کے عالم میں ہوں، کیونکہ کچھ دیر قبل ہی میرے پاس ایک غیرشادی شدہ حاملہ بچی کو لایا گیا۔ اس بچی کی ماں اُس کا حمل ضائع کرنے کی درخواست لے کر آئی، مگر میں نے ایسا نہ کیا، جس پر اس ماں کا کہنا تھا کہ وہ اپنی بچی کو زہر دے کر موت کی نیند سلا دے گی۔ ڈاکٹر صاحبہ نے لکھا ہے: کاش! آپ اس بچی کے چہرے اور آنکھوں پر نمایاں خوف اور مایوسی کو دیکھ سکتے۔ اُن کا کہنا تھا کہ چونکہ مَیں اس لڑکی کی مدد نہیں کرسکی، اس لیے خود مجھے اپنے آپ سے نفرت محسوس ہورہی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اس طرح کے کیسوں کا مجھے اکثر سامنا ہوتا ہے اور آئے دن غیرشادی شدہ حاملہ لڑکیاں میرے پاس آتی ہیں۔ جس علاقے سے ان کا تعلق ہے وہ انتہائی پس ماندہ اور بجلی جیسی سہولت سے بھی محروم ہے۔
ڈاکٹر صاحبہ کا گلہ یہ ہے کہ: شہروں میں فحاشی و عریانیت کے خلاف جنگ کرنے والے ان پس ماندہ علاقوں میں چھوٹی چھوٹی بچیوں پر ہونے والے اس ظلم پر آواز کیوں نہیں اُٹھاتے اور اُن عوامل کو اُجاگر کیوں نہیں کرتے، جس کی وجہ سے یہ ظلم و زیادتی تیزی سے ایسے علاقوں میں پھیلتی جارہی ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ کو یہ بھی شکایت تھی کہ: حکومتیں، عدالتیں، حکام، سیاسی جماعتیں اور حتیٰ کہ میڈیا دُور افتادہ علاقوں کو کیوں بھلا بیٹھے ہیں۔ پھر مذہبی رہنما بھی ان مسائل کو نظرانداز کر رہے ہیں،کہ جیسے پاکستان کے دیہی علاقوں میں سب اچھا ہے اور وہاں اس نوعیت کے مسائل درپیش ہی نہیں۔ یہ خرابی تو شہباز شریف کے پنجاب کی ہے، جہاں فحاشی و عریانیت کا کھیل سب سے زیادہ اور بلاخوف و خطر کھیلا جا رہاہے۔
امریکا کی غلامی سے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد کے دوران اب تو ہندستان کی غلامی کے لیے پاکستان کے عوام کو تیار کیا جا رہا ہے۔ کیا کبھی کوئی سوچ سکتا تھا کہ شہباز شریف صاحب جیسا محب وطن اور قابل وزیراعلیٰ پنجاب، ہندستان سے آئے ہوئے کاروباری افراد کے وفد سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ ساتھ ہندستان زندہ باد کا نعرہ بھی بلند کردے گا؟ کیا کبھی پہلے کوئی یہ سوچ سکتا تھا کہ پاکستان کا کوئی اعلیٰ عہدے دار (ڈپٹی اٹارنی جنرل خورشید خان) بھارت کے دورے پر نئی دہلی میں ایک گوردوارہ کے باہر بیٹھ کر سیکڑوں سکھ یاتریوں کے جوتے صاف کرے گا، اور اس واقعے پر پاکستان میں کوئی نوٹس تک نہ لیا جائے گا؟ خورشید خان کا بھی کیا قصور، ہمیں تو بحیثیت قوم ہندستانیوں کے جوتے صاف کرنے کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔ سیاست دانوں سے شکایتیں اور اُن کی نااہلی اپنی جگہ، مگر یہاں تو آرمی اور آئی ایس آئی جیسے ادارے سب سو رہے ہیں، جب کہ انڈیا ہمارے گھروں کے اندر گھس چکا ہے اور گھسا بھی ایسے کہ کوئی گولی چلی نہ توپ کا گولہ گرا، بلکہ مکمل خاموشی اور سکون کے ساتھ۔
اس خاموش یلغار نے ہمیں کس حد تک فتح کیا ہے؟ اس کا شاید کسی کو صحیح اندازہ نہیں ہے۔ ہر گھر کے افراد کو یہ سہولت حاصل ہے کہ وہ بھارتی فلمیں دیکھ سکتے ہیں۔ انڈیا اپنا بھرپور امیج پیش کرتا ہے اور پاکستان، پاکستان کی فوج یا دوسرے اداروں کے بارے میں منفی تصویر دکھاتا ہے۔ اس کا کسی کو کوئی احساس نہیں مگر ہم سب اس پروپیگنڈا وار کا شکار ہیں۔
ہمارے سیکرٹریوں، وزرا، مشیروں اور پالیسی میکروں کا بھی یہی حال ہے۔ عوام بھی انڈین پروپیگنڈے کی اس کی زد میں ہیں۔ ’بغل میں چھری منہ میں رام رام‘ والا محاورہ گئے وقتوں کی بات ہوچکی، اور اب تو انڈیا کے بارے میں ہمارا وہ تصور بن رہا ہے جو خود انڈیا ہمارے ذہنوں میں پیدا کرنا چاہتا ہے، اور گذشتہ کئی برس سے بڑی کامیابی سے یہ کام کر رہا ہے۔ ہم نے ہندستان کو یہ نظریاتی جنگ لڑنے کے لیے کھلا میدان فراہم کیا ہوا ہے۔ اس حقیقت کو جان کر انتہائی مایوسی ہوئی کہ انڈین فلوں کی نمایش بھی عمومی طور پر سب سے پہلے: پی اے ایف، ڈی ایچ اے، کنٹونمنٹ اور ڈیفنس کے سینماگھروں میں ہوتی ہے۔ پاکستان کی فوج کے گھروں میں جب انڈین پروپیگنڈے کا راج ہوگا، جب ان کو اپنے سینماگھروں میں دیکھنے کے لیے انڈین فلمیں ملیں گی تو ’رائزنگ انڈیا‘ سے اگر ضرورت پڑگئی تو، لڑنے کا جذبہ کیسے پیدا ہوگا؟ جب عوام نظریہ پاکستان کو بھلا کر انڈین کلچر کے گرویدہ ہوجائیں گے تو پھر فوج میں بھرتی ہونے کے لیے جو ان کس جذبے سے سرشار ہوکر آئیں گے۔
جب انڈیا اتنا اچھا ہے، وہ ہمارا بھائی اور دوست ہے اور جو کچھ پچھلے ۶۵سالوں میں کہا گیا وہ سب ’جھوٹ‘ اور ’لغو‘تھا، تو پھر ہمیں فوج کی بھی کیا ضرورت! بلکہ کہیں قائداعظم محمدعلی جناح نے یہ ملک بناکر غلطی تو نہیں کردی تھی! اپنی ذمہ داریوں اور پہچان سے ہم اس قدر بے نیاز ہوجائیں گے، میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ یہ بات ذہن ماننے کے لیے تیار نہیں کہ کوئی قوم کتنی مشکل اور قربانیوں سے حاصل کی گئی اپنی شناخت اتنی آسانی سے کھونے کے لیے تیار ہے۔ ہندستان کے بارے میں کچھ لوگوں کی خوش فہمیاں اپنی جگہ، مگر آج بھی امریکا اور اسرائیل کے ساتھ مل کر ہندستان ہمارے خلاف سازشوں میں مصروف ہے: بھئی انڈیا سے امن قائم کرو۔ کشمیر، سیاچن کے مسائل، بات چیت کے ذریعے ہی حل کرو۔ لیکن خدارا، اپنا تشخص برقرار رکھنے کے لیے اپنے دامن کو تو کم از کم انڈین پروپیگنڈے سے بچا کر رکھو، ورنہ وہ وقت دُور نہیں جب ہماری زبان بھی اُردو سے ہندی میں اس خاموشی سے بدل جائے گی کہ ہمیں خود بھی احساس نہ ہوگا۔
کچھ روز قبل میاں نواز شریف صاحب سے بات ہوئی تو اُن کا کہنا تھا کہ وہ اس وقت حیران و پریشان ہوگئے جب ان کے گھر آئی ہوئی ایک مہمان بچی نے ان سے کہا کہ ان کا گھر کتنا ’سندر‘ ہے۔ میاں صاحب کا کہنا تھا کہ: وہ بچی ’خیال‘ کے لفظ کو ’کھیال‘ بول رہی تھی۔ شکر ہے میاں صاحب حیران اور پریشان ہوئے ورنہ باجی، آپا تو پہلے ہی ’دیدی‘ بن چکیں۔ کچھ لوگوں نے تو بہنوئی کو بھی ’جیجاجی‘ کہنا شروع کر دیا ہے، جب کہ اب انتظار ہے کہ کب میاں بیوی کو یہاں بھی ’پتی، پتنی‘ کہا جانے لگے گا۔ یہاں تو شادی کے موقعوں پر سات پھیرے لگانے کے بارے میں بھی بچوں کے حوالے سے بات ہوتی ہے۔ اگر بحیثیت قوم ہم اس ثقافتی یلغار کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کرسکے، تو ہم یہ جنگ مکمل طور پر ہارجائیں گے، اور (اللہ نہ کرے)، امریکا کے ساتھ ساتھ بھارت کی غلامی بھی ہمارا مقدر ہوگی!
مضمون نگار معروف کالم نگار اور سیاسی تجزیہ نگار ہیں۔ ای میل:ansar.abbasi@thenews.com.pk
(کتابچہ منشورات ، منصورہ، لاہور سے دستیاب ہے۔ صفحات: ۲۴، قیمت: ۱۰ روپے، سیکڑے پر رعایت)
کہنے کو تو یہ ایک لفظ تھا لیکن مصر میں یہ ایک مکمل پیغام اور ایک قومی تحریک بن گیا۔ فُلُول، یعنی شکست خوردہ اور فاسد ٹولے کی باقیات۔ اس وقت مصر میں کسی شخص یا گروہ کے لیے فُلُول کا لیبل لگ جانے سے زیادہ معیوب اور باعثِ عار بات شاید کوئی نہ ہو۔پارلیمانی اور صدارتی انتخابات میں اس ایک لفظ نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ لَا لِلْفُلُول کا نعرہ اس قدر زباں زد عام ہوگیا کہ اگر کہیں صرف ’لا‘ ہی لکھا ہوتا تو لوگ سمجھ جاتے کہ ڈکٹیٹر کی باقیات کو مسترد کیا جارہا ہے۔ ۲۴جون ۲۰۱۲ء کو مصری تاریخ کے پہلے حقیقی صدارتی انتخاب کے نتائج کا اعلان ہورہا تھا تو ملک کے ہر شہر اور قصبے کی طرح قاہرہ کے تاریخی میدان التحریر میں بھی لاکھوں لوگ جمع تھے اور پورے میدان میں ایک بڑے بینر پر صرف ’لا‘ ہی پڑھا جارہا تھا۔ کئی جملوں پر لکھی پوری عبارت پڑھنے کا تکلف کیے بغیر ہی ’لا‘ پورا پیغام واضح کررہا تھا۔
مصری تاریخ میں یہ پہلے صدارتی انتخاب تھے کہ جس کے نتائج انتخاب سے پہلے ہی معلوم نہ تھے۔ مصر ہی نہیں اکثر عرب انتخابات میں حکمران ۹ئ۹۹ فی صدووٹ لے کر کامیاب ہوا کرتے تھے۔ عوامی انقلابات نے لوگوں کو پہلی بار اپنی آزاد مرضی سے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے دیا۔ یہ حقیقت ہر مخلص اور بے تعصب مسلمان کے لیے باعث طمانیت ہے کہ ان پہلے آزادانہ انتخابات میں عوام کی اکثریت نے اسلامی تحریک پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔
الاخوان المسلمون مصر کے اُمیدوار ڈاکٹر محمد مرسی کی بحیثیت صدر مملکت جیت، خطے میں دیگر تمام کامیابیوں کا تاج ثابت ہوئی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یقینا پورے مشرق وسطیٰ میں مصر کی مرکزی حیثیت ہے۔ مصر میں فی الحال تمام تر اختیارات صدر مملکت کے پاس ہیں۔دوسری اہم وجہ یہ بنی کہ اخوان کے صدارتی اُمیدوار کو شکست سے دوچار کرنے کے لیے اندرون ملک مخالفین سے زیادہ مصر کے تمام بیرونی دشمن بے تاب تھے۔
صدارتی انتخاب کے پہلے مرحلے میں ۱۳ اُمیدوار تھے۔ حسنی مبارک کا آخری وزیراعظم اور ۱۰سال تک اس کا وزیر ہوا بازی رہنے والا لیفٹیننٹ جنرل احمد شفیق وہ اکلوتا اُمیدوار تھا جس پر انتخابی مہم کے دوران ملک کے اکثر اضلاع میں عملاً جوتوں کی بارش ہوئی۔حتیٰ کہ وہ جب اپنا ووٹ ڈالنے آئے تو اپنے آبائی پولنگ سٹیشن کے باہر بھی ’ پُرجوش ‘جوتا باری کا سامنا کرنا پڑا۔ اُمیدواروں میں اگرچہ طویل عرصے تک حسنی مبارک کا وزیر خارجہ اور پھر عرب لیگ کا سیکریٹری جنرل رہنے والا عمروموسیٰ بھی تھا۔ ایک سابق انٹیلی جنس چیف حسام خیر اللہ بھی تھا۔ ناصری ذہن کا سرخیل حمدِین صبَّاحی اور بائیں بازو کے کئی دیگر اُمیدوار بھی تھے، لیکن ۱۳ اُمیدواروں میں سب سے زیادہ عوامی نفرت کا سامنا جنرل شفیق ہی کو کرنا پڑا۔ اس سب کچھ کے باوجود جب پہلے مرحلے کے نتائج آئے تو جنرل صاحب سب سے زیادہ ووٹ لینے والوں میں دوسرے نمبر پر تھے۔ اس کا مطلب تھا کہ دوسرے مرحلے میں مقابلہ ان کے اور پہلے نمبر پر آنے والے اخوان کے اُمیدوار ڈاکٹر محمدمُرسی کے مابین ہوگا۔ دوسرے مرحلے میں ۵۰ فی صد ووٹ حاصل کرنے کی شرط بھی نہیں ہے اور اگر فلول کا لیبل سجائے جنرل صاحب، ایک ووٹ بھی زیادہ لے گئے تو وہ مصر کے آیندہ صدر ہوں گے۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شفیق کا دوسرے نمبر پر آجانا، جہاں سب کے لیے باعث حیرت تھا وہیں مصر کے ازلی دشمن ’اسرائیل‘ کے لیے یہ اُمید کی اہم نوید تھی۔ اسرائیلی ذمہ داران حسنی مبارک کے دور کو اسرائیل کے لیے ’اہم ترین اسٹرے ٹیجک خزانہ‘ قرار دیتے ہیں۔ احمد شفیق کا نام دوسرے مرحلے میں آگیا تو اسرائیلی فوج کے سابق سربراہ اور حالیہ نائب وزیراعظم نے بیان دیا کہ ’’اسرائیل کے اہم ترین اسٹرے ٹیجک خزانے کی واپسی کی اُمیدیں جوان ہوگئی ہیں‘‘۔ سابق ملٹری انٹیلی جنس چیف عاموس یادلین گویا ہوئے: ’’ سقوطِ مبارک کے بعد اسرائیل کے گردو نواح میں سب سے بڑی تبدیلی یہ آسکتی تھی کہ ترکی یا ایران جیسی کسی علاقائی طاقت کے ساتھ مل کر مصر کوئی اسرائیل دشمن بلاک نہ تشکیل دے دے۔ احمد شفیق کی جیت کی صورت میں ایسا ہر امکا ن ختم کیا جاسکتاہے ‘‘ - اعلیٰ تعلیم کے اسرائیلی وزیر گدعون ساعر نے کہا: ’’مبارک نظام کے اہم رکن جنرل شفیق کی جیت سے عالمِ عرب کی اجتماعی سوچ پر بہت اہم اثرات مرتب ہوں گے۔اس جیت سے ان عرب حکومتوں کے خلاف عوامی انقلاب کی خواہش دم توڑ جائے گی کہ جن کا باقی رہنا ہمارے اسٹرے ٹیجک مفادات کا ضامن ہے‘‘- سابق وزیر دفاع بنیامین الیعازر جو حسنی مبارک کے قریبی احباب میں شمار ہوتا تھا نے تبصرہ کیا: ’’شفیق کی جیت کا مطلب ہے کہ مصر اسرائیل کے ساتھ اپنا گیس سپلائی کا معاہدہ منسوخ نہیں کرے گا۔ امریکا جنرل شفیق کو بآسانی قائل کرلے گا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ اشتراک عمل جاری رکھے‘‘۔ اسرائیلی وزیر خارجہ لیبرمین کا تبصرہ تھا ’’مبارک کے بغیر مصر ہمارے لیے کسی ایٹمی خطرے سے بھی بڑا خطرہ تھا۔ ہمیں اس صورتِ حال کا سامنا کرنے کے لیے کم از کم چار بریگیڈ فوج مصری سرحدوں پر کھڑی کرنا پڑے گی۔ اب یہ خطرہ ٹلنے کی اُمید ہے‘‘۔واضح رہے کہ اسرائیلی دفاعی تجزیہ نگاروں نے انقلاب مصر کے اثرات سے نمٹنے کے لیے فوجی اخراجات میں ۳۰؍ ارب ڈالر اضافے کا اندازہ لگایا ہے، جس سے ملک بڑے اقتصادی بحران سے دوچار ہو جائے گا۔
لبنان سے شائع ہونے والے مؤقر ہفت روزہ الأمان نے اسرائیلی ذمہ داران کے درج بالا تبصروں کا تفصیلی جائزہ لیا ہے ان بیانات میں ’’اسرائیلی قومی سلامتی کے تحقیقاتی ادارے کے رکن جنرل (ر) رون ٹیرا کا یہ فرمان بھی شامل ہے کہ ’’مبارک دور نے اسرائیل کو مثالی اسٹرے ٹیجک شراکت عطا کی۔ اس شراکت داری کی بنیاد پر ہم ۲۰۰۶ء میں لبنان پر اور ۲۰۰۸ء غزہ پر حملہ آور ہوسکے۔ اگر مصری انتخابات میں مبارک کے ساتھیوں کے بجاے کوئی،نیشنلسٹ، اسلامسٹ، حتیٰ کہ کوئی لبرل شخص بھی برسر اقتدار آگیا تو اس کا مطلب ہے کہ عرب ملکوں پر حملے کی اسرائیلی صلاحیت انتہائی کمزور ہوجائے گی‘‘۔
ان تمام بیانات اور تبصروں کے مطالعے کے بعد اب اندازہ لگائیے کہ جنرل شفیق کو کامیاب کروانے کے لیے کیا کیا پاپڑ نہ بیلے گئے ہوں گے۔ غریب اور اَن پڑھ ووٹروںکے ووٹ خریدنے کے لیے اندرونی اور بیرونی خزانوں کے منہ کھل گئے۔ تمام سرکاری اور پرائیویٹ ٹی وی چینل اور اخبارات نے اخوان کے خلاف پروپیگنڈے کی شدید ترین یلغار کردی۔ اخوان کی طرف سے یہ شکایت بھی سامنے آئی کہ جنرل شفیق کے حق میں فوج، پولیس اور مختلف ایجنسیوں کے تقریباً ۱۵ لاکھ ان افراد کے ووٹ بھی ڈلوائے گئے جنھیں ووٹ کا حق نہیں تھا۔
اخوان سے ان کی جیت چھیننے کے لیے جو دیگر ناپاک ، مہیب اور خطر ناک اقدامات اٹھائے گئے ان میںایک سرفہرست اقدام یہ تھا کہ پولنگ سے صرف ڈیڑھ دن پہلے، یعنی ۱۴ جون کی شام، چند ماہ پہلے منتخب ہونے والی قومی اسمبلی توڑنے کا اعلان کردیا گیا۔ گویا ہر سیاسی کارکن اور ووٹر کو پیغام دیا گیا کہ اخوان کو اقتدار میں آنے سے روکنے کے لیے ہمیں جس آخری حد تک بھی جانا پڑا، ہم اس سے دریغ نہیں کریں گے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ ووٹ ضائع نہ کرو، اخوان کواقتدار میں آنے کی اجازت کسی صورت نہ ملے گی۔ اسی دوران میں ایک اہم اقدام یہ اٹھایا گیا کہ حسنی مبارک اور اس کے ساتھیوں کے خلاف گذشتہ تقریبا ڈیڑھ برس سے سنے جانے والے مقدمے کا فیصلہ اچانک ۲ جون کو سنادیا گیا۔ ۳۰سال سے سیاہ و سفید کے مالک حکمران کو عمر قید کی سزا سنادی گئی۔ اس مرحلے پر فیصلہ سنانے کا ایک مقصدیہ بھی تھا کہ حسنی مبارک کے خلاف پائی جانے والی گہری عوامی نفرت کو تسکین پہنچاتے ہوئے ،اسے فوجی کونسل اور اس کے نمایندہ سمجھے جانے والے صدارتی اُمیدوار کے حق میں ہموار کیا جائے۔
صرف قرآن کریم کا فرمان ہی ازلی و ابدی سچی حقیقت ہے کہ لَا یَحِیْقُ الْمَکْرُالسَّیِّیُٔ اِلَّا بِاَھْلِہٖ ط (الفاطر۳۵:۴۳ ) ’’حالانکہ بُری چالیں اپنے چلنے والوں ہی کو لے بیٹھتی ہیں‘‘۔ یہ تمام حکومتی چالیں بھی چلنے والوں کی گردن کا پھندا بن گئیں۔ اگر ڈاکٹر محمد مرسی کے مقابل جنرل شفیق کے بجاے کوئی بھی اور اُمیدوار ہوتا،تو عوام کی اتنی اکثریت کبھی اخوان کے اُمیدوار کے گرد اکٹھی نہ ہوپاتی۔ جنرل شفیق کو سامنے دیکھ کر ابوالفتوح جیسے مضبوط اُمیدوار کو بھی مجبوراً اور علانیہ طور پر ڈاکٹر مرسی کی حمایت کرنا پڑی اور بڑی تعداد میں حمدین صباحی کے ووٹرز بھی ان کے ساتھ آگئے۔ اگرچہ خود حمدین نے دوسرے مرحلے کا بائی کاٹ کرنے کی اپیل کرتے ہوئے عملاً جنرل شفیق کو فائدہ پہنچایا۔ اس دوران ایک دل چسپ اشتہار سب کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔ اخوان کے اُمیدوار کی جہازی سائز تصویر تھی اور اس پر لکھا تھا:أنا مش اخوان، ہأدعم دکتور مرسی، ’’میں اخوانی نہیں لیکن میں ڈاکٹرمرسی کو ووٹ دوں گا‘‘۔ اسی طرح حسنی مبارک کو سزا دینے کا ’اعزاز‘ بھی عوام کی نظر میں عبوری حکومت کا جرم ٹھیرا۔ فیصلہ سنتے ہی وسیع و عریض کمرۂ عدالت میں بیٹھے سیکڑوں وکلا اور شہداء کے ورثا نے نعرہ لگایا: الشعب یرید تغییر القضائ، عوام عدلیہ کی تبدیلی چاہتی ہے۔ اور پھر ملک بھر میں دوبارہ مظاہرے شروع ہوگئے کہ سیکڑوں افراد کے قاتل حسنی مبارک کوبا سہولت عمر قیدنہیں، پھانسی دو۔
رہا اسمبلی توڑنے کا فیصلہ تو اگرچہ یہ ایک انتہائی گھناؤنا جرم تھا لیکن اس نے بھی عوام کو مایوس کرنے اور اخوان کا ساتھ چھوڑ دینے پر آمادہ کرنے کے بجاے انھیںاس بات پر یکسو کردیا کہ اگر عوامی فیصلے کی حفاظت کرنا ہے تو باقیات کو مسترد کرنا ہوگا۔ اسمبلی تحلیل کرنے کا پورا فیصلہ ہی مکمل طور پر بے بنیاد اور مضحکہ خیز ہے۔ قومی اسمبلی یعنی ’مجلس الشعب‘ کے انتخاب کے لیے ضابطہ کار، عسکری کونسل اور سیاسی پارٹیوں کی باہمی مشاورت اور اتفاق راے سے طے پایا تھا۔ اس متفق علیہ ضابطے کے مطابق ۴۹۸سیٹوں پر مشتمل ایوان کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ دو تہائی سیٹیں متناسب نمایندگی کی بنیاد پر سیاسی جماعتوں کے لیے رکھی گئیں اور ایک تہائی براہِ راست انفرادی اُمیدواروں کے لیے۔ ووٹنگ تین مرحلوںمیںہوئی، ہر مرحلے کے دو اَدوار تھے۔ اس طرح کاغذات نامزدگی داخل کروانے، انتخابی مہم چلانے اور ووٹنگ مکمل ہونے کا عمل کئی ماہ جاری رہا۔ پھر ارکان اسمبلی کی باقاعدہ حلف برداری ہوئی اور دستور سازی کا عمل شروع ہوگیا۔ لیکن اچانک دستوری عدالت میں ایک اعتراض داخل کیا گیا، کہ انفرادی نشستوں پر اُمیدواروں نے پارٹیوں کی طرف سے نہیں آزاد حیثیت سے انتخاب لڑنا تھا۔ اور پھر پولنگ سے عین ڈیڑھ دن قبل،۳/۱ ارکان کی رکنیت منسوخ کرتے ہوئے نومنتخب اسمبلی تحلیل کرنے کی بنیاد رکھ دی گئی۔ واضح رہے کہ چیف الیکشن کمشنر فاروق سلطان ہی دستوری عدالت کے سربراہ بھی ہیں۔ بالفرض اگر کچھ ارکان کا انتخاب واقعی خلاف ضابطہ تھا، تب بھی صرف ان ارکان کا انتخاب دوبارہ کروایا جاسکتا تھا۔ کروڑوں عوام کے ووٹ، اربوں روپے کے اخراجات اور پوری قوم کے کئی ماہ، یعنی کروڑوں گھنٹے صرف کرکے منتخب ہونے والی پہلی حقیقی اسمبلی تحلیل کرنے کا جواز بدنیتی کے سوا کیا ہوسکتا ہے۔ یہ امر بھی اہم ہے کہ ساری بحث صرف قومی اسمبلی کے ایک تہائی ارکان کے بارے میں تھی، لیکن بات پوری پارلیمنٹ تحلیل کرنے کی پھیلائی جاتی رہی حالانکہ ۲۷۰؍ارکان پر مشتمل، عام انتخابات کے ذریعے منتخب ہونے والی مجلس شوریٰ (یعنی سینٹ) جوں کی توں موجود، بحال اور فعال ہے اور اس میں بھی اکثریت اخوان اور حزب النور ہی کی ہے۔
اخوان نے اس نازک موقع پر انتہائی صبر و حکمت کا ثبوت دیا۔ ’پارلیمنٹ‘ تحلیل کردینے کی خبر پوری قوم پر بجلی بن کر گری۔ ممکن تھا کہ لوگ فوری طور پر اس فیصلے کے خلاف میدان میں آجائیں۔ فوج انھیں کچلنے کے لیے قوت استعمال کرے اورپھر ان فسادات کی آڑ میں صدارتی انتخاب کا پورا عمل ہی لپیٹ دیا جائے۔ اخوان نے دستوری عدالت کا فیصلہ آنے کے چند گھنٹے بعد اپنے موقف کا اعلان کرتے ہوئے ایک اصولی اعلان کیا کہ اس وقت کسی دستوری شق میں کسی بھی فرد یا ادارے کے پاس اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار ہی نہیں ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ اعلان بھی کیا کہ ہماری ساری توجہ صدارتی انتخاب پر مرکوز رہنی چاہیے۔ لوگ میدان تحریر کی طرف ملین مارچ کرنے کے بجاے، پولنگ سٹیشنوںکی طرف لانگ مارچ کریں اور ووٹ کا حق استعمال کریں۔ پھر جیسے ہی ووٹنگ کا عمل تکمیل کو پہنچا اور پورے ملک کے پولنگ سٹیشنوں سے نتائج کی سرکاری دستاویزات جاری ہوگئیں، تو میدان التحریر سمیت ملک کے کونے کونے میں بڑے مظاہرے شروع ہوگئے کہ ہم اسمبلی تحلیل کرنے کا فیصلہ مسترد کرتے ہیں۔
گنتی کے پہلے روز ہی نتائج واضح ہوگئے تھے، متعدد بار جیل جانے والے ڈاکٹرمحمد مرسی تقریباً ۱۰ لاکھ ووٹوں کی اکثریت سے ایک کروڑ ۳۲ لاکھ ۳۰ہزار ایک سو ۳۱ووٹ (۷۳ئ۵۱)لے کر جیت گئے تھے۔ لیکن اچانک جنرل شفیق نے دعویٰ شروع کردیا کہ وہ ۵۲ فی صد ووٹ لے کر جیتے ہیں اور اصل نتیجہ سرکاری نتیجہ ہو گا۔ سرکاری نتائج ۲۱ جون کو آنا تھے، لیکن عین آخری لمحے چیف الیکشن کمشنرنے عذر پیش کیا کہ بہت بڑی تعداد میں ووٹوں پر اعتراضات سامنے آگئے ہیں،اور ان اعتراضات کی تحقیق کرنے کے لیے ہمیں مزید وقت چاہیے۔ ’’فلول‘‘ کے دعوے اور سرکاری نتائج میں تاخیر سے عوام پھر شکوک و شبہات کا شکار ہوگئے۔ الجزائر کے انتخابات یاد آنے لگے اور انقلاب کے ثمرات ضائع ہوتے دکھائی دینے لگے، تو عوام مزید جوش و جذبے سے میدان التحریر میں جمع ہونے لگے۔ ۱۸ جون سے کئی شہروں میں دھرنے شروع ہوگئے۔ ۲۴جون کی شام تک نتائج کے انتظار نے، شرکا کی تعداد بلامبالغہ کئی ملین تک پہنچا دی۔
بالآخرڈاکٹر مرسی کی کامیابی کا اعلان ہوا،اور مصر ہی میں نہیں، پورے خطے میں مسرت کی لہر دوڑ گئی ۔ میدان التحریر میں نعروں کے ساتھ ہی ساتھ شرکا نے عید کی تکبیرات شروع کردیں۔ اللّٰہ اکبر ۔۔اللّٰہ اکبر۔ لا الٰہ الا اللّٰہ و اللّٰہ اکبر..... ان کا کہنا تھا کہ یہ عید الدیمقراطیۃ ، ’’عید جمہوریت ہے‘‘۔خوشی کے ان تمام جذبات سے اہم بات یہ ہے کہ ان شرکا نے اپنا یہ دھرنا تب تک جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے کہ جب تک نومنتخب اسمبلی بحال کرنے اور فوجی کونسل کے بلاحدود اختیارات ختم کرنے کا اعلان نہیں کیا جاتا۔
واضح رہے کہ صدارتی انتخابات کے اسی ہنگامے میں، فوجی عبوری کونسل کے سربراہ فیلڈمارشل محمد حسین طنطاوی نے ایک ’ضمنی دستوری اعلان‘ جاری کرتے ہوئے صدر مملکت کے اکثر اختیارات یا تو خود حاصل کرلیے ہیں یا انھیں فوجی مرضی سے مشروط کر دیا ہے۔اس اعلان کے مطابق فوجی عبوری کونسل کو اسمبلی کی عدم موجودگی میں مقننہ اور انتظامیہ کے اختیارات دے دیے گئے ہیں۔کونسل کو ہرطرح کے احتساب سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا ہے۔ اسے فوجی افسروں کے تقرر و ترقی کے اختیارات دے دیے گئے ہیں۔اسمبلی کی منتخب کردہ دستور ساز کمیٹی کے بجاے نئی کمیٹی مقرر کرنے اور اس کی سفارشات آجانے کے ۱۵روز کے اندر اندر ان پر عوامی ریفرنڈم کرواتے ہوئے ملک کا نیادستور بنا دینے کے لیے روڈمیپ دے دیا گیا ہے۔بندوق کے زور پر بننے والے عبوری کونسل کے سربراہ کو براہ راست عوام کے ووٹ سے منتخب ہونے والے صدر مملکت کے برابر حقوق و اختیاردیتے ہوئے،کسی بھی دستوری شق پر اعتراض کرنے اور اسے واپس پارلیمنٹ بھجوانے کا حق دے دیا گیا ہے ۔ اور پارلیمنٹ کے اصرار کرنے کی صورت میں اس شق کو دستوری عدالت کو بھجوانے کا حکم جاری کیا گیاہے۔
اس وقت میدانوں میں بیٹھے لاکھوں عوام اس دستوری اعلان کی منسوخی اور اسمبلی کی بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔اگر فوجی کونسل ملک کو پھر سے تباہی کے گڑھے میں پھینک دینے پر مصر نہ ہوئی، تو اسے بالآخر عوام کے مطالبات تسلیم کرنا ہوں گے۔ عوام کے لیے قوت واعتماد کا اصل سہارا رب ذوالجلال کی ذات ہے۔ا سی ذات نے ڈاکٹر مرسی کو جیل کی کوٹھڑی سے نکال کر ایوانِ صدر میں پہنچادیا ہے۔نومنتخب صدر نے کامیابی کے بعد قوم سے اپنے پہلے خطاب میں حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کے خلیفہ منتخب ہونے کے موقع پر کہے جانے والے یہ الفاظ متعدد بار دہرائے: ـ’’لوگو مجھے تمھارا ذمہ دار مقرر کیا گیا ہے حالانکہ میںتم سے بہتر نہیںہوں ۔ لوگو! میں اللہ کی اطاعت کروں تو تم میری بات مانو اور اگر میں اللہ کی نافرمانی کروں تو ہرگز میری اطاعت نہ کرو‘‘ ۔انھوں نے قومی اوربین الاقوامی امور پر دوٹوک موقف واضح کرتے ہوئے کہا :’’ میں کسی ایک فرد یا گروہ کا نہیں پوری مصری قوم کا نمایندہ ہوں، تم سب میرے لیے برابر ہو۔میرے حامی ،میرے مخالف،مسلم ،مسیحی، سب میرے لیے یکساں ہیں۔
ڈاکٹر مرسی کی پوری تحریک کا شعار تھا: النہضۃ ارادۃ الشعب، نہضت عوام کا فیصلہ ہے۔ ساتھ ہی لکھا تھا: مصر کی تعمیرو ترقی،اسلامی تعلیمات کے مطابق ۔واضح رہے کہ وہ حافظ قرآن بھی ہیں اور عالمی یونی ورسٹیوں سے انجینیرنگ میں ڈاکٹریٹ بھی کی ہوئی ہے۔ علاقائی اور بین الاقوامی قوتوں سے مخاطب ہوتے ہوئے انھوں نے کہا کہ: ’’ ہم سب سے برابری اور انصاف کی بنیاد پر باہمی تعلقات مستحکم کریں گے۔ قومی مفادات کی روشنی میں بین الاقوامی معاہدوں کی پاس داری کریں گے۔ پھر دوٹوک انداز میںکہا: ’’ہم کسی ملک کے اندرونی معاملات میںمداخلت نہیں کریں گے ، لیکن کسی کو بھی اپنے ملک کے اندرونی معاملات میںمداخلت کی اجازت نہیں دیں گے ‘‘۔ انھوں نے اپنی تقریر کااختتام کرتے ہوئے کہا:’’ میرے عزیز ہم وطنو! میں تمھارے معاملے میں اور اپنے وطن کے معاملے میں اللہ رب العزت سے کبھی خیانت نہیں کروں گا‘‘۔تقریر ختم ہونے کے چند منٹ بعد صدر محمد مرسی کے بیٹے عبد اللہ محمد مرسی نے فیس بُک پر پیغام لکھتے ہوئے کہا : ’’ بابا! یقینا ہم صرف اللہ کی اطاعت میں آپ کی اطاعت کریں گے، اللہ کی نافرمانی ہوئی تو آپ کی نہیں اپنے رب کی اطاعت کریں گے‘‘۔
جب بیٹا بھی باپ اور صدر مملکت کی اطاعت کو اللہ کی اطاعت سے مشروط کر دے، توپھر رب ذوالجلال کی رحمتیں اورنصرت بھی یقینا شامل حال ہوتی ہیں ۔ وہی تو ہے جو اقتدار دیتا اورچھینتا ہے ، عزت دیتا یا ذلت کے گڑھوں میںپھینک دیتا ہے ( قُلِ اللّٰھُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآئُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآئُ وَ تُعِزُّ مَنْ تَشَآئُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَآئُ ط بِیَدِکَ الْخَیْرُ ط اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ ۔ اٰلِ عمران۳:۲۶)
سوال: اگر شرعی حجاب کے ساتھ عورت نمازِ تراویح یا کسی بھی فرض نماز کے لیے مسجد جائے تو کیا اسے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا وہی اجر و ثواب حاصل ہوگا جو مرد کو ہوتا ہے، یا یہ اجر وثواب مردوں کے لیے مخصوص ہے؟
جواب: تمام فقہا کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عورت اگر اپنے گھر میں نماز پڑھے چاہے تنہا ہی پڑھے اس کا اجروثواب مسجد میں باجماعت نماز پڑھنے سے زیادہ ہے۔ جیسے حضرت اُم سلمہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خَیْرُ مَسَاجِدِ النِّسَائِ قَعْرُبُیُوْتِھِنَّ (احمد) ’’عورتوں کے لیے بہترین مسجد، ان کے گھر کا ایک کونہ ہے‘‘۔جماعت کی فضیلت کا اجروثواب مردوں کے ساتھ مخصوص ہے، مردوں کو ہی حکم دیا گیا ہے کہ وہ مسجد میں آکر نماز پڑھیں، البتہ نمازِعید کے لیے نکلنے کا حکم مردو عورت دونوں کے لیے ہے۔
فقہا کا تو اس بارے میں بھی اختلاف ہے کہ عورتیں اپنے گھروں یا خواتین کے مدارس اور کالجوں، جامعات وغیرہ میں باجماعت نماز پڑھ سکتی ہیں یا نہیں؟ بعض فقہا کے نزدیک ایسا کرنا سنت ہے، بعض کے نزدیک مباح، اور بعض کے نزدیک عورتوں کے لیے اپنی جماعت کرانا مکروہ ہے۔ جو فقہا عورتوں کی جماعت کو جائز بلکہ مستحب کہتے ہیں ان کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اُم ورقہؓ کو اپنے گھر والوں کو باجماعت نماز پڑھانے کی اجازت دی تھی۔ اُم المومنین حضرت عائشہؓ کے بارے میں روایتیں ملتی ہیں کہ بعض اوقات انھوں نے عورتوں کی امامت کرائی اور صف میں ان کے درمیان کھڑی ہوئیں اور بلندآواز سے قراء ت کی۔ حضرت اُم سلمہؓ رمضان میں عورتوں کو نماز پڑھاتی تھیں اور صف میں ان کے درمیان کھڑی ہوتی تھیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ اپنی ایک کنیز کو کہتے تھے کہ وہ رمضان میں ان کے گھر کی خواتین کی امامت کرائیں۔(ڈاکٹرعبدالحی ابڑو)
س: جو لوگ نمازیوں اور تہجد پڑھنے اور قیام اللیل کرنے والوں کے لیے سحری یا کھانا تیار کرتے ہیں اور اس وجہ سے خود تہجد نہیں پڑھ سکتے، کیا انھیں بھی تہجد پڑھنے کا ثواب ملتا ہے؟
ج: بلاشبہہ جو لوگ تہجد اور قیام اللیل کرنے والے روزہ داروں کے لیے سحری کا کھانا تیار کرتے ہیں، انھیں تہجد پڑھنے والوں کے برابر ثواب ملتا ہے، بلکہ ہوسکتا ہے ان کا ثواب اُن سے بڑھ کر ہو۔ بخاری و مسلم کی روایت ہے حضرت انسؓ کہتے ہیں:ہم آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے۔ کچھ لوگوں نے روزہ رکھا ہوا تھا اور کچھ نے نہیں۔ گرم دن تھا، ایک جگہ ہمارا پڑائو ہوا، سایے کا کوئی بندوبست نہ تھا، لوگ اپنی چادروں یا اپنے ہاتھوں سے سورج کی تپش سے بچنے کی کوشش کر رہے تھے۔ جن لوگوں نے روزہ رکھا ہوا تھا وہ گرگئے اور جنھوں نے روزہ نہیں رکھا تھا وہ اُٹھے، سایے کا بندوبست کیا، سواری کے جانوروں کو پانی پلایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آج بے روزہ لوگ اجروثواب لے گئے‘‘۔ دوسری حدیث میں آپؐ کا ارشاد ہے: مَنْ جَھَّز غَازِیًا فَقَدْ غَذَا (جس نے کسی جہاد پر جانے والے کو سازوسامان مہیا کیا، گویا وہ خود جہاد میں شریک ہوا)۔ سحری تیار کرنے والوں کو تہجد کی نماز کا اپنا حصہ بالکل چھوڑ نہیں دینا چاہیے، تھوڑا بہت قیام کرلینا چاہیے۔ بالخصوص اگر باجماعت قیام اللیل کی نماز ہورہی ہے تو آخری حصے، یعنی وتر نماز میں شریک ہونا چاہیے، تاکہ انھیں جماعت میں شریک ہونے اور امام کے ساتھ نماز ختم کرنے کا اجر حاصل ہو جو پوری رات قیام کرنے کے برابر ہے۔(ڈاکٹرعبدالحی ابڑو)
س: رمضان کے آغاز پر میں نے اپنے آپ سے عہد کیا تھا کہ قرآن مجید کے کئی ختم کروں گا مگر افسوس ہے کہ مجھے وقت نہیں مل رہا۔ آٹھ دس گھنٹے کام کر کے جب گھر واپس آتا ہوں تو افطار کا وقت قریب ہوتا ہے۔ افطار کے بعد تھکاوٹ کی وجہ سے کوئی کام نہیں کرپاتا۔ بمشکل نماز ادا کر کے صبح تک آرام کرتا ہوں۔ مجھے کیا کرنا چاہیے؟
ج: مومن سے تقاضا یہ ہے کہ دنیا اور آخرت دونوں کی بھلائیاں بیک وقت حاصل کرے، نہ آخرت کے بہانے دنیا کو بالکل چھوڑ دے اور نہ دنیا میں منہمک ہوکر آخرت ہی کو بھول جائے۔ دنیا تو آخرت کا زینہ ہے۔ اس سے آخرت کے لیے زادِ راہ حاصل کرنا ہے۔ دنیا آخری ٹھکانا نہیں، بلکہ یہ ایک گزر گاہ ہے جہاں سے انسان نے آخرت کی طرف کوچ کرنا ہے۔ عقل مند وہ ہے جو اس کوچ اور سفر کے لیے تیاری کرے۔ اسی لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: سب سے زیادہ عقل مند انسان کون ہے؟ آپؐ نے فرمایا: جو موت کو بہت زیادہ یاد رکھتا ہے اور اس کے لیے سخت تیاری کرتا ہے (طبرانی)۔ چنانچہ کوچ کے دن کے لیے تیاری انتہائی ضروری ہے۔
انسان کو چاہیے کہ بیک وقت دنیا کے لیے بھی سعی و جہد کرے اور آخرت کے لیے بھی ۔ انسان کو گھر، لباس، خوراک اور مال و متاع چاہیے تاکہ اس کا تن بدن زندہ و سلامت رہے، ساتھ ساتھ اسے درست ایمان، نماز، روزہ، اللہ تعالیٰ کے ذکر، قرآن کی تلاوت اور لوگوں کے ساتھ نیکی وغیرہ کی بھی ضرورت ہے تاکہ اس کا دل اور روح زندہ رہے۔ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ ج (انفال ۸:۲۴) ’’اے ایمان والو! اللہ اور اس کے بلاوے پر لبیک کہو۔ جب وہ تمھیں ایسے کاموں کی طرف بلائیں جن میں تمھاری زندگی ہے‘‘۔ چنانچہ ایک مسلمان کو اس بات کی ضرورت ہے کہ رمضان میں یا رمضان کے علاوہ قرآن مجید کی تلاوت کرے۔ اس کا روزانہ قرآن مجید کا ایک مقررہ ورد ہونا چاہیے تاکہ وہ قرآن کا زیادہ سے زیادہ ۴۰ دن تک ایک ختم کرسکے، جب کہ ماہِ رمضان میں اس سے زیادہ ہونا چاہیے۔ رمضان عبادات اور تلاوتِ قرآن کا سب سے اچھا موسم ہے۔ آپ اپنے وقت کی تنظیم نو کریں، ایک گھنٹہ نکال کر آپ دو پاروں سے زیادہ کی تلاوت کرسکتے ہیں۔ اس طرح آپ دو یا تین بار ختم قرآن کرسکتے ہیں۔ جو وقت آپ کا گاڑی یا بس میں گزرتا ہے، اس کو استعمال کرسکتے ہیں۔ مُصحف کا نسخہ ہمیشہ آپ کے پاس ہونا چاہیے۔ اس طرح اگر آپ اس وقت کو ہی استعمال کریں تو اس مختصر وقت میں کئی بار ختم قرآن کرسکتے ہیں۔ آپ دفتر یا کاروبار سے کام کا دورانیہ بھی کم کروا سکتے ہیں چاہے اس سے آپ کی تنخواہ اور آمدنی میں کچھ کمی ہی واقع ہو۔ اس قربانی کا اللہ آپ کو بہتر بدل عطا فرمائے گا۔ رمضان کا آخری عشرہ پورا یا اس کے چند دن آپ چھٹی بھی لے سکتے ہیں۔ مطلب یہ کہ اس ماہِ مبارک سے حتی الوسع استفادے کی کوشش کریں۔ اللہ ہمیں اپنی اطاعت میں لگا دے۔
اگر کام کا دورانیہ کم کرنا یا چھٹی لینا ممکن نہ ہو تو بھی اپنی طاقت کے مطابق امکانی حد تک اپنے وقت کا پورا پورا فائدہ اُٹھانے کی کوشش کیجیے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے جان لیا کہ قرآن کی تلاوت کا آپ کو کس قدر شوق ہے اور اگر کام کی رکاوٹ نہ ہوتی تو آپ اس شوق کو ضرور پورا کرتے، تو اللہ آپ کو اس نیت کے مطابق اجروثواب سے ضرور نوازیں گے۔(ڈاکٹرعبدالحی ابڑو)
س: کیا ایک آدمی روزے کی خاطر اپنا گرم علاقہ چھوڑ کر کسی ٹھنڈے علاقے کی طرف یا ایسے ملک کی طرف جہاں دن چھوٹا ہوتا ہے، جاسکتا ہے؟
ج: اس میں کوئی حرج نہیں۔ ایسا کرنے سے عبادت کی ادایگی میں آسانی ہوسکتی ہے، اور عبادت میں آسانی پیدا کرنا مطلوب چیز ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں پیاس یا گرمی کی وجہ سے سر پر پانی ڈالتے تھے (احمد، ابوداؤد)۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ روزے کی حالت میں کپڑا بھگو کر اُوپر لے لیتے تھے۔ حضرت انسؓ کا ایک پانی کا حوض ہوتا، روزے کی حالت میں آپ اس میں چلے جاتے تھے۔ مقصد عبادت کی مشقت کو کم کرنا تھا۔ عبادت میں مشقت جس قدر کم ہوگی بندہ پوری توجہ، انہماک اور اطمینان سے اسے ادا کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشاب روک کر نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ اسی طرح آں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کھانا لگ چکا ہو یا رفع حاجت کی ضرورت ہو تو اس صورت میں نماز نہیں پڑھنی چاہیے (مسلم)۔یہ احکام اس لیے دیے گئے ہیں تاکہ بندہ جب عبادت کر رہا ہو وہ پوری طرح راحت و اطمینان سے ہو اور اپنے رب کی طرف ہمہ تن متوجہ ہو۔ اس لیے اگر روزے دار ایئرکنڈیشنڈ یا ٹھنڈے کمرے میں وقت گزارے تو کوئی حرج نہیں۔(ڈاکٹرعبدالحی ابڑو)
س: میرے چند روزے شرعی عذر (یعنی ایام) کی وجہ سے پچھلے رمضان میں قضا ہوگئے تھے، مگر میں نے ابھی تک قضا روزے نہیں رکھے۔ اب دوسرا ماہِ رمضان شروع ہوگیا ہے، مجھے کیا کرنا چاہیے؟
ج: مریض، مسافر، شرعی عذر رکھنے والی عورت کے لیے بنیادی حکم تو یہی ہے کہ ان کے جو روزے قضا ہوں، عذر ختم ہونے کے بعد جلد رکھ لینے چاہییں تاکہ وہ اس فرض سے سبکدوش ہوجائیں۔ اگر ان کا ارادہ قضا روزے رکھنے کا تھا مگر نہ رکھ سکیں تو ان شاء اللہ تاخیر سے وہ گنہگار نہ ہوں گے، اس لیے کہ ان کی فوری قضا فرض نہیں۔ چنانچہ وہ قضا روزے رکھنے سے پہلے دیگر نفلی روزے بھی رکھ سکتے ہیں۔ بخاری و مسلم میں حضرت عائشہؓ کا یہ قول ملتا ہے کہ میرے ذمے رمضان کے قضا روزے ہوتے تھے اور مَیں وہ شعبان میں ہی رکھ پاتی تھی، حالانکہ آپؓ سال کے دوران دیگر نفلی روزے بھی رکھتی تھیں۔
مطلب یہ کہ دوسرا رمضان آنے تک اگر پچھلے رمضان کے قضا روزے نہ رکھے جاسکے اور اس کی وجہ کوئی مجبوری تھی تو تمام فقہا کے نزدیک اس تاخیر پر اس کا کوئی مواخذہ یا کفارہ نہیں۔ لیکن اگر کسی مجبوری یا عذر کے بغیر اس نے قضا روزے نہ رکھے تو کئی صحابہ کی راے ہے کہ اس تاخیر پر ہر روزے کے بدلے میں قضا کے ساتھ ساتھ ایک مسکین کی ایک دن کی خوراک کا کفارہ بھی ادا کرے۔ تینوں ائمہ امام مالک، شافعی اور احمد کی راے بھی یہی ہے۔ دوسری راے یہ ہے کہ اس پر صرف روزوں کی قضا لازم ہے ، کوئی کفارہ نہیں۔ امام ابوحنیفہ اور آپ کے شاگردوں کی یہی راے ہے۔ مسلک اہلِ حدیث کے عالم نواب صدیق حسن خان نے بھی اسی راے کو ترجیح دی ہے۔ لیکن اگر استطاعت ہو تو جمہور کی راے کے مطابق قضا کے ساتھ کفارہ بھی ادا کیا جائے، تو یہ زیادہ بہتر اور مستحب ہے۔ اگر صرف روزے ہی رکھ لیے جائیں تو بھی کوئی حرج نہیں۔ (ڈاکٹرعبدالحی ابڑو)
س: یہ بات واضح ہے کہ رمضان میں کسی روزہ دار کو افطار کرانابڑے اجروثواب کا کام ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس روزہ دار سے مراد کون ہے؟ مسافر یا وہ جو خود افطار کرنے کی مالی استطاعت نہیں رکھتا، یا کوئی اور جو مالی لحاظ سے خوش حال ہو؟ ہم یہاں مسلم کمیونٹی کے افراد خوش حال زندگی گزار رہے ہیں۔ محض تفاخر اور ایک دوسرے کے مقابلے کے لیے افطار پارٹیاں کرتے ہیں۔ کیا اس سے بھی اجروثواب حاصل ہوتا ہے؟
ج: روزہ دار کو روزہ افطار کرانے والے کو روزہ دار کے برابر اجر ملے گا اور اس سے روزہ دار کے اجر میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔ یہ اجروثواب بلاتفریق ہر روزہ دار کو افطار کرانے پر ملتا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ روزہ دار نادار و محتاج ہو، اس لیے کہ یہ بطور صدقہ و خیرات نہیں بلکہ بطور ہدیہ ہے اور ہدیہ کے لیے یہ شرط نہیں کہ جس کو ہدیہ اور تحفہ دیا جا رہا ہے وہ فقیر اور ضرورت مند ہو، بلکہ تحفہ خوش حال اور نادار دونوں کو دیا جاسکتا ہے۔ دوسری طرف وہ دعوتیں جو نمود و نمایش اور تفاخر کے لیے کی جائیں، درست نہیں۔ ایسی دعوتیں کرنے والوں کو اجروثواب نہیں ملتا، وہ اپنے آپ کو بڑے اجر سے محروم کردیتے ہیں۔ جس کو ایسی پارٹیوں کی دعوت دی جائے تو اسے ان میں شریک نہیں ہونا چاہیے، اور معذرت کرتے ہوئے حکیمانہ انداز سے مدعو کرنے والے کو سمجھانا چاہیے،اور کسی مخصوص شخص کو ٹارگٹ بنانے کے بجاے عمومی انداز سے بات کرتے ہوئے شریعت کا حکم واضح کرنا چاہیے۔ نرمی اور حکمت سے کی گئی بات کا بہرحال اثر ہوکر رہتا ہے۔(ڈاکٹرعبدالحی ابڑو)
س: کیا افطار کی دعوت سے وقت ضائع ہونے کی بنا پر معذرت کی جاسکتی ہے؟
ج: ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر جو حقوق ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کی دعوت کو قبول کیا جائے، مگر اگر کوئی مجبوری ہو تو خوش گوار انداز سے معذرت بھی کی جاسکتی ہے۔ رمضان میں کی جانے والی بعض افطار پارٹیوں میں مغرب کی نماز باجماعت ادا کرنے کا اہتمام نہیں کیا جاتا، بلکہ بعض صورتوں میں تو نمازِ عشاء اور تراویح بھی ضائع ہوجاتی ہے۔ اس طرح کی افطار پارٹیوں میں شرکت سے معذرت کی جائے۔ اس طرح عبادات اور ذکر الٰہی کے لیے وقت بچایا جاسکتا ہے، خاص طور پر رمضان کے ان قیمتی لمحات میں، جب کہ عبادات کا اجروثواب کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔ (ڈاکٹرعبدالحی ابڑو)
س: میرا ایک دوست ہے، جسے میں نے بطور قرض ۳۰۰ دینار دیے تھے۔ اس وقت وہ طالب علم تھا۔ اب وہ فراغت حاصل کرچکا ہے لیکن اب تک اسے کوئی نوکری نہیں ملی ہے۔ اس کی مالی پوزیشن خراب دیکھتے ہوئے میں نے اس رقم پر جو زکوٰۃ واجب ہوتی ہے، وہ اسے دے دی۔ کیا میرا یہ عمل درست ہے؟ کیا میں اس رقم کی زکوٰۃ نکالتا رہوں جو بہ دستور میرے دوست پر قرض ہے؟
ج: قرض کی واپسی اگر کسی بھی مرحلے میں ممکن ہے، یعنی جس کے بارے میں یہ خیال ہو کہ وہ کبھی نہ کبھی واپس مل جائے گا، تواس پر جمہور فقہا کے نزدیک ہر سال زکوٰۃ واجب ہے۔ بعض فقہا کے نزدیک اس کی زکوٰۃ اسی وقت واجب ہوتی ہے جب وہ واپس مل جائے، لیکن اگر قرض کی واپسی ناممکن ہو تو ایسی صورت میں اس پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ البتہ ناممکن ہونے کے باوجود وہ رقم کسی مرحلے میں واپس مل جائے تو اس پر صرف ایک سال کی زکوٰۃ واجب ہے۔
آپ نے اپنے دوست کی خراب مالی پوزیشن کے پیش نظر اس رقم کی زکوٰۃ اسے دے دی یہ بالکل جائز ہے، کیوں کہ آپ کا دوست مسکین کے زمرے میں شمار کیا جائے گا، یا اپنے گھر والوں سے دُور ہے تو مسافر شمار کیا جائے گا۔ یونی ورسٹی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد اسے زکوٰۃ کی رقم دی جاسکتی ہے کیوں کہ محض ڈگری نہ اس کا پیٹ بھرسکتی ہے اور نہ تن ڈھانپ سکتی ہے، بلکہ یہ بھی جائز ہے کہ آپ یہ قرض معاف کر دیں اور اس رقم کو آپ زکوٰۃ شمار کرلیں جیساکہ بعض فقہا کا قول ہے۔(ڈاکٹر یوسف قرضاوی،فتاویٰ یوسف قرضاوی، ترجمہ: سید زاہد اصغرفلاحی، مرکزی مکتبہ اسلامی، نئی دہلی، ص ۱۴۱)
س: میرے پاس چند قطعہ اراضی ہیں جنھیں میں نے ایک مدت قبل خریدا تھا۔ اگر اس پر زکوٰۃ ادا کرنا واجب ہے تو کیا اُس قیمت کے لحاظ سے ادا کی جائے گی، جس قیمت پر میں نے اس زمین کو برسوں قبل خریدا تھا، یا ہر سال زکوٰۃ کی ادائی کے وقت اس کی حالیہ قیمت کے لحاظ سے؟ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ ہرسال زمین کی قیمت نکالنا ایک مسئلہ ہے۔
ج: زکوٰۃ کی ادایگی کے اعتبار سے زمین کی دو قسمیں ہیں:
۱- ایک زمین وہ ہوتی ہے جسے انسان صرف اس نیت سے خریدتا ہے کہ کچھ مدت گزرنے کے بعد جب اس کی قیمت میں خاطرخواہ اضافہ ہوگا، تو اسے فروخت کرکے کچھ فائدہ کما لے۔ ایسی صورت میں زمین کی حیثیت عروض التجارۃ (مالِ تجارت) کی سی ہے۔ چنانچہ جس طرح مالِ تجارت کی قیمت کا اندازہ کر کے اس کی زکوٰۃ نکالی جاتی ہے، اسی طرح اس زمین کی قیمت کا اندازہ کر کے اس پر ڈھائی فی صد کے حساب سے زکوٰۃ ادا کی جائے گی۔ یہ امر ملحوظ رہے کہ قیمت کا اندازہ ہرسال لگایا جائے کیوں کہ ہرسال اس کی قیمت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ جب اس کی قیمت میں اضافہ ہورہا ہے تو بلاشبہہ اس کی زکوٰۃ کی مقدار میں بھی اضافہ ہونا چاہیے۔ یہی جمہور علما و فقہا کا قول ہے۔ البتہ امام مالک کہتے ہیں کہ زمین کی قیمت کا اندازہ صرف ایک بار لگایا جائے اور اس کی زکوٰۃ بھی صرف ایک بار ادا کی جائے گی، یعنی اسے فروخت کرتے وقت، اس زمین کی جو قیمت ملتی ہے اس میں سے ڈھائی فی صد زکوٰۃ کی مد میں نکال دیا جائے گا۔ بہرحال جمہور علما کا قول زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتا ہے کیوں کہ جس زمین کو آپ نے اس سال ۱۰ ہزار میں خریدا ہے، دو سال کے بعد آپ اسے ۵۰ہزار میں فروخت کرتے ہیں، تو کیا آپ کا ضمیر گوارا کرے گا کہ زکوٰۃ صرف ۱۰ہزار پر نکالیں؟ بعض حالتوں میں امام مالک کے مسلک پر بھی عمل کیا جاسکتا ہے، مثلاً ایسی حالت میں کہ زمین کی قیمت بہت گر گئی ہو۔ آپ نے اسے ۱۰ہزار میں خریدا اور کئی سال گزرنے کے باوجود اس کی قیمت۱۰ہزار سے بھی کم ہو۔ ایسی صورت میں امام مالک کے مسلک پر عمل کیا جاسکتا ہے۔
۲- دوسری زمین وہ ہوتی ہے، جسے فروخت کرنے کے لیے نہیں بلکہ اس پر کرایے کی خاطر دکان یا مکان بنانے کے لیے خریدتے ہیں۔ ایسی زمین پر کوئی زکوٰۃ نہیں ہے۔ البتہ تعمیر کا کام مکمل ہوجانے کے بعد جو کرایہ اس دکان یا مکان سے آئے گا اس پر زکوٰۃ ادا کرنا واجب ہوگا۔ (ڈاکٹر محمد یوسف قرضاوی،ایضاً، ص ۱۳۹-۱۴۰)
ابوعیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی(م: ۲۷۹ھ) کے روایت کردہ مجموعۂ احادیث جامع ترمذی کا شمار صحاحِ ستہ میں ہوتا ہے۔ یہی مجموعہ امام کی شہرت کا باعث ہے۔ اس بہت بڑے اعزاز کے ساتھ انھیں یہ سعادت بھی حاصل ہوئی کہ انھوں نے رسول کریمؐ کی شخصیت ، عادات و خصائل اور آداب و اخلاق کے بارے میں محدثانہ اسلوب میں الشمائل کے نام سے ایک کتاب مرتب فرمائی۔ غالباً امام ترمذی محدثین میں سے پہلے فرد ہیں جنھوں نے اس موضوع پر احادیث کو باقاعدہ طور پر یک جا کیا۔ آپ کے بعد ا س موضوع پر بہت سے علماے حدیث نے کام کیا جن میں امام بغوی (م: ۵۱۶ھ)، امام نسفی (م: ۴۳۲ھ) ، امام اصبہانی (م: ۳۶۹ھ)، ابن کثیر (۷۷۴ھ) اور السیوطی (۹۱۱ھ) کے نام نمایاں ہیں۔ ان تمام کتب میں شمائل ترمذی کو جو قبولِ عام حاصل ہوا، اس کا تسلسل اب بھی قائم ہے۔
شمائل ترمذی کی متعدد عربی شرحیں بھی علماے حدیث نے رقم کی ہیں۔ ان میں مُلّاعلی قاری (م: ۱۰۱۶ھ)، ابراہیم الشافعی (م:۱۲۷۷ھ) اور ناصرالدین الالبانی (م:۱۴۲۰ھ) کے نام معروف ہیں۔ شمائل ترمذی کی اُردو شرح پر بھی خاصا کام ہوا ہے۔ ان میں شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا، امیرشاہ گیلانی،عبدالصمد ریالوی و منیراحمد وقار اور عبدالقیوم حقانی کی شروح معروف ہیں۔
اُردو میں موجود ان شرحوں میں زیرنظر کتاب کی صورت میں ایک جان دار اضافہ شمائل ترمذی: ترجمہ، تحقیق و فوائد کے نام سے سامنے آیا ہے۔ مصنف علمِ جرح و تعدیل پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ انھوں نے شمائل ترمذیکے ترجمہ و شرح کو تحقیقی خوبیوں سے آراستہ کرکے پیش کیا ہے۔ ترجمانی اور تحقیق میں توازن اور جامعیت سے کام لیا گیا ہے۔دو قلمی نسخوں اور بعض مطبوعہ نسخوں سے تقابل کرکے متن کی تصحیح کی گئی ہے۔ عربی متن کے ساتھ اُردو ترجمے کے بعد ہرحدیث کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ صحیح ہے، حسن ہے یا ضعیف وغیرہ۔ امام ترمذی نے جن محدثین کی روایت کردہ احادیث کا ذکر کیا ہے، اُن کے حوالے بھی درج کردیے گئے ہیں۔’شرح و فوائد‘ کے عنوان سے مختصر مگر جامع شرح میں مفید نکات ملتے ہیں۔ آغازِ کتاب میں اُردو اور آخر میں عربی فہرست ِابواب دی گئی ہے۔ ۵۶؍ابواب میں ۴۱۷ احادیث کا مستند متن، آسان ترجمہ، اسنادی حیثیت اور مختصر شرح پیش کی گئی ہے۔
اس کا اسلوبِ تحریر و تحقیق خالصتاً محدثانہ و عالمانہ ہے۔ اس بنا پر یہ کتاب عوام کی نسبت علمِ حدیث کے طلبہ، اساتذہ، محققین اور مقررین و خطبا کے لیے زیادہ مفید ثابت ہوگی۔شمائل ترمذیکی اُردوشرحوں میں اس کتاب کو سب سے مستند اور جامع قرار دیا جانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ فاضل مصنف کو اس کاوش پر اجرعظیم عطا فرمائے۔ آمین! (ارشاد الرحمٰن)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر لکھی گئی کتب میں آپؐ کی شخصیت کے کسی نہ کسی پہلو کو نمایاں کر کے پیش کیا گیا ہے۔ سیرت النبیؐ پر بعض کتب تصوف کا رنگ لیے ہوتی ہیں، بعض دوسری کتابوں میں ان کے مجاہدانہ کارناموں کو اُجاگر کیا گیا ہے۔ زیرتبصرہ کتاب کے مصنف نے بنی نوعِ انسان کو یہ باور کرایا ہے کہ وہ آپس کی نفرت و کدورت، لڑائی جھگڑے میں نہ اُلجھیں اور سب اپنے آقا کی تابع داری میں لگ جائیں (ص ۳۱)۔ یہ کتاب بنیادی طور پر اہلِ مغرب کے لیے انگریزی زبان میں لکھی گئی اور امریکا میں شائع ہوئی۔ اس کا اُردو ترجمہ بھی مصنف نے خود کیا ہے۔ کتاب ۲۲۲عنوانات اور ۳۲۵ ذیلی عنوانات پر مشتمل ہے، ان تمام چھوٹے بڑے عنوانات کے تحت حضور اکرمؐ کی پیدایش سے قبل، عالمی مذہبی حالت، سیاسی تاریخ، قبائل کے حالات، حضور اکرمؐ کے اجداد اور عرب تہذیب و ثقافت، حضور اکرمؐ کی پیدایش، آپؐ کی بعثت اور سیرت و سوانح سے متعلق تفصیلات سے لے کر آپؐ کی وفات تک کے حالات بیان کیے گئے ہیں۔ حسب ِضرورت قرآنی آیات اور احادیث کا حوالہ دیا گیا ہے۔ کتاب میں سیرت النبیؐ اور قرآنی تعلیمات کو حالاتِ حاضرہ سے مطابقت دینے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ مصنف حضور اکرمؐ کی سیرتِ مبارکہ کے واقعات قلم بند کرتے ہوئے آج کے مسلمانوں کو دعوتِ عمل دیتے ہیں اور صورت حال کی تبدیلی اور ترقی کی ترغیب بھی دیتے ہیں۔
کتاب کے آخری حصے میں مسلمان اقوام کے زوال کے اسباب لکھے گئے ہیں جن میں سب سے بڑی وجہ ملوکیت کا تسلط ہے۔ قرآن و سنت ترک کر دینے کی بنا پر مسلمانوں پر نکبت و ادبار کی گھٹا چھانے لگی۔ اس کے ازالے کے لیے اُسی صراطِ مستقیم کو اختیار کرنے پر زور دیا گیا ہے جو رسول اکرمؐ نے طے کردی۔ آج انسان تمام قسم کے نظریاتی ازموں کو آزماچکا ہے، اسے اگر سکون و قرار مل سکتا ہے تو قرآن و سنت کے مطابق ضابطۂ حیات اپنانے سے مل سکتا ہے۔ (ظفرحجازی)
پاکستان سے ہر سال دو لاکھ مسلمان فریضۂ حج ادا کرتے ہیں۔ اگر یہ سوال ہو کہ ان میں سے کتنے حج کے مسائل اور احکام سے پوری طرح واقف ہوتے ہیں اور شعوری طور پر احکامِ حج پر عمل پیرا بھی ہوتے ہیں تو اس کا جواب آسان نہ ہوگا۔ پس اسی لیے نہایتضروری ہے کہ عازمِ حج پہلی بار ہی مسائل کا بخوبی مطالعہ کر کے، تربیت حاصل کر کے اور یوں احکام و مسائل سے پوری طرح واقف ہوکر سفرمقدس پر روانہ ہو۔ اس تربیت اور واقفیت کے لیے زیرنظر کتاب عازمینِ حج کی بخوبی اور کافی و شافی راہ نمائی کرتی ہے۔ مؤلفہ کو دو تین بار حج و عمرے کا موقع ملا۔ اولین حج (۱۹۸۸ئ) کے بعد ہی سے انھوں نے اپنے تجربات کی روشنی میں ایک راہ نما کتاب کی تیاری شروع کردی تھی جو اُن کے ۲۰، ۲۲ برسوں کے مشاہدے کے نتیجے اور مطالعے کے نچوڑ کے طور پر ہمارے سامنے ہے۔ اس کی ضخیم کتاب میں حج اور عمرے کے احکام و مسائل اور جملہ متعلقات کو بنیادی مآخذ کی مدد سے سادہ اور عام فہم انداز میں شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
مسائل و احکام کی تشریح اور وضاحت کا زیادہ تر رُخ خواتین عازمینِ حج و عمرہ کی طرف ہے۔ اور یہ اس لیے کہ عام کتابوں میں خواتین کے لیے احکام کو وضاحت و تفصیل سے اور عام فہم انداز میں بیان نہیں کیا جاتا تاہم مرد عازمین کو بھی اس کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے کوئی کمی محسوس نہیں ہوگی۔ بجا طور پر سرورق پر لکھا گیا ہے: ’’مکمل راہنما کتاب براے خواتین و حضرات‘‘۔ حاجیوں کو تربیت دینے والے افراد اور ادارے (ٹرینر) بھی فقط اسی ایک کتاب کی مدد سے عازمینِ حج کی بخوبی تربیت کرسکتے ہیں۔
اس نوع کی کتابوں کے اندر عموماً مسلکی اختلافات اور ترجیحات کسی نہ کسی طور جھلکتی ہیں۔ اس کتاب میں فقہی اختلافات کا ذکر تو ہے مگر کسی ایک مسلک کی راے کو دوسروں پر ترجیح نہیں دی گئی۔ چنانچہ مختلف مسالک کے قدیم و جدید علما (مولانا محمد میاں صدیقی، مولانا عبدالمالک، مولانا محمد راغب حسین نعیمی، مولانا مصباح الرحمن یوسفی اور ڈاکٹر حبیب الرحمن عاصم وغیرہ) نے مؤلفہ کی اس کاوش کی تحسین کی ہے، بلاشبہہ اپنے موضوع پر یہ ایک جامع، عمدہ، مستند اور متوازن کتاب ہے جس کی تصنیف و تالیف توفیق الٰہی کے بغیر ممکن نہ تھی۔ محترمہ شگفتہ عمر صاحبہ مبارک باد کی مستحق ہیں۔ یہ کتاب لکھ کر گویا انھوں نے آخرت کا زادِر اہ تیار کرلیا ہے۔ مجلد کتاب مناظر و مراحلِ حج کی رنگین تصاویر سے مزین ہے۔ کاغذ عمدہ اور طباعت بے داغ مگر قیمت زیادہ محسوس ہوتی ہے۔
ساڑھے چار سو صفحات کا مطالعہ ہر عازمِ حج و عمرہ کے لیے ممکن نہیں چنانچہ مؤلفہ نے کم ضخامت کے چند کتابچے بھی شائع کیے ہیں (حجاج کرام کے لیے مفید معلومات اور مشورے، ۱۶۰ص۔ تاریخ و فلسفہ حج، ۲۸ص، راہنما بروشر وغیرہ) جن میں ضروری مسائل اور ہدایات کو مختصراً بیان کردیا گیا ہے۔ (دو کتابچے انگریزی میں بھی ہیں)۔ (رفیع الدین ہاشمی)
سید فیاض الدین احمد صحافت و ادب سے گذشتہ ۴۵ برس سے وابستہ ہیں، اور اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جس نے پاکستان بنتے دیکھا اور پھر ان کی نظروں کے سامنے ۲۵ برس بعد ملک دولخت ہوگیا۔ آج، جب کہ تیسری نسل پروان چڑھ رہی ہے وہ ہر محب وطن پاکستانی کی طرح ملک کی سلامتی اور بگڑتی ہوئی صورت حال کے بارے میں تشویش سے دوچار ہیں۔ انھوں نے عوام کے جذبات کو زبان دیتے ہوئے ان کے دل کی بات کو سچّی بات کی صورت میں پیش کردیا ہے۔
کتاب مختلف مواقع پر لکھے گئے کالموں کا مجموعہ ہے۔ مصنف نے ملکی سلامتی کو درپیش خطرات، مایوسی اور بے یقینی کی کیفیت، امریکا کی بالادستی اور بڑھتی ہوئی دراندازی، دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نتائج اور خمیازہ، معاشی بحران، قرضوں کا بوجھ اور بڑھتی ہوئی مہنگائی، اداروں کی بدحالی، لوڈشیڈنگ، معاشرتی مسائل، اخلاقی انحطاط اور دیگر موضوعات پر قلم اُٹھایا ہے۔ انھوں نے جہاں مسائل کی نشان دہی کی ہے، وہاں اُمید کا دامن بھی ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور مسائل کے حل کے لیے عملی تجاویز پیش کی ہیں۔ ملکی تاریخ کے اہم مراحل کا تذکرہ کرتے ہوئے مشرقی پاکستان کی یادوں کو تازہ کرتے ہیں اور سقوطِ مشرقی پاکتان کا تجزیہ بھی کیا ہے۔ بنگلہ دیش اور پاکستان کی قربت کے لیے ثقافتی روابط بڑھانے پر زور دیا ہے۔ کراچی، لاہور اور پشاور کے حوالے سے ان شہروں کی ماضی کی ثقافت پر روشنی ڈالی ہے۔ مصنف کو دنیا بھر میں گھومنے کا موقع ملا، کچھ مفید تجربات سے بھی قارئین کو آگاہ کرتے ہیں۔ موضوعات کے تنوع، تاریخ کے احوال، مشاہدات اور تجربات اور دل چسپ اندازِ بیان کی وجہ سے قاری کتاب کو پڑھتا چلا جاتا ہے۔ کتاب مایوسی کے اندھیروں میں اُمید اور عزم کا پیغام، اور عمل کے لیے تحریک دیتی ہے۔(عمران ظہور غازی)
ڈیل کارنیگی نے کتابوں کی جو نسل شروع کی تھی وہ ٹائم مینجمنٹ اور دیگر انتظامیات سے ہوتی ہوئی یہاں تک پہنچی ہے کہ لوگوں کو اپنے ہر کام اور ہر مسئلے کے لیے چھپی چھپائی آزمودہ ترکیبیں مل جاتی ہیں۔ کوئی کامیابی کے سات راستے بتا رہا ہے، کوئی کامیاب انٹرویو دینے کے گُر۔ پیش نظر کتاب معروف ماہر نفسیات پروفیسر ارشد جاوید کے بقول ان کی ۲۵سالہ محنت اور ریسرچ کا نتیجہ ہے۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس کتاب میں کیا کچھ ہوگا۔
خیال آتا ہے کہ آج کل ترقی کا جو تصور ہے جس کا ماڈل ہمارے سامنے امریکا اور یورپ ہے اور ہم جیسے پس ماندہ، ترقی پذیر یہ سمجھتے ہیں کہ ہم جتنا ان کے جیسے ہوجائیں، اتنا ہی ہم ترقی یافتہ ہیں۔ ہمارے کسی ماہر عمرانیات یا معاشیات کو مسلمانوں کے، یعنی اسلام کے تصورِ ترقی پر کوئی کاوش پیش کرنا چاہیے۔ ہم اپنے آپ کو غلط معیار پر ناپتے ہوئے خواہ مخواہ ہی احساسِ کمتری کا شکار ہوتے ہیں۔
اس کتاب کا جیسے عنوان بتا رہا ہے مرکزی خیال یہی ہے کہ پڑھنے والے کو خوش حال بننے کی کوشش کرنے کی طرف راغب کیا جائے، حوصلہ افزائی کی جائے، اسے آسان کام بنایا جائے اور اس کے لیے اپنی کُل صلاحیت لگانے کے طریقے بتائے جائیں۔ مصنف نے احادیث اور آیات سے استدلال کیا ہے۔ صاحب ِ کتاب تو بہت زیادہ اس کے حق میں ہیں۔ یہاں تک کہ جو لوگ اسے مادیت کی دوڑ قرار دیتے ہیں، ان کے خیال میں یہ وہ لوگ کہتے ہیں جو خوش حال نہیں ہوسکے، یعنی انگور کھٹے ہیں۔ انھوں نے خوش حالی کا معیار یہ قرار دیا ہے کہ اس شخص کے پاس اپنا گھر، بڑی گاڑی، خاندان کے چار افراد کے لیے ماہانہ ۳ لاکھ کی آمدن ہو۔ اس سے زیادہ والا امیر ہوتا ہے جس کی روزانہ آمدنی ایک کروڑ اور اس کے پاس ایک ارب روپے ہوں۔ (ص ۲۷)
صاحب ِکتاب نے حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ اور حضرت عثمانؓ کی بار بار مثال دی ہے لیکن حضرت ابوذرغفاریؓ کی مثال نہیں دی۔ ان کی راے میں دنیا کے ۹۰ فی صد مسائل کا حل پیسے میں ہے (ص ۷)۔ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’آج اگر کسی فرد کونبوت اور غربت اکٹھی پیش کی جائے تو زیادہ امکان یہی ہے کہ وہ غربت و افلاس والی نبوت قبول کرنے سے معذرت کرے گا‘‘ (ص ۱۵)۔ انھوں نے غربت کو ہر خرابی کا سبب قرار دیا ہے کہ یہ کفر تک لے جاتی ہے۔ انھوں نے یہ نہیں لکھا کہ ہمارے پیارے رسولؐ کی پسندیدہ دعا تھی کہ :’’اے اللہ! مجھے مسکینی کی حالت میں زندہ رکھ،مسکینی کی حالت میں موت دے، اور (روزِ قیامت) مساکین کی جماعت میں اُٹھانا‘‘۔ (ابن ماجہ،۴۱۲۶)
کتاب اپنے موضوع پر واقعی اچھی کتاب ہے اور جو خوش حال ہونا چاہتا ہے، اس کا حق ہے کہ وہ خوش حال ہو، اور اخلاقیات اور حلال و حرام کی حدود کا لحاظ رکھتے ہوئے اور اللہ سے ڈرتے ہوئے اس کی خاطر ہر طرح کی سعی کرے۔ مصنف نے ذاتی مشاہدوں اور تجربات کی بار بار مثالیں دی ہیں اور پاکستان میں ایسی مثالیں کم نہیں کہ وہ زمین سے اُٹھے اور آسمان تک پہنچ گئے۔ لاہور کی کیکس اینڈ بیکس کی شاخیں ۲۰۱۰ء میں ۳۰ بتائی ہیں۔ یہ کام ۵۰۰ روپے سے شروع ہوا۔ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ عبداللہ ہارون نے والدہ سے ۵۰ روپے لے کر ریڑھی لگانے سے کام شروع کیا۔ اس طرح کی مثالیں ہر طرف شائع ہوتی ہیں۔ اس کتاب میں بھی اَن گنت ہیں۔ گورمے (بیکری) کا ذکر ہے۔ اس طرح کی بہت سی مثالوں نے تاثیر میں اضافہ کردیا ہے۔
مشکل یہ ہے کہ اس کے پڑھنے سے یہ تاثر ہوتا ہے کہ زندگی کا مقصد خوش حالی کا حصول ہے، اور جو خوش حال نہیں وہ ناکام ہے (یقینا صاحب ِکتاب اس تاثر سے اتفاق نہیں کریں گے)۔ ہماری دینی اقدار میں دنیاوی جدوجہد کے لیے جائز اور حلال کے علاوہ کوئی قدغن نہیں لیکن ہم قناعت کو اچھا سمجھتے ہیں۔ ہمارے لیے ان واقعات میں بڑی کشش ہے کہ اُم المومنینؓ نے نیچے بچھائی جانے والی چادر کی تہہ بڑھا دی تو آپؐ دیر تک سوتے رہے اور نماز نکل گئی۔ حضرت عمرفاروقؓ ایک عظیم الشان سلطنت کے حکمراں تھے لیکن ایسی چٹائی پر سوتے تھے کہ جسم پر نشان پڑجاتے۔
اپنے موضوع پر یہ جامع اور مؤثر رہنما کتاب ہے۔ جو اس کتاب پر عمل کرے گا ان شاء اللہ بغیر مشکل کے خوش حال ہوجائے گا۔ اس کتاب کے آغاز میں مصنف کی ۱۰ کتابوں کی فہرست ہے، اس کے اُوپر لکھا ہے کہ ’’پروفیسر ارشدجاوید کی زندگی میں تبدیلی لانے والی شان دار کتب (یعنی کم سے کم مصنف کی زندگی میں تو تبدیلی آگئی، یعنی خوش حالی آگئی!)۔ (مسلم سجاد)
جناب نعیم صدیقی مرحوم کے جاری کردہ مجلے سیارہ کا خصوصی شمارہ ایک اہم ادبی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ قائداعظم کی رحلت اور حیدرآباد دکن کے سقوط پر لکھے گئے مولانا مودودی کے اداریوں سے پتا چلتا ہے کہ قوموں کے عروج و زوال کے اصول کیا ہیں، جب کہ ’تلاشِ حق‘ میں نعیم صدیقی قیامِ حق کی سرفروشانہ جدوجہد کی ضرورت پر زور دیتے ہیں جو فی الواقع ہمارے مسائل کا حل بھی ہے۔ اس میں حمدیہ و نعتیہ کلام، نظموں، غزلوں اور منظومات کے علاوہ افسانے، اور خصوصی مقالات شامل ہیں۔ ’گوشۂ خاص‘ کے تحت علامہ اقبال، سید مودودی اور خالد علوی پر خصوصی تحریریں ہیں۔ ’’سید مودودی اپنی ہینڈ رائٹنگ کے آئینے میں‘‘ شخصیت کا ایک دل چسپ مطالعہ ہے۔اسی طرح احمد سجاد اور ڈاکٹر تحسین فراقی کے مصاحبے (انٹرویو)، ’’نعیم صدیقی، میرے پسندیدہ شاعر‘‘ ، ’’عبدالرحمن بزمی، پیکرِ صدقِ رضا‘‘، ’’حفیظ میرٹھی، لندن میں‘‘اور ’’زوال کا چاند ہمارا قومی نشان کیوں ہو؟‘‘ وغیرہ بعض نئے گوشوں کو سامنے لاتے ہیں۔ افسانوں میں نیربانو ’حلقہ خواتین‘ میں ادب کے حوالے سے ایک بڑا نام تھا۔ حفیظ الرحمن احسن نے جہاں نیربانو کے ادبی مقام کے جائزہ لیا ہے اور ان کی ایک نادر تحریر ’ابن آدم‘ (ناولٹ) ازسرنو مرتب کر کے محترمہ سلمیٰ یاسمین کے تعاون اور شکریے کے ساتھ شائع کی ہے۔
’اسلام اور ادب‘ کے تحت ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کا خطبہ، اور اسی موضوع پر محمد صلاح الدین شہید کا مضمون، ادب اسلامی سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے خاص طور پر قابلِ مطالعہ ہیں۔ علاوہ ازیں بہت سے افسانے، تبصرے اور چند ایک مزاحیہ تحریریں اس پرچے کو وقیع بناتی ہیں۔ سیارہ معیاری اور تعمیری ادب کا ترجمان اور نمونہ ہے۔ مجلہ سیارہ باذوق اور معیاری ادب کے قارئین کی توجہ چاہتا ہے۔ (امجد عباسی)
یہ کتاب ۵۴ شاعروں، ادیبوں اور ناقدین ادب کے مصاحبوں (انٹرویو) پر مشتمل ہے اور اس میں ادب کے قارئین کے لیے دل چسپی کے بہت سے پہلو ہیں۔ آپ کو اس طرح کے جملے دیکھنے کو ملیں گے___ ’’ترقی پسند تحریک کی بنیاد حالی نے رکھی جسے اقبال نے زوردار طریقے سے آگے بڑھایا‘‘(ڈاکٹر آفتاب احمد خاں)___ ’’ادب مذہب سے ماورا ہو ہی نہیں سکتا۔ تخلیق کار صرف مشاہدے کا قائل ہو تو بھی مذہب سے فرار ممکن نہیں اور اگر وارداتِ قلبی بیان کرنی ہو تو پھر فرار کی کوئی صورت ممکن ہی نہیں‘‘(اختر عالم صدیقی)___ ادب میں اختلاف راے ہی ادب کا حُسن ہے اور یہ حُسن ان مکالموں میں وافر مقدار میں موجود ہے۔ شاعری کی تخلیق کے مختلف پہلو، اچھے افسانے اور افسانہ نگار کی خوبیاں، بہترین مترجم کون ہوتا ہے___ اس طرح کے بے شمار سوال جو ادب کے نئے قارئین کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں انھیں ان سوالوں کا جواب اس کتاب میں مل جاتا ہے۔
مکالمے کے تن بدن میں روح اچھے سوال سے پیدا ہوتی ہے۔ ڈاکٹر راشد حمید ہیروں کی کان کنی کا فن جانتے ہیں۔ انھوں نے سوال کے کنڈے سے دانش وروں کے لاشعور سے بڑے پتے کی چیزیں اُگلوائی ہیں۔ ان مکالموں میں ایک دانش ور نے کہا ہے کہ اعلیٰ ادب پڑھنے کے بعد آپ وہ نہیں رہتے جو پڑھنے سے پہلے تھے___ اس کتاب کے بارے میں یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ آپ کے فکروفن میں بڑی تبدیلی آئے گی، البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ مطالعۂ ادب کے شائقین کو ادب اور ادیبوں کو سمجھنے میں بڑی مدد ملے گی۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)
دعوتِ دین کے پھیلائو میں دینی رسائل و جرائد کا بڑا اہم کردار ہے۔ ایسے رسالے صرف بڑے شہروں سے نہیں، بلکہ مضافاتی قصبوں اور دُوردرازکے شہروں سے بھی دین حق کو پیش کرنے کا وسیلہ بنے ہیں۔ اس نوعیت کی ایک روشن مثال ما ہ نامہ شمس الاسلام ہے، جس کا اجرا جون۱۹۲۵ء میں ہوا۔ مختصر اور قلیل وقفوں کے ساتھ اس کی اشاعت نے بہت سے قیمتی مباحث کو پیش کیا۔ زیرنظر کتاب میں ڈاکٹر انواراحمد بگوی نے تمام شماروں کو سامنے رکھ کر ایک تفصیلی اشاریہ مرتب کردیا ہے، جو متلاشیانِ حق کے لیے ایک قیمتی مصدر ثابت ہوگا۔(سلیم منصور خالد)
ھم نے آج تراویح میں کیا پڑہا، اُردو اور سندھی زبان میں تراویح کے دوران روزانہ پڑھے جانے والے قرآن کریم کے حصے کا خلاصہ، نیز رمضان کے تقاضے اور تزکیہ و تربیت پر مبنی مختصر تحریریں، زکوٰۃ کی معاشرتی اہمیت اور ادایگی اور دیگر روزمرہ مسائل کا تذکرہ اور قرآنی و مسنون دعائیں بلامعاوضہ دستیاب ہیں۔ خواہش مند خواتین و حضرات عام ڈاک کے لیے ۱۵ روپے اور ارجنٹ میل سروس کے لیے ۳۵روپے کے ڈاکٹ ٹکٹ بنام ڈاکٹرممتاز عمر، T-473 ، کورنگی نمبر۲، کراچی-74900 کے پتے پر روانہ کرکے کتابچے حاصل کرسکتے ہیں۔
عالمی ترجمان القرآن حاصل کیجیے
ڈاکٹر طارق محمود مہر، مکان نمبر 165 - بی، نزد پوسٹ آفس ماتھلی، ضلع بدین، سندھ۔ فون: 0332-3247946
حامد عبدالرحمن الکاف کا مقالہ ’تفہیم القرآن: مقاصد و اہداف‘ (مئی ۲۰۱۲ئ) خیال افروز ہے، البتہ اس کا آخری عنوان ’اہم تقاضا‘ محلِ نظر ہے۔ صاحب ِ مضمون کی یہ تجویز کہ تفہیم القرآن کے زبان وبیان کو موجودہ حالات کے تقاضوں کے تحت تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، جتنی سادگی سے کہہ دی گئی ہے اُتنی ہی ناقابلِ قبول ہے اور عملاً ناممکن بھی۔ اگر ایک دفعہ یہ راستہ کھول دیا گیا تو پھر تفہیم کو دانستہ یا نادانستہ تحریف سے کوئی محفوظ نہیں رکھ سکے گا اور مضمون نگار کے پیش نظر جو فائدہ ہے وہ بھی حاصل نہیں ہوسکے گا۔
تفہیم القرآن نے ہرسطح کے ذہن کے لوگوں کو متوجہ اور متاثر کیا ہے اور تمام دائرہ ہاے زندگی کے لوگوں اور طبقات پر قرآن فہمی کے دروازے کھول دیے ہیں۔ اس کا اسلوبِ تحریر پہلے کبھی اس کے ترسیل خیالات و افکار میں رکاوٹ بنا ہے اور نہ آیندہ کبھی بنے گا۔ البتہ اگر کچھ مقامات واقعی ایسے ہوں جو توضیح طلب ہوں تو وہ الگ مضامین کی شکل میں یا تشریحی عبارات کی شکل میں لکھے جاسکتے ہیں، لیکن تفہیم کے اصل متن میں کسی قسم کی تبدیلی ہرگز نہیں ہونی چاہیے۔ جو تصانیف کلاسک کا مقام حاصل کرلیتی ہیں وہ خود اپنی جگہ ایک معیار ہوتی ہیں جس کی تقلید کی جاتی ہے۔ اُنھیں ترمیم و اصلاح کی سان پر نہیں چڑھایا جاتا۔ شیکسپیئر کے بعد انگریزی زبان و ادب و انشاء غیرمعمولی تغیرات سے گزر چکے ہیں، لیکن شیکسپیئر کے اسلوبِ بیان کو بدلنے کے بجاے تشریحات پر کتابوں کا وسیع ذخیرہ وجودمیں آچکا ہے۔
جہاں تک سائنسی حقائق کے ارتقا اور تغیرات کا ذکر ہے، اس لحاظ سے الگ معلومات مرتب کی جاسکتی ہیں اور سید مودودیؒ کے بیان کردہ سائنسی حقائق کو up to date کیا جاسکتا ہے، لیکن یہ سب کچھ علمی ضمیموں کی شکل میں ہونا چاہیے جو وقتاًفوقتاً تفہیم القرآن کی مختلف جِلدوں کے آخر میں شامل کردیے جائیں۔
’تفہیم القرآن : مقاصد و اہداف‘ میں مصنف نے تفہیم القرآن کی تخلیق و تصنیف میں سید مودودیؒ کی محنت و عرق ریزی پر روشنی ڈالی ہے اور اسے بجا طور پر ایک حرکی تفسیر قرار دیا ہے، جو آنے والے زمانوں میں بھی اسلامی تحریکوں کی رہنمائی کرتی رہے گی۔ لیکن مضمون کے آخر میں انھوں نے تفہیم کو بدلتے ہوئے زمانے سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اس میں ’تغیروترمیم‘ کی جو تجویز پیش کی ہے وہ نہایت تعجب خیز ہے۔
سید مودودیؒ کی تفہیم القرآن عہدِحاضر کی سب سے نمایاں تفسیر ہے۔ یہ تو ہوسکتا ہے کہ آنے والے زمانوں میں اس کی شرح لکھی جائے اور علما و محققین اس سے کسب ِ فیض کرکے اپنے نتائج فکر پیش کریں لیکن یہ کہنا انتہائی مضحکہ خیز ہے کہ تفہیم کا طرزِ اسلوب ہی بدل دیا جائے، زبان ہی تبدیل کردی جائے۔ یہ تجویز تو سید مودودی کے عظیم الشان علمی کارنامے کو غتربود کرنے کے مترادف ہے۔ میں یہاں یہ عرض کروں گا کہ کیا کبھی کسی نے حضرت علیؓ کی نہج البلاغہ، امام غزالیؒ کی کیمیاے سعادت، حضرت علی ہجویریؒ کی کشف المحجوب اور حضرت شاہ ولی اللہ کی حجۃ اللّٰہ البالغۃ پر فرسودہ ہونے کی پھبتی کسی ہے۔ یہ اور ایسی ہزاروں کتابیں اپنی اصل برقرار رکھتے ہوئے اہلِ علم و جستجو کی اب بھی رہنمائی کررہی ہیں اور کرتی رہیں گی۔
’تفہیم القرآن: مقاصد و اہداف‘ میں آخر میں توجہ دلائی گئی ہے کہ تفہیم القرآن کو رائج الوقت اُردو میں ازسرنو تحریر کیا جائے۔ میری گزارش ہے کہ سیدمودودیؒ کی تفہیم قرآن پاک کی ترجمانی و تفسیر کے ساتھ ساتھ ایک ادبی شاہکار بھی ہے۔ سید صاحب نے ترجمانی کے لیے اُردو کے وہ اعلیٰ اور ارفع الفاظ استعمال کیے ہیں کہ تفہیم کو باربار پڑھنے کو دل چاہتا ہے۔اُردو میں انگریزی کے بہت سے الفاظ رائج ہوتے جارہے ہیں، مثلاً ’بدعنوانی‘ کے بجاے کرپشن۔ ان حالات میں تفہیم نئی نسل کے لیے صحیح اُردو جاننے کا ایک اہم ماخذ بھی ہے۔
’تفہیم القرآن: مقاصد و اہداف‘ ایک ذہن کشا کاوش ہے کہ قارئین تفسیر پر واضح ہو کہ یہ کام کتنا کٹھن ہے۔ ایک ایک لفظ کتنی دیدہ ریزی اور احتیاط اور ذمہ داری سے لکھا گیا ہے۔تفہیم القرآنکی آیندہ نسلوں تک تازگی برقرار رکھنے کے لیے ایک ادارے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔تفہیم ایک علمی اثاثہ ہے اور اس سے وہی قارئین پوری طرح استفادہ کرسکتے ہیں جو علم اور زبان کی اُس سطح پر ہوں جس پر یہ تحریرکی گئی ہے۔ایک اصطلاح ’حقیقت نفس الامری‘ عام اُردو دان کے لیے نامانوس ہے۔ اسی طرح اور بھی مشکل الفاظ ہیں۔ اگر کوئی مستقل ادارہ قائم کیا جائے تو اس کو ازخود یہ طے کرنا ہوگا کہ کون سی عبارت قابلِ تشریح ہے۔
ایک ادارہ ’عالم گیر تحریک تفہیم القرآن‘ قائم کیا جائے۔ اس ادارے کو چلانے کے لیے ورثۂ مودودیؒ تجدیدی فنڈ قائم کیا جائے ۔ اس ادارے کی شاخیں پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، انگلینڈ، پیرس، امریکا اور منتخب عرب ممالک میں سہولت اور امکانات کے لحاظ سے قائم کی جائیں۔ اس ادارے کی نگرانی کا ایک نظام وضع کیا جائے۔ خود جناب سیدحامد عبدالرحمن الکاف کی خدمات سے بھی فائدہ اُٹھایا جائے۔
’تفہیم القرآن: مقاصد و اہداف‘ (مئی ۲۰۱۲ئ)میں تفہیم القرآن کا عمدہ تعارف سامنے آگیا۔ تفہیم میں جس طرح اسرائیلی اور موضوع روایات سے پہلوتہی کی گئی ہے اور سلیس اور سادہ طرزِ تحریر سے قرآن کو نہایت آسان انداز میں سمجھایا گیا ہے، اس کی مثال عصرِحاضر کی کسی تفسیر میں نہیں ملتی۔اس کی ایک خصوصیت اُس کا فرقہ وارانہ اختلاف سے پاک ہونا بھی ہے۔ ’ٹیپوسلطان شہید اور انتظامِ ریاست‘ ازڈاکٹرمحمد سہیل سے ٹیپوسلطان کی شخصیت کا منفرد پہلو سامنے آیا۔ ’کشمیر کی مظلوم بیوائیں اور نیم بیوائیں‘ سے بھارت کی سفاکیت کا ایک پہلو مزید سامنے آیا!
’ہجرت نبویؐ اور ہم‘ (جون ۲۰۱۲ئ) خوب صورت اندازِ تحریر ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے قاری سفرِہجرت میں شریک ہے۔ ہجرت کے مراحل اور دورانِ سفر پیش آمدہ واقعات مؤثر رہنمائی کا ذریعہ ہیں۔
ڈاکٹر انیس احمد صاحب کا مضمون: ’جنسی تعلیم اسلامی اقدار کے تناظر میں‘ (جون ۲۰۱۲ئ) نظر سے گزرا۔ موصوف نے جس بہترین انداز میں اس موضوع پر قلم اُٹھایا ہے، وہ و قت کا ایک اہم تقاضا ہے، اور اُمت مسلمہ کو اس اہم موضوع پر رہنمائی دینے کا فریضہ بھی سرانجام دیا۔
’انگریزی ذریعہ تعلیم، شیوۂ غلامی‘ (جون ۲۰۱۲ئ) میں اُردو کی ترویج کی دستوری ذمہ داری کا ذکر کرکے ایک اہم ترین ایشو کو ہائی لائٹ کیا گیا ہے۔ اس مسئلے کو یکسوئی کے ساتھ اپنے منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے بھرپور جدوجہد کی ضرورت ہے۔ اس بارے میں عدالت عظمیٰ سے رجوع بھی مفید ہوسکتا ہے۔ سپریم کورٹ نے ماضی میں عدلیہ کو انتظامیہ سے علیحدہ کرنے اور قصاص و دیت کے نفاذ کے لیے بہت مؤثر کردار ادا کیا۔ اس سلسلے میں جسٹس محمد افضل ظلہ کی خدمات تاریخ کا حصہ ہیں۔ اب نئے دور میں تو عدلیہ زیادہ فعال ہے۔
پنجاب حکومت کے فیصلے کے تحت انگلش میڈیم کو ذریعۂ تعلیم بنانے سے ملک و قوم کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، اور اسلامی تہذیب و تشخص کو جس نقصان سے دوچار ہونا پڑے گا، اس کا اندازہ ’انگریزی ذریعۂ تعلیم: شیوئہ غلامی‘ (جون ۲۰۱۲ئ) پڑھ کر ہوا۔ فی الحقیقت اُردو زبان کی حفاظت دینی و اسلامی سرمایے کی حفاظت کے مترادف ہے، جس کے لیے ہرباشعور اور محب وطن پاکستانی کو اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔
’جنسی تعلیم اسلامی اقدار کی تناظر میں‘(جون ۲۰۱۲ئ) بہت ہی اچھا لکھا۔ مگر اس میں بھی ڈاکٹرصاحب کی شانِ اجتہادی نمایاں ہے۔ دو مثالیں ملاحظہ ہوں۔ قرآن کریم جنسی جذبے کو حلال و حرام اور پاکیزگی اور نجاست کے تناظر میں بیان کرتا ہے تاکہ حصولِ لذت ایک اخلاقی ضابطے کے تحت ہو نہ کہ فکری اور جسمانی آوارگی کے ذریعے۔ چنانچہ عقیدۂ نکاح کو ایمان کی تکمیل اور انکارِ نکاح کو اُمت مسلمہ سے بغاوت کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے (ص ۶۴)۔ پتا نہیں یہ کسی آیت کا ترجمہ ہے یا حدیث کا، یا کوئی اجماعی قانون ہے؟ ایک اور جگہ وعن شبا بہ فیما ابلاہ سے درج ذیل نتیجہ اخذ کیا ہے۔ احادیث بار بار اس طرف متوجہ کرتی ہیں کہ یوم الحساب میں جو سوالات پوچھے جائیں گے، ان میں سے ایک کا تعلق جوانی سے ہے اور دوسرے کا معاشی معاملات سے۔ گویا جنسی زندگی کا آغاز شادی کے بعد ہے، اس سے قبل نہیں (ص ۶۶)۔ ایک تو یہ کہ الفاظِ حدیث عام ہیں۔ دوسرے یہ کہ جوانی اور شادی میں کیا نسبتِ مساوات ہے؟
اسلامی ریاست کا نام آتے ہی بعض لوگ فقہی اختلافات کو پیش کر کے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اتنے اختلافات کے ہوتے ہوئے اسلام کا نظامِ حیات کامیابی سے چل ہی نہیں سکتا۔ اس فتنہ انگیزی اعتراض کے جواب میں یہ کتاب بتاتی ہے کہ اسلام نے ایسے اصولِ اتحاد معین کردیے ہیں کہ ان کے ہوتے ہوئے اختلاف صرف حدِ جائز میں رہتا ہے اور اُمت کے لیے سراسر موجب رحمت ہوتا ہے، چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور تک مسلمانوں کا منظم معاشرہ انھی اصولوں پر برقرار رہا اور اختلافات کبھی موجب ِ فتنہ نہ ہوئے۔ بعد کے دور میں فقہی مدارسِ فکر اور فقہی اختلافِ آرا نے جس طرح ارتقا کیا ہے اس کا ایک اجمالی جائزہ لینے کے بعد مؤلف نے واضح کیا ہے کہ اجتہادی آرا کے اختلاف نے تفرقہ کی صورت کن وجوہ سے اختیار کی۔ آخری بحث بڑی ہی اہم بحث ہے جس کا منشا یہ واضح کرنا ہے کہ اگر آج ایک اسلامی ریاست برپا ہو تو وہ اجتہادی آرا کے اختلاف سے کس طرح عہدہ برآ ہوگی، اس میں عام مسلمانوں اور ان کے علما کے لیے فقہی اور سیاسی اختلاف کی حدیں کہاں تک وسیع ہوں گی، مسلمانوں کی مختلف فرقوں کی حیثیت اس میں کیا ہوگی اور شہریت کے حقوق دینے کے لیے وہ کسی شہری سے کم از کم کن بنیادی اُمور پر قائم رہنے کا مطالبہ ازروے دستور کرسکے گی۔ یہ بحث اسلامی دستور کے ایک اہم مسئلے کو محیط ہے۔ کتاب کا اندازِ بحث تحقیقی اور سائنٹفک ہے۔ (اسلامی ریاست میں فقہی مسائل اور ان کا حل، ازجناب مولانا امین احسن اصلاحی۔شائع کردہ: مکتبہ یثرب، ۱۰-اے، دی مال، لاہور۔ قیمت: بلاجلد ایک روپیہ)۔ (’مطبوعات‘ ، ادارہ، ترجمان القرآن، جلد۳۸، عدد ۳-۴،شوال ۱۳۷۱ھ، جولائی ۱۹۵۲ء ، ص۱۴۵-۱۴۶)