مضامین کی فہرست


۲۰۰۷فروری

جنرل پرویز مشرف نے دستور اور صدارتی آداب‘روایات اور وقار کو یکسر بالاے طاق رکھ کر اپنے مخصوص جنگ جویانہ انداز میں ۲۰۰۷ء کی انتخابی مہم کا آغاز کردیا ہے۔ اشاروں میں باتیں تو وہ ایک عرصے سے کر رہے تھے لیکن نام نہاد تحفظ خواتین بل کا دفاع کرتے ہوئے صاف لفظوں میں انھوں نے کہا کہ اب ملک میں اصل کش مکش دو قوتوں کے درمیان ہے۔ ایک ان کی روشن خیال لبرل ٹیم جس کے وہ خود سربراہ ہیں اور دوسری ملک کی اسلامی قوتیں جو ان کی نگاہ میں ترقی کی مخالف اور جدیدیت کی راہ کی اصل رکاوٹ ہیں۔ پھر بنوں اور کرک کے جلسوں میں انھوں نے کھل کر اپنی اور اپنے ساتھیوں کی انتخابی مہم کا آغاز کیا اور صاف صاف ووٹ مانگے۔ جوشِ خطابت میں اپنے مخالفین کو ’جاہل‘، ’منافق‘ اور ’جھوٹے‘ کے القاب سے نوازا اور یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ’’ملک آج ایک دوراہے پر کھڑا ہے۔ ایک طرف ترقی اور روشن خیالی ہے تو دوسری طرف جہالت اور انتہاپسندی‘‘۔ ان کے الفاظ میں:

There are  two roads: one leading towards development, progress and prosperity and the other leading towards backwardness and destruction. The coming elections would be very crucial and the outcome would define our national sense of direction. It is a contest between religious radicalism and enlightened moderation.

اور اب تازہ ترین ارشاد یہ ہے کہ وہ خود ۲۰۰۷ء کے انتخابات میں اپنے امیدواروں کا انتخاب کریں گے اور ان کی انتخابی مہم چلائیں گے۔ جس دوراہے کا وہ اب ذکر کررہے ہیں اس کی ایک راہ جنرل پرویز کی فوجی آمریت کی راہ ہے اور دوسری جرنیلی آمریت کے مخالفین اور اسلامی فلاحی اور جمہوری پاکستان کے لیے جدوجہد کرنے والوں کی۔

یادش بخیر‘ جنوری ۲۰۰۷ء میں اس دوراہے کی نشان دہی کرتے وقت وہ بھول گئے کہ اس سے سواسات سال پہلے ۱۷ اکتوبر۱۹۹۹ء کو اپنے فوجی اقدام کے پانچ دن بعد انھوں نے ایسا ہی ایک ارشاد فرمایا تھاکہ:

آج پاکستان اپنی تقدیر کے دوراہے پر کھڑا ہے۔ ایسی تقدیر جو فردِواحد کے ہاتھ میں ہے‘ خواہ سنوار دے یا برباد کر دے۔

سواسات سال تک مکمل اور غیرمشروط اقتدار اور امریکا کی بھرپور امداد کے باوجود اگر آج پھر وہ قوم کو بتا رہے ہیں کہ وہ ابھی تک قوم ایک دوراہے پر کھڑی ہے تو یہ ان کی اپنی اور ان کے بنائے ہوئے نظام کی ناکامی کا اس سے واضح اعتراف اور کیا ہوسکتا ہے۔ ان سات سال میں وہ اس منزل کی طرف کوئی پیش قدمی نہ کرسکے تو اب کس امید پر قوم کو نئی منزل کی راہ دکھا رہے ہیں۔

بالعموم جمہوری ممالک میں پارلیمنٹ کی مدت چار سے پانچ سال ہوتی ہے۔ اور ایک مدت ایک قیادت کی کامیابی و ناکامی کو واضح کرنے کے لیے کافی تصور کی جاتی ہے۔ جنرل پرویز مشرف کو سواسات سال ایسا اقتدار ملا ہے کہ ان کے لیے کوئی چیلنج نہیں تھا۔ ۲۰۰۲ء کے انتخابات کے بعد اور من مانی دستوری ترامیم اور ان سے بھی زیادہ ہر دستور اور قانون سے عملاً بالا ہوکر اور عالمی قوتوں سے پوری مفاہمت بلکہ سپردگی کا رویہ اختیار کر کے‘ وہ ملک و قوم کو جس مقام پر لے آئے ہیں‘ وہ ہراعتبار سے ۱۹۹۹ء سے بدتر ہے۔ ہمیں ان کی اس بات سے تو اتفاق ہے کہ فی الحقیقت ملک اس وقت ایک دوراہے پر کھڑا ہے لیکن یہ دوراہا وہ ہے جہاں جنرل پرویز مشرف اور ان کے حواریوں نے دھکے دے دے کر ملک کوپہنچایا ہے اور اب وہی سوال جو انھوں نے ۱۷ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو بڑے طمطراق سے اٹھایا تھا‘ اب خود ان کی ناکامیوں اور جرنیلی آمریت کی تباہ کاریوں کے بعد بڑی گمبھیر صورت میں ملک و قوم کے سامنے ہے یعنی:

کیا یہ وہ جمہوریت ہے جس کا تصور قائداعظم نے دیا تھا؟

آج قوم کے سامنے اصل سوال یہ ہے کہ قائداعظم کی رہنمائی میں ملّت اسلامیہ نے جس اسلامی‘ جمہوری اور فلاحی ریاست کے قیام کے لیے پاکستان بنایا تھا‘ جرنیلی حکمران نے اس سے ہمیں کتنا دُور کردیا ہے۔ اب قوم کے سامنے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ جس طرح برعظیم کے مسلمانوں نے پاکستان کے قیام کے لیے عوامی اور جمہوری جدوجہد کے ذریعے سات سال کی قلیل مدت میں یہ آزاد خطہ زمین حاصل کرلیا‘ جو بدقسمتی اور ہماری اپنی غلطیوں سے آہستہ آہستہ سیاسی طالع آزمائوں اور بیوروکریسی‘ جرنیلوں‘ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے گٹھ جوڑ کی دراندازیوں اور کچھ عاقبت نااندیش ججوں کی مصلحت بینی سے تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے‘ اسے بچانے اور اُمت مسلمہ اور اس کے حقیقی قائدین اقبال اور قائداعظم محمدعلی جناح کے تصور کے مطابق تعمیر کرنے کے لیے سردھڑ کی بازی لگا دیں۔ بلاشبہہ پاکستان ایک دوراہے پر کھڑا ہے اور انتخاب کسی نام نہاد روشن خیالی اور کسی خیالی انتہاپسندی کے درمیان نہیں بلکہ سیدھے سیدھے فوجی آمریت‘ شخصی حکمرانی‘ امریکا کی سیاسی اور معاشی غلامی اور خدانخواستہ بالآخر بھارت کی علاقے پر بالادستی اور ملت اسلامیہ پاکستان کی حقیقی آزادی سے محرومی کے مقابلے میں ملّت اسلامیہ پاکستان کے دینی اور تہذیبی تشخص کی حفاظت‘ اللہ کی حاکمیت کے تحت عوام کی حکمرانی‘ پارلیمنٹ کی بالادستی اور قانون اور انصاف کے قیام کے درمیان ہے۔ ۲۰۰۷ء فیصلے کاسال ہے۔ قائداعظم کی رہنمائی میں سات برس میں ہم نے پاکستان حاصل کرلیا تھا اور جنرل پرویز مشرف کی حکمرانی میں ان سات برسوں میں پاکستان ہراعتبار سے اپنے اصل مقاصد سے دُور اور ایک نئی غلامی اور محکومی کی گرفت میں آگیا ہے جس سے نجات ہی میں اب پاکستان کی بقا اور اس کی ترقی کا امکان ہے۔

غلامی کے سایے

قیامِ پاکستان کا سب سے اہم حاصل ملت اسلامیہ پاکستان کی آزادی تھی یعنی مغربی سامراج سے آزادی کے ساتھ ساتھ بھارتی سامراج کی گرفت سے نکل کر خود اپنے دین وایمان ‘ تہذیب و ثقافت اور مادی اور روحانی اہداف کے حصول کے مواقع کا حصول۔ قرارداد مقاصد جو دستور کا قلب ہے‘ اس منزل کا بہترین اظہار و اعلان ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے سات سالہ دورِاقتدار میں ان تمام مقاصد پر کاری ضرب لگی ہے اور ایک ایک بنیاد کو منہدم کرنے کے لیے منصوبہ بندی کے ساتھ واضح اقدام کیے گئے ہیں جن سے ان کا پورا گیم پلان کھل کر سامنے آگیا ہے:

  • اسلام کی جگہ روشن خیال اعتدال پسندی کے نام پر سیکولرازم اور مغربی لبرلزم کا فروغ جس  کی زد ہردینی اور اخلاقی قدر پر ہو 
  • جمہوریت کی جگہ شخصی آمریت جس پر فوجی وردی مستزاد 
  • جن سرحدوں کو قائم کرنے کے لیے قیامِ پاکستان کی تاریخی جدوجہد ہوئی تھی اب بھارت دوستی کے نام پر انھیں غیرمتعلق بنا دینے کے منصوبے‘ جموں و کشمیر جو پاکستان کی شہ رگ ہے اسے مستقل طور پر بھارت کی گرفت میںدینے کی تجاویز 
  • کشمیر کا جو علاقہ مسلمانوں نے اپنے خون سے آزاد کرایا  اس پر بھی بھارت کے مشترکہ کنٹرول کے نقشے
  • جس مقبوضہ کشمیر میں مسلمان پانچ سے چھے لاکھ قیمتی جانوں کی قربانی دے کر آزاد ی کی جدوجہد کر رہے ہیں‘ اسے طشتری میں رکھ کر بھارت کو  پیش کردینے اور اس بھارتی خواب میں رنگ بھرنے کی باتیں کہ ناشتہ امرتسر میں ہو‘ دوپہر کا کھانا لاہور میں کھایا جائے اور رات کا کھانا کابل میں۔

جس مغربی سامراج سے لڑکر قوم نے آزادی حاصل کی تھی‘ آج جرنیلی حکمران خوشی خوشی بلکہ اسی نوعیت کے فخر کے ساتھ جس کا مظاہرہ دورِ غلامی کے نوابوں اور راجاؤں نے کیا تھا‘ امریکا کی بالادستی ہی نہیں عملی غلامی کے طوق پہن کر ملک کو نئے سامراج کے جال میں پھنسا رہے ہیں۔ دنیا کے سب سے بڑے دہشت گرد ملک امریکا اور اس کی دہشت گرد قیادت کے آگے اس طرح صف بستہ ہیں کہ ہر روز ان کی طرف سے نیا مطالبہ آرہا ہے اور ہمارے یہ فوجی جرنیل خود اپنے معصوم شہریوں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں تاکہ امریکا سے داد وصول کریں حالاں کہ جو کچھ حاصل ہو رہا ہے وہ صرف جھڑکیاں‘ دھمکیاں اور ھل من مزید کے مطالبات ہیں۔ جنوری ۲۰۰۷ء کے پہلے ۱۴ دنوں میں ایک نہیں چار چار امریکی ذمہ داروں نے بڑے طمطراق کے ساتھ پاکستانی حکمرانوں کو دھمکیوں اور گھر.ُکیوں کے ساتھ دوغلے پن اور دھوکابازی کے تمغوں سے بھی نوازا ہے___ امریکی وزیرخارجہ کونڈالیزارائس‘ محکمہ سراغ رسانی کاسربراہ جان نیگروپونٹے‘ ناٹو کے ایساف کمانڈر ڈیوڈ ری چرڈ اور نائب وزیرخارجہ ری چرڈ بوچر نے اپنے اپنے انداز میں اور ایک دوسرے سے بڑھ کر پاکستان پر طالبان کی پشت پناہی‘ ان کی تنظیم نو اور تائید کا الزام لگایا ہے‘ دھمکیاں دی ہیں اور پاکستان کی سرزمین پر پیشگی حملے کے خالص جارحانہ اقدام کا عندیہ دیا ہے اور اس کا نمونہ پہلے ہی ڈمہ ڈولہ‘ باجوڑاور شوال امریکی طیارے اور میزائل پیش کرچکے ہیں۔ اس کے جواب میں ہماری طرف سے مجرمانہ پسپائی ہی اختیار نہیں کی گئی بلکہ قومی عزت و غیرت اور عسکری وقار کو مجروح کرتے ہوئے وزیرستان میں ایک سال میں دو بلکہ فی الحقیقت تین بار ہمارے علاقے پر امریکی بم باری کو خود اپنے سر لے لیا گیا ہے۔ یہ اگر غلامی کی نئی زنجیریں نہیں تو کیا ہیں؟

نئے امریکی قانون کا شکنجہ

پاکستان کی جو تذلیل اس جرنیلی آمریت میں ہوئی ہے‘ وہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔ اگر اس جرنیلی کارنامے کی اصل تصویر دیکھنی ہے تو اس تازہ قانون کا مطالعہ کرلیجیے جو     ابھی امریکی ایوان نمایندگان نے بڑی عجلت میں نائن الیون کمیشن کی سفارشات کو قانونی شکل دینے کے لیے منظور کیا ہے۔ اس قانون کا سیکشن ۱۴۴۲ پاکستان کے بارے میں ہے۔ اس حصے میں دہشت گردی کے مقابلے کے نام پر پاکستان کی جو تصویر دی گئی ہے اور اس کے بارے میں جو پالیسی قانون کا حصہ بنائی گئی ہے اس کا ایک ایک لفظ پڑھنے اور تجزیہ کرنے کے لائق ہے۔    حملہ کرنے والے سعودی اور مصری تھے‘ القاعدہ کا مرکز افغانستان تھا۔ مگر افغانستان پر ایک صفحہ‘ سعودی عرب پر ایک صفحہ لیکن پاکستان پر پورے چھے صفحات پر مشتمل قانون لاگو کیا گیا ہے  جیسے اصل مجرم پاکستان ہے۔ یہ قانون پاکستان کے لیے کلنک کا ٹیکہ اور جنرل پرویز مشرف کی خارجہ پالیسی کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ ہے وہ مقام جس پر اس عظیم ملک کو جس نے اللہ کی مدد اور صرف اپنی کوششوں سے ایک ایٹمی طاقت بننے کی سعادت حاصل کی تھی‘ اب اس جرنیلی آمریت نے پہنچا دیا ہے۔ ہم پاکستان کے متعلقہ حصے کی چند اہم دفعات یہاں دیتے ہیں تاکہ قوم کو معلوم ہوسکے کہ ملک کو کس شکنجے میں کَس دیا گیا ہے اور کس طرح جس مدد کے لیے بغلیں بجائی جارہی ہیں اس کے سر پر پابندیوں کی تلوار کس کس شرط کے ساتھ چھائی ہوئی ہے اور اس کے لیے یہ پابندی بھی رقم کردی گئی ہے کہ وہ ہرسال امریکی صدر کے سرٹیفیکٹ کے بغیر ایک سانس بھی نہیں لے سکے۔ یہ پریسلر پابندیوں کی تازہ اور زیادہ مکروہ شکل ہے۔

                ۲- ایسے بہت سے مسائل ہیں جو امریکا اور پاکستان کے تعلقات کو خطرات سے دوچار کرسکتے ہیں‘ عالمی استحکام کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور پاکستان کو غیرمستحکم کرسکتے ہیں‘ بشمول:

                (اے)   جوہری ہتھیاروں کی ٹکنالوجی کے پھیلائو کو روکنا۔

                (سی)  مؤثر سرکاری اداروں کی تعمیر‘ خصوصاً سیکولر پبلک اسکول ۔

                (ای)   پورے ملک میں طالبان اور دوسری پُرتشدد انتہاپسند طاقتوں کی مسلسل موجودگی کے حوالے سے اقدامات کرنا۔

                (جی) دوسرے ملکوں اور علاقوں کی طرف جنگ جوؤں اور دہشت گردوں کی نقل و حرکت روکنے کے لیے پاکستان کی سرحدات کو محفوظ بنانا۔

                (ایچ) اسلامی انتہاپسندی کے ساتھ مؤثر طور پر نبٹنا۔

                (بی) پالیسی کا بیان: امریکا کی پالیسیاں درج ذیل ہوں گی:

                (۱)  عالمی دہشت گردی‘ خصوصاً پاکستان کے سرحدی صوبوں میں‘ ختم کرنے کے لیے اور طالبان سے وابستہ طاقتوں کے لیے پاکستان کے ایک محفوظ پناہ گاہ کے استعمال کو ختم کرنے کے لیے حکومت پاکستان کے ساتھ کام کرنا۔

                ۳-  حکومت پاکستان اور بھارتی حکومت کے درمیان تنازع کشمیر کے حل کے لیے مدد کرنا۔

                (سی) حکمت عملی متعلقہ پاکستان:

                ۱-  اس ایکٹ کے قانون بن جانے کے ۹۰دن کے اندر اندر صدر متعلقہ کانگریس کمیٹی کو ضروری ہو تو خفیہ رپورٹ پیش کرے گا جو امریکا کی طویل المیعاد حکمت عملی کو بیان کرے۔

                ۲-  متعلقہ کمیٹی سے مراد: کانگریس کی خارجہ امور کی کمیٹی‘ مجلس نمایندگان کی مصارف (appropriations) کمیٹی اور سینیٹ کی بھی خارجہ تعلقات اور مصارف کمیٹی۔

                (ڈی) پاکستان کو امریکا کی سلامتی کی امداد پر تحدید:

                تحدید:  (اے)یہ امداد منظور نہیں ہوگی جب تک کہ اس تاریخ کو ۱۵ دن نہ گزر جائیں‘ جب کہ صدر صورت حال کے بارے میں متعین معلومات حاصل کرے اور متعلقہ کانگریس کمیٹیوں کو تصدیق کرے کہ حکومت پاکستان اپنے زیراختیار علاقوں بشمول کوئٹہ اور چمن ‘ صوبہ سرحد اور قبائلی علاقے میں طالبان کو کام کرنے سے روکنے کے لیے اپنی تمام ممکنہ کوششیں کر رہا ہے۔

                (بی) اس تصدیق کو غیر خفیہ ہونا چاہیے لیکن اس کا ایک ضمیمہ خفیہ بھی ہوسکتا ہے۔

                ۲-   استثنا: صدر اس تحدید کو ایک مالیاتی سال کے لیے معطل کرسکتا ہے‘ اگر وہ کانگریس کی مصارف کمیٹیوں کو یہ تصدیق کرے کہ ایسا کرنا امریکا کی قومی سلامتی کے مفاد کے لیے اہم ہے۔

                (ای)  جوہری پھیلائو: (۱) کانگریس اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ پاکستان کا ایٹمی اور میزائل ٹکنالوجی کے پھیلائو کے نیٹ ورک کو باقی رکھنا پاکستان کو امریکا کے حلیف قرار دینے سے متغائر ہے۔

                ۲-  کانگریس کی راے: کانگریس کی راے یہ ہے کہ امریکا کی قومی سلامتی کے مفادات بہتر طور پر حاصل ہوں گے اگر امریکا پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کے لیے ایک طویل المیعاد حکمت عملی طے کرے اور اس کو نافذ بھی کرے‘ اور جوہری پھیلائو کو روکنے کے لیے حکومت پاکستان کے ساتھ کام کرے۔

واضح رہے کہ اس قانون میں حقیقی طور پر صرف تین ملکوں کا ذکر ہے یعنی افغانستان‘ پاکستان اور سعودی عرب اور جیساکہ ہم نے عرض کیا‘ سب سے زیادہ پابندیاں اور شکنجے پاکستان  کے لیے ہیں۔ یہ ہے ہماری آزادی کی حقیقت۔

جرنیلی نظام کے لیے پاکستان کا دستور تو کب کا قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ اب تو امریکا کا یہ قانون موجودہ حکمرانوں کے لیے اصل ’دستور‘ کی حیثیت رکھتا ہے اور انتہاپسندی‘ لبرلزم‘ طالبان دشمنی کے بارے میں جو کچھ کہا اور کیا جا رہا ہے اس کا پاکستان کے دستور‘ قانون یا مفادات سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ سب کچھ وہ امریکا کے فرمان کی تعمیل کے سوا کچھ نہیں۔

آج پاکستان جس دوراہے پر ہے وہ یہی امریکی غلامی یا حقیقی آزادی کا دوراہا ہے اور وقت آگیا ہے کہ پاکستانی قوم اس نئی غلامی کی زنجیروں کو پارہ پارہ کردے اور صرف اللہ کی غلامی میں حقیقی آزادی کا راستہ اختیار کرے۔

وفاق کا شیرازہ معرضِ خطر میں

جنرل پرویز مشرف کی سات سالہ حکمرانی کا ایک اور ثمرہ یہ ہے کہ ملک میں آج فیڈریشن جتنی کمزور ہے اور مرکز اور صوبوں کے تعلقات جتنے خراب آج ہیں ۱۹۷۱ء کے سانحے کے بعد کبھی نہ تھے۔ جنرل صاحب نے اپنا جو سات نکاتی پروگرام ۱۷ اکتوبر ۱۹۹۹ء میں اعلان فرمایا تھا اس میں ایک فیڈریشن کی مضبوطی اور تمام صوبوں اور مرکز میں زیادہ ہم آہنگی کا حصول بھی تھا مگر حاصل اس کے برعکس ہے۔ خود جرنیل صاحب نے اپنے حالیہ دورۂ سرحد میں اعتراف کیا ہے کہ فیڈریشن میں تعلقات کی بہتری حاصل نہیں کی جاسکی ہے۔ بلوچستان میں تین سال سے فوج کشی جاری ہے اور اس عرصے میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہوچکے ہیں‘ سیکڑوںہلاک ہوئے ہیں اور پورا صوبہ ایک آتش فشاں کی شکل اختیار کرچکا ہے۔

صوبہ سرحد میں مرکز صوبائی حکومت پر ہر طرح کا دبائو استعمال کر رہا ہے۔ چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کو کسی مشورے کے بغیر مسلط کیا جاتا ہے۔ صوبائی اسمبلی کی قراردادوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ صوبے کے مالی حقوق ادا نہیں کیے جارہے۔ ایک تحریری معاہدے کے تحت پاکستان کے سابق چیف جسٹس کی سربراہی میں جو ثالثی کمیشن بنایا گیا تھا کہ پن بجلی کے منافعے کا اس کاحصہ ادا کیا جائے ۔ اس کے متفقہ فیصلے کو بھی نافذ نہیں کیا جا رہا اور صوبے کو صف آرائی پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ حِسبہ بل جوصوبائی اسمبلی نے دو بار منظور کیا ہے اسے مرکز ویٹو کرنے پر تلا. ُ  ہوا ہے۔ صوبائی وزیراعلیٰ کے مکان پر آئی بی کے اہل کار دھماکا خیز مواد رکھتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہیں۔ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں ۷۰ ہزار فوج لگائی ہوئی ہے جو محض شبہے کی بنیاد پر    کشت و خون کر رہی ہے۔ ۷۰۰ سے زیادہ فوجی ہلاک ہوچکے ہیں اور اس سے زیادہ عام شہری   جاں بحق ہوئے ہیں۔ فوج اور ان قبائل کو جو پاکستان کے محافظ تھے ایک دوسرے کے خلاف   صف آرا کردیا گیا ہے اور امن کے معاہدات کے ذریعے اس آ گ کو بجھانے کی جو کوشش کی گئی ہے اس کو سبوتاژ کرنے کے لیے امریکا‘ افغانستان کی حکومت‘ افغانستان میں ناٹو کی ایساف کی کمانڈ اور خود ملک کے فوجی حکمران طرح طرح کی کارروائیاں کررہے ہیں جن سے خطرہ ہے کہ امن کی فضا ختم ہوجائے اور خدانخواستہ کوئی بڑا خونی تصادم پھر سر اُٹھالے۔

پنجاب چونکہ حکمران ہے‘ اس لیے اس سے بظاہر مرکز کے تعلقات اچھے ہیں لیکن دراصل خود صوبے کے مختلف حصوں کے درمیان کھچائو اور رسہ کشی ہے اور خصوصیت سے جنوبی پنجاب میں بے زاری کی لہریں اُٹھ رہی ہیں۔ سندھ کا معاملہ کچھ اور بھی پیچیدہ ہے۔ وہاں جس پارٹی نے  سب سے زیادہ ووٹ لیے تھے‘ اسے حکومت بنانے سے محروم رکھا گیا اور مصنوعی اکثریت پیدا کرکے سیاسی دروبست کا اہتمام کیا گیا۔ ایک لسانی تنظیم کو جو دراصل ایک مافیا کی حیثیت رکھتی ہے صوبے پر مسلط کردیا گیا ہے جس نے صرف کراچی ہی نہیں پورے صوبے میں تباہی مچائی ہوئی ہے۔ ایک ایسے شخص کو جو خودسزا یافتہ تھا‘ جھوٹی معافی دے کر اور سیاسی سودا بازی کے نتیجے میں  گورنر مقرر کیا گیا اور وہ گورنر باقی تمام صوبوں کے گورنروں کے مقابلے میں ایک متوازی حکومت کے ذریعے اپنی من مانی کر رہا ہے۔

صوبائی خودمختاری کا مسئلہ ایسی گمبھیر شکل اختیار کرتا جا رہا ہے کہ فیڈریشن کا شیرازہ   معرضِ خطر میں ہے لیکن جرنیل صاحب یونٹی آف کمانڈ کے نام پر فیڈریشن پر ایک وحدانی نظام مسلط کررہے ہیں اور یہ وحدانی نظام خاکی وردی میں ملبوس ہے۔ بگاڑ کی اصل وجہ یہ جرنیلی نظام ہے جس نے ملک کے سارے اداروں کا خانہ خراب کر دیا ہے۔

ایک دوراہا یہ بھی ہے کہ آیا اس ملک کو ایک حقیقی فیڈرل نظام کے مطابق چلنا ہے۔ آمریت اور وحدانی نظام جس کے بوجھ تلے خدانخواستہ پورا نظام درہم برہم ہو جائے۔

امن و امان کی بگڑتی صورت حال

جنرل پرویز مشرف نے ایک وعدہ قوم سے یہ بھی کیا تھا کہ وہ ملک میں امن و امان قائم کریں گے‘قانون کی حکمرانی ہوگی اور ہر فرد کو انصاف فراہم کیا جائے گا۔ لیکن ان کے سات سالہ دورِاقتدار میں جو چیز سب سے ارزاں ہوگئی ہے ایک عام فرد کی آزادی‘ زندگی اور عزت کی پامالی ہے۔ پولیس کی اصلاحات اس دعوے کے ساتھ کی گئی تھیں اب پولیس سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں ہوگی اور وہ عام شہریوں کو جان‘ مال اور عزت کا تحفظ دے سکے گی۔ پولیس کے لیے مالی وسائل اور ٹکنالوجی دونوں فراہم کرنے کا دعویٰ بھی کیا گیا لیکن پنجاب جیسے صوبے میں جس کا پولیس کا بجٹ ۶ ارب روپے سے بڑھ کر ۲۱ ارب روپے کردیا گیا ہے۔ صوبے کا دارالحکومت تک جرائم کا مرکز بن گیا ہے اور صوبے کے کسی گوشے میں عوام کو امن اور چین میسر نہیں۔ لاہور کے مصروف ترین علاقے میں دن دہاڑے صوبے کا اعلیٰ ترین قانونی افسر اڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل اور اس کے ساتھی قتل کر دیے جاتے ہیں اور ملزموں کی نشان دہی کیے جانے کے باوجود وہ پولیس کی دسترس میں نہیں آتے۔ سپریم کورٹ کا چیف جسٹس پولیس کی کارکردگی پر بے اعتمادی کا اظہار کرتا ہے اور   اعلیٰ عدالت کے جج یہاں تک کہتے ہیں کہ پولیس کا بجٹ روک دیا جائے اور یہ اربوں روپے   عوام کو ریلیف دینے کے لیے استعمال کیے جائیں۔ سپریم کورٹ بار بار پولیس کو ملزموں پر    ہاتھ ڈالنے کا حکم دیتی ہے اور پولیس افسر عدالت میں آنے تک کی زحمت گوارا نہیں فرماتے۔ صوبے میں نام لے کر ڈاکوؤں کے ۴۵ گروہوں کا ذکر کیا جاتا ہے جو سیکڑوں وارداتوں میں  ملوث ہیں مگر کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ صوبے کا وزیراعلیٰ بھی چیخ اُٹھتا ہے مگر ان بااثر ڈاکوؤں اور اغوا کاروں کے آگے بے بس ہے۔ پنجاب میں صرف ۲۰۰۶ء میں تمام جرائم میں ۲۵ فی صد اضافہ ہوا ہے۔ کراچی اور سندھ کا حال اس سے بھی خراب ہے۔ سرحد میں پہلے تین سال صورت حال  بہتر تھی لیکن وہاں بھی ۲۰۰۶ء میں جرائم میں اضافہ ہوا ہے۔ وزیرداخلہ خود جنرل پرویز مشرف کی تشویش کا یوں اظہار کرتے ہیں:

صدر کو ملک میں جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح پر خاصی تشویش ہے‘ خصوصاً دہشت گردی‘ انتہاپسندی‘ فرقہ واریت‘ اسٹریٹ کرائم کے واقعات پر۔

یہ بیان وزیرداخلہ نے آرمی ہائوس میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کے بعد دیا جو جنرل پرویز مشرف کے سات سالہ دورِاقتدار کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

لیکن بات صرف روایتی جرائم ہی کی نہیں کہ چوری‘ ڈاکے‘ آبروریزی‘ اغوا براے تاوان‘   کارچوری اور موبائل چوری ہر جرم میں اضافہ ہوا ہے لیکن اس سے زیادہ خطرناک رجحان یہ ہے کہ سیکڑوں شہریوں کو سرکاری ادارے اُٹھا کر لے جاتے ہیں اور مہینوں نہیں‘ برسوں ان کا پتا نہیں چلتا۔ سیکڑوں کو کسی عدالتی کارروائی کے بغیر اور کسی جرم کو ثابت کیے بغیر امریکا کے حوالے کر دیا گیا اور  بے غیرتی کی انتہا ہے کہ اسے اپنا کارنامہ بیان کیا جاتا ہے‘ حتیٰ کہ اپنی خودنوشت میں اس کا نمایاں طور پر ذکر کیا جاتا ہے اور یہاں تک دعویٰ کیا جاتا ہے کہ حکومت کو اس کے عوض کروڑوں ڈالر ملے۔   یہ اور بات ہے کہ ڈالروں والی بات کو ہر طرف سے تھوتھو ہونے کے بعد واپس لینے کی جسارت بھی کی گئی ہے۔ معصوم انسانوں کو یوں اُٹھا لینا دستور‘ قانون‘ دین‘ اخلاق ہر ایک کے خلاف ہے لیکن اس جرنیلی دور میں یہ بھی کھلے بندوں کیا جا رہا ہے اور سپریم کورٹ کے بار بار انتباہ اور پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے احتجاج کے باوجود ان لاپتا افراد کا کوئی پتا نہیں مل رہا ہے۔

اگر بصیرت کی نگاہ سے حالات کو دیکھا جائے تو اس لاقانونیت کے فروغ کا ایک بنیادی سبب فوج کے جرنیلوں کا اقتدار پر غاصبانہ قبضہ‘ دستورشکنی اور اس دستورشکنی کے لیے عدالتی جواز کی فراہمی کی مکروہ روایت ہے۔ جب اعلیٰ ترین سطح پر دستور اور حلف توڑنے پر کوئی گرفت نہیں ہوگی تو پھر ہرسطح پر قانون شکنی کا دروازہ کھلے گا۔ جب طاقت ورقانون سے بالا ہوں گے تو پھر کون قانون کا احترام کرے گا۔ جب تک دستور توڑنے والوں کو دستور کی دفعہ ۶ کے تحت قرارواقعی سزا کا نظام مؤثر نہیں ہوگا‘ تو پھر کسی سطح پر بھی قانون کا احترام قائم نہیں ہوسکے گا۔

ایک دوراہا آج قوم کے سامنے یہ بھی ہے کہ اس ملک میں دستور اور قانون کی حکمرانی ہوگی۔ یا وردی اور قوت والے جو چاہے کرلیں وہ قانون کی گرفت سے باہر ہی رہیں گے۔ اگر انصاف اور امن ہمارا مقصد ہے تو پھر ہرسطح پر قانون توڑنے والے ہاتھ روکنے ہوں گے یا ایسے ہاتھوں کو کاٹنا پڑے گا تب ہی سب کی جان‘ مال‘ عزت اور آبرو محفوظ ہوسکیں گے۔

دستور کی بے وقعتی

بگاڑ کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ملک کا ایک دستور ہے لیکن وہ صرف کاغذ کا ایک پرزہ بنادیا گیا۔ یہ درست ہے کہ اصل دستور میں من مانی تبدیلیاں بھی کی گئی ہیں اور آٹھویں اور ۱۷ویں ترامیم کے ذریعے اس کا حلیہ خاصا بگاڑ دیا گیا ہے مگر اس سب کے باوجود جس دستور پر قیادت نے حلف لیا ہے اس کا بھی ان حکمرانوں کو کوئی پاس نہیں۔

دستور میں سب سے پہلے اللہ سے وفاداری اور اسلامی نظریے کی پاس داری کا حلف ہے مگر روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے نام پر اللہ کے احکام اور اسلام کی واضح تعلیمات سے انحراف کیا جارہا ہے۔ شراب جس کا استعمال دستور اور قانون کے تحت جرم ہے‘ اب کھلے بندوں منگوائی جارہی ہے اور ہوٹلوں اور دعوتوں میں جام لنڈھائے جارہے ہیں۔ زنا اب جرم نہیں رہی اور اللہ کی حدوں کو پامال کیا جارہا ہے۔ سود جسے شرعی عدالتوں نے ختم کرنے کا فیصلہ دیا تھااس کی بنیاد پر سارا نظام چلایا جارہا ہے۔ بے حیائی اور فحاشی کو عام کیا جا رہا ہے اور اس کا نام روشن خیالی رکھا گیا ہے۔ جہاد فی سبیل اللہ جو فوج کا آج بھی رسمی موٹو ہے‘ اس کا ذکر بھی زبان پر لانے سے لرزہ طاری ہے اور قسمیں کھاکھا کر کہا جا رہا ہے کہ جہاد سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ہر جہادی تنظیم گردن زدنی ہے۔ نصابِ تعلیم سے بھی جہاد کا ہر ذکر خارج کیا جا رہا ہے۔ اگر بس چلے تو نعوذباللہ قرآن پاک میں بھی ترمیم کر کے ان تمام آیات کو نکال دیا جائے جو جہاد کے بارے میں ہیں۔ اسلامیات کے نصاب کو بھی بدلا جا رہا ہے اور دوسرے تمام مضامین سے اسلام اور اسلامی تاریخ و ثقافت کے ذکر کو خارج کیا جا رہا ہے اور وزیرتعلیم‘ جو ماشا اللہ سابق جرنیل بھی ہیں اور امریکا سے تعلیمی اصلاحات کے لیے سندجواز بھی لے آئے ہیں‘ فرماتے ہیں کہ ’’نصابِ تعلیم پر تنقید کرنے والے مکار اور منافق ہیں‘‘ اور’’یہ لوگ ملک کو چھٹی صدی میں دھکیلنا چاہتے ہیں‘‘۔ قرآن میں ۴۰ پاروں کی بات کرنے والے وزیرتعلیم کو کیا پتا کہ چھٹی صدی تو دورِ جاہلیت کی صدی ہے۔ سیدنا محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا انقلاب تو ساتویں صدی میں آیا۔ دورِ رسالت مآب ؐ اور خلافتِ راشدہ ہی کا زمانہ مسلمانوں کے لیے   ہمیشہ معیار اور ماڈل رہا ہے‘ رہے گا۔ اُمت کا قبلہ آج کے حکمرانوں اور ان کے امریکی آقائوں کی تمام خواہشات کے باوجود ان شاء اللہ یہی رہے گا۔ حال ہی میں وزارتِ تعلیم نے جو وائٹ پیپر شائع کیا ہے وہ اس فکر سے ذرا بھی مختلف نہیں جو اس سے پہلے سکندرمرزا اور ایوب خاں جیسے لوگ پیش کرتے رہے ہیں اور جس طرح ان کے مذموم منصوبے عوام کے دبائو میں پادر ہوا ہوئے‘ اسی طرح ان شاء اللہ آج کے جرنیلی حکمرانوں کے عزائم بھی خاک میں ملیں گے۔

ایک دوراہا یہ بھی ہے کہ اس قوم کی منزل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا دین اسلام ہے یا اسلام کا وہ نمونہ جو بش اور اس کے حواریوں کے لیے قابلِ قبول ہو اور جو تصوف کی کوئی ایسی شکل اختیار کرلے جس سے باطل کی قوتوں اور سامراجی طاقتوں کو کوئی خطرہ نہ ہو۔

معیشت کی زبوں حالی

جنرل پرویز مشرف اور ان کے ظلِّی وزیراعظم شوکت عزیز اپنی معاشی فتوحات کا بڑا دعویٰ کرتے ہیں اور اس کا رکردگی کے سہارے عوام کے دل جیت لینے کی باتیں کرتے ہیں۔ کاش‘ یہ حضرات اپنے محلات سے نکل کر زمینی حقائق کو بھی دیکھیں اور بچشم سر نظارہ کریں کہ عوام کن مشکلات سے دوچار ہیں۔ اعدادوشمار کی بازی گری نہ غربت کو مٹا سکتی ہے اور نہ بھوک کا مداوا کرسکتی ہے۔ بے روزگاری جو انھی کے اعدادوشمار کے مطابق ۱۹۹۱ء میں ۳ فی صد سے کم تھی وہ ۲۰۰۳ء میں ۳ء۸ فی صد سے تجاوز کرگئی اور ۲۰۰۶ء میں ۸ء۶ بتائی جاتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں بھوک‘ افلاس اور بے روزگاری کی وجہ سے خودکشی کسی دور میں نہیں ہوئی لیکن اس جرنیلی دور میں ہرسال سیکڑوں افراد خودکشی تک پر مجبور ہو رہے ہیں۔ ایک حالیہ سروے کی روشنی میں صرف راول پنڈی میں اور صرف ۲۵ تھانوں سے حاصل کردہ معلومات کی بنیاد پر ۲۰۰۶ء میں ۵۲ افراد نے خودکشی کی ہے (جنگ،  ۲۰ جنوری ۲۰۰۷ء’اسلام آباد کا جڑواں شہر اور خودکشیاں‘ منوبھائی)

یہ حال ایک شہر کا نہیں پورے ملک کا ہے۔ ان سات سالوں میں اشیاے ضرورت کی قیمتوں میں ایک سو سے لے کر چار سو فی صد تک اضافہ ہوا ہے۔ دولت کی عدم مساوات میں محیرالعقول اضافہ ہواہے۔امیر امیر تر ہو رہا ہے اور غریب غریب تر ۔موجودہ حکومت کی ساری پالیسیوں کا ہدف امیروں کو امیر تر کرنا ہے جس کا ایک اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ ملک کی کُل آبادی میں بمشکل ۱۵ فی صد ایسے ہیں جو بنکوں میں حساب رکھتے ہیں۔ ان کی تعداد ۱۹۹۹ء میں ۸ء۲۹ ملین تھی جو ۲۰۰۶ء میں کم ہو کر ۲ء۲۶ ملین رہ گئی۔ ان میں سے جو اپنے بنک کھاتے میں اوسطاً ۱۰ ہزار روپے یا اس سے کم رقم رکھتے تھے وہ ۱۹۹۹ء میں کل کھاتہ داروں کا ۵ء۵۱ فی صد تھے‘ جب کہ ان کی کُل رقم بنک کے تمام کھاتہ داروں کی رقم کا ۳ء۱۱ فی صد تھی۔ لیکن جون ۲۰۰۶ء میں  ان کی تعداد ۵ء۵۱ سے کم ہوکر ۱ء۲۶ فی صد ہوگئی ‘ یعنی ۵۰ فی صد کی کمی اور ان کے کھاتوں کی رقم ۳ء۱۱ سے کم ہو کر ۸ء۰ فی صد رہ گئی یعنی اس میں کمی ۱۲۰۰ فی صد سے زیادہ ہوئی۔ اس کے برعکس اگر ان کھاتہ داروںکے کھاتوں اور ان میں رکھی ہوئی رقم کا مطالعہ کیا جائے جن کے ڈیپازٹ ایک کروڑ روپے یا اس سے زیادہ ہے تو ان کی تعداد ۱۹۹۱ء میں کل کھاتہ داروں کا صرف ۱ء۰ فی صد تھی‘ جب کہ ان کے کھاتوں میں جمع رقم کل رقم کا ۳ء۱۳ فی صد تھی لیکن ۲۰۰۶ء میں کھاتوں کی تعداد کے اعتبار سے ان کی تعداد کل کھاتوں کا صرف ۰۷ء۰ تھی‘ جب کہ ان کھاتوں میں رقم کل رقم کا ۵ء۳۴ فی صد (بحوالہ ڈان ۱۸-۲۴ دسمبر ۲۰۰۶ء‘ مضمونFailure of Monetary Policy از جاوید اکبر انصاری)

یہ تو صورت ہے عام افراد کی معاشی زبوں حالی کی‘ لیکن مجموعی معاشی صورت حال بھی کچھ کم تشویش ناک نہیں۔ افراطِ زر میں برابر اضافہ ہو رہا ہے اور اسٹیٹ بنک کے تازہ ترین اندازوں کے مطابق افراطِ زر کے بارے میں جو تخمینہ تھا کہ وہ ۲۰۰۶ء-۲۰۰۷ء میں ۵ء۶ فی صد ہوگا‘ اندیشہ ہے کہ وہ ۸ فی صد کے لگ بھگ ہوگا۔ اور جہاں تک اشیاے خوردونوش کا تعلق ہے تو دسمبر۲۰۰۵ء کے مقابلے میں دسمبر ۲۰۰۶ء میں یہ اضافہ ۷ء۱۲ فی صد ہوا ہے (بحوالہ دی نیشن ‘ ۲۱جنوری ۲۰۰۷ء)

تجارتی خسارہ ۵ بلین ڈالر سے بڑھ کر ۱۲ بلین ڈالر کی حدوں کو چھو رہا ہے اور بین الاقوامی ادایگی کا خسارہ ڈیڑھ بلین ڈالر سے بڑھ کر ۵ بلین سے تجاوز کر رہا ہے۔ گو زرمبادلہ کے ذخائر ۱۳بلین ڈالر کے لگ بھگ ہیں لیکن ۲۰۰۲ء کے مقابلے میں جب یہ ۱۱ مہینے کی درآمدات کے برابر تھے اس کے مقابلے میں اب یہ بمشکل چار مہینے کی درآمدات کے لیے کفایت کرتے ہیں۔

آزادی گروی رکھ کر جس معاشی ترقی کا شوروغوغا ہے اس کی حقیقت تلخ اور سراب کے مانند ہے۔ اور ایک دوراہا یہ بھی ہے کہ کون سی معاشی ترقی اس قوم کو مطلوب ہے۔

پاکستان دوراھے پر

دوراہے اور بھی ہیں لیکن سب کا مرکزی نکتہ ایک ہی ہے___ یعنی جنرل پرویز مشرف کے سات سالہ دورِحکمرانی میں قوم کو جس جگہ پہنچا دیا گیا ہے‘ اس سے نجات کا اب ایک ہی راستہ ہے اوروہ شخصی آمریت اور فوج کے سیاسی کردار سے نجات اور حقیقی جمہوری نظام کی طرف     پیش قدمی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ قوم ہمیشہ کے لیے اس امر کو طے کردے اور تمام جمہوری اور اسلامی سیاسی قوتیں یک جان ہوکر اس کے لیے سرگرم عمل ہوجائیں کہ ملک کی بقا اور ترقی کا انحصار ۱۹۷۳ء کے دستور کو اس کی اس شکل میں نافذ کرنے پر ہے جو اکتوبر ۱۹۹۹ء سے قبل موجود تھا۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ملک میں جرنیلی آمریت کے خلاف بھرپور تحریک ہو اور نئے انتخابات ایک حقیقی غیر جانب دار حکومت کے تحت کھلے اورشفاف انداز میں ہوں۔ اصل حکمران جنرل پرویز مشرف ہیں اور خود انھوں نے انتخابی مہم کا آغاز کرکے‘ کھلے عام یہ دعوت دے کر کہ ان لوگوں کو منتخب کرو جو میرے ساتھ ہیں اور ان کی آزاد خیالی کے علم بردار ہیں اور پھر یہ اعلان کر کے کہ وہ خود حکمران لیگ اور اس کے حواریوں کی لگام تھامے ہوئے ہیں‘امیدواروں کا انتخاب وہ خود کریں گے اور انتخابی مہم بھی وہ خود چلائیں گے۔ اب یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ جنرل پرویز مشرف کی موجودگی میں کوئی غیرجانب دار انتظام وجود میں نہیں آسکتا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس پورے دور میں کوئی فیصلہ پارلیمنٹ یا کابینہ نے نہیں کیا‘ سارے فیصلے جنرل صاحب خود کرتے ہیں‘ یا کورکمانڈر وں کی میٹنگ میں کیے جاتے ہیں۔ مرکزی کابینہ کو تو ان کی خبربھی اخبارات ہی کے ذریعے ہوتی ہے۔ ان حالات میں واضح ہے کہ اصل حکمران جنرل پرویز مشرف ہیں اور ان کی موجودگی میں کسی آزادی اور غیرجانب دار انتخاب کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا۔ اس لیے تین بنیادی نکات ہیں جن پر    تمام سیاسی اور دینی جماعتوں کو متفق ہوکر جدوجہد کرنی چاہیے:

                ۱-  دستور کی اس کی اصل شکل میں بحالی‘ شخصی حکمرانی کا خاتمہ اور فوج کو دستور کے تحت مکمل طور پر منتخب سول نظام کے تحت کام کرنے کا پابند کرنا۔

                ۲-  چونکہ جنرل پرویز مشرف جو اصل حکمران اور سرکاری پارٹی کے حاکم مطلق ہیں ان کی حکومت کے تحت آزاد اور غیر جانب دار انتخابات ناممکن ہیں‘ اس لیے ان کا استعفا اور صحیح معنوں میں ایک غیرجانب دار انتظام کے تحت ایک مکمل طور پر بااختیار پارلیمنٹ کی تمام سیاسی جماعتوں کے مشورے کے مقرر کردہ آزاد الیکشن کمیشن کے تحت نئے انتخابات۔

                ۳-  انتخابات میں تمام سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کی غیرمشروط شرکت اور طے شدہ آداب کے مطابق انتخابی مہم کے پورے مواقع۔

اس سیاسی جدوجہد اور انتخاب میں جنرل پرویز مشرف کو بھی اسی طرح شرکت کا موقع ملنا چاہیے جس طرح باقی تمام سیاسی عناصر کو‘ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اقتدار سے فارغ ہوں‘ وردی اُتاریں تاکہ صدر کا عہدہ اور چیف آف آرمی اسٹاف کا عہدہ دونوں دستور کے تحت  بحال ہوسکیں اور وہ صدارت یا اسمبلی کی رکنیت جس کے لیے بھی حصہ لینا چاہیں برابری کی بنیاد پر حصہ لیں۔

انھیں دعویٰ ہے کہ وہ بزدل انسان نہیں۔ اگر ایسا ہے تو انھیں ہرگز زیب نہیں دیتا کہ   فوج کی وردی پہن کر فوجی بیرک کے محفوظ مقام پر بیٹھ کر اس سیاسی معرکے میں شرکت کریں۔    یہ دعوے کہ وردی کا کوئی تعلق جمہوریت سے نہیں اور پانچ سال والی اسمبلی سے دس سال کے لیے صدارتی انتخابات کرانے کے منصوبے دراصل سیاسی دیوالیہ پن ہی کا مظاہرہ نہیں بلکہ خود       اپنی کمزوری کا بھی اعتراف ہیں۔ اگر آپ کو اعتماد ہے کہ عوام آپ کے ساتھ ہیں تو پھر فوج کی چھتری تلے بیٹھ کر شب خون مارنے کے کیا معنی؟

فوج کو جس طرح سیاست میں ملوث کیا گیا ہے اور اس کے نتیجے میں جس طرح فوج متنازع بن گئی ہے اور عوام اور فوج میں فاصلے بڑھ گئے ہیں‘ یہ کھیل اب ختم ہونا چاہیے اور ہمیشہ  کے لیے ختم ہونا چاہیے تاکہ جمہوریت کی گاڑی پٹڑی پرچڑھ سکے اور فوج دستور کے تحت سول نظام کی قیادت میں اپنا کردار ادا کرسکے۔۲۰۰۷ء فیصلے کا سال ہے اور اب توقع ہے کہ یہ قوم وہ فیصلہ کرے گی جس کے نتیجے میں پاکستان اپنی اصل منزل کی طرف پوری قوت اور یک سوئی سے    پیش قدمی کرسکے گا۔

 

ٹیلی وژن کو Idiot Box (احمق ڈبّا)کہا جاتا ہے لیکن پاکستان میں دیکھتے ہی دیکھتے اس نے ’پنڈورا باکس‘ کی حیثیت بھی حاصل کرلی ہے‘ تاہم یونانی اسطور یا mythology میں پنڈورا باکس تجسس کی وجہ سے کھولا گیا تھا۔ لیکن وطن عزیز میں ٹیلی وژن کا پنڈورا باکس پوری منصوبہ بندی کے ساتھ کھولا گیا ہے اور اس سے برآمد ہونے والی تمام بلائیں ’پالتو‘ ہیں۔

جنرل پرویز کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے پاکستان میں ذرائع ابلاغ کو آزادی دی ہے اور اس کا ایک ثبوت پاکستان میں آزاد ٹی وی چینلوں کی بھرمار ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک ایسے ملک میں جہاں اشتہارات کا سالانہ بجٹ ۶‘۷ ارب سے زائد نہ ہو‘ وہاں درجنوں چینلوں کو منافع میں کیسے چلایا جاسکتا ہے؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اس صنعت میں غیر ملکی سرمایہ خفیہ انداز میں در آیا ہے اور پاکستان میں ٹی وی چینلوں کا boom (تیزی) دراصل امریکا‘ یورپ اور بھارت کی   پیش قدمی بن گئی ہے؟ اس بارے میں وثوق سے کچھ بھی کہنا دشوار ہے‘ تاہم جو بات سامنے ہے‘ وہ سب ان چینلوں پر غیر ملکی مدار کی یورش دیکھنے میں آرہی ہے۔ کیا یہ اتفاق ہے؟ ہولناک بات یہ ہے کہ ان چینلوں کا جو مقامی مواد ہے‘ وہ بھی مغرب یا بھارت کے چینلوں کی نقل اور ان کا چربا ہے۔ اس سلسلے میں غیر ملکی چینلوں کے پروگرام کے نام اور ان کی پیش کش کا انداز تک چوری کیا جارہا ہے۔ یہ ذہنی اور اخلاقی دیوالیے پن کی انتہا ہے۔ نتیجہ یہ کہ یہ چینل ہمارے معاشرے میں پورس کے ہاتھیوں کا کردار ادا کررہے ہیں۔ پورس کے یہ ہاتھی ہر گھر میں گھس آئے ہیں۔

ابلاغیات کے ایک ممتاز مذہبی ماہر مارشل میکلوہن نے کار کی ایجاد پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس نے انسانی پائوں کو توسیع دے دی ہے۔ تاہم ٹیلی وژن پر کلاسک کا درجہ رکھنے والی کتاب: Four Argument &  for the Elemination of Television کے مصنف جیری مینڈر نے اس تبصرے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کار نے انسانی پائوں کی رسائی نہیں بڑھائی بلکہ اس نے انسانی پائوں کی جگہ لے لی‘ یعنی اس کا متبادل بن کر بیٹھ گئی۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ٹی وی چینلوں کی کثرت کا معاملہ بھی یہی ہے۔ چینلوں کی کثرت نے راے کی آزادی کو بڑھایا نہیں‘ اس کا دھوکا تخلیق کیا ہے‘ ورنہ راے پہلے سے زیادہ کنٹرول ہوگئی ہے۔   لوگ اس حقیقت کو سمجھ لیں گے مگر اس میں وقت لگے گا۔ البتہ تفریح کی آڑ میں آزادی کا ہر بند ٹوٹ گیا ہے لیکن یہ سیلاب کا منظر ہے۔ سیلاب زدہ علاقوں میں ہر طرف پانی ہوتا ہے اور پانی میں گھرے ہوئے لوگ پینے کے لائق ایک گلاس پانی کو ترس جاتے ہیں۔ چنانچہ لوگ تفریحی سیلاب میں حقیقی تفریح کو ترس رہے ہیں۔

پاکستان کی تاریخ میں یہ بات بھی ہمیشہ یاد رکھی جائے گی کہ امریکا اور اس کے مقامی ایجنٹوں کو حدود اللہ پر تنازع برپا کرنے اور اس میں ترامیم کا خیال آیا تو اس کے لیے ٹی وی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا اور صرف ایک ماہ میں اصولوں کی تفہیم کو تحلیل کردیا گیا۔ ٹی وی کے میڈیم میں تفہیم دشمنی ویسے ہی خلقی طور پر موجود ہے۔ جیری مینڈر نے اپنی کتاب میں ٹی وی کے ایک ماہر برٹ جان کا یہ فقرہ نقل کیا ہے:

There is a bias in television journalism. It is not against particular party or point of view. It is a bias against understanding.

ٹی وی کی صحافت میں ایک یک طرفگی یا جھکائو ہے لیکن یہ جھکائو کسی پارٹی یا نقطۂ نظر کے خلاف نہیں ہے بلکہ یہ تفہیم کے خلاف ہے۔

اس صورت حال کے خلاف معاشرے میں ردعمل موجود ہے لیکن صرف شخصی سطح پر۔ اجتماعی سطح پر ردعمل کی یا تو کوئی صورت ہی موجود نہیں یا ہے تو وہ موثر نہیں ہے۔ آخر اس کی وجوہ کیا ہیں؟

بدقسمتی سے معاشرے میں نائن الیون کے بعد رونما ہونے والے واقعات کو صرف سیاسی اور عسکری حوالوں سے دیکھا گیا۔ اکثر لوگ بھول گئے کہ مغرب کی تاریخ یہ ہے کہ فوجی طاقت کے استعمال کے بعد مغرب مذہبی اور تہذیبی سطح پر پیش قدمی کرتا ہے اور اس بار بھی ایسا ہی ہوگا۔ چنانچہ یہ محض اتفاق نہیں تھا کہ امریکا عراق کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کررہا تھا تو عراق کے اسکولوں کے لیے نیا نصاب اس کے فوجیوں کی بغل میں تھا۔ افغانستان میں یہ عمل ذرا تاخیر سے شروع ہوا، اس لیے کہ وہاں کے معروضی حالات عراق سے قدرے مختلف تھے۔ اس پہ حالات و واقعات کی افتاد اتنی تیز ہے، ان کو ایک تناظر میں دیکھنے کے لیے تربیت یافتہ آنکھ درکار ہے۔

جنرل پرویز نے ۱۱ستمبر کی رات ایک ٹیلی فون کال پر پورا ملک امریکا کے حوالے کیا تو اکثر لوگوں نے سمجھا یہ محض ایک حکمت عملی ہے اور امریکا کی بلا کو ٹالا جارہا ہے۔ اس ناقص تفہیم نے بھی ملک کے اندر رونما ہونے والی بہت سے تبدیلیوں اور قوم کی تفہیم کے درمیان حجاب کا کردار ادا کیا۔ تاہم‘ بعد کے حالات نے تو ثابت ہی کردیا کہ ہتھیار ڈالنے کا عمل عسکری اور خارجہ امور تک محدود نہیں۔ ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کی ہر قابل ذکر اور قابل غور چیز اس کی زد میں آچکی ہے۔

ہماری اجتماعی زندگی کی ایک بڑی نفسیاتی مشکل یہ ہے کہ بہت سے لوگوں کے لیے ہماری دنیا ہماری اپنی نہیں۔ یہ امریکا، جرنیلوں یا بیک وقت دونوں کی دنیا ہے اور ہمارا کام صرف یہ ہے کہ جو کچھ بھی ہورہا ہو، اس میں خود کو اس کے مطابق (adjust) کرنے کی کوشش کریں۔ یہی ذہانت ہے، یہی سیاسی بصیرت ہے، یہی تدبر ہے۔ اعلان تو کوئی نہیں کرتا لیکن اکثر لوگوں کے طرزفکر اور طرزعمل سے لگتا ہے کہ نعوذ بااللہ اس دنیا کا کوئی خدا نہیں ہے اور ہماری یہ دنیا صرف دنیاوی طاقتوں کے حکم اور اصولوں پر چل رہی ہے۔ یہ طرزفکر ہر بگاڑ کو ہمارے لیے قابل قبول بنائے چلا جارہا ہے۔ بے شک اندھا دھند مزاحمت حماقت ہے اور کوئی احمق ہی اس کی حمایت کرسکتا ہے۔ لیکن اندھا دھند صرف مزاحمت نہیں ہوتی، چشم پوشی اور چیخ سے فرار بھی اندھا دھند ہوسکتا ہے‘ اور اس وقت ہم معاشرے میں اندھا دھند چشم پوشی اور اندھا دھند فرار ہی کا مشاہدہ کررہے ہیں۔

یہ مسئلہ بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ ہمیں اب تک سرکاری ٹی وی کے خلاف ردعمل ظاہر کرنے کی ’عادت‘ ہے۔ مگر اب ہمارے سامنے پی ٹی وی نہیں، نام نہاد آزاد چینل ہیں۔ یہ ایک نیا تجربہ ہے اور اس تجربے کو چیلنج کرنے کا عمل ہمیں ابھی ’سیکھنا‘ ہے لیکن تبدیلی اتنی برق رفتار ہے کہ ہم جتنی دیر میں یہ عمل سیکھیں گے، اتنے وقت میں سماجی اقدار کے بیخ و بن  .ُ   ادھڑ چکے ہوں گے۔

اس سلسلے میں ہمارے مذہبی طبقات کی ایک مشکل یہ ہے کہ وہ عریانی و فحاشی کا شور مچاتے رہتے ہیں اور یہ ردعمل پہلے سے موجود خانوں میں ’فِٹ‘ کردیا جاتا ہے۔ مطلب یہ کہ مذہبی عناصر تو یہی رونا روتے رہتے ہیں۔ حالانکہ اب دیکھا جائے تو مسئلہ محض عریانی و فحاشی کا ہے بھی نہیں۔ ابلاغ کے تمام ذرائع بالخصوص ٹیلی وژن اب معاشرے کی تشکیل نو کے لیے استعمال ہورہا ہے اور یہ عریانی و فحاشی سے ایک لاکھ گنا خطرناک بات ہے۔ پھر یہ بات بھی اہم ہے کہ اب عریانی و فحاشی زندگی کا معمول یا normal experience بنا کر پیش کی جارہی ہے اور یہ تصور بھی معاشرے کی تشکیل نو کا حصہ ہے۔ چنانچہ اصل مسئلہ معاشرے کی قلب ماہیت یا transformation ہے۔

چٹورپن ہمارے لیے کوئی نئی بات نہیں لیکن کھانے پینے کے پروگراموں کو ہمارے چینلوں پر جو اہمیت دی جارہی ہے‘ اس سے خود ایک نیا تصور زندگی اور تصور انسان پیدا ہورہا ہے۔ یہ چٹورپن کو نظام بنانے یا systematize کرنے کی سازش ہے اور عریانی و فحاشی سے زیادہ خطرناک ہے‘ اس لیے کہ اسے خطرناک سمجھنے والے آٹے میں نمک سے بھی کم ہیں۔ دنیا بھر میں صارفین اور    ٹی وی کے صارفوں کی انجمنیں اس امر پر دھیان رکھتی ہیں کہ کیا دکھایا جارہا ہے۔ چنانچہ اس حوالے سے مغربی ملکوں میں قابل اعتراض چیزوں پر اعتراض ہوتا ہے‘ احتجاج کیا جاتا ہے۔ مگر ہمارے یہاں لوگ کھانے میں زہر کھا کر بھی مشکل ہی سے احتجاج کرتے ہیں اور ٹی وی کا زہر تو ویسے بھی ’تفریحی زہر‘ ہے۔ اس کی شناخت کون کرے؟ اور اس کے اثرات پر احتجاج کی نوبت کیسے آئے؟

ٹیلی وژن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ electronic parent یا برقی والدین کا کردار ادا کررہا ہے۔یہ بات ۱۹۷۰ء کی دہائی میں مغربی معاشروں کے حوالے سے کہی گئی مگر اب صورت حال یہ ہے کہ ٹی وی ہی ماں باپ کا کردار ادا کررہا ہے۔ ٹی وی ہی استاد ہے‘ ٹی وی ہی اسکول ہے۔ کبھی کہا جاتا تھا‘ ٹی وی بچوں کو بہت جلد بڑا بنا دیتا ہے مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہ کیسے ’بزرگوں‘ کو ’بچہ‘ بنا رہا ہے۔ میر تقی میر نے کہا تھا  ع   مژگاں کو کھول شہر کو سیلاب لے گیا

یوں لگتا ہے کہ ہمارے یہاں سیلاب صرف شہر نہیں شہر کو دیکھنے والی آنکھ بھی لے گیا ہے۔

 

حضرت ابوموسٰی ؓ سے روایت ہے‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! قیامت کے روز ہر معروف (نیکی) اور ہر منکر (برائی) ایک مخلوق کی شکل میں انسانوں کے سامنے کھڑی ہوں گی۔ معروفات اپنے اُوپر عمل پیرا ہونے والوں کو   خوش خبریاں دیں گی اور جنت کے وعدے یاد دلائیں گی‘ اور منکرات اپنے اُوپر عمل پیرا ہونے والوں کو دھکے دیں گی لیکن وہ ان سے چمٹیں گے (ان سے عشق کا مظاہرہ کریں گے)۔ برائی اپنے ساتھ لے کر انھیں دوزخ میں پھینک دے گی اور عشق کا مزا چکھائے گی۔ (مجمع الزوائد‘ ج ۷‘     ص ۳۶۲ بحوالہ مسنداحمد‘ بزاز)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نیکی اور بدی دونوں کا انجام کھول کر بیان فرما دیا ہے‘ اتمامِ حجت کر دیا ہے۔  کل قیامت کے روز کوئی یہ عذر نہیں کر سکے گا کہ مجھے تو برائی کے اس ہولناک انجام کا پتا نہ تھا‘ ورنہ میں برائی سے عشق نہ کرتا۔ آج موقع ہے‘ توبہ کا دروازہ کھلا ہے‘ باز آنے والے باز آسکتے ہیں۔ کل پکڑ ہوگی‘ کسی بھی قسم کی چیخ و پکار کام نہ دے گی۔ ہے کوئی جو اس بات پر کان دھرے!


حضرت علی بن ربیعہؒ سے روایت ہے‘ مجھے حضرت علیؓ نے اپنے پیچھے سواری پر بٹھایا‘ پھر حرۃ کی جانب چل پڑے۔ پھر آسمان کی طرف سر اٹھایا اور یہ دعا کی: اَللّٰھُمَّ اَغْفِرْلِیْ ذُنُوْبِیْ اِنَّہٗ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اَحَدٌ غَیْرُکَ ،’’اے اللہ میرے تمام گناہ اور لغزشیں بخش دیجیے‘ گناہوں کو تیرے سوا کوئی بھی نہیں بخش سکتا‘‘۔ پھر میری طرف مڑ کر دیکھا اور ہنس پڑے۔ میں نے عرض کیا: امیرالمومنین آپ کا اپنے رب سے استغفار کرنا پھر میری طرف مڑ کر دیکھنا اور ہنسنا سمجھ میں نہیں آیا؟ اس کا کیا مطلب ہے؟ حضرت علیؓ نے جواب میں فرمایا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیچھے سوار کیا۔ پھر مجھے حرۃ کی جانب لے کر چل پڑے۔ پھر آسمان کی طرف اپنا سر اٹھایا اور دعا کی اَللّٰھُمَّ اَغْفِرْلِیْ ذُنُوْبِیْ اِنَّہٗ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اَحَدٌ غَیْرُکَ ، پھر میری طرف مڑ کر دیکھا اور ہنس پڑے۔ میں نے عرض کیا:یارسولؐ اللہ! آپؐ  کا استغفار کرنا اور میری طرف مڑ کر دیکھنا اور ہنس پڑنا سمجھ میں نہیں آیا‘ اس کا کیا مطلب ہے؟ آپؐ نے فرمایا: میں ہنس پڑا اس لیے کہ میرے رب خوش ہوکر اس بات پر ہنس پڑے کہ میرا بندہ عقیدہ رکھتاہے کہ گناہوں کو اس کے سوا کوئی نہیں بخش سکتا۔ (کنزالعمال ‘ ج۱‘ ص ۲۱۱)

اللہ تعالیٰ ایسے حکمران ہیں جو بندے کی ذرا ذرا سی بات‘ ذرا ذرا سے عمل سے باخبر ہیں۔ ہر وقت دیکھتے‘ سنتے اور جواب دیتے ہیں‘ یہ الگ بات ہے کہ ہمیں اس کے جواب کا علم نہیں ہوتا لیکن انبیا علیہم السلام کو بعض اوقات علم ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس سے بارہا باخبر کردیتے تھے۔    نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا پر اللہ رب العالمین کا خوش ہوجانا‘ ہنس پڑنا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع کر دینا‘ اس کی ایک مثال ہے۔ یہ یقین نہ رکھنے کی کوئی وجہ نہیں کہ آج بھی کوئی بندہ یقین کے ساتھ دعا کرے تو اللہ تعالیٰ اسی طرح اظہار مسرت نہ کرتے ہوں گے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صحابہ کرامؓ کی محبت کا یہ ایک نمونہ ہے جو حضرت علیؓ نے پیش کیا۔    آپؐ  کے عمل کی پوری کی پوری نقل کی‘ سواری پر سوار ہو کر اپنے پیچھے علی بن ربیعہ کو بٹھایا‘ حرۃ کی طرف گئے‘ حرۃ پہنچ کر دعا کی اور دعا میں اسی عمل کو دہرایا جسے آپؐ  نے دہرایا تھا۔ نبی کریمؐکے  نقش قدم پر چلنا قدم بقدم وہی کچھ کرنا جو آپؐ  نے کیا‘ یہی آپؐ  سے حقیقی محبت ہے۔


حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دن اور رات میں ضروریات اور حاجات پیش آتی رہتی تھیں۔ اس لیے ہم میں سے کم از کم چار پانچ آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب رہتے تھے۔ کبھی بھی آپؐ کو تنہا نہیں چھوڑتے تھے۔ کہتے ہیں‘ میں آپؐ کے پاس آیا‘ اس حال میں‘ کہ آپؐ گھر سے باہر نکل گئے۔ میں آپؐ کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔ آپؐ انصار کے سرداروں میں سے ایک سردار کے باغ میں داخل ہوئے‘ نماز پڑھی‘ سجدہ کیا جو بہت طویل ہوگیا۔ میں ڈر گیا کہیں ایسا نہ ہو کہ آپؐ کی روح مبارک قبض کرلی گئی ہو‘ اس ڈر سے میں رو پڑا۔ کہتے ہیں پھر آپؐ نے سر اٹھایا اور مجھے بلایا اورفرمایا: تمھیں کیا ہوا؟ میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! آپؐ نے سجدہ طویل فرما دیا تو مجھے ڈر ہوگیا کہ ایسا نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی روح مبارک قبض کرلی ہو‘ اور اس کے بعد میں کبھی بھی آپؐ  کادیدار نہ کرسکوں‘ اس لیے میں رو پڑا۔ آپؐ نے فرمایا: میں نے اپنی اُمت پر اس انعام کے سبب سجدئہ شکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جس نے آپؐ  پر ایک دفعہ درود پڑھا میںاس پر درود بھیجوں گا‘ اور جس نے آپؐ  پر سلام بھیجا میں اس پر سلام بھیجوں گا۔ (مجمع الزوائد‘ ج ۱۰‘ ص ۱۶۱‘ بحوالہ سند ابویعلٰی ابن ابی الدنیا‘ایضاً الترغیب‘ ج ۳ ص ۱۵۵)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی اُمت سے کس قدر محبت ہے اس کا اندازہ کرنے کے لیے یہ واقعہ کافی ہے۔ اُمتی کو انعام ملا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کے سبب اللہ تعالیٰ اس پرصلوٰۃ و سلام بھیجتے ہیں‘ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ ایسے شفیق و کریم نبی کے ساتھ محبت‘ اطاعت اور عشق کس قدر ہونا چاہیے؟ ایسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حق ہے کہ آپؐ کی محبت‘ آپؐ  کی اطاعت‘ آپؐ  کے دین و نظام سے لگائو ماں باپ اور اولاد اور اپنی جان سے بھی بڑھ کر ہو‘ جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اسے اس کے ماں باپ اور اولاد اور اس کی جان سے زیادہ محبوب نہ ہوں‘‘۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے والا فرائض کا پابند‘ منکرات سے اجتناب کرنے اور دین کو غالب کرنے والا ہوگا‘ لیکن وہ شخص جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق و محبت نہ ہو‘ وہ نبی کریمؐ کو بھولا ہوا ہو‘ آپؐ   پر درود و سلام نہ پیش کرتا ہو تووہ اللہ تعالیٰ‘ اللہ تعالیٰ کے دین اور اللہ والوں کو بھی بھولا ہوا ہوگا اور اسی لیے خائب و خاسر ہوگا۔


حضرت عبداللہؓ سے روایت ہے‘ میں اور میرے والد گھر کے دروازے پر بیٹھے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خچر پر سوار ہوکر تشریف لائے۔ میرے والد نے آپؐ سے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ہمارے گھر تشریف نہیں لاتے؟ تشریف لائیں‘ کھانا تناول فرمائیں اور برکت کی دعا کریں۔ آپؐ نے درخواست مان لی۔گھر تشریف لائے‘ کھانا کھایا اور برکت کی یہ دعا فرمائی: اَللّٰھُمَّ ارْحَمْھُمْ وَاغْفِرْلَھُمْ وَبَارِکْ لَھُمْ فِیْ رِزْقِھِمْ ، ’’اے اللہ! ان پر رحم فرما‘ ان کی مغفرت فرما اور ان کے لیے ان کے رزق میں برکت عطا فرما‘‘۔ اس کے بعد ہم نے ہمیشہ رزق میں فراخی دیکھی۔ (کنزالعمال‘ ج ۵‘ ص ۲۲‘ بحوالہ ابن عساکر)

رشتے داروں کو ہی نہیں‘ جن سے دین کا رشتہ ہو‘ ان کو اپنے گھر پر دعوت دے کر بلانا اور کھانے میں شریک کرنا اور ان سے دعائیں لینا ایک ایسی نیکی ہے جس کا رواج جتنا زیادہ ہو‘فائدے اتنے ہی زیادہ ہیں۔ حدیث بتاتی ہے کہ دعا کے لیے بلاتکلف درخواست کرنا چاہیے‘ اور مہمان کو اسے قبول کرتے ہوئے برکت کی دعا کرنا چاہیے۔ رزق کی تنگی و کشادگی سو فی صد اللہ کے ہاتھ میں ہے‘ ہمارے نہیں (جیسا ہم سمجھتے ہیں)۔ اگر مدعو کوئی ذی عزت‘ بزرگ اور متقی ہو تو یقینا دعا زیادہ قبول ہوگی‘ برکت بھی زیادہ ہوگی۔


حضرت ابوقتادہ انصاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری اُمت کے تمام لوگوں کو معافی مل جائے گی مگر مجاہرین (اعلان کرنے والے) کو معافی نہیں ملے گی۔ عرض کیا: یارسولؐ اللہ مجاہرین کون لوگ ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: وہ آدمی جو رات کو گناہ کرتا ہو‘ اللہ تعالیٰ اس کی پردہ پوشی کرے۔ صبح کے وقت وہ اٹھے اور خود ہی اپنا پردہ فاش کردے‘ کہے اے فلاں آدمی! میں نے گذشتہ رات یہ برا کام کیا ہے۔ (مجمع الزوائد بحوالہ طبرانی فی الاوسط)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی سچائی کا مشاہدہ سر کی آنکھوں سے کیا جاسکتا ہے۔ آج بہت سے ایسے لوگ جو بڑے بڑے مناصب پر فائز ہیں‘ اپنے گناہوں پر سے خود پردہ اٹھاتے ہیں اور کتابیں لکھتے ہیں۔ اس میں اپنے ماں باپ‘ دادا نانی کی بے حیائیوںکا تذکرہ‘ عالمی سطح پر دنیا بھر کے اصحاب شان و شوکت اور عوام و خواص کے سامنے کرتے ہیں۔ ان کتابوں پر رائلٹی لیتے ہیں اور ذرہ برابر بھی شرم محسوس نہیں کرتے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشن گوئی فرمائی کہ ایک ایسا دور آئے گا جب قوم کا لیڈر رذیل ترین اور قبیلے کا قائد فاسق ہوگا(مشکوٰۃ )۔ آج وہی دَور ہے۔

جو مسلمان بے حیائی کی اشاعت پر خاموش تماشائی ہوں‘ وہ بھی بے حیائی کی اشاعت میں مددگار شمار ہوں گے۔ جب بے حیائی کی اشاعت کرنے والوں پر عذاب آئے گا تو اس کی لپیٹ میں خاموش تماشائی بھی آجائیں گے۔ خاموشی کی گنجایش نہیں ہے۔ اس لیے ہر ہر گھر‘ بستی بستی تک پہنچ کر موجودہ نازک صورت حال سے اہلِ وطن کو آگاہ کیا جائے اوربے حیائی کو حکومتی سطح پر فروغ دینے کے سلسلے کو روکا جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق سے نوازے۔ آمین!

قرآن نے مومن کی ایک نمایاں صفت یہ بتائی ہے کہ وہ لغویات سے پرہیز کرتے ہیں اور اس سے حتی الامکان دُور رہتے ہیں۔ سورۂ مومنون میں اللہ تعالیٰ نے فوز و فلاح پانے والے اپنے بندوں کی چند صفات کا ذکر کرتے ہوئے نماز کے بعد جس صفت کا ذکر کیا ہے وہ یہ ہے کہ فلاح پانے والے مومنین لغو سے پرہیز کرتے ہیں:

قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ o الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلَاتِھِمْ خٰشِعُوْنَo وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَo (المومنون ۲۳:۱-۳) یقینا فلاح پائی ہے ایمان لانے والوں نے جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں‘ لغویات سے دُور رہتے ہیں۔

گویا لغویات سے پرہیز اور اس سے بچنا مومن کی ایک نمایاں صفت ہے اور یہ فلاح پانے کی ایک سبیل ہے۔ اس کے لیے ہم لوگوں کو یہ ضرور جاننا چاہیے کہ ’لغو‘ کیا ہے؟

  •  لـغو کا مفھوم: مولانا مودودیؒ نے لغو کی وضاحت اِن الفاظ میں کی ہے: ’’لغو ہراُس بات اور کام کو کہتے ہیں جو فضول‘ لایعنی اور لاحاصل ہو۔ جن باتوں یا کاموں کا کوئی فائدہ نہ ہو‘ جن سے کوئی مفید نتیجہ برآمد نہ ہو‘ جن کی کوئی حقیقی ضرورت نہ ہو‘ جن سے کوئی اچھا مقصد حاصل نہ ہو‘ وہ سب لغویات ہیں‘‘ (تفہیم القرآن‘ ج ۳‘ ص ۲۶۲) ۔پوری آیت کا مطلب جاننے کے لیے ’لغو‘ کے ساتھ ساتھ معرضون کا مطلب بھی جاننا ضروری ہوجاتا ہے۔ مولانا مودودیؒ فرماتے ہیں: معرضون کا ترجمہ ہم نے ’دُور رہتے ہیں‘ کیا ہے۔ مگر اس سے پوری بات ادا نہیں ہوتی۔ آیت کا پورا مطلب یہ ہے کہ وہ لغویات کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ ان کی طرف رخ نہیں کرتے۔ اُن میں کوئی دل چسپی نہیں لیتے۔ جہاں ایسی باتیں ہو رہی ہوں یا ایسے کام ہو رہے ہوں وہاں جانے سے پرہیز کرتے ہیں‘ اُن میں حصہ لینے سے اجتناب کرتے ہیں‘ اور اگر کہیں اُن سے سابقہ پیش آہی جائے تو ٹل جاتے ہیں‘ کترا کر نکل جاتے ہیں‘ یا بدرجہ آخر بے تعلق ہو رہتے ہیں‘‘۔(ایضاً‘ ص ۲۶۲)

مولانا امین احسن اصلاحی ؒ نے ’لغو‘ کی وضاحت کچھ اس طرح کی ہے: ’’لغو سے مراد ہر وہ قول وفعل ہے جو زندگی کے اصل مقصود___ رضاے الٰہی___ سے غافل کرنے والا ہو۔ قطع نظر اس سے کہ وہ مباح ہے یا غیرمباح۔ جس نماز کے اندر خشوع ہو اُس کا اثر زندگی پر لازماً یہ پڑتا ہے فضول‘ غیرضروری‘ لایعنی‘ بے مقصد چیزوںسے احتراز کرنے لگتا ہے۔ اس کو ہر وقت یہ فکر دامن گیر رہتی ہے کہ اگر میں نے کوئی فضول قسم کی حرکت کی تو اپنے عالم الغیب مالک کو ایک روز منہ دکھانا ہے اور اس چیز کی شب و روز میں کم از کم پانچ بار اس کو یاد دہانی ہوتی رہتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جس شخص کا ضمیر اتنا بیدار اور حسّاس ہو کہ غیرضروری حرکت سے اس کی طبیعت انقباض محسوس کرے وہ کسی بڑی  بے حیائی کا مرتکب کبھی مشکل ہی سے ہوگا‘‘۔ (تدبرقرآن‘ ج ۴‘ ص ۴۳۴-۴۳۵)

مفتی محمد شفیعؒ نے ’لغو‘ کی تفسیر معارف القرآن میں اس طرح کی ہے: ’’لغو کے معنی فضول کلام یا کام جس میں کوئی دینی فائدہ نہ ہو۔ لغو کا اعلیٰ درجہ معصیت اور گناہ ہے جس میں فائدۂ دینی نہ ہونے کے ساتھ دینی ضرر و نقصان ہے۔ اس سے پرہیز واجب ہے‘ اور ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ نہ مفید ہو نہ مضر‘ اس کا ترک کم از کم اولیٰ اور موجب مدح ہے۔ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من حسن اسلام المرأ ترکہ مالا یعنیہ ، یعنی انسان کا اسلام جب اچھا ہوسکتا ہے‘ جب کہ وہ بے فائدہ چیزوں کو چھوڑ دے۔ اسی لیے آیت میں اس کو مومن کامل کی خاص صفت قرار دیا ہے‘‘۔ (معارف القرآن‘ ج ۶‘ ص ۲۹۶)

مولانا عبدالرحمن کیلانیؒ نے ’لغو‘ کی تفسیر ان الفاظ میں کی ہے: ’’لغو سے مراد فضول اور   بے کار مشغلے اور کھیل بھی ہوسکتے ہیں۔ یعنی وہ لوگ اگر تفریح طبع کے لیے یا جسمانی کسرت کے طور پر کھیلتے ہیں تو ایسے کھیل نہیں کھیلتے جن میں محض وقت کا ضیاع ہو بلکہ ایسے کھیل کھیلتے ہیں جن سے کوئی دینی فائدہ بھی حاصل ہوتا ہو‘ جیسے جہاد کی غرض سے تیراکی‘ نیزہ بازی‘ تیراندازی اور نشانہ بازی وغیرہ۔ اور لغو سے مراد بے ہودہ اور فضول باتیں بھی ہوسکتی ہیں‘ جیسے فضول گپیں‘ غیبت‘ بکواس‘ تمسخر‘ فحش گفتگو اور فحش قسم کے گانے وغیرہ۔ ان باتوں سے وہ صرف خود ہی پرہیز نہیں کرتے بلکہ جہاں ایسی سوسائٹی ہو وہاں سے اُٹھ کر چلے جاتے ہیں اور ان کے ساتھ رہنا قطعاً گوارا نہیں کرتے۔ (تیسیرالقرآن‘ ج ۳‘ ص ۱۸۶-۱۸۷)

مولانا عبدالماجد دریابادیؒ نے اپنی انگریزی تفسیر میں ’لغو‘ کی تشریح اس طرح سے کی ہے: ’لغو‘ ایک ایسا فعل (قول و عمل) ہے جس کا نہ کوئی فائدہ اس دنیا میں ہے اور نہ اس کے بعد آنے والی زندگی میں ‘ اس لیے یہ مسلم کے لیے بے سود ہے۔

مفسرین کی گراں قدر آرا سے یہ بات واضح ہوگئی کہ لغو ایک ایسا قول و فعل ہے جس کا کوئی فائدہ نہ اس دنیا میں اور نہ اس کا کوئی فائدہ آخرت میں ہے‘ بلکہ اس کا نقصان یہ ہے کہ زبان کا  بے جا استعمال اور اس کو قابو میں نہ رکھنے کا وبال بھی ہوگا۔ لغو سے ایک دوسرا نقصان تضیع اوقات بھی ہے۔ تیسرا نقصان غیرسنجیدگی اور اصل مقصد سے بے توجہی پیدا ہوتی ہے۔ گویا لغو ایک بے فائدہ اور لاحاصل عمل ہی نہیں ہے بلکہ اس سے سراسر نقصان بھی ہے۔ مومن کوئی بھی ایسا عمل نہیں کرسکتا جو بے سود اور سراسر نقصان کا باعث ہو۔

مومن لغویات سے دُور رہتے ہیں۔ اس کی دو وجوہات ہیں: اوّل یہ کہ اللہ نے منع کیا ہے‘ اور دوسری وجہ یہ کہ جو کام ہم یہاں کر رہے ہیں اور جو بات زبان سے نکال رہے ہیں وہ لکھنے والا لکھ رہا ہے اور اس سارے قول و عمل کا ہمیں اللہ تعالیٰ کو جواب دینا ہوگا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلاَّ لَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ o (قٓ ۵۰: ۱۰) کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا جسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضر باش نگراں موجود نہ ہو۔

  •  احادیث کی روشنی میں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لغو باتوں کے حوالے سے بھی ہدایت فرمائی ہے:

حضرت ابوہریرہؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے‘ اور جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی عزت کرے‘ اور جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھی بات زبان سے نکالے ورنہ خاموش رہے۔ (متفق علیہ)

حضرت ابوسریح عدویؓ نے بیان کیا کہ میرے کانوں نے سنا اور میری آنکھوں نے دیکھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گفتگو فرما رہے تھے تو آپؐ نے فرمایا: جو شخص   اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے‘ اور جو شخص   اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی ہرطرح سے عزت کرے۔ پوچھا: یارسولؐ اللہ! دستور کے موافق کب تک ہے؟ فرمایا: ایک دن اور ایک رات اور میزبانی تین دن کی ہے اور جو اس کے بعد ہو وہ اس کے لیے صدقہ ہے۔ اور جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ بھلی بات کہے یا خاموش رہے۔ (متفق علیہ)

ان دونوں احادیث میں پڑوسی کی عزت اور اُسے تکلیف نہ پہنچانے‘ مہمانوں کی عزت اور ان کی خاطر و تواضع اور زبان کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہے۔ زبان کی حفاظت کے متعلق دو باتیں دونوں احادیث میں کہی گئی ہیں۔ اوّل یہ کہ زبان سے اچھی اور بہتر بات کہی جائے‘ اور دوم یہ کہ بہتر اور اچھی بات نہ کہنا ہو تو خاموش رہے۔ لغو بات زبان سے نکالنے کی کوئی گنجایش اس آدمی کے لیے قطعی نہیں ہے جو اللہ پر اور آخرت کے قائم ہونے اور اس کے حساب و کتاب پر یقین رکھتا ہو۔

مزید احادیث ملاحظہ فرمایئے:

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کا ایک بندہ زبان سے ایک بات بغیر سوچے سمجھے کہ وہ صحیح ہے یا غلط‘ نکالتا ہے اور وہ جہنم کا مستحق ہوجاتا ہے‘ جب کہ اس کے اور جہنم کے بیچ اتنی دُوری تھی جتنی دُوری مشرق کے دونوں کناروں کے درمیان تھی۔ (بخاری)

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کا ایک بندہ زبان سے ایک اچھی بات نکالتا ہے بغیر اس کی اہمیت سمجھتے ہوئے اور اللہ اس کے عوض اس سے خوش ہوجاتا ہے اور اس کے درجات بلند کردیتا ہے۔ اور اللہ کا ایک بندہ بغیر سوچے سمجھے زبان سے ایک خراب بات نکالتا ہے جو اللہ کی ناراضی کا سبب بنتا ہے اور وہ جہنم کا مستحق بن جاتا ہے۔(بخاری)

ان احادیث میں یہ باتیں بتائی گئی ہیں کہ زبان کے‘ بغیر سوچے سمجھے بے جا استعمال سے اللہ کا بندہ جہنم کا مستحق بن سکتا ہے اور زبان سے اچھی بات نکالنے کی بنیاد پر وہ جنت اور درجات کی بلندی کا مستحق بن سکتا ہے۔ لغویات میں زبان کا بے جا استعمال اور اس کی حرمت پامال ہوتی ہے‘ لہٰذا ہمیشہ اس سے اجتناب ضروری ہے۔

  •  بندۂ مومن کا طرزِعمل:  اللہ کے صالح بندے تو لغویات سے دُور رہتے ہیں اور جان بوجھ کر کبھی لغویات میں ملوث نہیں ہوتے لیکن تمام تر احتیاط کے باوجود یہ ہوسکتا ہے کہ کبھی ان کا گزر ایسی جگہ سے ہو جہاں لغو ہو رہا ہو‘ یا کسی جگہ ان کی موجودگی میں یک بہ یک لغو ہونے لگے تو ان کا طرزعمل یہ ہوتا ہے کہ ایسی جگہ سے اپنا دامن بچاتے ہوئے‘ اس میں دل چسپی لیے بغیر وہاں سے احسن طریقے سے گزر جاتے ہیں۔ قرآن نے ان کے طرزعمل کو یوں بیان کیا ہے:

وَالَّذِیْنَ لَا یَشْھَدُوْنَ الزُّوْرَ لا وَاِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا کِرَامًا o (الفرقان ۲۵:۷۲)، (اور رحمن کے بندے وہ ہیں) جو جھوٹ کے گواہ نہیں بنتے اور کسی لغو چیز پر سے اُن کا گزر ہوجائے تو شریف آدمیوں کی طرح گزر جاتے ہیں۔

یہاں بھی ان کی خوبی یہ بتائی گئی ہے کہ کسی ایسی جگہ سے جہاں لغو ہو رہا ہے‘ اس میں دل چسپی لینا تو درکنار‘ وہ ایک نگاہِ غلط انداز ڈالے بغیر وہاں سے شریفانہ گزر جاتے ہیں۔ اوّل تو وہ ایسی جگہ جان بوجھ کر جاتے نہیں مگر ایسی جگہوں سے گزر ہوجائے تو اس میں ملوث ہوئے بغیر شریفانہ انداز سے گزر جاتے ہیں۔ ’’حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کااتفاق سے ایک روزکسی بے ہودہ لغو مجلس پر گزر ہوگیا تو وہاں ٹھیرے نہیں گزرے چلے گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ معلوم ہوا تو فرمایا کہ ابن مسعود کریم ہوگئے اور یہ آیت تلاوت فرمائی جس میں بے ہودہ مجلس سے کریموں شریفوں کی طرح گزر جانے کا حکم ہے۔ (تفسیر ابن کثیر بحوالہ معارف القرآن‘ ج ۶‘ ص ۵۰۷)

دنیا میں ہر طرح کی احتیاط کے باوجود کبھی نہ کبھی لغو سے واسطہ پڑسکتا ہے۔ کوئی ان سے الجھنے کی کوشش کرے اور لغو پر آمادہ ہوجائے تو لغوسننے کے بعد وہ ان لوگوں سے سلام کرتے ہوئے ان سے الگ ہوجاتے ہیں۔ گویا جاہلوں کی جہالت کا جواب جہالت سے نہیں دیتے بلکہ ان سے یہ کہتے ہوئے الگ ہوجاتے ہیں کہ میں جاہلوں کی سی باتیں یا جاہلوں کا سا عمل کرنا نہیں چاہتا۔ آپ کو اپنا عمل مبارک ہو اور ہمیں ہمارا عمل۔ ان کی اس خصوصیت کو اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں اس طرح بیان فرماتا ہے:

وَاِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْہُ وَقَالُوْا لَنَـآ اَعْمَالُنَا وَلَکُمْ اَعْمَالُکُمْز سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ ز  لَا نَبْتَغِی الْجٰھِلِیْنَ o (القصص ۲۸:۵۵) اور جب انھوں نے بے ہودہ بات سنی تو یہ کہہ کر اس سے کنارہ کش ہوگئے کہ ’’ہمارے اعمال ہمارے لیے اور تمھارے اعمال تمھارے لیے‘ تم کو سلام ہے‘ ہم جاہلوں کا ساطریقہ اختیار کرنا نہیں چاہتے‘‘۔

ایک طرف تو اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو لغو سے اعراض کرنے کا حکم دیا ہے۔ دوسری طرف نادانستہ طور پر اتفاقاً اگر لغو پر گزر ہوجائے تو مومنوں کی صفت یہ بتائی گئی کہ وہ اس پر سے     شریفانہ انداز سے گزر جاتے ہیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ گفتگو کے دوران اگر کوئی جہالت پر اُتر آئے اور لغو و بے ہودگی سے پیش آئے تو اللہ کے صالح بندے اس میں حصہ لینے کے بجاے ان لوگوں کو سلام کرکے یہ سوچتے ہوئے الگ ہوجاتے ہیں کہ ہمیں جاہلوں جیسا رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔

  •  مـومن کا انـعام: قرآن کے مطالعے سے پتاچلتا ہے کہ ایک مومن اور صالح بندہ اپنی زندگی میں پوری کوشش کرے کہ وہ لغویات سے دُور رہے لیکن ان ساری کوششوں کے باوجود یہ ہوسکتا ہے کہ کبھی نہ کبھی لغو بات اس کے کانوں میں پڑجائے‘ جیسے فحش گانے‘ فلموں کے مکالمے‘ گالی گلوچ وغیرہ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے لیے جنت کے جن انعامات کا ذکر کیا ہے اس میں کئی جگہ یہ بات بھی بتائی ہے کہ جنتی جنت میں لغو بات نہیں سنیں گے۔ گویا لغو سے پرہیز اور مکمل اجتناب زندگی بھر کرنے کی کوشش کرے اور اس کی خواہش دنیا میں نہ پوری ہو تو اللہ ایک جگہ ایسی عطا کرے گا جہاں وہ اللہ کا صالح بندہ لغو باتیں نہیں سنے گا اور لغو فعل سے اس کا کوئی واسطہ نہیں پڑے گا۔ وہ جگہ جنت ہوگی۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

لاَ یَسْمَعُوْنَ فِیْھَا لَغْوًا وَّلَا کِذّٰبًا (النبا ۷۸:۳۵) وہاں کوئی لغو اور جھوٹی بات وہ نہ سنیں گے۔

لاَ یَسْمَعُوْنَ فِیْھَا لَغْوًا وَّلَا تَاْثِیْمًا o اِلاَّ قِیْلًا سَلٰمًا سَلٰمًاo (الواقعہ ۵۶:۳۵-۳۶) وہاں وہ کوئی بے ہودہ کلام یا گناہ کی بات نہ سنیں گے۔ جو بات بھی ہوگی ٹھیک ٹھیک ہوگی۔

فِیْ جَنَّۃٍ عَالِیَۃٍ o لَّا تَسْمَعُ فِیْھَا لَاغِیَۃً o (الغاشیہ۸۸: ۱۰-۱۱) عالی مقام جنت میں ہوں گے‘ کوئی بے ہودہ بات وہ و ہاں نہ سنیں گے۔

لاَ یَسْمَعُوْنَ فِیْھَا لَغْوًا اِلاَّ سَلٰمًا ط وَلَھُمْ رِزْقُھُمْ فِیْھَا بُکْرَۃً وَّعَشِیًّا o (مریم۱۹: ۶۲) وہاں وہ کوئی بے ہودہ بات نہ سنیں گے۔ وہ جو کچھ بھی سنیں گے ٹھیک ہی سنیں گے اور ان کا رزق پیہم صبح و شام ملتا رہے گا۔

جنت کی ساری نعمتوں کو نہ ہم اس دنیا میں جان سکتے ہیں اور نہ اس کی کسی نعمت کا ادراک ہی کرسکتے ہیں۔ اس کی ساری نعمتوں سے لطف اندوز تووہ خوش نصیب لوگ ہوں گے جو جنت میں جائیں گے۔ حضرت ابوہریرہؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں نے اپنے بندوں کے لیے وہ چیزیں تیار کر رکھی ہیں‘ جنھیں نہ آنکھوں نے دیکھا‘      نہ کانوں نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا خیال گزرا ہے (متفق علیہ)۔ جنت کی   جن نعمتوں کا تذکرہ قرآن و حدیث میں بیان ہوا ہے اس میں ایک نعمت یہ بھی ہے کہ جنتی جنت میں لغو بات نہیں سنیں گے اور یہ اتنی بڑی نعمت ہے جس کا تذکرہ قرآن میں کئی جگہ ہے۔ لغو سے پرہیز اور اس سے مکمل اجتناب اللہ کی بڑی نعمت ہے۔

اللہ سے دعا ہے کہ اللہ لغو سے پرہیز کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اگر لغو پر گزر ہوجائے تو شریفانہ انداز سے گزر جانے کی توفیق عطا فرمائے۔ لغویات میں ملوث کرنے کی کوشش کی جائے تو سلام کر کے وہاں سے الگ ہونے کی سعادت نصیب کرے‘ اور جنت عطا کرے جہاں لغو کا  کوئی گزر نہیں ہے۔

 

شرق اوسط عرب محاورے کے مطابق کسی طاقت ور‘ دیوانے دیو کی ہتھیلی پہ رکھا ہے۔ عراق میں لاکھوں افراد خانہ جنگی کی نذر ہوچکے ہیں اور اس سے زیادہ مہلک اور وسیع تر خون ریزی کی تیاریاں ہیں۔ فلسطین میں صہیونی درندوں کے ہاتھوں نصف صدی سے جاری قتلِ عام سنگین سے سنگین تر ہو نامعلوم حقیقت تھی‘ لیکن اب خود فلسطینی ہاتھ اپنے سینے چھلنی کر رہے ہیں۔ لبنانی چٹانوں پر صہیونی جارحیت سر پٹخ کر رہ گئی تھی‘ لیکن اب خود لبنانی عوام دو واضح اور برسرپیکار گروہوں میں بٹ کر رہ گئے ہیں۔ سوڈان کے خلاف ہر بیرونی حملہ ناکام ہوا‘ جنوبی علیحدگی پسندوں کی کئی عشروں پر پھیلی بغاوت بالآخر معاہدہ کرنے پر مجبور ہوئی لیکن اب دارفور میں لاکھوں ابناے سوڈان      باہم مخاصمت اور ملک بدری کی نذر ہوچکے ہیں۔ امریکا اس انسانی المیے کا فائدہ اُٹھا کر علاقے میں اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے سوڈان پر فوج کشی کے لیے پر تول رہا ہے۔ صومالیہ میں عشروں پر محیط خانہ جنگی کے بعد اسلامی عدالتوں کے نام سے ایک نظام نے انتظام سنبھالا‘ وسائل  اور تجربے سے تہی دامنی کے باوجود‘ عوامی تائید کے ذریعے امن و امان کی نئی تاریخ رقم کی۔ اگر ان کی حکومت باقی رہتی تو شاید پورا صومالیہ بلکہ پورا علاقہ ان کے دائرۂ اثر میں آجاتا‘ لیکن ایتھوپیا کے ذریعے فوج کشی کروا دی گئی۔ پھر امریکی افواج نے خود بم باری کردی اور صومالیہ ایک نئے دورِقتال و جدال میں داخل ہوگیا۔

عسکری و سیاسی کے علاوہ تہذیبی و تعلیمی یلغار بھی اپنے عروج پر ہے۔ دہشت گردی کے خلاف نقشہ جنگ تیار کرتے ہوئے امریکا نے نئے شرق اوسط کا دائرہ پورے عالمِ اسلامی تک پھیلا دیا ہے۔ اب اقصاے افریقہ میں واقع مراکش اور موریتانیا پر بھی شرق اوسط کا فارمولا لاگو ہوتا ہے‘ بنگلہ دیش و ملایشیا میں بھی اسی کا جادو چلتا ہے۔ روشن خیالی کو اس وسیع تر شرق اوسط کا عنوانِ حیات بنایا جارہا ہے۔ اب مراکش میں بھی قانون سازی کرکے مساجد کی تعمیر مشکل تر بنائی جارہی ہے اور تیونس میں بھی سر پہ اسکارف اوڑھنا دقیانوسیت‘ قانون کی خلاف ورزی اور جرم قرار دے دیا گیا ہے۔ اُردن میں کسی خطیب کو سرکاری خطبے کے علاوہ خطبۂ جمعہ دینے سے منع کردیا گیا ہے۔ انھیںپابند کردیا گیا ہے کہ وہ سیاہ پتلون‘ سفیدشرٹ اور سرپہ رومال کے علاوہ کوئی لباس نہ پہنیں۔ ترکی کو تجویز دی گئی ہے کہ وہ اس قرآنی آیت پر پابندی لگادے جس میں کہا گیا ہے کہ اللہ کے نزدیک اصل دین صرف اسلام ہی ہے۔ اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَاللّٰہِ الْاِسْلَام کیونکہ اس سے ان کے بقول غیرمسلموں کی دل آزاری اور ان کے دین کی توہین ہوتی ہے۔ میراتھن دوڑ اور بسنت کے نام سے برپا خرافات‘ صرف پاکستان ہی نہیں ہراسلامی ملک میں کسی نہ کسی میلے‘ جشن کے نام پر یا کھلم کھلا جسم فروشی اور مادرپدر آزادی کی صورت میں فرض قرار دے دی گئی ہیں۔

تقریباً ہر اسلامی ملک اسی دوڑ اور فکر میں مبتلا ہے کہ وہ کسی طرح دوسرے مسلم ممالک سے زیادہ تعلیمی ’اصلاحات‘ کا اعزاز حاصل کرلے۔ ان ’اصلاحات‘ کا لازمی حصہ آیات و احادیث کا حذف کرنا یا ان کی من پسند تعبیر کرنا اور جہاد و دعوت کی تعلیمات کے بجاے جنسی آوارگی کی جانب لے جانے والا لوازمہ شامل کرنا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ ڈھنڈورا بھی مسلسل پیٹا جا رہا ہے کہ امریکا نے اس پورے خطے میں معاشی ترقی اور جمہوری روایات کی ترویج یقینی بنا دی ہے۔ معاشی ترقی کا ثبوت دیتے ہوئے خوش نما اعداد و شمار‘ اربوں ڈالر کی امریکی امداد‘ بے پناہ سرمایہ کاری اور زرمبادلہ کے انباروںکا حوالہ دیا جاتا ہے‘ لیکن ان سب دعووں کے اثرات ہرجگہ بڑھتی ہوئی مہنگائی‘  بے روزگاری اور فقر کے باعث کفر یا پھر خودکشی کی صورت میں ہی سامنے آرہے ہیں۔

رہی جمہوریت تو اس کی اصل تصویر عراق‘ فلسطین اور صومالیہ میں پیش کی جارہی ہے۔ خود امریکی ذرائع ابلاغ دہائی دے رہے ہیں کہ جمہوریت کے نام پر یہ خون ریزی بند کی جائے۔ ۱۷جنوری کا نیویارک ٹائمز ایک روز پہلے اقوام متحدہ کے جاری کردہ اعدادو شمار پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’صرف ۲۰۰۶ء میں ۳۴ہزار عراقی شہریوں کا قتلِ عام امریکی منصوبے کی مکمل ناکامی و شکست کا اعلان ہے‘‘۔ یہ اعداد و شمار بھی صرف وہ ہیں جو ہسپتالوں کے ریکارڈ سے لیے گئے‘ وگرنہ صرف ایک سال میں ایک لاکھ سے زائد بے گناہ‘ امریکی جمہوریت کی بھینٹ چڑھا دیے گئے ہیں۔ اب تک امریکی بم باری‘ فائرنگ اور دہشت گردی کی مختلف کارروائیوں میں ساڑھے چھے لاکھ سے زائد جانوں کا ضیاع صرف عراق میں ہوچکا ہے۔ بظاہر تو امریکا بھی اس قتلِ عام اور خانہ جنگی پر تشویش کا اظہار کر رہا ہے۔ قومی اجماع کی حیثیت رکھنے والی بیکر ہملٹن رپورٹ بھی اس کا اعتراف کرتے ہوئے وہاں سے افواج کے انخلا پر زور دیتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ساری خون ریزی منصوبے کے عین مطابق ہی ہو رہی ہے۔

لڑانے کی حکمت عملی

آغازکار میں پورے فلوجہ کو ملیامیٹ کر دینے جیسی دسیوں کارروائیوں کے باوجود عراقی مزاحمت کا مقابلہ نہ کرسکنے کے بعد‘ امریکا کی پالیسی کا عنوان ہے: ’’لڑائو اور قبضہ کرو‘‘۔ اس امریکی سوچ اور پالیسی کی نشان دہی بہت سی دستاویزات کر رہی ہیں۔ عراق کے پہلے امریکی حکمران   پال بریمر کی یادداشتیں بھی اہم ہیں‘ افغانستان اور پھر عراق میں متعین امریکی سفیر زلمے خلیل زاد کی سرگرمیاں اور بیانات ایک کھلی کتاب ہیں۔ لیکن ہم یہاں صرف ایک امریکی عسکری دانش ور کے خیالات کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔ جیمز کرتھ (James Kurth) متعدد امریکی عسکری تعلیمی اداروں میں دفاعی پالیسی‘ خارجہ پالیسی اور عالمی سیاسیات کی تعلیم دیتے ہیں۔ The Real Clash (حقیقی تصادم) کے عنوان سے شائع اس مقالے میں انھوں نے توجہ دلائی تھی کہ تہذیبوں کے تصادم سے زیادہ اہم امر یہ ہے کہ خود امریکی معاشرہ باہم متصادم ہونے والا ہے۔ ایک طرف مغربی تہذیب اور امریکی نسل پرستی پر ایمان رکھنے والے لوگ ہوں گے اور دوسری طرف کثیرثقافتی دنیا پر یقین رکھنے والے گروہ۔ گویا فکرمندی یہ تھی کہ امریکی معاشرے سے کسی بھی ممکنہ باہمی اختلاف کا خاتمہ کیسے ہو۔ امریکی معاشرے کی باہمی یک جہتی اور یک سوئی کے لیے فکرمند جناب جیمز نے ستمبر۲۰۰۵ء میں امریکی رسالے The American Conservative میں ایک اور اہم مقالہ لکھا۔ عنوان تھا: Splitting Islam(اسلام کے ٹکڑے کرنا)۔ ذیلی عنوان تھا: ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنے کے لیے شیعہ سنی حکمت عملی‘‘۔ امریکی فوجیوں کے قتل‘ عراقی تحریک مزاحمت میں شدت‘ دہشت گرد تنظیموں کے لیے بڑھتی ہوئی ہمدردی اور امریکا کو درپیش عالمی اسلامی خطرے کا ذکر کرتے ہوئے وہ پوچھتے ہیںکہ ’’مرکزی سوال یہ ہے کہ ہمارے لیے راہِ نجات کیا ہے؟‘‘ اس سوال کے جو جوابات مختلف امریکی ذمہ داران یا سیاسی و عسکری حلقوں نے دیے ہیں وہ ان کا حوالہ دیتے ہیں۔ اس ضمن میں وہ خاص طور پر بش انتظامیہ کی راے ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں:

وہ صرف امریکا کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی لانا نہیں چاہتے تھے‘ بلکہ عمومی طور پر مسلم دنیا بالخصوص شرق اوسط کی ثقافت تبدیل کرنا چاہتے تھے۔ وہ اس دلدل کو خشک کر دینا چاہتے تھے جو اسلامی دہشت گردوں کی تقویت کا باعث تھا۔

لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ یہ تمام پالیسیاں ناکام ہیں اور ناکام رہیں گی۔ پھر وہ اپنا حل پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسے شاید ایک قدیم طریق تفکیرکہا جائے‘ لیکن راستہ وہی ہے جو ہم نے سردجنگ میں سوویت یونین اور چین کے مقابلے میں اختیار کیا۔ امریکا نے نصف صدی قبل عالمی کمیونسٹ تحریک کے عالمی نظریاتی خطرے کا مقابلہ اسی طرح کیا کہ ان دو بڑی طاقتوں کو تقسیم کیے رکھا۔ اب وقت آگیا ہے کہ عالمی اسلامی تحریک بیداری و مزاحمت کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی تقسیم کی یہی پالیسی اختیار کی جائے۔ اس کی وضاحت وہ یوں کرتے ہیں:

تقسیم کرنے کی حکمت عملیاں مسلم دنیا میں پہلے سے موجود اختلافات کو ہوا دینے پر   مبنی ہیں۔ خاص طور پر ۱-اعتدال پسند بمقابلہ انتہا پسند ۲-سنی بمقابلہ شیعہ مسلمان۔

اس بات کی وضاحت میں انھوں نے روشن خیالی و بنیاد پرستی کی جنگ میں مغرب میں مقیم مسلمانوں سے پورا استفادہ کرنے کی اہمیت بھی اُجاگر کی ہے‘ لیکن پورے مقالے میں اصل زور شیعہ سنی اختلافات کی آگ پر تیل چھڑکنے ہی پر ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

اس کی معاصر مثال سنی شیعہ اختلاف ہے۔ عراق میں جاری شیعہ سنی تشدد ہمیں روزانہ عراق میں موجود اس اختلاف کی شدت یاد دلاتا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ اسلام کے ان دو فرقوں میں پایا جانے والا یہ اختلاف‘ بے اعتمادی اور تنازع دوسرے مسلم ممالک‘ خاص طور پر لبنان‘ شام‘ سعودی عرب اور پاکستان میں بھی موجود ہے۔

وہ پوری مسلم دنیا میں پھیلی (ان کے بقول) ۸۳ فی صد سنی آبادی اور ۱۶ فی صد شیعہ آبادی کا تجزیہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ شیعہ آبادی کی ایران و عراق میں اکثریت‘ لبنان میں سب سے بڑی اقلیت‘ سعودی عرب کی تیل سے مالامال مشرقی پٹی میں بڑی تعداد اور شام کی علوی آبادی کی اہمیت اب پہلے سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ ہمیں ان کے اس احساس سے فائدہ اٹھانا ہوگا کہ وہ مظلوم ہیں اور سنی استبداد کا شکار ہیں۔ شیعہ آبادی ’خلافت‘ کے تصور سے خوف زدہ ہے۔ ان کے نزدیک اس سے مراد اکثریتی سنی آبادی کا تسلط ہے۔ خلافت کا خواب جتنا حقیقت سے قریب دکھائی دے گا شیعہ آبادی اتنا ہی سنی انتہاپسندی کے خلاف مزاحمت کرے گی۔ یہ ایک ایسا خطرناک ٹائم بم ہے جو کسی بھی وقت پھٹ پڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

ان کی واضح اور دو ٹوک راے یہ ہے کہ اگر امریکا عراق میں شیعہ اور کرد ملیشیا کو اچھی تربیت اور اچھے ہتھیار فراہم کرے تو وہ عراق کے کرد اور شیعہ علاقوں سے سنی مزاحمت کا مکمل صفایا کردیں گے۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہوسکتا ہے اس پالیسی کے نتیجے میں بالآخر عراق بھی یوگوسلاویہ کی طرح کئی مذہبی ریاستوں میں بٹ کر رہ جائے لیکن بالآخر اسلامی بیداری اور مزاحمت کا خاتمہ بھی ہوجائے گا۔

انھیں نہ شیعوں سے ہمدردی ہے نہ سنیوں سے۔ وہ نہ شیعوں پر بھروسا کرتے ہیںنہ سنیوں پر‘ لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ یہی شیعہ سنی تفریق بالآخر ایران اور ایٹمی پاکستان کا علاج بھی ثابت ہوگی۔  وہ کہتے ہیں کہ ’’ایران اور دیگر خطوں کے شیعہ امریکا کو اپنا حقیر دشمن ہی سمجھتے رہیں گے۔ وہ کبھی امریکا کے سچے حلیف نہیں ہوسکتے لیکن وہ انتہاپسند سنی تحریکوں کے خلاف امریکا سے تعاون ضرور کرسکتے ہیں۔ ہمارے پاس ایران کے ایٹم بم کا بھی کوئی مؤثر علاج نہیں ہے… بدقسمتی سے پاکستان اور ایران کے انتہاپسند اور روشن خیال دونوں ہی اپنے ملکوں کو ایٹمی طاقت دیکھنا چاہتے ہیں… اس صورت میں شیعہ سنی تقسیم والی پالیسی ہی مؤثر ہوسکتی ہے۔ This provides ample potential for conflict between Iran and Pakistan. (یہ ایران اور پاکستان کے درمیان تنازع کھڑا کرنے کے بھرپور امکانات فراہم کرتے ہیں)۔

عراق‘ فلسطین‘ لبنان اور دیگر مسلم ممالک کے حالات سامنے رکھیں تو اس سوال کا جواب واضح طور پر مل جاتا ہے کہ جیمز کی اس چشم کشا اور پالیسی ساز تحریر کا برسرزمین حقائق پر کتنا اثر ہوا۔ جیمز جو امریکی دفاعی ماہرین میں سے ہزاروں کا استاد ہے‘ اپنی تحریروں میں بڑا سفاک دکھائی دیتاہے۔ لیکن اس کی یہ تکلیف دہ بات بالکل درست ہے کہ ’’شیعہ سنی تقسیم امریکا کو ایجاد نہیں کرنا‘ بالکل اسی طرح جس طرح پہلے چین روس تقسیم ایجاد نہیں کرنا پڑی تھی۔ لیکن امریکا خود کو اس پوزیشن میں ضرور لاسکتاہے کہ وہ پہلے سے موجود اختلافات کو گہرا کرے اور ان سے فائدہ اٹھائے‘‘۔ وہ   یہ بھی اعتراف کرتا ہے کہ ’’مسلم دنیا میں سنی اسلامسٹ بھی رہیں گے اور شیعہ اسلامسٹ بھی‘   لیکن ہمیں کرنا یہ ہوگا کہ وہ امریکا کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھنے کے بجاے ایک دوسرے کو دشمن سمجھنے لگیں‘‘۔

عراق میں شیعہ سنّی خانہ جنگی

اپریل ۲۰۰۳ء میں صدام حکومت کے خاتمے سے پہلے عراقیوں کو تاثر دیا گیا تھا کہ اصل خطرہ بیرونی نہیں اندرونی ہے۔ امریکی فوجی بعدمیں آئیں گے‘ عراق میں موجود شیعہ آبادی پہلے بغاوت کرے گی۔ دوسری طرف شیعہ آبادی کو تاثر یہ دیا گیا کہ تم پر ہمیشہ اقلیت مسلط رہی ہے۔ اب اس سے انتقام کا وقت آن پہنچا ہے۔ یہی وہ اصل پھندا تھا جس میں بالآخر عراقی عوام کو پھانس لیا گیا ہے۔ یہی وہ حساس ترین حقیقت ہے جس کا بے لاگ جائزہ لیا جانا بھی ضروری ہے اور اس کا تدارک کرنا بھی ناگزیر ہے۔ امریکا نے قبضے کے بعد جو سیاسی و عسکری نظام تشکیل دیا‘ اس کی اساس یہی شیعہ سنی اور کرد کی تقسیم ہے۔ اس نے بوجوہ شیعہ گروہوں کو فوقیت دی۔ اس موقعے پر ایران نے بھی اپنے علاقائی نقشہ کار کو خاموشی سے لیکن بیک وقت جارحانہ اور دفاعی انداز سے مکمل کیا۔ ایران میں موجود ملک بدر عراقی گروہ بڑی تعداد میں عراق واپس چلے گئے۔ دورانِ قیام ایران ان کی فکری و ثقافتی تربیت کے ساتھ ہی ساتھ‘ عسکری استعداد کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ وہ اس پوری تیاری و استعداد کے ساتھ عراق منتقل ہوگئے۔ امریکا وہاں ایسی ہی عوامی قوت و تائید کا محتاج تھا۔ امریکا اور ایران کے درمیان سنگین اختلافات‘ دشمنی اور دھمکیوں کے تبادلے کے باوجود دونوں ایک دوسرے کو عراق میں برداشت کرنے پر مجبور تھے۔ دونوں کے اپنے اپنے اہداف تھے۔ طویل ایران عراق جنگ اور بڑی عراقی شیعہ آبادی کے تناظر میں ایران کے لیے عراق کی نئی صورت حال بے حد اہم بھی تھی اور مددگار بھی۔ بظاہر یہ ایک بہت بڑا خطرہ تھا کہ وہ شیطان بزرگ جو ایران کے وجود کے درپے ہے اور جو خلیج کے علاوہ افغانستان میں بھی بیٹھا ہے‘ اُوپر ترکی اور وسطی ایشیا میں بھی بیٹھا ہے‘ اب ایران کے عین سر پر آن بیٹھے گا‘ لیکن اسی خطرے سے امکانات کی پو پھوٹ رہی تھی۔ یہاں امریکا کو مزاحمت کا خطرہ بھی برداشت کرنا تھا اور سیاسی جکڑبندیوں کا بھی ایک نیا چیستان اس کا منتظر تھا۔

بے لاگ لیکن دردمندانہ جائزے میں یہ اعتراف بھی جان لیوا حقیقت ہے‘ کہ جہاد کے نام پر وجود میں آنے والی بعض سنی تنظیموں اور خود کو مظلوم سمجھنے اور اب اچانک خود کو حاکم کے لبادے میں دیکھنے والی‘ شیعہ مسلح فورسز سے بہت مہیب اور سنگین غلطیاں ہوئیں۔ ابومصعب الزرقاوی جو امریکیوں سے لڑتے ہوئے تمام مسلم عوام کا ہیرو بن چلا تھا‘ بلااستثنا تمام شیعوں کے قتل کے فتوے جاری کر رہا تھا۔ دوسری طرف شیعہ ملیشیائوں نے بھی سنی آبادی کے علاقوں کے علاقے ویران  کرنا شروع کر دیے۔ آنے والا وقت اس حقیقت کا تعین ضرور کرے گا کہ امریکی جیمز کرتھ کا   ’نسخۂ کیمیا‘ اس تنازعے میں کہاں کہاں اور کیسے کیسے آزمایا گیا۔ یہ کیوں ہوا کہ عراقی افواج یا پولیس کی وردیاں پہنے عناصر‘ سرکاری گاڑیوں میں آکر ہزاروں سنی اہم افراد کو چن چن کر اغوا کر کے لے گئے اور پھر ان کی لاشیں سڑکوں پر ملیں۔ یہ کیوں ہوا کہ دو شیعہ اماموں کے مقبرے‘ جو صدیوں سے سنی علاقوں ہی میں تھے اور کبھی ان کی طرف کسی نے میلی آنکھ سے نہیں دیکھا تھا‘ امریکی و برطانوی افواج کے وہاں ہوتے ہوئے بموں سے اڑ گئے۔ یہ کیوں ہوا کہ ہزاروں سنی مساجد شہید کر دی گئیں‘ ہزاروں شیعہ مجالسِ عزا لاشوں کے ڈھیروں میں بدل گئیں۔ یہ کیوںممکن نہیں ہوا کہ ایران اپنی تمام تر قوت اور اثرونفوذ استعمال میں لاتا اور عراق میں موجود کسی شیعہ گروہ کو اپنے سنی بھائیوں کے قتل و بربادی میں ملوث نہ ہونے دیتا۔ یہ کیوں ہے کہ امریکی فلک میں گردش کرنے والے پڑوسی عرب ممالک‘ عراق پر قابض امریکی افواج کو نہیں ایرانی نفوذ اور شیعہ اقتدار کو اصل خطرہ قرار دے رہے ہیں۔ وقت ضرور جواب دے گا کہ عراق کے معتدل سنی عناصر کے بقول انھوں نے اٹل حقائق اور ثبوت اپنے ایرانی بھائیوں اور ذمہ داران کے گوش گزار کیے‘ان سے درخواست کی کہ وہ شیعہ سنی تصادم کو روکیں‘ لیکن انھوں نے حقائق کو الزامات قرار دے کر خاموشی اختیار کرلی۔ وقت بتائے گا کہ امریکی سامراجی قوت نے کس طرح عراق کے ہر اہم واقعے سے تقسیم ہی کی فصل اگائی۔

صدام کی پہانسی

ماضی میں صدام کا کردار بلاشبہہ ظالمانہ تھا لیکن اب اس کامعاملہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھوں میں ہے۔ امریکا کے رویے اور اقدامات نے صدام کو جس ظلم کا نشانہ بنایا ہے اور جس طرح اسے پھانسی پر چڑھایا ہے اس نے اسے مظلوم بنا دیا ہے اور خود صدام نے آخری ایام میں جس سیاسی جراء ت اور ایمان کا مظاہرہ کیا ہے اس نے اسے عراقی عوام‘ اُمت مسلمہ اور ان کے حق پرست انسانوں کی نگاہ میں مظلوم اور ہیرو بنا دیا ہے اور توقع ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے رحم کا معاملہ فرمائیں گے۔ البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ جس طرح امریکا اور عراق میںاس کے حلیفوں نے صدام کو پھانسی دی ہے اس کے نتیجے میں امریکی عزائم اور مفادات کے لیے ’زندہ صدام‘ سے کہیں زیادہ صدام کی روح خطرہ بنے گی اور مزاحمت کی تحریک اس کے خون سے سیراب ہوگی۔

یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ صدام کے جرائم میں عراق کے عوام پر مظالم جن میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے‘ ایران پر حملہ جس میں کئی لاکھ جانیں ضائع ہوئیں‘ کویت پر حملہ جس میں کئی لاکھ کویتی اور عراقی لقمہ اجل بنے‘ کردوں پر کیمیاوی ہتھیاروں کا استعمال جس میں کئی ہزار افراد مارے گئے ان سب جرائم کو نظرانداز کر کے بلکہ کردوں کی ہلاکت کے مسئلے کو تو مقدمہ نمبر ۲ کی شکل میں دائر کیے جانے کے باوجود ۱۴۸ شیعوں کے ہلاک کیے جانے والے مقدمے میں صدام کو جلدی میں پھانسی دینے کا کارنامہ انجام دیا گیا جس کی وجوہ پر عراق اور خود امریکا اور یورپ میں بحث ہو رہی ہے۔ اور صاف نظر آتا ہے کہ اصل مقصد صدام کو ہلاک کرنے کے ساتھ شیعہ سنی تنازع کو خانہ جنگی میں نہیں پورے شرق اوسط میں محاذآرائی اور جنگ و جدل کا ذریعہ بناناہے۔ ساتھ ہی یہ پہلو بھی ہے کہ باقی تمام جرائم میں امریکا برابر کا اور کھلاکھلا شریک تھااور مقدمے میں صدام اور اس کے وکلا نے امریکا کے کردار کو مرکزی مضمون بنانے کا عندیہ دیا تھا اس لیے غیرضروری تعجیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان ۱۴۸ افراد کی ہلاکت کے مقدمے کو بنیاد بنا کر صدام کو منظر سے ہٹا دیا گیا۔ امریکا کا یہ کھیل اب کھل کر سامنے آگیا ہے اور صدام کی موت امریکی استعمار اور اس کے مقاصد کے خلاف تحریک مزاحمت کو نئی جان دینے کا ذریعہ بنے گی اور صدام کی قبر امریکی اقتدار کے لیے بڑا خطرہ بننے کا امکان رکھتی ہے۔

یہ ایک بلاکم و کاست حقیقت ہے کہ ان سارے مناظر سے شیعہ سنی منافرت کی ایک نئی لہر نے جنم لیا ہے۔ آج عراق میں مذہبی منافرت کا لاوا اُگلتے آتش فشاں کی تباہ کاری‘ پورے عالم اسلام کو اپنی لپیٹ میں لینے کو ہے۔ آج ایران کو ملنے والی امریکی دھمکیوں پر مسلم دنیا کا ردعمل امریکی خوف کے ساتھ ہی ساتھ اسی مذہبی تقسیم سے بھی متاثرہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اگر خدانخواستہ ایران پر واقعی حملہ ہوا تو اس کے بعد پاکستان‘ سعودی عرب اور شام سمیت کئی دیگر ممالک کے خلاف بھی فردِ جرم اور پھانسی کا پھندا تیار ہے‘ المیہ بلکہ سانحہ یہ ہے کہ مسلم دنیا خوابِ غفلت کا شکار ہے۔ حکمرانوں سے کیا شکوہ‘ ان کے نزدیک تو امریکی اقدامات الوہیت کا مقام رکھتے ہیں‘ لیکن کئی علاقوں کے عوام بھی ایران کے خلاف ممکنہ امریکی جارحیت کو شیعہ خطرے کاعلاج قرار دے رہے ہیں۔

شکست خوردہ اسرائیل

یہ الگ بات ہے کہ خود امریکا اپنی مصیبتوں‘ ناکامیوں اور عراقی دلدل میں بری طرح دھنسنے کی وجہ سے اپنی دھمکیوںکو عملی جامہ پہنانے سے قاصر ہے اور فی الحال قاصر رہے گا۔ اس نے عراقی ایٹمی تنصیبات اسرائیل کے ہاتھوں تباہ کروائی تھیں‘ وہ ایران کے خلاف بھی اسرائیلی افواج سے مدد لے سکتا تھا‘ لیکن لبنان میں حزب اللہ کے ہاتھوں اپنی شکست کھانے کے بعد اسرائیلی طویل عرصے تک اپنے زخم چاٹتے رہیں گے۔ اپنی عسکری ساکھ کی فوری بحالی ان کا خواب ہے جو  فی الحال شرمندئہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ ان کے چیف آف آرمی سٹاف دان حالوٹس کا استعفا خود ان کے تجزیہ نگاروں کے بقول ایک آغاز ہے۔ صہیونی روزنامے یدیعوت احرونوت کے الفاظ میں یہ استعفا ’ڈومینو‘ کا کھیل ہے جس میں ایک بلاک گرنے کے بعد اس سے متعلق تمام بلاک خودبخود ایک ایک کرکے ڈھے جاتے ہیں‘ خواہ ان کی تعداد لاکھوں میں ہی کیوں نہ ہو۔ اخبار کے بقول یہ استعفا‘ڈھلوان سے لڑھکتے ہوئے برف کے کسی گولے کی طرح ہے‘ جو ہر آن بڑے سے بڑا ہوتا جاتا ہے اور بالآخر تباہی پھیلا دیتا ہے۔ صہیونی روزنامہ ھآرٹس بھی یہی لکھتا ہے کہ ’’لبنان میں اپنی شکست کا اعتراف کرتے ہوئے چیف آف آرمی سٹاف کا مستعفی ہوجانا‘ اس امر کی واضح دلیل ہے کہ پوری اسرائیلی فوج قابلِ اصلاح ہے‘ اصلاح کا یہ عمل جلد شروع ہونا ضروری ہے۔ حالوٹس نے جنگ میں اپنی ناکامی کا اعتراف توکیا ہے لیکن اس نے ان اسباب کا اعتراف نہیں کیا جن کے باعث اس ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا‘‘۔ یہاں یہ ذکر بھی مفید رہے گا کہ اس وقت صہیونی وزیردفاع‘ وزیراعظم اور صدر سمیت متعدد لیڈر مختلف عسکری و اخلاقی الزامات کی زد میں ہیں۔ کئی مقدمات کی سماعت ہو رہی ہے۔

حماس کی فتح اور اس کے بعد

ایک طرف تو اسرائیل کو اس اندرونی خلفشار اور نفسیاتی‘ اخلاقی اور عسکری ہزیمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے‘ لیکن دوسری طرف خود فلسطینی عوام کو باہم لڑا دیا گیا ہے۔ ان کی سیاسی تقسیم تو کسی حد تک فطری اور قابلِ قبول تھی‘ لیکن اب انھیں باہم قتل و غارت کی آگ میں جھونکا جارہا ہے۔ جنوری ۲۰۰۶ء کے انتخابات منصفانہ و حقیقی ہونے کا اعتراف خود امریکی و اسرائیلی کر رہے ہیں۔ ان انتخابات میں عالمی مبصرین کے سربراہ سابق امریکی صدر جمی کارٹر تھے۔ حال ہی میں ان سے انٹرویو میں الجزیرہ ٹی وی کی نمایندے وجد وقفی نے سوال کیا: کیا یہ انتخابات منصفانہ تھے؟ اگر تھے تو اب فلسطینیوں کو اپنا فیصلہ تبدیل کرنے پر کیوں مجبور کیا جا رہا ہے؟ جمی کارٹر کا جواب تھا: ’’۱۹۹۶ء میں یاسرعرفات کا صدارتی اور پارلیمانی الیکشن ہوا تو میں مبصر کی حیثیت سے وہاں تھا‘ عرفات کے انتقال اور محمودعباس ابومازن کے انتخاب کے وقت جنوری ۲۰۰۵ء میں دوبارہ وہاں گیا ‘ جنوری ۲۰۰۶ء کے پارلیمانی انتخابات میں بھی مَیں وہاں مبصر تھا۔ یہ انتخابات مکمل طور پر عادلانہ اور شفاف تھے۔ ان میں حماس نے ۴۲ فی صد ووٹ حاصل کیے اور پارلیمنٹ میں بھاری اکثریت حاصل کی۔ میرا خیال ہے کہ دنیا کو یہ نتائج تسلیم کرنا چاہییں۔ انتخابات سے اگلے روز میںرملہ میں محمود عباس سے ملا‘ انھیں قائل کرنا چاہا کہ وہ حماس کی پیش کش قبول کرتے ہوئے قومی حکومت تشکیل دے لیں‘ لیکن انھوں نے میری نصیحت قبول نہیں کی۔ اب بھی میرے خیال میں پہلی ترجیح یہی ہونی چاہیے کہ حماس کے ساتھ مل کر قومی حکومت تشکیل دی جائے‘‘۔

صدر کارٹر نے اپنے انٹرویو میں اس بات کا بھی واضح اعتراف کیا کہ ’’امریکی حکومت حماس حکومت کو گرانا چاہتی ہے اور سمجھتی ہے کہ سخت اقتصادی پابندیوں سے مجبور ہوکر فلسطینی عوام اپنی راے تبدیل کرلیں گے۔ مجھے ان کے اس مفروضے کی صحت کا تو علم نہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک غیرقانونی‘ غیرمناسب اور غیراخلاقی عمل ہے۔ کیا آپ ایک پوری قوم کو ضروریاتِ زندگی سے محروم کریں گے کیونکہ اس نے جمہوری عمل میں آزادانہ حصہ لیا اور ووٹ کا استعمال کیا ہے‘‘۔ یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ جمی کارٹر نے حال ہی میں فلسطین: امن‘ نسل پرستی نہیں کے عنوان سے اپنی اکیسویں کتاب لکھی ہے۔ (اس شمارے میں دیکھیے:’مسئلہ فلسطین اور اس کا حل‘، ص ۱۹)

یہ ایک امریکی ذمہ دار کی منصفانہ آواز ہے ۔ امریکی معاشرے میں کروڑوں افراد اس آواز کی تائید کرتے اور یہی راے رکھتے ہیں‘ لیکن امریکی انتظامیہ کا سر پُرغرور ظلم و حماقت کی راہ اختیار کرنے پر مصر ہے۔ فلسطینی صدر نے حماس سے مصالحت کا عندیہ دیا بھی تو فوراً واپس لے لیا کیونکہ وزیرخارجہ کونڈالیزا رائس نے ڈانٹ پلا دی تھی۔ اب پھر کونڈالیزا علاقے کا دورہ کرکے گئی ہیں۔ اعلان کیا گیا ہے کہ وہ آیندہ دو ماہ کے دوران میں دو مرتبہ پھر آئیں گی‘ مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے اپریل ۲۰۰۷ء تک ایک نیا فارمولا پیش کیا جائے گا۔ یہ فارمولا کیا ہوگا؟ اس کی تفصیل ہرصاحب ِفہم ابھی سے بتاسکتا ہے۔ آخر امریکی انتظامیہ کے پیش نظر اس کے علاوہ اور کیا ہوگا جس کا مظاہرہ رائس نے اپنے حالیہ دورے میں کیا۔ چھے خلیجی ریاستوں‘ مصر اور اُردن کے وزراے خارجہ کے آٹھ رکنی وفد سے ہنگامی مذاکرات کا نتیجہ کیا تھا؟ لندن سے شائع ہونے والے روزنامے القدس العربی کے بقول اس میں رائس نے صدربش کی طرف سے اعلان شدہ امریکی فوجیوں کی نئی کھیپ آنے کی تفصیل سے آگاہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ ان ۲۱ ہزار مزید فوجیوں کی بغداد میں تعیناتی‘ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ایک نیا اور اہم مرحلہ ہے۔ اس کی کامیابی کے لیے آپ ہماری مدد کریں۔ روز بروز بڑھتے جنگی اخراجات میں ہاتھ بٹاتے ہوئے خلیجی ریاستیںمالی مدد کریں‘ جاسوسی معلومات کی فراہمی میں اُردن مدد کرے اور سیاسی پشتیبانی کے لیے مصر مزید فعال ہو۔

الفتح حماس کی خانہ جنگی

ایک غیرسرکاری ادارے کانفلیکٹ فورم کے امریکی ذمہ دار مارک بیری اور برطانوی   ذمہ دار السٹر کروک فلسطین میں جاری خانہ جنگی کے بارے میں اپنی رپورٹ میں لکھتے ہیں کہ  امریکی انتظامیہ کے اہم فرد ابریمز نے حماس اور الفتح کے درمیان جنگ چھیڑنے کا مفصل منصوبہ  تیار کیا ہے۔ اس کے مطابق الفتح کے عناصر کو اسلحہ اور تربیت دے کر غزہ اور مغربی کنارے کی سڑکوں پر اتارا جانا ہے۔ ان کا ہدف حماس کے ذمہ داروں کا قتل اور حماس کے مجاہدین سے دوبدو جنگ ہے۔ یہ منصوبہ حماس کی جیت کے بعد‘ گذشتہ فروری ہی میں تیار کرلیا گیا تھا‘ اس پر عمل درآمد شروع ہوچکا ہے اور اس کی ذمہ داری محمود عباس کے دست راست اور امریکا و اسرائیل کے معتمد ترین شخص محمد دحلان کو سونپی گئی ہے۔

بیری‘ کروک رپورٹ کے مطابق مصر اور اُردن کے ذریعے الفتح کو اسلحے کی بڑی کھیپ دی جاچکی ہے اور صدر کی خصوصی فورسز کی تیاری کے بہانے حماس کا قلع قمع کرنے کی تیاری مکمل ہے۔ لیکن نہ صرف مصر و اُردن بلکہ خود امریکی بھی اس شش و پنج میں مبتلا ہیں کہ کیا اس طرح حماس کی جڑیں کاٹنا ممکن ہوگا؟ کیا وہ مزید مقبول تو نہیں ہوجائے گی۔

امریکی معروف میگزین فارن افیئرز کے جنوری کے شمارے میں مائیکل ہرذوگ (Michael Herzog) اسی تلخ حقیقت کا جائزہ لیتاہے کہ Can Hamas be tamed? اس تفصیلی اور اہم مقالے میں وہ واضح کرتے ہیں کہ جمہوری عمل میں حماس کی شرکت کا کڑوا گھونٹ اس لیے برداشت کیا گیا تھا کہ اس کے بعد سیاسی جماعتوں کو بہت سے عالمی و علاقائی مجبوریوں کے ساتھ سمجھوتا کرنا پڑتا ہے‘ شاید حماس کو بھی اس پر مجبور کیا جاسکے۔ لیکن حماس کے ساتھ ایسا نہیں کیا جاسکا۔ اگرچہ کچھ لوگوں کے خیال میں جمہوری عمل میں شرکت بذاتِ خود ایک سمجھوتا اور اعتدال پسندی کی طرف ایک قدم ہے۔ حماس‘ اخوان‘ حزب اللہ اور مختلف تحریکوں کے تفصیلی تجزیے کے بعد وہ اپنے تئیں یہ حکیمانہ حل پیش کرتے ہیں کہ کم از کم ان تین بنیادی اقدامات کے ذریعے حماس اور دیگر اسلامیانِ عالم کو انتہاپسندی سے دُور رکھا جاسکتا ہے۔

                ۱-  ایسے مستحکم‘ صحت مند اور نسبتاً آزاد سیاسی نظام کا قیام جس میں اسلامسٹ بھی جذب ہوسکیں۔

                ۲-  اسلامسٹوں کے خلاف جھکتا ہوا توازن اقتدار جو انھیں معتدل ضوابط کے مطابق کھیلنے پر مجبور کرے۔

                ۳-  شراکت کار روبہ عمل لانے کے لیے کافی وقت ۔

حماس کے سلسلے میں وہ عالمی برادری کو یہ مشورہ بھی دیتے ہیں کہ وہ اس پر واضح کردیں کہ جمہوری عمل میں اس کی شراکت صرف اسی صورت میں قابلِ قبول ہوگی کہ وہ تشدد کا راستہ چھوڑ دے‘ اس کی مذمت کرے‘ غیرمسلح ہوجائے اور اسرائیل کا حق وجود تسلیم کرلے۔ رہا سوال حماس کو   اُکھاڑ پھینکنے اور کچل ڈالنے کا یا اپنے ڈھب پہ لانے کا‘ تووہ واضح کرتا ہے کہ اس کا وقت گزر چکا۔ The   time for taming Hamas already have passed.

فلسطین میں خانہ جنگی کا عالمی منصوبہ اب ایک کھلا راز ہے لیکن سراسر بدقسمتی ہے کہ بعض فلسطینی رہنما اس کے لیے اپنا ایمان و ضمیر اور قومی مفادات گروی رکھنے کے لیے بھی آمادہ ہیں۔ فلسطینی وزیراعظم اسماعیل ھنیہ ۱۰ ماہ کے دوران پہلی بار چند مسلم ممالک کے دورے پر گئے۔ قطر اور ایران نے ملازمین کی تنخواہ ادا کرنے کے لیے ان کی کچھ مالی امداد کا اعلان کیا‘ لیکن جیسے ہی وطن واپسی کے لیے فلسطینی مصری بارڈر پر پہنچے انھیں روک لیا گیا۔ کئی گھنٹے تک انھیں بے توقیر کرتے رہے اور رات گئے جانے کی اجازت دی۔ ابھی وہیں تھے کہ ان پر براہِ راست فائرنگ کروادی گئی۔ ان کی گاڑی میںسوار ان کا ایک محافظ سر میں گولی لگنے سے موقع پر شہید ہوگیا۔ دسیوں زخمی ہوئے‘ لیکن اللہ تعالیٰ نے انھیں اس قاتلانہ حملے میں محفوظ رکھا۔ پھر حماس کے جہادی بازو عزالدین القسام بریگیڈ کے کیمپ پر حملہ کر دیا گیا۔ غزہ کی سڑکوں پر ہزاروں گولیوں کا تبادلہ کیا گیا۔ بھائی سے بھائی لڑ رہا تھا۔ فلسطینی عوام نے دونوں سے اپیل کر رہے ہیں کہ اصل دشمن کو پہچانیں۔ عوام نے اب بھی غزہ کے مرکزی علاقے میں احتجاجی کیمپ لگایا ہوا ہے جس پر جلی حروف میں لکھا ہے کہ ’’ہوسکتا ہے تم اپنے مقابل کھڑے فلسطینی کو قتل کردو لیکن یاد رکھو اس کے دل کی دھڑکن بھی اقصیٰ…اقصیٰ پکار رہی ہے‘‘۔ ایک فلسطینی ماں نے اپنے دو جوان بیٹوں کو گھر بلایا‘ اتفاق ہے کہ ایک الفتح کا کمانڈر ہے تو دوسرا حماس کا اہم کمانڈر ہے۔ محمودمصلح (حماس) اور جون مصلح (الفتح) اپنی ماں سے ملنے آئے توگھر کے اندر بھی دونوں کے دائیں بائیں مسلح محافظ پہرا دے رہے تھے۔ بالآخر دونوں پکار اُٹھے‘ ٹھیک ہے ہمارے درمیان سیاسی اختلاف ہے لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم اپنے ’ماں جاے‘ پر گولی چلا دیں۔ بوڑھی ماں کے آنسو چھلک پڑے۔ بے تاب ہوکر اُٹھی سروں پر بوسہ دیا اور کہا: اللّٰہ یبعد عنھما شر الیہود، ’’پروردگار! دونوں کو یہودیوں کے شر سے محفوظ رکھے‘‘۔ ایک ماں نے تو دو کڑیل جوان بیٹوں کو اصل دشمن سے خبردار کرتے ہوئے یک جا کردیا‘ لیکن لاکھوں مائوں کی یہی صدا محمودعباس اوردحلان کیوں نہیں سن رہے۔ دحلان نے خون ریزی کے ان واقعات کے بعد فخریہ بیان دیتے ہوئے کہا: ’’ہم نے دنیا پر ثابت کردیا کہ غزہ حماس کی جاگیر نہیں‘‘۔ گویا حماس کی وسیع تر تائید پر جگر چھلنی ہے اور فکرمندی یہ ہے کہ اسے کیسے کمزور کیا جائے اور کیسے اس کمزوری کو واضح کیا جائے۔

حماس اور اس کی حکومت کمزور کرنے میں ہر کوئی حصہ بقدر جثہ ڈال رہا ہے۔ حماس نے دن رات ایک کر کے اور اُمت کے ایک ایک فرد سے اپیل کر کے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں پوری کرنا چاہیں۔ اسماعیل ھنیہ دورے پر آئے تو کچھ پیسے خود بھی جمع کیے‘ ۳کروڑ ۲۴ لاکھ ۹۹ہزار ڈالر جمع تھے۔ دستی لے جانا ممکن نہیں تھا۔ کہا گیا کہ عرب لیگ نے آپ کے لیے اکائونٹ کھولنے    کی خصوصی اجازت دی ہے۔ رقم اسی خصوصی اکائونٹ میں جمع کرو ادیں‘ فلسطین پہنچ جائے گی۔   رقم اکائونٹ میں جمع کروا کے اور قاتلانہ حملے سے زندہ بچ کے ھنیہ واپس پہنچے توعرب لیگ کے سیکرٹری جنرل عمرو موسیٰ نے خط بھیج دیا ’’عدالتی پابندیوں کے باعث ہم یہ رقم فلسطین نہیں بھجوا سکتے۔ نہ ہی کوئی انھیں کیش کروا سکتا ہے جب تک کہ عدالتی فیصلہ سامنے نہ آجائے‘‘۔ دبائو کے تمام ہتھکنڈوں کے باوجود حماس اپنے موقف پر ثابت قدم ہے اور اعلان کیا ہے کہ انتخابات قبل از وقت کروانے کی اجازت کسی صورت نہیں دیں گے۔ البتہ قومی حکومت کا راستہ اب بھی کھلا ہے۔ اس سلسلے میں صدر محمود عباس سے براہ راست مذاکرات بھی ہوسکتے ہیں۔

اھم سوال

حالات ایسے ہیں کہ اچھے بھلے دانا کو بھی متحیر کردیں‘ لیکن حماس مطمئن ہے کہ ’’ہم پر آنے والی ہرآفت ہماری طاقت میں اضافے ہی کا سبب بنی ہے‘‘۔ اب بھی ہماری منزل واضح‘ عزم مصمم‘ تیاری مکمل اور کامیابی کا یقین کامل ہے۔ امریکا کا خیال ہے کہ وہ امریکی اصطلاح کے مطابق  ’منظم بحران‘ کھڑے کرکے حکومتوں اور عوام کواپنی اطاعت پر مجبور کرلے گا۔ ہر آنے والا دن اس کی یہ خام خیالی واضح کر رہا ہے۔ اب وہ خودکہتے ہیں کہ ہم مسلم عوام کے دل جیتنے میں ناکام ہورہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی اٹل سنت کے مطابق ان کی ہر شرانگیزی انھی کے گلے پڑ رہی ہے۔ اسْتِکْبَارًا فِی الْاَرْضِ وَ مَکْرَ السَّیِّیِٔ ط وَ لَا یَحِیْقُ الْمَکْرُالسَّیِّیُٔ اِلَّا بِاَھْلِہٖ ط (فاطر۳۵:۴۳) ’’یہ زمین میں اور زیادہ سرکشی کرنے لگے اور بری بری چالیں چلنے لگے‘ حالانکہ بری چالیں اپنے چلنے والوں ہی کو لے بیٹھتی ہیں‘‘۔ امریکا جتنا کیل کانٹا عراق و افغانستان میں لے کر آیا ہے یا اب ایتھوپیا کے راستے صومالیہ لانے کی سوچ رہا ہے اس کے بارے میں تحریک مزاحمت کا اعلان یہ ہے کہ سَیُھْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ o (القمر۵۴:۴۵) ’’عنقریب یہ سب لائولشکر ہزیمت اٹھائے گا اور پیٹھ پھیر کر بھاگ جائے گا‘‘۔

اصل سوال مسلم عوام اور حکمرانوں سے ہے۔ کیا وہ زندگی اور بعد موت کامیابی چاہتے ہیں‘ یا وہ بھی طاقت ور دیوانے دیو کے ساتھ ہی تباہ ہو جانا چاہتے ہیں۔ اگر جواب ہاں ہے تو ذلت کا یہی سفر جاری رہے۔ روشن خیالی کے نام پر تحریف دین‘ رب سے بغاوت اور حبیب خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے عملی نفرت جاری رہے‘ ایک اللہ کے بجاے دسیوں خدائوں کے سامنے سجدہ ریز رہیں۔ اور تو اور‘ کرزئی جیسے براے نام حکمران کی گھرکیاں بھی برداشت کرتے رہیں‘ گائے اور بچھڑے کے پجاریوں (ہندو اور یہود) کی عیاری سے دیکھتے بھالتے مات کھاتے رہیں‘ اپنے ہی ہاتھوں اپنے بھائیوں کا گلا گھونٹتے رہیں‘ شیعہ سنی‘ روشن خیال بنیاد پرستی‘ مہاجر پختون‘ عرب اور عجم کے تعصبات میں مبتلا رہیں‘ جتنے یوسف ملیں‘ برادرانِ یوسف بن کر انھیں مٹھی بھر ڈالروں کے عوض بیچ ڈالیں۔ اپنے تمام جیل خانوں کو گوانتاناموبے بنا ڈالیں۔ حیا و اخلاق کو سڑکوں پر تارتار کر دیں یا بسنت کی آہنی ڈور سے باندھ کر ہوائوں میں اڑا دیں۔ اپنی نسلوں کے خدابے زار و تارکین دین ہونے پر فخرو مباہات کریں۔ بس پھر دیکھیں عنقریب ہلاکت و تباہی کے کیسے کیسے تمغے عطا ہوتے ہیں۔ لیکن یہ واضح رہے کہ مسلم عوام کی اکثریت خود کو آخرت میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوضِ کوثر کی طرف لے جانا چاہتی ہے‘ وہ دنیا میں اس کی شریعت کا علَم بلند کرنے کی راہ اختیار کر رہی ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو اب تک آدھے سے زیادہ مسلم دنیا‘ افغانستان و عراق بن چکی ہوتی۔ قرآن عظیم الشان کے بجاے دنیا میں ’امریکی فرقان‘ کی تلاوت ہو رہی ہوتی۔ لبنان‘ فلسطین‘ کشمیر‘ افغانستان اور عراق‘ ہر جگہ جہاد کی کھیتی ویران ہوچکی ہوتی اور امریکیوں کے اپنے سروے کے مطابق ۸۴ فی صد مسلم عوام اس کی اور اس کے غلاموں کی کرتوتوں سے اظہار نفرت نہ کر رہے ہوتے۔

یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاھِھِمْ وَیَاْبَی اللّٰہُ اِلَّآ اَنْ یُّـتِمَّ نُوْرَہٗ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ o (التوبہ۹:۳۲)یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں مگر اللہ اپنی روشنی کو مکمل کیے بغیر ماننے والا نہیں ہے خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔

 

آج ہمارے ملک میں روشن خیال اعتدال پسندی کے نام سے سرکاری سرپرستی میں بیرونی قوتوں کی اشیرباد ‘ حوصلہ افزائی اور ہرطرح کی معاونت سے موجودہ معاشرے کو بالکل سیکولر معاشرے میںتبدیل کرنے کی جو مہم جاری ہے‘ اسے سمجھنے کے لیے یورپ کی نشا.َتِ ثانیہ کی تحریک کے پس منظر اور اثرات پر غور کرنا چاہیے۔ وہاں عیسائیت کی اصلاح کرنے کے لیے ایک نئی دنیا تخلیق کی گئی‘ یہاں بھی اسلام کی ’اصلاح‘ کرنے کے لیے یہی کچھ کرنا پیشِ نظر ہے۔

جدید یورپ کے پس پردہ جو فکری تبدیلی ہے اسے ہم نشا.َتِ ثانیہ کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ اس لفظ کا استعمال ۱۹ویں صدی کے نصف آخر میں سوئٹزرلینڈ کے تاریخ داں جیکب برک ہارڈ نے پہلی مرتبہ ۱۸۶۰ء میں اپنی کتاب Die Kulter Der Renaissance in Italian میں کیا‘ یعنی ۱۹ویں صدی تک خود یورپی عوام بھی نشا.َتِ ثانیہ کے موجودہ مفہوم سے ناآشنا تھے۔ نشا.َتِ ثانیہ تاریخِ یورپ میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کے بعد کا یورپ ماضی کے یورپ سے قطعی مختلف ہوگیا‘ اس حد تک کہ نئے یورپ کے تمام ادارے‘ بشمول کلیسا‘  مذہب‘ سیاست‘ معیشت‘ اخلاقیات‘ خاندانی رسم و رواج اور سائنس سبھی کچھ بدل گئے۔ انفرادی و سماجی  رویّے شکست وریخت سے دوچار ہوگئے۔ اس فکر کے اثرات پوری دنیا میں پھیل گئے یہاں تک کہ نشا.َتِ ثانیہ کے بطن میں پوشیدہ افکار آہستہ آہستہ مذہبی فکر میں نفوذ کرتے چلے گئے جس کے نتیجے میں عیسائیت اپنی ہیئت و ماہیت کے لحاظ سے تبدیلی کے عمل سے دوچار ہوگئی۔ ۱۶ویں صدی تک یہ تبدیلیاں واضح اور منظم رخ اختیار کرچکی تھیں۔

مذہبی پیشوا‘ پوپ اور کلیسا بے شمار اخلاقی خرابیوں کی آماج گاہ بن چکے تھے۔ وقف زمینوں سے حاصل ہونے والی آمدنی کلیسا کی روایت و اخلاقیات کو ڈھا رہی تھی۔ معافی ناموں کی فروخت کا کاروبار ہو رہا تھا۔ پوپ اپنی روحانی عظمت کو قائم رکھنے کے لیے حکومتوں کو لڑانے میں اپنا کردار ادا کر رہے تھے۔ مختلف ممالک میں کلیسائوں کے پادری بھی پوپ کی مرضی سے متعین کیے جاتے۔ زرعی زمینوں پر ٹیکس بھی پوپ کی منشا کے مطابق عائد کیا جاتا۔ مذہبی پیشوائوں کے ناجائز بچے  ’پوپ کے بھتیجے‘ کلیسا کی اخلاقی زبوں حالی کی تصویر پیش کر رہے تھے۔ یہی پس منظر تحریکِ اصلاحِ مذہب کا سبب قرار دیا جاتا ہے۔

اصلاح مذہب کے علم بردار لوتھر (۱۴۸۴ء-۱۵۴۶ء)‘ ایراسمس (۱۴۶۶ء-۱۵۳۶ء)‘ زونگلی (۱۴۸۴ء-۱۵۳۱ء) اور کالون (۱۵۰۹ء-۱۵۶۴ء) تھے۔ اگر ان افراد کے لیے حسنِ ظن سے کام لیا جائے تو بھی تاریخ شاہد ہے کہ ایک ’مخصوص طبقہ‘ اصلاحِ مذہب کا خواہاں نہ تھا بلکہ  اس تحریک کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتا تھا۔ مذہبی فکر کو دیوار سے لگانے میں بھی اس تحریک کا کردار خاصا اہم نظر آتا ہے باوجود اس کے کہ یہ تحریک اصلاحِ مذہب کا نعرہ لے کر  اٹھی تھی۔ مقاصد کے اعتبار سے یہ تحریک عیسائیت کو اس کی ’اصل‘ فراہم کرنا چاہتی تھی مگر اس کا  انجام کار انتشارِ عیسائیت کی صورت میں برآمد ہوا۔ صرف یہی نہیں بلکہ عیسائیت اپنی اصل سے مزید دُور ہوگئی۔ پروٹسٹنٹ فرقے کا ظہور اس تحریک کا نتیجہ تھا مگر عقائد کے اعتبار سے یہ فرقہ بھی اپنی اصل سے اتنا ہی دُور تھا جتنا رومن کیتھولک بلکہ شاید کچھ زیادہ ہی۔ اگرچہ عیسائیت میں خرابیوں نے جنم ضرور لیا تھا مگر ان کی اصلاح کر کے انھیں دُور کیا جاسکتا تھا۔ آخر کیا وجہ تھی کہ اصلاح کے نام پر مذہب کو ہی منہدم کرنے کی کوشش کی گئی۔ آخر ایسا کیوں ہوا کہ معاشرے کے ہر ادارے سے مذہب کا خاتمہ کرکے انھیں سیکولر اداروں میں تبدیل کیا گیا اور پھر مذہب کو صرف ذہنی عقائد اور ذاتی معاملے تک محدود کردیا گیا۔ مذہب اور معاشرتی اداروں میں مشرق و مغرب کا بُعد پیدا کردیا گیا۔ جس طرح کسی بھی فکر کو زندگی عطا کرنے کے لیے اسے اداروں کے ذریعے معاشرے پر منطبق کرنا ضروری ہوتا ہے‘ بالکل اسی طرح کسی بھی فکر کو محدود اور کمزور کرنے کے لیے اداروں سے اس کے رشتے کو منقطع کرنا ضروری ہوتا ہے۔ یہی کچھ صورت حال نشا.َتِ ثانیہ میں بھی نظر آتی ہے جس کے ذریعے معاشرتی اداروں سے مذہبی فکر کا خاتمہ کرکے انھیں سیکولر بنیادوں پر استوار کیا گیا۔

نشا.َتِ ثانیہ کے اغراض و مقاصد کی تفصیل میں جانے سے پہلے ان طریقوں کو سمجھنا ضروری ہے کہ جن سے مسلح ہوکر اس فکر نے یورپ پر کاری وار کیا اور ایک نئے یورپ کے خدوخال متعین کیے۔ اس فکر کو برپا کرنے میں دو تحریکوں‘ تحریکِ عقلیت اور تحریکِ انسانیت نے یورپ کی تاریخ و جغرافیہ دونوں ہی کو تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

  •  عقلیت (Rationalism): اس سے مراد دنیا اور فکر کی اساس عقل کو قرار دینا ہے۔ نفسیات‘ جمالیات اور اخلاقیات کی تشریح عقل کی بنیادوں پر کی جاتی ہے۔ دینیات میں عقل سے مراد صرف ان عقائد کو تسلیم کرنا ہے جو سائنس اور فلسفے کے مطابق ہوں۔ عقلیت پسند وحی کو بطور ماخذِ علم مسترد کرتے ہیں۔ (Dictionary of Sociology ‘ Nicholas Abererombie) (کشاف اصطلاحات فلسفہ‘ پروفیسر اے سی قادر‘ اِکرام رانا)
  •  تحریکِ انسانیت (Humanism): اس میں اساسی اہمیت اس دنیا میں انسان کی فلاح اور مسرت کو دی جاتی ہے۔ یورپی نشا.َتِ ثانیہ میں روایتی کلیسائی سختی کے خلاف فکری بغاوت جس میں کلاسیکی علم سے شغف اور دنیا کی لذتوں سے محظوظ ہونے پر اصرار ہے۔ ۲۰ویں صدی کی مادی اور انسانیت دوست فکر میں مافوق الفطرت عناصر سے انکار اور اس بات کا ادعا کہ اعلیٰ ترین خیر اس دنیا میں انسان کی بھلائی کا حصول ہے اور اس کے لیے سائنس‘ جمہوریت اور عقل کی رہنمائی لازمی ہے۔بجاے خدا کے‘ انسان اس تحریک کا مرکزی نقطہ ہے۔(ایضاً)

درج بالا تعریفات عقلیت اور تحریکِ انسانیت کے ضمیر میں پوشیدہ ان اغراض و مقاصد کا مکمل احاطہ کرتی ہیں‘ جن کے لیے نشا.َتِ ثانیہ کی تحریک برپا کی گئی۔ تاریخ یورپ کو اکثر انگریز مصنفین درجہ ذیل چار حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:

۱- پانچویں صدی قبل مسیح تا پانچویں صدی عیسوی: یونانی اوررومی دور۔

۲- چھٹی صدی عیسوی تا ۱۵ویں صدی عیسوی: ازمنہ وسطی‘ دورِ عیسوی‘ دورِ جہالت۔

۳- ۱۵ویں صدی عیسوی تا۱۶ویں صدی عیسوی: تحریکِ اصلاح مذہب‘ دورِ تنویریت تا روشن خیالی (enlightenment)‘ نشا.َتِ ثانیہ۔

۴- ۱۷ویں صدی عیسوی تا ۲۰ویں صدی عیسوی: دورِ عقلیت و سائنس‘ دورِ جدید۔

درج بالا تقسیم کے صرف ناموں پر ہی غور کیا جائے تو یہ حقیقت آشکار ہوجاتی ہے کہ یہ نام اپنے اندر ایک خاص فکر رکھتے ہیں‘ مثلاً دورِ عیسوی کو دورِ جہالت کا نام دیا جاتا ہے‘ یعنی عیسائیت اور جہالت ہم معنی قرار پاتے ہیں۔ دورِ عیسائیت میں یورپ نے جو کچھ بھی حاصل کیا اسے جہالت سے تعبیر کیا جاتا ہے‘ یعنی شعوری طور پر یہ فکر راسخ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ جہاں بھی مذہب کی روشنی غلبہ حاصل کرے گی اس کا انجام ایک ہی صورت میں برآمد ہوگا یعنی ’جہالت‘۔ تیسرے دور کو تحریکِ اصلاح‘ نشا.َتِ ثانیہ اور روشن خیالی کا نام دیا جاتا ہے‘ یعنی روشنی کا دور‘ جب کہ اس عہد میں عیسائیت کی بنیادوں کو منہدم کردیا گیا۔ لوتھر‘ ایراسمس‘ کالون اور زونگلی نے عیسائیت کی عمارت کو ڈھانے میں خاص کردار ادا کیا۔ انھوں نے پوپ کے اختیارات کو چیلنج کیا اور مذہبی تشریح کا حق عام لوگوں کو منتقل کردیا جس کے تحت اب ہرشخص اپنی فہم و فراست کے مطابق انجیل کی تشریح کرسکتا تھا۔ کلیسا کی طرف سے متعین کردہ مذہبی تشریح عام لوگوں کے لیے لازمی نہیں رہی۔ نتائج کے اعتبار سے یہ ایک مہلک عمل تھا جس کا نتیجہ انتشار عیسائیت کی صورت میں برآمد ہوا۔

یہ بات بھی غورطلب ہے کہ یونانی فلسفہ جو رفتہ رفتہ عیسائیت کی فکری دنیا میں نفوذ کرتا چلا جارہا تھا‘ اس کے نتائج بھی عیسائیت کے لیے سخت نقصان دہ ثابت ہو رہے تھے۔ عیسائی لبادے میں ملبوس یہ یونانی خیالات جب حالات و زمانے کا ساتھ نہ نبھا سکے تو انھیں متروک کرنا پڑا جس کی زد عیسائیت پر پڑی‘ مثلاً کوپرنیکس نے جب یہ اعلان کیا کہ زمین سورج کے گرد گھوم رہی ہے تو   اس پر شدید اعتراض کیا گیا اور اسے معتوب ٹھیرایا گیا۔ کوپرنیکس کا یہ اعلان یونانی فلسفے کا انکار تھا نہ کہ عیسائیت کا‘ مگر چونکہ یونانی فلسفہ اور عیسائیت لازم و ملزوم کی حیثیت اختیار کرچکے تھے‘ لہٰذا   روشن خیال کے دور میں عیسائیت اپنی بنیادوں سے محروم ہوتی چلی گئی۔

عیسائیت کے بعد اس دورِ روشن خیالی کو اب اسلام پر منطبق کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ آج یہی نشا.َتِ ثانیہ جدیدیت کا روپ دھار کر اسلام کے ساتھ نبردآزما ہے جس کا بنیادی مقصد اسلام کو ضابطۂ حیات کی حیثیت سے مشکوک قرار دینا ہے۔ پس منظر اپنے پیش منظر کو خود متعین کرتا ہے۔ نشا.َتِ ثانیہ کا پس منظر یورپ کے معاشرتی اداروں سے مذہبی افکار کا خاتمہ کرکے انھیں مکمل سیکولر بنیادوں پر استوار کرنا تھا‘ جب کہ اس کا پیش منظر مسلم دنیا کے معاشرتی اداروں سیاست‘ معیشت‘ تعلیم‘ اخلاقیات‘ خاندانی روایات اور ابلاغیات سے مذہبی فکر کو علیحدہ کرکے انھیں سیکولر بنیادوں پر استوار کرنا اور عیسائیت کی طرح اسلام کو بھی فرد کا ذاتی معاملہ قرار دے کر اسے انفرادیت تک محدود قرار دینا ہے۔ ایک ایسا اسلام جو عقیدے اور رسوم کے در و دیوار میں مقید رہے۔ چنانچہ اخبارات اور ٹی وی چینلوں کے ذریعے ایسے موضوعات پر بحث کرائی جاتی ہے جن کے بارے میں قوم واضح اور متعین راے رکھتی ہے۔

اس طرح کے پروگرام کا شعوری مقصد کسی موضوع یا عقیدے سے وابستہ ’متعین اور راسخ‘ راے کو مشکوک قرار دینا ہوتا ہے۔ اس طرح کے پروگرام تسلسل اور تواتر سے پیش کیے جاتے ہیں تاکہ لوگوں کی راسخ راے کو دھیرے دھیرے نامانوس طریقے سے تبدیل کیا جائے۔ مذہبی فکر کو موضوع بحث بنانے کے لیے جن افراد کو بحث و مباحثے کی دعوت دی جاتی ہے ان میں مذہبی فکر سے وابستہ ایسے افراد کو مدعو کیا جاتا ہے جو جدید تعلیم و خیالات سے مکمل واقفیت نہیں رکھتے اور نہ ان میں اپنے موقف کا دفاع کرنے ہی کی اہلیت و صلاحیت ہوتی ہے۔ دوسری طرف سیکولر طبقہ جدید تعلیم سے آراستہ ہوتا ہے اور زمانے کے فکری نشیب و فراز پرگہری نظر رکھتا ہے جس کی بنا پر ان میں قائل کرنے کی بھرپور صلاحیت ہوتی ہے۔ اس طرح غیرمتوازن شخصیات کو تبادلہ خیال کا موقع دیا جاتا ہے اور فیصلہ عوام پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ عوام پس پردہ منصوبہ بندی سے ناواقف ہوتے ہیں لہٰذا جب وہ فیصلہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو انھیں محسوس ہوتا ہے کہ مذہبی فکر کا دفاع کرنے والے اپنے موقف کو دلائل کی روشنی میں پیش کرنے سے قاصر رہے۔ اس طرح سیکولرفکر کے حوالے سے ان کے خیالات میں نرمی پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ اس نوعیت کے پروگرام تسلسل سے پیش کیے جاتے ہیں تاکہ خیالات میں پیدا شدہ نرمی کو ایک ’راسخ‘ خیال میں تبدیل کیا جاسکے۔ ذیل میں  ٹی وی پروگرام کے چند ’مرکزی خیال‘ آپ کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح راسخ و متعین خیالات کو مشکوک ٹھیرا کر انھیں متروک کرنے کی کوشش کی جارہی ہے:  

  • کیا پاکستان کو قرارداد مقاصد کی اب بھی ضرورت ہے؟ 
  • اسلام میں رقص اور موسیقی کی شرعی حیثیت 
  • کیا قائداعظم سیکولر تھے؟ 
  • حدیث کی شرعی حیثیت 
  • خاندانی منصوبہ بندی‘ خوش حالی کی ضمانت 
  • مخلوط نظام تعلیم وقت کی ضرورت
  • خواتین کی میراتھن ریس 
  • دو قومی نظریہ کیا اب بھی ہماری ضرورت ہے؟ 
  • قائداعظم ملک میں اسلامی نظام کا نفاذ چاہتے تھے یا سیکولر ریاست کے خواہاں تھے 
  • بنک کا سودی نظام۔

سیموئیل پی ہن ٹنگٹن نے تہذیبوں کا تصادم میں مغربی تہذیب کے لیے اصل خطرہ اسلامی تہذیب کو قرار دیا ہے۔ اس ممکنہ خطرے سے نمٹنے کے لیے پیش بندی کی جارہی ہے۔ اسی پیش بندی کے پہلے مرحلے میں مسلم دنیا میں قائم معاشرتی اداروں کو سیکولر بنیادوں پر استوار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جدیدیت کے روپ میں انھی عقلیت و انسان دوستی کی تحریکوں کو برپا کیاجارہا ہے جنھوں نے یورپ میں مذہبی اقدار کو تہہ و بالا کردیا تھا۔ مذہبی اقدارو شعائر کا تمسخر اڑایا جارہا ہے۔ ایسے افراد کو میڈیا کے ذریعے عزت و توقیر دی جارہی ہے اور انھیں آئیڈیل بناکر پیش کیا جا رہا ہے جو مادیت اور لذت پرستی ہی کو زندگی کا اصل مقصد قرار دیتے ہیں۔ امریکا میں مقیم پاکستانیوں کے انٹرویو پیش کیے جاتے ہیں جن کی مادی کامیابیاں دوسروں کے لیے نمونہ قرار دی جاتی ہیں۔ اس طرح یہ باور کرایا جاتا ہے کہ زندگی کا اصل مقصد آسایشوں کا حصول ہے اور آسایشوں کا حصول سیکولر معاشروں ہی میں ممکن ہے۔ اس طرح چہار اطراف سے سیکولر خیالات کو مسلم معاشرے میں رائج کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

نشا.َتِ ثانیہ کے اسباب میں سقوطِ قسطنطنیہ‘ امریکا کی دریافت‘ کاغذ اور مشینی طباعت کو اہم قرار دیا جاتا ہے۔ دراصل ان اسباب کو منظرنامے میںرکھ کر اصل سبب سے چشم پوشی کی جاتی ہے۔ قسطنطنیہ کو سلطان محمد فاتح نے ۱۴۵۳ء میں فتح کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس فتح کی وجہ سے تاجرطبقہ اور اصحاب العلم مع اپنی نابعہ روزگار کتابوں کے یورپ منتقل ہوگئے۔ مگر یہاں چند سوالات جنم لیتے ہیں:

۱- ان شخصیات کے پاس علم کے وہ کون سے خزانے تھے جسے وہ مسلمانوں کی دست رس سے بچاکر یورپ لے گئے؟

۲- دارالاسلام میں رہنے سے انھیں کون سے عوامل مانع تھے؟

۳- تاجر طبقے کو مسلم معاشرے میں کن مشکلات کا سامنا تھا؟

یورپ ان سوالوں کا جواب اس طرح پیش کرتا ہے کہ مسلم معاشرہ تنزل کا شکار تھا۔   عقلی علوم کے لیے معاشرے میں کوئی جگہ نہ تھی چنانچہ یہی بہتر تھا کہ یہ نابغہ روزگار شخصیات یورپ منتقل ہوجائیں۔ جہاں کی فضا ان علوم کے لیے سازگار تھی‘ جب کہ یورپ میں اس دور کو جہالت کے دور سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ حقیقی صورت حال کچھ اس طرح تھی کہ یہ نابغہ روزگار شخصیات یونانی علوم کی ماہر تھیں جنھیں دین اسلام شکست فاش دے چکا تھا۔ امام غزالی ۱۰۹۵ء میں تہافۃ الفلاسفہ تحریر فرماکر یونانی علوم کی ہیئت اور ماہیت کو واضح کرچکے تھے۔ چنانچہ یونانی علوم کی یہ ماہر شخصیات دین اسلام سے بے زار ہوکر یورپ منتقل ہونے لگیں جہاں انھیں اس کے واضح آثار نظرآرہے تھے کہ وہ عیسائیت کو شکست فاش دے کر لادینی اقدار کو پروان چڑھا سکتے تھے۔ نقل مکانی کرنے والوں میں تاجرطبقہ بھی تھا جسے مسلم معاشرے میں کھل کھیلنے کی اجازت نہ تھی۔ چنانچہ ان دونوں طبقات نے یونانی علوم کے بطن سے نکلی تحریک عقلیت و انسانیت کے ذریعے عیسائیت کی بیخ کنی شروع کردی۔ ان دنوں یورپی معاشرے میں زرعی اقدار رائج تھیں جو ان تحریکوں سے پیدا ہونے والی نئی اقدار کا ساتھ نہیں دے سکتا تھا۔ چنانچہ زرعی معاشرے کو صنعتی انقلاب کے ذریعے صنعتی معاشرے میں تبدیل کردیا گیا۔ ساتھ ہی جمہوریت کے نفاذ کے ذریعے مذہبی اقدار کا خاتمہ جب کہ صنعتی اقدار اور تاجر طبقے کے مفادات کے حصول کو ممکن بنایا گیا۔

خلافت. ِعثمانیہ کے زوال کے بعد یورپی ممالک نے جن ملکوں پر قبضہ کیا وہاں کے تمام علمی سرمایے کو یورپ منتقل کردیا گیا۔ علمی سرمایے کی اس منتقلی کا اس کے سوا اور کیا سبب ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں کا رشتہ ان کی علمی تاریخ سے کاٹ دیا جائے۔ پھر یورپ ہی سے ان کتابوں کی تشریحات اور ترجمے شائع ہوتے ہیں۔ اس عمل کے ذریعے مغربی فکر بھی ان ترجموں اور تشریحات میں داخل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس طرح دو فائدے حاصل ہوتے ہیں۔ اوّل: مغربی فکر ان شخصیات کے ناموں سے بآسانی مسلم معاشرے میں نفوذ کرجاتی ہے۔ دوم: خود ان معروف مسلم شخصیات کی علمی حیثیت بھی مشکوک ہوجاتی ہے اور یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ ان کے اصل خیالات کیا تھے۔ مسلم دانش وروں پر اُمت کا یہ قرض ہے کہ وہ علم کے اس سرمایے تک براہِ راست رسائی حاصل کریں۔ اس طرح اُمت میں متداول بے شمار فکری غلط فہمیوں کا ازالہ بھی ممکن ہے۔

عقلیت اور انسانیت کی تحریکوں نے نئے یورپ کے خدوخال متعین کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ چنانچہ ان تحریکوں کے ذریعے حکومتی اہل کاروں کو کلیسا کے خلاف اُبھارا گیا۔ اسے کمزور کرنے کے لیے عصبیتوں‘ قومیتوں اور زبانوں کو فروغ دیا گیا۔ مذہب میں خدا‘ توحید‘ وحی‘ رسالت‘ آخرت کا جو تصور تھا اسے کمزور کرنے کے لیے فلسفہ اور سائنس کو فروغ دیا گیا جو مذہبی عقائد کے بارے شکوک و شبہات کو جنم دیتے ہیں۔ اباحیت پسندوں کو نوازنا‘ علما کی تحقیر‘ مذہبی شعائر کا مذاق‘ معاشرتی اداروں کا سیکولر بنیادوں پر استحکام‘ مذہبی امور کو مشکوک قرار دینے کے لیے قدیم یونانی‘ دہری‘ مشائی اور طبیعی علوم کا فروغ‘ طبعی علوم کی جڑوں سے مذہبی فکر کا خاتمہ ان تمام عوامل کا بنیادی مقصد عیسائیت کی بیخ کنی کے سوا کچھ اور نہ تھا۔ لذت پرستانہ ادب (اپیقیوری لٹریچر )‘ فلسفے اور آرٹ کو عیسائیت میں اس طرح پھیلایا گیا کہ دونوں کو جدا کرنا مشکل امر بن گیا۔ ’’انسان ہی تمام معاملات کی میزان ہے‘‘۔ اس اباحیت پسند نعرے کو بلند کرکے وحی کی اہمیت و حیثیت سے انکار کیا گیا۔ تاجرطبقے نے ان تحریکوں کے پردے میں مکمل آزادی اور فطریت کے خیالات کا اظہار کیا۔ مکمل فطری آزادی کے تحت کسی بھی نوع کے الٰہی احکامات سے انکار لازمی قرار پاتا ہے‘ جب کہ مذہب‘ انسانی فکر‘ خیالات‘ جذبات‘ اعمال اور لائحہ عمل کے لیے ایک متعین آزادی فراہم کرتا ہے۔ لیکن جب مذہب ہی مشکوک ٹھیرا تو انسانی جذبات‘ خیالات و اعمال بھی سرکش گھوڑے کی طرح بے لگام ہوگئے۔ نشا.َتِ ثانیہ کا جائزہ یہ حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ اس کا اصل مقابلہ عیسائیت سے تھا۔ مذہبی عقائد کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنا اور انھیں مشکوک ٹھیرا کر متروک قرار دینا پیشِ نظر تھا۔ مثلاً اگر عقیدۂ آخرت کو عقل کی کسوٹی پر پرکھا جائے تو عقل پہ حکم صادر کرتی ہے کہ آخرت چونکہ کسی حسی تجربے اور مشاہدے میں نہیں آتی لہٰذا اس پر ایمان ایک مشکوک عمل ہے۔ یورپ کی تاجر برادری ان تحریکوں کو آگے بڑھانے میں ہراول دستے کا کردار ادا کر رہی تھی۔ یہ طبقہ اس کا شدید خواہش مند تھا کہ سیاست‘ اخلاقیات اور معاشرے کی مذہبی بنیادوں کو کھوکھلا کردیا جائے۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے معاشرے کو تبدیلی کے عمل سے گزارا گیا۔

قدیم معاشرے روایت و اقدار کو اداروں میں بدل دیتے تھے یعنی اداروں کا مقصد روایت و اقدار کی نگہداشت اور پرورش تھا۔ تبدیل شدہ جدید معاشرے نے تبدیلی و تغیر کو   اداروں میں منتقل کردیا یعنی اب اداروں کا مقصد ہر نئی فکر کی ترجمانی و نگہبانی تھا۔ نئی فکر مذہب سے براہِ راست متصادم تھی۔ اس طرح تبدیل شدہ معاشرے کے ادارے مذہب کے خلاف سینہ سپر ہوگئے۔ ان اداروں کے ذریعے مذہبی اقدار کا خواہ وہ کسی شکل میں ہوں‘ ابطال کیا گیا‘ ان کے ساتھ تحقیرآمیز رویہ اختیار کیا گیا اور انھیں عہدِ جاہلیت کی نشانیاں قرار دیا گیا۔ اس سلسلے میں    قدیم و جدید فلسفے اور لادینی سائنس سے بھرپور استفادہ کیا گیا۔ مذہب میں موجود خدا کے تصور کو سرمایہ داری‘ لذت پرستی اور مادیت پرستی سے تبدیل کیا گیا۔ چنانچہ یہی مادیت پرستی و لذت پرستی زندگی کا اصل اصول قرار پائے اور انھی کی بنیاد پر زندگی کے اعمال کو تولا اور پرکھا جانے لگا۔ یہی افکار آگے چل کر استحصالیت اور استعماریت کی شکل میں اجاگر ہوئے۔ چنانچہ امریکا پر قبضے کے دوران لاکھوں سرخ ہندی قتل کردیے گئے یہاں تک کہ ان کے قتل کو جائز قراردیا گیا۔ ان فکری تحریکوں کے نتیجے میں اخلاقی زوال مکمل اباحیت کی صورت میں ظاہر ہوا۔ آزاد معیشت نے  صارف کلچر متعارف کرایا جس کی جدید شکل disposableکلچر ہے یعنی استعمال کریں اور پھینکیں۔ اس طرح لذت پرستی اور تسکین زندگی کا محورو مرکز بن گئی۔

اسی لذت پرستی اور مادیت پرستی کے پھیلائو کے لیے نظام سرمایہ داری کو ایک عالم گیر اصول قرار دے کر پوری دنیا پر اس کے نفاذ کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ یورپ‘ امریکا‘ جاپان‘ آسٹریلیا جہاں جہاں سرمایہ داری پھیلی‘ مذہبی اور اخلاقی ادارے کمزور ہوتے چلے گئے۔ ہرفعل اور ہرعمل مباح ہوتا چلا گیا۔ موجودہ WTO اسی نظام کی جدید شکل ہے جہاں لوگوں کی آمدنی تو بڑھے گی مگر اس شرط کے ساتھ کہ انھیں اپنی مذہبی‘ اخلاقی‘ روحانی‘ سماجی اور خاندانی اقدار کو گروی رکھنا پڑے گا۔

موجودہ سائنسی ارتقا سے پہلے نشا.َتِ ثانیہ کے روپ میں عقلیت و انسانیت کی تحریکیں اپنا کام مکمل کرچکی تھیں‘ لہٰذا سائنس نے مذہبی اعتبار سے ٹوٹتے اوربکھرتے معاشرے میں آنکھ کھولی۔ مذہبی گرفت معاشرے پر کمزورپڑچکی تھی چنانچہ سائنس کی بنیادوں کو لادینیت پر استوار کیا گیا‘ بہ الفاظ دیگر لادینیت سائنس کا جزوِ مشترک نظرآتی ہے۔ شعوری طور پر اس خیال کو راسخ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یورپ میں سائنسی ارتقا اس صورت میں ممکن ہوا جب یورپ مذہبی جکڑبندیوں سے آزاد ہوگیا۔ یعنی سائنس کی آبیاری کے لیے مذہبی تصورات سے چھٹکارا لازمی ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ سائنس کے دائرے میں صرف انھی افکار کو جگہ دی جاتی ہے کہ جو عقل اور حسی تجربے کی کسوٹی پر پرکھے جاسکیں۔ اس طرح وہ تمام تصورات جو عقل اور حسی تجربے سے ماورا ہوں سائنس کے دائرے میں داخل نہیں ہوتے۔ یہ سائنس کی لادینیت ہی ہے کہ گذشتہ چند صدیوں میں جتنے افراد ہلاک ہوئے پوری معلوم تاریخ میں بھی مجموعی طور پر اتنے افراد ہلاک نہیں ہوئے۔ مذہبی اقدار سائنس کو حدود و قیود کی پابندیوں سے جکڑتی ہیں اور اس بات کو ممکن بناتی ہیں کہ اس دو دھاری تلوار کو انسانیت کی فلاح کے لیے استوار کیا جائے نہ کہ نسل کشی کے لیے۔ مگر لادینی سائنس سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی۔

یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ سائنس کی وہ ہزارہا نعمتیں جو مغربی ملکوں سے ہمارے یہاں درآمد ہوتی ہیں‘ یہ ساری نعمتیں مغرب ہمیں اس لیے نہیں دیتا کہ وہ ہم سے ہمدردی رکھتا ہے یا ہمارا مخلص ساتھی ہے بلکہ اس کے پیچھے نظامِ سرمایہ داری ہے۔ پاکستان کے ۱۵ کروڑ عوام دراصل مغربی کمپنیوں کے ۱۵ کروڑ صارف ہیں جنھیں یہ کمپنیاں اپنا سامان فروخت کرکے کئی گنا نفع حاصل کرتی ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں زائد گندم جلا دی جاتی ہے‘ جب کہ آج بھی کروڑوں افراد  بھوک و افلاس کا شکار ہیں۔ اس صورت حال کے برعکس جب ہم مسلمانوں کے عروج کے ہزارسالہ دور پر نظر ڈالتے ہیں تو وہاںمذہب اور سائنس ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے‘ تعاون کرتے آگے بڑھتے نظرآتے ہیں۔ بہیمیت کی جو داستانیں برطانوی‘ فرانسیسی‘ جرمن‘ روسی اور امریکی استحصالی معاشروں نے قائم کیں‘ مسلم معاشرے میں ایسی مثالیں شاذونادر ہی نظر آئیں گی۔ اس فرق کی بنیادی وجہ مسلم معاشرے میں سائنس کا دینی گھرانے میں آنکھ کھولنا تھا جہاں سائنس کے لیے علم و عمل کا ضابطہ متعین تھا۔

مغرب نے بیش بہا ترقی کرکے انسانی مسائل کو کم کرنے کی مثبت سعی کی ہے۔ نت نئی ایجادات نے زندگی کو سہولیات فراہم کی ہیں۔ شرح آمدنی خاطرخواہ حد تک بڑھ گئی ہے۔ مغربی حکومتوں نے فلاحی ریاست کے تصور کے تحت خوراک‘ تعلیم‘ صحت‘ روزگار جیسی بنیادی ضرورتوں کی فراہمی ممکن بنائی ہے۔ بے شمار بیماریوں کے سدِباب کے لیے تجربہ و تحقیق ہوتی رہتی ہے۔ چاند‘ سورج اور کائنات کی تسخیر کو حقیقت کا روپ دیا گیا ہے مگر سائنسی ارتقا اور موجودہ ترقی کے باطن میں خوشنودی خدا‘ فکرآخرت اور انسانیت کی فلاح و بہبود نہیں‘ بلکہ نظام سرمایہ داری‘ دنیا کے وسائل پر قبضہ‘ عقل کی وحی ربانی پر حاکمیت‘ صارف کلچر‘ مادیت و سیکولر افکار کا پھیلائو اور اخلاقی‘ روحانی و مذہبی اقدار کا خاتمہ ہے۔ جدیدیت‘ سرمایہ داری‘ صارف کلچر اور WTO ماضی بعید کی اسی نشا.َتِ ثانیہ کی تجدید نو ہیں۔ انھی عوامل کے ذریعے مسلم معاشرے میں سیکولر فکر کو آگے بڑھایا جا رہا ہے۔

عقلیت و انسانیت جیسی مذہب کش تحریکوں کورواداری و روشن خیالی جیسے دل کش نعروں کے ذریعے فروغ دیا جا رہا ہے۔ عقل کی بنیاد پر مذہبی عقائد کی سائنسی ضابطوں کے تحت تشریح جدید کی جارہی ہے۔ جہاں ایسا ممکن نہیں وہاں تاویلات کے نام پر پُرفتن خیالات کو مذہبی لبادے میں عوام کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔کیبل کلچر‘ موبائل کلچر‘ کمپیوٹرائزیشن‘ صنعت کاری اور کریڈٹ کارڈ کے ذریعے مادیت پرستی‘ دنیا پرستی اور لذت پرستی کو تقویت دی جارہی ہے۔ آسایشوں اور سہولتوں کی خواہش اور ان کی تکمیل زندگی کا پہلا اور آخری مقصد قرار دی جارہی ہے۔ زندگی    ایک ہی بار ملتی ہے لہٰذا اسے بھرپور طریقے سے انجوائے کرتے ہوئے گزارنا چاہیے‘ اس طرح  مقصدِ زندگی کو سیکولر طوفان میں نظروںسے اوجھل کیا جا رہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جدیدیت کی ان تحریکوں کے پس پردہ پوشیدہ افکار کو سامنے لایا جائے‘ ان تحریکوں کے بنیادی  مقاصد اور مغربی تہذیب کے بنیادی خدوخال میں ان کے کردار کو واضح کیا جائے۔ نشا.َتِ ثانیہ    تحریکِ اصلاحِ مذہب‘ صنعتی انقلاب‘ نظام سرمایہ داری‘ صارف کلچر‘ جدید سائنسی ارتقا اور قدیم و جدید فلسفے کے اغراض و مقاصد اور مغرب پر ان کے اثرات کاعمیق نگاہی سے جائزہ لے کر ان کی  ہیئت و ماہیت کو طشت ازبام کیا جائے۔

 

سابق امریکی صدر جمی کارٹر نے ایک کتاب Palestine: Peace Not Aparthied (فلسطین: امن ‘ نسل پرستی نہیں) کے موضوع پر لکھی ہے جس میں غالباً پہلی مرتبہ امریکا کی ایک اتنی اہم شخصیت نے مقبوضہ فلسطین میں اسرائیلی مظالم پر کھل کر بات کی ہے‘ اور فلسطین کے حالیہ انتخابات کے بارے میں گواہی دی ہے کہ وہ عوام کی خواہشات کے نمایندہ تھے۔ فطری طور پر اس کتاب کی اشاعت سے جمی کارٹر نے بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالا ہے۔ ہر طرف سے اس پر یورش ہورہی ہے۔ جس امریکا کو آزادیِ اظہار راے پر بڑا فخر ہے اس میں سوچ پر پہرے (thought control) کی جو کیفیت اسرائیلی لابی کے اثرات کی بنا پر مسلط ہے‘ اس کا یہ بین ثبوت ہے۔ جمی کارٹر میں بھی ابھی یہ جرأت تو نہیں کہ اسرائیلی سوسائٹی اور اس کی نام نہاد جمہوریت کا بے لاگ محاسبہ کرسکے لیکن کم از کم فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کا اعتراف اور دستاویزی ثبوت روشنی کی ایک کرن اور ہوا کا تازہ جھونکا ہے۔ یہ اسرائیل کے مظالم کے اعتراف سے بھی زیادہ خود امریکا میں اظہار آزادیِ راے کی زبوں حالی کا آئینہ ہے۔ اس کتاب کے ردعمل پر ‘ مصنف کی ایک تحریر کا ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے۔(مدیر)

دو برس قبل میں نے معروف اشاعتی ادارے سائمن اینڈ شوسٹر کے ساتھ مشرق وسطیٰ پر اپنے ذاتی مشاہدات اور تاثرات پر مبنی کتاب لکھنے کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ کارٹر سنٹر نے فلسطین میں منعقدہ تین انتخابات کی مانیٹرنگ کی تھی اور میں خود اسرائیلی سیاسی لیڈروں اور امن کے داعیوں کے ساتھ بات چیت کرتا رہا ہوں۔ یہ کتاب اب شائع ہوگئی ہے۔

ہم نے ۱۹۹۶ء‘ ۲۰۰۵ء اور ۲۰۰۶ء میں‘ فلسطینی کمیونٹی سے اس وقت رابطہ کیا جب یاسرعرفات اور بعد میں محمود عباس بطور صدر اور دیگر ممبران پارلیمنٹ کا انتخاب ہوا تھا۔ انتخابات بحیثیت مجموعی شفاف تھے‘ اور ٹرن آئوٹ بہت زیادہ تھا‘ سواے مشرقی یروشلم کے جہاں اسرائیل کی طرف سے عائد کردہ بہت سی رکاوٹوں کی وجہ سے صرف ۲ فی صد رجسٹرڈ ووٹر ہی ووٹ ڈال سکے۔

فلسطین اور اسرائیل کے لیے امن کے راستے کی تلاش سے متعلق متنازع امور پر اسرائیلیوں اور دیگر اقوام میں زبردست مباحثہ جاری ہے لیکن امریکا میں ان معاملات پر خاموشی طاری رہتی ہے۔ گذشتہ ۳۰ برسوں کے دوران میرا مشاہدہ اور تجربہ یہی رہا ہے کہ یہاں حقائق پر آزادانہ اور متوازن تبادلۂ خیال کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ میری نظر میں اسرائیلی حکومت کی پالیسیوں پرنکتہ چینی سے احتراز امریکن اسرائیل پولیٹیکل ایکشن کمیٹی کی غیرمعمولی لابنگ کا نتیجہ ہے اور ان پالیسیوں کی مخالفت میں نمایاں آواز کا نہ اٹھنا ہے۔ دراصل اسرائیل اور فلسطین کے درمیان متوازن موقف اختیار کرنا اور یہ تجویز دینا کہ اسرائیل بین الاقوامی قانون کی پابندی کرے یا فلسطینیوں کو انصاف کی فراہمی اور ان کے حقوق کے دفاع کی بات کرنا ارکان کانگریس کے لیے سیاسی خودکشی کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ بہت ہی کم ارکان رملہ‘ نابلوس‘ ہبرون‘ غزہ سٹی‘ یہاں تک کہ بیت اللحم جیسے فلسطینی شہروں کا دورہ کرنے اور وہاں کے بدحال باشندوں سے بات چیت کرنے کی جسارت کرتے ہیں۔ اس سے بھی کہیں زیادہ ناقابل فہم پہلو یہ ہے کہ امریکا کے بڑے اخبارات اور جرائد نے بھی اپنے ادارتی صفحات پر اسی طرح کی پابندی عائد کر رکھی ہے حالانکہ ’مقدس سرزمین‘ میں متعین ان کے اپنے نمایندگان ذاتی گفتگوئوں میں ان معاملات پر زوردار باتیں کرتے نظرآتے ہیں۔

اس خدشے کے پیش نظر کہ میری کتاب کے مندرجات کو کسی قدر ہچکچاہٹ اور غیریقینی کیفیت کے ساتھ دیکھا جائے گا‘ میں نے اس میں نقشے اور دستاویزات بھی شامل کردی ہیں تاکہ صورت حال کی مکمل تصویر سامنے آجائے اور آخری تجزیے میں یہ نکتہ واضح ہوسکے کہ امن کا واحد ممکنہ راستہ اس کے سوا کوئی اور نہیں کہ اسرائیلی اور فلسطینی اپنی اپنی مسلمہ بین الاقوامی سرحدوں کے اندر ساتھ ساتھ رہ کر زندگی بسر کریں۔ میں نے مسئلے کے حل کے لیے جن راستوں کو ترجیحاً اختیار کرنے کی تجویز دی ہے وہ اقوام متحدہ کی ان کلیدی قراردادوں سے مطابقت رکھتی ہے جن کی امریکا اور اسرائیل بھی حمایت کرچکا ہے۔ اس کے علاوہ یہ تجاویز ۱۹۶۷ء سے اپنائی گئی امریکی پالیسی ۱۹۷۸ء اور ۱۹۹۳ء میں اسرائیلی لیڈروں کے طے کردہ سمجھوتوں(جن کی بنا پر انھیں نوبل امن انعام کا بھی حق دار قرار دیا گیا)‘ ۲۰۰۲ء میں اسرائیل کو تسلیم کرنے سے متعلق عرب لیگ کی پیش کش اور بین الاقوامی چار فریقی اس ’امن روڈمیپ‘ کے بھی عین مطابق ہیں جسے پی ایل او نے تسلیم اور اسرائیل نے مسترد کر دیا تھا۔

میری کتاب Palestine: Peace Not Apartheid (فلسطین: امن‘ نسل پرستی نہیں) کا بنیادی تعلق فلسطین کے حالات و واقعات سے ہے۔ اگرچہ میں نے اس کتاب کو متعارف کرانے کے لیے صرف ایک ہفتے کا دورہ کیا ہے لیکن لوگوں اور میڈیا کے ردعمل کا اندازہ ابھی سے لگایا جاسکتا ہے۔ اب تک اس کی فروخت زبردست ہے اور مختلف ٹی وی چینل میرے انتہائی     دل چسپ انٹرویو کرچکے ہیں جن میں لیری کنگ لائیو‘ ہارڈبال‘ میٹ دی پریس‘ دی نیوز آوروِدجم لہرر‘ دی چارلی روز شو‘ سی سپین اور کئی دیگر شامل ہیں۔ لیکن حیرت ناک بات یہ ہے کہ میں نے جو کچھ لکھا اس پر بڑے اخبارات نے نہ ہونے کے برابر تبصرہ کیا ہے۔

عموماً میڈیا نے اس کتاب پر جو تبصرے کیے ہیں ان میں سے اکثر کا تعلق ان یہودی تنظیموں سے ہے جنھوں نے کبھی ’مقبوضہ علاقوں‘ کا دورہ تک نہیں کیا اور ان کا بنیادی اعتراض یہ ہے کہ یہ کتاب اسرائیل کے خلاف ہے۔ کانگریس کے دو ارکان نے اس پر سرعام نکتہ چینی کی۔ ایوان نمایندگان کی عنقریب بننے والی نئی اسپیکر نینسی پیلوسی نے اس کتاب کی اشاعت سے بھی پہلے کہہ دیا تھا کہ: وہ اسرائیل پر ڈیموکریٹک پارٹی کے موقف کے مطابق بات نہیں کرتے۔ کچھ تبصرے امازون ڈاٹ کام پر کیے گئے جن میں سے بعض میں مجھے سامی (یہودی) مخالف کہا گیا اور بعض نے کتاب کو ’جھوٹ‘ اور ’مسخ شدہ حقائق‘ کا پلندہ قرار دیا۔ کارٹر سنٹر کے ایک سابق فیلو نے کتاب کے سرورق کو ’غیرشایستہ‘ قرار دیا۔ البتہ حقیقی دنیا میں رہنے والے لوگوں کا ردعمل نہایت مثبت ہے۔ میں نے پانچ سٹوروں پر خریداروں کے لیے کتاب پر دستخط کیے اور ہر سٹور پر ۱۰۰۰ سے زائد افراد نے میری موجودگی میں یہ کتاب خریدی۔ مجھے ایک منفی تبصرہ پڑھنے کو ملا جس میں کہا گیا ہے کہ مجھ پر بغاوت کا مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔ اسی طرح سی سپین کے پروگرام کے دوران ایک صاحب نے مجھ پر یہودی مخالف ہونے کا الزام لگایا۔ میرے لیے سب سے زیادہ پریشان کن تجربہ یہ تھا کہ میں نے ان یونی ورسٹیوں میں کتاب پر بلامعاوضہ گفتگو اور سوالات کے جواب دینے کی پیش کش کی جن میں یہودی طلبہ کثرت سے زیرتعلیم ہیں لیکن میری اس پیش کش کو ٹھکرا دیا گیا۔ البتہ کئی معروف یہودی شہریوں اور ارکان کانگریس نے نجی طور پر میری بڑی حوصلہ افزائی کی اور اس بات پر شکریہ ادا کیا کہ میں نے کتاب میں حقائق بیان کیے اور انھیں نئے تصورات سے روشناس کرایا ہے۔

اس کتاب میں مقبوضہ فلسطینی علاقوںکے رہایشیوں پر حقارت آمیز ظلم و ستم روا رکھنے اور مغربی کنارے میں فلسطینیوں کو ایک جابرانہ نظام کے تحت یہودی کالونیوں کے مکینوں سے دُور رکھنے کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ایک وسیع جیل کی تعمیر کے لیے دیوار کھڑی کی جارہی ہے جس کے ذریعے فلسطینیوں سے وہ کچھ بھی چھین لیا جا رہا ہے جوان کے پاس باقی ہے۔ اس غاصبانہ کارروائی کا مقصد یہودی کالونیوں کے لیے زیادہ سے زیادہ اراضی حاصل کرنا ہے۔ کئی اعتبار سے فلسطینیوں کی حالت نسلی عصبیت کے دور میں جنوبی افریقہ کے سیاہ فاموں سے بھی ابتر ہے۔ میں نے یہ نکتہ بھی واضح کیا ہے کہ ان ظالمانہ کارروائیوں کا محرک نسل پرستی نہیں بلکہ اسرائیلی اقلیت کی یہ خواہش ہے کہ وہ فلسطین کے پسندیدہ علاقوں پر زبردستی قبضہ کر کے ان پر یہودی کالونیاں بسائے اور یہاں سے نکالے گئے شہریوں کی طرف سے اٹھائے جانے والے اعتراضات کو طاقت کے بہیمانہ استعمال سے دبا دے۔ ظاہر ہے کہ میں بے گناہ شہریوں کے خلاف اس طرح کی دہشت گردی اور تشدد کی پُرزور مذمت کرتا ہوں‘ اور میں نے دونوں طرف ہونے والے ہولناک جانی نقصان کی معلومات دی ہیں۔

میری کتاب کا اصل مقصد مشرق وسطیٰ کے بارے میں ان حقائق کو اجاگر کرنا ہے جو امریکا میں نہیں جانے جاتے تاکہ ان پر بات چیت کی جائے اور امن مذاکرات (جو چھے برس سے معطل ہیں) دوبارہ شروع ہوسکیں‘ کیونکہ صرف یہی راستہ اسرائیل اور اس کے ہمسائیوں کے لیے پایدار امن کی طرف جاتا ہے۔ مجھے یہ بھی امید ہے کہ وہ یہودی اور دیگر امریکی جن کے پیش نظر یہی مقصد ہے‘ وہ بھی اپنی آرا کے اظہار کے لیے تحریک پائیں گے‘ عوامی سطح پر اور غالباً مذاکروں میں۔ اس تعاون سے مجھے خوشی ہوگی۔ (بہ شکریہ سہ روزہ دعوت‘ دہلی‘ یکم جنوری ۲۰۰۷ء‘ ایکسپریس ڈاٹ کام)

 

گذشتہ ۱۶ برسوں میں میرا یہ ترکی کا پانچواں دورہ تھا ۔ اس عرصے میں دنیا کے تقریباً سارے ہی براعظموں کے سفر کیے ۔ قدرت نے اپنی سرزمین کو انسانوں کے لیے بہت پر کشش بنایا ہے اور مغرب کے ترقی یافتہ معاشرے نے اپنی بہترین تنظیمی صلاحیتوں سے اپنے علاقو ںکو اور بھی خوب صورت بنا دیا ہے‘ تاہم ترکی بالخصوص استنبول کا کوئی ثانی نہیں۔ ترکی اور اہل ترکی سے اس لیے بھی محبت ہے کہ خلافت عثمانیہ کے تحت طویل عرصے تک انھوں نے دنیا کی ایک سوپر طاقت کی حیثیت سے مسلم دنیا کی قیادت کی۔

آئی بی ایم فورم کا اھم اجلاس

مسلم ممالک کے درمیان تجارتی حلقوں کو مربوط کرنے کے لیے انٹرنیشنل بزنس فورم نے، جس کا ہیڈکوارٹر استنبول میں ہے، ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی جس کا افتتاح ترکی کے وزیراعظم طیب اردگان نے کیا۔ یہ ایک شان دار بین الاقوامی اجتماع تھا جس میں ہمارے علاوہ فلسطین کے عظیم رہنمارائدصلاح کو بھی، جو ۱۰ سال تک اسرائیل کی جیل میں رہے اور کچھ عرصہ  پہلے رہاہوئے ، کانفرنس میں مدعوکیا گیا تھاتاکہ شرکا کو فلسطین او رکشمیر کے حالات جاننے کا موقع  مل سکے۔کانفرنس چار دن تک جاری رہی اور ہر لحاظ سے کامیاب رہی ۔ اس میں مسلم ممالک میں باہم تجارت بڑھانے کے حوالے سے مختلف تجاویز زیر بحث رہیں ۔ کانفرنس کے صدر ڈاکٹر عمربولاک نہایت تعلیم یافتہ اور صاحب بصیرت رہنما ہیں ۔ انھوں نے اپنے افتتاحی خطاب میں جہاں مسلم ممالک کے ما بین تجارت کے فروغ کے لیے تجاویز دیں، وہاں شرکا کے سامنے فورم کی گذشتہ کارکردگی بھی رکھی۔اس کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ کے مسائل بالخصوص مسئلہ فلسطین پر ایمان افروز خطاب کیا اور وزیراعظم ترکی اور او آئی سی کے سیکریٹری جنرل پروفیسر ڈاکٹر اکمل الدین اوگلوکو کو اپنی ذمہ داریوں کی جانب متوجہ کیا۔

افتتاحی سیشن میں وزیراعظم ترکی جناب طیب اردگان اور او آئی سی کے سیکریٹری جنرل جناب اکمل الدین اوگلو کو نے بھی خطاب کیا۔سیکریٹری جنر ل نے اپنی طرف سے او آئی سی کے ممالک کے مابین تجارت کے فروغ کے لیے اقدامات کا جائزہ پیش کیا‘جب کہ جناب طیب اردگان نے حکومت کی کارکردگی سے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر جو پیش رفت ہوئی ہے اس کی تفصیلات شرکا کے سامنے رکھیں اور بین الاقوامی سطح پر مسلم مسائل کے حل کے لیے عزم اور اقدامات کا تذکرہ بھی کیا۔ انھو ں نے کہا کہ جب انھیں حکومت ملی اس وقت ملک زبردست اقتصادی بحران کا شکار تھا۔ افراط زر کی شرح ۱۵۰ فی صد سے متجاوز تھی۔ بیرونی تجارت‘ یعنی برآمدات محض ۳۴ ارب ڈالر تھیں۔ مہنگائی اور بے روزگاری عام تھی۔ ہماری حکومت کے اقدامات اور حکمت عملی نے ملک کو بحران سے نجات دلا دی ہے اور افراطِ زر کو ترکی کی تاریخ میں سب سے کم‘ یعنی ۹ فی صد تک پہنچادیا ہے۔ برآمدات ۸۵ارب ڈالر ہو گئی ہیں۔ ملک کے معاشی استحکام کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کار تیزی سے ترکی کا رخ کررہے ہیں ۔ صرف عرب ممالک سے گذشتہ چار برسوں میں ۲۸ارب ڈالر کی    سرمایہ کاری ہوئی ہے۔اس وقت ملک میں ۳۳ارب ڈالر سے زائدزرمبادلہ کے ذخائر موجود ہیں۔ ملک کے اندر مستقبل قریب میں ۱۰۰فی صد سوشل سیکورٹی کا اہتمام ہوگا۔بین الاقوامی سطح پر     تمام مسلم اور عالمی مسائل کے حوالے سے ترکی ایک فعال کردار ادا کررہا ہے۔ مسئلہ فلسطین پر ہم عرب لیگ سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔ اس سے ایک بار پھر تاریخی غلط فہمیاں پید ا ہو سکتی ہیں۔ البتہ عرب لیگ جو حکمت عملی اختیار کرے‘ ہم اس کے ساتھ ہوں گے۔

انٹرنیشنل بزنس فورم اور پاکستان

انٹرنیشنل بزنس فورم کے سابق صدر جناب تنویر مگوںاو رپاکستان سے لاہور اور سیال کوٹ کے وفود بھی شریک تھے۔ آزاد کشمیر سے بھی ایک وفد راجا یاسین مشیر حکومت اور چیمبرز آف کامرس کے صدر حافظ ذوالفقار کے ہمراہ شریک ہوا۔  جناب تنویر مگوں نے بتایا کہ یہ بزنس فورم ۱۹۹۵ء میں جناب قاضی حسین احمد کی دعوت پر لاہور میں قائم ہواتھا اوروہ اس کے پہلے صدر منتخب ہوئے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ہم اس بات کا تصور بھی نہ کرسکتے تھے کہ یہ اقدام اس قدر پزیرائی حاصل کرسکے گا۔ آج یہ فورم مسلم ممالک کے درمیان صنعت و تجارت او ر برآمدات کا زبردست ذریعہ  بن چکا ہے۔

اس موقع پر پانچ بڑے ہالوں میں نمایش کا انعقاد بھی کیا گیا تھاجس میں زیادہ تر ترکی ہی کی صنعتی اور تجارتی کمپنیو ںنے اپنے سٹال لگا رکھے تھے۔ باقی مسلم ممالک کے بھی جاذب نظر سٹال موجود تھے۔ البتہ پاکستان کا سٹال بہت کمزور تھا۔ لگتا تھا کہ کسی ہوم ورک اور اتنے اہم موقعے کا ادراک کیے بغیر صرف خانہ پری کی گئی تھی۔ ترکی میں پاکستان کے سفیر جناب جنرل (ر) افتخار شاہ نے بھی ملاقات میںاس بات کا اعتراف کیا اور بتایا کہ اس کے اہتمام کی بنیادی ذمہ داری ایکسپورٹ پروموشن بیورو (EPB) کی تھی ۔ ہماری توجہ اور فالو اپ کے باوجود وہ اس کے لیے مؤثر اقدام نہ کرسکے ۔حالانکہ عرب دنیا‘ ایران اور وسطی ایشیا سے بھی اچھی نمایندگی تھی۔

میرے دورے کا پروگرام تو مختصر تھا لیکن بعض پرانے احباب کے اصرار پر مزیدرکنا پڑا۔ وقت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم نے طے کیا کہ حالیہ زلزلے کے موقع پر اہل ترکی نے جو تاریخی تعاون کیا اس پر ان کا شکریہ ادا کیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ انھیں متوجہ بھی کیا جائے کہ   زلزلہ زدگان کی مکمل بحالی تک تعاون جاری رکھیں۔کیونکہ ایک سال گزرنے کے باوجود متاثرین کے مسائل جوں کے توں ہیں اور ایمرجنسی ریلیف کے بعد مسلم این جی اوز واپس جارہی ہیں اور اس خلا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مغربی مشنری این جی اوز ہمارے عقائد اور تہذیب و تمدن کے لیے زبردست مسائل پیدا کر رہی ہیں۔ نیز مسئلہ کشمیر پر بھی انھیں تازہ صورت حال سے آگاہ کیا جائے کہ وہاں بھارت کے مظالم بدستور جاری ہیں اور تحریک بھی چل رہی ہے جسے آپ کے تعاون اور دعا کی ضرورت ہے۔ چنانچہ ہم نے کوشش کی کہ اہم سیاسی رہنمائوں،این جی اوز اور میڈیا کے لوگوں سے اس حوالے سے ملاقاتیں کی جائیں۔

کانفرنس میں وزیراعظم ترکی سے صرف اجتماعی ملاقات ہوسکی۔ البتہ انھوں نے اپنے ڈپٹی چیرمین اور پارلیمانی پارٹی میں خارجہ امور کے انچارج شعبان ڈسلائی کی ذمہ داری لگائی کہ تفصیلی ملاقات کریں ۔ چنانچہ انقرہ میں ان کے شان دار ہیڈکوارٹرز میں حق(حکمران) پارٹی کے ایک اور مرکزی رہنما اور استنبول سے ممبر پارلیمنٹ حسین کانسوکے ہمراہ جو دیرینہ دوست ہیں اور پارلیمنٹ میں ترک بوسنیا ہائوس کمیٹی کے چیئرمین بھی ہیں‘ مفید ملاقات ہوئی جس میں ترک حکومت اور قوم کا شکریہ ادا کیا‘ مسائل بھی بتائے اور کشمیر کی تازہ ترین صورت حال سے بھی آگاہ کیا۔  انھوں نے تفصیلی نوٹ تیار کیے اور طے پایا کہ وزیر اعظم کی یورپ سے واپسی پر وہ انھیں آگاہ کریں گے اور ان شاء اللہ ان سارے مسائل اور تجاویز پر ممکنہ کردار ادا کیا جائے گا۔ نیز مسئلہ کشمیر پر حکومتِ ترکی کے گرم جوش موقف کو دہرایا اور ہر لحاظ سے بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔

اس دورے کے دوران سابق وزیر اعظم جناب نجم الدین اربکان سے بھی تفصیلی ملاقات ہوئی۔ اربکان صاحب ترکی کے حالات کا دھارا بدلنے کا مرکزی کردار ہیں۔وہ مسئلہ کشمیر اور امت کے دیگر مسائل کے پرجوش ترجمان ہیں۔ عالمی حالات کے مدوجزر پران کی گہری نظر ہے۔

نجم الدین اربکان کے مسائل

نجم الدین اربکان نے اپنے دور حکومت میں جہاں ملک کے اندر اصلاحات کیں ، کرپشن کو ختم کرکے عام آدمی کی حالت بہتر کرنے کی کوشش کی وہیں انھوں نے ترکی کا رشتہ D-8 اور دوسرے اداروں اور ذاتی تعلقات کے ذریعے امہ کے ساتھ مضبوط کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں عوام میں ان کی پزیرائی میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور مختصر مدت میں عرب ممالک سے شان دار سرمایہ کاری کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔اگر وہ وزارت عظمیٰ کی معینہ مدت پوری کرلیتے تو آیندہ انتخابات میں مزید وسیع حمایت کے ساتھ کامیابی حاصل کرتے لیکن فوج اور سیکولر عناصر نے ان کی حکومت کے خلاف کھلی اور چھپی سازشوں کا عمل تیز کردیا۔صدر کی سربراہی میں سیکورٹی کونسل کا ادارہ  فوری طور پر متحرک ہوگیا کہ اربکان کی پالیسیوں کے نتیجے میں ترکی کا سیکولرازم خطرے میں ہے ۔ یوں جمہوریت کی بساط لپیٹ کر ان کی حکومت ختم کردی گئی۔رفاہ پارٹی پر پابندی لگادی گئی اور اربکان پر سیکولرازم کو ختم کرکے ترکی کو اسلامائز کرنے کی فرد جرم عائد کردی گئی لیکن اتنی وسیع حمایت حاصل ہونے کے باوجود اربکان اور ان کے وابستگان نے کسی پُر تشدد راستے کا انتخاب کرنے کے بجاے صبر و حکمت پر مبنی پالیسی کو اختیار کیا اور اپنے خلاف مقدمات کو عدالت میں چیلنج کیا۔    طیب اردگان چونکہ ان کے دست راست رہے تھے اس لیے لوگ یہی سمجھے کہ اردگان اربکان صاحب کے ہی نمایندے ہیں ۔ یوں ان کی پارٹی کو جو زبردست حمایت ملی وہ بھی  بنیادی طور پر اربکان ہی کی کارکردگی اور ساکھ کی بنیاد پر ملی تھی۔سعادت پارٹی کو یہ گلہ ہے کہ اردگان نے اقتدار میں آنے کے بعد مقدمات کے حوالے سے استاذ اربکان کے ساتھ کوئی خاص رعایت نہیں برتی اور اس سلسلے میں جو کچھ وہ آسانی سے کر سکتے تھے وہ بھی نہیں کی۔ بہرحال اربکان صاحب اب بھی مقدمات جھیل رہے ہیں ۔ اگرچہ قید اور نظربندی کے مراحل سے تو فارغ ہو گئے ہیں لیکن اب بھی کھلے عام سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر پابندی بدستور موجود ہے جس کے خاتمے کے لیے    ان کے قانونی ماہرین بھرپور جدوجہد کر رہے ہیں۔

اربکان کا پیغام اُمت کے نام

اربکان صاحب سے ملاقات کا ابتدائی پروگرام بہت مختصر تھا۔ ان کی مصروفیات اور صحت کی وجہ سے ہماری خواہش تھی کہ ان سے مختصر ملاقات کرکے دعائیں حاصل کریں گے اور پارٹی کے صدر جناب رجائی قوطان اور ان کے نائبین کو دورے کی غرض و غایت اور دیگر تفصیلات سے آگاہ کریں گے اور ان کا شکریہ ادا کریں گے کہ زلزلے کے فوری بعد جناب قوطان پیرانہ سالی کے باوجود ایک وفد اور بھرپور امداد لے کر پاکستان پہنچے ۔صوبہ سرحد اور آزاد کشمیر کا بھی دورہ کیا اور حوصلہ افزائی کی ۔ ان سے وابستہ  این جی اوز‘ جان سوئیو نے بھی ریلیف کے میدان میں اہم کام کیا،   ان کا بھی شکریہ ادا کریں گے لیکن استاذ اربکان سے ملاقات شروع ہوئی تو سوا دو گھنٹے تک طول   پکڑ گئی۔جس میں انھوں نے عالمی حالات کا تجزیہ پیش کیا اور عالم اسلام جس طرح صہیونیوں کی گرفت میں آ چکا ہے ، دلائل سے اس کی تفصیلات بیان کیں اور فرمایا کہ فلسطین اور کشمیر سمیت مسلمانوں کے جتنے مسائل ہیں وہ اس صہیونی فتنہ گری کا نتیجہ ہیں۔ مسلمانوں کو مذہبی منافرت اور مختلف نعروں کی بنیاد پر تقسیم کرنے میں ان کے ساتھ وسائل ، میڈیا اور بین الاقوامی سیاسی اورمالی ادار ے بھی ان کے کنٹرول میں ہیں۔ اس زبردست شکنجے سے نکلنے کے لیے امت کے اند ر بیداری کی زبردست تحریک کی ضرورت ہے ۔

انھوں نے وضاحت کی کہ اپنی وزارت عظمیٰ کے دوران D-8 (انڈونیشیا، بنگلہ دیش، پاکستان، ترکی ، مصر، سعودی عرب، نائیجیریااور ملائشیا) پر مشتمل بلاک اس لیے قائم کیا تھا کہ ان ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کی تعداد ایک ارب سے زیادہ ہے اور یہ ایک مشترکہ منڈی اور کرنسی پر اکٹھے ہوجائیںتو باقی ممالک بھی تقلید کرسکتے ہیںاور بتدریج مسلم بلاک ایک قوت بن سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ڈالر اور یورو دونوں کرنسیوں کے پیچھے صہیونی منصوبہ ہے ۔ یہ دنیا سے دولت اپنے خزانوں میں جمع کرکے ان کے ہاتھ میں کاغذکی رسیدیں تھما دیتے ہیں۔اس کے لیے ایک نئے معاشی نظام کی ضرورت ہوگی جس کے حوالے سے چین اور روس کو قائل کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے لیے عزم و ہمت والی صاحب .ِ ایمان قیادت درکار ہے جو سیاسی عزم (political will) کے ساتھ جدوجہد کرے ۔ انھوں نے کہا کہ ذہنی طور پر شکست خوردہ اور مغرب سے مرعوب قیادت مسلمانوں کے مسائل حل نہیں کرسکتی بلکہ ان کے ذریعے امریکا اور اتحادی مسلمانوں کو اور زیادہ مضبوط زنجیروں میں جکڑتے رہیں گے۔

اہلِ کشمیر کا تذکرہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یقینا ہم مسئلہ کشمیرپر کشمیریوں کے   شانہ بشانہ ہیں لیکن حکومت پاکستان کی آئے روز بدلتی پالیسیوں سے مسلمان کنفیوز ہورہے ہیں۔ جب مشرف صاحب خود یہ کہہ رہے ہیں کہ مسئلہ حل ہونے والا ہے اور بھارت سے بات چیت بہت اچھے ماحول میں جاری ہے تو آپ کے ہمدرد بھی پیچھے ہٹ جاتے ہیں کہ ان کی کسی پرجوش حمایت سے مذاکرات کا سلسلہ خواہ مخواہ متاثر نہ ہو۔ لہذا حکومت پاکستان سب سے پہلے واضح پالیسی اپنائے اور اس کے بعد مسلمانوں او ر دنیا سے مطالبہ کرے تو اس کے زیادہ بہتر نتائج مرتب ہوں گے۔ ہم حیرا ن تھے کہ اس قدر دور بیٹھی یہ شخصیت مسئلے کی تمام نزاکتوں کا کس قدر ادراک رکھتی ہے!

نجم الدین اربکان ترکی کی اسلامی شناخت کی علامت سمجھے جاتے ہیں ۔ ترکی میں اسلام سے محبت رکھنے والے جتنے حلقوں سے ملاقات ہوئی سب ان کا یکساں احترام کرتے ہیں ۔ ان کی عمر اس وقت ۸۰ برس سے تجاوز کرچکی ہے۔لیکن آج بھی وہ نوجوانوں سے زیادہ کام کرتے ہیں۔ ان کے سیکریٹری نے بتایا کہ استاذ پوری رات کام کرتے ہیں اور فجر کی نماز پڑھ کر کچھ دیر آرام کرتے ہیں ۔ ابھی تک وہ مقدمات بھگت رہے ہیں ، اس لیے پبلک سرگرمیوں میں وہ حصہ نہیں لے سکتے لیکن اپنی جماعت سعادت پارٹی کے فکری اور حقیقی قائد وہی ہیں ۔ موجودہ وزیرا عظم بھی ان کے قریبی شاگردوں ہی میں سے ہیں لیکن سعادت پارٹی کا موقف ہے کہ انھوں نے استاذ کے ساتھ بے وفائی کرکے اپنی پارٹی بنائی اور اب وہ اپنی حکومت بچانے اور چلانے کے لیے امریکا‘ اسرائیل سب کی تابع داری کر رہے ہیں‘ جب کہ حکمران جماعت اپنی حکمت عملی کو کامیاب سمجھتی ہے ۔

حکمران پارٹی کے ترجمان حسین کانسو اور ان کا موقف

حکمران پارٹی کے ذمہ داران اور ہلال احمر ترکی جیسی اہم این جی اوز سے ملاقاتوں کے اہتمام کرنے میں جناب حسین کانسو نے اہم کردار ادا کیا جن سے گذشتہ ۱۵برسوں سے یاد اللہ ہے۔ وہ بنیادی طور پر بوسنیا کے مہاجر ہیں استنبول میں پیشۂ تجارت سے منسلک ہیں اور مسلسل تیسری بار استنبول سے رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے ۔ رفاہ پارٹی میں بھی وہ امور خارجہ کے اہم ذمہ دار تھے۔ اس لیے گذشتہ دوروں کو کامیاب بنانے کے لیے انھوں نے سر توڑ کوشش کی ہے۔ مہاجر ہونے کے ناتے وہ مسئلہ کشمیر، فلسطین اور مسلمانوں کے دیگر مسائل کا بھی صحیح ادرا ک رکھتے ہیں اور جنون کی حد تک اپنا کردار ادا کرنے کے لیے بے تاب رہے۔ استنبول پہنچ کر ان سے رابطہ کیا تو اس وقت انقرہ میں پارلیمنٹ کے اجلاس کی وجہ سے مصروف تھے لیکن رابطہ کرتے ہی وہ رات چھے گھنٹوں کا سفر طے کر کے صبح ہوتے ہی ملاقات کو پہنچ گئے اور طویل ملاقات میں رفاہ پارٹی پر پابندی لگنے کے بعد کے مراحل اور پھر طیب اردگان کا ساتھ دینے کا پس منظر بیان کیا ۔ وہ حکمران جسٹس اینڈڈویلپمنٹ پارٹی کے بانی رہنما  ہیں اور جناب اردگان کے قابل اعتماد اور قریبی ساتھی ہیں۔ اس لیے ان کی شدید خواہش تھی کہ ہماراقیامِ ترکی زیادہ سے زیادہ مفید اور بامقصد ہو۔ اس سلسلے میں انھوں نے اپنے مشیر برادر فاتح کو خاص طور پر ہمارے ساتھ مامور کیا۔ اپنی دیگر مصروفیات کو مؤخر کرکے مسلسل انقرہ میں ہمارے ساتھ رہے۔

انھوں نے بتایا کہ ہم آج بھی استاذ اربکان کی باپ کی طرح عزت کرتے ہیں ۔ ان کے کسی الزام اور سرزنش کا جواب نہیں دیتے لیکن ان پر سیاسی عمل میں پابندی کے بعدکے انتخابات میں کو ئی چارہ نہ تھا کہ ہم متبادل پلیٹ فارم بناتے ہوئے کردار ادا کرتے ۔ چنانچہ جب فضیلت پارٹی پر پابندی لگا دی گئی اور استاذ پر مقدمات قائم کیے گئے تو اردگان نے جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ کے نام سے نئی پارٹی قائم کی۔ انتخابات کے موقع پر اس کی عمر صرف ۱۵ ما ہ تھی۔ اردگان پر بھی مقدمات تھے وہ نہ خود اسمبلی میں حصہ لے سکے اور نہ مہم چلا سکتے تھے لیکن اس کے باوجود ۵۵۰ نشستوں میں سے ۳۶۶ نشستیں ہماری پارٹی نے حاصل کرکے سب کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ ۴۰ سال میں پہلی مرتبہ ترکی کی تاریخ میں کسی پارٹی نے دو تہائی اکثریت حاصل کی اور مشکلات کے باوجود ایک مستحکم حکومت قائم کی‘ نیز ۳۱۰۰ بلدیاتی اداروں میں سے تقریباً دو ہزار بلدیاتی اداروں میں بھی کامیابی حاصل کی ۔ ان اداروں میں استنبول ، انقرہ سمیت تمام بڑی بلدیات شامل ہیں ۔

اس وقت ہماری حکومت کے دور میں کوئی سیاسی قیدی نہیں ہے اور ترکی کی تاریخ میں معاشی و سیاسی لحاظ سے سنہرا دور ہے کہ یہاں حالات کے مطابق ہم حکمت سے چل رہے ہیں ۔ عراق پر حملے کے موقع پر امریکا نے پیش کش کی تھی کہ ہمیں راستہ دے دو ، ۱۰ ارب ڈالر ہم امدا د دیں گے۔ اس کے بعد سافٹ لون جس قد ر چاہیںفراہم کردیں گے ۔لیکن ہم نے قومی غیرت کا سودا نہ کیا او ر اس مسئلے کو پارلیمنٹ کے ذریعے حل کیا۔ معاشی بحران کے باوجود ہماری پارلیمنٹ نے امریکی پیش رفت کو مسترد کرکے قومی وقار کا مظاہرہ کیا۔ حالانکہ امریکی اداروں نے ۲۵۰ملین ڈالر کی خطیر رقم ترک سیکولر میڈیا میں تقسیم کی تھی کہ و ہ ترک راے عامہ کو امریکا کے مفاد میں ہموار کریں۔ بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ اردگان کو اس قدر پزیرائی اس کے اسلامی پس منظر کی وجہ سے ملی۔

اب ترکی کی صدارت کے انتخابات ہونے والے ہیں جس میں زیادہ امکان یہی ہے کہ اردگان خود صدر منتخب ہوجائیں گے اور عبداللہ گل یا اپنے کسی اور قابل اعتماد ساتھی کو وزیر اعظم بنائیں گے۔ جتنے بھی لوگوں سے ملاقات ہوئی، وہ یہی تجزیہ پیش کرتے ہیں کہ اگر حالات میں کوئی جوہری تبدیلی نہ آئی تو موجودہ حکمران جماعت پھر کامیاب ہوسکتی ہے ۔ لیکن دوسری طرف ترکی کی سیکولر تنظیمیں اور بائیں بازو کی جماعتیں بھی صف بندی کررہی ہیںجنھیں گذشتہ انتخابات میں زبردست ہزیمت اٹھانی پڑی ۔ اس قیادت کی علامت میں سے بلند ایجوت حال ہی میں انتقال کرگئے ہیں جس کے نتیجے میں ایک قیاد ت پر جمع ہونا ان کے لیے آسان نہیں ہے۔ ترک مقتدرہ (establishment ) یقینا انھیں متحد کرنے کی کوشش کرے گی۔ لیکن حکمران پارٹی اپنی کارکردگی کی بنیاد پر انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بارے میں پُراعتماد ہے اور فی الحال کوئی بڑا چیلنج انھیں درپیش نہیں ہے لیکن سعادت پارٹی کی فعالیت اور اپوزیشن کے اتحاد سے انھیں نقصان بھی  پہنچ سکتا ہے۔

پاپاے روم کادورہ اور ترکوں کا ردعمل

ترکی میں قیام کے دوران پاپاے روم نے یہاں کا دورہ کیا ۔ یہ دورہ کئی حوالوں سے بہت متنازع رہا ۔ مسلمان جس قدر بھی سیکولر ہو اس کے دل میں ایمان کی چنگاری تو موجود رہتی ہے۔ ترکوں میں یہ چنگاری ہی نہیں ایک شعلے کی صورت میں نظر آئی۔ پوری قوم سراپا احتجاج تھی ۔ اس موقعے پر پوپ نے عیسائیوں کے بڑے اجتماع سے خطاب کیا اور ترک حکومت کو عیسائیوں کو مکمل حقوق نہ دینے پر تنقید کا نشانہ بھی بنایا ۔ حالانکہ مذہبی لحاظ سے پوپ کیتھولک چرچ کے سربراہ ہیں اور آرتھوڈکس چر چ سے صدیوں پر محیط مخاصمت رکھتے ہیں۔ لیکن اس وقت امریکا کی سربراہی میں عیسائی دنیا نے مسلمانوں کے خلاف تہذیبی تصادم اور دہشت گردی کے نام پر جو جنگ شروع کررکھی ہے، درحقیقت ایک نئی صلیبی جنگ ہے جس کا اعلان بش نے افغانستان پر حملہ کرتے وقت کردیا تھا۔ترکی میں تجزیہ نگاروں نے لکھا کہ درحقیقت پوپ کا یہ دورہ کیتھولک اور آرتھوڈکس مذاہب کے درمیاں ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ اس تناظر میں یہ دور ہ مزید تنازع کا باعث بن گیا۔سعادت پارٹی اور تمام قومی حلقو ںمیں پوپ کے دورے پر تنقید بڑھتی چلی گئی۔   اس لیے اس موقع پر وزیراعظم اردگان صرف ۲۰ منٹ استقبال کرکے یورپی یونین کے سربراہی اجلاس میں شرکت کرنے چلے گئے اور پوپ کو بھگتانے کا کام صدر اور مفتیِ اعظم کے سپر د کرگئے۔

پوپ کے دورے کے موقعے پر سیکورٹی انتظامات کی وجہ سے ٹریفک کے زبردست مسائل رہے۔اس لیے میڈیا میں اس حوالے سے ہر کوئی تلخ تجربات بیان کرتا رہااور پوپ کے دورے کے خلاف تبصرے جاری رہے۔ یہ دورہ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ہرزہ سرائی کے بعد کیا۔ اس لیے ترکی میں بھی باقی مسلم دنیا کی طرح زبردست ردعمل تھا۔ جس کی ترجمانی کا ذریعہ سعادت پارٹی نے استنبول میں ایک بڑی ریلی منعقد کرکے کیا جس میں ہمیں بھی شرکت کا موقع ملا۔ اس ریلی میں بزرگ اور پرجوش نوجوان حتیٰ کہ خواتین اور بچے بھی شامل ہوئے۔ ترکی کے ہر باشندے کی ہمدردیاں اس ریلی کے ساتھ تھیں۔ ریلی کی خبریں دنیا بھر کے میڈیا نے دیں۔ اس کے ذریعے سعادت پارٹی نے اپنی سٹریٹ پاور اور بہترین تنظیمی صلاحیتوں کا مظاہر ہ کیاہے۔ یہ سعادت کی اس نوعیت کی چوتھی پانچویں بڑی ریلی تھی ۔ قبل ازیں وہ فلسطین ، لبنان اور عراق میں امریکی جارحیت کے موقع پر بھی بڑی ریلیاں منعقد کرکے راے عامہ کو متحرک کرنے کی کوشش کرچکی ہے ۔(جاری)

 

ترجمہ: محمد عفان منصورپوری

ایک روسی تاجر الیکٹرانک سامانوںکی تجارت کے عنوان سے روس کی غریب نوجوان لڑکیوں کو ایک عرب ملک میں لایا کرتا تھا اور یہاں آکر انھیں بدکاری کے مذموم پیشے میںلگانے کی کوشش کرتا تھا۔ ایک مرتبہ وہ چند لڑکیوںکو لے کر آیا اور اُن کے سامنے اپنا منصوبہ پیش کیا تو اُن میں سے ایک باغیرت لڑکی نے اس پیش کش کو سختی سے ٹھکرا دیا۔ اس بدفطرت تاجر نے لڑکی کے تیور دیکھ کر اُسے ڈرایا دھمکایا اور یہ کہا کہ اگر تو اس بدعملی پر راضی نہیں ہوتی تو میں اِس اجنبی ملک میں تجھے اکیلا چھوڑدوں گا اور تو گم ہوکر رہ جائے گی۔ لڑکی نے تاجر کے ناپاک ارادوں کو بھانپ لیا اور یہ دھمکی سنتے ہی بڑی برق رفتاری کے ساتھ اُس نے کسی طرح تاجر کے ہاتھ سے اپنا پاسپورٹ چھینا اور دوڑتی ہوئی شاہراہ عام پر آگئی۔ اُس کے پاس سواے ان کپڑوں کے جس سے اُس نے اپنا جسم چھپا رکھا تھا کچھ نہیں تھا۔ اسے اپنے ضائع ہونے کا احساس ستا رہا تھا اور وہ فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی کہ کہاں جائے؟

اس کے فلسطینی شوہر نے ہمیں اگلا قصہ اس طرح بتایا: میں اپنی والدہ اور دو بہنوں کے ساتھ اسی راستے کے قریب سے گزر رہا تھا جہاں وہ لڑکی حیران و پریشان کھڑی تھی۔ وہ ہمیں دیکھ کر تیزی سے ہماری طرف لپکی اور جب اسے معلوم ہوا کہ ہم انگریزی میں گفتگو سمجھ سکتے ہیں تو اُس کی باچھیں کھل. ِگئیں اور اُس نے اپنے اُوپر گزری ہوئی داستان سنا ڈالی۔ اُس کی مظلومیت کی داستان سن کر ہم نے اسے پناہ دینے کا ارادہ کرلیا۔ میں نے اس کے گھروالوں سے رابطے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ میری بہنوں نے اُس کے ساتھ ایسا اچھا معاملہ کیا کہ گویا وہ ان کی تیسری بہن ہو۔    ہم نے اُس کے سامنے مذہب اسلام کا تعارف اور اس کی خوبیاں بیان کرنی شروع کیں لیکن وہ سختی سے تردید کرتی رہی۔ اسی دوران ہمیں معلوم ہوا کہ وہ ایک ایسے متعصب خاندان سے تعلق رکھتی ہے جو اسلام اور مسلمانوں کو بہت ناپسند کرتا ہے۔ میں نے اس سلسلے میں اپنی بہن کی بھرپور مدد کی۔ بعض موقعوں پرگفتگو میں شریک بھی ہوا۔ پھر ایک دن اُس کے لیے اسلام کے تعارف کے سلسلے میں انگریزی زبان کا ایک رسالہ لے کر آیا۔

اسلامی کتب خانہ کے ذمے دار جو اس قصے کے گواہ ہیں‘ کہتے ہیں: جب یہ آدمی میرے کتب خانے میں آیا تو اُس کے ساتھ چار عورتیں تھیں۔ تین تو اُن میں برقع پوش تھیں لیکن ایک برقع میں نہیں تھی اور اُس کا سر بھی کھلا ہوا تھا۔ میں اُس کا چہرہ دیکھ کر سمجھ گیا کہ یہ کوئی روسی عورت ہے۔ اُس عورت نے اسلام قبول کرنے کی خواہش ظاہر کی تو میں نے اُس سے کہا کہ وہ بعض دینی کتابوں کا پہلے اچھی طرح مطالعہ کرلے۔ اس لیے کہ یہاں کے ذمہ داران اسلام میں داخل ہونے سے پہلے پوچھ گچھ کرتے ہیں۔ بہرحال جو کچھ میں نے اُسے دیا‘ اُس نے پڑھا۔ پھر وہ آدمی کے ساتھ آئی اور امتحان میں کامیاب ہوگئی۔ جب وہ اپنے اسلام کا اعلان کرچکی تو میں نے اس آدمی کو چند عورتوں کا حوالہ دیا کہ اُن میں سے کسی ایک سے اس لڑکی کو قرآن کریم پڑھوا دیا جائے۔

کچھ دنوں کے بعد وہ آدمی مجھ سے ملاقات کے لیے اپنی بیوی کے ساتھ آیا (اب وہ  روسی دوشیزہ اس کی شریکِ حیات بن چکی تھی)۔ وہ بہت خوش تھا اور اس بات پر باری تعالیٰ کا شکرگزار و رطب اللسان تھا کہ ہرچیز اس کے ارادے سے بہتر میسر ہوئی۔ اس مرتبہ اُس عورت کو دیکھ کر جس چیز نے مجھے حیران کردیا وہ یہ تھی کہ اس بار وہ مکمل طور پر برقع میں چھپی  .ُ  ہوئی تھی‘ اپنی ساس اور نندوں سے بھی زیادہ۔ اس کے جسم کا کوئی عضو ظاہر نہیں ہو رہا تھا۔

 اُس کے شوہر نے اس کے برقع اُوڑھنے کی تفصیل مجھے یوں بتائی: شادی کے بعد ہم دونوں بعض ضروری چیزوں کو خریدنے کے لیے بازار گئے۔ وہاں میری بیوی کی نظر ایک ایسی برقع پوش پر پڑی جس کے جسم کا کوئی عضو ظاہر نہیں ہو رہا تھا۔ اُس نے اُس عورت کا سراپا دیکھ کر مجھ سے ازراہِ تعجب سوال کیا‘ یہ اس طرح کیوں اپنے جسم کو چھپائے ہوئے ہے؟ کیا اس میں کوئی عیب ہے؟ میں نے اسے بتایا کہ یہ عورت اپنے عمل سے اللہ رب العزت کی مکمل خوش نودی حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اُس وقت میری بیوی نے مجھے بتایا کہ میں جب بھی کسی بازار میں داخل ہوتی ہوں تو لوگ اس طرح ٹکٹکی باندھ کر مجھے دیکھتے ہیں کہ ڈر محسوس ہونے لگتا ہے۔ اُس نے کہا: اس کا مطلب یہ ہے کہ میرا چہرہ فتنوں کو وجود بخشتا ہے اس لیے اس کو ڈھانپنا ضروری ہے۔ صرف میرا شوہر میرا چہرہ دیکھ سکتا ہے۔ اب میں اس بازار سے بغیر برقع لیے نہیں جائوں گی۔چنانچہ برقع خریدا گیا اور اس نے فوراً پہن لیا۔

چند ماہ کے بعد وہ دونوں غائب ہوگئے۔ لوگ ایک دوسرے سے اُس فلسطینی اور اُس کی بیوی کے بارے میں پوچھنے لگے کہ اُن دونوں کاکیا ہوا؟ وہ کہاں چلے گئے؟ اُن کے بارے میں کچھ معلومات نہ ہوسکیں۔ یہاں تک کہ چھے یا سات ماہ کے بعد ایک دن وہ آدمی دکھائی دیا اور اُس نے اپنی داستان سنائی: میری بیوی کے پاسپورٹ کی مدت ختم ہوگئی تھی۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ جہاں سے پاسپورٹ بنا ہے وہیںسے تجدید کروائی جائے۔ اس نے باپردہ سفر کا ارادہ کیا۔ میںنے اُسے ڈرایابھی کہ اس طرح برقع پہن کر سفر کرنے میںبڑی مشکلات اور دشواریاں برداشت کرنی پڑیں گی۔ اُس نے شدت کے ساتھ اس تجویز کو مسترد کردیا اور جہنم کا ایندھن بننے والے گنہگار کافروں کے سامنے سر جھکانے پر راضی نہ ہوئی۔ وہ تو صرف اللہ کے لیے سر جھکا سکتی تھی۔

جب ہم ہوائی جہاز میں داخل ہوئے تو لوگوں نے ہمیں گھور گھور کر دیکھا۔ پھر ایئرہوسٹس نے کھانا اوراس کے ساتھ شراب تقسیم کی جس کا مسافروں پر فوری اثر ہوا۔ وہ لوگ ہمارا مذاق اُڑانے لگے۔ زور زور سے ٹھٹھے لگانے لگے۔ لیکن میری بیوی اُن کی پروا کیے بغیر زیر لب مسکراتی رہی بلکہ وہ تو اِن کی باتوں کا ترجمہ کرکے مجھے بتا رہی تھی۔ میرے دل میں تو تیر چبھ رہے تھے لیکن اُس نے مجھے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ: ’’یہ طعنے جو ہم سن رہے ہیں‘ ان مشقتوں کے سامنے جو حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اٹھائی ہیں کوئی حیثیت نہیں رکھتے‘‘۔

ہوائی جہاز ہمیں لے کر اُس شہر میں اُتر گیاجہاں ہمیں جانا تھا۔ میں تو یہ سمجھ رہا تھا کہ ہم سیدھے بیوی کے گھر جائیں گے اور جب تک کام نہ ہوجائے وہیں ٹھیریں گے۔ لیکن میری بیوی کے سوچنے کا انداز دوسرا تھا۔ اُس نے کہا : ’’میراخاندان انتہائی متعصب ہے۔ میں ابھی ان کے پاس نہیں جانا چاہتی ہوں۔ پہلے ہم ایک کمرہ کرایے پر لے کر اُس میں رہیں گے۔ پھر نیا پاسپورٹ لینے کی کارروائی پوری کریں گے۔ پھر اپنے گھر والوں سے ملاقات کے لیے جائیں گے‘ یہ ہمارا پروگرام ہے‘‘۔ اگلے دن ہم پاسپورٹ آفس آگئے۔ ذمہ دار افسر نے ہم سے پرانا پاسپورٹ اور تصویر مانگی۔میری بیوی نے اُسے وہ تصویر دی جس میں صرف اُس کا چہرہ ظاہر ہو رہا تھا اور بقیہ اعضا چھپے ہوئے تھے۔ افسر نے دوسری تصویر مانگی جس میں اس کا چہرہ‘ گردن اور بال وغیرہ دکھائی دے رہے ہوں۔ میری بیوی نے اُس کی بات نہیں مانی۔ اس پر ہمیں ایک افسر دوسرے کے پاس بھیجتا رہا۔ یہاں تک کہ ہم چیف افسر کے سامنے پہنچ گئے۔ وہ ایک عورت تھی جو ہم سے بڑی بدخلقی کے ساتھ پیش آئی۔ اُس نے کہا: ’’تمھاری اس مشکل کو ماسکو دفتر میں بیٹھے ہوئے سکریٹری جنرل کے علاوہ کوئی نہیں حل کرسکتا‘‘۔ میری بیوی نے فوراً میری طرف متوجہ ہوکر کہا: ’’چلیے ہم ماسکو چلتے ہیں‘‘۔ میں نے اُسے مطمئن کرنے کی کوشش کی کہ تمھاری تصویر چند ملازمین ہی تو دیکھیں گے۔ اس لیے تمھارا یہ کام مجھے زائد از ضرورت لگ رہا ہے۔ پھر تمھارے اس پاسپورٹ کو اگلی مدت سے پہلے کون دیکھے گا؟ اُس نے مجھے جواب دیا: ’’یہ بات محال اور ناممکن ہے کہ میں تصویر میں اپنے سر کو  کھلا رکھوں‘ جب کہ میں اللہ کے دین کے بارے میں جانتی ہوں۔ اگر آپ میرے ساتھ نہیں جانا چاہتے تو میں تنہا چلی جائوں گی تاکہ اپنی وسعت کے بقدر قانونِ اسلامی کے دائرے میں رہ کر کام کرسکوں‘‘۔

ہم ماسکو چلے گئے۔ وہاں بھی ہمارے ساتھ وہی چیز پیش آئی جو اب تک پیش آرہی تھی۔ یہاں کا ذمہ دار بھی بہت بُرا آدمی تھا۔ اُس نے میری بیوی سے پوچھا کہ ’’میرے سامنے کون اِس بات کو ثابت کرسکتا ہے کہ یہ تمھاری تصویر ہے؟‘‘۔ اُس نے بھی یہی کہا کہ وہ اُس کے سامنے اپنا چہرہ اور سر کھولے لیکن میری بیوی نے اصرار کیا کہ وہ یہ کام صرف کسی عورت ملازمہ کے سامنے کرسکتی ہے ۔ یہ سن کر اُس کا غصّہ بھڑک گیا۔ اُس نے پاسپورٹ اور تصویر کو اپنی دراز میں بند کرلیا اور کہا کہ جب تک تم ہماری مطلوبہ تصویر پیش نہیںکردیتیں‘ نہ ہم تمھارا پرانا پاسپورٹ واپس کریں گے اور نہ نیا جاری کریں گے۔ میں نے پھر بیوی کو مطمئن کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ طاقت کے بقدر ہی انسان کو مکلف بناتے ہیں۔ اُس نے مجھے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:

وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا o وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لاَ یَحْتَسِبُ ط وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَ حَسْبُہٗ ط  اِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ اَمْرِہٖ ط  قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیْئٍ قَدْرًا o (الطلاق ۶۵:۲-۳) جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا‘ اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کردے گا اور اسے ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اس کا گمان بھی نہ جاتا ہو۔ جواللہ پر بھروسا کرے اس کے لیے وہ کافی ہے۔ اللہ اپنا کام پورا کرکے رہتا ہے۔ اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک تقدیر مقرر کر رکھی ہے۔

افسر کھڑا ہوا اور ہمیں دفتر سے باہر نکال دیا۔ بیوی سے اِسی موضوع پر بات چیت چلتی رہی۔ ہم میں سے ہر ایک اپنا نقطۂ نظر پیش کرتا اور دوسرے کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتا یہاں تک کہ رات ہوگئی۔ ہم نے کچھ کھانا کھایا‘ پھر میں سونے کے ارادے سے لیٹ گیا۔ لیکن میری بیوی نے مجھے یہ کہتے ہوئے اُٹھا دیا کہ ’’اے میرے پیارے شوہر! ہم اِس وقت اس حالت میں ہیں کہ ہمیں اللہ کی طرف نماز اور دُعا کے ذریعے متوجہ ہونا چاہیے‘ اس لیے اُٹھ جائو‘‘۔ میں اُٹھ گیا اور جتنا ہوسکا نماز پڑھی‘ پھر لیٹ گیا۔ لیکن وہ اللہ کی بندی پوری رات عبادت میں مشغول رہی یہاں تک کہ مجھے فجر کی نماز پڑھنے کے لیے بیدار کیا۔

اس کے بعد اُس نے پاسپورٹ آفس بات کی اور مجھ سے کہا: چلیے۔ میں نے کہا: تصویر کا کیا ہوگا؟ اُس نے کہا چل کر دیکھتے ہیں۔ اللہ کی رحمت سے نااُمید مت ہو۔ ہم لوگ چلے گئے۔ ابھی ہم دفتر میں داخل ہی ہوئے تھے کہ ملازم نے ہمیں آواز دی اور میری بیوی کے بارے میں پوچھا۔ کیا یہ فلاں نام کی عورت ہے؟ اُس نے اثبات میں سرہلایا۔ملازم نے کہا: لو یہ تمھارا پاسپورٹ ہے‘ کل رات سے تیار رکھا ہے۔ پاسپورٹ مکمل تھا جیسا کہ وہ چاہتی تھی۔ ہم نے فیس دی اور پاسپورٹ وصول کرلیا۔ نکلتے ہوئے اُس نے مجھ سے کہا کہ میں آپ سے نہیں کہتی تھی کہ جو تقویٰ اختیار کرتا ہے اللہ اس کے لیے راہ نکالتا ہے۔ ان الفاظ نے میرے دل پر گہرا اثر چھوڑا۔ میری زندگی میں اس طرح کا واقعہ پہلے کبھی پیش نہیں آیا تھا۔

ملازم نے ہم سے یہ بھی کہا تھا کہ پاسپورٹ کی تصدیق اس شہر سے کرانی ہوگی جو میری بیوی کی جاے پیدایش ہے۔ ہم نے گھروالوں سے ملاقات کے لیے یہ موقع غنیمت جانا۔ ہم نے وہاں پہنچ کر ایک کمرہ کرایے پر لیا‘ پھر پاسپورٹ کی تصدیق کروائی‘ پھر بیوی کے گھر والوں سے ملنے کے لیے گئے۔

جب بیوی کے بھائی نے دروازہ کھولا تو وہ اپنی بہن کو دیکھ کر بڑا خوش ہوا‘ لیکن ساتھ ساتھ اُس کو برقع میں ملبوس دیکھ کر متحیر بھی ہوا۔ میری بیوی ہنستی ہوئی اور اپنے بھائی سے معانقہ کرتی ہوئی داخل ہوئی۔ میں بھی اُس کے پیچھے پیچھے گھر میں داخل ہوگیا۔ پھر وہ دونوں بہن بھائی ایک دوسرے کمرے میں چلے گئے۔ گھر بالکل سادہ تھا اور فقروفاقے کے آثار نمایاں تھے۔

وہ سب لوگ دوسرے کمرے میں روسی زبان میں بات چیت کر رہے تھے۔ جو کچھ کہا جا رہا تھا وہ میری سمجھ سے بالاتر تھا لیکن مجھے یہ احساس ہوا کہ آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ پھر میں نے اس کمرے میں ایک زوردار چیخ سنی۔ یکایک تین نوجوان اور اُن کے ساتھ ایک عمررسیدہ آدمی مارنے کے لیے مجھ پر ٹوٹ پڑے۔ بجاے اس کے کہ داماد ہونے کی وجہ سے وہ میرا استقبال کرتے‘ انھوں نے میری اتنی پٹائی کی کہ میں یہ سوچنے لگا کہ شاید یہ میری زندگی کے آخری لمحات ہیں اور میرے لیے سواے اس کے کوئی راستہ نہیں تھا کہ میں بھاگ جائوں۔ میں نے دروازہ کھولا اور دوڑتا ہوا سڑک پر آگیا۔ وہ لوگ میرا پیچھا کر رہے تھے یہاں تک کہ میں پیدل چلنے والے لوگوں میں شا مل ہوگیا اور اُن کی آنکھوں سے اوجھل ہوگیا۔ میں جہاں ٹھیرا ہوا تھا وہاں چلا گیا۔ یہ جگہ میرے سسرال سے دُور نہیں تھی۔ میری پیشانی اور ناک پر پٹائی کے اثرات واضح تھے۔ منہ سے مستقل خون جاری تھا اور کپڑے پھٹ چکے تھے۔ میں نے دل ہی دل میں سوچا: میں تو بچ گیا لیکن میری بیوی کااب کیا حال ہوگا؟ میں تو اب اُس کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ میں تو اسے بہت چاہتا ہوں‘ ہوسکتا ہے کہ ختم ہوگئی ہو؟ ہوسکتا ہے مجھے چھوڑ دے؟ ہوسکتاہے کہ اسلام سے مرتد ہوجائے؟ یقینا شیطان اس موقع پر بڑے وسوسے پیدا کر رہا ہوگا۔ افکاروخیالات میرے دماغ میں گردش کرتے رہے یہاں تک کہ میں سمجھنے لگاکہ میری بیوی مجھ سے جدا ہوگئی۔

اب میں کیا کروں؟ کیا بیوی کے گھر جائوں؟ لیکن یہ تو محال ہے اس لیے کہ اِن ممالک میں انسانی زندگی کی کوئی قیمت نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ یہ لوگ کسی کرایے کے آدمی کو کچھ رقم دے کر مجھے قتل کروا دیں۔ اس لیے کمرے میں رہنا ہی ضروری ہے۔ پوری رات میں اسی طرح کے افکاروپریشان خیالات میںمبتلا رہا۔ صبح کو میں نے کپڑے بدلے اور کمرے سے باہر نکلا تاکہ بیوی کے کچھ حال و احوال معلوم ہوسکیں۔ دُور سے کھڑا ہوکر اس کے گھر کو دیکھتا رہا۔ تھوڑی دیر بعد گھر سے وہی چار آدمی نکلے۔ تین نوجوان اور ایک عمررسیدہ‘ جنھوں نے میری پٹائی کی تھی۔ دروازہ بند ہونے سے پہلے میں نے اپنی بیوی کو دیکھنے کی کوشش کی لیکن اُس پر نظر نہ پڑسکی۔ کچھ دیر بعد یہ لوگ واپس آگئے اور میں سڑک پر گھنٹوں بے فائدہ ٹہلتا رہا۔ تین دن اسی طرح گزر گئے۔ اب میری اُمید دم توڑ رہی تھی اور میں دل ہی دل میں یہ سوچنے لگا کہ یا تو میری بیوی مجھے ناپسند کرنے لگی ہے یا اُسے مارڈالا گیا ہے۔ لیکن اُس کی موت پر یقین اس وجہ سے نہیں ہو رہا تھا کہ اگر وہ مرجاتی تو اُس کے گھر میں خلاف معمول چیزیں دیکھنے کو ضرور ملتیں‘ مثلاً تعزیت کرنے والے اعزہ و اقربا کا آنا جانا اور دیگر لوازمات۔ لیکن یہ سب کچھ نہیں تھا‘ اس لیے میں نے سمجھ لیا کہ وہ ابھی زندہ ہے۔

چوتھے دن جب وہ چاروں آدمی اپنے کاموں پر نکل گئے تو گھر کا دروازہ کھلا اور میری بیوی اپنے دائیں بائیں کسی کی تلاش و جستجو کرتے ہوئے دکھائی دی۔ اُس کا چہرہ پوری طرح سرخ اور خون آلود تھا۔ جب میں اس کے قریب گیا تو اُسے دیکھ کر میرے حواس باختہ ہوگئے۔ ایک پرانے معمولی کپڑے سے اُس نے اپنا جسم ڈھانپ رکھا تھا۔ ہاتھ اور پیر میں بیڑیاں پڑی ہوئی تھیں۔ میںنے بڑی ہمدردی کے ساتھ اور ترس کھاتے ہوئے اُسے دیکھا اور میں اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکا‘ یہاں تک کہ میں رونے لگا۔

اُس نے مجھے سمجھایا اور کہا: ’’میرے پیارے‘ شوہر تین باتیں غور سے سنو: میرے احوال دیکھ کر پریشان مت ہو۔ اس لیے کہ میں اب تک اپنے اسلام پر باقی ہوں اور خدا کی قسم! اس وقت جو تکالیف میں جھیل رہی ہوں یہ اُن مشقتوں کے مقابلے میں جو نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام‘ آپؐ کے صحابہ کرامؓ اور اُن سے پہلے ایمان والوں نے برداشت کی ہیں‘ بال کے برابر بھی حیثیت نہیں رکھتیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ میرے اور میرے گھروالوں کے درمیان تم دخل مت دو۔ تیسری بات یہ ہے کہ اپنی قیام گاہ پر میرا انتظار کرتے رہو۔ اگر اللہ نے چاہا تو میں وہیں تم سے ملوں گی۔   رحمت ِ خداوندی کے طالب رہو اور جتنا ہوسکے رات کے آخری حصے میں جو قبولیت دُعا کے بہترین لمحات ہیں‘ دُعا کرتے رہو‘‘۔

میں اپنے کمرے میں واپس آگیا۔ ایک دن گزرا‘ دوسرا دن گزرا‘ تیسرا دن گزرنے کے قریب تھا کہ کسی نے میرے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ میری بیوی نے پُرسکون لہجے میں کہا کہ میں ہوں‘ دروازہ کھولو۔ میں نے جیسے ہی دروازہ کھولا تو اُس نے کہا کہ ہمیں یہاں سے فوراً چلنا چاہیے۔ اُس نے اپنا برقع اُوڑھا جو احتیاطاً وہ اپنے تھیلے میں رکھے رہتی تھی۔ پھر ہم باہر نکلے اور ایک ٹیکسی کو روکا۔ میں نے ڈرائیور سے کہا کہ ایرپورٹ جانا ہے۔ روسی زبان کا یہ لفظ میں نے سیکھ لیا تھا لیکن میری بیوی نے کہا ہم اس شہر کے ایرپورٹ پر نہیں جائیں گے‘ اس لیے کہ گھروالے ہمیں یہاں تلاش کرلیں گے۔ لہٰذا ہمیں کئی شہر عبور کر کے دُور چلے جانا چاہیے۔ اس طرح ہم پانچ شہروں کو پار کرکے ایک ایسے شہر میں پہنچ گئے جہاں ایرپورٹ تھا۔ بہرحال ہم ایرپورٹ پہنچے‘ ٹکٹ خریدے لیکن معلوم ہوا کہ پرواز میں تاخیر ہے۔ اس لیے ایک کمرہ کرایے پر لے لیا تاکہ کچھ آرام کیا جاسکے۔

میں نے اپنی بیوی کے جسم میں کوئی ایسی جگہ تلاش کرنی چاہی جو زخمی اور خون آلود نہ ہو‘ لیکن میں تلاش نہ کرسکا۔ پھر اُس نے اپنے اُوپر بیتی ہوئی داستان مجھے یوں سنائی: سب سے پہلے میرے والد اور تینوں بھائیوں نے لباس کے متعلق دریافت کیا۔ میں نے جواب دیا کہ یہ اسلامی لباس ہے‘ اس لیے کہ میں مسلمان ہوچکی ہوں اور یہ میرے شوہر ہیں جن کے ساتھ میں آئی ہوں۔ شروع میں انھوں نے میری بات پر یقین نہیں کیا۔ پھر میں نے تفصیل کے ساتھ اُن کو پورا واقعہ سنایا اور بتایا کہ کس طرح مجھے اُس تاجر نے رذیل ترین کام پر مجبور کرنا چاہا۔ میری باتیں سن کر اُن سب نے بیک زبان کہا: ’’اگر تو اپنی عزت کو نیلام کردیتی تویہ چیز ہمیں اسلام قبول کرنے کے مقابلے میں قابلِ قبول ہوتی۔ اب جان لے کہ تو اس گھر سے یا تو اپنا مذہب قبول کر کے نکلے گی یا مر کے‘ دوسرا کوئی راستہ نہیں‘‘۔ پھر وہ مجھے باندھنے لگے اور اس حال میں انھوں نے مجھ پر جس طرح ظلم و زیادتی کی‘ تم سن رہے تھے۔ پھر اس کے بعد بھی وہ باری باری میرے پاس آتے اور کوڑے مارتے۔ یہاں تک کہ اُن کے سونے کا وقت ہوجاتا۔ صبح کے وقت گھر پر میری ماں اور ۱۵ سالہ بہن ہوتیں۔ میں اُس رات نہیں سوسکی۔ یہاں تک کہ مجھ پر بے ہوشی طاری ہوگئی۔ پھر قریب تھا کہ میں ہوش میں آجاتی۔ انھوں نے دوبارہ مجھ پر کوڑے مارنے شروع کیے تاآنکہ میں پھربے ہوش ہو گئی۔ اِن حالات میں جب بھی وہ مجھ سے مذہب اسلام کو ترک کرنے کا مطالبہ کرتے‘ میں مسترد کردیتی۔

پھر میری بہن میرے پاس آئی اور پوچھا کہ آپ نے ہمارے اور ہمارے آبا و اجداد کے مذہب کو کیوں چھوڑ دیا؟ میں نے اُس کو اِس کا جواب دیا اور حتی المقدور اس کی وضاحت کی۔ پھر جب اُس نے اسلام کو سمجھنا شروع کیا اور وہ تمام جھوٹی بنیادیں جس پر وہ ایمان رکھتی تھی‘ واضح ہونا شروع ہوگئیں تو اُس نے مجھ سے کہا: ’’آپ ہی حق پر ہیں۔ یہی وہ دین ہے جس کی اتباع مجھ پر بھی ضروری ہے‘‘۔ اُس نے مجھے اپنے تعاون کی پیش کش کی۔ میں نے اُس سے کہا کہ وہ میرے شوہر سے میری ملاقات کرا دے۔ اُس نے میرے شوہر کو راستے میں چلتے ہوئے دیکھا تھا اورمجھے خبر بھی کی تھی۔ اُس نے میری زنجیر کھول دی۔ پھر دروازہ بھی کھول دیا تاکہ میں شوہر سے بات کرسکوں۔   اس سے زیادہ مدد کرنے پر وہ قادر بھی نہ تھی۔ اس لیے کہ میں تین زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی۔ ایک زنجیر سے میرے ہاتھ‘ دوسری سے پیر اور تیسری سے مجھے ایک ستون سے باندھ رکھا تھا۔ میری بہن کے پاس تیسری زنجیر ہی کی کنجی تھی جس کوحاجت ِ بشری کو پورا کرنے کے وقت وہ کھول دیتی تھی۔

تیسرے دن میری بہن بھی مذہب اسلام میں داخل ہوگئی اور اُس نے یہ عزم کیا کہ وہ مجھے اِن سختیوں سے نجات دلائے گی چاہے اُسے اپنی جان کی قربانی پیش کرنی پڑے۔ بقیہ دونوں زنجیروں کی کنجیاں میرے ایک بھائی کے پاس تھیں۔ ایک دن میری بہن نے والد اور بھائیوں کے سامنے بڑی نشہ آور شراب پیش کی۔ وہ لوگ پیتے ہی مدہوش ہوگئے۔ بہن نے جلدی سے بھائی کی جیب سے کنجی نکالی اور مجھے کھول دیا۔ میں جلدی سے تمھارے پاس آگئی لیکن میں نے اپنی بہن سے یہ کہا کہ وہ اپنے اسلام کو ابھی ظاہر نہ کرے بلکہ مخفی رکھے یہاں تک کہ ہم دیکھ لیں کہ ہم اس کی کیا مدد کرسکتے ہیں۔

شوہر نے یہ کہتے ہوئے قصہ ختم کیا: جب ہم اپنے شہر واپس ہوئے تو سب سے پہلے بیوی کو ہسپتال میں داخل کیا۔ وہ کافی دنوں ہسپتال میں زیرعلاج رہی۔ یہاں تک کہ اسے صحت نصیب ہوئی اور اس کے جسم سے ظلم وستم کے آثار ختم ہوگئے۔ (الرابطہ‘ شمارہ ۴۸۱‘ جمادی الاخریٰ‘ ۱۴۲۷ھ)

 

۱۸ جنوری بھی اب تحریکی زندگی کی یادوں میں ایک گراں لمحہ بن گیا ہے۔ لیجیے محترم بھائی سید فضل معبود بھی رخصت ہوئے! انا للّٰہ وانا الیہ رٰجعون۔

یہ خبر بجلی کی کوند کی طرح دل پر پڑی اور میں ایک لمحے کے لیے سکتے میں آگیا۔ جانتا ہوں کہ موت سب سے بڑی حقیقت ہے۔ بلاشبہہ ہر انسان فانی ہے اور ہم سب اس قافلے کے شریک ہیں۔ منزل تو وہی ہے‘ دنیا تو بس ایک درمیانی مرحلہ ہے لیکن اس سب سے بڑی حقیقت اور تقدیر سے اس ناگزیر ملاقات کو ہم بھولے رہتے ہیں۔ برادر محترم مولانا سید فضل معبود کے لیے فوری دعاے مغفرت کے بعد جو خیال دل و دماغ پر چھایا رہا وہ رفیق اعلیٰ سے ملاقات کے بارے میں اپنی غفلت کا احساس تھا۔ نہ معلوم کیوں ان کے انتقال کی خبر غیرمتوقع لگی اور اس کو اپنی بھول جان کر دل بے چین ہوگیا۔

فضل معبودصاحب سے میری پہلی ملاقات اسلامی جمعیت طلبہ کی نظامت اعلیٰ کے زمانے میں ہوئی۔ سرحد کے دورے پر آیا تو وہ پشاور کی جماعت کے امیر تھے اور جس محبت‘ شفقت اور  بے تکلفی سے ملے وہ آج تک دل پر نقش ہے۔ میں نے جن استاد سے قرآن پاک پڑھا ان کا تعلق بھی صوبہ سرحد سے تھا۔ پھر سرحد کے متعدد افراد سے مختلف حیثیتوں سے ملاقات رہی اور تعلقات استوار ہوتے رہے۔ لیکن میں اپنے حقیقی احساسات کے اظہار میں بخل کا مرتکب ہوں گا اگر یہ نہ کہوں کہ وہ پہلے پشتون تھے جن کے بارے میں مجھے یہ احساس ہوا کہ وہ پشتون تہذیب اور روایت کا نمونہ ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر یوپی اور دلّی کی ثقافت کے بھی بہت سے پہلو لیے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر خورشیدالاسلام کا ایک معرکہ آرا مقالہ شبلی نعمانی پر ہے جس کا پہلا جملہ ہے:شبلی وہ پہلے یونانی ہیں جو ہندستان میں پیدا ہوئے۔ میں کوئی ایسی بات کہنے کی جسارت تو نہیں کرسکتا لیکن اپنے اس احساس کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ سید فضل معبود پشتون اور گنگاجمنا کی ثقافت کا سنگم تھے۔ زبان و بیان اور اظہار و ادا میں وہ دونوں ثقافتوں کا مرقع تھے اور کبھی ان کی زبان سے شین قاف اور تذکیر و تانیث میں کوئی لغزش محسوس نہیں کی۔ گفتگو میں نرمی اور مٹھاس‘ اُردو زبان کے اسرار و رموز کا ادراک‘ نکھرا ادبی ذوق‘ علمی بالیدگی اور ان سب کے ساتھ خلوص اور سادگی۔ فضل معبود کی شخصیت میں بلا کی کشش تھی۔ چھوٹوں کے ساتھ برابری کا معاملہ کرنا اور ان کوعزت دینا کوئی ان سے سیکھے۔

مولانا فضل معبود یکم اپریل ۱۹۱۸ء کو ضلع مردان کے قریب ایک دیہات تہامت پور میں پیدا ہوئے۔ ایم اے تک تعلیم حاصل کی۔ اُردو سے خصوصی شغف تھا اور اس زبان میں ایم اے کیا۔ ترجمان القرآن کے ذریعے مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ سے واقفیت ہوئی اور یہ رشتہ ۱۹۳۸ء میں قائم ہوا۔ ۱۹۴۵ء میں جماعت اسلامی کے دوسرے کل .ُ   ہند اجتماع میں جو پٹھان کوٹ میں منعقد ہوا‘ شرکت کی اور اپریل ۱۹۴۵ء میں جماعت کی رکنیت اختیار کی۔ جو عہد اپنے رب سے تجدید ایمان کے ساتھ کیا اسے آخری لمحے تک نبھایا اور ۱۸ جنوری ۲۰۰۷ء کو جان جانِ آفریں کے سپرد کی۔

جماعت اسلامی میں مختلف ذمہ داریوں پر رہے۔۱۹۴۶ء سے ۱۹۶۷ء تک پشاور شہر کے امیر رہے۔ ۱۹۵۰ء میں مرکزی شوریٰ کے رکن بنے اور ۲۰۰۰ء تک شوریٰ میں اپنا کردار ادا کرتے رہے۔ کچھ عرصہ ریلوے کے محکمے میں ملازمت کی۔ ۱۹۵۸ء سے ۱۹۶۴ء تک روزنامہ انجام پشاور کے سب ایڈیٹر رہے۔ تین بار سنت یوسفی پر عمل کرتے ہوئے تحریکِ اسلامی کی خدمت کے صلے میں قیدوبند کی صعوبتیں ہنسی خوشی برداشت کیں۔ اس طرح دو سال سے زیادہ مدت جیل میں گزاری۔ کچھ عرصے مرکزی اُردو سائنس بورڈ کے ڈائرکٹر رہے۔بی ڈی ممبر بھی بنے اور الخدمت کے محاذ سے مریضوں کی دیکھ بھال کی۔ ریڈیو پاکستان سے پشتو اور اُردو میں دینی اور سماجی موضوعات پر تقاریر کا سلسلہ بھی ۱۹۶۰ء سے ۲۰۰۱ء تک جاری رہا۔ غرض اجتماعی زندگی کے ہر شعبے اور میدان میں کچھ نہ کچھ کردار ادا کیا۔

الحمدللہ آج صوبہ سرحد تحریک اسلامی کا بڑا گہوارا ہے اور صوبے کے طول و عرض میں دعوتی ساتھیوں کی فصل بہار ہے۔ لیکن ایک مدت تک میرے لیے صوبہ سرحد نام تھا محترم خان سردار علی خان کا‘ محترم تاج الملوک کا اور سید فضل معبود کا۔ ہر ایک کا اپنا اپنا مقام اور اندازِکار۔ گویا  ع

ہر گلے را رنگ و بوئے دیگر است

علمی اور ادبی ذوق‘ تحریکی اخوت اور ہمہ جہت ثقافتی دل چسپی کے اعتبار سے میرا سب سے زیادہ قرب برادرم فضل معبود ہی سے رہا۔ چراغِ راہ کی وجہ سے ایک خصوصی تعلق قائم ہوگیا۔ پھر شوراؤں میں ہمیں مل بیٹھنے اور ایک دوسرے کو سمجھنے اور باہمی استفادہ کرنے کا موقع ملا۔ ۱۹۶۴ء میں لاہور کی جیل میں ایک ہی بیرک میں ہم ساتھ رہے۔ میرے بزرگ ہونے کے باوجود انھوں نے کبھی مجھ سے خوردوں والا معاملہ نہیں کیا۔ محبت کے ساتھ جو احترام انھوں نے دیا‘ اس نے مجھے ان کا گرویدہ کر دیا۔ اسلام سے وفاداری‘ مولانا مودودی سے محبت‘ تحریک کے منہج کے باب میں مکمل یک سوئی‘ دعوت اور تنظیم دونوں میں سلیقہ‘ طبیعت میں بلا کی نفاست‘ معاملات میں کھرا ہونا اور تعلقات میں خلوص کے ساتھ مٹھاس‘ ان کی شخصیت کے ناقابلِ فراموش پہلو تھے۔ تحریک کے سچے مزاج شناس تھے اور ۱۹۵۷ء کے ماچھی گوٹ کے معرکے میں ان کی یک سوئی اور پھر    کوٹ لکھپت میں دستور جماعت کی تدوین میں ان کی معاونت‘ مَیں کبھی بھول نہیں سکتا۔

مولانا سید فضل معبود کو رسائل کے پورے پورے ریکارڈ رکھنے کا شوق تھا۔ مجھے ان کی ذاتی لائبریری دیکھنے کا موقع نہیں ملا لیکن مجھے یقین ہے کہ ان کے پاس کتب و رسائل کا بڑا قیمتی ذخیرہ ہوگا۔  فضل معبود صاحب کا حافظہ بھی بہت اچھا تھا اور جب بھی ہمیں وقت ساتھ گزارنے کا موقع ملا ہے احساس ہوا کہ انھیں چھوٹی چھوٹی باتیں بھی خوب یاد رہتی تھیں۔صحت کی خرابی کے باعث آخری زمانے میں مجھے ان سے ملنے کا موقع نہیں ملا جس کا افسوس رہے گا۔

الحمدللہ انھوں نے بھرپور تحریکی زندگی گزاری اور اس پورے عرصے میں پاے استقامت میں کوئی کمزوری نہیں آئی۔ نئے لوگوں کی حوصلہ افزائی بھی کی اور اپنے رب اور تحریکی ساتھیوں سے وفاداری کا معاملہ کیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی نیکیوں اور خدمات کو قبول فرمائے‘ بشری کمزوریوں اور کوتاہیوں سے درگزر فرمائے اور انھیں جنت کے اعلیٰ مقامات پر جگہ دے  ع

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

 

خانگی معاملات میں توازن

سوال : میں ان دنوں بہت زیادہ ذہنی انتشار کا شکار ہوں۔ میرا دل نہ تو عبادت میں لگتا ہے اور نہ گھر کا کوئی اور کام کرنے کو ہی دل چاہتا ہے۔ میری شادی پسند کی شادی ہے جس پر بعد میں والدین بھی راضی ہوگئے تھے۔ یہ شادی ہوجانے کے بعد وٹہ سٹہ اس طرح بن گیا کہ میری نند کی شادی میرے ماموں کے ساتھ ہوئی تھی۔ ان دونوں میاں بیوی میں اکثر جھگڑا رہتا ہے جس کے نتیجے میں بیوی کا ناراض ہوکر میکے چلے جانا لڑائی کا اہم جز بن چکا ہے‘ اور جواب میں میرے شوہر اور سسرال والے مجھے اپنے گھر‘ یعنی میکے بھیج دیتے ہیں۔ میرے شوہر ہردلیل کو اس وقت رد کردیتے ہیں جب معاملہ ان کی بہن کا ہو۔ میں اپنے شوہر کو ان کے ماں باپ اور بہن بھائی کی باتیں ماننے سے اس وقت منع کرتی ہوں جب وہ ایسی باتیں ماننے کو کہیں جو دین و شریعت میں بھی   لغو اور فضول ہوں۔

میرے شوہر کا کہنا ہے کہ ایک بیوی پر اپنے ماں باپ پر شوہر کے حقوق کو ترجیح دینا  فرض ہوتا ہے‘ جب کہ ایک بیٹا جو کہ اپنے والدین کے لیے امیدوں کا مرکز ہوتا ہے  اس کے لیے قرآن و حدیث میں والدین کی بات کو اوّلین ترجیح دینا فرض ہے چاہے وہ ناجائز ہی کیوں نہ ہو جیساکہ حضرت ابراہیم ؑاور ان کی بہو کا قصہ ہے۔ مجھے لگتا ہے جیسے میں اپنے والدین کی بھی نافرمان ہوں اور شوہر کی بھی۔ کیا والدین کی خدمت کرنا اور ان سے دعائیں حاصل کرنا صرف بیٹوں کے حصے میں آسکتا ہے؟

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ تقریباً دو ماہ پہلے میرا بیٹا پیدا ہو کر فوت ہوگیا ہے۔ اس سے پہلے  دو بیٹیاں پیدا ہوکر فوت ہوگئی تھیں۔بچے نہ ہونا اور پیدا ہوکر فوت ہوجانے کو کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ کالاجادو کیا گیا ہے۔ میرے شوہر ان چیزوں کو تسلیم کرتے ہیں‘ جب کہ میرا ذہن ان چیزوں کو تسلیم نہیں کرتا۔ میرے شوہر کہتے ہیں کہ اس کا علاج ہونا چاہیے‘جب کہ میں کہتی ہوں کہ جب اللہ کی رضا ہوگی‘ ہمیں بچے مل ہی جائیں گے۔ ڈاکٹری علاج تو ہم کروا ہی رہے ہیں تو پھر کیوں روحانی علاج کے نام پر شرک کے اندھے کنویں میں پھنس جائیں۔ جو کچھ بھی ہوسکتا ہے‘ ہم خود ہی پڑھا کریں گے۔ لیکن میرے شوہر نہیں مانتے۔ میں عمر میں اپنے میاں سے بہت کم ہونے کی وجہ سے اور تعلیم بھی کم ہونے کی وجہ سے تھوڑا سا دبتی ہوں اور مجھے یہ اچھا بھی لگتا تھا لیکن اب مجھے یہ سب کچھ بالکل بھی اچھا نہیں لگ رہا۔ بلکہ میں بہت زیادہ ذہنی ڈپریشن کا شکار ہوں۔

میرے لیے یہ بہت بڑا مسئلہ ہے کیوں کہ میرے والدین بھی ان چیزوں کو بہت مانتے ہیں۔ وہ میرے شوہر کے ساتھ ہیں لیکن میں کسی طور پر اس بات پر‘ یعنی پیروں فقیروں کے پاس جانے کے لیے راضی نہیں ہوں اور سوچتی ہوں کہ یہ ایک اور نافرمانی ہے‘    وہ بھی شوہر اور والدین کی مشترکہ طور پر۔ میں والدین کی سرپرستی میں ان پیروں فقیروں کے ہاتھوں کافی ذلیل و خوار ہوچکی ہوں۔ میں آپ سے پوچھتی ہوں کہ کیا روحانی علاج کرنے کے لیے لمبی سی مالا اور ہرا چوغہ پہننا ضروری ہے؟ کیا کوئی اسکالر یا عالم یا کوئی مذہبی رہنما اس کا علاج نہیں کرسکتا؟

جواب: آپ نے جن تین اہم پہلوؤں کی طرف اپنے خط میں متوجہ کیا ہے وہ ہمارے معاشرے کے اسلام سے دُوری کو ظاہر کرتے ہیں۔ وٹہ سٹہ کی شادی اور اس سے متعلقہ رسمی خرابیوں کا کوئی تعلق اسلام کے ساتھ نہیں ہے‘ بلکہ اس خطے میں پائی جانے والی قبل از اسلام کی ان روایات سے ہے جنھیں اسلام ختم کرنے کے لیے آیا تھا۔

اسلامی معاشرت کی بنیاد عدل‘ توازن‘ رواداری‘ محبت‘ عفو و درگزر‘ احترام اور اللہ تعالیٰ کے خوف پر ہے۔ یہاں ادلے بدلے کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا۔ اگر ایک شخص کی بیوی تو حق پر ہو  لیکن اس کو سزا اس بات کی دی جائے کہ اس کی بہن جو اس کے کسی سسرالی کے عقد میں ہے کوئی قابلِ اعتراض بات کرتی ہے‘ تو یہ سراسر ظلم و استحصال ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس ظلم سے بچائے اور جو لوگ اس کا ارتکاب کر رہے ہیں انھیں ہدایت دے۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ شوہر کا حق والدین کے حق سے زیادہ ہے تو قرآن کریم کو اُٹھا کر دیکھیے‘ وہ بلاتفریق. ِجنس کتنی مرتبہ والدین کے حقوق کی طرف متوجہ کرتا ہے اور کتنے مقامات پر ان کے مقابلے میں شوہر کی ہر جائز و ناجائز بات کو ماننے کے لیے کہتا ہے؟ مسئلہ شوہر اور والدین کا مقابلہ کرکے یہ ثابت کرنے کا نہیں ہے کہ والدین کی ناجائز بات کو مانا جائے بلکہ یہ جاننے کا ہے کہ اس سلسلے میں قرآن و سنت کا اصول کیا ہے۔ قرآن و سنت نے اس بات کو واضح کردیا ہے کہ والدین کی اطاعت معروف میں ہوگی منکر میں نہیں۔ یہی اصول شوہر کی اطاعت کے سلسلے میں بھی ہے۔ ایسے میں اگر بیوی ایک ایسی بات پر اصرار کرے جو منکر ہو تو بیوی کی خوشی کے لیے منکر کو اختیار نہیں کیا جائے گا۔

جہاں تک آپ کے دوسرے مسئلے کا تعلق ہے‘ اس ضمن میں ایک اصول کو پیش نظر رکھیے۔ قرآن و سنت نے جن معاملات میں حلال و حرام کو متعین کردیا ہے ان میں کوئی مفاہمت کسی سے نہیں ہوسکتی‘ البتہ جہاں پر کسی حرام کا ارتکاب نہ کیا جا رہا ہو اور ایسے کام سے والدین یا شوہر خوش ہوں تو اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔

حضرت ابراہیم ؑکی ہدایت کو عموم کی شکل دینا شاید مناسب نہ ہو۔ وہ اللہ کے انتہائی بزرگ رسول تھے (علیہ الصلوٰۃ والسلام)‘ اور اس علم کی بنا پر جو ان کے رب نے ان کو دیا تھا‘ انھوں نے بغیر کسی وضاحت کے اپنے بیٹے کو مشورہ دیا۔ یہ معاملہ ابوالانبیا کے گھرانے کا تھا۔ یہ کوئی عام معاملہ  نہ تھا کہ اس سے نظیر لائی جائے۔

اسلام کا اصول اس سلسلے میں واضح ہے کہ آخری حد تک خاندان کے اتحاد کو بچایا جائے اور جب اصلاح احوال کا کوئی امکان نہ رہے تو صرف اس صورت میں طلاق کو اختیار کیا جائے۔ اسی لیے بالجبر دی گئی طلاق کی حیثیت شریعت میں واضح کر دی گئی ہے۔ ساس سسر کا تعصبات اور بغیر کسی شرعی سبب کے طلاق دلوانے کا کوئی جواز اسلامی شریعت میں نہیں پایا جاتا۔

قرآن و سنت سے جادو کا وجود ثابت ہے‘ اور اگر جادو کیا گیا ہو تو اس کا علاج کروانا بھی ثابت ہے۔ علاج کا طریقہ مسنون ہو اور اس میں کسی غیراللہ سے امداد طلب نہ کی جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اگر آپ کے شوہر کسی ایسے اللہ کے نیک بندے سے واقف ہوں جو جادو کا علاج بغیر کسی غیراللہ سے امداد لیے کرسکتا ہو تو آپ ان کی بات مان لیں۔ ایسے فرد کے لیے یہ شرط قطعاً نہیں ہے کہ وہ کسی خاص حلیے اور وضع قطع والا ہو۔

آپ نے جو کچھ لکھا ہے اس کی روشنی میں آپ اپنے والدین یا شوہر‘ کسی کی عدمِ اطاعت کی مرتکب نظر نہیں آتیں۔اس لیے اپنے ذہن سے اس وہم کو نکال دیں اور والدین اور شوہر جب تک معروف کی طرف بلائیں‘ ان کی بات کو سنیں اور مانیں کیوں کہ شریعت کا اصول ہے کہ معصیت.ِ خالق میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں۔ واللّٰہ اعلم بالصواب! (ڈاکٹر انیس احمد)

 

رُوح قرآن، کینتھ کریگ۔ مترجم: نیاز احمد صوفی۔ ناشر: علم و عرفان پبلشرز‘ ۳۴- اُردو بازار‘ لاہور‘ فون: ۷۳۵۲۳۳۲۔ صفحات: ۲۳۲۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

قرآن جہاں مسلمانوں کے لیے سب سے مقدس اور اہم ترین کتاب ہے وہاں غیرمسلم مفکرین اور مستشرقین نے بھی اس کتاب میں بھرپور دل چسپی لی ہے۔ ستمبر ۱۹۷۲ء میں گون ولے‘ سائیوسی کالج‘ کیمبرج‘ برطانیہ کے جناب کینتھ کریگ کی قرآن کے موضوع پر The Mind of the Quranکے عنوان سے کتاب منصہ شہود پر آئی جس کا اُردو ترجمہ محترم نیازاحمد صوفی نے   کیا ہے۔ یہ کتاب مصنف کی ایک اور کاوش ’وقوعِ قرآن‘ کے ساتھ جوڑ کر پڑھنے کے لیے ہے۔  ان کاکہنا ہے کہ ’’قرآن کے ان گہرے فکری تصورات کو توجہ سے سمجھنے کی کوشش کی جائے جو آج کے جدید دور میں ہماری رہنمائی کرسکتے ہیں‘‘۔

فاضل مصنف نے نہایت فلسفیانہ انداز میں یہ کتاب تحریر کی ہے اور قرآن کے حوالے سے ایک غیرمسلم کے ذہن میں جو کچھ ہوسکتا ہے وہ سب اس کتاب میں واضح طور پر جھلکتا دکھائی دیتا ہے۔ جس تحقیق اور وسعت ِ مطالعہ کے ساتھ یہ کتاب رقم کی گئی ہے اس سے فاضل مصنف کی   محنت‘ خلوص اور احترام واضح طور پر ایک قاری کے سامنے آتا ہے۔ کتاب کے بہت سے مندرجات سے اختلاف کی واضح گنجایش موجود ہے‘ تاہم ایک غیرمسلم کی ذہنی سطح کی بلندی کا اعتراف بھی ازحد ضروری ہے۔ فاضل مصنف نے جن موضوعات پر بحث کی ہے وہ بھی دل چسپی سے خالی نہیں‘ مثلاً حفظِ قرآن کے لحاظ سے مفہوم اور اہمیت‘ تجوید کا فن‘ محکمات اور متشابہات پر بحث‘ تفاسیر کی روایت‘ انسان کی پریشانی‘ مغفرت کی گزارش‘ لا الٰہ الا اللہ‘ زمین کی تقدیس‘ خدا کے دیدار کی خواہش‘ ہدایت نامہ اور ہدایت کے عنوانات کے تحت نہایت عالمانہ بحث کی گئی ہے۔ مذہب اور سائنس‘ سیکولرازم‘ قرآن کے ساتھ آج کے مسلمانوں کا رویہ جیسے موضوعات بھی شاملِ کتاب ہیں‘ تاہم فاضل مصنف کا جھکائو صوفی ازم کی طرف محسوس ہوتا ہے۔ شاید اس کا ترجمہ بھی اسی لیے ایک صوفی صاحب نے کیا ہے۔ مجموعی طور پر قرآنیات سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے یہ ایک فکرانگیز کتاب ہے‘ نیز بین المذاہب مکالمہ کرنے والوں کو اس کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ (محمدالیاس انصاری)


علوم الحدیث ‘ فنی فکری اور تاریخی مطالعہ، مؤلف: ڈاکٹرعبدالرؤف ظفر۔ ناشر: نشریات‘ ۴۰-اُردوبازار‘ لاہور۔ صفحات: ۹۸۹۔ قیمت: ۵۰۰ روپے۔

اُردو زبان میں علوم الحدیث پر لکھی جانے والی کتب میں یہ ایک غیرمعمولی جامع کتاب ہے‘ جس میں سند کی اہمیت اور مستشرقین کے اسناد پر اعتراضات کے جائزے‘ علوم الحدیث‘ مطالب حدیث کے آداب‘ مقامِ صحابہؓ اور کتب معرفۃ الصحابہ‘ اسماء الرجال اور جرح و تعدیل کا تذکرہ ہے۔ اس کے علاوہ تخریجِ حدیث‘ علم الانساب‘ علم معرفۃ الاسماء والکنیٰ‘ معرفۃ الالقاب‘ علم الطبقات اور نقدِحدیث پر سیرحاصل گفتگو کی گئی ہے۔ اسی طرح تاریخ حدیث کے تحت علمِ حدیث کے ارتقا‘ ابتدائی دور کے معروف مراکز حدیث اور محدثین کی خدمات کے ساتھ ساتھ برعظیم کے مراکزِ حدیث اور مدارس‘ نیز عصرِحاضر کے مراکزِ حدیث کا ذکر بھی شامل ہے۔

حدیث کے حوالے سے مختلف مکاتب فکر کے نظریات کا احاطہ کرتے ہوئے ان کے اعتراضات اور شبہات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس باب میں فتنہ انکارحدیث‘ برعظیم کے منکرین حدیث اور موجودہ صورت حال کا تذکرہ بھی زیربحث لایا گیاہے۔ تحریک استشراق‘ مستشرقین کے حدیث پر اعتراضات کا جائزہ‘ معروف مستشرقین کے تذکرے سے حدیث پر جدید رجحانات سامنے آتے ہیں۔ آخر میں مولانا امین احسن اصلاحی کا نظریۂ حدیث بھی بیان کیا گیا ہے۔

بحث میں اعتدال کا راستہ اختیار کیا گیا ہے۔ حوالہ جات‘مصادر اور مراجع کتاب کی جامعیت میں مزید اضافے کا باعث ہیں۔ اسلوب تحریر سلیس ہے۔ مؤلف اس وقیع علمی کاوش پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔ (محمد احمد زبیری)


رسولؐ اللہ کے مقدس آنسو، ظہورالدین بٹ۔ ادارہ ادبِ اطفال‘ رحمن مارکیٹ‘ غزنی سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۱۶۰ ۔قیمت: ۱۱۰ روپے۔

نبیؐ رحمت للعالمین دنیا کی وہ واحد ہستی ہیں کہ جن کے بارے میں سب سے زیادہ لکھا اوربولا گیا ہے۔ اُن کی زندگی کا ایک ایک کرشمہ تاریخ کے صفحات پر اس طرح محفوظ ہے کہ ایسی مثال کسی اور شخصیت کے حوالے سے دیکھنے میں نہیں آئی۔ آپؐ کی ذاتِ گرامی کی اتباع اسی صورت میں ممکن تھی کہ جب آپؐ کی زندگی کا ہر پہلو سب کے سامنے ہوتا۔ سیرت نگاری کی اس عظیم اور اہم روایت کی ایک سعادت اب جناب ظہورالدین بٹ کے حصے میں اس طرح آئی ہے کہ انھوں نے حدیث کے عظیم ذخیرئہ کتب سے آپؐ کی ذاتِ مبارکہ کا ایک پہلو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ فاضل مصنف نے یقینا نہایت محنت سے ۸۷ ایسی احادیث کو اس کتاب میں الگ الگ عنوان کے تحت جمع کیا ہے جن میں آپؐ کے مقدس آنسوئوں کا ذکر ہے۔ صبر کا پیمانہ کب‘کیسے اور کیوں چھلکا اور کس طرح آپؐ کی مبارک آنکھوں میں مقدس آنسو اُمڈے‘ آپؐ کو اپنی اُمت سے کس قدر پیار تھا جس کے باعث اُمت کی فکر آپؐ  کو ہر وقت دامن گیر رہتی تھی اور اُن کی فلاح و مغفرت کے لیے آپؐ  کس طرح رقت آمیز انداز میں رب کے سامنے رویا کرتے تھے۔ اپنے صحابہؓ سے آپؐ کو    کس قدر اُلفت تھی کہ اُن کے دکھ‘ درد اور غم کو اپنا سمجھ کر آپؐ روتے تھے۔ اُن کی جدائی اور اہلِ خانہ کی یادوں کے منظر آپؐ  کو کس طرح رُلاتے تھے___ یہ ہیں وہ موضوعات جن کے تحت مصنف نے احادیث کو تلاش کیا اور جمع کر کے ہمارے سامنے پیش کیا ہے۔ یہ خوب صورت اور مجلد کتاب سیرتؐ کے اس گوشے سے ہمیں بخوبی روشناس کراتی ہے۔ (م - ا - ا )


اسلام اور تہذیب مغرب کی کش مکش ، ایک تجزیہ ، ایک مطالعہ، ڈاکٹر محمدامین۔ ناشر: بیت الحکمت‘  لاہور۔ملنے کا پتا: کتاب سراے‘ فرسٹ فلور‘ الحمدمارکیٹ‘ غزنی سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور‘ فون: ۷۳۲۰۳۱۸۔ فضلی بک ‘ سپرمارکیٹ‘ اُردو بازار‘ کراچی۔ فون: ۲۲۱۲۹۹۱-۰۲۱۔ صفحات: ۲۱۳۔ قیمت: ۱۳۰ روپے۔

۶۰ کا عشرہ پاکستان میں نظریاتی کش مکش کا زمانہ تھا کہ جب سوشلزم‘ کمیونزم اپنی پوری قوت کے ساتھ اسلام کے ساتھ نبردآزما تھا جس کا مقابلہ اسلام پسندوں نے ڈٹ کر کیا۔ اس وقت جنگ کا ذریعہ کتاب اور رسائل و جرائد تھے۔ ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد کا زمانہ ایک بار پھر نظریاتی کش مکش کا زمانہ ہے۔ اب جنگ کا ذریعہ کتاب‘ رسائل و جرائد ہی نہیں ریڈیو‘ ٹی وی‘ انٹرنیٹ وغیرہ سبھی شامل ہیں۔ اسلام پسندوں کے پاس کتاب اور رسائل و جرائد کے ذریعے جواب دینے کے مواقع تو ہیں مگر وہ ریڈیو‘ ٹی وی‘ انٹرنیٹ وغیرہ پر قطعی غیرمؤثر ہیں۔ کیونکہ ٹی وی اور ریڈیو ان کے قبضے میں نہیں ہیں۔ جو نظریاتی کش مکش اسلام اور تہذیبِ مغرب کے درمیان جاری ہے‘ ڈاکٹر محمد امین نے نہایت اختصار مگر جامعیت کے ساتھ اس کا تجزیہ اور مطالعہ پیش کیا ہے۔

کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے۔ حصہ اوّل میں ’مغربی تہذیب کے بارے میں مسلمانوں کے ممکنہ رویے‘ کے عنوان کے تحت تین رویوں کو زیربحث لایا گیا ہے‘ یعنی آیا’مغربی تہذیب کو     رد کردیا جائے‘ یا ’مغربی تہذیب کو قبول کرلیاجائے‘ یا پھر یہ کہ ’مغربی تہذیب سے مفاہمت کرلی جائے‘۔ اس کے بعد مصنف نے ہررویے کے مؤیدین کے دلائل پیش کرنے کے بعد اپنا نقطۂ نظر پیش کیاہے کہ ہمیں مغربی تہذیب کو رد کر دینا چاہیے کیونکہ اس کی فکری اساسات اور جہانی تصور (world view) ہماری فکری اساسات اور جہانی تصور کے بالکل متضاد ہے۔ اس دنیا میں ہماری کامیابی اور آخرت میں فلاح کا سائنٹی فک اور مجرب نسخہ یہ ہے کہ ہم اپنے نظریۂ حیات (اسلام) سے محکم طور پر وابستہ ہوجائیں اور اس کے تقاضوں کے مطابق زندگی بسر کریں۔ لیکن مغربی تہذیب کو رد کرنے اور اپنے نظریے پر اصرار کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہمیں مغرب سے سیاسی‘ معاشی یا اسلحی جنگ کرنا چاہیے۔ ہرگز نہیں‘ بلکہ ہمیں مغرب کے ساتھ مفاہمت اور مکالمے کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے تاکہ ہم کسی کش مکش میں الجھے بغیر اپنے نظریۂ حیات کے مطابق تیزرفتار ترقی کرسکیں۔ اس مفاہمت کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ اگر کسی مسلم ملک پر حملہ ہو تواس کی مزاحمت اور مدافعت نہ کی جائے۔

کتاب کا دوسرا حصہ ’مسلم معاشرے پر مغربی تہذیب کے اثرات - پاکستانی تناظر میں‘ کے عنوان سے ہے جس میں تین طرح سے مباحث کو سمیٹا گیا ہے۔ مبحث اوّل: ’مغربی تہذیب کے اثرات: اسباب و مظاہر‘ مبحث دوم: ’مغربی تہذیب کے اثرات مختلف شعبہ ہاے حیات میں‘ مبحث سوم: ’کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں؟‘

فاضل مصنف نے نہایت عرق ریزی سے اس موضوع کو حوالہ جات سے سجایا ہے۔ اسلامی فکر وتہذیب کا مغربی فکروتہذیب سے جدولی انداز میں سات عنوانات کے تحت خوب صورت انداز میں موازنہ (صفحہ ۲۰‘۲۱) کیا ہے اور اس موضوع پر گہرا اور وسیع مطالعہ کرنے کے خواہش مند حضرات کے لیے صفحہ ۲۳‘ ۲۹ پر اُردو انگریزی کتب کی ایک طویل فہرست بھی درج کر دی ہے جس میں    ۲۳ اُردو ماخذ‘ جب کہ ۴۳ انگریزی کتب و جرائد کے نام درج ہیں۔ صفحہ ۵۲‘ ۵۳ پر مسلم اور مغربی نظریۂ علم کے جدولی موازنے میں پانچ موضوعات کو شامل کیا گیا ہے۔ فاضل مصنف نے قرآن و سنت سے استدلال کے ساتھ ساتھ کلام اقبال سے بھی خوب استفادہ کیا ہے۔ صفحہ ۷۳ پر دنیاوی ترقی کا اسلامی و مغربی ماڈل ایک جدول کی صورت میں موازنے کے لیے پیش کیا ہے۔

مصنف کے بعض افکار سے اختلاف کے باوجود وہ قابلِ مبارک باد ہیں کہ انھوں نے اس اہم ترین مسئلے کوسادہ اور آسان زبان میں نہایت اختصار مگر جامعیت کے ساتھ کتابی صورت میں پیش کیا۔ (م - ا - ا )


چھٹی عرب اسرائیل جنگ، نصرت مرزا۔ ناشر: رابطہ پبلی کیشنز‘ ۷۱۰-یونی شاپنگ سنٹر  ‘ صدر‘ کراچی۔ صفحات:۳۶۸۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

لبنان‘ لبنانی عوام‘ حزب اللہ اور حسن نصراللہ اُمت مسلمہ کی بالخصوص اور پوری دنیا کی بالعموم توجہ کا مرکز بنے ہیں۔ زیرنظر کتاب ترتیب دے کر مصنف نے حزب اللہ کے ہاتھوں اسرائیل کی شکست کا پردہ چاک کیا ہے۔ کتاب کا انتساب حسن نصراللہ کے نام کیا گیا ہے جو حزب اللہ کے جنرل سیکرٹری ہیں‘ جن کی قیادت میں حزب اللہ اور لبنانی عوام نے اسرائیل کے خلاف ’عوامی جنگ‘ جیتی اور اسرائیل جسے سوپرپاور امریکا کی مکمل آشیرباد حاصل تھی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوا۔

مصنف نے اس ۳۳ روزہ عوامی جنگ کے لمحہ بہ لمحہ احوال مرتب کر کے ایک اہم خدمت سرانجام دی ہے جو مشرق وسطیٰ میں رونما ہونے والے اس اہم واقعے کے بارے میں جاننے والے شائقین کے لیے گائیڈبک کا درجہ رکھتی ہے۔

کتاب کو چار ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا باب لبنان پر اسرائیلی حملہ‘ دوسرا باب مصنف کے تجزیے‘ تیسرا باب دورانِ جنگ‘ چوتھا باب مصنف کے خیالات‘ پانچواں باب نئے  مشرق وسطیٰ کی تقسیم پر مشتمل ہے۔ کتاب پڑھ کر نہ صرف تازہ ترین جنگ سے مکمل آگہی حاصل ہوتی ہے بلکہ اس قضیے کا تاریخی پس منظر بھی سامنے آتا ہے۔ مختلف نقشہ جات‘ تصاویر اور معلومات پر   مبنی چارٹس‘ اقوام متحدہ کی قرارداد کا متن‘ لبنان و اسرائیل کا تعارف‘ صہیونی ریاست کا قیام‘     عرب اسرائیل جنگوں پر ایک نظر‘ اعلان بالفور اور دیگر معلومات نے کتاب کی اہمیت دوچند کر دی ہے۔ زیرنظرکتاب لبنان‘ اسرائیل اور حزب اللہ کے بارے میں تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔(عمران ظہور غازی)


علامہ اقبال اور ان کے ہم عصرمشاہیر، پروفیسر محمدسلیم۔ ناشر: سنگِ میل پبلی کیشنز‘ لوئرمال‘ لاہور۔ صفحات: ۲۰۲۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

علامہ اقبال ایک نابغۂ روزگار شخصیت تھے۔ انھوں نے نہ صرف اپنے عہد کو متاثر کیا بلکہ آنے والے زمانوں کے لیے بھی‘ شعروشاعری کا ایسا نمونہ چھوڑ گئے جسے پڑھتے ہوئے‘ نہ صرف برعظیم بلکہ ساری دنیا کے انسان اپنے اندر ایک خاص طرح کی حرکت و حرارت‘ جوش و ولولہ اور ایک مثبت اور تعمیری جذبہ محسوس کرتے ہیں___ ہم جیسے اُن کے لاکھوں عامی مداحوں کے علاوہ‘ ان کے بیسیوں نام ور معاصرین نے بھی اُن کی شخصیت اور شاعری سے گہرا تاثر قبول کیا۔

زیرنظر کتاب میں مصنف نے اقبال اور ان کی ۱۱معاصر شخصیتوں (قائداعظم‘ نواب بھوپال‘ مولانا مودودی‘ خلیفہ عبدالحکیم‘ سلیمان ندوی‘ تاثیر‘ ابوالکلام‘ محمدعلی جوہر‘ راس مسعود‘ مسولینی اور نہرو) کے باہمی تعلقات پر روشنی ڈالی ہے۔ ان کے بقول: ’’برصغیر کے معاصر مشاہیر نے کلامِ اقبال اور فکراقبال کو نہایت شان دار الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کیا ہے اور اقبال نے بھی ان شخصیات کے علم و فضل اور ان کی خدمات کا اعتراف کیا ہے‘‘ (دیباچہ)۔ مشاہیر کا‘ اقبال کو خراجِ عقیدت پیش کرنا تو سمجھ میں آتاہے‘ مگر اقبال کیوں کر‘ ان شخصیات کے مدّاح تھے؟ اس لیے کہ اقبال‘ ان کے اندر کوئی نہ کوئی ایسی خوبی دیکھتے تھے‘ جو نہ صرف مسلم معاشرے کی بھلائی اور اُمت مسلمہ کی خیرخواہی کے نقطۂ نظر سے قابلِ تعریف تھی‘ مثلاً اقبال‘ قائداعظم کو ہندی مسلمانوں کا نہایت پُرخلوص‘ قابل اور دیانت دار لیڈر سمجھتے تھے۔ ’علومِ اسلامیہ کی جوے شیر‘ سید سلیمان ندوی اس لیے اقبال کے نزدیک قابلِ احترام تھے کہ وہ قدیم و جدید علوم کا بے نظیر امتزاج تھے۔ بقول اقبال: اس رئیس المصنفین کا وجود علم و فضل کا دریا ہے جس سے سیکڑوں نہریں نکلی ہیں اور ہزاروں سوکھی کھیتیاں سیراب ہوتی ہیں۔ علمی معاملات میں علامہ اکثر انھی سے رجوع کرتے تھے۔ اقبال چاہتے تھے کہ سید سلیمان لاہور منتقل ہوجائیں تاکہ اہلِ پنجاب ان کے علم و فضل سے استفادہ کرسکیں۔ محمدعلی جوہر کی بے باکی‘ طبیعت کا سوزوگداز اور اُمت مسلمہ کے لیے ان کی دردمندی اور جوش و جذبہ علامہ کے نزدیک قابلِ تحسین تھا۔ ان کی وفات پر علامہ اقبال نے فارسی میں ایک نہایت دل گداز مرثیہ لکھا تھا جس کا معروف شعر ہے    ؎

خاکِ قدس او را بہ آغوشِ تمنّا درگرفت
سوے گردوں رفت زاں را ہے کہ پیغمبر گذشت

(بیت المقدس کی سرزمین نے اسے اپنی آغوش تمنّا میں لے لیا اوروہ اس راستے سے آسمانوں کی طرف چلا گیا جہاں سے پیغمبر گزرے تھے۔)

بحیثیت مجموعی سبھی مضامین دل چسپ اور معلومات افزا ہیں۔ پروفیسر محمدسلیم اپنی بات کو سادہ مگر دل نشیں اسلوب میں کہنے کا سلیقہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے ہرمضمون میں متعلقہ کوائف و حقائق مربوط انداز میں یک جا کر دیے ہیں جس سے ان شخصیات کی تصاویر کے ساتھ اقبال سے اُن کے روابط کی نوعیت اور خود اقبال کی وضع داری‘ ملن ساری‘ رکھ رکھائو اور دانش و بینش کی جھلکیاں بھی نظر آتی ہیں۔(رفیع الدین ہاشمی)


اسلام میں خدمت ِ خلق کا تصور، مولانا سید جلال الدین عمری۔ ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈیمی‘ کراچی۔ ملنے کا پتا: مکتبہ معارف اسلامی‘ ڈی-۳۵‘ بلاک ۵‘ فیڈرل بی ایریا‘ کراچی-۷۵۹۵۰۔ صفحات: ۱۷۵۔ قیمت: درج نہیں۔

عام طور پر فلاحی معاشرے کے لیے آج مغرب کی طرف نظریں اُٹھتی ہیں اور بطورِ مثال مغرب ہی کو پیش کیا جاتا ہے۔ زیرنظر کتاب میں‘ مولانا سید جلال الدین عمری نے جو علمی حلقوں کی ایک معروف شخصیت ہیں‘ اسلام کے سماجی بہبود اور خدمتِ خلق کے جامع تصور کو پیش کرتے ہوئے اس پہلو کو اجاگر کیا ہے کہ دنیا میں صرف اسلام ہی وہ واحد نظریۂ حیات ہے جو بلاامتیاز مذہب و ملّت اور مسلم و غیرمسلم کی تمیز کیے بغیر نوعِ انسانی کی خدمت اور بہبود پر زور دیتا ہے۔ مغرب اپنے تمام تر انسانی حقوق کے دعووں کے علی الرغم سماجی بہبود کے لیے عملاً قومیت اور نسلی تعصب کا شکار ہے‘    نیز انسانی رشتوں کے تقدس اور حرمت کو کھو چکا ہے۔ اسلام اس لحاظ سے بھی برتری رکھتا ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ ساتھ فرد کو بھی اپنے مجبور و پس ماندہ بھائیوں کی امداد اور حُسنِ سلوک کا پابند ٹھیراتا ہے۔ اس ضمن میں حقوق و فرائض کا باقاعدہ تعین کیا گیاہے اور اسے قانونی تحفظ بھی دیا گیا ہے۔

کتاب میں خدمت ِ خلق کے مختلف پہلوئوں‘ رفاہی خدمات کے دائرے‘ فرد‘ اداروں اور سماجی تنظیموں کی ذمہ داریوں اور دائرۂ کار کا جائزہ لیا گیا ہے۔ ایک باب میں خدمتِ خلق کے    غلط تصورات اور پائی جانے والی غلط فہمیوں اور بے اعتدالیوں کا تذکرہ بھی ملتا ہے جو اپنی جگہ    بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس بات کو بھی واضح کیا گیا ہے کہ اسلام وقتی امداد کے بجاے مشکلات کے پایدار حل پر زور دیتا ہے‘ نیز خدمتِ خلق کے لیے اخلاص شرطِ لازم ہے۔ یہ شرط سماجی بہبود کے  تصور کو انسانیت کی معراج پر پہنچا دیتی ہے۔ آخر میں حوالہ جاتی کتب کی فہرست کتاب کی جامعیت میں مزید اضافے کا باعث ہے۔ بلاشبہہ مصنف نے موضوع کا حق ادا کردیا ہے اور یہ کتاب   اپنے موضوع پر ایک سند کی حیثیت رکھتی ہے۔ کتاب کا انگریزی ترجمہ The Concept of Social Services in Islam کے نام سے بھی کیا جاچکا ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ خدمتِ خلق کے اس تصور کو عام کیا جائے اور حکومتی و عوامی سطح پر منظم انداز میں عوام کی فلاح و بہبود پر توجہ دی جائے تاکہ عملاً اسلام کے حقیقی فیوض و برکات کا مشاہدہ کیا جاسکے۔یہ ہمارے معاشرے کے بڑھتے ہوئے بگاڑ کا ناگزیر تقاضا بھی ہے۔(امجد عباسی)

تعارف کتب

  • گلدستہ، کلیم چغتائی‘ نظرثانی: اسحاق جلالپوری‘ ادارت و تدوین: ڈاکٹر محمدافتخار کھوکھر۔ صفحات: ۶۴۔ قیمت:درج نہیں۔ [دعوہ اکیڈیمی اسلام آباد کا شعبہ بچوں کاادب گلدستہ کے نام سے بچوں کے لیے آڈیو‘ وڈیو‘   ڈاٹ نیٹ اور مجموعۂ مضامین کا اہتمام کرتا ہے۔ اب اس رسالے کی شکل میں میٹرک سے انٹر کی طالبات و طلبہ کے لیے اسلامی خط و کتابت کورس کا آغاز کیا گیا ہے۔ یہ اس کا پہلا یونٹ ہے جس میں قرآن‘ حدیث‘ سیرت‘ فقہ‘  معلومات عامہ وغیرہ کے ۱۹ عنوانات کے تحت بے حد مفید متنوع مضامین ہیں۔ ہر یونٹ کے ساتھ جواب لکھنے    کے لیے سوال نامہ ہے۔ یہ یونٹ ایک اچھا معیاری ماہنامہ بھی ہے۔]

 

راجا کرامت حسین ‘ٹیکسلا

’جموں و کشمیر سے دست برداری‘ (جنوری ۲۰۰۷ء) ہرغیرت مند پاکستانی مسلمان اور کشمیری کے لیے چشم کشا اور دل دہلا دینے والا ہے۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے روشن خیال اور امریکی ڈکٹیشن پر آنکھیں بند کرکے چلنے والے حکمران کشمیری مسلمانوں کی لازوال قربانیوں اور عزت مآب کشمیری ماؤں بہنوں کی عزت کا سودا کرچکے ہیں۔ وہ کشمیر جسے قائداعظمؒ نے پاکستان کی شہ رگ اور مفکراسلام سید مودودیؒ نے اپنے جسم کا حصہ گردانا‘ اسے امریکی مفادات اور بھارتی اَنا کی بھینٹ چڑھانے کی تمام تیاریاں مکمل ہوچکی ہیں۔

سیدزادہ ‘ باجوڑ ایجنسی

’محاسبہ اور تربیت ِ نفس‘ (جنوری ۲۰۰۷ء) پڑھ کر نیا حوصلہ ملا۔ ’افغانستان: طالبان کا ظہورثانی‘ معلوماتی ہے اور امید افزا بھی۔ ’انتہاپسندی‘ بنیادپرستی اور دہشت گردی‘ کے مطالعے سے بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ ہوا۔

ڈاکٹر توقیر احمد بٹ ‘ ملتان

جنوری ۲۰۰۷ء کا ترجمان القرآن خوب صورت سرورق کے ساتھ ساتھ معیاری مضامین سے مزین ہے‘ خصوصاً ’راہ ایمان کے موانع‘ اور ’نائن الیون کے بعد مسلم نوجوان کا کردار۔ عالم اسلام کا درد رکھنے والی نومسلمہ وُون رِڈلے نے مسلمان حکمرانوں کو خوابِ خرگوش سے جگانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔

ارشد علی آفریدی ‘ لنڈی کوتل۔  اے ڈی جمیل‘ جھنگ

وُون رِڈلے کی ایمان افروز تحریر مسلمانوں بالخصوص اُمت مسلمہ کے حکمران طبقے کو جھنجھوڑ رہی ہے اور خوابِ غفلت سے بیدار کر رہی ہے۔ موجودہ تہذیبی کش مکش میں مسلم نوجوانوں کے لیے یہ پیغام ہے کہ اسلام ہی وہ نظریۂ حیات اور روحانی نظام ہے جو دنیا میں حقیقی امن و سلامتی اور خوش حالی برپا کرسکتا ہے۔

سید حامد الکاف ‘ صنعا‘ یمن

’’اور یہ تحفظات اس ماحول کو رکھ کر کیے گئے تھے جس میں پاکستان میں اقامت دین کے نام پر دین میں سیاست کوٹ کوٹ کر بھر دی گئی ہے اور اندیشہ ہے کہ حِسبہ کا سیاسی استعمال شریعت اور دین کو متنازع بنا دے گا‘‘ (’اسلامی نظریاتی کونسل اور قانونی تحفظ نسواں‘ ص ۷۵‘ جنوری ۲۰۰۷ء)‘ مجھے اسلامی نظریاتی کونسل کے صدرمحترم سے اس قسم کے جملوں کے صدور کی قطعاً توقع نہ تھی۔اس سے ایک طرف تو دین اور سیاست میں تفریق کا اظہار ہوتا ہے تو دوسری طرف اقامت دین‘ شریعت اور دین بہ ضمن  حِسبہ‘ جیسی اصطلاحوں کو متنازع فیہ بنانے کی کوشش نظر آتی ہے۔ اس دین پر کلی اور مجموعی نظر نہ رکھنے والے جب ایک مسلمان کو تہجد کی نماز اور دیگر پانچ نمازیں پڑھتے دیکھتے ہیں تو یہ کہہ اُٹھتے ہیں کہ یہ دین تو نماز‘ روزہ‘ زکوٰۃ اور حج کا دین ہے‘ جب کہ یہ دین ان عبادتوں کے بغیر نہ تو قائم کیا جا سکتا ہے اور نہ قائم ہی رہ سکتا ہے۔ یہی کچھ حال ان لوگوں کا ہے جو رسولؐ اللہ کی مدینہ میںجہادی سرگرمیوں کو دیکھ کر اور غزوات اور سرایا کی کثرت کو دیکھ کر یہ حکم لگاتے ہیں کہ اس دین میں جنگ جوئی کوٹ کوٹ کر بھر دی گئی ہے‘ آج کل اس کو ’دہشت گردی‘ کا نام بھی دیا گیا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ دین پہلے دن سے  اتنا ہی عبادتی ہے جتنا یہ سیاسی تھا اور روزِ اوّل سے وہ اتنا ہی سیاسی ہے جتنا کہ وہ مالی اور اقتصادی تھا۔

حکیم شریف احسن‘ فیصل آباد

’مساجد میں خواتین کی شرکت‘ (دسمبر ۲۰۰۶ء) میں ڈاکٹر انیس احمد حضرت عائشہؓ کے ایک ارشاد کا مفہوم یوں بیان کرتے ہیں: ’’اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حیات ہوتے اور مدینہ میں خواتین جس طرح مسجد میں جاتی تھیں‘ خود ملاحظہ فرماتے تو شاید خواتین کا داخلہ مسجد میں منع فرما دیتے‘‘ (ص ۹۵)۔ روایت کے اصل الفاظ میں لَمَنَعَھُنَّ میں لام تاکید ہے بمعنی ضرور۔’ضرور کی جگہ ’شاید‘ کا لفظ لانے سے مفہوم مسخ ہوگیا ہے۔

ڈاکٹر صاحب کے بقول احادیث صحیحہ میں آیا ہے کہ خواتین کی گھر میں ادا کردہ نماز کا اجر مسجد میںادا کی گئی جماعت کے مساوی ہے‘‘ (ص ۹۴)۔ کسی صحیح حدیث میں گھر اور مسجد کی نماز کے اجر کو مساوی قرار نہیں دیا گیا‘ بلکہ احادیث میں تو گھر کی نماز کو افضل اور بہتر بتایا گیا ہے۔

آسی ضیائی ‘ لاہور

آج کل ہماری حکومت کثرتِ آبادی سے پریشان ہوکر‘ پورے اہتمام سے آبادی روکنے کا پروپیگنڈا کررہی ہے۔ ٹیلی وژن‘ ریڈیو اور اخبارات میں شاید ہی کوئی دن جاتا ہو جب اس کی یہ اپیل نظر سے نہ گزرتی ہو۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دنیا کی اسلام دشمن طاقتیں مسلمانوں کی کثرتِ آبادی سے خوف زدہ ہیں اور اُنھی کی بدولت ہماری حکومت اس مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہے‘ حالانکہ اگر اسلام کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو یہ ساری کوشش اللہ تعالیٰ پر عدمِ اعتماد کا منہ بولتا ثبوت ہے اور افلاس کے اندیشے سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو کی صریح نافرمانی ہے۔ ہمارے علما نے اس طرف توجہ نہیں دی کہ اس کی تردید اسلامی نقطۂ نظر سے کریں حالانکہ یہ بھی غضبِ الٰہی کو بھڑکانے کا باعث بن سکتا ہے۔ ضبطِ ولادت کا نظریہ کن نتائج کا حامل ہے‘ مغرب کو کن تہذیبی مسائل اور نسلی خودکشی جیسے مسائل کا سامنا ہے‘ کوئی اس سے عبرت بھی نہیں پکڑتا۔

 

حقیقت یہ ہے کہ ہم حق کی شہادت دینے میں جتنی جتنی کوتاہی کرتے گئے ہیں اور باطل کی شہادت ادا کرنے میں ہمارا قدم جس رفتار سے آگے بڑھا ہے‘ ٹھیک اسی رفتار سے ہم گرتے چلے گئے ہیں۔ پچھلی ایک ہی صدی کے اندر مراکش سے لے کر شرق الہند تک ملک کے ملک ہمارے ہاتھ سے نکل گئے‘ مسلمان قومیں ایک ایک کر کے مغلوب اور محکوم ہوتی چلی گئیں‘ مسلمان کا نام فخروعزت کا نام نہ رہا بلکہ ذلت و مسکنت اور پس ماندگی کا نشان بن گیا۔ دنیا میں ہماری کوئی آبرو باقی نہ رہی‘ کہیں ہمارا قتل عام ہوا‘ کہیں ہم گھر سے بے گھر کیے گئے‘ کہیں ہم کو سوء العذاب کا مزا چکھایا گیا اور کہیں ہم کو چاکری اور خدمت گاری کے لیے زندہ رکھا گیا۔ جہاں مسلمانوں کی اپنی حکومتیں باقی رہ گئیں وہاں بھی انھوں نے شکستوں پر شکستیں کھائیں اور آج ان کا حال یہ ہے کہ بیرونی طاقتوں کے خوف سے لرز رہے ہیں‘ حالانکہ اگر وہ اسلام کی قولی و عملی شہادت دینے والے ہوتے تو کفر کے علَم بردار ان کے خوف سے کانپ رہے ہوتے…

مگر خدارا مجھے بتایئے کہ آپ اسلام کے سچے گواہ ہوتے تو یہاں کوئی اکثریت ایسی ہوسکتی تھی جس سے آپ کو کوئی خطرہ ہوتا؟ یا آج بھی اگر آپ قول اور عمل سے اسلام کی گواہی دینے والے بن جائیں تو کیا یہ اقلیت و اکثریت کا سوال چند سال کے اندر ہی ختم نہ ہوجائے؟ عرب میں ایک فی لاکھ کی اقلیت کو نہایت متعصب اور سخت ظالم اکثریت نے دنیا سے نیست و نابود کر دینے کی ٹھانی تھی‘ مگر اسلام کی سچی گواہی نے ۱۰سال کے اندر اسی اقلیت کو سو فی صد اکثریت میں تبدیل کر دیا۔ پھر جب یہ اسلام کے گواہ عرب سے باہر نکلے تو ۲۵ سال کے اندر ترکستان سے لے کر مراکش تک قومیں کی قومیں ان کی شہادت پر ایمان لاتی چلی گئیں اور جہاں سو فی صد مجوسی‘ بت پرست اور عیسائی رہتے تھے وہاں سو فی صد مسلمان بسنے لگے۔ کوئی ہٹ دھرمی‘ کوئی قومی عصبیت اور کوئی مذہبی تنگ نظری اتنی سخت ثابت نہ ہوئی کہ حق کی زندہ اور سچی شہادت کے آگے قدم جماسکتی۔ اب اگر آپ پامال ہو رہے ہیں اور اپنے آپ کو اس سے شدید تر پامالی کے خطرے میں مبتلا پاتے ہیں تو یہ کتمانِ حق اور شہادتِ زُور کی سزا کے سوا اور کیا ہے۔(’شہادتِ حق‘، سیدابوالاعلیٰ مودودی‘ ترجمان القرآن‘ جلد ۳۰‘ عدد ۳‘ ربیع الاول ۱۳۶۶ھ‘ فروری ۱۹۴۷ء‘ ص ۱۵۸-۱۵۹)