۱۰ اکتوبر ۲۰۰۲ء کے انتخابی نتائج ایک آئینہ ہیں جن میں پاکستانی قوم کی مجموعی فکر کا عکس صاف صاف دیکھا جا سکتا ہے۔ ان انتخابات کو نہ مکمل طور پر شفاف کہا جا سکتا ہے اور نہ ان قواعد و ضوابط اور انتظامات کو مبنی برعدل قرار دیا جا سکتا ہے جن کے تحت یہ انتخاب منعقد ہوئے۔ اس لیے کہ دستوری ترامیم‘ انتخابی قواعد اور الیکشن کے انتظامات میں اس امر کی پوری کوشش کی گئی کہ برسراقتدار انتظامیہ اپنے مفید مطلب نتائج حاصل کرلے اور اپنے پسندیدہ عناصر کو کامیاب کرا لے۔ لیکن ان تمام تحدیدات (limitations) کے باوجود پاکستانی عوام نے بحیثیت مجموعی اپنے جذبات و عزائم کے اظہار کا راستہ نکال لیا اور پنجاب اور سندھ کے متعدد حلقوں اور بلوچستان کے چند مقامات پر کھلی دھاندلی‘ سرکاری مداخلت اور زورآور گروہوں کی دراندازی کے باوجود عوام نے اپنا پیغام اور فیصلہ ارباب اقتدار اور عالمی راے عامہ دونوں کو کسی لاگ لپیٹ کے بغیر پہنچا دیا ہے۔
اب ملک کے مستقبل اور یہاں جمہوریت کے فروغ اور امن و ترقی کے حصول کا انحصار اس پر ہے کہ جنرل پرویز مشرف‘ فوجی قیادت اور سیاسی جماعتیں سب اپنے اپنے تحفظات کے علی الرغم عوام کے اس فیصلے کو قبول کریں اور اس پر اس اسپرٹ کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کریں جو انتخابی نتائج سے روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ اس میں نہ کسی کی فتح ہے اور نہ شکست۔ اس میں سب کی بھلائی اور سب سے بڑھ کر ملک و ملت کے لیے خیر ہی خیر ہے۔ اگر اس سے ہٹ کر کوئی اور راستہ اختیار کیا گیا۔ جیساکہ کچھ عناصر--- جن میں ملک کی کچھ کھلی اور مخفی قوتیں اور ان کے بیرونی سرپرست شامل ہیں--- ڈھکے چھپے ہی نہیں نیم وا انداز میں حکمرانوں کو اس خطرناک راستے پر ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ تو یہ ملک کے لیے تباہی کا راستہ ہوگا۔کچھ لوگ ’’فاتح افغانستان‘‘ جنرل ٹامی فرینکس کے دورۂ پاکستان (۱۸ اکتوبر ۲۰۰۲ء) اور حکومت افغانستان کے ایک نمایندے اور بھارتی وزیرخارجہ کے اظہاراضطراب (concern) کو اسی پس منظر میں دیکھ رہے ہیں۔ لیکن بیشتر پاکستانی اخبارات کے ادارتی تبصرے‘ کالم نگاروں کے واضح اشارات اور قومی جماعتوں کے نمایندوں کے واضح اور متوازن بیانات اس امر پر شاہد ہیں کہ ان حالات میں ملک اور اس کی قیادت کے لیے ایک ہی معقول راستہ ہے اور وہ یہ کہ کسی اینچ پینچ کے بغیر‘ انتخابی نتائج کو تسلیم کرے اور بلاتاخیر ان پر ان کی اسپرٹ کے مطابق عمل درآمد کرے۔
جنرل پرویز مشرف اور ملک کی فوجی قیادت ‘جس نے گذشتہ تین سال سے حکمرانی کی ذمہ داری سنبھالی ہوئی تھی اور جو عدالت عالیہ کی دی ہوئی مہلت کے مطابق جمہوری عمل کے احیا کی پابند ہے‘ اور امریکہ‘ دولت مشترکہ اور مغربی اقوام جو ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لیے مختلف انداز میں دبائو ڈالتے رہے ہیں‘ اب آزمایش کی کسوٹی پر جانچے جا رہے ہیں کہ وہ عوام کے فیصلے کو قبول کرتے ہیں یا خدانخواستہ اسے ناکام کرنے کے لیے چال بازی اور کسی نئے سیاسی کھیل کا خطرناک راستہ اختیار کرتے ہیں۔ ہم اس امر کا برملا اظہار کرنا چاہتے ہیں کہ حکمرانوں اور قومی قیادت ‘دونوں کو خود اپنے ملک کے ماضی کے تجربات اور تاریخ کے وسیع تر مگر‘ ناقابل تردید شواہدکی روشنی میں وہی راستہ اختیار کرنا چاہیے جو معقول بھی ہے اور مثبت نتائج کا ضامن بھی--- یعنی عوام کی رائے کا مکمل احترام اور ان کے فیصلے پر پوری سپردگی کے ساتھ عمل۔ ہماری دعا ہے کہ جنرل مشرف اور ان کے رفقا قوم کے پیغام (message) کو بے چون و چرا قبول کریں‘ اور اس طرح اپنی عزت میں اضافہ کریں‘ ماضی کی خود اپنی اور دوسروں کی غلطیوں کی تلافی کا کچھ سامان کریں‘ ایک بہتر مثال قائم کرنے کی سعادت حاصل کریں اور ملک کو جمہوریت اور دستور اور قانون کی حکمرانی کے راستے میں آگے بڑھنے کا سامان فراہم کریں۔
اس امر کے واضح ہو جانے کے بعد کہ اب ملک و قوم کے لیے ایک ہی جائز اور مبنی برحق راستہ عوام کے مینڈیٹ کا‘ جیسا بھی وہ ہے‘ احترام اور اس پر عمل ہے‘ یہ بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ ذرا تفصیل میں جاکریہ متعین کیا جائے کہ وہ مینڈیٹ کیا ہے اور اس پر عمل کے کیا تقاضے ہیں؟ معلق پارلیمنٹ اور منقسم مینڈیٹ کے الفاظ بہ کثرت استعمال ہو رہے ہیں اور ان کے بین السطور سیاسی عدم استحکام کے اندیشے اور بیرونی سرمایے اور سیاسی تائید سے محرومی کے اشارے بھی کچھ خاص حلقوں کی طرف سے دیے جا رہے ہیں۔ اس لیے اس بات کو اچھی طرح سے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جمہوریت کی ۲۰۰ سالہ تاریخ میں نہ معلق پارلیمنٹ کوئی نئی چیز ہے اور نہ منقسم مینڈیٹ۔ تاریخ کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ دنیا کے بیشتر جمہوری ممالک کو کسی نہ کسی دور میں اس نوعیت کے نتائج سے سابقہ پڑتارہا۔ امریکہ‘ فرانس‘ اٹلی‘ ہالینڈ‘ جاپان‘ کون سا ملک ہے جسے کبھی نہ کبھی اسی نوعیت کی صورت حال سے سابقہ پیش نہ آیا ہو۔ مخلوط حکومت بھی کوئی اجنبی چیز نہیں۔ اس سے متوحش ہونے کی کوئی معقول وجہ نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مینڈیٹ کی اصل حقیقت کو‘ ملکی حالات اور پالیسیوں کے معروضی پس منظر میں‘ ٹھیک ٹھیک سمجھا جائے اور اس پر عمل کے لیے خطوط کار متعین کیے جائیں۔
۱- سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ان انتخابات میں عوام نے جنرل پرویز مشرف کے تین سالہ دورِ حکومت اور اندازِ حکمرانی کے بارے میں ایک واضح فیصلہ دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ جن چیزوں کو وہ اپنی اصلاحات کا نام دے رہے ہیں‘ وہ عوام کی نگاہ میں مطلوبہ اصلاحات نہیں ہیں۔ عوام نے جنرل صاحب کے حامی عناصر کو ساری سرکاری سرپرستی‘ گورنروں کے الطاف و انعامات‘ انتظامیہ کی ترغیبات و ترہیبات ‘ ناظمین کے التفات و توجہات اور انتخابی مشینری کی نوازشات اور سہولیات کے باوجود حکمرانی اور تسلسل کا اختیار نہ دے کر صاف پیغام دے دیا ہے کہ وہ تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ اب ساری توجہ اس تبدیلی کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے ہونی چاہیے جو عوام کو مطلوب ہے۔ کسی فرد‘ گروہ یا جماعت کو عوام پر اپنی رائے مسلط کرنے کا حق اور اختیار نہیں۔
۲- عوام نے فوج کو بھی ایک واضح پیغام دے دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اسے اب اپنی بیرکوں کا رخ کرنا چاہیے۔ سیاست میں کسی مستقل کردار کی تلاش ایک نئی کش مکش کو جنم دینے کا باعث ہو سکتی ہے۔ ہم شروع سے یہ بات کہہ رہے ہیں کہ ملک کی فوج کی حقیقی ضروریات کو پورا کرنا قوم کی ذمہ داری ہے۔یہ کام باہم مشورے سے اور عزت و احترام کے ساتھ ہونا چاہیے تاکہ فوج مضبوط ہو اور قوم کے اعتماد اور محبت و عقیدت کا مرکز و محور بنے۔ وہ سیاست میں فریق بن کر متنازع نہ بنے۔ اس کی ساری توجہ اعلیٰ ترین درجے کی پیشہ ورانہ مہارت کے حصول پر مرکوز رہے۔ ملک اور فوج دونوں کا مفاد اسی میں ہے۔ ۱۰ اکتوبر کے انتخابات نے بڑے کھلے انداز میں فوج اور اس کی قیادت کو یہ پیغام دے دیا ہے جس پر جتنی جلد عمل ہو‘ اتنا ہی سب کے لیے بہتر ہے۔
۳- ان انتخابات سے یہ بات بھی سامنے آگئی ہے کہ پاکستانی قوم ایک آزادی پسند اور باغیرت قوم ہے اور خود کو اُمت مسلمہ کا ایک باوقار حصہ سمجھتی ہے۔ وہ دنیا کے تمام ممالک اور خصوصیت سے آج کی بڑی طاقتوں بشمول امریکہ سے ‘جو اب واحد عالمی قوت ہے‘ دوستانہ تعلقات چاہتی ہے‘ لیکن اپنی آزادی‘ قومی وقار اور پاکستان اور اُمت مسلمہ کے حقیقی مفادات کے فریم ورک میں۔ اس کے بڑے اہم مضمرات ملک کی خارجہ اور داخلی پالیسیوں‘ خصوصیت سے معاشی پالیسیوں کے لیے ہیں۔ ملک کی سیاسی قیادت کو پوری دیانت‘ حکمت اور بالغ نظری کے ساتھ ان تقاضوں کو متعین کرنے اور ان کے حصول کے لیے صحیح منصوبہ بندی اور پالیسی سازی کے لیے تیار ہونا چاہیے۔ البتہ یہ کام بڑے سوچے سمجھے انداز میں اور ٹھنڈے غوروفکر کے ساتھ انجام دیا جانا چاہیے۔
۴- یہ بات بھی واضح ہو گئی ہے کہ قوم کی نگاہ میں تبدیلی اور قیادت پر فائز کرنے کا صحیح راستہ بیلٹ (رائے کی پرچی) ہے بولیٹ (بندوق کی قوت) نہیں‘ خواہ اس کا استعمال کرنے والے عناصر سویلین ہوں یا وہ فوجی جن کو قوم نے بندوق بطور امانت دی ہے اور جسے دشمن کی جارحیت کے خلاف استعمال کرنے کے لیے مختص ہونا چاہیے۔
۵- یہ واضح ہو گیا ہے کہ پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے اور وہ عناصر جو سیکولرزم اور لبرلزم کے نام پر یہاں مغربی تہذیب و ثقافت کی ترویج چاہتے ہیں‘ وہ اس کے حقیقی نمایندے نہیں۔ یہ عناصر ملک کو نظریاتی کش مکش میں مبتلا کرنے کا ذریعہ بنے ہیں۔ ان کے دورِ حکمرانی کے ثمرات بجز بگاڑ اور تباہی کے کچھ نہیں۔ عوام کے اصل مسائل حل کرنے میں بھی یہ قیادتیں ناکام رہی ہیں اور اخلاقی ‘تہذیبی اور ثقافتی اعتبار سے بھی ملک کو پیچھے ہی لے گئی ہیں۔ قوم اب ان آزمائی ہوئی قیادتوں سے نجات چاہتی ہے۔
۶- جس طرح سیکولر اور لبرل قیادتیں ناکام ہوئی ہیں اسی طرح محض علاقے‘ نسل‘ زبان اور مقامی مفادات کی علم بردار قوتوں نے بھی ملک ہی نہیں خود اپنے علاقے‘ نسل اور زبان بولنے والوں کے لیے بھی کچھ نہیں کیا۔ بحیثیت مجموعی علاقائی قوتوں کی تائید میں نمایاں کمی ہوئی ہے اور لوگ قومی سوچ رکھنے والی جماعتوں کو قیادت کی ذمہ داریاں سونپنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔
۷- عوام دو جماعتی نظام کے چنگل سے نکلنے کے لیے بھی بے چین ہیں۔ جن دو بڑی جماعتوں نے خاص طور پر گذشتہ ۱۵‘ ۲۰ سال سیاسی باگ ڈور باری باری سنبھالی‘ بحیثیت مجموعی عوام اُن سے مایوس ہیں اور ایک تیسری متبادل قوت کے متلاشی ہیں۔ دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی جمہوری تحریک ایسے ہی مراحل سے گزری ہے اور بظاہر پاکستان کے عوام بھی اب ایک تیسری قوت کو آزمانا چاہتے ہیں جس کے لیے وہ دینی جماعتوں کے اتحاد کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
۸- متحدہ مجلس عمل کا ایک تیسری قوت کے طور پر نمایاں ہو کر سامنے آنا ان انتخابات کا بہت ہی واضح اور مثبت حاصل ہے۔ متحدہ مجلس عمل کو سرحد اور بلوچستان میں جو پاکستان کی حالیہ تاریخ میں غیرمعمولی اہمیت حاصل کر چکے ہیں‘ نمایاں کامیابی ہوئی ہے۔ سرحد میں‘ قومی اسمبلی کے لیے ۳۳ میں سے ۲۸ نشستیں اور صوبائی اسمبلی میں اکثریت حاصل کر کے اور صوبہ بلوچستان کی قومی اسمبلی کی اکثر نشستوں پر کامیاب ہوکر اور صوبائی اسمبلی میں سب سے بڑی پارٹی کی حیثیت اختیار کر کے وہ قومی سیاست میں ایک اہم کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں آگئی ہے۔ سرحد اور بلوچستان کے علاوہ اسلام آباد‘ لاہور‘ کراچی اور حیدر آباد سے نمایاں کامیابی نے بھی اسے ایک موثر ملک گیر قوت بنا دیا ہے۔ پارلیمنٹ میں اسے ایک فیصلہ کن حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ یہ پاکستان کے نظریاتی مستقبل اور نظام حکومت اور اندازِ حکمرانی کے باب میں اُس بنیادی تبدیلی کی طرف پہلا قدم ہے جو آزادی کے تقاضوں اور تحریک پاکستان کے اصل مقاصد کے حصول کی طرف پیش قدمی کے لیے ضروری ہے۔ یہ تبدیلی قومی سوچ کی مظہر اور مستقبل کی ایک جھلک ہے اور اس حیثیت سے ان انتخابات کا سب سے اہم اور دُور رس اثرات کا حامل پہلو ہو سکتی ہے۔
البتہ یہ بات اچھی طرح سمجھنے کی ہے کہ یہ اس اتحاد‘ اعتدال‘ مقصدیت اور پاک دامنی کا ثمرہ ہے جس کی علامت متحدہ مجلس عمل اس انتخابی مہم میں بن گئی ہے۔ یہ سیاست کا ایک نیا نمونہ (model) ہے جو عوام کے سامنے آیا ہے۔ بلاشبہہ مجلس کی کامیابی میں اس کی اسلامی شناخت اور ملکی آزادی اور وقار کے باب میں اس کے جرأت مندانہ اور واضح موقف کا بڑا دخل ہے۔ لیکن اس کے ساتھ دینی قوتوں کا ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونا‘ سیاسی پارٹیوں کی تقسیم در تقسیم کے پس منظر میں چھ جماعتوں کا یک رنگ ہو کر ایک جھنڈے تلے ایک قومی موقف پر جم جانے اور مخالفین کی ساری سازشوں اور دراندازیوں کے باوجود اپنی وحدت‘ یک جہتی اور بے لوث تعاون پر آنچ نہ آنے دینے کا بڑا دخل ہے۔
اس مثال نے تاریکیوں کے ماحول میں عوام کے سامنے امیداور روشنی کی ایک کرن کا منظر پیش کیا اور عوام نے ہر مفاد سے بالا ہو کر اس کو اپنی تائید سے نوازا۔ کھمبا نوچنے والوں کی کمی نہیں اور کوئی اس میں ’’خفیہ ہاتھ‘‘ دیکھنے کی کوشش کر رہا ہے اور کوئی اس کا سہرا ’کتاب‘ کے نشان پر باندھنے کی کوشش کر رہا ہے حالانکہ خفیہ ہی نہیں صاف نظر آنے والے ہاتھ جن کی پشت پر تھے وہ کوئی راز نہیں۔ کتاب کے نشان پر ۱۹۸۵ء سے آج تک مختلف جماعتیں انتخاب لڑتی رہی ہیں لیکن یہ معجزہ اس سے پہلے کبھی واقع نہیں ہوا۔ اصل چیز وہ پیغام اور منشور ہے جو مجلس عمل نے قوم کے سامنے پیش کیا‘ وہ اتحاد ہے جس کو انھوں نے ایک حقیقت بنا دیا اور کردار کا وہ فرق ہے جو چشم سر سے دیکھا جا سکتا ہے۔ دینی جماعتوں کا اتحاد اور کامیابی اب ایک ایسی سیاسی حقیقت ہے جو پاکستان کے مستقبل کی صورت گری میں ان شاء اللہ روز افزوں کردار ادا کرے گی۔ یہ ان جوہری تبدیلیوں کا پیش خیمہ ہے جن کی طرف یہ انتخابی نتائج اشارہ کر رہے ہیں۔
۹- ان انتخابات کا ایک پیغام یہ بھی ہے کہ ملک میں کوئی ایک جماعت یا قوت تن تنہا نظام کو نہ چلائے بلکہ سیاسی قوتوں کے لیے ضروری ہے کہ افہام و تفہیم اور تعاون اور اشتراک کا راستہ اختیار کریں۔ ملک تصادم کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ جس طرح دینی جماعتوں نے افہام و تفہیم اور تعاون و اشتراک کے ذریعے ایک روشن مثال قائم کی ہے اسی طرح تمام سیاسی قوتوں کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اگر وہ عوام کے مینڈیٹ کا احترام کرنا چاہتی ہیں تو کھلے دل سے اسلامی نظریے‘ قومی آزادی ‘ ملکی مفاد اور عوام کی فلاح و ترقی کے لیے اپنے جماعتی اور گروہی مفادات سے بلند ہو کر مشترک قومی اہداف کے حصول کے لیے صف بندی کریں تاکہ کسی کو یہ زعم نہ ہو کہ ہم تنہا جو چاہیں کر سکتے ہیں۔ یہی وہ ذہن تھا جس کے نتیجے میں سول حکومتیں آمرانہ نظام میں تبدیل ہو گئیں اور خود جمہوریت کے لیے خطرے کا باعث ہوئیں۔ عوام اس کھیل سے تنگ ہیں اور چاہتے ہیں کہ سیاسی قوتوں میں برداشت اور ایک دوسرے کو ساتھ لے کر چلنے کا جذبہ پیدا ہو۔ اگر اب بھی دیانت دارانہ عمل کے راستے کو ترک کیا گیا یا کرایا گیا اور سازشوں، ’’ہارس ٹریڈنگ‘‘ سیاسی رشوتوں اور بلیک میل کے ذریعے غیر فطری اکثریت بنانے کی کوشش کی گئی تو یہ بات جمہوریت کے لیے سمِ قاتل ثابت ہوگی اور عوام کے مینڈیٹ کو ناکام کرنے کی مذموم کوشش ہوگی۔ البتہ ان ناپاک سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ حقیقت پسندی اور حکمت کے ساتھ لیکن بالکل صاف شفاف انداز میں اشتراکِ عمل کی راہیں تلاش کی جائیں۔ ہر سیاسی قوت کے اصل وزن کے مطابق اسے اہمیت دی جائے اور مشترک مقاصد اور اہداف کے لیے بالکل کھلی سیاست کے ذریعے ملک کو اس دلدل سے نکالنے کی کوشش کی جائے جس میں ماضی کی حکومتوں‘ (بشمول جنرل پرویز مشرف کی حکومت) نے ملک کو ڈال دیا ہے۔
ہماری نگاہ میں اس وقت اصل چیلنج یہ ہے کہ انتخابی نتائج کی قوسِ قزح میں جو عوامی مینڈیٹ رونما ہوا ہے اس کی روشنی میں سب سے پہلے انتقال اقتدار‘ نہ کہ محض شراکت اقتدار کا عمل مکمل کیا جائے۔ پہلا اور سب سے اہم مسئلہ جمہوری اداروں کی بحالی‘ ۱۹۷۳ء کے دستور کو برسرِعمل (operational)شکل دینا‘ پارلیمنٹ کی بالادستی اور عوام کے حقوق کی بحالی ہے۔ وہ تمام عناصر جو اس عمل پر یقین رکھتے ہیں ان کا فرض ہے کہ ملک کو تصادم سے بچاتے ہوئے تبدیلی کے اس عمل کو اولیت دیں۔ قومی اہداف اور پالیسیوں کا تعین اور تغیر اسی وقت ممکن ہے جب یہ انتقال اقتدار واقع ہو جائے۔ ان دونوں میں خلط مبحث بہت مہنگا پڑ سکتا ہے۔ اس لیے اولین اہمیت اقتدار کی تبدیلی اور دستور کے تحت پارلیمنٹ کی بالادستی کے قیام کی ہے۔ فوج کی اس کے اصل کردار کی طرف مراجعت اس کا اہم ترین حصہ ہے۔ یہ کام حکمت کے ساتھ انجام دینے کی ضرورت ہے۔ عوام نے جن جماعتوں کو نمایندگی کی ذمہ داری سونپی ہے ان کی واضح اکثریت ۱۹۷۳ء کے دستور کے تحت جمہوری عمل کی قائل ہے اور جن جماعتوں نے انتقالِ اقتدار نہیں بلکہ شراکت اقتدار کا عندیہ دیا تھا ان کو بھی سمجھ جانا چاہیے کہ عوام شراکت نہیں‘ انتقال کے متلاشی ہیں اور انھیں بھی عوام کی خواہش کے مطابق اپنے موقف میں تبدیلی کرنا چاہیے تاکہ سب مل کر جمہوری عمل کو موثر بنانے میں کامیاب ہو سکیں۔
۱۰- انتخابات کا ایک اور پیغام یہ ہے کہ مرکز اور صوبوں میں ضروری نہیں کہ ایک ہی جماعت کی حکومت ہو۔ فیڈریشن کے اصول کا لازمی تقاضا حکمران جماعتوں کی تکثیر(pluralism) ہے۔ پاکستان کی بہت سی مشکلات کی جڑ مرکز اور صوبوں میں مختلف جماعتوں کا حکومت کے بارے میں عدم برداشت کا رویہ ہے۔ جو سلسلہ مشرقی پاکستان میں ’’جگتو فرنٹ‘‘ کی حکومت کو برداشت نہ کرنے سے شروع ہوا تھا وہ بالآخر ملک کی تقسیم پر منتج ہوا۔ پاکستان کے دوسرے دور میں بھی یہی سلسلہ جاری رہا۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو نے سرحد اور بلوچستان کی حکومتوں کے ساتھ جو کچھ کیا‘ پھر بے نظیرصاحبہ اور میاں نواز شریف کے ادوار میں پنجاب‘ سندھ اور سرحد میں جو کھیل کھیلا گیا اس نے سیاست کو گندا ہی نہیں کیا بلکہ ملک میں فیڈریشن کے تجربے کو ناکام کرنے اور مرکز گریز رجحانات کو تقویت دینے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ان انتخابات سے صاف ظاہر ہے کہ سرحد اور بلوچستان میں متحدہ مجلس عمل‘ پنجاب میں قائداعظم لیگ اور سندھ میں پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کو سبقت حاصل ہے۔ اگر کسی بھی غیر فطری انداز میں ان زمینی حقائق کو بدلنے یا ان کو نظرانداز کرکے کوئی اور دروبست قائم کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ تباہی کا راستہ ہے۔
فیڈریشن کے اصل اصول اور اسپرٹ کے مطابق عوامی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے دستور کے دائرے میں ہر ایک کو اس کے حق کے مطابق حکمرانی کا اختیار اور موقع ملنا چاہیے۔
ہماری نگاہ میں ۱۰ اکتوبر کے انتخابات کے مندرجہ بالا ۱۰ پہلو ایسے ہیں جن کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ عوام کا مینڈیٹ ان تمام پہلوئوں پر حاوی ہے اور جنرل پرویز مشرف‘ فوجی قیادت اور سیاسی جماعتوں کو ان کا احترام کرنے اور ان کے مطابق معاملات طے کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ یہ وقت ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے اور پرانے حساب چکانے کا نہیں۔ مذاکرات اور افہام و تفہیم کے ذریعے عوام کے مینڈیٹ پر اس کی روح کے مطابق عمل ہی میں سب کی نجات ہے۔یہ مرحلہ طے ہو جائے تو پھر پالیسی کے معاملات اور حکومت سازی سے بڑھ کر ملک سازی کا مرحلہ آتا ہے۔ بلاشبہہ بڑا چیلنج ملک سازی کا ہے اور اپنے اپنے منشور کے مطابق ہر سیاسی قوت کو اس کے لیے تیاری اور محنت کرنی چاہیے لیکن انتقالِ اقتدار کے مراحل کو طے کیے بغیر اور اس کام کو بخوبی انجام دیے بغیر اس طرف پیش رفت ممکن نہیں۔ وقت کم ہے اس لیے دونوں مرحلوں کو ٹھیک ٹھیک طے کرنے کی فکر وقت کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ البتہ ترتیب اور ترجیحات کا احترام ضروری ہے: الاقدم فالاقدم!
متحدہ مجلس عمل کی قیادت اور اس کے کارکنوں کو جہاں ہم ان کی اس تاریخی کامیابی پر دل کی گہرائیوں سے مبارک باد دیتے ہیں‘ وہیں یہ بھی ضروری سمجھتے ہیں ہم خود کو اور اپنے تمام ساتھیوں کو یاد دلائیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا ایک خصوصی انعام ہے۔ قیادت کا وژن اور کارکنوں کی محبت اور قربانیاں سب اپنی جگہ‘ لیکن اصل چیز اللہ تعالیٰ کی اعانت اور نصرت ہے اور اس کے ہر انعام کی طرح یہ کامیابی بھی ایک عظیم آزمایش اور کڑا امتحان ہے۔ قرآن نے جو اصول اس باب میں بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ وَاِذْ تَاَذَّنَ رَبُّکُمْ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَ زِیْدَنَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌo (ابراہیم ۱۴:۷) ’’اور یاد رکھو تمھارے رب نے خبردار کر دیا تھا کہ اگر شکرگزار بنو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا اور اگر کفرانِ نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے‘‘۔
اس آیت کریمہ پر غور کرنے سے تین باتیں خاص طور پر سامنے آتی ہیں:
اول: ہر نعمت اور ہر کامیابی اللہ اور صرف اللہ کی طرف سے ہے۔ انسانی کوشش‘ صحیح منصوبہ بندی‘ جان ماری سے جدوجہد‘ ایثار اور قربانی سب ضروری ہیں اور قدرت کے بنائے ہوئے قانون کا لازمی حصہ--- لیکن مسبب الاسباب صرف اللہ کی ذات ہے اور جو کچھ بھی انسان کو حاصل ہوتا ہے وہ عطیہ الٰہی ہے۔ اس لیے سب سے پہلے اپنے مالک اور آقا کا احسان ماننا‘ اس سے اپنی نسبت کو مزید مستحکم کرنا‘ ہر قسم کے غرور اور تعلی سے گریز اور اپنے رب کی رحمت اور نعمت نوازی کا شعور ہے۔ کافر کامیابیوں کو اپنی فتح سمجھتا ہے اور مسلمان اسے اپنے رب کا انعام--- اور یہی چیز اسے شکر اور عجز کی راہ اختیار کرنے کا شرف بخشتی ہے۔
دوم: جس بابرکت ہستی نے ایک عظیم نعمت سے ہمیں نوازا ہے اس کا تقاضا ہے کہ اس نعمت پر شکر کے ساتھ یہ ادراک کیا جائے کہ اب اس نعمت کا کیا حق ہے۔ یہ نعمت خود مطلوب نہیں‘ بلکہ ذریعہ ہے ان مقاصد اور اہداف کے حصول کے لیے جو رب نے ہر نعمت کے ساتھ مقرر فرما دیے ہیں۔ اگر رزق میسر آیا ہے تو وہ اس لیے کہ ہم جسم و جان کے لیے وہ سامان فراہم کریں جن کے ذریعے یہ جسم و جان مالک کی رضا کے حصول‘ اس کے دین کے قیام اور اس کے کلمے کی سربلندی کے لیے سرگرم عمل ہوسکیں۔ اگر دولت حاصل ہوئی ہے تو وہ صرف ہماری ذات کی افزایش کے لیے نہیں‘ ان مقاصد حیات کی ترویج کے لیے دی گئی ہے جن سے زندگی عبارت ہے۔ اگر سیاسی اثر و رسوخ اور قوت و اقتدار حاصل ہوا ہے تو وہ خود مطلوب نہیں بلکہ اللہ کی رضا کے حصول کے لیے اس کے دین کے قیام اور اس کے بندوں کی خدمت کا ایک موقع ہے۔ اس لیے ہر انعام ایک آزمایش ہے اور دل اورزبان کے مالک کے احسان و انعام کے اقرار و اعتراف کے بعد اس نعمت کے حق کو پہچاننا شکر کا دوسرا مرحلہ ہے۔
سوم: اس نعمت کا استعمال بھی شکر ہی کا ایک پہلو ہے۔کفران نعمت صرف زبان سے نعمت سے انکار نہیں‘ نعمت کا غلط استعمال یا اصل مقصد سے ہٹ کر کسی اور طرح اور کسی اور طرف اس کا استعمال بھی کفرانِ نعمت ہی کی ایک شکل ہے۔ نعمت کے حق کو سمجھنے کے بعد اس سے اگلا مرحلہ اس نعمت کے صحیح استعمال کا ہے۔ معاملہ رزق کی فراوانی کا ہو‘ یا علم کی نعمتوں سے مالا مال ہونے کا‘ یا قوت و اقتدار کے حصول کا--- ہر نعمت کا صحیح استعمال اور احکام الٰہی کے مطابق اصل مقاصد کے حصول کے لیے اس نعمت سے استفادہ بھی شکر ہی کے مفہوم میں داخل ہے۔
یہیں سے یہ بات واضح ہے کہ نعمت الٰہی اور اللہ کے احکام اور ان کے اتباع میں بڑا قریبی اور ناقابل انقطاع تعلق ہے۔ نعمت ایک صلاحیت ہے اور اس صلاحیت کا جائز اور مطلوب مصرف احکامِ الٰہی کا اتباع اور نفاذ ہے۔
اگر مومن ہر نعمت اور ہر انعام پر شکر کا راستہ اختیار کرتا ہے تو مالک السموات والارض نعمتوں اور انعام کی بارش فرماتا ہے اور یہ سلسلہ برابر بڑھتا ہی جاتا ہے۔ اور اگر غرور اور تکبر کا شکار ہو جاتا ہے‘ غفلت اور خود فریبی میں مبتلا ہو جاتا ہے‘ خیروشر کے امتیاز کو نظرانداز کرتا ہے‘ سب کچھ اپنی محنت کا حاصل سمجھنے لگتا ہے‘ دوسروں کے حقوق کو پامال کرتا ہے اور اللہ کے احکام سے صرفِ نظر کرنے لگتا ہے تو پھر یہی انعام سخت بازپرس اور پکڑ کا وسیلہ بن جاتا ہے اور انسان فراز سے پستی کی طرف لوٹ جاتا ہے۔
اس اصول کی روشنی میں متحدہ مجلس عمل کے تمام کارکنوں کا فرض ہے کہ سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر اپنے رب کے شکر کا راستہ اختیار کریں اور اس شکر کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے کمربستہ ہوجائیں۔ اسمبلیوں کی رکنیت ہماری منزل نہیں۔ اقتدار بھی ہمارا اصل ہدف اور مقصود نہیں۔ یہ سب ذریعہ ہیں اللہ کی رضا کے حصول کے لیے جدوجہد کا‘ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو پھیلانے اور سربلند کرنے کا‘ اللہ کے بندوں کی خدمت اور ان کو رب کی عبادت کی راہ پر لگانے اور مستحکم کرنے کا--- کہ مسلمان کی شان یہ ہے کہ وہ حکومت اور دولت کو ‘مطلوب نہیں‘ اصل مطلوب کے حصول کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ بلاشبہہ یہ ذریعہ بھی ضروری ہے لیکن یہ ذریعہ ہے‘ مقصود و مطلوب نہیں۔ اس لیے جو بھی کامیابی حاصل ہوئی ہے وہ مزید جدوجہد کے لیے ایک موقع اور آگے کے مراحل کی طرف پیش قدمی کا زینہ ہے۔ ابھی جو کچھ ہمیں حاصل ہوا ہے وہ اس جدوجہد کے لیے فتح باب کا درجہ رکھتا ہے‘ منزل مراد کا نہیں۔ یہ تو پہلا قدم ہے‘ عشق کے اصل امتحان تو اب شروع ہو رہے ہیں۔ جو کچھ حاصل ہوا ہے وہ اللہ کی نصرت ہے‘ اور اللہ کی نصرت کا مزید حصول اللہ سے وفاداری‘ اپنے مقاصدِ حیات کی خدمت کے لیے مزید تیاری اور جدوجہد اور اللہ کے بندوں کو دین حق کی برکات سے شادکام کرنے کے لیے قربانی اور مسلسل سعی سے ممکن ہے۔ جہاں ہمیں جتنا اختیار حاصل ہو اسے اللہ کی بتائی ہوئی حدود کے اندر‘ اللہ کے بندوں کے لیے زندگی کو آسان بنانے اور اللہ کے دین کی اطاعت کو کاروبار حیات بنانے کے لیے استعمال کرنے میں ہماری کامیابی ہے۔ یہی شکر کی اصل راہ ہے۔
ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ جو کام ہمیں انجام دینا ہے وہ حکمت اور بردباری کے ساتھ تحمل و رواداری‘ ایثار و قربانی اور خدمت اور جفاکشی کا مطالبہ کرتا ہے۔ یہ قوم نفس کے پجاریوں کے کرتوتوں کی ستم زدہ ہے۔ متحدہ مجلس عمل کے کارکنوں کو ہر سطح پر اعلیٰ کردار اور بے لوث خدمت کی نئی مثالیں قائم کرنا ہے تاکہ دنیا پرستوں اور دین کے نام لیوائوں کا فرق ان کے سامنے آسکے اور آپ کی اچھی مثال سے روشنی کے نئے چراغ روشن ہوں۔ جو کچھ آج حاصل ہوا ہے کل اس سے کہیں زیادہ کامیابیاں آپ کا مقدر ہو جائیں اور یہ مظلوم قوم ترقی اور کامرانی کی راہوں کو استوار کر سکے اور عزت کا مقام حاصل کر سکے۔ حکمت اور تدریج‘ انصاف اور حق پرستی‘ عجزوانکسار اور جہدمسلسل ہی کامیابی کا راستہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے اس انعام پر اس کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے ۔ضروری ہے کہ قلب و نظر سے شکرادا کرنے کے ساتھ ساتھ ہم سب اس لائحہ عمل پر سختی سے قائم ہو جائیں جو اس شکر کا لازمی تقاضا ہے۔ ملک شدید خطرات میں گھرا ہوا ہے۔ ہمیں اپنی قوت اور اثرات کو بھی بڑھانا ہے اور ملک کو بھی ان مشکلات سے نکالنا ہے جن کی گرفت میں وہ ہے‘ یہ مشکلات اندرونی بھی ہیں اور بیرونی بھی۔ ان سے مرحلہ وار ہی نبردآزما ہوا جا سکتا ہے۔ اس لیے جہاں وژن کے باب میں مکمل یکسوئی اور استقامت ضروری ہے وہیں تدبیر منزل کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے صحیح حکمت عملی اور بروقت اقدام بھی ضروری ہیں۔ خود کو اس عظیم کام کے لیے فرداً فرداً اور اجتماعی طور پر بھی تیار کرنا ضروری ہے تاکہ مسائل کے عقدے حل ہو سکیں اور عوام اسلام کی وفاشعار قیادت اور محض دنیاپرست قیادتوں کے فرق کو محسوس کر سکیں اور اچھی قیادت کے ہاتھوں اچھی حکومت اور خادم خلق طرزحکمرانی کے ثمرات سے فیض یاب ہو سکیں۔
متحدہ مجلس عمل کی اس پہلے مرحلے کی کامیابیوں سے ملک کے کچھ حلقوں میں اور اس سے بھی زیادہ بیرونی دنیا میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگی ہیں۔ ہمیں نہ ان کو نظرانداز کرنا چاہیے اور نہ ان سے خائف ہونے کی کوئی وجہ ہے۔ پھر یہ کوئی نئی چیز بھی نہیں۔ اسلامی قوتوں کو ہر دور میں اور ہر مقام پر انھی مراحل سے گزرنا پڑا ہے۔ البتہ ہمیں صبرواستقامت کے ساتھ حلم و حکمت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ تیاری کے بغیر تصادم بہادری نہیں‘ حماقت ہے۔ میدانِ جنگ سے فرار جرم ہے تو جنگ کے وقت‘ میدان‘ صلاحیت اور آداب ہر ایک کے باب میں صحیح حکمت عملی‘ مناسب تیاری اور بروقت اقدام کے اہتمام سے اغماض بھی کچھ کم جرم نہیں۔ سیاست کا معاملہ بھی اس سے کچھ مختلف نہیں کہ جہاد محض میدان جنگ کی جدوجہد کا نام نہیں بلکہ زندگی کی تمام وسعتوں میں دین کے پیغام کو پہنچانے اور اللہ کی مرضی کو اللہ کے بندوں پر قائم کرنے کی جدوجہد کا نام ہے۔ اگر ہماری سیاست اللہ کے دین کے قیام کے لیے ہے تو یہ بھی جہاد ہی کا ایک حصہ ہے۔
راے عامہ کی تبدیلی سے لے کر راے عامہ کے ذریعے تبدیلی اسی جدوجہد کے مختلف مراحل ہیں۔ اس لیے ہم متحدہ مجلس عمل سے وابستہ تمام ساتھیوں کو جہاں مسلسل نفس کے تزکیے اور اللہ سے تعلق اور استعانت کی نصیحت کرتے ہیں‘ وہیں یہ درخواست بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ اپنی حکمت عملی پورے غوروفکر اور باہمی مشاورت سے مرتب کریں اور پوری جانفشانی اور محنت سے پارلیمانی نظام کے ذریعے تبدیلی لانے کے لیے خود کو تیار کریں اور قوم کے سامنے ایک نیا اور اعلیٰ نمونہ قائم کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑیں۔
حالات پر اثرانداز ہونے کا جو موقع میسر آئے اور خدمت کی جو صورت بھی بن پڑے اس میں ہمارا کردار منفرد ہونا چاہیے۔ دینی قوتوں کے اتحاد کو قائم رکھنا اور مزید مستحکم کرنا اور تمام اچھے انسانوں کو اپنے ساتھ ملانا وقت کی ضرورت ہے۔ مرکز اور صوبوں میں‘ جہاں جو شکل بھی بنے‘ یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ایک نئے دور کے نقیب بن جائیں اور ایک ایسے طرزِحکمرانی کو رائج کرنے کا ذریعہ بنیں جس کے نتیجے میں پاکستان میں انصاف کا بول بالا ہو‘ لوگوں کے دکھ کم ہوں‘ اور جو خواص (elitist) کا معاشرہ قائم ہو گیا ہے اس کی جگہ ایک ایسا سماج وجود میں آئے جس میں کمزور کو وہ قوت فراہم کی جا سکے کہ اس کا حق اسے مل سکے اور دوسروں کا حق مارنے والوں پر ایسی گرفت ہوسکے کہ وہ دوسروں کے مال‘ جان‘ آبرو پر دست درازی کی ہمت نہ کرسکیں۔ دنیا ہمیں ہمارے دعووں سے نہیں ہمارے عمل اور نمونے سے جانچے گی۔ اب ہم جتنا بہتر نمونہ پیش کریں گے‘ آگے کی منزلیں اتنی ہی آسان ہو سکیں گی۔ آپ زمین کا نمک اور پہاڑی کا چراغ بنیں گے تو یہ زمین نعمتیں اگلنے والی زمین بنے گی اور یہ معاشرہ تاریکیوں سے نکل کر روشنی کا گھر بن سکے گا۔
۱۰ اکتوبر کے انتخابات کے نتیجے میں تبدیلی اور اصلاح کا ایک بند دروازہ کھلا ہے۔ ہماری جدوجہد اب ایک نئے مرحلے میں داخل ہو رہی ہے۔ اس دور کے تقاضوں کو سمجھنا اور ان کو پورا کرنے کے لیے نئے عزم سے سرگرم عمل ہونا آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے ع
ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا
سب سے پہلی بات جو سمجھ لینی چاہیے وہ یہ ہے کہ جس چیز کا نام اسلامی نظام ہے وہ کسی بے ایمان اور بدکردار حکومت کے ہاتھوں سے نہیں چل سکتا۔ کوئی خدا سے بے خوف بیوروکریسی اسے نہیں چلا سکتی۔ کسی ایسی آبادی میں وہ ٹھیک طور پر نہیں چل سکتا جس کی اخلاقی حالت بالعموم خراب ہو اور خراب کی جاتی رہی ہو۔……
اگر کوئی اسلامی حکومت قائم ہو تو یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ چھوٹتے ہی مثالی نظام کی طرف پلٹ جائے گی۔ آغاز کار میں اگر کچھ ہو سکتا ہے تو وہ اس کے بغیر نہیں ہو سکتا کہ حکومت ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ہو جو ملک کے تمام ذرائع و وسائل‘ ملک کے تمام ذرائع ابلاغ‘ ملک کے سارے نظامِ تعلیم‘ اور حکومت کی پوری انتظامی پالیسی کو اس غرض کے لیے استعمال کریں کہ مسلمانوں میں اسلام کا علم وسیع پیمانے پر پھیلایا جائے اور ان کی عام اخلاقی حالت کو درست کیا جائے۔ جس قدر اسلام کا علم پھیلے گا اور عام اخلاقی حالت درست ہوتی جائے گی اتنی ہی زمین اسلامی نظام کے لیے تیار ہوتی چلی جائے گی۔
یہی چیز تھی جس کی ہم توقع رکھتے تھے کہ اگر انگریزی حکومت کے خاتمے کے بعد جب پاکستان کی حکومت مسلمانوں کے ہاتھ میں آئے گی تو وہ اس طریق کار کو اختیار کرے گی۔ ذرائع ابلاغ کی پوری طاقت عام مسلمانوں میں ایمان اور صحیح اسلامی اخلاق پیدا کرنے کے لیے استعمال کرے گی۔ نظامِ تعلیم کو ایک اسلامی حکومت اور اسلامی معاشرے کے کارکن اور شہری تیار کرنے کے قابل بنایا جائے گا۔ الحاد پیدا کرنے والی تعلیم کو بدلا جائے گا اور اس کی جگہ خدا پرستی کی تعلیم کو رائج کیا جائے گا۔ عام لوگوں کے اندر حلال و حرام کی تمیز پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ مگر یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ان میں سے کوئی توقع بھی پوری نہیںہوئی۔ اگر اُس وقت حکومت اپنے تمام ذرائع و وسائل کو اِس کام کے لیے استعمال کرتی تو آج حالت بالکل مختلف ہوتی۔
اب ہمیں گویا بالکل نئے سرے سے کام کرنا ہے۔ بے شک اسلامی قوانین کو نافذ کرنے کی کوشش کیجیے۔ قوانین اسلامی کو مدون بھی کیجیے تاکہ ہماری عدالتیں ان کے مطابق فیصلے کر سکیں۔ مگر بس یہی ایک کام ایسا نہیں ہے جس سے اسلامی نظام قائم ہو جائے۔
سب سے زیادہ زور جس بات پر صَرف کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ ہمارے تمام ابتدائی اور ثانوی مدرسوں اور ہمارے تمام کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں اسلامی تعلیم دی جائے۔ ذرائع ابلاغ کو فحش اور بے حیائی‘ بداخلاقی اور جرائم پھیلانے کے بجائے مسلمانوں کو ایمان اور اسلامی عقائد سمجھانے اور ذہن نشین کرنے پر صَرف کیا جائے۔ عام لوگوں کو یہ بتایا جائے کہ اسلامی اخلاق کیا ہیں اور کافرانہ اخلاق کیا اور دونوں قسم کے اخلاقوں میں فرق کیا ہے۔
اسلامی نظام تو قائم ہی اس معاشرے میں ہوا تھا جس کے اندر سب سے پہلے ایمان کو مستحکم کیا گیا تھا‘ پھر اسی ایمان کی مضبوط بنیاد پر پورے اخلاقی نظام کی‘ پورے معاشرتی نظام کی‘ پورے معاشی نظام کی‘ پورے سیاسی نظام اور پورے قانونی نظام کی عمارت اٹھائی گئی تھی۔ اب اگر ہم اس مثالی دور کی طرف پلٹنا چاہتے ہیں تو ہمیں اسی ترتیب سے پلٹنا چاہیے۔
عام مسلمانوں کے دلوں میں اگر خدا پر ایمان‘ رسولؐ پر ایمان‘ قرآن پر ایمان اور آخرت پر ایمان مضبوطی کے ساتھ نہ بٹھایا گیا تو محض قوانین کو بدلنے سے کام نہ چلے گا۔ آپ جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں جھوٹے مقدمات بنانے میں پولیس اتنی مہارت رکھتی ہے کہ وہ ساری دنیا کو چیلنج دے سکتی ہے کہ ہمارے مقابلے میں کوئی جھوٹا مقدمہ بناکر دکھائے۔ گواہوں کا حال یہ ہے کہ عدالت میں جا کر صحیح گواہی دینا گویا گناہ سمجھا جاتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ عدالت تو ہے ہی جھوٹی شہادت دینے کی جگہ۔
پولیس خود بھی جھوٹے گواہوں کا ایک پورا گروہ تیار رکھتی ہے۔ یہی دو چیزیں اگر نگاہ میں رکھی جائیں تو آپ اندازہ کر لیجیے کہ ہمارے ہاں اسلامی قانون صحیح طور پر کیسے نافذ ہوگا‘ جب کہ اس کو نافذ کرنے والی مشینری ہی بگڑی ہوئی ہے۔ قوانین اسلامی کے نفاذ کی تدبیریں کرنے کے ساتھ موجودہ حکومت کے لیے بھی اور آیندہ آنے والے حکمرانوں کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ ملک کی انتظامیہ کو بھی درست کریں۔ تعلیم کے نظام کی بھی اصلاح کریں اور ملک کے تمام ذرائع و وسائل کو اس بات پر صَرف کر دیں کہ مسلمانوں کے دلوں میں ایمان بٹھایا جائے۔ ان کے اخلاق درست کیے جائیں اور ان کے اندر خدا کا خوف پیدا کیا جائے۔
اسلامی قانون میں ڈنڈے کا بھی ایک مقام ہے مگر وہ سب سے آخر میں آتا ہے۔ اسلام میں ترتیب ِ کار یہ ہے کہ پہلے ذہنوں کی اصلاح کا کام تعلیم و تلقین کے ذریعے سے کیا جائے تاکہ لوگوں کے خیالات تبدیل ہوں۔ پھر لوگوں کے اندر اسلامی اخلاق پیدا کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر کام کیا جائے۔ یہاں تک کہ محلے محلے ‘ بستی بستی اور کوچے کوچے میں ایسے لوگ تیار ہو جائیں جو بدکرداروں کو عوام کی مدد سے دبائیں اور اپنے اپنے علاقے کے باشندوں میں دین داری اور دیانت داری پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ اس طرح ملک کے اندر ایک ایسی راے عام پیدا ہو جائے گی جو برائیوں کو سر نہ اٹھانے دے گی۔ کوئی شخص ایسی راے عام کی موجودگی میں بگڑنا چاہے گا تو اس کے راستے میں بے شمار رکاوٹیں پیدا ہو جائیں گی اور جو شخص صحیح طرز زندگی اختیار کرے گا اس کو پورا معاشرہ مدد دینے والا ہوگا۔
اس کے ساتھ اسلام یہ بھی چاہتا ہے کہ معاشرہ ایسا ہو جس کے لوگ ایک دوسرے کے ہمدرد اور غم گسار ہوں۔ ایک دوسرے کی مصیبت میں کام آنے والے ہوں۔ ہر شخص انصاف کا حامی اور بے انصافی کا مخالف ہو۔ ہرشخص اپنا پیٹ بھرنا حرام سمجھے اگر اس کو معلوم ہو کہ اس کا ہمسایہ بھوکا سو رہا ہے۔ پھر اسلام ایک ایسا معاشی نظام بھی قائم کرتا ہے جس میں سود حرام ہو‘ زکوٰۃ فرض ہو‘ حرام خوری کے دروازے بند کردیے جائیں۔ رزق حلال کمانے کے لیے تمام مواقع لوگوں کے لیے کھول دیے جائیں اور کوئی آدمی اپنی ضروریاتِ زندگی سے محروم نہ رہنے پائے۔ ان تدابیر کے بعد ڈنڈے کا مقام آتا ہے۔ ایمان‘ اخلاق‘ تعلیم‘ انصاف‘ اصلاح معیشت‘ اور ایک پاکیزہ راے عام کے دبائو سے بھی جو آدمی درست نہ ہو تو وہ ڈنڈے ہی کا مستحق ہے۔ اور ڈنڈا پھر اس پر ایسی بے رحمی کے ساتھ علی الاعلان چلایا جائے کہ ان تمام لوگوں کے دماغ کا آپریشن ہو جائے جو جرائم کے رجحانات رکھتے ہوں۔
لوگ بڑا غضب کرتے ہیں کہ اسلام کے پروگرام کی ساری تفصیل چھوڑ کر صرف اس کی سخت سزائوں پر گفتگو شروع کر دیتے ہیں۔ اسلام پہلے عام لوگوں میں ایمان پیدا کرتا ہے۔ پھر عوام کے اخلاق کو پاکیزہ بناتا ہے۔ پھر تمام تدابیر سے ایک ایسی مضبوط راے عام تیار کرتاہے جس میں بھلائیاں پھلیں پھولیں اور برائیاں پنپ نہ سکیں۔ پھر معاشرتی‘ معاشی اور سیاسی نظام ‘ ایسا قائم کرتا ہے جس میں بدی کرنا مشکل اور نیکی کرنا آسان ہو جائے۔ وہ ان تمام دروازوں کو بند کر دیتا ہے جن سے فواحش اور جرائم نشوونما پاتے ہیں۔ اس کے بعد ڈنڈا وہ آخری چیز ہے جس سے ایک پاک معاشرے میں سراٹھانے والی ناپاکی کا قلع قمع کیا جا تا ہے--- اب اس سے بڑا ظالم اور کون ہو سکتا ہے کہ ایسے برحق نظام کو بدنام کرنے کے لیے آخری چیز کو پہلی چیز قرار دیتا ہے اور بیچ کی سب چیزوں کو نگل جاتا ہے (نبیؐ کا نظام حکومت اور پاکستان میں اس کا نفاذ‘ ریڈیو پاکستان کے لیے انٹرویو: ناصر قریشی‘ ص۱۷-۲۱)۔
یَابَاغِیَ الْخَیْرِ اَقْبِلْ ___ اے نیکی کے طلب گار آگے بڑھ!! سعادتوں اور عظمتوں‘ برکتوں اور مغفرتوں کے وہ سعید لمحے ‘ وہ جانفزا شب و روز‘ وہ رُوح پرور نظارے پھر سے اس کائنات پر جلوہ فگن ہونے والے ہیں‘ جن کی عظمتوں کا کوئی حساب نہیں‘ جن کی برکتوں کا کوئی شمار نہیں!! یہ خبر یقینا تیرے قلب و جاں کے لیے باعث راحت و سکون ہوگی کہ فضیلتوں کا حامل شہرعظیم ___رمضان___ ایک بار پھر تیری زندگی کے مستعار لمحوں میں تجھے اپنی نجات کا سامان کرنے کی دعوت دینے سایہ فگن ہونے والا ہے۔ وہی مہینہ جس کی آمد پر سرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم جھوم اٹھتے۔ شعبان کے آخری دنوں میں خطبہ ارشاد فرماتے___!
قَدْ اَظَلَّکُمْ شَھْرٌعَظِیْمٌ مُبَارکٌ ___ لوگو! تم پر ایک عظیم اور مبارک مہینہ اپنی عظمتوں اور برکتوں کا سائبان کھولنے آ رہا ہے___!
یقینا یہ مہینہ عام مہینوں سا‘ اس کے شب و روز عام دنوں کی طرح ہیں___ اُن لوگوں کے لیے جو اُس کی عظمت سے ناآشنا ہیں! اپنی عاقبت و آخرت کی بجائے‘ دنیا کی زیب و زینت کے شکار‘ اس کی زُلفِ گرہ گیر کے اسیر‘ اس کے پیچ و خم میں اُلجھے ہوئے‘ اس کو کمانے کی فکر میں غلطاں و پریشاں‘ اسی کی دوڑ میں بگٹٹ بھاگے چلے جا رہے اور اسی کی محبت میں ہلکان ہو رہے ہیں۔ وہ لوگ جو مقصدِحیات کے شعور سے عاری‘ زندگی کی قدروقیمت سے غافل اور حیاتِ مستعار کی قیمتی ساعتوں کی اہمیت سے بے خبر ہیں۔ یقینا اُن کے لیے یہ مہینہ عام سا ہے___!
لیکن ___ اے نیکی کے طلب گار! یہ شہرعظیم ___ تیرے لیے بے شمار نعمتوں اور سعادتوں کا پیام لارہا ہے___ ! کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْصِّیَامُ___ روزے پہلی اُمتوں کی طرح سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہراُمتی پر فرض کر دیے گئے ہیں۔ جسے اپنی زندگی میں یہ سعید لمحے میسر آجائیں ‘ اس کی خوش بختیوں اور نیک نصیبوںکے کیا کہنے___! اس پر لازم ہے کہ فَلْیَصُمْہُ ___ وہ روزے ضرور رکھے!!
اے نیکی کے طلب گار ___ ! تو بڑا خوش نصیب ہے ‘ جو اس عظیم موقع سے فیض یاب ہو رہا ہے___ ورنہ کتنے ہی اللہ کے بندے اس تمنا کو دل میں چھپائے اپنے رب کے حضور حاضر ہو گئے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون! آگاہ و خبردار رہ‘ ہوشیار ہو جا کہ ان سعید ساعتوں سے فیض یاب ہونے میں کوتاہی نہ ہونے پائے۔ زندگی کا کیا بھروسا! یہ مبارک لمحے پھر میسر آئیں یا نہ آئیں! کمرہمت باندھ لے۔
اے بندئہ مسلم! اطاعت و تسلیم کے خوگر مومن! رمضان تیری تسلیم و رضا کا اظہار بھی ہے___! تو نے اسلام قبول کر کے شعوری طور پر خود کو مالکِ ارض و سما کے حوالے کر دیا۔ اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ‘ حَنِیْفاً ___ اس کامل عبودیت اور یکسوئی کا تقاضا ہے کہ اپنے آقا و مولا کے فرض کردہ اس حکم پر عمل کے لیے کمربستہ ہو جا___ بُنِیَ الِاسْلاَمُ عَلٰی خَمْسٍ___ شَھَادَۃُ اَنْ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ… وَصَومُ رَمضَانَ… آنحضورؐ کا یہ فرمانِ عالی شان تیرے پیش نظر رہنا چاہیے کہ روزہ اسلام کی بنیادوں میں سے ہے۔ اس کے بغیر تیری بندگی اور اطاعت نامکمل ہے! اسلام اپنے ماننے والوں کو جس عظیم مقصدِحیات ___ کلمۃ اللّٰہ ھی العلیا ___ اللہ کے کلمے کا غلبہ___ اُسی کے حکم کا چلن‘ اُسی کے دستور و قوانینِ حیات کا نفاذ___ اُسی کو حلال و حرام کا اختیار‘ اُسی کی رضا کی طلب___ اُسی کی عظمت‘ اُسی کی کبریائی سے آگاہ کرتا‘ اور اُسے بجا لانے کا تقاضا کرتا ہے۔ روزہ اُسی جہاد کی تربیت کا ایک پہلو اور نشانِ منزل ہے۔ بندئہ مومن و مسلم کے خلوص کا اظہار اور آقا و مولا کی قبولیت کا اعلان! اللہ نے اس ماہِ تقدس کے روزوں کو فرض اور نالۂ نیم شبی کو بندے کے اظہار عبدیت کا نشان قرار دیا ہے۔ جَعَلَ اللّٰہُ صِیَامَہٗ فَرِیْضَۃً ___ وَقِیَامَ لَیْلِہٖ قَطُوَّعاً ___! تطوع___ قرآن و حدیث کی اصطلاح میں بندے کی وارفتگی اور پُرخلوص وابستگی کا عملی اظہار ہے۔
فرض عبادت تو بہرطور کرنا ہی ہے کہ اس کے بغیر ایمان مکمل نہیں۔ اسلام میں داخلہ پورا نہیں۔ جیسے جیسے اے بندئہ مومن تیرا دل رب سے آشنا ہوتا چلا جائے‘ تیری راتیں بے قرار ہو جائیں‘ تیرے سینے میں عبدیت کے اظہار کے مظاہر مچلنے لگیں‘ تیرے جسم کو تیرے بستر پر سکون نہ ملے‘ تو تڑپ تڑپ کر رات کے اندھیروں میں بارگاہ رب العزت میں قیام و سجود‘ دعا و مناجات‘ حمدوثنا‘ تسبیح و استغفار میں مشغول ہو جائے۔ کوئی دیکھنے والا نہ ہو‘ اس کے سوا۔کوئی سننے والا نہ ہو‘ اُس کے بجز___ وہ اور تو___ آمنے سامنے! اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَانَّکَ تَرَاہُ ___! ایسے جیسے مالک و مختار‘ آقا و مولا نگاہوں کے سامنے بالکل پاس۔ اگر تجھے شعور کی یہ دولت نصیب ہو جائے تو یاد رکھ: نَحْنُ اَقْرَبُ اِلیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ‘ ہم تو اپنے بندے کی شہ رگ سے بھی قریب تر ہیں___ اگر تو اُسے اپنے سامنے‘ قریب نہیں پاتا‘ محسوس نہیں کرتا‘ بھٹکتا رہتا ہے___ تو بتا___ قصور تیرا ہے یا اُس کا جو تیری رگِ جاں سے قریب‘ تیری ایک پکار پر لبیک کہنے‘ نچھاور ہوجانے کے لیے تیار___ اِذَا سَئَالَکَ عِبَادِیْ عَنِّی فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ___ تیری دعائوں کے ایک ایک لفظ کو پورا کرنے والا___ آمادہ و تیار___ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَ ادَعَانِ ___ !اے نیکیوں کے طلب گار! رمضان کی راتوں میں___ آگے بڑھ اور محبتوں کے اس غیر رسمی تقاضے کی تکمیل کا پختہ ارادہ کر لے! رسمی ایمان کے تقاضے یقینا کچھ اور ہیں اور محبت‘ اطاعت اور تسلیم و رضا کی تکمیل کے مظاہر کچھ اور___ ! مَن کی اسی موج اور عبدیت کے اسی اظہار کے تقاضے نے کائنات کے سب سے محترم‘ معظم اور معصوم عن الخطاء صلی اللہ علیہ وسلم کو بارگاہِ الٰہی میں اَفَلاَ اَکُونَ عَبْدًا شَکُوْرًا ___ کے جذبے کے ساتھ راتوں کو کھڑا ہونے پر مجبور کر دیا___!
اے نیکیوں کے طلب گار! رمضان کی ان خوب صورت ساعتوں میں خود کو قیام اللیل کا اس قدر خوگر بنالے کہ تجھے اس کے سوا چین نہ آئے‘ کسی پل قرار نصیب نہ ہو۔ راحت ِ دل اور سکونِ جاں تجھ سے روٹھ جائیں___ سکون اور قرار ملے___ تو فرائض سے کہیں بڑھ کر نوافل کی ادایگی اور عبدیت کے اظہار کے ان بے لوث جذبوں اور طریقوں میں! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان خَصْلَۃٌ مِنَ الْخَیْر ___ کا یہی مفہوم ہے! اَلاَ بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلوبُ ___ کا اس سے کارگر اور بہتر طریقہ اور کوئی نہیں۔ سکون و اطمینان‘ یکسوئی اور فراغت کے ان لمحوں میں اپنے رب سے ہم کلامی‘ رضاجوئی اور مغفرت طلبی سے مبارک کام شاید ہی کوئی اور ہو!
رمضان ___ شَھْرُ الصَّبْرِ ___ صبرواستقامت کا مہینہ ہے۔ اس میں انجام دی جانے والی عبادت کا نام ’’صوم‘‘ ہے۔ اس کے معنی باز رہنا‘ ترک کر دینا اور چھوڑ دینا___ یہ حقیقت تو بڑی واضح ہے کہ اللہ کو اپنے بندے کا کھانا پینا چھوڑ دینا ہرگز مطلوب نہیں‘ یہ تو محض ایک علامتی عمل ہے___ اطاعت و تسلیم و رضا کے اظہار کا۔ اصل مقصود تو ضبطِ نفس ہے‘ اپنی خواہشات ‘ تمنائوں اور کاموں کو ___ زندگی کے ہر لمحے کو ___ رب کے حکم کے تابع کر دینا۔ اپنے آپ پر اس قدر کنٹرول حاصل کر لینا کہ نفس کا بے لگام گھوڑا‘ اللہ و رسولؐکے مکمل سپرد اور تابع بن جائے‘ اُسی کی اطاعت کے دائرے کے کھونٹے سے بندھا رہے‘ اسی کے گرد چکر لگاتا رہے‘ اللہ کی مقرر کردہ حدود و قیود کا پابند ہو جائے۔ ان سے تجاوز سے گریزاں رہے‘ خواہشاتِ نفس نہ تو اُس پر غالب آئیں نہ دنیا کی زیب و زینت اور چمک دمک اُس کی نگاہوں کو خیرہ کر کے اپنے دامِ فریب میں گرفتار کر سکیں!
رمضان ___ استقامت کا مہینہ ہے! اطاعت و فرمانبرداری کے اعلان پر ڈٹ جانے کا مہینہ___ ہوا ہو گو تندوتیز لیکن‘ چراغِ حق جلائے رکھنے کا مہینہ___ ابتلا و آزمایش میں ثابت قدم رہنے کا مہینہ___ اصحاب بدر کی طرح غلبۂ حق کے لیے ہتھیلیوں پر نذرانۂ جاں لے کر ہر آگ میں کود پڑنے‘ ہر خطرے کو سہہ لینے اور ہر آزمایش میں سرخرو ہو جانے کا نام ہے___ رزمِ حق و باطل میں ۳۱۳ عالی قدر‘ پاکیزہ‘ عظمت و عزیمت کے پہاڑوں کی طرح اٹل ہو جانے کا مہینہ ہے۔
رمضان ___ اسی صبرواستقامت کے نتیجے میں قطار اندر قطار فرشتوں کے نزول‘ معاونت و موافقت اور عددی کم تری کے باوجود نصرت الٰہی کے لازوال اظہار کا مہینہ ہے۔ وَلَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ بِبَدْرٍ وَاَنْتُمْ أَذِلَّۃٌ ___ یہ کَمْ مِنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃً بِاِذْنِ اللّٰہِ ___ اللہ کے حکم سے مخلص و مومن بندوں کے چھوٹے سے گروہ کے بھاری بھرکم لشکرِباطل پر غلبہ کے معجزاتی اظہار کا مہینہ ہے! لیکن شرط وہی ہے___ ایمان‘ اخلاص‘ تسلیم و رضا‘ صبرواستقامت___! پہلا معرکۂ حق و باطل___ شریعت اسلامیہ کے پہلے ماہِ رمضان میں برپا ہوا___ بھوک اور پیاس کے ساتھ ساتھ اطاعت و فرمانبرداری کا امتحان!
نیکیوں کا وہ طلب گار جو رمضان کے مہینے میں صبرواستقامت کے ان جذبوں اور طرزعمل سے محروم وناآشنا رہے۔ اللہ کو اُس کی بھوک‘ پیاس کی کوئی حاجت نہیں‘ نہ اُس کی بارگاہ میں اِس کی کوئی قدروقیمت ہے۔ فَلَیْسَ لِلّٰہِ حَاجۃٌ اَن یَّدَعَ طَعَامَہُ وَشَرابَہُ۔
رمضان ___ شَھْرُ الْمُؤَاسَاۃ___ ہمدردی اور خیرخواہی اور غم گساری کا مہینہ___ حلقۂ یاراں میں بریشم کی طرح نرم ہو جائے‘ اللہ کی مخلوق___ اللہ کے کنبے ___ اَلخَلْقُ عِیَالُ اللّٰہِ ___ سے حسن سلوک کا مہینہ ___ اپنی بھوک پیاس پر قیاس کر کے دیگر محرومین‘ بندگانِ خدا کی ضروریات کا ادراک و احساس اور ان کی تکمیل کا مہینہ ہے۔ ہر صبح و شام سحروافطار کے لمحوں میں اِسی احساس کی بیداری کا نام کہ تمھارے دسترخوان پر سجی ہوئی خدا کی بے شمار انواع و اقسام کی نعمتیں ایک جانب ___ تو دوسری جانب کسی یتیم‘ بیوہ‘ مسکین‘ فقیر‘ حاجت مند کے گھر کا چولہا شاید نجانے کتنے دنوں سے آگ کی حدّت سے محروم ہو۔ کتنے گھروں میں فاقے ہوں‘ اور کتنے منہ نانِ جویں کے لیے ترس رہے ہوں!
اے نیکیوں کے طلب گار___ !یہی تو مہینہ ہے‘ قربانی دینے کا۔ حاجت مندوں کے دُکھ دُور اور حاجتیں پوری کرنے کا___ سیدنا علی ؓ کی طرح کئی دن کے مسلسل روزوں کے باوجود سائل کی صدا پر روٹی کے موجود چند ٹکڑے بھی قربان کر دینے کا۔ یہی تو حقیقی اہل ایمان ہیں جو یُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِھِمْ وَلَوْ کَانَ بِھِمْ خَصَاصَۃٌ۔ اپنی شدید ترین ضرورتوں کے باوجود اپنا سب کچھ اللہ کی راہ میں لٹا دیتے ہیں۔ یہ تو عظمت اور عزیمت کی داستانیںہیں___ اللہ کو تو فقط اپنے بندے کا جذبۂ اخلاص مطلوب ہے۔ اس ماہِ محترم میں ہمدردی و غم گساری اور روزہ کھلوانے کے لیے خواہ دودھ کا ایک کٹورا ہو‘ یا کھجور کا ایک ٹکڑا___ یا پھر نمک کے چند دانے___ اللہ کی بارگاہ میں اُسی طرح محترم و معزز ہیں جیسے غزوئہ تبوک کے موقع پر ایک مسلمان کی شب بھر کی کمائی چند کھجوروں کا آدھا حصہ صدیق اکبرؓ کے گھر کے ذرے ذرے اور عمر فاروقؓ کے آدھے گھریلو سامان اور عثمانؓ غنی کے ہزاروں درہم و دینار اور اناج کے ڈھیر پر بھاری تھے!
اے بھلائیوں کے طلب گار! آگے بڑھ کر اس ماہِ محترم کا استقبال کر___کہ سعادتوں اور برکتوں کے یہ مواقع صرف تیری قسمت بنانے‘ تیرے نصیب جگانے کے لیے تجھے عطا کیے جا رہے ہیں۔ یقینا شیطان اپنی چالوں کو آزمائے گا۔ تجھے اپنی ضرورتوں کا شدت سے احساس دلائے گا___مگر یہ یاد رکھ___ اس مہینے میں ہر نیکی کا اجر ۷۰۰ گنا سے بھی زیادہ بڑھا دیا جاتا ہے۔ اور ارشاد نبویؐ ہے: شَھَرُ یُزَادُ فِیْہِ رِزْقُ الْمُؤْمِنِیْنِ ___ اس مہینے میں مومن کا رزق معمول سے کہیں زیادہ کر دیا جاتا ہے___ ذراسوچو!___ چند کھجوروں‘ روٹی کے ٹکڑوں اور استطاعت کے مطابق مسکینوں اور ضرورت مندوں کی حاجت روائی کے عوض یہ سودا کس قدر نفع بخش ہے!! اور پھر آخرت کی مصیبتوں اور تکلیفوں میں سے کسی مصیبت اور تکلیف سے نجات___ سونے پر سہاگہ۔ مَنْ فَرَّجَ عَنْ مُسلمٍ کُرْبَۃً… فَرَّجَ اللّٰہُ عَنْہُ کُرْبَۃً مِنْ کُرْبَاتِ یَومِ القِیَامَۃِ!!
کُتِبَ عَلَیْکُمْ الصِّیَامُ … لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ‘ اہل ایمان پر روزوں کی فرضیت کا ایک مقصد انھیں تقویٰ کا خوگر بنانا ہے۔ وہ جذبہ و احساس اور شعور بیدار کرنا ہے کہ وہ کارزارِ حیات میں سنبھل سنبھل کر چلیں‘ اپنے دامن کو بچا بچا کر دنیا کی شاہ راہوں پر سے گزریں‘اس کی گندگی اور آلودگی سے اپنی قباے کردار کو محفوظ رکھیں___ تقویٰ یقینا مختلف مظاہر رُسوم میں نہیں‘ نہ ہی عباو قبا‘ نہ تسبیح ومحراب اور نہ ظاہر کے مخصوص انداز میں پوشیدہ ہے۔ تقویٰ کا مرکز تو دل ہے‘ دل و نگاہ جو مسلمان نہیں‘ خوفِ خدا سے لبریز نہیں‘ اس کی حیا دامن گیر نہیں___ تو کچھ نہیں!!تقویٰ تو اِس احساس کا نام ہے کہ بندئہ مومن زندگی کے تمام اُمور سرانجام دیتے ہوئے‘ فرار کی ہر راہ سے بچتے ہوئے‘ جملہ فرائض ادا کرتے ہوئے‘ تمام ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے___ ہرقدم‘ ہر موڑ‘ ہر گامِ حیات پر___ اللہ کی عزت و عظمت‘ جلال و جبروت‘ اختیار واقتدار‘ طاقت و حکومت‘ سماعت و بصارت‘ حکمت و غلبے کے جملہ تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی فکر اور عمل کو اس کے احکام کے تابع اور اس کی مرضی و منشا کے مطابق رکھے ___ ! تقویٰ___ بندئہ مومن کے اس جذبے کا نام ہے کہ اُس کا رب اُسے وہاں نہ پائے جہاں جہاں سے اُس نے اُسے روک رکھا ہے۔ لَا یَرَاکَ مَوْلاَکَ حَیْثُ یَنْھَاکَ ۔ اے بھلائیوں کے متمنی اور نیکیوں کے طلب گار!!
رمضان اسی تقویٰ کی افزایش اور نشوونما کا چند روزہ آفاقی تربیتی نصاب ہے! اَیَّامًا مَعْدُوْدَاتٍ___ یہ چند روزہ مسلسل تربیت اس امر کا تقاضا ہے کہ رب کی رضا اور نیکیوں کے حصول کے لیے یہی صراطِ عمل تجھے اپنی زندگی کے باقی دنوں‘ شب و روز اور ماہ و سال میں اختیار کرنا ہے۔
یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلاَ یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ ___ اللہ کریم رؤف الرحیم نے تیرے لیے اس نصاب کو حددرجہ آسان کر دیا ہے!جس دین میں تو داخل ہوا‘ جسے تو نے اختیار کیا___ وہ تودین فطرت ہے‘ تیری ضرورتوں‘ وسعتوں اور طاقتوں‘ مزاج‘ ماحول اور نفسیات کے مطابق___ کوئی بھی تعلیم‘ ہدایت اور حکم ایسا نہیں جو بندئہ مومن و مسلم مخلص پر گراں ہو___ ! الْدِّیْنُ یُسْرٌ ___ دین تو سراسر آسان ہے۔ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے وارثانِ دین متین کو یہی ہدایت فرمائی۔ یَسِّرَا وَلَا تُعَسِّرَا ___ دین کو آسان بنائو‘ مشکل نہیں۔ بَشِّرَا وَلَا تُنَفِّرَا ___بشارتیں بانٹو‘ نفرتیں نہیں___ !! تو اے بندۂ مومن! تیرے آقا و مولا نے رمضان کی بے حد وحساب فضیلتوں والی ساعتوں میں تیرے لیے کتنی ہی آسانیاں پیدا کر دیں___ کوئی مریض ہو یا مسافر___ روزہ نہ رکھ سکے تو___ فَعِدَّۃًٌ مِنْ اَیَّامٍ اُخَرٍ___ اپنی آسانی کے مطابق پھر کبھی جب ممکن ہو___ روزے رکھ کر ایک مہینے کی گنتی پوری کر لو___ ! اور اگر اس کی استطاعت نہ ہو___ تو پھر اللہ کے کچھ بندوں کو اپنی حیثیت کے مطابق کھلا کر___ فدیے کے ذریعے اس محرومی کی تلافی کر لو!
لیکن یاد رکھو___ ! یہ تو رخصت ہے۔ اصحاب عزیمت رخصتوں کے نہیں عظمتوںکے طلب گار رہتے ہیں___ نیکیوں اور بخششوں کے تمنائی تو زندگی کی محدود ساعتوں کے ہر لمحے کو نیکیوں کے حصول میں صرف کرنے کو ترجیح دیتے ہیں___ قرآن کی رہنمائی بھی یہی ہے۔ وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَکُمْ ___ اگر تم رخصتوں کے باوجود روزے رکھ لو___ تو تمھارے کیا کہنے___ ! تمھارے اجر و ثواب کی کیا ہی بات ___ تمھارے لیے سراسر خیر اور بھلائی___ !! اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ___ عارضی راحت و آرام تو رخصت اختیار کرنے میں ہے‘ مگر سکون قلب اور روحانی راحت___ تو راہ عزیمت اختیار کرنے میں ہی ہے۔ اگر تمھیں اس کے بارے میں علم ہو جائے! اور یہ شعور و آگہی ___ اے نیکیوں کے طلب گار! اگر تیری طلب صادق اور جذبے پُرخلوص ہوں تب ہی یہ تجھے حاصل ہو سکتے ہیں!
اے بھلائیوں کے متمنی ___ !تیرے لیے رمضان کی صورت میں نیکیوں کی فصل بہار میں رحمتوں کے گل و گلزار اس لیے سجائے گئے کہ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ ___ یہ مہینہ بھی عام مہینوں جیسا ___ ہزاروں سال سے اس کے شب و روز بھی یکساں قدروقیمت کے حامل___ مگر اسے یہ عظمت اور تقدس اُسی وقت حاصل ہوا جب تاجدار نبوتؐ اپنی عمر عزیز کے اکتالیسویں سال اُتر کر حرا سے سوئے قوم آئے اور اپنے ہمراہ آفاقی‘ الہامی اور ابدی نسخۂ کیمیا ساتھ لائے: اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ o خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍo اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ o الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ o عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ ___ یہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوتِ ہادی___ بلاشبہہ اس دعوت اور صدا نے ساری سرزمین عرب ہلا دی! جھوٹے خدائوں کی خدائی___ انسان پر انسان کی حاکمیت___ ظلم‘ جبر‘ ناانصافی‘ بدامنی‘ توہین انسانیت‘ ذلت و رسوائی‘ حقوق غصبی‘ بداخلاقی‘ فحش و بے حیائی‘ لامحدود گمراہیوں اور پستیوں کے پھیلے ہوئے بدترین منحوس سائے اور اس کے نتیجے میں ظَھَرَالفَسَادُ فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ___ خشکی و تری___ ہر جگہ‘ ہر قوم‘ ہر تہذیب‘ ہر رنگ‘ ہر نسل اور ہرعلاقے میں ضلالت کی بھڑکتی ہوئی آگ اور فکری‘ عملی‘ اخلاقی‘ سیاسی‘ معاشی‘ معاشرتی___ فَسَادَ ___ کے عالم میں ایک شان دار‘ ہمہ گیر اور عالم گیر انقلاب کا پیش خیمہ ___ نقطۂ آغاز ___ صراطِ مستقیم___ راحت ِ قلب و نظر‘ ہدایت فکروعمل ___ ھُدًی لِّلنَاسِ___ انسانیت کے لیے تاابد سرچشمۂ ہدایت___ اس کے دکھوں کا مداوا شِفَا ئٌ لِّلنَاسٍ ___ حق و باطل کے مابین حدِّفاصل‘ امتیاز اور فرق___ الفرقان___ عبرت ونصیحت کا مرقع___ منشاے الٰہی کا بیان___ البیان___ القرآن___ مبارک ذکر___ بے ریب و بے شک___ ذٰلِکَ الْکِتَابُ لَا رَیْبَ فِیْہِ ___ اپنے نازل کرنے والے کی لاریب ذات‘ اپنے نزول کے مرکز کی صداقت و امانت کے مسلّمہ کردار اور اپنے پیامبر___ وحی لانے والے جبریل ؑامین کی اطاعت و امانت کی مجسم دلیل___ اور اپنی تعلیمات کی حقانیت و صداقت اور انسانیت کی ہمہ پہلو‘ جامع و مکمل رہنمائی کی شہادت‘ ناطقہ بن کر ظہور پذیر ہونے والے ___ قرآن عظیم___ کے آغازِ نزول کا مہینہ!!
رمضان کی یہ عزت و عظمت ___ یہ قدرومنزلت___ یہ شرف و مرتبت___ اسی نعمت ِ تمام کے باعث ___ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ ___ میں نے تمھارے لیے اپنا پسندیدہ ‘ مرغوب‘ مطلوب اور برحق دین اسلام___ اس قرآن کی نعمت عظمیٰ کی صورت میں‘ اس کی آیات کے حوالوں میں ___ مکمل کر دیا۔ یہی سب سے بڑی نعمت و احسان ہے اللہ رب العالمین کا اپنے بندوں پر۔ زندگی گزارنے کا سامان تو جانور بھی بالآخر کر ہی لیتا ہے۔ پہاڑوں کے غاروں میں بسنے والے درندوں‘جنگل اور بیابانوں میں رہنے والے وحشیوں‘ پتھر کے اندر‘ سمندر کی تہوں اور زمین کی گہرائیوںمیں موجود کیڑے مکوڑوں ‘ آسمان کے پرندوں___ ہر کسی کو وہ اپنے فضل و کرم سے رزق تو عطا کر ہی دیتا ہے___ وَمَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرضِ اِلاَّ عَلَی اللّٰہِ رِزْقُھا۔ لیکن اللہ کا اصل احسان___ اور انعام تو___ ہدایت___ کا یہی سرچشمہ ہے۔ جو اُس نے فقط اپنے بندوں کو ___ انسانوں کو عطا کیا___ اس عظیم قرآن کو سنبھالنے اور اس کا بوجھ اٹھانے اور امانت سنبھالنے سے زمین و آسمان نے انکار کر دیا۔ اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَحْمِلْنَھَا ___ مگر انسان کے نصیب میں یہ سعادت کبریٰ لکھی گئی۔ اس کے مقدر میں یہ عظمت آئی___ وَحَمَلَھَا الْاِنْسَان___ !! رمضان___ فی الحقیقت جشن نزولِ قرآن ہے۔ عظیم امانت کے بار ذمہ داری کے احساس دہی اور حق کی ادایگی کی یاد دہانی کا مہینہ ہے!
وَلِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلَی مَا ھَدَاکُمْ ___ رمضان بندئہ مومن پر اس لیے بھی فرض ہوا کہ اللہ کے بندے اس کی عظمت و کبریائی کے ترانے گائیں‘ اپنے قول و عمل سے اُسی کی بڑائی کا اقرار و اظہار کریں۔ نمازوں کے اوقات میں___ اذان و تلاوت میں___ رکوع و سجود میں‘ تسبیح و تہلیل میں___ دعا مناجات میں___ اللّٰہ اکبر‘ اللّٰہ اکبر ___ وللّٰہ الحمد ___ سبحان اللّٰہ وبحمدہ سبحان اللّٰہ العظیم___ حمدوثنا‘ پاکیزگی و عظمت ___ سب اُسی برتر و بزرگ کے لیے! جس نے ہدایت سے آشنا کیا۔ قرآن کی نعمت ِ عظمیٰ کی صورت میں زندگی گزارنے اور آخرت کا سامان کرنے کا جامع‘ ہمہ پہلو قرینہ سکھایا۔ رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں عمل کا اعلیٰ‘ کامل اور بہترین اسوہ عطا کیا۔
رمضان کی صبحوں‘ شاموں‘ دن اور راتوں میں زمین و آسمان کے مابین لامحدود وسعتوں میں انسانوں‘ فرشتوں‘ پرندوں کی یہ تسبیح‘اللہ کی یہ تسبیح‘ اللہ کی یہ حمدوثنا‘ احسان شناسی اور اعترافِ نعمت ہے عَلٰی مَا ھَدَاکُمْ___ اُس ہدایت کی اُس فضیلت کا جس سے اے بندئہ مومن___ فقط تو فیض یاب ہوا___ اعلانِ کبریائی کے اس روزانہ و شبانہ نصاب کے اختتام پر یومِ عید سجدئہ شکر بجا لانے کے لیے جاتے ہوئے‘ گلیوں‘ محلوں‘ شاہراہوں‘ بازاروں‘ گھروں___ ہر سمت‘ ہر جانب یہی ترانۂ شکر‘ یہی نغمۂ کبریائی___ اللّٰہ اکبر‘ اللّٰہ اکبر لا الٰہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد___ یہ تو زبان ہے اور پھر زندگی کا ہر لمحہ‘ عمل کا ہر میدان___ اسی کا عملی اقرار___ اللہ کے حکم اور عظمت کے شعوری غلبے‘ اللہ کے دشمنوں کی ___ اس کے دین___ اس کے قرآن کی مخالفت___ اس کے رسولؐ کی عدم اطاعت کے لیے جدوجہد کرنے والوں کی سرکوبی ___ یہی تو مومن مخلص کی زندگی کا مقصد___ اُس کا منصب___ اور اس کا فرض ___ اُس کی زندگی کا خِراج اور بندگی کا اصلی اظہار ہے۔ یہی نعت ِ ہدایت کی حق شناسی ہے!!
وَلََعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ ___ رمضان انھی نعمتوں پر شکرگزاری کاآفاقی لائحہ عمل ہے! اللہ کی نعمتیں بے شمار ___ اس کے احسان لامحدود۔ اِنْ تَعُدُّوا نِعْمَۃَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَا اور ان میں سب سے بڑی نعمت___ قرآن___ ہدایت___ دین حق کا شعور‘ اقامت دین کا جذبہ___ داعی ٔ حق کا اسوہ و سیرت___ وارثانِ دین متین کی رہنمائی___ اہل ایمان‘ اہل حق کی رفاقت: تحریک اسلامی ___ اللہ کے دین کے غلبے‘ اس کے اعلاء اور اس کی عظمت و کبریائی کی جدوجہد میں شرکت ___ یہ سب اللہ کی لازوال‘ انمول نعمتیں ہیں۔ انھی کا حق اور تقاضا کہ اعترافِ نعمت کی ہر جدوجہد اور ہر صورت میں پُرخلوص‘ مکمل اور بھرپور شرکت!!
اے نیکیوں کے خوگر ___ بندئہ مومن!!
رمضان کے انھی شب و روز کی سعید ساعتوں میں اپنے مقصد___ نیکیوں کے حصول کے سفر کے دوران کچھ خاص لمحے اللہ کی قربت کے___ تیرے مَن کی مراد بَر لانے ‘ تجھے عطا ہوں گے۔ تجھے ان لمحوں سے خوب اور بھرپور فائدہ اٹھانا ہے۔ مالکِ مختار و مقتدر کے حضور دست ِ سوال دراز کیے رکھنا ہے‘ جب تک تجھے وہ سب کچھ نہ مل جائے‘ جس کا تو متمنی و مشتاق ہے___ جس کے لیے تو سرگرداں ہے! انھی سعید لمحوں میں تیرا رب تجھے پکار پکار کر کہے گا___ اِنِّیْ قَرِیْبٌ - اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ___ میں اپنے بندوں کے دل و دماغ‘ جسم و جاں‘ اور شہ رگ کے قریب ہوں۔ ان کے وجود کا حصہ ہوں۔ وہ مجھے پکاریں تو سہی ___ میں ہمہ وقت اُن کی دعا___ اُن کی صدا___ اُن کی پکار سننے‘ ان کی حاجت روائی کرنے‘ ان کی مرادیں پوری کرنے کے لیے مستعد و تیار رہتا ہوں۔ وہ اگر مجھے ہی پکاریں___ صرف اور صرف مجھے___ تو میں اُن کی آنکھیں‘ ہاتھ پائوں‘ کان اور جسم کا حصہ بن کر‘ اپنے معجزے اور کرشمے دکھاتا ہوں! میں اپنے بندوں کی ہر دعا سنتا ہوں۔ اُن کی ہر خواہش پوری کرتا ہوں۔ میرے لامحدود‘ وسیع خزانوں میں اتنی بھی کمی واقع نہیں ہوتی جتنی سوئی کو سمندر میں ڈبو کر واپس لانے سے ہوتی ہے۔ یہ تو میرا بندہ ہی تھڑدلا اور کم ظرف ہے جو مجھ سے صرف وہی مانگتا ہے‘ جو وہ نہ بھی مانگے‘ تو بھی بحیثیت ربّ العالمین___ پروردگارِ خلائق___ میں اُسے اُس کے مقدر کا لکھا بہرصورت‘ عطا کرتا ہی رہوںگا۔
اے بندئہ مومن! اُسی خالق ارض و سما نے تو تیرے لیے زمین و آسمان مسخر کر دیے‘ ہر چیز تیری خدمت میں___ تیری سہولت کے لیے فراہم و میسر___ اپنے رب کے حکم کی تکمیل میں تیرے لیے مصروفِ عمل___ یہ زمین و آسمان ___ شجروحجر___ درند و پرند___ آسمان کی برکتیں اور زمینوں کے خزانے___ سب تیرے لیے___ ! مگر تو ہی ناداں جو چند کلیوں پر قناعت کرگیا!گلشن ہستی میں تیرے لیے ہی تو اقتدار و اختیار ‘ خلافت و امامت‘ سیادت و قیادت___ کیا کچھ نہ تھا___ ! تو ہی اس نظامِ ہستی کا سب سے معزز و محترم اور اشرف___ اس جیسے کتنے ہی آفاق تیرے وجود کا حصہ___ مگر کس قدر بدنصیب ہے تو___ اے بندئہ مومن! کہ کافر کی طرح اپنے وجود کے ہزار آفاقوں کو چھوڑ کر اسی عارضی و ناپایدار‘ حقیر و کم تر آفاق میں گم ہے۔ اپنے مقصد و مرتبت‘ فرض اور ذمہ داری سے غافل ہے!
اللہ کی قربت کے ان سعید لمحوں میں___ سب تمنائوں کو دل سے جھٹک کر___ فقط رشد و ہدایت‘ مغفرت و رحمت‘ بخشش و غفران کی دعا ہی کرنا‘ دنیا کا کچھ نہ مانگنا‘ یہ مل بھی جائے۔ یقین رکھ مَن چاہا سب کچھ ضرور ملے گا___ اس لیے کہ اُس نے کہہ دیا___ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ___ جب بھی وہ پکارے‘ جو چاہے میں ضرور پوری کرتا ہوں۔ جو دنیا کے طلب گار ہوں گے‘ انھیں دنیا ملے گی‘ جو آخرت کے طلب گار ہوں انھیں نہ صرف دائمی زندگی آخرت کی عزت و شرف‘ عظمت و راحت میسر آئے گی بلکہ نَزِذْلَہٗ فِیْ حَرْثِہٖ ___ ہم اس کی تمنا‘ طلب‘ آرزو‘ جستجو میں بھرپور اضافہ کریں گے اور اس کی فصلِ اُمید کو خوب ہرا بھرا بنائیں گے۔ یاد رکھ___ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی فانی راحتوں اور عارضی سہاروں اور وقتی فائدوں کی تمنا کرنے والوں کو نؤتہ منھا ___ ہم یہ سب کچھ دیں گے___ وَمَا لَہُ فِی الْآخِرَۃِ مِنْ نَصِیْبٍ آخرت میں ان کا دامن بالکل خالی ہوگا۔ کف افسوس مَلنے‘ دنیا میں واپس جا کر ایک بار پھر اطاعت و وفاشعاری کی راہِ مستقیم پر چلنے‘ تلافی ٔ مافات کرنے کی تمنا___ اب بے کار ہوگی___ !
اے بندئہ مومن! تیرے لیے بہتر طرزِعمل بس یہی ہے___ فقط یہ دعا کرنا___ رَبَّنَا اٰتِنَا فِیْ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَفِیْ الْآخِرَۃِ حَسَنَۃَ ___ اے پروردگار! اے مالک! دنیا و آخرت کی ساری بھلائیاں‘ ساری نعمتیں‘ ساری بخشش و عطا جو تو نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو دیں___ ہمیں بھی عطا کر دے___ بندئہ مومن! اپنی ذات کے لیے بھی مانگنا‘ اور اُمت کے لیے بھی___ سب اہل ایمان کے لیے___ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِلْمُؤمِنِیْنَ وَالْمُؤمِنَاتِ اَلْاَحیَائُ مِنْھُم وَالْاَمْوَاتِ ___ اِنَّک مُجِیْبُ الْدَّعْوَات ___ اور پھر یہ دعا بھی کرنا___ وَقِنَا عَذابَ النَّارِ___ اے اللہ!ہمیں محفوظ رکھنا___ کسی بھی چھوٹی بڑی لغزش‘ بے احتیاطی‘ فکری و عملی کوتاہی سے___ جو تیرے غضب کو دعوت دے اور عذاب جہنم سے قریب تر کر دے!
اے بندئہ مومن! یہ دعا بھی کرتے رہنا ___ اور بار بار کرنا! اے اللہ! عطاے ہدایت و ایمان کے بعد لَاتُزِغْ قُلُوْبَنَا ___ ہمارے دلوں کو ہر قسم کی کجی سے پاک رکھنا۔ ھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً___ بس اپنی رحمت ہی کا سزاوار بنانا!! پیغمبرعلیہ السلام‘ اصحاب عالی مرتبت اور اولیاء و صلحا سب ہی اللہ کے فضل و کرم کے طفیل نجات سے ہمکنار اور جنت سے سرفراز ہوں گے___ ہم جیسے سیہ کار‘ خطاکار اور اپنے رب سے غافل___ موقع پرست تو اس فضل و رحمت کے زیادہ___ بہت زیادہ طلب گار ہیں!
تِلْکَ حُدْودُ اللّٰہِ ___ رمضان المبارک کا تقدس و احترام‘ اس کی عظمت و مرتبت کا لحاظ‘ اس کے احکام و مسائل کا لحاظ اور پابندی‘ روزے اور اس سے متعلق جملہ الہامی ہدایات پر عمل درآمد۔ یہ سب ایک طرف تو اللہ کی رحمت و نعمت اور بخشش و غفران کے وسیلے ہیں‘ تو دوسری طرف اللہ کی حدود___ جنھیں اللہ نے اپنی کتاب میں بڑی وضاحت اور حدیث رسولؐ کے ذریعے بڑی صراحت کے ساتھ بیان کردیا ہے۔ لہٰذا ان کے حوالے سے بھی بندئہ مومن کو محتاط و خبرداررہنا لازم ہے۔
اے نیکیوں کے طلب گار! آ‘ کہ رمضان کے اس جشن بہاراں کا بھرپور استقبال کرنے کے لیے‘ اپنے دامن کو خطائوں‘ غلطیوں اور لغزشوں سے جھاڑنے کے لیے‘ مغفرتوں‘ بخششوں اور رحمتوں کو سمیٹنے کے لیے ___ دل میں اعترافِ جرم کے احساس‘ جبین پر ندامت کے قطرے اور آنکھوں میں خشیت کے دیپ سجائے‘ سر جھکائے‘ ہاتھ اٹھائے سوچ اور عمل کی تعمیر و تطہیر کے جذبے سینے میں چھپائے___ راہبر و رہنما___ آقا و مولا___ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُن پاکیزہ نقوشِ سیرت اور روشن روشن اُسوہ اور قدم قدم ہدایت کے منور راستوں‘ باتوں اور حدیثوں میں روشنی کی منزل‘ ہدایت کی قندیل اور عمل کی راہیں تلاش کریں!!
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اِذَا دَخَلَ رَمَضَانَ ___ جب رمضان سایہ فگن ہوتا ہے تو___
فُتِحَتْ اَبْوَابُ الْجَنَّۃِ ‘ جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں ___ جنت: ہرمومن مخلص کی اول و آخرت شدید تمنا! یَطْمَعُ کُلُّ امْریٍٔ مِنْھُمْ اَنْ یُدْخَلَ جَنَّۃَ نَعِیْمٍ - ہر شخص جنت میں داخلے کا آرزومند! وہی اس کا وارث‘ وہی اس کا مستحق ___ اُسی کے لیے تیار و ہموار! جنت تو ہے ہی اللہ کے نیک بندوں کی___ بڑی بدنصیبی ہے کہ وہ اپنے اعمال کے سبب اس سے محروم رہیں۔ بندئہ مومن اپنی کوتاہیوں کا ادراک و استغفار کرکے رمضان کے موسمِ بہار میں جنت میں داخلے کا ساماں کر سکتا ہے۔ جنت کے بہت سارے دروازے ___ بندئہ مومن کے باعزت داخلے کے لیے___ مگر ایک خاص دروازہ ___ باب الریان ___ جو صرف اہل صوم یعنی روزے داروں کے لیے مخصوص ___ لَا یَدْخُلُہٗ اِلاَّ الْصَّائِمُوْنِ ___ ان کے سوا کسی اور کو یہاں سے داخلے کی اجازت نہ ہوگی۔ بندئہ مومن رمضان کی سعید ساعتوں میں اپنے اخلاص و اسلام (سپردگی اور اطاعت ِ کامل) کا اس قدر بکثرت مظاہرہ کرے کہ وہ ان آٹھ بہشتی دروازوں میں سے کسی ایک بالخصوص باب الریان سے داخلے کا مستحق قرار پائے!
غُلِّقَتْ اَبْوَابُ جَھَنَّمَ ___ جہنم کے دروازے بندئہ مومن کے لیے بند کر دیے جاتے ہیں! جہنم تو ہے ہی ناشکروں‘ محسن کشوں‘ ناسپاسوں کے لیے___ ! جو اپنے عمل سے اور کردار سے دعوت حق ٹھکرانے‘ اس سے فکری و عملی اعراض کرنے اور اپنے مالک و خالق کی نافرمانی کے رویے سے اس کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔ کچھ اہل ایمان بھی___ غفلت اور شیطان کی چالوں کا شکار ہو کر ان کے رفیق و قرین بن کر جہنم کے دروازوں کے قریب ہو جاتے ہیں___ فَسَآء قَرِیْنًا یہ دوست بھی بے حد بُرے‘ وَسآئَ تْ مَصِیْرًا ___ اور جہنم بدترین ٹھکانہ ___ بندئہ مومن کے لیے یہ بشارت بھی ہے کہ موت کے آخری لمحے سے پہلے جہنم کے بالشت بھر فاصلے پر پہنچ جانے کے باوجود وہ اپنے اخلاص و حسنِ عمل سے جہنم سے نجات حاصل کر سکتا ہے۔ رمضان کا مہینہ اُسے یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ توبہ و استغفار کے ذریعے جنت سے قریب اور جہنم سے دُور ہو جائے۔ اَللّٰھُمَّ اَجَرْنِیْ مِنَ النَّار یَامُجِیْرُ یَامُجِیْرُ یَامُجِیْرُ ___ کی دُعا اِسی راستے کی صداے نجات ہے!
سُلْسِلَتِ الْشَیَاطِیْنَ ___ شیطان جکڑ دیے جاتے ہیں___ !شیطان تو بندئہ مومن کا کھلا دشمن ہے___ عَدُ وٌّ مُبِیْنٌ___ بڑا بااثر‘ چال باز‘ اور بڑا متاثر کن بلکہ گمراہ کن‘ بدترین دوست اور قبیح ترین دشمن ہے۔ اللہ کا کھلا باغی‘ مغرور‘ متکبر‘ سیہ کار و بدکار ہے۔ اہل ایمان کواسی سے سب سے زیادہ محتاط و خبردار رہنے کی ہدایت کی گئی۔ فَاتَّخِذُوْہ عَدُوًّا ___ اسے دوست نہیں___ دشمن ہی سمجھنا!!
رمضان میں وہ ماحول اور فضا قائم ہوتی ہے‘ جو شیطان کے لیے اللہ کے مخلص بندوں کو بہکانے اور گمراہ کرنے میں سازگار اور معاون نہیں رہتی۔ اللہ کے بندے اپنے رب کے حضور حاضر اور اس سے وابستہ رہتے ہیں۔ شیطان کا کام مشکل بلکہ ناممکن بن جاتا ہے‘ البتہ بدبخت و محرومین کے لیے شیطان کی کارگزاریاں موثر ثابت ہوتی رہتی ہیں۔ اللہ کا ذکر___ قرآن کی تلاوت ___ موت کے بعد حاضری اور جواب دہی کا احساس‘ تصور اور یقین ___ بندئہ مومن کے لیے شیطان کے حملوں سے بچنے کا کارگر نسخہ ثابت ہوتا ہے۔ اور یہ وہی پیغام ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک اور فرمانِ عالی شان: الصوم جُنَّۃٌ ___ روزہ ڈھال ہے___ میں مستور ہے۔ رسولؐ اللہ کا یہ فرمان کس قدر برحق اور لائق صداحترام ہے کہ روزہ بندئہ مومن کے گرد ایک ایسا ہالہ‘ حصار اور حدِّفاصل باندھ دیتا ہے‘ جو اُسے آلودئہ خطا ہونے سے محفوظ رکھتا ہے۔ اُسے ہدایت ہے کہ روزے کی حالت میں اگر کوئی اُس سے لڑے‘ گالی دے‘ یا آمادئہ معصیت کرے___ وہ فقط اِسی ڈھال کو اپنے وجود کے گرد تان لے___ اِنِّیْ امرُؤ صَائِمٌ ___ اے شیطان کے چیلے! میں تیری چال کا شکارہرگز نہیں بن سکتا کیونکہ میں روزے سے ہوں___ اللہ کی پناہ میں ہوں اور روزے کے حصار میں ہر خطرے سے محفوظ ہوں___ !
اے نیکیوں کے طلب گار اور جنت کے متمنی!!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ہدایت بھی پیش نظر رہے! جب تم میں سے کوئی روزہ دار ہو تو فلایرفث___ تو بُری بات نہ کہے___ ولا یضحب لڑائی جھگڑا اور دنگا و فساد نہ کرے۔ برائی زبان اور ہاتھ دونوں سے___ اس کے قریب نہ پھٹکے۔اگر کوئی اُسے مجبور کرے تو کہہ دے___ انی امرؤٌ صَائِمٌ___ میں تو روزے سے ہوں___ ! زبان کی برائی ہمیشہ بڑے فساد کا سبب بنتی ہے۔ زبان کا یہی غلط استعمال جنت سے محرومی کا سبب بنتا ہے۔ اسی لیے حفاظت لسان پر جنت کی ضمانت دی گئی ہے! برائی کا یہ معمولی آغاز‘ حدود اللہ سے تجاوز اور جہنم میں داخلے کا سبب بن جاتا ہے۔ اے اللہ! ہمیں زبان اور ہاتھ کے غلط استعمال سے محفوظ رکھ۔ رمضان___ اسی تربیت کا ایک موثر نصاب ہے۔ روزے کا احساس بندئہ مومن کو براہِ راست اللہ کی نگرانی‘ پناہ اور حفاظت میں دے کر بندئہ مومن کو گناہوں سے اور برائیوں سے ہمیشہ کے لیے بچتے رہنے کا عادی بنا دیتا ہے!!
اَوَّلَہٗ رَحْمَۃٌ ___ رمضان کا پہلا عشرہ رحمت کا پیام ہے___ رمضان کے آتے ہی رحمتوں کے دَر کھل جاتے ہیں۔ قدم قدم پر رحمتیں سایہ فگن ہو جاتی ہیں۔ نیکی کے بے شمار مواقع میسر آتے اور بے پناہ‘ کئی گنا اجر و ثواب کا باعث بنتے ہیں۔ برائیوںسے نفرت کا جذبہ اُبھرتا‘ اور اس اجتناب کا داعیہ پیدا ہونا___ یقینا اللہ کی رحمت ہے۔ اذان کی آواز___ باجماعت نمازوں کے غیرمعمولی روح پرور مناظر‘ تلاوت قرآن کی صدائیں‘ توبہ و استغفار کی دعائیں‘سحر و افطار کے پُرکشش مناظر___ بندگی و اطاعت کے مظاہر___ یہ سب اللہ رب العالمین کی وسیع رحمتوں کے لازوال اشارے ہی تو ہیں___ !
اَوْسَطُہٗ مَغْفِرَۃٌ___ رمضان کا دوسرا عشرہ۔ مغفرت___گناہوں سے بخشش طلبی کا شان دار موقع ہے___ رحمتوں سے فیض یاب ہونے والا بندئہ مطیع و سلیم اب اپنی دعائوں اور مناجاتوں‘ تلاوتوں اور نمازوں کی باقاعدگی اور روزوں کی پابندیوں کو نبھانے کے ساتھ ساتھ اب اس بات کا سزاوار اور اہل ٹھہرتا ہے کہ بارگاہ ذوالجلال میں دست ِ دُعا دراز کرسکے۔ اپنی خطائوں پر عرقِ ندامت بہا سکے‘ اپنی لغزشوں کا اعتراف کر سکے‘ اور پھر توبہ و استغفار کے ذریعے مغفرت کی درخواست پیش کر سکے!
بشارت ہے اے بندئہ مومن و مخلص تیرے لیے___ ! مَنْ صَامَ رَمَضَانَ اِیْمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَلَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ___ وَمَنْ قَامَ رَمَضَانَ اِیْمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَلَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ___ اگلے پچھلے تمام گناہوں سے مغفرت مشروط ہے رمضان المبارک میں پورے اخلاص اور سچائی کے بے لوث جذبوں کے ساتھ اللہ کے حکم پر مکمل ایمان‘ اُس کی عظمت و قدرت کے مکمل ادراک‘ اس کی رحمتوں اور مغفرتوں کی بھرپور تمنائوں اور اُمیدوں‘ اپنی خطائوں اور بدعملیوں کے مکمل اعتراف و احساس‘ ندامت اور شرمساری‘ آیندہ نہ کرنے کے عزم و اقرار کے ساتھ___ ! اگر بندئہ مومن ان جذبوں سے آشنا ہو جائے تو پھر رمضان کے دنوں میں بھوک‘ پیاس برداشت کرنا‘ لذتوں اور راحتوں سے دُور رہنا‘ گناہوں اور خطائوں سے اجتناب کرنا اور راتوں کو تراویح و تہجد میں سر نیاز خم کرتے رہنا‘ چپکے چپکے آنسو بہا بہا کر رحمت و مغفرت کی التجائیں کرنا___ اُس کے لیے گناہوں سے کفارے اور نجات کا موجب ہوگا___
وَآخِرُہ عِتْقٌ مِّنَ النَّارِ___ رمضان کا آخری عشرہ۔ اللہ کی عنایتوں اور عطائوں کے عروج کا زمانہ ہے۔ صرف آخری عشرہ ہی نہیں___ ترمذی کی ایک روایت کے مطابق: لِلّٰہِ عُتَقآء مِنَ النَّارِ - وَذٰلک کُلَّ لَیْلَۃٍ___ رمضان کی ہر رات اللہ کی رحمت اپنے جوبن پر ہوتی اور بندئہ مخلص کے لیے آگ سے نجات اور رہائی کا سبب بنتی ہے۔
اے بندئہ مومن! اے نیکیوں کے طلب گار!! اے نجات و غفران کے متمنی!! تجھے آخر اور کیا چاہیے؟ ایک بندے‘ ایک غلام کو آقا و مولا کی رضا اور اس کی مغفرت کے علاوہ کچھ اور عزیز و مطلوب ہونا ہی نہیں چاہیے!! جہنم سے آزادی کا یہ پروانہ یقینا رمضان کے بعد اس کی پابندیوںکو بھلا دینے اور ایک بار پھر شیطان کی غلامی اور دنیا کی اسیری کا اجازت نامہ ہرگز نہیں۔ اگر ایسا ہوا تو خَسِرَ الدُّنیَا وَالآخِرَۃ___ اے بندئہ مومن! تیرا تو بڑا ہی گھاٹا ہوگیا___ دنیا بھی تباہ ہوئی___ عقبیٰ بھی برباد___ نہ ہی خدا ملا‘ نہ وصالِ صنم!! جہنم سے یہ آزادی تو مشروط ہے۔ رب کائنات و منعمِ حقیقی کی مستقل وفاداری‘ وفا شعاری اور کامل اطاعت گزاری سے!
اے روزہ دار___ بندئہ مومن!
تیرے لیے نیکیوں کے اس موسم بہار میں خوشیوں‘ فرحتوں کے بے شمار لمحے ہیں۔ اس کا ہر روز روز عید‘ ہر عید شب برأت‘ ہر عمل باعث نجات___ مگر خاص طور پر دو مواقع تو خوشیوں کی انتہا قرار دیے گئے۔ لِلصَّائِمِ فَرْحَتَان ___ روزہ دار کے لیے دو خوشیاں۔ فَرْحَۃٌ عِنْدَ فِطْرَہ ___ ایک خوشی آقا و مولا کے حکم کی بے لوث‘ بے ریا‘ بے خطا تکمیل پر رمضان کی ہر شام ڈھلنے پر___ اذان کی آواز بلند ہونے___ روزہ افطار ہونے پر___ اور دوسرا فَرْحَۃٌ عِنْدَ لِقَائِ رَبِّہِ ___ اپنے اَن دیکھے آقا و مولا‘ جس کی اطاعت و فرماں برداری میں تو نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ بسر کیا‘ جس کی خاطر دنیا کو ٹھکرا دیا‘ اس کی ہر زیب و زینت کو مسترد کر دیا‘ اپنے نفس کو اللہ و رسول کی مرضی کے تابع بنا کر خواہشات سے دُور رکھا۔ اللہ کی خاطر محبت‘اسی کی خاطر نفرت‘ اُسی کی رضا مقدم‘ اُسی کی جانب کامل توجہ‘ اُسی کے حکم کی پاسداری‘ اُسی کے دین کے غلبے کی جدوجہد‘ اُسی کے نام کی سربلندی کے لیے کوشش___ اُسی سے زندگی کی ہر اُمید‘ ہر تمنا‘ ہر درخواست اور ہر خواہش کی وابستگی‘ اُسی کے در پر جبین نیازخم‘ اور اُسی کے فیصلوں پر صابر و شاکر۔ اُسی کا پروردہ اور اُسی کا غلام___ جسم و جاں‘ فکروعمل‘ قلب و نظر___ ہر ایک اُسی کے اشاروں کے تابع۔ اُسی عظمت و جبروت کے مالک سے ملاقات___ اس کی بارگاہ میں حاضری___ اُسی کا سامنا‘ اور اُسی کی رضا کی عطا کا لمحۂ سعید!! اپنے رب کا دیدار اور اس سے ملاقات!! ___ سبحان اللّٰہ وبحمدہ سبحان اللّٰہ العظیم!!
اے نیکیوں کے طالب___ ! خوش ہو جا کہ رمضان اور قرآن دونوں تیرے لیے شفیع بن جائیں گے‘ اُس روز جب کوئی سفارش‘ فدیہ اور مدد و معاونت کام نہ آئے گی!
پیغمبر اور رسول‘ ولی اور قطب‘ شقی اور سعید‘ صالح اور بد‘ مومن و کافر سب ہی میدان حشر میں‘ نفسانفسی کے عالم میں مضطرب‘ بے قرار اور کانپتے ہوں گے۔ اذنِ الٰہی کے بغیر کوئی بھی ایک لفظ کہنے کی جرأت نہ کر سکے گا۔ ہر شخص شفاعت کا منتظر‘ اور متمنی ہوگا‘ ایسے میں اے روزہ دار___ الصَّیِامُ وَالْقُرآنُ یُشْفِعَان لِلْعَبْدِ___ قرآن اور روزے بندئہ مومن کے سفارش بن جائیں گے۔ روزہ کہے گا اے رب! میں نے اسے دن میں کھانے پینے اور شہوات نفس سے باز رکھنے کو کہا تو یہ بندہ اس کو بجا لایا۔ میری سفارش قبول کر۔ قرآن کہے گا___ اسے میں نے راتوں کو نیند سے دُور رہنے‘ مجھے پڑھنے‘ سننے‘ سمجھنے اور غوروفکر کرنے کی دعوت دی‘ تو تیرا یہ اطاعت شعار بندہ اس کو بھی مان گیا___ لہٰذا اس کے حق میں میری سفارش بھی قبول کر___ ! اے نیکیوں اور مغفرتوں کے طلب گار! تیرے پُرخلوص روزوں کے صدقے رب العالمین تیرے حق میں یہ دونوں سفارشیں قبول کرلے گا___ ! اگر تو نے کسی روزہ دار کو روزہ افطار کرا دیا تو بھی تیرا اجر ویسا ہی۔اگر کسی کو پانی پلا دیا تو قیامت کے روز اللہ تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوضِ کوثر سے پانی نصیب کرے گا‘ پھر تو کبھی پیاسا نہ رہے گا یہاں تک کہ جنت میں داخل ہو جائے گا۔
اے روزہ دار ___ ! تیری عظمت اور اللہ کے ہاں تیری قدرومنزلت کے کیا کہنے!! تیرے روزے اور بھوک پیاس کے سبب تیرے منہ کی بساند بھی اللہ کو مشک و عنبر سے زیادہ محبوب۔ لَخَلُوفُ فَمِ الصَّائِمَ اطْیَبُ عِنْدَ اللّٰہِ مِن رِیح یمسک___ اور رمضان کے اس عظیم مہینے اور اس کی رفعتوں کا نقطۂ عروج و کمال___ لَیْلَۃُ القَدْرِ - خَیْرٌ مِنْ اَلْفِ شَھْرٍ۔ ایک بے پناہ اجر و ثواب‘ انسان کے فہم و شعور کی حدود سے کہیں بڑھ کر عظمتوں کی حامل ہزار مہینوں کی عبادتوں سے کہیں زیادہ برکتوں کی رات‘ تاحد فرش و عرش فرشتوں کے غول در غول‘ جبریل ؑ امین کی آمد___ اور عرشِ الٰہی پر اپنے بندوں کی عبادتوں‘ ریاضتوں اور اطاعتوں سے آگاہ ہونے اور اُن کے قریب تر ہونے کے لیے اللہ ذوالجلال والاکرام کی تشریف آوری___ سَلامٌ ھِیَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْر___ کائنات کے ہر اطاعت شعار‘ وفادار اور عبادت گزار کے لیے طلوع فجر تک امن و سلامتی‘ بخشش و عطا‘ رحمت و مغفرت کی نہایت قدرومنزلت‘عزت و عظمت اور شرف و مرتبت والی رات___ !!
اے نیکیوں کے طلب گار! آگے بڑھ! اور اس شب وصل کی ساری لذتیں‘ ساری نعمتیں___ اپنے دامن میں سجا لے۔ رحمتوں کی اس برکھا سے اپنے مَن کو بھی سیراب کرلے! بجا کہ اس شب ِ قدر کی سعادتیں‘ رحمتیں اور مغفرتیں لامحدود___ اور تیراظرف___ بہت ہی محدود___! مگر ___ آگے بڑھ اپنے دامن میں جس قدر سمیٹ سکے‘ سمیٹ لے۔ اگر تو اس شب کی سعادتوں اور خیروبھلائی سے محروم رہ گیا___ تو فَقَدْ حُرِمَ الخَیْرَ کُلَّہٗ ___ سب کچھ اکارت گیا‘ ساری ریاضت بے ثمر رہی اور تیرا دامن خالی ہی رہا۔ یہ بڑی محرومی اور بڑی بدبختی ہے!
شب ِ قدر کا ہر لمحہ ___ رب کی رضا‘ قبولیتِ توبہ اور رحمت و غفران کا لمحہ ہے! اس رات کی ہر ساعت گراں قدر اور بیش بہا ہے۔ ممکن ہے آسمان سے کوئی نور بھی برستا ہو۔ کوچہ و بازار‘ گلیاں‘ محلے‘ سڑکیں شاہراہیں‘ آسمان و زمین کی وسعتیں روشن ہو جاتی ہوں۔ مگر___ شب قدر میں اصل روشنی اور نور تو انسان کے اپنے اندر پھوٹتا ہے! اس کی وفاشعاری‘ اطاعت گزاری‘ اخلاص نیت و عمل‘ اس کی بے لوث ریاضت و عبادت‘ اُس کی خفیہ وعلانیہ دعا و مناجات___ اُس کے قلب و نظر کو روشن و منور کر دیتے ہیں___ محض تسبیح کے دانے‘ ماتھے کے محراب اور حضوری و شوق‘ اضطراب و تڑپ سے عاری سجدے‘ مفہوم و معانی سے محروم تلاوت‘ خشیت و اخلاص سے خالی ذکر___ لیلۃ القدر کی عظمتوں سے ہمکنار نہیں کرسکتے!!
رمضان کی کسی بھی شب‘ کسی بھی ساعت___ اور بالخصوص آخری عشرے کی طاق راتوں کے مخصوص لمحات میں اگر اے بندئہ مومن! تیرے دل کو سُراغ زندگی مل جائے‘ ہدایت کی روشنی نکھر آئے‘ فکروعمل اور مقصدِحیات کا شعور عطا ہو جائے‘ نیت کا خلوص اور عمل کا جذب و کیف اور داعیہ پیدا ہو جائے۔ تو سمجھ لے کہ یہی شب قدر ہے جس نے تجھے بدل کر رکھ دیا ہے‘ تیری شب ِ تاریک کو سحر کر دیا ہے۔ تجھے یہ رات مل بھی جائے___ ! مگر تیرے اندر انقلاب پیدا نہ ہو‘ تحریک و اضطراب برپا نہ ہو۔ یہ فقط رَت جگا ہے! دکھلاوا___ ریاکاری اور رسمِ دنیا ہے___ لیلۃ القدر کی عطا نہیں___ اس سے محرومی ہے!!
اے نیکیوں کے طلب گار ! اس شب کو اگر تجھے دل کا سرور اور ہدایت کا نور عطا ہو تو ہاتھ پھیلا کر فقط یہی دعا کرنا___ اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفْوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی ___ اے مالک! تو بڑا بخشنے والا ہے‘ معافی کو پسند کرتا ہے‘ بس! مجھے اور کچھ نہیں صرف تیری مغفرت چاہیے۔ یہی سب سے بڑی نعمت مجھے بھی عطا کردے!!
اے نیکیوں کے طلب گار! تیرے خلوص اور وفاشعاری کے جذبوں کے لیے ایک اور مژدئہ جانفزا___ الصَّوْمُ لِیْ وَانَا اَجْزِیْ بِہٖ ___ روزہ تو ہر ریا سے پاک‘ نمایش کے ہر خدشے سے مبرا اور شرکت کے ہر شائبے سے خالی___ فقط میرے لیے ہے! لہٰذا میں اپنے تمام ضابطوں‘ قاعدوں اور طریقوں سے مختلف ___ تیرے خیال و شعور سے کتنا ہی آگے‘ بے حدوحساب ___ اجر و جزا سے نوازوں گا___ بلکہ اَجْزِیْ بہٖ ___ میں مالکِ ارض و سما‘ اپنے آپ کو تیرابنا دوں گا تو میرا بن گیا‘لے! میں بھی تیرا ہو گیا___ بتا! تجھے اب اور کیا چاہیے!! تو نے میری خاطر اپنی نیند‘ آرام‘ خواہشاتِ نفس‘ کھانا پینا‘ سب کچھ قربان کر دیا۔ میری ہی بارگاہ سے وابستہ اور پیوستہ رہا___ دیکھ! تیری وفائوں کا کتنا بڑا صلہ دیا ہے میں نے!!
اے بندئہ مومن!! اے نیکیوں کے طلب گار!!
رمضان تیری وفائوں‘ شکرگزاریوں اور ایمان و عمل کا امتحان ہے! تیرے اخلاص و محبت کے دعوئوں کی آزمایش ہے۔ کھرے اور کھوٹے کی کسوٹی ہے۔ کون ہے جو رب کی بارگاہ میں تسلیم و رضا کے ساتھ سر خم کیے رکھتا ہے‘ اور کون ہے جو رمضان کی سعید ساعتوں اور قدم قدم مغفرتوں کے مواقع کے باوجود اپنا دامن خالی رکھتا اور اپنے مقدر میں دین و دنیا کی محرومیاں لکھ لیتا ہے!
رمضان ___ شکرگزاری‘ تقویٰ اور ہدایت کا صراطِ مستقیم ہے___ جس کی تمنا اللہ کی حمدوثنا کرنے والا ہر بندئہ مومن اھدنا الصراط المستقیم ___کی دعائوں کے ساتھ کرتا ہے۔
رمضان ___ کتاب ہدایت ___ قرآنِ عظیم کی تعلیمات سے آگاہی‘ غوروفکر اور تدبر کا مہینہ ہے۔ دلوں کے زنگ دُور کرنے اور بصیرتوں کے قفل توڑنے‘ فکروشعور کی جلا اور علم و عمل کی راستی کا ساماں کرنے کا مہینہ ہے۔
رمضان ___ معاشرے کی اصلاح‘ غلبہ حق کے جذبے سے سرشاری‘ اقامت دین کی جدوجہد اور دعوت و تحریک کا مہینہ ہے۔ برائی کی سرکوبی اور نیکی کے فروغ کی تحریک برپا کرنے کا عملی خاکہ ہے۔
رمضان ___ صبر وا ستقامت‘ ہمدردی و غمگساری ‘ اخوت و محبت‘ نصرت و معاونت‘ اخلاق و مروت‘ ایثار و قربانی کا پیام بر ہے۔
اے نیکی کے طلب گار___ ! آگے بڑھ!
رمضان اپنی تمام تر عظمتوں‘ فضیلتوں‘ رحمتوں‘ مغفرتوں‘ سعادتوں اور نعمتوں کے ساتھ تیرے درِ دل پر دستک دے رہا ہے۔ آگے بڑھ اور اس کی تمام برکتوں کو سمیٹ لے___ تیرے بخت بڑے ہیں کہ تیری زندگی میں ایک بار پھر یہ لمحات تجھے عطا ہو رہے ہیں۔
اِنَّ المُسلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَات … وَالصَّائِمِیْنَ وَالصَّائِمَاتِ … اَعَدَّ اللّٰہ لَھُمْ مَّغْفِرَۃً واجرًا عظیمًا___ اللہ نے فرماں بردار مرد و عورت… روزے دار مرد و عورت کے لیے مغفرت اور اجرعظیم کا سامان تیار کر رکھا ہے!!
یاباغی الشر اقصر! اور اے بدی کے طلب گار___ رُک جا!
اے غافل و بے خبر بندئہ مومن!! ٹھہر جا___ ذرا پیچھے مڑ کر تو دیکھ___ رمضان تجھے بھی پکار رہا ہے۔ اپنے عفو کرم میں تجھے بھی سمیٹنے کو تیار ہے۔ گمراہی‘ بدی‘ معصیت کے راستوں اور شیطان کی رفاقتوں کے چنگل سے واپس پلٹ آ۔ تیرے جرمِ خانہ خراب کو اُسی رب رحمن و رحیم کی بارگاہ سے عفووکرم کی امان مل سکتی ہے۔ رمضان کے یہ بابرکت لمحات___ تیری واپسی ہی کا تو سامان ہیں___ اللہ کو اپناپلٹ آنے والا خطاکار بندہ بہت محبوب ہے۔ ربِ غفور اپنے ہر بندے کو معاف کرنے‘ توبہ قبول کرنے اور بخش دینے والا ہے___ ! رُک جا‘ تھم جا___ اور بلاتاخیر اُس کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوجا___ یہی رمضان کا پیغام ہے۔
آنے والا رمضان ___ اُمت مسلمہ کے لیے حد درجہ اہم‘ روشنی کی کرن اور اُمید کی صبح بن کر طلوع ہو رہا ہے! اللہ کرے! اُمت کی دعائیں مقبول ہوں۔ خطائوں سے درگزر اور کوتاہیوں سے صرفِ نظر ہو۔ لغزشیں معاف ہوں۔ انفرادی بھی اور اجتماعی بھی! اُمت مسلمہ مع العسر یسرًا کی صبح روشن دیکھے۔ اس کی آزمایشیں کم ہوں___ اور سرزمین پاک سے وحدتِ اُمت اور غلبۂ حق کا وہ خواب تعبیر بن جائے‘ جو صدیوں سے اُمت کے کروڑوں بندگانِ ایمان و اخلاص دیکھتے چلے آ رہے ہیں اور ہر سال رمضان کی سعید ساعتوں میں جس کی تمنا کرتے رہے ہیں۔ خدا کرے نیکی کے یہ طلب گار آگے بڑھ کر ___ پورے عالم کو نیکیوں کے غلبے سے معمور کر کے‘ نغمہ توحید کو سربلند اور ظلمتِ شب کو چاک اور کلمۂ حق کو نافذ کرسکیں۔ آمین!
انسان نہ محض جسم و مادہ ہے اور نہ صرف جان و روح بلکہ دونوں کے ایک مرتب مجموعے کا نام ہے۔ جس طرح جسم و مادہ کا ایک عالَم ہے اور اس کی صحت و مرض کے خاص قوانین ہیں‘ ٹھیک اسی طرح ایک مستقل عالَم جان و روح کا ہے‘ اور روح کی صحت و مرض‘ ضعف و قوت‘ بالیدگی و پژمردگی‘ ترقی و تنزلی کے لیے بھی کچھ خاص قواعد اور ضابطے مقرر ہیں۔ شریعت اسلامی ان دونوں عالموں کے متعلق ضروری ہدایتوں کی جامع ہے۔
جسم کو ہلاک کر دینا انسان کے لیے خدا کی مرضی نہیں البتہ جسم کو روح کا ماتحت و مطیع رکھنا عین منشاے خداوندی ہے۔ نماز‘ روزہ‘ زکوٰۃ وغیرہ تمام عبادتوں سے مقصود صرف اسی قدر ہے کہ روح کی لطافتِ طبیعی قائم رہے اور مادہ کی کثافتیں اس کی اصلی سرشت پر غالب نہ آنے پائیں کہ یہی راہِ عبدیت‘ یہی طریق معرفت‘ یہی مسلک خود شناسی ہے۔
روح کا انتہائی کمال یہ ہے کہ جسم سے الگ اور مجرد ہو کرنہیں بلکہ جسم کے ساتھ مراتب ِترقی طے کرے۔ ٹھیک اسی طرح یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ روح کی رفتارِ ترقی میں سب سے زیادہ رکاوٹیں بھی جسم ہی پیدا کرتا رہتا ہے۔ غصہ‘ کینہ‘ حسد‘ حرص وغیرہ جسم ہی کی ترکیب کا نتیجہ ہیں اور یہی وہ چیزیں ہیں جو روح کی کمزوری و پژمردگی کا باعث ہوتی ہیں‘ اور اس کی طبیعی پاکیزگی و صفائی کو گدلا کرتی رہتی ہیں۔
روح کی صحت و پاکیزگی و بالیدگی برقرار رکھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ جسم کو ہلاک کیے بغیر کبھی کبھی مادی دنیا کے تعلقات کو کمی کے انتہائی نقطے پر پہنچا دیا جایا کرے۔ شریعت کی بولی میں اس صورتِ پرہیز کا نام روزہ ہے‘ اور اس ’’پرہیز‘‘ کے شرائط جب ذرا زیادہ سخت کر دیے جاتے ہیں تو اس کا نام ’’اعتکاف‘‘ پڑ جاتا ہے۔ اعتکاف کے لفظی معنی کسی مکان کے اندر اپنے تئیںمقید کردینے کے ہیں۔ اصطلاح شریعت میں اس کا مفہوم یہ ہے کہ انسان عبادت کی غرض سے مسجد میں قیام و سکونت کو لازم قرار دے لے۔
مسجد اس مکان کو کہتے ہیں جو محض یاد الٰہی و عبادت خداوندی کے لیے مخصوص ہو۔ اس میں بیٹھ جانے کے معنی ہی یہ ہیں کہ بندے نے اپنے تعلقات سب طرف سے توڑ کر صرف اپنے خالق سے جوڑ رکھے ہیں۔ اور جس وقت تک وہ اس زاویہ نشینی کی حالت میں ہے وہ نہ کسی کا دوست ہے نہ عزیز‘ نہ حاکم ہے نہ محکوم‘ نہ بھائی ہے نہ شوہر‘ نہ رفیق ہے نہ رقیب‘ بلکہ بندہ ہے اور محض بندہ۔ عورت کی خواہش کرنا اس کے لیے ممنوع‘ غیر ضروری گفتگو اس کے لیے ناجائز‘ کھانا پینا صرف اسی حد تک جائز جو جسم کو ہلاک ہونے سے محفوظ رکھ سکے۔ دوران اعتکاف بندہ‘ گویا اپنے تصور میں ہر وقت دربارِ خداوندی میں حاضر رہتا ہے۔ اسی لیے ہر وہ شے جو اس دربار کے منافی ہے‘ اس کے لیے ناجائز ہے۔
چراغ اسی وقت روشن ہوسکتا ہے جب اس میں تیل موجود ہو‘ انجن جب ہی حرکت کرسکتا ہے جب اس میں برقی یا دخانی قوت کا ذخیرہ موجود ہو‘ جسم کی زندگی جب ہی قائم رہ سکتی ہے جب اسے غذا پہنچتی رہے۔ روح کی زندگی بھی جب ہی قائم و برقرار رہ سکتی ہے جب اسے اپنے مزاج و سرشت کے مطابق غذا پہنچتی رہے۔ اور روح کی غذا یہی ہے کہ کبھی کبھی اسے مادی کثافتوں کے ماحول سے دُور رکھ کر اس کی فطری لطافت کو اُبھرنے اور طبیعی پاکیزگی و شرافت کو چمکنے کا پورا موقع دیا جائے۔
دنیا کا سب سے بہتر و برتر انسان علیہ الصلوٰۃ والسلام‘ خلوت و جلوت دونوں کے آئین و انداز کا پورا رمز شناس تھا۔ رمضان المبارک کے آخر عشرے میں اعتکاف عادتِ شریف میں داخل تھا۔ ماہِ صیام سارے کا سارا عبادت و ذکر الٰہی میں گزرتا تھا۔ لیکن آخر کے ۱۰ دن میں آتشِ شوق اور زیادہ تیز ہو جاتی تھی۔ ازواج و اصحاب سے بے تعلق ہو کر یہ پورا عشرہ مسجد ہی کی چار دیواری کے اندر گزرتا تھا‘ اور بندے کو اپنے معبود کے ساتھ خلوت نشینی کے سارے لُطف حاصل ہوتے تھے۔
ہماری آج ایک بڑی شامت یہ ہے کہ ہم اپنے تئیں ’’جنگ بدر‘‘ شروع کرنے کے لیے آمادہ پاتے ہیں لیکن نہیں سوچتے کہ جنگ بدر سے بہت پیش تر ایک منزل ’’غارحرا‘‘ کی بھی طے ہو چکی تھی۔ واقعات میں ترتیب قائم رکھنا یہ بھی بجائے خود ایک بہت اہم شے ہے۔ کسی واقعے کے اجزا سب وہی رہیں‘ لیکن اگر اجزا کی ترتیب الٹ دی جائے تو وہ واقعہ سچ سے جھوٹ میں تبدیل ہو جاتا ہے چہ جائیکہ بعض اجزا کو سرے سے نظرانداز کر دینا!
آج ہم میں انجمنوں کی کمی نہیں‘ کانفرنسوں کا قحط نہیں‘ جلسوں کی سردبازاری نہیں۔ لیکن اس ذوقِ انجمن آرائی و جلسہ سازی کے ساتھ کتنے ایسے ہیں جو اپنے اُمّی ہادیؐ کی پیروی میں رمضان المبارک کو اس کی شرائط کے ساتھ گزارنا اور پھر اعتکاف کرنا ضروری سمجھتے ہیں؟ کیا رسولؐ خدا کا یہ فعل عبث و لاحاصل ہوتا تھا؟ کیا اس کی ضرورت ان کو تھی؟ مگر ہمارے تہذیب یافتہ دل اور تعلیم یافتہ دماغ اس سے بے نیاز ہیں؟ کیا ہم نے کبھی اس عارضی زاویہ نشینی کا تجربہ کر کے دیکھا ہے‘ اور یہ تجربہ ناکام و لاحاصل رہا ہے؟
حاشا یہ مقصود نہیں کہ ساری قوم اجتماعی زندگی کو چھوڑ کر اپنے اپنے زاویوں کے اندر ہمیشہ کے لیے بیٹھ رہے لیکن یہ گزارش ضرور ہے کہ دوسروں کی اصلاح و ہدایت سے اپنی اصلاح و ہدایت ترتیباً مقدم ہے‘ اور اپنی اصلا ح کا ایک اہم ذریعہ یہ ہے کہ ہم اپنے مقدس ہادیؐ کے طریقے کے موافق کبھی کبھی ذرا دنیا کی کش مکش سے کنارہ کش ہو کر خود اپنے نفس کا جائزہ لینے‘ اپنے اعمال کا احتساب کرنے اور دنیا کے پاک و بے نیاز خالق کے حضور میں اپنی کمزوریوں اور خطائوں کا اعتراف کرنے‘ اور آیندہ کے لیے اس کی توفیق طلب کرنے میں کچھ وقت صرف کیا کریں۔
چراغ پانی سے نہیں‘ تیل سے روشن رہتا ہے۔ ہمارے اندر اگر روحانی صفائی و پاکیزگی کا تیل ختم ہوچکا ہے اور اس کی جگہ نمایش‘ نفسانیت و جاہ پسندی کے پانی نے لے لی ہے تو کیونکر ہم سے ہدایت کی روشنی پیدا ہو سکتی ہے؟ ہر فرد سے پہلے سوال خود اس کی ذاتی زندگی کے متعلق ہوگا۔ یہ زندگی کانفرنسوں اور مجموعوں کی خود نمائیوں کے اندر نہیں سنورتی‘ اس کے سدھارنے اور سنوارنے کے لیے ضروری ہے کہ کبھی کبھی تو بندہ بے حجاب و بے واسطہ اپنی حضوری اس بڑے دربار میں محسوس کرے جہاں پرسش صرف خلوص و راستی کی ہوتی ہے۔ بحث و گفتگو یا مناظرہ و تردید کی حاجت نہیں۔ صرف تجربے کی ضرورت ہے۔ ان شاء اللہ ہرحال میں اعتکاف کا تجربہ مفید ہی نتائج پیدا کرے گا!
______________
تقویٰ سو چ اور عمل کی وہ روش ہے جو دنیا اور آخرت کی ساری بھلا ئیو ں کو اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے۔
اللہ کی کتاب اور جو کچھ اللہ کے رسول ؐ نے کہا ہے اور ہدایت دی ہے اس کا مقصد بھی تقویٰ پیدا کر نا اور متقی بنا نا ہے۔ قرآن مجید اُن کے لیے کتابِ ہدایت ہے جو اپنے اندر تقویٰ کی صفت رکھتے ہو ں۔ اس کے ایک معنی یہ ہوسکتے ہیں کہ اس کی ہدا یت حا صل کر نے کے لیے ‘اس کی راہ پر چلنے کے لیے‘ تقویٰ ضروری اور نا گزیر ہے۔ ایک معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ یہ کتاب اصل میں متقی بنا نے کے لیے نا زل ہوئی ہے۔
تقویٰ کو ہم سب جا نتے اور پہچا نتے ہیں اور مختلف طریقوں سے اس کا تصور اور تاریخ ہمارے درمیان موجو دہے۔ یہ عربی کے جس لفظ (وقایۃ)سے نکلا ہے اس کے معنی’’ بچنے‘‘ کے ہیں۔اسی سے تقویٰ کا لفظ نکلا ہے اور تقویٰ کے لغوی اوراصطلاحی معنی یہ ہو ں گے کہ اپنے آپ کو بچا لو۔
اللہ تعا لیٰ نے انسا ن کی فطرت میں کسی بھی نقصان دہ اور ضرر رساں چیز سے بچنا ‘ودیعت کیا ہے۔جو چیز بھی ہمیں نقصان پہنچا تی ہو ‘اس سے ہم بچنا چا ہتے ہیں اور بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔اگر غور کیا جائے تو ہماری پوری زندگی کا تانا بانا انھی دو چیزوں سے بُنا جا تا ہے۔ ایک یہ کہ اپنے آپ کوان چیزو ں سے بچائیں جن کو ہم اپنے لیے نقصان دہ سمجھتے ہوں‘ اور دوسرے یہ کہ ان چیزوں کو حاصل کیا جائے جن میں ہم اپنے لیے نفع اور فا ئدہ دیکھتے ہو ں۔ نفع اور نقصان کا پیما نہ مختلف ہوسکتا ہے لیکن مومن ہو یا کافر‘ انسا ن کی فطرت میں یہی دو جذ با ت موجزن رہتے ہیں‘ اور زندگی کی ساری سو چ اور ساراعمل ان ہی دو چیزوں سے متعین ہوتا ہے۔ جس چیزسے جان و مال اور عزت و آبرو کو نقصا ن پہنچتا ہو‘ آدمی اس کے خلا ف دفا ع کرتا ہے اور اپنے آپ کو بچا تا ہے ‘اور جہا ںبھی وہ نفع دیکھتا ہے--- پڑھنے لکھنے میں ‘ کیرئیربنا نے میں ‘ تجارت میں ‘ دوسرو ں پر اپنا حکم جتا نے اور اپنی عزت بنا نے میں--- اس کے لیے وہ کا م کرتا ہے۔
ایک لحا ظ سے یو ں محسو س ہو تا ہے کہ تقویٰ دراصل ایک منفی صفت ہے جو اپنے آپ کو اُن چیزوں سے بچا نے کا نا م ہے جو نقصا ن پہنچا نے والی ہوں ۔ جب آدمی اپنے منصو بے کو ہر اس چیز سے بچا لے جو اس کو نقصان پہنچا نے والی ہو‘تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اس کا منصوبہ کامیاب ہو گیا۔اگر کسا ن بیج ڈال کر اپنی کھیتی کو ہر اس آفت سے بچالے جوکھیتی کو نقصا ن پہنچاسکتی ہو توکھیتی لہلہا اٹھے گی اورفصل بھی دے گی۔ اس لحا ظ سے تقویٰ دراصل اپنی پوری زندگی کو اچھے اعمال سے بھردینے کا نا م بھی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اچھے اعمال کو اختیار کرنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ کم سے کم آدمی ان چیزو ں سے رک جا ئے جو نقصان پہنچا نے والی ہو ں۔
لغوی معنو ں کے لحا ظ سے دین میں تقویٰ کا تصور اس لحا ظ سے وسیع اور جا مع ہے کہ اس میں اُن چیزو ں سے بچنا پیش نظر ہے جو زندگی کے مقصد کے خلا ف ہوں۔ اگر زندگی کامقصد اللہ کی بندگی ا ور اس کی رضا وجنت کی طلب ہے تو ہر وہ کام اور ہر وہ بات جس سے اس راہ میں رکا وٹ پڑتی ہو‘ جس سے یہ منزل کھو ٹی ہوتی ہو ‘ جس چیز سے اس منصوبے کواور زندگی کے اس مشن اور کیریئر کو کہ آخرت بنے ‘اللہ کی رضا حاصل ہو اوروہ خو ش ہو جائے‘ نقصان پہنچتا ہو‘ اس سے بچنا دراصل تقویٰ ہے۔ اسی لیے تقویٰ کا اظہار اگرچہ پوری زندگی میں ہو تا ہے لیکن فی الواقع اس کی جڑ انسا ن کے دل میں ہوتی ہے۔ دل میں اگر خدا کی بندگی ‘ اس کی محبت‘ اس کی جنت کی طلب‘ اس کی آگ کا احسا س اور اس سے بچنے کی تڑپ مو جو د ہو تو پھر وہ استعداد‘ صلا حیت اور قوت پیدا ہو تی ہے جس سے ہم اپنے آپ کو ان چیزو ں سے رو ک سکتے ہیں جو اللہ کے غضب کو دعوت دینے والی ہیں ۔ اسی لیے قرآن مجید میں بھی اس کی طرف اشا رہ کیا گیا ہے کہ تقویٰ تودراصل دل کا تقویٰ ہے۔ جو لو گ اللہ کے رسولؐ کے سامنے اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں‘ ان کے بارے میں فرما یا: اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوْبَھُمْ لِلتَّقْوٰیط (الحجرات ۴۹:۳) ’’درحقیقت وہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لیے جانچ لیا ہے‘‘۔
نبی کریمؐ کا بھی ایک ارشاد ہے‘ ایک طویل حدیث میں‘جس میں آپؐ نے ایک مسلمان پر دوسرے مسلما ن کے حقو ق شما ر کرائے ہیںاور پھر آپؐ نے فر ما یا: التقویٰ ھاھُنا‘ تقویٰ یہاں ہے۔ تین مر تبہ آپ ؐنے اپنے سینۂ مبا ر ک کی طرف اشا رہ فر ما یا کہ تقویٰ دراصل یہاں ہے۔
تقویٰ کے اس جامع تصور کی اصل بنیاد دل کی اس کیفیت کا نام ہے کہ اللہ مو جو دہے اور کوئی کام ایسا نہیں ہونا چا ہیے جو اس کو نا را ض کر نے والا ہو ۔ ہر وقت یہ دھیا ن لگا رہے اور خیال رہے کہ اللہ دیکھ رہا ہے۔اگر کبھی اس سے غفلت ہوجائے جوزندگی میں بالکل ممکن ہے‘ توپھر لوٹ کراسی کی طرف آجائے۔ جیسے ہی ہو ش آ ئے‘ تنبیہ ہویا خیا ل آجا ئے کہ میں کو ئی ایسا کا م کر گزرا ہوں جو اُس کی مرضی کے خلاف تھا ‘ تو وہ فوراً پلٹ آئے‘ یہ بھی تقویٰ میں سے ہے۔ تقویٰ کی صفت یہ نہیں ہے کہ آدمی کبھی کو ئی غلطی ہی نہ کرے‘ بلکہ تقویٰ یہ ہے کہ اگر کبھی غلطی ہو جائے تو وہ لو ٹ کر واپس اپنی اصل کی طرف آجا ئے۔ بدقسمتی سے یہ بنیاد نگاہوں سے محو ہوگئی اور تقویٰ کا یہ تصور جوپو ری زندگی پر حا وی ہے ‘ آہستہ آہستہ کم ہو تا گیا اور بالا ٓخر چند ظاہری مراسم تک محدود ہو گیا۔ وضع قطع‘ اٹھنا بیٹھنا ‘ آدا ب‘ بس ان تک تقویٰ کا تصور محدود ہوکر رہ گیا ۔
ہم نے اس موضوع میں ’’اجتما عی تقویٰ‘‘ کے لفظ کو اختیا ر کیا ہے مگر یہ لفظ قرآن و سنت میں نہیں پایا جاتا۔ اس لحاظ سے یہ ایک نیا لفظ ہے‘ اور نیا لفظ اختیا ر کرنے کی کو ئی نہ کو ئی غر ض ہو نی چاہیے۔ اس کی غرض یہ ہے کہ تقویٰ کی زند گی کا وہ دا ئرہ جو اجتما عیت سے تعلق رکھتا ہے ہم اس کے بارے میں کچھ گفتگو کریں۔ اس لیے کہ یہ ایک ایسا دا ئرہ ہے جو عمو ماً نگا ہو ں سے محو ہو چکا ہے اور تقویٰ کے حدود سے بھی باہر نکل چکا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حرام و حلا ل کا تصور بھی بہت محدود ہو گیا ہے ۔ ہم جب حرا م اور حلا ل کا لفظ بو لتے ہیں تو حرا م کے ساتھ ہمارے ذہن میں سود‘ شراب ‘ زنا اور مالِ حرا م ‘ اس قسم کی چیزیں توآتی ہیں لیکن ذہن میں یہ بات بہت کم آتی ہے کہ معاملات میں ‘اور انسانوں کے ساتھ تعلقا ت میں ‘ اور حقوق و فرا ئض کی ادایگی میں بھی بہت ساری چیزیں ایسی ہیں جو حرا م ہیں اور بہت سا ری چیزیں ایسی ہیں جو نما ز اورزکوٰۃ کی طرح فرض کی گئی ہیں۔ خو ن بہا نا‘کسی کا حق ما رنا ‘حسد کرنا‘ یہ سب چیزیں حرا م ہیں۔ غیبت کر نا بھی حرا م ہے۔ مردار کھا نا یقینا حرام ہے‘ اس لیے کہ قرآن نے کہا ہے کہ یہ حرا م ہے۔ اسی طرح سور کا گوشت بھی حرام ہے لیکن غیبت کر نا بھی مردار گوشت کھا نے کے برابر ہے‘ اس لیے وہ بھی اسی طرح حرام ہے جس طرح دیگر چیزیں حرام ہیں۔ لیکن شراب کا جام دیکھ کر تو ہما رے اندر ایک کرا ہیت اور تنفرکی کیفیت پیدا ہو تی ہے اور کو ئی مسلما ن یہ نہیں سوچ سکتا کہ وہ شرا ب کے جام کو ہا تھ لگا ئے یا سور کا گوشت کھائے یا وہ کو ئی اور اس قسم کی با ت کرے‘ اس لیے کہ یہ حرا م ہیں ‘ان کو حدیث میں بھی حرا م ٹھیرایا گیا اورقرآن میں بھی حرا م کیا گیا ہے‘لیکن ہم غیبت کو اس طرح سے حرام نہیں سمجھتے ہیں۔
درحقیقت اگر قرآن یہ کہہ دے کہ یہ مت کرو تو وہ چیز حرا م ہو جا تی ہے۔ سود کے بارے میں اس نے یہ کہا ہے کہ سود مت کھا ئو ‘ تو سود حرا م ہو گیا ۔ شراب کے بارے میں کہا گیا کہ شراب کے قریب مت جا ئو تو شراب حرام ہو گئی۔ زنا کے بارے میں اس نے کہا کہ زنا کے قریب مت جا ئو تو زنا حرا م ہو گئی ۔ اسی طرح اس نے کہا کہ تجسس مت کرو ‘ بد گما نی مت کرو ‘ غیبت مت کرو ‘ کسی کا تمسخر مت اڑا ئو ‘ برے القاب سے مت پکارو‘ اور گالیاں نہ دو‘ یہ سارے کے سارے احکام بھی ویسے ہی احکا م ہیں‘ جس طرح قرآن میں نمازپڑھنے کا حکم ہے‘ زکوٰۃ دینے کا حکم ہے ‘ چور کا ہا تھ کا ٹنے کا حکم ہے‘ شراب سے رک جا نے کا حکم ہے اور سود نہ کھا نے کا حکم ہے ۔ ان کے درمیان قرآن مجید نے کو ئی فرق نہیں کیا ہے‘ لیکن چو نکہ یہ مشکل کام ہیں اس لیے آہستہ آہستہ یہ تقویٰ کی تعریف سے بلکہ حرا م چیزو ں کی تعریف سے بھی خا رج ہو تے گئے اورآج کا ایک مسلمان جو اللہ کے دین کی پابندی کر رہا ہو وہ یہ تو نہیں سو چتا کہ میں شرا ب پی لوں ‘ یا سو ر کا گو شت کھالوں مگر اس کو غیبت کر نے میں‘جھو ٹ بو لنے میں ‘ کسی کا حق ما رنے میں‘ کسی کے ساتھ بدعہدی کرنے میں‘ کسی کے ساتھ برا سلوک کر نے میں کو ئی عار محسو س نہیں ہوتی ۔ ان گناہوں کے ارتکاب پر اس کے ضمیر میں معمولی سی خلش بھی پیدا نہیں ہوتی۔ اس کے اندر سے نفرت کی کوئی لہراس طرح سے نہیں اٹھتی جس طرح کہ اور چیزو ں کے بارے میں ہو تی ہے۔چونکہ تقویٰ کا یہ پہلو اجتما عی زندگی سے متعلق ہے ‘ اس لیے ہم نے ’’اجتماعی تقویٰ‘‘کی اصطلا ح وضع کر کے اس کو وا ضح کر نے کی کوشش کی ہے۔
قرآن مجید سے یہ معلوم ہو تا ہے کہ تقویٰ کی جتنی بھی اس نے تعریفیں کی ہیں ان کے اندر یہی پہلو سب سے اہم اور نما یاں ہے جس کو اس نے ہما رے سامنے رکھا ہے۔ سورۃ البقرہ کی یہ مشہو ر آیت کہ:
لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ …وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَo (البقرہ ۲:۱۷۷) نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کر لیے یا مغرب کی طرف‘ بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یومِ آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں اور یتیموں پر‘ مسکینوں اور مسافروں پر‘ مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے ‘ نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے۔ اور نیک وہ لوگ ہیں کہ جب عہد کریں تو اُسے وفا کریں ‘ اور تنگی و مصیبت کے وقت میں اور حق و باطل کی جنگ میں صبر کریں۔ یہ ہیں راست باز لوگ اور یہی لوگ متقی ہیں۔
قرآن مجید نے جہا ں جہا ں بھی احکام کا ذکر کیا ہے ‘نکا ح و طلاق کے احکا م ہوں یا ورا ثت کے‘ یا اجتما عی زندگی سے متعلق ‘ وہاں یہی کہا کہ اللہ کے رسولؐسے اپنے آپ کو آگے نہ بڑھا ئو۔ واتقوا اللّٰہ ’’اللہ سے تقویٰ اختیا ر کرو‘‘ ۔ اپنی آوا زو ں کو اونچا نہ کرو‘ یہ بھی تقویٰ کی نشا نی ہے۔ مجلس میں کہا جا ئے کہ پھیل جا ئو تو پھیل جا ئو ‘اور اگر کہا جا ئے کہ سکڑ جا ئوتوسکڑ جا ئو۔ جب کہا جا ئے کہ اٹھ جا ئو تو اٹھ جا ئو‘ یہ بھی بڑی نیکی ہے ۔ یہ معمو لی نیکیا ں نہیں ہیں۔ یہ بھی اجتما عی اخلاق سے تعلق رکھتی ہیں ۔ پھر وہ حکمران جو دوسرو ں پر جبر و استبداد کرتے ہیں ان کے لیے بھی یہی بات کہی گئی ہے کہ یہ بہت بڑا ظلم ہے اور اس کے خلا ف بھی قرآن مجید نے ساری با تیں کھو ل کے بیان کی ہیں ۔ اللہ کے جو نبی بھی آئے‘ انھو ں نے جہا ںاس بات کی دعوت دی کہ اللہ کی بندگی کرو کہ اس کے سوا کو ئی الٰہ نہیں ہے وہا ںقرآن مجید نے ایک تواتر سے ہر نبی کی یہ دعوت بھی نقل کی ہے کہ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ (اٰل عمرن ۳:۵۰)‘ اللہ سے تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو۔گویا اس کتا ب سے مستفید ہونے کے لیے تقویٰ لاز می اور ناگزیر ہے۔
اجتما عیت کے مختلف پہلو الگ الگ شما رکیے جا سکتے ہیں۔ اجتما عیت کا ایک پہلو آدمی اور آدمی کے درمیان تعلقا ت اور معا ملا ت ہیں ‘ اور اگر غور کیا جائے تو یہ ایک ایسا دا ئرہ ہے جس کی حدود میں زندگی کا بیشترحصہ آجاتا ہے۔ ما ں با پ‘بھا ئی بہن‘ دوست احبا ب ‘ محلے والے‘ کا روبار کے ساتھی‘ سب اس کے اندر آجاتے ہیں۔ ایک دوسرا پہلو وہ تعلق ہے جو اجتماعیت سے آدمی کا قا ئم ہو تا ہے۔ اپنے ذمہ دارو ں سے تعلق خواہ وہ حکمران ہو یا کسی کمپنی کا مالک ‘یا کسی تنظیم کا سر برا ہ‘ جو بھی ذمہ داران ہوں‘ ان کے اپنے سے نیچے والوں سے تعلقات ہوں یا نیچے والوں کے اوپر والوں سے تعلقات یا ایک پو ری اجتما عیت سے آدمی کے تعلقات ہوں--- یہ سب کے سب اجتماعی تقویٰ کے دائرے میں آتے ہیں۔ یہی دراصل وہ اجتما عی تقویٰ ہے جو اللہ تعا لیٰ کے ہا ں جوا ب دہی اور مسئو لیت کے لیے سب سے زیادہ نا زک مقام ہے۔
ایک حدیث میں آتا ہے اور اسے حضرت عا ئشہ ؓ نے روا یت کیا ہے کہ اللہ تعا لیٰ کے سامنے اعمال تین رجسٹروں کی شکل میں پیش ہوں گے۔ ایک اعمال کا رجسٹر وہ ہو گا جس کو اللہ تعا لیٰ ہر گز معاف نہیں کرے گا‘ ایک اعمال کا رجسٹر وہ ہو گا جس کی اسے کو ئی پروا نہیں ہوگی‘ اور ایک اعمال کا رجسٹر وہ ہو گا جس کا حسا ب لیے بغیر وہ نہیں چھو ڑے گا۔ پہلا رجسٹر شر ک سے متعلق ہے۔ شرک کو معاف نہیں کیا جا ئے گا ۔ دوسرے رجسٹر میں وہ چیزیں ہیں جو آدمی نے اپنے نفس کے اوپر ظلم کیے۔ اس کا تعلق اس کی ذات سے ہے یا اللہ سے‘ مثلاً نمازچھو ٹ گئی‘ یا اس میں کو تا ہی ہو گئی ‘ یا روزے میں کو ئی کو تاہی ہوگئی۔ یہ وہ اعمال ہیں جن کی اللہ کو کو ئی پروا نہیں ہوگی۔ یہ بھی آدمی کی بھلا ئی کے لیے ہیں۔ اگر وہ چا ہے گا تو معاف کر دے گا اور اگر چاہے گا تو اس پر حساب لے لے گا ۔ لیکن جو تیسرا رجسٹرہے‘ یہ ان معا ملا ت کا ہے جو انسا ن اور انسا ن کے درمیا ن ہیں اور یہی در اصل اجتما عی معا ملات ہیں۔یہی وہ رجسٹرہے جس کا حساب لیے بغیر وہ ہر گز نہیں چھوڑے گا۔ اس سے یہ معلوم ہو تا ہے کہ اجتما عی تقویٰ کا معاملہ سب سے ناز ک معاملہ ہے‘ دنیا میں بھی اور آخرت کی نجا ت کے لیے بھی ۔
نبی کریم ؐ نے مختلف انداز میں اپنے صحا بہ کے ذوق اور ان کے مزا ج کے پیش نظر ان کی سوچ کی تعمیر اس طرح کی کہ وہ یہ سمجھ لیں کہ انسا ن اور انسان کے درمیا ن معا ملات دراصل تقویٰ کا وہ دائرہ ہے جس میں ان کو سب سے زیا دہ ہو شیاررہنے اور سب سے زیا دہ اپنی خبر گیری کرنے کی ضرورت ہے۔یہ اس لیے کہ اس کا مداوا نہیں ہو سکتا نہ عبا دات ہو سکتی ہیں اور نہ کو ئی دوسری نیکیا ں۔چنا نچہ آپؐ نے ایک دفعہ ایک بہت ہی خوب صورت مثا ل کے ذریعے اپنے اصحا ب سے یہ پو چھا کہ جانتے ہو مفلس کون ہے؟ صحابہؓ نے کہا کہ مفلس تو ہم اس کو سمجھتے ہیں جس کے پاس رو پیہ پیسہ اور دنیا کا مال و متاع نہ ہو ۔حضورؐنے فر ما یا کہ نہیں بلکہ میری امت کا مفلس وہ ہے جو قیامت کے روز نما ز‘ رو زہ اور صدقات کی بہت ساری نیکیا ں لے کر آئے گا لیکن اس حا ل میں آئے گا کہ کسی کو گا لی دی ہوگی‘کسی کے اوپر بہتان لگا یا ہو گا ‘کسی کا خو ن بہا یا ہو گا‘ کسی کا مال کھا یا ہو گا اور کسی کا حق مارا ہو گا۔سارے دعوے دار وہا ں پر کھڑے ہو جا ئیں گے ‘ ان کے دعوئوں کا تصفیہ کیا جا ئے گا اور قصا ص دلوایا جائے گا۔ اس کے بعد اس کی نیکیا ں لے کر ان لوگوں میں تقسیم کر دی جائیں گی۔ آپؐنے پورا منظر کھینچ کر دکھا دیا کہ اِس دعوے دار کو نیکیا ں دے دی جا ئیں گی‘ اُس دعوے دار کو نیکیا ں دے دی جا ئے گی‘ اس لیے کہ وہا ں سوائے نیک اعمال کے کو ئی اور کر نسی نہیں ہو گی کہ جس کے تحت آدمی کے اعمال کا فیصلہ ہو ۔ جب اس کی تمام نیکیا ں ختم ہو جا ئیں گی تو دعوے دارو ں کی برا ئیا ں اور گناہ لے کر اس کے سر پر ڈا ل دیے جا ئیں گے اور بالآخر وہ آگ میں ڈا ل دیا جا ئے گا ۔
ایک اور حدیث میں آپ ؐنے اسی بات کو مزید موثر انداز میں یوں بیان فرمایا کہ آدمی جب اپنے اعما ل نا مے پر نگا ہ ڈا لے گا اور نیکیا ں دیکھے گا تو سمجھے گا کہ میں تو نجا ت پا گیا یہا ں تک کہ دعوے دار کھڑے ہو جا ئیں گے ۔ جب دعوے دار دعویٰ کر نا شروع کر دیں گے اور ایک ایک دعوے کا تصفیہ کیا جائے گا اور فیصلہ صادر ہو گا تو آخر میں معلوم ہو گا کہ نیکیو ں کا سارے کا سارا ذخیرہ تو دوسرو ں کی نذر ہو گیا اور اپنے پاس کچھ بھی نہیں رہا کہ جس پر آخرت میں نجا ت کا ساما ن ہو ۔ لہٰذا آخرت میں بھی اس کی اہمیت ہے اس لیے کہ کو ئی عبادت بھی اس کا بدل نہیں ہو سکتی۔ دین نے جو قدرو ں کا پیما نہ دیا ہے اس میں اسی کو سب سے اہم بات کے طور پر رکھا گیا ہے ۔
ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریمؐ کے سامنے دو عورتو ں کا ذکر کیا گیا اور کہا گیا کہ ایک عورت تو بہت نما زیں پڑھتی ہے‘ صدقہ دیتی ہے‘ روزے رکھتی ہے لیکن ا س کے پڑوسی اس کی بد زبانی سے تنگ ہیں۔ اس کا کیا انجا م ہو گا؟ آپؐ نے فر ما یا: ھی فی النار ’’یہ جہنم میں جا ئے گی‘‘۔ ایک دوسری عورت کا ذکر ہوا کہ وہ فرض نما زیں پڑھ لیتی ہے ‘ کچھ پنیر کے ٹکڑے صدقہ کردیتی ہے‘ رمضا ن کے روزے رکھ لیتی ہے اور کو ئی خاص عبادات نہیں کرتی۔ لیکن یہ کہ پڑو سی اس کی خو ش کلا می اور شیریں بیا نی سے بہت خو ش ہیں۔ آپؐ نے فر ما یا: ھی فی الجنۃ ’’یہ جنت میں جا ئے گی‘‘۔
ایک اور واقعہ احا دیث کی کتا بو ں میں آتا ہے کہ ایک صا حب حضورؐ کی مجلس میں آئے اور اٹھ کر چلے گئے۔ آپؐ نے فرما یا کہ کسی کو جنتی کو دیکھنا ہو تو ان کو دیکھ لے ۔حضرت عبداللہ ابن عمر ؓنے جب یہ سنا تو ان کو یہ شوق ہوا کہ وہ جا کر یہ معلوم کریں کہ آخر وہ کیا چیز ہے کہ جو اِن کوجنت میں لے جا نے والی ہے اور یہ کہہ دیا گیا ہے کہ اگر جنتی کو دیکھنا ہو تو ان کو دیکھ لو ۔ ان کو جنت میں جا نے کا شوق تھا‘ اس کی تلاش میں رہتے تھے ۔ وہ ان کے پاس گئے‘ کو ئی بہا نہ کیا اور کہا کہ میری گھر میں لڑا ئی ہوگئی ہے‘ ناراضی ہو گئی ہے‘ اس لیے میں آپ کے پاس کچھ وقت کے لیے رہنا چا ہتا ہوں۔ انھوں نے کہا کہ ٹھیک ہے آپ شوق سے ٹھیرجائیں۔ انھو ں نے دیکھا کہ رات آئی اور پوری رات گزرگئی یہاں تک کہ فجر کا وقت آگیا ۔ انھوں نے کھڑے ہو کر تہجد نہیں پڑھی ۔ ان کو بڑا تعجب ہوا کہ یہ آدمی تہجد بھی نہیں پڑھتا تو یہ جنت میں کیسے جا ئے گا؟ پھردن بھر انھیں دیکھتے رہے‘ ان کے اعمال کا عبادات کے لحا ظ سے ‘ تقویٰ کے معیار کے لحا ظ سے جائزہ لیتے رہے مگر انھیں کوئی خا ص با ت نظر نہیں آئی۔ تیسرے دن انھوں نے ان سے رخصت لی اور کہا کہ میں تو دراصل اس لیے آیا تھا کہ آپ کے بارے میں رسولؐ اللہ نے فرمایا تھا کہ کسی نے اگر جنتی کو دیکھنا ہو تو انھیں دیکھ لے مگر میں نے تو آپ کے اندر ایسی کو ئی خاص بات نہیں پا ئی۔ اس پر انھو ں نے کہا کہ میں جو کچھ بھی ہوں آپ کے سامنے ہو ں‘ اتنا ہی جا نتا ہوں ۔ بس اتنی بات ضرور ہے کہ میرے دل میں کسی مسلمان کے لیے کو ئی کینہ اور دشمنی نہیں ہے۔ انھو ں نے کہا کہ یہی دراصل وہ وجہ ہے جس کی وجہ سے اللہ کے رسولؐنے آپ کے بارے میں یہ بشا رت دی کہ یہ آدمی جنتی ہے ۔ اس سے یہ معلوم ہو تا ہے کہ عبادات کے درمیان ان چیزو ں کا کیا مقا م ہے!
انسا ن اور انسا ن کے درمیان ‘ بلکہ یوں کہیے کہ انسا ن ا ور ساری مخلو قا ت کے درمیان‘ جن میں جانور ‘ پر ندے اور درخت سب آجا تے ہیں ‘ اجتماعی تقویٰ کا بنیادی اصو ل یہ ہے کہ آدمی دوسرے کو ایذا پہنچانے سے اپنے آپ کو بچا ئے ۔ صحیح با ت یہ ہے کہ ساری شریعت کی بنیا د یہی ہے۔ نکاح اور طلاق کے مسائل ہوں یا ورا ثت کے ا حکا م ‘ سیا ست کے قوانین ہوں یا شریعت کے حدود ‘ سب کا مدا ر اسی بات پر ہے کہ انسان دوسرے انسا ن کو ایذا نہ پہنچا ئے‘ کسی تکلیف نہ دے ۔ چھو ٹے چھو ٹے احکام ہیں کہ آدمی گھر میں جائے تو اجا زت لے کر دا خل ہو‘گھر میں بلااجازت دا خل ہو جائو گے تو گھر والوں کو تکلیف ہو گی اور ایذا پہنچے گی ۔ تین آدمی کھڑے ہوں تو دو آدمی آپس میں با ت نہ کریں ۔ اس لیے کہ تیسرے آدمی کو ایذا پہنچے گی اور تکلیف ہو گی۔ اس سے اپنے آپ کو بچا ئو ۔ چھو ٹے احکام ہوں یا بڑے ‘ ان سب میں بنیا دی اصول یہی ہے۔ تمام علما نے حسن اخلا ق کی تعریف یہ کی ہے کہ اچھا اخلاق یہ ہے کہ آدمی دوسروں کو اذیت پہنچا نے سے اپنے آپ کو روک لے ۔ مو لا نا اشرف علی تھا نوی ؒ کے الفا ظ میں اگر آدمی صرف دو با تیں اختیار کرلے تو پو ری شریعت اس کے اندر آجا تی ہے ۔ ایک یہ کہ وہ جو کام کرے خالص اللہ کی رضا کے لیے کرے ‘اور دوسری بات یہ کہ کسی بندے کو‘ کسی مخلو ق کو اپنی ذات سے ایذا نہ پہنچائے ۔ کو ئی بات ایسی نہ کہے ‘ کو ئی کام ایسا نہ کرے‘ کو ئی معا ملہ ایسا نہ ہو جس سے دوسرے انسان کو ایذا پہنچے۔ اگر لوگ صرف ان دو اصولو ں کو اپنے زندگی کے اندر اختیار کر لیں توپوری کی پوری شریعت ان کی گرفت میں آجا ئے گی۔
سیرت اور احادیث میں بہت سارے واقعات ہیں جن میں نبی کریمؐ نے فرما یا کہ کم سے کم آدمی کو اتنا تو ضرور کر نا چا ہیے کہ نیکی کی راہ سجھائے‘ دوسروں پر خرچ کرے‘ غریبوں کی خدمت کرے ‘ کما کر بھی دے اور بھلی بات کہے۔ جب لو گو ں نے کہا کہ اگر یہ بھی نہ ہو سکے۔ پھرآپؐ نے فر مایا کہ کم سے کم اپنی ذات سے دوسروں کواذیت پہنچانے سے روک لو۔ یہ توکم سے کم چیز ہے کہ جس کا آدمی سے مطا لبہ کیا جا سکتا ہے۔ حالا نکہ یہ ایک بہت بڑی چیز ہے ۔آپؐ نے یہا ںتک فر مایا: من اذی مسلماًً فقد اذا نی ومن اذا نی فقد اذی اللّٰہ، جو آدمی کسی مسلما ن کو ایذا پہنچا تا ہے ‘ وہ مجھے تکلیف پہنچا تا ہے اور جس نے مجھے ایذا پہنچا ئی (رسولؐ کو ایذا پہنچا ئی ) اس نے اللہ کو ایذا پہنچائی۔ اس طرح بندے کا معاملہ برا ہ راست اللہ کے ساتھ متعلق ہو گیا ۔ مسلمان کی تعریف یہی کی گئی ہے کہ مسلما ن وہ ہے جس کی زبان اور ہا تھ سے دوسرا مسلمان محفو ظ ہو‘ اور جس کے ہا تھ میں اپنے معا ملا ت دے کر مسلما ن مطمئن ہو کہ معا ملہ ٹھیک چلے گا ۔ آپؐ نے یہ بھی فر ما یا کہ مسلما ن پر مسلمان کا خو ن حرام ہے ‘ اس کی عزت حرا م ہے ‘ اور اس کا ما ل حرا م ہے۔جب حرا م میں عزت آگئی‘مال آگیا‘ جسم و جان آگئی تومحرمات کا یہ دائرہ بڑا وسیع ہوگیا‘جب کہ ہم نے حرام کا تصور بڑا ہی محدود کر دیا ہے۔ کھا نے پینے اور اسی قسم کی چیزو ں کو ہم سمجھتے ہیں کہ یہ حرا م ہیں لیکن اللہ کے رسول ؐ فرما تے ہیں کہ خو ن بھی حرا م ہے ‘ عزت بھی حرا م ہے اور مال بھی حرا م ہے۔ یہ دراصل وہ بنیادی اصول ہے جس کے تحت تقویٰ کی صفت پیدا ہوتی ہے۔
تقویٰ کے بہت سارے احکام ہیں‘ یہاں سب کو سمیٹ کر بیان کر نے کی ضرورت نہیں ہے۔ اتنا ہی کافی ہے کہ ایک بنیادی اصول ہا تھ میں آجا ئے جس کو قرآن و حدیث میں بہت ساری جگہ کبھی وا ضح طور پر ‘ کبھی با لوا سطہ‘ کبھی اشارے سے‘ مختلف طریقو ں سے واضح کیا گیا ہے ۔غور فرمایئے کہ طلاق یا نکا ح کے احکام ہوں‘ سب معا ملات میں اللہ تعا لیٰ ہر جگہ یہی بات کررہا ہے کہ کو ئی ایسی بات نہ کرو کہ جس سے بیو ی کو یا بیو ی سے شو ہر کو ایذا پہنچے۔ اسی طرح ورثے کی تقسیم اس طرح نہ کرو جس سے کسی دوسرے کی حق تلفی ہو اور اسے ایذا پہنچے۔ جتنے بھی احکا م ہیں‘ ان کے اندر اصل چیز ضرر کو مٹانا‘ حق تلفی کو ختم کرنا اور انسانوں کے تعلقات میں ایذا کو ختم کر نا ہے ۔ اسی کو دوسرے الفا ظ میںظلم سے تعبیر کیا گیا ہے۔ لہٰذا اجتما عی تقویٰ یہ ہے کہ انسان ظلم اور ایذا سے بچے۔ ظلم کے لفظ کو خاص طور پر بہت وسیع مفہوم میں استعمال کیا گیا ہے ۔
ظلم کی بہت سی صورتیں ہیں ۔ شرک بھی ظلم ہے۔ اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ o (لقمان ۳۱:۱۳) ’’بلاشبہہ شرک بہت بڑا ظلم ہے‘‘۔ لیکن انسا نو ں کے درمیان جو ظلم ہے اس کو اللہ تعا لیٰ نے یو ں بیا ن فرما یا ہے کہ میں نے اپنے اوپر ظلم کر نا حرا م کر دیا ہے‘ تو تم بھی آپس میں ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو ۔ ظلم ایک ایسی چیز ہے جو قیا مت کے روز اندھیرا بن جا ئے گی اور پھر اس سے آدمی کی نجا ت کی کوئی صورت نہیں ہوگی۔آپؐ نے جو گو رنر بھیجے ‘ جن کو مسلما نو ں کے کو ئی معاملا ت سپرد کیے ‘ دوسرو ں کے ما ل کے حوالے سے‘ یا سیاست میں ‘ حکو مت میں جن کو معا ملات پیش آتے رہے‘ ان کو آپؐ یہ وصیت کرتے رہے کہ مظلو م کی بددعا سے بچو ۔مظلو م کی بددعا اور اللہ تعا لیٰ کے درمیان کو ئی رکا وٹ نہیں ہے۔ایک اور حدیث میں فرما یا کہ ولو کا ن فا جراًً، یعنی اگر مظلو م بہت گنا ہ گا ر ہو تب بھی اس کی بددعا ضرور لگے گی۔ اس کے گنا ہ اس کے ذمے ہیں اور تمھا را ظلم تمھا رے ذمے ہے۔ ایک اور جگہ آپؐ فرما یا کہ ولوکا ن کا فراً، اور اگر کا فر ہو‘ تب بھی اگر مظلو م ہے تو اس کی بددعا ضرور عرش الٰہی تک جا ئے گی ۔ اس لیے مظلو م کی بد دعا سے بچنا۔
ظلم کا دا ئرہ صرف انسانوں تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کو ساری مخلو قا ت تک وسیع کیا گیا ہے ۔ اس طرح مومن کا یہ مزا ج بنا یا گیا ہے کہ کسی کے ساتھ بھی زیا دتی کا نہ سوچے اور نہ زیا دتی کرے۔ جانوروں کاذکر میں اس لیے کر رہا ہو ں تاکہ اس بات کا بھی اندا زہ ہو جا ئے کہ اجتماعی تقویٰ کے معاملے میں اسلام کی تعلیم کتنی نازک اور حسا س ہے۔ جانور توبے زبا ن ہوتے ہیں ‘ لیکن آپؐ نے فرما یا کہ ان جانوروں کے معا ملے میں بھی اللہ سے تقویٰ اختیار کرو ۔ اگر ذبح بھی کر نا ہو تو کم سے کم تکلیف دو اور تیز چھری سے ذبح کرو۔ ایک آدمی نے ایک جا نور کو لٹا دیا اور اس کے بعد اس کے سا منے چھری تیز کرنے لگا ۔ آپؐ نے فرما یا کہ اس کو تم دو موتیں کیوں ما رتے ہو؟ ایک تو اس کو مرنا ہے ‘ ذبح ہونا ہے اور دوسرے سامنے چھری تیز ہوتے دیکھ کر اس کا دل سہم جا تا ہے ۔ چھری پہلے تیزکرو پھر اس کے بعد جا نور کو لٹائو ۔ ایک عورت کے بارے میں فر مایا کہ اس نے ایک بلی کو با ندھ لیا نہ اس کو کھولتی تھی کہ جا کر وہ کھا پی لیتی اور نہ اسے غذا دیتی تھی۔ وہ مرگئی۔ میں نے معراج کے وقت اس عورت کو دیکھا۔ وہ عورت جہنم میں صرف اس لیے تھی کہ اس نے بلی کو بھوکا با ندھ دیا اور وہ مرگئی۔ غرض اونٹو ں کے بارے میں‘ جانوروں کے بارے میں‘ پرندوں کے بارے میں سب کے متعلق آپؐ نے ہدایات دی ہیں۔ کسی نے چڑیا کے بچوں کو گھونسلے سے اٹھا لیا۔ چڑیا بے قرار پھرنے لگی ۔ آپؐ نے کہا کہ ان کو چھوڑ دو اس لیے کہ جانوروں کے بارے میں بھی قصاص ہوگا ۔ اس طرف بھی آپ ؐنے اشارہ کیا ہے کہ اگر زیادتی ہوگی تو پرندہ کہے گا کہ اس آدمی نے مجھ کو بیکار مارا۔ نہ میں نے کچھ کھایا اور نہ کچھ کہا‘ اس نے خواہ مخواہ مجھے مار ڈالا۔ اس زمانے میں جانوروں کے مقابلے ہوتے تھے۔ جانوروں کو باندھ کر تیرکے نشانے باندھے جاتے تھے۔اس سب سے آپؐ نے منع فرمادیا ۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے کہ جانوروں پر اس طرح کے مظالم ڈھائے جائیں ۔
ایک مرتبہ آپؐ ایک انصاری صحابی کے باغ میں گئے تو ایک اونٹ آپ ؐکے پاس آیا ۔ فاقے کے مارے اس کا پیٹ پیٹھ سے لگ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ آپؐ نے کہا کہ اس نے مجھ سے تمھاری شکایت کی ہے کہ تم اس کو کھانے کو نہیں دیتے ہو اور کام زیادہ لیتے ہو ۔ تمھارے جانوروں کا بھی تمھارے اوپر حق ہے ۔
پرانے زمانے کے ایک پیغمبرتھے۔ ان کے بارے میں حدیث میں ہے کہ ان کو ایک چیونٹی نے کاٹ لیا ۔ انھوں نے چیونٹیوں کے پورے بل کے اندر آگ لگادی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو فرمایا کہ تم اسی ایک چیونٹی کو مارتے جس نے تمھیں کاٹاتھا ۔ ساری چیونٹیوں نے تو کوئی قصور نہیں کیاتھا کہ تم ان کو اس طریقے سے آگ لگاتے (بخاری)۔ لہٰذا بدلہ لینے میںبھی ظلم سے بچنے کی بڑی شدید تاکید قرآن اور احادیث کے اندر موجود ہے ۔
غور کیجیے کہ جس شریعت اور دین نے جانوروں‘ پرندوں ‘ چیو نٹیو ں وغیرہ کے بارے میں اتنا اہتمام کیا ہے ‘ اس میں انسانوں کا کیا مقام ہوگا !
ایذا اور تکلیف پہنچانے میں جو چیزیں سب سے اہم ہیں‘ وہ یہ ہیں:
سب سے پہلے انسانی جان کا معاملہ ہے ۔ اگر کوئی شخص کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کردے‘ قرآن مجید کے الفاظ ہیں متعمداً‘ تو پھر اس کا بدلہ یہ ہے کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہے گا ۔ اس کا کوئی مداوا نہیں ہے ۔ اس لیے کہ جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔ (المائدہ ۵:۳۲)
یہ انسانی جان کا احترام ہے لیکن جسم کو تعذیب دینے سے بھی منع کیا گیا ہے ۔ تعذیب کے لیے انگریزی زبان کا جو لفظ آج کل مروج ہے اور حکومتوںاور ریاستوں نے بھی اسے اختیار کر رکھا ہے‘ وہ ’’ٹارچر‘‘ہے ۔ اس کی اجازت نہیں ہے کہ کسی لحاظ سے بھی انسان کو ٹارچر کرکے جرم منوایا جائے‘ نہ اس کی اجازت ہے کہ حکومت اپنے کام کروائے‘ اور نہ اس کی اجازت ہے کہ مخالفین پر ٹارچر کیا جائے ۔
ایک موقع پر کچھ لوگ دھوپ میں کھڑے تھے کہ ایک صحابیؓ کا وہاں سے گزر ہوا۔ یہ دور خلافت کا واقعہ ہے۔ انھوں نے پوچھا کہ یہ لوگ دھوپ میں کیوں کھڑے کیے گئے ہیں؟ کہا گیا کہ ان لوگوں نے ٹیکس نہیں ادا کیا ہے۔ اس لیے ان کو دھوپ میں کھڑا کیا گیا ہے ۔ فرمایا کہ میں نے نبی کریم ؐ سے سنا ہے کہ جو آدمی بندوں کو عذاب دے تو اللہ تعالیٰ اس کو عذاب دیتا ہے ۔ اس لیے تعذیب سے ‘ ٹارچر سے‘ اور جسم کو کوئی نقصان پہنچانے سے منع کیا گیا ہے۔ یہ جان کے احترام کی تعریف کے اندر آتا ہے ۔ اسی طریقے سے کوئی ایسا مذاق کرنا جس سے دوسرے کو تکلیف پہنچے ‘ اس کو بھی آپ نے سختی سے منع کیا ‘ مثلاًکسی کے جوتے چھپا دیے یا کسی کا اسلحہ چھپا دیا ۔ اگرباہمی تعلقات ایسے ہیں کہ کوئی برا نہیں مانتا تو پھر کوئی ممانعت نہیں۔ لیکن جہاں آدمی اس پر برا مانے ‘ اسے تکلیف پہنچے تو پھراس سے آپؐ نے منع فرمایا ہے ۔ احادیث میں ایسے بے شمارواقعات ہیں جن میں آپؐ کی تنبیہات ہیں ۔ شرارت سے اشارہ کرنا ‘ تلوار سے یا کسی دوسری چیز سے کسی کو ڈرانا‘ اس سے بھی آپؐ نے کہا کہ مسلمان کو مت ڈراؤ ‘اس کو خوفزدہ مت کرو ۔ یہ سارے احکام دراصل جسم اور جان کی حفاظت کے لیے ہیں کہ مسلمان بھائی کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان کی ہرچیزمحفوظ رہے ۔ اس کا خون بھی محفوظ رہے ‘ مال بھی اور عزت و آبرو بھی ۔
اس سے اگلی چیز‘ عزت و آبرو ہے جوایک دوسرے پر حرام کی گئی ہے۔ عزت انسان کو اپنے خون سے بھی زیادہ عزیز ہوتی ہے ۔ اس کی خاطرآدمی جان بھی دے دیتا ہے۔ مسلمان کی عزت پر کہیں سے بھی کوئی حرف آئے ‘ آدمی کوئی ایسی بات کہے جو غیبت ہو یا تمسخر‘ بدظنی ہو یا بدگمانی‘ دوسروں کے عیوب کی نقل کرتے پھرنا ہو یا باہمی تعلقات کو خراب کرنا--- اس سب کے بارے میں احا دیث کے اندر اتنی شدید وعیدیں اور تنبیہات آئی ہیں جو دیگر اعمال کے بارے میں نہیں آئی ہیں۔ غیبت کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ زنا سے بھی بدتر جرم ہے ۔ کسی کے پیٹھ پیچھے اس کی برائی کا ذکر کرنا یا ایسی باتوں کا ذکر کرنا جو اس کو ناگوار ہوں‘ یہ غیبت ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کے اندر بہت عام ہے ۔ لوگ سود کھانے کو اور شراب پینے کو توبرا سمجھتے ہیں لیکن مسلمان کا گوشت آرام سے اور مزے لے لے کر کھاتے ہیں‘اور اسے برا بھی نہیں سمجھا جاتا۔ چغلی کھانا ‘ایک کی بات دوسری جگہ پہنچانا‘ لوگوں کے عیوب ٹٹولنا‘ یہ بات بڑی کثرت سے پائی جاتی ہے‘جب کہ لوگوں کے عیوب پر پردہ ڈالنے کا حکم ہے ۔ لوگوں کے عیوب کی پردہ کشائی کرنے اور ان کو ذلیل کرنے سے بڑی سختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے ۔ کسی کی عزت کو پامال کرنا خواہ جس بھی طریقے سے ہو ‘ گفتگو کے ذریعے سے یاکسی قسم کے اشاروں کے ذریعے سے‘ منع ہے۔ اشاروں سے لوگوں کی تحقیر کرنے کی مذمت قرآن مجید نے خود باربار کی ہے۔ وَیْلٌ لِّکُلِّ ھُمَزَۃٍ لُّمَزَۃِ o (الھمزہ ۱۰۴:۱) ’’تباہی ہے ہراس شخص کے لیے جو (منہ در منہ) لوگوں پرطعن اور (پیٹھ پیچھے) برائیاں کرنے کا خوگر ہے‘‘۔ اس کی اجازت نہیں ہے۔تحقیر کرنے کے بارے میں تو یہ فرمایا گیا ہے کہ آدمی کے برا ہونے کے لیے یہ بات بالکل کافی ہے کہ وہ دوسرے مسلمان کو حقیر سمجھے ‘ یا اس کو کہیں پر ذلیل کرے ۔ چنانچہ مسلم کی مشہور حدیث ہے کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ۔ وہ اس پر ظلم نہ کرے‘ اس کو بے یارومددگار نہ چھوڑے ۔ اس کو کہیں ذلیل نہ کرے‘ اور اس کو اپنے سے حقیر نہ سمجھے ۔ اسی کے اندر وہ جملہ ہے کہ التقویٰ ھٰھنا ’’ تقویٰ اس جگہ ہے ‘‘۔ جو آدمی کسی مسلمان کو دل میں حقیر سمجھے‘ اس دل میں تقویٰ نہیں ہو سکتا ۔ تقویٰ کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ آدمی مسلمان کی عزت کرے اور مسلمان کے ساتھ تکریم کا برتاؤ کرے ۔
اس کے بعد پھر تیسری چیزمال کی حرمت ہے ۔ کسی بھی مسلمان کا مال کسی دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔ جہاں رمضان میں روزے رکھنے کا حکم دیا گیا کہ آدمی صبح سے شام تک کھانے پینے سے رک جائے اور صرف رات میں سورج ڈوبنے سے لے کر فجر تک کھائے ‘ اس کے فوراً بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْکُلُوْآ اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّآ اَنْ تَکُوْنَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْکُمْقف (النساء ۴:۲۹) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے نہ کھائو‘ لین دین ہونا چاہیے آپس کی رضامندی سے‘‘۔
روزہ جو کہ دن کے اوقات میں حلال چیزوں سے بھی روک دیتا ہے‘ اسی بات کا ذریعہ ہے کہ اس سے تقویٰ پیدا ہو ۔ اس کا فطری تقاضا ہے کہ غلط طریقوں سے ایک دوسرے کا مال نہ کھایا جائے۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا ہے کہ جو آدمی جھوٹی قسم کھا کر کسی دوسرے آدمی کی کوئی چیز ہتھیا لیتا ہے‘ اس کے اوپر اللہ تعالیٰ نے جنت حرام کر دی اور جہنم واجب کردی ۔ ایک صاحب نے پوچھا کہ اگر چہ وہ بہت ہی حقیر سی چیز ہو۔ آپؐ نے فرمایا: ہاں‘ خواہ وہ درخت کی ایک شاخ یا ٹہنی کے برابر ہی ہو ۔ اسی طرح فرمایا کہ اگر کسی نے جھو ٹی قسم کھا ئی‘ کسی کا حق ما ر لیا‘ کو ئی زمین ہتھیا لی‘ تو وہ زمین آگ کا طوق بنا کر اس کی گر دن میں ڈال دی جا ئے گی۔ گویا جوما ل آدمی کا اپنا نہیں ہے‘ کسی دوسرے کا مال ہے‘ اس کوکھا نا‘ اس کو حا صل کرنا ناجائز ہے۔ یہ بھی اجتما عی تقویٰ کا ایک حصہ ہے ۔
اسی طرح سے باہمی تعلقا ت کے اندر قدم قدم پر تقویٰ کی تا کید ہے۔ اگر غور کیا جائے تو اللہ کے کوئی بھی احکا م ایسے نہیں ہیں جو تقویٰ کے حدود سے باہر جا تے ہوں یا جن پر آدمی تقویٰ کے بغیر عمل کر سکتا ہو۔ اگر سورۃ البقرہ کی تلاوت کی جائے اور مطالعہ کیا جائے جس میں معاشرتی زندگی اور خاندانی زندگی کے احکا م دیے گئے ہیں تو اس میں ہرحکم کے بعد اس قسم کی آیت ملے گی کہ واتقوا اللّٰہ ‘ اللہ سے ڈرو‘ تم کواس کی طرف لو ٹ کر جا نا ہے‘ اس کا عذا ب بڑا سخت ہے‘ وہ سن رہا ہے ‘وہ دیکھ رہا ہے ‘ یا یہ کہ وہ تمھارے ساتھ ہے ‘ لیکن واتقوا اللّٰہ اس لیے کہ یہی تقویٰ کی اصل جا نچ اور پر کھ ہے کہ آدمی معاملات کے اندر ‘ خا ندا ن کے اندر جو زیر دست ہیں ‘ یعنی بیو ی بچے ‘ملازم اور غلام‘ان کے بارے میں انصا ف کی روش پر قا ئم رہے اور حقوق میں اس کی پابندی کرے۔
یتیموں کے حقوق کی ادایگی ضروری ہے۔ یتیم کیا ہے؟یتیم بے سہارا ہے ‘ وہ اپنا دفاع نہیں کر سکتا۔ اس لیے کہ جو یتیموں کا مال کھاتے ہیں وہ پیٹ میں آگ بھرتے ہیں ۔مسلمان بھائی اگر اپنے کسی عمل کا عذر پیش کریں تو اس عذر کو قبول کرنا بھی ضروری ہے ۔ حدیث میں آیا ہے کہ ہر پیر اور جمعرات کو لوگوں کے اعمال اللہ کے سامنے پیش ہوتے ہیں۔ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں ۔ لیکن جس نے شرک کیا ہو یا جس کے دل میں کسی مسلمان کے لیے کینہ اور دشمنی ہو ‘ ان کے تعلقات خراب ہوں تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ ان کا معاملہ مؤخر کردو ۔ ان کے باقی اعمال کے بارے میں بھی فیصلہ نہیں کیا جائے گا ۔
وعدہ کرکے اور امان دے کر کسی کو نقصان پہنچانا بھی جائز نہیں۔ یہاں تک کہ حکومتوں اور حکمرانوں کے لیے بھی آپؐ نے اس بات کو جائز نہیں قرار دیا کہ لوگوں کو کوئی فریب دے کر اپنے قابو میں لے آئیں خواہ دشمن ہوں یا مخالف یا کافر۔ بدعہدی کرنے اور ان کو کسی قسم کا نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ میں اس سے بری ہوں کہ جو آدمی کسی کوامان اور پناہ دینے کے بعد اس کو نقصا ن پہنچائے۔ پھر اسی حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں اگر چہ وہ کافر ہو‘ یعنی کافرکے ساتھ بھی یہ سلوک جائز نہیں ہے کہ اس کے ساتھ جھوٹا وعدہ کرکے اور کوئی فریب دے کر اس کو اپنے قابو میں کر لیا جائے اور اس کے بعد پھر اس کو تکلیف پہنچائی جائے۔
باہمی تعلقات میں تقویٰ کے دو بنیادی اصول ہیں ۔ ایک اصول ہے عدل اور دوسرا پاسِ عہد ۔ ان کو اگر آدمی اختیار کرے تو اجتماعی تقویٰ جو باہمی تعلقا ت کا نام ہے ‘ اس کا سارے کا سارا دائرہ اس کے اندر سمٹ کر آجاتا ہے ۔
عدل کے لیے حکم دیا: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِز وَلاَ یَجْرِ مَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلاَّ تَعْدِلُوْاط اِعْدِلُوْاقف ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰیز (المائدہ۵:۸) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو‘ یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے‘‘۔ یہاں کفار قریش کا ذکر تھا جنھوں نے مسلمانوں پر مظالم ڈھائے ‘ گھروں سے نکالا ‘ جنگ کے لیے اُمڈ کر آئے۔ حج اور عمرے کا راستہ بند کر دیا ۔ مسلمان وطن واپس نہیں جا سکتے تھے ۔ اس سب کے باوجود یہ کہا گیا ہے کہ دیکھو یہ کام تمھیں اس پر مجبور نہ کردے کہ تم بھی انھی کی طرح کا برتاؤ ان کے ساتھ کرنے لگو ۔ مکہ سے ۱۳ سال مظالم برداشت کرکے مدینہ آئے ‘ جنگ کی اجازت ملی تو فرمایا: وَقَاتِلُوْا فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ وَلاَ تَعْتَدُوْا ط اِنَّ اللّٰہَ لاَیُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَo (البقرہ ۲:۱۹۰) ’’اور تم اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں مگر زیادتی نہ کرو کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘۔یہ عدل کا حکم تھا اور ہر معاملے میں عدل کرنے کا حکم تھا ۔مسلمان اور پوری امت مسلمہ بنائی ہی اس لیے گئی ہے کہ وہ ہرمعاملے میں عدل کے اوپر گواہ بن کر کھڑی ہواور یہی تقویٰ کا راستہ ہے:
اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ انصاف کے علم بردار اور خداواسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زد خود تمھاری اپنی ذات پر یا تمھارے والدین اور رشتے داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریق معاملہ خواہ مال دار ہو یا غریب‘ اللہ تم سے زیادہ اُن کا خیرخواہ ہے۔ لہٰذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو۔ اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے۔ (النساء ۴:۱۳۵)
دوسری چیز پاسِ عہد ہے کہ جو بات منہ سے نکل جائے اس کی پابندی ضروری ہے ۔ کہیں بھی آدمی عہد کرے ‘ دوسرے انسان سے وعدہ کرے تو اس کا پورا کرنا ضروری ہے۔ اگرکوئی امانت سپرد کی جائے اور اس کی حفاظت کرنا اور لوٹانا اپنے ذمہ لے تو پابندی ضروری ہے‘ اس لیے کہ یہ بھی عہد ہے۔
تقویٰ اور اجتماعی تقویٰ کا یہ دائرہ انسان کے درمیان معاملات کا ہے ۔ دوسرا دائرہ اجتماعی زندگی سے متعلق ہے۔ اس دائرے میں خاندان کا ادارہ بھی شامل ہے‘ اور مسلمان معاشرے میں جو تنظیمیں اور ادارے بنائے گئے ہیں‘ جو اُمت کے اندر موجود ہیں اور سب سے بڑھ کر حکومت اور ریاست کا ادارہ ہے‘ ان سب کے بارے میں بہت واضح کرکے یہ بات بتائی گئی ہے کہ اصل میں ان سب کا مداراس تقویٰ پر ہے جو ایک انسان دوسرے انسانوں کے ساتھ برتتا ہے ۔ چنانچہ اگر ریاست کی مثال کو سامنے رکھا جائے توحکمرانوں کے بارے میں بھی یہی بات کہی گئی کہ حکمران کا یہ فرض ہے کہ لوگوں کے ساتھ انصاف کرے‘ اور جو حکمران جھوٹ بولتا ہے یا بد عہدی کرتا ہے اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ حکمران سیدھا جہنم میں جائے گا ۔
ایک حدیث میں ہے کہ تین آدمی ایسے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ بغیر کسی حساب کے آگ میں ڈال دے گا‘ یعنی ان کے اعمال لازماً ایسے ہوں گے کہ کسی حساب کی ضرورت نہیں پڑے گی ۔ ان میں سے ایک امام کاذب ہے ‘ یعنی لوگوں کا وہ قائد جو جھوٹ بولتا ہے ۔ اسی طرح جو آدمی مسلمانوں کے کسی کام کا ذمہ دار بنایا جائے اور اس کے بعد وہ اس کام میں لوگوں کو دھوکا اور فریب دے اور ان کے ساتھ معاملہ ٹھیک نہ کرے‘ فرمایا کہ فلیس منا ‘ یعنی و ہ ہم میں سے نہیں ہے اور یہ بھی تقویٰ کے خلاف ہے۔ مال ودولت اگر عوام کا ہے تو وہ ایک امانت ہے ‘ اس کے بارے میں یہ ہے کہ اگر کسی نے ایک رسی اور ایک چادر یا عبا بھی اس میں سے خیانت کر لی تو یہ اس کو جہنم میں لے جائے گی۔ یہ مال کے بارے میں اور لوگوں کے حقوق کے بارے میں احتیاطیں ہیں اور حکومت کے عہدے داروں کے لیے بھی۔ اس میں یہ تخصیص نہیں ہے کہ جو آدمی حکومت کے منصب پر فائز ہو بلکہ فرمایا: من ولی من امر المسلمین‘ جس کو مسلمانوں کے کسی کام کی ذمہ داری سپرد کر دی گئی ۔ ان سب پر تقویٰ کے یہ حدود لازم آتے ہیں ۔
پیچھے چلنے والوں کا آگے چلنے والوں سے جو تعلق ہے‘ اس کے بارے میں بھی احکام واضح طور پر بیان کیے گئے ہیں اور ہدایات دی گئی ہیں۔سورۂ حجرات کے درمیان کا حصہ مسلمان اور مسلمان کے باہمی تعلقات کے بارے میں ہے‘ اور شروع کا حصہ مسلمانوں کا اپنے رسول سے تعلق کے بارے میں ہے۔ اُمت میں سے کوئی آدمی وہ مقام تو حاصل نہیں کر سکتا جو اللہ کے رسولؐ کو حاصل تھا لیکن جو افراد قیادت کررہے ہوں‘ ایک درجے میں ان کے حوالے سے قیاس کیا جا سکتا ہے۔ جو لوگ بھی آگے چلنے والے ہوں ‘ ان سے اپنی بات منوانے پر ضدکرنا ‘ اپنی بات پر مصر ہونا ‘ اپنی بات پر اڑ جانا اور یہ کوشش کرنا کہ ہماری بات ہی مانی جائے ‘ اسی کے لیے آدمی اپنی آواز اونچی کرتا ہے ‘ لڑتا بھڑتا ہے ‘ اگرچہ یہ بے ادبی رسولؐ اللہ کی شان میں بے ادبی تھی ‘ لیکن جو مرض تھا وہ دراصل ان اجڈ گنوار سرداروں کا تھا جو صحیح معنوں میں ایمان تو نہیں لائے تھے لیکن اسلام کا غلبہ دیکھ کر مومن ہو گئے تھے اور اب یہ چاہتے تھے کہ ان کی بات سنی جائے ‘ ان کا مشورہ مانا جائے ‘ ان کو مجلسوں کے اندر برتری دی جائے ‘ انھیں پہلے بلایا جائے تو اس سب کے بارے میں سورۂ حجرات کے شروع میں کہا گیا ہے کہ واتقوا اللّٰہ ’’ اللہ سے تقویٰ اختیار کرو ‘‘۔ اس کے بعد یہ واضح کیا گیا کہ متقی تو وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسولؐ سے اپنے آپ کو آگے نہیں بڑھاتے‘ مقدم نہیں کرتے‘ ان کے مقابلے میں اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں‘ بات سلیقے سے کرتے ہیں ‘ بات سننے کے لیے بھی تیار ہوتے ہیں۔ ان کے بارے میں فرمایا: اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوْبَھُمْ لِلتَّقْوٰیط(الحجرات ۴۹:۳)‘ ان کے دلوں کو اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کے لیے آزما لیا ہے اور جانچ لیا ہے۔
اجتماعی تقویٰ کے یہ مختلف پہلو میں نے آپ کے سامنے رکھے ہیں۔ سب سے زیادہ تفصیل کے ساتھ انسان اور انسان کے درمیان تعلق پر گفتگو کی گئی ہے۔ پھر اجتماعیت کے بارے میں کچھ اشارات آپ کے سامنے رکھے گئے ہیں۔ اس کے اندر جو اصل بات تھی وہ میں نے شروع میں کہی تھی وہ یہ تھی کہ کسی قسم کی بھی ایسی ایذا پہنچانا جس کی کوئی گنجایش شریعت میں دین کے کسی واضح حکم کے تحت نہ نکلتی ہو ‘ اس کی کوئی گنجایش تقویٰ کے ساتھ نہیں ہے ۔ بدلہ لینے کی اجازت ہے۔ مگر جب بدلہ لینے کی نیت ہوتی ہے اور بدلہ لینے کا جذبہ غالب ہوتا ہے تو آدمی زیادتی کر جاتا ہے۔ اس کے بارے میں بھی واضح ہدایات ہیں کہ اگرآدمی بدلہ بھی لے تو اتنا ہی لے جتنی کہ اس کے اوپر زیادتی کی گئی ہو ۔ قرآن مجید میں خود یہ بات واضح کی گئی ہے کہ جس پر زیادتی کی گئی ہے اس کو بدلہ لینے کا حق ہے لیکن اتنا ہی حق ہے جتنی اس کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے ۔ اگر کہیں وہ بڑھ گیا تو پھر اس کے اوپر اپنے عمل کا وبال آجائے گا ۔ اس لیے بہتر یہ ہے آدمی معاف کردے اور اصلاح کرے ‘ صلح کر لے۔ فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُہٗ عَلَی اللّٰہِط (الشوریٰ ۴۲:۴۰) ’’پھر جو کوئی معاف کر دے اور اصلاح کرے اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے‘‘۔ یہ اس سے بہتر ہے کہ آدمی بدلہ لے کیونکہ بدلہ لینے میں کوئی ضمانت نہیں ہے کہ انسان اتنا ہی بدلہ لے گا جتنا کہ اس کے اوپر کی ہوئی زیادتی یا ظلم کا ہونا چاہیے ۔
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ ایک صاحب حضورؐ کی خدمت میں آئے اور کہا کہ حضورؐ میرے بہت سارے خادم ‘ نوکر اور غلام ہیں۔ وہ میرا کام کرتے ہیں لیکن مجھے جھوٹا بھی بناتے ہیں ‘ کام چوری بھی کرتے ہیں ‘ کام پورا نہیں کرتے ‘ مال بھی چراتے ہیں اور میری نافرمانی بھی کرتے ہیں۔ میرے اور ان کے درمیان معاملہ کس طرح طے ہوگا؟ آپؐ نے فرمایا: دیکھو تمھارے جو اعمال ہیں‘ تم نے ان کو جو سزاد ی ‘ ان کو برا بھلا کہا ‘وہ ایک طرف رکھے جائیں گے ‘اور انھوں نے جو تمھارے ساتھ زیادتیاں کی ہیں وہ دوسری طرف رکھی جائیں گی ۔ اگر دونوں برابر ہیں تو تم چھوٹ جاؤگے لیکن اگر تم نے بدلے میں زیادتی کی ہوگی تو پھر جتنی بھی زیادتی کی ہوگی تم سے اس کا قصاص لیا جائے گا اور تمھیں اس کا بدلہ دینا پڑے گا ۔ یہ سن کر وہ صاحب دور جا کر بیٹھ گئے اور رونے دھونے لگے کہ میں تو تباہ وبرباد ہو گیا ۔ پھر حضورؐ نے ان کو بلایا اور کہا کہ تم نے قرآن مجید میں یہ آیت نہیں پڑھی کہ وَنَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَۃِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْئًاط وَاِنْ کَانَ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَابِھَاط وَکَفٰی بِنَا حٰسِبِیْنَ o (الانبیاء ۲۱:۴۷) ’’قیامت کے روز ہم ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازو رکھ دیں گے‘ پھر کسی شخص پر ذرہ برابر ظلم نہ ہوگا۔ جس کا رائی کے دانے برابر بھی کچھ کیا دھرا ہوگا وہ ہم سامنے لے آئیں گے اور حساب لگانے کے لیے ہم کافی ہیں‘‘۔ اس پر انھو ں نے کہا کہ حضور اب اس کے بعد تو اس کے علا وہ کو ئی را ستہ نہیں ہے کہ میں ان سب کو معا ف کردو ں اور ان سب کو آزاد کر دوں۔چنانچہ آج میں نے ان سب کو آزاد کر دیا ۔
بدلہ لینے کا معا ملہ بھی یہی ہے کہ اگر ایک کو ڑا بھی زیادہ ما را جا ئے گا تو اس کوڑے کا قصا ص اور بدلہ انسا ن سے لیا جا ئے گا ۔ بدلہ لینے میں جو جذبہ پنہاں ہے وہ آدمی کو کبھی غیبت پر آما دہ کرتا ہے ‘ کبھی زیادتی پر آما دہ کرتا ہے ‘ وہ اسے حسد میں مبتلا کر دیتا ہے کہ مجھے یہ نقصا ن پہنچا ‘ میری عزت پر یہ حرف آیا ‘ اس نے میر ا یہ حق ما ر لیا ‘ اس نے میرے اوپر یہ ظلم کیا اور اس طرح غیظ و غضب میں اور غصے وا نتقا م کے جذبے میں آدمی حق سے نکل جا تا ہے۔ خواہ مال کی حرص میں آدمی دوسرے کے حقوق ما رے یا انتقام یا بدلہ لینے کی نیت سے اقدام کرے‘ یہ انسا ن اور انسا ن کے درمیان تعلقات کا سب سے نا زک معاملہ ہے۔ بہت ساری احا دیث سے اس بات کو واضح کیا جا چکا ہے کہ عبادات سے زیا دہ یہ چیز اہم ہے کہ انسان کسی دوسرے انسان پر زیادتی نہ کرے اور اسے اذیت نہ پہنچائے اور یہی انسا ن کا امتحا ن ہے کہ وہ دنیا میں اللہ کے خو ف سے آپس میں صلح و صفا ئی سے رہیں۔
جب اللہ تعا لیٰ نے فرشتو ں کے سا منے اس بات کا اعلان کیا کہ میں ز مین میں اپنا نا ئب بنا نے والا ہوں تو فر شتو ں نے کہا تھا کہ کیا آپ کو ئی ایسی مخلوق بنا رہے ہیں جو خو ن بہا ئے گی اور زمین میں فسا د مچائے گی‘جب کہ تسبیح و تقدیس کا کام تو ہم کر ہی رہے ہیں ۔ سجدہ اور رکو ع کو ئی ایسا کام نہیں جس کے کر نے والے موجودنہ ہوں ۔ ایک حدیث میں ہے کہ آسمان پر کو ئی چارانچ کی جگہ بھی خالی نہیں ہے جہاں پر کو ئی فرشتہ رکوع میں نہ ہو‘ سجدے میں نہ ہو‘ قیام میں نہ ہو‘ تسبیح نہ کر رہا ہو ‘ حمد نہ کر رہا ہو ‘ یا تکبیر نہ پڑھ رہا ہو۔ دراصل اللہ نے خلیفہ تواس لیے بنایا تھا کہ وہ اللہ کی خلا فت کی ذمہ داری سنبھال کر یہاں پر عدل قا ئم کرے اور فساد سے بچا ئے۔ انسا ن ‘ انسا ن کا خون نہ بہائے‘ اس کی عزت پر حملہ نہ کرے‘ اس کے مال کو غصب نہ کرے۔ یہی دراصل ‘ اصل امتحان ہے اور یہی انسا ن سے مقصود ہے‘اور اسی سے تقویٰ کا وہ دائرہ بنتا ہے جو پو ری زندگی کے اوپر حا وی ہے ۔ اگر یہ دائرہ ہا تھ سے چھو ٹ جا ئے ‘ اس میں کو تا ہی ہو ‘ تو پھر عبادات اس کا مداوا نہیں کرسکتیں بلکہ پو ری عبادات آدمی سے چھینی جا سکتی ہیں۔ اگر یہی ایک بات آدمی کو یا درہے کہ ہرمظلو م اٹھ کر کھڑا ہو جا ئے گا اور جس ظلم کے لیے میرے پاس کو ئی معقول توجیہہ نہیں ہو گی اس پر مجھے سزا دی جا ئے گی تو یہ بہت ساری برا ئیوں کے ارتکاب سے اسے روک سکتی ہے۔
ایک دفعہ امام ابوحنیفہ ؒ سے کسی نے کہا کہ فلاںآدمی نے آپ کی غیبت یا برا ئی کی ہے تو انھو ں نے اس کو ایک طشت میں کھجو ریں تحفے کے طور پر بھجوائیں اور اس سے کہا کہ آج تم نے اپنی بہت ساری نیکیا ں میرے حوا لے کردی ہیں۔ میں اس کا کو ئی بدلہ تونہیں دے سکتا البتہ یہ کچھ کھجوریں تحفے کے طور پر تمھیں بھجوا رہا ہو ں۔
پس جو آدمی بھی زیادتی کرتا ہے دراصل اپنی نیکیوں سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے‘ اس کے اعمال نامے میں سے نیکیا ں کم ہو تی جاتی ہیں۔ دوسری طرف دنیاکی زندگی بھی فساد اور بے چینی کا شکا ر ہوتی ہے اوردل بھی جلتا ہے‘ کبھی حسد کی آگ میں ‘ کبھی انتقا م کی آگ میں‘ اور کبھی بے اطمینانی کی آگ میں۔ جیسا کہ کہا گیا ہے کہ حسد اور کینہ ایسی چیزیں ہیں جو نیکیوں کو کھا جا تی ہیں۔ اس لیے کہ ان سے جو آگ بھڑک اٹھتی ہے‘ یعنی انتقا م اور حسد کی آگ‘ اور دوسرے سے بدلہ لینے کی آگ ان کی بنیاد پر آدمی وہ کا م کر گزرتا ہے جو اس کی ساری نیکیو ں کو غارت کر دیتا ہے‘ اور جلا کر بھسم کر دیتا ہے ۔ یہی وہ بیماریاں ہیں جو نیکیوں کو آگ کی طرح کھا لیتی ہیں۔ ایک بار جب تعلقات کے اندر فساد پیدا ہو جا ئے تو اس کے بارے میں نبی کریمؐ نے فرما یاہے کہ یہ فساد استرے کی طر ح ہے‘ اور یہ ایسا استرا ہے جو سر کے بال ہی نہیں صاف کرتا بلکہ یہ پورے دین کو مونڈڈا لتا ہے۔
اجتما عی تقویٰ کا یہ وہ پہلو ہے کہ جو ہر وقت نگا ہو ں کے سامنے رہنا چاہیے اور جس کی فکر کر نا چاہیے ‘ اس لیے کہ نماز ‘رو زہ اور مختلف عبادات اس وقت تک کا م نہیں آتیں جب تک کہ تقویٰ کا یہ کردار تشکیل نہ پائے۔ یہی تقویٰ ساری خوبیوں اور بھلا ئیو ں کا ما حصل ہے۔ اللہ تعا لیٰ نے دنیا اور آخرت میں اپنی ساری بشا رتیں اور سارے انعا مات تقویٰ کے ساتھ وابستہ کیے ہیں۔ وہ قومیں زمین اور آسمان کی ساری کی ساری برکات سے مالا مال ہوں گی جو تقویٰ کی روش اختیار کریں۔ ’’اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کا راستہ اختیار کرتے تو ہم ان کے اوپر آسمانوں سے بھی اور زمین سے بھی برکتوں کے دروازے کھول دیتے‘‘ (اعراف ۷: ۹۶)۔ اور جہاں تک آخرت کا معاملہ ہے تو بار با ر کہا گیا ہے کہ جنت تو ہم نے بنا ئی ہی متقین کے لیے ہے: اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَo (اٰل عمٰرن ۳:۱۳۳)’’یہ جنت متقین کے لیے تیار کی گئی ہے‘‘۔ اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّنَعِیْمٍo (الطور۵۲:۱۷) ’’متقی لوگ وہاں باغوں اور نعمتوں میں ہوں گے‘‘۔یہ جنت انھی کی ورا ثت ہے جو تقویٰ کی روش اختیار کریں ۔
تقویٰ کا مفہو م آپ کے سامنے ہے۔ اصل میں تو یہ دل کی دھڑکن‘ دل کا یہ اندیشہ اور خوف ہے کہ کوئی ایسی با ت منہ سے نہ نکلے اور کو ئی ایسا کا م سرزد نہ ہو جا ئے جو اللہ کو نا راض کرنے والا ہو ۔ پھر یہ احساس ہے کہ اللہ کو نارا ض کرنے والے کا موں میں سے وہ کون سے کا م ہیں جو اُ س کو زیا دہ ناراض کرنے والے اور زیا دہ غضب میں لانے والے ہیں۔ یہ بات بھی جاننا چاہیے کہ دراصل جو چیزیں حرا م کی گئی ہیں وہ صرف کھانے پینے ‘ اوڑھنے بچھو نے کی حد تک نہیں ہیں بلکہ انسا نی معا ملات اور تعلقا ت میں بھی اللہ تعالیٰ نے بے شمار چیزیں حرا م کی ہیں اور بے شمار چیزیں فرا ئض میں دا خل کی ہیں۔ جو آدمی عبادات میں ‘ اور کھانے پینے میں توحلا ل و حرام کی پا بندی کرتا ہے لیکن معاملات میں حلال و حرام کی پروا نہیں کرتا ‘ تو وہ بھی اسی طرح گناہ گار ہو تا ہے جس طرح نماز چھوڑنے والا یا کو ئی سود کھا نے والا یا شراب پینے والا گناہ گار ہوتا ہے۔ درحقیقت مومن کے ضمیر کو تو ایک ترازو کی مانند ہونا چاہیے کہ اگرذرا سا بال برابر بھی کوئی وزن بڑھ جائے‘کسی پر ظلم کا ‘کسی پر زیا دتی کا ‘ کسی حق کے ادا کرنے میں کوتاہی کا ‘ تو ترازو فوراً جھک جا ئے اور اس کے ضمیر میں خلش پیدا ہو۔
اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّھُمْ طٰئِٓفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ تَذَکَّرُوْا فَاِذَاھُمْ مُّبْصِرُوْنَ o (اعراف ۷:۲۰۱)
حقیقت میں جو لوگ متقی ہیں ان کا حال تو یہ ہوتا ہے کہ کبھی شیطان کے اثر سے کوئی برا خیال اگر انھیں چھو بھی جاتا ہے تو فوراً چوکنے ہو جاتے ہیں اور پھر انھیں صاف نظر آنے لگتا ہے کہ ان کے لیے صحیح طریق کار کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کواس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین (کیسٹ سے تدوین: امجد عباسی)
کتابچہ دستیاب ہے۔ قیمت: ۵ روپے۔ منشورات‘ منصورہ‘ لاہور
میں پرنسٹن یونی ورسٹی میں ایک سیمی نار میں شرکت کے لیے گھر سے نکلنے ہی والا تھا کہ برادرم مسلم سجاد کا فیکس موصول ہوا: ’’نعیم صدیقی بھی اللہ کو پیارے ہوئے--- انا للّٰہ وانا الیہ راجعون‘‘۔ میں ایک لمحے کے لیے سکتے میں آگیا۔ موت تو برحق ہے اور ہر لمحہ ہم سب کا تعاقب بھی کرتی رہتی ہے لیکن کچھ افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو ہمیشہ زندہ ہی دیکھنے کو دل چاہتا ہے اور نعیم صاحب بھی ایسے چنیدہ افراد میں سے ایک تھے۔ میرے لیے ذاتی تعلقات کی نسبت سے ایک بڑے بھائی‘ فکری میدان میں رہنما‘ تحریکی زندگی میں قائد‘ علمی اور ادبی میدان میں ایک عہدساز شخصیت!
برادر محترم نعیم صدیقی کے انتقال کی خبر سے دل پر ایک اور پہلو سے بھی چوٹ لگی جس کا قلق مجھے ہمیشہ رہے گا۔ اگست کے تیسرے ہفتے میں‘ میں آئی ایل ایم کے بورڈ آف گورنرز کی میٹنگ کے لیے لاہور گیا۔ بعد میں جب اسلام آباد کے لیے روانہ ہو رہا تھا توکسی نے اطلاع دی کہ نعیم صاحب ایک حادثاتی چوٹ کی وجہ سے ہسپتال میں ہیں۔ اتنا وقت نہ تھا کہ میں ان کو دیکھنے کے لیے جاسکتا۔ اس وقت ارادہ کیا کہ اگر ستمبر میں لاہور جانا ہوا تو ان سے ضرور ملوں گا۔ مجھے کیا خبر تھی کہ اب اس ملاقات کا کوئی موقع باقی نہیں رہے گا۔ ان سے آخری ملاقات چند ماہ قبل منصورہ میں سید مودودی انسٹی ٹیوٹ کی مجلس اعلیٰ کی میٹنگ میں ہوئی تھی۔ وہ محترم چودھری رحمت الٰہی صاحب اور میری درخواست پر علالت کے باوجود شرکت کے لیے تشریف لائے اور اپنے ساتھ ۵۰ برس کی یادوں کی سوغات بھی لائے۔ جماعت اسلامی سے قانونی رشتہ منقطع کرنے کے بعد بھی‘ وہ ہمارے لیے ویسے ہی محترم اور محبوب رہے جیسے پہلے تھے اور ان کی شفقت میں بھی کوئی کمی نہیں آئی۔ یہی وہ چیز ہے جس نے ان کو دل کا مکین بنا دیا تھااور صرف ان کی علمی‘ ادبی اور تحریکی خدمات ہی نہیں بلکہ ان کی ذاتی صفات اور برادرانہ محبت کا میرے ہی نہیں ‘سیکڑوں افراد کے دلوں پر ایسا نقش ہے کہ ان کی وفات پر بے ساختہ یہ کہنے کو دل چاہتا ہے کہ ؎
بعد از وفات تربت ما در زمین مجو
درسینہ ہاے مردم عارف مزار ما ست
ہماری وفات کے بعد ہمیں زمین کے اندر قبروں میں مت تلاش کرو۔ ہم اہل معرفت کے دلوں میں رہتے ہیں۔
نعیم صاحب سے میرا پہلا تعارف جمعیت کے ابتدائی دور میں ہوا۔ اسلامی جمعیت طلبہ کا پہلا مطبوعہ تعارف‘ جس سے مجھے جمعیت کو سمجھنے کا موقع ملا‘ ان ہی کا لکھا ہوا تھا۔ تعارف میں نے کراچی ہی میں پڑھ لیا تھا اور جب سالانہ اجتماع میں شرکت کے لیے لاہور گیا تو فطری طور پر مولانا مودودی اور مولانا اصلاحی کے بعد جس شخص سے ملنے کا شوق تھا وہ نعیم صاحب تھے۔ اس لیے بھی کہ مولانا مودودی کی گرفتاری کے زمانے میں ترجمان القرآن کی ادارت انھوں نے کی تھی اور ان کے ’’اشارات ‘‘نے ہم سب کو بے حد متاثر کر رکھا تھا۔ خرم‘ ظفر اسحاق اور میں اپنے پہلے ناظم اعلیٰ ظفراللہ خان کے ساتھ نعیم صاحب سے ملنے گئے۔ پہلا تاثر ملا جلا تھا۔ ان کی تحریروں کو پڑھنے سے ایک بھاری بھرکم شخصیت کا تصور ذہن نے بنا لیا تھا۔ ملا تو اپنے سامنے ایک دبلے پتلے اور چہرے مہرے سے شرمیلے بزرگ کو پایا۔ لیکن تھوڑی ہی گفتگو میں ان کے جوہر کھلے۔ علمیت‘ متانت‘ جمعیت سے محبت اور نوجوانوں کے دل موہ لینے والے حسنِ بیان نے اپنا جادو چلا دیا اور یہ کیفیت ہو گئی کہ ع
وہ کہیں اور سنا کرے کوئی
پھر نعیم صاحب کو کراچی میں جہانگیر پارک کے ایک تاریخی اجتماع میں سنا جس میں دو گھنٹے کی تقریر میں انھوں نے ’’معاشی ناہمواریوں کا اسلامی حل‘‘ پیش کیا۔ یہ تقریر علم اور خطابت کا شاہکار تھی اور یہی تقریر اس کتاب کی بنیاد بنی‘ جو اسی نام سے بعد میں شائع ہوئی۔ چراغ راہ سے بھی اسی زمانے میں رشتۂ ارادت استوار ہوا اور اس طرح نعیم صاحب بحیثیت مصنف‘ مقرر‘ ادیب‘ شاعر‘ تحریکی قائد ہمارے دل و دماغ پر چھاگئے۔ پھر جب میں ۱۹۵۷ء میں مرکزی شوریٰ کا رکن منتخب ہوا تو اس وقت سے ۲۰۰۲ء تک نعیم صاحب سے بڑا قریبی تعلق رہا جس کی حسین یادیں میرا بہترین سرمایۂ حیات ہیں۔ یہ ان کی عظمت تھی کہ علم‘ عمر‘ تحریک‘ ہر اعتبار سے فوقیت رکھنے کے باوجود ہمارا تعلق دوستانہ اور برادرانہ رہا۔ ان کے ساتھ علمی اور تحریکی دونوں محاذوں پر کام کرنے اور ان سے سیکھنے کا موقع ملا۔ لیکن ہمیشہ انھوں نے اتنی عزت سے معاملہ کیا کہ خوردو بزرگ کا فرق باقی نہیں رہا۔
ہم تو انھیں صرف نعیم صدیقی ہی کے طور پر جانتے تھے۔ یہ عقدہ بعد میں کھلا کہ ان کا اصل نام فضل الرحمن ہے۔ ان کی پیدایش خان پور‘ تحصیل چکوال‘ ضلع جہلم میں ہوئی (۴ جون ۱۹۱۶ء)۔ جماعت اسلامی کے بانی ارکان میں سے تھے اور ۱۹۴۱ء ہی میں بستر بوریا لے کر اور مدرسے کی تعلیم نامکمل چھوڑ کر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی دارالاسلام کی خانقاہ میں داخل ہو گئے اور پھر علم و ادب‘ تحقیق و صحافت‘ نظم و نثر ہر میدان میں اپنا لوہا منوا لیا۔ نعیم صاحب ِایک صاحب طرز ادیب اور مشکل کُشا مفکر تھے۔
بلاشبہہ مولانا مودودی کو انھوں نے اپنا استاد‘ مرشد اور رول ماڈل بنایا لیکن اپنی تخلیقی انفرادیت (originality) کی بنا پر ہر میدان میں اپنا منفرد مقام بھی بنایا۔ تصنیف و تالیف کے میدان میں انھوں نے گراںقدر خدمات انجام دیں۔ ان کا سب سے بڑا علمی کارنامہ محسن انسانیتؐ ہے جو سیرت نگاری میں ایک نئی روایت کی بنیاد ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات پر ہر پہلو ہی سے کام ہواہے لیکن نعیم صاحب نے محسن انسانیتؐ کے ذریعے وہی خدمت انجام دی ہے جو تفسیرکے میدان میں مولانا مودودیؒ نے تفہیم القرآن کی شکل میں انجام دی--- یعنی نبی کریمؐ کی زندگی بحیثیت داعی‘ قائدتحریک اسلامی اور عالمی انقلاب کے بانی۔ واقعات وہی ہیں جو ہر سیرت کی کتاب میں ملتے ہیں لیکن انھوں نے ان کی معنویت کو دورنبویؐ ہی نہیں آج کے دور سے ان کی نسبت اور مطابقت کے حوالے سے ایک نئی جہت دی ہے۔ ان کی یہ کتاب حق کے طالبان اور سیرت پر کام کرنے والوں کے لیے برسوں روشن چراغ رہے گی۔
انھوں نے اجتماعی علوم اور معاشرت و سیاست کے دسیوں موضوعات پر قلم اٹھایا ہے اور ہر میدان میں فکر اور اسلوب دونوں اعتبار سے پختگی کے ساتھ جس تخلیقی انفرادیت کا مظاہرہ کیا ہے وہ انھی کا حصہ ہے۔ نعیم صاحب کا کمال ہے کہ ایک گھسے پٹے موضوع کو بھی زندہ جاوید بنا دیتے ہیں اور ایک جانی بوجھی بات کو بھی اس طرح بیان کرتے ہیںکہ اس میں ندرت اور تازگی محسوس ہوتی ہے۔
افسانہ‘ رپورتاژ اور ادبی تنقید کے میدان میں بھی انھوں نے اپنا مقام پیدا کیا۔ وہ تحریک ادب اسلامی کے سرخیل کا درجہ رکھتے ہیں۔ شعر کے میدان میں بھی وہ بڑا اونچا مقام رکھتے ہیں۔ ان کا پہلا شعر جس نے مجھے چونکا دیا تھا وہ وہ تھا جو چراغ راہ کی بندش کے بعد شائع ہونے والے شمارے کی لوح پر رقم تھا ؎
گر ایک چراغ حقیقت کو گل کیا تم نے
تو موج دود سے صد آفتاب ابھریں گے
ان کی نظم ’’ہم لوگ اقراری مجرم ہیں‘‘ ایک زمانے تک ہم سب کے جذبات کی ترجمان رہی۔ نعیم صاحب کے یہاں حسن خیال اور حسن بیان دونوں کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے اور حرکت‘ جدوجہد‘ کش مکش اور روح جہاد ان پر مستزاد۔ وہ ایک اچھے شاعر ہی نہیں‘ ایک تحریکی شاعر بھی ہیں۔ جس طرح فیض احمد فیض کے یہاں شعری حسن کے ساتھ تحریکیت (گو ایک دوسرے پس منظر سے) پائی جاتی ہے‘ اسی طرح اسلامی انقلابیت کے پس منظر میں نعیم صاحب کا شعر ایک پیغام اور تبدیلی کی دعوت لیے ہوئے ہے۔ نعت کے میدان میں ان کی نعتیہ نظم ’’میںایک نعت کہوں سوچتا ہوں کیسے ہوں؟‘‘ ایک منفرد کاوش اور روح کو تڑپا دینے والی چیز ہے: محسن انسانیتؐ کا شعری خلاصہ!
مجھے ان کے ساتھ سب سے زیادہ قریب سے کام کرنے کا موقع سیارہ ڈائجسٹ کے قرآن نمبر کی ترتیب کے وقت میسر ہوا۔ اس کی پہلی دو جلدیں ہماری مشترک کوشش ہیں اور آخری جلد صرف نعیم صاحب کی مرتب کردہ ہے۔ میں نے اپنے ذوق کے مطابق بس ایک علمی خزینہ مرتب کرنے کی کوشش کی (محمود فاروقی مرحوم‘ معروف شاہ شیرازی اور نثاراحمد میرے معاون تھے)۔ لیکن نعیم صاحب نے اپنی محنت سے اس پورے مجموعے کو چار چاند لگائے اور ادبی اور علمی دونوں اعتبار سے بیش بہا اضافے کیے۔
مرکزی شوریٰ کی قراردادیں پہلے مولانا محترم سید ابوالاعلیٰ مودودی خود مرتب فرمایا کرتے تھے۔ پھر یہ سعادت نعیم صاحب اور مجھے حاصل ہوئی۔ لیکن میں نے نعیم صاحب کو ایک استاد کا درجہ دیا اور وہ تھے بھی اس کے مستحق۔ میں نے اس زمانے میں ان سے بہت کچھ سیکھا (شاید طول نویسی سمیت--- جو ہم دونوں میں مشترک رہی!)۔
نعیم صاحب کا وہ دور ہمارے لیے بہت روحانی کرب کا باعث رہا جو جماعت سے ان کے قانونی تعلق کے ٹوٹ جانے پر منتج ہوا۔ الحمدللہ اس دور میں بھی اور اس کے بعد بھی ہمارا ذاتی تعلق کبھی متاثر نہ ہوا۔ جماعتی حیثیت سے بھی ان کا احترام اور ان کی فکر سے استفادہ اسی طرح جاری رہا بلکہ استعفے کے بعد چودھری رحمت الٰہی صاحب اور میں امیر جماعت کے مشورے سے ان کے گھر جاکر ان سے ملے اور ذاتی ہی نہیں‘ تحریکی تعلق کو بھی جس شکل میں بھی ممکن ہو‘ جاری رکھنے کی درخواست کی۔ اس ملاقات میں انھوں نے خاص طور پر برادرم حفیظ الرحمن احسن کو بھی مدعو کیا۔
برادر محترم نعیم صدیقی ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے اور ذاتی شرافت اور بزرگانہ شفقت کے ساتھ علمی‘ ادبی‘ ثقافتی‘ ہر میدان میں انھوں نے ایسی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں جن کے اثرات ایک مدت تک جاری رہیں گے۔ وہ علم و ادب دونوں کے شہسوار تھے۔ تحقیق‘ تحریر‘ تقریر‘ مجلسی گفتگو‘ ہرمیدان میں ان کا ایک منفرد مقام تھا۔ اپنے ۵۰ سالہ تعلق پر نظرڈالتا ہوں تو میرتقی میرکی زبان میں ان کی روح کو گنگناتے ہوئے محسوس کرتا ہوں کہ ؎
باتیں ہماری یاد رہیں‘ پھر باتیںایسی نہ سنیے گا
جو کہتے کسی کو سنیے گا‘ تو دیر تلک سر دھنیے گا
اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے‘ ان کی خدمات کو شرف قبولیت بخشے‘ ان کے جلائے ہوئے چراغوں کو ہمیشہ ضوفشاں رکھے‘ ان کی بشری کمزوریوں سے درگزر فرمائے‘ انھیں جنت کے اعلیٰ مقامات پر جگہ دے‘ ان کے لواحقین کو صبرجمیل سے نوازے اور اس اُمت کو ان جیسے خادمان دین سے کبھی محروم نہ کرے۔ آمین!
حالیہ انتخابات پاکستان کی تاریخ میں اہم ترین انتخابات تھے۔ اس کے مفصل تجزیوں‘ حکومت سازی کے مراحل اور آیندہ انتخابات پر ان کی تاثیر سے ان کی اہمیت مزید واضح ہو گی۔ لیکن لگتا ہے انتخابات پاکستان ہی میں نہیں دنیا کے ہر خطے میں ہو رہے ہیں۔ ۱۰ اکتوبر ۲۰۰۲ء ہی کو الجزائر میں بلدیاتی انتخابات ہوئے‘ ۵-۶ اکتوبر ۲۰۰۲ء کو بوسنیا کے عام انتخابات ہوئے‘ ۶ اکتوبر ۲۰۰۲ء ہی کو برازیل کے انتخابات ہوئے۔ جرمنی‘ لٹویا‘ اکواڈور‘ آئرلینڈ میں راے دہی ہوئی‘ بحرین میں عام انتخابات ہوئے اور ۲۷ ستمبر ۲۰۰۲ء کو مراکش میں وہاں کی تاریخ کے اہم انتخابات ہوئے۔
پاکستان کی طرح بوسنیا‘ بحرین اور مراکش کے انتخابات میں وہاں کی اسلامی تحریکوں نے حیران کن کامیابی حاصل کی۔ بوسنیا کے سابقہ انتخابات میں سابق صدر علی عزت بیگووچ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا‘ ان کے اہم شریک‘ وزیر خارجہ اور پھر وزیراعظم حارث سلاجک کی علیحدگی سے لبرل اور سیکولر عناصر کو کامیابی ملی تھی‘ اور خدشہ یہ تھا کہ اس بار بھی وہی جیتیں گے لیکن تقسیم ہونے کے باوجود علی عزت بیگووچ جنھوں نے آزادی اور پھر جنگ کے ہر مرحلے میں اپنی قوم کی قیادت کی تھی‘ کی پارٹی پہلے نمبر پر رہی۔ لیکن دنیا کو اصل اچنبھا مراکش اور پاکستان کے نتائج پر ہوا۔
مراکش جو کبھی طارق بن زیاد اور موسیٰ بن نصیر کے نام سے پردئہ ذہن پر اُبھرتا تھا‘ سترھویں صدی کے وسط سے دستِ ملوکیت میں ہے۔ مولای الرشید اس مملکت کے پہلے بادشاہ بنے جن کا انتقال ۱۶۷۲ء میں ہوا (مراکش میں مولانا کے بجائے مولای بولااور لکھا جاتا ہے لیکن اس کا استعمال عام طور پر حکمرانوں کے لیے ہوتا ہے۔ شاید اس لیے بھی کہ مراکش کے تمام شہنشاہوں نے اپنے اقتدار کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور خانوادئہ رسولؐ سے منسوب کر رکھا ہے)۔ اس علوی مملکت پر مختلف ادوار آئے۔ جب ریاست ہاے متحدہ امریکہ کی تشکیل ہوئی تو مراکش پہلا ملک تھا جس نے اسے تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ پھر فرانسیسی استعمار کے بادل گہرے ہوتے چلے گئے اور علوی مملکت پر فرانسیسی زبان‘ ثقافت اور تہذیب کے نقوش نمایاں ہو گئے۔ ۵ نومبر ۱۹۵۵ء کو طویل جدوجہد کے بعد مراکش کو آزادی ملی تو محمد الخامس حکمران تھے۔ ۱۹۶۱ء میں ان کا انتقال ہوا تو حسن الثانی بادشاہ بنے جن کا ۱۹۹۹ء میں انتقال ہوا۔ اب ان کا بیٹا محمد السادس شہنشاہ ہے جو اپنے خانوادے کا تیئسواں بادشاہ ہے۔
حسن الثانی نے اپنے ۳۸ سالہ اقتدار میں مراکش کو ایک جدید ریاست بنانے کے لیے مختلف تجربات کیے۔ شہنشاہی کی حفاظت و تقدیس ہر تجربے کا مرکز و محور رہی۔ ۹۰ کے عشرے میں انھوں نے ملک بدر اپوزیشن رہنمائوں کو ملک میں واپس آکر حکومت تشکیل دینے کی دعوت دی۔ فرانس میں مقیم اکثر لیڈر لوٹ آئے اور عبدالرحمن الیوسفی وزیراعظم بنا دیے گئے۔ الیکشن بھی کروائے گئے‘ یوسفی کی اشتراکی اتحاد پارٹی پہلے نمبر پر رہی اور مخلوط حکومت وجود میں آئی۔ اعلان کر دیا گیا کہ اب جمہوری روایات کی آبیاری کی جائے گی اور عوام کو اپنی حکومتوں کے انتخاب کی مکمل آزادی ہوگی۔ یہ اعلان بھی کیا گیا کہ ہر پانچ سال بعد ۲۷ ستمبر کو انتخابات ہوا کریں گے اور کسی کو اس تاریخ میں تبدیلی کا حق حاصل نہیں ہوگا۔ ووٹر کی عمر ۲۳ سال مقرر کر دی گئی اور پارٹی رجسٹریشن کا طریق کار طے کر دیا گیا۔ واضح رہے کہ سنہ ۲۰۰۰ء کی مردم شماری کے مطابق مراکش کی آبادی ۳کروڑ سے متجاوز ہے۔
مراکش کے حالیہ انتخابات ۳۹ سالہ شاہ محمد السادس کے عہد کے پہلے انتخابات تھے اور ملکی تاریخ کے بھی پہلے انتخابات تھے جو متناسب نمایندگی کی بنیاد پر کروائے گئے۔ تمام سیاسی پارٹیوں نے اپنی اپنی مہم اپنے پروگرام اور انتخابی نشان ہی کے لیے چلائی۔ کہیں پر بھی شخصیتوں کو سامنے نہیں لایا گیا۔ تمام شخصیات کے نام پارٹی کی فہرستوں میں شامل تھے جو الیکشن سے پہلے کمیشن کو جمع کروائی گئیں۔
اس بار ۲۶ پارٹیوں نے انتخابات میں حصہ لیا جو اب تک انتخابات میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔ وزیراعظم عبدالرحمن یوسفی کی اشتراکی اتحاد پارٹی کے علاوہ دائیں بازو کی استقلال پارٹی اور اسلامی تحریک حزب العدالۃ والتنمیۃ ’’انصاف و ترقی پارٹی‘‘اہم پارٹیاں تھیں اور تینوں ہی بالترتیب پہلے‘ دوسرے اور تیسرے نمبر پر رہیں۔ ۳۲۵ کے ایوان میں یوسفی کو ۵۰‘ استقلال کو ۴۷ اور انصاف و ترقی کو ۴۲ نشستیں ملیں۔ ۳۰ نشستیں خواتین کے لیے مخصوص کر دی گئیں جو اب تک سب سے زیادہ ہیں۔
اسلامی تحریک کو گذشتہ انتخابات میں نو نشستیں ملی تھیں جو بعد میں پانچ ضمنی نشستیں جیت کر ۱۴ ہوگئیں اور حالیہ الیکشن میں تین گنا ہو گئیں جس سے پوری غربی و عربی ذرائع ابلاغ میں کھد بھد مچ گئی۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی تھی کہ مراکش الجزائر کا پڑوسی ملک ہے اور اسی کی طرح فرانسیسی اثر و نفوذ میں ہے۔ پوری انتخابی مہم میں اسلامی تحریک کے مخالفین اس کے خلاف یہ پروپیگنڈا کرتے رہے کہ اس کا انتخاب مراکش کو الجزائر کی طرح خون خرابے میں مبتلا کر دے گا۔ کہا گیا ’’عالمی اور علاقائی قوتیں مراکش میں اسلامی تحریک کو کبھی برداشت نہیں کریں گی‘‘۔ ’’اسلامی قوتوں کی جیت بہائو کے مخالف سمت تیرنے کی ناکام کوشش ہوگی‘‘۔ لیکن مراکش کے عوام نے کہا کہ ’’یہی چراغ جلے گا تو روشنی ہوگی‘‘ (انصاف و ترقی پارٹی کا نشان چراغ تھا)۔
انصاف و ترقی پارٹی مراکش میں اسلامی تحریکوں کے مختلف مراحل میں سے ایک مرحلہ ہے۔ آزادی کے بعد جب وہاں کارِ دعوت کی بنیاد رکھی گئی تو مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی دعوت و جماعت سے متاثر ہو کر اس کا نام جماعت اسلامی مراکش رکھا گیا۔ پھر شہنشاہیت کے ماحول میں نام تبدیل کرنا پڑا۔ متعدد بار نام تبدیل کرنے اور مختلف افراد کے اشتراک و اجتماع کے بعد اس کا نام تحریک اصلاح و تجدید رکھا گیا‘ ادریس الریسونی اس کے سربراہ تھے۔ پھر ’’حزب التجدید الوطنی‘‘ کے نام سے اسے ایک رجسٹرڈ سیاسی جماعت بنانے کی کوشش کی گئی لیکن اس کی اجازت نہ ملی۔ اس موقع پر فیصلہ کیا گیا کہ پہلے سے موجود ’’انصاف و ترقی پارٹی‘‘ جو اسلامی تشخص رکھتی ہے اور شیخ عبدالکریم الخطیب (۱۹۲۱ء) اس کے سربراہ ہیں‘ میں شمولیت اختیار کرلی جائے۔ شیخ الخطیب نے خوش آمدید کہا۔ لیکن شرط یہ رکھی کہ شمولیت پارٹی کی حیثیت سے نہیں انفرادی حیثیت سے کی جائے۔ یہ شرط پوری کر دی گئی‘ انضمام عمل میں آیا اور نئی روح سے جدوجہد کا آغازہوگیا۔
سابقہ حکومت میں ’’انصاف و ترقی‘‘ نے اپوزیشن کی حیثیت سے شان دار کارکردگی دکھائی۔ ان کا موقف تھا کہ ہم ’’ناصحانہ اپوزیشن‘‘ المعارضۃ الناصحۃ کریں گے۔ سودی نظام‘ خواتین کے حقوق اور صہیونی ریاست سے تعلقات کے ساتھ ساتھ عوام کی مشکلات و مسائل پارلیمانی جدوجہد کے خاص مراحل ٹھہرے اور عوامی پذیرائی میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
’’انصاف و ترقی‘‘ نے اپنے اور ملکی حالات کی روشنی میں یہ فیصلہ بھی کیا کہ فی الحال خود کو ملک کی سب سے بڑی پارٹی بنانے اور منوانے کی کوشش نہ کی جائے۔ الجزائر کی ہمسایگی‘ فرانسیسی عمل دخل اور شہنشاہی نظام میں انھوں نے فیصلہ کیا کہ ملک کے کل ۹۱ حلقوں میں سے ۵۵ حلقوں میں حصہ لیا جائے۔ اسی پالیسی کو انھوں نے ’’المشارکۃ لا المغالبۃ‘‘ کا نام دیا،’’یعنی غلبہ نہیں شرکت‘‘۔ پارٹی کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ ہم فی الحال ملک کی بڑی پارٹیوں میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ نتائج آنے کے بعدبھی پارٹی نے یہی فیصلہ کیا کہ حکومت میں شرکت کی پیش کش قبول نہ کی جائے‘ اور اپوزیشن میں رہتے ہوئے خود کو مضبوط تر اور عوام کی خدمت کرنے کی کوشش کی جائے۔
’’انصاف و ترقی پارٹی‘‘ مراکش کی اکلوتی اسلامی تحریک نہیں ہے۔ ایک اور اہم بلکہ اہم تر اسلامی پارٹی، ’’جماعت عدل و احسان‘‘ ہے۔ اس کے سربراہ شیخ عبدالسلام یاسین بڑے حق گو رہنما ہیں۔ شیخ حسن البنا کی طرح شیخ عبدالسلام یاسین نے بھی عملی زندگی کا آغاز ایک استاد کی حیثیت سے کیا اور پھر وزارت تعلیم میں انسپکٹر کی ذمہ داری سے گزرتے ہوئے خود کو دعوت و اصلاح کے لیے وقف کر دیا۔ اس راہ میں انھیں لاتعداد مصائب جھیلنا پڑے۔ ۱۹۷۴ء میں گرفتار ہوئے تو چار سال بعد رہا ہوئے۔ پھر تقاریر پر پابندی لگا دی گئی۔ ۱۹۸۳ء میں پھر گرفتار ہوئے۔ ۱۹۸۵ء میں رہا ہوئے اور پھر پورے ۱۰ سال کے لیے گھر میں نظربند کر دیے گئے۔ اس دوران ان کی صاحبزدی ان کے اور مراکشی عوام کے درمیان رابطے کا ذریعہ بنیں۔
۱۰ سال کے بعد رہائی ملتے ہی شاہ حسن الثانی کو ایک مفصل اور دو ٹوک خط لکھا کہ عوام کی دولت و ثروت پر ناجائز قبضہ تمھیں جہنم کی آگ سے دوچار کر سکتا ہے۔ اپنے آپ اور اپنے آبا و اجداد کی نجات کے لیے محلات اور لوٹی ہوئی دولت عوامی خزانے میں جمع کروا دو۔ لوگوں کو آزادیاں دینے کی بات کی‘ بنیادی انسانی حقوق کی بحالی کا مطالبہ کیا۔ شاہ حسن الثانی نے اس نصیحت کو سنا لیکن قبول نہیں کیا۔ شیخ عبدالسلام کے لاکھوں عشاق کے باعث وہ انھیں اس جسارت کی سزا بھی نہ دے سکا اور گور میں جا پہنچا۔ شیخ عبدالسلام نے ان انتخابات کا مکمل بائیکاٹ کیا۔ انھوں نے کہا کہ یہ پارلیمنٹ صرف ایک فریب اور سراب ہے۔ اصل اور کلی اختیار ’’شاہ‘‘ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ اس لیے ہم اس ڈرامے میں شریک نہیں ہوں گے۔ گویا شاہ محمد السادس کو پارلیمنٹ کے اندر بھی اسلامی تحریکوں کی توانا آواز کا سامنا کرنا پڑے گا اور باہر بھی۔ بائیکاٹ کرنے والوں میں ایک گروہ ان قبائل کا بھی تھا جو یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ ’’امازیغی‘‘ زبان کو بھی ملک کی سرکاری زبان کا درجہ دیا جائے۔
انتخابات کے بعد شاہ محمد السادس نے یوسفی کے وزیرداخلہ ادریس جطو کو وزیراعظم مقرر کرتے ہوئے حکومت بنانے کی دعوت دی ہے۔ اس فیصلے پرسب سے زیادہ صدمہ یوسفی کو ہوا ہے کیونکہ سب نقاد اس پر یہی تنقید کرتے تھے کہ وہ شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار ہے۔ اس نے اپنے کئی مطالبات صرف شاہ کی رضامندی کی خاطر تج دیے۔ بہت سے کام اپنی رضا و رغبت سے ہٹ کر انجام دیے اور پھر پارٹی کو بھی سب سے بڑی پارٹی ثابت کیا‘ لیکن اس کے بجائے اس کے ایک وزیر کو حکومت سونپ دی گئی۔ دوسرا بڑا صدمہ ایک سابق سیکورٹی انچارج محمود عرشان کو ہوا جس نے اپنے بڑوں کی خاطر اپوزیشن اور حکومت مخالف عناصر پر ظلم کے پہاڑ توڑے۔ ان کے حلقے میں صرف ایک ہی بے ضرر نعرے نے انھیں شکست کا منہ دکھا دیا۔ ’’الجلاد لایبنی الدیمقراطیہ‘‘ جلاد جمہوریت نہیں دے سکتا۔ ایک اور صاحب سعید سعدی‘ وزیر امور خواتین تھے۔ انھوں نے عالمی دبائو کے پیش نظر خواتین کو ہر میدان اور پارلیمنٹ میں بھی غیر معمولی طور پر شریک کیا۔ ۳۰ خواتین ان کے فیصلوں کے باعث اسمبلی میں پہنچ گئیں لیکن سعدی خود نہ آ سکے۔
مراکش کے ان انتخابی نتائج کے بعد پوری دنیا میں مختلف تبصرے اور تجزیے سامنے آئے ہیں۔ کچھ نے کہا: ’’نئے بادشاہ نے تسلیم کروا لیا کہ وہ اپنے والد سے مختلف اور زیادہ جمہوری ہے۔ لوگوں کو آزادی راے اور نسبتاً شفاف انتخاب کروا کے اس نے اپنے والد کا کفارہ ادا کرنا چاہا ہے‘‘۔ ایک بڑے گروہ نے ان نتائج کو تاریکی میں اُمید کی کرن قرار دیا۔ معروف تجزیہ نگار فہمی ھویدی نے الشرق الاوسط میں لکھا کہ ایسی عرب دنیا میں کہ جب حکمران ۹.۹۹ فی صد ووٹ لے کر جیت رہے ہوں آزادانہ انتخاب کروا دینا اور پھر ان میں اسلام سے محبت رکھنے والوں کا کامیاب ہو جانا اس امر کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دل میں اُمید روشن رکھنا چاہتا ہے کہ وہ پُرامن جدوجہد کے ذریعے اپنے اصلاحی مقاصدمیں ضرور کامیاب ہوں گے۔ پاکستان کے انتخابات کے بعد اس سوچ کے حامل تبصروں میں اور بھی اضافہ ہوگیا ہے۔
دو سوالات موصول ہوئے جن میں سوال کرنے والیوں نے اپنے اوپر گزرے واقعات کو بیان کر کے رہنمائی چاہی۔ ان کا یکجا جواب دیا جا رہا ہے۔ سوالات کی نوعیت جواب سے واضح ہو جاتی ہے۔ (ادارہ)
جواب: اُمت کی اِن دو بیٹیوں کے سوالات نے ایک ایسے نازک معاشرتی مسئلے کی طرف متوجہ کیا ہے جو دل و دماغ کی چولیں ہلانے والا ہے۔ ہم نے صدیوں سے جو معاشرتی نظام ورثے میں پایا ہے اس میں اسلامی تعلیمات سے دُوری کے سبب بعض وہ خرابیاں ظاہر ہونے لگی ہیں جن کے لیے ہم بلا کسی تردد مغرب کی اباحیت پسند تہذیب کو مورد الزام ٹھہراتے رہے ہیں۔ سرحد پار کے ٹی وی اور وڈیو پروگراموں کی طرح اب پی ٹی وی اور پی ٹی ورلڈ جو پروگرام پیش کر رہا ہے وہ خاندان کے تقدس اور تحفظ کو ناقابل برداشت حد تک تباہ کر دینے کے درپے ہیں۔ ایک ایسے گھرمیں جہاںبچے اور بڑے ایک ساتھ بیٹھ کر وہ تمام مناظر دیکھیں جو شرم و حیا کے منافی ہوں تو آخرکار اس کا اثر یہی ہونا چاہیے کہ حرام و حلال کی تمیز اور رشتوں کا تقدس بھی اس کی زد میں آجائے۔
ایک سوال میں یہ بات اٹھائی گئی ہے کہ ایک لڑکی اپنے سے عمر میں تقریباً ۱۰ سال زیادہ بڑے کزن کو اپنے بھائی کی طرح سمجھتی ہے لیکن وہی کزن ایک دن اسے تنہا پاکر اچانک اس سے بغل گیر ہونا چاہتا ہے اور وہ لڑکی کافی مزاحمت کے بعد اپنے آپ کو اس کی گرفت سے نکالتی ہے۔ یہ سانحہ اس لڑکی کے دل و دماغ میں طوفان برپا کر دیتا ہے اور وہ احساسِ گناہ کا شکار ہو جاتی ہے۔ وہ جاننا چاہتی ہے کہ اصل مجرم کون ہے اور وہ کس طرح اپنے آپ کو احساسِ گناہ سے نجات دلائے؟ دوسرے سوال میں ایک ایسے گھر میں جہاں انڈین فلموں کے وڈیو اور دیگر لغویات کا چرچا ہے ایک بھائی اپنی حقیقی بہن کے ساتھ ایسی حرکات کرتا ہے جو آنکھ اور ہاتھ کے زناکی تعریف میں آتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسے ماحول میں ایک ایسی لڑکی جو اس ماحول کو برا سمجھتی ہو اور جسے اللہ نے ہدایت کی راہ سجھا دی ہو‘ کس طرح اپنے آپ کو محفوظ رکھے اور برائی کا مقابلہ کرے؟
یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اُمت کی ان دو بیٹیوں نے جس برائی کی طرف ہمیں متوجہ کیا ہے وہ انتہائی حساس اور خطرناک ہے لیکن اس طرف متوجہ کرنے سے قبل یہ بیٹیاں جس ذہنی کرب ‘ گومگو کی کیفیت اور ناقابل برداشت کرب سے گزریں‘ وہ اُمت کے ہر باشعور فرد کے لیے ایک تازیانے سے کم نہیں۔
کسی بھی انسانی معاشرے کے عروج یا زوال کا تعلق اس کی اخلاقی اقدار سے ہوتا ہے۔ اگر کہیں شرم و حیا ‘ سچائی‘ وفاداری‘ پاس عہد اور رشتوں کا احترام ختم ہو جائے تو پھر اس معاشرے سے امن‘ سکون‘ محبت‘ فلاح اور سلامتی بھی رخصت ہو جاتی ہے۔ مغربی لادینی تہذیب اپنی تمام تر مادی ترقیوں کے باوجود اس سکون سے عاری ہے اور اسی بنا پر تیزی سے روبہ زوال ہے۔
اب نظر یہ آ رہا ہے کہ مغربی لادینی معاشرے کی دیگر بہت سی خرابیوں اور قباحتوں کے ساتھ ہمارے خاندان کا تقدس بھی پامال ہونے والا ہے۔ یہ سوالات اسی طلاطم کی غمازی کررہے ہیں۔
ہماری نگاہ میں اس انتہائی مہلک صورت حال کا پہلا سبب گذشتہ ۵۵ سالوں میں ہماری اپنی اخلاقی اقدار سے بے توجہی اور قرآن و سنت کی واضح ہدایات کی خلاف ورزی ہے۔ ہم نے اسلام کو محض عبادات اور عقائد تک محدود سمجھ لیا اور شخصیت و کردار اور معاملات کو پس پشت ڈال دیا‘ جب کہ اسلام درحقیقت معاملات ہی کا دین ہے کہ ایک شخص کس طرح اپنے رب اور مالک حقیقی‘ والدین ‘ اہل خانہ‘ ہمسایہ‘ کاروباری شریک‘ حتیٰ کہ دشمن کے ساتھ معاملہ کرے۔
اس کے ساتھ ساتھ ہم نے مشرقی روایات و رواج کے نام پر وہ معاشرت اختیار کر لی ہے جو اسلام کے بنیادی مقاصد اور اصولوں سے ٹکراتی ہے۔ حدیث شریف میں ہادی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو ٹوک الفاظ میں فرما دیا کہ جب بچہ ۱۰ سال کا ہو جائے تو اس کا بستر الگ کر دیا جائے۔ جب لڑکی بالغ ہو جائے تو چہرے اور ہاتھ کے سوا تمام جسم کو ڈھانک کر سامنے آئے۔ جن رشتوں کے ساتھ نکاح جائز ہے وہ تنہائی میں ایک دوسرے کے ساتھ نہ بیٹھیں خصوصاً دیور کے حوالے سے شدت سے یہ بات فرما دی ہے کہ وہ اپنی بھاوج کے ساتھ تنہا نہ ہو‘ اور نہ وہ بے تکلفی اور بے حجابی اختیار کی جائے جو ہماری نام نہاد مشرقیت کی پہچان ہے اور جس میں دیور اور بھاوج اس طرح گھلتے ملتے ہیں جس طرح حقیقی بھائی بہن کے لیے بھی جائز نہیں کیا گیا ہے۔
اسلام سے زیادہ صلہ رحمی کسی دین میں نہیں پائی جاتی۔ وہ قطع رحمی ]تعلقات کے منقطع کرنے[ کو حرام قرار دیتا ہے اور چاہتا ہے کہ رشتوں کا حق پورے احترام سے ادا کیا جائے لیکن اس کے ساتھ ہی حیا کو ایمان کی پہچان قرار دیتا ہے‘ اور چاہتا ہے کہ خود ماں باپ بھی اپنی اولاد کے ساتھ اپنے طرزعمل کو عمر اور بلوغت کے لحاظ سے متعین کریں۔ چنانچہ ایک حقیقی باپ بھی اپنی بیٹی کے ساتھ وہ بے تکلفی نہیں برت سکتا جو وہ اپنی بیوی کے ساتھ اختیارکر سکتا ہے۔ بیٹی کے احترام میں کھڑا ہو جانا‘ اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر محبت کا اظہار کرنا‘ اسلامی ثقافت اور تہذیب کی پہچان ہے۔ بھائی ہو یا باپ‘ ان کے سامنے سر پر آنچل ہونا‘ سینہ اور دیگر اعضا کا ڈھکا ہونا سنت کی پیروی ہے۔ اس لیے پہلی فکر ماحول کی ہونی چاہیے کہ بچپن سے لڑکیوں اور لڑکوں کو یہ احساس ہو کہ عمر کے ساتھ ان کا ایک دوسرے کے جسم کو چھونا (body contact)کم سے کم ہونا چاہیے۔ ایسے ہی ان رشتوں کا تنہائی اختیار کرنا جن کے درمیان نکاح ہو سکتا ہے حرام قرار دے کر خرابی کے ممکنہ دروازے کو بند کر دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی قلب مومن میں ایک ایسے محافظ کو بٹھا دیا گیا جو ہر لمحے ہر ہر عمل کو اس زاویے سے دیکھتا ہے کہ میرا کوئی عمل حیا کے منافی تو نہیں۔
جب یہ رویہ اختیا رکیا جائے تو گھر دنیا کی سب سے زیادہ محفوظ جگہ قرار پائے گا جہاں کوئی نفسیاتی دبائو اور احساسِ گناہ جنم نہیں لے سکے گا۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم ان رسوم و رواج سے اپنے آپ کو آزاد کریں جو ہمارے قبلِ اسلام کے معاشرے کی باقیات ہیں۔
جہاں تک سوال کسی گناہ کے ارتکاب کی ذمہ داری کا ہے‘ اسلام کا اصول واضح ہے۔ اگر ایک شخص پر اس کی خواہش کے بغیر ایک برائی مسلط کر دی جائے تو تمام ذمہ داری اس فرد کی ہے جو پیش قدمی کرتا ہے‘ قوت کا استعمال کرتا ہے اور انکار کے باوجود ایک فرد پر زیادتی کرتا ہے۔ جو اپنے آپ کو بچانے کے لیے مزاحمت کرے اس پر کوئی الزام نہیں۔ حتیٰ کہ اس کش مکش میں اعتماد کو جو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہو‘ اس کی ذمہ داری بھی پیش قدمی کرنے والے پر ہے۔ چند لمحات کے لیے جو شخص مجبوراً غلطی کا شکار ہو وہ گناہ سے مبرا ہے۔ لیکن اس کے باوجود استغفار اور توبہ اس کے ایمان کو مزید مضبوط کرنے اور رب کریم سے عاجزی کے ساتھ استقامت طلب کرنا قلبی سکون کے حصول کے لیے ضروری ہے۔
سگے بھائی کی طرف سے جو غلط رویہ اختیار کیا گیا اسے والدین کے علم میں ضرور لانا چاہیے اور اگر وہ واقعی نفسیاتی مریض ہو تو کسی صاحب ِ ایمان ماہرِ نفسیات سے مشورہ کرنا چاہیے۔ جہاں تک آپ کے اپنے نفسیاتی صدمے کا سوال ہے وہ بالکل فطری ہے لیکن آپ جیسی باشعور مسلمان لڑکی نے جس ہمت اور اعتماد سے اپنا تحفظ کیا ہے وہ پوری اُمت کے لیے باعثِ فخر ہے۔ ایسے مواقع پر اعوذ باللّٰہ من الشیطن الرجیم کے ورد سے اللہ کی پناہ میں آنا اور ہر نماز کے بعد آیت الکرسی کا شعوری طور پر معنی کوسمجھتے ہوئے پڑھنا مزید تقویت کا باعث ہوگا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ برائی کے خلاف جہاد کی قوت میں اضافہ کرے گا۔ ان شاء اللہ!
ضرورت اس بات کی ہے کہ گھریلو تربیت کے ذریعے ہر لڑکے اور لڑکی کو ان اخلاقی حدود سے آگاہ کیا جائے جو معاشرتی زندگی کی بنیاد ہیں۔ اللہ کے وجود کا احساس ‘ اس کا تقویٰ اور آخرت میں جواب دہی کا شعور ہی وہ مضبوط بنیاد ہے جو انسان کو برائی سے بچاتی ہے‘ اور مزاحمت کرنے کے لیے قوت فراہم کرتی ہے۔ بُرے سے بُرے ماحول میں بھی اگر اندر کا انسان جاگ رہا ہو اور قلب و دماغ پر اللہ کی حکومت ہو تو بظاہر ایک کمزور لڑکی بھی ایک پہلوان سے زیادہ قوت کے ساتھ برائی کے مقابلے پر ڈٹ جاتی ہے۔ کوشش کیجیے کہ اللہ کی محبت اور بندگی کا احساس قلب کی ہر دھڑکن میں سمو جائے۔ یہی وہ اخلاقی اسلحہ ہے جو سیرت و کردار کو مضبوط اور طرزعمل کو درست رکھتا ہے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)
س : ان دنوں اکثر یہ پڑھنے میں آتا ہے کہ کسی شہید کی لاش کافی وقت گزرنے کے بعد بھی دیکھی گئی تو وہ تروتازہ تھی اور خون بہہ رہا تھا۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ قرآنی آیت کے مطابق وہ زندہ ہیں اور انھیں مردہ نہیں کہنا چاہیے۔ لیکن دوسری طرف عام طبیعی عوامل کے تحت گلنے سڑنے کا عمل بھی ہوتا ہے۔ بعض لوگ اس بنیاد پر شہادت پر شک کرتے ہیں۔ اس معاملے میں اصل میں حقیقی صورت کیا ہے؟ (اس سوال کا ایک جواب ہم رسالہ المجتمع (شمارہ ۱۵۱۸‘ ۱۴ ستمبر ۲۰۰۲ء)سے پیش کر رہے ہیں۔ ادارہ)
ج : اس معاملے میں حقیقی صورت حال کو جاننے کے لیے مختلف فقہا سے آرا حاصل کی گئیں۔ فقہ کے استاد ڈاکٹر احمد سعید نے شہید کے جسدِ طاہر کے بارے میں وارد روایات کے بارے میں کہا ہے کہ نصوص میں صرف اس حد تک وارد ہے کہ اللہ تعالیٰ انبیاے کرام کے اجسام کی حفاظت فرماتا ہے۔ اُن کے علاوہ کسی بھی اور شخص کے جسم کی حفاظت کا وعدہ نہیں کیا گیا‘ تاہم اتنا ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض شہدا اور صالحین کے جسموں کی حفاظت کر کے ان پر خصوصی اکرام کرتا ہے۔ عموماً شہید کے جسم پر قدرتی عوامل اُسی طرح اثرانداز ہوتے ہیں جس طرح کسی بھی میت کے جسم پر اثرانداز ہوسکتے ہیں۔ اس بنیاد پر کسی کی شہادت کے بارے میں شک نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے اگر کسی شہید کے جسم کو ان عوامل سے خصوصی طور پر محفوظ رکھا ہے تو یہ اللہ کا عطا کردہ خصوصی اکرام و فضیلت ہے جسے وہ جس شہید کے ساتھ چاہے مخصوص کرسکتا ہے۔
بیہقی میں حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ اُحد کے شہدا کی قبروں سے چشمہ پھوٹ نکلنے کی بنا پر ہم نے انھیں وہاں سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے لیے قبریں کھودیں تو حضرت حمزہؓ کے پائوں میں کلہاڑی لگی جس سے ان کے پائوں میں سے خون رسنا شروع ہو گیا۔
مقبوضہ فلسطین کے علاقے طولکرم سے تعلق رکھنے والے مفتی عمار توفیق کی رائے میں اس میں ذرا شک نہیں کہ اُمت کے شہدا اُمت کی عزت و وقار کے لیے تاج کی حیثیت رکھتے ہیں اور یہ بات بھی کسی شبہے سے بالا ہے کہ شہدا کو خدا کی بارگاہ میں جنت الفردوس کا بلند و بالا مقام حاصل ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّھَدَآئِ وَالصّٰلِحِیْنَج وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقاً o (النساء ۴: ۶۹) ’’بے شک جو کوئی بھی اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرے گا اُسے انبیا‘ صدیقین‘ شہدا اور صالحین کی معیت نصیب ہوگی۔ بے شک یہ بہترین رفقاے کار ہیں‘‘۔
زیربحث مسئلے کے بارے میں درج ذیل باتوں کی وضاحت نہایت ضروری ہے:
۱- قرآن کریم کی دو آیات شہدا کی زندگی سے بحث کرتی ہیں: پہلی آیت سورۂ بقرہ کی ہے جس میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌط بَلْ اَحْیَآئٌ وَّلٰکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَo (البقرہ ۲:۱۵۴) ’’تم خدا کی راہ میں قتل ہو جانے والوں کو مردہ مت کہو۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ زندہ ہیں مگر تمھیں اُن کی زندگی کا شعور نہیں ہے‘‘۔
دوسری آیت سورۂ آل عمران کی ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتاًط بَلْ اَحْیَآئٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْنَ o (اٰل عمران ۳:۱۶۹) ’’تم خدا کی راہ میں قتل ہو جانے والوں کو مردہ مت کہو۔ درحقیقت وہ زندہ ہیں اور اپنے رب سے رزق پا رہے ہیں‘‘۔
پہلی آیت ہمیں بتاتی ہے کہ شہدا زندہ ہیں مگر انھیں ایسی زندگی دی گئی ہے جس کا ہمیں شعور و ادراک نہیں ہے۔ یہ خاص نوعیت کی زندگی ہے۔ دوسری آیت بتاتی ہے کہ شہدا زندہ ہیں اور اپنے رب کے پاس سے رزق بھی پا رہے ہیں۔ ظاہر ہے رزق سے زندہ ہی متمتع ہوسکتے ہیں۔ مردے کو اگر رزق ملتا ہے تو اُس کا اُسے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
۲- مرنے کے بعد شہدا کو حاصل ہونے والی زندگی کا اُن کے جسم کا مثلہ بنائے جانے اور دیگر تغیرات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ سیدالشہدا حضرت حمزہؓ کا جسم بھی مثلہ بنائے جانے سے محفوظ نہ رہ سکا تھا۔ اُن کا پیٹ چیر کر کلیجہ نکالا گیا‘ ناک اور کان کاٹ ڈالے گئے۔ مگر اُن کے جسم کے ساتھ کی جانے والی کسی بھی زیادتی سے اُن کی حیات جاوداں پر کوئی فرق نہیں پڑا اور نہ اُن کی شہادت کے مرتبے پر ہی یہ چیزیں اثرانداز ہوئی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حضرت انسؓ بن نضرکے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے گئے۔ اُن کے جسم کا اس حد تک مثلہ بنایا گیا کہ صحابہ کرامؓ اُن کی نعش کو پہچان نہ سکے۔ بالآخر اُن کی بہن نے اُن کی انگلی کی ایک علامت سے اُنھیں پہچانا۔
اُن شہدا کا کیا تذکرہ جن کے جسموں کو میزائلوں نے اُڑا کر گم کر دیا‘ توپوں اور گولوں نے اُن کے جسم جلتی راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیے۔ کیا ان میں سے کوئی اقدام اُن کی شہادت کے مرتبے کو فروتر کرسکتا ہے؟ ہرگز نہیں!!
۳- جہاں تک شہدا کے جسموں کا مٹی میں مل جانے اور بوسیدہ ہڈیوں میں تبدیل ہو جانے کا تعلق ہے تو قرآن و حدیث میں کوئی ایسی نص وارد نہیں ہوئی جو اُن کے جسموں میں ایسے تغیرات رونما ہونے کی نفی کرتی ہو۔ حدیث سے صرف انبیا کے جسد کے بارے میں صراحت کی گئی ہے کہ وہ اپنی اصلی حالت میں محفوظ رہتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے زمین کے لیے انبیا کے جسموں کو حرام قرار دے رکھا ہے (احمد‘ ابوداؤد‘ ابن ماجہ‘ دارمی‘ ابن خزیمہ)۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث سے ہمیں واضح رہنمائی ملتی ہے کہ ان تغیرات سے شہدا کے مقام و مرتبے کا قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے۔ آپؐ نے جب حضرت حمزہؓ کے جسدِ پاک کا مثلہ بنا ہوا دیکھا تو ارشاد فرمایا: ’’اگر مجھے صفیہؓ کے غم زدہ ہو جانے کا خیال نہ ہوتا تو میں یہ نعش یوں ہی چھوڑ دیتا کہ پرندے اسے کھا جائیں اور درندے اپنا پیٹ بھریں‘‘۔
۴- جہاں تک متعدد ایسے واقعات کا تعلق ہے کہ شہید کا جسم مختلف عوامل اور تغیرات سے مکمل طور پر محفوظ رہا تو درحقیقت یہ اللہ تعالیٰ کا خصوصی معاملہ ہے جس کا تعلق معجزہ اور کرامت سے ہے۔ اس سے شہادت کا معیار متاثر نہیں ہوتا۔
جن شہدا کے جسم قبروں میں اپنی اصلی حالت میں برقرار رہے اُن میں حضرت جابرؓ کے والد عبداللہ بن حرام بھی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اُن کے والد نے اُن کی شہادت کے چھ ماہ بعد انھیں قبر سے نکالا تو وہ اپنی اصلی حالت میں وہاں مدفون تھے۔ اُن کے جسم میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی تھی سوائے اُن کے کان کے جو اپنی اصل حالت میں نہ تھا دیگر تمام اعضا اُسی طرح تھے جس طرح دفن کے وقت تھے۔
اسی طرح معاویہ بن ابی سفیان کے دور میں پانی کا ایک چشمہ پھوٹ جانے سے دو شہدا کی قبریں باہر نکل آئیں۔ ان شہدا کی نعشیں ایسی حالت میں تھیں گویا ابھی کل ہی انھیں دفن کیا گیا ہو۔ بے شک یہ اللہ کی طرف سے اُن کی خاص کرامت تھی۔ (ترجمہ: خدیجہ ترابی)
مصنف نے قدیم مفسرین کا طریقہ اختیار کیا ہے کہ اولاً قرآن کی تفسیر قرآن ہی سے کی جائے۔ اس کے بعد رسول اکرمؐ کی صحیح احادیث اور آپؐ کے افعال اور ان متعلقہ واقعات سے آیات کی تشریح کی جائے جو آیات کے نزول کے وقت پیش آئے۔ ان بنیادی ذرائع سے استفادے کے بعد‘ ابوامینہ بلال فلپس نے صحابہ کرامؓ ،خاص طور پر حضرت ابن عباسؓ کی‘ جن کو خود حضور نبی کریمؐ نے ’’ترجمان القرآن‘‘ کا لقب عطا فرمایا تھا‘ تشریحات اور تعبیرات سے استفادہ کیا ہے۔ انھوں نے بعض قدیم مفسرین کی لغت اور گرامر کی تشریحات سے ممکن حد تک فائدہ بھی اٹھایاہے‘ نیز انھوں نے آیات کا مطلب بیان کرتے ہوئے موجودہ زمانے کے مسائل کے حوالے سے درست طور پر ان کا انطباق کیا ہے۔ انھوں نے کثرت سے صحیح احادیث کا حوالہ دیا ہے۔ کتاب کی ضخامت بڑھ جانے کے خوف سے احادیث کا عربی متن نہیں ‘ صرف ان کا انگریزی ترجمہ دیا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں قریباً اڑھائی سو احادیث کا بہت مفید انڈیکس بھی شامل ہے جس میں حروف ابجد کے لحاظ سے حدیث کے مضمون کا خلاصہ اور کتاب کا وہ صفحہ نمبر دیا ہے جس پر اس حدیث کا حوالہ‘ تفسیر میں دیا گیا ہے۔
آغاز میں فاضل مصنف نے ۳۲ صفحات پر مشتمل معلوماتی مقالے ’’تعارف تفسیر‘‘ (انٹروڈکشن ٹو تفسیر) میں علم تفسیر کی اہمیت وضرورت ‘ اصول التفسیر‘تاریخ علم التفسیر‘ قدیم اور جدید دور کی بعض مفید اور اہم تفاسیر ‘تفسیر اور تاویل کے فرق‘ طریق تفسیر‘ بعض منحرف تفاسیر‘صحیح مفسر کے مقتضیات اور قرأت اور تجوید کے فن پر عمدگی سے روشنی ڈالی ہے۔
بیسویں صدی کی مفید اور اہم تفاسیر کے ضمن میں مولف نے محمد رشید رضا کی تفسیرالمنار‘ سید قطب کی فی ظلال القرآن (غلطی سے مفسر کا نام سید قطب کے بجائے محمد قطب لکھ دیا ہے) اور مولانا مودودی کی تفہیم القرآن کا ذکر بھی کیا ہے۔ منحرف تفاسیر میں قادیانیوں کی سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر ۴۰ کی غلط تفسیر کا ذکر ہے اور محمد علی لاہوری کی کتاب کا حوالہ دیا گیا ہے۔
سورۃ الحجرات کی آیت ۱۵ کے ترجمے میں ‘ لفظ باموالھمکا انگریزی ترجمہ غلطی سے چھوڑ گئے ہیں۔ تفسیرکے متن میں آیت ۱۴ کے عربی متن میں قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا… کی جگہ لم تاء منوا چھپ گیا ہے۔ ان غلطیوں کی اصلاح ہونی چاہیے۔
بحیثیت مجموعی انگریزی دان مسلمانوں کو اہل ایمان کے شایان شان آداب سکھانے‘ اجتماعی زندگی میں فساد برپا کرنے والی برائیوں سے بچانے‘ قومی اور نسلی امتیازات کو ختم کرنے اور اپنی بڑائی قائم کرنے کی خاطردوسروں کو گرانے کے رجحان اور اپنے شرف پر فخر وغرور کی جڑ کاٹ دینے کے لیے اس کتاب کا مطالعہ بہت مفید ہے۔ (محمد اسلم سلیمی)
کلام اقبال اور نثراقبال اتنے خوش رنگ مظاہر پر مشتمل ہے کہ ان کا ایک ایک رنگ ‘نظر کو طراوت اور روح کو بالیدگی عطا کرتا ہے۔ اس قیمتی اثاثے کا پھیلائو اتنا ہے کہ عہدحاضر کی مشینی زندگی میں‘ علم و دانش کے اس سرچشمے تک رسائی پانا اگرچہ ناممکن تو نہیں‘ لیکن ایک مشکل کام ضرور ہے۔
عصرحاضر کی علمی روایت میں ٹھوس پیش رفت ہوئی ہے یا نہیں؟ یہ ایک متنازع سوال ہے‘ لیکن اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ انسانی زندگی کی معلوم تاریخ میں مطالعے کے لیے جتنی سہولتیں‘ اور جتنے سہارے اس عہد نے دیے ہیں‘ ان کا پہلے گمان تک بھی نہ کیا جا سکتا تھا۔ کتب کی اشاریہ سازی اسی سہولت کاری کا ایک معتبرپہلو ہے۔ اہل مغرب کے ہاں یہ فن اپنے کمال کو پہنچا ہوا ہے‘ لیکن ہمارے ہاں یہ روایت پوری طرح جڑ نہیں پکڑ سکی۔ اس فضا میں وہ لوگ غنیمت ہیں جو کتابی اشاریہ سازی کا اہتمام کرتے ہیں۔
کلامِ اقبال کے متعدد اشاریے گذشتہ ۲۰ برسوں کے دوران سامنے آئے ہیں‘ جن میں الفاظ اور شعروں کی بنیاد پر اشاریے بنائے گئے ہیں۔ اسی روایت میں وسعت اور صحت کے ساتھ زیرتبصرہ اشاریہ‘ علمی دنیا اور عام لوگوں کے لیے ایک قیمتی تحفے کا درجہ رکھتا ہے جس میں‘ اقبال کے اردو کلیات کے تمام مصرعوں کو حروف تہجی کے اعتبار سے ترتیب دیا گیا ہے۔ چونکہ اس وقت کلیاتِ اقبال کو متعدد ناشروں نے چھاپ رکھا ہے‘ اس لیے اشاریہ ساز نے اردو کلیاتِ اقبال کے تین معروف نسخوں (قدیم ایڈیشن‘ شیخ غلام علی ایڈیشن‘ اقبال اکادمی ایڈیشن) کے صفحات کی‘ ہر مصرعے کے سامنے نشان دہی کر دی ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ پورا مصرع دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کا سبب یہ ہے کہ بعض اوقات ذہن میں مصرع‘ نامکمل یا تحریف شدہ حالت میں ہوتا ہے۔ اشاریے میں ہر شعر کا پہلا اور دوسرا‘ دونوں مصرعے صحت کے ساتھ‘ اپنے اپنے محل (الفبائی ترتیب) پر دیے گئے ہیں۔ اس طرح گویا پوری کلیات اقبال‘ اُردو مصرعوں کی الفبائی ترتیب کے ساتھ‘ اس اشاریے میں موجود ہے۔
یہ کتاب عام قاری کے ساتھ‘ مقرروں‘ مصنفوں اور محققوں کی ضرورتوں کو پورا کرتی ہے(جو اقبال کے اشعار کی صحت کا خیال رکھنا چاہیں) اور اقبال شناسی کی روایت میں وسعت پیدا کرنے کا ذریعہ بھی بنتی ہے۔ اشاریے میں غلطیاں موجود ہیں‘ پروف خوانی ابھی مزید ریاضت اور توجہ چاہتی ہے۔ بہرحال اس نوعیت کی مددگار کتابیں اگر رواج پکڑ لیں تو اشعار‘ جس کثرت سے غلط نقل ہوتے ہیں اور ان کے استعمال میں جو ’’ادبی جھٹکا‘‘ دیکھنے کو ملتا ہے‘ اس سے نجات پانا آسان ہو جائے گا۔ (سلیم منصور خالد)
رینے گینوں ایک نومسلم فرانسیسی فلسفی ہے جس نے فلسفے اور لاطینی ‘ یونانی اور عربی زبانوں کی تعلیم حاصل کی۔ اُس نے جوانی کے ایام فرانس اور جرمنی میں اور عمر کا آخری حصہ مصر میں گزارا۔ رینے گینوں نے آخری عمر میں اسلام قبول کر لیا تھا اور الشیخ عبدالواحد یحییٰ کا نام اختیار کیا۔
رابن واٹر فیلڈ نے رینے گینوں کی تصانیف اور افکار کا جائزہ مرتب کیا ہے۔ اس کی ذاتی زندگی کے بارے میں معلومات زیادہ نہیں ہیں کیونکہ وہ انتہا درجے کا تنہائی پسند شخص تھا‘ تاہم اُس نے جو تصانیف مرتب کی ہیں‘ تبصرے تحریر کیے ہیں اور اپنے قریبی دوستوں کو اپنے خیالات کے بارے میں بتایا ہے اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مثالیت (symbolism) پر یقین رکھتا تھا۔ وہ اہل مغرب کی اس علمی و فکری روایت کا زبردست ناقد تھا جس کی رو سے یونانی اور رومی روایتِ علم ہی‘ علم کی آخری حد سمجھی جاتی ہے۔ اُس کی تصانیف میں ایک اہم تصنیف ہندومت پر بھی ہے۔ وحدتِ کائنات کی تلاش میں اُس نے ویدوں کا مطالعہ بھی کیا اور مصر میں قیام کے دوران قدیم مذہبی صحیفوں کے اصل متن کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہا۔
زیرنظر کتاب کے دقیق اور پیچیدہ اندازِ بیان کو پروفیسر اشرف بخاری نے انتہائی کاوش کے ساتھ اُردو میں منتقل کرنے کی سعی کی ہے (اگرچہ کئی مقامات پر ترجمہ اور نامانوس اصطلاحات کھٹکتی ہیں)۔ دراصل ایک زبان کے افکار و تصورات کو دوسری زبان میں منتقل کرنا آسان نہیں ہے۔ فاضل مترجم نے کئی اہم تصورات کے بارے میں کتاب کے آخر میں وضاحتی حاشیے بھی شامل کیے ہیں۔ الٰہیات‘ علم فلسفہ اور مغرب کی تہذیبی اُٹھان کے منطقی پس منظر سے واقفیت کے لیے یہ کتاب مفید ہے۔ (محمد ایوب منیر)
بہشتی زیور کی شہرت خواتین کے حوالے سے ہے‘ گو اس میں عام زندگی کے عمومی تمام ہی گوشوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ مدرسہ بیت العلم کراچی کے اساتذہ نے اپنے مدرسوں کے طلبہ کی ضرورت کے لحاظ سے اسے نئی ترتیب دی ہے اور زبان و بیان کی قدامت دُور کر دی ہے۔ فقہی کتاب کی طرح عنوانات (طہارت‘ عبادات‘ معاشرت‘ معیشت) بنا دیے ہیں اور مسئلے اور سوال و جواب کا انداز اختیار کیا ہے۔ خواتین سے متعلق مسائل حذف کر دیے ہیں (لڑکیوںکے مدرسے اپنی درسی کتاب مرتب کریں تو مردوں کے مسائل نکال دیں!)۔ اب یہ ایک مفید درسی کتاب ہونے کے ساتھ ساتھ ہر گھر کی ضرورت بن گئی ہے۔ ائمہ مساجد بھی اس کے حوالے سے مسائل بیان کر سکتے ہیں۔ (مسلم سجاد)
ابوالامتیاز مسلم صاحب نے ذہنی طور پر پس ماندہ اور خصوصی توجہ اور نگہداشت کے مستحق افراد کی معذوری کے مختلف پہلوئوں پر نہایت منفرد اور موثرانداز میں روشنی ڈالی ہے اور ذہنی پس ماندگی کی نوعیت‘ علامات‘ نیز فسادِ دماغ کے بارے میں نہایت سلیس اور دل چسپ انداز میں ایک عمومی جائزہ پیش کیا ہے جس سے ذہنی پس ماندگی کے اسباب و علل کی تفہیم‘ اس کی انتہائی اور شدید‘ نیز متوسط اور خفیف کیفیات کا ادراک اور اُن کی تشخیص اور تدارک کے لیے اقدامات کرنا یقینا آسان ہو جاتا ہے۔
مصنف نے ذہنی پس ماندگی کے ضمن میں ایک نہایت اہم موضوع‘ یعنی معاشرتی رویوں کا بھی خصوصی طور پر ذکر کیا ہے۔ انھوں نے فرمایا ہے کہ والدین کا اپنے معذور بچے کے بارے میں مثبت رویہ‘ نگہداشت اور خصوصی تعلیم و تربیت کے لیے انتہائی اہم قدم ہوتا ہے۔ مسلم صاحب نے خالصتاً اسلامی شعائر کے تحت معذوروں کے حقوق کو پیش نظر رکھا ہے۔ انھوں نے خود بھی احکامِ الٰہی کی روشنی میں اپنے معذور بچے کو صبروشکر کرکے سینے سے لگایا ۔ حیاتیاتی اور نفسیاتی اعتبار سے اپنے معذور بیٹے کے لیے بہتر سے بہترماحول ترتیب دیا اور اُس کی خصوصی پرورش اور تربیت کی مثال قائم کی۔ صرف یہی نہیں‘ انھوں نے ذہنی پس ماندگی کے شکار لاکھوں بچوں کی تعلیم و تربیت اور بحالی جیسے امور کا بیڑا بھی اٹھایا اور اسے علمی موضوع بناکر اُس کی تفصیل بھی اس کتاب میں پیش کی ہے۔
کتاب میں ذہنی طور پر معذور بچوں کی صحت اوراُن کی محدود صلاحیتوں کو سامنے رکھتے ہوئے‘ درجہ وار خصوصی تعلیم و تربیت اور بحالی سے متعلق ممکن ذرائع کی نشان دہی بھی کی ہے جس سے یقینا متعلقہ معاشرتی ادارے بھی مستفید ہوسکتے ہیں۔بلکہ یہ کتاب عمومی آگاہی کے علاوہ‘ باقاعدہ تربیت اور تعلیم و تحقیق کے دروازے کھولنے میں بھی ممد و معاون ثابت ہوگی۔ کتاب ہٰذا والدین‘ طلبہ‘ اساتذہ سے لے کر ماہرین نفسیات‘ اطبا اور میڈیکل ڈاکٹر حضرات تک سب کے لیے افادیت کی حامل ہے۔ (ڈاکٹر احسان اللّٰہ خان)
دورِ جدید میں اسلام کے عالم گیر پیغام کو عام کرنے اور رسالت مآبؐ کی سیرت سے دنیا کو روشناس کرانے کی بے حد ضرورت ہے۔ اُمت مسلمہ نہ اپنے کردار سے آگاہ ہے نہ درپیش چیلنج سے۔ قلمی محاذ ہو یا تحقیق کا میدان‘ مسلسل اور تکلیف دہ خاموشی‘ عالم اسلام کی دگرگوں حالت‘ حال و مستقبل کی آئینہ دار ہے۔
زیرنظر کتاب کے سرورق پر عنوان دیکھ کر میرا خیال تھا کہ شاید اس کتاب میں بتایا گیا ہوگا کہ اکیسویں صدی کے نئے عالمی نظام‘ تشدد‘ دہشت گردی‘ سیاست عالم‘ مغرب کے اقتصادی غلبے اور مسلمانوں کی دگرگوں حالت کے پیش منظر میں سیرت طیبہ ہماری کیسے اور کس طرح راہنمائی کر سکتی ہے۔یہ بھی ذہن میں آیا کہ اُمت مسلمہ جن مصائب اور مسائل میں گرفتار ہے (فرقہ بندی‘ جدیدیت‘ لبرلزم‘ ترقی پسندی‘ مادہ پرستی‘ شریعت کی نئی تعبیرات‘ سود‘ بیمہ‘ مخلوط تعلیم‘ رقص و سرود اور ٹی وی کی خرافات) ان سے عہدہ برآ ہونے کے لیے‘ رسالت مآبؐ کی سیرت سے راہنمائی حاصل کی گئی ہوگی‘ لیکن جب کتاب کو دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ مصنف کے سیرت‘ قرآن اور چند کتابوں پر لکھے گئے تبصروں کا مجموعہ ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی بلندپایہ علمی حیثیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ اُن کی ۳۴ سے زائد کتب شائع ہوچکی ہیں (جن میں سے متعدد کتابوں پر ترجمان میں تبصرے چھپ چکے ہیں)۔ بلاشک و شبہہ بلوچستان میں قرآن مجید کے تراجم و تفاسیر‘ حرمین شریفین کے سفرناموں اور تذکرئہ سیرت‘ نیز فارسی نعت کے مجموعوں کے تعارف والے‘ مصنف کے مضامین بھی سیرت ہی کے حوالے سے ہیں لیکن احقر کی راے میں عنوان کتاب‘ ان تحریروں کے حسب حال نہیں ہے۔ (م - ا - م)
محمد شریف بقا‘ علامہ اقبال اور ان کے فکر وکلام سے دیرینہ وابستگی رکھتے ہیں۔ برطانیہ میں ذکراقبال کا اہتمام کرنے کے ساتھ ساتھ‘ تشریحاتِ اقبال کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے وہ علامہ کے انگریزی خطبات اور ایک معروف نظم کی شرح شائع کر چکے ہیں (بہ عنوان: خطبات اقبال پر ایک نظر- ابلیس کی مجلس شوریٰ)۔ اب بال جبریل کی نظم ’’ذوق و شوق‘‘ ، رموز بے خودی کے ایک حصے اور پس چہ باید کرد کے ایک حصے کی تشریح پیش کی ہے۔ انداز شرح یہ ہے: پہلے متن‘ پھر مشکل الفاظ و اصطلاحات کے معانی‘ بعدازاں ’’مطلب‘‘ اور تشریح--- سیاق و سباق اور پس منظر بھی دیا جاتا تو قاری کے لیے تفہیم زیادہ آسان ہوتی۔ (ر-ہ)
’’رسائل و مسائل‘‘ (اکتوبر ۲۰۰۲ء) میں نمایش فقر کے حوالے سے جس سوال کا مولانا مودودیؒ کا جواب شائع کیا گیا ہے وہ سوال اس حقیر کا تحریر کردہ ہے جو غالباً آج سے ۵۰ سال قبل جماعت اسلامی سے اپنے ابتدائی تعلق کے دوران ڈھاکہ سے میں نے بھیجا تھا۔ اس کی شان نزول یہ ہے کہ وہ زمانہ بڑی عسرت اور تنگ دستی کا ہوا کرتا تھا اور ڈھاکہ جماعت کا کل ماہانہ خرچ دو تین سو روپے ہی ہوتا تھا۔ ہمہ وقتی کارکن کی تنخواہ ۶۰ روپے تھی۔ اس زمانے میں ہمارے ہاں دو رکن یونی ورسٹی کے پروفیسر تھے۔ ایک ڈاکٹر عزیر تھے اور دوسرے کا نام یاد نہیں آ رہا (وہ حیدر آباد دکن کے تھے)۔عزیر صاحب ڈھاکہ یونی ورسٹی میں تھے اور دوسرے صاحب انجینئرنگ یونی ورسٹی میں۔ان دونوں کو یونی ورسٹی کی طرف سے اچھی رہایش ملی ہوئی تھی۔ غالباً ایک کے پاس ملازم بھی تھا۔ ان کی تنخواہ بھی اس زمانے کے معیار کے مطابق اچھی تھی جس کا اظہار ان کے لباس‘ کھانے پینے اور رہن سہن سے ہوتا تھا۔
ہم کارکنان جماعت کی تعداد اس وقت ۳۰ سے زیادہ نہ تھی۔ ہم بے چاروں کو نہ صحیح گھر نصیب تھا‘ نہ صحیح لباس اور جوتے اور نہ مناسب بودوباش ہی تھی۔ میں اس وقت نیا نیا جماعت کے قریب آیا تھا اور ذہن میں یہ سوال آیا تو میں نے مولانا مودودیؒ کو لکھ مارا۔
میں نے سوچا کہ آپ کو اس سوال کے محرک اور اس کے پس منظر سے آگاہ کر دوں۔ جب بھی ترجمان القرآن دیکھتا ہوں تو دل کی گہرائیوں سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ آپ کی مساعی کو قبول فرمائے اور بہتر سے بہتر انداز میں کام کرنے کی توفیق دیتا رہے۔ آمین!
’’عروج کا راستہ‘‘ (اکتوبر ۲۰۰۲ء) میں وحشیوں کے لیے barbarians (ص ۳۴) کا لفظ استعمال کیا گیا ہے یہ مناسب نہیں۔ ہمارے ہاں ’’بربریت ‘‘ کے لفظ کا بھی عام استعمال ہے‘ غالباً ہم اس کے پس منظر سے واقف نہیں ہیں۔ بربر افریقہ کے وہ جنگجو قبائل تھے جنھوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد اسلام کی سربلندی اور ظلم و استعمار کے خاتمے کے لیے بڑی جواں مردی دکھائی اور اسلام کے جیشِ اول کا کردار ادا کیا۔ مغرب کو اسلام کے غلبے سے زک پہنچی تھی۔ اس نے ایک سازش کے تحت بربر قبائل کو بدنام کرنے کے لیے لفظ بربر کو ’’بربریت‘‘ کانام دے کر ایک گالی بنا دیا‘ زبان زدعام کر دیا اور مسلمانوں کی جرأت‘ عظمت و سربلندی کی ایک پوری تصویر کو مسخ کرکے رکھ دیا۔ ہمیں یہ لفظ استعمال نہ کرنا چاہیے۔
ترجمان القرآن میں امریکی استعمار‘ مغرب اور صہیونی قوتوں کی اسلام دشمنی اور سازشوں اور دیگر اہم مسائل پر تحریریں شائع ہوتی رہتی ہیں جو فکری آبیاری اور شعور کی پختگی کا باعث ہوتی ہیں۔ البتہ ملک میں بڑھتی ہوئی بے انصافی‘ کرپشن اور داخلی انتشار سے متعلق ذہن میں پیدا ہونے والے سوالات کے جواب پر مبنی تحریریں بہت کم دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اس ملک کا وہ غریب شہری جس کا تھانیدار‘ پٹواری‘ تحصیل دار‘ بدعنوان افسران بالا‘ افسرشاہی اور انصاف کا خون کرنے والی عدلیہ سے واسطہ پڑتا ہے اور اسے نجات کی کوئی راہ نہیں سجھائی دیتی‘ اس کے لیے بھی کوئی لائحہ عمل پیش کیا جانا چاہیے تاکہ عوام میں بڑھتی ہوئی مایوسی اور بے حسی کا بھی کچھ سدباب کیا جاسکے۔
میں ستمبر ۲۰۰۲ء کے آخری ہفتے میں مولانا عبدالشہید نسیم‘ ڈائریکٹر سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ ریسرچ اکیڈمی‘ ڈھاکہ کی دعوت پر بنگلہ دیش گیا۔ انھوں نے ’’مولانا مودودیؒ اور ان کے کارنامے‘‘ کے موضوع پر ایک سیمی نار منعقد کیا تھا۔ اس موقع پر میں نے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے دو اہم عہدے داروں‘ یعنی امیرجماعت مولانا مطیع الرحمن نظامی اور سیکرٹری جنرل علی احسن محمد مجاہد کی بطور وزیر عمومی کارکردگی کے بارے میں بھی معلومات حاصل کیں۔ مولانا مطیع الرحمن نظامی وزیر زراعت اور علی احسن مجاہد وزیر براے سماجی بہبود ہیں۔ دونوں وزرا کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ دونوں نہایت دیانت دار ہیں‘ ٹھیک وقت پر اپنے اپنے دفتر پہنچ جاتے ہیں‘ پورا وقت توجہ سے وزارتی کام میں مصروف رہتے ہیں اور تمام فائلوں کو اچھی طرح سے نمٹا کر شام کو دفتر سے گھر جاتے ہیں۔ گھر پر بھی ایک مختصر دفتر قائم ہے جس میں رات گئے تک کام میں مصروف رہتے ہیں۔ دونوں بہت مخلص ‘ سادہ زندگی گزارنے والے اور اپنے کام کو پوری طرح سمجھنے والے ہیں۔ دونوں وزرا نے وزیراعظم اور کابینہ کے دوسرے ارکان کو بہت متاثر کیا ہے۔ کابینہ میں ان کی رائے توجہ سے سنی جاتی ہے اور اس کی قدر کی جاتی ہے۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ وزیراعظم خالدہ ضیا نے کابینہ کے ایک اجلاس میں اپنے وزرا سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ لوگوں کو جماعت کے دونوں وزرا کی اچھی مثال اپنے سامنے رکھنی چاہیے۔ وہ دونوں اپنی اپنی وزارت کے دفاتر میں ٹھیک وقت پر پہنچتے ہیں۔ سب سے زیادہ کام کرتے ہیں۔ دورے بھی خوب کرتے ہیں اور اپنی جماعت کو بھی چلا رہے ہیں۔ آپ لوگوں کو بھی ان کی طرح مستعد ہونا چاہیے۔
مولانا مطیع الرحمن نظامی نے بتایا کہ ہم نے کابینہ سے مدرسہ عالیہ کے فاضل کو بی اے اور کامل کو ایم اے کے برابر قرار دینے کا فیصلہ کروا لیا ہے۔ ڈگری کی سطح تک اسلامیات کو لازمی کرنے کی تجویز زیرغور ہے۔
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ دونوں وزرا نے اپنے حسن اخلاق اور بلند کردار سے جماعت اسلامی کے لیے عوام کے دلوں میں جگہ بنائی ہے۔ پریس میں بھی ان کی دیانت داری‘ اخلاص اور بہتر کارکردگی کی تعریف کی جاتی ہے۔
ان تفصیلات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ لفظ دین کی بنیاد میں چار تصورات ہیں‘ یا بالفاظِ دیگر یہ لفظ عربی ذہن میں چار بنیادی تصورات کی ترجمانی کرتا ہے:
غلبہ و تسلط ‘ کسی ذی اقتدار کی طرف سے‘
اطاعت ‘ تعبد اور بندگی‘ صاحب ِ اقتدار کے آگے جھک جانے والے کی طرف سے‘
قاعدہ و ضابطہ اور طریقہ‘ جس کی پابندی کی جائے‘
محاسبہ اور فیصلہ اور جزا و سزا۔
انہی تصورات میں سے کبھی ایک کے لیے اور کبھی دوسرے کے لیے اہل عرب مختلف طور پر اس لفظ کو استعمال کرتے تھے‘ مگر چونکہ اِن چاروں امور کے متعلق عرب کے تصورات پوری طرح صاف نہ تھے اور کچھ بہت زیادہ بلند بھی نہ تھے‘ اس لیے اس لفظ کے استعمال میں ابہام پایا جاتا تھا اور یہ کسی باقاعدہ نظامِ فکر کا اصطلاحی لفظ نہ بن سکا تھا۔ قرآن آیا تو اس نے اس لفظ کو اپنے منشا کے لیے مناسب پا کر بالکل واضح و متعین مفہومات کے لیے استعمال کیا اور اس کو اپنی مخصوص اصطلاح بنا لیا۔ قرآنی زبان میں لفظ دین ایک پورے نظام کی نمائندگی کرتا ہے جس کی ترکیب چار اجزا سے ہوتی ہے:
حاکمیت و اقتدارِ اعلیٰ‘
حاکمیت کے مقابلہ میں تسلیم و اطاعت‘
وہ نظامِ فکروعمل جو اس حاکمیت کے زیراثر بنے‘
مکافات جو اقتدارِ اعلیٰ کی طرف سے اس نظام کی وفاداری و اطاعت یا سرکشی و بغاوت کے صلہ میں دی جائے۔
قرآن کبھی لفظ دین کا اطلاق معنی اول و دوم پر کرتا ہے‘ کبھی معنی سوم پر‘ کبھی معنی چہارم پر‘اور کہیں الدین بول کر یہ پورا نظام اپنے چاروں اجزا سمیت مراد لیتا ہے۔ (’’قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں‘ ‘، ابوالاعلیٰ مودودی‘ ترجمان القرآن‘ جلد ۲۱‘ عدد ۳-۴۔ رمضان‘ شوال ۱۳۶۱ھ/اکتوبر‘نومبر ۱۹۴۲ء‘ ص ۵۸)