وَالسَّمَآئِ ذَاتِ الْبُرُوْجِ o وَالْیَوْمِ الْمَوْعُوْدِ o وَشَاہِدٍ وَّمَشْہُوْدٍ o قُتِلَ اَصْحٰبُ الْاُخْدُوْدِ o النَّارِ ذَاتِ الْوَقُوْدِ o اِِذْ ھُمْ عَلَیْھَا قُعُوْدٌ o وَّھُمْ عَلٰی مَا یَفْعَلُوْنَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ شُہُوْدٌ o وَمَا نَقَمُوْا مِنْھُمْ اِِلَّآ اَنْ یُّؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ o الَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ شَھِیْدٌ o اِِنَّ الَّذِیْنَ فَتَنُوْا الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَتُوْبُوْا فَلَھُمْ عَذَابُ جَھَنَّمَ وَلَھُمْ عَذَابُ الْحَرِیقِ o اِِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَھُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ ط ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْکَبِیْرُ o اِِنَّ بَطْشَ رَبِّکَ لَشَدِیْدٌ o اِِنَّہٗ ھُوَ یُبْدِیُٔ وَیُعِیْدُ o وَھُوَ الْغَفُوْرُ الْوَدُوْدُ o ذُوالْعَرْشِ الْمَجِیْدُ o فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ o (البروج ۸۵:۱-۱۶) قسم ہے بُرجوں والے آسمان کی، اور اس دن کی جس کا وعدہ ہے، اور شاہد اور مشہود کی۔ ناس ہو کھائی والوں کا، ایندھن بھری آگ والوں کا، جب کہ وہ اس پر بیٹھے ہوئے تھے، اور جو کچھ اہلِ ایمان کے ساتھ کر رہے تھے، اسے دیکھ رہے تھے۔ انھیں ان کی صرف یہ بات بُری لگی کہ وہ اللہ پر ایمان رکھیں، جو غلبے کا مالک اور حمدوستایش کا سزاوارہے، جو آسمان اور زمین کی بادشاہت کا مالک ہے، اور اللہ ہرچیز کو دیکھ رہا ہے۔ جن لوگوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ستایا، پھر توبہ نہ کی، ان کے لیے عذاب ہے جہنم کا، اور ان کے لیے عذاب ہے بھڑکتی ہوئی آگ کا۔ بلاشبہہ جو لوگ ایمان لائے، اور اچھے کام کیے اُن کے لیے باغ ہیں، جن کے نیچے نہریں رواں ہوں گی، یہی بڑی کامیابی ہے۔ بلاشبہہ تمھارے رب کی پکڑ بڑی ہی سخت ہے، اور وہ سب کچھ کرسکتا ہے اور وہ انتہائی معاف کرنے والا اور محبت کرنے والا ہے۔ تخت کا مالک بڑی شان والا، جو چاہے کرڈالے۔
اصحاب الاخدود کا یہ واقعہ اس قابل ہے کہ مومن داعیانِ حق اس پر ٹھیر کر غور کریں، چاہے وہ کسی بھی جگہ اور کسی بھی دور کے ہوں۔ قرآن کا اسے ایک خاص پیرایے میں لینا، ایک خاص تمہید کے ساتھ بیان کرنا، ایک خاص زاویے سے اس پر تبصرہ کرنا، اور بیچ بیچ میں مختلف رُموز و حقائق کی طرف اشارے کرنا صرف اس لیے تھا کہ وہ کچھ گہرے اور واضح خطوط کھینچ دے جن سے بآسانی اندازہ ہوسکے کہ دعوتِ حق کا مزاج کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہمیشہ انسانیت کا کیا سلوک رہا ہے، اور وہ کیسی کیسی جگرپاش مصیبتیں اور زہرہ گداز آزمایشیں ہیں جو دعوتِ دین کی راہ میں پیش آسکتی ہیں۔ قرآن چاہتا ہے کہ واضح طور پر مومنین کے لیے نشاناتِ راہ متعین کردے اور انھیں ان تمام مصائب کو جھیلنے کے لیے پہلے سے تیار کردے، جو فیصلۂ الٰہی کے تحت آتے، اور اپنے اندر گوناگوں حکمتیں رکھتے ہیں، گو ہم انھیں سمجھنے سے قاصر رہے ہیں۔
یہ ایک ایسے گروہ کا واقعہ ہے جو اپنے رب پر ایمان لایا، ایمان کا برملا اعلان کیا، پھر ایسے درندہ خصلت ظالموں کا نشانۂ ستم بنا، جو آزادیِ انسان کے دشمن تھے۔ ایک انسان پیدایشی طور پر آزاد اور قابلِ احترام ہے۔ اس کو فطری طور پر حق کو قبول کرنے، اور خدا پر ایمان لانے کا حق ہے، مگر وہ ظالم یہ حق چھیننا چاہتے ہیں۔ اور اگر کوئی اس حق سے دست بردار نہ ہوتا، تو اس کے لیے سراپا ظلم وستم بن جاتے۔ اس گروہ نے ایمان کا اعلان کیا، تو انھوں نے درندگی و سفاکی کے بھرپور مظاہرے کیے۔ وہ اس کو ستاستا کر اس کی اذیتوں سے محظوظ ہوئے اور آگ کے الائو میں جھونک کر اس کی بے قراریوں کا پُرشوق نظارہ کرتے رہے۔
یہ نفوس زندگی کی بندگی سے آزاد تھے۔ موت اس بھیانک انداز سے ان کے سامنے کھڑی تھی، لیکن زندگی کی محبت انھیں اپنی طرف نہ جھکا سکی۔ وہ زمین کی ساری بندشوں سے آزاد اور ارضی علائق پر پوری طرح غالب رہے کیونکہ عقیدہ زندگی پر غالب رہا۔
ان مومن، خیرپسند اور بلندواشرف نفوس کے مقابلے میں انتہائی سرکش، شرپسند، مجرم اور کمینی طبیعتیں تھیں۔ یہ آگ کے پاس بیٹھتیں، کہ دیکھیں مومنین کس طرح جھلستے اور تڑپتے ہیں، کس طرح آگ زندگی کو کھاتی اور ان نیک افراد کو تودۂ راکھ بنادیتی ہے۔ ان نیک اور صالح مومنین میں سے جب بھی کوئی جوان مرد یا جوان عورت، ننھی بچی یا بوڑھی خاتون، طفلِ شیرخوار یا پیرکہن سال آگ کے الائو میں جھونکا جاتا، ان سرکش طبیعتوں کے خسّت آمیز نشے میں طغیانی آجاتی، اور آگ کو بھڑکانے والے درندے خون اور آنتوں کے ساتھ خوب شیطنت کے مظاہرے کرتے۔
یہ وہ شرم ناک واقعہ ہے جس میں سرکش طبیعتیں انتہائی پستی میں اُتر کر سفاکیت کی غلیظ کیچڑ میں خوب آلودہ ہوئیں۔ جس بے ہودگی کے ساتھ وہ اس منظر جانکاہ سے محظوظ ہوتی رہیں، اس سے انسان تو انسان، درندے بھی شرماجائیں، کہ درندے بھی حملہ کرتے ہیں تو اس لیے کہ اس سے بھوک کی آگ بجھائیں نہ کہ بے ہودگی کے ساتھ شکار کی بے قراریوں کا نظارہ کریں۔
نیز یہی وہ عظیم واقعہ ہے جس میں مومنین کی روحیں رفعتوں سے آشنا ہوئیں۔ سارے بندھنوں نے آزاد ہوکر وہ بلندی کے اس نقطۂ کمال پر پہنچ گئیں کہ ساری انسانیت، ہر دور کی انسانیت، ہر نسل کی انسانیت بجاطور پر اُن پر فخر کرسکتی ہے۔
مادی نقطۂ نظر سے دیکھو تو یہاں طغیانِ کفر ایمان پر غالب رہا۔ وہ ایمان جو نیک، خیرپسند، ثابت قدم اور باعزم دلوں میں بلندی کی آخری سرحدیں چھو رہا تھا، اس کش مکش میں بُری طرح ناکام و سبک سر ہوا۔
قرآن یا حدیث، کہیں بھی یہ تذکرہ نہیں کہ اس موقعے پر خدا کا ہاتھ حرکت میں آیا، ان درندوں کی سفاکیاں رنگ لائیں۔ قومِ نوحؑ، قومِ ہود ؑ، قومِ صالحؑ، قومِ شعیب ؑ، قومِ لوطؑ اور فرعون و آلِ فرعون کی طرح ان پر بھی عذابِ الٰہی کے تازیانے برسے، اور قہرالٰہی نے بالکل ان کا صفایا کردیا۔
مادی نقطۂ نگاہ سے دیکھو تو یہ اختتام بہت ہی دل شکن اور یہ انجام انتہائی مایوس کن ہے۔ کیا بات یہیں ختم ہوگئی؟ کیا ایمان کی بلند چوٹی پر پہنچ جانے والی جماعت یوں ہی مٹ گئی؟ اخدود کی جانکاہ اذیتوں کے ساتھ مٹ گئی ؟ اور کیا وحشت وسفاکیت کا مظاہرہ کرنے والا سرکش گروہ یوں ہی بچارہا؟
بلاشبہہ مادی نقطۂ نظر سے اس انجام پر رُوح کو خلش اور دل کو کھٹک ہوتی ہے۔ لیکن قرآن مومنین کو ایک دوسرا ہی تصور دیتا ہے۔ وہ ایک دوسری ہی حقیقت سے پردہ اُٹھاتا ہے۔ وہ انھیں ان قدروں کے مزاج سے آگاہ کرتا ہے، جو اُن کی میزان ہیں۔ اس معرکے کی سرحدیں بتاتا ہے جس میں وہ شریک ہیں۔
اس کے نزدیک یہ زندگی، اس زندگی کی لذّتیں اور اذیتیں اس دنیا کی کامرانیاں اور محرومیاں ہی قابلِ لحاظ نہیں۔ یہی وہ پونجی نہیں جس پر سود و زیاں کا فیصلہ ہو۔ نصرتِ مادی، غلبہ و اقتدار کے تنگ دائرے میں ہی محصور نہیں، کہ یہ تو نصرت کی محض ایک صورت ہے۔
خدا کی میزان میں قابلِ لحاظ چیز صرف عقیدہ ہے، خدا کے بازار میں چلنے والی پونجی تو بس ایمان ہے۔ نصرت کی سب سے ارفع و اعلیٰ شکل یہ ہے کہ روح مادے پر، عقیدہ اذیتوں پر، اور ایمان آزمایشوں پر غالب رہے۔
بلاشبہہ اس واقعے میں مومنین کی روحیں خوف و اَلم پر غالب رہیں، زمین اور زندگی کے علائق پر حاوی رہیں اور آزمایشوں پر پوری طرح فتح یاب رہیں۔ وہ اس شان سے غالب رہیں کہ ساری نوعِ انسانی، ہردور کی نوعِ انسانی اس پر فخرکرسکتی ہے۔ اور غور کرو تو یہی اصل غلبہ ہے۔ موت کس کو نہیں آتی، موت تو سبھی کو آتی ہے، اور مختلف انداز سے آتی ہے لیکن سب کے لیے یہ رُتبۂ بلند کہاں؟! یہ غلبہ و نصرت، یہ شرف و عزت، اور یہ ذکر دوام کہاں؟! یہ تو بس انھی کا نصیب تھا۔ یہ خدا کا خصوصی انعام و اِکرام تھا کہ وہ نیک روحیں موت میں تو سب کی شریک رہیں، مگر عزّوشرف میں سب سے منفرد رہیں۔ پھر عزّوشرف بھی ایسا کہ زمین کی وسعتیں بھی اس کے لیے ناکافی ہوئیں۔ اسی لیے تو نہ صرف روے زمین پر بسنے والے تمام انسانوں میں اس کا چرچاہوابلکہ ملائِ اعلیٰ کے قدسیوں اور آسمان کے فرشتوں میں بھی اس کا شہرہ ہوا۔
مومنین کے لیے یہ کچھ مشکل نہ تھا کہ ایمان کی ہزیمت گوارا کر کے خود اپنی جان بچالیتے، مگر یہ سودا کتنے خسارے کا ہوتا۔ کتنا عظیم خسارہ ہوتا ان کا بھی، اور ساری نوعِ انسانی کا بھی! کتنا عظیم خسارہ ہوتا اگر وہ اس تصور کا خون کرڈالتے، کہ عقیدہ ہی زندگی کی روح اور آزادی ہی اس کی جوت ہے۔ اگر سرکش قوتیں جسم سے گزر کر روح پر بھی حاوی ہوجائیں، تو حقیقت میں یہی موت ہے۔
اس تصور میں کتنی بلندی ہے اور کتنی رعنائی بھی! آگ میں جلتے ہوئے بھی ان کے دل اسی تصور سے معمور تھے۔ اسی تصور کی شمعیں ان کے سینوں میں فروزاں تھیں۔ چنانچہ فانی جسم تو جل جاتے ہیں، مگر یہ بلند تصور نہ صرف فتح یاب ہوتا ہے، بلکہ آگ میں پڑ کر اور زیادہ نکھر آتا ہے۔
پھر اس معرکے کا میدان بس زمین یا یہ دنیوی زندگی ہی نہیں۔ اور اس کے شرکا و مشاہدین کسی ایک نسل کے انسان ہی نہیں۔ زمین کے ہنگاموں میں آسمان کے فرشتے بھی شریک ہیں۔ وہ سب کچھ دیکھتے ہیں اور سب کے گواہ بھی ہوں گے۔ پھر جن پیمانوں سے وہ انھیں ناپتے ہیں، وہ بھی بالکل مختلف ہیں، انسانی پیمانوں سے انھیں کوئی واسطہ نہیں۔ علاوہ ازیں آسمان پر رہنے والی یہ نیک روحیں مادر گیتی کے فرزندوں سے کئی گنا زائد ہیں۔ اور یہ مسلّم ہے کہ ان کی مدح و ستایش اور ان کی تعظیم و توقیر کے مقابلے میں انسانی تعریف و تحسین اور انسانی مدح و ستایش کی کوئی قیمت نہیں۔
پھر ان سب کے علاوہ آخرت بھی ہے۔ اور وہی اصل ہے جس سے اس دنیا کا بھی سررشتہ جاکر مل جاتا ہے۔ یہ بات جہاں ایک قطعی حقیقت ہے، وہیں عقیدۂ مومن کی جان اور اس کی اہم بنیاد بھی ہے۔
گویا معرکہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ اصل انجام ابھی سامنے نہیں آیا۔ لہٰذا واقعات کی چند ظاہری کڑیوں کی ہی بنیاد پر کوئی فیصلہ کرنا صحیح نہ ہوگا، کہ یہ محض وہم و گمان ہوگا، سنجیدگی اور حقیقت پسندی سے اُسے کوئی واسطہ نہ ہوگا۔
پہلی نگاہ انتہائی تنگ اور محدود نگاہ ہے، جو عجلت پسند انسان کی نگاہ ہے۔ قرآن دوسری وسیع اور دُوررس نگاہ ہی مومنین کے اندر پیدا کرنی چاہتا ہے کیوں کہ یہی نگاہ صحیح ایمانی تصور کی بنیاد ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنین سے ایمان و اطاعت، آزمایشوں پر صبر، اور فتنوں سے شکست نہ کھانے پر بطورِ انعام جن چیزوں کا وعدہ فرمایا، وہ کچھ اسی انداز کی ہیں، مثلاً:
۱- وہ قلبی سکون و اطمینان کی دولت ِ لازوال سے مالامال ہوں گے:
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ تَطْمَئِنُّ قُلُوْبُھُمْ بِذِکْرِ اللّٰہِ ط اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُo (الرعد ۱۳:۲۸) جو لوگ ایمان لائے، اور جن کے دلوں کو یادِ الٰہی سے اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ سن لو، یادِالٰہی سے ہی دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔
۲- وہ خداے رحمن کی خوشنودیوں سے بہرہ مند ہوں گے، اس کی چاہتوں سے سرفراز ہوں گے:
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَھُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا (مریم ۱۹:۹۶) بلاشبہہ جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کیے، جلد ہی رحمن ان کے لیے محبت پیدا کردے گا۔
۳- وہ ملائِ اعلیٰ کی نورانی محفلوں میں فرشتوں کی پاکیزہ و مقدس مجلسوں میں یاد کیے جائیں گے اور وہاں ان کے چرچے ہوں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
جب بندے کی اولاد مرتی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے کہتا ہے: میرے بندے کی اولاد تم لے آئے؟ وہ کہتے ہیں: جی ہاں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اس کا جگر گوشہ لے آئے؟ وہ عرض کرتے ہیں: جی ہاں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: تب میرے بندے نے کیا کہا؟ وہ عرض کرتے ہیں: اس نے تیری حمد کی اور اناللہ پڑھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے کے لیے جنت میں ایک گھر بنائو ، اور اس کا نام بیت الحمد رکھو۔(ترمذی)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے متعلق بندے کا جیسا گمان ہوگا مجھ کو ویسا ہی پائے گا۔ اور مَیں اس کے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ مجھے یاد کرتا ہے۔ وہ مجھے دل میں یاد کرتا ہے، تو مَیں بھی اسے دل میں یاد کرتا ہوں۔ وہ مجھے کسی محفل میں یاد کرتا ہے ، تو مَیں اس کو اس سے بہتر محفل میں یاد کرتا ہوں۔ وہ مجھ سے ایک بالشت قریب ہوتا ہے تو میں اس سے ایک ہاتھ قریب ہوتا ہوں۔ وہ مجھ سے ایک ہاتھ قریب ہوتا ہے تو مَیں اس سے دوگز قریب ہوتا ہوں۔ وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں۔(بخاری، مسلم)
۴- ملائِ اعلیٰ کی محبتیں اور نیک تمنائیں ان کے ساتھ ہوں گی اور فرشتے دعا کریں گے:
اَلَّذِیْنَ یَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَہُ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّھِمْ وَیُؤْمِنُوْنَ بِہٖ وَیَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ج رَبَّنَا وَسِعْتَ کُلَّ شَیْئٍ رَّحْمَۃً وَّعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِیْنَ تَابُوْا وَاتَّبَعُوْا سَبِیْلَکَ وَقِھِمْ عَذَابَ الْجَحِیْمِo (المؤمن۴۰ :۷) وہ جو عرش کو اُٹھائے ہوئے ہیں، اور جو اس کے اِردگرد ہیں، اپنے رب کی حمدوتسبیح کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں، اور ایمان لانے والوں کے لیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں، ہمارے رب! تیرا علم اور تیری رحمت ہر شے کو محیط ہے۔ تو جن لوگوں نے توبہ کی اور تیری راہ پر چلے انھیں معاف کردے اور انھیں بھڑکتی ہوئی آگ کے عذاب سے بچالے۔
۵- وہ اگر شہید ہوئے تو فنا ہونے کے بجاے ہمیشہ کے لیے زندہ و جاوید ہوجائیں گے اور وہ خدا کے خصوصی مہمان بن کر جنت کی نعمتوں سے آسودہ و شادکام ہوں گے:
وَ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتًا ط بَلْ اَحْیَآئٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْنَ o فَرِحِیْنَ بِمَآ اٰتٰھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ وَ یَسْتَبْشِرُوْنَ بِالَّذِیْنَ لَمْ یَلْحَقُوْا بِھِمْ مِّنْ خَلْفِھِمْ اَلَّا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ o یَسْتَبْشِرُوْنَ بِنِعْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ فَضْلٍ وَّ اَنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُؤْمِنِیْنَo (اٰلِ عمرٰن۳:۱۶۹-۱۷۱) اور جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے، انھیں مُردہ نہ سمجھو، وہ تو زندہ ہیں اپنے رب کے ہاں رزق پارہے ہیں۔ جو کچھ اللہ نے اپنے فضل سے انھیں دیا ہے، اس پر خوشیاں مناتے ہیں اور ان کے بارے میں بھی وہ خوش ہورہے ہیں، جو ان کے پیچھے رہ گئے ہیں، ابھی ان سے ملے نہیں ہیں کہ انھیں بھی نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ کوئی حزن۔ وہ اللہ کے انعام اور اس کے فضل پر مگن ہیں اور مطمئن ہیں کہ اللہ اہلِ ایمان کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بار بار باغی و سرکش اور نافرمان بندوں کی آخرت میں پکڑ کرنے اور دنیا میں ایک وقت تک انھیں ڈھیل دیتے رہنے کا وعدہ فرمایا۔ بلاشبہہ کبھی کبھی اس نے دنیا میں بھی پکڑ کی۔ لیکن یہ اصل اور بھرپور سزا نہ تھی کہ اصل اور بھرپور سزا تو آخرت میں ہی ملے گی:
وَ لَا تَحْسَبَنَّ اللّٰہَ غَافِلًا عَمًّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ اِنَّمَا یُؤَخِّرُھُمْ لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فِیْہِ الْاَبْصَارُ o مُھْطِعِیْنَ مُقْنِعِیْ رُئُ وْسِھِمْ لَا یَرْتَدُّ اِلَیْھِمْ طَرْفُھُمْ وَ اَفْئِدَتُھُمْ ھَوَآئٌ o (ابراھیم ۱۳:۴۲-۴۳) دنیا میں کافروں کی چلت پھرت تمھیں کسی دھوکے میں نہ ڈالے، یہ تو بس چار دن کی بہار ہے، پھر تو ان کا ٹھکانا دوزخ ہے، وہ کتنی بُری جاے قرار ہے۔ یہ ظالم جو کچھ کر رہے ہیں، اللہ کو اس سے غافل نہ سمجھو، وہ تو انھیں بس اس دن کے لیے ٹال رہا ہے، جب کہ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی، اپنے سر اُٹھائے دوڑتے ہوں گے۔ ان کی نگاہیں ان کی طرف پلٹ نہ سکیں گی اور ان کے دل اُڑے جاتے ہوں گے۔
فَذَرْھُمْ یَخُوْضُوْا وَیَلْعَبُوْا حَتّٰی یُلٰقُوْا یَوْمَھُمُ الَّذِیْ یُوْعَدُوْنَ o یَوْمَ یَخْرُجُوْنَ مِنَ الْاَجْدَاثِ سِرَاعًا کَاَنَّھُمْ اِِلٰی نُصُبٍ یُّوْفِضُوْنَ o خَاشِعَۃً اَبْصَارُھُمْ تَرْہَقُھُمْ ذِلَّۃٌ ذٰلِکَ الْیَوْمُ الَّذِیْ کَانُوْا یُوْعَدُوْنَ o (المعارج ۷۰: ۴۲-۴۳) اب چھوڑ دو انھیں، باتیں بنائیں اور کھیلیں، یہاں تک کہ وہ دن ان کے سامنے آجائے جس کا ان سے وعدہ کیا جا رہا ہے۔ وہ دن، جب کہ یہ قبروں سے تیزی سے نکلیں گے، جیسے کسی نشانے کی طرف دوڑ رہے ہوں۔ نگاہیں جھکی ہوں گی اور ان پر ذلت چھا رہی ہوگی۔ یہ ہے وہ دن جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا تھا۔
اس طرح انسانی زندگی کا سرا ملائِ اعلیٰ کی زندگی سے جاملا، دنیا کا تعلق آخرت سے جڑگیا، اور تنہا زمین ہی معرکۂ خیروشر، رزمِ حق و باطل اور کشاکش ایمان و طغیان کا میدان نہ رہی، دنیوی زندگی ہی اس سلسلے کی آخری کڑی یا اس کش مکش کے فیصلے کی آخری میعاد نہیں ٹھیری۔ نیز زندگی اور اس سے تعلق رکھنے والی لذتیں اور اذیتیں، شادکامیاں اور محرومیاں ہی خدا کی میزان میں قابلِ لحاظ نہ ہوئیں۔
اس طرح زمان و مکان کی حدیں ٹوٹ گئیں، قدروں اور پیمانوں میں وسعت آگئی۔ مومن کی دنیائیں لامحدود ہوگئیں۔ اس کے عزائم اور حوصلوں میں بلندی آگئی۔ ظاہر ہے اس کے بعد مومن کی نگاہ میں دنیا اور اس کی لذتوں کی کیا وقعت ہوسکتی ہے۔ وہ تو جوں جوں آفاق کا مشاہدہ کرتا، اور کائنات کی وسعتوں سے باخبر ہوتا ہے، اس کے اندر رفعت و بلندی آتی جاتی ہے۔ اصحاب الاخدود کا یہ واقعہ اس پہلو سے انتہائی اہم اور اس بلندو اشرف اور جامع تصورِ ایمانی کا بہترین شاہکار ہے۔
تاریخِ دعوت نے زمین پر تحریکِ اسلامی کے مختلف انجام دیکھے ہیں۔ اس نے قومِ نوحؑ، قومِ ہود ؑ، قومِ شعیب ؑ اور قومِ لوطؑ کی بربادی بھی دیکھی ہے،اور مختصر سی مومن جماعت کی نجات بھی۔ مگر یہاں پہنچ کر قرآن خاموش ہوجاتا ہے۔ وہ نجات یافتہ گروہ کے بارے میں کچھ نہیں بتاتا کہ ان کے بعد کا دور کیسا رہا۔ یہ مثالیں اس سنت ِ الٰہی کا پتا دیتی ہیں کہ عذابِ الٰہی کا تازیانہ کبھی دنیا میں ہی نمودار ہوکر سرکش منکرین حق کی گردنِ استکبار توڑ دیتا ہے۔ گرچہ اصل اور بھرپور سزا تو آخرت میں ہی ملے گی۔
تاریخِ دعوت نے فرعون اور آلِ فرعون کی غرقابی اور موسٰی ؑ اور قومِ موسٰی ؑکی سربلندی کا بھی مشاہدہ کیا ہے، اور یہ بھی دیکھا ہے کہ قومِ موسٰی ؑجب تک خیروصلاح میں سب سے نمایاں رہی اس وقت تک وہ قوت و اقتدار کی مالک رہی۔ گرچہ وہ کبھی کامل استقامت کا ثبوت نہ دے سکی۔ نہ زمین پر دین الٰہی کو بہ حیثیت ایک ہمہ گیر نظامِ زندگی قائم کرنے کا ہی رُتبہ بلند حاصل کرسکی۔ یہ مثال پہلی مثالوں سے کچھ مختلف ہے۔
تاریخِ دعوت نے ان مشرکین کی بربادیوں کا بھی نظارہ کیا ہے جنھوں نے حق کو قبول کرنے اور رسولِؐ خدا پر ایمان لانے سے مسلسل اعراض کیا، اور ان پیروانِ رسولؐ کا دورِ اقبال بھی دیکھا ہے جو ایمان و یقین کی تلوار ہاتھ میں لے کر سارے عالم پر چھاگئے۔ اور پھر نظامِ الٰہی کی ایسی زبردست اور پُرشکوہ سلطنت قائم کی جو اپنی نظیر آپ تھی، کہ ویسی سلطنت پہلے کبھی قائم ہوئی تھی نہ بعد میں ہی ہوسکی۔
مگر ان سب کے پہلو بہ پہلو وہ انجام بھی سامنے آنا ناگزیر تھا جس پر واقعۂ اخدود سے روشنی پڑتی ہے۔ اس طرح کا انجام سامنے آنا ناگزیر تھا کہ مومنین بچ نہ سکیں اور کفار کی گرفت نہ ہو، تاکہ علَم بردارانِ حق آگاہ رہیں کہ راہِ دعوت میں کبھی اس قسم کے انجام سے بھی سابقہ پڑسکتا ہے۔ نیز اُن کے دائرۂ اختیار میں کچھ بھی نہیں، ان کی لگام اور عقیدے کی زمام سب خدا کے ہی ہاتھ میں ہے۔
ان کا فرض ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری ادا کریں، پھر چلے جائیں۔ ان کا فرض ہے کہ وہ اللہ سے ہی رشتہ جوڑیں۔ عقیدے کو زندگی پر ترجیح دیں، ایمان کو آزمایشوں پر غالب رکھیں اور فکروعمل میں اخلاص و للہیت پیدا کریں۔ انجام کیا ہوگا؟ کاوشوں کا نتیجہ کیا ہوگا؟ زمانے کا ردعمل کیا ہوگا؟ یہ ان کے سوچنے کی چیزیں نہیں، یہ تو خدا کی مرضی پر ہے، وہ جو چاہے گا، فیصلہ فرمائے گا۔ چاہے گا تو ان کے ساتھ پچھلی کسی تحریک کا سا معاملہ کرے گا، یا وسیع علم و حکمت کی بنیاد پر کسی اور انجام کا فیصلہ فرمائے گا۔
وہ تو اللہ کے مزدور ہیں۔ جہاں بھی، جس وقت بھی اور جس طرح بھی وہ چاہے گا، ان سے کام لے گا۔ پھر انھیں ان کی مزدوری ملے گی۔ دعوت کا انجام کیا ہوگا؟ یہ نہ اُن کے اختیار میں ہے، نہ وہ اس کے مکلف ہیں، کہ یہ تو مالک کا کام ہے مزدوروں کا کام نہیں۔ ان کا کام تو بس یہ ہے کہ اپنی ڈیوٹی ادا کریں اور اپنی مزدوری لیں۔
پہلی قسم میں انھیں قلب و ذہن کی یکسوئی ، احساس و شعور کی بلندی، فکروتصور کی رعنائی سارے بندھنوں سے رست گاری اور خوف و اضطراب سے آزادی ملے گی۔
دوسری قسط میں ملائِ اعلیٰ کی مدح و ستایش اور فرشتوں کی تعظیم و تکریم کا گراں بہا صلہ ملے گا۔پھر سب سے بڑی قسط آخرت میں ملے گی: آسان حساب، عظیم نعمتیں۔ اور ہرقسط کے ساتھ ان کو سب سے بڑی نعمت ملے گی: خدا کی خوشنودی اور یہ رُتبۂ بلند کہ وہ خدا کے منتخب بندے ہیں۔ وہ اس کے فیصلے نافذ ہونے کا ذریعہ اور اس کی قدرت کے ظہور کا واسطہ ہیں۔ وہ زمین پر جو کچھ کرنا چاہے گا ان ہی کے ذریعے سے کرے گا۔
قرآنی تربیت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بالکل یہی کیفیت ہوگئی تھی وہ اپنی شخصیت سے آزاد اور ذاتی اختیارات سے بالکل دست بردار ہوگئے تھے۔ وہ بس مالک کے مزدور تھے، کہ خدا کی رضا ان کی رضا تھی اور خدا کی پسند ان کی پسند تھی۔
قرآنی ہدایات کے ساتھ ساتھ رسولِؐ خدا کی تربیت بھی اپنا کام کرتی۔ وہ قلب و نگاہ کا رُخ جنت کی طرف پھیرکر خدا کی مشیت پر اور ان کے فیصلوں پر صبر کرنے اور ہمیشہ راضی برضا ہونے کی ترغیب دیتی۔
رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمارؓ اور ان کے ماں باپ کو دیکھتے کہ وہ مکے کی گھاٹیوں میں بڑی بے دردی سے ستائے جارہے ہیں۔ اس وقت آپؐ ا س سے زیادہ کچھ نہ فرماتے: صبر اٰل یاسر اِن موعدکم الجنۃ، ’’آلِ یاسر صبر کرو، تمھارا ٹھکانا جنت ہے‘‘۔
حضرت خبابؓ بن الارتّ فرماتے ہیں کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے سایے میں ایک چادر کا تکیہ بنائے آرام فرما رہے تھے۔ ہم نے بطور شکایت عرض کیا: آپؐ خدا سے نصرت کی درخواست نہیں کرتے؟ ہمارے لیے آپؐ دعا نہیں فرماتے؟آپؐ نے فرمایا: تم سے پہلے تو یہ حال تھا کہ گڑھا کھود کر آدمی کو گاڑ دیا جاتا، پھر سر پر آرا رکھ کر بیچ سے چیر دیا جاتا، اور لوہے کی کنگھیاں کی جاتیں جن سے گوشت کھرچ جاتا، لیکن پھر بھی وہ دین سے برگشتہ نہ ہوتا۔ بخدا یہ دین قائم ہوکر رہے گا، یہاں تک کہ سوار صنعا(یمن) سے حضرموت تک کا سفر کرے گا، اور راستے میں اسے اللہ کے سوا کسی کا خوف نہ ہوگا۔ بس چرواہے کو بھیڑیوں کا ڈر رہے گا۔ مگر (افسوس کہ) تم جلدی مچاتے ہو۔(بخاری)
ہرواقعے کے پیچھے خداے تعالیٰ کی کوئی حکمت ہوتی ہے۔ ظاہر ہے جو ہستی پوری کائنات کا نظم چلاتی ہے، جو اس کے ایک ایک گوشے کی خبر رکھتی ہے، جو اس کے لیے سارے واقعات و حوادث کی نگرانی کرتی اور اس کے تمام اجزا میں سازگاری پیدا کرتی ہے، وہی ہستی یہ جان سکتی ہے کہ اس کے مخفی پردئہ غیب میں کیا کیا حکمتیں پنہاں ہیں۔
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ صدیاں گزر جانے کے بعد ہم پر ایک واقعے کی حکمتیں کھلتی ہیں، جب کہ خود اس کے دور کے لوگ ان سے بالکل بے خبر تھے اور شاید ان کے ذہن میں رہ رہ کر یہ سوال بھی اُبھرتا رہا ہوگا کہ کیوں؟ میرے رب ایسا کیوں؟ خو د یہ سوال کرنا ہی ایسی جہالت ہے جس سے مومن بچتا ہے۔ کیونکہ اوّل روز سے ہی وہ جانتا ہے کہ ہرفیصلۂ الٰہی کے پیچھے کوئی نہ کوئی حکمت ہوتی ہے۔ پھر اس کے عالمِ تصورکی وسعت، اس کی قدروں اور پیمانوں کی آفاقیت اور اس کے زمان و مکان کی لامحدودیت شروع سے ہی اس طرح کے سوالات سے اسے بے نیاز کردیتی ہے، اور وہ کاروانِ قضاوقدر کے ساتھ پورے سکون و اطمینان کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔
قرآن ایسے افراد تیار کرنا چاہتا تھاجو اس بارِ امانت کو اُٹھا سکیں۔ ایسے افراد کے لیے ضروری تھا کہ ان میں اتنی مضبوطی اور اتنی بے لوثی ہو کہ وہ ہرچیز لٹاتے ہوئے اور ہرطرح کی اذیتیں جھیلتے ہوئے بھی دنیا کی کسی چیز پر پُرشوق نگاہیں نہ ڈالیں، جن کی نگاہیں صرف آخرت کی طرف اُٹھیں، جو صرف رضاے الٰہی کے طلب گار ہوں ، جو حیاتِ دنیا کی پوری مسافت تکلیفوں، اذیتوں، مصیبتوں اور محرومیوں کے ساتھ طے کرنے کے لیے تیار ہوں، جو قربانیوں پر قربانیاں پیش کرنے، حتیٰ کہ خطرات کے نرغے میں گھرے رہنے کے لیے ہرآن مستعد ہوں۔ پھر ان سب کا صلہ وہ دنیا میں نہ چاہتے ہوں، اگرچہ یہ صلہ دعوت کی کامیابی، اسلام کی سربلندی، مسلمانوں کی فتح و ظفریابی ، حتیٰ کہ قہرالٰہی کے نتیجے میں ظالموں کی تباہی و بربادی ہی کیوں نہ ہو۔
چنانچہ جب اس طرح کے نفوس تیار ہوگئے جو اس بات سے آگاہ تھے کہ اس دنیا میں انھیں صرف دینا ہی دینا ہے، اور حق و باطل کے درمیان فیصلے کے لیے آخرت کا انتظار کرنا ہے۔ نیز انھوں نے کامل اخلاص و للہیت کا ثبوت دے دیا ، تو اللہ تعالیٰ نے فتح و نصرت سے نواز کر انھیں زمین کا امین بنایا، شخصی مصالح اور ذاتی اغراض کے لیے نہیں، بلکہ اس لیے کہ وہ شریعت الٰہی جیسی عظیم امانت کو اُٹھا سکیں۔ اور سچ پوچھو تو وہ امین بننے کے پوری طرح اہل ہو بھی چکے تھے کیونکہ ان سے کسی دنیوی منفعت کا وعدہ نہیں تھا کہ اس کے وہ طلب گار ہوتے، نہ کسی دنیوی منفعت کی طرف اُنھوں نے حسرت سے دیکھا ہی تھا کہ اس سے وہ نوازے جاتے۔ وہ سچ مچ اللہ تعالیٰ کے لیے بے لوث ہوچکے تھے کہ رضاے الٰہی کے سوا ان کے ذہن میں کوئی سودا نہ تھا۔
وہ آیتیں جن میں فتح و نصرت اور مالِ غنیمت، مومنین کے ہاتھوں مشرکین کوتباہ کرنے کے وعدے تھے، وہ سب مدینہ میں نازل ہوئیں، جب کہ یہ ساری چیزیں مومنین کے پروگرام سے خارج ہوچکی تھیں، اور وہ ان چیزوں کے ذرا بھی آرزومند نہ تھے۔ پھر فتح و نصرت آنے کی وجہ صرف یہ تھی کہ مشیت ِ الٰہی اس نظام کو واقعاتی دنیا میں ایک ایسی عملی اور محسوس شکل دینا چاہتی تھی، جسے قومیں اپنی نگاہوں سے دیکھ سکیں۔ گویایہ فتح و ظفرمندی ان کی قربانیوں کے صلے میں نہ تھی بلکہ فیصلۂ الٰہی اور تقدیر الٰہی کے تحت تھی، جو گوناگوں حکمتوں پر مشتمل ہوتی ہے، گرچہ ہم ان سے بے خبر ہوتے ہیں۔
یہ ایک اہم نکتہ ہے جس پر داعیانِ حق کو ٹھیر کر غور کرنا چاہیے، خواہ وہ کسی بھی جگہ ہوں، کسی بھی دور سے تعلق رکھتے ہوں۔ اس سے نشاناتِ راہ بالکل روشن ہوکر سامنے آجائیں گے۔ نیز ان فداکارانِ حق کے پیروں کو جمائو حاصل ہوگا، جو بہرقیمت اس راہ کو طے کرنے کا عزم رکھتے ہوں گے۔ چنانچہ اس خوف ناک راستے کو طے کرتے ہوئے جو انسانی کھوپڑیوں اور کٹی ہوئی آنتوں سے پٹا ہوااور بے گناہوں کے خون سے لالہ زار ہوگا، اسی دنیا میں فتح و نصرت کے آرزومند یا حق و باطل کے درمیان فیصلے کے خواہاں نہ ہوں گے۔ البتہ اگر اللہ تعالیٰ خود اپنے دین کے لیے انھیں فتح و نصرت سے نوازنا چاہے گا تو نوازے گا لیکن یہ ان کی قربانیوں کا صلہ نہ ہوگا۔ ہاں، یہ فیصلہ نہ ہوگا، کیونکہ دنیا صلے کی جگہ نہیں ہے، بلکہ یہ خود خدا کے ایک فیصلے کا نفاذ ہوگا، جس کے لیے وہ اپنے کچھ منتخب بندوں سے کام لے گا۔ اور یہ انتخابِ بلند اُن کے عزّوشرف کے لیے کافی ہے، کہ اس کے سامنے نہ دنیا کوئی چیز ہے نہ زندگی یا اس کی تلخیوں اور مسرتوں کی کوئی حقیقت ہے۔
وَمَا نَقَمُوْا مِنْھُمْ اِِلَّآ اَنْ یُّؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ (البروج۸۵:۸) اور انھیں ان کی صرف یہ بات بُری لگی کہ وہ اللہ پر ایمان رکھیں جو غلبے کا مالک اور حمدوستایش کا سزاوار ہے۔
اشرافِ قریش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مال و دولت کے انبار، حکومت کے تخت و تاج اور عیش و عشرت کے سامان، غرض ساری ہی چیزیں پیش کی تھیں، کیوں؟ صرف اس لیے کہ آپؐ عقیدے کی جنگ سے باز آجائیں، اس معاملے میں نرمی و رواداری سے کام لیں۔ اور اگر معاذاللہ ان میں سے کسی چیز پر بھی آپؐ راضی ہوگئے ہوتے، تو آپؐ سے ان کی کوئی جنگ نہ رہتی۔
یاد رہے! یہ دراصل عقیدے کا مسئلہ اور عقیدے کی جنگ ہے۔ اہلِ ایمان کا فرض ہے کہ وہ جب بھی کسی دشمن کے مقابلے میں صف بستہ ہوں، ان کے ذہن و دماغ میں یہ حقیقت مستحضر رہے کیونکہ عداوت کی بنیاد صرف عقیدہ ہے۔ لڑائی کی وجہ بس یہ ہے کہ وہ خداے عزیزوحمید پر ایمان رکھتے، اسی کے آگے جھکتے اور اسی کی اطاعت کرتے ہیں۔
دشمنانِ دین کی کبھی یہ کوشش ہوتی ہے کہ عرصۂ جنگ میں مذہبی جھنڈے کے علاوہ کوئی اور جھنڈا بلند کردیں۔ خواہ وہ اقتصادی جھنڈا ہو یا سیاسی اور قومی جھنڈا تاکہ وہ اہلِ ایمان کو جنگ کی حقیقت سے غافل رکھ کر ان کے سینوں میں عقیدے کے دہکتے ہوئے انگارے سرد کردیں۔ مومنین کا فرص ہے کہ وہ دھوکا نہ کھائیں، ان کا فرض ہے کہ وہ ہمیشہ چوکنّے رہیں کہ یہ ایک ناپاک سازش اور ایک خفیہ مقصد کے لیے ملمّع کاری ہے، جو ایسا کرتا ہے وہ دراصل فتح و نصرت کے حقیقی اسلحے سے انھیں غافل کرنا چاہتا ہے۔ خواہ یہ فتح و نصرت کسی بھی شکل میں ہو، روحانی ترقی کی شکل میں جیساکہ واقعۂ اُخدود میں اہلِ ایمان کو حاصل ہوئی، یا مادی غلبہ و اقتدار کی شکل میں جو روحانی ترقی کا ہی نتیجہ ہے، جیساکہ قرنِ اوّل کے مسلمانوں کو نصیب ہوئی۔
جھنڈے کے رُخ پر یہ غازہ ملنے کی زندہ مثال وہ عالم گیر صلیبی تحریک ہے، جس کی آج یہ کوشش ہے کہ موجودہ جنگ کی حقیقت کے سلسلے میں ہم کو فریب میں رکھے اور تاریخ کے بدنما چہرے پر کسی طرح کوئی حسین و جمیل نقاب ڈال دے۔ چنانچہ اس کا کہنا ہے کہ صلیبی جنگوں کی آڑ میں دراصل سامراجی جنگ لڑی جارہی تھی۔ ہرگز نہیں، بلکہ خود بعد میں نمودار ہونے والے سامراج کی آڑ میں صلیبی روح کی وہ دیوی تھی، جس کے اندر اتنی قوت و ہمت نہ تھی کہ قرونِ وسطیٰ کی طرح عُریاں و بے حجاب ہوسکتی۔ کیونکہ چند مسلمانوں کی قیادت نے اسے عقیدے کی آہنی چٹان سے ٹکرا کر چُور چُور کر دیا تھا۔ انھی مسلمانوں میں صلاح الدین ایوبی اور توران شاہ مملوکی بھی تھے۔ یہ مسلمان ان نسلوں سے تھے جو اپنی قومیتیں بھول کر بس عقیدے کی ہورہی تھیں۔ چنانچہ وہ عقیدے کے جھنڈے تلے فتح و نصرت سے ہم کنار ہوئیں:
وَمَا نَقَمُوْا مِنْھُمْ اِِلَّآ اَنْ یُّؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ o (البروج ۸۵:۸) اور انھیںان کی صرف یہ بات بُری لگی کہ وہ اللہ پر ایمان رکھیں، جو اقتدار کا مالک اور حمدوستایش کا سزاوار ہے۔
سچ کہا، سچ کہا خداے برتر نے، اور غلط کہا، ان جھوٹے مکاروں نے!
(نقوشِ راہ، معالم فی الطریق، ترجمہ: عنایت اللہ سبحانی،ص ۲۶۶-۲۸۵)
مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے دعوتی زندگی کا آغاز ۱۹۳۳ء میں ترجمان القرآن کے ذریعے کیا۔ آٹھ سال کی مسلسل جدوجہد کے ذریعے فکری میدان میں باطل نظریات پر ضربِ کاری لگائی اور اسلامی فکر کی تشکیلِ نو اور محکم دلائل سے اس فکر کی بالادستی کو وقت کی اصل ضرورت قرار دیا۔ اس سلسلے میں انھوں نے چومکھی لڑائی لڑی اور مسلمانوں کے سامنے اسلام کی روشن شاہراہ واضح کرکے اصل منزل کی ان کے سامنے نشان دہی کردی۔ برعظیم پاک و ہند کی، اس وقت کی ذہنی فضا میں ، جہاں یہ ایک منفرد اور چونکا دینے والی آواز تھی، وہیں قرآن و سنت کی اصل دعوت کے احیا کے لیے یہ ایک انقلابی اقدام بھی تھا۔
اسلامی احیا کا یہ تصور ہمارے معاشرے میں اپنی جڑیں رکھتا تھا، جو ہمارے اکابر کی علمی، فکری اور دعوتی جدوجہد کا فطری اور منطقی نتیجہ تھا۔ برعظیم کے مسلمانوں پر مغربی تہذیب اور یورپی استعمار کے فکری اور سیاسی و تہذیبی غلبے کے خلاف اور اسلامی احیا کے لیے سیّداحمدشہید، سیّداسماعیل شہید، مولانا قاسم نانوتوی، شبلی نعمانی، مولانا محمودحسن، مولاناابوالکلام آزاد، مولانا اشرف علی تھانوی، اور علامہ محمداقبال اپنے اپنے انداز میں مسلسل جدوجہد کرتے رہے۔ مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی نے اسلام کے احیا اور دین حق کی اقامت کی جدوجہد کو مسلمانوں کے اصل اور حقیقی مقصد ِ زندگی کے تصور کے طور پر پیش کیا۔ انھوں نے اقامت ِ دین کے تصور کو مدلل، منطقی اور دعوتی اسلوب میں قرآن و سنت کے محکم دلائل کے ساتھ واضح کیا۔ تجدید و احیاے دین کے سلسلے کی ۱۴ سو سال پر پھیلی ہوئی مسلمانوں کی تابناک تاریخ کے پس منظر میں انھوں نے بتایا کہ اسلام کا اصل مدعا اور مقصود کیا ہے، اور مسلمانوں کی اصل پہچان اور ان کی زندگی کا حقیقی مشن کیا ہے۔
دراصل اسلام نام ہے اللہ کو اپنا رب تسلیم کرنے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا پیغمبر اور انسانوں کا اصل ہادی اور راہبر ماننے، اور اپنی پوری زندگی کو اللہ کی بندگی اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت میں د ے دینے کا۔ لا الٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ کا اقرار اور اعلان پوری زندگی کے لیے ایک راستہ اور نظام کار طے کرنے کا عہد ہے۔ یہ عہد محض چند الفاظ کے زبان سے ادا کرنے اور چند عبادات کا اہتمام کرنے سے عبارت نہیں ہے۔ عقیدہ اور عبادات وہ دو ستون ہیں جن پر اسلام پوری زندگی کی عمارت تعمیر کرتا ہے۔
مولانا مودودی نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اور اسوئہ حسنہ کے اس پہلو کو اُجاگر کیا کہ اسلام عقیدے اور عمل کا ایک حسین امتزاج ہے اور قرآن و سنت کی روشنی میں انسانی زندگی کے لیے ایک مکمل نظامِ زندگی کا نقشہ پیش کرتا ہے، تاکہ انسان، زندگی کے ہر میدان میں طاغوت کی غلامی سے نجات پاسکے اور اپنی انفرادی اور اجتماعی، روحانی، اخلاقی اور مادی زندگی کے ہرپہلو کی تشکیل جدید کے ذریعے، اُسے آخرت میں کامیابی حاصل ہو۔جماعت اسلامی اسی وژن کی حامل ہے اور اس دعوت کو عملی طور پر مسلمانوں کے لیے اور بالآخر پوری انسانیت کے لیے جاری و ساری کرنے کی اجتماعی کوشش کا نام ہے۔ اس کا پیغام اصولی اور آفاقی ہے، البتہ اس کی عملی جدوجہد کا مرکز و محور وہ خطۂ زمین ہے، جہاں اس نظامِ زندگی کو قائم کرکے اُمت مسلمہ اور انسانیت کے لیے ایک نمونہ پیش کیا جاسکتا ہے۔
ان معروضات کی روشنی میں آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے کہ جماعت اسلامی اپنی اصل کے اعتبار سے ایک نظریاتی، فکری اور تہذیبی تحریک ہے۔ یہ محض ایک مذہبی یا سیاسی جماعت نہیں، بلکہ وسیع معنی میں ایک اصولی تحریک (Ideological Movement) ہے اور قرآن و سنت کی فراہم کردہ ہدایت کو زندگی کے ہر شعبے میں عملاً نافذ کرنا چاہتی ہے۔ یہ جماعت کوئی قوم پرست یا محض وطن پرست جماعت بھی نہیں ہے، بلکہ اس کا نظریۂ حیات عالم گیر ہے اور پوری انسانی تہذیب کی تشکیل نو اس کے پیش نظر ہے۔ یہ پوری زندگی کو اللہ کی بندگی اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فراہم کردہ ہدایت اور ان کے سکھائے ہوئے منہج کے مطابق استوار کرنا چاہتی ہے۔ صرف مسلمانوں ہی کی اصلاح و نجات اس کے پیش نظر نہیں، بلکہ وہ پوری انسانیت کی فلاح اور اس کی دنیوی اور اُخروی کامیابی چاہتی ہے۔ اس جامع نصب العین کو اس کے دستور میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:
جماعت اسلامی پاکستان کا نصب العین اور اس کی تمام سعی و جہد کا مقصود عملاً اقامت ِ دین (حکومت الٰہیہ یا اسلامی نظامِ زندگی کا قیام) اور حقیقتاً رضاے الٰہی اور فلاحِ اُخروی کا حصول ہوگا(دفعہ ۴)۔
اقامت ِ دین سے مقصود دین کے کسی خاص حصے کی اقامت نہیں ہے، بلکہ پورے دین کی اقامت ہے، خواہ اس کا تعلق انفرادی زندگی سے ہو یا اجتماعی زندگی سے۔ نماز، روزہ اور حج و زکوٰۃ سے ہو یا معیشت و معاشرت اور تمدن و سیاست سے۔ اسلام کا کوئی حصہ بھی غیرضروری نہیں ہے۔ پورے کا پورا اسلام ضروری ہے۔ ایک مومن کا کام یہ ہے کہ اس پورے اسلام کو کسی تجزیے و تقسیم کے بغیر قائم کرنے کی جدوجہد کرے۔ اس کے جس حصے کا تعلق افراد کی اپنی ذات سے ہے، ہرمومن کو اسے بطورِ خود اپنی زندگی میں قائم کرنا چاہیے اور جس حصے کا قیام اجتماعی جدوجہد کے بغیر نہیں ہوسکتا، اہلِ ایمان کو مل کر اس کے لیے جماعتی نظم اور سعی کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اگرچہ مومن کا اصل مقصدِ زندگی رضاے الٰہی کا حصول اور آخرت کی فلاح ہے، مگر اس مقصد کا حصول اس کے بغیر ممکن نہیں ہے کہ دنیا میں خدا کے دین کو قائم کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس لیے مومن کا عملی نصب العین اقامت ِ دین اور حقیقی نصب العین وہ رضاے الٰہی ہے جو اقامت ِ دین کی سعی کے نتیجے میں حاصل ہوگی۔
زندگی کا یہ تصور اور اس کا یہ مشن جماعت اسلامی کا اصل امتیاز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی تنظیم، اس کا اسلوبِ کار، اس کا دائرۂ عمل اور اس کی سرگرمیوں کا پھیلائو محض ایک سیاسی جماعت جیسا نہیں۔ بلاشبہہ جب پاکستان کی پہلی دستور سازاسمبلی نے مارچ ۱۹۴۹ء میں قراردادِمقاصد منظور کی، تو اس کے بعد سے وہ معروف معنی میں ایک سیاسی جماعت کی حیثیت سے کام کررہی ہے۔ لیکن وہ محض ایک سیاسی جماعت نہیں بلکہ اسلام کے مشن کے مطابق ایک ہمہ گیر نظریاتی اور تہذیبی انقلاب کی داعی جماعت ہے۔ یہی اس کی امتیازی حیثیت ہے، یہی اس کی بہت سی خوبیوں اور خصوصیات کی بنیاد ہے اور یہی اس کی متعدد تحدیدات (limitations) کا سبب بھی ہے جسے سمجھنا اور جاننا بہت ضروری ہے۔
جماعت اسلامی کے قیام کے پہلے دن سے ’نظامِ امر‘ کو ایک مرکزی حیثیت حاصل ہے لیکن یہ ’نظامِ امر‘ ایک دستور اور اس کے مطابق ضابطہ کار اور روایات سے عبارت ہے، جس کی صورت گری قرآن و سنت کی ہدایات اور تحریکِ اسلامی کی ضروریات اور تجربات کی روشنی میں کی گئی ہے۔
اس نظامِ جماعت میں وفاداری کا اصل مرکز وہ نصب العین ہے، جس کے حصول کے لیے جماعت قائم ہوئی ہے اور اس کے پورے نظام کی تشکیل و تعمیر ایک تحریری دستور کے ذریعے کی گئی ہے، جو خود بلاشبہہ ارتقائی مراحل سے گزرتا رہا ہے۔ تاہم یہ ہردور میں اور ہرسطح کے لیے نقشۂ کار فراہم کرتا ہے۔ جو صرف تبرک کے لیے نہیں بلکہ معاملات کو طے کرنے میں اصل رہنما اور کارفرما حیثیت رکھتا ہے۔ الحمدللہ جماعت اسلامی اور اس کے تمام ادارے دستور کے مطابق کام کرتے ہیں اور یہی وہ چیز ہے جو جماعت اسلامی کو دوسری جماعتوں سے ممتاز کرتی ہے۔ جماعت اسلامی میں کسی ایک فرد، گروہ یا خاندان کی بات نہیں چلتی بلکہ سب ایک خاندان کی طرح، ایک دستور کے تحت، اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ اجتماعی زندگی میں پالیسی سازی، ڈسپلن، اطاعت، تعاون، ہم آہنگی، مشاورت اور تنقیدو احتساب کا وہ ماحول پیدا کرنے کوشش کی گئی ہے جو اسلام کا منشا اور اچھی حکمرانی (good governance)کی ضرورت ہے۔
جماعت اسلامی کا پورا نظام، اس کے دستور اور ضابطہ کار کے مطابق کام کر رہا ہے اور اس کی اصل پہچان اسلامی اصولوں پر مبنی جمہوری اور شورائی نظام ہے۔ انسانوں کی جماعت ہونے کے ناتے کوتاہیوں اور کمزوریوں سے کوئی پاک نہیں لیکن الحمدللہ، بحیثیت مجموعی اس جماعت میں مشاورت اور احتساب کا ایک مضبوط نظام قائم ہے، جس پر پوری شفافیت کے ساتھ عمل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں شخصی وفاداری، خاندانی سیادت اور گروہ بندی کا کوئی کردار نہیں۔ دستور کے مطابق ایک نظامِ مشاورت و احتساب قائم ہے۔ اس نظام میں جہاں ایک دوسرے کی معاونت اس کا لازمی حصہ ہے، وہیں غلطیوں اور کمزوریوں کی اصلاح بھی ہرشریکِ کار کی ذمہ داری ہے۔
مارچ ۲۰۱۴ء میں جماعت اسلامی میں امارت کا تیرھواں انتخاب دستور کے مطابق ہوا جس میں ارکانِ جماعت نے کثرت راے سے برادرم سراج الحق کو امیر جماعت اسلامی پاکستان منتخب کیا اور ۹؍اپریل ۲۰۱۴ء کو منصورہ میں منعقدہ ایک روح پرور اجتماع میں انھوں نے جماعت اسلامی کے پانچویں امیر۱؎ کی حیثیت سے امارت کا حلف اُٹھا کر اللہ سے وفاداری، دستورِ جماعت کی پاس داری اور نظامِ جماعت کے سامنے جواب دہی کا عہد کیا اور بڑے انکسار کے ساتھ اللہ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے دین کی سربلندی کی اس جدوجہد کے لیے اپنی ساری توانائی کو صرف کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ اللہ تعالیٰ قدم قدم پر ان کی رہنمائی فرمائے، انھیں اس عظیم ذمہ داری کو ٹھیک ٹھیک ادا کرنے کی توفیق سے نوازے، وہ اس تاریخی امانت کے سچے امین ثابت ہوں، تحریک کے قدم آگے بڑھیں اور ان کی قیادت میں اللہ تعالیٰ اس تحریک، اس ملک اور اس ملت کو دنیا اور آخرت کی کامیابیوں سے شادکام فرمائے، آمین! تحریک اسلامی کے تمام ساتھیوں اور پاکستان اور اُمت مسلمہ کے تمام خیرخواہوں کی دعائیں ان کے ساتھ ہیں۔
جماعت اسلامی میں قیادت کے انتخاب کے باب میں ایک منفرد پہلو یہ ہے کہ اس میں امارت ایک عہدہ نہیں بلکہ ایک بڑی گراں بار ذمہ داری ہے۔ امیر کا انتخاب جماعت کے دستور کے مطابق ارکانِ جماعت ہر پانچ سال کے بعد کرتے ہیں۔ یہاں امارت کے لیے کوئی مدعی اور طالب نہیں ہوتا اور نہ کوئی انتخابی مہم ہوتی ہے۔ ایک ضابطے کے مطابق مرکزی شوریٰ تین نام تجویز کرتی ہے وہ بھی صرف رہنمائی کے لیے۔ ارکان ان مجوزہ تین ناموں میں سے کسی ایک کو یا ان کے علاوہ بھی، اپنی نگاہ میں کسی اور اہل تر فرد کو اس ذمہ داری کے لیے ووٹ دے سکتے ہیں۔ باہر کی دنیا کے لیے یہ عمل خواہ کتنا ہی اجنبی ہو، لیکن اسلامی تحریک کے مزاج اور اس کی ضرورت کے لیے اس سے بہتر انتظام مشکل ہے۔ انتخابِ امیر کے اس انتظام اور تحریکِ اسلامی کے مزاج کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ جماعت کی تاسیس کے وقت، اس جماعت کی جو خصوصیات داعیِ تحریک نے بیان کی تھیں، وہ ہرلمحے سامنے رہیں۔ آج شاید ان کا جاننا اور ذہن نشین رکھنا یقینا اس سے بھی کچھ زیادہ ضروری ہے ،جتنا تاسیس جماعت کے وقت تھا۔ اس وقت داعیِ تحریک مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی مرحوم نے فرمایا تھا:
جو لوگ ایک ہی عقیدہ، ایک ہی نصب العین اور ایک ہی مسلک رکھتے ہوں، ان کے لیے ایک جماعت بن جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ان کا ایک جماعت بن جانا بالکل ایک فطری امر ہے.... اب، جب کہ آپ کی جماعتی زندگی کا آغاز ہورہا ہے۔ تنظیم جماعت کی راہ میں کوئی قدم اُٹھانے سے پہلے آپ کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اسلام میں جماعتی زندگی کے قواعد کیا ہیں؟
میں اس سلسلے میں چند اہم باتیں بیان کروں گا:
اسی طرح اپنے رفقاے جماعت کی خیرخواہی کا جو فرض آپ میں سے ہرشخص پر عائد ہوتا ہے، اس کے معنی یہ ہرگز نہیں ہیں کہ آپ اپنی جماعت کے آدمیوں کی بے جا حمایت کریں اور ان کی غلطیوں میں ان کا ساتھ دیں، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ معروف میں ان کے ساتھ تعاون کریں، اور مُنکر میں صرف عدم تعاون ہی پر اکتفا نہ کریں، عملاً ان کی اصلاح کی بھی کوشش کریں۔ ایک مومن دوسرے مومن کے ساتھ سب سے بڑی خیرخواہی جو کرسکتا ہے، وہ یہ ہے کہ جہاں اس کو راہِ راست سے بھٹکتے ہوئے دیکھے، وہاں اُسے سیدھا راستہ دکھائے، اور جب وہ اپنے نفس پر ظلم کر رہا ہو تو اس کا ہاتھ پکڑلے۔ البتہ آپس کی اصلاح میں یہ ضرور پیش نظر رہنا چاہیے کہ نصیحت میں عیب چینی اور خُردہ گیری [نکتہ چینی ] اور تشدد کا طریقہ نہ ہو، بلکہ دوستانہ دردمندی و اخلاص کا طریقہ ہو۔ جس کی آپ اصلاح کرنا چاہتے ہیں، اس کو آپ کے طرزِعمل سے یہ محسوس ہونا چاہیے کہ اس اخلاقی بیماری سے آپ کا دل دُکھتا ہے، نہ کہ اس کو اپنے سے فروتر دیکھ کر آپ کا نفسِ متکبر لذت لے رہا ہے۔
چنانچہ ۱۹۴۱ء میں جب تاسیس جماعت اور حلف ِرکنیت کے بعد، امیر کے انتخاب کا مرحلہ آیا تو فطری طور پر نظر انتخاب داعیِ تحریک مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی پر پڑی اور انھیں متفقہ طور پر امیرجماعت منتخب کیا گیا۔ اس وقت تاسیسی ارکان کا خیال یہ تھا کہ امیر کا انتخاب تاحیات ہونا چاہیے، لیکن مولانا مودودی نے اس وقت کسی فقہی بحث میں پڑے بغیر ،ارکانِ جماعت پر واضح کیا کہ وہ امارت کو تاحیات جاری رکھنے کے قائل نہیں اور ارکان کو ہراجتماع کے موقعے پر انتخابِ نو کا موقع دیں گے۔ بعد میں دستورِ جماعت میں امیر کے لیے پانچ سال کی مدت اور فطری طور پر نئے انتخاب کا ضابطہ مقرر کردیا گیا، جس پر آج تک پوری دیانت داری سے عمل ہورہا ہے۔
۲۷؍اگست ۱۹۴۱ء کو امیر کے انتخاب کے بعد، مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے جو تقریر کی، وہ بھی جماعت کے نظامِ امر اور اس کے مزاج کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔ الحمدللہ یہ جماعت اس روایت کی سچی امین ہے:
میں آپ کے درمیان نہ سب سے زیادہ علم رکھنے والا تھا، نہ سب سے زیادہ متقی، نہ کسی اور خصوصیت میں مجھے فضیلت حاصل تھی۔ بہرحال، جب آپ نے مجھ پر اعتماد کر کے اس کارِعظیم کا بار میرے اُوپر رکھ دیا ہے، تو مَیں اب اللہ سے دعا کرتا ہوں اور آپ لوگ بھی دعا کریں کہ مجھے اس بار کو سنبھالنے کی قوت عطا فرمائے اور آپ کے اس اعتماد کو مایوسی میں تبدیل نہ ہونے دے۔ مَیں اپنی حد وسع تک انتہائی کوشش کروں گا کہ اس کام کو پوری خدا ترسی اور پورے احساسِ ذمہ داری کے ساتھ چلائوں۔ میں قصداً اپنے فرض کی انجام دہی میںکوئی کوتاہی نہ کروں گا۔ میں اپنے علم کی حد تک کتاب اللہ و سنت ِ رسولؐ اللہ اور خلفاے راشدینؓ کے نقشِ قدم کی پیروی میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھوں گا۔ تاہم، اگر مجھ سے کوئی لغزش ہو اور آپ میں سے کوئی محسوس کرے کہ مَیں راہِ راست سے ہٹ گیا ہوں، تو مجھ پر یہ بدگمانی نہ کرے کہ مَیں عمداً ایساکر رہا ہوں، بلکہ حُسنِ ظن سے کام لے اور نصیحت سے مجھے سیدھا کرنے کی کوشش کرے۔
آپ کا مجھ پر یہ حق ہے کہ مَیں اپنے آرام و آسایش اور اپنے ذاتی فائدوں پر جماعت کے مفاد اور اس کے کام کی ذمہ داریوں کو ترجیح دوں، جماعت کے نظم کی حفاظت کروں، ارکانِ جماعت کے درمیان عدل اور دیانت کے ساتھ حکم کروں، جماعت کی طرف سے جو امانتیں میرے سپرد ہوں ان کی حفاظت کروں، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے دل و دماغ اور جسم کی تمام طاقتوں کو اس مقصد کی خدمت میں صَرف کردوں، جس کے لیے آپ کی جماعت اُٹھی ہے۔
میرا آپ پر یہ حق ہے کہ جب تک مَیں راہِ راست پر چلوں، آپ اس میں میرا ساتھ دیں، میرے حکم کی اطاعت کریں، نیک مشوروں سے اور امکانی امداد و اعانت سے میری تائید کریں اور جماعت کے نظم کو بگاڑنے والے طریقوں سے پرہیز کریں۔ مجھے اس تحریک کی عظمت اور خود اپنے نقائص کا پورا احساس ہے۔ مَیں جانتا ہوں کہ یہ وہ تحریک ہے جس کی قیادت اولوالعزم پیغمبروں ؑ نے کی ہے، اور زمانۂ نبوت گزرجانے کے بعد وہ غیرمعمولی انسان اس کو لے کر اُٹھتے رہے ہیں، جو نسلِ انسانی کے گُل سرسَبد تھے۔ مجھے ایک لمحے کے لیے اپنے بارے میں یہ غلط فہمی نہیں ہوئی کہ مَیں اس عظیم الشان تحریک کی قیادت کا اہل ہوں، بلکہ مَیں تو اس کو ایک بدقسمتی سمجھتا ہوں کہ اس وقت اس کارِعظیم کے لیے آپ کو مجھ سے بہتر کوئی آدمی نہ ملا۔ مَیں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اپنے فرائضِ امارت کی انجام دہی کے ساتھ مَیں برابر تلاش میں رہوں گا کہ کوئی اہل تر آدمی اس کا بار اُٹھانے کے لیے مل جائے اور جب مَیں ایسے آدمی کو پائوںگا تو خود سب سے پہلے اُس کے ہاتھ پر بیعت کروں گا۔ نیز مَیں ہمیشہ ہر اجتماعِ عام کے موقعے پر جماعت سے بھی درخواست کرتا رہوں گا،کہ اگر اب اس نے کوئی مجھ سے بہتر آدمی پالیا ہے تو وہ اُسے اپنا امیر منتخب کرلے، اور مَیں اس منصب سے بخوشی دست بردار ہوجائوں گا۔ بہرحال، مَیں ان شاء اللہ اپنی ذات کو کبھی خدا کے راستے میں سدِّراہ نہ بننے دوں گا، اور کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ دوں گا کہ ایک ناقص آدمی اس جماعت کی رہنمائی کر رہا ہے، اس لیے ہم اس میں داخل نہیں ہوسکتے۔
نہیں، مَیں کہتا ہوں کہ کامل آئے اور یہ مقام جو آپ نے میرے سپرد کیا ہے ہر وقت اس کے لیے خالی ہوسکتا ہے، البتہ مَیں اس کے لیے تیار نہیں ہوں کہ اگر کوئی دوسرا اس کام کو چلانے کے لیے نہ اُٹھے تو مَیں بھی نہ اُٹھوں۔ میرے لیے تو یہ تحریک عین مقصد ِ زندگی ہے۔ میرا مرنا اور جینا اس کے لیے ہے۔ کوئی اس پر چلنے کے لیے تیار ہو یا نہ ہو، بہرحال مجھے تو اسی راہ پر چلنا اور اسی راہ میں جان دینا ہے۔ کوئی آگے نہ بڑھے تو مَیں بڑھوں گا۔ کوئی ساتھ نہ دے گا تو مَیں اکیلا چلوں گا۔ ساری دنیا متحد ہوکر مخالفت کرے گی تو مجھے تن تنہا اُس سے لڑنے میں بھی باک نہیں ہے۔ (رُوداد جماعت اسلامی، اوّل،ص ۲۹-۳۱)
یہی وہ جذبہ اور اسپرٹ ہے جو بعدازاں بھی جماعت کے امرا میں موجود رہی ہے۔ مولانا محترم سے لے کر سیّدمنورحسن تک ہر ایک نے جب یہ محسوس کیا کہ وہ اس عظیم ذمہ داری کے تقاضوں کو پورا کرنے کی طاقت اپنے میں نہیں پارہے تو ازخود ارکان سے ذمہ داری سے فراغت کی درخواست کی، اور اگر اس کے باوجود جماعت نے کوئی ذمہ داری ان پر ڈالی تو وہ ہر قربانی دے کر اسے انجام دینے کے لیے سینہ سپر ہوگئے۔ اس تحریک میں جو جس مقام سے بھی، جو خدمت بھی انجام دے سکے، وہ ایک سعادت اور اعزاز ہے۔ اور ہر ایک کی خواہش، کوشش اور دعا ہوتی ہے کہ وَ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَo (اٰلِ عمرٰن ۳:۱۰۲) ’’تم کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو‘‘۔
تحریکوں کی مثال دریا کی سی ہے جس کی بلارکاوٹ روانی کا انحصار نئے پانی کی آمد پر ہے۔ اب جماعت کی تیسری نسل امارت کی ذمہ داری کو سنبھال رہی ہے۔ مولانا محترم اور میاں طفیل محمد صاحب بانی ارکان میں سے تھے۔ محترم قاضی حسین احمد اور برادرم سیّدمنور حسن کا تعلق دوسری نسل سے تھا۔ الحمدللہ، اب قیادت تیسری نسل کی طرف منتقل ہوئی ہے اور ان شاء اللہ یہ سلسلہ اسی خوش اسلوبی کے ساتھ چلتا رہے گا۔ تحریک کی زندگی اور قوت کا راز تسلسل اور تبدیلی میں ہے۔ اگرکسی تحریک میں تبدیلی کے راستے بند ہوجائیں تو وہ جمود کا شکار ہوجاتی ہے اور دریا ’جوے کم آب‘ کا منظر پیش کرتا ہے۔ وہ تبدیلی جو تسلسل سے اپنا رشتہ توڑلیتی ہے، کٹی ہوئی پتنگ بن جانے کے خطرے سے اپنے کو دوچار رکھتی ہے۔ ’بحر بے کراں‘ وہی تحریک ہوتی ہے جس کا امتیاز تسلسل اور تبدیلی دونوں کا امتزاج ہو۔ اور سماں یہ ہو کہ ؎
فصلِ بہار آئی ہے، لے کررُت بھی نئی، شاخیں بھی نئی
سبزہ و گل کے رُخ پر لیکن، رنگ قدامت آج بھی ہے
جماعت اسلامی کے حالیہ انتخابِ امیر کا ایک قابلِ غور پہلو وہ ردعمل بھی ہے جو پاکستان کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اور سیاسی ، مذہبی اور دانش ور حلقوں کی طرف سے سامنے آیا ہے۔ غالباً پاکستان کی تاریخ میں کسی جماعت کی مرکزی قیادت کے انتخاب پر ایسا بھرپور ردعمل نہیں ہوا اور یہ ملک کے سوچنے سمجھنے والے حلقوں کی جماعت اسلامی میں دل چسپی ہی کا مظہر نہیں، بلکہ کئی حیثیتوں سے ملک کی سیاسی زندگی کے کچھ پہلوئوں پر بڑی روشنی ڈالنے والا عمل ہے اور خود جماعت اور اس کی قیادت کے لیے بھی اس میں غوروفکر کا بڑا سامان ہے۔ اس لیے چند پہلوئوں پر کچھ اشارات کرنا مفید محسوس کرتا ہوں۔
سب سے پہلے مَیں ان تمام افراد کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں، جنھوں نے اپنے اپنے نقطۂ نظر سے اور اپنے اپنے انداز میں ہمارے انتخابی عمل اور نتائج پر تبصرہ کیا ہے اور جماعت اسلامی، اس کے نظام کار، سیاسی کارکردگی اور مستقبل کے کردار کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ ان میں سے ہر تحریر میں ہمارے لیے سوچنے کا کچھ نہ کچھ مواد موجود ہے، اس لیے جماعت بلاتفریق سبھی نقطہ ہاے نظر سے واقفیت اور استفادے کی کوشش کرے گی۔ البتہ اس حقیقت کا اِدراک بھی ضروری ہے کہ مختلف تحریروں اور تجزیوں میں جماعت کا جو امیج پیش کیا گیا ہے، وہ حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتا۔ بہرحال ہماری جن کمزوریوں کی نشان دہی کی گئی ہے، ہمیں ان کی اصلاح کی فکر کرنی چاہیے اور جو آرا غلط فہمیوں، معلومات کی کمی اور تعصب اور مخاصمت پر مبنی ہیں، ان کے بارے میں یہ کوشش ہونی چاہیے کہ مذاکرے اور بہتر ربط و ارتباط (dialogue, engagement and communication) کے ذریعے اپنے نقطۂ نظر کی توضیح و تشریح کریں۔
صاف نظر آرہا ہے کہ جماعت اسلامی کے نصب العین، اس کے نظامِ کار، اس کی خدمات، اس کی پالیسیوں اور جو تبدیلیاں پاکستان میں لانا چاہتی ہے، ان سے صحیح معنوں میں واقفیت اور اِدراک کے باب میں بڑی کمی ہے۔ اس کی ذمہ داری بڑی حد تک خود ہم پر بھی آتی ہے کہ ہم اپنی بات قوم اور اس کے بااثرطبقات تک مناسب انداز میں لے جانے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود ہم اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ دوست اور مخالف سب اس امر کا اعتراف کررہے ہیں کہ جماعت اسلامی ہی وہ جماعت ہے، جس میں باقاعدگی سے انتخابات منعقد ہوتے ہیں، جس کے ارکان اپنی آزاد مرضی سے اپنی قیادت کو منتخب کرتے ہیں، جس میں شخصی، موروثی یا گروہی قیادت کا کوئی تصور نہیں، جس میں دولت اور سیاسی اثرورسوخ کا کوئی کردار نہیں ہے، جس میں متوسط طبقے کے افراد کو ان کی صلاحیت، دیانت، مقصد ِ تحریک سے وابستگی اور وفاداری اور تحریک اور عوام کی خدمت کی بنیاد پر قیادت کی ذمہ داریاں سونپی جاتی ہیں۔
الحمدللہ، جماعت اسلامی میں خود احتسابی کا عمل بھی زندہ ہے۔ جس میں عہدوں کی بندربانٹ بھی نہیں ہوتی بلکہ عہدے کا تصور ہی بدل گیا ہے___ یہاں قیادت کے لیے باہمی کوئی مقابلہ نہیں ہوتا اور نہ کسی کی ’فتح‘ یا ’شکست‘ کا کوئی تصور پایا جاتا ہے۔ امارت اور قیادت ایک ذمہ داری ہے جسے ارکان اپنے میں سے زیادہ سے زیادہ مناسب فرد کے سپرد بطور امانت کرتے ہیں، جو اسے عبادت کے جذبے سے انجام دیتا ہے۔ جس پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہ ادایگیِ فرض کے جذبے سے اس بوجھ کو اُٹھاتا ہے، اور جو اس ذمہ داری سے بچ جاتا ہے، وہ ایک حد تک خود کو سبک بار محسوس کرتا ہے لیکن اس کی وفاداری اور سرگرمی کا مرکز و محوریہی دعوت اور تحریک ہی رہتی ہے۔ یہ ایک دوسری ہی نوعیت کا جماعتی کلچر ہے، جس کی حکمت، تاثیر اور لذت سے وہ آشنا نہیں جو اس قافلے کے ہم سفر نہ ہوں۔
جماعت اسلامی کا اصل ہدف فرد، معاشرہ اور ریاست کی سطح پر ان تبدیلیوں کو برپا کرنا ہے جو اسلام کو مطلوب ہیں۔ اس کی کوشش ہے کہ نہ صرف افراد بلکہ پورے معاشرے اور ریاست کو اسلامی اخلاق و آداب کا آئینہ دار بنایا جائے۔ اس کام کو انجام دینے کے لیے زندگی کے ہر شعبے میں ایک ایسی قیادت بروے کار لائی جائے جو اسلام کی صحیح نمایندہ ہو۔ اس کے لیے دعوت و ارشاد، تعلیم و تربیت، ترغیب و ترہیب، معاشی اور سماجی اصلاح، اور قانون اور میڈیا، سب کا استعمال اپنے اپنے دائرے میں ضروری ہے۔
اس تبدیلی کا آغاز انسان کے قلب سے ہوتا ہے۔ اس کے فکروذہن کی اصلاح کے ساتھ اخلاق و آداب کی اصلاح، خاندان اور معاشرتی اداروں کی تشکیلِ نو اور انفرادی اور اجتماعی وسائل کا مؤثر استعمال ضروری ہے۔ اس تاریخی عمل میں فرد اور معاشرے کے ساتھ ریاست کا کردار بھی فیصلہ کن ہے۔ اس لیے جماعت اسلامی ضروری سمجھتی ہے کہ دستورِ پاکستان نے وطن عزیز کو ایک اسلامی، فلاحی اور جمہوری ریاست بنانے کے لیے جو نقشۂ کار دیا ہے، اس پر پوری دیانت اور بہترین صلاحیت کے استعمال سے کام کیا جائے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے، جب اقتدار ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہو، جو اپنے فکرونظر، اخلاق و کردار اور صلاحیت کار کے اعتبار سے اسلام کے اچھے نمایندے ہوں اور ریاست کے وسائل کو امانت تصور کرتے ہوئے عوام کی خدمت اور پاکستان کی اسلامی خطوط پر تعمیروترقی کے لیے استعمال کریں۔
اسی غرض کے لیے جماعت اسلامی پُرامن، آئینی اور جمہوری طریقوں سے نظامِ حکومت کو بدلنا چاہتی ہے۔ اس کے پیش نظر پاکستان کو ایک ایسی ریاست بنانا ہے:
یہ ہیں جماعت اسلامی کے مقاصد___ جو لوگ اِن مقاصد سے اتفاق رکھتے ہوں، انھیں ہم دعوت دیتے ہیں کہ وہ ان کے حصول میں ہمارے ساتھ تعاون کریں۔ (منشور جماعت اسلامی)
جماعت اسلامی، ماضی کی طرح آج بھی فرد، معاشرے اور حکومت کی سطح پر ان تمام تبدیلیوں کو رُوبہ عمل لانے کے لیے مصروفِ عمل ہے، جو اسلام کو مطلوب ہیں اور جو ایک حقیقی اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کے لیے ناگزیر ہیں۔ ان شاء اللہ، نومنتخب امیر جماعت کی قیادت میں ہمارا سفر روزِاوّل کے سے عزم اور ایمان و ایقان کے ساتھ جاری رہے گا!
حیاتِ انسانی کو منضبط، مربوط اور صراط مستقیم پر گامزن رکھنے کے لیے جن چیزوں کو تمام شرائع الٰہیہ میں ہمیشہ سے اصل الاصول کی حیثیت حاصل رہی ہے ان کا ذکر خالق کائنات نے اپنی آخری کتاب، قرآن حکیم میں سورئہ انعام میں وضاحت سے فرمایا ہے۔ آیت ۱۵۱ میں بیان کی گئی ان ۱۰پابندیوں میں سے چوتھی بنیادی بات کو ان الفاظ میں بیان فرمایا گیا: ’’اور بے شرمی کی باتوں کے قریب بھی نہ جائو خواہ وہ کھلی ہوں یا چھپی‘‘۔ اسی پارے میں سورئہ انعام سے اگلی ہی سورئہ اعراف کی آیت ۳۳ میں جن چیزوں کے حرام ہونے کا حکم دیا گیا ہے ان میں اس کا ذکر سرفہرست ہے، چنانچہ ارشاد ربانی ہے: ’’اے نبیؐ، ان سے کہو کہ میرے رب نے جو چیزیں حرام کی ہیں وہ تو یہ ہیں: بے شرمی کے کام___خواہ کھلے ہوں یا چھپے___ اور گناہ اور حق کے خلاف زیادتی اور یہ کہ اللہ کے ساتھ تم کسی ایسے کو شریک کرو جس کے لیے اس نے کوئی سند نازل نہیں کی، اور یہ کہ اللہ کے نام پر کوئی ایسی بات کہو جس کے متعلق تمھیں علم نہ ہو (کہ وہ حقیقت میں اسی نے فرمائی ہے)‘‘۔ پھر سورئہ نحل کی آیت ۹۰میں اللہ تعالیٰ عدل، احسان اور صلۂ رحمی کو اختیار کرنے کا حکم دینے کے بعد جن تین برائیوں سے دُور رہنے کی ہدایت فرماتا ہے ان میں بھی اولین فَحْشَآئِ ہے۔فرمان الٰہی ہے: اللہ عدل اور احسان اور صلۂ رحمی کا حکم دیتا ہے اور بدی و بے حیائی اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمھیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم سبق لو‘‘۔
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اس آیت کی تفہیم میں رقم طراز ہیں: ’’تین بھلائیوں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ تین برائیوں سے روکتا ہے جو انفرادی حیثیت سے افراد کو، اور اجتماعی حیثیت سے پورے معاشرے کو خراب کرنے والی ہیں۔
پہلی چیزفَحْشَآئِ ہے جس کا اطلاق تمام بے ہودہ اور شرمناک افعال پر ہوتا ہے۔ ہر وہ برائی جو اپنی ذات میں نہایت قبیح ہو، فحش ہے، مثلاً بخل، زنا، برہنگی و عریانی، عملِ قوم لوط، محرمات سے نکاح کرنا، چوری، شراب نوشی، بھیک مانگنا، گالیاں بکنا اور بد کلامی کرنا وغیرہ۔ اسی طرح علی الاعلان برے کام کرنا اور برائیوں کو پھیلانا بھی فحش ہے، مثلاً جھوٹا پروپیگنڈا، تہمت تراشی، پوشیدہ جرائم کی تشہیر، بدکاریوں پر ابھارنے والے افسانے، ڈرامے اور فلم، عریاں تصاویر، عورتوں کا بن سنور کر منظر عام پر آنا، علی الاعلان مردوں اور عورتوں کے درمیان اختلاط ہونا، اور اسٹیج پر عورتوں کا ناچنا اور تھرکنا اور ناز و ادا کی نمایش کرنا وغیرہ۔
دوسری چیز منکر ہے جس سے مراد ہر وہ برائی ہے جسے انسان بالعموم برا جانتے ہیں، ہمیشہ سے بُرا کہتے رہے ہیں، اور تمام شرائع الٰہیہ نے جس سے منع کیا ہے۔
تیسری چیز بغی ہے جس کے معنی ہیں اپنی حد سے تجاوز کرنا اور دوسرے کے حقوق پر دست درازی کرنا، خواہ وہ حقوق خالق کے ہوں یا مخلوق کے‘‘۔(تفہیم القرآن، ج۲، ص۵۶۶-۵۶۷)
قرآن حکیم میں سورئہ نور کی آیت ۱۹ میں ارشاد ہوتا ہے:’’ جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں فحش پھیلے وہ دنیا اور آخرت میں درد ناک سزا کے مستحق ہیں۔ اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے…‘‘ سید مودودیؒ اس کی شرح میں لکھتے ہیں ’’یعنی تم لوگ نہیں جانتے کہ اس طرح کی ایک ایک حرکت کے اثرات معاشرے میں کہاں کہاں تک پہنچتے ہیں، کتنے افراد کو متاثر کرتے ہیں اور مجموعی طور پر ان کا کس قدر نقصان اجتماعی زندگی کو اٹھانا پڑتا ہے۔ اس چیز کو اللہ ہی خوب جانتا ہے۔ لہٰذا اللہ پر اعتماد کرو اور جن برائیوں کی نشان دہی کر رہا ہے انھیں پوری قوت سے مٹانے اور دبانے کی کوشش کرو۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں نہیں ہیں جن کے ساتھ روا داری برتی جائے دراصل یہ بڑی باتیں ہیں جن کا ارتکاب کرنے والوں کو سخت سزا ملنی چاہیے‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج۳، ص۳۷۱)
قرآن مجید میں ان کے علاوہ بھی کئی مقامات پر فحش کی مذمت اور اس کے دنیا و آخرت میں اثرات بد سے متعلق آیات وارد ہوئی ہیں، جب کہ کتب احادیث میں بھی رسول اکرم ؐ کے بہت سے فرمودات میں مسلمانوں کو فحاشی، عریانی اور بے حیائی سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں شدید وعیدیں بھی سنائی گئی ہیں۔ مگر ہماری یہ بدقسمتی ہے کہ آج ہم جس ماحول میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں، اس میں یہ سب برائیاں روز مرہ کا حصہ بن چکی ہیں اور ناچ، گانے، عریانی، فحاشی، بے حیائی، بد زبانی اور خواتین و حضرات کی مخلوط مجالس کے برائی ہونے کا تصور ہی ذہنوں سے محو ہوتا جا رہا ہے، چنانچہ برائی کو ہاتھ اور زبان سے روکنا تو ایک طرف، ہم اسے دل سے بُرا جاننے کے ایمان کے کم ترین درجے سے بھی محرومی کی کیفیت سے دوچار ہیں۔ معاشرے سے فحش کے انتہائی قبیح و قابل نفرت برائی ہونے کا احساس ہی نابود ہوتا چلا جا رہا ہے۔ جب احساس زیاں ہی نہیں ہو گا تو متاع کارواں کے لٹنے کا دکھ کسے اور کیوں کر ہو گا۔ یوں اس قیمتی متاع کو بچانے اور اس کی حفاظت کا خیال اور جذبہ ہی مفقود رہے گا تو کسی عملی اقدام کی توقع کیوں کر کی جا سکتی ہے ؎
واے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
ذرائع ابلاغ نے ایسی فضا پیدا کر دی ہے اور ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ کے ذریعے بڑے بڑے دین دار گھرانوں میں وہ وہ کچھ اہل خانہ اکھٹے بیٹھ کر دیکھتے اور سنتے ہیں، جو پہلے لوگ تنہائی میں دیکھتے، سنتے بھی شرم محسوس کرتے تھے۔ اب ہر چوک کے ہر جانب آویزاں عظیم الجثہ ہورڈنگز پر نیم عریاں خواتین ماڈلز کے اشہارات لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں، جو حادثات کا سبب بھی بنتے ہیں، مگر مال و دولت کی ہوس نے لوگوں کو ایسا اندھا کر دیا ہے کہ کسی کو ان کے جانی، اخلاقی، معاشرتی اور مادی نقصانات کی کوئی پروا نہیں۔ ایک وقت تھا کہ گانے بجانے کی محافل میں شرکت ہی باعث عار سمجھی جاتی تھی مگر اب فن، فیشن اور ثقافت کے نام پر عریانی اور فحاشی کو کھلے بندوں اور سینہ تان کر فروغ دیا جاتا ہے۔ اس کی روک تھام تو دُور کی بات ہے، اب اس خرافات پر معاشرے کے شرفا کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ اب ٹیلی ویژن چینلوں کے خبرنامے تک ان لغویات سے محفوظ نہیں رہے اور تفریح کے نام پر خبروں کے دوران وہ کچھ دکھایا جا رہا ہے کہ خدا کی پناہ …!
بڑے فخر سے اب یہ اعلانات کیے جاتے ہیں کہ پاکستان اب ان ممالک میں شامل ہو چکا ہے جہاں فیشن انڈسٹری کے سب سے زیادہ میلے سجائے جاتے ہیں۔ چنانچہ کراچی، لاہور اور اسلام آباد سمیت تمام بڑے بڑے شہروں میں سال بھر فیشن میلوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اپریل ۲۰۱۴ء کے دوسرے ہفتے لاہور کے ایکسپو سنٹر میں ’فیشن ویک‘ منایا گیا جس کے دوران براے نام لباس زیب تن کیے ماڈل لڑکیوں نے اپنے ہم پیشہ لڑکوں کے ہمراہ جسم کی ایسے ایسے پہلوئوں سے نمایش کی کہ قلم بیان کرنے سے قاصر ہے، یہ خرافات سرعام لاہور میں پورا ہفتہ جاری رہیں، ٹیلی وژن چینلوں اور اخبارات کے صفحات پر اس کی بھر پور کوریج بھی ہوتی رہی، مگر دکھ کی بات یہ ہے کہ کسی سیاسی جماعت، دینی تنظیم، سماجی گروہ یا عالمِ دین کی جانب سے کوئی ایک بھی صداے احتجاج سنائی نہیں دی۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہم اخلاقی اور معاشرتی زوال کی کس سطح کو چھو رہے ہیں۔ ورنہ زیادہ دُور کی بات نہیں کہ جنرل پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں یورپی آقائوں کو خوش کرنے کی خاطر پاکستان کا ’روشن چہرہ‘ پیش کرنے کے لیے لاہور میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کی سرپرستی میں مخلوط ’میراتھن ریس‘ کا اہتمام کیا گیا تو پورا معاشرہ اس کے خلاف سراپا احتجاج بن گیا اور چودھری پرویز الٰہی کو اپنے اس اقدام کے لیے سو جواز اور معذرتیں پیش کرنا پڑیں۔ اسی دور میں جامعہ پنجاب میں موسیقی کی کلاسیں شروع کرنے کی کوشش کی گئی تو طلبہ کی ایک بڑی تعداد اس کی مزاحمت کے لیے میدان میں آ گئی مگر اب یوں لگتا ہے کہ پورا معاشرہ بے حسی اور بے بسی کے سمندر میں غرق ہو چکا ہے۔ معروف شاعر عنایت علی خاں نے ایسی ہی کیفیت کی عکاسی کرتے ہوئے کہا تھا ؎
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھیرے نہیں حادثہ دیکھ کر
پاکستان اسلامی جمہوریہ ہے اور اس کا آئین ملک میں شرعی قوانین کی تنفیذ اور اسلامی اقدار کے فروغ کو حکومت کی ذمہ داری ٹھیراتا ہے۔ مگر شرافت کی سیاست کے علم بردار ہونے کے تمام تر دعوئوں کے باوجود ہمارے حکمرانوں کا طرز عمل یہ ہے کہ یہاں سنگ مقید ہیں اور سگ آزاد۔ حکومتی سطح پر کیے گئے اقدامات کے نتیجے میں برائی کو اپنانا آسان اور نیکی کو اختیار کرنا مشکل ہے۔ امانت، دیانت اور شرافت کی اقدار کا نام لینا بھی،اب لوگوں کی تضحیک کا نشانہ بننے کا باعث ہے، جب کہ رشوت، سفارش، غنڈا گردی، بدمعاشی اور بددیانتی تیز رفتار ترقی کی ضمانت ہیں… حکمران اپنی ذمہ داریاں کلی طور پر فراموش کر چکے ہیں …!!
عدالتیں یقینا کچھ عرصے سے فعال ہیں اور ان کے بعض فیصلے معاشرے میں بعض پہلوئوں سے بہتری اور امید کا سبب بنے ہیں مگر اس حقیقت سے بھی صرف نظر نہیں کیا جا سکتا کہ اعلیٰ عدالتوں کے اکثر فیصلے ہنگامی اور وقتی نوعیت کے امور سے متعلق ہی سامنے آئے ہیں۔ دُور رس اثرات کے حامل معاملات میں عدالتیں برسرکار آنے پر تیار دکھائی نہیں دیتیں… اللہ اور رسولؐ سے جنگ کے مترادف سود پر مبنی معاشی نظام عدالت عظمیٰ کی عدم توجہی کے باعث ملک و قوم پر مسلط ہے اور وفاقی شرعی عدالت کے سود کو حرام قرار دینے کے فیصلے کے خلاف ایک اپیل میں حکم امتناعی کے ذریعے سودی نظام کو دوام بخشنے کے بعد عدالت عظمیٰ اس کیس کی سماعت پر آمادہ نہیں اور سالہا سال سے یہ معاملہ سرد خانے کی نذر ہے… جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد مرحوم نے معاشرے میں بڑھتی ہوئی فحاشی اور عریانی کے خلاف عدالت عظمیٰ میں ایک رٹ دائر کی تھی۔ وہ اس کیس پر فیصلے کے انتظار میں اپنے خالق حقیقی کے حضور پہنچ چکے ہیں مگر ہماری عدالتوں کو چند سماعتوں کے بعد اس اہم معاملے پر پیش رفت کا وقت ہی نہیں مل سکا ۔
ضرورت ہے کہ ملک کے دین سے محبت رکھنے والے سیاسی و سماجی رہنما اور علماے کرام سرجوڑ کر بیٹھیں، اور ملک کو تباہی و بربادی سے بچانے اور آخری حدوں کو چھوتے ہوئے اس معاشرتی بگاڑ کی اصلاح کے لیے عملی اقدامات کریں۔ ورنہ وقت نہایت تیزی سے گزر رہا ہے۔ ہمیں سوچ لینا چاہیے کہ اپنی بے حسی اور بے عملی کا کیا جواز اپنے رب کے حضور پیش کریں گے…؟؟
دولت، جایداد، عیش و آرام کے اسباب و وسائل، سکون اور سہولت کے سامان، اللہ کی نعمتیں ہیں۔ ہر دور میں انسان نے ان نعمتوں کو حاصل کرنے اور ان سے لذّت اندوز ہونے اور لذت اندوز رہنے کی کوشش و کاوش کی ہے اور اللہ نے اپنی حکمت و مشیّت کے تحت جس کو جس قدر چاہا نوازا ہے۔ ان نعمتوں کے حصول کی فکروکاوش کے بارے میں کون کہہ سکتا ہے کہ غلط اور ناپسندیدہ ہے، مگر دورِحاضر میں ان نعمتوں کے حصول کی فکروکاوش نے ہوس اور حرص کی شکل اختیار کرلی ہے۔ اور یہ ہوس ہر انسان پر اس طرح چھائی ہوئی نظر آتی ہے کہ قناعت کا مفہوم سمجھنا اور سمجھانا بہت مشکل ہوگیا ہے۔ فضائلِ اخلاق کی فہرست میں قناعت کا عنوان تو ضرور مل سکتا ہے لیکن انسانی زندگی میںقناعت کا مصداق ملنا بہت دشوار ہوگیا ہے۔
کسی مجلس میں اس ہوس اور حرص و لالچ کا ذکر چھڑ جائے تو شاید کوئی ایک سنجیدہ انسان بھی ایسا نہ ملے جو اس سے نفرت اور بے زاری کا اظہار نہ کرے، لیکن عملاً کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس دور کے ہر انسان کا نصب العین شعوری یا لاشعوری طور پر یہی ہے کہ وہ جلد سے جلد دولت مند بن جائے اور اس کا محل دوسروں کے محل سے اُونچا نظر آئے۔
ہر ایک اسی فکر اور دُھن میں ڈوبا ہوا نظر آتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ دولت سمیٹ لے، آرام و آسایش اور عیش و عشرت کے زیادہ سے زیادہ وسائل فراہم کرے، آرایش و نمایش کی چیزوں سے اپنے دولت کدے کو سجا لے، تاکہ اپنے عزیز و اقارب اور حلقۂ احباب میں اپنی فوقیت اور عظمت کا سکّہ بٹھا سکے، محفل میں بیٹھ کر لاکھوں کی بات کرسکے اور ان اسباب و وسائل کا تذکرہ کرسکے جن کا ہونا آج زندگی کی قدروعظمت کا معیار بن چکا ہے۔ بہترین لباس، بہترین سواری، شان دار کوٹھی، اور اسباب زینت و آرایش سے دوسروں کو مرعوب کرنا اور اپنی فوقیت جتانا آج کا عام رجحان اور عام اندازِ فکر ہوگیا ہے۔
سب سے زیادہ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ جن لوگوں کو انسانیت کی اصل قدروں کا شعور ہے، جو آخرت کی ترجیح کی باتیں کرتے نظر آتے ہیں اور جو عام رجحان پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں اور اس فکرِبد پر غم و افسوس کا اظہار کرتے ہیں، وہ بھی عمل اورسماج کی زندگی میں انسان کو انھی پیمانوں سے ناپتے اوراس کے مطابق انسان کا مقام متعین کرتے اور انسانوں سے معاملہ کرتے ہیں۔
غرض پورا سماج دولت کی ہوس میں بے تحاشا دوڑ رہا ہے۔ ہر ایک کو دولت کی ہوس نے دیوانہ بنا رکھا ہے۔ ہرشخص اس فکر میں سوتا ہے کہ شب میں کوئی سہانا خواب دیکھے اور صبح کو جب اُٹھے توو ہ کروڑوں کا مالک ہو۔ لمحوں میں دولت مند بن جانے کی ہوس شاید اسی دور کی خصوصی فکر ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خدا کا یہ نائب شاید زمین پر اسی لیے بھیجا گیا ہے۔ وہ کائنات کا علم بھی اس لیے حاصل کرتا ہے کہ کائنات کی دولت کو قبضے میں لے آئے اور عیش کے سارے سامان فراہم کر کے دادِ عیش دینے میں لگا رہے۔ سوسائٹی کا ہر فرد، الا ماشاء اللہ اس خبط میں مبتلا ہے کہ وہ زندگی کے ان گنے چُنے دنوں میں جس قدر دولت سمیٹ سکے سمیٹ لے، اس کے سوا زندگی کا اور کوئی مقصد نہیں ہے۔ یہی انسان کی معراج ہے۔ یہی قدروعظمت کی علامت ہے اور یہی انسان کی فکروصلاحیت اور توانائیوں کا مقصد و محور ہے۔
آپ کسی سے تعلق جوڑ رہے ہوں یا کسی سے تعلق توڑ رہے ہوں، بیٹی یا بیٹے کا رشتہ کررہے ہوں، یا رشتے سے انکار کر رہے ہوں، یا سماج میں سماجی تعلق رکھنے اور جوڑنے کا سوال ہو، اولین چیز جو تعلق جوڑنے اور کسی سے قریب ہونے میں فیصلہ کن بنتی ہے وہ دنیا اور دنیا کی دولت ہے۔ رشتہ قائم کرتے وقت جو سوالات ذہن کے اُفق پر قدرتی انداز میں اُبھرتے ہیں وہ کچھ اسی قسم کے ہوتے ہیں: دولت و ثروت کا کیا حال ہے؟ بزنس کیسا ہے؟ عہدہ کیا ہے؟ آمدنی کس قدر ہے؟ جاگیر، جایداد اور رہن سہن کا معیار کیسا ہے؟
ان سوالات کی زبردست یلغار میں اول تو دین و اخلاق کا سوال سامنے ہی نہیں آتا اور اگر کبھی سوال اُبھرتا ہے تو دین و اخلاق کی قلیل سے قلیل مقدار کا محض تصور بھی اطمینانِ قلب کا سامان بن جاتا ہے۔ اس لیے کہ فیصلہ کُن قدر مال و دولت کی فراوانی ہے نہ کہ دین و ایمان۔ اس کے برخلاف اگر ایمان و اخلاق کا اعلیٰ معیار بھی میسر آئے، لیکن غربت و افلاس اور دنیوی خستہ حالی کی تلافی، ایمان و اخلاق سے نہیں ہوپاتی، خواہ ایمان و اخلاق کا معیار جس قدر بھی بلند ہو۔
اُمت کی پستی اور ذلت و خواری کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ سوسائٹی میں ایمان و اخلاق کی ناقدری عام ہے اور قدرومنزلت کا معیار دولت و ثروت ہے۔ اللہ کے رسول صادق و امین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب مسلمانوں کی سوسائٹی میں دین و اخلاق کی قدروقیمت ختم ہوجائے تو زمین میں فتنہ وفساد پھیل جائے گا۔ آج ہمارا معاشرہ اسی مصیبت اور خواری میں مبتلا ہے۔
کسی اور کے ساتھ آپ انصاف کرسکیں یا نہ کرسکیں، کسی اور کے لیے سنجیدہ ہوسکیں یانہ ہوسکیں، کم از کم اپنے ہی ساتھ انصاف کیجیے اور اپنے معاملے پر ہی سنجیدگی سے غور کیجیے۔ اللہ نے آپ کو بیٹے بھی دیے ہیںاور بیٹیاں بھی۔ دنیا کی سوسائٹی میں آپ کو بیٹوں کی شادیاں بھی کرنی ہیں اور بیٹیوں کی بھی۔ پیغام دیتے وقت اور پیغام قبول کرتے وقت کیا آپ کے سامنے دین و اخلاق کا سوال رہتا ہے؟ آپ کے حلقۂ احباب میں تعلق کی بنیاد کیا ہے؟ لڑکی کا پیغام قبول کرنا ہو یا لڑکے کا پیغام دینا ہو؟ کیا آپ کا معیار دین و ایمان رہتا ہے، یا محض دولت و ثروت؟
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ایک معیار دیا ہے۔ اگر یہ معیار آپ کے سامنے رہتا ہے اور سوسائٹی اس معیار کو معیار قرار دیتی ہے تو یہ اُمت کبھی ذلّت و خواری کا شکار نہیں ہوسکتی۔ لیکن یہ اُمت اگر رسول پاکؐ کے دیے ہوئے معیار کو معیار قرار نہیں دیتی۔ اس معیارِ قدرومنزلت کو ٹھکرا کر اپنے ذہن و فکر کے معیار پر اپنی سوسائٹی اور خاندان کی تعمیر کرتی ہے تو دنیا کی کوئی طاقت اور دولت و جایداد، اور دنیوی عروج کی کوئی قوت اس کو ذلت ورسوائی اور فتنہ وفساد سے نہیں بچاسکتی۔ اللہ کے رسولؐ صادق و امین نے فرمایا ہے:
اِذَا خَطَبَ اِلَیْکُمْ مَن تَرْضَوْنَ دِیْنَـہٗ وَخُلُقَہٗ فَزَوِّجُوْہٗ اِنْ لَّا تَفْعَلُوْہُ تَکُنْ فِتْنَۃٌ فِی الْاَرْضِ وَفَسَادٌ کَبِیْرٌ (ترمذی، عن ابی ہریرہؓ) جب تمھارے یہاں کسی ایسے شخص کا پیغام آئے جس کے دین و اخلاق سے تم مطمئن ہو تو (بلاتاخیر) اس سے اپنی دوشیزہ کا نکاح کردو۔ اگر تم ایسا نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ پھیل جائے گا اور بہت بڑا فساد برپا ہوجائے گا۔
اسی طرح آپؐ نے لڑکی کے انتخاب کے بارے میں ہدایت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
تُنْکَحُ الْمَرْئَ ۃُ لِاَرْبَعِ لِمَالِھَا وَلِحَسْبِھَا وَلِجَمَالِھَا وَلِدِیْـنِھَا فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّیْنِ تَرِبَتْ یَدَاکَ (بخاری، مسلم، عن ابی ہریرہؓ)، عورت سے شادی چار بنیادوں پر کی جاتی ہے: مال و دولت کی وجہ سے، حسب و نسب کی وجہ سے، حُسن و جمال کی وجہ سے اور دین کی وجہ سے، تو تم دین دار خاتون کو حاصل کرو، تمھارا بھلا ہو۔
اس گفتگو کا مقصد یہ ہرگز نہیں ہے کہ دین میں مال ودولت، حسب و نسب اور حُسن و جمال کی کوئی حیثیت اور مقام ہی نہیں ہے۔ یقینا ان چیزوں کا پاس و لحاظ بھی رکھنا ہے اور یہ بھی خدا کی نعمتیں ہیں، نہ ان سے صرفِ نظر کی بات کہی جارہی ہے اور نہ ان کی ناقدری کوئی دانش مندی کی بات ہے۔ دنیا میں تعلق جوڑنے اور سماج میں رہنے، یا رشتہ قبول کرنے نہ کرنے میں ان نعمتوں کو نظرانداز کرنا اور ان کی تحقیر و تذلیل کرنا ہرگز درست نہیں۔ بات جو کہی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ یہی زندگی کا محور و مرکز نہ بن جائیں۔ اصل فیصلہ کن چیز دین و ایمان ہے، زندگی کا مقصود اور نصب العین، دین و اخلاق ہو اور دین و اخلاق کو بنیاد بنا کر زندگی کی تعمیر کی جائے۔ اس بنیاد کے ساتھ دنیا کی جو نعمتیں بھی میسر آجائیں وہ خدا کا انعام و اکرام ہے اور ان کو اللہ کا انعام و اکرام سمجھ کر ہی شکرگزاری کے گہرے جذبات کے ساتھ قبول کرنا چاہیے۔ لیکن دین وایمان سے محروم ہوکر جو بھی ملے وہ انعام و اکرام نہیں بلکہ خدا کا عذاب ہے، اس سے بچنے کی فکر کرنی چاہیے۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَo (التوبۃ ۹:۱۱۹) اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کا ساتھ دو۔
مان لینا، یقین کرنا، حقیقت کا ادراک کرلینا، ایمان ہے۔ قرآن ’اہلِ ایمان‘ کن لوگوں کو کہتا ہے؟ ’اہلِ ایمان‘ وہ ہیں جو اللہ کی ذات و صفات کا اس درجہ اِدراک حاصل کرلیں کہ پھر کوئی اور ان کی نظروں میں جچے ہی نہیں، وہ شدت سے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ ط (البقرہ ۲:۱۶۵) ’’اور ایمان رکھنے والے لوگ تو سب سے بڑھ کر اللہ سے محبت کرتے ہیں‘‘۔ خطاب ان لوگوں سے ہے جن کا محبوب اللہ ہے۔ ’محبوب‘ کا حکم ہے کہ اس سے محبت کرنے والے لوگ، اللہ (محبوب) ہی کا تقویٰ اختیار کریں۔
تقویٰ کا مادہ تقٰی یا وِقٰی ہے۔ اس کے معنی ہیں بچنا، خود کو کسی خطرے سے بچانا۔ قرآن متقی اس کو کہتا ہے جو اللہ سے شدید محبت کی وجہ سے خود کو اس کی ناراضی سے بچاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں جب ایمان اور عملِ صالح (محبوب کو راضی کرنے والے کام) جمع ہوتے ہیں، تو تقویٰ پیدا ہوتا ہے۔ اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے والا ہمیشہ محتاط رہتا ہے کہ اس سے کوئی ایسا عمل سرزد نہ ہونے پائے جو محبوب کی نظرِ التفا ت سے محرومی کا سبب بن جائے۔
’تقویٰ‘ کے اس مقام کی حفاظت کے لیے محبوب کی جانب سے دوسری اہم ہدایت ہے کہ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ ’’اور سچے لوگوں کے ساتھ رہو‘‘۔ یہاں امر کا صیغہ ہے۔ َکُوْنُوْا ’’ہوجائو، ہمیشہ رہو‘‘۔ مَعَ ’’ہمراہ، ساتھ، معیت میں‘‘۔
اس ہدایت میں ایک تنبیہہ ہے: ’’اکیلے نہ رہنا، اکیلے رہنا خطرے سے خالی نہیں‘‘۔ ہرذی روح اسی کی ہمراہی پسند کرتا ہے جو زیادہ سے زیادہ اس سے مماثلت رکھتا ہے، جن کی محبت، نفرت، منزلِ مقصود یکساں ہو۔ لہٰذا تم الصّٰدِقِیْنَ کی ہمراہی اختیار کرنا۔تمھارا باطن بھی ان کے ہمراہ ہوجائے اور ظاہر بھی ان کی مانند ہو۔ تمھاری نیت، ارادہ، تمھاری شکل و صورت ، اعمال و افعال سب صادقین کی طرح ہوں۔یہاں تاکید کے لیے ’ال‘ لگایا گیا ہے، یعنی خاص طور پر، انتہائی، بہت زیادہ صادق۔
بہت سچا، جس نے کبھی جھوٹ نہ بولا ہو، بلکہ سچ کا اس قدر خُوگر کہ اس سے جھوٹ بن ہی نہ پاتا ہو۔ قول و اعتقاد میں سچا! اپنی سچائی کی تصدیق اپنے عمل سے بھی کردکھائے۔ اس کا ہر کام ظاہروباطن کے اعتبار سے فضیلت کے ساتھ متصف ہو۔یہ تمام انبیا علیہم السلام کی صفت ہے۔ حضرت مریم علیہا السلام کے بارے میں فرمایا: اُمُّہٗ صِدِّیْقَۃٌ (المائدہ ۵:۷۵) ، یعنی وہ ایک راست باز عورت تھی۔ یہ جنت کی سردار خاتون کی صفت ہے۔
صدیقین: فضیلت میں انبیاے علیہم السلام سے کچھ کم درجے کے ہوتے ہیں۔ ان کے جانشین ہیں، ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہیں۔ غوروفکر کرنے والے، سنجیدہ اور سلیم الفطرت لوگ ہیں۔ شھید: فعال، بھاگ دوڑ کرنے والے، خوش گفتار، عملی جدوجہد میں پیش پیش، بے خطر معرکوں میں کود جانے والے۔ یہ دونوں قسم کی صفات توازن کے ساتھ صرف انبیاے علیہم السلام میں جمع ہوتی ہیں۔ ہمارے سامنے کامل مثال ایک ہی ہے اور وہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ نیتوں کا اخلاص اور عمل کی پاکیزگی،صدیق اور شہید دونوں کو ’مقربین‘ میں شامل کروا لیتے ہیں۔
صدیقین انبیا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعوت کو قبول کرتے ہیں، والہانہ پیش قدمی کرتے ہیں، ذرا بھی توقف نہیں کرتے۔ انھیں اس بارے میں ذرا شک و شبہہ نہیں ہوتا۔ چنانچہ وہ کوئی اعتراض کرتے ہیں ، نہ جرح ۔ دعوتِ حق کو قبول کرنے میں کسی تذبذب، تامّل یا تردّد میں مبتلا نہیں ہوتے۔ حق کی دعوت انھیں اپنی فطرت کی پکار معلوم ہوتی ہے۔ ان کے ایمان میں ایک والہانہ پن ہوتا ہے۔ فلسفۂ دین اور حکمت ِ قرآن کے لحاظ سے یہ ایک اہم بات ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’’میں نے جس کے سامنے بھی دعوت پیش کی، اس نے تھوڑی دیر کے لیے کچھ نہ کچھ توقف ضرور کیا سواے ابوبکرؓ کے، انھوں نے ایک لمحہ توقف کیے بغیر میری تصدیق کردی‘‘۔
ایمان کا ایسا ہی مظاہرہ واقعۂ معراج کے بعد ہوا۔ حضرت ابوبکرؓ نے واقعۂ معراج سنتے ہی تصدیق کی، جس پر بارگاہِ رسالت سے انھیں’صدیق‘ کا خطاب ملا۔ پوری اُمت کا اجماع ہے کہ وہ صدیقِ اکبر ہیں۔ یہ جذبۂ صدق و وفا اس درجے کا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی ایسی بات کا ذکر فرماتے جس پر لوگ تعجب کا اظہار کرتے تو آپؐ فرماتے: ’’(تم تعجب کرتے ہو تو کرو) مَیں اس پر ایمان لایا۔ اور ابوبکر اور عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہما) بھی ایمان لائے‘‘۔(بخاری)
زندگی کے ہرلمحے میں صدیق کی فطرتِ صالحہ کا اظہار ہوتا رہتا ہے۔ وہ اپنے جان و مال سے حق کا ساتھ دیتے ہیں۔ ہرمشکل اور کٹھن مرحلہ ان کے ایمان و عمل کو فزوںتر کرتا ہے۔ وہ تسلیم و رضا کے پیکر ہوتے ہیں۔ اپنے رب کے ہرفیصلے پر راضی، حتیٰ کہ ان کا رب ان کے بارے میں گواہی دیتا ہے:
مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ ج فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ صلے ز وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًا o (الاحزاب ۳۳:۲۳ ) ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچ کر دکھایا ہے۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ (کسی قسم کے حالات میں) انھوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔
صدیقین کے برعکس رویہ منافقین کا ہے۔ منافقین کم ہمت، بزدل اور مفاد پرست ہوتے ہیں، خودغرض اور خواہشات کے اسیر۔ ہرمعاملے کو خواہش اور مفاد پر تولتے ہیں، جہاں سے مفاد حاصل ہوتا نظر آئے، اس کے ہمراہ چل پڑتے ہیں، ورنہ ٹھٹھک کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔
بخاری میں سورئہ توبہ کی آیت ۱۱۹ کی تشریح میں، حضرت عبداللہؓ بن مسعود سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’صدق (سچائی) آدمی کو نیکی کی طرف لے جاتا ہے اور نیکی بہشت کی طرف لے جاتی ہے۔ اور آدمی سچ بولتا ہے، حتیٰ کہ صدیق کا مرتبہ حاصل کرلیتا ہے۔ اور کذب (جھوٹ) فجور کی طرف لے جاتا ہے اور فجور (نافرمانی) آگ کی طرف۔ اور آدمی جھوٹ بولتا چلاجاتا ہے، حتیٰ کہ اللہ کے نزدیک جھوٹا لکھا جاتا ہے۔ (بخاری)
صدیق کی زندگی میں، حرا سے بدر تک کے مراحل ہیں۔ اس میں ہجرت ہے، اُحد اور خندق کے معرکے ہیں، جان ومال کی قربانی ہے۔ قدم قدم پر قیامت ہے اور پھر فتح و کامرانی ہے۔ زندگی کا یہ سفر اکیلے طے کرنا بڑا مشکل ہے۔ کٹھن کام، ہم مزاج ساتھیوں کے ہمراہ آسان اور خوش گوار ہوجاتے ہیں۔ اس لیے حکم دیا جا رہا ہے کہ: صدیق و صادق بننا چاہتے ہو تو پھر صادقین کی ہمراہی اختیار کرو۔ سورئہ کہف میں اس امر کی یاددہانی ان الفاظ میں کروائی گئی:
وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہٗ وَ لَا تَعْدُ عَیْنٰکَ عَنْھُمْ ج (الکہف ۱۸:۲۸) اور اپنے دل کو ان لوگوں کی معیت پر مطمئن کرو، جو اپنے رب کی رضا کے طلب گار بن کر، صبح و شام اسے پکارتے ہیں، اور ان سے ہرگز نگاہ نہ پھیرو۔
انبیاے علیہم السلام کو بھی حکم دیا گیا کہ وہ اہلِ ایمان (اللہ سے شدید محبت کرنے والے لوگوں) کے ہمراہ رہیں۔انبیاے علیہم السلام کو کہا گیا کہ وہ اعلان کردیں: وَ اُمِرْتُ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَo (یونس ۱۰:۱۰۴) ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ایمان لانے والوں میں سے ہوں‘‘۔ اور یہ کہ: وَّ اُمِرْتُ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ o (النمل ۲۷:۹۱) ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مسلم بن کر رہوں‘‘۔
حضرت یوسف علیہ السلام حکومت میں ایک مؤثر اور اعلیٰ مقام ملنے کے بعد بھی، ایک ہی دعا مانگتے ہیں: تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَّ اَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَo(یوسف ۱۲:۱۰۱) ’’میرا خاتمہ اسلام پر کر اور انجامِ کار مجھے صالحین کے ساتھ ملا‘‘۔ حضرت سلیمان علیہ السلام تمام تر شاہانہ عظمت و جبروت کے اپنے رب کی نعمتوں پر اظہارِ تشکر کرتے ہوئے دعاگو ہیں: وَاَدْخِلْنِی بِرَحْمَتِکَ فِیْ عِبَادِکَ الصّٰلِحِیْنَo (النمل ۲۷:۱۹) ’’اور اپنی رحمت سے مجھ کو اپنے صالح بندوں میں داخل کر‘‘۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام فلاح و کام یابی کی خوش خبری کے باوجود ملتجی ہیں:رَبِّ ہَبْ لِیْ حُکْمًا وَّاَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ o (الشعراء ۲۶:۸۳) ’’اے میرے رب! مجھے حکم عطا کر اور مجھے صالحوں کے ساتھ ملا‘‘۔
دانش مندی یہ ہے کہ سچے اور صالح افراد کی ہمراہی نصیب ہوجائے۔ نجات اسی کے لیے ہے جواہلِ حق کے ساتھ رہا۔ فَاَنْجَیْنٰہُ وَ الَّذِیْنَ مَعَہٗ بِرَحْمَۃٍ مِّنَّا (الاعراف ۷:۷۲) ’’آخرکار ہم نے اپنی مہربانی سے اسے (ہود ؑ) اور اس کے ساتھیوں کو نجات (عذاب سے) دے دی‘‘۔ یہی معاملہ اس سے پہلے حضرت نوح علیہ السلام کے ساتھ ہوا: فَنَجَّیْنٰہُ وَ مَنْ مَّعَہٗ فِی الْفُلْکِ وَجَعَلْنٰھُمْ خَلٰٓئِفَ (یونس ۱۰:۷۳) ’’پس ہم نے اسے اور ان لوگوں کو جو اس کے ساتھ کشتی میں تھے، بچا لیا اور انھی کو زمین میں جانشین بنایا‘‘۔ حق اور اہلِ حق کا ساتھ نہ دینے والا غرق ہوکر رہتا ہے، اگرچہ وہ اہلِ حق کے سرکردہ افراد میں سے کسی کا قریب ترین عزیز ہی ہو۔ فَاَنْجَیْنٰہُ وَ اَھْلَہٗٓ اِلَّا امْرَاَتَہٗ صلیز کَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِیْنَo (الاعراف ۷:۸۳) ’’آخرکار ہم نے اسے (لوطؑ) اور اس کے ساتھیوں کو بچالیا سواے اس کی بیوی کے، وہ پیچھے رہ جانے والوں میں سے تھی‘‘۔
معاشرے کے کمزور اور کم حیثیت افراد بھی حق کا ساتھ دینے کے سبب معزز ہوجاتے ہیں۔ قوم کے اکابرین انھیں اراذل خیال کرتے ہیں۔ لیکن اکابرین کی حمایت حاصل ہونے کی اُمید پر بھی انبیاے علیہم السلام حق کا ساتھ دینے والے کمزور افراد کو خود سے دُور نہیں کرتے اور صاف صاف کہتے ہیں: ’’اور میں ان لوگوں کو دھتکارنے والا نہیں جو ایمان لے آئے‘‘ (ھود ۱۱:۲۹)، بلکہ وہ اپنے اللہ کے خوف سے لرزتے ہوئے کہتے ہیں: وَ یٰقَوْمِ مَنْ یَّنْصُرُنِیْ مِنَ اللّٰہِ اِنْ طَرَدْتُّھُمْ (ھود ۱۱:۳۰) ’’اور اے قوم! اگر میں دھتکار دوں تو مجھے اللہ (کے عذاب) سے کون بچائے گا‘‘۔ وَّ لَآ اَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ تَزْدَرِیْٓ اَعْیُنُکُمْ لَنْ یُّؤْتِیَھُمُ اللّٰہُ خَیْرًاط اَللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ صلیج اِنِّیْٓ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِیْنَo (ھود ۱۱:۳۱) ’’اور یہ بھی مَیں نہیں کہہ سکتا کہ جن لوگوں کو تمھاری آنکھیں حقارت سے دیکھتی ہیں انھیں اللہ نے کوئی بھلائی نہیں دی۔ ان کے نفس کا حال اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اگر مَیں ایسا کہوں تو ظالم ہوں گا‘‘۔
آج اہلِ حق (صادقین) کا ساتھ دینا اس لیے ضروری ہے کہ یوم الحساب کو غلط ساتھی اور ہمراہی کی معیت کا ہولناک انجام دیکھ کر، بندہ حسرت اور ندامت سے کہہ اُٹھے گا:یٰوَیْلَتٰی لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلاَنًا خَلِیْلًاo (الفرقان ۲۵:۲۸) ’’ہاے میری کم بختی! کاش میں فلاں (شخص) کو دوست نہ بناتا‘‘،بلکہ ہر ظالم تاسّف سے اپنے ہاتھ کاٹ کھائے گا اور کہے گا: یٰلَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًاo(الفرقان ۲۵:۲۷) ’’اے کاش! مَیں نے رسولؐ کا ساتھ دیا ہوتا‘‘۔
وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّھَدَآئِ وَ الصّٰلِحِیْنَ ج وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًاo(النساء ۴:۶۹) جو لوگ اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کریں گے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے، یعنی انبیا ؑ اور صدیقین اور شہدا اور صالحین۔ کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آئیں۔
جس کو یہ معزز رفقا میسر آجائیں پھر وہ ہراس فرد سے بے زاری کا اعلان کردیتا ہے جس کا محبوب کوئی اور ہو۔ حضرت ابراہیم ؑ نے تو علانیہ پوری قوم سے اظہارِ براء ت کردیا:’’تم لوگوں کے لیے ابراہیم ؑ اور اس کے ساتھیوں میں ایک اچھا نمونہ ہے کہ انھوں نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیا: ’’ہم تم سے اور تمھارے ان معبودوں سے جن کو تم اللہ کو چھوڑ کر پوجتے ہو، قطعی بیزار ہیں، ہم نے تم سے کفر کیا (تمھارے اس طرزِعمل کا انکار کیا) اور ہمارے اور تمھارے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت ہوگئی اور بَیر پڑگیا۔ جب تک تم اللہ واحد پر ایمان نہ لائو‘‘۔(الممتحنہ ۶۰:۴)
اس لیے کہ اس کا محبوب محبت کے معاملے میں بڑا غیرت مند ہے وہ اپنے محب کو غیرصادقین سے دوستی کی اجازت ہی نہیں دیتا۔ارشاد ہے:
اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو، اپنے باپوں اور بھائیوں کو بھی اپنا رفیق نہ بنائواگر وہ ایمان پر کفر کو ترجیح دیں۔ تم میں سے جو ان کو رفیق بنائیں گے وہی ظالم ہوں گے۔ اے نبیؐ، کہہ دو کہ اگر تمھارے باپ، اور تمھارے بیٹے، اور تمھارے بھائی، اور تمھاری بیویاں، اور تمھارے عزیز و اقارب، اور تمھارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور تمھارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑجانے کا تم کو خوف ہے، اور تمھارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں، تم کو اللہ اور اس کے رسولؐ اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں توانتظارکرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمھارے سامنے لے آئے، اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا۔(التوبۃ ۹:۲۳-۲۴)
والدین اور اُولوالارحام کے ساتھ حُسنِ سلوک اور صلۂ رحمی اپنی جگہ، مگر اتباع صرف اس راستے کا، جو اللہ کی طرف لے جاتا ہو، واضح ہدایت دے دی گئی:
اور یہ حقیقت ہے کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین کا حق پہچاننے کی خود تاکید کی ہے۔ اس کی ماں نے ضُعف پر ضُعف اُٹھا کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا، اور دو سال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے (اسی لیے ہم نے اُس کو نصیحت کی کہ) میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجالا، میری ہی طرف تجھے پلٹنا ہے۔لیکن اگر وہ تجھ پر دبائو ڈالیں کہ میرے ساتھ تو کسی ایسے کو شریک کرے جسے تو نہیں جانتا تو ان کی بات ہرگز نہ مان۔ دنیا میں ان کے ساتھ نیک برتائو کرتا رہ مگر پیروی اس شخص کے راستے کی کر جس نے میری طرف رجوع کیا ہے۔ پھر تم سب کو پلٹنا میری ہی طرف ہے، اس وقت میں تمھیں بتا دوں گا کہ تم کیسے عمل کرتے رہے ہو۔(لقمان ۳۱:۱۴-۱۵)
نبیؐ کو اور ان لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں، زیبا نہیں ہے کہ مشرکوں کے لیے مغفرت کی دعا کریں، چاہے وہ ان کے رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں، جب کہ ان پر یہ بات کھل چکی ہے کہ وہ جہنم کے مستحق ہیں۔ ابراہیم ؑ نے اپنے باپ کے لیے جو دعاے مغفرت کی تھی وہ تو اس وعدے کی وجہ سے تھی جو اس نے اپنے باپ سے کیا تھا۔ مگر جب اس پر یہ بات کھل گئی کہ اس کا باپ خدا کا دشمن ہے تو وہ اس سے بیزار ہوگیا، حق یہ ہے کہ ابراہیم ؑ بڑا رقیق القلب و خداترس اور بُردبار آدمی تھا۔(التوبۃ ۹:۱۱۴)
یہاں تک کہ غیرصادق چچا ہے تو اعلان کردیا گیا کہ تَبَّتْ یَدَآ اَبِیْ لَھَبٍ وَّتَبَّ o (اللھب۱۱۱:۱) ’’ٹوٹ گئے ابولہب کے ہاتھ اور وہ نامراد ہوگیا‘‘۔
ایمان قبول نہ کرنے والا بیٹا بھی غیربن جاتا ہے۔ پیغمبرؐ خدا اگر غیرصادق بیٹے کے بارے میں یہ کہہ بیٹھیں: رَبِّ اِنَّ ابْنِیْ مِنْ اَھْلِیْ (ھود ۱۱:۴۵)’’اے میرے رب! میرا بیٹا میرے گھروالوں میں سے ہے‘‘ تو واضح الفاظ میں کہہ دیا جاتا ہے: یٰنُوْحُ اِنَّہٗ لَیْسَ مِنْ اَھْلِکَ ج اِنَّہٗ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ(ھود ۱۱:۴۶)’’اے نوحؑ، وہ تیرے گھروالوں میں سے نہیں ہے، وہ تو ایک بگڑا ہوا کام ہے‘‘۔غیرصادقین تو ایک دوسرے کے ہی دوست ہیں۔ وَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ ط(الانفال ۸:۷۳) ’’جو لوگ منکرِحق ہیں وہ تو ایک دوسرے کے ساتھی ہیں‘‘۔
صادق ہونے کے لیے یہ کافی نہیں کہ وہ درست اور سچی بات کہہ رہا ہے۔ درست اور سچی بات تو کبھی کبھی جھوٹا آدمی بھی دہرا دیتا ہے۔ انسانی معاشرے میں انھیں صادق نہیں خیال کیا جاتا اور اللہ بھی انھیں جھوٹا کہتا ہے۔صادق دو بنیادی خصوصیات رکھتا ہے۔ ایک یہ کہ اس کی بات حقیقت کے مطابق ہوتی ہے۔ دوسرے وہ اس کے قلب و ضمیر کے مطابق ہوتی ہے۔ اس کی زبان اس کے دل کی ترجمان ہوتی ہے اور اس مطابقت کی گواہی اس کی عملی زندگی دیتی ہے۔
صادق اللہ سے سچی محبت رکھنے والا فرد ہے۔ وہ اپنی فداکاری، جانثاری اور قربانی سے یہ ثابت کردیتا ہے کہ وہ واقعتا اللہ کا وفادار ہے۔ ہرحال میں ثابت قدم رہنے والا،اپنے رب کے ہرحکم پر سرِاطاعت خم کردینے والا، اس کی رضا کے لیے سب کچھ قربان کردینے والا۔ اس کے شب و روز، اس کی دل چسپیاں، اس کی تگ و دو، اس کے دعواے محبت کے گواہ ہوتے ہیں۔ ایک جانب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت کا دعویٰ اور دوسری جانب زندگی، ان کی نافرمانی بلکہ سرکشی میں گزارنا، یہ وہ طرزِعمل ہے جس پر حضرت موسٰیؑ کو اپنی قوم سے کہنا پڑا: ’’تم مجھے کیوں ستاتے ہو؟‘‘ (الصف۶۱:۵)۔ قول و فعل میں تضاد غیرصادق فرد کی نمایاں علامت ہے۔
صادقین اُولوا الالباب ہیں، ہوش مند اور باشعور لوگ۔ یہ ہوش مند لوگ کائنات کے ذرّے ذرّے میں اپنے محبوب رب کی قدرت اور عظمت کو پہچانتے ہیں۔ چنانچہ ان کے دل اس کی خشیت سے لرزتے رہتے ہیں۔ یہ خشیت انھیں ہرلمحے اپنے محبوب سے جوڑے رکھتی ہے۔ وہ کھڑے، بیٹھے، لیٹے، ہرحال میں اپنے محبوب کو یاد کرتے ہیں۔ خوش حالی ، بدحالی، فقروفاقہ، خوف اور پریشانی___ کسی حال میں بھی اپنے رب کے ساتھ تعلق میں کمی نہیں ہونے دیتے۔
ان کے چہرے ان کے رب کے ساتھ تعلق کی گواہی دیتے ہیں۔ جونہی کسی جانب سے نداسنائی دے، جس میں انھیں ان کے رب کی طرف بلایا جارہا ہو، وہ اس کی طرف لپکتے ہیں۔ وہ اپنے رب سے محبت رکھنے والے ہمراہیوں (صادقین) کے ساتھ مطمئن رہتے ہیں۔ ان سے محبت کرتے ہیں اور ہمیشہ ان کی معیت کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کا جینا مرنا اور حشر انھی کے ساتھ ہو۔
وہ اپنے محبوب کی خاطر ہرخواہش، آرام اور تعلق ترک کردیتے ہیں۔ اَنْ تَھْجُرَ مَا کَرِہَ رَبُّکَ (نسائی) کوئی محبت اور تعلق ان کے پائوں کی زنجیر بن کر انھیں اللہ کے راستے سے روک نہیں سکتا۔ اس محبت اور تعلق کے باعث لوگ انھیں ان کے گھروں سے نکالنے کے درپے ہوتے ہیں۔ وَ اُوْذُوْا فِیْ سَبِیْلیِ وَقٰــتَلُوْا وَقُتِلُوْا (اٰل عمرٰن ۳:۱۹۵) ’’وہ اپنے رب کی خاطر ستائے جاتے ہیں، لڑتے ہیں اور مارے جاتے ہیں‘‘۔
نقد جان ہتھیلی پر رکھ کر اللہ کے دین کے غلبے کے لیے معرکۂ قتال میں آنا، نیکی کی بلند ترین چوٹی قرار دی گئی ہے۔ یہ صادقین بڑی ثابت قدمی سے باطل اور اہلِ باطل کا مقابلہ کرتے ہیں، اور حق کی خدمت کے لیے کمربستہ رہتے ہیں۔ ان کی زندگی عدل اور احسان پر استوار ہوتی ہے۔ وہ نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں دوسروں کے ساتھ تعاون کرتے ہیں، اور گناہ اور زیادتی کے کاموں میں اپنوں کا ساتھ بھی نہیں دیتے۔ یہ اپنے پسندیدہ مال ہر اس جگہ خرچ کرتے ہیں جہاں خرچ کرنا ان کے محبوب رب کو پسند ہو، جب کہ اسراف و تبذیر سے بچتے ہیں۔
ان کے قول و فعل، ان کے محبوب کے کلام قرآن ہی سے ماخوذ ہوتے ہیں۔ ان کی ذاتی اور اجتماعی زندگی اپنے رب کی رضا کے تابع ہوتی ہے۔ ان کی تجارتیں، عدالتیں، حکومتیں، رسوم و رواج، تعلقات، ان کی معاشرت، ان کے معاملات، سب قرآن پر مبنی ہوتے ہیں۔ اپنے اوقات، اپنی قوتوں اور مال کی نگرانی کرتے ہیں۔ لھو الحدیث کے خریدار نہیں بنتے۔ جدال اور بے مقصد بحث سے اجتناب کرتے ہیں۔ وہ زُور (جھوٹ، غلط کام) کے گواہ تک نہیں بنتے (قریب بھی نہیں جاتے)۔ وعدوں کو پورا کرتے ہیں۔ ہرحال میں صابروشاکر اور اپنے رب کے فیصلوں پر راضی رہنے والے لوگ ہیں۔ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ہرحال میں انجام دیتے ہیں اور اس معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہیں رکھتے۔ صلۂ رحمی کرنے والے، لوگوں کے نفع کے حریص، متواضع، نرم خُو، مہربان اور فیاض لوگ ہیں۔ بُرائی کا بدلہ بھلائی سے دینے والے۔ ان کی زبانوں پر یہ دعا جاری رہتی ہے:
رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّ اجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْکَ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًاo(بنی اسرائیل ۱۷:۸۰) میرے رب! مجھ کو جہاں بھی تو لے جا سچائی کے ساتھ لے جا اور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنادے۔
گویا ’صدق‘ وہ خصوصیت ہے جس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے قوت اور مدد نصیب ہوتی ہے۔ حق غالب آجاتا ہے اور باطل مٹ جاتا ہے۔بڑی یکسوئی اور ثابت قدمی کے ساتھ اپنے رب کی اطاعت کی روش پر کاربند رہنے کے باوجود یوم الحساب کی پیشی اور پکڑ سے لرزاں و ترساں رہتے ہیں اور رات کی آخری گھڑیوں میں اپنے اللہ سے اپنی مغفرت کی دعائیں مانگتے ہیں۔ وَالْمُسْتَغْفِرِیْنَ بِالْاَسْحَارِo(اٰل عمرٰن ۳:۱۷)
صادق کی تمام تر دوستی اور محبت صادقین کے ساتھ ہوتی ہے۔ ان کی دعا ہی یہ ہے:
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ أَسْئَلُکَ حُبَّکَ وَحُبَّ مَنْ یُّحِبُّکَ، اے اللہ! آپ سے آپ کی محبت کا سوال ہے اور ان کی محبت کا بھی جو آپ سے محبت رکھتے ہیں۔
اس محبت کو مضبوط تر کرنے کے لیے انھیں حکم دیا گیا کہ وہ ہرحال میں ان کے ساتھ خیرخواہی کریں۔ وہ تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں، لہٰذا ان کے ساتھ تعلقات درست رکھنے کی فکر کرتے ہیں۔ اپنے بھائیوں کے ساتھ عفو و درگزر کا رویہ رکھتے ہیں، ان کی غلطیوں کو نظراندازکرتے ہیں لیکن کسی حال میں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کو بھولتے نہیں___ تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کا طرزِعمل اُن کے تعلقات کو مضبوط تر کردیتا ہے۔
’اکرامِ مسلم‘ کا اظہار ان کی ہر ادا سے ہوتا ہے۔ وہ ان کے لیے سراسر سلامتی ہیں۔ سلامتیوں کو فروغ دیتے ہیں۔ انھیں اپنے ہاتھ اور زبان سے ایذا دینے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ وہ ان کی ضروریات کو اپنی خواہشات پر ترجیح دیتے ہیں۔ اپنے مال اور قوتوں سے اُن کی خدمت کے لیے تیار رہتے ہیں۔ یُؤْتِیْ مَا لَـہٗ یَتَزَکّٰی، وہ جانتے ہیں ’تزکیہ‘ کی اعلیٰ منزل اسی رابطے سے حاصل ہوتی ہے۔ وہ اپنے معاملات میں ان کے مشورے سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ انھیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہوتا ہے اور حقوق کی ادایگی میں کوتاہی نہیں کرتے۔
وہ تحائف کے تبادلے کے ذریعے محبتوں کو مضبوط بناتے ہیں، ایک دوسرے کی دعوت کو قبول کرتے ہیں، دوسروں کو کھلا کر خوش ہوتے ہیں۔ بیمار ہوں تو ان کی عیادت کے ذریعے جنت کے میوے چنتے ہیں۔ جنازوں کے ہمراہ جاتے ہیں۔ہر دکھ میں وہ اپنے بھائیوں کے لیے سہارا بن جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کے وقار میں اضافے کے لیے کوشش، ان کے طرزِعمل کی علامت بن جاتا ہے۔ وہ ہرحال میں ایک دوسرے کے لیے دل جوئی اور دلداری کا سامان کرتے ہیں۔ نرم خُو، شیریں دہن، سراپا شفقت، اللہ اپنے محبوب کی خاطر باہم شیروشکر ۔ یہ اللہ کے دشمنوں کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتے ہیں۔ وہ اپنی صفوں میں عدل و انصاف کے ساتھ اصلاح کے لیے کوشاں رہتے ہیں اور کفار کے لیے سخت ہوتے ہیں۔ اپنے بھائیوں کے ساتھ اخلاص اور خیرخواہی کا رویہ ہرلمحہ آشکار ہوتا ہے۔ وہ نہ صرف عملاً ان کی بھلائی کے حریص ہوتے ہیں بلکہ اپنی دعائوں میں انھیں شریک رکھتے ہیں:
رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِِیْمَانِ وَلاَ تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَـآ اِِنَّکَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ o(الحشر ۵۹:۱۰) اے ہمارے رب! ہمیں اور ہمارے ان سب بھائیوں کو بخش دے، جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں اور ہمارے دلوں میں اہلِ ایمان کے لیے کوئی بُغض نہ رکھ، اے ہمارے رب! تو بڑا مہربان اور رحیم ہے۔
وہ جنھیں انھوں نے دیکھا تک نہیں وہ ان کی غائبانہ محبت میں بھی گرفتار ہوتے ہیں کیونکہ وہ ان کے ’ایمان‘ کے ساتھی ہیں۔ وہ اپنے بھائیوں کے معاملے میں خودغرضی کی روش اختیار نہیں کرتے۔ انھیں دُکھ اور ایذا نہیں دیتے، ان سے حسد نہیں کرتے،ان پر لعن طعن نہیں کرتے، ان کا مذاق نہیں اُڑاتے، ان کی تذلیل و تحقیر نہیں کرتے۔
خلوص اور محبت بھرے دلوں میں بدگمانی، کینہ، بُغض کا گزر تک نہیں ہوتا بلکہ ان کا طرزِعمل عدل، احسان اور صلۂ رحمی پر مبنی ہوتا ہے۔ وہ بے حیائی ، ظلم اور زیادتی کے قریب بھی نہیں پھٹکتے۔ چونکہ ان کے ولأ (محبت، نصرت، قرب، مدد، دوستی) اور برأ (بُغض، بے زاری، دُوری) کا معیار ان کے محبوب اللہ رب العزت کے ساتھ تعلق پر ہے، اس لیے وہ نہ صرف صادقین کے ساتھ ولایت و دوستی کا اہتمام کرتے ہیں بلکہ ایسے لوگوں سے صاف صاف لاتعلقی اور براء ت کا اظہار کرتے ہیں۔
وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُکِّرَ بِاٰیٰتِ رَبِّہٖ فَاَعْرَضَ عَنْھَا (الکھف ۱۸:۵۷) اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہے جسے اس کے رب کی آیات سنا کر نصیحت کی جائے اور وہ اُن سے منہ پھیرے۔
ایسے لوگ اللہ کی نگاہ میں مجرم ہیں۔ اللہ والے اس وقت تک ان سے محبت کا تعلق نہیں رکھ سکتے جب تک وہ اپنے رب کی طرف پلٹ نہ آئیں۔ اس لیے کہ ان کے محبوب اللہ ہی کی دی ہوئی ہدایت ہے: وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِکْرِنَا وَ اتَّبَعَ ھَوٰہُ وَ کَانَ اَمْرُہٗ فُرُطًاo (الکھف ۱۸:۲۸) ’’کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے، اور جس نے اپنی خواہشِ نفس کی پیروی اختیار کرلی ہے، اور جس کا طریق کار افراط و تفریط پرمبنی ہے‘‘۔
صادق کون ہے؟ اور غیرصادق کون؟___ ان کا بڑا عمدہ موازنہ درج ذیل حدیث سے ہوتا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپؐ نے فرمایا:
ہلاک ہوجائیں عبدالدینار (دینار کا بندہ) اور عبدالدرہم (درہم کا بندہ) اور عبدالقطیفہ (ریشمی چادر کا بندہ) اور عبدالخمیصہ (لباس کی شان دکھانے والا)۔ اگر اسے عطا کیا جائے تو خوش ہوتا ہے،اور نہ دیا جائے تو ناخوش۔ ہلاک ہو اور سر نگوں ہو۔ اس کو کانٹا چبھے تو نہ نکلے۔
خوش خبری ہے اس بندے کے لیے جو اپنے گھوڑے کی لگام اللہ کی راہ میں پکڑے ہوئے ہے۔ اس کے سر کے بال پراگندہ اور پائوں غبارآلود ہوں۔ اگر وہ امام کی جانب سے پہرہ پر مقرر ہو تو پہرہ ہی دے، اور اگر فوج کے پیچھے حفاطت کے لیے مقرر کیا جائے تو لشکر کے پیچھے لگا رہے۔ اگر اندر آنے کی اجازت طلب کرے تو اجازت نہ ملے۔ اور اگر وہ کسی کی سفارش کرے تو اس کی سفارش نہ مانی جائے۔(بخاری، کتاب الجہاد)
صادق تو وہ ہے جسے عہدہ و مرتبہ کی خواہش نہیں، شان و شوکت مطلوب نہیں۔ جو کسی اجر اور بدلے کی طمع نہیں رکھتا، اپنے رب کی رضا کے لیے دن رات اپنی صلاحیتیں اور اپنے اوقات لگائے چلا جاتا ہے۔ایسے ہی صادقین کے لیے ان کا رب انعامات کا اعلان کرتا ہے۔
دنیا میں پیش آنے والے امتحانات ان کے درجات بڑھانے کا سبب بن جاتے ہیں۔ چنانچہ غزوئہ احزاب کے امتحان سے سرخ رو ہونے کے بعد ان کے محبوب اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
لِّیَجْزِیَ اللّٰہُ الصّٰدِقِیْنَ بِصِدْقِھِمْ وَ یُعَذِّبَ الْمُنٰفِقِیْنَ اِنْ شَآئَ اَوْ یَتُوْبَ عَلَیْھِمْ ط (الاحزاب ۳۳:۲۴) (یہ سب کچھ اس لیے ہوا) تاکہ اللہ سچوں کو ان کی سچائی کی جزا دے، اور منافقوں کو چاہے تو سزا دے اور چاہے تو ان کی توبہ قبول کرلے۔
یہ کامیاب و کامران صادقین اپنے رب کے ہاں حاضر ہوتے ہیں تو بہترین انعام اور اجر ان کے منتظر ہوتے ہیں۔ اعلان ہوتا ہے: قَالَ اللّٰہُ ھٰذَا یَوْمُ یَنْفَعُ الصّٰدِقِیْنَ صِدْقُھُمْ (المائدہ ۵:۱۱۹) ’’اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ’’یہ وہ دن ہے جس میں سچوں کو ان کی سچائی نفع دیتی ہے‘‘۔ عظیم الشان کامیابی کا یہ مقام ہی سچی عزت کی جگہ ہے۔جیساکہ ارشاد ہے: اِِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّنَہَرٍ o فِیْ مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِیکٍ مُّقْتَدِرٍ o (القمر۵۴:۵۴-۵۵) ’’متقین یقینا باغوں اور نہروں میں ہوں گے۔ سچی عزت کی جگہ، بڑے ذی اقتدار بادشاہ کے قریب‘‘۔سچی بات تو یہ ہے کہ عظیم المرتبت، مقتدر بادشاہ کے قُرب سے بڑھ کر عزت کا مقام کون سا ہوگا؟ چنانچہ یہ صادقین حصولِ انعام پر مقتدر بادشاہ کے ہاں اپنی قدرومنزلت دیکھ کر بجاطور پر اس کی حمدوثنا کریں گے:
وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِیْ صَدَقَنَا وَعْدَہُ وَاَوْرَثَنَا الْاَرْضَ نَتَبَوَّاُ مِنَ الْجَنَّۃِ حَیْثُ نَشَائُ ج فَنِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِیْنَo(الزمر ۳۹:۷۴) وہ کہیں گے شکر ہے اس اللہ کا جس نے ہمارے ساتھ اپنا وعدہ سچ کر دکھایا اور ہم کو زمین کا وارث بنا دیا۔ اب ہم جنت میں جہاں چاہیں اپنی جگہ بناسکتے ہیں۔ پس بہترین اجر ہے عمل کرنے والوں کے لیے۔
(آخری قسط)
ایک اور بحث جو اُٹھائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ قرآن و سنت کی شکل میں دستور کے ہوتے ہوئے کسی پارلیمان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ قانون سازی کرے۔ یہاں بھی پورے خلوصِ نیت کے باوجود ان اصطلاحات کا مفہوم ذہن میں واضح نہ ہونے کے سبب یہ سوال اُبھرتا ہے۔ قرآن و حدیث کے دستور ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان دو مصادر کو ہرمعاملے میں فوقیت حاصل ہوگی لیکن ان دونوں کو سامنے رکھتے ہوئے حالات و واقعات کے لحاظ سے نئے مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے اجتہاد، قیاس اور اجماع کے اصولوں کا استعمال کیا جائے گا۔ اجتہاد کا مطلب ہی یہ ہے کہ نصوص میں کوئی اجتہاد نہیں ہوتا، بلکہ جہاں نصوص خاموش ہوں وہاں نصوص کی روشنی میں راے کے قائم کرنے کا نام اجتہاد ہے۔ اگر اجتہاد کی بنیاد پر ایک صورتِ حال پر دوسری کو قیاس کرنا ہو تو اسے قیاس کہتے ہیں، اور جب اجتہاد پر ایک دور کے علما کا اتفاق ہوجائے تو اسے اجماع کہا جاتا ہے۔ وہ تمام مسائل اجتہادی کہے جاتے ہیں، جن کے بارے میں قرآن و سنت میں متعین طور پر واضح ہدایات موجود نہ ہوں۔
اسلامی نظامِ حکومت میں شوریٰ کو جو مرکزی مقام حاصل ہے، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ خلیفہ باوجود اپنے تقویٰ، علم اور فقہی علم کے، ایک انسان ہے۔ وہ کوئی معصوم ہستی نہیں ہے۔ اس کو دوسرے اہل الراے کے مقابلے میں اپنے یقین اور اپنی راے کو اس درجے اہمیت دینے اور اس کے مانے جانے پر اصرار کرنے کا حق نہیں ہے کہ وہ اپنی تنہا راے کے مقابلے میں دوسرے اہل الراے کی متفقہ راے یا ان کی اکثریت کو ردّ کردے۔ اگر ایک امرِاجتہادی میں کوئی خلیفہ اپنے یقین کو اس درجے شک و شبہے سے بالاتر سمجھتا ہے تو دوسرے الفاظ میں اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ اپنے آپ کو ایک معصوم شخص سمجھتا ہے۔مولانا امین احسن اصلاحی نے اپنی کتاب اسلامی ریاست (مطبوعہ دارالفکر، لاہور) میں یہی پوزیشن واضح کی ہے اور اس وضاحت کے بعد مولانا اصلاحی فرماتے ہیں: ’’خلیفہ کے لیے مجلس شوریٰ کی اکثریت کے فیصلوں کی پابندی ضروری ہونے کی اول دلیل تو وہ ہے جو صاحب ِ احکام القرآن ابوبکرجصاصؒ نے دی ہے کہ یہ شوریٰ کی فطرت کا اقتضا ہے کہ اہلِ شوریٰ کی اکثریت کے فیصلے کو تسلیم کیا جائے۔ اس لیے کہ یہ بات بالکل بے معنی سی معلوم ہوتی ہے کہ اسلام میں شوریٰ کا حکم تو اس شدومد سے دیا جائے اور مقصود صرف یہ ہو کہ چند لوگوں کو شریکِ مشورہ کر کے ذرا ان کی دل داری اور عزت افزائی کردی جائے۔ خلیفہ کے لیے ان کے مشوروں کی پابندی ضروری نہ ہو۔ صاحب ِ احکام القرآن کے نزدیک یہ شکل لوگوں کی دل داری اور عزت افزائی نہیں، ان کی دل شکنی اور توہین کے مترادف ہے‘‘۔(اسلامی ریاست، ص ۳۹)
اس دلیل کی طرف اشارہ کرنے کے بعد کہ ’’ایک شخص کے مقابلے میں ایک جماعت کی راے اپنے اندر صحت و اصابت کے زیادہ امکانات رکھتی ہے‘‘، مولانا فرماتے ہیں: ’’اس وجہ سے عقل و فطرت کا تقاضا یہی ہے کہ خلیفہ اپنی تنہا راے کے مقابلے میں یا اپنے ہم خیال افراد کی راے کے حق میں اکثریت کی راے کو ردّ نہ کرے۔آخر ایک اجتہادی یا مبنی بر مصلحت معاملے میں اس کو یہ علم کس طرح ہوا کہ اس کی راے صحیح اور دوسروں کی راے غلط ہے۔ صحت اور غلطی کا امکان دونوں طرف ہے لیکن صحت کا غالب امکان اس طرف ہے جس طرف اکثریت ہے۔ چنانچہ اسی بنیاد پر فرد کے مقابل میں جمہور کے مسلک اور انفرادی اجتہاد کے بالمقابل اجماع کو شریعت میں ترجیح دی گئی ہے‘‘۔ (ایضاً، ص ۳۹)
ہم نے اس طویل اقتباس کو اس لیے دینا پسند کیا کہ بعض حضرات پارلیمان کے حوالے سے یہ بات کہتے ہیں کہ اکثریت تو نااہل ہوتی ہے۔ اس سے قطع نظر کہ پاکستان میں اس وقت جو پارلیمنٹ پائی جاتی ہے اور جسے دستور شوریٰ کا نام دیتا ہے، اس میں نااہل افراد چاہے زیادہ ہوں، لیکن کیا اس بنا پر ایک اسلامی اصول کو ردّ کرنا شریعت سے مطابقت رکھتا ہے؟ ہونا یہ چاہیے کہ اصول بدلنے کے بجاے پارلیمنٹ میں ہی ایسے افراد لائے جائیں جو اہل، امانت دار اور دین کا علم رکھنے والے ہوں۔
دین کا کام کرنے والوں کو منفی فکر کی جگہ مثبت فکر کو اپنانا چاہیے اور قرآنِ کریم میں کسی ایک لفظ کے من مانے مفہوم نکالنے سے بچنا چاہیے۔ اگر قرآنِ کریم منکرینِ حق کے بارے میں کہتا ہے کہ ان میں سے اکثر ایسے ہیں جو عقل استعمال نہیں کرتے یا سمجھتے نہیں، تو اکثر کا یہ مفہوم لینا کہ مسلمانوں میں بھی اکثریت جاہلوں کی ہی ہوگی، بہت نامناسب بات ہے۔ شوریٰ کے اصول کی وضاحت کرتے ہوئے ہم یہ بات عرض کرچکے ہیں کہ شوریٰ کی اکثریت کے فیصلے کو ماننا کسی بھی جماعت کے امیر پر دینی طور پر واجب ہے۔ یہی شکل باشعور پارلیمنٹ میں بھی اختیار کی جائے گی۔
اگر پاکستان کا دستور یہ کہتا ہے کہ وہ ایک اسلامی ریاست ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہے کہ حاکمیت صرف اللہ کے لیے ہے، اور دستور کی دفعہ یہ کہتی ہے: شوریٰ یا پارلیمنٹ جو دستورسازی بھی کرے گی وہ قرآن و سنت کے مطابق ہوگی، اس کے خلاف نہ ہوگی لیکن بعض ممبران پارلیمنٹ اس کی خلاف ورزی کریں، تو معقول رویہ کیا یہ ہوگا کہ پارلیمان کو توڑ دیا جائے، دستور کو پھینک دیا جائے اور ایک ’جہاد‘ کے ذریعے نیا نظام نافذ کردیا جائے، یا پارلیمان میں ایسے افراد کو لایا جائے جو دستور کی پابندی اور قرآن و سنت کی روشنی میں قانون سازی کریں۔
یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ شریعت اور قانون سازی کی اصطلاحات معروف علمی اصطلاحات ہیں۔ انھیں سمجھے بغیر جو تعبیر کسی کے ذہن میں آجائے اسے لے لینا اور عاجلانہ نتائج اخذ کرلینا ایک غیردانش مندانہ رویہ ہے۔ شریعت کی اصطلاح صرف قرآن و سنت کے لیے استعمال ہوتی ہے، جب کہ قانون سازی روزِ اوّل سے ان اسلامی اداروں نے کی ہے، جو شریعت اور حالاتِ حاضرہ کا علم رکھتے ہوں۔ اگر قرآن کریم یا حدیث شریف میں براہِ راست ٹیسٹ ٹیوب بے بی کا ذکر نہیں پایاجاتا، تو یہ کام قرآن و سنت سے واقف ماہرین کا ہوگا کہ وہ قرآن و سنت کے واضح احکام اور بالواسطہ ہدایات کو سامنے رکھتے ہوئے اس نئے معاملے میں اجتہاد کے بعد قانون سازی کریں۔ ان کا یہ کرنا دینی فریضہ ہوگا، دین سے انحراف نہیں ہوگا۔ قانون سازی ہمیشہ انسانی اداروں نے ہی کی ہے۔ یہ ایک دینی اور معاشرتی ضرورت ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتاتو اجتہاد کی کوئی گنجایش اسلام میں نہیں ہونی چاہیے تھی۔ آخر امام مالک ہوں یا امام ابوحنیفہ ، امام شافعی ہوں یا امام احمد ابن حنبل، یا امام جعفر صادق یا امام ابن تیمیہ یا امام شاہ ولی اللہ دہلوی ہوں، ان حضرات نے قرآن و سنت کی بنیاد پر جو اجتہاد کیا اور پھر اس پر اجماع ہوا اور مسلم ریاستوں نے اس کی بنیاد پر قانون سازی کی، تو کیا یہ سب شرک کے مرتکب ہوئے؟
دین میں توازن اور عدل شرط ہے۔ جذباتیت سے بلند ہوکر اور دین کے مصادر کو سبقاً سبقاً سمجھنے کے بعد ان معاملات پر راے قائم کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ نوجوان نسل کسی انتہاپسندی کی شکار نہ ہو۔ قانون سازی کی بنیاد ہمیشہ قرآن و سنت رہی ہے اور رہے گی لیکن قانون سازی ہمیشہ ادارے اور افراد ہی کریں گے۔ اور ان کا ایسا کرنا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے خلفا اور بعد میں آنے والے ائمہ فقہا کی روایت پر عمل کرنا ہے۔ دورِجدید میں یہ کام پارلیمنٹ کرسکتی ہے اگر اس میں ایسے افراد منتخب ہوں، جو قرآن و سنت اور اسلامی فقہ میں مہارت رکھتے ہوں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پارلیمنٹ ایسے بااختیار بورڈ بنائے جو اسے قانون سازی میں مدد دیں۔ یہ خیال نہ شرعی طور پر اور نہ عقلی طور پر درست ہے کہ بغیر کسی قانون سازی کے صرف قرآن و حدیث کو دستور مان لینا مسائل کا حل ہے۔ جہاں تک قرآن و حدیث کے دستور ہونے کا تعلق ہے، یہ تو وہ بنیادی حقیقت ہے جو شرطِ ایمان ہے اور اس میں کسی اختلاف کی گنجایش نہیں، لیکن عقلِ عام (common sense ) کو استعمال کر کے یہ دیکھا جائے کہ کیا دنیا میں کسی جگہ بھی دستور اور قانون دونوں کا مفہوم ایک پایا جاتا ہے؟ کیا ایسے ممالک نہیں ہیں جہاں تحریری دستور نہیں ہے لیکن قانون ہے یا جہاں چند صفحات کا دستور ہے، جب کہ بیسیوں جلدوں میں قانون ہے۔ کیا فتاویٰ عالم گیری جو اورنگ زیب عالم گیر یا مجلّہ احکام عدلیہ جو عثمانی فرماں روا نے وضع کیا، قرآن کریم اور حدیث کے ہوتے ہوئے ایک کافرانہ، مشرکانہ یا طاغوتی اقدام تھا؟
دعوتِ دین کی حکمت عملی اور نفاذ احکامِ شریعت کی حکمت عملی ایک اہم موضوع ہے اور جب تک اس میں اولیات یا ترجیحات (priorities) کا تعین نہ کیا جائے، حصولِ مقصد میں دقت اور مشکل پیش آسکتی ہے۔ اس لیے پاکستان میں شریعت کا نفاذ ہو یا کہیں اور، قرآن و سنت اور انبیاے کرام ؑ کے طریقِ دعوت کو سامنے رکھتے ہوئے مقام اور صورتِ حال کی مناسبت سے حکمت عملی کا وضع کرنا، ہرمقام پر درست حکمت عملی ہوگی، جو حالات اور مقامات کے لحاظ سے وضع کی جائے، جب کہ ہر حکمت عملی کا مشترک نکتہ اللہ کی حاکمیت کا قیام اور طاغوت کا انکار ہوگا۔
خلافت علی منہاج النبوہ کا واضح مفہوم یہ ہے کہ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیاسی، معاشرتی، معاشی اور دیگرمعاملات میں ایک جانب اللہ کی بھیجی ہوئی ہدایت ’القرآن‘ کو اور دوسری جانب قرآن کی تشریح اور اس پر مبنی تشریع کو اختیار فرمایا، اسی طرح دین کے مکمل ہوجانے کے بعد آپؐ کے بعد خلفا نے قرآن و سنت کو مصدراوّل مانتے ہوئے، حالات کی مناسبت سے مشاورت و اجتہاد کو استعمال کیا۔ حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ کے اجتہادات غیرمعمولی طور پر یہ شہادت دیتے ہیں کہ قانون سازی مشاورت کے ساتھ کیسے کی جاتی ہے۔
خلفاے راشدین کے بعد سب سے بڑا سانحہ، انتخاب سربراہِ مملکت کے حوالے سے، انتخابی خلافت کو موروثی حکومت میں تبدیل کرنے کا تھا۔ حضرت عمرؓ نے اس تحریف کے امکان کو سمجھتے ہوئے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے بارے میں، گو وہ علم و تجربے اور تقویٰ میں کسی سے کم نہ تھے اور خلیفہ بننے کی شرائط پر پورے اُترتے تھے، یہ حکم دیا کہ وہ مشاورت میں شامل رہیں لیکن انھیں خلیفہ نہ بنایا جائے تاکہ موروثی حکومت کا آغاز نہ ہوسکے۔ یہی شکل حضرت علیؓ کی شہادت میں پیش آئی، جب آپؓ سے پوچھا گیا کہ کیا حضرت حسنؓ کو خلیفہ بنایا جائے تو آپؓ نے فرمایا: یہ فیصلہ لوگ مسجد میں کریں گے، میں نہ منع کرتا ہوں نہ حکم دیتا ہوں۔ گویا خلیفہ کے انتخاب کا حق عوام کو دیا جانا سنت ِ خلفاے راشدین ہے۔
خلافت ِ راشدہ کے بعد جو لوگ حکمران ہوئے، بہ استثنا حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ، وہ حکمران تو مانے گئے لیکن انھیں خلیفہ نہیں مانا گیا۔ گو، وہ خود کو خلیفہ کہتے اور کہلواتے رہے۔ اسی بناپر اُمویوں کی حکومت دمشق میں ہو یا قرطبہ میں، فاطمین کی حکومت مصر میں ہو ، عثمانیوں کی حکومت ترکی اور شام و عراق پر ہو،ان میں سے کسی کو بھی ہم صحیح معنوں میں خلافت اور حکمرانوں کو خلیفہ نہیں کہہ سکتے۔ ہم صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ مسلمان سلاطین کا دور تھا۔ عثمانیوں کی حکومت کو خلافت راشدہ کا تسلسل کہنا تاریخ کے ساتھ ظلم ہے۔
ایک بنیادی سوال جو ہم میں سے ہر ایک کو اپنے آپ سے کرنا چاہیے، یہ ہے کہ اگر ایک اُموی فرماں روا اپنی زندگی میں اپنے بعد حکومت کرنے کے لیے اپنے بیٹے یا بھائی کو مقرر کرتا ہے، تو اس کا یہ کرنا، قرآن کریم کی آیت اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ (انعام ۶:۵۷) کے مطابق درست ہے یا غلط؟ یہی سوال فاطمین مصر اور عثمانی فرماں روائوں کے حوالے سے اُٹھانے کی ضرورت ہے۔
ہمیں چاہیے کہ جذبات سے بالاتر ہوکر قرآن و سنت کے مطالعے کے بعد پہلے یہ طے کریں کہ حاکمیت اعلیٰ سے مراد کیا ہے؟ پھر قرآن و سنت کو دستور مانتے ہوئے یہ طے کریں کہ اس دستور کی روشنی میں قانون سازی کون کرے اور جو یہ کام کرے گا اس کی خصوصیات کیا ہونی چاہییں؟ پھر اِن خصوصیات کے افراد کو اُن اداروں میں لایا جائے جو قانون سازی کرنے کے ذمہ دار قرار دیے گئے ہوں۔
یہ کہنا کافی نہیں ہے کہ چونکہ ۶۶سال میں جو لوگ پارلیمنٹ میں منتخب ہوئے وہ کردار اور عمل کے لحاظ سے اچھے نہیں تھے، اس لیے پارلیمنٹ کا ادارہ ہی غلط ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ عدلیہ میں ایسے جج مقرر ہوجائیں جو رشوت خور ہوں، تو کیا اس بناپر عدلیہ کے ادارے کو ختم کرنا بہتر ہوگا یا ایسی شرائط کا لگانا جن کی بناپر عدلیہ میں صرف ایمان دار لوگ آسکیں۔
پھر یہ کہنا کہ مغربی جمہوریت میں فیصلے کے لیے ۵۱ فی صد ووٹ کا ہونا کافی ہے، جب کہ اسلام کسی تناسب کا قائل نہیں ہے، سادہ لوحی کے سوا کچھ نہیں۔ فقہ اسلامی کے بنیادی اصولِ اجماع کا مطلب کیا ہے؟ کیا اجماع ہمیشہ ۹۰ فی صد افراد کی راے پر ہوگا یا ۵۱ فی صد راے پر بھی اجماع ہوجائے گا؟
ایک سوال جو بار بار اُٹھایا جاتا ہے، یہ ہے کہ کیا مغربی جمہوریت کی اصلاح ہوسکتی ہے اور اگر اصلاح کی جائے تو کس طرح؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ اگر ایک مثال کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس پر غور کیا جائے تو شاید ہمیں سمجھنے میں آسانی ہو۔ اگر یہ سوال کیا جائے کہ کیا ایک مشرک جو سات پشتوں سے شرک میں پلابڑھا ہو، مسلمان ہوسکتا ہے یا نہیں، یا جب تک اس کے جسم کے خون کا ہرقطرہ جو حرام پر پلا بڑھا تھا، نکال کر جسم میں نیا اور پاک خون ڈال کر پہلے پاک صاف نہ کیا جائے، اس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتا تو ایسی صورتِ حال میں عقل کا فیصلہ کیا ہوگا؟
قرآن کریم نے سود کی ابدی حُرمت کے ساتھ کیا یہ بات نہیں کہی کہ جو حرام ماضی میں کھاچکے وہ کھاچکے اب آیندہ ایک رتی کے برابر سود بھی نہ لیا جائے۔ اس لیے اگر ایک تنظیمی ڈھانچا ایسا ہے جس میں ایک بادشاہ ہے یا فوجی آمر، یا غیرفوجی آمر ہے، اس کے تحت بے بس پارلیمنٹ ہے، بے بس عدلیہ ہے، بے بس پولیس ہے، بے بس سول انتظامیہ ہے اور اس تنظیم کو درست کرنا ہو تو کیا محض آمر کو مار کر تمام نظام ایک دم درست ہوجائے گا یا سارے نظام کو تہس نہس کرکے نئے سرے سے ایک تنظیمی ڈھانچا بنایا جائے گا، یا یہ طے کیا جائے گا کہ سب سے اہم اور اوّلین اقدام کیا ہو۔ عقل کہتی ہے کہ سب سے پہلے آمریت یا بادشاہت کی جگہ ایسے افراد کو لایا جائے، جو عدل و انصاف کے علَم بردار ہوں اور موروثی بادشاہت یا آمریت کے قائل نہ ہوں۔ ایسے ہی عدلیہ میں ایک تدریج اور ترتیب کے ساتھ ایسے افراد کو لایا جائے، جو اللہ کا خوف رکھتے ہوں اور دینی علم کی دولت سے مالامال ہوں، نیز اس کے ساتھ ہی نظام میں قانون سازی سے وہ تبدیلیاں لائی جائیں جو نظام کو اسلامی اصولِ عدل کے مطابق بناسکیں۔
اس کے مقابلے میں یہ راے بھی لازماً قابلِ غور ہوسکتی ہے کہ ایک سہانی صبح کو عدلیہ، پارلیمنٹ، پولیس، فوج، قصرصدارت، کابینہ، غرض ہرادارے کو تحلیل کرکے ایک نئے نظام کا اعلان کردیا جائے۔ اس راے کے قائم کرنے سے کسی کو روکنے کا حق نہیں لیکن کیا یہ راے انسانوں کی دنیا میں آج تک قابلِ عمل ہوسکی؟ کیا افرادِکار کی تیاری، اداروں میں قانون سازی کے ذریعے اصلاح و تبدیلی اور بتدریج اصلاحی عمل کے بغیر دنیا میں کہیں بھی کوئی نظام کامیاب ہوا ہے؟ کیا صحابہ کرامؓ کی سیرت سازی، تزکیہ و تربیت اور مصائب و مشکلات سے گزارے بغیر ممکن تھی، اور کیا آج بھی انسانوں کی ماہیت ِقلبی کے بغیر اسلامی نظام نافذ ہوسکتا ہے؟
بلاشبہہ ایک مسلمان کی معاشی ظلم کے خلاف جدوجہد ہو، مشرکانہ، کافرانہ فکر کے خلاف مہم ہو، اپنی جان و مال کے ساتھ طاغوت کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونا ہو، نفس کے مطالبات کے خلاف جنگ کرنا ہو، یہ سب جہاد کی تعریف میں آتے ہیں۔ لیکن جہاد اسباب کی تیاری کے بغیر، جہاد حکمت عملی کے بغیر، جہاد اہداف کے تعین کے بغیر، جہاد ترجیحات کے بغیر ایک نیک خواہش تو ہوسکتا ہے، ایک تعمیری عمل نہیں ہوسکتا۔
یہ مسئلہ پاکستان میں نہیں، تمام دنیا میں جہاں بھی انتخابات کے ذریعے لوگ منتخب کیے جاتے ہیں، پایا جاتا ہے۔ اس کا حل نظام کو اُٹھا کر پھینک دینا نہیں ہے بلکہ تعلیم، ابلاغ عامہ اور انتخابات کی اہمیت کے پیش نظر عوام کو ان کے حقوق سے آگاہ کرنے کے عمل کی ضرورت ہے۔ اگر انتخابات سے چھے ماہ پہلے سے عوام کو ان معاملات کا شعور دلایا جائے تو ووٹروں کی تعداد میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے اور عوام اچھے اور نیک افراد کو ووٹ دینے کا فیصلہ بھی کرسکتے ہیں۔ یہ ایک تعلیمی اور ابلاغی معاملہ ہے۔ اس کا کوئی تعلق جمہوریت کے اچھے یا بُرے ہونے سے نہیں ہے۔
اگر جائزہ لیا جائے تو چاروں خلفاے راشدین کے انتخاب میں حل و عقد کی حیثیت بنیادی تھی۔ اہلِ مدینہ نے جس کو منتخب کیا، پورے عالمِ اسلامی نے اس کی قیادت کو تسلیم کیا۔ یہ تعداد کُل مسلم آبادی کا ایک بہت چھوٹا تناسب رکھتی تھی۔ اس کے باوجود خلافت قائم ہوئی اور لوگوں نے اس کی اطاعت اور تعاون میں کمی نہیں کی۔عوام کے انتخابات میں زیادہ تعداد میں حصہ لینے کے پہلو کو تعلیم اور جدید ٹکنالوجی کے ذریعے بہت بہتر بنایا جاسکتا ہے، تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد ووٹ کا استعمال کرسکیں۔
ایک غیرضروری سوال نظر آتا ہے۔ اسلامی تحریکات خصوصاً جماعت اسلامی پاکستان نے ہمیشہ اسلامی نظام کے قیام کے لیے جدوجہد کی ہے اور اپنے لٹریچر اور دیگر ذرائع کے استعمال سے اسلامی نظام کے قیام ہی کا مطالبہ کیا ہے۔ لیکن تحریکاتِ اسلامی یہ بات بھی تسلیم کرتی ہیں کہ مغربی لادینی جمہوریت کی تمام خامیوں کے باوجود اگر کسی ملک کا دستور حاکمیت اعلیٰ صرف اللہ کے لیے تسلیم کرتا ہو اور شریعت پر مبنی قانون کے نفاذ کا دعویٰ کرتا ہو، تو عبوری دور کے لیے ایسے نظام میں شرکت نہ شرک کی تعریف میں آتی ہے نہ کفر اور نہ طاغوت کی۔ اگر ووٹ، عوامی راے کے استعمال اور پارلیمان میں قانون سازی کے ذریعے اسلامی نظام تعلیم، معیشت و قانون اور ابلاغِ عامہ میں صحت مند تبدیلی لائی جاسکتی ہے تو اس کی کوشش کرنا تحریکاتِ اسلامی کا فرض ہے۔ دین یہ مطالبہ کرتا ہے کہ دعوت و اصلاح کے لیے تمام ممکنہ ذرائع کو استعمال کیا جائے اور صرف ان کاموں سے بچا جائے، جہاں قرآن و سنت کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ حلال و حرام کو قرآن و سنت نے طے کردیا ہے لیکن مباح کے دائرے میں آنے والی چیزوں کو بغیر کسی دلیلِ شرعی کے حرام قراردینا، دینی حکمت کے منافی ہے۔ جب تک ایک ملک کا دستور اللہ کی حاکمیت کا اقرار اور شریعت کی بالادستی کو تسلیم کرتا ہے، اس دستور کے تحت سیاسی، معاشی اور دیگر سرگرمیاں نہ شرک ہوسکتی ہیں نہ کفر۔
اگر پارلیمان کوئی قانون خلافِ شریعت بنانا چاہتی ہو جیساکہ ماضی میں ہوا کہ تحفظ خواتین کے نام پر اللہ اور اس کے رسولؐ کی مقرر کی ہوئی سزائوں کو تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی، تو ایسے قوانین کو وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کر کے کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے۔ پارلیمنٹ کا ایک غلط فیصلہ بجاے خود پارلیمنٹ کے ادارے کو قابلِ گردن زدنی نہیں بنادیتا۔یہ تصور کہ پارلیمان کو قانون سازی کا اختیار ہی نہیں ہے، ایک بے بنیاد بات ہے۔ اگر دستورپاکستان پارلیمان کو یہ حق دیتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ پارلیمان کی ہرقرارداد ہمیشہ درست ہوگی۔ پارلیمان انسانوں کا اجتماع ہے اور اگر یہ انسان قرآن و سنت کے معیار پر پورے اُترتے ہوں، تو اُمید کی جاتی ہے کہ وہ جو قانون بھی بنائیں گے اس کی بنیاد شریعت ہوگی۔ خلافت راشدہ میں بھی شوریٰ یہ کام کرتی تھی۔ آج بھی شوریٰ یا پارلیمان یہ کام کرسکتے ہیں۔
یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ پاکستان کے قیام کے فوراً بعد دستورساز اسمبلی میں علما پر مبنی ایک تعلیماتِ اسلامی بورڈ قائم کیا گیا تھا، جس میں ملک کے جید علما بشمول مولانا سیّد سلیمان ندوی، مفتی محمد شفیع اور علامہ جعفرحسین مجتہد شامل تھے۔ ان کی سفارشات کی روشنی میں دستور کا اولین مسودہ تیار کیا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ فوجی اور غیرفوجی آمروں نے دستور پر صحیح معنوں میں عمل نہ کرنے دیا۔ اس میں قصور نہ دستور کا ہے نہ پارلیمان کا، بلکہ وہ افراد اللہ اور اہلِ پاکستان کے سامنے جواب دہ ہیں، جو اس کام میں رکاوٹیں ڈالتے رہے۔
صحابی حاضر ہوئے اور عرض کیا: یارسولؐ اللہ! لوگوں میں سے بہتر کون ہے؟آپؐ نے فرمایا: مَن طَالَ عُمرُہُ وَ حَسُنَ عَمَلُہُ،’’ جسے لمبی عمر ملی اور اس کے عمل نیک رہے‘‘۔ الحمدللہ ۳۵سے زائد شان دار کتابوں کے مصنف محمد قطب بھی انھی خوش نصیب انسانوں میں سے ہیں۔ ۹۵برس کی عمر پائی اور آخری لمحہ تک اللہ کی اطاعت و بندگی میں گزرا۔ ۴جمادی الثانی ۱۴۳۵ھ، ۴؍اپریل ۲۰۱۴ء کو رخصت بھی ہوئے تو یہ جمعۃ المبارک کی قیمتی گھڑیاں تھیں اور اللہ نے حرم مکہ میں لاکھوں نمازیوں کو ان کی نماز جنازہ میں شریک کردیا۔
محمد قطب، مفسر قرآن اور شہید ِاسلام سید قطب کے بھائی تھے۔ ان کی تین بہنیں تھیں۔ سب سے بڑی بہن نفیسہ، سیّد قطب سے تین برس بڑی تھیں، پھر خود ان کا نمبر تھا۔ دوسری بہن امینہ ان سے چھوٹی تھیں اور پھر محمد قطب کا نمبر تھا، جو سیّد قطب سے ۱۳ سال چھوٹے تھے، اور ان کے بعد سب سے چھوٹی بہن حمیدہ تھیں۔ والد جناب قطب ابراہیم پورے خاندان کے بڑے سمجھے جاتے تھے، جنھیں خاندانی وجاہت اور دین داری اپنے والد سے ورثے میں ملی تھی۔ بچپن سے ہی بچوں کو خوفِ آخرت کی گھٹی دی اور عبادات و فرائض کا خوگر بنایا۔ والدہ بھی ایک علمی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اور ان کے دو بھائیوں نے جامعۃ الازہر سے اعلیٰ دینی تعلیم حاصل کی تھی۔
سیّد قطب سے ۱۳ برس چھوٹا ہونے کے باعث محمد قطب کو بھائی کی صورت میں والد کا پیار ملا اور اُستاد کی تربیت بھی۔ اپنی پہلی کتاب سخریات صغیرۃ کا انتساب انھوں نے سیّد بھائی ہی کے نام کیا۔ لکھتے ہیں: ’’اپنے بھائی کے نام، جنھوں نے مجھے پڑھنا لکھنا سکھایا، جنھوں نے بچپن سے ہی مجھے اپنی سرپرستی میں لے لیا۔ وہ میرے لیے والد کا مقام بھی رکھتے تھے، میرے بھائی بھی تھے اور انتہائی عزیز دوست بھی۔ میں اپنی کتاب انھی کے نام کرتا ہوں، شاید کہ مجھ پر عائد ان کے گراں قدر قرض میں سے کچھ ادا ہوجائے‘‘۔
سیّد قطب نے بھی اپنے چھوٹے بھائی سے بہت اُمیدیں وابستہ کررکھی تھیں۔ انھوں نے اپنا شعری دیوان الشاطئ المجہول (نامعلوم ساحل) شائع کیا تو اسے ان اشعار کے ساتھ بھائی سے وابستہ کیا:
أَخِی ذٰلِکَ اللَّفظُ الَّذِي فِی حُرُوفِہٖ
رُمُوزٌ وَ أَلغَازٌ لِشَتّٰی العَوَاطِفِ
أَخِي ذٰلِکَ اللَّحنُ الَّذِي فِی رَنِینِہٖ
تَرَانِیمُ اِخلَاصٍ وِ رَیَّا تَآلُفِ
(’میرا بھائی‘ ایک ایسا لفظ کہ جس کے حروف میں محبتوں کی تمام راز و رموز پنہاں ہیں۔ ’’میرا بھائی‘‘ لفظ ہی ایک ایسا نغمہ ہے کہ جس میں اخلاص و محبت کے تمام تر نم پوشیدہ ہیں۔ )
اسی منظوم انتساب میں سیّد قطب کہتے ہیں:
فَأَنتَ عَزَائِي فِي حَیَاۃٍ قَصِیرَۃٍ
وَ أَنتَ امتِدَادِي فِي الحَیَاۃِ وَ خَالِفِي
(تم میری اس مختصر زندگی کی ڈھارس ہو.. تم زندگی میں میرا تسلسل اور میرے بعد میرے اصل وارث ہو۔)
گویا سیّد قطب، بھائی میں صفات و خوبیاں ہی نہیںدیکھ رہے تھے، ان کی لمبی عمر کے لیے بھی دُعاگو تھے۔ مفسرِ قرآن کے دونوں اندازے درست نکلے۔ محمدقطب نے نہ صرف ۹۵ سالہ بابرکت زندگی پائی، بلکہ سیّد قطب کی حیات کے بعد بھی تقریباً نصف صدی تک علم و تحقیق کے معرکے سر کرتے رہے۔
محمد پر بڑے بھائی سیّد کا اثر انتہائی گہرا تھا۔ وہ ایف اے کے بعد عربی ادب پڑھنا چاہتے تھے، لیکن خود کہتے ہیں کہ : ’’سیّد بھائی نے مشورہ دیا کہ انگریزی زبان و ادب میں تعلیم حاصل کرو اور میں نے ان کی بات مان لی‘‘۔ شاید ذہن میں ہوگا : ’’تاکہ تم اسلام کے خلاف ہونے والے حملوں اور تشکیک و شبہات، کا جواب دے سکو‘‘۔ محمد قطب ۱۹۴۹ء میں تعلیم سے فارغ ہوئے اور ۱۹۵۱ئمیں ان کی پہلی اور انتہائی شان دار کتاب منظر عام پر آئی: الإنسان بین المادیۃ والإسلام (انسان مادیت اور اسلام کے مابین)۔ اس میں انھوں نے فرائڈ جیسے کٹر منکرین حق کے نام نہاد فلسفوں کا مسکت جواب دیا۔ اسی طرح اُنھوں نے اپنی کتاب مذاہب فکریۃ معاصرۃ (معاصر نظریاتی رحجانات)میں بھی مغربی فلسفیوں کا بخوبی محاکمہ کیا۔ اسی طرح جاھلیۃ القرن العشرین (بیسویں صدی کی جاہلیت) کے نام سے اُنھوں نے مغربی تہذیب کے تار وپود بکھیر کر رکھ دیے۔ اپنی کتاب التطور و الثبات فی حیاۃ البشریۃ (انسانی زندگی میں ترقی و ثبات) میں انھوں نے کارل مارکس اور سوشلسٹ نظریات کی حقیقت واضح کی۔
محمد قطب نے اپنے بھائی کی طرح ایک طرف تو باطل نظریات کا ابطال کیا اور دوسری جانب اسلامی تعلیمات کا روشن چہرہ اُجاگر کیا۔ اس دوسرے پہلو کے ضمن میں ان کی کتاب منہج التربیۃ الإسلامیۃ (اسلامی تربیت) بھی شہرہ آفاق کتب میں شمار ہوتی ہے۔ بنیادی طور پر اسی کتاب کی وجہ سے سعودی عرب نے انھیں شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا۔ اپنی کتاب منہج الفن الإسلامی میں اُنھوں نے واضح کیا کہ فن اسلامی کسی جامد فلسفے یا وعظ اور پندو ارشاد کا نہیں بلکہ وجود کائنات اور اس میں بکھرے حقائق، تلخیوں اور مظاہر جمال کو اسلامی تصورات کے آئینے میں دیکھنے کا نام ہے۔ مفاھیم ینبغی أن تصحح (بعض خیالات جن کی درستی ناگزیر ہے)۔ دراسات قرآنیۃ (قرآنی مطالعہ)، التفسیر الإسلامی للتاریخ (تاریخ کی اسلامی تشریح)، واقعنا المعاصر (ہمارے موجودہ حالات)، ھل نحن مسلمون (کیا ہم مسلمان ہیں؟) شبہات حول الإسلام (اسلام کے بارے میں بعض شبہات)، لا الٰہ الا اللّٰہ، عقیدۃ وشریعۃ ومنھاج حیاۃ (لا الٰہ الا اللہ عقیدہ بھی ہے، شریعت بھی اور نظام حیات بھی) ، العلمانیون و الإسلام (سیکولر حضرات اور اسلام)، کیف ندعو الناس (دعوت کیسے دیں؟)، رکائز الإیمان (ایمان کی بنیادیں) بھی مرحوم کی وہ شان دار کتب ہیں جن سے ایک دنیا نے استفادہ کیا ہے اور رہتی دنیا تک یہ کتب زندہ رہیں گی۔
دونوں بھائیوں سیّد قطب شہید اور محمدقطب کی طرح تینوں بہنوں کو بھی علم و ادب سے گہرا شغف تھا اور سب ہی نے بہت سخت آزمایشیں جھیلیں۔ سبحان اللہ... پانچوں بھائی بہنوں میں سے کسی کو بھی نہیں بخشا گیا... پانچوں کا جرم صرف ایک کہ رب ذو الجلال کے سوا ہر خدا کا انکار کرتے تھے۔ پانچوں مبارک نفوس قرآن کریم کی دعوت لے کر اُٹھے اور اللہ کے حکم کے مطابق اپنی ذاتی اور اجتماعی زندگی اس کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کے مرتکب پائے گئے۔ سیّد قطب کو پہلی بار گرفتار کیا گیا تو کچھ عرصے بعد سب سے بڑی بہن نفیسہ کے جواں سال بیٹے رفعت کو بھی گرفتار کرلیا گیا۔ الزام لگایا گیا کہ وہ اپنے گرفتار ماموں اور اخوان کے مابین رابطہ کاری کرتا ہے۔ پھر اس پر اتنا تشدد کیا گیا کہ ناتواں جسم تاب نہ لاسکا اور ماموں سے پہلے ہی جامِ شہادت نوش کرگیا۔ پھر دوسرے بیٹے عزمی کو گرفتار کرلیا گیا، تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور قریب المرگ ہونے پر چھوڑ دیا گیا۔
دوسری بہن امینہ، سیّد قطب سے چھوٹی اور محمد قطب سے بڑی تھیں۔ انھوں نے عربی ادب کی شان دار خدمت انجام دی۔ اسلامی تحریک سے وابستگی کی پاداش میں ان کے شوہر کمال السنانیری پر تشدد کے پہاڑ توڑتے ہوئے جیل ہی میں شہید کردیا گیا۔ راقم نے کمال السنانیری صاحب کا نام سب سے پہلے مرحوم و مغفور محترم قاضی حسین احمد صاحب سے سنا تھا۔ پشاور آکر رہنے والے مختلف عرب رہنماؤں کا ذکر کرتے ہوئے وہ کمال السنانیری کا نام خصوصی عقیدت و محبت سے لیا کرتے تھے۔ دیگر اُمور کے علاوہ ایک بات یہ بھی بتاتے کہ سنانیری مرحوم کافی عرصہ پشاور میں ہمارے گھر رہے، لیکن ہمیں ایک روز کے لیے بھی ان کی مہمان داری بوجھ نہیں لگی۔ وہ اکثر روزے سے ہوتے۔ ہمیں بھی اچانک معلوم ہوتا کہ وہ روزے سے ہیں۔ ہمیشہ تلاوت و نوافل ان کا معمول ہوتا۔ امینہ قطب سے ان کی نسبت ۱۹۵۴ء میں طے ہوئی تھی۔ سنانیری صاحب اس وقت جیل میں تھے۔ گرفتاری کا عرصہ طویل ہوگیا تو انھوں نے پیش کش کی کہ نہ جانے کب تک جیل میں رہنا پڑے، آپ اور آپ کے اہل خانہ چاہیں تو یہ نسبت ختم کردیتے ہیں۔ لیکن امینہ امانت دار ہی نہیں، وفا شعار بھی تھیں۔ انھوں نے اس موقعے پر ایک نظم کہی، جو ان کی ادبی زندگی کی پہلی نظم تھی۔ اپنے پہلے قصیدے میں، شان دار انداز سے، اپنے منگیتر کا حوصلہ بڑھایا۔ ۷۰کی دہائی میں کمال السنانیری کی رہائی ہوئی اور ۱۹۷۳ء میں دونوں کی شادی ہوئی۔ اس وقت اس باوفا ’دلہن‘کی عمر ۵۰ سال سے زیادہ ہوچکی تھی۔ ۱۹۸۱ء میں انور السادات نے دوبارہ اخوان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنا شروع کردیے۔ سنانیری بھی ابتدائی اسیروں میں سے تھے۔ اس بار اس اللہ والے کے نصیب میں قید ہی نہیں شہادت کا رُتبہ بھی لکھا تھا۔ نومبر ۱۹۸۱ء میں جیل ہی میں تشدد کے نتیجے میں جان، جانِ آفریں کے سُپرد کردی۔ امینہ ہی نہیں محمد قطب سمیت تمام اہل خانہ نے اس شہادت کا صدمہ صبر و ثبات سے برداشت کیا۔
سب سے چھوٹی بہن حمیدہ قطب بھی اپنے بھائیوں، بہنوں اور دیگر افراد خانہ کی طرح جلادوں کے مظالم کا نشانہ بنیں۔ ۱۹۶۵ء میںسیّد قطب کے ہمراہ وہ بھی گرفتار ہوئیں، تو چھے سال چار ماہ جیل میں بند رہیں اور اس دوران بدترین تشدد کا نشانہ بنائی گئیں۔
محمد قطب جیسی نابغہء روزگار علمی شخصیت کو بھی سیّد قطب کی طرح اسلام سے وابستگی کی سزائیں دی گئیں۔ پہلی بار ۱۹۵۴ئمیں اخوان کے ہزاروں کارکنان سمیت گرفتار کیے گئے اور بلا مقدمہ کئی سال جیل میں رہے۔ ۱۹۶۵ء میں پھر گرفتار کرلیے گئے، اس بار وہ سیّد قطب سے بھی پہلے گرفتار ہوئے۔ سیّد قطب نے اعلیٰ حکومتی ذمہ داران کے نام خط لکھ کر احتجاج کیا کہ انھیں کس جرم کی سزا دی جارہی ہے؟ ہم اہلِ خانہ کو یہ تک معلوم نہیں کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہیں۔ برطانوی غلامی کے شکار حکمرانوں سے مخاطب ہوتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ برطانوی دانش ور اور مفکر برٹرینڈ رسل کو بھی ان کے خیالات کی پاداش میں گرفتار کیا جاتا تھا، لیکن اہلِ خانہ ان کے بارے میں پوری طرح باخبر رہتے۔ ان دونوں میں کیا فرق ہے؟ رسّل بھی ایک دانش ور تھا اور میرا بھائی محمد بھی ایک دانش ور ہے۔ اس احتجاجی مراسلے کا جواب یہ ملا کہ ایک ہفتے بعد سیّد قطب بھی گرفتار کرلیے گئے۔ سیّد اور ان کے ساتھیوں پر تو ایک بے بنیاد مقدمہ چلایا گیا اور ۲۹؍ اگست ۱۹۶۶ء کو انھیں اور ان کے ساتھیوں کو پھانسی دے کر شہید کردیا گیا، لیکن محمد قطب پر کوئی مقدمہ چلائے بغیر ہی انھیں سات برس تک قید رکھا گیا۔ اس دوران انھیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ایک بار تو جیل کے اندر باہر یہ افواہ پھیل گئی کہ محمد قطب تشدد کی تاب نہ لاکر جاں بحق ہوگئے ہیں، لیکن بعد میں یہ خبر غلط نکلی۔ رہائی ملی تو دوست احباب نے ’زندہ شہید‘ کے لقب سے یاد کرنا شروع کردیا۔
سات سال قید کے بعد رہائی ملی تو ۱۹۷۲ء میں انھیں ملک عبد العزیز یونی ورسٹی مکہ مکرمہ، حالیہ ’اُم القریٰ‘ یونی ورسٹی میں ملازمت مل گئی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی آخری سانس تک وہ جوار کعبہ ہی میں رہے۔ کئی بار انھیں دیگر کئی ممالک سے ملازمت اور شہریت کی پیش کش ہوئی، لیکن انھوںنے بیت اللہ کی قربت اور مصری شہریت نہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ اس دوران انھوں نے نہ صرف تعلیم و تربیت اور بحث و تحقیق کی سرگرمی جاری رکھی بلکہ متعدد ممالک کے دورے بھی کیے۔ ان کے ایک یادگار سفر میں خاکسار بھی ان کا ہم رکاب رہا۔ سابق سوویت یونین کے خلاف برسرِپیکار افغان مجاہدین کو باہم متحد کرنے کی درجنوں کوششوں میں شرکت کرنے کے لیے وہ بھی دیگر عرب زعما کے ساتھ پشاور آئے۔ کئی عرب مجاہدین سے ملاقات کی، کئی ایک سے وائرلیس پر رابطہ ہوا لیکن بدقسمتی سے یہ تمام کاوشیں بے سود رہیں۔
دھیما مزاج رکھنے والے محمد قطب، اپنی تحریروں اور نظریات میں کامل یکسو اور مضبوط استدلال رکھتے تھے۔ حلقۂ یاراں میں اگر آرا کا اختلاف سامنے آتا تب بھی بریشم کی طرح نرم رہتے، لیکن رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن، کا حقیقی مصداق تھے۔ علامہ یوسف القرضاوی صاحب لکھتے ہیں کہ میں نے سیّد قطب کے بعض خیالات سے علمی اختلاف کیا اور اس کے بارے میں مسلسل لکھا، لیکن کبھی نہیں ہوا کہ محمد قطب سے ملاقات ہونے پر انھوں نے اس اختلاف کا ذکر ہی کردیا ہو ... ہمیشہ اخوت کی حلاوت ہی گھولی۔
رب ذو الجلال ہمیشہ اپنی قدرت و حکمت دنیا کو دکھاتا ہے لیکن کم ہی لوگ عبرت و نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ امام حسن البناء، سیّد قطب، محمد قطب اور ان کے ہزاروں ساتھیوں پر جن فرعون حکمرانوں نے ظلم کے پہاڑ توڑے، وہ انھیں اور ان کی دعوت کو فنا کے گھاٹ اتارنا چاہتے تھے۔ اللہ نے ان جلاد حکمرانوں کو یوں فنا کیا کہ آج ان کا نام لیوا کوئی نہیں بچا، جب کہ ان مخلص مصلحین کے افکار، دنیا کے چپے چپے میں اپنا آپ منوا رہے ہیں۔ اسلامی تحریک عالم اسلام ہی نہیں دنیا کے ہر کونے میں کامل قوت کے ساتھ موجود ہے۔ سچی دعوت کی علم بردار اس تحریک کو آج بھی کئی فرعون اور ان کے حواری کچلنا چاہتے ہیں، لیکن کون ہے جو اللہ کے دین اور اسے غالب و کار فرما کرنے والی تحریکوں کو شکست دے سکے۔ قدرت ان ظالموں پر خنداں ہے ...پکار پکار کر کہہ رہی ہے: سَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْٓا اَیَّ مُنقَلَبٍ یَّنقَلِبُوْنَ (الشعراء ۲۶: ۲۲۷)، عنقریب یہ ظالم جان لیں گے کہ ان کا انجام کیا ہوتا ہے!
جزیرہ نما کریمیا بحیرۂ اسود (Black Sea)کے ساحل پر واقع دنیا کے خوب صورت ترین ساحلوں میں شمار ہوتا ہے۔ موجودہ یوکرائن کی حدود میں شامل یہ مسلم ریاست تاریخی اعتبار سے ایک مسلم اکثریتی علاقہ ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی تہذیب و ثقافت کا مرکز رہی ہے ۔سابق سوویت یونین میں دو طرح کے تاتار مسلمان آباد ہیں۔ ان میں کریمیا کے تاتار اور قازان کے تاتار مسلمان دو مختلف علاقوں میں آباد رہے ہیں۔کریمیا کے تاتاروں کوکریمیا سے نکال دیا گیا اور انھیں سابق سوویت یونین کی مختلف ریاستوں میں جبراً ـ ہجرت پر مجبور کیاگیا۔
کریمیا کا رقبہ ۲ہزار۷سو مربع کلو میٹر پر مشتمل ہے اور دنیا کا خوب صورت ترین ساحل سمندر اور ساحلی شہر سوچی کریمیا میں واقع ہے ۔یہاں پر قدرتی و سائل کے ساتھ ساتھ ٹورسٹ انڈسٹری بہت نمایاں اور دنیا کے ہر علاقے سے آنے والے سیاحوں کا مرکز ہے۔ گرمیوں کے چھے ماہ سوچی اور اس کے گرد و نواح سیاحوں سے بھرے رہتے ہیں۔
تاریخی اعتبار سے کریمیا کے تاتاروں نے نہ صرف یوکرائن اور روس کے بڑے علاقے پر حکومت کی ہے،بلکہ پولینڈ کا ایک بڑا علاقہ بھی کریمیا کی سلطنت کا حصہ رہا ہے۔ یہاں کے تاتاروں نے ماسکو پر بھی کئی مرتبہ چڑھائی کی، جب کہ روسی بادشاہ ماسکو چھوڑ کر فرار بھی ہو گیا تھا۔ ماسکو کی تباہی کے یہ مناظر دیکھنے کے لیے سیاح کئی سالوں تک دُور دُور سے آتے رہے۔
۱۴۷۵ء میں کریمیا خلافت عثمانیہ میں شامل ہو گیا اور ماسکو کے بادشاہ زار کو کریمیا کے تاتاریوں نے ہفتہ وار مسجد میں آنے اور انتظامات دیکھنے کا پابند بنایا۔ خلافت عثمانیہ کے کمزور پڑتے ہی روسی حکمرانوں نے کریمیا کے مسلمانوں کو زیر اثر لانے کی کوشش کی اور آخر کار۱۷۸۳ء میں کریمیا پر روسیوں کا قبضہ ہو گیا۔ اس دوران شدید جھڑپیں ہوئیں اور کریمیا کے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ترکی منتقل ہو گئی۔ روسی حکمرانوں نے روس کے مختلف علاقوں سے بڑی تعداد میں روسیوں کو کریمیا منتقل کیا۔ یہاں تک کہ ۱۸۹۷ء کے اعداد و شمار کے مطابق کریمیا میں مسلمانوں کی تعداد صرف ایک لاکھ ۸۶ہزار رہ گئی،جب کہ اس وقت مسلمان کل آبادی کا ۱ء۳۴ فی صد تھے۔ چونکہ مسلمانوں پر ظلم و ستم اور جارحیت کا عمل جاری رہا، اس لیے آہستہ آہستہ مزید مسلمان کریمیا چھوڑ کر چلے گئے اور یوں روسیوں نے اس مسلم ریاست پر اپنے پنجے گاڑ لیے۔
کمیونسٹ انقلاب کے بعد کریمیا کے مسلمان جبر و تسلط کا شکار رہے۔ جب سٹالن نے ۱۹۴۴ء میں کریمیا کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کی انتہا کردی، تو اس جزیرہ نما کے سارے کے سارے مسلمانوں کو مال گاڑیوں میں بھر کر ازبکستان اور سائبیریا روانہ کر دیا گیا۔ جہاں انتہائی نامساعد حالات میں بھوک و پیاس، سردی اور تشدد سے مہاجرین کی ایک بڑی تعداد ہلاک ہو گئی اور بچے کھچے مسلمان روسی ریاستوں میں غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے۔ ۱۹۵۴ء میں سٹالن کی موت کے بعد خرشچیف برسرِ اقتدار آئے اور انھوں نے کریمیا کو یوکرائن کا حصہ بنا دیا۔
سوویت یونین کے کمزور پڑتے ہی کریمیا کے مسلمانوں نے واپس کریمیا کا رخ کرنا شروع کر دیا۔ روسی آبادی نے بھرپور مخالفت کی اور بہت سے تاتاریوں کو واپس اپنے علاقوں میں آنے سے روکے رکھا۔ تاہم مسلمانوں نے اپنی جدوجہد جاری رکھی اور سوویت یونین کے ٹوٹتے ہی تاتاری مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کریمیا پہنچ گئی۔ اب کریمیا میں ۷۰فی صد سے زائدآبادی مسلمانوں کی ہے۔ مسلمانوں کی آبادی ۳لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔موجودہ روسی قبضے نے مقامی تاتاری آبادی کو بڑا مضطرب کر رکھا ہے۔ دوسری طرف یوکرائن کے خلاف تاتاری مسلمان زیادہ جذبات نہیں رکھتے۔ روس اور یوکرائن کی اس جنگ کے جو بھی نتائج ہوں مجموعی طور پر مسلمان زیادہ متاثر ہوں گے۔ کیوںکہ تاتاریوں کی زبان مختلف ہے، مذہب اور تہذیب جدا ہے، جب کہ روسی اور یوکرائن ایک قوم اور بڑی حد تک ایک ہی زبان بولنے والے ہیں اور ہمیشہ سے ان کا اتحاد بھی رہا ہے۔
روس کا یوکرائن، بیلارس اور پولینڈ پر قبضہ اسی صورت میں ممکن ہو سکا تھا، جب روسیوں نے تاتاری مسلمانوں کو شکست سے دوچار کیا تھا۔ ۱۹-۱۹۱۸ء میں یوکرائن کو سابق سوویت یونین کا حصہ بنایا گیا ۔ کریمیا چونکہ یوکرائن کا حصہ تھا، اس لیے ۱۹۹۱ء میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد کریمیا یوکرائن کا حصہ ہی رہا ۔ یوکرائن نے کریمیا کو ایک نیم خود مختار ریاست کے طورپر قائم رکھا۔ اس طرح کریمیا میں تین قومیں روسی، یوکرائنی اور مسلمان آباد ہیں، جب کہ بقیہ اقوام وسطی ایشیائی ممالک، یہودی اور چیچن کی قلیل تعداد بھی آباد ہے۔
یوکرائن کا کل رقبہ۶لاکھ مربع کلو میٹر ہے، جب کہ اس کی آبادی تقریباً ۴کروڑ ۶۰ لاکھ ہے۔ اس آبادی کا تقریباً ۳۰فی صد روسیوں پر مشتمل ہے اور روس کے مختلف شہروں اور دیہاتوں میں بھی یوکرانیوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔۱۹۹۱ء میں یوکرائن میں ایک بڑا ایٹمی پلانٹ چرنوبل کے مقام پر موجود تھا۔ یوکرائن کے پاس بڑی تعداد میں ایٹمی اسلحہ اور میزائل موجود تھے۔ ایک سہ فریقی معاہدے کے تحت جس میں روس امریکا اور برطانیہ نے یوکرائن کی سلامتی اور حفاظت کی ذمہ داری لی تھی، یوکرائن ایٹمی ہتھیار رکھ سکے گا۔ دوسری طرف یوکرائن ایک زرعی ملک ہونے کے ناطے روس کو بڑی تعداد میں زرعی اجناس فراہم کرتا رہا ہے۔ یوکرائن میں بھاری صنعت بھی کافی حد تک ترقی پاچکی ہے۔یوکرائن سابق سوویت یونین کی ریاستوں میں روس کے بعد سب سے بڑا صنعتی ملک سمجھا جاتا ہے۔ یوکرائن میں تیل اور گیس کے ذخائر نہ ہونے کے برابر ہیں، لہٰذا اس ضرورت کو بھی ایک معاہدے کے تحت روس پوری کر رہا تھا۔
یوکرائن کی دیرینہ خواہش ہے کہ وہ یورپی یونین کا حصہ بنے۔ یورپی ممالک اور امریکا بھی اس خواہش کا احترام کرتے ہیں۔ دوسری طرف روس یوکرائن کی اس خواہش کا سخت مخالف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روس یوکرائن کی حکومت کو اپنے زیر تسلط رکھنا چاہتا ہے اور کسی طور بھی یوکرائن کو مکمل خودمختاری دینے کا حامی نہیں ہے ۔یوں روس اور یوکرائن کے درمیان چپقلش کا آغاز ہوا اور امریکا نے یوکرائن کی سر زمین کو روس کے خلاف استعمال کرنے کا بھی اشارہ دیا۔ جب ویکٹر یانو کوچ یوکرائن کے صدر منتخب ہوئے تو روس نے سکھ کا سانس لیا اور ان کی حکومت کو مضبوط کرنے کے لیے یانوکوچ کا ساتھ دیا۔ ویکٹریانوکوچ نے روس کے ساتھ قریبی تعلقات ہونے کی وجہ سے یورپ اور امریکا سے کنارہ کشی اختیار کی اور امریکا ،ناٹو اور یورپی ممالک کے ساتھ تعاون کے معاہدے سے انکار کر دیا۔ یورپی اقوام اور امریکا کے ایما پرحزب اختلاف جوبنیادی طور پر قوم پرستوں پر مشتمل تھی ، سڑکوں پر نکل آئی اور صدر سے استعفے کا مطالبہ کر دیا۔ آخر کار وہ صدر ویکٹریانوکوچ کو یوکرائن بدر کر کے روس میں پناہ لینے پر مجبور کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
روس کے حکام اور بالخصوص صدر ولادی میر پوٹن دوبارہ سویت یونین کے قیام کے لیے کوشاں ہیں۔ سابق سوویت یونین کی کوئی ریاست بھی روسی فوجی قوت کا سامنا کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی اور روسی منصوبہ بندی کے کامیاب ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ کریمیا پر قبضے سے دوہفتے قبل، روسی صدر ولادی میر پوٹن نے کریمیا پر روسی قبضے کو خارج از امکان کہا تھا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ روسی فوج کریمیا کے علاقو ں میں موجود ہے،تو انھوں نے جواب دیا کہ یہ عام لوگ ہیں جو روسی فوجی وردی کو پسند کرتے ہیں، اور چند دنوں بعد ہی آسانی سے روسیوں نے کریمیا پر قبضہ کر لیا۔ دوسری طرف روسی افواج یوکرائن کی مشرقی اور جنوب مشرقی سرحدوں پر جمع ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ یاد رہے یہ سرحدی علاقے روسی آبادی پر مشتمل ہیں اور یہاں سے یوکرائن کے علاقوں میں داخل ہونا آسان بھی ہے اور بآسانی یوکرائن کے بڑے حصے کو زیر قبضہ لایا بھی جاسکتا ہے۔ ان حالات میں اگر روس نے یوکرائن پر چڑھائی کی تو ناٹو افواج کی مزاحمت کا اندیشہ ہے۔
یورپی یونین میں تیل اور گیس کے صدر Kherman Vanrompe نے برسلز(بلجیم) میں کہا ہے کہ روس یورپ کی گیس کی ۳۲فی صد ضرویات فراہم کرتا ہے ،جب کہ ۳۵فی صد تیل بھی روس فراہم کرتا ہے۔ یورپی یونین تین ماہ کے اندر اندر اپنی گیس اور تیل کی ضروریات متبادل ذرائع سے پورا کرنے کا اہتمام کرے گا اور روس سے تیل اور گیس کی خریداری بند کرنے کے ساتھ ساتھ روس پر معاشی پابندیاں عائد کر دی جائیں گی۔ روسی کمپنیوں کی یورپ تک رسائی معطل کر دی جائے گی اور روس کو یوکرائن میں مداخلت کے عوض خطرناک معاشی اور اقتصادی بدحالی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ادھر امریکا نے اہم روسی شخصیات اور روسی صدر کے قریبی ساتھیوں پر ویزے کی پابندی عائد کر دی ہے اور اس طرح روس اور یوکرائن کی یہ لڑائی عالمی امن کی تباہی کا باعث بن سکتی ہے۔ کریمیا کے تاتارجو خدا خدا کر کے اپنے گھروں کو آباد کرنے لگے تھے ایک خطرناک صورت حال سے دوچار ہونے والے ہیں۔ روسی حکام نے ابھی سے مسلمانوں کو اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔ روسی حکام نے تاتاری مسلمانوں کی مجلس کے صدر جمیل مصطفی کو ملک بدر کرنے کے ساتھ ساتھ عام مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیے ہیں۔ کئی تاتاری مسلمان نوجوانوں کے لاپتا ہونے کی اطلاعات بھی زبانِ زد عام ہیں۔ دوسری جانب یوکرائن کی طرف سے مسلح مزاحمت بہت کمزور ہو گی اِلا یہ کہ یورپی یونین یا ناٹو ان کی مدد کو پہنچیں۔ بہرحال یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ روسی افواج بغیر مسلح مزاحمت کے واپس جانے کے لیے تیار نہیں ہوں گی۔
روس کی اندرونی صورت حال بھی خلفشار سے دوچار نظر آتی ہے۔ روسی صدر ولادی میر پوٹن کا ۱۴سالہ دور اقتدار پرسکون دکھائی دے رہا تھا اور کسی خاص قابل ذکر مزاحمت کا سامنا نہیں تھا مگر اب اپنے دورِحکومت کو دوام دینے میں سخت مزاحمت کا سامنا کر رہے ہیں۔ ملک کی اہم شخصیات اور تجزیہ نگار ان کے حالیہ اقدام پر کڑی تنقید کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ کچھ نقادوں اور مخالفین کو جن میں یونی ورسٹی پروفیسر اور صحافی شامل ہیں، جیل بھیج دیا گیا ہے۔ روس کے قومی جرنلسٹ پوری مستاض کو صدر پوٹن کے خلاف اداریہ لکھنے کی پاداش میں پابند سلاسل کر دیا گیا ہے۔ روسی تجزیہ نگاروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ روس اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے لیے خطرناک جنگ میں کود پڑا ہے اور یوں لگتا ہے کہ ملک کے اندر اور سرحدوں پر مزاحمت شروع ہونے والی ہے۔ ایک مشہور خاتون صحافی اور ادیب الیستکایا نے روسی صدر کے حالیہ اقدامات پر کڑی تنقید کی ہے۔انھوں نے یوکرائن اور کریمیا کے عوام پر صدرپوٹن کے خلاف شدید ردعمل کے اظہار کے لیے زور دیا ہے۔
۲۰۰۰ء-۲۰۰۵ء تک صدر پوٹن کے مشیر خاص سرگئی لاروف(Sargi Larov) نے صدر کے کردار اور شخصیت پر شدید تنقید کی ہے۔ لاروف نے ایک خفیہ روسی منصوبے کا ذکر کیا ہے جسے ۲۰۰۸ء میں تیار کیا گیا تھا اور جس کے مطابق روس اپنی سرحدوں کے قریب تمام ممالک پر اور خاص طور پر سابق سوویت ریاستوں پر اپنا تسلط برقرار رکھنا چاہتا ہے اور کسی قسم کے مغربی اثر و رسوخ کو رد کرتا ہے۔ اس منصوبے کے مطابق یوکرائن کو مزید ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا جائے گا اور اس کی موجودہ سیاسی و معاشی قوت بکھر جائے گی۔ اس طرح روسی سرحدوں پر واقع علاقوں پر روسی تسلط قائم کرکے انھیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
روسی حکام اس منصوبے پر عمل کرنے کے بعد تمام ملحقہ علاقوں میں نیم خود مختار ریاستیں قائم کریں گے اور ان ریاستوں کے معاشی و سائل براہ راست روس کے زیر استعمال رہیں گے۔ سرگئی لاروف کے مطابق روس اپنے طے شدہ منصوبے پر عمل پیرا ہے، جب کہ یوکرائن کو مسلح مزاحمت کرنے کی ضرورت ہے۔ مسلح مزاحمت کی صورت میں ہی ناٹو افواج یوکرائن کی مدد کو آئیں گی۔
سرگئی لاروف اپنی شہرئہ آفاق تصنیف میں فن لینڈ کی مثال دیتے ہوئے لکھتا ہے: ’’اگر فن لینڈ اسٹالن کی حکومت کے خلاف مسلح جدوجہدنہ کرتا تو آج ایک آزاد اور خود مختار ملک نہ ہوتا‘‘۔ اسی طرح روس میں موجودہ حزب مخالف کے سیاست دانوں بہ شمول ولیرو نوادروسکی (Valirio Novadrovsky) نے بھی روسی صدر کی توسیع پسندانہ عزائم پر کڑی تنقید کرتے ہوئے اپنے ہی ملک کے خلاف یوکرائن کو مسلح جدوجہد کرنے پر زور دیا ہے کہ اگر یو کرائن نے روسی افواج کا مقابلہ نہ کیا تو یوکرائن اپنے آپ کو ٹکڑوں اور چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم در تقسیم ہونے کے لیے تیار سمجھے۔ اس تقسیم در تقسیم کے جہاں یوکرائن کو نقصانات ہوںگے وہاں روسی عوام اور ملک کو بھی سیاسی، معاشرتی اور معاشی بدحالی کا شکار ہونے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
روس کو جہاں بیرونی تنقید اور پابندیوں کا سامنا ہے وہاں اندرونی طور پر بھی روسی حکومت کو پڑوسی ریاستوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے پر مزاحمت اور تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ روسی تاریخ میں کسی بھی حکومت کے خلاف یوں کھل کر اظہار راے پہلے کبھی نہیں کیاگیا جس طرح اس دفعہ روسی جارحیت کے خلاف اندرونی طور پر لوگ صف آرا ہو گئے ہیں۔
ادھرکریمیا کے مسلمانوں نے اپنے تشخص اور علاقائی سا لمیت کے لیے عالمی طاقتوں سے مداخلت کی اپیل کی ہے اور ان کی اس آواز کو روس کے اندر، سابق سوویت ریاستوں اور یورپی ممالک نے حق بجانب قرار دیا ہے۔ روسی صدر کا کریمیا پر قبضہ محض اتفاقیہ عمل نہیں ہے بلکہ پہلے سے تیارشدہ منصوبے کے مطابق ہے۔کریمیا کے مسلمانوں کے حق میں مسلم دنیا اور غیر مسلم طاقتوں نے کبھی کوئی کمزور آواز بھی نہیں بلند کی اور یوں مسلم ممالک کا میڈیا، صحافتی ادارے، دانش ور اور حکومتیں مکمل خاموشی کے ساتھ اس مسلم ریاست کے تباہ ہونے پر راضی نظر آتے ہیں۔
تمام تر مغربی دباؤ اور حربوں کے باوجود روس کریمیا اور یوکرائن سے متعلق اپنی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں لایا۔ ۱۶؍اپریل۲۰۱۴ء کی پریس کانفرنس اور بعد میں بیان کردہ روسی پالیسی جسے نہ صرف پالیسی کے تسلسل کا مظہر کہا جاتا ہے، بلکہ روسی صدر، وزیر خارجہ اور روسی پارلیمنٹ کے بیش تر ارکان نے اپنے پالیسی بیانات میں روس کا کریمیا پر اپنا حق تاریخی اعتبار سے اور حالیہ واقعات کی روشنی میں واضح کیا ہے۔ روسی عوام میں حالیہ امریکی اور مغربی پابندیوں سے متعلق جواضطراب پایا جاتا ہے، اسے تحلیل کرنے کے لیے تمام پارلیمانی کمیٹیوں نے ایک بھرپور مہم کا آغاز کر دیا ہے۔ ادھر روسی پارلیمنٹ نے روسی صدر کو یوکرائن پر فوجی چڑھائی کرنے اور روسی سفیر کو امریکا سے واپس بلانے کا اختیار دے دیا ہے۔صدر ولادی میر پوٹن نے روسی آئین کے آرٹیکل ۱۰۲کے مطابق روسی افواج کی یوکرائن پر چڑھائی کو بالکل حق بجانب قرار دیا ہے۔
۱۷؍اپریل۲۰۱۴ء کے بیان میں صدر کے ترجمان نے واضح کیا کہ روسی افواج کسی وقت بھی یوکرائن کے اندر داخل ہو کر کارروائی کر سکتی ہیں۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ روسی افواج پہلے بھی بڑی تعداد میں یوکرائن کے سرحدی علاقوں میں موجود ہیں اور پیش قدمی کے لیے منتظر ہیں۔اس سلسلے میں روسی ترجمان نے کسی احتیاط کے بغیر اپنی آیندہ کی منصوبہ بندی بیان کرتے ہوئے تمام تر مغربی دباؤ کو نہ صرف مسترد کیا بلکہ مضحکہ خیز بھی قرار دیا۔اُدھر کریمیا میں ہونے والے ریفرنڈم اور ان کے نتائج کو کچھ ملکوں نے تسلیم کر کے روسی موقف کی تائید کی ہے۔ اس ریفرنڈم کو شروع میں ۱۸ملکوں نے تسلیم کیا تھا لیکن اب یہ تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے۔ چین نے بھی انتہائی محتاط انداز میں امریکا اور مغربی قوتوں کو رشین فیڈریشن اور یوکرائن کے تنازعے میں مداخلت سے باز رہنے کی تلقین کی ہے۔ یہ اس طرف اشارہ ہے کہ روس کے خلاف امریکا اور مغربی پابندیوںکو، جن میں روزافزوں اضافہ ہو رہا ہے ،انتہائی خطرناک قرار دیا ہے۔
برسلز میں یورپی نمایندوں کا اجلاس اور ان کے فیصلے جن میں روسی مفادات کو نقصان پہنچانے کے عزم کا اظہار کیا گیا تھا، روس پر قابلِ ذکر دباؤ ڈالنے میں ناکام رہے ہیں۔روسی موقف گو کہ بڑا متزلزل رہا ہے کہ کریمیا ۱۹۵۴ء میں غیر منصفانہ طور پر روس سے الگ کیا گیا تھا اور روس اپنے لوگوں کا وہ جہاں کہیں بھی ہوں دفاع کرنے کا حق رکھتا ہے، کو مغربی طاقتوں نے مسترد کیا ہے، تاہم کریمیا کے لوگوں نے اپنے ریفرنڈم سے بھی اس کی تائید کی ہے۔ ادھر اقوامِ متحدہ میں روسی سفیر مسٹر پوری کلامینکا نے جنیوا میں سفارت کاروں کے ساتھ ایک ملاقات میں برملا کہا ہے کہ روس عنقریب یوکرائن پر پوری فوجی قوت کے ساتھ حملہ کرنے والا ہے۔
۱۹؍اپریل۲۰۱۴ء کو روس نواز حکومت نے کریمیا میں اپنی پوزیشنوں (ٹھکانوں) کو مستحکم کرتے ہوئے متحدہ یوکرائن کے سپاہیوں کو گرفتار کیا ہے اور دارالحکومت سیمفراپول (Simferopol) کو تمام یوکرائن فوجیوں سے پاک کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس طرح مقامی مسلمان آبادی جو کبھی بھی زیر تسلط رہنے پر راضی نہ ہو سکی، یوکرائن کی غلامی سے آزادی حاصل کر کے روس کی غلامی میں منتقل ہو رہی ہے۔ بحیرئہ اسود پر واقع جزیرہ نما کریمیا میں ایک بڑا روسی فوجی کارروان بھی ۱۹؍اپریل کو داخل ہو چکا ہے، جسے نوزائیدہ روس نواز ملیشیا کی حمایت حاصل ہے اور جسے کریمیا میں بڑے پیمانے پر حال ہی میں منظم کیا گیا ہے۔ اس ملیشیا کے لیڈروں کی بڑی تعداد مسلمان نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ یوکرائن سے آنے والے تمام بحری جہازوں کو بھی روسی بحریہ کی مدد سے روک دیا گیا ہے۔
سیمفراپول میں موجود غیر ملکی سفارت کاروں نے کریمیا چھوڑنا شروع کر دیا ہے۔ ادھر ۲۰؍اپریل کو یوکرائن کے وزیر اعظم Arseniy Yat Senyukنے کیف میں کریمیا میں امن قائم کرنے کے لیے یوکرائن کے مثبت کردار ادا کرنے اور اپنے دورۂ امریکا کے بعد یوکرائن کی حکومت کی واضح پالیسی وضع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
روسی صدر کے توسیع پسندانہ عزائم سے کریمیا کے مسلمان پوری طرح باخبر نہ ہونے کی وجہ سے روس کے ساتھ کریمیا کے اتحاد کا خیر مقدم کر رہے ہیں، اور روسی افواج نے سابقہ مسلمان لڑاکا گروہوں کو متحد کر کے یوکرائن کے خلاف صف آرا کرنے کے لیے تیار کر لیا ہے۔ ادھر روس کے مسلم بورڈ نے روسی حکومت کی حمایت کرتے ہوئے کریمین تاتار بورڈ کو روسی حمایت پر تیار کر لیا ہے۔ اس طرح روسی حکام نے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو استعمال کرتے ہوئے یوکرائن کے خلاف اُبھارنے کی منظم کوششیں شروع کر دی ہیں (ماسکو ٹائمز، ۱۹-۲۰؍اپریل ۲۰۱۴ء)، جب کہ مسلم حکومتوں نے کریمیا کے مسلمانوں اور مسلم ریاست کی بندر بانٹ پر مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ جس کے نتیجے میں کریمیا کے مسلمان اپنے آپ کو نہ صرف تنہا و بے بس سمجھتے ہیں بلکہ مسلم حکومتوں کی بے حسی پر انتہائی مایوس بھی ہیں۔ (بہرام بالکی،Eurasia، ۱۵؍اپریل ۲۰۱۴ء)
بنگلہ دیش میں بلدیاتی انتخابات کا جو مرحلہ وارسلسلہ ۱۹فروری ۲۰۱۴ء کو شروع ہوا تھا وہ ۳۱مارچ ۲۰۱۴ء کو مکمل ہوگیا۔ بنگلہ دیش کی آبادی کم وبیش ۱۶کروڑ ہے اور یہاں کُل اضلاع ۶۴ہیں۔ یہاں سب ڈویژن یا تحصیل کہنے کے بجاے سب ڈسٹرکٹ یا اُوپا ضلع (Upazila) کہا جاتا ہے۔ کل ۴۸۷؍اُوپا ضلع ہیں۔ ان میں سے۴۶۹ میں انتخابات ہوسکے، جن میں سے بیش تر کے نتائج کا الیکشن کمیشن نے اعلان کردیا ہے۔ ۴۵۵ تحصیلوں میں حکومت اور اپوزیشن میں مقابلہ ہوا۔ ان انتخابات میں جو حقائق سامنے آئے ہیں وہ بڑے چونکا دینے والے ہیں۔ حکمران عوامی لیگ نے ان انتخابات میں جو دھاندلیاں کی ہیں ان کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ مرحلہ وار انتخابات کے نتائج کو دیکھیں تو پہلے مرحلے میں عوامی لیگ کی حکومت، بی این پی جماعت اسلامی اتحاد کے مقابلے میں شکست کھا گئی تھی۔
پہلے مرحلے کی ان تحصیلوں میں سے ایک پیرگنج بھی تھی، جو حسینہ واجد کے انتخابی حلقے کا حصہ ہے۔ یہاں عوامی لیگ کا اُمیدوار براے چیرمین سیادت حسین تمام تر دھاندلی کے باوجود ۷۰ہزار۸سو۷۷ ووٹ حاصل کرسکا، جب کہ اس کے مدمقابل بی این پی کے اُمیدوار نور محمد مندل نے ۴۷ہزار۹سو۴۲ ووٹ لے کر یہ نشست جیت لی۔اس دوران بی این پی کے عہدے داران نے ایک پریس کانفرنس میں جو ڈیلی نیو ایج میں ۲۱فروری ۲۰۱۴ء کو چھپی، اس خدشے کا اظہار کیاتھا کہ اپنی شکست دیکھ کر عوامی لیگ حکومت اگلے مراحل میں انتخابی نتائج چرانے کا منصوبہ بنا چکی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اپوزیشن اتحاد سے تعلق رکھنے والے اُمیدواروں کو پولیس گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال رہی ہے۔ جماعت اسلامی اور بی این پی کے عہدے داران نے اس پر شدید احتجاج کیا تھا مگر حکومت کے کان پرجوں تک نہ رینگی۔
الیکشن کے شیڈول کے دوسرے مرحلے سے قبل ہی عوامی لیگ نے تشدد، ماردھاڑ، قتل وغارت گری اور مخالف اُمیدواروں کے علاوہ ان کے حامیوں بلکہ عام ووٹرز کو بھی اس قدر ہراساں کردیا کہ جو لوگ ووٹ دینے کے لیے آئے وہ جان ہتھیلی پر رکھ کر گھر سے نکلے۔ کئی اُمیدوار اور ان کے فعال کارکنان جیل میں ڈال دیے گئے۔ اس کے باوجود عوامی لیگ اس مرحلے میں بھی شکست کھاگئی۔ تیسرا مرحلہ دوسرے مرحلے کے دو ہفتے بعد، یعنی ۱۵مارچ کو آیا تو عوامی لیگ نے ایسی صورت حال پیدا کردی کہ جس میں ووٹ ڈالنے والوں کو پولنگ اسٹیشن کے اندر جانے کے لیے چھلنی سے گزارا گیا، اور ستم بالاے ستم یہ کہ بیلٹ بکس راتوں رات عوامی لیگ کے حامی اُمیدواروں کے حق میں ووٹوں سے بھر دیے گئے۔ اس ظالمانہ بندوبست کے باوجود عوامی لیگ معمولی اکثریت حاصل کرپائی۔ چوتھے مرحلے میں، یعنی ۲۳مارچ۲۰۱۴ء کو عوامی لیگ نے دھاندلی اور تشدد میں اتنا اضافہ کردیا کہ اپوزیشن اتحاد سے متعلق نمایندوں نے اپنے ووٹرز کی جانیں بچانے کے لیے بائیکاٹ کی دھمکی دی اور عملاً ۱۵ سے ۲۰ تک حلقوں میں اپوزیشن اُمیدواروں نے بائیکاٹ کردیا۔
چوتھے مرحلے کے انتخابی معرکے میں عوامی لیگ کی حکومتی سطح پر غنڈا گردی نے ایسے حالات پیدا کردیے کہ اکثر پولنگ اسٹیشنوں پر عملاً ووٹ ڈالے ہی نہ جاسکے۔ انتخابی عملہ خاموش بیٹھا رہا اور عوامی لیگ کے کارکن ٹھپے لگا لگا کر بیلٹ بکس بھرتے رہے۔ یوں حکومتی پارٹی نے واضح اکثریت حاصل کرلی۔ جب آخری اور پانچواں مرحلہ ۳۱مارچ کو ہوا تو تمام غیرملکی مبصرین نے ماحول کو دیکھتے ہوئے کہا کہ اس ووٹنگ کو انتخاب کہنا انتخابات اور جمہوریت کے ساتھ بدترین اور سنگین مذاق ہے۔ بی این پی نے اس انتخاب کا عملاً بائیکاٹ کردیا۔ اسے عوامی لیگ نے یک طرفہ بلڈوز کیا لیکن عوام کی شدید نفرت کا یہ منہ بولتا ثبوت ہے کہ اس کے باوجود عوامی لیگ کے ۵۳چیرمین کے مقابلے میں عوام نے بی این پی کے ۱۴ اور جماعت اسلامی کے تین نمایندے کامیاب کروادیے۔ ہرچند کہ حکومتی ٹولے نے ہرمرحلے میں ظلم وستم اور بددیانتی ودھاندلی کے ذریعے نتائج کواپنے حق میں بدلا ہے۔
اب آئیے مرحلہ وار تجزیہ کرکے دیکھیں کہ حسینہ واجد کے ظالمانہ اقدامات نے کس طرح ان انتخابات کو ایک دل چسپ ڈراما بنا دیا ہے:
پہلا مرحلہ: عوامی لیگ: ۳۷ فی صد بی این پی +جماعت اسلامی۶۳ فی صد
دوسرا مرحلہ: عوامی لیگ:۳۹ فی صد بی این پی+جماعت اسلامی:۶۰ فی صد
تیسرا مرحلہ: عوامی لیگ:۵۳ فی صد بی این پی+جماعت اسلامی:۴۷ فی صد
چوتھاا مرحلہ: عوامی لیگ:۶۳ فی صد بی این پی+جماعت اسلامی:۳۷ فی صد
پانچواں مرحلہ: عوامی لیگ:۷۶ فی صد بی این پی+جماعت اسلامی:۲۴ فی صد
یہ صرف چیرمینوں کا تجزیہ ہے وائس چیرمینوں (مردوخواتین) کا تجزیہ نہیں کیا گیا۔ مجموعی طور پر دیکھیں تو ۱۹فروری کو جو عوامی لیگ ۳۷ فی صد پر تھی، وہ ۳۱مارچ کو ۷۶ فی صد پر جاپہنچی۔ یاللعجب! اسی طرح جو اپوزیشن ۶۳ فی صد کی اکثریت رکھتی تھی صرف چھے ہفتے میں ۲۴ فی صد پر لے آئی گئی۔ کیا یہ منصفانہ انتخابات ہیں!!
اگر مجموعی تجزیہ کریں تو پوزیشن یہ بنتی ہے:
عوامی لیگ ٹوٹل چیرمین: ۲۲۱ (۳۶ء۵۲فی صد)
اپوزیشن اتحاد (پی این پی اور جماعت اسلامی): ۲۰۱ (۶۴ء۴۷فی صد)
ان انتخابات کے دوران ایک دل چسپ اور حوصلہ افزا بات یہ بھی سامنے آئی ہے کہ جماعت اسلامی کے خلاف موجودہ بنگلہ دیش حکومت کے حد سے بڑھے ہوئے انتقامی وظالمانہ اقدامات کے باوجود جماعت کی حمایت میں کمی کے بجاے اضافہ ہو ا ہے۔ جماعت کو حسینہ واجد حکومت نے از حد غیراخلاقی وغیرقانونی حربے استعمال کرتے ہوئے خلافِ قانون قرار دے دیا ہے۔ اس کی ساری قیادت جیلوں میں بند ہے اور بیش تر راہ نماؤں کو سزاے موت سنا دی گئی ہے۔
جماعت کے راہنما جناب دلاورحسین سعیدی (سابق ممبرپارلیمنٹ) کے صاحبزادے مسعود سعیدی اپنے آبائی علاقے میں تحصیل کے چیرمین منتخب ہوچکے ہیں۔ مسعود سعیدی نے تحصیل ضیانگر کے انتخابات میں چیرمین کی نشست ۲۱ہزار۷۷ ووٹوں سے جیتی ہے۔ ان کے مدمقابل حکومتی اُمیدوار عبدالخالق غازی جو دوسرے نمبر پر تھے، صرف ۶۶۱۵ ووٹ حاصل کرسکے اور پھر پُرتشدد کارروائیوں پر اتر آئے۔ واضح رہے کہ مولانا دلاور حسین سعیدی بھی اس علاقے سے بھاری اکثریت کے ساتھ پارلیمانی انتخاب جیتتے رہے ہیں۔ اس طرح کے کئی دیگر واقعات بھی ریکارڈ کا حصہ بن چکے ہیں۔ اب عوامی لیگ نے قتل وغارت گری کا ایک نیا دور شروع کردیا ہے جس کا بڑا ہدف جماعت اسلامی اور چھاتروشبر (اسلامی جمعیت طلبہ) کے ذمہ داران وکارکنان ہیں۔ اب تک کئی شہادتیں ہوچکی ہیں مگر عوامی لیگ سے نفرت بھی اسی تناست سے روز بروز بڑھتی چلی جارہی ہے۔
بی این پی کے قائم مقام سیکرٹری جنرل مرزا فخرالاسلام عالم گیر، جماعت اسلامی کے قائم مقام امیر جناب مقبول احمد اور قائم مقام سیکرٹری جنرل ڈاکٹر شفیق الرحمن صاحب نے الگ الگ بیانات میں واضح الفاظ میں اظہار کیا ہے کہ انھوں نے ان بلدیاتی انتخابات میں حصہ لے کر عوام کی راے معلوم کرنے اور آیندہ کا لائحہ عمل طے کرنے کا پروگرام بنایا تھا۔ اب اس غاصب حکومتی ٹولے کے خلاف بھرپور عوامی احتجاج کے ذریعے نئے سرے سے جدوجہد کا آغاز کیا جارہا ہے۔ دوسری طرف کئی تجزیہ نگار یہ لکھ رہے ہیں کہ عوامی لیگ ۲۰۱۹ء تک اپنے اقتدار کے دوران ون پارٹی رول کی فضا بنانے کا پروگرام رکھتی ہے۔ وڈروولسن انٹرنیشنل سنٹر واشنگٹن میں سابق امریکی سفیر ولیم بی میلام (William B. Milam) نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ گذشتہ دوعشروں میں بنگلہ دیش کی معیشت نے جو کچھ حاصل کیا ہے موجودہ حکمرانوں کی جمہوریت کش پالیسیوں کی وجہ سے اس کے تباہ وبرباد ہوجانے کا خدشہ اور امکان موجود ہے۔ (دی ایکسپریس ٹریبون ۸؍اپریل ۲۰۱۴ء)
ایمان داری مجھ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ روپے وغیرہ کا لالچ نہیں ہے، لیکن میرے دفتر میں میرے ساتھیوں نے تھوڑی بہت بے ایمانی کر کے کافی دولت اکٹھا کرلی ہے، جب کہ میں اپنے اہل و عیال کے لیے دو وقت کی روٹی کا بھی مشکل ہی سے انتظام کرپاتا ہوں۔ کیا موقع و محل سے تھوڑی بہت بے ایمانی کے لیے چھوٹ کی گنجایش ہے کہ اللہ تو معاف کرنے والا ہے۔ میں بہت ہی تذبذب میں ہوں۔ میری اُلجھن کو دُور فرمائیں۔
دین میں ایمان داری کو غیرمعمولی اہمیت دی گئی ہے۔ اس کا تاکیدی حکم بیان کیا گیا ہے اور اس کا التزام کرنے والوں کی تعریف و توصیف کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا لا وَ اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ ط (النساء۴:۵۸) ’’اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہلِ امانت کے سپرد کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو‘‘۔
سورۃ المومنون (آیات ۱-۱۱) اور سورۃ المعارج (آیات ۲۲-۳۵) میں جہاں اہلِ ایمان کے بہت سے اوصاف بیان کیے گئے ہیں، وہیں ان کے اس وصف کو بھی نمایاں کیا گیا ہے: وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِاَمٰنٰتِھِمْ وَعَھْدِھِمْ رٰعُوْن (المومنون۲۳:۸، المعارج۷۰: ۳۲) ’’جو اپنی امانتوں کی حفاظت اور اپنے عہد کا پاس کرتے ہیں‘‘۔ اس کے بالمقابل جو لوگ عہد و امانت کی پابندی نہیں کرتے ان کے دین و ایمان کی نفی کی گئی ہے۔ حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خطبوں میں یہ جملے اکثر پڑھا کرتے تھے: لَا اِیْمَانَ لِمَنْ لَّا اَمَانَۃَ لَہٗ ، وَلَا دِیْنَ لِمَنْ لَّا عَھْدَ لَہٗ (مسند احمد،ج ۳/۱۳۵، ۱۵۴، ۲۱۰) ’’جس شخص میں امانت داری نہ ہو اس کا ایمان معتبر نہیں، اور جو شخص عہد کا پابند نہ ہو اس کے دین کا کوئی اعتبار نہیں‘‘۔
’امانت داری‘ کا مطلب صرف یہی نہیں ہے کہ کسی شخص کے پاس کوئی رقم بطور حفاظت رکھوائی جائے تو وہ اس میں خرد برد نہ کرے، بلکہ اس کا بہت وسیع مفہوم ہے۔ کوئی راز کی بات بتائی جائے اور اس کو افشا کرنے سے منع کیا جائے تو وہ امانت ہے۔ کوئی ذمہ داری دی جائے تو وہ امانت ہے۔ آدمی کہیں ملازم ہو تو ملازمت سے متعلق کام امانت ہے۔ کچھ خدمات اس سے متعلق ہوں تو ان کی صحیح طریقے سے انجام دہی امانت ہے۔ انسان کی صلاحیت اور وقت اس کے پاس اللہ کی امانت ہیں۔ کسی طرح کے مالی معاملات اس سے متعلق ہوں تو ان کا صحیح ریکارڈ رکھنا امانت ہے۔
دین کا صحیح تصور یہ ہے کہ زندگی کا ہرلمحہ اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی میں اور اس کے حکموں کے مطابق گزرے۔ نمازیں پڑھنا، روزے رکھنا، زکوٰۃ دینا اور حج کرنا ہی عبادت نہیں ہے، بلکہ خالص دنیاوی کام بھی اگر اللہ اور اس کے رسولؐ کی تعلیمات کے مطابق انجام دیے جائیں تو وہ بھی عبادت ہیں۔ لوگ سمجھتے تھے کہ صدقہ صرف اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کو کہتے ہیں۔ اللہ کے رسولؐ نے اپنے ارشادات میں متعدد ایسے کاموں کو بھی صدقہ شمار کرایا جنھیں مطلق دنیاوی کام سمجھا جاتا تھا اور جن میں اجروثواب ہونے کا کسی کے ذہن میں بھی خیال نہ آتا تھا۔ ایک موقعے پر آپؐ نے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کو متعدد باتوں کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
وَ اِنَّکَ مَھْمَا اَنْفَقْتَ مِنْ نَفَقَۃٍ فَاِنَّھَا صَدَقَۃٌ حَتّٰی اللُّقْمَۃَ تَرْفَعُھَا اِلٰی فِییِّ امْرَاْتِکَ -(بخاری، کتاب الوصایا، حدیث: ۲۷۴۲) تم جو کچھ بھی خرچ کرو گے وہ تمھارے لیے صدقہ ہے، یہاں تک وہ لقمہ بھی جسے تم اُٹھا کر اپنی بیوی کو دو گے۔
وَلَسْتَ تُنْفِقُ نَفَقَۃً تَبْتَغِیْ بِھَا وَجْہَ اللّٰہِ اِلَّا اُجِرْتَ بِھَا حَتَّی اللُّقْمَۃَ تَجْعَلُھَا فِی فِییِّ امْرَاْتِکَ - (مسلم،کتاب الوصیۃ، حدیث: ۴۲۰۹) تم جو کچھ بھی خرچ کرو گے ، اگر اس سے تمھارا مقصود اللہ کی رضاجوئی ہے تو اس پر اجر کے مستحق ہوگے، حتیٰ کہ اس لقمے پر بھی تمھیں اجر ملے گا جو تم اپنی بیوی کے منہ میں رکھو گے۔
آپ نے لکھا ہے کہ ایمان داری کے ساتھ ملازمت سے آپ کو جو کچھ ملتا ہے اس سے آپ کے اہل و عیال کے لیے دو وقت کی روٹی کا بھی مشکل سے انتظام ہوپاتا ہے، جب کہ آپ کے دفتر کے ساتھیوں نے تھوڑی بہت بے ایمانی کرکے کافی دولت اکٹھی کرلی ہے۔ کیا یہ کہنا صحیح نہ ہوگا کہ بے ایمانی کے ذریعے اکٹھی کی گئی اپنے ساتھیوں کی دولت کو آپ رشک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں، حالانکہ انھوں نے اپنے لیے دولت نہیں بلکہ آگ کے انگارے اکٹھے کیے ہیں۔ کیا جہنم کی آگ کے انگارے رشک کرنے کی چیز ہیں!
اس موقعے پر قارون کا حوالہ دینا مناسب معلوم ہوتا ہے ، جس کا تذکرہ قرآن نے بہت مؤثر اور عبرت انگیز اسلوب میں کیا ہے۔ اس نے بیان کیا ہے کہ قارون حضرت موسٰی ؑ کی قوم، یعنی بنی اسرائیل میں سے تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے مال و دولت کے اتنے خزانے دے رکھے تھے کہ ان کی کنجیاں ہی طاقت ور آدمیوں کی ایک جماعت مشکل سے اُٹھا سکتی تھی۔ اس کی عیش و عشرت اور ٹھاٹھ باٹھ دیکھ کر جو لوگ دنیاوی زندگی کے طالب تھے وہ کہنے لگے: ’’کاش! ہمیں بھی وہی کچھ ملتا جو قارون کو دیا گیا ہے۔ یہ تو بڑے نصیبے والا ہے‘‘۔ مگر جب اللہ تعالیٰ نے اسے اس کی دولت کے ساتھ زمین میں دھنسا دیا تو وہی لوگ جو کل اس کی منزلت کی تمنا کر رہے تھے، کہنے لگے: ’’افسوس ہم بھول گئے تھے کہ اللہ اپنے بندوں میں سے جس کا رزق چاہتا ہے کشادہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے، نپا تُلا دیتا ہے‘‘ (ملاحظہ کیجیے سورئہ قصص ۲۸:۷۶-۸۲)۔ دوسروں کا مال و دولت دیکھ کر اہلِ ایمان کا کیا رویہ ہونا چاہیے، اسے بھی قرآن نے قارون کے مذکورہ واقعے کے ضمن میں بیان کیا ہے۔ قارون کے ٹھاٹھ دیکھ کر جب کچھ لوگوں نے اس پر رشک کا اظہار کیا تو ’’جو لوگ علم رکھنے والے تھے وہ کہنے لگے: افسوس تمھارے حال پر، اللہ کا ثواب بہتر ہے اس شخص کے لیے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرے اور یہ دولت نہیں ملتی مگر صبر کرنے والوں کو‘‘۔ (القصص ۲۸:۸۰)
ایک طرف آپ کہتے ہیں کہ ’’ایمان داری مجھ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، روپے وغیرہ کا لالچ نہیں ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ آپ کی اس خوبی میں مزید اضافہ کرے، لیکن دوسری طرف آپ یہ بھی دریافت کرتے ہیں کہ ’’کیاموقع و محل سے تھوڑی بے ایمانی کی جاسکتی ہے؟‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو بے ایمانی کی شناعت ، دنیاوی اور اُخروی دونوں اعتبار سے اس کا جرم ہونا، اور روزِقیامت اس کی سزا کی ہولناکی کا احساس نہیں ہے۔ غلاظت غلاظت ہے، خواہ زیادہ ہو یا کم۔ میٹھے اور لذیذ مشروب کے ایک گلاس میں پیشاب کا ایک قطرہ ڈال دیا جائے تو کیا کوئی سلیم الطبع انسان اسے پینا گوارا کرے گا؟ جس طرح بے ایمانی کرکے حاصل کیے گئے لاکھوں کروڑوں روپے حرام ہیں، اسی طرح ایک پیسہ بھی حرام ہے۔
آپ کو فکر ہے کہ ایمان داری کے پیسے سے اہل و عیال کے لیے دو وقت کی روٹی کا انتظام مشکل سے ہوپاتا ہے، اس لیے تھوڑی بے ایمانی سے کچھ اور رقم حاصل کر کے، ان کے لیے آسایش فراہم کردی جائے۔ یہ بہت بڑی نادانی ہے کہ آدمی دوسروں کی دنیا بنانے کے لیے اپنی عاقبت خراب کرلے۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا:مِنْ شَرِّ النَّاسِ مَنْزِلَۃً عِنْدَ اللّٰہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَبْدٌ اَذْھَبَ آخِرَتَہٗ بِدُنْیَا غَیْرِہٖ (سنن ابن ماجہ، کتاب الفتن، حدیث ۳۹۶۶، اسے ابن ابی شیبہ نے بھی اپنی مسند میں روایت کیا ہے۔ علامہ البانی نے اسے ضعیف، لیکن علامہ بوصیری نے حسن قرار دیا ہے) ’’قیامت کے دن بارگاہِ الٰہی میں بدترین درجہ اس شخص کا ہوگا جو دوسرے کی دنیا بنانے کے لیے اپنی آخرت برباد کردے‘‘۔
دنیا میں تمام انسان آزمایش کی حالت میں ہیں۔ کچھ لوگوں کو اللہ تعالیٰ مال و دولت دے کر آزما رہا ہے اور کچھ لوگوں کو اس سے محروم کرکے۔ سب امتحان گاہ میں ہیں۔ کچھ کے ہاتھ میں حساب (Mathematics) کا پرچہ دیا گیا ہے اور کچھ کے ہاتھ میں ادب (Literature) کا۔ بڑا نادان ہوگا وہ شخص جو اپنا پرچہ حل کرنے کے بجاے دوسرے کے پرچے میں تاک جھانک کرتا رہے، یا لٹریچر کے پرچے میں ریاضی کے کیلکولیشن کرنے لگے۔ (ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی، زندگی کے عام فقہی مسائل، دوم،ص ۱۵۲-۱۵۵)
آج کل انٹرنیٹ پر www.debitpay.org کے ذریعے ایک کاروبار کیا جاتا ہے۔ اس طریقے میں ایک شخص ۴ہزار سے ۵۰ہزار روپے تک کا معاملہ (package) کرسکتا ہے اور پیکج لینے والا ایک مخصوص رقم کمپنی کو ادا کر کے ایک مخصوص تعداد (۳۰تا ۳۰۰؍اشتہارات) انٹرنیٹ پر دیکھنے کا پابند ہوتا ہے۔ ان اشتہارات کے دیکھنے کے بدلے پیکج لینے والے شخص کے اکائونٹ میں ایک تا ۱۵ڈالر کی رقم جمع ہوجاتی ہے۔ مقررہ تعداد میں اشتہارات ۲۴گھنٹے میں دیکھنے لازم ہیں۔ بصورتِ دیگر وہ رقم نہیں ملے گی۔ یہ اسکیم تین سال کے لیے ہے۔ جو اشتہارات دیکھنالازم ہیں ان میں مختلف اقسام کی اشیا کے اشتہارات شامل ہیں، جب کہ ان اشتہارات میں خواتین کے مخصوص لباس کے اشتہارات بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اگر مذکورہ شخص مزید لوگوں کو ممبر بنوائے گا تو اس کے بدلے میں بھی ایک خاص رقم اس شخص کو ملے گی۔ مزیدبرآں اگر متعلقہ شخص اشتہار دیکھے بغیر next کا بٹن دباتا جائے تو یہ بھی ممکن ہے۔ اس نوعیت کے کاروبار کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
یہ معاملہ یا اسی طرح کے دوسرے معاملات شرعی نقطۂ نظر سے درست نہیں ہیں۔ کیونکہ مذکورہ بالا معاملے میں کئی قسم کی قباحتیں موجود ہیں، مثلاً ایک شخص ایک مخصوص رقم ۴ہزار تا ۵۰ہزار روپے تک دے کر کمپنی کے ساتھ معاملہ کرتاہے، جب کہ کمپنی اس رقم کو کس قسم کے کاروبار میں لگاتی ہے یہ بات نامعلوم ہے۔ ممکن ہے کہ کاروبار سود پر مبنی ہو، شراب سے متعلقہ ہو، کسی دیگر غیرشرعی نوعیت کا ہو۔ دوسرے، اگر یہ شراکت یا مضاربت کا معاملہ ہو تو شراکت یا مضاربت چند شرائط کے ساتھ مخصوص ہے، جس میں کاروبار کی نوعیت و مدت، منافع کی تقسیم کی شرح، نقصان کی ذمہ داری وغیرہ شامل ہیں، جب کہ مذکورہ کاروبار میں اس طرح کی کوئی صورت شامل نہیں ہے۔ تیسرے، پیکج لینے والا شخص اشتہارات کی ایک مخصوص تعداد دیکھنے کا پابند ہے۔ جہاں تک اشتہارات کا تعلق ہے جو اشتہارات آج کل انٹرنیٹ پر اور دیگر میڈیا پر دکھائے جارہے ہیں ان میں نامحرم عورتوں کو نازیبا لباس بلکہ بے لباسی کی صورت میں دکھایا جا رہا ہے، جو کہ آنکھوں کا زنا قرار دیا گیا ہے۔ ا س طرح ان اشتہارات کا دیکھنا بھی غیرشرعی حرکات کے زمرے میں آتا ہے۔ مزیدبرآں ان اشتہارات پر وقت صرف کرنا وقت کا ضیاع بھی اور لغویات میں بھی شمار ہوتا ہے، جب کہ انسان قیامت کے روز ’’اپنی عمر کہاں گزاری‘‘کا جواب دینے کا بھی پابند ہے اور عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ o (المومنون ۲۳:۳) کے حکم کا بھی پابند ہے، یعنی لغویات سے دُور رہتا ہے۔
اسی طرح دیگر افراد کو ممبرشپ لے کر دنیا میں ایک بُرائی کو فروغ دینا اور منکرات میں ان کو مشغول کردینے کے زمرے میں آتا ہے اور جتنے لوگ اس کاروبار میں شریک ہوتے جائیں گے، ان کا وبال بھی پہلے شخص اور درجہ بہ درجہ دیگر اشخاص پر آتاجائے گا۔ یہ بات ارشاد باری تعالیٰ وَمَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَۃً سَیِّئَۃً یَّکُنْ لَّہٗ کِفْلٌ مِّنْھَا ط (النساء ۴:۸۵) ’’اور جو بُرائی کی سفارش کرے گا وہ اس میں سے حصہ پائے گا‘‘ کے مصداق ہے۔ اس لیے ایسے تمام افراد جو اس قسم کے کاروبار میں ملوث ہیں انھیں اس سے نہ صرف الگ ہوجانا چاہیے بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی اس کی تلقین کرنی چاہیے۔(ڈاکٹر میاں محمد اکرم)
ڈاکٹر انیس احمد کی تحریر ’اسلامی نظام: سیاسی ذرائع سے قیام ممکن ہے؟‘ (اپریل ۲۰۱۴ء) نے بہت متاثر کیا۔ اس وقت ، جب کہ مصر اور بنگلہ دیش کی صورت حال پر دنیا بھر کی نظریں جمی ہوئی ہیں، حالاتِ حاضرہ کی صحیح منظرکشی اور تجزیہ نگاری کی اشد ضرورت ہے۔ڈاکٹر صاحب نے ’’تبدیلی صرف جہاد سے آئے گی‘‘ کے نعرے کی شرعی حیثیت کے بارے میں بصیرت افروز مواد فراہم کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے مطابق اجتہاد، قیاس، اجماع اور باہم مشاورت، صبرواستقامت اور قربانی کے ساتھ دعوتی کام کرتے رہنا، یہی وہ ذرائع ہیں جو اسوئہ نبویؐ کے مطابق تبدیلی کا سبب بن سکتے ہیں، اور تمام دعوتی مراحل سے گزرنے کے بعد جب یہ یقین ہوجائے کہ یہاں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی، تو پھر وہاں سے ہجرت (لیکن عجلت والی ہجرت نہ ہو) کی جائے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ مصر اور بنگلہ دیش کی ہنگامی صورت حال میں، جب کہ خانہ جنگی چھڑ چکی ہے اور ہزاروں جانی قربانیوں کے بعد واپسی کے رستے بند ہوچکے ہیں، کیا ایسی صورت حال میں دعوتی و تبلیغی طریق کار ، اور اجتہاد کے راستے کھلے رہ سکتے ہیں؟ کیا طاغوتی طاقتیں محض دعوت و تبلیغ اور گفت و شنید سے اقتدار چھوڑ کر جاسکتی ہیں؟ یا بصورتِ دیگر ہجرت ایسے مسئلے کا حل ہوسکتی ہے؟
’بچوں کی تربیت محبت سے‘ (اپریل ۲۰۱۴ء) میں ڈاکٹر سمیریونس نے خوب صورت انداز میں اہم موضوع کی طرف توجہ دلائی ہے۔ آج کے نونہال ہی کل کے اچھے مسلمان اور پاکستانی بن سکتے ہیں۔ یہ تحریر تحریکی ساتھیوں کے لیے بالخصوص اور عمومی قارئین کے لیے ایک انمول تحفہ ہے۔ اللہ رب العزت مولاناعبدالمالک مدظلہٗ العالی کو جنھوں نے ہمارے قلوب و اذہان کو کلامِ نبویؐ کی کرنوں سے منور کیا، جزاے خیر دے۔
’بچوں کی تربیت محبت سے‘(اپریل ۲۰۱۴ء) مفید مضمون ہے اور عملی پہلو سامنے آئے ہیں۔ تاہم ڈاکٹرسمیر یونس نے بچھو کے بار بار کاٹنے پر اسے بچانے کی جو حکایت بیان کی ہے وہ اسلامی نقطۂ نظر سے درست نہیں۔ شریعت میں موذی جانوروں کو مارنے کا حکم ہے۔
ڈاکٹر انیس احمد کا مضمون: ’مطالعے کی عادت__ ایک تحریکی زاویہ‘ (مارچ ۲۰۱۴ء) بہت اہم اور بروقت ہے جس کی طرف سے اکثر لوگ غافل ہیں۔ خاص طور پر نئی نسل میں مطالعے کے شوق کا فقدان ہے۔ ان کی تمام معلومات کا مخزن انٹرنیٹ ہے۔ عام طور پر لوگ علم کے بجاے معلومات ہی حاصل کرنا چاہتے ہیں، یا پھر وڈیو اور آڈیو دیکھ اور سن کر سمجھتے ہیںکہ انھوں نے علم حاصل کرلیا۔ مذکورہ مضمون میں اہم مسئلے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔
پروفیسر شہزاد الحسن چشتی کا گراں قدر مضمون : ’ہگز بوسن یا خدائی ذرّہ‘ (فروری ۲۰۱۴ء) نظر سے گزرا۔ اس میں موصوف نے اہم معلومات پیش کی ہیں، البتہ ان کی ایک فروگزاشت کی تصحیح کرنا ضروری خیال کرتا ہوں۔ سرن(cern) کو انھوں نے تجربہ گاہ کا جاے وقوع بتایا ہے حالانکہ CERN اس تحقیقی ادارے کے نام کا مخفف ہے جو فرانسیسی میں یہ ہے: Conseil Europeen Pour la Rechard Nucleaire ۔ اس کا انگریزی نام ہے: European Council for Nuclear Research ۔یہ جنیوا کے قریب فرانس، سوئٹزرلینڈ کی سرحد میں واقع ہے، جو ۱۹۵۴ء میں ۲۱ممالک کے تعاون سے قائم ہوا تھا۔ قارئین کے لیے یہ جاننا باعث دل چسپی ہوگا کہ بوسن کا لفظ جو اس ذرے کا نام ہے ،مشہور ہندستانی ماہر طبیعات ستیندرا ناتھ بوسن کے اعزاز میں پال ڈارک ( Paul Dirac) نے رکھا تھا۔
اپنے مضمون میں فاضل مقالہ نگار نے اللہ کے عرش کے پانی پر ہونے کی یہ تاویل کی ہے کہ پانی سے مراد توانائی ہے۔ میرے خیال میں قرآن کے الفاظ کو ان کے اُسی مفہوم میں رکھنا چاہیے۔ یہ زیادہ بہتر ہے۔
عالمی ترجمان القرآن کے مطالعے سے تزکیہ و تربیت کا سامان ہوتا ہے اور ملکی و عالمی حالات سے آگہی ملتی رہتی ہے۔ دیہات میں دعوتی کام کے لیے رہنمائی اور لائحہ عمل پیش کرنے کی بھی ضرورت ہے، نیز زرعی مسائل کو بھی زیربحث لانا مفید ہوگا۔ دیہی پس منظر کے پیش نظر بعض مضامین مشکل محسوس ہوتے ہیں۔
احادیث کی صحت اور سند کے حوالے سے اعتراضات اُٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ حدیث محفوظ ہے اور جتنی بھی احادیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں ان سب کے بارے میں فیصلہ ہوچکا ہے کہ کون سی احادیث صحیح ہیں اور کون سی حسن کے درجے میں ہیں، اور کون سی ضعیف اور کون سی موضوع ہیں۔ وہ جن اسانید اور راویوں کے ذریعے روایت کی گئی ہیں ان سب کے حالات کی تحقیق اور تفتیش ہوچکی ہے۔ ان سب کے بارے میں معلوم کرلیا گیا ہے کہ ان میں سے کون عادل، ثقہ اور معتبر ہے اور کون غیرعادل، غیرثقہ اور غیرمعتبر۔ ہرراوی کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ سچا ہے یا جھوٹا، وہ حافظہ رکھتا تھا یا نہیں۔ اس نے کون سی احادیث روایت کی ہیں اور ان کی حیثیت کیا ہے۔
اس کے لیے محدثین کرام نے بڑی محنت کی ہے۔ بڑی مشقتیں اُٹھائی ہیں، دُوردراز کے سفر کیے ہیں اور اُمت مسلمہ کی ایک بے نظیر و بے مثال تاریخ مرتب ہوگئی ہے۔ لاکھوں انسان جنھوں نے احادیث روایت کی ہیں، ان کی زندگیاں بھی محفوظ ہوگئی ہیں اور علم اسماء الرجال وجود میں آگیا ہے۔ علم اسماء الرجال میں راویوں کے حالات بیان کردیے گئے ہیں اور ان کا عادل اور مجروح ہونا بھی پوری تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور اس کے لیے علم جرح و تعدیل وجود میں آگیا ہے۔
زیرنظرکتاب اس موضوع پر ایک جامع دستاویز ہے۔ اس میں حدیث اور اس کی سند کی تعریف، حدیث کی اقسام، اسناد اور علم جرح و تعدیل کی اہمیت، علم حدیث روایت و درایت، طلب ِحدیث کے لیے علمی اسفار، جرح و تعدیل کی شرعی حیثیت، جرح و تعدیل راوی، ضبط راوی، طبقات راویان حدیث، احکام جرح و تعدیل ، جرح و تعدیل کے مشہور نقاد کرام، جرح و تعدیل کے بارے میں تصنیفات، صحاح ستہ اور دیگر راویوں کے بارے میں تصنیفات ، ثقہ راویوں کے بارے میں تصانیف، ضعیف راویوں کے بارے میں تصانیف، سب موضوعات پر سیرحاصل بحث کی گئی ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر سہیل حسن صاحب، جیسی علمی شخصیت نے جو علومِ حدیث میں مہارت تامہ رکھتے ہیں، اس موضوع پر بحث کا حق ادا کردیا ہے اور علمِ حدیث کے طالب علم کے لیے ایک مستند راہنما کی حیثیت رکھنے والی عظیم کتاب مرتب کردی ہے اور علمِ حدیث سے شغف رکھنے والوں کو بڑی بڑی کتب سے بے نیاز کردیا ہے۔ بے شک علمِ حدیث جو قرآن پاک کی تفسیر اور تشریح بھی ہے، اس کی حفاظت کا اللہ تعالیٰ نے ایسا انتظام فرما دیا ہے کہ قیامت تک کے لیے احادیث رسولؐ سے استفادہ ہوتا رہے۔ قرآن و سنت فقہ اسلامی کا بنیادی مآخذ ہیں اور فقہاے اسلام نے ان کی روشنی میں فقہ اسلامی کا عظیم الشان ذخیرہ مستنبط کیا ہے کہ قانون کی دنیا اس کی مثال پیش کرنے سے عاجز ہے۔ اسی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن و سنت کو اپنا دائمی معجزہ قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ دونوں وحی ہیں اور دونوں اپنے اندر معجزانہ شان رکھتے ہیں اور قیامت تک کے لیے لوگوں کو دائرۂ اسلام میں داخل کرنے کا ذریعہ بنتے رہیں گے، اور انھی دونوں کے سبب قیامت کے روز میرے پیروکار زیادہ ہوں گے۔
مبارک باد کی مستحق ہیں وہ شخصیات جنھوں نے کسی بھی درجے میں قرآن و حدیث کے کسی شعبے کی خدمت کی ہے۔ڈاکٹر سہیل حسن صاحب ایک علمی خاندان کے چشم و چراغ ہیں اور علمِ حدیث کی خدمت میں زندگی کا طویل عرصہ کھپا دیا ہے۔وہ اس پر اہلِ علم کی طرف سے مبارک باد کے مستحق ہیں۔ یہ کتاب علما اور طلبہ کے لیے ان کی طرف سے ایک نادر تحفہ ہے۔
ادارہ تحقیقاتِ اسلامی اور اس کے سابق مدیر ڈاکٹر ظفراسحاق انصاری نے اس کتاب کی ترتیب و اشاعت میں بڑی دل چسپی لی ہے۔ اس پر وہ اور ان کا ادارہ بھی مبارک باد کا مستحق ہے۔(مولانا عبدالمالک)
آج کی دنیا میں خواتین اور ان کے حقوق کا تذکرہ تو بہت ہے، تاہم مشرق ہو یا مغرب، خواتین کو وہ حقوق یقینا حاصل نہیں ہیں جن کی وہ حق دار ہیں۔ جہاں تک قانون، پارلیمنٹ اور آئینی و دستوری تحفظ کا معاملہ ہے ، صورت حال اس سے بھی زیادہ گمبھیر ہے۔
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے ڈائرکٹر جنرل خالد رحمن اور ریسرچ اسکالر ندیم فرحت نے پاکستانی خاتون، قانون سازی اور موجود طرزِفکر کو سمجھنے کے لیے اصحاب علم و دانش کو اکٹھا کیا۔ ۲۰۰۸ء-۲۰۱۳ء تک کام کرنے والی قومی اسمبلی میں خواتین اور خاندان کے حوالے سے جو بل پیش کیے گئے اُن کا تجزیہ ایک نئے انداز سے کیا، اور ہر بل کے حوالے سے مختصر سفارشات اِس پہلو سے مرتب کیں کہ آیا، بل مؤثر تھے یا غیرمؤثر، ان پر عمل درآمد ہوسکا یا نہیں، آیندہ بہتری کے کیا امکانات ہیں۔ اِس نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو سائنٹی فک اپروچ کی حامل کتاب منظرعام پر آئی ہے۔
کتاب کے پیش لفظ میں مرتبین تحریر کرتے ہیں: پاکستان میں خواتین کے حقوق کا جائزہ لیا جائے تو بنیادی ضروریات کی عدم فراہمی سے اقتصادی میدان میں کارکردگی تک کتنے ہی چیلنج سامنے آتے ہیں۔ ان مسائل کے حل کے لیے جہاں یہ ضروری ہے کہ بیداری کی مہمات چلائی جائیں، تعلیم، ملازمت اور ترقی کے اقدامات کیے جائیں وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ قانون سازی کی جائے تاکہ معاشرے میں تبدیلی پیدا ہو۔(ص ۱۱)
ڈاکٹر انیس احمد ’عورت، معاشرہ اور قانون سازی‘ کے تحت لکھتے ہیں کہ اسلام نے مسلمان خواتین کو تمام مناسب اور ضروری حقوق دیے ہیں۔ اگرچہ ہرمعاشرے میں اس پر عمل درآمد کی کیفیت مختلف رہی۔ اُنھوں نے حقوقِ نسواں کی تحریک پر بھی روشنی ڈالی ہے اور یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ’’پاکستان میں موجود قوانین، بلکہ دنیا بھر میں موجود قوانین کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے--- نیز مغرب نے صنف کی بنیاد پر کش مکش کا جو نظریہ دیا ہے، اُس کے مقابلے میں اخلاقیات پر مبنی، اسلام کے نظام براے خواتین و حضرات کو تمام عالم کے سامنے پیش کیا جانا چاہیے‘‘۔ (مقدمہ)
کتاب میں ۲۰۰۲ء-۲۰۰۷ء کے دوران خواتین و خاندان کے حوالے سے پرائیویٹ بل، حکومتی بل اور عمل درآمد نیز قانون سازی کا بھی جامع انداز میں مختصر جائزہ لیا گیا ہے۔ اُس وقت متحدہ مجلس عمل ایک اہم سیاسی گروپ کے طور پر پارلیمنٹ میں موجود تھی، اگر اس کا بھی تفصیلی جائزہ لیا جاتا تو مفید ہوتا۔ پاکستان میں جو اقلیتیں ہیں اُن کی خواتین کس حالت میں ہیں، اس کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
شادی اور خاندان خصوصاً تعدد ازواج کے حوالے سے پیش کیے جانے والے بلوں کا متن شاملِ اشاعت ہے اور اس حوالے سے پیچیدگیوں کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ ’قرآن سے شادی‘ جیسی ناقابلِ فہم رسم کے خلاف پیش کیے جانے والے بل، بچوں کے نان نفقے کے بل کی تفصیلات پیش کرنے کے بعد اُمید ظاہر کی گئی ہے کہ آیندہ پارلیمنٹ ان پر عمل درآمد کو یقینی بنائے گی۔ انسانی اسمگلنگ کے حوالے سے پیش کیے گئے بل (ص ۱۲۹)، وراثت کے قوانین کے ساتھ ساتھ ، غیرسرکاری طور پر بزرگوں کے ذریعے خاندانوں کے باہمی اور مسلسل میل ملاپ کے ذریعے طلاق کی شرح کم کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔مسلم معاشرے میں خواتین کے لیے مہمات کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔
مرتبین یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ پاکستان میں حکمران کوئی بھی جماعت ہو، خواتین کو حقوق صرف ایک حد تک دینے پر ہی اتفاق پایا جاتاہے۔ اپنے موضوع پر یہ جامع کتاب خواتین کے مسائل پر غوروفکر اور تحقیق کے کئی نئے پہلو سامنے لاتی ہے۔ (محمد ایوب منیر)
مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی نے تحریر، تقریر اور تربیت کے ذریعے دین اسلام کا پیغام پھیلانے کے لیے زندگی بھر جدوجہد کی۔ بیسویں اور اب اکیسویں صدی میں متلاشیانِ حق ان کے چشمۂ فیض سے حیات آفرین پیغام حاصل کر رہے ہیں۔
زیرنظر کتاب درحقیقت، مذکورہ بالا موضوع پر ڈاکٹریٹ کے لیے لکھا گیاتحقیقی مقالہ ہے۔ ڈاکٹریٹ کے مقالوں کے بارے میں آج کل اچھا تاثر نہیں پایا جاتا کیوں کہ زیادہ تر فارمولا قسم کے غیرمعیاری مقالے سامنے آرہے ہیں۔ لیکن امرِواقعہ ہے کہ اس کتاب کا درجہ ہمارے بھیڑچال ڈاکٹریٹ یا ایم فل مقالات سے بہت بلند ہے۔ فاضل محقق نے بڑی لگن سے یہ کوشش کی ہے کہ وہ موضوع کا حق اداکرنے کے لیے اپنی توانائیاں لگادیں۔ اقتباسات سے بقدر ضرورت ہی استفادہ کیا ہے، اور باقی معاملہ تجزیاتی اور تخلیقی سطح پر پہنچ کر کیا ہے۔
مولانا مودودی کی تقریر سننے والے چند لاکھ ہوں گے اور وہ بھی ان کے معاصرین، مگر ان کی نثر: رنگوں کی بوقلمونی، استدلال کی گرفت، منطق کی عظمت، اسلام کے سرمدی پیغام کی خوشبو سے، ہر زمانے کے قاری کو صراطِ مستقیم سے جوڑتی ہے کہ پڑھتے ہوئے حق سے وابستہ ہونے پر دل لبیک کہہ اُٹھتا ہے۔
مصنف نے تنقید کے مسلّمہ ضابطوں سے مولانا مودودی کی نثر کو پرکھا اور وسیع بنیادوں پر اس کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ خود کتاب کی نثر اور احتیاط نگاری میں فاضل محقق کے استادگرامی ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کا رنگ جابجا گواہی دیے بغیر نہیں رہتا۔ اس موضوع پر بھارت میں بھی ڈاکٹریٹ کا ایک مقالہ لکھا جاچکا ہے، اس پر ترجمان کے زیرنظر صفحات میں تبصرہ بھی ہوا تھا مگر محمد جاوید اصغر کی یہ کاوش اس سے کہیں زیادہ بلندپایہ اور معیاری ہے۔(سلیم منصور خالد)
لالہ صحرائی (اصل نام: چودھری محمد صادق، ۱۹۲۰ء-۲۰۰۰ء) افسانہ و ڈراما نگار اور ادیب تھے۔ آخری عمر میں ان کے دل میں نعت گوئی کی تمنّا بیدار ہوئی، دعاگو رہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے لطف ِ خاص سے انھیں حرمین شریفین میں حاضر ہونے کا شرف بخشا۔ وہاں مبارک لمحوں میں، دوسری دعائوں کے علاوہ وہ یہ دعا بھی کرتے رہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے مجھے نعت کہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اس کے فضل و کرم کا کرشمہ ملاحظہ ہو کہ جولائی ۱۹۹۱ء کی ایک چمکتی صبح کو ان پر یکایک نعتوں کا نزول شروع ہوگیا۔
زیرنظر کتاب انھی نعت گو لالہ صحرائی کی شخصیت، سوانح اور نعت گوئی پر مضامین اور تاثرات کا مجموعہ ہے، جسے معروف محقق، نقاد اوراقبال شناس ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے مرتب کیا ہے۔کتاب کو ۱۰ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس میں لالہ صحرائی کے ساتھ مصاحبے(انٹرویو)، ان کی شخصیت اور فکروفن، اہلِ علم و ادب کے مضامین ، ان کے اہلِ خانہ کے تاثرات، ان کی وفات پر ان کے احباب اور مداحوں کے تاثرات، ان کی کتب پر تبصرے اور دیباچے، ان کی خدمت میں منظوم خراجِ تحسین اور ان کی وفات پر تعزیت نامے شامل ہیں۔ یوں ہاشمی صاحب نے سارے دستیاب لوازمے کو مختلف عنوانات کے تحت تقسیم کر کے ایک گل دستہ مرتب کیا ہے۔ اس میں لالہ صحرائی کے متعلق پروفیسر خورشیداحمد، الطاف حسن قریشی، مجیب الرحمن شامی، مشفق خواجہ، احمدندیم قاسمی، حفیظ تائب، اسلم انصاری، عاصی کرنالی، خورشید رضوی اور حفیظ الرحمن احسن جیسے اکابر علم و ادب کے مضامین شامل ہیں۔مرحوم کے اہلِ خانہ اور بعض اعزہ کی تحریروں سے ان کے ایسے معمولات اور عادات و خصائل کا پتا چلتا ہے جو کسی اور ذریعے سے معلوم نہ ہوسکتی تھیں۔
یہ کتاب درحقیقت لالہ صحرائی کی متواضع، سادہ، منکسرالمزاج اور محبت ِ رسولؐ میں ڈوبی ہوئی شخصیت کو ہمارے سامنے لاتی ہے۔ اس موضوع پر کام کرنے والے محققین کے لیے یہ ایک مستند مآخذ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اتنی خوب صورت، عمدہ اور معلومات افزا کتاب کی اشاعت کا سہرا فرزند ِ لالہ صحرائی، ڈاکٹر جاوید احمد صادق کے سر ہے۔(قاسم محموداحمد)
انسانی زندگی سے وابستہ مختلف روزمرہ مسائل پر مبنی سوالات و استفسارات کے شافی جوابات پر مبنی ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی کا یہ دوسرا مجموعہ ہے۔ یہ سوالات و جوابات جماعت اسلامی ہند کے ترجمان زندگی نو میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ اب ان کو کتابی شکل میں شائع کیا گیا ہے۔ اس سے قبل پہلا مجموعہ شائع کیا گیا تھا۔ اس مجموعے میں کُل ۶۱موضوعات ہیں جن میں زندگی کے عام فقہی مسائل بالخصوص بے وضو قرآن کو چھونا، قرآن کے بوسیدہ اَوراق کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے؟ چُھوٹی ہوئی نمازوں کا کفّارہ، مساجد میں عورتوں کی حاضری، تعمیر مسجد میں غیرمسلم کا مالی تعاون، زکوٰۃ سے اساتذہ کی تنخواہوں کی ادایگی، حج، حجِ بدل، قربانی، شادی کی رسمیں، مصنوعی استقرارِ حمل، بگڑے ہوئے شوہر کی اصلاح کا طریقہ، تحریکی خواتین کا دائرۂ عمل، چہرے اور آواز کا پردہ، سودی کاروبار، کالے خضاب کی شرعی حیثیت وغیرہ شاملِ اشاعت ہیں۔
اسی طرح بعض علمی مسائل جن میں آیاتِ قرآنی، حدیث نبویؐ سے متعلق اشکالات، سیرتِ رسولؐ، سیرتِ صحابہؓ ، تاریخِ اسلام جیسے موضوعات بالخصوص سورئہ توبہ کے شروع میں بسم اللہ نہ پڑھنے کی وجہ، قرآنی بیانات میں اختلاف و تضاد؟ علمِ غیب کی کنجیاں، کیا رسولؐ اللہ کا مشن لوگوں کو بہ جبر مسلمان بنانا تھا؟ضعیف اور موضوع احادیث، گمراہ فرقے اور سزاے جہنم، صحابہ کرام کے کرداروں پر مبنی اداکاری،طبی اخلاقیات جیسے اہم موضوعات شامل ہیں۔
بنیادی طور پر مسائل کو قرآن و سنت کی روشنی میں حل کرنے کا رجحان غالب ہے، جب کہ اس دوران علماے سلف اور فقہاے کرام کی آرا بھی نظرانداز نہیں کی گئیں، نیز مسائل سے متعلق جدیدمعلومات اور سائنسی علوم و اعدا و شمار کو بھی پیش نظر رکھا گیا ہے۔ مسائل پر اختلافی نقطۂ نظر کے ساتھ ساتھ اعتدال کے پہلو کو بھی اُجاگر کیا گیا ہے۔ روز مرہ زندگی میں پیش آنے والے مسائل اور الجھنوں کے شافی اور اطمینان بخش جواب دیے گئے ہیں۔(عمران ظہور غازی)
زیرتبصرہ کتاب میں مصنف نے ایسے سچے واقعات جمع کیے ہیں جو خلافت ِ راشدہ کے دور میں وقوع پذیر ہوئے۔ ا ن واقعات میں سماجی بہبود، عدل و انصاف اور فلاح انسانیت کے ایسے نقوش نمایاں ہیں جو آج بھی ہمارے لیے لائق تقلید ہیں، اور آج کے حکمرانوں کے لیے چراغِ راہ ہیں۔
کتاب کی ابتدا میں حضور اکرمؐ کے اسوئہ حسنہ سے کی گئی ہے اور آپؐ کے حُسنِ سلوک اور سادگی کے واقعات لکھے گئے ہیں۔ انعقادِ خلافت کی ضرورت بیان کرنے کے بعد خلفاے راشدین کے عہد میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات، ان کی سادہ زندگی، امانت و دیانت، رعایا کی جان و مال کی حفاظت، ان کی عادلانہ زندگی، سخاوت اور بیت المال میں پوری رعایا کے استحقاق کا خیال، حُسنِ سلوک، کنبہ پروری سے پرہیز اور مستحق لوگوں کے وظائف مقرر کرنے کے واقعات نہایت سلیس انداز میں بیان کیے گئے ہیں۔ رفاہِ عامہ کے کاموں میں دل چسپی، مفتوحہ زمینوں پر لگان اور جزیے کی وصولی میں نرمی کے واقعات بھی خلفاے راشدین کی رعایاپروری کی دلیل ہیں۔ کتاب دل چسپ واقعات کا مجموعہ ہے۔ یہ واقعات تاریخ و سیرت کی متعدد کتابوں سے ماخوذ ہیں۔(ظفرحجازی)
خواتین کے لیے دینی حدود و قیود میں رہتے ہوئے، اجتماعی جدوجہد کرنا کتنا مشکل کام ہے، اس کا اندازہ شاید عام خواتین نہ لگاسکیں، اور اُن خواتین کے لیے بھی اس بات کا اِدراک کرنا مشکل ہے جو خواتین سے متعلقہ شعبہ جات سے منسلک ہیں کہ جماعت اسلامی کی اجتماعی جدوجہد سے وابستہ خواتین کن مشکل حالات میں کام کررہی ہیں۔
اگرچہ دعوت، تبلیغ، تربیت، خدمت ِ خلق اور قرآن کلاسوں کی سرگرمیاں تو گذشتہ ۶۰برسوں سے حلقہ خواتین کے تجربات کا حصہ ہیں، مگر سیاسی جدوجہد میں، خاص طور پر پارلیمنٹ کے مختلف ایوانوں میں درپیش چیلنجوں سے نمٹنا ایک بالکل نیا امتحان تھا۔ ۲۰۰۲ء میں جب جنرل پرویزمشرف کے مارشل لا نے تمام پارلیمانی ایوانوں میں خواتین کی نشستوں کو بڑھا دیا تو حلقہ خواتین کے لیے ایک نیا چیلنج تھا۔ مگر پارلیمنٹ کی ان رکن خواتین نے دستور سازی، انسانی حقوق کے تحفظ اور قومی و ملّی مسائل پر بڑی فہم و فراست، مہارت اور مستعدی سے نمایندگی کا حق ادا کیا۔ خواتینِ جماعت اسلامی کی اس پارلیمانی کارکردگی کا خود مدِمقابل لابی کی خواتین نے بھی اعتراف کیا ہے۔کتاب کے مطالعے سے قیمتی معلومات سے مستفید ہونے کا موقع ملتا ہے۔
کتاب کا اسلوب ایک جامع رپورٹ کا سا ہے، تاہم اس میں ایک کمی رہ گئی ہے کہ اس سے قبل جماعت کے حلقہ خواتین نے پارلیمنٹ میں جو نمایندگی کی تھی، اس کا تذکرہ بھی شامل ہونا چاہیے تھا۔ اگلے ایڈیشن میں وہ دے دینا چاہیے۔(سلیم منصور خالد)
۱۱؍اگست ۴۷ء کے بعد جو ارشادات قائداعظم کی زبان سے سنے گئے اور ان کے معتمد ترین رفیقوں نے ان کی جو ترجمانی باربار خود ان کی زندگی میں کی اور جس کی کوئی تردید ان کی جانب سے نہ ہوئی، اس کے چند نمونے ملاحظہ ہوں:
پشاور ۱۴جنوری : پاکستان کے وزیراعظم مسٹر لیاقت علی خاں نے اتحاد و یک جہتی کے لیے سرحد کے لوگوں سے اپیل کرتے ہوئے قائداعظم کے ان اعلانات کا پھر اعادہ کیا کہ پاکستان ایک مکمل اسلامی ریاست ہوگا… انھوں نے فرمایا کہ پاکستان ہماری ایک تجربہ گاہ ہوگا اور ہم دنیا کو دکھائیں گے کہ ۱۳ سو برس پرانے اسلامی اصول ابھی تک کارآمد ہیں۔ (پاکستان ٹائمز، ۱۵جنوری ۱۹۴۸ء)
کراچی، ۲۶جنوری: قائداعظم محمدعلی جناح گورنر جنرل پاکستان نے ایک اعزازی دعوت میں(جو انھیں کراچی بار ایسوسی ایشن کی طرف سے گذشتہ شام دی گئی) تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’میرے لیے وہ گروہ بالکل ناقابلِ فہم ہے جو خواہ مخواہ شرارت پیدا کرنا چاہتا ہے اور یہ پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ پاکستان کا دستور شریعت کی بنا پر نہیں بنے گا۔(پاکستان ٹائمز، ۲۷جنوری ۱۹۴۸ء)
راولپنڈی، ۵؍اپریل: مسٹر لیاقت علی خاں وزیراعظم پاکستان نے آج راولپنڈی میں اعلان کیا کہ پاکستان کا آیندہ دستور قرآنِ مجید کے احکام پر مبنی ہوگا۔ انھوں نے فرمایا کہ قائداعظم اور ان کے رفقا کی یہ دیرینہ خواہش رہی ہے کہ پاکستان کی نشوونما ایک ایسی مضبوط اور مثالی اسلامی ریاست کی حیثیت سے ہو جو اپنے باشندوں کو عدل و انصاف کی ضمانت دے سکے۔(پاکستان ٹائمز، ۷؍اپریل ۱۹۴۸ء)
ان صاف اور صریح بیانات کی موجودگی میں قائداعظم کی ۱۱؍اگست والی تقریر کا ایک ایسا مفہوم نکالنا جو ان کے تمام اگلے پچھلے ارشادات کے خلاف ہو مرحوم کی یاد کے ساتھ انصاف نہیں ہے۔ (’مولانا مودودی کا تحقیقاتی عدالت میں دوسرا بیان‘، ترجمان القرآن،جلد۴۲، عدد۲، شعبان ۱۳۷۳ھ،مئی ۱۹۵۴ء، ص۲۱-۲۲)