مسلمانوں کی پستی و گراوٹ اور ذلت و رسوائی کے بہت سے اسباب ہو سکتے ہیں لیکن اگر ان اسباب کو صرف ایک جملے میں بیان کیا جائے تو وہ ہے مسلمانوں کا قرآن مجید سے اعراض ؎
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
اب اگر اس پستی اور ذلت سے نجات کا کوئی راستہ ہو سکتا ہے تو وہی ہے جس کی نشان دہی خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ صدیاں پہلے فرما دی تھی: اِنَّ اللّٰہَ یَرْفَعُ بِھَذَا الْکِتَابِ اَقْوَامًا وَّیَضَعُ بِہٖ آخَرِیْنْ (مسلم)،بے شک اللہ تعالیٰ اس کتاب (قرآن مجید) کے ذریعے کچھ لوگوں کو عزت اور سربلندی عطا فرمائے گا اور کچھ کو پستی اور ذلت سے دوچار کردے گا۔ جن افراد اور قوموں نے قرآن عظیم کو سیکھا ، سمجھا اور اس پر عمل کیا، اللہ نے ان کو سربلند و سرفراز فرمایا اور جنھوں نے اس سے رُوگردانی کی وہ ذلت اور رسوائی سے دوچار ہوئے اور ہوں گے۔ اس حقیقت کو ربِ جلیل و قدیر نے اس وقت دوٹوک انداز میں حضرتِ انسان کے سامنے واضح کر دیا تھا جب ہمارے جدِ امجد سیدنا آدمؑ کو جنت سے زمین پر بھیجا تھا ۔
اس مضمون کو سورئہ بقرہ اور سورۂ اعراف میں بھی بیان کیا گیا ہے، جب رب کریم نے اس حقیقت کو دو اور دو چار کی طرح کھول کر واضح کر دیا کہ زمین میں انسان جس رب کا خلیفہ اور نائب مقرر کیا گیا ہے جب تک وہ اپنے مالکِ حقیقی کی ہدایات پر عمل پیرا رہے گا وہ دنیا میں بھی عزت اور سکون کے ساتھ زندگی بسر کرے گا اور آخرت میں بھی اپنے مالک کی رضا حاصل کر کے جنت کا وارث قرار پائے گا ۔لیکن اگر وہ مالکِ حقیقی کی رہنمائی سے منحرف ہو کر گمراہی کے خود ساختہ راستوں پر چل پڑے گاتو ساری وسعتوں کے باوجود دنیا اس کے لیے تنگ کر دی جائے گی۔ اس کی زندگی مشکلات اور مسائل، بدامنی اور بے سکونی کی زندگی ہو گی اور مرنے کے بعد اسے حقیقی ذلت اور عذابِ جہنم سے دوچار ہونا پڑے گا۔افسوس کہ امت ِ مسلمہ کے رہنماؤں کو اتنے واضح او رروشن دلائل میں بھی نجات کا راستہ سجھائی نہیں دیتا۔
ایمان اور تقویٰ کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے رزق کی فراوانی کا وعدہ فرمایا ہے ۔اللہ کی کتاب اور اس کی ہدایات پر عمل کے نتیجے میں حاصل ہونے والا تقویٰ جس کی برکت سے آج ہمارا معاشرہ محروم ہو چکا ہے اور ہم رزق کی برکت سے محروم ہو چکے ہیں۔اللہ کے ان وعدوں کی سچائی تاریخ کے آئینے میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔اللہ نے بنی اسرائیل کو موسٰی ؑ کی قیادت میں فرعون سے نجات دی،سرزمینِ مصر اور شام میں ان کو اقتدار، رزق کی فراوانی اور امن وسکون کے علاوہ من وسلویٰ بھی عطا کیے۔اَ. نِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ(البقرہ۲:۴۷) کا فرمان جاری کرکے ان کو فضیلت کے منصب ِ جلیلہ کی مسند پر بٹھادیا۔ لیکن تورات اور انجیل میں نازل کردہ ہدایات سے انحراف کے نتیجے میں ان پر ذلت ورسوائی کا کوڑا یوں برسایا: وَضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃُ ق وَ بَآئُ وْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِط (البقرہ۲:۶۱) ’’ان پر ذلت و مسکینی (رُسوائی کے ساتھ رزق کی تنگی اور معاشی بدحالی) مسلط کر دی گئی اور وہ اللہ کے غضب میں گھِرگئے‘‘۔ کہاں من وسلویٰ کے مزے اور سلطنت و حکومت کی عزت اور فضیلت کا مقام اور کہاں مَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ، پستی اور گراوٹ کی انتہا! کیا قرآن کی اس بیان کردہ حقیقت میں ہمارے لیے کوئی سبق نہیں!
ہماری اپنی تاریخ کا درخشاں دور بھی اسی حقیقت کی گواہی دے رہا ہے کہ ع وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر۔ عرب کے صحرا نشین اور چرواہے جو کسی تہذیب سے آشنا نہیں تھے لکھنا پڑھنا بھی نہیں جانتے تھے ۔وقت کی تہذیب یافتہ قومیں، روم وفارس ان کو جاہل،دقیانوس اور گنوار قرار دیتی تھیں۔ محمد عربیؐکی بعثت اور نزول قرآن کے ذریعے رحمت الٰہی کی ایسی پھوار ان پر پڑی کہ عرب کی بنجر زمین میں ہر طرف انسانیت کی رہبری اور رہنمائی کرنے والے نفوسِ قدسیہ کی ہری بھری کھیتیاں لہلہانے لگیں۔وہ بدو جن کو اونٹ چرانے کا ڈھنگ بھی نہ آتا تھا قرآنی ہدایات نے ان کو انسانیت کی گلہ بانی کا ہنر سکھا دیا۔
یہ محض ایک کتاب نہیں بلکہ الکتاب ہے ع ایں کتابے نیست چیزے دیگر است۔ یہ ایسا پارس پتھر ہے جس سے مس ہونے والی ہر چیز دنیا کی خاص چیزوں میں شمار ہونے لگتی ہے۔یہ قرآن جس ہستی پر نازل ہوا وہ امام الانبیاؐ اور خیر البشر کے مقامِ بلند پر فائز ہیں ۔یہ قرآن جس ماہ میں نازل ہوا وہ سیّد الشہور(مہینوں کا سردار)اور با برکت مہینہ قرار پایا۔جس رات قرآن کریم کا نزول ہوا وہ رات لیلۃ القدر کا اعزاز پاکر ہزار مہینوں سے افضل و بہتر ہو گئی۔جن شہروں میں قرآن کریم نازل ہوا، وہ حرمین شریفین کے مقدس اعزاز سے نوازے گئے۔ جن حجروں میں قرآن کریم کی بابرکت آیات کا نزول ہواوہ حجرے امت کی رہبری اور رہنمائی کا سر چشمہ بن گئے۔ جس فرشتے کو قرآن امام الابنیاؐ تک پہنچانے کا شرف حاصل ہواوہ روح الامین اور فرشتوں کے سردار ہوگئے۔ جس عربی مبین میں قرآن کا نزول ہوا، وہ ہمیشہ کے لیے دنیا کی زندہ زبان بن گئی بلکہ اہلِ جنت کی زبان بھی یہی ہو گی۔جس قوم کی طرف الہدیٰ کا پیغام بھیجا گیا، وہ گمنام بدوؤں اور چرواہوں سے دنیا کی رہبری اور رہنمائی کے عظیم منصب پر فائز ہوگئی۔اس قرآن کے سیکھنے اور سکھانے والے کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کا عظیم انسان قرار دیا،اور جو اس کتاب کو پڑھ کر اس پر عمل کرے اس کے والدین کو قیامت کے دن خلعتِ فاخرہ اورسورج سے زیادہ روشن تاج کی بشارت دی گئی۔ قرآن کی تلاوت کرنے والے کو اپنے رب سے ہمکلام ہونے کا شرف حاصل ہوتا ہے۔ہاں! جس امت کی طرف یہ قرآن بھیجا گیا وہ امتِ وسط اور خیر ِامت قرار پائی۔
مسلمانو! خدارا اس کتا ب کو پہچانو، اس کی قدرومنزلت کا احساس دلوں میں پیدا کرو، اور دنیا کی ٹھیکریاں جمع کرنے کے بجاے قرآن کے ذریعے ہیرے جواہرات تلاش کرو۔ ذرا اس فرمانِ الٰہی کو غور سے سنو: ’’لوگو، تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے نصیحت آگئی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفا ہے اور جو اسے قبول کرلیں ان کے لیے رہنمائی اور رحمت ہے۔ اے نبیؐ، کہو کہ ’’یہ اللہ کا فضل اور اس کی مہربانی ہے کہ یہ چیز اُس نے بھیجی، اِس پر تو لوگوں کی خوشی منانی چاہیے، یہ اُن سب چیزوں سے بہتر ہے جنھیں لوگ سمیٹ رہے ہیں‘‘۔ (یونس۱۰: ۵۷-۵۸)۔ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک یہ دنیا بھر کی دولت سے بہتر اور افضل ہے۔ لیکن ہم کتنے بد قسمت ہیں جو اس چشمۂ صافی اورآب حیات سے فیض یاب ہونے کے بجاے غفلت برت رہے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک فرمان کا مفہوم کچھ یوں ہے جس کو قرآن جیسی دولت عطا ہوئی پھر بھی اس کے دل میں یہ خیال پیداہوا کہ کسی دوسرے کو اس سے بڑھ کر نعمت ملی ہے تو اس نے قرآن کی قدرو منزلت کو نہ پہچانا۔ مسلمانو! یہ ہے اصل دولت جسے چھوڑ کر تم کوٹھیاں ،کاریں ،اور پلاٹ بنانے میں لگے ہوئے ہیں، جو سب فناہونے والی چیزیں ہیں۔ قرآن ہمیں فنا سے بقا کی طرف بلاتاہے ۔ یہ قرآن ہماری ختم ہوجانے والی صلاحیتوں اور مال و اسباب کو اپنی ہدایت کے ذریعے جنت کی ابدی اور لازوال نعمتوں میں بدل دیتا ہے: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ(انفال ۸:۲۴)، یعنی اے ایمان والو! اللہ اور اس کا رسولؐ جب تمھیں بلائیں تو ان کی اس دعوت کو قبول کرو جس میں تمھارے لیے زندگی کا سامان ہے۔
دراصل مسلمان کی حیثیت سے عزت کے مقام کو حاصل کرنے اور دنیا کی نعمتوں سے حقیقی فا ئدہ اٹھانے کا مستحق وہ گروہ ہے جو قرآن کو اپنا رہبر اور رہنما بنا لے۔ آج یہود و نصاریٰ کو اپنا رہبر بناکر مسلمان امامت عالم کے منصب ِجلیلہ پہ فائز ہونے کے باوجود پستی اور گراوٹ سے دوچار ہیں، اس سے نجات کا راستہ وہی ہے جس کی نشان دہی امام مالک نے فرمائی تھی: لَا یَصْلُحُ آخِرُ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ اِلَّابِمَا صَلُحَ بِہٖ أَوَّلُھَا، اس اُمت کے آخری دور کی اصلاح بھی اسی چیزسے ہوگی جس سے اس کے ابتدائی دور کی اصلاح ہوئی تھی۔ نبی رحمتؐ نے عرب کے بگڑے ہوئے معاشرے کے سامنے جو اصلاحی پروگرام پیش کیا تھا، اسی کو القرآن، الہدیٰ اور الکتاب کہا جاتا ہے۔
قر آن کی ہدایات سے اعراض کر کے مسلمان کی حیثیت سے زندگی گزارنا یا ترقی کرنا اور دنیا اور آخرت میں سرخ رو ہونا ناممکن ہے ع ایں خیال است و محال است وجنوں! ہم روزانہ اللہ کے سامنے دست بستہ ہو کر دن اور رات کے اوقات میں بار بار یہ دعا کرتے ہیں: اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ’’اے ہمارے رب!ہمیں صراط مستقیم دکھا ۔وہ سیدھی راہ جو گمراہی کی تمام پگڈنڈیوں کے درمیان سے نکلتی ہے اور دنیا سے ہوتی ہوئی سیدھی جنت تک پہنچتی ہے۔ کبھی ہم نے اس پر غور بھی کیا کہ اللہ نے قرآن میں اس دعا کا جواب کیا دیا ہے ۔اِنَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ یَھْدِیْ لِلَّتِیْ ھِیَ اَقْوَمُ وَ یُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ الصَّلِحٰتِ اَنَّ لَھُمْ اَجْرًا کَبِیْرًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۹)، یعنی یقینا یہ قرآن وہ راستہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھا ہے۔ اور ایمان والوں کو جو نیک کام کرتے ہیں اس کامیابی کی خوشخبری دیتا ہے کہ ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے ۔ یہ دراصل اس دعا کا جواب ہے کہ اے ایمان والو!صراط مستقیم پر چلنا چاہتے ہو تو اس قرآن کا دامن تھام لو۔اس سے ہدایت اور رہنمائی حاصل کرو، تمھیں صراط مستقیم مل جائے گی۔ سورئہ انعام میں اس بات کو مزید وضاحت سے بیان کیا گیا ہے: ’’اور یہ دین میرا راستہ ہے جو مستقیم ہے۔ سو اس دین کا اتباع کرو اور دوسری راہوں پر مت چلو وہ راہیں تمھیں اللہ کی راہ (صراطِ مستقیم)سے ہٹادیں گی۔ اس (راہ پر چلنے)کا اللہ نے تم کو تاکیدی حکم دیا ہے تا کہ تم پرہیز گار بن جاؤ‘‘۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جس دین حق اور الہدیٰ کے پیغام کے ساتھ مبعوث فرمایا گیا،مسلمانوں کو اس دین ِ حنیف پر مضبوطی سے قائم رہنے کی تاکید جابجا کی گئی ہے۔ اَنْ اَقِیْمُوْا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ ط (الشورٰی ۴۲:۱۳)’’دین کو قائم رکھو اور اس میں پھوٹ نہ ڈالو‘‘۔ آج مسلمان کتاب ہدایت سے اعراض کے نتیجے میں صراط مستقیم سے بھٹک کر گمراہی اور پستی میں گرتے چلے جارہے ہیں ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُھُمْ لِذِکْرِ اللّٰہِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ لا (الحدید۵۷:۱۶) ’’کیا ایمان لانے والوں کے لیے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے ذکر سے پگھلیں ، اور اس کے نازل کردہ حق کے آگے جھکیں‘‘۔ دلوں کی سختی کو قرآن کی آیات ہی نرمی میں بدل سکتی ہیںبشرطیکہ ہم قرآن کی طرف رجوع کریں۔ اس کی آیات میں غور وتدبر کریں۔ ان کا فہم حاصل کریں اور ان احکامات پر عمل کریں۔
حضرت فضیل بن عیاض ؒ ایک صوفی بزرگ تھے۔ ابتداً وہ ایک ڈاکو تھے۔ درج بالا آیت مبارکہ سن کر ان کی چیخ نکل گئی اور اللہ کے ذکر سے ان کا دل پگھل گیا ۔ فضیل نے قرآن پڑھنا اور اس پر عمل کرنا مقصد حیات بنا لیا۔ وہ ڈاکو اور رہزن سے رہبر اور رہنما بن گئے۔ ہم بھی بحیثیت ِ قوم (کچھ استثناکے ساتھ )اللہ کے باغی اور نافرمان، خائن اور بددیانت ،جھوٹے اور مکار بن چکے ہیں۔ پس اے قوم اللہ کی کتاب کی طرف رجوع کرلو، تمھیں کھویا ہوا مقام پھر مل جائے گا۔
قابلِ رشک زندگیاں کن لوگو ں کی ہیں؟ اللہ کے حبیبؐکی زبانِ مبارک سے سنیے! فرمایا: ’’رشک جائز نہیں مگر دو طرح کے آدمیوں پر ۔ایک وہ جسے اللہ نے قرآن (کا علم) دیا وہ دن رات کے اوقات میں قرآن پڑھتا اور پڑھاتا ،سیکھتا اور سکھاتا ہے۔ اور وہ آدمی جس کو اللہ نے مال دیا وہ دن اور رات کے اوقات میں اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے‘‘ (متفق علیہ)۔ یہ ہیں قابل رشک لوگ، لیکن ہمیں رشک آتا ہے لمبی کاروں، اُونچی کوٹھیوں ،زرق برق لباس اور پُرتعیش زندگیوں پر۔
مسلمانو! یہ ہے وہ گوہرِ نایاب ،یہ ہے وہ خزانہ جس پر ہم کنڈلی مار کر ناگ کی طرح بیٹھے ہیں۔اسے ریشمی جزدان میں رکھتے ہیں۔لڑکیوں کو جہیز میں دیتے ہیں۔قریب المرگ کے سامنے اسے پڑھتے ہیں تاکہ دم نکلنے میں آسانی ہو۔عدالتوں میں جھوٹی قسمیں کھاتے وقت اسے سر پر اُٹھاتے ہیں۔پریشانی کے وقت اس سے فال نکلواتے ہیں۔قرآن کے ساتھ یہ ظلم کرنے والے کوئی اور نہیں خود اس کو اللہ کا کلام ماننے والے ہم مسلمان ہی ہیں۔ماہر القادری نے ہمارے حال کی کتنی خوب صورت منظر کشی کی ہے۔ اپنی مشہورنظم ’قرآن کی فریاد‘میں کہتے ہیں:؎
طاقوں میں سجایا جاتا ہوں، آنکھوں سے لگایا جاتا ہوں
تعویذ بنایا جاتا ہوں، دھو دھو کے پلایا جاتا ہوں
یہ میری عقیدت کے دعوے ،قانون پہ راضی غیروں کے
یوں بھی مجھے رسوا کرتے ہیں، ایسے بھی ستایا جاتا ہوں
قرآن انقلاب کی کتا ب تھی، ہم نے اسے ثواب کی کتاب بنا دیا۔یہ اعمال اور سیرت و کردار کو بنانے اور سنوارنے کی کتاب تھی، ہم نے اسے وظیفوں کی کتاب بنا دیا ہے۔یہ سمجھنے اور عمل کرنے کی کتاب تھی، ہم نے اسے صرف بے سمجھے بوجھے پڑھنے کی کتاب بنا دیا ہے۔یہ زندوں کا دستور تھا ، ہم نے اسے مُردوں کا منشور بنا دیا۔یہ تسخیرِ کائنات کا درس دینے آئی تھی،ہم نے اسے مدرسوں کا نصاب بنادیا۔یہ مُردہ قوموں کو زندہ کرنے آئی تھی ،ہم نے اسے مُردوں کو بخشوانے پر لگا دیا۔
مسلمانو!رُک جاؤ، لوٹ آؤ اس کتاب کی طرف۔ہر مسلمان اس کتاب کوسمجھ کر پڑھنے کا دل سے عہد کرے۔پھر اس کی آیات میں اپنی استطاعت کے مطابق غور و تدبر کرے، اس کے معنی و مفہوم کو سمجھنے کی کوشش کرے،جو سمجھتا جائے اس پر عمل کرتا جائے۔ اس کے نتیجے میں زندگیوں میں اعمالِ صالحہ کی بہار آنی شروع ہو جائے گی۔معاشرے اور گھروں کا منظر بدلناشروع ہو جائے گا۔ قرآن کے دامن میں چھپی مومنین صالحین کی تصویریں گلیوں،با زاروں میں چلتی پھرتی نظر آنے لگیں گی۔پھر ہمارے ملک اور معاشرے میں بھی امن و آشتی کا سماں قائم ہو جائے گا۔ ہم ایک دوسرے کو کاٹ کھانے کے بجاے ایک دوسرے کے ہمدرد اور خیر خوا ہ بن جائیں گے۔ شرط یہ ہے کہ ہم اپنے دین اور اللہ کی کتاب کو سمجھنے کے لیے آج ہی سے محنت شروع کردیں۔ اللہ کے حبیبؐنے فرمایا: اس وقت تمھارا کیا حال ہو گا جب تم بیل کی دُم تھام لو گے، یعنی دنیا کے کاروبار میں لگ جاؤ گے (دنیا داری میں مگن ہو جاؤ گے)اور اپنے دین کے لیے محنت کرنا چھوڑ دو گے۔جب ایسا ہو گا تو تم پر ذلت و محکومی مسلط کردی جائے گی۔جس سے تمھیں اس وقت تک نجات نہ ملے گی جب تک تم اپنے دین کی طرف نہ پلٹ آؤ۔
ذلت اور محکومی آج ہمارے گلے کا ہار بن چکی ہے۔مخبرِصادقؐنے چودہ صدیاں قبل ہمیں نورِ نبوت کی روشنی میں اس بدترین غلامی کی خبر دے دی تھی ۔آج بھی اگر ہم ہوش کے ناخن لیں، یہود ونصاریٰ کی تقلید سے بچیں، قرآن کو اپنا رہبر اور رہنما بنا لیں، اس کی روشن آیات سے رہنمائی حاصل کریں، پھر پورے عزم و جزم کے ساتھ اس راستے پر چل پڑیں، تو ہم اپنی گری ہوئی ساکھ کو بحال کرسکتے ہیں۔شاعرِ مشرق کہتے ہیں ؎
بر خور از قرآں اگر خواہی ثبات
درِ ضمیرش دیدہ ام آبِ حیات
(اگر تجھے دوام و ثبات مطلوب ہے تو قرآن سے خوشہ چینی کر ۔میں نے دیکھا ہے کہ اس میں آبِ حیات ہے)۔
ہاں، وہی آبِ حیات جس کو عرب کے بادیہ نشینوں نے نوش فرمایا تو اُن کی زندگیاں پوری دنیا کے لیے قابلِ رشک بن گئیں۔
اے مسلم حکمرانو! اے اُمتِ مسلمہ کے دانش ورو!اے قرآن کے وارث علماے کرام! خدارا! اپنی قوم کی رہنمائی کا حق ادا کرو۔ اس قوم کو پھر سے قرآن کا آبِ حیات پلاؤ۔ ان غلاموں کو پھر آزادی کا سبق پڑھاؤ۔ ہاں، وہ سبق جس کے لیے صحابہ کرامؓ اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے تھے‘‘۔ حضرت ربعیؓ بن عامر سے جب رُستم نے پوچھا تھا تم ہمارے ٹکڑوں پر پلنے والے اس قدر جرأت مندکیسے ہو گئے کہ ہمیں آنکھیں دکھا رہے ہو؟اسلام کے اس سفیر نے فرمایا تھا: ہم آئے نہیں، ہم بھیجے گئے ہیں۔ جن لوگوں کو ماؤں نے آزاد جنا تھا تم نے ان کو اپنی غلامی کے طوق پہنا رکھے ہیں۔ ہم ان کو اس ذلت اور غلامی سے نجات دلانے آئے ہیں۔تم نے لوگوں کو دنیا کی تنگنائیوں میں جکڑ رکھا ہے۔ ہم ان کو آخرت کی وسعتوں میں لے جانا چاہتے ہیں۔
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اللہ تعالیٰ انسانوں میں سے کچھ لوگوں کو اپنے مقربین میں شامل کرلیتا ہے۔ وہ جو قرآن کو اپنا لیتے ہیں وہ اللہ کے مقربین اور خاص بندے بن جاتے ہیں‘‘(احمد ، نسائی)۔کون ہیں جو قرآن کو اپنا لیتے ہیں جنھوں نے اپنی زندگیاں اللہ کے کلام کو پڑھنے پڑھانے، سمجھنے سمجھانے،سیکھنے سکھانے، عمل کرنے اور اس کے پیغام کو پھیلانے کے لیے وقف کر رکھی ہیں۔ (اللّٰھم اجعلنا منھم)۔ آج مسلمان شرک اور بدعات کے ساتھ جہالت کے جن اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں، قرآن کا دامن تھام کر ہی ان اندھیروں سے نکل سکتے ہیں اور روشنی کا راستہ تلاش کیا جا سکتا ہے۔ارشادِ ربانی ہے: ’’اے لوگو!تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے دلیلِ روشن آگئی ہے۔ اور ہم نے تمھاری طرف واضح روشنی نازل کر دی ہے۔پس جو لوگ اللہ پر ایمان لائے اور اس نورِمبین (قرآنِ حکیم)کو مضبوط پکڑ لیا انھیں تو وہ اللہ عنقریب اپنی رحمت اور فضل میں داخل فرمائے گا۔اور انھیں اپنی طرف آنے کے لیے صراط مستقیم دکھائے گا‘‘(النساء ۴:۱۷۴-۱۷۵)۔ رحمتِ للعالمینؐ نے فرمایا:’’ یقینا اس قرآن کا ایک سرا اللہ کے ہاتھ میں ہے اور دوسرا سرا تمھارے ہاتھوں میں ہے۔پس اسے مضبوطی سے تھام لو، تم ہمیشہ کے لیے گمراہی اور ہلاکت سے بچ جاؤ گے‘‘۔
حضرت علیؓ نے فرمایا کہ میں نے رسول اکرمؐسے سُنا ہے: ’’عنقریب ایک فتنہ برپا ہوگا۔میں نے کہا: اے اللہ کے رسولؐ! اس سے نکلنے کا کیا راستہ ہو گا؟آپؐ نے فرمایا:کتابُ اللہ۔ اس میں تم سے پہلے لوگوں کی خبریں اور بعد میں آنے والے لوگوں کی خبر ہے۔تمھارے درمیان فیصلہ کرنے والی ہے اور اس کا فیصلہ قولِ فیصل ہے،مذاق نہیں۔کسی متکبر نے اگر اس کو چھوڑ دیا تو اللہ اس کو ہلاک کر دے گا۔اور جس نے اس کے علاوہ کسی اور چیز سے ہدایت طلب کی وہ گمراہ ہو جائے گا۔ یہ اللہ کی مضبوط رسی ہے اور یہ ذکرِ حکیم ہے (نصیحت و حکمت)۔یہ سیدھی راہ ہے۔ یہ ایسی کتاب ہے کہ اس سے صرف وہی شخص گمراہ ہوتا ہے جو اپنی خواہشات کی پیروی کرے۔ اس سے زبانیں خلط ملط نہیں ہوتیں۔علما اس سے کبھی سیر نہیں ہوتے۔بار بار دہرانے سے یہ کبھی پرانا نہیں ہوتا۔ اس کے عجائب کبھی ختم نہیں ہوتے۔یہ وہ کتاب ہے کہ جب جنوں نے اس کو سن لیا تو متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے، حتیٰ کہ پکار اُٹھے: اِنَّا سَمِعْنَا قُرْٰانًا عَجَبًا o (الجن ۷۲:۱)،کہ ہم نے ایک بڑا عجیب قرآن سنا ہے جو راہِ راست کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔اس لیے ہم اس پر ایمان لے آئے ہیں۔ جس نے اس سے بات کی اُس نے سچ کہا، جس نے اس پر عمل کیا اس کو اجر دیا جائے گا۔ جس نے اس کے مطابق فیصلہ کیا اس نے عدل کیا، اور جس نے اس کی طرف لوگوں کو بلایا اس نے سیدھے راستے کی طرف بلایا‘‘۔(مشکٰوۃ)
حضرت علیؓ کے دور میں جب آپؓ کے ایک ساتھی حارث اعور نے ان سے لوگوں کے باہمی اختلافات اور تنازعات کا ذکر کیا تو آپؓ نے فرمایا ایسے فتنوں سے نکلنے کا واحد راستہ اللہ کی کتاب ہے۔آج ہم بھی طرح طرح کے فتنوں میں مبتلا ہیں۔ اللہ کی کتاب کی طرف رجوع ہی ہمارے مسائل کا واحد حل ہے۔ قبائلی عصبیتیں ہوں یارنگ و نسل کے جھگڑے،شرک اور بدعات کے مسائل ہوں یا مذہبی اختلافات، سیاسی اور معاشرتی تنازعات ہوں یا اخلاقی پستی اور ٖگراوٹ، حکم ہے: فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ (النساء۴:۵۹)، یعنی ہر لڑائی اور جھگڑے اور ہراختلافات کا حل اللہ کی کتاب اور رسولؐکی سنت میں تلاش کرو۔ آپؐنے فرمایا: یہ کتاب تمھارے درمیان فیصلے کرنے والی ہے اور اس کے فیصلے ہی عدل و انصاف کی فراہمی کا ذریعہ ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن کو چھوڑ کرجو فیصلے کسی دوسرے قانون کے مطابق کیے جاتے ہیں وہ سراسر ظلم اور نا انصافی ہے۔اور ایسے فیصلے کرنے والے قرآن کی رو سے یا تو کافر ہیں یا ظالم ، یا فاسق و فاجر جیساکہ سورئہ مائدہ میں فرمایا گیا ہے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اگر مسلم حکمران اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلے نہ کریں تو اللہ تعالیٰ مسلم معاشرے میں پھوٹ ڈال دیتا ہے اور وہ آپس میں کُشت و خون کرنے لگتے ہیں۔(بیہقی ، ابن ماجہ)
اس وقت پوری دنیا کے مسلمان بالعموم اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عوام بالخصوص جس باہمی جنگ و جدال ،جن مسائل اور بد امنی سے دو چار ہیں، یہ کتابُ اللہ اور سنت رسولؐسے رُوگردانی کا نتیجہ ہے ۔ ہم نے اس خطۂ زمین کو اللہ سے اس عہد کے ساتھ حاصل کیا تھا کہ یہاں قرآن کو دستور زندگی بنائیں گے، لیکن ۶۵سال سے ہم اس عہد کی خلاف ورزی پر مُصر ہیں ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان ہے، جس قوم نے عہد کی خلاف ورزی کی، اس پر دشمن کا تسلط ہو کر رہے گا۔ آج ہمارے دشمن پوری طرح ہم پر حاوی ہو چکے ہیں ۔ہر روز مسلمانوں کا خون بہہ رہا ہے۔ اے قوم!اللہ کی کتاب کی طرف رجوع کرلو ورنہ اس سے بدترین حالات سے دوچار ہونا پڑے گا۔ قرآن مجید نبیصلی اللہ علیہ وسلمکی ہمارے پاس وہ امانت ہے جس سے بے اعتنائی کی سزا ہم بھگت رہے ہیں ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’میں تمھارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں اگر ان دونوں کو مضبوطی سے تھام لوگے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے:ایک اللہ کی کتاب اور دوسرے اس کے رسولؐکی سنت‘‘۔ جس امانت کا بار نبی صلی اللہ علیہ وسلمکے کندھوں پر ڈالا گیا تھا، آپ ؐنے اس کا حق ادا کر کے اسے اُمت تک پہنچا دیا۔ اب یہ امانت ہم سے یہ تقاضاکرتی ہے کہ ہم بھی اس کا حق ادا کریں۔ ہمیں یہ سوچنا چاہیے کا ہمارا رویہ اس کتاب کے ساتھ کیسا ہے؟
ہم سے پہلے بنی اسرائیل کو اللہ کی کتاب کا وارث بنایا گیا تھا۔ جب انھوں نے اس کا حق ادا نہ کیا تو وہ خدا کی لعنت کے مستحق ٹھیرے اور خدا کی رحمت سے دُورپھینک دیے گئے۔ سورۂ جمعہ میں ارشاد ربانی ہے: ’’جن لوگوں کو تورات کا حامل بنایا گیا تھا پھر انھوں نے اس کتاب کا حق ادا نہیں کیا ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جس پربہت ساری کتابیں لاد دی گئی ہیں‘‘۔بنی اسرائیل کا اللہ نے کیا حشر کیا، قرآن کے صفحات میں ان کی روداد بڑی تفصیل سے بیان کی گئی ہے۔ یہ تفصیل اس لیے دی گئی ہے تا کہ ان کی وارث بننے اور ان کے بعد آنے والی اُمت، ان کے حالات سے پوری طرح واقفیت حاصل کرکے اپنے آپ کو ان خرابیوں سے بچاسکے جن کی بنا پر بنی اسرائیل کو اَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ کے مقام بلند سے کُوْنُوْا قِرَدَۃً خٰسِئِیْنَ (ذلیل بندر بن جاؤ) کے گڑ ھے میں پھینک دیا گیا تھا۔ لیکن بنی اسرائیل کے ان عبرت ناک واقعات سے ہم نے کوئی سبق نہیں حاصل کیا ؟ عقل مندوں کے لیے اس میں بڑی عبرت ہے۔ کیا ہم عقل مند بننے کے لیے تیار ہیں؟ قرآن ہمارے پاس موجود ہے جو شِفَائٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرہے۔ انسانیت کو جتنے روگ لگ سکتے ہیں ان سب کے لیے قرآن میں شفا موجود ہے ۔ ہم اس سے جن بھوت بھگانے کا کام لیتے ہیں، جب کہ انسانیت کے بڑے روگ : شرک ،کفر، نفاق،جھوٹ ،بددیانتی، بدعہدی اور طاغوت کی اطاعت ہیں۔ ٹی بی کے مرض کی طرح آج یہ سارے امراض ہمارے جسم و جان کا روگ بن چکے ہیں ۔ کیا ہم قرآن سے ان امراض کی شفا کا کام لینے کے لیے تیار ہیں؟
قرآن کی تعلیمات نے مسلمانوں کو اخلاق کے جس اعلیٰ مقامِ بلند تک پہنچایا تھا آج ان اخلاقی اقدار کو ملیامیٹ کیا جا رہا ہے ۔گناہ گار مسلمان کے لیے آخرت میں نجات کا آخری سہارا نبیؐکی شفاعت کی اُمید ہے۔ کیا ہم نے کبھی سوچاکہ ہم شافع محشرؐکے سامنے کیا منہ لے کر جائیں گے؟آپ ؐاللہ سے ہماری شفاعت فرمائیں گے یاشکایت کریں گے ؟قرآن کی زبانی سنیے! وَقَالَ الرَّسُوْلُ یٰرَبِّ اِِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا ہٰذَا الْقُرْاٰنَ مَہْجُوْرًا (الفرقان ۲۵:۳۰ )’’اور رسولؐکہیں گے: اے میرے رب یہ میری قوم (اُمت)ہے جنھوں نے قرآن کو چھوڑ دیاتھا‘‘۔
اس آیت مبارکہ کی تشریح میں مولانا شبیر احمد عثمانیؒ لکھتے ہیں:آیت میں اگرچہ ذکر صرف کافروں کا ہے، تا ہم قرآن کی تصدیق نہ کرنا ، اس میں تدبر نہ کرنا اس پر عمل نہ کرنا ،اس کی تلاوت نہ کرنا ، اس کی صحیح قرأت کی طرف توجہ نہ کرنا، اس سے اعراض کر کے لغویات یا حقیر چیزوں کی طرف متوجہ ہونا، یہ سب صورتیں درجہ بدرجہ ہجران قرآن [ترکِ قرآن] میں داخل ہو سکتی ہیں۔
علامہ حافظ ابنِ کثیر ؒ لکھتے ہیں: اس کی تصدیق نہ کرنا اس کو چھوڑنا ہے ،اس پر تدبر نہ کرنا اور اس کا فہم حاصل نہ کرنا بھی اس کو چھوڑنا ہے،اس کے حلال و حرام کے مطابق عمل نہ کرنا بھی اس کوترک کرنا ہے اور اسے چھوڑ کر شعروشاعری ،موسیقی ،لہو ولعب اوریاوہ گوئی میں مشغول رہنا بھی قرآن کو ترک کرنا ہے۔(تفسیر ابنِ کثیر)
قرآن کوچھوڑنے والوں کے لیے قیامت کے دن، قرآن ان کے خلاف حجت ہوگا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قرآن تمھارے لیے حجت ہے یا تمھارے خلاف حجت ہے‘‘۔ جن لوگوں نے قرآن کو پڑھا، سیکھا اور سمجھا پھر اس پر عمل کیا، قرآن قیامت کے دن ان کے حق میں سفارش کرے گا اور اُن کے لیے حجت ہو گا۔جنھوں نے قرآن کو چھوڑ رکھا ہے، نہ اس کو پڑھتے ہیں نہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، نہ اس پر عمل ہی کرتے ہیں، قرآن قیامت کے دن ان کے خلاف شکایت کرے گا اور ان کے خلاف حجت ہو گا۔
کبھی ہم نے سوچا کہ قیامت کے روز اس وقت ہم خدا کے سامنے اس کا کیا جواب دیں گے؟پھر وہاں کون ہماری شفاعت و سفارش کرنے والا ہو گا؟جب ہمیں اوندھے منہ دھکیل کر جہنم کی بے رحم آگ کے حوالے کر دیا جائے گا۔آج ہم قرآن سے آنکھیں موندھ کر اندھے بنے ہوئے ہیں۔ اُس روز جب ہم حقیقت میں اندھے کر دیے جائیں گے تو ہمارا کیا حال ہوگا؟
آج کے پُرفتن دور کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلمکی ایک حدیث پیش نظر رہے۔حضرت معاذ بن جبل ؓسے روایت ہے، رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
سنو!اسلام کی چکی گھوم رہی ہے تو جس طرف قرآن ہو تم بھی اُسی طرف گھوم جانا۔
سنو!قرآن اور اقتدار عنقریب الگ ہو جائیں گے۔ خبردار!تم قرآن کا ساتھ نہ چھوڑنا۔ آیندہ ایسے حکمران ہوں گے جو تمھارے درمیان فیصلے کریں گے۔ اگر اُن کی بات مانو گے تو وہ تمھیں گمراہ کر دیں گے۔اگر تم ان کی نافرمانی کرو گے تو تمھیں قتل کرا دیں گے۔ راوی نے سوال کیا تب ہم کیا کریں؟نبی اکرمؐ نے فرمایا:وہی کرو جو حضرت عیسٰی ؑ کے ساتھیوں نے کیا تھا۔وہ لوگ آروں سے چیرے گئے اور سولیوں پر لٹکائے گئے۔اللہ کی نافرمانی میں زندگی گزارنے سے بہتر ہے کہ اللہ کے احکامات کی پیروی کرتے ہوئے جان دے دی جائے۔ (طبرانی)
اس حدیث مبارکہ میں جس دورِ نامسعود کی پیش گوئی کی گئی تھی یہ وہی دور ہے جس سے ہم گزر رہے ہیں۔مسلمان حکمرانوں نے اللہ کی کتاب کو چھوڑ کر ظلم و جبر کا کوڑا ہاتھ میں لے رکھاہے۔اپنی اطاعت کرنے والوں کو اقتدار کی کرسی اور دولت کے انبار سے نوازتے ہیں، اور نافرمانی کرنے والوں کو گوانتانامو اور ابوغرائب جیسے عقوبت خانوں کے جہنم میں دھکیل دیتے ہیں۔ حکمرانوں کے یہ نافرمان ہی اصل میں اللہ کے فرماں بردار ہیں،اور یہی جنت کے بالاخانوں کے مستحق ٹھیریں گے، ان شاء اللہ! حقیقت یہ ہے کہ نجات قرآن کی طرف پلٹنے اور اس پر ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے اور اس کے لیے اُٹھ کھڑا ہونے میں ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ملت قرآن کی طرف پلٹ آئے!
اس سلسلے میں تمام کارکنوں کو یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ جماعت ِ اسلامی کا اصل کام جس پر تمام دوسری سرگرمیوں کی بنا قائم ہوتی ہے، عوام الناس کو اطاعت ِ خدا اور رسولؐ کی طرف بلانا، آخرت کی بازپُرس کا احساس دلانا، خیروصلاح اور تقویٰ کی تلقین کرنا، اور اسلام کی حقیقت سمجھانا ہے۔ یہ کام لٹریچر، تقریر، تعلیم، زبانی گفتگو اور تمام ممکن ذرائع سے وسیع پیمانے پر ہونا چاہیے۔
اس میں مسجدوں کی تعمیر، ان کی مرمت، ان کے لیے فرش، پانی اور دوسری ضروریات اور آسایشوں کی فراہمی، نیز اذان، نماز باجماعت، امام، درس و تدریس اور خطبات ِ جمعہ وغیرہ جملہ امور کا اطمینان بخش انتظام شامل ہے۔ اگر لوگ مسجد کی اہمیت اور اس کے مقام کو سمجھنے لگیں تو بستی اور محلّے میں مسجد سے زیادہ دل کش جگہ اور کوئی نہ ہو۔
ظاہر ہے کہ دین کے علم کے بغیر آدمی دین کی راہ پر نہیں چل سکتا۔ اگر اتفاق سے چل رہا ہے تو اس کے ہر آن بھٹک جانے کا اندیشہ ہے۔ اگر لوگ نہ دین کو جانیں اور نہ اس پر چلیں تو اسلامی نظام کا خواب کبھی حقیقت کی شکل اختیار نہیں کرسکتا۔ اس لیے دین خود بھی سیکھیے اور دوسروں کو بھی سکھانے کا انتظام کیجیے۔ دوسروں تک اسے پہنچانے کے لیے گفتگوؤں، مذاکرات، تقاریر، خطبات،درس، اجتماعی مطالعہ، تعلیمِ بالغاں، دارالمطالعوں اور اسلامی لٹریچر کی عام اشاعت اور تقسیم کو ذریعہ بنایئے۔ یاد رکھیے کہ دین کا علم پھیلانا ان کاموں میں سے ہے جو صدقۂ جاریہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
غنڈا گردی کے مقابلے میں لوگوں کی جان و مال اور آبرو کی حفاظت کرنا، عام طور پر لوگوں کو ظلم و ستم سے بچانا، شہریوں کے اندر اخلاقی فرائض اور ذمہ داریوں کے احساس کو بیدار کر کے ان کی ادایگی پر ان کو آمادہ کرنا اور شہروں اور دیہات کی اخلاقی حالت کو درست کرنا۔ صدیوں کے انحطاط کے نتیجے میں ہمارے معاشرے میں اب بدی اور برائی منظم، بے باک، جری اور ایک دوسرے کی پشت پناہ بن چکی ہے، اور نیکی اور شرافت اب انتشار، پست ہمتی، بزدلی اور کمزوری کے ہم معنی ہو کر رہ گئی ہے۔ اس صورتِ حال کو پھر سے بدلنا ہے اور نیکی اور شرافت کو منظم، بے باک اور نڈر بنا کر اسے معاشرے کے ہر گوشے میں حکمراں طاقت کی حیثیت دینا ہے۔
[فواحش] کے خلاف عوامی ضمیر اور احساسِ شرافت کو بیدار کرنا۔ فواحش کے سلسلے میں کسی ایک ہی گوشے پر نظر محدود نہیں کر دینی چاہیے بلکہ اس کے تمام سرچشموں پر نگاہ رکھنی چاہیے، مثلاً قحبہ خانے، شراب خانے، سینما کی پبلسٹی، دکانوں پر عریاں تصاویر کے سائن بورڈ.... مخلوط تعلیم، اخبارات میں فحش اشتہارات اور فلمی مضامین، ریڈیو پر فحش گانوں کے پروگرام، [الیکٹرانک میڈیا پر فحش اور بے ہودہ پروگرام]، دکانوں اور مکانوں پر فحش گانوںکی ریکارڈنگ، قماربازی کے اڈے، رقص کی مجالس، فحش لٹریچراور عریاں تصاویر، جنسی رسائل، آرٹ اور کلچر کے نام سے بے حیائی پھیلانے والی سرگرمیاں، مینابازار، عورتوں میں روز افزوں بے پردگی کی وبا۔
رشوت و خیانت اور سفارش کی لعنت کے خلاف راے عام کو منظم کرنا اور سرکاری حکام اور ماتحت کارکنوں میں خداترسی، فرض شناسی اور آخرت کی جواب دہی کا احساس بیدار کرنے کی کوشش کرنا۔ اس غرض کے لیے.... عدالتوں، تھانوں اور دوسرے سرکاری دفاتر میں قرآن مجید اور حدیث شریف اور اسلامی لٹریچر میں سے مناسب ِ حال آیات ، احادیث اور عبارتیں کتبوں کی شکل میں آویزاں کی جائیں۔
اس کے لیے مختلف جماعتوں کے مذہبی پیشوائوں سے ملاقاتیں کرکے ان کو اس کے بُرے نتائج سے باخبر کیا جائے کہ یہ چیز کس طرح اس ملک سے اسلام کی جڑیں اُکھاڑ دینے والی ہے اور اسے کس طرح ملک کے ذہین طبقے کے اندر علما اور مذہب کے خلاف نفرت پھیلانے کے لیے مخالف ِ اسلام عناصر کی طرف سے استعمال کیا جا رہا ہے، نیز عام پبلک کو بھی مناسب مواقع پر اس کے نتائج سے باخبر کیا جائے اور ان سے اپیل کی جائے کہ وہ اس قسم کے فتنوں کی سرپرستی سے بالکل کنارہ کش رہیں۔
اگر لوگ صحت و صفائی کے سلسلے میں معمولی احتیاط بھی برتنا شروع کر دیں تو وہ بہت سی وبائوں اور بیماریوں سے اپنے آپ کو اور دوسرے شہریوں کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ بہت سی احتیاطیں اور تدابیر ایسی ہیں جن پر یا تو کچھ بھی خرچ نہیں ہوتا یا بہت معمولی خرچ ہوتا ہے۔ جماعت کے کارکنوں کو چاہیے کہ اس سلسلے میں بھی عوام کی اصلاح و تربیت کریں۔ اس بارے میں ضروری رہنمائی کے لیے وہ ناظم شعبۂ خدمت ِ خلق جماعت اسلامی پاکستان اور اپنے ضلع کے ہیلتھ افسر کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔
اس پروگرام کے مطابق کام کرتے ہوئے جماعت کے کارکنوں کو یہ بات نگاہ میں رکھنی چاہیے کہ ہمیں ہر گوشۂ زندگی میں اسلام کے مطابق پورے معاشرے کی اصلاح کرنی ہے اور اسی پروگرام کو بتدریج ہمہ گیر اصلاح کا پروگرام بنا دینا ہے۔ کارکنوں کو اس امر کی کوشش بھی کرنی چاہیے کہ وہ اصلاحِ معاشرہ کے اس کام میں اپنے اپنے علاقوں کے تمام اسلام پسند اور اصلاح پسند عناصر کا تعاون حاصل کریں اور جو کوئی جس حد تک بھی ساتھ دے سکتا ہو، اسے اس عام بھلائی کی خدمت میں شریک کریں۔ (تحریک اسلامی کا آیندہ لائحۂ عمل ، ص ۲۰-۲۴)
۱۱مئی ۲۰۱۳ء کو منعقد ہونے والے قومی انتخابات کو، اپنی تمام تر خامیوں اور بے قاعدگیوں کے باوجود، ملکی حالات میں تبدیلی اور اصلاح کے باب میں ہوا کا ایک تازہ جھونکا سمجھا جا رہا تھا اور توقع تھی کہ دو بار کا تجربہ رکھنے والے مسلم لیگ (ن) کے صدر جناب نواز شریف صاحب کی قیادت میں قائم ہونے والی حکومت مشرف اور زرداری اَدوار کی روش کے مقابلے میں پاکستان کے حقیقی مفادات اور عوام کے جذبات اور توقعات کے مطابق اور خود اپنے ماضی کے تجربات سے سبق سیکھتے ہوئے ملک و قوم کو اس دلدل سے نکالنے کے لیے سردھڑ کی بازی لگادے گی جس میں وہ پھنسی ہوئی ہے۔ سب ہی نے کھلے دل سے اس کو موقع دیا اور اچھی توقعات وابستہ کیں۔ راے عامہ کے جائزے اور اخبارات کے صفحات اس کے غماز ہیں۔
اس فضا میں پارلیمنٹ کی تمام پارٹیوں نے اپنے اپنے انداز میں اور سارے تحفظات کے باوجود، دست ِ تعاون بڑھایا اور نواز شریف صاحب نے بھی ملک کے دستور اور مسلم لیگ (ن) کے منشور کی پاس داری کے دعوے کے ساتھ اچھی طرزِ حکمرانی کا وعدہ کر کے اُمیدوں کے کچھ چراغ روشن کیے۔ عدلیہ سے ماضی کی حکومت کا جو ٹکرائو چل رہا تھا، وہ ختم ہوتا نظر آیا۔ سول اور عسکری اداروں میں نئے صحت مند تعاون اور اعتماد باہمی کی بات ہونے لگی۔ میڈیا کا رویہ بھی بحیثیت ِ مجموعی مثبت اور اُمید افزا تھا اور پھر صوبہ سندھ میںپیپلزپارٹی اور صوبہ خیبرپختونخوا میں تحریکِ انصاف کی اکثریت کا احترام کرتے ہوئے ان کی حکومتوں کے قیام، اور بلوچستان کے مخصوص حالات کی روشنی میں قومی وطن پارٹی کی اکثریت نہ ہوتے ہوئے بھی مسلم لیگ (ن) کی مدد سے مخلوط حکومت کا قیام ایک اچھا آغاز تھا۔ لیکن چند ہی ہفتوں میں پرانی سیاست کے تاریک سایے مطلع کو سیاہ آلود کرنے لگے، عوامی مسائل اور انتخابی وعدے پسِ پشت پڑنے لگے اور شخصی ترجیحات اور خاندانی سیاست ایک نئی شان کے ساتھ جلوہ فگن ہوگئی۔ اُمیدیں دم توڑنے لگیں، تصادم اور کش مکش کی لہریں اُٹھنے لگیں، مفادات کا کھیل پھر شروع ہوگیا، اور اُمیدوں کے جو چراغ روشن ہوئے تھے، ایک ایک کرکے بجھنے لگے۔ عوام اور سیاسی حلقوں میں مایوسی کی ایک لہر اُبھرنے لگی جو اَب شدید مایوسی کا رُوپ اختیار کرچکی ہے۔ گیلپ کے تازہ جائزے کی رُو سے ملکی آبادی کا ۴۴ فی صد حکومت کی کارکردگی سے غیرمطمئن ہے اور صرف ۸ فی صد نے مکمل طور پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ پہلے ہی سال کی اس ’کارکردگی‘ پر بے ساختہ زبان سے نکلتا ہے ع
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
جنرل مشرف کے اقتدار کے نو سال اور پیپلزپارٹی کی حکمرانی کے پانچ سال ہماری تاریخ کا تاریک باب ہیں۔ دونوں کی پالیسیوں میں ایک گونہ تسلسل تھا اور یہ اُس این آر او (مفاہمتی گٹھ جوڑ) کا ایک حد تک فطری نتیجہ تھا، جس کے تحت پیپلزپارٹی برسرِاقتدار آئی تھی اور جو امریکا اور برطانیہ دونوں کے بنائے ہوئے نقشے کے مطابق اور ان کی سفارت کاری کا ثمرہ تھا۔ یہ اور بات ہے کہ حالات نے کچھ ایسی کروٹ لی اور حزبِ اختلاف نے ایک خاص کردار ادا کیا، جس کے نتیجے میں گو جنرل مشرف کو سلامی دے کر بھی ملک سے رخصت کردیا گیا، مگر بدقسمتی سے مشرف کی بنائی ہوئی پالیسیوں کو اس کے ساتھ رخصت نہ کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں نوازشریف صاحب نے جب جون ۲۰۱۳ء میں اپنے دورِ حکومت کا آغاز کیاتو ملک اندرونی اور بیرونی ہرمحاذ پر شدید ترین بحرانوں کی گرفت میں تھا۔
یہ تھے وہ سات بڑے بڑے چیلنج جو نواز حکومت کو درپیش تھے اور توقع تھی کہ وہ ان میں سے ہر ایک کے باب میں مناسب اور مؤثر حکمت عملی بنائے گی اور ایک واضح نقشۂ راہ کے ذریعے ملک کو اس دلدل سے نکالنے کی خدمت انجام دے گی۔
حکومت نے عوام کی اچھی توقعات اور سیاسی اور دینی قوتوں کے تعاون کی فضا میں سفر کا آغاز کیا۔ پھر نواز حکومت کو قومی اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل تھی اور مخلوط حکومت کی جو مجبوریاں ہوتی ہیں، وہ اس کی راہ میں حائل نہ تھیں۔ سب سے بڑے صوبے، یعنی پنجاب میں مسلم لیگ کی اپنی حکومت تھی اور بلوچستان میں بھی مسلم لیگ کو اسمبلی میں مضبوط پوزیشن حاصل تھی اور وہ حکومت کا حصہ تھی۔ ۲۰۱۳ء تک جو سفر جمہوریت نے طے کیا تھا اس میں بھی یہ اشارے موجود تھے کہ اگر حکومت اچھی حکمرانی کا مظاہرہ کرے تو تمام دوسرے ادارے اور قوتیں دستور میں دیے ہوئے توازنِ اختیارات کی طرف سفر جاری رکھ سکیں گے اور جو عدم توازن مشرف دور میں راہ پاگیا تھا، وہ اچھی حکمرانی، آزادعدلیہ اور فعّال میڈیا کی بدولت آگے کے مراحل کامیابی سے طے کرسکے گا۔ پھر یہ بھی توقع تھی کہ مسلم لیگ کے پاس نسبتاً زیادہ تجربہ کار اور باصلاحیت ٹیم ہے جو پارلیمنٹ کی تائید اور رہنمائی میں ملک کو درپیش بحرانوں سے نکالنے اور وقت کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ ان تمام مثبت پہلوئوں کی موجودگی میں توقع کی جارہی تھی کہ حالات نئی کروٹیں لیں گے، ملک مسائل سے نکل سکے گا اور پاکستان حقیقی ترقی کی منزل کی طرف ایک آزاد اور اسلامی اور فلاحی ملک کی حیثیت سے پیش رفت کرسکے گا۔ لیکن یہ تمام توقعات ان ۱۲ مہینوں میں پاش پاش ہوگئی ہیں اور پانی کی تلاش میں سرگرداں قوم کا مقدر ایک اور سراب کا نشانۂ ستم بنتا نظر آرہا ہے۔
اس ایک سال میں نواز شریف حکومت نے جو کارکردگی دکھائی ہے، اس نے قوم کو مایوس کیا ہے اور بے اطمینانی بڑھ رہی ہے۔ وہ عناصر جو جمہوریت کو ترقی کرتے نہیں دیکھناچاہتے، پَرتول رہے ہیں کہ کس طرح وار کریں اور جمہوریت کی گاڑی کو پٹڑی سے اُتار دیں۔ ہم بڑے دکھ اور دل سوزی سے یہ بات کہہ رہے ہیں کہ حالات کو بگاڑنے میں بیرونی عناصر کی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ ذمہ داری خود مرکزی حکومت کی بے عملی، غلط حکمت عملی، بُری حکمرانی، بے تدبیری ، وقتی اقدامات (adhocism) اور مہم جوئی (adventurism) پر بھی آتی ہے۔ اگر حکومت نے اپنی روش فی الفور تبدیل نہیں کی تو ہمیں خطرہ ہے کہ جمہوریت کی گاڑی کے پٹڑی سے اُترنے کے خدشات خدانخواستہ حقیقت کا رُوپ اختیار کرسکتے ہیں۔
ابھی وقت ہے کہ ہوش کے ناخن لیے جائیں اور حالات کو قابو میں لانے کے لیے سرتوڑ کوشش کی جائے اور اس کے لیے تمام سیاسی اور دینی جمہوری قوتوں کا تعاون حاصل کیا جائے۔
نواز حکومت کے اس پہلے سال کا بے لاگ جائزہ لیا جائے تو درج ذیل حقائق سامنے آتے ہیں، جن کا اِدراک اور پھر اصلاحِ احوال کے لیے مؤثر حکمت عملی کی تشکیل اور اس پر عمل ہی ملک کو تباہی سے بچاسکتے ہیں۔ وقت اور مہلت کی گھڑیاں کم ہیں، اس لیے فوری توجہ اور عملی اقدام کی ضرورت ہے۔ اس جائزے سے جو باتیں سامنے آئی ہیں ان کو دو بڑی بڑی درجہ بندیوں میں بیان کیا جاسکتا ہے: ایک کا تعلق طرزِحکمرانی سے ہے اور دوسری کا پالیسی کے اہداف اور خطوط کار سے۔
طرزِ حکمرانی کے باب میں صاف نظر آرہا ہے کہ وزیراعظم صاحب نے مشاورت اور فیصلہ سازی کے معروف جمہوری اور اداراتی راستے کو اختیار کرنے کے بجاے شخصی حکمرانی اور ذاتی وفاداریوں کی بنیاد پر کاروبارِ حکومت چلانے کے طریقے کو ترجیح دی ہے، جو بگاڑ کی بنیادی وجہ ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق ساری فیصلہ سازی ایک مختصر ٹولے میں محدود ہے جس کا انتخاب خون کے رشتے یا ذاتی دوستی یا مفادات کے اشتراک پر ہے‘ صلاحیت، تجربے اور فہم وفراست پر نہیں۔
اچھی حکمرانی کا انحصار اصول اور ضابطۂ کار پر اعتماد، مشاورت کے وسیع تر نظام، پالیسی سازی میں تحقیق اور تجزیے کا اہتمام، اور ہر کام کے لیے صحیح ترین فرد کا انتخاب اس کی صلاحیت اور دیانت کی بنیاد پر ہے۔ ذاتی پسند و ناپسند سے ادارے تباہ ہوجاتے ہیں اور مسائل وہیں کے وہیں رہتے ہیں۔
ہر کامیاب نظام کے لیے، اور خصوصیت سے جمہوری نظام کے لیے ضروری ہے کہ پارلیمنٹ، کابینہ، پارلیمنٹ اور کابینہ کی کمیٹیوں ، تحقیقی اداروں، صوبوں اور ملک کے دوسرے تمام متعلقہ اداروں اور اسٹیک ہولڈرز سے مؤثر اور مسلسل مشورہ ہو۔ اس طرح پالیسی سازی باہمی مشاورت، مذاکرات اور تعاونِ باہمی کے ذریعے انجام دی جائے۔ پارلیمنٹ اور میڈیا میں کھلی بحث ہو۔ مرکزی حکومت کے بارے میں عام شکایت یہ ہے کہ چند افراد پورے ملک کی قسمت کے مالک بنے ہوئے ہیں۔ پارلیمنٹ میں نہ کوئی قابلِ ذکر قانون سازی ہوئی ہے اور نہ پالیسی اُمور پر بحث۔ پھر وزیراعظم صاحب پورے سال میں صرف آٹھ بار پارلیمنٹ میں تشریف لائے ہیں اور وہ بھی رسمی طور پر ۔ وزیراعظم نے بمشکل دو پالیسی بیان اس زمانے میں پارلیمنٹ میں دیے ہیں۔ سینیٹ میں پورے سال کے بعد اب ایک بار چند منٹ کے لیے شریک ہوئے ہیں، وہ بھی اس شان سے کہ جو تقریر قومی اسمبلی میں کی ہے وہی سینیٹ میں دہرا کر رخصت ہوگئے، اور مقامِ حیرت ہے کہ اس تقریر میں یہ جملہ بھی اسی طرح ادا کردیا جس طرح قومی اسمبلی میں کیا تھا کہ ’’میں نے ۲۹جنوری کو اس ایوان میں جو اعلان کیا تھا‘‘ اس سہل انگاری پر ماتم کے سوا کیا کیا جاسکتا ہے۔
سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس بار بار یاددہانی کرا رہی ہیں لیکن اہم ترین اداروں پر یا تو تقرریاں ہوہی نہیںرہی ہیں یا اگر ہورہی ہیں تو قواعد کے مطابق مستقل تقرریوں کی جگہ ایڈہاک انداز میں نامزدگیاں کی جارہی ہیں یا قائم مقام کام چلا رہے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ ۱۰ماہ سے خالی ہے، پیمرا کے سربراہ کا عہدہ خالی ہے، ۴۰ سے زیادہ سرکاری ادارے ہیں، جن کے سربراہوں کا تقرر اس ایک سال میں نہیں ہوسکا۔ اخباری اطلاع کے مطابق نو اہم اداروں کے سلسلے میں سمری وزیراعظم کے دفتر میں موجود ہے، لیکن ان پر فیصلے کی نوبت نہیں آتی۔ نیشنل کمیشن براے ہیومن رائٹس بل پارلیمنٹ میں مئی ۲۰۱۲ء کو منظور ہوا تھا، مگر کمیشن اور اس کے سربراہ کا تقرر آج تک معرضِ التوا میں ہے۔ دہشت گردی کے مقابلے کے لیے ایک جامع حکمت عملی کا اعلان وزیرداخلہ نے پارلیمنٹ میں کرتے ہوئے کہا تھا کہ NACTA کے سربراہ کا تقرر، Rapid Deployment Force کا قیام اور جائنٹ انٹیلی جنس ڈیپارٹمنٹ کا نظام دواڑھائی ماہ میں متحرک ہوجائے گا۔ یہ اعلان ۱۳؍اگست ۲۰۱۳ء کو ہوا ہے مگر ان میں سے کوئی بھی ادارہ اب تک عملاً اپنا کام شروع نہیں کرسکا ہے۔
اعلان کیا گیا تھا کہ کابینہ کی قومی سلامتی کی کمیٹی کا اجلاس ہر ماہ ہوا کرے گا اور دستوری ادارہ مشترکہ مفادات کی کونسل (Council of Common Intersts) کا اجلاس ہر تین ماہ میں ایک بار ضرور ہوگا لیکن کوئی بھی ادارہ اپنے وقت پر اپنا اجلاس منعقد نہیں کر رہا ہے۔ بات صرف ان ایک یا دو اداروں کی نہیں، اس سلسلے میں باقی ادارے بھی تقریباً اسی حالت میں ہیں۔
ہم بڑے دکھ سے یہ بات کہہ رہے ہیں کہ شخصی حکمرانی اور اہم ترین تقرریوں میں کوتاہی یا ذاتی پسند و ناپسند کا دور دورہ محض مرکز ہی میں نہیں‘ صوبوں میں بھی عام ہے۔ پنجاب تو میاں صاحب کی روایات کا اسیر ہے، لیکن خود سندھ کے حالات بھی کچھ مختلف نہیں۔ کراچی جو ۳۰سال سے دہشت گردی کی لعنت کی گرفت میں ہے وہاں پولیس اور انتظامیہ سیاسی قیادتوں کی دخل اندازیوں سے تباہ ہے۔ کراچی پولیس کے سربراہ کے تقرر کو سیاسی کھیل بنایا ہوا ہے۔ پچھلے ۱۸مہینوں میں چھے سربراہ تبدیل ہوئے ہیں۔ اوسط مدت ملازمت ۱۲ہفتے بنتی ہے۔ شاہدحیات کو سب سے زیادہ زمانہ ایڈیشنل آئی جی رہنے کا موقع ملا، لیکن انھیں بھی نومہینے میں تبدیل کردیا گیا اور یہ سب اس کے باوجود کہ ڈی جی رینجرز ان کو قیامِ امن کے لیے عہدے پر فائز دیکھنا چاہتے تھے اور مرکزی وزیرداخلہ بھی اس تبدیلی پر کھلے بندوں احتجاج پر مجبور ہوئے، مگر چہیتوں کو تقرر کرنے والوں کا ہاتھ کوئی نہ روک سکا۔ شاید کچھ قوتیں چاہتی ہی نہیں کہ کراچی میں امن قائم ہو۔
سرکاری وسائل کو کس طرح ذاتی نام و نمود پر خرچ کیا جا رہا ہے، اس کی داستان بھی بڑی دل خراش اور شخصی حکمرانی کی بدترین مثال ہے۔ اس وقت جب تھر میں قحط پڑ رہا تھا اور بچے بھوک، پیاس اور ادویہ کی عدم فراہمی سے لقمۂ اجل بن رہے تھے، بلاول صاحب کے ’ذوقِ ثقافت‘ کی تسکین کے لیے موہن جوڈارو کا فیسٹیول منعقد کیا گیا جس پر ۲؍ارب روپے سرکاری خزانے سے خرچ کیے گئے۔ زرداری حکومت نے تحریکِ خواتین کی مدد کے پروگرام کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا نام دے کر سیاسی فائدہ اُٹھانے کا سامان کیا۔ اب سندھ حکومت نے بے نظیر شہید ڈویلپمنٹ پروگرام شروع کیا ہے۔ پھر لیاری میں سرکاری خرچ پر بلاول انجینیرنگ کالج قائم کیا جا رہا ہے اور لیاری ہی میں آصفہ انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹرانکس قائم کیا جارہا ہے۔ یہ سب شخصی حکمرانی کی بدترین مثالیں ہیں۔ قومی وسائل جو ایک امانت ہیں، ان کو بے دریغ ذاتی اور سیاسی مصالح کے لیے صرف کیا جا رہا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو جمہوریت اور جمہوری اداروں کے استحکام کے لیے سمِ قاتل کا درجہ رکھتی ہے۔
اندازِ حکمرانی کی اس تباہ کاری کے ساتھ قومی سلامتی و خارجہ پالیسی، اور سیاسی اور معاشی حکمت عملی کے باب میں بھی حکومت کا ریکارڈ نہایت مایوس کن ہے۔
سب سے پہلے ملک کی آزادی، حاکمیت اور خودمختاری کے مسئلے کو لیجیے۔ آزاد خارجہ پالیسی کی سمت میں کوئی پیش قدمی کسی سطح پر بھی نظر نہیں آتی۔ امریکا کا عمل دخل حسب سابق جاری وساری ہے۔ ڈرون حملے چھے ماہ کے تعطل کے بعد پھر اسی زور و شور سے شروع ہوگئے ہیں اور مغربی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ حکومت پاکستان کی اجازت اور فوجی انٹیلی جنس کے تعاون سے ہماری حاکمیت پر یہ حملے کیے جارہے ہیں۔ امریکاکو ۱۰سال کی کوشش اور دبائو کے بعد شمالی وزیرستان میں آپریشن کرانے میں کامیابی حاصل ہوگئی ہے اگرچہ اس کی ذمہ داری خود لی جارہی ہے، لیکن حقیقت وہی ہے جس کا اظہار ۱۵جون کے اقدام کے دو دن بعد ۱۷؍جون ۲۰۱۴ء کے انٹرنیشنل نیویارک ٹائمز میں کیا گیا ہے۔ یعنی: ’’۱۰سال بعد جاکر امریکی مطالبے کو بڑی مشکل سے پذیرائی ملی، اگرچہ پاکستانی سیاسی اور عسکری قیادت کے لیے بہت بڑا رسک ہے‘‘۔ ۲۶ جون کو امریکا میں پاکستان کے سفیر جناب جلیل عباس جیلانی نے صاف الفاظ میں اس دعوے پر یہ کہہ کر مہرتصدیق ثبت کردی ہے کہ: ’’امریکا وزیرستان آپریشن کے بارے میں مثبت رویہ رکھتا ہے اور کولیشن سپورٹ فنڈوزیرستان آپریشن کے لیے ہے ۔ امریکا پاکستانی فوج کی قربانیوں کا معترف ہے‘‘۔
قومی سلامتی اور خارجہ امور کے بارے میں وزیراعظم کے مشیر نے ایک سے زیادہ بار اس امر کا اظہار کیا ہے کہ: پاکستان افغانستان سے امریکی افواج کی ۲۰۱۴ء کے اختتام پر واپسی پر ناخوش ہے اور وہ امریکی افواج کے مزید افغانستان میں رہنے کاقائل ہے۔ حالانکہ علاقے میں امن کے قیام کا اس وقت تک کوئی امکان نہیں جب تک امریکی اور ناٹو افواج کاافغانستان سے مکمل انخلا نہیں ہوجاتا اور افغانستان میں ایک ایسی قومی حکومت وجود میں نہیں آتی، جس میں تمام افغان، بشمول طالبان، شریک ہوں۔لیکن ہماری حکومت وہی راگ الاپ رہی ہے جو مشرف نے امریکی صدر بش اور برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیر کی آواز میں ملاکر شروع کیا تھا۔
طالبان کے تصورِ اسلام کے بارے میں ہمارے تحفظات کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ ہم نے ان کا اظہار اس وقت کیا جب طالبان افغانستان میںبرسرِاقتدار تھے اور امریکا کی خفیہ تائید انھیں نہ صرف حاصل تھی بلکہ ان کے ساتھ توانائی اور معدنیات کی دریافت کے لیے کھلے مذاکرات کیے جارہے تھے۔
۱۳سال کی افغان جنگ کے بعد اب امریکی قیادت اور تحقیقی ادارے یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ طالبان افغانستان میں ایک حقیقت ہیں اور ان سے مذاکرات اور ان کی حکمرانی میں شرکت کے بغیر وہاں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ امریکا اور طالبان میں مذاکرات کے سلسلے بھی ڈھکے چھپے اورکھلے بندوں جاری ہیں اور قیدیوں کا تبادلہ بھی کھلے عام ہورہا ہے۔
ان حالات میں پاکستان کی قیادت کا ان کے خلاف اور خصوصیت سے حقانی گروپ جس سے پاکستان کوکبھی کوئی خطرہ نہیں تھا کے خلاف ہونا ایک ناقابلِ فہم معاملہ ہے۔ تحریکِ طالبان پاکستان اور اس کے نام پر کی جانے والی ان تمام کارروائیوں کی ہم نے ہمیشہ مذمت کی ہے، جن میں معصوم انسان شہید کیے گئے ہیں یا ریاستی اور قومی املاک کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔ اسی طرح ہم قوت کے ذریعے شریعت یا جمہوریت اور سیکولر لبرلزم دونوں کے قیام کے ہمیشہ سے مخالف رہے ہیں اور اسے اسلام اور معروف جمہوری اور سیاسی اصولوں کے خلاف سمجھتے ہیں۔ نیز ہم نے ہمیشہ اس راے کا اظہار کیا ہے کہ دہشت گردی کی کوئی ایک قسم نہیں ہے اور اس کی ہرہرنوعیت کو سامنے رکھ کر اس کا مقابلہ اور ازالہ کرنے کی حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی۔ لیکن ہماری آواز مقتدر حلقوں کے لیے صدابصحرا ثابت ہوئی اور فوجی آپریشن کے دائرے کو شمالی وزیرستان تک وسیع کردیا گیا ہے۔
ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اب بھی پاکستانی حکومت، ہماری افواج اور خود طالبان کو ہدایت دے اور وہ بندوق کے بجاے دلیل اور افہام و تفہیم سے معاملات کو طے کرنے کا راستہ اختیار کریں۔ پاکستان کی افواج ہماری قیمتی متاع ہیں اور ہم قوم اور وطن کے لیے ان کی خدمات اور قربانیوں کے دل سے معترف اور ان کی قوت اور کامیابی کے لیے دعاگو ہیں لیکن جس عمل کو ہم بے فیض دیکھ رہے ہوں تو اس کے بارے میں اپنے تحفظات کے اظہار کے باب میں کسی مداہنت کو بھی صحیح نہیں سمجھتے۔ ہماری کوشش تھی کہ نوبت آپریشن تک نہ آئے اس لیے ہم مذاکرات شروع کرانے کے لیے کوشاں رہے۔ لیکن اب، جب کہ آپریشن شروع ہوگیا ہے تو ہماری خواہش اور دعا ہے کہ یہ جلد از جلد ختم ہو اور معاملات کے سدھار اور اصلاح کا کوئی معقول راستہ اب بھی نکل آئے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہرممکن کوشش اس امر کی ہو کہ اس سے جو مشکلات اور مسائل علاقے کے عوام کے لیے پیدا ہوگئے ہیں، ان کے فوری حل کے لیے تمام وسائل بروے کار لائے جائیں۔
جماعت اسلامی کے کارکن اور الخدمت کے سرفروش مقدوربھر کوشش کر رہے ہیں کہ ۷لاکھ افراد جو بے گھر ہوگئے ہیں اور دربدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں ان کی ہرممکن مدد کی جائے۔ پتا نہیں ان کی آزمایش کی مدت کتنی طویل ہوگی۔ اس موقعے پر اس امر کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ مرکزی حکومت نے اس آپریشن کے نتائج سے نبردآزما ہونے کے لیے کوئی تیاری نہیں کی، حالانکہ اسے چھے مہینے ملے تھے کہ خراب سے خراب صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے پیش بندی کرتی، صوبائی حکومت کو اعتماد میں لیتی، مناسب مقامات پر بے گھر ہونے والے متاثرین (IDPs) کے قیام اور طعام کا انتظام کرتی اور اس کے لیے مناسب وسائل فراہم کرتی، تاکہ مرکز اور صوبے دونوں کے تعاون اور اشتراک سے اس صورتِ حال کا مقابلہ ہوسکتا۔
یہاں بھی حکومت نے اس سہل انگاری کا مظاہرہ کیا جو اس کے اندازِ حکمرانی کا خاصّہ بن گیا ہے۔ پہلے ۱۰ دن میں ساڑھے چار لاکھ افراد صرف بنوں کے علاقے میں رجسٹر ہوچکے تھے۔ سوات اور دوسرے علاقوں کی طرف منتقل ہونے والے افراد اس کے علاوہ ہیں۔ کم سے کم اندازہ ہے ان ۱۰دنوں میں ۷لاکھ افراد بے گھر ہوگئے ہیں اور ان کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔ وفاقی حکومت نے کمالِ فیاضی سے اس کے لیے ۵۰کروڑ روپے کی امداد کا اعلان کیا، جب کہ اقوامِ متحدہ کے تخمینے کے مطابق فوری طور پر کم از کم ۲۸؍ارب روپے درکار ہوں گے۔ اس حکومت کی ترجیحات کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ اسی زمانے میں پنڈی اسلام آباد ۲۴کلومیٹر کے میٹروبس پراجیکٹ کے لیے ۴۴؍ارب ۲۱کروڑ کی رقم رکھی گئی ہے۔
یہ تو فوری ضرورت ہے، لیکن دہشت گردی کے مسئلے کا صرف یہی ایک پہلو نہیں۔ اس کے تمام پہلوئوں کے بارے میں مناسب حکمت عملی کی فوری ضرورت ہے۔ اس وقت جہاں بے گھر ہونے والے متاثرین کا مسئلہ سب سے اہم مسئلہ بن گیا ہے اور فوری توجہ چاہتا ہے، وہیں دہشت گردی کے تمام اسباب کو سامنے رکھ کر ہمہ گیر پالیسی بنانے کی بھی ضرورت ہے، جس سے صرفِ نظر تباہ کن ہوگا۔ امریکا سے تعلقات پر نظرثانی اور امریکی جنگ سے نکلنے کے راستوں سے غفلت بہت ہی خسارے کا سودا ہوگا۔ ملک کے باقی تمام علاقوں میں جو دہشت گردی ہے، اس سے نبٹنے کے لیے بھی صحیح پالیسی اور اقدام درکار ہیں۔ یک رُخی پالیسی کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ نیز جو پالیسی محض ردعمل میں بنائی جائے یا جس کا محرک غصہ، بدلہ یا انتقام ہو، وہ خیروبرکت کا باعث نہیںہوسکتی۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ حکومت تمام سیاسی اور دینی قوتوں کو اعتماد میں لے اور کھلے ذہن کے ساتھ مسئلے کے تمام پہلوئوں کو سامنے رکھ کر زیادہ سے زیادہ قومی اتفاق راے پیدا کرکے ہمہ جہتی پالیسی بنائے۔ حالات کو سنبھالنا، نقصانات کو کم سے کم کرنا اور تباہ حال خاندانوں کو سینے سے لگانا اور ان کی مشکلات کو دُور کرنا ہم سب کی مشترک ذمہ داری ہے اور اس سلسلے میں کوئی بھی کوتاہی بڑی مہنگی پڑسکتی ہے۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ فاٹا پر ہمارا دستور ۶۷سال سے لاگو نہیں ہے اور سوات، باجوڑ اور دوسرے علاقوں میں جہاں فوجی آپریشن ہوا ہے پانچ سال گزرنے کے باوجود سول نظام بحال نہیں ہوسکا ہے۔ شمالی وزیرستان کے آپریشن کے ۱۰، ۱۱ دن ہی میں جو کیفیت پیدا ہوگئی ہے اور جو خطرات منڈلا رہے ہیں ان سے صرفِ نظر تباہ کن ہوگا۔ ٹی وی اینکر اور کالم نگار سلیم صافی نے بڑی دردمندی کے ساتھ متنبہ کیا ہے کہ ذرا سی غلطی کتنی خطرناک ہوسکتی ہے:
اللہ کے بندو! اس ملک اور اس قوم پر رحم کرو۔ ہماری خاطر نہیں اپنی اولاد کی خاطر۔ یہ ۷لاکھ آئی ڈی پیز [بے گھر ہم وطن] نہیں ہیں۔ آپ لوگوں کا رویہ یہ رہا تو یہ ۷لاکھ خودکش بمبار بن جائیں گے۔ آج آپ لوگ سیاست اور اقتدار کے نشے میں مبتلا ہو لیکن یاد رکھو آپ پر بھی کبھی یوسف رضا گیلانی والاوقت آسکتا ہے اور خاکم بدہن آپ میں سے بھی کسی کا بیٹا حیدرگیلانی یا شہباز تاثیر بن سکتا ہے۔ ہماری خاطر نہیں، اپنے بچوں کی خاطر ان ۷ لاکھ وزیرستانیوں کی طرف توجہ دو تاکہ وہ خودکش بمبار، طالب یا پھر اغواکار بن کر مستقبل میں آپ کے بچوں کے ساتھ وہ کچھ نہ کریں، جو انھوں نے ایک سابق گورنر اور سابق وزیراعظم کے بیٹے کے ساتھ کیا ہے۔ (روزنامہ جنگ، ۲۴جون۲۰۱۴ء)
اندازِ حکمرانی کی اصلاح کے ساتھ بیرونی اور اندرونی سلامتی کی پالیسی کی اصلاح کو اولیں اہمیت دینا وقت کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں ہمارا مرکزی ہدف درست ہونا چاہیے۔ پاکستان کی سلامتی اور اس کو درپیش حقیقی خطرات___ بیرونی اور اندرونی دونوں پر توجہ مرکوز رکھنا ضروری ہے۔ اندرونی خطرات کو نظرانداز کرنا خودکشی کے مترادف ہوگا اور اندرونی خطرات کے غبار میں بیرونی خطرات سے صرفِ نظر اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ اندرونی خطرات کے اسباب کے ساتھ ان کے بیرونی رابطوں کا شعور اور ان کے مقابلے کی حکمت عملی بھی سلامتی پالیسی کا اہم حصہ ہے۔
افغانستان سے اختلافات اور نوک جھونک تو قیامِ پاکستان کے وقت سے رہی ہے، لیکن افغانستان سے پاکستان کی سلامتی کو کبھی حقیقی خطرہ نہیں رہا۔ پہلی بار واضح خطرے کاسگنل افغانستان میں روس کی بالواسطہ مداخلت (ترکی ریولیوشن) سے رُونما ہوا، اور ڈیڑھ سال کے اندر اندر بالآخر دسمبر ۱۹۷۹ء میں روس کی بلاواسطہ فوج کشی کی صورت میں ایک فوری خطرے کی شکل اختیار کرلی۔ پاکستان کا ردعمل اسی وجہ سے ہوا اور اسی سے ہمارے دفاعی اور سلامتی کے ڈھانچے میں ایک بنیادی تبدیلی واقع ہوئی اور اس وقت سے آج تک افغانستان ہماری خارجہ پالیسی کا ایک مرکزی ایشو بن گیا۔
افغانستان میں بھارت کا کردار ۱۹۴۷ء سے تھا، مگر افغانستان پر امریکی فوج کشی اور بھارت اور امریکا کی اسٹرے ٹیجک شراکت کاری نے افغانستان میں اور افغانستان کے راستے میں بھارت کے کردار کو ایک نئی شکل دی ہے۔ پاکستان اور افغانستان میں ایک ایسا رشتہ کہ دونوں ایک دوسرے کا سہارا اور پشتی بان ہوں، دونوں کے مفاد میں ہے اور اس کا راستہ ایک دوسرے کے معاملات میں حقیقی عدم مداخلت کے ساتھ تعاون اور افغانستان میں ایسے نظام کا ہے جو قومی مفاہمت اور یک رنگی سے عبارت ہو۔ تاہم، یہ اسی وقت ممکن ہے، جب افغانستان کے تمام عناصر اور خصوصیت سے پشتون، ہزارہ اور تاجک مل کر اپنے معاملات کو سنبھالیں۔ طالبان سے مذاکرات اور مفاہمت کی ضرورت خود امریکا محسوس کر رہا ہے اور پاکستان کا بہترین مفاد بھی اُس افغان یک جہتی کے حصول میں ہے جس میںسب افغان شریک ہوں۔ وزیرستان میں آپریشن اس کا ذریعہ نہیں ہوسکتا بلکہ اس مقصد سے دُور کرنے کا باعث ہوگا۔ ہماری قومی سلامتی کی پالیسی میں اس پہلو کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
پاکستان بھارت سمیت اپنے تمام ہمسایوں سے دوستی چاہتا ہے لیکن بھارت سے جو خطرات ہماری قومی سلامتی کو درپیش ہیں، ان سے صرفِ نظر کرنا بدترین تباہی کو دعوت دینے کے مترادف ہوگا۔ افغانستان میں نئے صدارتی انتخاب کے نتیجے میں جو بھی تبدیلی آئے گی اور جو بھی نئی قیادت برسرِاقتدار آتی ہے، پاکستان کو اس سے یک جان و دو قالب کے رشتے کو استوار کرنے کو اوّلیت دینی چاہیے۔ اس کے ساتھ بھارت میں جس نئی قیادت نے زمامِ کار سنبھالی ہے اس کے عزائم، تاریخ اور ترجیحات کا بھی گہری نظر سے مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اور بھارت میں دوستانہ تعلقات دونوں ممالک کی ضرورت ہے، لیکن یہ مقصد یک طرفہ طور پر حاصل نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ جو بنیادی تنازعات موجود ہیں، ان کو حق وانصاف کے مطابق طے کیا جائے اور محض طاقت اور معیشت کے حجم کی بنیاد پر یاجزوی اور شخصی مفادات کو اولیت دے کر لیپاپوتی کے ذریعے حالات کو نارمل بنانے یا سمجھنے کی حماقت نہ کی جائے۔ جناب نواز شریف کا ذہن اس سلسلے میں بڑا پراگندا ہے۔ وہ بھارت کی تاریخ ، اس کے سیاسی اور معاشی عزائم اور اس کی سیاست کے پیچ و خم سے واقف نہیں اور اس غلط فہمی اور خوش خیالی میں مبتلا ہیں کہ تجارت اور معاشی لین دین سے تعلقات کو نئی جہت دے سکتے ہیں۔
ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ بھارت کی طرف سے خطرات کا ان کو صحیح اِدراک نہیں اور جناب نریندرمودی، بی جے پی اور آر ایس ایس کی حکومت کے بارے میں وہ شدید غلط فہمیوں کا شکار ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ اس سلسلے میں وزارتِ خارجہ اور ہماری عسکری قیادت کو حالات کا بہتر اِدراک ہے۔ بھارت سے مستقبل کے تعلقات کے مسئلے کو شخصی پسنداور ترجیحات کی بھینٹ نہیں چڑھایا جاسکتا۔ اس سلسلے میں پوری سوچ بچار اور تمام پہلوئوں پر گہرے غوروفکر کے ساتھ کسی تاخیر کے بغیر ایک دیرپا پالیسی مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ نواز شریف صاحب نے جس طرح نریندرمودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے موقعے پر معاملات انجام دیے ہیں، وہ بہت محل نظر ہیں۔ وہ اپنے کاروباری صاحب زادے حسن نواز کو اس دورے میں ساتھ لے کر گئے، چنانچہ بھارت میں لوہے کی صنعت کے کرتادھرتا سے ان کی ملاقاتوں کے بارے میں بجاطور پر سوالیہ نشان اُٹھائے گئے ہیں، جو سنجیدہ غوروفکر کا تقاضا کرتے ہیں۔ پھر کشمیر کے مسئلے پر جس طرح اس دورے میں خاموشی کا روزہ رکھ لیا گیا اور حسب سابق کشمیری قیادت سے ملاقات تک کی زحمت نہیں کی گئی وہ بہت تشویش ناک ہے۔ آزاد خارجہ پالیسی کے باب میں بھارت کے بارے میں پالیسی اور جنوب سے اُبھرتے ہوئے خطرات کی روشنی میں عسکری اور سفارت کاری کے میدانوں میں صحیح حکمت عملی کی صورت گری ازبس ضروری ہے۔
آزاد خارجہ پالیسی کے سلسلے میں سب سے اہم مسئلہ امریکا سے تعلقات کی تنظیم نو ہے جو خواہشات کی بنیاد پر نہیں،اصل زمینی حقائق اور پاکستان کے مفادات کی بنیاد پر مرتب ہونی چاہیے۔ نیز مشرق وسطیٰ خصوصیت سے شام، عراق، لیبیا، مصر اور ایران کے سلسلے میں امریکا کی جو پالیسی ہے، اسے بھی سامنے رکھنا ضروری ہے۔ حالیہ افغان جنگ میں امریکا نے جو کچھ کھو دیا ہے اور جو کچھ پایا ہے، اس پر امریکا کے علمی، سفارتی، صحافی اور سیاسی حلقوں میں بحث ہورہی ہے اور اس بحث کے دُور رس نتائج مرتب ہونے کی توقع ہے۔ امریکا کی خارجہ پالیسی میں اسرائیل کے مفادات کے تحفظ کو جو حیثیت حاصل ہے وہ بھی نظرانداز نہیں کی جاسکتی۔ اسی طرح امریکا اور بھارت کے تعلقات نے جو رُخ گذشتہ ۱۰سال میں اختیار کیا ہے، اس کا پاکستان اور اس کی خارجہ اور داخلی پالیسیوں سے گہرا تعلق ہے۔ امریکا میں راے عامہ اور سیاسی اور سفارتی حلقوں میں پاکستان کا جو تصور ہے، اس سے صرفِ نظر کرکے خیالی پالیسیاں بنانا بڑا خسارے کا سودا ہوسکتا ہے۔ اس لیے پوری عرق ریزی کے ساتھ اور حقیقت پسندی کا دامن تھامتے ہوئے تعلقات کا ایک نیا دروبست بنانے کی ضرورت ہے۔
یہ بات بھی سامنے رہے کہ پاکستانی عوام کی نگاہ میں امریکا سب سے زیادہ ناقابلِ اعتماد ملک ہے اور امریکی راے عامہ کی نگاہ میں پاکستان کی یہی تصویر ہے۔ دونوں ممالک میں باہمی اعتماد کا شدید فقدان ہے اور تعلقات کو نئی جہت دینے کا کام ان زمینی حقائق کو نظرانداز کرکے انجام دینا بڑی حماقت ہوگی۔ ہیلری کلنٹن نے اپنی یادداشتیں مرتب کی ہیں، اس میں اس نے اعتماد کے فقدان کا کھل کر اعتراف کرتے ہوئے صاف لکھا ہے کہ اسی وجہ سے ایبٹ آباد کے امریکی آپریشن کا اہتمام پاکستان کو اعتماد میں لیے بغیر کیا گیا۔ یہ صرف ہیلری کلنٹن کے خیالات نہیں پوری امریکی اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی اور ذہنی قیادت کی سوچ کا آئینہ ہے۔ امریکا اس وقت مشرق وسطیٰ کے سیاسی نقشے کی تشکیل نو میں جو کردار ادا کر رہا ہے اور افغانستان اور عراق میں امریکی مداخلت کا جس سے گہرا تعلق ہے، اس کو بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ امریکی دانش ور اور عسکری تجزیہ نگار پاکستان اور عرب دنیا کے نقشوں کی ٹوٹ پھوٹ کی جو تصویریں بنا رہے ہیں، وہ ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہیں۔
نائن الیون کے بعد سے اسلام اور مسلم دنیا کو جس طرح ہوّا بنا کر پیش کیا جا رہا ہے، وہ محض شاعرانہ خوش خیالی نہیں، سیاسی عزائم اور ایجنڈے کا اہم حصہ ہے۔ دوستی اور تعاون کے رشتوں کو قائم رکھنے کے تمام دعوئوں کے ساتھ جو ذہن بنایا جا رہا ہے، وہ یہ ہے کہ امریکا کے لیے اصل خطرہ پاکستان ہے۔ اس کا بڑا ہی کھل کر اظہار اسی مہینے شائع ہونے والی کتاب The Wrong Enemy میں کیا گیا ہے جس کی مصنفہ ایک مشہور صحافی کارلوٹا گال ہے، جس نے گذشتہ ۱۲برس افغانستان اور پاکستان سے نیویارک ٹائمز کی نمایندے کی حیثیت سے کام کیا ہے اور جسے امریکا میں دونوں ممالک پر ایک مستند حیثیت سے دیکھا جاتا ہے۔ موصوفہ کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ افغانستان پر فوج کشی کرکے ہم نے ناحق اپنے فوجیوں کی جانیں اور اپنے ٹیکس دینے والوں کی دولت کو ضائع کیا۔ ہمارا اصل دشمن تو پاکستان ہے اور جب تک اسے ٹھکانے نہیں لگایا جاتا، امریکا کے مفادات معرضِ خطر میں رہیں گے۔ ملاحظہ ہو ، کیا ارشاد ہے:
جنگ ایک المیہ رہی ہے جس کی قیمت اَن گنت زندگیوں نے چکائی ہے۔ یہ بہت طویل عرصے سے جاری ہے۔افغانی کبھی بھی دہشت گردی کے وکیل نہیں رہے، لیکن نائن الیون کے بعدسزا کا اصل دبائو انھوں نے ہی برداشت کیا۔پاکستان جو اتحادی فرض کیا جاتا ہے دھو کے باز ثابت ہوا۔ اس نے افغانستان میں تشدد کو اپنی بالادستی جیسے مقاصد کے لیے آگے بڑھایا ہے۔ پاکستان کے جرنیلوں اور ملائوں نے اپنے آپ کو، اپنے افغان پڑوسیوں کو اور ناٹو کے حلیفوں کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ افغانستان نہیں، پاکستان حقیقی دشمن رہا ہے ۔ (The Wrong Enemy: America in Afghanistan (2001-2014) by Carlotta Gall, Houghton Mifflin Harcourt, Boston- New York-2014)
ہم ایک بار پھر واضح کرناچاہتے ہیں کہ پاکستان کو دنیا کے تمام ممالک سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے چاہییں۔ ہم دوست بنانا چاہتے ہیں، دشمن نہیں۔ لیکن یہ تعلقات حقائق پر مبنی ہونے چاہییں، اور پاکستان کے حقیقی مفادات کے حصول کو اولیت حاصل ہونی چاہیے۔ حقائق کو نظرانداز کرکے جو اڑان بھی کی جائے گی، وہ مفید نہیں ہوسکتی ع
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
نواز حکومت نے اس ایک سال میں خارجہ پالیسی، قومی سلامتی اور دہشت گردی کے باب میں جو بھی پالیسیاں بنائی ہیں اور اقدامات کیے ہیں، ہم بڑے دکھ کے ساتھ یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ وہ بڑی حد تک سابقہ اَدوار کے تسلسل کی حیثیت رکھتے ہیں اور ملک کے اسٹرے ٹیجک مفادات اور عوام کے جذبات جن تبدیلیوں کا تقاضا کر رہے تھے، ان کی کوئی جھلک ان میں دُور دُور نظر نہیں آتی۔ جو بات خارجہ پالیسی، قومی سلامتی کی پالیسی اور ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کی حکمت عملی کے سلسلے میں درست ہے، کم و بیش وہی ملک و قوم کو درپیش دوسرے چیلنجوں اور مسائل پر بھی صادق آتی ہے جن پر حسب توفیق ہم آیندہ گفتگو کی کوشش کریں گے۔ البتہ اس پہلے سال کے جائزے کا یہ پیغام واضح ہے کہ ملک و قوم کو جس تبدیلی کی ضرورت تھی، اس کی طرف کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔ ابھی وقت ہے اورحکومت اگر چاہتی ہے کہ پاکستان اس دلدل سے نکلے اور جمہوریت کی گاڑی آگے چل سکے، تو اسے اپنی روش میں بنیادی تبدیلیاں لانی ہوں گی۔
قرآنِ مجید وہ مہتم بالشان صحیفۂ ہدایت ہے جس نے نہ صرف تاریخِ انسانی کا دھارا موڑا، بلکہ فکروعمل کا معیار بھی یکسر تبدیل کردیا۔ قرآنِ مجید کی صورت میں الہامی تعلیمات نے نہ صرف حیاتِ انسانی کو متاثر کیا، بلکہ اس کائنات کے حیرت انگیز اسرار کی پردہ کشائی کے ساتھ مدتِ دراز سے مروج ہرنوع کے افکار و نظریات کے علی الرغم کائنات کی اَبدی اور کھلی حقیقتوں پر مضبوط، مؤثر اور مستحکم دلائل پیش کیے۔
قرآنِ مجید روے زمین پر کائنات کے خالق، مالک، آقا و حاکم اور مقتدرِ اعلیٰ کی حقانیت بلکہ وجود پر سب سے بڑی، روشن اور شان دار دلیل ہے۔ اسی لیے سورۃ النساء میں اسے ’بُرہان‘ قرار دیا گیا۔ بُرہان کے لغوی معنی ’دلیل اور حجت‘ کے ہیں۔ دلیل راہنما کو بھی کہتے ہیں اور اس سے مراد وہ نظریہ، عقیدہ، فکر اور اصول بھی ہے، جو کسی بھی معاملے میں واضح اور فیصلہ کن رہنمائی عطا کرے۔
قرآنِ مجید کی ہرآیت اور ہر حرف تاقیامت دلیل و حجت اور کامل رہنمائی ہے۔ وہ لوگ جو حق و راستی کے طالب ہوں، ان کے قلوب و اذہان ہر نوع کی کجی اور ٹیڑھ سے پاک ہوں، قرآنِ کریم انھیں ہمہ پہلو دلائل و براہین سے حق کا شعور و آگہی، عمل کی توفیق اور استقامت عطا کرتا ہے۔
قرآنِ مجید نے اپنے طرزِ استدلال میں وہ تمام اسالیب اختیار کیے، جن کا تعلق انسان کی عقل و فہم ، سماعت اور مشاہدے سے ہو۔ قرآن نے مروج ادبی معیارات سے کہیں بڑھ کر بلند تر معیار کو اپناکر دقیق سے دقیق بات پاکیزہ، واضح اور مؤثرانداز میں اس طرح بیان کی کہ ہرشخص نے اپنی فہم و دانش اور ظرف کے مطابق اس سے نہ صرف صراطِ مستقیم کا شعور حاصل کیا، بلکہ اس کے جلال و کمال اور ہیبت و عظمت کے سامنے مبہوت ہوکر رہ گیا۔
قرآنِ حکیم نے اپنے دلائل و براہین پر جن لوگوں کو غوروفکر کی دعوت دی، ان میں اہلِ عقل و دانش ، اہلِ ایمان اور اہلِ علم کے ساتھ اللہ کا خوف رکھنے، آیات کو سننے اور انھیں سمجھنے کی صلاحیت رکھنے، ان سے نصیحت پکڑنے اور اس نعمت عظمیٰ پر شکر بجا لاتے ہوئے اس کی عطا کردہ راہِ ہدایت پر استقامت دکھانے والے شامل ہیں۔
قرآنِ مجید کے دلائل و براہین کا اوّلین موضوع خود اس کا اپنا وجود ہے۔ اس کی پہلی دلیل ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ (البقرہ ۲:۲)، یعنی یہ کتابِ مقدس ہر نوع کے شک و شبہے سے بالا، ہرآمیزش سے مبرا، ہرکجی سے پاک اور دونوں جہانوں کے رب کی طرف سے نازل کردہ ہے۔ قرآن نے خو د کو ہدایت، موعظت، شفا، رحمت، حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والا اور نصیحت قرار دیتے ہوئے نہایت قوی دلیل دی کہ اَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ ج (انعام۶:۱۵۳)، کہ میرا بیان کردہ راستہ ہی سیدھا راستہ ہے، لہٰذا اسی کی پیروی میں نجات اور اس سے انحراف سراسر گمراہی ہے۔ قرآن نے اپنے وجود مسعود و محمود کے ساتھ اپنے محفوظ ہونے پر بھی دلائل دیے کہ یہ کسی انسان کا کلام ہرگز نہیں، اس کا نازل کرنے والا اللہ بزرگ و برتر ہے، اور وہی اس کا محافظ بھی۔ قرآن نے اپنے وجود کی عظمت اور حقانیت پر دلیل دیتے ہوئے تمام جِنّ و انس کو چیلنج دیا کہ وہ سب مل کر اس کے افکار و نظریات تو دُور کی بات، اس کی ایک سورۃ یا آیت جیسا کلام بناکر دکھائیں۔ پھر خود ہی اعلان بھی کردیا: لَا یَاتُوْنَ بِمِثْلِہِ کہ سارے جِنّ و انس مل کر بھی ایسا ہرگز نہ کرسکیں گے۔ قرآن نے اپنے وجود پر ایک اور قوی دلیل یہ پیش کی کہ وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ (القمر۵۴:۳۲) ، یعنی یہ معانی و مفاہیم، قرأت و تجوید اور حفظ و عمل کے اعتبار سے نہایت آسان ہے۔ فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ تو ہے کوئی اس سے نصیحت حاصل کر کے اپنے سینوں میں اُتارنے اور کتابِ حیات پر نافذ کرنے والا؟
قرآن نے اپنے براہین کا دوسرا موضوع صاحب ِ قرآن کو بنایا، اور صاحب ِ قرآن کے اُمّی ہونے کو اپنے لاریب ہونے پر دلیل بنایا کہ وہ ذاتِ اقدس جو اُمیوں کے معاشرے سے اُٹھی، اور الہامی تعلیم و تربیت اور راہنمائی کے سایے میں اُس اخلاق و کردار سے متصف ہوئی ، جو خود قرآن کا پرتو، اس کی عملی تصویر اور ہمہ پہلو مجسم دلیل قرار پائی۔ کَانَ خُلُقُہٗ الْقُرْاٰن، اور یہی وجودِ اقدس تابہ اَبد انسانیت کے لیے نمونۂ عمل اور اسوئہ حسنہ ، معیارِ ہدایت و ضامنِ نجات قرار پایا۔ قرآن نے نہ صرف بعثت ِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے دلائل فراہم کیے، بلکہ منصب ِ رسالت پر بھی ہمہ پہلو دلائل پیش کیے۔
قرآنِ حکیم نے اپنے دلائل کا تیسرا موضوع بارگاہِ الٰہی سے بارگاہِ رسالت میں لانے والے کو بنایا، کہ وہ بھی نہایت محترم، معتبر اور مستند واسطہ ہے۔ یہ پیام رساں جبریل امین ؑ نہایت عظیم المرتبت، بارگاہِ الٰہی کا نہایت قوی مقرب، فرمانِ الٰہی کا پابند اور صاحب ِ امانت ہے۔
براہین قرآنی کا چوتھا اور کلیدی موضوع وجودِ باری تعالیٰ اور ا س کی توحید، عظمت و جلال، اختیار واقتدار، وسعت و قوت کا اعلان و اظہار ہے۔ اور نہ صرف نزولِ قرآن اور بعثت ِ رسالت مآبؐ کا مقصد ہے، بلکہ تحقیق کائنات کی غرض و غایت بھی یہی ہے۔ قرآنِ حکیم نے انسان کے اپنے وجود، تخلیق، تکوین کائنات اور بے شمار ظاہروباطن، مظاہرقدرت اور مناظر فطرت کو دلیل بناکر اللہ کی وحدانیت، عظمت، کبریائی، قوت و اختیار و اقتدار، جلال و جمال اور ذاتِ باری کے ہرپہلو کو نمایاں اور واضح کیا۔ قرآن نے اپنے دلائل سے تخلیق کائنات کا یہ مقصد واضح کیا کہ نہ تو یہ کھیل تماشے کے لیے ہے اور نہ بے مقصد۔ تخلیق جِنّ و انس اور تکوین کون و مکاں کا واحد مقصد اللہ کی ہمہ پہلو، مکمل اور مسلسل عبادت، یعنی بندگی ہے۔ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِِنسَ اِِلَّا لِیَعْبُدُوْنِo (الذاریات ۵۱:۵۶) ’’میں نے جِنّ اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں‘‘۔
قرآنِ حکیم اس حقیقت پر بھی بُرہان ہے کہ یہ کائنات اَبدی نہیں، فانی ہے۔ بقا و دوام تو فقط ذاتِ باری تعالیٰ کو ہی ہے۔ اس کائنات کا انجام آخرت ہے، جو بہرصورت اور بہت جلد برپا ہوگی۔ عدلِ الٰہی کا تقاضا ہے کہ حیاتِ دنیوی میں آزمایش کے لیے بھیجے جانے والوں کی مہلت ِ عمل مکمل ، امتحان کا اختتام ہو اور فیصلے کا دن برپا کر کے جزا و سزا کے ذریعے اہلِ کفر اور اہلِ ایمان میں وعدے کے مطابق فرق و امتیاز کیا جائے۔ قرآنی دلائل کی روشنی میں دنیا تو دارالعمل، متاعِ قلیل اور بے وقعت ہے، جب کہ آخرت بہتر، دائمی اور دارالجزا ہے۔ وَالْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰیْo (الاعلٰی۸۷:۱۷)
براہین قرآن کا چھٹا موضوع تسخیر کائنات ہے کہ یہ بحروبَر، شمس و قمر، لیل و نہار، سب بندئہ مومن کے لیے اور اس کی میراث ہیں۔ اَلَمْ تَـرَوْا اَنَّ اللّٰہَ سََخَّرَلَکُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ (لقمان۳۱:۲۰) ’’کیا تم لوگ نہیں دیکھتے کہ اللہ نے زمین اور آسمانوں کی ساری چیزیں تمھارے لیے مسخر کررکھی ہیں‘‘۔ مومن کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ انھیں امانت تصور کرتے ہوئے آقا و مولا کی مرضی و منشاء کے مطابق استعمال تو کرے، لیکن ان میں گم اور غرق ہوکر نہ رہ جائے۔ اس کائنات کے اسرار و رُموز سے آگاہی حاصل کرکے اپنے رب کی معرفت اور اپنی شب تاریک سحر تو کرے، اس دنیا کے زینت و تفاخر اوردھوکے میں ڈالنے والی رعنائی و دل کشی کا اسیر ہرگز نہ بنے۔
ساتواں موضوع جسے قرآنِ حکیم نے اپنے دلائل و براہین کا مرکز بنایا، وہ قوموں کا عروج و زوال ہے۔ اُممِ سابقہ کے تذکرے، انبیا اور ان کے اصحاب کے قصے، قوموں کے انفرادی و اجتماعی کردار، معاشرتی رویے، آیاتِ الٰہی کی تکذیب، عناد اور مخالفت کے انجام، اہلِ کفر اور اہلِ ایمان کے معرکہ ہاے حق و باطل، ظلم و جبر کی داستانیں، صبرواستقلال اور عزیمت کے واقعات، انسانوں پر انسانوں کی خدائی کے جھوٹے دعوے اور ان کے عبرت ناک انجام___ ان سب کو قرآن نے اس امر پر دلیل بنایا کہ حق و باطل ہمیشہ سے برسرِپیکار رہے ہیں، لیکن غلبہ بالآخر اہلِ حق کو ہی حاصل ہوا۔ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْن (اٰلِ عمرٰن ۳:۱۳۹) ’’تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو‘‘۔
قرآنِ حکیم نے ان چند بنیادی موضوعات پر بار بار، تفصیلی اور مستحکم دلائل دینے کے علاوہ بعض دیگر اُمور اور حقائق کے بارے میں بھی مدلل رہنمائی عطا کی، جن میں:
قرآنِ مجید کی ہر آیت کسی نہ کسی انسانی رویے کے حُسن و قبح پر دلیل اور کسی نہ کسی اَبدی اور سچی حقیقت کی غماز ہے۔ یہ سب دلائل و براہین انسان کی ہدایت کا سامان اور قلب ونظر کے اطمینان ، اور دنیا کی فلاح اور عقبیٰ کی نجات کا باعث ہیں۔
قرآن دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ یہ انسان کی بیش بہا خوش بختی ہے کہ وہ حاملِ قرآن ہے مگر بحیثیت مجموعی اس کی سب سے بڑی بدبختی بھی یہی ہے کہ وہ تارکِ قرآں ہے۔ وہ اس سے غافل ہی نہیں ہے، بلکہ اپنی زندگی کے ہرمعاملے میں اس سے اعراض برتے ہوئے ہے۔ اسی کا نتیجہ اس کی ذلت و رُسوائی، بے سکونی اور بے اطمینانی ہے۔
قرآنِ مجید کی تمام تعلیمات اور دلائل و براہین اپنے مخاطبین سے صرف ایک ہی تقاضا کرتے ہیں، اور وہ ہے ایمان باللہ اور اس کی عطا کردہ تعلیماتِ قرآنی کو تھام لینا۔ گویا اللہ کی ذات، صفات، اختیار وغیرہ پر کامل ایمان کے ساتھ اس کے لازمی تقاضوں پر بھی غیرمتزلزل ایمان کے بعد اعتصام بحبل اللّٰہ… یعنی عقائد کی درستی اور پھر اعمالِ صالح۔ سورۃ العصر بھی ان ہی امور کی تفصیل بیان کرتی ہے کہ ایمان، عملِ صالح اور حق کی وصیت کے ساتھ باہم صبرواستقامت کی تلقین۔ یہ چیزیں اللہ کی رحمت، فضل، اس کی جانب سے صراطِ مستقیم کی رہنمائی اور اس کی رضا کا موجب ہیں۔
قرآنی فلسفۂ حیات میں معاشرتی زندگی کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ قرآن اس میں اعلیٰ اخلاقی اقدار اپنانے کا درس دیتا ہے اور اس کی تعلیمات کا مرکزو محور یہ نکتہ ہے کہ اجتماعی زندگی گزارتے ہوئے سعادت اور کامیابی کا انحصار اس امر پر ہے کہ کوئی حق دار محروم نہ ہو اور کسی پر زیادتی اور ظلم نہ ہو۔ قرآن میں بیان کردہ تمام اخلاقی قوانین اسی محورکے گرد گھومتے ہیں۔
غیبت، سوء ظن، تمسخر، بدعہدی، ناپ تول میں کمی، فحش گوئی وغیرہ سے اجتناب کی ہدایت، اہلِ خانہ اور والدین سے حُسنِ سلوک ، عفو و درگزر، تحمل و وقار، پاک بازی، راست بازی ، امانت کا تحفظ، عدل و انصاف کا قیام، ہر فرد کے حقوق کا تحفظ، انفاق فی سبیل اللہ کے ذریعے معاشرے کی صلاح و فلاح، ایک دوسرے کی ضرورتوں کی تکمیل کا احساس ___ہمارے معاشرتی رویوں سے متعلق قرآنی ہدایات کے چند نکات ہیں۔
قرآن کے تمام ہمہ پہلو دلائل و براہین ساری انسانیت اور بالخصوص اہلِ ایمان کو دعوت دے رہے ہیں کہ اگر ان کے دلوں پر قفل پڑے ہوئے نہیں، تو وہ ان پر غور کریں، ان سے نصیحت اور رہنمائی حاصل کر کے انھیں اپنی زندگیوں کا مرکز و محور بنائیں۔
اے اہلِ ایمان! اگر تم مسلمان کی حقیقی آن بان اور شان کے ساتھ زندہ رہنا چاہتے ہو تو نِیست ممکن جز بہ قرآں زیستن… قرآن کے بغیر باعزت زندہ رہنے کا تصور ممکن ہی نہیں۔اور ڈرو میدانِ حشر کے اس لمحے سے جب رسولؐ بارگاہِ الٰہی میں فریاد کناں ہوں گے: یٰـرَبِّ اِِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا ہٰذَا الْقُرْاٰنَ مَہْجُوْرًا (الفرقان ۲۵:۳۰) کہ اے رب! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا اور تب یہ قرآن بھی ہمارے خلاف حجت بن کر اُٹھ کھڑا ہوگا۔
مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودی ۲۵ستمبر ۱۹۰۳ء کو اورنگ آباد، حیدر آباد دکن میں پیدا ہوئے۔ اسی طرح آپ کے آباو اجداد کا تعلق حضرت ابو اسحاق شامی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھوں تشکیل پانے والے چشتیہ سلسلے سے تھا۔ آپ کے بزرگوں میں سے خواجہ محمد (۹۴۳ء-۱۰۲۰ء) ان مجاہدین میں شامل تھے، جنھوں نے سلطان محمود غزنوی کے سومنات پر آخری اور فیصلہ کن معرکے میں شرکت کی سعادت حاصل کی تھی۔ ازاں بعد انھی کی اولاد سے خواجہ قطب الدین مودود چشتی (م:۱۱۳۳ء ) نے خدمت دین کے چراغ روشن کیے۔ مولانا مودودی کے والد سید احمد حسن کے نانا محسن الدولہ احمد کو انگریزوں نے ۱۸۵۷ء میں جنگ آزادی میں حصہ لینے کی پاداش میں پھانسی دے دی۔
مولانا مودودی نے ہوش سنبھالتے ہی جدید اور دینی تعلیم کے سرچشموں سے فیض پانے کے مواقع پائے۔ اس ضمن میں ان کے والد سید احمد حسن مودودی کی توجہ اور فکر مندی قابل ذکر تھی۔ والد کے ہاتھوں تربیت کے نتیجے میں مودودی صاحب کی اخلاقی، دینی، علمی اور سماجی شخصیت اس سانچے میں ڈھلی کہ وہ بیسویں صدی میں مفکرِ اسلام، مفسرِ قرآن اور قائد تحریک اسلامی کی حیثیت سے جانے اور پہچانے گئے۔ جنھوں نے لاکھوں لوگوں کے دلوں کی دنیا بدلی، افکار و خیالات کی دنیا میں حق بینی اور حق گوئی کا بیج بویا۔
مولانا مودودی نے لڑکپن میں جس حادثے یا المیے کے نتیجے میں اپنی ذات میں تحقیق و تحریر کی جس بے پناہ قوت کا اندازہ لگایا، اس صورتِ حال کا تعلق کم و بیش ہمارے موجودہ عہد سے ملتا جلتا تھا۔ وہ یہ کہ تب اسلام اور مسلمانوں کو ایک جانب تو افریقا اور ترکی میں کچلا جا رہا تھا۔ دوسری جانب ہندوئوں اور یورپی عیسائی سامراجیوں کی جانب سے یہ کہا جا رہا تھا کہ اسلام اور مسلمان خون آلود ماضی اور خون آلود لائحہ عمل رکھتے ہیں۔ اس حد درجہ سفاکانہ پراپیگنڈے کا جواب دینے کے لیے ۲۴برس کی عمر میں مولانا مودودی نے الجہاد فی الاسلام لکھنا شروع کی۔ جو بعدازاں ایک معرکہ آرا کتاب کی صورت میں اہل علم کی تحسین اور توجہ کا مرکز بنی، اور اسی کتاب نے علامہ محمداقبال کو مولانا مودودی کی جانب متوجہ کیا۔ اس موقعے پر اقبال نے فرمایا تھا: اسلام کے نظریہ جہاد اور اس کے قانون صلح و جنگ پر یہ ایک بہترین تصنیف ہے، اور میں ہر ذی علم کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اس کا مطالعہ کرے۔ اقبال ہی نے بعد ازاں چودھری نیاز علی خاں کے وقف (پٹھان کوٹ،پنجاب) میں منتقل ہونے کی دعوت دی۔
مولانا مودودی نے جہاں اسلام کے دیگر پہلوؤں پر قلم اٹھایا اور عصرِ حاضر کے چیلنجوں کا جواب دیا، وہیں انھوں نے جنوری ۱۹۴۲ء میں قرآن کریم کی تفسیر تفہیم القرآن لکھنا شروع کی۔ اور ۳۰برس پانچ ماہ کی مدت میں ۷جون ۱۹۷۲ء کو اسے مکمل کیا۔
کسی بھی زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کرنا ایک مشکل کام ہے، لیکن جب معاملہ قرآن کریم جیسی الہامی کتاب اور الٰہی پیغام کا ہو، تو اس ذمہ داری کی نزاکت بے حدو حساب ہوجاتی ہے۔ مولانا مودودی سے قبل قرآن کریم کے اردو میں اکثر ترجمے لفظی سانچوں کے قریب رہ کر کیے گئے تھے، مگر ان میں کمی یہ تھی کہ قرآن کا مفہوم، پڑھنے والے تک منتقل نہیں ہو پاتا تھا۔ تاہم، مولانا فتح محمد جالندھری مرحوم کا ترجمہ کئی حوالوں سے بہتر اور عام فہم تھا۔ لیکن اسے عام فہم بنانے کے لیے انھوں نے قوسین میں بہت سی اضافی عبارتوں کا سہارا لیا تھا۔ جب کہ مولانا مودودی نے ترجمہ قرآن کے لیے قرآنی آیات کی ترجمانی کا راستہ اختیار کیا، اور کلام الٰہی کی حدود کا حد درجہ خیال رکھا کہ اسی دائرے میں رہتے ہوئے کلام پاک کو اردو خواں طبقے تک منتقل کریں۔ ماہرین لسانیات کے بقول مولانا مودودی نے قرآن سمجھنے کے لیے اپنے قاری کی بے پناہ دست گیری کی ہے۔ ترجمے میں روانی، ربط، عام فہم اور بامحاورہ بنا کر پیش کرتے ہوئے دل کش انداز اختیار کیا ہے۔
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن عظیم کی تفسیر تفہیم القرآن لکھتے وقت، مولانا مودودی نے کلاسیکی اسلوب تفسیر سے ذرا ہٹ کر، لیکن تفسیری روایت اور قرآن و حدیث کے متن سے جڑ کر تفسیری خدمت انجام دی ہے۔ تفسیر لکھنے سے پہلے انھوں نے اعلیٰ پاے کے تفسیری ادب اور امہات تفاسیر کا مطالعہ کیا۔ احادیث نبوی کے ہزاروں صفحات پر پھیلے لوازمے کا مطالعہ کر کے موضوعات کا اشاریہ بنایا، مسلم تاریخ اور فقہی لٹریچر کی بنیادی کتب کے مباحث اور کلامی معرکوں کو ذہن نشین کیا۔ دوسری جانب اپنے آپ کو عصرِ حاضر سے جوڑتے ہوئے مغربی افکار و نظریات اور برسرپیکار عالمی و مقامی تحریکات مثلاً :نسل پرستی، سرمایہ داری، اشتراکیت، لادینیت، استعماریت، اور نام نہاد آزاد خیالی کے نام پر سٹراند پیدا کرتی عریانی و فحاشی کے سرچشموں کو گہرائی میں جا کر پرکھا۔
مولانا مودودیؒ خود لکھتے ہیں: ’’اس سلسلے میں میں نے ویدوں کے تراجم لفظ بلفظ پڑھے۔ بھگوت گیتا لفظ بلفظ پڑھی۔ ہندو شاستروں کو پڑھا۔ بدھ مذہب کی اصل کتابیںجو انگریزی میں ترجمہ ہوئی ہیں، ان کو پڑھا۔ بائبل پوری پڑھی اور پادری ڈومیلو کی تفسیر کی مدد سے پڑی۔ یہودیوں کی اپنی کتابوں کو پڑھا۔ تالمود کے جتنے حصے مل سکے وہ سب پڑھے‘‘۔ یاد رہے مولانا مودودیؒ کو اردو، عربی، انگریزی اور فارسی پر تو دسترس حاصل تھی، اس کے ساتھ انھوں نے جرمن زبان بھی سیکھی تھی۔
اس کے پہلو بہ پہلو خود مسلمانوں میں در آنے والی آبا پرستی، الحاد، انکار حدیث، فرقہ پرستی اور اس کے ساتھ بدترین بغاوت انکارِ ختم نبوت کے کانٹوں بھرے جنگل کو صاف کرنے کے لیے چومکھی لڑائی لڑی۔ اس جان جوکھم معرکے اور اس مطالعاتی عمل کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کی تفسیر لکھنے کا عمل بھی جاری رکھا۔ اس دوران میں مولانا مودودی پے درپے گرفتاریوں کا نشانہ بنے اور سزاے موت کا بھی سامنا کیا، جو بعد میں عمر قید میں تبدیل ہو گئی۔
تفہیم القرآن کے لکھے جانے سے پہلے اور پھر بعد میں بہت سے علماے کرام نے بھی کمال درجہ محنت، اور تفقہ فی الدین کے ساتھ تفسیر قرآن کی خدمات انجام دیں۔ اس کے باوجود تفہیم القرآن کو دوسری تفاسیر سے متعدد حوالوں سے امتیاز حاصل ہے۔ پروفیسر خورشید احمد کے مطابق: تفہیم القرآن میں اس نقطۂ نظر سے قرآن کا مطالعہ کیا گیا ہے کہ یہ کتاب صحیفۂ ہدایت ہے، جو ہر فرد اور پوری امت میں غور و فکر اور مطالعے کا ایک خاص انداز پیدا کرنا چاہتا ہے۔ تفہیم نے اس امر کی وضاحت پیش نظر رکھی ہے، کہ قرآن کریم، زمانے کے تغیر اور تبدیلی کے تقاضوں کا پورا لحاظ رکھتے ہوئے ایک مکمل ضابطۂ حیات فراہم کرتا ہے۔ اس مجموعی نقشے کے مطابق انسانی معاشرتی زندگی کے پورے دھارے کا رخ موڑنے کی قوت پیش کرتا ہے۔
تفہیم القرآن کے اوراق پر پھیلے مباحث سے یہ پیغام روشنی کی طرح پھوٹتا ہے کہ قرآن کریم ایک الہامی اور عظیم کتاب ہونے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ ابدی ہدایت اور پیغام دعوت ہے۔ دعوت قبول کرنے والوں کے لیے زندگی بھر کی جدوجہد کا ایک واضح اور نکھرا ہوا نصاب ہی نہیں بلکہ صراطِ مستقیم کا زادِ راہ بھی ہے۔
اسی طرح تفہیم القرآن نے سورتوں کے باہمی ربط اور سورتوں کے متن میں پوشیدہ وحدت کو بیان کرنے کے لیے کسی فلسفیانہ تقریر کے بجاے صاف اور عام فہم انداز میں نمایاں طور پر قاری کے سامنے پیش کیا ہے۔ مولانا مودودی نے ہر سورت کے پس منظر اور مرکزی موضوعات کو آغاز میں بیان کر کے قاری کے لیے سہولت دے کرقرآن فہمی سے اس کی وابستگی کو مضبوط بنا دیا ہے۔
تفہیم القرآن کا ایک بڑا کمال یہ ہے کہ اس نے فقہی مسائل کو اس توازن، اعتدال اور وسیع البنیاد رنگ میں حل کیا ہے کہ امت میں اتحاد اور بقاے باہم کی خوشبو بکھرتی ہے۔ انھوں نے کسی ایک فقہ کے وکیل صفائی بننے کے بجاے قرآن، سنت، حدیث اور اکابرین ملت اسلامیہ کے متفق علیہ فیصلوں اور افکار کو قارئین کے سامنے پیش کیا ہے۔
تفہیم القرآن میں تقابل ادیان کا موضوع خصوصی شان کا حامل ہے۔ اس ضمن میں مولانا مودودی نے اسرائیلی خرافات سے آلودہ روایات سے دینی لٹریچر، خصوصاً تفسیری ادب کو پاک کرنے کا کارنامہ انجام دینے والوں میں اہم مقام پایا ہے۔
تفہیم القرآن میں قدیم اور جدید کا توازن برقرار رکھا گیا ہے۔ مولانا مودودی نہ تو جدیدیت کا رنگ اختیار کر کے مغرب زدہ معذرت خواہی کی راہ پر چلے اور نہ قدامت سے چمٹ کر عصرِ حاضر سے بے خبر رہے۔ اس نازک سفر میں انھوں نے قرآن و سنت کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھا اور جدید عہد کے سوالوں کا جرأت ایمانی اور دانش برہانی سے مدلل اور شافی جواب دیا۔
اس عظیم تفسیر کے انسائی کلوپیڈیا محاسن کو ایک مختصر مضمون میں سمیٹا نہیں جا سکتا۔ تاہم، یہ امر پیش نظر رہے کہ اب تک اس تفسیر کے ۶ لاکھ ۴۰ ہزار سے زیادہ سیٹ ( ۳۸لاکھ اور ۶۰ہزار جلدوں سے زیادہ ) اردو میں شائع ہو چکے ہیں، جب کہ اس کے مکمل ترجمے دنیا کی حسب ذیل زبانوں میں شائع ہو چکے ہیں: انگریزی، ترکی، بنگالی، روسی، فارسی، پشتو، جرمن اور سندھی۔ جن زبانوں میں ترجمے تکمیل کے قریب ہیں، ان میں ہندی، چینی، جاپانی، انڈونیشنی، ہسپانوی اور عربی شامل ہیں۔
تفہیم القرآن کی اس مقبولیت کا اعتراف کرتے ہوئے حضرت مولانا انور شاہ کاشمیری کے شاگرد مولانا محمد چراغ نے فرمایا تھا:ـ تفہیم القرآن کا پیرایۂ بیان اس قدر سلجھا ہوا ہے کہ انسان دورِ حاضر کے فتنوں کی اصل حقیقت سے اچھی طرح آگاہ ہو جاتا ہے۔ ملّاواحدی نے اعتراف کیاـ: ’’مولانا مودودی سمجھنے اور سمجھانے دونوں اوصاف سے بہرہ ور ہیں۔ سمجھنے کا وصف تو کسی نہ کسی قدر اکثر لوگوں میں ہوتا ہے، مگر سمجھانے کے وصف سے بہت کم لوگ نوازے جاتے ہیں۔ تفہیم القرآن جدت دکھاتی ہے، تاہم حدود اور اعتدال کے دامن کو پکڑے رہتی ہے‘‘۔ پروفیسر زینب کا کاخیل کے مطابق: ’’مولانا مودودی کا اصل مقصد کلام الٰہی کی صحیح ترین تفسیر بیان کرنا ہے، نہ کہ کسی خاص مکتب فکر کی تقویت یا آبیاری کرنا‘‘۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین جسٹس محمد افضل چیمہ نے کہا: تفہیم القرآن کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں نہ صرف طرز استدلال میں نہایت معقول اور سائنٹی فک انداز اختیار کیا گیا ہے بلکہ مناسب مقامات پر فلسفہ، طبیعیا ت، علم الکیمیا، فلکیات اور دیگر جدید سائنسی علوم کا براہِ راست تجزیہ کرتے ہوئے بات کی گئی ہے۔ جس سے ایک متجسس طالب علم کی علمی حس مطمئن ہوتی اور شکوک و شبہات کا ازالہ ہو جاتا ہے۔
فیڈرل شریعت کورٹ کے چیف جسٹس ڈاکٹر تنزیل الرحمان نے اعتراف کیا ہے: تفہیم القرآنمیں مولانا مودودی اس عہد کی زبانِ علم میں، اس عہد کے لوگوں سے مخاطب ہیں۔ میں نئی نسل کو تفہیم کے مطالعے کا مشورہ دوں گا۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج والدین کے لیے، اپنی اولاد کو پیش کرنے کے لیے تفہیم القرآن ایک بہترین تحفہ ہے، جو ایمان کو مضبوط، اسلامی تہذیب کو بارآور اور صراطِ مستقیم کے سفر کو آسان بنا دیتا ہے۔
رمضان المبارک کا اہم ترین تحفہ ’دُعا‘ ہے۔ عرش اُٹھانے والے فرشتوں کو فارغ کر کے روے زمین کی جانب روانہ کردیا جاتا ہے کہ روزہ داروں کی دعائوں پر ’آمین‘ کہیں۔ دعا کے لیے اس سے قیمتی، اس سے زیادہ مبارک اور یاقوت و الماس سے گراں و نایاب لمحات اور کون سے ہوسکتے ہیں!
قرآنِ مجید میں بھی رمضان المبارک کے احکام و فضائل بیان کرتے ہوئے درمیان میں دعا کا اچانک ذکر آجاتا ہے: وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ ط اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ لا فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرشُدُوْنَo(البقرہ ۲:۱۸۶) ’’اور اے نبیؐ! میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں، تو انھیں بتا دو کہ میں ان سے قریب ہی ہوں۔ پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے ، میں اس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں۔ لہٰذا انھیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں۔ شاید کہ وہ راہِ راست پالیں‘‘۔ اس آیت سے بھی معلوم ہوا کہ ’رمضان‘ اور ’دعا‘ میں انتہائی گہرا ربط پایا جاتا ہے، اور دعا کی مقبولیت کے قیمتی ترین لمحات اسی ماہ میں رکھے گئے ہیں۔ رمضان عبادت کے لیے موسمِ بہار ہے اور دعا کے بارے میں کہا گیا کہ اَلدُّعَائُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ ’’دعا عبادت کا مغز ہے‘‘(ترمذی)۔ اسی بناپر احادیث میں رمضان المبارک میں کثرت سے دعا مانگنے کی تلقین کی گئی ہے۔
بندئہ مومن کی تو شان ہی یہ ہے کہ وہ تنگی و فراخی ہرحال میں دست ِ دعا دراز کیے رکھتا ہے، اور اپنے ضُعف کے مقابلے میں مالکِ دوجہاں کی قوت اور اپنے فقروعجز کے مقابلے میں اپنے رب کے خزانوں اور اس کی عطا پر نظر رکھتا ہے۔ رب کو بندے کے پھیلے ہوئے ہاتھ اور قلب ِ منیب ہی مطلوب ہے۔ اسی لیے دعا نہ مانگنے کو تکبر سے تعبیر کیا گیا ہے: ’’ تمھارا رب کہتا ہے: مجھے پکارو، میں تمھاری دعائیں قبول کروں گا، جو لوگ گھمنڈ میں آکر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں، ضرور وہ ذلیل و خوار ہوکر جہنم میں داخل ہوں گے‘‘(المومن۴۰:۶۰)۔ یعنی رب کو نہ پکارنا، اس کی جناب میں التجا سے بے نیازی برتنا گویا کبر کی علامتوں میں شامل ہے۔ اسی طرح سنن ترمذی میں رسول اکرمؐ کا یہ ارشاد منقول ہے کہ ’’جو اللہ سے نہیں مانگتا اللہ اس پر غضب ناک ہوجاتا ہے‘‘۔ سنن ابوداؤد میں حضرت سلمانؓ سے روایت ہے، آپؐ نے فرمایا کہ ’’تمھارا رب حیا کا پیکر اور صاحب ِ عزت و تکریم ہے۔اسے اس بات سے حیا آتی ہے کہ بندے کے اُٹھے ہوئے ہاتھوں کو خالی ہاتھ لوٹا دے‘‘۔ نہ صرف یہ کہ وہ خالی ہاتھ لوٹاتے ہوئے شرماتا ہے بلکہ وہ ہمیں خود بلاتا ہے اور چاہتا ہے کہ ہم اس سے مانگیں اور صرف اسی کے آگے دست ِ سوال دراز کریں۔ وہ قرآن میں جگہ جگہ ہمیں پکارتا ہے کہ آئو اپنے گناہوں کی معافی مانگو، مجھ سے استغفار طلب کرو، اور مخلوق کی شان بھی یہ ہے کہ خالق سے رجوع کرے۔ ہر حاجت اس سے طلب کرے۔ کھڑے، بیٹھے، لیٹے اسی کو پکارے۔ دعا کے ذریعے رب سے جو تعلق پیدا ہوتا ہے، وہی عبادت کی اصل روح ہے جو ہرحاضرو موجود سے بیزار کرکے اسی کے دَر سے وابستہ کردیتا ہے اور یہی ’حقیقی وصال‘ ہے۔
قرآن جہاں دعا مانگنے کی بار بار تاکید کرتا ہے وہاں دعا کے کچھ آداب اور شرائط بھی بیان کرتا ہے: وَّ ادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ ط (الاعراف ۷:۲۹) ’’اور پکارو اس کو خالص اس کے فرماں بردار ہوکر‘‘۔ اور روزے اور طاق راتوں کی عبادت کے لیے بھی یہی لازم ہے کہ وہ ’ایمان اور احتساب‘ کے ساتھ ادا کی جائیں۔ لہٰذا رمضان میں جب جب دست ِ دعا دراز کریں تو قرآن کی شرط ’دین خالص‘ کو ضرور یاد رکھیں کہ کیا واقعی ہم نے دین کو رب کے لیے ’خالص‘ کردیا ہے، یا دوسرے نظریات یا اپنی نفسانی خواہشات کی بھی کہیں کہیں آمیزش ہے۔ نیز یہ کہ ’دین‘ کہیں ہماری شخصیت میں محض ضمیمے کے طور پر تو موجود نہیں کہ مروجہ غیراسلامی رسوم و رواج کے بھی ہم غلام رہیں۔ ہمارے سود و زیاں کے پیمانے بھی وہی ہوں جو دین سے بے نیاز لوگوں کے ہیں۔ ہمارا نفس بھی رعایتوں کا خوگر رہے۔ ہم نے بھی خود کو ’حالت ِ اضطرار‘ میں سمجھتے ہوئے بہت کچھ ناجائز اپنے لیے جائز ٹھیرا لیا ہو اور ہمارے اجتماعی دینی رویوں میں سارا زور عبادات پر ہو اور معاملات ہم غیراللہ کے حوالے کردیں اور ان کی رہنمائی میں سرانجام دیں۔ جب ہماری بندگی اور اطاعت اللہ کے لیے خالص ہوگی تب ہی دعائوں میں بھی اثر پیدا ہوگا۔
قبولیت ِ دعا کے لیے اہم ترین شرط ’رزقِ حلال‘ بھی ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، آپؐ نے فرمایا: اپنے مومن بندوں سے اس نے کہا ہے: اے ایمان والو! تم میری دی ہوئی روزی میں سے حلال اور پاک چیزیں کھائو۔ پھر آپؐ نے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا جو کسی مقدس مقام پر طویل سفر طے کرکے آتا ہے۔ پریشان حال اور غبارآلود ہے مگر حال یہ ہوتا ہے کہ اس کا کھانا حرام، لباس حرام اور اس کا جسم حرام غذا سے پلاہوا۔ پس اس شخص کی دعا کس طرح قبول ہو (ترمذی)۔ ہم میں سے اکثر لوگ اپنی دعائوں کی عدم قبولیت پر مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اگر اس حدیث کو ہم مدنظر رکھیں تو دعائوں کی عدم قبولیت کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ جس معاشرے میں مالی بدعنوانی عام ہو، حلال و حرام کا فرق مٹ جائے، رشوت کا چلن عام ہو، سودی نظام معیشت ہو اور پھر ہم شکوہ کریں کہ اللہ ہماری دعائیں قبول نہیں کرتا، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ان سب سیاہ کاریوں کے باوجود اب بھی اس نے ہماری دعائوں کے لیے آسمانوں پر اپنے دروازے بند نہیں کیے ہیں اور وہ ہمارے پلٹنے اور رجوع کا منتظر ہے۔
قرآن دعا کا ایک ادب یہ بیان کرتا ہے کہ اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًاط (اعراف۷:۵۵) ’’اپنے رب کو پکارو گڑگڑاتے ہوئے‘‘۔ گویا صرف الفاظ میں عاجزی اور مسکنت نہ ہو، بلکہ دعا مانگنے والا اللہ کے سامنے اپنی ذلت، درماندگی، ضعف، پستی اور بندگی کا زندہ شعور رکھتا ہو۔ اور ’خوف‘ اور ’رجا‘ سب اسی کے ساتھ وابستہ ہو۔ وَادْعُوْہُ خَوْفًا وَّ طَمَعًا ط (اعراف۷:۵۶) ’’اس کو پکارو خوف اور اُمید کے ساتھ‘‘۔ اور یہ خوف اور اُمید کے درمیان رہنا ہی مومن کو راہِ اعتدال پر قائم رکھتا ہے۔ صرف ’اُمید‘ انسان کو نڈر اور بے نیاز بنادیتی ہے اور وہ بے خوفی سے حدودِ الٰہی سے رُوگردانی کرسکتا ہے، جب کہ صرف ’خوف‘ انسان کو دل شکستہ اور غمگین بنا دیتا ہے اور انسان میں کم حوصلگی پیدا کرتا ہے،اور زندگی کو یاسیت میں دھکیل سکتا ہے۔ اسی لیے مومنانہ شان یہ ہے کہ خوف اگر ایک طرف بُرائی سے باز رکھتا ہے تو اُمید نیکیوں میں سبقت پر اُبھارتی ہے، اور یہی تقویٰ کی شان ہے۔ روزے کا بنیادی مقصد ہی لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ بتایا گیا ہے۔ سورئہ سجدہ میں ارشاد ہوتا ہے: ’’ان کی پیٹھیں بستروں سے الگ رہتی ہیں، اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو رزق ہم نے انھیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں‘‘ (السجدہ ۳۲:۱۶)۔ گویا اللہ کے بندوں پر اور اقامت ِ دین کی راہ میں رزق خرچ کرنا درحقیقت ان کی دعائوں کے اخلاص کا مظہر ہے۔ قرآن کی اس آیت کی رُو سے اگر ان کا تقویٰ ان کو بستروں سے دُور کر کے، رب سے راز و نیاز میں مصروف رکھتا ہے تو وہ صرف خدا کو راضی کرنے کی تگ و دو میں اس کی مخلوق سے بے نیاز نہیں ہوجاتے، بلکہ ان کے تقویٰ کی تکمیل خلقِ خدا کی فلاح سے وابستہ ہے، جو ان کی دوڑ دھوپ کے لیے قوتِ محرکہ بنتی ہے۔ لہٰذا اگر ہم اپنی دعائوں کے اثرات و قبولیت کے متمنی ہیں تو اس کے لیے اپنے مال کو بھی جنت کے حصول کا ذریعہ بنانا ہوگا۔
قرآنِ مجید حضرت زکریاؑ کی دعا کا ان الفاظ میں تذکرہ کرتا ہے کہ ’’جب انھوں نے اپنے رب کو چپکے چپکے پکارا‘‘ (مریم ۱۹:۳)۔ لفظ ’چپکے چپکے‘ سے تصور کیا جاسکتا ہے کہ جس کو ہم پکار رہے ہیں وہ ہمارے بے حد قریب ہے۔ نہ صرف قریب ہے بلکہ ہماری جانب متوجہ بھی ہے اور سمیع بھی ہے۔ وہ ہروقت سننے پر تیار ہے، دینے پر تیار ہے، ہرلمحے منتظر ہے کہ کب ہم پلٹیں، رجوع کریں اور دستِ سوال دراز کریں۔ وہ اپنے عاصی بندوں کو اپنی رحمتوں کی چادر میں ڈھانپنے کو بے تاب ہے اور ماہِ رمضان ان رحمتوں کی سمت پلٹنے اور مغفرت طلب کرنے کا بہت قیمتی موقع ہے۔ نصف شب کے بعد بیداری اس سمیع و بصیر سے سرگوشیاں کرنے کا نادر موقع ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ہم اس کے قرب کو محسوس کریں۔ جیسے اپنے دل کی دھڑکنیں سنتے ہیں، جیسے پہلو میں بیٹھے ساتھی سے سرگوشی میں بات کرتے ہیں۔ وہ ہماری شہ رگ سے بھی قریب ہے اور منتظر ہے کہ ہم کب اس کو پکاریں!
امام مسلم نے روایت کیا ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’بندے کی دعا اس وقت تک قبول کی جاتی ہے جب تک وہ کسی گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے اور جب تک وہ جلدی نہ مچائے‘‘۔ قطع رحمی اللہ کو سخت ناپسند ہے۔ لہٰذا اگر ہم قبولیت ِ دعا کی خواہش رکھتے ہیں تو رمضان کی ان مبارک ساعتوں میں اس بات کا بھی جائزہ لیں کہ اپنے رحم کے رشتوں کے حقوق کے معاملے میں ہم کتنے حساس ہیں اور دورانِ سال ہم سے ان حقوق کی ادایگی میں کہاں کہاں کوتاہی سرزد ہوئی ہے۔ نیز رحم کے رشتے جوڑنے میں ہم نے کہاں تک اپنی ذمہ داریاں پوری کیں۔ دجّالی فتنوں کے اس دور میں صرف ہمارے بچے ہی نہیں بلکہ اپنے اور شوہر کے بہن بھائیوں کے بچے بھی ہماری توجہ کے مستحق ہیں۔ ان کی تربیت بھی کسی درجے میں ہماری توجہ کا عنوان ہو۔ ایک موقعے پر آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ جو چاہتا ہے کہ اس کے رزق میں برکت ہو، وہ رحم کے رشتوں کو جوڑے‘‘۔ گویا قطع رحمی کرنے والا خود کو مستجاب الدعوات سمجھنے کا حق دار نہیں ہے۔
علامہ قرطبی نے اپنی تفسیر میں یہ روایت نقل کی ہے کہ آپ ؑ نے ارشاد فرمایا کہ ’’تین لوگوں کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔ حرام مال کھانے والا، غیبت کرنے والا اور وہ شخص جس کے دل میں اپنے مسلمان بھائی کے لیے بُغض یا حسدہو‘‘۔ گویا دست ِ دعا دراز کرنے سے قبل اپنے آئینۂ دل کو بُغض اور حسد سے پاک کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ جس دل میں اس کی مخلوق کے لیے ناپسندیدہ جذبات ہوں گے، وہ کبھی ’ قلب ِ سلیم‘ کے درجے پر فائز نہ ہوسکے گا۔ پس ثابت ہوا کہ ’مناجاتِ مقبول‘ کے لیے ’قلب ِ مطہر‘ بھی شرطِ لازم ہے۔ پھر صرف دل ہی نہیں زبان بھی ان گناہوں میں آلۂ کار نہ ہو۔ غیبت بھی قبولیت ِ دعا کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے۔
حضرت ابراہیم بن ادھمؒ کے اس قول کی روشنی میں بھی ہم اپنی دعائوں کی حقیقت کا بے لاگ جائزہ لے سکتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں:
قرآنِ مجید نے ہمیں بہت سی دعائیں سکھائی ہیں۔ پیغمبروں ؑ کی دعائوں کے بھی تذکرے کیے ہیں۔ خود سورۃ الفاتحہ بہترین دعا ہے۔ نبی کریمؐ کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ جو تعلق تھا اس کا اظہار اُن دعائوں سے ہوتا ہے جو آپؐ نے مختلف مواقع پر مانگیں، مثلاً: ایک دعا کے الفاظ ہیں:
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ حُبَّکَ اَحَبَّ الْاَشْیَائِ اِلَیَّ وَاجْعَلْ خَشْیَتَکَ اَخْوَفَ الْاَشْیَائِ عِنْدِیْ وَاقْطَعْ عَنِّیْ حَاجَاتِ الدُّنْیَا بِالشَّوْقِ اِلٰی لِقَائِکَ وَاِذَا اَقْرَرْتَ اَعْیُنَ اَھْلِ الدُّنْیَا مِنْ دُنْیَاھُمْ فَاَقْرِرْ عَیْنِیْ بِعِبَادَتِکَ (کنزالعمال، عن ابی بن مالکؓ) اے اللہ! اپنی محبت کو تمام چیزوں سے زیادہ محبوب بنادے اور اپنے ڈر کو تمام چیزوں کے ڈر سے زیادہ کردے اور مجھے اپنے ساتھ ملاقات کا ایسا شوق دے کہ میری دنیا کی محتاجیاں ختم ہوجائیں، اور جہاں تو نے دنیا والوں کی لذت ان کی دنیا میں رکھی ہے، میری لذت اپنی عبادت میں رکھ دے۔
آپؐ کی ایک بہت پیاری دعا کے الفاظ یہ ہیں:
رَبِّ اجْعَلْنِیْ لَکَ ذَکَّارًا لَکَ شَکَّارًا لَکَ رَھَّابًا لَکَ مِطْوَاعًا لَکَ مُطِیْعًا اِلَیْکَ مُخْبِتًا اِلَیْکَ اَوَّاھًا مُّنِیْبًا (ترمذی، عن ابن عباسؓ) میرے رب، مجھے ایسا بنا دے کہ میں تجھے بہت یاد کروں، تیرا بہت شکر کروں، تجھ سے بہت ڈرا کروں، تیری بہت فرماں برداری کیا کروں، تیرا بہت مطیع رہوں، تیرے آگے جھکا رہوں، اور آہ ، آہ کرتا ہوا تیری ہی طرف لوٹ آیا کروں‘‘۔
نبی پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعائوں کو زبان پر لاتے ہوئے یہ بات بھی یاد رہے کہ آپ ؐ نے یہ دعائیں بدر کی گھاٹیوں، اُحد کے پہاڑوں،طائف کے بازاروں میں پتھروں کی بارش کے دوران، شعب ابی طالب میں معاشی مقاطعے کے دوران، گھوڑے کی پیٹھ پر اور تلواروں کی چھائوں میں مانگی تھیں۔ ان دعائوں کی قبولیت ہمارے سامنے ہے۔ ہم یہ دعائیں مانگتے ہوئے حق اور باطل کی کش مکش میں اپنے کردار پر بھی نظر ڈالیں۔
روزہ ایک عظیم الشان عبادت ہے، اس کے روحانی اثرات سے ہم سب واقف ہیں۔ آخرت میں ملنے والے نتائج، برکات و ثمرات ہم سب کے ذہن نشین ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہرمسلمان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ماہِ رمضان میں روزہ رکھے۔ رمضان کے احکامات صحت مندوںکے لیے ہیں، اورمریضوںکو اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میںایک حد تک رخصت دی ہے، مگرمریضوںکی بھی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ رمضان میں روزے کا اہتمام کریں۔ اﷲ رب العالمین نے رمضان میں روزے، سحری، افطار، تراویح، قیام اللیل اور اعتکاف کے جو احکامات دیے ہیں ان کے نہ صرف روحانی اثرات ہیں بلکہ ان کے طبی اثرات بھی ہیں۔ میڈیکل سائنس جوں جوں ترقی کر رہی ہے یہ بات عیاں ہوتی جا رہی ہے کہ روزے کے طبی اثرات بھی عظیم الشان ہیں۔
سائنسی تحقیقات کے ذریعے یہ پتا چلا ہے کہ صبح سے شام تک روزہ رکھنے اور بھوکا پیاسا رہنے سے انسان کے جسم میں کیا تبدیلیاں رُونما ہوتی ہیں، اور یہ تبدیلیاں جسم، دماغ، صحت، قوتِ مدافعت اور اس کی بیماری پرکون سے قلیل المدت اور طویل المدت اثرات مرتب کرتی ہیں۔ ان کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ۲۴گھنٹے کے دوران میں انسانی جسم کی ضروریات کیا ہوتی ہیں، اس کو کتنی غذا،کتنا پانی اور کتنی توانائی درکار ہوتی ہے۔ جب ہم یہ جان لیں گے تو یہ سمجھنا آسان ہوگا کہ روزہ رکھنے کی صورت میں وہ ضروریات کس طرح پوری ہوتی ہیں۔
انسان کی پہلی ضرورت غذا کی صورت میںکیلوریز (حراروں) کی ہوتی ہے۔ انسانی جسم کو یومیہ اوسطاً دو سے تین ہزار کیلوریز کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن اس کا انحصار انسان کی فعالیت پر ہے۔ بہت زیادہ فعّال لوگوں کو یومیہ ۳ سے ۴ ہزار کیلوریز کی ضرورت ہوتی ہے۔ بستر پر بیمار پڑے لوگوں کی ضروریات ۲ ہزار کیلوریز ہوتی ہیں اور یہ کیلوریز غذا کے ذریعے پوری ہوتی ہیں۔ اگر ۲۴گھنٹے کے دوران ایک یا دو وقت غذا پہنچ جائے تو بھی انسانی جسم کی ضرورت پوری ہو جاتی ہے۔
اسی طرح انسانی جسم کو یومیہ ڈیڑھ سے تین لیٹر پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کا بھی انحصار اس بات پر ہے کہ انسان کتنا فعّال ہے، اور بیرونِ خانہ سرگرمیوں میں کتنا مصروف ہے۔ بالعموم گھر کے اندر موجود رہنے والے فرد کی پانی کی ضرورت ڈیڑھ سے دو لیٹر ہوتی ہے۔ گھر کے باہر دھوپ اور گرمی میں کام کرنے والے فرد کی ضرورت تین سے چار لیٹر پانی کی ہوتی ہے۔ اگر اتنا پانی ۲۴ گھنٹے میں انسان کے جسم میں پہنچ جائے تو یہ ضرورت پوری ہو جاتی ہے، لیکن جب ایک فرد روزہ رکھتا ہے، اور علی الصبح سے بھوکا رہنا شروع کرتا ہے تو اس کے جسم میں بہت سی تبدیلیاں پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ جسم خود کو برقرار رکھنے اور اپنی توانائی کو استعمال کرنے کے لیے بہت سی تبدیلیاںکرتا ہے۔ بہت سے ہارمونز (hormones) جسم کے اندر توانائی برقرار رکھنے کے لیے خارج اور استعمال ہوتے ہیں۔ جسم کے اندر بہت سے کیمیائی مادے جو نیورو ٹرانسمیٹرز کہلاتے ہیں، اس کام کو سر انجام دیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں انسان کا جسم اس قابل ہوتا ہے کہ روزے کے ثمرات اور فوائد کو طبی ثمرات میں تبدیل کر سکے۔
انسانی جسم میں سب سے نمایاں تبدیلی یہ پیدا ہوتی ہے کہ انسانی جسم پانی کو محفوظ کرنا شروع کر دیتا ہے۔ خون میں ایسے ہارمونز خارج ہوتے ہیں جو پانی کو محفوظ کرتے ہیں، جسم کے اندر خون کی گردش کو فعّال بناتے ہیں اور جسمانی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے عمل کو کنٹرول کرتے ہیں۔ انسانی جسم اور دماغ کو متحرک رکھنے کے لیے توانائی درکار ہوتی ہے۔ یہ توانائی چربی، کاربوہائیڈریٹ اور پروٹین کی شکل میں ہر وقت جسم کے اندر موجود ہوتی ہے۔ سحری میں لی گئی غذا جزو ِبدن بن کر توانائی میں تبدیل ہوتی ہے اور روزے کے دوران جسم میں استعمال ہوتی رہتی ہے۔
پہلے یہ غلط فہمی عام تھی کہ روزہ رکھنے سے جسمانی کمزوری واقع ہو جاتی ہے، یا اعصاب کمزور پڑ جاتے ہیں، یا جسم کو کوئی ایسی کمزوری لاحق ہو جاتی ہے جو نقصان پہنچاتی ہے۔ سائنسی تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ روزہ رکھنے سے ایسی کوئی کمزوری واقع نہیں ہوتی بلکہ حیرت انگیز طور پر جسم کو توانائی حاصل ہوتی ہے، توانائی کے دوسرے ذرائع پیدا ہوتے ہیں جو اپنا کام انجام دینا شروع کرتے ہیں۔ درحقیقت روزہ رکھنا انسانی جسم کے لیے توانائی کا باعث بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج پوری دنیا میں روزے پر تحقیق ہو رہی ہے۔ مختلف بیماریوں میں روزے کو بطور ایک طریقۂ علاج استعمال کیا جا رہا ہے جن میں لوگ کمزور ہو جاتے ہیں، خواہ وہ آنتوں کی بیماری ہو یا سانس کی، دل و دماغ کی بیماری ہو یا شریانوںکی۔ تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ روزہ خود ایک طریقۂ علاج ہے۔
روزہ رکھنے سے انسانی جسم میںگلوکوز کی سطح گر جاتی ہے۔ جسم کو گلوکوز کی متواتر ضرورت ہوتی ہے، اور جب جسم کو یہ باہر سے نہیں ملتا تو جسم اپنے اندر از خود گلوکوز بنانا شروع کر دیتا ہے۔ جسم کے اندر محفوظ چربی، کاربوہائیڈریٹ اور پروٹین گلوکوز میں تبدیل ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ جسم کے اندر کیمیائی تبدیلیوں کا عمل (metabolism) شروع ہو جاتا ہے۔جسم گلوکوز جمع کرنا شروع کرتا ہے، لیکن جن لوگوںکے خون میں شوگر کی مقدار زیادہ ہوتی ہے، روزے سے ان میں شوگر کی سطح کم ہوجاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں جسم کے اندر شوگر کی سطح متوازن ہو کر نارمل ہو جاتی ہے۔
روزے کے نتیجے میں دوسری تبدیلی یہ ہوتی ہے کہ بلڈ پریشر کم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ بلڈ پریشر کو قابو میں رکھنے کے لیے پانی چاہیے ہوتا ہے۔ جب جسم کو دو چار گھنٹے پانی نہیں ملتا تو اس کے بلڈ پریشر میں کمی آنا شروع ہوتی ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے جسم میں ایسے ہارمونز خارج ہونے لگتے ہیں جو بلڈ پریشر کے اس عمل کو بہتر کرتے ہیں۔ لیکن جن لوگوں کا بلڈ پریشر زیادہ ہوتا ہے ان کو روزہ رکھنے کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ان کا بلڈ پریشر قابو میں آ جاتا ہے۔ دنیا میں یہ مستند طریقۂ علاج ہے کہ جن لوگوں کا بلڈ پریشر زیادہ ہو اور کنٹرول نہ ہو رہا ہو، ان کو روزہ رکھنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
انسانی جسم میں تیسری بڑی تبدیلی چربی کی سطح میں رونما ہوتی ہے۔ جسم میں محفوظ چربی عموماً استعمال نہیں ہو رہی ہوتی کیونکہ انسان مطلوبہ توانائی اپنی غذا سے حاصل کر رہا ہوتا ہے۔ روزے کی حالت میں بڑا فرق یہ واقع ہوتا ہے کہ چربی کا ذخیرہ توانائی میں تبدیل ہونا شروع ہو جاتا ہے، چنانچہ جسم کے اندر چربی کم ہونا شروع ہو جاتی ہے، اور کولیسٹرول کم ہونے لگتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ چربی انسانی جسم کے اندر بیماریاں پیدا کرتی ہے۔ چربی سے جسم میں کولیسٹرول بڑھتا ہے، موٹاپا بڑھتا ہے، خون کی نالیاں سکڑ جاتی ہیں۔ یہ روزے کے اثرات ہی ہیں جن کی وجہ سے چربی پگھلتی ہے، کولیسٹرول کم ہو جاتا ہے اور زائد چربی کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات سے بھی بچا جا سکتا ہے۔
سائنسی تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ روزہ رکھنے سے جسم میں زہریلے مادے ختم ہونے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ جسم میں طرح طرح کے مادے پیدا ہوتے ہیں جن میں بعض زہریلے بھی ہوتے ہیں۔ روزے کے نتیجے میں جسم کا پورا میٹابولزم تبدیل ہو کر ایک مختلف شکل میںآ جاتا ہے، جسم کے اندر ازالۂ سمیّت (detoxification) کا عمل شروع ہوتا ہے۔ اس سے جسم کو اپنے بہت سے زہریلے مادّوںسے نجات حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے اور یہ بڑی تبدیلی ہے جو انسان کو صحت مندی کی طرف لے جاتی ہے۔ روزے سے جسمانی قوتِ مدافعت بھی بڑھتی ہے، روزہ رکھنے سے مدافعت کا نظام فعّال ہو جاتا ہے۔ اس فعالیت کے نتیجے میں جسم کے اندر مدافعتی نظام میں بہتری پیدا ہوتی ہے۔ پھر خون میں ایسے مدافعتی خلیے پیدا ہوتے ہیں جو انسان کو نہ صرف بیماریوں سے بچاتے ہیں، بلکہ اگر جسم میں بیماریاں موجود بھی ہوں تو ان کو دُور کرنے میں مدد دیتے ہیں۔
اﷲ تعالیٰ نے روزے کے جو اوقات مقرر کیے ہیں وہ بھی سائنسی تحقیق کے مطابق انسانی جسم کو تندرست رکھنے والے ہیں۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ بھوکا رہنے کا عمل ۲۴، ۳۶ یا ۴۰ گھنٹے نہیں ہونا چاہیے بلکہ ۱۵ سے ۱۸ گھنٹے ہونا چاہیے۔ روزہ اسی مقررہ وقت کے اندر ہوتا ہے۔ بھوکا رہنے کا عمل اس سے طویل ہو تو اس کے نتیجے میں پٹھے (muscles) کمزور ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور انسانی جسم کے اندر نقصان دہ سرگرمیاں شروع ہو جاتی ہیں۔اﷲ رب العالمین نے روزہ فرض کرتے ہوئے روزے کے جو اوقات مقرر کیے ہیں وہ ہماری صحت کے لیے مفید ثابت ہوتے ہیں۔ مسلم ملکوں میں اور یورپ اور امریکا میں بھی روزے پر بڑے پیمانے پر تحقیق ہو رہی ہے۔
میڈیکل سائنس نے پچھلے ۲۰،۲۵ سال میں انسانی جسم پر روزے کے اثرات اور اس کے فوائد و ثمرات پر خاصی تحقیق کی ہے۔ اس تحقیق سے روزے کے جو ثمرات ثابت ہوئے ہیں ان میں ۱۵ چیزیں نمایاں ہو کر سامنے آئی ہیں۔ سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ روزہ زہر کو بے اثر بنانے کا عمل کرتا ہے۔ میٹا بولزم کے نتیجے میں انسانی جسم میںجو زہریلے مادے پیدا ہوتے ہیں، روزہ ان کو بے اثر بنا دیتا ہے اور خارج کرتا ہے۔ روزہ رکھنے کا یہ ایک بڑا طبی فائدہ ہے۔
روزے کا دوسرا طبی فائدہ یہ ہے کہ روزہ رکھنے کے نتیجے میں قوت مدافعت بہتر ہو جاتی ہے۔ ہمارا جسم ایک مدافعتی نظام کے تحت چل رہا ہے۔ جسم کی قوت مدافعت بیماریوں سے بچا کر اسے صحت مند رکھتی ہے۔ اس قوت مدافعت کو بہترکرنے کے طریقوں میں سے ایک طریقہ روزہ رکھنا بھی ہے۔ انسان صبح سے شام تک بھوکا پیاسا رہتا ہے تو اس کے جسم کے اندر وہ خلیے متحرک ہوجاتے ہیں جو اس کے مدافعتی نظام کو بہتر بنا کر اس کو طرح طرح کی بیماریوں سے بچاتے ہیں۔ اگر بیماری جسم میں پہلے سے موجود ہو تو روزہ اس کے صحت یاب ہونے کے عمل میں اضافہ کر دیتا ہے۔
روزے کا تیسرا فائدہ یہ ہے کہ روزہ اینٹی الرجی (anti-allergy) عمل کو فعّال کرتا ہے۔ جسم میں اس چیز کی گنجایش ہوتی ہے کہ اس میں الرجی کے اثرات ہوں، چاہے وہ غذا کی الرجی ہو، ہوا کی ہو یا مختلف الرجی پیدا کرنے والی بیماریاں ہوں۔ روزے سے جسم کے اندر ایسے ہارمونز خارج ہوتے ہیں جو الرجی کے عمل کو کنٹرول کر لیتے ہیں، چنانچہ الرجی کی بیماریاں کم ہو جاتی ہیں۔
روزے کا ایک اور بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ بلڈ شوگر کو کنٹرول کرتا ہے، یعنی معمول پر لاتا ہے۔ انسانی جسم میں شوگر کی ریگولیشن بہت اہم چیز ہے کیونکہ دماغ کے تمام افعّال کا تعلق شوگر کی سطح سے ہوتا ہے۔ جسم کے اندر شوگر کی سطح بڑھ جائے تو انسان کو شوگر کی بیماری ہو جاتی ہے۔ اگر شوگر کم ہوجائے تو ہائپو گلے سیمیا (Hypoglycemia) ہوجاتا ہے جس سے کمزوری ہو جاتی ہے اور فرد بے ہوش بھی ہو سکتا ہے اور یہ اس کی صحت اور حیات کے لیے نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے۔ روزہ شوگر کو کم ہونے دیتا ہے نہ بلند۔ اس لیے دنیا کے بہت سے ممالک میں جن مریضوں کی شوگر کنٹرول نہیں ہوتی ان کو روزے رکھوائے جاتے ہیں۔ ان کا کھانا پینا جبراً بند کرا دیا جاتا ہے، جس سے ان کی شوگر کنٹرول میںآ جاتی ہے۔
سائنسی تحقیقات نے روزے کا ایک اور فائدہ یہ ثابت کیا ہے کہ روزے سے بلڈ پریشر کنٹرول میں رہتا ہے۔ بلڈ پریشر دنیا میں بہت عام بیماری ہے۔ خود پاکستان میں ۴۵سال سے زائد عمر کے ایک تہائی افراد کو بلڈ پریشر کی بیماری ہے۔ روزہ بلڈ پریشر کنٹرول کرنے میں مفید اور معاون ثابت ہوتا ہے۔ جب انسانی جسم میں پانی کی مقدار کم ہوتی ہے تو بلڈ پریشر بھی کم ہو جاتا ہے۔ پھر ایسے ہارمون جسم کے اندر خارج ہوتے ہیں جو بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے میں معاون ہوتے ہیں اور اس کو قابو میں رکھتے ہیں۔ شوگر اور بلڈ پریشر کے کنٹرول، اور جسم کے اندر پانی کی مقدار کے کنٹرول کے نتیجے میں دل کی بیماریاں کم ہو جاتی ہیں۔ روزہ رکھنے والوں کو دل کے دورے کا امکان کم ہو جاتا ہے، ان کا ہارٹ فیل کم ہوتا ہے۔ اگر ان کو اس کا خطرہ ہو تو ان کی طبیعت روزہ رکھنے سے بہتر ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دل کے مریضوںکو عام طور پر بھی تھوڑا بہت فاقہ کرایا جاتا اور روزہ رکھوایا جاتا ہے۔ مغربی ممالک بالخصوص امریکا اور یورپ میں اب یہ ایک طریقۂ علاج بن چکا ہے۔ جن مریضوں کے ہارٹ فیل ہونے کا خدشہ ہو ان کو جبراً فاقہ کرایا جاتا ہے، اور ۲۸سے ۲۹گھنٹے بھوکا پیاسا رکھا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ان کی صحت بھی بہتر ہو جاتی ہے۔
روزے سے جسم کو ایک اور فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس سے ہاضمے کے نظام کو آرام ملتا ہے اور ہاضمہ درست کرنے میں بہت مدد ملتی ہے۔ لوگوں میں معدے اور آنتوں کی بیماریاں بہت عام ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر بیماریوںکا سبب غذا کا ضرورت سے زیادہ اور بار بار استعمال ہے، یا ایسی غذائوں کا استعمال ہے جو صحت کے لیے مفید نہیں۔ روزہ آنتوں اور معدے کو ۱۴ سے ۱۶ گھنٹے آرام دیتا ہے۔ اس آرام کے نتیجے میں آنتوں کو یہ موقع ملتا ہے کہ اپنے نظام کو درست کر سکیں۔
روزے کا ایک اور طبی فائدہ سوجن کم کرنے کے (anti inflammatory) اثرات ہیں۔ روزے کے نتیجے میں جو ہارمون جسم میں خارج ہوتے ہیں ان میں بالخصوص کورٹی سول (cortisol) ہارمون ہے جس سے جسم میں ورم کم ہو جاتا ہے۔ جوڑوں کے درد اور گٹھیا (arthritis) کے مریضوں کی تکلیف روزہ رکھنے سے بہتر ہو جاتی ہے۔ جن لوگوں کے پیروں پر یا جسم میں کسی اور جگہ ورم ہوتا ہے، یاfluid جمع ہوجاتا ہے انھیں روزے کے نتیجے میں افاقہ ہوتا ہے۔
دماغ کو روزے کا بہت فائدہ ہوتا ہے۔ روزہ انسانی دماغ کے اندر ایک سیلف کنٹرول اور ڈسپلن پیدا کرتا ہے۔ وہ انسان کو نظم و ضبط کا عادی بناتا ہے۔ اس کے نتیجے میں انسان کی دماغی صحت بہتر ہوتی ہے، یاسیت (ڈپریشن) سے نجات ملتی ہے۔ روزہ دماغ کے اندر سیروٹونین (serotonin) ہارمون (جو نیورو ٹرانسمیٹر ہے) کی سطح کو بڑھاتا ہے، جس سے ڈپریشن سے نجات ملتی ہے۔ جن لوگوں کو مستقل درد سرکی بیماری ، گھبراہٹ اور ڈ پریشن رہتا ہو ان کی تمام تکالیف روزے کی وجہ سے دُور ہوجاتی ہیں۔ سائنسی تحقیق نے یہ ثابت کیا ہے کہ روزہ نیند کو بہتر بناتا ہے۔ نیند نہ آنے کی بیماری عام ہے۔ اکثر لوگ بے خوابی کی شکایت کرتے ہیں، لیکن جو لوگ روزہ رکھتے ہیں ان کی نیند بہتر ہوجاتی ہے۔
روزے کے جہاں بہت سے طبی فوائد ہیں وہاں ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ بعض لوگوں کو کسی قسم کے نشے کی بیماری ہوتی ہے۔ روزہ ان کے جسم کے اندر ایسے ہارمونز خارج کرتا ہے جن سے نشے کو قابو میں رکھنے میں مدد ملتی ہے۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ سگریٹ پینے کے عادی افراد رمضان کے مہینے میں بڑی آسانی کے ساتھ اس عادت کو ترک کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ انسان میں ذہنی طور پر یہ صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ نشے کی طلب کو کنٹرول کر سکے اور اس عادت سے نجات حاصل کر سکے۔ روزے کے اس عمل کو نشے پر قابو پانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
روزہ حسِ ذائقہ کو بہتر کرتا ہے۔ بعض اوقات لوگ شکایت کرتے ہیں کہ زبان میں ذائقہ باقی نہیں رہا، کھانے کا مزا محسوس نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ زبان کے اندر taste buds ہوتے ہیں جو غیر فعّال ہو جاتے ہیں یا ان کے اندر ایسی تبدیلیاں رُونما ہو جاتی ہیں کہ غذا کا ذائقہ محسوس نہیں ہو پاتا۔ تاہم مسلسل بھوکا پیاسا رہنے سے ذائقے کی حس دوبارہ فعّال ہو جاتی ہے۔
روزے کو ایک اور فائدے کے لیے پوری دنیا میں استعمال کیا جا رہا ہے، یعنی وزن کم کرنے میں۔ ہم اچھی طرح واقف ہیں کہ روزے کا عمل جسمانی چربی کو پگھلاتا ہے اور وزن کو کم کرتا ہے، لیکن وزن میں کمی اس وقت ہو گی جب انسان اپنے حراروں کے حصول (کیلوریک انٹیک) کو ایک حد کے اندر رکھے گا۔ اگر وہ رمضان میں غذائوںکا استعمال زیادہ کرے، چکنائی والی چیزیں زیادہ لے تو وزن کم کرنے کا فائدہ اُسے حاصل نہیں ہوگا۔ آج پوری دنیا میں وزن کم کرنے کے لیے لوگ مکمل فاقہ (fasting) کرتے ہیں، یا انھیں مختلف غذائوں کی fasting کرائی جاتی ہے۔
ماہرِ دندان (ڈینٹسٹ) بتاتے ہیں کہ روزہ رکھنے والوں میں دانت اور مسوڑھوں کے امراض کم ہو جاتے ہیں۔ دانتوں اور مسوڑھوں کی بیماریاں عام ہیں، ان کا تعلق بھی غذائوںکے استعمال سے ہے۔ روزہ رکھنے کا عمل دانت اور مجموعی صحت کو بہتر کر دیتا ہے۔روزہ انسان کی جلد اور بینائی کو بھی بہتر کرتا ہے۔ روزہ جلد کو پھٹنے سے بچاتا، آنکھوںکوروشن کرتا اور بصارت کو تیز کرتا ہے۔
روزے کا بہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ انسان کی قوتِ ارادی (motivation ) کو بڑھاتا ہے۔ جو لوگ قوتِ ارادی کی کمزوری کی بنا پر تھکاوٹ کا شکار رہتے ہیں، دماغی اور ذہنی کمزوری میں مبتلا ہوتے ہیں، روزہ ان کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں بڑے بڑے کام کر سکیں۔
روزہ جہاں تقویٰ پیدا کرنے کا ذریعہ ہے وہاںیہ ایک نئی ثقافت ، ایک نئی فکر اور ایک نئے تصورِ حیات سے روشناس کرانے کا نام بھی ہے۔چنانچہ رمضان ایک ایسی ثقافت کو پروان چڑھاتا ہے جس کی بنیاد تقویٰ اور توحید ہے۔ یہ تہذیب اپنے مظاہراور اپنے اثرات کے لحاظ سے ایک منفرد پہچان اور شخصیت کی حامل ہے۔ ہم عام طور پر ثقافت اس مجموعی تہذیبی عمل کو کہتے ہیںجس میں اس تہذیب کی اقدارِ حیات، فنونِ لطیفہ، شعر و ادب، فن تعمیر، قانون، تعلیم معاشرت او رمعیشت اس تہذیب کے نظریے کی عکاسی کرتی ہوں، مثلاً مغربی ثقافت کی بنیادی قدر (value) مادہ پرستی اور لذت پرستی ہے۔ چنانچہ مغربی تہذیب کی معیشت ہو یا شعر وادب، فنون لطیفہ ہو یا تعلیم اور قانون، تمام شعبوں میں مادیت اور لذت پرستی اور لادینیت کے واضح اثرات پائے جاتے ہیں۔
مغربی ہی نہیںکوئی بھی مادی تہذیب ایسی نہیں پائی جاتی جو زندگی کو دو خانوں میں تقسیم نہ کرتی ہو، یعنی مادی اور روحانی معاملات۔ مغربی تہذیب کے معاشی اور سیاسی نظام میں مادیت کو مرکزی اور کلیدی مقام حاصل ہے۔ اس تہذیب میں مذہب کو ایک ذاتی فعل سمجھا جاتا ہے۔ گویا لادینی نظام میں مذہب کو صرف اس حد تک آزادی ہوتی ہے کہ ایک شخص جن کاموں کو مذہبی سمجھتا ہو انھیں اپنی ذات کی حد تک کر سکے۔ گرجا میں جا کر عبادت کرنی ہو یا شادی بیاہ کے موقعے پر مخصوص مذہبی رسوم، وہ ان سب کا اہتمام کرتا ہے لیکن اس کی معیشت اور سیاست میں مذہب کے لیے کوئی مقام نہیں پایا جاتا۔ چنانچہ مغربی تہذیب میں مذہب کو انفرادی معاملہ سمجھتے ہوئے ایک ذاتی سرگرمی قرار دیا جاتا ہے۔ اس بنیادی تصور کا انعکاس مغربی تہذیب کے ہر ہر شعبے میں نظر آتا ہے۔ اس کے مقابلے میں اسلامی تہذیب و ثقافت کی بنیاد توحید، یعنی اللہ تعالیٰ کی مکمل حاکمیت پر ہوتی ہے۔ چنانچہ معاشرتی مسائل ہوں یا معاشی، سیاسی اُمور ہوں یا ثقافتی، ان سب کی بنیاد تقویٰ اور توحید کے قرآنی اصولوں پر رکھی جاتی ہے۔
ثقافت اور تہذیب کی اصطلاحات میں بہت مماثلت پائی جاتی ہے اور یہ اکثر بطور متبادل کے استعمال ہوتی ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو ثقافت کا بڑا حصہ ان اصول و مبادی پر مبنی ہوتا ہے جو کسی نظریۂ حیات کی اساس ہوتے ہیں، مثلاً وہ کائنات کے بارے میں کیا تصور رکھتے ہیں، ان کا خالق کائنات کے بارے میں کیا عقیدہ ہے، وہ اچھائی اور برائی کے کن معیارات کو اپنی زندگی کے معاملات کو طے کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ اصول و مبادی اور یہ ثقافت ایسے علم کو، ایسی معیشت کو، ایسی معاشرت کو اور ایسی تہذیب (civilization) کو پیدا کرتے ہیں جو بنیادی ثقافتی اقدار کی نمایندہ ہوں، مثلاً اسلامی ثقافت کی بنیاد توحید اور تقویٰ پر ہے۔ توحید کا تقاضا ہے کہ تہذیبی مظاہر (manifestations) میں شرک کا وجود نہ ہو مثلاً فن تعمیر میں جان دار تصاویر، وہ انسانوں کی ہوں یا جانوروں کی، ان کا استعمال نہ کیا جائے۔ چنانچہ اسلامی فن تعمیر ہو یا خطاطی اور مصوری اس کے اعلیٰ نمونوں میں انسانی شکل اور حیوانی مجسمے اور شکلیں نہیں بنائی جاتی ہیں۔
اسلامی ثقافت کی بنیاد تقویٰ پر ہے۔ یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ رمضان المبارک تقویٰ پیدا کرنے والا مہینہ ہے اور تقویٰ کا واضح مظہر وہ زبان، وہ لباس، وہ غذا ہوگی جو تقویٰ پر مبنی ہو، مثلاً تقویٰ مطالبہ کرتا ہے کہ لباس سادہ اور ساتر ہو، غذا حلال ہو، زبان فحش نہ ہو اور اس میں نرمی و احترام پایا جائے۔ چنانچہ جو تہذیب بھی ان بنیادوں پر قائم ہوگی اس کے ماننے والوں کے طرزِ عمل اور بودو باش میں توحید اور تقویٰ کی جھلک ہوگی۔ اس زاویے سے دیکھا جائے تو رمضان ایسی ثقافت کو متعارف کراتا ہے جو توحید اور تقویٰ پر قائم ہے اور جس کااظہار تہذیبی اداروں میں پایا جاتاہے۔
روزہ ایک الہامی ثقافت کو پروان چڑھاتا ہے، چنانچہ رمضان کا پورا عرصہ اس بات کی تربیت دیتا ہے کہ ایک شخص سوچنے کے زاویے کون سے اختیار کرے۔ اس کے علم کاماخذ اور مصدر کیا ہو؟ صداقت سے کیا مراد ہے؟ زندگی کا مقصد کیا ہے؟ عدل کی حقیقت کیا ہے؟ اسلامی ثقافت ان تمام بنیادی سوالوں کے واضح جواب فراہم کرتی ہے۔ چنانچہ اس مہینے کا آغاز جس چیز سے ہوتا ہے وہ رضا کارانہ طور پر اللہ کی بندگی میں آنا اور حاکمیت الٰہی کا اقرار ہے کہ ایک انسان اپنی قسمت کا، اپنے معاملات کافیصلہ کرنے والا خود نہیں ہے بلکہ یہ دیکھ کر فیصلہ کرتا ہے کہ اُس کا خالق ، اُس کا مالک، اُس کا رب کس چیز سے خوش ہوتا ہے۔ کسی بھی معاملہ کو طے کرنے کی بنیاد کیا محض ذاتی راے، محض ذاتی تجربہ، محض ذاتی مشاہدات ہوں یا فیصلے کی بنیاد اللہ کی بھیجی ہوئی وحی اور ہدایت ہوگی رمضان جس ثقافت کو قائم کرتا ہے اس کی پہچان للہیت ہے، یعنی ہر کام کو کرنے سے قبل یہ جائزہ لینا کہ اس کے کرنے سے اللہ تعالیٰ خوش ہوں گے یا ناراض۔ یہی تقویٰ کی عام فہم تعریف ہے۔
اسلامی ثقافت جس تہذیب کو قائم کرتی ہے اس میں توازن، سادگی اور تقویٰ کا اظہار ہرعمل میں پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر لباس ایک تہذیبی علامت ہے۔ ایک شخص جو لباس پہنتا ہے وہ ظاہر کرتا ہے کہ اس کا مقصد حیات کیا ہے؟ کیا وہ معاشرے میں بسنے والے افراد کو اپنے لباس کے ذریعے اپنی دولت اور معاشی مقام و مرتبے سے آگاہ کرنا چاہتا ہے، یا ساتر اور سادہ لباس کے ذریعے اپنی سادگی اور نمایشی کاموں سے بچنے کی عادت کو ظاہر کرنا چاہتا ہے۔اس لیے اگر کوئی ایسا لباس استعمال کرے جس سے نمایش مقصود ہو تو ایسا لباس اسلامی ثقافت و تہذیب کے منافی ہوگا۔ رمضان کے دوران نہ صرف لباس بلکہ گفتگو میں بھی اسلامی اخلاقی اصولوں کا لحاظ رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ رمضان میں جو ماحول پیدا ہوتا ہے وہ ہر اچھی بات کو پھیلانے میں مدد گار ہوتا ہے اور ہربُری بات کو روکنے میں امداد کرتا ہے۔
رمضان الکریم جس ثقافت کو متعارف کرانا چاہتا ہے اس کی پہچان زبان کی احتیاط ، نگاہ کی احتیاط، کان کی احتیاط، معاملات میں احتیاط ہے۔ گویا کہ یہ ایک ایسی تہذیبی تبدیلی ہے جو ایک ماہ کے عرصے میں ایک نئی تہذیبی روایت اور ماحول کو پیدا کرتی ہے۔ جس میں تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی (جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں ان میں سب تعاون کرو) اور وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ (اور جو گناہ اور زیادتی کے کام ہیں ان میں کسی سے تعاون نہ کرو۔المائدہ ۵:۲)کی جھلک نظر آتی ہے۔
ثقافت کے عناصر ترکیبی میں قانون بھی شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رمضان کے دوران اسلامی شریعت کے ہر ہر حکم کی پیروی پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ اس ماہ کی تربیت شریعت کے احترام اور پابندی کی عادت کو مستحکم کر دیتی ہے۔ اسلامی ثقافت کی بنیادی اقدار میں سے ایک اہم قدر خواتین کا احترام اور ان کو جنسِ تجارت بنانے (commercialization ) سے اجتناب ہے۔ اسلامی ثقافت مطالبہ کرتی ہے کہ خواتین کے اعلیٰ مقام کو پامال نہ کیا جائے اور ان کے جسم کو معاشی فائدے کے حصول کے لیے استعمال نہ کیا جائے، چنانچہ اشتہارات میں خواتین کا استعمال اسلامی ثقافت کی ضد ہے۔ اسی طرح اسلامی ثقافت چاہتی ہے کہ مردو زن میں اختلاط نہ ہو کیونکہ یہ برائی کی جانب پہلے قدم کی حیثیت رکھتا ہے۔ رمضان کے دوران اس ثقافتی قدر کو باربار یاد دلانے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اجتماعات ہوں یا تقریبات، ان میں مرد اور عورتیں الگ الگ نشست و برخواست رکھیں۔ بعض مسلم ممالک میں ابلاغ عامہ کو چلانے والے ادارے مغربی اورسرحد پار کی غیر اسلامی تہذیبوں کے زیر اثر رمضان میں بھی اپنے خیال میں جو ’دینی‘ پروگرام کرتے ہیں ان میں ایک نوجوان اور دوسری جانب ایک بنی سنوری خاتون کو بٹھا کر اسلامی معاشرت پر قرآن و حدیث کے حوالے سے بات چیت یا سوال و جواب کراتے ہیں۔ یہ رمضان کے تقدس کے ساتھ ایک مذاق ہے۔ حدیث نے حیا کو ایمان کا بڑا حصہ قرار دیا ہے اور کہا گیا ہے کہ جس میں حیا نہیں وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ اسلامی ثقافت حیا کی ثقافت ہے اور اس ماہ میں خصوصی طور پر حیا کا اختیار کرنا روزے کو مقبول بنا دیتا ہے۔ حیا محض شرم کا نام نہیں ہے بلکہ حیا ایک وسیع تصور ہے۔ اس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ بزرگوں کا احترام اور بچوں کے ساتھ شفقت و محبت کس طرح اختیار کی جائے۔
رمضان کے دوران دین کے علم میں اضافے کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں۔ مالی اختیارات میں فضول خرچی سے بچتے ہوئے ہاتھ کی کشادگی کس طرح اور کس حد تک اختیار کی جائے۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے دوران اپنے اہل خانہ اور دیگر مسلمانوں پر کثرت سے خرچ کرتے تھے۔ اس انفاق کی ثقافت کو کس طرح رائج کیا جائے۔ خصوصاً ایسے افراد کی امداد جو ہاتھ پھیلانے میں شرم محسوس کرتے ہوں، ان کی ضروریات کو کیسے پورا کیا جائے۔ گھروں میں قرآن کریم کی تعلیمات کو کس طرح رائج کیا جائے اور روایتی طورطریقے جو صدیوں سے گھروں میں رواج پا گئے ہیں کس طرح ان کی جگہ اسلامی اخلاقی ضابطوں کو نافذ کیا جائے۔ یہ پورا مہینہ ان تمام معاملات پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بندگی میں آنے کے اعلان کے ساتھ خلوص نیت سے قرآنی تعلیمات کو بتدریج اپنی زندگی میں، اپنے گھر میں اور اپنے معاشرے میں نافذ کرنے کے لیے مؤثر عملی اقدامات کیے جائیں۔
اپنے روز مرہ کے معاملات اور تعلقات کو اللہ کی مرضی کے مطابق ڈھالنے کا نام ہی توحید ہے۔ جب ایک شخص اپنے آپ کو ان تمام غلامیوں سے نکالتا ہے جو بچپن سے جوانی تک اور جوانی سے بڑھاپے تک غیر محسوس طور پر اس پر اثر انداز ہوتی ہیں، وہ برادری کی روایات ہوں، والدین اور بزرگوں کے سکھائے ہوئے طریقے ہوں یا معاشرے سے اخذ کی ہوئی عادات، جب ایک شخص ان سب کو جانچنے کے لیے توحید کی کسوٹی استعمال کرتا ہے، تو پھر اس کے تعلقات، فکر اور معاش، سیاست، گھر کے فیصلے، سب کی بنیاد صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہو جاتی ہے۔ یہی روزے کا مقصد ہے کہ انسان میں تقویٰ کی روش پیدا ہو، وہ اپنے قلب، دماغ، جسم خواہشات ہر چیز کو اللہ کی خوش نودی کا تابع بنائے۔ یہی توحیدی ثقافت ہے جو ہر انسانی عمل کو اللہ کی بندگی میں لے آتی ہے۔
ایک اور اہم خصوصیت جو یہ ثقافت ہمارے اندر پیدا کرتی ہے وہ احترام آدمیت اور احترام انسانیت ہے، یعنی روزے کے دوران اس بات کی شدت سے ممانعت ہے کہ ایک شخص کے ہاتھ سے کسی کو نقصان پہنچے، زبان سے کسی کو تکلیف پہنچے، اس کی گفتگوئوں سے کسی کی دل آزاری ہو۔ اگر ایسا کیا جائے گا تو اس کا ایسا کرنا اسلامی ثقافت کی روح کے منافی ہوگا۔ گویااحترام انسانیت کے ساتھ وہ طرزِ عمل جوروزہ ہمارے اندر پیدا کرنا چاہتا ہے یہ ہے کہ ایک مومن نہ کسی سے بلند آواز سے مخاطب ہو، نہ کسی پر ہاتھ اُٹھائے، نہ کسی کی جان لے، نہ کسی کو تکلیف پہنچائے،بلکہ اس مہینے میں اپنی تربیت اس طرح کرے کہ وہ دوسروں کی جان، مال اور عزت کا محافظ بن سکے۔
ایک اور اہم پہلو جو اس ثقافت کی پہچان ہے وہ یہ ہے کہ افراد کے ساتھ معاملات میں، بالخصوص مالی معاملات میںدیانت داری کو اختیار کیا جائے۔ چنانچہ یہ ثقافت ہمارے اندر مال کے احترام اور حُرمت کااحساس پیدا کرتی ہے کہ اگر سونے کا ڈھیر بھی کسی کے سامنے پڑا ہو تو وہ اس کو ہاتھ بھی نہ لگائے کیونکہ اللہ دیکھ رہا ہے۔ جو شخص روزے کے دوران سخت پیاس اور بھوک میں بہترین کھانا سامنے ہونے کے باوجود اپنا ہاتھ آگے نہیں بڑھاتا، وہ یہ کیسے کرسکتا ہے کہ عام حالات میں کسی دوسرے کی دولت پر ہاتھ ڈالے۔ گویا اس ثقافت کی ایک بنیاد وہ احترا م ہے جو دوسرے کی ملکیت یا مال کے بارے میں یہ ثقافت ہمارے اندر پیدا کرنا چاہتی ہے۔
اس ثقافت کا ایک اوراہم پہلو جو روزہ ہمارے اندر پیدا کرنا چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے سارے معاملات کی بنیاد ایک شعوری عمل ہو، عقلی رویہ ہو جس میں ایک شخص سوچنے سمجھنے کے بعد یہ طے کرے کہ مجھے کوئی کام کرنا چاہیے یا نہیں کرنا چاہیے۔ مثلاً ایک شخص اگرمعمولی سی فہم بھی رکھتا ہو، تو وہ یہ بات تسلیم نہیں کرے گا کہ اپنی زندگی کو تباہ کرنے کے لیے منشیات کا استعمال کرے، یا شراب کا استعمال کرے جو اس کواپناغلام بنا لیں۔ یہ رویہ عقل و شعور کا نہیں ہوسکتا۔ روزہ ایسی فضا پیدا کرتا ہے جس میں منشیات کے خلاف جہادکا جذبہ پیدا ہو جائے اور ایک شخص بجاے منشیات کا غلام بننے کے ایسا عقلی رویہ اختیار کرے جس میں شعوری طور پر یہ دیکھ سکے کہ اس کے لیے کیا چیز مفید ہے اور کیا نقصان دہ ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایک ظلم یہ ہے کہ اشتہارات کے ذریعے بچوں کو بھی ایسے مشروبات پینے کی ترغیب دی جاتی ہے جو طبی معلومات کی روشنی میں صحت کے لیے مضر ہیں اور آہستہ آہستہ منشیات تک پہنچانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ انتہا یہ ہے کہ رمضان کے دوران ان مُضِر مشروبات کے اشتہار افطاری کے حوالے سے دکھائے جاتے ہیں جو اسلامی ثقافت سے ناواقفیت کی علامت ہے۔
رمضان وہ ثقافت پیدا کرتا ہے جس میں محض شعوری رویہ ہی نہیں بلکہ انسانوں کے حوالے سے بھی یہ احساس بیدار ہوتا ہے کہ انسان اپنی فطری ضروریات کو اخلاقی ضابطے میں رہتے ہوئے کس طرح پورا کرے۔چنانچہ روزہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ روزے کے دوران کن کاموں سے اجتناب کیا جائے، مثلاً جنسی ضرورت کا پورا کرنا۔ اسلامی ثقافت میں جنس بجاے خود ناپسندیدہ چیز نہیں ہے۔ روزے کے دوران جنسی تعلق قائم نہ کرنا تزکیہ اور تربیت کا ایک ذریعہ ہے لیکن روزہ مکمل کرنے کے بعد جائز تعلق قائم کرنا تقویٰ کی علامت ہے۔ قرآن کریم رہبانیت اور مجرد رہنے کی ممانعت کرتا ہے اور ترغیب دیتا ہے کہ اہل ایمان خاندانی زندگی گزاریں۔ چنانچہ وہ حکم دیتا ہے کہ مسلمانوں میں سے جو مجرد ہوں ان کے نکاح کر دیے جائیں۔ رمضان میںجنسی تعلق کے حوالے سے قرآن پاک اس بات کو واضح کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو یہ علم تھا کہ اگر اجازت نہ دی گئی تو بعض افراد خیانت کریں گے، اس لیے روزے کے افطار کے بعد سے سحر کے وقت تک ایک شخص کو جائز خواہشات کو پورا کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ گویا اس ثقافت کی بنیاد جائز تعلقات کا احترام ہے، اُن کا باقی رکھنا، اوران کے حقوق کا ادا کرنا ہے۔ روزے کے دوران بعض کاموں سے رُک جانا اور افطار کے بعد انھی کاموں کا مباح ہو جانا یہ پیغام دیتا ہے کہ روزے کی اصل روح اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کا احترام ہے۔ یہ حدود جنسی تعلقات سے متعلق ہوں یا غذا اور آرام سے متعلق، ان پر عمل کرنا ہی روزے کو باعث اجر بناتا ہے۔
روزہ ہمارے اندروہ ثقافت پیدا کرتا ہے جواللہ سبحانہ و تعالیٰ کے وجود کے احساس کے ساتھ ساتھ، اللہ کے بھیجے ہوئے رسول ؐکی محبت ہمارے دلوں میں اُتارتی ہے۔ ہم ہر معاملے میں یہ چاہتے ہیں کہ یہ دیکھیں کہ خاتم النبینؐ نے کس کام کو کس طرح سے کیا۔ چنانچہ آپؐ کی سنت اور آپؐ کے عمل کی پیروی ہمارے ایمان میں وہ قوت اور تازگی پیدا کردیتی ہے جو اس با برکت موسم کا امتیاز ہے۔ روزے کے ذریعے جو ثقافت پیدا ہوتی ہے وہ گویا توحیدی ثقافت ہے۔ وہ ثقافت عدل والی ہے۔ وہ احترام اور حیا کی ثقافت ہے۔ وہ احترام مال کی ثقافت ہے۔ وہ احترام عقل و شعور کی ثقافت ہے ۔وہ اطاعتِ رسولؐ کی ثقافت ہے۔ اس کے اندر وہ تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں جو ایک معاشرے کو پُرامن بنا سکتی ہیں۔ اس ثقافت کو وجود میں لانے اور اس کی حیات کو روح فراہم کرنے والی شے قرآن کریم ہے جس کے نزول کی شان میں یہ عبادتوں والا مہینہ اس کلام عزیز کے بھیجنے والے نے خود منتخب فرمایا۔ شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیٓ أُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ کا اشارہ اسی جانب ہے کہ یہ محترم مہینہ ہے جو ایسی ثقافت کو وجود میں لاتا ہے جس میں ہرعمل اللہ تعالیٰ کی رضا کا پابند ہے۔ اس مہینے کو قرآن کریم کے ساتھ وابستہ کردیا گیا ہے۔ فرمایاگیا: شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیٓ أُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَــیِّنَاتٍ مِّنَ الْہُدٰی وَالْفُرْقَانِ (البقرہ۲:۱۸۵)، یعنی یہ وہ مہینہ ہے جس میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن کریم کو نازل فرمایا جو ہدایت ہے انسانوں کے لیے۔ یہ فرق بتانے والا ہے اچھائی میں اور برائی میں۔ یہ ہر چیز کو واضح بیان کردیتا ہے اور ہمیں سمجھا دیتا ہے کہ کون سے کام کرنے کے ہیں اور کون سے نہ کرنے کے۔
رمضان جو ثقافت پیدا کرتا ہے وہ کوئی نمایشی اور مصنوعی ثقافت نہیں ہے، بلکہ ایک عالم گیر ثقافت ہے جس میں تمام انسانوں کے لیے بھلائی، ہدایت اور کامیابی کا راز ہے۔ یہ مہینہ قرآن کے ساتھ قریبی تعلق پیدا کرنے کا مہینہ ہے۔ اس میں ہر صاحب ایمان کتاب کے ساتھ ایک ذاتی اور گہرا تعلق پیدا کرتا ہے۔ وہ زندگی کو مختلف خانوں میں تقسیم نہیں کرتا بلکہ توحید کی اکائی کے تحت زندگی کے تمام کاموں میں یک جہتی، یگانگت اور وحدانیت پیدا کرتا ہے۔
روزہ اس ثقافت کو پید ا کرتا اور پروان چڑھاتا ہے جو اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی بتائی ہوئی تعلیمات کی روشنی میںہمیں تعمیراور ترقی کے تمام مواقع فراہم کرتی ہے۔ یہ اُس ثقافت کی مخالفت کرتا ہے جو برقی ذرائع ابلاغ کے ذریعے مغربی یا ہمسایہ ملکوں کی غیر اخلاقی ثقافت کو ہم تک پہنچاتی ہو۔ یہ ثقافت، علاقائیت، رنگ و نسل، زبان اور جغرافیائی حدود کی غلام نہیں ہے بلکہ آفاقی اور عالم گیر ہے۔ قرآن کریم اپنے بارے میں یہی کہتا ہے کہ وہ تمام انسانوں کے لیے ہدایت ہے، چنانچہ اس کی ثقافت بھی عالم گیر ثقافت ہے۔ یہ عالمی امن، احترامِ انسانیت اور حقوق انسانی کو بحال کرنے والی ثقافت ہے۔ اس کی پہچان اخلاقی رویہ اور انسانوں کے حقوق کو جیسا ان کا حق ہے ادا کرنا ہے۔ یہ حقوق و فرائض کی واضح تقسیم پر مبنی ثقافت ہے۔ (مقالہ نگار کی کتاب روزہ اور ہماری زندگی کا ایک باب۔، ناشر: منشورات، لاہور)
دنیا میں جو بھی آیا، آزمایا گیا۔ کسی کی آزمایش اقتدار و اختیار، تاج و تخت او رمال و دولت کے انباروں سے ہوئی اور کسی کی بھوک، افلاس، ظلم و ستم اور پھانسی کے پھندوں سے۔ کامیاب وہی ٹھیرا جس نے ہر دو صورتوں میں اپنے رب کی سچی اطاعت و بندگی اختیار کی۔ اپنا اصل ہدف، ہمیشہ باقی رہنے والی زندگی کو رکھا۔
آج کے قومی یا عالمی حالات پر نظر دوڑائی جائے، تو آزمایشوں کی یہ سنت الٰہی نقطۂ عروج تک پہنچی دکھائی دیتی ہے۔ خون مسلم ہر جگہ پانی سے بھی ارزاں ہے۔ پہلے صرف کشمیر و فلسطین اور افغانستان کے مظلوم اہل ایمان کے لیے دُعاے رحم ہوتی تھی، اب مصر، شام، عراق، یمن، لیبیا، بنگلہ دیش، اراکان، سری لنکا، وسطی افریقا، صومالیہ اور ماوراے قفقاز ، یعنی فہرست طویل سے طویل ہوتی چلی جا رہی ہے۔ پہلے صرف اغیار کے قبضے اور استعمار کے مظالم کے خلاف دُعائیں ہوتی تھی، اب خود مسلمان حکمران اور ان کے مسلح لشکر، کفار کے مظالم سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں۔
گذشتہ صدی کے آغاز میں بھی عالم اسلام کی بندر بانٹ کی گئی تھی، تقریباً ۱۰۰ سال گزرنے کے بعد اب منقسم کو مزید تقسیم کرنے کا عمل تیز تر کیا جارہا ہے۔ ۱۹۱۵ء-۱۹۱۶ء کے درمیان فرانسیسی وزیر خارجہ فرانسوا جارج پیکو اور برطانوی وزیر خارجہ مارک سائکس نے مشرق وسطیٰ کو ذاتی جاگیر کی طرح بانٹ لیا۔ شام اور لبنان پر فرانسیسی، عراق اور خلیج پر برطانوی قبضہ ہوگیا۔ مشرقی اردن اور فلسطین بھی برطانوی نگہداری میں دیے گئے، لیکن چونکہ فلسطین کو اسرائیل میں بدلنا تھا، اس لیے ساتھ ہی وضاحت کی گئی کہ اس ضمن میں اعلان بالفور( Balfour Declaration) پر عمل درآمد کیا جائے گا۔ ۲ نومبر ۱۹۱۷ء کو جاری ہونے والے اس منحوس ڈکلریشن میں پوری ڈھٹائی سے لکھا تھا:
His Majesty's Government view with favour the establishment in Palestine home for the Jewish people. شاہِ معظم کی حکومت فلسطین میں یہودیوں کے لیے وطن بنانے کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھتی ہے۔
خلافت عثمانیہ کے خاتمے اور تقسیم و تسلط کے بعد خود تو ان استعماری طاقتوں کو جانا ہی تھا اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی چلے گئے، لیکن جاتے جاتے اکثر مسلم ممالک میں فوجی آمر اور اپنے غلام حکمران بٹھا گئے۔ ایسے حکمران کہ جنھیں ریموٹ کنٹرول کے ذریعے، جہاں اور جیسے چاہا استعمال کیا جاسکے۔ گذشتہ پوری صدی اُمت مسلمہ نے استعماری طاقتوں کے کاشت کردہ ان زہریلے بیجوں کی تلخ فصلیں کاٹی ہیں۔وسائل کے انبار ہونے کے باوجود عوام بھوک اور ننگ کا شکار رہے ہیں۔ ۳۰،۳۰ اور ۴۰،۴۰ سال مسند اقتدار پر براجمان رہنے کے بعد جب بعض حکمرانوں سے نجات حاصل کی گئی تو معلوم ہوا کہ، قوم کے اَربوں ڈالر خود ہڑپ کیے بیٹھے تھے یا پھر ان قیمتی وسائل کا تمام تر فائدہ استعمار اور اس کی پالتو ریاست اسرائیل کو پہنچا رہے تھے۔
توانائی کے سنگین بحران سے دوچار ملک مصر نے، صرف ۲۰۰۸ء سے فوجی آمر حسنی مبارک کی برطرفی تک تین سالہ مدت میں اسرائیل کو صرف ڈیڑھ ڈالر فی یونٹ کی قیمت پر گیس فروخت کی۔ اسی عرصے میں گیس کی عالمی قیمت ۱۲ سے ۱۶ ڈالر فی یونٹ رہی۔ حسنی مبارک نے اپنے ایک نمک خوار حسین سالم کے ذریعے EMG نامی کمپنی کے ذریعے مصر کو اس ایک سودے میں صرف ۱۱؍اَرب ڈالر کا نقصان پہنچایا۔صدرمحمد مرسی کے ایک سالہ دور میں اس نام نہاد کمپنی اور حسین سالم پر مقدمہ چلا اور کمپنی پر پابندی لگائی گئی۔ حالیہ فوجی انقلاب کے بعد حسین سالم اور کمپنی دوبارہ فعال ہوگئے ہیں۔ اب انھوں نے اُلٹا ریاست کے خلاف مقدمہ قائم کرتے ہوئے ۸؍ارب ڈالر ہرجانے کا دعویٰ کر دیا ہے۔
تیونس کو ہمیشہ اقتصادی ترقی اور خوشحالی کی روشن مثال قرار دیا جاتا رہا ہے۔ تیونس میں اقتصادی ترقی ثابت کرنے کے لیے عالمی رپورٹیں جاری کروائی گئیں۔ معلوم ہوا کہ اس کا پورا اقتصادی ڈھانچا زین العابدین بن علی اور ان کی اہلیہ کے رشتہ داروں کے ہاتھوں جکڑا ہوا تھا۔ خوش نما عالمی رپورٹوں کی تیاری میں شریک ایک عالمی ماہر اقتصاد، بوب ریکرز نے حال ہی میں اعتراف کیا ہے کہ وہ ساری عالمی رپورٹیں جعلی اور نام نہاد ترقی ایک سراب تھی۔ بن علی کے دور اقتدار کے صرف آخری ۱۰ برسوں میں سرمایہ کاری کے قانون میں ۲۵ مرتبہ ترمیم کی گئی۔ ان سب ترامیم کا اکلوتا مقصد، اقتصادی ڈھانچے پر خاندانی اجارہ داری کا استحکام تھا۔ بن علی کو رخصت ہوئے تین برس سے زائد عرصہ گزر گیا اور جاتے ہوئے دولت کے انبار ساتھ بھی لے گیا، لیکن اب بھی آئے روز ذاتی دولت و کاروبار کے نئے سراغ مل رہے ہیں۔ ۳۷۶ بنک اکاؤنٹ اور ۵۵۰ ذاتی جایدادیں دریافت ہوچکی ہیں۔ کئی خفیہ ذاتی گھروں میں ڈالروں کے ڈھیر گننے میں کئی ماہ کا عرصہ لگا۔ ابھی کرپشن کے سارے راز افشاں نہیں ہوسکے، اور اب ایک بار پھر سابقہ حکمران ٹولے کا اقتدار بحال کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
مصر میں جنرل سیسی کے خونی انقلاب کے فوراً بعد تیونس میں بھی سابقہ نظام کے کل پرزوں نے عالمی سرپرستی میں واپسی کا عمل شروع کردیا تھا۔ اپوزیشن رہنماؤں کے قتل، مسلح اسلامی دھڑوں کی اچانک تیز ہوتی ہوئی کارروائیوں اور دستور ساز اسمبلی کے اندر مسلسل بحرانوں کا سلسلہ چل نکلا تھا۔ اگر اس موقعے پر تحریک نہضت سیاسی بصیرت سے کام نہ لیتی، تو اب تک تیونس کو بھی خون میں نہلایا جاچکا ہوتا۔یہاں ان غلط فہمیوں کا ازالہ بھی ضروری ہے جو ایک پراپیگنڈے کی صورت میں الاخوان المسلمون مصر اور تحریک نہضت تیونس کے بارے میں اکثر پھیلائی جاتی ہیں:
اخوان کے بارے میں یہ کہ انھوں نے ضرورت سے زیادہ سختی اور عجلت دکھائی اور تحریک نہضت کے بارے میں یہ کہ انھوں نے بہت سستی دکھائی اور اقتدار کی خاطر مداہنت برتتے ہوئے بنیادی اصولوں پر سمجھوتا کرلیا اور شریعت ہی سے دست بردار ہوگئے۔
یہ دونوں الزامات محض تہمت ہیں، جن کی کوئی بنیاد نہیں۔ دونوں تحریکیں حکمت، احتیاط اور ثابت قدمی سے چلیں۔ دونوں کے خلاف پہلے روز سے سازشوں کا آغاز ہوگیا۔ لیکن ایک تو تیونس کے پڑوس میں کوئی اسرائیلی ناسور نہیں تھا اور دوسرے وہاں کی فوج کو ابھی براہِ راست اقتدار کا چسکا نہیں لگا، اس لیے اسے مصر نہ بنایا جاسکا۔ تحریک نہضت کو حاصل وسیع عوامی تائید اور دستور ساز اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل ہونے کے باوجود، انھیں اپنے دو وزراے اعظم اور بالآخر حکومت سے تو دست بردار ہونا پڑا، لیکن جناب راشد الغنوشی کے الفاظ میں: ’’ہم نے اقتدار کھو دیا لیکن ملک کو پہلا متفق علیہ دستور دے کر ملک و قوم کو جیت لیا‘‘۔ تیونسی دستور یقینا کوئی مثالی دستور نہیں، لیکن اس سے ایک ایسی بنیاد ضرور فراہم ہوگئی ہے جس پر ایک ’’خوش حال، آزاد، اسلامی ریاست‘‘ کی بنیاد رکھی جاسکے۔ اب آیندہ نومبر میں وہاں پہلے پارلیمانی انتخاب ہونا ہیں اور دسمبر میں صدارتی۔ بعض اندرونی و بیرونی قوتیں، انتخاب کا التوا اور عبوری حکومت کاامتداد چاہتی ہیں، لیکن اب تک کے واقعات کی روشنی میں یہ توقع بجا طور کی جاسکتی ہے کہ سازشی عناصر ان شاء اللہ ناکام رہیں گے۔
تیونس میں مصری تجربہ دہرائے جانے میں ہچکچاہٹ کی ایک وجہ یہ بھی بنی کہ پورا ایک سال گزر جانے اور بدترین سفاکیت کی باوجود، مصری فوجی انقلاب کامیاب نہیں ہوسکا۔ بظاہر تو وہ اپنا دستور بھی لے آئے، جنرل سیسی کو نیا حسنی مبارک بھی بنادیا گیا، لیکن مصر میں طلوع ہونے والا ہردن اس کے لیے ایک نئی مصیبت لے کر آتا ہے۔ اخوان کے ۸ہزار سے زائد شہدا، ۲۳ ہزار سے زائد گرفتار اور اتنی ہی تعداد میں کارکنان روپوش یا لاپتا ہیں۔ مصر کی نام نہاد عدالتیں، درجنوں نہیں سیکڑوں کی تعداد میں پھانسی کی سزائیں سنا رہی ہیں، لیکن یہ بات حلفیہ دعوے اور کامل یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ خونی انقلاب کے خلاف عوامی تحریک میں ایک دن کا توقف بھی نہیں آیا۔ اخوان کے کارکنان ہی نہیں، امریکی اور مغربی تجزیہ نگار بھی مسلسل اعتراف کررہے ہیں کہ فوجی انقلاب کو بالآخر رخصت ہونا ہوگا۔
سیسی حکومت سے عوامی بیزاری کا تازہ ترین مظہر وہاں کا حالیہ صدارتی انتخابی ڈراما بھی ہے۔ بھرپور ابلاغیاتی مہم اور پوری سرکاری مشینری استعمال کرلینے کے باوجود، دو روز تک جاری رہنے والی پولنگ ختم ہوئی، تو حکومتوں صفوں میں ہر طرف صفِ ماتم بچھ گئی۔ درجنوں ٹی وی چینلوں پر بیٹھے رنگ برنگے تجزیہ کار، عوام کو بالفعل گالیاں دینے لگ گئے کہ وہ اپنے ’’نجات دہندہ‘‘ سیسی کو ووٹ دینے کیوں نہیں نکلے۔ ذرا غیر جانبدار میڈیا کا معیار ثقاہت ملاحظہ کیجیے: ’’عوام جوتوں کے قابل ہیں‘‘، ’’پہلے انھیں کمر پر پڑتے تھے، اب ان کے سروں پر جوتے برسانے چاہییں‘‘، ’’جو لوگ فیلڈ مارشل عبدالفتاح سیسی کو ووٹ ڈالنے نہیں نکلے، ان کی ماؤں نے انھیںتمیز ہی نہیں سکھائی‘‘، ’’اگر جنرل سیسی کو ووٹ دینے نہ نکلے تو تاریخ کی بدترین خوں ریزی ہوگی‘‘۔پھر اسی دوران میں اچانک اعلان ہوا کہ ووٹنگ کے لیے ایک روز مزید بڑھا دیا گیا ہے۔ وہی میڈیا جو آہ و بکا کررہا تھا، اگلی شام خوشی کے شادیانے بجانے لگا کہ ۴۶ فی صد ووٹ ڈالے گئے، جن میں سے ۹۷فی صد نے جنرل سیسی کو صدر منتخب کرلیا۔ مصری عوام نے اس موقعے پر معرکۃ الصَّنَادِیقِ الخَاوِیَۃ (خالی صندوقچیوں کا معرکہ لڑا) اس معرکے میں وہی غالب رہے اور ووٹوں کا تناسب زیادہ سے زیادہ ۱۲ سے ۱۵ فی صد رہا۔
انتخاب کی طرح ان کے جشن فتح کی مثال بھی نہیں ملتی۔ نتائج کا اعلان کرنے کے بعد میدان تحریر میں رات بھر رقص و شراب نوشی جاری رہی۔ اس دوران خواتین اور بچیوں سے بدسلوکی ہی نہیں، عصمت دری تک کی گئی۔ ایک خاتون صحافی کو جو اپنی بیٹی کے ہمراہ اپنی صحافتی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے وہاں تھیں، پورے مجمعے میں مادر زاد عریاں کردیا گیا۔ یہ واقعہ اتنا بدنما داغ ہے کہ صدارتی حلف اٹھانے کے بعد جنرل سیسی نے خود ہسپتال جاکر متأثرہ خاتون کو گلدستہ پیش کرتے ہوئے، سانحے کی شدت کم کرنے کی ناکام کوشش کی۔لیکن خواتین سے بدسلوکی اور انھیں ہراساں کرنا اب مصر کی بدترین شناخت بنتی جارہی ہے۔ شاید اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ’’جیسا راجا، ویسی پرجا‘‘۔
یہ سانحات و جرائم حکمرانوں کا تعارف تو کروا ہی رہے ہیں، ان کی وجہ سے عالمی طاقتیں بھی مسلسل بے نقاب ہورہی ہے۔ مصر اور شام میں صدارتی انتخابی ڈرامہ ہو یا بنگلہ دیش کے ڈھکوسلا انتخابات، جمہوری اقدار کی دعوے دار قوتوں نے ان کی حقیقت سے باخبر ہونے کے باوجود آنکھیں موند لی ہیں اور زبانیں گنگ کررکھی ہیں۔ یہی عالم اور پالیسی حقوق انسانی کی توہین کے بارے میں ہے۔ میدانِ تحریر میں خواتین کی بے حرمتی ہو، شامی مہاجر کیمپوں میں دم توڑتی بچیاں ہوں یا بنگلہ دیش میں ۲۰ سے ۲۴ سال کی عمر کی درجنوں طالبات کی اس الزام میں گرفتاریاں ہوں، کہ ان سے حکومت مخالف سٹکر برآمد ہوئے ہیں، دنیا کی کسی ’ملالہ فین‘ این جی او یا حکومت کو توفیق نہیں ہوئی کہ ان کے خلاف آواز اٹھائے۔
نام نہاد مصری عدالتوں نے چند منٹ کی کارروائی کے بعد ۲۴ مارچ کو ۵۲۹؍ افراد کو سزائے موت سنادی، ’مہذب‘ دنیا نے خاموش رہ کر اس جرم میں شرکت کا ارتکاب کیا۔ عالمی رویے نے قاتل نظام کی حوصلہ افزائی کی، عدالتوں نے ۲۸؍ اپریل کو دوبارہ غضب الٰہی کو دعوت دیتے ہوئے ۷۰۰ مزید افراد کو پھانسی کی سزا سنادی۔ ۱۹جون کو مجرم جج پھر گویا ہوا، اخوان کے مرشد عام سمیت ۱۴مرکزی قائدین کو سزاے موت سنادی۔ ۲۱جون کو مرشد عام سمیت ۱۵۰؍ افراد کو دوبارہ سزاے موت سنا دی۔ لیکن دنیا یوں اندھی بہری گونگی بنی ہوئی ہے کہ جیسے انسانوں کوپھانسیاں نہیں دی جارہیں، کیڑے مکوڑوں سے نجات حاصل کی جارہی ہے۔
پھانسی اور عمر قید کی سزاؤں کی فہرست طویل ہے اور مزید طویل ہوتی جارہی ہے۔ جس طرح یہ قائدین اور کارکنان سزا سنانے والے ججوں کے فیصلے سن کر ہنستے مسکراتے انھیں کائنات کے حاکم اور منصف مطلق کی عدالت میں جمع کروادیتے ہیں، بہت ممکن ہے کسی روز اسی طرح ہنستے مسکراتے پھانسی کے پھندے چومتے دربار خداوندی میں بھی جاپہنچیں، لیکن وہ حقوق انسانی کے دعوے .... اَربوں کے بجٹ ... مہذب اور ترقی یافتہ ہونے کے دعوے... ؟ امریکی وزیر خارجہ نے ۲۱ جون کو قاہرہ جاکر جنرل سیسی حکومت کے لیے ۷۶۰ ملین ڈالر امداد بحال کرکے شاید اسی سوال کا عملی جواب دیا ہے۔ لیکن اصل جواب کائنات کے رب کی عدالت سے آنا ہے اور یقیناً آنا ہے، فَانْتَظِرُوْٓا اِنِّیْ مَعَکُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِیْنَ o (اعراف ۷:۷۱)، ’’اب تم انتظار کرو، میں بھی تمھارے ساتھ انتظار کررہا ہوں‘‘۔
اگست ۱۹۹۰ء میں عراقی آمرِ مطلق صدام حسین کی حماقت کی آڑ میں خلیج میں در آنے کا قدیم امریکی منصوبہ مکمل ہوا، تو امریکی صدر بش کے باپ صدر بش نے ایک جملہ کہا تھا کہ ’’اب خاکِ دجلہ و فرات سے ایک نئی تہذیب، نیا عالمی نظام جنم لے گا‘‘۔ تعلیمی، سیاسی، ثقافتی اور اقتصادی پہلوؤں سے، اس نئی تہذیب اور نئے عالمی نظام کے کئی تعارف ہیں، یہاں صرف ایک مثال دی جارہی ہے۔
۱۹۹۱ء میں امریکی سرپرستی میں اقوام متحدہ کی قرارداد کے ذریعے عراق کے پورے کرد علاقے کو ’خصوصی حیثیت‘ دے دی گئی۔ قرارداد بظاہر بڑی معصومانہ ہے، تاثر یہ دیا گیا کہ کرد آبادی کو احساس محرومی سے نجات دینے اور صدام حسین کی عرب قوم پرستانہ پالیسیوں سے محفوظ کرنے کے لیے اقوام متحدہ نے عظیم خدمت انجام دی ہے۔ لیکن اس ’بے ضرر قرارداد‘ کے اصل زہریلے پھل اب پک کر تیار ہوچکے ہیں۔ تقریباً ایک تہائی علاقے پر مشتمل عراق کا کرد علاقہ، اب تقریباً الگ ریاست کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ تیاری مکمل، فضا سازگار اور سب متعلقہ فریق ہمہ تن گوش ہیں کہ کسی بھی لمحے علیحدگی کا بگل بجادیا جائے گا۔ ۲۵جون کو امریکی وزیرخارجہ کے دورے کے موقع پر اسرائیلی وزارتِ خارجہ کے ذمہ داران نے بھی اسے ’اطلاع‘ دے دی ہے کہ کردستان ریاست کا اعلان کسی بھی گھڑی ہوسکتا ہے اور یہ کہ اسرائیل اس نئی ریاست کو تسلیم کرنے والے اولیں ممالک میں سے ہوگا۔کردستان کا الگ ریاست بنادیا جانا، صرف عراقی کردستان تک ہی محدود نہیں رہے گا۔ ایران، شام اور ترکی میں موجود کرد آبادی کو بھی طویل عرصے سے اسی بخار کا شکار کیا جارہا ہے۔ توڑ پھوڑ اور تقسیم در تقسیم کا یہ مکروہ کھیل وہاں بھی کھیلا جائے گا، خواہ اس کھیل کے لیے ان ممالک کو کتنا ہی عرصہ حالت ِ جنگ میں رکھنا پڑے۔
عراق پر امریکی قبضے کے فوراً بعد جو عبوری حکومت تشکیل دی گئی، اسی میں عراق کو ٹکڑوں میں بانٹنے کا آغاز کردیا گیا تھا۔ حکومت کی تشکیل، ایک ملک کے شہریوں کی حیثیت اور صلاحیتوں کی بنیاد پر نہیں، مختلف مذہبی، علاقائی اور نسلی گروہوں کے لیے تناسب کی بنیاد پر کی گئی۔ شیعہ، سُنّی اور عرب، کرد اور ترکمان کی تعصباتی تقسیم گہری کرتے ہوئے، عراق میں خون کے وہ دریا بہائے گئے کہ الأمان الحفیظ۔ٹیکس گزار امریکی شہریوں کے اَربوں ڈالر اور ہزاروں امریکی شہریوں کی جانیں، عراقی الاؤ میں جھونکنے کے بعد بظاہر تو امریکی افواج عراق سے بھاگ گئیں، لیکن امریکا عملاً اب بھی وہاں موجود ہے اور اب بھی اسی کاایجنڈا نافذ ہورہا ہے۔ تیل کی بندربانٹ بھی اسی ایجنڈے کا حصہ ہے۔ صوبہ کردستان اور مرکزی حکومت میں ایک جھگڑا تیل سے مالامال ’کرکوک‘ شہر پر قبضے کا بھی تھا۔ حالیہ واقعات کے فوراً بعد کرد فوج ’بیشمرکہ‘ نے یہ کہتے ہوئے کرکوک پرقبضہ کرلیا کہ اسے ’داعش‘ سے خطرہ ہے۔ دوسری طرف ’بیجی‘ میں واقع عراق کی سب سے اہم آئل ریفائنری پر اہلِ سنت فورسز کا قبضہ مکمل ہوگیا۔ اس طرح ایک ملک کے بجاے اب عراقی تیل تین قوتوں کے قبضۂ اختیار میں ہے۔ تین نسبتاً کمزور مالکوں کے ساتھ سودے بازی میں عالمی قوتوں کو آسانی ہوگی۔
عراقیوں کو باہم قتل و غارت کی دلدل میں اتارنے کا سب سے مہلک ہتھیار شیعہ سنی کی آگ بھڑکانا تھا۔ یہ درست ہے کہ اس سلسلے میں طرفین نے کوئی کسر نہیں چھوڑی، لیکن حکومت و اقتدار میں ہونے کے باعث شیعہ آبادی کا پلّہ بھاری رہا۔ اس آگ کو بجھانے کے لیے اسلامی جمہوریہ ایران جیسے پڑوسی ملک کا کردار بہت مؤثر ہوسکتا تھا، لیکن بدقسمتی سے نہ صرف یہ کہ ایسا نہیںہوسکا بلکہ عراقی عوام نے ہر قدم پر محسوس کیا کہ ایران جیسے اَہم ملک کا تمام تر و زن و نفوذ، ان کے بجائے متعصب عراقی حکومت کے پلڑے میں ہے۔ کہنے والوں نے تو اس ضمن میں بہت ساری دستاویزات و حقائق پیش کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ عراق کی اصل حکومت تہران سے چلائی جارہی ہے۔
انتہائی مسموم ابلاغی یلغار اور گہرے احساس محرومی کی وجہ سے عراق کے اہل سنت اکثریتی علاقوں میں گذشتہ تقریباً ڈیڑھ برس سے پُرامن عوامی احتجاج جاری تھا۔ بڑے چھوٹے شہروں میں کسی ایک جگہ مشترک نماز جمعہ ادا کی جاتی اور پھر دھرنوں، ریلیوں کے ذریعے مطالبہ کیا جاتا کہ ’’اہلسنت آبادی کو جینے کا حق دیا جائے‘‘۔ ادھر بغداد سمیت مختلف عراقی شہروں میں بم دھماکوں، اندھا دھند فائرنگ اور آتش زنی کے واقعات کے ذریعے وسیع پیمانے پر شیعہ اور سنی آبادی کے قتل عام میں تیزی پیدا کردی گئی۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق صرف حالیہ ماہ جون کے دوران، عراق میں ۲ہزار سے زائد شہری قتل یا زخمی ہوئے (اصل تعداد یقینا زیادہ ہے)۔ اس پوری فضا میں اچانک اہل سنت اکثریتی علاقوں میں بعض مسلح گروہ اٹھے اور انھوں نے وہاں سے عراقی افواج کو بھگاتے ہوئے وسیع و عریض علاقوں پر اپنی گرفت مضبوط کرلی۔
عالمی ذرائع ابلاغ نے اس پوری کارروائی کو ’داعش‘ نامی تنظیم سے منسوب کیا ہے۔ لیکن درحقیقت یہ اس علاقے کی پوری آبادی کا مشترک ردعمل ہے، جس کا سامنا کرنا نوری المالکی انتظامیہ کے بس میںنہیں۔ اگرچہ اس پوری کارروائی میں نمایاں حصہ ’داعش‘ کا دکھائی دیتا ہے، لیکن کرد صدر مسعود بارزانی کے بقول اس میں داعش کا حصہ ۱۰فی صد سے زیادہ نہیںہے۔ صدام فوج کی سابق افواج، مسلح قبائلی لشکر اور عام آبادی سب ان واقعات میں شریک ہیں۔ عراقی فوج کو نکالنے کے بعد پہلے ہی دن صدام حسین کی تصاویر اُٹھا کر مظاہرے، اور پھر صدام کو سزاے موت سنانے والے جج کو پھانسی ’داعش‘ کی نہیں انھی دیگر گروہوں کی سرگرمیاں ہیں۔باقی تمام، عناصر کو چھوڑ کر صرف ’داعش‘ کا نام نمایاں کرنے کے اپنے مقاصد ہیں۔
الدولۃ الإسلامیہ فی العراق و الشام، (داع ش) یا Islamic State in Iraq & Syria (ISIS) کی حقیقت ایک معما ہے۔ یہ مسلح تنظیم گذشتہ کئی ماہ سے شام میں کارروائیاں کررہی ہے۔ اسے آغاز میں وہاں کی ’القاعدہ‘ کا نام دیا گیا۔ لیکن خود ایمن الظواہری سمیت القاعدہ قیادت نے اس سے اپنی برأت کا اعلان کردیا۔ اب اس کے بارے میں مختلف متضاد دعوے کیے جارہے ہیں۔ اس کے پیچھے سعودی عرب، امریکا، ترکی حتیٰ کہ خود ایران کا ہاتھ ہونے کے دلائل دیے جاتے ہیں۔ باعث حیرت امر یہ ہے کہ ’داعش‘ کو سب ممالک اپنا دشمن اور خطے کے لیے بڑا خطرہ قرار بھی دیتے ہیں، لیکن اس کی کارروائیوں اور کامیابیوں پر ان کی غیر علانیہ طمانیت بھی چھپائے نہیں چھپتی۔ ’داعش‘ اگر عراق میں نوری المالکی فورسز سے برسرِ پیکار نظر آتی ہے، تو شام میں نوری المالکی کے ہم زاد بشار الاسد کے مخالف مزاحمتی گروہوں سے بھی جنگ کررہی ہے۔
اس غبار آلود منظر کا سب سے خطرناک پہلو عراق ہی نہیں پورے خطے میں سنی شیعہ تقسیم کا گہرا اور سنگین تر ہوجانا ہے۔ تعصب فرقہ وارانہ ہو یا نسلی، علاقائی اور لسانی، رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بدبودار مُردار قرار دیتے ہوئے، اس سے دور رہنے کا حکم دیا ہے۔ الحمدللہ، عالمی اسلامی تحریکات ان سارے بتوں کی پرستش سے پاک ہیں۔ یہاں بیان کردہ حقائق بھی صرف تصویر کو مکمل طور پر دیکھ سکنے کے مقصد سے پیش کیے جارہے ہیں۔
اسی بنیاد پر الاخوان المسلمون سمیت اکثر تحریکات نے اس امر پر گہری تشویش ظاہر کی ہے کہ حالیہ صورت حال کے بعد عراق کے اعلیٰ ترین شیعہ مرجع آیت اللہ سیستانی کی طرف سے شیعہ آبادی کے لیے نفیر عام نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ وزیراعظم نوری المالکی نے بھی غالب شیعہ اکثریت رکھنے والی عراقی فوج کے ہزاروں افسروں اور سپاہیوں کو فارغ کرتے ہوئے ’متبادل فوج‘ کے نام سے فرقہ ورانہ ملیشیا تیار کرکے دشمن ہی کاکام آسان کیا ہے۔ فریقین کو یہ حقیقت بخوبی معلوم بھی ہے اور یاد بھی رکھنا چاہیے کہ دونوں ایک دوسرے کو صفحہء ہستی سے نہیں مٹا سکتے، لیکن اس کے باوجود کوشش اور اعلانات دونوں کے یہی ہیں۔
ٹھیک ۱۰۰ برس قبل اور آج رُونما ہونے والے واقعات پر غور کریں تو حیرت انگیز مماثلت دکھائی دیتی ہے۔ دشمن کی چالیں اور ہتھکنڈے بھی وہی ہیں اور اپنوں کی حماقتیں اور جرائم بھی وہی۔ تب بھی مغربی استعمار کا ہدف عالم اسلام کو تقسیم و تباہ کرنا تھا۔ تب بھی اس کے اصل آلہ کار، حرص اقتدار کے شکار حکمران تھے، اب بھی اس کا ہدف اور آلۂ کار یکساں ہے۔ رابطے کے تیز رفتار وسائل، ذرائع ابلاغ کے مہیب جال اور ہتھیاروں کے مزید مہلک پن نے اسے اور اس کے غلاموں کو مزید غرور و سفاکیت میں مبتلا کردیا ہے۔ گویا تاریکی اور شدائد عروج کو جاپہنچے ہیں۔
کامیابی کا حتمی تعین کرنے والی کائنات کی سب سے سچی اوراللہ کی آخری کتاب کا مطالعہ کریں تو گاہے حیرت ہونے لگتی ہے،ظلم و ستم اور عذاب و آزمایش کے سنگین ترین لمحات ہی نصرت و نجات کا آغاز ثابت ہوتے ہیں۔ ابتلا کے عروج پر بھی خالق نے اپنے سچے پیروکاروں کو اُمید اور عطا کی ہی بشارت دی ہے۔ تنگی اور عسر کے بعد نہیں، تنگی اور عسر کے ساتھ لگی ہوئی یسراور آسانی کی نوید سنائی ہے۔ انسان کو اس نے چونکہ کمزور (ضعیفًا) اور گھبرا جانے والا (ھلوعا) بنایا، اس لیے ایک بار نہیں، دو بار فرمایا: فَاِِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا o اِِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا o (الم نشرح ۹۴:۵-۶ )’’پس حقیقت یہ ہے کہ تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے۔ بے شک تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے‘‘۔اس کے عملی مشاہدے قرآن کریم میں جابجا دکھائی دیتے ہیں:
پوری سیرت انبیاء اور تاریخ انسانی ایسی ہی مثالوں سے معمور ہے۔ یہی نہیں خالق نے پورے کارخانۂ قدرت میں بھی اسی سنت کو نافذ کیا ہوا ہے۔ تاریکی عروج پر پہنچتی ہے تو سپیدۂ سحر طلوع ہونے لگتا ہے۔ حبس انتہا کو پہنچے، تو ابر کرم جھوم کے آتا ہے، کٹھالی میں جتنا کھولایا جائے، آلایشوں سے اتنی ہی نجات ملتی ہے۔
آج بھی رحمت خداوندی کے علاوہ سب در بند دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے میں اُمید کی کرن تعصبات سے پاک، بے لوث و مخلص اہل دین اور انھی اسلامی تحریکات کو بننا ہے، جنھوں نے گذشتہ صدی میں تجدید و احیاے دین کا فریضہ انجام دیا۔ گذشتہ صدی کے آغاز میں ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جاتی تھی، آج وہ لاکھوں میں ہیں۔حلقۂ یاراں ہو، یعنی اپنے ہم وطن مسلمانوں میں کام کرنا ہو تو یہ تحریکات ہزاروں شہدا اور اسیر پیش کرکے بھی پُرامن رہتی ہیں۔ دعوت و تربیت اور پُرامن سرگرمیوں پر اکتفا و انحصار کرتی ہیں۔ لیکن کشمیر، فلسطین، افغانستان اور عراق کی طرح استعمار قابض ہوجائے، تو جہاد اور فداکاری کی ناقابل یقین تاریخ رقم کردیتی ہیں۔ حقائق اور خود اغیار کی اپنی دستاویزات ثابت کررہی ہیں کہ آیندہ ۱۰ سے ۱۵ برس انتہائی اہم ہیں۔ عالمِ اسلام کو تقسیم کرنے کا ایک اہم ہدف اسرائیلی ناجائز ریاست کا دفاع قرار دیا جاتا ہے۔ اب خود اسرائیلی دانش ور سوال اُٹھا رہے ہیں کہ کیا ہم آیندہ عشرے کے اختتام تک اپنا وجود باقی رکھ سکیں گے؟غیب کا علم صرف پروردگار عالم کو ہے، لیکن آزمایشیں جتنی بڑھتی جاتی ہیں، ألَا اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ کی ملکوتی ندا بلند تر ہوتی جارہی ہے۔
کسی شخص نے کوئی عمارت فروخت کرنے کی خاطر بنوائی، لیکن برسوں بعد بھی وہ فروخت نہ ہوسکی۔ کیا اب اس کے لیے جائز ہے کہ فروخت کرنے کی نیت تبدیل کرکے اسے کرایے پر اُٹھا دے؟ ایسی صورت میں اس کی زکوٰۃ کس طرح ادا کی جائے گی، کیونکہ پہلے تو یہ عمارت فروخت کی خاطر بنائی گئی تھی لیکن اب کرایے پر اُٹھا دی گئی ہے؟
جب تک اس کی نیت یہ تھی کہ اسے عمارت فروخت کرنی ہے، اس وقت تک اس عمارت کو عروض التجارۃ (مالِ تجارت)سمجھ کر اسے اس کی قیمت کا اندازہ کر کے اس پر زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی۔ لیکن جب اس نے اپنی نیت تبدیل کرلی اس وقت سے زکوٰۃ اس عمارت کی قیمت پر نہیں بلکہ اس کے کرایے پر ادا کرنی ہوگی۔ رہا یہ مسئلہ کہ وہ اپنی نیت تبدیل کرسکتا ہے یا کہ نہیں؟ تو یہ اس کا شرعی حق ہے کہ ضرورت پڑنے پر جب چاہے اپنی نیت تبدیل کرسکتا ہے۔ (ڈاکٹر یوسف القرضاوی، فتاویٰ یوسف القرضاوی، ترجمہ: سید زاہد اصغر فلاحی، دارالنوادر، لاہور ،ص ۱۳۸)
بعض لوگ لیز، یعنی پٹے پر حکومت سے زمین حاصل کرتے ہیں، پھر تجارت کی غرض سے اس زمین پر آفس یا گودام وغیرہ بنالیتے ہیں۔ کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ لیز کی مدت ختم ہونے کے بعد وہ زمین حکومت کو واپس کرنی پڑتی ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اتنی ہی یا اس سے کم مدت کے لیے دوبارہ زمین لیز پر مل جاتی ہے۔ کیا اس زمین پر زکوٰۃ واجب ہے؟
لیزپر حاصل کی ہوئی زمین پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے، کیونکہ یہ زمین دراصل حکومت کی ملکیت ہے نہ کہ زمین حاصل کرنے والے کی۔ زکوٰۃ اس چیز پر ادا کی جاتی ہے، جو اپنی ملکیت میں ہو۔ رہی وہ عمارت یا آفس جو اس زمین پر بنائی جاتی ہے تو اس پر بھی زکوٰۃ نہیں ہے کیوں کہ آفس یا عمارت عروض التجارۃ (مالِ تجارت) نہیں ہے۔زکوٰۃ اس مالِ تجارت سے ادا کی جائے گی جو اس آفس یا عمارت میں فروخت کرنے کی غرض سے رکھا جاتا ہے۔(ڈاکٹر یوسف قرضاوی، ایضاً، ص ۱۳۹)
صوبہ خیبرپختونخوا کے بعض علاقوں میں پاکستان کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں رمضان المبارک ایک دن پہلے شروع ہوتا ہے۔ جب ہمارے ہاں رمضان کی ۲۰تاریخ ہوتی ہے تو پنجاب میں ۱۹رمضان ہوتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہاں کا کوئی آدمی پنجاب میں اعتکاف کے لیے بیٹھنا چاہے تو وہ اپنے ۲۰رمضان کے حساب سے بیٹھے یا پھر ایک دن بعد پنجاب کے ۲۰رمضان کے حساب سے۔ اسی طرح کا مسئلہ اعتکاف کے اختتام پر بھی پیش آتا ہے۔ اسی بنا پر ہمارے ہاں بعض لوگ یہاں کے ۲۰رمضان کے مطابق وہاں اعتکاف کے لیے بیٹھ جاتے ہیں اور پھر یہاں کے ۲۹ یا ۳۰رمضان کو اعتکاف ختم کر کے واپس آتے ہیں حالانکہ وہاں اعتکاف ابھی ختم نہیں ہوتا ہے۔ بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو پنجاب ہی کے حساب کے مطابق اعتکاف شروع کرتے ہیں اور ختم کرتے ہیں۔ تحقیق طلب مسئلہ یہ ہے کہ صحیح طرزِعمل کیا ہے؟
خیبرپختونخوا یا بلوچستان اور کسی دوسرے پاکستانی علاقے کو پاکستان میں قائم رویت ہلال کمیٹی کے فیصلے کو اپنانا چاہیے۔ حکومت کا یہ کام شریعت کے مطابق ہے کہ اس نے رویت ہلال کے لیے کمیٹی قائم کی ہے اور اس کا ایک سربراہ مقرر کیاہے۔ وہ کمیٹی ہر ماہ رویت ہلال کے لیے اجلاس بھی کرتی ہے اور چاند کو دیکھنے کا اہتمام بھی کرتی ہے۔ اس کی یہ کوشش قابلِ قدر ہے، لہٰذا اس کے فیصلے کے مطابق چلنا چاہیے۔
اگر اعتکاف کسی ایسے علاقے میں ہو جہاں کی بیسویں رمضان خیبرپختونخوا کے بعد ہو، خیبرپختونخوا میں اس دن جب لاہور، راولپنڈی، مری میں بیس ہو ، ۲۱رمضان ہو تو اعتکاف میں جہاں اعتکاف کرے گا اسی جگہ کا اعتبار ہوگا۔ اگرچہ اس نے ایک دن پہلے روزہ رکھا ہو ۔ اسی طرح اعتکاف سے نکلنا بھی اس جگہ کے اعتبار سے ہوگا جہاں اعتکاف میں بیٹھا ہے۔ جب وہاں کے لوگ حکومت کی رویت ہلال کمیٹی کے مطابق چاند کا اعلان ہونے پر اعتکاف سے نکلیں تو و ہ بھی نکلے اگرچہ اس علاقے میں لوگ ایک دن پہلے اعتکاف سے اُٹھ چکے ہوں اور ایک دن پہلے عید کرچکے ہوں۔واللّٰہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)
زکوٰۃ کے مصارف میں سے ایک اقامت ِ دین ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر مسجد اقامت ِ دین کا فریضہ اداکرنے کے لیے قائم کی گئی ہو تو کیا وہاں زکوٰۃ دی جاسکتی ہے؟
وہ مسجد جو اقامت ِدین کی غرض سے قائم کی گئی ہو اسے زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔ خیال رہے کہ اس زکوٰۃ کو مسجد کے مصارف میں خرچ نہیں کیا جاسکتا صرف اقامت ِ دین کے اُمور میں صرف کیا جاسکتا ہے جو فی سبیل اللہ کی مد میں آتے ہیں، یا دیگر مصارف پر جو سورئہ توبہ میں بیان کیے گئے ہیں۔ واللّٰہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)
_______________
فاضل مرتب نے اس موضوع پر ۲۰۰۲ء میں اپنے مطالعے کو پیش کیا تھا، تاہم ۱۱برس بعد دوبارہ یہ موضوع ایک نئی کتاب کے رُوپ میں نظرنواز ہوا ہے، جس میں بیسویں صدی میں شائع ہونے والے اُردو رسائل و جرائد کے ۱۰۱خصوصی قرآن نمبروں کا تعارف ہے۔
قرآن خالق کائنات کا اَبدی پیغام ہے۔ اس پر غوروفکر کے ہزاروں اسلوب ہیں اور لوگوں کے سامنے پیش کرنے کے بے شمار ڈھنگ اسلام کے پرستاروں نے اختیار کیے ہیں۔ انھی میں ایک طریقہ رسائل و جرائد کے قرآن پر خصوصی شمارے ہیں۔ پروفیسر اقبال جاوید نے اس ضمن میں اپنے انتخاب کا آغاز سیّد حسن بقائی کے ماہ نامے پیشوا، دہلی (جنوری ۱۹۳۳ء) سے کیا اور خالد سیف اللہ رحمانی کے سہ ماہی حرا ، حیدرآباد دکن (جولائی ۲۰۰۰ء) پر تمام کیا ہے۔
مرتب نے اس چیز کا خاص خیال رکھا ہے کہ اس کتاب سے عام قاری استفادہ کرسکے، اور وہ تحقیق و تجزیے کے بوجھل دائرے میں جانے کے بجاے یہ جان سکے کہ: ان خصوصی اشاعتوں میں قرآن سے محبت اور قرآن کی خدمت کن رنگوں اور کن لہجوں میں کی گئی ہے۔ کس اشاعت نے کس پہلو کو فوقیت دی اور کس پہلو پر غوروفکر کے لیے ندا بلند کی۔ گویا کہ یہ مجموعہ ہمیں بیسویں صدی میں، اُردو خواں طبقے کی حب ِ قرآن کی ایک جھلک دکھا دیتا ہے۔(سلیم منصور خالد)
اس کتاب میں فاضل مصنف نے ۳۰موضوعات کے تحت روزے کے انقلابی پہلوئوں کو بیان کیا ہے۔ رب سے تعلق، خود اپنی تربیت اورتزکیہ، اور پھر انسانی زندگی کے ہرہر پہلو اور انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہرہردائرے میں روزے کا جو کردار ہے اسے سادہ زبان میں اور نہایت محکم دلائل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ یہ ایک آئینہ ہے جس میں اسلامی زندگی کی مکمل تصویر دیکھی جاسکتی ہے اور قرآن اور اسوہ نبویؐ کی روشنی میں پوری زندگی کی صحیح خطوط پر تعمیروتشکیل کی جاسکتی ہے۔ اس میں جس جامعیت کے ساتھ زندگی کے روحانی، اخلاقی، معاشرتی اور تہذیبی، غرض ہمہ پہلوئوں پر روزے کے اثرات کا احاطہ کیا گیا ہے وہ اسے ایک منفرد علمی اور دعوتی کاوش بنا دیتا ہے۔ اس مجموعے کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ اس میں رمضان المبارک کے دوران جو اہم تاریخی واقعات رُونما ہوئے ہیں انھیں بھی بڑے ایمان افروز انداز سے ایک خوب صورت یاد دہانی کے طور پر بیان کردیا گیا ہے اور اس طرح سندھ میں اسلام کی آمد، غزوئہ بدر کا فیصلہ کن تاریخی موڑ اور قیامِ پاکستان بھی اس سنہری سلسلے کی کڑیاں بن جاتی ہیں۔(مسلم سجاد)
رمضان المبارک آتا ہے تو روزے کے حوالے سے مختلف امراض کے بارے میں رسائل میں مضامین پر نظر پڑتی ہے لیکن یہ غالباً پہلی دفعہ ہے کہ اس موضوع پر ایک جامع کتاب ایک ماہرفن نے پیش کی ہے۔ ڈاکٹر محمد واسع شاکر اعصابی امراض کے ماہر ہیں اور آغا خان یونی ورسٹی میں بطور پروفیسر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ یہ ان کے وہ ۳۰لیکچر ہیں جو رمضان ۲۰۱۲ء میں ویب ٹی وی چینل ’راہ‘ ٹی وی سے نشر ہوئے۔ پہلے دو باب اسلامی تصورِ عبادت اور سیرتِ طیبہؐ کی روشنی میں صحت و غذا کے بارے میں ہیں۔ صحت پر تراویح کے اثرات پر ایک الگ باب ہے۔ صحت کے حوالے سے روزے کے بارے میں جو عام غلط تصورات رائج ہیں ان کا بھی بیان ہے، پھر روزے کے جسمانی اثرات اور مختلف امراض: بلڈپریشر، امراضِ قلب، ذیابیطس، گردے، جگر، معدے اور آنتوں کی بیماریاں، نفسیاتی بیماریاں، جوڑوں کی بیماری، حتیٰ کہ دانتوں پر اس کے جو اثرات مرتب ہوتے ہیں ان کا بیان ہے۔ طبی ثمرات کے عنوان کے تحت مثبت اثرات بیان کیے ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ امریکا اور یورپ میں اس موضوع پر بہت ریسرچ ہورہی ہے اور اسے مختلف امراض کے علاج میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ کتاب صرف ڈاکٹروں اور مریضوں کی رہنمائی نہیں کرتی، بلکہ عام افراد کے لیے بھی اس میں ضروری بنیادی معلومات موجود ہیں۔ (مسلم سجاد)
اگر دورِحاضر کی مسلم نابغۂ عصر شخصیات کی ایک فہرست بنائی جائے تو چند ابتدائی ناموں میں ڈاکٹر محمدحمیداللہ کا نام ضرور موجود ہوگا۔ علومِ اسلامیہ کے یہ نام وَر اسکالر اور محقق ۱۲برس پہلے ۱۷دسمبر ۲۰۰۲ء کو انتقال کرگئے تھے۔ زیرنظر کتاب کے مرتب محمد راشد شیخ کے الفاظ میں: ’’ڈاکٹر صاحب مرحوم کا انتقال صرف ایک انسان کا گزرنا نہیں بلکہ دراصل یہ ایک طویل اور علمی خدمات سے بھرپور عہد کا بھی خاتمہ تھا‘‘۔ گذشتہ ۱۲برسوں میں ڈاکٹر محمد حمیداللہ کے عقیدت مندوں نے ان کے خطوط اور ان کے سوانح اور علمی خدمات پر لکھے جانے والے سیکڑوں مضامین پر مشتمل متعدد مجموعے تیار کر کے شائع کیے ہیں۔
محمد راشد شیخ صاحب نے ڈاکٹر محمد حمیداللہ سے اپنی عقیدت و ارادت کا ثبوت زیرنظر کتاب کی شکل میں پیش کیا ہے۔ جیساکہ کتاب کے ضمنی عنوان سے ظاہر ہے، پہلا حصہ بعنوان: ’احوالِ ذاتی‘ سوانحی تفصیلات پر مشتمل ہے جس میں مرحوم کے بھتیجے احمد عطاء اللہ کے ساتھ خود ڈاکٹر محمد حمیداللہ کے تین مضمون شامل ہیں جن کی نوعیت خودنوشت کی سی ہے۔ دوسرے حصے میں مرحوم کی تحریروں کی فہرست کو کتابیات کے اصول پر خود راشد شیخ صاحب نے مرتب کیا ہے۔ تقریباً ۳۰۰ صفحات پر مشتمل تیسرے حصے میں مرحوم کی علمی اور ادبی خدمات، ان سے ملاقاتوں کی یادداشتوں اور ان کی وفات پر لکھے جانے والے تاثراتی مضامین جمع کیے گئے ہیں۔ اس حصے کی حیثیت ایک طرح سے ’یادنامہ‘ کی ہے۔ لکھنے والوں میں علومِ اسلامیہ ، عربی زبان، اُردو ادب اور صحافت سے تعلق رکھنے والے بعض نام وَر اور ثقہ نام (ڈاکٹر شیخ عنایت اللہ، ڈاکٹر سید رضوان علی ندوی، ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری، ڈاکٹر محموداحمد غازی، مولانا عتیق الرحمن سنبھلی، حکیم محمد سعید، پروفیسر محمد منو ر اور محمد صلاح الدین وغیرہ) نظر آتے ہیں۔آخری حصے میں ڈاکٹر محمد حمیداللہ کے ۱۵۰ سے زائد منتخب خطوط جمع کیے گئے ہیں اور مرتب نے ان پر مختصر حواشی بھی تحریر کیے ہیں۔
علمی دنیا میں ڈاکٹر حمیداللہ کے سیکڑوں عقیدت مند موجود ہیں، اور وہ مرحوم سے غیرمعمولی لگائو اور محبت کا اظہار بھی کرتے ہیں مگر مرحوم کے بارے میں بہت کم لوگوں نے اچھی، یادگار تحریریں لکھی/کتابیں تیار کی ہیں۔ راشد شیخ کی مرتبہ زیرنظر ایک ایسی جامع کتاب ہے جس میں ڈاکٹر محمد حمیداللہ کے بارے میں تمام ضروری معلومات و کوائف یک جا مل جاتے ہیں اور ان کی علمیت اور علمی کارنامے کا بھی بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
خلافت ِ اسلامیہ کا دور، حضرت ابوبکر صدیقؓ کے روزِ انتخاب (۶۳۲ء) سے شروع ہوکر اتاترک کے ہاتھوں عثمانی خلیفہ سلطان عبدالحمید ثانی کی معزولی (۱۹۲۴ء) تک قائم رہا۔ یہ عرصہ ۱۳۳۱ سالوں پر محیط ہے۔
اتاترک کے ہاتھوں تنسیخ خلافت (۱۹۲۴ء) کے دو سال بعد ۱۹۲۶ء میں ملت اسلامیہ کے چند بزرگ: سلطان عبدالعزیز والی سعودی عرب، سیّد سلیمان ندوی، علامہ رشید رضا، مفتی امین الحسینی، محمد علی جوہر، مفتی کفایت اللہ دہلوی، موسیٰ جار اللہ، محمد علی علوبہ پاشا اور رئیس عمر (انڈونیشیا) حج کے موقعے پر مکہ مکرمہ میں جمع ہوئے اور ’موتمرالعالم اسلامی‘ کا قیام عمل میں آیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد سے اس کا صدر دفتر کراچی میں ہے۔ موتمر کے مرحوم سیکرٹری ڈاکٹر انعام اللہ خان نے تقریباً ۲۵ سال پہلے ایک فاضل شخصیت مولانا عبدالقدوس ہاشمی سے فرمایش کرکے یہ کتاب لکھوائی تھی۔ اپنے موضوع پر بہت عمدہ اور حوالے کی کتاب ہے۔اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی اس کا اختصار اور جامعیت ہے۔خلافت کی ۱۳۳۱ سالہ تاریخ کو پونے تین سو صفحات میں بیان کر کے گویا دریا کو کوزے میں بند کردیا گیاہے۔ ’خلافت‘ کے تحت خلافت کے اصولوں، خلافت کی افادیت اور ادارہ خلافت کی عدم موجودگی میں اُمت مسلمہ کے نقصانات کا ذکر کیا گیا ہے۔ دنیا کے تقریباً ۵۰مسلم ممالک اگر آج بھی مل کر ادارہ خلافت قائم کرلیں تو مصنف کے بقول: ’’شاید دنیا کی تقدیربدل جائے‘‘۔ مصنف نے خلافت کے قیام کے لیے چند تجاویز بھی دی ہیں۔ دوسرے حصے میں ۲۰صفحات کا ایک گوشوارہ خلفاے اسلام کے ناموں، ان کے زمانۂ خلافت اور ان کے دارالخلافوں کے ناموں پر مشتمل ہے۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دور کے چند اہم واقعات (زکوٰۃ کی ادایگی سے انکار، سرحدوں پر حملے اور پانچ افراد کے نبوت کے دعوے وغیرہ) کا ذکر ہے۔ اسی طرح ایک ایک کر کے جملہ مابعد خلفا کے حالات، ان کے دورِ خلافت کے عام اقدامات، طرزِ حکومت، فتوحات اور ان کے کارناموں کا بیان ہے۔ اُموی اور عباسی خلفا (وہ خود کو ’خلفا‘ کہتے تھے، حالانکہ تھے: ’بادشاہ‘)کا تذکرہ اور ان کے عہد کے واقعات نسبتاً مختصر ہیں۔ کتاب میں تفصیل کی گنجایش ہی نہ تھی تاہم چیدہ چیدہ واقعات اور اہم باتیں شامل ہیں۔ آخر میں عثمانی خلفا کے حالات اور ان کی فتوحات کامختصر ذکر ہے۔
اس کتاب کی اصل اہمیت یہ ہے کہ یہ ۱۳۳۱ برسوں کے حالات و واقعات کا زمانی گوشوارہ (chronology) ہے جس میں ممکن حد تک ہرخلیفہ کی تاریخ پیدایش، تاریخِ وفات اور عہدخلافت کا زمانہ، اسی طرح اس کی مدتِ خلافت کا تعین کیا گیا ہے۔ حوالے کی یہ کتاب بہت سی ضخیم کتابوں کا نچوڑہے۔ پونے تین سو صفحات کے کوزے میں ساڑھے تیرہ سو سال کی طویل مدت کا دریا بند کرنا آسان نہ تھا مگر فاضل مصنف نے یہ کردکھایا۔(رفیع الدین ہاشمی)
ادبیات میں تخیل کی رفعت تاثیر اور تخلیقی حُسن فن پارے کی بقا اور مقبولیت کا ضامن ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نظم و نثر کے ظہور کے ساتھ ہی زمانے کی نظریں اس کے حُسن و قبح، فنی معیار اور ادبی محاسن پر مرتکز ہوجاتی ہیں۔ تحسینِ نظم و نثر کے پیمانوں پر پورا اُترنے والے ادب پاروں کو قبولِ عام کی سند سے نوازا جاتا ہے۔ یہی ادب پارے زندہ رہتے ہیں، جب کہ غیر معیاری تحریریں زمانے کی گرد میں دب کر فراموش کردی جاتی ہیں۔
زیرتبصرہ کتاب میں جدید اُردو شاعری اور نثر کے میلانات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ یہ تنقیدی مضامین گذشتہ ۲۵ ، ۲۶ برسوں میں لکھے گئے، تاہم ان مباحث کی تازگی اور اسلوبِ بیان کی شگفتگی آج بھی قائم ہے۔ ان میں بعض مضامین کتابوں پر تبصرے کے ذیل میں آتے ہیں اور بعض نگارشات علمی، تنقیدی اور تجزیاتی ہیں۔ مجیدامجد کی شاعری کا زمان و مکان کے حوالے سے جائزہ لے کر یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ مجیدامجد کے ہاں وقت مجتمع ہوکر لمحہ موجود میں سمٹ آیا ہے۔ مجیدامجد کے ہاں زمانے کے حوالے سے مسلسل ایک ارتقائی سفر پایا جاتا ہے(ص ۲۳)۔ وقت کی بحث وزیرآغا کی تین کتابوں: شام اور سایـے، دن کا زرد پہاڑ اور نردبان کے جائزے میں بھی جاری رہتی ہے۔ وہی وقت جس کے بارے میں کہا گیا کہ یہ کائناتی تغیر کا احساس ہے (ص ۲۵)، مضمون ’زمان و مکان کی صلیب‘ میں ماضی، حال اور مستقبل کے الفاظ میں ڈھل جاتا ہے (ص ۹۱)۔ شعری مطالعے کے ۱۲ مضامین ہیں۔ پاکستان میں لکھی گئی اُردو کی جدید شاعری کے رجحانات، میلانات اور امکانات کا جائزہ لے کر اُردو شاعری کے روشن مستقبل کی نوید سنائی گئی ہے۔
نثری مطالعے میں بھی کتابوں پر تنقید، محاکمہ اور مبصرانہ نکتہ طرازیان ملتی ہیں۔ول ڈیورانٹ اور ان کی اہلیہ کی تصنیف The Lessons of History کا تنقیدی جائزہ مصنف کی وسیع النظری، ژرف نگاہی اور ان کی عادلانہ نکتہ آفرینیوں کا ثبوت ہے۔ انھوں نے مصنفین کی جانب داری، تعصب اور اسلام دشمنی کی نشان دہی کرتے ہوئے مدلل و مسکت جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ قرآنِ مجید کو یہودیت سے ماخوذ قرار دینے والے ان بے خبر مصنفین کو مضمون نگار نے سورئہ فرقان کی آیت ۴،۵ کے حوالے سے حقیقت حال سے باخبر کیا ہے۔ سیرت النبیؐ پر لکھنے والوں کے لیے یہ مسئلہ ہمیشہ زیربحث رہا ہے کہ وہ ضعیف اور مرفوع روایات سے دامن کیسے چھڑائیں۔ مضمون نگار نے سوال اُٹھایا ہے کہ ہمیںفیصلہ کرنا ہے کہ ترجیح کس کو دیں؟ حدیث کو یا تاریخ کو؟ (ص۱۷۹)۔ ہمارے خیال میں شبلی نعمانی نے اس سوال کا جواب سیرت النبیؐ (جلداوّل) میں دینے کی کوشش کی ہے۔ توجہ طلب امر یہ ہے کہ کتاب کے صفحہ ۱۱۴ اور صفحہ ۱۱۵ پر دی گئی قرآنی آیات، پاک وہند میں متداول قرآنِ مجید کے عربی متن کے مطابق نہیں ہیں۔(ظفرحجازی)
عبدالقادر مُلّاؒ کی شہادت بلاشبہہ اہلِ اسلام کے لیے ایک المیہ ہے، مگر اصل المیہ یہ ہے کہ پورا عالم اسلام (چند مستثنیات کے سوا) سویا ہوا ہے۔ دوسروں کا تو کیا گِلہ، خود پاکستان جس کی بقا اور تحفظ کے لیے مُلّا عبدالقادر اور ان کے ساتھیوں نے جان کے نذرانے تک پیش کردیے، اسی پاکستان کی حکومت اور اسی حکومت کے ذمہ داران اپنی مصلحتوں اور ناقابلِ فہم مجبوریوںکی بنیاد پر مُہربہ لب ہیں۔
پاکستان کا شاید ہی کوئی اخبار یا رسالہ ہوگا جس نے عبدالقادر مُلّا کی شہادت کے سانحے پر تبصرہ نہ کیا ہو اور بہت کم کالم نگار ایسے ہوں گے جو اس موضوع سے بے نیازانہ گزرے ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ اتنی بڑی زیادتی، بے انصافی، بے اصولی اور بددیانتی کو ’غیر جانب دار‘ لوگ بھی برداشت نہیں کرسکے، مگر آفریں ہے پاکستان کی ایک بڑی ’عوامی‘ پارٹی کے مرکزی راہ نما پر جنھوں نے کہا تھا کہ جماعت اسلامی کے ساتھ جو کچھ بنگلہ دیش میں ہو رہا ہے، وہ یہاں بھی ہونا چاہیے۔ یہ فرمان اُس ہونہار راہ نما کا ہے جس کے نانا نے کہا تھا: ’اُدھر تم اِدھر ہم‘ اور یہ کہ: ’’اسمبلی کا جو رکن اجلاس میں شرکت کے لیے ڈھاکہ جائے گا، اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی‘‘۔ اس نوخیز نادان کو یہ اندازہ نہیں کہ غیرذمہ دارانہ اور اُوٹ پٹانگ بیانات کے نتائج افراد اور جماعتوں تک محدود نہیں رہتے، بلکہ ملکوں اور قوموں کو بھگتنے پڑتے ہیں۔ بہرحال عبدالقادر مُلّا تو ؎
یہ رُتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مدّعی کے واسطے دار و رَسن کہاں
کی مثال قائم کرگئے۔ اب انصاف اور انسانیت کے سفاک قاتلوں کا یومِ حساب زیادہ دُور نہیں ہے___ اور: ’لہو پکارے گا آستیں کا‘‘۔
پاکستان کی تاریخ میں غالباً کسی سانحے پر ایسا کم ہی ہوا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں مضامین اور کالم اور اداریے لکھے گئے ہوں۔ سلیم منصور خالد نے بڑی جستجو کے ساتھ یہ ساری تحریریں جمع کیں، اور انھیں نہایت سلیقے اور خوش اسلوبی سے مرتب کردیا۔ کتاب کا مقدمہ پروفیسر خورشیداحمد کے قلم سے ہے۔ اشاریے نے کتاب کی وقعت بڑھا دی ہے۔ یہ کتاب ایک ایسا آئینہ ہے جس میں پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت کے حکمرانوں اور اہلِ اقتدار و اختیار کو بہت کچھ نظر آئے گا۔ ہمارا مؤرخ اس کتاب کی مدد سے تاریخ دعوت و عزیمت کا ایک اہم باب مرتب کرسکے گا۔ تادمِ تحریر، دو اڑھائی ماہ کی قلیل مدت میں اس کتاب کا چوتھی بار شائع ہونا اس بات کی علامت ہے کہ اہلِ پاکستان اس المیے سے کس درجہ قلبی وابستگی رکھتے ہیں۔ (رفیع الدین ہاشمی)
ماہ نامہ فانوس کی زیرنظر اشاعت ِ خاص کا بڑا حصہ زاہدہ خاتون شیروانیہ کی کلیات پر مشتمل ہے (ص۹ تا ۴۰۴)۔ مرتب خالد علیم نے کلیات کے ابتدا میں ۳۲صفحات کا مقدمہ بھی شامل کیا ہے۔
زاہدہ خاتون شیروانیہ بیسویں صدی کے ربع اوّل کی معروف شاعرہ تھیں۔ انھوں نے اپنی ذہانت اور تخلیقی صلاحیتوں کے باعث دنیاے ادب پر اپنے اثرات ثبت کیے۔ اکبر الٰہ آبادی اور علامہ اقبال جیسی شخصیات نے بھی ان کی خدمات کو سراہا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ دنیاے ادب نے زاہدہ خاتون شیروانیہ کو فراموش کردیا۔ خالد علیم صاحب نے انھیں دریافت کر کے اور بزمِ فانوس نے اسے شائع کر کے علم دوستی کا ثبوت دیا ہے۔
زاہدہ خاتون فکرِاقبال سے متاثر تھیں۔ ہم انھیں حالی، اکبر اور اقبال جیسے اکابر کا تسلسل کہہ سکتے ہیں۔ ان کی شاعری میں سوز و گداز اور اُمت مسلمہ کا درد واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔ وہ غلامیِ فرنگ اور اس پر قانع مسلمانوں سے نالاں نظر آتی ہیں۔ وہ خداے ذوالجلال کے حضور فریاد کرتی ہیں۔ اہلِ اسلام کو جھنجھوڑتی ہیں کہ وہ خوابِ غفلت سے بیدار ہوں۔
اپنے دور کی مقامی اور عالمی سیاسی صورت حال پر بھی ان کی گہری نظر تھی۔ انھوں نے تقسیم بنگال کی تنسیخ، جنگِ طرابلس، جنگ ِ بلقان، شہادتِ مسجد کان پور اور پہلی جنگ عظیم جیسے سانحات کو بنظر تعمق دیکھا، محسوس کیا اور ان پر اپنا شعری ردعمل ظاہر کیا۔
زاہدہ خاتون ۲۷سال اور دو ماہ کی عمر میں خالقِ حقیقی سے جاملیں۔ زندگی میں انھوں نے نہ صرف شاعر بلکہ اُمت مسلمہ کی راہنما کے طور پر بلند مقام حاصل کیا۔ اس مختصر مدت میں انھوں نے شاعری کا ایسا ذخیرہ چھوڑا جو اُردو کے بعض کہنہ مشق اور بزرگ شعرا کے مقابلے میں پیش کیا جاسکتا ہے، خصوصاً ملّی شاعری کے حوالے سے۔
خالد علیم خراجِ تحسین کے مستحق ہیں کہ انھوں نے محنت اور دیدہ ریزی سے اس کلیات کو مرتب کیا ہے۔ اسے الگ کتابی صورت میں بھی شائع کرنے کی ضرورت ہے۔(قاسم محمود احمد)
’مصر: انتخابی ڈراما‘ (جون ۲۰۱۴ء) میں عبدالغفار عزیز صاحب نے مصر کے حالیہ صدارتی انتخابات کی حقیقت کھول کر رکھ دی ہے۔ سیسی آمریت نے جس طرح اخوان کی اعلیٰ قیادت کو سزائیں سنائیں، بڑی تعداد میں کارکنوں کو جیل میں ڈالا، ہزاروں کو شہید کیا اور جس سوچے سمجھے منصوبے کے تحت امریکا نواز مصری فوجی قیادت نے اخوان کی منتخب حکومت پر شب خون مارا، ایسی سفاکیت کی کوئی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ پھر اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے انتخابات کا ڈھونگ رچایا۔ اس سب کے باوجود اخوان المسلمون کی قیادت اور کارکنان کے حوصلے پست نہیں ہوئے۔ انھوں نے اللہ کے بھروسے پر صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا کہ باطل تو مٹنے ہی کے لیے ہے اور حق کو بالآخر غالب آکر رہنا ہے۔
’رسائل و مسائل‘ (جون ۲۰۱۴ء) میں ایک بہن نے اپنے شوہر کی دوسری شادی کے حوالے سے سوال اُٹھایا تھا، جس کے جواب کی تفصیل سے یہ بات مترشح ہورہی ہے کہ گویا اسلام یک زوجگی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔اس حوالے سے قرآن کی آیت اور اصول لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا(البقرہ ۲:۲۸۶)سے استدلال بھی درست نہیں ہے، اس لیے کہ انسانی مزاج مختلف ہیں اور کسی شخص کے لیے تکلیف بما لایطاق کا فیصلہ کوئی دوسرا نہیں کرسکتا۔ جواب میں لکھا گیا ہے: ’’اس پس منظر میں سوال کے پہلے پہلو پر غور کیا جائے تو یوں نظر آتا ہے کہ سورئہ نساء میں چار کی حد تک اجازت کا سیاق و سباق عموم کا نہیں بلکہ حالت ِ اضطرار کے قریب تر ہے۔ چنانچہ اصلاً زور اس بات پر ہے کہ ایک کے ساتھ نکاح ہو اور اس کے ساتھ عدل کا رویہ اختیار کیا جائے۔ یہ عدل محض مادی معاملات میں نہیں کیا جاسکتا۔ اس میں نفسیاتی، دینی اور روحانی تعلق کے ساتھ تمام معاشرتی پہلوئوں سے عدل شامل ہے‘‘۔ (ص ۹۹)
جس آیت میں نکاح کے لیے آغاز مَثْنٰی سے کیا جا رہا ہے اس سے استدلال کرتے ہوئے یہ کہنا کہ چار کی اجازت حالت ِ اضطرار کے قریب تر ہے، یا پھر ’’اصلاً سارا زور اس پر ہے کہ ایک کے ساتھ نکاح ہو‘‘، یہ استدلال محل نظر ہے۔ درست بات یہ ہے کہ اسلام نہ تو یک زوجگی پر اصرار کرتا ہے اور نہ ایک سے زیادہ شادیوں ہی پر اصرار کرتا ہے بلکہ اسے مختلف مزاج، طبیعتوں اور عدل کرسکنے کی صورت پر چھوڑ دیا ہے۔
’اسلامی نظام: سیاسی ذرائع سے قیام ممکن ہے؟‘ (اپریل ، مئی ۲۰۱۴ء) بہت اہم ہے۔ یہ مضمون اُن لوگوں کی اُلجھنوں کو صاف کردے گا جو ملک میں ہونے والے انتخابات کے نتائج آنے کے بعد جماعت اسلامی کی اِس میدان میں کوششوںسے مایوس ہوکر نئے نئے طریقۂ انقلابات پر گفتگو کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ جمہوریت اور پارلیمانی نظام کے باطل ہونے کا پروپیگنڈا کرتے ہیں، لیکن جمہوریت سے ہٹ کر اس سے بہتر نظام کو مدلل طریقے سے پیش نہیں کرپاتے۔ یہ مضمون غوروفکر کا متقاضی ہے، نیز اسے عام کرنے کی ضرورت ہے۔
ماہِ جون کا شمارہ بہت پسند آیا۔ ’اشارات‘ ، ’عمرانی علوم: حقیقت ِ حال اور مستقبل‘، ’مغرب میں مسلم آبادی: اضافہ اور اثرات‘ اور اخباراُمت کے تحت ’مصر: انتخابی ڈراما‘___ تمام ہی مضامین بہت اچھے ہیں۔ تجویز ہے کہ ’رسائل و مسائل‘ کو کتابی شکل میں شائع کرنے کا سلسلہ تسلسل کے ساتھ جاری رکھا جائے۔
’اسلامی نظام: سیاسی ذرائع سے قیام ممکن ہے؟‘ (اپریل ، مئی ۲۰۱۴ء) کے تحت اہم نکات کو زیربحث لایا گیا ہے۔ تاہم سوال یہ رہ جاتا ہے کہ موجودہ پارلیمنٹ (جو مجلس شوریٰ کا مقام رکھتی ہے) میں ایسے افراد کیسے لائے جائیں جو اہل، امانت دار اور دین کا علم رکھنے والے ہوں؟ اس سلسلے میں دستور کی دفعات ۶۲-۶۳ کچھ حدود قائم کرتی ہیں لیکن ان کو بروے عمل لانے کے لیے جو قواعد و ضوابط ہونے چاہییں وہ منظرعام پر نہیں آئے۔ دستور کی ہردفعہ کے تحت تفصیلی ہدایات، قواعد و ضوابط نافذ ہوتے ہیں۔ ان قواعد و ضوابط کے نفاذ اور عام کرنے کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے۔ اہلِ علم و دانش اور ارباب اقتدار کو اس طرف خصوصی توجہ دینی چاہیے تاکہ پاکستان کو واقعتا اسلامی جمہوری ریاست کا عملی نمونہ بنایا جاسکے۔
ایک فی صد برسرِاقتدار طبقہ مغرب زدگی کے کوڑھ کواس ملک کی ۹۹ فی صد مسلم آبادی پر مسلط کردینے پر بضد ہے۔ حد یہ کہ راے عام کے دبائو کے تحت قراردادِ مقاصد میں اسلام کا کلمہ پڑھ لینے کے بعد ، پھر اس کے متوازی یہ روش بھی جاری رہی ہے کہ اخلاقی و معاشرتی لحاظ سے قوم کو اسلامی معیار سے اور زیادہ نیچے گرا دیا جائے۔ پھر مسودۂ دستور میں اسلام کے نمایاں اجتماعی تقاضوں کو صاف صاف لفظوں میں جذب کرلینے کے بعد بھی یہ الٹی مہم چلائی جارہی ہے کہ آرٹ اور کلچر اور ترقی کی اصطلاحات کے پردے میں عریانی اور فحاشی کا ایک ایسا طوفان اُٹھا دیا جائے جس کا پانی دستوری فیصلوں کے سر سے گزر جائے.....
اس موقعے پر جماعت اسلامی کی مجلسِ شوریٰ نے اپنی ایک قرارداد کے ذریعے اربابِ اقتدار کو بھی اس بارے میں متنبہ کیا ہے اور عوام کو بھی توجہ دلائی ہے۔ قراردادمنفی نوعیت کی نہیں، مثبت طور پر اسلامی ماحول بنانے کے لیے تعمیری تجاویز بھی سامنے لاتی ہے۔ اِن تجاویز میں ریڈیو اور سینما اور دوسری تفریحات کو اخلاق سوز سرگرمیوں سے ہٹاکر تعمیری مقاصد کے تابع کرنے، جائز تفریحات کے لیے شہروں اور قصبوں اور خاص طور پر نئی آبادیوں میں مناسب انتظامات کرنے، ملکی اور غیرملکی لٹریچر پر احتساب کی کڑی نگاہ جمائے رکھنے، مخلوط تعلیم کا سدِّباب کرنے، آرٹ اور کلچر کے نام سے ہونے والی سرگرمیوں میں وزرا اور سرکاری افسروں کے لیے حصہ لینے کی ممانعت کرنے اور زناکاری کے اڈّوں کا ملک بھر میں استیصال کرنے کے مطالبات پیش کیے گئے ہیں۔ یہ وہ مفاسد ہیں جنھوں نے ہردور میں انسانیت کی ترقی میں رکاوٹ ڈالی ہے اور جن کے مضر نتائج بار بار کے عالم گیر تجربوں سے نمایاں ہوچکے ہیں۔ خاص طور پر اسلامی نظامِ اخلاق ومعاشرت تو ان کے ہوتے ہوئے کسی درجے میں بھی پروان نہیں چڑھ سکتا۔ پس ہر معقول آدمی ان تجاویز کی اہمیت کو محسوس کرسکتا ہے۔ ان میں خطاب صرف حکومت ہی سے نہیں کیا گیا بلکہ عوام سے بھی دردمندانہ اپیل کی گئی ہے کہ وہ بھی اپنے آپ کو اور اپنے بھائیوں کے اخلاق کو بچانے کی سعی کریں۔ (’اشارات‘ ، نعیم صدیقی، ترجمان القرآن، جلد۴۲، عدد۴، شوال ۱۳۷۳ھ،جولائی ۱۹۵۴ء، ص۷-۸)