مضامین کی فہرست


جون ۲۰۱۸

ذرہ برابر عدل و انصاف اور رتی بھر انسانیت بھی باقی ہو تو ۱۴ مئی ۲۰۱۸ء سرزمین فلسطین پر غاصبانہ صہیونی قبضہ بے نقاب کرنے کے لیے کافی ہے۔ جب ایک ہی دن میں درجنوں لاشے تڑپا کر اور ہزاروں شہری زخمی کرتے ہوئے بیت المقدس پر اپنا قبضہ مستحکم کرنے کا پیغام دیا جارہا تھا۔ گذشتہ ۷۰برس سے اسی طرح ایک ایک قدم اُٹھاتے ہوئے فلسطین کی سرزمین ہڑپ اور قوم کو موت کے گھاٹ اُتارا جارہا ہے۔ فلسطین کی جگہ نام نہاد اسرائیلی ریاست کے قیام کی ۷۰ویں ’برسی‘ کے موقعےپر امریکی صدر نے ایک ارب ۷۰کروڑ مسلمانوں کے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہوئے اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کر دیا۔

اہل فلسطین اس منحوس اعلان کے بعد سے مسلسل سراپا احتجاج ہیں۔۳۰ مارچ سے انھوں نے مسیرۃ العودۃ (واپسی کا سفر) کی حالیہ تحریک شروع کردی۔ صہیونی افواج نے نہتے فلسطینیوں کے ان جلوسوں پر تباہ کن فائرنگ اور زہریلی گیسوں کی بارش کر دی۔ صرف گذشتہ دو ماہ میں ۲۰۰سے زائد بے گناہ فلسطینی شہری شہید اور ۱۰ ہزار سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔ لیکن صدآفرین کہ  اہلِ فلسطین کی ’واپسی کا سفر‘ جاری ہے۔ مسلسل جنازے بھی اُٹھ رہے ہیں۔ خوف زدہ ہونے کے بجاے وہ جنازوں کو بڑے جلوسوں میں بدل دیتے ہیں۔ اللہ اکبر اور لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔ پسندیدہ ترین نعرہ یہ ہوتا ہے: عَلْقُدْس رَایحِین، شُہَدَاء بِالْمَلَایِینِ ہم القدس جارہے ہیں خواہ لاکھوں شہید ہوجائیں اور: لَااِلٰہَ اِلَّا اللہ ، الشہید حبیب اللہ۔ یہ صرف نعرے نہیں دنیا کے سامنے یہ حقیقت بیان کی جارہی ہے کہ گھر کا مالک کوئی اور ہے۔ قتل و غارت، غنڈا گردی اور امریکی سرپرستی میں کوئی دوسرا اس پر قبضہ جمانے کی ناکام کوشش کررہا ہے۔

  • فلسطین کے خلاف صہیونی سازشیں: سرزمین مسجد اقصیٰ پر تسلط کی یہ کوششیں ۷۰سال سے ہی نہیں، ۱۲۱سال پہلے سے جاری ہیں۔ ۲۹؍اگست ۱۸۹۷ء کو سوئٹزر لینڈ کے شہر بازل (Basel ) میں اس مکروہ منصوبے کا باقاعدہ اعلان کیا گیاتھا۔ کانفرنس کے اعلامیے میں کہا گیا تھا: ’’صہیونیت کا ہدف سرزمین فلسطین پر یہودی قوم کا علانیہ و قانونی قیام ہے‘‘۔اس صہیونی تحریک کا بانی اور یہودی ریاست کا اعلان کرنے والا آسٹریا کا ایک یہودی رہنما تھیوڈ ورڈ ہرٹزل تھا۔ اس کانفرنس میں چار اقدامات کا اعلان کیا گیا:

                ۱-            دنیا بھر کے یہودیوں کو فلسطین کی طرف ہجرت کا قائل اور ضرورت پڑنے پر مجبور کیا جائے۔

                ۲-            دنیا کے تمام یہودیوں کو مختلف مقامی اور عالمی تنظیموں کے تحت متحد اور منظم کیا جائے۔

                ۳-            یہودیوں کے دل میں اپنی قومیت اور وطنیت کے جذبات اُجاگر کیے جائیں۔

                ۴-            اس صہیونی ہدف کے لیے ہر ممکن عالمی تائید و سرپرستی حاصل کی جائے۔

واضح رہے کہ اس کانفرنس کا انعقاد بنیادی طور پر جرمنی کے شہر میونخ میں ہونا طے پایا تھا۔ وہاں بہت مؤثر اور متمول یہودی آبادی مقیم تھی۔ لیکن خود اس یہودی آبادی نے ہی وہاں کانفرنس کا انعقاد مسترد کردیا۔ بالآخر جرمنی اور سوئٹزرلینڈ کی حدود پر واقع شہر میں یہ پہلی کانفرنس ہوئی۔ کانفرنس سے پہلے اور بعد میں کئی مواقع پر یہ تجویز بھی زیربحث آئی کہ مجوزہ صہیونی ریاست ارجنٹائن یا یوگنڈا میں قائم کی جائے۔ ایک موقعے پر یہ برطانوی پیش کش بھی سامنے آئی کہ وہ یوگنڈا میں اپنے زیرتسلط ۹ہزار مربع کلومیٹررقبہ اس ریاست کے لیے دینے کو تیار ہے۔ لیکن یہ تمام تجاویز مسترد کردی گئیں کہ فلسطین کے علاوہ کسی بھی جگہ یہودیوں کو اکٹھا کرنے کے لیے مذہبی بنیاد نہ ملتی تھی۔ دنیا کے مختلف ممالک میں مسلسل کانفرنسوں کے انعقاد، چار نکاتی ایجنڈے پر تیزی سے عمل درآمد اور برطانوی، فرانسیسی اور پھر کامل امریکی سرپرستی کے نتیجے میں ۱۴ مئی ۱۹۴۸ء کو اُمت مسلمہ کے قلب میں اس صہیونی ریاست کا مسموم خنجر گھونپ دیا گیا۔ وہ دن اور آج کا دن لاکھوں فلسطینی عوام مختلف کیمپوں میں یا بے مروت معاشروں اور ملکوں میں مہاجرت کی خاک چھان رہے ہیں۔ سرزمینِ فلسطین پر ہزاروں سال سے بسنے والے اصل باشندے دہشت گرد اور انھیں مسلسل شہید و زخمی یا بے گھر کرنے والے قاتل اور مالک قرار دیے جارہے ہیں۔

سرزمین فلسطین پر قبضے کی اس داستان الم میں سب سے زیادہ حساس اور اہم حیثیت مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کی ہے۔ تقریباً سواسو سال پر محیط اس پورے عرصے میں جتنے بھی عالمی منصوبے، تقسیم کے فارمولے اور صلح کے معاہدے ہوئے، ان تمام معاہدوں اور نقشوں میں بیت المقدس کو مستثنیٰ قرار دیا جاتا رہا۔ ہمیشہ یہی کہا گیا کہ اس کا فیصلہ بعد میں کیا جائے گا۔ صہیونیت کے علَم بردار اور ان کے سرپرست جانتے ہیں کہ اپنے نبی کے قبلۂ اول کا مسئلہ پوری اُمت مسلمہ کے لیے کیا مقام رکھتا ہے۔ اگرچہ عملاً تو اس وقت بھی پورا بیت المقدس صہیونی افواج کے نرغے میں ہے۔ وہاں ہزاروں جدید ترین یہودی بستیاں تعمیر کرکے لاکھوں یہودیوں کو آباد کیا جاچکا ہے۔ مزید بستیوں کی تعمیر کا کام بھی تیزی سے جاری ہے، لیکن آج بھی تمام عالمی قوانین، اقوام متحدہ کے ضابطوں اور عالمی طاقتوں کے اعلانات کے مطابق یہ بستیاں غیر قانونی ہیں۔

اپنے مزاج، کردار، بیانات اور اقدامات کی وجہ سے متنازعے ترین امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ یہ سرخ لکیر بھی عبور کرچکے ہیں۔ ان کا یہودی داماد جیرڈ کشنر اور اس سے شادی کی خاطر عیسائیت چھوڑ کر یہودیت اختیار کرنے والی بیٹی ایوانکا ٹرمپ ان اقدامات کے نفاذ میں پیش پیش ہیں۔ وہ براہِ راست صہیونی رہنماؤں سے ہدایات لیتے او رعلانیہ ان کا اظہار و اقرار کرتے ہیں۔ اس پورے منصوبے میں وہی مختلف ممالک کے دورے اور مختلف حکمرانوں کے ساتھ ساز باز کررہے ہیں۔ ۱۴؍اگست کو بیت المقدس میں امریکی سفارت خانے کا افتتاح بھی انھوں نے اور ان کے ہمراہ آنے والے ۵۵؍امریکی سرکاری ذمہ داران نے کیا۔ یہ امر یقینا اتفاقیہ نہیں کہ اس اعلیٰ سطحی امریکی وفد کے سب ارکان یہودی تھے۔ امریکی سفارت خانے کی بیت المقدس منتقلی سے بظاہر کوئی بڑی تبدیلی واقع نہیں ہوئی کہ وہاں امریکی قونصل خانہ پہلے بھی کام کررہا تھا۔ اسی عمارت پر اب سفارت خانے کی تختی اور پرچم لگا دیا گیا ہے۔ شہر میں جابجا امریکی سفارت خانے کی راہ دکھانے والے بورڈ لگا دیے گئے ہیں اور بس۔ لیکن اگر اس اقدام کا اصل ہدف اور اہمیت جاننا ہو تو وہ قدآدم تصویر ملاحظہ فرمالیجیے، جو سفارت خانہ قائم ہونے کے ۹روز بعد ۲۳مئی کو بعض یہودی تنظیموں کی طرف سے اسرائیل میں امریکی سفیر ڈیوڈ فرائڈ مین (جو خود بھی یہودی ہے) کو پیش کی گئی ہے۔ ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سنیے کہ قہقہوں کے شور میں وصول کی جانے والی اس تصویر میں کہیں مسجد اقصیٰ کا نام و نشان تک نہیں ہے۔ مسجد اقصیٰ کی جگہ نام نہاد یہودی ہیکل سلیمانی کی شان دار عمارت دکھائی گئی ہے۔ یہی وہ اصل خدشہ ہے جو اہل فلسطین اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر واقفِ حال اُمتی کے لیے سوہانِ رُوح بنا ہوا ہے۔

  •  نیا صہیونی منصوبہ:ٹرمپ حکومت کا جنونی پن صرف سفارت خانے کی منتقلی اور مسجداقصیٰ کی جگہ یہودی ہیکل کی تعمیر تک محدود نہیں ہے۔ خود صہیونی ذرائع ابلاغ کے مطابق اگر کوئی انہونی نہ ہوئی تووہ بہت جلد ایک اور تہلکہ خیز اعلان کرنے والے ہیں۔ اس اعلان کو ایک بار پھر امن مذاکرات اور امن معاہدے کا نام دیا جائے گا۔ ’صدی کے سودے‘ (Deal of the Century) منصوبے کے مطابق فلسطینیوں کو ان مذاکرات کی دعوت تو دی جائے گی، لیکن وہ مانیں یا نہ مانیں دونوں صورتوں میں امریکا خود ہی اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کرتے ہوئے، ایک منصوبہ پیش کردے گا اور کہا جائے گا کہ مسئلہ فلسطین حتمی طور پر اور ہمیشہ کے لیے حل کر دیا گیا ہے۔

معروف اسرائیلی ویب سائٹ ’i24 ‘ نے صہیونی خفیہ اداروں کے حوالے سے اس    ’جامع حل‘ کے جو خدوخال بتائے ہیں، ان کے مطابق فلسطینیوں کے لیے محدود اختیارات کی حامل  ایک فلسطینی ریاست کے قیام کا اعلان کیا جائے گا ۔اسرائیل اس فلسطینی ریاست کے امن و امان کا ذمہ دار ہوگا۔ بیت المقدس شہر کے کچھ عرب علاقے فلسطینی ریاست کا حصہ ہوں گے، لیکن پرانا شہر (یعنی حرم اقصیٰ کا علاقہ) ’اسرائیلی بیت المقدس‘ کا حصہ ہوگا۔ فلسطینی ریاست کا دارالحکومت (مسجد اقصیٰ سے دو کلومیٹر دور) ابودیس نامی علاقہ ہوگا۔ غزہ کو بتدریج اس فلسطینی ریاست کا حصہ بنایا جائے گا بشرطیکہ حماس اپنا اسلحہ (بالخصوص میزائل) حکومت کے حوالے کردے۔ ان اسرائیلی ذرائع کے مطابق اس حتمی حل میں فلسطین سے بے گھر کرکے اپنے ملک سے نکال دیے جانے والے فلسطینیوں کی واپسی کی سرے سے کوئی بات ہی نہیں کی جائے گی۔واضح رہے کہ معروف فلسطینی ’مرکزِدانش‘ (Think Tank) الزیتونہ کے مطابق اس وقت فلسطینیوں کی کُل آبادی ۱۲ء۷ملین (ایک کروڑ ۲۷ لاکھ)، ہے جن میں سے ۸ء۴۹ ملین (۸۴ لاکھ ۹۰ ہزار) مختلف ممالک میں پناہ گزین کی حیثیت سے جی رہے ہیں۔ یہ کسی بھی ملک کے پناہ گزینوں کا سب سے زیادہ تناسب ہے، یعنی ۶۶ء۸ فی صد۔ دنیا کا کوئی باضمیر انسان بتائے یہ کیسا منصفانہ حل ہے کہ جس میں لاکھوں انسانوں اور ان کی نسلوں سے ان کی شناخت ہمیشہ کے لیے چھین لی جائے!

ایک سے زیادہ ذرائع سے جاری کیے جانے والے اس منصوبے پر پہلی نظر ہی یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ یہ سابقہ نام نہاد امن منصوبوں ہی کا چربہ ہے۔ ایسے ہر منصوبے، معاہدے اور اعلان کے بعد اہل فلسطین پر ظلم کے مزید پہاڑ توڑے گئے۔ اسرائیلی مظالم کے ساتھ ساتھ خود  اہلِ فلسطین کو تقسیم کرتے ہوئے، انھیں ایک دوسرے کے مقابل لاکھڑا کیا گیا۔ مسلم عوام کو یہ دھوکا دیا گیا کہ خود فلسطینیوں نے اسے تسلیم کرلیا ہے تو ہم اسرائیل کو کیوں تسلیم نہیں کرتے؟

  •  عالمِ اسلام کی صورتِ حال:غور طلب امر یہ ہے کہ آخر اب کیا ایسی نئی بات ہوگئی کہ جو وعدے اور دعوے پہلے سراب ثابت ہوچکے ہیں، وہ اب حقیقت بن جائیں گے؟ مختصر جائزہ لیں تو اس ضمن میں صہیونی ریاست اور ٹرمپ حکومت کو سب سے بڑی کامیابی یہ ملی ہے کہ وہ   عالمِ اسلام میں بڑی نقب لگانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ ایسے کئی اہم ممالک کہ جن سے اہلِ فلسطین اور عالمِ اسلام کی اُمیدیں وابستہ ہوسکتی تھیں، اب (صہیونی و امریکی دعوے کے مطابق) ان کے ہم نوا بن چکے ہیں۔ کئی مسلمان ذمہ داران حکومت کے بارے میں افواہیں ہیں کہ وہ صہیونی ریاست کے خفیہ دورے کرچکے ہیں۔ اللہ کرے کہ یہ افواہیں غلط اور محض صہیونی پروپیگنڈا ہو، لیکن سب کو دکھائی دینے والے کئی دیگر امور بھی بہت سنگین ہیں۔ اس وقت کئی مسلم ممالک کے ذرائع ابلاغ میں اسرائیل کی وکالت و دفاع کے لیے جاری ابلاغی مہمات عروج پر ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ آزادی اقصیٰ کے لیے سب سے زیادہ قربانیاں دینے والی فلسطینی تحریکات کے خلاف انتہائی زہریلا پراپیگنڈا بھی خوب جاری ہے۔ اسرائیلی ذمہ داران مختلف مسلم ممالک کے خفیہ و علانیہ دورے کررہے ہیں۔ اسرائیل میں ہونے والی مختلف ثقافتی، سیاسی اور تجارتی اہم سرگرمیوں میں، کئی مسلم ممالک کے وفود اور ٹیمیں کھلم کھلا اور اپنے نام و پر چم اُٹھاکر شریک ہونے لگے ہیں۔

ان سب اُمور سے زیادہ پریشان کن امر یہ ہے کہ کئی مسلم ممالک اور مسلم عوام کو ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنادیا گیا ہے۔ شام میں لاکھوں بے گناہوں کی شہادت اور پورے ملک کی تباہی، اور اسے عملاً پانچ ٹکڑیوں میں تقسیم کردینے کے بعد وہاں مزید قتل و غارت جاری ہے۔ مصر میں داروگیر اور بے گناہوں کو سزائیں دینے کا سلسلہ عروج پر ہے۔ پورا ملک ایک جیل خانے میں بدلا جاچکا اور معاشی لحاظ سے بدترین تباہ حالی کا شکار کردیا گیا ہے۔ ہزاروں نہیں لاکھوں مصری شہری یا تو زیر زمین رہنے پر مجبور ہیں یا ملک چھوڑ چکے ہیں۔ یمن میں باغی حوثی قبائل کے ساتھ جاری جنگ ایک خوف ناک دلدل میں تبدیل ہوچکی ہے۔ آئے دن سعودی عرب کے مختلف شہروں پر بھی میزائلوں سے حملے کیے جارہے ہیں۔ یمن کے کئی تاریخی علاقوں کو ملک سے کاٹ کر مختلف طاقتوں کی جانب سے ان پر قبضے کی کاوشیں ہورہی ہیں۔ عراق تباہ حال ہے اور لیبیا میں قتل و غارت سنگین تر ہے۔ چار عرب ممالک کی قطر سے قطع تعلقی اور حصار کا ایک سال مکمل ہوگیا ہے اور ایک دوسرے کے خلاف بیانات و دشنام طرازی اب عوام اور قبائل کی حد تک سرایت کر چکی ہے۔ جو ممالک   اب تک جنگ و جدال اور خوں ریزی سے بچے ہوئے ہیں، وہاں بھی سیاسی اختلافات، مختلف لسانی، قومی اور علاقائی تعصبات کی آنچ تیزی سے بھڑکائی جارہی ہے کہ ان ممالک کی حکومتوں اور عوام کو ان داخلی معرکوں سے اٹھ کر قومی وملّی اُمور پر توجہ دینے کی فرصت ہی نہ ملے۔

یہی وہ منظرنامہ ہے جو صہیونی ریاست اور اس کی سرپرست عالمی طاقتوں کے لیے مثالی حیثیت رکھتا ہے۔ جس طرح گاہے گاہے پاکستان میں یہ شوشے چھوڑے جاتے ہیں کہ ہمارا دشمن تو ہندستان ہے، اس سے مقابلے اور اپنی مشکلات کے حل اور عالمی حمایت میں اضافے کے لیے اسرائیل کی خدمات سے استفادہ کرنا چاہیے۔ اسی طرح عرب ممالک اور ایران کو ایک دوسرے کے خلاف مشتعل اور خوف زدہ کرتے ہوئے اسرائیل سے پیار کی پینگیں بڑھانے کی بات کی جاتی ہے۔ خود صہیونی ریاست بھی مختلف ممالک اور ان کے حکمرانوں کو یہی خواب بیچ رہی ہے۔

  •  اہلِ فلسطین کا عزم: اس گمبھیر اور تاریک صورتِ حال کے باوجود سرزمین اقصیٰ سے کئی حوصلہ افزا پیغامات آرہے ہیں۔ سب سے اہم پیغام تو یہی ہے کہ صہیونی افواج کی جانب سے اندھا دھند فائرنگ اور ایسی زہریلی گیسوں کے استعمال کے باوجود کہ جو جسم میں اترتے ہی اپنے ہدف کو ایک تڑپتی لاش میں بدل دیتی ہیں، فلسطینی نوجوان ہی نہیں خواتین اور بچے بھی مکمل سرفروشی سے ڈٹے ہوئے ہیں۔ اس ضمن میں بالخصوص اہل غزہ ایک بار پھر نئی تاریخ رقم کررہے ہیں۔ دنیا کو تو شاید یہ یاد ہی نہیں رہا تھا کہ غزہ کے ۲۰لاکھ انسان گذشتہ ۱۲ سال سے چاروں اطراف سے محصورایک بڑے قیدخانے میں بند ہیں۔ غزہ کی پٹی کو ایک ایسی جیل میں بدل دیا گیا ہے کہ  جس میں اب تک سیکڑوں مریض تڑپ تڑپ کر جان دے چکے ہیں۔ انھیں علاج کے لیے برادر پڑوسی ملک مصر بھی آنے کی اجازت نہیں دے رہا۔ سامان خوردونوش، توانائی کا کوئی بنیادی وسیلہ (تیل، گیس، ایندھن)، ناگزیر تعمیراتی سامان، کسی بھی طرح کے ضروری سپیئر پارٹس سمیت زندگی کی کسی بھی بنیادی ضروریات غزہ کے اندر لے جانے کی تمام راہیں مکمل مسدود ہیں۔

اس خوف ناک صہیونی اور مصری حصار کے علاوہ خود فلسطینی اتھارٹی اور اس کے صدر محمود عباس کی جانب سے بھی غزہ کا مکمل بائیکاٹ ہے۔ ۲۰۰۶ء میں حماس کی قائم ہونے والی حکومت ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ وہ پورا کردیا گیا تو اپنے مقرر کردہ وزیراعظم عبداللہ کو وہاں نہیں بھیجا گیا۔ ایک روز اچانک ان کی آمد کا اعلان کیا گیااور راستے ہی میں ان پر قاتلانہ حملے کا ڈراما رچاکر واپس بلالیا گیا۔ اس پورے عرصے میں کئی سال سے ۲۰لاکھ انسانوں پر مشتمل اس آبادی کے کسی سرکاری ملازم کو تنخواہ نہیں دی گئی۔ شرط یہ لگائی جارہی ہے کہ وہ حماس کا ساتھ چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے غزہ کے اندر بغاوت کردیں۔ حماس سے بھی ان کا بنیادی مطالبہ یہی ہے کہ اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے لیے جو ہتھیار بھی آپ لوگوں نے تیار یا فراہم کیے ہیں، وہ فوراً ہمارے حوالے کیے جائیں… پتھروں اور غلیلوں سے مزاحمت شروع کرنے والوں نے اللہ کی توفیق سے اور سرفروشی کی نئی مثال قائم کرتے اور وَ اَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ  پر عمل پیرا ہوتے ہوئے جو تھوڑی بہت قوت فراہم کی ہے، بجاے اس کے کہ اس میں اضافے کی فکر کی جاتی، اسے تباہ کرنے کی بات کی جارہی ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کے اس مطالبے اور صہیونی ریاست کے مطالبات میں آخر کیا فرق باقی رہ جاتا ہے۔

صہیونی دشمن کی کارروائیوں کا دائرہ صرف فلسطین تک ہی محدود نہیں رہا۔ حالیہ تحریک کے دوران انھوںنے ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں ایک نوجوان فلسطینی پروفیسر فادی البطش کو نماز فجر کے لیے جاتے ہوئے شہید کردیا۔ موساد نے اس کی شہادت کی ذمہ داری بھی قبول کرلی۔ فادی کا گناہ صرف یہ تھا کہ وہ فلسطینی اور تحریک حماس کا رکن تھا، ساتھ ہی ایک ہونہار و کامیاب سائنس دان بھی۔ اس کی کئی ایجادات عالمی سطح پر رجسٹرد کی جاچکی ہیں۔ موساد کا کہنا ہے کہ وہ   اہلِ غزہ کے میزائل پروگرام کو مزید بہتر بنانے میں معاونت کررہا تھا۔ اس سے پہلے اسی طرح تیونس کے ایک نوجوان محمدالزواوی کو اس کے گاؤں جاکر شہید کردیا گیا۔ اس کا گناہ بھی یہ بتایا گیا کہ وہ اہلِ غزہ کو ڈرون ٹکنالوجی فراہم کررہا تھا۔

صہیونی دشمنوں کی سفاکی اور اپنوں کی نادانی و مخالفت کے باوجود اہل غزہ کے پاے استقامت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ ۳۰ مارچ سے شروع ہونے والے ’واپسی کے سفر‘ کا بنیادی مرکز بھی غزہ ہے۔ فلسطین پر قابض صہیونی افواج نے ۴۰کلومیٹر لمبی آہنی باڑھ کھڑی کرتے ہوئے، اس کے ساتھ ٹینکوں اور جدید اسلحے کے ڈھیر لگا رکھے ہیں۔ دوسری جانب نہتے فلسطینی عوام ہیں، جو دشمن کی فائرنگ اور زہریلی گیسوں سے بچنے کے لیے ٹائر جلا کر اور غلیلوں کے ذریعے ان کا مقابلہ کررہے ہیں۔ دو ماہ سے جاری اس تحریک کے دوران سیکڑوں ایمان افروز واقعات رونما رہورہے ہیں۔ شدید آنسو گیس سے بچنے کے لیے سات سال کے ایک بچے نے انوکھی تدبیر اختیار کی۔ اس نے ناک اور سرپر کپڑا لپیٹتے ہوئے ناک کے سامنے ایک پیاز باندھ لیا۔ کہیں سے سن رکھا تھا کہ پیاز سے زہریلی گیس کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ لمبی ڈنٹھل والی سبز پیاز باندھ کر، یہودی فوجیوں کے عین سامنے جابیٹھنے والا  یہ بچہ صحافیوں کی نگاہ میں بھی آگیا۔ انھوں نے بعد میں اس سے پوچھا: ’’آپ کو ڈر نہیں لگ رہا تھا؟‘‘ بچے کی آنکھوں میں ایک عجیب روشنی چمکی۔ بلاتوقف فوراً بولا: ’’میں نہیں وہ فوجی خوف زدہ تھے۔ میں کیوں ڈرتا میں تو اپنی سرزمین پر کھڑا تھا۔ وہ غاصب ہیں اس لیے ڈر بھی رہے تھے‘‘۔

  •  عالمی ردعمل اور مستقبل:ٹرمپ انتظامیہ کے ان اقدامات کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے سفارتی محاذ پر بھی اہل فلسطین کی مدد کی ہے۔ گذشتہ دسمبر میں ٹرمپ سفارت خانہ بیت المقدس   منتقل کرنے کا اعلان کیا گیا تو اقوام متحدہ میں ۱۲۸ ممالک نے اس فیصلے کی مخالفت کی۔ مخالفت کرنے والوں میں ہندستان جیسے ان ممالک کو بھی شریک ہونا پڑا جو صہیونی ریاست کے ہرظلم اور ہرفیصلے میں اس کا ساتھ دیتے ہیں۔ صرف ۹ ممالک نے اعلان ٹرمپ کی حمایت کی،جو تقریباً سب کے سب غیر معروف ممالک ہیں۔ امریکا نے اس عالمی مخالفت کے باوجود بھی سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کردیا، تو اس وقت بھی تقریباً تمام بڑی اور اہم عالمی طاقتوں نے اس تقریب میں شرکت اور تائید کرنے سے انکار کردیا۔ ریاستی سطح کے علاوہ دنیا بھر کے انصاف پسند عوام نے بھی اس فیصلے کی مخالفت کی۔ برطانیہ میں ہونے والے ایک مظاہرے میں ایک معمر سفید فام برطانوی خاتون اپنی بچی کے ساتھ کتبہ اُٹھائے کھڑی تھی: ’’مظلوم فلسطینیوں کا ساتھ دینے کے لیے مسلمان ہونا نہیں، انسان ہونا ضروری ہے‘‘۔

خوش قسمتی سے اس وقت مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی کی سربراہی ترکی کے پاس ہے۔ صدر طیب ایردوان نے ٹرمپ کے اعلان دسمبر اور اب مئی میں اس پر عملی اقدام کے فوراً بعد مسلم ممالک کا سربراہی اجلاس بلایا۔ پانچ ماہ کے مختصر عرصے میں ہونے والے دو سربراہی اجلاسوں نے بھی بیک آواز ٹرمپ پالیسی کو مسترد کرنے کا اعلان کیا۔ مسلم ممالک نے اقوام متحدہ سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ مظلوم فلسطینی عوام کی جان و مال کا تحفظ کرنے کے لیے وہاں حفاظتی افواج بھیجے۔   اختتامی اعلامیے میں واضح طور پر کہا گیا کہ: ’’فلسطین پر قابض صہیونی افواج ان تمام وحشیانہ جرائم کا ارتکاب امریکی حکومت کی پشت پناہی سے کررہی ہے۔ امریکا نے اسرائیل کو سیکورٹی کونسل میں بھی جواب دہی سے بچایا اور اپنا سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کرتے ہوئے فلسطینی شہریوں کے خلاف اسرائیلی حکومت کی غنڈا گردی کی حوصلہ افزائی کی‘‘۔

یہ درست ہے کہ اس اہم کانفرنس میں مذمت اور غم و غصّے کے اظہار کے علاوہ امریکی حکومت سمیت سب شریک جرم طاقتوں کے خلاف کوئی جرأت مندانہ اقدام کرنے کی ضرورت تھی،    لیکن ظاہر ہے کہ یہ فیصلہ صرف ترکی یا مزید ایک آدھ ملک نے نہیں اجتماعی طور پر ہی کیا جانا تھا۔ مسلم حکومتوں کے رویے کااندازہ اسی بات سے لگا لیجیے کہ قبلۂ اول جیسی مقدس امانت خطرے میں ہے اور اس کے لیے بلائی گئی یک نکاتی کانفرنس میں ۵۷میں سے ۴۰ ملک شریک ہوئے، جن میں سے صرف ۱۳ سربراہان تھے، جب کہ تین نائب سربراہان تھے۔ ۱۲ممالک کی نمایندگی ان کے وزراے خارجہ نے کی اور گیارہ کی مزید کم درجے کے نمایندوں نے۔ یہی نہیں امریکا اور اسرائیل کے ان اقدامات کے خلاف مضبوط موقف اختیار کرنے والے ملک ترکی کے بارے میں منفی پروپیگنڈا مہم شروع کردی گئی۔ کہا گیا کہ ترکی منافقت کررہا ہے: ایک طرف یہ بیان بازی، کانفرنسیں اور بڑے عوامی پروگرام کررہا ہے اور دوسری طرف اسرائیل کے ساتھ تعلقات رکھے ہوئے ہے۔ اسے تیل اور سامانِ تجارت کی فراہمی جاری رکھے ہوئے ہے۔

یہ اعتراض یقینا حقیقت پر مبنی ہے۔ ترکی میں مصطفےٰ کمال پاشا کے وارثوں نے باقی سب مسلم ممالک سے پہلے ۱۹۴۹ء ہی میں اسرائیل کو تسلیم کرلیاتھا۔ تب سے اب تک دونوں ممالک کے مابین تجارت و تعاون کے کئی راستے کھلے ہیں۔ لیکن یہ بھی واضح حقیقت ہے کہ طیب ایردوان حکومت کے دوران یہ دو طرفہ تعلقات اپنی بدترین صورت تک جاپہنچے۔ ۲۰۱۰ءمیں ترک سفینے ’مرمرہ‘ کے ذریعے غزہ کا محاصرہ توڑنے کی کوشش کے دوران کئی ترک شہری شہید کردیے گئے۔  تین سال تک تعلقات منقطع رہے۔ بالآخر اسرائیل کو معذرت کرتے ہوئے تمام شہدا کی کامل دیت اور جرمانہ ادا کرنا پڑا۔ حالیہ امریکی اقدامات اور اسرائیلی افواج کے ذریعے قتل عام کے بعد بھی ترکی نے اسرائیلی سفیر کو تمام تر سفارتی حقوق سے محروم کرکے ذلت کے ساتھ ملک بدر کردیا۔   یقینا ترکی کو اس سے بھی زیادہ اقدامات کرنا چاہییں، لیکن آپ ذرا کئی دیگر مسلم حکمرانوں سے موازنہ کرکے دیکھیے۔ ایک طرف ترکی ہے، جس کی حکومت تمام تر اندرونی و بیرونی خطرات کے باوجود، اسرائیل سے دُوری اور لمحہ بہ لمحہ تعلقات ختم کرنے کی جانب آگے بڑھ رہی ہے، اور دوسری طرف  کئی مسلم حکمران ہیں کہ صرف لیلاے اقتدار ملنے کے لالچ میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی جانب دوڑے چلے جارہے ہیں۔

اُمت مسلمہ کے ہرفرد کو یہ حقیقت ہمیشہ یاد رکھنا ہوگی کہ فلسطین اور عالمِ اسلام میں وقوع پذیر حالیہ تمام تبدیلیوں کا اصل ہدف وسیع تر اسرائیلی ریاست کا قیام ہے۔ جس کی سرحدیں دریاے فرات سے لے کر دریاے نیل تک اور جنوب میں (خاکم بدہن) مدینہ منورہ تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اگر  ساقی کوثر صلی اللہ علیہ وسلم کے دست ِ مبارک سے جامِ کوثر حاصل کرنے کی تمنا حقیقی اور سچی ہے تو یہ سچائی عمل سے ثابت کرنا ہوگی۔ ایسے حکمران منتخب کرنا ہوںگے اور ان حکمرانوں کو ایسے اقدامات کرنا ہوں گے کہ جو قبلۂ اوّل کے بارے میں ہرسودے بازی اور منصوبے کو مسترد کر دیں۔ ربِ ذوالجلال کا اعلان، دعوتِ عمل دیتے ہوئے حوصلہ افزائی کر رہا ہے:

اِنْ تَنْصُرُوا اللہَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ اَقْدَامَكُمْ۝ (محمد۴۷:۷) اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمھاری مدد کرے گا اور تمھارے قدم مضبوط جما دے گا۔

ترجمہ: خلیل احمد حامدی

سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم جس روز دینِ حق کا پیغام لے کر دُنیا میں تشریف لائے ہیں، وہ روز دُنیا کے اندر نئی روشنی کے ظہور کا روز تھا۔ اسی نئی روشنی کی برکت تھی کہ اس نے انسان کو وہ عقیدہ اور تصوّردیا، جوسراسر مکارمِ اخلاق اور فضائل و محاسن کا مجموعہ تھا اور تسامح، رواداری اور رذائل سے اجتناب کی دعوت تھی۔ اس عطیے نے انسانیت کے وجود کو افراط و تفریط کے گرداب سے نکال کر اعتدال پر فائز کیا۔ عورت کو جو انسانی معاشرے میں انتہائی پستی کے مقام پر گرچکی تھی، عزت و تکریم کے اعلیٰ مراتب سے ہم کنار کیا۔ جمہوری رویے کو رواج دے کر حقوقِ انسانی کی حدبندی کردی، جو اس سنہری اصول پر قائم تھی کہ کسی عربی کو عجمی پر اور کسی سفیدفام کو کوئی امتیازی حیثیت حاصل نہیں ہے۔ اولادِ آدم باہم ہاتھ کی انگلیوں کی طرح ہیں۔

اسلام کے ظہور نے دُنیا میں ایک نئے تمدن اور ایک نئی تہذیب کو جنم دیا۔ دُنیا کا    فرسودہ نظام بدل کر رکھ دیا۔ دُنیا کے اندر بہ اندازِ نو نظم و نسق قائم کیا۔ دستورِ زندگی کی طرح ڈالی۔ انسانوں کے اندر ایک ایسی روح پھونک دی، جس نے فرد اور جماعت کے درمیان اُلفت و محبت، اخوت و تعاون کے جذبِ مقناطیسی کو نشوونما بخشی۔ شوریٰ فی الامر پر مملکت کی بنیادیں استوار کیں اور دین میں جبر، زور اور زبردستی کی کوئی گنجایش نہ رکھی۔ ’’تمھارے لیے تمھارا دین اور میرے لیے میرا دین‘‘ کہہ کر گویا اس بات کا اعلان کر دیا کہ اسلام کی اطاعت کا قلاوہ گلے میں ڈالنے کے لیے ہرانسان کو اختیار اور آزادی حاصل ہے۔ کسی شخص کو اس لیے نفرت کی نگاہ سے نہیں دیکھا کہ وہ کافر ہے،  البتہ اس کے کفر کو دُور کرنے کے لیے ہمدردانہ دعوت کے لیے تڑپ اور رہنمائی عطا کی۔ اسی طرح اہلِ کتاب کی طرف سے روا رکھے جانے والے ظلم و زیادتی کے باوجود ان کے ساتھ اَزدواجی تعلقات استوار کرنے کی بھی اجازت دے دی۔الغرض اس طرح کے دوسرے اصول اس امر کا ثبوت بہم پہنچاتے ہیں کہ اسلام روادارانہ نظریات کا حامل ہے اور ایک ایسے جہانِ نَو کی ایجاد اُس کے پیش نظر ہے، جو بُغض و عداوت کی آلودگیوں سے مبرا اور تعصب و تنگ نظری کے جذبات سے پاک ہو اور نوعِ انسانی کے لیے امن و سلامتی کا گہوارہ ثابت ہوسکے۔

اس مبارک گھڑی میں جس چیز کا بار بار جائزہ لینے کی ضرورت ہے، وہ آقاے نام دار صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ اور آپؐ کے محامد و فضائل ہیں۔ یہ معلوم کیا جائے کہ دعوتِ دین کو پھیلانے میں آپؐ نے کس طرح اَن تھک کوششیں کیں۔ گھربار کو خیرباد کہہ کر کس طرح سفروغربت کی صعوبتوں سے دوچار رہے۔ دشمن جنگ و جدال پر اُتر آئے تو اُن کے سامنے سینہ سپر ہوگئے۔   قوم کی طرف سے ایذائیں دی گئیں تو صبروشکیب کے ساتھ انھیں سہا۔ یہ تمام واقعات آپؐ کے فضائلِ حسنہ اور اعلیٰ کردار کی شہادت دیتے ہیں۔ خود ذاتِ خداوندی نے آپؐ کی تعریف میں فرمایا ہے:

(اے پیغمبرؐ) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم لوگوں کے لیے بڑے نرم مزاج واقع ہوئے ہو ورنہ اگر کہیں تم تندخواور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمھارے گردوپیش سے چھٹ جاتے۔(اٰل عمرٰن ۳:۱۵۹)

اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ  O (القلم ۶۸:۴) بے شک آپؐ انسانی اخلاق کے بلند مدارج پر فائز ہیں۔

اسلام دُنیا کے سامنے بے شمار مفید اور گراں قدر اصول لے کر آیا ہے۔ اس لیے انسانوں کا ایک گروہ تیار کر دیا جس کی اساس اعلیٰ انسانی اخلاقیات پر قائم تھی اور اس عقیدے پر قائم تھی جو کائنات کے فرماں روا نے اپنی بشری مخلوق کے لیے انفرادی و اجتماعی زندگی کا نظام بناکر بھیجا ہے، اور اس میں ہر اُس چیز کی وضاحت کر دی جس کی انسانوں کو اس جہانِ بے ثبات میں بھی ضرورت لاحق ہوسکتی ہے، نیز ان تمام اعمال کا نقشہ پیش کر دیا ہے جو آخرت کی زندگی میں سلامتی و نجات کے ضامن ہوسکتے ہیں۔

آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت، حدیث اور سیرتِ پاک کو قیامت تک دوام حاصل ہے۔ یہ سب ہمارے لیے منفعت بخش پہلو ہیں۔ آپؐ کا عمل اور آپؐ کا اُسوہ ہمارے لیے دُنیا بھر کی نعمتوں سے بڑی نعمت ہے، جو آپؐ کی ذاتی زندگی سے لے کر خاندانی اور قومی زندگی تک پھیلا ہوا ہے۔ آپؐ کا یہی اُسوہ ہماری عزت و سرخ روئی کے لیے اور دُنیا میں ہماری قوت کی بقا کے لیے بہت بڑا بیش قیمت خزانہ اور سرمایۂ وراثت ہے۔

آپؐ کے اُسوئہ حسنہ اور آپؐ کی تعلیم کا خلاصہ چند نکات میں عرض کرنے کی کوشش کرتا ہوں:

۱- دعوت کی تڑپ: دعوتِ خلق کو خلقِ خدا تک پہنچانے میں آپؐ نے کوشش کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ نہایت صبر اور بُردباری کے ساتھ اس پیغام کو پہنچایا۔ یہ جدوجہد کسی دُنیوی غرض اور ذاتی مفاد کی خاطر نہ تھی بلکہ خالص خدا کے لیے تھی۔ اس بات کی تشریح کرتے ہوئے آپؐ نے فرمایا تھا:

وَاللہِ لَوْ وَضَعُوْا الشَّمْسَ فِیْ یَمِیْنِیْ وَالْقَمَرَ فِیْ یَسَارِیْ عَلٰی اَنْ اَتْرُکَ ھٰذَا الْاَمْرَ مَا تَرَکْتُہٗ حَتّٰی یُظْھِرَہُ اللہُ اَوْ اُھْلَکَ دُوْنَہٗ ، بخدا! اگر یہ لوگ میرے داہنے ہاتھ پر سورج لا رکھیں اور بائیں ہاتھ پر چاند کو کہ مَیں اس کام سے باز آجائوں، تو مَیں کبھی نہیں باز آئوں گا۔ یہاں تک کہ اللہ اس دین کو غالب کردے یا میری جان جاتی رہے۔

دُنیاوی مال و متاع سے ہمیشہ آپؐ نے بے اعتنائی اختیار فرمائی۔ جب آپؐ کے سامنے سونے کے پہاڑ بھی پیش کیے گئے تو آپؐ نے لینے سے انکار کر دیا اور شرف و کرامت کی زندگی بسر کرنے کے لیے معمولی کفاف پر اکتفا کیا۔

۲- تواضع اور رواداری:  آپؐ کی پوری زندگی میں ہمیں ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ملتا جس سے یہ ثابت ہوسکے کہ آپؐ نے کبھی اپنے آپؐ کو دوسروں سے برتر رکھنے کی کوشش کی ہو، بلکہ آپؐ کی مجلس غربا و مساکین اور معمولی حیثیت کے لوگوں کے ساتھ رہتی تھی ،اور جس طرح رؤسا اور سرداروں کے ساتھ آپؐ کا سلوک تھا اسی طرح نچلے درجے کے لوگوں کے ساتھ آپؐ کا مساویانہ طرزِعمل تھا۔ آپؐ کی روادارانہ تعلیم کی اس سے بڑھ کر کیا مثال ہو سکتی ہے کہ قریش جو ہمیشہ آپؐ کے جانی دشمن تھے، آپؐ کو ایذائیں دیتے رہے، آپؐ کے رفقا اور ساتھیوں کو آپؐ سےتوڑنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے رہے یہاں تک کہ ترکِ وطن پر اُنھوں نے آپؐ کو مجبور کر دیا۔    ان تمام سختیوں اور ایذا رسانیوں کے باوجود وہی قریش فتح مکہ کے دن جب گرفتار ہوکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں آتے ہیں، تو آپؐ کی زبانِ مبارک سے اُن کے حق میں یہ کلمات جاری ہوتے ہیں:

اِذْھَبُوْا فَاَنْتُمْ الطُّلَقَاءُ لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمْ الْیَوْمَ یَغْفِرُاللہُ وَھُوَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ ، جائو تم آزاد ہو، آج تم پر کوئی گرفت نہیں ہے۔ اللہ تمھیں معاف کرے گا اور وہ سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔

۳- عام مساوات: آپؐ نے جس باہمی مساوات اور طبقاتی کش مکش کے استیصال کا درس دیا، اس کی عمل داری اس قدر ہمہ گیر تھی کہ آپؐ کا اپنا گھر اور اپنا خاندان بھی اُس میں شامل تھا۔ آپؐ کے قبیلے کے کسی فرد کو دوسروں پر کسی درجے کی کوئی فضیلت و برتری حاصل نہ تھی۔ اس سلسلے میں آپؐ کا وہ ارشاد مبارک بہت مشہور ہے جو آپؐ نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہؓ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا:

یَا آلَ مُحَــمَّدٍ لَا یَـاْتِیْنِیْ النَّاسُ بِاَعْمَالِھِمْ وَتَاْتُوْنَ بِـاَنْسَابِکُمْ اِعْمَلُوْا فَاِنِّیْ لَا اُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللہِ شَیْئًا ، اے محمدؐ کی آل! ایسا نہ ہو کہ لوگ میرے پاس نیک اعمال لے کر آئیں اور تم حسب نسب لے کر آئو۔ تم خود عمل کرو ، میں تمھیں اللہ کی گرفت سے ذرّہ بھر نہیں بچا سکتا۔

عام انسانی مساوات کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا:

اِجْعَلُوْا النَّاسَ فِی الْحَقِّ سَوَاءً  قَرِیْبُھُمْ کَبَعِیْدِھِمْ  وَبَعِیْدُھُم کَقَرِ یْـبِھِمْ ، (السنن الکبریٰ للبیہقی، کتاب الضحایا، باب ماجاء فی اجد القسام، حدیث: ۱۸۸۳۸) حقوق میں تمام انسانوں کو برابر رکھو اس طرح کہ اپنے بے گانوں کی طرح اور بے گانے اپنوںکی طرح ہوں۔

۴- اسلامی اور انسانی اخوت:یہ وہ تعلیم تھی جس نے قوم کی منتشر صفوں میں اتحادواُلفت کے رُوح پرور گلشن کھلادیے اور مدت سے بچھڑے ہوئوں کو گلے ملا دیا کہ اخوتِ اسلامی کی بنیاداللہ تعالیٰ کے اس حکم پر ہے:

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ وَاتَّقُوا اللّٰہَ  (الحجرات ۴۹:۱۰) تمام مومن بھائی بھائی ہیں۔ پس تم اپنے بھائیوں کے درمیان صلح رکھو اور اللہ سے ڈرو تاکہ وہ تم پر رحم کرے۔

اسی نعمت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

وَ اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآئً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًـا(اٰلِ عمرٰن ۳:۱۰۳) اللہ کے اس احسان کو یاد رکھو جو اُس نے تم پر کیا ہے۔ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، اُس نے تمھارے دل جوڑ دیے اور اُس کے فضل و کرم سے تم بھائی بھائی بن گئے۔

اسی آبگینے کی حفاظت کے اصول و قواعد بیان کرتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

وَلَا تَحَاسَدُوْا وَلَا تَنَاجَشُوْا وَلَا تَبَاغَضُوْا وَلَا تَدَابَرُوْا وَلَا یَبِعْ بَعْضُکُمْ عَلٰی بَیْعِ بَعْضٍ وَکُوْنُوْا عِبَادَ اللہِ اِخْوَانًا (مسلم، باب تحریم ظلم المسلم، حدیث:۴۷۵۶) آپس میں ایک دوسرے سے حسد نہ کرو اور نہ آپس میں کسی کو دوسرے کے خلاف بھڑکائو، اور نہ آپس میں بُغض رکھو اور نہ آپس میں کسی کی پیٹھ پیچھے بُرائی کرو اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی بیع پر بیع کرے اور تم اللہ کے بندو! بھائی بھائی بن جائو۔

اَلْمُسْلِمُ اَخُو الْمُسْلِمِ لَا یَظْلِمُہٗ وَلَا یَخْذُ لُہٗ وَلَا یَحْقِرُہٗ اَلتَّقْوٰی ھٰھُنَا وَیُشِیْرُ اِلٰی صَدْرِہٖ  ثَلَاثَ مَرَّاتٍ بِحَسَبِ امْرِیٍٔ مِنَ الشَّرِّ  اَنْ یَحْقِرَ اَخَاہُ الْمُسْلِمَ، (شعب الایمان للبیہقی، حدیث: ۶۳۶۷)مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اُس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اُسے بے یارومددگار چھوڑتا ہے اور نہ اُسے حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔

کُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ حَرَامٌ  دَمُہُ وَمَا لُہٗ وَعِرْضُہٗ  (باب الشفقۃ والرحمۃ علی الخلق، حدیث ۴۷۴۷)ہرمسلمان کا دوسرے مسلمان پر خون، مال ، آبرو حرام ہے۔ آپؐ اپنے سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین بار فرماتے ہیں: تقویٰ یہاں ہے۔ انسان کے شر سے یہ بات کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے۔

عالم گیر انسانی برادری کے قیام کی دعوت دیتے ہوئے قرآن نے بیان کیا ہے:

یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا وَ بَثَّ مِنْھُمَا رِجَالًا کَثِیْرًا وَّ نِسَآئً  ج  وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَآئَ لُوْنَ بِہٖ وَالْاَرْحَامَط (النساء ۴:۱) لوگو اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد و عورت دُنیا میں پھیلا دیے۔ اُس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔

۵- خودداری:آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و تربیت کا ایک اہم پہلو یہ بھی تھا کہ آپؐ لوگوں کے اندر اعتماد علی النفس اور خودداری کی اعلیٰ صفات کو اُجاگر کرنا چاہتے تھے، تاکہ ایک طرف ہرہرفرد بذاتِ خود قوت کی چٹان بن جائے اور دوسری طرف پوری اُمت قوت و طاقت کا ایک ایسا ہمالہ بن جائے، جو حوادث کے ہجوم اور جنگوں کی شعلہ باری کے موقعے پر دوسروں کے سامنے تعاون اور امداد کی جھولی پھیلانے کے بجاے اپنی ذات پر اعتماد کرنے والی اور اپنی مدد آپ کرنے والی ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَ اَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَعَدُوَّکُمْ (الانفال ۸:۶۰) جہاں تک تمھارا بس چلے زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے اُن کے (دشمن کے) مقابلے کے لیے مہیا رکھو، تاکہ اس کے ذریعے سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو خوف زدہ کرو۔

یہ ہے مختصر اور سرسری خلاصہ جو پیغمبرؐ انسانیت کی تعلیم میں ہمیں ملتاہے اور پیغمبرؐ انسانیت کے یومِ ولادت پر اس کے اعادہ و تکرار کی ہمیں ضرورت ہے۔ یہ وہ اَنمٹ آثار ہیں جو اُمتوں اور قوموں کو زندگی کے میدانِ عمل میں فلاح و بہبود سے متمتع کرتے ہیں۔ اسلام نے اس زبانی تعلیم اور صحیح فکر کی طرف تمام دُنیا کو دعوت دی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ انسانیت کی بہتری اور سلامتی بھی اسی میں ہے کہ زمامِ حیات اسی صالح قائد کے ہاتھ میں دے دی جائے۔ تاریخ ہمارے سامنے ہے کہ جس قوم نے اپنی زندگی کی گاڑی اس فکروعقیدے کے خطوط پر چلائی ہے اور اسلام کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیا ہے وہ عزّت و شوکت اور تہذیب و تمدن کے بلندترین مدارج پر جاگزیں ہوئی ہے۔

ان تمام گزارشات کے بعد ہم ملت اسلامیہ کو خواہ وہ مسلم ممالک کی ہو یا غیرمسلم ممالک کی، دعوت دیتے ہیں کہ تعلیم نبویؐ کی روشنی میں وہ اپنے موجودہ نظامِ حیات اور طرزِعمل پر غوروفکر کرے۔ کیوں کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اُمت اپنے اعمال میں اور زندگی کے معاملات میں عملی ربط و اتصال سے دامن کش ہے اور مسلم قوم کے اندر عملی تعاون کی روح پھونکنے کے لیے اُن میں کوئی حرکت نہیں ہوتی، حالاںکہ مسلم معاشرہ، گروہ بندی اور جماعت پرستی کا شکار ہوچکا ہے اور ہرگروہ کا عقیدہ مختلف اور مسلک جداگانہ ہے۔ نہ افکارونظریات میں اتحاد پایا جاتا ہے اور نہ اصول و مبادی میں ہم آہنگی  نظر آتی ہے، اور سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ اپنی اس زبوں حالی کے باوجود مسلمان بڑے تساہل پسند ہوچکے ہیں۔ مستقبل بینی اور دُور اندیشی اُن کے پاس نہیں پھٹکتی اور اپنی مدد آپ کرنے کا اصول اُن کے نزدیک مضحکہ خیز بات ہے۔ عمل و کردار کے لحاظ سے اس قدر کھوکھلے ہیں کہ موجودہ خطرناک حالات (جن میں سب مسلم ممالک گھرے ہوئے ہیں) کی ایک ٹھوکر کی تاب نہیں رکھتے۔

یہاں پر ہم یہ گزارش کریں گے کہ موجودہ حالات میں مسلمانوں پر مشرق کے رہنے والے ہوں یا مغرب کے، یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ سرجوڑ کر بیٹھیں اور کام کا ایسا پروگرام بنائیں جو ملّت کے لیے مفید اور نتیجہ بخش ہو اور اس اسکیم کو بروے کار لانے کے لیے اجتماعی عمل کے لیے فضا ہموار کریں۔ اجتماعی تعاون پیدا کرنے کی صورت یہ نہیں ہے کہ چند دھواں دھار کانفرنسیں منعقد کر دی جائیں اور اُن میں فصیح و بلیغ لیکچر دیے جائیں اور گھڑی دو گھڑی جنّت کے باغوں کی سیر کرا دی جائے، بلکہ ورطۂ مذّلت سے نکلنے کے لیے ٹھوس طریقے عمل میں لائے جائیں۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے جس امر کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ تمام ممالک مل کر ایک اسلامی لشکر تیار کریں جو کسی بھی اسلامی ملک پر دشمن کی حملہ آوری کے وقت اس کا دندان شکن جواب دینے کے لیے ہروقت تیار رہے۔ اور دوسری ناگزیر چیز یہ ہے کہ ایک ایسا فنڈجاری کیا جائے جس کے ذریعے اسلامی علاقوں میں جہاں جہاں دینی تحریکیں ہیں اُن کی اشاعت اور پبلسٹی کی جائے۔

یہ امر مسلّمہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر مل جل کر پتّہ ماری کا کام کرنے کی عادت نہیں اور  نہ یہ تنظیم طلب اُمور کو سرانجام دینے کی زحمت گوارا کرتے ہیں۔ لیکن مذکورہ تجاویز پر عمل درآمد کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اوّلین فرصت میں اس پر سوچ بچار کیا جائے۔

ہماری زندگی میں ایسے بہت سے کاموں کی مثالیں ہیں کہ جنھیں کرنے یا انجام دینے والے کو گمان ہوتا ہے کہ وہ اللہ کی رضا اور آخرت کے اجر کے لیے کررہا ہے، لیکن درحقیقت اس کی نیت کچھ اور ہوتی ہے۔

بظاہر نیکی مگر نیت کی خرابی

انفاق ضائع ہوجاتا ہے(ابطال)،اگر اس کے بعد احسان جتایا جائے یا تکلیف دی جائے یا دکھاوے کے لیے کیا جائے۔اور اس کے لیے چٹان پر سے مٹی ہٹنے کی مثال دی گئی ہے۔ ایسے لوگ اپنے نزدیک خیرات کر کے جو نیکی کماتے ہیں، اس سے کچھ بھی ان کے ہاتھ نہیں آتا۔ (البقرۃ۲:۲۶۴)

 اعمال دنیا ہی کی نیت سے کیے جائیں تو بڑھاپے میں باغ یا آمدنی کا واحد ذریعہ ختم ہوجانے کی مثال دی گئی ہے۔(البقرۃ۲:۲۶۶ )

مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِيْنَ اَنْ يَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰهِ شٰهِدِيْنَ عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ  ۭ اُولٰۗىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ  ښ  وَفِي النَّارِ هُمْ خٰلِدُوْنَ   O (التوبہ۹:۱۷) مشرکین کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ اللہ کی مسجدوں کے مجاور و خادم بنیں درآںحالیکہ اپنے اُوپر وہ خود کفر کی شہادت دے رہے ہیں۔ ان کے تو سارے اعمال ضائع ہوگئے اور جہنم میں انھیں ہمیشہ رہنا ہے۔

اس آیت میں اصل میں تو کافر و مشرک کا ذکر ہے لیکن مسلم کو بھی ہوشیار رہنا چاہیے کہ  ’مسجد حرام کی دیکھ بھال‘ جیسی نیکی بھی ضائع ہو سکتی ہے،اور اس کے بعد والی آیت کے مطابق ’حاجیوں کو پانی پلانا‘ بھی ۔

حدیثِ نبویؐ سے معلوم ہوتا ہے کہ شہید، عالم اور سخی کو جہنم میں ڈال گیا کیوںکہ یہ دکھاوے کے لیے عمل کرتے تھے۔ اس طرح جان کی قربانی، حصولِ علم، صدقہ کیا ہوا مال ضائع ہوسکتے ہیں۔(نسائی، عن ابی ہریرہؓ)

نماز کو ورزش،روزے کو خوراک کنٹرول کرنے کا منصوبہ، اور حج کو سیاحت کی نیت سے کرنے سے یہ عبادتیں بے معنی ہوسکتی ہیں۔

  • اچھے کام میں نیت بھی اچھی رکھنا ضروری ہے، یعنی صرف اللہ کی خوش نودی اور آخرت کا اجر۔

نیکیاں جن کے آداب کو ملحوظ نہ رکھا جائے

ایسی نیکیاں جن کو صحیح طریقے سے ادا نہ کیا گیا ہو ، قبول نہ ہوں گی،خواہ ظاہری طریقے میں نقص ہو یا دل کی کیفیت میں کمی ہو۔ ظاہری طریقے میں نقص کی ایک مثال یہ ہے کہ بنیادی شرائط پوری نہ کی گئی ہوں، مثلاً طہارت کے بغیر نماز ادا کی جائے،یا روزہ،حج اور دیگر عبادات جن کے ارکان و شرائط علما نے الگ سے جمع بھی کردیے ہیں،وہ ان کا خیال رکھے بغیر کیے جائیں۔یہ علم کی کمی کو ظاہر کرتے ہیں ،جو ایک مومن کے لیے صحیح نہیں۔علم کی کمی میں معذور ہونے کو شاید اللہ تعالیٰ معاف کردے، لیکن بلاعذر علم ہی نہ ہونا،مومن کی شان سے مناسبت نہیں رکھتا۔

دل کی کیفیت میں کمی کی صورت یہ ہے کہ نیکیوں کو بے دلی یا سُستی سے کیا جائے،  یا زبردستی سمجھ کر کیا جائے،یا نیکیوں کے دوران کوئی کیفیت موجود ہی نہ ہو۔ جیساکہ ہم دیکھتے ہیں کہ سورئہ ماعون میں بے نمازیوں کے لیے نہیں،بلکہ بعض نمازیوں کے لیے بھی تباہی کی وعید ہے۔   سورئہ نساء (آیت ۱۴۲) نماز کے لیے کسمساتے ہوئے اور دکھانے کے لیے اٹھنے کا تذکرہ ہے۔ اس نماز کی جزا نہیں جس میں آدمی رکوع و سجود میں پیٹھ سیدھی نہ کرے۔(ابن ماجہ، ابومسعود)

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص ساٹھ سال تک نماز پڑھتا ہے،مگر اس کی ایک نماز بھی قبول نہیں ہوتی۔پوچھا گیا وہ کیسے ؟انھوں نے کہا: کیوںکہ نہ وہ رکوع پورا کرتا ہے اور نہ سجود، نہ قیام پورا کرتا ہے اور نہ اس کی نماز میں خشوع ہوتا ہے۔

حضرت عمرؓ نے فرمایا: ’’ایک شخص اسلام میں بوڑھا ہو گیا اور ایک رکعت بھی اس نے اللہ کے لیے مکمل نہیں پڑھی‘‘۔پوچھا گیا: کیسے یا امیرالمومنین؟‘‘ فرمایا: ’’اس نے اپنا رکوع پورا کیا اور نہ سجود‘‘۔

امام احمد بن حنبلؒ نے فرمایا:’’انسانوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ وہ نماز پڑھ رہے ہوں گے، لیکن وہ نماز نہیں ہوگی‘‘۔

جنید بغدادیؒ کا ایک واقعہ کتب میں لکھا ہے،جس میں وہ ایک واپس آنے والے حاجی سے مناسکِ حج کے ساتھ کچھ کیفیات کے متعلق پوچھتے ہیں۔ جب وہ نفی میں جواب دیتا ہے ،تو وہ اسے حج دوبارہ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔

کپڑے پہن کر عریاں رہنے والیوں کے لیے وعید ہے۔ اسی طرح خواتین کے ایسے عباے جو ظاہری چمک و رنگ اور چستی سے مزید کشش کا باعث ہوں ، بے مقصد اور لایعنی پہناوا ہیں۔ مہمان نوازی کرکے ،مہمان کے جانے کے بعد اس پر تنقید و مذاق ،مہمان کی تکریم کی نفی ہے۔

  • نیکی کرنے کا طریقہ بھی صحیح رکھنا چاہیے اور اس کے لیے علم حاصل کرنا چاہیے۔
  • نیکی کے دوران اس کے آداب اور دل کی کیفیات کا خیال رکھنا چاہیے۔پوری رضامندی اور خوشی کے ساتھ نیکی کرنا چاہیے۔
  • نیکی کرتے ہوئے ڈرتے رہنا چاہیے،کیوںکہ مومنوں کوعمل قبول نہ ہونے کاڈر رہتا ہے اور خشیت مومنوں کی کیفیت ہے۔ سورئہ انبیاء (آیت ۹۰) میں نیکیوں کی دوڑ دھوپ کے ساتھ خوف کا بھی ذکر ہے۔ رسول کریم ؐ کو بھی اپنے عمل سے نہیں، اللہ کے ٖفضل اور رحمت سے ہی جنت میں جانے کی اُمید تھی(بخاری،ابو ہریرہ)
  • نیکی کے بعد اس کی قبولیت کی دعا کرنی چاہیے، خواہ وہ نماز ہو، کوئی انفاق ہو، دین کے لیے نکلنا اور چلنا ہو، یا کسی بندے سے معاملہ ہو۔

 نبی اکرمؐ جب نماز فجر میں سلام پھیرتے تو یہ دعا پڑھتے: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْٓ اَسْئَلُکَ رِزْقًا طَیِّبًا وَّعِلْمًا نَافِعًا وَّعَمَلًا مُّتَقَبَّلًا،اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں پاکیزہ روزی، نفع بخش علم اور قبول ہونے والے عمل کا(ابن ماجہ، اُمِ سلمہؓ)۔ حضرت ابراہیمؑ نے خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت دُعا کی تھی: رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ط(البقرہ۲:۱۲۷)’’اے ہمارے رب ،ہم سے یہ خدمت قبول فرمالے‘‘۔

علما نے کچھ دعاؤں میں سعی مشکور مانگی ہے،یعنی ایسی کوشش جس کی قدردانی کی گئی ہو۔

نیکیاں برباد کرنے والے اعمال

نیکیاں تو اپنی جگہ صحیح ہوں ،لیکن ان کے ساتھ یا ان کے بعد کوئی ایسا کام کیا جائےکہ   وہ ضائع ہوجائیں۔ ان کی مثال دنیوی امتحانوں کی منفی پیمایش ( negative marking) سے  دی جاسکتی ہے۔ جن میں غلط جوابات کے نمبر ،صفر نہیں بلکہ منفی ہوتے ہیں ،جو صحیح جوابات کے نمبر بھی کاٹ لیتے ہیں۔ یہ برائیاں جو قرآن و حدیث سے معلوم ہوتی ہیں ،وہ یہ ہیں:

  •  نبی ؐ کے احترام میں کمی: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے احترام میں کمی دراصل اللہ کے احترام میں کمی اور باطن میں تقویٰ نہ ہونے کی علامت ہے:

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْـهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَــهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَــطَ اَعْمَالُكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ O (الحجرات۴۹:۲ ) اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اپنی آوازنبیؐ کی آواز سے بلند نہ کرو، اور نہ نبیؐ کے ساتھ اونچی آواز سے بات کرو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمھارا کیا کرایا سب غارت ہو جائے اور تمھیں خبر بھی نہ ہو۔

 نبی ؐ کے احترام میں کمی: سورئہ مائدہ میں ارشاد فرمایا:

فَتَرَى الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ يُّسَارِعُوْنَ فِيْهِمْ يَقُوْلُوْنَ نَخْشٰٓى اَنْ تُصِيْبَنَا دَاۗىِٕرَةٌ        ۭ  فَعَسَى اللّٰهُ اَنْ يَّاْتِيَ بِالْفَتْحِ اَوْ اَمْرٍ مِّنْ عِنْدِهٖ فَيُصْبِحُوْا عَلٰي مَآ اَ سَرُّوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ نٰدِمِيْنَ   O    وَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَهٰٓؤُلَاۗءِ الَّذِيْنَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ  جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ ۙ اِنَّهُمْ لَمَعَكُمْ      ۭ  حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فَاَصْبَحُوْا خٰسِرِيْنَO (المائدہ ۵:۵۲-۵۳) تم دیکھتے ہو کہ جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے وہ اُنھی میں    دوڑ دھوپ کرتے پھرتے ہیں ۔کہتے ہیں ’’ہمیں ڈر لگتا ہے کہ کہیں ہم کسی مصیبت کے چکّر میں نہ پھنس جائیں‘‘۔ مگر بعید نہیں کہ اللہ جب تمھیں فیصلہ کن فتح بخشے گا یا اپنی طرف سے کوئی اور بات ظاہر کرے گا تو یہ لوگ اپنے اس نفاق پر جسے یہ دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں نادم ہوں گے ۔ اور اُس وقت اہلِ ایمان کہیں گے: ’’ کیا یہ وہی لوگ ہیں جو اللہ کے نام سے کڑی کڑی قسمیں کھا کر یقین دلاتے تھے کہ ہم تمھارے ساتھ ہیں؟‘‘ ان کے سب اعمال ضائع ہوگئے اور آخر کار یہ ناکام و نامراد ہو کر رہے۔

'یعنی جو کچھ انھوں نے اسلام کی پیروی میں کیا،نمازیں پڑھیں،روزے رکھے،زکوٰۃ دی، جہاد میں شریک ہوئے، قوانینِ اسلام کی اطاعت کی،یہ سب کچھ اس بنا پر ضائع ہوگیا کہ ان کے دلوں میں اسلام کے لیے خلوص نہ تھا اور وہ سب سے کٹ کر صرف ایک خدا کے ہوکر نہ رہ گئے تھے، بلکہ اپنی دنیا کی خاطر انھوں نے اپنے آپ کو خدا اور اس کے باغیوں کے درمیان آدھا آدھا بانٹ رکھا تھا۔( تفہیم القرآن،سورئہ مائدہ۵:۵۳)

بنیادی طور پر اس کی وجہ یہی ہے کہ حق اور باطل دونوں سے تعلق رکھنا، نفاق ہی کی قسم ہے:

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَلَا تُبْطِلُوْٓا اَعْمَالَكُمْ  (محمد۴۷:۳۳ )اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسولؐ کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو برباد نہ کرلو۔

اس آیت کے پسِ منظر کے لحاظ سے بھی، اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کش مکش میں جان و مال نہ لگاکر،محنت نہ کرکے اپنے اعمال ضائع نہ کرو۔

حضرت کعبؓ بن مالک کےواقعے سے سبق ملتا ہےکہ وہ کسی بدنیتی کے بغیر صرف دنیوی مصروفیات کی وجہ سےحق و باطل کی کش مکش میں حق کا ساتھ نہ دے سکے، تو ان کی پچھلی ساری عبادت گزاریا ں اور قربانیاں خطرے میں پڑ گئی تھیں۔

  •  بُرائی سے منع نہ کرنا ، سمجھوتہ کرلینا : سورئہ اعراف میں اہلِ سبت کا ذکر ہے،جنھوں نے ہفتے کے دن مچھلیاں پکڑنے سے دوسروں کو منع نہ کیا ، تو ان کی اپنی نیکیاں اکارت چلی گئیں۔ بستی پر عذاب کی ابتدا’نیک‘ شخص سے کی جائے کیوںکہ اس نے بستی والوں کو برائیوں سے منع نہیں کیا تھا۔ اس طرح اس شخص کی اپنی نیکیاں بھی ضائع ہوگئیں۔(ترمذی،ابوبکر صدیقؓ)

بنی اسرائیل کے علما نے فاسقوں کو منع کرنے کے بجاے ان کے ساتھ کھاناپینا اور اُٹھنا بیٹھنا شروع کردیا تو ان پر بھی لعنت کی گئی۔(ابوداؤد، ترمذی،عبداللہ بن مسعود)

  •  فسق پر مبنی رویّہ: استطاعت کے باوجود ہجرت نہ کرنا:(النساء۴:۹۷-۹۸)

قُلْ اَنْفِقُوْا طَوْعًا اَوْ كَرْهًا لَّنْ يُّتَقَبَّلَ مِنْكُمْ   ۭ اِنَّكُمْ كُنْتُمْ قَوْمًا فٰسِقِيْنَ    (التوبہ ۹:۵۳) ان سے کہو ’’ تم اپنے مال خواہ راضی خوشی خرچ کرو یا بہ کراہت، بہرحال وہ قبول نہ کیے جائیں گے ۔ کیوں کہ تم فاسق لوگ ہو۔‘‘

کبیرہ گناہ ڈھٹائی سے کرنے سے،کبھی کبھار کی گئی، یا چھوٹی نیکیوں کی قبولیت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔

مسلم کی روایت کے مطابق،حرام مال کھانے اور پہننے والے کی دعا قبول نہیں ہوتی اگرچہ وہ لمبا سفر کرکے ،غبار آلود بالوں میں ،آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر دُعا مانگے ۔اسی طرح حرام کمائی سے اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے ،تو وہ قبول نہیں ہوتا۔

حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بندہ جب ایک لقمہ حرام کا اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے تو اللہ تعالیٰ چالیس دن تک اس کا عمل قبول نہیں کرتا۔

حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:میں اپنی امت میں سے یقینی طور پر ایسے لوگوں کو جانتا ہوں، جو قیامت والے دن اس حال میں آئیں گے کہ ان کے ساتھ تہامہ پہاڑ کے برابر نیکیاں ہوں گی، تو اللہ عز وجل ان نیکیوں کو دُھول بنا دے گا۔ حضرت ثوبانؓ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ !ہمیں ان لوگوں کی نشانیاں بتائیے،ہمارے لیے ان لوگوں کا حال بیان فرمائیے،تاکہ ایسا نہ ہوکہ ہم انھیں جان نہ سکیں اور ان کے ساتھ ہوجائیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:وہ تم لوگوں کے بھائی ہوں گے اور تم ان لوگوں کی نسل میں سے ہو گے، اور رات کی عبادات میں سے اسی طرح حصہ لیں گےجس طرح تم لوگ لیتے ہو۔لیکن ان لوگوں کا معاملہ یہ ہوگاکہ جب وہ لوگ اللہ کی حرام کردہ چیزوں اور کاموں کو تنہائی میں پائیں گے تو انھیں استعمال کریں گے۔(ابن ماجہ)

حضرت بُریدہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس نے عصر کی نماز چھوڑی ،اس کے عمل اکارت ہوئے(فقد حبط عملہ)۔(بخاری)

حضرت عبداللہ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس نے شراب پی، اللہ تعالیٰ چالیس دن تک اس کی نمازیں قبول نہیں کرتا۔(لم یقبل اللہ) ۔ (ترمذی)

  •  اجتماعی معاملات میں بے احتیاطی:حضرت عبداللہ بن عمرؓسے روایت ہے کہ نبیؐ کو فتح ہوتی اور مالِ غنیمت حاصل ہوتا تو حضرت بلالؓ کو حکم دیتے تھے کہ لوگوں میں اعلان کریں کہ جس کے پاس جو کچھ ہے وہ لے آئے۔لوگوں کے پاس جو مالِ غنیمت ہوتا، وہ اسے لے آتے۔ جب سب مال جمع ہو جاتا تو پھر رسولؐ اللہ پہلے اس میں سے خمس الگ کرتے، پھر باقی مال کو    تمام مجاہدین میں تقسیم فرمادیتے۔ ایک دفعہ مالِ غنیمت تقسیم ہو جانے کے بعد ایک آدمی بالوں کی ایک لگام لے آیا اور کہا کہ یہ لگام بھی ہم نے مالِ غنیمت میں پائی تھی۔آپؐ نے فرمایا:تم نے بلال کا اعلان جو اس نے تین دفعہ کیا تھا،سنا تھا؟اس نے جواب دیا :ہاں۔ آپؐ نے فرمایا:پھر بروقت کیوں نہ لے کرآئے؟ اس نے جواب دیا: بس دیر ہوگئی۔ آپؐ نے فرمایا: پھر تو اسے قیامت کے دن لے کرآنا،میں اب تم سے قبول نہیں کر سکتا۔(ابوداؤد)

حضرت معاذؓ سے روایت ہے کہ ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمراہی میں ایک غزوہ کیا۔ لوگوں نے جلدبازی میں دوسروں کے اترنے کی جگہوں میں تنگی پیدا کردی اور آمد و رفت کے راستے بندکردیے۔جب آپؐ کو خبر ملی تو آپؐ نے ایک منادی بھیجاکہ وہ لوگوں میں اعلان کرے کہ جو اترنے کی جگہوں میں تنگی پیدا کرے گا یا راستے بند کرے گا،اس کا جہاد اکارت۔(ابوداؤد)

حضرت ابوالدرداءؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے جزیہ کی زمین خریدی،اس نے اپنی ہجرت کا عمل اکارت کردیا، اور جس نے کسی کافر کی گردن سے ذلت کا طوق نکال کر اپنے گلے میں ڈال لیا ،اس نے اسلام کی طرف اپنی پشت کردی۔ (ابوداؤد)

  •  معاملات میں راست نہ ہونا:کسی کو گالی دینے، تہمت لگانے، قتل کرنے سے  انسان کے نماز ،روزہ اور زکوٰۃ دوسرے انسان کو مل جاتے ہیں۔(ترمذی،عن ابوہریرہؓ)

 حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین شخص ایسے ہیں کہ ان کی نماز ان کے سر سے ایک بالشت بھی اوپر نہیں اٹھتی۔ایک وہ امام جس کو لوگ پسند نہیں کرتے۔ دوسرے، وہ عورت جس نے شب اس طرح گزاری کہ اس کا شوہر اس سے ناراض ہو۔ اور تیسرے، دو بھائی جو آپس میں قطع تعلق کرلیں۔(ابنِ ماجہ)

حضرت حذیفہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

کسی پاکباز عورت پر تہمت لگانے سے سو سال کے عمل برباد ہوجاتے ہیں۔

قرض واپس نہ کرنے سے شہید کا بھی جنت میں داخلہ رُک جاتا ہے۔(نسائی،محمد بن جحشؓ)

حسد نیکیوں کو ایسے کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑیوں کو۔(ابن ماجہ)

مندرجہ بالا احادیث میں کلمہ گو مسلمانوں کا ہی ذکر ہے اور ضائع ہونے والی چیز ان کی نیکیاں ہیں۔ اسی لیے علما نے تشریح کی ہے کہ کوئی گناہ ایسا ہےکہ اس سے کوئی مخصوص عمل ہی ضائع ہوتا ہے یا کسی مخصوص مدت کے لیے قبول نہیں ہوتا ۔اور کوئی گناہ ایسا ہے کہ اس کی شدت کے لحاظ سے نیکیاں بھی ضائع ہو سکتی ہیں۔لیکن ان کا کوئی ضابطہ ہم طے نہیں کرسکتے۔ (ترجمان السنۃ،جلد دوم،مولانا بدر عالم میرٹھی)۔ البتہ یہ کہ گناہ کی شدت کے اضافے کے لحاظ سے احتیاط بھی اتنی ہی زیادہ ہونا چاہیے۔ ان سب پہلوؤں سے ایک مومن کو بھی محتاط رہنا چاہیے۔

  •  ارتداد: پچھلی ساری عمر کی نیکیاں ختم ہونے کی ایک وجہ،ارتداد ہے۔یہاں تک کہ فقہا نے کہا ہے کہ مرتد اگر تجدیدِ ایمان کرے تو اس کے بعد نکاح کی بھی تجدید کرے اور حج دوبارہ کرے:

وَمَنْ يَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِهٖ فَيَمُتْ وَھُوَ كَافِرٌ فَاُولٰۗىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ      ۚ  وَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ   ۚ ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ   (البقرہ ۲:۲۱۷)

تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھرے گا اور کفر کی حالت میں جان دے گا ، اس کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں ضائع ہو جائیں گے۔ ایسے سب لوگ جہنمی ہیں اور ہمیشہ جہنم ہی میں رہیں گے۔

وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الْمُؤْمِنٰتِ وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ اِذَآ اٰتَيْتُمُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ مُحْصِنِيْنَ غَيْرَ مُسٰفِحِيْنَ وَلَا مُتَّخِذِيْٓ اَخْدَانٍ  ط وَمَنْ يَّكْفُرْ بِالْاِيْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهٗ     ۡ وَهُوَ فِي الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ  O (المائدہ ۵:۵) اور محفوظ عورتیں بھی تمھارے لیے حلال ہیں خواہ وہ اہلِ ایمان کے گروہ سے ہوں یا اُن قوموں میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی بشرطیکہ تم اُن کے مہر ادا کرکے نکاح میں اُن کے محافظ بنو ، نہ یہ کہ آزاد شہوت رانی کرنے لگو یا چوری چھپے آشنائیاں کرو۔ اور جو کسی نے ایمان کی روش پر چلنے سے انکار کیا تو اس کا سارا کارنامۂ زندگی ضائع ہوجائے گا اور وہ آخرت میں دیوالیہ ہوگا۔

اہلِ کتاب کی عورتوں سے نکاح کی اجازت دینے کے بعد تنبیہہ کے طور پر ارشاد فرمایا گیا ہے کہ:’’جو شخص اس اجازت سے فائدہ اٹھائےوہ اپنے ایمان و اخلاق کی طرف سے ہوشیار رہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کافر بیوی کے عشق میں مبتلا ہو کر یا اس کے عقائد اور اعمال سے متاثر ہو کر وہ اپنے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے، یا اخلاق و معاشرت میں ایسی روش پر چل پڑے جو ایمان کے منافی ہو‘‘۔

’ارتداد‘ فقہی مفہوم کے لحاظ سے بہت بڑی چیز ہے۔لیکن مومنوں کو ایک عمومی بات کاخیال رہنا چاہیے کہ نیکیوں کے راستے پرچلتے چلتے، وہ راستہ چھوڑنا نہیں چاہیے ، یا کوئی نیک عمل شروع کرکے ترک نہیں کرنا چاہیے۔

مندرجہ بالا حبط شدہ اعمال کی پانچ اقسام میں سے تین کا مقصود ،اللہ اور آخرت پر ایمان نہ ہونا واضح ہے۔گویا دنیوی کام اور اخلاقی امور صرف دنیا کے لیے کرنا یا نیت میں ملاوٹ ہونا۔  قسم چار اور پانچ میں بھی اصل یہ ہے کہ اس انسان کی نیت اور کمٹمنٹ میں ہی فتور ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس کا وہ عمل ناقص رہتا ہے۔قسم چارمیں علم کی کمی ،کیفیت کی کمی یا دوسرے اعمال کے ذریعے یہ بات ظاہر ہوجاتی ہے۔قسم پانچ،یعنی دوسری برائیوں کی وجہ سےاچھائیوں کے نمبر منفی اس لیے ہوجاتے ہیں کہ وہ درحقیقت عمل صالح تھے ہی نہیں۔ ابلیس کی پچھلی تمام ریاضتیں اسی لیے ضائع ہو گئیں۔ حدیث میں بھی ایسے انسان کا ذکر ہے جو تمام عمر اچھے کام کرکے آخر میں ایسے عمل شروع کردیتا ہے جو اسے دوزخ میں لے جائیں۔(بخاری،عبداللہ بن مسعودؓ)

  نیکیاں کمانے کے ساتھ ساتھ ان نیکیوں کو بچا کر رکھنے کی بھی فکر کریں۔ ایسا نہ ہو کہ آخرت میں پہنچ کر معلوم ہو کہ ہرا بھرا باغ جل چکا ہے اور کمائی کا کوئی ذریعہ نہیں بچا ہے (البقرہ۲:۲۶۶) ،اور جو بہت اچھا سمجھ کر کیا تھا ، وہ سب بیکار تھا۔ (الکہف۱۸:۱۰۵)

اسی مناسبت سے محترم نعیم صدیقی ؒ نے فرمایا تھا:’یارب میرے سجدوں کو لٹنے سے بچا لے چل‘۔

اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نےہمیں زندگی میں ایک مرتبہ پھر رمضان کے روزے رکھنے کا موقع عطا فرمایا ۔ اسی کی توفیق سے ہم روزوں سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی دعا کرتے ہیں۔ اللہ ہمیں روزے کی حقیقت سمجھنے اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے، آمین!

 روزے کی فرضیّت اور مقصد

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ  لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ  o (البقرہ۲:۱۸۳) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کردیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیا ؑ کے پیرووں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔

روزہ ایک فرض عبادت ہے۔ اس کا بنیادی مقصدانسان میں تقویٰ پیدا کرنا ہے۔ کھانے پینے سے پرہیز اسی تقویٰ کے حصول کا  ایک ذریعہ ہے۔

’صوم‘ کا مطلب ہے (اپنے آپ کو ) روکنا ا ور اس کے معنی صبرہیں ۔ صبر کا کم سے کم تقاضا حرام سے رُکنا ہے، اور مزید یہ کہ اللہ اور رسولؐ کے احکام کی تعمیل جائے۔

رمضان کی عظمت

رمضان کی عظمت قرآن کی وجہ سے ہے۔ اس میں قرآن نازل ہوا اور اس میں لیلۃ القدر ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ابن آدم کا ہر عمل اس کے لیے کئی گنا بڑھایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک نیکی ۱۰ سے ۷۰۰ گنا تک بڑھائی جاتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزے کا معاملہ اس سے جدا ہے کیوںکہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔ (متفق علیہ)

قرآن اور رمضان

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مَن صَامَ رَمَضَانَ ایمانًـا وَّاحتسابًـا غُفِرَلَہُ ما تَقدَّمَ مِن ذنبہ ومَن قامَ  رَمَضَانَ ایمانًـا وَّاحتسابًـا غُفِرَلَہُ ما تَقدَّمَ مِن ذنبہ (بخاری ،  مسلم)جس نے رمضان کے روزے رکھے ایمان اور خود احتسابی کے ساتھ اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے اور جو رمضان کی راتوں میں کھڑا رہا (قرآن سننے اور سنانے کے لیے) ایمان اور خود احتسابی کے ساتھ اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔ 

حضرت عبداللہ بن عمروؓ کی روایت کردہ حدیث میں ہے:

الصَّیَامُ و القرآنُ یَشفعَانِ لِلْعَبْدِ ، یَقُوْلُ الصِّیَامُ: اَی ربِّ اِنّیِ  مَنَعْتُہُ  الطَّعَامَ  والشَّھوات ِ بِالنَّھارِ  فشَفِّعْنِیْ   فِیْہِ ، وَ یقُو لُ الْقُرْاٰنُ مَنَعْتُہُ النَّو مَ باللَّیلِ فَشِفِّعْنِیْ فِیْہِ ،   فَیُشَفَّعَانِ (مشکوٰۃ) روزہ اور قرآن (قیامت کے دن) بندےکے حق میں شفاعت کریں گے۔ روزہ عرض کرے گا : اے رب! میں نے اس شخص کو کھانے پینے اور خواہشاتِ نفس سے روکھے رکھا تو اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما ۔ اور قرآن یہ کہے گا : میں نے اسے رات کے وقت سونے (اور آرام کرنے)  سے روکے رکھا تو اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما۔ چنانچہ دونوں کی شفاعت قبول کر لی جائے گی(اور اس کے لیے جنت اور مغفرت کا فیصلہ فرما دیا جائے گا)۔

پس رمضان میں خصوصی طور پر قرآن سے جڑنے ، اس کی تلاوت کرنے اور اس کو سمجھ کر پڑھنے کا اہتمام کیا جائے۔نیز قرآن کے پیغام کو دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کریں۔

روزے کی حقیقت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی درج ذیل احادیث میں روزے کی حقیقت وضاحت سے بیان کی گئی ہے:

  •  حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے روزے کی حالت میں بےہودہ باتیں (مثلاً: غیبت ، بہتان ، تہمت ، گالی گلوچ ، لعن طعن ، غلط بیانی وغیرہ) اور گناہ کا کام نہیں چھوڑا، تو اللہ تعالیٰ کو کچھ حاجت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑے‘‘۔(بخاری)
  • حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’کتنے ہی روزہ دار ہیں کہ ان کو اپنے روزے سے سواے بھوک پیاس کے کچھ حاصل نہیں کیونکہ وہ روزے میں بھی بدگوئی ، بدنظری اور بدعملی نہیں چھوڑتے، اور کتنے ہی رات کو تہجد میں قیام کرنے والے ہیں، جن کو اپنے قیام سے ماسوا جاگنے کے کچھ حاصل نہیں‘‘۔(دارمی ، مشکوٰۃ)
  • حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی ایک دوسری روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ  علیہ وسلم نے فرمایا: ’’روزہ ڈھال ہے کہ نفس و شیطان کے حملے سے بھی بچاتاہے، اور گناہوں سے بھی باز رکھتا ہے، اور قیامت میں دوزخ کی آگ سے بھی بچائے گا۔ پس، جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو نہ تو ناشائستہ بات کرے ، نہ شور مچائے۔ پس اگر کوئی شخص اس سے گالی گلوچ کرے یا لڑائی جھگڑا کرے تودل میں کہے یا زبان سے اس کو کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں، اس لیے تجھ کو جواب نہیں دے سکتا، کہ روزہ اس سے مانع ہے۔ (بخاری، مسلم ،  مشکٰوۃ)
  • حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الصَّوْمُ جُنَّۃٌ مَا لَمْ یَخْرِقْھَا (نسائی) ، ’’روزہ ڈھال ہے، جب تک (تم) اس میں سوراخ نہ کر دو‘‘۔

درجہ بالا احادیث میں جن بُرے اعمال کا ذکر کیا گیا ہے وہی اس ڈھال کے سوراخ ہیں جن سے روزے کی افادیت اسی طرح متاثر ہوتی ہے جیسےڈھال میں سوراخ ہو جائے تو وہ بیکار ہوجاتی ہے اور اس سے بچاؤ کا کام نہیں لیا جا سکتا۔

کس روزے پر اجر کا وعدہ ہے؟

حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے رمضان کار وزہ رکھا ، اور اس کی حدود کو پہچانا، اور جن چیزوں سے پرہیز کرنا چاہیے، ان سے پرہیز کیا، تو یہ روزہ اس کے گذشتہ گناہوں کا کفارہ ہو گا‘‘ (صحیح ابنِ حبان ، بیہقی)۔ گویا کھانے پینے سے رُکنے کے ساتھ ساتھ بُرے اعمال سے بھی رکا جائے اور منہ کے روزے کے ساتھ دوسرے اعضا کا روزہ بھی ہونا ضروری ہے۔

وہ روزہ جس میں آنکھ ، زبان ، کان ، ہاتھ ، پاؤں اور دیگر اعضا کے گناہوں سے بچا جائے، وہی حقیقی روزہ ہے۔ یہی ان اعضا کا روزہ بھی ہے جس پر اللہ سے پورے اجر کی اُمید کی جا سکتی ہے اور جو زندگی میں تبدیلی کا باعث بھی بنے گا۔

آنکھ کا روزہ

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:

قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَھُمْ ط ذٰلِکَ اَزْکٰی  لَھُمْ ط اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌم بِمَا یَصْنَعُوْنَo (النور ۲۴:۳۰) اے نبیؐ، مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے۔ جوکچھ وہ کرتے ہیں اللہ اس سے باخبر رہتا ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ’’نظر ، شیطان کے تیروں میں سے ایک زہر میں بجھا ہوا تیر ہے، پس جس نے اللہ تعالیٰ کے خوف سے نظرِ بد کو ترک کر دیا، اللہ تعالیٰ اس کو ایسا ایمان نصیب فرمائیں گے کہ اس کی حلاوت کو اپنے دل میں محسوس کرے گا‘‘ ۔(الحاکم )

کس قدر گناہ کی بات ہے کہ کئی مسلمان ٹی وی اور کمپیوٹر پر بے ہودہ اور فحش فلمیں اور پروگرام دیکھتے ہیں، یا فضول ناول یا کتابیں پڑھتے ہیں، اورپھر کہتے ہیں کہ بس کیا کریں روزہ ہے، وقت گزارنے کے لیے کر رہے ہیں۔

کان کا روزہ

کان کا روزہ یہ ہے کہ حرام اور مکروہ اور فضول باتوں کے سننے سے پرہیز رکھے، کیونکہ جو بات زبان سے کہنا حرام ہے اس کا سننا بھی حرام ہے۔اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:

لَا یَسْمَعُوْنَ فِیْھَا لَغْوًا اِلَّا سَلٰمًا  ط (مریم ۱۹: ۶۲)وہاں وہ کوئی بے ہودہ بات نہ سنیں گے، جو کچھ بھی سنیں گے ٹھیک ہی سنیں گے۔

 سورئہ واقعہ میں ہے کہ لَا یَسْمَعُوْنَ فِیْھَا لَغْوًا وَّلَا تَاْثِیْمًا o  (۵۶:۲۵) ’’ وہاں وہ کوئی بے ہودہ کلام یا گناہ کی بات نہ سنیں گے‘‘۔ اسی طرح سورۃ النبا میں ہے: لَا  یَسْمَعُوْنَ فِیْھَا لَغْوًا وَّلَا کِذّٰبًا (۷۸:۳۵) ’’ وہاں کوئی لغو اور جھوٹی بات وہ نہ سنیں گے‘‘۔

روزے کا تقاضا یہی ہے کہ اس پر عمل کیا جائے اور صرف یہ نہیں کہ فضول، گناہ والی اور جھوٹی باتیں کرنے سے پرہیز کیا جائے بلکہ ان کو سنا بھی نہ جائے۔ لغو سے پرہیز بہت اہم کام ہے اور یہ لفظ تینوں آیات میں مشترک ہے اور اس سے مراد تمام لایعنی اور بے مقصد باتیں ہیں۔ عموماً یہی بے ہودہ باتیں گناہ ، جھوٹ اور بے حیائی کی بنیاد فراہم کرتی ہیں ۔

زبان کا روزہ

زبان کا روزہ یہ ہے کہ زبان کی حفاظت کرے اور اس کو بے ہودہ باتوں ، جھوٹ ، غیبت ، چغلی ، جھوٹی قسم اور لڑائی جھگڑے سے محفوظ رکھے۔ اسے خاموشی کا پابند بنائے اور ذکر و تلاوت میں مشغول رکھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: ’’روزہ ڈھال ہے۔ پس، جب تم میں کسی کا روزہ ہو تو نہ کوئی بے ہودہ بات کرے، نہ جہالت کا کوئی کام کرے، اور اگر اس سے کوئی شخص لڑے جھگڑے یا اسے گالی دے، تو کہہ دے کہ میر ا روزہ ہے‘‘۔

کس قدر عجیب بات ہے کہ اللہ کے حکم پر ہم روزے میں سحری سے لے کر افطاری تک  حلال کھانے سے تو پرہیز کرتے ہیں، لیکن اسی اللہ نے قرآن میں جس چیز (یعنی غیبت ) کو مُردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قرار دیا ہے اس حرام کو ہم رغبت سے کھاتے ہیں :

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِيْرًا مِّنَ الظَّنِّ ز اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا يَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا  ط  اَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ يَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِيْهِ  مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُ  ط وَاتَّقُوا اللّٰهَ  ط اِنَّ اللّٰهَ  تَوَّابٌ  رَّحِيْمٌ  o (الحجرات ۴۹: ۱۲) اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ، بہت گمان کرنے سے پرہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ تجسس نہ کرو۔ اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے ۔کیا تمھارے اندر کوئی ایسا ہے جو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا؟ دیکھو ، تم خود اس سے گھن کھاتے ہو۔ اللہ سے ڈرو ، اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے۔

 منہ اور پیٹ کا روزہ

حرام سے پرہیز تو ہر حال میں ضروری ہے مگر اِفطارکے وقت حلال کھانے میں بھی بسیار خوری نہ کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’پیٹ سے بدتر کوئی برتن نہیں، جس کو آدمی بھرے‘‘۔ ( احمد ، ترمذی  ،ابن ماجہ  ،الحاکم)

اگر شام کو دن بھر کی ساری کسر پوری کرلی تو روزے سے شیطان کو مغلوب کرنے اور نفس کی شہوانی قوت توڑنے کا مقصد حاصل کرنا مشکل ہو گا۔ افطار کے وقت پیٹ میں کوئی مشتبہ چیز نہ ڈالے، کیونکہ اس کے کوئی معنی نہیں کہ دن بھر تو حلال سے روزہ رکھا اور شام کو حرام چیز سے روزہ کھولا یا روزہ کھولتے ہی حرام کھانے پینے میں مشغول ہو جائے۔ 

افطار کے وقت روزہ دار حالت خوف اور امید کے درمیان مضطرب رہے کہ نہ معلوم اس کا روزہ اللہ تعالیٰ کے یہاں مقبول ہوا یا مردُود ؟ بلکہ یہی کیفیت ہر عبادت کے بعد ہونی چاہیے،اور مقدور بھر کوشش کے بعد اللہ پر اچھا گمان رکھا جائے۔

بقیہ اعضا کا روزہ

روزے کا تقاضا ہے کہ ہاتھ پاؤں اور دیگر اعضا کو حرام اور مکروہ کاموں سے محفوظ رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

 وَلَا تَــقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ  ۭ اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ  كُلُّ اُولٰۗىِٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْــــُٔــوْلًا   o (بنی اسرائیل ۱۷:۳۶) کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمھیں علم نہ ہو۔ یقینا آنکھ ، کان اور دل سب ہی کی باز پُرس ہونی ہے۔

ہاتھ کسی ناجائز اور حرام کام میں مشغول نہ ہوں اور پاؤں کسی گناہ کی طرف نہ اٹھیں:

اَلْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰٓي اَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَآ اَيْدِيْهِمْ وَتَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ  o (یٰسٓ ۳۶: ۶۵)آج ہم ان کے منہ بند کیے دیتے ہیں ، اِن کے ہاتھ ہم سے بولیں گے اور اُن کے پاؤں گواہی دیں گے کہ یہ دنیا میں کیا کمائی کرتے رہے ہیں۔

دل کا روزہ

 دل کا حقیقی اور اعلیٰ روزہ یہ ہے کہ دُنیوی افکار سے قلب کار وزہ ہو، اور ماسوااللہ سے اس کو بالکل ہی روک دیا جائے ۔ البتہ وہ دُنیا جو دین کے لیے مقصود ہو وہ تو دُنیا نہیں بلکہ توشۂ آخرت ہے۔   چار چیزوں کی کثرت سے پرہیز کیا جائے: طعام، کلام، نیند اور اختلاط۔ اور ان راستوں کی نگہبانی کی جائے جہاں سے دل کی بیمار ی لاحق ہونے کا خدشہ ہوتا ہے، یعنی آنکھ، کان، زبان اور شرم گاہ کی حفاظت کی جائے ۔

رمضان کی آخری شب مغفر ت کا پروانہ

 ہمیں لیلۃ القدر کی فضیلت تو یاد رہتی ہے اور ہونی بھی چاہیے اور اسے رمضان کی آخری طاق راتوں میں ڈھونڈنے کی (ترجیحاً اعتکاف میں)کوشش بھی کرنی چاہیے لیکن حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کردہ اس حدیث کو بھی نہیں بھولنا چاہیے جس میں پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’بخشش کی جاتی ہے میر ی اُمّت کی رمضان کی آخری رات میں‘‘۔ عر ض کیا گیا: یارسولؐ اللہ! کیا یہ لیلۃ القدر ہوتی ہے؟ فرمایا:’’نہیں، بلکہ کا م کرنے والے کی مزدوری اس کا کا م پورا ہونے پر ادا کر دی جاتی ہے‘‘۔ گویا جب اہلِ ایمان پورے اہتمام سے حقیقی روزہ رکھتے ہیں تو رمضان المبارک کی آخری شب اُجرت اور انعام کے طور پر ان کی بخشش کر دی جاتی ہے۔

ہمیں یہ رات فضولیات اور خرافات میں نہیں بلکہ عبادات اور دوسرے نیک اعمال میں گزارنی چاہیے کہ معلوم نہیں پھر یہ رات ہمیں نصیب ہو یا نہ ہو۔

اللہ تعالیٰ ہمیں روزے کی حقیقت اور اس کے مقصد کو سمجھنے کا فہم عطا فرمائے اور ایسا روزہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے جس سے ہم تقویٰ حاصل کر سکیں۔ اللہ ہمارے روزے قبول فرمائے اور ہمیں ان لوگوں میں شامل کرلے جن کو روزے رکھنے پر بخشش کی بشارت دی گئی ہے، آمین!

اپنی ہم عصر اسلامی تحریکوں پر مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے بہت سے پہلوئوں سے اثر ڈالا ہے۔ جن میں سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ دین دُنیا ، سیاست اور مذہب کی ایک دوسرے سے علیحدگی ، دورنگی اورثنویت کا جو تصور ایک مدت سے چلا آ رہا تھا، وہ عوام تو کیا ہمارے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور سند یافتہ علما تک میں راسخ ہو چکا تھا۔ اس خام اور مہمل تصورِ دین کو مولانا مودودی نے قرآن وسنت سے فراہم کردہ دلائل کی بنیاد پر دُور کیا۔ آج اندرون یا بیرون ملک کوئی ایسی دینی تحریک نہیں ہے کہ جس نے اس باب میں مولانا مودودی کی تحقیق اور فکر کو قبول نہ کر لیا ہو۔ وہی لوگ جو کل تک مولانا مودودیؒ کی تحریروں کو ’گمراہی‘ اور ان کی اصطلاحات کو ’کفر ‘ کے درجے تک پہنچانے میں کوئی جھجک محسوس نہ کرتے تھے، آج ان لوگوں کی بھی تحریروں اور تقریروں میں پورے جاہ و جلال کے ساتھ مولانا مودودی کا علم کلام بول رہا ہے۔

اس حقیقت کا اعتراف کرنا یا نہ کرنا دوسری بات ہے، لیکن اس امر واقعہ سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ تصور دین کی اس دورنگی کو دُور کر کے، اسلامی نظام حیات پر از سرِ نو غوروفکر کی لہر پیدا کرنے کا سہرا مولانا مودودی کے ہی سر ہے، حتیٰ کہ پاکستان کی نظریاتی جہت کو مولانا مودودی کے ان مضامین نے غذا فراہم کی ، جو مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش اول، دوم میں شامل ہیں۔ یہ انھی مضامین کا اثر تھا کہ نواب بہادر یار جنگ اور دوسرے کئی نمایاں لوگ،    علامہ عنایت اللہ خاں مشرقی مرحوم کی خاکسار تحریک کو چھوڑ کر مسلم لیگ میں آ گئے ۔ اور پھر اپنی خداداد قابلیت، بے پناہ محنت اور جوہرِ خطابت سے جلد ہی قائد اعظم محمد علی جناح کے قریب اور عوام میں بے پناہ مقبول ہو گئے۔

اسلامی تحریکوں سے فکری ربط کے حوالے سے بعض لوگ پوچھتے کہ اخوان المسلمون نے فکر وعمل میں مولانا مودودی سے کس پہلو سے اثر لیا، تو ان کے سامنے یہ بات رہنی چاہیے:

قیام پاکستان تک، بلکہ اس کے بعد بھی کچھ عرصے تک ہمیں یہاں پر اخوان المسلمون کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔ اسی طرح خود اخوان المسلمون کو بھی جماعت اسلامی کے بارے میں کچھ معلوم نہ تھا۔ اس لیے دیکھا جائے تو نہ جماعت اسلامی نے اخوان المسلمون سے کوئی چیز لی، اور نہ اخوان المسلمون نے ہی جماعت اسلامی سے کچھ اخذ کیا۔

بعض لوگوں نے اخوان المسلمون اور جماعت اسلامی کی دعوت اور مقاصد میں مماثلت اور مطابقت سے از خود یہ بات فرض کر لی ہے کہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کا عکس ہیں اور ایک ہی پروگرام کے تحت بنائی گئی ہیں۔ حالاں کہ اخوان المسلمون نے بھی جماعت اسلامی کی طرح ہرچیز براہِ راست قرآن وسنت اور اسلامی روایت وتاریخ سے اخذ کی ہے۔ دونوں اکابرین ملت اسلامیہ، یعنی امام حسن البنا شہیدؒ اور سید مودودی علیہ الرحمہ کی دعوت کا ماَخذ اور منبع چوںکہ مشترک اور ایک ہے، تو اسی منبعے کا یہ فطری نتیجہ ہے کہ دونوں تحریکیں ایک دوسرے کا پر تو نظر آتی ہیں۔ ورنہ سرچشمہ ایک ہونے کے سوا اُن کا آپس میں کوئی تعلق نہیں رہا۔

جیسا کہ ابھی کہا ہے کہ ایک مدت تک تو نہ جماعت اسلامی کو اخوان المسلمون کی خبر تھی اور نہ اخوان ہی جماعت اسلامی سے واقف تھے، یہ تو کہیں ۱۹۴۹ء یا ۱۹۵۰ء میں جا کر ہمیں معلوم ہوا کہ اخوان المسلمون نام کی ایک تحریک ہے جو عرب ممالک میں اسی مقصد کے لیے کام کر رہی ہے۔ اسی طرح اخوان المسلمون کو بھی کہیں بعد میں معلوم ہوا کہ جماعت اسلامی نام کی کوئی تحریک ہے، جو برصغیر پاک وہند میں اس مقصد کے لیے سرگرم عمل ہے، جس کے لیے وہ جان کی بازی لگا رہے ہیں۔

اس لیے یہ کہنا درست نہیں ہے کہ مولانا مودودی نے اخوان سے کچھ سیکھا ہے یا مرشد عام حسن البنا شہیدؒ نے مولانا مودودی سے کچھ سیکھا ہے۔ البتہ دونوں حضرات (اور پھر حسن البنا شہید کے ساتھی ) ایک دوسرے کے کام سے جب باخبر ہوئے اور ایک دوسرے کے لٹریچر کو دیکھا تو انھیں معلوم ہوا کہ دونوں جانب تقریباً ایک ہی فکر کار فرما ہے۔ بلاشبہہ اخوان المسلمون کے لٹریچر میں شدت اور انقلابیت نسبتاً زیادہ پائی جاتی ہے، جب کہ مولانا مودودی کے ہاں زیادہ زور تفہیم، توضیح، استدلال ، گہرائی ، ٹھیرائو اور اپنی بات مخاطب کے ذہن نشین کرنے اور دل ودماغ میں اتارنے پر ہے۔ مولانا کی انقلابیت کا راستہ ، جمہوری اور عمومی سطح پر تفہیم وقبولیت کے ذریعے   نکلتا ہے۔ اخوان نے بھی یہی راستہ اختیار کیا، مگر وہاں کے حاکموں نے ان کے لیے تمام کھلے اور جمہوری راستے بند کر دیے ، جس سے بعض جگہ اور بعض افراد میں کچھ شدت پیدا ہو گئی۔

مصر کے مغرب نواز بادشاہ فاروق اور پھر فوجی آمر جمال عبدالناصر کی جانب سے اخوان المسلمون کے ساتھ انتہائی ظالمانہ سلوک کے بعد ، اخوان المسلمون کی توجہ جماعت اسلامی کے طریق کار کی طرف مبذول ہوئی۔ ان کے صف اول کے اکثر رہنمائوں کو پھانسی چڑھا دیا گیا تھا۔ مرشد عام امام حسن البنا کو شاہراہ عام پر گولی مار کر شہید کر دیا گیا تھا۔ ۲۰،۲۵ ہزار اخوانی کارکنوں کو گرفتار کر کے صحرائی علاقے کی جیلوں میں ناقابل برداشت اذیتوں سے دوچار کیا گیا۔ سیکڑوں کارکنان ملک چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں جا کر پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ اور مصر میں تواخوان المسلمون کا نام لینا بھی مشکل ہو گیا۔ ان حالات میں اخوان المسلمون نے ملکی قیادت میں تبدیلی کے لیے جماعت اسلامی کے طریق کار کی افادیت کو محسوس کیا، کہ اگر چہ یہ راستہ طویل اور صبر آزما ہے لیکن نتائج کے اعتبار سے یہی طریقہ مؤثر اور پائے دار ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلح قوت کی فراہمی اور اس کے ذریعے طاغوت کے غلبے کو ختم کرنے کا جو راستہ اخوان المسلمون کے بعض جوشیلے حامیوں نے ، اخوان کی تنظیم سے الگ ہو کر اختیار کیا تھا، وہ ان مظالم ، غیر منصفانہ واقعات وحالات کا ایک منطقی نتیجہ تھا، جن سے ان کو دوچار کیا گیا تھا۔ ان کے خلاف جھوٹے الزامات عائد کر کے نہایت ظالمانہ طریقے سے قوت استعمال کی گئی تھی اور انھیں بدترین تعذیب سے دوچار کیا گیا تھا۔ جب سید قطب اور جسٹس عبدالقادر عودہ جیسے عظیم لوگوں کو پھانسی دے ڈالی گئی اور نہایت پاکیزہ کردار کے انسانوں پر محاورتاً نہیں بلکہ عملاً وحشی کتے چھوڑے گئے تو اس شیطانی عمل کا آخر ردعمل کیسے نہ ہوتا ؟

ظلم جب حد سے بڑھ جاتا ہے اور شرف انسانیت کی تذلیل آخری حدود کو چھونے لگتی ہے تو یہ منظر کمزور سے کمزور آدمی کو بھی مرنے مارنے کی جانب دھکیل دیتا ہے۔ پھر ستم زدہ عوام ، بالخصوص نوجوان کسی سنجیدہ نصیحت (sana advice)پر کان نہیں دھرتے ۔ چنانچہ سنجیدہ لیڈر شپ روز بروز بے اثر ہوتی چلی جاتی ہے، اور قوت کے ذریعے حالات کو بدلنے کی راہ دکھانے والے عناصر رفتہ رفتہ غالب آ جاتے ہیں۔ آخر کار ایسے انتہا پسند لیڈر ہی میدان میں رہ جاتے ہیں، فہمیدہ اور دُور اندیش لیڈر شپ بے بس ہو جاتی ہے ۔ طاغوتی طاقتیں چاہتی بھی یہ ہیں کہ انسانی قوت برداشت کو توڑ کر اپنے مخالف کو تشدد پر اُبھارا جائے اور پھر ریاستی مشینری کی قوت سے اسے کچل کر رکھ دیا جائے۔ مولانا مودودی نے ریاستی مشینری کی ایسی ہر کوشش اور سازش کے دام ہم رنگ سے اپنے آپ کو اور جماعت اسلامی کو بچایا۔

یہی بات میں نے مصر کے صدر حسنی مبارک اور ان کے مشیروں کے ذہن میں بٹھانے کی کوشش کی تھی، جب ۱۹۸۲ء میں ان کی دعوت پر مصر گیا تھا۔ ادھر اخوان المسلمون کے لوگوں کو بھی سمجھایا تھا کہ موجودہ حالات میں اسلامی تحریک کے لیے صحیح ، قابل عمل اور مؤثر طریق کار وہی ہے جو جماعت اسلامی نے اختیار کیا ہے، یعنی آئینی اور جمہوری طریق پر دعوت کو آگے بڑھانے کا راستہ۔ بالفاظِ دیگر تبلیغ وتلقین اور اشاعت افکار کے ذریعے راے عامہ کو متاثر کیا جائے۔ پھر راے عامہ کی قوت سے قومی اور اجتماعی قیادت کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس راستے کو اختیار کرنے میں آپ کو ابتدا میں کچھ دِقّت اور مشکل ضرور پیش آئے گی، لیکن آخر کار اس کے فوائد خود تحریک، دعوت اور اشاعت اسلام کے لیے ثمر بار ثابت ہوں گے۔

اسلام کی پوری تاریخ گواہ ہے کہ اسلام جب بھی ابھرتا ہے تو شیطان اور اس کے پیرو کار برہم ہو جاتے ہیں، اور ہر نوع کے ظلم وستم پر اتر آتے ہیں۔ لیکن یہ بھی اس دین حق کا کمال ہے کہ جس نے اس کا دامن تھاما، وہ کندن اور قابلِ صد افتخار کردار بن گیا۔ اخوانی رہنمائوں کی یادداشتیں اس پہلو سے بڑی سبق آموز داستانیں ہیں کہ ان میں ان مراحل کے مناظر بار بار سامنے آتے ہیں، جن سے ہر داعی حق کو گزرنا پڑتا ہے۔

اس سلسلے میں احمد رائفؒ کی رُوداد ابتلاء ، محترمہ زینب الغزالیؒ کی رُوداد قفس تیسرے مرشد عام اخوان المسلمون محترم عمر تلمسانیؒ کی یادوں کی امانت اور حامد ابو نصرؒ کی وادی نیل کا قافلہ سخت جان وغیرہ اُردو میں موجود ہیں۔ پہلی دو کتابوں کا ترجمہ ہمارے رفیق خلیل احمد حامدی مرحوم  و مغفور نے کیا تھا، جب کہ دوسری دو کتابوں کا ترجمہ حافظ محمد ادریس صاحب نے کیا ہے۔ ان یادداشتوں کی اشاعت میں ہمارے بھائی چودھری غلام جیلانی مرحوم نے خاصی دل چسپی لی تھی۔  یہ تمام خود نوشت مشاہدات بڑے مؤثر، سبق آموز اور اسلامی تحریک دعوت وعزیمت کے ناقابلِ فراموش ابواب ہیں۔ ہمارے لوگوں کو ان کا مطالعہ کرنا چاہیے ۔ یہ محض باطل اور ظالم حکمرانوں کی وحشت ناکی پر مشتمل ڈائریاں نہیں ہیں، بلکہ خود احتسابی وجاں سپاری کا ایمان افروز ریکارڈ بھی ہے۔

شام کے آمر مطلق صدر حافظ الاسد کا تعلق نصیری فرقے سے تھا۔ وہ شامی فضائیہ کا چند برسوں کے اندر سربراہ بن گیا، پھر اس نے حکومت پر قبضہ جما لیا ۔ تین عشروں تک بلا شرکت غیرے شام کے عوام پر حکومت کی، اور اس کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا بشارالاسد شام کا سربراہ بن گیا۔

۱۹۸۴ء میں جب اخوان المسلمون کے نوجوانوں نے اسد کی بعث پارٹی کے ذلت آمیز طرز حکومت کے خلاف احتجاج کیا تو، اس کے بھائی رفعت اسد کی نگرانی میں آپریشن شروع ہوا۔ جس میں شام کے شہروں حلب ، جسر اور انطاکیہ وغیرہ کو خصوصی طور پر نشانہ بنایا گیا، جب کہ حماۃ شہر کو ، جو اخوان المسلمون کے عابدوں اور زاہدوں کا مرکز تھا، اس کا محاصرہ کیا، اور پھر ہوائی جہازوں توپوں اور میزائلوں سے گولہ باری کر کے پورے شہر کو، شہریوں کے ساتھ کھنڈرات اور قبروں کا ڈھیر بنا دیا گیا۔ ہزاروں نوجوانوں کو سنگینوں سے چھلنی کیا اور گولیوں سے بھون ڈالا گیا۔ عفت مآب مسلمان اخوانی عورتوں کی عصمت دری کی گئی اور انھیں جیلوں میں سڑنے کے لیے پھینک دیا گیا۔ جیلوں میں ان پاک باز خواتین پر جو ہولناک مظالم ڈھائے گئے ، ان کی نہایت دل خراش داستانیں دنیا بھر کے اخبارات میں شائع ہوتی رہی ہیں۔ یہ ہے ایک ’ترقی پسند اور روشن خیال ‘ حکمران کا اپنے بے بس شہریوں سے سلوک ۔

یہ بات ذہن نشین کر لیجیے کہ جماعت اسلامی ہو یا اخوان المسلمون یا کوئی اور اسلامی یا  حتیٰ کہ غیر اسلامی جماعت ، جب اس کے کارکنوں پر ان کے نظریات اور خیالات سے ضد کی بنا پر تشدد کیا جاتا ہے اور پکڑ دھکڑ اور تعذیب کا نشانہ بنایا جاتا ہے، تو وہ اپنے نظریے اور عقیدے میں مزید پختہ ہو جاتے ہیں۔ ان میں اپنے مقصد کے لیے قربانی دینے کا جذبہ اور زیادہ نشوونما پاتا ہے۔ بلاشبہہ جماعت اسلامی اور دنیا کے دوسرے ممالک میں اٹھنے والی اسلامی تحریکوں، خصوصاً      اخوان المسلمون نے اپنے ہاں برسرِ اقتدار طبقات کے ہاتھوں بہت تکلیفیں اٹھائی ہیں اور اس سلسلے میں مصر کے جمال ناصر، شام کے آمر مطلق حافظ الاسد اور عراق کے صدام حسین جیسے آمروں نے  تو ظلم وتشدد اور وحشت ودرندگی کے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔ لیکن اس کے باوجود نہ صرف    ان تحریکوں کو نہایت قابل اعتماد اور مضبوط کارکنوں کی بڑی بڑی ٹیمیں میسر آ گئی ہیں، بلکہ دنیا کے ہرحصے اور ہرملک میں اقامت دین کا کام شروع ہو گیاہے۔

طرفہ تماشہ یہ ہے کہ اسلامی نظام عدل کے احیا کی تحریکوں کے یہ تمام مخالفین آزادی وحریت کے نعرے اور بلند بانگ پروگرام لے کر اٹھے ۔ عرب قوم پرست اور سوشلزم کا علَم بردار صدر ناصر، جس کا دورِ جبرواستبداد اس عہد میں فرعون کی زیادتیوں پر بھی بازی لے گیا، وہ بڑے فخر سے کہا  کرتا تھا:’’ میں استعمار کے خلاف حریت وآزادی کا پرچم بلند کرنے کے لیے اٹھا ہوں۔ میرے منشور میں آزادی (لبرٹی ) کا نعرہ سر فہرست ہے‘‘۔ لیکن اس کی جھلک اس کی قوم کو دیکھنا نصیب نہ ہوئی اور نہ اُن سے اختلاف رکھنے والے آزادی حاصل کرپائے۔

اخوان المسلمون کے ہزاروں کارکنوں کو صدر ناصر کے حکم سے بلا کسی وارنٹ اور کوئی وجہ بتائے بغیر گرفتار کر کے برسوں تپتے صحرائی جیل خانوں میں بند رکھا گیا۔ ان کو زمین میں گاڑ کر   ان پر بھوکے کتے چھوڑے جاتے۔ کوڑے مار مار کر ان کی کھال ادھیڑ دی جاتی ۔ ناصر کی موت کے برسوں بعد ہی کہیں ان جیلوں میں کوئی جگہ خالی ہوئی۔ گویا صدر ناصر کے نزدیک آزادی وحریت صرف اس کی غیر مشروط بندگی و غلامی کرنے والے کے لیے ہی تھی، اللہ تعالیٰ کی بے آمیز بندگی کرنے والوں کے لیے نہ کوئی آزادی تھی ، نہ کوئی انسانی حق۔

اور یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ اقامت دین کی تحریک کو اس نام نہاد روشنی کے دور میں غیرمسلموں سے زیادہ خود مسلمان حکمرانوں، ان کے پروردہ مسلمان دانش وروں ، صحافیوں، فوجیوں اور طبقہ علما کی کچھ شخصیتوں کے ہاتھوں بڑے دُکھ اٹھانے پڑے ہیں۔ [مشاہدات، ص ۲۷۹-۲۸۷]

ہمیشہ کی طرح آج بھی رفاہِ عام اور سماجی خدمت کے کام بہت ضروری ہیں اور کچھ پہلوؤں سے قدرے مشکل بھی۔ اسلام اور اسلامی تاریخ سے رہنمائی حاصل کی جائے تو قدم قدم پر خدمت کی ترغیب ملتی ہے۔ اسلام میں نیکی اور رفاہِ عامہ کا تصور بہت وسیع ہے۔ اس میں پس ماندہ افراد کے حقوق کی ادایگی کی بہت زیادہ تلقین کی گئی ہے۔خدمت خلق کادائرۂ کار اپنوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ سب تک پھیلاہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کر لیے یا مغرب کی طرف ، بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یوم آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے اور اللہ کی محبت میں اپنادل پسند مال رشتے داروںاور یتیموں پر ، مسکینوں اور مسافروں پر ، مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے، نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے۔ (البقرہ۲:۱۷۷)

  اسلام نے نہ صرف فرد بلکہ ریاست کو بھی عام لوگوں کی فلاح و بہبود کا پابند بنایا ہے اور حکمرانوں کو جواب دہ بنایا ہے کہ وہ رعایا کی ضروریات کو پیش نظر رکھیں۔ اسلام انفرادی، اجتماعی اور ریاستی و حکومتی سطح پر انسانوں کی فلاح و بہبود کو پیش نظر رکھتا ہے۔ اسلام میں رفاہِ عامہ کا تصور   ارتقائی عمل کا نتیجہ نہیں بلکہ اس کی تاریخ کا آغاز ظہور اسلام کے ساتھ ہی نظر آتا ہے اور مسلمان ہردور میں سماجی ومعاشرتی بہبود انسانی کی خاطر مسلسل مصروف عمل رہے ہیں۔ ان کا مطمح نظر اللہ کی خوشنودی حاصل کرنا ہوتا ہے۔ مسلمان، حاجت مند اور محتاج افراد کی ضروریات کی تکمیل کی ذمہ داری  کتاب و سنت کے عائد کردہ احکامات کے مطابق محسوس کرتا ہے۔

رفاہی کاموں اور انسانی خدمات کے سلسلے میں ہمارے سامنے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا عملی نمونہ موجود ہے۔آپؐ انسانی خدمت کے لیے ہمیشہ متحرک رہتے تھے۔ بعثت نبویؐ سے قبل کے دور میںبھی آپؐ ہی تھے جو دُکھی لوگوں کی دست گیری کرتے تھے۔ حضرت خدیجہؓ نے آپؐ کا تعارف ان سنہرے اور جامع الفاظ میںکرایا : 

کَلَّا وَاللہِ لَا یُخْزِیَکَ اللہُ اَبَدًا اِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَحْمِلُ الْکَلَّ وَتَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ وَتَقْرِ یْ الضَّیْفَ وَ تُعِیْنُ عَلٰی نَوَائِبِ الْحَقِّ(بخاری ، باب کیف کان بدء الوحی الی رسول  اللہ ، حدیث:۳) اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ آپؐ کو کبھی  رنج نہ دے گا ، آپؐ تو صلہ رحمی کرتے ہیں ، آپؐ ناتوانوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں ، آپؐ ناداروں کے لیے کماتے ہیں ، آپؐ مہمان نوازی کرتے ہیں ، آپؐ حوادث کے زمانے میں متاثرہ لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔

 ایثاراور خدمت کے اسی جذبے سے آپؐ نے صحابہ کرامؓ کی ایک مثالی ٹیم بنا دی تھی۔   اللہ کے رسو لؐ سے تربیت پاکروہ ہر معاملے میں دوسروں کو ترجیح دیتے تھے۔ وہ خود بھوکے رہتے اور دوسروں کو کھانا کھلاتے ، خود تکلیف برداشت کرتے اور دوسروں کو آرام پہنچاتے تھے۔   خدمت خلق اور جذبۂ ایثار صحابہؓ کی زندگی کا مقصد بن گیا۔ ہر کمزور اور مظلوم کو ان سے اُمید پیدا ہوگئی کہ ان کے ہوتے ہوئے کوئی ظالم و جابر ہمارا استحصال نہیں کر سکے گا۔

  • پس ماندہ طبقوں کی مدد : یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ دنیا میں ایک بڑی تعداد  نہ صرف خوف و ہراس کی زندگی گزار رہی ہے بلکہ و ہ بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہے۔ ان طبقات میں غربت اتنی چھائی ہوئی ہے کہ ان کے بچے بنیادی تعلیم سے بھی محروم ہیں۔ایک محتاط عالمی اندازے کے مطابق صرف ہندستان میں ۳۰کروڑ افراد خط ِغربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں کہ جن کو ایک دن میں دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں ہے۔ اس کے علاوہ لاکھوں کی تعداد میں فٹ پاتھ پر رہنے والے بچوں کے پاس سر چھپانے کے لیے کوئی ٹھکانا نہیں ہے۔کروڑوں کی تعداد میں  لوگ جھونپڑیوں میں رہتے ہیں جن کو پینے کے لیے صاف پانی بھی میسر نہیں ہے۔یہ منظرنامہ  انتہائی تشویش ناک ہے۔ پس ماندہ علاقوں میں رفاہ اور دعوت کا کام کرنے کی ضرورت ہے۔   اس ضمن میں رسولؐ کی مثال ہماری نظروں سے اوجھل نہیں ہونی چاہیے۔ آپؐ نے پس ماندہ افراد پر خصوصی توجہ دی۔ ایک مغربی مصنّف نے صحیح کہا ہے کہ: ’’ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم اس علاقے میں مبعوث ہوئے، جو دنیاکا پس ماندہ ترین خطّہ تھا۔ یہ علاقہ دنیا بھر کے علوم و فنون کے مرکز سے    دُور تھا،اور وہاں انسانی اقدار کی ترویج کا تصور بھی نہیںکیا جاسکتا تھا، لیکن رسولؐ اللہ تھوڑے ہی برسوں میں اس علاقے میں ناقابلِ یقین حد تک جو حیرت انگیز انقلاب لے آئے، وہ آپؐ کے علاوہ کسی اور شخصیت سے ممکن ہی نہیں تھا۔یہ آپؐ کی رہنمائی کا اعجاز تھا کہ انسانی کردار کی عظمت سے محروم اس خطے سے عالم انسانیت کی رہنمائی کا آغاز ہوا‘‘۔

موجودہ زمانے میں، رفاہِ عام کی مختلف سرگرمیوں اور کاموں کے حوالے سے یہ کام توجہ چاہتے ہیں:

  • اسکالرشپ وغیرہ متعارف کروانا:بہت سی سرکاری اور غیر سرکاری اسکیمیں اور وظائف ہیں، جن سے اکثر مستحق لوگ ناواقف رہتے ہیں۔ ان اسکیموں اور اسکالر شپس کو متعارف کروانا بھی ایک اہم کارِ خیر ہے۔ اس کے علاوہ غریب طلبہ و طالبات اور مستحقین کو اسکالرشپ فراہم کرنے کے لیے فورم اور ٹرسٹ قائم کیے جائیں۔ ان کے لیے مفت کوچنگ سنٹرز کابھی قیام عمل میں لایا جائے، تاکہ نادار مگر محنتی طلبہ آگے بڑھ سکیں۔ 
  • طبّی امداد بہم پہنچانا: دورِ حاضر میں متنوع بیماریوں نے جنم لیا ہے اور کچھ بیماریوں کے علاج پر ۱۰ سے ۱۵لاکھ تک کا خرچ آجاتا ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں ایسے بے سہارا مریضوں کی بھی ایک بڑی تعداد ہوتی ہے جنھیں دوائوں کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔یہ مریض کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزارتے ہیں۔ ان کے پاس پہنچنا اور دوائیوں کا انتظام کرنا ایک بڑی نیکی اور انسانی خدمت ہے۔ طبی امداد کے سلسلے میں ایک پہلو یہ ہے کہ جگہ جگہ میڈیکل کیمپوں کا اہتمام کیا جائے، جن سے لوگ بڑی تعداد میں استفادہ کرسکیں۔مزید یہ بھی کہ کلینکل ٹیسٹ کرانے کے لیے دُور دراز اور غریب آبادیوں میں کیمپ لگا کر نمونے اکٹھے کیے جائیں اور مریضوں کی مدد کی جائے۔ اسی طرح سے ناگہانی آفات زلزلہ ، سیلاب وغیرہ کے موقع پر متاثرین کو امداد و طبی سہولیات پہنچانے کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔اس موقع پر دینی اداروں اور تنظیموں کو کلیدی کردار ادا کرنا چاہیے، رسمی نہیں۔
  • تعمیراتی کام:عام انسانوں کی سہولت کے لیے پُل ، سڑک ، سرائے وغیرہ کی تعمیر کرنا ایک عظیم انسانی خدمت ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے لیے بڑے وسائل چاہییں جو عام آدمی کی دسترس میں نہیں ہوتے، لیکن یہ ضرور ہے کہ آپ کے قریب میں اگر کہیں تھوڑی بہت ٹوٹ پھوٹ ہو تو اسے مرمت کرا دیا جائے۔ اگر اُس وقت یہ نہیں کیا جائے گا تو سڑک کا بڑا حصہ تباہ ہوجائے گا اور تعمیر قسمت سے ہوگی۔ اس طرح کا کام کرنا مفادِ عامہ کے لیے مفید ہے۔ عالمِ اسلام میں     ان لوگوں کی ایک بڑی تعداد ہے جو جھونپڑیوں میں زندگی گزارتے ہیں۔ ان مفلوک الحال لوگوں کے لیے ایک ایک دو دو کمروں پر مشتمل مکانات کی تعمیر کا انتظام کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
  • صفائی اور ماحول کی بہتری کے لیے مہم چلانا:اسلام نے طہارت ، اور صفائی پر بے حد زور دیا ہے۔ صرف انفرادی طور پر صاف ستھرے رہنے کا حکم نہیں دیا بلکہ پورے ماحول کو صاف رکھنے کا حکم دیا ہے اور کہا کہ راستو ں کو صاف رکھو اور گندی اور تکلیف دہ چیزوں کو وہاں سے ہٹائو،اور اس نوعیت کی خدمات کو اللہ کے رسولؐ نے صدقہ میں شمار کیا ہے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں :اِمَاطَۃُ الْاَذٰی عَنِ الطَّرِیْقِ صَدَقَـۃٌ(ابوداؤد،کتاب الصلاۃ، حدیث:۱۱۰۶)۔اسلام نے پانی کو صاف وشفاف رکھنے کا بھی حکم دیا ہے اور سڑک ، سایہ دار درخت ، باغ، دریا ، تالاب ، ندی ، نالے اور دریا کے پانی میں پیشاب کرنے اور گندگی پھیلانے سے منع کیا ہے۔ صفائی ستھرائی اور ماحول کو صاف رکھنے کے لیے مہمیں چلانی چاہییں اور یہ مہمیں ہماری دعوت کا حصہ ہونی چاہییں۔
  • مظلوموں اور کمزوروں کی مدد: مظلوموں ، بے کسوں اور کمزوروں کی تعداد روزبروز بڑھتی ہی جارہی ہے اوران کی حالت روز بروز کمزور ہوتی جارہی ہے۔ ان کا کوئی دستگیر اور پُرسان حال نہیں ہے۔اس تعلق سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے کیوں کہ مظلوموں کی حمایت کرنا ، کمزوروں کی داد رسی اور مفلوک الحال لوگوں کی مدد و اعانت کرنا دعوت دین کا جزولاینفک ہے۔
  • ظلم و جبر کے خلاف متحد ہونا: ظلم و ناانصافی ایک ایسا گھناؤنا فعل ہے جس کو دنیاکے ہر مذہب نے ناقابل برداشت ٹھیرایا ہے۔ لیکن اسلام نے اس حوالے سے اعلیٰ نمونہ   پیش کیا ہے اور ہر مسلمان کو اس بات کا پابند ٹھیرایا کہ وہ ظلم و ناانصافی کو ختم کرنے کے لیے   اوّلین فرصت میں قدم اٹھائے۔اس کے لیے اگر غیر مسلموں سے تعاون بھی کرنا پڑے تو کرنا چاہیے۔ ریاست اور معاشرے کو پُرامن رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ظلم و ناانصافی نہ ہو۔ظلم و جبر کو ختم کرنے کے لیے ایک بہترین مثال ’حلف الفضول‘ کی ہے، جس میں مختلف قبائل نے یہ طے کیا تھا کہ ظالم کے خلاف مظلوم کی حمایت کریں گے۔اس میںجن باتوں کا عہد کیا ، وہ مندرجہ ذیل ہیں :

۱-            مکہ کے حدود میں کسی پر ظلم نہیں کرنے دیں گے۔

۲-            ہم سب مل کر مظلوم کی مدد کریں گے اور اسے اس کا حق دلوائیں گے۔

۳-            کسی شخص کو کسی کے مال و آبرو پر دست درازی نہ کرنے دیں گے۔

۴-            مکہ میں رہنے والے اور باہر سے آنے والوں کی یکساں داد رسی کی جائے گی۔

   یہ معاہدہ اتنا عظیم الشان تھا کہ اس کے بارے میں اللہ کے رسول ؐ نے ارشاد فرمایا :

 لَقَدْ شَھِدْتُ فِی دَارِ عَبْدِاللہِ بْنِ جُدْعَانَ حِلْفًا مَا اُحِبُّ اَنَّ  لِیْ بِہٖ حُمْرَ النَّعَمِ وَلَوْ اُدْعٰی بِہٖ فِی الْاِسْلَامِ لَأَ حْبَبْتُ (ابو محمد عبدالملک ابن ہشام ، السیرہ النبویہ، ج۱، ص۱۳۴) میں عبدللہ بن جدعان کے مکان میں ایک ایسے حلف (حلف الفضول) میں موجود تھا جو مجھے سرخ اونٹوں سے زیادہ پیارا تھا اور اگر اسلام میں بھی کوئی ایسے عہد کی طرف بلائے تو میں قبول کر لوں گا۔

  • تعلیم کا انتظام کرنا: ایسے بچوں یا افراد کو جو معاشی تنگ دامنی کی وجہ سے تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہ گئے ہوںان کی تعلیم و تربیت کا انتظام کرنا دعوت کا ایک اہم حصہ ہے۔ دورِنبوت میں تعلیم نہ صرف عام بلکہ مفت بھی تھی اور تعلیم پر کسی طبقے کی اجارہ داری قائم نہیں تھی۔ اسلام نے تعلیم حاصل کرنے کو ہرفرد کے لیے لازم قرار دیا اور نہ صرف بچوں ، مردوں ، عورتوں بوڑھوں بلکہ غلاموں اور لونڈیوں کو بھی تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کا حکم دیا۔اللہ کے رسولؐ نے مدینہ پہنچ کر سب سے پہلا کام جو کیا وہ مسجد کی تعمیر ہے۔اس مسجد میں درس گاہ کی بنیاد بھی رکھی گئی جس کو عربی میں ’صفہ‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ایک کھلی اقامتی درس گاہ تھی، جس میں ہر چھوٹا بڑا تعلیم حاصل کر سکتا تھا۔

داعی کو اس پہلو پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے کیوں کہ یہ ایسا راستہ ہے جس سے داعی اپنے مخاطب کو ابدی سچائیوں سے روشناس کرا سکتا ہے۔ اسی لیے داعی یا تحریکوں اور تنظیموں کو تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دینی چاہیے اور اپنے وسائل میں ایک بڑا حصہ اس پر صرف کرنا چاہیے۔ معیاری تعلیمی ادارے،تعلیم بالغاں، کیرئیر گائیڈنس اور مفت کوچنگ سنٹرزاس ضمن میں کافی مدد گار ثابت ہوسکتے ہیں۔

  • کونسلنگ سنٹروں کا قیام:عصر حاضر میں مختلف قسم کے نفسیاتی بیماریوں نے جنم لیا ہے۔ڈپریشن اور دوسرے قسم کی نفسیاتی بیماریاں بڑھتی جارہی ہیں۔اس بات کی شدت سے ضرورت محسوس ہورہی ہے کہ  نفسیاتی صلاح کاری کے مراکز قائم کیے جائیں،جہاں سے ذہنی اور اعصابی بیماریوں میں مبتلا مریضوں کا علاج مفت میں کیا جاسکے۔
  • اجتماعی زکوٰۃ کا نظم: اگر مسلمان زکوٰۃ ،صدقات اور خیرات کو منظم انداز سے  جمع کریں تو غربت اور پس ماندگی کو آسانی سے ختم کیا جاسکتا ہے۔ رفاہِ عامہ کا یہ ایک منفرد تصور قرآن کریم نے دیا ہے۔ قرآن کریم نے مصارفِ زکوٰۃ میں فقرا، مساکین ،مقروضوں، اسیران اور مسافروں کو شامل کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاۗءِ وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْعٰمِلِيْنَ عَلَيْہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُہُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِيْنَ وَفِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ۝۰ۭ فَرِيْضَۃً مِّنَ اللہِ ۝۰ۭ وَاللہُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ۝۶۰(التوبہ۹ : ۶۰) یہ صدقات تو در اصل فقیروں اور مسکینوں کے لیے ہیں اور ان لوگوں کے لیے جو صدقات کے کام پر مامور ہو ں اور ان کے لیے جن کی تالیف قلب مطلوب ہو ، نیز یہ گردنوں کے چھڑانے اور قرض داروں کی مدد کرنے میں اور اللہ کی راہ میں اور مسافر نوازی میں استعمال کرنے کے لیے ہیں۔ ایک فریضہ ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور دانا و بینا ہے۔

  • روزگار کی فراہمی: ایک نوجوان کے لیے مقصد زندگی سے واقفیت بہم پہنچانے کے ساتھ روزگار کا انتظام کرانا بھی بہت عمدہ خدمت ہے۔ اس تعلق سے تحریکا ت اسلامی ، دینی تنظیموں اور اداروں کو سامنے آنے کی ضروروت ہے۔یہ ادارے اگر وسیع پیمانے پر اسکولوں، کالجوں، ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹس وغیرہ کو قائم کریں تو نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو روزگار مل سکتا ہے۔ روزگار نہ ہونے کی وجہ سے نوجوانوں طبقے کے مایوس افراد چوری ، اسمگلنگ، منشیات اور دوسرے غیر قانونی کاموں میں ملوث ہوجاتے ہیں۔ اس لیے نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کے لیے مہارتوں سے آراستہ کرنے اور گھریلو صنعتوں میں خدمات کی انجام دہی کی جانب فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔   یہ چیز صحت مند معاشرے اور دعوتِ دین کے لیے ایک کار گر ذریعہ ثابت ہوسکتی ہے۔
  • میڈیا پرسنز کی تیاری:آج دُنیا بھر میں اسلام مخالف لہر زوروں پرہے۔ روز مسلمانوں کو کسی نہ کسی جگہ پریشان کیا جاتا ہے۔ جہاں بھی مسلمان اقلیت میں ہیں،وہاں تو ان کو  نہ صرف تعلیمی سطح پر بلکہ سیاسی سطح پر بھی منصوبہ بندطریقے سے پس ماندہ رکھا جا رہا ہے۔مسلم نوجوانوں کو اسلام پسندی کی بنیاد پر گرفتار کر کے ظلم و ستم کا نشانہ بنا یا جارہا ہے یا ریاستی خوف کا شکار کیا جارہا ہے۔اس طرح مسلم شناخت کی بنیاد پر مسلمانوں کے خلاف نسلی فسادات بھی بڑھ رہے ہیں اور اسلام کے بارے میں بڑے پیمانے پر غلط فہمیاں بھی پھیلائی جاتی ہیں۔ اس سلسلے میں میڈیا انسٹی ٹیوٹ قائم کرنے کی ضرورت ہے جہاں سے جدید تعلیم یا فتہ نوجوان اور ماہر ین ،رپورٹرز اور تجزیہ نگار  تیار ہوں، اور جو لوگوں کو حالات اور واقعات کی حقیقی شکل سے روشنا س کرا ئیںاور حق و صداقت کی سچائی کا علَم لے کر پروپیگنڈا پھیلانے والوں کاپردہ چاک کریں۔یہ تبھی ممکن ہوپائے گا، جب  متمول افراد، ماہرین اور تحریکات، تنظیمیں اور ادارے اس جانب بھرپور توجہ دیں۔اسی طرح ذہین اور باصلاحیت طلبہ کو ماس کام یا میڈ یا کو رس میں داخلہ لینے کے لیے تر غیب دی جا ئے اور حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ مالی معاونت کا انتظام بھی کیا جائے۔

ایسی سرگرمیوں سے مسلمانوں کی خدمت کے ساتھ، معاشرتی امن اور دعوتِ دین کے کاموں کو زیادہ مؤثر انداز سے ترقی دی جاسکتی ہے۔

۲مئی کو مقبوضہ کشمیر کے ضلع شوپیاں میں چند دن پہلے ہونے والی انڈین فورسز کی زیادتیوں کے خلاف ایک بے قابوہجوم نے مبینہ طور راہ چلتی گاڑیوں پر پتھراؤ کیا، جس کی زد میں ایک اسکول کی بس بھی آگئی، اور بس میں سوار چند معصوم طالب علم زخمی ہوئے۔ اس سانحے پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے۔ جو قوم مسلسل غیروں کے نشانے پرہو، جس پر سرکاری فورسز کی زیادتیوں کا نہ رکنے والا سلسلہ تین عشروں سے جاری ہو، اُسی قوم کے نونہال یا عام شہری اگر اپنوں کی غلطیوں کا بھی  شکار ہوجائیں تواس سے بڑی بدقسمتی کی بات اور کیا ہوسکتی ہے؟اس افسوس ناک واقعے کی خبر ابھی سوشل میڈیا پر آہی رہی تھی کہ ریاستی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی صاحبہ نے حسب عادت مذمتی ٹوئیٹ میں کہا: ’’انھیں یہ جان کر بہت دْکھ اور تکلیف پہنچی اور غصہ آیا کہ شوپیاں میں ایک اسکول بس پر حملہ کیا گیا۔ اس پاگل پن اور بزدلانہ کام کرنے والوں کو بخشا نہیں جائے گا‘‘۔

سوشل میڈیا بالخصوص Twitter پرسرگرم رہنے والے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ بھلا کیسے چپ رہتے۔ انھوں نے بھی پے در پے اس واردات پر بہت سے مذمتی ٹوئیٹ کرکے خوب خبریں گھڑیں۔ ایک ٹوئیٹ میں انھوں نے لکھا :’’ اسکول کے بچوں اور سیاحوں کی بسوں پر پتھراؤ   کرنے والوں کے ایجنڈے کو آگے لے جانے میں کیسے مدد ملے گی؟ یہ حملے سخت قابل مذمت ہیں‘‘۔ ایک اور ٹوئیٹ میں انھوں نے سنگ بازی کے واقعات میں ملوث نوجوانوں کے حق میں پولیس کیس واپس لینے کی وکالت کرنے والوں تک کو آڑے ہاتھوں لیا۔ریاست جموں و کشمیر کی دوبڑی ہندنواز جماعتوں کے سربراہوں، یعنی محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کے مذمتی بیانات سامنے آنے کی دیر تھی کہ نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کی سوشل میڈیا ٹیم ، ان جماعتوں کے ترجمان اوربا تنخواہ یوتھ لیڈران میڈیا کی سرزمین پر حرکت میں آگئے اور تحریک ِحریت کشمیر کے لیڈران سے لے کر پاکستان تک، ہر آزادی پسند اور اصولوں کی بات کرنے والوں کو بیک جنبش قلم مجرموں کی صف میں لا کھڑا کیا۔ کشمیریوں کو ’اُکسائی ہوئی قوم‘ قراردیا گیا، سنگ بازوں اور احتجاجیوں کو ’گمراہ ‘کہا گیا، حریت لیڈروں کو قتل و غارت گری کا ذمہ دار گردانا گیا۔ مراد یہ ہے کہ ایک ہی پَل میں سوشل میڈیا پر دہلی کے پروردہ اور حمایت یافتہ اس ٹولے نے ’فردِ جرم‘ بھی گھڑی، عدالتیں بھی سجائیں اور فیصلے بھی سنائے۔ جن میں حقِ خودارادیت اوراس جائز اور مبنی بر حق جدوجہد کی بات کرنے والوں کو قصور وار ٹھہرایا گیا۔حالاںکہ اسکول بس میں زخمی بچے اُسی مظلوم قوم و ملت سے تعلق رکھتے ہیں، جو سرکاری ظلم و جبر کی شکار ہے۔ اُن کے لیے ماں کی طرح تڑپنے والے اصل میں وہ عام لوگ ہی ہیں، جو جانتے ہیں کہ اپنوں اور معصوموں کا لہو گرجانے سے کتنی تکلیف ہوتی ہے۔ حریت کے قائدین بھی بار بار ایسے واقعات پر اپنے رنج و غم کا برملا اظہار کرتے چلے آئے ہیں، لیکن اس کے باوجود  ’مذمت بریگیڈ‘ ایسے موقعوں پر اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے تیر و تفنگ کا رُخ حق خود ارادیت کے لیے جدوجہد کرنے والوں کی جانب پھیر دیتا ہے۔

ہم یہ نہیں کہتے ہیں کہ عمر عبداللہ اینڈ کمپنی اور محبوبہ مفتی اور اُن کے تنظیمی درباریوں اور چیلوں کو ایسے سانحات پر اظہارِ مذمت کا حق نہیں۔اُنھیں ایسا کرنے کا غیر مشروط حق حاصل ہے۔  ہرکسی کو جہاں بھی انسانیت کا خون بہایا جارہا ہو، اس کے خلاف اپنی آواز بلند کرنی چاہیے۔ لیکن عام کشمیریوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ انھیں پسند کے ظالم اور پسند کے مظلوم کا رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ انھیںحالات وواقعات کو ٹیڑھی آنکھ سے دیکھنے کی روش ترک کرنی چاہیے۔ مگرمچھ کے سے آنسو بہانے اور سرکاری مراعات کے حصول کے لیے منافقانہ رویہ چھوڑ دیا جانا چاہیے۔

اصولی طورجن لوگوں کے ہاتھ عام کشمیریوں کے خون سے رنگے ہوئے ہوں، جن کے دوراقتدار میں روز بے گناہوں کا خون بہایا گیا ہو، یا بہایا جارہا ہو، جو نونہالانِ کشمیرکو بم، بارود اور گولی سے اُڑا دینے کی منصوبہ بندی میں برابر کے شریک ہوں، جن کے کہنے پر یا پشت پناہی  سے وردی پوش یہاں روز انسانی حقوق کی دھجیاںاُڑا رہے ہوں ،اُنھیںمظلوم عوام پر انگلی اُٹھانے کا کوئی حق حاصل نہیں، بلکہ اُنھیں پہلے اپنے گریبان میں جھانک لینا چاہیے کہ وہ کہاں کھڑے ہیں اور اُن کے کرتوتوں کی وجہ سے جموں و کشمیر کے بے بس اور مظلوم شہری کس عذاب اور عتاب کا شکار ہیں۔

شوپیاں میں اسکول بس ودیگرگاڑیوں پر مبینہ طور سنگ باری ہونے کے چند ہی گھنٹوں بعد جب اسی ضلع کے ترکہ وانگام علاقے میں بھارتی فورسز کے اہل کاروں نے تین درجن کے قریب معصوم نوجوانوں کے جسم گولیوں سے لہو لہان کردیے۔جب انکاؤنٹر والی جگہ سے ایک کلو میٹردُور اسکولی وردی میں ہی ملبوس نویںجماعت کے طالب علم محمد عمر کمہار(۱۴سال) ساکن پنجورہ کو سرکاری فورسز نے نزدیک سے گولی مار کر ابدی نیند سلا دیاتھا،جب سری نگر کے نور باغ علاقے میں پولیس نے عادل احمد نامی ایک نوجوان کو بڑی ہی بے رحمی کے ساتھ کچل ڈالا تھا۔ جب پولیس اور فوج نے شوپیاں کے علاوہ جنوبی کشمیر کی مختلف جگہوں پر پانچ عسکریت پسندوں کے ساتھ ساتھ پانچ عام نوجوانوں کو بھی گولیاں مار کر ابدی نیند سلا دیا تھا اور دیگر سیکڑوں کو زخمی کردیا تھا،اُس وقت عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی صاحبہ کی سربراہی میں کام کرنے والا یہ مذمتی ٹولہ سوشل میڈیا سے کیوں غائب ہوگیا تھا؟

 پھر نہ مجبوبہ مفتی کی نظریں ان کم سن نوجوانوں کی معصومیت پر گئیں اور نہ عمر عبداللہ وغیرہ کو ان کی ماؤں کے چھلنی جگر نظر آئے۔ انھیں کمسن عمر کمہار کی والدہ کے ہاتھ میں نوحہ کناں وہ اسکولی یونیفارم بھی نظرنہیں آیا جو وہ لہرا لہرا کر دکھا رہی تھی کہ کس طرح اُس کے طالب علم بیٹے کو جرم    بے گناہی میں جان بحق کیا گیا۔ کیامذمتی ٹولے کو اس معصوم بچے کا اسکولی وردی میں اُٹھنے والا وہ جنازہ بھی نظر نہیں آیا، جو سنگ دل سے سنگ دل افراد تک کے دلوں کو بھی پاش پاش کررہاتھا؟  سری نگر سے شوپیاں تک دو دن میں ۱۴لوگوں کی جانیں لینے کے بعد ریاستی وزیر اعلیٰ کہتی ہیں کہ: ’’کیا اسلام اس عمر میں جان دینے کی اجازت دیتا ہے؟‘‘ حالاںکہ جان لینے والے اس کی سربراہی میں کام کرنے والے فورسز اہل کار ہیں۔

 حا لات کوایک آنکھ سے دیکھنے کے عادی ان اقتدار پرست لوگوں کو اسکول بس پر برسنے والے چند پتھر تو نظر آگئے، لیکن انھیںجنوبی کشمیر کے تین اضلاع میں صرف ایک ماہ کے دوران ۶۰ سے زائداُٹھنے والے جنازے نظر نہیں آئے۔ اُنھیں اُن ۶۰ نوجوانوں کے لواحقین ، عزیز و اقارب کی وہ ذہنی کیفیت نظر نہیں آ ئی، جس نے اس پورے خطے کے لوگوں کو بے قابو بنادیا ہے۔ محبوبہ مفتی کے والد بزرگوار ۸۰ سال کی بھر پور زندگی جینے کے بعد رحلت کرگئے تھے تو موصوفہ کئی ماہ تک اُس صدمے سے باہر نہیں نکل پائیں۔ آج بھی بار بار سرکاری تقریبات کے دوران وہ اپنے والد کو یاد کرکے جذباتی اور آب دیدہ ہوجاتی ہیں۔ جب وہ اپنے بزرگ والد کی جدائی کو برداشت نہیں کرپاتیں تو اُن والدین کی کیا حالت ہوگی جن کے معصوم بچوں کی کٹی پھٹی لاشیںاُنھیں روز موصول ہوتی رہتی ہیں،جو اپنے سامنے اپنے بچوں کو بھارتی فورسز کی گولیوں کا شکار ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں؟ اُنھیں اُن بستیوں کا درد و کرب نظر کیوں نہیں آرہا ہے، جہاں روز صرف جنازے ہی اٹھتے ہیں؟ انھیں اُن والدین کی اذیت اور تکلیف محسوس کیوں نہیں ہوتی، جن کے بچے زخمی ہیں اور وہ  درد و کرب سے چیختے چلّاتے رہتے ہیں؟ اُنھیں اُن بوڑھے والدین کی ذہنی کیفیت کا اندازہ کیوں نہیں ہوتا ہے جو اپنے بڑھاپے کا سہارا سمجھے جانے والے بچوں ہی کا سہارا بننے پر مجبور ہیں، کیوںکہ اُن کی آنکھوں کی بینائی فورسز اہل کاروں نے پیلٹ گنوں سے چھین لی ہے؟… خاتون ہونے کی حیثیت سے اُنھیں اُن ماؤں کے دُکھی دل نظر کیوں نہیں آتے، جو اپنے جواں سال بیٹیوں کی لاشوں کو دولہے کی طرح سجاتی سنوارتی اور اپنی دیوانگی بھری مامتاکا مظاہرہ کرتی ہیں؟

نیشنل کانفرنس کے صدر عمر عبداللہ کو پتھراؤ کے نتیجے میں زخمی بچوں کی چیخ پکار صرف اس لیے سنائی دیتی ہے کیوںکہ اس کے ذریعے سے وہ حق خود ارادیت کی جدوجہد کرنے والے عوام کو ’گمراہ ‘ ثابت کرسکیں، حالاں کہ کشمیری مظلوموں کو معلوم ہے کہ ۲۰۱۰ءمیں ۱۲۸نہتے لوگوں کا خون    اُن فورسز ایجنسیوں نے بہایا ہے جن کی یونیفائڈ کمانڈ کی سربراہی عمر عبداللہ صاحب کررہے تھے۔ اِن کے دور اقتدار میں ہی بٹہ مالو سری نگر کے چھے سالہ سمیر احمد راہ کو جس بے دردی کے ساتھ   جاں بحق کردیا گیا،اُس کی مثال چنگیزی دور میں بھی دکھائی نہیں دیتی۔ انڈین سنٹرل ریزرو پولیس فورس کے اہل کاروں نے ٹافی لانے کے لیے بازار گئے سمیر کو پیروں تلے روندکر بڑی اذیت ناک طریقے سے قتل کردیا تھا۔ نیشنل کانفرنس کے دور اقتدار میں لاشوں تک کو بخشا نہ گیا۔ کشمیریوں کو یہ بھی یاد ہے کہ شوپیاں کی آسیہ اور نیلوفر کی عصمت دری اور قتل کوعمر عبداللہ نے کس بے تکلفی کے ساتھ  بے تکی بات کہا تھا۔ اَن گنت معصوم انسانوں کاقتل عمد عمر عبداللہ اور اُن کے والد ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے اَدوار ِحکومت میں ہوا تھا اور دونوں باپ بیٹوں نے کشمیریوں کی نسل کشی پر کبھی اُف تک نہیں کیا۔

یہی حال پی ڈی پی کا بھی ہے۔ محبوبہ مفتی کے عہد ِاقتدار میں کشمیر کی سر زمین خون سے لالہ زار ہوگئی۔ ۲۰۱۶ءسے تاحال ہر ہفتے کسی نہ کسی عام شہری کو جرم بے گناہی کی پاداش میں ابدی نیند سلا دیا جاتا ہے اور وزیر اعلیٰ صاحبہ ان المیوں کے ’جواز‘ بھی تراشتی ہیں اور آگے بڑھ کر سرکاری فورسز کو ’اچھی کارکردگی ‘ پر شاباشی بھی دیتی ہیں۔ ایسے میں ان لوگوں کی یک طرفہ مذمت کوئی معانی نہیں رکھتی ہے۔

جنوبی کشمیر ۸؍جولائی۲۰۱۶ءسے جن گھمبیر حالات کا شکار ہے، اُن میں عام لوگوں کی ذہنی حالت اور کیفیت کیا ہوگی؟ اس کا اندازہ اقتدار کا مزہ لینے والوں اور اُن کے چیلوں کو بھلا کیسے ہوسکتا ہے؟ اس خطے میں آئے روز بھری جوانیاں لُٹ رہی ہیں، والدین اپنے بچوں کے جنازوں کو کندھا دے رہے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں نوجوان زخمی ہوچکے ہیں، جن میں سیکڑوں جسمانی طور پر ناکارہ بن چکے ہیں۔ یہاں کے عام لوگوں بالخصوص نوجوانوں کے بارے میں یہ پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ یہ سنگ باری کررہے ہیں اور یہ انکاؤنٹر والی جگہوں پر جاکر فوجی آپریشن میں بے خوف ہوکر رخنہ ڈالتے ہیں۔ کوئی یہ نہیں دیکھ رہا ہے کہ ان نوجوانوں کے کتنے ساتھی اور بھائی قبرستانوں میں پہنچا دیے گئے ہیں کہ جن معصوم نوجوانوں کے ساتھ یہ کھیلا کرتے تھے، اُنھیں جب وردی پوش ابدی نیند سلا نے کے بعد اپنی’ کامیابیوں‘ کا ڈھنڈورا پیٹیں تو متاثرین میں غم وغصہ دوآتشہ ہونا ایک طے شدہ امر ہے۔ آئے روز یہاں جنازوں میں شریک ہونے والوںاورانسانی لاشوں کو کندھا دینے والے سوگواروں کے جذبات کس طرح کھلے عام مجروح کیے جاتے ہیں اس کا اندازہ مذمتی ٹولے کو نہ بھی ہو، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ سب احساس بیگانگی اور انتقام کی آگ کو اور بھی بھڑکانے پر منتج ہوتا ہے۔ اگر اربابِ اقتدار امن پسنداور نبض شناس ہوتے تو یہ سنگ بازی کرنے والوں اور انکاونٹر والی جگہوں پر سینہ ٹھونک کے جانے والے مردوزن کے خلاف زبان درازی نہ کرتے بلکہ اُن کی نفسیاتی اُلجھنوں اور ذہنی اضطراب و پریشانی کو سمجھتے اور اُن کے دُکھ درد کا مداوا کریں۔

دوغلی سیاست کے بل پر جو لوگ کشمیریوں کے سروں پر سوار کیے گئے ہیں ،اُن کا ضمیر مرچکا ہے، وہ اپنے دہلوی آقائوں کو خوش کر نے کا کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دیتے۔ بہتر یہ ہے کہ وہ زمینی حقائق کو تسلیم کرکے عوامی جذبات کا ساتھ دیں ۔

۱۸۵۷ء کی ناکام جنگ آزادی اور مغلیہ سلطنت کے خاتمے کے بعد جب مسلمان بے کسی اور کسمپرسی کے دور سے گزر رہے تھے، تو دہلی کے اجمیری گیٹ پر واقع دہلی مدرسہ (حال اینگلو عربک اسکول) کے استاد مولوی مملوک علی نانوتویؒ (۱۷۸۸ء-۷؍اکتوبر۱۸۵۱ء) کے دو شاگردوں نے قوم کو اعتماد لوٹانے کی نیت سے دہلی کو خیر باد کہہ کر دو الگ سمتوں میں دو شہرہ آفاق اداروںکی بنیاد رکھی۔ اگرچہ مسلمانوں کو دوبارہ با اختیار بنانے کے لیے تعلیم کو ذریعہ بنانے پر وہ متفق تھے، مگر اس کے نظام اور طریق کار پر ان میں اختلاف راے تھا۔ مغربی اترپردیش کے قصبہ شاملی میں علما کے قتل عام سے پریشان مولانا محمد قاسم نانوتویؒ (۱۸۳۳ء- ۱۸۸۰ء) نے ۱۸۶۶ء میں سہارن پور کی طرف کوچ کرکے دیوبند کے مقام پر انار کے ایک پیڑ کے نیچے دارالعلوم قائم کیا۔ جو آج اپنی آن بان اور شان کے ساتھ قائم ہے او ر جنوبی ایشیا میں اُم المدارس کا درجہ رکھتا ہے۔

 مولانا محمد قاسم نانوتویؒ مسلمانوں کی دینی ضرورتوں کی تکمیل کے ساتھ ساتھ مغربی تہذیب و اقدار کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک نظریاتی حصار تیار کرنے کی لگن میں تھے۔ اس کے دس سال بعد مولانا مملوک علیؒ کے دوسرے شاگرد سرسیّد احمد خانؒ (۱۸۱۸ء-۱۸۹۸ء) نے دہلی کے جنوب میں ۲۵۰کلومیٹر دُور ۱۸۷۷ء میں برطانوی حکومت کی مدد سے اوکسفرڈ اور کیمبرج کی طرز پر ایک کالج کی بنیاد رکھی، جس کی پاداش میں انھیں کفر کے فتوؤں سے بھی نوازا گیا۔ اسی کالج کو بعد ازاں ۱۹۲۰ء میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کا درجہ دیا گیا۔ سرسیّداحمد مذہبی شناخت کوبرقرار رکھتے ہوئے مسلمانوں میں تعلیمی بیداری اورسائنسی مزاج پیدا کرناچاہتے تھے، اور ساتھ ہی ان کو مغرب کے ساتھ مکالمے کے قابل بنانا چاہتے تھے۔ دینِ اسلام کی تعبیر کے حوالے سے سرسیّد کی اپروچ مضحکہ خیز مگر قومی تعمیر حوالے سے قابلِ فہم تھی۔ اسی لیے دینی حوالے سے سرسیّد کہیں دکھائی نہیں دیتے مگر قومی درد کے حوالے سے اپنی پہچان رکھتے ہیں۔ اپنی تاسیس سے لے کر آج تک مسلمانوں کو درپیش سیاسی اور سماجی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے دونوں درس گاہوں، یعنی دارالعلوم اسلامیہ دیوبند اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کا لائحہ عمل متضاد اور متحارب رہا ہے۔

مغربی علوم پر دسترس رکھنے والے علی گڑھ کے اسکالرز نے ۲۰ویں صدی کے اوائل ہی میں شراکت ِ اقتدار کا مطالبہ کیا اور پھر آل انڈیا مسلم لیگ کی سیاسی جدوجہد اور تحریک پاکستان کے لیے راہ ہموار کی۔ دوسری طرف دیوبند کے بعض فارغ التحصیل اسکالرز نے پاور اسٹرکچر یا پاور پولیٹکس میں مرکزی کردار ڈھونڈنے کے بجاے انڈین نیشنل کانگریس کے سیکولرازم پر بھروسا کرنے کو  ترجیح دی۔ اگست ۱۹۴۷ء میں انگریز سے آزادی کے بعد دیوبندی علما کی تنظیم جمعیت العلماہند تو ۱۹۹۲ء میں بابری مسجد کی شہادت تک ایک طرح سے کانگریس کی ذیلی تنظیم کی طرح کام کرتی رہی ہے۔ان کے اکابرین کو اس کے عوض اقتدار میں نہیں، مگر اقتدار کی راہداریوں میں کچھ وزن پایا، جیسے راجیہ سبھا میں کچھ مدت کے لیے نمایندگی وغیرہ۔ ان عہدوں کا کتنا فائدہ عام مسلمان کو ہوا ،  اس کا پول ۲۰۰۶ء میں ’جسٹس راجندر سچر کمیٹی‘ نے کھول دیا۔

مغرب کے مشہور علمی اداروں کی طرز پر ایک ہزار ایکڑ پر محیط علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں فی الوقت ۳۰ہزار طالب علم زیر تعلیم ہیں۔ ۱۱ہزار کے قریب اکیڈمک اور نان اکیڈیمک اسٹاف ۳۵۰ مختلف کورسز پڑھانے میں معاونت کرتے ہیں۔ علی گڑھ ریلوے اسٹیشن کے مغرب میں سول لائنز کے بعد پورا علاقہ ہی یونی ورسٹی کے نام سے موسوم ہے، جہاں سابق پروفیسرز کی کالونیوں کے ساتھ ساتھ دیگر علاقوں کے متمول مسلمان بھی بس گئے ہیں۔ یہ شاید بھارت میں واحد جگہ ہے، جہاں مسلمانوں کی عظمت رفتہ اور ان کا عظیم الشان ماضی ایک فلم کی طرح چلتا پھرتا نظر آتا ہے۔ یہاں کا اسکالر اپنی مسلم شناخت کے ساتھ ساتھ عصری علوم میں بھی خاصی دسترس رکھتا ہے۔ بھارت کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں معیار کے حوالے سے اس کی رینکنگ ساتویں نمبر پر ہے۔ اس کا میڈیکل کالج نویں مقام پر ہے۔بس اسی وجہ سے یہ ادارہ برہمن نسل پرستوں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے۔ کبھی اس ادارے کی مسلم شناخت کو ختم کرنے کی سازش کی جاتی ہے اور کبھی کسی معمولی واقعے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرکے ایسا تاثر دیا جاتا ہے کہ یہ ’یونی ورسٹی بھارتی سلامتی کے لیے خطرہ ہے‘۔

مجھے یہ بات اچھی یاد ہے کہ مسلم یونی ورسٹی رابط عامہ کے سابق افسر راحت ابرار کے کمرے میں صبح سویرے ہند ی اخبارات اور چینل کے نمایندے آدھمکتے تھے۔ چائے نوش کرتے ہوئے وہ کہتے تھے کہ :’’ہمارے آفس سے دبائو ہے کہ یونی ورسٹی سے کوئی تڑپتی پھڑکتی  خبر لانی ہے، جس کو نمک مرچ لگا کر مشتہر کرنا ہے‘‘۔ حالیہ قضیہ بھی کچھ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ ۱۹۳۸ء سے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے دفتر میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی آویزاں تصویر اچانک قابل اعتراض ہوگئی۔ فرقہ پرست تنظیموں نے مقامی ممبر پارلیمنٹ کی شہ پر تشدد اور ہنگامے کیے ، حتیٰ کہ یونی ورسٹی میں گھس کر بے دردی سے مسلم طلبہ کو نشانہ بنایا اور ڈیوٹی پر موجود پولیس تماشا دیکھتی رہ گئی۔

چند سال قبل میں شملہ کے انڈین انسٹیٹیوٹ آف ایڈوانس اسٹڈیز کے ایک پروگرام میںمدعو تھا۔ وائسراے ہائوس میں بنائے گئے اس ادارے کے ایک ہال میں بھی قائد اعظم کی ایسی ہی ایک تصویرآویزاں ہے۔ پارلیمنٹ اور دہلی کے تین مورتی ہائوس میں بھی جنگ آزادی کے رہنمائوں کے ساتھ قائد اعظم کی تصویر آویزاں ہے۔ علی گڑھ کو نشانہ بنانے کا مقصد صرف یہی ہے کہ نریندر مودی کی دوسری اننگ کے لیے فضا تیار کی جائے۔ بی جے پی کو جب بھی اپنی شکست  نظر آتی ہے تو وہ ماحول کو مسلم دشمنی پر مبنی فرقہ وارانہ رنگ دینے اور ہندوئوں کی ہمددری حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

بعض معروف مسلمان شخصیات اس یلغار سے بوکھلا کر یونی ورسٹی کے ذمہ داران کو مشورہ دے رہی ہیں کہ وہ حالات کی بہتری اور ادارے کے مفاد کی خاطر اس تصویر کو ہٹادیں۔ صحافی  شمس تبریز قاسمی سوال کرتے ہیں کہ: ’’کیا تصویر ہٹادینے سے تنازع ختم ہوجائے گا؟ کیا نسل پرست برہمنوں کی جانب سے مستقبل میں کسی اور معاملے کو لے کرادارے پر حملہ نہیں کیا جائے گا؟ اسی لیے یہ بھی معلوم کرنا ہوگا کہ بی جے پی کو تکلیف محمدعلی جناح کی تصویر سے ہے یا اے ایم یو کے وجودسے؟ وہاں تعلیم حاصل کرنے والے مسلم طلبہ سے یا مسلمانوں کی تعلیمی ومعاشی ترقی سے؟‘‘ یہ امرِواقعہ ہے کہ ان کا اگلا اعتراض یونی ورسٹی کے نام میں شامل لفظ ’مسلم ‘پر ہوگا۔ ویسے بھی بی جے پی کو اعتراض ہے کہ ایک سیکولر اور جمہوری ملک میں کسی تعلیمی ادارے کا نام کسی ایک مذہب کے نام پر نہیں ہوسکتا،جس کے اخراجات حکومت اداکرتی ہو۔ آیندہ جلد یا بدیر ان کا اعتراض کیمپس میں موجود مساجد پر ہوگا۔

۲۰۱۵ء میں ہی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے اپنا زعفرانی نظریاتی رنگ دکھاتے ہوئے سپریم کورٹ میں کہا تھا کہ: ’’علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی ایک اقلیتی ادارہ نہیں ہے‘‘۔ بھارت میں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کا تناسب ویسے بھی سب سے نیچے ہے۔ اسکولوں میں داخل ہونے والے ۱۰۰بچوں میں سے صرف گیارہ اعلیٰ تعلیم تک پہنچ پاتے ہیں،جب کہ ہندوئوں میں یہ تعداد ۲۰ فی صد ہے۔ اس صورت حال میں اگر اس کااقلیتی کردار چھن جاتا ہے تو مسلمانوں کی تعداد اور بھی کم ہوجائے گی۔ اس وقت علی گڑھ اور دہلی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ۵۰ فی صد نشستیں مسلمان طلبہ کے لیے مختص ہوتی ہیں۔مزید دل چسپ پہلو یہ دیکھیے کہ بھارتی اٹارنی جنرل نے  سپریم کورٹ میں کہا: ’’ایک سیکولر ریاست میں مرکزی حکومت کیسے ایک اقلیتی ادارہ قائم کرسکتی ہے؟‘‘

گویا جو ’سیکولرازم‘ بی جے پی اور آر ایس ایس کے نزدیک ناپسندیدہ شے ہے، اقلیتوں کے آئینی حقوق سلب کرنے کے لیے اسی ’قابل نفرت‘ اصطلاح کا سہارا بھی لیا جا رہا ہے۔ چند برس قبل اس وقت کے وائس چانسلر صبغت اللہ فاروقی نے مجھے بتایا تھا کہ: گذشتہ کانگریس حکومت نے بھی اس ادارے کو کافی نقصان پہنچایا ۔ ان کے مطابق ۵۳۵ کروڑ روپے کی سالانہ گرانٹ میں سے ۹۵فی صد تنخواہوں وغیرہ پرصرف ہو جاتی ہے اور ایک قلیل رقم ریسرچ اور دوسرے کاموں کے لیے بچتی ہے۔ اور تو اور گذشتہ حکومت نے کیرالا، مغربی بنگال، مہاراشٹر اور بہار میں علی گڑھ یونی ورسٹی کے کیمپس بنانے کا اعلان کیا، جن کے اخراجات اسی گرانٹ سے پورے کرنے ہیں۔

 بہرحال، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کی تاریخی حیثیت ختم کرنے کی کوشش کا یہ پہلا موقع نہیں ہے۔۱۹۶۰ء کے عشرے میںاس وقت کے وزیر تعلیم ایم سی چھاگلہ نے پارلیمنٹ میں ایک قانون لاکر اس کا اقلیتی کردار ختم کروایا، جس کو ۱۹۶۷ء میں سپریم کورٹ کی تائید حاصل ہوئی۔ بڑی جدوجہد کے بعد ۱۹۸۱ء میں بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کی حکومت نے قانون سازی کے ذریعے اقلیتی کردار کو بحال کیا۔ پھر اسی پارلیمانی ایکٹ میں ایک نقص تلاش کرکے ۲۰؍اکتوبر ۲۰۰۵ء کو الٰہ آباد ہائی کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ یہ اقلیتی ادارہ نہیں ہے۔ لیکن یونی ورسٹی اور تب من موہن سنگھ حکومت نے اس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا اور ابھی تک یہ مقدمہ زیرسماعت ہے۔ اس تنازعے میں بھارتی مسلمانوں کے لیے خیر کا ایک پہلو بھی چھپا ہے۔ پچھلے ۷۰برسوں سے بھارت میں مسلم طبقے کو ایک طرح سے تقسیم کا ذمہ دار ٹھیرا کر دائمی ’احساسِ جرم‘ میں مبتلا کیے رکھا گیا ہے۔ اس معاملے میں سیکولر کانگریس اور ہندو نسل پرست آر ایس ایس کا موقف یکسا ں ہے۔ جہاں تقسیم   اور اس کے محرکات پر کہیں بحث چھڑ گئی ، دونوں تنظیمیں اکٹھا ہوکر اس کو دبانے میں لگ جاتی ہیں۔ بی جے پی کے معتدل مزاج لیڈر جسونت سنگھ نے جب: Jinnah: India, Partition, Independenceکتا ب لکھ کر تقسیم کے محرکات سے پردہ اٹھایا تو آر ایس ایس اور کانگریس دونوں نے یک جاہوکر ان کو سیاست سے ہی کنارہ کشی پر مجبور کر دیا۔ پھر بی جے پی کے سابق صدر لال کشن ایڈوانی کا حال بھی ایسا ہی کیا۔

وقت آگیا ہے کہ مسلمان اور مسلم قائدین، تاریخ کے دریچے کھول کر تقسیمِ ہند اور انگریز سے آزادی کے دوران ہندو کردار پر کھل کر بحث کریں اور ان سبھی ہندو لیڈروں کو بے نقاب کریں، جنھوں نے مسلمانوں کو بے وقعت کرنے کی قسم کھارکھی تھی اور جن کی ہٹ دھرمی نے تقسیم کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں چھوڑا تھا۔ وہ مسلمانوں کے ساتھ وہی سلوک کرنا چاہتے تھے ، جو انھوں نے بدھ مت، جین مت اور سکھوں وغیرہ کے ساتھ کیا ہے۔ اسی برہمنی ذہنیت نے ہر اس انقلابی، مذہبی یا روحانی تحریک کو نگلا ہے، جس نے بھی زعفرانی جارحیت کو چیلنج کرنے کی ہمت کی ہو۔ ان کی نیت صرف یہ تھی کہ مسلمانوں کے اندر سے وہ جوہر کھینچ لیا جائے، جو انھیں زندہ اور بے باک رکھتا ہے۔بس یہی ایک چیز ہے، جس سے ہندو نسل پرست عفریت (Monster) پیچ و تاب کھا رہا ہے اور شکار پھانسنے کے نئے نئے منصوبے بناتا رہا ہے۔مسلمانوں کو معتوب بنانے کے لیے انھیں بھارت میں دائمی احساس جرم میں مبتلا رکھا گیا ہے، تاکہ وہ اپنے حقوق کا مطالبہ نہ کرسکیں۔ سیکولر کانگریس کو خدشہ ہے کہ اگر یہ بحث چھڑ گئی تو نہ صرف اس کے کھوکھلے سیکولرزم کا جامہ اُتر جائے گا، بلکہ اس کے لیڈروں کا پول بھی کھل جائے گا۔

شام ڈھلتے ہی مَیں باغ سے جلدی جلدی گھر کی جانب روانہ ہوا۔ مغرب کی نماز ادا کرنے کے بعد جب میں گھر کی طرف مڑا تو گو لی چلنے کی آواز آئی۔ میں گھر کی طرف بھاگا اور سب سے پہلے اپنے گھر کے بیرونی دروازے کو کنڈی لگائی۔ ابھی میں گھر کے اندر داخل ہونے ہی والا تھا کہ ماں نے آواز دی:’’ بیٹا! گیٹ کو کھلا ہی چھوڑ دو کیوںکہ تمھارا چھوٹا بھائی میرے لیے دوائی لینے گیا ہے، وہ ابھی گھر نہیں آیا ہے‘‘۔میں نے واپسی کی راہ لی اور گیٹ کی کنڈی کھول دی۔

اسی دوران میں نے دیکھا کہ میرا ہمسایہ ہمارے گھر کی طرف دوڑتا چلا آرہا تھا اور چلّا کر مجھ سے کہنے لگا کہ: ’’میں نے سنا ہے کہ آپ کا چھوٹا بھائی فائرنگ میں زخمی ہوگیا ہے‘‘۔ یہ سن کر میرے پائوں تلے سے زمین نکل گئی، لیکن میں نے بھاگ کر اپنے ہمسایے کی طرف پہنچ کر کہا کہ: ’’آہستہ بات کرو، کہیں میری ماں سن نہ لے۔ آپ کو تو پتا ہے کہ یہ اپنے ان دو بیٹو ں کو ابھی نہیں بھلا سکی، جو اس سے پہلے شہید ہوچکے ہیں۔ وہ ابھی تک ان کی راہ تکتی رہتی ہے‘‘۔ اُس کا ردِعمل سننے سے پہلے میں نے ہمسایے سے التجا کی: ’’مہربانی کر کے اس بارے میں کسی سے کچھ بھی مت کہنا ‘‘۔

میں اپنے گھر کی طرف پلٹا، تو جذبات پر قابو پاتے ہوئے اپنے سیل فون پر جیسے کہ میں اپنے بھا ئی سے باتیں کر رہا ہوں اور بول رہا تھا کہ: ’’تم کو تو صر ف اپنے دوستوں کے ہاں بیٹھنے میں ہی مزہ آتا ہے۔ چلو کوئی بات نہیں صبح سویرے گھر پہنچ جانا ‘‘۔

جب مَیں باتیں کرتے کرتے گھر کے گیٹ تک آگیا تو میری ماں فون پر ہونے والی میری گفتگو سن رہی تھی۔ ماں نے مجھ سے پوچھا: ’’بیٹا، یہ کس کے ساتھ باتیں کر رہے تھے؟‘‘ میں نے جھوٹی مسکان چہرے پر لاکر کہا: ’’یہ آپ کا لاڈلا بول رہا تھا کہ میں آج گھر نہیں آرہا، آج اپنے دوست کے ہاں ٹھیروں گا‘‘۔ میں نے بات کو کسی طرح ٹالتے ہوئے والدہ سے کہا: ’’مجھے بھوک بھی بہت لگی ہوئی ہے اور نیند بھی ستارہی ہے‘‘۔

جوں ہی کھا نا کھایا تو سب سونے کے لیے اپنے اپنے کمروں اور بستروں میں چلے گئے۔ مجھے کیسے نیند آتی؟ کمرے میں بیٹھتے ہی انٹر نیٹ آن کیا تو خبر آئی کہ: ’’فائرنگ میں دو جنگجو اور   تین عام شہری جاں بحق ہوگئے ہیں‘‘۔ یہ دیکھ کر مَیں نے پریشانی میں اِدھر اُدھر فون لگایا مگر    بھائی کے بارے میں کچھ اَتا پتا نہیں چلا۔ کسی طرح سے کروٹیں بدلتے رات گزاری۔ صبح سویرے پوپھٹتے ہی میں نے اپنے ایک دوست کو فون کر کے بلا لیا تھا۔ وہ دروازے پر کھڑا تھا۔ جوں ہی میں اس کے ہم راہ جاے واردات کی طرف لپکنے والا تھا کہ ماں نے پیچھے سے آواز دی: ’’بیٹا، اب کہاں جارہے ہو؟ اب وہا ں جانے کا کوئی فائدہ نہیں، وہ تو جنت کا مہمان بن چکا ہے‘‘۔ میں اور میرا دوست یہ سن کر ششدر رہ گئے۔

ماں کہنے لگی: ’’بیٹا آخر میں ماں ہوں، میں نے رات کو خواب دیکھا ہے کہ میرے دونوں بیٹے مجھے خواب میں آکر کہنے لگے:ماں او ہماری ماں، آج ہم بہت زیادہ خوش ہیں۔ ماں پتا ہے کیوں؟ اس لیے کہ آج ہمارا چھوٹا بھائی بھی ہمارے ساتھ جنت کا مہمان بن گیا ہے۔ یہ دیکھو سفید کپڑوں میں ملبوس فرشتے اسے ہماری صفوں میں شامل کر رہے ہیں۔ ماں آپ خوش رہنا لیکن کبھی آنسو مت بہانا، ورنہ ان آنسوئوں سے یہ ٹمٹماتے چراغ بجھ جائیں گے۔ اسی دوران میری آنکھ  کھل گئی ۔ اب کہاں جا رہے ہو بیٹا۔اب تو بہت دیر ہو چکی ہے!‘‘

میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو ٹپکنے لگے اور میری ماں اپنےخواب والی نصیحت پر عمل پیرا ہو کر معلوم نہیں کس حوصلے کے ساتھ اپنے آنسوؤں کو پیے جارہی تھی۔میں اور میرا دوست بت کی طرح ماں کی طرف اور ماں ہماری طرف دیکھے جارہی تھی۔

اسی اثنا میں باہر سے نعروں کی آواز یں گونجنے لگیں:

ہم کیا چاہتے، آزادی !

ہے حق ہمارا، آزادی!

’شہیدوں کے خون سے، انقلاب آئے گا‘ ۔

اور دیکھتے ہی دیکھتے ہمارے گھر کا صحن اور گلی کوچے سب انسانی سروں کے سمندر سے کھچا کھچ بھرنے لگے ۔چند لمحے گزرے تھے کہ کچھ اَنجانے لوگ اپنے کندھوں پر میرے بھائی کی میت اُٹھائے ہمارے گھر کے گیٹ تک پہنچ گئے۔ فضا مسلسل پُرعزم نعروں سے گونج رہی تھی:

شہید تیری ماں کو ،مبارک ہو مبارک ہو!

شہید تیری بہنوں کو، مبارک ہو مبارک ہو!

شہید تیرے باپ کو، مبارک ہو مبارک ہو!

مجھے کچھ پتا نہیں کس نے مجھے جنازہ گاہ تک پہنچا یا۔ وہاں میں نے دیکھا کہ میری ماں اپنے شہید بیٹے کی میت کے ساتھ چمٹے بیٹھی مسلسل اس کے چہرے کو دیکھے جارہی تھی۔ دراصل وہ اپنے تیسرے شہید بیٹے کی طرف حسرت بھری نگاہ سے دیکھ رہی تھی اور اپنے آنسوئوں کو پیتے ہوئے لوگوں کو صبر کی تلقین کر رہی تھی۔ یہ سما ں دیکھ کر لوگ جذباتی ہوگئے اور نعرے لگانے لگے۔لوگوں کے چہرے جذبات سے تمتما رہے تھے اور نعرے زلزلہ بپا کیے ہوئے تھے:

 زندہ ہے مجاہد، زندہ ہے… قرآن میں دیکھو زندہ ہے… حدیث گواہ ہے زندہ ہے۔

لوگ آتے گئے اور جنازے ہوتے رہے۔

آنے والے ہمیں دلاسہ اور مبارک باد دیتے گئے۔

ہم جس بستی میں رہتے ہیں، وہاں ہم جواں ہوتے ہیں اور ہمارے والدین ہمارا جنازہ اٹھا تے چلے آرہے ہیں۔ ظالم گولیاں برساتے اور مظلوم گولی کھاتے ہیں۔

ظلم کی اس تاریکی میں، آزادی کی کرنیں کب روزِ روشن بنیں گی؟

جس معاشرے میں عدل نہ ہو، وہاں افراد کا استحصال ہوتا ہے۔ عورتیں ہو ں یا مرد سب کے حقوق ماپال ہوتے ہیں اور یہ ظلم صنفی تخصیص کے بغیر ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے کی اگر عورت مظلوم ہے، تو مرد بھی اس ظالمانہ نظام کی چکّی میں اسی طرح پس رہا ہے۔ ایسے میں اگر ہم یہ واویلا کریں کہ چوںکہ عورتوں کو اپنے حقوق کا علم نہیں ہے اس لیے مرد ان پر زیادتیاں کرتے ہیں، یا عورتوں کو معاشی خود مختاری دی جائے تو ان کو ظلم سے نجات مل سکتی ہے___ سچی بات یہ ہے کہ    یہ سب مفروضات ہی ہوں گے، حقیقت کی دنیا میں ایسا نہیں ہے ۔ جو معاشرے سو فی صد خواندگی کا تناسب رکھتے ہیں اور جہاں عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ معاشی سرگرمیوں میں حصہ لیتی ہیں، وہاں کی عورت تو اور بھی زیادہ مظلوم ہے۔ مسلم ممالک کے مقابلے میں مغربی ملکوں کی عورت زیادہ غیرمحفوظ ہے اور مشقت کی چکّی میں زیادہ بُری طرح پس رہی ہے۔پھر یہ کیسے تہمت لگائی جاسکتی ہے کہ ’’اسلام عورتوں سے امتیازی سلوک کرتا ہے اور اقوام متحدہ کا چارٹر عورتوں کے حقوق کا ضامن ہے‘‘۔

اوّل تو اسلامی نظام عملاً دنیا میں کہیں نافذ ہی نہیں ہے، لیکن مسلم ممالک میں جہاں بھی جس درجے میں اسلامی روایات کی پاس داری موجود ہے، وہاں کی عورت نہ صرف محفوظ ہے بلکہ مغربی عورت کی طرح جبری طور پر معاشی جدوجہد پہ مجبور بھی نہیں ہے۔

اگر یہ سوال اٹھایا جائے کہ اسلام عورت کو کیا سیاسی حقوق عطا کرتا ہے؟ تو اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ: ’’اسلام دین اور سیاست کو علیحدہ نہیں سمجھتا۔ وہ ہر شعبۂ زندگی کو، خواہ سیاست ہو یا معاشرت، معیشت ہو یا تمدن، الٰہی تعلیمات کے تابع کرتا ہے۔ قرآن نے ہر شعبۂ زندگی کے بارے میں جو ہدایات دی ہیں، وہ صنفی تخصیص کے بغیر تمام انسانوں کے لیے ہیں۔

عام طور پر سیاست سے مراد قانون سازی کا عمل اور قانون کے عملی نفاذ کے لیے اختیارات کا حاصل ہونا ہے۔ قانون ساز اداروں میں شمولیت اور اس کے لیے کوششیں اور معاشرتی فلاحی امور میں شرکت کر کے ووٹر یا راے دہندہ کا اعتماد حاصل کرنا، یہ سب سیاسی سرگرمیاں شمار  کی جاتی ہیں۔ اس طرح اسلامی شریعت کی رُو سے ہر سیاسی سرگرمی بھی خالصتاً دینی سرگرمی ہی ہے ، کیوں کہ اس کا مقصد عوام کی مدد کرنا اور معاشرے کو ظلم ،ناانصافی اور منکرات سے پاک رکھنا ہے۔

معاشرے میں فرد کی سرگرمیاں جس دائرے میں بھی ہوں، اگر وہ اعلاے کلمۃ اللہ کے لیے ہیں تو وہ مثبت بھی ہوں گی اور صحت مند بھی، کیوں کہ اسلام ایک صحت مند معاشرے کی بنیاد رکھتا ہے۔ حدود اللہ کے دائرے کو ملحوظ رکھتے ہوئے خواتین کے اوپر کسی بھی طرح کی سماجی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر پابندی نہیں ہے۔ البتہ اسلام نہ صرف سیاسی بلکہ کسی بھی ایسی معاشی یا معاشرتی سرگرمیوں کو پسند نہیں کرتا کہ جہاں اختلاط ہو یا عورتوں کے تحفظ کا مسئلہ درپیش ہو۔

اسلامی تاریخ سے مثالیں

اسلامی تاریخ میں ایسی روشن مثالیں موجود ہیں کہ اگر عورت نے سبقت لے جانا چاہی تو اسے روکا نہیں گیا، مثلاً :

  • حضرت ام حبیبہ ؓ نے اپنے والد ابوسفیان کے ایمان لانے کا انتظار نہ کیا اور اپنے مسلمان ہونے کے لیے ان کی اجازت کو ضروری نہ سمجھا۔ وہ نہ صرف والد سے قبل ایمان لائیں بلکہ ہجرتِ حبشہ کرنے والوں میں شریک تھیں۔
  • تاریخ کی روشن مثال ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ اپنی بہن فاطمہؓ کی تلاوت سن کر اسلام لائے۔ عمر بن الخطابؓ کا جاہ وجلال کسی سے مخفی نہ تھا، مگر بہن نے نہ ان سے اجازت لی اور نہ ان کے ہاتھوں زخمی ہونے کے باوجود کلمہ سے منکر ہوئیں، بلکہ ان کی ایمانی استقامت حضرت عمرؓ کے دل کی نرمی کا سبب بنی۔
  • حضرت سمیہ ؓ جو غلام تھیں، مگر جب ان کو اسلام کی دعوت پہنچی تو انھوں نے اپنے آقا کے ردِ عمل کی پروا تک نہ کی اور پورے شرح صدر سے دائرئہ اسلام میں داخل ہوئیں اور ہر طرح کے  ستم برداشت کیے۔
  • اُمِ کلثومؓ بنت عقبہ بن ابی معیط بھی اسلامی تاریخ کی جگمگاتی شخصیت ہیں۔ ابھی کنواری تھیں کہ اسلام کی محبت دل میں گھر کرلیتی ہے۔ ہجرت کر کے مدینہ آجاتی ہیں۔ گھر والے آکر رسولؐ اللہ سے مطالبہ کرتے ہیں، چوںکہ بن پوچھے یہ قدم اٹھایا ہے، اس لیے انھیں خاندان کے حوالے کردیا جائے۔ آپؐ یہ مطالبہ مسترد کر کے نئے تشکیل پانے والے مسلم معاشرے کو یہ واضح پیغام دیتے ہیں کہ عورت مرد کی تابع مہمل مخلوق نہیں ہے۔ اس کو معاشرے میں وہی حقوق حاصل ہیں کہ جو اپنے فیصلوں کے ضمن میں مرد کو حاصل ہیں۔ اسی لیے آپؐ جس طرح مردوں سے بیعت لیتے تھے تو اسی طرح عورتوں سے بھی بیعت لیتے تھے۔ تاہم، طریق کار مختلف تھا۔ خواتین، مردوں کی طرح آپؐ کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیعت نہیں کرتی تھیں۔

عورتوں کی ہجرت

آغازِ اسلام میں جب ہجرت کی گئی تو وہ شدید مشکل حالات تھے۔ سرزمین کفر سے جس طرح مردوں کو ہجرت کا حکم دیا گیا، اس طرح عورتوں پر بھی ہجرت واجب تھی۔ جب مسلمانوں نے مکہ کے مظالم سے تنگ آکر ہجرت حبشہ کی تو اگرچہ قافلہ مختصر تھا، مگر اس قافلے میں خواتین بھی شامل تھیں۔ (متفق علیہ)

اسی طرح ہجرتِ مدینہ کے موقعے پر خواتین، مردوں کے شانہ بشانہ تمام مشکلات کے باوجود ہجرت کرتی ہیں۔ حضرت اسماء ؓ سے مروی ہے کہ عبداللہ بن زبیرؓ اس وقت میرے حمل میں تھے اور حمل کی مدت پوری ہوچکی تھی تو میں مدینہ آئی، قبا کے مقام پر ٹھیری اور وہیں ولادت ہوئی۔ (بخاری ، مسلم)

قرآن پاک میں اللہ کریم نے عورتوں کے سیاسی حقوق سے متعلق بڑی واضح ہدایت دی ، فرمایا: ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، جب مومن عورتیں ہجرت کر کے تمھارے پاس آئیں تو   (ان کے مومن ہونے کی) جانچ پڑتال کر لو، اور ان کے ایمان کی حقیقت تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ پھر جب تمھیں معلوم ہوجائے کہ وہ مومن ہیں تو انھیں کفار کی طرف واپس نہ کرو۔ نہ وہ کفّار کے لیے حلال ہیں اور نہ کفار ان کے لیے حلال‘‘۔(الممتحنہ۶۰:۱۰)

گویا مسلمان عورت اپنے حقوق سے آشنا ہستی ہے۔ اگر وہ اپنے آبائی دین، یعنی کفر سے بغاوت کرتے ہوئے نہ صرف گھر بلکہ معاشرہ بھی چھوڑ دے تو معاشرہ اس فعل پر لعن طعن نہیں کرسکتا، بلکہ اسلام اس کو پورا تحفظ فراہم کرتا اور اسلامی سوسائٹی میں اس کی عزت وحرمت کا پاس ولحاظ کرکے باوقار مقام دیتا ہے۔ اس لیے کہ اب کفار سے ان کے تعلقات منقطع ہوچکے ہیں، لہٰذا   ان کی ذمہ داری مسلم معاشرے کو اٹھانا ہوگی۔

اسلامی ریاست کی بنیادی ذمہ داری امر بالمعروف ونہی عن المنکر ہے۔ جو مسلمان یہ کام کرتا ہے وہ ریاست کے ادارے کو مضبوط کرتا ہے۔ اس حوالے سے قرونِ اولیٰ کی مسلمان عورتوں نے بھرپور اور بااعتماد کردار ادا کیا۔

عورت کا فعال کردار

ابن سعد نے طبقات میں ذکر کیا ہے کہ حضرت ابوطلحہ نے اُم سلیمؓ کو نکاح کا پیغام دیا۔  وہ بولیں: ’’اے ابوطلحہ! کیا تم نہیں جانتے کہ تم اپنے جس معبود کی پرستش کرتے ہو وہ زمین سے اُگنے والا ایک درخت ہے جس کو فلاں حبشی نے کاٹا ہے؟ ابوطلحہ! کیا تمھیں نہیں معلوم کہ جن خدائوں کی تم لوگ پوجا کرتے ہو، اگر تم ان میں آگ لگادو تو وہ جل جائیں گے؟ جس پتھر کی تم عبادت کرتے ہو وہ تمھارا نہ نقصان کرسکتا ہے، نہ نفع پہنچا سکتاہے‘‘۔ نسائی کی روایت میں ہے، پھر ابوطلحہؓ نے اسلام قبول کرلیا اور ان کا اسلام لانا ہی اُمِ سلیمؓ سے شادی کے لیے مہر قرار پایا۔ (نسائی، کتاب النکاح)

اُم سلیمؓ کے اس واقعے پر ہمیں ٹھیر کر اس معاشرے کا جائزہ لینا چاہیے جس نے عورت کو اتنی دلیری عطا کی کہ وہ نکاح کے پیغام دینے والے کو دلائل کی بنا پر مسترد کرتی ہے کہ میرے اور تمھارے درمیان تو معبودوں کا فرق ہے۔ یہ فرق ایک خاندان کی کیسے بنیاد رکھ سکتا ہے؟ اس مثال میں انھوں نے نکاح کے لیے دلیل دین کی بنیاد پر دی ہےاور بین السطور میںحق کا پیغام دیا تھا۔ ان کی دانائی اور بینائی کو چیلنج کرتے ہوئے سوال اُٹھایا تھا:’ عقل وشعور رکھتے ہوئے یہ تم نے کون سے معبود بنارکھے ہیں؟‘ یہاں آپ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام والا داعیانہ انداز نظر آتا ہے کہ جب انھوں نے نمرود کو آثار کائنات سے نشانیاں دے کر چیلنج کیا تھا۔ نمرود تو عقل کا اندھا تھا مگر حضرت ابوطلحہؓ کو اللہ نے قلب ِسلیم عطا فرمایا تھا۔ رشتہ جو ٹھکرایا گیا تو ان کی عقل روشن ہوگئی کہ  واقعی ایک عورت کا ایمان اس کے قلب کو کتنا منور کردیتا ہے کہ نہ انھوں نے مال ودولت اور خاندانی پس منظر دیکھا اور نہ ذرائع معاش پر بات کی، بلکہ ایمان کی کسوٹی پر انھیں مسترد کردیا، سو وہ ایمان کی دولت سے سرفراز ہوئے۔

عورتوں کی مساوات کی دہائی دینے والے تاریخ اسلام کی ان روشن مثالوں سے کیوں صرفِ نظر کرتے ہیں؟ اُس وقت کی عورت نبویؐ معاشرے میں تھی اور یہ سب کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہورہا تھا اور قیامت تک کے لیے مثالیں سامنے آرہی تھیں۔

بخاری اور مسلممیں ایک اور خاتون کا ذکر حضرت عمران بن حسینؓ کی روایت کے ذریعے سامنے آتا ہے کہ ایک سفر میں پانی کی سخت قلت تھی۔ ایک عورت جو سفر میں تھی اس کے دونوں پائوں دو مشکیزوں کے درمیان تھے۔ انھوںنے اس سے پوچھا کہ پانی کہاں ہے تو اس نے بتایا کہ پانی بہت دُور ایک رات اور ایک دن کی مسافت پر ہے۔ ہم اس عورت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے تو آپؐ نے حکم دیا کہ: اپنے برتن بھرلو۔ ہم نے چھوٹے بڑے برتن بھرلیے۔ آپؐ نے فرمایا: تم لوگوں کے پاس جو کچھ ہے معاوضے میں اس عورت کو پیش کرو۔    ہم نے کھجوریں وغیرہ جمع کرکے اسے دے دیں، جن کو لے کر وہ اپنے گھر والوں کے پاس آئی اور بولی: میں جس آدمی کے پاس سے آئی ہوں، وہ جادوگر ہے یا نبی۔ پھر اس عورت نے اسلام قبول کرلیا۔ مسلمان آس پاس کی مشرک آبادیوں سے لڑتے تھے، مگر اس عورت کی وجہ سے اس کی  قوم پر حملہ نہیں کرتے تھے۔ اس عورت نے اپنی قوم کو توجہ دلائی کہ مسلمان تم پر جان بوجھ کر ہاتھ نہیں اٹھاتے، کیا اچھا ہو کہ تم سب اسلام قبول کرلو؟ روایات میں ہے کہ لوگ اس کی بات مان کر دائرۂ اسلام میں داخل ہوگئے۔ (بخاری ، مسلم)

یہ ہے ایک مسلمان عورت کا قائدانہ کردارکہ اس نے خود کو امور خانہ داری تک محدود تصور نہیں کیا۔ جہاں داعیانہ کردار کی ضرورت تھی، اس نے واضح طور پر وہ کردار ادا کیا۔ مردوں نے اس کی تقلید کی اور کسی نے چیلنج نہیں کیا کہ ہم کیوں ایک عورت کی بات پر کان دھریں؟ یا یہ نہیں کہا: ’اب عورتیں مردوں کو عقل کے درس دیں گی؟‘ وہ ایک انتہائی متمدن اور دانش مند معاشرہ تھا، جس میں صنفی تعصب نہیں تھا، حق اور صرف حق کی پہچان بنیاد تھی۔ عورتوں اور مردوں کے انھی شائستہ رویوں پر مبنی پاکیزہ معاشرے کی کرنوں نے ایک زمانے کو منور کردیا۔

میدانِ عمل کا یہ رُوپ

خانگی امور اور اولاد کی تربیت ایک مسلمان عورت کا بنیادی وظیفہ ہے۔ قرون اولیٰ کی خواتین اسلام اپنے جامع کردار سے بخوبی آگاہ رہیں۔ اگر میدان جنگ برپا ہوا، اور وہاں زخمیوں کی مدد کی ضرورت پڑی تو وہ اپنی صلاحیتوں کے مطابق حقِ جہاد ادا کرتی نظر آتی ہیں (یہاں لفظ استعمال کیا گیا ہے کہ ’ضرورت پڑی‘ تو۔ یعنی ایسا نہیں ہواکہ طبل جنگ بجا اور عورتیں اپنے بچے، گھر اور چولہے چھوڑ کر میدانِ جنگ میں پہنچ گئیں۔ نہیں، یہ مثال ضرورت کے تابع ہے)۔

اسی طرح یہ مثال بھی موجود ہے کہ مسلمان عورت اگر کسی غیر مسلم کو پناہ دیتی ہے تو آپؐ اس کی تائید فرماتے ہیں۔ اُمِ ہانیؓ بنت ابوطالب کی روایت ملتی ہے جس میں وہ آپ ؐ سے فرماتی ہیں کہ میں نے فلاں شخص کو پناہ دی ہے، جب کہ علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں وہ اس کو قتل کردیں گے۔ آپؐ نے فرمایا: اُمِ ہانی نے جسے پناہ دی اسے ہم نے بھی پناہ دی۔ (بخاری ومسلم)

کتنے سنہرے ہیں یہ الفاظ۔ کس قدر تکریم ہے ان لفظوں میں ایک مسلمان عورت کی۔ حالاںکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اس کو قتل کرنے کے درپے ہیں۔ آپؐ یہ نہیں فرماتے کہ عورتیں ناسمجھ ہوتی ہیں، تمھیں کیا پتا کس کو پناہ دینا چاہیے کس کو نہیں۔ کس قدر پیارے انداز سے فرماتے ہیں کہ: ’’ جس کو اُمِ ہانی نے پناہ دی اس کو ہم نے پناہ دی‘‘۔ یعنی مسلمان امت کی ہر عورت بھی ایک دانا وبینا ہستی ہوسکتی ہے اور اس کو محض عورت ہونے کی بنا پر چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ اس روایت سے ایک عورت کا وقار کس قدر بلند ہوجاتا ہے۔

اسلام سے ناواقف اطمینان سے کہہ دیتے ہیں کہ اسلام مسلمان عورت کو قانون سازی کے حقوق ہی نہیں دیتا۔ وہ اس پر تعلیم کے دروازے بھی بند رکھتا ہے اور اس کو گھر کی چار دیواری میں قید دیکھنا چاہتا ہے وغیرہ، وغیرہ۔ اسلامی تاریخ سے اتنی واقفیت تو ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ شریعت کا مزاج سمجھ سکے اور ان الزامات کی حقیقت جان سکے۔

اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خواہش تھی کہ حق مہر کی کوئی حد مقرر کردی جائے۔ ان کے پاس ایسے مسائل آرہے تھے کہ نوجوانوں کے لیے نکاح کرنا مشکل ہوتا جارہا تھا۔ ایسی ہی مجلس میں ایک خاتون موجود تھیں جہاں انھوں نے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا تو خاتون نے   سورۂ نساء کی بیسویں آیت پڑھی کہ: ’’اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لے آنے کا ارادہ ہی کرلو تو خواہ تم نے اسے ڈھیر سا مال ہی کیوں نہ دیا ہو، اس میں سے کچھ واپس نہ لینا‘‘ (النساء۴:۲۰)۔ خاتون نے نکتۂ اعتراض اٹھایا کہ قرآن تو ڈھیر سارے مال کی بات کررہا ہے تو عمر کون ہوتے ہیں مہر کی حد مقرر کرنے والے؟حضرت عمرؓ نے فوراً اپنی راے سے رجوع کرلیا اور فرمایا :’’عمر غلط کہہ رہا تھا، یہ خاتون درست کہہ رہی ہیں‘‘(طبقات ابن سعد)۔ان روایات کی روشنی میں مسلمان عورت کو حقوق کی دہائی دینے اور سڑکوں پر آنے کی ضرورت نہیں ہے۔

پھر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم امور مملکت تک میں خواتین کے مشوروں کی قدر فرماتے۔ بخاری  میں مذکور ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقعے پر جب معاہدے کی شقوں پر مسلمانوں کا دل تنگ ہوگیا تو آپؐ نے حکم دیا کہ اٹھو قربانی دو اور حلق کرائو۔ اس سال ہمیں واپس جانا ہوگا۔ آپؐ نے تین مرتبہ فرمایا، مگر کوئی عمل درآمد کے لیے آمادہ نہ ہوا تو آپؐ نے ام سلمہ ؓ سے مشورہ کیا۔ انھوںنے فرمایا: اللہ کے نبیؐ! آپؐ خود قربانی دیں اور حجام کو بلاکر حلق کرالیں۔ آپؐ نے ایسا ہی کیا تو صحابہ کرامؓ   بھی اُٹھ کھڑے ہوئے، جانوروں کی قربانی کی اور ایک دوسرے کا حلق کرنے لگے۔ وہ اُمت پر کتنا سخت وقت تھا۔ ایسے میں ایک بصیرت افروز خاتون کے مشورے سے مسلمان ایک اضطراری کیفیت سے نکل آئے۔

حضرت امیر معاویہؓ جو حاکم وقت تھے، انھوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو خط لکھا کہ: ’مجھے نصیحت فرمائیے‘۔ حضرت عائشہؓ نے جواب میں تحریر فرمایا: ’’السلام علیکم،امابعد، میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سناہے کہ جو شخص انسانوں کی ناراضی کی پروا نہ کرے وہ اللہ کو راضی کرے گا، اور جو اللہ کو ناراض کر کے انسانوں کی رضامندی کا طلب گار ہوگا، اللہ اس کو انسانوں کے حوالے کردے گا۔ والسلام !‘‘

سوچنے کی بات یہ ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے یہ نہیں فرمایا کہ: ’اس امت کے اکابرین بھی موجود ہیں، جنھوں نے براہِ راست چشمۂ نبوت سے فیض حاصل کیا ہے۔ خلیفہ وقت ان مردوں سے مشورہ کریں۔ ایک عورت بھلا کہاں امورِ مملکت کی سوجھ بوجھ رکھتی ہے۔ عورت کا میدان کار تو اس کے گھر کا میدان ہے ،وہ بھلا سربراہِ اُمت کو کیا مشورہ دے سکتی ہے‘‘۔ لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جو مسلمان عورت کے مقام ومرتبہ سے آگاہ تھیں، انھوں نے مختصر ترین لفظوں میں اتنی بڑی حکمت آمیز نصیحت کردی کہ اللہ کا خوف اور اس کی محبت تمام بھلائیوں کی جڑ ہے۔

اسلام نے امورِ مملکت میں عورتوں پر ایسی قدغن نہیں لگائی کہ ان کو دوسرے درجے میں شمار کیا ہو۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ حساس ترین خانگی ذمہ داریوں کے سبب بڑے بڑے مناصب سے اس کو الگ رکھنا پسند کیا۔ یہ اس کی صلاحیتوں پر شک نہیں بلکہ اس کے ساتھ رعایت ہے کیوں کہ وہ پہلے ہی امور خانہ داری اور تربیت اولاد کی بھاری ذمہ داریوں میں جکڑی ہوئی ہے۔

  •  پاکستان کا آئین:دستورِ پاکستان میں خواتین کو آئین کے تحت تمام سیاسی حقوق حاصل ہیں مگر حقوق نسواں کی تنظیمیں ان حقوق پر مطمئن نہیں ہیں اور ’کچھ مزید‘ کی خواہش مند ہیں۔

۱۹۹۵ء میں بیجنگ میں منعقدہ خواتین کے حقوق کی عالمی کانفرنس کا مقصد عورتوں کے لیے مادرپدر آزادی، صنفی مساوات اور پالیسی ساز اداروں میں ان کی ۵۰ فی صد شمولیت کا مطالبہ بھی شامل ہے۔ اسی طرح صدر مملکت، سربراہِ عدالت بننے کے مطالبے بھی شامل ہوتے جارہے ہیں۔

جن مغربی ملکوں سے حقوق نسواں کی تحریکیں اُٹھی ہیں، خود ان ملکوں کی تاریخ دیکھ لیں کہ کتنی خواتین حکومت کے کلیدی عہدوں تک پہنچی ہیں؟ پچھلے پچاس برس کے اعداد وشمار اٹھاکر دیکھ لیں ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے جو رپورٹس شائع کرتے ہیں ان کے مطابق دنیا بھر میں اعلیٰ حکومتی عہدوں پر تعینات خواتین کی تعداد مردوں کا صرف ۷فی صد ہے جو ان عہدوں پر فائز ہیں، جب کہ بیش تر ممالک میں تو یہ تناسب صفر ہے۔ پھر کیا واقعی عورت کی سربراہی عورتوں کے مسائل کا حقیقی حل ہے؟ ایسا ہے تو تاریخ اٹھاکر دیکھ لیں۔

  •  سری لنکا: ۱۹۶۰ءمیں پہلی بار ایک خاتون سری لنکا میں وزیراعظم بنی۔ آج پانچ عشرے گزرنے کے باوجود کیا وہاں پارلیمنٹ اور دیگر اعلیٰ عہدوں پر تعینات خواتین کی تعداد مردوں کے برابر ہے؟ ۱۹۹۱ء میں بلدیاتی انتخابات میں۴ہزار ۳ سو ۸۲ سیٹوں پر ۵۵خواتین اور باقی مرد تھے۔ ۱۹۹۷ء میں ۳ہزار ۴سو ۹۰ نشستوں میں صرف ۳۹ پر خواتین تھیں۔ سوال یہ ہے کہ سری لنکا میں عورت کے ریاست کے اعلیٰ ترین عہدے تک پہنچنے کے بعد کیا عورتوں کی سماجی حالت میں کوئی بہتری واقع ہوئی؟ عورتیں جو کل آبادی کا ۵۱ فی صد ہیں وہاں عورتوں پر گھریلو تشدد ۶۰فی صد سے زیادہ رپورٹ ہوا ہے، جب کہ امریکا کے بعد سب سے زیادہ خواتین سری لنکا میں مردوں کے ہاتھوں تشدد اور ریپ کا شکار ہوتی ہیں۔ یاد رہے کہ سری لنکا میں تعلیم کا تناسب ۹۳فی صد ہے۔
  •  بھارت :اندرا گاندھی بھارت میں طویل عرصے تک وزارت عظمیٰ پر فائز رہیں۔ عالمی ذرائع ابلاغ کی رپورٹس بتاتی ہیں کہ بھارت میں عورت کل بھی تشدد کا شکار تھی اور آج بھی ظلم کی چکی میں پس رہی ہے۔ ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق شہروں میں آگ لگنے سے ۶۸ہزار، جب کہ گائوں میں ۹۵ہزار عورتیں ہلاک ہوئیں، نیز ۱۵ سے ۳۵سال کے درمیانی عمر کی ۶۵ فی صد سے زائد خواتین تشدد کا شکار ہیں۔ عورتوں کی جنسی بے حُرمتی کے اعداد وشمار مغربی ملکوں کو شرماتے ہیں۔
  •  بنگلہ دیش :بنگلہ دیش میں گذشتہ ۲۵برس سے خواتین ہی برسرِاقتدار ہیں، مگر یہاں  خواتین کی بڑی تعداد تلاش روزگار کے لیے بیرونِ ملک جانے پر مجبور ہے۔ حسینہ واجد اور خالدہ ضیاء کی وزارتِ عظمیٰ کے باوجود کیا یہاں تیزاب پھینکنے، جلا کر مارنے، تشدد کرنے اور جنسی تشدد کے واقعات میں کوئی کمی واقع ہوئی یا بہ تدریج خوف ناک اضافہ ہو رہا ہے؟
  •  پاکستان:کیا پاکستان میں بے نظیر بھٹو کے دو بار وزیر اعظم بننے سے یہاں پر عورتوں کی حالت زار میں کوئی نمایاں تبدیلی دیکھنے میں آئی؟ کیا زچہ بچہ کے صحت کے مراکز کا جال بچھ گیا  اور تشدد کے واقعات میں کمی آئی؟ قبیح قبائلی رسوم کا خاتمہ ہوگیا؟ یا خواتین کے لیے مبینہ طور پر ملازمتوں اور انصاف کے دروازے کھل گئے ہوں؟ سارا منظر ہمارے سامنے ہے اور تاریخ نے یہ گواہی ثبت کردی کہ محض کسی عورت کے سربراہِ مملکت ہونے سے عورتوں کو حقوق حاصل نہیں ہوسکتے۔ اس کے لیے عادلانہ حکمرانی شرط ہے۔ حقوق کا تحفظ محض اس صنف کی سربراہی سے مشروط نہیں ہے۔

اسلام میں مردوزن کی مساوات

اسلام نے عورت کو تمدن اور معاشرت میں اس کے فطری مقام پر رکھ کر عزت وشرف کا مرتبہ عطا کیا ہے۔ ہماری اور مغربی تہذیب میں فرق یہی ہے کہ وہاں عورت کو اس وقت تک حقوق نہیں ملتے جب تک وہ مصنوعی مرد بن کر مردوں کی ذمہ داریاں اٹھانے کے لیے تیار نہ ہوجائے۔ اسلامی تہذیب عورت کو ساری عزت اور تمام حقوق عورت کی حیثیت میں ہی دیتی ہے اور تمدن کی انھی ذمہ داریوں کا بار اس پر ڈالتی ہے جو فطرت نے اس کے سپرد کی ہیں۔

لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مردوعورت دنیا میں پھیلادیے۔ اس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔ یقین جانو کہ اللہ تم پرنگرانی کررہا ہے۔ (النساء ۴:۱)

قرآن نے بتایا کہ جس نفس واحدہ سے مرد وجود میں آیا ہے اسی سے عورت بھی وجود میں آئی ہے اور مرد ہی کی طرح معاشرے کا ایک اہم ترین رکن ہے۔ دونوں کو معاشرے کی خدمت میں اپنی اپنی استعداد وقوت کے مطابق اپنا حصہ ڈالنا چاہیے:

اور جو کچھ اللہ نے تم میں سے کسی کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ دیا ہے، اس کی تمنا  نہ کرو۔ جو کچھ مردوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصہ ہے اور جو کچھ عورتوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصہ۔ ہاں، اللہ سے اس کے فضل کی دعا مانگتے رہو، یقینا اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔(النساء ۴:۳۲)

یہاں ثابت ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو خصوصیات عورتوں اور مردوں کو عطا کی گئی ہیں اس میں کسی پر کسی کی فضیلت کا کوئی پہلو نہیں ہے۔ قدرتِ حق نے ہر ایک کو وہی دیا ہے، جس کی اسے اپنے دائرۂ کار کے لیے ضرورت تھی۔اسلام نے اس فرسودہ تصور ہی کو ختم کر دیا ہے کہ مرد  اس لیے سربلند اور باعزت ہے کہ وہ مرد ہے اور عورت اس لیے فروتر ہے کہ وہ عورت ہے۔

جو شخص بھی نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ ہو وہ مومن، اسے ہم دُنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور (آخرت میں) ایسے لوگوں کو ان کے اجر اُن کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے۔(النحل۱۶:۹۷ )

مرد اور عورت کے درمیان فرق وامتیاز انسان کے ایک بازو اور دوسرے بازو کے درمیان فرق وامتیاز ہے۔ مردوزن کی مساوات کی اس سے بہتر مثال نہیں پیش کی جاسکتی۔ اسلام کا منشا یہ ہرگز نہیں ہے کہ امورخانہ داری کے علاوہ سارے کام عورت کے لیے ممنوع ہیں۔ اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ اصلاً اور بنیادی طور پر گھر کی مالکہ اور منتظمہ ہے۔ اس کی سماجی خدمات اس کے اصل قلعہ ’گھر‘ کو کمزور کرنے کا باعث نہیں بننی چاہییں۔

سیاسی محاذ کیوں؟

دورِ اول کی مسلمان خواتین اگرچہ اعلیٰ سیاسی مناصب پر نظر نہیں آتیں، لیکن وہ اجتماعی سیاسی معاملات سے غیر متعلق بھی نہیں رہیں۔ صرف یہی نہیں کہ وہ سیاسی سوجھ بوجھ رکھتی تھیں بلکہ انھوں نے بوقت ضرورت اسلامی ریاست کے تحفظ کے لیے جدوجہد کی اور قربانیاں بھی پیش کیں، مشورے بھی دیے اور سیاسی خدمات بھی انجام دیں۔ جنگ جیسے حساس اور نازک مواقع پر بھی ہمیں خواتین کی شمولیت کی روایات ملتی ہیں۔

 لیلیٰ الغفاریہ کے بارے میں علامہ ابن عبد البر لکھتے ہیں: ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوات میں وہ جاتی تھیں، زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں اور مریضوں کی دیکھ بھال کرتی تھیں‘‘۔(ابن عبدالبر، الاستیعاب)

طبقات ابن سعد میں درج ہے کہ ’’اُم سلیطؓ اسلام لائیں، بیعت کی، اور خیبر اور حنین میں شریک ہوئیں‘‘۔ (ابن سعد طبقات الکبریٰ)۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’وہ ہمارے لیے احد میں مشک بھر بھر کر پانی لاتی تھیں‘۔ (الاستیعاب)

فاطمہ بنت قیسؓ مشہور صحابیہ ہیں۔ ابتدائی مہاجرین میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ ان کے حالات میں علامہ ابن عبدالبر لکھتے ہیں:’’وہ عقل وکمال والی تھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ان ہی کے مکان پر اصحاب شوریٰ جمع ہوئے تھے اور انھوں نے وہ تقریریں کی تھیں جو  ان سے منقول ہیں۔ (الاستیعاب)

اس وقت سیاسی صورت احوال یہ ہے کہ عالمی اور ملکی سطح پر خواتین کی نمایندگی تقریباً تمام شعبوں میں پائی جاتی ہے۔ عالمی منظر نامے میں خواتین سیاست میں اہم مقام حاصل کرچکی ہیں۔   وہ اجتماعی زندگی کے فیصلوں اور قانون سازی جیسے معاملات میں مستقل طور پر کردار ادا کر رہی ہیں۔ اس صورتِ حال میں دین کی علَم بردار اور باحجاب خواتین یہ محاذ خالی نہیں چھوڑ سکتیں۔ ان خواتین کے لیے سیاست اپنے ذاتی مفادات کے لیے نہیں بلکہ اقامت دین کے لیے ناگزیر ہے۔ جب دین قائم ہوگا تو نظام عبادت سمیت معاشرت، تمدن ہر چیز محفوظ ہوگی۔ جب سیلابی ریلا آتا ہے تو صرف اپنے گھر کی فکر سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اگر ریلے کے آگے اجتماعی قوت صرف کر کے بند باندھ دیا جائے تو سبھی کی حفاظت کا اہتمام ہوتا ہے۔ محض خود کو بچانے کی کوشش سب کو بہالے جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے اقامت دین کی جدوجہد کے حوالےسے رہنمائی فرمائی ہے کہ’’اگر     اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں اور گرجا اور معبد اور مسجدیں،  جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے، سب مسمار کر ڈالی جائیں‘‘(الحج ۲۲:۴۰)۔یعنی دین کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ لادین لوگوں کو اقتدار سے بے دخل کیا اور غیرمؤثر بنایا جائے۔  دُنیوی زندگی کی تعمیروتشکیل اور ترقی کا مرکزی ہدف عقیدے اور عمل کے فساد کا خاتمہ ہے۔

اسی وجہ سے آپ ؐکے زمانے میں خواتین نے ہجرتیں بھی کیں، جنگ کے میدانوں میں بھی گئیں، جہادی مہمات میں کھانا تیار کرنے، زخمیوں کو پانی پلانے، مرہم پٹی کرنے، شہدا کی میّتوں کو میدانِ جنگ سے اٹھا کر واپس لانے کی ذمہ داری بھی ادا کی، حتیٰ کہ ام عمارہؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لیے سیکورٹی گروپ میں شامل ہوگئیں اور آپ ؐ کی حفاظت کا فریضہ مردانہ وار ادا کیا۔ آپ ؐ نے تحسین فرمائی ایک عورت کی اس شجاعت اور دلیری کی۔ فرمایا: ’’اُحد کے موقعے پر جدھر بھی رُخ کرتا اُمِ عمارہ کو سامنے موجود پاتا‘‘۔

آپؐ نے ام عمارہؓ کو اس خدمت پر مامور نہیں فرمایا تھا۔ اُمِ عمارہؓ نے خود یہ اجتہاد کیا کہ اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت دراصل اسلامی ریاست کی حفاظت ہے۔ آپؐ نے ان کی تعریف فرمائی۔ گویا اسلامی ریاست کی حفاظت عورتوں پر مردوں کی طرح لازم نہیں ہے، لیکن عورتیں اپنی صلاحیت کے مطابق حصہ لینا چاہیں اور اس دوران میں شریعت کی حدود کی پابند رہیں تو انھیں روکا نہیں جاسکتا۔ البتہ عورت کے ہاتھ میں خنجر دینا اس کی فطرت سے متصادم ہے۔ تاہم، اس کے باوجود اسلام عورتوں کو اپنی جان ومال اور آبرو کی حفاظت کے لیے ہتھیار اٹھانے کی اجازت دیتا ہے مگر بالعموم خواتین کو فوجوں میں بھرتی کرنا اور ان سے مردوں والی خدمات لینا اسلام کی پالیسی سے خارج ہے۔

جنگ حنین میں اُمِ سلیمؓ ایک خنجر ہاتھ میں لیے پھر رہی تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ: ’یہ کس لیے ہے؟‘کہنے لگیں: ’اگر کوئی مشرک میرے قریب آیا تو اس کا پیٹ پھاڑ دوں گی‘ ( مسلم)۔اُم عطیہؓ سات لڑائیوں میں شریک ہوئیں۔ کیمپ کی حفاظت، سپاہیوں کے لیے کھانا پکانا، زخمیوں اور بیماروں کی تیمارداری کرنا ان کے سپرد تھا۔ (ابن ماجہ)

اس وقت اُمت مسلمہ پر صلیبی، صہیونی اور لادینی حملہ ہوچکا ہے۔ یہ حملہ اس وقت سے ہے جب انگریز اور دیگر سامراجی قوتوں نے مسلم علاقوں پر قبضے کیے۔ اس وقت سے ان قوتوں نے اللہ کے نظام کو معطل کر کے طاغوتی نظام رائج کیے۔ آزادی کے بعد بھی اس نے اس بات کا اہتمام کیا ہوا ہے کہ اس کا نظام جاری وساری رہے۔ اگر کسی ملک میں جزوی طور پر اسلامی احکام جاری ہوگئے ہیں، تو انھیں منسوخ کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس بنا پر پاکستان میں اسلامی حدود، تعزیرات اور ناموس رسالتؐ کے قوانین کو ختم کرنے کے لیے کوششیں اور شور برپا کیا جاتا ہے۔

عالمی ایجنڈوں کے تحت خواتین کی مساوی شمولیت کی کوششیں بڑی قوت سے ہو رہی ہیں۔ اس وقت خواتین کو سیاست میں نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔ ایسے میں دین دار خواتین کی اس میدان کے لیے عملی تربیت نہ کی گئی تو بڑے خسارے کا سودا ہوگا۔ مسلم اُمہ کے مجموعی طور پر اجتماعی، سیاسی، سماجی اور تعلیمی حالات بہت دگرگوں ہیں۔ جس میں اجتماعی سیاسی جدوجہد کی ضرورت ہے۔

اس بات کو اگر بڑی واضح مثال کے ساتھ پیش کیا جائے تو ذہن میں یہ منظر سامنے رکھیے: جس وقت خواتین لادینیت کی تبلیغ کررہی ہوں، تو کیا دین دار خواتین کو میدان لادین طبقے کے لیے خالی چھوڑ دینا چاہیے؟ بدقسمتی سے آج سیاسی میدان میں لادین قوتیں سرگرم عمل ہیں۔ خواتین اسلام ان کے لیے میدان کیوں خالی چھوڑدیں۔

قابل مبارک باد ہیں وہ خواتین جو ایک طرف چادر اور چار دیواری کے تقاضوں کے ساتھ اپنے خانگی امور انجام دے رہی ہیں، تو دوسری طرف سیاست کے میدان میں لادین عورتوں کا مقابلہ کررہی ہیں۔ ان شاء اللہ وہ اللہ کے ہاں دہرے اجر کی مستحق ہوں گی۔

(مآخذ: lاسلام اور مسلم خواتین،سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ lعورت اور سیاسی حقوق، جماعت اسلامی حلقہ خواتین lعورت اور اسلام،مولانا سید جلال الدین عمری)

چند روز قبل اخبار پڑھتے ہوئے دو اشتہارات پر نظر پڑی۔ ایک کا متن یہ تھا: ’’ہمیں ایک ریستوران کے لیے مستعد اور خوبرو ہوسٹس درکار ہے۔ چاک و چوبند ہونے کے ساتھ انگریزی زبان میں بھی مہارت رکھتی ہو‘‘۔ دوسرا اشتہار کچھ اس طرح کا تھا:’’ ہمیں اپنے شوروم کے لیے سیلزگرل کی ضرورت ہے۔ کم از کم تعلیم انٹرمیڈیٹ تک۔ امیدوار اپنی درخواست کے ساتھ حالیہ پاسپورٹ سائز فوٹو بھی ارسال کریں‘‘۔

دو ایسے کام جن کے لیے مرد زیادہ موزوں ہو سکتے ہیں، صرف خواتین سے درخواستیں طلب کرنا اور ’خوبروئی کا تقاضا‘ ظاہر کرتا ہے کہ مقصد ان کی نسوانیت کو اپنی تجارت چمکانے کے لیے استعمال کرنا ہے۔ غالباً جن مالی مفادات کی بھینٹ چڑھانا مقصود ہے، وہ معمولی شکل و صورت کی خواتین سے حاصل نہیں کیے جا سکتے۔ ضروری ہے کہ ان کے خدوخال گاہکوں کے لیے زیادہ دل کش ہوں، ان کی مسکراہٹیں ریستوران میں زیادہ سے زیادہ ہوس پرستوں کو جمع کرنے اور ان سے زیادہ سے زیادہ پیسے وصول کرنے کی صلاحیت رکھتی ہوں۔ عورت کا فطری تقدس پامال ہوتا ہے تو ان کی بلا سے۔ معاشرے میں ہوس پرستی کا جزام پھیلتا ہو تو پھیلا کرے۔ اس سے ان مغربی تہذیب کے کارندوں کو کوئی غرض نہیں۔ ان کے نزدیک عورت کا مصرف ہی یہی ہے کہ اس کے خدوخال سے عمومی لطف اندوزی کا سامان فراہم کیا جائے۔

یہ ہیں مغربی تہذیب کی وہ چنگاریاں، جو ہمیں چاروں طرف سے گھیر رہی ہیں۔ گھر کی  چار دیواری کی’قید‘ سے نکال کر’آزادی‘ کے بعد اس کے نزدیک عورت کا مصرف کیا ہے، وہ ان چند الفاظ سے عیاں ہے۔ عورت کا مقام و مرتبہ بڑھانے اور اسے ’آزادی‘ دلانے کا دعویٰ کرنے والی یہ تہذیب ہرگز نہیں پسند کرتی کہ کوئی عورت اپنے گھر میں شوہر یا والدین کی خدمت کا فریضہ انجام دے یا اپنے بچوں کی تربیت کرے۔ یہ اس ظالم تہذیب کی رُو سے’ ذلت، رجعت پسندی اور دقیانوسیت‘ ہے۔ لیکن وہی عورت اگر جہازوں میں یا ریستورانوں میں روزانہ سیکڑوں اجنبیوں کے لیے ناشتے یا کھانے کی ٹرے سجا کر لائے یا دکانوں پر کھڑی ہوکر مال بیچا کرے اور اپنی اداؤں سے گاہکوں کو دکان کی طرف متوجہ کرے تو یہ عین’ عزت اور روشن خیالی‘ ہے۔

یہ ملت اسلامیہ کے تمام مؤثر حلقوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ حکومت ہو یا عوام، علما ہوں یا دانش وَر، دینی جماعتیں ہوں یا فلاحی انجمنیں، ان سب کو اس موضوع پر سنجیدگی کے ساتھ سوچنےکی ضرورت ہے کہ خواتین کے کردار سے متعلق ہمارا معاشرہ کس رُخ پر جا رہا ہے؟ اور اگر اس سمت میں اسی رفتار سے چلتے رہے تو رفتہ رفتہ کہاں جا پہنچیں گے؟ ساتھ ہی یہ سوال بھی ابھرتے ہیں کہ اس نام نہاد آزادی کے ذریعے قوم کی خواتین کو بالآخر کس منزل پر پہنچانا مقصود ہے؟ کیا عورت کے لیے بے وقعتی، اخلاقی پستی اور گراوٹ کی وہی منزل طے کرلی گئی ہے، جو مغربی عورتوں کی ایک بھاری تعداد کا مقدر بن چکی ہے؟ ایسی منزل کہ جس پر پہنچنے کے بعد نہ صرف عورت نسوانیت کا جوہر کھو بیٹھتی ہے، بلکہ فطرت سے بغاوت کے نتیجے میں خاندانی نظام کی بھی چولیں ہل کر رہ جاتی ہیں۔

اب حالت یہ ہے کہ سڑکیں صاف کرنے سے لے کر ہوٹلوں میں گاہکوں کے بستر بچھانے تک دنیا کا کوئی ایسا چھوٹے سے چھوٹا کام نہیں رہ گیا، جو عورت کے سپرد نہ ہو۔ بچے ماں کی آغوشِ تربیت کو ترس رہے ہیں اور گھر اپنی منتظمہ کے وجود کی رونق سے محروم اور ویران پڑے ہیں، لیکن سڑکیں، دکانیں اور بازار عورت کے حسن و جمال سے سجے ہوئے ہیں۔

مغرب میں یہ سارا کھیل ’آزادی نسواں ‘ کے نام پر ہی کھیلا گیا ہے۔ اس کے لیے عورت کے چار دیواری میں ‘مقید‘ ہونے کا افسانہ گھڑا گیا اور اس افسانے کو گلی گلی عام کر کے وقت کا فیشن بنادیا گیا کہ اس کے خلاف لب کشائی فرسودگی اور دقیا نوسیت کی علامت بن گئی۔ اس طرح عورت کو گھر سے کھینچ کر سڑکوں، دکانوں، ریستورانوں میں خدمت گزاری اور افسران بالا کی نازبرداری کے فرائض سونپ دیے گئے۔ یہی نعرہ آج ہمارے یہاں بھی لگ رہا ہے اور اسی آزادیِ نسواں کے پُرفریب نعرے کے ذریعے ‘ خوبرو عورتوں ‘ سے ریستورانوں میں بیرے کا کام کرنے کے لیے درخواستیں طلب کی جا رہی ہیں۔ اگر خدا نخواستہ یہ سلسلہ اسی رفتار سے جاری رہا تو مغربی معاشرے کی تمام تر لعنتوں کے ہم تک پہنچنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔

استدلال یہ پیش کیا جاتا ہے کہ قومی تعمیر و ترقی کے دور میں ہم اپنی نصف آبادی کو عضوِ معطل بنا کر نہیں رکھ سکتے۔ یہ بات اس شان سے کہی جا رہی ہے کہ گویا ملک کے تمام مردوں کو کسی نہ کسی کام پر لگا کر مردوں کی حد تک ’مکمل روزگار‘ کی منزل حاصل کرلی گئی ہے۔ قوم کے خاندانی نظام کی بنیادیں سنبھالنے والی، اپنی آغوش میں مستقبل کو تربیت دینے والی، اور تقدس،   پاک بازی اور عفت و عصمت کی اعلیٰ ترین قدروں کی آبیاری کرنے والی عورت کو ’عضوِ معطل ‘  قرار دینا مغرب کی اس الٹی منطق بلکہ جاہلانہ حرکت کا کرشمہ ہے۔ جس کی نظر میں کام کا آدمی   بس وہی ہے جو زیادہ سے زیادہ پیسے کمائے، خواہ اس کے بعد وہ ملک بھر میں اخلاقی کوڑھ پھیلاتا پھرے۔ جو آدمی پیسے کما کر نہ لائے وہ ’عضو معطل‘ ہے خواہ معاشرے کی اخلاقی اور روحانی تعمیر میں وہ کتنا ہی بلند کردار کیوں نہ ادا کر رہا ہو۔

ہمارے معاشرے میں اسلام کا نام تو روزانہ بڑی شدّومد کے ساتھ لیا جاتا ہے، لیکن عملاً ہم جس رُخ پر جا رہے ہیں وہ مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ کی نہیں، بلکہ نیو یارک اور ماسکو کی سمت ہے۔ اسلام نے اپنی اصلاحی مہم کا آغاز گھر سے کیا ہے، کیوںکہ گھر ہی وہ بنیادی پتھر ہے جس پر تمدن کی پوری عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ اس گھر کا بنیادی ستون عورت کو قرار دے کر اسے یہ تعلیم دی گئی ہے کہ ’’اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور جاہلیت اولیٰ کی طرح بناؤ سنگھار کر کے باہر نہ پھرو‘‘۔ (سورہ نور)

لہٰذا، جب تک عورت کے صحیح مقام کو سمجھ کر اسے یکسوئی کے ساتھ ان فرائض کی انجام دہی کا موقع فراہم نہیں کیا جائے گا، جو فطرت نے اسے سونپے ہیں اور جن پر معاشرے کے بناؤ اور بگاڑ کا سارا دارومدار ہے، اس وقت تک اسلامی معاشرے کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔ ایک طرف اپنا مقصد دعوتِ دین اور اسلامی معاشرے کا قیام قرار دیا جاتا ہے اور دوسری طرف اس معاشرے کے بنیادی ستون، عورت کو وہ مقام دیا جارہا ہے، جہاں اس پر صرف مادہ پرست مغربی معاشرہ تعمیر ہوسکتا ہے، روحانی اقدار پر مبنی معاشرہ ہرگز نہیں۔

 انسان کی دنیاوی زندگی کو پانچ اَدوار میں تقسیم کیا جاتا ہے: نومولودیت (infancy)، بچپنا (childhood)، بلوغت (adolescense)، جوانی (adulthood) اور بڑھاپا         (old age)۔ زندگی کے ان تمام مراحل میں انسان اپنے آپ کو مختلف حالات سے لڑتا ہوا پاتا ہے۔ویسے بھی زندگی ایک جہدِ مسلسل کا نام ہے، چاہے وہ دودھ پیتا بچہ ہو یا کوئی نوجوان، ہر کسی کو اپنی زندگی گزارنے کے لیے آس پاس کے ماحول سے کسی نہ کسی صورت میں نبردآزما ہونا پڑتا ہے۔ نومولود بچہ گھر کا چشم و چراغ ہوتا ہے۔ اُس کے ساتھ والدین اپنی زندگی کی بہت سی اُمیدیں وابستہ کرتے ہیں ۔ فطری جذبۂ اُلفت و محبت کے سایے میں وہ پروان چڑھتا ہے۔

تاہم، جب زندگی کے آخری مرحلے میں انسان پہنچتا ہے تو وہ عملاً نومولودیت کے عالم میں واپس جا پہنچتا ہے، جس کو ہم بڑھاپے کے نام سے جانتے ہیں۔انسانی زندگی کے سائیکل کا یہ ایسا مرحلہ ہے، جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ قرآن پاک میں بھی اسی چیز کا تذکرہ کچھ اس طرح سے کیا گیا؛’’اللہ ہی تو ہے جس نے ضعف کی حالت سے تمھاری پیدایش کی ابتدا کی، پھر اس ضعف کے بعد تمھیں قوت بخشی، پھر اس قوت کے بعد تمھیں ضعیف اور بوڑھا کر دیا‘‘(الروم۳۰: ۵۴)۔ بڑھاپا ان تمام مراحل میں ایک ایسا مرحلہ ہوتا ہے، جس کو انسان نہ چاہتے ہوئے بھی آنے سے روک نہیں سکتا۔ انسان بہت ساری مشکلات سے دوچار ہوتاہے ۔ جسمانی ، نفسیاتی، سماجی اور مالی ، کسی نہ کسی صورت میں انسان دوسروں پر انحصار کرتا ہے۔ جسمانی سہارے اور مالی ضروریات کا  وہ متلاشی ہوتا ہے۔ یہ کمی کسی نہ کسی صورت میں پوری ہونے کی سبیل بھی نکلتی ہے، لیکن نفسیاتی ضروریات کا زندگی کے اِس مرحلے میں شاذ ہی کسی کو احساس ہوتا ہے ۔ یہاں پر ہم کچھ بات سماجی و نفسیاتی ضروریات کے متعلق کریں گے۔

پچھلے سال کی بات ہے کہ ایک یورپی نوجوان جوے (Joe)نے بزرگوں کی سماجی و نفسیاتی ضروریات اور ان سے وابستہ حالات و کوائف کو سمجھنے کے لیے طے کیا کہ وہ پورے ایک ہفتے ایک ایسی جگہ پر گوشہ نشین ہو گا، جہاں اُسے نہ کسی سے بات کرنے کا موقع ملے اور نہ کسی سے ملنے جلنے کا۔ اس تجربے کا مقصد یہ تھا کہ ہم جو بزرگوں سے اتنے دور ہوتے جارہے ہیں کہ اُن سے اب بات کرنے کی بھی فرصت نہیں ہے، یہ دیکھا جائے کہ بزرگ حضرات اپنی زندگی کے یہ آخری ایام کن حالات و کوائف سے دوچار ہوکر گزارتے ہیں۔ اپنے اِس تجربے کے دوران انھوں نے ایک ایسے گھر کا انتخاب کیا جہاں پر کھانے پینے اور کھیلنے کودنے کے لیے تو سب کچھ موجود ہے ، لیکن صرف انسان اور انسانی روابط نہیں ہیں، جن سے کہ وہ کسی نہ کسی صورت میں بات کر سکتا ہو۔ اس صورتِ حال میں رہتے ہوئے وقفے وقفے سے ایک ویڈیو بھی بناڈا لی، جس میں وہ بہت زیادہ گھبرایا ہوا نظر آتا ہے اور کہتا ہے کہ ’’ دیانت داری سے بتائوں، مجھے یہ تجربہ بہت مشکل لگ رہا ہے‘‘۔

اگلے دن جب نیند سے بیدار ہوتا ہے تو کہتا ہے کہـ’ ’جب میں صبح جاگا تو ہمیشہ اپنی عادت کے مطابق موبائل فون کو چیک کرنا چاہا، جو عام حالات میں نارمل ہوتاہے ، لیکن یہاں پر میرے پاس کوئی فون یا ذرائع ابلاغ مہیا نہیں ہیں، اس سے سخت مایوس ہوا۔ مجھے لگتا ہے کہ اصل معاملہ ہماری زندگیوں کو منضبط کرنے والی ٹکنالوجی کا نہیں ہے ، بلکہ انسانی رشتوں کا ہے۔ مجھے احساس ہو رہا ہے کہ زندگی کی اصل غرض و غایت انسانوں کا باقی انسانوں کے ساتھ ایک رشتے کا احساس ہوتا ہے‘‘۔ یاد رہے ایک بڑے عالی شان بنگلے میں انسانوں کے بغیر ہر طرح کی آسایش کی چیز اِس نوجوان کو مہیا ہے۔ انھی حالات میں وہ اپنی ریکارڈ کی گئی ویڈیو میں مزید کہہ رہا ہے کہ’ ’میں باہر کی دنیا میں رہنے والے لوگوں کی آوازیں سن سکتا ہوں ، جو کہ اپنے دن کے کام کا آغاز کرنے کے لیے اپنے اپنے مقامات کی طرف رواں دواں ہوتے ہیں۔ مجھے یہ چیز بہت کھٹک رہی ہے کہ لوگ باہر کی دنیا میں کام کر رہے ہیں اور میں یہاں اکیلا پڑا ہوں‘‘۔

اگلی رات آتے وقت مذکورہ نوجوان کہتا ہے کہ ’’مجھے لگتا ہے مجھے سونا چاہے ، کیوں کہ میرے لیے دن کا نہ کوئی آغاز ہوتا ہے اورنہ کوئی اختتام، بس بیٹھا رہتا ہوں کچھ بھی کام نہ کرتے ہوئے‘‘۔ اگلے دن صوفے پر بیٹھے مذکورہ نوجوان کہتا ہے کہ’’ بس میں اپنی زندگی کے ایام گن رہا ہوں۔ میں انسان نما مشین(robot) میں تبدیل ہو چکا ہوں۔ اب، جب کہ میں یہاں پر کوئی کام کیے بغیر اور کسی انسانی رابطے کے بغیر اپنی زندگی ایک مشین کی طرح جی رہا ہوں، تو غیر ضروری خیالات کا ہجوم میرے دماغ میں یلغار کرتا ہے جو پھر میرے لیے ایک نہ بیان کرنے والی پریشانی کا سبب بن جاتے ہیں‘‘۔

ایک ہفتے تنہائی میں گزارنے کے بعد جب جوئے کو باہر کی دنیا میں لے جایا گیا تو اس سے ایک بزرگ نے پوچھا کہ: ’’کیا لگ رہا ہے اب آپ کو ایک ہفتہ کسی انسانی رشتے یا سماجی رابطے کے بغیر زندگی جینے میں ؟‘‘ جس کے جواب میں اس نوجوان نے کہا:’’ میں اپنے آپ کو  خوش رکھنے کے لیے بہت زیادہ کوشش کر نے کے بعد بھی خوش نہ رکھ سکا اور میرے اندر ایسی نفسیات پیدا ہوگئی، جس سے مجھے احساس ہو ا کہ مجھ جیسا فرد اکیلا،تن تنہا اور الگ چھوڑ دیا گیا ہے، اور میرا اِس دنیا میں زندہ رہتے ہوئے بھی کوئی وجود نہیں ہے‘‘۔اس کے بعد بزرگ مذکورہ نوجوان سے کہتے ہیں کہ:ـ’’ ڈھائی سال پہلے میری بیوی کا انتقال ہوا، جس کے بعد میرے پاس کوئی بھی، ہمسایہ، رشتہ دار ، دوست، حتیٰ کہ کوئی انسان تک نہیں آیا، جس سے کہ میں باتیں کرتا ، اپنے دکھڑے سناتا، حالاںکہ یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ دنیا میں آئے ہوئے ہر ایک انسان کو بڑھاپے کا  یہ مرحلہ پار کرتے ہوئے ایک نہ ایک دن کوچ کرنا ہی ہے‘‘۔

پوری دنیا میں ہمارے بزرگ حضرات مختلف حالات سے لڑ رہے ہوتے ہیں۔ ہرکوئی انھیں بوڑھا سمجھ کر ان کی سنی اَن سنی کر رہا ہے۔’ ’اس کے نتیجے میں بے چارے بوڑھے پتا نہیں  آخر میں کیا کیا بہانے بھی گھڑنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ ہر روز کسی نہ کسی بیماری کا بہانہ بناتے ہیں،   نئے نئے مطالبے کر رہے ہوتے ہیں، اور جو آجائے اُس سے پورا پورا دن مغز کھپائی کرتے رہتے ہیں کہ کہیں مختصر بات کے بعد وہ چلا نہ جائے‘‘۔ سمجھنے والی بات ہے کہ کیا وجہ ہے کہ بزرگ حضرات ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں اور جس کے جواب میںہمارا رویہ اُن کے ساتھ مردم بے زاری کا کیوں ہوتا ہے؟ کوئی بھی مسئلہ بذاتِ خود جنم نہیں لیتا ہے، بلکہ اُسے مختلف پہلو جنم دیتے ہیں۔ یہی حال بزرگوں کے اِس رویے کاہے۔

جیسا کہ اوپر اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ بڑھاپے میں انسان بچے کی طرح  بن جاتا ہے اور عادات و اطوار بھی بچوں کی طرح ہوجاتے ہیں۔ جس کی صرف ایک ہی وجہ ہوتی ہے کہ بڑھاپے میں انسان کو بالکل بچے کی طر ح دوسروں کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے، لامحالہ ہمیں بھی اُن کے لیے نرم گوشہ رکھنے کی ضرورت ہے۔بیماری خود بخود کسی انسان کو گلے نہیں لگالیتی۔ پہلے اُس کی آمد کے لیے انتظامات کیے جاتے ہیں، بزرگوں کو معاشرے سے الگ سمجھا جاتا ہے، اُن سے کسی کو بات کرنے کی فرصت نہیں ہوتی، اُن کی ضروریات کی کوئی قدر نہیں کی جاتی، نتیجتاً وہ اُن بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں، جنھیں ہم جیسے بھاگتے پھرتے جوان اُن کی ’بہانہ سازی‘ قرار دیتے یا سمجھتے ہیں۔ ٹکنالوجی سے منضبط موجودہ دور کے انسان کے پاس اپنی آسایش و آسانی کے لیے تو بہت سے آلات موجود ہیں، لیکن یاد رکھنے کے قابل یہ بات ہے کہ ٹکنالوجی کبھی انسان اور انسانی رشتے کی جگہ نہیں لے سکتی۔ نہ صرف اپنے بزرگ والدین کو بلکہ دنیا کے کسی بھی انسان کو اگر رشتے کے احساس سے محروم رکھا جائے، تو وہ دولت یا سہولیات کی فراہمی کے باوجود ایک نیم مُردہ لاش کی طرح بن کر رہ جائے گا۔ بزرگ حضرات کے لیے انسانی رشتوں کا یہ مرہم بدرجہ اُتم اہمیت کا حامل ہے۔ اگر اپنے لاڈلے بچے کے لیے انسان اِس امید کے ساتھ کہ یہ بچہ زندگی کے آخری مرحلے میںمیرا سہارا بن جائے گا اپنی راتوں کی نیندیں حرام کر سکتا ہے، تو کیا وجہ ہے والدین کے انھی جیسے احسانات کو بھلا کر ہم اُن کی سماجی و نفسانی ضروریات کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتے؟

 عالمی تنظیم براے صحت (WHO)کے مطابق دنیا بھر میں ۲۰ فی صد سے زیادہ بزرگ لوگ کسی نہ کسی شدید ذہنی پریشانی میںمبتلا ہیں۔ ۶ء۶ فی صد بزرگ صرف اور صرف اس وجہ سے جسمانی طور ناکارہ ہوچکے ہیں، کہ وہ نفسیاتی الجھنوں میں جکڑے گئے ہیں۔نفسیانی بیماریوں میں سب سے زیادہ عام بیماری بھولنے کی ہے ، جسے dementia  کی اصطلاح سے جانا جاتا ہے اور جس نے بزرگوں کی بڑی تعداد کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ایک تحقیق کے مطابق بزرگوں کی طرف سے شکایت کردہ تکالیف کی بنیادی وجہ صرف اور صرف یہی ہے کہ ہم اُن کے لیے نرم گوشہ نہیں رکھتے ہیں۔ نرم گوشہ بالکل ایسا ہی ہے، جیسے ہم بچوں کو اکیلا اور تن تنہا نہیں چھوڑتے ہیں،  اور قدم قدم پر انھیں اس بات کا احساس دلاتے ہیں کہ کوئی ان سے بہت سارا پیار کرتا ہے اور اُن کی ضروریات کا خیال بھی رکھتا ہے۔

اب اگر اپنے بچے کے لیے انسان اتنی ساری مصیبتیں اٹھاتا ہے، تو موجودہ دور کے معاشرے کے اس دور کو کیا ہوگیا ہے کہ اپنے بزرگ والدین کے بے پناہ احسانات کے باوجود ہم انھیں اپنے لیے بوجھ سمجھ رہے ہیں؟ایک تحقیق کے مطابق بڑھاپے میں بھولنے کی بیماری (dementia) کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے بزرگوں سے بات کرنے سے کتراتے ہیں۔ کسی بوڑھے انسان سے اگر دن میں محض اس کے بچے ایک گھنٹے تک اس کے پاس بیٹھ کر دو چار باتیں کرلیں اور سن لیں تو ممکنہ حد تک بھولنے کی بیماری کو روکا جاسکتا ہے۔ گھر کے اندر داخل ہونے کے بعد اگر ان سے بھی سلام دُعا ہوجائے ، ان کو بھی اس بات کا احساس دلایا جائے کہ کوئی اُن کی بھی عزت کرتا ہے، انھیں کوئی اضافی چیز نہیں سمجھتا، انھیں بھی اپنے معاشرے کا نہایت اہم حصہ تصور کرتا اور سمجھتا ہے ، تو نہ کسی بیماری پر زیادہ پیسے خرچ کرنے کی ضرورت پڑے گی، اور نہ گھر کا ماحول دگرگوں ہونے کا خطرہ پیدا ہوگا۔ اتنا ہی نہیں آخرت کے اندر بھی اس عمل کے بدلے جنت کے انعام کے ملنے کا وعدہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے، بھلا اُن سے بڑھ کر اور کون سچا ہوسکتا ہے؟

ہر زمانے کے اپنے وسائل اور اپنے مسائل ہوتے ہیں، لیکن بنیادی قدروں میں ردوبدل نہیں ہوتا۔ ہمارے اس عہد میںسوشل میڈیا ایک نیا وسیلۂ ابلاغ وخبر ہے۔ اس وسیلے سے وابستہ جس کلچر نے جنم لیا ہے اسے ہم ’منقول کلچر‘ کہہ سکتے ہیں۔ یعنی اپنے طور پر کوئی چیز لکھنے یا تشکیل کرنے سے زیادہ، دوسروں کی چیزوں کو نقل کرنے کا کلچر۔

منقول کلچر کا جو رُوپ ہمارے سامنے آیا ہے، اس میں دو خرابیاں حددرجہ ہیں:ایک یہ کہ ہمیں خبر، پوسٹ یا تحریر کے مصنف کا علم نہیں ہوتا کہ جس کی بنیاد پر اس کے جعلی یا غلط ہونے کی صورت میں مواخذہ کیا جاسکے۔ اس کمی کے باعث احتساب یا اصلاح ممکن نہیں ہوتی۔ دوسرے، تحریر کے خالق کو اس کے حق سے محروم کر دینا بھی بڑی زیادتی کی بات ہے۔

آج کل سوشل میڈیا پر یہ کلچر بہت عام ہو گیا ہے کہ لوگ مصنف کا نام دینے کے بجائے ’منقول‘ لکھ دیتے ہیں اور یہ سمجھ لیتے ہیں کہ اخلاقی ذمہ داری پوری ہو گئی۔ اکثر ایسی پوسٹس یا پورے پورے مضامین فیس بک اور واٹس اَیپ پر نظر آتے ہیں، جو بہت محنت سے لکھے گئے ہوتے ہیں لیکن مصنف کا نام موجود نہیں ہوتا۔ اگر بھیجنے والے سے پوچھا جائے کہ یہ کس نے بھیجا ہے؟ تو وہ کہتا ہے ہمیں خود کسی نے فارورڈ کیا تھا۔ اچھا لگا تو ہم نے آگے بڑھا دیا۔ سوشل میڈیا پر رائج   اس رواج اور چلن کو ہم ’منقول کلچر‘ کا نام دیں گے۔

لوگ سمجھتے ہیں کہ مصنف کے نام کے بجاے ’منقول‘ لکھ دینے سے وہ ’فکری ملکیت‘ (Intellectual property) کی چوری کے اخلاقی جرم سے بری ہو جاتے ہیں۔ حالاںکہ چوری چوری ہوتی ہے چاہے وہ مفاد عامہ کے لیے مخلصانہ نیت سے ہی کیوں نہ ہو۔ ’منقول‘ کا یہ استثنا صرف اس صورت ممکن العمل ہے، جب تحریر کی اشاعت ناگزیر ہو اور مصنف کا نام معلوم ہونے کا کوئی طریقہ نہ ہو۔ مثلاً تحریر ماضی بعید میں لکھی گئی ہو اور کسی وجہ سے سر ورق یا مصنف کا نام پڑھا جانا ممکن نہ ہو۔ لیکن یہاں صورت حال یہ ہے کہ پورا پورا مضمون کاپی کر کے بڑے خلوص سے مصنف کے نام کی جگہ ’منقول‘ لکھ کر پوسٹ کو پھیلا دیا جاتا ہے اور چوںکہ پھیلانے والے کا ذوق بہت اچھا یا سنسنی خیز ہوتا ہے تو پیغام (post) عام (viral) ہو جاتا ہے، لیکن مصنف اپنے استحقاق سے محروم ہو جاتا ہے۔

قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’کوئی فاسق [گناہ گار ] تمھارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو‘‘ (الحجرات ۴۹:۶)۔اب سوال یہ ہے کہ ’منقول پوسٹ‘ میں تو خبر لانے والے کا نام ہی نہیں معلوم ہوتا۔ ایسے میں کیسے ممکن ہے کہ اس کے بارے میں فیصلہ کیا جا سکے۔ جہاں تک کاپی رائٹس کا تعلق ہے، تو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر میں یہ ایک حق ہے کہ کسی قسم کے آرٹ (تحریریں، موسیقی، مجسمہ سازی، نقاشی و صورت گری، آرٹ کی تعریف میں شامل ہیں) کی تخلیق کرنے والا اس کی اشاعت سے متعلق فیصلہ کرنے کا حق رکھتا ہے، یعنی اس کے نام سے شائع ہونے کی صورت میں بھی اس کی اجازت لینا ضروری ہے، اِلّا یہ کہ ٹیکسٹ کی تھوڑی بہت مقدار کاپی کی جائے یا مصنف نے خود استعمال کی اجازت دی ہو۔ اس پس منظر میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا پر بھی کیا یہ قوانین لاگو ہوتے ہیں یا نہیں؟ اس معاملے کی بہت سی باریکیاں ہے، جنھیں سمجھنا اتنا آسان نہیں۔ پھر بھی ہم سوشل میڈیا پر اس کی خلاف ورزی سے متعلق کچھ بنیادی باتوں کو زیر بحث لانے کی کوشش کرتے ہیں۔

مصنف کا نام پوسٹ پر نہ ہونے کے نقصانات

مصنف کا نام پوسٹ (پیغام) پر نہ ہونے کے نقصان کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔   شہرقصور میں بچی زینب کے قتل کے سلسلے میں ایک معروف اینکرپرسن کے انکشافات سے پہلے ڈارک ویب کے حوالے سے ایک پوسٹ راقمہ کو بغیر نام کے موصول ہوئی۔ تحریر بہت پختہ، مربوط اور دلائل سے بھر پور تھی جس میں مصنف نے مالی پیش قدمی، ٹیلی فون اور انٹرنیٹ پر ڈیٹا ٹریفک کی جانچ کے ذریعے تفتیش کی بہت معقول تجاویز پیش کی تھیں، جن پر عمل سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی تھی کہ واقعی اس قتل کا تعلق چائلڈ پورنوگرافی کے انٹرنیشنل مافیا سے ہے یا نہیں۔ قصور میں پہلے بھی اس نوعیت کا ایک گھناؤنا اور رُسوا کن جنجال (اسکینڈل) سامنے آچکا تھا، اس لیے اگر ایسا ہوتا تو یہ کوئی اچنبھا شمار نہ ہوتا۔ انٹرنیٹ کے آغاز سے ہی (بلکہ اس سے پہلے بھی) بہت سے ممالک میں ایسے گروہ پکڑے جاچکے ہیں، جو بچوں کے ساتھ بد فعلی کرکے ان کی ویڈیوز بناکر انھیں مختلف طریقوں سے مارکیٹ کرتے رہے ہیں اور اب بھی کر رہے ہیں۔ لیکن تحریر پر نام نہ ہونے کی وجہ سے میں نے اس روایت (اسٹوری) کو آگے منتقل کرنا مناسب نہیں سمجھا۔

چند دن بعد ’دلیل‘ نامی آن لائن نیوز آؤٹ لیٹ پرایک صحافی جمیل فاروقی کی اس سے  ملتی جلتی تحریر سامنے آئی۔ چونکہ صحافی کا نام موجود تھا اور ’دلیل‘ ایک قابل اعتماد آن لائن اخبار ہے، اس لیے میں نے اسے اپنے فیس بک پیج پر بغیر کسی تبصرے کے پیش کیا۔ کچھ ہی دیر بعد لندن میں مقیم میری ایک کالم نگار دوست کا اعتراض سامنے آیا کہ: اس روایت کردہ مضمون میں جس ہندستانی لڑکی رادھا کی کہانی بیان کی گئی ہے، اس کا ذکر انٹرنیٹ پر کہیں موجود نہیں۔ میں نے گوگل سے تصدیق کی تو ان کی بات صحیح نکلی۔ ایسے کسی کیس کا تذکرہ ہندستانی اخبارات میں موجود نہیں تھا۔ اب چوںکہ آن لائن ’دلیل‘ اور مصنف ذمہ دار تھے، اس لیے میں نے پوسٹ حذف کرنے کے بجاے ’دلیل‘ کو تبصرہ (کمنٹ) بھیج دیا۔ ’دلیل‘ کے ایڈیٹر نے فوراً اس کا جواب دیا کہ: ’یہ صحافی   ٹی وی پر اوریا مقبول کے ساتھ پروگرام کرتے ہیں اور مستند صحافی ہیں۔ ان سے پوچھ لیتے ہیں۔ اگرچہ جواب تاحال موصول نہیں ہوا۔ ان شاء اللہ خبر کے غلط یا صحیح ہونے کی صورت میں سچ سامنے آ جائے گا، بلکہ معروف اینکرپرسن ڈاکٹر شاہدمسعود کم از کم عدالت کے سامنے جواب دہ ہوئے اور یوں ثبوت فراہم نہ کرپانے کی صورت میں ڈیڑھ دو ماہ میں سچ سامنے آ گیا۔ اگر یہی پوسٹ ’منقول‘ ہوتی تو ہم کسی کا مواخذہ کرنے کے بجاے صرف ہوا میں تیر تکّے چلاتے رہتے اور بہت سے لوگ اس پر یقین کرتے بلکہ کر رہے تھے۔ ایسی جعلی خبروں سے معاشرے میں انتشار پھیلتا ہے۔ ایک عام آدمی کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت میں کمی آتی ہے۔ وہ مایوسی میں بہتر فیصلہ کرنے کی اہلیت کھو دیتا ہے۔

اسی دوران مجھے ڈارک ویب کے بارے میں برکت علی برق صاحب کی ایک تحریر  واٹس ایپ پر موصول ہوئی۔ تحریر میں ڈارک ویب سے متعلق جتنے تشویشناک قصے سنائے اور دعوے کیے گئے تھے ان میں سے کسی کے ماخذ (source) کا حوالہ موجود نہیں تھا۔ اب اس کا فیصلہ قاری کرسکتے ہیں کہ بھلا ایسی کسی تحریر پر ہمیں کتنا بھروسا کرنا چاہیے؟

برکت علی برق نامی مصنف کی بظاہر معقول، مگر دی گئی معلومات ماخذ کے بغیر تحریر کسی اخبار یا رسالے میں کیوں نہ آئی اور صرف سوشل میڈیا پر کیوں گردش کر رہی ہے؟ اس ضمن میں یہ بات ذہن میں رہے کہ سوشل میڈیا پر باقاعدہ ایجنڈے کے تحت با معاوضہ کام کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ ان لکھاریوں کی مالی مدد کون کرتا ہے، اور مالی معاونت کرنے والوں کے مقاصد کیا ہوتے ہیں؟ یہ ایک علیحدہ بحث ہے۔      

کچھ لوگ ایمان کی حد تک ان روایات اور تحریروں پر یقین کرلیتے ہیں، جو ان کا پسندیدہ صحافی یا پسندیدہ فیس بک لکھاری سامنے لے کر آئے۔ ایک عام آدمی کو یہ آگاہی دینے کی اشد ضرورت ہے کہ آپ کا پسندیدہ اینکر ہو یا سوشل میڈیا کی کوئی پوسٹ، اگر یہ فرد ماخذ کا حوالہ اپنے مضمون میں نہیں دے رہا تو ایسی خبر بظاہر کتنی ہی کارآمد اور اچھی کیوں نہ ہو، اسے مسترد کر دیں۔ استثنا صرف اس صورت میں ہے جب کوئی معقول وجہ موجود ہو۔

عملی سطح پر صورت حال یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے دانش وروں ،یہاں تک کہ صحافیوں تک سے یہ بات کریں تو وہ کہتے ہیں کہ:’’ اگر خبر پر نام موجود نہ ہو تو ’منقول ‘کہہ کر آگے پھیلادینے میں کیا حرج ہے؟ ہمیں بھی تو کسی نے فارورڈ کی تھی۔ اصل میں میسج بہت اچھا ہے تو سوچا اس کو اپنی حد تک محدود (hold)رکھنے کا کیا فائدہ؟ اس لیے ’منقول‘ لکھ کر آگے پھیلا دیتے ہیں‘‘۔ بظاہر یہ ایک معقول دلیل ہے کہ کسی چیز کا فائدہ زیادہ ہو اور نقصان کم، تو اسے اختیار کرنا چاہیے۔ لیکن کیا واقعی فائدہ زیادہ ہے؟ یا اس اصول کو چھوڑ دینے کے نتیجے میں ہم جعلی خبروں اور پوسٹوں کی حوصلہ افزائی کرکے معلومات رسانی کے نام پر جھوٹ، انتشار، غیبت اور تہمت لگانے کا کام کر رہے ہیں۔

حد تو یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر حضرت علی رضی اللہ عنہ ، مولانا رومیؒ، یہاں تک کہ  صلاح الدین ایوبی ؒ تک سے جو دل چاہتا ہے منسوب کردیا جاتا ہے اور کہلوا لیا جاتا ہے۔ اگر ماخذ کے بارے میں پوچھا جائے تو اچھے خاصے پڑھے لکھ لوگ یہ جواب دیتے ہیں کہ: ’کیا ہوا اگر مولانا رومی کا قول نہیں، قول تو اچھا ہے‘۔ گویا کہ ایسے اقوال مارکیٹ میں لانے والے اپنے آپ کو مولانا رومی سے زیادہ سمجھ دار سمجھتے ہیں۔ کسی عام مرے ہوئے شخص کے منہ سے بھی اپنی مرضی کی بات کہلوانا انتہائی قبیح طرزِ عمل ہے۔ اس لیے ہمیشہ ریفرنس اور ماخذ پر اصرار کریں، اور یہ نہ سمجھیں کہ ’منقول کلچر‘ میں سب جائز ہے۔

کیا کوئی اچھی ’منقول‘ یا نامعلوم پوسٹ نظر آنے سے ہم پر یہ واجب ہو جاتا ہے کہ ہم اسے آگے پیغام در پیغام کریں؟ حالاں کہ اسے آگے پھیلانا اخلاقی اصولوں کے علاوہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت بھی ممنوع ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کی تیس شقوں میں سے ایک کاپی رائٹس (جملہ حقوق محفوظ)سے متعلق ہے۔ یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں کاپی رائٹس کو اتنی اہمیت کیوں دی گئی ہے؟ یعنی زندہ رہنے کے حق، ملکیتی حق اور انصاف کے حق کے ساتھ کاپی رائٹس کو چارٹر میں شامل کیا گیا ہے۔

کاپی رائٹس یا ’جملہ حقوق‘ کی خلاف ورزی

ہم میں سے کتنے لوگوں کو اس بات کا احساس ہے کہ مال کی طرح تخلیق بھی جایداد میں شمار ہوتی ہے، اور تخلیقی ملکیت کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں ،اور آپ کسی کا ایک جملہ بھی اگر نقل کرتے ہیں تو آپ اخلاقی اور قانونی طور پر اس کا نام، یعنی ریفرنس دینے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔

ہمارا عذر یہ ہوتا ہے کہ ’’کیا ہوا اگر ہم نے پبلک کے فائدے کے لیے آگے شیئر کر دیا تو۔ اسی لیے تو لکھا تھا اس نے، اور ہمیں تو خود فارورڈ کیا تھا کسی نے‘‘۔پہلی بات تو یہ کہ ’عذر گناہ بد تر از گناہ است‘ والی بات ہے۔ چوری چاہے اپنے فائدے کے لیے ہو یا پبلک کے فائدے کے لیے چوری ہی ہوتی ہے۔ اور آپ چاہے چیز کسی کے گھر سے چرائیں یا سڑک پر پڑی ہو اُٹھا لیں اور اسے بغیر تحقیق کیے فلاح کے واسطے بانٹنا شروع کر دیں تو وہ چوری ہی رہے گی۔ 

علمی دنیا اور صحافت کا ایک مروجہ اصول یہ بھی ہے کہ ایک جملہ بھی پرنٹ یا انٹرنیٹ پر آنے کے بعد بائی ڈیفالٹ کاپی رائٹ ہو جاتا ہے۔ حوالے کے ساتھ بھی ایک دو جملوں سے زیادہ کاپی کرنے سے پہلے مصنف سے اجازت لیں اور حوالہ اور لنک ضرور دیں۔ سوشل میڈیا پر چوںکہ اکثر سائٹس پہ شیئر کی سہولت (آپشن) موجود ہوتا ہے تو اس بٹن کو دبا کر مشینی طور پر شیئر کرنے کی بائی ڈیفالٹ اجازت ہے۔ اگر اسی پوسٹ یا تحریر کو آپ ’کاٹ جوڑ‘ کر کسی وجہ سے اپنی وال، سائٹ یا صفحے پر ڈالنا چاہتے ہیں، مثلاً کسی چھپے ہوے مضمون کے کچھ جملے آپ ٹیکسٹ کی صورت تعارف کے لیے شیئر کرنا چاہتے ہیں، تو یاد رہے یہ جملے تعداد میں اتنے نہیں ہونے چاہییں کے کوئی ان کو پڑھنے کے بعد مضمون پڑھنے کی زحمت ہی نہ کرنا چاہے۔ مضمون کا لنک شامل ہونا چاہیے، تاکہ جو بندہ پورا مضمون پڑھنا چاہے، اسے وہاں وہ پڑھ سکے۔ اگر کسی کتاب کے جملے نقل کیے گئے ہیں تو وہ بھی اتنی تعداد میں نہیں ہونے چاہییں کہ آپ پوری کتاب ہی بیان کر دیں۔ کتاب اور مصنف اور ہو سکے تو پبلشر کا نام بھی دیں، تاکہ اگر کوئی خرید کر کتاب پڑھنا چاہے تو پڑھ سکے۔    

ہمارے ہاں علمی یا ’فکری ملکیت‘ کے حقوق سے عموماً لوگ واقف نہیں ہیں۔ اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بعض دینی حلقوں میں مصنفین انکسار کا مظاہرہ کرتے ہوے اپنا نام تحریر کے آخر میں لکھتے ہیں۔ یہ طریقہ اصولی طور پر سراسر غلط ہے۔ کتاب پر مصنف کا نام ہمیشہ سر ورق پر ہوتا ہے، کبھی آخری صفحہ یا پشت پر نہیں ہوتا۔ نام آخر میں لکھنا بھی چوروں کی حوصلہ افزائی کا با عث بنتا ہے۔ بہت لمبی پوسٹ میں ویسے بھی لوگ نیچے جا کر مصنف کا نام پڑھنے کی زحمت کم ہی کرتے ہیں۔

ایک اور تاویل یہ پیش کی جاتی ہے کہ: ’’کیا ہو گیا اگر کسی کی تحریر اس کی اجازت اور نام کے بغیر ہم نے پبلک میں شیئر کر دی ہے۔ تحریر کا مقصد تو یہی تھا کہ لوگ اسے پڑھیں اور وہ پورا ہوگیا۔ الله مصنف کو اور شیئر کرنے والے کو جزا دے‘‘۔ یہ سب ہماری عمومی سوچ ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں ایک ہزار روپے کے جوتے کی قدر و قیمت کا تو احساس ہے۔ اسی لیے ہم اسے مسجد سے چرانے والے کو بُرا سمجھتے ہیں، مگر ہمیں کسی کی گھنٹوں یا ہفتوں یا چند برسوں کی دماغ سوزی اور محنت سے لکھے گئے مضمون کی قدر نہیں۔ بقول شخصے جن قوموں کی نظر میں جوتے کی اہمیت ہو اور دانش وَر    یا لکھاری کی محنت کی نہیں، اسے اسی طرح جوتے پڑنے چاہیں جیسے آج ہر طرف سے پڑرہے ہیں۔

پاکستان جیسے ملک میں جہاں گنتی کے لکھاریوں کو اپنی تحریروں کا معاوضہ ملتا ہے، وہاں مصنف سے اس کی تخلیق کے حقوق اور ملکیتی حق بھی چھین لینا ظلم ہے۔ لیکن ٹھیریں قصور صرف نام حذف کر کے’ منقول‘ لکھنے والے کا نہیں۔ اس کا بھی ہے جو نامعلوم پوسٹ ملنے پر ’منقول‘ لگا کر اپنی ذمہ داری سے بری ہوتا ہے، اور ہر اس فرد کا بھی جو ان نا معلوم اور ’منقول‘ پوسٹوں کو آگے شیئر کرتا ہے۔

اس طرح اچھے پیغام (message) کو چند ناظرین(viewers) کے لیے ہم چوری شدہ پیغام کو (جس میں مصنف کا نام نکال دیا ہوتا ہے)آگے روانہ کرکے، اخلاقی سطح پر ایک غلط حرکت کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ایسی ہر پوسٹ کے عام (وائرل) ہونے سے چور کے حوصلے بڑھتے ہیں اور اس اچھی پوسٹ یا مضمون کے اصل مصنف کی حق تلفی ہوتی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ بے چارے چور صاحب یا صاحبہ کو معلوم بھی نہیں ہے کہ وہ کوئی غلط کام کرتے ہیں۔ وہ تو اپنی دانست میں نیکی کا کام کر رہے ہوتے ہیں۔

دل چسپ بات یہ کہ جب میں نے اپنی فیس بک کی ٹائم لائن پر ’منقول کلچر‘ کے خلاف اسٹیکرز (چھوٹے چھوٹے پیغامات)کے ذریعے آگاہی دینا چاہی توایک خاتون کے علاوہ جو کسی غیرملکی یونی ورسٹی میں اُردو پڑھاتی ہیں، کسی نے اس اصول کو قبول نہیں کیا۔ عام طور سے سیکڑوں فالوور رکھنے والے پڑھے لکھے خواتین اور حضرات کا خیال تھا کہ اپنے نام سے، کسی دوسرے کی پوسٹ شیئر کرنا تو اخلاقی لحاظ سے غلط ہے مگر اگر نام نہیں معلوم تو کیا کریں؟ یہ کسی نے نہیں بتایا کہ ایسی پوسٹ کو شیئر کرنا یا فارورڈ نہ کرنے سے کون سا فرض رہ جاتا ہے کہ چوری کو مباح کر لیا جائے؟ 

ایک صاحب جو بیرون ملک کسی یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کر رہے تھے، ان کا پہلا رد عمل یہ تھا کہ: ’’اگر معروف مصنف کا لکھا ہوا مضمون ہے تو نام ضرور دینا چاہیے‘‘۔ گویا غیر معروف مصنف کی پوسٹ یا تحریر استعمال کرنا جائز ہے۔ بعد میں بحث کے بعد وہ تھوڑے بہت قائل ہوئے تو بھی ان کا کہنا تھا:’’ ’منقول‘ لکھ دینا بھی اچھی خاصی احتیاطی تدبیر ہے۔کم از کم لوگ پوسٹ پر اپنا نام تو نہیں لکھ رہے۔ پہلے معاشرے کو اس کا عادی ہونے دیں پھر مزید اصول بتائیں‘‘۔

حد یہ ہے کہ حدیث کی تدوین کرنے والے اوّلین محدثین کا واسطہ دے کر بھی سمجھانے کی کوشش کی، کہ حوالے اور سند کے اصول سے تو دنیا کو روشناس ہی ہمارے بزرگوں نے کیا ہے، اور ہم ہی وہ قوم ہیں جسے نہیں معلوم کے حوالہ کسے کہتے ہیں اور اس کی اہمیت کیا ہے؟ مگر سوئی وہیں اٹکی رہی کہ اگر نام نہیں معلوم تو آخر کیا کریں۔

یہ بھی سمجھایا کہ جب پوسٹ بنانے والے کا نام نہیں ہوگا تو جھوٹی خبر، غلط روایت، تاریخی واقعہ یا افواہ پر کسی کا بھی محاسبہ نہیں ہو سکے گا، مگر یہ کلچر اتنا گہرا ہو چکا ہے کہ اس کے مقابلے میں قرآن و سنت کے حوالے بھی ناکام ہیں۔

تخلیق کار کے حقوق مسلم تاریخ کے آئینے میں

دنیا میں ہمیشہ علمی، تخلیقی اور تحریری کاموں پر تخلیق کار کا نام تحریر کیا جاتا رہا ہے اور مسلمانوں نے خاص طور پر اس قدر کو رواج دیا۔ اگر یہ نہ کرتے تو آج نہ ہمیں الجامع الصحیح پر امام بخاری کا نام ملتا اور نہ تفسیر ابن کثیر پر ابن کثیر کا اور ہمارے لیے یہ فیصلہ کرنا ممکن نہ ہوتا کہ مستند اورغیر مستند کتب کون سی ہیں۔ اگرآپ بخاری  سے کوئی حدیث پڑھیں تو آپ کو روایت کی پوری لڑی نظر آئے گی کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم سے حدیث ہم تک کیسے پہنچی۔ دراصل یہ اصول آج بھی تحقیق کی دنیا میں رائج ہے کہ آپ اپنے تحقیقی مقالے میں ماخذ کا حوالہ ضرور دیتے ہیں۔ یہی اصول صحافت میں بھی رائج ہے اور شفافیت (ٹرانسپیرنسی) کہلاتا ہے۔

 سوشل میڈیا کے اس دور میں، بڑے پیمانے پر لوگ خبر بنانے اور اسے پھیلانے میں شریک ہیں، اوروہ بھی اکثر بے سوچے سمجھے۔ ایک عام شہری کو ہی نہیں، اسکول کے بچے کو بھی    ذمہ دارصحافت کے اصولوں کی تربیت دینا آج کی اہم ضرورت ہے کہ غیر ذمہ دار صحافت فرد کے ساتھ ریاست اور معاشرے کو بھی کمزور کرتی ہے۔ اسی لیے دین اسلام نے چودہ سو سال پہلے اس کے اصول متعین کر دیےتھے کہ معاشرہ فکری بے راہ روی اور معلوماتی انتشار کا شکار نہ ہو۔

جینا ہیسپل ماضی میں پُرتشدد ہتھکنڈے استعمال کرنے کی تردید کر کے امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کی نئی سربراہ مقرر ہو گئی ہے۔ لیکن عراق کے قیدخانے ابوغریب میں رقم کی گئی ظلم کی داستانوں نے امریکی تاریخ پر جو بدنما داغ چھوڑے ہیں، وہ مٹ نہیں سکتے۔

ایک شخص اس تشدد کا چشم دید گواہ ہے۔امریکی ریاست پنسلوینیا کے علاقے مارٹن برگ میں پیزا کی دکان کی پارکنگ میں ایک دیو قامت سفیدفام شخص جیرمی سیوٹس میرے برابر میں  آن کھڑا ہوا۔ ہم باہر کھلے آسمان تلے اس لیے آ کر محوِ گفتگو ہوئے تاکہ ماضی کے ان مظالم پر اس طرح بات کر سکیں کہ کوئی ہماری آواز نہ سن لے۔

جیرمی سیوٹس کو قیدیوں کی تصاویر بنانے کے جرم میں ایک سال سزا سنائی گئی تھی۔ کارپارک میں ہونے والی گفتگو کے دوران شور سے بچنے کے لیے مجبوراً ہم قریبی ریستوران کے ایک خاموش گوشے میں بیٹھ گئے۔

عراق میں ابوغریب جیل میں مظالم کی تفصیلات ۲۸؍اپریل ۲۰۰۴ء کو سامنے آئی تھیں۔ سیوٹس اور دوسرے فوجیوں کی جانب سے بنائی گئی قیدیوں کے ساتھ انسانیت سوز رویے اور تشدد پر مبنی تصاویر امریکی ٹی وی چینل سی بی ایس پر نشر ہوئیں تو عالمی انسانی ضمیر پر بوجھ بن گئیں۔

ایک تصویر برہنہ قیدیوں کے ڈھیر کی تھی، جنھیں اس صورت میں ایک دوسرے کے اُوپر ڈال کر قبیح جنسی حرکات کرنے اور مختلف غیر انسانی اور غیرفطری انداز اختیار کرنے کے لیے جبری طور پر مجبور کیا گیا تھا۔ ان میں سے ایک تصویر تو طویل عرصے تک لوگوں کے ذہن پر نقش ہو کر رہی گئی تھی۔  یہ تصویر امریکی فوجی خاتون لینڈی اینگلند کی تھی، جو ایک قیدی کے گلے میں پٹا ڈال کر گھسیٹ رہی تھی۔ ایک اور تصویر جو اس اسکینڈل کی سنگینی کو ظاہر کرتی تھی، وہ ایک ایسے قیدی کی تھی، جسے ایک بکسے پر کھڑا کیا گیا تھا اور بجلی کے ’جھٹکے برداشت کرنے کے لیے‘ اسے بجلی کی تاریں تھمائی ہوئی تھیں۔

ابوغریب میں تعینات بہت سے دوسرے امریکی فوجیوں کی طرح جو اس سکینڈل میں ملوث پائے گئے، سیوٹس کا تعلق بھی ایک دیہی علاقے سے تھا۔ سیوٹس،پنسلوینیا کے علاقے ہنڈمین میں پلا بڑھا تھا۔ اس کی والدہ فریڈا ایک سٹور میں ملازم ہے اور والد ڈینیل ویتنام میں تعینات   رہ چکا تھا۔ ڈینیل کا گذشتہ برس انتقال ہو گیا۔ خاندان کے افراد نے تعزیت پر آنے والوں سے کہا کہ: ’’آپ پھول خرید کر لانے کے بجاے ان کی بیوہ کو نقد رقم دے دیں، تاکہ وہ اپنے شوہر کی تدفین کے اخراجات پورے کر سکے‘‘۔

اس انفرادی گفتگو کے بعد جب میں سیوٹس کے گھر گئی ، تو اس کے ایک پڑوسی کلایٹس نے بتایا: ’’یہ بڑا مہذب بچہ تھا۔ اگر سیوٹس سے کوئی کچھ مدد کے لیے کہتا تھا تو یہ نتائج کی پروا کیے بغیر فوراً تیار ہو جاتا‘‘۔کوریائی جنگ میں شرکت کرنے والے ۸۶سالہ ہرمن رالنگ نے کہا کہ:’’سیوٹس، عراق میں یقیناً احکامات پر عمل کر رہا ہو گا، اس لیے اس کو سزا دینا ناانصافی تھی۔ اگر تم اس کی جگہ ہوتے تو تم بھی وہی کچھ کرتے، جو حکم دیا جاتا۔ بہرحال جنگ ایک عذاب ہوتا ہے‘‘۔

۳۸سالہ سیوٹس نے بتایا کہ: ’’میں بچپن ہی سے اپنے والد کی طرح فوجی بننا چاہتا تھا۔ ۱۸ برس کی عمر میں فوج میں شامل ہوا تو شروع سے مہم جوئی کے راستے پر چل نکلا۔ آٹھویں ملٹری بریگیڈ میں شامل ہوا تو ۲۰۰۳ء میں عراق بھیج دیا گیا۔ عراق پہنچنے کے تھوڑے ہی عرصے بعد مجھے بغداد کے قیدخانے ابوغریب میں تعینات کر دیا گیا، جہاں مکینک اور ڈرائیور کے طور پر کام کرنے لگا۔ تب اس قیدخانے میں دوہزار کے قریب مرد، خواتین اور بچے قید تھے۔ جن میں بہت سے بےگناہ تھے اور ان کا کسی نوعیت کی مسلح جدوجہد سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہ سب حادثاتی طور پر پکڑے گئے تھے۔ انھی دنوں امریکی حکومت نے فوج کے زیرِ انتظام قید خانوں میں سخت تفتیشی طریقوں کے استعمال کی اجازت دے دی تھی۔ اس وقت کے نائب صدر ڈک چینی نے گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد کہا تھا:’’ امریکا کے لیے ہر تاریک حربہ اپنانا جائز ہے‘‘۔

سیوٹس نے بتایا: ’’واشنگٹن میں حکام نے اسی سوچ کے ساتھ قوانین میں تبدیلیاں کیں، تاکہ تفتیش کے ان حربوں کو استعمال کیا جا سکے، جنھیں تشدد قرار دیا چکا تھا اور یہی طریقے ابوغریب کے قید خانے میں بھی آزمائے جانے لگے۔ قیدیوں کو بہیمانہ تشدد اور عذاب کا نشانہ بنایا جانے لگا۔ بہت سے قیدی یہ خوفناک تشدد برداشت نہ کر سکے اور ہلاک ہو گئے۔ ایک تصویر ابوغریب کے قیدی منادل الجمادی کی پلاسٹک بیگ میں لپٹی لاش کی تھی، جو امریکی سی آئی اے کی قید میں تھے‘‘۔

سیوٹس نے قیدخانے میں آنکھوں دیکھے واقعات کی تفصیل بتائی: ’’نومبر۲۰۰۳ءکی ایک سرد شام کو مجھے چند انتہائی خطرناک قیدیوں کی جیل کے مخصوص حصے میں منتقلی میں مدد کی غرض سے طلب کیا گیا۔جب مَیں وہاں پہنچا تو راہداری میں مکمل طور پر برہنہ قیدیوں کو ایک دوسرے کے اوپر لیٹا ہوا دیکھا۔ چارلس گارنر، لینڈی اینگلند اور کچھ دوسرے فوجی ان  بے بس قیدیوں کے اردگرد کھڑے بھرپور قہقہے لگا رہے تھے۔ مَیں جن قیدیوں کو ساتھ لایا تھا، انھیں بھی اسی طرح پہلے سے موجود قیدیوں کے ڈھیر پر ڈال دیا گیا‘‘۔

سیوٹس نے کہا: ’’وہاں موجود ہر [امریکی] ان سے یہ کہہ رہا تھا تم یہ [شرم ناک حرکت] کیوں نہیں کر سکتے اور تم وہ [غلیظ حرکت]کیوں نہیں کر سکتے؟ قیدیوں کی کراہوں اور چیخوں کے اس ہنگام میں مَیں نے دیکھا کہ فوجی ہتھکڑیوں کی وجہ سے ایک قیدی کے ہاتھ نیلے پڑنے لگے ہیں۔ مَیں نے چارلس گارنر سے کہا:اس قیدی کے تو ہاتھ کاٹنے پڑجائیں گے۔ گارنر نے اُس قیدی کی ہتھکڑیاں ڈھیلی کر دیں، جس سے اس کی تکلیف کچھ کم ہوئی اور ہاتھ میں خون کی روانی بحال ہو گئی‘‘۔

سیوٹس کے بقول: ’’گارنر نے مجھ کو ایک کیمرہ تھما دیا اور نارنجی لباس میں ایک قیدی،  جس کے چہرے پر نقاب پڑا ہوا تھا، میں اس کے ساتھ بیٹھ گیا۔ گارنر نے ایک ہاتھ سے اس کا   سر پکڑ لیا اور پوز بناتے ہوئے دوسرے ہاتھ سے مکّا بنا لیا۔دراصل اس قیدی کا سر ایک جگہ ٹک نہیں رہا تھا۔ گارنر اس کا سر پکڑ کر تصویر کے لیے پوز بنا رہا تھا اور مَیں نے تصویر بنا لی۔ پھر پتہ نہیں کیوں اس قیدی کو گارنر نے ایک مکّا رسید کیا، اور بھرپور قہقہہ لگایا۔میں نے صرف ایک ہی تصویر بنائی تھی‘‘۔ سیوٹس نے یہ تفصیل کچھ اس طرح بیان کی، جیسے وہ کسی اور کی کہانی سنا رہا ہو۔

ابوغریب جیل کی یہ تصاویر جب ٹیلی ویژن پر نشر ہوئیں تو اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے کہا کہ: ’’تمام حقائق معلوم کیے جائیں گے اور جو بھی اس میں ملوث پایا گیا، اسے اپنے عمل کا جواب دینا ہو گا‘‘۔سیوٹس اور دس دوسرے فوجیوں کو اس ضمن میں سزا سنائی گئی۔ گارنر کو ۱۰سال قید، فریڈریکا کو آٹھ اور لینڈی اینگلند کو تین سال کی سزا سنائی گئی۔{ FR 644 }

اس اسکینڈل کے سامنے آنے پر عراق جنگ میں شریک ہونے والے بہت سے فوجیوں کے خیال میں امریکا نے اپنی اخلاقی ساکھ کھو دی تھی۔ ریٹائرڈ امریکی جرنیل سٹینلے میک کرسٹل کے مطابق:’’ ۲۰۰۴ءکے بعد ابوغریب میں ہونے والے مظالم کی تصویروں سے پیدا ہونے والے غصے کی وجہ سے بھی عراقی، امریکی فوج پر حملے کرتے تھے‘‘۔

اس قید خانے کو ۲۰۰۶ءمیں [امریکی کٹھ پتلی]عراقی حکام کے حوالے کر دیا گیا اور   آٹھ سال بعد اسے بند کر دیا گیا۔ قید کاٹنے کے بعد جیرمی سیوٹس، پنسلوینیا واپس پہنچ گیا۔ اس نے بتایا: ’’ شروع شروع میں مجھے اپنے آپ سے نفرت محسوس ہوتی تھی۔ یہاں آیا تو مجھے مکینک کے طور پر بھی نوکری نہیں مل رہی تھی۔ تب سے مَیں نے منشیات اور شراب کے عادی افراد کی نفسیاتی معاونت شروع کر دی۔ میں ان لوگوں سے جنگ کے دوران اپنی غلطیوں کے بارے میں بات کرتا تھا، جس پر مجھے بہت افسوس تھا۔ جو کچھ قید خانے میں ہمارے ہاتھوں ہوا، وہ ہولناک تھا، مگر ہم لوگوں نے اس سے کچھ بھی نہیں سیکھا۔تاہم، بہت سے لوگ اب ان زخموں کا درد محسوس کرتے ہیں۔ ابوغریب کے قیدی علی القیسی نے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا ہے کہ: ’’اس تشدد نے ہماری شخصیت کو کچل دیا ہے‘‘۔

سیوٹس کا کہنا ہے کہ: ’’ابوغریب نے ملک کو کچھ حد تک بدل دیا ہے۔ ۲۰۰۹ءمیں صدراوباما نے اقتدار میں آنے کے فوراً بعد اس نوعیت کے تشدد پر پابندی عائد کر دی تھی اور نئے قوانین وضع کیے، جن کے تحت تشدد کرنے والوں کو، چاہے وہ حکومت یا ٹھیکے پر فوج کے کام کر رہے ہوں، انھیں جواب دہ بنایا جا سکتا ہے۔ تاہم، انسانی حقوق کے علَم بردار یہ کہتے ہیں کہ قوانین اور حکومتی پالیسیوں میں تبدیلی کے بعد بھی لوگ قیدیوں پر پہلے سے زیادہ تشدد کے حق میں ہیں‘‘۔

ابوغریب کی دہلا دینے والی تصاویر شرم ناک تھیں، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ دھندلی پڑ گئی ہیں۔ ان تصاویر کی وسیع پیمانے پر مذمت کے باوجود، حکومتی پالیسیوں پر نظر رکھنے والی تنظیم ’پراجیکٹ گورنمنٹ‘ اور ’سائٹ‘ کی اہل کار کیتھرین ہاکنز کا کہنا ہے کہ: ’’تفتیش کے لیے پُرتشدد حربوں کے بارے میں لوگوں سے سوال پوچھا گیا تو اکثریت نے ان کے حق میں راے دی‘‘۔اسی طرح تازہ ترین راے عامہ کے جائزے کے مطابق: ’’دو تہائی امریکی، ایسے تشدد کو درست (justified) سمجھتے ہیں‘‘۔ صدر بش کی حکومت میں بحریہ کے جنرل کونسل کے عہدے پر رہنے والے ایل برٹو مورا کا کہنا ہے: ’’تشدد کو آپ تاریخ میں دفن نہیں کر سکتے، اس کی گونج باقی رہتی ہے‘‘۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ۲۰۱۶ءمیں اپنی انتخابی مہم کے دوران کہا تھا کہ :’’اگر مَیں  صدر منتخب ہوگیا تو ’واٹر بورڈنگ‘ ' جیسے تفتیشی حربوں پر سے پابندی اٹھا لوں گا اور ایسے طریقوں کی اجازت دے دوں گا، جو ’واٹر بورڈنگ‘ { FR 645 } سے کہیں زیادہ ہولناک ہیں‘‘۔ تاہم، انتخابات میں کامیابی کے بعد ٹرمپ نے اپنا موقف تبدیل کیا اور کہا: ’’میں یہ فیصلہ اپنے وزیر دفاع جیمز میٹس پر چھوڑتا ہوں، جس کے خیال میں تشدد کرنا کوئی اچھی بات نہیں‘‘۔

امریکی قومی سلامتی کے نئے مشیر جان بولٹن نے حال ہی میں یہ اعلان کیا ہے کہ: ’’امریکیوں کو تشدد کے تمام طریقے استعمال کرنے کی اجازت ہونی چاہیے اور کسی قیدی سے معلومات حاصل کرنے کے لیے میں '’واٹر بورڈنگ‘ ' کو دوبارہ رائج کرنے کے خیال پر غور کر سکتا ہوں‘‘۔

سی آئی اے کی نئی ڈائریکٹر جینا ہیسپل ایسے ہی ایک تشدد آمیز حراستی مرکز کی نگران رہ چکی ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا خیال تھا کہ وہ بش حکومت کے دور میں تفتیش کے لیے پُرتشدد طریقے استعمال کرنے کے پروگرام میں شامل رہنے کی وجہ سے سی آئی اے کے ڈائریکٹر کے عہدے کے لیے موزوں امیدوار نہیں۔مگر صدر ٹرمپ نے ٹوئٹر پیغام میں کہا: ’’اس خطرناک دُور میں ہمیں ایک موزوں ترین شخصیت میسر ہے۔ یہ ایک عورت، جسے ڈیموکریٹ نہیں چاہتے‘‘۔ جیناہیسپل نے اپنی نامزدگی کی سماعت میں وعدہ کیا ہے: ’’میں پُرتشدد طریقوں کو شروع نہیں کروں گی کہ یہ غلط طریقہ تھا‘‘۔

ابوغریب جیل اسکینڈل کے سامنے آنے کے تقریباً ۱۵سال بعد ایل برٹومورا کا کہنا ہے کہ: ’’سیوٹس کے خیال کے برعکس میرے خیال میں امریکا میں لوگوں کے دلوں میں کوئی نرم دلی پیدا نہیں ہوئی‘‘۔ایل برٹو مورا نے امریکی صدر اور کئی دوسرے سیاست دانوں کے اُن بیانات کی طرف اشارہ کیا، جن میں اُنھوں نے تشدد کے حق میں بات کی تھی۔ اگرچہ ابھی تشدد کے خلاف قانون موجود ہے، لیکن ایل برٹو مورا کا خیال ہے کہ: ’’اگر امریکا عراق کی جنگ کی طرح کسی اور جنگ میں اُلجھ گیا، تو وہ دوبارہ پُرتشدد طریقوں پر اتر آئے گا۔ ابوغریب سے یہی اُجاگر ہوتا ہے۔ ابوغریب اگر غلطی سرزد ہونے کی ایک مثال تھی، تو پھر اس ظلم (cruelty)کو دُہرائے جانے کی بھی بنیاد ہے‘‘۔[ماخذ: بی بی سی، امریکا /کینیڈا، ۱۶مئی ۲۰۱۸ء۔ اُردو ترجمہ: ادارہ]

۱۶برس بیت چکےہیں مگربھارتی ریاست گجرات میں ۲۰۰۲ء کے مسلمان متاثرین کے لیے ’فسادات‘ جیسے کہ ابھی تھمے نہیں ہیں۔کتنی ہی قانونی لڑائیاں لڑی جاچکی ہیں،کتنے ہی برباد شدہ مظلومین انصاف کی تلاش میں دَر دَر کی ٹھوکریں کھاکر خاموش بیٹھ گئے ہیں۔جنھیں فسادات میں ملوث ہونے پر سزائیں دی گئی تھیں، ان میں سے کتنے ہی اب ’آزاد ‘فضا میں سانس لے رہے ہیں۔

گذشتہ دنوں نروڈا پاٹیا (Naroda Patiya) میں ہولناک قتل عام کی مجرمہ گجرات کی سابق وزیر براے ترقی اطفال و نسواں، ڈاکٹر مایاکوڈنانی کو رہائی ملی ہے۔سیشن کورٹ نے کوڈنانی کو ۹۶مسلمانوں کے قتل عام کے لیے مجرم قرار دیاتھا، مگر گجرات ہائی کورٹ کو کوڈنانی کے ہاتھوں پرکسی مسلمان کے خون کے دھبے نظرہی نہیں آئے۔ رہے وہ بڑے سیاست دان، اعلیٰ پولیس افسراور  اُونچے عہدوں پر فائز نوکرشاہی، جو گجرات میں ۲۸ فروری ۲۰۰۲ء کے مسلم کش فسادات کے منصوبہ ساز اورسازشی تھے،تووہ بھی تمام الزامات سے بچ نکلے ہیں۔

ان بنیادی سوالات کے جواب گجرات سے انڈین پولیس سروس (IPS) کے ایک اعلیٰ سابق افسر آربی سری کمار کی کتاب Gujrat Behind The Curtain (پس پردۂ گجرات) میں بڑی وضاحت کے ساتھ دیے گئے ہیں۔سری کمار کاکہنا ہے کہ مجرموں اورفسادیوں کو بچانے کے لیے قانون سے کھلواڑکیاگیا ، قانون کو توڑا مروڑا گیا اورجن ہاتھوں میں نظم ونسق کی ذمہ داری تھی، سیاسی آقاؤں نے انھی ہاتھوں کو یہ ذمہ داری سونپ دی کہ مجرموں اورفسادیوں کو بچانے کے لیے وہ جیسے بھی چاہیں قانون کی دھجیاں اڑائیں۔

آربی سری کمارفسادات کے ایام میں گجرات میں ڈائریکٹر جنرل آف پولیس کے منصب پر فائز تھے۔وہ محکمہ خفیہ کے سربراہ تھے۔جب انھوں نے یہ دیکھا کہ فسادات دانستہ کرائے جا رہے ہیں،منصوبہ بند ہیں اورساری سرکاری مشینری کا استعمال مسلمانوں کے خلاف کیا جارہاہے اور اس میں سرکاری افسر اور پولیس افسر سبھی، نریندر مودی کی حکومت کے ہاتھوں کھلونا بنے ہوئے ہیں، تب انھوں نے آواز اٹھائی۔ اُس وقت ریاست گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندرمودی کو للکارا، اور بلاخوف و خطر فسادیوں کو بے نقاب کرنے کی مہم شروع کی۔ نتیجہ یہ کہ انھیں سرکاری عتاب جھیلنا پڑا،انتقامی تبادلے کے عذاب سے وہ گزرے، مقدمہ ہوا، مگرانھوں نے سچ سے منہ نہیں موڑا اور آج تک وہ ’گجرات۲۰۰۲ء‘ کی لڑائی لڑرہے ہیں۔

سری کمار نے انگریزی کتاب میں Gujrat Behind The Curtain لکھی۔ ہندی کے علاوہ اس کا اُردوترجمہ پس پردۂ گجرات کے نام سے ۱۳؍اپریل ۲۰۱۸ء کو ’فاروس میڈیا‘   نئی دہلی (ترجمہ: سیّد منصورآغا)نے شائع کیا ہے۔ ۲۵۰صفحات پر مشتمل یہ کتاب ۲۵۰بھارتی روپوں میں دستیاب ہے [برقی پتا:books@pharosmedia.com ]۔ کتاب کی بنیادان دوحقائق پر رکھی گئی ہے جسے سنگھی ٹولہ ابتدا ہی سے جھٹلاتا آرہاہے۔ایک تویہ کہ ’فسادات منصوبہ بند تھے ‘اور دوسرا یہ کہ’فسادیوں اورمجرموں کو بچانے کے لیے سرکاری مشنری کاغیر قانونی اورغیرآئینی استعمال کیاگیاـ‘۔

کتاب ۱۳؍ ابواب پر مشتمل ہے۔دوضمیمے اورایک’پیش لفظ‘ہے، جس میں آربی سری کمار نے کتاب لکھنے کی وجہ بتاتے ہوئے لکھاہے:’’ نہایت سفاکانہ، اقلیت کش تشددکی دل خراش وارداتوں کے مناظردیکھنے کے بعد میں نے تہیہ کرلیاتھا کہ میں اس تشددکے بارے میں ریاستی حکومت اوراس کے پیروکاربی جے پی کیمپ کی اس گمراہ کن تشہیر کو بے نقاب کروں گا کہ یہ سنگ دلانہ واقعات ہندوؤں کے ’اچانک بھڑک اٹھنے والے جذبات اورغیرمربوط واقعات‘ کانتیجہ تھے۔

’پیش لفظ‘ میں مصنّف سپریم کورٹ کی قائم کردہ ایس آئی ٹی (خصوصی تحقیقاتی ٹیم) اور کانگریس کاذکر کرتے ہیں: ایس آئی ٹی نے گجرات پولیس کی بی ٹیم کی طرح کام کیا اورذکیہ جعفری کی شکایت میں نامزد تمام ۶۲ ملزمان کو اپنی طویل رپورٹ میں پروانۂ بے گناہی عطا کردیا… کانگریس پارٹی اوراس کی سربراہی میں مرکزی حکومت کم سے کم ان امیدوں اورتوقعات کو بالکل بھی پورا نہیں کر سکیں جو  فساد زدگان اورحقوقِ انسانی کے کارکنوں کو ان سے تھیں… سماج وادی حکومت نے بھی یوپی پولیس کے ان اہلکاروں سے شہادتیں حاصل کرنے کےلیے کچھ نہیں کیا، جو فروری ۲۰۰۲ء میں گجرات سے آنے والے رام بھگتوں اورکارسیوکوں کے جتھوں کی ایودھیا سے واپسی کے دوران ان کے ساتھ بھیجے گئے تھے اورگودھرا میں ٹرین آتشزدگی کے چشم دیدگواہ تھے‘‘۔

کتاب کے پہلے باب میں آربی سری کمار نے فسادات کی منصوبہ بندی کی تفصیلات پیش کی ہیں کہ: کیسے مشترکہ آبادیوں میں ہندوؤں کے مکانات اوردیگر املاک کی شناخت کے لیے ان پر کسی دیوی دیوتا کی تصویر بنا دی گئی، یامورتی نصب کردی گئی یا’اوم‘اور’سواستیکا‘کا نشان بنادیاگیا،تاکہ ’سنگھ پریوار‘ کے فسادی آسانی سے مسلمانوں کی املاک کو نشانہ بنا سکیں۔

دوسرے باب میں گودھرا ٹرین سانحے اورفسادات کاتفصیلی ذکر کیا ہے کہ: ’’۲۸فروری ۲۰۰۲ء کو وہ محافظ دستے کے ساتھ احمدآباد کی اپنی رہایش گاہ سے گاندھی نگر اپنے دفتر جا رہے تھے، تب مسلح ہجوم مسلم مخالف نعرے لگا رہاتھا اورپولیس غیر فعال اورخاموش تماشائی بنی ہوئی تھی‘‘۔   اس باب کاایک اہم حصہ ڈی جی پی کے چکرورتی سے ملاقات کی تفصیل پر مشتمل ہے: ’’ڈی جی پی مسٹر چکرورتی نے یہ ذکر بھی کیاکہ گودھرا سے واپس لوٹ کر ۲۷فروری کی دیر شام وزیر اعلیٰ (نریندرمودی)نے اپنی رہایش گاہ پر اعلیٰ افسران کی ایک میٹنگ طلب کی، جس میں انھوں نے کہا کہ عام طور سے فرقہ وارانہ فسادات کے دوران پولیس ہندوؤں اورمسلمانو ں کے خلاف برابر کارروائی کرتی ہے،اب یہ نہیں چلے گا،ہندوؤں کوغصہ نکالنے کاموقع دیا جائے‘‘۔

آربی سری کمار فسادات روکنے،مسلمانوں کے اعتماد کو بحال کرنے اورمجرموں وفسادیوں کے خلاف کارروائی کرنے سے متعلق اپنی ان تدابیر وتجاویز کابھی ذکر کرتے ہیں، جن پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ چوتھے باب’گمراہ کن اطلاعات پر حق کی فتح‘میں چیف الیکشن کمشنر کے سامنے سرکاری دباؤمیں آئے بغیر، گجرات کی حقیقی صورتِ حال کی تفصیلات اورا س کے نتیجے میں اپنے خلاف سرکار کی انتقامی کارروائی کابھی ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’۲۰۰۲ء کے فسادات میں حکام کے مجرمانہ کردار کی شہادت، جن تین آئی پی ایس افسران راقم، راہل شرمااورسنجیو بھٹ نے کھل کر دی تھی، وہ ابھی تک انتقامی عتاب جھیل رہے ہیں، جب کہ دوانسپکٹروں کے علاوہ کسی کے خلاف فسادات میں مجرمانہ کردار ادا کرنے کے معاملے میں نہ توجرمانہ عائد کیا گیا اورنہ کوئی محکمہ جاتی کارروائی ہوئی‘۔

سپریم کورٹ کی ہدایت پر ڈاکٹرآرکے راگھون کی سربراہی میں بنائی گئی خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی)کو وہ ’خصوصی مدافعتی ٹیم‘کہہ کر اس کی کارکردگی اور غیرجانب داری پر سوالیہ نشان اُٹھاتے ہیں: ’’ذکیہ جعفری کی شکایت پر ایس آئی ٹی کلووزر رپورٹ ۲۶دسمبر ۲۰۱۳ءکو منظور کی گئی۔   یہ رپورٹ نہایت ناقص اورکھوکھلی ہے‘‘۔ سری کمار کے مطابق: ’’ذکیہ جعفری کی شکایت میں وزیر اعلیٰ (نریندرمودی) اور۶۲ دیگر ملزمان کو نسل کشی کے جرائم اورفساد زدگان کے لیے انصاف کی راہ روکنے کی غرض سے کریمنل جسٹس سسٹم میں ہیرا پھیری کے الزام اوراپنی انتظامی اورقانونی ذمہ داری ادا   نہ کرنے کی بابت جواب دہی سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے ایس آئی ٹی نے دلائل کا جو حصار کھڑا کیا ہے،وہ انتہائی بودا ہے‘‘۔یہاں پر مصنّف نے کلووزررپورٹ کی خامیوں کو بھی فرداً فرداً گنوایا ہے۔

کتاب میں آربی سری کمار نے ایک بہت اہم اور بنیادی سوال اٹھایاہے؟’’۱۹۸۴ء کے سکھ مخالف فسادات کے چشم دید گواہ سکھ افسران نے، اور پھر۲۰۰۲ء کے گجرا ت قتل عام کے بعدمسلم افسروں واہل کاروں نے تفتیش کنندگان کے سامنے فساد کی سازش رچانے والے اور اس کا نفاذکرنے اورکرانے والے اعلیٰ سیاسی،انتظامی اورپولیس اہل کاروں کے خلاف سچی اور حقائق پر مبنی گواہی کیوں نہیں دی؟ وہ بتاتے ہیں: ’’چھے مسلم آئی اے ایس اورسات آئی پی ایس افسران دہلی کے سکھ افسران کی طرح اجتماعی کارپردازوں کے بارے میں قطعی خاموش رہے‘‘۔

ایک واقعہ،جو نروڈاپاٹیاقتل عام کاہے، اس کاسری کمار نے بڑا دل گداز ذکر کیاہے۔اسے پڑھ کر یہ سوال اٹھتاہے کہ صرف مایاکوڈنانی ہی کیوں، کیا وہ مسلم افسران بھی مجرم نہیں ہیں، جنھوں نے ’قتل عام‘کو ممکن ہونے دیا؟سری کمار تحریر کرتے ہیں: ۲۸فروری کی شام کے وقت جب میں آفس میں تھا، خورشید احمد(آئی پی ایس بیج نمبر۱۹۹۱)نے مجھے فون پر اطلاع دی کہ تقریباً ۴۰۰مسلم خاندان جو فسادیوں کی زدپرہیں، سیجاپورکے محفوظ کمانڈہیڈکوارٹر میں پناہ مانگ رہے ہیں۔مسٹر خورشید اس کمانڈہیڈکوارٹر کے کمانڈنٹ تھے جو کہ نروڈاپاٹیا سے متصل ہے، جہاں اس روز شام تک ۹۶مسلمانوںکو قتل کیاگیا۔کمانڈہیڈکوارٹرمحفوظ چار دیواری کے اندرہے اورمحافظ اس کی حفاظت پر تعینات رہتے ہیں۔وہ ان عام باشندوں کو ایس آرپی بٹالین ہیڈکوارٹر میں داخل ہونے کے لیے واضح اجازت چاہتے تھے۔میں نے ان کو فوراًفیکس پر یہ ہدایت بھیج دی تھی کہ جو لوگ حفاظت کی خاطر اندرآناچاہتے ہیں انھیں آنے دیا جائے اوران کو خالی بیرکوں میں جگہ دے دی جائے۔ درحقیقت کمانڈنٹ مسٹرخورشید اوران کے نائب ڈی وائی ایس پی مسٹرقریشی ان مسلمانوں کو، جن کی جانیں یقینی طور سے خطرے میں تھیں کیمپ کے اندرداخل ہونے کی اجازت دینے کے جوکھم سے گھبرائے ہوئے تھے۔میں نے ان کو یقین واطمینان دلایا کہ: ’’میرے تحریری حکم پر عمل کرنے میں ان پر کوئی الزام نہیں آئے گا‘‘۔بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ میرے تحریری حکم نامے کے باوجود کمانڈنٹ مسٹر خورشید احمد نے پناہ کے لیے منت سماجت کرتے بے سہارا، مظلوم اور نہتے مسلمانوں کو کیمپ میں داخلے کی اجازت نہیں دی تھی۔اطلاع یہ ہے کہ اس دن شام کو نروڈاپاٹیا میں جن ۹۶مسلمانوں کابہیمانہ قتل ہوا، یہ انھی میں سے تھے، جن کو کیمپ کے اندرپناہ دینے سے منع کردیاگیاتھا۔

بعد میں خورشید احمد سورت کے ڈپٹی کمشنر بنے۔ان کی اہلیہ شمیمہ(آئی اے ایس)ولساڈکی ضلع ڈویلپمنٹ افسراورسریندرنگرکی ضلع کلکٹربنیں۔اورڈپٹی کمانڈنٹ قریشی کو’امتیازی خدمات کے لیے صدرجمہوریہ ہند کا’پولس میڈل‘ملا۔اسی طرح دوسرے آئی پی ایس ،آئی اے سیداے ڈی جی پی بنائے گئے۔انھوں نے نریندر مودی کے لیے خوب کام کیا تھا اور پھر یہ بعد میں بی جے پی میں بھی شامل ہوئے۔ایک اورمسلم افسربعد میں مودی کے دفتر میں مشیر کے عہدے پر متمکن ہوئے۔

سری کمار نے ایسے ہی کئی اعلیٰ افسروں کے نام گنوائے ہیں، جنھیں فسادات کے دوران خون سے رنگے ہاتھوں ملزمان کو بچانے کے لیے ’انعام‘دیاگیا۔مزید ان افسران کے نام بھی گنوائے ہیں، جنھیں سچ بولنے پر سزا دی گئی۔ مصنف اپنے ذاتی مشاہدات اورسرکاری دستاویزات کو بطورثبوت استعمال کرکے ان چہروں کو بے نقاب کرنے میں پوری طرح سے کامیاب ہوئے ہیں جو ’گجرات ۲۰۰۲ء‘ کے فسادات کے منصوبہ ساز بھی تھے اورسازشی بھی۔ان میں اعلیٰ سرکاری افسران ہیں،پولیس افسران ہیں اورچوٹی کے سیاست دان ہیں۔سری کمار کی یہ دستاویزی کتاب مقننہ اور عاملہ کے شرمناک گٹھ جوڑ کو اُجاگرکرنے میں پوری طرح سے کامیاب ہے۔

بنیادی اسباب ؟

جماعت اسلامی کے نزدیک پاکستان میں دراصل کسر اس چیز کی نہیں ہے کہ یہاں خدا اور آخرت اور رسالت کے ماننے والوں کی کمی ہے، بلکہ کمی اس چیز کی ہے کہ جس حق کو یہاں کے باشندوں کی اکثریت مانتی ہے وہ عملاً نافذ ہو، اور اسی پر ہمارے ملک کا پورا نظامِ زندگی قائم ہو۔ یہ کوئی معمولی کسر نہیں ہے بلکہ ایک بہت بڑی کسر ہے، کیوں کہ اسی کی وجہ سے ہمارا یہ ملک ایک اسلامی ملک ہونے کے باوجود نہ اسلام کی نعمتوں اور برکتوں سے خود فائدہ اُٹھا رہا ہے، نہ دُنیا کے لیے اسلام کی حقانیت کا گواہ بن رہا ہے۔ اور یہ کسر اس لحاظ سے بھی کوئی ہلکی کسر نہیں ہے کہ اسے پورا کر دینا آسان ہو۔ اس کی پشت پر بہت سے طاقت ور اسباب ہیں، جنھیں سخت جدوجہد ہی کے بعد دُور کیا جاسکتا ہے:

  • ایک طرف ہمارے عوام کی اسلام سے ناواقفیت ہے، جس کی وجہ سے وہ اس دین کے عقیدت مند ہونے کے باوجود اس کی صحیح پیروی سے قاصر ہورہے ہیں۔ lدوسری طرف ہمارے اندر بہت سے ایسے مانع اصلاح عناصر کی موجودگی ہے، جو اپنے تعصبات کی وجہ سے یا اپنی اغراض کی خاطر مختلف پرانی یا نئی جاہلیتوں سے چمٹے ہوئے ہیں اور خالص اسلام کے قیام کی راہ روک رہے ہیں۔lتیسری طرف ہمارا ماضی قریب ہے جو ہمیں اس حال میں چھوڑ گیا ہے کہ انگریزی اقتدار نے اپنی تعلیم سے، اپنےتہذیبی و تمدنی اثرات سے، اپنے قوانین سے، اپنے معاشی نظام سے، اور اپنی انتظامی پالیسی سے ہماری زندگی کے ہرشعبے کو غیراسلامی سانچوں میں ڈھال دیا ہے، حتیٰ کہ ہمارے مذہبی عقائد اور ہمارے اخلاق تک کی جڑیں ہلا کررکھ دی ہیں۔

ان سب پر مزید یہ کہ انگریز کے رخصت ہو جانے کے بعد جن لوگوں کے ہاتھ میں ہماری قومی زندگی کی باگیں آئی ہیں، اور جن کو اس نوخیز ریاست کی تعمیروتشکیل کے اختیارات ملے ہیں، وہ اگرچہ اسلام ہی کا نام لے کر برسرِاقتدار آئے ہیں، اسلامی دستور کا حلف لے کر ہی حکومت کی کرسیوںپر بیٹھے ہیں، اور دعویٰ یہی کرتے ہیں کہ ہم یہاں اسلام کے مطابق کام کرنا چاہتے ہیں، لیکن نہ تو وہ اسلام کو جانتے ہیں ، نہ ان کی اپنی زندگیاں اس بات کی شہادت دیتی ہیں کہ وہ اسلام کے طریقے پر خود عامل ہیں، اور نہ ان کا اب تک کا طرزِعمل یہ اُمید دلاتاہے کہ ان کے ہاتھوں یہ ملک کبھی فرنگیت کے راستے سے ہٹ کر اسلام کے راستے پر چل سکے گا۔

یہ ہیں وہ بڑے بڑے بنیادی اسباب، جن کی وجہ سے پاکستان میں اس کسر کو پورا کر دینا کوئی آسان کام نہیں ہے کہ یہاں کے باشندوں کی اکثریت جس چیز کو حق جانتی اور مانتی ہے، وہ یہاں عملاً نافذ ہو اور اسی پر یہاں کا پورا نظامِ زندگی قائم ہو۔([سیّدابوالاعلیٰ مودودی] ماہنامہ ترجمان القرآن، جلد۵۰، عدد۳، رمضان ۱۳۷۷ھ/ جون ۱۹۵۸ء،ص ۱۸-۱۹)

دو مختلف نظاموں میں کچھ چیزیں مشترک ہوتے ہوئے بھی، وہ الگ الگ نظام ہوتے ہیں۔ ان دونوں نظاموں کی تفصیلات کا جائزہ لیتے ہوئے ان میں بیش تر چیزیں ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہوں، مگر اس کے باوجود ہم انھیں ایک نظام نہیں کہہ سکتے۔ دو مختلف نظاموں کا کسی ایک یا چند اُمور میں ایک دوسرے سے متفق ہو جانا بھی کبھی اُن کے ایک ہونے کی دلیل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہی حال اسلام اور مغربی جمہوریت کا ہے۔

اس ضمن میں یہ چیز ذہن نشین رہے کہ کسی نظام کا اصل جوہر طریق نہیں بلکہ وہ اصولی و مقصدی روح ہوتی ہے، جو اُس کے اندر جاری و ساری رہتی ہے اور اسی روح کے متعلق ہم حکم لگاسکتے ہیں۔

ان گزارشات کے بعد اب آپ مغربی جمہوریت اور اسلامی جمہوریت کے فرق پر غور فرمائیں:

(الف) مغربی جمہوریت میں حاکمیت جمہور کی ہوتی ہے اور اسلام میں حاکمیت اللہ تعالیٰ کی تسلیم کی جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مغربی جمہوریت میں کسی چیز کے حق و ناحق کا فیصلہ کرنے کا آخری اختیار اکثریت کو حاصل ہے ، مگر اسلام میں یہ حق صرف باری تعالیٰ کو پہنچتا ہے، جس نے اپنا آخری منشا    نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے دنیا پر واضح فرما دیا۔ یہ اختلاف کوئی معمولی نہیں بلکہ اس کی بنا پر یہ دونوں نظام بنیادوں سے لے کر کاخ و ایوان تک ایک دوسرے سے مختلف ہوجاتے ہیں۔

(ب) اسلامی جمہوریت میں خلافت ایک امانت ہے، جو ہرمسلمان کو سونپی جاتی ہے، اور تمام مسلمان محض انتظامی سہولت کے لیے اُسے ارباب حل و عقد کے سپرد کردیتے ہیں۔ مغربی جمہوریت میں اصحابِ اقتدار صرف اپنی پارٹی [یا منتخب ایوان] کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس اسلامی ریاست میں عوام کے نمایندے خدا اور خلق دونوں کے سامنے جواب دہ ہیں۔

(ج) یہ عرض کر دینا بھی ضروری ہے کہ اسلامی نظام صرف ایک طریق انتخاب تک محدود نہیں ہے بلکہ زندگی کے سارے معاملات میں اپنا ایک مخصوص نقطۂ نظر اور زاویۂ نگاہ پیش کرتا ہے۔ اس کا مطالبہ یہ ہے کہ کتاب اللہ اور سنت رسولؐ اللہ کو آخری سند مان کر اپنی پوری انفرادی اور اجتماعی زندگی کو ان کے مطابق ڈھالا جائے___ پاکستان میں ’قراردادِ مقاصد‘ کے ذریعے اس اصول کو تسلیم تو کیا گیا ہے، مگر افسوس کہ  اس کے نفاذ کے راستے میں ہرطرح کی رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں۔ (’رسائل و مسائل‘ [پروفیسر عبدالحمید صدیقی]، ترجمان القرآن، جلد۴۹، عدد۳، ربیع الاوّل ۱۳۷۷ھ، دسمبر ۱۹۵۷ء،ص ۱۸۳-۱۸۴)