دنیا کی تمام اصلاحی تحریکیں حصولِ مقصد کے لیے ایک لائحہ عمل تجویز کرتی ہیں۔ پھر اہداف کے حصول یا ان کے حصول میں مزاحمت، مسائل اور مشکلات کے پیش نظر وقتاً فوقتاً، ہدفِ منزل کو نگاہ سے اوجھل کیے بغیر ،حکمتِ عملی میں مناسب تبدیلی کرتی ہیں۔ حکمتِ عملی کی تبدیلی نہ تو مقصد سے انحراف کی علامت ہوتی ہے اور نہ حصولِ مقصد کے عزم میں کمی یا مایوسی کا مظہر۔
مکہ مکرمہ کو دوبارہ تمام انسانیت کا قلب اور مرکز اور اہلِ ایمان کا قبلہ بنانے کا ہدف مکہ مکرمہ سے ہجرت کرنے کے بعد، مدینہ منورہ میں ایک اسلامی معاشرے اور ریاست قائم کرنے کے آٹھ سال بعد حاصل کیا گیا۔ اس دوران جو وقت لگا، اس کا ایک ایک لمحہ اصحابِ رسولؐ کے لیے ایک ایک دور سے کم نہ تھا۔
چنانچہ بار بار متٰی نصراللّٰہ کے الفاظ دل و زبان سے ادا ہوتے تھے، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت آن پہنچی اور فتح مکہ نے تکمیل رسالت اور حصولِ مقصد کا دروازہ کھول دیا۔ لوگ جوق در جوق قافلۂ حق میں داخل ہونے لگے۔ وہ دین جسے اس کے روحانی مرکز سے قوت کے بل پر بے دخل کرنے کی طاغوتی کوشش کی گئی تھی، قیامت تک کے لیے دوبارہ مرکزِ ابراہیمی کا دستور بن گیا۔ اس آٹھ دس سال کے عرصے میں، دین متین کے پیغام بَر کے دل و دماغ میں جو تلاطم بپا رہا ہوگا، اس کا اندازہ صرف رب کریم ہی کو ہوسکتا ہے، لیکن جس استقامت اور صبر کے ساتھ ہادی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکمتِ عملی کے ہرمرحلے کی تکمیل فرمائی، وہ آیندہ ہرعہد کی تحریکاتِ اسلامی کی قیادت اور کارکنوں کے لیے بہترین نمونہ اور اسوہ فراہم کرتی ہے۔ اس طویل اور صبر آزما حکمتِ عملی میں بدروحنین بھی ہیں، حدیبیہ جیسے نازک مراحل بھی ہیں، اُحد و اَحزاب جیسی آزمایش بھی ہے اور خیبر اور مکہ کی فتوحات بھی۔ اس تمام دورانیے میں نبی خاتم سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا غیرمتزلزل عزم، مقصد و ہدف کا واضح ہونا، اور مناسب حال حکمتِ عملی کا وضع کرتے رہنا بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔
انبیاے کرام ؑ کو یہ امتیاز اور اعزاز حاصل ہے کہ وہ جو حکمتِ عملی وضع کرتے ہیں ، اسے براہِ راست اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی تائید و نصرت حاصل ہوتی ہے، اور اگر کسی موقعے پر اس میں کسی نظرثانی یا اصلاح کی ضرورت ہو تو وحی کے ذریعے اسے استوار کردیا جاتا ہے۔ چنانچہ فتحِ بدر کے بعد مفتوح کے ساتھ کیا رویہ اختیار کیا جائے؟ یا حدیبیہ کے موقعے پر معاہدے کی نوعیت کیا ہو؟ یا مکہ کو فتح کرنے کے لیے کس طرح لشکر کو ترتیب دیا جائے؟ فتح کے بعد کیا شکل اختیار کی جائے؟ ان تمام معاملات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو براہِ راست وحی کے ذریعے اپنی حکمتِ عملی میں مناسب تبدیلی کرنے کا اعزاز حاصل رہا۔ یہ شکل بعد کی اسلامی تحریکات میں نہیں ہوسکتی۔ انھیں تو اپنے تجربات کی روشنی میں اپنی محدود عقل کو جہاں تک وہ پہنچ سکے، استعمال کرکے ہی وقتاً فوقتاً اپنی حکمتِ عملی پر نظرثانی کرنی ہوگی۔ لیکن لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا کی یقین دہانی تو موجود ہے، بس شرط جَاھَدُوْا فِیْنَا کی ہے،جس میں جدوجہد کا حق ادا کرنا اس کی اصل اور روح ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی انقلابی حکمتِ عملی کو تین دائروں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ اوّلاً: اصلاحِ قلب اور روحانی حکمتِ عملی، ثانیاً:تعلیمی اور دعوتی حکمتِ عملی، اور ثالثاً: رفاہی اور اجتماعی زندگی کی تبدیلی کی حکمتِ عملی۔
تعلق باللہ کی ایک دوسری عملی شکل صیامِ رمضان میں پائی جاتی ہے۔ جس طرح نماز میں مکمل بندگی و اطاعت کا اظہار، زبان کی ہرہر جنش اور جسم کی ہر ہر حرکت سے ہوتا ہے، ایسے ہی روزے کے دوران ایک نوعمر ہو یا بوڑھا، جوان ہو یا بچہ، تنہائی میں ہو یا محفل میں، پورے ایک ماہ اللہ تعالیٰ کے ہمہ وقت موجود ہونے کے احساس کے ساتھ، دن اور رات کے ہرلمحے میں اللہ کی خوش نودی کے لیے نماز، تلاوتِ قرآن، قرآن پر غوروفکر، انفاق و صدقات میں کثرت، دوستوں اور غیروں کی ضیافت میں اضافہ، غرض عبادات ہوں یا معاملات، ہر معاملے میں اللہ کی بندگی ہی پیش نظر رہتی ہے۔ ایک ماہ کی مسلسل تربیت ِروحانی ایک مسلم مرد اور عورت کو اپنے لیل و نہار کو پابندیِ وقت کے ساتھ اپنے رب کی بندگی اور اللہ کے بندوں کی خدمت کا عادی بنا دیتی ہے اور اس تربیت کے اثرات سال کے بقیہ مہینوں تک برقرار رہتے ہیں۔ یہ تعلق ربانی تصورِ حیات میں انقلابی تبدیلی لاتا ہے اور تزکیۂ نفس کے ان آداب سے آگاہ کرتا ہے جو سنت ِمطہرہ میں پائے جاتے ہیں۔
پھر حج اس کا ایک مجرب نسخہ ہے۔ اللہ سے تعلق اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا کہ اس کے لاکھوں بندے اس کے بتائے ہوئے مہینے اور دنوں میں اپنے قومی لباس اور زبانوں کو خیرباد کہہ کر یک زبان ہوکر لبیک اللھم لبیک اور اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر لا الٰہ الا اللّٰہ کا نغمہ بلندکرتے ہیں، حتیٰ کہ وہ اپنی آنکھوں سے حرمِ کعبہ کو دیکھ لیں۔ بات یہاں آکر نہیں رُک جاتی۔ اب تک اللہ سے قرب اور تعلق کا اظہار زبان سے اس کی تکبیرات سے ہو رہا تھا، اب نگاہ ہو یا قلب، قدم ہوں یا پیشانی اور ہاتھ، ہر ہر عضو جسم اللہ کے گھر میں اس کی عظمت و احسانات کے پیش نظر فرش گیر ہوجاتا ہے۔
اللہ سے تعلق و قربت، نہ صرف عمرہ اور حج کی شکل میں، بلکہ پیداوارِ دولت کے ذریعے بھی اختیار کی جاتی ہے۔ ایک تاجر ہو یا کسان، اس کی ہرمعاشی کوشش کا مرکزی نکتہ یہ ہوتا ہے کہ وہ کس طرح اپنے مال کو حلال اور مباح طریقے سے پیدا کرے اور اللہ کی رضا اور خوش نودی کے لیے اس کا بہترین حصہ اس کی راہ میں خرچ کر کے عاجزی سے اس کی قبولیت کی درخواست کرے۔
یہ تعلق باللہ رات کی تاریکی میں ان تنہائیوں میں بھی ہوتا ہے جب بندہ اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہوکر اپنی بندگی کا اظہار کرتا ہے۔ یہی تعلق باللہ اسے مجبور کرتا ہے کہ وہ ظلم و جبراور ناانصافی کے خلاف، طاغوتی نظام سے نجات اور حق کے نظام کے قیام کے لیے اپنے مال اور نفس کو اللہ کے حضور پیش کردے۔ بالکل اسی طرح معاشرے میں بڑھتی ہوئی اباحیت کو روکنے کے لیے اس کا اپنے مال اور صلاحیت اور وقت کا استعمال بھی رب کریم کے ذکر کی ایک شکل ہے۔ تعلق باللہ اور روحانی ترقی کا ایک اور مؤثر ترین ذریعہ قرآن کریم کی رفاقت ہے۔ جب قرآن کریم ایک صاحب ِ ایمان کا رفیق بن جاتا ہے تو پھر اسے کسی اور کی رفاقت کی ضرورت نہیں رہتی ہے۔ یہ پُراز حکمت خزینہ اس کے تمام مسائل اور مشکلات کا جامع حل بدلتے حالات میں فراہم کرتا ہے۔
روحانی حکمتِ عملی کے بغیر دیگر مراحل، منزلِ مقصود تک پہنچنے میں کوئی امداد فراہم نہیں کرسکتے۔ روحانی حکمتِ عملی محض چلّوں اور مراقبوں کا نہیں، میدانِ کارزار میں جان و مال کے جہاد کا مطالبہ کرتی ہے۔ یہ روح و جسم اور قلب و ذہن کی دوئی کو ختم کر کے اللہ کے بندے کے مکمل وجود کو توحید کے رنگ میں رنگ دیتی ہے۔ یہ اللہ کی مشیت اختیار کرنے کا نام ہے۔ یہ اپنی زندگی اور موت اور تمام معاملات کو صرف اور صرف اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی بندگی میں دے دینے سے حاصل ہوتی ہے: قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo (انعام ۶:۱۶۲) ’’کہو میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے‘‘۔
روحانی حکمتِ عملی ایک شخص کو تمام غلامیوں سے نکال کر ایک ایسا مردِ حُر بنادیتی ہے کہ وہ نہ کسی سے ڈرتا ہے نہ دبتا ہے، بلکہ مکمل طور پر اللہ کا عبد بن جاتا ہے۔ اللہ کی عبدیت کا حصول ہی اگلے دائرے کی طرف پیش قدمی کرنے والا پہلا قدم ہے جس کی طرف قرآن کریم نے یوں اشارہ کیا ہے : یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْھِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ (اٰل عمرٰن۳: ۱۶۴) ’’جو اس کی آیات انھیں سناتا ہے، ان کی زندگیوں کو سنوارتا ہے اور ان کو کتاب اور دانائی کی تعلیم دیتا ہے‘‘۔
انبیاے کرام ؑاور خصوصاً خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن ایک دعوتی، تعلیمی اور تربیتی حکمتِ عملی کے ذریعے معاشرتی انقلاب تھا۔ اسلام میں روحانیت، معاشرے سے کٹ کر تجرد میں نہیں بلکہ معاشرے کی سرگرمیوں میں شریک ہوتے ہوئے ضبط نفس اور استقامت کے ساتھ قیامِ حق کی جدوجہد سے حاصل ہوتی ہے۔ تقویٰ اور نیکی محض مشرق یا مغرب کی طرف رُخ کرلینے کا نام نہیں ہے بلکہ شعوری طور پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو اپنا رب، رسولؐ کو اپنا قائد، اللہ کی نازل کردہ شریعت کو ضابطہ حیات، اور اس کے ساتھ معاشرے کے ضرورت مند افراد کی خبرگیری اور امداد، انھیں قرضوں سے نجات دلاکر، بھوک اور افلاس سے نکال کر ایک باوقار اور باعزت زندگی گزارنے کے قابل بنانے کا نام ہے۔ یہ معاشرے سے برائی کو مٹانے اور حق و صداقت کو غالب کرنے کی پیہم کوشش کا نام ہے۔ سورئہ بقرہ کی آیت البر اس پہلو کی وضاحت کرتی ہے:
لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَ لٰکِنَّ الْبِرَّمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓئِکَۃِ وَ الْکِتٰبِ وَالنَّبِیّٖنَ ج وَ اٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَ السَّآئِلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِ ج وَ اَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَی الزَّکٰوۃَ ج وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَھْدِھِمْ اِذَا عٰھَدُوْا ج وَ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآئِ وَ الضَّرَّآئِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِ ط اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا ط وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَo (البقرہ۲: ۱۷۷) نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کرلیے یا مغرب کی طرف، بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ اور یومِ آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کودل سے مانے اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتہ داروں اور یتیموں پر، مسکینوں اور مسافروں پر، مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے۔ اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے۔ اور نیک لوگ وہ ہیں کہ جب عہد کریں تو اُسے وفا کریں اور تنگی و مصیبت کے وقت میں اور حق و باطل کی جنگ میں صبر کریں۔ یہ ہیں راست باز لوگ اور یہی لوگ متقی ہیں۔
اس نظامِ تعلیم و تربیت میں وقت کی اہمیت اور پابندی کی صفت پیدا کرنے کے لیے نظامِ صلوٰۃ کو ذریعہ بنایاگیا۔ چنانچہ ہر موسم میں دن ہو یا رات، صبح ہو یا شام، نماز کو مقرر اوقات پر قائم کرنے کے نتیجے میں تحریک کا ہرکارکن ایک آواز پر مقررہ وقت پر حاضر ہونے کا عادی بن گیا۔ اس نظامِ تعلیم میں بے غرضی، خلوص، ایثار و قربانی، اپنے مال اور جان کو اللہ کے لیے حاضر کردینے کی تمنا ہرہرکارکن کی شخصیت کا حصہ بن گئی۔ اس نظامِ تربیت میں سمع و طاعت کے ساتھ ساتھ ہرمعاملے میں مشاورت کو اختیار کیا گیا اور اس طرح کارکنوں میں وابستگی کا احساس پیدا کیا گیا۔ اب وہ بکھرے ہوئے موتیوں کے مانند نہ تھے بلکہ ایک تسبیح کے دانوں اور ایک ہار کے موتیوں کی طرح ایک دوسرے سے منسلک ہوکر ایک دوسرے کے لیے قوت اور سہارا بن گئے تھے۔ ان کی گفتگو نصیحت کی گفتگو تھی کہ تمام معاملات میں دوٹوک راے کے ذریعے ایک مجموعی راے تک پہنچا جاسکے۔ جب تک مسلم معاشرے میں تعلیم و تربیت کا یہ نظام برقرار رہا، مسلم معاشرہ ترقی کرتا رہا۔ مسلمانوں کی سیاسی، معاشی اور عسکری قوت بڑھتی رہی لیکن جب شورائیت کی جگہ خودرائی، تنہا ایک شخص کا اپنی راے کا دوسروں پر مسلط کرنا عام ہو گیا، اور جن سے مشورہ کیا جاتا، وہ بھی یہ دیکھ کر مشورہ دینے لگے کہ کہیں مشورے سے ان پر کوئی زد نہ آئے، تو پھر معاشرے کا زوال شروع ہوگیا۔ اس تبدیلی کو خلافت سے ملوکیت اور شخصی حکمرانی کی طرف رجعتِ قہقری کے تناظر میں بھی پورے طور پر سمجھا جاسکتا ہے۔
تعلیمی حکمتِ عملی اس لیے ضروری ہے کہ یہ ایک خاموش اور دیرپا انقلاب لے کر آتی ہے۔ اس کی پہچان کارکنوں اور قیادت میں اسلامی شخصیت کا پایا جانا ہے۔ جس طرح ایک پھل والے بیج کی شخصیت اُس پھل کے درخت میں ظاہر ہوتی ہے، بالکل اسی طرح اسلامی تعلیمی حکمتِ عملی کے زیراثر تربیت پانے والی ہرشخصیت ایک پھل دار درخت کی طرح مستحکم و مستقیم ہوتی ہے۔تعمیرِ کردار اور تربیتِ سیرت سے وہ افرادِ کار تیار ہوتے ہیں جو سخت سے سخت آزمایش کا مقابلہ مسکراتے ہوئے اپنے رب پر اعتماد کے ساتھ کرتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو صلحا، شہدا اور انبیا ؑکے ساتھ اپنے رب کے سامنے پیش ہوں گے۔ تعلیمی حکمتِ عملی وہ مردانِ کار تیار کرتی ہے جو اقامت دین کی جدوجہد نہ صرف سیاسی میدان میں بلکہ اپنے گھر میں، محلے میں،مسجد میں، کاروبار میں، معاشرتی تعلقات میں، غرض ہرممکنہ انسانی شعبۂ حیات میں اختیار کرتے ہیں اور زبان سے زیادہ ان کا طرزِعمل دوسروں کے لیے تربیت و تعلیم کا ذریعہ بنتا ہے۔ تعلیم دعوت کا ایک حصہ ہے اور دعوت تعلیم کا ثمرہ اور مقصد و مطلوب۔ دونوں میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔
تعلق باللہ، تعلیم و دعوت اور رفاہ و خدمت ہی دراصل وہ تعمیراتی اینٹیں ہیں، جن سے وہ تعمیر وجود میں آتی ہے جسے اسلامی معاشرہ اور اسلامی ریاست کہا جاتا ہے۔ جس کا نقطۂ فراز، انقلابِ قیادت ہے، جیساکہ مدینہ کی ریاست کی شکل میں ہوا اور اس نے تاریخ کے دھارے کو تبدیل کردیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں تحریک اسلامی کے مکّی دور کے ۱۳سال اور مدنی دور کے ۱۰سال اور خلافت راشدہ کا روشن دور اسلام، اس کی دعوت، پیغام، مشن اور انقلابی تبدیلی کے لیے نمونے (model) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس حکمتِ عملی کا ہر حصہ دوسرے سے مربوط اور ایک وسیع تر دعوت کا حصہ ہے۔
اسلامی تحریکوں نے مشرق وسطیٰ اور جنوب مشرقی ایشیا میں اعلیٰ پیمانے کے شفاخانے،اور فلاحی کاموں کے ادارے قائم کر کے اس جواب دہی سے بچنے کے لیے محدود سطح پر کام تو کیا ہے، لیکن اسے تحریکی انقلابی حکمتِ عملی کے ایک بنیادی مرحلے کے طور پر اختیار کرنے کا خواب ادھورا ہے۔ پاکستان میں جس کام کا آغاز ۱۹۵۰ء کے عشرے میں کراچی میں مرحوم چودھری غلام محمد امیرجماعت اسلامی کراچی نے کیا تھا، اسے وہ وسعت نہ دی جاسکی جس کا وہ متقاضی تھا۔ اگر تنقیدی نگاہ سے دیکھا جائے تو ترکی میں تحریکِ اسلامی کی فکر رکھنے والے افراد کا ۳۰سالہ جدوجہد کے بعد اختیار و اقتدار میں آنا جہاں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی خاص عنایت و رحمت ہے، وہاں اس میں بڑا دخل اس تیسرے مرحلے کا بھی ہے، یعنی فلاحی حکمتِ عملی۔
اگر سیلاب زدگان کے لیے مکانات تعمیر کیے جائیں، اگر بھوکے افراد کو کھانا فراہم کیا جائے اور وہ بھی کیسے؟ یعنی ایک مٹھی بھر گندم یا چاول گھر گھر سے جمع کر کے، تو نہ صرف عوامی شرکت کے ذریعے بلکہ ذاتی اور انفرادی سطح پر کارکنوں کی ایسی لگن کے ذریعے، جس میں معاشرے کی دست گیری، دُکھ درد میں شرکت اور جائز مدد کا ہر پیمانہ شامل ہو۔ اس کے نتیجے میں ایک جانب فرد کی حسنات میں اضافہ ہوگا، دوسری جانب لوگوں کے دُکھ درد کم ہوں گے، اور تیسری جانب خود تحریک کا تاثر محض ایک سیاسی یا انتخابی تحریک کی حد تک محدود نہ رہے گا۔ یہ تاثر ایک دینی، اصلاحی، فلاحی اور سیاسی تحریک کی مجسم تصویر میں ڈھل جائے گا۔
فلاحی حکمتِ عملی میں بیوائوں کے لیے امداد، یتیموں کی تعلیم و تربیت، بیماروں کی تیمارداری اور صحت کے ایسے مراکز کا قیام شامل ہے جہاں تحریک سے وابستہ ڈاکٹر انھیں مفت مشورہ اور کم قیمت پر دوائیں فراہم کرسکیں۔ محلوں اور بستیوں میں صفائی مہم، عدم تحفظ کے شکار عوام کو قانونی مشورہ فراہم کرنا یا ان کے محلے میں کمیٹی بنا کر اپنی حفاظت کے لیے چوکیدار، سڑک کے ناکے پر پوچھ گچھ کا انتظام وغیرہ، ایسے کام ہیں، جن میں کسی بھاری مالی صرفے کے بغیر انتظامی اقدامات اور افرادی قوت کو منظم کر کے نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ یہ وہ چند مثالیں ہیں جن کو سامنے رکھتے ہوئے ہرعلاقے میں تحریک کے افراد خود سوچ کر اپنے لیے ترجیحات مقرر کرسکتے ہیں۔ اس کے لیے مرکز سے کسی ہدایت کی ضرورت نہیں، کہ تحریک نے روزِ اوّل سے ہدایت دے رکھی ہے۔
فلاحی حکمتِ عملی دراصل اسلامی تحریکوں کے اجتہادی ہونے کی دلیل ہے۔ یہ ان کا ایک امتیاز ہے۔ ان کا اجتہادی ہونا، یعنی مسائل سے گھبرائے بغیر، مایوسی کو پاس نہ آنے دینا اور بصیرت و بصارت کے استعمال سے نئے راستے نکالنا ان کا طرئہ امتیاز ہے۔ سید مودودیؒنے ۱۹۶۳ء میں جماعت کے اجتماع میں جو بات ایک مثال دے کر سمجھائی تھی، اس کا تعلق صرف اس وقت کی صورت حال سے نہ تھا، بلکہ وہ ایک تاریخی حقیقت اور تحریک کے لیے ابدی ہدایت کی حیثیت رکھتی ہے۔ آج کی صورت حال میں اس کی اہمیت اور افادیت کچھ اور بھی دوبالا ہوجاتی ہے۔ انھوں نے فرمایا تھا کہ جب حیات بخش پانی کا ایک چشمہ یا دریا یہ دیکھتا ہے کہ اس کا راستہ پہاڑ نے روک لیا ہے تو وہ پہلو بچا کر نیا راستہ نکال لیتا ہے اور پہاڑ اس کا منہ دیکھتا رہ جاتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ پہاڑ سے کنارہ کرتا ہوا پانی کا ریلا اسے غیرمحسوس طور پر گھستا رہتا ہے، حتیٰ کہ پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجاتا ہے اور پانی کا ہر نرم و نازک قطرہ شاداں و کامیاب رہتا ہے۔
آج جب ملک میں بار بار یہ بات ابلاغِ عام میں دہرائی جارہی ہے کہ حالیہ بدعنوان حکومتی جماعت کو عوام رد کرچکے ہیں اور سابقہ حکومتی جماعت کے بے اصولی پن نے اسے متبادل کے مقام سے گرا دیا ہے، اور نگاہیں کسی بڑی تبدیلی لانے والی قوت کی طرف اُٹھنے لگی ہیں خواہ وہ اس کٹھالی سے گزری ہی نہ ہو جو لوہے کو فولاد بناتی ہے۔ زمینی اور سیاسی حقائق جس طرف اشارہ کررہے ہیں، وہ تبدیلی کی ضرورت ہے لیکن یہ بھی اللہ کا قانون اور تاریخ کا سبق ہے کہ ایسے حالات میں تبدیلی کے لیے انقلابی لہروں کا فروزاں ہونا ضروری ہے۔ہمارے لیے یہ بات سنجیدگی سے سوچنے کی ہے کہ ابلاغِ عامہ سے قطع نظر ،کیا سڑک پر چلنے والا ایک عام شہری یا گائوں کا ایک سادہ لوح انسان، جو موجودہ اور سابقہ حکمرانوں سے یکساں نالاں ہے، مستقبل کی جماعت کی حیثیت سے تحریکِ اسلامی کی طرف دیکھتا ہے؟ اگر معروضی طور پر یہ بات ہے تو ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اپنی رفتار کا ر میں سو گنا بلکہ ہزار گنا اضافہ کرنے کی فکر کرنی چاہیے تاکہ اللہ کی نصرت سے ہم تبدیلیِ قیادت کی خدمت انجام دے سکیں۔لیکن اگر ایک سرِراہ چلنے والا راہی بھی ابلاغِ عامہ کی طرح یہ سمجھتا ہے کہ اسلامی تحریک اور اصلاحی قوتیں ایسی تیسری ترجیح نہیں بن سکے ہیں، تو پھر ہمیں تجزیہ کرنا ہوگا کہ اس تاثر کو کن ٹھوس، قابلِ حصول، متعین اقدامات کے ذریعے کم سے کم وقت میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔
ممکن ہے اس خود احتسابی کے عمل میں ہمیں کچھ وقت لگے لیکن کم از کم ایک ایسی حکمتِ عملی فوری طور پر اختیار کرنے کی ضرورت ہے جو تعلیمی، دعوتی اور فلاحی کاموں کو بنیاد بناتے ہوئے ایک عام شہری کو یہ پیغام دے سکے کہ تحریکِ اسلامی اس کی فلاح چاہتی ہے اور ملک کو تباہی سے بچانے میں ایک فیصلہ کن کردار ادا کرسکتی ہے۔
یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ اصل اور آخری ہدف، یعنی رضاے الٰہی کا حصول جو تحریک اسلامی کا ہدف ہے، اور قریب المیعاد حکمتِ عملی میں ربط اور تسلسل کا ہونا بہت ضروری ہے۔ فلاحی کاموں کو صرف اللہ کی رضا کے لیے انجام دینا اس بات سے نہیں روکتا کہ ان کے بارے میں نہ جاننے والوں کو بغیر کسی تعلّی کے معلومات فراہم کی جائیں اور وہ یہ بات سمجھ سکیں کہ اگر پاکستان کو ایک فلاحی اسلامی ریاست بنانا ہے تو اسے کون لوگ یہ مقام دلا سکتے ہیں۔ وہ جو خودغرض، جھوٹ کا کاروبار کرنے والے ہیں، یا وہ جو اللہ کے بندوں کے حقوق کی ادایگی کے لیے اپنا وقت، اپنی صلاحیت، اپنا مال لگانے میں مصروف ہیں۔
’نیکی کر دریا میں ڈال‘ کی اخلاقی کیفیت اپنی جگہ لیکن رنگ و بو کی اس دنیا میں نیکی ہی نہیں، نیکوکاروں کی خدمات کا ابلاغ (projection) بھی تعلیم، دعوت، خدمت اور انقلاب کی حکمتِ عملی کا اہم حصہ ہے۔ یہ دنیا ظاہر (image) اور تصور (perception) کی دنیا ہے اور اچھے لوگوں اور نیک خدمات کا صحیح ابلاغ خودپسندی یا خودنمائی کے زمرے میں نہیں آتا، بلکہ دعوتی حکمتِ عملی کا ایک نہایت اہم حصہ ہے۔ تحریکِ اسلامی کی قیادت اور کارکنوں کو اس امر پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ ان کا پیغام اور ان کی خدمات کا صحیح صحیح اِدراک ہر خاص و عام میں کس طرح پیدا کیا جاسکتا ہے۔
اس نکتے پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اسلامی تحریکوں نے مصر ، تیونس اور مراکش میں کیا صرف منفی نعروں، یعنی سامراجی قوتوں کو ماربھگانے کے تذکرے سے یا مثبت نعروں، یعنی عوام کی فلاح، معیشت، تحفظ، صحت، تعلیم، روزگار اور حصولِ عدل کو اپنی حکمتِ عملی کے بنیادی نکات بنایا، اور پھر ایک عرصہ اس حوالے سے عوامی سطح پر کام کرکے لوگوں کو یقین دلایا کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔
ایک ایسے دور میں جب ہم اعتماد کے فقدان، خلوص کے افلاس اور اُمید سے محرومی کا شکار بنادیے گئے ہیں، ہم عوام الناس کو ان ذہنی اور روحانی امراض سے کس طرح اور کتنی جلد نجات دلا سکتے ہیں؟ نجات اور رہنمائی کے اس عمل کے لیے ہمیں اسلوبِ بیان اور تکنیک میں کس تبدیلی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے؟ کیا آج تک اختیار کی گئی سیاسی زبان اور دعوتی اسلوب اس مقصد کے حصول کے لیے کافی ہے؟ ہمیں اس کے لیے اجتماعی طور پر غور کرنا ہوگا، تاکہ اُس برکت کے نتیجے میں جو اجتماعی مشورے کا خاصا ہے، ہم ایسی فلاحی حکمتِ عملی وضع کرسکیں جو یوم الحساب سرخروئی اور اس دنیا میں عادلانہ نظام کے قیام اور عوام الناس کو مایوسی سے نجات دلانے کا ذریعہ بن سکے۔
قرآن کو جس کسی نے بھی توجہ سے پڑھاہو، وہ اس کی ایک خصوصیت سے ضرور حیرت زدہ ہوگا اور یہی خصوصیت اسے دنیا بھر کی لاکھوں کروڑوں کتابوں سے الگ ایک مقام امتیازی عطا کرتی ہے۔
ہمارے سامنے یہ واحد کتاب ایسی ہے جس میں کہیں کسی مقام پر کوئی بات شبہے کے انداز میں نہیں کہی گئی۔ کوئی اصول ، کوئی حکم، کوئی تجزیہ اور کوئی تبصرہ اس میں ایسا دکھائی نہ دے گا جس کے پیچھے تذبذب کار فرما ہو۔ ہر بات یقین وتحدّی کے ساتھ کہی گئی ہے۔ اس کا ایک ایک فقرہ یہ بتاتا ہے کہ اس کے مصنف کو اس بات کا قطعاً کوئی اندیشہ لاحق نہیں ہے کہ اس کی کسی بات کو جھٹلایا بھی جا سکتا ہے۔ کہیں کسی سطر میں کوئی ایسی کمزوری نہیں جھلکتی ، جیسی بالعموم انسانی تصانیف میں پائی جاتی ہے۔ کوئی ایسا موقع نہیں آتا ، جہاں یہ محسوس ہو کہ مصنف نے خوب صورت لفظوں اور نگارش کا پردہ ڈال کر اپنی کسی کوتاہی کو چھپانے کی کوشش کی ہے۔ یہ کتاب ، کتابِ حق اور کتابِ یقین ہے، اِنَّہٗ لَحَقُّ الْیَقِیْنِ(الحاقۃ ۶۹:۵۱)، اور آغاز ہی میں کتاب کا تعارف کراتے ہوئے کہہ دیا گیا ہے کہلَا رَیْبَ فِیْہِ (البقرہ ۲:۲)۔
اس میںکہیں کوئی تضاد نہیں ملتا۔ ہر بات جو اس میں درج ہے وہ دوسری باتوں کی مؤیّد ہے اور دوسری باتیں اس کی مؤیّد ہیں۔ حالانکہ بہترین مفکرین ومحققین اور ادبا وشعرا کے مرتب کردہ جو دفتر ہمارے سامنے ہیں ان میں سے کوئی اعلیٰ ترین نگارش بھی اس عیب سے پوری طرح منزہ ومبرّا نہیں ہے۔ کہیں نہ کہیں کوئی مقامِ تضاد ضرور آئے گا، جب کہ قرآن میں کہیں ایسی ذہنی اُلجھنیں منعکس نہیں ہوتیں ۔ کہیں کوئی ابہام نہیں ملتا ،کسی مقام پر فراریت کا رجحان نہیں پایا جاتا ۔
یہ کتاب تفریحی لٹریچر سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ زندگی کے ٹھوس حقائق ومعاملات سے بحث کرتی ہے اور وہ بھی سنجیدہ اور باوقار انداز سے ، مگر اس کے باوجود یہ ادب پارہ اور انتہائی مؤثر دل نشین کلام بھی ہے جو اپنے نفسِ مضمون کے لحاظ سے تمام تر نصیحت ہونے کے باوجود اس خشک روی سے مبرّا ہے جو ناصحین کی تحریر وتقریر کا خاصہ ہے۔ ایک ایک لفظ موتیوں کی طرح جڑا ہوا ہے ۔ ایک ایک سطر شاخِ گل ہے اور ایک ایک سورت خیابانِ بہار ! مگر حُسنِ بیاںکے اتنے ضخیم مجموعے میں کوئی مثال ایسی نہیں ملتی کہ نگارش اصل مقصد کی راہ سے ذرّہ برابر ادھر اُدھر ہو جائے اور آرٹ کی لذت وکشش قاریِ کتاب کو اپنی رو میں بہا لے جائے۔ کوئی ایک جملہ تو کجا،ایک لفظ نہیں جسے ’ادب براے ادب‘ قرار دے کے مقصدی ضرورت سے زائد قرار دیا جا سکے۔
اس کتاب کی شان یہ بھی ہے کہ اگرچہ اس کا مرکزی موضوع اور اس کے تفصیلی مباحث نہایت سنجیدہ نوعیت رکھتے ہیں اور انھی مباحث پر جب کبھی انسانی قلم حرکت میں آتا ہے تو وہ اندازِبیان پیدا ہوتا ہے جو فلسفہ وقانون کی کتابوں میں پایا جاتا ہے، مگر عجیب بات ہے کہ اس کتاب کے اسلوب میں حلاوت ہے کہ اسے پڑھتے ہوئے آدمی پر سوز وگداز اور رقت کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے ۔ یہاں تک کہ قاری نے اگر دل کے دروازے بند نہ کر رکھے ہوں تو وہ اس کلام کی مرعوبیت اپنے اوپر طاری ہوتی محسوس کرتا ہے، بالآخر اس کی روح بالکل سربسجود ہو کر رہ جاتی ہے۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ جو لوگ اس کے معانی سمجھے بغیر پڑھتے ہیں، وہ بھی اس کی نثر کا حُسن، عبارت کی موزونیت ، الفاظ کی نشست اورصوتی نغمگی میں ڈوب کر بے اختیار گریاں ہوجاتے ہیں۔ حقیقت یہ کہ اس کتاب میں معافی ومطالب کے ساتھ مرتب الفاظ واصوات کا معجزانہ امتزاج ہے جس کی نظیر کہیں اور نہیں مل سکتی۔
چنانچہ اس کتاب نے اپنے مخالفین و منکرین کو ایک سے زیادہ بار چیلنج کیا کہ ایسی کوئی سورت یا چند آیتیں ہی مرتب کر کے دکھادو۔ ایک آدمی نہیں بہت سے آدمی مل کر اپنی کاوشیں مجتمع کرلیں اور قرآنی ادب کاجواب پیش کر دکھائیں ۔ یہ چیلنج جس کو چودہ سو سال میں کوئی بھی قبول نہ کرسکا آج بھی اپنی جگہ پر قائم ہے اور آج بھی دنیا بھر کے انسان اپنی مجموعی قابلیتوں اور تخلیقی قوتوں کو جمع کر کے قرآنی اندازِ نگارش اور معیارِ کلام کا جواب نہیں دے سکتے۔
اس کتاب کی یہ ایسی خصوصیات ہیں جو اس کے دعوے کو برحق ماننے پر ہر معقول اور خوش ذوق آدمی کو مجبور کر دیتی ہیں، کہ اس کتاب کا مصنف کوئی انسان نہیں بلکہ خداوند تبارک وتعالیٰ ہے۔
قرآن ان معنوں میں مسلمانوں کی مذہبی کتاب نہیں ہے جن معنوں میں عیسائیوں، یہودیوں، ہندوئوں اور دوسرے مذہبی گرہوں نے مذہب کی اصطلاح کو استعمال کیا ہے ۔ فی الحقیقت قرآن ایک مکمل دین پیش کرتا ہے۔ یہ گویا زندگی کی کتابِ ہدایت (Guide Book ) ہے۔ اس میں ایک نظامِ تہذیب کا خاکہ دیا گیا ہے۔ اس نظامِ تہذیب کو چلانے کے لیے جیسی حکومت کی، اور اسے قائم کرنے کے لیے جیسی تحریک کی ضرورت ہے، اس کی رہنمائی موجود ہے۔ پھر مطلوبہ ریاست اور تحریک کے لیے جیسی جماعت وتنظیم اور جیسے انسانوں کی ضرورت ہے، ان کا معیار پیش کیا گیا ہے۔
اس کتاب کا موضوع انسان ہے اور یہ انسان کی زندگی کے ہر پہلو سے بحث کرتی ہے۔ اس میں زندگی کو ایک وحدت اور ایک کُل مان کر گفتگو کی گئی ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ کتاب ایک مخصوص طرز کی سو شیالوجی (سماجیات ) کی کتاب ہے اور ایک مکمل سوشل سسٹم یا نظامِ اجتماعی ہمارے سامنے رکھتی ہے، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ قرآن عدلِ اجتماعی کا ایک جامع فارمولا ہے۔ ایسی کتاب میں قدرتی طور پر ہر شعبۂ زندگی اور ہر علم کے بارے میں بحث ہونی چاہیے، لیکن یہ کتاب ہماری مروجہ تقسیم علوم کے مطابق کسی خاص جزوی علم کی کتاب نہیں ہے،بلکہ اس میں تمام علوم پر حاوی ہو جانے والا اور تمام علوم کو چند اٹل بنیادی حقائق اور اصولوں کے ذریعے منضبط اور ہم آہنگ کرنے والا علم پیش کیا گیا ہے، جسے اس کتاب نے اصطلاحاً ’العلم‘ ( The Knowledge) قرار دیا ہے، یعنی وہ علمِ ہدایت جو انسانی زندگی کی مجموعی فلاح کے لیے ناگزیر بنیادی علم ہے۔ وہ رہنما علم جو تمام علوم کواور انسانی قافلہ ہاے افکار کو درستی پر قائم رکھتا ہے اور انھیں بھٹکنے سے روکتا ہے۔
قرآن جس ’ العلم‘ پر مشتمل ہے اس میں ایک تو وہ اساسی صداقتیں شامل ہیں جن پر یہ کائنات چل رہی ہے اور جن کے تحت زندگی کا ظہور اور نشوونما ہوا ہے ، دوسرے وہ تاریخی اصول ہیں جن کے تحت قوموں کا عروج وزوال واقع ہوتا ہے، اور تیسرے وہ اخلاقی ضابطے ہیںجن سے فرد اور معاشرے کی زندگی سنورتی ہے اور جن کو ترک کرنے سے اس میں فساد واقع ہوتا ہے۔ وہ ضابطے جو اس کی زندگی کو کائنات کے حقائق سے ہم آہنگ اور اسے خدا کی رضا اور خوش نودی کا سزاوار بناتے ہیں ۔
اس کتاب کی ایک امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ یہ حق وباطل ، خیر وشر ، اچھے اور بُرے کے درمیان تمیز قائم کرنے والی ہے۔ چنانچہ خود اس نے اپنے آپ کو ’الفرقان ‘ کہا ہے ۔ سورۂ فرقان میں ارشاد ہے:
تَبٰرَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرَانِ (الفرقان ۲۵:۱) خداے عزوجل ، بہت ہی بابرکت ہے جس نے اپنے بندۂ خاص (محمدصلی اللہ علیہ وسلم ) پر فیصلے کی کتاب قرآن نازل کی تا کہ اہلِ عالم کو متنبہ کرے (ڈرائے) ۔
اسی حقیقت کو اس طرح بھی بیان کیا گیا ہے:
اِنَّہٗ لَقَوْلٌ فَصْلٌ o (الطارق ۸۶:۱۳ ) یہ ایک جچی تُلی بات ہے۔
قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ ج (البقرہ ۲: ۲۵۶)، صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے۔
قرآن اپنے دلائل کو اسی لیے (بیّنہ ) اور ’بینّات ‘ اور اپنے مندرجات کو ’آیاتِ بینّات‘ کہتا ہے اور ’تبیین ‘ کو اپنی غایت اور فریضۂ نبوت قرار دیتا ہے۔ وہ طریقۂ تلبیس کا سخت مخالف ہے۔ قرآن حق وباطل اور نیکی اور بدی کے درمیان کسی سمجھوتے اور سودے بازی کا قائل نہیں ۔ وہ اضداد کے مرکبات سے کوئی نظامِ علم وحکمت یا ضابطۂ مذہب واخلاق مرتب نہیں کرتا۔
انسان کم ہی خالص جھوٹ ، ظلم اور بدی محض کے لیے کھڑا ہوتا ہے اور کم ہی ایسا ہو گا کہ وہ خالص جھوٹ اور ظلم وشر کی دعوت قبول کرے۔ وہ ہمیشہ مرکبات بناتا ہے۔ مرکبات کی طرف بلاتا ہے، اور مرکبات ہی سے مغالطہ کھا کر انھیں دوسروں سے قبول کرتا ہے۔
قرآن کا جب نزول ہوا تو اس نے اپنے دور کے رائج الوقت فکری ، اعتقادی اور اخلاقی مرکبات واضداد کا تجزیہ کر کے خیر وشر کو الگ الگ نتھار دیا، مثلاً یہود کی مذہبی واخلاقی زندگی کے ہرگوشے میں اجتماع ضدّین کے جو تجربات معمول بن چکے تھے، ان کا اس نے بڑا تفصیلی تجزیہ کیا اور ان سے صاف صاف کہا تھا کہ :
وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ(البقرہ۲: ۴۲) باطل کا رنگ چڑھا کر حق کو مشتبہ نہ بنائو۔
الغرض قرآن حقائق کو نتھار دینے والی اور ضد کو چھانٹ کر الگ کر دینے والی کتابِ مبین اور کتابِ مہیمن ہے۔ اس مقصد کے لیے اس نے جا بجا تقابلی انداز اختیار کیا ہے ۔ ایمان اور کفر کو ، توحید اور شرک کو ، خلوص اور نفاق کو، بہادری اور بزدلی کو، آخرت پسندی اور دنیا پرستی کو، حق اور باطل کو، عدل اور انصاف کو، اطاعت اور انحراف کو، فحاشی اور حیا کو، سخاوت اور بخل کو، اسراف اور انفاق کو، نفسانیت اور ایثار کو، ایک دوسرے کے آمنے سامنے رکھ کر ان کے اثرات و نتائج پر بحث کی ہے۔
اعتقادی اور اخلاقی مسلکوں کے ساتھ ساتھ اس نے ان سے آراستہ تاریخی کرداروں کو بھی تقابلی انداز سے پیش کیا ہے اور پچھلی ساری انسانی تاریخ کا مطالعہ اسی انداز سے کرایا ہے کہ متضاد کردار ایک دوسرے کے آمنے سامنے نمایاں ہوں اور اچھے اور برے کو پہچانا جائے۔ آدم ؑ وابلیس ، ہابیل وقابیل ، نوحؑ اور فرزند ِ نوح، ابراہیم ؑ اور نمرود ، حضرت یوسف ؑ اوربرادرانِ یوسف ؑ ، اور ساتھ ہی عزیز مصر اور اس کی بیوی، حضرت لوط ؑ اور ان کی بیوی ، حضرت موسیٰ ؑ اور فرعون، حضرت عیسیٰ ؑ اور فقیہوں اور فریسیوں کے کردار تقابلی انداز سے لائے گئے ہیں۔ قرآن نے پسرِ نوح کے بالمقابل پسرِ ابراہیم اور امراۃِ لوط کے بالمقابل امراۃِ فرعون کا نمونہ اس طرح رکھا ہے کہ قاری کا دل ادھر بے اختیار جھک جاتا ہے جدھر خیرو خوبی پائی جاتی ہے۔ رشد وغنی کی راہیں سامنے آ جاتی ہیں، جن میں سے ایک کی لوح پر اسلام لکھا ہے اور دوسرے پر جاہلیت کا تختہ آویزاں ہے۔
اپنے اس اسلوب سے قرآن قاری کو اپنے انسانِ مطلوب سے متعارف کراتا ہے۔ اپنے انسانِ مطلوب کو مخالف عنصر کے بالمقابل مختلف زمانوں میں ایک مخصوص تاریخی پارٹ ادا کرتے ہوئے دکھاتا ہے۔ پھر وہ ان تمام اوصاف ِ حسنہ کے ایجابی خاکے جگہ جگہ بیان کرتا ہے جن سے اس کا انسانِ مطلوب بنتا ہے اور ان سٔیات کے خاکے بھی متقابلاً پیش کرتا ہے جن سے انسانیت کے نامطلوب کردار تیار ہوتے ہیں۔
قرآن کی خصوصیت میں سے ایک یہ ہے کہ دنیا کی بہترین ادبی کتاب ہے۔ اس کا بالکل جدا گانہ اور نرالا اسلوب ہے، جسے ’آسمانی ادب‘ یا ’الہامی ادب ‘ کا عنوان دیا جا سکتا ہے۔ قرآن کی ادبیت کا کمال یہ ہے کہ کلام کرنے والا خدا ہے اور حرفِ مدعا اسی کی طرف سے صادر ہوا ہے، مگر اندازِ کلام وہ ہے جو انسانی ذوق اور انسانی حسیّات ِ جمال اور انسانی معیارِ لطافت کے لحاظ سے ایسی بلندیوں کو چھو رہا ہے جس کی کوئی دوسری مثال نہیں۔ الفاظ اور اصطلاحات روایت کے دائرے سے لیے گئے ہیں۔ تشبیہیں اور استعارے جانے پہچانے ماحول سے اٹھائے گئے ہیں ۔ انسانی لٹریچر میں بلاغت وفصاحت کے جو راستے نکالے گئے ہیں ان کو مدِ نظر رکھا گیا ہے، لیکن بحیثیت ِ مجموعی جو ادب پارہ تیار ہوا ہے وہ منفرد اور یکتا ہے۔
قرآن اگرچہ اصلاً ایک کتاب اور ایک نوشتہ ہے، مگر اس میں لطفِ خطابت بھی شامل ہے جو اُسے دُہرا حسن بخشتا ہے اور اس میں ذہنی نفوذ اور دل میں سرایت کر جانے کی کیفیت بڑھا دیتا ہے۔پھر اسی مناسبت سے اس کی ایک شان تصریف وتکرار ہے ، یعنی ایک ہی مضمون کو سورنگ سے باندھا جاتا ہے۔ تصریف وتکرار میں اگر یکسانی ہو تو کلام دلنشین ہونے کے بجاے اکتاہٹ پیدا کرتا ہے مگر قرآن کا کوئی ایک مقام بھی ایسا نہیں جہاں قاری اکتاہٹ محسوس کرے ۔ کہیں بات اجمال میں چھوڑ دی گئی ۔کہیں ذہن کو حرکت دلانے کے لیے محض ہلکی سی اشاریت سے کام لیا گیا ہے۔ کہیں تمثیل واستعارہ سے اور کہیں واشگاف انداز سے، کہیں چھوٹے چھوٹے جملوں اور دھیمے دھیمے الفاظ میں معانی کا بہائو پایا جاتا ہے، اور کہیں پر زور الفاظ اور پر شکوہ جملوں کی صورت میں حرفِ مدعا ایک طوفانی ریلا بن جاتا ہے جو جامد پتھروں کو ان کی جگہ سے اکھیڑ کر بہا لے جاتا ہے۔ کہیں نصیحت ہے کہ نگہتِ گل کی مانند غیر محسوس سا اثر ڈالتی ہے۔ کہیں دعوت ہے دل سوزی کے ساتھ ، اور کہیں تنقید ہے بڑی قوت کے ساتھ ۔ پھر بار بار عبارت کا مزاج بدلتا ہے، ترنم کے پیرائے بدلتے ہیں اور اس ادل بدل سے ذوق کی لطیف سطح پر خوش گوار نقوش ثبت ہوتے ہیں۔
قرآنی ادب میں سارا استدلال اگرچہ عقلی ہے مگر جذبات کی قوتِ محرکہ کی اہمیت کو کسی مقام پر نظر انداز نہیں کیا گیا ۔ خالی عقل ، بے جان فلسفیت اور جامد تصورات کی طرف لے جاتی ہے۔ عملی انسان بنانے اور تاریخ کو حرکت میں رکھنے کے لیے جذبے کی قوت ناگزیر ہے۔ عقل اور جذبہ دونوں کے امتزاج ہی سے وہ کیفیت پیدا ہوتی ہے جسے ایمان کہتے ہیں۔ قرآن میں آپ دیکھیں گے کہ رُلا دینے والی ، حیرت میں ڈال دینے والی ، مبہوت کر دینے والی ، خوف طاری کرنے والی ، اطمینان دلانے والی ، عزم ویقین ابھارنے والی، جوش میں لانے والی ، آمادۂ پیکار کر دینے والی اور ایثار کی اسپرٹ پیدا کرنے والی عبارتوں کی رنگا رنگ کیاریاں جا بجا پھیلی ہوئی ہیں۔ انسانی فطرت کا ہر شعبہ ان سے اثر لیتا ہے اور انسانی نفسیات کا ہر گوشہ ان سے زندگی پاتا ہے۔ تمام کے تمام جذبات وحسّیات اس ایک کتاب کے مطالعے سے حرکت میں آتے ہیں اور ایک ہی مرکزی نصب العین کے گرد مجتمع ہو جاتے ہیں۔ قرآن پورے کے پورے انسان کو حرکت میں لے آتا ہے، اس کے شعور کو بھی ، اس کے جذبات کو بھی (جائز حدود میں )، اس کی دنیوی خواہشوں کو بھی اور اس کے اخلاقی میلانات کو بھی۔ دنیا بھر کے لٹریچر میں کوئی کتاب بھی یہ کرشمہ نہیں دکھا سکتی۔
اس کتاب کی ایک عظیم الشان خصوصیت یہ ہے کہ یہ اپنے قاری کو خدا سے قریب کر دیتی ہے اور خدا اس کے قریب آ جاتا ہے۔
خدا کا یہ تصور کہ وہ الگ تھلگ وجود ہے، جس سے انسان کا براے نام سا تعلق ہے، وہ بھی بس دُور پار کا ! قرآن پڑھتے ہی اس قسم کا محدود، کمزور اور باطل تصور مٹ جاتا ہے۔ قرآن کا خدا ایسا ہے کہ قرآن پڑھتے ہوئے آدمی کو وہ بالکل اپنے سامنے ، اپنے آس پاس بلکہ عین اپنے دل میں محسوس ہونے لگتا ہے۔ جہانِ قرآن میں داخل ہوتے ہی قاری محسوس کرتا ہے کہ خدا کو اس سے گہرا تعلق ہے، اس سے گہری محبت ہے۔ خدا کو اس سے دل چسپی اور ہمدردی ہے۔ وہ اس کے ہرخیال کے ساتھ ساتھ ہے۔ اس کے ہر کام میں حصہ لے رہا ہے۔ وہ اس کی دعائیں سنتا، اس کی پکاروں کا جواب دیتا ، اس کے کام سنوارتا، اسے خیر سے بہرہ ور کرتا اور شر سے بچاتا ہے۔ قرآن کا قاری اگر قرآن کی دعوت پر لبیک کہہ کر بدی اور ظلم کی طاقتوں کے خلاف راستی اور نیکی کی جنگ لڑنے کھڑا ہوتا ہے تو وہ یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہتا کہ اس جنگ میں خدا خود اس کا ساتھی ہے۔ وہ اس کے آگے پیچھے، دائیں اور بائیں اور سرپر اور سینے کی گہرائیوں میں موجود ہے۔ وہ اس کا خنجرِ جہاد ہے، وہ اس کے بچائو کی ڈھال ہے، وہ اس کے بازوئوں کی قوت ہے ۔
پھر قرآن کا قاری جب موسیٰ ؑ اور یوسف ؑ کی داستانیں پڑھتا ہے، نبی آخرالزماںصلی اللہ علیہ وسلم کی جدو جہد کا ریکارڈ دیکھتا ہے تو اس میں یہ ایمانِ محکم پیدا ہوتا ہے ، کہ تاریخ کی جنگاہ میں خیرو شر کا جو معرکہ مسلسل بر پا رہا ہے خدا اس سے بے تعلق نہیں ہے، بلکہ پس ِ پردہ بیٹھا وہ اپنے تصرفِ خاص سے ہر دور میں ایک خاص طرح کے نتائج پیدا کرتا ہے۔ مخالف طاقتوں کو ایک خاص انجام سے دوچار کرتا ہے۔
پھر قرآن کی نگارش کا کمال ہے کہ اس کے قاری کے سامنے حشرونشر کا نقشہ ایسی وضاحت سے آتا ہے کہ کوئی بڑے سے بڑا عرصۂ غفلت گزار کر اور فراریت کے صد ہا تجربے کر کے بھی اس کا انکار نہیں کر سکتا ۔ اسے آخرت کی عدالت دکھائی دینے لگتی ہے اور اس تک پہنچنے کے لیے موت کا دروازہ سامنے کھلا نظر آتا ہے۔ وہ عدالت جہاں نہ رشوت چلے گی، نہ سفارش کے زور سے اہل کاروں سے ساز باز کی جا سکے گی، نہ کوئی کسی کا فدیہ دے گا، نہ وکیلوں کی چرب زبانی کام آئے گی،نہ دوست اور رشتہ دار سہارا دے سکیںگے ، اور نہ رونا چیخنا ہی سود مند ہو گا بلکہ وہاں کا قانون تو بس یہ ہے کہ :
فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ o وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ o (الزلزال ۹۹:۷-۸) جس کسی نے رتی بھر بھی نیکی کی ہو گی و ہ اسے وہاں دیکھ لے گا۔ اور جس کسی نے رتی بھر بھی بدی کی ہو گی وہ بھی اسے وہاں دیکھ لے گا۔
بنی نوع انسان کے طبقۂ نسواںمیں سب سے زیادہ فضیلت کی حامل وہ پاکیزہ ہستیاں ہیں جنھیں ازواجِ مطہراتؓ اور اُمہات المومنینؓ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان ازواج مطہراتؓ میں سے بھی اوّلیت اور افضلیت حضرت خدیجہؓ کو حاصل ہے، جو نبی مکرمؐ کی پہلی زوجہ اور اس اُمت کی پہلی ’ماں‘ تھیں۔ ان کے بعد حضرت سودہ بنت زَمَعہؓ کا مقام آتا ہے جو اس اُمت کی دوسری ماں ہیں۔
اس مضمون میں حضرت سودہؓ کے مختصر سوانح حیات، خصوصی فضائل اور خدماتِ اسلام کو بیان کیاگیا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ اُمت ِ مسلمہ کی تمام عورتیں اُمہات المؤمنینؓ کو اپنا آئیڈیل بنا کر ان کے طرزِ زندگی کو اپنائیں تا کہ گھریلو زندگی میں سکون اور آخرت میں سرخروہوسکیں۔
آپؓ کا نام سودہ اور باپ کا نام زَمعہ بن قیس تھا، جو قریش کے قبیلے عامر بن لُؤیّ سے تعلق رکھتے تھے۔ آپؓ کی ماں کا نام سموس بنت قیس تھا، جو انصار کے خاندان بنو نجار سے تعلق رکھتی تھی۔
تاریخ کی کتابوں میں یہ مذکور ہے کہ حضرت سودہؓ کے اسلام قبول کرنے سے قریش مکہ کو سخت تکلیف ہوئی۔ اس لیے کہ اِس سے پہلے نو عمر (۱۲ سال سے ۲۵ سال تک کے) لوگ مشرف بہ اسلام ہو رہے تھے، جس پر کفار نے یہ پروپیگنڈا اختیار کیا کہ نوعمر لوگوں کا کسی نئی انقلابی تحریک میں شامل ہونا فطری بات ہے۔ لیکن جب حضرت سودہؓ نے اسلام قبول کیا تو اس وقت اُن کی عمر ۴۰سال کے قریب تھی۔ اس طرح کفار کا یہ پروپیگنڈا ختم ہو گیا اور قریش مکہ بہت سیخ پا ہوئے۔
خولہؓ:یا رسولؐ اللہ! خدیجہؓ کی وفات کے بعد میں آپؐ کو ہمیشہ غم زدہ دیکھتی ہوں۔
محمدؐ:ہاں، گھر کا انتظام اور بچوں کی تربیت خدیجہؓ ہی کے سپرد تھی۔
خولہؓ:آپ کو ایک رفیق و غم گسار کی ضرورت ہے۔ اگر اجازت ہو تو میں آپؐ کے نکاحِ ثانی کے لیے کوشش کروں۔
محمدؐ:تمھاری نگاہ میں ایسی کون سی خاتون ہے جن کو تم ان حالات میں مناسب سمجھتی ہو؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خولہؓ کی یہ باتیں سن کر فرمایا کہ تم ہی ان کو میرا پیغام پہنچاؤ۔ حضرت خولہؓ سیدھا حضرت سودہؓ کے پاس گئیں اور ان سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش بیان کی، جس پر حضرت سودہؓ نے بخوشی اپنی رضا مندی ظاہر کر دی، لیکن ساتھ یہ بھی فرمایا کہ اس سلسلے میں میرے والد سے بات کرو۔ حضرت خولہؓ آپ کے والد زَمعہ کے پاس گئیں تو انھوں نے بھی بخوشی اس رشتے کو قبول کر لیا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت سودہؓ کا نکاح شوا ل ۱۰ نبوی میں ہوا۔ اُس وقت آپ کی عمر ۵۰ سال تھی۔
اس کے ساتھ آپؓ نے نبی کریمؐ کا بھی ہر طرح سے نہ صرف خیال رکھا بلکہ ان مشکل حالات میں جب مکہ میں ہر طرف نبی کریمؐ کی مخالفت ہو رہی تھی، آپؐ کا ہمیشہ حوصلہ بڑھایا اور آپؐ کی خدمت میں کوئی کمی نہ آنے دی۔ یہی وجہ ہے کہ نبی اکرمؐ گھر کی طرف سے بے فکر ہو کر ہمہ وقت اسلام کی تبلیغ میں لگ گئے۔ حضرت سودہؓ نے دعوت و تبلیغ دین میں بھی آپؐ کا ساتھ دیا۔
حضرت سودہؓ کا حجرہ صرف ایک مکا ن نہیں تھا بلکہ کاشانۂ نبوتؐ کا درجہ رکھتا تھا، جہاں نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی رہایش تھی اور یہیں سے تمام احکامات جاری ہوتے تھے۔
اس معاشی حالت کے باوجود حضرت سودہؓ کے ماتھے پرکبھی کوئی شکن نہیں آئی اور نہ کبھی آپؓ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس حوالے سے کوئی شکایت کی، بلکہ آپ تو ان حالات میں نبی اکرمؐ کو دلاسہ دیا کرتی تھیں۔ حضرت سودہؓ کا یہ رویہ آپؐ اور کاشانۂ نبوت کے لیے سکون کا ذریعہ ثابت ہوا۔ اگر آج کی عورتیں بھی حضرت سودہؓ کا یہ رویہ اپنائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ان کے گھروں میں بھی سکون اورراحت میسر آجائے اور اُن کے شوہروں کے دلوں میں اُن کے لیے محبت اور تعظیم کے جذبات پیدا ہوں۔
حضرت سودہؓ کے پاکیزہ اخلاق، رفعت ِکردار اور اُن کے باقی ازواج کے ساتھ مشفقانہ رویوں کا اندازہ اس بات سے آسانی سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ نے فرمایا: ’’مجھے سودہ بنت زمعہ سے زیادہ عزیز کوئی عورت نہ تھی اور میری یہ تمنا تھی کہ کاش! ان کے جسم میں میری روح ہوتی‘‘۔( مسلم)
جس عورت پر اس کی سوتن (اور وہ بھی حضرت عائشہ صدیقہؓ جیسی) کو رشک آئے تو آپ اس پاکیزہ خاتون کی فضیلت کا کیا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَ زْوَاجِکَ وَ بَنٰتِکَ وَ نِسَآئِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَــیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِہِنَّ ط ذٰلِکَ اَدْنٰٓی اَنْ یُّعْرَفْنَ فَــلَا یُـؤْذَیْنَ ط وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاo (الاحزاب۳۳:۵۹) اے نبیؐ! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہلِ ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اُوپر اپنی چادروں کے پلّو لٹکا لیا کریں۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں، اللہ تعالیٰ غفور الرحیم ہے۔
اس بارے میں حضرت عائشہؓ ہی کی ایک روایت ملاحظہ ہو:’’حضرت سیّدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضرت سودہؓ نے مزدلفہ کی رات رسولؐ اللہ سے اجازت مانگی کہ وہ آپؐ سے پہلے منیٰ چلی جائیں اور لوگوں کے ہجوم سے پہلے نکل جائیں کیوںکہ وہ بھاری بدن کی عورت تھیں۔ آپؐ نے حضرت سودہؓ کو اجازت دے دی اور وہ آپؐ سے پہلے نکل گئیں۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ اگر میں بھی رسولؐ اللہ سے اجازت لے لیتی جیسے حضرت سودہؓ نے اجازت لی تھی تو آپؐ کی اجازت سے جانا مجھے اُس چیزسے زیادہ پسند تھا، جس سے میں خوش ہورہی تھی‘‘۔( مسلم)
تمام قومی عروج کی جڑ بچوں کی تعلیم ہے۔ اگر طریق تعلیم علمی اصولوں پر مبنی ہو تو تھوڑے ہی عرصے میں تمام تمدنی شکایات کافور ہوجائیں اور دُنیوی زندگی ایک ایسا دل فریب نظّارہ معلوم ہو کہ اُس کے ظاہری حُسن کو مطعون کرنے والے فلسفی بھی اُس کی خوبیوں کے ثناخواں بن جائیں۔
انسان کا سب سے پہلا فرض یہ ہے کہ دنیا کے لیے اس کا وجود زینت کا باعث ہو اور جیساکہ ایک یونانی شاعر کہتا ہے: اس کے ہرفعل میں ایک قسم کی روشنی ہو، جس کی کرنیں اوروں پر پڑکے ان کو دیانت داری اور صلح کاری کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا سبق دیں۔ اس کی ہمدردی کا دائرہ [روز بروز] وسیع ہونا چاہیے، تاکہ اس کے قلب میں وہ وسعت پیدا ہو، جو روح کے آئینے سے تعصبات اور توہمات کے زنگ کو دُور کرکے اُسے مجلّاو مصفّا کردیتی ہے۔
صدہا انسان ایسے ہیں، جو دنیا میں زندگی بسر کرتے ہیں، مگر اپنے اخلاقی تعلقات سے محض جاہل ہوتے ہیں۔ ان کی زندگی بہائم [جانوروں] کی زندگی ہے، کیوں کہ ان کا ہرفعل خودغرضی اور بے جا خودداری کے اصولوں پر مبنی ہوتا ہے۔ ان کے تاثرات کا دائرہ زیادہ سے زیادہ اپنے خاندان کے افراد تک محدود ہوتا ہے اور وہ اس مبارک تعلق سے غافل ہوتے ہیں جو بحیثیت انسان ہونے کے، ان کو باقی افراد بنی نوع سے ہے۔ حقیقی انسانیت یہ ہے کہ انسان کو اپنے فرائض سے پوری پوری آگاہی ہو اور وہ اپنے آپ کو اس عظیم الشان درخت کی ایک شاخ محسوس کرے، جس کی جڑ تو زمین میں ہے مگر اُس کی شاخیں آسمان کے دامن کو چھوتی ہیں۔ اس قسم کا کامل انسان بننے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہرانسانی بچے کی تربیت میں یہ غرض ملحوظ رکھی جائے، کیوں کہ یہ کمال، اخلاقی تعلیم و تربیت ہی کی وساطت سے حاصل ہوسکتا ہے۔ جو لوگ بچوں کی تعلیم و تربیت کے صحیح اور علمی اصول کو مدنظر نہیں رکھتے، وہ اپنی نادانی سے سوسائٹی کے حقوق پر ایک ظالمانہ دست درازی کرتے ہیں، جس کا نتیجہ تمام افراد سوسائٹی کے لیے انتہا درجے کا مضر ہوتا ہے۔
اس مضمون کی تحریر سے ہماری یہ غرض ہے کہ علمی اصولوں کی رُو سے بچپن کا مطالعہ کر کے یہ معلوم کریں کہ بچوں میں کون کون سے قوا کا ظہور پہلے ہوتا ہے اور ان کی تعلیم و تربیت کس طرح ہونی چاہیے۔ ہم ایک ایسا طریق پیش کرنا چاہتے ہیں جو محض خیالی ہی نہیں ہے، بلکہ ایک قابلِ عمل طریق ہے، جس سے بچوں کی تعلیم کے لیے ایسے آسان اور صریح اصول ہاتھ آجاتے ہیں، جن کو معمولی سمجھ کا آدمی سمجھ سکتا ہے اور ان کے نتائج سے مستفید ہوسکتا ہے۔ ہم اُمید کرتے ہیں کہ ناظرین ان سے فائدہ اُٹھائیں گے اور اپنے بچوں کی ابتدائی تعلیم میں ان اصولوں کو ملحوظِ خاطر رکھیں گے کیوں کہ ؎
خشتِ اوّل چوں نہد معمار کج
تا ثّریا می رود دیوار کج
(اگر معمار، پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھتا ہے تو دیوار، آسمان کی وسعتوں تک ٹیڑھی ہی چلی جائے گی)
سب سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ وہ کون سے اُمور ہیں جو عالمِ طفلی کے ساتھ مختص ہیں، تاکہ بچوں کی تعلیم و تربیت میں اُن کو ملحوظ رکھا جائے اور ان سے باحسن وجوہ فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی جائے:
۱- اس ضمن میں پہلی بات جو ہرمطالعہ کرنے والے کو صاف دکھائی دیتی ہے، یہ ہے کہ بچوں میں ایک قسم کی اضطراری حرکت کا میلان ہوتا ہے، جو نہ صرف انسان کے ساتھ ہی خاص ہے بلکہ ہر حیوان میں پائی جاتی ہے۔ دیکھیے بلّی کا بچہ کیا مزے سے خودبخود کھیلتا ہے۔ چھوٹے کتّے کی زنجیر کھول دو تو اضطراری حرکت کی خوشی میں پھولے نہیں سماتا۔
..... انیسویں صدی کے مشہور حکما..... اس اضطراری جوش کو بچے کی نشوونما کے لیے بڑا ضروری جزو خیال کرتے ہیں، کیوں کہ اس حالت ِ اضطرار میں اُس کے اعضا حرکت میں آنے کے لیے کسی بیرونی محرک کے محتاج نہیں ہوتے۔ بچوں میں اعصابی قوت کی ایک زائد مقدار ہوتی ہے، جو کسی نہ کسی راہ سے صرف ہوکر اُن کی خوشی کا موجب ٹھیرتی ہے۔ اگرچہ بسااوقات ان کے ماں باپ کو اس سے تکلیف بھی اُٹھانی پڑتی ہے۔ بعض دفعہ اعصابی قوت کی یہ زائد مقدار رونے چلّانے میں صرف ہوجاتی ہے، بعض دفعہ بے تحاشا ہنسنے اور کھیلنے کود میں۔ پس، جو لوگ بچوں کے رونے سے تنگ آتے ہیں، اُن کو یاد رہے کہ یہ بھی اُن کے جسمانی اور روحانی نمو [ترقی یا بڑھوتری] کے لیے ایک ضروری جزو ہے۔ اس کے علاوہ اس قوت کے صرف ہونے کی اور بھی راہیں ہیں۔ مِن جملہ ان کے ایک یہ ہے کہ بچے کے حواس خود بخود حرکت میں آتے ہیں، جس کی وجہ سے اسے خارجی اشیا کا رفتہ رفتہ علم ہوتا جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ بچہ ایک متعلّم ہستی نہیں بلکہ سراپا ایک متحرک ہستی ہے، جس کی ہرطفلانہ حرکت سے کوئی نہ کوئی تعلیمی فائدہ اُٹھانا چاہیے، مثلاً اینٹوں کے گھر بنانا ، لڑی میں منکے پرونا، گانا وغیرہ۔ وہ زائد اعصابی قوت جو رونے اور بے جا شور کرنے میں صرف ہوتی ہے، ایک باقاعدہ شور یا راگ میں آسانی سے منتقل ہوسکتی ہے اور وہ قوت جو ضرر رساں اشیا کے چھونے اور دیگر چیزوں کو اِدھر اُدھر پھینکنے میں صرف ہوتی ہے، اینٹوں کے گھر بنانے میں سہولت سے صرف ہوسکتی ہے۔
۲- بچپن کا ایک اور خاصّہ یہ ہے کہ اس عمر میں کسی شے پر مسلسل توجہ نہیں ہوسکتی۔ جس طرح اُس کے جسمانی قوا کو ایک جگہ قرار نہیں ہوسکتا، اسی طرح اُس کے قواے عقلیہ بھی ایک نکتے پر عرصے کے لیے قرار پذیر نہیں رہ سکتے۔ جس طرح ہاتھ نچلے [آرام سے] نہیں رہ سکتے، اسی طرح اُس کی توجہ میں بھی ایک طرح کی بے قراری ہے، جو اُسے ایک مقام پر جمنے نہیں دیتی۔ لہٰذا، ہرطریقِ تعلیم میں اس بات کو ملحوظ رکھنا چاہیے کہ سبق طویل نہ ہوں اور چھوٹے چھوٹے حصوں پر منقسم ہوں، تاکہ پڑھتے وقت بچوں کے مختلف قوا کو تحریک ہو۔ اس کے علاوہ یہ بھی لازم ہے کہ ہرسبق میں ایک خاص مشترک بات ہو، تاکہ ایک خاص مقام پر توجہ لگانے کی عادت بھی ترقی کرتی جائے۔
۳- بچوں کو اشیا کے غور سے دیکھنے اور بالخصوص ان کے چھونے میں لطف آتا ہے۔ تین مہینے کی عمر کا بچہ ہو اور اُس کی توجہ روشنی کی طرف منتقل ہوجائے تو ہاتھ پھیلاتا ہے اور شمع کے شعلے کو پکڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ نظر کے فعل سے اُس کی تسلی نہیں ہوتی۔ حسِ لامسہ [چھونے کی حِس] سے بھی مدد طلب کرتا ہے، کیوں کہ اُسے قدرتاً اشیا خارجی کے چھونے میں مزا آتا ہے۔ یہ بات توہرشخص کے تجربے میں آئی ہوگی کہ جب بچے کی نظر دیوار کی کسی تصویر پر جاپڑے تو بے اختیار چلّانے لگتا ہے اور چاہتا ہے کہ تصویر اُتار کر اُس کے ہاتھوں میں دے دی جائے۔ چلّانے سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ چھوٹے میاں اب چپ ہونے میں نہیں آئیں گے، مگر جب مطلوبہ شے سامنے رکھ دی جائے تو چپ ہو جانا، تو ایک طرف بعض اوقات آپ کی ہنسی بھی نکل جاتی ہے۔ پس، جس شے کے متعلق سبق دو، اس کو بچے کے سامنے رکھو اور جب سبق ختم ہوجائے تو شے مذکور اُس کے ہاتھ میں دے دو۔ مشاہدے سے حسِ بصر [دیکھنے کی صلاحیت] کی تربیت ہوتی ہے۔ چھونے سے قوتِ لمس معتدبہ فروغ پاتی ہے۔ گفتگو اور راگ وغیرہ سے قوتِ سامعہ [سننے کی صلاحیت] ترقی کرتی ہے۔ اس طرح لَمس اور بصر کے متحدہ استعمال سے بچے کو صورتِ شے کا ادراک ہوتا جائے گا۔
۴- بچے کی توجہ صورتِ شے سے زیادہ رنگِ شے کی طرف لگتی ہے۔ جن اشیا کا رنگ شوخ ہو، اُس کا دھیان زیادہ تر اُنھی کی طرف رہتا ہے۔ کسی اعلیٰ درجے کے مصوّر کی بنائی ہوئی تصویر اُس کے سامنے رکھ دو۔ اگر اُس کا رنگ شوخ اور چمکیلا نہیں تو اُسے اس کی پروا بھی نہیں ہوگی۔ برخلاف اس کے اپنی چھوٹی سی کتاب کی رنگین تصویروں پر جان دیتا ہے۔ بول چال میں ملاحظہ کیجیے: لفظ سرخ ، نیلا وغیرہ تو پہلے سیکھ جاتا ہے اور لفظ مربع، تکون وغیرہ کہیں بعد میں جاکر۔ اس سے یہ اصول قائم ہوا کہ بچے کے ابتدائی سبق رنگین اشیا کے متعلق ہونے چاہییں۔
۵- بچے میں بڑوں کی مدد کرنے کا مادّہ خصوصیت سے زیادہ ہوتا ہے۔ ماں ہنستی ہے تو خود بھی بے اختیار ہنس پڑتا ہے۔ باپ کوئی لفظ بولے تو اُس کی آواز کی نقل اُتارے بغیر نہیں رہتا۔ ذرا بڑا ہوجاتا ہے اور کچھ باتیں بھی سیکھ جاتا ہے، تو اپنے ہم جولیوں کو کہتا ہے: ’’آئو بھئی، ہم مولوی بنتے ہیں، تم شاگرد بنو‘‘۔ کبھی بازار کے دکان داروں کی طرح سودا سلف بیچتا ہے۔ کبھی پھر پھر کر اُونچی آواز دیتا ہے کہ: ’’چلے آئو! انار سستے لگا دیے‘‘۔ اس وقت میں بڑا ضروری ہے کہ استاد اپنی مثال بچے کے سامنے پیش کرے، تاکہ اُسے اُس کے ہرفعل کی نقل کرنے کی تحریک ہو۔
۶- قوتِ متخیلہ یا واہمہ بھی بچوں میں بڑی نمایاں ہوتی ہے۔ شام ہوئی اور لگا سِتانے اپنی ماں کو: ’’اماں جان! کئی کہانی تو کہہ دو‘‘۔ ماں چڑیا یا کوّے کی کہانی سناتی ہے تو خوشی کے مارے لوٹ جاتا ہے۔ ذرا بڑا ہوا، اور پڑھنا سیکھ گیا تو ناولوں اور افسانوں کا شوق پیدا ہوتا ہے۔ استاد کو چاہیے کہ قوتِ واہمہ کی نمو [اَن دیکھی چیزوں کو تصور میں لانے کے اضافے] کی طرف بالخصوص خیا ل رکھے۔ ایسا نہ ہو کہ یہ قوت بے قاعدہ طور پر بڑھ جائے اور اس سے قواے عقلیہ کی ترقی میں نقص پیدا ہو۔ بعض حکما کی راے ہے کہ اس قوت کی تربیت کی اتنی ضرورت نہیں، جس قدر کہ اُسے مناسب حدود کے اندر رکھنے کی ہے۔ بچے کی اس خصوصیت سے بے انتہا تعلیمی فائدہ ہوسکتا ہے۔ اکثر مکتبوں میں لڑکے کاغذ کی کشتیاں دن رات بنایا کرتے ہیں۔ قوتِ واہمہ کے لیے یہ اچھی مشق ہے۔
۷- بچوں میں ہمدردی کی علامات بھی ظاہر ہوتی ہیں، جن سے بچے کی اخلاقی تعلیم میں ایک نمایاں فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے۔ کسی کو ہنستا دیکھے تو خود بھی ہنستا ہے۔ ماں باپ غمگین نظر آئیں تو خود بھی ویسی ہی صورت بنا لیتا ہے۔ تجربے اور مشق سے یہ جبلّی قوت بڑھتی جاتی ہے۔ ابتدا میں اوروں کے غم سے متاثر ہوتا معلوم ہوتا ہے۔ اُستاد کو چاہیے کہ اُسے ہمدردی کے متعلق عمدہ عمدہ کہانیاں سنائے اور یاد کرائے۔ جس حیوان کے متعلق اسے سبق دینا ہو، اُس کے ساتھ اچھا سلوک کرے، تاکہ بچے کے لیے ایک عمدہ مثال تقلید کرنے کے لیے قائم ہوجائے۔
۸- الفاظ یاد رکھنے کے لیے بچے کا حافظہ حیرت ناک ہے۔ اپنی مادری زبان کی پیچیدگیاں کس آسانی سے سیکھ جاتا ہے اور یاد کرلیتا ہے۔ معلّم کو لازم ہے کہ اپنے شاگردوں کو عمدہ عمدہ اشعار اور نظمیں یاد کرائے اور پڑھے ہوئے سبقوں کے مضامین کی طرف بار بار اشارہ کرے۔
۹- اس عمر میں قوتِ متمیزہ [تمیز اور فرق کرنے کی صلاحیت] کمزور ہوتی ہے۔ اشیا کے باریک باریک فرق تو معلوم نہیں کرسکتا ، ہاں بڑے ظاہر اور نمایاں اختلافات، مثلاً: اختلافاتِ صُورِ اشیا [مختلف چیزوں کی صورت میں فرق] معلوم کرلیتا ہے۔ لہٰذا ،ابتدا میں ظاہر اختلافات کی طرف اُسے توجہ دلانی چاہیے، مثلاً: دو چیزیں ایک گیند اور ایک پہلودار شے اس کے سامنے رکھ دو اور دونوں کے اختلافات مندرجہ ذیل طور سے بیان کرو:
ان نمایاں اور ظاہری اختلافات کا علم دے چکنے کے بعد ، کسی اور شکل کی شے پیش کرو اور علیحدہ علیحدہ گیند اور پہلودار شے سے اس کا مقابلہ کرکے باریک باریک اختلافات واضح کرو۔
۱۰- قواے عقلیہ، مثلاً تصدیق اور استدلال کا کمزور ہونا۔ بچے سے ایسی فہمید [سمجھ]کی توقع نہ رکھو، جو ابھی تجربے اور علم سے بڑھنی ہے۔ ان قوا کے مدارج ترقی کا لحاظ استاد کے لیے نہایت ضروری ہے۔ دو عام اشیا اُس کے سامنے رکھو اور اُن کے بڑے بڑے اختلافات بیان کرو۔ اسی طرح مقابلہ کرتے کرتے تصدیق پیدا کرو۔ مگر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ تصدیق بغیر تصورات کے محال ہے، کیوں کہ یہ اصل میں دو تصوّرات کے مقابلہ کرنے سے پیدا ہوتی ہے، جو خود مختلف مدرکات کا مقابلہ کرنے سے پیدا ہوتے ہیں، مثلاً: بہت سے افرادِ نوعِ انسان کا مقابلہ کرنے سے ان میں بعض مشترک اوصاف معلوم ہوتے ہیں، جن کے اشتراک کی وجہ سے ہم ان سب افراد کو ایک مشترک اور [سب کے لیے مناسب] نام دے دیتے ہیں، جو ہر فرد پر صادق آتا ہو۔ پس، معلوم ہوا کہ بچے سے ایسے تصوّرات کے علم کی توقع نہیں رکھنی چاہیے، جس کے ضمنی مدرکات [ذیلی]کا علم ہی اُس کو نہیں ہے۔ ایک برس کے بچے کو کیا علم کہ ’حُب ِ وطن‘ کس جانور کا نام ہے؟ ہمارے بعض معلم، بچے کے ہاتھوں میں ایسی ابتدائی کتابیں رکھ دیتے ہیں، جن کا پہلا باب، مثلاً: ’خدا کی صفات‘ سے شروع ہوتا ہے۔ مگر انھیں یہ معلوم نہیں کہ خدا ایک ایسا مجرد تصور ہے، جو قواے عقلیہ کی حدِکمال پر پہنچنے اور بہت سا علم حاصل کرنے کے بعد حاصل ہوتا ہے اور صفاتِ شے کا اُس شے سے علیحدہ تصور کرنا ایک ایسا فعل ہے، جو بچے سے کسی صورت میں ممکن ہی نہیں ہے۔ لہٰذا، اس قسم کا علم دینا ممکن ہے کہ بعض وجوہ سے اچھا ہو،مگر علمی اصولوں کی رُو سے بچے کے حافظے پر ایک بے جا اور غیرمفید بوجھ ڈالنے سے زیادہ نہیں ہے۔
۱۱- آخری خاصّہ بچے کا یہ ہے کہ اخلاقی محرکات سے یا تو بچہ متاثر ہی نہیں ہوتا، یا اگر ہوتا ہے تو نہایت اقل [تھوڑے یا معمولی] درجے پر۔ کیوں کہ اس قسم کی تحریکوں سے متاثر ہونا اور اس اثر کو عملی زندگی کے دائرے میں ظاہر کرنا، ایک ایسا امر ہے کہ جو اعلیٰ درجے کی تعلیم و تربیت کا نتیجہ ہے۔ معلّموں کا فرض ہے کہ ابتدا سے ہی بچے میں اخلاقی تحریکوں سے متاثر ہونے کی قابلیت پیدا کرنے کی کوشش کریں، مثلاً: شروع سے ہی اُن کو ہمدردی کرنا سکھائیں اور نیز اس امر کی طرف پوری توجہ دیتے رہیں کہ بچہ اپنے سبق کے متعلق ضروری ترتیب کا لحاظ رکھے، کیوں کہ امن اور صلح کاری کی عادت انھی چھوٹی چھوٹی باتوں سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ نفسِ ناطقہ قوا کا ایک مجموعہ نہیں ہے، بلکہ یہ اپنی ذات میں ایک واحد غیرمنقسم شے ہے اور اس کی ہر ایک قوت کا نشوونما ہر دوسری قوت کے نشوونما پر منحصر ہے۔ جس طرح جسمانی اعضا تناسب کے اصولوں کے مطابق بڑھتے ہیں، اسی طرح نفسِ ناطقہ کی قوا کا نشوونما بھی انھی اصولوں کے تحت ہے۔ لہٰذا، طریق تعلیم کامل وہی ہوگا، جو نفسِ ناطقہ کے تمام قوا کے لیے یکساں ورزش کا سامان مہیا کرے۔ ادراک، تخیل، تاثر اور مشیت، غرض یہ کہ نفسِ ناطقہ کی ہرقوت تحریک میں آنی چاہیے، کیوں کہ کامل طریقِ تعلیم کا منشا یہ ہے کہ نفسِ ناطقہ کی پوشیدہ قوتیں کمال پذیر ہوں، نہ یہ کہ بہت سی علمی باتیں دماغ میں جمع ہوجائیں۔
مندرجہ بالا سطور سے واضح ہوگیا ہوگا کہ ایک عمدہ اور مضبوط تعلیمی بنیاد رکھنے کے لیے بچے کے نشوونما کا مطالعہ کہاں تک ضروری ہے۔
معلّم حقیقت میں قوم کے محافظ ہیں، کیوں کہ آیندہ نسلوں کو سنوارنا اور ان کو ملک کی خدمت کے قابل بنانا انھی کی قدرت میں ہے۔ سب محنتوں سے اعلیٰ درجے کی محنت اور سب کارگزاریوں سے زیادہ بیش قیمت کارگزاری ملک کے معلّموں کی کارگزاری ہے۔ اگرچہ بدقسمتی سے اس ملک میں اس مبارک پیشے کی وہ قدر نہیں جو قدر ہونی چاہیے۔ معلّم کا فرض تمام فرضوں سے زیادہ مشکل اور اہم ہے ،کیوں کہ تمام قسم کی اخلاقی، تمدنی اور مذہبی نیکیوں کی کلید اسی کے ہاتھ میں ہے، اور تمام تر ملکی ترقی کا سرچشمہ اسی کی محنت ہے۔ پس، تعلیم پیشہ اصحاب کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے پیشے کے تقدس اور بزرگی کے لحاظ سے اپنے طریق تعلیم کو اعلیٰ درجے کے علمی اصولوں پر قائم کریں، جس کا نتیجہ یقینا یہ ہوگا کہ اُن کے دم قدم کی بدولت علم کا ایک سچا عشق پیدا ہوجائے گا، جس کی گرمی میں وہ تمدنی اور سیاسی سرسبزی [سیاسی صحت مندی] مخفی ہے جس سے قومیں معراجِ کمال تک پہنچ سکتی ہیں۔
علامہ اقبال کی شاعری اور ان کی شخصیت سے بدوِ شعورہی سے متاثر تھا۔ یہ واقعہ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ یہ تاثر طویل مدت گزرنے کے بعد آج بھی دل پر نقش ہے۔ جب اقبال کی یہ غزل ؎
کبھی اے حقیقتِ منتظر ، نظر آ لباسِ مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں ، مری جبینِ نیاز میں
میری نظر سے گزری تو ایسا محسوس ہوا جیسے میں فکرو سخن کی نئی دنیا میں آ گیا ہوں۔ یہ آہنگ ہی دوسرے شعرا کی صدائوں سے ممتاز اور یہ لَے ہی دوسروں کی لَے سے نرالی ہے۔ اس کے بعد اقبال کا کلام جس رسالے اور اخبار میں نظر آ جاتا ، شوق وعقیدت کے ساتھ پڑھتا !
شاعری کے آغاز کے بعد دوسرا دور وہ آیا کہ میرا کلام پرچوں میں چھپنے لگا۔ روزنامہ سیاست لاہور سے نکلتا تھا۔ اس اخبار کی اچھی خاصی شہرت اور مقبولیت تھی۔ سیّد حبیب جلال پوری اس کے ایڈیٹر تھے۔ میری غزلیں سیاست اخبار میں شائع ہوتی تھیں۔ میں نے سیّد حبیب جلال پوری کو خط لکھا کہ: ’’ڈاکٹر صاحب کا پتا مطلوب ہے اور ہاں، یہ بھی لکھیے کہ ان کو خط لکھا جائے، تو کیا وہ جواب دینے کی زحمت گوارا فرمائیں گے؟‘‘ میرے خط کے جواب میں انھوں نے اقبال کا پتا لکھا، محلے کا نام غالباً’قلعہ گوجر سنگھ‘ تھا [سیّد حبیب نے ’انارکلی‘ یا ’میکلوڈ روڈ لکھا ہوگا۔ ادارہ]، اور یہ بھی تحریر فرمایا کہ علامہ اقبال کا جواب دینا نہ دینا تو مکتوب کی نوعیت پر منحصر ہے ۔
گائوں کی سادہ زندگی تھی۔ ’رائٹنگ پیڈ ‘ وغیرہ کے تکلفات سے وہاں کی معاشرت یکسر ناآشنا تھی۔ میں نے اللہ کا نام لے کر جوابی کارڈ لکھ دیا جس میں علامہ مرحوم سے درخواست کی کہ آپ کی شاگردی کا شرف حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ اقبال نے ہاتھ کے ہاتھ جواب دیا، افسوس ہے وہ تحریر میری غفلت اور بے پروائی کے سبب ضائع ہو گئی ۔ چھے سات سطروں کا خط تھا۔ جس کا خلاصہ یہ تھا: ’’ شاعری کے لیے کسی تلمذ کی ضرورت نہیں ہے ، البتہ زبان کی درستی کے لیے اس کی ضرورت پیش آتی ہے اور آپ خود یوپی کے رہنے والے ہیں‘‘۔
میری جگہ کوئی دوسرا ہوتا تو اس جواب سے شاید دل شکستہ ہو جاتا مگر اقبال کے اس جوا ب کو پڑھ کر میرے قلب نے ذرا برابر ناگواری محسوس نہیں کی۔ دل مطمئن تھا کہ اُن کے کلام سے کسی واسطے کے بغیر استفادہ کرتا رہوں گا اور عقیدت ومحبت کی دنیا میں بُعد ِ مکانی نامعتبر ہے کہ اصل اعتبار تو قرب روحانی کا ہے۔
میں سوچتا تھا کہ علامہ اقبال ہمارے نواح میں تشریف لے آئیں تو ان کے دیکھنے کا ارمان پورا کر لوں۔ یہ تمنا دل ہی دل میں پرورش پاتی رہی یہاں تک کہ میں چار پانچ سال حیدر آباد دکن رہ کر بجنور چلا آیا۔ بجنور سے اخبار مدینہ نکلنا شروع ہوا تھا۔ اس کی ادارت سے میں متعلق تھا۔ ملک نصراللہ خاں عزیز مدیر مسئول تھے۔ انھی دنوں ۱۹۳۳ء میں میرا بدایوں جانا ہوا ۔ مولانا عبدالقدیر بدایونی مرحوم نے فرمایا کہ: ’’دہلی میں بڑے پیمانے پر’ مسلم کانفرنس ‘ ہو رہی ہے۔ اس میں علامہ اقبال بھی آ رہے ہیں، چلو تم بھی چلو !‘‘ اقبال کی آمد کی خبر سن کر میں دہلی چلنے کے لیے فوراً تیار ہوگیا۔
دہلی پہنچ کر ہم مولانا مظہر الدین مرحوم مدیر الامان کے یہاں ٹھیرے۔ صبح سویرے جلسہ گاہ پہنچے۔ نئی دہلی کے ایک ہوٹل میں یہ اجتماع تھا اور سر محمد یعقوب جو ان دنوں مرکزی اسمبلی کے ڈپٹی پریذیڈنٹ تھے، اس اجتماع کے کنونیر تھے ۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ کہ علی برادران تو نہرو رپورٹ کی اشاعت کے بعد ہی کانگریس سے علاحدہ ہو چکے تھے ، بعض مسلم اکابر تذبذب کی حالت میں تھے کہ کیا کریں کیا نہ کریں ۔ پھر بھی مسلمانوں کی اکثریت کانگریس کے ساتھ تھی ۔ مسلم لیگ برسوں کی بنی بنائی موجود تھی مگر بے روح اور جامد تھی اور اس دور کے مسلم عوام میں مقبول نہ تھی۔
اس اجتماع میں اکثریت غالب مسلمان وزیروں ، سروں اور خان بہادروں کی تھی مگرمیری نگاہیں اقبال کو ڈھونڈ رہی تھیں ۔ میں نے انھی کو دیکھنے کے لیے یہ شدّرِحال [یعنی: سفر کے لیے تکلیف اُٹھانا، کمربستہ ہو جانا]کیا تھا۔ دفعتاً ہوٹل کے برآمدے میں حرکت سی محسوس کی گئی ، جیسے کسی نے بجلی کے تار کو چھیڑدیا ہو۔ کیا دیکھتا ہوں کہ اقبال چلے آ رہے ہیں۔ رسالوں میں بارہا ان کے فوٹو دیکھے تھے، اس لیے پہچاننے میں ذرا بھی توقف نہیں ہوا۔ وہ ان کا بادامی رنگ کا کوٹ ، وہ ان کی شکن آلود سی پتلون ، اَبرووں سے متانت و وقار نمایاں اور چہرے پر عالمانہ تفکر کا ظہور۔ اس جلسے میں وزرا تھے، نواب اور خان بہادر تھے مگر مجھے کسی سے دل چسپی نہ تھی، میری دل چسپی اور توجہ کا مرکز اقبال کی شخصیت تھی۔
پہلے اجلاس کے بعد کھانا کھانے اور ظہر کی نماز پڑھنے کے لیے وقفہ ہوا۔ قریب ہی سر محمد یعقوب مرحوم کی کوٹھی تھی، وہاں کھانے کا انتظام تھا۔ اتفاق بلکہ حُسنِ اتفاق کہ مجھے جو نشست ملی، وہ اقبال کی نشست کے بالکل سامنے تھی ! اس فرصت کو میں نے غنیمت جانا ع
دو اڑھائی بجے دوسرا سیشن شروع ہوا اور تلاوتِ قرآن کے بعد صدر صاحب جو کرسی پر بیٹھے ، تو ایک صاحب نے کرسی کھینچ لی اور صدر چاروں شانے چت زمین پر دراز ہو گئے۔ جلسہ گاہ میں خاصہ ہنگامہ ہو گیا۔ دلّی کے کوئی متمول لیڈر تھے، غالباً عبداللہ آٹے والے۔ انھوں نے اپنے کسی حریف کے دو چار گھونسے بھی رسید کیے ! بڑی مشکل سے یہ ہنگامہ فرو ہوا۔ بعض لوگوں نے تقریریں کر کے حاضرین کی اسلامی غیرت سے اپیل کی کہ ہندواخبارات اس ہنگامے کو کس کس طرح اُچھالیں گے اور پڑھنے والے ہم مسلمانوں کے اس اجتماع کے بارے میں کیا راے قائم کریں گے۔
گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کے انتشار اور افرا تفری کے بعد جلسے کی کارروائی تو شروع ہو گئی مگر آخر وقت تک بد مزگی باقی رہی۔ چہروں سے خشونت کے ساتھ ندامت کی بھی تراوش ہو رہی تھی۔
عصر کے قریب یہ اجلاس ختم ہوا۔ مولانا عبدالقدیر بدایونی مرحوم کو اچھی طرح معلوم تھا کہ میں اقبال کے دیکھنے کے لالچ اور ان سے ملنے کو شوق میں دلّی چلا آیا ہوں۔ اس کا نفرنس کے مقاصد سے مجھے کوئی دل چسپی نہ تھی۔ انھوں نے موٹر کار منگوائی اور مجھے لے کر مولوی محمد شفیع داؤدی ممبراسمبلی کی قیام گاہ پر پہنچے ۔ اقبال جلسہ گاہ سے اُٹھ کر وہیں تشریف لے گئے تھے۔
اگر میں یہ کہوں کہ مولانا مرحوم نے اقبال سے میرا تعارف کرایا، تو یہ چھوٹا منہ بڑی بات ہوگی۔ علامہ اقبال سے میرا تعارف اور وہ بھی اس زمانے میں جب میں کسی تعارف کے قابل ہی نہیں تھا___ مگر علامہ اقبال کی عالی ظرفی دیکھیے ۔ مجھ سے مخاطب ہو کر فرمانے لگے:
’’جب میں حیدر آباد گیا تو آپ سے ملاقات نہیں ہوئی‘‘۔ میں نے عرض کیا کہ میں اس وقت تک حیدر آباد دکن نہیں گیا تھا، آپ کی تشریف آوری کے بعد وہاں پہلی بار جانا ہوا۔
اُس کے بعد چائے نوشی ہوئی۔ اقبال کے ساتھ اس ہم نشینی اور چائے نوشی پر میں نے محسوس کیا کہ جذبۂ فخرومسرت مجھے پھیلا رہا ہے۔ باتوں باتوں میں ایک صاحب نے اقبال سے پوچھا کہ آج کی کانفرنس میں جو ہنگامہ برپا ہوا، اس کے بارے میں آپ کے کیا تاثرات ہیں؟
علامہ اقبال نے چائے کی پیالی اُٹھاتے ہوئے جواب دیا : ’’ترکی کی پارلیمنٹ میں تو پستول چل جاتے ہیں‘‘۔ پھر کسی کو اجلاس کے بارے میں کچھ پوچھنے کی ہمت نہ ہوئی ۔
یہ وہ زمانہ تھا کہ علامہ اقبال اعتدال پسند مسلمانوں کے جلسوں کی صدارت بھی کیا کرتے تھے۔ اُن کی سیاست کانگریس کی ہنگامہ آرا سیاست کے مقابلے میں معتدل اور نرم سیاست تھی۔ اُسی نشست میں دو صاحبوں نے علامہ اقبال سے ایک ہی تاریخ میں دو مختلف مقامات پر جلسوں کی صدارت کی درخواست کی ، ان میں ایک مولوی صاحب فرخ آباد کے رہنے والے تھے۔
دونوں دعوت دینے والوں کا اصرار تھا کہ علامہ ہمارے یہاں جائیں ، اس پر بحث ہونے لگی۔ تیسرے صاحب نے اقبال سے کہا کہ آپ کہاں جانا چاہتے ہیں، فرمایا:’’یہ دونوں اس کافیصلہ کر لیں ___ رہا میرا معاملہ تو میں تو کھڑا کھیل فرخ آبادی کھیلنے کو پسند کرتا ہوں ‘‘ ۔
اس پر سب مسکرا دیے ، مگر مزاحیہ جملے نے فیصلہ بھی سُنا دیا کہ علامہ اقبال کا رجحان کس مقام اور شہر کی طرف ہے۔
علامہ اقبال سے میری یہ پہلی اور آخری ملاقات تھی ___آہ !
روے گُل ، سیر نہ دیدم و بہار آخر شد
اس کے بعد نا جانے کتنے بڑے بڑے آدمیوں سے یہاں تک کہ باد شاہوں تک سے ملا ہوں، مگر اقبال کے ساتھ جو چند لمحے گزرے ہیں، اس کے نقش کسی ملاقات سے دب نہیں سکے۔[ہفت روزہ شہاب، لاہور، ’اقبال نمبر‘، ۲۴؍اپریل ۱۹۶۰ء]
جس طرح نبیوں کی منصبی ذمہ داری یہ رہی ہے کہ وہ اپنی قوم تک خدا کا پیغام پہنچائیں، اسی طرح خدا کے آخری نبی حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی منصبی ذمہ داری یہ تھی کہ ساری انسانیت تک حق کا پیغام پہنچائیں اور راہِ راست سے باخبر کریں۔ آپؐ نے اپنی زندگی میں بغیر کسی فرق وامتیاز کے اس فرضِ منصبی کو ادا فرمایا، اور آپؐ کی زندگی ہی میں ۱۰لاکھ مربع میل پر دین اسلام قائم ہوگیا۔ آپؐ نے نہ صرف یہ کہ اپنے زمانے کے لوگوں کی ہدایت کی فکر کی بلکہ روزِ قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں کی ہدایت کی فکر بھی آپؐ کو دامن گیر تھی۔ آپؐ نے اپنے پیچھے جو امت چھوڑی اس کی منصبی ذمہ داری بھی یہی قرار دی کہ وہ سارے عالم کی پاسبان ہو اور اس کی پوری کوشش یہ ہو کہ دنیا حق کے پیغام سے بے خبر نہ رہے۔ آپؐ نے مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا: انتم شہداء اللہ فی الارض، ’’تم زمین میں اللہ کے گواہ ہو‘‘۔ یہ بات تین بار آپؐ نے فرمائی۔
اللہ رب العزت نے امت مسلمہ کو جس منصب پر فائز کیا ہے اس سے بلند مقصد کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ قرآن میں کہا گیا ہے کہ تمھیں صرف اپنے لیے نہیں بلکہ سارے عالم کے لیے برپا کیا گیا ہے۔ اس میں رنگ ونسل اور ملک کی کوئی قید نہیں ہے۔ قرآن حکیم میں اہل ایمان کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ تمھیں ہم نے ’بہترین اُمت‘ بنایا ہے تاکہ تم سارے ہی انسانوں پر گواہ رہو، اور ان کے سامنے حق کو اسی طرح پیش کرو جس طرح خدا کے نبی ؐنے تمھارے سامنے حق کو بے کم وکاست پیش فرمایا ہے۔ (البقرہ ۲:۱۴۳)
اُمت مسلمہ ایک داعی امت ہے۔ اس کے پاس ایک دائمی اور آفاقی پیغام ہے، جو سراپاخیر ہے اور جس میں انسانوں کا مال دار طبقہ ہو یا نادار، جن کی بنیادی ضرورتیں بھی پوری ہونی مشکل ہورہی ہوں، خیرخواہ ہو یا بدخواہ، دوست ہو یا دشمن، صلح جُو ہو یا برسرپیکار، قوی ہو یا کمزور، عورت ہو یا مرد، بچہ ہو یا بوڑھا، سب کی رعایت کی گئی ہے اور سب کے حقوق کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ اسلام کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تعلق اصلاً صرف ظاہری زندگی ہی سے نہیں بلکہ انسان کی روحانی اور باطنی زندگی سے بھی ہے۔ اس دین میں پاکیزگی اور نظافت کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اس کا مزاج حیا سے زیادہ لطیف ہے۔ بھلائی اور خیر اس کا عنوان ہے۔ چنانچہ دین کو ’نصح‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ انسان کی زندگی میں ایک ایسا انقلاب آئے جو اس کی فکر کو آفاقی فکر بنادے اور ہر طرح کی تنگ دامانیوں اور خودغرضی کی گندگیوں سے اسے نکال دے، اور وہ یہ سمجھ جائے کہ سارے انسان باہم ایک دوسرے کے اعضا کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہم دنیا اور اہل دنیا کو اپنی تنگ نگاہوں سے نہیں بلکہ حکیم و ودود، حی وقیوم خدا کی نگاہ سے دیکھنے لگیں۔ ہمارے قلب اتنے وسیع ہوجائیں کہ آسمان کو بھی اپنا دامن تنگ نظر آنے لگے۔
قرآن میں ہے کہ سارے انسان ایک گروہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ باہمی عناد، دشمنی اور بُغض، یہ شیطان کے لگائے ہوئے پودے ہیں۔ حضوؐر نے بھی انسانوں کو بھائی بھائی قرار دیا ہے۔ بھائی، بھائی کا خیرخواہ ہوتا ہے بدخواہ نہیں۔ بھائی کی ترقی سے بھائی کو خوشی ہوتی ہے رنج نہیں۔ دوسروں کی دولت و ثروت کو دیکھ کر خوشی محسوس کرنا سب سے بڑی سخاوت ہے۔ انسان کی بنیادی ضرورتیں پوری ہوں اور وہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے سے غافل نہ ہو، دنیا کی زندگی میں یہی کافی ہے۔ آرزوئیں، تمنائیں اور بڑی بڑی خواہشات جو انسان کے اندر پائی جاتی ہیں، آخرت انھی کی تعبیر ہے۔
اسلام کی یہ تعلیمات اور اس کا یہ پیغام ایسا ہے کہ دنیا کو سب سے زیادہ اسی کی ضرورت ہے، اور یہ ضرورت وہی لوگ پوری کرسکتے ہیں جو اس دین کے حامل ہیں، جو خدا کا نازل کردہ دین ہے اور جن کے پاس دین حق اور خدا کی کتاب مستند شکل میں موجود ہے۔
ہر مسلم شخص کی حیثیت منصب کے لحاظ سے داعی کی ہے۔ دعوتی کام فرض عین ہے۔ اسے فرض کفایہ سمجھنا غلط ہے، جیساکہ مجدد الف ثانیؒ نے فرمایا تھا۔ دورِ اول میں مسلمانوں کے اندر دعوتی جذبہ بخوبی پایا جاتا تھا۔ وہ جہاں بھی گئے، خواہ تجارت ہی کے لیے گئے ہوں،اپنے ساتھ دعوت حق کو لے کر گئے اور انھوں نے لوگوں کو اس سے روشناس کرایا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ہرگوشے میں دینِ حق کا نام لینے والے موجود ہیں۔ بعد کے دور میں، جب کہ مسلمانوں کی تعداد اچھی خاصی ہوگئی تو ایسا لگتا ہے کہ وہ اس بات کو بھول گئے کہ ان کی عزت اور عظمت کا اصل تعلق اس منصب سے ہے جس پر اللہ نے انھیں فائز کیا ہے۔ مسلمانوں میں چھوٹی بڑی کتنی تحریکیں اٹھیں اور کتنی تنظیمیں پائی جاتی ہیں، لیکن ان کے دستور میں فرضِ منصبی ’دعوت‘ کا کوئی ذکر ہی نہیں ملتا، الاماشا اللہ۔ پھر بھی اسلام اپنی قوت اور جاذبیت سے لوگوں کو اپنی طرف کھینچتا رہا ہے اور سعادت مند روحیں اسلام سے مستفید ہوتی رہی ہیں۔ اس تحریر میں پاک و ہند میں اشاعت اسلام کی تاریخ کا ایک مختصر جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ہمارے اندر یہ دعوتی جذبہ اُبھرے اور کبھی سرد نہ پڑے۔
اسلام کا پیغام خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں جزیرئہ عرب سے باہر دوسرے ملکوں میں پہنچنا شروع ہوگیا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود قیصر وکسریٰ کو دعوتی خطوط روانہ فرمائے تھے۔ دنیا سے آپؐ کو رخصت ہوئے کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ اسلام دنیا کے ایک بڑے حصے پر چھا گیا اور اس کا پیغام دوردراز علاقوں تک پہنچ گیا۔ جہاں تک ہندستان کا تعلق ہے خود حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو اس ملک سے خصوصی دل چسپی تھی اور آپؐ چاہتے تھے کہ یہ ملک دین حق کی برکات سے محروم نہ رہے۔ چنانچہ آپؐ نے ان لوگوں کو بشارت دی جو ہندستان میں دعوت حق کے پہنچانے کی عظیم ذمہ داری ادا کریںگے۔ حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میری امت کے دو گروہوں کو اللہ نے جہنم کی آگ سے محفوظ رکھا ہے۔ ان میں سے ایک جماعت وہ ہے جو ہندستان کے غزوے میں شریک ہوگی‘‘۔(نسائی)
حضرت علیؓ نے ۳۰ھ میں حضرت حارث بن مرہ عبدیؓ کو اس کی اجازت دی کہ وہ رضاکاروں کی جماعت لے کر ہندستان کا رخ کریں۔ حضرت معاویہؓ کے عہد میں ۴۴ھ میں حضرت مہلب بن ابی صغرہؓ نے بھی ہندستان کارخ کیا تھا۔ حضرت مہلبؓ نے دریاے سندھ کو پار کرکے ملتان تک فتح کرلیا تھا۔ اسی لیے بعض تاریخ کی کتابوں میں انھیں ہندستان کا فاتحِ اول کہا گیا ہے۔
۹۹ھ میں حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ خلیفہ ہوئے۔ انھوں نے ہندستان کے راجائوں کو خطوط لکھے۔ ان خطوط میں انھیں اسلام لانے کی دعوت دی گئی اور انھیں اسلام کی خوبیوں سے واقف کرایا گیا۔ بہت سے لوگ ایمان بھی لائے۔ آپ نے عمر بن مسلم باہلی کو سندھ کا گورنر مقرر کرکے بھیجا اور تمام راجائوں کو خط تحریر فرمایا۔ خط کا مضمون یہ تھا:
تم اسلام قبول کرلو اور بت پرستی کی ظلمت سے نکل آئو۔ اگر تم مسلمان ہوتے ہو تو تمھیں تمھاری ریاست پر بدستور قائم رکھیںگے۔ تمھاری خطائیںمعاف کردیںگے اور تمھارے ساتھ ہمارا سلوک سب مسلمانوں جیسا ہوگا اور تمھیں اپنا بھائی سمجھیںگے۔
جب یہ خطوط رئوساے ہند کے پاس پہنچے تو سب سے پہلے ابن داہر نے اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کیا۔ اس کے بعد دوسرے راجائوں نے بھی جو عام طورپر اس کے رشتے دار تھے، اسلام قبول کرلیا۔
حجاج نے محمدبن قاسم کو لشکر کے ساتھ سندھ روانہ کیا۔ محمد بن قاسم کی عمر اس وقت صرف ۱۷سال تھی لیکن وہ بڑی سوجھ بوجھ کے مالک تھے۔ محمد بن قاسم سندھ جاتے ہوئے، سپرستان کے علاقے سے گزرے تو چناقوم نے اپنے ایک آدمی کو بھیجا کہ وہ چھپ کر مسلمانوں کے حالات سے واقفیت بہم پہنچائے۔ وہ جب اسلامی لشکر کے قریب آیا تو اس وقت محمد بن قاسم نماز کے لیے صفیںدرست کرا رہے تھے۔ اسلامی لشکر نے ان کی امامت میں نماز ادا کی۔ چنا قوم کے آدمی نے بچشم خود جو کچھ مشاہدہ کیا واپس جاکر بے کم و کاست اپنی قوم سے بیان کیا۔ قوم پر اس کا غیرمعمولی اثر ہوا۔ اس قوم کے لوگ اسلام قبول کرنے کے ارادے سے محمد بن قاسم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
محمد بن قاسم کے زمانے سے ہندستان میں مسلمانوں کی فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا۔ سب سے پہلے انھوں نے سندھ کو فتح کیا۔ یہاں کے لوگوں میں اعلان کرادیا کہ تم سب آزاد ہو، تمھیں کسی قسم کی تکلیف نہیں دوںگا، کسی کے مذہب میں کسی قسم کی دست درازی نہیں کی جائے گی۔ محمدبن قاسم نے حجاج کی نصیحت کو اپنے پیش نظر رکھا۔ حجاج نے کہا تھا:’’ہر ایک کو کلمۂ اسلام کی دعوت دینا اور جو کوئی مشرف بہ اسلام ہوجائے اس کی تربیت کا نظم کرنا‘‘۔
قیامِ حکومت کے ساتھ ساتھ محمد بن قاسم دعوت حق کے فرائض انجام دیتے رہے۔ تربیتی ادارے، مساجد اور مدارس بھی قائم کیے۔ محمد بن قاسم نے الور میں مدرسے کے علاوہ دارالقضا بھی قائم کیا تھا۔ دیبل کی فتح ۵۳ھ کے بعد وہاں چار ہزار مسلمانوں پر مشتمل ایک بستی آباد کی گئی۔ ایک مسجد کی تعمیر بھی ہوئی۔ یہ چار ہزار افراد حقیقت میں چار ہزار مبلغینِ اسلام تھے۔
محمد بن قاسم کا اتنا اچھا اثر تھا کہ جب وہ سندھ سے رخصت ہونے لگے تو مسلمان ہی نہیں ہندو بھی ان کی جدائی پراشک بار ہوگئے اورکہا کہ ’’آپ جیسا مہربان فاتح کبھی بھی نصیب نہیں ہوا۔ ہم آپ کے محاسن کو ہمیشہ یاد رکھیںگے‘‘۔ انھوں نے محمد بن قاسم کی یاد میں ایک دھرم شالہ بھی تعمیر کیا۔ کچھ ہندوئوں اور بودھوں نے محمد بن قاسم کا بت بناکر اس کی پرستش بھی شروع کردی۔
راجا سامری (زمورن) مسلمان ہوگیا لیکن اس نے اپنے ایمان کو مخفی رکھا۔ راجا عرب گیا، عرب ہی میں انتقال ہوا۔ مرتے وقت اس نے تاکید کی کہ ہم سبھی کا مقصد اسلام کی اشاعت ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ آپ لوگ مالابار اپنا تجارتی سفرجاری رکھیں، وہاں قیام کریں، مکان بنائیں اورلوگوں کو دین حق کی طرف متوجہ کریں۔ راجا نے اپنی زبان میں خطوط بھی لکھ کر عرب تاجروں کے حوالے کیے۔ جب انھوں نے وہ خطوط مالابار کے حاکم کو دکھائے تو وہ مہربان ہوگیا۔ اس طرح اشاعت اسلام کی راہ یہاں ہموار ہوئی اورمسلمانوں نے کولم، گرنگانور، کالی کٹ، منگلور، کاسہ کوڈ وغیرہ کئی مقامات پر مساجد تعمیر کیں۔
مدراس اور مالابار کے اطراف میں جو لوگ بستے تھے وہ ویدک یا برہمنی مذہب کے پیرو نہیں تھے۔ ان کی اکثریت ہندستان کے قدیم باشندوں پر مشتمل تھی جن کو آریوںنے اس علاقے میں پناہ لینے پر مجبور کیا۔ مالابار اور اس کے اطراف میں جو پرانی قوم آباد ہے، وہ نائر کہلاتی ہے۔ اس کے پاس اپنا کوئی باقاعدہ مذہب نہ تھا۔ ہندو اسے حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ اسلام میں انھوںنے اپنی عزت محسوس کی اور تیزی سے یہ قوم اسلام کی طرف بڑھی۔ یہ پورا علاقہ اسلام کے دائرے میں داخل ہوجاتا اگر یہاںپرتگیز نہ پہنچتے۔ پرتگیزوں نے عربوں کی تجارت کا راستہ بند کردیا اور یہاں کے لوگوںکو مجبور کیا کہ وہ عرب اور مصر سے اپنے تعلقات منقطع کرلیں۔ عرب سے ہندستان کے ساتھ تجارتی تعلقات اسلام سے پہلے سے چلے آرہے تھے۔ عرب تاجر خلیج فارس کی بندرگاہوں سے ہوتے ہوئے سندھ آتے تھے اور پھر سمندر کے کنارے کنارے کوکن اور گجرات کے ساحل سے گزر کر مدراس پہنچتے اور یہاںسے مشرقی بنگال اورآسام ہوکر چین کی طرف نکل جاتے تھے۔ راستے میں مالدیپ، سیلون، جاوا، سماترا، سنگاپور اور دوسرے جزائر کا بھی رخ کرتے تھے۔ پرتگیزوں نے مالابار اور اس کے اطراف میں اسلام کی اشاعت کی راہ میں بڑی رکاوٹ کھڑی کردی ورنہ اس علاقے کا نقشہ آج کچھ دوسرا ہوتا۔ عرب اور ایران کے سوداگروں کی کوشش سے گجرات اور دکن کا علاقہ پورا کا پورا مسلمان ہوجاتا۔ پندرھویں صدی عیسوی کی ابتدا میں مالابار کی کل آبادی کا پانچواں حصہ مسلمان تھا۔ شیخ شریف بن ملک کے اثر سے بھی مالابار کے ایک راجا نے اسلام قبول کیا تھا۔ یہ واقعہ دوسری صدی ہجری کا ہے۔
اس کے بعد یہاںاسلام کی اشاعت تیزی سے ہونی شروع ہوگئی۔ تاریخ فرشتہ کی رُوسے ہندستان میںاسلام کا پہلا مرکز سیلون ہے اور تحقیق کے لیے جو پہلا وفد عرب روانہ ہوا تھا اس کا تعلق بھی سیلون ہی سے تھا۔ عرب تاجروں کے قافلوں کی آمد کا ایک سلسلہ یہاں قائم ہوگیا تھا۔ لنکا کے راجا کو صحابہ کے عہد مبارک (۴۰ھ) ہی میں مسلمان ہونے کا شرف حاصل ہوا۔
جنوبی ہند کی ایک قوم (راوتسن) ہے۔ اس کی زبان تامل ہے اورآج کل یہ زیادہ تر مدادورہ، تنولی، کوٹمبٹو، شمالی اراکاٹ اورنیل گری کے اضلاع میں پائے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چند مبلغوں کی تلقین سے انھوں نے اسلام قبول کیا تھا۔ ان میں سب سے زیادہ مشہور سید نثار شاہ (۹۶۹ء-۱۰۳۹ء)تھے۔ موصوف نے ترچناپلی میں سکونت اختیار کی تھی۔ مسلمانوںنے ان کے نام پر ترچناپلی کا نام نثارنگر رکھا تھا۔ اس قوم کے لوگ ان مبلغوں کی قبروں کا آج تک احترام کرتے ہیں۔ ان مبلغوں میں سیّدابراہیم شہید بھی قابل ذکر ہیں۔ اس سلسلے میں شاہ حمید (۱۵۳۲ء -۱۶۰۰ء) کا نام بھی معروف ومشہور ہے۔ یہ شمالی ہند مانک پور میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے اپنی عمر کا بڑا حصہ دعوتی اسفار میںصرف کیا۔ آخر میں انھوںنے ناگور میں سکونت اختیار کرلی تھی۔ جنوبی ہند میں ایک قوم دودکلا ہے۔ اس قوم کا پیشہ کپاس صاف کرنا اور کپڑے بننا ہے۔ اس قوم کا بیان ہے کہ یہ قوم بابا فخرالدین کی تبلیغ سے اسلام میںداخل ہوئی۔
ہدایت کے لیے مدراس بھی چند بزرگوں کا رہین منت ہے جن میں سب سے زیادہ معروف ومشہور سیّدنثارشاہ ہیں، جن کا مزار چناپلی میںہے اور دوسرے بزرگ سید ابراہیم شہید ہیں، جن کامزار ارداری میں ہے۔ تیسرے بزرگ شاہ الحامد ہیں جن کا مزار ناگپور میں ہے۔ نیوگنڈہ کی طرف کی مسلم آبادی بالعموم اسلام لانے میں اپنے کو بابا فخرالدین کی رہین منت سمجھتی ہے۔ بابافخرالدین ہی کی شخصیت ہے جن کے ہاتھ پر وہاں کا راجا بھی مسلمان ہوا تھا۔
سید حسین سمنانی (م:۷۷۳ھ) شاہ شہاب الدین کے عہد میں کشمیر تشریف لائے۔ چودھویں صدی کے آخر میں سید علی احمد ہمدانی سات سیدوں کے ہمراہ ایران سے تشریف لاکر کشمیر میں سکونت پذیر ہوئے اوراسلام کی تبلیغ واشاعت میں لگ گئے۔ پندرھویں صدی کے آخر میں ایک شیعہ مبلغ شمس الدینؒ عراق سے آئے۔ ان کے ہاتھ پر بھی بہت سے ہندو ایمان لے آئے۔ کستوار کا راجپوت راجا سید شاہ فریدالدین کی کرامت سے متاثر ہوکر دائرئہ اسلام میںداخل ہوا۔ اس کی پیروی میں اس کی اکثر رعایا نے بھی اسلام قبول کیا۔ سیف الدین خاندانی برہمن حضرت سیدمیر محمد ہمدانی کے ہاتھ پر مسلمان ہوا۔ سید میرمحمد نے کشمیر میں مستقل سکونت اختیارکرلی تھی۔ ان کے اخلاق وکردار اورکرامات سے اس قدر لوگوں نے اسلام قبول کیا جس کی نظیر مشکل سے ملے گی۔
شیخ جلال الدین تبریزیؒ کے ایک مرید خاص شیخ علاء الدین علا الحق ہوئے ہیں۔ انھوں نے اپنے مرشد کے انتقال کے بعد رشد وہدایت کا سلسلہ جاری رکھا۔ ان کے ذریعے سے بہت سے لوگ حلقۂ بگوش اسلام ہوئے۔ شیخ علا الحق سے زیادہ اسلام کو فروغ ان کے صاحبزادے نورالحق کے ذریعے سے حاصل ہوا۔ آپ کی کوششوں سے بنگال میں اسلام کی کافی اشاعت ہوئی۔
ریاض السلاطین جوبنگال کی سیاسی تاریخ ہے، اس میں لکھا ہے کہ جب راجا گنیش تخت پر بیٹھا تو اس نے بہت سے علما ومشائخ کو قتل کرا دیا۔ اس کی کوشش یہ تھی کہ بنگال میں اسلام کی اشاعت نہ ہو۔ شیخ نورالحق نے جو ’نور قطب عالم‘ کے لقب سے مشہور ہوئے، جون پور کے بادشاہ ابراہیم شرفی کو مدد کے لیے لکھا۔ جون پور سے ایک بڑی فوج بنگال کے لیے روانہ ہوئی۔ راجاڈرا، اس نے شیخ سے سفارش کرانی چاہی۔ شیخ نے اسے اسلام کی تلقین کی۔ راجا تو نہیں مگر اس کی اجازت سے اس کا بیٹا جدومسلمان ہوگیا۔ فوج واپس ہوگئی۔ راجا گنیش کے مرنے کے بعد جدوسلطان جلال الدین ابومظفرشاہ کے نام سے تخت نشین ہوا۔ اس کے عہد میں بنگال میں کثرت سے اسلام پھیلا۔ حضرت نور قطب عالم کی وفات ۱۸۱۸ء مطابق ۱۴۱۵ھ میںہوئی۔ حضرت نور قطب کے بعد ان کے بیٹوں نے اسلام کی تبلیغ واشاعت کا کام جاری رکھا۔ ان میں سے شیخ حسام الدین نے اس سلسلے میں کارہاے نمایاں انجام دیے۔ یہ بزرگ صاحب ِتصانیف تھے۔
سیدشاہ فریدالدینؒ نے کستوار کے راجا کواسلام میںداخل فرمایا۔ اس کے ذریعے سے اس علاقے میں اسلام کی اشاعت ہوئی۔ یہ زمانہ عالم گیر کا ہے۔ ناسک میں اب تک حضرت محمدصادق سرمستؒ اورخواجہ اخوندمیر حسینیؒ کی برکتوں کا اعتراف کیا جاتا ہے۔ دھاڑواڑ کے لوگ اپنے اسلام کو حضرت شیخ ہاشم گجراتی کا فیض بتاتے ہیں۔ حضرت شیخ ہاشم، ابراہیم عادل شاہ کے مرشد تھے۔
بہت سے بزرگ محمودغزنوی کے ساتھ ہندستان آئے تھے۔ انھوں نے دعوت وارشاد کا کام ہندستان میں رہ کر کیا۔ ان داعیان میں ایک مشہور بزرگ شیخ ابوشکورسالمیؒ بھی تھے جو ابومحمدچشتیؒ کے حکم سے محمودغزنوی کے ساتھ ہندستان آئے۔ موصوف نے میو قوم کو اسلام کی دعوت دی اور اشاعتِ دین کی غرض سے ان کے درمیان سکونت اختیار کی۔ مخدوم علی ہجویری لاہوریؒ کے ہاتھ پر کثیرتعداد میں لوگ ایمان لائے جن میں سے رائے راجو کا ذکر خاص طور پر کیا جاتا ہے۔ آپ نے اسے شیخ ہندی کا لقب عطا فرمایا۔ خواجہ معین الدین چشتیؒ کا ذکر پہلے آچکا ہے۔ جوق درجوق لوگ آپ کے دست مبارک پر ایمان لے آئے۔ سیداحمد توختہ ترمذی نے لاہورکو اپنا وطن بنایا۔ آپ کے ذریعے سے ہزاروں اشخاص کو ایمان کی دولت حاصل ہوئی۔
میرے عزیز ہم وطنو اور نوجوانو! اللہ کی رحمتیں آپ پر ہوں جودو جہانوں کامالک ہے۔ وہ خداے ذوالجلال! جس نے نہتے کشمیریوں کو دُنیا کی بہت بڑی فوجی طاقت کے سامنے کھڑا ہونے کاحوصلہ دیا۔ وہ فوجی طاقت،بھارت جس نے ظلم و وحشت اور درندگی کو ہتھیار بنا کر ہماری مقدس سرزمین پر غاصبانہ قبضہ کررکھا ہے۔ یہ خداے مہربان کا فضل وکرم ہے جس نے نہتے، بہادر کشمیر ی عوام کی جرأت اور دلیری کے سامنے دشمن کے ہیبت ناک ہتھیاروں کو بے معنی بناکر رکھ دیا ہے اورآج کشمیری، متکبرہندوبادشاہت کی آہنی زنجیریں توڑ کر حصول آزادی کے حتمی مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں۔ ہماری جدوجہدِ آزادی کا یہ مرحلہ مکمل ہوا ہے ۔اس تاریخی مرحلے پر میں آپ کو سلام پیش کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے لازوال عزم وہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارت کی ہیبت ناک فوج کو نہتے ،خالی ہاتھوں عظیم شکست سے دوچار کردیا ہے۔ آج بھارت کے چہرے سے تمام نقاب اُترچکے ہیں۔ جمہوریت کا خوش نما نقاب،ترقی اور قانون کی حکمرانی کا نقاب بھارتی فوجیوں کے بوٹوں تلے روندے جارہے ہیں۔
میرے جوانو! آج ہمارے اورآزادی کے درمیان واحد رکاوٹ یہ بندوق بردار بھارتی فوجی ہیں، جواپنے محفوظ بنکروں میں خودکشیاں کررہے ہیں، جب کہ بھارتی ریاست ہمارے عزم وہمت کے سامنے لرز رہی ہے۔ اگرچہ ان کے پاس لاکھوں بندوقیں ہیں لیکن وہ ہمارے سچ کامقابلہ کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے کیونکہ کبھی بھی بندوقوں سے سچ کو قتل نہیں کیاجا سکا۔
اس دوران میں ہم نے اپنے لہو سے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ سچائی کابول بالا ہوتا ہے اور آزادی ہر بنی نوع انسان کا بنیادی حق ہے اورہم بھی آزادی کی منزل پا کر رہیں گے۔ ہرکشمیری مردوزن اورہمارے معصوم بچوں نے پوری دُنیا پر یہ واضح کردیا ہے کہ ہم سے زیادہ آزادی کا مستحق کوئی نہیںکہ آزادی کی منزل کبھی ایک لمحے کے لیے بھی ہماری نظر سے اوجھل نہیں ہوئی۔بھارت فوجی محاذ پر اپنی شکست کوچھپانے کے لیے کٹھ پتلی کشمیریوں کومیدان میں لایا ہے جو یہ بے بنیاد پروپیگنڈا کررہے ہیں کہ تحریک آزادی کے جاری باب کاانجام مایوسی اورشکست ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں، جنھوں نے اپنی روح بھارتی شیطانوں کے ہاتھ فروخت کردی ہے، جوہمیں بے حوصلہ اورکم ہمت بنانے کے لیے یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم ۱۰۰ دنوں سے جاری تازہ ترین جدوجہد میں کچھ حاصل نہیں کرپائے۔
موجودہ مرحلہ کئی عشروں سے جاری لازوال تحریک حریت کا تسلسل ہے ۔ان بھارتی کٹھ پتلیوں کے پاس کہنے کوکچھ بھی نہیں کہ انھوں نے ادنیٰ مالی مفادات کے لیے اپنی روحیں دشمن کے پاس گروی رکھی ہوئیں ہیں۔انھوں نے کشمیر کی خود مختاری کو قسطوں میں ادنیٰ مفادات کے لیے بھارت کے ہاتھوں بیچ دیا ہے۔ یہ لوگ اپنی خفت مٹانے کے لیے اس طرح کا بے بنیاد اور لغو پروپیگنڈا کررہے ہیں۔ کیوںکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ گذشتہ چند مہینوں میں وہ رہی سہی عزت و تکریم اور عوامی حمایت سے بھی بالکل محروم ہوچکے ہیں ۔
اب وہ بھارت کے اشارے پر اقوام عالم کی توجہ کشمیریوں کی تاریخی جدوجہدِ آزادی سے ہٹانے کے لیے علاقے میں جنگی جنون پیدا کررہے ہیں۔ یہ عناصر اپنے آپ کو دھوکا دے سکتے ہیں لیکن وہ اقوام عالم اورحریت پسند کشمیریوں کو گمراہ نہیں کرسکتے۔ ملتِ کشمیر پر یہ واضح ہوچکا ہے کہ بھارت کے ہاتھوں اپنی روح کا سوداکرنے والے مختلف ناموں سے حریت پسندوں کا مقابلہ کرنے میں ناکام ہوکر اب متحد ہورہے ہیں لیکن بھارت کا یہ پتلی تماشا بھی ناکام ونامراد ٹھیرے گا۔
غاصب ہندوفوج نے کشمیر کے صدیوں سے رائج تعلیمی نظام کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے لیکن ان ہتھکنڈوں سے ہماری نوجوان نسل کو جہالت کے اندھیروں میں نہیں دھکیلا جاسکتا۔ آج کشمیر کا گھر گھر علم کے نوراورحریتِ فکر کے چراغوں سے روشن ہے۔ تعلیم بُرے بھلے ،حق اورباطل میں تمیز سکھاتی ہے۔تعلیم حق کی راہ پر چلنے کا حوصلہ دیتی ہے۔تعلیم انصاف اورناانصافی کے درمیان تمیز سکھاتی ہے اور انصاف کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑاہونے کا سبق دیتی ہے۔تعلیم محض خواندگی نہیں، بے جان حروف کی پہچان اور شناخت نہیں۔ یہ تو ایسا نور ہے جو قلب و ذہن کومنور کرتا ہے، جو سچائی اور برائی میں فرق کرنا سکھاتا ہے، جو انسانی ضمیر کو زندہ وبیدار کرتا ہے، جوغلامی کی زنجیریں توڑنے کا حوصلہ بخشتا ہے۔ علم کا یہ نور اورجذبوں کی یہ شمعیں مایوسی کے اندھیروں کو تار تار کرکے رکھ دیتی ہیں۔ یہ کشمیر کی جدوجہدِ آزادی کی یادوں کے وہ روشن چراغ ہیں جنھوں نے ہماری راہیں منور کررکھی ہیں۔ یہ وہ روشنی ہے جو نوجوان لڑکوں اورلڑکیوں کی تاریک آنکھوں سے پھوٹ رہی ہے،جنھیں چھرّے والی بندوقوں سے نشانہ بناکر اندھا کردیا گیا تھا ۔
یہ ہے وہ روشنی جو ان تاریک عقوبت خانوں سے آرہی ہے جہاں ہمارے کشمیری نوجوان قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں۔ یہ روشنی جنت کے ان باغوں سے آرہی ہے جہاں ہمارے شہدا خداے مہربان کی نعمتوں سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ گذشتہ ۱۰۰ دنوں کے دوران ہم نے کئی نئے سبق سیکھے ہیں، جب کہ ہمارے بچوں نے عملاً یہ دیکھا ہے کہ بھارت کے کٹھ پتلی کشمیری کس قدر کھوکھلے ہیں کہ ان پر ان کے اہل خانہ بھی اعتبار کرنے کوتیار نہیں ۔
میرے عزیزو! تعلیم، جارح ہندو فاشسٹ کی غلامی کا نام نہیں اورنہ تعلیم مردہ ضمیری ہی کا سبق دیتی ہے۔ تعلیم تو نوجوانوں کو مصائب والم میں مبتلا کشمیری قوم کے لیے کھڑاہونے کا سبق دے رہی ہے ۔لعنت ہے ان لوگوں پر جو ہمیں تعلیم کے بہانے آداب غلامی سکھانا چاہتے ہیں لیکن ناکامی و نامرادی ان کا مقدر ہے۔ یہ سب کٹھ پتلی ضمیر فروش آج کیوں حریت فکر کے پروانوں، سنگ بدست جوانوں کو سلام عقیدت پیش کرنے پر مجبور ہیں۔ کیوںکہ وہ بھی اس حقیقت کو پاگئے ہیں کہ بچوں اورنہتے نوجوانوں کی لاشوں کے ڈھیر پر ان کا راج سنگھاسن زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتا۔ اب وہ زیادہ دیر معصوم کشمیریوں کے خون سے آلودہ تاج پہن کر سری نگر کے تخت پر بیٹھ کر بھارت کے ناجائز فوجی قبضے کی وکالت نہیں کر سکتے۔ ان کا کھیل تماشا اور ناٹک ختم ہونے کو ہے۔
کشمیر کے طول وعرض میں جاری طالب علموں کے مظاہرے بھارتی کٹھ پتلی سیاست دانوں کے منہ پر طمانچہ ہے ،جو نوجوان نسل کو ہتھیار بناکر جدوجہدِ آزادی کو کچلنے کاخواب دیکھ رہے تھے۔ آزادی کے نعروں پر مشتمل پلے کارڈ اُٹھائے طالب علم بھارتی فوج کو گلی کوچوںمیںکھلے بندوں چیلنج کررہے ہیں جس کے بعد بھارت کے ان یاروں کی آنکھیں کھل گئی ہیں۔ آج کا طالب علم نعرہ زن ہے کہ ہم آزادی کے لیے اپنا مستقبل قربان کردیں گے۔ اب کوئی بھی نوجوان کشمیریوں کو گمراہ نہیں کرسکتا کہ وہ آزادی کی جدوجہد کو ترک کرکے امتحان دینے کے لیے چلے جائیں۔ملتِ کشمیر کی پیشانی پر یہ عبارت دمک رہی ہے کہ خون شہدااور قلم دوات اکٹھے نہیں چل سکتے۔ملتِ کشمیر اپنے نہتے اورمعصوم بچوں کو، ان کے دوستوں کو، ان کے اہل خانہ کو بھارتی فوج کا دیوانہ وار مقابلہ کرتے دیکھ رہی ہے۔ انھیں اندھا کیا جارہا ہے، وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایاجارہا ہے ،بندی خانوں میں ڈالا جا رہا ہے لیکن کسی کے پایۂ استقلال میں لغزش نہیں آئی ۔
۲۰۱۶ء کے۱۰۰ دنوں میں ۹۰ سے زیادہ نوجوان شہید، ۱۶ ہزار شدید زخمی اور ۱۰ہزار نوجوانوں کو گرفتارکیاگیا ہے۔ ایک ہزار نوجوانوں کو اندھا کرنے کے لیے چھرّے والی بندوقوں سے نشانہ بنایاگیا ہے، یہ سب طالب علم ہیں۔ کشمیریوں پر بدترین وحشیانہ جنگ مسلط کردی گئی ہے۔طرفہ تماشا یہ ہے کہ اس ظلم ودرندگی کے کھیل کے عروج پر بھارت کے کٹھ پتلی سیاسست دان امتحانات لینے کا ڈراما رچا رہے ہیں۔ یہ بھی گھروں کو تباہ وبرباد کرنے ،بجلی کے ٹرانسفارموں کو تباہ کرنے، سرسبزوشاداب باغات کو اُجاڑنے کے مکروہ اوروحشیانہ ہتھکنڈوں کا تسلسل ہے۔
تعلیم کے بعد جارح فوج اور اس کے کٹھ پتلی سیاست دان ہماری معیشت کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ مسلسل کرفیو نے کاروبارِزندگی کو معطل کرکے رکھ دیا ہے۔ اب وہ ہمارے شہداکے انمول لہو کاتقابل معاشی نقصانات سے کررہے ہیں لیکن سلام، صد سلام کشمیری تاجروں کو، سوداگروں کو جنھوں نے انتہائی کٹھن اور مشکل حالات میں اپنی عظمت اوروقار پر سودے بازی نہیں کی۔ انھوں نے بند دکانیں نہیں کھولیں۔ ہمارے ٹرانسپورٹروں نے جو گاڑیاں، رکشے، بسیں اور ٹیکسیاں چلاکر رزق حلال کماتے ہیں، گلی کوچوں اور سڑکوں پر نہیں آئے۔ وہ محنت کش کشمیری جو سبزیاں اور پھل، گلی کوچوں میں گھر گھر جاکر بیچتے ہیں، بھارتی انتظامیہ کی تمام تر کوششوں کے باوجود باہر نہیں نکلے۔ وہ لوگ جن کا تمام تر دارومدار سیاحت اور سیاحتی گرمیوں پر تھا___ یہ ہوٹل والے، یہ شکار والے ،یہ خوب صورت آرایشی گھوڑوں کے مالکان، یہ ٹورز اینڈ ٹریولز ___انھوں نے اپنے بند کواڑوں کونہیں کھولا اوراپنے کاروباری مفادات کو جدوجہدِ آزادی پر قربان کردیا ۔
آج ملتِ کشمیر پر یہ واضح ہوچکا ہے کہ محکوم اقوام کو آزادی حاصل کرنے کے لیے جانی و مالی قربانیاں دینا پڑتی ہیں کہ دنیا میں سب سے بڑی ترقی آزادی کی منزل کا حصول ہے۔کشمیر کی ترقی کا بھارتی ماڈل کشمیریوں کو خوش حال بنانے کی بجاے بھارت کے غاصابہ فوجی قبضے کو مستحکم بنانے کا مکروہ منصوبہ ہے۔ بھارتی قبضہ دراصل ہمارے وجود کو اورحریت فکر کو مٹانے کا کھیل ہے۔
جدوجہدِ آزادی کے تازہ مرحلے نے تمام بھارتی منصوبوں اورچالوں کو اُلٹ کر رکھ دیا ہے۔ وہ جو اسرائیلی طرز پر انتہا پسند ہندوؤں کی بستیاں بسانے کے خواب دیکھ رہے تھے، جوآبادی کا توازن بگاڑنے کے لیے ریٹائرڈ فوجیوں کی آبادیاں تعمیر کررہے تھے، ان کے سارے خواب پریشان ہوچکے ہیں۔ ان نام نہاد جدید بستیوں میں بسنے کے لیے آج کوئی تیار نہیں۔
میرے عزیزو!موجودہ بغاوت نے بھارتی کٹھ پتلی حکمرانوں کا مکروہ چہرہ بے نقاب کرکے رکھ دیا ہے اوراب یہ بے ضمیر لوگ کشمیری قوم کےخلاف اپنے تمام سیاسی اختلافات پس پشت ڈال کر متحد ہورہے ہیں۔ آج کشمیر کا چپہ چپہ آزادی کے نعروں سے گونج رہا ہے۔ کشمیریوں کے عوامی اتحاد نے دشمن کو شکستِ فاش دے دی ہے ۔ہمارا اتحاد ہی ہماری فتح ہے۔
بھارتی نیتا ہمیں یہ یقین دلانے کی کوشش کررہے ہیں کہ ہم آزادی حاصل کرکے کشمیر کا انتظام چلانے کے اہل نہیں ہیں۔ تاریخ اپنے آپ کو دُہرا رہی ہے۔ تمام غاصبوں نے محکوم عوام کو اسی طرح گمراہ کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ کشمیری عوام نے اپنی مدد آپ کے تحت بیت المال، چھوٹے چھوٹے سکول،محلہ جاتی اجتماعی باورچی خانے،امدادی اور طبی مراکز قائم کرکے انھیں کامیابی سے چلانے کا ہدف حاصل کرلیا ہے، اور یہ سب کامیابیاں بدترین ریاستی دہشت گردی کا مقابلہ کرتے ہوئے حاصل کی گئی ہیں۔ کشمیریوں کا اجتماعی ایثار اور قربانی اس بات کی روشن دلیل ہے کہ ہماری مزاحمت توانا درخت بن کر برگ وبار لارہی ہے۔ تحریک مزاحمت کے دوران تشکیل کردہ یہ عوامی اورسماجی ڈھانچہ اورہمارے ادارے بھارتی فوج اوراس کی کٹھ پتلیوں کے نظام سے کہیں زیادہ مؤثر اورمعتبر ہے۔
جدوجہدِ آزادی کے اس مرحلے نے مسئلہ کشمیر کو اقوام عالم کے درمیان روشن وتاباں کرکے رکھ دیا ہے ۔آج اقوام عالم بھارت کے مکروفریب اور جھوٹے پروپیگنڈے کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی، مسلمان ممالک کی تنظیم او آئی سی، اقوام متحدہ ہائی کمیشن براے مہاجرین، ایمنسٹی انٹرنیشنل، یورپی یونین اور دیگر اَن گنت عالمی ادارے بھارتی مکروفریب کےخلاف نہتے کشمیری عوام کے لیے کھل کر اپنی حمایت کا اظہارکررہے ہیں۔
جدوجہدِ آزادی کی یہ تمام کامیابیاں ہمیں بھارت نے خیرات میں نہیں دیں۔ یہ ہم نے عظیم قربانیاں دے کر بھارتی استبداد سے چھینی ہیں۔کچھ سادہ لوح بھائی ۱۹۵۳ء سے پہلے کی داخلی خودمختاری، ازخود حکمرانی یاحق راے دہی اور مکمل آزادی بارے استفسار کرتے ہیں۔یاد رکھو! بھارت ہمیں کچھ نہیں دے گا۔اقوامِ عالم کی تاریخ میں غاصبوں نے محکوموں کو قتل عام ،ظلم اور سفاکیت اور تذلیل کے سواکچھ نہیں دیا۔یاد رکھو! بھارت جارح اورغاصب قوت ہے۔بھارت ہمیں روشن ضمیری اورآزادی دینے کے بجاے گمراہ کرتا رہے گا۔فوجی میدان میں اپنی شکست دیکھ کر اپنے کٹھ پتلی کشمیری حکمرانو ں کو متحد کرکے سامنے لا رہاہے۔ ہماری سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ آج کوئی سچا کشمیری بھارت کی طرف نہیں دیکھ رہا۔ کشمیری قوم کی تمام اُمیدیں جدوجہدِ آزادی سے جڑ چکی ہیں۔
بھارتی جرنیل ڈی ایس ہوڈا اور بھارتی وزیراعظم کے سابق مشیر قومی سلامتی نارائن اعتراف کررہے ہیں کہ کشمیر میں ہمارے تمام ہتھکنڈے اورجھوٹے دعوے ناکام ہوچکے ہیں۔ نارائن نے اپنے تازہ مضمون میں لکھا ہے کہ ہم مذاکرات کی میز پر مکمل طور پر ناکام ہوچکے ہیں اور کوئی ہماری بات سننے کو تیار نہیں۔ آج کشمیر کے بچے بچے کی زبان پر آزادی کے نعرے گونج رہے ہیں۔ یہ سب ایک دن میں نہیں ہوگیا۔ ہم نے کئی دہائیوں کے سفرکے بعد حق اور سچ کی یہ منزل پائی ہے۔ اس سفر میں ہم سے غلطیاں بھی ہوئی ہوں گی لیکن جدوجہدِ آزادی کے لیے ہمارے پایۂ استقلال میں لغزش نہیں آئی۔ کشمیری قوم نے کبھی سر نہیں جھکایا۔ یاد رکھو!بھارت نہیں ،آزادی ہماری منزل ہے۔ ہم شانہ بشانہ، بانہوں میں بانہیں ڈال کر آزادی کی منزل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ صبحِ آزادی طلوع ہونے کو ہے۔ غلامی کی سیاہ رات ختم ہورہی ہے۔
ہم پلٹ کر دیکھتے ہیں کہ ۲۰۱۶ء کا انتفاضہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس نے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے اور اس کے ذریعے سے پوری دنیا تک پیغام گیا ہے کہ کشمیری اپنے مطالبۂ حقِ خودارادیت سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس نے یہ حقیقت بھی واضح کر دی ہے کہ کشمیریوں کی جدوجہد کا ’دہشت گردی‘ کے ساتھ دور کا بھی واسطہ نہیں ہے، بلکہ یہ خالصتاً ایک عوامی تحریک ہے اور کشمیر کی پوری آبادی مردوزن اور بچے بوڑھے اس کے ساتھ والہانہ وابستگی رکھتے ہیں۔
اس انتفاضہ سے بھارت کے اس پروپیگنڈے کی بھی پوری طرح سے نفی ہوگئی ہے کہ کشمیر میں حالات کی ابتری کے لیے پاکستان ذمہ دار ہے اور اسی کی شہہ پر یہاں اتھل پتھل اور بے چینی کا ماحول قائم ہے۔ بُرہان وانی کی شہادت کے بعد جس طرح سے کشمیر کی پوری آبادی اُبل پڑی اور یہاں کے گلی کوچوں نے جو لاثانی منظر پیش کیا، اس سے یہ حقیقت مبرہن صورت میں سامنے آگئی کہ اس طرح کے عوامی سیلاب کسی کی شہ اور کسی کی ایما پر نہیں آسکتے، بلکہ پرواز کرنے کا یہ ہے ایسا فطری جذبہ ،جو جبری طور پر قید کیے گئے انسان تو انسان پرندے کے دل میں بھی موجزن ہوتا ہے۔
۲۰۱۶ء کی عوامی تحریک نے بھارت کے اس منفی پروپیگنڈے کو غلط اور باطل ثابت کردیا، جو وہ کشمیر اور یہاں کے لوگوں کے بارے میں کرتا رہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بھارتی حکمران اپنی ضد اور ہٹ دھرمی ترک کرکے کشمیر سے متعلق حقائق کو قبول کرتے اور نوشتۂ دیوار پڑھ کر اپنی کشمیر پالیسی پر نظرثانی کرتے، کیونکہ بھارت، دنیا کی بڑی جمہوریہ ہونے کا دعوے دار ہے اور اس ملک کا آئین بھی لوگوں کی راے کا احترام کرنے کو لازم قرار دیتا ہے۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا اور دلی والے دل ودماغ سے کام لینے کے بجاے اپنی اکڑ پر اَڑے رہے اور انھوں نے ۲۰۱۶ء کے عوامی ریفرنڈم کو تسلیم نہیں کیا۔ لوگوں کوخاموش کرانے کے لیے فوج اور نیم فوجی فورسز کی نئی کمک کشمیر روانہ کردی گئی۔ سیکڑوں افراد کالے قوانین کے تحت آج بھی مسلسل قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں اور نئی گرفتاریوں کا سلسلہ شدومد کے ساتھ جاری ہے۔ کریک ڈاؤن اور تلاشیوں کے بہانے عام شہریوں کو ہر روز ہراساں کیا جاتا اور ان کی تذلیل کی جاتی ہے۔
الغرض بھارت کے حکمران اپنی ملٹری مائیٹ کے ذریعے سے کشمیریوں کی آواز دبانے کی اپنی دیرینہ پالیسی پر کاربند ہیں اور وہ ہر اس فرد کو تہہ تیغ کرنا چاہتے ہیں جو سراٹھاکر جینے کی تمنا دل میں رکھتا ہو۔ اس سامراجی پالیسی نے جموں کشمیر کی صورت حال کو دھماکا خیز بنایا ہوا ہے اور حالات روز بروز بدسے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ کشمیر کی نوجوان نسل ’پُرامن سیاسی تحریک‘ سے بددل ہورہی ہے اور وہ اس کو وقت کے زیاں سے تعبیر کرنے لگی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے لخت ہاے جگر کالجوں اور یونی ورسٹیوں کو خیرباد کہہ کر سرفروشی کے راستے کا انتخاب کرتے ہیں اور سرہتھیلی پر رکھ کر بھارت کے نشۂ قوت کو چیلنج کرتے ہیں۔ اس نئے رحجان نے لوگوں کے روزمرہ کے معاملات میں بھی ہل چل مچادی ہے اور وہ بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے ہیں۔
بھارتی قابض افواج اور ان کی معاون فورسز عام شہریوں کو سافٹ ٹارگٹ کے طور نشانہ بناتی ہیں اور وہ سرفروشی کے راستے پر گامزن جوانوں کا انتقام نہتے لوگوں سے لینا چاہتی ہیں۔ انھیں انسانی ڈھال کے طور استعمال کیا جاتا ہے اور ان کے گھروں کو مختلف حیلوں بہانوں سے تہس نہس اور مسمار کیا جاتا ہے۔ قیمتی انسانی زندگیوں کا اتلاف ایک معمول بن گیا ہے اور کشمیری قوم کی ایک پوری نسل پکی ہوئی فصل کی طرح کاٹی جارہی ہے۔
میرا یقین، بلکہ ایمان ہے کہ اس خون خرابے کے لیے صرف اور صرف بھارتی حکمرانوں کی ضد اور ہٹ دھرمی والی پالیسی ذمہ دار ہے اور وہ ہی ریاست کی سیاسی غیر یقینیت اور عدمِ استحکام کی صورتِ حال میں اضافے کے اصل مجرم ہیں۔ وہ ۲۰۱۶ء کے انتفاضہ اور ۱۰۰دنوں کی عوامی تحریک کو سنجیدگی سے لیتے اور لوگوں کی امنگوں اور آرزوؤں کا احترام کرتے تو آج حالات کا یہ رُخ نہ ہوتا۔
یہ ایک آفاقی اور کائناتی (Universal Truth)حقیقت ہے کہ لوگوں کی اُمنگوں اور خواہشات کو زور زبردستی کے ذریعے دبایا جائے تو وہ باہر نکلنے کے لیے دوسرے آپشن اور طریقے اختیار کرتے ہیں۔جہاں بھی پُرامن اور سیاسی جدوجہد کو تسلیم نہیں کیا جاتا ، وہاں لوگ دوسرے انتہائی راستے اختیار کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اس حقیقت کے اظہار میں بھی مجھے کوئی باک نہیں ہے کہ اس طرح سے تنازعہ کشمیر حل کرانے کے حوالے سے ماضی میں کوئی پیش رفت ممکن ہوسکی ہے اور نہ مستقبل میں اس سے کوئی مثبت نتیجے کی اُمید کی جاسکتی ہے۔ کشمیر ایک سیاسی اور انسانی مسئلہ ہے اور اس کو ایک بامعنیٰ سیاسی عمل کے ذریعے ہی سے حل کرایا جانا ممکن ہے۔
بھارتی حکمرانوں کو میرا یہی مشورہ ہے کہ وہ اپنی اس پالیسی پر اصرار کرنا ترک کریں، جو ہر سطح پر ناکام ثابت ہوچکی ہے اور جس کی وجہ سے پورے جنوب ایشیائی خطے کے کروڑوں عوام مصائب جھیل رہے ہیں اور ان کی ترقی کا راستہ مسدود ہوگیا ہے۔ تنازعہ کشمیر کا عوامی خواہشات کے مطابق حل نکالا جاتا ہے، تو یہ نہ صرف کشمیریوں کے لیے بلکہ پورے برصغیر کے لوگوں کے لیے ایک نئی صبح کا آغاز ہوگا اور وہ ایک پُرامن اور خوش گوار ماحول میں سانس لینے کی پوزیشن میں ہوں گے۔
لاہور اور سیہون شریف میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے بعد جس میں ۱۰۰سے زائد قیمتی جانیں ضائع ہوئیں، پاکستان کی جانب سے یک طرفہ طور پر طورخم اور چمن پاک افغان سرحدی راہداری کو بند کرنے کا جو فیصلہ ہوا تھا اس پر عمل درآمد گذشتہ ماہ سے جاری رہا۔ اس دوران میں صرف دودن کے لیے سرحدیں پیدل آنے جانے والوں کے لیے کھولی گئیں تھیں جس کے نتیجے میں ۱۱ہزار ۵۰۰ افغانوں کو پاکستان سے واپس اپنے وطن جانے کا موقع ملا، جب کہ ۳۵۰ پاکستانی واپس آئے۔ اس ماہ کے دوران دونوں اطراف سے ہزاروں کی تعداد میں تجارتی اجناس سے لدی ہوئی گاڑیاں سڑکوں پر کھڑی رہیں اور تاجروں کا نقصان ہوا۔ اجناس کی ترسیل میں تعطل کی وجہ سے افغانستان کی مارکیٹوں میں قیمتوں میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا جب کہ پاکستان کی طرف کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ افغانستان اس وقت پاکستانی مصنوعات کی ایک بڑی منڈی ہے، جو اس دوران بند رہی جس سے پاکستانی برآمدات کو سخت دھچکا پہنچے گا۔ بظاہر سرکاری سطح پر بھی اس اہم مسئلے پر کوئی پیش رفت یا مذاکرات کا سلسلہ نظر نہیں آرہا تھا۔ ECOکانفرنس کے موقعے پر افغان سفیر عمر زخیلوال نے پاکستان سے سرحدیں کھولنے کا مطالبہ کیا تھا، لیکن اس کے بعد سے اس طرف سے خاموشی تھی۔ البتہ پاکستانی اور افغان میڈیا میں اس مسئلے پر گفتگو ہوتی رہی۔
افغان میڈیا میں حسب معمول پاکستان کو مورد الزام قرار دیا جاتا رہا۔ ویسے بھی افغانستان میں ہر چھوٹے بڑے واقعے کا الزام پاکستان بالخصوص اس کی خفیہ ایجنسیوں پر دھرا جاتا ہے۔ ۲۰۱۵ء میں جب میں کابل میں ایک بین الاقوامی سیمینار میں شرکت کے لیے گیا تھا تو وہاں افغان میڈیا کے سوالات پر اسی پروپیگنڈے کاگہرا رنگ چڑھا دکھائی دیا جو بہت حد تک بھارتی لابی کے زیراثر ہے کیوںکہ اس کے تمام چینلز بھارتی سیٹلائیٹ دور درشن کے ذریعے اپنی نشریات چلاتے ہیں۔ اس کے علاوہ تکنیکی اسٹاف میں بھی بھارتی عملہ موجود ہے۔ ویسے بھی وہ ممالک کہ جن کا بحری راستہ کسی ہمسایہ ملک کے مرہون منت ہوتا ہے، اس میں اس ہمسایہ ملک کے خلاف جذبات کا پایا جاناایک فطری امر ہوتا ہے۔ یہ معاملہ میں نے نیپال میں بھی دیکھا ہے جو ہندو ریاست ہے لیکن وہاں کے لوگ بالعموم بھارت کے خلاف اور پاکستان کے حق میں ہیں۔ وہ تین اطراف سے ہندستان میں گھر ا ہوا ہے، اس لیے یہ جذبات فطری ہیں۔
بہرکیف اس پابندی سے افغانستان میں پاکستان مخالف جذبات کو مزید تقویت ملتی رہی، جب کہ افغان حکومت متبادل راستے ڈھونڈ تی رہی ہے۔ دوسری طرف ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کو بھارتی حکومت کی اعانت سے ترقی دے دی گئی ہے اور بھارتی بحری جہاز وہاں یہ لنگر انداز ہوتے ہیں اور ایک بڑی شاہراہ بھی وہاں سے افغانستان کے شہروں کو منسلک کرنے کے لیے تعمیر کی گئی ہے۔ اسی طرح وسط ایشیائی ممالک سے غذائی اجناس بشمول گندم منگوائی جارہی ہے۔ ان تمام ذرائع سے ضروری اشیا کی ترسیل کے باجود پاکستان پر انحصار ختم نہیں ہو سکتا۔ اس لیے حکومت ِ پاکستان نے بالآخر پابندی ختم کر کے دونوں ملکوں کے درمیان آمدورفت بحال کردی ہے، جس سے دونوں طرف کے عوام نے سُکھ کا سانس لیا ہے۔
افغانستان کے اندر کی صورت حال زیادہ حوصلہ افزا نہیں۔ ۸مارچ کو کابل میں ملٹری ہسپتال پر داعش کا حملہ اور اس کے نتیجے میں۳۸ قیمتی جانوں کا نقصان قابل افسوس ہے۔ اس حملے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ اس حملے سے مستقبل میں داعش کے مزید ہلاکت خیز حملوں کا امکان بھی بڑھ گیا ہے۔ دوسری طرف تحریک طالبان بھی افغانستان کے طول و عرض میں اپنی پوزیشن مستحکم کرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ ایک امریکی ادارے کے حالیہ سروے میں افغان حکومت کی عمل داری ۴۳فی صد ملک پر بتائی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بقیہ ۵۷ فی صد پر طالبان کا کنٹرول ہے۔ اسی ماہ افغانستان کے ایک صوبے مغربی ہرات میں ایک نوجوان کو طالبان کی عدالت سے ڈاکا زنی میں ملوث ہونے پر ایک ہاتھ اور پائوں کاٹنے کی سزا پر عملد رآمد کی بازگشت سنائی دی۔ اس سے پہلے شمالی صوبے بدخشاں میں ایک لڑکی کو مبینہ طور پر زنا کے الزام میں سنگسار کیا گیا تھا۔ یہ سخت سزائیں طالبان کی قائم کردہ شرعی عدالتیں سنا رہی ہیں۔ پورے افغانستان میں یہ نظام قائم ہے اور عوام ان سے رجوع کرتے ہیں اور ان کو فوری طور پر انصاف مل جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں سرکاری عدالتوں کا نظام بُری طرح بد عنوانی کاشکار ہے اور فیصلوں میں کئی سال لگ جاتے ہیں ایک عام آدمی کے لیے انصاف کا حصول بہت مشکل ہے۔ طالبان نے صرف عدالتی نظام قائم نہیں کر رکھا، بلکہ ہرصوبے اور ضلع کے لیے اپنے عہدے دار بھی مقرر کیے ہیں، جو ٹیکس بھی وصول کرتے ہیں۔ افغان طالبان کا یہ اثر و رسوخ دیہی علاقوں میں ہے مگر بڑے شہر ان کی دسترس سے باہر ہیں۔ چوں کہ ناٹو فضائی افواج افغانستان کے تمام اہم ہوائی اڈوں میں موجود ہیں، اس لیے طالبان کے لیے ممکن نہیں کہ وہ کھل کر حرکت کر سکیں یا شہری علاقوں پر اپنا قبضہ جماسکیں۔ اس طرح کا توازن کافی عرصے سے قائم ہے جو آیندہ بھی جاری رہ سکتا ہے۔ یہی توازن دونوں فریقوں کو مذاکرات کی میز پر لا سکتا ہے جس کے لیے زمینی حقائق کی بنیاد پر مشترکہ نکات ڈھونڈے جا سکتے ہیں۔
بین الاقوامی سطح پر گذشتہ کچھ عرصے میں تحریک طالبان کو کئی کامیابیاں نصیب ہوئی ہیں۔ روس کے صدر پیوٹن جو عالمی سطح پر روسی کردار کی بحالی کے لیے کوشاں ہیں، ان کے رابطے طالبان سے قائم ہو چکے ہیں۔ روسی کمیونسٹوں نے افغانستان کو جس طرح تباہ و برباد کیا تھا۔ ایسے میں ان روابط کی بحالی بظاہر عجیب بات لگتی ہے لیکن عالمی تعلقات کا یہ بھی ایک اصول ہے کہ آج کے دشمن کل کے حلیف بن سکتے ہیں اور اس لیے یہ انوکھا ملاپ انہونی بات نہیں ہے۔ روس طالبان تحریک کو کس صورت میں امریکا کے خلاف جنگ میں مدد دے سکتا ہے، ابھی تک اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے، لیکن شنید ہے کہ مادی اور سیاسی دونوں قسم کی اعانت ممکن ہے۔ روسی حکومت نے مزید پیش رفت کرتے ہوئے افغانستان میں امن کے قیام کے عنوان سے ۱۴؍اپریل کو ماسکو میں ایک علاقائی کانفرنس طلب کرلی ہے، جس میں چین ، بھارت ، پاکستان اور ایران کے علاوہ دیگر ممالک بھی شریک ہوں گے۔
اسی طرح چینی حکومت نے بھی طالبان کے ساتھ تعلقات قائم کرنے میں ایک اہم قدم اُٹھایا ہے اور قطر میں مقیم طالبان مذاکراتی وفد نے چین کا دورہ کیا ہے۔ چین افغانستان کی تعمیر و ترقی میں ایک اہم کردار ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، جس کے لیے وہاں امن کا قیام ضروری ہے اور اس مقصد کے لیے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکراتی عمل کا آغاز لازم ہے۔ گذشتہ عرصے میں قطر میں مقیم افغان مذاکراتی ٹیم کی قیادت میں تبدیلی عمل میں آئی ہے۔ طیب آغا جو کئی برسوں سے وہاں نمایندگی کر رہے تھے، طالبان قیادت کے ساتھ اختلافات کی بنا پر مستعفی ہوگئے تھے اور ان کی جگہ شیر محمد ستانکزئی نے لی ہے جو طالبان حکومت میں وزیر صحت رہ چکے ہیں۔
افغانستان میں چینی حکومت کی سرمایہ کاری اس لیے بھی اہم ہے کہ ناٹو افواج کے بتدریج اخراج کے عمل کے بعد افغانستان میں بیرونی سرمایہ کاری میں خاصی کمی آئی ہے، جس کا اثر افغان معیشت پر واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اس کمی کو چینی سرمایہ کاری پُر کر سکتی ہے، جو انفراسٹرکچر کو ترقی دینے کے ساتھ ساتھ ذرائع مواصلات پر خاص طور پر توجہ دینا چاہتی ہے۔ اس طرح بیک وقت دو سپر طاقتیں یعنی روس اور چین، طالبان سے روابط بڑھاکر افغانستان کے مستقبل کی نقشے گری ظاہر کرتے آتے ہیں لیکن ان روابط سے طالبان قیادت صرف اسی صورت میں فائدہ اٹھا سکتی ہے جب وہ اپنی پالیسیوں میں نرمی پیدا کرے۔ اس بارے میں بھی طالبان قیادت کی حکمت عملی میں چند تبدیلیاں واضح طور پر نظر آرہی ہیں۔ مثلاً لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں اب وہ اس سختی کا مظاہرہ نہیں کر رہے اور وہ افغان حکومت سے مذاکراتی عمل شروع کرنے کے لیے آمادگی کا عندیہ دے چکی ہے۔
افغانستان میں ایک اہم پیش رفت حکومت اور حزب اسلامی کے درمیان طے پایا جانے والا معاہدہ ہے۔ صدر حامد کرزئی کے دور حکومت سے شروع ہونے والا مذاکراتی عمل ایک ۲۵نکاتی معاہدے پر اتفاق سے مکمل ہواجس پر ڈاکٹر اشرف غنی صدر افغانستان اور انجینیر گل بدین حکمت یار صدر حزب اسلامی افغانستان نے دستخط ثبت کیے اور کابل کے صدارتی محل ارک میں ۲۹ستمبر۲۰۱۶ء کو ایک شان دار تقریب میں اس کا اعلان ہوا، جس میں افغانستان کی تمام اہم سیاسی شخصیات شامل تھیں۔ اس معاہدے کی ایک اہم شق اقوام متحدہ کی جانب سے گل بدین حکمت یار سے پابندیاں ہٹانے کا معاملہ تھاجو اَب مکمل ہو چکا ہے اور دومارچ ۲۰۱۷ء کو انجینیر صاحب کو کلیرنس مل گئی ہے۔ اگلے مرحلے میں ان کی کابل آمد ہے جس کے لیے تیاریاں جاری ہیں، البتہ اس راہ میں کئی مشکلات حائل ہیں۔
معاہدے کے اہم نکات میں حکومت کے ذمے جو کام تھے ان میں گلبدین حکمت یار اور حزب اسلامی پر بین الاقوامی پابندیوں کا خاتمہ ، ان کے لیے اور حزب کے دیگر رہنمائو ں کے لیے عام معافی کا اعلان، ان پر عائد کردہ تمام الزامات اور مقدمات کا خاتمہ ، حزب اسلامی کے ارکان اور مجاہدین کو افغانستان کے قومی سکیورٹی اداروں میں ملازمتیں فراہم کرنا اور ان ۲۰ہزار افغان مہاجرین خاندانوں کی باعزت افغانستان واپسی کا انتظام کرنا،جو پشاور کے نصرت مینہ اور شمشتو کیمپوں میں آباد ہیں۔ انجینیر حکمت یار کو افغانستان میں قیام کی تمام سہولتیں فراہم کرنا اور ان کو جہاد افغانستان اور ملک کی آزادی اور خودمختاری کے لیے جدوجہد پر ان کا جائز مقام دینا وغیرہ شامل ہیں۔
اس کے مقابلے میں حزب اسلامی نے اپنے ذمے جو کام لیے ہیں ان میں سب سے اہم نکتہ جنگی حالت سے دست برداری اور ملک کے دستور و قانون کی پاسداری ہے۔ وہ کسی اور گروپ کو بھی جنگی تیاریوں میں مدد نہیں کریں گے۔ مکمل اور دیرپاسیز فائر کریں گے اور اپنا اسلحہ حکومت کے حوالے کریں گے اور ان کی مخالفانہ تحریکوں کا ساتھ نہیں دیں گے۔
معاہدے کے فوراً بعد اس سوال کا پیداہونا لازمی تھا کہ انجینیر حکمت یار کب کابل آئیں گے۔ امریکا نے ان کے سر کی قیمت ۲۵ملین ڈالر رکھی تھی اور اقوام متحدہ نے حزب اسلامی پر پابندی عائد کی ہوئی تھی، جس کی وجہ سے کئی یورپی ممالک نے بھی ان کے خلاف ہر قسم کی پابندیاں لگارکھی تھیں جن کی موجودگی میں ان کا منظر عام پر آنا ممکن نہیں تھا۔
اقوام متحدہ نے ۴فروری ۲۰۱۷ء کو گل بدین حکمت یار اور ان کی پارٹی پر عائد پابندیاں ختم کر دیں۔ اس طرح اب ان کے لیے ممکن ہوا ہے کہ وہ منظر عام پر آسکیں۔ امید کی جاتی ہے کہ وہ ماہِ مارچ میں جلال آباد کابل میں منظر عام پر آجائیں گے اور ان کا سرکاری سطح پر استقبال کیا جائے۔ یہ افغانستان میں ایک اہم پیش رفت ہو گی، جس سے مثبت توقعات وابستہ کی جا سکتی ہیں۔
نئے امریکی صدر ، ڈونلڈ ٹرمپ نے حکومت چلانے کے لیے ابتدائی طور پر اپنے جن قریبی اور معتمد ساتھیوں کا انتخاب کیا ، اِسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ عرب ممالک،کشمیر اور فلسطین سے کس طرح کے تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں۔ اُنھوں نے سینیٹر جیف سیشنز کو امریکی اٹارنی جنرل، مائیک پامپیو کو سی آئی اے کا سربراہ، جنرل (ر) میٹس کو وزیر دفاع اور جنرل (ر) مائیکل فیلن کو نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر بنایا (مائیکل فیلن کی تو اپنے کرتوتوںکے باعث چند دن پہلے چھُٹی ہو گئی ہے)۔ یہ چاروں افراد ماضی قریب میں اسلام اور مسلمانوں سے بے زاری کا کھلم کھلا اظہار کرچکے ہیں۔ اسلام کے بارے میں کہے گئے اُن کے دل آزار الفاظ یہاں نقل ہی نہیں کیے جا سکتے۔
اِن امریکی اور اسرائیلی یہودیوں کے عالمِ اسلام کے بارے میں جو بھی خیالات ہیں، وہ ہم سب پر پوری طرح مترشح ہیں۔ ٹرمپ کی یہود دوستی کی طرف اشارہ کرتے ہُوئے نیویارک ٹائمز کی مشہور تجزیہ نگار ازابیل کریشنر نے اپنے ایک حالیہ طویل مقالے میں لکھاہے: ’’ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی سے اسرائیل میں کٹر یہودیوں اور فلسطین مخالف سیاستدانوں کے حوصلے بلند ہوئے ہیں۔ ٹرمپ کی کامیابی کی خبر سنتے ہی ایک اسرائیلی وزیر نفتالی بینٹ نے ان الفاظ میں نعرہ لگایا تھا: ’اب فلسطین کا شورو غوغا ختم۔‘ اور اسرائیلی وزیر داخلہ ایری ڈیری نے ٹرمپ کی جیت پر چہکتے ہوئے کہا تھا: ’یہ تو ہمارے حق میں معجزہ ہوا ہے، یوں کہیے کہ خدا نے اسرائیل کی فتوحات کے دروازے کھول دیے ہیں‘۔ اسرائیلی یہودیوں کی یہ طمانیت واضح طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کی اسرائیل نوازی کو بے نقاب کررہی ہے! وہ اسرائیلی یہودیوں کے مفادات کے تحفظ میں کہا ں تک جا سکتے ہیں، اس حوالے سے ۲۲ دسمبر۲۰۱۶ء کو ایک عجب واقعہ رُونما ہوا۔ دسمبر کے آخری ہفتے مصر اقوامِ متحدہ میں فلسطینی زمینوں پر زبردستی اسرائیلی بستیاں بسائے جانے کے خلاف ایک قرار داد لانے جا رہا تھا۔ اسرائیل حقیقی معنوں میں اس ممکنہ مصری اقدام سے بہت خائف تھا؛ چنانچہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے ڈونلڈ ٹرمپ سے رابطہ کیا کہ وہ مصر پر دبائو ڈالے کہ اقوامِ متحدہ میں یہ قرار دادلانے سے باز رہے۔ اصولی طور پر نیتن یاہو کی طرف سے ڈونلڈ ٹرمپ سے یہ مطالبہ کرنا سراسر غیر قانونی تھا کہ ابھی تو ٹرمپ نے امریکی صدر کا باقاعدہ حلف بھی نہیں اٹھایا تھا، لیکن اس کے باوجود ٹرمپ نے مصری صدر کو فون کرکے اسرائیل کے خلاف مذکورہ قرار داد لانے سے منع کر دیا ۔
صدر ٹرمپ نے اسرائیل میں جس شخص کو بطور امریکی سفیر منتخب کیا ہے، وہ بھی اپنی اسرائیل و یہود نوازی میں امریکا بھر میں شہرت رکھتے ہیں۔ اِن صاحب کا نام ہے: ڈیوڈ فریڈ مین۔ پیشے کے اعتبار سے وہ وکیل ہیں لیکن ایک مدت سے ٹرمپ کے سیاسی مشیر چلے آ رہے ہیں۔ وہ ایسے اسرائیل نواز امریکیوں میں سرِ فہرست ہیں، جو نہ صرف اسرائیل میں امریکی سفارت خانے کو بیت المقدس میں منتقل کرنے کے زبردست حامی ہیں بلکہ اُن کا کہنا ہے کہ اسرائیل کا دارالحکومت بھی یروشلم یا بیت المقدس ہی ہونا چاہیے۔ اِس سلسلے میں ڈیوڈفریڈ مین کے یہ الفاظ ملاحظہ کیجیے: ’’بیت المقدس اسرائیل کا ’ابدی اور غیر منقسم ‘ دارالحکومت ہے‘‘۔
ڈیوڈ فریڈمین فلسطین اوراسرائیل کے درمیان مجوزہ امن کے راستے ’دو ریاستی فارمولا‘ کے بھی مخالف ہیں اور کھلے بندوں اسرائیل میں دائیں بازو کے شدت پسند (یعنی مسلم دشمن) گروہوں کے پسندیدہ ہیں، بلکہ وہ فلسطین کے مغربی کنارے میں زبردستی یہودیوں کی مزید بستیاں بسانے کے بھی حامی ہیں (واضح رہے کہ مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی تعداد ۲۶ لاکھ ہے، جب کہ اُن کے بیچوں بیچ ۴ لاکھ اسرائیلی یہودی بھی زورزبردستی آباد ہو چکے ہیں)۔ صدارتی مہم کے دوران فلوریڈا کے ایک جلسے میں، جہاں کثیر تعداد میں یہودی سامعین موجود تھے اور ڈیوڈ فریڈ مین بھی حاضر تھا، ٹرمپ نے کہا تھا: ’’ فریڈ مین امریکا اور اسرائیل کے درمیان خصوصی تعلق کو برقرار بھی رکھے گا اور اِس تعلق کو خوب نبھائے گا‘‘۔ صدر منتخب ہو کر ٹرمپ نے اِنھی اسرائیل و یہود نواز ڈیوڈفریڈمین کو اسرائیل میں امریکا کا سفیر متعین کر کے اپنا وعدہ بھی نبھایا ہے اور امریکی و اسرائیلی کٹریہودیوں کو بھی خوش کر دیا ہے۔ فلسطینی قیادت فریڈ مین کی تعیناتی پر سخت مضطرب ہے۔ اِسی لیے پی ایل او کے سیکریٹری جنرل، صائب اریکات، نے کہا ہے کہ ڈیوڈ فریڈ مین اور نئی امریکی قیادت بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے اور امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کی باتیں کرنے سے باز رہے۔ دوسری طرف اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے فریڈمین کی تعیناتی پر گہرے اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
ٹائم، میگزین کے معروف تجزیہ نگار کارل وِک نے اسرائیل میں متعین کیے جانے والے اِس امریکی سفیر کی تعیناتی پر تبصرہ کرتے ہوئے یوں لکھا ہے:’’ ٹرمپ نے فریڈمین کو، جو کہ امریکی صدر ٹرمپ کے جُوا خانوں کے قانونی معاملات کی ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے تھا، اسے اسرائیل میں امریکا کا سفیر لگا کر یہ عندیہ دیا ہے کہ وہ فلسطین کے خلاف اسرائیل کی توسیع پسندی کے حق میں ہے۔ اِس تعیناتی کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ٹرمپ نے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ مغربی کنارے پر بھی اسرائیل کو اپنی بستیاں بسانے کا پوراپورا حق ہے۔ یہ اشارہ اور فیصلہ اب تک فلسطین کے حوالے سے جاری امریکی پالیسیوں کے بالکل برعکس ہے، جس کے نتائج مہلک ہوںگے‘‘۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے اسرائیل نواز اور دنیا بھر میں پھیلے یہودیوں کے مفادات کا حامی اور محافظ ہونے کی گواہی خود اسرائیلی میڈیا دے رہاہے۔ ٹرمپ کا بذاتِ خود اُن معروف، مؤثر اور ثروت مند امریکیوں میں شمار ہوتا ہے، جنھوں نے ہمیشہ اِس امر کی وکالت اور حمایت کی ہے کہ اسرائیل کا دارالحکومت تل ابیب نہیں، یروشلم ہونا چاہیے۔
یروشلم مسلمانوں، مسیحیوں اور یہودیوں کے لیے یکساں طور پر محترم اور مکرم ہے۔ مسلمانوں کا قبلہ اوّل اِسی تاریخی اورقدیم شہر میں ہے۔ بیت المقدس کا ذکر قرآن مجید میں بھی آیا ہے۔ کعبہ شریف اور مدینہ منورہ کے بعد ساری دنیا کے مسلمان بیت المقدس کی حُرمت و تقدس پر جان چھڑکتے ہیں۔ اہلِ یہود کی مذہبی نشانیاں (دیوارِ گریہ اور ہیکلِ سلیمانی) بھی اِسی شہر میں ہیں۔ عیسائیوں کا ’بیت اللحم‘ (وہ تاریخی مقام جہاں روایات کے مطابق سیدنا مسیحؑ کی ولادت ہوئی) بھی اِسی شہر کا دل آویز جُزو ہے؛چنانچہ عالمی اہلِ دانش کااصرار ہے کہ شہرِ یروشلم کو سیاست اور اقتدار کے بکھیڑوں سے علیحدہ رکھتے ہوئے اِسے اسرائیلی دارالحکومت نہ بنایا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔ اس کے باوجود صہیونی اسرائیلیوں کی تمنا یہی ہے کہ یروشلم ہی اُن کا مرکزی دارالحکومت ہو۔ ڈونلڈ ٹرمپ اِنھی انتہا پسند یہودیوں کے دلوں میں جگہ بنانے کے لیے اُن کی ہاں میں ہاں ملاتے جارہے ہیں ۔
اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے اس امر کا بھی انکشاف کیا ہے کہ نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مقبوضہ فلسطین میں یہودی آباد کاری اوراسرائیلی توسیع پسندی کے ایک بڑے ڈونر ہیں۔ وہ فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضہ کر کے وہاں اسرائیلی یہودیوں کے لیے رہایشی مکانات ، مارکیٹیں اور تعلیمی ادارے بنانے کے لیے عطیات کی شکل میں نقد سرمایہ فراہم کرتے رہے ہیں۔ فلسطینیوں کی زمینوں پر زور زبردستی یہودی آباد کاری ہمیشہ سے ایک سنگین مسئلہ رہا ہے۔ اسی تنازعے کا یہ بھی شاخسانہ ہے کہ ۱۹۸۰ء میں غزہ کی پٹی سے، جہاں فلسطینی اکثریت میں آباد ہیں، عالمی دباؤ پر نئے آباد کاریہودیوں کو بے دخل کر دیا گیاتھا۔ اور یہ مسٹر ٹرمپ ہیں جنھوں نے ان نکالے گئے یہودیوں کو پھر سے آباد کرنے کے لیے اسرائیل کو کروڑوں ڈالر کی امداد فراہم کی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ۹نومبر۲۰۱۶ ء کو امریکی انتخابات میں تقریباً سبھی امریکی یہودیوں نے متفقہ طور پر اپنے ووٹ ٹرمپ کے حق میں ڈالے اور اُنھیں کامیاب وکامران بنایا۔
کہا جاتا ہے کہ کٹر یہودی مذہبی طبقات میں کسی بھی ایسے شخص یا گروہ کو دل سے قبول نہیں کیاجاتا جو کوئی دوسرا مذہب چھوڑ کر یہودیت قبول کر لے۔ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے معاملے میں اُلٹی گنگا بہا دی گئی ہے۔ ٹرمپ کی بڑی بیٹی ایوانکا ٹرمپ (۳۵ سالہ) نے شادی سے پہلے عیسائی مذہب چھوڑ کریہودیت اختیار کر لی تھی۔ وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے محبوب جیئرڈ کُشنر سے، جو نیویارک کے ایک نہایت متموّل اور قدیمی یہودی خاندان سے تعلق رکھتا ہے، شادی کرنا چاہتی تھی۔ کُشنر اور اُس کے خاندان کے دباؤ اور خوشنودی کی خاطر ایوانکا یہودی ہوگئی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی کوئی اعتراض نہ کیا۔ اب اس کے تین بچے ہیں۔ ایوانکا اپنے والد کے بہت قریب اور ’ڈونلڈ ٹرمپ فاؤنڈیشن‘ کی سربراہ بھی ہے، ارب پتی والد کے تمام کاروبار کی شریک اور معتمد مشیر بھی۔ صدارتی انتخابات میں وہ ٹرمپ کے ساتھ ساتھ تھی۔ امریکی میڈیا میں باربار یہ منظر نمایاں طور پر دکھائی دیاہے کہ جب بھی ٹرمپ یہودی ووٹروں کے ہاں گئے، وہ اپنی اس بیٹی اوراس کے بچے بھی ساتھ لے جاتے اور اُنھیں گود میں اٹھا کر کہتے :’’ یہودیوں اور اسرائیل سے میری دوستی اور محبت کااس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ میرے نواسے یہودی ہیں ، میری سب سے عزیز بیٹی بھی یہودی ہے، میرا داماد بھی یہودی ہے اور وہ آپ سب کا جانا پہچانا ہے اوراُس کا سارایہودی خاندان بھی‘‘۔
ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنی اسی یہودی بیٹی کی وجہ سے اپنے یہودی داماد پر ، اپنے بیٹوں کے مقابلے میں، زیادہ اعتبار ہے۔ ایوانکا پر ٹرمپ کو کس قدر اعتبار ہے، اس کی ایک اور مثال سامنے آتی ہے: ابھی ٹرمپ نے باقاعدہ امریکی صدر کاحلف بھی نہیں اٹھایا تھا کہ جاپانی وزیر اعظم شانزوایبے نے۱۸نومبر۲۰۱۶ء کو نیویارک میں ٹرمپ سے ملاقات کی۔ وہ امریکا کے سرکاری دورے پر آئے ہوئے تھے، اس لیے نَو منتخب امریکی صدر سے بھی ملنا مناسب سمجھا۔ اور دنیا یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ اس ملاقات میں ٹرمپ کی یہی صاحبزادی بھی موجود تھیں۔ جاپانی وزارتِ خارجہ کو اس محترمہ کی موجودگی گراں تو گزرتی رہی مگروہ بوجوہ خاموش ہی رہے کہ پہلے ہی ٹرمپ نے جاپان کو ملفوف اندازمیں کچھ دھمکیاں دے رکھی تھیں۔
امریکا کے ایک ممتاز اخبار نویس آین گرین ہالگ نے ایک مشہور امریکی جریدے میں مفصل مضمون میں حقائق اوراعدادو شمار کی روشنی میں ثابت کیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے اصل صلاح کار، تمام کے تمام یہودی النسل بھی ہیں اوراُن کے اسرائیل کے ساتھ گہرے اور دیرینہ تعلقات بھی استوار ہیں۔ یہ مضمون Meet The Jews in Donald Trump's Inner Circle کے زیر عنوان شائع ہوا ہے۔ اِس چشم کشا مضمون کی اشاعت کے آغاز میں ایڈیٹر نے ایک ضروری نوٹ ان الفاظ میں لکھاہے: ’’ڈونلڈ ٹرمپ امریکی واسرائیلی یہودیوں کے حصار میں ہیں، سیاست میں بھی، کاروبار میں بھی، اورمشاورت میں بھی۔ وہ ان کے بغیر ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکتے۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ فی الحقیقت یہودیوں کی کٹھ پُتلی بن چکے ہیں‘‘۔
اس کے بعد مضمون نگار آین گرین ہالگ نے تصویروں کے ساتھ اُن اہم ترین ۱۰؍افراد کا ذکر کیا ہے ، جنھوں نے امریکا کے نئے صدر ٹرمپ کو اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے۔ اِن اہم افراد کے نام یہ ہیں : اسٹیفن بینن، جین گرین بلاٹ، ڈیوڈ فریڈمین، جئیرڈ کُشنر، ایوانکا ٹرمپ، بورس آپشٹن، اسٹیفن ملر، اسٹیون مناہم، لیوس آئزن برگ اور مائیکل گاسز۔ مذکورہ تمام افراد کے تعارف میں مضمون نگار کے الفاظ پڑھ کراحساس ہوتا ہے کہ ان اشخاص کی مرتب کردہ پالیسیوں اور دیے گئے مشوروں پراگر ٹرمپ نے عمل کیا تو فلسطین، عالمِ عرب اور کشمیری مسلمانوں کا بھلا ہر گز نہیں ہوگا اور نہ مشرقِ وسطیٰ میں لگی آگ بجھانے کی کوئی کوشش معرضِ عمل میں آئے گی۔
اسرائیل کے ایک مشہور اخبار دی ٹائمز آف ازرائیل کے تجزیہ نگار اڈیو سٹرمین نے ۹نومبر۲۰۱۶ ء کو امریکی صدارتی انتخابات کے دوران لکھاتھا: ’’اسرائیل کاتمام عبرانی میڈیا ڈونلڈٹرمپ کی حمایت کر رہا ہے۔ عبرانی زبان میں شائع ہونے والے اسرائیلی اخبارات اور نشر ہونے والے پروگراموں نے اپنے تجزیوں اور حمایت کے سارے انڈے ٹرمپ کی ٹوکری میں ڈال دیے ہیں۔ حیرت ہے کہ خالص یہودی مفادات کے پرچارک اورمحافظ دو بڑے اسرائیلی اخبارات (ادیوت اخانوت اور ہارٹز) بھی صرف ٹرمپ کی حمایت کر رہے ہیں‘‘۔
انتخابات جیتنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کومبارک باد کا سب سے پہلا فون اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے کیاتھا۔ یاہو نے ٹرمپ کو ’اسرائیل کا سچا اور کھرا دوست ‘ کے نام سے یاد کیا۔ جواب میں ٹرمپ نے کہاتھا : ’’آج مَیں نہیں جیتا، بلکہ آپ کا بھائی فتح یاب ہوا ہے‘‘۔ اور نیتن یاہو دنیا کے پہلے سر براہِ مملکت ہیں، جنھیں ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی دورے کی دعوت دی۔
اسرائیلی یہودیوں سے ٹرمپ کی گہری دوستی کا ایک مظاہرہ دسمبر کے آخری ہفتے میں بھی سامنے آیا۔۲۷دسمبر۲۰۱۶ ء کو اقوامِ متحدہ نے کثرتِ راے سے ایک قرار داد منظور کی جس میں اعلان کیا گیا کہ: ’’مغربی کنارے اوربیت المقدس کے مشرقی علاقے میں اسرائیلی بستیاں بسانا غیر قانونی اور غیراخلاقی ہے‘‘۔ تب امریکی وزیر خارجہ، جان کیری، نے کہا تھا کہ:’’اسرائیلی اقدامات دو ریاستی فارمولے کو سبوتاژ کرنے کا باعث بن رہے ہیں‘‘۔ چنانچہ نیتن یاہو نے پلٹ کر امریکا کی بھی بے عزتی کی اور ہر اُس ملک کی بھی، جس نے اسرائیل کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ تاہم، صدر ٹرمپ نے اِس قرار داد کی مخالفت اور اسرائیل کی حمایت کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کا بھی مذاق اڑایا اور کہا: ’’یواین او محض اچھا وقت گزارنے کے لیے ایک کلب ہے‘‘۔ ٹرمپ صاحب نے اسرائیل کو ہلہ شیری دیتے ہوئے مزید کہا:’’نیتن یاہو (اسرائیلی وزیر اعظم ) کو نہ بے صبری کامظاہرہ کرنا چاہیے اور نہ ہمت ہارنی چاہیے۔ اسرائیل خاطر جمع رکھے‘‘۔
معاشرے کی تعمیر و ترقی میں عورت کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ ہر معاشرے میں نسل نو کی تعمیر اسی کے ہاتھوں ہوئی ہے اور ہو سکتی ہے۔ ’ماں کی گود بچے کی پہلی تربیت گاہ‘ کے تصور نے عورت کی حیثیت اور کردار کو مزید مستند بنایا ہے۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ کسی عورت کی معاشرے میں صرف بحیثیت ماں اہمیت نہیں ہوتی، بلکہ ہمارے معاشرے اور تہذیب میں خاندانوں اور نسلوں کے بننے اور بگڑنے میں ایک عورت بحیثیت بہن، بیٹی، ساس، بہو اور دیگر تمام رشتوں میں بہت اہم کردار کی حامل ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کردار کے ساتھ اس معاشرے نے کیا کیا؟ اور اس کردار کی تشنگی کو دُور کرنے کا راستہ کیا ہے؟
عورت کا یہ استحقاق دنیا بھر میں متاثر رہا ہے اور آج بھی ہے۔ بیداری کی تمام تحریکوں کے باوجود بھی عورت زیر عتاب ہی چلی آئی ہے اور اس کے حالات تبدیل نہیں ہوسکے۔
پاکستان کے دیہی علاقوں پر اگر نظر دوڑائیں تو جنوبی پنجاب کے بعض دیہات میں ’ونی‘ کی رسم اب بھی جاری ہے۔ اس رسم میں کسی بھی جرم چوری، ڈاکا، اغوا، رہزنی، قتل اور پسند کی شادی سمیت ہر قسم کے تنازعات، دشمنی اور رنجشوں میں راضی نامہ کرتے ہوئے پنچایت یا جرگہ کے تحت ملزم فریق کی لڑکیوں کو مدعی فریق کے مردوں کے نکاح میں دے دیا جاتا ہے۔ ایسی خواتین مدعی فریق کی غلام بن کر رہتی ہیں،جب کہ ان میں سے کچھ کو پھرسے صلح بدل رشتہ، یعنی ’ونی‘ کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ بسا اوقات ’ونی‘ کی صورت میں ملنے والی خواتین کو قتل اور فروخت بھی کر دیا جاتا ہے۔
ان جاہلانہ رسم و رواج پر مبنی واقعات کی چند بڑی وجوہ ہیں، مثلاً یہ کہ: جہاں پورے کا پورا نظام ظلم اور ناانصافی پر مبنی ہو تو وہاں کسی کو انصاف کیوں کر مل سکتاہے؟ جہاں عورت ہی کیا سب کے سب ظلم کی چکّی میں پس رہے ہوں، وڈیروں، جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کا سکہ چلتا ہو، جہاں عمر رسیدہ لوگ پنشن کی تھوڑی سی رقم کے لیے لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے رہنے پر مجبور ہوں، جہاں بچے تعلیم، صحت اور خوراک جیسی بنیادی ضروریات سے محروم ہوں، جہاں میرٹ پر ہوتے ہوئے آگے بڑھنے کے لیے راستہ نہ ملتا ہو، جہاں تعلیم و روزگار کے مواقع دولت، رشوت اور سفارش کی بنیاد پر حاصل کرنا آسان ہو، تو وہاں کسی ایک طبقے (عورت) کو انصاف کیسے مل سکتا ہے؟
۱- سوچنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاںایک بڑی تعداد میں این جی اوز، افراد، اداروں اور تنظیموں نے عورت کی فلاح و بہبود کے لیے کام کیا ہو،تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہاںبہتری نہ آئے۔ دراصل اسلامی جمہوریہ پاکستان میںکام کرتے ہوئے جو غلطی کی جارہی ہے، وہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح ریاضی یا فزکس کا کوئی سوال حل کرتے ہوئے شروع میں کلیہ غلط استعمال کرلیں تو لاکھ کوشش کے باوجود ہم سوال ٹھیک نہیں حل کر سکتے، جب تک کہ ہم درست کلیہ نہیں لگائیں گے اور اس کے مطابق حل نہیں نکالیں گے۔ جو لوگ اس وقت میدانِ عمل میں اس جدوجہد میں کوشاں ہیںاور حقوق نسواں کے حوالے سے کچھ بھی کرنا چاہتے ہیں،ان سے دردمندانہ درخواست ہے کہ وہ رک کر اس بات پر ضرور غور کریں کہ جس معاشرے میں ہم کام کررہے ہیں، وہاں یہ ’کلیہ‘ چلنے والا نہیں ہے جو ان میںسے اکثرنے لگایا ہوا ہے۔
لہٰذا، انھیں رُک کر سوچنا چاہیے کہ منزل کو پانے کے لیے جو راستہ چُنا گیا ہے، وہ منزل کو جاتا ہی نہیں۔ مسئلے کا حل عورت کو یہ باور کرانا نہیںکہ: ’’تمھارے ساتھ مردوں کی جانب سے زیادتی ہورہی ہے، اس لیے تمھیں مرد کے خلاف ڈٹ جاناچاہیے‘‘۔ نیز میڈیا کا دن رات یہ باور کراناکہ: ’’مردوںکے اس معا شرے میںعورت کو کس طرح مردوں کو مات دینی ہے اور اس کی بہتری کی راہ میں اگر کوئی حائل ہے تو وہ صرف مرد ہے‘‘۔یقین جانیں یہ مسئلے کا حل نہیں۔ صدیاں گزر جائیں گی مگر مسائل اس طرح نہیں حل ہو سکتے کہ مرد و عورت آپس میں ٹکراتے رہیںاور جو غالب آجائے وہ فاتح ہو۔
۲- جو لوگ عورت کے استحصال کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں ان کی اکثریت، اسلام کے عورت کو عطا کردہ ضابطۂ کار کا حقیقی علم و ادراک ہی نہیں رکھتی، یا پھر اسلام کے خلاف اس ڈس انفارمیشن سے متاثر ہے جو جان بوجھ کر پھیلائی جا رہی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ معاشرے میں ہے وہ چودہ سو سال پرانی تعلیمات ہیں جن پر علما نے کبھی اجتہادنہیں کیا، وغیرہ وغیرہ۔
۳ - جو اس کا علم اور ادراک رکھتے ہیں ان کی اکثریت نہ جانے کیوں اس موضوع کو اپنا موضوع نہیں بناتی؟ اور کام کو اپنی ترجیحات میں شامل نہیں کرتے؟ وہ دنیا کے سامنے یہ حقیقت نہیں لاپاتے کہ ہمارے پاس کتنی بڑی دولت غیرمترقبہ ہے جس کے بعد ہماری سوسائٹی کو اور بالخصوص طبقۂ نسواں کو کسی اور چیز کی ضرورت ہی نہیں رہ جاتی۔ اس معاملے میں رہی سہی کسر ان پیشہ ور مذہبی چہروں نے پوری کر دی، جو اسلام کو صرف اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنا جانتے ہیں، اور اپنی زبان اور عمل سے دنیا کے سامنے اسلام کا کچھ ایسا نقشہ پیشہ کرتے ہیں کہ اسلام تو شائد عورت کو قید کر کے رکھنا چاہتا ہے اور اسے دوسرے اور تیسرے درجے کا انسان قرار دیتا ہے۔
اسلام اتنی اَن گنت مراعات دے کر عورت کو ترغیب دیتا ہے کہ وہ اپنے شوہر کی شکرگزار اور فرماںبردار ہو اور اس کے پیچھے اس کے گھرکی نگران ـہو۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’نیک بیویاںشوہر کی اطاعت کرنے والی ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت ونگرانی میںان کے حقوق اور امانتوں کی حفاظت کرتی ہیں‘‘(النساء۴:۴۳) ۔اور صرف ایک بنیادی کام اس کو سونپا ہے کہ وہ انسانیت سازی، یعنی انسانی تخلیق اور تعمیر اور نسلِ نو کی آبیاری کا کام کرے اور اپنی اس بنیادی ذمہ داری کو ادا کرتے ہوئے، نیز اسلام کی حدود کا خیال رکھتے ہوئے وہ ترقی کی ہر سیڑھی پر قدم رکھ سکتی ہے۔ اسلام اس کو کسی طرح کے حصول تعلیم و تربیت (بلکہ حصول علم کو تو عین فرض کہا ہے)، ملازمت، کاروبار،سفر، مہم جوئی، حتیٰ کہ بنائو سنگھارتک کے راستے میں رکاوٹ نہیں ڈالتا۔
۱- ایک قلیل مدتی کورس میں طلبہ و طالبات کو موجودہ نصاب کے ساتھ مختصر دورانیے کے کورسزکروائے جائیں، جو تربیت کی اس ضرورت کو پوراکریںاور ان کورسز کوڈگری کے حصول سے مشروط کیا جائے۔ اور فی الوقت جو ادارے کسی بھی طرح کاتعلیم کا کام کر رہے ہیں، مثلاً اسکول، کالج یونی ورسٹیاں اور مدارس و غیرہ کے لیے یہ کورس ان کے طلبہ و طالبات کے لیے لازمی کیے جائیں۔
۲- دوم: طویل مدتی کورس جس میں نظام تعلیم کا جائزہ لے کر اس میں تربیت، اخلاقیات اور اقدار کو شامل کیا جائے۔ معاشرے کے مؤثر افراد اور اداروں کو طے کرنا ہوگا کہ یہ کام آیا حکومت خود کرے گی، یا اس پہ دبائو کے ذریعے کروایا جائے گا، یا سول سوسائٹی اور پبلک سیکٹر خود کریں گے، یا دونوں مل کے کریں گے۔
پاکستانی عورت کو بالخصوص یہ بات سمجھنی چاہیے کہ یہ ملک جس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، جس کا دستور کہتا ہے کہ ’’چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہی پوری کائنات کا بلا شرکت غیرے حاکم مطلق ہے، اور پاکستان کی جمہور کو جو اختیار و اقتدار اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کا حق ہوگا وہ ایک مقدس امانت ہے‘‘۔وہاں عورت کو اپنے حقوق، اپنے مقام، اپنی آزادی اور معاشی مضبوطی کے لیے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے اور اس کے لیے جدوجہد کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ دراصل اس جدوجہد کی ضرورت ہے کہ جو طاقت اور بلند مقام ایک عورت کو خالق کائنات نے اور کائنات کے سب سے بڑے بادشاہ نے عطا کر دیا ہے اس کو غصب کرنے کا حق دنیا کے چھوٹے چھوٹے خداؤںسے واپس لیا جائے۔
مسلمان فقہا کے درمیان ہر دور میں اختلافات پائے گئے ہیں، کیوںکہ وہ لوگ زمانے کی تبدیلی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل کا شرعی حکم معلوم کرنے کے لیے اجتہاد کیا کرتے تھے اور اجتہاد میں اختلاف کا وقوع پذیر ہونا ناگزیر ہے۔ بقول مفتی محمد شفیع صاحب ’’اختلاف صرف احمقوں میں نہیں ہوتا یا ان ضمیر فروش لوگوں میں کہ جو اپنے آقائوں کی ہر بات آنکھیں بند کر کے مان لیتے ہیں‘‘۔ چنانچہ سلف صالحین میں بھی اختلاف راے کا سلسلہ جاری رہا۔ مزید برآں بعض اوقات سیاسی مخالفت کی بنا پر محاذ آرائی کی نوبت آئی ۔ ایسے تمام مراحل میںاسلاف کا عمل جاننے کے لیے ہم یہاں پر کچھ واقعات پیش کرتے ہیں، جس سے یہ اندازہ ہو گا کہ بظاہر کسی نہ کسی انداز میں مخالفت کے باوجود دینی معاملات اور شرعی احکامات کے سلسلے میں وہ لوگ نہایت احتیاط برتتے تھے اور ان کا یہ اختلاف راے کبھی بھی دین میں شقاق وفرقہ بندی کا باعث نہیں بنی۔
___ امام سفیان ثوری کو امام ابو حنیفہ سے کچھ شکر رنجی تھی۔ ایک شخص نے آکر امام ابو حنیفہ سے کہا کہ سفیان ثوری آپ کو برا کہتے ہیں۔ امام صاحب نے فرمایا کہ: اللہ، میری اور سفیان دونوں کی مغفرت کرے۔ سچ تو یہ ہے کہ ابراہیم نخعی کے ہوتے ہوئے بھی اگر سفیان ثوری دنیا سے اُٹھ جاتے تو مسلمانوں کو سفیان کے مرنے کاماتم کرنا پڑتا۔
___ ایک دن حلقۂ درس کے دوران ایک نو عمر لڑکے نے کوئی مسئلہ پوچھا۔ امام ابوحنیفہ نے جواب دیا۔ اس لڑکے نے کہا : ’’امام صاحب! آپ نے غلط جواب دیا ہے‘‘۔ابوالخطاب جرجانی درس میں موجود تھے۔ انھیں لڑکے کی بات سن کر بڑا غصہ آیا اور حاضرین کو مخاطب کر کے کہا : ’’تعجب ہے کہ ایک لونڈا جو بھی منہ میں آئے امام سے کہہ دے اور آپ لوگ ٹس سے مس نہ ہوں‘‘۔امام ابوحنیفہ نے ابوالخطاب سے کہا : ’’ان لوگوں پر کچھ الزام نہیں، میں اس جگہ بیٹھا اس لیے ہوں کہ لوگ آزادانہ میری غلطیوں کی نشان دہی کریں اور میں تحمل سے سنوں ‘‘ ۔
ان واقعات پر غور کرنے سے یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ ہمارے سلف صالحین میں اختلاف راے اور سیاسی مخالفت کے باوجود کس قدر رواداری پائی جاتی تھی اور وہ باہمی احترام اور عزت نفس کو کس قدر ملحوظ رکھتے تھے۔ انھوں نے اختلاف راے کو کبھی اپنی اَنا کا مسئلہ نہیں بنایا اور کبھی یہ نہ کہا کہ صرف میری ہی بات حق ہے اور دوسروں کی باطل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ معمولی معمولی فقہی اُمور پر لڑتے ہوئے امت میں افتراق پیدا کرنا نہایت خطرناک اور دین دشمنی سمجھتے تھے اور اس سے سختی سے پرہیز کرتے تھے۔ تاہم، اس سے یہ تاثر نہ لیا جائے کہ موجودہ دور میں اس قسم کے لوگ بالکل نہیں پائے جاتے اور یہ خاصیت صرف اسلاف کی تھی جو اب ناپید ہیں۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہے بلکہ تعصب اور تنگ نظری کے اس ظلمت کدہ میں اب بھی ایسے ستارے موجود ہیں جو ہمارے لیے مشعل راہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو وسعت نظر اور حقیقی دین داری سے بہرہ مند فرمائے ۔ آمین !
وہ مذاہب جو عرفِ عام میں صلح و آشتی اور امن و سلامتی، نیز انسانی ہمدرردی اور محبت کے ’علَم بردار‘ قرار دیے جاتے ہیں، ان میں سے ایک عیسائیت ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ باتیں بڑی حد تک صحیح بھی معلوم ہوتی ہیں۔ لیکن عیسائیت کے سلسلے میں ہمیں یہ بات قطعاًنہیں بھولنی چاہیے کہ یہ ایک نا تمام مذہب ہے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی لائی ہوئی شریعت کی تجدید ہے۔ گویا اصل شریعت شریعتِ موسوی ہے، جو بنی اسرائیل کے لیے تھی اور حضرت موسٰی کی بعثت خالصتاً بنی اسرائیل ہی کی طرف کی گئی تھی۔ مولا نا مودودیؒ لکھتے ہیں:
اس حقیقت کو خود مسیحی علمابھی تسلیم کرنے لگے ہیں۔ [کچھ عرصہ پہلے] ایک مشہور مسیحی عالم ڈین انجے نے، جن کو کنیسہ سینٹ پال کا سب سے بڑا منصب حاصل تھا، گرٹن کالج کیمبرج میں تقریر کرتے ہوئے اعتراف کیا تھا کہ: مسیحؑ نے کبھی موسوی تعلیم سے انحراف نہیں کیا، نہ کوئی نئی تعلیم دی ، نہ موسوی مذہب کے مقابل کوئی نیا مذہب قائم کیا۔ روحانی معاملات میں وہ آزادی تو ضرور چاہتے تھے، لیکن اپنے ملک اور وقت کی باتوں کو انھوں نے قبول کیا۔ اس لحاظ سے موسوی شریعت سے الگ ہونا تو ضروری تھا، مگر مسیح نے عیسائیوں کے لیے خود کوئی شریعت تجویز نہیں کی۔(سیّد ابو الاعلیٰ مودودی، الجہاد فی الاسلام، ص ۴۳۵، ۴۳۶، ادارہ ترجمان القرآن، لاہور، ۱۹۷۸ء)
یہ نہ سمجھو کہ میں تورات یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں۔ منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں۔ [متی ، ۵:۱۷]
دراصل بعثت مسیح ؑکا مقصدان کمیوں، خامیوں اور نقائص کو دُور کرنا تھا، جو ایک طویل مدت سے افراد قوم میں در آئی تھیں اور جنھوں نے انھیں اندر ہی اندر کھو کھلا بنا کر رکھ دیا تھا۔ آپؑ کا مقصد ان میں اخلاقی فضیلت کی روح پھونکنا، اور انھیں راست بازی، دیانت داری، حلم و بر درباری، عفوودرگزر، زہد و تقویٰ، قناعت و سیر چشمی اور فروتنی و ایثار کی تعلیم سے آراستہ کرنا تھا۔ اس کے علاوہ وہ حد سے زیادہ طمّاع، دنیا پرست اور بندۂ غرض بن کر رہ گئے تھے۔ اس لیے حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنا پورا وقت ان کی انھی اخلاقی خرابیوں کو مٹانے میں صرف کیا۔ پس یہ بات سچ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی تعلیمات میں اخلاقی فضائل اور نفسانی خواہشات کو دبانے پر زیادہ زور ہے۔
اس مسلّمہ حقیقت کو جان لینے کے بعد یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ حضرت عیسیٰؑ کی نبوت زیادہ مدت کے لیے نہ تھی۔ کل ڈھائی یا تین سال کی مدت انھیں میسر آئی اور اس مختصر سی مدت میں ان کے لیے جو کچھ ممکن تھا، انھوں نے کیا۔ ان کے بعض اقوال سے اس بات کی بھی شہادت ملتی ہے کہ وہ جنگ و قتال کی اہمیت سے غافل نہ تھے اور حق پر باطل کی فتح کو وہ ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہ کر سکتے تھے۔ اس مضمون میں حضرت مسیحؑ کی تعلیمات کے اس پہلو کو بھی پیش نظر رکھا گیا ہے۔ اگرچہ عیسائیت میں امن و عدل سے متعلق کافی مواد ہے، حالاں کہ اس قسم کی تعلیمات سے مثالی معاشرے کے قیام کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔
انجیل کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ مسیحیت جنگ کی مخالف تو ضرور ہے، لیکن بہت ساری آیتوں میں دشمنوں سے جنگ و قتال کی تلقین بھی ملتی ہے۔ چنانچہ مسیحیت میں جنگ و جہاد کے تصور کو سرے سے خارج قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ ہاں، اتنا ضرور ہے کہ عیسائیت کے نزدیک سب سے بڑا حکم، محبت کا اصول ہے، جیسا کہ انجیل مقدس میں ہے :
پیروانِ مسیح کو یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ وہ ظلم و عدوان اور سرکشی و فساد کے خلاف آواز بلند نہ کریں، بلکہ اس کے سامنے سرا طاعت جھکا دیں اور خود پر ہونے والے مظالم کو برداشت کریں۔ اس کی واضح مثال ’پہاڑی کا وعظ‘ ہے، جس میں حضرت مسیحؑ نے اپنے حواریوں کو اخلاق و کردار کی درستی، اور ظلم و ستم سے دور رہنے بلکہ انتقام اور بدلہ کے جذبات سے بھی دور رہنے کی تلقین کی ہے:
تم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت، لیکن میں کہتا ہوں کہ شریر کا مقابلہ نہ کرو، بلکہ جو کوئی تیرے داہنے گال پر طمانچہ مارے تو دوسرا گال اس کی طرف پھیر دے، اور کوئی تجھ پر نالش کرکے تیرا کرتا لینا چاہے تو چوغہ بھی اسے لینے دے۔ [متی ، ۵: ۴۱]
ان آیتوں کی روشنی میں یہ بات واضح انداز میں کہی جا رہی ہے کہ تم ظلم و جور کے خلاف کوئی بھی آواز بلند نہ کرو بلکہ ان تمام چیزوں کو سہتے رہو، اسی میںتمھاری بھلائی مقدر ہے۔اسی طرح دوسری جگہ دشمنوں سے حسن سلوک اور نیک برتائو کی تعلیم دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
تم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ اپنے پڑوسی سے محبت رکھو اور اپنے دشمن سے عداوت، لیکن اپنے ستانے والوں کے لیے دعا کرو۔[متی ،۵: ۴۴]
میں تم سننے والوں سے کہتا ہوں کہ اپنے دشمن سے محبت رکھو، جو تم سے عداوت رکھے ان کا بھلا کرو، جو تم پر لعنت کریں ان کے لیے برکت چاہو، جو تمھاری تحقیر کریں ان کے لیے دعا مانگو … چاہتے ہو کہ لوگ تمھارے ساتھ اچھا برتائو کریں تو تم بھی ان کے ساتھ ویسا ہی کرو۔ اگر تم محبت رکھنے والوں ہی سے محبت رکھو تو تمھارا کیا احسان ہے، کیونکہ گناہ گار بھی اپنے محبت رکھنے والوں سے محبت رکھتے ہیں۔ [لوقا ، ۶: ۲۷-۳۲]
یہ تعلیم مسیحؑ کا اصل الاصول ہے اور ان الفاظ ہدایت کا منشا بھی واضح ہے کہ ایک سچا عیسائی یا مسیحی اگر کامل اور خدا کا قریبی بننا چاہتا ہے تو وہ کسی بھی حال میں ظلم و تعدی اور جبرو تشدد کا مقابلہ نہ کرے، بلکہ فتنہ پروروں اور فسادیوں کے سامنے اپنے حقوق سے دست بردار ہو جائے۔
حضرت عیسیٰؑ کا سب سے پہلا کام یہ تھا کہ قوم کو اخلاقی پستی اور تنزل و انحطاط سے نکالا جائے اور ان کے اندر اچھے اخلاق کی روح پھونکی جائے، کیونکہ اس عمل کے بغیر قومیں کبھی کائنات میں اپنا وجود بر قرار نہیں رکھ سکتیں۔ اسی لیے حضرت مسیحؑ نے اپنی تعلیمات میں قومی سیرت کی تعمیر و ترقی کی طرف توجہ کی اور اپنے اس کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں اس بات کا ہمیشہ خیال رکھا کہ کہیں بھی حکومت و اقتدار سے تصادم کی صورت پیش نہ آئے۔ اگر وہ ابتداء ہی میں جنگ و جدال کی صورت حال کو پیدا کر دیتے تو وہ اپنے اس اصلاحی مشن میں نا کام نظر آتے۔ اسی لیے انھوں نے حکومت کے ساتھ تصادم سے ہمیشہ خود کو دور رکھا۔ ایک موقعے پر حضرت مسیحؑ سے قیصر کو ٹیکس دینے کے سلسلے میں یہودیوں نے مسئلہ دریافت کیا تو حضرت مسیحؑ نے کہا :’’جو قیصر کا ہے قیصر کو دو اور جو خدا کا ہے خدا کو دو‘‘۔ [مرقس ، ۱۰: ۲۵]
ابتدا میں ان سب احکام کا مدعا یہ تھا کہ حکومت و طاقت سے نبرد آزمائی نہ ہو اور قوم میں ثابت قدم رہنے کی قوت پیدا ہو جائے۔ بعد میں جب ان میں دھیرے دھیرے ہمت و حوصلہ آنے لگا تو انھوں نے اپنی قوم کو استقامت، تحمل اور بے خوفی کی تعلیم دینا شروع کر دی۔ ان کے اندر سے خوف وہر اس کو نکالنے کی بھرپور کوشش کی۔ چنانچہ انھوں نے کہا :
لیکن خبر دار رہو، وہ تم کو عدالتوں کے حوالے کریں گے اور تم عبادت خانوں میں پیٹے جائو گے اور بادشاہوں کے سامنے میری خاطر حاضر کیے جائو گے تاکہ ان کے لیے گواہ ہو … مگر جو آخر تک برداشت کرے گا نجات پائے گا۔[مرقس ، ۱۳: ۹]
جو کوئی اپنی جان بچانا چاہے، وہ اسے کھوئے گا۔ اور جو کوئی میری خاطر اپنی جان کھوئے گا وہی اسے بچائے گا۔ [لوقا ، ۹: ۲۴]
انھوں نے لوگوں کی طاقت و قوت پر بھروسا کرنے کے بجاے خدا کی ذات پر بھروسے کی تعلیم دی کہ تم لوگوں کے الطاف و عنایات کے خواہاں نہ رہو بلکہ اپنے خدا سے مانگو۔ انھوں نے کہا:
جب تم برے ہو کر اپنی اولاد کو اچھی چیزیں دیتے ہو تو تمھارا باپ اپنے مانگنے والوں کو کیوں نہ دے گا۔ [لوقا ، ۱۱: ۱۳]
حضرت عیسیٰؑ لوگوں کے دلوں سے قتل کیے جانے کا خوف بالکل نکال دینا چاہتے تھے۔ اسی لیے وہ یہ تعلیم دیتے ہیں کہ لوگ جسموں کو تو قتل کر سکتے ہیں، روحوں کو اسیر نہیں بنا سکتے کیوںکہ یہ ان کے اختیار سے باہر ہے۔ فرماتے ہیں :
مگر میں تم دوستوں سے کہتا ہوں ان سے نہ ڈرو جو بدن کو قتل کرتے ہیں۔ اس کے بعد اور کچھ نہیں کر سکتے۔ اُس سے ڈرو جس کو اختیار ہے کہ قتل کرنے کے بعد جہنم میں ڈالے۔ [لوقا ،۱۲: ۴-۵]
حضرت مسیحؑ یہ سب نصیحت آمیز باتیں اپنی قوم کو اس وجہ سے بتا رہے تھے کہ نفس، اَنا، ریا اور اقتدار کے بتوں سے نبرد آزما ہو کر روحانیت کی اعلیٰ منزل حاصل ہو جائے اور خدائی بادشاہت کا حصول ممکن ہو سکے، نیز ان کے اندر حریت و آزادی کے حصول کا جذبہ پیدا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدا میں حضرت عیسٰیؑ نے اپنی تعلیمات کو صرف ہمدردی، ترحم اور اعلیٰ اخلاقیات پر مرکوز رکھا۔ لیکن جب ان کے اندر یہ جذبات نشو و نما پا گئے تو تدریجی طور پر آخری زمانے میں جہاد و قتال اور جنگ وغیرہ کی بھی تعلیمات دیں۔ اس میں صداقت ہے کہ ابتدا میں تو بہت کم لوگ مذہب عیسائیت کے حلقۂ بگوش ہو سکے، کیوںکہ حضرت عیسیٰؑ نے اپنے حواریوں کو کسی بھی طرح کے رد عمل سے منع کردیا تھا، لیکن بعد میں آپ ؑ نے جنگ و قتال اور دشمنوں سے بدلہ لینے کی بھی تعلیم دی، تو قابلِ ذکر حد تک حلقۂ احباب بڑھا۔ چند اقتباسات بغرض ملاحظہ پیش کیے جاتے ہیں :
میرے دشمنوں کو میرے سامنے لاکر قتل کر دو، جنھوں نے نہیں چاہا کہ میں ان پر بادشاہی کروں۔[لوقا، ۱۹: ۲۷]
اس نے ان سے کہا کہ مگر اب جس کے پاس بٹوا ہو وہ اسے لے اور اسی طرح جھولی بھی اور جس کے پاس نہ ہو وہ اپنی پوشاک بیچ کر تلوار خریدے … انھوں نے کہا: اے خداوند دیکھ لو تلواریں ہیں، اس نے کہا بہت ہیں۔[لوقا، ۲۲: ۳۷-۳۸]
بلکہ خود تیری جان بھی چھد جائے تاکہ بہت لوگوں کے دلوں کے خیال کھل جائیں۔ [لوقا، ۲: ۳۶]
جب تم لڑائیاں اور لڑائیوں کی افواہیں سنو تو گھبرا نہ جانا۔ ان کا واقع ہونا ضرور ہے لیکن اس وقت تک ختم نہ ہوگا۔ کیوںکہ قوم پر قوم ،سلطنت پر سلطنت چڑھائی کرے گی، جگہ جگہ بھونچال آئے گا اور کال پڑیں گے۔[متی،۲۴: ۶-۸]
انجیل لوقا میں ہے کہ حضرت مسیحؑ کی بعثت کا مقصد لوگوں میں جدائی پیدا کرانا ہے۔ مقصد بعثت پر روشنی ڈالتے ہوئے حضرت مسیحؑ ارشاد فرماتے ہیں :
کیا تم گمان کرتے ہو کہ میں زمین میں صلح کرانے آیا ہوں؟ میں تم سے کہتا ہوں کہ نہیں، بلکہ جدائی کرانے آیاہوں۔[لوقا، ۱۲: ۵۱]
کیوںکہ جو کوئی اپنے آپ کو بڑا بنائے گا وہ چھوٹا کیا جائے گا، اور جو اپنے آپ کو چھوٹا بنائے گا بڑا کیا جائے گا۔ [لوقا،۱۴: ۱۹]
کیونکہ جو کوئی اپنی جان بچانا چاہے وہ اسے کھوئے گا، اور جو کوئی میری اور انجیل کی خاطر اپنی جان کھوئے گا وہ اسے بچائے گا۔[مرقس، ۸: ۳۵]
اور میرے نام کے سبب سے سب لوگ تم سے عداوت رکھیں گے مگر جو اخیر تک برداشت کرے گا نجات پائے گا۔[متی، ۱۰: ۲۳]
اور بھائی بھائی کو اور بیٹا باپ کو قتل کے لیے حوالے کرےگا اور بیٹے ماں باپ کے خلاف کھڑے ہو کر انھیں مروا ڈالیں گے۔ [مرقس، ۱۳: ۱۲]
عیسیٰ مسیح ؑ اپنے متبعین کو دشمنان حق پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے فرماتے ہیں کہ تم پوری جدوجہد کے ساتھ دشمنوں سے مقابلہ کرو اور اس مقابلے میں تم کو کوئی نقصان نہ پہنچے گا۔ انجیل مقدس میں حضرت عیسیٰؑ کا یہ فرمان موجود ہے :
دیکھو میں نے اختیار دیا ہے کہ سانپوں اور بچھوئوں اور دشمن کی ساری قدرت پر غالب آئو، اور تم کو ہر گز کسی چیز سے ضرر نہ پہنچے گا۔[لوقا، ۱۰: ۲۲]
میں زمین میں آگ بھڑکانے آیا ہوں اور آگ لگ چکی ہوتی تو میں کیا خوش ہوتا۔[لوقا، ۱۲: ۴۹]
اگر کوئی میرے پاس آئے اور اپنے باپ اور ماں اور بیوی اور بچوں اور بھائیوں اور بہنوں بلکہ جان سے بھی دشمنی نہ کرے، تو میرا شاگرد نہیں ہو سکتا۔[لوقا، ۱۴: ۲۶]
حضرت موسٰی کی تعلیم صدیوں بنی اسرائیل کے کانوں سے ٹکراتی رہی لیکن ان کی تعلیم ان کی زندگیوں پر قطعاً اثر انداز نہ ہو سکی۔ وہ حد سے زیادہ دنیا طلبی کی طرف راغب تھے۔ خدا ترسی سے وہ بہت دور ہو چکے تھے۔ انھی برائیوں کو دور کرنے کے لیے حضرت مسیحؑ کو اللہ رب العزت نے مبعوث فرمایا اور حضرت عیسیٰؑ نے موسویؑ شریعت میں انھی چیزوں کی تجدید فرمائی۔ پس دین مسیحؑ کوئی علیحدہ دین نہ تھا، بلکہ یہ شریعت موسوی کی تکمیل تھا۔ خود انجیل میں حضرت مسیحؑ کے یہ الفاظ مذکور ہیں :
یہ نہ سمجھو کہ میں توراۃ یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں۔ منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں۔ کیوں کہ میں تم سب سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں توراۃ کا ایک نقطہ یا ایک شوشہ بھی پورا ہوئے بغیر نہ ٹلے گا۔[متی، ۵: ۱۷-۱۸]
ایک دوسری جگہ اپنے متبعین کو حکم دیتے ہیں :
[فقیہ اور فریسی موسٰی کی گدی پر بیٹھے ہیں۔ پس جو کچھ وہ تمھیں بتائیں سب عمل میں لائو اور مانتے رہو، لیکن ان کے سے کام نہ کرو کیونکہ وہ جو کچھ کہتے ہیں کرتے نہیں ہیں۔ وہ ایسے بھاری بوجھ جنھیں اٹھانا بھی مشکل ہے دوسروں کے کندھوں پر رکھ دیتے ہیں، مگر انگلی سے بھی ہلانا نہیں چاہتے۔[متی، ۳۳: ۱-۴]
شریعت موسٰی کی معرفت دی گئی اور فضیلت و صداقت یسوع مسیحؑ کی معرفت پہنچی۔ [یوحنا، ۱: ۱۷]
ان تمام اقوال سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ شریعت موسوی کے احکام و ہدایت کو حضرت مسیحؑ نے نہ صرف باقی رکھا، بلکہ ان پر صداقت و فضیلت کی مہر بھی لگا دی۔
’عہد نامہ قدیم‘ میں بھی بہت ساری آیتیں ہیں جو واضح انداز میں یہ بتاتی ہیں کہ جنگ و جدال کا ہونا طے ہے۔ اس جنگ کے ذریعے سے لوگوں کو ہلاک و برباد کرنے کی تعلیم ملتی ہے۔ ان آیتوں میں یہ بھی تعلیم ملتی ہے کہ جس ملک و قوم پر تم حملہ آور ہو اس کو بالکل ہی نیست و نابود کر دو، سرسبز و شاداب کھیتوں اور باغوں کو جلا کر خاک میں تبدیل کر دینے کی تلقین ملتی ہے۔ یہ آیتیں جنگ کا اتنا بھیانک تصور دیتی ہیں کہ آسمانی کتابوں میں کہیں اور نہیں ملتا۔ رونگٹے کھڑے کر دینے والی یہ آیات ’عہد نامہ قدیم‘ کی کتاب استثناء میں آئی ہیں :
جب تو کسی شہر سے جنگ کرنے کو پہنچے تو اسے پہلے صلح کا پیغام دینا اور اگر وہ تجھ کو صلح کا جواب دے اور اپنے پھاٹک تیرے لیے کھول دے تو وہاں کے سب باشندے تیرے باج گذار بن کر تیری خدمت کریں۔ اور اگر وہ تجھ سے صلح نہ کرے بلکہ تجھ سے لڑنا چاہے تو تُو اس کا محاصرہ کرنا، اور جب خدا وند تیرا خدا اسے تیرے قبضے میں کردے تو وہاں کے ہر مرد کو تلوار سے قتل کر ڈالنا، لیکن عورتوں اور بال بچوں اور چوپایوں اور شہر کے سب مال لوٹ کر اپنے لیے رکھ لینا، اور تُو اپنے دشمنوں کی اس لوٹ کو جو خدا وند تیرے خدا نے تجھ کو دی ہو، کھانا اور سب شہروں کا یہی حال کرنا جو تجھ سے دور ہیں اور ان قوموں کے شہروں میں جن کو خدا وند تیرا خدا میراث کے طور پر تجھ کو دیتا ہے کسی ذی نفس کو جیتا نہ بچا۔[کتاب استشناء،۲۰: ۱۶-۱۰]
کسی بھی چیز کا پاس و لحاظ نہ رکھا جائے چاہے وہ انسان ہوں یا حیوان، لوگوں کے مسکن ہوں یا عبادت گاہیں، سب کو تباہ و برباد کر دینے کی تعلیم ’عہد نامہ قدیم‘ میں ملتی ہے جیسا کہ کتاب خروج کی اس آیت سے واضح ہوتا ہے :
اور میں ان کو ہلاک کر ڈالوں گا، تو ان کے معبودوں کو سجدہ نہ کرنا اور نہ ان کی عبادت کرنا، نہ ان کے لیے کام کرنا بلکہ تو ان کو بالکل اُلٹ دینا، ان کے ستونوں کو ٹکڑے کرڈالنا۔[کتاب خروج، ۲۳: ۲-۲۳]
قوموں کو تباہ و برباد کرنے میں اور ان کو تہس نہس کرنے میں کمی و کوتاہی پر تنقید کی جاتی ہے اور کسی بھی قوم سے کوئی ایسا عہد و پیمان کرنے کو شدت سے ممنوع قرار دیا جاتا ہے، جو اس کی تباہی و بربادی میں مانع و مزاحم بنے، جیسا کہ کتاب خروج کی دوسری آیت میں موجود ہے :
سو، خبر دار رہنا کہ جس ملک کو تو جاتا ہے، اس کے باشندوں سے کوئی عہد نہ باندھنا، ایسانہ ہو کہ وہ تیرا پھندا ٹھیرے، بلکہ تو ان کی قربان گاہوں کو ڈھا دینا اور ان کے ستونوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دینا۔ [کتاب خروج، ۳۴: ۳۱-۱۲]
عہد نامہ قدیم و جدید کے ان اقتباسات پر غور کیا جائے تو دشمنانِ اسلام کے ان اعتراضات پر سخت حیرت ہوتی ہے، جو وہ اسلام کے مقدس تصورِ جہاد پر یہ اعتراض اور کذب بیانی کرتے چلے آرہے ہیں کہ اسلام کی اشاعت و تبلیغ دنیا میں بزورِ تلوار ہوئی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کوئی لاچار، مجبور اور مقہور اگر اپنی مدافعت میں جان پر کھیل کر ظالموں کے خلاف جنگ و جدال کی راہ اختیار کرے، اور اپنے حقوق کی بازیافت کے لیے جد وجہد کرے، اور مذہبی آزادی کے لیے جابروں اور ظالموں سے پنجہ آزمائی کرے اور اپنی جان و مال کی حفاظت کے لیے قربانی پیش کرے، تو کیا یہ قتل و غارت گری کو بڑھاوا دینا ہے؟ کیا یہ اسلام یا مسلمانوں سے منسوب دہشت گردی اور وحشت ہے؟ نہیں، بلکہ اپنے حقوق کو حاصل کرنے کے لیے یہ ایک نیک عمل ہے۔ یہ تو ظلم و تشدد، قتل و غارت گری، فتنہ و فساد اور بدامنی و ناانصافی کے خلاف ایک منظّم کوشش ہے۔
’عہد نامہ قدیم‘ کی تعلیمات سے قطع نظر ’عہد نامہ جدید‘ میں جنگ اور محرکات جنگ کا خواہ ناقص تصور ہو یا شر پسندوں اور ظالموں سے بلا قید و شرط اغماض اور چشم پوشی ہو، یہ سب تعلیمات اپنے متبعین کوفی الحقیقت سیکنت و طمانیت کی نعمت سے محروم رکھتی ہیں اور کم از کم یہ بات تو حتمی اور قطعی ہے کہ ایک ایسے معاشرے کی تشکیل میں یہ تعلیمات زبردست مانع و مزاحم ہیں، جس میں عدل و انصاف اور امن و آشتی کا ماحول ہو، مظلوموں کی دادرسی کا روح پرور منظر ہو اور شرپسندوں اور فتنہ پروروں کے خلاف محاذ آرائی ہو۔
سوال :مرکز قومی بچت میں رقم لگانا کیسا ہے ؟ طریق کار یہ ہے کہ لوگ اپنے پیسے جمع کراتے ہیں اورایک لاکھ پر ۱۰۰۰؍۱۱۰۰ روپے ماہانہ کے حساب سے منافع وصول کرتے ہیں اور رقم بھی محفوظ رہتی ہے ۔
میرے کئی جاننے والے ہیں جنھوں نے اپنی رقم قومی بچت کے مرکز میں رکھی ہے ۔ اکثر آسودہ حال ہیں ۔ذاتی مکان ہے ، ۵۰ ہزار روپے ماہانہ پنشن بھی ملتی ہے ۔ مکان کا ایک حصہ کرایے پر بھی دیا ہوا ہے ، خرچ براے نام ہے ۔ میں نے اپنے طور پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ کسی ایسے شخص کے گھر سے جس کی رقم مرکز قومی بچت میں لگی ہو اورمجھے پتا چل جائے تومیں اس کے گھر سے پانی پینا بھی اپنے لیے ناجائز سمجھتا ہوں،البتہ گھروالوں کو اس بارے میں منع نہیں کیا ہے اورکہا ہے کہ جومہمان آئے اس کی مناسب خاطر تواضع کی جائے ، البتہ وہ میرے گھر میں کوئی چیز نہ لائے ۔
کیا میرا یہ فیصلہ درست ہے ؟ دین اسلام کی روشنی میں ایسا کرنا کیسا ہے؟ کئی علما جوازکا بھی فتویٰ دیتے ہیں اورکچھ کہتے ہیں کہ جب حکومت دیتی ہے تو ہم کیوںنہ لیں؟ بڑے بڑے پڑھے لکھے لوگ ایسا کرتے ہیں تو ہم کیوں نہ کریں؟ میری اُلجھن دور فرمادیں؟
جواب:کسی جمع شدہ رقم پر متعین مقدار میں منافع حاصل کرنا ربا (سود ) ہے، جسے اسلام میں حرام قرار دیا گیا ہے ۔ قرآن کریم میں سودی لین دین کرنے والوں کے خلاف اللہ اوراس کے رسولؐ کی طرف سے جنگ کا اعلان کیا گیا ہے ۔(البقرہ۲: ۲۷۸-۲۷۹)، اورحدیث میں ہے کہ سودی کاروبار کرنے والوں اوراس میں معاونت کرنے والوں ، دونوں پراللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے (مسلم:۱۵۹۷، ۱۵۹۸)۔ اس لیے اصولی طور پر یہ بات طے شدہ ہے کہ سودی کاروبار اور اس میں ملوث افراد کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے۔
البتہ سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص سود خوری کا ارتکاب کررہا ہوتو کیا اس سے سماجی تعلقات رکھے جاسکتے ہیں ؟ اس کی تقریبات میں شریک ہوا جاسکتا ہے ؟ اس کی دعوت قبول کی جاسکتی ہے ؟ اور اگروہ کوئی تحفہ دے تواسے قبول کیا جاسکتا ہے ؟
اس کا فیصلہ کرتے وقت دین کی مجموعی تعلیمات اور شرعی مصلحت کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے ۔ ایک طرف اہل خاندان اورسماج میں رہنےوالے دیگر افراد سے تعلقات رکھنے کاحکم دیا گیا ہے اوران سے قطع تعلقی سے روکا گیا ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوے سے ہمیں یہی تعلیم ملتی ہے ۔ آپؐ نے نہ صرف اپنے خاندان والوں، اوردیگر اہل ایمان سے خوش گوار تعلقات رکھے، بلکہ سماج کے دیگر غیر مسلم افراد اور غیر مسلم حکم رانوں سے بھی روابط رکھے، اور ان کے ساتھ تعلقات میں خوش گواری کے لیے انھیں ہدیے بھیجے اوران کے ہدیے قبول کیے ۔ دوسری طرف حرام مال اورحرام مشروبات سے احتراز کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اس لیے فقہا نے یہ راے ظاہر کی ہے کہ اگر کسی شخص کی کل آمدنی یا اس کا زیادہ تر حصہ سود پر مبنی ہوتو اس کی دعوت یا اس سے کوئی تحفہ قبول کرنا جائزنہیں ، لیکن اگرایسا نہ ہو اوراس کی زیادہ تر آمدنی حلال ذرائع سے ہوتو اس کی دعوت یا اس کا تحفہ قبول کرنے میں کوئی مضایقہ نہیں ہے ۔ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی سیکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی (بھارت) نے فتاویٰ عالم گیری کے حوالے سے لکھا ہے:’’اگر معلوم ہوکہ دعوت سودی پیسے سے کی جارہی ہے تب تو دعوت میں شریک ہونا قطعاً جائز نہیں ہے اوراگر دعوت کا حلال پیسےسے ہونا معلوم ہوتو دعوت میں شرکت جائزہے،اور اگر متعین طورپر اس کا علم نہ ہو تو پھر اس بات کا اعتبار ہوگا کہ اس کی آمدنی کا غالب ذریعہ کیا ہے ؟ اگر غالب حصہ حرام ہے تو دعوت میں شرکت درست نہیں اورغالب حصہ حلال ہے تو دعوت میںشرکت جائز ہے‘‘ ۔(کتاب الفتاویٰ ، زمزم پبلشرز ، کراچی ،ج۶، ص ۲۰۱،بہ حوالہ الفتاویٰ الہندیۃ: ج۵، ص ۳۴۳)
علما یہ بھی کہتے ہیں کہ جولوگ سودی کاروبار اور لین دین میں ملوث ہوں ان کی دعوتوں میں شرکت کرنے سے سماج کے سربر آوردہ لوگوں اورخاص طور پر علما کو احتراز کرنا چاہیے ، تاکہ ایسے لوگوں کی حوصلہ شکنی ہواور دو سروں تک درست پیغام جائے ۔
بہر حال اس معاملے میں دینی مصلحت اور شرعی تقاضوں کو پیش نظر رکھنا چاہیے اوراس کے مطابق جوبات مناسب لگے اس پرعمل کرنا چاہیے۔(مولانا ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی)
سوال : اخبار میں ایک استفسار کے جواب میں درج ہے: ’’شرعاً والد کو یہ حق حاصل ہے، بلکہ اُس کے لیے ضروری ہے کہ اگر طلاق کی نوبت آئے تو اپنی ساری اولاد کو وہ اپنے پاس رکھے۔ والدہ کو اولاد رکھنے کا کوئی حق نہیں، مگر حدیث پاک میں آیا ہے کہ:
۱- ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ یہ میرا بیٹا ہے، میرا بطن اس کی جاے قرار تھی۔ میرے سینے سے اس نے دودھ پیا اور میری آغوش نے اِسے پالا ہے۔ اب اس کے باپ نے مجھے طلاق دے دی ہے اور چاہتا ہے کہ اسے مجھ سے چھین لے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’جب تک تو نکاح نہ کرے، تو اِس بچے کی زیادہ حق دار ہے‘‘۔ (مشکوٰۃ ، بلوغ الصغیر وحضانتہ)
۲- نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ایک لڑکے کو اختیار دیا کہ وہ چاہے تو باپ کے پاس رہے اور چاہے تو ماں کے پاس۔(ایضاً)
۳- ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: ’’میرا خاوند چاہتا ہے کہ میرے بیٹے کو لے جائے ، حالاں کہ وہ [بچہ]مجھے پانی لا دیتا ہے اور میرے کام آتا ہے۔ آپؐ نے اس لڑکے سے فرمایا: ’’یہ تمھارا باپ ہے اور یہ تمھاری ماں ہے، جس کا ہاتھ چاہو پکڑلو‘‘۔ اُس نے ماں کا ہاتھ تھام لیا اور وہ اُسے لے کرچلی گئی۔ (ایضاً)
۴- حضرت ابوہریرہؓکے پاس ایک فارسی عورت آئی، جس کے ساتھ اُس کا بیٹا تھا، اور جس کے شوہر نے اسے طلاق دے دی تھی۔ میاں بیوی نے حضرت ابوہریرہؓ کے سامنے اپنے مقدمے کو پیش کیا۔ عورت نے اپنی زبان میں کہا: میرا خاوند، میرے بیٹے کو لے جانا چاہتا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ نے فرمایا: ’’بچے کے بارے میں قرعہ ڈال لو‘‘۔ خاوند نے آکر کہا: ’’میرے بیٹے کے بارے میں میرے استحقاق میں کون جھگڑا کرسکتا ہے‘‘؟ حضرت ابوہریرہؓ نے جواب دیا: میں یہ بات صرف اس لیے کہہ رہا ہوں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا اور ایک عورت نے آکر کہا: ’’میرا خاوند میرے بیٹے کو لینا چاہتا ہے، حالاں کہ بچہ میرے کام کرتا ہے اور مجھے پانی لا دیتا ہے‘‘۔ آپ نے فرمایا: ’’دونوں میں قرعہ ڈال لو‘‘۔ باپ نے کہا: ’’میرے بیٹے کے بارے میں کون جھگڑا کرسکتا ہے‘‘؟ آپؐ نے بچے سے فرمایا: ’’یہ تمھارا باپ ہے اور یہ تمھاری ماں ہے، جس کا ہاتھ چاہو پکڑلو‘‘۔ اُس نے اپنی ماں کا ہاتھ پکڑ لیا۔ (ایضاً)
۵- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے والدہ اور اُس کے بیٹے کے درمیان جدائی ڈالی، اللہ تعالیٰ اُس کے اور اُس کے پیاروں کے درمیان قیامت کے روز تفریق کرے گا‘‘۔ (مشکوٰۃ حق الملوک والفضات)
جواب :آپ کی تنبیہہ کا شکریہ۔ سوال و جواب جس شکل میں شائع ہوا ہے، اُس پر آپ کے ذہن میں اشکال کا پیدا ہونا ایک قدرتی امر تھا۔ سائل نے اپنے حالات بہت تفصیل سے تحریری اور پھر زبانی بیان کیے تھے، اور اُن کا مطالبہ یہ تھا کہ دلائل اور تفصیلات کے بغیر اُنھیں ایک مختصر اور قطعی جواب دیا جائے۔ اس سوال و جواب کی اشاعت قطعاً پیشِ نظر نہ تھی، لیکن کسی نامعلوم وجہ کی بنا پر اُنھوں نے سوال کا ایک بے ربط سا خلاصہ اور میرا مجمل جواب اخبار میں شائع کرا دیا۔ بہرحال، اب جب شائع ہوچکا ہے اور آپ نے اس پر اعتراض وارد کر دیا ہے تو میں دوبارہ اپنے مدعا کو واضح طور پر بیان کیے دیتا ہوں۔
آپ نے جو پانچ احادیث نقل فرمائی ہیں ،اُن میں سے پانچویں حدیث تو تفریقِ زوجین اور حضانت ِ صغیر سے متعلق نہیں ہے۔ وہاں والدہ اور وَلد سے مراد لونڈی اور اُس کی اولاد ہے اور تفریق سے مراد بچوں کو ماں سے جدا کر کے باپ کے سپرد کرنا نہیں ہے، بلکہ والدہ اور بچوں کو الگ الگ افراد کے سپرد کرنا ہے، یا اُن کے ہاتھ بیچ دینا ہے۔ مگر متعدد احادیث سے بھی اس فعل کی ممانعت ثابت ہے۔ بقیہ پہلی چار احادیث سے درج ذیل احکام مستنبط ہوتے ہیں:
۱- زوجین کی تفریق اور اولادِ صِغَار [چھوٹی عمروں]کی موجودگی کی صورت میں اولاد اگر سنِ تمیز کو نہ پہنچی ہو اور مادرانہ شفقت کی محتاج ہو، تو والدہ اُسے اپنی حضانت (پرورش) میں رکھنے کی زیادہ حق دار ہے، بشرطیکہ وہ نکاحِ ثانی نہ کرے۔
۲- اگر اولاد سنِ تمیز کو پہنچ جائے تو ایسی صورت میں یا تو قرعہ اندازی کی جائے گی، یا پھر اگر والدین میں سے کوئی ایک یا، دونوں اس کے لیے رضامند نہ ہوں، تو بچے کو اختیار دیا جائے گا کہ وہ والدین میں سے جس کے ساتھ رہنا پسند کرے، اُسی کے ساتھ ہوجائے۔
یہ اُصول جو سنت ِ نبویؐ سے ثابت ہیں، اِن سے اختلاف کی کسی مسلمان کو گنجایش نہیں۔ البتہ، ائمۂ سلف نے ان اور اسی قبیل کی دوسری احادیث کے سیاق و محل کا لحاظ رکھتے ہوئے، نیز والدین اور اولاد کے باہم دگر شرعی حقوق اور ذمہ داریوں کو من حیث المجموع نگاہ میں رکھتے ہوئے، والدہ کے حقِ حضانت کے لیے چند مزید شرائط و حدود بیان کیے ہیں، مثلاً: علماے مذاہب اربعہ کا قریب قریب اس پر اتفاق ہے کہ حسب ذیل عُیوب اگر والدہ میں ہوں درآں حالیکہ والد ان سے بری ہو، تو والدہ کا حقِ حضانت ساقط ہوجائے گا:
l ارتداد l فتورِ عقل l ترکِ صوم و صلوٰۃ یا علانیہ فسق و فجور l تربیت ِ اولاد سے قطعی غفلت l اولاد کو لے کر کسی ایسے ماحول میں رہنا، جہاں فسادِ اخلاق کا اندیشہ ہو، یا کسی ایسے دُورافتادہ شہر میں جاکر مقیم ہونا، جہاں والد کے لیے اولاد کی تعلیم و تربیت کی دیکھ بھال دشوار ہو۔ lوالد کے عدمِ استطاعت کے باوجود اُس سے اولاد کے نفقے کا مطالبہ کرنا۔
اسی طرح فقہا کی راے یہ بھی ہے کہ والدہ کے پاس رہنے کی مدتِ حضانت سات یا زیادہ سے زیادہ نو برس ہے۔ اس کے بعد والد کو حق حاصل ہے کہ وہ اولاد کو اپنے چارج میں لے لے۔
اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان شرائط میں سے کوئی شرط بھی مذکورہ احادیث یا عام اصولِ شریعت کے خلاف نہیں ہے۔ یہ بات ظاہر ہے کہ اولاد کے نان نفقے، اُن کی مادی و اخلاقی تربیت، اُن کی تعلیم، ہُنرآموزی اور اُن کے شادی بیاہ کی اصل ذمہ داری والد پر ہے، نہ کہ والدہ پر۔ مرد ہی بحیثیت قوامِ خاندان قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا [التحریم ۶۶:۶] کا اوّلین مخاطب ہے۔ ان حالات میں یہ کس طرح قرینِ قیاس ہوسکتا ہے کہ والدہ کو غیرمعین مدت کے لیے علی الاطلاق حقِ حضانت دے دیا جائے، کہ وہ والد کی خواہش کے علی الرغم جس سانچے میں چاہے اولاد کو ڈھال دے اور پھر اس کا خمیازہ بھگتنے کے لیے اولاد کو والد کے حوالے کردے۔
اسی بناپر یہ کہنا بھی صحیح نہیں معلوم ہوتا کہ مدتِ حضانت کو سنِ بلوغ تک لازماً طول دینا چاہیے۔ جب اولاد بالغ اور صاحب ِ اختیار ہوگئی، تو اُس وقت اُس کے والد کی ولایت میں آنے کے کوئی معنی ہی باقی نہیں رہتے۔ اُس وقت وہ ایک طرح سے اپنے نفع و ضرّر کی خود مکلف اور ذمہ دار بن جاتی ہے۔ اس لیے حکمت ِ شریعت عین اس امر کی متقضی ہے کہ ایک طرف تو مدتِ حضانت کی ایک مناسب حد متعین کی جائے، اور دوسری طرف والدہ کے حقِ حضانت پر مناسب قیود عائد کی جائیں۔ والدہ پر عدمِ نکاح اور عدمِ ارتداد کی قید خود احادیث میں آگئی ہے۔ اسی سے مزید پابندی اور تحدید کا جواز نکل سکتا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر دوسری شرائط کا ذکر نہیں فرمایا، تو اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ جو مقدمات آپؐ کے سامنے پیش ہوئے اُن میں والدہ کی طرف سے اس طرح کے خدشات کے بارے میں امن و اطمینان تھا ورنہ خاموش نہ رہتے، بلکہ والدہ کی حضانت کی صورت میں متوقع مضرات کو ضرور بیان کرتے اور اپنے آپ کو زیادہ حق دار ثابت کرنے کے لیے صرف اتنا ہی کہنے پر اکتفا نہ کرتے کہ باپ سے بیٹے کے معاملے میں کون جھگڑسکتا ہے، بلکہ ساتھ یہ بھی کہتے کہ والدہ اس کی تربیت خراب کرے گی۔ گویا کہ اِن جھگڑوں میں، والدین میں سے کسی ایک کے صالح اور دوسرے کے غیرصالح ہونے کا سرے سے سوال تھا ہی نہیں، صالحیت کے لحاظ سے والدین مساوی تھے۔
اصل تقابل صرف ماں کی مامتا یا اس کے احتیاج اور پدری محبت کے درمیان تھا۔ ایسی صورت میں ماں کو ترجیح دی گئی ہے، یقینا اب بھی دی جائے گی۔ اس سے یہ ثابت کرنا مشکل ہے کہ اگر ماں تربیت ِ اولاد کی عظیم ذمہ داریاں اُٹھانے کے لیے قطعی نااہل ہو، تب بھی اُس کے حقِ حضانت کو مقدم رکھ کر اولاد اُس کے سپرد کر دی جائے گی۔(جسٹس ملک غلام علی، رسائل و مسائل، ششم، ص ۴۹۶-۵۰۱)
’اسلامی تہذیب کے چودہ اصول‘ (مارچ ۲۰۱۷ء) معنویت اور سادہ بیانی کا بہترین نمونہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ سیّدابوالاعلیٰ مودودی کو اَجرِعظیم عطا فرمائے۔
حبیب الرحمٰن چترالی کی تحریر ’پاکستانی قومی بیانیے کی تشکیل‘ (مارچ ۲۰۱۷ء) ایک عمدہ ہے۔ مولانا مودودی کے بیان کردہ ’اسلامی تہذیب کے چودہ اصول‘ بہترین بحث ہے، مگر بدقسمتی سے اس حوالے سے ترجیحی بنیادوں پر کوئی کام نہیں ہورہا۔ لہٰذا، یہ لگتا ہے کہ اتنی قیمتی تحریر بھی بس شائع ہوکر رہ جائے گی۔
’اُمت کے فیصلے ، اُمت کے مشورے سے‘ (فروری، مارچ ۲۰۱۷ء) بہترین مضمون ہے۔ خدا کرے کہ قارئین ترجمان اس کے مطالعے سے محروم نہ رہیں۔ وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ ص (الشوریٰ ۴۲:۳۸) کی یہ تشریح کہ: ’’قرآن نے اسے الگ حق سے زیادہ ایک فرض قرار دیا ہے‘‘ دل کو بہت بھلی لگتی ہے۔ اللہ ہمیں اپنی بساط کے مطابق گھروں سے لے کر اداروں تک شورائیت کا نظام نافذ کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!
فروری ۲۰۱۷ء کے شمارے کا ہر مضمون اپنی اپنی جگہ اہم اور معلومات لیے ہوئے ہے۔ صائمہ اسما نے ’تحریکی خواتین :کام کی راہیں‘ میں بہت ہی کم الفاظ میں بڑے مؤثر طریقے سے نہ صرف حلقۂ خواتین کی تاریخ بیان کی ہے، بلکہ ماضی میں کیے گئے کام کی تفصیل، موجودہ دور میں اس کام میں پیش آنے والی مشکلات اور کمزوریوں کی نشان دہی کرتے ہوئے ان کا حل بھی پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔یہ صورت حال صرف خواتین کے کام کی نہیں بلکہ اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک تحریک سے متعلق کئی حلقے بھی انھی پریشانیوں میں مبتلا ہیں۔
ان کی یہ بات بہت اہم ہے کہ گذشتہ ۲۰برسوں میں معاشرے کا فکری اور سماجی توازن بڑی تیزی سے تبدیل ہوا ہے، جس کا ادراک کرنا بھی مشکل ہے۔ صاف دکھائی دےر ہا ہے کہ نئے مؤثر تعلیم یافتہ طبقات میں دینی حلقوں کا اثرورسوخ محدود تر ہوتا جارہا ہے۔سماجی سطحوں پر دعوت کے دائرے میں زیادہ وسعت نہ آنے کے باعث، حال اس انجن کا ہے جس کی ساری توانائی اپنی ہی مشینری کو رواں رکھنے میں صرف ہورہی ہوتی ہے۔
پروفیسر خورشید احمد صاحب نے۲۰ سال قبل ہمارے حلقے کی رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے مستقبل میں کام کے لیے پروفیشنلزم اور جدید ترین مہارتوں کے حصول کی نشان دہی کی تھی۔اگر ہمیں ا س صورت حال سے نکلنا ہے تو ان کی نصیحت کو مدِّنظر رکھتے ہوئے اپنے دعوتی ،تنظیمی اور تربیتی پروگراموں کو پروفیشنل انداز سے ترتیب دینا اور اپنے کام کو جدید تقاضوں کے مطابق استوار کرنا ہوگا۔ ہرسطح پر قیادت کی جدید خطوط پر تربیت ضروری ہے۔ کیوںکہ جب تک قیادت ذہنی طور پر اس کے لیے تیار نہیں ہوگی ارکان کی تربیت ممکن نہیں ہوگی۔
’’لَا تَحْزَنْ،غم نہ کر‘‘(فروری ۲۰۱۷ء) میں عرب دنیا میں مسلمانوں بالخصوص اخوان المسلمون کے تعذیب کے حالات ایک دُکھ اور درد دینے والی داستان ہے۔ صحیح نشان دہی کی گئی ہے کہ دشمن تو ہمارا دشمن ہے اس سے ہم کیوں گلہ کریں، مسلمانوں کے حکمران کیوں ان کے آلۂ کار بنتے ہیں اور پھر عوام کیوں اس پر خاموش ہیں۔ جملہ مسلم ممالک کا رویّہ بھی اُمت مسلمہ کے لیے قابلِ تعریف نہیں ہے۔ رینڈ کارپوریشن کی سفارشات کہ ’’سیاسی اسلام کا خاتمہ دُنیا کی ترجیح اوّل ہونا چاہیے‘‘ کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے بعض سادہ لوح دین دار طبقے بھی اس حوالے سے غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔
’سیرتِ رسولؐ اور حُسنِ اعتدال‘ (جنوری ۲۰۱۷ء) بہت ہی دل چسپ مضمون ہے۔ قرآنِ مجید نے اعتدال کو نہ صرف پسند کیا ہے بلکہ کافروں کے باطل خدائوں، یعنی بتوں کو گالیاں دینے سے بھی منع کیا ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ راہِ اعتدال سے ہٹ کر اور ضد میں آکر مسلمانوں کے سچے واحد خدا کو ہی بُرا بھلا نہ کہنا شروع کردیں: ’’اور(اے مسلمانو) یہ لوگ اللہ کے سواجن کو پکارتے ہیں انھیں گالیاں نہ دو، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ شرک سے آگے بڑھ کر جہالت کی بنا پر اللہ کو گالیاں دینے لگیں‘‘۔(الانعام ۶:۱۰۸)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علم و عمل اور عبادت و ریاضت کے ہرشعبے میں ہمیشہ اعتدال کی راہ اختیار کی ہے۔ صحابہ کرامؓ نے بھی نبی اقدس ؐ کے اعمال و افعال اور اقوال و گفتار کی اِتباع کر کے اعتدال کو اپنی زندگی کا عملی سرمایہ بناکر دائمی سرخروئی حاصل کی ہے۔ فقہاے کرام نے دلیل کی بنیاد پر باہم اختلاف کے باوجود اعتدال کی اخلاقی صفت کو کبھی نظرانداز نہیں کیا، بلکہ ہرممکن حدتک اس پر عمل کیا ہے۔ صالحین و عابدین نے بھی علمی و عملی اور معاشی و معاشرتی زندگی میں میانہ روی، اخلاقی اقدار، رواداری، برداشت اور اعتدال کے راستے پر عمل کیا ہے، جو ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔ جملہ شعبہ ہاے زندگی میں ہرشخص کے لیے اس پر عمل کرنے میں ہی عافیت اور سلامتی ہے۔
ابتداے کار سے ۱۹۳۷ء تک کا زمانہ وہ تھا، جس میں ایک شخص کے محدود ذاتی ذرائع کے سوا کوئی ذریعہ کام کرنے کے لیے موجود نہ تھا، اور مواقع بھی اس سے زیادہ کچھ نہ تھے کہ سخت پراگندا خیالی کے ماحول میں ایک نہایت قلیل تعداد ایسے لوگوں کی فراہم ہوسکتی تھی، جو اسلام کے متعلق وہ باتیں پڑھنے اور سننے کے لیے تیار ہوں، جو وہ شخص پیش کرنا چاہتا تھا۔ اس حالت میں کرنے کا کام یہی تھا، اور اس کے سوا کچھ کیا بھی نہیں جاسکتا تھا کہ حکمت کے ساتھ مسلسل تبلیغ سے کچھ لوگوں کو اس تخیل کا اس حد تک معتقد بنادیا جائے کہ وہ سنجیدگی کے ساتھ اس کے لیے عملاً کچھ کرنے پر آمادہ ہوجائیں۔
اس دور کے کام کو اگر آپ سمجھنا چاہیں تو خصوصیت کے ساتھ الجہاد فی الاسلام کا تیسرا باب (مصلحانہ جنگ)، اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی اور تنقیحات کو بغور پڑھیں۔
ان میں سے پہلی کتاب میں وضاحت کے ساتھ یہ حقیقت سمجھائی گئی ہے کہ مسلمان دراصل نام ہی اُس بین الاقوامی گروہ کا ہے، جسے دنیا میں امربالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے کے لیے وجود میں لایا گیا ہے۔
دوسری کتاب میں اسلامی نظامِ زندگی کا جامع تصور، اُس کی فکری بنیادوں اور منطقی تقاضوں کے ساتھ پیش کرکے یہ بتایا گیا ہے کہ یہ ایک ہمہ گیر تہذیب ہے، جو حیاتِ دنیا کے تمام گوشوں کو اپنی لپیٹ میں لیتی اور تمام دنیا پر چھا جانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
تیسری کتاب میں اوّل سے آخر تک جو بات ذہن نشین کی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ کسی کافرانہ و فاسقانہ نظامِ زندگی کے ہمہ گیر فکری اور عملی تسلط کے تحت محض عقائد اور عبادات کے بل پر اسلامی نظامِ زندگی پنپ نہیں سکتا، بلکہ خود عقائد اور عبادات کا بھی اپنی جگہ قائم رہ جانا ممکن نہیں ہے۔ اس ہمہ گیر تسلط کو مٹا کر جب تک اسلام کا ہمہ گیر تسلط قائم کرنے کے لیے کام نہ کیا جائے گا، کسی مذہبی حرکت و عمل سے کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوسکے گا___ یہ وہ بنیادی کام تھا جس سے بگاڑ کے اصل اسباب مشخص ہوکر نگاہوں کے سامنے آئے اور ذہنوں میں ایک ایسی تحریک کے لیے آمادگی پیدا ہوئی، جس کا مقصد نظامِ زندگی میں اساسی تغیر پیدا کرنا ہو۔ (’تحریک اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل‘،ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۴۸، عدد۱، رجب ۱۳۷۶ھ / اپریل ۱۹۵۷ء، ص۱۱-۱۲)