۲۶جون ۲۰۱۷ء عیدالفطر کے مبارک موقعے پر، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی واشنگٹن میں ملاقات سے صرف دو گھنٹے پہلے، امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ایک ’حکم نامے‘ بعنوان ’Diplomacy in Action‘ (اقدامی سفارتی حکمت عملی) کے ذریعے ’حزب المجاہدین‘ کے سپریم کمانڈر جناب سیّد صلاح الدین کو ایک ’نادر تحفہ‘ دیتے ہوئے ان کا نام اس فہرست میں شامل کر دیا گیا ہے۔ جسے امریکا اپنی اصطلاح میں ’خصوصی طور پر نامزد عالمی دہشت گرد‘ (Specially Designated Global Terrorist) کہتا ہے، اور جس کی تعریف خود اس حکم نامے میں یہ درج ہے:
غیر ملکی افراد جنھوں نے دہشت گردی کی ایسی کارروائیاں کی ہیں، یا جن کی طرف سے ایسی کارروائیوں کا واضح خدشہ موجود ہے، جو امریکی شہریوں یا امریکا کی قومی سلامتی ، خارجہ پالیسی یا معیشت کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔
اس حکم نامے میں سیّد صلاح الدین صاحب کے جن ’جرائم‘ کا ذکر ہے، دُور و نزدیک سے ان کا کوئی تعلق امریکا، اس کی سلامتی اور امریکیوں کی زندگی سے نہیں ہے۔مجمل انداز میں کہا گیا ہے کہ:
ستمبر ۲۰۱۶ء میں صلاح الدین نے عہد کیا کہ وہ کشمیر کے تنازعے کے کسی بھی پُرامن حل کا راستہ روکے گا۔ اس نے مزید کشمیری خودکش بمبار وں کو تربیت دینے کی دھمکی دی اور عہد کیا کہ وہ وادیِ کشمیر کو بھارتی فوجیوں کے قبرستان میں بدل دے گا۔ صلاح الدین کے ’حزب المجاہدین‘ کے سینیر رہنما ہونے کی مدت کے دوران حزب المجاہدین نے کئی حملوں کی ذمہ داری قبول کی، جن میں بھارت کے زیر انتظام جموں وکشمیر میں اپریل ۲۰۱۴ء میں ہونے والا بارودی حملہ بھی شامل ہے، جس میں ۱۷ لوگ زخمی ہوئے۔
اس ’چارج شیٹ‘ کی بنیاد پر حکم صادر ہوا ہے کہ :
صلاح الدین دہشت گردی کی کارروائیوں کا مرتکب ہوا ہے یا اس کی طرف سے ایسی کارروائیوںکے ارتکاب کا شدید خطرہ ہے، اس لیے اس کو ’عالمی دہشت گرد‘ قرار دیا جاتا ہے۔
اگر اس ’حکم نامے‘ کا تجزیہ کیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ یہ قانون اور انصاف کے متفق علیہ اصولوں کی سراسر ضد ہے۔ وہ امریکا جو جمہوریت اور قانون کی بالادستی کے باب میں اپنے کو عالمی برادری کا لیڈر قرار دیتا ہے، یہاں کس ڈھٹائی اور سفّاکی سے انصاف، قانون اور جمہوری اقدار کا خون کر رہا ہے۔ یہ کام محض بھارت سے معاشی فوائد کے حصول اور علاقائی سیاسی مفادات کی خاطر دنیا کی معتبر اور مقتدر شخصیات پر دہشت گردی کی چھاپ لگا کر کیا جا رہا ہے۔
اس ’حکم نامے‘ کا بغور مطالعہ کریں تو اس میں سیّد صلاح الدین صاحب کے مبیّنہ ’جرائم‘ کا کہیں دُور و نزدیک، کسی امریکی شہری یا خود امریکا کے کسی مفاد پر پڑنے والی ضرب، یا اس کے لیے کسی واضح یا موہوم خطرے تک کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ کشمیر کی تحریکِ آزادی، ان چند تحریکوں میں سے ہے، جو صرف اور صرف اپنے علاقے تک محدود ہیں۔ اس تحریک کا ہدف صرف اہلِ کشمیر کے مادرِ وطن پر غاصب اور ناجائز طور پر قابض فوج (Occupying Force) کا مقابلہ اور اس کے تسلط سے آزادی کا حصول ہے۔
’ حزب المجاہدین‘ تو وہ تنظیم ہے، جس نے پہلے دن سے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور بھارت اور عالمی اقوام کے وعدوں کی بنیاد پر جمہوری طریقے (عوامی استصواب) سے عمل کا مطالبہ کیا ہے۔ سیّد صلاح الدین نے اس منزل کے حصول کے لیے اصلاً معروف جمہوری راستے کو بھی اختیار کیا اور خود ۱۹۸۷ء کے انتخابات میں حصہ لیا۔ یوں گویا الیکشن کا وہ ذریعہ بھی اختیار کرکے دیکھ لیا، جسے بھارتی سرکاری مشینری نےمحض بھارتی جمہوری ڈراما بناکر حسب ِ روایت دھاندلی کی بھینٹ چڑھا دیا۔ اسی طرح بعد کے مراحل میں کشمیر کی حق خود ارادیت کی تحریک میں ان اصولوں کی مکمل پاس داری کے ساتھ جدوجہد کی، جو اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون اور معاہدوں (conventions) کے دائرے میں آتی ہیں۔ حتیٰ کہ ’حزب المجاہدین‘ نے کبھی کوئی کارروائی ریاست جموں و کشمیر کی حدود سے باہر اس قابض قوت کے خلاف نہیں کی۔ ’حزب المجاہدین‘ نے ’حُریت کانفرنس‘ کی سیاسی جدوجہد کی ہمیشہ تائید کی ہے۔ اس کی ساری جدوجہد کا صرف ایک ہدف ہے:
جموں و کشمیر کے عوام کا یہ حق کہ وہ اپنی آزاد مرضی سے، اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کریں۔ وہ حق جو ان کا پیدایشی حق ہے، جس کی ضمانت اقوامِ متحدہ کا چارٹر آرٹیکل ۱ اور ۵۵ اسے دیتے ہیں۔ جس کا وعدہ ان سے اقوامِ متحدہ نے ۲۲ سے زیادہ قراردادوں کی شکل میں کیا ہوا ہے۔جس کا وعدہ خود بھارت کی حکومت، پاکستان کی حکومت اور پوری عالمی برادری نے کیا ہے، اور جس کے سلسلے میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے صاف الفاظ میں یہ تک کہہ دیا ہے کہ جموں و کشمیر میں کوئی نام نہاد دستورساز اسمبلی یا کسی اسمبلی کے انتخابات اس استصواب اور عوامی راے شماری کا بدل نہیں ہوسکتے، جس استصواب راے کا وعدہ بھارت، پاکستان اور اقوامِ متحدہ نے ان سے کیا ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے ہم تاریخ کے سینے پر نوشتۂ دیوار کے طور پر اس ضابطۂ اخلاق کا پورا متن دے رہے ہیں، جس کا ’حزب المجاہدین‘ اپنے تمام مجاہدین کو پابند کرتی ہے۔ یہ اس تحریکِ آزادی کے لیے Standing Code of Conduct (مستقل ضابطۂ اخلاق)کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس ضابطے اور آدابِ کار کے لوگوں کو دہشت گرد قرار دینا بدترین ظلم اور ناانصافی ہے:
ریاست جموں و کشمیر میں جاری تحریک جہاد سے وابستہ ہرمجاہد کو اس بات کا عہد کرنا ہوگا کہ:
اس صاف شفاف لائحۂ عمل اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ضابطوں کی پاس داری کے علی الرغم ’حزب المجاہدین‘ اور اس کے سربراہ کو عالمی دہشت گرد قرار دینا، دراصل اپنی جگہ پر عالمی دہشت گردی کی بدترین مثال ہے، جو امریکا کی جانب داری، مفاد پرستی اور اس کے ناقابلِ اعتماد ہونے کی واضح دلیل ہے۔ بی بی سی لندن (اُردو سروس) نے اس پہلو کی یوں نشان دہی کی ہے:
’حزب المجاہدین‘ ، جس کے دیرینہ سربراہ صلاح الدین ہی ہیں، کشمیریوں کی مقامی مسلح تنظیم ہے۔ حزب نے ۲۷سال کے دوران کبھی کسی عالمی ایجنڈے کا ذکر نہیں کیا۔ یہ تنظیم اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیر میں راے شماری چاہتی رہی ہے اور اس نے اکثر اوقات القاعدہ اور دولت اسلامیہ [داعش] کی لہر سے اعلاناً فاصلہ بنائے رکھا۔
بی بی سی کے اسی نامہ نگار نے اس خطرے تک کا اظہار کیا ہے کہ:
صلاح الدین کو عالمی دہشت گرد قرار دیے جانے کے بعد کشمیری عسکریت پسند لوکل ایجنڈے کی افادیت پر سوال اُٹھا سکتے ہیں اور کشمیر کی مسلح مزاحمت کو شام اور افغانستان میں جاری مزاحمت کے خطوط پر استوار کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ اس طرح کشمیر کی مسلح تحریک جس کا ابھی تک کردار بھی مقامی اور ایجنڈا بھی مقامی رہا ہے، ممکن ہے کہ ایک گلوبلائزڈ جہادی نیٹ ورک کا حصہ بننے میں عافیت سمجھے۔(’’صلاح الدین کو دہشت گرد قرار دیے جانے کا تحریکِ کشمیر پر کیا اثر پڑے گا؟‘‘ از ریاض مسرور، بی بی سی ڈاٹ کام، سری نگر، ۲۷جون ۲۰۱۷ء)
یہ ہیں اصل حقائق___ کیا ہم یہ پوچھنے کی جسارت کرسکتے ہیں کہ امریکا اپنے ان حالیہ اقدامات سے عالمی دہشت گردی کو قابو کرنے کی کوشش کر رہا ہے، یا پھر اسے فروغ دینے میں دانستہ طور پر حصہ ڈال رہا ہے؟ اور جو عالمی سطح پر کسی کے لیے کوئی نہ کبھی خطرہ تھے اور نہ آج خطرہ ہیں، ان کو خطرہ بنانے کی خدمت انجام دے رہا ہے؟
امریکا اور بھارت کے اس مذموم کھیل سے ’حزب المجاہدین‘ اور تحریک ِ آزادی کشمیر کو باخبر رہنا چاہیے اور اس جال (Trap)سے بچنے کی ہرممکن کوشش کرنی چاہیے۔ اپنی آواز کو عالمی سطح پر پہنچانے اور عالمی راے عامہ کو ساتھ لے کر چلنے کی ہرکوشش بجا، لیکن سمجھ لینا چاہیے کہ تحریک کا مقامی، محدود اور متعین کردار ہی اس کی بڑی طاقت ہے۔ اس سلسلے میں تحریکِ آزادی اور حزب المجاہدین کا پہلے دن سے اب تک جو کردار پورے تسلسل کے ساتھ رہا ہے، اس کی حفاظت ضروری ہے۔
ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ اس اقدام کے ذریعے امریکا نے ایک مسلّمہ اور جائز تحریک ِ مزاحمت کا رُخ بلاوجہ اپنی طرف موڑنے کی حماقت کی ہے یا بھارت کی چال میں آکر یہ اقدام کیا ہے اور اس کے تمام اثرات اور نتائج کا ادراک نہیں کیا ہے۔ آج تک اس تحریک کا رُخ صرف ایک قابض قوت بھارت کی طرف تھا اور ہے۔ امریکا سے یہ توقع کی جارہی تھی کہ وہ حق و انصاف، اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور خود اپنے ماضی کے وعدوں کا پاس کرتے ہوئے بھارت پر اثرانداز ہوگا، اور حق و انصاف کے مطابق مسئلے کے حل کے لیے کردار ادا کرے گا۔لیکن امریکا کے اس غیرمنصفانہ اقدام نے اس کی پوزیشن کو بُری طرح مجروح کیا ہے۔ یوں امریکا سے جو توقعات کشمیر کے مظلوم عوام کو تھیں، وہ بُری طرح متاثر ہوئی ہیں۔
اہلِ کشمیر نے آج تک صرف بھارت کا جھنڈا جلایا ہے اور بھارت کے ناجائز قبضے کے خلاف آواز اُٹھائی ہے۔ صرف بھارت کی اس فوجی قوت کو، جو اِن پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہی ہے، نشانہ بنایا ہے۔ بھارت کا شاطرانہ کھیل یہ ہے کہ اب بھارت کے ساتھ امریکا بھی کشمیری عوام کے غم و غصے کا ہدف بنے۔ نادانی اور جلدبازی میں امریکا اس دلدل میں پھنس گیا ہے، جس سے اسے جلداز جلد نکلنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہاں پر تحریک ِ آزادی کشمیر کے ذمہ داران سے بھی ہماری اپیل ہے کہ وہ بھارت کی حکومت اور افواج ہی کو اپنا مخاطب اور ہدف رکھیں اور امریکا کو اپنے کیس کے مؤید اور اس کے حل کے لیے سہولت کار ہی کی حیثیت سے متحرک کرنے کی کوششیں جاری رکھیں۔ اگرچہ خود اس نے ہدف بننے کی جو حماقت کی ہے، اس کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنی اصل جدوجہد جاری رکھیں۔
اس ’حکم نامے‘ کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ بھارت کے شاطر اہل کاروں نے امریکا کو بڑی چابک دستی سے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔ ان الزامات کا سہارا لیا ہے، جو خود مشتبہ ہیں (اور اگر صحیح ہیں تب بھی)، ان کا تعلق صرف اور صرف بھارت سے ہے، جو اس علاقے پر قابض قوت ہے۔ ان کا کوئی تعلق امریکا، امریکی شہریوں یا امریکی مفادات سے نہیں ہے۔ ہم یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ امریکا نے کیوں ان کو بہانہ بناکر بھارت کے غاصبانہ تسلط میں شریکِ کار اور اس کا محافظ بننے کی حماقت کی ہے؟ جتنی جلد ہوسکے، امریکا کا اس کھیل سے نکلنا علاقائی اور عالمی امن کے لیے بہتر ہے۔
اس حکم نامے میں ایک لفظ ایسا ہے جس کو بڑی مرکزی اہمیت حاصل ہے اور جو خود امریکا اور اقوامِ متحدہ کے اصولی موقف کا عکاس ہے۔ یہی وہ لفظ ہے، جس کی روشنی میں بھارت کے بُنے ہوئے اس جال سے نکلا جاسکتا ہے اور وہ ہے اس امر کا اعتراف کہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں بلکہ ایک Indian Administrated Jammu and Kashmir (بھارتی زیرانتظام جموں و کشمیر) ہے۔ جس کے صاف معانی یہ ہیں کہ یہ متنازع علاقہ (Disputed Territory) ہے، اور Indian Administration (بھارتی انتظامیہ)دراصل Indian Occupation (بھارتی قبضے) کا نتیجہ ہے۔ نیز علاقے کے مستقبل کا فیصلہ یہاں کے عوام کے حق خود ارادیت کے اصول کے مطابق ہونا باقی ہے۔
یہی مسئلے کا اصل حل ہے اور یہی وہ چیز ہے، جو جموں و کشمیر کے عوام صبح و شام کہہ رہے ہیں کہ: ’’ہمارا معاملہ نہ مالیات اور ملازمتوں کے حصول کا ہے اور نہ سیاسی و سماجی مفادات کا ہے، بلکہ آزادی اور حق خود ارادیت کا ہے‘‘۔ اور یہی وہ بات ہے جس پر پردہ ڈالنے کے لیے بھارت نے دہشت گردی کے پردئہ ابہام (smoke-screen) سے مسئلے کو اُلجھانے کی کوشش کی ہے۔ کشمیری عوام سادہ الفاظ میں یک زبان ہوکر اپنی بات کہہ رہے ہیں: ’’ہم کیا چاہتے؟ ___ آزادی، آزادی!‘‘۔
تحریکِ آزادی کشمیر کا آغاز تو ۱۹۳۱ء میں ہی ہوگیا تھا، لیکن ۱۹۴۷ء سے آج ۷۰سال گزر نے تک اس منزل کے حصول کے لیے تقریباً پانچ لاکھ افراد کی قربانی، لاکھوں شہریوں کی خانماں بربادی اور دربدری، اربوں کھربوں روپوں کی مالیت کے نقصانات کے علی الرغم، نت نئے جوش و خروش کے ساتھ یہ تحریک برپا اور جاری ہے۔ خصوصیت سے ۱۹۸۹ء سے جو دور شروع ہوا ہے، وہ تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ یہ ایک قومی تحریکِ آزادی ہے، جس میں آبادی کا بڑا حصہ عملاً شریک ہے۔ یہ ایک عوامی اور جمہوری تحریک ہے، جسے بھارت جبر، ظلم اور ننگی قوت کے وحشیانہ استعمال سے دبانے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن یہاں کے بے بس عوام نے بھارتی اندھی بہری قوت کے آگے سپر ڈالنے سے انکار کر دیا ہے اور بوڑھے اور جوان، مرد اور عورتیں، حتیٰ کہ اسکولوں اور کالجوں کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بھی بے خوف و خطر اس میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں اور کیفیت یہ ہے کہ ع
بڑھتا ہے یہاں ذوقِ جرم ، ہر سزا کے بعد
یہاں اس بات کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے کہ: ’’سیاسی مقاصد کے لیے ’دہشت گردی‘ عسکریت کے ایسے استعمال کو قرار دیا جاتا ہے، جس سے عام شہری نشانہ بنیں۔ ’تحریکِ آزادی‘ اس کے بالکل برعکس ایک مظلوم قوم کے حق خودارادیت کی سیاسی جدوجہد کا نام ہے، جسے بالعموم قابض قوتیں محض طاقت اور ریاستی ظلم و جبر (State Violence) کے ذریعے کچلنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس کش مکش میں مزاحمت کے دوران مظلوم انسانوں کو بھی جوابی طور پر مزاحمت کرنا اور ضرب لگانا پڑتی ہے۔ حق خود ارادیت اور آزادی کی یہ جدوجہد (struggle for self determination) ایک سیاسی عمل ہے۔ حتیٰ کہ اگر اس میں غاصب ریاست کی قوتوں کے خلاف عسکری قوت بھی استعمال کرنا پڑجائے، تب بھی وہ جدوجہد ایک تحریکِ مزاحمت ہی رہتی ہے، کسی صورت میں بھی اسے ’دہشت گردی‘ نہیں کہا جاسکتا اور نہیں کہا جاتا۔۔ اس جائز اور فطری حق کو اقوامِ متحدہ کے چارٹر (دفعہ ۱، شق ۲ اور دفعہ ۵۵) اور اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی متعدد قراردادوں، خصوصاً قرارداد نمبر۱۵۱۴ (xv) ۱۹۶۰ء جسے Declaration on Granting Independence to Colonial Countries and People (نوآبادیات اور وہاں کے لوگوں کو آزادی عطا کرنے کا فرمان) قرار دیا ہے اور جس میں ملک ہی نہیں، ایک متعین علاقے کے عوام کو بھی نوآبادیاتی یا قابض قوتوں کے خلاف جدوجہد کا حق دیا گیا ہے۔ اسی طرح جنرل اسمبلی کی دوسری اہم قرارداد نمبر ۲۶۲۵ (xxv) ۱۹۷۰ء ہے جس کا عنوان ہے:
Declaration on Principles of International Law concerning Friendly Relations and Cooperation among States.
ریاستوں کے مابین دوستانہ تعلقات اور تعاون سے متعلقہ بین الاقوامی قانون کے اصولوں کا اعلامیہ۔
یہ دونوں قراردادیں اب بین الاقوامی قانون کا تسلیم شدہ حصہ ہیں۔ اسی طرح International Covenant on Civil and Political Rights (شہری اور سیاسی حقوق کا عالمی اقرار نامہ ) اور International Covenant on Economic, Social and Cultural Rights (معاشی ، سماجی اور ثقافتی حقوق کا عالمی عہد نامہ )۔
دفعہ ۱، شق ۱ میں کہا گیا ہے کہ:
.....all people have the right of self determination. By virture of that right they freely determine their political status and freely pursue their economic, social and cultural development.
تمام اقوام کو حق خود اختیاری حاصل ہے ۔ اپنے اس حق کی وجہ سے وہ اپنی سیاسی حیثیت کو آزادانہ طور پر متعین کرتے ہیں اور اپنی معاشی ، سماجی اور ثقافتی ترقی کے لیے آزادانہ جستجو کرتے ہیں۔
اس جدوجہد کے دوران اگر قابض قوت ان کے خلاف طاقت کا استعمال کرتی ہے اور اقتدار کی شکل وہ ہوجاتی ہے، جسےجارحانہ اور جنگ جویانہ قبضہ (Belligerent Occupation) کہتے ہیں، تو اس کے مقابلے کے لیے سول نافرمانی (Civil Disobedience) اور جائز قوت (Legitimate Force) کا استعمال بھی تحریکِ مزاحمت کا حق ہے اور اسے قانون کی اصطلاح میں Right to Self Defence (ذاتی تحفظ کا حق)تسلیم کیا جاتا ہے۔ تھامس جیفرسن [۱۷۴۳-۱۸۲۶ء] کی قیادت میں امریکی جنگ ِ آزادی سے لے کر آئرلینڈ، الجزائر، کینیا، جنوبی افریقا، غرض سو سے زیادہ ممالک کی آزادی کی تحریکات کا شمار اسی ذیل میں ہوتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثالیں جنوبی سوڈان، مشرقی تیمور، بوسنیا، کوسووا، فلسطین اور کشمیر ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی قانون، طاقت کے ہراستعمال کو تشدد اور ’دہشت گردی‘ قرار نہیں دیتا۔ مبنی برحق جنگ، جو دفاعی مقاصد کے لیے بھی ہوسکتی ہے اور آزادی اور حقوق کے لیے مثبت جدوجہد بھی، ایک معروف اور معلوم حقیقت ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر میں دفاعی جنگ اور حصولِ آزادی کے لیے اجتماعی طور پر قوت کا استعمال اس کی واضح مثالیں ہیں۔ حقِ خود ارادیت کے حصول کے لیے جو جنگیں لڑی گئیں، مجلسِ اقوامِ متحدہ نے ان کی تائید کی اور ان اقوام کے حصولِ آزادی کے بعد انھیں آزاد اور جائز مملکت تسلیم کیا ہے۔بین الاقوامی قانون کا ایک ماہر کرسٹوفر او کوے (Christopher O. Quaye) نے اس اصول کا ان الفاظ میں اعتراف کیا ہے:
تقریباً تمام ہی آزادی کی تحریکوں میں ایک لازمی عنصر طاقت کا استعمال ہے۔ اقوام متحدہ نے اپنی قراردادوں میں جس تسلسل سے آزادی کی تحریکوں کی حوصلہ افزائی کی ہے اور کچھ کو جرأت مند قرار دیا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ طاقت کے عنصر کو جائز قرار دیتی ہے۔ (Liberation Struggle in International Law، فلاڈلفیا، ٹمپل یونی ورسٹی پریس، ۱۹۹۱ء، ص ۲۸۲)
اسی مصنف نے صاف لفظوں میں لکھا ہے کہ:
دہشت گردی اور آزادی کی جدوجہد ایک جیسی سرگرمیاں نہیں ہیں۔ (ایضاً، ص ۱۷)
نیز یہ کہ:
اقوامِ متحدہ کے تمام ادارے جس ایک چیز پر متفق ہیں، وہ یہ ہے کہ حقِ خود ارادی کی ہرجدوجہد قانونی اور جائز ہے۔ (ایضاً، ص ۲۶۱)
بین الاقوامی اُمور کے وہ ماہر جو اس پوزیشن کو اتنے واضح الفاظ میں قبول نہیں کرتے، وہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ قوت کے ہراستعمال کو دہشت گردی ہرگز نہیں کہا جاسکتا۔
بین الاقوامی تعلقات کی پینگوئن ڈکشنری میں اس بات کو یوں ادا کیا گیا ہے:
دہشت گردی کے مسئلے پر ممانعت کرنے والا کوئی خصوصی معاہدہ تیار نہیں ہوسکا ہے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ سیاسی ترجیحات کے حوالے سے اس کی تعریف میں مسائل ہیں۔ ایک آدمی، ایک کے لیے ’دہشت گرد‘، دوسرے کے نزدیک ’آزادی کا سپاہی‘ ہے، اسی لیے بین الاقوامی قانون ابھی تک اس عمل کا احاطہ نہیں کرسکا ہے۔ (The Penguin Dictionary of International Relations، از گراہم ایونز، رچرڈ نیون ہیم، ،ص ۱۷۷)
تاہم، اس کے ساتھ وہ اس بات کا بھی اعتراف کرتے ہیں کہ حق خود ارادیت آج ایک مسلّمہ حق ہے، جس کا تعلق ایک علاقے کے عوام کے اس حق سے ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں:
سیاسی حق خود ارادی کے اصولوں کے تحت لوگوں کا یہ حق ہے کہ وہ اپنی تقدیر کا اپنے طریقے کے مطابق فیصلہ کریں۔ یہ تصور ۱۷۷۶ء کے [امریکی] اعلانِ آزادی اور ۱۷۸۹ء میں فرانس کے اعلان حقوقِ انسانی میں مضمر ہے۔ اقوام متحدہ نے مختلف مواقع پر یہ کوشش کی ہے کہ اس تصور کو نوآبادیاتی دور کے خاتمے کے ساتھ منسلک کرے اور اس طرح اسے محض ایک تمنا نہیں بلکہ قانونی حق اور مثبت فرض قرار دے۔ (ایضاً،ص ۴۷۷-۴۷۸)
اس بحث کی روشنی میں صاف دیکھا جاسکتا ہے کہ کشمیر کی تحریکِ آزادی کا کوئی تعلق دہشت گردی سے نہیں ہے اور سیّد صلاح الدین کو ’عالمی دہشت گرد‘ قرار دے کر امریکا نے بین الاقوامی قانون اور عالمی عرف کے اصولوں سے صریح انحراف کیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس کا ایک منطقی نتیجہ یہ بھی ہے کہ اس طرح امریکا نے سیّد صلاح الدین کو جس قافلۂ حُریت میں شامل کر دیا ہے، وہ مختلف اقوام کی جدوجہد ِ آزادی کے حوالے سے پہلے امریکی صدر جیفرسن سے لے کر نیلسن منڈیلا، جومو کنیاٹا، موگابے، عبدالقادر الجزائری، سبھاش چندربوس اور بھگت سنگھ وغیرہ تک پھیلا ہوا ہے۔
امریکا کے رویے کے تضادات کی ایک اور چشم کشا مثال خود بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے بارے میں اس کا رویہ ہے، جس پر گجرات کے فسادات میں ۲ہزار معصوم مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کے قتل کی سرپرستی کے الزام کے تحت، امریکا میں اس کے داخلے پر ۲۰۰۵ء میں پابندی لگائی گئی تھی، اور جو ۲۰۱۴ء تک جاری رہی۔ ان ۹برسوں کے دوران میں باربار کوشش کے باوجود مودی صاحب کو امریکا کا ویزا ’دہشت گردی‘ کی سرپرستی کے الزام کی وجہ سے نہیں دیا گیا تھا، لیکن جب ۲۰۱۴ء میں وہ وزیراعظم منتخب ہوگئے تو دامن کے ان تمام خونیں دھبوں سمیت نہ صرف ان کو ویزا دے دیا گیا، بلکہ وہ بڑے طمطراق سے ہرسال امریکا کے دورے کر رہے ہیں۔ وائٹ ہائوس میں ان کا استقبال ہورہا ہے، امریکی پارلیمنٹ سے وہ خطاب کر رہے ہیں اور اب انھیں جون ۲۰۱۷ء میں سیّد صلاح الدین کو عالمی دہشت گرد قرار دیے جانے کا تحفہ بھی دےدیا گیا ہے، جس پر وہ اور بھارت کی سیاسی قیادت بغلیں بجارہی ہے، اور ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہی ہے۔ البتہ، کہنے والے تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ صدر ٹرمپ نے الیکشن مہم کے دوران بھارت کو کوئی گھاس نہیں ڈالی، بلکہ ’پیرس معاہدہ‘ اور ’ماحول کی حفاظت کے مسئلے‘ پر مودی پر الزام لگایا گیا کہ بھارت نے اس معاہدے کے تحت ایک ارب ڈالر اینٹھ لیے ہیں۔ لیکن اب بھارت جو کہ امریکا سے پچھلے پانچ برسوں میں ۱۵؍ارب ڈالر کا اسلحہ خرید چکا ہے اور چوں کہ پھر مودی صاحب نے امریکا آنے سے پہلے دو ارب کے ۲۲؍امریکی ڈرون (گارڈین، ایم کیو ۹بی) خریدنے کا معاہدہ بھی کیا ہے۔ یوں ٹرمپ اور مودی شیروشکر ہیں۔
ایک بھارتی اسکالر وجے پرشاد (Vijay Prashad)نے جو Left World Book کے چیف ایڈیٹر ہیں ، الجزیرہ ڈاٹ کام ۲۷جون ۲۰۱۷ء پر شائع شدہ اپنے مضمون Modi and Trump: When the Titans of Hate Meet (مودی اور ٹرمپ: جب نفرت کے دیوتا ملتے ہیں) میں، امریکاکی بے اصولی کا تذکرہ اس طرح کیا ہے:
نو برس تک مودی پر امریکا میں داخلے پر پابندی تھی۔ [لیکن] امریکی مفادات کی آبیاری کے لیے مودی سے راہ و رسم کا آغاز کیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں گجرات کے خونیں فسادات کے سرپرست کے لیے مودی پر الزامات بے معنی ہوکر رہ گئے ہیں۔ گویا کہ ’عملیت پسندی‘ (Pragmatism) کا مطلب یہ ہوا کہ اخلاقیات جائے جہنّم میں۔
مودی اور ٹرمپ نہ صرف ایسی تحریکوں کی رہنمائی کر رہے ہیں جن کی بنیاد نفرت پر ہے، بلکہ وہ مادہ پرستی کی ایک قدیم فیشن کی شکل کا سہارا بھی لے رہے ہیں۔ لیکن مودی ٹرمپ کے لیے جو کر سکتا ہے، وہ یہ ہے کہ وہ مزید امریکی ہتھیار خرید لے۔ بھارت دنیا میں ہتھیاروں اور اسلحے کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے، جب کہ امریکا دنیا میں اسلحے کاسب سے بڑا فروخت کنندہ ہے۔
کشمیر کی تحریکِ آزادی کے مردِ مجاہد سیّد صلاح الدین کو آج امریکا دہشت گرد قرار دے رہا ہے اور کشمیری عوام پر بھارتی مظالم اور تشدد کے باب میں اس کی آنکھیں بند اور اس کے لب خاموش ہیں۔ ہم امریکی صدر اور امریکی عوام کو یاد دلانا چاہتے ہیں کہ انسانی حقوق اور ایک مظلوم قوم کے حق خود ارادیت کے سلسلے میں ماضی میں ان کا موقف کیا رہا ہے؟ آج جو کچھ کیا جا رہا ہے، ذرا اس کا مقابلہ خود ’امریکی کانگریس کی سب کمیٹی براے ایشیا اینڈ پیسفک‘ کی یکم جون ۱۹۹۳ء کی رپورٹ سے کرلیں، کہ اس تحریک ِ آزادی کے بارے میں کمیٹی کا فیصلہ کیا تھا، اور آج اسے کس رنگ میں پیش کیا جارہا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ آج ۲۰۱۷ء کی تحریک بھی اسی تحریک کا تسلسل اور اس کا حقیقی فراز ہے: ’’تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو‘‘:
مسئلۂ کشمیر انسانی حقوق کے حوالے سے، بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک اور جنگ کی امکانی وجہ کے طور پر خطرناک حیثیت رکھتا ہے۔ یہ ایک [اہم] مسئلے کے طور پر بھارت اور امریکا کے تعلقات میں خلل ڈال رہا ہے۔ یہ مسئلہ گذشتہ چندبرسوں میں فوری توجہ اور کارروائی کا متقاضی ہو گیا ہے۔
بھارت کو جموں اور کشمیر میں ایک پُر زور ، بنیادی طور پر مقامی بغاوت کا سامنا ہے اور ایسی علامات کم ہی ہیں جن سے یہ اشارہ ملے کہ جموں وکشمیر کے عسکریت پسند یا بھارتی حکومت اس جدوجہد سے عاجز آ رہے ہیں۔ اس بات کا امکان بالکل نہیں ہے کہ دونوں میں سے کوئی ایک فریق دوسرے پر فوجی حل ٹھونس سکے، یا پھر مسلسل خوں ریزی ہی قابلِ قیاس مستقبل کا سب سے زیادہ ممکنہ منظر نامہ لگتا ہے۔
ذیلی کمیٹی نے بھارتی حکومت اور کشمیری عسکریّت پسندوں دونوں پر زور دیا ہے کہ وہ ایک منصفانہ اور پایدار سیاسی حل کے لیے جستجو کریں، لیکن ساتھ ہی کمیٹی یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہے کہ دہلی اور کشمیر یوں کے درمیان کسی حقیقی سیاسی مکالمے کے امکانات حوصلہ شکن ہیں۔ عوامی سطح پر ، دہلی کے بارے میں لگتا ہے کہ اسے یقین ہے کہ بغاوت بنیادی اور اوّلین طور پر پاکستانی دخل اندازی کا شاخسانہ ہے۔ اگرچہ شواہد اس نظریے کی تائید نہیں کرتے۔ کمیٹی ایسی کسی قابلِ فہم حکومتی حکمت عملی سے بے خبر ہے جس کا مقصد کشمیری عوام کی جائز سیاسی شکایات کا ازالہ کرنا ہو۔
اس معاملے پر ایک روز افزوں اتفاق راے سامنے آ رہا ہے کہ بھارتی مسلح افواج، کشمیرمیں باغیوں اور شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں ، سرسری سماعت کے بعد سزاے موت، قیدیوں پر تشدد ، منظم طریقے سے آتش زنی، اور طبی عملے اور انسانی حقوق پر نظر رکھنے والوں پر حملوں میں حالیہ مہینوں میں ڈرامائی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ذیلی کمیٹی نے بھارتی حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے ذمہ داروں کو دیوانی اور فوج داری سزائیں دے۔ اور مسلح افواج کے ان ارکان کی فہرستیں مہیا کرے جنھیں ان کے غیر قانونی اقدامات پر سزائیں دی گئی ہیں۔
ارکان اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ سینیر بھارتی سیاست دانوں کا تشدد پھیلانے میں کردار رہا ہے اور یہ کہ ایسے پولیس افسران بھی ہیںجو بلوائیوں کی کاروائیوں کے شکار معصوم لوگوں کو تحفظ دینے کے بجاے ایک طرف کھڑے رہے۔( تشدد کے شکار ) ان لوگوں کی اکثریت مسلمان تھی۔ اگر اس قسم کا تشدد جس نے دسمبر اور جنوری میں ملک ہلا ڈالا تھا جاری رہا تو بھارتی سیکولرزم کی بنیادیں تک مشکوک ہو سکتی ہیں۔ ذیلی کمیٹی کے ارکان اپنے اس عقیدے اور یقین کے اظہار میں قطعاً مبالغہ نہیں کر رہے کہ بھارت میں جمہوریت کے تحفظ کے لیے مذہبی اور سیاسی رواداری قطعی طور پر ضروری ہے۔ (US Parliamentry Sub Committee on Asia and Pacific )
اصل سوال یہ ہے کہ جو کچھ کشمیر میں قابض بھارتی حکمران اور افواج کر رہی ہیں، ان کی روشنی میں دہشت گرد کون ہے؟ حکمران اور افواجِ ہند دہشت گرد ہیں یا کشمیر کے مظلوم انسان اور مزاحمت کرنے والے بڑی حد تک غیرمسلح نوجوان؟ خود بھارتی حکومت کے ذمہ دار افراد کے مطابق مسلح افراد کی تعداد آج چندسو سے زیادہ نہیں اور چند ہزار سے زیادہ کبھی بھی نہ تھی، جب کہ وہاں بھارتی فوج اور پیراملٹری جوانوں کی تعداد ۷ لاکھ اور پولیس کی تعداد ۵ لاکھ ہے۔
امریکی وزارتِ خارجہ کے فرمان میں سیّد صلاح الدین کی ۲۷سالہ جدوجہد میں متعین طور پر صرف ایک واقعے کا ذکر ہے، جس میں ۱۷؍افراد صرف زخمی ہوئے تھے۔ اس کے مقابلے میں ٹرمپ صاحب اور امریکی محکمہ خارجہ کا ان تمام مظالم اور ریاستی دہشت گردی کے واقعات کے بارے میں کیا ارشاد ہے، جن کا اعتراف امریکی پارلیمنٹ کی کمیٹی کی اس رپورٹ میں کیا گیا ہے، اور جن میں گذشتہ برسوں کے دوران دسیوں گنا اضافہ ہوگیا ہے، جس کا اعتراف خود اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے تک کر رہے ہیں؟
نوجوان بُرہان مظفر وانی [۱۹۹۴ء داداسرا، ترال- ۸جولائی ۲۰۱۶ء بوم ڈورا، کوکرناگ] کی شہادت سے تحریک کے جس دور کا آغاز ہوا اور جس کے دوران تین سو سے زائد معصوم بچے، جوان، بوڑھے اور خواتین جامِ شہادت نوش کرچکے ہیں، تین ہزار سے زیادہ بینائی سے محروم ہوچکے ہیں، زخمیوں کی تعداد ۱۲ہزار سے متجاوز ہے اور حراست میں لیے جانے والوں اور لاپتا ہوجانے والوں کی تعداد ۲۰ہزار سے زائد بتائی جارہی ہے۔ کئی مہینے مسلسل ہڑتال رہی ہے، ۶۰دن سے زیادہ عرصے تک کرفیو مسلط رہا ہے، لیکن ایسے ہرظلم اور تشدد کے باوجود تحریکِ آزادی شباب پر ہے۔ ہر کوئی اعتراف کر رہا ہے کہ یہ ایک عوامی تحریک ہے۔ ہرگھر اس میں شریک ہے، اسکولوں کے بچوں، بچیوں سے لے کر ہرطبقے سے متعلق افراد سبھی دل و جان سے شرکت کرر ہے ہیں۔ بھارتی اخبارات کی رپورٹوں کے مطابق فوجی، پولیس افسراور سول حکمران کھلے اور چھپے اعتراف کررہے ہیں کہ پوری قوم بغاوت پر آمادہ ہے۔ اس دوران دو ضمنی انتخاب ہوئے اور ووٹ ڈالنے والوں کا تناسب ۷ فی صد اور ۲ فی صد رہا۔ قابض بھارتی حکومت حیران ہے کہ لوگوں کے دلوں سے ریاستی جبر اور گولی کا خوف بالکل ختم ہوکر رہ گیا ہے اور لوگ جان کی بازی کھیلنے پر تلے ہوئے ہیں۔ بھارتی اخبار The Economic Times کے نمایندے نے۸ مئی ۲۰۱۷ء کے شمارے میں تعجب سے لکھا ہے:
جموں اور کشمیر آج عسکریت پسندی کا جو نمونہ پیش کر رہے ہیں، اس نے ۰۳-۲۰۰۲ء کے بڑے عسکری حملوں کے تقریباً ۱۵ برس کے وقفے کے بعد ریاست کو ایک پُرتشدد چیلنج سے دوچار کر دیا ہے۔ اپنی بدلتی ہوئی حکمت عملی اور سماجی تصرف کی بدولت عسکریت پسندی، پولیس کے مشاہدے میں، نہ صرف اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب ہے، بلکہ بڑے پیمانے پر اپنی طرف توجہ بھی مبذول کروا رہی ہے۔ لوگ عسکریت پسندوں کو اپنے سیاسی نظریے کا محافظ خیال کرتے ہیں۔
اسی طرح بھارتی اخبار The Wire میں عدنان بھٹ نے، جو دہلی اور سری نگر سے رپورٹنگ کرتے ہیں ، لکھا ہے:
لڑائی سے فرار کا راستہ اختیار کرنے کے بجاے، نوجوان مرد اور لڑکے مقابلے کی جگہوں پر بھاری ہتھیاروں سے لیس مسلح افواج کا پتھروں سے مقابلہ کرنے کے لیے ہجوم در ہجوم جمع ہو جاتے ہیں۔ اس سیاسی تعلق نے کشمیر میں اکیسویں صدی کی نوجوان نسل کے غصے کو اور بھی ہوا دی ہے۔
حکومت اور علیحدگی پسنددونوں سے غیر مطمئن ہو کر ، مقامی عسکریت پسند نوجوان، جن میں سے کئی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، اپنی پُرآسایش زندگیاں ترک کر کے احتجاج کنندگان کی حمایت میں نکل آئے ہیں، ان کو ایسے لوگوں کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جو کشمیری نوجوانوں کی خاطر لڑ رہے ہیں۔ لہٰذا، بھارتی فوج اور پولیس سے مقابلوں کے دوران موت کا شکار ہونے سے بچ نکلنے کے لیے وہ ان کی مدد کی کوشش کرتے ہیں۔ اس دوران، چاہے اس میں ان کی اپنی جان ہی کیوں نہ چلی جائے، واحد درست کام لگتا ہے۔
گذشتہ برس (۲۰۱۶ء)سے، عسکریت پسندی کی عوامی حمایت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا کئی پولیس افسروں نے اعتراف کیا ہے۔ پولیس کے ایک سینیرعہدے دار نے دی وائر کو بتایا: میں کہوں گا گذشتہ سال سے حالات بہت زیادہ بدل گئے ہیں، خصوصاً جنوبی کشمیر میں۔ ہمیں کچھ خفیہ اطلاعات ملی ہیں کہ کچھ نوجوانوں نے عسکریت پسندوں کی صفوں میں شمولیت اختیار کرلی ہے اور اس کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ کس طرح سوشل میڈیا ان نوجوانوں کے جذبات کو مشتعل کرنے کے لیے استعمال ہورہا ہے۔
وجوہ جو بھی رہی ہوں، نوجوان عسکریت پسندوں کو اپنے نصب العین کے لیے حتمی قربانی دینے کے فیصلے نے کشمیری عوام اور خصوصاً کشمیری نوجوانوں میں ان کے مداحوں میں بہت زیادہ اضافہ کیا ہے۔
یہ تحریکِ مزاحمت ایک فطری، قومی اور عوامی تحریک ہے۔ اسے دہشت گردی سمجھنا یا کہنا، خودفریبی کے سوا کچھ نہیں۔ سیّد صلاح الدین کو عالمی دہشت گرد کہہ کر اس تحریک کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا حل صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ عوام کی آواز کو سنا جائے اور ان کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے۔
پاکستان، امریکا اور پوری عالمی برادری کا فرض ہے کہ ان مظلوم انسانوں کا ساتھ دیں، ان کی آواز کے ساتھ اپنی آواز ملائیں، ظالموں کے ہاتھ کو روکیں اور خطے کو حقیقی امن کی طرف لانے کے لیے سیاسی عمل کو متحرک و مؤثر کریں۔ ’دہشت گرد سازی‘ سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ حالات کو بگاڑنے کا مجرب نسخہ ہے، اصلاحِ احوال کا نہیں۔
یہ بھی اللہ تعالیٰ کی ایک حکمت ہے کہ وہ کبھی ’شر‘ سے ’خیر‘برآمد کرتا ہے:
عَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّ ھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَ عَسٰٓی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْئًا وَّ ھُوَ شَرٌّ لَّکُمْ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ o (البقرہ ۲:۲۱۶) ہوسکتا ہے کہ تمھیں ایک چیز ناگوار ہو اور وہی تمھارے لیے بہتر ہو، اور ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمھیں پسند ہو اور وہی تمھارے لیے بُری ہو، اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے۔
امریکی حکومت کا یہ اقدام اور بھارتی حکومت کا اس پر فخرو اطمینان، اس امر کا پیش خیمہ ہے کہ کشمیر کے جس مسئلے کو ’شملہ معاہدے‘ (۲جولائی ۱۹۷۲ء) کا سہارا لے کر بھارت نے محض ’دو طرفہ‘ (Bilateral) قضیہ بنانے کی کوشش کی تھی، امریکا کے اس اقدام (۲۶ جون ۲۰۱۷ء) نے اسے پھر عالمی مسئلہ بنادیا ہے،جو وہ پہلے دن سے تھا۔ پنڈت نہرو نے ۸جولائی ۱۹۴۹ء کو اپنے بیان میں مسئلۂ کشمیر کو ’ایک عالمی مسئلہ‘(A World Problem) کہا تھا۔
آج اس اقدام کی روشنی میں نہ صرف اس مسئلے کو بین الاقوامی مسئلے کی حیثیت سے تسلیم کیا گیا ہے، بلکہ بھارت کے لیے دوبارہ شملہ معاہدے کا نام لے کر اسے محض دو ملکوں کا قضیہ قرار دلوانا ممکن نہیں رہے گا۔
امریکا کے اس حالیہ اقدام کی وجہ سے پاکستانی حکومت اور پاکستانی قوم کی ذمہ داری دوچند ہوگئی ہے۔ اس اقدام پر وزارتِ خارجہ کا رِدّعمل کمزور اور روایتی تھا۔ صدر آزاد کشمیر جناب مسعود خان اور چودھری نثار علی خاں صاحب نے کھل کر اور دلیل کے ساتھ بات کی ہے، لیکن جناب وزیراعظم، مشیرخارجہ اور فوج کا رِدّعمل یہ سطور لکھنے تک سامنے نہیں آیا۔ سب سے زیادہ پریشان کن خاموشی پاکستان کی کشمیر کمیٹی کی ہے، جسے اپنے فرض کی ادایگی کا کوئی احسا س ہی نظر نہیں آرہا۔
ہماری نگاہ میں یہ وقت ہے کہ پاکستانی پارلیمنٹ اور خصوصیت سے اس کی قومی سلامتی کمیٹی فوری طور پر تمام معاملات پر غور کرے اور پاکستان کے تاریخی موقف اور وقت کی ضرورت کی روشنی میں کشمیر پالیسی اور قومی سلامتی کی پالیسی کو مرتب اور اس پر مؤثر انداز میں نقشۂ کار وضع کرنے اور اس نقشے کے مطابق کارکردگی کو یقینی بنانے کا اہتمام کرے۔
ہم اس موقعے پر اپنی ان معروضات کا اعادہ کرنا چاہتے ہیں، جو ہم مسئلۂ کشمیر کے سلسلے میں باربار قوم کے سامنے پیش کرچکے ہیں۔ لیکن بصد افسوس کہ تھوڑے بہت ارتعاش کے سوا کوئی حقیقی پیش رفت (break through ) نظر نہیں آرہی۔ بہرحال، ایک بار پھر پوری دردمندی اور دل سوزی کے ساتھ قومی پالیسی کی تجدید اور سب سے بڑھ کر تنفیذ کی درخواست کرتے ہیں کہ پاکستان کی کشمیر پالیسی کا مقصد، پاکستان اور علاقے کے مسلمانوں کے لیے امن اور حقیقی مفادات کا حصول ہونا چاہیے___ اس سلسلے کے بنیادی حقائق یہ ہیں:
۱- مسئلۂ کشمیر، ریاست جموں و کشمیر کے سوا کروڑ سے زائد مسلمانوں کے ایمان، عزت، آزادی اور سیاسی اور تہذیبی مستقبل کا مسئلہ ہے۔ یہ تقسیم ہند [۱۹۴۷ء] کے نامکمل ایجنڈے کا حصہ ہے۔ پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا سوال ہے۔ یہ محض دو ملکوں کے درمیان سرحدی تنازعہ نہیں ہے، اس لیے ہماری سیاسی ترجیحات میں اسے اوّلیت دینا چاہیے۔
۲- مسلمانانِ جموں و کشمیر نے اپنی بیش بہا قربانیوں کے ذریعے اس مسئلے کو زندہ رکھا ہے، اور اس وقت اسے اس مقام تک پہنچا دیا ہے، جہاں بھارت اور دنیا کے دوسرے ممالک یہ محسوس کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ اس مسئلے کو حل کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ لیکن جموں و کشمیر کے عوام کے ساتھ ساتھ، اس مسئلے کے فریق پاکستان، بھارت اور اقوام متحدہ بھی ہیں۔ پاکستان کا فرض ہے کہ ایک فریق کی حیثیت سے مسئلے کو لے کر اُٹھے اور ہرمیدان میں اس کے حل کے لیے سرگرم ہو۔ تحریکِ آزادی کی مدد کے ذریعے بھی، اور عالمی راے عامہ کو منظم اور مسخر کر کے بھی۔
۳- پاکستان کا اصل موقف یہ ہے کہ مسئلۂ کشمیر کا حل صرف ایک ہی ہے، اور وہ ہے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصواب راے۔ پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے موقف کو پوری جرأت، تسلسل اور دانش مندی سے پیش کرے۔ پاکستان یہ بات بھی واضح کردے کہ الحاق کے فیصلے کے بعد، پاکستان اور ریاست جموں و کشمیر میں تعلقات کی نوعیت، نظم و نسق اور انتظام و انصرام کا نقشہ اور خود اختیاری کی شکل و نوعیت کیا ہو؟ یہ تمام اُمور ریاست جموں و کشمیر کے عوام کی مرضی کے مطابق طے ہوں گے۔
۴- پاکستان کا فرض ہے کہ تحریک ِ آزادیِ کشمیر کی بھرپور مدد کرے اور اس کے اعلان میں شرمندگی نہ محسوس کرے۔ پاکستان نے کشمیر کی خاطر گذشتہ ۷۰برسوں میں بے شمار قربانیاں دی ہیں۔ آج جب کشمیر کے نوجوان کشمیر اور پاکستان کی جنگ لڑ رہے ہیں، پاکستان کی ریاست اور پاکستان کے عوام کا فرض ہے کہ اپنا پیٹ کاٹ کر ان کی مدد کریں اور ان کی ہرضرورت کو پورا کریں۔
۵- اسی طرح اس جدوجہد میں آزاد کشمیر کی حکومت اور عوام پر بھی بڑی ذمہ داری ہے۔ پاکستان کی حکومتوں کی طرح آزاد کشمیر کی حکومت بھی اپنے اصلی مشن کو بھول چکی ہے۔ وہ محض آزاد علاقے کی حکومت نہیں بلکہ پوری ریاست جموں و کشمیر کی آزاد حکومت ہے، اور مقبوضہ کشمیر کی جدوجہدِ آزادی اس کا اوّلین مقصد ہے۔ اسی لیے اسے ’بیس کیمپ‘ کا لقب دیا گیا تھا۔ اب ضرورت یہ ہے کہ گروہی سیاست سے بالاتر ہوکر آزاد کشمیر کی حکومت اور عوام، تحریک میں بھرپور حصہ لیں اور اپنی ترجیحات کو یکسر بدل کر تحریکِ آزادی کو اس کے منطقی اور فطری نتیجے تک پہنچانے کے لیے سرگرم ہوجائیں۔
۶- حکومت ِ پاکستان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اگرچہ یہ مقصد محض سیاسی اور سفارتی جدوجہد سے حاصل نہیں ہوسکتا، مگر اس کے باوجود سیاسی اور سفارتی مہم بہت اہم ہے اور اب تک اس کے تقاضے بھی پورے نہیں کیے جاسکے ہیں۔ محض چند وفود باہر بھیجنے سے بات نہیں بنے گی، اس کے لیے بڑے ہمہ گیر، منظم اور مؤثر کام کی ضرورت ہے، جس کے تحت پوری دنیا میں ہرعلاقے کے حالات کے مطابق، تحریک ِ آزادیِ کشمیر کے تعارف اور اس کی تائید کے حصول کے لیے جدوجہد کرنا ہوگی۔ ہماری وزارتِ خارجہ بالعموم اس مقصد میں ناکام رہی ہے۔
اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ کشمیر کی تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے وزارتِ خارجہ کی تنظیمِ نو ہو اور کشمیر ڈیسک سب سے اہم ڈیسک ہو۔ ہراس ملک میں جہاں پاکستانی سفارت خانہ ہے، کشمیر سیل (Cell) قائم کیا جائے۔ علم اور صلاحیت رکھنے والے افراد کو، جو کشمیر کے لیے صحیح جذبہ رکھتے ہوں، اس کام پر لگایا جائے اور اس طرح عالمی سطح پر ایک مؤثر تحریک چلائی جائے۔
۷- پوری پاکستانی قوم کو حالات سے آگاہ رکھنا اور قومی سلامتی کے لیے جذبۂ جہاد سے سرشار کرنا بھی اس پالیسی کا اہم جزو ہونا چاہیے۔ جب تک پوری قوم کو اس تحریک کے لیے متحرک نہیں کیا جائے گا، کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی۔ ہراسکول، کالج اور یونی ورسٹی میں، ہرشہر، قصبے اور دیہات میں، ہرمسجد اور مدرسے میں، ہرکارخانے اور بازار میں، جہادِ کشمیر سے لوگوں کو متعارف کرایا جائے اور اس میں شرکت کے لیے مال سے اور جان سے، ہرصورت میں آمادہ کیا جائے۔ قوم میں حقیقی جذبہ موجود ہے، لیکن اسے آج تک صحیح انداز میں متحرک و منظم نہیں کیا گیا۔
۸- حکومت پاکستان کو اپنا بجٹ بھی ان ترجیحات کی روشنی میں ازسرِنو مرتب کرنا ہوگا۔ جہادِکشمیر کی ضروریات کو اوّلیت دینا ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ نیوکلیر پاور کی مناسب ترقی، فوج کو چوکس رکھنا اور قوم کے نوجوانوں کو تیار کرنا ضروری ہے۔ اس بات کا خطرہ ہے کہ جب کشمیر میں حالات بھارت کی گرفت سے بالکل نکلنے لگیں گے تو وہ پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کی کوشش کرے گا۔ کشمیر پالیسی کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ پاکستان جنگ کے خطرات کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہے۔ تاریخ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ جو قوم جنگ سے خائف رہی ہے، وہ اپنی آزادی سے بھی محروم ہوگئی ہے اور جو قوم جنگ کے لیے تیار رہی ہے، وہی اپنے ایمان، عزت و آزادی کو محفوظ رکھ سکی ہے۔
سابق امریکی صدر رچرڈ نکسن[م: اپریل ۱۹۹۴ء] نے بہت صحیح کہا تھا کہ ’’ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ قوت کے استعمال سے دست برداری ، دراصل دشمن کو اپنے خلاف قوت کے استعمال کی دعوت دینے کے مترادف ہے‘‘، بلکہ نکسن نے تو یہاں تک کہا ہے: ’’صرف تیار ہی نہ رہو، مخالف کو یہ پیغام بھی دے دو کہ تم ہرقوت کے استعمال کے لیے تیار ہو، یہ وہ چیز ہے جو دشمن کو تم پر دست درازی سے روکے گی‘‘۔
اسی بات کو امریکی پالیسی ساز ہنری کسنجر نے دوسرے انداز میں کہا ہے: ’’اگر امن کے معنی محض جنگ سے بچنا ہی لیے جائیں، اور یہ چیز ایک قوم یا بہت سی اقوام کے مجموعے کا بنیادی مقصد بن جائے، تو سمجھ لو عالمی سیاسی نظام سب سے زیادہ بے رحم اور سنگ دل ملک کے رحم و کرم پر ہوگا‘‘۔ اس لیے جنگ سے بچنے کا بھی سب سے مؤثر راستہ جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہنا ہے۔
۹- بھارت پر مؤثر دبائو ڈالنے کے لیے چار ہی اہم طریقے ہیں اور ان چاروں کو مؤثرانداز میں اور مربوط منصوبہ بندی کے ذریعے استعمال ہونا چاہیے:
۱۰- اس عظیم جدوجہد کو اپنی اصل بنیادوں پر قائم رکھنے اور کامیابی سے ہم کنار کرانے کے لیے جہاں یہ امر ضروری ہے کہ بھارت اور اس کے ہم نوائوں کی سازشوں سے نہ صرف باخبر رہا جائے، بلکہ پورے اتحاد اور یک جہتی کے ساتھ ان کا بھرپور مقابلہ بھی کیا جائے۔ تحریکِ آزادیِ کشمیر، الحمدللہ ، مخلص نوجوانوں اور تجربے کار مخلص قائدین کے ہاتھوں میں ہے۔ ان کے درمیان بے اعتمادی پیدا کرنے، غلط فہمیوں کو ہوا دینے اور خلیج ڈالنے کی خطرناک کوششیں شروع ہوچکی ہیں، جن سے باخبر رہنا اور مکمل باہمی اعتماد کے ذریعے انھیں ناکام بنانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب غاصب اور جابر قوتیں، اپنے بہیمانہ جبر اور عریاں جارحیت کے ہتھیاروں سے، مزاحمت اور آزادی کی تحریکوں کو کچلنے میں ناکام ہوجاتی ہیں، تو پھر وہ لازوال قربانی کی تاریخ رکھنے والی تحریکوں کے مختلف عناصر کو ایک دوسرے کے خلاف بدگمان اور صف آرا کرنے کی مذموم کوششیں کرتی ہیں۔ ظالموں کی ان دونوں حکمت عملیوں کا پوری سمجھ داری سے مقابلہ کرنے کے لیے: اتفاق و اتحاد، تحمل و دُور اندیشی اور اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسے کی ضرورت ہے۔ اللہ کی تائید آزادی کے لیے کوشاں تحریکوں کو ان شاء اللہ ثمرآور کرے گی۔ ضرورت ہے کہ جدوجہد کو پوری قوت، بہترین حکمت عملی اور مکمل یک جہتی کے ساتھ جاری رکھا جائے۔ ان شاء اللہ کامیابی اہلِ کشمیر کے قدم چومے گی۔
۱۱- مندرجہ بالا خطوط پر مرتب کردہ کشمیر پالیسی کی کامیابی کے لیے ضروری ہوگا کہ اس کے نفاذ کے لیے بھی ایک مؤثر مشینری وجود میں لائی جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ یہ پالیسی اور اس کی تنفیذی مشینری، قومی بنیادوں پر استوار کی جائے۔ تمام سیاسی اور دینی جماعتوں کا فرض ہے کہ اس سلسلے میں مثبت کردار ادا کریں۔ پارلیمنٹ کو اس بارے میں مناسب ابتدائی اقدامات کرنے چاہییں۔ میڈیا اور سوشل میڈیا دونوں کا کردار بھی غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کام کے لیے ایک قومی تحریک کی ضرورت ہے۔
جس طرح کشمیر کے نوجوانوں نے چند برسوں میں وہاں کی فضا تبدیل کر دی ہے ، اسی طرح اگر پاکستان کی حکومت، سیاسی جماعتیں اور عوام اپنے فرض کی ادایگی کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں، تو حالات بہت کم وقت میں بدل سکتے ہیں۔ اس کا فائدہ صرف تحریکِ آزادیِ کشمیر اور بالآخر کشمیر کے پاکستان سے الحاق کی شکل میں ہی نہیں ہوگا، بلکہ قوم کو نئی زندگی اور نیا جذبہ ملے گا، اور اس نئی زندگی اور نئے جذبے سے پاکستان کو ایک حقیقی اور مضبوط اسلامی فلاحی مملکت بنانے کے لیے استعمال کیا جاسکے گا۔ یہی تحریکِ پاکستان کا اصل مقصد تھا اور یہی تحریکِ کشمیر کی بھی قوتِ محرکہ ہے۔
ایک دنیا یہ ہے جس میں ہم اور آپ رہتے بستے ہیں اور جس میں ہماری زندگیوں کا ایک حصہ گزر چکا ہے اور کچھ باقی ہے۔ اس دنیا کی چیزوں کو ہم آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ یہاں کی آوازوں کو کانوں سے سنتے ہیں۔ یہاں کی خوشبو بدبو کو ہم سونگھ کر جان لیتے ہیں۔ اسی طرح یہاں کی سردی گرمی محسوس کرتے ہیں۔ سختی نرمی کو چھوکر اور اچھے بُرے مزے کو چکھ کر دریافت کرلیتے ہیں۔ الغرض ہماری یہ دنیا ایسی دنیا ہے کہ اس کو ہم خود اپنے خداداد علم سے جانتے ہیں اور کوئی ہمیں بتائے یا نہ بتائے، ہم اس کے وجود پر یقین رکھتے ہیں۔ اسی طرح ہم خود اپنے علم سے اور اپنے مشاہدے اور تجربے سے یہ بھی جانتے ہیں کہ اس دنیا میں آرام اور راحت بھی ہے اور تکلیف اور مصیبت بھی___ یہاں کی بھوک پیاس، بیماری، زیادہ سردی اور زیادہ گرمی یہاں پر تکلیف کی چیزیں ہیں۔ اسی طرح تندرستی، خوش حالی، کھانے پینے کی اچھی چیزیں، اچھا موسم، اچھی ہوا، اچھا مکان، اچھی فضا یہ یہاں کی آرام اور راحت کی چیزیں ہیں۔
پھر یہ بھی ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ کر جانتے ہیں کہ یہاں کی ہماری زندگی ایک محدود مدت کے لیے ہے اور یہاں کی ہرتکلیف و مصیبت اور ہر عیش و راحت بھی محدود الوقت اور چند روزہ ہے۔ کتنے افراد پیدا ہونے والے جوانی سے بھی پہلے بچپنے ہی میں چل دیتے ہیں اور کتنے ایسے ہیں، کہ جوانی میں چلے جاتے ہیں۔ پھر جن کو جوانی کی بہار دیکھنے کا موقع ملتا ہے، آخرکار بڑھاپے میں وہ بھی چلے ہی جاتے ہیں۔ آج کل ۸۰، ۹۰ سال کی عمر بھی کسی کو کم ہی ملتی ہے۔ بہرحال، ہم اپنے تجربے اور مشاہدے سے جس طرح اس دنیا کو جانتے ہیں، اسی طرح یہ بھی جانتے ہیں کہ اس کی ہرتکلیف و راحت بس چند روزہ ہے۔
آخرت کی دنیا: ہم اور آپ بہ حیثیت مسلمان اس دنیا کے علاوہ ایک اور دنیا کو بھی مانتے ہیں، کہ وہ مرنے کے بعد والی اور آخرت کی دنیا ہے۔ وہ دنیا کہ جس کو ہم نے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا اور نہ کسی اور طریقے سے ہم نے اُس کو اپنے علم سے جانا ہے، بلکہ اُس کی خبر اللہ کے پیغمبروں ؑ نے دی ہے جن کی سچائی پر ہمیں پورا یقین ہے۔ ہماری اس دنیا میں بھی، جس میں ہم رہ بس رہے ہیں، ایسی بہت سی چیزیں ہیں جن کو ہم نے خود اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا ہے، بلکہ دوسرے لوگوں سے سن سن کر ہی ہم اُن پر یقین لے آئے ہیں۔
اسی طرح سمجھنا چاہیے کہ آخرت میں اور وہاں کی تکلیفوں اور راحتوں کو اگرچہ ہم نے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا ہے، لیکن اللہ کے پیغمبروں ؑ ، خاص کر آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بتلانے سے اور اللہ کی کتاب قرآنِ مجید کے بیان سے ہم نے اس کو جانا اور مانا ہے___ یہ ایک مسلّم حقیقت ہے کہ اپنے اپنے وقت میں اللہ کے سب پیغمبروںؑ نے یہی بتایا کہ: موت سے انسان کا بالکل خاتمہ نہیں ہو جاتا، بلکہ انسان دوسرے عالم کی طرف منتقل ہو جاتا ہے اور اس کی روح جو انسان کی اصل حقیقت ہے وہ دوسری دنیا میں چلی جاتی ہے۔ اس لیے ’موت‘ کو ’انتقال‘ بھی کہتے ہیں۔
اس کی ایک مثال ہم سب پر گزر بھی چکی ہے، جس کی وجہ سے اس کا سمجھنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ ہم میں سے ہر ایک اس دنیا میں آنے سے پہلے چند مہینے اپنی ماں کے پیٹ میں رہا ہے۔ ذرا سوچیے اگر کوئی ایسا آلہ ایجاد ہوجائے جس کے ذریعے پیٹ کے بچے تک بات پہنچائی جاسکے اور اس سے کہا جائے کہ اے بچے! اس وقت تو جس دنیا میں ہے، یہ اصل دنیا نہیں ہے، اصل دنیا میں تُو چند دنوں کے بعد پہنچے گا اور وہ لاکھوں کروڑوں کلومیٹر کی لمبی چوڑی دنیا ہے۔ اس میں دریا ہیں، پہاڑ ہیں، جنگل ہیں، اور اربوں انسان بس رہے ہیں، ریلیں چل رہی ہیں، موٹریں دوڑ رہی ہیں، ہوائی جہاز اُڑ رہے ہیں ، حکومتیں قائم ہیں، جنگیں ہوتی ہیں، توپیں چلتی ہیں، الغرض اس دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے اگر ماں کے پیٹ کے بچے سے اس کا ذکر کیا جائے اور اس کو بتایا جائے کہ چنددن کے بعد تو بھی اس دنیا میں پہنچ جائے گا تو ظاہر ہے کہ وہ بچہ جو ابھی اپنی ماں کے پیٹ کی ایک بالشت کی دنیا میں ہے اور اس سے باہر کی کسی بات کو جانتا ہی نہیں، وہ اگر ان باتوں کو کسی طرح سمجھ بھی لے تو بھی آسانی سے یقین نہ کر سکے گا، لیکن پیدا ہونے کے بعد جب وہ اس دنیا میں آئے گا اور کچھ دیکھنے سمجھنے کے لائق ہو جائے گا تو ان سب چیزوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گا۔ بالکل یہی مثال ہماری اس زندگی کی اور عالم آخرت کی ہے۔
ہم اس دنیا میں ہیں تو اس دنیا سے آگے کی کسی بات کو خود نہیں جان سکتے۔ اور اپنی ان آنکھوں سے آگے کی کوئی منزل نہیں دیکھ سکتے، لیکن اللہ تعالیٰ نے انبیاے علیہم السلام کو عالمِ آخرت کا علم دیا ہے۔ انھوں نے ہمیں بتایا اور سب سے زیادہ وضاحت اورتفصیل سے خدا کے آخری نبی ورسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا کہ مرنے کے بعد تم ایک دوسرے عالم اور دوسرے جہان میں پہنچ جائو گے جس کی پہلی منزل عالم برزخ ہے ( یعنی موت سے لے کر قیامت تک جہاں اور جس حال میں رہنا ہو گا)۔ دوسری منزل حشر اور حساب کی منزل ہے، جہاں ہر شخص کے اعمال کی جانچ اور ان کا فیصلہ ہوگا، اور اس سے آگے آخری منزل دوزخ یا جنت کا دائمی ٹھکانا ہے۔پھر دوزخ میں جو طرح طرح کے درد ناک عذاب ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کی شان قہاری کے جو نہایت ہیبت ناک منظر سامنے آئیں گے ان کو بھی آپؐ نے تفصیل سے بتلایا، اور جنت میں عیش وراحت اور لذت و مسرت کے جو بے انتہا سامان ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کی شانِ رحمت وکرم کے جو نئے نئے تجربے اور مشاہدے ہوں گے ان کی بھی آپؐ نے پوری تفصیل بیان فرمائی۔
میں مانتا ہوں کہ اس زندگی میں ان باتوں میں سے کسی ایک کو بھی ہم اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھتے اور نہیں دیکھ سکتے، لیکن ہمارا یہ نہ دیکھنا بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ ماں کے پیٹ کی منزل میں کسی بچے کا اس دنیا کو نہ دیکھ سکنا ، اور جس طرح ہر بچہ یہاں آ جانے کے بعد وہ سب کچھ دیکھ لیتا ہے جو آنے سے پہلے نہیں دیکھ سکتا تھا، اسی طرح ہمیں یقین ہے اور ہم اس پر قسم کھا سکتے ہیں کہ اس دنیا سے جانے کے بعد ہم میں سے ہر ایک وہ سب کچھ اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ لے گا جس کی اطلاع اللہ کے سارے سچے نبیوں اور رسولوں نے دی ہے اور سب سے آخر میں اللہ کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے زیادہ تفصیل اور وضاحت سے دی ہے۔
بہر حال، ہمیں کہنا یہ ہے کہ کوئی مانے یا نہ مانے ، ہم اور آپ جو اپنے کو مسلمان کہتے اور کہلاتے ہیں ، آخرت والی دنیا کو مان چکے ہیں اور اس پرایمان لا چکے ہیں___ بلکہ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی سیدنا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اور اس کی آخری کتاب قرآن مجید نے آخرت اور دوزخ وجنت کی جو تفصیلات بیان فرمائی ہیں ہم اور آپ ان تفصیلات پر بھی ایمان لائے ہیں۔
مثلاً ہمارا ایمان ہے کہ جس طرح ہماری اس زندگی میں بھوک اور پیاس کی تکلیف ہوتی ہے، اسی طرح دوزخ میں بھی دوزخیوں کو بھوک اور پیاس کی تکلیف ہو گی جو یہاں کی اس تکلیف سے ہزاروں گنا زیادہ ہو گی___ پھر اگر یہاں کسی کو بھوک لگے اور اسے کہیں سے کھانے کی کوئی چیز نہ ملے تو بس یہی تو ہو گا کہ دوچار ہفتے تڑپ تڑپ کے ایڑیا ں رگڑ رگڑ کے جان دے دے گا اور اس طرح موت کے ساتھ اس کی بھوک کی تکلیف کا بھی خاتمہ ہو جائے گا، لیکن دوزخ میں دوزخی ہزاروں لاکھوں سال بھوک پیاس کی شدید تکلیف میں تڑپے گا اور اس سے چھٹکارا پانے کے لیے اسے موت بھی نہ آئے گی، قرآن مجید کا بیان ہے: لَا یُقْضٰی عَلَیْھِمْ فَیَمُوْتُوْا(الفاطر ۳۵:۳۶)‘‘۔
خیال کیجیے ! اس دنیا میں اگر کسی زندہ آدمی کو دہکتی ہوئی آگ میں ڈال دیا جائے تو بس چند منٹ میں جل بھن کر اور تڑپ تڑپ کر جان دے دے گا۔ اور چند منٹ کی یہ تکلیف بھی ایسی ہو گی کہ جس بے چارے پر گزرے گی اس کا تو کیا ذکر، دیکھنے والوں کے بھی ہوش خراب ہو جائیں گے اور کتنوں پر اختلاج قلب کے دورے پڑ جائیں گے ۔ لیکن قرآن مجید میں دوزخیوں کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ وہ جہنم کی آگ میں جھونکے جائیں گے اور ان کے جسم کی کھالیں پک پک جائیں گی اور پھر ان کی جگہ نئی کھال آ جائے گی اور پھر اسی طرح وہ جھونکے جائیں گے ، الغرض ان کو یہ عذاب مسلسل دیا جاتا رہے گا ___ قرآن مجید کے الفاظ ہیں : کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُھُمْ بَدَّلْنٰھُمْ جُلُوْدًاغَیْرَھَا لِیَذُوْقُوا الْعَذَابَ ط(النساء ۴:۵۶) ’’اور جب اُن کے بدن کی کھال گل جائے گی تو اس کی جگہ دوسری کھال پیدا کریں گے، تاکہ وہ خوب عذاب کا مزا چکھیں‘‘۔
اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث بھی سن لیجیے:
آپ ؐ نے ارشاد فرمایا: ’’ دوزخ میں جس شخص کو سب سے ہلکے درجے کا عذاب ہوگا، اس کا حال یہ ہو گا کہ اس کے پائوں کے تلوے کے نیچے دوزخ کی آگ کی ایک چنگاری رکھ دی جائے گی جس سے اس کا بھیجا سر میں اس طرح پکے گا جس طرح چولھے پر ہانڈی پکتی ہے اور اس کا اپنا اندازہ اور احساس یہ ہو گا کہ سب سے زیادہ عذاب میں آج میں ہی ہوں‘‘۔
ہم آپ سب اس پر ایمان لائے ہیں کہ آخرت اور دوزخ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ ارشادات اور قرآن مجید کے یہ بیانات بالکل صحیح ہیں، یقینی ہیں، ان میں کسی شک وشبہے کی گنجایش نہیں ہے۔
یوں تو جنت اور اہل جنت کے متعلق قرآن مجید میں بہت کچھ بیان فرمایا گیا ہے۔ لیکن ایک بات کئی جگہ قرآن مجید میں ایسی کہی گئی ہے کہ جنت کے متعلق کچھ اندازہ کرنے کے لیے بس وہی کافی ہے۔ فرمایا گیا ہے کہ انسان کے دل اور اس کی طبیعت میں جو بھی خواہشیں اور جو بھی اُمنگیں اور آرزوئیں ہیں اور ہو سکتی ہیں جنت میں ان سب کے پورا ہونے کا پورا سامان ہے اور وہ سب پوری کی جائیں گی۔ ارشاد ہے: وَلَکُمْ فِیْھَا مَا تَشْتَہِیْٓ اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْھَا مَا تَدَّعُوْنَ o (حم السجدہ ۴۱:۳۱) ’’وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمھیں ملے گا اور ہرچیز جس کی تم تمنا کرو گے وہ تمھاری ہوگی‘‘۔ دوسری جگہ ارشاد ہے: لَھُمْ فِیْھَا مَا یَشَآئُ وْنَ ط (النحل ۱۶:۳۱)، اور ایک تیسری جگہ فرمایا گیا ہے: فِیْھَا مَا تَشْتَہِیْہِ الْاَنفُسُ وَتَلَذُّ الْاَعْیُنُ ج (الزخرف ۴۳:۷۱) (یعنی جنت میں تمھارے لیے وہ سب کچھ ہے جس کو تمھارے جی چاہتے ہیں اور تمھاری آنکھوں کو جس کے دیکھنے سے لذت اور سرور حاصل ہوتا ہے)۔
سوچیے اس کے بعد باقی کیا رہا ؟ ہمارا جی عیش وراحت والی اور لذت ومسرت والی ایسی زندگی کو چاہتا ہے جو کبھی ختم نہ ہو، جنت میں وہ موجود ہے۔ ہمارا جی اچھے مکانات کو چاہتا ہے جن سے نکلنے کا کبھی اندیشہ نہ ہو، جنت میں وہ بھی موجود ہیں۔ ہمارا جی اچھے کھانوں اور اچھے لذیذ میووں اور پینے والی اچھی خوش ذائقہ خوش رنگ چیزوں کو چاہتا ہے، جنت میں وہ بھی موجود ہیں بلکہ ان کی نہریں بہہ رہی ہیں ۔ ہمارا جی اچھی حسین اور سلیقہ شعار اور خدا کو یاد کرنے والی بیویوں کو چاہتا ہے، جنت میں وہ بھی موجود ہیں۔
یہ تو عام انسانوں کی خواہش کی چند چیزوں کا ذکر ہے اور جنت میں بلاشبہہ یہ سب چیزیں بھر پور موجود ہیں ۔ لیکن اس سے آگے اللہ تعالیٰ کی رضا، اللہ تعالیٰ کی وہ معرفت جس کا اس دنیا میں امکان نہیں، اور پھر سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی ملاقات اور اس کا دیدار___ یہ جنت کی وہ نعمتیں اور لذّتیں ہیں جن کی چاہت سے اللہ کے خاص بندوں کے سینے بھرے ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ یقینا اپنے ان چاہنے والوں کی اس چاہت کو بھی وہاں پورا کرے گا۔
اس کے بعد اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث بھی سن لیجیے۔ ارشاد فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک اور فرماںبردار بندوں کے لیے جنت میں جو نعمتیں اور لذت وراحت کے جو سامان تیار کیے ہیں وہ ایسے اچھوتے اور البیلے ہیں کہ کسی آنکھ والے کی آنکھ نے ان کی جھلک تک نہیں دیکھی، اور کسی کے کان میں ان کی بھنک تک نہیں پڑی، اور کسی کے دل میں ان کا خیال اور خطرہ بھی نہیں گزرا ہے۔ حدیث کے الفاظ ہیں : مَالَا عَیْنٌ رَأَتْ وَلَا اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ (بخاری، باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ، حدیث: ۳۰۸۸)
ایک حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سلسلے میں اور سن لیجیے ، جس میں آپ ؐ نے جنت کے عیش اور دوزخ کے عذاب کی شدت کو ایک خاص عنوان سے سمجھانا چاہا۔
آپ ؐ نے فرمایا: آخرت میں اللہ تعالیٰ ایک ایسے شخص کو طلب فرمائے گا، جس نے دنیا میں خدا سے بے تعلق اور بے خوف ہو کر اور اس کے احکام سے بے پروا ہو کر کفر اور شرارت کی زندگی گزاری ہو گی اور دنیا میں ایسے عیش وآرام سے رہا ہوگا کہ کبھی کسی تکلیف کا اس نے منہ بھی نہ دیکھا ہو گا۔ پھر فرشتوں کو حکم ہو گا کہ اس کو دوزخ کی ہوا کھلا لائو ۔ فرشتے حکم کی تعمیل کریں گے اور اس کو دوزخ کی ذرا آنچ دکھا کر نکال لائیں گے۔ اسی سے اس کا یہ حال ہو جائے گا کہ سر سے پائوں تک بس تکلیف اور بے چینی ہو گی، چیخے گا اور تڑپے گا۔ پوچھا جائے گا کیا حال ہے ؟ بے چارہ اپنی تکلیف اور اپنے دکھ کا حال بیان کرے گا۔ پھر پوچھا جائے گا کچھ یاد ہے کہ اس سے پہلی زندگی میں، یعنی دنیا میں تُو کیسے عیش وآرام سے رہا تھا۔ وہ بندہ غالباً قسم کھا کر کہے گا کہ خدا وند ا میں نے عیش وآرام کی کبھی صورت بھی نہیں دیکھی ، میں تو بس اس تکلیف ہی کو جانتا ہوں جس میں اس وقت مبتلا ہوں۔ گویا دوزخ کی آگ کی صرف ہوا لگ جانے سے آدمی اس دنیا کی پوری زندگی کے عیش وراحت کو بالکل بھول جائے گا ___ !
حضوؐر فرماتے ہیں کہ پھر ایک ایسے نیک بندے کو بلایا جائے گا جو دنیا کی زندگی میں ہمیشہ تکلیف اور پریشانی ہی میں رہا تھا اور فرشتوں کو حکم ہو گا کہ جائو ہمارے اس بندے کو ذرا جنت کی ہوا کھلا لائو۔ فرشتے اس حکم کی بھی تعمیل کریں گے اور اس کو جنت کی فضا میں سے گزار کر لے آئیں گے۔ بس جنت کی ہوا لگنے اور اس کی فضا میں سے صرف گزر جانے سے اس بندے کو ایسا چین وسکون اور ایسا عیش و سُرور حاصل ہو گا کہ پہلی زندگی کی ساری عمر کی تکلیف بھول جائے گا، اور جب اللہ تعالیٰ اس سے دریافت فرمائے گا کہ بندے کچھ یاد ہے کہ پہلی زندگی کیسی تکلیف سے گزری تھی، تو وہ عرض کرے گا کہ میرے پیارے پروردگار! مجھے تو کسی تکلیف کی صورت دیکھنا بھی یاد نہیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس پورے بیان کا حاصل یہی ہے کہ آخرت کی تکلیفیں اور وہاں کا عذاب اتنا سخت ہے کہ اس کا ایک لمحہ اس دنیا کے عمر بھر کے عیش کو بھلا دے گا ۔ اور اسی طرح وہاں کا عیش وآرام اور وہاں کی لذتیں ایسی ہیں کہ انھیں صرف دیکھ کر بندہ ساری عمر کی تکلیفیں بھول جائے گا۔
دوزخ اور جنت کے متعلق قرآن وحدیث کے ان بیانات پر الحمدللہ ہمارا ایمان ہے اور ہم آپ سب اس کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ سب حق ہے اور اس دنیا سے جانے کے بعد ہم یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے۔ ہمیں اس میں ذرہ برابر بھی شک وشبہہ نہیں ہے۔
اسی طرح ہم میں سے جو غریب یہ جانتے ہیں کہ وہ اگر آج مزدوری نہیں کریں گے تو کل ان کے بچوں کو فاقہ ہو جائے گا۔ وہ گھر میں نہیں بیٹھے رہتے بلکہ دسمبر جنوری کی سخت کڑاکے کی سردی میں بھی اور جون کی جُھلسا دینے والی لُو میں بھی وہ بے چارے باہر نکل کر مزدوری کرتے ہیں۔ اسی طرح ملازم پیشہ حضرات چونکہ جانتے ہیں کہ اگرہم بر وقت ڈیوٹی پر نہ پہنچیں گے تو ہم سے باز پُرس ہو گی اور ہماری ملازمت خطرے میں پڑ جائے گی۔ اس لیے خواہ جی چاہے یا نہ چاہے بے چارے ڈیوٹی پر جانے اور وہاں کی مقررہ خدمت انجام دینے پر مجبور ہوتے ہیں۔
ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ صرف اس لیے کہ اس دنیا کے نفع نقصان اور یہاں کے اپنے معاملات کے نتائج کا جو علم ویقین ہمیں اپنے ذریعوں سے حاصل ہوا ہے وہ ہم سے یہ سب کچھ کرا لیتا ہے۔
اب دیکھیے کہ آخرت کے نتائج کے بارے میں جو باتیں ہمیں اللہ کی مقدس کتاب اور اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان سے معلوم ہوئی ہیں اور جن پر ہم ایمان لائے ہیں ان کے علم ویقین کا ہماری زندگی پر کتنا اثر ہے ؟___ میرے نزدیک یہ کوئی باریک علمی مسئلہ نہیں جس کا سمجھنا کسی کے لیے مشکل ہو۔ ہر شخص خود ہی سوچے کہ وہ دنیا کی آگ اور دنیا کے سانپوں بچھوئوں سے بچنے کی جتنی فکر کر تا ہے، کیا آخرت کی دوزخ والی آگ اور دوزخ کے سانپوں بچھوئوں سے بچنے کی وہ اتنی فکر کر رہا ہے، اور کیا یہاں کی بھوک پیاس سے اور یہاں کی تکلیفوں مصیبتوں سے بچنے کے لیے وہ جو محنت اور جیسی دوڑ دھوپ کرتا ہے کیا ویسی ہی وہ آخرت کی بھوک پیاس اور دوزخ کے عذاب سے بچنے کے لیے کر رہا ہے؟
اسی طرح ہر شخص سوچے کہ اس دنیا میں آرام اور عزت حاصل کرنے کے لیے اور ترقی کے بلند درجوں پر پہنچنے کے لیے وہ جیسی فکر اور جیسی جدوجہد کر رہا ہے، کیا جنت کا عیش اورآخرت میں سرفرازی اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے بھی وہ ویسی ہی فکر اور جدوجہد کر رہا ہے؟ ۔
یقینا آپ سب کا بھی یہی خیال ہو گا کہ ہم میں اکثر کا بلکہ قریب قریب سب کا حال اس کے خلاف ہے___آخر ایسا کیوں ہے ؟
اس وقت پیش نظر مقصد یہی ہے کہ آپ کو اس سوال کی طرف اور اس صورتِ حال کی طرف توجہ دلائوں۔ یہ معمولی بات نہیں ہے۔ یہ ہماری زندگی کا سب سے اہم مسئلہ ہے۔ یہ وہ صورتِ حال ہے جو قرآن مجید نے ایمان نہ لانے والوں کی اور اللہ ورسول ؐ کی باتوں کا یقین نہ کرنے والوں کی بتلائی ہے --- ایک جگہ ارشاد ہے: کَلَّا بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَۃَ o وَتَذَرُوْنَ الْاٰخِرَۃَ o(القیامۃ ۷۵:۲۰-۲۱)’’اصل بات یہ ہے کہ تم لوگ جلدی حاصل ہونے والی چیز (یعنی دنیا) سے محبت رکھتے ہو اور آخرت کو چھوڑ دیتے ہو‘‘۔
دوسری جگہ فرمایا گیا ہے : اِنَّ ہٰٓؤُلَآئِ یُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَۃَ وَیَذَرُوْنَ وَرَآئَ ھُمْ یَوْمًا ثَقِیْلًا o (الدھر ۷۶:۲۷) ،یعنی ان کا حال یہ ہے کہ ان کو دنیا کی تو چاہت ہے اور آخرت کے مسئلے کو انھوں نے پسِ پشت ڈال رکھا ہے۔
میرا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ خدا نخواستہ ہم سب ایمان سے خالی اور خدا اور رسول ؐ کے منکر ہو چکے ہیں، بلکہ میں اپنے بشری علم کے مطابق الحمدللہ شہادت دے سکتا ہوں کہ ہم آپ جو یہاں ہزاروں کی تعداد میں بیٹھے ہوئے ہیں اور اس طرح کے ہمارے وہ سب بھائی جو دنیا کے کسی علاقے میں بھی بس رہے ہیں، الحمدللہ! ہم سب کے دلوں میں ایمان موجود ہے اور ہم اللہ اور اللہ کے رسول ؐ کی تمام باتوں اور ساری خبروں کو بالکل حق جانتے ہیں اور حق مانتے ہیں، لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی واقعہ ہے کہ ہماری زندگی ایمان والی نہیں ہے ، یا دوسرے لفظوں میں اس کو آپ یوں کہہ لیجیے کہ ہماری زندگی ہمارے ایمان سے مطابقت نہیں رکھتی ___میں آپ کو بس اس سوال کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ ایسا کیوں ہے؟
زندگی میں تضاد کا سبب:اس کی اصل وجہ صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ ہمارا آخرت والا یقین جو نبیوں اور رسولوں کے ذریعے ہمیں ملا تھا، وہ ہمارے دنیا والے اُن یقینوں کے مقابلے میں کمزور ہو گیا ہے جو ہمیں اپنے مشاہدے اور تجربے وغیرہ سے حاصل ہوتے ہیں اور ان کے نیچے گویا دب کر بے اثر اور بے جان ہو گیا ہے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ دنیا والا یقین ہم سے اپنے سارے تقاضے پورے کرا لیتا ہے لیکن آخرت والا یقین ہم سے اپنے تقاضے اور اپنے مطالبے پورے کرانے سے عاجز رہتا ہے۔ آپ اس کو واقعاتی مثالیں سامنے رکھ کر سوچیے۔
مثلاً ایک شخص ہے اس کو اللہ اوررسول ؐ کے احکام کے مطابق زکوٰۃ دینی چاہیے۔ اب اپنے ذاتی علم وتجربے سے اس کو ایک یقین تو یہ ہے کہ جتنی رقم میں زکوٰۃ کی دوں گا میری دولت میں اتنی کمی ہو جائے گی اور اس طرح میرا مالی نقصان ہوگا ، اور ایک دوسرا یقین یا عقیدہ اس کا یہ بھی ہے کہ زکوٰۃ فرض ہے۔ اس کا ادا نہ کرنا بہت بڑا جرم اور سخت ترین گناہ ہے جس کے نتیجے میں آدمی کو دوزخ کا نہایت درد ناک عذاب بھگتنا پڑے گا۔ اب ظاہر ہے کہ اگر دوسرا یقین پہلے یقین کے مقابلے میں زیادہ طاقت ور ہو اور اس سے دبا ہوا نہ ہو تو آدمی یقینا زکوٰۃ ادا کرے گا، لیکن اگر یہ دوسرا یقین کمزور ہو اور پہلا والا یقین زیادہ طاقت ور ہو تو پھر زکوٰۃ اس کی جیب سے نہیں نکلے گی۔
اسی طرح فرض کیجیے کہ ایک شخص حکومت کے کسی عہدے پر ہے۔ کسی معاملے میں اس کو ایک ہزار روپیہ کی رشوت پیش کی جاتی ہے۔ اب اپنے ذاتی مشاہدے اور تجربے سے اس کو ایک یقین تو یہ ہے کہ یہ رقم اگر میں لے لوں گا تو اس سے میری دولت میں اضافہ ہو گا، میرے بہت سے کام نکلیں گے، اور دوسری طرف وہ بہ حیثیت مسلمان اس بات پر بھی یقین اور عقیدہ رکھتا ہے کہ رشوت حرام ہے اور اس کے لینے والے پر خدا کی لعنت ہے، اور دوزخ میں اس کو اس کا سخت ترین عذاب بھگتنا ہو گا۔ اب اگر وہ دوسرے یقین کو نظر انداز کر کے رشوت لے لیتا ہے تو اس کا سبب صرف یہی ہوتا ہے کہ اس کا دوسرا یقین کمزور ہے اور پہلے یقین سے دبا ہوا ہے۔
الغرض ہماری زندگی میں جو یہ تضاد ہے کہ ہم عقیدہ کے لحاظ سے مسلمان ہیں اور ہماری غالب اکثریت کی عملی زندگی ایمان واسلام کے تقاضوں کے بالکل خلاف ہے، اس کی اصل وجہ اور علۃ العلل یہی ہے کہ ہمارا اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت کے بارے میں وہ یقین جو انبیاے علیہم السلام کے ذریعے ہمیں ملا تھا نہایت کمزور ہو گیا ہے، اور ہمارے دنیا والے وہ یقین جو ہمیں اور عام انسانوں کو اپنے مشاہدے اور تجربے وغیرہ سے حاصل ہوتے ہیں اس پر پوری طرح غالب آ گئے ہیں۔
صحابہ کرامؓ کے حالات آپ نے سنے ہوں گے اور آپ میں سے بہت سے حضرات نے کتابوں میں بھی پڑھے ہوں گے۔ ان کی زندگی کا نقشہ ہمیں بالکل دوسرا نظر آتا ہے۔ اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ ان کا آخرت والا یقین اتنا جان دار اور طاقت ور تھا کہ ان کے مشاہدے اور تجربے والے اس دنیا کے یقینوں پر غالب تھا۔ ایک تابعی بزرگ غالباً سیدنا حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرامؓ کو دیکھا ہے، ان کا امتیاز یہ نہیں تھا کہ وہ نماز روزہ جیسی عبادات میں تم سے بہت بڑھے ہوئے تھے۔ آگے ان کے الفاظ: وَلٰکِنَّہ شَیءٌ وقرنی قُلُوْبھم، یعنی ان کا اصل امتیاز بس یہ تھا کہ ان کے دلوں میں اللہ اور آخرت کا یقین ایسا جما تھا کہ ان کی پوری زندگی اور ان کا تمام ظاہر وباطن اس کے نیچے دبا ہوا تھا۔ ہمارے لیے جس طرح یہ مشکل ہے کہ ہم اپنے مشاہدے اور تجربے والے یقینوں اور ان کے تقاضوں سے بے فکر اور بے پروا ہو کر زندگی گزاریں، اسی طرح ان کے لیے یہ مشکل بلکہ نا ممکن ہو گیا تھا کہ اللہ اور یومِ آخرت والے یقین اور اس کے مطالبات سے آزاد ہوکر کوئی قدم اٹھا سکیں۔
اب ہمارے اور آپ کے سامنے دو راہیں ہیں:
ایک یہ کہ دین اور ایمان کے لحاظ سے اس وقت جو ہماری حالت ہے ہم خدا نخواستہ اس پر مطمئن ہوں اور اس میں تبدیلی کے لیے ہم میں کوئی بے چینی نہ ہو، اور دن اسی طرح گزرتے رہیں اور ہم اسی حال میں جیتے اور مرتے رہیں۔ مجھے یقین ہے کہ جب تک ہمارے دلوں میں ایمان کا کوئی ذرہ ہے ہم اس راستے کو شعوری طور پر ہرگز نہیں اپنا سکتے، اور میں کہہ سکتا ہوں کہ شاید آپ میںسے کوئی ایک بندہ بھی جان بوجھ کر اس کو پسند نہیں کرے گا۔
دوسری راہ یہ ہے کہ جس طرح ہم دنیوی زندگی کے بگاڑ سے اور یہاں کی بیماریوں، بربادیوں سے فکر مند ہوتے ہیں اور ان سے نجات حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں ،اسی طرح ہم اپنے اس دینی بگاڑ اور اُخروی تباہی وبربادی سے فکر مند ہوں اور اپنی حالت کو درست کرنے کی اور اپنی زندگیوں کو ایمان والی زندگی بنانے کی جدوجہد کریں۔ ظاہر ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کا فیصلہ یہی ہو گا۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ کام کس طرح ہو ؟
یہ تو عرض کیا جا چکا ہے کہ ہمارے اس سارے بگاڑ کی جڑ بنیاد یہ ہے کہ ہمارا ایمان والا یقین کمزور ہو گیا ہے اور دنیا والے ہمارے یقین اس پر غالب آ گئے ہیں۔ اس لیے اب ہمیں صرف اس کی جدوجہد کرنی ہے کہ ہمارے یقین کا کانٹا درست ہو جائے، یعنی اس دنیا میں جو کچھ ہم اپنے مشاہدے اور تجربے سے جانتے ہیں ہمیں اس پر بھی یقین ہو، لیکن اس سے بھی زیادہ گہرا اور پکا یقین ان باتوں پر ہو جو اللہ اوررسول ؐ کے بتلانے سے ہمیں معلوم ہو ئی ہیں۔ بس یہ ہی ہمارا اصل مسئلہ ہے!
اس کے بعد صاف عرض ہے کہ اگر ہماری تقریروں سے ہی یہ بات حاصل ہو سکتی تو مسئلہ بڑا ا ٓسان تھا۔ آپ کو کچھ بھی کرنا نہ پڑتا ۔ ساری محنت ہم کرتے یا تقریر کرنے والے دوسرے حضرات کے پائوں پکڑتے اور ان سے کہتے کہ اُمت میں ایمان والا یقین پھر سے پیدا کرنے کے لیے خوب تقریریں کیجیے اور اس میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیے ! اسی طرح میں صاف کہتا ہوں کہ اگر کوئی تعویذ، کوئی وظیفہ، کوئی جادو ایسا ہوتا کہ بس اس سے کام چل جاتا جب بھی مسئلہ بڑا آسان ہوتا ۔ لیکن ہمیں یقین ہے کہ کسی تعویذ اور وظیفے سے بھی یہ کام بننے والا نہیں ہے۔
ایمان والے یقین کو بڑھانے کی اور دوسرے دُنیوی یقینوں پر اس کو غالب کرنے کی ہمیشہ سے ایک ہی راہ ہے، اور وہ یہ ہے کہ آدمی اپنے کو ایسے دینی اور ایمانی کاموں میں لگا دے جو ایمان ویقین کو بڑھانے والے ہوں، اور اگر اس کا ماحول ایمان ویقین کے لیے ساز گار نہیں ہے تو کم ازکم کچھ عرصے کے لیے کسی ایسے ماحول میں رہے جس میں ایمان ویقین کی ترقی کا سامان ہو۔ صحابہ کرامؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت والا ایمان آفرین ماحول نصیب تھا اور انھوں نے اپنے کو دین کے ان کاموں میں پوری طرح جھونک دیا تھا جو ایمان ویقین کو بڑھانے والے تھے۔ اسی کا یہ نتیجہ تھا کہ ان کا ایمانی یقین ان کی دوسری تمام بشری معلومات پر غالب تھا۔ پھر قرونِ اولیٰ کے بعد بزرگانِ دین، یعنی صوفیاے کرام نے ایمان ویقین کی ترقی کے لیے جو راہ اختیار کی اس میں بھی بنیادی چیز یہی تھی۔
ہمارا یہ دور عوامی تحریکات کا دور ہے اور ساتھ ہی دین کی طرف سے بے رغبتی اور آخرت کی طرف سے بے فکری کا دور ہے۔ اس دور میں اس مقصد کے لیے کسی ایسے طریقۂ کار اور ایسی جدوجہد کی ضرورت تھی جو عوامی بھی ہو اور بے طلبوں اور بے فکروں کو کھینچنے کا اس میں کچھ انتظام ہو، ___ یہ تبلیغ ودعوت کی جدوجہد دراصل اسی مقصد کی ایک عوامی کوشش ہے۔
آج صورت یہ ہے کہ ہمارے امیروں اور غریبوں کا، ہمارے بڑوں اور چھوٹوں کا، ہمارے پڑھوں اور بے پڑھوں کا، سب کا ماحول غیر دینی ہے۔ سوچیے ہمارا ماحول کیاہے؟
ہمارا گھر، ہمارا محلہ ، ہمارے اسکول، ہمارے کالج، ہمارے دفتر، ہماری کچہریاں، ہمارے کارخانے ، ہمارے کھیت کھلیان ، ہمارے بازار اور ہماری منڈیاں ، سب کی زندگیاں بس انھی ماحولوں میں تو گزر رہی ہیں، اور ہم آپ سب جانتے ہیں کہ یہ ساری چیزیں آج اللہ اور آخرت کو یاد دلانے والی نہیں، بلکہ بھلانے والی ہیں۔ اسی طرح آج ہمارے جو مشاغل ہیں اور ہمارے کھانے کمانے کے جو ذریعے ہیں وہ بھی ہمارے ایمان والے یقین کو غذا پہنچانے والے نہیں بلکہ دیمک کی طرح کھاکے اس کو کمزور کرنے والے ہیں۔ اس لیے ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ ہماری زندگیوں کا پروگرام ایسا ہو کہ کچھ دنوں٭ کے لیے ہم اپنے مشغلوں اور ماحولوں سے نکل کر جنھوں نے ہمارے ایمان ویقین کو کمزوری کی اس حد تک پہنچا دیا ہے، کسی ایسے ماحول اور ایسے مشغلے اور ایسی فضا میں کچھ وقت گزارا کریں جو ایمان ویقین کے لیے ساز گار اور اس کو غذا پہنچانے والی ہو۔
آپ اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کریں۔آخر کب تک زندگی کی گاڑی غلط راستے پر چلائی جائے گی اور کب تک ایمان کے دعووں کے ساتھ غیر ایمانی زندگی گزاری جائے گی___ میں بغیر کسی تکلف اور حجاب کے کہتا ہوں کہ آپ میں سے جو حضرات ایسے مسائل پر غور کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں وہ اس مسئلے پر پوری سنجیدگی سے غور کریں، اور میرے جو بھائی ہم لوگوں پر اعتماد کر کے ہماری بات مان سکتے ہوں وہ اعتماد کر کے مانیںاور آگے بڑھیں۔ ہماری بات مان کر آپ کچھ کھوئیں گے نہیں بلکہ اپنے دین وایمان کو درست کر لیں گے اور پھر اللہ تعالیٰ آپ کی دنیا بھی درست کر دے گا۔ صحابہ کرامؓ نے دین کو اصل مقصدِ زندگی بنا کر اس کی فکر کی تھی، اللہ تعالیٰ نے دنیا خود ان کے قدموں میں ڈال دی۔ وہی اللہ اب بھی ہے اور اس کا قانون اب بھی وہی ہے۔
انسان بہت زود اثر واقع ہوا ہے ۔ اس کی نگاہ بڑی محدود ہے۔ ذرا سی بات بھی اگر خلافِ توقع ہو جائے تو اس کے دل ودماغ پر تاریکیوں کے بادل چھا جاتے ہیں۔ ایک معمولی سا واقعہ بھی اسے کبھی نااُمیدی کی پستیوں میں گرا دیتا ہے اور کبھی مسرت کی اوجِ ثریا پر پہنچا دیتا ہے۔ اسلام نام ہی اس کیفیت سے سرشار رہنے کا ہے کہ خوشی اور ناخوشی دونوں صورتوں میں اعتدال وصداقت پر انسان قائم رہے، لیکن فطرت کے ہاتھوں مجبور انسان صبر کم ہی کرتا ہے۔ اور جہاں ذرا بھی توقعات کا طلسم ٹوٹا، اس کا حال یہ ہوتا ہے کہ ؎
کس طرف جائوں ، کدھر دیکھوں ، کسے آواز دوں
اے ہجوم نااُمیدی ، جی بہت گھبرائے ہے
بلکہ اگر چوٹ ذرا بھی سخت ہو تو عالم یہ ہو جاتا ہے ع
کہ دامانِ خیالِ یار چُھوٹا جائے ہے مجھ سے
یہ انسانی فطرت کا ایک عجیب وغریب پہلو ہے۔ فرد کتنا ہی سمجھ دار ہو، لیکن اپنے ارد گرد رُونما ہونے والے واقعات سے پیہم اثر لیتا ہے۔ جس چیز سے جتنا زیادہ متعلق ہوتا ہے ، اور جتنا گہرا تعلق ہوتا ہے، وہ اس سے اتنا ہی شدید اثر بھی قبول کرتا ہے۔ جہاں توقعات جتنی زیادہ ہوں، وہاں ان کے ٹوٹنے پر شد ّتِ تاثر بھی اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے۔ انفرادی اور اجتماعی زندگی میں ایک نہیں ہزاروں مواقع ایسے آتے ہیں، جب بظاہر امیدوں کے چراغ گل ہوتے نظر آتے ہیں اور اضطراب ومایوسی انسان کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے ۔ سمجھ دار سے سمجھ دار اور حقیقت آشنا شخص بھی فوری طور پر تو ایک دھچکا محسوس کرتا ہے۔
کہا جا سکتا ہے کہ دنیا نام ہی امیدوں کے ٹوٹنے اور توقعات کے پامال ہونے کا ہے۔ یہاں کا چلن ہمیشہ سے یہی ہے اور اس زمانے میں جب ہرطرف مادہ پرستی اور ذاتی منفعت طلبی کا دور دورہ ہے، جب ہر اخلاقی قدر پامال ہو رہی ہے، اور دولت و منصب اور شہرت کا حصول کامیابی کا اصل پیمانہ بن گئی ہے، تو شکایت بھی کچھ بے جا سی نظر آتی ہے ؎
جب توقع ہی اٹھ گئی غالبؔ
کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی
لیکن حقیقت یہ ہے کہ خود غرضی کے اس سیلاب کے باوجود کچھ مقامات ومناصب ایسے ہیں کہ انسانی فطرت ان سے توقعات وابستہ کرنے پر اپنے کو مجبور پاتی ہے۔ ہزار معیارات بدل جائیں، لیکن ماں باپ سے ، استاد اور معلم سے، دوست اور ساتھی سے، معاشرے کے شریف اور مقتدر لوگوں سے، علما اور فضلا سے ، قاضی اور منصف سے انسان بہترین توقعات وابستہ کرنے پر اپنے کو مجبور پاتا ہے۔ ماں باپ کتنے ہی شقی ہوں لیکن اولاد کی امیدوں کا مرکز رہیں گے۔ استاد کتنا ہی گیا گزرا ہو، طالب علموں کی توقعات کا محور رہے گا۔ معاشرے کے مقتدر لوگوں کے ہاتھوں کتنے ہی چرکے لگیں، لیکن پھر نگاہ انھی کی طرف اٹھے گی۔ منصف اور جج کتنی ہی بُری مثال قائم کرے، پھر بھی مظلوم انسان ظلم کی دادرسی اور حق وانصاف کے حصول کی امیدیں انھی سے وابستہ کریں گے۔ ارباب حکومت اور قائدین و محافظ خواہ کیسی ہی زیادتیاں اور بے قاعدگیاں کریں، لیکن ان سے رشتۂ اُمید کُلی طور پر منقطع نہ ہوگا___
ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے انسانی معاشرے میں اُمیدوں کا گویا ایک قانون ثقل جاری وساری ہے۔ توقعات آپ سے آپ کچھ مقامات اور مناصب کی طرف کھنچتی اور مرکوز ہوتی ہیں۔ بلالحاظ اس کے کہ ان کا استقبال کس طرح ہو اور پھر جب اپنے مرجع پر جا کر وہ لوٹ آتی ہیں یا پاش پاش ہوجاتی ہیں تو دل پر ناقابلِ برداشت چوٹ لگتی ہے۔ احساس کے تاروں میں ارتعاش پیدا ہوتا ہے، مایوسی اور ناامیدی کی تاریکی چھانے لگتی ہے___ لیکن یہ بھی ایک عجب حقیقت ہے کہ نااُمیدی کے انھی بادلوں میں سے پھر توقعات کے نئے آفتاب وماہتاب رُونما ہوتے ہیں ،اور انھی کے سہارے زندگی اپنا راستہ طے کرتی چلی جاتی ہے۔
یہ واقعہ بھی ایک ایسے ہی دن کا ہے ! صبح ہی جو پہلی خبر مجھ کو ملی وہ توقعات کے بہت سے گھروندوں کو توڑ دینے والی تھی، ذہنی کش مکش تو شروع ہی سے تھی۔ کبھی دل توقعات وابستہ کرتا اور اُمیدوں کے چراغ روشن کرتا تھا اور کبھی ان پر شک کے پردے ڈالتا تھا ۔ اسی پیچ وتاب میں ذہن ناامیدی کی طرف جھک گیا، لیکن پھر ایک خیال اُبھرا ؎
وہ اور پاس خاطر اہلِ وفا کرے
اُمید تو نہیں ہے، مگر ہاں ، خدا کرے
اس ’ہاں خدا کرے‘ نے پھر توقعات کے رشتے استوار کر لیے اور میں اسی چنیں اور چناں میں تھا کہ وہ اطلاع مل گئی جس کا خطرہ تھا ،لیکن جسے ماننے کے لیے دل تیار نہ ہورہا تھا۔ ذہن کو ایک جھٹکا سا لگا ___ جھوٹی اُمیدوں اور مصنوعی توقعات کا طلسم بھی بڑا حسین اور طرح دار ہوتا ہے، مگر جب وہ طلسم ٹوٹتا ہے تو اس کے جلو میں تاریکیوں کا ایک سیلابِ بلاخیز اُمڈا چلا آتا ہے۔ میں بھی ایک لمحے کے لیے سکتے میں آ گیا ع
جن پہ تکیہ تھا ، وہی پتّے ہوا دینے لگے
پھر وہ چوٹ اور بھی سخت ہوتی ہے، جب ایسا سلوک ایک حق دار کے ساتھ کیا جائے، جب چرکے پر چر کے اس مظلوم کو لگیں، جو حق وانصاف پر ہواور جس کے حقوق پامال ہو رہے ہوں ۔ جب ایسا مستحق محروم کیا جاتا ہے تو اس کا زخم بڑا گہرا ہوتا ہے!
جو زخم میرے لگا تھا وہ بھی بڑا سخت تھا ! لیکن یہی وہ مقام ہے جہاںسے خدا پر یقین رکھنے والے اور رب کے دامن کو چھوڑ دینے والے ایک ہی جیسے حالات کا شکار ہو کر بھی دو مختلف راہیں اختیار کرتے ہیں ۔ ہجوم غم اور یورش اضطراب میں میرا دل چوٹ کھانے کے باوجود مایوسی اور بغاوت کا شکار نہ ہوا بلکہ لوحِ حافظہ پر یہ ارشار ربانی ابھرنا شروع ہوا:
وَعَسٰٓی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْئًا وَّ ھُوَ شَرٌّ لَّکُمْط وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَo (البقرہ ۲: ۲۱۶ )عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بھلی لگے اور وہ تمھارے لیے مضر ہو اور ان باتوں کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے،تم نہیں جانتے۔
اور ___
فَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّ یَجْعَلَ اللّٰہُ فِیْہِ خَیْرًا کَثِیْرًا(النساء۴:۱۹) پس، عجب نہیں کہ تم کسی چیز کو ناپسند کر و اور اللہ اس میں بہت سی بھلائی پیدا کرے۔
میں ان آیات کو پڑھتا رہا ___ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے یہ ابھی نازل ہوئی ہیں، جیسے میں نے آج ہی ان کو پایا ہے ۔ زبان ان الفاظ کو خموشی کے ساتھ ادا کرتی رہی ، دل ان کو جذب کرتا رہا، نااُمیدیوں کے بادل چھٹتے رہے ، توقعات کے ٹوٹنے سے جو زخم لگے تھے وہ مندمل ہونے لگے، ایسا محسوس ہوا کہ اس پر اکسیر صفت پھاہا رکھ دیا گیا ہے، جس نے زخم میں فوراً ٹھنڈک ہی نہیں ڈال دی بلکہ دیکھتے ہی دیکھتے وہ بھرنے بھی لگے۔
میرا دل پکار اٹھا کہ تقدیر کا عقیدہ یقینا ایک عظیم انسانی ضرورت ہے: والقدر خیرہ وشرِّہ من اللہ تعالٰی میں وہ گہری تاثیر ہے کہ اس کا جواب نہیں ہو سکتا ۔ اس میں قدرت کا خزانہ اور رحمت کا ذخیرہ ہے۔ یہ تصور، جہاں ایک طرف تقدیر کو بنانے کے داعیے اور ذوق عمل کو بیدار کرنے کا کام کرتا ہے تو وہیں نتائج کے بارے میں ایک عدیم المثال بے نیازی بھی پیدا کر دیتا ہے___ انسان محسوس کرنے لگتا ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے، اس کے پیچھے ایک حکمت بالغہ کار فرما ہے۔ وہ تنہا نہیں، نتائج اس کے یا کسی اور کے نکالے نہیں نکل رہے۔ اس پر دے کے پیچھے کوئی عظیم الشان قدرت کار فرما ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس کا کام اپنا فرض ادا کرنا ہے، نتائج اپنی فکر آپ کریں ! جودن میں رات اور رات میں سے دن کو پیدا کرتا ہے، جو زندہ میںسے مُردہ اور مُردہ میں سے زندہ کو نکالتا ہے، جو ہر چیز پر قادر ہے، اس کی تدبیر ہرشے میں کار فرما ہے۔ انسان کیسی ہی چالیں چلے، شیطان کیسے ہی منصوبے بنائے ، اس کی تدبیر کو غیر مؤثر نہیں بناسکتا ؎
اچھا یقین نہیں ہے تو کشتی ڈبو کے دیکھ
ایک تو ہی ناخدا نہیں ظالم ، خدا بھی ہے
یہی وہ احساس ہے جو انفرادی اور اجتماعی دونوں قسم کی ما یوسیوں میں ایک مسلمان کو تخریب پسندی اور شکست ِ ہمت سے بچاتا ہے اور اس میں زندگی کی نئی روح پھونک دیتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کافر جس مقام پر ما یوس ہو کر خود کشی تک کر لیتا ہے، مسلمان اعتماد الٰہی اور تقدیر خداوندی پر اطمینان کے سہارے اصلاحِ حال کی بیش از بیش محنت اور جدوجہد میں مصروف ہو جاتا ہے۔ کافر جس مقام سے اجتماعی بگاڑ اور فسادوتخریب کی راہ پر لگ جاتا ہے، مومن وہاں سے اصلاح اور تعمیر کے راستے کو اختیار کرتا ہے ۔
خیالات کا یہ سلسلہ نہ معلوم کب تک جاری رہا، زمانی اعتبار سے خواہ اس میںچند منٹ ہی صرف ہوئے ہوں، لیکن معلوم ہوتا تھا جیسے طائر خیال ،زمان ومکان [Time and Space]کی وسعتوں کو کھنگال کر واپس آیا تھا، میری پریشانی اب بڑی حد تک دُور ہو گئی تھی۔ عزم وہمت کا ایک چشمہ سا اُبلنے لگا تھا ،تاریکیاں چھٹ رہی تھیں اور روشنی پھیل رہی تھی___ میں نے کتاب اللہ کو اٹھایا، اسے چوما اور غیرارادی طورپر جو سورت مطالعے کے لیے میرے سامنے کھلی، وہ سورت الفتح تھی:
اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا o لِّیَغْفِرَ لَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَ منْـبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ وَیُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ وَیَھْدِیَکَ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا o وَّیَنْصُرَکَ اللّٰہُ نَصْرًا عَزِیْزًا o (الفتح ۴۸:۱-۳) [اے محمدؐ ! ] ہم نے تم کو فتح دی، فتح بھی صریح اور صاف تا کہ خدا تمھارے اگلے اور پچھلے گناہ بخش دے اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دے اور تمھیں سیدھے راستے پر چلائے اور خدا تمھاری زبر دست مدد کرے ۔
معلوم نہیں، قرآن سے فال نکالنے والے اسے کیا کہیں گے___میرا نہ یہ ذوق ہے اور نہ میں نے کبھی ایسا کیا ہی ہے، البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس سورۃ کا نکلنا ایک عطیۂ رحمانی ثابت ہوا۔ اس کے مطالعے نے ایک عجیب کیفیت پیدا کر دی ۔ بار بار پڑھتا تھا اور چشم تخیل چودہ سو سال پہلے کے ایک عظیم تاریخی واقعے کا نظارہ کر رہی تھی۔
کعبہ ویسے تو ساری ملت ابراہیمی ہی کا مرکز ومحور ہے، لیکن امت مسلمہ کا تو یہ دل ہے، دھڑکتا ہوا دل ! خدا کی زمین پر خدا کا پہلا گھر، جسے ابوالانبیا حضرت ابراہیم ؑ اور ان کے صابر وشاکر فرزند نے اپنے ہاتھوں سے بنایا، خداے واحد کی مناجاتوں کے ساتھ اس کی تعمیر کی، ساری انسانیت کے لیے اسے مسجود بنایا___ یہی وہ کعبہ تھا جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے شب وروز عبادتِ الٰہی میں گزارے ، جہاں معبود حقیقی کا کلمہ بلند کرنے پر آپ کو طرح طرح کے مصائب کا نشانہ بنایا گیا۔ جس کے سایے میں صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے دعوتِ اسلامی کے اوّلین ماہ و سال گزارے۔ جہاں سورئہ رحمٰن کی تلاوت کر کے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے مار کھائی۔ جہاںابوذر غفاری رضی اللہ عنہ اعلانِ حق کرکے پٹے۔ جہاں عمر فاروق ؓ نے نماز باجماعت ادا کرا کے اسلام کی حقانیت کا اعلان کیا___ کتنے خوش نصیب تھے وہ اور اپنی اس قسمت پر کتنے نازاں تھے کہ ؎
وہ کعبہ جسے دیکھ لینا عبادت ہے
مسلسل ہے پیش نظر اللہ اللہ
لیکن ظالموں نے اس کعبے کی رفاقت سے اہل ایمان کو محروم کر دیا۔ انھیں مکہ مکرمہ چھوڑنے پر مجبور کیا اور اس کے بعد اللہ کے اس گھر اور حق کی اس آیت کو ایک نظر دیکھنا تک ان پر حرام کر دیا۔ مسلمانوں کے لیے اس کا طواف بھی ’غیر قانونی‘ قرار دیا گیا۔ اور ایک نہیں کئی واقعات ایسے ہیں، جب خاموشی سے بھی اگر کوئی مسلمان ایمان کے اس محور کی زیارت کو چلا گیا تو اس کے لیے جان بچاکر واپس آنا مشکل ہوگیا۔
اپنے اس ’ محبوبِ نظر ‘ کو دیکھے ہوئے مسلمانوں کو چھے سال بیت گئے۔ ظلم کا قانون ان کے اور ان کے محبوب نظر کے درمیان حائل ہو گیا، اور وہ اسے ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے تاب تھے۔ اس کا تو ایک لمحے کے لیے بھی ان کی نگاہوں سے اوجھل ہونا ان کے دل پر شاق تھا، کجا فرقت میںچھے طویل اور صبر آزما سال گزر گئے۔ جس سے رخصت ہوتے وقت خود پیکر حلم وصفا اور صبروثبات صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حال تھا کہ بار بار اس کی طرف نگاہ اُٹھا کر ارشاد فرماتے تھے کہ: ’’خدا کی قسم تو اللہ کی بہترین زمین ہے اور اللہ کی نگاہ میں سب سے بڑھ کر محبوب ہے۔ اگر یہاں سے مجھے نکالا نہ جاتا تومیں کبھی نہ نکلتا۔ (ترمذی، کتاب المناقب، باب فی فضل مکۃ، حدیث: ۳۹۲۵)
تصور کیجیے، پھر چھے سال محرومیِ نظارہ کے بعد آپؐ کا اور آپؐ کے ساتھیوں کی بے قراری کا کیا حال ہوگا؟ ایک خلش تھی جو ہر وقت بے چین کیے رکھتی تھی، ایک چبھن تھی کہ جو بے تاب کیے ہوئے تھی ، ایک بے قراری تھی کہ جو کسی طرح دُور نہ ہوتی تھی اور ایک ٹیس تھی کہ رفیقِ جان بن گئی تھی۔ سب کچھ میسر تھا مگر ایک خلا تھا کہ اسے کوئی شے پر نہ کر سکتی تھی۔ ہر شخص کا عالم یہ تھا کہ ع
جیسے ہر شے میں کسی شے کی کمی پاتا ہوں میں
حضرت بلال ؓ مکہ میں کتنے ستائے گئے، تپتی ریت پر گھسیٹے گئے ، جلتی سلوں کے نیچے دبائے گئے، جسم اور روح اذیت کا نشانہ بنائے گئے، لیکن محبوب سے تعلق میں ان باتوں سے کب کمی ہوتی ہے! مکہ کی یاد بے کل کیے رہتی ، پہروں اسے یاد کر کر کے روتے اور پکارپکار کر یہ اشعار پڑھتے (بخاری، باب مقدم النبیؐ و اصحاب المدینہ) :
الا لیت شعری ھل أبیتن لیلۃ
بوادٍ وحولی اذخرٌ و جلیلٌ
(کاش! مَیں مکہ کی وادی میں ایک رات بسر کرسکتا اور میرے چاروں طرف اذخر و جلیل ہوتیں)۔(البدایۃ والنہایۃ، ج۳، ص ۲۲۱)
وھل اردن یومًا میاہ مجنہ
وھل یبدون لی شَامَۃ و طفیل
(کاش! ایک دن میں مجنہ کے چشموں سے اُترتا اور شامہ و طفیل (پہاڑوں) کو دیکھ سکتا۔)
یہی مکہ تھا جسے دیکھ لینے کی ایک اُمید پیدا ہو گئی ___کعبے سے، اس محبوب نظر اور مقصود و مسجود کے نظارے سے ، آنکھوں کو پھر شاد کام کرنے کی صورت نکل آئی، حجرِ اَسود کو پھر چوم لینے کا امکان رُونما ہوگیا،بیت اللہ کے گرد پروانہ وار گردش کرنے کی توقع اُبھر آئی، یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رویاے مبارکہ دیکھا کہ آپؐ اور آپؐ کے ساتھی (اللہ کی رحمتیں ہوں ان سب پر) عمرے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔ ’’پیغمبرؑ کا خواب بھی وحی کی اقسام میں سے ایک قسم ہے اور اللہ تعالیٰ نے خود توثیق فرما دی کہ یہ خواب ہم نے رسولؐ کو دکھایا تھا‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج۵، ص ۳۴)
لَقَدْ صَدَقَ اللّٰہُ رَسُوْلَہٗ الرُّءْ یَا بِالْحَقِّ ج لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ اِنْ شَآئَ اللّٰہُ اٰمِنِیْنَ لا مُحَلِّقِیْنَ رُئُ وْسَکُمْ وَمُقَصِّرِیْنَ لاَ تَخَافُوْنَ ط (الفتح ۴۸:۲۷) فی الواقع اللہ نے اپنے رسولؐ کو سچّا خواب دکھایا تھا جو ٹھیک ٹھیک حق کے مطابق تھا۔ ان شاء اللہ تم ضرور مسجد ِ حرام میں پورے امن کے ساتھ داخل ہوگے، اپنے سر منڈوائو گے اور بال ترشوائو گے اور تمھیں کوئی خوف نہ ہوگا۔
اس اشارۂ غیبی سے زندگی کی نئی رو پھوٹ پڑی ، اُمیدوں کا ایک سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگا، سوکھے ہوئے چشمے ابل پڑے ، گرمی وحرارت کی ایک لہر دوڑ گئی، خوشیوں کے شادیانے بجنے لگے، دل بھر گئے اور آنکھیں نم ہو گئیں___ کعبے کی زیارت کی راہ پیدا ہوتی نظر آئی۔ درحقیقت یہ نرا خواب نہ تھا، بلکہ ایک الٰہی اشارہ تھا، جس کی پیروی کرنا آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ضروری بھی تھا۔
پھر کیا تھا؟ ذوق وشوق سے تیاریاں شروع ہو گئیں۔ کفارِ قریش نے چھے سال سے مسلمانوں کے لیے بیت اللہ کا راستہ بند کر رکھا تھا۔ اس پوری مدت میں کسی مسلمان کو انھوں نے حج اور عمرے تک کے لیے حدودِ حرم میں قدم نہ رکھنے دیا تھا (ایضاً، ص ۳۴)۔ اعلان کر دیا گیا کہ مشرق ومغرب، شمال وجنوب ہر سمت میں اطلاعات بھیج دی گئیں کہ زیارت بیت اللہ کے لیے اللہ کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھی نکلنے والے ہیں۔ جس کے پاس جو کچھ تھا، اس نے اس مقدس سفر کے لیے لاکر پیش کرڈالا ___ چودہ سو مسلمان راہ حق میں نکل کھڑے ہوئے ___کتنی خوش نصیب تھی وہ سرزمین جس سے نبیؐ کی دعوت پر چودہ سو مسلمان اپنے محبوب تک پہنچنے کے لیے سر ہتھیلی پر رکھ کر نکل کھڑے ہوئے:
وَّمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ یُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُج(الفتح ۴۸:۱۷) اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبرؐ کے فرمان پر چلے گا ، اللہ اس کو بہشتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔
حق کے فدا کاروں کا یہ اعلان جہاں ان کی قوت کا اظہار ، ان کی وحدت اور یک جہتی کا اعلان اور ان کے عزم وجاں فروشی کا آئینہ دار تھا، اور اس سے جہاں سارے عرب کے حق پرستوں میں بجلی کی ایک نئی لہر دو ڑ گئی تھی، وہیں اس خبر نے اہل باطل کے ہوش اُڑا دیے۔ان کے تن بدن میں آگ لگ گئی، ان کی راتوں کی نیند حرام ہو گئی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) جسے ہم نے غربت کے عالم میں یہاں سے نکالا، پھر اپنے ساتھیوں کے ساتھ پوری شان سے یہاں داخل ہو___ ہمارے جیتے جی یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ اس طرح تو سارے کیے دھرے پر پانی پھر جائے گا۔ ہم نے تو نکالا ہی اس لیے تھا کہ اس کے اثر سے محفوظ ہو جائیں۔
پھر اس کی قوت کا خاتمہ کرنے کے لیے بار بار ہم نے لشکر کشی کی تھی، لیکن کسی طرح اس کی قوت ٹوٹتی ہی نہیں ۔ سب وشتم کا طوفان ہم نے اٹھایا ، سختیاں اور شدائد ہم نے کر لیے ، مارپیٹ ، جیل اور مقاطعہ، غرض ہر حربہ استعمال کر لیا۔ معاملہ قاضی شمشیر کے سپرد بھی کیا، لیکن وہاں بھی بدر کے میدان میں ہمارے ہی جوانوں کی لاشیں تڑپتی نظر آئیں۔ محاصرہ بھی کر دیکھا، لیکن اس چٹان میں کوئی شگاف ہی نہیں پڑا۔ یہ ساری ذلتیںہم نے اٹھائیں لیکن یہ تو بالکل ہی ناقابلِ برداشت ہے کہ ہمارے ہوتے ہوئے وہ مکہ میں قدم رکھے، کعبہ کا طواف کرے، توحید کا کلمہ بلند کرے، ہمارے بتوں کی نفی کرے او ردرو دیوار لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ ، لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ کے نعروں سے گونجیں ___نہیں، یہ نہیں ہو سکتا !
لیکن آہ! ہم بڑی مشکل میں گرفتار ہیں۔ اس نے یہ سفر جنگ کے لیے نہیں، خالص زیارتِ کعبہ کے لیے اختیار کیا ہے۔ عام مہینوں میں نہیں حرام مہینوں میں اختیار کیا ہے، اسلحے سے لیس ہو کر نہیں آرہا___ بجز ایک تلوار ( اور وہ بھی نیام میں ) اس کے پاس کوئی ہتھیار نہیں۔ تمام زائرین حرم کو عرب کے معروف قاعدے کے مطابق سفر کی حفاظتی ضرورت کے لیے ایک تلوار رکھنے کی اجازت تھی، سو اس قاعدے سے تجاوز نہ کیا اور نہ کوئی سامانِ جنگ ساتھ لیا۔اس نے قربانی کے جانور بھی لے لیے ہیں ___قانون کی پوری پابندی کر رہا ہے ، روایات کا مکمل احترام کررہا ہے، کہیں انگلی رکھنے کی گنجایش نہیں۔
اُدھر کفّارِ مکہ اس الجھن میں گرفتار ہوکر رہ گئے کہ اگر ان محترم مہینوں میں ہم ان سے جنگ کرتے ہیں تو ہم برسوں کی روایات کا خون کرنے کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اگر زیارت سے روکتے ہیں تو اہل عرب کے ایک بنیادی اور فطری حق سے، جسے ہر دور میں اور ہر گروہ اور قبیلے نے تسلیم کیا ہے،اگر ان کو محروم کرتے ہیں تو یہ انصاف ، قانون اور روایات کے صریح خلاف مانا جائے گا۔ سب اسے مذہبی اُمور میں مداخلت قرار دیں گے۔ لوگوں کو یقین دلانے کی اپنی سی کوشش بھی کریں، لیکن اسے مانے گا کون ؟
سب اہلِ عرب صاف کہیں گے کہ اگر محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) اور اس کے ساتھیوں کے لیے اس قدیمی حق کو پامال کیا جاسکتا ہے تو کل ہمارے لیے بھی کیا جا سکتا ہے۔ اگر آج ان کے باب میں یہ مذہبی مداخلت اور یہ سیاسی دخل اندازی ہو سکتی ہے، تو پھر دوسروں کے لیے بھی ان حقوق اور ان مہینوں کے محترم رہنے کا کیا امکان ہو گا___ پھر غضب یہ ہے کہ یہ بات چوری چھپے بھی نہیں کی۔ عرب میں اپنے اس سفر اور اس کے مقاصد کا اعلان بھی کر دیا ہے___ یہ سوچ سوچ کر ان کے ذہن مائوف ہورہے تھے کہ کس مشکل میں گرفتار ہو گئے ہیں۔
’’لیکن، کیا ہم اسے آنے دیں؟ نہیں، یہ تو نہیں ہو سکتا۔ ہم کہیں گے کہ زیارت تو محض ایک بہانہ ہے، اصل مقصد تو ہمیں مکہ کے اقتدار سے محروم کرنا ہے۔ یہ صریح طور پر ہمارے خلاف ایک سیاسی انقلاب کا قدم ہے۔ یہ لوگ سماجی قانون ومذہب کے پردے میں ہمارے اقتدار سے کھیلنا چاہتے ہیں۔ ان کی قانون پسندی کے پیچھے قوت کے استعمال کے عزائم موجود ہیں۔ کوئی مانے نہ مانے، ہم یہی سمجھتے ہیں، ہم یہی کہیں گے ، ہمارے حلیف قبائل اس کی تائید کریں گے___ ہم اکیلے ان کے خلاف نہیں لڑیں گے، ہم بھی اپنے تمام حلیفوں کو جمع کریںگے، ان سے ان کے خلاف فتویٰ لیں گے بلکہ ملک بھر میں اس بات کا چرچا کریں گے اور چاہے کچھ ہو جائے مکہ میں ان کو دوبارہ داخل نہ ہونے دیں گے___ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم تو طواف کعبہ کو ان کے لیے ’غیرقانونی‘ قرار دیں اور یہ سیدھے وادی القریٰ میں داخل ہو جائیں‘‘۔
قانون ، روایات ، انصاف ، دلیل وبرہان کو شکست ہوئی اور ضد، ہٹ دھرمی اور سیاسی دھاندلی نے بازی جیت لی ! قریش نے کاروان حق اور زائران حرم کا راستہ روکنے کا فیصلہ کر لیا۔ سارے ملک میں ہرکارے دوڑائے گئے کہ ایک فیصلہ کن جنگ لڑ کر اس تحریک کو اب ختم ہی کر دینا ہے:
اِذْ جَعَلَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِیْ قُلُوْبِہِمُ الْحَمِیَّۃَ حَمِیَّۃَ الْجَاہِلِیَّۃِ (الفتح ۴۸:۲۶) جب کافروں نے اپنے دلوں میں ضد کی ___اور ضد بھی خالص جاہلیت کی۔
ھُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَصَدُّوْکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَالْہَدْیَ مَعْکُوْفًا اَنْ یَّبْلُغَ مَحِلَّہُ ط (الفتح ۴۸:۲۵) یہ وہی لوگ ہیں جنھوں نے کفر کیا اور تم کو مسجد حرام سے روک دیا۔ اور قربانیوں کو بھی روک دیا کہ وہ اپنی جگہ پہنچنے سے رک جائیں۔
مخالفین اپنی چالیں چل رہے تھے، قبائل کو جمع کیا جا رہا تھا اور جاہلیت کے نام پر انھیں من مانی کارروائی کے لیے آمادہ کیا جا رہا تھا۔ فوجی تربیت دی جارہی تھی ۔ مکّہ کے نوجوانوں اور سرپھروں کی ٹولیاں مختلف سمتوں سے بھیجی جا رہی تھیں تا کہ کوئی موقع لڑائی کا پیدا ہو جائے اور کوئی واقعہ ایسا رُونما ہو جائے کہ قافلۂ حق پرہاتھ ڈالنے کی صورت نکل آئے ___ اور دوسری طرف ان حرکتوں سے بے نیاز، اللہ کا آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چودہ سو جاں نثاروں کے ساتھ خاموشی اور وقار کے ساتھ سوے حرم رواں تھا۔
جب قافلۂ حق عفان کے پاس پہنچا تو قبیلہ کعب کے ایک شخص نے اطلاع دی کی مکہ سے باہر کے مقام پر قریش اور ان کے حلیف بڑی تعداد میں فوجیں جمع کر رہے ہیں اور خالد بن ولید اور عکرمہ ابن ابو جہل ۲۰۰سواروں کے ساتھ مقدمہ الجیش کے طور پر کُراعُ الغمیم تک آگئے ہیں۔ قبیلہ خزاعہ کے رئیس اعظم بُدَیل بن وَرَقانے صورت حال پر آپؐ کی راے معلوم کی اور اپنی خدمات پیش کیں۔ خدا کے نبی اور قافلۂ زائران کے سردار( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ایک طرف مسلمانوں کو حکم دیا کہ قریش مقام الغمیم تک آگئے ہیں، اس لیے اس راستے کو چھوڑ کر داہنی طرف سے چلو اور دوسری طرف بذیل بن ورقا اپنے چند معتبر ساتھیوں کے ساتھ آپؐ کے پاس آیا، اور پوچھا:
’’آپ کس غرض سے آئے ہیں؟‘‘
آپؐ نے فرمایا: ’’ہم کسی سے لڑنے نہیں آئے، صرف بیت اللہ کی زیارت اور اس کا طواف ہمارے پیش نظر ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ ایک معین مدّت کے لیے مجھ سے صلح کا معاہدہ کر لیں اور اگر وہ اس پر راضی نہیں ہیں تو :
فَمَا تظَنُّ قریش فَوَاللّٰہِ لَا ازال اجاھد علی الَّذِی بَعثَنِی اللہ بِہٖ حَتّٰی یُظھِرَہُ اللہ اَو تَنْفِرْدَ ھٰذہِ السَّا لِفۃُ ، معلوم نہیں قریش کس گھمنڈ میں ہیں۔ اللہ کی قسم ! میں دین کے لیے اس وقت تک جہاد کروںگا، جب تک اللہ، دین کو غلبہ نہ عطا کر دے یا دستِ اجل مجھ پر قبضہ نہ کر لے۔ (تاریخ الطبری، ج۲، ص ۱۱۷)
عزم وہمت اور یقین اور جاں بازی کے اس اعلان سے قریش میں کھلبلی مچ گئی۔
داعیِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے تدبیر اور حکمت عملی، اظہار عزم اور پختگی دونوں کو بیک وقت استعمال فرمایا۔ ایک طرف صحیح وقت کا انتخاب ، صحیح طریقے کی پابندی ، راے عامہ کی ہمواری ، اصول وقانون کی پابندی ، صلح وسفارت کی پروقار کوششیں ، قدم قدم پر رُونما ہونے والی اشتعال انگیزیوں (provocations ) پر صبر وتحمل___ اور دوسری طرف پختہ عزم اور حق کی خاطر جان لڑا دینے اور آخری بازی تک کھیل جانے کا برملا اظہار!
قریش شدید پریشانی اور خلفشار میں مبتلا ہوگئےاور باطل کی قوتیں سخت کش مکش کا شکار۔ ایک گروہ کہتا کہ ’’ہم لڑے بغیر نہیں مانیں گے۔ ہماری آنکھوں میںخون اترا ہوا ہے اور اس تحریک کو مٹائے بغیر ہماری پیاس نہیں بجھے گی‘‘۔ یہ گروہ نہ صرف سب کو جنگ کرنے اور قانون کو پامال کرنے پر اُکسا رہا تھا، بلکہ خود اپنی ہی تحریک پر ایسی حرکتیں بھی کر رہا تھاکہ کسی طرح لڑائی کی آگ بھڑک اٹھے ۔ اس اونٹنی کو مار دیاگیا، جس پر سوار ہو کر حضرت خراش شہر میں گئے تھے۔
ایک دستے نے مسلمانوںسے چھیڑ چھاڑ کی اور پتھر اور تیر تک پھینکے، لیکن مسلمانوں نے لڑنے کے بجاے ان کو گرفتار کر لیا، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو رہا کر دیا لیکن اس کے باوجود یہ گروہ جنگ کی آگ کو بھڑکانے کے لیے بے چین تھا، اور سارے حقوق وروایات کو پامال کرنے کے در پے۔ دوسرا گروہ اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پر تو قائم تھا لیکن اس تبدیل شدہ صورتِ حال نے اس کی پریشانی کو چند در چند کر دیا تھا، اور حضوؐر کی حکمت عملی اور عزم وثبات نے اس کے قدموں کو متزلزل کر دیا تھا۔ پھر قبائل میں سے ایسے بھی تھے جو قریش سے مفاد کی وابستگی اور دوستی کے معاہدے کی وجہ سے جمع تو ہو گئے تھے، لیکن ان کے دل مطمئن نہ تھے اور وہ برابر ضمیر کی چبھن محسوس کر رہے تھے۔ تاہم، قریش بحیثیت مجموعی اپنی ہٹ پر قائم تھے اوران کا اصرار تھا کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں کبھی داخل نہیں ہو سکتے۔
ضد وہٹ دھرمی ومفاد طلبی اور باطل پرستی کے اس ماحول میںایک واقعہ ایسا بھی رُونما ہوا، جس نے بُرے حالات میں بھی رفقا کو بچا لیا۔ قریش کی صفوں میں ایک سے ایک شقی اور دشمن حق تھا اور وہ قافلۂ حق کا راستہ روکنے کے لیے ہر اوچھی سے اوچھی حرکت کرنے کے لیے بھی تلا ہوا تھا ___لیکن انھی صفوں سے احابیش کا سردار حُلیس بن عَلقمہ بھی نکل کر سامنے آیا۔
حُلیس کے سامنے جب بدیل بن ورقا نے یہ شہادت پیش کی، پھر مکر زبن حفض نے بھی اس امر سے مطلع کیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور ان کے ساتھی قانون پسند اور پُرامن ہیں اور جنگ کرنے نہیں بلکہ زیارت حرم کے لیے آئے ہیں، تو اس کے ضمیر نے قریش کی زیادتی ، قانون کی خلاف ورزی اور فطری انصاف اور صدیوں کی روایات کی پامالی پر سرزنش کی۔ اور وہ کہتا ہے کہ میں تحقیقِ حال کے لیے جاتاہوں۔ پھر جب اس غیر مسلم نے زائرین کعبہ کو دیکھا اور اسے اپنے سامنے، زائرین کے لائے ہوئے قربانی کے اونٹ نظر آئے، تو اس نے مفاد پرست قریش اور ان کے ناجائز دبائو کے خلاف بغاوت کی اور قریش کے سامنے ان کی افواج کی موجودگی میں پوری ہمت اور قوت کے ساتھ اعلان کیا کہ :
محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) تو زیارت کے لیے آئے ہیں ۔ تمھیںان کو اس حق سے محروم کرنے کا اختیار کب ہے؟ میں نے قربانی کے اونٹ اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں___قانون کی خلاف ورزی تم کررہے ہو، وہ نہیں___[اس پر قریش کے سر پھرے نوجوان مذاق اڑانے لگے___اسے دیکھو ! دیہاتی آدمی ہے ! یہ ان باتوں کو کیا جانے۔]
حُلیس کوئی معمولی آدمی نہ تھا۔ عرب کے مشہور تیر اندازوں میں سے تھا۔ اس کا قبیلہ تیراندازی میں اپنا نام رکھتا تھا۔ اس وقت مختلف قبیلوں کی فوج کا سردار تھا۔ اس بے ہودگی پر اسے سخت غصہ آیا اور اس نے صاف اعلان کر دیا ___
اے قریش ! قسم ہے معبود کی، ہم نے تم سے اس بات پر عہد نہیں کیا ہے اور نہ ہم نے قسم کھائی ہے کہ جو شخص خانہ کعبہ کی زیارت کو آئے ہم اس کو روک دیں___سم ہے خدا کی جس کے قبضے میں حلیس کی جان ہے___ یا تو محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کو زیارت کرنے دو، ورنہ میں ایک دم میں اپنا تمام لشکر لے کر چلا جاتا ہوں ۔(سیرت ابن ہشام، ص ۴۵۰)
تھی تو یہ ایک ہی آواز ! لیکن قریش میں کھلبلی مچ گئی ۔ سب سکتے میں آگئے ۔ انھوں نے پریشان ہو کر کہا :’’ٹھیرو تو ! غصہ کاہے کاہے ؟ ہم ذرا اطمینان تو کر لیں‘‘۔
اس کشیدگی کو دُور کرنے کے لیے ایک تجربہ کار آگے بڑھا __ یہ تھا عروہ بن مسعود ثقفی۔
عروہ نے کہا : کیوں قریش ، کیا میں تمھارا باپ اور تم میرے بچے نہیں ؟
بولے :ہاں، بلاشک۔
عروہ : میری نسبت تمھیں کوئی بدگمانی تو نہیں۔
سب نے کہا : نہیں۔
عروہ : اچھا تو مجھے اجازت دو کہ میں خود جا کر معاملہ طے کروں۔
محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) نے صلح کی معقول شرطیں پیش کی ہیں ___ھچائو کم ہوا ___ور سفارت کا باقاعدہ آغاز ہو گیا ۔
ادھر سفارت اپنا کام کر رہی تھی اور ادھر شرپسند خاموش نہ تھے ۔ وہ کسی طرح لڑائی شروع کرا دینا چاہتے تھے۔ بار بار اشتعال انگیزی کی کوشش کرتے تھے۔ چھوٹی چھوٹی ٹولیاں مسلمانوں کے پڑائو میں گھستی تھیں، پتھر پھینکتے تھے، تیر چلاتے تھے ___لیکن قافلۂ حق کے راہی صبرو تحمل کی تصویر بنے ہوئے تھے۔ قائد صادق صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرما دی تھی کہ: ہمیں ہر زیادتی کو برداشت کرنا ہے اور لڑائی سے حتی الامکان بچنا ہے، اِلّا یہ کہ ہم مجبور کر دیے جائیں___کیا مجال تھی کہ مسلمان اس ہدایت سے سرمو انحراف کریں۔ ہر شخص پوری ہوشیاری اور سمجھ داری کے ساتھ اس بنیادی ہدایت کی روشنی میں ہر نئی صورت حال کا مقابلہ کر رہا تھا۔
یہی حلم ، تدبر، حکمت ، صلح پسندی، صبر وثبات اور اطاعت امر کا جذبہ تھا، جس کی وجہ سے مخالفین حق اپنی ایک زبردست چال میں ناکام ہوگئے اور ان کی ساری فتنہ انگیزیاں بے نتیجہ رہیں۔
لیکن کیا یہ صلح پسندی اور تحمل وبرداشت کسی کمزوری کا نتیجہ تھا ؟ یا اس سے اہل حق کے عزم میں کوئی کمی واقع ہو گئی تھی ؟___نہیں، ان کا جذبۂ سر شاری اپنے عروج پر تھا، حق کی حمیت اپنے حقیقی رنگ میں موجود تھی، فدا کاری کا داعیہ ہر ہر عمل سے نمایاں تھا___اور پھر تحمل وبرداشت کی بھی ایک حد تھی۔ داعی اپنے اصلی عزم کا اظہار بر ملا کر رہا تھا اور حق کی خاطر جینے اور حق کی خاطر جان دے دینے کا جذبہ پورے کاروان حق میں کار فرما تھا۔
اور اس کا اعلیٰ ترین مظہر،بیعت رضوان ہے !
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سفارت ہی کے سلسلے میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو مکہ مکرمہ بھیجا ۔ ان کے جانے کے بعد یہ خبر اڑ گئی کہ: ’’قریش نے ان کو شہید کر دیا ہے‘‘۔یہ وہ ظلم تھا جسے ایک لمحے کے لیے بھی برداشت نہ کیا جا سکتا تھا۔ حضوؐر اور آپؐ کے ساتھی سب زیادتیوں کو گوارا فرما رہے تھے لیکن اعلیٰ مقصد کے لیے___ اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو جو حضوؐر کے سفیر تھے، شہید کردیا گیاہے، تو یہ کھلا کھلا اعلان جنگ ہے۔ امن پسندی اور عفوورحم اسلام کا شعار ہے لیکن ظالم جب ساری حدود کو پھاند جانے کے در پے ہو تو پھر انصاف کا تقاضا یہی ہوتا ہے کہ ظالم کا ہاتھ پکڑ لیا جائے اور جو تلوار مظلوموں پر اٹھی ہے اسے توڑ ڈالاجائے۔
آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سارے ساتھیوں کو جمع کیا اور ان سے حضرت عثمانؓ کے خون کا بدلہ لینے کی بیعت کی۔ یہ بیعت مرنے مٹنے کے وعدے پر تھی۔ آپؐ نے فرمایا: ’’عثمانؓ کے خون کا قصاص لینا فرض ہے ‘‘۔ ایک ببول کے درخت کے نیچے بیٹھ کر آپؐ نے صحابہؓ سے جاں نثاری اور آخری سانس تک لڑنے کی بیعت لی۔ اس بیعت میں مردوزن سبھی شامل تھے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے جوش اورولولے کا یہ عالم کہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے کوشاں اور بے چین اور بڑھ چڑھ کر آپؐ کے ہاتھ پر بیعت کرتے گئے۔ خدا قرآن میں اس کا ذکر اس طرح کرتا ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ(الفتح ۴۸:۱۰) اور جو لوگ تم سے بیعت کرتے ہیں وہ خدا سے بیعت کرتے ہیں۔ خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے ۔
لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِھِمْ فَاَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْھِمْ(الفتح ۴۸:۱۸) اے پیغمبرؐ ، جب مومن تم سے درخت کے نیچے بیعت کر رہے تھے، تو خدا ان سے خوش اور راضی ہوا اور جو( صدق وخلوص ) ان کے دلوں میں تھا وہ اس نے معلوم کر لیا اور ان پر سکینت اور اطمینان نازل فرمایا۔
دعوتِ اسلامی کی خصوصیت ہے کہ آزمایش کے وقت اس کے پیروکاروں کے جذبۂ عمل اور شوقِ قربانی میں بے پناہ اضافہ ہوتا ہے، فدا کاری کی ایک لہر صرف افراد کے سراپے ہی میں نہیں، بلکہ ان کی اجتماعیت تک میں دوڑ جاتی ہے، حق کے لیے جان کی بازی لگادینے کا ولولہ ہر فرد میں پیدا ہوجاتا ہے___ اور یہ وہ ادا ہے جو حق تعالیٰ کو بے حد پسند ہے۔ اس نے ایسے لوگوں کے لیے اپنی رضا مندی اور جنت لکھ دی ہے ؎
نگاہ یار جسے آشناے راز کرے
وہ اپنی خوبیِ قسمت پہ کیوں نہ ناز کرے
محبوب کی رضا طلبی کی خواہش اور اس کی خوشی پر فخر ونازہی کی کیفیت میں حضرت براء رضی اللہ عنہ نے محبت میں ڈوبے ہوئے تاریخی الفاظ کہے تھے جو بخاری میں مرقوم ہیں:
’’ تم فتح مکہ کو فتح سمجھتے ہو اور ہم بیعت رضوان کو (اصل فتح ) سمجھتے ہیں‘‘۔
اس بیعت نے مسلمانوں کے جذبات کو کہیں سے کہیں پہنچا دیا تھا۔ ہر شخص کفن سر سے باندھے، حق کے لیے جان کی بازی کھیل جانے کے لیے تیار تھا اور اس میں کیف وسرشاری محسوس کر رہا تھا ؎
دست از طلب ندارم تاکار من برآید
یاتن رسد بہ جاناں یا جاں زتن برآید
عزم واستقلال کے اس مظاہرے نے قریش کے ہوش اڑا دیے___ اپنی ساری اکڑفوں اور کبرواستکبار کے باوجود وہ صلح پر آمادہ ہو گئے۔
لیکن، مسلمانوں کے لیے ابھی کچھ اور آزمایشیں بھی تھیں ۔ دارورسن کے لیے تو وہ آمادہ وتیار تھے ہی۔ لیکن نئی آزمایش ایک اور ہی نوعیت کی تھی!
اب انھیں ایک ایسی صورت کے لیے تیار ہونا تھا جس میں کمزوری اور شکست خوردگی کی سی کیفیت کا نمایاں اظہار تھا، جس کی وجہ سے کعبۃ اللہ کے دیدار سے آنکھوں کے مشرف ہونے کا جو امکان پیدا ہو گیا تھا، اس سے محرومی تھی۔ جذبۂ جہاد میں جو قدم آگے بڑھے تھے، ان کو حکمت الٰہی کے تحت پیچھے ہٹانا تھا___
یہ آزمایش جان لٹانے سے بھی زیادہ سخت تھی !
دعوت اسلامی کی اخلاقی قوت
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر غلط نکلی ! عروہ بن مسعود ثقفی قریش کے نمایندے کی حیثیت سے آیا اور صلح کی گفت وشنید کی۔ بظاہر عروہ بہت رکھ رکھائو سے معاملات طے کر رہا تھا۔ قریش کا سراُونچا رکھنے ، ان کی ضد پر پردے ڈالنے اور ان کی مٹی میں ملتی ہوئی ساکھ کو سنبھالنے کے لیے اس نے ہر ممکن جتن کیے۔ اپنی بڑائی کو ظاہر کرنے کے لیے بہت سی نازیبا حرکتیں بھی کیں ۔ کبارصحابہ ؓ سے، جن میں حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت مغیرہ ؓ شامل تھے بدزبانی تک سے باز نہ آیا لیکن داعیانِ حق کے اس کیمپ میں جو منظر اس نے دیکھا، اس نے اس کے دل کو مسخر کر لیا ۔ کم تعداد اور نہتے مسلمانوں کا رعب اس کے دل ودماغ پر قائم ہو گیا، اور قریش کو شرائط پر آمادہ کرنے کے لیے اس نے ہر ممکن کوشش کی اور بالآخر کامیاب رہا۔
وہ کیا چیز تھی جس نے اس کے دل ودماغ کو مائوف کر دیا ؟ وہ کون سی قوت تھی جس کے آگے اس نے ہتھیار ڈال دیے ؟ صحابہ کرامؓ کی وہ کون سی خصوصیت تھی، جس نے مخالفین کو بھی خاموشی کے ساتھ مسخر کر لیا؟ عروہ ہی کی زبانی سنیے۔ قریش میں واپس جا کر وہ کہتا ہے:
اے قریش ، میں نے کسریٰ اور قیصر اور نجاشی جیسے باد شاہوں کے دربار دیکھے ہیں ۔ مگر خدا کی قسم! میں نے اصحابِ محمدؐ کو جس طرح محمدؐ کا فدائی دیکھا ہے، ایسا منظر کسی بڑے سے بڑے بادشاہ کے ہاں نہیں دیکھا۔ ان لوگوں کا حال تو یہ ہے کہ جب محمدؐ وضو کرتے ہیں تو صحابہؓ آپؐ کے وضو کے پانی کی ایک بوند بھی زمین پر گرنے نہیں دیتے___ پس، اب تم لوگ سوچ لو کہ تمھارا مقابلہ کس سے ہے؟ (سیرت ابن ہشام ، ص ۴۵۱)
قریش کے ہاں سنّاٹا چھا گیا ___ وہ کہنے لگے: ’’اے چچا ، جیسے تم مناسب سمجھتے ہو کرو‘‘۔
دیکھیے ! وہ کیا چیز ہے جس نے دلوں کو فتح کر لیا، مادی قوت نہیں، اسلحے کی سج دھج نہیں ، فوج کی تعداد نہیں ، ظاہری رعب ودبدبہ نہیں___ وہ چیز ہے اخلاقی قوت ، باہمی محبت___ یک رنگی، وحدت اور نظم واطاعت ! اخلاق کی قوت مادی طاقت اور ابلیسی سیاست پر غالب آئی اور بحث کے لیے صفحۂ تاریخ پر یہ فیصلہ ثبت کر گئی کہ :’’آخر ی فتح اخلاق ہی کی قوت کو حاصل ہوتی ہے ‘‘۔
رسولؐ اللہ ، کیا یہ الفاظ مٹائے سے مٹ جائیں گے !
اب آزمایش کا ایک دوسرا ورق کھلتا ہے۔ انسان کی نگاہ چند قدم ہی تک دیکھتی ہے لیکن حکمت الٰہی کے لیے زمان ومکان کی کوئی حد اور قید نہیں۔ انسان اپنی سمجھ اور خواہشات اور تمنّائوں کے مطابق فیصلے چاہتا ہے، لیکن مشیّت ربانی کی جو حکمت بالغہ کار فرما ہے وہ ہماری تمنّائوں کی پابند نہیں۔
مسلمانوں کا دل اب صلح سے زیادہ معرکے اور زیارت بیت اللہ کے لیے بے تاب تھا، لیکن اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت عملی کسی اور ہی طرف اشارہ کر رہی تھی۔
مسلمانوں کے لیے ایک بڑا ہی دل پاش پاش کر دینے کا لمحہ آیا، آزمایش نے ایک نیا رُوپ دھارا۔ صلح کی شرائط طے ہو گئیں، قریش کی طرف سے سُہیل بن عَمرو، ایک وفد کے ساتھ آیا اور حضوؐر سے گفت وشنید کے بعد منجملہ اور چیزوں کے یہ طے پایا کہ:
۱- دس سال تک فریقین کے درمیان جنگ بند رہے گی، اور ایک دوسرے کے خلاف خفیہ یا علانیہ کوئی کارروائی نہ کی جائے گی۔
۲- اس دوران میں قریش کا جو شخص اپنے ولی کی اجازت کے بغیر بھاگ کر محمد[صلی اللہ علیہ وسلم] کے پاس جائے گا، اسے آپؐ واپس کردیں گے، اور آپؐ کے ساتھیوں میں سے جو شخص قریش کے پاس چلا جائے گا، اسے وہ واپس نہ کریں گے۔
۳- قبائلِ عرب میں سے جو قبیلہ بھی فریقین میں سے کسی ایک کا حلیف بن کر اس معاہدے میں شامل ہونا چاہے گا، اسے اس کا اختیار ہوگا ۔
۴- محمد[صلی اللہ علیہ وسلم] اس سال واپس جائیں گے اور آیندہ سال وہ عمرے کے لیے آکر تین دن مکّہ میں ٹھیر سکتے ہیں، بشرطیکہ نیاموں میں صرف ایک ایک تلوار لے کر آئیں، اور کوئی سامانِ جنگ ساتھ نہ لائیں۔ ان تین دنوں میں اہلِ مکّہ، ان کے لیے شہر خالی کردیں گے (تاکہ تصادم نہ ہو) مگر واپس جاتے ہوئے وہ یہاں کے کسی شخص کو اپنے ساتھ لے جانے کے مجاز نہ ہوں گے۔
ان شرائط پر مسلمانوں میں ایک خاموش اضطراب ، ایک دبی ہوئی بے چینی اور ایک شدید گھٹن کی سی فضا پیداہوگئی تھی۔ کوئی شخص ان مصلحتوں کو نہیں سمجھ پا رہا تھا کہ جنھیں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دُور رس نگاہیں دیکھ رہی تھیں۔ پھر جب معاہدہ لکھنے کا آغاز ہوا توحضرت علی ؓ نے لکھنا شروع کیا: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
سہیل نے کہا: ’’ہم اس کو پسند نہیں کرتے باسمِکَ اللّٰھم لکھو ‘‘۔
آپؐ نے فرمایا: ’’اچھا یہی سہی‘‘ ___
دوسرا جملہ تھا: من محمد رسول اللہ ___ سہیل نے پھراختلاف کیااور کہا: ’’اگر ہم آپ کو رسول اللہ مانتے تو جھگڑا ہی کیا تھا، ’’محمد بن عبداللہ ‘‘ لکھیے۔ مسلمانوں کے لیے یہ اعتراض ناقابلِ برداشت تھا۔ ان کی بے چینی اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔
حضور ؐ نے حضرت علی ؓ سے کہا کہ ’رسول اللہ کے لفظ مٹا دو‘___ لیکن حضرت علی ؓ کے ہاتھوں کی جنبش رُک گئی۔ حضوؐر نے حکم دیا، مگر علی ؓ تعمیل نہیں کر پاتے ! آہ! محبت میں ایک ایسا مقام بھی آتا ہے کہ محبوب کی عزت اور مقامِ نبوت کی عظمت وعصمت کی خاطر اطاعت کیش ہاتھ پائوں بھی رُک گئے___ یہ عدم اطاعت نہیں تقدیس اور عظمت وعقیدت کا وہ نازک مقام ہے کہ جہاں اطاعت بھی محبت کے آگے سپر ڈال دیتی ہے۔ علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ ان الفاظ کو، جن کے لیے ساری دنیا کو چھوڑا تھا، کیسے مٹا سکتے تھے؟
حضوؐر اس پر خفا نہیں ہوئے، اپنے دست مبارک سے وہ الفاظ مٹا دیے اور محمد بن عبداللہ لکھ دیا۔ یہ تھی نبی برحق کی حکمت عملی ___ !
باطل پرستوں کی نادانی پر زمین وآسمان کی قوتیں خندہ زیرلب کے ساتھ گویا تھیں کہ ان الفاظ کے مٹانے سے کہیں حق مٹ سکتا ہے ! یہ تو محض ایک قانونی وسیلہ ہے تمھاری اس چھچھوری حرکت پر، اس میں کیا فرق پڑجائے گا۔ ایسے قانونی کرتب کہیں دعوت اسلامی کو بھی متاثر کرتے ہیں!
زمین وآسمان کے اس اعلان پر حق تعالیٰ نے خود شہادت دی:
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ(الفتح ۴۸:۲۹ ) محمد، اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفّار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں۔
یہ زور دار اعلان قریش کی اوچھی حرکت کی کلّی تردید ہے ! قرآن کے ان تین اہم ترین مقام میں سے ایک، جہاں نام لے کر حضور ؐ کی رسالت کا اثبات واظہار نہایت قوت وتہدی کے ساتھ کیا گیا ہے ۔
لیکن یہ ساری باتیں تو کچھ بعد کی ہیں، فوری طور پر تو مسلمانوں کے جذبات میں شدید ارتعاش پیدا ہو گیا ۔ ان کی نگاہیں مستقبل کے دھندلکوں میں پوشیدہ کامیابیوںکو دیکھنے سے قاصر تھیں۔ وہ ان حکمتوں سے بھی ناواقف تھے، جو اللہ کے فیصلوں میں پوشیدہ ہوتی ہیں ___ ان کے سامنے تو غلبے کی اُمید کے بعد ظاہری کم زوری یا کھلے لفظوں میں ناکامی کا منظر دکھائی دے رہا تھا۔ وہ تو زیارتِ کعبہ کی توقعات کو ہوا میں تحلیل ہوتا دیکھ رہے تھے۔ وہ تو ظالموں کی بات کے وقتی طور پر بظاہر حاوی ہوجانے پر مضطرب تھے۔ وہ اپنی امیدوں کے ٹوٹنے پر پریشان اوربے چین تھے___ وہ آئے تو اس ارادے سے تھے کہ متکبروں کی اکڑی ہوئی گردن کو جھکا دیں گے یا قلم کر دیں گے ___ لیکن بظاہر انھیں نظر ا ٓ رہا تھا کہ اس گردن کے خم میں تو کچھ اور بھی کجی رُونما ہو گئی ہے۔
ابھی صلح نامہ پر آخری دستخط نہ ہوئے تھے کہ ایک مسلمان حضرت ابو جندل ؓ آئے۔ وہ مسلمان ہو چکے تھے۔ سہیل ان پر سخت مظالم کر رہا تھا۔ اس وقت بھی ہاتھ اور پائوں میں زنجیریں تھیں اور انھوں نے مسلمانوں کے سارے مجمعے کے سامنے اپنے زخم اور دھنکی ہوئی کمر دکھائی___ یہ منظر دیکھ کر سب کے دل دہل گئے، خون جوش میں آگیا۔ حضوؐر نے ابو جندل ؓ کو معاہدے سے مستثنیٰ کرانے کی بہترین کوشش کی، لیکن سہیل بن عَمرو اڑ گیا۔ بالآخر آپؐ نے معاہدے کی پابندی کی اور فرمایا:
’’ابو جندلؓ ، چند روز اور صبر کرو، اجر کی اُمید رکھو، عنقریب اللہ تعالیٰ تمھارے اور دوسرے مظلوموں کے لیے کشادگی پیدا کرے گا۔ میں مجبور ہوں کہ میں نے عہد کر لیا ہے اور عہد کے خلاف نہیں کر سکتا ‘‘۔ اور حضرت ابو جندلؓ کو پابہ زنجیر واپس جانا پڑا ۔
یہ آزمایش مسلمانوں کے لیے بہت کڑی تھی___ ذلت گوارا کریں اور پھر اپنے بھائیوں کو آنکھوں دیکھے ظالموں کے ہاتھ میںدے دیں۔
ہم دین میں یہ ذلت کیوں گوارا کریں ؟
ان واقعات پر سب ہی مضطرب تھے، لیکن زبان کھولنے کی ہمت کسی میں نہیں ہورہی تھی، بالآخر حضرت عمر ؓ کو ضبط کا یارانہ رہا اور وہ بے چین ہوکر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، اور بوجھل دل سے کہا: ’’کیا حضوؐر، اللہ کے رسول نہیں ہیں؟ کیا ہم مسلمان نہیں ہیں؟ کیا یہ لوگ مشرک نہیں ہیں؟ پھر آخر ہم اپنے دین کے معاملے میں یہ ذلّت کیوں اختیار کریں؟‘‘
ابوبکر صدیقؓ نے جواب دیا: ’’اے عمر، وہ اللہ کے رسولؐ ہیں ، اور اللہ ان کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا‘‘۔
حضرت عمرؓ کا اضطراب ختم نہ ہوا، اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے :
عمر ؓ : یا رسولؐ اللہ ! کیا آپ پیغمبرؐ برحق نہیں ہیں؟
حضور ؐ نے فرمایا : ہاں، ہوں۔
عمر ؓ : کیا ہم حق پر نہیں ہیں ؟
فرمایا : ہاں، ہم حق پر ہیں۔
عمر ؓ : تو ہم دین میں یہ ذلت کیوں گوارا کریں؟
فرمایا : میں خدا کا پیغمبرؐ ہوں اور خدا کے حکم کی نافرمانی نہیں کر سکتا ، خدا میری مدد کرے گا۔
عمرؓ: کیا آپؐ نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ ہم لوگ کعبہ کا طواف کریں گے؟
فرمایا: ہاں، لیکن یہ تو نہیں کہا تھا کہ اس سال ہی کریں گے۔ (بخاری، سیرت النبی ؐ ، از شبلی نعمانی، ص ۴۵۵-۴۵۶)
معاہدے کی تکمیل کے بعد آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیاکہ یہیں قربانی کی جائے لیکن جو کعبہ کی زیارت کی ولولہ انگیزتوقعات کے ساتھ نکلے تھے، جوببول تلے ابھی جاں نثاری کی بیعت کر چکے تھے، جو شہادت کو چشم تصور سے دیکھ رہے تھے اور خوش ہو رہے تھے، جو پرشوق اُمیدوں کے سہارے تخیل ہی تخیل میں معلوم نہیں کتنی بار کعبہ کا پروانہ وار طواف کر چکے تھے___ سکتے کے عالم میں تھے ___ ہر شخص دل شکستہ ، ہر جانباز پژمُردہ اور نااُمید ___ حضوؐر نے قربانی کے لیے کہا، مگر کوئی نہیں اٹھا ۔ تین بار زبانِ رسالتؐ سے اس خواہش کا اظہار ہوا ہے، لیکن پرستارانِ حق اور عازمین حرم کی توقعات ابھی بالکل نہیں ختم ہوئی تھیں۔ وہ ابھی تک سوچ رہے تھے کہ شاید اب بھی زیارت کی کوئی صورت نکل آئے ! حضوؐر بے چین ہوکر اپنے خیمے میں تشریف لے گئے۔ اُم المومنین حضرت اُمِ سلمہؓ سے فرمایا: میرے ان ساتھیوں کو کیا ہو گیا ہے ؟ حضرت اُمِ سلمہؓ نے مشورہ دیا کہ آپؐ کچھ خیال نہ فرمائیں بلکہ خود اپنی قربانی کر دیں اور احرام اتارنے کے لیے بال منڈوا لیں۔ آپ نے باہر نکل کر اپنی قربانی کر دی___ اب آخری توقع بھی ٹوٹ گئی اورسب کو یقین ہوگیا کہ خدا کا فیصلہ آ چکا ہے۔ ہماری توقعات وخواہشات کچھ بھی ہوں لیکن اس سال ہم اپنے محبوب کی زیارت سے محروم ہی رہیں گے ___ ابھی کچھ دن اور صبر کرناہوگا، ابھی ہجر کی کچھ اور گھڑیاں باقی ہیں۔ زیارت محبوب کی تمنّا کو ابھی سوزِ قلب کی بھٹیوں میںاور پکانا ہوگا ؎
نالہ ہے بلبل شوریدہ، ترا خام ابھی
اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی
جب یہ یقین ہو گیا تو اطاعت کا دریا پھر جوش میں آگیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی کے بعد سب نے اپنی اپنی قربانیاں پیش کر دیں اوراحرام اتار دیے۔
یہاں پر یہ گمان نہ ہو کہ اس نازک لمحے میں جاں نثارانِ محمد ؐ میں عدم اطاعت کا مرض پیدا ہوگیاتھا۔ ہرگز نہیں، اطاعتِ رسولؐ تو ان کا ایمان اور ان کی معراج تھی۔ اس کی وجہ صرف اضطراب اور پریشانی کے عالم میں زیارت کعبہ کی ایک آخری امید تھی___ توقعات ٹوٹ رہی تھیں، اضطراب بڑھ رہا تھا، لیکن اس اُمید شکن ماحول میں بھی بار بار یہ خواہش ابھر رہی تھی کہ کاش! کوئی صورت نکل آئے ___ اور اسی لیے قربانی کرنے میں ہچکچاہٹ تھی۔ لیکن جب یہ توقع بالکل ختم ہو گئی تو اس کے باوجود اطاعت میں کوئی کمی نہ رہی۔
ان سخت صبر آزما حالات میںبھی اطاعت کی مثال اگر دیکھنی ہے تو صلح نامہ پر دستخط کرنے والوں کی فہرست پر نگاہ ڈالیے۔ جب حضوؐر کی مہر اس پر ثبت ہوئی تو وہی عمر ؓ جو سخت مضطرب تھے، انھوں نے ایک اشارے پر اس معاہدے پر بطورِ گواہ دستخط کر دیے ہیں۔کیا اس اطاعت شعاری کا کوئی جواب ہو سکتا ہے!
جسے تم ذلّت سمجھ رہے ہو !
مسلمانوں کا یہ اضطراب حق کے جوش اور اس کی محبت میں تھا ، کسی جاہلی جذبے کی بنا پر نہیں تھا۔ اس لیے دیکھیے حق تعالیٰ اس پر نکیر فرمانے کے بجاے کس کس پیار سے ان کو سمجھاتا ہے۔ فرمایا کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوا ہے اور اس میں بے شمار حکمتیں اور مصلحتیں پوشیدہ ہیں۔ ہم ہی نے تم کو ان کافروں پر فتح یاب کرنے کے بعد سرحد مکہ میں ان کے ہاتھ تم سے اور تمھارے ہاتھ ان سے روک دیے تھے اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس کو دیکھ رہا ہے:
وَھُوَ الَّذِیْ کَفَّ اَیْدِیَھُمْ عَنْکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ عَنْھُمْ بِبَطْنِ مَکَّۃَ مِنْم بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَکُمْ عَلَیْھِمْ وَکَانَ اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًاo (الفتح ۴۸: ۲۴) وہی ہے جس نے مکہ کی وادی میں ان کے ہاتھ تم سے اور تمھارے ہاتھ ان سے روک دیے، حالاں کہ وہ ان پر تمھیں غلبہ عطا کر چکا تھا، اور جو کچھ تم کر رہے تھے، اللہ اسے دیکھ رہا تھا۔
پھر سمجھایا جارہا ہے کہ اہل مکہ میںبہت سے چھپے ہوئے مسلمان ہیں جو اس وقت جنگ کی شکل میں مشکل میں پھنس جاتے بلکہ تمھارے ہی ہاتھوں قتل ہو جاتے۔ ہم نے تاخیر اس لیے کی ہے کہ وہ کھل کر دائرۂ حق میں داخل ہو جائیں:
وَلَوْلَا رِجَالٌ مُّؤْمِنُوْنَ وَنِسَآئٌ مُّؤْمِنٰتٌ لَّمْ تَعْلَمُوْھُمْ اَنْ تَطَؤُھُمْ فَتُصِیْبَکُمْ مِّنْھُمْ مَّعَرَّۃٌ م بِغَیْرِ عِلْمٍ ج لِیُدْخِلَ اللّٰہُ فِیْ رَحْمَتِہٖ مَنْ یَّشَآئُ ج (الفتح ۴۸: ۲۵) اگر [مکّہ میں] ایسے مومن مرد و عورت موجود نہ ہوتے جنھیں تم نہیں جانتے، اور یہ خطرہ نہ ہوتا کہ نادانستگی میں تم انھیں پامال کردو گے اور اس سے تم پر حرف آئے گا (تو جنگ نہ روکی جاتی۔ روکی وہ اس لیے گئی) تاکہ اللہ اپنی رحمت میں جس کو چاہے داخل کرلے۔
حضوؐر نے ایک مختصر جملے میں کتنی بلیغ بات ارشاد فرمائی کہ ’’ میں نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ اس سال ہی عمرہ کریں گے‘‘، یعنی خدا کا وعدہ سچا ہے ، لیکن اس کا وقت بھی متعین ہے۔ بے صبری اور جلد بازی اس راہ میں حرام ہے۔ اپنے وقت پر اس کا وعدہ لازماً پورا ہو گا۔ ہمارا یہ کام نہیں کہ خدا کے فیصلوںکے لیے وقت متعین کریں___ وہ اپنے ہر کام کو اس کے مناسب وقت پر خود انجام دیتاہے۔
مسلمانوں کو اس کا یقین دلایا جا رہا ہے کہ تمھاری مدد اور منکرین حق کی تعذیب کے لیے خدا کے لشکر ہر وقت تیار ہیں، پلک جھپکتے میںوہ فیصلہ کر دیں گے___ تاخیر خدانخواستہ کسی کمزوری کی بنا پر نہیں تھی، مصلحت اور حکمت اس کی وجہ تھی اور خدا کی ساری حکمتیں تمھارے سامنے نہیں تھیں:
وَلِلّٰہِ جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَکَانَ اللّٰہُ عَلِیْمًا حَکِیْمًاo (الفتح ۴۸: ۴) اور آسمان اور زمین کے سب لشکر اللہ ہی کے ہیں اور اللہ جاننے والا ہے اور حکمت والا ہے۔
پھر بڑے لطیف انداز میں ان کو متوجہ کیا گیا کہ اصل کامیابی تو آخرت کی کامیابی ہے، دنیا میں غلبہ ملانہ ملا___ یہ تو کوشش اور جدوجہد کا زمانہ ہے۔ اس میں نتائج کے بارے میں اتنے نازک طبیعت نہ ہو جائو ۔
ایمان واطاعت کی راہ میں بہت سے مراحل آئیں گے، تمھاری نگاہ ہر مرحلے میں رب کی رضا اور آخرت کی کامیابی پر ہونی چاہیے ___ یہی اصل کامیابی ہے:
لِّیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا وَیُکَفِّرَ عَنْھُمْ سَیِّاٰتِھِمْ وَکَانَ ذٰلِکَ عِنْدَ اللّٰہِ فَوْزًا عَظِیْمًاo(الفتح ۴۸: ۵) تاکہ مومن مردوں اور عورتوں کو ہمیشہ رہنے کے لیے ایسی جنتوں میں داخل فرمائے گا، جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی اور اُن کی بُرائیاں اُن سے دُور کر دے___ اللہ کے نزدیک بڑی کامیابی ہے۔
سمجھایا جا رہا ہے کہ اسلام نام ہے خوشی اور ناخوشی میں اللہ اور اس کے رسولؐ کی پیروی کا۔ تمھاری توجہات کا مرکز یہ نہ ہو کہ کیا پایا ؟ یہ ہو کہ حکم کی اطاعت کہاں تک اور کس جذبے سے کی___ اگر تلوار اٹھانے کا حکم ہے تو اس وقت تلوار اٹھانا نیکی ہے،اور اگر تلوار کھینچ لینے کا حکم ہے تو اس وقت تلوار کھینچ لینا نیکی ہے۔ اگر زیارت کے لیے چلنے کا حکم ہے تو محبوب کی زیارت کا شوق دل ونگاہ کی تسکین کا سامان ہے اور اگر حکم مزید انتظار کا ہے تو سکون وراحت کا منبع ہجر اور لذتِ انتظار کو بن جانا چاہیے ع
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی
نگاہ ہمیشہ اصل جو ہر پر رہے اور وہ یہ ہے کہ :
وَّمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ یُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ وَمَنْ یَّتَوَلَّ یُعَذِّبْہُ عَذَابًا اَلِیْمًاo (الفتح ۴۸: ۱۷) جو شخص اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرے گا، اللہ اسے جنتوں میں داخل کرے گا، جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی اور جو منہ پھیرے گا، اسے وہ دردناک عذاب دے گا۔
اس محبت بھری تفہیم کے بعد یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ تمھارے خلوص کی بنا پر ہم نے تمھارے دلوں پر سکینت نازل کر دی ہے، تا کہ پریشانی اطمینانِ قلب میں بدل جائے اور پھر جمعیت خاطر کی نعمت سے تم مالا مال ہو جائو ۔ یہ خدا کی مددونصرت کا ایک پہلو ہے___ اور نادانو! تم جس چیز کو ذلت سمجھ رہے ہو، وہ صرف تمھاری کوتاہ بینی ہے ، یہ تو ہم نے فتح کے لیے زمین تیار کی ہے۔ دعوت کے پھیلنے کے لیے راہ ہموار کی ہے۔ غلبے کے امکانات روشن کیے ہیں اور ایک نہیں کئی کئی فتوحات تمھارے لیے مقرر کر دی ہیں ۔ بہت جلد تم کو خیبر میں فتح حاصل ہو گی، مال ودولت بھی ہاتھ آئے گا، اور پھر قریش پر غلبہ بھی حاصل ہو گا:
فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِھِمْ فَاَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْھِمْ وَاَثَابَھُمْ فَتْحًا قَرِیْبًا o وَّمَغَانِمَ کَثِیْرَۃً یَّاْخُذُوْنَھَا وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا o (الفتح ۴۸: ۱۸-۱۹ ) اور جو (صدق وخلوص ) ان کے دلوں میں تھا، وہ اس نے معلوم کر لیا تو ان پر تسلی اور سکینت نازل فرمائی اور انھیں جلد فتح عنایت کی___ اور بہت سی غنیمتیں جو انھوں نے حاصل کیں اور خدا غالب اور حکمت والا ہے۔
خلوصِ دل ، اطمینان قلب، دنیوی فتح اور مالی خوش حالی میں جو ربط وتعلق ہے، وہ ان آیات میں پوری طرح ہمارے سامنے آ جاتا ہے۔ توقعات کے حسین تاج محل اس لیے منہدم کیے جاتے ہیں کہ خلوص اور دل کی کیفیت معلوم کر لی جائے۔ اگر اس میں کھوٹ نہیں ہے تو پھر انعامات کی بارش شروع ہو جاتی ہے۔ دل میں اطمینان القا کیا جاتا ہے، مادی وسائل فراہم کیے جاتے ہیں، اور بالآخر فتح وغلبہ عطا کیا جاتا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے، اور ہمیشہ رہے گی:
وَلَوْ قٰتَلَکُمْ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوَلَّوْا الْاَدْبَارَ ثُمَّ لاَ یَجِدُوْنَ وَلِیًّا وَّلاَ نَصِیْرًا o سُنَّۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا o (الفتح ۴۸: ۲۲-۲۳) اور اگر تم سے انکار کرنے والے لڑتے تو پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتے پھر کسی کونہ دوست پاتے اور نہ مدد گار ۔ یہی خدا کی سنت ہے جو پہلے سے چلی آتی ہے، اور تم خدا کی سنت کو کبھی بدلتے نہ دیکھو گے۔
اپنے پیغمبر ؐ کو اس نے دین حق اور ہدایت دے کر بھیجا ہے اور اس لیے بھیجا ہے کہ اس دین کو تمام نظاموں پر غالب کر دے اور یہ ہو کر رہے گا ۔ حق ظاہر کرنے کے لیے اللہ ہی کافی ہے:
ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیْدًاo(الفتح ۴۸: ۲۸) وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت کی کتاب اور دین حق دے کر بھیجا ہے، تا کہ اس کو تمام ادیان پر غالب کرے اور حق ظاہر کرنے کے لیے اللہ کافی ہے۔
اس لیے وہ چیز جسے مسلمان کمزوری سمجھ رہے تھے اور جس میں دین کی ذلت دیکھ رہے تھے، حق تعالیٰ نے اپنی حکمت بالغہ سے اسے ’فتح مبین ‘قرار دیا:
اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا(الفتح ۴۸: ۱) اے نبیؐ، ہم نے تم کو کھلی فتح عطا کردی۔
یعنی وہ صلح جس کو شکست سمجھا جارہا تھا، اللہ کے نزدیک وہ فتح عظیم تھی۔ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو جمع کیا اور فرمایا: ’’آج مجھ پر وہ چیز نازل ہوئی ہے، جو میرے لیے دنیا و مافیہا سے زیادہ قیمتی ہے‘‘۔ پھر یہ سورت تلاوت فرمائی اور خاص طور پر حضرت عمرؓ کو بلا کر سنایا، کیوںکہ وہ سب سے زیادہ رنجیدہ تھے۔
اور جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ آیت سن کر حضوؐر سے پوچھا : ’’یارسولؐ اللہ ! کیا یہی فتح ہے ‘‘۔
آپؐ نے فرمایا: ’ہاں ‘۔(ابن جریر)
ایک اور صحابیؓ حاضر ہوئے اور انھوں نے بھی یہی سوال کیا، تو آپؐ نے فرمایا: ’’قسم ہے اس ذات کی، جس کے ہاتھ میں محمدؐ کی جان ہے، یقینا یہ فتح ہے‘‘۔(مسنداحمد، ابوداؤد)
یہی ارشاد تھا جس نے مضطرب دل کو مطمئن کر دیا ___ ایمان اور ہے ہی کیا ؟ اللہ اور اس کے رسولؐ کی بات پر یقین واطمینان ___ اس کی تائید وتصدیق ___اور اس کے وعدے پر اعتماد اور پھر بھروسا!
اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ وَّ لٰکِنَّ اَکْثَرَھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ (یونس ۱۰:۵۵) اللہ کا وعدہ سچا ہے، مگر اکثر انسان جانتے نہیں۔
شکست ، فتح میں بدل گئی
بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ ! یہی صلح جو بظاہر ذلت کا نشان معلوم ہوتی تھی دراصل فتح کا سبب ، اس کا پیش خیمہ اور ذریعہ بنی ___ ایک نہیں متعدد فتوحات کا ۔ !
پھر اگلے سال مسلمانوں نے پوری شان وشوکت کے ساتھ عمرہ کیا۔ چودہ سو کے بجاے دوہزار زائرین حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آئے ۔ مشرکین مکہ کو چھوڑ کر چلے گئے اور وہی جنھیں مکہ سے نکالا گیا تھا، سینہ تان کر اور سر حضورِ رب میں جھکا کر لبیک اللّٰھم لبیک لا شریک لک لبیک کہتے ہوئے داخل ہوئے___ اللہ اللہ ، کیا منظر ہوگا! سات سال کے بعد ترسی ہوئی آنکھوں نے بیت اللہ کا دوبارہ نظارہ کیا ہو گا، سوکھے ہوئے ہونٹوں نے حجرِ اسود کو چوما، اورخشک زبانوں نے آب زم زم سے دہن ودل کی پیاس بجھائی ہو گی!
کفار نے یہ افواہ اڑا دی تھی کہ مسلمان کمزور ہو گئے ہیں۔ اسی لیے حکم ہوا کہ طواف میں جب ان مقامات سے گزر و جو مشرکین کے سامنے ہیں تو تیز تیز چلو ، سینہ تان کر چلو، کندھے ہلائو ، اور اپنی قوت اور شان وشوکت کا مظاہرہ کرو ___ آج تک یہ چیز مناسک حج کا جزو ہے ۔
مکہ میں مسلمانوں کا یہ داخلہ فتح مکہ کی ریہرسل تھا___ ایک ہی سال بعد مسلمان فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے اور اللہ کا وعدہ پورا ہو گیا … اور یہ چھٹی فتح تھی!
فَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّ یَجْعَلَ اللّٰہُ فِیْہِ خَیْرًا کَثِیْرًا(النساء۴:۱۹) عجب نہیں کہ تم کسی چیز کو ناپسند کر و اور اللہ اس میں بہت سی بھلائی پیدا کر دے۔
میں سورئہ فتح کا مطالعہ نہیں کر رہا تھا، تاریخ میری آنکھوں کے سامنے گردش کر رہی تھی اور دل ودماغ کے فتح ابواب کا کام انجام دے رہی تھی۔ نئے نئے گوشے میرے سامنے ابھر رہے تھے۔ میں نے ذرا غور کیا تو معلوم ہوا کہ یہ سفر زیارت بیت اللہ کے لیے تھا، اسی کا اہتمام تھا، لیکن جو معاہدہ ہوا وہ خالص سیاسی تھا۔ دینی سفر کا سیاسی پہلو، زیارتِ کعبہ اور معاہدۂ صلح؟
اسلام میں دین وسیاست کس طرح ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں۔ طواف کے وقت بھی مسلمانوں کے دبدبے کو قائم کرنے کا خیال___ معروف اصطلاح میں سیاست، لیکن اس مقدس مقام پر بھی اس کا لحاظ ! قربانی کے اونٹ لائے گئے تو ان میں ابو جہل کا اونٹ بھی تھا، تا کہ مسلمانوں کی قوت معلوم ہو اور مشرکین کو کڑھن ہو___کیا اسے بھی سیاست کہیں گے؟___ افسوس ! اسلام کا جو امتیاز تھا، اب اس پر کچھ کور ذہنوں کو وحشت و شرمندگی ہونے لگی۔ نبیِؐ برحق نے تو دین اور سیاست کو ایک وحدت میں اس طرح سمو دیا تھا کہ ان میں کوئی فرق باقی نہ رہا تھا، وہ ایک ہی حقیقت کے دوپہلو بن گئے تھے۔ اور حیرت اس بات پر کہ ’ کم کوشوں ‘ نے اس حقیقت کو گم کر دیا۔
منافقین کا رول اس موقعے پربھی وہی تھا، جیسا ہمیشہ رہا ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اللہ کا رسولؐ اور اس کے یہ ساتھی اب کیا واپس آئیں گے ___ خوش ہو رہے تھے___ چلو قصہ ختم ہوا، لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ وہ آئے بھی اور فاتح بھی ہوئے اور منافقین آگ پر لوٹنے لگے۔ مخالفینِ حق کے اندازے اللہ تعالیٰ ہمیشہ غلط کرا دیتا ہے اور بالآخر ان کو ہزیمت اٹھانا پڑتی ہے۔
اہلِ حق کی محبت کا اصل سر چشمہ اللہ اور اس کے آخری رسولؐ کی اطاعت ہے۔ ان کی طاقت باہمی محبت واخوت اور باطل اور ظلم کے لیے سختی میں ہے۔ ان کی کامیابی کا راز اللہ کے حضور سجدہ ریز ہونے ، اس سے مغفرت طلب کرنے اور صرف اسی پر بھروسا کرنے میں ہے۔ فتح کی خوش خبری کے ساتھ ہی ان کے جو اوصاف بتائے جا رہے ہیں، وہ یہی ہیں:
اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ تَرٰھُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا سِیْمَاھُمْ فِیْ وُجُوْہِھِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ (الفتح ۴۸: ۲۹) وہ کافروں کے حق میں تو سخت ہیں اور آپس میں رحم دل ہیں۔ تو ان کو دیکھتا ہے کہ خدا کے آگے جھکے ہوئے سربسجود ہیں اور اللہ کا فضل اور اس کی خوش نودی طلب کر رہے ہیں۔ کثرتِ سجود سے ان کی پیشانیوں پر نشان پڑے ہوئے ہیں۔
یہی وہ ہتھیار ہیں جن سے اہل حق اپنی لڑائی لڑتے اور بالآخر بازی جیتتے ہیں۔
___ ___ ___ ___ __
میں سورۃ الفتح کو پڑھ رہا تھا___ کئی بار اس کی تلاوت کی، میرے ذہن پر سے بوجھ اَب اُتر چکا تھا، تاریکیوں اور مایوسیوں کا ایک ایک پردہ اٹھ گیا اور اجالا پھیلنے لگا۔ میرے دل نے گواہی دی کہ حق کا پیغام باطل پرستوں کی ریشہ دوانیوں کے باوجود پھیلے گا اور ان شا اللہ غالب ہوگا۔ یہ نام کہیں مٹائے سے نہیں مٹتا !___ راہ میں نشیب وفراز تو بہت سے ہیں، لیکن آخری کامیابی حق ہی کی ہے___ اور ایک نہیں بہت سی کامیابیاں ہیں۔
حق سے وابستگی اور اس پر استقامت خود اپنی جگہ ایک کامیابی ہے۔ مایوسیوں کے عالم میں اللہ کی ذات بابرکات پر اطمینان اور اس کی سکینت کا نازل ہونا بھی ایک کامیابی ہے۔ نتائج سے بے پروا ہو کر حق کے لیے ڈٹ جانا ایک کامیابی ہے، پھر غلبۂ حق بھی ایک کامیابی ہے ___ اور سب سے بڑی کامیابی تو اللہ کا راضی ہو جانا ہے۔ اگر وہ حاصل ہو جائے تو سب کچھ حاصل ہو گیا !
غم اورپریشانی کے بادل اَب چھٹ چکے تھے، اطمینان اور سکون کی ایک نئی دولت سے دل مالا مال تھا، فَالْحَمْدُ لِلہِ عَلٰی ذٰلِکَ۔
وقت کی خاص بات تو دیکھیے کہ اس میں تسلسل کے ساتھ تغیر ہے اور یہی تغیر حالات کے بدلنے کا سبب بن جاتا ہے۔ برطانیہ کی وسیع سلطنت پر بھی سورج آخر کار غروب ہو ہی گیا۔ اشتراکی روس جیسی سوپر پاور کا ٹکڑوں میں بکھر جانا، اور ہٹلر اور مسولینی جیسے انسانیت کے قاتلوں کا وقت کی سولی پہ چڑھ جانا ظاہر ہے۔ اسی طرح تحریکوں پر بھی وقت کے بدلنے کے آثار دیکھنے کو ملتے ہیں۔
جموں و کشمیر میں رواں تحریک کو، جو بُرہان مظفر وانی کی شہادت [۸جولائی ۲۰۱۶ء] سے شروع ہوئی، دیکھنے کے دو زاویے ہیں: ایک نقطۂ نظر تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس ایک سال کے دوران بہت سی انسانی جانیں شہادت سے ہم کنار ہوئیں، ہزاروں کی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے، جیلیں بھر دی گئیں، سیکڑوں نوجوان اور بچے بینائی سے محروم ہو گئے، اور اربوں کی جایداد کو نقصان پہنچا۔ تجارت اور تعلیم متاثر ہوئی، ٹرانسپورٹ کے ٹھپ ہونے سے گاڑی مالکان کو خسارہ برداشت کرنا پڑا۔ گویا زندگی کی گاڑی رُک سی گئی۔ ترقی کی رفتار پر ایک ایسا زبردست بریک لگ گیا جس نے زندگی کی گاڑی پٹڑی سے اُتاردی اور زندگی کا ہر شعبہ متاثر ہو کر رہ گیا۔ ابتدائی پانچ مہینوں تک کشمیری قوم لگاتار احتجاج پر رہی اور ایک بھی دن ناغہ نہ کیا۔ کوئی قوم پانچ مہینے تک گھروں میں محصور ہو کر رہ جائے تو زندگی کی رونقیں پھیکی پڑجاتی ہیں، جذبات سرد پڑ جاتے ہیں، مایوسی انسانوں پر اپنا شکنجہ کَس لیتی ہے۔ ایسے حالات میں انسان ٹوٹ جاتا ہے ۔
مادیت کے اس دور میں ہرلمحے کو تولا اور نفع و نقصان کی گنتی کی جاتی ہے۔ اُس قوم کی حالتِ زار سے ہر کوئی بخوبی واقف ہو سکتا ہے کہ جس کی نئی نسل کے تعلیمی سال ضائع ہورہے ہوں۔ کشمیر کی آبادی کا کثیر حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے اور یہی نوجوان کسی قوم کا حقیقی سرمایہ ہوتے ہیں۔ اگر یہ نسل اسی طرح تعلیم سے دُور ہوتی رہی تو قوم کے مستقبل کا اندازہ لگانا کسی بھی صاحبِ عقل کے لیے کچھ بھی دشوار نہیں۔ یہ سب اعداد و شماراپنی جگہ، لیکن کسی بھی تحریک کو اس طرح دیکھناکوتاہ بینی کو ظاہر کرتا ہے، کیوںکہ بڑے مقاصد کے حصول کے لیے عظیم قربانیاں پیش کرنا ایک ناگزیر حقیقت ہے۔
ہر تحریک کے دو دور ہوتے ہیں: ایک اس تحریک کے نشیب کو ظاہر کرتا ہے تو دوسرا اس کے فراز کو۔ لیکن یہ دونوں دور مل کر ایک کامل تحریک کا روپ دھار لیتے ہیں۔ کوئی بھی تحریک کبھی یکساں طریقے سے نہیں چلتی بلکہ اس میں اتار چڑھاو آتے رہتے ہیں۔ اگر برطانوی تسلط میں ہندستان کی تحریکِ آزادی کی بات کی جائے تو ہمیں اس میں ایک دور وہ بھی ملتا ہے جس میں بھگت سنگھ، جیسے نوجوان مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کرتے ہوئے غاصب حکومت کے خلاف صف آرا ہوگئے تھے، لیکن حکومت نے نہ صرف ان کی تحریک کو کچل دیا، بلکہ ان نوجوانوں کو تختۂ دار پر لٹکا کر یہ دعویٰ کرنے کی کوشش کی کہ ہندستان آزادی کا خواب دیکھنا چھوڑ دے۔ حالت تو یہاں تک پہنچ گئی کہ۸؍اگست ۱۹۴۲ءکو Quit India Movement کے نام سے ایک تحریک شروع ہوئی۔ اس تحریک کو بھی انگریزوں نے پوری طاقت کے ساتھ تتربتر کر دیا اور یہ تحریک ۱۹۴۴ء کے اوائل میں ختم ہوکر رہ گئی۔ ایسا محسوس ہونے لگا کہ ہندستان کی آزادی ایک خیالِ خام کے سوا کچھ نہیں، لیکن جلد ہی وہ وقت بھی آگیا کہ قربانیوں نے اپنا رنگ دکھایا اور اگست ۱۹۴۷ء میں آزادی کا سورج طلوع ہوگیا۔
۲۰۰۸ء سے کشمیر کی تحریکِ آزادی نے ایک نیا موڑ لیا ۔ عوامی احتجاجوں نے ظالموں کے پیروں تلے زمین کھسکا دی۔ ۲۰۰۹ء اور ۲۰۱۰ء کی عوامی تحریکوں کے بعد یہ دعوے کیے جانے لگے کہ شاید اس نوعیت کی عوامی تحریک پھر کبھی برپا نہیں ہوسکتی، لیکن ۲۰۱۶ء نے ان تمام بودے دعوئوں کو غلط ثابت کر دیا۔
دراصل، دنیا والوں کو ایک بات ذہن میں بٹھالینی چاہیے کہ آج تحریکِ آزادی کا ایک دور چل رہا ہے، جس میں گیرائی بھی ہے اور گہرائی بھی۔ جس میں قوم کے جذبات اپنے نقطۂ عروج پر ہیں، جذبۂ اطاعت اور جذبۂ ایثار و قربانی حد درجہ دیکھنے کو مل رہا ہے، لیکن کسی بھی وقت یہ تحریک اپنے دوسرے پڑائو کی طرف گامزن ہوسکتی ہے۔
ظلم اور ظلم کے خلاف جدوجہد ،یہ دو الگ الگ طاقتیں ضرور ہیں، لیکن ایک زاویے سے دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ دونوں طاقتیں ایک ساتھ پیدا ہوتی ہیں۔ ظلم جدوجہد سے ہی ختم ہو سکتا ہے، لیکن ظالم ہمیشہ اس جدوجہد کو ختم کرنے کے درپئے ہوتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے وہ کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔
تاریخ کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ظالم کی طاقت ہر دور میں ظلم کے خلاف جدوجہد کرنے والوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ یہ نہ ہوتا تو نہ ظالم کا ظلم ہی وجود میں آسکتا اور نہ جدوجہد کی کوئی ضرورت ہی باقی رہتی ۔ظلم اور جبر مٹنے کی چیزیں ہیں ۔ ظلم کم ہویا زیادہ، اگر برداشت کی حد کم ہو جائے تو ظلم کے خلاف جدوجہدچھڑ جاتی ہے اور ظلم و جبر کی اُلٹی گنتی شروع ہوجاتی ہے۔ رواں جدوجہد میں ظالم نے ظلم کی تمام حدود توڑ ڈالیں۔ اس ظلم کا ایک نتیجہ تو یہ نکلا کہ کشمیر میں قبروں کی تعداد بڑھ گئی، زخمیوں کی تعداد میں آئے روز اضافہ ہوا جاتا ہے، جیل خانوں میں جگہ کی کمی واقع ہونے لگی ہے۔ دوسرے زاویے سے دیکھا جائے تو خود ظلم بھی اپنے آخری مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ اب اس کے مٹنے کے دن قریب ہیں۔
ایک چیز تو طے شدہ ہے کہ کشمیری عوام نے خوف سے آزادی پا لی ہے۔اور جو قوم خوف سے آزاد ہوجائے، اس کو غلامی سے نجات مل ہی جاتی ہے، کیوںکہ انسان کی غلامی اور آزادی کے درمیان خوف ہی کا پردہ حائل رہتا ہے۔ خو ف سے آزادی ہی دراصل باقی تمام آزادیوں کے لیے دروازہ کھول دیتی ہے۔ خوف سے بے خوفی کے اس عالم کوشاید لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے، اور جموں و کشمیر سے باہر بسنے والے لوگوں کے لیے اس زمینی حقیقت کو تصور میں لانا تو اور بھی مشکل ہے۔ ذرا تصور میں لایئے وہ منظر، کہ جب نہتے نوجوان قابض فوجی گاڑیوں اور کیمپوں پر بے سروسامانی کی حالت میں دھاوا بول دیتے ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ آگ اور موت برسانے والی بڑی تعداد میں خونیں بندوقیں انھیں نشانہ بنانے کے لیے تیار ہیں۔ یہ مناظر ہر دیکھنے والے کو حیرت میں ڈال دیتے ہیں ۔ رواں تحریک میں اس بے خوفی کے رنگ کو ظاہر کرنے کے لیے نئے نئے نعرے لبوں کی زینت بن گئے، مثلاً نعرہ لگتا ہے: ـ’گولی بھی چلے گی ــ‘ تو جواب آتا ہے: ’چلنے دو‘۔ایک کم سن بچہ پکارتا ہے: ’سینے پہ لگے گی‘۔ جواب میں بلندآواز دل دہلا دہتی ہے:’ لگنے دو‘۔تیسرا جوان نعرہ بلند کرتا ہے: ’ پیلٹ بھی چلیں گے‘۔ جواب آتا ہے:’چلنے دو‘۔ بزرگ پوری قوت سے نعرہ بلند کرتا ہے: ’آنکھوں میں لگیں گے‘۔ ہزاروں کا مجمع جواب دیتا ہے:’لگنے دو ‘!
یہ نعرے تمام احتجاجی قافلوں میں فلک شگاف لہجوں میں لگائے جاتے ہیں۔ یہی ہے وہ بے خوفی،جو ظلم کی جڑ کاٹ کر رکھ دیتی ہے۔جو قوم اُن چیزوں سے بے نیاز ہو جائے، جن سے خوف وجود میں آتا ہے، تو اُس قوم کو آزاد ہونے سے کون سی طاقت روک سکتی ہے؟ اس بے خوفی کا عالم تو یہ ہے کہ مظلوم عوام خصوصاً نوجوانانِ کشمیر اپنے محسن مجاہدین کی جان بچانے کے لیے ’جعلی مقابلوں‘ کی جگہوں (انکائونٹر سایٹس) پر جا جا کر قابض فوج کے خلاف سنگ بازی کرتے ہیں، تاکہ مجاہدین کو فرار ہونے کا موقع مل سکے۔ بھارتی فوجی سربراہ جنرل بپن راوت نے حال ہی میں کشمیری نوجوانوں کو یہ دھمکی دے کر خوف زدہ کرنے کی کوشش کی کہ انکائونٹر سایٹس پر جمع ہونے والوں سے ویسے ہی نبٹا جائے گا جیسا کہ مجاہدین سے۔ اس بیان سے خوف کھاکر کشمیری عوام خصوصاً نوجوان اپنے گھروںمیں محصور ہو کر نہیں رہ گئے، بلکہ اور شدت سے اپنی آزادی کی خاطر جدوجہد میں برسرِ میدان ہیں۔ اس شدت کا اظہار سوشل میڈیا پر ان وڈیوز سے ہوتا ہے، جن میں کشمیری نوجوان بھارتی فوجیوں کو ’گو انڈیا گو بیک‘ کے نعرے لگانے پر مجبور کرتے ہیں۔
کشمیریوں کی بے خوفی اب سر چڑھ کر بول رہی ہے۔ ۷لاکھ سے زیادہ فوجیوں کی کشمیر میں تعیناتی دراصل کشمیر کو کھو دینے کے خوف کو ظاہر کرتی ہے۔ بھارتی سفاک حاکم اپنی ناکامی کو جانتے ہیں، جس کا ثبوت فوج کے سربراہا ن کے ان بیانات سے بخوبی ہوتا ہے، جن میں وہ اس بات کا برملا اعتراف کرتے ہیں کہ ’’بھارت کشمیر میں ایک ہاری ہوئی جنگ لڑ رہا ہے‘‘۔ اب بیانات یہاں تک آنا شروع ہوگئے ہیں کہ ’’فوجی تسلط کشمیر کے مسئلے کا حل نہیں بلکہ مسئلۂ کشمیر سیاسی حل چاہتا ہے‘‘۔
اہلِ کشمیر عرصۂ دراز سے قربانیاں دیتے چلے آرہے ہیں۔ یہی قربانیاں تحریکوں کو قوت فراہم کرتی ہیں اور ظالموں پرایسا بوجھ بن جاتی ہیں، جن کے نیچے وہ دبتے چلے جاتے ہیں اور آخرکار انھی قربانیوں کا بوجھ انھیں زیر کر دیتا ہے۔
ایک طرف اقوام متحدہ نے مواصلاتی بریک ڈاؤن کو کشمیریوں کے لیے اجتماعی سزا قرار دے کر ایسی پابندیوں کو عالمی قوانین اور بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیاہے، دوسری جانب بھارت کی مختلف ریاستوں میں مزید ڈھٹائی کے ساتھ کشمیریوں کا ذہنی ٹارچر اور جسمانی تعذیب کے نت نئے حربے بروے کار لائے جارہے ہیں۔ اور ایسا کر تے ہوئے تمام اخلاقی اور انسانی اقدار کے ساتھ ساتھ ملکی آئین اور بین الاقوامی قانون کو پیروں تلے روندا جارہا ہے۔ یہاں کے اخبارات کے مطابق ایک اندوہ ناک خبر یہ ہے کہ کشمیر سے تعلق رکھنے والی ایک مریضہ کاپی جی آئی، چندی گڑھ میں ڈاکٹر نے صرف اس بناپر علاج کرنے سے انکار کردیا کہ وہ کشمیر سے تعلق رکھتی ہیں۔
نسرین ملک نامی اس مریضہ کے بیٹے نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ میں اپنی والدہ کو علاج کی غرض سے پی جی آئی، چندی گڑھ لے گیا، جہاں منوج تیواڑی نامی ڈاکٹر نے ابتدا میں ہم سے اچھا سلوک کیا۔ لیکن جب انھوں نے صورہ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ کے نسخہ جات اور کاغذات دیکھے، جن سے انھیں پتا چل گیا کہ ہم کشمیری ہیں تو وہ آگ بگولا ہوگئے‘‘۔ ڈاکٹرصاحب نے ہم سے کہا: ’’ تم لوگ وہاں کشمیر میں ہمارے( فوجی ) جوانوں کو پتھر مارتے ہو اور پھر یہاں علاج کرانے آتے ہو‘‘۔ یہ کہہ کر ڈاکٹر نے ہمارے تمام کاغذات پھینک دیے اور مریضہ کا علاج کرنے سے صاف انکار کردیا۔ اگر چہ ڈاکٹر نے ہمیں براہ ِراست ہسپتال سے چلے جانے کے لیے تو نہیں کہا، البتہ اُنھوں نے ہم سے کہا: ’’ علاج پر ۱۵ لاکھ روپے خرچ آئے گا‘‘۔ حالاں کہ جس بیماری میں میری والدہ مبتلا ہیں، اُس کا وہاں پر زیادہ سے زیادہ ۸۰؍ہزار روپے خرچ آتا ہے۔ اس طرح ہمیںوہاں نسلی تعصب اور بیمار سوچ کا سامنا کرنا پڑا۔ کسی ایک فرد نے بھی از راہ ِ انسانیت ہماری رہنمائی نہیں کی، بالآخر ہسپتال انتظامیہ کے بہت ہی بُرے برتاؤ کی وجہ سے ہمیں بغیر علاج کے واپس لوٹنا پڑا۔‘‘ ازاں بعد جب اس افسوس ناک واقعے کو تشہیر ملی تو پی جی آئی، چنڈی گڑھ کی انتظامیہ نے تحقیقات کرکے قصور وار ڈاکٹر کے خلاف ضابطے کی ’کارروائی‘ کی یقین دہانی کرائی ہے، مگر آثار وقرائین سے لگتا ہے کہ یہ محض زبانی جمع خرچ ہے اور ان’تحقیقات‘ کا حشر بھی کشمیر میں کسی نوجوان کے قتل پر انکوائری بٹھانے کے عمل جیسا ہو نا طے ہے۔
اس واقعے سے واضح ہوجاتا ہے کہ ریاست سے باہر کشمیریوں کے تئیں کیسی مردہ ضمیری اور مریضانہ ذہنیت پائی جاتی ہے۔ اس حوالے سے چشم فلک نے اور چیزوں کے علاوہ وہ دن بھی دیکھا، جب ۴ا۲۰ ء کے تباہ حال سیلاب متاثرہ کشمیریوں کی ا مداد کے لیے بھارت کے ایک تعلیمی ادارے کے پنڈت سربراہ نے امدادی اشیا جمع کرنے کے لیے کیمپ لگایا ۔ دیش بھگتوں نے نہ صرف اسے اُکھاڑپھینکا، بلکہ پرنسپل موصوف پر یہ کہہ کر تشدد کیا کہ وہ کشمیر کے’ ملک دشمنوں‘کے لیے چندا کیوں جمع کر رہے تھے؟ آج کل اس نوع کی مریضانہ ذہنیت چونکہ سیاسی سرپرستی اور سماجی پذیرائی حاصل کر چکی ہے ،اس لیے کشمیر یوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھے جانے کے ان واقعات پر ناک بھوں چڑھانا اور حیرت یا رسمی تشویش ظاہر کر نا حماقت کے مترادف ہے ۔
اہلِ کشمیر کے ساتھ بھارت بھر میں منا فرت ، شکوک وشبہات ،تعصب اور تنگ نظری کی ذہنیت روز بروز اپنی تمام زہر ناکیوں کے ساتھ جا بجا ظاہر ہورہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بھارتی وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ کی جانب سے کشمیر یوں کے ساتھ ناروا سلوک ترک کیے جانے کی ہدایت ریاستوں کے نا م جا ری کی گئی ہے۔ اُن کایہ سرکاری حکم نامہ او ر بھارتی عوام کے نام یہ تازہ پیغام کہ ان کے یہاں کشمیر ی طلبہ اور مزدوروں وغیرہ کا ’خیرمقدم‘کیا جائے، ا س حقیقت کی تصدیق ہے کہ بھارت کی ریاستوں میں کشمیریوں کے تئیں راے عامہ کس قدر خراب ہے ۔ یہ صرف آج کی بات نہیں بلکہ نوے کے عشرے سے برابر کشمیریوں کو بھارت میں جرم بے گناہی کی پاداش میں ہزارہا تکالیف ، جیلیں ، ہلاکتیں، لوٹ مار، نفرتوں اور تعصبات کا سامنا رہا ہے ۔ یہاں تک کہ اپنے دور ِ اقتدار میں ریاست جموں و کشمیر کے اُس وقت کے کانگریسی وزیراعلیٰ غلام نبی آزاد کو بھی مجبوراً بھارتی ریاستوں کے آٹھ وزراے اعلیٰ کو ان کی حدود میں زیر تعلیم کشمیری طلبہ ، تاجروں، مزردوں اورملازمین کوتحفظ دینے کی فہمایش کر نا پڑی تھی ۔ بہرصورت پی جی آئی، چندی گڑھ کا شرم ناک اور قابل صد تشویش واقعہ اہل عالم کے لیے چشم کشامعاملہ ہے کہ اہل کشمیر اپنے گھر اور گھر سے باہر یکساں طور عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ ہمارے اجتماعی حافظے کی تختی پر کشمیریوں کی ہراسانی اور پریشانی کے ایسے ایسے دل دہلادینے والے واقعات رقم ہیں کہ کتنے ہی کم نصیب کشمیری ہیں جن کو ریاست سے باہر نسلی تعصب اور مذہبی نفرت کا شکار ہونا پڑا ہے ۔ ایسے درجنوں واقعات اخبارات اور ٹی وی چینلوں کی زینت بن چکے ہیں۔
کشمیریوں سے بیرون ریاست عام بھارتی شہریوں کی جانب سے تعصب کی ایک اور کہانی گذشتہ سال عوامی احتجاج کے دوران سامنے آئی ۔ اس وقت پیلٹ گن سے متاثر ہونے والے جن چار زخمیوں کو سرکاری سطح پر آل انڈیا میڈیکل انسٹی ٹیوٹ منتقل کیا گیا تھا ، دو ماہ گزر جانے کے بعد جب وہ وادی میں واپس آئے تو اُنھوں نے یہاں دل دہلادینے والی سرگذشت بیان کی۔ اُن کے مطابق ہسپتال انتظامیہ نے اِن زخمی مریضوں کے ساتھ ناروا رویہ اختیار کیا۔ اُن کے علاج کی جانب کوئی توجہ نہیں دی گئی بلکہ چھرّوں سے متاثر ہ ان کی آنکھوں پر صرف میڈیکل تجربات کیے گئے۔ان مریضوں کی وادی واپسی پر یہاں کے ڈاکٹروں نے جب اُن کا معائنہ کیا تو وہ بھی دنگ رہ گئے۔ اُنھوں نے بھی اس بات کا کھلا اعتراف کیا کہ ان مریضوں کی آنکھوں کو ماہرانہ طریقے سے نہیں دیکھا گیا بلکہ اِن پر صرف پیلٹ اثرات کی جانچ کے لیے تجربات کر کے اُن کی حالت کومزید ابتر کیا گیا۔حالاںکہ سری نگر حکومت نے اُن کے علاج معالجے کے حوالے سے اپنی مسیحائی اور غم گساری کا خوب پروپیگنڈا کیا اور اُنھیں تمام سہولیات دستیاب رکھنے کے وعدے بھی کیے تھے۔ دونوں آنکھوں کی بصارت سے محروم ایک متاثرہ فرد نے ذاتی طور پر راقم سے کہا کہ وہاں مختلف سیاسی جماعتوں کے لیڈر آکر صرف ہمارے ساتھ اپنا فوٹو کھینچواتے تھے ،وہاں ہمارا کسی قسم کا کوئی علاج معالجہ نہیں ہوا، اور ہمیں معمولی دوائی تک بازار سے خرید کر لانے کو کہا جاتا تھا۔
یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ بیرون ریاست کشمیری طلبہ ، تاجروں اور ضروری کام کاج کے لیے عام کشمیریوں کی جگہ جگہ تذلیل ایک معمول بنا ہوا ہے۔گاڑیوں میں ، مارکیٹ میں، ریل گاڑیوں کے ڈبوں میں کشمیری لوگ تعصب اور تنگ نظری کا شکار بنائے جاتے ہیں۔ اُنھیں طعنے دیے جاتے ہیں اور خوف اور ڈر کے ماحول میں اُن کا جینا دو بھر کردیا جاتا ہے۔ پنجاب پولیس ریل کے سفر کے دوران ہر ڈبے میں جاکر کشمیری مسافروں کو تلاش کرتی رہتی ہے اور ڈرا دھمکاکر اُن سے پیسے وصول کیے جاتے ہیں۔ اس لیے عام کشمیری کے لیے ریاست سے باہر کے سفر میں ہروقت خطرہ لگا رہتا ہے۔ بیرون ریاست کے تعلیمی اداروں میں جنونی فرقہ پرست اور تو اور بھارتی ٹیم کے ہارنے پر سارا غصہ کشمیری طلبہ پر نکالتے ہیں ۔ عدم برداشت کا جذبہ جب مسیحا کہلانے والے ڈاکٹروں تک میں سرایت کرجائے تو سمجھ لیا جانا چاہیے کہ بھارتی معاشرہ شدت پسندی کی کس سطح تک پہنچ چکا ہے۔ڈاکٹر کو آج بھی انسانیت کامسیحا سمجھا جاتا ہے جو اس محترم پیشے میں جاتے وقت عہد کرتا ہے کہ خالص انسانی بنیادوں پر اپنی خدمات انجام دیتا رہوں گا۔ وہ اگر میڈیائی پروپیگنڈے کے ذریعے شدت پسند نظریات اور نفرت کے حامل بن گئے ہوں، تو یہ بات سمجھنے میں دیر نہیں لگنی چاہیے کہ اس معاشرے سے انسانیت ، ہمدردی اور خدمت کا جذبہ مرچکا ہے۔ بھارت کے عام لوگ نفرت اور تعصب کی عینک ہی سے کشمیرکو دیکھنے کے اس لیے عادی ہوچکے ہیں، کیوںکہ ان کے ’محب ِ وطن‘ سیاست دانوں نے انھیں ایسے موڑ پر لاکھڑا کردیا ہے، جہاں اپنی قوم ، مذہب اور نسل کے بغیر اُنھیں کوئی بھی کشمیری انسان دکھائی ہی نہیں دیتا ہے۔
کشمیریوں پر کیا گزر رہی ہے؟ اس کا اندازہ بھارت میں رہنے والے لوگوں کو نہیں ہوگاکیوںکہ وہ ’حب الوطنی‘ اور ’قومی مفاد‘ کی خود ساختہ عینک اپنی آنکھوں پر چڑھائے ہوئے ہیں۔ اُنھیں فرقہ پرستی کی افیون نے اس قدر مست کردیا ہے کہ کشمیر میں جاری زیادتیوں کے نتیجے میں یہاں کی سسکتی انسانیت کی چیخیں انھیں سنائی ہی نہیں دیتیں ۔ بھارتی فوج اور اقتدار کی کرسی پر فریفتہ سیاست دانوں نے یہاں مشترکہ طور پر عوام کے خلاف اعلانِ جنگ کررکھا ہے۔ وہ یہاں لاشیں گرا کراپنی کرسیوں کو دوام بخشتے ہیں۔ وہ یہاں معصوم بچوں کی زندگیاں اُجاڑ رہے ہیں اور اس کے ردعمل میں جب قفس کا پنچھی بنا عام کشمیری اپنے دفاع میں معمولی احتجاج کرنے کی جسارت کرتا ہے تو وہ ٹی وی چینل سے لے کر پنڈال تک ہر جگہ دنیا کا ’بدترین ‘انسان اور ’خونخوار دہشت گرد‘ کہلاتا ہے۔
تصویر کا یہ رُخ بھی دیکھیے کہ ہم سیلاب میں خو د دردر کی ٹھوکریں کھاتے رہے، لیکن غیرریاستی مزدروں ، کاریگروں ، یاتریوںاور سیاحوں بلکہ وردی پوشوںکو بھی بچاتے اور کھلاتے پلاتے رہے۔ اُنھیں اپنے گھروں میں جگہ فراہم کرتے رہے۔ وہ وردی پوش جو ہمارے نونہالوں کو گولیوں سے بھون ڈالتے ہیں۔ کیا ہمارے ہی نوجوانوں نے سیلاب کے دوران اُنھیں سیلابی پانی سے نکال کر محفوظ مقام تک نہیں پہنچایا؟ جن کشمیریوں پر بھارت کی فیکٹریوں میں بننے والا بارود فوجی بے دریغ برساتے ہیں، ۲۰۱۶ء میں وہی کشمیری بجبہاڑہ میں یاتری بس کو پیش آنے والے حادثے میں نہ صرف زخمی یاتریوں کو نکال کر ہسپتال پہنچا دیتے ہیں بلکہ وہاں ان کی زندگی بچانے کے لیے اپنا خون بھی دیتے ہیں۔ کشمیریوں نے ہمیشہ بھارت کو انسانیت، اخوت ، ہمدردی اور دل جوئی کا سبق دیا ہے، مگر بدلے میں اُنھیں تعصب، تنگ نظری اور نفرت ہی ملی ہے۔ ہم نے اُنھیں انسان دوستی کا پیغام دیا ہے، اُنھوں نے ہمیں نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھا ہے۔
بھارت میں جو نسل پرستانہ سیاست اپنے جوبن پر ہے، دنیا اسے بُری نگاہ سے دیکھتی ہے۔ نسل پرستی کے جنون میں کسی مظلوم قوم کو اس کے سیاسی نظریات کی بنیاد پر دُھتکارناانسانی اصولوں کے سراسر منافی ہے۔ ایسی مظلوم قوم کے مریضوںکا علاج اپنے ہسپتالوں میں نہ ہونے دینا انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہے۔ یہ کام تو اسرائیل محصور شدہ غزہ کی پٹی میں بھی نہیں کرتا۔ بایں ہمہ اگر پنجرے میں مقید اس قوم کو طبی سہولیات تک سے محروم رکھنا بھارت کی حب ِ وطن کا لازمہ ہے تو کھول دیجیے سری نگر راولپنڈی روڈ اور پھر دیکھیں کشمیر کے بیماروں کے علاج معالجے کی جدید ترین سہولیات کن کن ممالک سے یہاں پہنچتی ہیں۔ویسے بھی دلی، چندی گڑھ یا کسی اور جگہ علاج کی سہولیات فراہم کرکے کشمیریوں پر کوئی احسان نہیں کیا جاتا۔ نہ وہ مفت علاج کرانے اتنا دُور دراز سفر اختیارکرتے ہیں، بلکہ اس کے عوض بھارتی ڈاکٹر اور ہسپتال، کشمیریوں سے بھاری معاوضے وصول کرتے ہیں۔ بھارت کے میڈیکل شعبے نے کاروباری حیثیت اختیار کرلی ہے۔ اس لیے بھارت کے تمام نامی گرامی ہسپتالوں نے وادیِ کشمیر میں ہر جگہ اپنے ایجنٹ پھیلا رکھے ہیں، جو مریضوں کی کونسلنگ کرکے اُن کا علاج اپنے ہسپتالوں میںکروانے کے لیے اُنھیں ذہنی طور پر تیار کرتے ہیں ۔ بنابریں کشمیری اپنی جیب سے پیسہ خرچ کرکے علاج کروانے پنجاب، دلی یا کسی اور جگہ جاتے رہتے ہیں،لیکن چنڈی گڑھ کے زیر بحث واقعے نے کشمیریوں کو بہت زیادہ مایوس کیا ہے۔
اہلِ کشمیر کے خلاف اناپ شناپ پھیلا کر بھارتی میڈیا نفر ت اور شکوک کے زہریلے بیج بوتا ہے۔ پرائم ٹائم میں چلنے والے ٹاک شوز میں فرقہ پرست ذہنیت کے حامل لوگوں کو بٹھایا جاتا ہے، جو کشمیر اور کشمیریوں کے خلاف زہر اُگلتے رہتے ہیں۔میڈیا پر چلنے والے ان پروگراموں نے بھارتی عوامی ذہنوں کو اس قدر مسخ کررکھا ہے کہ اکثریتی آبادی میں خود بخود کشمیریوں کے تئیں نفرت پیدا ہوجاتی ہے۔ اگر اس میں کچھ کسر باقی رہ گئی تھی تو وہ آر ایس ایس کے سیاست دان پوری کرتے جارہے ہیں۔ بھارتی میڈیا اور فرقہ پرست اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ کشمیر میں آج بھی انسانیت کا بول بالا ہے۔ اسی لیے غیرریاستی مزدوروں اور کاریگروں سمیت طلبہ اور تاجر لاکھوں کی تعداد میں یہاں بلاخوف وخطر اپنا کام کاج کر تے ہیں۔ جو رویہ بھارت کی دیگر ریاستوں میں کشمیریوں کے ساتھ روا رکھا جارہا ہے، اگر خدانخواستہ وہی رویہ کشمیری بھی غیر ریاستیوں کے ساتھ اختیار کر یں تو کیا انسانیت کا گلستان بھسم نہیں ہو گا؟
کشمیر ایک متنازعہ خطہ ہے۔ یہاں کے لوگ سیاسی جدوجہد کرکے کسی جرم کا ارتکاب نہیں کررہے ہیں اور حصولِ تعلیم ، علاج یا تجارت کی غرض سے جو کشمیری دیگر ریاستوں کو جاتے ہیں، یہ اُن کا حق ہے۔ دلّی یہاں کے وسائل کو دلِ بے رحم سے ہڑپ کر رہا ہے ۔ اس کے بدلے میں کشمیریوں کو سواے اس کے کیا ملتا رہا ہے کہ یہاں کے طالب علم، تاجراور مریض بیرون ریاست مجبوریوں کے تحت جب دیگر ریاستوں میںجاتے ہیں تو وہاں سے اگر صحیح سلامت لوٹیں بھی تو بھارت کے مریضانہ تعصب اور تنگ نظر جنونیوں کے تعصب کا سامنا کرکے ہی لوٹتے ہیں۔ اس بیمار ذہنیت کے لوگ اپنی گھٹیا ذاتی اغراض کے لیے یہ گھنائونا کھیل کھیل رہے ہیں۔
ہندستان کے مسلم دور حکومت میں بھی راجوں، مہاراجوں اور سلاطین کے درمیان ملک کی توسیع اور ترقی کے لیے بڑی بڑی جنگیں ہوئیں ، مگر دونوں فریقوں کے درمیان دین ومذہب اور ذات پات کے نام پر کبھی کوئی قابل ذکر ٹکراؤ نہیں ہوا۔ نہ تو غیر مسلموں کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پائی جاتی تھی اور نہ مسلمانوں نے مذہبی اختلاف کی وجہ سے انھیں مقہور بنانے کی کوشش کی، نیز نہ کسی کو بہ جبر مسلمان بنایا گیا۔ اسی سے مسلم ہندستان، کثرت میں وحدت کا منظر پیش کرتا رہا۔
جب برطانوی سامراج کا زمانہ آیا تو اس نے ’تفرقہ ڈالو اور حکومت کرو‘ کی پالیسی اختیار کی۔ اس مقصد کے لیے انگریزوں نے یہاں کی جو تاریخ رقم کی یا ’تاریخ سازی‘ کی، اس میں مسلم حکمرانوں کے تعلق سے من گھڑت باتوں کو وضع کیا اور پھر بڑھا چڑھا کر پیش کیا، تاکہ یہاں کی غیرمسلم آبادی کو یہ باور کرا یا جاسکے کہ مسلمان تمھارے خیر خواہ نہیں ہیں۔ اور پھر جب مشترکہ کوششوں سے وطن عزیز انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوگیا اور معروضی حالات کے مطابق افہام و تفہیم سے ملک دوحصوں میں تقسیم ہوگیا، جن مسلمانوں نے بھارت میں رہنے کو ترجیح دی تھی ، وہ عددی اعتبار سے اور کم ہوکر اقلیتی طبقات میں شمار کیے جانے لگے۔
۱۹۲۵ء میں فرقہ پرست جماعت راشٹریہ سیوک سنگھ (آرایس ایس) وجود میں آئی۔ یہ اپنے ایک خاص مشن کے تحت شروع ہی سے اقلیتوں کے خلاف نفرت پھیلانے میں مصروف ہوگئی۔ جمہوری بنیاد پر بھارت کے آئین کی تدوین و تنقید ہوئی، تواس میں اقلیتی طبقات کو بھی مساویانہ حقوق، جان ومال اور عزت وآبروکے تحفظ کی ضمانت اور اپنے اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے کی آزادی دی گئی، مگر روزِ اوّل سے آج تک زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ ایک دانش ور نے خوب کہا: ’’بھارت میں گذشتہ ۶۰ برسوں کا تجربہ بتاتا ہے کہ دستور کی دفعات کے حروف تو بہت سنہرے ہیں، مگر اقلیتوں کو مختلف شعبوں میں حکومت اور اکثریت کی طرف سے جو زخم لگے ہیں وہ بہت گہرے ہیں‘‘۔
چاہے بر سرِ اقتدار پارٹی کا نگریس کا دور رہا ہو یا بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا، دونوں نے اقلیتوں کے ساتھ انصاف روا نہیں رکھا ۔ اسی طرح جب جب بی جے پی نے اپنے آپ کو پھیلانے اور اقتدار میں جگہ بنانے کی کوشش کی ہے، تب تب ملک کے حالات بگڑے ہیں اور افرا تفری مچی ہے۔ بالخصوص مسلم اقلیت نشانے پر رہی ہے۔ اس وقت عمومی صورتِ حال یہ ہے کہ مسلمان ملک کے کسی بھی حصے میں محفوظ اور مامون نہیں ہیں۔ان کی آزادی پر بندش لگائی جاتی ہے، مذہب پر عمل کرنے سے روکا جاتا ہے، گھروں کو لوٹا اور کاروبار کو نذرِ آتش کیا جاتا ہے ، چلتے پھرتے ان پر فقرے کسے جاتے ہیں،’وندے ماترم‘ کا ورد نہ الاپنے والوں کو وطن دشمن قراردیاجاتا ہے،یا ’جہاد سے محبت کرنے والا‘ کہہ کر زدو کوب کیا جاتا ہے۔ ’گھر واپسی کے نام‘ پر مرتد بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
مسلمانوں پر حصولِ روزگار کے دروازے بند کیے جاتے ہیں، سرکاری مراعات سے محروم کیا جاتا ہے۔ تعلیم سے دُور رکھنے کے لیے منفی پالیسی اختیارکی جاتی ہے۔ مدارس کی جدید کاری کے نام پر مسموم فضا ہموار کی جاتی ہے۔بے بنیاد الزامات لگاکر عرصۂ حیات تنگ کیا جاتا ہے۔ سنگین جرم کوئی دوسرا انجام دے اوربڑی خوش اسلوبی سے اسے مسلمانوں کے سر منڈھ دیا جاتا ہے۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو دہشت گردی کے نام پر پھنسایا اور کال کوٹھڑی میں بند کر دیا جاتا ہے۔ جرم ثابت نہ ہونے کی صورت میں جعلی مقابلے میں گولیوں سے اُڑا دیا جا تا ہے۔ عبادت گاہوں کو مسمار کیا جاتا ہے۔ اذان پر پابندی لگائی جاتی ہے۔ زبردستی مسلمانوں کی پیشانی پر قشقہ لگادیا جاتا ہے ہے۔ ٹوپی پہننے اور داڑھی رکھنے سے روکا جاتا ہے۔ دورانِ سفر ریلوں اور بسوں میں بے ہودگی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ عزت وآبر و پر حملے کیے جاتے ہیں۔ برقعہ پوش خواتین کا نقاب اُترواکر سرِراہ شرمندہ کیا جاتا ہے۔مسلم پرسنل لا پر حملہ کیا جاتا ہے، تعدد ازواج کے مسئلے کو غلط رنگ میں پیش کیا جاتا ہے، تین طلاق کے نام پرلوگوں کو ورغلایا جاتا ہے۔ معصوم اور سیدھی سادی عورتوں کو روپے کا لالچ دے کر مذہب تبدیل کروایا جاتا ہے۔ یکساں سول کوڈ کا پابند بنانے کے لیے فضا ہموار کی جاتی ہے۔ گائے کی تجارت کرنے والوں کو موت کی نیند سلادیا جاتا ہے۔ مختصراً یہ کہ اس وقت بالخصوص مسلمانوں کو عدم تحفظ اور خطرات کاجو سامنا ہے، اس کی وضاحت کہاں تک کی جائے ؎
ایک دو زخم نہیں جسم ہے سارا چھلنی
درد بے چارا پریشاں ہے کہاں سے اٹھے
’ سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ [ترقی]کے نعرے کے ساتھ بھارتیہ جنتا پاٹی اقتدار میں آئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ملک کا منظر نامہ بدل گیا۔ادھر اترپردیش کی سیاست میں تبدیلی کیا آئی پورے ملک میں افراتفری مچی ہوئی ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں: مودی جی سے آگے یوگی جی چل رہے ہیں۔ ٹی وی چینلوں اور سوشل میڈیا پر جو مناظر سامنے آتے ہیں ، ان سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ فسطائی طاقتوں کے حوصلے اتنے بلند ہوگئے ہیں کہ ہر طرف کشت وخوں کا بازا ر گرم کیے ہوئے ہیں۔ ان کی نگاہ میں ملک کے آئین اور قانون کی کوئی وقعت نہیں ، بلا خوف و خطر یکے بعد دیگرے شہر اور گاؤں کو فرقہ واریت کی آماج گاہ بناتے جارہے ہیں۔ کوئی باز پُرس کرنے والا نہیں اور قانون کے رکھوالے بھی تماشائی بن گئے یا انھیں بے بس بنا دیا گیا ہے۔ جو حکومت سے جتنا زیادہ قریب ہے، وہ اتنا ہی زیادہ ملک میں مجرمانہ عمل انجام دینے کو فخر سمجھتا ہے ۔
آزادی کے بعد سے لے کر ۲۰۱۳ء تک بھارت میں بڑے بڑے درجنوں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔جن میں زیادہ تر مسلمانوں یا دوسری اقلیتوں کا ہی ناقابل تلافی جانی ومالی نقصان ہو اہے اور وہ انصاف سے محروم رہے ہیں۔ فسادات کے برسوں بعد بھی خونیں بلوائیوں اور قاتل قوم پرست ہندوئوں کے خلاف مقدمہ شروع نہیں ہواہے،کیوں کہ تفتیش اب بھی ابتدائی مراحل میں ہے۔ ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے کہ اقلیتوں کو دوسرے درجے کا شہری بنا کر رکھا جائے۔
بھارتی وزیر اطلاعات کے مطابق ۲۰۱۵ء کے ابتدائی آٹھ مہینوں میں فرقہ وارانہ تشدد کے ۶۰۰ واقعات رُونما ہوئے۔۲۰۱۶ء کے ابتدائی چھے مہینوں میں ۲۵۲فسادات ہوئے ، جس میں اُترپردیش سر فہرست ہے۔یہاں جنوری تا اگست ۲۰۱۵ ء میں سب سے زیادہ ۶۸ فی صد فسادات رُونما ہوئے جن میں متعدد افراد کی ہلاکت اور ۵۰۰ زخمی ہوئے۔ اسی طرح ۲۰۱۶ ء میں ۳۳فرقہ وارانہ وارداتیں ہوئیں۔ مہاراشٹرا میں ۲۰۱۵ء کے درمیان فرقہ وارانہ تشددکے ۵۹، جب کہ ۲۰۱۶ء میں ۹ واقعات ہوئے۔بہار میں جنوری تا جون ۲۰۱۵ ء فرقہ وارانہ تشد دکے ۶۱ اور ۲۰۱۶ء میں ۲۱واقعات رُونما ہوئے۔گجرات میں جنوری سے جون ۲۰۱۵ ء تک فرقہ وارانہ تشدد کے ۲۵واقعات ہوئے اور ۲۰۱۶ء میں۷۶ واقعات ہوئے۔علاوہ ازیں دوسری ریاستوں کی صور تِ حال بھی اس سے مختلف نہیں ہے ۔ اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ شہر کی گود میں فسادات پل رہے ہیں یا فسادات کی گود میں شہر۔ کسی نے بہت خوب صورت تبصرہ کیا ہے:’’ہم ہندستان کے جغرافیے سے فسادات کے ذریعے واقف ہوتے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ کون سا مقام اور کون سا شہر کہاں ہے‘‘۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ تشدد کے یہ واقعات حادثاتی نہیں بلکہ دانستہ اور پوری منصوبہ بندی کے ساتھ کرائے جاتے ہیں اور اس میں پولیس کا کردار بھی جارحانہ اور یک طرفہ ہوتا ہے۔
انتخابات کے موقعے پر ٹیکنیکل مشین کے ذریعے قبل ازوقت طے کردیا جاتا ہے کہ ملک کا سیاسی رہنما کون ہوگا۔ المیہ یہ بھی ہے کہ عوام اپنا سیاسی رہنماایسے ہی لوگوں کو منتخب کرنے کی ڈگر پر چل نکلے ہیں، جوکچھ زیادہ ہی مجرمانہ ذہنیت کے حامل ہوتے ہیں ۔ اب تو عوامی حق راے دہی بھی بے معنی ہوکر رہ گیا ہے۔ بیش تر ریاستوں میں حکمران پارٹی کے لوگ براہ راست یا بالواسطہ قیادت سنبھالے اسی طرف گام زن ہیں۔ ہندوتواکے علَم برداروں نے انھیں اپنی گرفت میں اس طرح جکڑ رکھا ہے کہ وہ اس سے الگ ہوکر کو ئی مثبت عمل انجام دینے کی آزادی کم کم ہی پاتے ہیں۔ اس لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ آئین ہند کے دیباچے کے مطابق جہاں برابری ، بھائی چارہ اور انصاف کو بروے کار لانے پر زور دیا گیا ہے، اس کو رُوبۂ عمل لائیں گے۔
بابری مسجد کے انہدام اور رام مندر کی تعمیر کو لے کر جو گندی سیاست ہورہی ہے ، اس سے ہر کوئی واقف ہے۔ خود اعلیٰ عدلیہ بھی آنکھ مچولی کھیل رہی ہے۔ اب پھر سے اس مسئلے کو ہوا دی جارہی ہے، جس کی وجہ سے خطرات و خدشات کے بادل منڈلارہے ہیں ۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اسی مسئلے کو ہوا دے کر یہاں تک پہنچی ہے۔یہ بات بھی ذہن نشین کرنے کی ہے کہ اقتدار میں آنے کے لیے بی جے پی نے ہمیشہ رام مندر کے مسئلے کو اپنے ایجنڈے میں غیر معمولی اہمیت دی ، جس کا اسے براہِ راست فائدہ ہوا اور اس سے ملک کا ماحول کچھ زیادہ ہی مکدرہوا ہے:
فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دینے کے لیے مذہبی جذبات کے استحصال کی روایت پرانی ہے، مگر پچھلے چند برسوں سے جو رجحان دیکھنے میں آیا ہے، وہ یہ ہے کہ مذہبی فرقوں کے درمیان تناؤ کو عسکریت پسند عناصر، جرائم پیشہ افراد اور سیاست دان بھی استعمال کرنے لگے ہیں۔اس نئے رجحان نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان خلیج کو بڑھایا ہے۔
معاشی اعتبار سے مسلمانوں کو کم زور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔تعلیمی میدان میں بھی مسلمان کم زور ہیں اور جو بچے کچھ کرنے کا عزم وحوصلہ رکھتے ہیں ، ان کو بھی بعض اوقات کامیابی حاصل کرنے میں دشوارکن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اور کبھی مایوسی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ پرائمری اور سیکنڈری سطح پر انھیں تعلیم کی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ غربت اتنی بڑھی ہوئی ہے کہ بعض گھروں میں فاقہ کشی تک کی نوبت آجاتی ہے۔ ’جسٹس سچر کمیٹی‘ اور دوسری رپورٹ میں بالخصوص مسلم اقلیت کی مفلوک الحالی اور تعلیم کی تشویش ناک صورتِ حال کی جو وجوہ بیان کی گئی ہیں ، اس میں سدھار لانے کی حکومت کو ذرہ برابر فکر نہیں ہے ،مگر اندرون خانہ مسلمانوں میں کیا ہوتا ہے اسے ڈھونڈ ڈھونڈ کر باہر لایا جاتا اور اسے منفی انداز میں پیش کرکے مسلمانوں کا تشخص بگاڑا جاتا ہے۔
مذہبی آزادی ہرکسی کا فطری اور آئینی حق ہے ۔ اس کے باوجود مذہبی معاملات میں مداخلت کی جاتی ہے۔پوری طاقت کے ساتھ تعلیمی اداروں کو برہمنی غسل دیا جارہا ہے ۔ نصابی کتابوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کے بیج بوئے جارہے ہیں ۔مزید برآں ’وندے ماترم‘ کو ہرکسی کے لیے لازم کیا جارہا ہے ۔دلیل یہ دی جاتی ہے کہ یہ ہندو راشٹر ہے ، اس سے وطن کا تقدس ظاہر ہوتا ہے۔کیا اسی طرح سے ملک کی ترقی ہوسکتی ہے؟
مسلم اقلیت کو خوف وہراس میں مبتلا کرنے کے لیے آئے دن ایک نہ ایک نیا مسئلہ چھیڑدیا جاتا ہے ، جس کو مفاد پرست میڈیا بھی لے اڑتا اوراسے بڑے پیمانے پر توڑ مروڑ کر نشر کرتاہے ۔ جس سے بعض اوقات دومذاہب کے ماننے والے آپس میں ٹکڑا جاتے ہیں۔اس کی واضح مثال مسلمانوں کے مسلم پرسنل لا پررہ رہ کر حملہ کرنا ہے۔ اکثریتی طبقات میں جو سماجی ومعاشرتی بگاڑ پایا جاتا ہے ، اس کی اصلاح کی کوئی بات نہیں کرتا، مگر مسلمانوں کے پرسنل لا کو سدھارنے کی فکر ہر کسی کو ستاتی رہتی ہے ۔ ہما شما بھی اس مسئلے میں ’مجتہداعظم‘ بننا چاہتا ہے ۔ بر سرِ اقتدار پارٹی کو مسلم عورتوں کی بہتر تعلیم اور اس کے روز گار کی کوئی فکر نہیں ، مگر تین طلاق کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔پرانی رپورٹوں کو تو چھوڑ ہی دیجیے، چند روز قبل RTI کے ذریعے حاصل کی گئی معلومات میں بھی یہ انکشا ف ہوا ہے کہ ۲۰۱۲ء سے ۲۰۱۵ ء کے درمیان مسلمانوں میں ۱۳۰۷ ؍طلاق کی درخواستیں درج کی گئی ہیں ، جب کہ ہندوؤں میں ۱۶ہزار۵سو۵ ریکارڈ کی گئی ہیں۔ عیسائیوں میں ۴ہزار ۸سو۲۷ اور سکھوں میں ۸ طلا ق واقع ہوئی ہیں۔ یہ اعدادوشمار پورے ملک کے نہیں، بلکہ جنوبی ہند کی مختلف ریاستوں کے صرف آٹھ کثیرآبادی والے اضلاع کے ہیں۔
حکومت کے ایجنڈے میں ہزاروں مطلقہ ہندو خواتین کوسہارا دینے کی بات شامل نہیں ہے ، مگر صرف ۱۳۰۷ مسلم خواتین کی ’درماندگی‘ سے حکومت کے ڈھانچے میں زلزلہ آیا ہوا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اگر اس کا حل نہیں نکالا گیا تو پورے بھارت میں زلزلہ آجائے گا۔ لیکن جب بات مسلم معاشرے میں طلاق وتفریق کی تشویش ناک صورت حال کی ہوگی ،جو اگر چہ ایک مفروضہ ہی ہے، تو ہندوسماج میں اس حوالے سے جو بے اعتدالی پائی جاتی ہے ، جس سے بہت کم لوگ واقف ہیں، اس پر بھی کھل کر بحث ہونی چاہیے۔ ہندوؤں میں مذہبی امتناع کے باوجود طلاق وتفریق کی بہ کثرت درخواستیں جمع ہوتی ہیں۔ تعددازواج کے معاملے میں بھی ہند و معاشرہ مسلمانوں سے بہت زیادہ بڑھا ہوا ہے۔ یہاں تک کہ اس ترقی یافتہ دور میں بھی بعض ہندو سوسائٹی میں کثیر شوہری کا رواج پایا جاتا ہے۔
حکومت کے اعلیٰ ذمہ داران جلسہ وجلوس میں کھلے عام اقلیتوں کودھمکاتے اور بعض اوقات تیکھا مشورہ دیتے ہیں کہ ’’یا تو اکثریتی طبقے کا دھرم قبول کرلیں ، یا ترک وطن کرلیا جائے‘‘،نیز ’’اگر مسلمان یکساں سول کوڈ کونہیں مانیں گے، تو وہ حق راے دہی سے دست بردار ہوجائیں‘‘۔ اس طرح کی لغویات کا مطلب ہی خوف وناامیدی پیدا کرنا ہے۔ در اصل حکمران جماعت کی پالیسی یہی رہی ہے کہ مسلمانوں کو ہمیشہ کسی نہ کسی مسئلے میں الجھائے رکھو، تاکہ وہ اپنی فلاح وبہبود کے تئیں کچھ نہ کرسکیں۔
تاہم، مسلمان عارضی حوادث سے ڈر کر اپنے دین وایمان کا سوداکرنے والا نہیں ہے۔ فرقہ پرست طاقتوں اور شر پسند عناصر کوچاہیے کہ وہ مسلمانوں کی نفسیات کو سمجھیں۔ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ مسلمانوں پر جب بھی کوئی مصیبت آتی ہے ، تو ایسے نازک وقت میں ان کا ایمان اور بھی مضبوط ہو جاتا اور اس میں پختگی آجاتی ہے، جس سے انھیں اپنے عزائم پر قائم رہنے میں بڑھاوا ملتا ہے۔ آزادی کے بعد سے لے کر آج تک نہ جانے کتنے ہی مسلمانوں کو قتل وغارت کیا گیا ، ان کے گھر بار کو لوٹا گیا ، ہنگا مے کیے گئے ،لیکن ان میں کوئی بھی ایسا بد بخت مسلمان نہیں نکلا ہوگا، جو یہ کہے کہ تم ہمارے اُوپر سے مظالم کو روک لو، ہم اپنے دین ومذہب سے دست بردار ہوجاتے ہیں۔ مسلمان نیک عمل کے اس معیار پر، جس کواسلام پیش کرتا ہے، اگرچہ نہ اترتا ہو، مگر جہاں تک اس کے دل کے اندر ایمان کا تعلق ہے، تو ایک مومن کے اندر اس کی مضبوطی اور استقامت موجود ہے۔
مسلمانوں کو اس بات کی بھی جدو جہدکرنی چاہیے کہ بین الاقوامی قانون اور خود ملک کے آئین نے اقلیتوں کو جن حقو ق سے نوازا ہے ، ان کے حصول کی کوشش، آئین کی روشنی اور قانون کے دائرے میں رہ کر ہی ہو۔کیوں کہ دستور کی حفاظت اور قانون کا احترام بھی لازمی ہے۔مزید برآں بلاتفریق مذہب وملت ہر کسی کو آئین میں دیے گئے حقوق سے واقفیت اور اس سے دوسروں کو بھی متعارف کرانے کی شدید ضرورت ہے ۔
یہ وقت باہمی انتشار کا نہیں، اتحاد کا متقاضی ہے۔لیکن یہ بھی سچ ہے کہ مسلمان بکھرے ہوئے ہیں اور ان کا کوئی متحدہ پلیٹ فارم بھی نہیں ہے ۔ غیر ذمہ دارانہ اور لاشعوری زندگی سے کنارہ کش ہونے ، مضبوط اور دوررس لائحہ عمل تیار کرنے کے لیے مسلمانوں کو متحد ہونا ہی پڑے گا ۔ اگر اتنے شدید بحران سے دوچار مسلمان صرف انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہونے کے بعد ہی جاگنے کی کوشش فرمائیں گے، تو اُن کا جاگنا سونا ایک برابر ہے۔ آرایس ایس ، بجرنگ دل، ویشواہندو پریشد، بی جے پی جیسی فرقہ پرست جماعتوں نے اپنے منفی نظریات کو تھوپنے میں طویل عرصہ لگا دیا اور ساری توانائی صرف کردی ۔ کیامثبت عمل کو انجام دینے اورفسطائی طاقتوں کو پسپا کر نے کے لیے مسلمانوں میں اتحاد نہیں ہوسکتا؟ کیا وہ اپنے اخلاق وکردار سے برادران وطن کا دل جیت نہیں سکتے؟ مسلک و مشرب سے بالاتر ہوکر صرف کلمۂ واحدہ کے نام پر مسلمان متحد ہوگئے اور من جانب اللہ انسانیت کی فلاح کی ان پر جو ذمہ داری عائد کی گئی ہے، اس پر عمل کرکے اپنے فرائض کو انجام دینے لگے ، تو گو آج وہ سماجی اور سیاسی سطح پر بے وقعت ہوگئے ہیں، لیکن بہت جلد ان کی حیثیت تسلیم کر لی جائے گی اور ان کی عظمت رفتہ بحال ہوجائے گی۔
میں نے اپنی قید و بند کے دوران مختلف جیلوں میں وقت گزارا ہے، اور جیل نے مجھے بہت کچھ سکھایا۔ جیل کے تجربات بڑے کٹھن اور صبرآزما بھی تھے، مگر اس کے ساتھ ہی بڑے مفید اور ایمان افروز بھی۔ سزا سنائے جانے کے فوراً بعد ہمیں لیمان طرہ بھیجنے کا فیصلہ ہو گیا۔ مصری جیل خانے سختی اور بدبختی اور قیدیوں کے ساتھ ظلم و ستم کی وجہ سے بہت بدنام ہیں۔ جب انگریزوں نے اپنے سامراجی دور میں یہ جیل خانے تعمیر کیے، اس وقت بھی ان کی یہی شہرت تھی، مگر اُن سے آزادی حاصل کرنے کے بعد تو ان کی حالت اور بھی بدتر ہو گئی ہے۔ مصر میں جیلوں کے قوانین (جیل مینؤل) اتنے غیر مہذب بلکہ غیر انسانی ہیں کہ کسی متمدن ملک میں ان کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ قیدی کو بلاوجہ قدم قدم پر روحانی اور جسمانی اذیت پہنچانا ان بدنام قواعد و ضوابط کی اصل روح ہے۔
مصر کی جیلوں میں سیاسی قیدی کو انسان نہیں سمجھا جاتا۔ ایسے ہی حالات اور ایسے ہی جیل خانوں سے ہمیں سابقہ پیش آیا، مگر اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے بندوں پر بڑا مہربان اور مظلوموں کی پکار سننے والا اور ظلم سے نجات دینے والا ہے۔ اس نے اپنی خصوصی رعایت سے اسی تنگی میں فراخی پیدا فرما دی۔ کئی مرتبہ میں نے محسوس کیا جیسے رحمت خداوندی جیل خانے سے کہہ رہی ہو: کُوْنِیْ بَرْداً وَّسَلَاماً عَلَی الْاِخْوَانِ الْمُسْلِمِیْنَ،’’یعنی اے جیل اخوان المسلمین کے لیے ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی کی جگہ بن جا‘‘۔
لیمان طرہ جیل کے صدر دروازے پر ہمارے کپڑے اتروا کر ہمیں جیل کا مخصوص لباس پہنا دیا گیا۔ یہ سیاہ رنگ کا پرانا لباس تھا جو جیل کے اندر تیار کیا گیا تھا۔ کثرت استعمال سے پھٹ چکا تھا اور سائز میں اتنا چھوٹا تھا کہ ستر بمشکل ڈھانپ سکتا تھا۔ ہمیں یہ بھی حکم دیا گیا کہ اپنی کوٹھڑیوں میں داخل ہونے سے پہلے اپنے جوتے اتار دیں، چنانچہ ہم ننگے پائوں داخل ہوئے۔
ہمیں ایک ہی بلاک میں رکھا گیا مگر تین تین کی ٹکڑیوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ میں اسے اپنی خوش قسمتی اور سعادت سمجھتا ہوں کہ مجھے جناب مرشد عام حسن الہضیبی اور جناب عبدالعزیز عطیہ کے ساتھ ایک کوٹھڑی میں بند کر دیا گیا۔ یہ دونوں بزرگ عمر رسیدہ تھے۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے ان کی خدمت کا موقع عطا فرمایا۔ اس جیل میں اسیوط کے لوگوں نے جس محبت اور خلوص کے ساتھ اخوانی قیدیوں کی عزت و تکریم کی اسے میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ اسیوط کے یہ لوگ جیل میں دیگر مقدمات میں قید بھگت رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ انھیں جزاے خیر دے کہ ان مشکل اور نازک گھڑیوں میں انھوں نے اللہ کے سپاہیوں کی عزت و تکریم کی۔ کچھ دنوں کے بعد جیل میں ہماری مشقت کا فیصلہ ہو گیا۔ ہمیں پتھر کوٹنے کی مشقت دی گئی۔ اخوان نے اس مشقت میں بھی حسن اور خیر پیدا کردیا۔ پتھر کوٹتے ہوئے وہ عجیب لے میں تلاوت قرآن کا اہتمام کرتے۔ کبھی کبھار جرأت و حمیت سے مملو اشعار اور ترانے پڑھتے۔
تمام قیدی اخوان کو بڑی عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ بعض ملازمین بھی اخوان کے بڑے قدرشناس تھے۔ میں جیل میں قید کے دوران میں کھیلوں میں بھی حصہ لیا کرتا تھا۔ جوڈو کراٹے کے فن سے بھی واقف تھا۔ ان کھیلوں کے دوران میں اپنے سر پر اپنے علاقے کے مخصوص انداز میں بڑی سی پگڑی باندھ لیتا تھا اور دائیں اور بائیں پھرتی سے حرکت کرتا تھا۔ میرے ساتھ کھیل میں حصہ لینے والے قیدی بھی میری مہارت کے قائل تھے اور جناب مرشد عام بھی بڑے شوق اور محبت سے میرا کھیل دیکھتے اور حوصلہ افزائی فرماتے تھے۔ جہاں جیل میں کبھی کبھار کچھ نرمی ہو جاتی تھی وہاں سختی اور شدت کا سامنا بھی کرنا پڑتا تھا۔ ان سب حالات میں تمام اخوان اور خاص طور پر مرشد عام بڑی پامردی سے آزمایش کا مقابلہ کرتے رہے۔
اس صورتِ حال میں جیل کے حکام ہمیں لوہے کی بیڑیاں پہنا دیا کرتے تھے۔ یہ بیڑیاں بڑی تکلیف دہ ہوتی تھیں۔ لوہے کا ایک بڑا سا حلقہ میری کمر میں ڈال دیا جاتاتھا، جس کے ساتھ دونوں جانب دو سلاخیں ہوتی تھیں۔ ان دونوں سلاخوں کے نچلے سرے پر بیڑیاں ہوتی تھیں، جنھیں پائوں میں ڈال دیا جاتا تھا۔ جیلوں کے اندر بیڑیاں خطرناک مجرموں ہی کو پہنانے کی اجازت تھی، جن کے بھاگ جانے کا خطرہ ہو یا جو جیل کے اندر بھی مختلف اخلاقی و قانونی جرائم کے مرتکب ہوتے ہوں مگر اخوان کے ساتھ یہ معاملہ انتقاماً کیا گیا۔
لیمان طرہ میں چھے مہینے گزارنے کے بعد ہمیں بیرونی قید خانے میں منتقل کر دیا گیا۔ ہمارے ساتھ قتل کے جرم میں قید کئی زندانیوں کو بھی منتقلی کا حکم دیا گیا۔ یہ خارجی جیل مغربی صحرا کے وسط میں اسیوط سے تقریباً ۲۴۰ کلومیٹر دور تھی۔ یہ جیل پختہ عمارت کے بجاے خیموں پر مشتمل تھی۔ قیدی بھی خیموں میں رکھے جاتے تھے اور جیل حکام کی قیام گاہیں بھی خیموں سے ہی بنائی گئی تھیں، تاہم باہر کی چاردیواری بلند و بالا فصیل کی شکل میں بنائی گئی تھی، جس میں مناسب فاصلوں پر نگرانی کے لیے برج بنے ہوئے تھے۔ پہلی رات جب ہم اس جیل میں پہنچے تو داروغہ جیل نے حکم دیا کہ ’’اخوان کو لوہے کی زنجیروں میں جکڑ دیا جائے تاکہ وہ جیل سے بھاگ نہ سکیں۔‘‘ ہم نے زنجیروں میں جکڑے جانے پر احتجاج کیا اور زنجیریں پہننے سے بالکل انکار کر دیا۔ ہم نے آپس میں طے کر لیا تھا کہ خواہ کچھ بھی ہو اس حکم کی تعمیل نہیں کریں گے۔ جب یہ صورت حال پیدا ہوئی تو جیل میں موجود افسروں نے اپنے بالائی حکام سے رابطہ قائم کیا تو انھوں نے جواب میں کہا کہ زنجیریں پہنانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس طویل و عریض صحرا میں دور دور تک نہ کوئی آبادی ہے نہ کوئی آدم زاد۔ اگر کوئی قیدی اس جیل سے نکلنے میں کامیاب ہو جائے تو وہ بھاگ کر کہیں نہیں پہنچ سکتا۔ داروغہ جیل نے عذر پیش کیا کہ اسے وزارت داخلہ کی طرف سے یہ احکام موصول ہوئے ہیں۔ اس پر علاقے کے گورنر نے وزیرداخلہ زکریا محی الدین سے رابطہ قائم کیا اور اسے اطمینان دلایا کہ اس جیل سے کسی کے بھاگنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس طرح یہ بلاے ناگہانی سر سے ٹل گئی۔
تفتیشی افسروں کے ذریعے سے اخوان کے اہل و عیال کو بھی بے پناہ آزمایشوں سے گزارا گیا۔ اخوان کے لیے جیل سے نکلنے اور ان مشکلات سے نجات پانے کی ایک ہی سبیل تھی اور وہ یہ کہ ناصر کے حکم کے سامنے سر جھکا دیں مگر اخوان نے اس سے انکار کر دیا۔ سب سے مشکل مرحلہ وہ تھا، جب کہ بعض اخوان کی بیویوں پر دبائو ڈالا گیا اور انھوں نے اپنے شوہروں سے طلاق کا مطالبہ کر دیا۔ اس صورت حال سے نکلنے کے لیے بعض اخوان نے ہتھیار ڈال دیے اور بادل نخواستہ تائیدی بیانات پر دستخط کر دیے، مگر اللہ کا شکر ہے کہ اخوان کی غالب اکثریت اپنے موقف پر ڈٹی رہی۔
اخوان پر جو مظالم ڈھائے گئے انھیں برداشت کرنا آسان کام نہیں تھا۔ ظلم و طغیان کے سامنے اخوان عزیمت کا پہاڑ ثابت ہوئے۔ طاغوتی قوتیں نہ انھیں جیل کے اندر سرنگوں کر سکیں اور نہ جیل کے باہر ان کے حوصلوں کو شکست دے سکیں۔ اخوان نے اللہ تبارک وتعالیٰ کے اس قول کو عملی جامہ پہنا دیا: ’’ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ہے۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کر چکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ انھوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔‘‘
جیل میں میرے مشاہدات بڑے عجیب و غریب رہے۔ اخوان مشکلات میں بھی مایوس نہیں ہوئے تھے بلکہ وہ موقع و محل کے مطابق لطائف کا تبادلہ بھی کرتے اور تبسم کے پھول بھی کھلاتے۔ میں نے اپنی بیاض میں بعض واقعات درج کیے ہیں۔ جیل میں سرکاری طور پر میلاد النبیؐ کی تقریب منعقد ہوتی تھی۔ اس میں تقاریر کے علاوہ نمایش اور بازار بھی لگتا تھا، جس میں قیدیوں کی بنی ہوئی چیزیں پیش کی جاتی تھیں۔ اخوان بھی ان نمایشوں میں حصہ لیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ہم نے اپنا سٹال لگا رکھا تھا جس پر ہماری مصنوعات رکھی ہوئی تھیں۔ داروغہ جیل نمایش میں سے گزرتے ہوئے ہمارے سٹال پر آیا اور مختلف چیزیں دیکھ کر حیران رہ گیا۔ ایک نہایت عمدہ تولیہ اُٹھا کر پوچھنے لگا: ’’یہ کیا ہے؟‘‘ اس وقت وہاں اخوان کے ایک اہم رکن جناب احمد امام کھڑے تھے۔ انھوں برجستہ جواب دیا: ’’یہ تولیہ ہے اور بڑے اعلیٰ معیار کا ہے۔ سر کو یوں صاف کرتا ہے کہ دماغ کا غسل بھی ہو جاتا ہے‘‘۔ ان کی اس بات میں اس جانب اشارہ تھا کہ اخوان کی برین واشنگ کی سرکاری کوششیں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتیں اور نہ کبھی اخوان ناصر کی تائید کر سکتے ہیں۔ ان کا یہ لطیف جواب سن کر سبھی حاضرین محظوظ ہوئے۔
جیل کے پُرآشوب دور میں برادر محترم عمر تلمسانی کی مضبوط شخصیت اخوان کے لیے بڑا سہارا تھی۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے ایسی پُرتاثیر زبان عطا فرمائی تھی کہ آپ کے درس قرآن اور لیکچر ہمیشہ ہمارے سامنے امید کی شمع روشن رکھتے اور ہمیں ثابت قدمی کی قوت فراہم کرتے تھے۔ آپ نے اخوان کے دلوں میں یہ بات راسخ کر دی تھی کہ ظلم کی تائید کسی صورت بھی نہیں کی جا سکتی۔ ناصر کو جناب تلمسانی سے خاص طور پر چڑ تھی، چنانچہ آپ کی ۱۵سالہ مدتِ قید پوری ہو گئی تو بھی آپ کو رہائی نہ ملی۔ آپ کی فائل پر ناصر نے سرخ قلم سے لکھ رکھا تھا کہ اسے ہرگز رہا نہ کیا جائے۔ آپ پوری سزا بھگتنے کے بعد بھی کئی سالوں تک جیل میں رہے۔ ناصر کی وفات کے ایک سال بعد دیگر اخوانیوں کے ساتھ آپ کو رہائی ملی۔
محاریق کے جیل خانے میں داروغہ جیل کا بنگلہ جیل کے بالکل درمیان میں تعمیر کیا گیا تاکہ وہ دن رات اخوان پر کڑی نظر رکھے اور ان کے بھاگنے کا کوئی امکان نہ رہے۔ حکومت نے اخوان کو مشقت میں مبتلا رکھنے کے لیے جیل کے قریب ہی ایک بہت بڑا زرعی فارم قائم کیا۔ اخوان کو ہرروز اس فارم پر مشقت طلب زرعی کام کرنے پڑتے تھے۔ اخوان صبح و شام فارم پر جاتے اور واپس آتے ہوئے کسیاں اور کدال اپنے کندھوں پر اٹھائے نظر آتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ اس محنت و مشقت پر نہ کبھی ہم نے شکوہ کیا نہ اسے اپنی توہین سمجھا۔ ہم نے پامردی کے ساتھ اسے برداشت کیا۔ وہ دور اس لحاظ سے یادگار دور ہے کہ ہم مشقت بھی کرتے تھے اور قرآن مجید کی تلاوت اور حفظ کا سلسلہ بھی جاری رہتا تھا۔ اسی دوران ایک دن ایک دل چسپ واقعہ پیش آیا۔ کھیتوں میں ہمارے اوپر سرکاری نگران مقرر ہوتے تھے۔ ایک دن ایک نگران نے مشہور عالم دین جناب شیخ احمد شریت سے کہا: ’’حضرت! کہاں آپ کا مقام ِرفیع اور کہاں یہ ذلت آمیز مشقت؟ وہ جو مشہور مثل ہے کہ جس ملک میں بچھڑے کی پرستش ہوتی ہو وہاں بچھڑے ہی کو پوجنا چاہیے‘‘۔ یہ بات سن کر شیخ شریت غصے سے لال سرخ ہو گئے اور جواب دیا: ’’ذرا منہ سنبھال کر بات کرو۔ میں ان لوگوںمیں سے نہیں ہوں جو ہوا کے رخ چلتے ہیں۔ میں اس بچھڑے کا سر نہ کاٹ دوں جس کی پرستش کا مجھے حکم ملے۔‘‘ یہ مکالمہ عبدالناصر تک پہنچا تو بہت غضب ناک ہوا اور شیخ شریت کے بارے میں اس نے خصوصی احکامات جاری کیے، چنانچہ آپ پندرہ سال کی سزا کاٹنے کے بعد بھی جیل سے رہا نہ کیے گئے۔ آپ کا جنازہ جیل ہی سے اٹھا۔ اللہ آپ کو اپنی وسیع رحمت سے ڈھانپ لے اور آپ کے درجات بلند کرے، آمین!
اس جیل خانے میں کھیتوں سے آنے کے بعد پورا وقت ہمیں کال کوٹھڑیوں میں بند رکھا جاتاتھا۔ ہمارے اوپر بڑی سختیاں کی جاتی تھیں، مگر ہم اللہ کی رحمت کو نازل ہوتے ہوئے اپنی آنکھوںسے دیکھتے تھے۔ جب کبھی ابتلا و امتحان میں اضافہ ہو جاتاتھا نزول رحمت میں بھی تیزی آجاتی تھی۔ ایک مرتبہ سارجنٹ نوبٹ جی درزی خانے میں گیا اور درزی خانے کے انچارج اخوانی ڈاکٹر علی شہوان سے کہا کہ: ’’میرا یہ سوٹ فوراً درست کر دو‘‘۔ انھوں نے جواب دیا کہ: ’’آپ یہ سوٹ یہاں چھوڑ جائیں جب باری آئے گی تو اس کی مرمت کر دیں گے اور چار دن کے بعد یہ تیار ہو گا‘‘۔ سارجنٹ یہ سن کر آگ بگولہ ہو گیا اور اس نے داروغہ جیل کے سامنے شکایت کر دی۔ داروغہ جیل نے آئو دیکھا نہ تائو فوراً حکم صادر کر دیا کہ قیدی موصوف کو قصوری چکی میں بند کر کے سخت ترین تشدد کی سزا دی جائے۔ جب ہم نے یہ خبر سنی تو ہم نے اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی التجا پیش کی اور اس سے دعائیں مانگیں کہ وہ ہمارے بھائی کی حفاظت فرمائے۔ جب آدھی رات کا وقت ہوا تو ہمارے ساتھی ڈاکٹر علی شہوان کی کوٹھڑی کے سامنے جیل کا ایک ملازم آیا اور ان سے درخواست کی کہ وہ داروغہ جیل کے گھر تک چلیں۔ جب ڈاکٹر صاحب داروغہ کے گھر گئے تو دیکھا کہ اس کا چھوٹا بچہ سخت تشویش ناک حالت میں ہے۔ اس نے اپنی ماں کی دوائی غلطی سے بڑی مقدار میں پی لی تھی اور موت کے منہ میں جا پہنچا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے اس کا علاج کیا اور اللہ تعالیٰ نے بچے کو موت کے منہ سے بچا لیا۔ اگلی صبح داروغہ جیل نے یہ واقعہ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کے سامنے بیان کیا تو اس نے کہا: ’’کل آپ نے جس اخوانی کو سزا دینے کا حکم صادر کیا تھا شاید اسے قرآن مجید کی کچھ چھوٹی چھوٹی سورتیں یاد تھیں۔ اگر کبھی آپ نے ایسے اخوان کو سزا دے ڈالی جو پورے قرآن مجید کے حافظ ہیں تو پھر آپ کا کیا حال ہوگا؟‘‘ یہ سن کر داروغہ جیل نے کہا: ’’آئو ابھی اسی وقت اخوان سے ملاقات کریں‘‘۔ چنانچہ اسی وقت داروغہ صاحب ہمارے پاس آئے اور ہم سے اپنی غلطی پر معذرت کی۔
اس واقعے کے بعد اس جیل میں ہمارے ساتھ کبھی بدسلوکی نہیں ہوئی۔ اس طرح سے اللہ تعالیٰ کی رحمت یوں ہمارے شامل حال ہوتی تھی کہ ہم حیران رہ جاتے۔ ہم اس کی راہ میں ماریں کھا رہے تھے، لہٰذا ظاہر ہے کہ وہ خود ہماری مدد کر رہا تھا اور ایسے راستوں سے ہماری مدد فرماتا جو ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ ہوتے تھے۔ اس نے سرکش جابروں کو ہمارے سامنے سرنگوں کر دیا۔ اس نے ہمارے مانگے بغیر بھی ہمیں نوازا۔ اس کی عطاکا کوئی شمار نہیں اور اس کی نعمتوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں۔(وادیِ نیل کا قافلہ سخت جاں، ص ۲۷۲-۲۸۱)
ہمارے ہاں بھی عجیب لوگ پائے جاتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں: ’خلافت‘ کوئی دینی اصطلاح نہیں ہے… پھر یہ کہتے ہیں کہ اسلام میں ’قومی ریاست‘ کا تصور نہیں پایا جاتا، اور طبیعت میں جوش آجائے تو کہہ گزرتے ہیں کہ ’جمہوریت نظامِ کفر ہے‘۔
پہلے لفظ ’خلافت‘ پر غور کر لیا جائے___ یہ لفظ قرآنِ مجید میں نیابت کے معنی میں استعمال ہوا ہے: ’’میں زمین پر اپنا نائب (خلیفہ) بنانے والا ہوں‘‘(البقرہ ۲:۳۰)۔ چنانچہ پہلے انسان کی تخلیق عمل میں آگئی۔ قرآنِ مجید کے انگریز مترجمین نے ’خلیفہ‘ (Vicegerent)کا ترجمہ زیادہ تر ’وائسراے‘ کیا ہے، یعنی وہ حاکم جسے سلطنت کے اصل بادشاہ کی جانب سے اختیارات تفویض (delegate) کیے جائیں۔ وہ اختیارات کے استعمال کے لیے بادشاہ کے سامنے جواب دہ ہوتا ہے اور یہ اختیارات غیرمحدود بھی نہیں ہوتے۔ ’خلافت‘ سے مراد ایسی ریاست لی گئی، جسے اللہ کے ان بندوں نے قائم کیا ہو، جو اس کی بادشاہت یا حاکمیت ِ اعلیٰ (Sovereignty) پر پورا یقین رکھتے ہوں اور اس کے دیے ہوئے اختیارات سے تجاوز نہ کرتے ہوں۔ لہٰذا، تاریخ کے اوراق ایک ایسی ریاست کے وجود میں آنے کی گواہی ضرور دیتے ہیں جسے مؤرخین بالاتفاق ’خلافت‘ کا نام دیتے ہیں۔ یہ ریاست حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کی تھی۔ اس کے ذریعے اللہ اور اس کے آخری رسولؐ پر ایمان لانے والوں اور ریاست کے ماتحت بندوں پر اللہ تعالیٰ کے احکام، یعنی شریعت ِ خداوندی کا نفاذ کیا گیا تھا۔
تاریخی طور پر اسے ’خلافت‘ کا نام اس وقت سے دیا جاتا ہے، جب پیغمبراسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے انتقال فرمایا اور ان کے جانشین نے دارالحکومت کے مسلمانوں کی بیعتِ خاص اور بیعتِ عام کی طاقت کے بل بوتے پر انتظامِ حکومت سنبھالا، اور حضرت ابوبکر صدیقؓ خلیفۃ النبیؐ کہلائے۔ یہاں عربی زبان میں لفظ خلیفہ کے دوسرے معنی سامنے آجاتے ہیں: ’’ایک کی جگہ دوسرا لینے والا‘‘۔ ایک پتّا جب اپنی عمر پوری کرکے درخت سے ٹوٹ کر گر جاتا ہے، تو نئی کونپل پھوٹتی ہے اور پہلے کی جگہ نیا پتّا نکل آتا ہے۔ عربی زبان کی رُو سے اسے بھی خلیفہ کہا جاتا ہے۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جب مسنداقتدار سنبھالی تو ظاہر ہے کہ وہ نبیؐ کی جگہ نبی نہیں بنے تھے، بلکہ نبیؐ کی قائم کردہ ریاست کے سربراہ کی خالی مسند پر تشریف فرما ہوئے تھے۔ ان کی وفات پرمسلمانوں کی زمامِ اقتدار حضرت عمرؓ کے سپرد ہوئی، تو شروع میں انھیں ’خلیفۃ النبیؐ، کہا جانے لگا۔ یہ ادق اصطلاح تھی اور زبانوں پر رواں نہیں ہوتی تھی، لہٰذا اس کے بجاے ’امیرالمومنین‘ کے خطاب کو رواج دیا گیا، یعنی ان لوگوں کا سربراہِ حکومت و سلطنت جو ایمان والے ہیں اور مسلمان ہیں۔ جن شہریوں نے اسلام قبول نہ کیا، ریاست کے فرمان بردار ہونے کی صورت میں ان کے جان و مال یہاں تک کہ عزت و آبرو کی حفاظت کی ذمہ داری لی گئی، مگر ان کا علیحدہ تشخص قائم ہوا۔
آپ بھلے کہتے رہیں: ’خلافت کوئی دینی اصطلاح نہیں‘… مگر قرآنِ مجید کی اس آیتِ کریمہ کا کس طرح انکار کرسکتے ہیں، جس میں ارشاد ہے: ’’جن لوگوں کو ہم زمین پر اقتدار بخشتے ہیں، وہ نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ ادا کرتے ہیں، بھلائی کا حکم دیتے اور بُرائی سے روکتے ہیں‘‘(الحج ۲۲:۴۱)۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت کے ساتھ غریبوں کی ضروریات پوری کرتے اور اعلیٰ انسانی قدروں کو فروغ دیتے ہیں۔ حکومت تو معلوم انسانی تاریخ کے دوران انسانوں کے ایسے لاتعداد گروہوں اور قوموں کو بھی دی گئی، جنھوں نے نہ نماز قائم کی اور نہ معروف معنوں میں زکوٰۃ ہی کا نظام جاری کیا، لیکن قرآنِ مجید کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ حکومت و سلطنت یا ریاست وہی ہوگی، جو اس کے قائم کردہ معیار پر پوری اُترے گی۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جب خلیفۂ اوّل کے طور پر آںحضوؐر کی تخلیق کردہ مسند اختیارسنبھالی تو نمازوں کی امامت اپنے ذمے لی اور پہلی جنگ منکرینِ زکوٰۃ کے خلاف لڑی۔ یہ لوگ ریاست کے باقاعدہ شہری تھے اور اس کی سرحدوں کے اندر رہتے تھے۔ باہر کے لوگوں سے زکوٰۃ کی ادایگی سے انکار پر ان کے خلاف آمادۂ جنگ ہونے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔
اور یہ ’سرحدوں کے تقدس‘ کے حوالے سے بھی عجیب بات اُچھالی جارہی ہے۔ ریاست انسانوں کے ایک خاص گروہ یا قوم کے گھر کا نام ہوتا ہے۔ آپ ذاتی زندگی میں اپنے افرادِ کنبہ کو بسانے کے لیے جائز طور پر ایک قطعۂ زمین حاصل کرتے ہیں، اس پر گھر بناتے ہیں اور گھر کی چاردیواری تعمیر کرتے ہیں۔ اس چار دیواری کا تقدس کیا آپ کے ذہن و قلب میں نہیں پایا جاتا؟ کیا آپ کسی کو اسے پامال کرنے کی اجازت دیں گے؟ ریاست خواہ اسلامی ہو یا غیراسلامی، خلافت ہو یا آمریت اور بادشاہت، وہ اپنے شہریوں کے لیے محفوظ گھر کا درجہ رکھتی ہے۔ لامحالہ اس کی سرحدیں ہوتی ہیں، ان کی حفاظت پورے ریاستی نظام کی ذمہ داری قرار پاتی ہے اور اسی کو تقدس کہتے ہیں۔ سرحدیں پھیلتی اور سکڑتی بھی رہتی ہیں۔ خلافت کے جس دور کا آغاز حضرت ابوبکرؓ سے ہوا اور حضرت علیؓ کی شہادت پر ختم ہوگیا، اسی عہد کو ’خلافت ِ راشدہ‘ کا نام دیا جاتا ہے اور مسلمان اسے اپنی تاریخ کا سنہری دور تصور کرتے ہیں۔ تمام کے تمام غیرمسلم مؤرخین بھی انھی برسوں کو ’خلافت‘ کے نام سے ممیز کرتے ہیں۔
اس کے بعد مسلمانوں کی ملوکیتیں اور بادشاہتیں وجود میں آئیں۔ ان کی وجہ سے اسلامی ریاست یا خلافت کا یہ معیاری اصول نظروں سے اوجھل ہوگیا کہ مسلمانوں کا سربراہِ حکومت، آزادانہ ماحول کے اندر منعقد ہونے والی بیعت کی طاقت پر کرسیِ اقتدار پر فائز ہوتا ہے۔ بادشاہت نے غلبہ پایا تو باپ کی جگہ بیٹے نے بیعت لینا شروع کر دی بلکہ بہت سی مثالوں میں تو باپ دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے بیٹے کے حق میں جوڑتوڑ میں لگ گئے۔ مسلمانوں کے اجتماعی ضمیر نے ان کے لیے امیرالمومنین کا لقب پسند نہ کیا، اگرچہ اُموی اور عباسی ملوک اصرار کے ساتھ یہ سابقہ لگایا کرتے تھے، مگر مسلمانوں نے اپنی پوری تاریخ کے دوران ان کے اَدوار کو بادشاہت ہی سے تعبیر کیا۔
عباسیوں کی جگہ مسلمانوں کی سب سے بڑی ریاستی طاقت کی حیثیت عثمانیوں نے لی۔ وہ خود کو خلیفہ کے بجاے سلاطین کہلاتے تھے۔ اطراف و اکناف عالم میں ان کی حکومت اپنے دورِعروج میں ۵۰۰سال تک سلطنت عثمانیہ کہلاتی رہی۔ جس میں ایک شیخ الاسلام کا تقرر ہوتا تھا اور فقہ حنفی پر مشتمل اسلامی قوانین کا بھی بھلا چنگا نظام رُوبۂ عمل تھا۔ یہ تو انیسویں صدی کے اواخر کی بات ہے کہ جب وہ سلطنت اندر سے کمزور ہوگئی، تو ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہوگیا۔ روس کے ساتھ جنگوں نے اس کا بیرونی دفاع بھی کمزور کر دیا۔ تمام کی تمام یورپی طاقتیں اس سلطنت کے وجود کی دشمن ہوگئیں۔ تب ترکی کے سلطان نے مسلمانانِ عالم کی وفاداری کو یقینی بنانے کے لیے خلیفہ کا لقب اختیار کرلیا حالاں کہ وہ تھی تو اصل میں ملوکیت ہی ،اگرچہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی قوت کی علامت تھی۔
اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ چودہ سو سالہ تاریخ کے دوران مسلمانوں کے نزدیک خلافت کے حقیقی ماہ و سال وہی تھے، جو حضرت ابوبکرؓ کی حکومت سے شروع ہوئے اور حضرت علیؓ کے دور پر منتج ہوئے۔ بجاطور پر اسی کو مثالی دور سمجھا اور کہا جاتا ہے۔ اسلامی اصولوں اور ریاست کے دنیوی تقاضوں کا ملاپ اسی عہد میں ہوا اور نہایت کامیابی کے ساتھ ہوا۔ مسلمان آج تک اگر اسے مثالی مانتے ہوئے اس کی قدروں کا احیا چاہتے ہیں تو یہ کوئی نامناسب خواہش نہیں ہے۔ تاہم، سیاست و ریاست کے نظام و انتظام کو چلانے کے لیے اداراتی سطح اور سماجی سطح پر جو بہت سی نئی صورتیں سامنے آئی ہیں، ان کے مقتضیات قطعی مختلف ہیں۔ تاہم، اس زمانی تبدیلی کے باوجود دین تو وہی ہے اور خلافت ِ راشدہ نے جن دینی اور دُنیوی اقدار کو فروغ دیا ہے، ان اسلامی اقدار کی مظہر ریاست کے قیام کی شدید خواہش اور تمنا ہرمسلمان کے دل میں پائی جاتی ہے، جو ایک فطری امر ہے۔
سیکولر دنیا کے فکری امام افلاطون نے کوئی سوا دو ہزار سال پہلے ’خیالی جنّت‘ (Utopia) کا تصور پیش کیا تھا، جو کبھی وجود میں نہیں آسکی۔ لیکن مغرب کی تمام قوموں کی جدوجہد اس ’خیالی جنّت‘ کے قریب تر تصور تک پہنچنے پر مرکوز رہی ہے۔ اس کی خاطر انھوں نے نظریاتی اور عملی لحاظ سے بے شمار کامیاب و ناکام تجربے کیے ہیں، مگر اپنے معیار یا ’خیالی جنّت‘ کے حصول کو ہمیشہ سامنے رکھا ہے۔ ہماری مثالی ’جنّت‘ تو وہ ہے جو ایک مرتبہ قائم ہوکر اپنا جلوہ دکھا چکی ہے۔ اگرچہ ہمارے اہلِ علم اجتہاد کا نام تو بہت لیتے ہیں، مگر عملی و فکری سطح پر معاملہ بالکل اُلٹ ہے۔خلافت ِ راشدہ کے بارے میں اس بات پر عمومی اتفاق پایا جاتا ہے کہ اس میں جمہوری اسپرٹ رچی بسی تھی۔ جب یہ باقی نہ رہی تو سب کچھ موروثی ہوگیا اور ملوکیت یا بادشاہت چھاگئی۔ مجرد سیکولر جمہوریت کے برعکس مسلمانوں کی جمہوریت کی اوّلین اور بنیادی خصوصیت اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ ہے، تو خلافت ِ راشدہؓ میں بھی بالادست نظریہ یہی تھا۔
اہلِ مغرب کو اس سے تکلیف ہرگز نہیں کہ آپ خلافت کے نام پر کوئی ریاست قائم کرلیں۔ انھیں اصل خدشہ یہ ہے کہ اسلام اور جمہوریت کا دوبارہ ملاپ ہوکر، مسلم دنیا میں، مسلم عوام کی مرضی سے ایک خودکار نظام وضع نہ ہونے پائے۔ کیوں کہ اس طرح تو اسلام اور مسلمان دونوں ہم ساز اور دم ساز (compatible) بن جائیں گے اور صحیح معنوں میں اسلامی جمہوریہ قائم ہوجائے گی۔ اسے اگر خلافت کا نام نہ بھی دیا جائے تو بھی اس کی شورائی اور خلافتی روح اس میں کارفرما ہوسکتی ہے۔ اسی لیے ۲۵سال پہلے جب الجزائر میں اسلامی فرنٹ (FIS)کی منتخب حکومت قائم ہوا چاہتی تھی تو مغربی جبروا ستبداد پورے قہر کے ساتھ اس ملک پر نازل ہوا۔ ہزاروں افراد کا بے دریغ قتل کرکے فرانس اور امریکا نواز آمریت قائم کر دی گئی۔ ۲۰۱۳ء میں مصر جیسے اہم ترین عرب ملک میں محمدمرسی وہاں کے پہلے منتخب صدر ہوئے، جو اسلامی نظریات کے علَم بردار تھے۔ ان کی حکومت ایک سال نہ چلنے پائی تھی کہ اسے فوجی شب خون کے ذریعے اُڑا کر رکھ دیا گیا۔ امریکا و یورپ اور اُن کے زیراثر چند مؤثر مسلم ممالک نے نئی آمریت کی کھل کر حمایت کی کہ کہیں اسلام اور جمہوریت کا ملاپ ظہور میں نہ آجائے۔
پاکستان میں بھی اس تجربے کو کامیاب ہونے سے بار بار روکا گیا۔ ہم نے طویل جدوجہد کے بعد اسلام اور جمہوریت کے امتزاج کا حامل آئین بنایا، جسے باربار اکھاڑ پھینکا گیا یا معطل کردیا گیا۔ امریکا نے ہمارے ہاں ہرفوجی آمریت کی پشت پناہی کی، مگر ابوبکر البغدادی نے ’خلافت‘ کے نام سے خلافت کے تصور کو جو بدنام کرنا شروع کیا، تو اس سے مغرب والوں کی روح بہت مسرور ہوئی۔ اس لیے کہ داعش اور اس کی ہم خیال تنظیموں کی بدولت اسلام اور مسلمانوں کے ماتھے پر ’دہشت گردی‘ کا لیبل چسپاں کرنا آسان ہوگیا ہے اور یہی ان کا مقصود ہے۔ مگر ہمارے بعض دانش ور حضرات خلط مبحث کرتے ہوئے بلاوجہ خلافت کی اصطلاح کے دینی یا غیردینی ہونے کی بحث میں پڑے ہوئے ہیں۔
بحیثیت قوم اور بحیثیت معلم و سیاست دان ، ہماری توجہ، کھلے عام افہام و تفہیم کے ذریعے جمہوری انداز میں نظام کو تبدیل کرنے پر مرکوز ہونی چاہیے، نہ کہ جمہوریت کی مذمت کرتے کرتے اسلام کی شورائی روح ہی کو کچل دینے کا آلۂ کار بن جانا چاہیے۔
عہد حاضر میں جدید تہذیب اور جدید طرزِ زندگی نے آج عموماً ہمارے اصلاح پسند لوگوں میں جو خرابیاں پیدا کردی ہیں، ان میں تین بیماریاں سب سے مہلک ہیں جو خود دینی روح کی نفی کرتی ہیں۔ ان میں ایک تو خود رائی اور انانیت، دوسرے مصلحت پسندی، اور تیسرے دوسروں سے بے گانگی و بے حسی ہے۔
یہ عوارض انسانی معاشرت کے لیے ضرررساں ہیں۔ انھی روّیوں سے معاشرے کا امن و سکون درہم برہم ہی نہیں ہوتا، بلکہ کش مکش اور تصادم کی ایسی فضا ہموار ہوتی ہے، جس میں ہرفرد اپنی ذات اور اپنے مفادات کا اسیر ہوجاتاہے، اور وہ اعلیٰ اقدار و روایات جن سے کسی معاشرے کا حُسن قائم ہوتاہے، بتدریج مٹ جاتی ہیں۔اگر یہ خامیاں نہ ہوں تو باہمی میل جو ل اور تعلقات میں محبت، رواداری اور برداشت و تحمل کی اعلیٰ صفات اور خوبیاں پیدا ہوتی ہیں۔ پرانی معاشرت میں وضع داری، انسانی تعلق کا پاس و لحاظ، ایثار و محبت اور رواداری کی خوبیوں کا توازن مثبت پلڑے میں تھا، جن کی وجہ سے اُس زمانے میں نفسا نفسی اور آپی دھاپی کی ویسی فضا نہ تھی جس کا تماشا ہم آج کی نئی معاشرت میں آئے دن دیکھتے رہتے ہیں۔
جن عوارض کا ذکر کیا گیا، ان کے اسباب کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس صورت حال کا بھی ادراک کرنا ہوگا، جو آج کے انسان کا جبر ہے۔ نئی معاشرت اور نئی جدید تہذیب، یہ سب سائنس و ٹکنالوجی کے فراہم کردہ وسائل و تعیشاتِ زندگی سے عبارت ہے۔ یہ تہذیب بنیادی طور پر مشینوں پر انحصار کرنے کی وجہ سے ایک مشینی اور میکانکی تہذیب ہے، جو خود اپنی اقدار پیدا کرتی ہے۔ اقبال نے اسی لیے مشینوں کی حکومت کو’دل‘کی موت سے تعبیر کیا تھا۔
مشینیں احساسات و جذبات سے عاری ہوتی ہیں۔ جدید تہذیبی زندگی کا انحصار جیسے جیسے مشینوں پر بڑھتا جاتاہے اور انسان ان مشینوں سے حاصل ہونے والی سہولتوں اور آسائشات سے زیادہ سے زیادہ سے بہرہ ور ہونے کے لیے ان کو اپنی ذات اور خاندان کے لیے ناگزیر تصور کرنے لگتا ہے، وہ مجبور ہوجاتاہے کہ ان کے حصول کے لیے اپنی دولت اور آمدنی میں ا ضافے کے لیے خود مشین بن جائے۔ آج کار، ایئرکنڈیشنڈ، واشنگ مشین، فریج، مائیکرو یو اوون، ٹیلی وژن، کمپیوٹر، اور اس نوع کی دوسری مشینیں جو زندگی میں آسانیاں پیدا کرتی ہیں، بنیادی اور ضروری بن چکی ہیں۔ ان کے بغیر زندگی گزارنے کا تصور محال ہوتا جارہاہے۔
ان وسائل کی موجودگی سے جہاں سہولتیں اور آسانیاں حاصل ہوتی ہیں، وہیں ان کے حصول کے لیے آدمی کو کسب معاش کی تدابیر کرنی پڑتی ہیں کہ معاشرے میں انھی سے اس کا سماجی مرتبہ اور ’اسٹیٹس‘متعین ہوتاہے۔ جب جدید شہری معاشرہ دولت اور اسٹیٹس کی دوڑ میں شریک ہوجاتا ہے تو اس میں کامیابی کے لیے اسے اعلیٰ اقدار و روایات جو دوسروں کے لیے خیر خواہی ، ایثار و قربانی ، محبت و مروت، تحمل و برداشت وغیرہ سے عبارت ہوتی ہیں، بدقسمتی سے انھیں خیر باد کہنا پڑتا ہے۔چوں کہ اس ساری مسابقت و مقابلے کا محور و مرکز اپنی ذات اور اپنا گھرانا اور اس کے مفادات ہوتے ہیں،ا س لیے مقابلے میں جیتنے کی شرط ہی خود غرضی، مفاد پرستی ، بے حسی و بے گانگی وغیرہ ہوتی ہے۔
چناںچہ، ہمیں جو اقدار و روایات آج بھی چھوٹے شہروں اور قصبات میں نظر آتی ہیں، ان کے مظاہر بڑے شہروں کی مصروف و مشینی زندگی میں ناپید دکھائی دیتے ہیں۔ گویا جن عوارض کو آج کے انسانوں میں ہم نے ’مہلک بیماری‘سے تعبیر کیا، وہ آج کی شہری زندگی کی مجبوری بھی ہے اور مقدر بھی۔ چھوٹے شہروں اور قصبات و دیہات میں آج بھی لوگوں کے پاس وقت کی فراوانی ہے، اور مہرو محبت اور خلوص کے جذبات ہیں جن کا اظہار مہمان نوازی اور تواضع کی صورت میں وہاںکیاجاتاہے۔ ایسی مہمان نوازی ، دل داری اور تواضع کی توقع آج کے شہری آدمی سے نہیں کی جاسکتی۔ گویا انسان اپنے ماحول کا اسیر ہوتاہے اور یہ ماحول کا جبر ہوتاہے جس میں انسان اپنی خوبیوں یا خامیوں کی نشوونما کرتاہے۔
لہٰذا، شہری زندگی اور مسائل میں گھرے ہوئے آدمی کی جانچ پرکھ کے لیے ان عوامل کو نظر میں رکھا جانا چاہیے۔ آج کا ایک عام شہری جو روزگار کی مجبوری میں صبح گھر سے نکلتا ہے، طویل فاصلے کو طے کرکے، ٹریفک کے ہجوم اور بدنظمی سے ذہنی کوفت و اذیت کو جھیلتے ہوئے دفتر یا کاروبار کے لیے پہنچتا اور پھر شام تک سر کھپا کر واپس ایسی ہی اذیتوں کو سہتے ہوئے گھر لوٹتا ہے، جہاں پہلے سے اُلجھنیں اور پریشانیاں اسے گھیرنے کے لیے تیار بیٹھی ہوتی ہیں۔ ایسے پریشاں حال آدمی سے اعلیٰ اخلاقی صفات کی اُمید رکھنا بجاے خود کم فہمی ہے۔
اس لیے آج کے شہری انسان کو نصیحتوں اور مشوروں کی نہیں، مدد کی ضرورت ہے ۔ پہلے اسے ان بکھیڑوں اور الجھنوں سے نجات دلانے کی ضرورت ہے، جن میں اُلجھ کر وہ دانستہ یا نادانستہ اپنی اخلاقی صفات کھو بیـٹھا ہے یا ان کی نشوونما کرنے اور انھیں اُبھارنے کی طرف سے غافل ہے۔ آج کا شہری انسان ’مظلوم‘ہے۔ اسے ’ظلم‘ کے شکنجے سے نکالے بغیر اس سے اچھا انسان بننے کی توقع ایسی ہی ہے، جیسے ایک کمزور و بیمار انسان کو بستر پر پڑا دیکھ کر اسے کاہلی اور بے عملی کا طعنہ دیا جائے۔ جب وجود کی بقا ایک سوال بن جائے تو انانیت اور خود رائی کا پیدا ہونا فطری امر ہے۔ جب آسایشات اور ضروریات ہی زندگی کی مجبوری یا اوّلین ترجیح بن جائیں تو مصلحت و مفاد پرستی پر اعتراض کو وزن دینے کے لیے کوئی آمادہ نظر نہیں آتا۔ جب تہذیب و معاشرت میں ترقی کے لیے یکساں مواقع، عدل و انصاف اور سیاسی و معاشی نظام میں انسانی ہمدردی، خیر خواہی اور مساوات کے اصول و ضابطے ناپید ہوجائیں، تو افراد اور معاشرے میں بے حسی اور بے گانگی کا پیدا ہوجانا کوئی تعجب خیز امر نہیں رہتا۔
جب کسی معاشرے میں ماحول اور مسائل کے جبر کے تحت انسان زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوجائے تو اس کی شخصیت دولخت ہوجاتی ہے۔ وہ اعتقادات کی سطح پر ایک الگ زندگی اور معاملات کی سطح پر ایک بالکل مختلف و متضاد طرز عمل اختیار کرنے پر مجبور ہوجاتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج معاشرے میں عقیدہ و عمل میں تضاد پیدا ہوگیا ہے۔ ہم جو عقیدہ اور اخلاقی تصورات اپنے ذہن میں رکھتے ہیں، ان عقائد اور اخلاقی تصورات کی روشنی میں معاملات کرناچاہیں بھی تو نہیں کرپاتے۔
آخر کیا وجہ ہے کہ جو لوگ درس قرآن ، درس حدیث اور وعظ و تلقین کی مجلسوں میں اچھے اور نیک خیالات سن کر اپنے اندر سے اپنے ذہن ، ضمیر اور دل سے ان سچائیوں کی تصدیق کرتے ہیں۔ مدرس کے حکیمانہ نکتوں پر ’واہ واہ،سبحان اللہ‘ کے ڈونگرے بھی برساتے ہیں، لیکن ان پاکیزہ جذبات سے سرشار مجلسوں سے نکل کر بھی اکثر ویسے کے ویسے ہی رہتے ہیں، اور چند استثنائی مثالوں کے سوا ان کے عملی معاملات میںکوئی واضح اور قابلِ ذکر تبدیلی جڑ نہیں پکڑتی۔ اس حقیقت کو سمجھے بغیر یہ بات قابلِ فہم نہیں ہوسکتی کہ اگر محض وعظ و تلقین سے انسان بدلے جاسکتے تو آج سارے انسان نیکوکار ہوتے۔ یہ بات کہنے کا مقصد وعظ ، تلقین اور تبلیغ کی افادیت اور اہمیت کا انکار نہیں، بلکہ ان کے ساتھ دیگر پہلوئوں کی جانب توجہ دلانا مقصود ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ انسان اندر سے بھی بدلتا ہے اور باہر سے بھی۔ اگر معاشرتی ، معاشی اور سیاسی نظام اَبتر و مایوس کن ہو تو ایسے نظام کے زیر اثر دکھ، اذیت اور ظلم سہتے انسان کو محض اچھی توقعات کے بَل پر اچھا نہیں بنایا جاسکتا۔ ایسے انسان کو مشورے سے زیادہ ، مدد کی ضرورت ہے۔ مدد کے بغیر مشورہ دینا اور نصیحت کرنا کم فہمی کے ساتھ خود ناصح کی بے حسی ہے کہ جن مریضوں کو وہ ناصحانہ دوائیں تجویز کررہا ہے ، ان کے مرض کے اصل اسباب سے ہی بے خبر ہے یا انھیں جاننے میں وہ غلطی کا مرتکب ہورہا ہے۔
سوال : ظہر اورعصر کی نمازوں میں قراء ت خاموشی سے کی جاتی ہے ، جب کہ فجر ، مغرب اورعشاء کی نمازوں میں بلند آواز سے ۔ اس کی کیا حکمت ہے ؟
جواب:نماز ادا کرنے کا اجمالی حکم قرآن مجید میں دیا گیا ہے اوراللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے تفصیلی احکام بیان کیے ہیں ۔ آپ ؐ نے نماز اد ا کرنے کا طریقہ بھی تفصیل سے بتایا ہے اورخودبھی نمازپڑھ کر دکھائی ہے ۔ حضرت مالک بن حویرث ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک وفد کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوا ۔ ہم لوگ ۲۰ دن ٹھیرے اور آپؐ سے دین سیکھتے رہے۔ جب واپس اپنے گھروں کوجانے لگے تو آپ ؐ نے ہمیں مختلف ہدایات دیں، جن میں یہ بھی فرمایا :
صَلُّوا کَمَا رَاَیْتُمُوْنِی اُصَلِّی (بخاری:۶۳۱) جس طرح مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے ، اسی طرح نماز پڑھنا۔
نماز فجر میں ، اسی طرح مغرب اورعشا ء کی ابتدائی دو رکعتوں میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بلند آواز سے قراء ت کرتے تھے ۔ صحابہ کرامؓ نے بھی اس پر عمل کیا اور اسی پر اب تک عمل چلا آرہا ہے ۔ اس کی کیا حکمت ہے؟ احادیث میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔ حضرت ابوہریرہؓ کے کسی شاگرد نے ان سے سوال کیا کہ کیا ہررکعت میں قرآن پڑھا جاتا ہے ؟ اگر ہاں، توبعض رکعتوں میں بلند آواز سے اوربعض میں بغیر آواز کے کیوں تلاوت کی جاتی ہے ؟ انھوں نے جواب دیا :
فِیْ کُلِّ صَلاَۃٍ یُقْرَاُ ، فَمَا اَسْمَعَنَا رَسُوْلُ اللہِ اَسْمَعْنَاکُمْ ، وَمَا اَخْفٰی عَنَّا اَخْفَیْنَا عَنْکُمْ (بخاری :۷۷۲ ، مسلم: ۳۹۶)نماز (کی ہر رکعت) میں قراء ت کی جاتی ہے۔ جن رکعتوں میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنی بلند آواز سے قراء ت کی کہ لوگ سن لیں، ان میں ہم بھی بلند آواز سے قراء ت کرتے ہیں، اورجن رکعتوں میں بغیر آواز کے قراء ت کی ہے ان میں ہم بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔
بعض علما نے ظہر وعصر کی نمازوں میں خاموشی سے قراء ت کرنے اوردیگر نمازوں میں جہری قراء ت کرنے کی حکمت بیان کی ہے ۔ شاہ ولی اللہ ؒنے لکھا ہے :
ظہر اور عصر میں خاموشی سے قراء ت کرنے کی حکمت یہ ہے کہ دن میں بازاروں اور گھروں میں شورو شغب رہتا ہے ، جب کہ دیگر نمازوں کے اوقات میں ماحول پُرسکون رہتا ہے۔ اس لیے ان میں جہری قراء ت کا حکم دیا گیا تاکہ قرآن سن کرلوگوں کی تذکیر ہواور وہ عبرت ونصیحت حاصل کریں ۔ (حجۃ اللہ البالغۃ ، القاہرہ ، ج۲،ص ۱۵،۲۰۰۵ء)
بہر حال نماز کا اجمالی حکم تو قرآن کریم میں موجود ہے ، لیکن اس کے تفصیلی احکام اور طریقۂ ادایگی ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے ۔ اس لیے ہمیں ٹھیک اسی طرح نماز ادا کرنی ہے جیسے آپؐ ادا کرتے تھے۔(مولانا ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی)
سوال : میں غلہ منڈی میں آڑھت کی دکان کرتا ہوں۔ میرے پاس نقد اور اُدھار کھاد اور کیڑے مار ادویات /اسپرے لینے کے لیے زمین دار آتے ہیں۔ کیا اسلام میں نقد اور اُدھار قیمت میں فرق کا کوئی تصور موجود ہے؟ اگر میں ایک فصل تقریباً چھے ماہ تک کھاد کی بوری کسی کسان کو اُدھار دوں تو اصل قیمت سے کتنی زائد وصول کرسکتا ہوں؟ کیا میرا یہ عمل سود کے زمرے میں تو نہیںآتا؟
جواب :’سود‘ یہ ہے کہ رقم دے کر اس پر اضافہ لیا جائے۔ رقم دے کر چیز خریدنا بیع ہے، اور بیع میں چیز کی قیمت پر اضافہ لینا، یعنی اُدھار کی قیمت زیادہ لی جائے اور نقد کی کم، یہ جائز ہے۔ البتہ اُدھار پر اتنی زیادہ رقم نہ ہو کہ اس گنجایش کو معاشی لُوٹ مار اور بدترین استحصال کا وسیلہ سمجھا جائے اور زمین داروں کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اُٹھایا جائے۔ ظلم کرنے اور دوسروں کی مجبوری سے ناجائز فائدے اُٹھانے والوں کو بہرحال اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دینا ہوگا۔ واللہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)
سوال: میں نے اپنا گھر فروخت کرکے اپنی لڑکی کا بیاہ کیا تھا۔ اس کے بعد ایک بار ایسا خواب دیکھا کہ مجھے کوئی شخص قتل کے الزام میں پھنسانا چاہتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اگرچہ میں بے قصور ہوں مگر احتیاطاً چھپ کر رہتا ہوں۔ دوسری بار پھر یہ خواب دیکھا کہ میں نے محض معمولی قصور پر کسی کو قتل کر دیا ہے۔ ان دو خوابوں کی وجہ سے میں پریشان ہوں۔مہربانی فرما کر اس کی تعبیر بتایئے تاکہ مجھے سکون حاصل ہو؟
جواب :اس وقت خواب پر کوئی تفصیلی گفتگو مقصود نہیں ہے۔ صرف آپ کے سوال کے پیش نظر چند باتیں عر ض کرتا ہوں:
خواب کی دو بڑی قسمیں ہیں: اچھے خواب اور بُرے خواب۔ اچھے خواب، اللہ کی طرف سے ایک قسم کی بشارت کا درجہ رکھتے ہیں۔ مثلاً کوئی شخص خواب میں یہ دیکھے کہ وہ وضو کر رہا ہے، یا نماز پڑھ رہا ہے، یا کعبہ مکرمہ کا طواف کر رہا ہے۔ بُرے خواب عام طور سے دو وجوہ سے آتے ہیں۔ وہ بُرے خیالات جو ذہن و دماغ میں آتے ہیں، وہی خواب میں نظر آجاتے ہیں، یا شیطانی خواب ہوتے ہیں، جو کسی ڈر اور خوف میں مبتلا کرنے کے لیے شیطان دکھاتا ہے۔
بخاری کی کتاب التعبیر میں بعض صحابہؓ کا یہ قول منقول ہے کہ خواب کی تین قسمیں ہیں: ۱-حَدِیْثُ النفس، یعنی دل میں جو وسوسے اور بُرے خیالات آتے ہیں وہی خواب میں دکھائی دیتے ہیں۔ ۲- تخویف الشیطان، یعنی شیطان کسی کو ڈر اور خوف میں مبتلا کرنے کے لیے ڈرائونے خواب دکھاتا ہے۔۳-بشریٰ من ا للّٰہ، یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی بشارت۔
بُرے اور ڈرائونے خوابوں کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم یہ ہے کہ خواب دیکھنے والے کو بیدار ہونے کے بعد شیطان سے پناہ مانگنی چاہیے، مثلاً اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ یا لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ پڑھ کر بائیں طرف تھوک دینا چاہیے، نیز یہ کہ خواب کسی دوسرے سے بیان نہیں کرنا چاہیے۔ اس طرح اس بُرے اور ڈرائونے خواب سے اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ بعض حدیثوں میں یہ بھی ہے کہ بُرا خواب دیکھ کر جب بیدار ہو تو وضو کرکے دو رکعت نفل نماز پڑھ لے۔
مجھے خواب کی تعبیر میں کوئی دخل نہیں ہے لیکن آپ کا خواب یا تو تخویف الشیطان سے تعلق رکھتا ہے یا حدیث النفس سے۔ آیندہ آپ بُرے خواب کسی سے بیان نہ کریں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم پر عمل کریں۔ اس بات کا جائزہ لے لینا بہتر ہوگا کہ کہیں آ پ مغلوب الغضب اور مشتعل مزاج تو نہیں ہیں، یعنی ایسا تو نہیں کہ معمولی باتوں پر آپ کو بہت غصہ آجاتا اور مشتعل ہوجاتے ہوں۔ اگر خدانخواستہ اس طرح کی کوئی بات ہو تو اپنے غصّے اور اشتعال پر قابو پانے کی پوری کوشش کیجیے۔
آپ نے جو ڈرائونا خواب دیکھا ہے اس کو ذہن سے نکال دیجیے اور مطمئن زندگی بسر کیجیے۔ وضو کر کے دو رکعت نفل پڑھ کر شیطان کے شر سے اللہ کی پناہ مانگیے اور اللہ سے دُعا کیجیے تو بہتر ہے۔ ایک بات یہ کہ آپ اپنے ذہن کو بُرے خیالات سے خالی رکھنے کی سعی کیجیے۔ اگر ایسے وسوسے اور بُرے خیالات آئیں تو انھیں فوراً ذہن سے نکال کر اللہ کے ذکر میں مشغول ہو جایا کیجیے۔ آخر میں یہ عرض کر دینا بھی مناسب ہے کہ بُرے اور ڈرائونے خوابوں کا ایک سبب معدے کی خرابی بھی ہوتی ہے۔ اگر ایسا ہو تو کسی اچھے طبیب سے مشورہ کر کے دوا استعمال کرنی چاہیے۔(مولانا سیّد احمد عروج قادری، احکام و مسائل، دوم، ص ۳۰۲-۳۰۴)
سوال : ہمارے گائوں کا قبرستان آبادی سے دُور جنگل میں واقع ہے۔ قبرستان میں ایک جگہ قدرے بلندی پر چند قبور ہیں، جن کے گرد کچی چار دیواری بنی ہوئی تھی جس کی لوگ لپائی کرتے تھے۔ اب لپائی نہ ہونے کی وجہ سے چار دیواری ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی۔ گائوں کے کچھ لوگوں کا اختلاف ہوگیا کہ دیوار بناناجائز ہے یا نہیں؟ اسی دوران میں کچھ لوگ اپنے مویشیوں اور چوپائیوں کوچرانے کے لیے اس جنگل میں لے جاتے ہیں۔ مویشی اور چوپائے قبرستان میں بھی چرتے پھرتے ہیں، قبروں کو پھلانگتے اور گوبر وغیرہ کرتے ہیں۔ ان اُمور کا شرعی حکم معلوم کرنا مقصود ہے: l مخصوص قبروں کی حفاظتی دیوار تعمیر کرنا lٹوٹ پھوٹ کی شکار حفاظتی دیوار کی ازسرِنو تعمیر کرنا l قبرستان کی حفاظتی دیوار تعمیر کرنا l قبرستان میں مویشیوں کو لانا اور چرانا وغیرہ۔
جواب : قبرستان کی حفاظت کے لیے چار دیواری تعمیر کی جاسکتی ہے۔ فیصل آباد میں حکیم عبدالمجید نابینا جو بہت بڑے عالم تھے۔ ان کے ایک بھائی فوت ہوگئے تو انھیں اُس قبرستان میں دفن کیا جانا تھا جس کی چار دیواری نہ تھی۔ حکیم صاحب نے کہا کہ اس کی چار دیواری کی جائے۔ اگلے دن وہ خود بھی فوت ہوگئے تو ان کو بھی اسی قبرستان میں دفن کیا گیا، جس کی چار دیواری ان کی زندگی میں کھڑی کر دی گئی تھی۔ مفتی سیّد سیاح الدین کاکاخیلl بھی اس موقعے پر موجود تھے۔ انھوں نے بھی اس کام کی تائید فرمائی۔لہٰذا، جو چار دیواری شکستہ ہوگئی ہے، اسے دوبارہ تعمیر کیا جاسکتا ہے اور قبر کی لپائی بھی کی جاسکتی ہے۔ جانوروں سے بچانے کے لیے لوگوں کو ہدایت کی جائے کہ قبر پر نہ بیٹھیں؟
احادیث میں قبروں پر بیٹھنے سے بھی منع کیا گیا ہے: عَنْ جَابِرٍؓ قَالَ نَہَی رَسُوْلُ اللہِ اَنْ یُجَصَّصَ الْقَبْرُ، وَاَنْ یُصَلّٰی عَلَیْہِ وَاَنْ یُقْعَدَ عَلَیْہِ (مسلم)، حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو پختہ کرنے سے روکا ہے۔ ان پر نماز پڑھنے اور ان پر بیٹھنے سے بھی منع کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قبر پر بیٹھنے سے قبر خراب ہوتی ہے، اس کی بے ادبی ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں قبروں کی حفاظت ضروری ہے۔ واللہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)
سوال :ہمارے ایک عزیز کا ابھی انتقال ہوا ہے ۔ ان کی کوئی اولاد نہیں ہے، صرف بیوہ ہے ۔ اس کے علاوہ حقیقی بھائیوں کی اولاد میں سے دو بھتیجے اورنوبھتیجیاں ہیں، اورباپ شریک سوتیلے بھائیوں کی اولاد میں سے آٹھ بھتیجے اورچار بھتیجیاں ہیں ۔ ان کے درمیان میراث کس طرح تقسیم ہوگی؟
جواب:اولاد نہ ہو نے کی صورت میں بیوی [بیوہ]کا حصہ چوتھائی (النساء۴:۱)، جب کہ بقیہ حقیقی بھتیجوں کے درمیان تقسیم ہوگا مگر بھتیجیوں کو نہ ملے گا ۔ اسی طرح حقیقی بھتیجوں کی موجودگی میں سوتیلے بھتیجوں کوبھی کچھ نہ ملےگا۔(مولانا ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی)
سوال : اگر کوئی شخص سنت جمعہ پڑھ رہا ہو کہ جمعہ کا خطبہ شروع ہوجائے ، کیا خطبہ سننے کے لیے سنت کو چھوڑ دینا چاہیے؟ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ چوں خطبہ سننا واجب ہے، لہٰذا اس واجب پر عمل کرنے کے لیے سنت چھوڑنا ضروری ہے۔ صحیح کیا ہے؟
جواب :سنت شروع کرنے کے بعد خطبہ شروع ہو تو صحیح یہی ہے کہ سنت کو پوری کرے، توڑے نہیں۔ مشہور فقیہ علّامہ ابن نجیم مصریؒ نے یہی لکھا ہے کہ سنّت مکمل کرلے: اِذَا شَرَعَ فِی الْاَرْبَعَۃِ قَبْلَ الْجُمُعَۃِ ثُمَّ افْتَتَحَ الْخُطْبَۃَ… تَکَلَّمُوْا فِیْہِ وَالصَّحِیْحُ اَنَّہٗ یَتِمُّ وَلَا یَقْطَعُ (البحرالرائق، ج۲، ص ۲۷۱)۔ (مفتی محمد ظفرعالم ندوی)
سوال : اگر خطبہ ایک شخص دے اور نماز دوسرا شخص پڑھائے، تو کیا شرع میں اس کی اجازت ہے، اور کیا امام ہی کے لیے خطبہ دینا ضروری ہے؟
جواب :بہتر طریقہ یہی ہے کہ ایک ہی شخص خطبہ بھی دے اور نماز بھی پڑھائے، لیکن اگر دو الگ الگ افراد نے الگ الگ ذمہ داری انجام دی، ایک نے خطبہ دیا اور دوسرے نے نماز پڑھائی تو یہ بھی درست ہے۔ اس سے نہ خطبہ پر کوئی اثر پڑے گا اور نہ نماز پر۔ علامہ شامی نے اس کی صراحت کی ہے: فَلَا یَنْبَغِیْ اَنْ یُقِیْمَھَا اِثْنَانِ وَ اِنْ فَعَلَ جَازَ (رد المختار، ج۳، ص۱۱)۔ (مفتی محمد ظفرعالم ندوی)
مولانا حکیم عبدالمجید سوہدروی۔ مسلم پبلی کیشنز، ۲۵-ہادیہ حلیمہ سنٹر ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات:۳۳۸۔ قیمت: درج نہیں۔
سیرتِ النبیؐ کے بحرِ ناپیدا کنار موضوع پر لکھنا ایک مسلمان کے لیے سعادت اور خوش بختی کا باعث ہے۔ بعض سیرت نگار، بجا طور پر اِسے آخرت میں نجات کا ذریعہ بھی کہتے ہیں۔ مولانا حکیم عبدالمجید سوہدروی نے رہبرِکامل کے عنوان سے سیرت پر جو کتاب لکھی، اُسے اُن کے فرزند مولانا محمد حکیم محمد ادریس فاروقی نے حواشی اور تخریج کے ساتھ شائع کیا۔ اب ان کے بیٹے (اور مصنّف کے پوتے) جناب نعمان فاروقی اسے مزید اضافوں کے ساتھ منصہ شہود پر لائے ہیں۔
مصنّف ِعلّام نے دیباچے میں ایک جگہ لکھا ہے: ’’یسوع مسیح، مہاتما گوتم بدھ، کرشن جی، گروگوبندسنگھ، بابا نانک صاحب، رام چندر جی انسانی زندگی کا مکمل نمونہ ہیں۔وہ بے شک بزرگ ہیں، قابلِ احترام ہیں مگر ضروریاتِ زندگی اور دنیوی معراج و ترقی کے متعلق اپنی زندگی میں کوئی سبق نہیں رکھتے‘‘(ص۳۳)۔ دیگر اکابر کے بارے میں تو ممکن ہے، یہ بات صحیح ہو مگر حضرت مسیح علیہ السلام کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ ’’انسانی زندگی کا مکمل نمونہ نہیں تھے، یا ضروریاتِ زندگی اور دنیوی معراج و ترقی کے متعلق اپنی زندگی میں کوئی سبق نہیں رکھتے‘‘، درست نہیں ہے۔
زیرنظر کتاب کی خوبی یہ ہے کہ اِس میں واقعاتِ سیرت کے ساتھ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ۱۹مختلف حیثیات (شوہر، باپ، مبلّغ، تاجر، فاتح، حکمران، زاہد، عابد، منصف، طبیب، سخی، شہری، پیرومُرشد، معلّم، خوش مذاق، مصلح) پر ایک ایک باب باندھا گیا ہے اور ان حیثیات سے آپ کی انفرادیت کو نمایاں کیا گیا ہے۔ کتاب اہتمام سے شائع کی گئی ہے۔تقریظ پروفیسر عبدالجبار شاکر مرحوم نے لکھی ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
محمد انور حیات محمد۔ ناشر: بلیسنگ پبلشرز، لالہ زار، لاہور۔ فون: ۴۲۱۷۹۲۵-۰۳۲۱۔ صفحات: ۲۱۶۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔
مصنف نے یہ کتاب اپنے تئیں ’کالجوں اور یونی ورسٹیوں کے تعلیم یافتہ افراد کے لیے جدید اسلوب‘ میں لکھی ہے کیوں کہ ’ایک ایسی کتاب کی ضرورت تھی‘ جو ’کئی کتابوں سے بے نیاز کردے‘(ص ۱۳-۱۴)۔ مگر ہماری راے میں اگر اسے سیرت کی ایک مربوط اور مکمل کتاب سمجھ کر پڑھا جائے گا تو مایوسی ہوگی۔
ولادت سے وفات تک آں حضوؐر کی زندگی کے اہم واقعات کو صرف گیارہ صفحات میں سمیٹ دیا گیا ہے۔ آں حضوؐر پر فقط ایک سوانحی مضمون ہے، جب کہ باقی پوری کتاب متفرقات و متعلقاتِ سیرت پر مشتمل ہے، مثلاً چند عنوانات : lقرآن میں آپؐ کا مقام l ختمِ نبوت پر دلائل lعلامہ اقبال کا خراجِ تحسین l نپولین اور دیگر نام وَر غیرمسلم اکابرین کا خراجِ تحسین۔ (اِسی ضمن میں یوسف ایسٹس کا ۱۶ صفحات کا انگریزی مضمون ۔اُردو کتاب میں اس کی شمولیت کا کوئی محل نہیں ہے)۔ آخر میں قرآنِ مجید کے ’خالص اسلامی موضوعات اور مضامین‘ اور مضامینِ قرآنِ حکیم (ایک اشاریہ) جس سے پتا چلتا ہے کہ قرآن میں کہاں کہاں اسلام کی مطلوبہ خوبیوں (سچائی، صبروتحمل، درگزر، رحم، مہربانی، شکرگزاری، مسائل کا حل، اسلامی حکومت وغیرہ) کا ذکر ملتا ہے۔
اُردو قارئین کے لیے انگریزی عنوانات بلاضرورت ہیں۔ کتاب کے نام کے ساتھ اندرونی اور بیرونی سرورق پر Supreme Blessing لکھنے کی وجہ ؟ اس طرح عنوانات: Supreme Authority اور Supreme Classic کی ضرورت نہ تھی۔ اشاعتی اور طباعتی معیار اطمینانِ بخش ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)
(ترجمہ : محمد نصراللہ خاں خازن ) ۔ ناشر : مکتبہ تعمیر انسانیت، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار ،لاہور۔ فون:۳۷۳۱۰۵۳۰-۰۴۲۔ صفحات : ۳۹۲۔ قیمت : ۴۸۰ روپے۔
مسلم دنیا میں بیداری کی موجودہ لہر میں ،اقبال ،حسن البنا ،مولانا مودودی اور سید قطب شہید کا شمار قائدین کی حیثیت سے ہوتا ہے۔
سیّد قطب بنیادی طور پر ادیب تھے، لیکن ۴۰سال کی عمر میں جب انھوں نے ایمان کی تازگی اور شیفتگی سے قرآن کریم کا مطالعہ کیا تو ان کی زندگی کا رُخ تبدیل ہو گیا۔ پھر ۲۹ اگست ۱۹۶۶ء کو پھانسی کی سزا پانے تک ان کا قلم، ان کا تخیل اور اظہار وبیان کا ہر پیرایا ، اسلام اور صرف اسلام کے پیغام کو عام کرنے کے لیے وقف رہا۔ زیر نظر کتاب میں سید قطب شہید نے قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں فکر آخرت کو بیدار کرنے اور تازہ رکھنے کے لیے اِس دنیا میں ایمان اور اُس دنیا میں جواب دہی کی ہیبت اور ذمہ دارانہ سوچ کو اس انداز سے مربوط کر کے پیش کیا ہے کہ قرآن کا منشا قرآنی و ادبی پیرایے میں قاری کو جھنجوڑ تا ہے۔
نصراللہ خاں خازن مرحوم نے مصنف کے اسلوب نگارش کو اردو میں منتقل کرنے کے لیے خاصی محنت سے خدمت انجام دی ہے۔ پہلے پہل اس ترجمے کی اقساط ماہ نامہ چراغِ راہ کراچی میں شائع ہوتی رہیں،بعد میں انھیں یک جا کتابی شکل میں ڈھالا گیا۔ کتاب کا پیش لفظ استاد الاساتذہ ڈاکٹر سیّد محمد عبداللہ نے تحریر کیا ہے: ’’سیّد صاحب مرحوم، مصر جدید ( اور بالواسطہ عالم اسلام ) میں اسلامی انقلاب کے عظیم داعی اور زندگی میں دین کی اہمیت کے فلسفے کے نامور مفکر اور تحریک اسلامی کے بطل جلیل تھے۔ سید صاحب عظیم مجاہد ہونے کے علاوہ بے نظیر و بے عدیل مصنف بھی تھے۔ افسوس کہ الحادی استبداد نے یہ چراغ گل کر دیا۔ لیکن غور کیجیے تو ایسے چراغ درحقیقت گل نہیں ہوا کرتے ، فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ خون شہادت اس کی ضیا کی افزونی کا سامان بن جاتا ہے ، اور یہ ضیا پہلے سے زیادہ نُور افگن اور شعاع ریز ہو جاتی ہے‘‘۔ (ص ۱۳-۱۴)
دعوت و تربیت، اور تذکیر کے لیے یہ کتاب ایک قیمتی مآخذ ہے۔ (سلیم منصور خالد )
مرتبہ : پروفیسر عبدالجبار شاکر (ترتیبِ نو : ڈاکٹر خالد ندیم )۔ ناشر : نشریات ، الحمد مارکیٹ ، اُردو بازار، لاہور۔ فون : ۴۵۸۹۴۱۹-۰۳۲۱۔صفحات : ۳۲۷۔ قیمت : درج نہیں ۔
علامہ اقبال نے اسلامی فکر کی اشاعت وترویج کے لیے معروف معنوں میں شعر وسخن کو اظہار کا وسیلہ بنایا۔ اس ضمن میں فارسی اور اردو شاعری نے عوام الناس میں ایمان کی جوت جگائی اور بیداری کا پیغام عام کیا۔ جس طرح ان کی شاعری کو قبول عام حاصل ہوا، اس طرح نثرِ اقبال کی اشاعت پر زیادہ توجہ نہ دی جاسکی۔ حالاں کہ اقبال کی انگریزی اور اردو نثر میں فکرو رہنمائی کا خزانہ موجود ہے، خصوصاً اُردو میں ان کے مکاتیب، نثراقبال کا نہایت وقیع ذخیرہ ہے۔
زیر نظر کتاب کے سرورق سے قاری یہ تاثر لیتا ہے کہ اقبال کے انتقال کے ۷۹ سال بعد نثرِ اقبال پر شائع ہونے والی یہ کتاب (مکاتیب اقبال کو منہا کر کے) ان کی نثر اُردو کی جامع ہوگی، مگر یہ کتاب ان کی کُل ۱۲ تحریروں پر مشتمل ہے۔ جن میں سے پانچ تو ان کے دیباچے ہیں اور باقی سات چھوٹے بڑے نثرپارے۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی اردو میں اقبال کا اتنا ہی نثری ذخیرہ ہے؟
شاکر صاحب نے ہر تحریر کا پس منظر واضح کیا ہے اور بڑی محنت سے ہر تحریر کی مختلف اشاعتوں کے گوشوارے مرتب کر کے اختلافاتِ متن کی نشان دہی بھی کی ہے، مگر یہ نہیں بتایا کہ کون سا متن قابلِ ترجیح ہے؟ اور کسے نسبتاً صحیح سمجھا جائے۔
کتاب کی تدوین اور حواشی تعلیقات کے لیے ڈاکٹر خالد ندیم نے خاصی محنت کر کے کتاب کو وقیع بنا دیا ہے ۔ فکر اقبال کی تفہیم میں یہ کتاب معاونت کر سکتی ہے ۔ (سلیم منصور خالد )
حصہ اوّل، تالیف: محمود عالم صدیقی۔ ناشر: زیک بُکس، دکان نمبر۳-۴، مدینہ اپارٹمنٹ، پلاٹ نمبر۱۳-بی، بلاک۲، بی، ناظم آباد۲، کراچی۔ فون: ۳۶۶۰۴۰۵۲- ۰۲۱۔ صفحات: ۶۴۸، قیمت: ۹۰۰ روپے۔
زیرنظر کتاب کا موضوع جماعت اسلامی پاکستان کی تاریخ ہے اور یہ مجموعہ اس سلسلے کے پہلے حصے پر مشتمل ہے، جس میں مولانا مودودی کے دورِ امارت کو موضوعِ بحث بنایا گیا ہے۔
تاریخ نگاری کے کئی درجے اور متعدد پیمانے ہیں۔ کوئی فرد اپنے مشاہدات کی بنیاد پر وقائع لکھ کر تبصرہ کرتا ہے۔ کوئی محض واقعات کو اپنے ذوق کی مناسبت سے مرتب کردیتا ہے۔ کوئی فرد اُس زمانے کے سیاسی و سماجی احوال کی روشنی میں واقعات و حوادث کو درج کر کے انھیں امتزاج اور تجزیے کی سان پر پرکھتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔
زیرنظر کتاب تاریخ نگاری کی دوسری قسم پر مشتمل ہے۔ ۱۹۴۷ء تک کی تاریخ جماعتِ اسلامی کو اسعد گیلانی، آباد شاہ پوری اور چودھری غلام محمد مرحوم نے بخوبی موضوعِ سخن بنایا ہے، جب کہ اس کتاب میں ۱۹۴۷ء سے ۱۹۷۲ء تک کے واقعات اور معاملات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ چیدہ چیدہ واقعات کو گردوپیش کی صورتِ حال کے پس منظر کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ ہرچند کہ معلومات کو یک جا کرنے میں محنت کی گئی ہے لیکن تجزیاتی مطالعے اور امتزاج کی تشنگی محسوس ہوتی ہے۔
پیش کش کو زیادہ بہتر بنانے کی گنجایش موجود ہے۔ تاہم، جماعت اسلامی کراچی مبارک باد کی مستحق ہے کہ متعدد تحقیقی اداروں کی موجودگی کے باوجود اس کی سرپرستی سے یہ منصوبہ رُوبۂ عمل آیا ہے۔کتاب کا پیش لفظ جناب سیّد منورحسن نے تحریر فرمایا ہے۔(سلیم منصور خالد)
مرتبہ : انعام الرحمٰن شانگلوی، محمد اسرار مدنی۔ ناشر : مکتبہ حقانیہ، جی ٹی روڈ، اکوڑہ خٹک (کے پی کے) ۔برقی پتا: editor_alhaq@yahoo.com۔ صفحات:۶۱۰۔قیمت :۳۰۰ روپے۔
برطانوی سامراج نے غلام ہندستان میں جہاں بہت سے فتنو ں کو ہوا دی، وہیں ایک بڑا فتنہ قادیانیت کی صورت میں کاشت کیا۔ علماے حق نے ابتدا ہی میں اسے پہچان لیا اور علمی ومکالماتی سطح پر مقدور بھر اس کا رد بھی کیا۔ تحفظ ختم نبوت کے اس شعور نے علما کے ساتھ جدید تعلیم یافتہ دانش وروں کی غیرت دینی کو بھی بیدار کیا۔ جن میں نمایاں ترین نام علامہ محمداقبال کا ہے، جنھوں نے فیصلہ کن انداز میں جعلی نبوت کی تردید فرمائی ۔
زیر نظر کتاب اس اعتبار سے ایک مبارک کاوش ہے کہ جس میں شمالی پاکستان (خیبر پختونخوا) کے معروف دارالعلوم کی ان علمی ،تحقیقی ،مجلسی اور صحافتی سرگرمیوں کو یک جا پیش کر دیا گیا ہے، جن میں ختم نبوت کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے ہر اہم لمحے کے دوران بروقت گواہی دی گئی۔
کتاب کے سات ابواب میں قادیانیت کی مذہبی، سیاسی اور سازشی حرکات کی مدلل طریقے سے تردید کی گئی ہے اور مثبت انداز سے قوم کی رہنمائی کی گئی ہے کہ وہ اس حساس مسئلے کو کن پہلوئوں سے سمجھیں اور بیدار رہیں۔
زیر نظر کتاب میں بعض ایسی معلومات افزا تفصیلات درج ہیں جن سے آج کے بیش تر قاری ناواقف ہیں۔ ایک مثال ملاحظہ کیجیے: عوامی نیشنل پارٹی کے لیڈر عبدالولی خاں نے ۱۹۸۵ء میں کہنا شروع کیا کہ ’’ہم قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے حامی نہیں تھے‘‘۔ حالاںکہ ان کا یہ دعویٰ غلط بیانی ہے، کیوںکہ قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے سے متعلق جو ترمیمی بل ستمبر ۱۹۷۴ء میں پاکستانی پارلیمنٹ میں پاس ہوا، اس پر عبدالولی خاں پارٹی کے نمایندے غلام فاروق خاں صاحب نے پارٹی کی نمایندگی کرتے ہوئے دستخط کیے تھے۔ انگریز حکومت، قادیانیت کی سرپرستی اس نسبت سے کرنے میں سرگرم تھی کہ اس کے ہاتھوں جہاد کو منسوخ کرنے کا جھوٹ گھڑ کر برطانوی سامراج کو مذہبی حوالے سے قابلِ قبول بنانے میں رول ادا کرے۔ ہندستان ٹائمز (یکم جنوری ۱۹۸۶ء) نے لکھا تھا کہ خان عبدالغفار خاں (باچاخان) کے والد بہرام خاں نے ۱۸۵۷ ء کی جنگ آزادی میں حُریت پسندوں کے مقابلے میں انگریزوں کا ساتھ دیا اور اس کے بدلے میں بھاری جاگیر حاصل کی (ص ۵۷۸) ۔ انھی کے پڑپوتے اسفندیار آج خیبر پختونخوا میں پشتون قوم پرستی اور سیکولرزم کے نعروں کے ساتھ سرگرمِ کار ہیں۔(سلیم منصور خالد )
مصنف: لالہ صحرائی۔ ناشر:لالہ صحرائی فائونڈیشن، ملتان بہ اشتراک نعت ریسرچ سنٹر، کراچی۔ ملنے کا پتا: کتاب سراے، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۱۰۷۶۔ قیمت: ۱۵۰۰ روپے۔
لالہ صحرائی دورِحاضر کے معروف نثرنگار تھے۔ افسانوی اور غیرافسانوی ادب کی مختلف اصناف میں بیسیوں نگارشات ان کے قلم سے نکلی ہیں۔ آخری عمر میں ان کی بڑی آرزو تھی کہ وہ نعت کے ذریعے آں حضوؐر کو ہدیۂ عقیدت پیش کرسکیں۔ کرنا خدا کا یہ ہوا کہ ۱۹۹۵ء میں جب وہ عمر کے ۷۰ویں سال میں تھے، اُن پر نعتوں کا نزول ہوا اور پھر انھوں نے اتنی تیزی کے ساتھ نعتیں اور نعتیہ غزلیں، اور نعتیہ مثنویاں اور حمدیں لکھیں کہ تقریباً ہرسال اُن کا ایک مجموعہ تخلیق ہوجاتا تھا۔
جناب لالہ صحرائی اِس اعتبار سے خوش قسمت انسان تھے کہ انھیں ستّر برس کی عمر میں نعت گوئی کی توفیق ارزانی ہوئی۔ پھر وہ خوش بخت ہیں کہ اُن کے لائق بیٹے ڈاکٹر نویداحمد صادق اور جاوید احمد صادق اپنے والد کی شاعری کو کتابی شکل میں شائع کرنے کا اہتمام کرتے رہے۔ اب اس جملہ شعری ذخیرے کو کلیاتِ لالہ صحرائی کے عنوان سے مرتب کر کے انھوں نے شائع کر دیا ہے۔
چند برس پہلے لالہ صحرائی کی شخصیت اور ان کے فکروفن پر مضامین کے دو مجموعے یادنامۂ لالہ صحرائی ، تذکرۂ لالہ صحرائی شائع ہوچکے ہیں۔ زیرنظر کلیات میں پندرہ کتابیں شامل ہیں۔ لالہ صحرائی کا ایک مجموعہ نعت و ہُلارے پنجابی میں ہے۔ انھوں نے بچوں کے لیے بھی شاعری کی۔ گل ہاے حدیث، ایک سو سے زائد منتخب اور مختصر احادیث کا منظوم ترجمہ ہے۔ یہ سب چیزیں زیرنظر کلیات میں شامل ہیں۔ اِس طرح یہ کلیات بقول ’’پیش گفتار نویس (ڈاکٹر خورشیدرضوی) لالۂ صحرائی کی شعری متاع کی بھرپور نمایندگی کرتی ہے‘‘۔معروف نعت گو اور نقاد ڈاکٹر ریاض مجید نے دیباچے میں لکھا ہے: ’’زیرنظر کلیات میں بیک کتاب، ان کی ساری مساعی اور کارِ نعت کا حجم دیکھ کر ان کی شعری قدوقامت کا صحیح اندازہ ہوتا ہے۔ کلیات سے اُن کی نعت کے فکری اور فنی محاسن کے مطالعات کے نئے نئے زاویے سامنے آئیں گے‘‘۔
اہم بات تو یہ ہے کہ لالہ صحرائی مرحوم و مغفور کی ذاتی زندگی اسلام کی سربلندی کے لیے تگ و دو کرنے والے ایک پُرخلوص مسلمان کی زندگی تھی۔ اِسی لیے اُن کی نعت میں آں حضوؐر کی محبت میں ایک والہانہ پن نمایاں ہے۔ اُردو نعت گوئی کے ذخیرے میں یہ مجموعہ ایک قابلِ لحاظ اضافے کا موجب ہوگا۔ کلیات بڑے اہتمام سے شائع کی گئی ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
ڈاکٹر امیرفیاض پیرخیل۔ ناشر: شعیب سنزپبلشرز اینڈ بک سیلرز، مینگورہ، سوات۔ صفحات: ۲۳۲۔ قیمت: ۲۳۰ روپے۔
سوات کے ڈاکٹر امیرفیاض پیرخیل قبل ازیں قلم ہے تلوار نہیں کے عنوان سے کالموں کا مجموعہ شائع کرچکے ہیں۔ زیرنظر دوسرا مجموعہ ہے۔ مقدمے میں کہتے ہیں: ’’میں کتاب لکھوں یا کالم، میرا مقصد صرف رضاے الٰہی ہوتا ہے۔میں اپنا قلم نیک نیتی سے استعمال کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتا ہوں کہ وہ میری رہنمائی فرمائے‘‘۔
قارئین اندازہ کرسکتے ہیں کہ امیرفیاض صاحب نے کتنی ذمہ داری، خلوصِ نیت اور احتیاط سے یہ کالم لکھے ہیں۔ ان کا زاویۂ نظر مثبت اور اسلامی ہے۔ کالموں کے موضوعات وہی ہیں جن پر معاصر صحافت میں لکھا جارہا ہے، مثلاً چند عنوانات: امریکا پاکستان کا دوست اور اسلام دشمن، اسرائیل سے خوف زدہ عرب حکمران اور ان کا علاج، ملکی ہیروز: زیرو، جہانزیب کالج کا المیہ، جماعت اسلامی کا قصور کیا ہے؟ملالہ نے سواتیوں کو ملال کیا، عابدشیر کو لگام دی جائے، وغیرہ۔ یہ کتاب صحافتی ادب میں اس لیے بھی ایک قابلِ توجہ اضافہ ہے کہ لکھنے والے کا تعلق سیاست و صحافت کے مراکز سے نہیں بلکہ ایک دُورافتادہ خطے سے ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
عبدالکریم عابد۔ ناشر : ادارہ معارف اسلامی منصورہ ،لاہور۔ فون: ۳۵۲۵۲۴۱۹-۰۴۲۔ صفحات : ۱۲۰۔ قیمت : ۱۶۰ روپے ۔[مصنّف نے اُمت مسلمہ کے زوال وانحطاط کے اسباب کا جائزہ لیتے ہوئے مسلم اہل دانش کی آرا اور مغربی دانش وروں کا نقطۂ نظر بیان کیا ہے۔ عام طور پر زوال پر غور کرتے ہوئے مرض اور نتائج مرض کو آپس میں خلط ملط کر دیا جاتا ہے۔ اصل چیز مرض کی صحیح تشخیص ہے۔ اسی غرض کے پیش نظر مفکرین ملت کے افکار کا نچوڑ پیش کیا گیا ہے اور غوروفکر کی دعوت دی گئی ہے۔]
محمد عبدالغفور۔ ناشر : پاک پبلی کیشنز، آفس نمبر ۵، فلور نمبر ۴، لیگیسی ٹاور، کوہِ نور سٹی ، جڑانوالہ روڈ فیصل آباد ۔ فون: ۸۵۵۷۱۱۷-۰۴۱۔صفحات : ۱۵۶۔ قیمت: بلامعاوضہ۔[اسلام میں نکاح آسان ہے۔ جہیز بارات مہندی، بری وغیرہ محض مقامی رسوم ہیں۔ گھریلو ضروریات کا سامان فراہم کرنا مرد کی ذمہ داری ہے ، نہ کہ دلہن کے گھر والوں کی۔ نبی کریم ؐ نے خود اپنی تمام ازواج مطہرات کو گھر کا سامان فراہم کیا۔ حضرت فاطمہ ؓ کو جہیز دینے کی حقیقت یہ ہے کہ وہ سامان حضرت علیؓ کے پیسوں سے خریدا گیا تھا ۔ بارات کا تصور ہندوانہ ہے۔ ۵۶ سے زائد مسلمان ممالک میں، سواے ہندستان اور پاکستان کے، کہیں بھی بارات کا تصور نہیں پایا جاتا۔ قرآن میں بھی جہیز کا تذکرہ نہیں ہے۔ان نکات پر مشتمل یہ کتاب سنتِ رسولؐ کے مطابق نکاح کو عام کرنے اور اصلاحِ معاشرہ کی غرض سے مرتب کی گئی ہے۔ ]
محمداکرم طاہر۔ ناشر: علم و عرفان پبلشرز، ۴۰-اُردو بازار، الحمدمارکیٹ، لاہور۔ فون: ۳۷۳۵۲۳۳۲۔صفحات: ۲۴۰۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔[تقریر اور خطابت ایک خدادادفن ہے لیکن کوشش اور محنت سے، ہر ایک کے لیے اس فن میں کامیابی ممکن ہے۔ محنتی مقررین کے لیے پروفیسر محمد اکرم طاہر نے مخصوص موضوعات پر دو درجن سے زائد انگریزی تقاریر کا مجموعہ شائع کیا ہے۔ایک حصے میں مشرق و مغرب کی معروف شخصیات (نبی کریمؐ، حضرت موسٰی ، حضرت یوسفؑ، شیکسپیئر، برک، محمد علی جوہر، سیّد مودودی، ذوالفقار علی بھٹو، جارج بش، ٹونی بلیئر، ہیوگو شاویز، احمدی نژاد) کی تقاریر کے تراجم بھی شامل ہیں۔ اُردو تقریروں کے مجموعے تو بہت ہیں، انگریزی تقاریر کا شاید یہ پہلا مجموعہ ہے۔ تقریری مقابلوں میں حصہ لینے والے طلبہ و طالبات کے لیے یہ کتاب بہت اچھی معاونت کرے گی۔]
سیّدانجم جعفری: حیات و ادبی خدمات، مرتب: سیّد وقاص جعفری۔ ملنے کا پتا: مکان ۲۴-بی، پی سی ایس آئی آر سوسائٹی، فیز I، کینال روڈ، لاہور۔ فون: ۴۲۳۷۰۲۱-۰۳۰۰۔ صفحات:۱۹۸۔ قیمت: درج نہیں۔ [سیّد انجم جعفری معروف شاعر اور نعت گو تھے۔ تعلیم و تعلّم اور درس و تدریس کے ساتھ عمربھر تحریکِ اسلامی سے وابستہ رہے۔ بہت پختہ فکر شاعر اور عمدہ نعت گوتھے۔ سیّدوقاص جعفری نے اپنے والد کی شخصیت اور ادبی خدمات پر مضامین کا مجموعہ شائع کیا ہے۔ یہ خوب صورت مجموعہ یادآوری کی ایک اچھی مثال ہے۔ ]
عالمی ترجمان القرآن ( مئی ۲۰۱۷ء) میں ایک مختصر مضمون: ’یہ بیانیہ سازی کا کھیل‘ بہت اہم سوالات کا جواب تلاش کرنے کی کامیاب کوشش ہے۔ خیر خواہی کے جذبے سے لکھی گئی یہ تحریر متلاشیانِ حق کے لیے یقینا باعث ہدایت و اطمینان ہوگی۔ لیکن جو لوگ اَنا پرستی کے غلام ہیں، و ہ شاید اس سے کوئی فائدہ نہ اُٹھا سکیں۔
آخری پیراگراف کا یہ جملہ ’’ایسی وعدہ معاف دانش کی عمر مچھر کی زندگی سے زیادہ حقیر ہے‘‘، پڑھ کر ایک واقعہ یاد آیا ۔ اس ’بیانیہ ساز‘ گروہ کے ایک رکن نے چند سال پہلے کالم میں پاکستانی مسلم معاشرے کے دینی اور علمی ذوق کا ماتم کرتے ہوئے اعتراف کیا تھا کہ: مجھے تلاش کے باوجود پاکستان بھر کے کتب خانوں، علمی اور تعلیمی اداروں میں ڈاکٹر فضل الرحمٰن صاحب کی کوئی کتاب دستیاب نہ ہو سکی۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر فضل الرحمٰن، سابق صدر فیلڈ مارشل ا یوب خان کے مذہبی بیانیہ ساز تھے اور جو اسلام کا ایساایڈیشن پیش کر رہے تھے جو سیکولر اقلیت کو قابلِ قبول ہو۔ اسی ذہن کو مطمئن کرنے کے لیے ایوب خان نے پاکستان کے نام سے ’اسلامی جمہوریہ‘ کا لفظ ہٹانے اور ایک سیکولر آئین نافذ کرنے کی بھرپور کوشش کی، مگر بالآخر منہ کی کھائی۔ یاد رہے، اَناپرستی کے جذبے کے تحت تخلیق کیا گیا ’اسلام‘ کبھی قبول نہیں کیا گیا۔ مسلم اجتماعی ضمیر ایسے خیالات اور فلسفوں کو تھوڑے ہی عرصے کے اندر ردی کی ٹوکری کا رزق بنا دیتے ہیں۔
ترجمان میں مضمون نگار نے لکھا ہے کہ: ’’بیانیہ ساز، سیّد قطب شہید کے عہد کے جبر کو نہیں جان سکتے اور نہتے کارکنوں کی قتل و غارت گری کا ادراک نہیں کر سکتے، نیز ناصر اور جنرل سیسی کی جیلوںمیںسسکتی انسانیت اور صلیبوں پر لٹکتے لاشے اور جیل میں کتوں کے جبڑوں میں بھنبھوڑی جاتی عفت مآب خواتین کی آواز ان کے کانوں سے نہیں ٹکراتی‘‘۔ میں اختلاف کرتے ہوئے عرض کروں گا کہ ایسا بالکل نہیں ہے۔ یہ لوگ سیّدقطب شہید ؒکے عہد کے جبر سے ہرگز لا علم نہیں ہیں ۔ ناصر اور سیسی کی جیلوں میں سسکتی انسانیت سے بھی یہ خوب اچھی طرح واقف ہیں، جیلوں میں عفت مآب خواتین کی چیخیں بھی ہر روز ان کے کانوں سے ٹکراتی ہیں۔ مگراس کے باوجود یہ لوگ اس ظلم و جور کے طرف دار اور پشتی بان ہیں۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ دنیا بھر میں سامراجی قوتوں اور حریت اور آزادی پسند مظلوموں کے درمیان برپا کش مکش میں یہ لوگ کس کے ساتھ ہیں؟ فلسطین میں قبلہ اول کی آزادی کے لیے بروے کار شیخ احمد یاسین شہید کے وارثوں کے ساتھ ہیں، یا اسرائیل اور امریکا کے مقرر کردہ محمودعباس کے ساتھ ؟ یہ لوگ مصر میں حسن البنا شہید، ڈاکٹر عبدالقادر عودہ شہید، سیّد قطب شہید، زینب الغزالی،جیل میں قید اخوان المسلمون کے موجودہ مرشدعام، اور منتخب جمہوری صدر ڈاکٹرمحمد مرسی کے ساتھ ہیں، یا اپنے آپ کو فرعون کا وارث اور عرب قوم پرستی کی جاہلیت کا علَم بردار قرار دینے والے سابق صدر ناصر، حسنی مبارک اور موجودہ آمر اور غاصب فرعون جنرل سیسی کے ساتھ ہیں؟ یہ لوگ، افغانستان کے مظلوم عوام اور ان کی غیرت مند قیادت کے ساتھ ہیں، یا وہاں پر ناٹو افواج کے متعین کمانڈروں کے ساتھ؟ کشمیر میں اپنی ملّی اور قومی آزادی کے لیے سر ہتھیلی پر رکھے بزرگ حُریت پسند لیڈرسید علی گیلانی اور آسیہ اندرابی کے ساتھ ہیں، یا سات لاکھ قابض بھارتی افواج اور اُس کی مقرر کردہ نام نہاد ’سیکولر‘ انتظامیہ کے ساتھ؟ بنگلہ دیش میں بھارت کی طفیلی قاتلہ حسینہ واجد کے ساتھ ہیں، یا۸۰، ۹۰ سال کے پھانسی پانے والے مطیع الرحمٰن، نظامی شہید، علی احسن مجاہد شہید، محمد قمر الزماں شہید،عبدالقادر مُلّاشہید، میرقاسم علی شہید، صلاح الدین قادر چودھری شہید کے ساتھ، جنھوں نے ۱۹۷۱ء میں ڈھاکہ پر قابض بھارتی افواج کو خوش آمدید کہنے سے انکار کیا تھا؟ مجھے یقین ہے کہ یہ بیانیہ ساز اپنا وزن سامراجی قوتوں اور سفّاکوں کے پلڑے میں ڈالیں گے،اور یہی کام یہ گذشتہ ۳۰برسوں سے ایک تسلسل کے ساتھ کر رہے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ ’بیانیہ ساز‘ ظلم پر آنکھیں بند رکھنے اور سامراجی ظالموں کے لیے جواز تلاش کرنے میں آخر کس ضمیر کے ساتھ سرگرم رہتے ہیں؟
یہ ’بیانیہ ساز‘ اہلِ پاکستان کی کیا رہنمائی کریں گے، وہ تو بھارت کے ایک خان صاحب کے ہم نوا بن کر جہاد کے فلسفے کی نفی کے پرچارک ہیں۔ یہ سیکولر این جی اوز زدہ گروہ، اسلام کے چودہ سو سالہ علمی اور فقہی تاریخ میں طے شدہ اور متفق علیہ اُمور میں کیڑے ڈالنے اور نادرحیلے بہانے گھڑنے میں ہرآن مصروف ہے۔ علّامہ حمید الدین فراہیؒ اور مولانا امین احسن اصلاحیؒ کے ساتھ ان بیانیہ سازوں کا کوئی تال میل اور کسی طور پر نسبت نہیں ہے۔ ان بزرگانِ دین نے تو اپنی زندگی میں علم دین، اقامت دین ،دعوت و تبلیغ ، تزکیہ و اصلاح نفس کے لیے بھر پور کوششیں کی ہیں، اور حق کی گواہی دی ہے۔
میں ان ’بیانیہ ساز‘ حضرات سے اپیل کروں گا کہ آخرت میں جواب دہی کی فکر کریں اور ٹھنڈے دل ودماغ سے غور کریں کہ وہ خود کون سی دلدل میں دھنسے چلے جارہے ہیں۔