نومبر ۲۰۰۴ء امریکا میں صدارتی انتخابات کا ماہ ہے۔ ری پبلکن پارٹی اور ڈیموکریٹک پارٹی انتہائی منظم انداز میں انتخابی مہم چلا رہی ہیں۔ ۷۰لاکھ سے زائد مسلمان امریکا میں قیام پذیر ہیں۔ امریکی شہریت کے حامل اندازاً ۱۸ لاکھ مسلمان ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔ مجموعی طور پر کل راے دہندگان کا یہ ۵ئ۱ فی صد بنتے ہیں۔ ان راے دہندگان میں سے ایک تہائی وہ لوگ ہیں جنھیں پہلی مرتبہ رائے استعمال کرنے کا موقع مل رہا ہے اور وہ اپنے سے ماقبل تارک وطن نسل سے زیادہ پُراعتماد‘ پُرجوش اور متحرک ہیں۔
فلوریڈا‘ مشِی گن‘ اوھائیو‘پنسلواینا‘ ٹیکساس اور منی سوٹا کی ریاستوں کے ووٹ عموماً غیرمعمولی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ اگرچہ ۱۱ستمبر کے واقعے کی گونج اب بھی سنائی دے رہی ہے‘ دہشت گردی کا تدارک بھی شہ سرخیوں کا موضوع ہے‘ تاہم ایک عام امریکی شہری متوازن بجٹ‘ اسلحہ کنٹرول‘ میڈیکل سہولیات‘ الکوحل‘ ٹیکس اصلاحات‘ نسلی امتیاز اورووٹر رجسٹریشن جیسے مسائل کے حل میں دل چسپی رکھتا ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی امریکی فوج کے بیرونی کردار کو محدود کرنے‘ عظیم تر شہری آزادیوں اور اندرونِ ملک امور پر توجہ کے نعروں کو زیادہ متعارف کرا رہی ہے اور اس پارٹی کے امیدوار ’تہذیبی کش مکش‘ جیسے موضوع پر کم ہی اظہارخیال کرتے ہیں۔ بوسٹن میں ہونے والے ڈیموکریٹک پارٹی کے کنونشن میں ۴۰ مسلمان نمایندے بھی شریک تھے۔ دوسری طرف ری پبلکن پارٹی ساری دنیا کو دہشت گردی سے پاک کرنے کی جدوجہد کا کریڈٹ لینا چاہتی ہے اور میڈیا و الیکشن منتظمین کے ذریعے اُس خطرناک صورت حال سے بچنا چاہتی ہے کہ جب پچھلی بار دونوں صدارتی اُمیدواروں کے ووٹ برابر برابر نکلے۔ تازہ ترین سروے نتائج کے مطابق جارج بش اکثریت حاصل کرسکتے ہیں۔
امریکا میں کام کرنے والے مختلف اداروں نے مسلم آبادی سے کئی سروے کیے‘ ان اداروں میں مسلمانوں کی اپنی تنظیمات بھی شامل ہیں۔ سروے کے نتائج سے معلوم ہوا ہے کہ عرب آبادی جارج بش سے خصوصاً مشرقِ وسطیٰ پالیسی کی وجہ سے ناراض ہے۔ عرب آبادی میں ایک سروے سے معلوم ہوا کہ اسرائیل دوستی اور عرب دشمنی کی وجہ سے ۷۰ فی صد عرب ووٹر جارج بش کو ووٹ نہ دیں گے۔ اُنھوں نے واضح طور پر اعلان کر دیا ہے کہ جارج بش کی پالیسی سے اظہار نفرت کے طور پر وہ جان کیری کے حق میں اپنی رائے کا اظہار کریں گے۔ برعظیم سے سابقہ تعلق رکھنے والے امریکی مسلمان بھی اپنے لائحہ عمل کا اعلان کرچکے ہیں کہ وہ جان کیری کے شہری آزادی‘ بنیادی حقوق اور امریکا کے داخلی جامع کردار کے موید ہیں اور انتخاب میں کیری کو کامیاب کرائیں گے۔ انتخابات سے عین پانچ ہفتے قبل تک جو سروے سامنے آرہے ہیں اُن میں جارج بش کا گراف مقامی امریکی آبادی میں بڑھتا ہوا دکھائی دے رہا ہے لیکن مسلمانوں نے ایسا کوئی مشترکہ اعلان نہیں کیا کہ وہ اپنی رائے میں تبدیلی کر رہے ہیں۔ افغانستان و عراق پر بم باری ایسے امور پر امریکیوں کی بہت بڑی تعداد بش سے نالاں ہے اور وہ کسی بھی صورت میں ناراضی کے اظہار سے نہ رُکیں گے‘ چاہے جان کیری صدارتی انتخابات میں ناکام ہوجائے۔
سکونت پذیر امریکی مسلمانوں کے دو گروہ سب سے نمایاں ہیں۔ ان میں سے ۳۵لاکھ عرب ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی درجنوں تنظیمیں اور سیاسی اختلافات ہیں اور مجموعی طور پر اتنی ہی تعداد برعظیم (پاکستان‘ بھارت‘ بنگلہ دیش) سے تعلق رکھنے والوں کی ہے اور ان میں بھی غالب تر پاکستانی ہیں۔ ۱۹۸۰ء سے قبل امریکا میں آبائی وطن چھوڑ کر سکونت اختیار کرنے والے مسلمان ’’اچھا کھائو‘ اچھا پہنو‘‘کے جال میں مگن رہے۔ سیاسی‘ سماجی اور اقتصادی معاملات میں اُن کا کردار مغلوب رہا‘تاہم ۱۹۸۰ء کے بعد جو نسل امریکا میں پیدا ہوئی ہے‘ اُس کو امریکا کے ساتھ ساتھ فلسطین‘ کشمیر‘بوسنیا‘ الجزائر اور افغانستان سے بھی دل چسپی ایک حد تک ہے۔ وہ امریکا میں آئین و قانون کی پاسداری‘ نظامِ انتخابات اوربھرپور اظہارِ رائے کے ذریعے قومی امور میں شرکت کرنا چاہتے ہیں۔ مجموعی طور پر وہ USA Patriot Act سے نالاں ہیں جس کے ذریعے ایک ایک فرد کے خاندانی حالات اور ذرائع آمدن کی انتہائی باریک تفصیلات بھی حکومت طلب کرسکتی ہے۔ خصوصاً یہ کہ آپ اپنی آمدن کن ممالک یا اداروں کو دیتے ہیں‘ تاکہ ’’دہشت گردی‘‘ کے لیے معاشی وسائل کی فراہمی کا سدباب کیا جاسکے۔ ۱۱ستمبرکے واقعے کے بعد ۲۰۰۲ء میں ایک غیرسرکاری تنظیم کے سروے کے مطابق ۵۷ فی صد امریکی مسلمان ہراساں کیے گئے یا نسلی بنیادوں پر امتیازی سلوک کا شکار ہوئے۔ نئی نسل کی اسٹرے ٹیجی یہ ہے کہ تمام تر نسلی‘ لسانی‘ علاقائی اختلافات کے باوجود یک زبان ہوکر اپنی رائے کا اظہار کریں اور اپنے امریکا کو انصاف کا علم بردار ملک بنا دیں۔ یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ درست فیصلہ ہونے کی صورت میں بلدیاتی انتخابات اور سینیٹ و کانگرس میں نمایندگی کا مستحکم دروازہ کھل سکتا ہے۔
امریکن مسلم ٹاسک فورس آن سِوِل رائٹس اینڈ الیکشنز(AMT) کا قیام اس لحاظ سے خوش آیندہے کہ ایک مشترکہ پلیٹ فارم مسلم راے دہندگان کے لیے اصولی رہنمائی فراہم کر رہا ہے۔ اس فورم کے قیام کے پس منظر میں یہ نظریہ کارفرما ہے کہ مسلم آبادی کو قانونی حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد کرنا پڑے گی‘ نیز ’’تنہائی‘‘ اور ’’لاتعلقی‘‘کو خیرباد کہنا ہوگا۔ اس مشترکہ پلیٹ فارم میں امریکن مسلم الائنس (AMA)‘ کونسل آف امریکن اسلامک ریلیشنز (CAIR)‘ پاکستانیوں کی معروف اور متحرک تنظیم اسلامک سرکل آف نارتھ امریکا(ICNA)‘ مختلف ممالک کے مسلمانوں کا اتحاد اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکا (ISNA)‘مسلم الائنس آف نارتھ امریکا (MANA)‘ مسلم امریکن سوسائٹی (MAS)‘ مسلم پبلک افیئرزکونسل (MPAC)‘ مسلم اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن- نیشنل (MSA-N)‘ اور پراجیکٹ اسلامک ہوپ (PIH) شامل ہیں۔
اس ٹاسک فورس کے قائم ہونے سے قبل عموماً یہ رائے پائی جاتی تھی کہ سینیٹ کے اُن امیدواروں کو ووٹ دیے جائیں جو علاقائی مسائل اور سیاسی قوانین کے بارے میں اُن کے لیے سودمند ثابت ہوں اور قانونی جنگ لڑسکتے ہوں‘ جتھہ بن کر کسی پارٹی کے ساتھ منسلک نہ ہوا جائے جس طرح ۲۰۰۰ء کے انتخابات میں کیا گیا تھا اور مسلم ووٹروں نے ۴۵ فی صد رائے جارج ڈبلیو بش کے پلڑے میں ڈال دی تھی۔ بعدازاں اُس نے عراق و افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بھی بجائی اور دادوتحسین کا طلب گار بھی ہوا۔ ال گور کیونکہ مسلم کمیونٹی کے بڑے استقبالیوں میں یہود دوستی کی وجہ سے شریک نہ ہوا‘ اس لیے مسلم کمیونٹی نے اُس سے بالکل بے اعتنائی برتی۔
امریکا ٹاسک فورس نے سات نکاتی ایجنڈا متعارف کرایا ہے اور اپنی اجتماعی مہم کا نام Civil Rights Plus رکھا ہے۔ اس کی وضاحت یہ کی جاتی ہے کہ ’’سب کے لیے شہری حقوق‘‘ ایک اہم نکتہ ہے لیکن واحد نکتہ نہیں۔ تعلیم‘ رہایش کی عدم فراہمی‘ اقتصادی بحالی‘ ماحولیاتی و ارضیاتی تحفظ‘ انتخابی اصلاحات‘ جرائم‘ امنِ عالم اور انصاف بھی توجہ کے بھرپور مستحق ہیں۔ فورس نے مسلمان آبادیوں سے گزارش کی ہے کہ اپنے اپنے علاقے میں مختلف جماعتوں کے نمایندوں کو شہری حقوق اور مذکورہ بالا امور پر سابقہ کارکردگی کی روشنی میں پرکھیں اور اِن کے بارے میں تفصیلی رائے طے شدہ پرفارمے ٹاسک فورس کو فراہم کریں۔ فورس کی تاسیس میں شریک انجمنوں‘ اداروں اور پریشر گروپس سے کہا گیا ہے کہ اپنے ممبران کو مکمل طور پر متحرک کریں‘ نیز راے عامہ کے سروے‘ سوالناموں اور پالیسی سیمی ناروں کے ذریعے ووٹروں کی تربیت بھی کریں۔ علاوہ ازیں اس چیز کو یقینی بنائیں کہ ووٹ کے حق دار ۱۸ لاکھ مسلمان اپنے ضروری کاغذات مکمل کرائیں اور کوئی شخص بھی ووٹ نہ دینے کے جرم کا مرتکب نہ ہو۔ علماے کرام نے امریکا کے مخصوص پس منظر میں فتویٰ بھی دے دیا ہے کہ ان حالات میں ووٹ نہ دینا کسی اور بڑے المیے کو دعوت دینے کے مترادف ہوگا‘ بِلاواسطہ یہ پیغام بھی ہے۔ منتخب کوئی بھی ہو اُمت مسلمہ ‘فلسطین اور کشمیر کو فراموش نہ کیا جائے۔
گذشتہ ۲۰۰ برسوں میں یہودی آبادی نے اپنی کم تعداد اور بہتر منصوبہ بندی کے ساتھ نہ صرف اسلحہ مارکیٹ‘ پٹرول مارکیٹ اور بنک کاری پر قبضہ جمائے رکھا بلکہ اسرائیل کی بھی سرپرستی جاری و ساری رکھی‘ نیز قوت کے حصول پر خصوصی ارتکاز رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں پر ظلم بھی ڈھا رہا ہے‘ ۶۵۰کلومیٹر طویل متنازعہ دیوار بھی تعمیر کررہا ہے اور عالمی عدالت انصاف کے فیصلوں کو بھی بآسانی رد کر رہا ہے۔ اگلے ماہ ہونے والے انتخابات میں یہ حقیقت واضح ہوجائے گی آیا امریکی مسلمانوں نے ہم عصر یہودیوں سے کوئی سبق بھی سیکھا ہے یا نہیں!