اکتوبر ۲۰۰۴

فہرست مضامین

شوکت آمد و جمالی رفت

پروفیسر خورشید احمد | اکتوبر ۲۰۰۴ | اشارات

Responsive image Responsive image

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 چند اہم سیاسی‘ دفاعی اور بین الاقوامی مضمرات

پاکستان کی تاریخ بہت سے عجوبوں کے تذکرے سے مالا مال ہے لیکن اس میں تازہ ترین اضافہ دو مہینوں میں تین وزراے اعظم کا دورِ حکمرانی ہے جسے جنرل پرویز مشرف کا ’’ہیٹ ٹرک‘‘ بھی کہا جا سکتا ہے۔

۲۵ جون ۲۰۰۴ء کو ڈیڑھ سال سے وزارت عظمیٰ کا قلمدان سنبھالے رکھنے والے جناب ظفراللہ خان جمالی نے ان افواہوں کی تردید کی جو ان کی وزارت عظمیٰ سے رخصتی کے بارے میں چند ہفتے سے گردش کر رہی تھیں‘ اور پھر اچانک ایک دن بعد ہی اپنے مستعفی ہونے کا اعلان کر کے ’‘میوزیکل چیرز‘‘ کے ایک کھیل کا آغاز فرمایا جس میں چودھری شجاعت حسین کو ایک قسم کے سیاسی حلالے کے طور پر وزیراعظم مقرر کیے جانے کا اعلان کیا گیا۔ چودھری صاحب ۵۷ دن وزیراعظم رہے اور اس اثنا میں جناب شوکت عزیز کا قومی اسمبلی میں انتخاب‘ قائد ایوان کی حیثیت سے تقرر اور پھر بالآخر ۲۸ اگست ۲۰۰۴ء کو وزیراعظم کی حیثیت سے حلف برداری واقع ہوئی۔ اس طرح ۲۶ جون کو شروع ہونے والے ڈرامے کا ڈراپ سین ہوا اور دنیا کی سیاسی تاریخ میں پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہوگیا کہ اس نے دو مہینوں میں تین وزراے اعظم کے اقتدار کا نظارہ  دیکھ لیا۔ اس سب کے نتیجے میں پانچ درجن سے زیادہ وزرا پر مشتمل کابینہ ملک کا مقدر بن گئی۔ اس میں ابھی مسلسل اضافے متوقع ہے۔

ستم ظریفی تو یہ ہے کہ جنرل صاحب کے الفاظ میں اس کھیل کو پاکستان کی سیاسی تاریخ کے most smooth and democratic transition  (سب سے زیادہ ہموار اور جمہوری انتقالِ اقتدار) کا نام دیا گیا۔ اور کولن پاول صاحب نے نہلے پہ دہلا مارتے ہوئے یہاں تک  فرما دیا کہ اب پاکستان کو ایک بااختیار ور وزیراعظم (empowered prime minister ) میسرآگیا ہے!اور اسی ’’دھول دھپے‘‘ میں جنرل پرویز مشرف صاحب نے بھی‘ جو کھلے عام ۳۱دسمبر۲۰۰۴ء سے پہلے آرمی چیف کی وردی اتارنے کا وعدہ قوم اور دنیا سے کرچکے تھے‘ ایک قلابازی کھائی اور اس بارے میں جو ابہام وہ اور ان کے گماشتے چند مہینوں سے پیدا کر رہے تھے‘ اسے تقریباً کھلے طور پر وردی نہ اتارنے کے ارادے کے اظہار کی شکل دے دی۔

یہ تمام واقعات ایسے ہیں کہ ان پرکھل کر گفتگو کرنے کی ضرورت ہے اور جو نیا سیاسی نقشہ مرتب ہو رہا ہے اس کے ادراک اور مضمرات کا احاطہ ایک اہم قومی ضرورت کی صورت اختیار کرگیا ہے۔ اس وقت کچھ اوراہم موضوعات بھی ہمارے سامنے ہیں‘ جیسے: وزیرستان میں اپنے ہی لوگوں کے خلاف فوج کُشی‘ بلوچستان کے مخدوش حالات‘ عراق کی ہولناک صورت حال‘ بسلان کا سانحہ‘ شیشان میں بے پایاں ظلم اور روس کے نئے عزائم‘ فلسطین اور کشمیر کے تازہ واقعات اور امریکا کا صدارتی معرکہ‘ جن میں سے ہر ایک مفصل تجزیے و تبصرے کا متقاضی ہے لیکن ان سب کو نظرانداز کرتے ہوئے ہم ملک میں تازہ ترین سیاسی مہم کاری (political engineering) اور اس کے مضمرات پر ملک و قوم کو متوجہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں اور یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ    ؎

اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی

دوڑو‘ زمانہ چال قیامت کی چل گیا


سیاسی بحث میں شخصیات کا تذکرہ فطری ہے اور ناگزیربھی۔ لیکن ہماری دل چسپی کا اصل مرکز و محور ملک و قوم کے مقاصد اور مفادات ہیں اور حقیقی ہدف پالیسی اور اداروں کی اصلاح اور استحکام ہے۔ جب کوئی شخص پبلک لائف میں قدم رکھتا ہے تو گویا وہ خود کو اجتماعی احتساب کے لیے بھی پیش کرتا ہے اور اسے اس کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ البتہ ہماری کوشش ہمیشہ یہ رہی ہے کہ قومی امور کو زیربحث لاتے ہوئے ذاتی معاملات اور معاشرتی تعلقات سے بالا ہوکر گفتگو کریں۔ جن محترم شخصیات کا ذکر اس بحث میں آیا ہے یا آئے گا‘ ان کے بارے میں ہماری بحث کا محور ان کی ذات نہیں بلکہ ان کے افکار‘ کردار اور اجتماعی رول ہے۔ ہمارا اصل مقصد پاکستان کا نظریاتی‘ سیاسی‘ ثقافتی اور معاشی استحکام ہے اور یہی وہ قدر مشترک ہے جو اس ملک کے تمام خیرخواہوں کو تنقیدواحتساب اور تعمیروترقی کے لیے سرگرم کرتی ہے۔

وزیراعظم جمالی کا استعفا

جس عمل کو ہم نے سیاسی مہم کاری کہا ہے اس کا سب سے اولین اظہار سابق وزیراعظم جناب ظفراللہ خان جمالی کی فارغ خطی اور اس کے اسباب اور طریق کار ہے۔ جمالی صاحب کو ایوان نے اپنا باقاعدہ قائد منتخب کیا تھا اور وہ کابینی حکومت(cabinet government )کے سربراہ تھے۔ اگر ان کی پالیسیوں پر عدمِ اعتماد تھا تو پارٹی اور پارلیمنٹ کو ان پر بحث کرنی چاہیے تھی‘ ان کا احتساب کیا جانا چاہیے تھا اور کھلے انداز میں معروف پارلیمانی ضابطوں کے مطابق ان کو ہٹایا جا سکتا تھا‘ مگر ایسا نہیں ہوا۔ صدرصاحب اپنے پارلیمانی چیمبر میں فوجی وردی میں  پہلی بار تشریف لائے اور سرکاری پارٹی کے ارکان سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا جس کے نتیجے میں ارکان اسمبلی نے ان کے سامنے شکایات کا دفتر کھول دیا ہے۔ جنرل صاحب نے کابینہ اور اسمبلی کی کارکردگی کے بارے میں اپنے تحفظات اور تنقیدات کا کھلا اظہار کیا۔ چند وزیروں کے بدعنوان ہونے کا ذکر بھی فرمایا۔ محلاتی سازشوں کے اس پس منظر میں خود جمالی صاحب کئی دن تک وزارتِ عظمیٰ سے فارغ کیے جانے کی افواہوں کی تردید کرتے رہے مگر دوسرے ہی دن اچانک اپنے استعفے کا اعلان کر دیا بلکہ متبادل وزیراعظم کی نامزدگی بھی کردی۔ اس پورے عرصے میں صدر پرویز مشرف اور چودھری شجاعت حسین بھی ان پر اپنے اعتماد کا اظہار کرتے رہے۔ البتہ سیاسی حلقوں میں یہ چہ مے گوئیاں ہوتی رہیں کہ وردی کے مسئلے پر صدرصاحب کی فرمایش کے مطابق دوٹوک بات نہ کہنے‘ عراق فوج بھیجنے کے معاملے میں عوامی جذبات کے احترام کا عندیہ دینے‘ حدود قوانین اور ناموس رسالتؐ کے قانون میں تبدیلی کے بارے میں تحفظات کے اظہار اور خود قومی سلامتی کونسل کے سلسلے میں کچھ دبے دبے احساسات کی بنا پر وہ صدر صاحب کا اعتماد کھو چکے ہیں اور ’باس‘ کی ناراضی مول لے چکے ہیں جس کی قیمت انھیں ادا کرنی پڑی۔

جمالی صاحب کو جس طرح اور جس عجلت میں فارغ کیا گیا‘ اس نے تمام پارلیمانی طور طریقوں‘ ضابطوں اور روایات کو پامال کر کے رکھ دیا ہے۔ ان کو ۱۸ ماہ وزیراعظم رکھنے کے بعد دو ماہ کے لیے بھی گوارا کرنا قبول نہیں کیا گیا اور ایک عبوری وزیراعظم لاکر ایک ایسے اپنے قابلِ اعتماد شخص کو وزیراعظم نامزد کیا جو خواہ کتنا ہی اچھا ٹیکنوکریٹ کیوں نہ ہو لیکن جس کی کوئی سیاسی بنیاد(base) نہ تھی‘ کوئی حلقہ انتخاب نہ تھا‘ پارٹی کے نظام میں اس کا کوئی مقام نہیں تھا‘ کوئی سیاسی تجربہ نہیں تھا‘ اسے نامزد وزیراعظم کا مقام دے کر اسمبلی کا رکن منتخب ہونے کے لیے دوحلقوں سے انتخاب لڑایا اور ایک کھلے کھلے انتخابی تماشے کے ذریعے منتخب بھی کرایا گیا۔ اٹک میں جو ہوا سو ہوا‘ مگر مٹھی‘ (تھرپارکر) میں تو ایسا انتخاب ہوا کہ اس علاقے کے جو روایتی لیڈر تھے ان سے بھی دوگنے اور تین گنے ووٹ کسی طلسماتی عمل کے ذریعے ہونے والے وزیراعظم کو حاصل ہوگئے۔ اس سلسلے میں پاکستان ہیومن رائٹس کمیشن کے نمایندوں کی رپورٹ چشم کشا ہے جو ملک کے انتخابی عمل کے افلاس اور الیکشن کمیشن کی جانب داری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ انتخابی عمل کو اس طرح پامال کیا گیا کہ اس پر لوگوں کا اعتماد جو پہلے ہی متزلزل تھا‘ پارہ پارہ ہوگیا ہے اور ملک میں جمہوریت کی بحالی کا جو برا بھلا عمل شروع ہوا تھا‘ اسے بڑا دھچکا لگا ہے۔

جمالی صاحب کی فارغ خطی کے اسباب آخر ایک نہ ایک دن تو کھل کر سامنے آئیں گے ہی‘ تاہم ان کے بیانات میں بین السطور کچھ چیزیں نمودار ہونے لگی ہیں۔ لیکن جس بھونڈے اور غیرپالیمانی انداز میں یہ سارا کام ہوا‘ اس نے جمہوریت کے فروغ اور ارتقا پر بڑے منفی اثرات ڈالے ہیں۔ یہ اقدام ملک کو بہت پیچھے لے گیا ہے۔

چودھری شجاعت حسین نے عبوری وزیراعظم کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں بحیثیت مجموعی وقار کے ساتھ انجام دیں لیکن ان جیسے جہاںدیدہ اور بااثر سیاست دان کا اس پورے عمل کو آگے بڑھانے میں ایسا نمایاں کردار اور ایک انتخابی ڈھونگ کے ذریعے نئی قیادت کو آگے لانے میں ان کا حصہ‘ کسی صورت میں بھی ان کی نیک نامی کا باعث نہیں ہوا بلکہ ان کی شخصیت کو داغ دار کرنے کا ذریعہ بنا۔ ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان کے اقتدار کے دو مہینوں میں اس سلسلے میں جو کچھ ہوا وہ جمہوریت کے چہرے کو بگاڑنے‘ دستور کے تقاضوں کو پامال اور سول نظام اور پارلیمانی اداروں کے استحکام کو مجروح کرنے کا باعث ہوا ہے‘ اور اس میں ان کے ذاتی رکھ رکھائو کے باوجود نتائج کے اعتبار سے ہر بے لاگ مبصر اور تجزیہ نگار کی نگاہ میں ان کا رول منفی اور تکلیف دہ رہا ہے۔

پارلیمانی نظام پر ضرب

دوسرا بنیادی مسئلہ پارلیمانی نظام کے دروبست کی کمزوری بلکہ اس کے نظامِ کار کا درہم برہم ہوجانا ہے۔ یہ محض نظری یا ظاہری ہیئت کا مسئلہ نہیں۔ پارلیمانی نظام میں اقتدار کا سرچشمہ پارلیمنٹ ہوتی ہے جو عوام کی منتخب کردہ اور ان کے سامنے جواب دہ ہے۔ پارلیمانی نظام کا مرکزومحور وزیراعظم بحیثیت ایوان کے قائد اور ان کی کابینہ ہے جو ایوان کے سامنے انفرادی اور اجتماعی طور پر جواب دہ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پارلیمانی جمہوریت میں پارٹی نظام کے مؤثر ہونے کے باوجود پارٹی کے صدر کے مقابلے میں پارلیمانی لیڈر کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے۔ یہ صرف انگلستان کے ویسٹ منسٹر (westminister) ماڈل ہی کا خاصہ نہیں۔ دنیا میں جہاں بھی پارلیمانی نظام ہے وہاں وزیراعظم چیف ایگزیکٹو ہوتا ہے اور کابینہ اس کی قیادت میں کام کرتی ہے۔ اگر وزیراعظم کی مرکزی حیثیت نہ ہو اور قوت کا مرکز پارلیمنٹ اور ان کا لیڈر نہیں کوئی اور ہو تو ایسے میں پارلیمانی نظام کام نہیں کرسکتا۔ بھارت میں یہ مسئلہ آزادی کے فوراً بعد رونما ہوا اور اچاریہ کرپلانی جو کانگرس کے صدر تھے اور پنڈت جواہر لعل نہرو جو پارلیمنٹ کے لیڈر اور وزراعظم تھے کے درمیان رونما ہوا‘ اور پارلیمانی نظام کے اصول و روایات کے مطابق وزیراعظم کو مرکزی حیثیت دی گئی جو وہاں پارلیمانی جمہوریت کے استحکام کا ذریعہ بنی۔ بھارت کے سیاسی تجزیہ نگار اور تامل ناڈو کے سابق گورنر ڈاکٹر جی سی الیگزنڈر لکھتے ہیں:

وزیراعظم کے اختیارات کو کم کرنے سے روکنے کا اہم ترین تقاضا یہ ہے کہ اس کی پارٹی کے تمام ممبر اور حامی اور اتحادی پارٹیاں پارلیمانی طرزِ جمہوریت کے بنیادی اصول یعنی ’’وزیراعظم کی نظام میں بالادستی‘‘ کو ہمہ وقت اور کسی تحفظ کے بغیر قبول کریں۔ (’’پارٹی اور پی ایم ‘‘ دی ایشین افیر‘ لندن‘ ۱۶ ستمبر۲۰۰۴ئ‘ ص ۱۴)

پاکستان میں گذشتہ چند مہینوں میں جو کچھ ہوا ہے اس کا سب سے بڑا نقصان ملک کے پارلیمانی نظام کو ہوا ہے۔ وزیراعظم کی مرکزی حیثیت ختم ہوگئی ہے۔ قوت کا مرکز پارلیمنٹ‘ پارلیمانی پارٹی اور وزیراعظم اور کابینہ سے ہٹ کر صدر اور چیف آف اسٹاف کا عہدہ اور شخصیت بن گیا ہے۔ ایک غیر سیاسی شخص کو‘ خواہ وہ اپنے میدان میں کتنا ہی لائق کیوں نہ ہو‘ بطور وزیراعظم بنیادی طور پر صدر کی خواہش اور اشارے پر لانا اور اس اہم منصب پر فائز کر دینا ایک طرح سے پارلیمنٹ‘ پارلیمانی نظام اور خود وزارت عظمیٰ کے عہدے کی تنزلی (demotion) ہے۔ اب پالیسی سازی اور قوت کا سرچشمہ صدر‘ چیف آف اسٹاف ہے جو پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ نہیں اور نہ وہ پارلیمنٹ کی بحثوں میں شریک ہوکر پالیسی سازی اور قانون سازی میں کوئی مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔ وزیراعظم محض ایک ملازم نہیں‘ اصل چیف ایگزیکٹوہے۔ اب صاف نظر آرہا ہے کہ جنرل مشرف ایک بار پھر کھلے کھلے چیف ایگزیکٹو بن گئے ہیں‘ تمام پالیسی فیصلے وہی کر رہے ہیں اور وہی ان کا اعلان بھی کر رہے ہیں‘ جب کہ وزیراعظم برملا اعلان کر رہے ہیں کہ وہ جنرل صاحب کی پالیسی کو لے کر چل رہے ہیں۔ اس طرح پارلیمانی نظام کے دستوری ڈھانچے پر صدارتی نظام مسلط (superimpose)کر دیا گیا ہے جس نے دستور کے ڈھانچے کا تیاپانچا کر دیا ہے اور دستور اور قانون کی حکمرانی عملاً ختم ہوگئی ہے۔ اس میں جو بھی‘ جس درجے میں بھی‘ جن وجوہ کی بنا پر بھی شریک ہوا ہے‘ وہ اس بگاڑ کا ذمہ دارہے۔ پوری قوم اس کے تلخ نتائج کو بھگت رہی ہے اور مزید بھگتے گی۔

داغ داغ جمہوریت

تیسرا پہلو صدر‘ وزیراعظم‘ کابینہ اور پارلیمنٹ کے باہمی تعلق اور رول کا ہے۔ جناب شوکت عزیز صاحب جس طرح وزیراعظم بنے ہیں وہ معروف سیاسی عمل کے حلیہ بگاڑنے کے مترادف ہے۔ کیا پوری قومی اسمبلی میں ایک شخص بھی اس ذمہ داری کو ادا کرنے کے لائق نہیں تھا کہ باہر سے ایک فرد کو لانا پڑا۔ پھر انتخاب میں جو کچھ ہوا وہ جمہوریت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔ اپوزیشن کے نمایندے کو پارلیمنٹ میں آنے اور انتخابی مہم چلانے کا موقع نہیں دیا گیا۔ ایک طرف ایک شخص کو قائدایوان کے انتخاب کے لیے اہل قرار دیا جاتا ہے اور دوسری طرف اسے اجلاس میں شرکت کے لیے نہیں بلایا جاتا۔ شوکت عزیز صاحب نے کہا ہے کہ وہ چاہتے تھے کہ جاوید ہاشمی صاحب کو شرکت کا موقع دیا جائے۔ پھر کس چیز نے اسپیکرکو روک دیا؟ محض ایک تقریر کا خوف؟ کیا یہی شفاف جمہوریت ہے؟

انتخاب کے بعد شوکت عزیز صاحب نے یہ عندیہ دیا کہ ان کی کابینہ صرف میرٹ کی بنیاد پر بنائی جائے گی اور اہل ترین افراد اس میں ہوں گے۔ لیکن جمالی صاحب کی کابینہ کے سارے ارکان ان کی کابینہ کی زینت بھی بن گئے اور صدر صاحب کا کابینہ کی کارکردگی پر اظہار خیال اور چند افراد کی کرپشن کی بات‘ سب پادرہوا ہوگئی۔ پھر سیاسی جوڑ توڑ اور مختلف گروپوں کے ساتھ ملانے کا عمل شروع ہوا اور ناراض عناصر کو راضی کرنے کے کرشمے سب کے سامنے آگئے۔ پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی کابینہ بنی ہے اور اگر کہیں محکموں کی تبدیلی ہوئی ہے تو وہ بھی براے نام۔ پیپلز پارٹی پیٹریاٹ کے ایک رکن پر الزامات اور ان کے جوابی الزامات اخبارات کی زینت بن چکے ہیں ان کا صرف محکمہ تبدیل کر دیا گیا اور ایک دوسرے صاحب کو وہ محکمہ دے دیا گیا‘ اور لطف کی بات یہ ہے کہ دونوں ہی بزرگ نیب کے مطلوبہ افراد میں سے ہیں اور وزارت بھی ان کو داخلہ کی دی گئی ہے۔ یہ بھی سوالیہ نشان ہے کہ جمالی صاحب جو اب وزیراعظم نہیں رہے اور دو وزرا کا جن کے محکموں کو تبدیل کیا گیا ہے تعلق بلوچستان سے ہے۔ کابینہ کی تشکیل اور بندربانٹ نے میرٹ کے وعدے کی دھجیاں بکھیردی ہیں۔

مبصرین کے اس خدشے کو یہاں نوٹ کیا جانا بے محل نہیں کہ کابینہ کے بنانے میں وزیراعظم اور ان کے اعلان کردہ اصولوں کا رول نہ ہونے کے برابر ہے‘ اور کابینہ ان کو ایک طرح سے ورثے میں ملی ہے اور اضافے کسی اور کے اشارے پر ہوئے ہیں‘ حتیٰ کہ لندن والوں سے رابطے کے لیے صدر کے نمایندہ خاص نے ہی جاکر معاملات طے کیے ہیں۔ اس سب کا حاصل یہ ہے کہ کابینہ جس طرح بنی ہے وہ خود پارلیمانی نظام کے اصول و ضوابط سے مطابقت نہیں رکھتا اور خطرہ ہے کہ یہ پارلیمانی نظام کے صحت مند ارتقا پر ایک ضرب کاری ثابت ہوگی۔

وزیراعظم کی گرفت کابینہ پر ڈھیلی ہوگی۔ وفاداری کامرکز کہیں اور ہوگا اور اس طرح اتنی بڑی کابینہ ایک مربوط اور ہم آہنگ ٹیم کی طرح کام نہیں کر سکے گی۔ وزیراعظم پر ایک طرف اوپر والوں کا دبائو ہوگا اور دوسری طرف سے پارٹی کے بااثر گروہوں‘ افراد اور ان کے مطالبات کا۔ ہدایت اور رہنمائی کا منبع کہیں اور ہوگا اور پارلیمنٹ ملک کو اچھی حکمرانی فراہم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے گی۔ خارجہ پالیسی ہو یا داخلہ پالیسی‘ سب اس انتشار اور رسہ کشی کا شکار ہوں گے۔ خدا کرے یہ خدشات غلط ثابت ہوں لیکن جس طرح معاملات رونما ہو رہے ہیں ان سے صاف نظرآ رہا ہے کہ حکمرانی کا نظام یک مرکزیت سے محروم اور دوہری عمل داری (diarchy) بلکہ ایک نئی قسم کی سہ نکاتی تشکیل (troika) کی طرف جا رہا ہے جسے کسی پہلو سے بھی اچھا شگون قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ٹیکنوکریٹ وزیراعظم کے لیے بھی بیک وقت کئی خدائوں کی بندگی کوئی اچھا نتیجہ نہیں نکال سکتی۔

نیا سیاسی کلچر

چوتھا پہلو نئے سیاسی کلچر کا ہے جو بالکل نیا تو نہیں لیکن وہ ان خرابیوں کو مستحکم اور دائمی کرتا جا رہا ہے جو ماضی میں بگاڑ اور تباہی کا سبب رہی ہیں اور جن کی موجودگی میں صحت مند جمہوری نظام اور انصاف‘ حق اور میرٹ پر مبنی اور کرپشن سے پاک اجتماعی زندگی کا وجود ناممکن ہے۔ جنرل پرویز مشرف صاحب نے تو تبدیلی کے اس عمل پر نہ صرف اطمینان کا اظہار کیا ہے بلکہ اسے مثبت قرار دیا ہے۔ ان کا ارشاد ہے: ’’میں ملک میں ایک اچھی تبدیلی دیکھ رہا ہوں اور ایک نئے سیاسی کلچر کا آغاز ہو رہا ہے‘‘۔

یہ نیا سیاسی کلچر کیا ہے؟ وہی جاگیردار طبقے کی بالادستی‘ وفاداریوں کی چشم زدن میں تبدیلی کا وہی کھیل جو پاکستان کی تاریخ میں مسلسل کھیلا جاتا رہا ہے: وزیراعظم ناظم الدین (جو مسلم لیگ کے صدر بھی تھے) کے ارکان پارلیمنٹ کا ان کے اپنے کیمپ سے نکل کر غلام محمد اور محمدعلی بوگرہ سے جا ملنا‘ ری پبلکن پارٹی کے پرچم تلے مسلم لیگیوں کے غول کے غول کا ڈاکٹر خان اورگورمانی کی طرف منتقل ہو جانا‘ کونسل اور کنونشن لیگ کے ڈرامے--- جو افراد آج شوکت عزیز صاحب کے دست راست ہیں اور جنرل پرویز مشرف کی وردی کے گن گارہے ہیں‘ کل وہی جنرل ایوب کی قصیدہ خوانی کر رہے تھے‘ جنرل یحییٰ کے ہاتھ مضبوط کر رہے تھے‘ جنرل ضیاء الحق کی کرسی مضبوط کر رہے تھے‘ نواز شریف صاحب پر جان چھڑک رہے تھے‘ بے نظیر کی وفاداریوں کے حلف اٹھا رہے تھے‘ ظفراللہ جمالی کے آگے پیچھے پھر رہے تھے۔ ان کے لیے سیاسی قبلہ بدلنا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ خوشامد اور چاپلوسی ان کی فطرت اور چڑھتے سورج کی پوجا ان کا مستقل دین ہے۔ وزارتیں اور مفادات ان کا اصل مطلوب و مقصود ہیں۔ ان کی ’’جمہوریت پسندی‘‘ ان کو فوجی قیادت کو اقتدار کی دعوت دینے اور دستور اور قانون کو بالاے طاق رکھنے سے باز نہیں رکھتی‘ اور یہ صدارت اور فوج کی سربراہی کو رشتہ ازدواج میں منسلک کرنے میں نہ صرف یہ کہ کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے بلکہ اس میں ان کو اپنا اور جمہوریت کا مفاد نظرآنے لگتا ہے۔ ہوا کے رخ کے ساتھ بدلنا ان کی نگاہ میں ترقی کی علامت ہے۔ ملک اور اس کے اداروں پر چاہے کچھ بھی گزرے!

جنرل پرویز مشرف اصول پرستی اور سیاست میں گندگی سے نجات کے دعوے کے ساتھ برسرِاقتدار آئے تھے مگر وہ ایک ایک کر کے ہر وہ کام کر رہے ہیں جو بدنامِ زمانہ سیاست دان اور اقتدار کے بھوکے بیوروکریٹس اور جرنیل کرتے رہے ہیں۔ حلف کی خلاف ورزی‘وعدوں کونظرانداز کرنا‘ اپنی ذات کو ریاست کے مترادف بنالینا‘ پارٹیاں چھوڑنے والوں کو سینے سے لگانا‘ وزارتوں کے لیے بلیک میل ہونا اور ہر طالع آزما کو ایک ٹکڑا دے کر اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے میں کوئی باک محسوس نہ کرنا--- کیا یہی وہ مثبت تبدیلی ہے جس کا ڈھول پیٹا جا رہا ہے اور اسی کا نام نیا سیاسی کلچر ہے؟ پاکستان بلاشبہہ بہت سے بیرونی خطرات سے دوچار ہے‘ لیکن اس کی سلامتی اور ترقی کو سب سے بڑا خطرہ گھر کے ان ہی لوگوں سے ہے۔ مفاد اور قوت کی پرستش کا یہی وہ کلچر ہے جس نے جمہوریت کو پراگندا کردیا ہے‘ معاشرہ فساد کا شکار ہے‘ عوام مصائب میں مبتلا ہیں اوراصحاب اقتدار دادعیش دے رہے ہیں۔ ایسے دوستوں کی موجودگی میں دشمنوں سے کیا خطرہ۔ حالیہ تبدیلی نے اس کلچر کے چہرے سے ہر پردہ اٹھا دیا ہے اور اس ڈرامے کے تمام کردار بے نقاب ہوگئے ہیں۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ جب ایک قوم اس راستے پر چل پڑتی ہے تو پھر اسے تباہی سے اگر کوئی چیز بچاسکتی ہے تو وہ ایسا انقلاب ہے جو پورے نظام کو زیروزبر کر دیتا ہے--- کاش اس سے پہلے قوم کی آنکھیں کھل جائیں اور گاڑی کو پٹڑی پر لے آیا جائے۔

فوج کا سیاسی کردار

موجودہ سیاسی منظر اور پس منظر کا سب سے اہم اور سب سے تشویش ناک پہلو ملک کے سیاسی نظام میں فوج کے سیاسی کردار کا ہے اور ان دو مہینوں کی اکھاڑ پچھاڑ کا ایک مرکزی پہلو اسی مسئلے سے متعلق ہے۔ اندر اندر جو کھچڑی پکتی رہی ہے اس کا اصل ہدف فوج کی قیادت کو ایک دستوری اور سیاسی کردار عطا کرنا ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کی تاریخ کوئی اچھی تصویرپیش نہیں کرتی۔ اصولی طور پر فوج کا کام ملک کا دفاع ہے اور فوج کو مکمل طور پر سیاسی قیادت کے تابع ہونا چاہیے۔ یہ جمہوریت کی اصل روح ہے اور کیسی ہی ملمع سازی کی جائے‘ فوج کو دفاع سے ہٹا کر کوئی سیاسی کردار دینا اصولی اور عملی ہر دو پہلوئوں سے ناقابلِ تصور اور عملی اعتبار سے ملک کی سیاست اور دفاع دونوں کے لیے تباہ کن ہے۔

قائداعظمؒ نے ۱۴ جون ۱۹۴۸ء کو کوئٹہ اسٹاف کالج کے فوجی افسروں سے خطاب کرتے ہوئے صاف الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ فوج سول نظام کے تابع اور اس کے احکام اور ہدایات کی پابند ہے اور یہی خود ان کے اس حلف کا تقاضا ہے جو وہ فوج میں شمولیت کے وقت اٹھاتے ہیں۔ دستورِ پاکستان میں یہی بات اعلیٰ ترین قانون کی حیثیت سے رقم کر دی گئی ہے۔ دستور کی دفعات۲۴۴ اور ۲۴۵ بالکل واضح ہیں۔ دفعہ ۲۴۵ کہتی ہے:

مسلح افواج‘ وفاقی حکومت کی ہدایات کے تحت‘ بیرونی جارحیت یا جنگ کے خطرے کے خلاف پاکستان کا دفاع کریں گی اور قانون کے تابع شہری حکام کی امداد میں‘ جب ایسا کرنے کے لیے طلب کی جائیں‘ کام کریں گی۔

اور دفعہ ۲۴۴ کے تحت حلف ان کے کردار اور ان حدود کی وضاحت کر دیتا ہے جن میں رہ کر انھیں اپنے فرائض انجام دینے ہیں:

میں ……… صدق دل سے حلف اٹھاتا ہوں کہ میں خلوصِ نیت سے پاکستان کا حامی اوروفادار رہوں گا اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کی حمایت کروں گا جو عوام کی خواہشات کا مظہر ہے‘ اور یہ کہ میں اپنے آپ کو کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمیوں میں مشغول نہیں کروں گا‘ اور یہ کہ میں مقتضیات قانون کے مطابق اور اس کے تحت پاکستان کی بّری فوج (یا بحری یا فضائی فوج) میں پاکستان کی خدمت ایمان داری اور وفاداری کے ساتھ انجام دوں گا۔

اللہ تعالیٰ میری مدد اور رہنمائی فرمائے ‘ آمین!

ہماری عدالتوں نے اس حقیقت کو نظرانداز کر کے ’’نظریۂ ضرورت‘‘ کے تحت فوج کی بار بار سیاسی مداخلت کو جو جواز فراہم کیا ہے اس نے سیاسی نظام کا حلیہ بگاڑ دیا ہے‘ اور ہر طالع آزما کو سیاسی نظام کی بساط لپیٹنے اور ’’قومی مفاد‘‘ کے نام پر فوجی اقتدار قائم کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ سیاسی قیادتوں اور خود عوام نے بھی اپنی ذمہ داری کو ادا نہیں کیا اور آج عالم یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف صاحب ایک نیا فلسفہ وضع فرما رہے ہیں کہ گویا فوج کو سیاست میں مداخلت کا ایک دائمی اختیار حاصل ہے۔ قائداعظم کے اس ارشاد کی ضد میں اور بالکل ان کے مدمقابل آتے ہوئے کوئٹہ ہی میں فوج کے گیریزن کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ:

ہمیں اپنے ملک کا محض دفاع ہی نہیں کرنا ہے بلکہ ایک نئے وژن کے ساتھ اسے ترقی بھی دینا ہے‘ اور کوئی دوسرا ہمارے لیے اس کو نہیں کرے گا۔

جنرل صاحب کے قومی سلامتی کونسل کے تصور اور دستور کی سترھویں ترمیم کے موقع پر ان کے‘ سرکاری جماعت کی پوری قیادت کے‘ بلکہ ساری پارلیمنٹ کے عہدوپیمان کے باوجود ۳۱دسمبر ۲۰۰۴ء کے بعد بھی چیف آف اسٹاف کے عہدے سے چمٹے رہنے کے عزائم کے اظہار کی اصل حقیقت کو فوج کے اس تبدیل شدہ سیاسی کردار کے پس منظر میں ٹھیک ٹھیک سمجھا جا سکتا ہے۔ مسئلہ بالکل کھل کر سامنے آگیا ہے اور اب اسے ہمیشہ کے لیے طے ہوجانا چاہیے۔ یا فوج ایک دفاعی قوت ہوگی اور اس شکل میں اسے سیاسی قیادت کے تابع ہونا ہوگا اور سیاسی نظام کے بنانے اور چلانے میں اس کا کوئی کردار نہیں ہوسکتا۔ اور اگر فوجی قیادت کا سیاسی نظام کو بنانے اور چلانے میں کوئی کردار ہوگا تو پھر فوج ایک سیاسی پارٹی اور قوت بن جاتی ہے اور وہ پورے ملک اور پوری قوم کی امیدوں کا مرکز اور تائید کا محور نہیں رہ سکتی۔ پھر اس پر بھی اسی طرح تنقید ہوگی جس طرح تمام سیاسی قوتوں پر ہوتی ہے۔ پھر وہ بھی ایک پارٹی اور ایک گروہ کی نمایندہ بن جاتی ہے‘ پھر وہ بھی حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف میں سے ایک کی حلیف بنتی ہے‘ پھر وہ بھی سیاسی طورپر متنازع بن جاتی ہے۔ پھر وہ بھی مفادات کی جنگ میں ایک مخصوص حیثیت اختیار کرلیتی ہے۔ ایسی فوج کبھی بھی پوری قوم کی تائید کی دعوے دار نہیں ہوسکتی۔ ایسی فوج کی دفاعی صلاحیت بھی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ اس میں بھی اسی طرح پارٹی بازی کا دروازہ کھل جاتا ہے اور جنبہ داری کا مرض لگ جاتا ہے۔ ایسی فوج کی پیشہ ورانہ حیثیت بری طرح متاثر ہوتی ہے اور فوج کو جس ذہنی افتاد ‘جس ڈسپلن اور جس غیر جانب داری کی ضرورت ہوتی ہے وہ اس سے محروم ہوجاتی ہے۔

سب سے بڑھ کر دستوری حکومت اور خصوصیت سے جمہوری نظام میں فوج کے ایسے کردار کا تصور ممکن نہیں۔ آج ترکی کے یورپی یونین میں داخلے کے سلسلے میں جو سب سے اہم بحث ہو رہی ہے ان کا تعلق فوج کے سیاسی کردار ہی سے ہے اور اس امر پر سب کا اتفاق ہے کہ فوج کو غیر سیاسی کیے بغیر ترکی کے جمہوری کردار کو دنیا تسلیم نہیں کرسکتی۔ ہمارا بھی یہی مسئلہ ہے کہ فوج کی قیادت ایک سیاسی کردار بن گئی ہے اور جب تک اس باب کو واضح طور پر بند نہیں کیا جاتا‘ ملک میں سیاسی استحکام محال ہے اور ایک جمہوری ملک کی حیثیت سے نہ ملک کے عوام اس پر مطمئن ہوں گے اور نہ دنیا اسے قبول کرے گی۔

اگر ہم اپنی ۵۷ سالہ تاریخ کا جائزہ لیں تو اس میں ۲۳وزیراعظم آئے ہیں جس کے معنی یہ ہیں کہ ان کا اوسط اقتدار اڑھائی سال رہا ہے بلکہ صحیح تر الفاظ میں اگر فوجی اقتدار کے زمانے کو نکال دیا جائے تو یہ اوسط کم ہوکر سوا سال ہی رہ جاتا ہے۔اس کے برعکس فوج کے چیف آف اسٹاف کی صدارت کا زمانہ ۳۰ سال ہے جس میں ۴ فوجی سربراہ صدر رہے ہیں۔ گویا ان کا اوسط اقتدار ساڑھے سات سال تھا۔ ان ۵۷ برسوں میں فوج کے ۱۱چیف آف اسٹاف رہے ہیں اور ان کی چیف آف اسٹاف ہونے کی اوسط مدت قواعد کے مطابق تین سال کے بجاے ۵سال سے زیادہ آتی ہے۔ فوجی قیادت ملک کو نہ سیاسی استحکام دے سکی‘ نہ معاشی ترقی میں کوئی غیرمعمولی کارنامہ انجام دیا اور دفاعی اعتبار سے بھی ۱۹۶۵ء کے معرکے کے بعد فوج اعلیٰ دفاعی صلاحیت کا ثبوت نہیں دے سکی۔ فوج کو ایک مؤثر دفاعی قوت بنانے کا ایک ہی راستہ ہے اور یہ کہ وہ خالص پروفیشنل فوج ہو‘ اس کی ہر جائز ضرورت پوری ہو‘ لیکن سیاست میں اس کی دخل اندازی کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہونا چاہیے اور اس سلسلے میں عوام‘ پارلیمنٹ‘ سیاسی جماعتیں اور عدالت ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور خود فوج کی قیادت کو بھی یکسو ہونا پڑے گا کہ وہ بیک وقت دوکشتیوں میں سفرنہیں کر سکتی۔

سترھویں ترمیم اور وردی

ان حالات میں سترھویں ترمیم کے ذریعے یہ طے کیا گیا کہ دستوری انحراف کا یہ دروازہ ۳۱دسمبر ۲۰۰۴ء کو بند ہوجانا چاہیے اور اس کے بعد فوج اور اس کا سربراہ صرف دفاعی ضرورتوں تک اپنی صلاحیتوں کو وقف رکھے گا اور سیاسی قیادت سیاسی طریقے سے عوام کے نمایندوں اور پارلیمنٹ اور دستور کے تحت اپنا کردار ادا کرے گی۔ اس عہد سے نکلنے کی جوکوشش کی جا رہی ہے وہ قانونی‘ سیاسی اور اخلاقی‘ ہر اعتبار سے مجرمانہ اقدام ہے جسے کسی صورت میں بھی برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔ اگر ہم نے اب بھی اپنے ماضی سے کوئی سبق نہ سیکھا تو اس ملک میں جمہوریت‘ قانون کی بالادستی اور عوام کے حق حکمرانی کا مستقبل مخدوش ہے اور ملک کا دفاع بھی بری طرح متاثر ہوگا۔

اس سلسلے میں بظاہر جو دلائل دیے جا رہے ہیں وہ نہایت بودے بلکہ لچر ہیں۔ بنیادی طور پر تین باتیں کہی گئی ہیں جن کا تجزیہ ضروری ہے۔

m دستور کے تحت دونوں عُہدوں کا ساتھ :پہلی بات دستور کے حوالے سے کہی جارہی ہے کہ دونوں عہدے ساتھ ساتھ رکھے جاسکتے ہیں۔ اس سے زیادہ لغو دعویٰ مشکل ہی سے کیا جاسکتا ہے۔ بلاشبہہ ہمارا دستور باربار فوجی قیادتوں کی چیرہ دستیوں کا نشانہ بنا ہے اور اس سے اسے بری طرح نقصان ہوا ہے لیکن ہر دستور کا ایک ڈھانچا (structure) ہوتا ہے اور اس ڈھانچے میں فوج کے سیاسی کردار کی کوئی گنجایش نہیں۔ اسی لیے جنرل ضیاء الحق نے اور پھر جنرل پرویز مشرف نے اپنے اپنے دور میں اپنے لیے دستور میں خصوصی جگہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے جو عارضی تھی اور اس کی حیثیت دستور سے انحراف کی تھی جسے بہ حالت مجبوری وقتی طور پر اور ایک متعین مدت کے لیے گوارا کیا گیا جس کے بعد اسے لازماً ختم ہوجانا تھا۔ سترھویں ترمیم میں آرٹیکل ۴۱ کے تحت ترمیم کا جواز ہی یہ تھا کہ چیف آف اسٹاف کے عہدے کو صدارت کے ساتھ جمع کرنے کو ایک تاریخ کا پابند کر دیا جائے۔ اسے دستور کی اصطلاح میں Musharruf-specific بھی کہا جاسکتا ہے اور عمومی طور پر ہر چیف آف اسٹاف پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔

اگر یہ مقصد نہیں تھا تو پھر اس ترمیم کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ اب جو قانونی موشگافیاں کی جارہی ہیں وہ بدنیتی اور عہدفراموشی پر مبنی ہیں اور اس کے سوا ان کو کوئی دوسرا نام نہیں دیا جا سکتا۔ دفعہ d(۱)۶۳میں سروس آف پاکستان کا تصور واضح ہے اور دفعہ ۲۶۰ میں مزید وضاحت موجود ہے کہ فوجی سروس اس میں شامل ہے۔ اس سے ہٹ کر اس کی کوئی تعبیر دستوری تعبیر کے اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتی۔ notwithstanding کا اطلاق پوری دفعہ ۴۱ پر ہوتا ہے۔ اس کے صرف کسی ایک حصے تک اس کو محدود نہیں رکھاجاسکتا اور قانون کے ذریعے ترمیم کے معنی یہ ہیں کہ چیف آف اسٹاف کا تعلق ’’آرمڈ سروسز‘‘ سے نہیں رہے گا‘ نیز یہ کسی ایک فرد تک محدود نہیں ہوسکتا بلکہ اس عہدے کو سروس سے باہرکرنا پڑے گا۔ لیکن کیا اس کا تصور ممکن ہے کہ چیف آف اسٹاف ’’فوجی سروس‘‘ کا حصہ نہ رہے اور پھر چیف آف اسٹاف بھی ہو--- یہ ایک مضحکہ خیز اور سیاسی نظام اور فوجی انتظام دونوں کو تہ و بالا کرنے والا تصور ہی ہو سکتا ہے۔ دستور و قانون میں اس کی کوئی گنجایش نہیں۔

m ایم ایم اے سے معاہدہ: دوسری دلیل سیاسی ہے کہ ایم ایم اے سے جو معاہدہ کیا گیا تھا وہ مؤثر نہیں رہا۔ ان کے بقول ایم ایم اے نے اس کی پابندی نہیں کی‘ اس لیے صدر صاحب بھی اس کی خلاف ورزی کرسکتے ہیں۔ یہ دعویٰ بھی غلط اور بددیانتی پر مبنی ہے۔ صدر صاحب اور ایم ایم اے میں کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔ معاہدہ حکمران پارٹی اور ایم ایم اے میں ہوا جس کے نتیجے میں دستور میں ترمیم ہوئی اور وہ ایک دستوری تقاضا بن گیا جس کو کھلے طور پر صدر صاحب نے قبول کیا اور قوم سے عہد کیا کہ وہ اس کا احترام کریں گے۔ اب اصل معاملہ دستور کی اطاعت کا ہے‘ کسی خاص معاہدے کا نہیں۔

رہا ایم ایم اے کا معاملہ تو اس نے معاہدے کی مکمل پابندی کی ہے اور آج بھی اس پر قائم ہے۔ اس نے معاہدے کے تحت سترھویں ترمیم کے حق میں ووٹ دیا اور صدر‘ وزیراعظم اور حکمران پارٹی نے اس کا برملا اعتراف کیا۔ اس معاہدے کے تحت ایم ایم اے صدر کو اعتماد کا ووٹ دینے کی پابند نہیں تھی بلکہ معاہدے میں صاف لفظوں میں لکھا ہوا تھا کہ:

طے پایا کہ صدرمملکت کی پانچ سالہ جاری ٹرم کے تسلسل اور ان کے اس عہدے پر فائز رہنے کے لیے آئینی ترمیم کی حمایت کی جائے گی۔ مزیدبرآں سینیٹ‘ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں ایم ایم اے کے ممبران صدر کو اعتماد کا ووٹ دینے کے پابند نہ ہوں گے۔ ایم ایم اے کے ممبران صدر مملکت کے خلاف ووٹ نہیں دیں گے اور نہ کسی مخالفانہ فعالیت کا مظاہرہ کریں گے‘ نیز ووٹنگ کے عمل کے دوران ایم ایم اے کے تمام ممبران پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے ایوانوں میں موجود رہیں گے۔

ایم ایم اے نے اس معاہدے کی حرف بہ حرف پابندی کی۔

رہا مسئلہ قومی سلامتی کونسل کا‘ تو ایم ایم اے نے اس دفعہ کو دستور سے خارج کرانے کا ہدف حاصل کیا۔ جہاں تک عام قانون کے تحت ایسے ادارے کے قیام کا تعلق ہے‘ ایم ایم اے نے تعاون کا کوئی وعدہ نہیں کیا تھا۔ البتہ وہ مذاکرات کے لیے تیار تھی لیکن حکومت نے اس قانون سازی میں ایم ایم اے سے کسی بات چیت کی زحمت تک نہ کی۔ پھر بھی ایم ایم اے نے قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں میں متعلقہ قانون میں اپنی ترامیم داخل کرائیں جو اس کے اس عندیہ کی علامت ہے کہ وہ اس معاملے میں کوئی درمیانی راہ نکالنا چاہتی تھی جسے حکومت نے درخوراعتنا نہ سمجھا۔ لہٰذاایم ایم اے کی طرف سے کوئی وعدہ خلافی نہیں ہوئی۔

رہا صدر کا معاملہ تو انھوں نے اپنے ٹی وی خطاب میں قوم سے ہی نہیں‘ پوری دنیا سے بہت واضح الفاظ میں عہد کیا کہ انھوں نے ۳۱ دسمبر ۲۰۰۴ء تک چیف آف اسٹاف کے عہدے سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔ ان کے الفاظ بہت اہم ہیں:

آخری مسئلہ وردی تھا۔ یہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔ یہ ایک مشکل فیصلہ تھا۔ میں نے پاکستان اور بیرونی دنیا میں ہمیشہ یہ کہا کہ صدر کا وردی میں ہونا جمہوریت کا حصہ نہیں ہے۔ یہ غیرجمہوری بات ہے لیکن پاکستان کے حالات کے حوالے سے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ میں کہتا رہا ہوں کہ مجھے اس کا احساس ہے کہ یہ جمہوری نہیں ہے اور مجھے کسی مرحلے پر یہ وردی اتارنا ہوگی۔ مجھے معلوم ہے کہ میرے بہت سے خیرخواہ مجھ سے کہتے ہیں کہ میں اپنی وردی نہ اتاروں کیونکہ وہ پاکستان کی سلامتی کے لیے فکرمند ہیں‘ میں بھی پاکستان کی سلامتی کے لیے فکرمند ہوں‘ مجھے پاکستان کی ترقی کی بھی فکر ہے۔

میں نے حالات پر گہرا غوروخوض کیا ہے اور ان کا جائزہ لیا ہے۔ میں نے اپنے آپ کو ایک طرف رکھ کر اس کا جائزہ معروضی طور پر لیا ہے‘ میں نے پاکستان کی سلامتی کے لیے بھی سوچا اور سیاسی ہم آہنگی کے لیے بھی۔

میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اس مسئلے پر صحیح وقت پر فیصلہ کرنا بے حد اہمیت رکھتا ہے۔ چنانچہ میں نے محسوس کیا کہ فیصلے کا یہی وقت ہے‘ اور اس لمحے فیصلہ کرنا ضروری ہے۔ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں دسمبر۲۰۰۴ء تک اپنی وردی اتار دوں گا اور چیف آف آرمی اسٹاف کے منصب سے دستبردار ہوجائوں گا۔ اس عرصے میں‘ میں خود ہی قطعی تاریخ کا فیصلہ کروں گا۔

آخر میں‘ میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے یہ فیصلہ کرنے میں میری رہنمائی کی۔ میں اس موقع پر پاکستانی قوم کو مبارک باد دیتا ہوں اور میں اپنی طرف سے قوم کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ میں پاکستان کی ترقی اور خودمختاری پر کوئی آنچ نہ آنے دوں گا۔

اللہ ہم سب کی حفاظت کرے۔

جس طرح چاہیں ان الفاظ کو پڑھ لیں‘ ان کا تجزیہ کرلیں‘ ان کی تعبیرکرلیں‘ بات بالکل واضح ہے کہ:

۱-  بہت سوچ بچار کے بعد فیصلہ کرلیا گیا۔

۲-  یہ طے ہوگیا کہ ایک عہدہ‘ یعنی چیف آف اسٹاف کا عہدہ چھوڑ دیا جائے گا۔

۳- اور یہ کام ۳۱ دسمبر تک ہوجائے گا۔

صرف ایک اختیار باقی تھا اور وہ یہ کہ ۳۱ دسمبر سے پہلے اگر اعلان کرنا چاہیں تو جنرل صاحب کرسکتے ہیں۔ یہ کوئی مشروط فیصلہ نہیں تھا کہ جب چاہیں اسے تبدیل کر دیں۔

عہدوپیمان کے بارے میں صدر صاحب کی ۲۰ نومبر ۲۰۰۲ء کی تقریر کا ایک اقتباس بھی خود ان کو یاد دہانی کے لیے پیش کرنا ضروری ہے جو انھوں نے قرآن پاک کی سورہ بنی اسرائیل اور سورئہ مائدہ کی عہد کی پابندی کے سلسلے میں دو آیات کے حوالے سے ارشاد فرمایا:

حکمرانوں کے لیے لازم ہے کہ وہ عوام کے اعتماد کا احترام کریں اور اپنے وعدوں کو پورا کریں۔

اگر افراد کو یہ حق دے دیا جائے کہ جب چاہیں اپنے عہدوپیمان سے پھر جائیں تو پھر زندگی کا نظام کیسے چل سکتا ہے اور ایسے قائدین کے قول و فعل پر کون بھروسا کر سکتا ہے۔

  • ترقی اور استحکام کے لیے باوردی صدر: اس سلسلے کی تیسری دلیل اور بھی بودی اور سیاسی اعتبار سے رسوا کن ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ملک کے سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کے لیے مضبوط اور طاقت ور صدر کی ضرورت ہے۔ ملک کی صدارت‘ سیاسی نظام ‘ پارلیمنٹ پر اس سے بڑا الزام اور اتہام نہیں ہو سکتا۔

دستور نے صدر کو اختیارات دیے ہیں اور اس کی قوت کا سرچشمہ دستور اور قانون ہے‘ بندوق کی نالی نہیں۔ اگر استحکام کے لیے وردی کی ضرورت ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ دستور نے صدر کو جو اختیارات دیے ہیں اور ان میں وافر اضافہ آٹھویں ترمیم اور سترھویں ترمیم کے ذریعے کیا جا چکا ہے‘ وہ کافی نہیں ہیں۔ اس طرح پارلیمنٹ جو اصل خودمختار (sovereign) ادارہ ہے وہ اقتدار کا سرچشمہ نہیں بلکہ اقتدار کا اصل سرچشمہ چیف آف اسٹاف کا عہدہ اور فوج ہے۔ یہ پورے سیاسی نظام اور دستوری انتظام کی نفی کے مترادف ہے۔ پہلے ہی پارلیمنٹ اور وزیراعظم دونوں کی تنزلی اور سبکی ہوچکی ہے اور اختیارات کا خاصا ارتکاز صدر کی ذات میں ہوگیا ہے۔ برا یا بھلا یہ انتظام پھر بھی دیکھنے میں دستوری لگتا ہے۔ لیکن یہ دعویٰ کہ سیاسی اور معاشی استحکام اور ترقی کے لیے صدر کا عہدہ اور اختیارات کافی نہیں اور اس کے لیے چیف آف اسٹاف ہونا ضروری ہے‘ یہ پورے سیاسی انتظام کی نفی کرتا ہے اور خود جنرل صاحب کے پانچ سالہ ’’کارناموں‘‘ پر خط تنسیخ پھیر دیتا ہے۔

سیاست دانوں کا وردی جاری رکھنے کی بات کرنا اور پنجاب کی اسمبلی کی شرمناک قرارداد سیاسی خودکُشی کے مترادف ہے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ کوئی شخص اپنی آزادی کو خود ہی فروخت کر دے اور اپنے کو غلام بنانے پر آمادگی کا اظہار کرے لیکن قانون کی دنیا میں یہی ایک چیز ہے جس کے بارے میں مکمل اتفاق راے ہے کہ کوئی شخص اپنی آزاد مرضی سے بھی خود اپنے کو فروخت نہیں کرسکتا۔


سیاسی اور دفاعی مضمرات کے ساتھ ان حالات کے کچھ بڑے اہم بین الاقوامی اثرات بھی ہیں۔ اگر کسی ملک کی قیادت عہدوپیمان کے بارے میں ایسی غیر ذمہ دارانہ روش اختیار کرسکتی ہے تو اس کے عالمی عہدوپیمان کی کیا حیثیت ہوگی۔ پاکستان نے جمہوریت کے احیا کے سلسلے میں پوری دنیا سے ایک عہد کیا ہے۔دولت مشترکہ میں ہماری واپسی اور یورپی یونین کا پاکستان کو جمہوری ملک تصور کرنا اس شرط سے مشروط تھا کہ صدر چیف آف اسٹاف کا عہدہ چھوڑدیں گے اور دستوری عمل کو مکمل طور پر بروے کار لانے کا موقع دیا جائے گا۔ امریکا کے مفادات جو کچھ بھی ہوں اور ہمیں علم ہے کہ امریکا کی جمہوریت سے دل چسپی کسی دوغلے پن اور مفاد پرستی پر مبنی ہے‘لیکن عالمی برادری میں ہمارا وقار اسی وقت بحال ہو سکتا ہے جب ہم جمہوری سفر کو جاری رکھیں اور اپنے تمام عہدوپیمان پورے کریں ورنہ ہماری اس کمزوری کا اصل فائدہ امریکا کو ہوگا جو پہلے ہی ہمیں بلیک میل کر کے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے اور صدر جنرل مشرف کو اپنا حلیف بنا کر پاکستان کو اپنی چاکری پر مجبور کر رہا ہے۔ جنرل صاحب نے بڑے طمطراق سے دعویٰ کیا ہے کہ میں کسی کے دبائو میں نہیں آتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ۱۱/۹ کے بعد جس طرح انھوں نے امریکا کے آگے گھٹنے ٹیکے ہیں اور مسلسل اس کے احکامات کی اطاعت کررہے ہیں‘ اس نے پاکستان کی آزادی‘ خودمختاری اور سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ بوب وڈورڈ کی کتاب Bush at War کا مطالعہ کرلیجیے۔ کانڈولیزا رائس کی امریکی کانگرس کے سامنے گواہی کو دیکھ لیجیے‘ صاف کہتی ہے ہم نے جنرل مشرف کے لیے گاجر اور چھڑی (carrot and stick) کی پالیسی اختیار کی۔ گاجر کم اور چھڑی زیادہ۔ بوب وڈورڈ لکھتا ہے کہ جنرل محمود احمد اور جنرل پرویز مشرف دونوں نے بلاچون و چرا امریکا کے ساتوں مطالبات اس طرح تسلیم کرلیے کہ خود جنرل پاول کو تعجب ہوا اور امریکا کی قیادت اس پسپائی اور سپردگی پر حیرت زدہ ہوگئی۔

Bush at Warکے صفحہ ۴۷ پر آرمٹیج کی جنرل محمود سے گفتگو بلکہ ڈانٹ ڈپٹ کا مطالعہ کرلیجیے جس سے ہر پاکستانی کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ پھر صفحات ۵۸-۵۹کے مطالبات اور ان پرآمنا وصدَّقنا کی داستان پڑھ لیجیے اور خود امریکی قیادت کے تعجب کا حال پڑھ کر پسینہ پسینہ ہوجایئے۔ بہادری کے سارے دعوے اپنے کمزور عوام ہی کے مقابلے میں ہیں۔ کیا پاکستان‘ ایران‘شمالی کوریا اور لبنان سے بھی کمزور ہے--- لیکن ہماری قیادت نے ہمارے ملکی وقار کو جو چرکے لگائے ہیں وہ اب تاریخ کا حصہ اور ہماری غیرت اور آزادی پر بدنما داغ ہیں۔ سات مطالبات کی بات اب امریکا کے ۱۱/۹ کے سرکاری کمیشن کی رپورٹ میں بھی آگئی ہے۔ (دیکھیے صفحہ ۳۳۱)

ہم یہ ساری باتیں دل پر پتھر رکھ کر رقم کر رہے ہیں لیکن حقائق حقائق ہیں اور ان سے آنکھیں بند کر کے ہم حالات کی اصلاح کی طرف کوئی پیش رفت نہیں کرسکتے۔

جناب شوکت عزیز صاحب اب ملک کے وزیراعظم ہیں اور انھوں نے دستور کی حفاظت کا حلف لیا ہے۔ پارلیمنٹ کے سارے ارکان اس حلف کے پابند ہیں۔ شوکت عزیز صاحب نے ملک میں قومی یک جہتی اور اتفاق راے پیدا کرنے اور اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنے کی بات بھی کی ہے۔ اب ان کا اور ان کی پارٹی کا امتحان ہے۔ وہ اس ملک کو دستور کے مطابق اور پارلیمنٹ کی بالادستی قائم کر کے چلانا چاہتے ہیں یا ملک کے پارلیمانی نظام کو تہ وبالا کرنے‘ اس پر ’’خاکی صدارتی نظام‘‘ مسلط کرنے کے عمل میں آلہ کار بنتے ہیں ۔ ہمیں کوئی شبہہ نہیں کہ عوام کی مرضی ان شاء اللہ بالآخر بالاتر قوت ثابت ہوگی اور انا ولاغیری جسے آج کی سیاسی اصطلاح میں "I Syndrom" بھی کہا جا سکتا ہے‘ کی تاریک رات جلد ختم ہوگی۔ اسے آخرکار ختم ہونا ہے!

البتہ سوال یہ ہے کہ اس تاریخی جدوجہد میں کون کس کیمپ میں ہے اور کون جمہوریت‘ دستوریت اور قانون کی بالادستی کے تاروپود بکھیرنے اور ملک کی سلامتی کو دائو پر لگانے میں معاون رہا ہے‘ اور کون دستور کے دفاع‘ قانون کی حکمرانی کے قیام‘ جمہوریت کے فروغ اور اقتدار کو عوام کی مرضی کے تابع کرنے کی جدوجہد میں مثبت کردار ادا کر رہا ہے؟ تاریخ کا قاضی بڑا بے لاگ فیصلہ دیتا ہے اور سب سے بڑھ کر ہماری جواب دہی اپنے رب کے سامنے ہے جس کی گرفت سے کوئی مفرنہیں۔

آیئے وہ راستہ اختیار کریں جو ملک و قوم کو تباہی سے بچانے اور خیروفلاح اور جمہوریت اور انصاف کے فروغ کا ذریعہ بنے‘ اور آخرکار ہمیں اپنے رب کے سامنے سرخرو ہونے کی سعادت بخشے۔