اکتوبر ۲۰۰۴

فہرست مضامین

مدیر کے نام

| اکتوبر ۲۰۰۴ | مدیر کے نام

Responsive image Responsive image

مراد لعل ‘چترال ۔ ملک محمد حسین ‘ لاہور

’’مغربی تہذیب کی یلغار‘‘ (ستمبر ۲۰۰۴ئ) میں مغرب کی اسلام کے خلاف سازشوں کو بخوبی بے نقاب کیا گیا ہے اور مقابلے کے لیے حکمت عملی اور لائحہ عمل بھی دیا گیا ہے جس کے دور رس اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

مضمون میں جہاں مسلمانوں کے لیے فکروتدبر کے کئی زاویے ہیں وہاں مغربی‘ خصوصاً امریکی عوام و خواص کے لیے غوروفکر کے متعدد نکات ہیں کہ اگر وہ انھیں سمجھ لیں تو بین الاقوامی تعلقات خصوصاً مسلم-مغرب تعلقات میں خوش گوار تبدیلی آسکتی ہے۔ اس مضمون کو انگریزی زبان میں منتقل کر کے وسیع پیمانے پر اشاعت کی ضرورت ہے۔


حیات الرحمٰن ‘ ایبٹ آباد۔ محمدعاصم‘سراے عالم گیر

’’تعلیم کا استعماری ایجنڈا اور آغا خان بورڈ‘‘ (ستمبر ۲۰۰۴ئ) نہایت اہم اور فکرانگیز مضمون ہے۔ مستقبل سے بے نیاز حکمرانوں کو یقینا اس بارے میں سوچنا چاہیے۔ پارٹی تعصبات کو بالاے طاق رکھتے ہوئے تمام ارکانِ پارلیمنٹ کو اس مسئلے کے خلاف مثبت قدم اٹھانا چاہیے وگرنہ آیندہ نسلیں ایسے موقع پرست حکمرانوں اور سیاست دانوں کو کبھی معاف نہیں کریں گی۔


ملک محمد حسین ‘ لاہور

آغا خان امتحانی بورڈ کے اثرات اور نتائج پر بڑی بالغ نظری کے ساتھ خیالات کااظہار کیاگیا ہے لیکن آغا خان امتحانی بورڈ کی گاڑی اب اتنی دور جاچکی ہے کہ اُسے پیچھے ہٹانا اب شاید ممکن نہیں رہا۔

آغا خان یونی ورسٹی امتحانی بورڈ کا آرڈی ننس نومبر ۲۰۰۲ء میں نافذ ہوا اور اسے ۱۷ویں آئینی ترمیم میں تحفظ بھی مل چکا۔ اس لیے یہ سب کچھ بعد ازمرگ واویلا کی بات ہے۔ نوازشریف کی حکومت میں منظور کی جانے والی ۱۹۹۸ء کی ایجوکیشن پالیسی کے تحت یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ آغا خان یونی ورسٹی نے امتحانی بورڈ کے لیے درخواست بھی ۱۹۹۹ء میں دی تھی۔ قومی سوچ رکھنے والی قوتوں نے اس طرف توجہ نہ دی اور اب‘ جب کہ   بیج درخت کی شکل اختیار کرچکا ہے تو واویلا کرنے کا کیا فائدہ۔ اب تو جو کچھ ممکن ہے وہ یہ ہے کہ: ۱-آغا خان  یونی ورسٹی امتحانی بورڈ کو پابند کیا جائے کہ وہ قومی نصابِ تعلیم کے مطابق امتحان لے۔ ۲- آغا خان یونی ورسٹی امتحانی بورڈ‘ انٹربورڈ کمیٹی آف چیئرمین (IBCC) جو وفاقی وزارتِ تعلیم کا سپروائزری ادارہ ہے کی چھتری کے تحت کام کرے اور انھی قوانین و ضوابط کی پابندی کرے جن کی تمام قومی امتحانی بورڈز پابندی کرتے ہیں۔ ۳-انٹربورڈ کمیٹی آف چیئرمین کا درجہ بڑھایا جائے اور اسے ریگولٹیری اتھارٹی کا درجہ دیا جائے اور اسے تمام قومی تعلیمی بورڈ بشمول آغا خان یونی ورسٹی امتحانی بورڈ کو ریگولیٹ کرنے کا اختیار دیا جائے۔


آسی ضیائی‘ لاہور۔ محمد افضل خان ایڈووکیٹ‘ مانسہرہ

’’ہرفرعونے را موسیٰ،ہرکمالے را  زوال‘‘ (ستمبر ۲۰۰۴ئ) میں برطانیہ کے بادشاہ لُوئی چہاردہم کا ذکر کیا گیا ہے۔ مصنف سے سہوِ قلم ہوگیا ہے۔ برطانیہ کی پوری تاریخ میں نہ تو لُوئی نام کا کوئی بادشاہ گزرا ہے‘ اور نہ ان برطانوی بادشاہوں میں ایک ہی نام کے آٹھ سے زیادہ بادشاہ ہوئے ہیں۔ درحقیقت لوئی چہاردہم فرانس کا حکمراں تھا ‘ اور اسی کی طرف یہ جملہ منسوب ہے: I am the state


نصیرخان ‘ نوشہرہ

’’تصنیفی تربیت کا ایک تجربہ‘‘ (ستمبر۲۰۰۴ئ) پڑھ کر دلی خوشی ہوئی کہ چلو ۴۰ سال بعد سہی‘ ادارہ معارف اسلامی لاہور نے آخرکار کم از کم اپنا پہلا قدم تو اٹھا ہی لیا۔


ڈاکٹر محمد اسحاق ‘کراچی

ترجمان القرآن کی آیندہ پالیسی اور ہدف یہ ہونا چاہیے کہ پاکستان کو امریکی اثرونفوذ سے کیسے آزاد کرایا جائے؟ جمہوریت کو فوج اور ایجنسیوں کی مداخلت سے کیسے محفوظ رکھا جاسکتا ہے تاکہ حقیقی شورائیت کی بنیاد پرملک کو صحیح قیادت مل سکے؟ صاف اور شفاف انتخابات کے لیے قانونی اور انتظامی امور پر موجودہ نظام میں کن تبدیلیوں کی ضرورت ہے؟

ان موضوعات پر مفکرین و محققین سے خصوصی طور پر مقالے لکھوائے جائیں‘ اسٹڈی سرکلز کا انعقاد ہو‘ مختلف جامعات کے اساتذہ کو بلاکر ورکشاپ ہو اور آیندہ کے لیے قلیل المدت اور طویل المدت منصوبۂ کار قوم کے سامنے پیش کیا جائے۔ اس وقت کسی حد تک تاثر ابھرتا ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے وقتی ضرورتوں کے مطابق فیصلے ہو رہے ہیں جس کے نتیجے میں امریکی استعمار پاکستان میں مزید طاقتور ہو رہا ہے۔


رفیع الدین ہاشمی ‘ لاہور

ترجمان میں شائع ہونے والی تحریریں فطری اور علمی اعتبار سے بامعنی اور پُرافادیت ہوتی ہیں اور پرچے کا صوری حسن بھی اطمینان بخش اور لفظی و املائی صحت بھی قابلِ داد--- مگر ستمبر کے شمارے میں صحتِ املا سے غفلت نمایاں ہے‘ مثلا: ھدیہ (ہدیہ)‘ بھروسہ (بھروسا)‘ سائے (ساے)‘ چھ (چھے) وغیرہ--- یہ صحت املا کے اصولوں کی خلاف ورزی یا لاپروائی کیوں؟ ان اصولوں سے اشتہاروں کی عبارات کیوں مستثنیٰ ہیں؟