دوسری جنگ عظیم کے بعد قوموں کے درمیان تنازعات طے کرنے کے لیے جنگ کے بجاے مذاکرات کے رجحان کو تقویت ملی۔ اقوامِ متحدہ کا کام ہی یہ ٹھیرا کہ کہیں جنگ ہوجائے تو وہ جنگ بندی کے مذاکرات کا ڈول ڈال دے یا ڈلوا دے۔ جب بھارت کشمیر کا مسئلہ اقوامِ متحدہ لے گیا تو جنگ بندی ہوئی اور اس کے بعد مذاکرات کے وعدے ہوتے رہے۔
ایک طویل تاریخ کو مختصر کرتے ہوئے‘ کشمیر کا مسئلہ مختلف مراحل سے گزرتا ہوا آج اسی جگہ قائم ہے۔ لیکن گذشتہ چند برسوں سے ہماری حکومت کی طرف سے بڑے پُراعتماد اعلانات ہونے لگے کہ مسئلہ حل ہونے ہی والا ہے اور آیندہ سال مسئلہ کشمیر کے حل ہونے کا سال ہے۔ آگرہ مذاکرات میں تو جیسے مسئلہ حل ہونے ہی والا تھا کہ رکاوٹ پیش آگئی۔ پھر۱۱/۹ پیش آگیا اور حکومتِ پاکستان نے یوٹرن لیا‘ افغانستان پر حملے کے لیے امریکا کو کندھے ہی نہیں اپنا سب کچھ پیش کر دیا۔ اس وقت یہ توقع دلائی گئی کہ جیسے اس ’کارخیر‘ کے نتیجے میں امریکا بھارت پر کچھ دبائو ڈال کر کشمیر کا کچھ ایسا تصفیہ کروا دے گا جس سے کچھ اشک شوئی ہوجائے اور حکومت اسے عوام سے قبول کروا سکے۔ اس مقصد کے لیے ہماری طرف سے صبح وشام کسی بھی جگہ کسی بھی وقت مذاکرات کی بھیک مسلسل اورتواتر سے مانگی گئی۔ اس نے قومی عزت و وقار کو جو بٹہ لگایا سو لگایا لیکن ہم مذاکرات کی رٹ لگانے سے باز نہ آئے تاآنکہ واجپائی صاحب سارک کانفرنس میں ہمارے بے حد اصرار پر تشریف لائے اور ایسا معلوم ہوا جیسے کہ ہم نے کوئی معرکہ مار لیا ہے‘ اور اب جب مذاکرات شروع ہوں گے تو کشمیر کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔
کشمیر کے مسئلے پر بھارت اور پاکستان کے موقف میں بنیادی فرق یہ ہے کہ پاکستان کشمیر کومرکزی اور بنیادی مسئلہ قرار دیتا ہے کہ باقی تمام مسائل اس کے بعد طے ہونا شروع ہوں گے‘ جب کہ بھارت کا موقف ہے کہ اعتماد کی بحالی ہو‘ تو پھر کشمیر کے مسئلے کو دیکھا جائے گا اور اعتماد کی بحالی کے لیے اقدامات کی ایک فہرست اعتماد سازی کے اقدامات کے نام سے پیش کر دی جاتی ہے۔
یہ اس پس منظر میں تھا کہ کشمیر میں جہادی سرگرمیاں جاری تھیں لیکن ۱۱/۹ کے بعد جب ہم نے ’’دہشت گردی‘‘ کے خلاف جنگ میں امریکا کا ’’اتحادی‘‘ بننے کا اعلان کیا تو بھارت نے امریکا کی پشت پناہی سے جہاد کشمیر کو دہشت گردی قرار دلوانے کی کوشش کی۔ ہم زبان سے کچھ بھی کہیں‘ ہماری حکومت نے کشمیر کے جہاد کو بھی دہشت گردی تسلیم کر لیا ہے۔ تربیتی کیمپ بند کرنے کے وعدے ہی نہیں کیے‘ بلکہ عملاً بند کروا بھی دیے اور امریکا جانے سے پہلے ۱۸ ستمبر کو واشنگٹن پوسٹ کو انٹرویو میں ہمارے باوردی صدر نے ایک بار پھر اس ’کارنامے‘ کا اعادہ کیا ہے۔ دراندازی روکنے کی ذمہ داری بھی ہم ہی نے لی اور بڑی حد تک اسے پورا بھی کیا۔ دوسری طرف اعتماد کی بحالی کے لیے ثقافتی طائفوں کا آنا جانا‘ کرکٹ میچ کے موقع پر خصوصی آمدورفت کی سہولتیں‘ باہمی تجارت کے لیے راستے کھولنا‘ تعلیمی و دیگر روابط استوار کرنا شامل ہیں۔ اس ضمن میں پاک بھارت دوستی کی فضا کو بہتر بنانے کے لیے تعلیمی نصاب میں بھی تبدیلیاں کی گئیں خاص طور پر نظریۂ پاکستان کے تصور کو مسخ کرنے اور ایسے تمام مضامین کو نصاب سے نکالنے کی قصداً کوشش کی گئی جس سے پاکستان اور بھارت کے تعلقات اور دوستی پر زد پڑتی ہو۔ گویا اساس پاکستان کو ہی دائو پر لگا دیا۔ اس سب پر پیش قدمی بہت خلوص سے جاری ہے۔
خاص طور پر دو باتیں قابلِ غور ہیں۔ ایک یہ کہ ہم نے یک طرفہ طور پر اپنی طرف سے جنگ بندی کر دی‘ گویا تسلیم کرلیا کہ ہم ہی گولہ باری کرتے تھے اور بھارت کو پورا تحفظ فراہم کر دیا۔ دوسرے یہ کہ ہماری آشیرباد سے بھارت نے کنٹرول لائن کے پار باڑ لگا دی ہے جس کو صرف دراندازی بند کرنے کی تدبیر نہیں بلکہ صحیح طور پر مستقبل کی بین الاقوامی سرحد بنانے کا عندیہ سمجھا جا رہا ہے۔
بھارت سے حال ہی میں ۴ تا ۶ ستمبر دہلی میں وزراے خارجہ کی سطح پر جو مذاکرات ہوئے ہیں‘ اس میں بھی بھارت کی طرف سے یہ بات بالکل واضح کر دی گئی ہے کہ وہ کشمیر پر کسی قسم کی بات چیت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے حالانکہ بات چیت بھی مسئلے کا کوئی حل نہیں۔ بھٹو سورن سنگھ مذاکرات اس کی مثال ہے۔ ہماری طرف سے ٹائم فریم مانگا جاتا ہے ادھر سے صاف انکار ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں جب تک دراندازی کا بالکل خاتمہ نہیں ہوجاتا کوئی بات چیت نہیں ہوگی۔ اِدھر امریکا بھی ہم ہی سے کہتا ہے کہ دراندازی کو روکو۔ اسلام آباد آکر ان کے نمایندے بھی ہم پر ہی دبائو ڈالتے ہیں‘ جیسے اصل قصوروار ہم ہی ہیں۔
بھارت نے ناجائز قبضہ کر رکھا ہے۔ بھارت ظلم و جبر سے حکومت کر رہا ہے‘ روزانہ آٹھ دس کشمیریوں کو شہید کر رہا ہے‘ جیلیں اور عقوبت خانے نوجوانوں سے بھرے ہوئے ہیں‘ خواتین کی عزتیں پامال کی جا رہی ہیں‘ لیکن ہم کسی موہوم کامیابی کی آس میںبھارت کا مکروہ چہرہ بھی دنیا کو دکھانے سے احتراز کرتے ہیں۔
اپنے حکمرانوں کی بے بصیرت اور طفلانہ حرکتوں کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ شاید ملت پاکستان کے اجتماعی گناہوں کی پاداش میں یہ مسلط کیے گئے ہیں۔ خدشہ ہے کہیں حکمران اس ملک کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑدینے کا سبب نہ بن جائیں۔ کشمیریوں نے جہاد کے ذریعے جو کچھ حاصل کیا تھا‘ وہ ہم مذاکرات کی میز پر گنوانے کے لیے بے چین ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کی سمجھ میں نہیں آتا کہ بھارت کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ہماری ہر طرح کی شرائط کو ماننے پر آمادگی کے باوجود ہاتھ نہیں بڑھاتا۔ شاید ہمارے حکمران باعزت قوم کی طرح سوچنے کی صلاحیت سے بھی عاری ہوگئے ہیں۔
دہشت گردی کی جنگ کے نام پر ہم نے جس طرح اپنا ایمان اور اپنی عزت نیلام کی ہے‘ اس کے بعد ہم سے اہلِ کشمیر کیا توقع رکھ سکتے ہیں۔ لیکن پھر بھی ہم اپنے حکمرانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ باعزت طریقہ اپنائیں۔ بھارت جو کچھ کشمیر میں کر رہا ہے اس کی تصویر ساری دنیا کو دکھائیں‘ اس کی ناراضی کی پروا نہ کریں۔ دہشت گردی اور جہاد میں تمیز کریں اور جہاد کی ہر طرح سے حوصلہ افزائی کریں۔ جب تک بھارت کشمیر پر کشمیریوں کو ان کا حق دینے پر آمادگی کا اظہار نہیں کرتا‘ اس وقت تک اس سے ہمارا دوستانہ طرزعمل کمزوری کی علامت ہے۔
امریکا ساری دنیا کو مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کرنے کا سبق پڑھاتا ہے مگرخود پیش بندی کے طور پر حملے کو بھی جائز اور روا سمجھتا ہے۔ یہی سبق اب روس اور آسٹریلیا نے بھی پڑھ لیا ہے‘ اور کوئی وجہ نہیں کہ بھارت جسے بعید نہیں کہ شاید ہم بھی سلامتی کونسل کا ممبر بنانے کے حامی ہوجائیں‘ یہ سبق نہ پڑھ لے اور جن تربیتی کیمپوںکی تصاویر امریکا ہمیں دکھاتا ہے ان کو ختم کرنے کے لیے خود چڑھ دوڑے۔ اس وقت شاید ہماری فوج دشمن کے خلاف صف آرا ہوجائے‘ فی الحال تو اسے دوستوں کے خلاف صف آرا ہونے سے فرصت نہیں۔
قوم کے دردمندوں کو میزان لگانا چاہیے کہ ۱۱/۹ کے بعد جو یوٹرن لیا گیا اس کے نتیجے میں بحیثیت قوم ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا‘ اسی میزان کا ایک باب کشمیر ہے۔ دیکھا جائے کہ ہم اس باب میں کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں۔ بھارت نے کتنی پیش قدمی کرلی ہے اور ہماری پسپائی کا سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آتا۔ ہم نے کچھ بھی حاصل کیے بغیر بہت کچھ کھو دیا ہے۔ بھارت نے کوئی لچک نہیں دکھائی ہے بلکہ اس کے مؤقف میں سختی آگئی ہے۔ ادھر ہم ہیں جو نہ صرف لچک پر لچک دکھا رہے ہیں‘ بلکہ مزید کے اشارے اور وعدے بھی کر رہے ہیں۔ سرپیٹ لینے کو دل چاہتا ہے جب پی ٹی وی کے تجزیہ نگار اسے شعور کی پختگی قرار دیتے ہیں۔ اب بیک ڈور ڈپلومیسی کا آسرا لیا جا رہا ہے کہ شاید ۲۴ستمبر کو مشرف من موہن ملاقات میں کوئی بریک تھرو ہوجائے۔ کاش کہ ہمارے حکمران سمجھیں کہ باغیرت قوموں کے معاملات اس طرح نہیں چلائے جاتے!